• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 25

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 25


1
اپنے اندر صحابہؓ کے سے آداب
اور قوّتِ ایمان پیدا کرو
(فرمودہ 7 جنوری 4419ءبمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہو گا جلسہ سالانہ کے معًا بعد جو مجھے یہاں آنا پڑا تو کچھ اس کی وجہ سے، کچھ رستہ کے گردو غبار کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ جلسہ کے کام کے نتیجہ میں میرا گلا پہلے ہی خراب ہو رہا تھا، یہاں آ کر مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت ہو گئی اور کل سے تو نزلہ کی شکایت میں پھر تیزی پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے میں باہر نمازیں پڑھانے کے لیے بھی نہیں آسکا۔ اس وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ میری ایک بیوی (مریم صدیقہ بیگم) کا آج گلے کا آپریشن ہوا ہے اور مجھے ان کاحال معلوم کرنے کے لیے جلدی جانا ہے مَیں مختصر خطبہ ہی پڑھا سکتا ہوں اور اس مجبوری کی وجہ سے نماز کے بعدبھی بغیر دوستوں سے مصافحہ کیے مجھے واپس جانا ہوگا۔ گویا20،25 منٹ یا آدھ گھنٹہ میں مَیں یہاں سے اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰیروانہ ہو جاؤں گا۔ اس لیے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں نہایت ہی مختصر الفاظ میں خطبہ کہہ سکتا ہوں اور چونکہ میری آواز دور نہیں جاسکتی اس لیے جب تک لاؤڈ سپیکر کام کرے گا اُسی وقت تک میں دوستوں تک اپنی آواز پہنچا سکوں گا۔
سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہماری جماعت کو تعداد کے لحاظ سے بہت بڑی زیادتی بخشی۔ ایک وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی زندگی میں اگر جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی جمع ہوتے جتنے اِس مسجد میں اِس وقت جمع ہیں تو اسے بہت بڑی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اِس وقت کتنے آدمی مسجد میں جمع ہوں گے لیکن میرا خیال ہے پانچ چھ سو کے قریب ضرور ہوں گے اور اتنے ہی یعنی سات سو کے قریب آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے آخری سال قادیان میں جلسہ سالانہ پر جمع ہوئے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اُس وقت بار بار فرماتے تھے کہ خدا نے ہمیں جس کام کے لیے دنیا میں بھیجا تھا وہ ہو گیا ہے اور اب اتنی بڑی جماعت پیدا ہو گئی اور اتنی کثرت سے لوگ ایمان لے آئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مقصد جو اِس دنیا میں آنے کا تھا وہ پورا ہو گیا ہے۔ اب کُجا وہ دن تھا کہ جلسہ سالانہ پر اس قدر اژدہام کو عظیم الشان اژدہام سمجھا جاتا تھا اور کُجا یہ وقت ہے کہ اب لاہور شہر میں ہی ہماری ایک جمعہ کی نماز میں اِس کے قریب قریب آدمی جمع ہوجاتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور جن جماعتوں کے ساتھ اس کی نصرت ہوتی ہے وہ اسی طرح بڑھتی چلی جاتی اور دشمن کی نگاہوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکنے لگ جاتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر پورا ہوئے بغیر نہیں رہتی اور باوجود دشمنوں کی حاسدانہ نگاہوں کے وہ اپنی جماعت کو بڑھاتا اور اُسے دنیا میں ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہ چیز اپنی ذات میں ہمارے لیے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے لیکن سب سے بڑی بات جس کا ہمیں ہر وقت فکر رکھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ایمان اور اس کے اخلاق درست رہیں۔ ہمیں اپنی تعداد پر کبھی اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کرنا چاہیے جس قدر اس بات کا ہمیں فکر رکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت کے اخلاق اور اس کی عادات میں کس حد تک ترقی ہو رہی ہے۔
ابھی یہاں مسجد میں داخل ہونے سے پہلے مجھے ایک دوست ملے۔ مجھے اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ لاؤڈ سپیکر کا مسجد میں انتظام کر لیا گیا ہے، مَیں نے ان سے کہا کہ قادیان میں جب مَیں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے یہی احساس ہوتا ہے کہ مَیں جمعہ پڑھا رہا ہوں۔ لیکن لاہور میں جہاں کی جماعت قادیان کی جماعت کے مقابلہ میں پانچواں حصہ بھی نہیں، جب مَیں خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی جلسہ میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوں۔ کیونکہ یہاں وہ سکون اور وہ خاموشی نہیں ہوتی جو قادیان میں جمعہ کے موقع پر سات آٹھ گنے زیادہ افراد پر طاری ہوتی ہے۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں جب جمعہ کے دن خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو تو ہر شخص کو خاموش رہنا چاہیے اور کسی شخص کو بھی خطبہ کے وقت دوسرے سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ خطبہ میں بولنا منع ہے اور وہ بول پڑے تو دوسرا آدمی جو اسے منع کرنا چاہے اسے بھی یہ نہیں کہ وہ بول کر منع کرے بلکہ اگر بالکل ہی مجبوری ہو جائے تو وہ اشارہ سے دوسرے کو کلام کرنے سے منع کرے، زبان سے کوئی لفظ نہ نکالے۔1 پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو یہاں تک حکم دیا ہے کہ خطبہ میں جو شخص شور مچا رہا ہواُسے بھی بول کر نہ روکا جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ خطبہ میں باتیں کر لیتے اور بعض دفعہ بِلا وجہ ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شریعت کا ایک حکم توڑنے والے کو اشارہ سے منع کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر یہاں لوگ بعض دفعہ ہاتھ کے اشارے سے دوسرے کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور بعض دفعہ ہاتھ کے اشارے سے کوئی اَور حرکت کر لیتے ہیں۔ مثلاً پانی منگوانا ہو تو ہاتھ کے اشارہ سے منگوا لیں گے۔ حالانکہ خطبہ کی حالت میں سوائے خطیب کے اور سوائے ایسی صورت کے جونا گزیر ہو اور جب ایسے خطرہ کی حالت ہو کہ بولنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے، کسی کے لیے بولنا جائز ہی نہیں ہوتا۔حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجالس میں اس قدر خاموشی ہوتی تھی کہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ کَاَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِھِمُ الطُّیُوْرُ۔2 یوں معلوم ہوتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر شخص کے سر پر پرندہ بیٹھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے سر ہلایا تو پرندہ اڑ جائے گا۔اگر کسی مجلس میں دس پندرہ آدمی بیٹھے ہوں اور ان میں سے ہر شخص کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو اور ان میں یہ شرط طے پا جائے کہ ہمیں اس طرح سکون کے ساتھ بیٹھنا چاہیے کہ یہ پرندے ہمارے سروں پر سے اُڑیں نہیں تو جس خاموشی کے ساتھ وہ بیٹھ سکتے ہیں اُسی قسم کی خاموشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں پر طاری ہؤا کرتی تھی۔ پرندہ انسان سے بہت بھاگتا ہے۔ پھر اگر پرندہ کسی انسان کے سر پر بیٹھا ہؤا ہو تو اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت سے بھی اُڑ جائے گا مگر صحابہؓ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ایسے ساکت اور ایسے خاموش ہوتے کہ اگر پرندے بھی ان کے سروں پر اُس وقت بیٹھے ہوتے تو انہیں یہ پتہ نہ چلتا کہ وہ درختوں پر بیٹھے ہیں یا آدمیوں کے سروں پر بیٹھے ہیں۔ صحابہؓ کی یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ کَاَنَّ عَلٰی رُؤُوْسِھِمُ الطُّیُوْرُ یعنی وہ قطعی طور پر خاموش رہتے تھے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے تھے جو اس مجلس کے آداب کے خلاف ہو۔ پس ہمیں بھی اپنے اندر وہ آداب پیدا کرنے چاہییں جو صحابہؓ کے اندر پائے جاتے تھے اور وہی قوتِ ایمان ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے جو صحابہؓ کے اندر پائی جاتی تھی۔جب تک ہم ان آداب کو اختیار نہیں کرتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ میں پائے جاتے تھے اُس وقت تک ہم ان فتوحات کی قطعی طور پر امید نہیں کرسکتے جو ہمارے لیے مقدر ہیں اور نہ ان فتوحات کی امید کرسکتے ہیں جو اسلام کو حاصل ہونے والی ہیں۔کیونکہ ان فتوحات کا ہمارے ساتھ تعلق ہے اور ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے نفوس کو ان فتوحات کا اہل ثابت کریں۔ اگر ہم اپنے نفوس میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، اگر ہم وہ آداب اختیار نہیں کرتے جو صحابہؓ نے اختیار کیے، اگر ہم اُس طریقِ عمل پر نہیں چلتے جس طریقِ عمل پر صحابہؓ چلے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان فتوحات سے محروم رکھ رہے ہیں جو فتوحات ہمارے ذریعے سے اسلام اور احمدیت کو حاصل ہونے والی ہیں۔کسی جماعت کی طاقت اور قوت کا صحیح معیار یہ ہوا کرتا ہے کہ اس جماعت کے امام کو یہ معلوم ہو کہ میرے احکام کی کس حدتک پابندی کی جائے گی اور درحقیقت وہی امام دنیا میں لڑائی لڑ سکتا ہے جو جانتا ہو کہ میں نے جو بھی حکم دیا لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ3 کہ امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے جس کے پیچھے ہو کر لڑائی لڑی جاتی ہے۔ جب وہ ڈھال آگے کرتا ہے تو جماعت بھی آگے ہو جاتی ہے اور جب پیچھے کرتا ہے تو جماعت بھی پیچھے ہو جاتی ہے۔ جب تک یہ بات کسی جماعت میں پیدا نہ ہو اور جب تک امام کو یہ معلوم نہ ہو کہ لوگوں کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی ایسی روح پائی جاتی ہے کہ اگر میں کہوں گا بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں گے، اگر کہوں گا کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں گے، اگر کہوں گا لیٹ جاؤ تو سب لیٹ جائیں گے اُس وقت تک وہ کبھی دلیری سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتا۔
مشہور ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر مہمان آیا۔ اس نے اپنے نوکر کو ہر قسم کے ضروری آداب سکھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ بروقت اور نہایت عمدگی سے کام کرنے کا عادی تھا۔ اتفاقاً مہمان کے سامنے میزبان کو کسی چیز کی ضرورت پیش آ گئی۔ مثلاً دہی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس نے اپنے نوکر کو دہی لینے کے لیے بازار بھیج دیا اور اس دوست سے کہا، میرا نوکر بہت مؤدب اور فرض شناس ہے جو کام بھی اسے کرنے کے لیے کہا جائے وہ ٹھیک وقت کے اندر اسے سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ کہنے لگا دیکھ لیجیے میں نے اسے دہی لینے کے لیے بازار بھیجا ہے اور دکان تک دو منٹ کا راستہ ہے اب چونکہ ایک منٹ گزر چکا ہے اس لیے مجھے یقین ہےکہ وہ فلاں جگہ تک پہنچ گیا ہو گا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دکان تک پہنچ گیا ہوگا۔ پھر منٹ دو منٹ انتظار کرنے کے بعد جو سودا خریدنے پر صَرف ہوسکتے تھے وہ کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر وہاں سے چل پڑا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں نکڑ تک پہنچ گیا ہے۔ کچھ اَور دیر گزری تو کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ اب وہ ڈیوڑھی میں آچکا ہے۔ چنانچہ اُس نے آواز دی کہ کیوں میاں! دہی لے آئے؟ نوکر کہنے لگا حضور! حاضر ہے۔ یہ نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ اسے دیکھ کر ہر شخص کی طبیعت خوشی محسوس کرتی تھی۔ چنانچہ مہمان بھی بہت خوش ہؤا اوراس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ مَیں بھی اپنے نوکر کی ایسی ہی تربیت کروں گا مگر وہ مہمان خود اُجڈ اور جاہل تھا۔اس نے اپنے نوکر کو تہذیب و شائستگی کے اصول کیا سکھانے تھے اس کے اپنے کاموں میں بھی کوئی باقاعدگی نہ پائی جاتی تھی مگر اس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا اب میں بھی اپنے نوکر کو ایسی ہی تہذیب سکھاؤں گا۔ چنانچہ اس نے واپس جاکر اپنے نوکر کو سکھانا شروع کر دیا مگر وہ اُجڈ، اَن پڑھ اور جاہل تھا۔اُس پر اِن سبقوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا۔ پانچ چھ ماہ گزر گئے تو اس نے اپنے شہری دوست کی دعوت کی اور اسے کہا کہ گاؤں کی آب و ہوا بہت اچھی ہوتی ہےآپ میرے ہاں تشریف لائیں۔ چنانچہ وہ اس دعوت پر اس کے گاؤں میں گیا۔ جب دسترخوان بچھا تو اس نے بھی اس کی نقل کرنی شروع کردی۔زمینداروں کے گھروں میں عام طور پر دہی ہوتا ہے مگر اس نے چونکہ اپنے دوست کو یہ بتانا تھا کہ میرا نوکر بھی بڑا ہوشیار اور فرض شناس ہے اس لیے اسے آواز دے کر کہنے لگا میاں! ذرا جانا اور فلاں دکاندار کے ہاں سے دہی تو لے آنا۔پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا میرا نوکر بھی بڑا ہوشیار اور مؤدب ہے اب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہوگا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ اب وہ دکان تک پہنچ چکا ہوگا۔پھر کہنے لگا اب وہ دہی لے رہا ہوگا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ دہی لے کر وہاں سے ضرور چل پڑا ہے۔ ایک منٹ کے بعد کہنے لگااب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہوگا۔ پھر کچھ وقت گزرا تو کہنے لگا کہ اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر ڈیوڑھی میں پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ اسے آواز دے کر کہنے لگا کیوں میاں! دہی لے آئے؟ نوکر کہنے لگا "تُسیں اینے کاہلے کیوں پے گئے ہو! مَیں جُتّی تے لب لواں۔ فیر دہی بھی لے آواں گا"۔یعنی آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں! مَیں جوتی تو تلاش کرلوں پھر دہی بھی لے آؤں گا۔
اب بتاؤ! ایسے انسان جس کے تحت ہوں اُس نے دشمن سے کیا مقابلہ کرنا ہے۔ مقابلہ کی جرأت تو وہی کرتا ہے جو دل میں یہ یقین اور وثوق رکھتا ہو کہ میرے ہر حکم کی لوگ اطاعت کریں گے اور جانتا ہو کہ جب بھی مَیں کوئی حکم دوں گا وہ نتائج اور عواقب کی پروا کیے بغیر اس کی تعمیل پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔ اگر مَیں کہوں گا اٹھو! تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔اگر کہوں گا بیٹھو! تو وہ بیٹھ جائیں گے۔ اگر کہوں گا آگے بڑھو! تو وہ آگے بڑھیں گے۔ اور اگر کہوں گا پیچھے ہٹو! تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ مگر آجکل ہمارے زمانہ میں بالخصوص ہندوستانیوں کی یہ ذہنیت ہے کہ اگر وہ فوج میں باقاعدہ کام نہ کرتے ہوں، انہیں ملازمت سے برطرف کیے جانے یا تنخواہ کے بند ہو جانے کا ڈر نہ ہو اور وہ اسی طرح رضا کارانہ رنگ میں کام کر رہے ہوں جس طرح ہماری جماعت کام کر رہی ہے تو اگر ان کا امام یا لیڈر انہیں یہ کہے کہ چلو! دشمن پر حملہ کرو اور وہ بڑی امیدوں اور بہت بڑی امنگوں کے بعد ایسا حکم دے تو ان میں سے کوئی شخص یہ کہنے لگ جائے گا کہ حملہ کے لیے اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے مَیں اپنے کپڑے تو گھر سے لے آؤں۔ کوئی کہے گا مَیں اپنا مال تو کسی محفوظ جگہ میں رکھ لوں۔ کوئی کہے گامَیں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کا سامان تو کرلوں۔غرض کوئی کچھ بہانہ بنانے لگ جائے گا اور کوئی کچھ۔ ان چیزوں کے ہوتے ہوئے صرف ظاہری سامانوں کے ساتھ کسی جماعت کا اپنی کامیابی کی امید رکھنا بالکل غلط ہوتا ہے۔ کامیابی اُسی جماعت کو حاصل ہوتی ہے جسے جن الفاظ میں حکم دیا جائے وہ ان الفاظ کی اتباع کرے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اطاعت سے انحراف نہ کرے۔ مثلاً مجھے یہاں آتے ہی مقامی امیر صاحب نے بتایا کہ دوستوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ مصافحہ نہ کریں۔ مَیں نے کہا یہ تو آپ نے ٹھیک کیا کہ ایسا اعلان کردیا کیونکہ مَیں نے جلدی واپس جانا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ لوگ اس امر کی کہاں تک تعمیل کرتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسے مواقع پر جب یہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ کوئی شخص مصافحہ نہ کرے تو پھر بھی کوئی نہ کوئی شخص آگے بڑھ کر مصافحہ کر لیتا ہے اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ مصافحہ کرنا تو منع تھا تم نے مصافحہ کیوں کیا؟ تو وہ شور مچانے لگ جاتا ہے کہ کوئی شخص مصافحہ نہ کرے۔ حالانکہ وہ خود مصافحہ کر چکا ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو چودھری سمجھ لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اِس قسم کے حکم کی فرمانبرداری دوسروں پر فرض ہے ان پر نہیں۔حالانکہ جو شخص اپنے آپ کو قوم میں سے اعلیٰ فرد سمجھتا ہے، جو خیال کرتا ہے کہ مَیں دوسروں سے زیادہ مقرب ہوں یا جماعت کا افسر اور اس کا عہدہ دار ہوں اسے اطاعت اور فرمانبرداری کا بھی دوسروں سے اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہیے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھ لیتا ہے۔اول تو ایسے موقع پر جب خلیفہ یا کوئی اَور افسر آرہا ہو اسے اطلاع دینی چاہیے کہ ہم نے ایسا قانون بنا دیا ہے تاکہ اسے بھی معلوم ہو کہ کس قانون کا اعلان کیا گیا ہے اور وہ معلوم کرسکے کہ لوگ اس قانون کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔ پھر میرے نزدیک ایسے حالات میں مقدم امر یہ ہوتا ہے کہ امیر یا پریذیڈنٹ یا کوئی اَور عہدیدار خود بھی مصافحہ نہ کرے تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بنے اور اگر اُس نے اپنے آپ کو مستثنیٰ ہی رکھنا ہو تو اس کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کردے کہ مَیں فلاں فلاں وجوہ سے اس حکم سے مستثنیٰ رہوں گا۔اس کے بعد وہ بے شک مستثنیٰ سمجھا جائے گا۔ مگر اس اعلان کے بغیر اگر وہ اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھ لے تو اس کا دوسروں پر اچھا اثر نہیں پڑسکتا اور میرے نزدیک بعض حالات یقیناًً ایسے پیدا ہوسکتے ہیں جب اس قسم کے حکم سے بعض لوگوں کو مستثنیٰ کرنا ضروری ہو۔ مثلاً استقبال ہے۔ اگر ساری جماعت استقبال کے لیے کھڑی ہے اور خلیفۂ وقت یا امیر یا جماعت کا کوئی افسر آرہا ہے تو ایسے موقع پر کوئی نہ کوئی ایسے لوگ ضرور مقرر کرنے پڑیں گے جو دوسروں سے آگے بڑھ کر استقبال کا فرض ادا کریں۔یہ نہیں ہوگا کہ سب قطاروں میں کھڑے رہیں اور کوئی شخص بھی استقبال کے لیے آگے نہ بڑھے۔ لیکن بہرحال ایسے موقع پر پہلے سے یہ اعلان کردینا چاہیے کہ اس ضرورت کے ماتحت فلاں فلاں دوست مستثنیٰ ہوں گے۔ تاکہ لوگوں پر یہ اثر نہ ہو کہ آپ ہی ایک حکم دیا جاتا ہے اور آپ ہی اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض افسروں کے اندر پایا جاتا ہے اور بعض ماتحت بھی سمجھتے ہیں کہ افسر اپنے حکم کا خود پابند نہیں ہوتا۔ حالانکہ اُس حکم کا وہ ایسا ہی پابند ہوتا ہے جیسے دوسرے لوگ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتا ہے تو لوگوں سے کہہ دے اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔4 یعنی جب مَیں کوئی بات کہتا ہوں تو سب سے پہلے اس بات کا مخاطب میرا نفس ہوتا ہے اور مَیں اپنے آپ کو اس پر عمل کرنے والا قرار دیتا ہوں۔ لیکن پھر بھی اگر کسی وجہ سے مقامی امیر یا کوئی افسر اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا چاہے تو اُسے یہ اعلان کردینا چاہیے کہ اس حکم کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوگا۔ تاکہ جماعت میں اگر بعض ایسے کمزور طبع لوگ موجود ہوں جنہیں دھوکا لگ سکتا ہو تو اس قسم کے اعلان کی وجہ سے وہ دھوکا نہ کھائیں اور ٹھوکر سے محفوظ رہیں۔
غرض جماعتی ترقی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ پایا جاتا ہو۔اگر امام کو یہ یقین ہو اور وہ کامل وثوق سے کہہ سکتا ہو کہ لوگ میرے ہر حکم کی اطاعت کریں گے تو مَیں سمجھتا ہوں جتنا کام وہ پہلے کرتا ہو اس سے کئی گنا زیادہ کام وہ کرسکتا ہے۔مثلاً مجھے اپنی جماعت کے بارہ میں بہت سی باتوں کے متعلق یہ یقین اور وثوق ہے کہ اُن امور میں جماعت میری فرمانبرداری کرے گی۔ مگر جن باتوں کے متعلق میرا تجربہ نہیں اُن میں ہمیشہ مجھے شبہ ہی رہتا ہے کہ نہ معلوم جماعت کے افراد اُن باتوں میں بھی اطاعت کا کامل نمونہ دکھائیں گے یا نہیں۔اگر مجھے یقین ہو کہ ان باتوں میں بھی جماعت اُسی ایمان اور اُسی اِخلاص اور اُسی اطاعت کا نمونہ دکھائے گی جس ایمان، اخلاص اور اطاعت کا نمونہ وہ دوسری باتوں میں دکھا چکی ہے تو میرا کام پہلے سے کئی گنا بڑھ جائے۔ مگر اب ہر قدم کے اٹھاتے وقت مجھے دیکھنا پڑتا ہے کہ جماعت کے کمزور طبقہ کو مَیں اپنے ساتھ چلا سکتا ہوں یا نہیں۔بے شک الٰہی جماعتوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اس بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ کمزور پیچھے رہ گئے ہیں۔ مگر بہرحال جب تک وہ وقت نہیں آتا کمزور طبع کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر کئی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آتے اور آپ سے جنگ پر نہ جانے کی اجازت حاصل کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ان کی کمزوری ٔ ایمان کو دیکھتے ہوئے انہیں اجازت دے دیتے۔ وہ بظاہر تو مومن تھے مگر ان کے دل میں نفاق تھا اور اس وجہ سے جنگ پر جانے سے ان کا دل لرزتا تھا۔ کوئی آتا اور کہتا میری بیوی بیمار ہے، کوئی کہتا اگر مَیں گیا تو میری فصل کو نقصان ہوگا، کوئی کہتا میرے بغیر گھر کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں، کوئی کہتا اگر میں جنگ پر چلا گیا تو میرا مال سب برباد ہوجائے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس خیال سے کہ یہ کمزور طبقہ جماعت کے ساتھ شامل رہے انہیں اجازتیں دینی شروع کردیں۔چنانچہ جس نے بھی آپ سے پوچھا آپ نے فرمایا بہت اچھا تم رہ جاؤ۔ مگر جب آپ جنگ سے واپس تشریف لائے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ تمہیں یہ حق حاصل نہیں تھا کہ تم ان کو جنگ سے پیچھے رہنے کی اجازت دے دیتے۔ اب خدا نے فیصلہ کردیا ہے کہ جو لوگ کمزور ہیں انہیں پیچھے کردیا جائے اور جماعت کو ترقی کے میدان میں بڑھا دیا جائے۔ 5 پس بے شک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کمزوروں کو جماعت کے طاقتور حصہ کے ساتھ شامل رکھتے مگر پھر الٰہی حکم کے ماتحت آپ نے ان کو پیچھے کردیا۔ چنانچہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منافقوں کو ننگا کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ وہ اکثر لوگوں کو نظر آنے لگ گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر بھی حیا سے کام لیا اور صرف چند صحابہؓ کو ان منافقین کے نام بتائے مگر بہرحال آپ نے ان کو بے نقاب کردیا۔ حضرت حذیفہؓ کو اس بات کا بڑا شوق رہتا تھا کہ وہ منافقوں کے نام معلوم کریں۔چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے اور کہتے یارسول اللہ! مجھے ان کے نام ضرور بتا دیجیے۔ میں ڈرتا ہوں کہ میں کسی منافق کے پیچھے نماز نہ پڑھ لوں یا غلطی سے کسی منافق کا جنازہ نہ پڑھ لوں اور آپ انہیں بتا دیتے۔6 مگر فرماتے دیکھو! حیا سے کام لینا اور ان کو بدنام نہیں کرنا۔ چنانچہ صحابہؓ کہتے ہیں ہم جب حضرت حذیفہؓ سے پوچھتے کہ کون کون منافق ہے؟ تو وہ ان کے نام نہ بتاتے۔لیکن ہم اگر دیکھتے کہ حضرت حذیفہؓؓ کو کسی مسلمان کا جنازہ پڑھنے کا موقع تو ملا مگر انہوں نے اُس کا جنازہ نہیں پڑھا تو ہم بھی اُس کا جنازہ نہ پڑھتے اور سمجھ لیتے کہ وہ ضرور منافق ہوگا۔اِسی طرح اگر حذیفہؓ کسی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرتے تو ہم بھی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے اور سمجھ لیتے تھے کہ وہ منافق ہے۔ تو ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گو منافقوں کا نام لے کر اُن کی تشہیر نہیں فرمائی مگر عملی طور پر آپ اُن کو پیچھے چھوڑ گئے اور وہ تمام جماعت سے الگ نظر آنے لگ گئے۔اسی طرح ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کے متعلق یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر اسلام اور احمدیت کے لیے جان اور مال کُلّی طور پر قربان کردینے کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اپنی جان، اپنے مال، اپنے بیوی بچوں اور اپنے وطن کو قربان کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اسلام اور احمدیت کے منشاء کے مطابق کام کریں گے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سےگزشتہ تجربہ کی بناء پر میں امید کرتا ہوں کہ جب بھی اسلام اور احمدیت کی طرف سے انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا اکثر احمدی لبّیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اپنی جانوں، اور اپنے اموال کو قربان کردیں گے۔ لیکن پھر بھی اِس بات کا یقین نہیں آتا کہ اگر وہ دن آگیا اور اگر الٰہی مشیّت نے کسی دن یہ فیصلہ کردیا کہ اب سب لوگ آگے بڑھیں اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کردیں تو جماعت میں سے کتنے لوگ اس کی اطاعت کرنے والے ہوں گے اور کتنے لوگ یہ کہنے والے ہوں گے کہاِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔7 مگر بہرحال ہر مومن کو اپنے دل میں اس مقصدِ عظیم کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ابھی سے اس آنے والے دن کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔
غفلت کا سب سے بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے میرے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آسکتا یا میرے ساتھ وہ معاملہ پیش نہیں آسکتا۔ مثلاً اس زمانہ میں ہمیں یہ یقین ہے کہ تلوار کے جہاد کا کوئی موقع نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کے جہاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت ملتوی کردیا ہے۔8 مگر اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ تلوار کے جہاد کا التواء کتنی دیر تک ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانے والی پہلی جماعت ہم ہیں اور اس وجہ سے تلوار کے جہاد کا وقت ہم پر نہیں آسکتا۔ لیکن پھر بھی ہمارے دلوں میں یہ ایمان ہونا چاہیے کہ گو خدا تعالیٰ ہمیں تلوار کے جہاد کے لیے کھڑا نہیں کرے گا لیکن اگر اس کی مشیّت تلوار کے جہاد کا فیصلہ کردے تو موقع آنے پر ہم اس جہاد کے لیے تیار ہوں گے اور اپنی جانیں احمدیت کے لیے قربان کردیں گے۔ جب تک ہم اُس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے بلکہ جب تک ہم ہر اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑی اور اپنے نفوس کو اس بات پر آمادہ نہیں کرتے کہ جب بھی اور جس قسم کی قربانی کا بھی موقع آیا ہم اپنے آپ کو پیش کردیں گے اُس وقت تک ہم کبھی بھی اپنے ایمان کی پختگی پر یقین نہیں رکھ سکتے۔ اور ہم کبھی بھی اطمینان کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پر وہ دن نہیں آسکتا کہ ہم رات کو ایمان کے ساتھ سوئیں اور صبح کافر اٹھیں یا صبح مومن ہوں اور شام کو کافر ہوں۔وہ شخص جس کے دل میں پختہ ایمان نہ ہو اور جو ہر وقت اپنے آپ کو ان قربانیوں کے لیے تیار نہ کرتا رہے وہ وقت آنے پر یقیناً اگر رات کو مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا تو صبح کافر اٹھے گا یا صبح مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوگا۔
پس ہمیں جہاں اپنی جماعت کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے وہاں ہر جماعت کے امیر اور پریذیڈنٹ کو چاہیے کہ وہ جماعت کی اخلاقی نگرانی کی طرف بھی توجہ کریں۔ ہر شخص جو اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ بھائی یا ہمسایہ یا کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے فرد کے مال میں معمولی سے معمولی خیانت بھی کرتا ہے اس کے متعلق تم کبھی یہ خیال نہ کرو کہ وہ خدا کے مال میں خیانت نہیں کرے گا۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی یا ایک دہریہ سے معاملہ کرتے وقت دیانت کی ضرورت نہیں تو اس کے متعلق تمہیں یہ کبھی گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مسلمان سے معاملہ کرتے وقت دیانت داری سے کام لے گا۔ جو شخص بددیانت ہے وہ ہمیشہ بددیانتی کرے گا خواہ وہ ایک مسلمان سےمعاملہ کر رہا ہو یا ایک ہندو، سکھ اور عیسائی سے معاملہ کررہا ہو۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مسلمان کے مال میں بددیانتی نہیں کرتا صرف ہندو یا سکھ یا عیسائی یا دہریہ کے مال میں بددیانتی کرتا ہے۔ کیونکہ بددیانتی ایسے شخص کی فطرت میں داخل ہوجاتی ہے اور فطرت ایسی چیز ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ اگر کسی اونچی جگہ پر قرآن رکھا ہؤا ہو اور اسے ایک مسلمان اور ایک سکھ اٹھانے لگیں اور فرض کرو کہ سکھ لمبے قد کا ہو اور مسلمان چھوٹے قد کا تو یہ نہیں ہوگا کہ چھوٹے قد کے مسلمان کا ہاتھ تو قرآن تک پہنچ جائے اور لمبے قد کے سکھ کا ہاتھ وہاں نہ پہنچے۔ اگر قرآن اونچی جگہ پر ہے تو یقیناً لمبے سکھ کا ہاتھ وہاں تک پہنچ جائے گا لیکن چھوٹے قد کے مسلمان کا ہاتھ وہاں نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر سمندر کی تہہ میں کوئی چیز جا پڑی ہے تو ایک مسلمان متقی خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت رکھنے والا اگر تیرنا نہیں جانتا تو وہ اس چیز کو نہیں نکال سکے گا۔ لیکن ایک ہندو، سکھ، عیسائی بلکہ دہریہ جو مذہب سے بکلی آزاد ہوتا ہے، وہ اگر تیرنا جانتا ہوگا تو وہ اسے نکال لے گا۔ پس فطرت کبھی نہیں بدلتی۔اِسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کوئی شخص تمہارے پاس آکر یہ کہے کہ اُحد پہاڑ اپنی جگہ سے بدل گیا ہے تو تم اس کی بات کو مان لو لیکن اگر کوئی شخص تمہیں یہ کہتا سنائی دے کہ فلاں شخص کی فطرت بدل گئی ہے تو تم اسے کبھی تسلیم نہ کرو۔ تو جو شخص بددیانت ہے وہ ہر جگہ بددیانتی کرے گا۔ چاہے وہ ہندو سے معاملہ کررہا ہو یا سکھ سے معاملہ کررہا ہو یا عیسائی سے معاملہ کررہا ہو یا ایک مسلمان سے معاملہ کررہا ہو۔ جو شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہے اس کے متعلق یہ یقین کر لینا کہ وہ ایک سکھ سے تو جھوٹ بولے گا، ایک ہندو سے تو جھوٹ بولے گا، ایک عیسائی سے تو جھوٹ بولے گا، ایک دہریہ سے تو جھوٹ بولے گا، ایک مسلمان سے جھوٹ نہیں بولے گا صریح غلط ہے۔ وہ جب بھی جھوٹ بولے گا یہ نہیں دیکھے گا کہ جس کے سامنے وہ جھوٹ کہہ رہا ہے وہ ایک مسلمان ہے یا ہندو، سکھ اور عیسائی ہے۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا مَیں نے بعض دفعہ اس کا نام بھی لیا ہے مگر اب میں اس کا نام نہیں لوں گا کیونکہ میں اُس کا ایک نقص بیان کرنے لگا ہوں۔ وہ شخص بعد میں شاید پیغامی ہو گیا تھا اور اب تو مر بھی چکا ہے۔ وہ ایک دفعہ میرے ساتھ ایک ایسی جگہ گیا جہاں احمدیت کی تبلیغ نہیں پہنچی تھی۔ اُس کو جھوٹ بولنے کی بہت عادت تھی اور ہم ہمیشہ اُسے کہا کرتے تھے کہ بندۂ خدا تم کبھی تو سچائی سے کام لیا کرو ہمیشہ جھوٹ ہی بولتے ہو۔ ایک دفعہ وہ کسی شخص کو تبلیغ کرنے لگا اور احمدیت کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اس نے لیکھرام والی پیشگوئی بیان کرنی شروع کردی۔ مگر اس نے بیان اس طرح کیا کہ لیکھرام ایک شخص تھا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سخت بدزبانی کیا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی کہ وہ فلاں دن، فلاں تاریخ، فلاں سال اور فلاں وقت قتل کردیا جائے گا۔یعنی جن امور کو ہم استدلال کے طور پر بیان کرتے ہیں اُن کو اُس نے اِس رنگ میں بیان کرنا شروع کردیا کہ گویا انہی لفظوں میں پیشگوئی کی گئی تھی۔ پھر کہنے لگا چونکہ پیشگوئی اتنی واضح تھی اور اس میں لیکھرام کے قتل ہونے کا سال، اس کی تاریخ، اس کا دن بلکہ وقت تک بتا دیا گیا تھا اس لیے جب وہ دن آیا لاہور کی پولیس اس کے مکان کے اندر اور باہر بیٹھ گئی اور چاروں طرف پہرہ دار مقرر کر دیئے گئے تاکہ کوئی شخص قتل کے ارادہ سے اندر داخل نہ ہوسکے۔ میں اُس وقت کوئی کتاب پڑھ رہا تھا وہ یہ باتیں کرتا رہا اور میں سنتا رہا،سنتا رہا۔ آخر کہنے لگا جب مقررہ وقت آ پہنچا تو لیکھرام ایک کمرہ کے اندر بیٹھ گیا اور اُس کمرہ کو باہر سے تالا لگا دیا گیا، سیڑھیوں پر اور مکان کے اندر باہر سب جگہ پولیس بیٹھ گئی اور اپنی طرف سے تمام کوششیں اِس غرض کے لیے کر لی گئیں کہ کوئی شخص اسے قتل نہ کرسکے۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد جب لوگوں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر زخمی پڑا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کون شخص زخمی کرگیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا میں اندر بیٹھا تھا کہ یکدم چھت پھٹی اور اس میں سے ایک فرشتہ نے اندر داخل ہو کر مجھے خنجر سے زخمی کردیا۔ وہ جب یہاں تک پہنچا تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور میں نے اسے کہا کیا اِس قسم کی کذب بیانی پر تمہیں شرم محسوس نہیں ہوتی؟ یہ کونسی پیشگوئی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کی اور کب اِس رنگ میں پوری ہوئی۔ اِس پر پہلے تو اُس نے بہانہ بنایا کہ میں نے ایسا ہی پڑھا تھا۔ میں نے کہا یہ تمہارا دوسرا جھوٹ ہے۔ احمدیوں کی کسی کتاب میں، یہاں تک کہ ان رطب ویابس سے بھری ہوئی تحریروں میں بھی جن میں بعض دفعہ ٹوٹی پھوٹی پنجابی کے اشعار درج ہوتے ہیں لیکھرام والی پیشگوئی کو اِس رنگ میں بیان نہیں کیا گیا جس رنگ میں تم نے بیان کیا ہے۔آخر کہنے لگا میں نے سمجھا تھا کہ دوسرے کے دل میں ایمان پیدا کرنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ میں نے کہا خدا اور اس کا سلسلہ تمہارے جھوٹ کا محتاج نہیں۔ اگر تم جھوٹ بول کر سلسلہ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرتے ہو تو چاہے تم دوسرے کے اندر ایمان پیدا کرنے کے لیے ہی ایسا کیوں نہ کرو، یہ ایک شدید ترین گناہ ہے اور اس کا ارتکاب تمہیں مجرم بنانے والا ہے۔
تو بعض دفعہ انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ فلاں موقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے یا فلاں شخص سے بددیانتی، بددیانتی نہیں کہلاسکتی۔ مگر یہ اس کے نفس کا دھوکا ہوتا ہے۔جسے جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر شخص سے جھوٹ بولتا ہے چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو۔ اور جو شخص سچ بولنے کا عادی ہے وہ مسلمان سے بھی سچ بولے گا، وہ ہندو سے بھی سچ بولے گا، وہ سکھ سے بھی سچ بولے گا، وہ عیسائی سے بھی سچ بولے گا۔ اسی طرح جس شخص کے اندر دیانت پائی جاتی ہے وہ ہر شخص سے دیانتداری کا معاملہ کرے گا چاہے وہ اس کی قوم کا فرد ہو یا کسی اَور قوم کا۔ اور جس شخص کے اندر بددیانتی پائی جاتی ہے وہ ہر شخص سے بددیانتی کرے گا چاہے وہ اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو یا تعلق نہ رکھنے والا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی چوری ہو گئی۔ ان کا ایک غلام گھبرا کر اِدھر اُدھر دوڑتا پھرتا اور کہتا خدا *** کرے اُس شخص پر جس نے چوری کی۔ ارے چوری اور پھر ابوبکر کی چوری۔شام کو وہی زیور جو چرایا گیا تھا ایک یہودی کے پاس سے ملا اور اُس نے بیان کیا کہ میرے پا س یہی غلام فروخت کرنے کے لیے لایا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہؤا تو آپ نے فرمایا اگر یہ چوری کرنے والے پر *** نہ کرتا تو شاید بچ جاتا۔ مگر اس نے تو *** ڈال کر اپنے آپ کو خود ننگا کر لیا۔ تو یہ کہنا کہ یہ مسلمان کی چوری نہیں ہندو کی چوری ہے،یا مسلمان سے جھوٹ نہیں بولا گیا سکھ سے جھوٹ بولا گیا ہے،یا مسلمان سے یہ بددیانتی نہیں کی گئی ایک عیسائی سے بددیانتی کی گئی ہے بالکل لغو اور فضول بات ہے۔
مومن کے اخلاق تو ایسے ہونے چاہییں کہ جن لوگوں سے وہ معاملہ کررہا ہو انہیں وہ خواہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، سب کے ساتھ اس کا حسن سلوک یکساں ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن وہ ہے جو ہر ملنے والے کو سلام کرتا ہے۔ چاہے وہ اسے جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔9 اس حدیث کے اَور بھی معنے ہیں مگر اس کا ایک یہ مفہوم بھی ہے کہ مومن کا سلام اور اس کا حُسنِ سلوک کسی خاص شخص سے مخصوص نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص کے ساتھ اس کا اخلاقی برتاؤ یکساں ہوتا ہے چاہے وہ اس کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ تو مومن وہی ہے جس کے حُسنِ سلوک اور جس کے اعلیٰ اخلاق کا تعلق کسی خاص شخص یا کسی خاص قوم سے مخصوص نہ ہو بلکہ ہر شخص کے ساتھ اس کا یکساں تعلق ہو۔ خواہ وہ اُس کا واقف ہو یا ناواقف۔ یہ نہ ہو کہ وہ اپنے دوست سے معاملہ کرتے وقت تو حُسنِ سلوک سے کام لے اور دشمن سے معاملہ کرتے وقت بداخلاقی پر اُتر آئے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تمہاری جیب میں مشک پڑا ہو اور اس کی خوشبو صرف تمہارا دوست سُونگھے تمہارا دشمن اُس کو نہ سُونگھ سکے؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تمہارے گلے میں پھولوں کا ہار پڑا ہوا ہو اور اس کے پھولوں کی مہک تمہارے دماغ میں تو آئے یا تمہارے عزیزوں کے دماغ میں تو آئے لیکن تمہارا غیر اُس سے محروم رہے؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اگر تم خوبصورت ہو، تمہارا رنگ سفید ہے، تمہارے نقش اچھے ہیں تو تم اپنے دوست کو تو خوبصورت نظر آؤ لیکن دشمن کو خوبصورت نظر نہ آؤ؟اگر تمہارے اندر حسن پایا جاتا ہے تو وہ ہر شخص کو نظر آئے گا، چاہے وہ تمہارا واقف ہو یا ناواقف۔ اسی طرح اگر تمہارے گھر میں گند ہوگا تو یہ نہیں ہوگا کہ وہاں اگر تمہارا دشمن آجائے تو اس کا دماغ تو گند سے پھٹنے لگے لیکن تمہارے دوست کو گند محسوس نہ ہو۔یقیناً جس طرح تمہارے دشمن کا دماغ پھٹے گا اُسی طرح اُس گند سے تمہارے دوست کا دماغ بھی پھٹے گا۔ اسی طرح اگر تمہارے پاس خوشبو ہے تو وہ ہر ایک کو آئے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دوست کو آئے اور دشمن کو نہ آئے۔ اگر خوشبو تم میں اور تمہارے غیر میں امتیاز نہیں کرسکتی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دل میں ایمان پایا جائے اور پھر تم زید سے اَور سلوک کرو اور بکر سے اَور سلوک کرو، مسلمانوں سے اَور رنگ میں پیش آؤ اور ہندوؤں، سکھوں اَور عیسائیوں سے اور رنگ میں پیش آؤ۔ اگر تمہارے دل میں ایمان ہوگا، اگر تم واقع میں بااخلاق ہوگے اور اگر تم حقیقت میں اپنے اندر نیکی اور تقوٰی رکھتے ہوگے تو تمہاری نیکی کی خوشبو جس طرح تمہارے دوست کے ناک میں جائے گی اُسی طرح تمہارا دشمن بھی اس سے متاثر ہوگا۔ لیکن اگر ایسا نہیں، اگر تمہارا دشمن تمہارے اندر اعلیٰ اخلاق نہیں دیکھتا، اگر تمہارے حسن سلوک کا وہ کوئی مشاہدہ نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر ایمان نہیں پایا جاتا۔ ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی شیشی کا منہ جب دوستوں کی طرف ہو تو انہیں اس میں سے خوشبو آئے اور جب اس کا منہ دشمنوں کی طرف کردیا جائے تو انہیں اس سے بَدبو محسوس ہو۔
پس اخلاق کی درستی نہایت ہی ضروری چیز ہے اور ہماری جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یاد رکھو! اخلاق کے بغیر تم میں کبھی وہ مضبوطی اور وہ جرأت پیدا نہیں ہوسکتی جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مومن تو اپنے ایمان میں ایسی پختگی رکھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لیے ہر قربانی کرنےکے لیے تیار رہتا ہے۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن اس کی قربانی کے ارادے نہیں ٹل سکتے کیونکہ وہ غیر متزلزل ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اُحد پہاڑ کے متعلق اگر تم سنو کہ وہ اپنی جگہ سے بدل گیا ہے تو اسے تسلیم کر لو لیکن تم اس بات کو کبھی تسلیم نہ کرو کہ کسی شخص کی فطرت اور طبیعت بدل گئی ہے۔ اسی طرح جب ایمان کسی شخص کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتا ہے تو اُسے کوئی طاقت ایمان سے منحرف نہیں کرسکتی۔اس کا سلوک جیسے مومنوں سے ہوتا ہے اُسی طرح کافروں سے حسنِ سلوک کرنا اس کا شیوہ ہوتا ہے۔جس طرح تمہاری شکلیں تبدیل نہیں ہوسکتیں، جس طرح تمہارا رنگ تبدیل نہیں ہوسکتا، جس طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ تمہاری شکل تمہارے دوست کو اَور طرح نظر آئے اور تمہارے دشمن کو اَور طرح دکھائی دے، تمہارا دوست تمہارے رنگ کو سفید سمجھے اور تمہارا دشمن تمہارے رنگ کو سیاہ سمجھے اِسی طرح اگر ایمان تمہاری طبیعتِ ثانیہ بن چکا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ تم ایک سے کچھ سلوک کرو اور دوسرے سے کچھ سلوک کرو۔ لیکن اگر تمہاری طبیعتِ ثانیہ نہیں بنا تو جب بھی قربانی کا موقع آئے گا تم پھسل جاؤ گے اور تم کبھی بھی مومنوں کی صف میں کھڑے نہیں رہ سکوگے۔
پس اگر ایمان کسی شخص کی طبیعتِ ثانیہ نہیں بنا۔یا اگر کوئی شخص ایسا ہے جو کہتا ہے میں احمدی سے جھوٹ نہیں بولتا صرف غیر احمدی سے جھوٹ بولتا ہوں، یا احمدی سے بددیانتی نہیں کرتا صرف ہندو یا سکھ سے بددیانتی کرنا جائز سمجھتا ہوں تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا، یہ تھرمامیٹر ہوتا ہے اس امر کے پہچاننے کا کہ تمہارے اندر کس قدر ایمان پایا جاتا ہے۔ پس اگر کسی شخص میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنوں اور غیروں سے معاملہ کرتے وقت اخلاق اور حُسنِ سلوک میں امتیاز کرتا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا ایمان کچا ہے اور جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے دین کے لیے قربانی کی آواز آئے گی اُس کا نفس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اُسے قبول کرنے سے محروم رہ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نقص سے بچائے اور ہمارے اندر وہ اخلاق پیدا فرمائے جو دنیا میں ہر شخص کو نظر آنے لگ جائیں۔ خواہ وہ ہمارا واقف ہو یا ناواقف اور خواہ وہ ہمارے مذہب کو ماننے والا ہو یا نہ ماننے والا۔ ہمارا حسن سلوک ہر شخص سے یکساں ہو اور ہمارے اندر وہ اپنے فضل و کرم سے ایسی مضبوطی پیدا کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کی آواز سننے اور اُسے قبول کرنے کے لیے ہر وقت اور ہر حالت میں تیار رہیں۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْنَ۔’’
(الفضل12؍اپریل1944ء)

2
جماعت احمدیہ کا پروگرام
عبادتیں کرنا اورقربانیوں میں ترقی کرنا
(فرمودہ 14 جنوری 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"قرآن کریم میں ایک سورۃ ہے مختصر چھوٹی سی، صرف تین آیتوں کی جس کے متعلق اس سال میں نے جلسہ سالانہ پر عورتوں میں ایک تقریر کی تھی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کا مضمون اس قابل ہے کہ اُسے بار بار اور مختلف پیرایوں میں ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں میں دُہرایا جائے کیونکہ اس کا ایک مفہوم ہماری جماعت کے پروگرام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۝اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۝ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۝ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۝1 اَور بھی اس کے مفہوم اور مطالب ہیں جن کا بیان کرنا اس موقع پر ضروری نہیں۔ جس مفہوم کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کوثر کے ایک معنے ایسے آدمی کے بھی ہیں جو کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو۔2 پس جہاں اس سورۃ میں اَور مطالب کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ دلائی گئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی آپ کو توجہ دلائی ہے کہ ہم تجھے ایک ایسا بیٹا عطا فرمانے والے ہیں جو بہت ہی صدقہ و خیرات کرنے والا ہوگا۔ دوسری طرف ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فرمائی ہوئی پاتے ہیں اس میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ مال تقسیم کرے گا اور لوگ اس کو لیں گے نہیں۔یُفِیْضُ الْمَالَ۔3 وہ مال دنیا میں بہادے گا۔لوگوں نے اس کے معنے یہ سمجھے ہیں کہ شاید وہ سونے اور چاندی کے سکّے لوگوں کو دے گا۔ حالانکہ سونے اور چاندی کے جو سکّے ہیں ان کو قبول کرنے والے کچھ نہ کچھ لوگ ہمیشہ ہی دنیا میں موجود رہتے ہیں۔کروڑوں کروڑ روپیہ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں لوگوں سے مال لینے کی حرص اور خواہش ہوتی ہے۔کئی دفعہ بڑے بڑے افسروں کے خلاف ریل میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے کے الزام میں مقدمات چل جاتے ہیں۔حالانکہ غریب آدمی بالعموم پیسے ادا کرکے ٹکٹ لیتے ہیں۔ تم کبھی کسی دکاندار کے سامنے ایک غریب سے غریب شخص کو بھی یہ کہتے نہیں سنو گے کہ میری غربت کی وجہ سے تم فلاں چیز کی قیمت کم کردو۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دکاندار میرے کہنے پر قیمت کم نہیں کرے گا۔لیکن کئی مالداروں کو میں نے دیکھا ہے وہ دکانداروں سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری خاطر تم اِس میں سے کتنا چھوڑو گے؟ حالانکہ وہ روپے والے ہوتے ہیں۔ مگر باوجود اپنے تموّل اور اپنی دولت کے اور باوجود اپنے پاس زیادہ روپیہ رکھنے کے اُن کی حرص کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اور وہ دکاندار سے بار بار یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ہم جو تمہاری دکان پر چل کر آئے ہیں تو اب ہماری خاطر تمہیں قیمتیں ضرور کم کرنی پڑیں گی۔
چند سال ہوئے مَیں بمبئی گیا۔ وہاں ایک دن میں کپڑا خریدنے کے لیے ایک دکان پر چلا گیا اور مَیں نے دکاندار سے کہا کہ کئی دکاندار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی چیزوں کی قیمتیں آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں بھی ایسے دکاندار پائے جاتے ہیں اور بمبئی میں بھی ہیں۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا اصول ہے؟وہ کہنے لگا ہماری چیزوں کی تو ایک ہی قیمت ہوا کرتی ہے۔میں نے کہا اب اس پر قائم رہنا۔ ہم بھی تمہارے ساتھ قیمتوں کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں کریں گے۔ اُس وقت اس دکان میں دو اَور آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے اُس سے کوئی سودا خریدا تھا جس کا بِل ایک سو تین یا ایک سو چار روپیہ تک جا پہنچا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں اس دکاندار سے بحث کر رہے تھے کہ یہ تو ہوئی چیزوں کی قیمت، تم یہ بتاؤ کہ اب تم نے اِس میں سے چھوڑنا کیا ہے؟ اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا تو ایک ہی بھاؤ مقرر ہے ہم قیمتوں میں کمی بیشی نہیں کیا کرتے۔ تھوڑی دیر کےبعد مجھے معلوم ہؤا کہ ان میں سے ایک بمبئی کے کوئی مشہور سیٹھ صاحب ہیں اور دوسرا ان کا سیکرٹری ہے کیونکہ دوسرا شخص بار بار کہتا تھا کہ سیٹھ صاحب تمہارے پاس آئے ہیں تمہیں ان کی خاطر تو قیمتوں میں ضرور کمی کرنی چاہیے اور دکاندار یہ کہتا تھا کہ میری دکان پر ایک ہی قیمت ہوتی ہے کمی بیشی نہیں ہوتی۔ غرض اِسی طرح آدھ گھنٹہ ضائع ہو گیا۔ آخر وہ ایک سو روپیہ کا نوٹ اسے دے کر چلے گئے اور اوپر کی رقم انہوں نے نہ دی۔ان کے چلے جانے کے بعد مَیں نے دکاندار سے کہا کہ آپ تو کہتے تھے ہمارا ایک ہی بھاؤ مقرر ہے اور ان لوگوں سے آپ نے اتنے روپے کم وصول کیے ہیں۔ وہ کہنے لگا یہ کوئی انصاف ہے؟ یہ تو صریح جبر ہے کہ سَودا لے لیا اور قیمت نہ دی۔پھر کہنے لگا یہ جو سیٹھ میری دکان پر آیا ہے یہ بمبئی کے تمام ہندوستانی تاجروں میں سے دوسرے نمبر پر ہے اور یہ روزانہ جتنی کمائی کرتا ہے اُس کا آپ اِس سےاندازہ لگا سکتے ہیں کہ آدھ گھنٹہ جو اُس نے میری دکان پر ضائع کیا ہے اس آدھ گھنٹے میں یہ دس پندرہ ہزار روپیہ کما لیتا ہے۔ مگر باوجود اِس قدر دولت و ثروت کے صرف تین چار روپے چُھڑانے کے لیے اس نے اپنا وقت بھی ضائع کیا اور میرا وقت بھی ضائع کیا۔ تو مال کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا آدمی جس کی سالانہ آمدنی چالیس پچاس بلکہ ساٹھ لاکھ روپیہ کی تھی وہ بھی آدھ گھنٹہ تک ایک دکاندار سے لڑتا جھگڑتا رہا۔ محض اس لیے کہ اس کے بل میں سے تین چار روپے کم ہو جائیں اور وہ بار بار اپنی امارت کا واسطہ دیتا تھا۔ وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ مَیں غریب ہوں اس لیے تم اتنی قیمت کم کر دو بلکہ وہ کہتا تھا مَیں امیر ہوں اور میری امارت کا تقاضا یہ ہے کہ چونکہ میں خود چل کر تمہارے پاس آیا ہوں اس لیے تم مجھ سے کم قیمت وصول کرو۔جب دنیا کی یہ حالت ہے تو کون عقلمند یہ خیال کرسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں مسیح موعود لوگوں کو لاکھوں روپیہ دے گا اور وہ اس کے لینے سے انکار کردیں گے۔ وہ شخص جس نے دوچار روپوں کے لیے اپنا آدھ گھنٹہ ضائع کردیا، وہ شخص جس نے دو چار روپوں کے لیے دکاندار کے ایک اصول کو توڑ دیا، وہ شخص جس نے دو چار روپوں کے لیے نہ صرف اپنا وقت ضائع کیا بلکہ ہمارا وقت بھی ضائع کیا وہ اور اِسی قسم کے اَور لوگ بجائے مال لینے سے انکار کرنے کے میرے نزدیک تو اس بات کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے کہ اگر انہیں روپوں کے لیے ناک بھی رگڑنی پڑے توانہیں اس میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ نوحؑ کے زمانے سے لے کر تمام انبیاء یہ خبر دیتے چلے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اتنے گناہ ہوں گے، اتنی خرابیاں ہوں گی کہ اتنی خرابیاں اور کسی نبی کے وقت میں نہیں ہوں گی۔گویا ادھر تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ وہ زمانہ ایسا خراب ہوگا کہ اس کی مثال اور کسی زمانہ میں نہیں ملے گی اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگ اتنے وسیع الحوصلہ ہوں گے، اس قدر ان کے نفس دنیوی اموال کی محبت سے بیزار ہو چکے ہوں گے اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت اِس طرح جاتی رہے گی کہ مسیح موعود اُنہیں مال دے گا مگر وہ لینے سے انکار کردیں گے۔ان دونوں باتوں کا ایک زمانہ میں اجتماع عقل کے بالکل خلاف ہے۔ یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ فرماتے کہ مسیح موعود کا زمانہ ایسا اعلیٰ ہوگا کہ لوگ سیرچشم ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں غناء کا مادہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوگا، ان کے دل دنیاوی اموال کی محبت سے بالکل خالی ہوں گے، حرص اور لالچ اور طمع ان کے اندر نہیں ہوگا اور وہ اس قدر دنیا سے دور ہوں گے کہ مسیح موعود ان کو مال دے گا تو وہ کہیں گے حضرت! ہم نے اس جیفۂ دنیا کو کیا کرنا ہے ہمیں خدا کی رضا کافی ہے۔مگر ایک طرف یہ کہنا کہ اس زمانہ کے لوگ سخت خراب اور گندے ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں لالچ پایا جاتا ہوگا، وہ شیطان کی اتباع کرنے والے ہوں گے، بات بات پر لڑائی جھگڑا کریں گے،خدا اور رسول کی محبت ان کے دلوں سے اٹھ جائے گی اور اس قدر خرابیاں ان میں پیدا ہو چکی ہوں گی کہ نوحؑ کے زمانہ سے لے کر آج تک کسی نبی کے زمانہ کے لوگ اتنے خراب نہیں ہوئے۔ اور دوسری طرف یہ کہنا کہ وہ اتنے سیرچشم، اتنے نیک اور متقی اور اس قدر غناء کا مادہ اپنے اندر رکھنے والے ہوں گے کہ مسیح موعود ان کو مال دے گا تو وہ اس کو لینے سے انکار کردیں گے۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جن کا اجتماع کوئی عقلمند مان ہی نہیں سکتا۔ اور اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس مال سے مراد ظاہری مال و دولت نہیں، ظاہری سونا اور چاندی مراد نہیں ہے بلکہ مال سے مراد وہ معارف ہیں جو مسیح موعود کی زبان پر جاری ہوں گے، علم و عرفان کے وہ چشمے ہیں جو اس کے لبوں سے پُھوٹیں گے، تعلق باللہ کے وہ اسرار ہیں جو اس کے ذریعہ عالَم پر منکشف ہوں گے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خبر یہ دی ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ قرآن و حدیث کے ایسے ایسے نکات بیان کرے گا، خدا اور بندوں کے تعلق کے متعلق ایسی پُرمعرفت باتیں پیش کرے گا اور اسلام کو غالب کرنے کے لیےایسے ایسے علوم دنیا میں ظاہر کرے گا کہ جن سے لوگ بالکل واقف نہیں ہوں گے۔ گویا اموالِ روحانی کا ایک خزانہ ان کے سامنے رکھا جائے گا مگر لوگ اپنی بیماری کی وجہ سے اور اپنی طبیعت کے گند اور نفس پرستی کی وجہ سے اُس خیر کا انکار کردیں گے جو مسیح موعود اُن کو دے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں جن کے دلوں میں اس قسم کی روحانی باتوں کی قدروقیمت ہوتی ہے وہ جب دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ معارف کا ایک دریا بہایا جا رہا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ جماعت کر کیا رہی ہے اور کیوں ایسے انمول موتی لوگوں کے سامنے بکھیرتی چلی جا رہی ہے۔ مَیں نے جب ایک دفعہ ذکر الٰہی پر جلسہ سالانہ میں تقریر کی تو غالباً ایک غیر احمدی صاحب نے مجھے ایک رقعہ لکھا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں کہ وہ باتیں جو صوفیاء دس دس سال کی محنتِ شاقہ کے بعد لوگوں کو بتایا کرتے تھے آپ نے وہ ساری باتیں اپنی ایک ہی تقریر میں بیان کردی ہیں۔ گویا ایک طرف مسیح موعود کی بعثت سے پہلے دنیا کے لوگ ایسے خراب ہو چکے تھے کہ دین کی اچھی سے اچھی باتیں ان کے سامنے پیش کی جاتیں تو وہ ان کا انکار کر دیتے اور دوسری طرف وہ لوگ جنہیں تھوڑا بہت دین آتا تھا، انہوں نے دین کی ان باتوں کو اپنی تجارت کا ایک ذریعہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ وہ پہلے لوگوں سے اچھی طرح خدمت لیتے اور پھر سالہا سال کے بعد کوئی ایک بات ان کو بتاتے۔
منشی احمد جان صاحب لدھیانہ والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دعویٰ سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ مگر ان کی روحانی بینائی اتنی تیز تھی کہ انہوں نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو لکھا کہ ؎
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

انہوں نے اپنی اولاد کو مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں تو اب مر رہا ہوں مگر اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ مرزا صاحب نے ضرور ایک دعوٰی کرنا ہے اور میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ مرزا صاحب کو قبول کر لینا۔ غرض اس پایہ کے وہ روحانی آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی جوانی میں 12 سال تک وہ چکّی جس میں بیل جوتا جاتا ہے اپنے پیر کی خدمت کرنے کے لیے چلائی اور 12 سال تک اس کے لیے آٹا پیستے رہے تب انہوں نے روحانیت کے سبق اِن کو سکھائے۔ تو وہ لوگ جو روحانی کہلاتے تھے وہ بھی لوگوں کو روحانی باتیں بتانے میں سخت بخل سے کام لیا کرتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نہ صرف وہ ساری باتیں دنیا کو بتا دیں بلکہ ان سے ہزاروں گُنا زیادہ اَور باتیں بھی ایسی بتائیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اس طرح علوم کو آپ نے ساری دنیا میں بکھیر دیا۔ مگر جیسا کہ حدیثوں میں خبر دی گئی تھی دنیا نے اس کی قدر نہ کی۔
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس تشریح نے بھی بتا دیا کہ کوثر سے مراد مسیح موعود ہے۔ کیونکہ کوثر کے معنے اُس سخی انسان کے ہوتے ہیں جو کثرت سے صدقہ وخیرات کرنے والا ہو۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو خزانے لُٹائے گا مگر لوگ ان خزانوں کو قبول نہیں کریں گے۔ اس تشریح سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوثر سے مراد مسیح موعود ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ۔اے محمد رسول اللہ!ہم تجھے ایک ایسا روحانی بیٹا عطا کرنے والے ہیں جو خیر ِکثیر رکھتا ہوگا جو علومِ روحانیہ کا ایک خزانہ ہوگا۔ ایسے آدمی کی بعثت پر ہر مومن کا فرض ہوگا کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عبادتیں کرے اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں بجا لائے۔
یہ صاف بات ہے کہ جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جن کے زمانہ میں اس عظیم الشان انسان نے نہیں آنا تھا ان کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم اس شکریہ میں میری عبادت کرو اور قربانیوں میں پہلے سے بھی زیادہ جوش سے حصہ لو تو وہ لوگ جن کے زمانہ میں اس انسان نے آنا تھا ان پر یہ کیوں فرض نہیں ہو گا کہ وہ اس شکریہ میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ عبادتیں کریں اور اس کے دین کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں۔ آخر فائدہ تو انہوں نے ہی اٹھانا تھا جن کے زمانہ میں اس انسان نے مبعوث ہونا تھا اور اس لحاظ سے اس نعمت کا زیادہ شکریہ ادا کرنا انہی کا فرض ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فائدہ نہیں پہنچا جس رنگ میں لوگوں کو آپ کی بعثت کا فائدہ ہؤا ہے۔ اور اگر دین کی اشاعت کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فائدہ ہؤا ہے تو پھر بھی استاد استاد ہی ہے اور شاگرد شاگرد ہی ہے۔ مگر جب ایک اچھے شاگرد کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ کہا گیا ہے کہ وہ عبادتیں کریں اور قربانیوں میں حصہ لیں تاکہ اس فضل کا شکریہ ادا ہوسکے تو وہ لوگ جو اس مسیح موعود کے شاگرد ہیں ان پر یہ کس قدر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عبادتوں اور قربانیوں میں پہلے سے بہت زیادہ حصہ لیں۔ جس شاگرد کے متعلق استاد کو یہ کہا گیا ہے کہ تم نمازیں پڑھو اور قربانیاں کرو، اس کے اپنے شاگردوں کو تو یقیناً لاکھوں گنا زیادہ عبادتیں کرنی چاہییں اور لاکھوں گنا زیادہ قربانیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ پس مسیح موعود کی بعثت کے بعد اس حکم کی تعمیل سب سے زیادہ جماعت احمدیہ پر فرض ہے۔ فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی کی خاطر عبادتیں بجا لاؤ اور تم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانیاں کرو۔ اس شکریہ میں کہ اس نے تمہیں کوثر سے حصہ عطا فرمایا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کرکے احمدی جماعت کو یہ بتایا ہے کہ مسیح موعود کی بعثت کے وقت ان کو کیا کام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ۔ احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کے دین کے لیے قربانیوں پر قربانیاں کرتے چلے جائیں۔ یہی ہمارا پروگرام ہے جو اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے۔
عربی زبان میںنحراُس جانور کی قربانی کو کہتے ہیں جو ہمارے اپنے قبضہ میں ہوتا ہے۔ پس اِس لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں سب سے بڑی قربانی اپنے نفس کا جہاد ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں سب سے بڑا کام دشمن سے جہاد کرنا تھا مگر اس زمانہ میں سب سے بڑا کام نحر کرنا ہوگا۔ اور نحراُس جانور کی قربانی کو کہتے ہیں جو انسان کے اپنے قبضہ میں ہوتا ہے۔ پس اس لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد نہیں ہوگا یعنی دشمن کو تلوار سے مارنا ان کا کام نہیں ہوگا۔ بلکہ ان کا سب سے بڑا کام اپنے نفس کو مارنا اور اس سے جہاد کرنا ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بڑی بھاری قربانی یہ تھی کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال کر دشمن کو کیفر ِکردار تک پہنچایا جائے مگر فرمایا مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد نہیں ہوگا بلکہ نحر ہوگا یعنی اُس زمانہ میں سب سے بڑی جنگ انسان کو اپنے نفس سے کرنی پڑے گی۔ صحابہؓ کے زمانہ میں بڑی قربانی یہ تھی کہ عتبہ اور شیبہ اور ابوجہل کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے خواہ اس کوشش اور جدوجہد میں انسان خود ہی کیوں نہ مارا جائے۔ لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں دشمن کو مارنے کا کام نہیں ہوگا۔ بلکہ بڑی قربانی یہ ہو گی کہ ہر انسان براہ راست اپنے نفس کو مارنے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کرے۔ یہ ایک ایسا واضح پروگرام ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور پروگرام کی طرف جانا قطعاً دانائی نہیں ہوسکتی۔ خدا سے بہتر کون پروگرام بنا سکتا ہے۔ یقیناً خدا سے بڑھ کر اور کوئی صحیح پروگرام نہیں بناسکتا اور خدا نے جماعت احمدیہ کا یہ پروگرام بتا دیا ہے کہ وہ عبادتیں کرے اور قربانیوں میں ترقی کرے۔
عبادتوں میں سے سب سے اہم عبادت نماز باجماعت ہے۔اس کے بعد ذکر الٰہی، نوافل پڑھنا، درود پڑھنا، تسبیح، تحمید اور تکبیر کرنا۔یہ سب چیزیں عبادت میں شامل ہیں مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو بجائے ذکر الٰہی کرنے کے فضول اور لغو باتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ صحابہؓ کا طریق یہ تھا کہ جب وہ اکٹھے ہوتے تو کہتے آؤ ہم اپنے ایمان تازہ کریں اور پھر وہ ایک دوسرے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں اور آپ کے حالات سنتے۔ آخر ہر شخص مجلس میں موجود نہیں ہوتا۔ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک شخص تو سنتا ہے مگر دوسرا نہیں سنتا۔ ایسی صورت میں صحابہؓ کا یہی طریق تھا کہ وہ بیٹھ کر ایک دوسرے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ مگر اِس زمانہ میں لغو اور فضول باتوں میں بہت زیادہ وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے لیے حکم یہی ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ تم اپنے اوقات اِس طرح صَرف کرو کہ وہ سب کے سب تمہاری عبادت کی گھڑیاں بن جائیں۔ پھر فرماتا ہے وَانْحَرْ۔تمہارا دوسرا کام یہ ہے کہ تم قربانیوں میں حصہ لو۔
جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ ہماری جماعت ایک نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچتی جا رہی ہے۔ مگر صرف مالی قربانی ہی قربانی نہیں بلکہ اَور بھی کئی قسم کی قربانیاں کرنا جماعت کا فرض ہے۔ مثلاً وقت کی قربانی ہے یہ بھی ایک اہم قربانی ہے۔ جذبات کی قربانی ہے یہ بھی ایک اہم قربانی ہے، مگر ان قربانیوں میں ابھی بہت بڑی ترقی کی ضرورت ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنے جذبات کی قربانی سے کام لیں تو اس قسم کے جھگڑوں کی نوبت ہی نہ آئے۔ اِسی طرح وقت کی قربانی میں تبلیغ بھی شامل ہے مگر اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت تبلیغ کا فرض پورے طور پر ادا کرتی تو اب تک موجودہ جماعت سے بیسیوں گُنا زیادہ جماعت ہوجاتی۔مگر یہ قربانی پیش کرنے کے لیے ہماری جماعت کے بہت کم دوست تیار ہوتے ہیں۔ ہر شخص جو یہاں بیٹھا ہے وہ اپنے اپنے نفس میں سوچے اور غور کرے کہ اس نے پچھلے مہینے میں تبلیغ کے لیے کتنا وقت دیا ہے۔ اگر آپ لوگ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے سارے مہینے میں شاید ایک منٹ تبلیغ کے لیے دیا ہوگا۔ کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے سارے مہینے میں شاید کسی کو دس منٹ تبلیغ کی ہو گی اور کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے تبلیغ کی ہی نہیں ہو گی یا تبلیغ تو کی ہو گی مگر وہ حقیقی تبلیغ نہیں ہو گی۔ جب اس قسم کی مُردنی طبائع پر چھائی ہوئی ہو تو محض مالی قربانی سے جماعت کی ترقی کس طرح ہوسکتی ہے۔ مالی قربانی کے ساتھ اگر اوقات کی قربانی نہیں، اگر تبلیغ کے لیے دلوں میں ایک دیوانگی اور جوش نہیں تو یہ جماعت کی ترقی کی کوئی خوشکن علامت نہیں۔ بلکہ میرے نزدیک اگر روپیہ دینے والا تبلیغ نہیں کرتا اور وہ روپیہ دے کر ہی سمجھ لیتا ہے کہ اُس نے اپنے فرض کو ادا کردیا تو وہ اپنے آپ کو ایک شدید الزام کے نیچے لاتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے تبلیغ کا جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے وہ میری شان سے بہت ادنیٰ ہے اس لیے مَیں روپیہ دے دیتا ہوں تاکہ اس روپیہ کے بدلے کوئی اَور شخص یہ کام کردے مجھے یہ کام نہ کرنا پڑے۔ یہ ایک ایسا خطرناک الزام ہے جو اسے کسی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بری نہیں کرسکتا۔کیونکہ ایک طرف وہ روپیہ دے کر تبلیغ کی ضرورت کو تسلیم کر لیتا ہے مگر دوسری طرف کہتا ہے میرے اپنے لیے تبلیغ ضروری نہیں۔ پس جو شخص چندہ تو دیتا ہے مگر تبلیغ نہیں کرتا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں تبلیغ کو ضروری نہیں سمجھتا۔کیونکہ وہ چندہ دے کر تبلیغ کی ضرورت کو تسلیم کر لیتا ہے۔ اُس سے جب خدا پوچھے گا کہ تُو نے کیوں تبلیغ میں حصہ نہیں لیا تو وہ اِس کا ایک ہی جواب دے سکتا ہے کہ مَیں تبلیغ کوایک ادنیٰ کام سمجھا کرتا تھا اس لیے میں نے چندہ دے دیا تھا تاکہ یہ کام کوئی اَور شخص کرتا رہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اس پروگرام کو اپنے سامنے رکھے جو خدا نے تجویز کیا ہے۔ و ہ ایک طرف تسبیح، تحمید، تکبیر، درود اور ذکر الٰہی میں حصہ لے اور دوسری طرف نہ صرف مالی قربانیوں میں حصہ لے بلکہ اپنے اوقات اور جذبات کی قربانی بھی کرے۔ اس کے بغیر وہ شکریہ ادا نہیں ہوسکتا جس کا ادا کرنا مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے۔
جیسا کہ میری آواز سے ظاہر ہو رہا ہے گلے کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ گئی ہے اِس لیے مَیں اِس وقت کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا۔ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیتا ہوں کہ جس طرح اُس نے ہمیں مالی قربانیوں میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اُسی طرح اللہ کرے ہماری جماعت پر وہ دن بھی آجائے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے جذبات کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوجائے، اپنے نفس کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوجائے، اپنے اوقات کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوجائے اور دنیا یہ ماننے پر مجبور ہوجائے کہ ان قربانیوں میں بھی کوئی قوم جماعت احمدیہ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی"۔
خطبہ ثانیہ میں فرمایا:۔
"مَیں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہوگا اِس لیے مَیں نماز قصر کرکے ہی پڑھاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا"۔(الفضل25 مئی 1944ء)

3
اپنے زمانہ کی اہمیت کو سمجھو
اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاؤ
(فرمودہ 21 جنوری 4419ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"انسانی فطرت کچھ اس قسم کی ہےکہ انسان بار بار کے تجربہ کے باوجود وہ اپنے لیے ایک ایسی عادت اور ایسا دستورالعمل نہیں بناسکتا کہ وہ اپنے وقت پر کسی چیز کے فوائد کو حاصل کرسکے۔ پہلے تو وہ ایک عرصہ اس بات میں ضائع کر دیتا ہے کہ جو چیز اس کے سامنے آئی ہے آیا وہ کوئی اہمیت رکھتی بھی ہے یا نہیں رکھتی۔ پھر کچھ عرصہ وہ اس بات میں گزار دیتا ہے کہ وہ چیز اگر اہمیت رکھتی ہے تو اس کی اہمیت نیک ہے یا بد۔ پھر جب وہ اس کی اہمیت کو سمجھ لیتا ہے مثلاً اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ نیک اہمیت رکھتی ہے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تو پھر وہ ایک عرصہ اس بات کا اندازہ لگانے میں صَرف کر دیتا ہے کہ وہ نیک اہمیت کتنا درجہ رکھتی ہے۔ اور بسااوقات جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ نیک اہمیت اتنی اہم اور ضروری ہے کہ نہ صرف وہ موجودہ زمانہ کے لوگوں کے لیے بلکہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا خدائی فضل اور خدائی انعام ہے تو اُس وقت تک و ہ اہمیت رکھنے والی چیز دنیا سے گزر چکی ہوتی ہے۔آج ہمیں لاکھوں کروڑوں یہودی اس بات کے لیے تکلیف اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ وہ دینِ موسوی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ان کی تجا رتیں توڑی جاتی ہیں، ان کے مکان اور جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں، انہیں قتل کیا جاتا ہے، انہیں ملک بدر کیا جاتا ہے مگر وہ موسوی دین کے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ موسوی دین کے ساتھ اب ان کا تعلق صرف سطحی رہ گیا ہے، حقیقی نہیں۔ اگر موسیٰؑ کی صحیح امت دنیا میں موجود ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کا زمانہ اس سے اَور پیچھے جا پڑتا جس زمانہ میں آپ ظاہر ہوئے۔بلکہ اگر موسیٰؑ کی امت حقیقی موجود ہوتی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آنے کی بھی اُس وقت ضرورت نہ ہوتی جب آپ مبعوث ہوئے۔تو جو حقیقی تعلق موسوی قوم کو حضرت موسٰی علیہ السلام سے تھا وہ ہزاروں سال اپنے اصل مقام سے پیچھے ہٹ چکا تھا۔ کم سے کم دو ہزار سال سے وہ تعلق قطع ہو چکا تھا۔ مگر باوجود اِس کے کہ وہ حقیقی تعلق کھو چکے تھے اس تعلق کی اہمیت اُن کے دلوں میں رہ گئی۔ اور اس اہمیت کے احساس کا صحیح طریق اب انہیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اپنی جائیدادوں سے بے دخل ہو جائیں، اپنے وطنوں سے الگ ہو جائیں، اپنے مال و اسباب کو قربان کردیں، اپنی جانوں کو ہلاک کردیں مگر موسوی دین سے ان کا جو اتصال ہو چکا ہے اس پر کوئی زَدْ نہ آنے دیں۔لیکن وہی قوم جو آج صحیح طور پر موسوی تعلیم کو بھی نہیں سمجھتی، جو اس تعلیم پر عمل بھی نہیں کرتی جو اُسے دی گئی صرف اس کی اہمیت کا اثر اس کے دل پر باقی رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ میں جبکہ یہ قوم صحیح طور پر موسوی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھی جبکہ موسوی دین سے اس کا تعلق موجودہ تعلق سے یقیناً ہزاروں گُنا بڑھ کر تھا جبکہ موسٰیؑ کی تعلیم کے زیراثر اللہ تعالیٰ سے اتصال کی کوشش اس کا شب و روز کا کام تھا۔اس کی حالت یہ تھی کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ موسیٰؑ کے ساتھ مل کردشمن سے جنگ کرناکس قدر ضروری اور ان کی قومی زندگی کے لیے کیسا مفید ہے۔ بلکہ ایک موقع پر جب موسٰیؑ کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرو تو موسوی قوم کے لوگوں نے باوجود اِس کے کہ وہ اِس وقت کے یہود سے زیادہ نیک تھے، اِس وقت کے یہود سے زیادہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے خواہش مند تھے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۝1 موسیٰ!جان دینا کوئی معمولی بات ہوتی ہے؟مانا کہ ہمارا تمہارے ساتھ تعلق ہے،مانا کہ ہم تمہیں ایک قیمتی وجود سمجھتے ہیں مگر اتنا قیمتی تو نہیں کہ تمہارے لیے قوم کی قوم کو برباد کردیا جائے۔جس جنگ کی آگ میں تم ہم کو جھونکنا چاہتے ہو، جس فتنہ میں تم ہم کو مبتلا کرنا چاہتے ہو وہ تو ایک ایسی خطرناک آگ ہے جو ساری قوم کو بَھسم کردے گی اور تم اتنے قیمتی وجود نہیں کہ تمہارے کہنے پر تمام قوم کو تباہ ہونے دیا جائے۔ آخر تمہارا وجود قوم کے لیے ہے نہ کہ قوم کا وجود تمہارے لیے۔یہ نقطۂ نگاہ تھا جو اُس وقت کے یہود کا تھا حالانکہ وہ موجودہ یہودیوں سے بہت زیادہ ترقی یافتہ اور بہت زیادہ ایمان رکھنے والے تھے۔ آخر ہم یہ کس طرح مان سکتے ہیں کہ موسٰی کے ساتھ رہنے والے،دن رات اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے، اس کے معجزات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے اور اس کی تائیدات کے کرشمے اپنی ذات میں دیکھنے والے موجودہ یہودیوں سے اپنے ایمان اور اپنے اخلاص میں کم تھے؟ یقیناً وہ ان سے بڑھ کر تھے اور ہزاروں گنا بڑھ کر تھے۔ مگر وہ جو ساتھ رہنے والے تھے، انہوں نے تو یہ جواب دیا کہ اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔ تُو اور تیرا ربّ دونوں جائیں اور جاکر دشمن سے لڑیں ہم یہاں سے نہیں ہلیں گے۔ مگر آج اس یہودی قوم کے افراد جن کے اعمال اُس زمانہ سے بہت ہی کم ہیں، جن کے ایمان اُس زمانہ کے ایمان سے بہت ہی ادنیٰ ہیں، جن کا اخلاص اُس زمانہ کے لوگوں کے اخلاص کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ہیچ ہے اپنی جانیں بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے اموال بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے وطن بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو بھی قربان کر رہے ہیں، اپنے ملک کو بھی قربان کر رہے ہیں مگر وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ موسٰی کو چھوڑ دیں۔ اس لیے کہ وہ اُس چیز کی اہمیت کو آج اُس سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں جس قدر اہمیت موسٰیؑ کے زمانہ کے لوگ سمجھتے تھے۔ گویا علم دماغی تو رہ گیا، موسٰی کی اہمیت تو ان کے دلوں میں رہ گئی لیکن ایمان اور اخلاص مٹ گیا۔ مگر باوجود ایمان اور اخلاص کے مٹ جانے کے وہ دماغی تعلق جو ان کا حضرت موسٰیؑ علیہ السلام سے تھا اتنا روشن ہؤا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس سے چھڑا نہیں سکتی۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ موسٰیؑ کے زمانہ کے لوگ بھی موسٰیؑ کی اہمیت پر غور ہی کر رہے تھے کہ ان کی آزمائش کا وقت آ گیا اور چونکہ انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ موسٰیؑ کی اہمیت کتنا درجہ رکھتی ہے وہ اس امتحان میں فیل ہو گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ جاؤ! تم اور تمہارا ربّ دشمن سے لڑتے پھرو ہم تو نہیں جاسکتے۔پھر ان پر ایک ایسا زمانہ آیا کہ انہوں نے اپنے دلوں میں موسٰی کی اہمیت کا فیصلہ کر لیا اور انہوں نے کہا موسٰیؑ کی اہمیت قومی زندگی سے بھی زیادہ ہے۔ بلکہ ہماری قومی زندگی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک موسٰیؑ کی اہمیت کو ہماری قوم کا ہر فرد اچھی طرح نہ سمجھ لے۔ مگر جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا اُس وقت حضرت موسٰی علیہ السلام گزر چکے تھے، حضرت موسٰی علیہ السلام کے خلفاء گزر چکے تھے بلکہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے اور ان کو دیکھنے والے اتباع بھی گزر چکے تھے۔ اُس وقت وہ ایمان اور وہ اخلاص جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ذریعہ قوم میں پیدا ہوا تھا پھیکا پڑ چکا تھا، اللہ تعالیٰ سے قوم کا تعلق کمزور ہو چکا تھا، اتصال ٹوٹ چکا تھا، محبت اور اطاعت کا جوش سرد ہو چکا تھا۔ اب خالی موسٰی کی اہمیت ان کو قُربِ الٰہی نصیب نہیں کرا سکتی تھی۔ پس جب تک موسٰیؑ کی اہمیت کے پرکھنے کا وقت تھا، جب تک موسٰیؑ سے فائدہ اٹھانے کا وقت تھا انہوں نے حضرت موسٰیؑ کی اہمیت کو نہ پرکھا، انہوں نے موسٰی ؑسے فائدہ نہ اٹھایا۔ اور جب انہوں نے موسٰیؑ کی اہمیت کو سمجھا تو فائدہ اٹھانے کا زمانہ گزر چکا تھا۔ پھر وہ ایک عام قوم کی طرح ہو گئے جو صرف زور اور طاقت کے ساتھ بڑھتی ہے ایمان کے ساتھ اس کے بڑھنے کا تعلق نہیں ہوتا۔
یہی حال ہمیں باقی دنیا میں نظر آتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ عیسائی پادریوں نے مسیحیت کی اشاعت کے لیے کس قسم کی قربانیاں کی ہیں۔ بعض جگہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ پادری آدم خور علاقوں میں تبلیغ کے لیے گئے اور حبشی انہیں بُھون بھان کر کھا گئے مگر جب مرکز میں تار پہنچا کہ فلاں علاقہ میں ہمارے پادریوں پر ایسا حادثہ گزرا ہے تو ہزاروں عیسائیوں نے اُسی دن اپنے آپ کو اِس غرض کے لیے وقف کردیا کہ ہم وہاں تبلیغ کی خاطر جانے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے اِس بات کی ذرابھی پروا نہ کی کہ اس علاقہ میں مردم خور لوگ رہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ مگر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب مسیحؑ کے ایک مقرب صحابی بلکہ بعد میں ہونے والے خلیفہ کی یہ حالت تھی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اُس نے تکلیف کی حالت میں دیکھا اور اسے معلوم ہؤا کہ سپاہیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو گرفتار کر لیا ہے تو بعض لوگوں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ یہ بھی مسیح کے ساتھیوں میں سے ہے۔اِس پر اُس نے کہا میں اس کے ساتھیوں میں سے نہیں، میں تو اُس پرخدا کی *** ڈالتا ہوں۔2 مگر پھر یہی شخص اِس واقعہ کے چالیس یا پچاس سال کے بعد روم میں گیا اور اسے مسیحؑ کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے پھانسی دے دیا گیا اور وہ خوشی سے ہنستا ہؤا صلیب پر چڑھ گیا۔حالانکہ حضرت عیسٰیؑ کے زمانہ میں یقیناً اس کا ایمان اُس سے بہت زیادہ تھا جتنا ایمان بعد میں اس کے دل میں تھا۔اُس وقت زندہ خدا کے نشانات ہر وقت آنکھوں کے سامنے پورے ہوتے نظر آتے تھے جو بعد میں عیسوی امت کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ پس جس قسم کا ایمان پطرس کو مسیحؑ کی زندگی میں حاصل تھا یقیناً بعد میں ویسا ایمان اس کے دل میں نہ تھا۔مگر اُس وقت اُس نے کیوں قربانی نہ کی اور بعد میں کیوں قربانی کی؟ اِسی لیے کہ اُس وقت تک حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زندگی کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ اس کے دل نے نہیں لگایا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ چیز کتنی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر بعد میں جب وہ صلیب پر چڑھ گیا تو گو اُس وقت اُس کا ایمان ویسا نہیں ہوگا جیسا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں تھا مگر یہ پختگی ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بغیر یہودی قوم اور وہ قبائل جن کی ہدایت کے لیے آپ مبعوث ہوئے دنیا میں کوئی پائیدار کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے۔ اور یہ کہ دنیا میں تغیر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسیحؑ کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں قائم کی جائے۔ چنانچہ وہ اِسی اہمیت کی وجہ سے جو اُس کے دل پر نقش ہو چکی تھی خوشی سے صلیب پر چڑھ گیا اور اُس نے اپنی جان کی پروا نہ کی۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ بھی اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جو ایمان انہیں نصیب تھا وہ بعد میں اُس شکل میں نہیں رہا جس شکل میں وہ ایمان آپ کے زمانہ میں انہیں حاصل تھا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہ۔ جس نے اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ لیے اور اس سے تعلق پیدا کرکے مقامِ قُرب حاصل کر لیا وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کے متعلق ہی آتا ہے جب آپ وفات پانے لگے تو رونے لگ گئے۔ ان کے بیٹے نے جو بہت بڑے مخلص اور بڑی شان رکھنے والے تھے اور باپ سے پہلے ایمان لائے تھے، ان سے پوچھا کہ آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے اسلام کی خدمت کی بڑی بھاری توفیق عطا فرمائی ہے اور اب ان سب جذبات کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اجر ملنے والا ہے۔ انہوں نے جواب دیا تم کو کیا معلوم ہے۔ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ خدا نظر آیا کرتا تھا مگر بعد میں ہم دنیا کے جھمیلوں میں ایسے گرفتار ہوئے اور ایسے ایسے جھگڑے آ پڑے کہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو گیا کہ سچائی کیا ہے۔ اس لیے نہ معلوم ہم اس دوران میں کیا کیا گناہ اور کیا کیا غلطیاں کر چکے ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ مرنے کے بعد میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔3
تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبیوں کے زمانہ میں انسان کو جو ایمان حاصل ہوتا ہے وہ بعد میں ویسا نہیں رہتا۔سوائے اُن لوگوں کے جن کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور وہ اس کے کلام اور الہام سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ عام لوگ جن کا ایمان ایک دوسرے کو دیکھ کر ہوتا ہے نبی کا زمانہ گزرنے کے بعد اُن کا ایمان اُس رنگ میں نہیں رہتا جس رنگ میں پہلے ہؤا کرتا ہے۔گو اس میں شبہ نہیں کہ نبی کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر بلکہ بعض دفعہ دوبارہ اور بعض دفعہ سہ بارہ ان کو پورا ہوتے دیکھ کر ایک اَور رنگ کی پختگی ان کے ایمان میں ضرور پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر وہ زندہ خدا جو نبی کے زمانہ میں انہیں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، باتیں کرتے اور خاموش رہتے نظر آیا کرتا تھا بعد میں نظر نہیں آتا۔ سوائے اُن لوگوں کے جن کا خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہوتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے اس کی محبت اور تائید کے نمونے اپنی ذات میں بھی اُسی طرح مشاہدہ کرتے ہیں جس طرح انبیاء کے زمانہ میں وہ ان نشانات کا مشاہدہ کیا کرتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں بھی بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے لوگ موجود تھے۔ ایسے ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن کی مثال آج جماعت میں بہت کم نظر آتی ہے۔ ایسے بیسیوں آدمی تھے جو اپنے گزارے اتنی تنگی سے رکھتے تھے کہ ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ لوگ خوشحال ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے مال کا ایک بہت بڑا حصہ دین کی اشاعت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھجوا دیا کرتے تھے۔مگر پھر ہم نے انہیں کو دیکھا کہ بعد میں ان کے دلوں میں یہ حسرت پیدا ہوتی گئی کہ کاش! ہم اس سے بھی زیادہ خدمت کرتے۔ حالانکہ ان کی خدمت یقیناً موجودہ لوگوں سے بہت زیادہ تھی۔ مجھے اس کی ایک مثال یاد ہے۔ چودھری رستم علی صاحب غالباً پہلے سب انسپکٹر تھے پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنا دیا۔سب انسپکٹری کی تنخواہ میں سے وہ ایک معقول رقم ماہوار چندہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھجوایا کرتے تھے۔اُس وقت غالباً ان کی اسّی روپے تنخواہ تھی۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنا دیا اور ان کی ایک سَو اسّی روپے تنخواہ ہو گئی۔ جب ان کا خط آیا، اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار تھے۔میں نے خود اُن کا خط پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سنایا۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے عُہدہ میں ترقی دے کر تنخواہ میں ایک سَو روپیہ کی زیادتی عطا فرمائی ہے۔ مجھے اپنے گزارہ کے لیے زیادہ روپوں کی ضرورت نہیں۔میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے میری تنخواہ میں یہ اضافہ محض دین کی خدمت کے لیے کیا ہے اس لیے میں آئندہ علاوہ اُس چندہ کے جو میں پہلے ماہوار بھیجا کرتا ہوں یہ سَو روپیہ بھی جو مجھے ترقی کے طور پر ملا ہے ماہوار بھیجتا رہوں گا۔
دیکھو! اس قسم کے نمونے آجکل کتنے نادر ہیں۔ مگر اُس وقت کثرت سے جماعت میں اس قسم کے نمونے پائے جاتے تھے۔ لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات کے بعد ان کو دیکھا کہ ان کے دل اِس بات پر خوش نہیں تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ کافی تھا بلکہ بعد میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا وجود اُس سے بہت زیادہ اہم تھا جتنا انہوں نے سمجھا اور اُس سے بہت زیادہ آپ کے وجود پر دنیا کی ترقی کا انحصار تھا جس قدر انہوں نے پہلے خیال کیا تو ان کے دل روتے تھے کہ کاش! انہیں یہ بات پہلے معلوم ہوتی اور وہ اس سے بھی زیادہ خدمت کرسکتے۔مگر پھر انہیں یہ موقع نصیب نہ ہؤا اور وقت ان کے ہاتھ سے چلا گیا۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق پیدا ہو گیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا۔ مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا زمانہ یاد کرکے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لیے تیار ہو جائیں گے کہ کاش! ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہوجاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھنے کا موقع مل جاتا۔تو جنہیں زندگی میں آپ کو دیکھنے کا موقع ملا گو انہوں نے آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا مگر بہرحال انہوں نے اس کی اہمیت کا اُتنا اندازہ نہ کیا جتنا اندازہ انہیں کرنا چاہیے تھا۔
اِس بارہ میں سب سے زیادہ صحیح اندازہ لگانے والی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ ہیں۔ ان کی زندگیوں پر غور کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے میں قریباً تکمیل کے مقام تک پہنچ چکے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اہمیت کو انہوں نے ایسا سمجھا کہ انہوں نے آپ کے لیے کسی قسم کی قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا۔ لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کی جو عظیم الشان برکات تھیں، آپ کی زندگی کی جو اہمیت تھی اگر اُس پر پورا غور کیا جاتا تو صحابہؓ اُس مقام سے بہت اونچے ہوتے جو انہیں حاصل تھا اور اُس سے بہت زیادہ قربانیاں کرنے والے ہوتے جتنی قربانیاں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں کیں۔
اب اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا مبارک زمانہ ہمیں ملا ہے اور ہمارے لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم وقت پر اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جس اہمیت کا سمجھنا ہمارے لیے دینی و دنیوی برکات کا موجب ہوسکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا زمانہ تو گزر گیا۔ اب آپ کے خلفاء اور صحابہؓ کا زمانہ ہے۔ مگر یاد رکھو! کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے، اس تلاش، اِس جستجو اور اِس دُھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بات کی ہو۔ مگر انہیں کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا۔پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بات نہ کی ہو صرف مصافحہ ہی کیا ہو۔ مگر انہیں ایسا شخص بھی کوئی نہیں ملے گا۔ پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، صرف اُس نے آپ کو دیکھا ہی ہو۔ مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا۔ پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش! انہیں کوئی ایسا شخص مل جائےجس نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو مگر کم سے کم وہ اُس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اُس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا۔ لیکن آج ہماری جماعت کے لیے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے۔ آج بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے وہ دروازہ کھلا ہے جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ کی قریب ترین برکات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ کی برکات سے دوسرے نمبر پر ہیں، بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، وہ اِسی دُھن میں رہتے ہیں کہ افسوس انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا زمانہ نہ ملا، افسوس وہ ان برکات سے محروم رہ گئے اور اس حسرت وافسوس میں وہ دوسری برکت جو اِن کو حاصل ہوتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا ان کے امکان میں ہوتا ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی چلی جاتی ہے۔ رسّہ کھنچتا چلا جاتا ہے، وقت گزرتا چلا جاتا ہے، فائدہ اٹھانے کا زمانہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر وہ پہلی برکت کے نہ ملنے پر ہی افسوس کرتے رہتے ہیں اور موجودہ برکت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔اِس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی کہ جب ان کے دل اس افسوس سے تھک جائیں گے کہ انہیں کیوں پہلی برکت سے حصہ لینے کا موقع نہ ملا اور وہ کہیں گے اگر پہلی برکت نہیں ملی تو آؤ اَب دوسرے درجہ کی برکت سے ہی حصہ لے لیں تو اُس وقت وہ دوسرے درجہ کی برکت بھی جاچکی ہو گی۔ پھر وہ اس بات پر افسوس کرنے لگ جائیں گے کہ ہمیں دوسرے درجہ کی برکت سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملا اور جو تیسرے درجہ کی برکت ان کے سامنے ہو گی اُس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھائیں گے۔ آخر جب وہ فیصلہ کریں گے کہ چلو اگر دوسرے درجہ کی برکت نہیں ملی تو تیسرے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کریں تو اُس وقت تیسرے درجہ کی برکت بھی جاچکی ہو گی اور چوتھے درجہ کی برکت آ چکی ہو گی۔ اُس وقت وہ پھر تیسرے درجہ کی برکت سے فائدہ نہ اٹھانے پر افسوس کریں گے اور افسوس کرتے چلے جائیں گے مگر انہیں یہ خیال نہیں آئے گا کہ وہ اب چوتھے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کر لیں۔ آخر ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے دل فیصلہ کریں گے کہ اگر تیسرے درجہ کی برکات سے ہم حصہ نہیں لے سکے تو چوتھے درجہ کی برکت سے ہی فائدہ اٹھائیں تو اُس وقت چوتھے درجہ کی برکت بھی آسمان پر جاچکی ہو گی۔ پھر وہ چوتھے درجہ کی برکات نہ ملنے پر افسوس کریں گے اور یہ زمانۂ افسوس اتنا لمبا ہوگا کہ اس عرصہ میں وہ پانچویں درجہ کی برکت سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ آخر جب وہ فیصلہ کریں گے کہ اگر ہمیں پہلے درجہ کی برکت نہیں ملی، دوسرے درجہ کی برکت نہیں ملی،تیسرے درجہ کی برکت نہیں ملی،چوتھے درجہ کی برکت نہیں ملی تو آؤ ہم پانچویں درجہ کی برکت سے ہی فائدہ حاصل کریں تو کیا دیکھیں گے کہ وہ پانچویں درجہ کی برکت بھی گزر چکی ہے۔ غرض جیسے جیسے خدا تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں مختلف برکات رکھی ہیں اور ان برکات کے مختلف مدارج مقرر کیے ہیں اس طرح وہ برکات ظاہر تو ہوتی رہیں گی مگر ایسے لوگ جو وقت پر کسی چیز کی پوری اہمیت نہیں سمجھتے جب وقت گنوا دیتے ہیں اُس وقت توجہ کرتے ہیں۔ پہلی برکت کے نہ ملنے کا دوسری برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور دوسری برکت کے نہ ملنے کا تیسری برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور تیسری برکت کے نہ ملنے کا چوتھی برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور چوتھی برکت کے نہ ملنے کا پانچویں برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور پانچویں برکت کے نہ ملنے کا چھٹی برکت کے زمانہ میں افسوس کرتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے مگر وہ کسی ایک برکت سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔لیکن مومن وہ ہوتا ہے جو اپنی سابقہ کوتاہی پر جہاں افسوس کا اظہار کرتا ہے وہاں موجودہ نعمت کو وہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ اسلام کی جو تشریح ہمیں معلوم ہوئی ہے، جو علوم خدا نے ہم پر کھولے ہیں، جو معارف اُس نے ہمیں سکھائے ہیں اور جو باتیں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صحبت میں بیٹھ کر سیکھی ہیں آج دنیا اُن کاکہاں مقابلہ کرسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم میں سے ایک حصہ نے وہ زمانہ نہیں دیکھا تو اُسے اب وہ معارف اور علوم ہم سے سیکھ کر دوسرے درجہ کی نعمت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ دوسرے درجہ کی نعمت بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔
میں نے بتایا ہے کہ یہ زمانہ ایسا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ابھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ خلافت کا نظام ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے اور جبکہ خلافت کے نظام پر وہ لوگ فائز ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صحابیؓ ہیں۔ پس اِس وقت سے فائدہ اٹھانے کا جن لوگوں کو موقع نصیب ہے اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جو خدا تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت انہیں نصیب نہیں ہؤا اُس پر افسوس کرتے ہوئے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں تو ممکن ہے بلکہ غالب امر یہ ہے کہ وہ پہلے زمانہ کی طرح اِس دوسرے زمانہ کی برکات کو بھی کھو دیں گے۔پس ہمارے دوستوں کو اس امر کی اہمیت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی ان کی زندگیوں میں فائدہ اٹھانے کے اہم مواقع موجود ہیں۔ اگر پہلا زمانہ انہوں نے اپنی غفلت سے کھو دیا ہے یا خدا تعالیٰ نے وہ زمانہ انہیں نصیب نہیں کیا تو اب دوسرا زمانہ کھو دینے کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔ مجھے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانے کا اس وجہ سے خیال پیدا ہؤا کہ میں ایک مجبوری کی وجہ سے قریباً ایک مہینہ سے لاہور میں موجود ہوں۔ مگر میں نے دیکھا ہے لاہور کے بہت ہی کم دوستوں نے میری موجودگی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ میں باہر آخر ایک ہی وقت میں بیٹھ سکتا ہوں۔ گو اِس کے علاوہ نمازیں پڑھانے کے لیے بھی میں آتا جاتا ہوں مگر لاہور کے بہت ہی کم لوگ ہیں جو اِس موقع پر آتے رہے ہیں۔ شاید وہ اپنے دلوں میں بہت دفعہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا زمانہ انہیں نہ ملا۔ اگر ملتا تو ہم یوں کرتے اور اس اس طرح فائدہ اٹھاتے۔ مگر ان کی ان خواہشات کا باطل اور غلط ہونا اِسی سے ثابت ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت حاصل کرنے کا جو دوسرا موقع ملا اس سے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اگر واقع میں ان کے دلوں میں دین کی اہمیت اور اس کی عظمت کا احساس ہوتا تو جو چیز اُن کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اُس پر افسوس کرنے کی بجائے جو چیز موجود تھی اس سے فائدہ اٹھاتے۔ ٭
میں نے دیکھا ہے کہ کئی دوست اِس خیال میں رہے ہیں اور بعض سے میں نے پوچھا تو انہوں نے جواب بھی یہی دیا کہ جگہ تھوڑی ہے وہاں زیادہ لوگ نہیں آسکتے۔ لیکن میرے نزدیک گو وہ چھوٹی جگہ ہے پھر بھی اگر دوست آنا چاہتے تو باری باری آکر سب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ آخر تھوڑی جگہ میں یہ تو نہیں ہوسکتا کہ جماعت کے سب دوست اکٹھے ہوسکیں۔ ایسی صورت میں فائدہ اٹھانے کا طریق یہی ہوتا ہے کہ باری باری لوگ فائدہ اٹھا لیں۔ پس بے شک وہ جگہ چھوٹی ہے اور سب دوست وہاں نہیں آسکتے لیکن اگر ان کے دلوں میں فائدہ حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ ہوتی تو بعض لوگ ایک دن فائدہ اٹھا لیتے، بعض دوسرے دن فائدہ اٹھا لیتے اور بعض تیسرے دن فائدہ اٹھا لیتے۔ اس طرح جگہ کی تنگی کا سوال بھی حل ہو جاتا اور فائدہ بھی سب جماعت کو پہنچ جاتا۔
یاد رکھو! خدا تعالیٰ کے انبیاء اور ان کے خلفاء جب کسی جگہ جاتے ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک رنگ میں ابتلاء کا بھی موجب ہوتے ہیں۔یہاں کی جماعت کے دوست خیال کرتے ہوں گے کہ ہمیں مرکز میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔اگر ہم مرکز میں رہتے تو یوں دین کی خدمت کرتے اوریوں علمی اور روحانی باتوں کے پھیلانے میں حصہ لیتے۔ مگر کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ خود لوگوں کے گھروں میں مرکز کو لے آتا ہے اور پھر اُن سے پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ تم نے کیا فائدہ اٹھایا۔
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے وقت میں اتنی اہم نظر نہیں آتیں لیکن کچھ زمانہ گزرنے کے بعد وہی چیزیں عظیم الشان اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ آج کئی دینی مسائل خدا تعالیٰ ہماری زبانوں سے اِس طرح آسانی کے ساتھ حل کرا دیتا ہے کہ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ دین کے اہم ترین مسائل ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ان باتوں سے کون انکار کرسکتا ہے۔ لیکن ایک زمانہ آئے گا جب بڑے بڑے عالم، بڑے بڑے سمجھدار اور بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ رکھنے والے ان باتوں کی تلاش کریں گے اور انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ ان مسائل کا کیا حل ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حدیثیں بیان فرمایا کرتے تھے اُس وقت کتنے صحابی تھے جنہوں نے اِس کی اہمیت کو سمجھا۔ عام لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ تو ہماری فطرت کے مطابق باتیں ہیں کون ہے جسے ان باتوں کا بھی علم نہیں ہوسکتا اور کون ہے جو ان کا انکار کرسکتا ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پا گئے اور چند صحابہؓ،جنہوں نے اس چیز کی اہمیت کو سمجھا تھا انہوں نے حدیثیں بیان کرنا اپنے ذمہ لے لیا۔مگر پھر ایک ایسا زمانہ آیا جب حدیث اتنی نایاب ہو گئی کہ بعض محدثین کو ایک ایک حدیث دریافت کرنے کے لیے ہزار ہزار، دو دو ہزار میل کا سفر کرنا پڑا۔ موجودہ زمانہ میں جو سہولتیں سفر کرنے میں لوگوں کو میسر ہیں اِن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہزار دو ہزار میل کا سفر ایسا ہی تھا جیسے کوئی دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے چل پڑے۔ یا یہاں سے پیدل چل کر امریکہ جائے اور پھر وہاں سے واپس آئے۔ بعض محدثین بخارا سے قیروان تک ایک ایک حدیث معلوم کرنے کے لیے گئے ہیں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں کتنے لوگ تھے جنہوں نے حدیثوں کی اہمیت کو سمجھا۔ صرف تین چار صحابی ایسے نظر آتے ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے اور دوسروں کو سنانے کا غیر معمولی اشتیاق تھا۔ ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہؓ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے آخری چند سالوں میں ایمان لائے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے جو کثرت سے حدیثیں سنتے اور بیان کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو حدیثیں لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بہت سی حدیثیں لکھ رکھی تھیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو۔ ایسا نہ ہوکہ لوگ غلطی سے ان کو قرآن سمجھ لیں۔ غرض یہ تین صحابیؓ خصوصیت سے حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔ ان سے نیچے اُتر کر دو تین درجن اَور صحابیؓ ہیں جن سے متعدد روایات مروی ہیں۔ مگر پھر ان سے نیچے اتر کر کسی صحابیؓ سے ایک اور کسی سے دو حدیثیں پائی جاتی ہیں اور کسی سے ایک حدیث بھی مروی نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ جیسے آدمی سے بہت محدود روایتیں آتی ہیں۔ مگر اس کمی کی وجہ اَور تھی۔ عورتوں میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کثرت سے روایتیں ہیں۔ غرض یہ صرف چھ سات آدمی ہیں جنہوں نے احادیث کی اہمیت کو سمجھا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بعد میں آنے والے لوگوں تک ان باتوں کو پہنچا دینا ہمارا فرض ہے۔ اگر یہ پانچ سات صحابہؓ بھی یہی سمجھتے کہ یہ مجلسیں قیامت تک چلی جائیں گی اور ہمیشہ ان باتوں کے سننے اور سنانے والے موجود رہیں گے تو ہم اس قیمتی ذخیرہ کو کہاں سے حاصل کرسکتے۔ دنیا میں نہ کوئی مجلس قیامت تک رہی ہے اور نہ باتیں سنانے والے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ آخر ایک دن مجلسیں ختم ہوجاتی ہیں، باتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ پھر لوگوں کے دلوں میں سوالات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں، پھر لوگوں کے دلوں میں شبہات اور وساوس پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور ان وساوس اور شبہات کا ردّ کرنے والا اور ان سوالات کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بے شک رستہ موجود ہوتا ہے مگر اس رستے پر چلنے کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ رستہ تو یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرے۔ پھر اس طرح دل کی کھڑکی کُھل جاتی ہے کہ جو مشکلات ہوں وہ آپ ہی آپ حل ہوجاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بڑے بڑے تاریک زمانے آئے۔ ایسے ایسے زمانے آئے جب علوم مِٹ گئے، روشنی جاتی رہی، ظلمت اور تاریکی پھیل گئی لیکن ایسے تاریک زمانوں میں بھی بعض لوگوں نے جب خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ایسے علوم پائے کہ اُن کے ذریعہ سے اپنے زمانہ کی تمام تاریکیوں کو انہوں نے دور کردیا۔ انہی بزرگوں میں سے ایک حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے زمانہ میں بہت سا باطل جو پھیل چکا تھا اللہ تعالیٰ سے نور حاصل کرکے دور کیا۔ اسی طرح اس میدان کے ایک مشہور پہلوان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ہوئے ہیں۔ ان کے زمانہ میں بھی بہت گند تھا، دین سے نفرت پائی جاتی تھی اور اسلامی احکام کی غلط ترجمانی کی جاتی تھی۔ انہوں نے خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کرکے اس ظلمت کو مٹانے کے لیے جو علوم حاصل کیے اُن کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آسمانی علوم کی جو بارش اللہ تعالیٰ نے برسائی اس کا کچھ ترشّح ایک دو صد یاں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اگر وہ علوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ علوم اور مطالبِ قرآنی تک نہیں پہنچے تو کم سے کم اُن کے قریب ضرور پہنچ گئے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ میں ایسے مفاسد بھی پیدا ہو چکے تھے جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کے زمانہ میں نہیں تھے اور اِس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان مفاسد کی اصلاح کے لیے جن علوم پر روشنی ڈالی وہ اُن کے وہم وخیال میں بھی نہیں آئے اور نہ آسکتے تھے۔ لیکن بہرحال خدا تعالیٰ کے تعلق اور اس کے قُرب نے ان پر وہ علوم ظاہر کیے جو زمانۂ نبوت سے بُعد کی وجہ سے مِٹ چکے تھے اور دنیا اُن سے ناواقف ہو چکی تھی۔ گویا وہ زنجیر جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان اتّصال پیدا کرنے کے لیے قائم تھی اور جو زنجیر ایک لمبے عرصے سے لوگوں کی بد اعمالی کی وجہ سے کٹ چکی تھی اس زنجیر کے ٹکڑے انہوں نے از سرِ نَو جوڑ کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا اور نئے سرے سے پھر آسمان سے گمشدہ علوم کو واپس لائے۔
پس بے شک یہ راستہ کُھلا ہے اور قیامت تک کُھلا رہے گا۔ اگر خدا اس دروازہ کو بند کردے تو نَعُوْذُ بِاللہِ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دنیا کو روحانی زندگی عطاء کرنے کا خواہشمند نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں سے کتنے ہیں جو اس قسم کی قربانی کرتے اور اپنی نفسانی خواہشات کو کچل کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتے ہیں؟ کم اور بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں۔بعض دفعہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال تک ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے اور دنیا کُلّی طور پر تاریکی میں مبتلا چلی جاتی ہے۔ پس بہتر اور آسان طریق دنیا کی ترقی کا یہی ہے کہ اس زنجیر کو نہ ٹوٹنے دیا جائے جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان قائم ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ اور اَور بہت سے بزرگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے دنیا کو تاریکی سے نکالا اور اسے آسمانی نور سے منور کیا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر یہ زنجیر قائم رہتی، اگر نیکی کا تسلسل قائم رہتا، اگر ایسا ہوتا کہ جیسے ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ ہوئے، عمرؓ کے بعد عثمانؓ ہوئے، عثمانؓ کے بعد علیؓ ہوئے۔ اِسی طرح یہ سلسلہ چلتا اور چلتا چلا جاتا تو حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلویؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ اور حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ کو وہ تکالیف اور وہ مشکلات برداشت نہ کرنی پڑتیں جو تکالیف اور مشکلات انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں برداشت کیں۔ اور نہ صرف ان کو وہ مصیبتیں جھیلنی نہ پڑتیں بلکہ مسلمانوں کی روحانیت کو اُس سے بہت زیادہ فائدہ پہنچتا جتنا فائدہ اس زنجیر کے ٹوٹ جانے کے بعد مسلمانوں کو پہنچا۔ کیونکہ زنجیرِ نبوت سلامت ہوتی اور مسلمانوں کے ہاتھ خدا کے ہاتھ میں رہتے۔ پھر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ گو ان لوگوں نے بڑی بڑی محنتیں کیں اور گم شدہ علوم کو یہ لوگ آسمان سے واپس لائے۔ لیکن یہ لوگ جماعتوں کو واپس نہیں لائے۔ بے شک ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تقوٰی اور روحانیت اور علومِ آسمانی کے حاصل کرنے میں ان لوگوں نے اتنی محنتیں کیں اور اِس قدر قربانیاں کیں کہ ان کا قدم صحابہؓ کے قدم سے جا ملا۔
مَیں اس بات کا قائل نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی شخص صحابہؓ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ میرے نزدیک یہ بالکل باطل خیال ہے اور دنیا میں مایوسی پیدا کرتا اور خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں سے کم کرتا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ اور اَور بہت سے بزرگ ایسے ہیں جو کئی صحابہؓ سے بڑھ کر ہوسکتے ہیں۔بلکہ میرے خیال میں یقیناً کئی صحابہؓ سے بڑھ کر تھے۔ لیکن باوجود اِس کے کہ یہ اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں کی وجہ سے صحابہؓ میں جا شامل ہوئے پھر بھی انہوں نے دنیا میں صحابہؓ کی سی جماعتیں پیدا نہیں کیں۔ اِنہوں نے بے شک کتابیں لکھ دیں، علوم کے دروازے کھول دیئے، شیطان کے حملوں کا ردّ کردیا لیکن صحابہؓ جیسی کام کرنے والی کوئی جماعت پیدا نہ کرسکے۔ یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا تھا جب تسلسل قائم ہوتا اور زنجیرِ نبوت سلامت ہوتی۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد زنجیر ِنبوت کو ٹوٹنے نہ دیا جاتا، پیچھے آنے والے پہلوں سے علوم حاصل کرتے اور وہ ان علوم کو اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچا دیتے تو گو صحابہؓ سے کم درجہ کی جماعتیں پیدا ہوتیں مگر بہرحال وہ جماعتی طور پر صحابہؓ کے رنگ میں رنگین ہوتیں اور ہر ملک اور ہر علاقہ میں وہ عوام کی بہتری کا ذریعہ بن جاتیں۔قوم میں سے کسی خاص شخص کا بڑا ہو جانا یا چند اشخاص کا کوئی اعلیٰ اعزاز حاصل کر لینا زیادہ اہم بات نہیں ہوا کرتی۔ یورپ میں ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جن کی آمدنی کلکتہ اور بمبئی کے بعض تاجروں سے بہت کم ہے۔ انگلستان کا ایک کثیر حصہ کلکتہ اور بمبئی کے بعض تاجروں سے کم مالدار ہے۔ لیکن باوجود اس کے ہمارا ملک انگریزوں کی دولت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ وہاں عوام اچھی حالت میں ہیں اور یہاں صرف چند کروڑ پتی ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تمام مسلمان اونچے مقام پر تھے لیکن حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ کے زمانہ میں اگر ایک مسلمان آسمان پر بھی چڑھ گیا تو کیا ہؤا، باقی لوگ تو غلاظت کے ڈھیروں پر ہی کھڑے تھے۔ پس سوال یہ ہے کہ حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ،حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ اور سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ کے زمانہ میں کتنے لوگ تھے جن کے دلوں میں انہوں نے تغیر پیدا کیا؟ کتنے لوگ تھے جنہیں انہوں نے زمینی سے آسمانی بنا دیا؟ کتنے لوگ تھے جو ان کے ذریعہ اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہوئے؟ بے شک کچھ لوگ انہوں نے ایسے بھی تیار کیے جو اپنے دلوں میں اسلام کا درد رکھتے تھے، جو اسلام کی اشاعت کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار رہتے تھے لیکن بہرحال یہ چند افراد تھے۔ مگر نبوت کا زمانہ وہ ہوتا ہے جو چند لوگوں کے قلوب میں نہیں ہزاروں لاکھوں قلوب میں تغیر پیدا کردیا کرتا ہے۔ پس اگر اس کڑی کو ٹوٹنے نہ دیا جائے تو عوام میں سے بیشتر وہی روح اپنے اندر رکھنے والے ہوں گے جو زمانۂ نبوت میں مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے لیکن جب وہ کڑی ٹوٹ جائے تو اس کے بعد بے شک امتِ محمد یہ میں بڑے بڑے لوگ پیدا ہو جائیں بلکہ میں کہتا ہوں اگر بعض وقتوں میں ابوبکرؓ سے بھی بڑے لوگ پیدا ہو جائیں تو بھی اسلام کو وہ شوکت نصیب نہیں ہوسکتی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اسے نصیب تھی۔ اس لیے کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک ہی ابوبکرؓ تھا، ایک ہی عمرؓ تھا، ایک ہی عثمانؓ تھا، ایک ہی علیؓ تھا۔ لیکن اکثر مسلمان ایسے تھے جن کے دلوں میں ایمان تازہ تھا اور جو اللہ تعالیٰ کا عشق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔ پس گو وہ ابوبکرؓ نہ تھے، گو وہ عمرؓ نہ تھے، مگر وہ سارے مسلمان چھوٹے چھوٹے درجہ کے ابوبکرؓ اور چھوٹے چھوٹے درجہ کے عمرؓ تھے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام اور اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے ایک چھوٹا محمدؐ تھا (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اس لیے وہ تغیر جو یہ لوگ پیدا کرسکتے تھے بعد میں پیدا نہ ہؤا اور نہ ہوسکتا تھا۔ کیونکہ وہ اکیلے تھے جماعتیں ان کے ساتھ نہ تھیں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِلَّا مَاشَاءَ اللہُ ساروں میں ایسا تغیر پیدا کردیا جو دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کرنے کا موجب بن گیا۔
پس اپنے زمانہ کی اہمیت سمجھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب بھی جو اخلاص کی روح ہماری جماعت میں موجود ہے اگر یہ اِسی طرح بڑھتی چلی جائے اور نہ صرف ہم میں یہ روح رہے بلکہ ہماری نسلوں میں بھی منتقل ہوتی رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دن یہ روح لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں لوگوں میں پھیل جائے گی۔ لیکن اگر اس زنجیر کو ٹوٹنے دیا جائے، اگر یہ تعلق قائم نہ رہے تو چاہے بعد میں بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے خلفاء سے بھی بڑھ کر ہوں پھر بھی وہ دنیا کو وہ ترقی نہیں دے سکیں گے جو آج جماعت احمدیہ کے افراد کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے۔کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے اور آج ایک جماعت موجود ہے۔ اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی ہے کہ نبی دنیا کے قلوب میں تغیر پیدا کرنے کے لیے آتے ہیں چند بڑے بڑے آدمی پیدا کرنے کے لیے نہیں آتے۔
پس یہ موقع جو آج لوگوں کو نصیب ہے اِس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے۔ ورنہ جب یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو نہ صرف اپنی آخری عمر میں وہ اس حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ ملیں گے کہ کاش! ہم اس زمانہ سے فائدہ اٹھاتے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی طرف سے ان پر یہ شدید ترین الزام عائد ہوگا کہ انہوں نے اپنی آئندہ نسل کی بہبودی اور اس کی ترقی کے لیے وہ کچھ بھی نہ کیا جو ایک بد معاش دنیا دار بھی اپنی اولاد کی ترقی کے لیے کیا کرتا ہے"۔(الفضل15؍اپریل1944ء)

4
میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں
(فرمودہ 28 جنوری 1944ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گزرتا ہے لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الٰہی تقدیریں اس بات کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رُک بھی نہیں سکتا۔ جنوری کے پہلے ہفتہ میں غالباً بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو ( میں نے غالباً کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں اندازہ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تھی) میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھا۔ میں نےجیسا کہ بارہا بیان کیا ہے، غیرمامورین کا اپنے کسی رؤیا کو بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا اور میں خود تو سوائے پچھلے ایام کے جبکہ اس جنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض اہم خبریں مجھے دیں، بہت کم ہی اپنی رؤیا بتایا کرتا ہوں۔ بلکہ (اللہ بہتر جانتا ہے یہ طریق درست ہے یا نہیں) میں اپنے رؤیاء و کشوف اور الہامات لکھتا بھی نہیں اور اس طرح وہ خود بھی کچھ عرصہ کے بعد میری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ابھی لاہور میں مجھے چودھری ظفراللہ خان صاحب نے ایک امر کے سلسلہ میں میرا ایک بیس پچیس سال کا پرانا رؤیا یاد کرایا۔ پہلے تو وہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا۔ مگر بعد میں جب انہوں نے اس کی بعض تفصیلات بیان کیں تواُس وقت مجھے یاد آگیا۔ تو یہ میری عادت نہیں ہے کہ میں رؤیاء و کشوف بیان کروں لیکن چونکہ اس رؤیا کا تعلق بعض اہم امور سے ہے۔ نہ صرف ایسے امور سے جو کہ میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایسے امور سے بھی جو بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف وہ بات سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آئندہ رونما ہونے والے دنیا کے اہم حالات سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس لیے میں مجبور ہوں کہ اُس رؤیا کا اعلان کروں اور میں نے اس کے اعلان سے پہلے خدا تعالیٰ سے اس بارہ میں دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے تاکہ اس معاملہ میں مجھ سے کوئی بات خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے خلاف نہ ہو۔
وہ رؤیا یہ تھا کہ میں نے دیکھا میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں۔ نامعلوم وہ گڑھیاں1 ہیں یا ٹرنچز2 ہیں۔بہرحال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے ان سے تعلق ہے میں ان کے پاس ہوں۔ اتنے میں مجھے معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں برسرپیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کردیا ہے۔ اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کردیا۔ یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اَور فوج تھی اِس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا۔ بہر حال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دَبنا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں مَیں تھا۔ تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہیے۔ اُس وقت میں رؤیا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں۔ میرے ساتھ کچھ اَور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رؤیا میں مجھے یوں معلوم ہؤا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبردست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میل ایک آن میں طے کر تا جا رہا ہوں۔ اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لیے دوڑتے آرہے ہیں۔ مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ مجھے رؤیا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا ہی جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پَیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں! جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رؤیا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا۔ چنانچہ رؤیا میں جہاں مَیں پہنچا ہوں وہ مقام اس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا۔ چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی پگڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف۔ مَیں ان پگڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہیے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں۔ اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اَور ساتھی ہے اور وہ مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں، دوسری سڑک پر جائیں اور مَیں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دور ہٹ کر ہے واپس لَوٹتا ہوں۔ وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو مَیں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی۔ پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اس لیے مَیں لَوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا۔ مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا، ایسا معلوم ہؤا کہ مَیں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اوراس زبردست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگڈنڈی پر چلا دیا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اِس طرف۔ اُس طرف نہیں اِس طرف۔ مگر مَیں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں۔ اس جگہ کی شکل رؤیا کے مطابق اس طرح بنتی ہے:۔






جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کیے گئے تھے۔ اور میں کہتا ہوں میں اسی راستہ پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں فرمایا تھا۔ اُس وقت رؤیا میں مَیں اس کی کچھ توجیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے۔ چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معاً مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رؤیا میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی۔ یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی۔ اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے امتِ محمدیہ کو اُمَّةً وَّسَطًا3 قرار دیا ہے۔اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی۔ اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں۔غرض مَیں اُس راستہ پر چلنا شروع ہؤا اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اتنی دور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مگر مَیں دوڑتا چلا جا تا ہوں اور زمین میرے پیَروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے۔ اُس وقت مَیں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اُس وقت مَیں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب مَیں نے یہ کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے۔ مَیں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں، وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیّے4 وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں۔ وہ اُوپر سے گول ہیں جیسے اژدہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیّے کے گھونسلے سے سفیدی، زردی اور خاکی رنگ ملا ہؤا۔ وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور اُن کے اُوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں اُن کے بُت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لیے نظر نہ آئی تو مَیں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بُت پر سوار ہو گیا۔ تب مَیں نے سنا کہ بُتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے۔ اس پر مَیں نے دل میں کہا کہ اِس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے مَیں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا۔ تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہؤا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے۔ چنانچہ مَیں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کررہا ہوں۔ رؤیا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے۔ مگر مَیں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اَور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مَیں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریر کررہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے ان کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اس پانی میں غرق کیے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ ابھی مَیں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسی کشتی نما بت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحّد ہو گیاہے۔ اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہؤا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنے میں ہم جھیل پار کرکے دوسری طرف پہنچ گئے۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تومَیں ان کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا، پانی میں غرق کردیا جائے۔ اس پر جو لوگ موحّد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحّد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور مَیں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے۔ یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے۔ صرف پُجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد مَیں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اس لیے میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں۔ جب میں انہیں تبلیغ کررہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب مَیں نہیں رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔ جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہؤا۔ غرض میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے۔ بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالباً کا لفظ مَیں نے اس لیے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو۔ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا، بہرحال مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور مَیں نے اس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے۔میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے مَیں اب آگے جاؤں گا اس لیے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔ تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے۔ میں واپس آ کر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لیے مقرر کیا ہے ان کو تُو نے کہاں تک ادا کیا ہے۔ اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اسے حکم دیتا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں۔جس وقت میں یہ تقریر کررہا ہوں (جو خود الہامی ہے) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِیْحُ المَوْعُوْدُ۔ اس کے بعد مَیں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہؤا وہ یہ ہے اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں۔تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہوجاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہؤا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اُس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مَثِیْلُہٗ میں اس کا نظیر ہوں وَخَلِیْفَتُہٗ اوراس کا خلیفہ ہوں۔یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ "وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا"5 اِس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لیے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہؤا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں مَیں بھی مسیح موعود ہی ہوں۔ کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا۔ پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب مَیں کہتا ہوں "میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں"۔تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں، دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں، مجھے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لیے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں "ہاں ہاں! ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں"۔اس کے بعد مَیں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم ِاسلام اور علومِ عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔ رؤیا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہو گی اور جب وہ اس جھیل کو پار کرکے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہو گی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجائے گی۔ تب وہ دشمن، جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ مگر وہ قوم انکار کردے گی اور کہے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو۔ اُس وقت مَیں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے۔ مگر وہ قوم باوجود اِس کے کہ ابھی ایک حصہ اُس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگرتمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تب مَیں کہتا ہوں دیکھو! وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کرکے آگے کسی اَور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں۔اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اَور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے مَیں اس شخص سے جسے مَیں نے اس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب مَیں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے؟ موحّد ہو چکی ہے؟ اور اسلام کے تمام احکام پر کار بند ہو چکی ہے؟
یہ رؤیا ہے جو مَیں نے جنوری 1944ءمطابق صلح 1923ہش دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا مَیں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں۔ چنانچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رؤیا پر غور کرتا اور سوچتا رہا۔ مگر میں نے دیکھا کہ مَیں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے۔ اس رؤیا میں تین پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک پیشگوئی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا مَیں نے ہی کی ہے یا کسی سابق غیرمعروف نبی نے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس نبی کی پیشگوئی ہے اور آیا دنیا کے سامنے اس رنگ میں یہ پیشگوئی پیش بھی ہو چکی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ دو اَور پیشگوئیوں کی طرف بھی اس میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی پیشگوئی جس میں یہ ذکر ہے کہ اُنیس سو سال سے کنواریاں میرا انتظار کر رہی تھیں وہ درحقیقت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے۔ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو بعض قومیں مجھے مان لیں گی اور بعض قومیں انکار کریں گی۔ آپ ان اقوام کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کچھ کنواریاں اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں۔ وہ دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں، بیٹھی رہیں اور بیٹھی رہیں۔ مگر دولہا نے آنے میں بہت دیر لگائی۔ جو عقلمند تھیں، انہوں نے تو اپنی مشعلوں کے ساتھ تیل بھی لے لیاتھا۔ مگر جو بیوقوف تھیں انہوں نے مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ جب دولہا نے بہت دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں۔ تب وہ، جو بے احتیاط عورتیں تھیں انہوں نے معلوم کیا کہ ان کا تیل ختم ہو رہا ہے اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دوکیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا ہم تمہیں تیل نہیں دے سکتیں۔ اگر دے دیں تو شاید ہمارا تیل بھی ختم ہوجائے۔ تم بازار میں جاؤ شاید تمہیں وہاں سے تیل مل جائے۔ جب وہ مول لینے کے لیے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آ پہنچا اور وہ جو تیار تھیں اُس کو ساتھ لے کر قلعہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کردیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بے احتیاط عورتیں بھی آئیں اور دروازے کو کھٹکھٹا کر کہنے لگیں ہمارے لیے بھی دروازہ کھولا جائے ہم اندر آنا چاہتی ہیں۔مگر دولہا نے جواب دیا تم نے میرا انتظار نہ کیا،تم نے پوری طرح احتیاط نہ برتی۔اس لیے اب صرف اُنہیں کو حصہ ملے گاجو چوکس تھیں تمہارے لیے دروازہ نہیں کھولا جاسکتا۔6 یہ درحقیقت حضرت مسیح ناصری کی اپنی بعثتِ ثانیہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی جو انجیل میں پائی جاتی ہے۔ پس رؤیا میں مَیں نے جو یہ کہا کہ "مَیں وہ ہوں جس کے لیے اُنیس سوسال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں" اس سے مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا ان علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور قلم سے ظاہر فرمائے ہیں اُن قوموں کو جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانا مقدر ہے اور جو حضرت مسیح ناصریؑ کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ہیں ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ میرے ہی ذریعہ سے ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی۔ اور یہ جو فرمایا کہ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ اس خدائی الہام نے وہ بات جو ہمیشہ میرے سامنے پیش کی جاتی تھی اور جس کا جواب دینے سے ہمیشہ میری طبیعت انقباض محسوس کیا کرتی تھی آج میرے لیے بالکل حل کردی ہے۔ یعنی اس الہامِ الٰہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے متعلق تھی خدا تعالیٰ نے میری ہی ذات کے لیے مقدر کی ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کی ان پیشگوئیوں کے بارہ میں کیا رائے ہے مگر میری یہ حالت تھی کہ میں نے کبھی سنجیدگی سے ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ اس خیال سے کہ میرا نفس مجھے کوئی دھوکا نہ دے اور مَیں اپنے متعلق کوئی ایسا خیال نہ کرلوں جو واقعہ کے خلاف ہو۔
حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ مجھے ایک خط دیا اور فرمایا میاں! یہ خط ہے جو تمہاری پیدائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مجھے لکھا۔ اس خط کو تشحیذ الاذہان میں چھاپ دو۔ یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ مَیں نے اُس وقت اُن کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ خط لے لیا اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسے تشحیذ میں شائع کرا دیا۔ مگر اللہ بہتر جانتا ہے مَیں نے اُس وقت بھی اس خط کو غور سے نہیں پڑھا۔ صرف سرسری طور پر پڑھا اور اشاعت کے لیے دے دیا۔ لوگوں نے اُس وقت بھی کئی قسم کی باتیں کیں مگر مَیں خاموش رہا۔ اس کے بعد بھی بار بار یہ سوال میرے سامنے لایا گیا مگر ہمیشہ مَیں نے یہی جواب دیا کہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ خبریں ہیں اُسے بتایا بھی جائے کہ یہ تمہارے متعلق خبریں ہیں یا ہرگز یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں وہ دعوٰی بھی کرے کہ مَیں ان پیشگوئیوں کا مصداق ہوں۔ بلکہ مثال کے طور پر مَیں نے بعض دفعہ بیان کیا ہے کہ ریل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔7 ماننے والے مانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی کیونکہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اب یہ ضروری نہیں کہ ریل خود دعوٰی بھی کرے کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فلاں پیشگوئی کی مصداق ہوں۔ ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بارہا میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ مَیں اُن کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں۔ مگر مَیں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کیا کرتی ہے۔اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خودبخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مَیں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانہ کی گواہی میرے خلاف ہوگی۔دونوں صورتوں میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو مَیں یہ کہہ کر کیوں گنہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے وقت خودبخود حقیقت ظاہر کردے گا۔ غرض جیسے الہامِ الٰہی میں کہا گیا تھا "انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہیں تکیں"۔8 دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس لمبے عرصہ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تُو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہوجائے گا یا ہلاک ہوجائے گا9۔ اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔10 اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے،11 بتاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوگی۔
مَیں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خودبخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لیے مَیں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ کسی کشف یا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہوتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اِس امر کو ظاہر کردیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ چنانچہ آج مَیں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اِس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ مَیں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے۔ ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لیے مَیں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہوجائے۔ مگر آج پہلی دفعہ مَیں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔
میں اس کے متعلق اِس وقت تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر یہ جو آتا ہے کہ "وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا"۔12 اس کے متعلق ہمیشہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ اسی طرح "دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ"13 کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ سو یہ جو الہام ہے کہ وہ "تین کو چار کرنے والا ہوگا"۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ یعنی وہ چوتھا بیٹا ہوگا۔ اگر یہ مفہوم لے لیا جائے تو چوتھے بیٹے کے لحاظ سے بھی بات بالکل صاف ہے۔ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشیر احمد (اول) پیدا ہوئے اور چوتھا مَیں ہوا۔۔۔۔۔اسی طرح میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے۔ اس لحاظ سے بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ہؤا۔ پھر میری خلافت کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مرزا سلطان احمد صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق دی۔ اِس طرح بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ہؤا۔ گویا تین کو چار کرنے والا مَیں تین طرح ہوں۔ اول و دوم اس طرح۔


سوم اس طرح:۔
سلطان احمد 1، مرزا بشیر احمد 2، مرزا شریف احمد3، مرزا محموداحمد4۔ اس طرح میں نے تین کو چار کردیا۔ لیکن میرا ذہن خدا تعالیٰ نے اس طرف بھی منتقل کیا ہے کہ الہامی طور پر یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ الہام میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔
پس میرے نزدیک یہ اس کی پیدائش کی تاریخ بتائی گئی ہے۔ یہ پیشگوئی ابتدا 1886ء میں کی گئی تھی۔پس 1886ء، 1887ء، 1888ء تین سال ہوئے۔ اِن تین سالوں کو چار کونسا سال کرتا ہے؟ 1889ء کرتا ہے اور یہی میری پیدائش کا سال ہے۔ پس تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اس کی پیدائش چوتھے سال میں ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اور یہ جو آتا ہے "دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ" اس کے اورمعنے بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کی ایک واضح تشریح یہ ہے کہ دو شنبہ ہفتے کا تیسرا دن ہوتا ہے؛ شنبہ پہلا، یکشنبہ دوسرا اور دو شنبہ تیسرا۔ دوسری طرف روحانی سلسلوں میں انبیاء اور ان کے خلفاء کا الگ الگ دَور ہوتا ہے اور جس طرح نبی کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اسی طرح خلیفہ کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔اس لحاظ سے غور کرکے دیکھو پہلا دَور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا تھا۔ دوسرا دَور حضرت خلیفہ اول کا تھا اور تیسرا دَور میرا ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کا ایک اَور الہام اس تشریح کی تصدیق کررہا ہے اور وہ الہام ہے "فضل عمر"۔14 حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیسرے مقام پر ہی خلیفہ تھے۔ پس "دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ" سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خاص دن خاص برکات کا موجب ہوگا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس موعود کے زمانہ کی مثال احمدیت کے دَور میں ایسی ہی ہوگی جیسے دو شنبہ کی ہوتی ہے۔ یعنی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدمتِ دین کے لیے جو آدمی کھڑے کیے جائیں گے ان میں وہ تیسرے نمبر پر ہوگا۔ "فضل عمر" کے الہامی نام میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ گویا کلامُ اللہ میں یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے مطابق "فضل عمر" کے لفظ نے "دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ" کی تفسیر کردی۔
مگر اس الہام میں ایک اَور خبر بھی ہے اور خدا تعالیٰ مبارک دو شنبہ اب ایک ایسے ذریعہ سے بھی لانے والا ہے جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور کوئی انسا ن نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا۔میں نے 1934ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا جو ہرگز میرے اختیار میں نہیں تھے۔ گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا القاء فرمایا اوراس تحریک کے پہلے دَور کی تکمیل کے لیے مَیں نے دس سال میعاد مقرر کی۔ ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے ایک عید کا دن لاتا ہے۔ اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہوگی تو اس سے اگلا سال ہمارے لیے عید کا سال ہوگا۔دوست جانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دَور اسی سال یعنی 1944ء میں ختم ہوتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ سن 1945ء جو ہمارے لیے عید کا سال ہے، پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لیے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور جب اس کا پہلادَور کامیابی سے ختم ہوگا تو یہ جماعت کے لیے ایک مبارک وقت ہوگا۔ اس لیے وہ سال جب مومن اس عہد و قربانی کو پورا کر چکیں گے جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہو گی اور اس سے اگلے سال سے خدا تعالیٰ ان کے لیے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن ان کو دکھائے گا۔ اور جس سال میں یہ وقوع میں آئے گا اُس کا پہلا دن پیر یا دو شنبہ ہوگا۔ پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک۔ پس "دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ"۔
مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مصلح موعود اس سلسلہ کی تیسری کڑی ہوگا۔بعض دفعہ ایک چیز کی کسی اور چیز سے مشابہت دے دی جاتی ہے مگر ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد وہی ہو۔ پس میرے نزدیک اس کے معنے بالکل واضح ہیں اور "فضل عمر" جو الہامی نام ہے وہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے۔
میں اس امر کا بھی ذکر دینا چاہتا ہوں کہ جب رؤیا کے بعد میری آنکھ کھلی تو مَیں اس مسئلہ پر سوچتا رہا اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے عربی میں ہی سوچتا رہا۔ سوچتے سوچتے میرے دماغ میں جو الفاظ آئے اور مَیں جس نتیجہ پر پہنچا وہ یہ تھا کہ اب تو خدا نے بالکل فیصلہ کردیا ہے جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ۔ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔15 اور عجیب بات یہ ہے کہ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اشتہار پڑھ رہا تھا تو اس میں مجھے یہی الفاظ نظر آئے کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ گیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا۔16 پس اللہ تعالیٰ نے میرے لیے (میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کے لیے بھی۔ کیونکہ دوسرا شخص کسی غیر مامور کے کشف یا الہام کو ماننے کا مکّلف نہیں لیکن میرے لیے خدا تعالیٰ نے) حقیقت کو کھول دیا ہے اور اب مَیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصریؑ کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی، ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگی۔ مثیل مسیحؑ ان کنواریوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں جو اُس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اٹھیں گی کہ ھو شعنا، ھو شعنا۔17 اُس وقت انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوگا اور اُسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اولؑ پر سچا ایمان نصیب ہوگا۔ اب تو وہ قومیں انہیں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر درحقیقت گالیاں دے رہی ہیں لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیج سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیحؑ سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسےہی زمین پر آجائے گی"۔
(الفضل یکم فروری 1944ء)

5

مصلح موعود کے متعلق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
(فرمودہ 4فروری 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے پچھلے جمعہ میں اپنی ایک رؤیا سنائی تھی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وہ پیشگوئی جو ایک ایسے لڑکے کے متعلق تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مقرر کردہ میعاد کے اندر پیدا ہونے والا تھا اور جو 1886ء کی پیشگوئی کا مصداق تھا وہ میرے ہی متعلق تھی۔ آج مَیں بتاتا ہوں کہ کس طرح اس رؤیا میں بہت سی باتیں اس پیشگوئی کی دہرائی گئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمائی۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا مَیں نے اس پیشگوئی کو غور و فکر سے پڑھنے کی پہلے کبھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ جب کبھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی، مَیں اس کے مضمون پر سے جلدی سے گزر جاتا تھا تاکہ میرا نفس میرے دل میں اس کے متعلق کوئی جھوٹا شُبہ پیدا نہ کرے اور جبکہ جماعت کے دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ اس پیشگوئی کو میرے متعلق سمجھتے ہیں میں ہمیشہ ہی اس مضمون سے کتراتا تھا۔ اس لیے پیشگوئی کی جو تشریحات تھیں وہ میرے ذہن میں نہ تھیں۔خصوصاً اس سال کے شروع میں جب یہ رؤیا ہؤا یعنی جنوری کے مہینہ میں، اُس وقت تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ تشریحات میرے سامنے ہوتیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون عرصہ دراز سے میرے سامنے نہ آیا تھا۔ بے شک بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں وہ میرے ذہن میں تھیں۔ لیکن باوجود اس کے یہ رؤیا مجھے ایسے رنگ میں آئی ہے جسے دماغی ترجمانی نہیں کہا جاسکتا۔ اور بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں تو تھیں مگر میرے علم میں نہ تھیں اور گو میں نے وہ علامتیں پڑھی ضرور تھیں مگر اُن علامتوں نے کبھی میرے ذہن میں معیّن جگہ نہیں پکڑی تھی اور مجھے یاد بھی نہیں تھیں اُن علامتوں کو اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے عجیب طریق پر دُہرا دیا ہے۔ مگر پیشتر اس کے کہ میں اُن مشابہتوں کا ذکر کروں، مَیں اس امر کا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ظاہری مشابہت میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے درمیان پائی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ خبر ایک سفر کے موقع پر دی گئی تھی جبکہ آپ ہوشیارپور گئے ہوئے تھے اور ہوشیارپور میں ہی آپ نے وہ اشتہار لکھا جس میں اس پیشگوئی کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے۔ چنانچہ اس اشتہار کے شائع کرتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو درج کرتے ہوئے کہ "میں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو تیرے لیے مبارک کردیا"۔تحریر فرمایا ہے "جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے" لدھیانہ کا سفر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پہلے کیا اور ہوشیار پور کا سفر بعد میں اور یہ الہامات آپ کو ہوشیار پور میں ہی ہوئے۔ چنانچہ میاں بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب "سیرۃ المہدی" میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی یہ روایت شائع کی ہے کہ مَیں اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھا۔ وہیں آپؑ پر یہ الہامات نازل ہوئے اور وہیں آپؑ نے یہ اشتہار شائع کیا۔ پس یہ خبر آپ کو ہوشیارپور کے سفر میں ملی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مجھ کو بھی یہ رؤیا سفر میں ہی ہوئی ہے جبکہ میں لاہور میں تھا۔پس اس پیشگوئی اور رؤیا میں سفر کے لحاظ سے بھی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ جس وقت مَیں یہ بات بیان کرنے لگا ہوں، میرے ذہن میں ایک اَور مشابہت بھی آئی ہے مگر مجھے اس پر ابھی پورا یقین نہیں۔ اس کے متعلق اِنْشَاءَ اللّٰہبعد میں تحقیقات کروں گا۔ اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شیخ بشیر احمد صاحب جس مکان میں رہتے ہیں اور جس میں رؤیا کے وقت میری سکونت تھی وہ ہوشیارپور کے رہنے والے ایک صاحب شیخ نیاز محمد صاحب پلیڈر مرحوم کا ہے ۔٭ پس یہ عجیب بات ہے کہ یہ رؤیا مجھے سفر میں آئی اور اس مکان میں آئی جو ہوشیارپور کے رہنے والے ایک دوست کا مکان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہامات بھی ہوشیارپور میں ہی ہوئے اور ان کی برادری کے ایک آدمی کے گھر پر ہوئے۔ شیخ نیاز محمد صاحب کا بھی عجیب معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ میری ان سے کوئی زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہاں یہ جانتا تھا کہ وہ ایک کامیاب وکیل ہیں اور یہ معلوم تھا کہ لوگوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اچھے درجہ پر پہنچ جائیں گے۔ مگر مجھے وہ صرف ایک دفعہ ملے تھے۔ اس ملاقات کے مہینوں بلکہ سالوں بعد مَیں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک بہت بڑا اژدہام ہے جس میں ان کو ایک ہاتھی پر چڑھا کر لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی طرف لا رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان جمع ہیں اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے اور وہ بہت خوش ہیں کہ ان کو کوئی عزت ملی ہے یا ملنے والی ہے۔ مَیں رؤیا میں دیکھتا ہوں کہ جلوس مفتی محمد صادق صاحب کے گھر کی طرف آرہا ہے مَیں ان کے گھر کے قریب جو موڑ ہے وہاں کھڑا ہو گیا اور جلوس نے اس طرف بڑھنا شروع کردیا۔ جس وقت وہ عین منزلِ مقصود پر پہنچ گئے جہاں ان کا اعزاز ہونا تھا تو یکدم آسمان سے ایک ہاتھ آیا اور وہ انہیں اٹھا کر لے گیا۔ اس رؤیا کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد وہ فوت ہو گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کی ججی کے لیے ان کا نام گیا ہوا تھا اور منظوری آنے ہی والی تھی کہ وہ فوت ہو گئے۔ یہ رؤیا تھی جو مَیں نے ان کے متعلق دیکھی۔ حالانکہ میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ صرف ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ اس سے زیادہ میری ان سے کوئی واقفیت نہ تھی لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ عنقریب فوت ہونے والے ہیں اور ایسے حالات میں فوت ہونے والے ہیں جبکہ مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے ان کو عزت ملنے والی ہے۔ آج مَیں سمجھتا ہوں کہ باوجود کوئی ظاہری تعلق نہ ہونے کے ان کی وفات کی خبر کا مجھے دینا اسی نسبت کی وجہ سے تھا کہ ان کے گھر پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مصلح موعود ہونے کی خبر دینی تھی۔ اب مَیں ان مشابہتوں کو بیان کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے ساتھ میری رؤیا کو ہیں۔
رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ ان الفاظ کا میری زبان پر جاری ہونا میرے لیے اس قدر عجوبہ تھا (ظاہر میں تو ہو ہی سکتا ہے لیکن خواب میں ہی میری ایسی کیفیت ہو گئی) کہ قریب تھا اس تہلکہ سے مَیں جاگ اٹھتا کہ میرے مُنہ سے یہ کیا الفاظ نکل گئے ہیں۔ بعد میں بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ مسیحی نفس ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اشتہار مورخہ 20 فروری 1886ء میں بھی آتا ہے۔ گو اس روز مَیں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا لیکن جب مَیں خطبہ پڑھ رہا تھا اُس وقت اشتہار کے یہ الفاظ میرے ذہن میں نہ تھے۔خطبہ کے بعد غالباً دوسرے دن مولوی سید سرور شاہ صاحب نے توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اشتہار میں بھی لکھا ہے کہ "وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا"۔اس پیشگوئی میں بھی مسیح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
دوسرے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں نے بُت تڑوائے ہیں۔ اس کا اشارہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں پایا جاتا ہے کہ وہ "روح الحق کی برکت سے بُہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا"۔ روح الحق توحید کی روح کو کہا جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے،باقی سب چیزیں اظلال اور سائے ہیں۔ پس روح الحق سے مراد توحید کی روح ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ اس کی برکت سے بُہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔
تیسرے مَیں نے دیکھا کہ مَیں بھاگ رہا ہوں۔ چنانچہ خطبہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ رؤیا میں یہی نہیں کہ مَیں تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمین میرے قدموں تلے سمٹتی چلی جاتی ہے۔ پسر ِموعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اسی طرح رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر وہاں بھی مَیں نے اپنے کام کو ختم نہیں کیا بلکہ مَیں اور آگے جانے کا ارادہ کررہا ہوں۔ جیسے مَیں نے کہا اے عبدالشکور! اب مَیں آگے جاؤں گا اور جب اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ اس عرصہ میں تُو نے توحید کو قائم کردیا ہے،شرک کو مٹا دیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کردیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر اللہ تعالیٰ نے جو کلام نازل فرمایا اس میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے وہ "زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا"۔ یہ الفاظ بھی اس کے دور دور جانے اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
پھر یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ وہ :" علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا"۔ اس کی طرف بھی میری رؤیا میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ خواب میں مَیں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں کہ "مَیں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے"۔
پھر لکھا تھا وہ "جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا"۔اس کے متعلق بھی رؤیا میں وضاحت پائی جاتی ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ رؤیا میں میری زبان پر تصرف کیا گیا اور میری زبان سے خدا تعالیٰ نے بولنا شروع کردیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے کلام فرمایا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام آئے اور آپ نے میری زبان سے بولنا شروع کردیا۔ یہ جلالِ الٰہی کا ایک عجیب ظہور تھا جس کا پیشگوئی میں بھی ذکر پایا جاتا تھا۔ پس یہ بھی ان دونوں میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔
پھر لکھا تھا۔"وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا"۔اور رؤیا میں بھی یہ دکھایا گیا کہ ایک قوم ہے جس کا مَیں ایک شخص کو لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ان الفاظ میں جیسے ایک طاقتور بادشاہ اپنے ماتحت کو کہہ رہا ہو،اسے کہتا ہوں اے عبدالشکور! تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہوگے کہ تمہارا ملک قریب ترین عرصہ میں توحید پر ایمان لے آئے، شرک کو ترک کردے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم پر عمل کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادات کو اپنے مدنظر رکھے۔ یہ "صاحبِ شکوہ اور عظمت" کے ہی کلمات ہوسکتے ہیں جو رؤیا میں میری زبان پر جاری کیے گئے۔
اور یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ "ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے"۔یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس پر کلامِ الٰہی نازل ہوگا اور رؤیا میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ چنانچہ الٰہی تصرف کے ماتحت رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اب مَیں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔پس اس حصہ میں پیشگوئی کے انہی الفاظ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ "ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے"۔
پھر رؤیا کا یہ حصہ بھی پیشگوئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتا ہے کہ رؤیا میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو مَیں اٹھا رہا ہوں وہ کسی پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں۔ اب مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ جو مَیں سمجھتا ہوں کہ آئندہ مَیں جو سفر کروں گا وہ ایک سابق وحی کے مطابق ہوگا اس سے اشارہ مصلح موعود والی پیشگوئی ہی کی طرف تھا۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ میری زندگی اس پیشگوئی کا نقشہ ہے اور الٰہی تصرف کے ماتحت ہے۔ اب مَیں سمجھتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کے متعلق جو یہ ابہام رکھا گیا کہ یہ کس کی پیشگوئی ہے، اس میں یہ حکمت تھی تا مصلح موعود کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلا کر اس ذہنی علم کا رؤیا میں دخل نہ ہو جائے جو مجھے اس پیشگوئی کی نسبت حاصل تھا۔ اس قسم کی تدابیر رؤیا اور الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اختیار کی جاتی ہیں اور اسرارِ سماویہ میں سے ایک سرّ میں یہ وہ مشابہتیں ہیں جو میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی پیشگوئی میں پائی جاتی ہیں۔
اب مَیں واقعات کے لحاظ سے اس پیشگوئی کا تطابق دیکھتا ہوں۔ اس بارہ میں جماعت میں سالہاسال سے کثرت سے مضامین نکل چکے ہیں اور لوگوں نے اس رؤیا سے پہلے ہی پیشگوئی کی بہت سی باتیں مجھ پر چسپاں کی ہیں۔ اس لیے میں اِس وقت چند باتیں جو نہایت اہم ہیں بیان کرتا ہوں۔
اول یہ کہ جب لوگ میرے متعلق کہتے تھے کہ یہ بچہ ہے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا۔ اس کی طرف بھی پیشگوئی کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا کہ "وہ جلد جلد بڑھے گا"
میرے لیے وہ حیرت کا زمانہ تھا۔ بلکہ اب تک مَیں اپنی اس حیرت کو نہیں بُھولا۔حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا اور مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ جماعت میں کیا جھگڑا ہے۔ کس بات پر فساد اور ہنگامہ برپا ہے۔ جیسے ایک شفاف آئینہ ہر قسم کی میل کچیل اور داغوں سے منزّہ ہوتا ہے وہی میرے دل کی کیفیت تھی۔ ہر قسم کے بغض سے پاک ہر قسم کی سازش کے خیالات سے مبّرا بلکہ حالات کے علم سے بھی خالی تھا۔ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ حضرت خلیفہ اول نے کچھ سوالات لوگوں کو جواب لکھنے کے لیے بھجوائے ہوئے تھے اور مَیں نے بھی ان کے جواب لکھے تھے۔مَیں اُس وقت حضرت اماں جان کے کمرہ میں، جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں۔ ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی۔ مَیں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بچہ کو آگے کرکے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر یہ سب فساد برپا کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کو خلیفہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مجھے یاد ہے، مَیں اُس وقت ان باتوں سے اتنا غافل اور اس قدر ناواقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون، جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر دوسروں سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے؟ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے تھے؟ اس پر ایک دوست نے ہنس کر کہا کہ وہ بچہ تم ہی تو ہو،اور کون ہے؟پس مَیں اُس وقت ان باتوں سے اس قدر ناواقف تھا کہ مَیں اتنا بھی نہ سمجھ سکا کہ اس بچہ سے مراد مَیں ہوں۔ لیکن دشمن کا یہ قول درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے انہی الفاظ کی تصدیق کررہا تھا کہ "وہ جلد جلد بڑھے گا"۔ خدا نے مجھے اتنی جلدی بڑھایا کہ دشمن حیران رہ گیا۔ چند ماہ پہلے مجھے بچہ قرار دے کر وہ ناقابل قرار دے رہا تھا اور چند ماہ بعد وہ مجھے ایک شاطر، تجربہ کار قرار دے کر میری برائی کررہا تھا۔ گویا بچپن کی عمر میں ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے سلسلہ میں رخنہ ڈالنے والوں کو شکست دلوا دی۔ یہ ویسے ہی ہوا جیسے حضرت مسیح ناصریؑ سے ہوا۔ ان کے دشمنوں نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک بچے سے کس طرح باتیں کریں۔ جب حضرت مسیح ناصری اپنی والدہ کے ساتھ شہر میں آئے اور حضرت مریم نے لوگوں سے کہا کہ ان سے باتیں کرو۔ تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم ایک بچے سے کس طرح باتیں کریں۔ یہی وہ بات تھی جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا۔1 پس اُس وقت میرے متعلق دشمنوں کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ یہ ایک بچہ ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ مجھے بچہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ مَیں واقع میں بچہ تھا، میری عمر اُس وقت پچیس سال تھی، اللہ تعالیٰ نے مجھے پچیس سال کی عمر میں ایک حکومت پر قائم کردیا، اور حکومت بھی ایسی جو روحانی حکومت تھی۔ جسمانی حکومت میں تو بادشاہ کے پاس تلوار ہوتی ہے، طاقت ہوتی ہے، جتھا ہوتا ہے، فوجیں ہوتی ہیں، جرنیل ہوتے ہیں، جیل خانے ہوتے ہیں، خزانے ہوتے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے پکڑ کر سزا دیتا ہے لیکن حکومتِ روحانی میں جس کا جی چاہتا ہے مانتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے انکار کر دیتا ہے۔زور اور طاقت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے اس حکومتِ روحانی پر ایسی حالت میں کھڑا کیا جب خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور ہزارہا روپیہ قرض تھا اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ کام ایسی حالت میں سپرد کیا جب جماعت کے ذمہ دار افراد قریباً سارے کے سارے مخالف تھے اور یہاں تک مخالف تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے مدرسہ ہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں لیکن عنقریب تم دیکھ لو گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ ایک پچیس برس کا لڑکا تھا جس کو ایک ایسی حکومت سپرد کی گئی جس میں طاقت و قوت کا نام و نشان تک نہ تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کا خزانہ خالی تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کے اپنے سردار اور تجربہ کار لیڈر اسے چھوڑ کر جار ہے تھے۔ میدان دشمن کے قبضہ میں تھا اور وہ اس بات پر خوشیاں منا رہا تھا کہ ہمارے جاتے ہی اس قوم کی عمارتوں پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور اس کی ترقی کے ایام تنزل اور ادبار سے بدل جائیں گے۔ تم سمجھ سکتے ہو، ایسے نازک حالات میں اس قوم کا کیا حال ہوسکتا ہے۔ مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا۔ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت کی جو تعداد اُس وقت تھی جب وہ میرے سپرد کی گئی آج خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے سینکڑوں گُنے زیادہ ہے۔جن ملکوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام پہنچ چکا تھا آج اس سے بیسیوں گُنے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچ چکا ہے۔ جس خزانے میں صرف اٹھارہ آنے تھے آج اس میں لاکھوں روپیہ پایا جاتا ہے۔ جس جماعت کے افراد نہایت کمزور حالت میں تھے آج اس جماعت کے افراد ہر لحاظ سے ترقی کر چکے ہیں۔ اگر مَیں آج بھی مر جاؤں تب بھی مَیں خزانہ میں اُس سے بہت زیادہ روپیہ چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملا۔ مَیں اس سے بہت زیادہ جماعت چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملی۔ میں ان سے بہت زیادہ علماء چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملے تھے۔ مَیں سلسلہ کی تائید میں اس سے بہت زیادہ کتابیں چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملیں اور مَیں سلسلہ کی خدمت کے لیے ان سے بہت زیادہ علوم چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے اس وقت ملے تھے جب خدا نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا۔پس وہ جو خدا نے کہا تھا کہ "وہ جلد جلد بڑھے گا" اور "خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا" وہ پیشگوئی ایسے عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس پیشگوئی کو اتنا اہم قرار دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں "یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے"۔2 جس کو خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے نازل کیا ہے۔ پس وہ شخص جو اس پیشگوئی کو سمجھ کر اس پر ایمان لاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عظیم الشان نشان دیکھتا ہے جس کی مثال اور نشانوں میں بہت کم ملتی ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تحریر فرمایا کہ "نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ مخواہ پیدا ہوگی۔ چہ جائیکہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی اٹکل سے قطع اور یقین کیا جائے"۔3
پھر آپ نے لکھا کہ اس پیشگوئی میں صرف یہی نہیں کہ نوبرس میں ایک لڑکا پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے بلکہ ساتھ ہی ایسی شرطیں لگا دی گئی ہیں کہ وہ لڑکا اسلام کی شان وشوکت کا موجب ہوگا۔ اور ایسی شرائط کے ساتھ کسی لڑکے کا پیدا ہونا "انسانی طاقتوں سے بالاتر" اور "بڑا بھاری آسمانی نشان"ہے۔4 کسی انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ ایسا کرسکے۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر چاروں طرف سے دشمنوں کے حملے ہو رہے تھے۔ محض اس بناء پر کہ آپؑ نے الہام کا دعوٰی کیا ہے۔ آپ نے مجددیت کا دعوٰی اُس وقت نہیں کیا تھا۔ ماموریت کا دعوٰی اُس وقت نہیں تھا۔صرف الہام نازل ہونے کا دعوٰی کیا اور دنیا آپ کی مخالف ہو گئی۔ صرف چند افراد آپ کے ساتھ تھے۔اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتایا کہ تمہیں ایک ایسا لڑکا ملے گا جو صاحبِ شکوہ اور عظمت ہوگا جو تمہارے رنگ میں رنگین ہو کر اصلاح کے لیے کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔ وہ سلسلہ اور اسلام کی بہتری کے سامان مہیا کرے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
یہ صاف بات ہے کہ جو شخص کسی کا نائب ہونے کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے گا وہ جب دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا تو جو اُس کا آقا اور مطاع ہے اُس کا نام بھی دنیا کے کناروں تک ضرور پہنچے گا۔ پس جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ وہ "زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا" تواس کے معنے یہ تھے کہ اس کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔
اب دیکھ لو! یہ پیشگوئی کتنی واضح ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں بیرونی ممالک میں سے صرف افغانستان ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں کسی اہمیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام پہنچا تھا۔ اَور ممالک میں صرف اُڑتی ہوئی خبریں پہنچی تھیں اور وہ بھی یا تو مخالفوں کی پھیلائی ہوئی تھیں اور یا ایسا ہوا کہ کسی شخص کے پاس سلسلہ کی کوئی کتاب پہنچی اور اس نے آگے کسی کو دِکھادی۔ باقاعدہ جماعت کسی ملک میں قائم نہیں تھی۔ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب انگلستان گئے مگر وہاں انہوں نے احمدیت کا ذکر سمِّ قاتل قرار دے دیا۔ اِس وجہ سے انگلستان میں جو مشن قائم ہوا اس کے ذریعہ احمدیت کا نام نہیں پھیلا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام نہیں پھیلا۔ اگر پھیلا تو خواجہ صاحب کا نام پھیلا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں سلسلہ احمدیہ کی باگ دی تو میرے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سماٹرا میں احمدیت پھیلی، جاوا میں احمدیت پھیلی،سٹریٹ سیٹلمنٹ میں احمدیت پھیلی،چین میں احمدیت پھیلی،ماریشس میں احمدیت پھیلی، افریقہ کے چاروں کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی،مصر میں احمدیت پھیلی،شام میں احمدیت پھیلی،فلسطین میں احمدیت پھیلی، ایران میں احمدیت پہنچی، عراق میں احمدیت پہنچی،یورپ کے کئی ممالک میں احمدیت پہنچی، چنانچہ اٹلی میں احمدیت پہنچی، سپین میں احمدیت پہنچی، ہنگری میں احمدیت پہنچی،زیکوسلویکیا میں احمدیت پہنچی،جرمنی میں احمدیت پہنچی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کے لحاظ سے انگلستان اور امریکہ میں بڑی بڑی احمدی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اب ساؤتھ امریکہ میں آہستہ آہستہ احمدیت کا نام پھیل رہا ہے۔گویا دنیا کے چاروں کناروں تک میرے زمانۂ خلافت میں ہی احمدیت کا نام پہنچا اور مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں۔ ان میں سے بعض جماعتیں بہت ہی اہم ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان جماعتوں کے افراد ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ سماٹرا اور جاوا میں ہمارے جو مشن قائم ہیں ان کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں احمدی ہیں۔ آجکل وہاں دشمن کا قبضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر ہو۔ اس کے بعد افریقہ کی جماعتیں ہیں۔ ان میں سے بھی ایک ایک جماعت میں ہزاروں افراد پائے جاتے ہیں اور یہ اپنے اخراجات آپ برداشت کرتی ہیں۔ سیرالیون کی جماعت بالکل نئی ہے۔ مگر پھر بھی اس جماعت نے وہاں مدرسے قائم کر لیے ہیں، مبلغ رکھے ہیں اور ان تمام اخراجات کو وہاں کے افراد خود برداشت کرتے ہیں۔ لیگوس میں بھی احمدیہ مدارس قائم ہیں اور جماعتیں ارد گرد کے علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ذاتی اخراجات پر مبلغ اور مدرّس رکھے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں کوئی خرچ نہیں دیتے۔ نائیجیریا میں بھی ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں پائی جاتی ہے اور وہاں کے افراد بھی اخراجات کا بیشتر حصہ خود ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جن میں سےبعض بعض جگہ پچیس پچیس، تیس تیس ہزار احمدی پائے جاتے ہیں۔ اور ان کے سالانہ جلسوں کے موقع پر ہی تین تین چار چار ہزار آدمی اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہ ساری جماعتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نام سے آشنا نہ تھا اور جن میں سے ہزاروں ایسے تھے کہ گو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام سے آشنا تھے مگر درحقیقت آپ کے دشمن اور عیسائی مذہب کے پَیرو تھے یا بُت پرست تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کو میرے زمانہ میں ہی کلمہ توحید سکھایا اور ان کو مسلمان ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
پھر اسلام کی تبلیغ کی ایک اہم ترین بنیاد اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تحریک جدید کے ماتحت رکھ دی۔ تحریک جدید ایک ایسی تحریک ہے کہ اس کا سارا سلسلہ ہی الہامی ہے۔ اس لیے کہ تحریک جدید شروع ہوئی احرار اور گورنمنٹ کے ایک فعل سے۔اب کیا گورنمنٹ میرے اختیار میں تھی اور کیا مَیں نے اُسے کہا تھا کہ وہ مجھے نوٹس دیتی؟ پھر گورنمنٹ نے جو نوٹس دیا وہ درحقیقت غلطی سے دیا۔ گورنمنٹ چاہتی تھی کہ احرار کے اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہ بلوایا جائے اور ہم نے اُس کی اس خواہش کو تسلیم کر لیا اور اُسے لکھ دیا کہ اس اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہیں بلایا جائے گا۔ آگے اختلاف ہو جاتا ہے۔ سی۔آئی۔ڈی کے جو افسر تھے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے گورنمنٹ سے کہہ دیا تھا کہ انہوں نے احرار کے اجتماع پر احمدیوں کو قادیان آنے سے منع کردیا ہے۔ لیکن باوجود اس کے گورنمنٹ نے نوٹس جاری کردیا اور بالا افسر یہ کہتے ہیں کہ سی۔آئی۔ڈی کے سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں آکر یہ کہا کہ وہ احمدیوں کو اس موقع پر قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔چنانچہ انسپکٹر جنرل پولیس نے درد صاحب سے یہی کہا کہ سی۔آئی۔ڈی کے سپرنٹنڈنٹ صاحب ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ساتھ آئے۔ ان کے ہاتھ میں اُس وقت ایک خط تھا جس کی طرف اشارہ کرکے انہوں نے کہا کہ قادیان سے جواب آگیا ہے کہ ہم احمدیوں کو اس اجتماع کے موقع پر باہر سے آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ چونکہ ایک اہم عہدیدار یہ خط لایا تھا اور ڈی۔آئی۔جی اُس کے ساتھ تھا اس لیے اُن کے کہنے پر اعتبار کر لیا گیا اور چونکہ گورنر صاحب بار بار فون کر رہے تھے کہ قادیان سے کیا جواب آیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر جواب دے دیا گیا کہ قادیان سے جوا ب آگیا ہے۔ وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر گورنر صاحب نے فوراً اپنی کونسل کا اجلاس بلایا اور کہا کہ قادیان سے یہ جواب آیا ہے کہ وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کونسل نے بغیر اس کے کہ وہ یہ دیکھتی کہ خط میں لکھا کیا ہے، جھٹ فیصلہ کیا کہ پنجاب کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ (PUNJAB CRIMINAL LAW AMENDMENT ACT) 1932ء کے ماتحت امام جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا جائے کہ وہ ایسا نہ کریں ورنہ وہ قانون کی زد میں آ جائیں گے۔ حالانکہ ابتدا میں جو لوگوں کو بلایا بھی گیا تھا اور جسے بعد میں منسوخ بھی کردیا گیا وہ میری طرف سے نہ تھا بلکہ امور عامہ کی طرف سے تھا۔ پس اگر واقع میں اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ سی۔آئی۔ڈی نے افسرانِ بالا کو کوئی دھوکا دیا تو وہ میرے اختیار میں نہیں تھا اور اگر انہوں نے دھوکا دیا تو کیا ڈی۔آئی۔جی اُن کے ساتھ نہ تھے؟ اور کیا ان کا فرض نہ تھا کہ وہ اس خط کو پڑھ لیتے اور دیکھ لیتے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ پھر کیا انسپکٹر جنرل پولیس اس خط کو پڑھ نہیں سکتا تھا کہ اُسے بھی دھوکا لگ گیا؟ پھر اگر انسپکٹر جنرل پولیس نے غلطی کر دی تو کیا گورنر صاحب اُس خط کو نہیں پڑھ سکتے تھے؟ کیا ان کی کونسل اس خط کو نہیں پڑھ سکتی تھی؟ اور کیا چیف سیکرٹری اس خط کو نہ پڑھ سکتے تھے؟ پس اگر یہ غلطیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے تمام افسروں سے سرزد ہوتی چلی گئیں تو کیا یہ سب کچھ میرے اختیار میں تھا یا میری طاقت میں تھا کہ مَیں ایسا کرسکتا؟ واقعات پر غور کرکے دیکھ لو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا ایک فعل تھا اور خدا ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا تھا۔ خدا میرے ہاتھ سے اسلام کے اس نازک دَور میں تبلیغِ دین کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھنا چاہتا تھا۔ خدا ہماری جماعت کو ایک کوڑا مار کر جگانا چاہتا تھا اس لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی کہ اُس نے خط کو نہ پڑھا۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی اور اس نے خط کو نہ پڑھا۔ پھر یہی غلطی گورنر صاحب سے ہوئی۔ پھر یہی غلطی ان کی کونسل کے ارکان سے ہوئی اورساروں نے ہی یہ سمجھ لیا کہ ہماری طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ اس جواب کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی اور کوئی ایسا خط گورنمنٹ کو لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ مگر اُن ساروں نے یہ غلطی کی اور اُس خط کی بناء پر مجھے نوٹس دے دیا گیا جس کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ چنانچہ جب بعد میں ہم نے بالا افسروں سے کہا کہ ہم نے تو احمدیوں کو روک دیا تھا اور امور عامہ نے بھی میری ہدایت کے مطابق اپنے اس حکم کو منسوخ کردیا تھا، آپ ہمیں وہ خط دکھائیں جس میں ہم نے یہ لکھا ہو کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ اتنے شرمندہ ہوئے کہ اُن سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آخر چیف سیکرٹری نے چھ ماہ کے بعد ہمارے ایک وفد سے کہا کہ اب ہماری کافی ذلّت ہو گئی ہے ہم مانتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ آپ ہم سے بار بار اُس خط کا مطالبہ کرکے ہمیں شرمندہ نہ کریں۔تو دیکھو خط میں بالکل اُلٹ مضمون تھا۔ اُس خط میں لکھا یہ گیا تھا کہ احمدیوں سے کہہ دیا گیا ہے وہ احرار کے جلسہ کے موقع پر قادیان میں نہ آئیں۔ مگر گورنمنٹ نے یہ نوٹس دے دیا کہ چونکہ تم احمدیوں کو قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہو اس لیے تمہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس موقع پر احمدی آئے تو تم قانون کی زد میں آ جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خط جس کی بناء پر انہوں نے یہ نوٹس دیا اُن کے ہاتھ میں تھا، اُن کی فائل میں موجود تھا مگر پھر اُن سے یہ غلطی ہو گئی۔ پس اگر یہ غلطی ہے تو پھر یہ غلطی اُسی خدا کی کروائی ہوئی ہے جس خدا نے غار ِثور کے مُنہ پر پہنچ جانے والے کفار کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دئے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں نہیں ہوسکتے۔
اس کے بعد حکومت کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستے میں روکیں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور ہمیں یہاں تک خوف پیدا ہوا کہ سلسلہ کے مقدس لٹریچر پر بھی گورنمنٹ ہاتھ نہ ڈالے اور میں نے سلسلہ کی کتب کی متعدد کاپیاں مختلف ممالک میں پھیلا دیں۔ غرض گورنمنٹ کے یہ افعال میری آنکھیں کھولنے کا موجب ہو گئے اور میں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی مظلومیت اور احمدیت کی بے کسی کا ثبوت ہے کہ ہر کس وناکس، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، ادنیٰ ہو یا اعلیٰ احمدیت کو اپنے بُوٹ کی ٹھوکر لگانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔تب مَیں نے سمجھا کہ ہماری طرف سے اب تک احمدیت کو پھیلانے کی گو کوششیں ہوئی ہیں مگر وہ کوششیں اور محنتیں اتنی نہیں ہیں کہ اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد پھیلا سکتیں۔ہم نے بے شک اپنے فرض کو ایک حد تک ادا کیا ہے۔ مگر ایسا احساس ابھی ہم میں پیدا نہیں ہوا کہ اس کے نتیجہ میں قلیل سے قلیل عرصہ میں احمدیت کا رُعب دنیا پر چھا جاتا اور اس قسم کی فرعونی طبائع کو پتہ لگ جاتا کہ یہ سلسلہ خدائی طاقت سے بڑھ رہا ہے، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ اس طرح تحریک جدید کا آغاز ہوا اور پھر ہر قدم پر اس تحریک نے ایسا رنگ بدلا جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور جماعت میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ایسی روح پیدا کردی جو ترقی کرنے والی جماعتوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
مَیں تحریک جدید کے اُس چندہ کو اتنی عظمت نہیں دیتا جو ان چند سالوں میں جمع ہوا۔ مَیں عظمت دیتا ہوں مجاہدین کی اُس جماعت کو جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں یا آئندہ وقف کریں گے اور مَیں عظمت دیتا ہوں قربانی کی اُس روح کو جو جماعت میں پیدا ہوئی۔
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اس سے پہلے صدر انجمن احمدیہ ہمیشہ مقروض رہا کرتی تھی اور اُسے اپنا بجٹ ہر سال کم کرنا پڑتا تھا۔ جب مَیں نے اس تحریک کا اعلان کیا تو ناظروں نے میرے پاس آ آکر شکایتیں کیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں انجمن کی حالت خراب ہو جائے گی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو، انتظار کرو اور دیکھو کہ حالت سدھرتی ہے یا گرتی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یا تو صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ دو اڑھائی لاکھ روپیہ کا ہوا کرتا تھا اور یا اس تحریک کے دوران میں چار پانچ لاکھ روپیہ تک جا پہنچا۔ اُدھر جماعت نے تحریک جدید کی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سال کے اندر ہی مطالبہ سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہو گئی۔ جب مَیں نے پہلے دن جماعت سے 27 ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا ہے تو واقع میں مَیں یہی سمجھتا تھا کہ میرے مُنہ سے یہ رقم نکل تو گئی ہے مگر اس کا جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کس قدر عظیم الشان فضل ہے کہ 27 ہزار کیا اب تک 27 ہزار سے پچاس گنے سےبھی زیادہ رقم آ چکی ہے اور یہ اتنی زیادہ رقم ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بھی حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اگر تیرہ لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا تھا تو وہ گیا کہاں ہے؟ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ اتنا روپیہ جمع ہوا ہو۔ کیونکہ اگر آیا ہوتا تو یہ سارا روپیہ غالباً ان کے خیال میں ہمیں حفاظت کے ساتھ ان کے پاس بھجوا دینا چاہیے تھا یا کم سے کم ان کا حصہ تو انہیں ضرور بھجوا دینا چاہیے تھا۔ مگر وہ روپیہ آیا اور وہیں خرچ ہوا جہاں اس خدا کا منشاء تھا جس نے میری زبان سے اس تحریک کا اجراء کرایا۔یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان کام ہونے والا تھا۔سو وہ کام ہوا اور خدائی سامانوں سے ہوا اور ان ذرائع سے ہوا جو ہمارے اختیار میں نہ تھے۔
پھر اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ وہ "علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا"۔مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے دعوے کرنے کا عادی نہیں ہوں لیکن باوجود اس کے مَیں اس حقیقت کو چُھپا نہیں سکتا کہ اسلام کے وہ مہتم بالشان مسائل جن پر روشنی ڈالنا اس زمانہ کے لحاظ سے نہایت ضروری تھا خدا تعالیٰ نے اُن کے متعلق میری زبان اور میرے قلم سے ایسے ایسے مضامین نکلوائے ہیں کہ مَیں دعوٰی کرکے کہہ سکتا ہوں کہ اُن تحریروں کو اگر ایک طرف کردیا جائے تو یقیناً اسلام کی تبلیغ دنیا میں نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کریم میں بہت سے ایسے امور ہیں جن کو اس زمانہ کے لحاظ سے لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے جب تک دوسری آیات سے ان کی تشریح نہ کردی جاتی۔ اور یہ خدا تعالیٰ کا بے انتہا فضل ہے کہ اس نے میرے ذریعہ سے اُن مشکلات کو حل کیا اور اُن آیات کے صاف اور روشن معنے دنیا کے سامنے ظاہر کیے۔ باقی مَیں نے ایسے امور کے متعلق کبھی دعوے نہیں کیے۔ جیسے مَیں نے ابھی کہا ہے کہ میں دعوے کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو میرے اس تازہ اعلان پر جو مَیں نے اللہ تعالیٰ کے ایک الہام کی بناء پر کیا، کہتے ہیں کہ یہ دعوٰی ہے یا کیا چیز ہے؟ بعض نے کہا کہ کیا اس کے معنے نبوت کے ہیں؟ اور بعض نے کہا کہ اس کہنے سے کیا حاصل ہوا جبکہ یہ بات پہلے ہی ظاہر تھی۔ یہ ذہنی کشمکشیں لازمی چیز ہیں اور لوگوں کے دماغی تفاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کی کشمکش کا پیدا ہونا کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔ وہ لوگ جو پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے معنے نبوت کے ہیں؟ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ یاد رکھو! مومن کے لیے وہی بات سجتی ہے جو اس کا خدا اُسے کہتا ہے اور اُتنی ہی بات اُسے سجتی ہے جتنی اُس کا خدا اُسے کہنے کا حکم دیتا ہے۔ مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے قیاسات کے پیچھے چلے۔اُس کا فر ض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے۔ جہاں اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ کھڑے ہو جاؤ وہاں اسے کھڑا ہوجانا چاہیے اور جہاں اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ آگے بڑھو وہاں اُسے آگے بڑھنا چاہیے۔ تمہارا حق نہیں ہے کہ تم کوئی نیا لفظ بناؤ یا نئے معنے اور نیا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کرو۔جو کچھ خدا نے کہا وہ یہ ہے کہ مصلح موعود کی وہ پیشگوئی جو اِس زمانہ کو انوار و برکات کے لحاظ سے ویسا ہی زمانہ ثابت کر رہی ہے جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا زمانہ تھا میرے ہی ذریعہ سے پوری ہوئی ہے اور نشانات اور علامات نے بھی بتا دیا ہے کہ یہ پیشگوئی میرے ہی ذریعہ سے پوری ہوئی ہے۔ اگر تم میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کے نزدیک درحقیقت کسی چیز کا بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی شخص کو خدا بھی مل جائے تو وہ کہیں گے کہ پھر کیا فائدہ ہوا؟ سوال یہ ہے کہ اسلام اِس وقت ایک ایسے دَور میں سے گزر رہا ہے جو ضعف اور کمزوری کا دَور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر اسلام کی حفاظت کی بنیاد رکھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں دشمن کی طرف سے اسلام پر وہ تمدنی حملہ نہیں ہوا تھا جو آج کیا جا رہا ہے۔ پس خدا نے چاہا کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق موجودہ زمانہ میں ایک ایسے شخص کو اپنے کلام سے سرفراز فرمائے جو روح الحق کی برکت اپنے ساتھ رکھتا ہو، جو علوم ظاہری اور باطنی سے پُر ہو اور جو دشمن کے ان تمدنی حملوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصَلوٰۃوالسلام کی تشریح، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تشریح اور قرآن کریم کے منشاء کے مطابق دُور کرے اور اسلام کی حفاظت کا کام سرانجام دے۔ سو خدا نے اپنا کام کردیا اور میری تحریروں پر اپنی مہر تصدیق کردی اور اگر اُس کی مشیّت کچھ اور کام کروانے والی ہے تو وہ کام بھی ایک دن دنیا کے سامنے آجائے گا۔ یہ چیز ہے جو اس پیشگوئی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کی عظمت کو نہیں سمجھتا تو وہ خدا کے سامنے خود جواب دہ ہے اور اگر کوئی شخص اس کا نیا نام رکھتا اور کوئی نیا عُہدہ اس کے لیے تجویز کرتا ہے تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ عُہدہ وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے۔ اگر کوئی شخص اس بارہ میں خود قیاس کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قُرب کو حاصل نہیں کرتا بلکہ اُس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے۔ جو کچھ خدا نے کہا ہم اُتنا ہی کہہ سکتے ہیں اُس سے زیادہ کچھ کہنا ہمارے لیے جائز نہیں۔ بلکہ میں نے تو اس بارہ میں اتنی احتیاط کی کہ جو پیشگوئیاں پوری ہو رہی تھیں مَیں نے ان سے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور مَیں نے کہا جب تک خدا مجھے نہیں بلوائے گا مَیں ان پیشگوئیوں کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا۔ مَیں نےاپنے دل میں کہا اگر میرے چُپ رہنے سے اِن پیشگوئیوں کی عظمت ثابت ہوتی ہے تو پھر میرے بولنے سے کیا فائدہ۔ اور اگر میرے بولنے کے بغیر ان پیشگوئیوں کی عظمت ثابت نہیں ہوسکتی تو بلوانے والا آپ بلوا لے گا۔ مَیں خود کیوں بولوں؟ پس اگر میرے نہ بولنے سے خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہو جاتا تھا تو میرا بولنا سُوءِ ادبی اور کبر تھا اور اگر میرے چُپ رہنے سے نہیں بلکہ بولنے سے خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہوتا تھا تو پھر جس کا یہ کام تھا اُسی کا یہ بھی کام تھا کہ وہ میری زبان کھلواتا۔چنانچہ جب وقت آیا، اُس نے یہ بات مجھے بتا دی اور نہ صرف بات بتا دی بلکہ ارشاد فرمایا کہ اب مَیں اور لوگوں کو بھی یہ بات بتلا دوں۔ اور نہ صرف اُس نے مجھے یہ ارشاد کیا بلکہ اپنے فضل سے ایسے حالات بھی پیدا فرما دیئے جو اس پیشگوئی کی صداقت کے لیے بطور دلیل کے ہیں۔ جس طرح آسمان پر جب چاند چمکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ارد گرد ستارے پیدا کردیا کرتا ہے اسی طرح اِن ایام میں بہت سے لوگوں کو ایسی خوابیں آئی ہیں جن میں اسی خواب کا مضمون دُہرایا گیا ہے جو مَیں نے دیکھی تھی۔ چنانچہ ابھی مَیں لاہور میں ہی تھا کہ میری رؤیا کے بعد ایک دوست نے جن کا نام ڈاکٹر محمد لطیف صاحب ہے مجھے بتایا کہ انہوں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ ایک فرشتہ میرا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ انبیاء و رُسل کے ساتھ اس کا نام لیا جائے گا۔
انبیاء و رُسل کے ساتھ نام لیے جانے کے وہی معنے ہیں جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ مثیل مسیح ہوگا۔یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام جو نبی اور رسول ہیں ان کے ساتھ میرا بھی نام لیا جائے گا۔
اسی طرح ایک دوست نے لکھا کہ رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ مینار پر کھڑے ہوکرآپ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا اعلان کر رہے ہیں۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ5 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ابتدائی الہاموں میں سے ہے اور مینار پر اس الہام کے اعلان کرنے کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تبلیغِ احمدیت کو میرے ذریعہ سے اور بھی مضبوط کر دے گا۔
اسی طرح ایک دوست نے دیکھا کہ ایک درخت پر کھڑے ہو کر مَیں کوئی اعلان کررہا ہوں۔ یہ میری رؤیا سے پہلے کی بات ہے اور درخت سے مراد گو اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا الہامِ الٰہی ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں الہام کو شجرۂ طیبہ قرار دیا گیا ہے۔6 پس اس کے معنے یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کے الہام اور رؤیا کے ماتحت میں لوگوں کے سامنے کوئی اعلان کرنے والا ہوں لیکن اس بارہ میں سب سے زیادہ عجیب رؤیا منصف خان صاحب اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کا ہے۔ اس رؤیا کو پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ کس طرح اس میں میرے پچھلے خطبہ اور خواب کا سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 30 اور 31 جنوری کی درمیانی شب کو مَیں نے یہ رؤیا دیکھا ہے۔ خطبہ مَیں نے 28 جنوری کو پڑھا تھا اور یقیناً یہ خطبہ خواب دیکھنے کے وقت تک ان کو نہیں ملا۔ "الفضل" میں اس بارہ میں پہلی خبر 30جنوری کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے اور الفضل کا یہ پرچہ ان کو 31 جنوری کو مل سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے 30 اور 31 جنوری کی درمیانی رات کو یہ خواب دیکھا۔ اور پھر اُن کے خط میں بھی اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اخبار میں انہوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رؤیا ان کو ایسے حالات میں ہوئی ہے جبکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ مَیں نے اپنے خطبہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ احمدیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں اور بڑے جوش سے ان کے مُنہ سے تسبیح کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ اَور لوگوں پر بھی اس کا اثر ہے لیکن مفتی محمد صادق صاحب پر تو وجد کی حالت طاری ہے۔
اب دیکھو! پچھلے خطبہ میں تمام احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کے اس نشان کا اثر تھا مگر مفتی صاحب پر تو اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ خطبۂ جمعہ میں ہی بول پڑے۔ وہ لکھتے ہیں مَیں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک کمرہ نظر آیا جس میں شیشے کی تین چوکھٹیں لگی ہوئی ہیں اور ان پر نہایت اعلیٰ پالش کیا ہوا ہے تاکہ اُن پر تصویر آسکے۔اس کے بعد مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ اُن پر دو تصویریں نمودار ہو گئی ہیں۔ ایک تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ہے اور ایک آپ کی ہے اور یہ دونوں تصویریں اکٹھی کمرہ کے اندر چکر کھار ہی ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہیں۔ انہوں نے تیسری تصویر کا ذکر نہیں کیا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تصویر کو انہوں نے نہیں دیکھا۔ یا شاید دیکھا تو ہو مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل انہوں نے دیکھی ہوئی نہیں تھی اور آپ کی تصویر بھی دنیا میں کوئی موجود نہیں اس لیے وہ نہ سمجھ سکے ہوں کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ لیکن رؤیا میں انہوں نے شیشے تین ہی دیکھے ہیں اور میری رؤیا میں بھی تین وجودوں کے بولنے کا ذکر آتا ہے۔ پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری زبان سے بولے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام آئے اور میری زبان سے بولے اور پھر مَیں خود بولا۔ پھر وہ لکھتے ہیں خواب میں عربی زبان میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں جنہیں مَیں سمجھ نہیں سکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نُزُوْلُ السَّمَاء نُزُوْلُ السَّمَاء کہا جا رہا ہے۔اس میں درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اُس الہام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اشتہار میں پایا جاتا ہے کہ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء۔ چونکہ وہ عربی سے ناواقف ہیں اس لیے کہتے ہیں مجھے اَور تو کچھ یاد نہیں رہا صرف اتنا یاد رہا کہ عربی میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں جن میں نُزُوْلُ السَّمَاء کے الفاظ ہیں۔ تو دیکھو کس طرح خدا تعالیٰ نے انہیں رؤیا میں خطبہ کے وقت کی کیفیت بتا دی اور کس طرح اس رؤیا کا نقشہ بھی بتا دیا جو مَیں نے دیکھی تھی۔ حالانکہ اُس وقت تک انہیں میرے اس اعلان کا کوئی علم نہیں تھا۔ اِسی طرح اور لوگوں کو بھی اِن ایام میں ایسی خوابیں دکھائی گئی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو ایسی خوابیں آئی ہیں۔ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو یہ خوابیں بھی لوگوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوسکتی ہیں۔
پس وہ دوست جنہوں نے مجھے اپنی اپنی خوابیں لکھی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ الفضل میں ایسی تمام خوابیں شائع کرادیں اور اگر کسی اور دوست کو بھی کوئی خواب آئی ہو لیکن مجھے اس نے نہ بتائی ہو تو اُسے بھی وہ خواب "الفضل" میں شائع کرا دینی چاہیے۔ یہ بھی ایک نشان ہے جو لوگوں کے لیے ان کے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہوسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں الْمُؤْمِنُ یَرٰی اَوْ یُرٰی لَہٗ۔7 کہ مومن بعض دفعہ خود خواب دیکھتا ہے اور بعض دفعہ دوسروں کو اس کے متعلق خوابیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہ نشان درحقیقت شکی طبائع کی ہدایت کے لیے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو دیر سے واقف ہوتے ہیں وہ تو سمجھتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹ بولنے والا نہیں۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی خوابیں خیالات کا اثر ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ خوابیں جو مختلف افراد کو اور مختلف مقامات میں رہنے والوں کو آتی ہیں اپنے اندر ہدایت کا سامان رکھتی ہیں۔خیالات کا اثر آخر ایک شخص پر تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ پانچ، دس، پندرہ یا بیس لوگوں کو ایک مہینہ کے اندر اندر ایسی خوابیں آ جائیں اور وہ لوگ بھی ایسے ہوں جو ایک دوسرے کے واقف نہ ہوں، ایک جگہ پر نہ رہتے ہوں، ایک دوسرے سے ملتے نہ ہوں اور ایک دوسرے سے ان کا کوئی زیادہ گہرا تعلق نہ ہو۔ایسے لوگوں کو ایک وقت میں ایک جیسی خوابوں کا آ جانا بغیر الٰہی تدبیر کے کس طرح ہوسکتا ہے۔ پس یہ خوابیں بھی جو مختلف دوستوں کو آئیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس بات کا ایک مزید ثبوت ہیں کہ اس نے مجھ پر جس امر کو منکشف فرمایا وہ اپنے اندر صداقت اور راستی رکھتا ہے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو الہامات نازل ہوئے ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ایک یہ علامت بھی بتائی گئی تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے مشرف ہوگا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ دیر سے چلا آرہا ہے مگر اُن الہامات اور رؤیا و کشوف کو مَیں نے آج تک بہت ہی کم بیان کیا ہے۔ کبھی بہت ہی مجبور ہو گیا تو اُس وقت اپنے کسی رؤیا یا الہام کو میں نے بیان کیا ہے۔ یا کبھی ایسا ہوا کہ میں نے اپنے کسی رؤیا کا کسی دوست سے ذکر کردیا۔ ورنہ بالعموم مَیں اپنے رؤیا اور الہامات بتایا نہیں کرتا۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ ہے اور دیر سے چلا آرہا ہے۔
سب سے پہلی چیز جو اِس منصب کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ میرا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں مجھے ہوا اور مَیں نے جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بتا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اپنے الہامات کی کاپی میں لکھ لیا۔ وہ الہام مَیں نے بارہا سنایا ہے۔ پہلے مَیں اسے صرف خلافت کے متعلق سمجھتا تھا لیکن اب میرا ذہن اِس طرف منتقل ہوا ہے کہ اس الہام میں میرے اس منصب کی طرف اشارہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملنے والا تھا۔ وہ الہام یہ تھا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یقیناً اللہ تعالیٰ تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھے گا۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے جو پیشگوئی کے پورا ہونے کی ترتیب پر دلا لت کرتا ہے اور وہ یہ کہ یہ وہ الہام ہے جو حضرت مسیح ناصری کو ہوا اور جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے مگر وہاں یہ الفاظ ہیں وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡكَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیَامَۃِ8 اور یہاں یہ الہام ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا دعوٰی موسوی سلسلے کی آخری نبوت کا تھا اور اِس قسم کے دعوے کے متعلق پہلے لوگوں کی مخالفت ضروری ہوتی ہے۔ پھر ایک لمبے عرصے کے بعد وہ اُس نبی پر ایمان لاتے ہیں لیکن مصلح موعود کی پیشگوئی کے مورِد کو چونکہ اللہ تعالیٰ پہلے خلیفہ بنانا چاہتا تھا اور خلیفہ کو معاً بنی بنائی جماعت مل جاتی ہے اس لیےیہاں جَاعِلُ الَّذِیۡنَ والے حصے کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت مسیح کے عہدہ والا نبی تو جب بھی لوگوں کے سامنے اپنا دعوٰی پیش کرتا ہے لوگ اسے سنتے ہی کہنے لگ جاتے ہیں جھوٹا، جھوٹا۔ کوئی ابوبکرؓ جیسی صفت رکھنے والا انسان ہوا اور اس نے مان لیا تو یہ علیحدہ بات ہے۔ ورنہ عام طور پر ایسا نبی جب اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے ساری دنیا اُسے جھوٹا قرار دینے لگ جاتی ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ابتدا میں صرف تین لوگ ایمان لائے۔ لیکن خلیفہ کو پہلے دن ہی ایک جماعت مانتی ہے۔ پس اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک دن بنی بنائی جماعت دیدے گا اور پھر اس جماعت کا تعلق تمہارے ساتھ مضبوط کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایک دن وہ تمہاری جماعت ظلی طور پر کہلائے گی۔ اور کچھ لوگ تمہارے مخالف بھی ہوں گے مگر تمہاری بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ قیامت تک تمہارے منکروں پر غلبہ دے گا اور یہ غلبہ تمہارے امام بنتے ہی شروع ہوجائے گا۔ اور جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡكَ والے حصہ کی ضرورت نہیں ہوگی کہ تم انتظار کرو کہ لوگ کب ایمان لاتے ہیں یا اکثر لوگ مخالفتیں کریں، فتوے لگائیں، مضحکہ اڑائیں، تحقیر و تذلیل کی کوشش کریں،مٹانے اور برباد کرنے کی تدبیریں کریں اور دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک طوفانِ مخالفت اُمڈ آئے بلکہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بنی بنائی جماعت کے اکثر حصہ کو تیرے سپرد کردے گا اور جس دن یہ جماعت تیرے سپرد ہوگی اُسی دن سے تجھے ماننے والوں کا تیرے مخالفوں پر غلبہ شروع ہوجائے گا۔ چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جماعت کو تو تین سو سال کے بعد غلبہ حاصل ہوا لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے جس وقت خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا اُس کے چند ہفتوں کے اندر ہی وہ لوگ جو میرے بالمقابل کھڑے ہوئے تھے اور میرے عہدہ کے منکر تھے یعنی پیغامی،اللہ تعالیٰ نے اُن پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو غلبہ دینا شروع کردیا اور یہ غلبہ خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پیغامی آج کہہ رہے ہیں کہ ایک خواب پر انحصار کیا گیا۔ حالانکہ وہ بھی خواب نہیں کیونکہ اس میں الفاظ ہیں۔ مگر یہ الہام جو مَیں نے اوپر لکھا ہے یہ تو الہام ہے اور چالیس سالہ پرانا ہے۔اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ میں ایک جماعت کا امام ہوں گا۔ کچھ حصہ میری مخالفت کرے گا، اکثر میرے ساتھ مل جائیں گے اور انہیں اللہ تعالیٰ قیامت تک دوسروں پر غلبہ دے گا۔ یہ جو فرمایا کہ تیرے ماننے والوں کو تیرے کافروں پر اللہ تعالیٰ قیامت تک غلبہ دے گا اس میں اِسی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن مجھے ظلی طور پر نبیوں کا یعنی مسیح ناصری اور مسیح محمدی کا نام دینے والا ہے کیونکہ خلیفہ کی جماعت اُس کی زندگی تک ہوتی ہے۔ وفات کے بعد صرف نبیوں کی جماعت یا ان کے اظلال کی جماعت چلتی ہے۔ اسی طرح کَفَرُوْا کے الفاظ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ خلافت کے بعد مجھے ایک اور رُتبہ ملنے والا ہے جو بعض نبیوں کے ظلّ کے طور پر ہوگا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ۔
دوسرے مجھے ایک کشف ہؤا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں ہی مَیں نے دیکھا تھا۔ وہ بھی اِسی مقام پر دلا لت کرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ مَیں اُس کمرہ سے نکل رہا ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام رہتے تھے اور باہر صحن میں آیا ہوں۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف رکھتے ہیں۔ اُس وقت کوئی شخص یہ کہہ کر مجھے ایک پارسل دے گیا ہے کہ یہ کچھ تمہارے لیے ہے اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لیے ہے۔ کشفی حالت میں جب مَیں اُس پارسل پر لکھا ہوا پتہ دیکھتا ہوں تو وہاں بھی مجھے دو نام لکھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پتہ اس طرح درج ہے کہ محی الدین اور معین الدین کو ملے۔ مَیں کشف میں سمجھتا ہوں کہ اِن میں سے ایک نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ہے اور دوسرا نام میرا ہے۔ اُس وقت چونکہ مَیں بچہ تھا اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کا نام مَیں نے سنا ہوا نہیں تھا، صرف اورنگ زیب کے متعلق مَیں جانتا تھا کہ ان کا نام محی الدین تھا اس لیے مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ محی الدین سے مراد مَیں ہوں۔ اور حضرت معین الدین چشتی چونکہ ہندوستان میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں اس لیے مَیں نے سمجھا کہ معین الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی بھی ایک بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں تو مَیں نے سمجھا کہ محی الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں جنہوں نے دین کو زندہ کیا اور معین الدین سے مراد مَیں ہوں جس نے دین کی اعانت کی۔ پس دین کو زندہ کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں اور دین کی نصرت اور اعانت کرنے والا مَیں ہوں۔ جیسے ماں بچہ جنتی ہے اور دایہ دودھ پلاتی ہے۔
تیسرا الہام جو مجھے اسی رنگ میں ہؤا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات کے بعد۔ وہ یہ ہے کہ اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا۔اے آلِ داؤد! تم اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرو۔ اس الہام کے ذریعہ اِعْمَلُوْا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے منشاء پر پوری طرح عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آلِ داؤد کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت سلیمان علیہ السلام سے مشابہت دی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے تھے اور اُن کے بیٹے بھی تھے۔ مجھے یاد ہے اُس وقت یہ الہام اتنے زور سے ہوا کہ کتنی دیر تک مجھ پر اس الہام کے نازل ہونے کی کیفیت تازہ رہی۔ اور یہ الہام اتنا واضح تھا کہ باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اس وقت فوت ہو چکے تھے جب مَیں اپنے بعض ہم عمروں سے سیر میں اس کا ذکر کررہا تھا یکدم میرے ذہن سے آپ کی وفات کا خیال نکل گیا اور مجھے جوش پیدا ہوا کہ مَیں دوڑ کر جاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جاکر اس کا ذکر کروں۔
چوتھی شہادت اس رؤیا کی تصدیق میرا یہ کشف ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیت الدعا میں بیٹھا دعا کررہا ہوں کہ یکدم مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ابراہیمؑ تھے۔ پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ اس اُمت میں اور بھی کئی ابراہیم ہوئے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے متعلق بتایا گیا کہ آپ بھی ابراہیم ہیں اور آپ کا نام مجھے ابراہیم ادھم بتایا گیا ہے۔ ادھم ایک بادشاہ تھے جو بادشاہت کو چھوڑ کر تصوف کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ پس مجھے بتایا گیا کہ حضرت خلیفہ اول ابراہیم ادھم ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ ایک ابراہیم تم بھی ہو۔
پانچویں شہادت جو اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات کے قریب مجھے ملی یہ ہے کہ مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کی آواز ایسی ہے جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے کسی چیز سے ٹھکوریں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس گھنٹی میں سے بھی ٹن کی آواز آئی۔ مگر وہ آواز ایسی سُریلی اور لطیف ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے سارے جہان کی موسیقی کی لذّت اُس میں بھر دی گئی ہے۔ یہ آواز بڑھتی گئی، بڑھتی گئی یہاں تک کہ تمام جَوّ میں متشکّل ہو کر ایک فریم بن گئی جیسے تصویر کا فریم ہوتا ہے پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی جو کسی نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی ہے۔ پھر وہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے کُود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا جس کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کا فرشتہ ہے اور اس نے مجھے کہا آؤ مَیں تم کو سورۂ فاتحہ کا درس دُوں۔ چنانچہ اُس نے مجھے سورۂ فاتحہ کا درس دینا شروع کردیا اور دیتا گیا،دیتا گیا، دیتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ9 کی تفسیر شروع کرنے لگا تو کہنے لگا۔ آج تک جتنے مفسر ہوئے ہیں اُن سب نے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ10 تک تفسیر لکھی ہے لیکن مَیں تمہیں اس کے آگے بھی تفسیر بتاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ساری سورۃٔ فاتحہ کی تفسیر مجھے پڑھا دی۔جب میری آنکھ کھلی تو رؤیا میں اُس فرشتہ نے جو باتیں مجھے بتائی تھیں اُن میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں لیکن مَیں نے اُن کو نوٹ نہ کیا اور بعد میں مَیں خود بھی اُن کو بھول گیا۔ جب صبح مَیں نے اپنے اِس رؤیا کا حضرت خلیفہ اول سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ خواب میں فرشتہ نے جو کچھ باتیں بتائیں تھیں اُن میں سے بعض آنکھ کھلنے پر مجھے یاد تھیں لیکن صبح اُٹھنے پر وہ بھی میرے ذہن میں سے نکل گئیں۔ تو حضرت خلیفہ اول خفا ہو کر کہنے لگے کہ تم نے اتنا علم ضائع کردیا ان کو نوٹ کر لینا چاہیے تھا۔ مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا سورۂ فاتحہ سے خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی مجھے نئے نئے نکات سمجھاتا ہے۔ چنانچہ اب بھی اِس رؤیا کے بعد جب مَیں نے توجہ کی کہ جماعت کی اصلاح اور اسلامی نظام کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے کونسا واضح پروگرام ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۂ فاتحہ سے ہی ایک نہایت واضح اور مکمل پروگرام بتایا جس پر چل کر اسلام ایسی ترقی حاصل کرسکتا ہے کہ دشمن اس کو دیکھ کر حیران رہ جائے اور اسلامی تمدن کی فوقیت کا اعتراف کیے بغیر اُس کے لیے کوئی چارۂ کار نہ رہے۔ اس پروگرام کے مطابق اُن تمام غلطیوں کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ازالہ ہوسکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان نظامِ اسلام اور اس کے تمدنی احکام کو سمجھنے میں کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ کے ذریعہ سے ہی مجھے سمجھا دیا۔ اور اس رؤیا کی اصل تعبیر یہ تھی کہ میرے قوائے باطنیہ میں سورۂ فاتحہ کا علم خصوصاً اور فہمِ قرآن کا عموماً رکھ دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً الہامِ باطنی کے ساتھ ضرورت کے مطابق ظاہر ہوتا رہے گا۔
چھٹی شہادت اس بارہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی وحی سے نوازا اور اس بات کی بھی کہ اُس نے اُس کام کے لیے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی میں ہے مجھے تیار کیا ہے یہ ہے کہ مجھے ایک رؤیا ہوا جو غالباً زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا ابتدائے خلافت حضرت خلیفہ اول میں مَیں نے دیکھا تھا۔ )یہ رؤیا مَیں نے اُسی وقت میجرسیدحبیب اللہ شاہ صاحب حال سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل لاہور کو اور دوسرے احباب کو سنا دی تھی۔ ابھی چند دن ہوئے انہوں نے خودبخود مجھ سے اس رؤیا کا ذکر کیا۔( مَیں نے دیکھا کہ مَیں مدرسہ احمدیہ میں ہوں اور اُسی جگہ مولوی محمد علی صاحب بھی کھڑے ہیں۔ اتنے میں شیخ رحمت اللہ صاحب آ گئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہنے لگے آؤ مقابلہ کریں۔ آپ کا قد لمبا ہے یا مولوی محمد علی صاحب کا۔ مَیں اس مقابلہ سے کچھ ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں مگر وہ زبردستی مجھے کھینچ کر اُس جگہ پر لے گئے جہاں مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہیں۔ یوں تو مولوی محمد علی صاحب قد میں مجھ سے چھوٹے نہیں بلکہ غالباً کچھ لمبے ہی ہیں لیکن جب شیخ صاحب نے مجھے اور اُن کو پاس پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ مَیں تو سمجھتا تھا مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے۔چنانچہ رؤیا میں مَیں دیکھتا ہوں کہ بمشکل میرے سینہ تک اُن کا سر پہنچا ہے۔ پھر شیخ رحمت اللہ صاحب ایک میز لائے اور اُس پر اُن کو کھڑا کردیا مگر تب بھی وہ مجھ سے چھوٹے ہی رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اُس میز پر ایک سٹول رکھا اور اُس پر مولوی صاحب کو کھڑا کیا مگر پھر بھی مولوی صاحب مجھ سے چھوٹے ہی رہے۔ اس کے بعد انہوں نے مولوی صاحب کو اٹھا کر میرے سر کے برابر کرنا چاہا لیکن وہ پھر بھی نیچے ہی رہے۔ بلکہ مزید براں اُن کی ٹانگیں اِس طرح ہوا میں لٹک گئیں گویا کہ وہ میرے مقابل پر بالکل ایک بچہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بمشکل میری کہنیوں تک پاؤں آئے۔ اب دیکھو! اس میں کس طرح اس تمام مقابلہ اور پھر اس کے انجام کی بھی خبر دی گئی ہے جو مولوی محمد علی صاحب سے ہونے والا تھا۔حالانکہ اگر ابتدائے خلافتِ اولیٰ کے وقت کی رؤیا ہے تو اُس وقت جماعت میں خواجہ کمال الدین صاحب سر اٹھا رہے تھے نہ کہ مولوی محمد علی صاحب۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں عجیب طریق پر بعد میں پیدا ہونے والے جھگڑوں کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔چنانچہ دیکھ لو! مولوی محمد علی صاحب میرے مقابلے میں اتنے نیچے ہوئے، اتنے نیچے ہوئے کہ اب اُن کا سارا زور ہی اس بات کے ثابت کرنے پر صَرف ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی لوگ معزز ہوتے ہیں جو چھوٹے ہوں۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم 95 فیصدی ہیں اور یہ چار پانچ فیصدی ہیں اور جماعت کی اکثریت کبھی ضلالت پر نہیں ہوسکتی۔ مگر اب کہتے ہیں بے شک قادیان کی جماعت زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں لیکن ان کا زیادہ ہونا ہی ان کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے حقیقی بندے تھوڑے ہؤا کرتے ہیں۔ یہ بالکل وہی نقشہ ہے جو اِس رؤیا میں بتایا گیا تھا۔ وہ اتنے چھوٹے ہوئے، اتنے چھوٹے ہوئے کہ اب انہیں اپنا چھوٹا ہونا ہی اپنی صداقت کی دلیل نظر آتا ہے۔
پھر جس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا کہ لَنُمَزِّقَنَّھُمْ ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔اُس وقت یہ لوگ اپنے آپ کو 95 فیصدی کہا کرتے تھے مگر اب اُن کی کیا حالت ہے۔خدا نے اُن کواِس پیشگوئی کے مطابق حقیقت میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنی وفات سے پہلے لکھا کہ مرزا محمود نے ہمارے متعلق جو الہام شائع کیا تھا وہ بالکل پورا ہو گیا ہے اور ہم واقع میں ٹکڑےٹکڑے ہو گئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو جیسا کہ الہام میں خبر دی گئی تھی میرے مقابلہ میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ مَیں اُس کلامِ الٰہی کی مثالیں جو مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نازل فرمایا اِس وقت اِسی قدر بیان کرتا ہوں۔ ہاں میرا ارادہ ہے کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر ایک مختصر رسالہ میں کسی قدر تفصیل کے طور پر اپنے بعض الہاموں، کشوف اور رؤیا کا ذکر کر دوں۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ مجھ پر اپنے غیب کو ظاہر کرکے اس پیشگوئی کو سچا کردیا ہے کہ مصلح موعود خدا تعالیٰ کی روحِ حق سے مشرف ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس نے میرے ذریعہ سے ظاہر فرمائے۔ مَیں نے اب بھی اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کا اُس وقت تک اعلان نہیں کیا جب تک خود خدا نے اپنے فضل سے مجھے اس حقیقت سے آگاہ نہیں فرما دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ جماعت کے دوست تو پہلے ہی ان پیشگوئیوں کا مجھے مصداق قرار دیتے رہے اور مَیں نے اب ان پیشگوئیوں کے مصداق ہونے کا دعوٰی کیا۔ مَیں اُن سے کہتا ہوں اِس میں حکمت وہی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ۔11 اللہ تعالی ٰ جب ایک نبی کی بعثت کے بعد کوئی اَور موعود کھڑا کرتا ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کی قائم کردہ جماعت دوبارہ کفر کا شکار ہوجائے اور اُس کا وہ ایمان ضائع ہوجائے جو اُسے حاصل تھا۔ اِسی لیے وہ پہلے سے ایسا رنگ پیدا کر دیتا ہے کہ اکثریت اُس موعود کو ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ فرض کرو کوئی ایسا موعود کھڑا ہو جاتا جس کی صداقت کی کوئی علامت پہلے ظاہر نہ ہو چکی ہوتی تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا۔ یہی نتیجہ نکلتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئیوں پر ہنسی اور تمسخر شروع ہو جاتا اور وہ جماعت جسے بڑی بڑی مشکلات، بڑی بڑی قربانیوں، بڑی بڑی دعاؤں اور بڑی بڑی کوششوں کے بعد قائم کیا گیا تھا اس کا اکثر حصہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے خلاف کھڑا ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنہوں نے اب تک مصلح موعود ہونے کے دعوے کیے ہیں ان کی ساری لڑائی جماعت کے ساتھ رہی ہے اور ان کی ساری لڑائی محض اِس وجہ سے ہوا کرتی ہے کہ احمدی ان کی کیوں بیعت نہیں کرتے۔ حالانکہ صاف بات ہے کہ اگر خدا نے تمہیں طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے تو جس طاقت اور قوت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک جماعت بنا لی تھی اُسی طاقت اور قوت سے تم بھی ایک نئی جماعت بنا لو۔ تمہیں کس نے منع کیا ہے۔ لیکن وہ نئی جماعت بھی نہیں بنا سکتے اور ہماری جماعت کو بھی اس وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں کہ یہ اُن پر ایمان کیوں نہیں لاتی۔ گویا اُن کے نزدیک ہماری جماعت کے افراد ہیں تو کافر، لیکن وہ اصرار کرتے ہیں ہم نے لینے یہی کافر ہیں۔ اب بتاؤ ایسے حالات میں کون ہے جو اُن کے دعوے کو تسلیم کرسکے۔ پس میری طرف سے بعد میں اعلان ہونے اور جماعت کی طرف سے پہلے مجھے اس پیشگوئی کا مصداق قرار دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی ہے کہ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ اللہ تعالیٰ مومنوں کو دوسری دفعہ کفر واسلام کے امتحان میں ڈال کر اُن کے ایمان کو ضائع کرنے کے لیے تیار نہ تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ دو موتیں اپنی جماعت پر وارد کرے۔ پہلی موت تو وہ تھی جو غیر احمدیت کی حالت میں اُن پر وارد ہوئی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دعوٰی کو جھٹلایا۔ لیکن آخر ان کے دل کی کسی نیکی کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا اور وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور صداقت کو قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا، مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کیا، ہزاروں دُکھوں اور بَلاؤں کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے ہر وہ عذاب برداشت کیا جو بندے دے سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ خیال کرنا کہ اس ابتلاء میں سے گزرنے والے لوگوں کی زندگی میں خدا تعالیٰ ایک ایسا موعود بھیج دے گا جس کی صداقت کے نشانات اس کے دعوے کے ایک لمبے عرصہ بعد ظاہر ہوں گے، اس کے یہ معنے ہیں کہ مومنوں کو پھر کفر کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے اور صحابہ کو دوبارہ کافر و منکر بنا دیا جائے، نئے سرے سے جماعت ابتلاء میں پڑجائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی سنت کے خلاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ایسا ہرگز نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے اس نے مصلح موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعوؑد کی تیار کردہ جماعت کی زندگی میں ہی آنے والا تھا یہ تدبیر اختیار کی کہ پہلے اُسے جماعت کا خلیفہ بنا کر اُن سے عہدِ اطاعت لے لیا اور اُن پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیے جو اس کے متعلق بتائی گئی تھیں اور جب حقیقت جماعت پر روزِ روشن کی طرح کھل گئی تو پھر اسے بھی اس حقیقت سے بذریعہ آسمانی اخبار کے علم دے دیا تا آسمان اور زمین دونوں کی گواہی جمع ہوجائے اور مومنوں کی جماعت کفر و انکار کے داغ سے بھی محفوظ کردی جائے۔ یہ ایسی ہی بات تھی جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر کہا تھا کہ خدا کی قَسم! اللہ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا۔12 یہی حال سب انبیاء کی قائم کردہ جماعتوں کاہو تا ہے اور خدائی قانون یہی ہے کہ وہ اپنی جماعت پر دو موتیں وارد نہیں کیا کرتا۔ دنیا کو کافر قرار دینے والے اور تمام جہان سے لڑائی کرنے والے نبی اور مامور اور مصلح ایک عرصہ دراز کے بعد آیا کرتے ہیں۔قریب زمانہ میں نہیں آیا کرتے۔ وہ اُس وقت آتے ہیں جب لوگوں کے دل واقع میں کافر اور بے دین ہو چکے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ مصلح اور وہ موعود اور پھر ان سے بڑھ کر وہ نبی اور مامور اور مرسل جنہوں نے ایسے وقت میں ظاہر ہونا ہوتا ہے جب جماعت کا قیام ابھی تازہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ جماعت کی اکثریت کو ان کا انکار کرنا نہیں پڑتا۔ جیسے حضرت ہارون علیہ السلام تھے کہ ان کے لیے قوم کو کوئی علیحدہ جنگ نہیں کرنی پڑی۔ جب وہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو حضرت ہارونؑ پر خودبخود ایمان لے آئے۔ یا یوشعؑ نبی ہوئے تو ان کو حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرح دنیا سے جنگ نہیں کرنی پڑی بلکہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے اُس قوم نے یوشعؑ پر خودبخود اپنے ایمان کا اظہار کردیا۔ تو خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ایک قوم پر دو دفعہ موت وارد نہیں کیا کرتا۔ جب خدا تعالیٰ ایک دفعہ اپنی جماعت کا ایمان کسی نبی کے ذریعہ سے محفوظ کر دیتا ہے تو پھر وہ اسی محفوظ ایمان کے ساتھ بڑھتی اور دنیا میں ترقی کرتی ہے۔اسی لیے خدا تعالیٰ نے پہلے علامتیں ظاہر کیں اور پھر مجھے بتایا بلکہ پہلے جماعت خود کہتی رہی تاکہ وقت آنے پر ایمان کی موت سے خدا تعالیٰ اسے بچا لے۔ باقی جس قدر مدعی ہیں وہ سارے ہی ایسے ہیں جن کے دعوے کو جماعت چونکہ تسلیم نہیں کرتی اس لیے وہ جماعت کے افراد کو کافر اور بے دین قرار دیتے ہیں۔حالانکہ یہ خدائی سنت کے خلاف ہے کہ وہ ایک نبی کی جماعت پر دو موتیں وارد کرے۔ بعد میں جب بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور نبی کے زمانہ پر ایک عرصہ دراز گزر جاتا ہے اُس وقت بے شک ایسا مامور آسکتا ہے جس کے انکار کی وجہ سے لوگ کافر اور بے دین قرار پا جائیں۔ لیکن جب نبی کے قریب ترین زمانہ میں کوئی مصلح اور موعود آتا ہے خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ماتحت پہلے سے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن کی وجہ سے جماعت کی اکثریت ٹھوکر سے محفوظ رہتی ہے۔تب ایمان اور جماعتی ترقی کا ایک تسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں کوئی روک پیدا نہیں ہوتی۔ ہاں جب جماعت بگڑ جائے، ایمان مٹ جائے، اخلاق درست نہ رہیں، بے دینی، کفر اور الحاد ہر طرف چھا جائے اُس زمانہ میں جب کوئی موعود آئے گا تو لازماً لوگ اُس کا انکار کریں گے اور وہ ایسے طور پر ہی آئے گا کہ اگر کوئی اس کا انکار کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کافر قرار پائے گا۔ پس موعود دو الگ الگ قسم کے زمانوں میں آیا کرتے ہیں۔ اِس وقت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے انوار چاروں طرف دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ کی تعلیم پر جماعت قائم ہے، آپ کے احکام کو لوگ تسلیم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے موجودہ زمانہ میں ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ جس موعود کو کھڑا کرتا اُس کے متعلق پہلے سے علامات ظاہر کردیتا تاکہ جماعت ٹھوکر سے محفوظ رہے۔ ہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوجائے گا اور پھر دنیا میں تاریکی اور ظلمت چھا جائے گی اُس وقت کوئی ایسا موعود بھی آسکتا ہے جس کے انکار پر لوگوں کو کافر قرار دیا جائے۔ اور اس میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ اُس وقت جیسے وہ ظاہر میں کافر ہوں گے اُسی طرح اُن کے دل کافر ہوں گے اور انہیں کافر قرار دینا درحقیقت اُن کے اپنے کفر کا ہی اظہار کرنا ہوگا۔لیکن موجودہ زمانہ میں ایسا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ایسا ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت اور اُس کے طریق کے خلاف ہے اور یہ صریح ظلمِ عظیم ہے کہ ایک قوم کو اللہ تعالیٰ دو موتوں میں داخل کرے"۔
خطبہ ثانیہ میں فرمایا:۔
"مجھے کل سے لاہور سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ اُمّ طاہر کی حالت پھر نازک ہو رہی ہے اور آج کی اطلاع تو یہ ہے کہ ان کی نبض بھی کمزور ہے اس لیے مَیں کل کی بجائے آج ہی لاہور جا رہا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو مَیں اگلا جمعہ قادیان میں ہی آکر پڑھانے کی کوشش کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے انسان پر جو خانگی فرائض رکھے ہیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے مَیں جمعہ کے بعد لاہور جاؤں گا اور چونکہ مجھے جلدی جانا ہے اس لیے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا"۔(الفضل 16 فروری ، 7 مارچ 1944ء)

6
حضرت محمد ﷺ کے صحابہ ؓ خدا تعالیٰ کےقرب کے جس مقام پر پہنچے اُس مقام پر آج بھی ہم پہنچ سکتے ہیں
(فرمودہ 11 فروری 4419ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مغرب کی نماز کے بعد جبکہ مَیں باہر بیٹھتا ہوں دوست مجھ سے مختلف سوالات دریافت کیا کرتے ہیں۔آج رات جو سوالات کیے گئے اُن میں سے ایک سوال ایسا اہم ہے جس کے متعلق میں پھر زیادہ تشریح اور وضاحت کے ساتھ کچھ بیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ وہ سوال ہماری تمام جماعت بلکہ تمام مسلمانوں کی عملی زندگی کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے۔
وہ سوال یہ تھا کہ کیا ہم اب بھی صحابہؓ میں شامل ہوسکتے ہیں؟ مَیں نے اختصار کے ساتھ اس کا جواب دیا تھا کہ صحابی ہونا اپنی ذات میں صرف اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی انسان ایسی صورت اختیار کر لے جو اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہم مجلس اور ہم شریک بنا دے۔ ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ملنے والوں میں سے ابوجہل بھی تھا، عتبہ اور شیبہ بھی آپ کی مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے ہی تھے۔ اور ظاہر میں ایمان کا دعوٰی کرنے والوں میں سے عبداللہ بن اُبَی ابن سلول بھی تھا مگر ہم ان کو صحابی نہیں کہتے۔ حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھتے اور آپ سے ہمیشہ باتیں کیا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کو تو ہم اس لیے صحابی نہیں کہتے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعوٰی کے منکر تھے حالانکہ جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم کا تعلق ہے وہ لوگ آپ کے قرب میں بیٹھنے والے تھے۔ اور کچھ لوگوں کو ہم اس لیے صحابی نہیں کہتے کہ گو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کو منہ سے تسلیم کرتے تھے مگر عملاً آپ سے عقیدت نہ رکھتے اور آپ کے ارشادات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ پس باوجود اس کے کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جسمانی قرب حاصل ہوا، ہم اُن کو صحابی نہیں کہتے۔ ہم یوں نہیں کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک صحابی تھا ابوجہل۔ مگر وہ آپ کا مخالف ہو گیا اور اس نے بڑی شدید دشمنی کی۔ ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک صحابی تھا عبداللہ بن ابی ابن سلول۔ وہ منہ سے تو کہتا تھا کہ مَیں اسلام کاشیدائی ہوں لیکن دل سے اسلام کا شدید ترین دشمن تھا حالانکہ جو صحابی کے معنے ہیں یعنی پاس بیٹھنے والا اور صحبت سے حصہ پانے والا، وہ اس میں پائے جاتے تھے۔ تو مَیں نے بتایا یہ تھا کہ درحقیقت صحابیت اس محبت اور اخلاص کے تعلق پر مبنی ہے جو انسا ن کسی رسول کے ساتھ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے جن لوگوں نے اس قِسم کا اخلاص اپنے اندر پیدا کر لیا وہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے بہت بعد پیدا ہوئے، انہوں نے وہی مقام حاصل کر لیا جو صحابؓہ کو حاصل تھا۔ چنانچہ مَیں نے اس کی مثال بھی دی تھی کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی فرماتے ہیں کہ مَیں نے ساری بخاری سبقًا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پڑھی ہے۔اسی طرح اور بہت سے لوگ امتِ محمدیہ میں ایسے گزرے ہیں جنہیں رؤیا یا کشف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، آپؐ سے باتیں کرنے کا ان کو موقع ملا اور جاگنے کی حالت میں بھی ان کے دلوں میں اخلاص اور تقوٰی پایا جاتا تھا۔ ایسے لوگ یقیناً صحابی تھے۔ یہی حالت اگر آج بھی ہم میں پیدا ہوجائے، یہی مرتبہ اگر آج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم کو میسر آجائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم آج بھی صحابہؓ کا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ پر بخل کا الزام نہیں لگاتے۔ ہمارا خدا بخیل اور مُمسک نہیں کہ ہم یہ خیال کر لیں کہ اس نے اپنی نعمتوں سے پہلوں کو تو حصہ دیا مگر ہمارے لیے ان نعمتوں کے حصول کا دروازہ اس نے بند کردیا ہے۔یہ جواب تھا جو مَیں نے اس سوال کا دیا۔ آج مَیں کسی قدر زیادہ وضاحت سے اس امر کو خطبہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ درحقیقت کسی انعام کے متعلق انسان کے دل میں خواہش کا پیدا ہونا یہ بھی بعض دفعہ بناوٹی ہوتا ہے اور کسی انعام کے حصول سے مایوس ہو جانا یہ بھی انسا ن کے لیے بڑی تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ ھَلَكَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَـکَھُمْ۔1 اے لوگو!جس نے اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہماری قوم ہلاک ہوگئی، ہماری قوم برباد ہو گئی فَھُوَ اَھْلَـکَھُمْ وہی شخص ہے جس نے اس قوم کو تباہ و برباد کیا۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قومی ہلاکت کی وجہ بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اس ہلاکت اور بربادی کی ذمہ داری اس آدمی پر ہے جو کہتا ہے کہ قوم ہلاک ہو گئی۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ قوم ہلاک ہو گئی، ساری کی ساری قوم کس طرح ہلاک ہوسکتی ہے اور چونکہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی اس لیے وہ کہتے ہیں اس حدیث میںاَھْلَـکَھُمْ کا لفظ نہیں بلکہ اَھْلَـکُھُمْ کا لفظ ہے۔ یعنی وہ شخص سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ حالانکہ واقع یہ ہے کہ انہوں نے قومی نفسیات کو سمجھا ہی نہیں۔یہ کہہ دینا کہ جو شخص کہتا ہے قوم ہلاک ہو گئی وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ اول تو بعض حالتوں میں یہ درست ہی نہیں اور پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ ان الفاظ کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا بن جاتا ہے۔ درحقیقت ان لوگوں نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ جب کسی قوم میں مایوسی پیدا کردی جائے تو وہ بڑے بڑے کام کرنے سےہمیشہ کےلئے محروم ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی قوم کا دانا اور سمجھ دار لیڈر ایسا نہیں ہوسکتا جو اس کو مایوس کردے اور آئندہ ترقیات کے متعلق اس کے دل میں ناامیدی پیدا کردے۔ جب کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ وہ ترقی کے انتہائی درجہ پر پہنچ گئی ہے یا جب کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ وہ تنزل کے انتہائی درجہ پر پہنچ گئی ہے تو وہ تباہ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب یہ خیال پیدا ہؤا کہ قرآن کریم کی تفاسیر جو لوگ پہلے لکھ چکے ہیں ان سے زیادہ اب کچھ نہیں لکھا جا سکتا، اب قرآن کی کوئی نئی تفسیر نہیں کی جاسکتی، معرفت کی کوئی نئی بات اس کی آیات سے نکالی نہیں جاسکتی تو مسلمانوں میں اُسی وقت تنزّل پیدا ہونا شروع ہو گیا اور ان کی معرفت جاتی رہی، ان کا علم سلب ہو گیا اور ان کی عقل کمزور ہو گئی اور ان کا فہم جاتا رہا اور وہ ان آسمانی علوم سے اس قدر محروم ہو گئے کہ اس زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے قرآن کریم کے نئے معارف بیان کرنے شروع کر دیے اور ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نےاس کے عجیب و غریب اسرار کھولے تو مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تفسیر بالرائے ہے۔ گویا انہیں معرفت کی باتوں سے اتنی دُوری ہو گئی کہ اسلام کی باتیں انہیں کفر کی باتیں دکھائی دینے لگیں اور قرآن کی باتیں انہیں بے دینی کی باتیں نظر آنے لگیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب قوم سے کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کوئی ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوسکتا، آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوسکتا جو قرآن کریم کو پہلوں سے زیادہ سمجھ سکے۔آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوسکتا جو حدیثوں کو پہلوں سے زیادہ سمجھ سکے۔ تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہماری قوم ہلاک ہو گئی۔ اب اس میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا اور جب انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہماری قوم میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا، ہماری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ مَیں نے قرآن سے فلاں نئی بات نکالی ہے تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے قرآن پر تدبر کرنا ترک کردیا۔ انہوں نے حدیثوں پر غور کرنا چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا جب ہمیں کوئی نئی بات نہ قرآن سے حاصل ہوسکتی ہے نہ حدیث سے مل سکتی ہے تو ہمیں قرآن اور حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پرانی تفسیریں ہی ہمارے لیے کافی ہیں۔یہ ایک لازمی نتیجہ تھا اس خیال کا کہ قرآن سے اب کوئی نیا نکتہ نہیں نکل سکتا۔ بلکہ رازی اور ابن حیان اور دوسرے مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے، وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس تباہ کن خیال کے زیرِ اثر قرآن کریم کے پڑھنے اور اسے سمجھنے کو ترک کردیا اور اپنا تمام تر انحصار تفسیروں پر رکھ لیا۔پھر یہ عذاب اتنا بڑھا ،اتنا بڑھاکہ آج سے پچیس تیس سال پہلے بڑے بڑے مولوی ایسے تھے جو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ تک نہیں جانتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے ہمارے لیے قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ضروری نہیں۔ اتنا ہی کافی ہے کہ اگر موقع ملے تو کوئی پرانی تفسیر دیکھ لی جائے۔
یہ ہلاکت ہوئی محض اس بات سے کہ قوم کو مایوس کردیا گیا۔ اسے کہہ دیا گیا کہ قرآن کریم کے معارف تک اس کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح جب مسلمانوں کو کہہ دیا گیا کہ خدا بولتا نہیں، وہ کسی سے محبت نہیں کرتا، وہ کسی سے پیار نہیں کرتا، وہ کسی کی التجا اور دعا کا جواب نہیں دیتا تو لوگوں کے دلوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش بھی مٹنی شروع ہو گئی۔ آخر یہ خواہش کہ خدا مجھ سے ملے اور وہ میرے ساتھ باتیں کرے، وہ مجھے اپنا پیارا بنالے، وہ میرا ہوجائے اور میں اس کا ہو جاؤں۔کوشش انسان تبھی کرے گا جب اسے یہ خیال ہوگا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ لیکن جب اس کا یہ خیال ہو کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو وہ اس غرض کے لیے کوشش ہی کیوں کرے گا۔ جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کردیا گیا کہ ہم خدا کے نہیں ہوسکتے اور خدا ہمارا نہیں ہوسکتا۔ جب قوم کے لیڈروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ھَلَكَ الْقَوْمُ ہماری قوم ہلاک ہو گئی، ہماری قوم میں وہ استعداد ہی نہیں رہی کہ جس سے کام لے کر وہ خدا سے محبت کرسکے، اس کے فضل کو اپنی طرف کھینچ سکے، اس کی وحی اور الہام کی مورد بن سکے تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس طرف سے اپنی توجہ ہی ہٹا لی اور خدا تعالیٰ کے دروازہ کو بند سمجھ کر اسے کھٹکھٹانا ترک کردیا۔ مگر کسی مکان کا دروازہ بند ہو، باہر کی طرف اس پر قفل لگا ہوا ہو تو کون بے وقوف ہے جو اس دروازہ پر بیٹھ کر مالک مکان کو آوازیں دینی شروع کرے گا۔ اگر کسی مکان کے دروازہ کے متعلق یہ اعلان کردیا جائے کہ اسے قطعی طور پر بند کردیا گیا ہے اور پھر اس دروازہ کو کوئی شخص کھٹکھٹانا شروع کردے تو سب لوگ اسے احمق اور پاگل سمجھیں گے۔ کیونکہ وہ ایسا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوگا جو بند ہو چکا ہے، جس کے بند ہونے کا اعلان ہو چکا ہے اور جس کے کھلنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی عمارت کا دروازہ تو بند ہو لیکن کھڑکی کھلی ہو تو سب لوگ اس کھڑی کی طرف جائیں گے دروازہ کی طرف نہیں جائیں گے۔ وہ کھڑکی کی طرف اس لیے جائیں گے کہ کھڑکی کھلی ہوگی اور دروازہ کی طرف اس لیے نہیں جائیں گے کہ دروازہ بند ہوگا۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ بند کردیا گیا اور جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کردیا گیا کہ اس دروازہ سے تمہیں کوئی آواز نہیں آسکتی۔خواہ تم کس قدر چلّاؤ، خواہ تم کس قدر آہ و زاری سے کام لو۔ تو نتیجہ یہ ہؤا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا اور پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے۔ کیونکہ گو وہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں۔ مگر یہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں انہیں کھلی نظر آئیں اور بڑا دروازہ انہوں نے مقفّل پایا۔ پس وہ خدا کے دروازہ کو چھوڑ کر پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے۔ کیونکہ انہوں نے کہا، یہ ہیں تو کھڑکیاں مگر کھلی کھڑکیاں ہیں۔ پس آؤ! ہم ان کھڑکیوں سے اندر کی طرف جھانکیں۔ مگر جانتے ہو اس کا کیا اثر ہوا؟ یہی ہوا کہ خدا کی محبت اور خدا کا پیار مسلمانوں کے دلوں سے جاتا رہا، روحانیت کا ان میں فقدان ہو گیا، وہ اس کے قرب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے اور خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام سننے سے ان کے کان ہمیشہ کے لیے ناآشنا ہو گئے۔
اسی طرح اسلامی تمدن اور سیاست میں بھی خطرناک نقص پیدا ہو گیا۔ کیونکہ کہہ دیا گیا کہ صحابہؓ کے زمانہ میں تمدن نے جو شکل اختیار کی تھی اُس سے زیادہ اسلامی تمدن کو کوئی شکل نہیں دی جاسکتی۔حالانکہ تمدن کی شکل ہر زمانہ کے لحاظ سے بدلتی چلی جاتی ہے۔ کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے۔سچا مذہب وہی ہوتا ہے جو اپنے اندر لچک رکھتا ہے اور اسی لیے وہ مذہب دنیا میں ایک لمبے عرصہ کے لیے آتے ہیں۔ ان کی تعلیم کے اندر ایک قسم کی لچک پائی جاتی ہے جو مختلف زمانوں اور مختلف حالات کے مطابق تغیر پذیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اسلامی تمدن نے جو شکل اختیار کی وہ اَور تھی۔ مگر اب اس تمدن نے جو شکل اختیار کرنی ہے وہ اَور ہے۔بے شک اس تمدن کے اصول ایک ہی رہیں گے مگر اس کی شکل زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدلتی چلی جائے گی۔ اعتراض تب ہو جب اصول میں تبدیلی ہو۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اصول ہمیشہ ایک ہی رہیں گے لیکن اس تمدن کی شکل اور طریقِ عمل میں ہمیں ضرور فرق کرنا پڑے گا اور موجودہ سوسائٹی کی طرز اور اس کے طریق کے مطابق ہمیں اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی اور شکل میں یہ تبدیلی بالکل جائز ہوگی۔مگر چونکہ کہہ دیا گیا کہ اسلامی تمدن انتہا تک پہنچ چکا ہے اور یہ کہ اس کے قانون میں کوئی لچک نہیں، اگر لوگ پرانے زمانہ کے تمدن کی نقل کریں تو بے شک کریں لیکن اس کے خلاف کوئی اور شکل تجویز نہیں کرسکتے۔ تو نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمانوں نے تمدن کے متعلق غوروفکر کرنا چھوڑ دیا اور وہ اس چھوٹے سے تالاب کی صورت میں بدل گیا جس کا پانی نہیں بہتا، جس میں بُو تو پیدا ہوجاتی ہے، جس میں تعفّن تو پیدا ہو جاتا ہے، جس میں سڑاند تو آنے لگتی ہے مگر خوشنمائی اور دلکشی باقی نہیں رہتی۔اسلامی تمدن بھی مسلمانوں کی اس حماقت کے نتیجہ میں ایک متعفّن چیز بن گیا جس سے خود مسلمان بھی نفرت کرنے لگے۔
پس یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ مَنْ قَالَ ھَلَكَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَـکَھُمْ یہ درحقیقت آپ نے ایک بہت بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا تھا۔ اگر قوم کے لیڈر، اگر قوم کے صلحاء، اگر قوم کے علماء، اگر قوم کے امراء اس ایک حدیث کو ہی یاد رکھتے، اگر وہ اپنی قوم کو مایوس نہ کرتے، اگر وہ اپنی قوم کو پژمُردہ اور کم ہمت نہ بناتے، اگر وہ ان کی امیدوں کو قائم رکھتے، اگر وہ ان کی امنگوں کو بڑھاتے، اگر وہ اپنی جہالت سے ان کو یہ نہ کہتے کہ تمہارے لیے اب ترقی کا کوئی موقع نہیں تو مسلمان روحانی میدان میں بھی آگے رہتے، اقتصادی میدان میں بھی آگے رہتے،علمی میدان میں بھی آگے رہتے اور سائنٹیفک میدان میں بھی آگے رہتے۔ مگر ہمارے ہاں تو یہاں تک مصیبت بڑھی کہ مذہب تو الگ رہا انہوں نے دنیوی علوم بھی پہلے لوگوں پر ختم کر دیے۔ بوعلی سینا کے متعلق کہہ دیا کہ اس نے طب میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں لکھا جاسکتا، منطق کے متعلق کہہ دیا کہ اس بارہ میں فلاں منطقی جو کچھ کہہ گیا ہے اس کے بعد منطق کے علم میں کوئی زیادتی نہیں کی جاسکتی۔ گویا اول تو انہوں نے خاتم النبیّین کے غلط معنے کیے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیضان کو جو ایک دریا کی صورت میں بہہ رہا تھا محدود کردیا اور دوسری طرف یہ غضب ڈھایا کہ کسی کو خاتمِ طب بنا دیا، کسی کو خاتمِ منطق بنا دیا، کسی کو خاتمِ فلسفہ بنا دیا اور اس طرح ایک ایک کرکے سارے علوم کے متعلق یہ فیصلہ کردیا گیا کہ ان کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ لکھ چکے ہیں ان سے زیادہ اب کوئی شخص نہیں لکھ سکتا۔ دماغی ترقی رک گئی ہے، ذہنی ارتقا جاتا رہا ہے، علم و فہم کا مادہ سلب ہو چکا ہے اور علوم کے دروازے سب بند ہو چکے ہیں۔ گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ھَلَكَ الْقَوْمُ کہ جو پہلوں کو مل گیا وہ اب دوسروں کو نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان بالکل تباہ و برباد ہو گئے۔ نہ مسلمانوں میں خدا پرست رہے، نہ مسلمانوں میں فقیہہ رہے، نہ مسلمانوں میں قاضی رہے، نہ مسلمانوں میں عارف رہے، نہ مسلمانوں میں محدث رہے کیونکہ جو چیز بھی تھی اسے گزشتہ لوگوں پر ختم کردیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ فطرت ان کی اس قدر بڑھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں بھی انہوں نے اسی حربہ سے کام لینا شروع کردیا۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک فقرہ لکھا ہے۔ وہ بظاہر ایک سادہ فقرہ ہے مگر انتہائی طور پر دلوں کی گہرائیوں پر اثر کرنے والا اور قلوب کو تڑپا دینے والا ہے۔ آپ پر جب لوگوں نے اعتراض کیا کہ پہلے مسیح سے آپ کس طرح بڑھ سکتے ہیں، تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا جواب دیتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرمایا کہ یہ لوگ تو اس طرح باتیں کر رہے ہیں گویا ان کے نزدیک جو کچھ ہے پہلا مسیح ہی ہے، دوسرا مسیح کچھ چیز نہیں۔ یہ بظاہر ایک سادہ سا فقرہ ہے۔ مگر کس طرح اس گری ہوئی ذہنیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے جو مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھی کہ تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے ساتھ تمام ترقیات کے سامان لائے، تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے ساتھ تمام برکات لائے، تم کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اپنے ساتھ تمام انوار لائے۔ مگر دوسری طرف تم اسی منہ سے یہ بھی کہہ رہے ہو کہ اب تمام برکتیں ختم ہو چکیں،تمام فیضان بند ہو چکے، اب کوئی شخص وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو پہلے لوگوں کو مِلا۔ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کو مِلا گویا اسلام کا چشمہ نَعُوْذُ بِاللہِ خشک ہو گیا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان نَعُوْذُ بِاللہِ ختم ہو گیا ہے، قرآن کا زندگی بخش اثر نَعُوْذُ بِاللہِ جاتا رہا ہے۔ اب خواہ لاکھ کوششیں کرو تمہیں وہ برکات کبھی نہیں مل سکتیں جو پہلے لوگوں کو ملیں۔ یہ توایسی گندی تعلیم ہے، یہ تو ایسی قوم کو تباہ و برباد کرنے والی تعلیم ہے کہ کوئی انسان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھتا ہو، کوئی انسان جس کے دل میں خدا تعالیٰ کا سچا ادب پایا جاتا ہو ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی ایسی تعلیم قبول نہیں کرسکتا۔یہ تو ایسی گندی اور متعفّن اور بدبودار تعلیم ہے کہ اس قابل ہے کہ اسے اٹھا کر میلے کے ڈھیروں پر پھینک دیا جائے، بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں اور ان کے دماغوں میں اسے جگہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا تھا کہ آپ اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات کے دروازے لوگوں کے لیے کھول دیں جو آپ کے زمانہ کے لیے ہی مخصوص نہ ہوں بلکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کھلے رہیں۔ اگر یہ تعلیم صرف صحابہ کے لیے ہی تھی، اگر یہ تعلیم باقی ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت سے ہمیشہ کے لیے محروم کرنے والی تھی تو یہ گندی دنیا جو خدا تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو خدا تعالیٰ کے الہام سے محروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سمجھنے سےمحروم ہو چکی تھی، یہ گندی دنیا جو اخلاق میں ترقی کرنے سے محروم ہو چکی تھی یہ تو اس قابل تھی کہ اس کو تباہ کردیا جاتا، اس کو برباد کردیا جاتا، اس پر عذاب نازل کرکے اسے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جاتا۔ نوح کی قوم پر وہ تباہی نہیں آئی جو اس دنیا پر آنی چاہیے تھی، لوط کی قوم پر وہ عذاب نازل نہیں ہوا جو اس دنیا پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ بشرطیکہ وہ سب کچھ درست ہوتا جو اِس زمانہ کے نادان مولوی کہہ رہے ہیں۔ مگر یہ جھوٹ اور افترا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ہم نے تجھے مبعوث کیا ہے۔ کسی ایک قوم کی طرف نہیں، کسی ایک ملک کی طرف نہیں بلکہ دنیا کے سارے انسانوں کی طرف ہم نے تجھے مبعوث کرکے بھیجا ہے۔2 اسی طرح آپ حاضر اور غائب سب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں مَیں اللہ کا رسول ہوں جو تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور خدا نے آپ کو وہ تعلیم دی ہے جو سب کو سمیٹنے والی اور ان کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے والی ہے تو کیسا نادان اور احمق ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تمام برکات پہلے لوگوں پر ہی ختم ہو چکیں، اب کوئی انسان وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا۔ یہ تو ایسے گندے اور ناپاک خیالات ہیں کہ قرآن اور اسلام ان کو ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے زمانوں کے لیے ہیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سارے زمانوں کے لیے ہیں تو برکات کا دروازہ اگلے لوگوں کے لیے بھی کُھلا ہونا چاہیے۔ تاکہ جس طرح پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اور انہوں نے اپنی اپنی قربانیوں کے مطابق خدا تعالیٰ کی رضا کا مقام حاصل کیا اُسی طرح آئندہ آنے والوں میں سے جو لوگ زیادہ قربانی کریں وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل کر لیں۔ اور جو لوگ کم قربانی کریں وہ اپنے معیار کے مطابق کم درجہ حاصل کریں۔ یہی چیز ہے جو دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کرتی ہے اور یہی چیز ہے جو عمل کا ولولہ قلوب میں موجزن کرتی ہے۔ اس یقین کے بعد جب ہم خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہم اس کی صفات پر غور کرتے ہیں، جب ہم اس کے افضال کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں، جب ہم اس کی محبت کے سچے دل سے طالب بن جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ ہم اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا پہنچتے ہیں جس طرح ہم اپنی محبت سے خدا کے قریب پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں ہم خدا نما بھی ہوسکتے ہیں اور ہم محمدنما بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم نہ خدا نما ہوسکتے ہیں، نہ محمد نما بن سکتے ہیں تو ہم نے اس غرض کے لیے کوشش ہی کیوں کرنی ہے۔ پھر تو ہمیں نہ نماز کی ضرورت ہے، نہ روزہ کی ضرورت ہے، نہ حج کی ضرورت ہے، نہ زکوٰۃ کی ضرورت ہے، نہ کسی اور حکم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب دروازہ بند ہو چکا، جب خدا تعالیٰ کے قرب کا راستہ مسدود ہو چکا تو کون احمق ہے جو اس بند دروازہ کے سامنے بیٹھے گا اور اس مسدود راستہ پر چلنے کی کوشش کرے گا۔ یقیناً کوئی نہیں جو اس علم کے بعد سچی کوشش کرسکے اور اس علم کے بعد صحیح جدوجہد کرے۔ لیکن خدا ہمیں کہہ رہا ہے کہ تم کوشش کرو۔ خدا ہمیں نمازوں کا بھی حکم دے رہا ہے، وہ ہمیں روزوں کا بھی حکم دے رہا ہے، وہ ہمیں زکوٰۃ کا بھی حکم دے رہا ہے، وہ ہمیں حج کا بھی حکم دے رہا ہے اور اس طرح بتا رہا ہے کہ تمہیں ان عبادات کے نتیجہ میں وہ سب کچھ مل سکتا ہے جو پہلے لوگوں کو ملا۔ مگر مسلمان ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان نمازوں اور ان روزوں کے بعد تمہیں وہ مقام کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا۔ گویا خدا ہمیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ تم نمازیں پڑھو اور ابوبکرؓ جیسی پڑھو۔ مگر کہتا یہ ہے کہ میں بناؤں گا تمہیں ابوہریرہؓ جیسا بھی نہیں۔ خدا ہمیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ تم روزے رکھو اور ابوبکرؓ جیسے رکھو بلکہ ابوبکرؓ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے رکھو کیونکہ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ3 تمہارے لیے ہمارا رسول نمونہ ہے۔ مگر دیکھنا مَیں تمہیں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کا مقام بھی نہیں دوں گا۔ تم زکوٰتیں دو اور صحابہؓ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابہؓ جیسی زکوٰتیں دو مگر یاد رکھنا تمہیں اُس زمانہ کے ایک ادنیٰ مسلمان جیسا درجہ بھی ہمارے ہاں حاصل نہیں ہوگا۔ آخر کونسی عقل ہے جو اِس تضاد اور تخالف کو تسلیم کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی وہی دل دیا ہے جو اس نے صحابہؓ کو دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی وہی دماغ دیا ہے جو اس نے صحابہ ؓ کو دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں بھی اپنے لقاء اور وصال کی وہی تڑپ رکھی ہے جو اس نے صحابہؓ کے دلوں میں رکھی۔ ہمارے قلوب میں بھی اُس نے یہ تمنا اور خواہش پیدا کردی ہے کہ ہم عرش پر پنجہ ماریں اور خدا کی محبت بھری گود میں جا پہنچیں۔ مگر دوسری طرف لوگ یہ بتاتے ہیں کہ خدا نے آسمان پر فرشتے بٹھا رکھے ہیں کہ دیکھنا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی بھی جس مقام پر پہنچا ہو اس سے تم نے ان لوگوں کو نیچا ہی رکھنا ہے۔ اوپر اٹھا کر نہیں لے جانا۔ یہ خدا ہؤا یا نَعُوْذُ بِاللہ ہوّا ہوا۔ یہ سب غلط اور تباہ کن خیالات ہیں جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ اللہ تعالیٰ کے قرب کے جس مقام پر پہنچے ہیں اُس مقام پر آج بھی ہم پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ اگر ہم کوشش کریں تو صحابہؓ سےبھی آگے بھی نکل سکتے ہیں۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہؓ سے آگے نکل کر دکھا دیا یا نہیں؟ صحابہ تو کیا آپ گزشتہ انبیاء سے بھی افضل ہیں اور صحابؓہ تو یقیناً درجہ کے لحاظ سے آپ سے بہت نیچے ہیں۔ بلکہ آپ کا مقام تو وہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں ؎
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا4
یعنی جو شخص میرے ہاتھ پر بیعت کرتا اور سچے دل سے میری جماعت میں شامل ہو جاتا ہے وہ ویسا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے۔ گویا آپ سے تعلق پیدا کرکے انسان آج بھی صحابہؓ جیسا بن سکتا ہے۔
پھر آپ کے بعد اب خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل قرار دیا ہے۔ پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے صحابہؓ سے جا ملےاسی طرح وہ لوگ جو آج یا آئندہ میرے نقشِ قدم پر چلیں گے، جو میری اتباع میں اسلام اور احمدیت کے لیے ویسی ہی قربانیاں کریں گے جیسے صحابہؓ نے کیں، چونکہ مَیں مسیح موعود کا مثیل ہوں اس لیے وہ مجھ پر ایمان لانے اور میرے نقشِ قدم پر چلنے کی وجہ سے مسیح موعودؑ کے صحابہ کے مثیل ہو جائیں گے اور وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے مثیل ہیں اس لیے یہ بھی اس مماثلت کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں شامل ہو جائیں گے۔
وہ لفظ جو عام طور پر لوگوں کو دھوکا میں ڈالتا ہے اور جسے سن کر وہ سمجھتے ہیں کہ اب شاید یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، صحابی کا لفظ ہے۔ صحابی کے معنے ہوتے ہیں صحبت یافتہ شخص۔ پس وہ کہتے ہیں جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا ہی نہیں اور جسے آپ کی صحبت نصیب ہی نہیں ہوئی وہ صحابی کس طرح کہلا سکتا ہے ۔چاہے اپنے دل میں وہ کتنا ہی اخلاص رکھتا ہو ہم اُسے صحابی نہیں کہیں گے کیونکہ اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی۔اس کے لیے یاد رکھو کہ دو باتیں ایسی ہیں جن سے اس وسوسہ کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ جہاں تک صحابیت کے درجے اور مقام کا تعلق ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے اس وجہ سے کہ ان کے دلوں میں پژمردگی پیدا نہ ہو اِخْوَان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد لوگ پیدا ہوں گے وہ میرے اِخْوَان ہوں گے۔ صحابہ نے کہا یارسول اللہ! کیا وہ اِخْوَان ہوں گے ہم اِخْوَاننہیں ہیں؟ حالانکہ دین کے لیے قربانیاں ہم کر رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک تم دین کے لیے قربانیاں کر رہے ہو مگر تم میرے صحابی ہو اور وہ لوگ میرے اِخْوَانہوں گے۔5 گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے متعلق جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے اور جن پر صحابی کا لفظ ظاہراً اطلاق نہیں پاسکتا تھا اِخْوَان کا لفظ استعمال کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم تو میرے صحابہ ہو مگر وہ میرے بھائی ہوں گے۔ اور بھائی اور صحابی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ صحابی وہی ہوتا ہے جسے صحبت میسر آئے۔ لیکن بھائی وہ بھی ہوسکتا ہے جس کی دوسرے بھائی نے شکل بھی نہ دیکھی ہو اور جو اس کی پیدائش سے پہلے فوت ہو چکا ہو یا اسکی موت کے بعد پیدا ہوا ہو۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر کہ آئندہ پیدا ہونے والے میرے بھائی ہوں گے اِس امر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جہاں تک محبت اور پیار اور موانست کے تعلقات کا سوال ہے وہ لوگ کم نہیں ہوں گے۔ جیسے بھائی اپنے دوسرے بھائی سے محبت اور پیار کے تعلقات رکھتا ہے اسی طرح اُن کے اور میرے تعلقات ہوں گے۔ لیکن چونکہ وہ میری مجلس میں نہیں بیٹھے ہوں گے اس لیے انہیں صحابہ نہیں کہا جائے گا، اخوان کہا جائے گا۔ پس وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہوتی ہے کہ کاش! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے اور ہم صحابی کہلاتے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے لیےاس خلش اور بے کلی کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ بے شک صحابی نہ کہلا سکیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اِخْوَانکہلاسکتے ہیں۔کیونکہ یہ وہ نام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اُن کو دیا۔ پس وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی ہیں۔ اور یہ بھائی کا لفظ کوئی معمولی نہیں بلکہ یہ وہ لفظ ہے جسے سن کر صحابہؓ کو تکلیف ہوئی اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے صحابہ ہو کیونکہ تم میرے زمانہ میں ہو اور تمہیں میری صحبت نصیب ہوئی ہے۔ بھائی وہ ہوں گے جو بعد میں آئیں گے اور جنہیں اِس جسمانی قرب کا موقع نہیں ملا ہوگا۔پس صحابہ کا جو مقام ہے وہ یقیناً بعد میں آنے والوں کو حاصل ہوسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ صحابی کہلائے اور بعد میں آنے والوں کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھائی رکھا ہے۔اور جب تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی بن گئے تو تمہارے دلوں میں یہ خلش کس طرح رہ سکتی ہے کہ کاش ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ بننے کا موقع میسر آتا۔تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جسمانی طور پر نہیں ملے مگر تم وہ ہو جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بھائی قرار دیا ہے اور دنیا میں بھائی کا ہی ایک رشتہ ہے جو بغیر دوسرے بھائی سے ملنے کے بھی قائم ہو جاتا ہے لیکن صحابی کا رشتہ ملے بغیر قائم نہیں ہوتا۔
پھر ایک اور بات بھی مدّ نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین دیا ہے وہ ایک زندہ دین ہے۔ اگر ہم اس دین اور مذہب پر چل کر خدا سے مل سکتے ہیں جو وراء الورٰی ہستی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کیوں نہیں مل سکتے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ فوت ہو چکے ہیں اس لیے اب ہم اُن سے مل نہیں سکتے۔ حالانکہ ہم تو اس با ت کے قائل ہی نہیں کہ جو شخص فوت ہو جاتا ہے وہ بالکل مٹ جاتا ہے۔ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ موت کے بعد انسانی روح زندہ رہتی ہے اور اُسے اگلے جہان میں ایک اَور جسم دے دیا جاتا ہے۔ جب ہمارا یہ اعتقاد ہے تو کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا ہے جو یہ خیال کرتا ہو کہ انسانی روح خدا تعالیٰ سے زیادہ لطیف ہے۔ بہرحال ہر شخص کو ماننا پڑے گا کہ انسانی روح خواہ اس کے جسم کے مقابلہ میں کتنی ہی لطیف ہو اللہ تعالیٰ سے زیادہ لطیف نہیں ہوسکتی۔بلکہ اس کے مقابلہ میں نسبتًا کثیف اور مادہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ پھر جب ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہم خدا سے مل سکتے ہیں، اس کا قرب حاصل کرسکتے ہیں، اس کے کلام سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، وہ ہماری دعائیں سنتا ہے، ہماری حاجات کو پورا کرتا ہے، ہماری ضروریات کا کفیل بنتا ہے تو یہ کیسا بیہودہ خیال ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو چکے ہیں اس لیے اب ہمیں آپ کی صحبت میسر نہیں آسکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح تو الگ رہی ہم تو کافروں کی ارواح کے متعلق بھی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ پس جب ہر کافر کی روح زندہ ہے، ہر مومن کی روح زندہ ہے تو ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نَعُوْذُ بِاللہِ فنا ہو چکی ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آج بھی زندہ ہے تو یقیناً آپ کا قرب بہت زیادہ ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی حقیقت اور اس کی کُنہ کو پانا بہت مشکل ہوتا ہے اور انسان بہت بڑی جدوجہد، بہت بڑی قربانیوں اور بہت بڑی عبادتوں کے بعد اپنے درجہ کے مطابق اس چیز کو حاصل کرتا ہے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہیں اس لیے آپ کو سمجھنا اور آپ کی کُنہ کو پانا خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے اور اس کی کُنہ کو پانے سے بہت زیادہ آسان ہے۔ پس اگر انسان سچا اخلاص اور سچی محبت رکھنے والا ہو تو اُسے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کرنے اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے اور آپ سے باتیں کرنے کے اس دنیا میں بھی کئی مواقع نصیب ہوسکتے ہیں اور جب بھی اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجائے گی یا آپ سے کوئی کلام سننے کی اسے سعادت حاصل ہوجائے گی وہ اُسی وقت آپ کا صحابی بن جائے گا۔ جیسے امت محمدیہ میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپؐ نے ہم سے باتیں کیں وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی بھی تھے مگر چونکہ محبت کے جوش کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی ان کو نصیب ہوجائے اس لیے خدا نے ان کی خواہش کو پورا کردیا اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ملاقات میسر آگئی اور وہ علاوہ بھائی ہونے کے آپ کے صحابی بھی ہو گئے۔ یہ خواہش آج بھی پوری ہوسکتی ہے بلکہ آج اس خواہش کے پورا ہونے کے سامان بدرجۂ اتمّ موجود ہیں۔ اس لیے کہ پچھلے لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا وہ موقع نہیں ملا جو آج لوگوں کو مل رہا ہے۔ آج خدا تعالیٰ کا زندہ کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام وہ انسان ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں اس قدر بڑھے کہ آپ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک ہو گئے۔ آپ سے پہلے اسلام پر جو مُردنی چھائی ہوئی تھی اور جس طرح اسلام کا تجزیہ ان کے ہاتھوں ہو رہا تھا اُس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی وحدت مٹ چکی تھی ان کا اتحاد کسی ایک نقطۂ مرکزی پر نہیں رہا تھا بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ کام کر رہا تھا تو ایران میں مسلمانوں کا کوئی اَور فرقہ اپنے رنگ میں اسلام کی خدمت سرانجام دے رہا تھا، عرب میں مسلمان کسی اور فرقہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر رہے تھے تو شام اور مصر کے مسلمان کسی اور فرقہ میں داخل تھے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ہندوستان کے رسول نہیں تھے، صرف ایران کے رسول نہیں تھے، صرف عرب کے رسول نہیں تھے، صرف شام اور مصر کے رسول نہیں تھے بلکہ ساری دنیا کے رسول تھے۔ جس طرح ربّ العالمین کی حکومت سب جہان پر ہے اُسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دائرہ سے دنیا کا کوئی خطہ اور دنیا کا کوئی ملک باہر نہیں۔ ہر اسود و احمر کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور ایک ہی دین لے کر آئے۔ لیکن مسلمان فیج اعوج کے زمانہ میں اِس طرح گروہ در گروہ ہو چکے تھے کہ وہ وحدت جو مسلمانوں کی امتیازی شان تھی، بالکل مٹ گئی تھی۔ تب خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ سے وہ مشابہتِ تامّہ عطا کردی جو پہلے لوگوں کو حاصل نہیں تھی۔ پہلے انسان اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا چاہتا تھا تو کوئی چشتیوں میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی نقشبندیوں میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی سہروردیوں میں سے ہو کر کرتا تھا، کوئی قادریوں میں سے ہو کر کرتا تھا۔ اور یہ تو چند بڑے بڑے فرقوں کے نام ہیں ان کے علاوہ اور ہزاروں روحانی فرقے مسلمانوں میں پیدا ہو چکے تھے۔لیکن آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے ہاتھ کے ذریعہ پھر ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع کردیا ہے۔پس آج جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے وہ براہ راست محمدی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ قادری سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا، وہ چشتی سلسلہ میں داخل ہوکر آپ سے محبت نہیں کرتا، وہ نقشبندی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا، وہ سہروردی فرقہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت نہیں کرتا بلکہ محمدی سلسلہ میں داخل ہو کر آپ سے محبت کرتا ہے۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بنی نوع انسان کو پہلے لوگوں سے بہت زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کرسکتے اور انہیں آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کے مواقع بہم پہنچا سکتے ہیں۔ پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لے جانے والے حضرت معین الدین صاحب چشتی یا حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی وغیرہ تھے۔ مگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لے جانے کے لیے مثیل محمد موجود ہے اور یہ صاف بات ہے کہ جہاں مثیلِ محمد پہنچ سکتا ہے وہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی جزوی نمونہ نہیں پہنچ سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ زمانہ عطا فرمایا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کُلّی نمونہ ہم میں آیا۔ اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلی نمونہ ہمیں پہنچا سکتا ہے وہاں یقیناً کوئی اور انسان ہمیں نہیں پہنچا سکتا۔ پس آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل کرنے، آپ کی صحبت میں بیٹھنے اور رؤیاو کشوف میں آپ کو دیکھنے کے پہلے سے بہت زیادہ مواقع میسر ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ فیوض کو بند نہیں کردیا۔ بلکہ جیسا کہ پیشگوئی کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے پھر اس زمانہ میں مجھے آکر بتا دیا کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ6 میں مسیح موعود کا مثیل اور اس کا خلیفہ اور جانشین ہوں۔ گویا وہی نام جو مسیح موعود کو دیا گیا تھا اب مجھے دے کر جماعت کو اور زیادہ بشارت دے دی گئی کہ ابھی تمہارے لیے خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کرنے کے لیے ویسی ہی آسانیاں ہیں جیسی آسانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تمہیں میسر تھیں۔ تم آج بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کرسکتے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل کرسکتے ہو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تم حاصل کیا کرتے تھے۔ کیونکہ مسیح موعودؑ کا ایک مثیل اور بروز تم میں موجود ہے۔ مگر یہ مقام انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی قربانیوں سے اس بات کو ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ واقع میں اس مقام اور انعام کا مستحق ہے۔ محض اس بات پر خوش ہو جانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور ہم آپ کے صحابی بن گئے یا مصلح موعود آیا اور ہم اس پر ایمان لا کر صحابہ مسیح موعود کے مثیل بن گئے تمہیں حقیقۃً اس مقامِ بلند کا مستحق نہیں بنا سکتا جب تک تم اپنی قربانیوں اور اپنی عبادتوں اور اپنی نیکیوں میں ویسی ہی ترقی نہ کرو جیسی پہلے لوگوں نے کی۔ ہاں! اگر تم ویسی ہی قربانیاں کرو، ویسی ہی عبادتیں بجا لاؤ۔ ویسی ہی نیکیوں کے حصول کی جدوجہد کرو جس طرح کہ پہلے بزرگ کیا کرتے تھے تو پھر یقین رکھو کہ وہ منزل جو انہیں دس قدم چل کر ملی تمہیں چھ قدم چل کر مل جائے گی۔ مگر بہرحال تمہیں چلنا ضرور پڑے گا۔ پھر جس سہولت اور آسانی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ والوں کو صحابیت کا مقام حاصل ہو گیا اُسی کے قریب قریب سہولت اور آسانی کے ساتھ تمہیں بھی یہ مقام حاصل ہوجائے گا۔ مگر بہر حال یہ مقام تمہیں اُسی وقت ملے گا جب تم صحابہؓ کے قریب قریب اپنی قربانیوں کو پہنچا دو گے۔ درمیانی زمانہ میں جب نورِ نبوت سے بہت بُعد پیدا ہو چکا تھا، مسلمانوں کو بہت بڑی مشکلات اور بہت بڑی کوششوں کے بعد یہ مقام حاصل ہوا اور وہ بھی انفرادی طور پر صرف چند مسلمانوں کو کیونکہ ان کے لیے کوئی ایسا سہارا نہ تھا جس پر ٹیک لگا کر وہ سہولت سے ان مدارجِ قرب کو طے کرسکتے۔ لیکن اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے کئی قسم کے سہارے بہم پہنچائے ہوئے ہیں اور تم ان سہاروں کے ذریعہ آسانی سے ان مقامات قرب کو حاصل کرسکتے ہو۔ مگر قربانیاں بہرحال ضروری ہوں گی۔ پس اس بات پر خوش مت ہو کہ تمہارے لیے صحابیت کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔ اس دروازے کا کھلنا تمہارے لیے عمل کا موجب ہونا چاہیے۔ سستی اور غفلت کا موجب نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے لوگوں پر ناامیدی کی وجہ سے سُستی طاری ہوئی اور اب ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ محض اس امید کی وجہ سے کہ دروازہ تو کھلا ہے جب چاہیں گے داخل ہو جائیں گے سستی اور غفلت میں مبتلا ہو جائیں اور اس دروازے کا کھلنا ان کے لیے کسی خیر اور برکت کا موجب نہ ہوسکے۔ پس یہ مقام تو تمہیں مِل تو سکتا ہے مگر ملے گا قربانیوں کے بعد ہی۔انہی قربانیوں کے بعد جو صحابؓہ نے کیں اور جن کا ذکر سن کر آج بھی انسانی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے اور کچھ ایسے عشق اور محبت سے بھر گئے کہ اپنی تمام جائیدادیں انہوں نے چھوڑ دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہونے کے لیے مدینہ جا پہنچے اور آپؐ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ تم غور کرو! آج کتنے لوگ ہیں جو اس قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسلام کی فتح اور کامیابی کے لیے کئی قسم کی جنگوں کی ضرورت ہے اور کئی لڑائیاں ایسی ہیں جن کو آج بھی لڑا جائے تو اسلام کے لیے فتح کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔ مگر چونکہ یقین نہیں ہوتا کہ اگر جماعت کو اس لڑائی کا حکم دیا گیا تو وہ پوری طرح اس کے لیے تیار بھی ہوگی یا نہیں،وہ اعلانِ جنگ کا جواب اپنے شاندار نمونہ سے دے گی یا سستی اور غفلت کا نمونہ دکھائے گی اس لیے ان جنگوں کو دوسرے وقت پر ملتوی کردیا جاتا ہے تاکہ جماعت سے اُس وقت ان قربانیوں کا مطالبہ ہو جب اس کا قدم مضبوط ہو اور اس میں اضمحلال کے آثار نہ ہوں۔ اس طرح وقت گزرتا جا رہا ہے اور اسلام کی فتح کا دن ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اسے ذاتی طور پر جماعت کے متعلق یہ تسلّی ہے کہ اسے جن قربانیوں کے لیے بھی کہا جائے، وہ ان کے لیے پوری طرح تیار ہوگی۔ مگر مجھے چونکہ پوری تسلّی نہیں کہ جماعت میں قربانی کا پورا مادہ پایا جاتا ہے اس لیے جتنا جتنا زمانہ دیکھا جاتا ہے اس کے مطابق جماعت کے سامنے اعلان کردیا جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ زبردستی کسی قربانی کا اعلان کرا دیتا ہے اُس وقت وہ اس مطالبہ کو پورا کرنے کا خود ذمہ دار ہوتا ہے، ہمیں فکر نہیں ہوتا کہ یہ مطالبہ کس طرح پورا ہوگا۔ بہرحال میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ابھی ایسی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور جماعت ایسے مقام پر نہیں پہنچی کہ اُسے جو بھی حکم دیا جائے اسے ماننے کے لیے وہ تیار ہوجائے۔ بعض قسم کی قربانیاں ایسی ہیں جن کی روح جماعت میں پیدا ہو چکی ہے اور جماعت ان کے متعلق بے شک اچھا نمونہ دکھا رہی ہے۔ گو اس میں بھی ابھی کمزوری پائی جاتی ہے اور ابھی اس میں بھی ترقی کی گنجائش ہے لیکن باقی قربانیاں تو ایسی ہیں کہ ابھی جماعت کا قدم ان کی طرف اٹھا ہی نہیں۔ حالانکہ ایمان ایک عمارت کا نام ہے۔ ایک ایسی عمارت کا جس کی شرقی جانب بھی درست ہو، جس کی غربی جانب بھی درست ہو، جس کی شمالی جانب بھی درست ہو، جس کی جنوبی جانب بھی درست ہو،جس کی چھت بھی درست ہو، جس کی کھڑکیاں بھی درست ہوں، جس کے روشندان بھی درست ہوں، جس کے دروازے بھی درست ہوں، جس کا فرش بھی درست ہو اور جس کا پلستر بھی درست ہو۔ اسی طرح جب تک دین کے سارے حصے درست نہ ہوں اور جب تک سارے معاملات میں کوئی شخص اعلیٰ نمونہ پیش نہ کررہا ہو وہ کامل مومن نہیں کہلا سکتا اور جب کامل مومن نہیں کہلا سکتا تو صحابی کس طرح کہلا سکتا ہے۔ صحابی ایک روحانی درجے کا نام ہے۔ صحابی وہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں بیٹھا اور جس نے اپنے دین کے سارے حصوں کو مکمل کر لیا۔ پس صحابی وہ ہے کہ جس سے اگر جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو،اگر مال کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو، اگر وقت کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو، اگر جذبات کی قربانی کا سوال ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہو، اگر وطن کی قربانی کاسوال ہوتو وہ اس کے لیے تیار ہو۔ غرض جس جس قربانی کا سوال ہو وہ اس کے کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کو دیکھ لو، انہوں نے کس طرح رات اور دن قربانیاں کیں اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کردیا۔ ہم اپنے زمانہ میں دیکھتے ہیں،بڑی بڑی زبردست باتیں بیان کی جاتی ہیں، بڑی بڑی تقریریں کی جاتی ہیں، بڑی بڑی علمی اور روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ لوگ ان باتوں کو سنتے ہیں۔ سر بھی ہلاتے ہیں، سُبْحَانَ اللہ بھی کہتے جاتے ہیں، زندہ باد کے نعرے بھی ان کی زبانوں سے سنے جاتے ہیں۔ مگر ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جب یہ لوگ اپنے گھروں کو جائیں گے تو یہ سبق ان کو بھولا ہوا ہوگا۔ اور اگر ان سے پوچھو کہ کیا کہا گیا تھا تو یہی جواب دیں گے کہ ہمیں تو یاد نہیں صرف اتنا پتہ ہے کہ خدا اور رسول کی باتیں بتائی گئی تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں ان کی تربیت کے لیے مختلف لیکچر دینے شروع کیے اور کئی دن تک آپ لیکچر دیتے رہے۔ ایک دن آپ نے فرمایا کہ ہمیں عورتوں کا امتحان بھی لینا چاہیے تا معلوم ہو کہ وہ ہماری باتوں کو کہاں تک سمجھتی ہیں۔ باہر سے ایک خاتون آئی ہوئی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے پوچھا بتاؤ مجھے آٹھ دن لیکچر دیتے ہو گئے ہیں مَیں نے ان لیکچروں میں کیا بیان کیا ہے؟ وہ کہنے لگی یہی خدا اور رسول کی باتیں آپ نے بیان کی ہیں اور کیا بیان کیا ہے۔ آپ کو اس جواب سے اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ نے لیکچروں کے اس سلسلہ کو بھی بند کردیا اور فرمایا ہماری عورتوں میں ابھی اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ابھی وہ بہت ابتدائی تعلیم کی محتاج ہیں، اعلیٰ درجہ کی روحانی باتیں سننے کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ یہی بعض مردوں کا حال ہے۔ اس کے مقابلہ میں صحابہ کو دیکھو، وہ کس طرح رات اور دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتوں کو سنتے اور پھر ان پر عمل کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ انہوں نے آپ کی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو لیا اور دنیا میں نہ صرف اس کو پھیلا دیا بلکہ اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔
مَیں یہاں لاہور میں مغرب کے بعد روزانہ بیٹھتا ہوں اور مجلس میں کئی قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر لاہور کے لوگ میری ان باتوں کو اُسی طرح یاد رکھیں جس طرح صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں تعہد کے ساتھ یاد رکھا کرتے تھے تو مَیں سمجھتا ہوں یہی باتیں ان کی زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دیں۔ لیکن اگر اسی وقت پوچھا جائے کہ کل مَیں نے کیا کیا باتیں بیان کی تھیں؟ تو کئی لوگ کھڑے ہو کر کہہ دیں گے ہمیں اُس وقت مزا تو بڑا آیا تھا مگر یہ یاد نہیں رہا کہ آپ نے کیا کہا تھا۔ اگر یہاں کی جماعت صحابہ کے طریق پر عمل کرے اور نہ صرف باتیں سنے بلکہ ان کو یاد کرے اور دوسروں تک ان باتوں کو پہنچائے تو ان باتوں سے جماعت کو غیرمعمولی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
آجکل ایک نوجوان میری ان باتوں کو لکھ بھی رہا ہے اور اس طرح وہ باتیں محفوظ ہو رہی ہیں۔ اگر مجھ سے نظر ثانی کرانے کے بعد "تفہیماتِ لاہوریہ" کے نام سے یا اَور کسی مناسب نام سے ان تمام باتوں کو ایک رسالہ کی صورت میں شائع کردیا جائے اور لاہور کے دوست ہی اس کے اخراجات برداشت کریں تو مَیں سمجھتا ہوں یہاں کی جماعت کی تربیت اور اس کی ترقی کے لیے یہ ایک نہایت ہی مفید چیز ہوگی۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ان باتوں کو ایک رسالہ کی صورت میں شائع کردیا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت ان باتوں کو یاد کرے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس کے الفاظ یاد کریں، مَیں یہ کہتا ہوں کہ وہ اس کے مضمون اور اس کی روح اور اس کے مفہوم کو یاد کریں اور نہ صرف خود پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی پڑھائیں اور جب بعد میں لاہور میں اَور لوگ ایسے آئیں جو ان مجالس میں شامل نہیں ہوئے تو ان کو وہ تمام باتیں ایک ایک کرکے سنائیں جس طرح صحابہؓ ایک دوسرے کو حدیثیں سنایا کرتے تھے۔ یہ طریق ہے جس پر عمل کرکے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خالی باتیں سننا اور ان پر عمل نہ کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرتا۔ پس لاہور والوں کو چاہیے، وہ "تفہیمات لاہوریہ" کے نام سے ان تمام باتوں کو ایک کتابی صورت میں شائع کردیں اور پھر اس کا باقاعدہ در س دیں اور ایک دوسرے کو بتائیں کہ مَیں نے کیا کہا ہے۔ اور پھر اس امر کی نگرانی کریں کہ لوگوں نے ان باتوں کو یاد کیا ہے یا نہیں کیا۔ اگر یہاں کی جماعت کے دوست ایسا کریں تو یقیناً ان کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوجائے گی۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہوتا جو کسی قیمتی چیز کو ضائع کردے۔ کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہو کہ فلاں جگہ سونے کی بارش ہوئی تھی مگر مَیں نے کہا سونے کو کیا اکٹھا کرنا ہے اگر ضائع ہوتا ہے تو بے شک ہوجائے۔ اگر کوئی شخص ایسا کہے تو سب اس پر ہنسیں گے کہ یہ کیسا احمق ہے جس کے سامنے سونے کی بارش ہوئی اور اس نے اس کو اکٹھا نہ کیا۔ اگر واقع میں سونے کی بارش ہوئی تھی تو اس کا یہ بھی تو فرض تھا کہ اس سونے کو اکٹھا کرتا اور اس کو اہمیت دیتا۔ اسی طرح دینی باتیں سن کر صرف یہ کرنا کہ کسی بات پر ہنس دینا اور کسی پر افسوس کا اظہار کردینا یہ ہرگز کسی عقلمند انسان کا طریق نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ یہ نہیں کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی بات پرواہ وا کہہ دیں، کسی بات پر افسوس کا اظہار کردیں اور پھر خالی ہاتھ اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ وہ ایک ایک بات کو سنتے اور اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ سنتے تھے کہ ہم اس پر عمل کریں گے۔ یہی طریق اگر لاہور والے اختیار کریں تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتابیں ہیں ان کو پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ مگر یاد رکھو! صرف لذّت حاصل کرنے کے لیے تم ایسا مت کرو۔ بلکہ فائدہ اٹھانے اور عمل کرنے کی نیت سے تم ان امور کی طرف توجہ کرو۔ تم لذّت حاصل کرنے کے لیے سارا قرآن پڑھ جاؤ تو تمہیں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہوئے اس کی محبت کے جوش میں ایک دفعہ بھی سُبْحَانَ اللہ کہہ لو تو وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک دفعہ مجلس میں بیان فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کرتے ہیں تو ایک تسبیح سے ہی ہم کہیں کے کہیں جا پہنچتے ہیں۔ مَیں اس مجلس میں موجود نہیں تھا۔ ایک نوجوان نے یہ بات سنی تو وہ وہاں سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا خبر نہیں آج حضرت صاحب نے یہ کیا کہا ہے۔ وہ صاحبِ تجربہ نہیں تھا مگر مَیں اُس عمر میں بھی صاحبِ تجربہ تھا۔ حالانکہ میری عمر اُس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی۔مَیں نے جب اُس سے یہ بات سُنی تو مَیں نے کہا ہاں! ایسا ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا کس طرح؟ مَیں نے کہا کئی دفعہ مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں نے اپنی زبان سے ایک دفعہ سُبْحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میری روحانیت اُڑ کر کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ وہ یہ سنتے ہی نہایت تحقیر سے کہنے لگا لَاحَوۡلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس نے کبھی سنجیدگی سے سُبْحَانَ اللہ کے مضمون پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ اسے سارا سارا دن سُبْحَانَ اللہ کہہ کر کچھ نہیں ملتا تھا۔ مگر مَیں اپنے ذاتی تجربہ کی وجہ سے جانتا تھا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب مَیں نے سُبْحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ پہلے مَیں اَور تھا اور اب مَیں کچھ اَور بن گیا ہوں۔ دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اس مضمون کو کس عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حالانکہ میں نے اُس وقت تک بخاری نہیں پڑھی تھی مگر میرا تجربہ صحیح تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ۔7 دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمٰن کو بہت پیارے ہیں۔ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں۔ انسان ان الفاظ کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال سکتا ہے کوئی بوجھ اسے محسوس نہیں ہوتا۔ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ۔ لیکن قیامت کے دن جب اعمال کے وزن کا سوال آئے گا تو وہ بڑے بھاری ثابت ہوں گے اور جس پلڑے میں ہوں گے اسے بالکل جھکا دیں گے۔ وہ کیا ہیں؟ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔مجھے ان کلمات کے پڑھنے کی بڑی عادت ہے اور مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک ایک مرتبہ ہی ان کلمات کو کہنے سے میری روح اُڑ کر کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہے۔تو اصل چیز یہی ہے کہ ہم سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر غور کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ تم صحابہؓ کبھی خواہش سے نہیں بن سکتے۔ تم میرے متعلق خواہ کس قدر سمجھو کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃکو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہت ہے، تمہیں خالی ایسا اعتقاد صحابیت کے مقام تک نہیں پہنچا سکتا۔ صحابہ تم تبھی بنو گے جب تم اپنی قوتِ عملیہ سے کام لو گے اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تمہیں ایک پیسہ ملے اور تم اسے چھوڑ دو؟ یا کوئی شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ تمہیں راستہ میں پڑی ہوئی ایک سُوئی ملے اور تم اسے نہ اُٹھاؤ؟ جب تم ایک چیز لینے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہو، جب تم ایک سُوئی اٹھانے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہو تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ راک فیلر کا خزانہ تمہارے سامنے پیش کیا جائے اور تم اس کو ردّ کر دو۔ اور اگر تم اس کو ردّ کر دیتے ہو تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمہیں اعتبار ہی نہیں کہ جو چیز تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ ایک خزانہ ہے۔ نہ صرف تمہارے لیے، نہ صرف تمہاری نسلوں کے لیے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے بھی۔ پس اپنی روحانی بینائی کو درست کرو اور دین کا خزانہ جو تمہارے سامنے ہے اُس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھو۔ پھر تمہیں وہ انعامات بھی حاصل ہو جائیں گے جو تم سے پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے۔ میں نے بتایا ہے تمہارے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ یہاں مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں، ان کو سنو۔ پھر سُن کر یاد رکھو اور یاد رکھنے کے بعد عمل کرنے کی کوشش کرو۔ بلکہ جب تمہیں موقع ملے ان باتوں کو رسالہ کی صورت میں چھپوا دو۔ لاہور کے آدمیوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ خصوصیت سے اس کے مضامین کو یاد رکھیں، دوسروں کو سنائیں اور بار بار اُن کو اپنے مطالعہ میں لائیں۔ اس طرح دینی امور کی اہمیت بھی ان کے دلوں میں پیدا ہوجائے گی اور صحابہؓ کے مقام تک پہنچانے والے اعمال بھی ان سے صادر ہونے شروع ہو جائیں گے۔اگر یہ بات نہیں تو یوں ہی مجلس میں بیٹھ جانا اور باتوں سے مزہ حاصل کرنا اور عمل کے لیے کوئی قدم نہ اُٹھانا ایک لغو چیز ہے اور یہ داستانِ امیر حمزہ سننے والی بات ہے۔ دلّی اور لکھنؤ میں داستانِ امیر حمزہ لوگ بڑے شوق سے سنتے بلکہ بعض دفعہ رات کے دو دو بجے تک سنتے رہتے ہیں۔ وہ اسے سنتے وقت سُبْحَانَ اللہ بھی کہتے ہیں، اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ بھی کہتے ہیں۔ ان کے دل بھی اُس وقت جھوم رہے ہوتے ہیں مگر جب وہاں سے اٹھتے ہیں تو بالکل خالی ہاتھ ہوتے ہیں، نہ اُن کے دلوں پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ اُن کے جوارح پر کوئی اثر ہوتا ہے۔
پس جب تک دین کی باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہ کیا جائے اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا، اُس وقت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا، اُس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تو وفات یافتہ ہیں۔ اُس وقت تک ہماری مجلس میں بیٹھنے والے بھی ہم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ وہ بظاہر ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن وہ ہم سے ہزاروں میل دور ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دل ہم سے دور ہوتے ہیں اور ہم میں اور اُن میں کوئی روحانی اتّصال نہیں ہوتا۔پس یہ رستے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے قرب کے ان راستوں کو بند قرار دیتا ہے وہ نہایت ہی ظالم انسان ہے۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے، وہ خدا کا دشمن ہے، وہ انسانیت کا دشمن ہے، وہ ایمان کا دشمن ہے۔ مگر اس رستے کے کھلے ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہیں آپ ہی آپ تمام مقاماتِ قُرب حاصل ہو جائیں گے۔ رستہ بے شک کھلا ہے مگر یہ قربانیوں کا رستہ ہے۔ اس راستہ پر چلے بغیر تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ادب جو دین کا اہم ترین حصہ ہے وہ ابھی تک ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔ بعض دفعہ مجلس میں جب کوئی غیر شخص سوال کررہا ہو تو اسے ایسا جواب دینا پڑتا ہے جو اپنے اندر مذاق کا رنگ رکھتا ہے۔ تم کسی تاریخ سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ایسے موقع پر صحابہؓ قہقہہ مار کر ہنستے ہوں۔ مگر اپنی مجلس میں مَیں نے دیکھا ہے جب کسی مخالف کو کوئی ایسا جواب دیا جاتا ہے تو لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑتے ہیں اور وہ شخص شرمندہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ وہ ہمارا مہمان ہوتا ہے اور اُس کا ادب ہم پر واجب ہوتا ہے۔ بے شک ایسی حد تک جو جائز ہو اس جواب سے لذت اندوز ہونا درست ہوتا ہے۔ مگر کوئی ایسا طریق جائز نہیں جو آدابِ مجلس کے بھی خلاف ہو اور مہمان کی دل شکنی کا بھی موجب ہو۔ اسی طرح اَور بہت سی باتیں ہیں جن کی طرف ہماری جماعت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ایک دن میں آنے والی نہیں۔ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے آپ کی مجلس میں بیٹھ کر سیکھا خدا تعالیٰ نے اُن تمام باتوں کو ہم پر کھول دیا ہے، اس کی حقیقت اُس نے ہمیں سمجھا دی ہے اور اُن امور پر عمل کرکے یقیناً ہمیں صحابہؓ کا مقام حاصل ہوسکتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم بعض صحابہؓ سے بھی بڑا درجہ حاصل کرنا چاہیں تو حاصل کرسکتے ہیں۔ بلکہ ہم اپنے درجہ میں ترقی کرکے وہ مقام بھی حاصل کرسکتے ہیں جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز بن جائیں۔ بلکہ اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی شخص بڑا درجہ حاصل کرسکتا ہے؟ تو مَیں کہا کرتا ہوں خدا نے اس مقام کا دروازہ بھی بند نہیں کیا۔ مگر تم میرے سامنے وہ آدمی تو لاؤ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقاماتِ قرب کے حصول میں زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم اُٹھانے والا ہو۔ ہوسکتا اَور چیز ہے اور ہونا اَور چیز ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تُو عیسائیوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہوتا تو مَیں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔8 اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ واقع میں خدا کا کوئی بیٹا ہے۔ اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے درجہ میں آگے نکل گیا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے۔ خدا نے اِس دروازے کو بند نہیں کیا۔مگر عملی حالت یہی ہے کہ کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکے۔ وہ شخص جو روحانی میدان میں لنگڑا ہے، جو دو قدم بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتا قرب کا میدان تو اس کے لیے بھی کھلا ہے مگر وہ کہاں برق رفتار انسانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ انسان ہیں جو ایک سیکنڈ میں کروڑوں میل خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جاتے ہیں اور لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سالوں میں بھی ایک منزل طے نہیں کرسکتے۔اُن کا اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہی کیا ہے؟ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکنا اَور چیز ہے اور بڑھ جانا اَور چیز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس شان اور شوکت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے ہیں، اُس شان اور شوکت کے ساتھ کوئی شخص بڑھ کر دکھائے گا تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر جب کوئی شخص ہمیں ایسا نظر نہیں آتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقاماتِ قُرب طے کرسکا ہو یا آئندہ کرسکتا ہو تو بہرحال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے افضل رہے۔ وہی سب کے سردار اور وہی سب کے آقا رہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہؓ سے تو یقیناً انسان زیادہ قرب حاصل کرسکتا ہے اور یقیناً ان سے بڑھ سکتا ہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے بڑھ کر دکھا دیا یا نہیں؟ مگر یہ مقام محض منہ کی لاف وگزاف سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ تم منہ سے ہزار بار مچاکے مارتے جاؤ اور کہو مَیں متنجن کھا رہا ہوں، مَیں پلاؤ کھا رہا ہوں، مَیں زردہ کھا رہا ہوں تو تمہیں متنجن اور پلاؤ اور زردہ کا مزہ نہیں آسکتا۔ تمہارا پیٹ ان خالی مچاکوں سے بھر نہیں سکتا۔ اسی طرح تم محض خواہش سے صحابیت کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ تم یہ مقام حاصل کرسکتے ہو مگر اس طرح کہ عمل کرو اور ایسا عمل کرو کہ وہ تمہاری رگ رگ اور نس نس میں سمویا جائے۔ تم نماز پڑھو تو سنوار کر پڑھو۔ تم اَلْحَمْدُ لِلہ کہو تو تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ تم ایک لفظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو۔ بلکہ تمہیں یوں معلوم ہو کہ تم اَلْحَمْدُ لِلہ کا مضمون کھا رہے ہو، تم رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کہو تو تمہیں یوں معلوم ہو کہ تم خالی الفاظ اپنی زبان سے نہیں نکال رہے بلکہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کالطیفہ9 کھا رہے ہو۔ پھر رحمانیت کا ذکر آئے تو تمہاری یہی کیفیت ہو۔ رحیمیت کا ذکر آئے تو تمہاری یہی کیفیت ہو۔ پھر بے شک تم یقین رکھ سکتے ہو کہ تمہارا خدا تمہیں بھی پہلے لوگوں کے انعامات سے حصہ دے گا اور وہ تمہارے ساتھ بخل نہیں کرے گا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہوسکتا ہے اور یقیناً ہوسکتا ہے۔ بلکہ اِس زمانہ میں صحابہ کے بعد کے زمانہ سے زیادہ سے زیادہ سہولت سے یہ مقام تم حاصل کرسکتے ہو۔ کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے جسے خدا نے اپنی برکتوں کے لیے مخصوص کر لیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ۔10 جنت اُس زمانہ میں قریب کردی جائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے بھی جنت لوگوں کے زیادہ قریب کردی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ فیج ِاعوج کے زمانہ میں لوگوں کو اپنے خدا کو پانا اور اس کے قرب میں بڑھنا بہت مشکل تھا۔ مگر مسیح موعودؑ کے زمانہ میں یہ تمام مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ رستہ بتانے والے موجود ہوں گے، برکات و انوار کا مشاہدہ کرنے والے وجود ان کے سامنے ہوں گے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے وہ زیادہ سرعت سے جنت حاصل کریں گے۔ چنانچہ موجودہ نشان، جو خدا تعالیٰ نے مصلح موعود کی پیشگوئی کے سلسلہ میں ظاہر کیا اس کو دیکھ لو کہ کس طرح اس نشان کے بعد تمہارے لیے جنت اَور زیادہ قریب کردی گئی ہے۔ لوگ اس تقریب پر بڑی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔مگر جہاں تک لفظی خوشی کا تعلق ہے مجھے اس سے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔لیکن جہاں تک حقیقی خوشی کا تعلق ہے اس کے بعد آپ لوگوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، کم نہیں ہوتیں۔ یہ تازہ نشان خدا نے لاہور میں ظاہر کیا ہے۔ پس جس طرح مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر اسلام کی طرف سے خاص ذمہ داریاں عائد ہو گئی تھیں اُسی طرح مَیں سمجھتا ہوں اس انکشاف کے بعد جو لاہور میں مجھ پر ہوا، یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ مَیں نے جہاں تک غور کیا ہے اس انکشاف کا مجھ پر سفر میں ہونا جہاں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی سے مشابہت رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ پیشگوئی سفر کی حالت میں ہوشیار پور میں فرمائی اور مجھ پر بھی اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا انکشاف سفر کی حالت میں ہی ہوا وہاں آج اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اَور بات بھی سمجھائی ہے۔ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام لاہور میں فوت ہوئے تھے اور آپ کے لاہور میں فوت ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں لاہور کے متعلق ایک قسم کا بُغض پایا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص نے فوت ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فوت ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ لیکن جب کوئی شخص اپنے گھر پر فوت ہوتا ہے تو اس کے متعلقین کو گو طبعی طور پر رنج ہوتا ہے مگر ان کے دلوں میں کوئی حسرت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں فوت ہوجائے تو اس کے متعلقین کے دل ساری عمر اِس حسرت و اندوہ سے پُر رہتے ہیں کہ کاش وہ سفر کی حالت میں فوت نہ ہوتا۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اس کے علاج میں کوتاہی ہوئی ہو، شاید اس کی تیمارداری میں کمی رہ گئی ہو، شاید وہاں کی آب و ہوا اُسے موافق نہ آئی ہو یا شاید کوئی اور وجہ ہو گئی ہو۔پس ساری عمر اُن کے دلوں سے ایک آہ اُٹھتی رہتی ہے اور انہیں یہ تصور کرکے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کا کوئی عزیز فلاں سفر پرگیا تو پھر وہ واپس نہ آیا بلکہ اُسی جگہ فوت ہو گیا۔وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اگر وہ سفر پر نہ جاتا تو نہ مرتا۔ اسی طرح مَیں سمجھتا ہوں جماعت کے دلوں پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام لاہور میں آئے اور اس جگہ آکر فوت ہو گئے۔ خود لاہور کی پیشانی پر بھی ایک بدنما داغ تھا مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو الہام کے ذریعہ خبر دی گئی تھی کہ "لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں" اور یہ کہ "وہ نظیف مٹی کے ہیں"۔11خدا تعالیٰ نے ان پاک ممبروں کی دعاؤں کو سن کر لاہور کی پیشانی سے اس داغ کو ہمیشہ کے لیے دور کردیا اور مسیح موعودؑ کو لاہور میں ہی دوبارہ زندہ کردیا۔ اب لاہور والے کہہ سکتے ہیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہم میں فوت ہوئے مگر وہ دوبارہ زندہ بھی ہمارے شہر میں ہی ہوئے ہیں۔ پس وہ جو لاہور والوں پر ایک داغ تھا خدا نے اس انکشاف کے ذریعہ اس داغ کو دھو دیا اور گو منہ سے احمدی اس بات کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر لاہور کا ذکر آنے پر اُن کے دل ضرور بے چین ہوجاتے تھے کہ یہ کیسا شہر ہے جس میں خدا کا مسیحؑ چند روز کے لیے گیا اور فوت ہو گیا۔ پس یہ داغ خدا نے لاہور والوں سے اب دور کردیا ہے۔ مگر اس چیز سے وہ ذاتی طور پر اُس وقت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جب اُن میں عمل کی قوت موجود ہو۔
مَیں نے بتایا ہے کہ سنجیدگی سے دین کی باتوں پر عمل کرنے کے مواقع ہماری جماعت کے لیے پوری طرح میسر ہیں۔ اگر خدا نے ان کو وہ زمانہ نہیں دکھایا جو مسیح موعود کا زمانہ تھا تو اب اس دوسرے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہ اپنی زندگیوں میں بہت کچھ تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ مگر فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا تمہارا اپنا کام ہے۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم صحابہ جیسا بنو یا اُن سے بھی آگے نکل جاؤ۔ گویا جہاں تک کوشش اور جدوجہد کا تعلق ہے وہ تمہاری طرف سے ہونی چاہیے اور جہاں تک انعام اور مقام کا سوال ہے وہ خدا کی طرف سے آئے گا۔ مگر یہ دوسرا مرحلہ اُس وقت آسکتا ہے جب پہلا مرحلہ طے کر لو۔ اگر تم پہلے مرحلہ کو طے کر لو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا اپنے وعدہ کو پورا نہ کرے اور تمہیں صحابہؓ کا مقام عطا نہ کرے۔ اگر تم چوتھا حصہ صحابی بننے کی کوشش کرو تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ خدا تمہیں اپنے فضل سے آدھا صحابی بنا دے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں چوتھے حصہ سے ایک انچ بھی کم رکھے۔ اگر تم آدھا صحابی بننے کی کوشش کرتے ہو تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ خدا تمہیں پورا صحابی بنا دے مگر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں آدھے حصہ سے ایک سُوت بھی کم رکھے۔ وہ تمہیں بڑھا کر تو اپنا انعام دے سکتا ہے مگر وہ یہ نہیں کرسکتا کہ تمہاری کوشش کے بدلہ میں تمہیں کم بدلہ دے۔ ہمارا خدا بخیل نہیں ہے،ہمارا خدا کنجوس اور مُمسک نہیں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات دنیا میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی برکات دنیا میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ قیامت تک اس سلسلۂ فیوض کو کوئی شخص بند نہیں کرسکتا۔ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے قرب کے اس دروازے کو کوئی شخص مسدود قرار نہیں دے سکتا۔ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی اور آپ کا بھائی بننا یہ سب رستے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ ان رستوں کو بند کرنے والے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے مگر انہیں ناکامی اور نامرادی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمارا خدا زندہ ہونے کے لیے بے تاب ہے اور وہ زندہ ہو کر رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح زندہ ہونے کے لیے تڑپ رہی ہے اور وہ زندہ ہو کر رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی روح دنیا میں جلوہ نما ہونے کے لیے بے قرار ہے اور وہ جلوہ نما ہو کر رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس الٰہی مشیت کو ظاہر ہونے سے روک نہیں سکتی"۔ (الفضل 16 جون 1944ء)


7
لاہور میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق انکشاف
اور جماعت احمدیہ لاہور کی ذمہ داریوں میں اضافہ
(فرمودہ 18 فروری 4419ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
" اللہ تعالیٰ جب کسی جگہ پر *** ڈالتا ہے تو وہ *** اُس وقت ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کی کوئی اَور رحمت اُس *** کو دھو نہیں دیتی۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی جگہ پر کوئی رحمت نازل کرتا ہے تو وہ رحمت چلتی چلی جاتی ہے ختم نہیں ہوتی جب تک کہ انسان اپنے اعمال سے اُس رحمت کے استحقاق کو کھو نہیں بیٹھتے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی دوبارہ اس جگہ پر نازل نہیں ہوجاتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ ایک غزوہ پر جا رہے تھے کہ ہجر شہر آپ کےراستہ میں آیا اور اس جگہ پر تھوڑی دیر کے لیے آپ نے پڑاؤ کیا تو پڑاؤ کی صورت دیکھ کر صحابہؓ نے اپنے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر روٹی پکانے کی فکر میں ہوئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو آٹا گوندھتے اور روٹی پکانے کی فکر کرتے دیکھا تو آپؐ گھبرا گئے اور آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جلدی اپنی سواریوں پر چڑھ جاؤ اور اپنے آٹے پھینک دو کیونکہ اِس جگہ خدا کا غضب نازل ہوا تھا۔ وہ لوگ جن پر غضب نازل ہوا تھا مر گئے۔ جس شہر پر غضب نازل ہوا تھا اُجڑ گیا۔ سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی چلی گئیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی اُس مقام پر عذاب نازل ہوتا نظر آرہا تھا۔ آپ نے نہ صرف صحابہؓ کو وہاں سے جلدی نکل جانے کا ارشاد کیا بلکہ ساتھ ہی مسلمانوں کی دولت کا ایک حصہ یعنی وہ آٹا جو انہوں نے روٹی پکانے کے لیے گوندھا تھا اُسےبھی آپ نے پھینکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اِس جگہ کے پانی سے گوندھا ہوا آٹا کھانا بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔1
حضرت خلیفہ اول کے متعلق مجھے یاد ہے وہ عبدالحکیم مرتد پٹیالوی سے جب وہ احمدی تھا بہت محبت کیا کرتے تھے اور وہ بھی آپ سے بہت تعلق رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مخالفت کی تو اُس وقت بھی اُس نے یہی لکھا کہ آپ کی جماعت میں سوائے مولوی نورالدین صاحب کے اور کوئی نہیں جو صحابہ کا نمونہ ہو۔ یہ شخص بے شک ایسا ہے جو جماعت کے لیے قابلِ فخر ہے۔ عبدالحکیم پٹیالوی نے ایک تفسیر بھی لکھی تھی اور اُس میں بہت کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھ کر لکھا تھا۔ جب عبدالحکیم نے اپنے ارتداد کا اعلان کیا تو مَیں نے دیکھا، آپ نے گھبرا کر اپنے شاگردوں کا بلایا اور اُن سے فرمایا جاؤ اور جلدی میرے کتب خانہ میں سے عبدالحکیم کی تفسیر نکال دو۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کی وجہ سے مجھ پر خدا کی ناراضگی نازل ہو۔حالانکہ وہ قرآن کریم کی تفسیر تھی اور اُس کی بہت سی آیات کی تفسیر اُس نے خود آپ سے پوچھ کر لکھی تھی۔ مگر اِس وجہ سے کہ اُس پر خدا کا غضب نازل ہوا، اُس کی لکھی ہوئی تفسیر کو بھی آپ نے اپنے کتب خانہ سے نکلوا دیا اور اپنے ذوق کے مطابق سمجھا کہ یہ کتاب دوسری کتب کے ساتھ مل کر ان کو پلید کردے گی۔ یہی حال خدا کی رحمتوں کا ہوتا ہے۔
مکہ مکرمہ میں خدا نے ایک برکت نازل کی۔ برکتوں والے چل بسے اور دو ہزار سال کا شرک کا لمبا زمانہ مکہ پر آیا مگر اب بھی هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ۔2 کے الفاظ اُس کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہو رہے تھے۔ اب بھی اُس کی عزت کی جاتی تھی، اب بھی اُس کی حرمت ایسی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اِس مکہ کو خدا نے صرف آج کے دن صرف دو گھڑیوں کے لیے صرف میری خاطر حلال کیا ہے ورنہ اِس شہر پر حملہ کرنا اور یہاں کی کسی چیز کو نقصان پہنچانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ دو ہزار سال کے لمبے عرصۂ شرک کے بعد بھی مکہ مکرمہ کی تقدیس میں فرق نہیں آیا۔ دو ہزار سال کے لمبے عرصۂ شرک کے بعد بھی مکہ مکرمہ کی عزت اور اُس کے احترام میں فرق نہیں آیا۔ کیونکہ خدا نے اس کو اپنے عذاب کا شہر قرار نہیں دیا تھا۔ مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رہائش پذیر ہوئے اور وہ قیامت تک منورہ ہی کہلائے گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے آخری نبی اور اس کے محبوب ترین وجود نے اس جگہ پر بسیرا کیا۔ گو بعد میں وہاں خرابیاں بھی ہوئیں، وہاں کے لوگ بگڑے بھی، دین کی طرف سے انہوں نے بے رغبتی کا بھی اظہار کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ہمیشہ کے لیے بابرکت کردیا۔
تو جب کسی جگہ پر خدا کی طرف سےکوئی رحمت نازل ہوتی ہے تو اُس شہر والوں کی ذمہ داریاں اور اُس شہر والوں کی برکات بھی بڑھ جایا کرتی ہیں۔ سوائے اِس کے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے ماتحت کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ3 جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کوئی فضل نازل کرتا ہے تو جب تک وہ اپنے دلوں کو بگاڑ نہیں لیتے، خدا بھی اپنے سلوک میں بگاڑ پیدا نہیں کرتا۔ وہ اپنے اعمال میں بگاڑ پیدا کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جاتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کے ماتحت مجھ پر جو لاہور میں موجودہ انکشاف کیا ہے اُس سے لاہور کی جماعت کی ذمہ داریوں اور ساتھ ہی ان کی امداد کے وعدے کا بھی اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے۔ کیونکہ یہ خدا کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ ایک چیز کو اپنے کلام اور اپنی رحمت کے لیے مخصوص کرے اور پھر اُسے یونہی بھول جائے۔ لوگ بھول جاتے ہیں لیکن خدا نہیں بھولتا جب تک بندے اُس کو نہیں بھول جاتے۔ بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جیسے مکہ مکرمہ ہے یا جیسے مدینہ منورہ ہے یا جیسے قادیان ہے کہ یہاں کے رہنے والے اگر خدا کو بُھول جائیں تب بھی یہ شہر مغضوب نہیں بن سکتے۔ وہ ان لوگوں کو تو سزا دے دے گا مگر شہروں کی برکتیں واپس نہیں لے گا۔ لیکن بعض شہر ایسے ہوتے ہیں جن کو عارضی برکتیں مل جاتی ہیں۔ وہ اگر ان کو دائمی بنانا چاہیں تو دائمی بن جاتی ہیں اور اگر ان کو چھوڑ دیں تووہ چُھوٹ جاتی ہیں۔
مَیں دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہام بھی یہاں لاہور میں ہی ہوا کہ ؎
سپردم بتو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را
4
یہ الہام درحقیقت آپ کی وفات کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری فرمائے کہ
سپردم بتو مایۂ خویش را
اے خدا! میرے لیے اِس دنیا میں تیری مرضی کے مطابق جس قدر رہنا مقدر تھا وہ مَیں رہ چکا۔ میری عمر کا جوسرمایہ تھا وہ اب مَیں تیرے سپرد کر رہا ہوں۔
تو دانی حساب کم و بیش را
تُو چاہے تو میرے اِس سرمایہ کو تباہ کر دے اور چاہے تو قائم رکھ۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنے کرم سے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اِس سرمایہ کو قائم رکھے۔ دشمن نے چاہا کہ وہ اِس کے اندر بگاڑ پیدا کردے مگر وہ ہمیشہ منہ کی کھاتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں مَیں اُس وقت پاس ہی تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ بعض احمدی کہلانے والے بھی اُس وقت گھبرا گئے۔ لاہور کا ہی ایک شخص تھا جو اب فوت ہو چکا ہے بلکہ بعد میں وہ مرتد بھی ہو گیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں وہ مخلص احمدی تھا مَیں نے دیکھا کہ وہ گھبرایا ہوا کبھی کمرہ کے اندر جاتا تھا اور کبھی باہر نکلتا تھا اور کہتا تھا اب کیا ہوگا؟ اب کیا ہوگا؟ میری عمر اُس وقت انیس سال کی تھی اور میری تعلیم کچھ بھی نہ تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو میری بیوی اُس سے کچھ دن پہلے مجھ سے اجازت لے کر اپنے والدین سے ملنے کے لیے میکے گئی ہوئی تھیں۔ والدین کا لفظ صحیح نہیں صرف اُن کی والدہ وہاں تھیں اور وہ اُن سے ملنے کے لیے گئی تھیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی شدّتِ بیماری میں ہمارے نزدیک وقفہ پیدا ہوا اور درحقیقت یہ وہ حالت ہوتی ہے جب مرنے والے کی طبیعت موت کا مقابلہ کرکے تھک جاتی ہے اور بظاہر اطمینان کی حالت نظر آنے لگتی ہے اُس وقت میں وہاں سے چل پڑا تاکہ ان کو لے آؤں۔ جس وقت مَیں چلا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چارپائی اُس کمرہ میں جدھر سے اندر داخل ہوتے ہیں دیوار کے قریب تھی۔ مَیں نے زور دے کر اور بمشکل، کیونکہ عورتیں ایسےمواقع کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتیں اُن کو واپس بلایا۔ بلکہ مجھے اُس وقت ایک حد تک ایسی سختی بھی کرنی پڑی جو میری عام طبیعت کے خلاف تھی۔میرے سسرال والوں نے کہا کہ ہم ابھی ان کو نہیں بھیج سکتے کچھ دنوں کے بعد بھیج دیں گے۔ مَیں نے اُس وقت، یہاں تک لفظ کہہ دیئے کہ اگر یہ اِس وقت میرے ساتھ نہیں جائیں گی تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حالت نازک ہے مَیں انہیں وہاں سے طلاق بھیج دوں گا۔ خیر وہ میرے ساتھ چل پڑیں۔ جب مَیں واپس پہنچا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے آخری سانحے تھے۔ میرے دل میں سخت اضطراب یہ تھا کہ مَیں سمجھتا تھا میری بیوی کے لیے یہ بڑی نحوست کی بات ہوگی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آخری گھڑیوں میں وہ یہاں نہیں ہوگی اور میرے دل میں یہ ڈر تھا کہ مَیں جو اِتنی قربانی کر کے چلا ہوں ایسا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پیچھے ہی فوت ہو جائیں۔ جب مَیں پہنچا ہوں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی چارپائی بدل کر دیوار کا جو مقابل کا حصہ تھا وہاں رکھ دی گئی تھی۔ مَیں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ بہرحال وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے آخری لمحے تھے اور آپ کے اِرد گِرد مرد ہی مرد تھے۔ مستورات وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔چارپائی کے تینوں طرف مرد کھڑے تھے۔ مَیں وہاں جگہ بنا کر آپ کے سرہانے کی طرف چلا گیا یا شاید وہاں نسبتًا کم آدمی ہوں۔مَیں وہاں کھڑا ہوا اور مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی آنکھ کھولتے، اِدھر اُدھر پھیرتے اور پھر بند کر لیتے۔ پھر کھولتے، اُن کی پتلیاں اِدھر اُدھر مُڑتیں اور پھر تھک کر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے۔ کئی دفعہ آپ نے اِسی طرح کیا۔ آخر آپ نے زور لگا کر، کیونکہ آخری وقت طاقت نہیں رہتی اپنی آنکھ کو کھولا اور نگاہ کو چکر دیتے ہوئے سرہانے کی طرف دیکھا۔ نظر گھومتے گھومتے جب آپ کی نظر میرے چہرہ پر پڑی تو مجھے اُس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے آپ میری ہی تلاش میں تھے اور مجھے دیکھ کر آپ کو اطمینان ہوگیا۔ اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کر لیں۔ آخری سانس لیا اور وفات پا گئے۔اُس وقت مَیں نے سمجھا کہ آپ کی نظر مجھ کو ہی تلاش کر رہی تھی اور مَیں نے اپنے ذہن میں سمجھا کہ مَیں جو دعائیں کررہا تھا اُس کا یہ نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما دی کہ مَیں آخری وقت میں آپ کی آنکھوں کو دیکھ سکوں۔
آپ کی وفات کے معاً بعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہوگا۔ انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اَب فوت ہو گیا اب سلسلہ کا کیا بنے گا۔ جب مَیں نے اس شخص کو گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا۔ اِسی طرح بعض اَور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور مَیں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہوگا؟ تو مجھے یاد ہےگو مَیں اُس وقت انیس سال کا تھا مگر مَیں نے اُسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا! مَیں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ تُو نے نازل فرمایا ہے مَیں اُس کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلاؤں گا۔
انسانی زندگی میں کئی گھڑیاں آتی ہیں سُستی کی بھی، چُستی کی بھی،علم کی بھی، جہالت کی بھی، اطاعت کی بھی،غفلت کی بھی۔ مگر آج تک مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میری گھڑی ایسی چُستی کی گھڑی تھی، ایسی علم کی گھڑی تھی، ایسی عرفان کی گھڑی تھی کہ میرے جسم کا ہر ذرہ اِس عہد میں شریک تھا اور اُس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اِس عہد اور اِس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ شاید اگر دنیا میری باتوں کو سنتی تو وہ ان کو پاگل کی بڑ قرار دیتی۔ بلکہ شاید کیا یقیناً وہ اسے جنون اور پاگل پن سمجھتی۔مگر مَیں اپنے نفس میں اس عہد کو سب سے بڑی ذمہ داری اور سب سے بڑا فرض سمجھتا تھا اور اس عہد کے کرتے وقت میرا دل یہ یقین رکھتا تھا کہ مَیں اس عہد کے کرنے میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوئی وعدہ نہیں کررہا۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں مجھے دی ہیں انہی کے مطابق اور مناسب حال یہ وعدہ ہے۔مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اُس نے ہمیشہ ہی اِس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور جب بھی کوئی ایسا رخنہ جماعت میں پیدا ہونے لگا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی لائی ہوئی تعلیم میں کوئی نقص واقع ہونا تھا تو خدا نے میرے ہاتھ سے اُس رخنہ کو بند کرا دیا۔
دشمن ہمیشہ مجھ پر الزام لگاتا ہے کہ مَیں نے ایک ایک کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کو نَعُوْذُ بِاللہ بگاڑ دیا ہے اور مَیں اپنے دل میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے ایک ایک کرکے مجھے سچائیوں کے قائم کرنے کا موقع دیا ہے۔ ایک منٹ کے لیے بھی مَیں شبہ نہیں کرسکتا کہ مجھ سے ان معاملات میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ بلکہ خواہ مجھے ایک کروڑ زندگیاں دی جائیں اور ایک کروڑ دفعہ مر کر مَیں پھر اِس دنیا میں واپس آؤں تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ مَیں پھر بھی اِسی طرح ان صداقتوں کی تائید کروں گا جس طرح گزشتہ زندگی میں کرتا رہا ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وہ تعلیمیں جنہیں بعض لوگ مٹانے کی فکر میں تھے، جنہیں بعض لوگ دبانے کی فکر میں تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو میرے ذریعہ زندہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا صحیح مقام میرے منہ سے ظاہر فرمایا۔چیز موجود تھی مگر دنیا اس چیز کو مٹانے لگی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک الہام ہے اور بار بار کا الہام ہے کہ خدا کا ایک نور آیا لوگوں نے اس کو مٹانا چاہا۔ مگر اللہ نے اُن کی اِس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ ضرور اِس نور کو پورا کرکے چھوڑے گا۔ وَیَأْبَی اللّٰہُ اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَكَ۔5 اس الہام میں اِسی امر کی طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم اور آپ کے درجہ پر لوگوں نے حملہ کرنا تھا۔ کچھ لوگوں نے اندرونی طور پر اور کچھ لوگوں نے بیرونی طور پر۔اللہ تعالیٰ اپنے کام کے لیے آسمان سے نہیں اُترتا۔ وہ اپنے کسی بندے کے ہاتھ کو ہی اپنا ہاتھ قرار دیتا اور اپنے کسی بندے کی زبان کو ہی اپنی زبان قرار دیتا ہے۔ تب اس کا ہاتھ جو کچھ کرتا ہے وہ درحقیقت خدا ہی کرتا ہے اور اس کی زبان جو کچھ کہتی ہے وہ درحقیقت خدا ہی کہہ رہا ہوتا ہے۔ پس مجھے خوشی ہے کہ اس ہاتھ کے بلند کرنے کے لیے خدا نے اپنے فضل سے مجھے چُن لیا اور جو کچھ وہ عرش سے کہہ رہا تھا اُسے اُس نے میرے ذریعہ سے دنیا میں پھیلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کو ایسے طور پر قائم کردیا کہ اُن مسائل کے متعلق دشمن اب کسی طرح حملہ نہیں کرسکتا۔ تیس سال ہو گئے جب سے یہ جنگ شروع ہے بلکہ تیس سال تو میری خلافت کے ہی ہیں اگر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو پینتیس چھتیس سال گزر چکے ہیں اِس عرصہ دراز میں کس طرح مُڑ مُڑ کر دشمن نے حملہ کیا۔ مگر پھر کس طرح خدا نے اُس کو ناکام و نامراد کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا درجہ قائم ہی رہا۔ پھر ایک اَور فضل یہ ہوا کہ ایسے نازک موقع پر جب ایک فریق تنقیص اور درجہ کی کمی کی طرف اپنا قدم اٹھا رہا ہو دوسرے فریق کے متعلق یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مقابلہ میں کہیں مبالغہ اور غلو سے کام لینے نہ لگ جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اِس نقص سے بھی ہمیشہ مجھے محفوظ رکھا۔ حالانکہ جو کام ہمارے سپرد تھا ہوسکتا تھا کہ ہم اس کے کرتے وقت ایسا درجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ہتک کا موجب ہوتا یا خدا کے لیے ہتک کا موجب ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میرے قدم کو استوار رکھا اور کبھی کسی کو جرأت نہیں ہوسکی کہ میرے ساتھ ہوتے ہوئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ میں کمی کرے یا اللہ تعالیٰ کے درجہ میں کمی کرے۔
قادیان میں ہی ایک دفعہ کسی نے کہا کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی شان میں آگے سے بڑھ کر آئے ہیں۔ مجھے جب اس بات کا علم ہوا تو مَیں نے فوراً نوٹس لیا اور اِس فقرہ کے کہنے والے کو تنبیہہ کی کہ ہر چیز کو اُس کی اپنی جگہ پر قائم رکھنا ہی دین ہے۔ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے قطعاً برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح ایک اَورشخص نے ایک دفعہ غلو سے کام لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت کو اس نے شرعی نبوت کا نام دینا شروع کردیا۔ مَیں نے اس شخص کے خلاف فوراً اعلان کیا اور اس سے قطع تعلق کا حکم دے دیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاید احمدی اس کی اس بات سے خوش ہوں گے مگر مَیں نے اپنی جماعت کو اُس سے تعلق رکھنے سے منع کردیا۔ ہاں! پیغامیوں نے اسے اپنے سینہ سے لگا لیا۔ غرض کسی کو موقع نہیں ملا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بالمقابل کھڑا کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق غیرت میرے دل میں اپنے رسولوں سے بھی زیادہ رکھی ہے اور یہی اصل ایمان ہوتا ہے۔ ہم کتنا ہی رسولوں سے عشق رکھتے ہوں خدا کا مقام خدا کا ہی ہے۔ پس جہاں خدا نے مجھے توفیق دی کہ مَیں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے درجہ کو قائم کروں، وہاں اس نے مجھے اس امر کی بھی توفیق عطا فرمائی کہ رات اور دن، سوتے اور جاگتے ایک منٹ اور ایک ساعت کے لیے بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل کا وجود خیال نہیں کیا۔ بلکہ ہر حالت میں مَیں نے یہی سمجھا کہ مَیں آپ کو وہی جگہ دوں جو ایک استاد کے مقابلہ میں شاگرد کو اور ایک آقا کے مقابلہ میں غلام کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر باوجود اس شدید محبت کے جو مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے۔ چنانچہ جو لوگ میرے خطبات اور تقریریں سنتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجھ پر کبھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا کوئی واقعہ مَیں نے بیان کیا ہو اور رقّت سے میرا گلا نہ پکڑا گیا ہو۔ دنیا میں محبتیں ہوتی ہیں کسی وقت کم اور کسی وقت زیادہ۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مجھے ایسی شدید محبت ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں کہ مَیں نے آپ کا ذکر کیا ہو اور مجھ پر رِقّت طاری نہ ہوگئی ہو اور میرا قلب محبت کی گہرائیوں میں نہ ڈوب گیا ہو۔ لیکن باوجود اس کے مَیں نے ایک لمحہ کے لیے بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود کو خدا کے مقابلہ میں نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ اُس کے چاکروں اور غلاموں کی حیثیت میں ہی آپ کو دیکھا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت میرے دل پر اِس طرح ڈال دی ہے کہ وہ ہمیشہ میرے سامنے اُسی طرح آیا ہے جس طرح قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ6 میں اُس کی شان کو بیان کیا گیا ہے۔ مَیں نے اس کی محبت اپنے قلب میں ایسے رنگ میں محسوس کی ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں شایدکیا یقیناً۔ دنیا کے جو پاگل عاشق ہوتے ہیں وہ بھی اپنے معشوق کا اپنے جسم میں ایسا اثر محسوس نہیں کرتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ذکر پر میرے جسم کا ذرہ ذرہ اُس کا اثر محسوس کرتا ہے۔
مجھے یاد ہے مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ جیسے پہاڑوں میں ٹنلز(TUNNELS)ہوتی ہیں۔ اِسی طرح ایک پہاڑی راستہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی عاشق روحیں جا رہی ہیں۔ مَیں بھی اُن میں شامل ہوں۔ بہت سے لوگ میرے آگے ہیں اور بہت سے میرے پیچھے ہیں۔ مگر وہ سب کے سب ایسے ہی ہیں جیسے دیوانہ وار مجذوب ہوتے ہیں۔ نہ انہیں سر کی فکر ہے نہ پَیر کی، نہ لباس کی فکر ہے نہ کسی اَور چیز کی۔ ہم سب بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ مجھے محسوس ہوا ہمارے آگے اللہ تعالیٰ کے فرشتے کچھ شعر پڑھ رہے ہیں۔ اُن کی آواز میں گونج ہے اور وہ بڑی محبت اور جوش کے ساتھ ان شعروں کو پڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم اُن کی طرف بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اس مقام کے قریب پہنچ گئے جہاں سے فرشتوں کے گانے کی آواز آ رہی تھی اور جو گویا ٹنل7 (TUNNEL) کا آخری سِرا تھا جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے وہاں اللہ تعالیٰ کا نور نظر آیا۔ نہایت تیز روشنی جیسا نور جو تمام اُفق پر چھایا ہوا تھا۔ اور مَیں نے دیکھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کے اِرد گِرد کھڑے اُس سے محبت اور عشق کا اظہار کر رہے ہیں۔ مَیں بھی جس طرح دیوانہ انسان اپنا سر مارتا ہے سر مارتے ہوئے وہاں کھڑا ہو گیا اور مَیں نے یہ شعر پڑھنا شروع کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ہی ہے کہ :۔
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغِ تیز
جس سے کٹ جاتا ہےسب جھگڑا غمِ اغیار کا
یہی شعر میں پڑھتا رہا۔ پڑھتے پڑھتے جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا میں اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ :۔
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغِ تیز
جس سے کٹ جاتا ہےسب جھگڑا غمِ اغیار کا
تو اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے مقدم ہے۔ ہر شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایسا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کو بھول جاتا ہے وہ مومن نہیں کافر ہے۔ ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی محبت میں ایسا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بھول جاتا ہے وہ مومن نہیں کافر ہے۔ ہر شخص جو کسی درجہ پر قائم ہے جو شخص اُسے چھوڑتا ہے سوائے اِس کے کہ وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے جو اجتہاد سے تعلق رکھتی ہو وہ نادان ہے۔ بلکہ بعض حالتوں میں وہ ایمان سے باہر اور کافر ہے۔ہمیں اللہ تعالیٰ سے جو محبت ہے وہ ایسی نہیں کہ ہم لفظوں اور عبارتوں کے پیچھے مرتے ہیں۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی ساری عمر اِس حسرت و افسوس میں ہی گزر جاتی ہے کہ کاش! ہمارا محبوب ہم پر محبت کی ایک نگاہ ہی ڈالتا۔ پھر کیسا نادان ہے وہ انسا ن جو کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک ملاقات سے کیا بنتا ہے۔جس شخص کے دل میں ایسی ناشکری پائی جاتی ہے اور جو سمجھتا ہے کہ مجھ کو جب تک ساری دنیا کی نعمتیں نہ ملیں مَیں اُس کی طرف توجہ نہیں کرسکتا۔اُسے ساری دنیا سے بڑھ کر کام بھی تو کرنا چاہیے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے غیراحمدی کہا کرتے ہیں ہم نے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا تو پھر مسیح موعود کو ماننے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا ہے یہ بھی تو ایک خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر انہوں سچے دل سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قبول کیا ہوتا تو وہ یہ بھی تو دیکھتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے ساتھ مسیح موعود کی صورت میں آیا۔ مگر جب انہوں نے مسیح موعود کو نہ مانا تو معلوم ہو گیا کہ ان کا یہ کہنا بالکل غلط تھا کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا ہے یا انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے جمال کو دیکھا ہے۔ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم آقا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام آپ کے غلام۔ لیکن سچی محبت رکھنے والا تو اپنے آقا اور محبوب کی قلیل سے قلیل چیز ملنے پر بھی اپنے جذبات میں تلاطم محسوس کرتا ہے اور وہ بجائے اس کو رد کرنے کے محبت کے ہاتھوں سے اُس کو لیتا اور اپنے سینہ کے ساتھ اس کو لگاتا ہے۔ہم جانتے ہیں ہمارے ساتھ ہی جو لوگ محبت رکھتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بسااوقات وہ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ایک کاغذ پر اپنے دستخط ہی کردیں یا خط لکھتے ہیں تو بڑی منّت اور عاجزی سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے اس خط کا جو جواب ہو اُس پر آپ اپنے دستخط ضرور کریں۔ کیونکہ ہم اس کو محبت کی یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب کسی کے خط پر دستخط کرنے سے اُس کو ہماری محبت سے کتنا قلیل حصہ ملتا ہے مگر وہ اُسی کو غنیمت سمجھتا ہے اور اس کے متعلق ناشکری کے کلمات اپنی زبان پر نہیں لاتا۔ اسی طرح ہر شخص کو آخر اس کی قربانی کے مقابلہ میں ہی درجہ ملے گا۔ دنیا میں کون ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسی محبت کی ہو۔ امتِ محمدیہ میں کروڑوں کروڑ لوگ ہوئے ہیں مگر سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اَور کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس نے آپ سے ایسی محبت کی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نقش اس کے دل پر پیدا ہو گیا ہو۔ پس جب سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اب تک امتِ محمدیہ میں اَور کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق میں انتہائی مقام تک پہنچ گیا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اب دوسرا شخص آپ کے توسط سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکتا ہے۔ اپنے طور پر اگر وہ اس محبت کو حاصل کرنا چاہے تو بے شک زور لگا کر دیکھ لے اور اگر اُس میں اتنا زور صَرف کرنے کی ہمت نہیں تو اس کے لیے نجات کا اب یہی ایک راہ ہے کہ خدا نے اس کے لیے آگے بڑھنے کا جو ذریعہ بنایا ہے اُس کو اختیار کرے اور اسی کے توسط سے مقاماتِ قرب کو طے کرے۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کا نزول ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کیا کرتا ہے۔ مَیں یہاں کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس جگہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر انکشاف کا ہونا لاہور کی جماعت کی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ یہیں سے پیغامی فتنہ نے سر اٹھایا اور یہیں ان کا مرکز ہے۔ یہیں سے احراری فتنہ اٹھا اور یہیں ان کا مرکز ہے۔ اور بھی جس قدر فتنے اٹھے ان میں زیادہ تر لاہور کا ہی حصہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی زیادہ تر چیلنج لاہور سے ہی ملا کرتے تھے اور یا پھر امرتسر سے۔ امرتسر سے کم اور لاہور سے زیادہ۔ پھر اِس وقت پنجاب کا سیاسی مرکز بھی لاہور ہی ہے۔ پس بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو یہاں کی جماعت پر عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ہی تمہیں اُن برکات سے حصہ مل سکتا ہے جو خاص مقامات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب خدا کسی مقام کو اپنی برکتوں کے لیے مخصوص قرار دے دیتا ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اپنے انعامات سے بھی زیادہ حصہ دیا کرتا ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اُن مقامات کے رہنے والوں کو قربانیاں بھی دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہیں۔ جو قربانیاں مکہ اور مدینہ والوں کو کرنی پڑیں وہ کسی اَور جگہ کے رہنے والوں کو نہیں کرنی پڑیں۔ مگر جو انعامات مہاجرین اور انصار کو ملے وہ بھی کسی اَور کو نہیں ملے۔ یہ خیال کرنا کہ مکہ اور مدینہ والوں کو اللہ تعالیٰ نے یونہی انعام دے دیا ہوگا ایک پاگل پن کی بات ہے۔ انہوں نے اِس قدر قربانیاں کیں کہ بِلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو فنا کردیا، انہوں نے خدا کے لیے اپنے آپ کو خاک میں ملا دیا اور پھر اپنی خاک کو بھی اس کی رضا کے حصول کے لیے اُڑا دیا۔ تب انہیں انعامات حاصل ہوئے تب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ہوئے۔
پس جماعت لاہور کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، اپنے اندر تغیر پیدا کرے، اپنے اخلاص اور اپنی نیکی میں ترقی کرے اور خدا تعالیٰ کی محبت اپنے قلوب میں پیدا کرے۔یاد رکھو خدا تعالیٰ کی محبت کے بغیر تمہیں کوئی مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے دلوں میں کوئی عظمت ہے تو اِسی وجہ سے کہ انہوں نے بندوں کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ہمارے دلوں میں کوئی عظمت ہے تو اِسی وجہ سے کہ انہوں نے بندوں کا ہاتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن ہاتھوں کو خدا کے ہاتھ میں دے دیا۔ پس اصل چیز خدا ہی ہے۔ جو شخص اس سے دور ہے وہ نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پاسکتا ہے، نہ مسیح موعودؑ کو پاسکتا ہے اور نہ کسی اَور کو پاسکتا ہے۔ خدا کی شان خدا کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ جس شخص کے دل میں خدا کی محبت نہیں اس کے اسلام اور احمدیت کے سب دعوے باطل ہیں۔
پس اپنے دل خدا کی طرف متوجہ کرو اور ایسے اخلاص اور ایسی محبت سے اُس کی طرف جھکو کہ تمہیں اس کے ذکر میں لذّت آنے لگے۔ پھر اس ذکر پر مداومت اختیار کرو تامداومت کی وجہ سے اس کی محبت تمہارے جسم کا جزو بن جائے۔ جب خدا کی محبت تمہارے دلوں میں حقیقی طور پر پیدا ہوجائے گی تو وہی وقت ہوگا جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اس کی عظمت کو سمجھ سکوگے۔ حقیقت یہ ہے کہ گو انبیاء خدا تعالیٰ کی شان دنیا میں ظاہر کرکے دکھاتے ہیں مگر وہ ایک مبہم سا نظارہ ہوتا ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کے ذریعہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جاسکتا ہے اور خدا کے ذریعہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جس نے خدا کو نہیں دیکھا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا اور جس نے خدا کو نہیں دیکھا اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی نہیں دیکھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا ایک ظلی نور ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام خدا تعالیٰ کا ایک ظلی نور ہیں۔ پس جس کا خدا سے تعلق ہوجائے گا وہ اِن نوروں کا بھی مشاہدہ کر لے گا اور جس کا خدا سے تعلق نہیں ہوگا وہ ان نوروں کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ8 کہا۔جس کے معنی یہ ہیں کہ سچی تعریف کرنا خدا کا ہی کام ہے۔ پس ہم کسی صاحبِ کمال کی حقیقت کو اُسی وقت پہچان سکتے ہیں جب ہم خدا تعالیٰ کو مل کر اُس کے درجہ سے واقف ہوتے ہیں۔
پس حقیقت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص محمدؐ نہیں مان سکتا جب تک وہ خدا تعالیٰ کا عارف نہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کوئی شخص مسیح موعودؑ نہیں مان سکتا جب تک وہ خدا کا عارف نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن نشانات کو جو انبیاء کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں اپنی جلوہ نمائی کا ایک ذریعہ بنا لیتا ہے۔مگر سوال تو یہ ہے کہ اُن کو ذریعہ کس نے بنایا؟ خدا نے۔ ورنہ اگر خدا ان کو ذریعہ نہ بناتا اور وہ اپنی طرف سے شور مچاتے رہتے تو دنیا کی نظر ان کی طرف کہاں اُٹھ سکتی تھی۔ خدا کا کلام ہی تھا جس سے وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ اور اس لیے مرکز بنے کہ لوگوں نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کی باتیں ہمیں سناتے ہیں، یہ اُسی کی طرف ہمیں بلاتے ہیں۔ آؤ ہم ان کی باتوں کی طرف توجہ کریں کہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور فتنوں کے اس مرکز میں رہ کر ہر قسم کے فتنے مٹانے کی پوری کوشش کرو۔ صوبہ کا مرکز ہونے کے لحاظ سے اِس جگہ کی ترقی سارے پنجاب پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح یہاں کے جو فتنے ہیں اُن کا مقابلہ بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان کا اثر بھی مقامی نہیں بلکہ بہت دور تک جاتا ہے۔
یاد رکھو! خدا تعالیٰ نے جو تمہارے ساتھ وعدے کیے ہیں اُن کے پورا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگ قربانیاں کریں۔ آپ لوگوں کی قربانیاں ہی ہیں جو سلسلہ کو فائدہ پہنچائیں گی اور وہ قربانیاں ایسی ہی ہونی چاہییں جیسے اعلیٰ درجہ کے صحابہؓ نے کیں۔ وہ ایسے تھے کہ انہوں نے اپنے نفس کے تمام گوشوں سے دُنیا کی محبت نکال دی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے مست ہو گئے تھے کہ دنیا انہیں بالکل حقیر اور ذلیل نظر آتی تھی۔ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے کام کو مقدم رکھتے تھے اور اپنے کام مؤخر رکھتے تھے۔ مگر اب وہ زمانہ ہے کہ لوگ اپنے کاموں کو مقدم رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جس قربانی کا مطالبہ ہو اُسے مؤخر کرتے ہیں۔ حالانکہ صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ جب بھی قربانی کا کوئی مطالبہ ہوتا پہلے وہ اُس قربانی میں حصہ لیتے تھے اور بچا ہوا حصہ آپ لیتے تھے۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چند مہمان بعض صحابہؓ میں تقسیم کر دیئے کہ وہ اُن کو اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں اور انہیں روٹی کھلائیں۔ ایک صحابی جب مہمان کو اپنے گھر میں لائے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے گھر میں ایک ہی آدمی کا کھانا ہے۔ انہوں نے بیوی سے مشورہ کیا کہ بچوں کو بھوکا سُلادیا جائے۔ چنانچہ انہیں بہلا کر بھوکا سُلادیا گیا۔ دوسری طرف بیوی نے یہ تدبیر کی کہ خاوند سے کہا جب مہمان تمہارے ساتھ کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو مجھے کہنا دئے کی بتّی اونچی کر دو اور مَیں اسے اونچی کرنے کے بہانے سے گُل کردوں گی۔ چنانچہ جب مہمان آیا تو میاں بیوی دونوں اس کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ اُس وقت تک پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور عرب کے دستور کے مطابق گھر والوں کو بھی مہمان کے ساتھ مل کر کھانا پڑتا تھا۔ جب کھانا چنُا گیا تو مرد نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیے کی روشنی بہت مدھم ہے بتی اُونچی کر دو۔ بیوی اٹھی اور اس نے اونچی کرنے کے بہانہ سے بتی کو انگلی سے اِس طرح دبایا کہ دیا گُل ہو گیا اور اندھیرا چھا گیا۔ وہ صحابی کہنے لگا تم نے یہ کیا کردیا؟ اب جاؤ کسی ہمسائے کے ہاں سے آگ مانگ کر لاؤ کہ لیمپ کو روشن کیا جاسکے۔ وہ کہنے لگی اب کہاں جاؤں، ہمسائے سوچکے ہوں گے اندھیرے میں ہی کھانا کھالیں۔ مہمان بھی کہنے لگا۔ اس تکلیف کی کیا ضرورت ہے مَیں اندھیرے میں ہی کھانا کھا لوں گا۔ چنانچہ وہ دونوں اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور چونکہ کھانا صرف مہمان کے لیے تھا، انہوں نے بیٹھ کر خالی مچاکے مارنے شروع کر دیئے تاکہ مہمان کو یہی محسوس ہو کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ جب مہمان خوب سیر ہو کر کھا چکا تو انہوں نے برتن اٹھا لئے اور سوگئے۔ صبح نماز کے لیے جب وہ مسجد میں گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھانے کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور آپ نے اُس صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا رات تم نے اپنے مہمان کے ساتھ کیا کیا؟ وہ دل میں گھبرایا کہ نہ معلوم کیا غلطی ہو گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مجھ سے دریافت کر لی۔ وہ کہنے لگا یارسولَ اللہ! مَیں نے کیا کیا؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ رات جب تم مہمان کو اپنے ساتھ لے گئے تو اُس کو کھانا کھلانے کے لیے تم نے بہانہ سے دیا بجھا دیا اور پھر میاں بیوی اس کے ساتھ بیٹھ کر خالی مچاکے مارتے رہے تاکہ اسے یہی محسوس ہو کہ گویا تم کھانا کھا رہے ہو۔ جب آپؐ نے یہ واقعہ بیان فرمایا تو ہنس پڑے اور پھر صحابہؓ سے فرمایا تم جانتے ہو مَیں کیوں ہنسا ہوں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یارسولَ اللہ! ہمیں تو معلوم نہیں۔ آپؐ نے فرمایا میرا خدا بھی یہ واقعہ دیکھ کر عرش پر ہنسا تھا اس لیے مَیں بھی ہنس پڑا۔9
تو دیکھو وہ لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے جو چیز آتی تھی اس کوبھی اپنے آپ پر مقدم رکھتے تھے مگر آجکل کا عجیب زمانہ ہے کہ لوگ اپنی بچی ہوئی چیز خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ گویا نَعُوْذُ بِاللہ وہ اُسے ایک بھنگی یا چمار کی حیثیت دیتے ہیں کہ اپنا بچا ہوا کھانا، اپنا بچا ہوا مال اور اپنی ضرورت سے بچی ہوئی اشیاء اُس کی راہ میں دیتے ہیں۔ یہ پسند نہیں کرتے کہ اپنی ضروریات پر اس کو مقدم کر لیں۔ حالانکہ جب تک ہم اپنے نفس پر اس کو مقدم نہیں کر لیتے اُس وقت تک ہمارے لیے اس سے محبت کا ادنیٰ سے ادنیٰ دعوٰی کرنا بھی جائز نہیں ہوسکتا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی شخص یہ کہے کہ اسے خدا سے محبت ہے تو وہ اُسی وقت اپنا مکان چھوڑ دے، اپنی جائیدادوں کو ترک کر دے اور اپنے اموال سے دست بردار ہوجائے۔ مگر ارادہ تو یہی ہونا چاہیے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہوگی ہم اس کا زبان سے نہیں عمل سے جواب دیں گے۔ دنیا کیا جانتی ہے کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہونے والی ہے کہ آؤ اور خدا تعالیٰ کے لیے اپنی جانوں کو قربان کر دو،آؤ اور خدا تعالیٰ کے لیے اپنے اموال کو قربان کر دو۔ اگر جماعت کو یہ یقین ہے کہ میرے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، اگر جماعت کو یہ یقین ہے کہ اسلام کے احیاء کا وقت اب آ پہنچا تو پھر جماعت کو اس امر پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قریب یا بعید میں احیاءِ اسلام کے لیے آواز بلند ہونے والی ہے۔ اور وہی لوگ اس آواز پر لبیک کہہ سکیں گے، وہی مومن اس جہاد میں اپنی جانیں اور اپنے مال لے کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو سکیں گے جو ابھی سے اس کی تیاری میں مشغول ہو جائیں گے۔ مگر وہ جنہوں نے تیاری نہیں کی ہوگی، وہ جنہوں نے اپنے اعمال کا کبھی جائزہ نہیں لیا ہوگا وہ اس قربانی سے محروم رہ جائیں گے۔ حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئی بھی بتا رہی ہے کہ کچھ کنواریاں تو دولہا کے ساتھ چل پڑیں گی مگر کچھ کنواریاں پیچھے رہ جائیں گی۔10 اس کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کچھ لوگ اپنے ایمان کے دعووں میں ثابت قدم نکلیں گے اور قربانیوں کے معیار پر پورے اتریں گے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو وقت پر کمزوری دکھا جائیں گے۔
دیکھو! اخلاص ان کنواریوں میں بھی تھا جو دولہا کے استقبال کے لیے نکلیں۔ جو آدھی رات تک اس کا انتظار کرتی رہیں، جو اُس کے آنے کی خوشی مناتی رہیں۔ مگر چونکہ انہوں نے اپنی غفلت سے کافی تیل اپنے ساتھ نہ لیا اس لیے جب دولہا آیا تو و ہ اس کے ساتھ چلنے سے محروم رہ گئیں۔ تیل نہ ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وقت سے پہلے انہوں نے پوری تیاری نہیں کی ہوگی۔ دنیا میں بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ کہتے ہیں ہم نے اسلام کے لیے اپنی جان اور اپنا مال قربان کردیا اِس لیے وقت آنے پر ہم اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کردیں گے۔ حالانکہ جب تک پوری طرح تیاری نہ ہو محض زبانی دعوے انسان کے کسی کام نہیں آتے۔ اِسی لڑائی کو دیکھ لو انگریزوں نے چونکہ پہلے تیاری نہیں کی تھی اس لیے وہ جرمن کے مقابلہ میں شکست کھاتے چلے گئے اور دوسال تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ مگر اس دوسال کے عرصہ میں انہوں نے یہ نہیں کیا کہ رنگروٹوں کو ہی میدانِ جنگ میں لے جائیں۔ کیونکہ انہوں نے اِس حقیقت کو سمجھ لیا کہ لڑائی کے لیے تیاری کی ضرورت ہے۔ پس انہوں نے شکستیں تو کھائیں مگر اس عرصہ میں اپنی تیاری کو انہوں نے مکمل کر لیا اور وہ رنگروٹوں کو اُس وقت میدانِ جنگ میں لے گئے جب وہ پوری طرح سپاہی بن چکے تھے۔ پس یاد رکھو! تیاری کے بغیر کوئی لڑائی نہیں لڑی جاتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ابھی ہم سے اُن قربانیوں کا مطالبہ نہیں کیا گیا جن قربانیوں کا صحابہؓ سے مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ ابھی ہماری جماعت ان قربانیوں کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے۔ نادان انسان کہتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں وہ قربانیاں نہیں ہیں جو صحابہؓ کے زمانہ میں تھیں۔ وہ نادان یہ نہیں جانتا کہ ابھی اُن قربانیوں کا وقت ہی نہیں آیا ورنہ قربانیاں تمہیں وہی کرنی پڑیں گی جو صحابہؓ نے کیں۔ تم ابھی رنگروٹ ہو اور خدا تمہیں موقع دے رہا ہے کہ تم اِس عرصہ میں اپنی تیاری کو مکمل کر لو۔ پھر کیسا نادان اور احمق ہے وہ رنگروٹ جو کہتا ہے کہ مجھے ابھی سے میدانِ جنگ میں کیوں نہیں بھیج دیا جاتا۔ تم اپنی تیاری کو مکمل کرلو۔ پھر وہ وقت بھی آجائے گا جب تمہیں قربانیوں کے میدان میں جھونک دیا جائے گا۔ لیکن جلدی کرو اور سستی سے کام مت لو۔ آخر کب تک خدا تمہارا انتطار کرتا رہے گا کب تک خدایہ دیکھتا رہے گا کہ ان رنگروٹوں کو سپاہی بن لینے دو۔ آخر خدا کا بِگل ایک دن آسمان سے بجے گا اور کہے گا کہ آؤ اپنی جانیں اور اپنے اموال میری راہ میں قربان کردو۔ جس وقت خدا کی طرف سے یہ آواز بلند ہوگی وہ لوگ جنہوں نے ریکروٹنگ(RECRUITING) کے عرصہ میں اپنے آپ کو پوری طرح تیار کر لیا ہوگا آگے بڑھیں گے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔ مگر وہ جنہوں نے اس عرصہ میں اپنے آپ کو پوری طرح تیار نہیں کیا ہوگا اور جو اس بات پر خوش ہوں گے کہ وقت آنے پر ہم اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کردیں گے وہ ناکام ونامراد اپنے گھروں کو لَوٹ جائیں گے اور خدا کا وہ نور جو پہلے اُن کو مل چکا تھا وہ بھی اُن سے چِھن جائے گا"۔ (الفضل 21 جون 1944ء)

8
کامل اور مخلص مومن بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے
(فرمودہ25 فروری 4419ءبمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جب انسان کو کوئی صداقت ملتی ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے ایک صداقت ملی ہے تو وہ قدرتی طور پر اس کے ساتھ اپنا لگاؤ ظاہر کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ یہ خواہش اتنی وسیع ہے کہ جب بھی کسی اچھی چیز پر انسان کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔ گو یہ ضروری نہیں کہ انسان اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کرے اور جب تک وہ اس کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اس کی پوری قدر کی ہے۔
دنیا میں کروڑوں آدمی ایسے ہیں جو مختلف ممالک کے حالات جب کتابوں میں پڑھتے یا دوسرے لوگوں سے جو ان ممالک کی سیر کر آتے ہیں سنتے ہیں تو ان کے دل میں ان ممالک کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ان کے دل و دماغ میں اچھے نظاروں کی طرف ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان کو دیکھا جائے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے مگر واقع میں دیکھنے کے لیے جو جاتے ہیں ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ جب لوگ کشمیر کے حالات پڑھتے یا وہاں کے نظاروں کا ذکر دوسروں سے سنتے ہیں یا یورپ کے ممالک کے حالات پڑھتے یا دوسروں سے سنتے ہیں تو چاہے کسی شخص کی آمد دس روپیہ ماہوار ہی کیوں نہ ہو اُس کا دل ضرور چاہتا ہے کہ مَیں بھی ان نظاروں کو دیکھوں مگر وہ خواہش عارضی ہوتی ہے۔آتی اور گزر جاتی ہے۔ اس خواہش کے پیدا ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ یہ حقیقی خواہش ہے۔ بعض اوقات انسا ن کے دل میں خواہش تو بڑے زور کی ہوتی ہے مگر اُسے پورا کرنے کی مقدرت وہ نہیں رکھتا۔ اور بعض دفعہ مقدرت اور سامان تو میسر ہوتے ہیں مگر پھر بھی انسان اُسے پورا نہیں کرتا۔ ہزاروں لکھ پتی اور سینکڑوں کروڑ پتی ہندوستان میں ہیں مگر کیا وہ سارے یورپ کی سَیر کر آئے ہیں؟ ان کے دل میں خواہش بھی پیدا ہوتی ہے مگر باوجود سامان ہونے کے وہ جاتے نہیں۔ اسی طرح علوم کو لے لو۔ لوگوں کے اندر یہ خواہش تو پیدا ہوتی ہے کہ وہ علوم کو سیکھیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسفہ ایک دلچسپ چیز ہے منطق، علم النفس، علمِ ریاضی اور دیگر علوم بہت مفید ہیں ڈاکٹر بننا بڑی اچھی بات ہے، وکیل بڑا اچھا ہوتا ہے، ہر اچھے پیشے کو دیکھ کر انسان کے اندر اسے سیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک آدمی کسی ڈاکٹر سے خوش ہوتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ وہ خود یا اُس کا لڑکا ڈاکٹر ہو۔جب وکیل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے تو اس کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود وکیل بنے یا اپنے لڑکے کو وکالت کی تعلیم دلوائے۔ غرضیکہ ہر علم اور ہر پیشہ کو دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اُسے حاصل کروں۔ مگر کیا اس خواہش کے پیدا ہونے سے ہر شخص ڈاکٹر یا وکیل یا انجینئر بن جاتا ہے یا اپنے بیٹوں کو بنا لیتا ہے؟ نہیں۔ بلکہ بسا اوقات اُسی دن بلکہ ایک گھنٹہ کے بعد اُسے یہ امر یاد بھی نہیں رہتا۔ تو محض خواہش کا دل میں پیدا ہونا کسی کو اُس پیشہ یا فن کی خوبیوں سے متمتع نہیں کرسکتا۔ یہ نہیں ہوتا کہ آج کسی کے دل میں ڈاکٹر بننے کی خواہش پیدا ہو تو اگلے روز مریض اس کے پاس علاج کے لیے چلے آئیں۔ یا وکیل بننے کی خواہش ہو تو لوگ اُس کے پاس مقدمات لے آئیں۔ یا اگر دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ مَیں تاجر بنوں گا تو اگلے روز تھوک فروش دکاندار اسے ہول سیل نرخ پر مال دے دیں محض اس لیے کہ اس کے دل میں تاجر بننے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ یہ خواہش پیدا ہونے کے باوجود وہ جب بازار سے اپنی ضروریات خریدنے جائے گا تو ایک عام فرد کی طرح ہی سودا لے گا۔ یہ نہیں کہ دکاندار اسے ایک تاجر کی حیثیت سے مال دے دیں گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ۔1 یعنی جب کفار قرآن کریم کی تعلیم سنتے ہیں، اخلاق یا نظامِ قومی کے متعلق اسلامی ہدایات کا ان کو علم ہوتا ہے، ہمسایوں کے متعلق، عورتوں، خاوندوں، والدین، بچوں، غریبوں، مسافروں کے متعلق اسلام نے جو تعلیم دی ہے، مزدوروں اور سرمایہ داروں کے بارہ میں جو احکام دیئے ہیں ان سے ان کو آگاہی ہوتی ہے اور ہر شخص دیکھتا ہے کہ اس میں اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اور ایسے قوانین بنائے گئے ہیں کہ کوئی کسی کا حق نہ دبا سکے۔ ہر ایک اطمینان حاصل کرسکے۔ ایک مزدور جو رات دن اپنے مالکوں سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے کہ میرا یہ حق نہیں ملا وہ نہیں ملا جب دیکھتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے کہ جس سے اس کے تمام حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں تو وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ یہ بات بڑی اچھی ہے۔ اسی طرح عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ ہر ایک کے حقوق کی حفاظت تسلی بخش طور پر اسلام نے کی ہے اور جو بھی اپنے متعلق اس کی تعلیم سے آگاہ ہوتا ہے وہ اس کی خوبی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کہے گا کہ اے مسلمان! آ تجھے میں جنت میں داخل کروں۔ کیونکہ اس کے یہ معنے نہیں کہ اس شخص کے دل میں ایمان پیدا ہو چکا ہے۔ یہ تو اسلام کی تعلیم کی خوبی کی علامت ہے۔ جیسے کشمیر کے حالات پڑھ کر یا سن کر انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ مَیں بھی اسے دیکھوں۔ یورپ کے حالات معلوم کرکے وہ چاہتا ہے کہ ایسے اچھے نظائر کا مشاہدہ کروں۔ تو اس کا یہ نتیجہ نہیں ہوتا کہ اگلے دن لوگ اس کے پاس ان مقامات کے حالات یہ سمجھ کر سننے کے لیے آ جائیں کہ اُس کے دل میں چونکہ ان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی اس لیے یہ ان کو دیکھ چکا ہوگا۔ بلکہ خواہش کا پیدا ہونا تو محض ان مقامات کے حالات میں بیان کردہ نظّاروں کی خوبی کی دلیل ہے۔ اسی طرح اسلام کی تعلیم کی خوبی کا اقرار محض اس تعلیم کی برتری کی دلیل ہے۔ اس سے نہ تو خود وہ انسان اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے لگتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اسے مسلمان سمجھ کر اس سے معاملہ کرے گا۔ اگر کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ مَیں ملک کے لیے لڑوں تو گورنمنٹ اس کی تنخواہ مقرر نہیں کر دیتی۔ یہی حال دین اور ایمان کا ہے۔ اگر ایمان لانے کی دل میں محض خواہش پیدا ہو تو ایسا شخص خدا تعالیٰ کے ہاں مومن شمار نہیں ہونے لگتا۔ جیسے ایک شخص مثلاً مزدوروں کے بارہ میں اسلام کی تعلیم کو پڑھتا یا سنتا اور اس کی تعریف کرتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہر شخص کی روٹی اور کپڑے کی ذمہ دار حکومت تھی اور تعلیم کا بندوبست بھی حکومت کرتی تھی اور دوسری طرف یہ دیکھتا ہے کہ ہندوستان میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ہمیں بھی ایسی حکومت نصیب ہوتی۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ایسا کہنے والا مسلمان ہو گیا۔ کیا کوئی مسلمان اسے مسلمان سمجھ کر اس سے رشتہ وغیرہ قائم کرنے کو تیار ہوگا؟ ہرگز نہیں۔بلکہ اس کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ تمدن کے متعلق اسلام کی تعلیم کو لوگ برتر اور افضل سمجھتے ہیں۔ یا مثلاً ایک عورت ہے جس کی اپنے خاوند سے لڑائی رہتی ہے اور خاوند اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، کسی مسلمان عورت کے ساتھ اس کی ملاقات ہو اور اس کو پتہ لگے کہ اسلامی نظام اور احکام کے ماتحت عورت طلاق حاصل کرسکتی ہے اور وہ یہ بات معلوم کرکے کہے کاش! ہمارے مذہب میں بھی ایسا ممکن ہوتا۔ تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوسکتے کہ وہ مسلمان ہو گئی۔ نہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمان سمجھی جائے گی اور نہ لوگ اسے مسلمان سمجھ کر اس سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک مسلمان دوسرے سے کرتا ہے۔ اس کے دل پر چونکہ چوٹ لگی ہوئی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی مشکل کا حل اسلامی تعلیم میں موجود ہے تو وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ مگر اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ اس بارہ میں اسلام کی تعلیم کی برتری کا اعتراف کرتی ہے۔
غرض ہر شخص جب اپنے پیشہ یا اپنے طبقہ کے لیے اسلام کی تعلیم معلوم کرتا تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسے ہی احکام ہوتے۔ مگر اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ نہ لوگ اسے مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ اسے مسلمان قرار دیتا ہے۔ اس قسم کی ہزاروں مثالیں دنیا میں موجود ہیں اور ہزاروں قسم کے لوگ ہیں جو اپنی اپنی حیثیت مثلاً باپ بیٹا، بھائی بہن، ماں باپ، خاوند بیوی، مزدور آقا کی حیثیت سے اسلام کی تعلیم کی برتری کا اقرار کرتے ہیں۔ اپنے اپنے مذہب کی تعلیم سے دکھی دلوں کو جب اسلام کی تعلیم کا علم ہوتا ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کاش! ہمارے مذہب میں بھی ایسے ہی احکام ہوتے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایک مسلمان کے طور پر سلوک کرے گا۔
اسی مثال کو ہر شخص اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھے۔ ہم جب دین کی بات سنتے ہیں، اسلامی احکام سنتے یا قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان پر عمل کریں۔جب ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ اسلام اور سلسلہ کے لیے اپنا وقت، اپنا علم، اپنا مال و دولت قربان کرتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی ایسا کریں۔ مگر محض اس خواہش کے پیدا ہونے سے اسلام یا سلسلہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ محض دل میں قربانیوں کی خواہش کے پیدا ہونے پر تو ہمارے متعلق وہی بات کہی جاسکتی ہے جو قرآن کریم نے رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ بیان فرمائی ہے اور ہمارے متعلق اس کے بجائے یہ کہا جاسکے گا کہ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لَوْ كَانُوْا مُخْلِصِیْنَ۔ اور جس طرح رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ کے مصداق لوگ مسلم کا مقام نہیں پاسکتے اِسی طرح رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لَوْ كَانُوْا مُخْلِصِیْنَ کے مصداق لوگ مخلصین کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ کافر مسلمان ہوگئے تو بے شک قربانی کی خواہش پیدا ہونے پر ہم لوگ بھی مخلص کہلا سکیں گے۔لیکن جب یہ خواہش کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسی ہی تعلیم ہوتی، کفار کو مسلم نہیں بنا سکتی تو محض قربانی کی خواہش کا پیدا ہونا ہمارے اندر اخلاص کے موجود ہونے پر کیونکر دلالت کرسکتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ مَیں تو سچی خواہش رکھتا ہوں کہ دین کے لیے قربانی کروں تو ہم کہیں گے کہ وہ عورت جو ازدواجی زندگی کی پریشانیوں میں مبتلا ہے وہ بھی تو سچی خواہش ہی رکھتی ہے کہ کاش! خلع کے مسئلہ پر وہ عمل کرسکتی۔ اسی طرح ہر شخص جو اپنی حیثیت کے لحاظ سے دکھی ہے جب اسلام کی تعلیم کو سنتا تو اس کے دل میں بھی سچے طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش! اسلام کے اس حکم پر وہ اور اس کے ساتھی عمل کرسکتے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی غیر مسلم کو خلع کے مسئلہ سے اختلاف ہو کیونکہ اُس کے دل پر کوئی چوٹ نہ لگی ہو۔ لیکن جس کے دل پر چوٹ لگی ہو وہ یقیناً اس سے اتفاق کرے گا اور اس کے دل میں یہ سچی خواہش پیدا ہوگی کہ یہ حکم ان کے ہاں ہونا چاہیے۔ اِسی طرح جن لوگوں کو اسلام سے بُغض نہیں، اسلامی احکام کو سن کر ان کے دل میں بھی لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بھی یہ تعلیم رائج ہو اور اس طرح فرداً فرداً بنی نوع انسان سے سارے اسلام کے مفید ہونے کی تصدیق کرائی جاسکتی ہے اور کوئی حکم اسلام کاایسا نہیں جس کی تصدیق نہ ہوسکے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ یہ تصدیق کرتے ہیں وہ مسلمان ہوگئے۔ بعض لوگ خلع کے قانون کی تصدیق کرنے والے ہوں گے، بعض قانونِ وراثت کی، بعض ان قوانین کی جو مزدوروں کے متعلق ہیں اور بعض ان کی جو آقاؤں کے متعلق ہیں۔ اسی طرح اسلام کے ہر حکم کی تصدیق کرنے والے لاکھوں لوگ مل جائیں گے۔ مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی مسلمان نہیں کہا جاسکتا۔ اس تصدیق کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ اسلامی تعلیم بہت اعلیٰ ہے۔ اسی طرح ہم میں سے جو لوگ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم بھی دین کے لیے قربانیاں کریں، اسلام کی خدمت کریں، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں خدمت کرنے والے شمار نہیں ہوسکتے۔ اس خواہش کے یہ معنے ہیں کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے احکام بہت ضروری ہیں لیکن اس سے وہ کامل اور مخلص مومن نہیں بن سکتے۔
کامل اور مخلص مومن وہی ہے جو عملی طور پر بھی قربانی کرتا ہے اور جو خدمت اس کے سپرد کی جاتی ہے اور جو ذمہ داری اس پر ڈالی جاتی ہے اس کو پوری طرح ادا کرتا ہے۔ ایسے لوگ جو خدمات نہیں کرسکتے ان کا بھی ثواب پاتے ہیں۔ جو خدمت ان کے سپرد ہوتی ہے اُس کا ثواب تو ملنا ہی ہے لیکن جن خدمات کا موقع ان کو میسر نہیں آتا ان کا ثواب بھی ان کو مل جاتا ہے۔ان کی مثال اُس شخص کی ہے جو بوجہ کسی بیماری کے اپنا ایک ہاتھ یا کوئی دوسرا عضو وضو کے وقت دھو نہیں سکتا لیکن اُس کے نہ دھونے کے باوجود اُس کا وضو مکمل ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح وہ مومن جو ان خدمات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں جو ان کے سپر د ہیں ان سے جو خدمات رہ گئیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو نہیں پکڑے گا۔ ایک شخص نماز باقاعدہ اور باجماعت پڑھتا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیتا اور تبلیغ کرتا ہے لیکن اس کے پاس اتنا مال جمع نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا ہی سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے زکوٰۃ ادا کردی۔ یا اگر وہ حج نہیں کرسکا کیونکہ اس کے حالات ایسے نہ تھے کہ اس پر حج فرض ہوتا تو وہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں حج کرنے والوں میں ہی لکھا جائے گا۔ کیونکہ اس نے دوسرے احکام پر عمل کرکے یہ ثابت کردیا کہ اگر اسے توفیق ملتی تو وہ ضرور ان نیکیوں کو بھی بجا لاتا جو وہ بجا نہ لاسکا۔ ایسی صورت میں بے شک اُس کی خواہش ہی اس کے عمل کے مترادف ہوگی کیونکہ اگر اُس نے زکوٰۃ نہیں دی تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے لیے زکوٰۃ ادا کرنے کا موقع ہی نہ تھا۔ اگر اس نے حج نہیں کیا تو اِس واسطے کہ وہ ایسا کرنے سے معذور تھا اس لیے اس کی خواہش ہی کافی سمجھی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہی سلوک ہے۔ پس دل میں نیکی کی خواہش کا پیدا ہونا کافی نہیں۔ ہاں! جن نیکیوں کی توفیق انسان کو ملتی ہے، جن کے کرنے کا اس کے لیے موقع ہے اگر وہ انہیں ادا کرتا ہے تو پھر بے شک جن نیکیوں کے کرنے کی طاقت اسے نہیں اللہ تعالیٰ کے دفتر میں اس کا نام ان کے کرنے والوں میں ہی لکھا جائے گا۔ پس انسان کو چاہیے کہ جو نیک خواہشیں وہ پوری کرسکتا ہے انہیں پورا کردے۔ پھر وہ خواہشات جن کا پورا کرنا اس کے اختیار میں نہیں ان کا اجر اللہ تعالیٰ اُسے خودبخود دے گا۔ جس درجہ کے مطابق اس کی نیکیاں ہوں گی اُسی درجہ کے مطابق اُسے ان نیکیوں کا ثواب مل جائے گا جن کا کرنا اس کے اختیار سے باہر ہوگا۔ ایک شخص نماز پڑھتا، روزے رکھتا، چندہ دیتا، تبلیغ کرتا اور وہ تمام نیکیاں کرتا ہے جو وہ کرسکتا ہے تو جس درجہ کے مطابق اُس کی یہ نیکیاں ہوں گی اُسی درجہ کا اُسے زکوٰۃ کا ثواب مل جائے گا، اُسی درجہ کا اُسے حج کا ثواب مل جائے گا۔ اگر معذوری کی وجہ سے وہ زکوٰۃ ادا نہ کرسکا یا حج نہ کرسکا ہو۔ لیکن اگر کسی کے دل میں کوئی نیک خواہش پیدا ہو وہ اسے پورا کر بھی سکتا ہو ادا نہ کرے تو اس نیک خواہش کے صرف پیدا ہونے سے اُسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا اور اس کی مثال انہی لوگوں کی ہوگی جن کا ذکر رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ میں کیا گیا ہے۔ایسے لوگ اسلامی احکام کی صحت و درستی کے قائل ہیں۔ مانتے ہیں کہ یہ تعلیم بڑی اچھی ہے اسے اپنے ہاں جاری کرنے کا احساس بھی ان کے دل میں ہوتا ہے اور اس کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود وہ ہیں کافر کے کافر۔اِسی طرح وہ مومن جو نیک خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں پورا نہیں کرتا اور سمجھتا یہ ہے کہ دوسرا موقع آنے پر پورا کرے گا وہ غیرمخلص کا غیرمخلص ہی ہے۔
پس اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو ٹٹولو اور سوچو کہ تم پر جو ذمہ داریاں ہیں تم ان کو اس معیار کے مطابق ادا کرتے ہو یا نہیں جو تم کرسکتے ہو۔ اور دین کے لیے جتنی قربانی تم کر سکتے ہو اُتنی کرتے ہو یا نہیں۔ اگر کرتے ہو تو جن کا کرنا تمہارے قبضہ اور طاقت میں نہیں اُن کے کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ تمہیں ان کا اجر دے دے گا۔ لیکن اگر جو کچھ تم کر سکتے ہو وہ بھی نہیں کرتے تو یہ کہنا کہ دوسری نیکیوں کا موقع اگر ملے تو تم وہ ضرور کرو گے بالکل غلط خیال ہے۔ اگر چندہ دے سکنے کے باوجود ایک شخص چندہ نہیں دیتا تو اُس کا یہ کہنا کہ اگر دین کے لیے جان دینے کا موقع ملے تو مَیں ضرور دے دوں کیونکر درست سمجھا جاسکتا ہے۔ جو شخص تھوڑی سی مالی قربانی نہیں کرسکتا یہ کیونکر سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ جنگ میں جان بھی دیدے گا۔ پس اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اور دیکھو کہ تم ان نیک خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہو یا نہیں جن کو تم پورا کرسکتے ہو۔ اگر کرتے ہو تو یقیناً تمہیں ان کا ثواب بھی ملے گا جن کا پورا کرنا تمہارے اختیار میں نہیں۔ یہ ایک ایسا گُر ہے کہ جس سے بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کے مطابق اگر مومن اپنے نفس کامحاسبہ کرتا رہے تو ایمان اور عمل میں بہت ترقی کرسکتا ہے"۔ (الفضل 22 مارچ 1944ء)

9
بندہ کا مقام ہر حالت میں راضی برضائے الٰہی رہنا ہے
(فرمودہ3 مارچ 4419ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج مجھے شدید سر دَرد کا دورہ ہوا ہے اور اُمّ طاہر کی حالت بھی ایسی نازک ہے کہ مَیں زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتا اس لیے میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ خطبہ بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مَیں نے ابھی واپس جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ وہ جہاں تک دعاؤں کا تعلق ہے ان کے ساتھ دوستانہ رنگ کا معاملہ رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ دعاؤں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ تو اپنی مالکیت کا اظہار کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے فضل سے بندے کی دُعا کو قبول فرما لیتا ہے۔1 آقا کے سامنے غلام کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کوئی بات کرے مگر خدا باوجود آقا ہونے کے اپنے بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اس سے دعائیں کریں، اس سے التجائیں کریں اور بعض دفعہ ناز اور بعض دفعہ نیاز سے اس سے مانگیں۔ مگر فرماتے تھے خدا اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ بندہ آقا بننے کی کوشش کرے۔ یعنی وہ یہ خیال کرلے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ اسے ضرور مان لے۔ بے شک وہ دعائیں مانگے، بے شک وہ اللہ تعالیٰ پر امید رکھے کہ وہ اس کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا۔ مگر پھر اسے سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح دو دوستوں کا آپس میں سلوک ہوتا ہے کہ کبھی وہ اس کی بات مان لیتا ہے اور کبھی یہ اس کی بات مان لیتا ہے اِسی طرح اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہاری خاطر اپنا ایک لمبا سلسلۂ حالات بدل دیا، تمہاری دعا میں نے سن لی اور تمہاری اس دعا کو قبول فرما کر ایک ایسی چیز کو جو بظاہر ہوتی ہوئی نظر آتی تھی مَیں نے ٹلا دیا اور اپنی تقدیر کو بدل دیا یا ایک ایسی چیز جو بظاہر نہ ہوتی ہوئی نظر آتی تھی اسے تمہاری خاطر مَیں نے ہونے والی بنا دیا۔لیکن کبھی خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم جو کچھ طلب کرتے ہو اُسے میری خاطر چھوڑ دو اِس وقت مَیں اپنی مرضی چلانا چاہتا ہوں۔ یہی رنگ مومن اور خدا میں ہمیشہ چلتا چلا جاتا ہے۔ بسااوقات ایک ہی شخص ہوتا ہے مگر ایک طرف تو اس کے متعلق ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت مُردوں کو زندہ کرتا چلا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ اسی کے ہاتھوں سے زندے نکل کر مر جاتے ہیں۔یہ دونوں چیزیں ہمیں سارے انبیاء کے حالات میں نظر آتی ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ وہ مُردے زندہ کیا کرتے تھے۔2 انجیل میں بھی لکھا ہے کہ کئی مُردے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے زندہ ہوئے۔3 اب مُردے زندہ کرنے کے کوئی معنے لے لو۔ چاہے وہ لے لو جو عیسائی مانتے ہیں یا بعض مسلمان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی طور پر وہ جسمانی مُردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ چاہے وہ معنے لے لو جو ہماری جماعت کرتی ہے کہ ایسے بیمار جو بظاہر مر جانے والے ہوتے تھے جب حضرت مسیح ان کے لیے دعا کرتے تو ان کی دعا اور توجہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندگی دے دیتا۔ چاہے یہ معنے لے لو کہ مُردہ دل لوگوں کو وہ تبلیغ کرتے اور اپنی روحانیت کا ایسا اثر ان پر ڈالتے کہ وہ لوگ جو مُردہ دل ہوتے، جو روحانیت سے ناآشنا ہوتے اللہ تعالیٰ ان میں تقوٰی اور ایمان پیدا کر دیتا۔ ان میں سے کوئی معنےلے لو بہرحال ہر جگہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ اگر جسمانی مُردوں کو زندہ کرنا مُراد لے لو تب بھی ان کے زمانہ میں لاکھوں لوگ مرے ہوں گے۔مگر انہوں نے جن لوگوں کو زندہ کیا ہوگا وہ پانچ سات ہی ہوں گے۔ خود وہ لوگ جو اس بات کے مدّعی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسمانی مُردوں کو زندہ کیا کرتے تھے وہ بھی پانچ سات مُردوں کو زندہ کرنے کے ہی قائل ہیں اور وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لاکھوں لوگ ان کے زمانہ میں مرے مگر انہوں نے صرف چند مُردوں کو ہی زندہ کیا۔ اور اگر سخت بیماروں کی شفا لے لو تب بھی ان کے زمانہ میں لاکھوں لوگ بیمار ہوئے اور لاکھوں لوگ ہی بیماریوں سے فوت ہوئے ہوں گے مگر ان کی دعاؤں سے اچھے ہونے والے صرف چند لوگ ہی ہوں گے۔ اور اگر مُردوں کو زندہ کرنے سے مراد روحانی مُردوں کا احیاء لیا جائے تب بھی ان کی لاکھوں لاکھ کی قوم جو فلسطین میں آباد تھی اس میں سے چند سَو ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے باقی لوگ روحانی لحاظ سے مُردے ہی رہے۔ غرض کوئی معنے لے لو یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا نے کچھ معاملات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سنی اور کچھ معاملات میں ان سے اپنی بات منوائی۔ یہی حال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ دعا فرمائی کہ الٰہی! تُو عمر بن الخطاب یا ابوجہل میں سے کسی ایک کو ہدایت دے کر اسلام کو تقویت عطا فرما۔4 اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو ہدایت دے دی مگر ابوطالب جن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے، جنہوں نے بڑے بڑے مشکل اوقات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد فرمائی اور جن کی ہدایت کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں بھی کیا کرتے تھے انہوں نے مرتے وقت بھی یہی کہا کہ اے میرے بھتیجے! میرا دل تو مانتا ہے کہ جو کچھ تُو کہتا ہے سچ ہے مگر مَیں اپنی قوم کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا اور اُسی پر جان دیتا ہوں۔5 تو اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں۔بندے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر دم تک دعائیں کرتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ پر توکل رکھے۔ لیکن جب خدا کی مشیت ظاہر ہوجائے چاہے خوشی کے رنگ میں، چاہے رنج کے رنگ میں تو اس کا دل تسلی پا جائے اور وہ خدا تعالیٰ پر کسی قسم کے شکوے کا اظہار نہ کرے۔اگر خوشی ہو تب بھی اور اگر رنج ہو تب بھی۔ بندہ کے لیے یہی اصلی اور حقیقی مقام ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہے اور یہ نہ کہے کہ جس طرح غلام آقا کی بات مانتا ہے اسی طرح خدا اس کی ہر بات مانتا چلا جائے۔ آقا آقا ہی ہے وہ جس قدر مانتا ہے اس کا احسان ہوتا ہے اور جو بات وہ نہیں مانتا اس میں بندے کو گلے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے میری یہ بات کیوں نہ مانی۔ اس کا ہماری کسی بات کو مان لینا احسان ہے اور کوئی شخص اپنے محسن سے یہ نہیں کہا کرتا کہ جب تُو نے مجھ پر دس احسانات کیے تو گیارھواں کیوں نہ کیا؟
پس مومن کو ہمیشہ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں تک دعا کا تعلق ہے، مومن کو کبھی تھکنا نہیں چاہیے اور ایک منٹ کے لیے بھی اس کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا نہیں سنے گا۔ چاہے کوئی مقدمہ ہو، بیماری ہو، مالی نقصان ہونے والا ہو یا جانی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا سیاسی یا اقتصادی نقصان کا احتمال ہو۔ غرض کتنا ہی بھیانک نقصان اسے پہنچنے والا ہو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب پر توکل رکھے۔ اُس سے دعائیں مانگتا چلا جائے اور یہ خیال تک بھی اپنے دل میں نہ لائے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہی کہے کہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے اور وہ ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ لیکن جب خدا کا فیصلہ صادر ہوجائے تو خواہ اُس کا فیصلہ بعض دفعہ اُس کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اُس کا فرض ہے کہ جس طرح پہلے اس نے مومنانہ رنگ دکھایا اُسی طرح اب دوسرا مومنانہ رنگ یہ دکھائے کہ وہ پوری طرح خدا تعالیٰ کے فعل پر راضی ہوجائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی فطرت ایسے مصائب اور مشکلات کے وقت دکھ محسوس کرتی ہے مگر وہ دکھ اور رنج اَور چیز ہے اور خدا کی بات پر ناشکری کرنا اَور چیز ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک نواسے تھے۔ وہ بیمار ہوئے اور حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ جب آپ کی لڑکی نے سمجھا کہ اب آخری وقت قریب ہے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بلا بھیجا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ بڑے رحیم و کریم اور شفیق تھے آپ نے خیال فرمایا کہ اگر مَیں جاؤں گا تو تکلیف ہوگی اس لیے آپ نے جانے سے گریز فرمایا۔ اس پر پھر آپ کی لڑکی نے بڑے اصرار سے کہلا بھیجا کہ ایک دفعہ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لے گئے۔ بچہ پر اُس وقت نزع کی حالت طاری تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہوگئے۔ ایک شخص نے آپ کے آنسو بہتے دیکھ کر کہا۔آپ خدا کے رسول ہوکر روتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔خدا نے میرے دل میں رحمت اور شفقت پیدا فرمائی ہے۔ اگر تجھے خدا نے اس شفقت اور محبت سے محروم کردیا ہے تو مَیں تیرا کیا علاج کرسکتا ہوں؟6
تو کسی رنج اور صدمہ کے موقع پر ہرانسانی قلب کو جودکھ پہنچتا ہے اور جسمانی طور پر اس کی طرف سے اظہارِ غم ہوتا ہے، یہ اَور چیز ہے۔ شریعت اسے رأفت اور شفقت قرار دیتی ہے لیکن خدا سے شکوہ کرنا یا یہ کہنا کہ اس نے ہم پر سختی کی ہے یا ہمارا خدا پر کوئی حق تھا یہ کفر کی باتیں ہیں۔مومن ایسے کلمات اپنی زبان سے نہیں نکال سکتا۔ مومن کا دل اگر ایک طرف بنی نوع انسان کی محبت سے پُر ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ خدا تعالیٰ کی رضا پر بھی کامل طور پر راضی رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی بیوی سے، اپنے بچوں سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بلکہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے رشتہ داروں اور تعلق رکھنے والوں سے محبت نہ کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں آپ اپنی بیویوں سے اِس قدر محبت کیا کرتے تھے کہ بیویاں فرماتی ہیں ہم بعض دفعہ پانی پی کر گلاس رکھ دیتیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس کو اٹھاتے اور جہاں ہم نے ہونٹ رکھ کر پانی پیا ہوتا وہاں اپنے ہونٹ رکھ کر پانی پیتے۔7 یہ گویا بِالواسطہ بوسہ ہوگیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ بیمار تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پاس بیٹھے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سر کے اوپر ہاتھ مارا اور کہا ہائے میرا سر۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اُس وقت شدید سر درد تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں گھبراتی ہو؟ اللہ فضل کرے گا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسولَ اللہ! جانے بھی دیجیے اگر میں مرگئی تو آپ کا کیا ہے آپ ایک اَور شادی کرلیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فقرہ کو سن کر فرمایا عائشہ! تُو نے کہا تھا ہائے میرا سر! اور جب مَیں نے کہا کہ اللہ فضل کرے گا تو تم نے کہہ دیا میرا کیا ہےمیں اگر مر گئی تو آپ اَور شادی کرلیں گے۔سو اب مَیں تجھے کہتا ہوں"ہائے میرا سر"۔8 چنانچہ آپ اس کے تیسرے دن بیمار ہوئے اور چند دن بعد فوت ہوگئے۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم ہوچکا تھا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب ناز کے ساتھ کہا کہ آپ کو میری کیا فکر پڑی ہے مَیں مر جاؤں گی تو آپ اَور شادی کرلیں گے۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس راز کو ظاہر کردیا اور فرمایا کہ تم تو یہ کہتی ہو مگر مَیں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تم زندہ رہو گی اور مَیں وفات پا جاؤں گا۔
تو مومن جس قدر خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا مادہ بھی اس میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے اِس بات کی بھی توفیق دے دیتا ہے کہ جب اسے کوئی تلخی پہنچے تو اسے وہ برداشت کرے۔ چنانچہ وہ پھر بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہی ہوتا ہے اور اس کی حمد اس کی زبان پر جاری ہوتی ہے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لڑکا جو میری پہلی بیوی سے تھا اور اُس وقت تک میرا اکلوتا بیٹا تھا فوت ہوگیا اور وہ فوت بھی اِس طرح ہوا کہ مَیں سمجھتا ہوں مَیں نے ہی اُسے قتل کیا۔ اور یہ اِس طرح ہوا کہ وہ معمولی بیمار تھا آپ اسے دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے لیے دوائی کی ایک پڑیا تجویز کی۔ شاید اس کے گلے میں کوئی نقص تھا آپ نے وہ دوا تجویز فرما کر لڑکے کی والدہ سے کہا کہ یہ پڑیا اسے ابھی کِھلا دی جائے۔ آپ فرماتے تھے اُسی وقت بچے نے مجھے کہا ابّا! مجھے ایک گھوڑا لے دو۔ آپ باہر نکلے اور ایک رئیس سے جو گھوڑوں کا اچھا واقف تھا بات کرنے لگے کہ ہمیں ایسا گھوڑا چاہیے کہ اتنا قد ہو اور اتنی قیمت ہو۔فرماتے تھے ابھی میں اُس سے باتیں ہی کررہا تھا کہ نوکر دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ مَیں جو گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ پڑیا جب اُس کے منہ میں ڈالی گئی تو اسے اُچّھو آیا اور ساتھ ہی اس کا دم نکل گیا۔ آپ فرماتے تھے مجھے اِس کا اتنا صدمہ ہوا، اتنا صدمہ ہوا کہ جب مَیں نماز کے لیے کھڑا ہوا تو میرے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلہ نہ نکلے اور بار بار میرے دل میں یہی خیال آئے کہ کس طرح اچانک میرا لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ اِس پر یکدم میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نورالدین! تجھے آخر یہی خیال ہے کہ تیرا یہ لڑکا تیری یادگار ہوتا اور تیرا نام دنیا میں باقی رہتا۔ لیکن اگر بڑے ہوکر یہ لڑکا چور بن جاتا تو پھر تیری کیا عزت ہوتی یا اگر بڑا ہوکر یہ ظالم ہوتا، ڈاکو بن جاتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا تو لوگ صرف اس کو گالیاں نہ دیتے بلکہ تجھے بھی گالیاں دیتے۔ ایسی حالت میں بچے کو اٹھا لینا یہ تو اللہ تعالیٰ کا تجھ پرا حسان ہے اور تیرا فرض ہے کہ تُو اس کے اس احسان کا شکر ادا کرے۔ آپ فرماتے تھے جب میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تو اُس وقت بے اختیار میری زبان سے بڑے زور کے ساتھ نکلا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اور چونکہ مَیں نے بڑی بلند آواز سے اور چیخ کر کہا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَاس لیے مقتدی بھی حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا۔ چنانچہ بعد میں انہوں نے مجھ سے پوچھا اور مَیں نے بتایا کہ آج اِس طرح خدا نے میری راہ نمائی فرمائی ہے ورنہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔
تو حقیقت یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی ہر تقدیر پر خوش ہوتا ہے گو وہ اس کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو۔مگر جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی ہی تقدیر پر خوش ہوتا ہے وہاں وہ آخر تک مایوس نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے کہ جب کوئی چیز بظاہر بالکل ناممکن نظر آتی ہو اور ہم سمجھتے ہوں کہ وہ نہیں ہوسکتی اُسی وقت خدا تعالیٰ کا فعل اس ناممکن امر کو ممکن بنا دیتا ہے۔ ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں، خود اپنی ذات میں اور جماعت کے متعلق جو دعائیں کی جاتی ہیں ان کے نتیجہ میں یا دعاؤں کے بغیر خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے فضل کے نتیجہ میں ہم نے ایسی سینکڑوں مثالیں دیکھی ہیں کہ انسان جب زندگی سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے، عزت سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے، حالات کی درستی سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے، اقتصادی یا سیاسی نقصانات کی تلافی سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے اور جب اسے نظر آتا ہے کہ اب اِس بات کا ہونا بالکل ناممکن ہے اُسی وقت خدا کی تقدیر آسمان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور جس کام کے متعلق وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کبھی نہیں ہوسکتا اِتنی آسانی سے ہوجاتا ہے کہ کہنے والے کہتے ہیں یہ بات تو آخر ہو ہی جانی تھی اِس میں عجیب بات کونسی ہے۔ جس طرح انگریزوں کو جب ابتدا میں شکستیں ہونی شروع ہوئیں تو مَیں نے قبل از وقت اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر شائع کردیا تھا کہ انگریزوں کو فتح ہوگی۔ اُس وقت حالات ایسے مایوس کُن تھے کہ سب لوگ کہتے تھے انگریزوں کا فتح پانا بالکل ناممکن ہے۔ پرائم منسٹر نے بھی کہا کہ چھ مہینے پہلے اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ ہم اس جنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو ہم اسے پاگل سمجھتے۔ لیکن جب یہ واقعہ ہو گیا اور چھ ماہ کے بعد جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی انگریزوں کی حالت بدلنی شروع ہوئی اور انہوں نے فتوحات حاصل کرنی شروع کردیں تو بہت لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ کونسی عجیب بات تھی ہر شخص انگریزوں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے قیاس سے کہہ سکتا تھا کہ آخر انہی کو فتح ہوگی۔ تو بسااوقات جن باتوں کو انسان ناممکن قرار دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے متعلق آسمان پر فیصلہ کردیتا ہے کہ وہ ہوجائیں تو وہ باتیں ایسی آسانی کے ساتھ ہوجاتی ہیں کہ بعد میں لوگ ان حالات کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ایسا ہو ہی جانا تھا اس میں انوکھی بات کونسی ہے؟
غرض مومن کے لیے دونوں حالتیں ضروری ہیں۔ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھے اور اس کی نصرت اورتائید سےایک لمحہ کے لیے بھی مایوس نہ ہو۔ کیونکہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ ناممکن چیزوں کو وہ ممکن بنا دیتا ہے اور جب انسان کی عقل کسی کام کو ہونے والا قرار نہیں دیتی اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے ہونے والا بنا دیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندوں سے اپنی مرضی بھی منوانا چاہتا ہے۔ بہرحال وہ بادشاہ ہے اور حق رکھتا ہے کہ جس طرح چاہے کرے۔ کسی انسان کا اختیار نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ اس نے ایساکیوں کیا؟ رَضِيْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالْقُرْاٰنِ حَکِیْمًا۔ ’’ (الفضل 18؍اپریل 1944ء)
٭ اِس خطبہ کے بعد جماعت لاہور نے خاص طور پر نماز کی جماعت کے وقت میں آنا شروع کردیا اور جہاں تک ہوسکا میری موجودگی سے فائدہ اٹھایا۔ فَجَزَاھُمُ اللہُ اَحْسنَ الْجَزَاءِ۔منہ
٭ بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خیال درست تھا۔ یہ صاحب ہوشیارپور ہی کے تھے اور شیخ مہر علی صاحب جن کے مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے تھے اور جہاں آپ کو 1886ء کے اشتہار والے الہامات ہوئے تھے اور جہاں آپ نے وہ اشتہار لکھا تھا، وہ گو قریبی رشتہ دار تو ان کے نہ تھے مگر ان کی برادری میں سے تھے۔منہ
1 :ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ما جاء فی کراھیۃ الکلام والامام یخطب
2 :بخاری کتاب الجھاد بابُ فضلِ النَّفَقَۃِ فی سبیل اللہ
3 :بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ
4 :الانعام:164
5 : عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ(التوبۃ: 43)
6 :زاد المعاد، حصہ سوم، صفحہ 50 (اردو ترجمہ از رئیس احمد جعفری)مطبوعہ انٹرنیشنل پریس کراچی۔1962ء
7 :المائدة:25
8 :ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ77
9:بخاری کتاب الاستئذان باب السلام للمعرفة وغیر المعرفةِ
1 :الکوثر:1تا آخر
2 :المنجد
3 :بخاری، کتابُ الْانبیاء، بابُ نزولِ عیسی ابن مریم
1 :المائدۃ 25
2 :متی، باب 26، آیات 69 تا 74
3 :اسد الغابہ جلد ثالث صفحہ 743 زیر عنوان عمرو بن العاص۔ دارالفکر بیروت لبنان 1998ء(مفہوماً)
1 :گڑھیاں(گَڑھی):چھوٹا قلعہ(فیروزاللغات اُردو جامع )
2 :ٹرنچز(TRENCHES)
3 :البقرۃ:144
4 :بیّے (بَیّا):چھوٹی زرد رنگ کی چڑیا جو تنکوں سے بہت خوبصورت اور مضبوط گھونسلا بناتی ہے (اُردو لغت جلد دوم۔ شائع کردہ ترقی اردو بورڈ کراچی)
5 : تذکرہ صفحہ164 ایڈیشن چہارم
6 :متی، باب 25، آیات 1 تا 13
7 :کنزالعمال۔ کتاب القیامۃ باب خروج الدجال۔جزء 14 صفحہ327 الطبعۃ الخامسۃ 1981ء۔ الناشر مؤسسۃ الرسالۃ
8 : تذکرہ صفحہ144،طبع چہارم
9 :قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْهٰلِكِیْنَ (یوسف:86)
10:تذکرہ صفحہ163 طبع چہارم
11:تذکرہ صفحہ622 ایڈیشن چہارم
12: اشتہار 20 فروری 1886ء، تذکرہ صفحہ139طبع چہارم
13: اشتہار 20 فروری 1886ء۔ تذکرہ، صفحہ139 طبع چہارم
14:تذکرہ صفحہ165طبع چہارم
15:بنی اسرائیل:82
16: تذکرہ صفحہ137ایڈیشن چہارم میں الفاظ اِس طرح ہیں "تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے"
17:تذکرہ صفحہ102 ایڈیشن چہارم
1 :مریم:30
2 :تذکرہ صفحہ139 حاشیہ طبع چہارم
3 :تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ89
4 :تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ 76، اشتہار 8 اپریل1886ء
5 : تذکرہ صفحہ25 ایڈیشن چہارم
6 :اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ(ابراہیم 25)
7 :ترمذی ابواب الرؤیا باب قولہ لھم البشرٰی فی الحیوٰۃ الدنیا (یَرَاھَا الْمُؤْمِنُ اَوْ تُرٰی لَہٗ)
8 :آل عمران:56
9 :الفاتحۃ:5
10:الفاتحۃ:4
11:البقرة:144
12:بخاری کتاب المغازی بابُ مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم وَوَفَاتہِ
1 :مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن قول ھلک الناس میں الفاظ اِس طرح ہیں:" ھَلَكَ النَّاسُ فَھُوَ اَھْلَـکَھُمْ"۔
2 :وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(السبا:29)
3 :الاحزاب:22
4 :درثمین اُردو نظم "بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین"
5 :مسلم کتاب الطھارۃ باب استحباب اطالۃ الغرّۃ والتحجیل فی الوضوء
6 :الفضل یکم فروری1944ء
7 :بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح
8 : قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ(الزخرف:82)
9 :لطیفہ:اچھی چیز۔ شگوفہ۔ چُٹکلا(فیروز اللغات اردو جامع)
10:التکویر:14
11:تذکرہ صفحہ 402طبع چہارم
1 :بخاری کتاب المغازی باب نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم الحجر وَ کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الحجر و مسلم کتاب الزھد باب النَّھْیِ عَنِ الدُّخُوْلِ عَلٰی اَھْلِ الْحجر اِلَّا مَنْ یَدْ خُلُ بَاکِیًا
2 :التین:4
3 :الرعد:12
4 : تذکرہ صفحہ791۔ایڈیشن چہارم
5 :تذکرہ صفحہ466، 489 ایڈیشن چہارم میں الفاظ اِس طرح ہیں"وَاللہُ یَأْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَكَ"
6 :الاخلاص:2
7 :ٹنل:زمین دوز راستہ۔ ریلوے یا سڑک کے لیے زمین دوز راستہ
8 :الفاتحۃ:2
9 :بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الحشرباب قولہ "وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِم"۔
10 :متی باب 25 آیات 10تا12
1 :الحجر:3
1 :الحکم 10 نومبر 1902ء صفحہ3 (مفہومًا)
2 :المائدۃ:111
3 :متی باب 9 آیت 18تا26
4 :ترمذی ابواب المناقب مناقب ابو حفص عمر بن الخطاب باب اِسْلَامِ عُمَرَ عَلٰی اِثْرِ دُعَائِہٖ
5 :سیرت لابن ہشام جلد 2صفحہ 59 زیر عنوان وفاۃ ابی طالب وخدیجہ ۔ مصطفٰی البابی الحلبی واولادہ بمصر1936 ء
6 :بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یُعَذَّبُ المیّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ اَھْلِہٖ اِذَا کَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِہٖ
7 : سنن النسائی کتاب الطھارۃ باب مواکلۃ الحائض و الشُّربِ مِنْ سؤرھا
8 :سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 292 زیر عنوان ابتداء شکوی رسول اللہ ﷺ ۔ مطبوعہ مصطفٰی البابی الحلبی واولادہ بمصر 1936ء
------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------





10
چند نہایت ہی اہم باتیں
(فرمودہ 10 مارچ4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"حضرت سیدہ اُمِّ طاہر احمد صاحبہ کی وفات:اس ہفتے جو میرے گھر میں ایک واقعہ ہوا ہے یعنی میری بیوی اُمِّ طاہر فوت ہوئی ہیں اس کے متعلق مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بہت بڑا درد پایا جاتا ہے۔ خصوصاً عورتیں اور غریب عورتیں بہت زیادہ اس درد کو محسوس کرتی ہیں کیونکہ میری یہ بیوی جو فوت ہوئی ہیں ان کے دل میں غرباء کا خیال رکھنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ ان کی بیماری کے لمبے عرصہ میں جماعت نے جس قسم کی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ ایک ایسی ایمان بڑھانے والی بات ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن واقع میں ایک ہی جسم کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ جماعت کی ہمدردی گو دعاؤں کی شکل میں ہی ہوتی تھی لیکن قادیان کے لوگوں کے متعلق جب مجھے معلوم ہوتا کہ وہ بار بار مسجد میں جمع ہوکر ان کی صحت کے لیے دعائیں کرتے ہیں تو کئی دفعہ مجھے شک گزرتا کہ ایسا نہ ہو ہمارا یہ اضطرار خدا کو ناپسند ہو۔
جہاں تک میاں اور بیوی کا تعلق ہوتا ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے گھر میں آنے کے لیے چُنا اور ان کی پہلی شادی ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا انتخاب گویا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی کیا ہوا تھا۔1921ء کے شروع میں وہ مجھ سے بیاہی گئیں اور اب 1944ء میں وہ فوت ہوئی ہیں۔ اس طرح 23 سال کا لمبا عرصہ انہوں نے میرے ساتھ گزارا۔جو لوگ ہمارے گھر کے حالات جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ مجھے ان سے شدید محبت تھی لیکن باوجود اس کے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اُس پر کسی قسم کے شکوہ کا ہمارے دل میں پیدا ہونا ایمان کے بالکل منافی ہوگا۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہی تعلیم دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی تعلیم دی ہےکہ جب کوئی شخص وفات پا جائے، ہمارا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیں اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ1 یہ کیسی لطیف تعزیت ہے ہمارے رب کی طرف سے۔اِس سے بڑھ کر بندہ بھلا کیا تعزیت کرسکتا ہے۔ کہتا تو بندہ ہی ہے اِنَّا لِلّٰهِ۔ مگر سکھانے والا خدا ہے۔ پس جب خدا تعالیٰ نے یہ سکھایا اور بندے کے مُنہ سے اسے جاری کیا تو وہ الفاظ درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں۔ ان الفاظ کے معنے یہ ہیں کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے سب اس کے ہی ہیں۔ پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اور ہم بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت اس سے واپس لے گیا تو اسے شکوہ کا کیا حق ہے۔ مگر یہ پہلا حصہ کچھ استغناء ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگا دیا کہ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا۔ اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا؟ اس بات پر اسے شکوے کا کیا حق ہے۔ یہ تو اُس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اُس سے وہ پوری طرح فائدہ اٹھاتا رہا۔ اب اس کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے جُدا کردیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کا اٹھ جانا دائمی جدائی کا موجب تو نہیں ہوتا۔ اگر یہ دائمی جدائی ہوتی اور فرض کرو کہ بَعْدَ الْموت کوئی زندگی نہ ہوتی تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اس نے دی ہے وہ اسے واپس لے؟ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اسی کی طرف چلے جائیں گے۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا ہے اور کوئی بعد میں سفر کے لیے چل پڑے گا ورنہ منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزلِ مقصود ایک ہی ہے تو اس میں گھبراہٹ کی کون سی بات ہے۔ بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ولایت بھیج دئیے جاتے ہیں۔ اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اَور زندہ رہے گا۔ نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے اور نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے۔ مگر باوجود اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لیے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ بلکہ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں، باپ صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آ جائیں گے۔ یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں ہم چند دن کے بعد اس سے جا ملیں گے۔ جانا تو ہے ہی۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّا لِلّٰهِ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکرگزار ہیں۔ پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس پہنچ کر اکٹھے ہو جاؤ گے۔ پس فرماتا ہے جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہونے والے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یا جزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے۔ اگر تم جزع فزع کرو گے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتّصال کمزور ہوجائے گا کیونکہ جس خدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کردے اُسی کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو جُدا جُدا رکھے۔ پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَہی ہے۔باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کٹتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے۔ صحابہؓ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے۔ آخر بدر یا اُحد یا اَحزاب کے موقع پر کون ان کو پکڑ کر لے گیا تھا۔ وہ اپنی خوشی سے گئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی۔ پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہوتاہے اُس بندے پر جس کی روح خدا کے آستانہ پر جھکی رہے اور اُس سے کہے کہ اَے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں۔ تُو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لیے بہتر تھی۔ تیرا فعل بالکل درست ہے۔ اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں۔مَیں نے جہاں تک ہوسکا مرحومہ کے علاج کے لیے کوشش کی۔ لمبی بیماری تھی۔ لیکن اس لمبی بیماری میں خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ مَیں نے ان کی ہر طرح خدمت کی اور ان کے علاج کے لیے کوشش کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچا دیا۔ اور اس بات کا بھی کہ میاں بیوی میں بعض دفعہ رنجشیں ہوجاتی ہیں خصوصاً جس کی کئی بیویاں ہوں اُن میں سے بعض کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہم سے محبت نہیں فلاں سے ہے، چاہے اُس سے زیادہ محبت ہو۔ مگر اس قسم کے شکوے بعض دفعہ پیدا ہو جایا کرتے ہیں۔ مجھے ان کی اِس لمبی بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف تھی مگر مَیں سمجھتا تھا اس کے کئی فوائد بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مَیں سمجھتا تھا کم سے کم میری خدمت کی وجہ سے اگر ان کے دل میں اس قسم کا کوئی خیال ہوگا بھی کہ میرا خاوند مجھ سے محبت نہیں کرتا رہا، میری قدر نہیں کرتا تو یہ خیال اُن کے دل سے جاتا رہے گااور ان کی وفات اطمینان کی وفات ہوگی اور یہ سمجھتے ہوئے ہوگی کہ میرا خاوند مجھ سے محبت کرتا ہے۔ دوسری حکمت اس میں یہ تھی کہ ہر انسان سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ لمبی بیماریاں بے شک انسان کے لیے بڑے دکھ کا موجب ہوتی ہیں مگر لمبی بیماریوں سے مرنے والا بشرطیکہ وہ مومن ہو خدا تعالیٰ کی مغفرت کا مستحق ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی بیماری کے ایام میں توبہ کی توفیق دے دیتا ہے، استغفار کی توفیق دے دیتا ہے، دُعا کی توفیق دے دیتا ہے اور یہ سب چیزیں مل کر اُس کی مغفرت اور ترقیٔ درجات کا باعث بن جاتی ہیں۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ ایسی لمبی بیماریوں میں چونکہ بیمار کے رشتہ دار بھی کثرت سے دعائیں کرتے ہیں اس لیے خدا کے حضور جب وہ دعائیں ظاہری صورت میں قبول ہونے والی نہیں ہوتیں تو وہ اُن دعاؤں کے بدلہ میں مرنے والے کی عاقبت کو درست کردیتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے اسے دنیا میں تو صحت نہیں دی مگر آخرت میں اس کی روح کو صحت دے دی ہے۔
پھر ہمارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ہے اور درحقیقت تمام کامل اور سچے مومنوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ قبل از وقت ایسی خبریں دے دیتا ہے جن کے پورے ہونے پر رنج میں بھی خوشی کا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔آج سے بارہ تیرہ سال پہلے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ اُمّ طاہر کا آپریشن ہوا ہے مگر مَیں نے دیکھا کہ ان کا آپریشن دہلی میں ہوا ہے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ اُن کا ہارٹ فیل ہوگیا ہے۔مَیں اس رؤیا کی وجہ سے باوجود اس کے کہ وہ بیمار تھیں اور لمبے عرصہ سے بیمار تھیں آپریشن سے گھبراتا تھا۔ کئی دفعہ بعض دوستوں نے کہا کہ دہلی میں ان کا آپریشن ہوجائے مگر مَیں رُکتا رہا اور چونکہ خواب کی اگر ظاہری شکل بدل جائے تو اس صورت میں بھی وہ بعض دفعہ ٹل جاتی ہے اس لیے ان کو لاہور کے ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔ وہاں ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ سوائے آپریشن کرنے کے اور کوئی چارہ نہ رہا۔ آپریشن کے بعد دوسرے دن ان کو دل کی کمزوری کا دَورہ ہوا اور خطرہ ہوگیا کہ کہیں ہارٹ فیل نہ ہوجائے۔ اُس وقت مَیں نے ان کے لیے دعا کرنی شروع کردی۔ جب مَیں دعا کررہا تھا تو یکدم مجھے یہ رؤیا یاد آگیا اور میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اِس ہسپتال کا نام لیڈی ولنگڈن ہاسپٹل ہے اور لیڈی ولنگڈن وائسرائے کی بیوی تھیں جس کا صدر مقام دہلی ہوتا ہے۔ پس رؤیا میں جو دکھایا گیا تھا کہ اُن کا آپریشن دہلی میں ہوا اور اس کے بعد اُن کا ہارٹ فیل ہوگیا اِس سے مراد کہیں ایسا ہسپتال نہ ہو جس کی دہلی سے کوئی نسبت ہو۔ اس سے مجھے سخت تشویش ہوئی اور مَیں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے اِس کا ذکر کیا کہ اس خواب کا خیال آکر مجھے سخت تشویش ہے۔کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی کوئی تقدیر پوری کرنا چاہتا ہے تو باوجود علم کے آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ مَیں سمجھتا رہا کہ اس سے مراد شہر دہلی کا ہسپتال ہے مگر اب خوف پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں دہلی کے کسی آدمی سے تعلق رکھنے والا ہسپتال مراد نہ ہو۔ بہرحال اُس وقت مَیں نے ان کی صحت کے لیے خاص طور پر دُعا شروع کردی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُس وقت ان کو کچھ آرام بھی دے دیا۔ اس کے بعد جب مَیں جنوری کے آخر میں یہاں آیا تو مَیں نے ایک اَور رؤیا دیکھا۔ جب مَیں یہاں آیا ہوں اُس وقت برابر یہ خبریں آتی رہیں کہ ان کی صحت اچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیّت ایسی ہی تھی کہ صحیح حالات کا علم نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰی صاحب اس ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑے اخلاص اور محبت سے تیمارداری میں حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میری نیت اُس وقت یہی تھی کہ مَیں جمعہ پڑھا کر قادیان سے جاؤں اور اگلا جمعہ پھر قادیان میں ہی واپس آکر پڑھاؤں۔ لیکن ڈاکٹر غلام مصطفٰی صاحب نے یہ اطلاعات دینی شروع کیں کہ مریضہ بالکل اچھی ہیں اور چند دن میں ان کو ہسپتال سے فارغ کردیا جائے گا۔ اس وجہ سے مَیں نے مناسب سمجھا کہ مَیں اگلے جمعہ تک قادیان ہی ٹھہروں مگر واقعہ یہ تھا کہ اس عرصہ میں ان کا دوبارہ آپریشن ہوا تھا اور ان کی صحت گر رہی تھی۔چنانچہ جمعرات کی شب کو فون آیا کہ ان کی حالت بہت نازک ہے اور میرے نہ آنے کی وجہ سے وہ بہت گھبرا رہی ہیں۔ ڈاکٹر میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ان کے بھائی ان کو ملنے کے لیے گئے تو انہوں نے آکر شیخ بشیر احمد صاحب کو فون پر ان کی نازک حالت کی اطلاع دی اور مزید کہا کہ وہ مجھے اطلاع کر دیں کہ آپ کے نہ آنے کی وجہ سے مریضہ بہت گھبرائی ہوئی ہیں۔ چنانچہ مَیں جمعہ پڑھا کر لاہور گیا اور اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اُن کے پیٹ میں دوبارہ شگاف دیا گیا ہے اور حالت پہلے سے خراب ہے۔
اس قادیان کے قیام کے ایام میں جبکہ ان کی صحت کے متعلق مجھے اچھی خبریں آرہی تھیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ شیخ بشیر احمد صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُمِّ طاہر کا ہارٹ فیل ہوگیا ہے۔ پھر کہنے لگے انہوں نے آپ تک پہنچانے کے لیے مجھے کہا تھا کہ سو روپیہ فلاں عورت کو دے دیں اور سوروپیہ فلاں عورت کو دے دیں۔ ایک عورت کا انہوں نے نام بتایا اور دوسری کا نام انہوں نے نہ بتایا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کا نام بھول گئے ہیں مگر ساتھ ہی کہا کہ عجیب بات ہے کہ جب وہ وصیت کررہی تھیں اور ان کا دل ساکت ہو رہا تھا تو اُن کی طبیعت بالکل مطمئن تھی اور ان کے دل پر اُس وقت گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے۔ یہ خواب مَیں نے لاہور میں بہت سے دوستوں کو سنا دی تھی۔ خواب کا بعض دفعہ ایک حصہ پورا کردیا جائے تو وہ ٹل جایا کرتی ہے اِس بناء پر مَیں نے یہاں سے جاکر اُن کو دو سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایک سو روپیہ تو فلاں عورت کو دے دو اور ایک سو روپیہ جس عورت کو چاہو دے دو مگر شرط یہ ہے کہ پورا سَو دو۔ تقسیم کرکے مختلف مستحقوں کو نہ دو۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس عورت کو انہوں نے سو روپیہ بھجوایا اُس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ اُس نے دو دن پہلے کسی سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو سوروپیہ کی ضرورت ہے۔ میری فلاں فلاں چیزیں فروخت کردو اور اس کے لیے روپیہ کا انتظام کردو۔
اس کے بعد جب ہم ان کو دوسرے ہسپتال میں لے گئے تو ایک دن جب مَیں اُن کے لیے دعا کرکے سویا تو مجھے رؤیا میں ایسا معلوم ہوا جیسے اس مکان کی سیڑھیوں پر میرے ساتھی گھبرائے ہوئے چڑھ رہے ہیں۔ مَیں اُن کے قدموں کی آواز سن کر اور ان کی گھبراہٹ محسوس کرکے باہر نکلا تاکہ معلوم کروں کہ کیا بات ہے۔ جب مَیں باہر آیا تو مَیں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں گاگریں ہیں۔ انہوں نے گاگریں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا کہ سب نلکے سُوکھ گئے ہیں، کہیں پانی نہیں ملتا۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ کہیں سے پانی تلاش کرو۔ اِس پر انہوں نے کہا کہ حضور سب ہی نلکے سُوکھ گئے ہیں۔مَیں خواب میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اس وقت پانی کی سخت ضرورت ہے اور زور دیتا ہوں کہ کہیں سے پانی تلاش کرو۔ مگر وہ یہی کہتے ہیں کہ سب نلکے سُوکھ گئے ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ کوئی شخص بہت تلاش کرنے کے بعد پانی کا ایک لوٹا لایا ہے۔ مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ مَیں نے اُس سے پانی کا لوٹا لیا ہے یا نہیں۔پھر اس رؤیا کے معًا بعد یا پہلے جاگتے ہوئے جبکہ مَیں سو نہیں رہا تھا مَیں نے دیکھا کہ کوئی شخص میرے کان پر جھکا اور آہستہ سے میرے کان میں اُس نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ مَیں نے دوستوں کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے کہا یہ بڑا اچھا خواب ہے کیونکہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا گیا ہے۔ مگر مَیں نے کہا مجھے تو یہ منذر معلوم ہوتا ہے کیونکہ آنے والا دُور سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا کرتا ہے اور جانے والا پاس سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا کرتا ہے۔ پانی نہ ملنے کے معنے بھی یہی تھے کہ ان کی زندگی کا پانی ختم ہوچکا تھا اور ایک لوٹا پانی کے معنے یہ تھے کہ اب وہ تھوڑا عرصہ ہی زندہ رہیں گی۔ چنانچہ اس رؤیا کے بعد وہ صرف اڑتالیس گھنٹے زندہ رہیں۔ اس کے بعد وفات پاگئیں۔ تو دیکھو کس طرح ساری باتیں پوری ہو گئیں۔ بارہ سال پہلے ایک خواب دیکھی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کا آپریشن ہوگا اور آپریشن کے بعد ان کی وفات دل کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے، نہ کہ اصل آپریشن کی وجہ سے ہوگی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ بیمار ہوئیں اور انہیں ایک ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں بظاہر علاج کرانا بہت مشکل تھا۔
مردوں سے علاج کرانا عورتوں پر بہت گراں گزرتا ہے۔ گو شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ چنانچہ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا۔ آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کوئی عورت کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے جس کی معالج عورتوں میں کوئی نہ ہو اور کسی ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج یا آپریشن کی ضرورت آپڑتی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت مرد ڈاکٹر سے علاج نہیں کراتی اور اس مرض سے فوت ہوجاتی ہے تو ہمارے نزدیک وہ خودکشی کا ارتکاب کرتی ہے۔ تو شریعت میں اس بات کی اجازت ہے مگر پردہ کے لحاظ سے عورتیں عام طور پر مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ان کی حالت ایسی نازک ہوگئی کہ ان خیالات کو چھوڑنا پڑا اور ایک ایسے ہسپتال میں ان کا آپریشن ہوا جس کا نام دہلی کی ایک خاتون سے منسوب تھا۔
پھر عجیب بات یہ ہےکہ جس وقت مَیں انہیں روپیہ دینے کے لیے گیا کہ سو روپیہ فلاں عورت کو دے دو اور سو روپیہ جس عورت کو چاہو دے دو اُس وقت صرف ایک عورت ان کے پاس تھی۔ مگر انہوں نے اپنی وفات سے چار پانچ دن پہلے اصرار کیا کہ فلاں عورت کو بھی میرے پاس بھجوا دو۔ چنانچہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو دو عورتیں اُن کے پاس تھیں۔ایک اُن کے دائیں طرف بیٹھی تھی اور دوسری ان کے بائیں طرف بیٹھی تھی۔ خواب میں مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نظر آئے تھے مگر جب مَیں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو مَیں نے کہہ دیا کہ میرا خیال ہے اس سے مراد میاں بشیر احمد صاحب ہیں اور خوابوں میں بِالعموم ایسا ہوجاتا ہے کہ ایک شخص کی بجائے دوسرا شخص نظر آجاتا ہے جو اُس کا ہم نام ہو۔ پس میں نے کہا اِس سے مراد میاں بشیر احمد صاحب ہوں گے۔ شیخ بشیر احمد صاحب سے انہوں نے کیا بات کرنی تھی اور اُن سے بات کرنے کا موقع بھی کیا ہوسکتا تھا۔میاں بشیر احمد صاحب چونکہ میرے بھائی ہیں اس لیے میرا خیال ہے کہ اس سے مراد وہی ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وفات کے قریب مَیں بار بار ان کے پاس جاتا انہیں دعائیں سکھاتا کہ یہ یہ دعائیں اِس وقت مانگو۔ پھر جب مَیں واپس آ جاتا تو تھوڑی دیر کے بعد اسی گھبراہٹ میں اپنے ماموں (یعنی ڈاکٹر میر محمداسمٰعیل صاحب) کو بھیج دیتا کہ آپ جائیں اور انہیں قرآن شریف سنائیں۔ جب ان کا آخری وقت تھا، اُس وقت دہلی کا ایک اَور تعلق بھی ظاہر ہوگیا۔ یعنی اُس وقت ڈاکٹر عبداللطیف صاحب دہلی والے ان کو آکسیجن سونگھا رہے تھے۔ پھر یہ جو مَیں نے دیکھا کہ شیخ بشیر احمد صاحب آئے ہیں اور انہوں نے وفات کی اطلاع دی ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ ان کا دل مطمئن تھا اور انہیں کوئی تکلیف نہ تھی یہ بھی پورا ہوا۔ چنانچہ جب انہوں نے آخری سانس لیا تو میاں بشیر احمد صاحب میرے پاس آئے۔ اُس وقت اُن پر رقّت طاری تھی۔ وہ مجھ سے بولے نہیں۔ صرف انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ اندر چلے جاؤ۔ مگر وہ کہتے ہیں جب مَیں باہر نکلا تو اُس وقت یہ گہرا اثر تھا کہ اُمّ طاہر کے دل پر موت کا کوئی اثر نہیں اور نہایت اطمینان کی حالت میں انہوں نے آخری سانس لیے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری تشنّج جو عام طور پر مریض پر وارد ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہوا بلکہ آہستگی سے سانس لیتے ہوئے وہ فوت ہوگئیں۔
یہ خدا تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اُس نے اگر ایک طرف سے ہم کو صدمہ پہنچایا تو دوسری طرف اپنی ہستی کا ایک زبردست ثبوت مہیا کرکے ہمارے دلوں کو اطمینان بھی بخشا فَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
اصل بات یہ ہے کہ مجھے اگر کسی چیز سے ان کی وفات کے وقت گھبراہٹ تھی تو وہ یہ تھی کہ لمبی بیماری کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسان کے ایمان میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ خدا نے اُس کی بخشش کا سامان کیا ہے اور اُس نے چاہا ہے کہ اِسی دنیا میں اسے گناہوں سے صاف کردے اور ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرکے اپنے دربار میں لائے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اُس پر سختی کی ہے۔ پس میرے دل میں یہ کرب تھا جس کی وجہ سے میں ان کے لیے دعا بھی کرتا اور ان کی آخری گھڑیوں میں انہیں بار بار یہی نصیحت کرتا کہ دیکھو ذکر الٰہی کرو، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو۔ مَیں اِس وقت دُعا کرتا ہوں تم بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے دل میں دعائیں مانگو۔ مَیں نے اس وقت یہ بھی سمجھا کہ اگر اِس وقت سورہ یٰسین پڑھی جائے تو ممکن ہے اِسی سے ان کا ہارٹ فیل ہوجائے۔ اس لیے مَیں قرآن کریم کی بعض اور سورتیں پڑھ پڑھ کر ان کا ترجمہ کر کرکے انہیں سناتارہا اور جب مَیں کچھ دیر کے بعد ٹھہر گیا تو انہوں نے کہا کہ اَور قرآن پڑھو۔ اِس سے مَیں نے سمجھا کہ انہوں نے اپنی آخری حالت کو معلوم کرلیا ہے۔ چنانچہ اُس وقت میں نے سورہ یٰسین پڑھنی شروع کردی اور مَیں نے دیکھا کہ وہ برابر اپنی زبان سے یہ دعائیں مانگتی چلی جاتی تھیں۔لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِیْثُ۔ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اور مَیں نے دیکھا کہ برابر وفات تک ان کے ہونٹ ہلتے رہے۔ اور گو ان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر ان کے ہونٹوں کے ہلنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ برابر وہی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ مَیں نے ان کی وفات پر جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ مَیں نے اُسی جگہ زمین پر خدا تعالیٰ کے حضور شکر کا سجدہ کیا کہ ان کا انجام بالخیر ہوگیا اور تکلیف دہ لمبی بیماری نے ان کے دل میں اپنے رب سے کوئی شکوہ نہیں پیدا کیا اور اس کی قضا پر وہ راضی ہوکر اِس دنیا سے گئیں۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔مَیں سمجھتا ہوں درحقیقت ایک مومن کے لیے سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ مرتے وقت اُس کی زبان پراور اُس کے عزیزوں کی زبان پر خدا تعالیٰ کا ذکر ہو۔ اُس کا دل مطمئن ہو اور دعائیں اُس کی زبان پر جاری ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو اور اس کی بخشش اُس کا احاطہ کرلے۔
وفات کے بعد ان کی شکل سے کسی طرح بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ ان کے دل میں موت کے وقت کسی قسم کا کرب تھا۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اطمینان سے سو رہا ہو۔ بلکہ شاید دیکھنے والا ان کے چہرہ کو دیکھ کر یہ بھی نہ سمجھ سکتا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہم خوش ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ اُس نے قبل از وقت ہمیں آنے والے حالات سے مطلع کیا۔ اگر وہ پہلے سے یہ خبریں ہمیں نہ بتاتا تو شاید ہمارے دل کا کرب زیادہ ہوتا۔ مگر جب اس کی بتائی ہوئی خبریں پوری ہوئیں تو ہمارے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ اُس نے جو کچھ کہا وہ سچ ثابت ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی۔ جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے اگر مبارک احمد فوت ہوگیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچے گا۔ حضرت خلیفہ اول بڑے حوصلہ والے اور بہادر انسان تھے۔ جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا اُس روز صبح کی نماز پڑھا کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے۔میرے سپرد اُس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اُس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا۔ مَیں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ مَیں تھا، حضرت خلیفہ اول تھے،ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور شاید ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے۔ جب حضرت خلیفہ اول مبارک احمد کو دیکھنے کے لیے پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا حالت اچھی معلوم ہوتی ہے بچہ سو گیا ہے۔ مگر درحقیقت وہ آخری وقت تھا۔ جب مَیں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اُس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے۔ حضرت خلیفہ اول بائیں طرف کھڑے ہوئے اور انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا۔ مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی۔ اِس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مُشک لائیں اور خود ہاتھ کُہنی کے قریب رکھ کر نبض محسوس کرنی شروع کی کہ شاید وہاں نبض محسوس ہوتی ہو۔ مگر وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا کہ حضور جلدی مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہاتھ لے گئے اور نبض محسوس کرنی شروع کی۔ اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبرا کر کہا حضور! جلد مُشک لائیں۔ اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چابیوں کے گچھے سے کنجی تلاش کرکے ٹرنک کا تالا کھول رہے تھے۔ جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور! مُشک جلدی لائیں اور اِس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ ہوگا باوجود بہت دلیر ہونے کے آ پ کے پاؤں کانپ گئے اور آپ کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید نبض دل کے قریب چل رہی ہو اور مُشک سے قوت کو بحال کیا جاسکتا ہو۔ مگر ان کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ امید موہوم تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آواز کے ترعّش2 کو محسوس کیا تو آپ سمجھ گئے کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کردیا اور فرمایا مولوی صاحب! شاید لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ آپ اتنے گھبرا کیوں گئے ہیں؟ یہ اللہ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے تو ہمیں اس پر کیا شکوہ ہوسکتا ہے۔ پھر فرمایا آپ کو شاید یہ خیال ہو کہ مَیں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے اس لیے مجھے زیادہ صدمہ ہوگا۔ خدمت کرنا تو میرا فرض تھا جو مَیں نے ادا کردیا اور اب جبکہ وہ فوت ہوگیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں۔ چنانچہ اُسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہم سے لے لی۔
تو مومن کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہاں تک ہوسکتا ہے دوسرے کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کو اپنے لیے ثواب کا موجب سمجھتا ہے۔ مگر دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوتی ہے تو وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے خدمت کا ثواب مجھے مل گیا ہے۔لیکن جو جزع فزع کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور آخرت کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ بدبخت اَور کون ہوسکتا ہے جو دُہری مصیبت اٹھائے۔ اِس جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے اور اگلے جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ اسلام کی فتوحات کا ہے۔ بادشاہ کا کوئی نوکر یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ جس وقت اُس کا بادشاہ کامیابی حاصل کرکے واپس آرہا ہو اور فتح کا جشن منا رہا ہو تو وہ اُس کے سامنے کسی قسم کے غم کا اظہار کرے خواہ اُس دن اُس کا باپ مرگیا ہو، اُس کا بیٹا مرگیا ہو، اُس کی بہن مرگئی ہو، اُس کی بیوی مرگئی ہو۔ وہ اپنی آنکھوں کو پونچھتا اور اپنی کمر کو سیدھی رکھتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے آج میرے آقا کی خوشی کا دن ہے۔ آج میرے لیے غم کا اظہار کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح آج ہمارے لیے خوشی کا دن ہے، آج ہمارے لیے مسرت و شادمانی کا دن ہے کہ تیرہ سو سال کے لمبے عرصہ اور ہزار سال کے فیج ِاعوج کے بعد خدا نے پھر چاہا کہ اُس کے بندے اُس کی طرف واپس آئیں۔ خدا نے پھر چاہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں پھیلے، خدا نے پھر چاہا کہ توحید کو دنیا میں قائم کرے، خدا نے پھر چاہا کہ شیطان کو آخری شکست دے کر دین کو ہمیشہ کے لیے زندہ کردے۔ پس آج جبکہ ہمارے رب کے لیے خوشی کا دن ہے ہمارے رنج اُس کی خوشی پر قربان۔ ہم اُس کی خوشی کے دن منحوس باتیں کرنے والے کون ہیں۔ جتنے احسانات اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیے ہیں، واقع یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم کا ذرّہ ذرّہ اور اگر ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں کا ذرّہ ذرّہ آروں سے چِیر دیا جائے، تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس کے احسانوں کا کوئی بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ مَیں یا تم میں سے سارے اِس مقام پر ہیں۔ مجھ میں بھی کمزوریاں ہیں اور تم میں بھی۔ لیکن سچی بات یہی ہے اور جتنی بات اس کے خلاف ہے وہ یقیناً ہمارے نفس کا دھوکا ہے۔ آج آسمان پر خدا کی فوجوں کی فتح کے نقّارے بج رہے ہیں، آج دنیا کو خدا کی طرف لانے کے سامان کیے جا رہے ہیں، آج خدا کے فرشتے اس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں اور ہم بھی اس گیت میں ان فرشتوں کے ہمنوا اور شریک ہیں۔ اگر ہم جسمانی طور پر غمزدہ ہیں اور ہمارے دل زخم خوردہ ہیں تب بھی مومنانہ طور پر ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم اپنے رب کی فتح اور اس کے نام کی بلندی کی خوشی میں شریک ہوں تا اس کی بخشش کے مستحق ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے غموں کو خود ہلکا کرے کہ روح اس کے آستانہ پر جُھکی ہوئی مگر گوشت پوست کا دل دکھ محسوس کرتا ہے۔
اس کے بعد مَیں ایک دوسرا سوال لیتا ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو دعا کی تحریک کرنے کے لیے اپنی بیوی کی وفات کے متعلق کچھ اور بھی کہوں۔ لیکن ابھی نہ مَیں خطبہ میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور نہ قریب ترین عرصہ میں کوئی مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الصَّبْرُ لِاَوّلِ وَھْلَۃٍ۔3 صبر پہلے پہلے دنوں میں ہی ہوتا ہے۔ رنج اور دکھ کے کلمات ہمیشہ انسان کے مُنہ سے نہیں نکلتے بلکہ صدمہ جب تازہ ہو اُس وقت اُس کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اَوّلِ وَھْلَۃٍ میں مَیں کوئی ایسا مضمون لکھوں۔ بے شک مَیں نے اُن کی خوبیاں ہی بیان کرنی ہیں لیکن خوبیاں بیان کرتے وقت بھی بعض دفعہ ایسا فقرہ انسان کی زبان یا قلم سے نکل جاتا ہے جو رنج کا ہوتا ہے۔ اور گو رنج ایک طبعی چیز ہے، خدا نے اِس سے روکا نہیں مگر پھر بھی مَیں یہی چاہتا ہوں کہ اَوّلِ وَھْلَۃٍ میں مَیں خاموش رہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر چالیس دن دعا:دوسرا مضمون جومَیں آج بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مَیں نے اعلان کیا تھا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر جاکر چالیس دن دعا کروں گا تاکہ اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح اور اُس کے غلبہ کا راستہ کھولے اور احمدیت کی اشاعت میں جو روکیں حائل ہیں اُن کو دور فرمائے۔ مَیں نے اِس کی وجہ بھی بتائی تھی کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ شروع شروع میں قبر سے روح کا تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے۔4 اسی طرح اولیاء اللہ نے بہت سے کشوف اس بارہ میں بیان کیے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ ابتدا میں انسانی رُوح متوحّش ہوتی ہے اور اپنے رشتہ داروں سے جُدا ہونے کا اُسے صدمہ ہوتا ہے اور وہ گھبرائی گھبرائی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک مقام پر ٹِک جاتی ہے۔ اگر سعید روح ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت کے انعامات سے حصہ دینا شروع کردیتا ہے اور اگر ناپاک روح ہو تو رفتہ رفتہ اُسے دوزخ کا عذاب شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسانی روح جب قبر میں داخل ہوتی ہے تو اُسے سخت کرب ہوتا ہے۔ اس کے بعد اُس پر جو حالت بھی وارد ہوتی ہے وہ پہلے کرب سے ادنیٰ ہوتی ہے، زیادہ نہیں ہوتی۔5 اس کی وجہ سے اُمّتِ محمدیہ کے صلحاء و اولیاء قبروں پر جاتے اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ مرنے والے کے لیے بھی، اپنے لیے بھی اور اس کے دوسرے رشتہ داروں اور عزیزوں کے لیے بھی۔ ان دعاؤں سے مرنے والی روح تسلی پا جاتی ہے اور اس کا توحُّش کم ہوجاتا ہے۔ یہ طریق جو عام طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ قبر پر قرآن پڑھنے لگ جاتے ہیں، یہ بالکل لغو ہے۔قرآن پڑھنے کا تو ہم کو ثواب ملے گا مُردے کو اس کا کیا ثواب ہوسکتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ انسان جب قبر پر جائے تو میت کے لیے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت کرے، اُس کے درجات کو بلند فرمائے اور اپنے قرب کے دروازے اُس کے لیے کھولے۔ پس چونکہ اِس قسم کی دعا کی خاطر مَیں نے کچھ دن متواتر اُمِّ طاہر کی قبر پر جانا تھا اس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اِس کے ساتھ ہی اسلام کی فتوحات کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعاؤں کا سلسلہ شروع کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا جائے کہ اے اللہ! تُو نے اِس شخص سے اسلام کی ترقی اور اس کی فتوحات کے متعلق کچھ وعدے کیے تھے۔ یہ شخص اب فوت ہوچکا ہے اور تیرے یہ وعدے بہرحال ہمارے ذریعہ سے ہی پورے ہوں گے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ہزاروں قسم کی کمزوریاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں ہم میں ان کمزوریوں کو دور کرنے کی طاقت نہیں لیکن تُو اگر چاہے تو اِن کمزوریوں کو بڑی آسانی سے دور کرسکتا ہے۔ پس تُو اپنے فضل سے ان کمزوریوں کو دور فرما اور اپنے اِس مامور اور پیارے محبوب سے جو تُو نے وعدے کیے ہوئے ہیں اُن کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرما دے۔ ہم کمزوروں کو طاقت بخش، ہم ناتوانوں کو قوت عطا فرما اور ہمارے اندر آپ اپنے فضل سے تغیر پیدا فرما تاکہ ہم دین کا جھنڈا دنیا میں گاڑ سکیں اور کفر کو نابود کرسکیں۔
مَیں نے بتایا تھا کہ دعاؤں میں سے یہ قرآنی دعا بہت اعلیٰ درجہ کی ہے کہ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۝6 بعض دوستوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ایسا نہ ہو لوگوں میں اِس سے مشرکانہ خیالات پیدا ہوجائیں اور اصل حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے وہ قبروں سے استدعا کرنے لگ جائیں۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں ایسے جاہل لوگ موجود ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ قبروں پر دعا کرنے کے نتیجہ میں صاحبِ قبر اُس دعا کو قبول کرکے انسان پر فضل نازل کیا کرتا ہے۔ مگر کسی کی بدی کی وجہ سے ہم نیکی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خانہ کعبہ میں بُت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ بیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف اپنے منہ پھیر لو۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی اعتراض کیا کرتے تھے مَا وَلّٰهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا7 کہ یہ مسلمان سیدھے طور پر توحید کے ایک مقام کی طرف مُنہ کرکے نمازیں پڑھ رہے تھے اب انہیں کیا ہو گیا کہ وہ ایک ایسے مقام کی طرف مُنہ کرکے نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں جہاں بُت رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس اعتراض کی پروا نہیں کی۔ بے شک مشرکانہ خیالات کو روکنا ایک ضروری چیز ہے۔ مگر ایک فائدہ والی چیز کو بالکل ترک کردینا، اُس سے کسی حد تک فائدہ نہ اٹھانا اور یہ سمجھنا کہ اِس طرح شرک کے خیالات قوم میں پھیل جائیں گے یہ بھی عقلمندی میں داخل نہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو چاہیے تھا کہ جب تک خانہ کعبہ کے تمام بُت توڑ نہ دیئے جاتے اُس وقت تک مسلمانوں کو اُس کی طرف مُنہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کعبہ تمام بُتوں سےصاف نہیں ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایک دن یہ تمام بت توڑے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں توڑے جائیں گے۔ پس وہ اگر چاہتا تو جس طرح پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف مُنہ کرکے نمازیں پڑھ رہے تھے اُسی طرح بعد میں بھی کچھ عرصہ تک پڑھتے رہتے اور اُس وقت تک خانۂ کعبہ کی طرف مُنہ نہ کرتے جب تک خدا تمام بُتوں کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیتا۔ مگر خدا نے اِس بات کی کوئی پروا نہ کی کہ خانہ کعبہ میں بُت موجود ہیں اور مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ وہ اُس کی طرف مُنہ کرکے نمازیں پڑھا کریں۔ پس بعض لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے کسی اچھے فعل کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی غلطیاں بعض کمزور لوگوں میں ہمیشہ رہتی ہیں اور وہ منع کرنے کے باوجود بھی باز نہیں آتے۔ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر کس قدر لعنتیں کی ہیں جو اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔8 مگر کیا اب مسلمانوں میں وہ لوگ موجود نہیں جو قبروں پر سجدے کرتے اور مُردوں سے دعائیں مانگتے ہیں؟ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جو چیزیں ضروری ہیں اُنہیں بھی چھوڑ دیا جائے۔
مجھے بتایا گیا ہے بلکہ پہلے بھی میرے علم میں یہ بات تھی کہ بعض لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو بعض مشرکانہ حرکات کرتے ہیں۔ ہماری جماعت چونکہ ایک دریا کی طرح ہے ایک پانی گزرتا اور اس کی جگہ دوسرا پانی آ جاتا ہے یعنی نئے نئے لوگ جماعت میں شامل ہوتے رہتے ہیں اس لیے کچھ لوگوں کی تربیت ہوتی ہے تو اُن کے معاً بعد کچھ اَور لوگ آجاتے ہیں جو ابھی دین سے ناواقف ہوتے ہیں۔ پھر اُنہیں سمجھانا پڑتا ہے۔ اِس پر کچھ لوگ سمجھ جاتے اور کچھ پھر بھی نہیں سمجھتے۔ اِسی طرح تربیت میں کئی قسم کے نقائص رہ جاتے ہیں۔ مگر ہمارا کام یہی ہے کہ ہم انہیں سمجھائیں اور سمجھاتے چلے جائیں۔ مَیں نے کئی دفعہ سنا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر جاتے اور وہاں سے تبرک کے طور پر مٹی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اِسی طرح بعض لوگ قبر پر پُھول ڈال جاتے ہیں اور مَیں نے خود بھی ایک دو دفعہ وہاں پر پُھول پڑے دیکھے ہیں اور اُٹھوائے ہیں۔ یہ سب ناجائز باتیں ہیں، ناپسندیدہ حرکات ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم کسی کو ایسا کرتے دیکھیں تو اُسے روکیں۔ مگر اِس کے یہ معنے نہیں کہ جو چیزیں دین سے ثابت ہیں اور ہمارے لیے برکت کا موجب ہیں اُن کو بھی ہم ترک کردیں۔
جہاں تک قبروں پر جانے کا سوال ہے احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بارہا قبرستان میں جاتے اور دعائیں کرتے۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں مجھے ایک دفعہ شبہ پیدا ہوا کہ آپ رات کے وقت مجھے چھوڑ کر دوسری بیویوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ایک دفعہ مَیں لیٹی ہوئی تھی۔ مَیں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جُوتیاں اُتاریں اور فرش پر لیٹ گئے۔ مَیں بھی آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی اور دل میں مَیں نے سوچا کہ آج دیکھوں گی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں جاتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری طرف دیکھتے اور معلوم کرتے کہ مَیں سوئی ہوں یا نہیں۔ اِس سے مجھے اَور شبہ پڑگیا۔ کچھ دیر کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ مَیں سو گئی ہوں تو آپؐ نے آہستگی سے جُوتیاں پہنیں اور چل پڑے۔ مَیں بھی آپ کے پیچھے چلی مگر مَیں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلتے مقبرہ میں پہنچ گئے اور وہاں آپ نے دعائیں مانگنی شروع کردیں۔ مَیں یہ دیکھتے ہی بھاگ کر گھر آگئی کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو میرا پتہ نہ لگ جائے۔9
اس کے علاوہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور ایک ہزار صحابی آپ کے ساتھ تھا۔ صحابؓہ کہتے ہیں کہ آپ اُس وقت اِس قدر روئے کہ ہم نے آپ کو اِتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کو روتے دیکھ کر سب صحابہؓ اُس دن بے تاب ہو ہو کر روتے تھے۔10 تو زیارتِ قبور کے لیے انبیاء و اولیاء کا جانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر کی زیارت کرنے کے لیے صلحاء جاتے اور وہاں جاکر بڑی تضرع اور عاجزی سے دعائیں کیا کرتے۔ حضرت بلالؓ آخری عمر میں شام چلے گئے تھے۔ وہ چونکہ حبشی تھے اِس لیے لوگ اُنہیں رشتہ نہیں دیتے تھے۔ آخر اُنہوں نے شام میں ایک جگہ رشتہ کے متعلق درخواست کی اور کہا کہ میں حبشی ہوں اگر چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔ انہوں نے رشتہ دے دیا اور وہ شام میں ہی ٹھہر گئے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رؤیا میں اُن کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلال! تم ہم کو بُھول ہی گئے۔ کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے۔ وہ اُسی وقت اُٹھے اور سفر کا سامان تیار کرکے مدینہ تشریف لے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر پر رو رو کر دعا کی۔ اُس وقت ان کو اِتنی رقت پیدا ہوئی کہ لوگوں میں عام طور پر مشہور ہوگیا کہ بلال آئے ہیں۔ حضرت حسنؓ اور حسینؓ، جو اُس وقت بڑے ہو چکے تھے دوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں! وہ کہنے لگے ہمیں بھی اپنی اذان سناؤ۔ چنانچہ انہوں نے اذان دی اور لوگوں نے سنی۔11
اِسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور سابق بزرگانِ اسلام نے بھی مجدد قرار دیا ہے وہ باقاعدہ سفر کرکے شام سے آتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کیا کرتے۔ جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ قبر والے سے دُعا مانگی جائے۔ یہ چیز بےشک ناجائز ہے اور ایسا کرنا شرک ہے۔ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر جاکر یہ کہتا ہے کہ یارسولَ اللہ! یہ مجھے دیں۔ یا مرزا غلام احمد! یہ مجھے دیں۔ وہ جاہل اور اسلامی تعلیم سے قطعاً ناواقف ہے۔ اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ اسلام کیا چیز ہے۔ اسلام تو کہتا ہے کہ صرف خدا ہی زندہ ہستی ہے باقی سب فوت ہونے والے ہیں۔ پس کسی قبر والے سے دعا مانگنا ہرگز جائز نہیں خواہ وہ نبی ہو یا ولی۔ ہاں یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب صاحبِ مزار کی قبر پر کھڑے ہوکر انسان دعا مانگتا ہے تو اُس تعلق کی وجہ سے جو اُسے صاحبِ قبر سے ہوتا ہے۔ اُس کے دل میں زیادہ رقّت پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے اور اِس رقت اور جوش سے فائدہ اٹھا کر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو زیادہ بھڑکا سکتا ہے۔ پس یہ فائدہ ہے جو قبر پر دعا کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ قبر میں جو دفن تھا وہ مٹی ہوچکا اور اُس کا جسم فنا ہوگیا۔ اُس سے کچھ مانگنا انتہائی حماقت اور پاگل پن ہے۔
مَیں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ نبیوں کے جسم محفوظ رہتے ہیں۔ جو چیز مٹی سے بنی ہوئی ہے میرے نزدیک وہ بہرحال مٹی ہوجاتی ہے خواہ وہ نبیوں کا جسم ہی کیوں نہ ہو۔ بائبل میں صاف لکھا ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان میں لائی گئی تھیں۔12 پس مَیں عوام الناس کے اِس خیال کا قائل نہیں کہ نبیوں کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی۔ میرے نزدیک یہ بالکل لغو خیال ہے۔ آخر نبی بوڑھے ہوتے ہیں یا نہیں؟ بیماری آئے تو اس سے کمزور ہوتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ عام انسانوں کی طرح بوڑھے ہوتے ہیں، کمزور ہوتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو کیا دلیل ہے کہ مٹی اُن کے جسم کو نہیں کھا سکتی۔ پس یہ ایک غلط خیال ہے جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر بہر حال یہ امر انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب وہ اُس جگہ جاتا ہے جہاں اُس کا محبوب اور پیارا مدفون ہوتا ہے تو اُس پر زیادہ رقّت طاری ہوتی ہے اور وہ زیادہ جوش اور زیادہ گریہ و زاری سے خدا سے دعائیں کرتا ہے کہ الٰہی! تُو اُن وعدوں کو پورا فرما جو تُو نے اِس شخص سے کیے تھے۔
دوسرے جس جگہ اللہ تعالیٰ کے نبی دفن ہوں خواہ اُن کے جسم مٹی ہوگئے ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ان مقامات پر اپنی برکتیں نازل کرتا ہے اور ان مقامات کی ہتک کرنے والوں کو اپنے عذاب کا نشانہ بناتا ہے۔ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فوت ہوئے تیرہ سوسال ہو چکے ہیں۔ میرا عقیدہ جسے مَیں نے ابھی بیان کیا ہے یہ ہے کہ انبیاء کے جسم بھی اُسی طرح مٹی ہوجاتے ہیں جس طرح باقی لوگوں کے جسم۔ البتہ بعض زمینیں اِس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن میں جو مُردے دفن ہوں اُن کے جسم ایک لمبے عرصہ تک محفوظ رہتے ہیں۔ چنانچہ بعض مقامات سے کئی کئی سو سال کی پرانی نعشیں نکلی ہیں اور وہ بالکل سلامت ہیں۔ لیکن اِس میں مومن اور کافر یا ایک نبی اور غیر نبی میں کوئی فرق نہیں۔ ایسی زمین میں اگر ایک کافر دفن ہوگا تو اُس کا جسم بھی محفوظ ہوگا اور اگر ایک نبی دفن ہوگا تو اُس کا جسم بھی محفوظ ہوگا۔ پس میرے اِس عقیدہ کے مطابق اگر اُس مٹی کی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دفن ہیں کوئی ایسی تاثیر نہیں ہے جس کی بناء پر وہ اجسام کو محفوظ رکھ سکے تو تیرہ سو سال کے بعد جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم کا تعلق ہے وہ متغیر ہوچکا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی دشمن یہ چاہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر کو اکھیڑے تو کیا تم سمجھتے ہو خدا تعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل نہیں ہوگا؟ اور کیا تم سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کے ہاتھ کو نہیں روکیں گے؟ فرض کرو وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب اس ڈھیر کو کھودنے کا ارادہ کرنے والے پر نازل ہوگا۔ اِسی لیے کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جسمِ اطہر اب دوسری صورت میں تبدیل ہوچکا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو اپنی برکات کے نزول کے لیے مخصوص فرما دیا ہے اور اب اُس مقام پر حملہ کرنا اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانا اور اُس کے عذاب کو حرکت میں لانا ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے"بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے"۔13 اِس الہام سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کے جسم کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں میں اللہ تعالیٰ اپنی برکات رکھ دیتا ہے۔ اگر قبر پر جانے سے اللہ تعالیٰ کی برکت سے حصہ نہیں مل سکتا تو کپڑوں سے کس طرح برکت ڈھونڈی جاسکتی ہے۔اِس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نشان نمائی کے لیے نبیوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میں برکت رکھ دیتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کریں۔ پس ان برکات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے بھی اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اخبار "بدر" میں بھی چھپا ہوا موجود ہے اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے تو آپ مختلف اَولیاء کی قبروں پر دُعا کرنے کے لیے گئے۔ چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر آپ نے دعا فرمائی۔ اُس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا وہ جہاں تک مجھے یاد ہے گو ڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں یہ ہے کہ دلّی والوں کے دل مُردہ ہوچکے ہیں۔ ہم نے چاہا کہ اُن وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جاکر اُن کے لیے، اُن کی اولادوں کے لیے اور خود دہلی والوں کے لیے دعائیں کریں تاکہ ان کی روحوں میں جوش پیدا ہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کریں۔ ڈائری میں صرف اِس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہم نے قبروں پر اُن کے لیے بھی دعا کی ہے اور اپنے لئے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لیے بھی دعا کی ہے۔14 اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لیے دعا نہیں کی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پر جاکر صرف مرنے والے کے لیے دعا کرنی چاہیے اُن کا اِس ڈائری سے ردّ ہوتا ہے۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ہم نے ان کے لیے بھی دعا کی اور اپنے لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اوراَور کئی امور کے لیے بھی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ڈائری ہے جو‘‘ بدر ’’ میں چھپی ہوئی موجود ہے۔
اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا گورداسپور ایک مقدمہ پر جانے سے پیشتر اِس کتاب کو مکمل کر لوں اور اِسے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ مگر مجھے شدید دردِ گُردہ ہوگیا اور مَیں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ اُس وقت مَیں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت اماں جان سے کہا کہ مَیں دُعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں۔چنانچہ اُس وقت مَیں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دُعا کی کہ الٰہی! اِس شخص نے تیرے لیے قربانی کی ہے اور مَیں اِس کی عزت کے لیے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تُو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔"قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہوگیا اور اُسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا"۔15
اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مقدمہ پر جا رہے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ اُس سے پیشتر کتاب مکمل ہوجائے مگر آپ سخت بیمار ہوگئے۔اِس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے اپنے سامنے رکھ کر دُعا کی کہ الٰہی! اِس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے مَیں نے یہ کتاب لکھنی چاہی تھی۔ تُو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما۔ اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرما لیا۔ چنانچہ آپ نے اِس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ"ایک جدید کرامت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی"۔ پس یہ چیزیں صلحاء اور اتقیاء کے طریق سے ثابت ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اِس رنگ میں کئی بار دعائیں فرمائی ہیں۔ جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مُردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا۔ یہ امر صریح ناجائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے۔
باقی رہا اِس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رقّت پیدا ہوتی ہے یا یہ حصہ کہ انسان اُن وعدوں کو یاد دلاکر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کیے ہوں دعا کرے کہ الٰہی! اب ہمارے وجود میں تُو ان وعدوں کو پورا فرما۔ یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ وہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اُٹھائے۔ مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لیے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الٰہی! یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ مَیں اِس کے ذریعہ اِسلام کو زندہ کروں گا۔ تیرا وعدہ تھا کہ مَیں اِس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ تیرا وعدہ تھا کہ اسلام کی فتح مَیں اِس کے ہاتھ پر مقدر کروں گا۔ تیرا وعدہ تھا کہ شیطان اِس کے ہاتھ سے آخری شکست کھائے گا۔ اے ہمارے ربّ! یہ تیرے وعدے اِس شخص سے تھے جو اَب مٹی کے ڈھیر تلے مدفون ہے اور اب اِن وعدوں کا پورا کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے۔ پس اے خدا! ہم تجھ سے ان وعدوں کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں کہ ہم ان کاموں کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،ہم کمزور ہیں، ناطاقت ہیں، گنہگار ہیں اور خطاکار ہیں، جماعت میں ابھی اتنی قربانی کا مادہ اور اس قدر فدائیت نہیں پائی جاتی جس قدر قربانی اور فدائیت اِن عظیم الشان کامیابیوں کے لیے ضرور ی ہے۔ تُو اپنے فضل سے آسمان سے فرشتے نازل فرما،تُو ہمارے قلوب کو صیقل فرما، تُو آسمانی انوار سے ہمارے دل اور دماغ کو روشن فرما، تُو ہم کو ایمان بخش اور ان لوگوں کو بھی ایمان بخش جو کروڑوں کی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں، تُو ہم کو سلسلہ پر استقامت عطا فرما اور اُن لوگوں کو بھی سلسلہ میں داخل فرما جو کروڑوں کی تعداد میں ابھی اِس سلسلہ کے نام سے بھی ناآشنا ہیں۔ تُو اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر لا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کو دنیا میں قائم فرما دے۔ یہ دعا اگر کی جائے تو بتاؤ اِس میں کونسا شرک ہے۔ یہ تو وہ خدا کا فیصلہ ہے جو وہ آسمان پر کرچکا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ زمین پر بھی نافذ ہو۔ پس ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کے لیے جانا صرف اِس لیے ہے کہ وہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور اس لیے ہے کہ وہاں رقت زیادہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح ہم آسانی سے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکا سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر یہ انکشاف فرمایا ہے کہ مَیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ لڑکا ہوں جس کی نسبت آپ کو یہ خبر دی گئی تھی کہ اسلام کی فتوحات اِس کے ہاتھ پر ہوں گی تو اِس کے بعد میرے لیے ضروری تھا کہ مَیں اسلام کی فتح کے لیے کوئی روحانی قدم اُٹھاتا۔ مَیں دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے متعلق جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں اُن میں سے اکثر پوری ہوچکی ہیں اور واقع یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسی خبر نہیں ملی جس کی بناء پر مَیں کہہ سکوں کہ میری زندگی ابھی بہت باقی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وَاللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ16 اللہ تعالیٰ تجھے قتل سے محفوظ رکھے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ فریمیسن ترے قتل پر مسلّط نہیں کیے جائیں گے۔17 مگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ مجھ سے خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ فقط یہ ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡكَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیَامَۃِتیرے ماننے والے قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے۔ پس یہ وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ کیا۔ اگر مَیں آج ہی مر جاؤں تب بھی مَیں اِس الہام کے سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کروں گا۔ اگر مَیں آج ہی قتل ہو جاؤں تو بھی مجھے کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ میرے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ میرے ماننے والے ہمیشہ میرے منکروں پر غالب رہیں گے۔ ہاں اگر کبھی یہ ثابت ہوجائے کہ میرے ماننے والے مغلوب ہوگئے ہیں اور انکار کرنے والے غالب آگئے ہیں تب بے شک تم سمجھ لو کہ مَیں نے خدا پر افترا کیا اور جھوٹ بولا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ زمین وآسمان ٹل سکتے ہیں مگر جو میرے ہاتھ پر بیعت کرنے والے ہیں وہ میرے منکروں سے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتے۔ خدا اُن کو اُن کے مخالفوں پر قیامت تک غالب رکھے گا"۔
اس موقع پر کسی شخص نے بلند آواز سے نعرۂ تکبیر لگانا چاہا۔ جس پر حضور نے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا۔
"جمعہ میں بولنا منع ہے۔ خبردار! کوئی شخص نعرہ مت لگائے۔ معلوم نہیں احرار نے یہ کیسی گندی عادت لوگوں میں پیدا کردی ہے۔ ہمیں تو دوسرے مواقع پر بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے، کُجا یہ کہ جمعہ کا دن ہو اور خطبہ کی حالت میں نعرۂ تکبیر بلند کیا جائے۔ یاد رکھو خطبہ عبادت کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی نماز کی دو رکعتیں رکھی ہیں۔باقی دو رکعتوں کی جگہ خطبہ رکھ دیا۔ پس خطبہ بھی عبادت کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اس میں بولنا جائز نہیں ہوتا۔پھر یہ بھی تو سوچو کہ اگر اس طرح جوش اپنے سینوں سے نکال دیا جائے تو دل سرد ہوجاتا ہے۔ حالانکہ انسان کو اپنے دل میں محبت کی ایسی آگ سلگانی چاہیے جو اُسے خدا کے قریب کردے۔
تو مَیں جس چیز پر قائم ہوں اُس کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں قدرتًا درد پیدا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں میری کتنی زندگی ہے اور کب اسلام کی فتح کا دن آنے والا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے اسلامی علوم کی ایک بہت بڑی بنیاد قائم کردی ہے اور میرے لیکچروں اور میری کتابوں میں بہت سے علم پائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں نے ان چالیس روزہ دعاؤں کا آغاز کردیا تاکہ اگر میری زندگی تھوڑی ہو تو مَیں ان دعاؤں کے ذریعہ بھی اسلام کی ترقی اور دین کی فتح کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھ دوں تاکہ خدا کا منشاء جلد سے جلد اور مکمل طور پر دنیا میں ظاہر ہو۔
مسجد مبارک کی توسیع کے سلسلہ میں نہایت شاندار اخلاص کا نمونہ:تیسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے پرسوں مغرب کے بعد مسجد مبارک میں قادیان کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام ہے مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَ کُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ18 کہ یہ مسجد لوگوں کو برکت دینے والی ہے،یہ مسجد برکت کے نزول کا مقام ہے اور جو کام بھی اِس مسجد میں کیا جائے گا وہ بابرکت ہوگا۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس الہام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ دوستوں کو چاہیے کہ وہ کم سے کم ایک نماز روزانہ اس مسجد میں پڑھا کریں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس توجہ دلانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگ بڑی کثرت سے وہاں نمازیں پڑھنے کے لیے آنے لگ گئے اور مَیں جماعت پر یہ فضل اُس دن سے نازل ہوتا محسوس کررہا ہوں جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ انکشاف فرمایا۔ حالانکہ وہی مَیں ہوں وہی تم ہو۔ لیکن جس دن سے یہ انکشاف ہوا ہے جماعت کے قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہورہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں ایک نئی زندگی حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اِدھر مَیں نے یہ تحریک کی اور اُدھر جماعت میں ایک ایسی بیداری پیدا ہوگئی کہ سینکڑوں لوگ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنے لگ گئے۔ لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب چونکہ لمبی نماز پڑھایا کرتے ہیں اس لیے لوگ اس مسجد کی بجائے دوسری مساجد میں نمازیں پڑھتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کی یہ شکایت درست ہے۔ مَیں نے خود مولوی صاحب کو کئی دفعہ کہلوایا ہے کہ وہ نماز بہت لمبی نہ پڑھایا کریں۔ لیکن یہ تو درست نہیں کہ اگر کوئی امام لمبی نماز پڑھائے تو ہم اُس مسجد میں نماز پڑھناہی چھوڑ دیں جسے خدا نے برکت کا مقام قرار دیاہے۔نماز تو خدا تعالیٰ کی عبادت کا نام ہے اور عبادت ٹکریں مارنے سے نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ نماز کے ارکان ادا کرنے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ پس اُن کو بھی اپنی عادت بدلنی چاہیے اور تم کو بھی اپنی عادت بدلنی چاہیے۔ اُن کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائیں اور تم کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ تم لمبی نمازیں پڑھو۔ بہرحال گزشتہ سال کا اکثر حصّہ چونکہ مَیں باہر رہا ہوں، پہلے بیماری کی وجہ سے پہاڑ پر رہا اور پھر قادیان میں بھی آیا تو اپنی بیماری کی وجہ سے گھر پر ہی نمازیں پڑھتا رہا اور نماز کے لیے مسجد میں نہ آسکا اور جلد ہی اُمِّ طاہر کی بیماری کی وجہ سے لاہور چلا گیا اِس لیے اکثر ایام میں مولوی صاحب ہی نمازیں پڑھاتے رہے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ اِس وجہ سے عام طور پر لوگ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے مگر مَیں نے بتایا ہے کہ یہ غلط طریق ہے۔ جہاں مولوی صاحب کا فرض ہے کہ وہ نسبتًا ہلکی نماز پڑھایا کریں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِتنی لمبی نماز پڑھانا کہ جس سے لوگ متنفر ہوجائیں ناپسند فرمایا ہے۔19 اِس کے ساتھ ہی دوستوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی حالت کو بدلیں اور جلدی جلدی نماز پڑھنے کی بجائے ٹھہر ٹھہر کر اور خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ مسجد اقصٰی چونکہ میرے بالکل قریب ہے اور یہاں کی نماز کی آواز میرے کان میں آتی رہتی ہے اس لیے مَیں اپنے اندازے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ مسجد اقصٰی کی نماز حدِّمناسب سے چھوٹی ہوتی ہے۔ اِتنی چھوٹی اور ہلکی نماز پڑھانا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ مسجد اقصٰی والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی نماز کو ذرا لمبا کردیں اور خشوع و خضوع اور آہستگی کے ساتھ نماز کے ارکان ادا کیا کریں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جب امام اَللہُ اَکْبَر کہہ کر سجدہ کو جاتا ہے تو لوگوں کے گُھٹنے کھٹ کھٹ کر کے زمین پر لگنے شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ نماز کی تمام حرکات میں وقار اور آہستگی چاہیے۔اِس قسم کی جلدی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو آہستگی اور وقار سے نماز ادا کرو۔ آہستگی اور اطمینان سے اس کے ارکان ادا کرو۔ اُٹھو تو آہستگی سے اٹھو، جھکو تو آہستگی سے جھکو۔20 یہ نماز کی روح ہے جو پیدا کرنی چاہیے۔ جو شخص اس طرح نماز نہیں پڑھتا اُس کے دل میں درد اور تضرع پیدا نہیں ہوسکتا۔
بہرحال مَیں دیکھتا ہوں کہ اب سینکڑوں لوگوں نے مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنا شروع کردیا ہے۔ اور یا تو مسجد کی دو تین صفیں ہی پُر ہوتی تھیں باقی مسجد خالی پڑی رہتی تھی اور یا اب مسجد کا نچلا حصہ بھی پُر ہوجاتا ہے، چھت بھی بھر جاتی ہے اور گلیوں میں کھڑے ہوکر لوگوں کو نمازیں پڑھنی پڑتی ہیں۔ یہ خدا کا کتنا بڑا فضل ہے جو ہم پر نازل ہوا کہ یا تو ہم کہا کرتے تھے کہ ہم مسجد کو پُر کس طرح کریں کافی تعداد میں لوگ یہاں نماز پڑھنے کے لیے آتے ہی نہیں اور یا پرسوں رات سے ہی جبکہ مَیں نے اِس طرف توجہ دلائی لوگوں کے قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہوا اور اُنہوں نے اتنی کثرت سے مسجد میں آنا شروع کردیا کہ اب مسجد نمازیوں کے لیے بالکل ناکافی معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے مسجد مبارک کی توسیع کے لیے دیر سے اُس کے ساتھ ہی ایک جگہ لے رکھی تھی۔ مگر اُس کو بڑھانے کا خیال نہیں آتا تھا۔ کیونکہ جب پہلے ہی مسجد خالی رہتی ہو تو اُسے اور کس طرح بڑھایا جاسکتا تھا۔ مگر جب اِس تحریک کے نتیجہ میں لوگوں نے اِتنی کثرت سے وہاں نماز کے لیے آنا شروع کردیا کہ نمازیوں کے لیے گنجائش نہ رہی تو کل عصر کے وقت مَیں نے اِس کا ذکر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں مسجد مبارک کی توسیع کرنی چاہیے۔ اِس کا اثر یہ ہوا کہ شام کی نماز کے بعد جب مَیں بیٹھا تو مَیں نے بعض ایسے دوستوں کا نام لکھوانا شروع کردیا جنہوں نے اِس غرض کے لیے مجھے چندہ دیا ہوا تھا۔ اِس پر دوسرے دوستوں نے بھی اُسی وقت چندہ دینا شروع کردیا اور بعض نے وعدے لکھوانے شروع کر دیئے اور اِس اخلاص سے چندے دیئے اور وعدے لکھوانے شروع کیے کہ نماز مغرب میں شامل ہونے والے نمازیوں سے ہی اندازہ کی رقم پوری ہوگئی۔ ہمارا اندازہ مسجد کی زیادتی کے خرچ کا دس ہزار روپیہ کا تھا۔ مگر اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے پندرہ ہزار روپے کے وعدے ہوچکے ہیں٭ اور ان میں سے سات ہزار روپیہ تو نقد وصول ہوچکا ہے۔ باقی روپیہ بھی اُمید ہے اَور دو چار دنوں میں دوستوں کی طرف سے مل جائے گا۔٭٭ یہ کیسا شاندار اخلاص کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت نے دکھایا۔ دنیا میں آج کونسی جماعت ہے جو دین کی خدمت کے لیے ایسا نمونہ دکھا رہی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ قادیان میں لوگ بیٹھے ہیں جو مجاور ہیں اور جن کا کام روٹیاں کھانا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو قربانی یہ ایک چھوٹی سی جماعت کررہی ہے جس کے افراد کو مجاور کہا جاتا ہے اس کی مثال آج دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی۔ مَیں جانتا ہوں کہ دنیا میں کروڑ پتی نہیں ارب پتی لوگ بھی موجود ہیں اور وہ اگر چاہیں تو ایک ایک موقع پر بیس بیس، تیس تیس ہزار بلکہ بعض دفعہ لاکھ لاکھ روپیہ دے دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہاں کن لوگوں کی جیبوں سے یہ چندہ نکلتا ہے۔ جن لوگوں کی جیبوں سے یہ چندہ نکلتا ہے وہ کروڑ یا ارب پتی نہیں بلکہ نہایت غریب لوگ ہیں اور ان کے گزارے بہت معمولی اور ادنیٰ ہیں۔ مگر دین کے لیے جس قربانی اور فدائیت کا وہ ثبوت دے رہے ہیں وہ یقیناً ایک بے مثال بات ہے۔ مَیں جانتا ہوں مسلمانوں میں بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں اور مسلمان لیڈر چندہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں سوائے ناکامی کے اَور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مجھے ایک دفعہ سرسکندر حیات خان مرحوم اور سرفیروز خان نون کا تار ملا کہ سائمن کمیشن کی رپورٹ پر ہم نے بحث کرنی ہے۔ آپ بھی شملہ اس غرض سے آئیں۔ چنانچہ مَیں شملہ چلا گیا۔ جو جلسہ اس غرض کے لیے منعقد ہوا اُس میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ اس غرض کے لیے مسلمانوں کو منظّم کیا جائے۔ اُس وقت جس قدر مسلمان لیڈر موجود تھے انہوں نے کہا اِس میں بڑی مشکل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس فنڈز موجود نہیں ہیں اور اس کام کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے کہا آپ لوگ اندازہ لگائیں کہ آپ کس قدر روپے میں یہ کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کام کے لیے ہمیں دو ہزار روپیہ کی ضرورت ہے۔ مَیں اُن کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں کہ دو ہزار روپیہ سے یہ عظیم کام ہوجائے گا۔ مَیں نے اِس غلطی کی طرف اُن کو توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اِس وقت ایسی بدظنی کی لہر دَوڑ رہی ہے کہ لوگ چندہ دیتے ہی نہیں۔ مَیں نے کہا کہ اِس غرض کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ اگر کام کرنا ہے تو ضرورت کے مطابق آپ لوگ روپیہ جمع کریں اور اِس کی یہ صورت ہے کہ ہر صوبے کے ذمے پچاس پچاس ہزار کی رقم ڈال دیں۔ مَیں پنجاب کا ذمہ لیتا ہوں۔ گو لوگ ہمارے مخالف ہیں مگر یہ رقم پنجاب سے جمع کردینے کا مَیں ذمہ لیتا ہوں۔ بہرحال آپ کو یہ رقم مَیں جمع کردوں گا۔ اِس پر ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس میں مجھے بھی ممبر بنایا گیا۔ مَیں نے اس کمیٹی کے اجلاس میں مختلف ممبروں پر زور دے کر اُن سے رقوم لکھوائیں اور صرف اس کمیٹی کے ممبروں سے گیارہ ہزار سے زائد کے وعدے لکھوا دیئے۔ مگر لوگوں کے ڈر سے انہوں نے میری تجویز کو قبول نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو ہزار مجھ سے ان کو وصول ہوا اور پانچ سو سرفیروز خاں صاحب سے۔ باقی چندہ انہوں نے وصول ہی نہ کیا بلکہ ایک دوسرے کو چندہ دینے سے روکتے رہے۔
لیکن اِس کے برخلاف میں دیکھتا ہوں کہ یہاں مَیں عصر کی نماز میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور عشاء کی نماز تک ہمیں اپنے اندازہ سے بھی زیادہ رقم وصول ہوجاتی ہے۔ باہر کی جماعتوں کو بے شک اِس سے صدمہ ہوگا کہ اُنہیں اِس تحریک میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن اس مسجد اقصٰی کو دیکھو کہ اب یہ بھی تنگ ہو رہی ہے۔ کس طرح ایک ایک قدم اٹھا کر ہم نے اس مسجد کو بڑھایا۔ مگر حالت یہ ہے کہ اب پھر یہ مسجد خدا کے فضل سے تنگ ہو رہی ہے۔ اس مسجد کے ایک طرف پہلے عورتیں بیٹھا کرتی تھیں۔ ان بیچاریوں نے اس جگہ کے لیے چندہ بھی دیا تھا مگر ہم نے ان کو نکال دیا۔ اب مرد اس جگہ نماز پڑھتے ہیں اور عورتیں ہمارے گھر میں نماز پڑھتی ہیں۔ تو باہر کی جماعتوں کو فکر نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے لیے نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کے اَور کئی سامان پیدا کردے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس تک پھیل گئی ہے۔21 مَیں اس رؤیا سے یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قادیان کی آبادی دس بارہ لاکھ کی ضرور ہوگی۔ اور اگر دس بارہ لاکھ کی آبادی ہو تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ چار لاکھ لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کریں گے۔ پس میرے نزدیک یہ مسجد بہت بڑھے گی بلکہ ہمیں اِس قدر بڑھانی پڑے گی کہ چار لاکھ نمازی اِس مسجد میں آسکیں۔ اس غرض کے لیے اسے چاروں طرف بڑھایا جاسکتا ہے۔ اِس وقت بھی جس جگہ کھڑے ہوکر مَیں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں یہ اُس حصہ سے باہر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تھا۔ وہ مسجد اِس موجودہ مسجد کا غالباً دسواں حصہ ہوگی۔ تو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ لوگوں کی مسجدیں خالی پڑی رہتی ہیں اور ہم اپنی مساجد کو بڑھاتے ہیں تو وہ اَور تنگ ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔
مجھے یا د ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں صرف ایک ہی فعل مجھ سے ایسا ہوا جس سے مَیں سخت ڈرا۔ اس میں میری ہی غلطی تھی اور مَیں فوری طور پر پکڑا گیا۔ لیکن مَیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری جلد ہی بریت ہوگئی۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گُردہ میں درد تھا اور آپ جمعہ پڑھنے کے لیے تشریف نہ لاسکے۔ میری اُس وقت پندرہ سولہ سال کی عمر تھی۔ مَیں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا اور مسجد کو آنے لگا۔ جب مَیں موڑ تک پہنچا تو ایک احمدی دوست مجھے ملے جو واپس جا رہے تھے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ واپس کیوں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مسجد میں بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ میری جو شامت آئی تو بغیر اِس کے کہ مَیں آگے بڑھ کر تحقیق کر لیتا کہ آیا واقع میں مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے یا نہیں اور وہاں کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی جگہ ہے یا یہ شخص یونہی کہہ رہا ہے، وہاں سے واپس چلا گیا اور ظہر کی نماز گھر میں پڑھنی شروع کردی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مَیں چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کا پابند ہوں اور مَیں نے آج تک ایک نماز بھی کبھی ضائع نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ سے کبھی یہ دریافت نہیں فرمایا کرتے تھے کہ تم نے نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی۔ مجھے یاد ہے جب مَیں گیارھویں سال میں تھا تو ایک دن میں نے ضحیٰ یا اشراق کے وقت وضو کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوٹ پہنا اور خدا تعالیٰ کے حضور میں خوب رویا اور مَیں نے عہد کیا کہ مَیں آئندہ نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس عہد اور اقرار کے بعد مَیں نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی۔ لیکن پھر بھی چونکہ مَیں بچہ تھا اور بچپن میں کھیل کُود کی وجہ سے بعض دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سُستی ہوجاتی ہے اس لیے ایک دفعہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس میری شکایت کی کہ آپ اسے سمجھائیں۔ یہ نماز باجماعت پوری پابندی سے ادا کیا کرے۔ میر محمد اسحٰق صاحب مجھ سے دوسال چھوٹے ہیں اور بچپن میں چونکہ ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے اور ہمارے نانا جان میرناصر نواب صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی اس لیے وہ میر محمد اسحاق صاحب کو ناراض ہوا کرتے تھے اور سختی سے انہیں نماز پڑھنے کے لیے کہا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کسی نے میرے متعلق یہ شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ایک تو میر صاحب کی نماز پڑھتا ہے۔ اب مَیں نہیں چاہتا کہ دوسرا میری نماز پڑھے۔ مَیں یہی چاہتا ہوں کہ وہ خدا کی نماز پڑھا کرے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے نماز پڑھنے کے متعلق کبھی نہیں کہا۔ مَیں خود ہی تمام نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا۔ لیکن اُس دن شاید میری غفلت کو اللہ تعالیٰ دور کرنا چاہتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے دیکھ کر کہا کہ محمود اِدھر آؤ! مَیں گیا تو آپ نے فرمایا تم جمعہ پڑھنے نہیں گئے؟ مَیں نے کہا مَیں گیا تو تھا مگر معلوم ہوا کہ مسجد بھری ہوئی ہے وہاں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مَیں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا مگر اپنے دل میں سخت ڈرا کہ مَیں نے دوسرے کی بات پر کیوں اعتبار کرلیا۔ معلوم نہیں اُس نے جھوٹ کہا ہے یا سچ کہا ہے۔ اگر اُس نے سچ بولا ہے تب تو خیر۔ لیکن اگر اُس نے جھوٹ بولا ہے تو چونکہ اُسی کی بات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے بیان کردی ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ سے ناراض ہوں گے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ غرض میں اپنے دل میں سخت خائف ہوا کہ آج نہ معلوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا فرماتے ہیں۔ اتنے میں نماز پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عیادت کے لیے آئے۔ مَیں قریب ہی اِدھر اُدھر منڈلا رہا تھا کہ دیکھوں آج کیا بنتا ہے۔ اُن کے آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن سے سوال کیا کہ آج جمعہ میں لوگ زیادہ آئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گنجائش نہیں رہی تھی؟ میرا دل تو یہ سنتے ہی بیٹھ گیا کہ خبر نہیں۔ اُس شخص نے مجھ سے سچ کہا تھا یا جھوٹ کہا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم میں خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر ادا کرنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ انہوں نے یہ سنا تو کہا کہ حضور! اللہ کا بڑا احسان تھا مسجد خوب لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ اُس میں بیٹھنے کے لیے ذرا بھی گنجائش نہیں رہی تھی۔ تب مَیں نے سمجھا کہ اُس احمدی نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کا یہی ذریعہ رکھا ہے کہ ہماری مسجدیں بڑھتی جائیں اور لوگوں سے ہر وقت آباد رہیں۔ جب تک تم مسجدوں کو آباد رکھو گے اُس وقت تک تم بھی آباد رہو گے اور جب تم مسجدوں کو چھوڑ دو گے، اُس وقت اللہ تعالیٰ تم کو بھی چھوڑ دے گا۔
غرض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے میری تحریک کو قبول فرمایا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر ہمارے اندازہ سے زیادہ روپیہ جمع ہوگیا۔ میرا منشاء ہے کہ اب مسجد مبارک میں ایک لاؤڈ سپیکر بھی لگا دیا جائے کیونکہ نمازیوں کے زیادہ آنے کی وجہ سے بات دُور تک آسانی سے پہنچائی نہیں جاسکتی۔٭
باہر کے لوگوں کو گھبرانا نہیں چاہیے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے سے محروم رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے لیے ثواب کے اَور مواقع بہم پہنچا دے گا۔ابتدائے خلافت میں جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چند مجاوروں نے، جن کا کام روٹیاں کھانا تھا، خلافت کو تسلیم کرلیا ہے تو معلوم ہوتا ہے قادیان کے لوگوں کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔ کیونکہ اُنہی دنوں میں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کہ "مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں"۔پس یہ خلافت کی برکت ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر اور کسی جماعت میں نہیں مل سکتی۔ آج مجھے حیرت ہوئی جبکہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے، جس کا سارا سرمایہ سو ڈیڑھ سو روپیہ کا ہے اور ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی اور اُس نے دس دس روپیہ کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیئے کہ یہ میری طرف سے مسجد مبارک کی توسیع کے لیے ہیں۔ مَیں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ اِس عورت کا یہ چندہ اِس کے سرمایہ کا آدھا یا ثُلث ہے۔ مگر اِس نے خدا کا گھر بنانے کے لیے اپنا آدھا یا ثُلث سرمایہ پیش کردیا۔ پھر کیوں نہ ہم یقین کریں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا گھر جنت میں بنائے گا اور اسے اپنے انعامات سے حصہ دے گا۔
پس اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہم پر ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہرقدم ترقی کے میدان میں بڑھتا چلا جائے گا۔ جتنا کام اِس وقت تک ہوا ہے خدا نے کیا ہے اور آگے بھی خدا ہی کرے گا۔
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نصیحت کہ اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں:اس کے بعد مَیں کچھ اَور باتیں کہنا چاہتا ہوں اور مَیں ان باتوں کو جلدی جلدی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مَیں نہیں جانتا میری کتنی زندگی ہے۔ مَیں اِس مقام پر سب سے پہلے اپنے خاندان کو نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اِس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گِھس جائیں ہمارے ماتھوں کی ہڈیاں گِھس جائیں تب بھی ہم اُس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لیے اُس نے اپنے فضل سے ہمیں چُن لیا ہے۔ پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ دنیا کے لوگوں کے لیے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں۔ مگر ہماری زندگی تو کلیۃً دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لیے وقف ہونی چاہیے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ہمارے خاندان کے کچھ افراد دنیا کے کام میں مشغول ہوگئے ہیں۔ بے شک وہ چندے بھی دیتے ہیں، بے شک وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، بے شک وہ اَور دینی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مگر یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ ہر مومن سے امید کرتا ہے۔ ہر مومن سے وہ توقع کرتا ہے کہ وہ جہاں دنیا کے کام کرے وہاں چندے بھی دے، وہاں نمازیں بھی پڑھے، وہاں دین کے اَور کاموں میں بھی حصہ لے۔ پس اِس لحاظ سے ان میں اور عام مومنوں میں کوئی امتیاز نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ خدا ہم سے دوسروں کی نسبت زیادہ امید کرتا ہے۔ خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور باقی وقت دنیا پر صَرف کریں۔ بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔ حضرت داؤد فرماتے ہیں مَیں نے آج تک کسی بزرگ کی سات پُشتوں تک کو بھیک مانگتے اور فاقہ کرتے نہیں دیکھا۔22 اس کے معنے یہی ہیں کہ سات پُشتوں تک اللہ تعالیٰ خود اس خاندان کا محافظ ہوجاتا ہے اور پھر اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب سات پُشتوں تک خدا خود اُس خاندان کا محافظ ہوجاتا ہے تو اُس خاندان کے افراد کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ کم سے کم سات پُشتوں تک سوائے دین کی خدمت کے اور کوئی کام نہ کریں۔ اگر وہ دنیا کے کام چھوڑ دیں تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو اُن کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں تو پھر کیا ہوا۔ سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر اِس رنگ میں ہی کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہے اور انہیں فاقے آنے شروع ہوجائیں تب بھی اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ کیا لوگ دنیا میں فاقے نہیں کیا کرتے؟ اگر دنیا کے اور لوگ فاقے کر لیتے ہیں تو فاقہ سے ڈر کر ہمارے لیے دین کی خدمت کو چھوڑنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے اُس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا۔ والدہ سے اُس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت اماں جان کی عظمت تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دُہری عزت میرے قلب میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں اُس وقت آپ پر کچھ قرض تھا۔ آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اِس قدر قرض ہے یہ ادا کردو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اُسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرض کو فورًا ادا کردیا۔ مَیں اُس وقت بچہ تھا اور میرے لیے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا۔ پھر ہمارے لیے حضرت خلیفہ اول نے کچھ گزارہ مقرر کرنا چاہا۔ مَیں نے اِس بات کا پہلے بڑا مقابلہ کیا اور کہا کہ ہم ہرگز گزارہ نہیں لیں گے۔ لوگ مجھے کہتے کہ آخر آپ کیا کریں گے؟ تو مَیں یہی کہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمیں بُھوکا رکھنا منظور ہے تو ہم بُھوکے رہیں گے مگر جماعت سے گزارہ کے لیے کوئی رقم نہیں لیں گے۔ یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول کو یہ بات معلوم ہوئی۔ اِس پر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ میاں! خدا کا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوا اور مَیں نے اُس الہام کے یہ معنے نکالے ہیں اس لیے تم اس گزارہ کو قبول کرلو۔چنانچہ مَیں نے وہ گزارہ قبول کر لیا مگر وہ گزارہ اُس سے بہت کم تھا جو آجکل ہماری اولادوں کو ملتا ہے۔ اُس وقت مجھے ساٹھ روپے ماہوار ملا کرتے تھے اور ہم نہ صرف میاں بیوی تھے بلکہ اُس وقت تک دو بچے بھی ہو چکے تھے اور ایک خادمہ بھی تھی۔ اِس کے علاوہ مَیں انہی روپوں میں سے دس روپے کے قریب دینی کاموں میں خرچ کرتا تھا۔ گویا پچاس روپیہ میں ہم گزارا کیا کرتے تھے۔ لیکن میرے دل میں اُس وقت یہ کبھی خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہمیں گزارہ کم ملتا ہے۔ ہماری جائیداد بے شک تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ جائیداد کی طرف توجہ نہیں کیا کرتے تھے اِس لیے ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ جائیداد کیا ہے اور کتنی قیمت کی ہے۔ بعد میں وہ جائیداد خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں روپیہ کی ثابت ہوئی اور باوجود اِس کے کہ بہت سی جائیداد ہم بیچ کر کھا چکے ہیں اب بھی اگر سب بھائیوں میں وہ جائیداد تقسیم کی جائے تو ہر ایک کا لاکھ بلکہ ڈیڑھ،ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا حصہ نکل سکتا ہے۔ حالانکہ چار پانچ لاکھ روپیہ کی جائیداد ہم بیچ چکے ہیں۔ تو یہ چیز موجود تھی مگر ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا اور نہ اس جائیداد کی قیمت کا ہمیں کوئی علم تھا۔ نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جائیداد سے کوئی واسطہ رکھا اور نہ ہمیں اِس کی طرف کوئی توجہ پیدا ہوئی۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع سے روپیہ دینا شروع کردیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ لوگ جہاں مجھ پر مختلف اعتراضات کیا کرتے ہیں مگر مَیں ان اعتراضات کی پروا نہیں کیا کرتا وہاں مالی معاملات میں جب بھی مجھ پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے مَیں نے دلیری سے کہا ہےکہ تم مجھ سے پائی پائی کا حساب لے لو۔ مَیں تمہیں بتانے کے لیے تیار ہوں کہ میری جائیداد کس طرح بنی ہے۔ اور یہ تمام باتیں زبانی نہیں بلکہ رجسٹروں اور تحریروں سے میں ثابت کرسکتا ہوں۔ مَیں نے جماعت کے روپیہ سے جائیداد نہیں بنائی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود ہی مجھ کو جائیداد دی ہے۔ چنانچہ آج بڑے سے بڑے دشمن کو بھی میں حساب دینے کے لیے تیار ہوں اور ثابت کرسکتا ہوں کہ مَیں نے جماعت کے روپیہ سے ہرگز کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے توقع سے بہت زیادہ جائیداد دی ہے۔ جس کا قیاس اور وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے پیشگوئی کے ذریعہ سے پہلےمجھے اس جائیداد کی خبر دی۔ پھر ایسے سامان کیے کہ معجزانہ رنگ میں و ہ جائیداد مجھے مل گئی اور ہر قدم پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جبراً وہ جائیداد مجھے لینی پڑی۔ کہیں کوئی مجبوری پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ سے جائیداد لینی پڑی اور کہیں کوئی مصلحت نظر آئی تو جائیداد لینی پڑی۔ بہرحال یاد رکھو خدا اپنے بندوں کو دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ بندہ لیتے لیتے تھک جاتا ہے۔ پھر کیوں وہ خدا پر یقین اور توکل نہیں کرتے اور دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں ہونے کی وجہ سے جس طرح ہم تینوں بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کردی ہیں اِسی طرح وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لیے وقف کردیں، اپنی اولادوں کو خدا تعالیٰ کے لیے وقف کردیں اور دنیوی کاموں کی بجائے دین کے کاموں اور اسلام کے احیاء میں حصہ لیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اوّل تو مَیں انہیں بتاتا ہوں خدا انہیں فاقہ نہیں دے گا۔ لیکن مَیں کہتا ہوں اگر خدائی مشیت کے ماتحت کسی وقت انہیں فاقہ بھی کرنا پڑے تو یہ فاقہ ہزاروں کھانوں سے زیادہ بہتر ہوگا۔اِس وقت دین پر ایک آفت آئی ہوئی ہے، اسلام ایک مصیبت میں مبتلا ہے اور اِس کا وہی نقشہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں کھینچا کہ ؎
بیکسے شد دین احمد ہیچ خویش ویار نیست
ہر کسے درکارِ خود با دینِ احمد کار نیست23
پس اے ابنائے فارس! تم کو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیٹا قرار دیا ہے اور بیٹا اِسی وجہ سے قرار دیا ہے تا آپ کے خاندان کو معلوم ہو کہ وہ خویشوں میں سے ہیں اور اُن سے زیادہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں گے۔ پس تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خویشوں میں سے ہو۔ تمہیں اَوروں سے زیادہ دین کی خدمت کرنی چاہیے۔ مجھے تو اِس بات کی کبھی سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ اگر خدا نے دین کی خدمت کا کام کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے مجھے اپنے فضلوں سے حصہ دیا ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میری اولاد یا اولاد در اولاد دین کی خدمت کا کام کرے اور وہ فاقہ سے مرتی رہے۔ اگر وہ مومنانہ رنگ اختیار کریں تو تھوڑے روپیہ میں بھی آسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں اور اگر حرص بڑھا لیں تو پھر پانچ یا دس ہزار روپیہ کمانے کی کیا شرط ہے۔ انسان کہتا ہے مجھے بیس ہزار روپیہ ملے جب بیس ہزار روپیہ اکٹھا کر لیتا ہے تو کہتا ہے میرے پاس پچاس ہزار روپیہ ہوجائے۔ جب پچاس ہزار روپیہ ہوجاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوجائے۔ پس اگر اس حرص کو بڑھاتے چلے جائیں تو پھر بڑھتی چلی جاتی ہے اور اِس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جن کی ماہوار آمد پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لاکھ روپیہ ہے مگر پھر بھی وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے پاس اَور روپیہ آجائے۔ پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرو، دنیوی کاموں کو چھوڑ دو اور دین کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردو۔ اِسلام اس وقت قربانی کا محتاج ہے اور سب سے پہلا حق اِس قربانی کو ادا کرنے کا ہم پر ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ اول المومنین تھے۔24 اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے احکام کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھتے تھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھا دیتے تھے۔ مجھ پر بھی جب یہ تازہ انکشاف ہوا اور اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو ایک دو منٹ تو اس رؤیا پر ہی مَیں غور کرتا رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے معاً مجھے سمجھ دی کہ اِتنا وقت مَیں نے ناحق ضائع کردیا اور مَیں نے فوراً اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یَا رَبِّ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ جب خدا کسی کے سپرد کوئی کام کرتا ہے تو اُس پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ خوشی کا مقام نہیں بلکہ گھبراہٹ کا مقام ہوتا ہے اور اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بات پر ایمان لائے۔
خدا تعالیٰ کے دین کے لیے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک:اب مَیں ایک آخری اور ضروری بات کہہ کر اِس خطبہ کو ختم کرتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اب اسلام کی فتح کی ایک نئی بنیاد رکھ دی ہے تو یقیناً اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے ہم سے نئی قربانیوں کا مطالبہ کرنے والا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ آواز میرے منہ سے نکلے گی یا کسی اور شخص کے منہ سے نکلے گی۔ مَیں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ آواز کس رنگ میں نکلے گی لیکن بہرحال یہ آواز بلند ہونے والی ہے۔ ہماری جماعت بے شک چندے دیتی ہے اور بہت دیتی ہے، قربانیاں کرتی ہے اور بہت کرتی ہے۔ مگر یہ قربانیاں اسلام کی اشاعت کے لیے کافی نہیں۔ پس میں تجویز کرتا ہوں اور اس تجویز کے مطابق سب سے پہلے مَیں اپنے وجود کو پیش کرتا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لیے وقف کردیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے اُن سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لیے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہوگا۔ مَیں سب سے پہلے اس غرض کے لیے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں۔ دوسرے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی جائیداد میری اِس تحریک پر دین کی خدمت کے لیے وقف کردی ہے بلکہ انہوں نے مجھے کہا آپ جانتے ہیں، آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اِس خواہش کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا اور مَیں نے کہا تھا کہ میری جائیداد اس غرض کے لیے لے لی جائے۔ اب دوبارہ مَیں اس مقصد کے لیے اپنی جائیداد پیش کرتا ہوں۔ تیسرے نمبر پر میرے بھانجےمسعود احمد خان صاحب ہیں۔ انہوں نے کل سنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فوراً مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے اُسے مَیں بھی اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کرتا ہوں۔ اِس وقف کی صورت یہ ہوگی کہ ایک کمیٹی بنا دی جائے گی اور جب وہ فیصلہ کرے گی کہ اِس وقت اسلام کی ضرورت کے لیے وقف کرنے والوں کی جائیدادوں سے اِس اِس قدر رقم لے لی جائے اُس وقت پہلے عام چندے کی تحریک کی جائے گی۔ اس کےبعد چندہ میں جو کمی رہ جائے گی اُس کمی کو یہ کمیٹی ان لوگوں پر نسبتی طور پر تقسیم کردے گی جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہوں گی۔ اور ان کا اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو نقد روپیہ دے دیں اور چاہیں تو اپنی جائیداد فروخت کرکے یا گِرو رکھ کر اتنا روپیہ دے دیں۔ گویا اسلام کی اشاعت کے لیے آئندہ یہ نہیں ہوگا کہ کہا جائے ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں۔ جماعت میں پہلے ایک عام تحریک کی جائے گی اور اس کے بعد جو کمی رہ جائے گی اُس بار کو ہم لوگ اپنے اوپر لے لیں گے جنہوں نے دین کے لیے اپنی جائیدادوں کو وقف کردیا ہوگا۔ اور جو کمیٹی مقرر ہوگی وہ جائیدادوں کے مطابق ہر ایک کا حصہ اُسے بتا دے گی۔ مثلاً فرض کرو ایک شخص کی جائیداد ایک لاکھ روپے کی ہے اور دوسرے کی دس ہزار روپیہ کی۔ تو لاکھ روپے کی جائیداد رکھنے والے کے ذمّے مثلاً کمیٹی دس حصے مقرر کردے گی اور دس ہزار روپیہ والے کے ذمہ ایک حصہ۔ اور اُن کا اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو نقد روپیہ ادا کردیں اور چاہیں تو اپنی جائیداد کو فروخت کرکے یا گِرو رکھ کر ادا کردیں۔ بہرحال اس معاہدہ کے بعد اُن کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم اپنی جائیداد کا اِتنا حصہ دے سکتے ہیں اِتنا نہیں دے سکتے۔ یہ کمیٹی کا اختیار ہوگا کہ اُن سے جس قدر ضرورت سمجھے مطالبہ کرے۔ اُن کا حق نہیں ہوگا کہ وہ انکار کریں۔ اِس اقرار کے بعد اگر کوئی شخص اس جائیداد کو فروخت کرنا چاہے تو چونکہ اُس سے پہلے وہ اپنی جائیداد سلسلہ کو دے چکا ہوگا اس لیے اُس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ جائیداد فروخت کرتے وقت کمیٹی کو اطلاع دے کہ اِس اِس رنگ میں مَیں اپنی جائیداد کو بدلنے لگا ہوں تاکہ کمیٹی کو تمام جائیدادوں کے متعلق صحیح علم حاصل ہوتا رہے۔ اور چونکہ کچھ لوگ اِس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس جائیدادیں نہیں ہوتیں لیکن اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی طرح ثواب میں شامل ہوں اِس لیے وہ اگر چاہیں تو اِس رنگ میں اپنا نام پیش کرسکتے ہیں کہ علاوہ دوسرے چندوں کو ادا کرنے کے جب کبھی اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے خاص قربانیوں کا مطالبہ ہوا مَیں اپنی ایک مہینہ کی یا دو مہینہ کی یا تین مہینہ کی آمد دے دوں گا۔ اور مجھے اور میرے بیوی بچوں کو خواہ کیسی ہی تنگی سے گزارہ کرنا پڑے مَیں اس کی پرواہ نہیں کروں گا۔ اس معاہدہ کے مطابق جب قربانیوں کا وقت آیا تو ان لوگوں سے اُن کے وعدے کے مطابق ایک یا دو یا تین مہینہ کی آمد وصول کر لی جائے گی اور اُن کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اِس میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کریں۔
یہ دو صورتیں ہیں جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے ضروری ہیں۔ جو لوگ صاحبِ جائیداد ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیدادیں دین کے لیے وقف کردیں اور ہمارے پاس نوٹ کرا دیں کہ ہماری جائیدادیں آج سے خدا کے دین کی اشاعت کے لیے خرچ ہوسکتی ہیں۔ ہمارا اُن پر کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ یہ جائیدادیں گو اُن کے پاس ہی رہیں گی مگر وقت آنے پر اُن سے فائدہ اُٹھایا جا سکے گا۔ اِس دوران میں اگر وہ اپنی جائیداد میں کوئی تغیر و تبدل کریں تو اُن کا فرض ہو گا کہ وہ ہمیں اس تبدیلی سے اطلاع دیں۔ جب اسلام کی طرف سے قربانی کی آواز بلند ہوگی اُس وقت اگر نصف کی ضرورت ہوگی تو اُن سے نصف جائیداد لے لی جائے گی، ثُلث کی ضرورت ہوگی تو ثُلث جائیداد لے لی جائے گی۔ پانچویں، ساتویں یا دسویں حصہ کی ضرورت ہوگی تو اُس قدر حصہ کا مطالبہ کرلیا جائے گا۔ مگر بہرحال یہ طوعی تحریک ہے۔ میرا حکم نہیں ہے کہ ہر شخص اِس تحریک میں ضرور شامل ہو۔ جو شخص ثواب کی خاطر اِس تحریک میں شامل ہونا چاہے اُسے چاہیے کہ وہ اِس میں جلد شامل ہوجائے اور اپنے نام سے ہمیں اطلاع دے تاکہ دین کے کاموں میں آئندہ کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہو اور ہم دلیری اور جرأت سے تبلیغ و اشاعت کے کام میں ہر وقت حصہ لے سکیں۔
پس آج اِس خطبہ کے ذریعہ مَیں یہ اعلان کرتا ہوں تاکہ ساری جماعت میں یہ بات پھیل جائے اور اللہ تعالیٰ جس جس کو توفیق عطا فرمائے وہ اِس تحریک میں شامل ہوتا چلا جائے۔ مَیں نے ابھی اس غرض کے لیے چونکہ کوئی کمیٹی مقرر نہیں کی اس لیے جو دوست اس تحریک میں شامل ہونا چاہیں وہ اپنے اپنے ناموں سے مجھے اطلاع دے دیں اور اس امر سے بھی کہ اُن کی کتنی جائیداد ہے جو اسلام کی اشاعت کے لیے وہ وقف کرنا چاہتے ہیں۔ جو دوست اطلاع دیں گے اُن کا نام رجسٹر میں نوٹ کرلیا جائے گا۔ اسی طرح تنخواہوں کے متعلق بھی براہ راست مجھے اطلاع دے دی جائے۔ بعد میں جب رجسٹر بن جائیں گے تو اُن کے نام وہاں درج کر دیئے جائیں گے٭۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہایت خوشی سے، نہایت فرحت سے، نہایت بشاشت اور دل کی ٹھنڈک سے اپنی ہر چیز، اپنی جان بھی، اپنا مال بھی، اپنی اولاد بھی، اپنی بیویاں بھی، اپنے عزیز اور رشتہ دار بھی، اپنے جذبات اور احساسات بھی اور اپنے خیالات اور افکار بھی اپنے رب کے پاؤں پر قربان کردیں اور اس راہ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تنگ دلی سے کام نہ لیں۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْن"۔(الفضل 14 مارچ 1944ء)

11
ہر قابلیت کے نوجوان خدمتِ دین کے لیے
اپنی زندگی وقف کریں
(فرمودہ 24 مارچ 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
" مجھے بہت کچھ کہنا ہے مگر نہ تو میری صحت زیادہ بولنے کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت اتنا کافی ہے کہ مَیں اپنے سارے خیالات کا اظہار کرسکوں۔اِس وقت بھی کہ مَیں خطبہ کے لیے کھڑا ہوں میرے پاؤں کانپ رہے ہیں اور کھڑا ہونا دوبھر معلوم ہوتا ہے لیکن کام بہت ہے اور وقت تھوڑا ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بے انتہا ہیں اور مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں اور آخر جس طرح بھی ہو گرتے پڑتے ہمت سے کام کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی چونکہ وہ کام کرنا ہے اس لیے ہماری کوشش کتنی کم کیوں نہ ہو یہ یقین ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے دے گا۔
دو یا تین ہفتے ہوئے مَیں نے بیان کیا تھا کہ مجھے سلسلہ کی آئندہ ترقی کے متعلق بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر چونکہ ایک ہی خطبہ میں ان سب کا بیان کرنا ممکن نہیں اس لیے آہستہ آہستہ مختلف خطبات میں مَیں انہیں بیان کروں گا اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک دن جو دو جمعوں کے درمیان گزرتا ہے ہمارے لیے مشکلات بڑھاتا جاتا ہے اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جلد سے جلد ایسے رنگ میں منظم کرلیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی بنیاد دین کی اشاعت کے لیے قائم ہوجائے کہ جس پر آئندہ سہولت کے ساتھ عمارت بنائی جاسکے۔
مَیں جس سکیم کی طرف سب سے پہلے توجہ دلانا چاہتا تھا وہ جماعت میں علماء کے پیدا کرنے کے متعلق تھی۔ میرا دل کانپ جاتا ہے اِس خیال سے کہ اِس بارہ میں اِس وقت تک ہم سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں جن لوگوں کا انجمن پر تسلّط تھا انہوں نے چاہا تھا کہ دینی علوم سے جماعت کی توجہ ہٹا دی جائے اور احمدیہ سکول کو بند کردیا جائے اور جس قدر روپیہ میسر ہو وہ قوم کے بچوں کو ڈاکٹر، وکیل، بیرسٹر اور انجینئر وغیرہ بنانے پر صَرف کیا جائے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ دینی علوم تو غیروں سے بھی لیے جاسکتے ہیں مگر دنیوی تعلیم جماعت کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اُس وقت بھی مجھے اس ناپاک سکیم کے توڑنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ 1908ء کے سالانہ جلسہ کی بات ہے۔ میری عمر اُس وقت بیس سال کی تھی اور مَیں کسی دوسرے کام میں مشغول تھا کہ کسی نے مجھے بتایا کہ مسجد مبارک میں جلسۂ مشاورت ہو رہا ہے اور سلسلہ کے لیے سکیمیں سوچی جا رہی ہیں۔باوجود یکہ مَیں انجمن کا ممبر تھا مگر مجھے کسی نے اس جلسہ کی اطلاع نہ دی تھی۔ مَیں یہ اطلاع ملتے ہی مسجد میں آیا اور مَیں نے دیکھا کہ وہاں جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب تقریر کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جماعت کی ترقی کے لیے ایسے مبلّغوں کی ضرورت ہے جو بیرسٹر، وکیل اور انجنیئر وغیرہ ہوں جو اپنا اپنا کام بھی کریں اور ساتھ سلسلہ کی تبلیغ بھی۔ مولویوں کی ہمیں ضرورت نہیں۔ یہ لوگ تو جماعت پر بار ہوتے ہیں اور ان کے گزارہ کی جماعت کو فکر ہوتی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ جو روپیہ مدرسہ احمدیہ پر خرچ ہوتا ہے اُسے محفوظ کرلیا جائے اور پھر وہ جماعت کے لڑکوں کو وکالت اور ڈاکٹری وغیرہ کی تعلیم دلوانے پر خرچ کیا جائے تا وہ اپنی روزی بھی کماسکیں، چندے بھی دیں اور تبلیغ بھی کرتے رہیں۔ اس طرح جماعت کو بہت ترقی حاصل ہوسکے گی۔میرا علم اور تجربہ اُس وقت ایسا نہ تھا کہ اس سکیم کے علمی پہلو پر زیادہ بحث کرسکتا۔ مَیں جب پہنچا تو جگہ بھی مجھے ایک کونہ میں ملی جہاں لوگ جُوتیاں اُتارتے ہیں اور مَیں وہیں کھڑا ہوگیا۔ مَیں نے وہیں سے کہا کہ مَیں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اُس وقت خواجہ صاحب کی پیش کردہ سکیم سے 99 فیصدی لوگ مسحور ہوچکے تھے کہ وہ سمجھتے تھے گویا کوئی سونے کی کان اُن کو مل گئی ہے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو جماعت کو بہت ترقی ہوگی اور دنیا کے کناروں تک آسانی سے تبلیغ ہوسکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت مجھے ایک نکتہ سُوجھایا اور مَیں نے کھڑے ہو کر جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ اسلام کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس وقت تک دو جماعتیں کھڑی کی ہیں۔ ایک وہ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھوں میں تربیت پائی اور دوسری وہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھوں میں تربیت پائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد تمام عرب باغی ہوگیا تھا اور اکثر قبائل نے زکوٰۃ کا دینا بند کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کا لینا صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی حق تھا۔ قرآن کریم میں انہی کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً1 یعنی اے محمد! تُو ان کے مالوں سے صدقات لے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی نہ رہے تو یہ حکم بھی باطل ہوگیا اس لیے اب زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں۔ مکہ مدینہ اور ایک اَور قصبہ کے لوگ تھے جو زکوٰۃ دینے کے لیے تیار تھے اور جو سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے احکام ہمیشہ کے لیے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوگئے۔مدینہ چونکہ خلافت کا مرکز تھا اور حضرت ابوبکرؓ مُصر تھے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق زکوٰۃ وصول کی جائے۔ اس لیے مرتدین نے چاروں طرف سے مدینہ پر چڑھائی شروع کردی تا اس نظام کو توڑ دیں جو ان پر زکوٰۃ کا جؤا ہٹانے کو تیار نہیں اور ان لشکروں میں جو مدینہ پر چڑھائی کر رہے تھے بعض میں ایک ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی تھےلیکن ان کے مقابل پر صحابہؓ کی تعداد صرف چند ہزار تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے ماتحت ایک لشکر حضرت اسامہؓ بن زید کی قیادت میں شام کی طرف ایک ایسے حملہ کا جواب دینے کے لیے جانے کو تیار تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کی وجہ سے چند روز کے لیے رُک گیا تھا۔ اِس گھبراہٹ کے عالَم میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اکابر صحابہؓ ایک جگہ جمع ہوئے اور صورتِ حالات پر غور کرکے تجویز کی کہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس جا کر عرض کریں کہ یہ نازک وقت ہے، مدینہ پر مرتدین کی چڑھائی ہورہی ہے اس لیے کچھ وقت کے لیے اسامہ کے لشکر کو روک لیا جائے تا پہلے وہ مرتدین کا مقابلہ کرے اور پھر امن قائم ہونے پر شام کی طرف چلا جائے۔ وہ لوگ اس یقین اور وثوق کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے کہ اسلام کی بہتری اِسی تجویز میں ہے کہ اس لشکر کو روک کر پہلے مرتدین کا مقابلہ کر لیا جائے اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایسی عقل کی بات ہے کہ کوئی بے وقوف ہی اس کا انکار کر سکتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے یہ تجویز کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مشیر تھے۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم لوگ مشورہ کرکے آئے ہیں اور حضرت عمرؓ نے یہ تجویز ان کے سامنے پیش کی اور تفصیل کے ساتھ اسلام کی مشکلات کو پیش کیا اور حملہ کے خطرات بیان کیے اور کہا کہ ہم یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اسامہ کے لشکر کو کچھ عرصہ کے لیے روک لیا جائے تا پہلے مرتدین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد پھر اس لشکر کو شام کی طرف بھیجا جاسکتا ہے۔ جب حضرت عمرؓ اپنی بات ختم کرچکے تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا دوستو! آپ نے جو مشورہ دیا ہے وہ نہایت صحیح ہے مگر کیا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکرؓ سے آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ خلیفہ ہونے کے بعد پہلا کام یہی کرے کہ جو لشکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھیجنا تجویز فرمایا تھا اُسے روک لے؟ مَیں اپنی خلافت کا زمانہ اِس تاریک باب سے شروع کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ اگر مرتدین مدینہ میں گھس آئیں اور مسلمان عورتوں کی لاشوں کو کُتّے گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اِس لشکر کو روک لوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھیجنا تجویز فرمایا تھا۔2 میں نے کہا یہ تو پہلی جماعت کا حال تھا۔ ہم دوسری جماعت ہیں جس کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی۔ کیا یہ مناسب ہے کہ آپ کی وفات کے بعد پہلے ہی جلسہ پر ہم یہ مشورہ کریں کہ جو مدرسہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے حکم سے قائم فرمایا اور جس کا مشورہ آپ نے خود بیٹھ کر دوستوں سے کیا اور جس کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی یادگار ہے تا سلسلہ کے لیے نئے علماء پیدا کیے جائیں ہم آپ کی وفات کے بعد پہلا کام یہی کریں کہ اس مدرسہ کو جسے آپؑ نے جاری فرمایا تھا بغیر کسی ایسے خطرہ کے جو حضرت ابوبکرؓ کو درپیش تھا بند کردیں اور آپ کے کام کو منسوخ کرکے ایک نیا نظام قائم کردیں؟ اللہ تعالیٰ نے میری بات میں ایسا اثر دیا کہ اکثر احباب کے قلوب ہل گئے۔ بہت سوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کئی کی چیخیں نکل گئیں اور سب نے بِالاتفاق آواز بلند کی کہ ہم ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح یہ مدرسہ قائم فرمایا ہم اسے اُسی طرح رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر خواجہ صاحب اپنی لسّانی اور تجربہ اور علم کے باوجود ایسے گھبرا گئے کہ انہوں نے جھٹ پہلو بدل کر کہا دوستوں نے میری بات کو سمجھا نہیں میرا مطلب کچھ اَور تھا، میں دین کی تعلیم کو روکنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر جو کچھ انہوں نے سمجھانا چاہا کسی نے اُس کو نہ سمجھا اور آخر خواجہ صاحب نے فرمایا کہ اب مناسب یہ ہے کہ بعد میں لکھ کر یہ تجویز چلی جائے اور جماعتیں آرام سے غور کرکے مشورہ دیں۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ اب چونکہ یہ لوگ اُن کی رائے کے خلاف رائے کے ہوگئے ہیں اِس لیے بعد میں کسی وقت بیرونی جماعتوں میں یہ تجویز بھیج دیں گے اور اُن کا خیال تھا کہ لوگ اُن کی اِس رائے کے مطابق ہی مشورے دیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ جس کو مامور بنا کر بھیجتا ہے اس کی جماعت ایسی کچی نہیں ہوتی۔ وقتی طور پر تو وہ دھوکے میں آسکتی ہے مگر مستقل طور پر دھوکے میں نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ دو تین ماہ کے بعد ان لوگوں کی طرف سے یہ تجویز بیرونی جماعتوں کو بھیجی گئی اور 99 فیصدی جماعتوں نے یہی مشورہ دیا کہ ہم اس مدرسہ کو توڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو انجمن نے جس کے سپرد نظام کو چلانا ہے اور جس کے کاموں میں مَیں بہت ہی کم دخل دیا کرتا ہوں تا وہ اپنی ذمہ داری پر کام کو چلا سکیں پوری طرح پیش نظر نہیں رکھا اور ان کے ذہن سے بہت حد تک وہ پروگرام مستور ہوگیا۔ انہوں نے مدرسہ کو جاری تو رکھا بلکہ میرے مشورہ سے کالج بھی قائم کردیا مگر اس کے ساتھ ہی ان کے مدنظر یہ بات بھی رہی کہ ان میں تعلیم پانے والے نوجوان مولوی فاضل کا امتحان پاس کرسکیں اور ڈگریاں حاصل کرسکیں تا سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں ان کو آسانی ہو اور اس طرح تمام کوششیں مولوی فاضل کی ڈگری کے گرد ہی چکر لگاتی رہیں اور ایسے عالم پیدا نہ ہوسکے جو اسلام کا ٹھوس علم رکھنے والے ہوتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف فرمایا کہ میرے ذمہ اِس وقت اسلام کی خدمت خاص طور پر ہے اور خلافت کی ذمہ داریوں سے علاوہ یہ خاص کام میرے سپرد ہے تو پہلی باتوں میں سے جو میرے ذہن میں آئیں ایک یہ تھی کہ علماء کا ایک مضبوط گروہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ قاضی امیر حسین صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے۔ قاضی صاحب علمِ حدیث کے ماہر تھے، حافظ صاحب قرآن کریم کی تفسیر کے اور مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے۔ مگر ان کے قائمقام پیدا کرنے کا ہمیں اب تک احساس نہ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ مَیں اِس کام کو اپنے ہاتھ میں لوں تاجلد از جلد اسلامی علماء کی ایک مضبوط جماعت قائم ہوسکے جو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بنیاد کا کام دے جس سے آئندہ علماء کا سلسلہ چلتاجائے۔ لیکن ابھی مَیں اِس کا اعلان بھی نہ کرنے پایا تھا کہ ایک اَور جیّد عالم ہم میں سے اُٹھ گیا۔ اِس وقت جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہمارے پاس دو ہی آدمی تھے۔ یعنی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور میر محمد اسحٰق صاحب لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میر صاحب کو اٹھا لیا اور اب ہمیں تھوڑے سے وقت میں اور بہت تھوڑے سامان سے نئی عمارت کی بنیاد رکھنی ہے۔
مولوی سید سرور شاہ صاحب بے شک بہت باہمت ہیں اور جس طرح وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اُسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے۔ مگر اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کی کمر بھی خم ہوگئی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اُنہیں زیادہ سے زیادہ عمر بھی دے تو بھی اب وہ زیادہ کام نہیں کرسکتے۔ اِس میں شک نہیں کہ جماعت میں دوسرے درجہ کے علماء کی ایک جماعت ہے جیسے شمس صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں مگر یہ لوگ دوسرے نمبر پر ہیں۔ان کے مطالعہ کی وسعت اور کسی خاص علم میں ان کی خصوصیت مذکورہ علماء جیسی نہیں۔ ہم میں علماء کی ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے کہ جن میں سے ہر ایک قرآن و حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کامل عالم ہو۔ بڑے سے بڑے قاضی، فقیہہ، محدث اور مفسر ہوں اور یہ چیز ابھی ہم سے بہت دور ہے۔ سال سے کچھ کم عرصہ ہوا مَیں نے اس کی بنیاد قائم کرنی شروع کی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی بندے کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اُس سے ایسے کام کراتا ہے کہ پہلے اُسے خود بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کام کیسا اہم ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب وہ پھیلتا ہے تو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے کچھ عرصہ ہوا یہ محسوس کیا کہ تحریک جدید کے واقفین کی تعلیم جس رنگ میں ہورہی ہے اس طرح وہ مکمل نہیں ہوسکتی اور مَیں نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا تا ایسے اصول پر ان کی تعلیم ہوسکے کہ وہ چوٹی کے علماء بن سکیں۔ اور مَیں نے ان سے کہا کہ پہلے وہ صَرف و نحو کی تعلیم حاصل کریں اور اس میں کامل بنیں کیونکہ یہ علم ہر دوسرے علم کے حاصل کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اب ان میں سے بعض طالب علم ایسے مقام پر ہیں کہ دو تین ماہ میں اسے مکمل کرسکیں گے اور پھر اس سے دوسروں کو پڑھانے اور سکھانے کی قابلیت ان میں پیدا ہوجائے گی۔ اب اللہ تعالیٰ نے جو انکشاف مجھ پر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ صَرف و نحو کی تعلیم مکمل کرلیں تو ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا جائے۔ بعض کو فقہ کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے، بعض کو حدیث کی، بعض کو تفسیر کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور اس طرح تین تین چار چار کو مختلف علوم کی تکمیل کرائی جائے۔ اور پھر پانچ چھ ماہ یا سال کے بعد وہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے حاصل کردہ علوم کی تکمیل کرا دیں اور جو جو علم کسی نے سیکھا ہو وہ دوسروں کو سکھا دیں اور اس طرح ان میں سے ہر ایک دوسرے کا شاگرد اور استاد بن جائے اور سب کے سب مختلف علوم میں کمال حاصل کرسکیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اگر باری باری سارے علوم سکھائے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ سب کے کامل ہونے تک وہ لوگ جماعت میں سے اُٹھ جائیں جو ان نوجوانوں کو تعلیم دیتے ہیں اس لیے ان کو گروہوں میں تقسیم کردیا جائے۔ تین چار تفسیرِ قرآن سیکھنے میں لگ جائیں، تین چار حدیث سیکھنے میں، تین چار تصوف سیکھنے میں، تین چار علمِ کلام کے سیکھنے میں اور تین چار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے سیکھنے میں۔ اور چونکہ ان سب کو ان سب علوم کا سکھانا ضروری ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک، ایک علم میں کمال حاصل کرنے کے بعد دوسرے کو سکھائے۔ فقہ کے علماء حدیث کے علماء کو فقہ کی اعلیٰ تعلیم دیں اور حدیث کے علماء فقہ کے علماء کو حدیث کی اعلیٰ تعلیم دیں اور اس طرح باہم استاد شاگرد ہو کر مکمل علوم کے ماہر بن جائیں۔ لیکن یہ سکیم پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ایسے افراد زیادہ تعداد میں نہ ہوں جو دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے۔ مگر روحانی کاموں کے لیے بہت آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلّم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں اور تمام افرادِ جماعت کو حسبِ قابلیت قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی تعلیم دے سکیں۔ اِس وقت یہ حالت ہے کہ علم صرف چند لوگوں تک محدود ہے باقی صرف ایمان رکھتے ہیں زیادہ علم اُن کو نہیں۔ اور یہ چیز جماعت کی ترقی میں مُمد نہیں ہوسکتی۔ ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا ہر زمیندار، تاجر، پیشہ ور، وکیل، بیرسٹر، ڈاکٹر، انجنیئر ایک خاص حد تک قرآن، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم رکھتا ہو۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس علماء کی کثرت نہ ہو۔
اِس کے ساتھ ہی اِس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ علماء کی کثرت کے ساتھ اخراجات میں بھی اضافہ ہونا لازمی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ فی الحال دو سَو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کاموں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن اِس وقت واقفین کی تعداد 30،35 ہے۔ اِس وقت جماعت کے لوگ اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ صرف مُنہ کی باتیں، بیانات اور نعرے لگا دینے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ اِس تبدیلی سے فائدہ اٹھایا جائے اور عملی قربانی کے لیے نوجوان آگے آئیں۔ زمیندار طبقہ ہمارے ملک کی جان ہے۔ اِن میں سے اور اُن قوموں میں سے جو باہر سے ہندوستان میں آئی ہیں مثلاً پٹھان، قریشی، سید، مغل اور راجپوت وغیرہ اقوام میں سے بہت کم نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں۔ زیادہ تر ایسے نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں جن کا پشت پناہ جماعتی طور پر کوئی نہیں۔ اور ایسی صورت میں بعض اوقات دشمن اعتراض کرسکتا ہے کہ جن لوگوں کے گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ گو یہ بات ہے تو جھوٹ۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ روح ہماری جماعت میں نہیں مگر کم سے کم دشمن کے لیے اعتراض کا موقع تو ضرور ہے۔ اس لیے وہ اقوام جن کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی عزت دی ہے اگر اپنے فرائض کو ادا کریں تو اُن کی عزت قائم رہ سکتی ہے۔ اگر ان کے اندر قربانی کا مادہ پیدا نہ ہوا تو ان کی عزت چِھن جائے گی۔ اِس وقت دنیا میں ایسے انقلاب اور تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر ان قوموں نے جو اِس وقت سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں اپنا حصہ قربانیوں کا ادا نہ کیا تو وہ گر جائیں گی اور وہ عزت پا جائیں گی جو اس وقت سیاسی طور پر معزز نہیں سمجھی جاتیں۔ قرآن و حدیث میں بھی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں عزت والی قومیں گر جائیں گی اور ادنیٰ سمجھی جانے والی معزز ہو جائیں گی۔ اسلام نے تو کسی قوم کو ذلیل قرار نہیں دیا اور قومی فرق کو تسلیم نہیں کیا۔ اسلام کے نزدیک ہر شخص اگر خدمتِ دین کرے تو وہ معزز اور سردار ہے۔ مگر اُن قوموں کے لیے جو سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں بہت شرم کی بات ہوگی اگر وہ قربانیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے گر جائیں اور سیاسی طور پر ادنیٰ سمجھی جانے والی قومیں آگے آجائیں ۔
پس مَیں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنے کو اور اپنی اولادوں کو دین کے لیے وقف کریں۔ وقت بہت تھوڑا ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ اب زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ اگر ہم سستی سے کام لیں گے تو خدا تعالیٰ اپنے کام کے لیے کوئی اَور انتظام کرے گا اور ہماری بدقسمتی پر مُہر ہوجائے گی۔ کاش! ہمارے دل اِس فرض کو پورے طور پر محسوس کریں۔
اے عزیزو! کاش ہمارے ایمان آج ہم کو شرمندگی سے بچا لیں۔ کاش! ہمارے جسم ہماری روح کے تابع ہوکر ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دیں۔ کاش! ہمارے آج کے افعال قیامت کے دن ہم کو شرمساری اور رُوسیاہی سے بچا لیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر فرد آگے بڑھتا اور اپنی زندگی وقف کرتا مگر کم سے کم ایک حصہ کو تو آگے بڑھنا چاہیے۔ مَیں مانتا ہوں کہ دوست چندے میں قربانی کرتے ہیں لیکن زندگی وقف کرنے کے لیے بہت کم لوگ آئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ آئندہ مدرسہ احمدیہ میں زیادہ بچے داخل کرائے جائیں اور مَیں انجمن کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے رنگ میں ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے کہ چاہے مولوی فاضل وہ نہ ہوسکیں مگر دینی علوم کے ماہر بن جائیں۔ ہمیں مولوی فاضلوں کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ مبلغ مل سکیں۔ مالی کمزوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر سال تین نئے مبلغ رکھے جائیں مگر کئی سالوں سے ایک بھی نہیں رکھا گیا اور اب کئی سال کے بعد ایک رکھا گیا ہے۔ حالانکہ کام کی وسعت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال ایک سو نہیں بلکہ دو سو مبلغ رکھے جائیں۔ پس مَیں ایک تحریک تو یہ کرتا ہوں کہ دوست مدرسہ احمدیہ میں اپنے بچوں کو بھیجیں تا انہیں خدمتِ دین کے لیے تیار کیا جاسکے اور دوسری تحریک انجمن کو یہ کرتا ہوں کہ پڑھائی کی سکیم ایسی ہو کہ تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم حاصل ہوسکے اور اس رستہ میں جو چیز بھی حائل ہو اُسے نکال دیا جائے۔ مولوی فاضل بنانا ضروری نہیں۔ جس نے ڈگری حاصل کرنی ہو وہ باہر چلا جائے۔ اِس دوغلاپَن کو دور کرنا ضروری ہے۔ دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا کبھی ساحل پر نہیں پہنچا کرتا۔ پس تعلیم کا انتظام ایسے رنگ میں کیا جائے کہ جلد سے جلد مکمل علماء ہمیں مل سکیں۔ فقہ، تفسیر، حدیث، تصوّف اور کلام وغیرہ علوم میں ایسی دسترس حاصل کرسکیں کہ چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہو۔ بلکہ دنیا میں صرف وہی علماء سمجھے جائیں اور اسلام کے ہر فرقہ اور ہر ملک کے لوگ اختلافِ عقائد کے باوجود یہ تسلیم کریں کہ اگر ہم نے ان علوم کو سیکھنا ہے تو احمدی علماء سے ہی سیکھناچاہئے ۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ایک حصہ تبلیغ میں حصہ لیتا ہے مگر ضرورت ہے کہ اِس طرف اَور زیادہ توجہ کی جائے۔ اب کے جو مَیں نے اعلان کیا تو دسویں جماعت کے پانچ طلباء نے بھی اپنے نام پیش کیے ہیں۔٭ دنیوی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اگر اپنے نام پیش کریں تو اُن کو بھی ایسی تعلیم دی جاسکتی ہے کہ دین کا کام اُن سے لیا جاسکے اور دین کے اُن حصوں میں جن میں دنیوی تعلیم مُمد ہوتی ہے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ادنیٰ اقوام میں تبلیغ کے لیے ڈاکٹر بہت زیادہ مفید ہوسکتے ہیں۔ بلکہ ان کے لیے ان سے زیادہ بہتر مبلغ کوئی نہیں ہوسکتا۔ عیسائیوں نے ہسپتال کھول کر ہی چالیس لاکھ افراد کو عیسائی بنا لیا ہے۔ مدراس میں جو قریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے زیر نگین رہا مسلمانوں کا تناسب کُل آبادی کا چھ فیصدی ہے مگر عیسائی بارہ فی صدی ہیں۔ گویا ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو عیسائی ہیں اور یہ ترقی انہوں نے صرف ایک صدی میں کی ہے۔ کیونکہ ان کے ڈاکٹر اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال کر ان میں جاکر ہسپتال جاری کرتے اور ان کا علاج کرتے ہیں۔ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم سے ہمدردی کرتے ہیں ہم بھی ان کی باتیں سنیں۔ اور چونکہ عیسائیت کی دینی تعلیم نورِ نبوت سے متمتع ہے اس لیے مشرکانہ تعلیم کی نسبت اچھی ہے اور وہ لوگ جب اِسے سنتے ہیں تو اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ لیکن ان کے بجائے اگر اسلامی ڈاکٹر اُن کا علاج کریں اور ساتھ اسلام کی سادہ اور مساوات کی تعلیم ان کے گوش گزار کریں تو بہت جلد کامیابی ہوسکتی ہے۔ عیسائی مشنریوں نے ان کو عیسائی تو بنا لیا مگر ان میں مساوات قائم نہیں کرسکے۔ وہی چُھوت چھات کے اثرات ابھی تک ہیں اور دوسری اقوام ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ مگر چونکہ اسلام میں جب ایک آدمی داخل ہوتا ہے تو ایسا پکّا مسلمان بن جاتا ہے کہ پہلی قومیت بالکل مٹ جاتی ہے اور کوئی مسلمان اس کے ساتھ کھانے پینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ اسلامی تعلیم میں جو خوبیاں ہیں اگر ڈاکٹر اسے ادنیٰ اقوام کے لوگوں کے سامنے پیش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں ان کو داخلِ اسلام کیا جا سکتا ہے۔
پس ایسے نوجوان بھی اپنی زندگیاں وقف کریں جنہوں نے سائنس میں میٹرک پاس کیا ہو یا اس سال پاس ہونے کی امید ہو۔ اسی طرح گریجوایٹ وغیرہ تا جو ڈاکٹری کے لیے مناسب ہوں اُنہیں ڈاکٹری کی تعلیم دلوا کر ادنیٰ اقوام میں جن تک ابھی اسلام کا نور نہیں پہنچا تبلیغ کے لیے بھیجا جاسکے اور جو دوسرے کاموں کے لیے مناسب ہوں اُنہیں دوسرے کاموں کے لیے تعلیم دلائی جائے۔ ہندو ان لوگوں کو ابھی تک ذلیل سمجھتے ہیں، ان سے چُھوت چھات کرتے ہیں،ان غریبوں کو غلام قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے جب ہمدردی سے ان کی خدمت کی جائے اور احسن رنگ میں اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کی جائے تو عیسائیوں کی نسبت کئی گُنا زیادہ کامیابی ہوسکتی ہے۔ پس یہ رستہ بھی بند نہیں۔ دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنے آپ کو وقف کرسکتے ہیں اور ان سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ تعلیم اور کام کے متعلق ان کا کوئی دخل نہ ہوگا۔ یہ کام ہمارا ہوگا کہ ہم فیصلہ کریں کہ کس سے کیا کام لیا جائے گا۔ بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے۔ حالانکہ اسلام تو ایک محیطِ کُل مذہب ہے۔ اس کے احکام کی تکمیل کے لیے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لیے باہر جاتا ہے جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لیے اور سلسلہ کے لیے، لٹریچر کے لیے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے وہ اُس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے۔ جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کے لیے تجارت کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے، جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہرہ دار مقرر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے۔ کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو۔ پھر جہاں تم کو مقر ر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہوگا۔
غرض مَیں ایک تو اِس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور دوسرا حصہ اخراجات کا ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مَیں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی۔ قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے۔ بہت سے دوستوں نے اپنی جائیدادیں وقف کردی ہیں۔ مگر بیرونی جماعتوں کی طرف سے اِس تحریک کا جواب ایسا شاندار نہیں بلکہ قادیان کی نسبت نصف بھی نہیں۔٭ پس مَیں بیرونی جماعتوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست جائیدادیں وقف کریں۔ یہ وقف جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا تھا اِس صورت میں ہوگا کہ ان کی جائیداد ان ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہی ہوگی اور وہی اُس کا انتظام بھی کرے گا۔ ہاں جب سلسلہ کے لیے ضرورت ہوگی ایسی ضرورت جو عام چندہ سے پوری نہ ہوسکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہوگی اُسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسدی تقسیم کردیا جائے گا۔ مَیں پہلے بھی اس تجویز کو بیان کرچکا ہوں لیکن اب پھر اسے بیان کردیتا ہوں۔ فرض کرو ایک شخص کی جائیداد ایک ہزار کی ہے، دوسرے کی دس ہزار کی اور تیسرے کی ایک لاکھ کی ہے۔ ایک کمیٹی مقرر کردی جائے گی جو کسی ضرورت کے لیے اخراجات کا اندازہ کرے گی۔ فرض کرو کمیٹی کا اندازہ یہ ہے کہ ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور یہ رقم اتنی ہے کہ اگر ایک ایک فیصدی حصہ وقف شدہ جائیدادوں کا لے لیا جائے تو پوری ہوسکتی ہے تو جس نے ایک ہزار کی جائیداد وقف کی ہے اُس سے دس روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور جس کی دس ہزار کی جائیداد ہے اُس سے ایک سَو کا اور جس کی ایک لاکھ کی ہے اُس سے ایک ہزار اور جس نے دس لاکھ کی جائیداد وقف کی ہے اُس سے دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اتنے عرصہ میں یہ روپیہ داخل کردو۔ جس کے پاس روپیہ ہو وہ اپنے حصہ کا روپیہ ادا کردے۔ لیکن جس کے پاس نہ ہو اُس کی جائیداد کو رہن کرکے اس کے حصہ کا روپیہ وصول کرلیا جائے گا اور اس طرح مطلوبہ خرچ چلایا جائے گا۔ پس جائیدادیں وقف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جائیدادیں انجمن کو دے دیں۔ صرف یہ اقرار کریں کہ جو چندہ ان کے ذمہ ڈالا جائے گا اُسے ادا کریں گے۔ اگر کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ مثلاً ایک کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے اور وقف شدہ جائیدادیں دو کروڑ روپیہ کی مالیت کی ہیں تو پچاس فیصدی کا مطالبہ کر لیا جائے گا۔جس کی جائیداد دس لاکھ کی ہوگی اُسے پانچ لاکھ اور جس کی دس ہزار کی ہوگی اُسے پانچ ہزار دینا ہوگا۔ مگر یہ ابھی دور کی بات ہے۔ فِی الْحال میرا خیال ہے کہ ایک سے دس فیصدی تک کی ہی چند سالوں تک ضرورت پیش آسکتی ہے۔
جن کی جائیدادیں نہیں ہیں اُن کے دل میں اگر خواہش ہو کہ وہ بھی اِس تحریک میں شامل ہوں تو وہ اپنی آمدنیاں وقف کرسکتے ہیں اور ایسے بھی بعض دوست ہیں جنہوں نے آمدنیاں وقف کی ہیں۔ کسی نے ایک ماہ کی، کسی نے دو کی، کسی نے تین کی اور بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے سال بھر کی آمدنیاں ہی وقف کی ہیں اور لکھا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرور ت ہو تو ہم سارے سال کی آمد دینے کو تیار ہیں۔ خواہ ہمیں بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرنا پڑے۔ جب ہم سے مطالبہ کیا جائے گا ہم سارے سال کی آمد پیش کردیں گے۔ اگر دوست اس تحریک کی طرف پوری توجہ کرتے تو تین چار کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہونا مشکل نہ تھا۔ پس دوست اس طرف توجہ کریں۔ مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ عام چندوں پر اس کا اثر نہ ہو۔ یہ تحریک طوعی ہے اور ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اس میں حصہ لے تازیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرسکے۔ جب کوئی چیز جماعت کے نظام میں داخل ہوجائے تو ہر شخص کو اُس میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہو بھی جاتے ہیں۔ مگر ان کا ثواب اس قدر نہیں ہوتا۔ اس لیے مَیں نے یہ تحریک محض طوعی رکھی ہے۔ کسی پر جبر نہیں کہ اس میں حصہ لے۔ اب مَیں پھر قادیان کے اُن دوستوں کو بھی جنہوں نے ابھی تک اِس تحریک میں حصہ نہیں لیا مگر حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں تحریک کرتا ہوں کہ اِس میں شامل ہوں اور بیرونی جماعت کے دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں۔ وقت بہت تھوڑااور کام بہت زیادہ ہے۔ پس دوست جلد اس تحریک میں اپنے نام پیش کریں تاہم اندازہ کرسکیں کہ ضرورت کے وقت علاوہ انجمن اور تحریک جدید کے بجٹ کے کتنا روپیہ ہمیں مل سکتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی ماہوار آمد پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ ہے اور اگر دوست توجہ کریں تو کافی روپیہ ملنے کی امید ہوسکتی ہے۔ یہ کام ابھی آہستہ آہستہ شروع ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ ربّانی کام وہی ہے جو تھوڑا شروع ہوکر ترقی کرتا ہے۔غالبًا ہم ابھی اس تحریک کے ماتحت اشد ضرورت کے وقت ایک فیصدی تک حصہ لینا شروع کریں گے۔ مگر مومن کی نیت یہی ہونی چاہیے کہ اگر ساری جائیداد کی بھی دین کے لیے ضرور ت ہو تو اُسے دینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
مجھے ایک رؤیا میں اِس تحریک کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک عورت ہے جس کا خاوند نیک ہے مگر وہ خود نیک نہیں۔ اس کا ایک بیٹا ہے۔ وہ اس سے کہتی ہے کہ تیرا باپ اسراف بہت کرتا ہے اگر اس سے کوئی ایک پیسہ مانگے تو پیسہ دے دیتا ہے،اگر دو آنے مانگے تو دو آنے دے دیتا ہے اور وہ اس قسم کا ہے کہ اگر کوئی اس سے سارا مال مانگے تو وہ سارا دے دے گا۔ اور وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ آؤ ہم اس سے سارا مال مانگ لیں وہ ہمیں دے دے گا۔ تو پھر وہ دین کی راہ میں اس مال کو لُٹا نہ سکے گا۔ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں جماعت کے دوستوں کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور یہ مثال دیتا ہوں کہ اس طرح ایک نیک آدمی تھا مگر اس کی بیوی نیک نہ تھی۔ اس کا ایک بیٹا جو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ خود نیک تھا یا برا مگر اُس کی ماں یہ ضرور سمجھتی تھی کہ وہ اسے اپنا آلۂ کار بناسکے گی۔ وہ اُسے کہتی ہے کہ تیرے باپ سے کوئی جو کچھ مانگے وہ اسے دے دیتا ہے اور ڈر ہے کہ اگر اُس سے کوئی سارا مال دین کے لیے مانگے تو وہ سارا مال دے دے گا۔ اس لیے آؤ ہم اس سے سارا مال مانگ لیں۔ اس طرح وہ خدا کی راہ میں اسے خرچ نہ کرسکے گا اور ہمیں نقصان نہ ہوگا۔ یہ مثال دے کر مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے فتنے بھی آدمی کو پیش آسکتے ہیں۔ ان سے ہوشیار رہو۔ مَیں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی اور مَیں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جو دین کی راہ میں اپنا سارا مال خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ مگر یہ بھی خطرہ ہے کہ اُن کی بیویاں اور بچے اُن کے لیے فتنہ بن جائیں۔پس پیشتر اِس کے کہ وہ فتنہ بنیں، کیوں نہ ہم ہی ان سے دین کے لیے ان کی جائیدادیں طلب کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ایمان کے اِس درجہ پر قائم نہ ہو اُس وقت تک وہ صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا نہیں ہوسکتا۔
اس رؤیا نے مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ جب مومن دین کے لیے سب کچھ خرچ کرنے کو تیار ہے تو اگر ہم اس سے ایسا مطالبہ نہ کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ اُس کے بیٹے اور اولادیں لے لیں۔ پس پیشتر اِس کے کہ اِس طرح مومنوں کے مال ضائع ہوں کیوں نہ دین کے لیے انہیں لے لیا جائے۔ پس اِسی رؤیا کے ماتحت مَیں نے اس وقف کی تحریک کی اور دوستوں کو چاہیے کہ اس تحریک میں حصہ لیں۔ یہ وقف ایسا ہے کہ ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ہمیں جائیدادیں دے دو۔ صرف پابند کرتے ہیں کہ جب اور جتنا مطالبہ کیا جائے گا وہ پیش کردیں گے۔ یہ ادنٰی سے ادنٰی قربانی ہے۔ یہ اقرار تو دراصل وہ ہے جو ہر شخص احمدیت میں داخل ہوتے وقت کرتا ہے اور اب ایسا کرنا گویا اُس اقرار کو دُہرانا ہے جو ہر احمدی نے جماعت میں داخل ہوتے وقت کیا تھا۔ اور اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا بیعت کے وقت کا اقرار مصنوعی نہ تھا بلکہ وہ جماعت کو اختیار دیتا ہے کہ جب اس کے اموال کی ضرورت ہو وہ لے سکتی ہے۔ پس مَیں جماعت کو اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ابھی بہت سا حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے ابھی اس پر غور نہیں کیا۔ یہ مَیں نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا کرے۔ ہاں جسے خدا تعالیٰ بشاشتِ قلب عطا کرے اور توفیق دے وہ ضرور اس میں حصہ لے۔ ہاں جو بوجھ محسوس کرے اور جو سمجھتا ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا اور اس کے بیوی بچے اُس پر معترض ہوئے تو اُسے پچھتانا پڑے گا وہ نہ حصہ لے۔صرف وہی حصہ لیں جو سمجھتے ہیں کہ خواہ بیوی، بچے یا عزیز ترین رشتہ دار بھی اس پر ناراض ہوں اسے کوئی پروا نہیں اور جسے اس قربانی کے بعد افسوس نہیں ہوگا بلکہ بشاشت حاصل ہوگی اور جسے یہ خیال نہ آئے گا کہ اُس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا گیا۔ بلکہ اسے یہ افسوس ہوگا کہ اُس سے سارا مال کیوں نہیں لے لیا گیا۔ قربانی وہی فائدہ دے سکتی ہے جو بشاشت کے ساتھ کی جائے اور یہ بشاشت مَیں نے دیکھا ہے زیادہ تر غریبوں کو حاصل ہوتی ہے۔ میری تحریک کے بعد بعض غریب عورتیں میرے پاس آئیں اور اپنے زیور پیش کیے کہ یہ لے لیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم خرچ کرلیں اور پھر حصہ نہ لے سکیں۔ مَیں نے کہا کہ ابھی ہم اِس طرح نہیں لے رہے۔ ایک عورت نے تو ایک اَور عورت کے پاس اپنے زیور رکھ دیئے کہ جب ضرورت ہو دے دیئے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے پاس ہوں تو خرچ ہو جائیں۔ ایمان کی علامت یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی جان، مال سب کچھ دین کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی فرمایا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ3 اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اموال اور اُن کی جانیں جنت کے عوض اُن سے خرید لی ہیں۔ پس جنت کا ملنا اِس امر پر موقوف ہے کہ ہم اپنی جانیں اور اپنے مال دین کی راہ میں وقف کردیں۔
اس کے بعد میں ایک اَور چندہ کی تحریک کرتا ہوں۔ہم نے قادیان میں کالج شروع کردیا ہے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور ڈگری کالج بنانے کے لیے مزید ڈیڑھ لاکھ روپیہ درکار ہے۔ ڈگری کالج کے لیے جو خرچ چاہیے وہ تو ڈیڑھ دو سال کے بعد پیش آئے گا اِس وقت ڈیڑھ لاکھ روپیہ درکار ہے۔ عمارت وغیرہ کے لیے قرض لے کر روپیہ دے دیا گیا ہے تا کام شروع ہوسکے۔ جن لوگوں کو یہ احساس ہے کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد بیرونی کالجوں میں جانے سے ہمارے نوجوانوں پر بُرا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کی عمر اور علم ابھی ایسا نہیں ہوتا کہ بیرونی اثرات سے وہ محفوظ رہ سکیں وہ خصوصیت سے اِس چندہ میں حصہ لیں تا ہمارے بچے باہر جانے سے پہلے کم سے کم دوسال اَور یہاں رہ سکیں اور بڑی عمر کے ہوکر باہر جائیں۔ پس میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ عام چندوں کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے وہ اِس چندہ میں حصہ لے۔ اور مجھے امید ہے کہ جماعت کا مالدار حصہ خصوصاً وہ لوگ جن کو جنگ کی وجہ سے ٹھیکوں وغیرہ کے ذریعہ یا دوسرے ایسے ہی کاموں سے زیادہ روپیہ ملا ہے مثلاً تاجر وغیرہ ہیں جن کی آمدنیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے،وہ اِس طرف خاص طور پر توجہ کریں۔ یا وہ زمیندار جن کی آمدنیاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمارے ملک میں عام زمینداروں کی زمینیں پانچ دس ایکڑ ہی ہیں اور ایسے زمینداروں کے گھروں میں اجناس کی قیمتیں بڑھ جانے کے باوجود دولت جمع نہیں ہوگئی، زیادہ سے زیادہ قرضہ لینے سے بچ گئے ہیں اور وہ روٹی کھانے لگے ہیں۔ مگر جو بڑے بڑے زمیندار ہیں اُن کو کافی روپیہ مل گیا ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس روپے سے مربعے اور جائیدادیں وغیرہ خرید لیں۔ وہ بے شک خرید یں مَیں اِس سے روکتا نہیں کیونکہ اِس سے بھی سلسلہ کی دولت بڑھتی ہے۔ مگر مَیں اُن سے یہ ضرور کہوں گا کہ وہ دین کے حصہ کو نہ بُھولیں۔ پس ایسے لوگ اِس چندہ میں خاص طور پر حصہ لیں۔ مَیں کسی کو محروم نہیں کرتا۔ غریب بھی حصہ لے سکتے ہیں اور اگر کوئی غریب ایک دھیلا بھی دیتا ہے تو وہ ردّ نہیں بلکہ شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور اِس امید کے ساتھ قبول کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک لاکھ دینے والے امیر سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ گو اِس کا اعلان اخباروں میں ہوچکا ہے مگر اب اِس خطبہ کے ذریعہ مَیں باقاعدہ مقامی دوستوں کو اور پھر اخبار کے ذریعہ بیرونی دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اِس چندہ میں حصہ لیں اور کوشش کریں کہ یہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ چند ماہ کے اندر اندر آجائے تا کالج کے اخراجات کا بوجھ انجمن پر سے اُتر جائے۔ میری تجویز تو یہ ہے کہ پانچ سال کا بجٹ انجمن کے پاس محفوظ ہونا چاہیے۔ اِسی صورت میں صحیح رنگ میں اور دلیری کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ اِس وقت انجمن کا بجٹ پانچ لاکھ کے قریب ہوتا ہے اور اس طرح کم از کم پچیس لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ ہونا چاہیے۔ مگر انجمن ابھی پرانے قرضوں سے آزاد نہیں ہوسکی اور ایسی حالت میں اس پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے اور مخلصین کا فرض ہے کہ اس خرچ کو پورا کریں۔ جن دوستوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے وہ خصوصیت سے اِس میں حصہ لیں اور باقی دوست بھی جس قدر دے سکیں دیں۔ باقی دوست اگر ماہوار آمد کا آدھا حصہ بھی دے دیں مثلاً دس روپے ماہوار پانے والا پانچ روپے دے دے اور پچاس والا پچیس تو یہ خرچ آسانی سے پورا ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شخص ماہوار آمد کا نصف ہی دے۔ بعض لوگوں پر تحریک جدید اور دوسرے چندوں کی وجہ سے بوجھ زیادہ ہے وہ جتنا بھی دے سکیں دے سکتے ہیں۔مومن کا کام یہی ہے کہ نیکی کے کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔
اس کے علاوہ گریجوایٹوں اور ایم اے پاس نوجوانوں کی بھی کالج کے لیے ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کیے جاسکیں۔ ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائمقام بھی تیار کیے جاسکیں گے۔ آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ناظروں کا قائمقام بنایا جاسکے۔ میری تجویز ہے کہ واقفین نوجوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں اُن کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائمقام بھی ہوسکیں۔ پس ایم۔اے پاس نوجوانوں کی ہمیں ضرورت ہے جو کوئی خاص علم پڑھانے کا ملکہ رکھتے ہوں۔ اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ کام دے سکیں مگر بہتر یہی ہے کہ ایم۔اے پاس ہوں۔
دنیا اِس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ جب تک ہم ایک میل کے مقابلہ میں سَومیل نہ چلیں ہم اسے زیر نہیں کرسکتے۔ پس ہمیں چاہیے کہ جلد جلد بڑھیں۔ مجھے رؤیا میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ مَیں جلد جلد بڑھ رہا ہوں۔ شاید میرے کام کا وقت تھوڑا ہو اور اللہ تعالیٰ میری زندگی میں ہی فتح دلانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ہم جلدی جلدی آگے بڑھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی میں بھی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا اور قدرت اور فضل و رحمت کا نشان قرار دیا گیا ہے۔4 پس فتح کا دن وہی دیکھ سکتا ہے جو جلدی چلنے کی کوشش کرے اور میرے قدم کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرے۔ اے میرے ربّ! تُو مجھے اَور بھی زیادہ تیز چلنے کی اور جماعت کو میرے قدم سے قدم ملانے کی توفیق بخش۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْنَ"۔ (الفضل31 مارچ1944ء)

12
دین کی خدمت کے لیے مالی اور جانی قربانیوں
کا مطالبہ ہمیشہ اور ہر آن ہوتا رہے گا

(فرمودہ31 مارچ 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے اترسوں شدید پیچش کی شکایت ہوگئی تھی جس سے خون کے دست بھی آتے رہے اور گو کل سے اس میں افاقہ ہے لیکن ابھی بخار روزانہ ہو جاتا ہے۔بلکہ اب بھی ہے۔ چنانچہ ابھی آتے ہوئے تھرمامیٹر لگا کر مَیں نے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ آج مجھے گُردے کے مقام پر درد بھی ہوگیا۔ ان وجوہ کے ماتحت میں آ تو نہیں سکتا تھا لیکن میرے دل نے گوارا نہ کیا اور یہی فیصلہ کیا کہ چاہے بیٹھ کر مجھے خطبہ دینا پڑے اور خواہ بعد میں تکلیف بڑھ جائے پھر بھی خود جاکر مجھے خطبہ پڑھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد جو کام کیا ہے وہ اتنا اہم اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اُس کے لیے جتنی بھی قربانی جماعت کو کرنی پڑے درحقیقت وہ کام اس کا مستحق ہوگا اور جتنی بھی قربانی ہم کریں درحقیقت وہ قربانی اس فضل سے کم ہی رہے گی جو اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کرکے ہم پر کیا ہے۔ مَیں تو حیران رہ جاتا ہوں اور میری عقل دنگ ہوجاتی ہے جب مَیں سوچتا ہوں کہ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کیوں کیا۔ ہم سے زیادہ صحت مند لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ مال رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ بظاہر نمازیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ بظاہر روزے رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ تسبیحیں پھیرنے والے اور اپنی زندگیوں کو خلوت کی حالت میں خدا تعالیٰ کی یاد میں گزار دینے والے لوگ دنیا میں موجود تھے۔ آخر خدا نے ہم کو جو اس کام کے لیے چُنا تو کوئی خوبی اللہ نے ہی دیکھی ہوگی ورنہ ہمیں تو وہ نظر نہیں آتی۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ محض اُس کا احسان ہے کہ اس نے یہ عظیم الشان کام ہمارے سپرد کیا۔ یعنی ایسا کام جو دنیا کی مختلف اقوام گزشتہ کے کاموں سے بڑھ کر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کی اتباع اور مماثلت کا ہے۔ ہم حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں کی قربانیاں دیکھتے ہیں تو حیرت آجاتی ہے کہ کس طرح وہ پیدل چلتے ہوئے ایشیا سے لے کر یورپ تک تبلیغ کے لیے نکل گئے۔ وہ پھانسیوں پر چڑھ گئے اور انہوں نے ہر قسم کے دکھ نہایت خوشی اور بشاشت سے برداشت کیے۔ بغیر اس کے کہ کوئی انجمن ہو، بغیر اس کے کہ اُن میں تنظیم ہو، بغیر اس کے کہ انہیں روپیہ کی سہولت حاصل ہو، وہ بھیک مانگتے اور لوگوں کو تبلیغ کرتے چلے گئے۔یہاں تک کہ دنیا میں عیسائیت کے نام کو پھیلا دیا۔
ہم حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں۔ ایک زبردست بادشاہ کا انہوں نے مقابلہ کیا اور گو انہوں نے کمزوریاں بھی دکھائیں مگر پھر بھی اُن کا نمونہ نہایت شاندار ہے۔ فرعون جیسا طاقتور بادشاہ جس نے ارد گرد کی تمام حکومتوں کو زیرنگین کر لیا تھا، جس سے ایران تک ڈرتا تھا، جس سے یورپ تک خائف تھا۔ ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں وہ ہمت سے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنا وطن چھوڑ دیا اور غیر معیّن وعدوں پر حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے اور چالیس سال تک جنگلوں میں پھرتے رہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں ہم نے صرف چالیس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر غلبۂ اسلام کے لیے لوگوں کو دعا کرنے کی تحریک کی۔ پھر بھی قادیان میں سے کتنے تھوڑے لوگ ہیں جو التزام کے ساتھ وہاں دعا کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ چالیس دن کی دعا اور چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھرنا کیا اِن دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ لیکن اُن لوگوں نے ایسا کرکے دکھا دیا۔
پھر ہم دیکھتے ہیں اَور انبیاء جو بنی اسرائیل میں ہوئے یا اَور ممالک میں پیدا ہوئے ان کے ساتھیوں نے بھی حیرت انگیز قربانیاں کیں۔ ہندوستان میں ہی حضرت کرشن علیہ السلام کے ساتھیوں نے ایک بھاری جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں متواتر قربانی کی اور اپنی جانیں حضرت کرشن علیہ السلام کے حکم پر نثار کردیں۔ حالانکہ اس میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا بلکہ ان کے لیے ایک ابتلاء اور ٹھوکر کا مقام تھا۔ کیونکہ حضرت کرشنؑ جس شخص کی تائید کے لیے کھڑے ہوئے تھے، وہ ان کا ایک رشتہ دار تھا۔ پس وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ لڑائی اپنے ایک رشتہ دار کے لیے کی جارہی ہے ہم اس میں کیوں حصہ لیں۔ مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرتے رہے۔ دشمن زبردست تھا، وہ اپنی طاقت اور تعداد میں زیادہ تھا۔ مگر پھر بھی ایک لمبے عرصہ تک وہ اپنی جانوں کو ان کے حکم پر قربان کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پانسہ پلٹ دیا اور حضرت کرشنؑ اور ان کے ساتھیوں کو فتح ہوئی۔
ہم حضرت زرتشتؑ اور ان کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے بھی اس قدر قربانیاں کی ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ حالانکہ اُس زمانہ میں لوگوں کو وہ سہولتیں میسر نہیں تھیں جو اِس زمانہ میں میسر ہیں۔ اب نہ جان دینے کا مطالبہ ہوتا ہے، نہ وطن چھوڑنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ صرف چند سالوں کے لیے ایک مبلغ باہر جاتا ہے اور ان چند سالوں کے لیے بھی اُسے اِس قدر سہولتیں میسر ہوتی ہیں کہ ڈاک جاری ہوتی ہے، ہوائی جہازوں سے خط آتے جاتے ہیں، تاریں آجاتی ہیں،وہ بیمار ہو تو چند گھنٹوں کے اندر اندر اطلاع پہنچ جاتی ہے، اُس کے بیوی بچے بیمار ہوں تو چند گھنٹوں میں اُسے اطلاع ہوجاتی ہے۔ کوئی موت ہو تو اُس کی فوراً اطلاع بھجوا دی جاتی ہے، اُس کے گھر میں کوئی مصیبت آئے تو سلسلہ ایک حد تک اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے روپیہ بھی خرچ کرتا ہے۔ کوئی بیمار ہو تو جماعت کے ڈاکٹر علاج کے لیے موجود ہوتے ہیں۔غرض اِس زمانہ میں کئی قسم کے آرام اور کئی قسم کی سہولتیں لوگوں کو میسر ہیں۔ مگر وہ زمانہ جب پہلے انبیاء کی امتوں نے قربانیاں کیں ایسا زمانہ تھا کہ اُس وقت ان سہولتوں میں سے کوئی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ نہ ڈاک کا انتظام تھا، نہ تار کا انتظام تھا، نہ شفاخانوں کا انتظام تھا، نہ خرچ کا انتظام تھا۔ بس ان کے دل میں تبلیغ کا خیال آتا اور وہ اُسی وقت اٹھ بیٹھتے اور سینکڑوں ہزاروں میل پیدل سفر طے کرتے ہوئے غیر ملکوں میں تبلیغ کے لیے نکل جاتے۔ یہ قربانیوں کا نمونہ ایسا شاندار ہے کہ ہم جب اس نمونہ کو دیکھتے اور اس کے مقابلہ میں اپنی قربانیوں کو رکھتے ہیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کا قائمقام اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں بنا دیا۔ درحقیقت ہمیں صحابہؓ کا قائمقام بنانا ہی ہمیں اپنے نفس میں شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ بعض دفعہ کسی شخص کو شرمندہ کیا جاتا ہے تو کوئی بھاری کام اُس کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ شخص بڑا ہو گیا۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو بڑا سمجھا کرتے تھے لو اب ایک بڑا کام ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں تم اِس کو کرکے دکھاؤ۔ ایسے آدمی میں اگرچہ شرافت ہوتی ہے، ایسے آدمی میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرجا تا اور اس سے عاجزانہ دعا کرتا ہے کہ الٰہی تُو نے مجھے اس ابتلاء میں تو ڈال دیا اب اپنے فضل سے میری عزت رکھ لے اور میرے ہاتھوں سے یہ کام کرا دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وعدوں کو دیکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کو دیکھتے ہوئے جو ہمارے ساتھ ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ ابتلاء ٹھوکر والا ابتلا ء نہیں بلکہ اس کے ذریعہ ہمارے لیے کوئی بہت بڑی فضیلت مقدّر ہے۔ کیوں مقدّر ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ پہلی قومیں ایسی تھیں جنہوں نے قربانیاں کرکے فتح حاصل کی۔باوجود اس کے کہ ان کے بانی شروع میں کمزور تھے، دنیا ان کی مخالف تھی اور سخت سے سخت تکلیفیں اور مصیبتیں ان کو پیش آئیں۔ مگر چونکہ ان کی جماعتوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں اس لیے دنیا نے کہا بے شک وہ نبی کمزور تھے، فتح کے سامان ان کے پاس نہیں تھے مگر چونکہ انہیں ایسی جماعتیں مل گئیں جو قربانیاں کرنے والی تھیں اِس لیے انہیں فتح حاصل ہوگئی۔ اگر ایسی قربانی کرنے والی جماعتیں اُن کو میسر نہ آتیں تو ان کو فتح اور کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی۔ پس چونکہ دنیا نے یہ اعتراض کیا اس لیے شاید اللہ تعالیٰ اپنے آخری موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ لو بغیر جماعت کی خاص قربانیوں کے اور بغیر ترقی کے خاص سامانوں کے ہم اپنی طاقت اور قدرت سے ہی کام کرکے دکھا دیتے ہیں۔ لیکن بہرحال خواہ جماعت کی قربانیوں کے بغیر یہ کام ہو۔ چونکہ یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہوگا اس لیے ہمیں عزت ضرور مل جائے گی اور مفت میں ہمیں ثواب حاصل ہوجائے گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک تنکے سے خدا تعالیٰ کشتیوں کا کام لے لے۔ بے شک ایک تنکا اپنی ذات میں کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن جس تنکے میں خدا تعالیٰ یہ طاقت پیداکردے کہ وہ سہارا دے کر لوگوں کو دریا سے گزار دے اُس میں بھی ایک خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔اس میں بھی ایک حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر وہ تنکا دنیا میں محفوظ ہو تو یقیناً ہزاروں میل سے لوگ اس کی زیارت کرنے کے لیے آئیں۔ اِسی طرح ہمارے ہاتھ سے اگر یہ کام ہوجائے تو ہماری مثال گو ایک تنکے کی سی ہوگی لیکن چونکہ خدا کا کام ہمارے ہاتھ سے ہوا ہوگا اِس لیے ہمارا وجود خدا تعالیٰ کی کرامت اور اس کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک مورد اور ذریعہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک نشان بن جائے گا۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ کُرتہ نشان تھا جس پر سرخی کے چھینٹے پڑے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وہ بقیہ کپڑے نشان ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے"۔1 یہ صاف بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کُرتہ قربانی نہیں کررہا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاجامہ قربانی نہیں کررہا تھا بلکہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کررہے تھے۔ وہ سوزوگداز سے بھری ہوئی دعائیں جو عرش سے ٹکرا رہی تھیں، وہ خدا کے نام کی اشاعت اور اس کی بلندی کے لیے دن رات کی کوششیں جو دنیا میں ہورہی تھیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے اور آپ کی عظمت سے دنیا کو روشناس کرانے کے لیے جدوجہد جو اِس عالَم میں جاری تھی وہ تمام جدوجہد، وہ تمام کوشش اور وہ تمام قربانی کُرتہ نہیں کررہا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود کررہے تھے۔ وہ رات دن کی کوفت جو مختلف علمی کتب لکھنے سے آپ کو ہوئی، وہ مخفی علوم جو آپ دنیا پر ظاہر کررہے تھے، وہ چُھپے ہوئے خزانے جن کو آپ زمین سے باہر نکال رہے تھے، وہ دولتیں جن پر لوگوں کے بخل کی وجہ سے زنگ لگ گیا تھا اور وہ سکّے جن پر اس قدر میل جم چکی تھی کہ وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے اُن کو صاف کرنے اور دنیا میں پھیلانے اور لوگوں کے گھروں میں وہ مال ودولت پہنچانے اور ان کی روحانی غربت و افلاس کو دور کرنے اور انہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کررہے تھے۔ آپ کا کُرتہ یا پاجامہ یہ کام نہیں کررہا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے"۔گویا جس نے یہ کام کیا اُس کے جسم کے ساتھ لگا ہوا کُرتہ، اُس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹا ہوا پاجامہ، اُس کے سر پر رکھا ہوا عمامہ، اس کی جیب میں پڑا ہوا رومال اور اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی جُوتی بھی برکت والی ہوگئی۔ کیونکہ جس شخص سے خدا نے کام لیا یہ چیزیں اُس کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اس کام کے مستحق نہیں، ہم اس کام کے اہل نہیں، ہم میں وہ خوبیاں نہیں جو اعلیٰ جماعتوں میں پائی جانی چاہییں۔ مگر چونکہ خدا نے ہمیں ایک درجہ دے دیا ہے اس لیے اس کام کے ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ برکات ملنی ضروری ہیں جو برکات ایسے کاموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ لیکن بہرحال ہمارے لیے ان برکات کے حصول کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔ دیکھو وہی کُرتہ برکت پاگیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم سے جاملا۔ اُسی پاجامہ نے برکت حاصل کی جو آپ کی ٹانگوں میں لپٹا رہا۔ اُسی پگڑی نے برکت حاصل کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہنا۔ وہی کلاہ عزت کا مستحق ہوا جو آپ کے سر پر رہا، اُسی ٹوپی نے عزت حاصل کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سر پر رکھا، وہی رومال برکت حاصل کرگیا جو آپ کی جیب میں پڑا رہا اور وہی جُوتی برکت والی قرار پائی جو آپ کے پاؤں میں رہی۔ پس برکت حاصل کرنے کے لیے کم سے کم اتنا لگاؤ کا ہونا تو ہمارے لیے ضروری ہے جس طرح کُرتہ آپ کے جسم سے چمٹا رہا، جس طرح پاجامہ آپ کی ٹانگوں سے لپٹا رہا، جس طرح رومال آپ کی جیب میں پڑا رہا، جس طرح عمامہ آپ کے سر پر دھرا رہا، جس طرح جُوتی آپ کے پاؤں میں پڑی رہی۔ اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم الٰہی برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم دھونی رما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد بیٹھ جائیں۔ اگر ہم اپنے آپ میں کُرتے جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں پاجامے جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں ٹوپی جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں کلاہ جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں عمامہ جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں رومال جیسی وابستگی پیدا کرلیں، اگر ہم اپنے آپ میں جُوتی جیسی وابستگی پیدا کرلیں تبھی ہم برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ بے شک ایک کُرتہ میں ذاتی طور پر کوئی برکت نہیں ہوسکتی۔ مگر چونکہ وہ کُرتہ آپ کے جسم سے لپٹا رہا اس لیے برکت حاصل کرگیا۔ اسی طرح خواہ ہماری جماعت میں کس قدر کمزوریاں پائی جاتی ہوں جو لوگ مجازی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ لپٹے رہیں گے وہ برکت حاصل کرلیں گے۔ اور جو لوگ آپ کے ساتھ نہیں لپٹیں گے وہ برکت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اول تو ہر شخص کو اپنے اندر ایسی خوبی پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انوار کو حاصل کرسکے اور خود اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک نشان بن جائے۔لیکن جو شخص یہ خوبی اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا اسے کم سے کم کُرتہ اور پاجامہ اور رومال اور عمامہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ لپٹا تو رہنا چاہیے۔ ورنہ وہ ان برکات کو کس طرح حاصل کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں۔
مَیں نے بتایا ہے کہ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ نہایت ہی اہم ہے اور ایسے زمانہ میں یہ کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے جب دہریت اور عیش پرستی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سائنس کے ذریعہ اسلام پر نئے نئے حملے کیے جا رہے ہیں اور ایمان کے خلاف دنیا میں ایک شدید زہریلی ہوا جاری ہے۔ دوسری طرف ظلم یہ ہو رہا ہے کہ آدھی دنیا دوسری آدھی دنیا پر حکومت کر رہی ہے اور لوگ مجبور ہیں کہ غلامی کی زندگی بسر کریں۔ پہلے زمانوں میں دس، بیس یا پچاس غلاموں پر حکومت کی جاتی تھی مگر آج وہ زمانہ ہے جب آدھی سے زیادہ دنیا غلام ہے۔ یورپ اور امریکہ اور دوسری فاتح قومیں جن کے ماتحت اَور ممالک ہیں چالیس پچاس کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں بلکہ اس سے کچھ کم ہی ہیں۔ لیکن باقی دنیا کی آبادی ڈیڑھ ارب لوگوں پر مشتمل ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر بچہ، ہر عورت اور ہر بوڑھا تین تین آدمیوں کو غلام بنائے بیٹھا ہے۔ تمام ایشیا، تمام افریقہ اِلَّامَاشَاءَ اللہ، تمام جزائر اِلَّامَاشَاءَ اللہ سارے کے سارے غلامی اور ماتحتی میں اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ ان سارے حالات کو بدلنا اور محبت سے، پیار سے، نیکی سے، رأفت سے اور شفقت سے لوگوں کی اصلاح کرنا ہمارا کام ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ دنیا میں کونسی قوم ہے جس نے ایسا کام کیا ہو؟ کوئی قوم ایسی نہیں جس کے سپرد اتنا بڑا کام کیا گیا ہو جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ پس جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ دنیا کی سب قوموں کے کاموں سے بڑا ہے اور جو طاقت ہمارے اندر ہے وہ دنیا کی سب قوموں سے کم ہے۔ پس یہ کام سوائے اس کے کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہو اوروہ ہمارے کمزور ہاتھوں سے یہ عظیم الشان عمارت کھڑی کردے۔ پس ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے وہ ایسی اہمیت رکھتا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ اگر ہم اپنے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہمارا فرض ہے کہ ہم اَور زیادہ قربانیاں کریں، اَور زیادہ جدوجہد سے کام لیں تاکہ ہماری جو اندرونی اور باطنی کمزوریاں ہیں اُن کا کچھ کفارہ ہماری ظاہری کوششیں کردیں۔
مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو ہندؤوں کی طرح ہر وقت سَودے کا خیال رہتا ہے۔ جس طرح ہندو سَودا کرنے کے بعد یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ انہیں کیا نفع ہوا۔ اِسی طرح وہ چند دن روزے رکھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ کچھ دن تضرع اور ابتہال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور پھر دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان نمازوں سے انہیں کیا فائدہ حاصل ہوا۔ بے شک غیر احمدی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو ان کا کیا نتیجہ نکلا۔ کیونکہ انہیں کہیں بھی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ لیکن ہماری جماعت تو وہ ہے جس نےاپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے ایک مامور کو دیکھا اور اس کی زندگی میں خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کو آسمان سے اُترتے مشاہدہ کیا۔ پھر اب بھی ہماری جماعت میں وہ لوگ موجود ہیں جن کو ان کی نمازوں، ان کے روزوں اور ان کے چندوں کا نتیجہ مل گیا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے،ان کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے، ان کے دشمنوں کو مارتا اور تباہ کرتا ہے، ان کے دوستوں کو برکت دیتا ہے، انہیں ہر میدان میں فتحِ عظیم عطا کرتا ہے،انہیں روحانی علوم سے سرفراز کرتا ہے، قرآن کریم کے معارف ان پر کھولتا ہے، انہیں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے۔ اور کونسا نتیجہ ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ابھی ظاہر نہیں ہوا تو انہیں کم سے کم یہ تو یقین ہونا چاہیے کہ وہ جس راستہ پر چل رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ اگر اس راستہ پر چلنے کے باوجود ان کے اعمال کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوا تو بجائے اِس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ان اعمال کا نتیجہ کیا نکلا انہیں اپنے نفس سے سوال کرنا چاہیے کہ اے نفس! تم نے کیا کمزوری دکھائی کہ ہمارے اعمالِ نیک کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا۔ یہ تو نہیں مانا جاسکتا کہ وہ اعمال اپنا نتیجہ ظاہر نہیں کرتے۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ تمہارے سامنے بعض وجودوں میں وہ نتائج ظاہر ہوگئے۔ پس اگر تمہاری ذات میں وہ نتائج ظاہر نہیں ہوئے تو تمہیں یقین کرلینا چاہیے کہ اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت ہے؟ جو شخص بھی اُسے پیتا ہے اس کی پیاس بجھ جاتی ہے اور اس کی روح تروتازہ ہوجاتی ہے۔ لیکن بخار کا مریض پانی پینے کے باوجود اپنی پیاس کو بجھتا ہوا محسوس نہیں کرتا۔ وہ پانی پیتا ہے اور دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو۔ پھر پانی دیا جاتا ہے تو دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو۔ تم اسے پانی پلائے جاتے ہو مگر اُس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اِدھر وہ پانی پیتا ہے اور اُدھر اُس کے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں اور وہ پھر کہتا ہے اَور پانی دو۔ یہاں تک کہ پانی پیتے پیتے بعض دفعہ اُس کا پیٹ پُھول جاتا ہے۔ اس کے پیٹ میں پانی کے لیے گنجائش تک نہیں رہتی۔ مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ پیاس لگی ہے اَور پانی دو۔ اب کیا تم ایسے نظارہ کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگتے ہو کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت نہیں رہی؟ یا تم خود اس شخص کو مریض تصور کرتے ہو؟ تم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت نہیں رہی۔ یہ پانی پیتا ہے اور پھر اسے پیاس لگ جاتی ہے۔ بلکہ تم کہتے ہو یہ پینے والے کا قصور ہے، اس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پانی اس پر اثر نہیں کرتا۔ پس جس قوم میں نمونہ موجود ہو اور اس نمونہ سے یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ خدا کی طرف توجہ کرنے اور اُس کے لیے اپنے نفس کی قربانی کرنے سے آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں اُس قوم کے بعض افراد اگر اسی راستہ پر چلتے ہوئے برکات و انوار کا مشاہدہ نہ کریں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ رستہ ہی غلط ہے۔ بلکہ یہی کہا جائے گا کہ خود اس کی قربانیوں میں کوئی نقص ہے۔ ورنہ رستہ صحیح ہے اور وہی ایک طریق ہے جس پر چل کر برکت حاصل ہوسکتی ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں اگر نتیجہ نہ بھی نکلے تو بھی ایک مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ قربانی کو ترک کردے۔ خدا تعالیٰ کے بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح ناصریؑ نے قربانی کی اور وہ صلیب پر چڑھ گئے۔ مسیح ؑ کے بعد پطرس جو آپ کا خلیفہ ہوا اور جو آپ کا بڑا مقرب حواری تھا یہاں تک کہ آپ نے ایک دفعہ کہا میری جماعت کے لیے یہ ایک پہاڑ کی طرح ہے وہ روم میں گیا اور اُسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اِسی طرح اَور بہت سے لوگ آپ کی جماعت میں سے مارے گئے مگر جو دنیوی ترقیات ہیں وہ تین سو سال کے بعد مسیحی قوم کو حاصل ہوئیں۔ اب کیا مسیحؑ نے صلیب پر لٹکنے سے اس لیے انکار کردیا کہ میرے زمانہ میں تو حکومتیں نہیں آئیں گی مَیں نے صلیب پر لٹک کر کیا لینا ہے؟ یا کیا پطرس نے اِس وجہ سے اپنی جان قربان کرنے سے انکار کردیا کہ جب مجھے حکومت میں حصہ نہیں ملے گا تو مَیں اپنی جان کیوں قربان کروں؟ نہیں بلکہ مسیحؑ نے بھی صلیب کا مزہ چکھا اور پطرس نے بھی اپنی جان قربان کردی اور اسی طرح یکے بعد دیگرے اَور ہزاروں لوگ قربانیاں کرتے چلے گئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے ہماری ترقیاں شخصی نہیں قومی ہیں۔ اور قومی ترقیاں قربانیوں کے بعد بعض دفعہ دو دو بلکہ تین تین سو سال کے بعد حاصل ہوتی ہیں۔
دیکھو! خدا تعالیٰ کی قدرت کا دنیا میں ہمیں ایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے۔ قدرت نے کئی جاندار چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جو دنیا کے لیے قربانی کررہی ہیں مگر خود ان کو ان قربانیوں کے نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ مثلاً مونگا ایک کیڑا ہے جس کے نام پر کئی جزائر آباد ہیں۔ مونگے میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ زمینیں پیدا کرنے کے لیے ایک مونگا دوسرے مونگے پر چڑھ کر جان دے دیتا ہے۔ سمندر کی تَہہ میں لاکھوں مونگے ہوتے ہیں۔ دس بیس ہزار مونگے ایک دوسرے پر چڑھ کر مر جاتے ہیں۔ پھر اُن پر دس بیس ہزار اَور مونگے چڑھ کر مر جاتے ہیں۔ اُن پر دس بیس ہزار اَور مونگے چڑھ کر جان دے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سمندر کی تہہ جو بعض دفعہ دو دو تین تین میل گہری ہوتی ہے ان مونگوں سے بھر جاتی اور وہاں زمین پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ایک دن انہی مونگوں کے مرنے سے وہاں ایک جزیرہ آباد ہو جاتا ہے۔ جہاں درخت اُگتے ہیں، کھیتیاں ہوتی ہیں، مکانات بنتے ہیں اور ہزاروں لوگ رہائش رکھتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں جزائر ہیں جو دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ کورل آئی لینڈز (Coral Islands)انہی کو کہتے ہیں اور وہ اسی طرح بنتے ہیں کہ ایک کثیرالتعداد کورلز کی مرکر جان دے دیتی ہے۔ جن پر اَور لاکھوں کروڑوں کورلز چڑھ کر جان دے دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی قربانی سے ایک زمین آباد ہوجاتی ہے۔ پس تعجب کی بات ہے کہ ہمارے اندر ایک کورل جتنی قربانی کا مادہ بھی نہ ہو اور ہم یہ خیال کریں کہ جب تک ہماری قربانیوں کا ہماری ذات کو فائدہ نہ ہو اُس وقت تک قربانیاں کرنا بے معنی ہے۔ تمہیں اس مثال کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر تم مر جاتے ہو اور تمہاری قربانیوں سے دو سو یا چار سو سال کے بعد جماعت کوفائدہ پہنچتا ہے تو تمہاری قربانی رائیگان نہیں گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو گئی۔
پھر ہمارے لیے تو ایک زائد بات یہ بھی ہے کہ جو شخص مر جاتا ہے اُسے اپنی قربانیوں کا مرتے ہی انعام ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر قربانیوں کی ایک اَور مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ برسات کا موسم ہو اور تم لیمپ روشن کرو تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح پروانے اس پر گرگر کر مرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے شاعروں نے تو شمع اور پروانے کا اپنے اشعار میں اس قدر ذکر کیا ہے کہ کوئی شاعر ایسا نہیں جس کے کلام میں شمع اور پروانے کا قصہ نہ آتا ہو۔ پھر تمہیں سوچنا چاہیے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کا حُسن ہماری نظروں میں ایک شمع جیسا بھی نہیں جو چھ پیسے کو مل جاتی ہے؟ اور کیا ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام سے اتنی محبت بھی نہیں جتنی ایک پروانے کو شمع سے ہوتی ہے؟ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ہم کو شمع جیسا بھی نظر نہیں آتا اور اگر اپنا عشق ہم کو پروانے جیسا بھی نظر نہیں آتا تو سچی بات یہی ہے کہ ہم نے اُس حُسن کو دیکھا ہی نہیں اور ہم نے اپنے عشق کو سمجھا ہی نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حُسن تو کروڑوں شمعوں سے زیادہ ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے آپ کو سِرَاجًا مُّنِیْرًا2 قرار دیا ہے اور سراج منیر قرار دینے میں جہاں اَور حکمتیں ہیں وہاں ایک عظیم الشان حکمت ان الفاظ میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو پروانوں کی طرح آپ پر جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ جس طرح لیمپ روشن ہو تو پروانے اُس پر گرنے لگ جاتے ہیں۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ہمیشہ امت ِمحمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو پروانوں کی طرح شمع محمدی پر قربان ہوتے رہیں گے۔ مگر پروانے اُس زمانہ میں ہوتے ہیں جب برسات کا موسم ہو۔ یہ نہیں ہوتا کہ موسم خواہ کوئی ہو۔ جب بھی لیمپ جلایا جائے پروانے اُس پر گرنے لگیں۔ پروانوں کے نکلنے کا موسم برسات ہے۔ اسی طرح عالَمِ روحانی میں جب بھی برسات کا موسم ہوگا جب آسمان سے الہام الٰہی کی تازہ بارش نازل ہوگی۔ اسی زمانہ میں ایسی جماعت پیدا ہوگی جو پروانوں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اپنی جانیں قربان کردے گی۔ دیکھو! ہر زمانہ میں پروانے شمع پر نہیں گرتے۔ بلکہ برسات کے موسم میں گرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا مُّنِیْرًا کہہ کر اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ جب نورِنبوت ظاہر ہوگا، جب الہام کی بارش آسمان سے اترے گی، جب عالَمِ روحانی میں برسات کا موسم ہوگا اُس وقت ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو پروانے بن بن کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع پر قربان ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے زمانوں میں قرآن بے شک موجود تھا، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ کہنے والے مسلمان بے شک موجود تھے، دعائیں اور عبادتیں کرنے والے لوگ بے شک پائے جاتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چراغ پر پروانے نہیں گر رہے تھے۔ لیکن ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور ادھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پروانے گرنے لگ گئے۔ کیونکہ یہ الہام اور وحی کی بارش کا وقت تھا۔ پس سِرَاجًا مُّنِیْرًا کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ جب بھی بارشِ وحی اور بارشِ الہام نازل ہوگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پروانے گرنے شروع ہو جائیں گے جو آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک ثبوت ہوگا کہ الہام ہوتا ہے "ب" پر اور پروانے گرنے لگ جاتے ہیں "الف" پر۔ گویا یہ ثبوت ہوگا آپ کی صداقت کا اور یہ ثبوت ہوگا اس بات کا کہ آنے والا آپ کے شاگردوں اور آپ کے متبعین میں سے ہی ہے۔ وہ اُس چمنی کی طرح ہوگا جو روشنی کے اردگرد ہوتی ہے۔ بے شک چمنی روشنی کو پھیلا رہی ہوتی ہے مگر پروانوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ چمنی کو چِیر کر روشنی تک پہنچ جائیں۔ اور اگر ننگی روشنی ہو تو وہ وہاں پہنچ جاتے اور شمع پر گر کر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے سامان تو پیدا کیے ہیں مگر ہماری جماعت نے ابھی اپنے کام کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھا نہیں۔ مثلاً مَیں نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں تبلیغ کے لیے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگی اس غرض کے لیے وقف کردیں۔ یہ کام اپنی ذات میں اس قدر اہم ہے کہ ہم اس پر جتنا بھی غور کریں اس کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سینکڑوں ملک ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے، سینکڑوں زبانیں ہیں جو ہم نے سیکھنی ہیں، سینکڑوں کتابیں ہیں جو ان ممالک میں تبلیغِ اسلام کے لیے ہم نے شائع کرنی ہیں۔ پس اس غرض کے لیے ہمیں سینکڑوں مبلغوں کی ضرورت ہوگی، سینکڑوں ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت ہوگی اور پھر ان مبلغوں اور سلسلہ کے لٹریچر اور دیگر اخراجات کے لیے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی اُس کا کچھ اندازہ اِس سے ہوسکتا ہے کہ مَیں نے ایک دن حساب کیا کہ اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف3 کو ایک دوسرے رنگ میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے تو کس قدر خرچ ہوگا۔ مَیں نے اندازہ کیا کہ اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو ان کا ایک سال کا کم سے کم خرچ دو کروڑ روپیہ ہوگا۔ امریکہ میں صرف روٹی کھانے کے لیے تین سو روپیہ ماہوار کی ضرورت ہوتی ہے، یورپ میں کم سے کم پونے دو سو روپیہ ماہوار میں گزارہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہی ممالک ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے۔ ہندوستان سے باہر مشرقی ممالک میں سو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے۔ پھر جو آدمی تبلیغ کے لیے جائیں گے اُن کا کرایہ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اور پھر چند سال کے بعد جب پہلے مبلّغ واپس آئیں گے اور دوسرے مبلغ اُن کی جگہ بھیجے جائیں گے تو ان کی آمدورفت پر بھی بہت سا روپیہ خرچ ہوگا۔ اِسی طرح ان کے بیوی بچوں کا ہمیں گزارہ مقرر کرنا پڑے گا۔ پھر وہاں ملک کے مختلف حصوں میں دورے کرنے کے لیے روپیہ ضروری ہوگا۔ مساجد کے لیے روپیہ ضروری ہوگا۔ اُس ملک کی مختلف زبانوں میں ہر قسم کا لٹریچر شائع کرنے کے لیے روپیہ ضروری ہوگا۔ اِن تمام اخراجات کو اگر ہم کھلے دل کے ساتھ برداشت کریں تو در حقیقت اِسی صورت میں صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم ان اخراجات کا کم اندازہ بھی کریں تو میرے نزدیک ہر مبلغ کے لیے اگر ہم پانچ سو روپیہ ماہوار کا خرچ رکھیں تب ادنیٰ طور پر ہم تبلیغ کا فرض ادا کرسکتے ہیں۔ اس میں سے دو سو روپیہ تبلیغ پر خرچ ہوگا اور باقی روپیہ اس کے ماہوار کھانے پینے کے اخراجات پر صَرف ہوگا۔ لیکن اگر ہم خالی گزارے کا اندازہ لگائیں تب بھی تین سو روپیہ فی کس خرچ ہوگا اور چونکہ پانچ ہزار مبلغ ہم نے رکھنے ہیں اس لیے پندرہ لاکھ روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہوگا اور سال میں ایک کروڑ اسّی لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ بیس لاکھ روپیہ آنے جانے کے کرائے، سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت، مساجد کی تعمیر، کتابوں کی تصنیف اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے رکھ لیں تو دو کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بیس لاکھ روپیہ پانچ ہزار مبلغین کے لیے بہت ہی کم ہے اور اس قدر قلیل روپیہ سے صحیح طور پر تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت ہمارے پاس ساڑھے تین کروڑ روپیہ سالانہ ہونا چاہیے تب ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ کر انہیں دنیا میں پھیلا سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہم اپنی ساری جائیدادیں بیچ دیں تب بھی ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اتنا روپیہ خرچ نہیں کرسکتے۔ اگر ان مبلغوں کی تعداد کو کم کردیا جائے اور ہم سرِ دست صرف دوسَومبلغ رکھیں تب بھی تم سمجھ لو کہ ساٹھ ہزار روپیہ ماہوار ان کے کھانے پینے پر خرچ آئے گا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ دو سو مبلغین کا سالانہ خرچ سات لاکھ بیس ہزار ہوگا۔ دو اڑھائی لاکھ روپیہ اگر لٹریچر کی اشاعت اور دوسرے ضروری اخراجات کے لیے رکھ لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس دس لاکھ روپیہ سالانہ ہو توہم دو سو مبلغ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تو ہمارے سارے بجٹ ملا کر یعنی تحریک جدید کی آمد اور صدر انجمن احمدیہ کی آمد اور دوسری آمدنیں ملا کر دس بارہ لاکھ روپیہ کی رقم بنتی ہے۔ اور اگر ہم اِسی وقت دو سو مبلغ رکھ لیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم باقی سارے کام بند کردیں۔ حالانکہ ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا نہیں بلکہ جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے۔پس ضروری ہے کہ اس کے لیے علاوہ چندوں کے ہمارے پاس مستقل جائیدادیں ہوں جن کی آمد سے اِس قسم کے اخراجات کو پورا کیا جاسکے۔ اِسی لیے مَیں نے تحریک جدید جاری کی تھی اور اسی لیے مَیں نے تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ جائیدادیں بنائی ہیں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جائیدادیں تو بن گئیں لیکن جتنا حصہ جماعت میں سے کام کرنے والے آدمیوں کا تھا وہ مجھے نہیں ملا۔چنانچہ اِس وقت تک جتنے آدمی میں نے سندھ کی زمینوں پر کام کرنے کے لیے بھجوائے ہیں وہ سارے کے سارے ناکام رہے ہیں۔ درحقیقت آجکل جو ایک عام زمیندار کو آمد ہورہی ہے اُس سے بھی ہماری زمینوں کی آمد کم ہے اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں ابھی تک کام کرنے والے آدمی نہیں ملے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص عام زمیندار کی حیثیت سے کام کرے تب بھی پندرہ بیس من فی ایکڑ کپاس ہوسکتی ہے۔ اور اگر سلسلہ کا کام سمجھ کر کوئی شخص محنت سے کام کرے تو پچیس،تیس من فی ایکڑ بھی ہوسکتی ہے۔ مصر میں پچیس من فی ایکڑ کی اوسط نکالی گئی تھی۔ مگر ایسا اسی صورت میں ہوسکتا ہےجب کام کرنے والے محنتی ہوں، دیانتدار ہوں، سلسلہ کے اموال کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور تقوٰی اور اخلاص سے کام کرنے والے ہوں۔ محمود آباد میں جہاں میری زمین ہے وہاں ایک دفعہ ایک کھیت میں سے پچاس من فی ایکڑ کپاس نکلی۔ کیونکہ کام کرنے والے نے محنت اور دیانتداری سے کام کیا۔ پس محنت سے فصل کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ لیکن مَیں دیکھتا ہوں سلسلہ کے کاموں پر اِس وقت تک جو لوگ گئے ہیں وہ ایسے سست اور غافل اور بددیانت ثابت ہوئے ہیں کہ وہاں اوسط پیداوار پانچ من کی ہوئی ہے کیونکہ محنت سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ مَیں نے آخر ملازموں سے تنگ آکر بعض واقفینِ زندگی کو وہاں بھجوادیا مگر ان کی حالت بھی ایسی اچھی نہ تھی بلکہ ایک کے متعلق تو ایسی شکایتیں آرہی ہیں کہ شاید مجھے اُس کے متعلق کوئی کمیشن بٹھانا پڑے اور سخت ایکشن لینا پڑے۔کیونکہ شکایت ہے کہ اس نے علاوہ سستی اور ظلم کے بددیانتی سے بھی کام لیا ہے۔ پس ہمیں روپیہ کی ہی ضرورت نہیں بلکہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی ترقی آدمیوں کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ مَیں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی ایک خطبہ پڑھا تھا۔ وہ خطبہ چَھپا ہوا موجود ہے اور اسے نکال کر دیکھا جاسکتا ہے۔ مَیں نے اس میں کہا تھا کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ کبھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ سمجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ وہ اکنافِ عالَم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی اُس سے زیادہ فریب خوردہ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں۔ جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں وہ ذات کی قربانی ہوتی ہے نہ کہ روپیہ کی۔ تم اگر دنیا میں فتح یاب ہونا چاہتے ہو تو جان دے کر ہوگے۔ جس دن تم یہ سمجھ لوگے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لیے ہیں،جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کردیا اُس دن تم کہہ سکتے ہو کہ تم زندہ جماعت ہو۔4
پس اس تحریک کے ابتدا میں ہی میں نے اس کی بنیاد چندہ پر نہیں رکھی بلکہ مَیں نے اس کی بنیاد آدمیوں پر رکھی تھی۔ اور مَیں نے کہا تھا کہ مجھے وہ آدمی چاہییں جو اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے ہوں، جو اپنی جانیں خلیفہ وقت کے حکم پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، جو رات اور دن کام کرنے والے ہوں اور جو سمجھتے ہوں کہ ہم نے جب اپنے آپ کو پیش کردیا تو اس کے بعد موت ہی ہمیں اس کام سے الگ کرسکتی ہے۔زندگی کے آخری لمحوں تک ہم یہی کام کریں گے اور پورے اخلاص اور پوری ہمت اور پوری دیانت سے کریں گے۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ مجھے جب تبلیغ کے لیے باہر بھجوایا جائے گا اُس وقت مَیں دیانتداری سے کام لے لوں گا اس سے پہلے اگر سلسلہ کے کسی اَور کام پر مجھے مقرر کیا جاتا ہے تو میرے لیے دیانتداری کی ضرورت نہیں وہ اول درجہ کا احمق اور نادان ہے اور یا پھر دوسروں کو دھوکا اور فریب دینے کے لیے ایسا کہتا ہے۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ صرف تبلیغ میں دیانتداری کی ضرورت ہے لیکن سلسلہ کے اموال میں وہ دیانتداری سے کام نہیں لیتا، سلسلہ کی زمینوں پر وہ محنت سے کام نہیں کرتا، سلسلہ کی مالی ترقی کے لیے اپنے آرام اور آسائش کو قربان نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہی نہیں کہ دین کیا چیز ہے۔ وہ یقیناً فریب خوردہ ہے یا دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ دین تو ایک مجموعہ نظام کا نام ہے جس میں زمینیں بھی شامل ہیں، جس میں جائیدادیں بھی شامل ہیں، جس میں مکانات بھی شامل ہیں، جس میں تجارتیں بھی شامل ہیں، جس میں کارخانے بھی شامل ہیں۔ صرف تبلیغ کرنا دین نہیں۔ اگر صرف تبلیغ کرنا دین ہو تو سوال یہ ہے کہ پھر دکانیں کون چلائے گا، کارخانے کون جاری کرے گا، زمینوں کی کون نگرانی کرے گا، صنعت وحرفت کی طرف کون توجہ کرے گا، علوم کون پھیلائے گا۔ پس یہ صحیح نہیں کہ صرف تبلیغ کرنا دین ہے۔ دین اسلامی نظام کے ہر شعبہ کا نام ہے اور اس نظام کا ہر شعبہ ویسا ہی اہم ہے جیسے تبلیغ کرنا۔ مثلاً جب بعض لوگ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے پیچھے ایسے لوگ ہوں جو لٹریچر تیار کرکے اُن کو بھیجیں۔ کہیں قرآن کی تفسیر ہو رہی ہو، کہیں حدیثوں کے ترجمے شائع ہو رہے ہوں، کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم ہو رہے ہوں، کہیں اَور لٹریچر تیار ہو رہا ہو۔ اگر ان کے پاس کثرت سے لٹریچر نہیں ہوگا، اگر ان کے پاس کتابیں نہیں ہوں گی، اگر ان کے پاس روپیہ نہیں ہوگا تو وہ تبلیغ کو وسیع کرنے کا کام کس طرح کرسکیں گے۔ پس سلسلہ کا ہر کام تبلیغ سے وابستہ ہے۔ جو شخص زمین میں ہل چلاتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو شخص کارخانہ چلاتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو شخص زمینوں کی نگرانی کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو شخص لٹریچر شائع کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے، جو شخص سلسلہ کا کوئی اور کام کرتا ہے وہ بھی تبلیغ کرتا ہے۔ آخر یہ تمام کام ہوں گے تبھی روپیہ آئے گا اور تبھی اس کے ذریعہ مبلغوں کو پھیلایا جاسکے گا۔ ہم پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ کئی سو مربع زمین ہمیں مل گئی۔ پنجاب میں ایک مربع پچیس تیس ہزار روپیہ کو ملتا ہے۔ گورنمنٹ کی نیلام میں بھی بیس سے پچیس ہزار تک مربع ملتا ہے اور اگر پبلک میں سے کوئی فروخت کرے تو تیس سے چالیس ہزار روپیہ تک ایک مربع فروخت ہوتا ہے۔ مگر ہم نے سندھ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً چار سو مربع زمین تحریک جدید کی لے لی ہے۔ اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین خریدی جاتی تو ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا۔ مگر ہم کو وہاں اوسطًا مختلف اخراجات شامل کرکے ایک مربع پانچ ہزار روپیہ میں ملا ہے اور وہاں ہماری ساری جائیداد بیس لاکھ روپیہ کی ہے۔ گویا بیس لاکھ روپیہ میں ہمیں وہ چیز مل گئی جو پنجاب میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ میں مل سکتی تھی۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ سلسلہ کے لیے ہمیں اس قدر زمین مل گئی۔ اگر جماعت کے دوست اس کام کو دین کا کام سمجھ کر محنت اور دیانتداری سے سرانجام دیتے اور تمام زمین کو اس طرح کھود کر رکھ دیتے کہ وہ اپنے خزانے اُگلنے لگ جاتی تو پھر چاہے ایک سال کے بعد ہی وہ مر جاتے انہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ اگر انہیں سو سال کی زندگی ملتی تب بھی اس سوسال کی زندگی میں انہیں اتنا ثواب نہ ملتا جتنا ثواب وہ ایک سال میں حاصل کرگئے۔ مگر بجائے اِس کے کہ محنت اور اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جاتا وہاں جو لوگ کام کرنے کے لیے بھیجے گئے انہوں نے محنت اور توجہ سے کام نہیں کیا۔ بے شک ہم نے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی وہاں نہیں بھجوائے۔ ہم نے اب تک اُنہی لوگوں کو بھیجا ہے جن کی تعلیم ادنیٰ تھی۔ مگر بہرحال ایمان اور اخلاص تعلیم پر منحصر نہیں۔ صحابہؓ میں کونسی تعلیم تھی۔ مثلاً حضرت ابوہریرہؓ کہاں تک پڑھے ہوئے تھے؟ انہوں نے تعلیم نہ ہونے کے باوجود کام کیا اور ایسے اخلاص سے کام کیا کہ آج تک اُن کے نام زندہ ہیں اور ان کے لیے دعائیں کرنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اگر سلسلہ کے لیے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے انہیں کام کرنا پڑتا ہے تب بھی انہیں کام کرنا چاہیے۔ وہ اپنے لیے موت پسند کر لیتے مگر چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے ہی سلسلہ کے لیے وقف کر دیتے اور سمجھتے کہ جو بنیاد آج ہم اپنے ہاتھوں سے رکھ رہے ہیں اسی پر وہ عمارت تیار ہونے والی ہے جو اسلام کی اشاعت کے لیے ضروری ہے۔ سینکڑوں مبلغ اس کی آمد سے رکھے جائیں گے اور ہر مبلغ جو دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرے گا اُس کا ثواب ہمیں ملے گا۔ ایک مبلغ کو صرف اسی کوشش کا ثواب مل سکتا ہے جو وہ کرے۔ لیکن سلسلہ کی زمینوں پر اگر لوگ محنت سے کام کریں تو انہیں سینکڑوں مبلغوں کا ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہی کی محنت کے نتیجہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جا رہا ہوگا۔یہ وہ احساس ہے جس کے ماتحت انہیں کام کرنا چاہیے تھا۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں جس قدر کام کرنے کے لیے بھجوائے گئے ان میں سے کسی نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ بجائے اس کے کہ ان کے ذریعہ سلسلہ کے اموال میں برکت ہوتی وہ اس طرف مشغول ہوگئے کہ انہیں اپنی بھینسوں کے لیے چارہ کا فکر ہے، انہیں اپنی گھوڑیوں کا فکر ہے، کہیں دوسروں کو ڈانٹنے اور ان پر جرمانہ کرنے کا انہیں ہر وقت خیال رہتا ہے۔ گویا جو اصل کام تھا وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور دنیا داری میں ملوث ہوگئے اور یہی حال احمدی ہاریوں کا ہے۔ انہوں نے وہاں کوفہ کے بدفطرت لوگوں کا نمونہ دکھایا ہے اور نیک احمدیوں کا نمونہ نہیں دکھایا۔ مگر وہ خوش نہ ہوں کہ انہوں نے کچھ کما لیا ہے۔ زیادہ دن نہ گزریں گے کہ وہ خدا کی گرفت میں آئیں گے۔ مَیں ان کا جو انجام دیکھتا ہوں خوش کن نہیں ہے۔
میری بھی چونکہ وہاں زمین ہے اس لیے مَیں نے اپنے ایک عزیز کو وہاں بھجوا دیا کہ شاید وہ شوق سے کام کرے مگر وہ بھی ناکام ثابت ہوا اور اس نے قطعاً اعلیٰ مخلصوں والی قربانی پیش نہیں کی۔ غرض اِس وقت تک جتنی کوفت اور تکلیف مجھے اس کام کی وجہ سے اٹھانی پڑی ہے اِتنی کوفت اور تکلیف مجھے اَور کسی کام سے نہیں ہوئی۔ دوسرے تمام کاموں میں مجھے اچھے آدمی مل گئے ہیں مگر یہاں شاید دنیا کی لالچ اور حرص آ جاتی ہے اس لیے صحیح طور پر کام کرنے والے ابھی تک نہیں ملے۔ یا شاید وہ کام بھی نہیں کرسکتے تھے اور شاید میں بھی ابھی تک ایسے لوگوں کو نہیں چُن سکا جو اِس کام کو پوری محنت اور دیانتداری سے کریں۔ بہرحال ہمیں ایسے مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے جو زمینوں کا تجربہ رکھتے ہوں اور جو دیانتداری اور محنت کے ساتھ سلسلہ کا یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ تاکہ ہمارا مالی پہلو مضبوط ہو اور ہم جلد سے جلد تبلیغ کی اس سکیم کو جاری کرسکیں جو میرے مدنظر ہے۔
مَیں علاوہ سندھ کی زمینوں کے، سلسلہ کے اموال بڑھانے کے لیے بعض اَور ذرائع سے بھی کام لے رہا ہوں اور اس کام کو شروع بھی کردیا گیا ہے مگر مَیں ابھی اس کا اظہار نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہماری جماعت کو ایسی فضیلت حاصل ہوجائے گی کہ دنیا کے لوگ تسلیم کریں گے کہ یہ جماعت دینی طور پر ہی قابل نہیں بلکہ دنیوی طور پر بھی خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایسی عزت بخشی ہے جو دوسری قوموں اور جماعتوں کو حاصل نہیں۔ اگر یہ سکیم کامیاب ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ بڑی آسانی سے میسر آسکتا ہے۔ مَیں چار پانچ سال سے اس کے متعلق کوشش کررہا تھا۔ لمبا کام تھا اور تعلیم سے تعلق رکھتا تھا اور تھوڑے عرصہ میں نہیں بلکہ چھ سات سال میں یہ کام ہوسکتا تھا۔ اب یہ عرصہ چونکہ ختم ہونے کے قریب ہے اس لیے اس کام کی داغ بیل رکھ دی گئی ہے اور امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال تک کام ایک معیّن صورت اختیار کرلے گا۔غرض یہ نئی سکیم اور ہماری سندھ کی زمینیں ایسی چیزیں ہیں جن سے سلسلہ کا مالی پہلو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہوسکتا ہے اور جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے تبلیغ کے لیے دس بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ آسانی سے برداشت کیا جاسکتا ہے۔
سندھ کی زمینوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا بھی دکھایا تھا اور اسی رؤیا کی بناء پر مَیں نے صدر انجمن احمدیہ کو وہاں کی زمینیں خریدنے کی ہدایت کی۔ بہت عرصہ کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک نہر پر کھڑا ہوں، اس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور اس کے چاروں طرف سبزہ ہے کہ اسی حالت میں ایک دم شور کی آواز آئی۔ مَیں نے اوپر کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ نہر ٹوٹ کر اس کا پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے اور سُرعت سے بڑھتا جا رہا ہے۔ مَیں نے چاہا کہ واپس لَوٹوں تاکہ پانی میرے قریب نہ پہنچ جائے مگر ابھی مَیں یہ خیال ہی کررہا تھا کہ مَیں نے دیکھا میرے چاروں طرف پانی آگیا ہے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور مَیں بھی نہر کے اندر جا پڑا۔ جب مَیں نہر کے اندر گر گیا تو مَیں نے تیرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ میلوں میل میں تیرتا چلا گیا مگر میرا پاؤں کہیں نہ لگا۔یہاں تک کہ مَیں نے سمجھا مَیں تیرتے تیرتے فیروز پور تک پہنچ گیا ہوں۔ تب گھبراہٹ کی حالت میں ہی مَیں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ! سندھ میں تو پَیر لگ جائیں۔ یا اللہ! سندھ میں تو پَیر لگ جائیں۔ اور جب مَیں نے یہ دعا کی تو مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آگیا ہے۔ پھر جو مَیں نے کوشش کی تو پیر ٹِک گیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہو گیا۔
یہ رؤیا 1915ء میں مَیں نے دیکھا تھا۔ اُس وقت سندھ میں نہروں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس کے ایک لمبے عرصہ کے بعد وہاں نہریں نکلیں اور ہم نے یہ زمین خریدنی شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے سندھ میں ہمیں اتنی بڑی زمین دے دی ہے کہ اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین کسی زمیندار کو مل جاتی تو اس کے لیے شادی مرگ ثابت ہوتی۔ ساری عمر لوگ گورنمنٹ کی خوشامدیں کرتے رہتے ہیں اور پھر انہیں اگر پانچ یا دس مربعے مل جائیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ نے اُن کی سات پشتوں کی قدر افزائی کردی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے گھر بیٹھے ہمیں قریباً چار سو مربع زمین دے دیا۔ چار سو میں پندرہ بیس مربع کی کمی ہے مگر وہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰیجلدی پوری ہوجائے گی۔ میری نیت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ہزاروں مربع زمین بن جائے۔ اسی طرح اور کئی کام میرے ذہن میں ہیں اور مَیں چاہتا ہوں ان کاموں میں اس قدر وسعت ہو اور ان ذرائع سے ہمیں اس قدر آمد ہو کہ سلسلہ کے وہ تمام کام جو مَیں نے کرنے ہیں آسانی اور سہولت سے ہو جائیں۔ مگر اس کے لیے مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ آمد کی زیادتی کے ہرگز یہ معنے نہیں ہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہو جاؤ گے یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آجائے گا جب تم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
مَیں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب مَیں مر جاؤں گا اور پھر اَور لوگ اس جماعت کے خلفاء ہوں گے۔ مَیں نہیں جانتا اُس وقت کیا حالات ہوں۔ اِس لیے مَیں ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تاکہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے کہ اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا جس نے یہ سمجھ لیا کہ جب جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمدنی ہورہی ہے، تجارتوں سے اس قدر آمدنی ہورہی ہے، صنعت و حرفت سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اَور قربانی کا مطالبہ کی کیا ضرور ت ہے۔ اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کردی جائے۔ تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہوگئی اور اب کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہوگیا ہے۔ اور جس دن تمہاری تسلی اس بات پر ہو جائے گی کہ روپیہ آنے لگ گیا ہے اب قربانی کی کیا ضرورت ہے اُسی دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہوگئی ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ جماعت روپے سے نہیں بنتی بلکہ آدمیوں سے بنتی ہے اور آدمی بغیر قربانی کے تیار نہیں ہوسکتے۔ اگر دس ہزار ارب روپیہ آنا شروع ہوجائے تب بھی ضروری ہوگا کہ ہر زمانہ میں جماعت سے اسی طرح قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے جس طرح آج کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ مطالبہ کیا جائے کیونکہ ابھی بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے سامنے نہیں آئیں۔پس چاہے ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی خلیفۂ وقت کا فرض ہوگا کہ وہ ایک غریب کی جیب سے جس میں ایک پیسہ موجود ہے دین کے لیے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب سے جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کے لیے دس ہزار روپیہ نکال لے۔ کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہوسکتے۔ اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بن سکتی۔ اور بغیر جماعت بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی۔ وہ روپیہ جو بغیر دل صاف ہونے کے آئے وہ انسان کے لیے رحمت نہیں بلکہ *** کا موجب ہوتا ہے۔ وہی روپیہ انسان کے لیے رحمت کا موجب ہوسکتا ہے جس کے ساتھ ہی انسان کا دل بھی پاک ہو اور دنیوی آلائشوں سے مبرّا ہو۔ پس مت سمجھو کہ اگر کثرت سے روپیہ آنے لگا تو تم قربانیوں سے آزاد ہو جاؤ گے۔ اگر کثرت سے روپیہ آگیا تو ہمارے ذمہ کام بھی تو بہت پڑا ہے۔ ہم نے اسلام کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے۔ ہم نے دنیا میں وہ نظام قائم کرنا ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے ہر شخص کے لیے کھانا مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر شخص کے لیے کپڑا مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر شخص کے لیے مکان مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر بیمار کے لیے علاج مہیا کرنا ہے، ہم نے ہرانسان کے لیے تعلیم کا سامان مہیا کرنا ہے۔ کیا یہ ساری چیزیں آسانی سے ہوسکتی ہیں؟ ان کے لیے تو اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہے۔ بلکہ اگر اربوں ارب روپیہ آجائے تو پھر بھی یہ کام ختم نہیں ہوسکتا۔ روپیہ ختم ہوسکتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب روپیہ کثرت سے آنا شروع ہو گیا ہے قربانیوں کی کیا ضرورت ہے اب چندے کم کر دیئے جائیں۔ اس سے زیادہ کسی جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی موت کے فتویٰ پر دستخط کردے۔ پس مت سمجھو کہ ان زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ کی آمد کے بعد چندے کم ہو جائیں گے۔اگر یہ روپیہ ہماری ضروریات کے لیے کافی ہوجائے تب بھی تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لیے، تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لیے، تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لیے، تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے۔ اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کردیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا، یہ سلسلہ پر ظلم ہوگا، یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ظلم ہوگا،، یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا۔ جب مسلمانوں نے ترقی کی اور کثرت سے اموال آنے شروع ہوئے اُس وقت اگر ایک مسلمان بادشاہ کھڑا ہوکر اِسی طرح بھیک مانگتا جس طرح خدا کے دین کے لیے ہم بھیک مانگتے ہیں (ہم بھیک تو نہیں مانگتے دینے والا سمجھتا ہے کہ ہم اس پر احسان کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کیا لیکن بہرحال طریق بھیک مانگنے کا ہی ہے ) تو اس کو بھی یہ خیال رہتا کہ مَیں نے دین کی خدمت کرنی ہے اور لوگوں کے دلوں میں بھی یہ احساس رہتا کہ وہ اُس وقت تک ترقی کرسکتے ہیں جب تک وہ دین کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے رہیں۔ اگر بادشاہ لوگوں سے دین کے لیے چندے مانگتے تو مَیں سمجھتا ہوں لوگوں میں یہ احساس ہمیشہ قائم رہتا کہ ہماری سلطنتیں دنیوی سلطنتیں نہیں بلکہ اسلامی کانسٹی ٹیوشنز(CONSTITUTIONS) ہیں۔ اسلام کے مختلف محکمے ہیں جو قائم کیے گئے ہیں۔ اور اُن کے ایمان بھی قائم رہتے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور انہوں نے قربانیوں کا دروازہ بند کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ترقی معدوم ہوگئی۔ پس طوعی چندے ہمیشہ قائم رہیں گے اور قائم رہنے چاہییں۔ جب یہ چیز ختم ہوجائے گی اُس وقت سمجھ لینا کہ ایمان بھی ختم ہوگیا۔ یہ چیز چلتی چلی جائے گی اور خواہ سلسلہ کو کس قدر روپیہ آنا شروع ہوجائے طوعی چندوں کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اور نہیں ہوسکتا۔
پس مَیں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں سندھ کی زمینوں کے لیے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو مضبوط ہوں، ہمت والے ہوں، باصحت ہوں اور دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے والے ہوں۔ مَیں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو وقف کرے اور ساتھ ہی یہ کہے کہ مَیں فلاں قسم کے کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں۔ جو شخص اپنے آپ کو وقف کرے وہ اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ کرے کہ مَیں یہ نہیں دیکھوں گا کہ مجھے کہاں مقرر کیا جاتا ہے۔میرے سپرد جو کام بھی کیا جائے گا مَیں اسےکروں گا اور وہی کام کرنا اپنے لیے باعثِ سعادت تصور کروں گا۔ اگر ایک شخص کو سلسلہ کی ضروریات کے لیے چوہڑے کے کام پر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ ہرگز اُس مبلغ سے کم نہیں ہے جو نیویارک اور لندن میں تبلیغ کررہا ہے۔ آخر سلسلہ کو چوہڑے کی ضرورت ہوگی تو وہ کہاں سے پوری کی جائے گی۔ وہ تم میں سے کسی شخص کے ذریعہ پوری کی جائے گی۔ یا اگر دھوبی کی ضرورت ہوتوسلسلہ اُس ضرورت کو کس طرح پورا کرسکتا ہے۔ اسی طرح پورا کرسکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو دھوبی کے کام پر مقرر کردیا جائے۔ اور یقیناً اگر کوئی شخص سلسلہ کے لیے دھوبی کا کام کرتا ہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسے تبلیغ کرنے والا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے اور آپ نے دیکھا کہ مسلمان عورتیں مشکیں بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلا رہی ہیں۔ جب جنگ ختم ہوئی، غنیمت کے اموال آئے تو آپ نے فرمایا ان عورتوں کو بھی حصہ دو کیونکہ یہ بھی جنگ میں شریک ہوئی ہیں۔5 اب دیکھو انہوں نے جنگ میں صرف پانی پلایا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ویسا ہی حصہ دیا جیسے میدانِ جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کو دیا۔ تو یہ ایک خطرناک غلطی ہے جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم وہ کام کریں گے جو ہماری مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہ تمہارا کام نہیں کہ تم فیصلہ کرو کہ تمہیں کس کام پر لگایا جائے۔ جو شخص تمہارا امام ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے اپنا ہاتھ دیا ہے، جس کی اطاعت کا تم نے اقرار کیا ہے، جس کا فرض ہے کہ وہ تمہیں بتائے کہ تمہیں کس کام پر مقرر کیا جاتا ہے تم اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ نہ تمہارا کوئی حق ہے کہ تم اس میں دخل دو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِن وَّرَائِہِ۔6 امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ہوکر دشمن سے جنگ کریں۔ پس جہاں امام تمہیں کھڑا کرتا ہے وہاں تم کھڑے ہو جاؤ۔ اگر امام تمہیں سونے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے تم سوجاؤ۔ اگر امام تم کو جاگنے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے تم جاگ پڑو۔ اگر امام تم کو اچھا لباس پہننے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی، تمہارا تقوٰی اور تمہارا زہد یہی ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنو اور اگر امام تم کو پھٹے پُرانے کپڑے پہننے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی، تمہارا تقویٰ اور تمہارا دینی عیش یہی ہے کہ تم پھٹے پرانے کپڑے پہنو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھ میں کسرٰی کے سونے کے کنگن دیکھے۔ جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا اور اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں کسریٰ کو شکست ہوئی تو غنیمت کے اموال میں کسرٰی کے سونے کے کنگن بھی آئے۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا تمہیں یاد ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ تمہیں کہا تھا کہ مَیں تمہارے ہاتھ میں کسرٰی کے سونے کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔اس نے عرض کیا ہاں یاد ہے۔ آپ نے فرمایا تو لو یہ کسرٰی کے سونے کے کنگن اور انہیں اپنے ہاتھوں میں پہنو۔ اس نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے اور کہا عمر!آپ مجھے اس بات کا حکم دیتے ہیں جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ شریعت کہتی ہے کہ مردوں کے لیے سونا پہننا جائز نہیں اور آپ مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ مَیں کسرٰی کے سونے کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنوں۔ حضرت عمرؓ جس طبیعت کے تھے وہ سب کو معلوم ہے۔ آپ اُسی وقت کھڑے ہوگئے کوڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا خدا کی قسم! اگر تم یہ سونے کے کنگن نہیں پہنو گے تو مَیں کوڑے مار مار کر تمہاری کمر اُدھیڑ دوں گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھا وہی مَیں پورا کروں گا اور تمہارے ہاتھوں میں مَیں سونے کے کنگن پہنا کر رہوں گا۔7 تو درحقیقت یہی نیکی اور یہی حقیقی ایمان ہے کہ انسان وہی طریق اختیار کرے جس طریق کے اختیار کرنے کا امام اُسے حکم دے۔ وہ اگر اسے کھڑا ہونے کے لیے کہے تو کھڑا ہوجائے اور اگر ساری رات بیٹھنے کے لیے کہے تو وہ بیٹھ جائے اور یہی سمجھے کہ میری ساری نیکی یہی ہے کہ مَیں امام کے حکم کے ماتحت بیٹھا رہوں۔ پس جماعت میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ نیکی کا معیار یہی ہے کہ امام کی کامل اطاعت کی جائے۔ امام اگر کسی کو مدرس مقرر کرتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لڑکوں کو عمدگی سے تعلیم دے۔ امام اگر کسی کو ڈاکٹر مقرر کرکے بھیجتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لوگوں کا عمدگی سے علاج کرے۔ امام اگر کسی کو زراعت کے لیے بھیج دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ زمین کی عمدگی سے نگرانی کرے اور امام اگر کسی کو صفائی کے کام پر مقرر کر دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ عمدگی سے صفائی کرے۔ وہ بظاہر جھاڑو دیتا نظر آئے گا، وہ بظاہر صفائی کرتا دکھائی دے گا مگر چونکہ اُس نے امام کے حکم کی تعمیل میں ایسا کیا ہوگا اس لیے اس کا جھاڑو دینا ثواب میں اس مبلغ سے کم نہیں ہوگا جو دلوں کی صفائی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ وہ زمین پر جھاڑو دے رہا ہوگا لیکن فرشتے اس کی جگہ تبلیغ کر رہے ہوں گے۔ کیونکہ وہ کہیں گے یہ وہ شخص ہے جس نے نظام میں اپنے لیے ایک چھوٹی سے چھوٹی جگہ پسند کرلی اور امام کے حکم کی اطاعت کی۔ پس ایک نظام کے اندر رہ کر کام کرو اور تمہارا امام جس کام کے لیے تمہیں مقرر کرتا ہےاُس کو کرو کہ تمہارے لیے وہی ثواب کا موجب ہوگا۔ تمہارے لیے وہی کام تمہاری نجات اور تمہاری ترقی کا باعث ہوگا۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ تبلیغ کےلئے نئے نئے رستے کھول رہا ہے۔ اِدھر مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اب کفر پر حملے کا وقت آ گیا ہے اور اُدھر چاروں طرف ایسے حالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اب اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد دنیا میں پھیلانے کا ہے۔ ایک ملک کا مَیں نے خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہاں کے ایک ایسے آدمی نے بیعت کرلی ہے جو بہت بڑا رسوخ اور اثر رکھنے والا ہے۔ مَیں نے مصلحتاً کہہ دیا تھا کہ اس ملک کا نام شائع نہ کیا جائے۔ اس کے بعد اب افریقہ سے ہمارے مبلغ مولوی نذیر احمد صاحب کی ایک تازہ چٹھی آئی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں عیسائیت کے خلاف اور اسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زبردست رَو چل پڑی ہے۔ کئی نواب اور رؤساء ہمیں چٹھیاں لکھ رہے ہیں کہ ہمارےپاس جلدی پہنچو اور ہمیں اسلام کی حقیقت بتاؤ۔ مگر ہم صرف دو آدمی ہیں ہر جگہ پہنچ نہیں سکتے لیکن لوگوں کا اصرار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور بعض تو ایک لمبے عرصے سے ہمیں بلا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم آدمیوں کی قلّت کی وجہ سے اُن تک نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے لکھا کہ ڈیڑھ سال سے ایک چیف ہمیں خط لکھ رہا تھا کہ جلدی آؤ اور مجھے اسلام کی حقیقت سمجھاؤ مگر ہم نہ جاسکے ۔اور اب خبر آئی ہے کہ وہ مرگیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے ہم کو بلاتا رہا مگر ہم نہ جاسکے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ رَو اس تیزی کے ساتھ چل رہی ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہندوستان سے 12مبلغ اِس ملک میں روانہ کیے جائیں۔ بہت سے نواب، رؤساء اور ہزاروں کی تعداد میں عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمارے مبلغ اُن کے پاس پہنچیں اور انہیں اسلام کی تبلیغ کریں۔ پس انہوں نے تبلیغ کے لیے 12 آدمیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ واقفینِ زندگی جن کو تیار کیا جا رہا ہے ان کے متعلق مَیں بتا چکا ہوں کہ اُن کی علمی میدان میں جماعت کا رعب قائم رکھنے کے لیے ضرورت ہے۔ پس انہیں اس تعلیم سے فارغ کرکے وہاں تبلیغ کے لیے نہیں بھجوایا جاسکتا۔ لیکن مَیں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد سے جلد اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سوال قطعاً سنا نہیں جاسکتا کہ تعلیم کا پانچ یا چھ یا سات گھنٹے وقت ہے۔ اگر وہ مسلسل چوبیس گھنٹے پڑھ کر بھی اپنی تعلیم کو جلد سے جلد مکمل کر لیتے ہیں تب بھی انہیں سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے پوری قربانی ادا نہیں کی۔ پس اُن سے تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں اور جماعت سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ ان کو اس کام سے چونکہ فارغ نہیں کیا جاسکتا اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے اَور نوجوان آگے بڑھیں اور ان اغراض کے لیے اپنے نام پیش کریں۔ اگر زمیندار گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو انہیں زمینوں کی نگرانی کے لیے بھیجا جاسکتا ہے یا ایسے مضبوط نوجوان جو زراعت میں گریجوایٹ تو نہ ہوں لیکن تعلیم یافتہ ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ بھی اپنے نام پیش کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو اکاؤنٹنٹ بنا دیا جائے گا،کسی کو منشی بنا دیا جائے گا اور کسی کو اَور کام سپرد کردیا جائے گا۔ مگر یاد رکھو زندگی وقف کرنے کے بعد انسان پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ صرف مرتد ہوکر ہی وہ واپس لَوٹ سکتا ہے۔ اس کے بغیر اس کے لیے کوئی صورت نہیں ہوگی۔
یہاں پچھلے دنوں ایک شخص نے غفلت کی۔ اُس نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی۔ مگر وقف کے بعد اس نے بدعہدی سے کام لیا جس پر مَیں نے اسے قادیان سے خارج کردیا اور مَیں نے کہہ دیا کہ صرف جلسہ سالانہ اور مجلس شورٰی کے دنوں میں دس دن کے لیے وہ قادیان آسکتا ہے۔ ان ایام کے علاوہ اسے قادیان آنے کی اجازت نہیں۔ یہ بھی درحقیقت اس سے نرمی ہی کی گئی ہے ورنہ اصل سزا یہی تھی کہ اسے جماعت سے خارج کردیا جاتا۔ پس جو شخص بھی آئے اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا رویہ ایسا قربانی والا ہو کہ وہ سمجھ لے اَب مَیں مر کر ہی اس کام سے ہٹوں گا اس کے علاوہ میرے لیے اور کوئی صورت نہیں۔
جب تک کوئی شخص اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف نہیں کرتا اُس وقت تک اس کا وقف اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ بہر حال جماعت میں ایسے ہمت والے لوگ موجود ہیں اور جبکہ خدا نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ سَو میں سے ننانوے ایسے ہی لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ پس وہ لوگ اپنے آپ کو پیش کریں جو مضبوط جسم والے ہوں، زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور محنت اور شوق سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس غرض کے لیے اگر ہمیں ایسے گریجوایٹ مل جائیں جنہوں نے زراعت کا امتحان پاس کیا ہو تو ان کو مینیجر اور بعض کو نائب مینیجر بنایا جاسکتا ہے اور جو کم تعلیم یافتہ ہوں ان کو اکاؤنٹنٹ یا منشی وغیرہ بنایا جاسکتا ہے۔
بہرحال ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی وہ سال ہیں جب اجناس کی قیمتیں زیادہ ہیں اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے نفع حاصل ہوسکتا ہے۔ اس طرح ان زمینوں کی آمد سے ایک بھاری ریزرو فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ ہم اپنی ساری زمینیں آزاد کرالیں مگر ابھی تک ساری زمینوں کو آزاد نہیں کرایا جاسکا۔ بہت سی آزاد کرالی گئی ہیں۔مگر اس میں تین چار لاکھ روپیہ ایسا ہے جو قرض لیا گیا ہے۔ میرا منشاء ہے کہ نہ صرف ہم اپنی تمام زمینیں آزاد کرالیں بلکہ انہی کی آمد سے چار پانچ سال کے عرصہ میں کم سے کم پچیس لاکھ روپیہ کا ایک اَور ریزرو فنڈ قائم کرلیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر کام کرنے والے محنت سے کام کریں، دیانتداری سے کام کریں، اخلاص سے کام کریں تو پچیس لاکھ روپیہ کا مزید ریزرو فنڈ قائم ہونا کوئی مشکل بات نہیں۔ پھر اس پچیس لاکھ روپیہ کو نفع پر لگایا جائے تو اس کی آمد سے بعض اور کام کیے جاسکتے ہیں۔ معمولی تجارت پر بھی اگر اس قدر روپیہ لگا دیا جائے تو پچیس لاکھ پر پچھتّر ہزار روپیہ نفع ہوسکتا ہے اور اگر اس روپے کو کسی اعلیٰ کام پر لگایا جائے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوسکتی ہے۔ اس طرح ایک ریزرو فنڈ سے آہستہ آہستہ دوسرا ریزرو فنڈ قائم ہوسکتا ہے اور دوسرے ریزرو فنڈ کی آمد سے تیسرا ریزرو فنڈ قائم ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ دو تین کروڑ بلکہ دو تین ارب تک یہ رقم پہنچ سکتی ہے۔ پھر پانچ ہزار ہی نہیں پانچ لاکھ مبلغ اگر ہم رکھنا چاہیں گے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سےرکھ سکیں گے۔ کیونکہ پانچ ہزار مبلغ کافی نہیں۔ چونکہ ہمارا کام جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے۔ اس لیے ہمارے مبلغ پانچ لاکھ ہونے چاہییں جن کا ایک حصہ تبلیغ کرے اور دوسرا حصہ تربیت کی طرف توجہ کرے۔ پس ایک تو یہ بات ہے جس کی طرف مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔
دوسرے مَیں نے بتایا ہے کہ افریقہ سے مطالبہ آیا ہے کہ وہاں بارہ مبلغوں کی ضرورت ہے۔ یہ مطالبہ بھی ایسا ہے جسے پورا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ کے لاکھوں بندے جو افریقہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اِس وقت غلامی میں مبتلا ہیں اور مصلح موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو پیشگوئی ہے اس میں ایک خبر یہ بھی دی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ یہ وہ قومیں ہیں جو حقیقی معنوں میں اسیر ہیں۔ ہزاروں سال سے ان اقوام کو حکومت نہیں ملی اور دوسروں کی غلامی اور ماتحتی میں ہی اپنی زندگی کے دن گزارتی چلی آرہی ہیں۔ آج یہ قومیں ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ، آؤ اور ہمیں حُریت کا سبق دو۔ خدا نے ہمیں اس کام کے لیے مقرر کیا ہے کہ ہم ان قوموں کو رستگاری بخشیں، ہم ان کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیں۔ اور نہ صرف انہیں ضمیر کی حُریت کا سبق دیں بلکہ ان کی جسمانی ذلت اور ظاہری نکبت کو بھی دور کریں۔ وہ قومیں تعلیم سے عاری ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری کریں اور ان میں عقل اور شعور پیدا کریں، انہیں تمدن اور تہذیب سے رہنا سکھائیں، ان میں تنظیم پیدا کریں اور پھر دین کی محبت اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کا مادہ ان میں پیدا کریں۔ دیکھو! وہ کس قدر قربانی کرنے والی قومیں ہیں۔ وہ اتنے جاہل اور تعلیم سے ناآشنا ہونے کے باوجود تمام مشنوں کا خرچ خود برداشت کر رہے ہیں۔ آپ ہی مدر سے چلاتے ہیں، آپ ہی مسجدیں بناتے ہیں، آپ ہی مبلغوں کو مختلف علاقوں میں مقرر کرتے اور ان کے گزارہ کا بندوبست کرتے ہیں۔ ابھی اُن کی تعلیم ایسی نہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے مبلغ پیدا کرسکیں جو تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہب کے متعلق اطمینان دلاسکیں۔لیکن بہرحال وہ بڑے اخلاص سے تمام کام کر رہے اور اپنے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں۔ اس علاقہ میں کام کرنے کے لیے کچھ عربی اور کچھ انگریزی کا جاننا ضروری ہے۔ ان کو تین چار مہینہ کی ٹریننگ دے کر اس ملک میں تبلیغ کے لیے بھجوا دیا جائے گا۔ وہاں انگریزی میں تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے۔ گو اعلیٰ درجہ کی انگریزی نہ آئےمگر ٹوٹی پھوٹی انگریزی ضرور آنی چاہیے۔ اسی طرح کسی قدر عربی کا آنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اسلامی مسائل ان کو سمجھائے جاسکیں۔ پس وہ لوگ جن کو کچھ کچھ عربی اور کچھ کچھ انگریزی آتی ہو وہ اس غرض کے لیے اپنے نام پیش کریں تاکہ ان کو فوراً افریقہ میں بھجوایا جاسکے۔ دیکھو وہ لوگ خرچ بھی کس قدر کفایت سے کرتے ہیں۔ ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ یہاں چالیس روپیہ میں ایک شخص کا گزارہ ہو جاتا ہے اور لکھا ہے کہ اگر چھ مہینے تک جماعت ان 12 مبلغین کا خرچ برداشت کرے تو اس کے بعد مقامی جماعتیں خود اس بوجھ کو اٹھا لیں گی۔ مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے چھ مہینے نہیں سال بلکہ دوسال تک بھی ان کے گزارہ کا انتظام کرسکتا ہوں۔اس کے بعد وہاں کی جماعتیں ان کے اخراجات کا بوجھ خود برداشت کرسکتی ہیں۔ بہرحال افریقہ کے ہزاروں لوگ ہمیں پکار رہے ہیں کہ ہم اسلام کی تبلیغ کے لیے اُن کے پاس پہنچیں۔ سیرالیون جس کا صدر مقام فری ٹاؤن ہے ایک نہایت ہی اہم مقام ہے۔ اگر اسلام وہاں سُرعت کے ساتھ پھیل جائے تو تمام افریقہ پر اس کا اثر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں اسلام پھیل جائے تو قریباً تمام مغربی افریقہ فتح ہو جاتا ہے۔ وہاں کی ساری آبادی ایک کروڑ ہے اور یہ ایک کروڑ افراد اگر خدا چاہے تو چند سالوں میں ہی احمدی ہوسکتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے جو ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی تعداد ہوگی۔
پس مَیں آج کے خطبہ میں جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ دو تحریکیں پیش کرتا ہوں۔ مَیں زیادہ تر وقفِ زندگی کی تحریک کرنے کے لیے ہی آیا تھا اور یہی وہ امر تھا جس کے لیے میں بیماری کی حالت میں اٹھ کر چلا آیا۔ مَیں کہہ نہیں سکتا کہ اِس وقت مجھے بخار ہے یا نہیں۔ کیونکہ بولنے کی وجہ سے مجھے اس کی حِس نہیں رہی۔ لیکن منہ کا ذائقہ خراب ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید بخار ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے افراد کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ان میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ زندگی وہی ہے جو دین کے لیے قربان ہوجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے پوچھا کہ تم کو وہ مال پسند ہے جو تمہارے کسی رشتہ دار کے ہاتھ میں ہو یا تم کو وہ مال پسند ہے جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کون ایسا شخص ہوسکتا ہے جو اس بات کو پسند نہ کرے کہ مال اس کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اُس کا مال اُس کے قبضہ میں ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر سُن لو۔ وہ مال جو تم خدا کے لیے خرچ کرتے ہو وہ تمہارا ہے اور وہ مال جو تم خدا کے لیے خرچ نہیں کرتے وہ تمہارے رشتہ داروں کا ہے۔ تم مر جاؤ گے تو تمہارے رشتہ دار آئیں گے اور اُس مال پر قبضہ کرکے لے جائیں گے۔8 پس یاد رکھو! وہ زندگی جو تم خدا کے لیے خرچ کرتے ہو وہی تمہاری زندگی ہے۔ لیکن وہ زندگی جو تم اپنے نفس کے لیے خرچ کرتے ہو وہ ضائع چلی گئی۔ جو شخص خدا کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے وہ چاہے کتنی ہی گمنامی کی زندگی بسر کرے، چاہے دنیا میں اُسے کوئی شخص نہ جانتا ہو آسمان پر خدا اُس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اُس کو اپنے قرب میں عزت و احترام کی جگہ دیتا ہے۔ پس مت خیال کرو کہ دین کے لیے اپنی زندگی قربان کرنا زندگی کو ضائع کرناہے۔ یہ زندگی کو ضائع کرنا نہیں بلکہ اُسے ایک قیمتی اور ہمیشہ کے لیے قائم رہنے والی چیز بنانا ہے۔
صحابہؓ کو دیکھو۔ انہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے قربان کردیں۔ مگر پھر ایک ایسا وقت آیا جب اسلام یورپ سے لے کر ایشیا تک پھیل گیا۔ اُس وقت امراء ہی نہیں اسلام کے علماء بھی کروڑ پتی بن چکے تھے۔ مگر پھر انہی امراء اور انہی علماء نے مل کر ایک ایک صحابؓی کا پتہ لگایا اور اس کے حالات کو کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ یہاں تک کہ وہ عورت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی اُس کا بھی انہوں نے پتہ لگایا اور اُس کے حالاتِ زندگی انہوں نے کتابوں میں درج کر دیئے۔کیا تم سمجھتے ہو اگر وہ عورت مدینہ کی بڑی بھاری تاجر ہوتی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحابیت کا شرف اُسے حاصل نہ ہوتا تو یہ عزت اُسے حاصل ہوسکتی؟ اگر وہ کروڑ پتی ہوتی تب بھی کوئی شخص اُس کے حالات سے دلچسپی نہ رکھتا اور آج کسی کو معلوم تک نہ ہوتا کہ مدینہ میں کوئی کروڑپتی عورت تھی۔ لیکن تیرہ سوسال کے بعد آج بھی اُس جھاڑو دینے والی عورت کے حالات ہمیں کتابوں میں نظر آرہے ہیں۔ جب وہ مر گئی تو ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا حال لوگوں سے پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا یارسولَ اللہ! فلاں؟ وہ عورت تو مر گئی اور ہم نے اُسے دفن کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ بتایا؟تمہیں چاہیے تھا کہ تم مجھے بتاتے تاکہ مَیں اس کے جنازہ میں شریک ہوسکتا۔9 تو وہ لوگ جو دین کی خدمت کرتے ہیں دنیا میں ہمیشہ کے لیے ان کی عزتیں قائم کردی جاتی ہیں۔ بے شک یہ کہنا کہ مجھے عزت ملنی چاہیے شرم کی بات ہے۔ مومن ایسا مطالبہ نہیں کیا کرتا۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی عزت دنیا میں ضرور قائم کی جاتی ہے۔ مومن کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ شبلی سے کسی نے پوچھا آپ اپنی عاقبت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے کیا امید رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا مَیں تو خدا سے یہی کہوں گا کہ خدایا! تُو بے شک مجھے دوزخ میں ڈال دے مگر مجھ سے راضی ہوجا۔حضرت جنیدؓ کہنے لگے۔ شبلی ابھی بچہ ہے۔ اگر خدا مجھے کہے کہ جنید! تم کیا چاہتے ہو؟ تو مَیں اُسے یہ کہوں کہ خدایا !جس میں تیری رضا ہے۔ اگر تُو جنت میں لے جانا چاہتا ہے تو جنت میں لے جا اور اگر تُو دوزخ میں داخل کرنا چاہتا ہے تو دوزخ میں داخل کردے۔10 اب دیکھو دوزخ کا خیال کرکے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے اور ایک منٹ کے لیے بھی دوزخ کے عذاب کو برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے بڑی بڑی قربانیاں کرنے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ خدایا! اگر تُو اسی طرح راضی ہونا چاہتا ہے تو بے شک دوزخ میں ڈال دے۔ حالانکہ دوزخ وہ چیز ہے جس کا خیال کرکے بھی انسان کانپ جاتا ہے۔ تو دنیا کا دوزخ کچھ چیزنہیں اور کوئی قربانی ایسی نہیں جس کا کرنا خدا اور اس کے دین کے لیے ایک مومن انسان کے لیے دوبھر ہو۔
ایک بزرگ تھے۔ اُن سے ایک دفعہ کسی علاقہ کے پانچ سو آدمی ملنے کے لیے گئے۔ جب زیارت کرچکے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ ہمیں کوئی ہدایت دیں تاکہ ہم اُس پر عمل کریں۔ وہ بزرگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مَیں نے سنا ہے ہندوستان میں ابھی اسلام پورے طور پر نہیں پھیلا اور وہ لوگ اس بات کے لیے بیتاب ہیں کہ مسلمان آئیں اور انہیں اپنے مذہب کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ میری خواہش ہے کہ آپ لوگ ہندوستان چلے جائیں اور وہاں اسلام کی تبلیغ کریں۔ وہ پانچ سو آدمی اُسی وقت وہاں سے اُٹھے اور ہندوستان کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہ اپنے گھر بھی نہیں گئے اور سیدھے ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لیے چل کھڑے ہوئے۔ یہی وہ قربانیاں تھیں جن کی وجہ سے آج ہمیں اپنے اندر اسلام نظر آرہا ہے۔ اگر ہمارے باپ دادا سُست ہوتے اور وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دلیری سے کرنے کے لیے تیار نہ رہتے تو کبھی اسلام ہم تک نہ پہنچتا۔ انہوں نے قربانی کی اور ہم تک اسلام پہنچا۔ اب ہم قربانی کریں گے تو باقی دنیا تک اسلام پہنچ جائے گا۔ پس یہ ہمارا کام ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو کریں اور چونکہ یہ کام درحقیقت خدا کا ہی ہے اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا ہمیں توفیق دے گا کہ ہم ایسا کریں۔ قادیان کے دوستوں کو اس خطبہ کے ذریعہ یہ تحریک پہنچ گئی ہے اور باہر کے دوستوں کو جب یہ خطبہ اخبار میں شائع ہوگا تو پہنچ جائے گی۔ مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد ان تحریکوں کے لیے اپنے نام پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں۔
اے خدا! جب تُو نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے تو میرے الفاظ میں برکت بھی دے اور میرے ہر کام کے لیے اپنی وحی کے ساتھ آدمی بھجوا اور پھر ان کی دنیا اور عاقبت کا محافظ ہوجا۔ اٰمِیْن"۔ (الفضل7؍اپریل 1944ء)


13
اشاعتِ دین کے لیے اموال
اور زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ
(فرمودہ 7؍اپریل 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"دنیا میں فوجیں حکومت کی طرف سے بھیجی جاتی ہیں ایک معیّن کام کے لیے اور ایک معیّن مقصود کے لیے۔ حملہ آور فوجوں کے افسروں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں قلعہ پر تم نے قبضہ کرنا ہے یا فلاں خندق پر قبضہ کرنا ہے یا فلاں شہر کو لینا ہے یا فلاں پہاڑی یا فلاں گھاٹ پر تم نے جھنڈا گاڑنا ہے۔ یہ آگے ان کی قسمت ہوتی ہے یا ان کی جدوجہد اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کام میں تین باتوں میں سے ایک کو حاصل کر لیتے ہیں۔ یا اس جگہ کو فتح کر لیتے ہیں یا فتح کرنے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں یا شکست کھا کر بھاگ جاتے ہیں ۔مگر بہرحال ان کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے، ایک معیّن مقصد یا ایک محدود غایت اور منزل۔ یا پھر قلعوں میں فوجیں بند ہوتی ہیں، چاروں طرف سے ان کا محاصرہ دشمن نے کیا ہوتا ہے، اُن کے افسروں کا حکم ان کو ملتا ہے کہ تم نے یہ محاصرہ توڑ کر باہر نکلنا ہے۔ اس جدوجہد میں بھی تین صورتیں ان کے سامنے ہوتی ہیں۔ اُن کی قسمت یا بدقسمتی یا کوشش اور سستی ان کو ان میں سے کسی ایک جگہ پر پہنچا دیتی ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ تینوں صورتیں مستحضر ہوتی ہیں۔ یا وہ محاصرہ کرنے والی فوج کو کاٹ کر باہر نکل جاتی ہیں یا باہر نکلنے کی کوشش میں ماری جاتی ہیں یا ہمت ہار کر ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔ مگر وائے قسمت اُس فوج کی جس کو ایسے حملہ کے لیے مقرر کیا گیا ہے جس کی کوئی تعیین نہیں، کوئی حدبندی نہیں۔ وہ نہیں جانتی کہ کس مقام پر اُس نے حملہ کرنا ہے۔ اور درحقیقت وہ اس کو جان سکتی ہی نہیں کیونکہ جن قلعوں پر حملہ کرنا اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ زمین دوز ہیں۔ باہر ان کا کوئی نشان نہیں۔ بلکہ وہ انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں ہیں۔ اس کو ان اندرونی سرنگوں کا کوئی علم نہیں جو مستقبل زمانہ کے لیے اندر ہی اندر کھو دی گئی ہیں۔ہر زمانہ کا ایک خیال اور ہر زمانہ کی ایک قوم ہوتی ہے۔ کبھی چین کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہوتا ہے اور کبھی جاپان کے لیے، کبھی عرب کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہوتا ہے اور کبھی فلسطین کے لیے، کبھی مصر اور شام کے لیے مقدر ہوتا ہے،کبھی مغرب کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہوتا ہے اور کبھی مشرق کے لیے مقدر ہوتا ہے اور وہی قوم مستقبل میں کامیابی کا منہ دیکھتی ہے جو اس قوم کو جس کے لیے آئندہ زمانہ میں آگے بڑھنا مقدر ہے اپنے ساتھ ملا لیتی ہے۔ جب دنیا میں انبیاء صرف ایک ہی قوم کی طرف آیا کرتے تھے اُن کا کام آسان ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی کی قوم کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مُنہ سے ساری دنیا کو مخاطب کرنا شروع کیا تب سے یہ بات مشتبہ ہو گئی کہ کونسی قوم ہے جس کا آگے بڑھنا مقدر ہے اور اس وجہ سے روحانی جماعتوں کا کام نہایت ہی مشکل ہوگیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں یہ آسانی تھی کہ اُس زمانہ میں شریعت کے قیام کا سوال تھااور شریعت لانے والے انبیاء کی زندگی میں ہی حکومت مل جایا کرتی ہے۔ ایک قوم تھی جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا پڑھایا اور پھر اسی کے ہاتھ میں حکومت آگئی اور اس نے اسلام کو پھیلایا۔ مگر جو کام ہمارے سپرد ہے وہ بہت ہی مشکل ہے۔ ہمیں کوئی علم نہیں کہ کونسی قوم ہے جس کا بڑھنا اس زمانہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے۔ احمدیت کا چھینٹا تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں دے دیا ہے۔ کوئی یہاں کوئی وہاں، کوئی اِس ملک سے کوئی اُس ملک سے، کوئی اِس مذہب سے کوئی اُس مذہب سے احمدیت کو قبول کرتا جارہا ہے۔ مگر کوئی معیّن صورت ہمارے سامنے نہیں جس سے مستقبل کا اندازہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک جدید کے شروع میں مَیں نے کہا تھا کہ مکہ کا تو ہمیں علم ہوگیا اب ہمیں احمدیت کے مدینہ کی تلاش کرنا ہے۔ نادانوں نے میرے کلام کی عظمت کو نہ سمجھتے ہوئے شور مچا دیا اور کہا آؤ تمہیں بتا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں فوت ہوئے تھے اس لیے احمدیت کا مدینہ لاہور ہے۔ ان کے نزدیک مدینہ کی عظمت صرف اسی میں ہے کہ وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوئے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔
مدینہ کی اصلی عظمت اس میں ہے کہ اس نے دین کو لیا اور پھر تلواروں کے سایہ کے نیچے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ تو جب مَیں نے مدینہ کہا تھا تو اس کے معنے یہ تھے کہ دنیا میں آئندہ چلنے والی رَو کا پتہ لگایا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اِس زمانہ میں کس قوم کے لیے بڑھنا مقدر ہے اور دیکھا جائے کہ وہ مدینہ سرزمینِ ہند ہے یا کوئی اَور ملک۔ جس نے اس زمانہ میں نقطۂ مرکزیہ بننا ہے،جس نے احمدیت کے لشکر کو سمیٹنا اور پھر اسے آگے بڑھانا ہے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کسے یہ فخر حاصل ہوگا۔ بظاہر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو چُنا ہے اِس لیے پہلا حق ہمارا ہے۔ لیکن اگر ہم خود سستی سے پلوٹھے ہونے کا حق کھو دیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی۔ جہاں تک اسلام کی ترقی کا سوال ہے۔بلحاظ اس کے کہ سب انسان بھائی بھائی ہیں ہمیں کوئی شکوہ نہیں کہ احمدیت کا جھنڈا دنیا کی بلندیوں پر، خواہ کوئی قوم گاڑ دے۔ مگر جہاں تک دینی جدوجہد کا سوال ہے اس بارہ میں باہم رشک کرنا جائز ہے۔ اس لیے ہم اگر یہ رشک کریں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو مکہ بننے کے لیے چُنا ہے مدینہ بھی یہی ہو اور اسلام و احمدیت کی فتوحات ہمارے ذریعہ سے ہوں۔ اور یہ کوئی بُری بات نہیں۔ ایسا خیال اور ایسی خواہش رکھتے ہوئے ہم اپنے چینی بھائیوں سے غداری نہیں کریں گے، جاپانیوں، روسیوں، فرانسیسیوں سے غداری نہیں کریں گے، سپینش بھائیوں سے غداری نہیں کریں گے کیونکہ یہ دین کی خدمت کا سوال ہے اور اس میں رقابت جائز ہے۔ اِسی طرح ان اقوام کے دل میں بھی یہی خواہش ہو کہ وہ بغیر کسی پر ظلم کیے اور کسی کو پیچھے ہٹائے احمدیت کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے والی ہوں تو ہمیں شکایت کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے سوال میں بھائی بھائی کا مقابلہ کرنے اور اُس سے آگے بڑھنے میں حق بجانب ہوتا ہے۔ جب محبوب کے پاس جانے کا سوال ہو تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا خیال اور اس کی خواہش ناجائز نہیں ہوتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیشگوئی میں اجتہادی غلطی کے ماتحت اس ارادہ کے ساتھ مکہ کی طرف گئے کہ عمرہ کریں گے۔ جب مکہ والوں کو علم ہوا تو انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھانے اور یہ بتانے کے لیے کہ ہم محض عمرہ کے لیے آئے ہیں لڑنے اور اپنی فوقیت جتانے کے لیے نہیں آئے اور اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ ہم عمرہ کرلیں ایک سفیر اہلِ مکہ کی طرف بھیجنا چاہا۔ اس کے لیے مختلف صحابہؓ کے نام تجویز ہوئے۔ مگر سب کی رائے یہی تھی کہ حضرت عثمانؓ اس کام کے لیے موزوں ترین ہیں۔ ان کے خاندان کا رسوخ بھی زیادہ ہے۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو اس سفارت پر جانے کا حکم دیا۔ حضرت عثمانؓ گئے اور مکہ والوں سے بات چیت شروع کی۔ مکہ والوں نے کہا کہ اگر مسلمان عمرہ کر جائیں تو یہ ہماری ہتک ہے۔ لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور سے عمرہ کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو سمجھایا کہ اس میں تلوار کا کوئی سوال نہیں۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی عبادت کا سوال ہے اور ہم عبادت کے لیے آئے ہیں اور ہم یہ نہ کہیں گے کہ ہم نے زور سے عمرہ کیا بلکہ کہیں گے کہ مکہ والوں کا احسان ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ یہ ہرگز نہ ہوگا۔ بحث ہوتی رہی اور ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دیر ہوگئی اور شام کا وقت ہوگیا۔ ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ حضرت عثمانؓ کی واپسی کے منتظر تھے۔ جب ان کے واپس آنے میں اتنی دیر ہوگئی تو آپؐ نے خیال کیا کہ شاید مکہ والوں نے، جو اخلاق کے تمام ضابطوں کو توڑ چکے ہیں عثمانؓ کو شہید کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات کے لیے بڑا حسّاس تھا کہ جسے آپؐ کوئی کام سپرد کریں اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اپنی اس ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپؐ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے جو صحابہ آپؐ کے گرد بیٹھے تھے اُن سے آپؐ نے فرمایا کیا آج تم میرے ہاتھ پر ایک بیعت کے لیے تیار ہو؟ آؤ مَیں اور تم آج ایک اقرار کریں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اگر مکہ سے یہ خبر آئی کہ اہلِ مکہ نے عثمانؓ کو شہید کردیا ہے تو مَیں اور تم یہ اقرار کریں کہ اب اس جگہ سے زندہ واپس نہ جائیں گے بغیر اس کے کہ یا تو دشمن کو شکست دے کر آئندہ کے لیے رستہ صاف کرلیں یا پھر یہیں مارے جائیں گے۔ کیا تم اس پر راضی ہو؟ صحابہؓ نے کہا یارسول اللہ! بڑی خوشی سے راضی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا پھر آؤ بیعت کرو۔1
آپؐ کے ارد گرد چند صحابہؓ اُس وقت بیٹھے تھے باقی اِدھر اُدھر تھے۔ کسی نے بلند آواز سے اُن کو بھی اطلاع دی اور جس جس کے کان میں یہ آواز پڑتی گئی وہ دوڑتا چلا آتا تھا اور بیعت کااِس قدر زور تھا کہ صحابہؓ کہتے ہیں ہماری کیفیت یہ تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کا خوف نہ ہوتا تو تلوار سے ایک دوسرے کی گردن کاٹ کر بھی پہلے بیعت کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے دور دور تک نگاہ کی اور دیکھا کہ ان کے والد حضرت عمرؓ وہاں نہ تھے۔ ان کی بیٹا ہونے کی عصبیت ذاتی جوش پر غالب آگئی اور وہ دوڑ پڑے تا اپنے والد کو تلاش کرکے لائیں۔ آخر حضرت عمرؓ ان کو ایک جگہ مل گئے اور وہ ان کو لے آئے اور سب نے بیعت کی۔ وقت گزر گیا اور معلوم ہؤا کہ حضرت عثمان کی شہادت کا خیال صحیح نہ تھا۔ انہیں گفتگو میں دیر ہوگئی تھی۔ اہل مکہ نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ آپ آئے ہوئے ہیں آپ چاہیں تو عمرہ کرلیں۔ مگر آپ نے کہا کہ وہ عمرہ جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا گیا ہے میرے لیے حرام ہے۔ وہ وقت گزر گیا مگر اس بیعت کو صحابہ اپنے عظیم الشان کارناموں میں شمار کرتے تھے اور فخر کے ساتھ اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ کوئی کہتا مَیں نے پہلے بیعت کی اور کوئی کہتا فلاں کے بعد مَیں نے کی۔ کسی مجلس میں ایک دفعہ اِسی طرح ذکر ہو رہا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی اس مجلس میں تھے اور حضرت عمرؓ بھی۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ مَیں سب سے پہلے بیعت کرسکتا تھا مگر مَیں نے دیکھا کہ میرے والد اس مجلس میں نہ تھے۔ مَیں نے خیال کیا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہ جائیں اور اُن کی تلاش میں چلا گیا اور اس طرح مجھے دیر ہوگئی۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ بات سنی تو کہا خدا کی قسم! اگر مَیں تمہاری جگہ ہوتا تو پہلے خود بیعت کرتا اور تمہاری تلاش کے لیے نہ جاتا۔ تو بات یہی ہے کہ دینی امور میں خدا تعالیٰ کی قربت کا سوال ہوتا ہے اس لیے قریبی سے قریبی اور عزیز سے عزیز سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ناجائز نہیں۔ ناپسندیدہ اور قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کوئی عورت نماز میں کمی نہیں کرتی اس خیال سے کہ اپنے خاوند سے ثواب میں آگے نہ بڑھ جائے اور کوئی خاوند اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس لیے کوتاہی نہیں کرتا کہ اس کی بیوی پیچھے نہ رہ جائے۔کوئی بھائی بھائی اور کوئی باپ بیٹے اور کوئی بیٹا باپ سے آگے بڑھ جانے کے خوف سے نیکیوں میں کمی نہیں کرتا۔ بلکہ ہر شخص آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ اٰتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلٰى هَلَـكَتِهٖ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ اٰتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا2 یعنی فرمایا اللہ تعالیٰ کے نبی نے کہ دو باتیں ہیں جن میں حسد کرنا جائز ہے۔ ان کے سوا کسی میں جائز نہیں۔ ان دو میں بے شک باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے، بھائی بھائی سے حسد کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ باتیں روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ دو کیا ہیں؟ ایک یہ کہ ایسے آدمی کی حالت کے متعلق کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے مال دیا اور اُسے اپنا مال اللہ تعالیٰ کے رستہ میں ہلاک کرنے کی توفیق دی گئی۔ اگر اس بات میں کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو یہ بالکل جائز ہے۔ دوسرے اس موقع پر جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو علم، حکمت اور تفقّہ عطا کیا ہو اور وہ اسے دنیا میں نافذ کرتا اور لوگوں کو دین سکھاتا ہے۔ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کا میں گزشتہ دو خطبوں میں جماعت سے مطالبہ کر چکا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی میری اس تحریک کی تصدیق فرماتے ہیں۔ مَیں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں جو اپنے مال دین کے لیے وقف کریں اور ایسے نوجوان آگے آئیں جو دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ تا انہیں علم سکھا کر دین کے کاموں پر لگایا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ دو باتیں ایسی ہیں جن میں حسد جائز ہے۔ خدا تعالیٰ یہ کسی سے ہرگز نہیں پوچھے گا کہ مَیں نے تجھے مال دیا تھا جو تُو خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگا تھا کہ تیرے ماں باپ یا بیوی بچوں یا دوسرے رشتہ داروں نے ایسا کرنے سے تجھے روکا تو تُورُکا کیوں نہیں؟ یا دین کو چند مخلص خدام کی ضرورت تھی تیرے دل میں خیال آیا کہ اپنی زندگی وقف کردوں مگر تیرے ماں باپ اس کے خلاف تھے، وہ تجھے روکنا چاہتے تھے تو تُو رُکا کیوں نہیں۔ خدا تعالیٰ یہ سوال کسی سے نہ کرے گا۔ بلکہ کہے گا کہ اے شخص! میں نے تجھے مال دیا تھا تُو نے اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا مگر تیرے ماں باپ یا بیوی بچوں نے اسے روکا اور تیرے رستے میں کھڑے ہوگئے۔ پھر بھی تُو رُکا نہیں بلکہ میری راہ میں دے دیا۔ اب میری جنت تیرا مال ہے۔ جا اور اس پر قبضہ کرلے۔ وہ یہ نہیں کہے گا کہ دین کے لیے زندگی وقف کرنے کے لیے تجھ سے مطالبہ کیا گیا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین پر آفت آئی ہوئی تھی، جب اسلام مددگاروں کے لیے چِلّا رہا تھا تُو نے خیال کیا کہ اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردے۔ مگر تیرے ماں باپ اور بیوی بچے اس کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ کیوں زندگی کو ضائع کرنے لگا ہے۔ تیرے ماں باپ جن کے احترام کا مَیں نے حکم دیا ہے، تیری بیوی جس کے ساتھ حُسنِ سلوک کا میں نے حکم دیا ہے تجھے روکتے تھے مگر تُو پھر بھی نہ رُکا۔ تُو نے ایسا کیوں کیا اور کیوں ان کی بات نہ مانی۔ بلکہ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے یہ کہے گا کہ جس وقت اسلام مصیبت میں تھا، جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح مدد کے لیے پکار رہی تھی تُوآگے بڑھا کہ اسلام کی خدمت کرے۔اُس وقت تیرے ماں باپ جنہوں نے تجھے پالا تھا اور پڑھایا تھا انہوں نے اپنی ان خدمتوں کا واسطہ دے کر تجھے روکنا چاہا مگر پھر بھی تُو نہ رُکا۔ اے شخص! تُو نے میری خاطر ماں باپ کو چھوڑ دیا، بیوی بچوں کی کوئی پروا نہ کی اور رشتہ داروں سے قطع تعلق سے نہ ڈرا۔ پس آج مَیں ہوں تیری ماں اور مَیں ہوں تیرا باپ۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے مومن قربانی کرتا ہے۔ بائبل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ان کی ماں مامتا سے بے قرار ہوکر ان کے پاس پہنچیں تو کسی نے اُس سے کہا دیکھ! تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی"۔3 پھر واقعۂ صلیب سے قبل حضرت مسیح علیہ السلام کی دُور کی ماں اور اُس کی ماں کی بہن مریم، کلو پاس کی بیوی اور مریم مگدلینی کھڑی تھیں۔ حضرت مسیحؑ نے اپنی ماں اوراُس شاگرد کو جس سے محبت رکھتا تھا، پاس کھڑے دیکھ کر ماں سے کہا کہ اے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔ پھر شاگرد سے کہا دیکھ! تیری ماں یہ ہے اور اُسی وقت وہ شاگرد اُسے اپنے گھر لے گیا"۔4 گویا آپ نے ایک طرف تو یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کا حق ادا کردیا کہ میرے بھائی اور ماں میرا خدا ہے اور اِس خیال سے کہ ماں ہونے کی حیثیت سے اُس کا بھی حق ہے مَیں جب دین کی خاطر پھانسی پا کر اس کی گود کو خالی کررہا ہوں اور اسے بے کس چھوڑ کر جا رہا ہوں تو اس کی دلجوئی کی صورت بھی پیدا کروں۔ اور پہلے جو کہا تھا کہ کون ہے میری ماں۔ اُس کا ازالہ اِس طرح کردیا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ آج سے تُو اس کو اپنی ماں کی طرح سمجھنا۔ اور ماں سے کہا کہ مجھے اپنے اِس شاگرد پر اتنا اعتماد ہے کہ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ مَیں جو حکم اسے دوں گا اسے پورا کرے گا۔ پس آج سے تُو اِس کو اپنا بیٹا سمجھ کر جو حکم چاہے دے کہ یہ اُسی طرح تیری دلجوئی کرے گا جس طرح مَیں تیری دلجوئی کرسکتا تھا۔
تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے مومن کی جان اور مال ہمیشہ حاضر ہوتی ہے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کہاں سے حملہ کیا جائے گا یا کب اور کس صورت میں کیا جائے گا۔ لیکن ہمیں ہر وقت اس کے لیے تیار رہنا چاہے۔ کئی ہیں جو فوری جوش کے ماتحت تو قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں لیکن اگر سال دو سال کے بعد مانگا جائے تو پس و پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اِدھر ہمارا کارڈ پہنچے گا اور اُدھر سے مطالبہ آجائے گا کہ لاؤ دے دو۔ ایسے لوگ جو فاصلہ کی لمبائی سے غافل ہوتے ہیں ہمیشہ موقع پر پیٹھ دکھانے والے ثابت ہوتے ہیں۔ پس مومن کو کبھی غافل نہ ہونا چاہیے اور جب بھی اُس سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے خواہ وہ سال کے بعد ہو یا دس بیس سال کے بعد اُسے تیار ہونا چاہیے۔جس طرح خدا تعالیٰ کے انعامات کا وقت مقرر نہیں،اُس نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے آج مانگو گے تو دوں گا کل نہیں دوں گا اُس کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کُھلے رہتے ہیں اِسی طرح مومن کو بھی ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت کا انتظار اور عدمِ انتظار سے تعلق نہیں اُس کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اِسی طرح بندہ کو قربانی کے لیے بھی ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ مومن اور مخلص وہی ہے جو دین کی راہ میں قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ جو سمجھتا ہے کہ دین کا نمائندہ اور ذمہ دار میں ہی ہوں وہ دوسروں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنے آپ کو ہی سارے کام کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ جب تک ہر شخص کے دل میں یہ بات راسخ نہیں ہوجاتی کہ مَیں ہی اللہ تعالیٰ کا واحد ایجنٹ ہوں اِس دنیا میں، خیر و برکت دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی۔ نہ مذہب ترقی کرسکتا ہے اور نہ مذہب کے ماننے والے روحانیت حاصل کرسکتے ہیں۔ میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں کہا تھا کہ اگر روحانیت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تم میں سے ہر شخص محمدؐ بننے کی کوشش کرے۔ جب تک یہ کوشش نہ کی جائے، جب تک ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ نہ سمجھے، جب تک ہر شخص یہ نہ سمجھے کہ کوئی کرے یا نہ کرے مَیں نے اپنا فرض ضرور ادا کرنا ہے اور میرا فرض ہے کہ مَیں دین کا کام کروں اُس وقت تک وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ مومن اِس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی جتھا ہو، اس کا کوئی مددگار اور سہارا دینے والا ہو۔ وہ اپنی قربانی پیش کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ باقی خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ جو چاہے کرے۔ وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میری قربانی کوئی کام نہیں آسکتی اور اس سے کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا۔
تاریخِ اسلام کی ان باتوں میں سے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں ایک بات ایک ہسپانوی جرنیل کی ہے جن کا نام غالباً عبدالعزیز تھا۔جب سپین میں مسلمانوں کی طاقت اِتنی کمزور ہوگئی کہ اُن کے ہاتھ میں صرف ایک قلعہ رہ گیا جو آخری قلعہ تھا تو عیسائیوں نے ان کے سامنے بعض شرائط پیش کیں اور کہا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو ان کو مان لو۔ وہ شرائط ایسی تھیں کہ جنہیں مان کر اسلام سپین میں عزت کے ساتھ نہ رہ سکتا تھا۔ بادشاہِ وقت ان شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا۔ دوسرے جرنیل بھی تیار تھے۔ مگر یہ جرنیل کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! کیا کرتے ہو؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ عیسائی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے؟ ہمارے باپ دادا نے سپین میں اسلام کا بیج بویا تھا اب تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اس درخت کو گرانے لگے ہو!! ان لوگوں نے کہا کہ سوائے اِس کے ہو کیا سکتا ہے۔ دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت ہے ہی کیا۔ اس جرنیل نے کہا یہ سوال نہیں کہ دشمن کے کامیاب مقابلہ کی صورت کیا ہے۔ نہ ہمیں اس کے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ مر جائے مگر ان شرائط کو تسلیم نہ کرے۔اس طرح یہ ذلت تو نہ اٹھانی پڑے گی کہ اپنے ہاتھ سے حکومت دشمن کو دے دیں۔ جو کچھ تمہارے اختیار کی بات ہے وہ کردو اور باقی خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ یہ بات سُن کر وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ اِس قربانی کا کیا فائدہ؟ اور سب نے انکار کیا۔ مگر اس نے کہا کہ اگر تم اس بے غیرتی کو پسندکرتے ہو تو کرو مَیں تو اپنے ہاتھ سے اسلامی جھنڈا دشمن کے حوالہ نہ کروں گا۔ قریباً ایک لاکھ کا لشکر تھا جو قلعہ کے باہر جمع تھا۔ وہ اکیلا ہی تلوار لے کر باہر نکلا، دشمن پر حملہ کردیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔ بے شک اس کی شہادت کے باوجود سپین میں مسلمانوں کی حکومت تو قائم نہ رہ سکی مگر اُس کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گیا اور موت اُسے مٹا نہ سکی۔ وہ بادشاہ اور جرنیل جنہوں نے اُس کے مشورہ کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جانیں بچانی چاہیں وہ مٹ گئے۔ اُن کا ذکر پڑھ کر اور سن کر ہم اپنے نفسوں کو بڑے زور سے اُن پر *** کرنے سے روکتے ہیں۔ لیکن کبھی سپین کے حالات کا مَیں مطالعہ نہیں کرتا یا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ باتیں میرے ذہن میں آئی ہوں اور اس جرنیل کے لیے دعائیں نہ نکلتی ہوں۔ اس کے خون کے قطرے آج بھی سپین کی وادیوں میں ہم کو آوازیں دیتے ہیں کہ آؤ! اور میرے خون کا انتقام لو۔ بے شک وہ بہادر جرنیل مرگیا۔ مگر مرنا ہے کیا؟ کیا یوں لوگ نہیں مرتے؟ کیا وہ بادشاہ اور جرنیل جو دشمن سے نہ لڑے، مر نہ گئے؟ وہ بھی ضرور مرگئے لیکن اُن کے لیے ہمارے دلوں سے *** نکلتی ہے اور اِس جرنیل کے لیے دعائیں۔ آج بھی اس کی کشش ہمیں سپین کی طرف بُلا رہی ہے اور اگر مسلمانوں کی غیرت قائم رہی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے ظاہر ہوتا ہے نہ صرف قائم رہے گی بلکہ ترقی کرے گی اور پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہوگی۔ تو وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل کے خون کے قطروں کی پکار، اس کی جنگلوں میں چِلّانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی اور سچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے۔ اُس کی روح آج بھی ہمیں بلا رہی ہے اور ہماری روحیں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہیدِ وفا! تم اکیلے نہیں ہو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سچے خادم منتظر ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی وہ پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے۔ یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں۔مخالف امن پسندوں پر بھی تلوار کھینچ کر اُن کو مقابلہ کی اجازت دِلوا دیا کرتے ہیں۔ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امن پسند نہ تھے مگر مخالفین کے ظلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو مقابلہ کی اجازت دے دی۔ جیسا کہ فرمایا اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ۝5 جن لوگوں کو خوامخواہ نشانۂ مظالم بنایا گیا ہے اب اُن کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں۔ پس سپین کے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ و تعلیم سے ہی کفر وشرک کو چھوڑ دیں گے۔ اور یا پھر ہم پر اتنا ظلم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہوجائےگی اور وہ جنہوں نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا، کان پکڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں اور اس اکیلے لڑنے والے کی روح ناکام نہیں رہے گی۔ پس کبھی یہ خیال نہ کرو کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ یہ منافقوں والی بات ہے جنہوں کہا تھا کہ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنٰكُمْ6 یعنی اگر ہم کو پتہ ہوتا کہ یہ قتال ہے تو ہم ضرور ساتھ چلتے۔ مگر یہ قتال نہیں بلکہ خودکشی ہے اس لیے ساتھ نہ گئے۔ پس خودکشی ہو یا کچھ، ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی فتح کے لیے مال اور جان کی قربانی کے لیے کھڑے ہوں۔ دوسروں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اپنا فرض ادا کریں۔ جو ایسا کرے گا آئندہ نسلیں اُس پر درود بھیجیں گی۔ لیکن جو غداری کرے گا اور پیٹھ دکھائے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے۔ لاکھوں کروڑوں صالحین کی لعنتیں اُس پر پڑتی رہیں گی"۔(الفضل6مئی1944ء)

14
خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام جماعت احمدیہ کے نام
روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے
(فرمودہ 14؍اپریل 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کے انبیاء جب کبھی دنیا میں آتے ہیں اُن کے ساتھ قیامت کا وجود بھی وابستہ ہوتا ہے۔ اِسی لیے جب بھی کوئی نبی دنیا میں آیا اُس نے اپنے بعد ایک قیامت کی بھی خبر دی ہے۔ ایک قیامت تو اس کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو ترقی دیتا، اُسے دنیا میں غلبہ عطا کرتا اور اُسے نئے سرے سے زندگی بخشتا ہے۔ اور ایک قیامت اس کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ گویا ایک طرف اگر اس کے ذریعہ دنیا میں حشر برپا ہوجاتا ہے تو دوسری طرف ہلاکت کا عذاب دنیا کے ایک حصہ پر وارد ہوجاتا ہے۔ اور قیامت بھی دو ہی طرح ہوگی۔ ایک حشر کے ذریعہ اور ایک ہلاکت کے ذریعہ۔ قیامت اِسی کا نام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ مر جائیں گے۔ اور قیامت اسی کا نام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ زندہ ہوجائیں گے۔ پس قیامت کے دو حصے ہیں۔ ایک لوگوں کا مرجانا اور ایک لوگوں کا زندہ ہو جانا۔ جب کبھی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آیا ہے یہ دونوں باتیں ظاہر ہوئی ہیں۔ اس کے ذریعہ لوگ مر بھی گئے ہیں اور اس کے ذریعہ قوم زندہ بھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس کے دشمن تھے وہ بحیثیت قوم تباہ کر دیئے گئے اور جو لوگ اس کے ساتھی تھے وہ بحیثیت قوم ترقی پاگئے۔ اور یوں بھی نبیوں کے رخصت ہونے پر ایک قیامت دنیا میں آجاتی ہے۔ اتنا عظیم الشان انسان جس کا کام خدا تعالیٰ سے خبریں پانا، اپنی جماعت کو تسلی دینا، اس کے لیے دن رات دعائیں کرنا اور ہدایت اور رُشد کے سامان اس کے لیے مہیا کرنا ہواُس کا دنیا سے اُٹھ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ قیامت آنے والی ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ قیامت کے اس مفہوم کو نہیں سمجھتے اور یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اس نبی کے کچھ عرصہ بعد دنیا کے تمام لوگ یکدم مر جائیں گے اور اُن پر قیامت آجائے گی۔ مگر جب کچھ عرصہ گزر جاتا ہے اور لوگ نہیں مرتے تو باوجود اس کے کہ بے وقوفی ان کی اپنی ہوتی ہے کہ قیامت کے انہوں نے وہ معنے سمجھے ہوتے ہیں جو حقیقت میں نہیں ہوتے وہ اس طرف مائل ہونا شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ بات ہی غلط ہے کہ قیامت آنے والی ہے۔ حالانکہ جو معنے انہوں نے سمجھے ہوتے ہیں وہی غلط ہوتے ہیں۔ اور قُربِ قیامت کے معنے یہ ہوتے ہی نہیں کہ وہ قیامت آنے والی ہے جس میں تمام دنیا فنا کر دی جائے گی۔ اس قیامت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ ہمارے ہی علم میں ہے کہ کب آئے گی کسی اَور کو اُس کا علم نہیں۔1 پس نبی کی بعثت کے ساتھ جو قیامت وابستہ ہوتی ہے وہ وہی تین قسم کی قیامت ہوتی ہے جس کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہےیعنی اس کے دشمنوں کی عام تباہی، اُس کے دوستوں کی عام ترقی اور پھر نبی کی وفات کے ساتھ جو تہلکہ واقع ہوتا ہے وہ بھی ایک بہت بڑی قیامت ہوتی ہے۔ آخر انسان کے لیے قیاس کا سامان موجود ہے۔ لوگوں کے باپ مرتے ہیں، لوگوں کی مائیں مرتی ہیں، لوگوں کی بیویاں مرتی ہیں، لوگوں کے بچے بلکہ اکلوتے بچے مرتے ہیں، لوگوں کے بھائی مرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے اپنے ان عزیزوں کی وفات کس قدر صدمے کا موجب ہوتی ہے۔ پھر وہ یہ خیال کرلیں کہ جو شخص ساری دنیا کا باپ تھا، جو ساری دنیا کی ماں تھی، جو ساری دنیا کی پرورش کرنے والا تھا اُس کی موت کتنا عظیم الشان حادثہ نہ ہوگا۔ اس کی موت کے ساتھ ہزاروں نہیں لاکھوں یتیم ہوجاتے ہیں۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اُس کی موت کے ساتھ ساری دنیا یتیم ہوجاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنے یُتم کا احساس ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو اپنے یُتم کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ شخص جس کا کوئی بچہ گم ہوجائے اگر اُس کا وہی گمشدہ بچہ کسی دوسرے وقت اُسی شہر میں آجائے جس میں اُس کا باپ رہتا ہو اور وہ کوئی پیشہ اختیار کرلے مگر اُسے پتہ نہ ہو کہ میرا باپ بھی اِسی شہر میں رہتا ہے تو جس دن اُس کا باپ مرے گا، اُس دن جس طرح اُس کے دوسرے بیٹوں پر قیامت آئے گی اُسی طرح اُس پر بھی قیامت آجائے گی۔ مگر اسے پتہ نہیں ہوگا کہ مجھ پر قیامت آئی ہوئی ہے۔ اِسی طرح انبیاء کی وفات ساری دنیا کے لیے قیامت ہوتی ہے۔ مگر فرق یہ ہوتا ہے کہ کچھ بچوں نے اپنے باپ کو پہچان لیا ہوتا ہے اور کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے باپ کو پہچانا نہیں ہوتا۔ مثلاً جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی وفات ویسی ہی قیامت تھی صحابہؓ کے لیے جیسے وہ قیامت تھی یہودیوں کے لیے، جیسے وہ قیامت تھی عیسائیوں کے لیے، جیسے وہ قیامت تھی زرتشتیوں کے لیے، جیسے وہ قیامت تھی جینیوں کے لیے اور بدھوں کے لیے۔ کیونکہ جو نور آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے وہ ساری دنیا کے لیے تھا۔ وہ نور عیسائیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور یہودیوں کے لیے بھی تھا،وہ نور زرتشتیوں کے لیے بھی تھا،وہ نور چینیوں کے لیے بھی تھا،وہ نور جاپانیوں کے لیے بھی تھا، وہ نور جزائر کے رہنے والوں کے لیے بھی تھا۔ اور روحانی طور پر آپ ہر قوم کے باپ تھے۔ مگر فرق یہ تھا کہ صحابہؓ نے اپنے باپ کو پہچان لیا تھا لیکن انہوں نے نہ پہچانا تھا۔ پس قیامت تو دونوں پر آئی۔ لیکن اس کا اندازہ احساس کی وجہ سے صرف صحابہؓ کو ہوا، دوسروں کو نہ ہوا۔ ورنہ نقصان سب کو یکساں برداشت کرنا پڑا۔غرض جب ایک شخص کی موت اُس کے رشتہ داروں میں کہرام مچا دیتی ہے تو انسان خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ وہ شخص جس سے ساری خوبی وابستہ ہو، جس سے ساری نیکی وابستہ ہو، جس سے ساری ہدایت وابستہ ہو اُس کی موت کس قسم کی آفت اور مصیبت نہ ہوگی۔
کیا ہی لطیف پیرایہ میں اِس حقیقت کو ہندوستان کے ایک مشہور شاعر نے بیان کیا ہے۔غالب کی بیوی کا ایک بھتیجا یا بھانجا تھا جسے اُس نے بچپن سے پالا ہوا تھا۔ جب وہ مرا تو غالب نے اُس کی وفات پر کہا ؎
مرتے ہوئے کہتے ہیں قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اَور2
یعنی میرا وہ عزیزجس کو مَیں نے بچہ کی طرح پالا ہوا تھا جب فوت ہونے لگا تو مرتے ہوئے کہنے لگا لو اب مَیں رخصت ہوتا ہوں اب قیامت کو ہی آپ سے ملاقات ہوگی۔ غالب اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ؏
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اَور
کیا اس کے سوا کوئی اَور بھی قیامت آنے والی ہے۔ جب تم مرگئے تو قیامت تو تمہارے مرنے سے ہم پر آگئی۔ تو جس گھر میں کوئی موت ہوتی ہے اُس گھر کے رہنے والے سمجھتے ہیں کہ ان پر قیامت آگئی، پھر اگر کوئی ایسا آدمی فوت ہو جس کا سب دنیا کے ساتھ تعلق ہو اور جو تمام عزیزوں اور رشتہ داروں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہو تو تم خود ہی سمجھ لو کہ اُس کی موت کیسی عظیم قیامت ہوگی۔
صحابہؓ کو دیکھ لو وہ کتنی زیرک اور سمجھ دار قوم تھی۔ کتنی شرک کے خلاف تعلیم اسے دی گئی تھی اور کس قدر توحید کا سبق اسے بار بار دیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر سوائے چند کے سب نے شور مچا دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر گئے ہیں اور وہاں سے زندہ واپس آئیں گے۔ یہ ایک قیامت تھی جو اُن پر آئی۔ اور یہ اتنی بڑی قیامت تھی کہ جو شخص انہیں ساری عمر سمجھاتا رہا کہ مَیں ویسا ہی انسان ہوں جیسے تم ہو،جو ساری عمر انہیں شرک کے خلاف تعلیم دیتا رہا، جو ساری عمر انہیں بتاتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبود ِحقیقی سمجھو۔ اُس کی وفات کا انہیں اِتنا شدید صدمہ ہوا کہ ان کے دماغ پھر گئے اور انہوں نے وہی کچھ کہنا شروع کردیا جس سے اُنہیں روکا گیا تھا۔
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات دنیا کے لیے ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت۔ صحابہؓ کو غلطی لگی اور شدید غلطی لگی۔ مگر وہ آدمی نیک تھے۔ آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اُس مجلس میں گئے جہاں صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ حضرت عمر ؓ تلوار لیے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئےمیں تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دوں گا۔ 3 انسان اِس قیامت کا اندازہ حضرت عمرؓ کے کاموں کو دیکھ کر بآسانی لگا سکتا ہے۔ عمر وہ شخص ہے جس کی خوبیوں کو دنیا کی تمام قوموں اور مذاہب نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے وہ شدید ترین دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر عیب لگانا اور آپ پر گند اُچھالنا اپنے لیے فخر کا موجب سمجھتے ہیں وہ بھی جس وقت ابوبکرؓ اور عمرؓ کا ذکر آتا ہے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ لوگ غیر معمولی وجود تھے۔ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے اسلام کے شدید ترین دشمن یعنی عیسائی اور یہودی بھی نہیں رہ سکے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا درجہ غیرمعمولی تھا۔ پس وہ غیر معمولی انسان جس کی دشمنوں نے بھی تعریف کی ہے، جس کی ان لوگوں نے بھی تعریف کی ہے جو اس کے آقا کے دشمن تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر شدتِ غم سے اُس کی حالت ایسی ہوگئی جو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عقل والے بچہ کی بھی نہیں ہوتی۔بچے بھی جب ان کا باپ فوت ہوسمجھ جاتے ہیں کہ ان کا باپ فوت ہو گیا۔ بچے بھی جب ان کی ماں فوت ہوسمجھ جاتے ہیں کہ ان کی ماں فوت ہوگئی۔ مگر عمرؓ جیسا باہمت انسان جس نے ساری دنیا چند آدمیوں کے ساتھ فتح کر لی تھی تلوار لے کر مسجد میں گھومتا پھرتا تھا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن کاٹ دوں گا۔ بھلا کسی کی گردن کاٹنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کس طرح زندہ ہوسکتے تھے۔ مگر انہیں صدمہ اتنا شدید پہنچا تھا کہ وہ یہ سننا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوگئے ہیں۔ وہ سوچتے تھے مگر اپنے آپ کو اِس بات کے ناقابل پاتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کی خبر پر یقین لائیں۔ مَیں سمجھتا ہوں بُہتوں کے دل اُس وقت مانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو چکے ہیں مگر شدتِ محبت کی وجہ سے وہ اس کا خیال بھی اپنے دل میں لانا اپنے لیے موت اور ہلاکت سمجھتے تھے۔ آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی وہاں گئے۔ آپ کی نعش کو انہوں نے دیکھا اور پھر واپس آگئے اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوچکے اور اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا۔ یعنی ایک تو یہ موت جو آپ پر آئی اور دوسری یہ موت کہ تم چاہتے ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اِس دنیا میں آئیں اور پھر فوت ہوں۔ یا ممکن ہے آپ کا منشاء یہ ہو کہ تم اِس وقت جو کچھ کہہ رہے ہو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ وہ موت جو آپ پر وارد ہو چکی وہ اصل موت نہیں۔ وہ تو جسم سے روح نکل کر اپنے آقا اور محبوب کے پاس چلی گئی ہے۔اصل موت یہ ہے کہ وہ بات جس کو روکنے کے لیے آپ نے ساری عمر خرچ کردی وہی آپ کی وفات پاتے ہی پھر پیدا ہوجائے اور پھر ساری قوم شرک میں مبتلا ہوجائے۔ یہ موت ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ آپ پر کبھی وارد نہیں کرے گا۔ اِس طرح یہ الفاظ کہہ کر انہوں نے بتا دیا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو ہم تلوار سے اس کی گردن اڑا دیں گے یہ محض ایک دھوکا اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اور تمہارا یہ جوش عارضی اور وقتی ہے ورنہ تم مومن اور موحّد ہو اور خدا اور رسول کے عاشق ہو۔ جب مَیں تمہیں سچی تعلیم بتاؤں گا تو اُس وقت تم اپنے ان تمام خیالات کو چھوڑ دو گے اور اُسی تعلیم کو اختیار کرو گے جو صحیح اور حقیقی ہے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا اِس کا مطلب یہی تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ جسمانی طور پر بھی وفات پا جائیں اور روحانی طور پر بھی آپ کی قوم پر موت وارد ہوجائے۔ پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ۔ اے لوگو!تم میں سے جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں۔ مگر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔ چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں ایمان تھا۔ صرف ایک قیامت تھی جو اُن پر آئی اور انہوں نے ایک ایسی خبر اپنے کانوں سے سُنی جس کا اندازہ انہوں نے اپنے ذہن میں کبھی نہیں لگایا تھا اور اس قیامت خیز حادثہ نے وقتی طور پر اُن کے حواس کو مختل کردیا تھا اس لیے جب حضرت ابوبکرؓ کی تقریر انہوں نے سنی تو فوراً ان کی سمجھ میں بات آگئی۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں جب مَیں نے ابوبکؓر کی بات سنی تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور یا تو مَیں تلوار لے کر اِس نیت اور اِس ارادہ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اگر کسی شخص کے مُنہ سے یہ بات نکلی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن اُڑا دوں گا اور یا مجھ پر جب صداقت کُھل گئی تو مَیں کھڑا بھی نہ رہ سکا۔ میرے گُھٹنے کانپ گئے اور مَیں زمین پر گِرگیا۔4
حضرت حسانؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درباری شاعر تھے انہوں نے اُس وقت کا کیا ہی عجیب نقشہ کھینچا اور اُس درد کا اظہار کیا ہے جو اُس وقت ان لوگوں کے دلوں میں تھا۔ جب حقیقت کُھل گئی تو حضرت حسانؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ؎



کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ

فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
5

اے محمد رسول اللہ! تم تو میری آنکھوں کی پتلی تھے۔ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ اے محمد رسول اللہ! آج تم نہیں فوت ہوئے مَیں اندھا ہوگیا۔



مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْیَمُتْ

فَعَلَیْكَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
6
اب یارسول اللہ! کوئی مرے، باپ مرے، ماں مرے، بہن مرے، بھائی مرے، بیوی مرے، بچہ مرے، رشتہ دار مریں، دوست مرے کوئی پروا نہیں۔
فَعَلَیْكَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
مَیں تو تیری ہی موت سے ڈرتا تھا۔یہ ہر شخص کے دل سے نکلا ہوا شعر تھا۔ کہا حسانؓ نے تھا مگر ہر صحابی کے دل کی کیفیت یہی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ آج ہم اندھے ہوگئے۔ آج ہماری عزیز ترین چیز ہمارے ہاتھوں سے جاتی رہی۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے اُس دن تمام بازاروں میں ہر صحابی یہی شعر پڑھتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ جدھر سے گزرو اِس شعر کی آواز سنائی دیتی تھی۔صحابہ ؓ بازاروں میں سے گزرتے تھے،ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ان کی زبان پر یہ شعر جاری تھے۔ کہ ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ

فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ

مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْیَمُتْ

فَعَلَیْكَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت صحابہؓ کے دل میں جو کچھ تھی اُس کا تو ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ مجھے بعض دفعہ ہنسی آتی ہے کہ ہماری جماعت کے بعض مخلص نوجوان مجھے چِٹھیاں لکھتے ہیں کہ ہماری درخواست ہے کہ جب ہم مر جائیں تو ہمارا جنازہ آپ پڑھیں۔ مجھے اُس وقت خیال آتا ہے کہ دیکھو ان کی عمر اِس وقت 30 ،35سال کی ہے اور مَیں ان سے بڑی عمر کا ہوں مگر یہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ مَیں ان کا جنازہ پڑھوں۔ گویا وہ اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سارے مرتے چلے جائیں گے مگر یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موت کا خیال بھی ان کے دلوں میں نہیں آسکتا تھا۔ ان میں سے ہر شخص خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت یہ سمجھتا تھا کہ ہم ان کے ہاتھوں میں ہی مریں گے اور یہ خود ہمارا جنازہ پڑھائیں گے۔ مگر جب وہ زندہ رہ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوگئے تو ایک قیامت ان پر آگئی۔ پس یہ بھی ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت۔ اگر لوگ سمجھ لیتے کہ قیامت یہی نہیں کہ دنیا کے تمام لوگ اکٹھے مرجائیں بلکہ کسی اَور چیز کا نام بھی قیامت ہے تو وہ قیامت کا یہ دن آنے سے پیشتر زیادہ سے زیادہ روحانی فیوض اور برکات حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے۔ آخر ہر انسان نے ایک دن مرنا ہے۔ پھر اگر کسی دن تمام لوگ اکٹھے مرجائیں تو یہ کونسی بڑی آفت ہے۔ جب سب لوگ مرتے چلے آئے اور مرتے چلے جائیں گے تو اگر کسی دن اکٹھے سب لوگ مرگئے تو اسے ہرگز کوئی بڑی آفت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آفت یہی ہے کہ وہ تو زندہ رہیں مگران کو روحانی زندگی بخشنے والا چلا جائے۔ وہ جسے عرفِ عام میں قیامت کہا جاتا ہے اسے بھی ہم مانتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس خدا نے یہ دنیا پیدا کی ہے وہ اسے ایک دن ختم بھی کرے گا۔ لیکن وہ قیامت کوئی صدمہ والی چیز نہیں۔ صدمہ تب ہو جب کوئی ایسی چیز ظاہر ہو جو نرالی ہو۔ مگر جب ہر انسان مرتا چلا آیا اور مرتا چلا جائے گا تو اگر کسی دن تمام انسان اکٹھے مرجائیں گے تو اس میں کونسی بڑی بات ہوجائے گی۔ یہ قیامت تو میرے نزدیک ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی ایک شخص بھی اُس وقت بچ رہتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ اس کے لیے بڑے صدمہ کی بات ہوگی کہ اَور تو سب لوگ مر جائیں گے اور وہ زندہ رہے گا۔ مگر جب سارے ہی مر جائیں گے تو اس میں دکھ کی کونسی بات ہے۔ بلکہ مَیں سمجھتا ہوں اس میں بہت بڑا سُکھ ہے۔ اب خاوند مرتے ہیں تو ان کی عورتیں بیوہ رہ جاتی ہیں۔ بیویاں مرتی ہیں تو ان کے خاوند رنڈوے رہ جاتے ہیں، بھائی مرتا ہے تو دوسرے بھائی صدمہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ایک بھائی جاتا رہا۔ بچے مرتے ہیں تو ماں باپ کو صدمہ ہوتا ہے ۔ ماں باپ مرتے ہیں تو بچے یتیم رہ جاتے ہیں۔ غرض ہزاروں دکھ اور مصیبتیں وارد ہوجاتی ہیں۔ مگر اس وقت کیسا آرام ہوگا کہ سب لوگ یکدم مر جائیں گے اور صدمہ اٹھانے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ پس اصل قیامت یہی ہے کہ مرنے والے مرجاتے ہیں مگر ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے جو لوگ رہ جاتے ہیں ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں رہتا، کوئی اُن کا مونس اور غم خوار نہیں رہتا۔ ماں باپ مرتے ہیں تو بچے رہ جاتے ہیں جو روٹیوں کے محتاج ہوتے ہیں اور دربدر دھکّے کھاتے پھرتے ہیں۔ خاوند مرجاتے ہیں تو ان کی عورتیں ایسی حالت میں رہ جاتی ہیں کہ ان کی دلداری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ خاوند رہ جاتے ہیں اور ان کی محبت کرنے والی بیویاں اُن سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ ماں باپ رہ جاتے ہیں مگر ان کے دلوں کی ٹھنڈک اور ان کے ساتھ کھیلنے والے بچے فوت ہوجاتے ہیں۔ بھائی رہ جاتا ہے مگر اس کا دوسرا بھائی جو اس کے لیے بازو کی حیثیت رکھتا ہے فوت ہوجاتا اور اس کا بازو کٹ جاتا ہے۔ دوست رہ جاتے ہیں مگر ایسی حالت میں جبکہ ان کا مونس و غمگسار دوست فوت ہوچکا ہوتا ہے۔ پس یہ ایک قیامت ہے جو لوگوں پر آتی ہے۔مگر وہ بھی کیا قیامت ہے جب سب لوگ اکٹھے مر جائیں گے اس کے آنے پر بھلا کسی کو کیا غم ہوسکتا ہے۔
تو درحقیقت بڑی قیامت وہ ہوتی ہے جب خدا کا نبی کسی قوم میں سے گزر جاتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو یہ ایک بہت بڑی قیامت تھی جو دنیا پر آئی۔ پھر درجہ بدرجہ امت محمدیہ میں اَور لوگوں کے مرنے پر بھی مختلف اوقات میں قیامت آتی رہی۔ اگر مسلمان یہ سمجھتے کہ قرآن کریم میں جس قیامت کا ذکر آتا ہے اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت بھی مراد ہوسکتی ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت سے پہلے پہلے اس کے بداثرات سے بچنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے بعد میں بہت کوششیں کیں کہ وہ اس کے بد اثرات سے محفوظ رہیں لیکن انہیں پورا فائدہ اُسی صورت میں ہوسکتا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ قیامت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتی۔ پھر اگر مسلمان سمجھتے کہ حضرت عمرؓ کی شہادت بھی مسلمانوں کے لیے ایک قیامت ہے تو شاید وہ حضرت عمرؓ کی شہادت کے سامان مہیا نہ ہونے دیتے اور اپنی تمام کوشش اور اپنی تمام جدوجہد ان سامانوں کے خلاف صَرف کردیتے جو حضرت عمرؓ کی شہادت کا موجب ہوئے۔ پھر اگر صحابہؓ سمجھتے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت بھی ایک قیامت ہے جو درحقیقت حضرت عمرؓ کی شہادت کے نتیجہ میں واقع ہوئی تو وہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا موقع نہ آنے دیتے۔ اگر مسلمان سمجھتے کہ حضرت عثمانؓ کی موت کے بعد مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پیدا ہوجائے گا جو کبھی مٹ نہیں سکے گا تو مَیں سمجھتا ہوں وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس غرض کے لیے بہا دیتے کہ یہ حادثہ رونما نہ ہو۔پھر حضرت علیؓ کے وقت اگر مسلمان یہ سمجھتے کہ اگر ہم علیؓ کو ماریں گے تو ہم علیؓ کو نہیں بلکہ اسلام کو ماریں گے۔ اگر علیؓ دنیا سے اٹھ گیا تو وہی گندی بادشاہت دنیا میں قائم ہوجائے گی جو بنی نوع انسان کے لیے مہلک ہے۔ اسی طرح مسلمان اگر سمجھتے کہ ہم علیؓ کو نہیں مار رہے بلکہ ہم اپنی اولادوں کو ہلاک کر رہے ہیں، ہم اپنی عورتوں کی عصمت دری کے سامان مہیا کر رہے ہیں، ہم ظالم بادشاہوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی جائدادوں سے بے دخل کردیں، ہم مالداروں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے گھروں کو لُوٹ لے جائیں، ہم اسلامی حکومت کو اجاڑنے اور اسے تباہ و برباد کرنے کے سامان جمع کر رہے ہیں، ہم دنیا میں ایک یزید پیدا کر رہے ہیں تو مَیں سمجھتا ہوں ایک ایک مسلمان حضرت علیؓ کے اردگرد کٹ کر مر جاتا مگر وہ قاتل کا ہاتھ آپ تک نہ پہنچنے دیتا۔ مگر وہ اس خیال میں ہی بیٹھے رہے کہ قیامت تو وہی ہے جو یکدم سب پر آئے گی اور نظامِ عالَم کو تہہ و بالا کرکے رکھ دے گی۔
کسی انسان کی موت خواہ وہ کتنا بڑا ہو قیامت نہیں ہوسکتی۔ اگر غالب نے جو بات اپنے جنون کی حالت میں سمجھ لی تھی وہ مسلمان بھی سمجھ لیتے کہ ؏
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اَور
تو وہ کبھی ذلت اور رسوائی کا شکار نہ ہوتے۔ مگر انہوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا۔ پھر جانتے ہو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں پر قیامتیں ٹوٹیں اور بڑی بڑی آئیں۔ مگر چونکہ انہوں نے قیامت کی اَور تعبیر کی ہوئی تھی اس لیے ان کی اولادوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ قیامت کوئی چیز نہیں۔ اگر قیامت نے آنا ہوتا تو کیا اب تک آ نہ چکی ہوتی۔ اس طرح وہ بے ایمان اور بے دین ہوگئے۔ کیونکہ ان کے باپ دادا نے قیامت کی اَور تعبیر کی تھی اور خدا اور اس کے رسول نے اَور تعبیر کی تھی۔ انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہأَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ7 مَیں اور قیامت آپس میں اِس طرح ملے ہوئے ہیں جس طرح میری دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔مگر قیامت ہے کہ ابھی تک آنے میں نہیں آتی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ مَیں اور قیامت آپس میں بالکل ملے ہوئے ہیں۔ مَیں مروں گا تو میرے مرنے کے ساتھ ہی تمہاری قیامت شروع ہوجائے گی۔پس جو کچھ مجھ سے حاصل کرنا ہے میری زندگی میں ہی حاصل کرلو۔ ورنہ جس دن مَیں مرا اُسی دن تم پر قیامت آجائے گی اور پھر تم ان برکات کو حاصل نہیں کرسکوگے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگ خواہش کریں گے کہ کاش! اِنہیں پھر دنیا میں لَوٹا دیا جائے تاکہ وہ نیک اعمال بجا لائیں مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کَلَّا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ قیامت آنے کے بعد کسی کو واپس لَوٹایا نہیں جاسکتا۔8 اسی طرح آپؐ نے فرمایا جب مَیں مروں گا تو تمہارے دلوں میں جوش پیدا ہوگا کہ کاش! مَیں پھر اس دنیا میں واپس آجاؤں۔ کاش! میں پھر حکم دوں اور تم اپنی جانیں میرے حکم پر قربان کردو، مَیں پھر تمہیں مالی قربانی کی تحریک کروں اور تم میرے حکم پر اپنے مالوں کو قربان کردو۔ اُس وقت تمہارے دلوں میں جوش پیدا ہوگا، تمہارے دلوں میں حسرت پیدا ہوگی کہ کاش! ہم فلاں قربانی میں حصہ لے سکتے۔ کاش! ہم فلاں حکم کی تعمیل کر سکتے۔ مگر اُس وقت ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تم اگر فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہی ہے کہ اس قیامت کے آنے سے پہلے پہلے فائدہ حاصل کرلو۔
غرض آپ نے بتا دیا کہ میری موت تمہارے لیے قیامت ہوگی اور میری موت کے آنے کے ساتھ ہی تم پر قیامت آجائے گی۔ مگر سننے والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس بات کو نہ سمجھا اور وہ اُسی قیامت کی اہمیت سمجھتے رہے جب سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یکدم مر جائیں گے۔ حالانکہ وہ قیامت کوئی تکلیف دہ چیز نہیں بلکہ ایک راحت اور آرام کی چیز ہے۔ کیونکہ اب جو فکر ہوتا ہے کہ فلاں مرگیا تو کیا ہوگا یہ فکر اُس وقت نہیں ہوگا۔ اب مرنے والا کہتا ہے کہ جب مَیں مرگیا تو پچھلوں کا کیا حال ہوگا اور پچھلے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اب ہمارا کیا بنے گا۔ یہ دکھ اور تکلیف جو انفرادی اموات سے لوگوں کو ہوتی ہے اسے اگر قیامت کہا جائے تو بالکل ٹھیک اور درست ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جو قیامت دنیا پر آئی یا حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت سے لوگوں پر قیامت آئی اسے جس قدر بڑھا کر سمجھ لو درست ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ قیامت جسے لوگ عرفِ عام میں قیامت کہتے ہیں اور جبکہ سب لوگ مر جائیں گے قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر یہ کہو کہ اس قیامت کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کچھ لوگ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے تو سوال یہ ہے کہ اب جو لوگ مرتے ہیں کیا اُن میں سے کچھ لوگ دوزخ میں نہیں جاتے؟ پھر اِس میں اور اُس میں فرق کیا ہوا؟ اب بھی لوگ مرتے ہیں اور اُس دن بھی لوگ مر جائیں گے۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ اب ایک ایک کرکے لوگ مرتے ہیں اور اُس دن سب لوگ اکٹھے مرجائیں گے۔پس یہ قیامت ہرگز کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ڈر اور خوف محسوس کیا جائے۔ اصل قیامت جس کے لیے لوگوں کو تیار رہنا چاہیے وہ وہی قیامت ہے جب نبی فوت ہو جاتا ہے یا جب کسی نبی کی جماعت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ترقی کرے اور اُس کے دشمن تباہ و برباد ہو جائیں۔ وہ وقت ایک قیامت کا وقت ہوتا ہے اور وہی ایک قیامت ہے جس کے لیے تیاری اور بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ اگر نبی کی جماعت دنیا میں ترقی کر جائے، اس کے دشمنوں کی بربادی کا وقت قریب آپہنچے لیکن جماعت لوگوں کو سنبھالنے کی قوت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو پھر خود ہی سمجھ لو کہ اس صورت میں کتنی بڑی قیامت دنیا پر آ جاتی ہے۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ قیامت کے ایک معنے جماعت کی ترقی اور نبی کے دشمنوں کی تباہی کے بھی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر دشمنوں پر تباہی آجائے،اگر ان کی ہلاکت اور بربادی کا وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریب آپہنچے اور جماعت غالب آجائے لیکن لوگوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ ہو تو یہ جماعت کے لیے کتنی بڑی ذلت اور شرمندگی کی بات ہوگی کہ خدا نے دشمن کی عمارت کو تہہ و بالا کردیا، خدا نے اس کے قلعوں کو مسمار کردیا، خدا نے اُس کے بلندوبالا محلات کو تہس نہس کردیا اور خدا نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا کہ آؤ اور اب اس متاع کو سنبھال لو، آؤ اور اب دشمن کی جائیدادوں پر قبضہ کرلو مگر جماعت کے لوگ ہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہم ان جائیدادوں کو کس طرح سنبھالیں ہم میں تو ان کے سنبھالنے کی طاقت ہی نہیں۔ یہ وہ قیامت ہے جس کے لیے تیاری کی ضرورت ہے، یہ وہ قیامت ہے جس کے آنے سے پہلے پہلے ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کا کام ہے کہ وہ اس کے لیے ہمہ تن تیار ہوجائے۔ ورنہ دوسری قیامت کے لیے کسی خاص تیاری کی ضرورت نہیں۔ جو تیاری انسان اپنی موت کے لیے کرتا ہے اس سے ایک پشّہ9 کے پَر کے برابر بھی زیادہ تیاری کی ضرورت اُس قیامت کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میرے نزدیک اس کے لیے اس سے بھی کچھ کم تیاری کی ہی ضرورت ہے۔ کیونکہ مرتے وقت تو انسان کو یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ میری اس قدر جائیداد ہے اسے کون لے جائے گا۔ مگر قیامت کو یہ تمام جھگڑے ختم ہوجائیں گے اور سب لوگ اکٹھے مرجائیں گے۔
پس اصل قیامت وہ نہیں جسے عرفِ عام میں قیامت کہا جاتا ہے۔ بلکہ اصل قیامت یہ ہے کہ جب نبی دُنیا سے گزر جائے یا نبی کی پیشگوئیوں کے مطابق دشمن کو تباہ کردیا جائے تو جماعت اُس وقت حیران و پریشان کھڑی ہو اور وہ کہے کہ اب کیا کیا جائے۔ اب ان آنے والے لوگوں کو سنبھالنے والا ہم میں کوئی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ مگر قابل آدمیوں کی کمی کی وجہ سے بہت سے انتظامات اور حکومت کے شعبے اُن لوگوں کے سپرد کرنے پڑے جو اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہؓ میں ہزاروں لوگ قابل تھے، ہزاروں لوگ اسلام کی تعلیم کو سمجھتے تھے، ہزاروں لوگ قرآن کریم کو جانتے تھے اور وہ سب کے سب مختلف کاموں پر مقرر کر دیئے گئے۔ مگر پھر بھی بعض جگہیں رہ گئیں اور وہ ایسے لوگوں کو دینی پڑیں جو اس کام کے اہل نہیں تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو سخت ضعف پہنچا اور مسلمان تباہ ہوگئے۔پس یہ ایک قیامت تھی اور بہت بڑی قیامت مگر افسوس کہ لوگوں نے اس کے لیے پوری تیاری نہ کی۔
اب ہمارا زمانہ آیا ہے۔ اس زمانہ میں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جماعت کی ترقی کے متعلق بڑے بڑے وعدے کیے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی سنت کے مطابق ایک دن اپنے ان وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔ وہ دن آنے والا ہے جب جماعت کے لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اور دشمن یہ کہہ رہے ہوں گے کہ کہاں گئے تمہاری ترقی اور کامیابی کے وعدے۔ مگر آسمان پر خدا کے فرشتے دنیا کو بدلنے کے لیے تیار کھڑے ہوں گے۔ وہ رات کو یہ کہہ کر سوئیں گے کہ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اور جب صبح اٹھیں گے تو کفر کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہوں گی اور اس کی بنیادیں فرشتوں کے ہاتھوں سے گرائی جاچکی ہوں گی۔ شام کو کافر کہیں گے کہ کہاں گئے وہ وعدے جو تمہاری ترقیات کے متعلق کیے گئے تھے اور جب صبح ہوگی تو اُن کی لاشیں کُتّے گھسیٹ رہے ہوں گے۔ لیکن ہمیں اُس دن کے آنے کی کیا خوشی ہوسکتی ہے جب اِن حالات کو سنبھالنے کی ہم اپنے اندر قابلیت نہیں پاتے۔ جب ہماری تیاری ابھی بہت پیچھے ہے اور جب ہم میں سے بُہتوں نے ابھی اپنے مقام کی اہمیت کو بھی پورے طور پر نہیں سمجھا۔
مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ گورنمنٹ جب کوئی نیا عہدہ نکالتی ہے اور کہتی ہے کہ ولایت کا پاس شدہ اس عہدہ پر مقرر کیا جائے گا تو کئی ماں باپ گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں کہ ابھی تو ہمارے بیٹے کے آنے میں چھ ماہ باقی ہیں اور عہدہ اب نکل آیا ہے۔ ہمارا بیٹا اگر ولایت سے جلدی واپس نہ آیا تو یہ عہدہ کوئی اَور لے جائے گا۔ یہی ہماری حالت ہے۔ ابھی ہم نے وہ امتحان پاس ہی نہیں کیا جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے نئے نظام کی تکمیل کا کام ہمارے سپرد کیا جانے والا ہے۔ ابھی ہماری جماعت میں بہت بڑی جہالت اور بہت بڑی نادانی پائی جاتی ہے۔ قادیان کے لوگ تو پھر بھی دین کی باتیں اکثر سنتے رہتے ہیں لیکن باہر کے لوگوں میں سے بہت سے تو بدّو کے بدّو ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں کہ اسلام اُن سے کیا تقاضا کرتا ہے، احمدیت ان سے کیا چاہتی ہے، خدا اور اس کا رسول انہیں کس راستہ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ صرف چند موٹے موٹے مسائل ان کو معلوم ہیں اِس سے زیادہ ان کو کچھ پتہ نہیں۔ اسلامی مسائل کی باریکیاں، احکامِ الٰہی کی حکمتیں، قرآن کریم کی تعلیم کی خوبیاں، اسلام کی تمدنی، سیاسی اور اقتصادی تعلیمیں، احمدیت اور اسلام کا روشن مستقبل، حکومت اور نظام سےتعلق رکھنے والی اسلامی تعلیم کی تفصیلات اور اس کی خوبیاں، عبادات اور روحانیت میں ترقی کرنے کے اصول، بندوں اور خدا کے آپس میں تعلقات، دنیا کی پیدائش کی حکمتیں یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ابھی اُن کو معلوم نہیں اور جن کے سیکھنے اور معلوم کرنے کی تڑپ بھی بعض لوگوں کے اندر نظر نہیں آتی۔ فرض کرو کل ہی وہ دِن آجاتا ہے جب دشمن کو تباہ کردیا جاتا ہے، جب کفر کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک ہی ہاتھ مٹا کر رکھ دیتا ہے، جب خدا اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہے کہ جاؤ اور ان لوگوں کی حکومت کو سنبھال لو۔ تو ہم کہاں سنبھال سکیں گے۔ اور جب ہم اس کو سنبھالنے کی اپنے اندر طاقت نہیں پائیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ اُسے کوئی اَور قوم لے جائے گی۔
انگریز جب افریقہ میں گئے توافریقن قبائل چونکہ چھوٹے چھوٹے تھے اور زمینیں ان کے پاس بڑی کثرت کے ساتھ تھیں جن کی وہ کاشت بھی نہیں کرسکتے تھے اس لیے انگریز اُن سے کہتے کہ جتنی زمین میں تم آسانی سے ہل چلا سکتے ہو اُتنی زمین اپنے پاس رکھ لو باقی زمین تمہیں اپنے پاس رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تمہارے لیے بیکار ہے۔ چنانچہ تھوڑی تھوڑی زمین ان لوگوں نے لے لی اور باقی سب زمین پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔اب کینیا کالونی میں بعض انگریزوں کے پاس ایک ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے حالانکہ اس زمین کے مالک افریقہ کے حبشی قبائل تھے۔مگر چونکہ وہ ان زمینوں کو سنبھالنے کی قابلیت اپنے اندر نہیں رکھتے تھے اس لیے انگریزوں نے ان سے کہہ دیا کہ جتنی زمین تم سنبھال سکتے ہو وہ سنبھال لو اور باقی ہمیں دے دو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے دو ایکڑ زمین رکھ لی، کسی نے چار ایکڑ زمین رکھ لی اور باقی سب زمین پر انگریزقابض ہوگئے۔ اگر پنجابی زمیندار ہوتے تب بھی وہ تیس تیس چالیس چالیس ایکڑ زمین رکھ لیتے مگر انہوں نے صرف دو دو چار چار ایکڑ زمین اپنے پاس رکھی۔ بلکہ بعض نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں اتنی زمین کی بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم اپنی زمین کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ سب زمین انگریزوں نے لے لی۔ اور انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورت سے جو زائد زمین تھی صرف وہ ہم نے اپنے قبضہ میں لی ہے۔ تو جیسے افریقہ کے حبشی قبائل سے ہوا کہ مال تو اُن کے پاس تھا مگر چونکہ وہ اُس کو سنبھالنے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے اس لیےاُس پر دوسروں نے قبضہ کرلیا۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جب دنیا کی حکومتیں اور طاقتیں ہمارے قبضہ میں آجائیں گی۔ مگر جب اُن حکومتوں کو سنبھالنے کی ہمارے اندر قابلیت نہیں ہوگی، جب تعلیم کے لیے ہمارے پاس مدرّس نہیں ہوں گے، جب وعظ و نصیحت کے لیے ہمارے پاس علماء نہیں ہوں گے، جب روحانیت کا درس دینے کےلیے ہمارے پاس عارف نہیں ہوں گے، جب تبلیغ و تربیت کے لیے ہمارے پاس مبلغ نہیں ہوں گے، جب زہد و اتقاء کی روح قائم کرنے کے لیے ہمارے پاس سالک اور عابد نہیں ہوں گے تو ہم اُس وقت کیا کرسکیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ چونکہ اس جائیداد کو ہم سنبھال نہیں سکیں گے، اس لیے وہ اسلام کے لیے فتح کیے ہوئے دل، وہ اسلام کے لیے فتحکی ہوئی جانیں، وہ اسلام کے لیے فتح کیے ہوئے قبائل، وہ اسلام کے لیے فتح کی ہوئی قومیں کچھ دن تو ہمارا انتظار کریں گی مگر پھر ان کے دلوں پر زنگ لگنا شروع ہوجائے گا۔ پھر خدا کی جائیداد دوبارہ شیطان کے قبضہ میں جانی شروع ہوجائے گی۔
مجھے اس چیز کا دیر سے فکر تھا اور متواتر اس مضمون کو مَیں نے اپنے خطبات میں بھی بیان کیا ہے مگر کل مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بات معلوم ہوئی اُس نے تو میری کمر ہی توڑ دی ہے۔ مَیں نے کشفی حالت میں یہ نظارہ دیکھا کہ گویا آسمان کے فرشتوں کی آوازیں سن رہا ہوں۔ مجھے بہت دفعہ کشفی حالت میں ملأ اعلیٰ کی آواز سننے کا موقع ملا ہے۔کل بھی ایسا ہی ہوا۔ اور مَیں نےآسمان کے فرشتوں کو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر پڑھ رہے ہیں مگر کچھ تغیر کے ساتھ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے ؎
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا10
مگر مَیں خواب میں فرشتوں کے پڑھنے کی جو آواز سنتا ہوں اُس میں پہلے دو لفظ بدلے ہوئے ہیں۔ یعنی فرشتے بجائے یہ کہنے کہ ؎
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
یہ کہتے ہیں کہ ؎
سوچو جو شخص آنے کو تھا وہ تو آچکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلی اِس زمانہ کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر کہا اُس وقت ہمارے سلسلہ کا ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کو اس رنگ میں اپیل کرنا مناسب تھا۔ مگر اب وہ زمانہ گزر چکا ہے اور اب سلسلہ کی ترقی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو سوچنا چاہیے اور اس بارہ میں انہیں غوروفکر سے کام لینا چاہیے کہ جس شخص نے آنا تھا وہ تو آچکا۔ چنانچہ مَیں نے سنا کہ فرشتے کہہ رہے ہیں ؎
سوچو جو شخص آنے کو تھا وہ تو آچکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
فرشتے اس شعر کو بہت بلند آواز سے اور بڑی رسیلی اور سریلی آواز میں پڑھ رہے ہیں اور مَیں سن رہا ہوں۔ اس کے بعد مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اُڑا دیئے۔ وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرع کی شکل میں ہے کہ ؏
روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے
بڑے زور سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا اور بار بار اس کو دہرایا گیا۔ اس الہام کے اَور معنی بھی ہوسکتے ہیں مگر مَیں نے اُس وقت جو اس الہام کے معنٰے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیراتِ عظیمہ جن کا پیشگوئیوں میں ذکر کیا گیا تھا اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہیں۔ روزِ جزا اب سر پر کھڑا ہے۔ قدرت کا زبردست ہاتھ اُس دن کو اب قریب تر لا رہا ہے۔ مگر رہ بعید ہے۔ جماعت نے اس آنے والے دن کے لیے ابھی وہ تیاری نہیں کی جو اِسے کرنی چاہیے تھی۔ اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان یومِ جزا کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو۔ اس کے لیے ابھی بہت بڑا اور لمبا راستہ پڑا ہے جسے اِسے طے کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
روزِ جزا قریب ہے
یعنی وہ جو ہمارا کام تھا ہم نے اسے پورا کردیا اور ہم نے اُس دن کو تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو تمہاری کامیابی اور تمہاری فتح اور تمہارے غلبہ کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اسے فرماتا ہے کہ اے احمدی جماعت! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اُسے پورا کردیا، جتنے سامان یومِ جزا کو قریب تر لانے کے لیے ضروری تھے وہ ہم نے سب مہیا کر دیئے اور اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کر لیے۔ پس اب قریب ترین زمانہ میں اِس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے، قریب ترین زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے راستے دنیا میں کھل جائیں گے۔مگر رہ بعید ہے۔وہ راستہ جو ابھی تم نے طے کرنا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روز جزا سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے۔تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے ابھی اس راستہ پر چلنا بھی شروع نہیں کیا اور کئی ایسے ہیں جو اس راستے پر چل تو پڑے ہیں مگر انہوں نے سفر ابھی بہت کم طے کیا ہے۔ گویا ہم نے تو اپنا حصہ پورا کردیا مگر تم نے اپنے حصہ کو پورا نہیں کیا۔ اب دیکھو! یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دو شخص آپس میں ٹھیکہ کریں اور ایک شخص دوسرے سے سمجھوتہ کرے کہ تم امرتسر سے دس میل کے فاصلہ پر اتنے لاکھ من سونا پہنچا دو۔ وہاں تک سونا پہنچانا تمہارا کام ہے۔ اس کے بعد میرا کام شروع ہوگا اور مَیں اُس سونے کو اُٹھا کر اپنے گھر لے آؤں گا۔ اب اگر دوسرا شخص اس معاہدہ کے مطابق ٹھیک مقررہ تاریخ کو امرتسر سے دس میل کے فاصلے پر سونا لا کر رکھ دے مگر یہ شخص ابھی قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہی ہو تو جانتے ہو اِس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی ہوگا کہ چور آئیں گے اور اُس سونے کو اٹھا کر لے جائیں گے، ڈاکو آئیں گے اور اس سونے پر قبضہ کر لیں گے اور جب یہ شخص وہاں سونا لینے کے لیے پہنچے گا تو اُس جگہ کو بالکل خالی پائے گا۔ اللہ تعالیٰ بھی اِس الہام میں اِسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم نے تو ابھی اس راستے کو طے ہی نہیں کیا جس پر چل کر ان انعامات کے تم مستحق بن سکتے ہو۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اُس دن کو جو تمہاری فتح اور کامیابی کا دن ہے تمہارے قریب لا چکے ہیں۔ ؎
روزِ جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے
میری طرف سے جو کچھ ظاہر ہونا تھا اُس کی تیاریاں آسمان پر مکمل ہو چکی ہیں مگر تم نے جو کچھ کرنا تھا اُس کے لیے ابھی کئی منزلیں طے کرنی باقی ہیں۔
مجھے جب یہ الہام ہوا تو مَیں نے اُس وقت سوچا کہ گومَیں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کررہا ہوں۔ جس پر بعض لوگ ابھی سے گھبرا اُٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جارہی ہیں۔کبھی وقف جائیداد کی تحریک کی جاتی ہے، کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جاتی ہے، کبھی کالج کی تعمیر کے لیے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کو بھی ناکافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا رہ بعید ہے۔ یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطرناک طور پر سُست ہے۔ حالانکہ مَیں نے جو کام کرنا تھا وہ کرلیا، میرا ٹھیکہ پورا ہو گیا اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی وہ دے دی۔ مگر تم ابھی اپنے کام کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
اِس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اِس الہام کا ایک اَور امر کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ گو نزولِ الہام کے وقت مَیں نے اِس کے وہی معنے سمجھے تھے جو مَیں نے ابھی بیان کیے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اَور مطلب بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوشکن نہیں۔ یعنی اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے کوشش کررہا ہے اُس کی یہ کوشش اِتنی تھوڑی اور اِس قدر کم ہے کہ اُس کی اِس کوشش اور جدوجہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایّام ہیں ان میں اِن کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لیے کر رہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اِسی رنگ میں کوشش اور جدوجہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کوششیں اِس قدر کم ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے یہ ناممکن ہے۔ اگر تمہاری کوشش اور جدوجہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یومِ جزا کو نہیں دیکھ سکوگے۔ یہ معنے اگر لیے جائیں تو یہ بھی کوئی خوش کُن معنے نہیں۔ مگر جو معنے اُس وقت مَیں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ
روزِ جزا قریب ہے
کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جو وعدے فرمائے ہیں اُن کے پورا ہونے کا وقت آگیا، آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اُس دن کو لانے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ مگر جو کوشش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور بہت ہی ادنیٰ اور معمولی ہے۔ جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا، جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لیے نازل ہوگئیں، جب کفر کی بربادی کا وقت آپہنچا، جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اُس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہوگے، تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہوگا، تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤ گے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ جائے وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کردیتا ہے۔جس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جاتا ہے۔ وہی پانی فائدہ پہنچاتا ہے جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے۔ پھٹا ہوا دودھ کس کام آسکتا ہے۔ گِرا ہوا سالن کون استعمال کرتا ہے۔ کُتّے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم نے اس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے، اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے ہمیں دیا ہے، اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے اتارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لیے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا۔ کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اُس کی قدر نہ کی۔
پس مَیں آج پھر خدا تعالیٰ کے اِس پیغام کو جماعت تک پہنچاتا ہوں۔ پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور مَیں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو، جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ۔ مگر اب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آ گیا ہے۔ ؎
روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے
جزا کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری راہ بہت بعید ہے۔ اَب چاہے اس کے یہ معنے سمجھ لو کہ ہر شخص کی موت کا دن اُس سے زیادہ قریب ہے جتنا قریب اُس کے اعمال کے نتیجہ میں اسلام کی فتح آسکتی ہے۔ اگر وہ اِسی چال پر چلتے رہے تو اُن کا یہ خیال کرنا کہ اسلام کی فتح کا دن اُن کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا، ناممکن ہے۔ رفتار بہت سُست ہے، کوششیں بہت محدود ہیں مگر زندگی کے ایام تھوڑے ہیں۔ اور اگر چاہو تو اِس الہام کے یہ معنے سمجھ لو کہ مَیں نے تم سے اسلام کی ترقی اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جس قدر وعدے کیے تھے اُن تمام وعدوں کو پورا کرنے کے سامان مَیں مہیا کر چکا ہوں وہ وعدے اب عنقریب ظہور پذیر ہونے والے ہیں مگر اے مومنو! اگر قریب ترین عرصہ میں تم نے اس آنے والے دن کے لیے کوئی تیاری نہ کی تو تم ان نعمتوں کو سنبھال نہیں سکو گے۔ نعمتیں تو آئیں گی مگر بجائے اس کے کہ تم ان پر قابض رہو وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔وہ زمین پر بکھر جائیں گی، وہ تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔ پھر خدا ایک نیا نظام قائم کرے گا اور اُس نئے نظام کے ذریعہ اپنی ان نعمتوں کو دوبارہ واپس لانے کے سامان مہیا کرے گا۔ کیونکہ جو نعمتیں ایک دفعہ کسی قوم کے ہاتھ سے نکل جائیں وہی قوم اُن نعمتوں کو دوبارہ کبھی حاصل نہیں کرسکتی۔ دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ ایک قوم کے ہاتھ سے جب کوئی نعمت نکل گئی ہو تو پھر وہی قوم اس نعمت کو سمیٹ سکی ہو۔ اُس وقت بحیثیت قوم اُن نعمتوں کو سمیٹا نہیں جاسکتا۔ ہاں! افراد ایک ایک دانہ چُنتے اور استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بھی امت محمدیہ میں بعض بڑے بڑے بزرگ ہوئے۔ مثلاً حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلویؒ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ اور اسی طرح اَور ہزاروں اولیاء امتِ محمدیہ میں ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی روحانی نعماء سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ مگر ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے مرغا زمین پر سے ایک ایک دانہ چُن کر کھاتا ہے۔ انہوں نے بھی نعمتوں کے ایک ایک دانے زمین سے چُنے اور استعمال کیے۔ مگر سونے سے بھری ہوئی کانیں، موتیوں سے بھرے ہوئے سمندر اور لعل و جواہرات اور ہیروں کے انبار اُن کے زمانہ میں نہ رہے۔ انہوں نے جس قدر انعامات حاصل کیے انفرادی انعامات تھے قومی انعامات نہیں تھے۔ لیکن انبیاء کے زمانہ میں تمام قوم کو انعامات میں سے حصہ دیا جاتا ہے۔ پس اگر یہ معنے اِس الہام کے ہیں تو یہ بھی تکلیف دہ ہیں۔ دنیا نے بڑا انتظار کیا ایک ایسی ہدایت کا جو اُسے نور سے بھر دے، دنیا نے بڑا انتظار کیا اُس جنگ کا جو شیطان کو ہمیشہ کے لیے آخری شکست دے دے۔ لیکن اگر اِس جنگ میں شیطان کو فرشتے شکست بھی دے دیں اور مومن آگے نہ بڑھیں تو شیطان پھر واپس لَوٹ آئے گا اور پھر اسلام کے قلعہ پر قبضہ کر لے گا۔ اُسی قلعہ میں دشمن واپس نہیں آیا کرتا جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ اس میں غنیم کی فوجیں جمع ہیں۔ لیکن اگر فرشتوں نے شیطان کا قلعہ سر کر لیا اور مومن آگے نہ بڑھے تو ہزاروں سال کی پیشگوئیاں اور وہ ایک لمبی لڑائی جو شیطان سے لڑی گئی تھی رائیگاں چلی جائے گی۔
مَیں جانتا ہوں کہ پیشگوئیاں کُلّی طور پر یوں ہی نہیں چلی جاتیں مگر جب کوشش اور جدوجہد کا پہلو کمزور ہو تو اس کے نتائج ضرور تلخ ہوتے ہیں۔ پس مَیں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو! رستہ دور کا ہے، وقت تھوڑا ہے، تمہاری کوششیں نامکمل ہیں اور فتح کا دن نزدیک آرہا ہے۔ تم جلد جلد اپنے قدم بڑھاؤ اور ہر میدان میں اسلام کے جانباز سپاہی بننے کی کوشش کرو۔ اگر تم میں سے ہر شخص اسلام کی فتح کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتا ہے، اگر تم میں سے ہر شخص اپنے جسم کا ذرّہ ذرّہ اسلام کی فتح کے لیے اس طرح اُڑا دیتا ہے جس طرح روئی دھنکنے والا روئی کے ذرات کو ہوا میں اُڑاتا ہے تو تمہاری اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ تمہارا فرض ہے کہ تم باہر نکل جاؤ اور جو لوگ ہماری جماعت میں سے جاہل ہیں اُن کو مجبور کرو کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سیکھیں اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کریں۔ اسی طرح جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیں۔ ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں ایسے لوگ ہوں جو دین کو پوری طرح سیکھے ہوئے ہوں تاکہ جب بھی کوئی ملک اسلام کے لیے فتح ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں نیک تغیر پیدا کرے تو ہمارے پاس اُس ملک کو سنبھالنے والی جماعت بھی موجود ہو اور ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ ملک تو اسلام کے لیے فتح ہو گیا مگر جماعت اس کو سنبھالنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ ہمارے پاس وہ آدمی موجود ہونے چاہییں جن کو اُس ملک میں پھیلایا جاسکے، ہمارے پاس وہ لٹریچر موجود ہونا چاہیے جو اُس ملک میں شائع کیا جاسکے، ہمارے پاس وہ کتابیں موجود ہونی چاہییں جو اُس ملک کے کونے کونے میں پھیلائی جاسکیں، ہمارے پاس روپیہ موجود ہونا چاہیے جس سے مبلغین کےسفر خرچ اور دیگر اخراجات کا انتظام کیا جاسکے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ اسلام کی جائیدادیں ہماری اپنی جائیدادوں سے لاکھوں بلکہ کروڑوں گُنا زیادہ ہوں اور ہماری مالی قربانیاں اسلام کے فنڈ کو اس قدر مضبوط کردیں کہ جب کسی ملک میں اسلامی لشکر بھجوانے کی ضرورت محسوس ہو، جب سپاہیوں کے لیے روحانی گولہ بارود کی ضرورت ہو، جب لوگوں کی پیاس بجھانے کے لیے لڑیچر فراہم کرنا ضروری ہو تو ہمارے پاس اِس قدر سامان موجود ہو کہ ہم بغیر کسی قسم کے فکر کے اور بغیر اِس کے کہ ہمارے سپاہیوں کو کسی قسم کی تشویش ہو اسلام کی ان تمام ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو انگریزی یا دنیوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ بجائے اس کے کہ وہ تعلیم انہیں اسلام اور ایمان سے بے بہرہ کرنے والی ہو وہ اُن کے دلوں میں اسلام کی صداقت پر زیادہ سے زیادہ یقین اور وثوق پیدا کرنے والی ہو۔ بجائے اس کے کہ آئندہ سائنس اسلام پر کفر کو غالب قرار دے سکے، سائنس کفر کو کھا جانے والی اور اسلام کو غالب و برتر ثابت کرنے والی ہو اور اس کی توپوں کا منہ اسلام کے قلعہ کی بجائے کفر کی طرف ہو اور اس کے گولے کفر کی دیواروں کو گرا رہے ہوں۔
اسی طرح ہمیں اپنی تمدنی اصلاح کی طرف ابھی بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ ابھی تک خاوندوں کے بیویوں سے اچھے تعلقات نہیں، بیویوں کے خاوندوں سے اچھے تعلقات نہیں، اولاد اپنے ماں باپ سے اچھے تعلقات نہیں رکھتی اور ماں باپ اولاد کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرتے۔ دوستوں کے دوستوں سے اور ہمسایوں کے ہمسایوں سے اچھے تعلقات نہیں، دکاندار گاہکوں سے اچھی طرح پیش نہیں آتے، گاہک تاجروں کا خیال نہیں رکھتے، قرض لینے والے قرض واپس کرنے کا خیال نہیں کرتے اور قرض دینے والے مقروض کی مجبوریوں کا خیال نہیں رکھتے، استاد شاگردوں سے اچھی طرح پیش نہیں آتے اور شاگرد اُستادوں کا احترام نہیں کرتے۔ غرض ہمیں تمدنی اصلاح کی ابھی بہت بڑی ضرورت ہے۔ جب تک ہماری تمدنی اصلاح نہیں ہوگی اُس وقت تک دل صاف نہیں ہوں گے اور جب تک دل صاف نہیں ہوں گے ایمان پیدا نہیں ہوگا اور جب تک ایمان پیدا نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوگی۔پس بہت بڑا کام ہے جو ہم نے سرانجام دینا ہے۔ بلکہ اتنے بڑے کام ہم نے کرنے ہیں کہ اگر ہم ان کو گِننے لگیں تو شمار میں ہی نہ لاسکیں۔ یہ کام جب ہم نے کر لیے تو یَوْمُ الْجَزَاءِ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آجائے گا۔ جب کفر کو تباہ کردیا جائے گا اور اسلام کو غالب کردیا جائے گا۔
پہلے لوگوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہیں جب قیامت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اُس کی حقیقت کو نہ سمجھا اور قیامت آنے سے پہلے اس کے لیے کوئی تیاری نہ کی۔ اب ہماری جماعت کے لیے خوف کا مقام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بعض نادان اب بھی قیامت کی حقیقت کو نہ سمجھیں اور اس کی تیاری سے غافل رہیں۔ مَیں جس قیامت کی خبر دے رہا ہوں وہ ہمیشہ دنیا میں آتی رہی اور آتی رہے گی۔ مگر لوگوں نے نہ سمجھا اور قیامت دیکھنے کے باوجود انہوں نے یہی کہا کہ قیامت ابھی تک نہیں آئی۔ کاش! ہم لوگ اِس زمانہ میں ہی قیامت کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کے بدنتائج سے بچنے اور اس کے نیک نتائج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ اِسی میں اسلام کی ترقی اور اسی میں احمدیت کا غلبہ ہے"۔٭(الفضل27؍اپریل،1944ء)

15
دنیا فیصلہ کرسکتی ہے کہ دہلی میں جیت ہماری ہوئی
یاہمارے دشمنوں کی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی اس موقع پر پوری ہوئی
(فرمودہ 21؍اپریل 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"دوستوں نے اختصارًا دہلی کے جلسہ کے حالات سن لیے ہوں گے۔ مَیں اُسی کے متعلق آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اِس وقت مسلمانوں کی حالت جس قدر اسلام سے دور ہے وہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ اِس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آنا چاہیے تھا۔ قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو آج مسلمانوں نے نظر انداز کردیا ہے۔ اس کی وہ تمام اعلیٰ درجہ کی تعلیمات جو اخلاقِ فاضلہ اور مُسَامَحَت1 اور بردباری اور استقلال اور ضبط ِنفس کے متعلق ہیں انہیں انہوں نے اس طرح طاقِ نسیان پر رکھ دیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اسلام میں ان امور کے متعلق کوئی ہدایت ہے ہی نہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے ان امور پر روشنی ڈالی ہے۔ جو باتیں کہ اسلام کا خاص جوہر ہیں،جن سے اسلام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے انہی پر آج دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنے کی امید دشمن سے تو کی ہی نہیں جاسکتی۔ اگر اُن کو کوئی چیز اسلام کی طرف رہنمائی کرسکتی ہے تو وہ مسلمانوں کا نمونہ اور عمل ہی ہے۔ اور جب مسلمانوں کا عمل اسلامی تعلیم کے خلاف ہو وہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کو نظر انداز کردیں، ان کا معاملہ، ان کی گفتگو، اُن کے طور طریقے اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوں تو دشمنانِ اسلام تو یہ خیال کریں گے کہ اسلام کی یہی تعلیم ہے اور اِس زمانہ میں مسلمانوں کی وجہ سے ہی اسلام اور بانیٔ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں ملتی ہیں۔ ایک لمبے تجربہ نے بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ طریقِ عمل کچھ مفید نہیں ثابت ہوا۔ اس سے خود اُن کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کے جوش و خروش نے اسلام کو کوئی طاقت نہیں بخشی اور ان کے غصہ نے ان کو کچھ آگے نہیں بڑھا دیا اور ان کی وحشت نے دنیا میں ان کی کوئی عزت قائم نہیں کی۔ بلکہ کیا سیاسی لحاظ سے، کیا اقتصادی لحاظ سے اور کیا علومِ ظاہری و باطنی کے لحاظ سے مسلمان ایک پسپا ہونے والا ہجوم نظر آتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔
ہم نے دہلی میں جو جلسہ کیا اُس کی غرض یہی تھی کہ جس بات کو ہم حق سمجھتے ہیں اُسے لوگوں تک پہنچائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ لوگ اسےحق نہیں سمجھتے۔ لیکن اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جو بات دوسرے کے نزدیک حق نہ ہو وہ اُسے نہ سنانی چاہیے تو پھر مکہ کے لوگوں کو باتیں سنانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حق نہ تھا اور اہلِ مکہ کی ناشائستہ حرکات پر قرآن کریم کو کوئی اعتراض نہ کرنا چاہیے تھا۔ اور اگر یہ بات درست ہے کہ اپنے عقائد کے خلاف باتیں سننے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور اس کا لحاظ کرکے کسی کے عقائد کے خلاف کوئی بات اُسے نہ سنانی چاہیے تو اس قانون کے ماتحت یہ بھی کہنا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی حق نہ تھا کہ اہل عرب کو ان کے عقائد اور عادات و اطوار کے خلاف باتیں سناتے۔ مگر کوئی مسلمان یہ نہیں سمجھتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اِس کا کوئی حق نہ تھا کہ مکہ کے لوگوں کو ان کے عقائد کے خلاف باتیں سناتے۔بلکہ اگر کوئی مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی ایسا سمجھے تو وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض اور آپ کے اخلاق پر حملہ کرنے والا ہوگا۔ بلکہ خود قرآن کریم پر حملہ کرنے والا ہوگا جس نے متواتر نہ صرف اہلِ مکہ بلکہ تمام یہود و نصارٰی کے خلاف تعلیمات کو پیش کیا ہے اور اس کے نازل ہونے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہی ہے۔ ہم نے تو اپنے ان جلسوں میں کسی کے عقائد کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔ گو ہمارا حق ہے کہ چاہیں تو کہیں۔ مگر ہمارے ان جلسوں میں دوسروں پر اعتراض کا کوئی پہلو نہیں۔ دہلی میں ہمارے جلسہ کے اعلان کے بعد کئی دن وہاں مختلف مقامات پر ایسے جلسے ہوتے رہے کہ احمدیوں کا یہ جلسہ نہ ہونے دیا جائے اور اشتہار بھی شائع کیے گئے بلکہ حکومت کو بھی توجہ دلائی گئی کہ چونکہ اس جلسہ میں ہمارے عقائد کے خلاف باتیں ہوں گی اس لیے اشتعال پیدا ہوگا۔ حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب کا ایک دوسرے سے اختلاف ہے اور کوئی نیا فرقہ اور نئی جماعت تو قائم ہی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اُسے دوسروں سے اختلاف ہوتا ہے۔ مسلمان اپنے کو مسلمان کیوں کہتے ہیں؟ اِسی لیے کہ انہیں ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، یہودیوں وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے اختلاف ہے؟ اور اگر یہ اختلاف ناجائز ہے تو تمام مذاہب کو مٹا دینا ہوگا اور دنیا میں کبھی کوئی صداقت نہ پھیل سکے گی۔بہرحال وہ لوگ پہلے سے ہی ہمارے جلسہ کے خلاف جوش پیدا کر رہے تھے اور اسے خراب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ مسلمانوں کا عام طریق ہے بلکہ ہندوستان میں قریباً سب قوموں کا یہی طریق ہے۔ حتّٰی کہ کانگرس والے بھی ایسا کرتے ہیں کہ جب کوئی جلسہ ان کے خلاف ہونے والا ہو تو کثیر تعداد میں آکر سٹیج پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اپنے زور سے جلسہ کرنے والوں کو نکال دیتے ہیں اور پھر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے خلاف باتوں کو زبردستی روک دیا۔ اِسی نیت اور ارادہ سے مخالفین جلسہ میں آئے۔ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کے لیے کچھ سامان بہم پہنچا دیتا ہے۔ عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت قرآن کریم شروع کی تو ایک لفظ میں زیر کی جگہ زبر اُن کے منہ سے نکل گئی۔ انہوں نے قُرْاٰنَ الْفَجْرِ2 کی بجائے قُرْاٰنِ الْفَجْرِ کہہ دیا۔ بس یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلنے تھے کہ یہ لوگ جو منتظر ہی تھے کہ شور وغیرہ کرنے کا کوئی موقع مل سکے فوراً کھڑے ہوگئے اور شور مچانے لگے کہ قرآن کریم غلط پڑھا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے منہ سے زبر کے بجائے زیر نکل گئی۔ مگر اس پر اتنا شور مچانے کی تو کوئی وجہ نہ تھی۔ اتنا کافی تھا کہ ان میں سے کوئی صاحب کھڑے ہوتے اور کہہ دیتے کہ قاری صاحب قرآن کے لفظ پر زیر نہیں بلکہ زبر ہے تو ہم لوگ ان کے ممنون ہوتے۔ کیونکہ قرآن کریم کے پڑھنے میں اگر کوئی غلطی کرے تو اُس کی اصلاح کردینا ایک نیکی ہے۔ تمام عالَمِ اسلامی میں یہ طریق ہے کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے لیے جہاں حافظ مقرر کیے جاتے ہیں وہاں سامع بھی مقرر کیے جاتے ہیں تا اگر حافظ کوئی غلطی کر جائے تُو اس کی اصلاح کی جاسکے۔ اگر قرآن کریم پڑھنے میں یہ معمولی سی غلطی گویا قرآن کریم میں تحریف تھی تو کیا جب تراویح پڑھانے والے حفاظ کے ساتھ سامع مقرر کیے جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ حافظ صاحبان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ قرآن کریم میں تحریف کریں گے یا اپنی طرف سے باتیں قرآن کریم میں داخل کرتے جائیں گے اور اس بات کی نگرانی کے لیے سامع مقرر کیے جاتے ہیں؟ سامع مقرر کرنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ حافظ غلطی کرسکتا ہے۔ مگر کیا اس غلطی کی بناء پر شور اور فساد کرنا جائز ہے؟ ساری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا قاری اور حافظ ہو جو اِن تیس دنوں کی تلاوت کے دوران میں کوئی ایک بھی غلطی نہ کرے۔ لیکن اگر یہ طریق اختیار کیا جائے کہ وہاں تراویح کے لیے جاتے وقت جھولیوں میں پتھر بھر کے لے جائیں اور جہاں کسی حافظ سے کوئی غلطی ہو،بجائے اُسے توجہ دلانے کے اُس پر سنگباری شروع کردیں تو اگلے سال دنیا میں کہیں بھی نماز تراویح نہ پڑھی جاسکے۔غلطی ہوجانا ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قاری مقرر کیے ہوئے تھے جو ایسی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہتے تھے۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ حضرت علیؓ نے لقمہ دیا۔ نماز کے بعد آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہ تھا۔ غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لیے مَیں نے آدمی مقرر کیے ہوئے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں نے جو اصول پیش کیا اُس کی رُو سے تو چاہیے تھا کہ جب قرآن کریم کی تلاوت میں کوئی غلطی ہوتی تمام صحابہؓ نماز توڑ دیتے اور شور مچانے لگ جاتے۔ تو غلطی کا امکان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اور جب کوئی غلطی ہوجائے تو صحیح طریق یہی ہے کہ اس کی اصلاح کردی جائے۔ ارادہ اور نیت کے ساتھ تلاوت کے وقت کوئی شخص غلطی نہیں کرتا۔ پھر دنیا میں جو قرآن چَھپتے ہیں ان میں بھی زیر زبر کی غلطیاں رہ جاتی ہیں۔ دہلی میں کئی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم چھاپتے ہیں۔ کیا دہلی کے یہ لوگ جنہوں نے ہمارے جلسہ میں شور کیا بتا سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کتنوں کے گھروں پر سنگ باری کرنے گئے اور کتنے مطابع کو توڑا پھوڑا؟ اِس بناء پر کہ ان میں چھپے ہوئے قرآن کریم میں غلطی رہ گئی تھی۔ دہلی کے ایک مطبع والوں نے قرآن کریم شائع کیا اور انہیں اُس کی صحت پر اِس قدر اعتماد تھا کہ اعلان کیا کہ اِس میں غلطی نکالنے والے کو ایک اشرفی فی غلطی انعام دیا جائے گا۔ میر مہدی حسن صاحب مرحوم بڑے مُصَحِّح تھے انہوں نے ایک درجن سے زیادہ غلطیاں نکال کر بھیج دیں۔ مگر بجائے اس کے کہ اشرفیاں دیتے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ انعام کے لیے ایک وقت مقرر تھا اب نہیں دیا جاسکتا۔ مگر ہم نے یہ نہیں سنا کہ دہلی کے ان لوگوں نے اس مطبع والے کے گھر پر جاکر سنگباری کی ہو اور اس کے مطبع وغیرہ کو توڑ پھوڑ دیا ہو اور اس کے متعلق کہا ہو کہ اس نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے۔ پھر جو غلطی ہوئی وہ ایسی نہ تھی جو صَرف و نحو کے اصول سے بالکل ناجائز ہوتی۔ عربی میں جوار کے لحاظ سے بھی اعراب آجاتے ہیں اور قرآن کریم میں اس کی بعض مثالیں موجود ہیں۔ پس اگر کسی قاری کے منہ سے ایسی غلطی نکل جائے تو یہ کوئی ایسی غلطی نہیں جو علمی لحاظ سے زیادہ قابلِ اعتراض ہو۔ مگر جونہی عزیزم ناصر احمد صاحب کے منہ سے یہ لفظ نکلا یہ لوگ شور مچانے لگ گئے اور کسی طرح چُپ ہونے میں نہ آتے تھے۔ آخر چند نوجوان مجبور ہوگئے کہ ان کو جلسہ گاہ سے باہر نکال دیں۔ مگر اُن کی بات سننے کی بجائے ان شور مچانے والوں نے ان پر حملہ کردیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لڑائی شروع ہوگئی۔
دوسری چیز یہ پیدا ہوئی کہ چونکہ اللہ تعالیٰ دہلی والوں کا امتحان لینا چاہتا تھا لاؤڈ سپیکر خراب ہوگیا۔ جب ہمارے بعض نوجوان ان لوگوں کو باہر نکالنے لگے اور ان شورش پسندوں نے ان میں سے بعض کو مارنا شروع کردیا اور ان کا جواب بھی بعض احمدیوں نے دینا شروع کردیا تو مَیں نے کہنا شروع کیا کہ ان سے تَعَرُّض نہ کرو۔ واپس آجاؤ اور اگر مار پڑے تو برداشت کرو۔ اور مَیں حیران تھا کہ میری تاکید کے باوجود احمدی واپس کیوں نہیں آرہے۔ اِس پر ایک شخص نے بتایا کہ لاؤڈ سپیکر خراب ہوگیا ہے اور آپ کی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچ رہی۔ تب مَیں نے آدمی مقرر کیے کہ میری آواز کو دہراتے جائیں۔ پھر کہیں جاکر دوستوں کو میری ہدایات کا علم ہوا اور وہ واپس آئے۔ تو یہ دوسرا ذریعہ ہوگیا اِس فتنہ کو بڑھانے کا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے نہایت ہی ناروا اور ناواجب طریق اختیار کیا اور ایسی گندی گالیاں دیں کہ جنہیں انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان تھا کہ اُس نے احمدیوں کو ان کے برداشت کرنے کی توفیق دی۔ مَیں جب جلسہ گاہ میں داخل ہوا توایک آدمی سٹیج کے پاس ہی کھڑا تھا۔ مَیں جب اُس کے پاس سے گزرا تو اُس نے زور سے کہا لَعۡنَتُ اللّٰہِ عَلَی الۡکَاذِبِیۡنَ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ تم کاذب ہو اور تم پر اللہ تعالیٰ کی *** ہو۔ مگر ایک احمدی نے زور سے کہا اٰمِیْن۔پس ان لوگوں کا شروع سے ہی طریق اشتعال انگیز تھا۔ ہم نے پہلے جلسہ گاہ میں نماز پڑھی۔ پھر قرآن کریم کی تلاوت شروع ہوئی مگر ان سب باتوں سے بھی پہلے سے یہ لوگ آوازے کس رہے تھے۔ اس جھگڑے کے بعد ان لوگوں نے سارے شہر میں یہ اعلان کیا کہ احمدیوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے اور لوگوں کو وہاں چلنا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف سے لوگ اکٹھے ہوگئے اور سات آٹھ ہزار کی تعداد میں جلسہ گاہ کے اِرد گِرد جمع ہوگئے۔ لاؤڈ سپیکر تو خراب ہی تھا۔ اس لیے ان لوگوں کا شور و شر جلسہ کی کارروائی کو خراب کررہا تھا۔پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ میری تقریر کے دوران میں وہ کوئی ایسی بات نہ کرسکے کہ تقریر رُک جائے۔ لیکن جب مبلغین نے تقریریں شروع کیں اور انہوں نےسمجھا کہ شاید اب ہماری تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ہم حملہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے اَور بھی زور سے نعرے لگانا اور آگے بڑھنا شروع کیا۔ پولیس نے ان کو روکا مگر وہ رُکے نہیں۔ اتنے میں مجھے پاؤں کی آوازیں زور سے آنی شروع ہوئیں اور مَیں نے کھڑے ہوکر دیکھا تو سینکڑوں لوگوں کا ایک گروہ عورتوں کی جلسہ گاہ کی طرف حملہ کرنے کے لیے بھاگا جارہا تھا۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی شریف قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ پولیس بھی ان کو روکنے کے لیے دوڑی۔ وہ لوگ پولیس کے پہلو بہ پہلو دوڑ رہے تھے مگر پہلے وہاں پہنچ گئے۔ زنانہ جلسہ گاہ کے اِردگرد دو قناتیں تھیں۔ ایک قنات کے اندر صحن تھا اور پھر آگے جاکر دوسری قنات تھی اور اس کے اندر عورتیں بیٹھی تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جلسہ کا ایسا خطرناک انجام ہوتا کہ ممکن ہے بہت زیادہ خون خرابہ ہو جاتا۔ ان لوگوں نے پہلی قنات کو پھاڑ دیا اور گِرا دیا۔ اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے پردہ کے اندر جب انہوں نے دیکھا کہ عورتیں نہیں ہیں تو غالباً یہ سمجھا کہ عورتیں یہاں سے چلی گئی ہیں اور اگلی قناتوں تک وہ نہ گئے اور اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس بڑے خطرے سے ہمیں بچالیا۔ ورنہ اگر عورتوں کی بے حرمتی تک نوبت پہنچتی تو پھر کوئی شریف آدمی صبر سے کام نہ لے سکتا تھا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو دہلی وہ نظارہ دیکھتی جو اُس نے گزشتہ اسّی سال میں نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے عورتوں پر حملہ کا ارادہ کیا تو مَیں نے حکم دیا کہ ایک سَو مضبوط نوجوان جاکر عورتوں کی جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہوکر پہرہ دیں۔ عورتوں کا احترام نہایت ضروری اور لَابُدِّی ہے۔ اس لیے وہی کھڑا ہو جو مرنا جانتا ہو۔ بلکہ مَیں نے یہاں تک کہا کہ اگر تم میں سے کوئی مرنا نہیں جانتا تو وہ ہرگز نہ جائے اور واپس آجائے اُس کی جگہ مَیں خود جانے کو تیار ہوں کیونکہ مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مرنا جانتا ہوں۔ اُس وقت جو غیرمسلم اور غیر احمدی خواتین وہاں تھیں اُن کے رشتہ داروں نے کہلا بھیجا کہ ہمیں اپنی مستورات کی نسبت بہت گھبراہٹ ہے،خطرہ بہت ہے،کوئی انتظام کیا جائے۔ اس پر مَیں نے اُن کی تسلی کے لیے اعلان کیا کہ آپ فکر نہ کریں اپنی عورتوں سے پہلے ہم آپ کی عورتوں کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ وہ اِس امر کے شاہد ہیں کہ ہم نے وہ وعدہ پورا کردیا۔ بعض غیر احمدی مستورات کے ساتھ میری بیٹیاں گئیں اور اُن کو گھر پہنچا کر پھر اپنے گھر آئیں۔
جب وہ ہجوم وہاں سے ہٹا تو پھر مختلف جہات سے سنگباری شروع ہو گئی اور وہ لوگ آگے بڑھنے لگے۔ حتّٰی کہ ایک دفعہ اتنے قریب آگئے کہ سٹیج کے پاس پتھر پڑنے لگے۔ یہ وہی موقع تھا جب میرے داماد میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے سر پر چوٹ آئی۔ بعد میں ایکسرے سے معلوم ہوا ہے کہ اُن کے سر کی ہڈیاں تین جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں اور حالت خطرناک ہے۔ اسی طرح اَور بھی بہت سے احمدی زخمی ہوئے۔ پہلے تو خیال تھا کہ زخمیوں
حالت اب تک بھی خطرناک ہے۔ کی تعداد 24،25 ہے مگر بعد میں معلوم ہؤا کہ چالیس کے قریب ہے۔ اُن میں سے بعض کی ضربات شدید ہیں۔ جیسے میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی اور میاں فضل کریم صاحب پراچہ کی۔ ان کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔اے۔ ایل۔ ایل۔ بی واقف تحریک جدید کے بھی سخت چوٹ آئی ہے اور شبہ ہے کہ ان کی آنکھ کے پاس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اب تک وہ سر نہیں اٹھا سکتے۔ مگر مَیں اس تمام عرصہ میں متواتر اپنے آدمیوں کو یہ نصیحت کر رہا تھا کہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں، ماریں کھائیں مگر جواب نہ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دشمن کی جو غرض تھی کہ جلسہ نہ ہو اور مَیں تقریر نہ کرسکوں وہ پوری نہ ہوسکی اور ہم نے دعا اور تقریر کے بعد جلسہ ختم کیا۔
جب خطرہ بڑھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ عورتوں کو یہا ں سے پہرہ کے اندر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جائے۔ پہلے غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو پہنچائیں اور پھر احمدی خواتین کو۔ اس کے لیے لاریاں منگوائی گئیں اور جس جس جگہ کو عورتوں نے اپنے لیے محفوظ سمجھا وہاں ان کو پہنچا دیا گیا۔ مثلاً سکھ عورتوں نے کہا ہمیں گوردوارہ میں پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ ان کو گوردوارہ میں پہنچا دیا گیا۔اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک ہمیں جلسہ گاہ میں انتظار کرنا پڑا۔ مگر ان لوگوں کی شرافت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ان لاریوں پر بھی حملہ کیا جو عورتوں کو لے جارہی تھیں۔چنانچہ ایک گاڑی جس میں عورتیں تھیں انہوں نے اس کے آگے لاٹھیاں وغیرہ رکھ کر روک لی مگر مَیں چونکہ جانتا تھا کہ یہ لوگ ایسے اخلاق کے مالک ہیں اس لیے مَیں نے ہر لاری کے ساتھ محافظ لگانے کا حکم دیا تھا۔ جب لاری رُک گئی تو انہوں نے بے تحاشا پتھر برسانے شروع کردیئے۔ ان حملوں میں ہی ہمارے کئی نوجوان زخمی ہوئے اور بعض تو جب واپس آئے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوئے تھے۔ مگر اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے دشمن کو یہ بتادیا کہ گو احمدی صبر کرتے ہیں مگر جب ان پر خواہ مخواہ حملہ کیا جائے خصوصًا جب عورتوں کی حفاظت کا سوال ہو تو وہ ڈرتے نہیں۔ اسی سلسلہ میں ایک ہندو رئیس نے ڈاکٹر لطیف صاحب کو سنایا کہ مَیں سڑک پر جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک لاری آتی دیکھی جس میں عورتیں تھیں۔ کئی سَو آدمیوں کا ایک ہجوم آگے بڑھا اور لاری کو روک لیا۔لاری کے ساتھ چند ایک نوجوان تھے۔ جب ہجوم نے لاری کو روکا تو مَیں نے خیال کیا کہ اب ان نوجوانوں کی خیر نہیں۔ ہجوم نے پتھر برسانے شروع کیے مگر میرے دیکھتے دیکھتے پانچ سات نوجوان سامنے آئے اور انہوں نے سینکڑوں لوگوں کا مقابلہ کیا۔ مَیں یہ دیکھ کر حیران تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان مارے جائیں گے۔ لیکن ابھی دو تین منٹ ہی نہ گزرے تھے کہ مَیں نے دیکھا وہ ہجوم بھیڑوں بکریوں کی طرح بے تحاشا بھاگا جا رہا تھا اور لاری اور اس کے محافظ سائیکلسٹ آرام سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف جارہے تھے۔ بات یہ ہے کہ ہم امن کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور گورنمنٹ کا کا م اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں جہاں صبر کرنا جانتی ہیں وہاں مرنا بھی جانتی ہیں اور جو قوم مرنے کے لیے تیار ہو اُسے کوئی نہیں مار سکتا۔ میں خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سات آٹھ ہزار آدمی نہیں۔ اگر دہلی کے تمام لوگ بھی ہم پر حملہ کرتے تو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم اُن کو بھگا دیتے۔ مگر ہم نے پولیس کے کام میں دخل دینا پسند نہ کیا۔ جب عورتوں کی لاریوں پر انہوں نے حملہ کیا تو وہاں احمدیوں نے مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند آدمی سینکڑوں کو بھگا کر لے گئے۔ غیر مسلم اور غیر احمدی خواتین کو خطرہ کا بہت احساس تھا۔ بعض تو گھبراہٹ میں کانپنے لگیں۔ مگر اُس وقت احمدی عورتوں نے بھی بہت بہادری دکھائی اور ان کے ارد گرد قطار باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ اگر کوئی اندر آیا تو ہم مقابلہ کریں گی۔ حکومتِ ہند کے ایک سیکرٹری صاحب کی اہلیہ صاحبہ بھی جلسہ میں تھیں ان کو جب موٹر میں بٹھایا گیا تو اُن کے ایک طرف میری لڑکی بیٹھ گئی اور دوسری طرف ایک اَور غیر احمدی خاتون جو بہادر دل کی تھیں تا اگر باہر سے پتھر وغیرہ آئیں تو ان کو نہ لگیں اور اس طرح موٹر میں بٹھا کر اُن کو گھر پہنچایا گیا۔ تو اللہ کے فضل سے اِس موقع پر عورتوں نے بھی ثابت کردیا کہ اگر موقع آجائے تو وہ جان دینے سے دریغ نہیں کرتیں۔ بہرحال رات تک یہ شور و شر ہوتا رہا۔ آخر جب عورتیں چلی گئیں تب مَیں نے افسروں سے کہلا بھیجا کہ اب ہم نے جانا ہے۔ کیا آپ لوگ ہمارے لیے رستہ بنادیں گے یا ہم خود بنالیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود آپ لوگوں کو بحفاظت پہنچائیں گے۔ چنانچہ پولیس گارڈ ہمارے آدمیوں کے آگے پیچھے ہوکر انہیں محفوظ جگہ پر پہنچا آئی۔
مخالف خوش ہیں کہ انہوں نے شورش کی، پتھر برسائے اور گالیاں دیں۔ مگر ہم خوش ہیں کہ ہماری ایک اَور مماثلت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدا ہوگئی۔ وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے خوش ہے اور ہم اپنے نقطۂ نگاہ سے خوش ہیں۔ دشمن اس بات پر خوش ہے کہ اس نے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر عورتوں کی موٹروں اور لاریوں پر حملے کیے۔ مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے چند نوجوانوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر نہ صرف اپنی عورتوں کی بلکہ غیراحمدی اور غیر مسلم عورتوں کی بھی حفاظت کی۔ وہ خوش ہیں کہ انہوں نے بہت شور مچایا اور ہم خوش ہیں کہ اس قسم کے ماحول کے باوجود جبکہ ہمارے چاروں طرف دشمن ہی دشمن تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اپنی آواز کو آخر تک سنا سکے۔ دشمن خوش ہے کہ اس نے گندی گالیاں دیں، ماؤں اور بہنوں کی فحش اور گندی گالیاں دیں اور ہم خوش ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی خاطر ایسی گالیاں سننی پڑیں۔ وہ خوش ہیں اس لیے کہ اپنے اخلاق کے مطابق انہیں کامیابی ہوئی اور ہم خوش ہیں کہ اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرنے میں ہم کامیاب ہوئے۔ وہ اس پر خوش ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ مگر ہم اس پر خوش ہیں کہ باوجود اِس قدر مخالف حالات کے ہم خدا تعالیٰ کی آواز پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اس پر خوش ہیں کہ وہ یہ مال و دولت لے کر گھروں کو لَوٹے کہ انہوں نے گندی گالیاں دیں، پتھر مارے اور عورتوں پر حملے کیے۔ مگر ہم خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ہم پہنچا سکے اور اپنی عزت، آبرو اور جان قربان کرکے اللہ تعالیٰ کی مشیّت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور اِس طرح وہ غلاظت کی پوٹلیاں لے کر اپنے گھروں کو گئے اور ہم خدا تعالیٰ کا نور اور اس کی رضا کو لے کر گھروں کو لَوٹے اور اب دنیا خود فیصلہ کرسکتی ہے کہ جیت ہماری ہوئی یا ہمارے دشمنوں کی؟ اگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی امت کے اعمال پیش ہوتے رہتے ہیں تو کوئی ایک مسلمان بھی ہے جو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ وہ گندی اور فحش گالیا ں جو اِن لوگوں نے دہلی میں ہمیں دی ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیش کی جائیں گی تو آپ کا دل خوش ہو گا یا اس بات پر کڑھے گا کہ آپ کی امت کہلانے والوں کے اخلاق ایسے گِر چکے ہیں۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے مَیں کہتا ہوں اگر یہی گالیاں جو انہوں نے ہم کو دیں اِن لوگوں کی ماؤں کے سامنے دہرائی جائیں تو کیا ان کے دلوں کو خوشی ہوگی؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کی گالیوں کو سن کر خوش ہوتی ہوگی؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کہلانا اَور بات ہے مگر ایسے کام کرنا جن سے آپ کی روح خوش ہو اَور بات ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ یہ گالیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں نہ پڑنے پائیں تا آپ کے دل سے ان لوگوں کے لیے *** نہ نکالے اور آپ کو ملال نہ ہو کہ میری امت اِس قدر گر گئی اور گمراہی میں مبتلا ہے۔ ہم اس لیے بھی خوش ہیں کہ اس شورش اور اس مخالفت کا کوئی بھی وجود نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے راحت اور ایمان میں ترقی کا سامان مہیا فرمادیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "رؤیا میں دیکھا کہ دہلی گئے ہیں اور بخیریت واپس آئے ہیں"۔ پھر الہاماً یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَوْصَلَنِیْ صَحِیْحًا۔3 یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جو فساد اور دشمن کے حملے سے صحیح و سالم بچا کر واپس لے آیا۔ اس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لے ہی نہیں گئے۔ آخری سفر جو آپ نے دہلی کی طرف کیا وہ 1905ء کا ہے۔ تو یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا مثیل دہلی جائے گا۔ لوگ اُس پر پتھراؤ کریں گے۔ یہ جو سنگ باری کی گئی یہ دراصل مجھ پر تھی جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی مسند پر بٹھایا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو یعنی آپ کے مظہر کو صحیح و سالم واپس قادیان لے آئے گا۔ پس جو کچھ ہؤا اس میں اِس لحاظ سے بھی ہماری فتح اور کامیابی ہے۔ سلسلہ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مامورمِنَ اللہ اور خدا تعالیٰ کا پیارا ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ ہر پتھر جو وہ لوگ ہم پر مار رہے تھے وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَوْصَلَنِیْ صَحِیْحًا کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا اور ہر پتھر شاہد تھا اِس امر کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور خدا تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہوتا تھا۔ یہ جو کہا گیا کہ مجھے صحیح و سالم واپس پہنچا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دوسروں کو نقصان پہنچے گا۔ مگر ان لوگوں کی اصل غرض تو مجھے نقصان پہنچانا تھی۔ لیکن جہاں سیالکوٹ کے پتھراؤ میں تین پتھر مجھے بھی آلگے تھے۔ وہاں دہلی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک بھی نہیں لگا۔ غرض یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مثیل دہلی جائے گا اور دشمن اُس کو ضرر پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ اُسے بخیر و عافیت قادیان پہنچا دے گا۔ اور یہ پیشگوئی قریباً 37 سال کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہوئی۔ ہر انصاف پسند کو سوچنا چاہیے کہ کیا 37 سال قبل ایسی بات بیان کر دینا جو اپنے وقت پر صحیح ثابت ہو کسی انسان کی طاقت میں ہے؟ یہ ان لوگوں کے لیے بھی قابلِ غور بات ہے جو پیغامی کہلاتے ہیں۔ وہ بتائیں کہ اِس پیشگوئی کے مطابق کون ہے جو دہلی گیا؟ مخالفین نے اسے ضرر پہنچانے کی پوری کوشش کی اور اللہ تعالیٰ اُسے صحیح وسالم واپس قادیان لے آیا۔یہ لوگ تو اب قادیان آتے ہی نہیں بلکہ بہشتی مقبرہ کے لیے جو وصیتیں کر رکھی تھیں وہ بھی منسوخ کرالیں۔ ان میں سے اگر کوئی قادیان آئےتو اس کی نگرانی کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں دیکھا کہ دہلی گئے اور خیریت سے واپس آئے ہیں اور یہ رؤیا بتاتا ہے کہ قادیان میں ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل ہوں گے اور جن کا دہلی جانا اور بہ سلامت واپس پہنچنا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانا اور صحیح وسالم واپس پہنچنا ہوگا۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْمُؤْمِنُ یَرٰی اَوْ یُرٰی لَہٗ۔4 جس روز میں نے دہلی جانا تھا اُسی روز یا اُس سے ایک روز قبل خلیفہ صلاح الدین صاحب کا خط مجھے دہلی سے ملا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ قادیان سے خبر آئی ہے کہ خلیفۃ المسیح نگینہ سے بخیریت واپس قادیان پہنچ گئے ہیں۔ نگینہ انگوٹھی کے مرکز میں ہوتا ہے اور دہلی ہندوستان کا مرکزی شہر ہے۔ دہلی کو ہندوستان میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نگینہ کو انگوٹھی میں۔ گویا اِس خواب میں بتادیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو رؤیا 13 جنوری 1906ء کو دیکھا تھا وہ اِسی سفر کے متعلق تھا۔ وہی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 37 سال قبل دکھائی گئی تھی جلسہ سے چند روزقبل آپ کے ایک مرید کو دکھائی گئی۔ یہ گویا ایک اشارہ تھا اِس امر کی طرف کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ تو ہمارے لیے ہر حال میں خوشی ہی خوشی ہے۔ ؎
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
اسی طرح اس فساد کے ذریعہ سے میرا ایک الہام بھی پورا ہوا جو دہلی کے جلسے سے چند دن پہلے ہوا تھا جو یہ ہے یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر۔اس الہام میں خبر دی گئی تھی کہ جلسہ کے فساد کے موقع پر چند احمدی سینکڑوں پر بھاری ثابت ہوں گے اور ہر جگہ ان کو فتح نصیب ہوگی۔ کیونکہ جہاں ان کو لڑنا پڑے گا وہاں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کی مدد کے لیے ان کے ساتھ اٹھے گا۔ چنانچہ جلسہ پر جن لوگوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ کس طرح ضرورت کے موقع پر جب احمدی آگے بڑھتے تھے تو آٹھ دس کے مقابل پر سینکڑوں دہلی والے جن میں پٹھان طالب علم بھی شامل تھے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے جاتے تھے۔ یہ اِسی وجہ سے تھا کہ نوجوانوں کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ تھا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
ہم پر تو اِن پتھروں کا پڑنا بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ہے۔سلسلہ کی صداقت اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہے۔ مگر اِس میں ہماری جماعت کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ خرابیاں جو مسلمانوں میں آج نظر آتی ہیں اِن کے ازالہ اور علاج کی یہی صورت ہے کہ احمدیت کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اِس کے سوا اِس گندی حالت کو بدلنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہر ایسی حرکت ہمارے لیے ایک حجت ہے کہ ہم نے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیا ہے۔ اگر ہم دہلی والوں تک اسلام کی تعلیم اور احمدیت کی روشنی کو پھیلاتے تو پھر آج وہاں کے لوگ پتھر نہ مارتے بلکہ درود بھیجنے والے ہوتے۔ اِس لیے دوستوں کو چاہیے کہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ میں لگ جائیں۔ مَیں لاہور کی جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلا کر آیا تھا اور وہاں تھوڑے ہی عرصہ میں کئی لوگوں نے بیعت کی ہے حالانکہ ابھی پورے طور پر اور باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا۔ اگر تمام دوست پوری کوشش سے کام کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال دو سال میں ہی تغیر ِعظیم پیدا ہوسکتا ہے اور حالات سُدھر سکتے ہیں۔ پس دوستوں کو چاہیے کہ قریب ترین عرصہ میں احمدیت کو پھیلانے میں اپنی ساری توجہات کو لگا دیں۔اگر وہ ایسا کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے کام میں سہولت پیدا کردے گا۔ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور جب ہم اسے کرنے لگیں گے تو خدا تعالیٰ کی غیرت خود بخود جوش میں آئے گی کہ میرے بندے میرا کام کر رہے ہیں۔ تب فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور اِس کام کو ہاتھ میں لے لیں گے اور تھوڑی سی کوشش سے شاندار نتائج پیدا ہوں گے۔ مَیں نے دوستوں کو بار بار اِس طرف توجہ دلائی ہے مگر ابھی انہیں پوری طرح اِس کا احساس نہیں ہوا اور جماعت نے مجموعی حیثیت سے کوئی کوشش نہیں کی۔ آج میں زیادہ نہیں بول سکتا۔ کیونکہ دہلی سے واپسی پر رستہ میں مجھ پر انفلوانزا کا حملہ ہوا اور اسہال ہوتے رہے اس لیے مشکل سے بول رہا ہوں۔ اور پھر اس مضمون پر میں اِتنی دفعہ بول چکا ہوں، اِتنی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں اور قرآن کریم میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوچکا ہے۔ پس اپنی کوششوں کو تیز کریں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُس کی طرف واپس آئیں۔ آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ "دین کو دنیا پر مقدم کریں گے"۔ اِس لیے سُستیاں ترک کردیں اور رات دن اِس کام میں لگ جائیں۔ اپنی جان اور اپنے اموال اِس کام میں لگا دیں تا خدا تعالیٰ کا نور جلد سے جلد دنیا میں پھیلے۔ اٰمیْن"۔ (الفضل3 مئی، 1944ء)


16
دین کی خاطر قربان کرنے کے لیے اپنی ہر چیز تیار رکھیں
(فرمودہ 28؍اپریل 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"رات کو مجھے اسہال کی تکلیف ہوگئی تھی۔صبح اللہ تعالیٰ نے اس میں کچھ افاقہ تو پیدا کردیا مگر معلوم ہوتا ہے یہ تکلیف انفلوئنزا کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ آج صبح سے مجھے سر درد کی شکایت شروع ہوگئی ہے جو بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے اِس وقت مجھ سے زیادہ بولا نہیں جاتا۔
آج بجائے کوئی نئی بات کہنے کے مَیں جماعت کو پھر اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر بڑے کام کے لیے ایک تیاری کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ بہت لوگ ہوتے ہیں جو تیاری کو غیر ضروری قرار دے کر پیچھے ہٹے رہتے ہیں اور صرف اُس دن کے امیدوار رہتے ہیں جب اصل مقابلے کا وقت آجائے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُس دن مقابلہ کے لیے میدان میں نکل کھڑے ہوں گے مگر یہ لوگ جیسا کہ حضرت مسیح ناصریؑ نے کنواریوں کی مثال میں بتایا ہے وقت آنے پر کام نہیں کرسکتے اور مقابلہ پر پیچھے ہٹنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تیاری کے لمبے عرصہ سے گھبرا جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی جنگ ہونے والی ہی نہیں۔ کچھ دن تو اُن کا جوش قائم رہتا ہے مگر پھر اُن میں مساوات کا سارنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ بھی وقت آنے پر کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوا کرتے۔
مَیں نے جماعت کو اِس امر کی طرف پچھلے چند ہفتوں سے توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے لیے جو جنگ ہونے والی ہے وہ اب قریب آرہی ہے اور ہمیں اس کی خاطر قربانیاں کرنے کے لیےتیار رہنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے مَیں نے بعض مالی تحریکیں کی ہیں بعض وقفِ زندگی کی تحریکیں ہیں اور اِسی سلسلہ کی ایک کڑی گو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ تحریک میں نے کی وہ دوسروں کی طرف سے آئی اور میرے دل نے اُس کو قبول کرلیا، کالج کی تحریک ہے۔ بعد میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ تحریک بھی آئندہ جنگ کی کڑیوں میں سے ایک اہم کڑی ہے۔ان تحریکوں کے معنے صرف یہ ہیں کہ ہمیں آئندہ جنگ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ جیسا کہ مَیں نے بارہا بتایا ہے وہ وقت جب اسلام کے لیے مسلمانوں کو فوری طور پر قربانیاں کرنی پڑیں گی اچانک آئے گا مگر جب تک اُس دن کے لیے پہلے سے تیاری نہ کی جائے وہ اچانک آئے یا خبر دے کر آئے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ تیاری ہی ایک ایسی چیز ہے کہ علم کے ساتھ جنگ ہو یا بغیر علم کے جنگ ہو انسان کے کام آیا کرتی ہے۔ پس مَیں نے جو مختلف تحریکات کی ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ جماعت کو آئندہ جنگ کے لیے تیار کیا جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو کچھ عرصہ کے بعد کہیں گے کہ کچھ بھی نہیں ہوا اُن کے دل بیٹھنے شروع ہوجائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ وہ دن جس کےلیے ہم تیاری کر رہے تھے نہ معلوم آتا بھی ہے یا نہیں آتا۔ مگر جب وقت آئے گا ایسے لوگ پیچھے گِر جائیں گے۔ اِسی طرح وہ لوگ جو اِس وقت اس آواز کا جواب نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے مخلص ہیں، ہم بڑی قربانی کرنے والے ہیں، ہم بڑا ایثار کرنے والے ہیں جب خدا کی طرف سے آواز آئے گی ہم فورًا قربانی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ وہ بھی جب وقت آئے گا پیچھے ہٹ جائیں گے اور اسلام کے بہادر سپاہیوں کے ساتھ اپنے قدم ملا نہیں سکیں گے۔ صرف وہ منزل مقصود پر پہنچیں گے، صرف وہ کامیابی کا منہ دیکھیں گے اور صرف وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے جو اُس دن کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے زمانہ کا بُعد یا زمانہ کا چھوٹا ہونا اُن کی تیاری میں روک نہیں بنتا۔
حضرت مسیح ناصریؑ نے کہا مَیں جاتا ہوں تاکہ خدا تمہاری طرف دوسری قدرت بھیج دے اور مَیں اس لیے جاتا ہوں تاکہ خدا کی طرف سے تمہارے لیے فارقلیط آئے۔ لوگوں نے انتظار کیا اور کرتے چلے گئے۔ مگر آخر انہوں نے کہا فارقلیط کلیسیا ہی ہے۔ آخر چند صدیوں یعنی چھ سو سال کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ وہ فارقلیط ظاہر ہوا اور وہ لوگ جو انتظار کرکے تھک چکے تھے اُس فارقلیط پر ایمان لانے سے محروم رہ گئے۔ صرف وہ چند لوگ جو اس امید میں زندہ رہے اور اس کا ایک لمبے عرصہ تک انتظار کرتے چلے گئے انہوں نے اُس کو پالیا۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے کبھی اتنا لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ قوم کی قوم سو جاتی ہے اور کبھی وہ گھڑی اتنی قریب کردی جاتی ہے کہ لوگ ابھی ہتھیار بھی سنبھالنے نہیں پاتے کہ لڑائی ختم ہوجاتی ہے۔ وہی شخص کامیاب ہوتا ہےجو اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ نہ معلوم کب اور کس چیز کا میرا دوست مجھ سے مطالبہ کرے گا۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچی دوستی کے متعلق ایک کہانی سنایا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے ایک امیر آدمی تھا جو بہت بڑا دولتمند تھا۔ اُس کا ایک لڑکا تھا جس نے اپنی دولت کی وجہ سے کئی اوباش نوجوان اپنے ارد گرد جمع کر لیے تھے۔ وہ اُن کے لیے قسم قسم کے کھانے تیار کرکے لے جاتا، قسم قسم کے شربت اُن کے پینے کے لیے تیار کراتا۔ کبھی فالودہ اُن کو کھلاتا، کبھی پھل اُن کے سامنے پیش کرتا، کبھی مٹھائیاں اُن کے لیے منگواتا، کبھی عطر اور خوشبودار تیل اُن کو دیتا، کبھی مختلف قسم کی خوشبودار دھونیوں سے اُن کے کمرے کو معطر کرتا۔ غرض ان کی مجلس خوب گرم رہتی۔ وہ شربت پیتے رہتے، کھانے کھاتے رہتے،مٹھائیاں اور پھل وغیرہ استعمال کرتے رہتے اور اقرار کرتے کہ ہم تجھ سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ ہمارے جیسے دوست کبھی کسی کو میسر نہیں آئے۔ باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ نصیحت کرتا اور اُسے کہتا کہ ان دوستوں کا کوئی اعتبار نہیں مگر وہ جواب میں یہی کہتا کہ ابّا آپ کو کیا پتہ؟ یہ دوست تو ایسے اچھے اور وفادار ہیں کہ ان سے بڑھ کر وفادار دوست اَور کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ایک دن باپ نے اپنے بیٹے سے کہا اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ یہ نوجوان تمہارے سچے دوست ہیں اور تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں آتا تو تم اس کا تجربہ کرکے دیکھ لو۔ تم ان کے گھروں پر جاؤ اور اُن سے کہو میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب میرے گزارہ کی کوئی صورت نہیں مجھے کچھ روپے دو تاکہ مَیں اُن سے تجارت کرسکوں۔ پھر دیکھو کہ تم سے یہ دوست کیسا سلوک کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا مَیں اِس کا تجربہ کر لیتا ہوں۔ چنانچہ وہ کسی دوست کے پاس گیا اور اُس سے کہنے لگا ابّا نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب مَیں چاہتا ہوں کہ گزارہ کے لیے کوئی تجارت کروں۔ فی الحال تم مجھے پانچ ہزار روپیہ دے دو۔ جب تجارت سے آمد شروع ہوگی تو آہستہ آہستہ یہ قرض اتار دوں گا۔ جس وقت دوست سے اُس نے یہ ذکر کیا وہ سنتے ہی کہنے لگا مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ میرا روپیہ اِس وقت فلاں فلاں جگہ پھنسا ہوا ہے۔ اگر روپیہ میرے پاس ہوتا تو مَیں ضرور دیتا مگر مَیں معذور ہوں۔ یہ کہہ کر اور معذرت کا اظہار کرکے وہ واپس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے بعد یہ دوسرے دوست کے پاس گیا اور اس نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر تیسرے دوست کے پاس گیا اور اُس نے بھی یہی جواب دیا۔چونکہ اِس عرصہ میں یہ بات اُس کے تمام دوستوں میں پھیل گئی اس لیے آخر میں تو ایسا ہوا کہ یہ جب اپنے کسی دوست کو آواز دیتا تو وہ باہر ہی نہ نکلتا اور نوکر کے ذریعہ کہلا بھیجتا کہ اُس سے جاکر کہہ دو میاں گھر میں نہیں ہیں۔ آخر وہ مایوس ہوکر رات کو اپنے گھر میں واپس آگیا اور باپ سے کہنے لگا کہ آپ کی بات تو سچی نکلی۔ مَیں سب کے پاس گیا مگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی۔ کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے باہر نکل کر معذرت کر دی اور اکثر ایسے تھے جو باہر ہی نہ نکلے۔ باپ نے یہ سن کر کہا تم نے تو اپنے دوست دیکھ لیے آؤ اب مَیں تمہیں اپنا دوست بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اُس نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور دوست کی طرف چل پڑا۔ راستہ میں اُسے کہنے لگا بیٹا! سچا دوست بڑی مشکل سے ملا کرتا ہے اور پھر جس طبقہ میں تم اپنے دوست تلاش کرتے ہو اس میں تو کسی سچے دوست کا ملنا اَور بھی مشکل ہوتا ہے۔ تمہیں میرا دوست دیکھ کر تعجب آئے گا مگر سچا دوست وہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے و ہ اُسے شہر سے باہر لے گیا۔ وہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ اس جھونپڑی کے قریب پہنچ کر اُس نے دروازہ پر دستک دی اور جو شخص اس کے اندر تھا اُسے بلایا۔ بیٹا یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ میرا باپ تو اتنا امیر آدمی ہے اور اس کا دوست ایسا غریب اور چھوٹے طبقے کا ہے کہ ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے آواز آئی کہ کون ہے؟ اس نے اپنا نام لیا کہ مَیں ہوں اور ایک ضروری کام کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اس آواز کو سننے کے بعد خاموشی طاری ہوگئی۔ دو منٹ، چار منٹ، دس منٹ، بیس منٹ گزر گئے مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ بیٹے نے اپنے باپ سے کہا آپ کا دوست بھی ویسا ہی نکلا جیسے میرے دوست تھے۔ باپ نے کہا ذرا ٹھہر جاؤ میرا دوست ایسا نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیا وجہ پیش آئی کہ اُس نے نکلنے میں دیر لگا دی ہے۔ تھوڑی دیر گزری تو دروازہ کھلا اور اندر سے معمولی غریبانہ لباس میں ایک شخص نکلا جس کے ساتھ اُس کی عورت تھی۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور کمر کے ساتھ ہمیانی1 بندھی ہوئی تھی جس میں روپے تھے۔ اُ س نے باہر نکل کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور پھر پوچھا کہ کیا کام ہے؟ اُس نے کہا کام تو پھر بتاؤں گا پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم نے باہر نکلنے میں دیر کیوں لگائی ہے؟ وہ کہنے لگا میرے آپ کے ساتھ مدت سے دوستانہ تعلقات ہیں اور ہم کبھی کبھار آپس میں مل بھی لیتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر کامل یقین اور اعتبار ہے کہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو مَیں آپ کے کام آؤں گا اور اگر مجھے کوئی ضرورت پیش آئے تو آپ میرے کام آئیں گے۔ لیکن یہ واقعہ کہ رات کو آپ میرے پاس آئے ہوں اور آپ نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا ہو ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پس جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو مَیں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بڑی مصیبت آئی ہے تبھی آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں۔لیکن مَیں نے کہا خواہ کوئی بھی مصیبت ہو مجھے اس کے لیے تیار رہنا چاہے۔ چنانچہ مَیں نے سوچا کہ میرے پاس تین چیزیں ہیں۔ ایک میری بیوی ہے، کچھ ساری عمر کا اندوختہ پانچ سَو روپیہ ہے جو زمین میں دفن ہے جو ایک چھوٹی موٹی ملازمت سے مَیں نے تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کیا ہے اور ایک میری جان ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ گوآپ بڑے آدمی ہیں مگر کسی وقت بڑے آدمی کو بھی کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے۔ شاید آپ کو روپیہ کی ضرورت ہو اور اِسی لیے آپ میرے مکان پر تشریف لائے ہوں۔ سو مَیں اٹھا اور روپیہ نکالنے لگا اور اِسی وجہ سے مجھے دیر لگی ہے۔ کیونکہ مَیں غریب آدمی ہوں اور مَیں نے ایک گہرا گڑھا کھود کر وہاں پانچ سو روپیہ دفن کیا ہوا تھا گڑھے کے کھودنے اور روپیہ نکالنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ مگر بہرحال مَیں نے روپیہ نکال لیا۔ پھر مَیں نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیال کیا کہ شاید عورتوں کی خدمت کی ضرورت ہو۔ چنانچہ مَیں نے اسے کہا چل نیک بخت! شاید تیری خدمت کی ضرور ت ہو۔ تیسری چیز میری جان ہے سو وہ بھی حاضر ہے۔ اور تلوار میرے ہاتھ میں ہے کوئی بھی آپ کا دشمن ہو مَیں اُس سے لڑنے اور اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں۔ سو مَیں تینوں چیزیں لے کر آگیا ہوں۔ اگر کسی عورت کی خدمت کی ضرورت ہے تو میری بیوی حاضر ہے، اگر روپیہ کی ضرورت ہے تو میری ساری عمر کا اندوختہ حاضر ہے، اگر جان کی ضرور ت ہے تو میری جان حاضر ہے۔ جس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے کہیں مَیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اُس امیر آدمی نے شکریہ کے ساتھ اُسے رخصت کیا اور کہا مَیں تو صرف اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کے لیے یہاں لایا تھا۔اس کے بعض اوباش نوجوان دوست تھے اور یہ ان کو بڑا وفادار اور سچا دوست سمجھتا تھا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ وہ سچے دوست نہیں ہیں۔ سچا دوست اگر تم دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ آؤ۔ چنانچہ مَیں نے اسے دکھا دیا کہ سچا دوست کیسا ہوا کرتا ہے۔ مجھے کسی خدمت کی ضرورت نہیں تم اپنے گھر چلے جاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ االلہ تعالیٰ بھی اپنے ایسے ہی دوست دنیا میں چاہتا ہے۔ یہی لوگ خدا تعالیٰ کی جنت میں جاتے ہیں اور انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ۝ ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۝ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۝ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۝2 اے نفسِ مطمئنہ! جو ایک ہی طرف ٹِک گیا یعنی جو ایک طرف جھکا اور پھر جھکتا ہی چلا گیا اور میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے پر اُسے اطمینان ہوگیا۔ جب کسی شخص کے دل میں کوئی خلش ہوتی ہے وہ کبھی دائیں جاتا ہے کبھی بائیں جاتا ہے کبھی آگے جاتا ہے کبھی پیچھے جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے مقصود کی تلاش اور اس کی جستجو میں محو ہوتا ہے۔ ابھی اس کا مقصود اُسے ملا نہیں ہوتا۔ لیکن نفسِ مطمئنہ وہ ہے جس کا مقصود اُسے مل گیا۔ جیسے بچہ جب ماں سے کھویا جاتا ہے تو وہ چیختا چِلّاتا کبھی دائیں جاتا ہے کبھی بائیں جاتا ہے کبھی ادھر جاتا ہے کبھی اُدھر جاتا ہے لیکن جب اُس کی ماں اُسے مل جاتی ہے تو وہ اس کی گودی میں آرام سے لیٹ جاتا بلکہ بسااوقات سوجاتا ہے۔ یہی مراد ہے نفسِ مطمئنہ سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نفسِ مطمئنہ! جسے میری جستجو تھی اور جس کو مَیں مل گیا اور جو مجھ پر ٹیک لگا کر ایسا لیٹا کہ پھر اِدھر اُدھر اُس نے نہیں دیکھا۔ ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ تُو نے جب مجھے دیکھ لیا تو تیرے دل سے کسی اور کی خواہش بالکل مٹ گئی۔ چونکہ تیرے دل میں میری بھی خواہش تھی اس لیے آ آ، اپنے ربّ کے پاس آجا۔ تجھے کسی اَور طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ تیری خواہش یہی تھی کہ تُو میری گودی میں آجائے۔ پس تُو آ اور میری گودی میں بیٹھ جا۔ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔ تُو خوش ہوگیا کہ جس چیز کی تجھ کو تلاش تھی وہ تجھے مل گئی۔ مگر یہی نہیں کہ تُو خوش ہوگیا کہ جس چیز کی تجھے تلاش تھی وہ تجھے مل گئی بلکہ بات یہ ہے کہ مَیں بھی خوش ہوگیا۔ کیونکہ جس طرح تجھے میری تلاش تھی اُسی طرح مجھے بھی تیری جستجو تھی۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔آ آ اب تُو میرے بندوں میں داخل ہوجا اور چونکہ اب تُو میرے بندوں میں داخل ہوگیا ہے اِس لیے جو چیز میری ہے وہ تیری ہے، جو میرا مال ہے وہ تیرا مال ہے۔ اور چونکہ میرا مقام جنت ہے اِس لیے تُو بھی جنت میں آجا اور اُن بندوں میں شامل ہوجا جو آقا سے دُوری نہیں رکھتے۔ آقا کی چیز اُن کی چیز ہوتی ہے اور اُن کی چیز آقا کی چیز ہوتی ہے۔ اب میری چیزیں میری ہی نہیں بلکہ تیری بھی ہیں اور تیرا حق ہے کہ تُو ان سے جس طرح چاہے حظ اٹھائے۔
اِن آیات میں تمثیلی طور پر وہی بات بیان کی گئی ہے جو اس مثال میں بیان کی گئی تھی۔ جیسے اُس نے کہا کہ مَیں اپنی ہر چیز لے آیا ہوں۔ بیوی لے آیا ہوں کہ شاید کسی عورت کی خدمت کی ضرورت ہو، مال لے آیا ہوں کہ شاید روپیہ کی ضرورت ہو، جان لے آیا ہوں اور ساتھ ہی لڑنے کے لیے تلوار بھی کہ شاید میری جان کی ضرورت ہو۔ اسی طرح فرمایا ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔تُو چاہتا تھا کہ مجھ کو لے لے اور میرے پاس آجائے۔پس چونکہ تُو نے مجھ کو لے لیا اور میرے پاس آگیا اس لیے میرے پاس آنے کی وجہ سے جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہے۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۝ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ نہ صرف مَیں نے تجھ کو اپنا وجود دے دیا بلکہ تجھے کامیاب بھی کردیا اور اپنی جنت میں تجھ کو داخل کردیا۔
یہ کیسی وفا اور اخلاص والی محبت ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے رکھتا ہے۔ پھر وہ ایسی محبت کا ہم سے بھی تقاضا کرتا ہے۔ خواہ وہ ہم سے ایک ہزار سال تک انتظار کرائے اور پھر کہے آجاؤ میرے بندو!مجھے تمہاری جان کی ضرورت ہے اور وہ دوسرے منٹ میں ہی کہے کہ آجاؤ اور اپنی جانیں میرے دروازہ پر قربان کردو۔ اُس کو ایسے خادموں کی ضرورت نہیں ہے جو قربانی کے لیے تیاری نہیں کرتے یا اُس کی طرف سے آواز بلند ہونے میں اگر دیر ہوجاتی ہے تو وہ سست ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔
پس جو تحریکیں مَیں نے جماعت میں کی ہیں ان کی طرف میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ کوئی شخص میری ان تحریکات کو اِس رنگ میں نہ سمجھے کہ شاید کل ہی وہ دن آنے والا ہے جب اسلام کی ترقی کے لیے جماعت سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ہم تو کہتے ہیں اُس دن کے آنے میں ابھی اَوردیر ہو۔ تاکہ ہمارے کمزور بھی تیاری کرلیں اور ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایسا مادہ پیدا ہوجائے کہ وقت آنے پر ہم اپنے اموال، اپنے اوقات، اپنی جانیں، اپنی اولادیں، اپنی بیویاں اور اپنے دوست سب کچھ خدا کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔جس طرح سفر پر جانے سے پہلے لوگ اپنی پوٹلیوں اور اپنے ٹرنکوں میں اسباب بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ گاڑی کی سیٹی بجے تو وہ اپنا اسباب اٹھا کر ڈبّے میں بیٹھ جائیں اِسی طرح ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دین کے لیے اپنی تمام چیزیں تیار رکھے۔ تاکہ جب خدا کی طرف سے آنے والے انجن کی آواز سنائی دے تو وہ دو چار منٹ کے اندر اندر سٹیشن پر پہنچ جائے۔ اور پھر جتنے منٹ اُس گاڑی نے سٹیشن پر ٹھہرنا ہو اُس وقت کے اندر اندر اُس کا اسباب گاڑی پر لد جائے۔ اگر اِس طرح ہم اُس دن کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ہم کسی خوش بختی یا ساعتِ سعید کا بھی انتظار نہیں کرسکتے۔ ہماری امیدیں محض ایک سراب کی حیثیت رکھیں گی جن سے آنکھیں تو چکاچوند ہوسکتی ہیں، جن سے مایوسی تو پیدا ہوسکتی ہے مگر تشنگی دور نہیں ہوسکتی"۔(الفضل9 مئی، 1944ء)
٭ آج ہفتہ کی شام تک سترہ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں۔
٭٭آج ہفتہ کی شام تک دس ہزار سے اوپر نقد آچکا ہے۔
٭جمعہ کے معًا بعد ایک احمدی، بجلی کے کارخانہ کے مالک نے پیش کیا کہ وہ لاؤڈ سپیکر اس غرض کے لیے مسجد کو اپنی فرم کی طرف سے پیش کریں گے۔ فَجَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔
٭ اس کے بعد اَور نوجوان میٹرک پاس نے وقف کیا ہے اور بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ والوں نے بھی۔
٭ بعد میں یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی۔ کئی دن کی ڈاک پڑی ہوئی تھی، جب اسے پڑھا گیا تو سینکڑوں وعدے اُس سے نکلے ہیں۔ مگر ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔
٭ اِس اعلان کے بعد چند گھنٹوں میں چالیس لاکھ کے قریب کی قیمت کی جائیدادیں دوستوں نے وقف کردیں۔ فَالْحَمْدُ لِلہ۔باہر کے دوستوں اور قادیان کے اَور دوستوں کی درخواستوں کے بعد تعجب نہیں کہ کئی کروڑ روپیہ کا ریزرو فنڈ اس غرض کے لیے قائم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا رحم ان پر نازل ہو جو آگے بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْن
1 : البقرة :157
2 :ترعُّش:ارتعاش
3 :بخاری کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمة الاولٰی (مفہوماً)
4 :الحکم 23 جنوری 1899ء صفحہ 2
5 : مسند احمد بن حنبل ،مسند عثمان بن عفّان صفحہ 62 بیت الافکار الدّولیہ لبنان 2004ء
6 :آل عمران: 194،195
7 :البقرۃ:143
8 :صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من اتّخاذ المساجد علی القبور
9 :ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان (مفہومًا)
10:المصنف کتاب الجنائز باب من رخص فی زیارۃ القبور جلد3 صفحہ342،343 ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی1986ء (مفہومًا)
11:اسد الغابہ جلد اول صفحہ 238 بلال بن رباح بیروت لبنان 2001ء
12:پیدائش باب 50 ، یشوع باب 24 آیت 32 ، 33
13:تذکرہ صفحہ10 ،195۔ ایڈیشن چہارم
14:بدر 8 نومبر 1905ء
15:تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ75
16:المائدة:68
17:تذکرہ صفحہ 411۔ ایڈیشن چہارم
18:تذکرہ صفحہ 106۔ ایڈیشن چہارم
19:بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رأی ما یکرہ
20:صحیح بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام……….
21:تذکرہ صفحہ782۔ ایڈیشن چہارم
22:زبور باب 37، آیت26
23:برکات الدعاء روحانی خزائن جلد 6صفحہ 37
24:وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ(الزمر:13)
1 :التوبة:103
2 :تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ70۔ مطبع سرکاری لاہور 1870ء
3 : التوبة:111
4 :اشتہار 20 فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ95 ، 96
1 : تذکرہ صفحہ10 ایڈیشن چہارم
2 :الاحزاب:47
3 :تذکرہ صفحہ177، 178۔ ایڈیشن چہارم
4 :الفضل 24 جنوری 1935ء خطبہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء
5 :ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی المرأۃ والعبد یحذیان فی الغنیمۃ
6 :بخاری کتاب الجہاد باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَاءِ الْاِمَامِ وَیُتَّقٰی بِہٖ
7 :اسدالغابہ ذکر سراقہ بن مالک۔الجزء الثانی صفحہ 281دارالمعرفۃ بیروت لبنان 2001ء (مفہومًا)
8 :سنن نسائی کتاب الوصایا باب الکراھیۃ فی تاخیر الوصیۃ
9 :بخاری کتاب الصلٰوۃ باب کَنْسِ الْمَسجِدِ وَالْتِقَاطِ الْخِرَقِ وَالقَذٰی وَالْعِیْدَانِ
10:تذکرۃ الاولیاء حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ (اردو ترجمہ) صفحہ 225 ذکر حضرت جنیدؒ بغدادی تعلیمی پریس کشمیری بازار لاہور
1 :تاریخ طبری جلد ثانی صفحہ631 ، 632 ۔ زیر عنوان ذکر الخبر عن عمرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الّتی صدّہ المشرکون فیھا عن البیت و ھی قصۃ الحدیبیۃ۔ مطبوعہ مصر1961ء
2 :بخاری كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب الِاغْتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ
3 :متی باب 12 آیت 46تا 49
4 :یوحنا باب 19 آیت 25 تا 27
5 :الحج:40
6 :آل عمران:168
٭ بعض دوستوں نے خطبہ کے بعد مجھے لکھا ہے کہ اس الہام کا اس الہام کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ
دیر آمدۂٖ ز راہِ دُور آمدۂٖ11
یعنی گو جماعت کا راہ دُور ہے مگر اس اِلہام کے ماتحت تم جماعت کو لے کر اسی دور کی راہ کو جلد طے کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوگے۔ خدا کرے یہ معنی درست ہوں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں اور قربانیوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ یہ بہت اچھا ہے اس سے کہ ایسی امیدوں پر تکیہ رکھیں جو بعد میں پوری نہ ہوں اور ناکامیوں کے قریب کردیں ۔ اللہ تعالیٰ اس بُرے دن سے محفوظ رکھے۔ آمین
1 : اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ؕ وَ مَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ ؕ وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ اَیْنَ شُرَكَآءِیْ ۙ قَالُوْۤا اٰذَنّٰكَ ۙ مَا مِنَّا مِنْ شَهِیْدٍ (حٰم السجدہ:48)
2 :دیوان غالب مطبوعہ آئینہ ادب لاہور صفحہ89 میں شعر اس طرح سے ہے
‘‘ جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ! قیامت کاہے گویا کوئی دن اور’’
3 :روح البیان فی تفسیر القرآن لشیخ اسماعیل حقی جلد 1 صفحہ 372 زیر آیت وَمَامُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْل…… المطبعۃ النفیسۃ العثمانیۃ 1306ھ
4 :سیرت ابن ہشام، جلد نمبر 4 صفحہ 334۔ مطبع حجازی قاہرہ
5 :دیوان حسان بن ثابت۔ الجزء الاول نمبر308صفحہ 478۔ المکتبۃ العلمیۃ لاہور
6 : دیوان حسان بن ثابت۔ الجزء الاول نمبر 308 صفحہ 478۔ المکتبۃ العلمیۃ لاہور
7 :بخاری كِتَاب الرِّقَاقِ بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ
8 :حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المومنون:100،101)
9 :پشّہ:مچھر
10:ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 79
11:تذکرہ صفحہ 165۔ ایڈیشن چہارم
1 :مُسَامَحَت:چشم پوشی کرنا۔ کسی سے نرمی کا برتاؤ کرنا
2 :بنی اسرائیل:79
3 :تذکرہ صفحہ581۔ ایڈیشن چہارم
4 :ترمذی كِتَاب الرُّؤْيَا۔ بَاب قَوْلِهٖ لَهُمْ الْبُشْرٰی فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا میں یہ الفاظ ہیں:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُؤْمِنُ أَوْ تُرٰی لَهٗ۔
1 :ہمیانی:روپیہ پیسہ رکھنے کی پتلی تھیلی۔ خصوصاً وہ تھیلی جو حالتِ سفر میں کمر سے باندھی جاتی ہے
2 :الفجر:28تا 31
------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------










17
احمدی نوجوان جلد اس قابل بنیں کہ اسلام کی جنگ میں انہیں تنور کی لکڑیوں کی طرح جھونکا جاسکے
(فرمودہ 5 مئی 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"ہر ایک تحریک کی تکمیل کے لیے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور وہ ان میں سے گزر کر مکمل ہوا کرتی ہے۔ کسی تحریک کا سب سے پہلا حصہ خیال ہوتا ہے۔ ایک انسان کے دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام کرنا بھی اچھی بات ہے۔ پھر دوسرا قدم اس کے بعد ارادہ کا ہوتا ہے۔ یعنی وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ مَیں فلاں کام کروں گا۔ تیسرا قدم پھر اس کی تفصیلات کا ہوتا ہے۔ یعنی وہ اپنے اس خیال کو ایک تفصیلی شکل دیتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں ایک مکان بنانا چاہیے۔ تو اس خیال میں ابھی ارادہ شامل نہیں۔ کچھ دنوں کے غور کے بعد وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مَیں ایک مکان بناؤں گا۔ یہ گویا اس کا ارادہ ہے۔ جب تک صرف یہ خیال تھا کہ مکان بنانا چاہیے۔ اُس وقت تک یہ محض ایک خیال ہی تھا۔ مگر جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں مکان بناؤں گا تو یہ ارادہ ہے۔ اور جب وہ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ بناؤں گا تو پھر یہ بھی سوچنا شروع کرتا ہے کہ وہ مکان کتنا لمبا کتنا چوڑا ہوگا، کتنے کمرے ہوں گے، کتنے کتنے رقبہ کے کمرے ہوں گے، مکان کی شکل کیا ہوگی۔ گویا ارادہ کے بعد تفصیلی شکل ہوتی ہے۔ پہلے خیال ہوتا ہے پھر ارادہ اور پھر تفصیلی تشکیل۔ جب اس ارادہ کو وہ تفصیلی تشکیل دے لیتا ہے تو اگر تو وہ فردی کام ہے تو اس کے لیے سامان جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ یہ سامان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلے سامانِ ذریعہ وہ جمع کرتا ہے یعنی وہ سامان جو ذریعہ ہوتے ہیں اصلی اور حقیقی سامانوں کے مہیا کرنے کا۔ مثلاً میں نے مکان کی مثال دی ہے۔ تفصیلی تشکیل کے بعد انسان اندازہ کرتا ہے کہ اس پر ہزار دو ہزا، دس، بیس یا پچاس ہزار یا لاکھ یا دو لاکھ روپیہ صَرف ہوگا۔ اس لیے پہلے روپیہ کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ روپیہ سے اصلی اور حقیقی سامان مہیا کرتا ہے۔ یعنی اینٹ، لکڑی، چونا، سیمنٹ، لوہے کا سامان یعنی کیل، کانٹا، قبضہ وغیرہ وغیرہ اشیاء خریدتا ہے۔ گویا روپیہ سامانِ ذریعہ تھا۔ جب وہ اسے مہیا کر لیتا ہے تو پھر حقیقی سامان جمع کرتا ہے جس سے مکان تیار ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور مرحلہ ہے۔ یعنی وہ اس سامان کو استعمال کرنے والے لوگوں کو جمع کرتا ہے۔ ایسے مستری، معمار اور مزدور وغیرہ اکٹھے کرتا ہے جو اس اینٹ، لکڑی، لوہے اور چونے گارے وغیرہ کو استعمال کرسکیں اور مکان کی حیثیت کے مطابق دو، چار، دس، بیس یا سو پچاس معمار اور مزدور جمع کرتا ہے۔ یا اگر عمارت بڑی ہے تو کسی انجینئر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ پھر سامان کا استعمال شروع کرتا ہے۔ اور جب تعمیرِ مکان کر لیتا ہے یعنی سامان کا استعمال بھی کر لیتا ہے تو پھر ایک اور مَرحلہ باقی ہوتا ہے۔ اور وہ اس مکان کی تزئین کا ہوتا ہے یعنی مکان کو رہائش اورآرام و آسائش کے قابل بنانا۔ محض مکان کی شکل کا مکمل ہوجانا انسان کی تسلّی، تشفّی اور آرام و آسائش کا موجب نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک تو صرف مکان کا سوال ہے۔ فرش کی بھی ضرورت نہیں۔ اس میں کسی پاٹ اور کموڈ کی ضرورت نہیں۔ دری، چارپائی، گلاس، لوٹا وغیرہ اشیاء میں سے چاہے ایک بھی کسی مکان میں نہ ہو۔ چاہے اس میں ایک بھی دیگچی نہ ہو، چلمچی نہ ہو، ایک بھی گڑوی نہ ہو، کوئی دری نہ ہو، چارپائی نہ ہو، پھر بھی وہ پورا مکان ہے۔ مگر جہاں تک رہائش کا تعلق ہے جب تک سامانِ تزئین نہ ہو، مکان رہائش اور آرام و آسائش کا موجب نہیں ہوسکتا۔ تو اگر کوئی کام فردی ہو تو اتنے مراحل کے بعد کہیں جاکر ارادہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور اگر وہ کام قومی ہو تو اُس کے لیے کام کے سامان جمع کرنے کے علاوہ لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنا کہ وہ سامان مہیا کریں ایک مرحلہ ہوتا ہے۔لوگوں سے اپیل کرنی پڑتی ہے، اُن کو سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ ضروری کام ہے اس کی تکمیل میں مدد دیں۔ تو ایک کام کی تکمیل کے لیے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور ان تمام سے گزر کر ہی وہ کام ہوسکتا ہے۔ بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اِدھر خیال پیدا ہوا اور اُدھر کام ہوگیا۔ حالانکہ خیال تو محض ابتدائی حالت ہے۔ خیال کے بعد ارادہ، ارادہ کے بعد تفصیلی تشکیل، پھر ان اسباب کا مہیا کرنا جو حقیقی اسباب مہیا کرنے کاموجب ہوسکتے ہیں۔ اور پھر اگر وہ قومی کام ہو تو سامانِ ذرائع جمع کرنے سے پہلے لوگوں کو اُس کے لیے تحریک کرنا بھی ایک مرحلہ ہے۔ پھر چھٹا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ حقیقی اسباب مہیا کیے جائیں۔ پھر ساتویں اُن لوگوں کو جمع کرنا جو تفصیلی تشکیل کی تکمیل کرسکیں۔ پھر اس کے بعد یہ مرحلہ باقی ہوتا ہے کہ اُس کی تزئین کی جائے اور اُسے قابلِ رہائش اور قابلِ سکون و آرام و آسائش بنایا جائے۔ اور اگر وہ مکان کرایہ پر دینے کے لیے ہے تو نواں مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں رہنے کے لیے کوئی اچھا کرایہ دار تلاش کریں۔ تو مکان جیسی معمولی چیز جو ہر خاندان کے لیے ضروری ہے آٹھ نو مراحل گزرنے کے بعد مکمل ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے انسانی پیدائش کے بھی سات مراحل بیان کیے ہیں۔1 اِسی طرح وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر د کیا ہے اس کے بھی کئی مراحل ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ابھی اُن کا خیال بھی ہمارے اندر پیدا نہیں ہوا۔ بعض کا خیال تو پیدا ہوچکا ہے مگر ابھی ارادہ نہیں کرسکے۔ بعض کا ارادہ کرچکے ہیں مگر اُس کی تفصیلی تشکیل ابھی نہیں کی۔ پھر بعض کے سامانِ ذریعہ ابھی مہیا نہیں کرسکے۔ بعض کے حقیقی سامان ابھی مہیا نہیں کیے گئے۔ بعض کے سامان بھی مہیا کر لیے ہیں مگر ابھی اس سامان کو استعمال کرنے والے آدمی مہیا نہیں کرسکے۔ اور بعض کام ایسے ہیں کہ اگر آدمی مل گئے ہیں تو ابھی کام شروع نہیں کرسکے۔کام شروع کرنا بھی ایک اہم مرحلہ ہے۔ بعض کام اگر شروع ہیں تو تکمیل ابھی نہیں ہوئی ۔اور بعض کی اگر تکمیل بھی ہوچکی ہے تو ابھی تزئین باقی ہے یعنی اسے ابھی قابلِ استعمال بنانا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں کہ اگر تکمیل کے بعد تزئین بھی ہوچکی ہے تو کرایہ دار کی تلاش باقی ہے۔ گویا کئی ضروی کام ہیں جن کی ابتدا بھی ابھی ہم نے نہیں کی اور بعض کی ابھی ابتدائی حالت ہے۔ یوں نام کے طور پر توہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی جنگ لڑنی ہے مگر اسلام کی جنگ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ پتھر اٹھا کر دریا میں پھینک دینا نہیں بلکہ اتنا اہم اور اتنا مشکل کام ہے کہ جب تک مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی صحیح رنگ میں تعلیم نہ ہو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ جب تک لوگوں کے دلوں اور دماغوں کی صحیح رنگ میں تعلیم اور تربیت نہ ہو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اور یہ تعلیم کاکام بھی آسان نہیں۔یہ نہیں کہ ایک کتاب لکھ لی اور یہ کام ہوگیا۔ کوئی کتاب یہ کام نہیں کرسکتی۔ قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن قرآن کریم کے موجود ہونے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں ایمان نہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی عمارت منہدم ہے۔ ضرورت اسِ امر کی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے دلوں میں قائم کی جائے تب جاکر اسلام کی گری ہوئی عمارت دوبارہ قائم ہوگی۔ اور ابھی احمدیہ جماعت کے دوستوں میں بھی قرآن کریم کی تعلیم کو قائم کرنا باقی ہے۔ ابھی بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس کام کا ابھی خیال ہی کیاہے۔ بعض ابھی ارادہ ہی کررہے ہیں، بعض نے اس کام کی تفصیلی تشکیل نہیں کی، بعض نے سامانِ ذریعہ بھی ابھی مہیا نہیں کیے یعنی قربانی کا مادہ ان میں ابھی پیدا نہیں ہوا۔ بعض نے بے شک مالی قربانیوں کا تہیّہ تو کر لیا ہے مگر محض مال سے تو دین کا کام نہیں ہوجاتا بلکہ یہ کام ہوتا ہےدین سیکھنے سے اور اپنے اخلاق درست کرنے سے۔ پھر ابھی وہ مستری بھی ہم تیار نہیں کرسکےجو مکان بناتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ روحانی عمارتوں کے معمار فرشتے ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان ایسے مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا جان و مال، اولاد، عزت، آبرو غرضیکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو تب خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کام کی تکمیل کے لیے نازل ہوتے ہیں۔ اسلام نماز کا نام نہیں، اسلام روزوں کا نام نہیں، حج اور زکوٰۃ کا نام نہیں، اسلام ایمان بِالْقضاء کا نام نہیں، ایمان بِالْانبیاء کا نام نہیں، ایمان بِالدعاء کا نام نہیں، حشر و نشر اور بعث بعد الموت کا نام ایمان نہیں۔ جس طرح اینٹ، لکڑی اور لوہے کا نام عمارت نہیں بلکہ عمارت نام ہے اُس نسبت کا جو اینٹوں، چونے، گارے، لکڑی اور لوہے کے سامان کو آپس میں موزوں طور پر حاصل ہوتی ہے۔ جب وہ سب چیزیں جو عمارت میں استعمال ہوتی ہیں ایک خاص نسبت سے آپس میں ملتی ہیں تو اس کا نام عمارت ہوتا ہے۔اگر دس ہزار کیوبک فیٹ(FEET) لکڑی کسی جگہ پڑی ہو تو اسے عمارت نہیں کہا جا سکتا خواہ کوئی معمولی جھونپڑی ہی کیوں نہ بنائی ہو۔ دس ہزار کیوبک فیٹ لکڑی کا نام جھونپڑی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ جھونپڑی بنے گی اُس تھوڑی سی لکڑی، اینٹوں اور گارے و چونے کو ایک خاص نسبت کے ساتھ آپس میں ملانے سے جو اُس جھونپڑی کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح خالی نمازیں ایمان نہیں کہلا سکتیں۔ خالی روزے، خالی حج اور خالی زکوٰۃ کو ایمان نہیں کہا جاسکتا۔ جب تک ان کی نسبت کا آپس میں توازن قائم نہ ہوجائے گا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح جب تک اینٹ، چونا، گارا، لکڑی اور لوہے کا سامان ایک نسبت اور توازن کے ساتھ اپنی اپنی جگہ نہ رکھا جائے مکان نہیں بن سکتا۔ اِسی طرح نماز کا نام ایمان اور اسلام نہیں رکھا جاسکتا، نہ روزوں کا نام ایمان اور اسلام ہے،نہ نبیوں پر ایمان لانے کا نام اسلام ہے، نہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا نام اسلام ہے، نہ ظلم سے اجتناب کا نام اسلام ہے۔ بلکہ ایمان اور اسلام کے لیے ضروری ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ایمان بِالانبیاء، ایمان بِالقضاء، ایمان بِالدعاء، حشر ونشر اور بعث بعد الموت پر ایمان نیز تمام اعلیٰ اخلاق کسی شخص کے درجہ کے مطابق ایک خاص نسبت اور توازن کے ساتھ اُس کے دل میں جمع ہوجائیں۔ اور ان سب باتوں کا جماعت کے دوستوں کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ ایک لمبا کام ہے۔ محض کسی تجویز کا خواہ وہ کتنی اعلیٰ اور اچھی کیوں نہ ہو شائع کردینا کافی نہیں۔ بعض نادان جب یہ سنتے ہیں کہ ہم اِس طرح کام کرنے لگے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس کام ہوگیا اور اسلام کو فتح حاصل ہوگئی۔ حالانکہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ جب تک خون پسینہ ایک نہ ہوجائے یہ کام نہیں ہوسکتا۔
مَیں نے بعض تحریکات چند روز سے شروع کی ہیں۔ انہیں خیال نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خیال سے بالا ہیں۔ انہیں ارادہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس سے بھی بالا ہیں۔ تفصیلی تشکیل کا نام بھی انہیں نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں۔ بلکہ سامان ذریعہ حاصل کرنے کے مرحلہ پر ہیں۔ ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان جمع کرنے کا سامان جمع کر رہے ہیں اور اب ہمارے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ حقیقی سامان فراہم کرنے کا انتظام کریں۔ اس کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ اور ایک بڑی شاخ علماء کی جماعت کا پیدا کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اِس بات کا مجھ پر انکشاف فرمایا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی انکشاف فرمایا کہ علماء کی کثرت اسلام کے قیام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ دوسری شاخ یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام میں مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ "اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلوتو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی"۔ تو یہ نہایت ہی اہم بات ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مردوں کی اصلاح ضروری نہیں۔ ان کی اصلاح بھی بہت ضروری ہے۔ مگر ان کی اصلاح کے ذرائع نسبتاً وسیع ہوتے ہیں۔ ان میں عام طور پر علماء کی کثرت ہوتی ہے وہ عموماً وعظ و نصائح سنتے ہیں۔مگر عورتوں کے لیے پردہ کی وجہ سے ایسے مواقع بہت کم ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے الگ انتظام کرنا ضروری ہے۔ اب جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہم بعض تحریکات کے لحاظ سے ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان مہیا کرنے کے سامان جمع کر رہے ہیں۔ اس لیے مَیں نے چندوں کا اعلان کیا تھا اور تحریک کی تھی کہ دوست اپنی جائیدادیں اسلام کے لیے وقف کریں۔ ہزاروں دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے اور ایک کثیر تعداد جائیدادوں کی وقف کی ہے۔ مگر ابھی بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور وہ ایک ایسا عظیم الشان موقع کھو رہے ہیں جس کے بعد یقیناً انہیں پچھتانا پڑے گا۔ مگر پھر یہ پچھتانا لاحاصل ہوگا۔ یہ تحریک تو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے سے بھی کم ہے۔ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے بھی خون کا قطرہ بہانا پڑتا ہے۔ مگر اِس تحریک میں تو بغیرایک پیسہ دیئے شامل ہوا جاسکتا ہے۔ صرف اس غیرمعیّن عہد کو جو ہرشخص بیعت کے وقت کرتا ہے ایک معیّن شکل میں پیش کرتا ہے۔ یعنی یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرورت ہوگی ان کی جائیدادوں پر جتنا ٹیکس لگے گا وہ اسے ادا کردیں گے۔ اور یہ بوجھ ان پر غیر معمولی حالات میں ڈالا جائے گا۔ ورنہ زیادہ تر خرچ طوعی چندوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ اِسی میں زیادہ برکت ہوتی ہے۔تو ہزاروں لوگو ں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں۔ مگر ہزاروں ہیں جنہوں نے ابھی توجہ نہیں کی۔ بہرحال مَیں نے اپنا فرض ادا کردیا اورآواز اُن تک پہنچا دی ہے۔ اب بھی اگر وہ یا ان کی اولادیں اُن نعمتوں سے محروم رہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتاہے تو خود اپنے آپ کو یا اپنے والدین کو الزام دیں۔مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور بَری ہوں کیونکہ میں نے خدا تعالیٰ کی آواز کو ان تک پہنچادیا۔ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے جو ہر قربانی کے لیے تیار ہو۔ ایسا شخص جو اُن تمام سامانوں کو جو اُس کے پاس ہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کردینے کے لیے تیار نہیں وہ وقت آنے پر کچا دھاگا ثابت ہوگا اور اسلام کی جنگ میں فاتح سپاہی کی حیثیت ہرگز حاصل نہ کر سکے گا۔
بہر حال ہم نے جدوجہد شروع کردی ہے اور بعض مراحل طے بھی کر لیے ہیں۔اب پانچویں مرحلہ کا کام شروع ہے۔ علماء پیدا کرنے کے لیے مَیں نے جامعہ احمدیہ کی شکل بدل دی ہے اور اب اسے ایسی صورت میں چلایا جائے گا کہ جلد سے جلد اچھے علماء پیدا ہوسکیں۔ اِس راہ میں مولوی فاضل کلاس ایک روک تھی جسے اب اُڑا دیا گیا ہے۔اور ایسے رنگ میں اس کا نصاب بدل دیا گیا ہے اور اپنی ہدایات کے ماتحت اس میں ایسی تبدیلی کرائی ہے کہ جس سے جلد از جلد علماء پیدا ہوسکیں۔ مدرسہ احمدیہ کا نصاب بھی ایسے رنگ میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ اس میں تعلیم پانے والے جلد از جلد کسی نہ کسی علم کے عالم بن سکیں۔بے شک یہ لڑائی کا بگل نہیں مگر پریڈ کا بگل ضرور ہے۔ اور جو شخص پریڈ کا بگل سُن کر پریڈ میں شامل نہیں ہوتا وہ لڑائی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کا درد ہے یہ بگل سن کر ان کے دل اُچھلنے لگ جانے چاہییں۔ جب لڑائی کا بگل بجتا ہے تو رسالہ کے گھوڑوں میں بھی ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ ہنہنانے لگتے ہیں۔ وہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اب میدانِ جنگ میں اپنی گردنیں کٹوا کر سرخرو ہونے کا وقت آپہنچا ہے۔ لڑائی کا بگل تو جب اللہ تعالیٰ چاہے گا بجے گا۔ پریڈ کا بگل بجادیا گیا ہے اور چاہیے کہ اسلام کا درد رکھنے والے دلوں میں یہ بگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو۔ وقت آگیا ہے کہ جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں وہ جلد سے جلد علم حاصل کرکے اِس قابل ہوجائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اُسی طرح جھونکا جاسکے جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں وہی جرنیل کامیاب ہوسکتا ہے جو اِس لڑائی کی آگ میں نوجوانوں کو جھونکنے میں ذرا رحم نہ محسوس کرے۔ اور جس طرح ایک بھڑ بھونجا چنے بُھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پتے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اُس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا اِسی طرح نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے۔ اگر بھاڑ میں پتے جھونکنے کے بغیر چنے بھی نہیں بُھن سکتے تو اِس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہوسکتی ہے۔پس اِس جنگ میں وہی جرنیل کامیابی کا مُنہ دیکھ سکے گا جو یہ خیال کیے بغیر کہ کس طرح ماؤں کے دلوں پر چُھریاں چلتی ہیں، باپوں اور بھائیوں بہنوں کے دلوں پر چُھریاں چل رہی ہیں نوجوانوں کو قربانی کے لیے پیش کرتا جائے۔ موت اُس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے۔ اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اُس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہو کر اپنے کام کو کرتا جائے۔ جس دن مائیں یہ سمجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہ میں مارا جائے تو ہمارا خاندان زندہ ہوجائے گا، جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہوگیا تو وہ حقیقی زندگی حاصل کر جائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پالیں گے۔ وہ دن ہوگا جب محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زندگی ملے گی۔
جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اُن کو بلانا شروع کردیا گیا ہے۔ بعض کو بلا لیا گیا ہے اور بعض کو بلانے کی تیاری کی جارہی ہے اور جب مدرسہ کھلے گا ان کو بلا لیا جائے گا۔ لیکن جو نوجوان آئیں وہ یہ عزمِ صمیم لے کر آئیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ وہ خوب یاد رکھیں کہ دین کی خدمت لیتے وقت کسی رحم سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اسلام کی جنگ جیتنے کا سوال وہی لوگ حل کرسکتے ہیں جو ایسے سنگدل ہوں جیسے شاعروں کے معشوق سنگدل سمجھے جاتے ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت اگر اساتذہ اور طالب علم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو جلد ہی علماء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوسکتی ہے جو اسلام کا جھنڈا بیرونی ممالک میں گاڑ سکے اور اسلام و احمدیت کی تعلیم دلوں میں قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
اس کے علاوہ ایک اَور بات بھی ہے۔ ہمارا صرف یہی کام نہیں کہ علماء پیدا کریں بلکہ یہ بھی ہے کہ غیر احمدی علماء میں سے بھی ایک تعداد کو اپنے ساتھ شامل کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بعض علماء جماعت میں شامل ہوئے اور اُن کے ساتھ ہزاروں لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔ مگر اس کے بعد غیر احمدی علماء کو اپنی طرف کھینچنے میں ہماری طرف سے بہت کوتاہی ہوئی ہے۔ اب مَیں نے اِس بارہ میں بھی ہدایات دی ہیں اور ابھی بعض اَور ہدایات دوں گا۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر عوام احمدیت کو قبول کر سکتے ہیں تو علماء نہ کریں۔ کوتاہی ہماری طرف سے ہے۔ کہتے ہیں اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَر۔بات یہ ہے کہ علماء اُس طریقِ خطاب کو پسند نہیں کرتے جس سے عوام کو خطاب کیا جاتا ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ جب تک ان کو اس طرح خطاب نہ کیا جائے کہ وہ محسوس کریں کہ ہمیں رسوا نہیں کیا جارہا بلکہ نجات کی طرف بلایا جاتا ہے وہ توجہ نہیں کرسکتے۔ پس ضروری ہے کہ ہمارے دوست علماء سے ملیں اور اُن کو مناسب رنگ میں تبلیغ کریں۔ ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ مولوی محمد شریف صاحب نے فلسطین سے لکھا ہے کہ جامعہ ازہر کا ایک بڑا عالم احمدی ہوگیا ہے۔ مجھے مولوی صاحب کا ایسا کوئی خط نہیں ملا۔ ممکن ہے رستہ میں کہیں گُم ہوگیا ہو۔ بہرحال اگر یہ خبر صحیح ہے٭ تو بہت خوش کن ہے۔ ازہر یونیورسٹی دنیا میں ایک ہی یونیورسٹی ہے جہاں اسلام اور عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہے اور اگر اس کا ایک بڑا عالم احمدی ہوگیا ہے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا دروازہ اِس رنگ میں بھی کھلنا شروع ہوگیا ہے اور اس یونیورسٹی کے علماء میں سے بھی احمدی ہونے شروع ہوگئے ہیں جو اسلام کا گہوارہ سمجھی جاتی ہے۔
ایک اَور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ کالج کے متعلق ہے۔ کالج شروع کردیا گیا ہے۔ پروفیسر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گئے ہیں۔ اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ چندہ جمع کیا جائے اور لڑکوں کو اِس میں تعلیم کے لیے بھجوایا جائے۔ ہر وہ احمدی جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اَور شہر میں تعلیم کے لیے بھیجتا ہے تو کمزوریٔ ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بلکہ مَیں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لیے قادیان بھیج سکے خواہ اُس کے گھر میں ہی کالج ہو اگر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں تعلیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پھر کالج کے چندہ کی طرف بھی دوستوں کو توجہ کرنی چاہیے۔ ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک مَیں نے کی تھی۔ اس میں سے اب تک صرف پچاس ہزار روپیہ کے وعدے آئے ہیں۔ اس میں سے بائیس ہزار کے وعدے صرف تین آدمیوں کے ہیں اور اس طرح گویا باقی ساری جماعت کے وعدے صرف اٹھائیس ہزار کے ہیں۔تین آدمیوں کے بائیس ہزار کے وعدے جماعت کی طرف منسوب نہ ہونے چاہییں۔ مَیں نے کہا تھا کہ اگر کوئی پیسہ ہی دے سکتا ہے تو وہی دے دے۔ بعض لوگوں نے اِس کا مطلب یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر کوئی سَو روپیہ بھی دے سکتا ہے تو اس کے لیے بھی پیسہ ہی دے دینا کافی ہے۔ حالانکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ایسا غریب ہے کہ پیسہ ہی دے سکتا ہے تو وہ شرمندگی کے خیال سے اس کار خیر میں پیچھے نہ رہے بلکہ پیسہ ہی دے کر شامل ہوجائے۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ جو زیادہ بھی دے سکتے ہیں وہ پیسہ دے دیں۔ پس ہر جماعت کو چاہیے کہ اس بارہ میں اپنا فرض پوری طرح ادا کرے۔
بعض دیہات کی جماعتوں کے چندے شہری جماعتوں سے زیادہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان شہری جماعتوں نے پروا نہیں کی۔ بلکہ سب بڑی بڑی جماعتیں ابھی تک صفر کے برابر ہیں۔ پانچ سات سو افراد کی جماعتوں نے اگر ڈیڑھ دوسو روپیہ دے دیا تو یہ نہ دینے کے ہی برابر ہے۔ ان کو تو آٹھ دس ہزار روپیہ دینا چاہیے۔ اس لیے مَیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست اپنا فرض ادا کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر انسان مدد نہیں کریں گے تو فرشتے مدد کریں گے۔ مگر کتنے بدقسمت ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ مگر جب عمل کا وقت آیا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ بیعت کے لیے انہیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ انہوں نے اپنی سرخروئی کے لیے خدا تعالیٰ سے یہ عہد باندھا تھا۔ اگر وہ میری آواز کو سن کر قربانی نہ کریں گے تو وہ خدا تعالیٰ سے بدعہدی کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے میرے ہاتھ پر دراصل اللہ تعالیٰ سے عہد کیاتھا۔
اس کے علاوہ مَیں دوستوں کو اس اِمر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ نہایت ہی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اِس وقت ہماری تعداد اِتنی تھوڑی ہے کہ ایک صوبہ کو بھی سہار نہیں سکتی۔ جب تک جماعت بیس تیس بلکہ سو گُنا نہیں بڑھ جاتی ہم کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے۔ اِس وقت ہماری تعداد چار پانچ لاکھ ہے۔ جب تک یہ سَو گُنا نہ ہوجائے کوئی عظیم الشان کام مشکل ہے۔ اگر تعداد چار پانچ یا چھ کروڑ ہو تو پھر ہم ایسے کام کر سکتے ہیں جن سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے۔ اگرچہ اتنی تعداد بھی بہت کم ہے۔ مگر جس ارادہ اور عزم کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں، جو آگ ہمارے دلوں میں لگی ہوئی ہے، جو چنگاریاں ہمارے سینوں میں چمک رہی ہیں اگر اس قسم کے چار پانچ یا چھ کروڑ افراد ہوں تو دنیا کو جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔گو ہمیں یقین ہے کہ اگر اتنے نہ ہوں چند مخلصین ہی ہوں جن کے دلوں میں ویسا ہی درد ہو جو ہمارے دلوں میں ہے تو ہم اربوں ارب دنیا پر غالب آسکتے ہیں۔ مگر اتنے زبردست ایمان کے لوگ زیادہ پیدا نہیں ہوتے۔ پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے لیے باہر نکلے۔ اگر جماعتیں تبلیغ میں سُستی نہ کرتیں تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہر سال جماعت کی تعداد دُگنی نہ ہوجاتی۔ یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر باہر نکل جائے اور تبلیغ کرے۔ ہر گاؤں، بستی، شہر، محلہ، ہر مرد، عورت اور بچے، بوڑھے کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ اگر وہ دین کو پھیلانے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے۔ اور جو شخص چند ماہ بلکہ چند ہفتوں میں ہی اپنا قائمقام پیدا نہیں کرسکتا وہ سمجھ لے کہ اسے خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں اور جو وعدہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اسے پورا کرنے کے سامان اسے میسر نہیں ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی آواز کو لے کر جائیں اور لوگ اس کی طرف توجہ نہ کریں۔ ضرور ہے کہ وہ موافقت کریں یا مخالفت۔ وہ یا تو پتھر برسائیں گے یا عقیدت کے پھول۔ درمیانی رستہ کوئی نہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ دنیا میں کوئی نبی آیا ہو یا مصلح کھڑا ہوا ہو اور دنیا نے اُس سے اغماض کیا ہو۔ یا تو اسے پتھر مارے جاتے ہیں یا عقیدت کے پھول برسائے جاتے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ حقیقت کو کھول کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔
ایک شخص نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ مَیں اِتنی مدّت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں آپ میری طرف توجہ کیوں نہیں کرتے۔ کم سے کم میری مخالفت ہی کریں۔ یہ خط دیکھ کر میرے دل میں یہ لالچ پیدا ہوا کہ مَیں اس کا جواب دوں۔ چنانچہ مَیں نے لکھوایا کہ مخالفت بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ماموروں کو ملتا ہے۔ آپ اس سے محروم ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اب عزّت دو ہی طریقوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ میری بیعت میں شامل ہوکر یا میری مخالفت کرکے۔ درمیانی طبقہ یعنی خاموش رہنے والے لوگ کوئی عزت نہیں پاسکتے۔ اور چونکہ عام طور پر لوگوں میں عزت حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے، اس لیے ان دونوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک ضرور اختیار کرتے ہیں۔ یا بیعت میں شامل ہوجاتے ہیں اور یا مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ صداقت کو کھلے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سننے والے نہ مانتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ تم صداقت کو پیش کرنے میں مداہنت سے کام لیتے ہو۔
مَیں جب پچھلے دنوں دہلی گیا تو وہاں ایک بہت بڑے سرکاری عہدیدار جو مسلمانوں کے لیڈر بھی ہیں مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ لندن میں آپ کے مولوی شمس صاحب ہیں۔ وہ ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر آخر مولوی ہی ہیں نا۔ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے۔ وہ گویا مجھے یہ تحریک کر رہے تھے کہ آپ بڑے آدمی ہیں آپ کو اِس نقص کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اُن کی بات سن کر پہلے تو مَیں نے ان کو إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ2 والی حدیث سنائی اور اس کا مطلب سمجھایا۔ پھر ان سے کہا کہ آخر آپ لوگ فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے لیے احمدیت کو ماننا ضروری ہے یا نہیں۔ پھر مَیں نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کھٹّی لسّی ہے اور میرے پاس خالص دودھ جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے۔ اگر مَیں آپ کی دس ہزار سیر کھٹّی لسّی میں اپنا ایک سیر خالص دودھ ڈال دوں تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ رہے۔ آپ کو تو چاہیے تھا کہ آپ اگر کسی احمدی کو غیر احمدیوں میں ملتا ہوا دیکھتے تو گھبرائے ہوئے آتے اور میرے پاس شکایت کرتے اور کہتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تباہ ہونے لگی ہے۔ ہمارے جیسے لوگوں سے ملنے سے اسے بچائیے۔ تو مَیں نے صفائی کے ساتھ اُن کو جواب دیا۔اگر مَیں مداہنت سے کام لیتا اور کہتا یہ مجبوریاں ہیں وہ معذوریاں ہیں تو بات ایسی اچھی طرح اُن کے ذہن میں نہ آسکتی۔ پس ضرورت ہے اِس امر کی کہ صفائی اور دلیری کے ساتھ صداقت کو پیش کیا جائے۔ پھر ضرور یا تو لوگ موافقت کریں گے یا مخالفت۔ پس تبلیغ کے لیے اپنے گھروں سے نکلو۔ جب اللہ تعالیٰ نے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا تو جو نہیں نکلتا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے۔ اُس کا ایمان کمزور، اُس کا دین ناقص اور اُس کی امیدیں جھوٹی ہیں"۔ (الفضل20 ؍مئی 1944ء)


18
نمازیں سنوار کر پڑھو، تسبیح، تحمید اور درود پڑھنے میں دوام اختیار کرو
(فرمودہ 12 مئی 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں مذہب بھیجا ہے تو اس کی ایک ہی غرض ہے کہ بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔ شفقت علیٰ خَلْقِ اللہ بھی مذہب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ جب کوئی باپ اور ماں سے محبت کرتا ہے تو اُن کے بچوں سے وہ آپ ہی محبت کرتا ہے۔اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ بنی نوع انسان کے متعلق اُس کے دل میں بُغض اور کینہ باقی رہ جائے۔ جتنا جتنا کسی کے دل میں بُغض اور کینہ ہو اُتنا ہی اُس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا تعلق خدا سے کمزور ہے۔ نماز خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے۔ ذکر الٰہی بھی خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے۔ روزہ بھی خدا تعالیٰ کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے۔ حج بھی خدا تعالیٰ کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ایک ذریعہ ہے۔ اِسی طرح اَور جس قدر عبادات ہیں وہ سب کی سب خدا کے تعلق کی علامت نہیں بلکہ خدا کے تعلق کا ذریعہ ہیں۔ لیکن بنی نوع انسان سے محبت اور ہمدردی کرنا اور اُن سے تعلق اور محبت رکھنا اور اُن سے شفقت کے ساتھ پیش آنا یہ خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک علامت بھی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص بنی نوع انسان سے محبت رکھتا ہے، ان کے ساتھ اخلاص سے پیش آتا ہے، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے، اُن سے کینہ اور بُغض نہیں رکھتا، اُن سے لڑائی جھگڑا نہیں بڑھاتا۔ اس کے دل میں عفو ہے، رحمت ہے، شفقت ہے تو یہ امر صرف خدا کے تعلق کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہی نہیں ہوگا بلکہ اِس بات کی علامت بھی ہوگا کہ یہ تعلق پیدا ہوچکا ہے۔ بشرطیکہ وہ یہ فعل ایمانًا اور احتساباً کر رہا ہو۔ یہ ایک لازمی شرط ہےکہ کوئی چیز اپنی ظاہری صورت میں دین کےلحاظ سے نیکی نہیں بن سکتی جب تک وہ ایماناً اور احتساباً نہ ہو۔ کام کرنے والا ایمان کے لحاظ سے کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے۔ مثلاً اگر وہ بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے تو وہ اس لیے محبت نہیں کرتا کہ بنی نوع انسان سے محبت کرنے سے میری قوم ترقی کرے گی۔ اگر وہ اس نیت سے ان کے ساتھ محبت کرتا ہے تو یہ خدا تعالیٰ کے تعلق کی علامت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر اس کے حُسنِ سلوک کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے یہ میرے ربّ کی مخلوق ہے اور میرے رب کا حکم ہے کہ ان سے محبت کروں تُو اس کا یہ فعل یقیناً دین کا حصہ بنے گا اور اس کے لیے خدا تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوگا۔ اِسی طرح اگر اُس کے دل میں یہ احساس رہتا ہے کہ مَیں بنی نوع انسان سے محبت کروں گاتو ہم سب کا روحانی باپ اِس نیکی کی وجہ سے میرے ساتھ بھی نیک سلوک کرے گا تو یہ فعل اس کے لیے روحانی درجات کی بلندی کا موجب ہوگا۔ پس ضروری ہے کہ ایک طرف انسان کا ایمان مضبوط ہو اور دوسری طرف احتساب اُس کے مدنظر ہو کہ میرا پیدا کرنے والا خدا اِس کو پسند کرے گا اور یہ میرا عمل اُس کے پاس محفوظ رہے گا۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل چیز خدا کی محبت ہی ہے اور شفقت عَلیٰ خَلْقِ اللہ اِس کا ایک حصہ ہے۔ کیونکہ وہ ایک علامت ہے اور علامت اپنے اصل سے علیحدہ حیثیت نہیں رکھتی۔
پس مذہب کی غرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کا تعلق قائم کیا جائے۔ مذہب کا قیام ایسی ہی باتوں سے ہوسکتا ہے جو دین سے تعلق رکھنے والی ہوں اور جن سے خدا کی محبت پیدا ہوتی ہو۔ پس ہر چیز جس سے خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے مذہب کا ایک جزو ہے۔ نماز مذہب کا ایک جزو ہے، روزہ مذہب کا ایک جزو ہے، زکوٰۃ مذہب کا ایک جزو ہے، حج مذہب کا ایک جزو ہے، صدقہ و خیرات مذہب کا ایک جزو ہے۔لوگوں سے حُسنِ سلوک کرنا، ان کے ساتھ مروّت سے پیش آنا، ان سے رأفت، شفقت اور ہمدردی کا اظہار کرنا یہ سب چیزیں مذہب کا جزو ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا اور اس کے ساتھ انسان کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ دنیا کے عام لوگ جو مذہب کا نام اختیار کرکے لوگوں کو ایک سوسائٹی کی شکل دینا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ سے براہ راست محبت پیدا کرنے کے جو ذرائع ہیں اُن کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ مذہب کے پیچھے نہیں چلتے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا نام مذہب رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں لوگ مذہب کے نام پر زیادہ قابو آتے ہیں۔ پس ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعلق پیدا کرنا چاہتا ہو اُس کے لیے تمام عبادتیں جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ اور انسانی نفس کی صفائی کرنے والی ہیں نہایت ہی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ ان کو کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا،کسی طرح ان کو چھوڑ نہیں سکتا اور کسی طرح ان کو تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔
ہم صحابہؓ کو دیکھتے ہیں اُن کی ساری زندگی ہی اُن باتوں میں لگی رہتی تھی جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں۔ لیکن اِس زمانہ کے لوگ ان باتوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں اور ان باتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو اُن کی شہرت اور عزت کا موجب ہوں یا قوم میں اُن کا وقار قائم کرنے کا موجب ہوں۔ اصل چیز کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی۔ مثلاً اِس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں نماز کی قدر بہت کم ہوگئی ہے۔ مسجدیں تو ہیں مگر نمازیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ویران پڑی رہتی ہیں۔ مَیں جب مصر گیا تو وہاں کی سب سے بڑی مسجد میں مَیں نے دیکھا ظہر کی نماز میں صرف اتنے آدمی تھے کہ اُس کے محراب میں ہی آگئے۔آگے امام تھا اور پیچھے چار پانچ آدمی کھڑے تھے۔ یہ اُس شہر کا حال ہے جو اسلام کا مرکز کہلاتا ہے۔ جہاں کئی لاکھ کی مسلم آبادی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں اَور بھی مسجدیں ہیں۔ یہ نہیں کہ سب لوگ اُسی مسجد میں آتےہوں۔ لیکن جامع مسجد کی اِس حالت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اَور مساجد کی کیا حالت ہوگی۔ مَیں تو دنیا میں جہاں جہاں گیا ہوں مساجد مجھے ایسی ہی ویران دکھائی دی ہیں۔ مجھے زیادہ سیاحت کا موقع نہیں ملا مگر پھر بھی جو اسلامی علاقے مَیں نے دیکھے ہیں ان میں یروشلم ہے، حیفا ہے، دمشق ہے، پورٹ سعید ہے، سویز ہے، قاہرہ ہے۔ یہ علاقے مَیں نے دیکھے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کی وہ مساجد جو شمالی ہند میں ہیں یا وہ مساجد جو مغربی ہند میں ہیں مَیں نے دیکھی ہیں۔ جنوبی ہند اور مشرقی ہند میں مجھے جانے کا موقع نہیں ملا۔ مگر مَیں نے کوئی جگہ بھی ایسی نہیں دیکھی جہاں کی مسجدیں آباد ہوں۔ سوائے بیت اللہ کے کہ وہ ایک ایسا مقام ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کردی ہے۔ بے شک ہم حج کے دنوں میں وہاں گئے تھے جب اَور دنوں کی نسبت وہاں بہت زیادہ عبادت کرنے والے جمع ہوجاتے ہیں مگر مَیں نے کُرید کُرید کر لوگوں سے پوچھا تو یہی معلوم ہوا کہ دوسرے ایام میں بھی بِالعموم مکہ والے بیت اللہ میں ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور ہر وقت ہزاروں نمازی وہاں موجود رہتے ہیں۔ حج کے دنوں میں تو یہ تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ وہ بڑی وسیع مسجد ہے مگر پھر بھی بعض دفعہ ساری مسجد کناروں تک نمازیوں سے بھر جاتی ہے۔ عام اندازہ یہ ہے کہ وہاں ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک لوگ حج کے دنوں میں نمازیں پڑھتے ہیں اور دوسرے دنوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں نماز پڑھنے والے موجود رہتے ہیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی الگ بھی مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ مگر پھر بھی محلہ والوں کی یہی خواہش ہوا کرتی ہے کہ ہم کوئی نہ کوئی نماز بیت اللہ میں ضرور پڑھیں۔ اور بعض نے تو یہ عہد کیا ہوتا ہے کہ ہم ساری نمازیں چاہے ہم کتنی ہی دور کیوں نہ رہتے ہوں بیت اللہ میں ہی پڑھیں گے۔ بس بیت اللہ العتیق کے سِوا قادیان کے باہر مَیں نے کوئی مسجد آباد نہیں دیکھی۔ بِالعموم مسجدیں نمازیوں سے خالی ہوتی ہیں۔ اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ دلوں میں نماز کی اہمیت نہیں رہی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نماز ایسی ہی چیز ہے جیسے ٹونا یا جادو ہوتا ہے۔ کوئی حقیقی فائدہ نماز سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
مَیں نے کچھ عرصہ ہوا دوستوں کو نماز باجماعت پڑھنے کی تحریک کی تھی۔خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں اکثر لوگ باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت کم ہیں جو اس میں سُستی کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگوں کو بیدار کرنے اور ان میں زیادہ مستعدی پیدا کرنے کے لیے مَیں نے یہ تحریک کی اور مَیں نے دیکھا کہ اس وقت نماز باجماعت کا چرچا بہت زیادہ ہوگیا اور مساجد میں پھر آبادی بڑھ گئی۔ اب میری تحریک پر لوگ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنے شروع ہوگئے ہیں اور گو ابھی اتنے لوگ نہیں آئےجتنے آسکتے ہیں یا جتنے لوگوں کو باقاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لیے آنا چاہیے لیکن بہرحال لوگوں میں تحریک ہوئی اور انہوں نے نماز کے لیے مسجد مبارک میں آنا شروع کردیا۔ لیکن اِس کے علاوہ نماز کے بعض حصے ایسے ہیں جن کی طرف ابھی قادیان کے لوگ بھی متوجہ نہیں اور باہر کی جماعتیں بھی ان امور کی طرف بہت کم توجہ کرتی ہیں۔
نماز کی ایک خصوصیت یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی جماعت میں یہ احساس پورے طور پر پیدا نہیں ہوا کہ وہ نمازیں آہستگی اور اطمینان کے ساتھ پڑھا کریں۔ ان کی نمازیں بے شک غیر احمدیوں سے اچھی ہوتی ہیں جو اس طرح پڑھتے ہیں جیسے مرغا دانے چُنتا ہے۔ لیکن ایسی بھی نہیں ہوتیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ہے کہ نمازیں پڑھی جائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس امر کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ جب انسان سجدہ میں جائے تو تمام کلمات عمدگی سے ادا کرے، جب کھڑا ہو تو سورۂ فاتحہ اور قرآن مجید کا کچھ حصہ یا صرف سورۂ فاتحہ جیسی بھی صورت ہو اطمینان سے پڑھے اور ایک ایک لفظ کو آرام اور سکون کے ساتھ ادا کرے۔جب رکوع میں جائے تو اِسی طرح رکوع کی تسبیح آہستگی اور عمدگی سے کرے جلدی جلدی اپنی زبان سے کلمات نہ نکالے۔ لیکن اِس کے علاوہ نماز کا یہ بھی ایک اہم حصہ ہے کہ رکوع اور سجدہ وغیرہ کی حرکات وقار کے ساتھ کی جائیں۔ جب انسان رکوع کی طرف جائے تو یہ نہ ہو کہ جلدی سے رکوع میں چلا جائے بلکہ آہستگی اور وقار کے ساتھ جائے۔ جب رکوع سے اٹھے تو جلدی سے نہ اٹھے بلکہ آہستگی اور اطمینان کے ساتھ ا س طرح اٹھے جیسے ایک باوقار انسان اٹھتا ہے۔ جب سجدہ میں جائے تو اُس وقت بھی اپنی حرکات میں وقار مدنظر رکھے۔ یہ نہ ہو کہ وہ کُود کر سجدہ میں چلا جائے۔ اسی طرح دوسجدوں کے درمیان جب بیٹھے تو ایک باوقار انسان کی طرح آہستگی سے اپنا سر اٹھائے اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر مسنون دعائیں پڑھے۔ پھر جب سلام پھیرنے لگے تو اُس وقت بھی اِس ہدایت کو مدنظر رکھے۔ یہ نہ ہو کہ جس طرح کل والا بُت حرکت کرتا ہے اُسی طرح جلدی سے اُس کی گردن ایک دفعہ دائیں طرف مڑ جائے اور دوسری دفعہ بائیں طرف اور وہ نماز سے فارغ ہوجائے۔ یہ ساری چیزیں نماز کے اثر کو زائل کرنے اور اس کے فوائد کو باطل کرنے والی ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِن امور کا اِس قدر خیال رکھا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا اور اُس نے نماز شروع کردی۔ جب وہ نماز ختم کرچکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے فرمایا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی پھر پڑھو۔ اُس نے پھر نماز پڑھی۔ جب فارغ ہوچکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تم پھر نماز پڑھوکیونکہ تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ اُس نے پھر نماز پڑھی۔ اِس دفعہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ آخر جب کئی دفعہ اِسی طرح ہوا تو وہ کہنے لگا یارسول اللہ! مجھے تو کسی اَور طرح نماز پڑھنی نہیں آتی۔ آپ ہی بتائیں مَیں کس طرح نماز پڑھوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جب تم نماز پڑھو تو ٹھہر ٹھہر کر اور آہستگی اور وقار سے تمام حرکات ادا کرو۔1 مگر مَیں دیکھتا ہوں اِس طرف ہماری جماعت کے دوستوں کی بہت کم توجہ ہے۔ بعض لوگ سجدہ بھی لمبا کرلیں گے لیکن جب اٹھنے لگیں گے تو اس طرح جلدی سے اٹھ کر بیٹھ جائیں گے جیسے کسی مشین کے اوپر سے کوئی تختہ اٹھا دیا جائے تو یکدم مشین باہر نکل آتی ہے۔ یا سجدہ میں جانے لگیں گے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے کسی نے ان کو دھکّا دے دیا ہے۔ یہ ساری باتیں وقار کے خلاف اور نماز کی روح کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ اِسی طرح مَیں نے دیکھا ہےسجدہ میں جاتے وقت کھٹاکھٹ کی آواز آنی شروع ہوجاتی ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کُود کر سجدے میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔گویا کھڑے کھڑے وہ تنگ آچکے تھے اور اسی لیے سجدے میں زمین پر گُھٹنے مار کر جاتے ہیں۔ یہ بھی وقار کے خلاف ہے۔ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ جب انسان سجدہ میں جائے توآہستگی سے جائے، گُھٹنوں کو آرام سے زمین پر رکھے۔ پھر آرام سے زمین پر ہاتھ رکھے اور پھر سجدہ میں اپنا سر جھکا دے۔ ان تمام حرکات میں مومنانہ وقار مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ چیز بھی اہم اصول میں سے ہے اور اس سے انسان کے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص جلدی جلدی حرکات کرتا ہے وہ چاہے پندرہ منٹ کا سجدہ کرے اسے وہ فائدہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جو اُس شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو گو دو منٹ کا سجدہ کرے مگر اپنی تمام حرکات میں وقار مدنظر رکھے اور آہستگی کے ساتھ تمام ارکانِ نماز بجا لائے۔ اگر لمبا سجدہ کرنے والا نماز کی درمیانی حرکات کو بھی آہستگی سے ادا کرے تب اسے دوسروں سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن اگر وہ نماز کی حرکات کرتےوقت تو آہستگی سے کام نہیں لیتا اور سجدہ میں زیادہ وقت صَرف کردیتا ہے تو اس سے وہ شخص زیادہ فائدے میں رہے گا جو گو سجدہ چھوٹا کرتا ہے(یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل چھوٹا ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ نسبتًا چھوٹا سجدہ کرتا ہے) لیکن ارکان آہستگی سے ادا کرتا ہے۔ ایسے شخص کے قلب میں یقیناً دوسرے سے زیادہ نور پیدا ہوگا اور وہ دوسرے سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جائے گا۔ پس ہر شخص کو نماز پڑھتے وقت اپنی حرکات کا خصوصیت سے خیال رکھنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اُس کی حرکات ایسی ہوں جیسے بادشاہ کے سامنے کوئی مؤدّب انسان کرتا ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ذکر الٰہی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعت میں ذکر الٰہی کی پوری اہمیت نہیں پائی جاتی۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے ہر نماز کے بعد انسان کو تینتیس دفعہ تسبیح، تینتیس دفعہ تحمید اور چونتیس دفعہ تکبیر کہنی چاہیے اور اس بات کو آپ نے اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس غرباء آئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کی جماعت میں کچھ امراء بھی ہیں۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہی کچھ وہ بھی کرتے ہیں، جیسے ہم جہاد کرتے ہیں ویسے ہی امراء جہاد کرتے ہیں، جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اُسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں، جس طرح ہم حج کرتے ہیں اُسی طرح امراء حج کرتے ہیں لیکن یارسول اللہ! ایک بات میں وہ ہم سے بڑھ کر ہیں۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں مگر ہم نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ اس طرح وہ نیکی میں ہم سے بڑھ جاتےہیں۔یارسول اللہ! آپ کوئی ایسی ترکیب بتائیں جس سے کام لے کر ہم بھی نیکی میں ان کے برابر ہوجائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مَیں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو دوسروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جاؤ گے۔ انہوں نے عر ض کیا یارسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا، تم ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہ، 33 دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور 34 دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ اس سے تم پانچ سو سال پہلے جنت میں چلے جاؤ گے۔ انہوں نے اس پر عمل کرنا شروع کردیا۔ کچھ دن گزرے تو پھر وہی صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم نے آپ کے کہنے پر عمل شروع کردیا تھا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور نیکی کے اس میدان میں امراء ہم سے بڑھ جاتےہیں اس لیے کوئی ایسی ترکیب ہونی چاہیے جس سے امراء ہم سے نہ بڑھ سکیں۔ مگر یارسول اللہ! آپ نے جو کچھ ہمیں بتایا تھا اُس کا کسی طرح امراء کو بھی پتہ لگ گیا اور انہوں نے بھی اس پر عمل شروع کردیا ہے۔ یارسول اللہ! آپ امیروں کو روک دیجیے کہ وہ ایسا نہ کریں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مَیں کسی کو نیکی سے نہیں روک سکتا۔2
تو دیکھو ان لوگوں میں کیسا اخلاص تھا کہ نیکی کے حصول کا کوئی ذریعہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو خدا کا قرب حاصل ہوا۔ اگر وہ بھی اسی طرح بے پروائی کرتے جس طرح آجکل بے پروائی سے کام لیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوسکتا۔ آجکل لوگ دین کی باتیں تو سنتے ہیں۔ مگر صرف مزہ اٹھانے کے لیے عمل کرنے کے لیے نہیں سنتے۔ وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے سر بھی مار لیتے ہیں، واہ وا بھی کہہ دیتے ہیں۔ یہ بھی کہنا شروع کردیتے ہیں کہ واعظ صاحب نے بڑا اچھا وعظ کیا۔ لیکن یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ ہم ان باتوں پر عمل بھی کریں۔ اب یہی روایت مَیں اپنے خطبات میں بیسیوں دفعہ بیان کر چکا ہوں۔ مگر کتنے شخص ہیں جو اِس پر باقاعدگی سے عمل کر رہے ہیں کہ جب نماز ختم ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ ضرور فرض نماز ہی کے بعد بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز سے انسان فارغ ہوجائے تو وہ بیٹھ کر 33 دفعہ تسبیح، 33 دفعہ تحمید اور 34 دفعہ تکبیر کہے۔ حالانکہ اس کے بدلے میں انسان دوسروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جاسکتا ہے۔ کیا پانچ سو سال پہلے جنت کا مل جانا کوئی معمولی بات ہے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں ہزاروں لاکھوں روپے لوگ اِس غرض کے لیے دینے کو تیار ہوجائیں اگر وہ سمجھیں کہ انہیں ان روپوں کے بدلہ میں چھ مہینہ کی اَور زندگی مل سکتی ہے۔ حالانکہ چھ مہینے کی کیا حقیقت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ لیکن اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ اب میری موت کا وقت آپہنچا ہے اور اُس وقت اُسے کہا جائے کہ تمہیں ایک ہفتہ کی اَور زندگی مل سکتی ہے تم اتنے ہزار روپے دے دو تو مَیں سمجھتا ہوں ایسے موقع پر اُسے ہزاروں باتیں یاد آجائیں گی کہ اگر ایک ہفتہ کی اَور زندگی مل جائے تو مَیں فلاں کام بھی کرلوں، فلاں کام بھی کرلوں اور وہ اس غرض کے لیے اپنی آدھی جائیداد تک دینے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ اگر موت کے یقینی علم کے بعدصرف ایک ہفتہ کی زندگی کے لیے انسان اِس قدر قربانی کرسکتا ہے تو جہاں پانچ سوسال کی زندگی ملتی ہو وہاں اس زندگی کے حصول کے لیے دل میں کسی تحریک کا پیدا نہ ہونا بتاتا ہے کہ لوگوں کو اِس بات پر یقین ہی نہیں کہ یہ خدائی وعدہ ہے اور خدا اپنے وعدوں کو ضرور پورا کیا کرتا ہے۔ اگر انہیں یقین ہوتا تو مَیں سمجھتا ہوں وہ سر کے بل چل کر مسجدوں میں آتے اور تسبیح و تحمید اور تکبیر کے ثواب سے حصہ پاتے۔ مگر اتنا چھوٹا سا کام کرنا بھی انہیں دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ صحابہؓ کے دل میں نیکی میں ترقی کرنے کا کس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ غرباء کی یہ خواہش تھی امراء ہم سے نہ بڑھ جائیں اور امراء کی یہ خواہش تھی کہ غرباء ہم سے نہ بڑھ جائیں۔
ایک اور صحابی کے متعلق لکھا ہے انہوں نے ایک دفعہ مجلس میں بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جو شخص اپنے بھائی کی تجہیز وتکفین میں شامل ہوتا اور پھر اُس کا جنازہ بھی پڑھتا ہے اُسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے۔ لیکن وہ شخص جو جنازہ پڑھنے کے بعد میت کے ساتھ جاتا اور اُس کے دفن ہونے تک موجود رہتا ہے اور اُس وقت واپس آتا ہے جب اُس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اُسے دو قیراط ثواب ملتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ دوسرے صحابی نے جب اُن کی زبان سے یہ بات سُنی تو وہ خفا ہوگئے کہ تم بڑے ظالم ہو۔ آج تک تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حدیث ہمیں بتائی کیوں نہیں۔ خبر نہیں ہم ثواب کے کتنے قیراط ضائع کرچکے ہیں۔3 اگر تم پہلے یہ بات بتا دیتے تو ہم جنازہ پڑھ کر واپس نہ چلے جاتے بلکہ میت کے ساتھ جاتے اور اُس کے دفن ہونے کے بعد واپس آتے۔ اور اگر ہم نے جلدی ہی واپس آجانا ہوتا تو مجبوری کی حالت میں واپس جاتے ورنہ میت کے دفن ہونے تک ضرور موجود رہتے تاکہ یہ ثواب ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا۔ مگر تم نے تو یہ بات اتنی دیر کے بعد بتائی ہے کہ اب کئی ایسے مواقع ضائع ہوچکے ہیں جب ہم جنازہ کے ساتھ جاسکتے تھے مگر اس حدیث کے عدمِ علم کی وجہ سے نہ گئے اور ثواب ضائع ہوگیا۔
اسی طرح روایتوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کے درمیان کسی بات پر تکرار ہوگئی۔ بھائیوں بھائیوں میں بھی بعض دفعہ ناراضگی کی کوئی بات ہوجاتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی اور نرم تھی لیکن حضرت امام حسینؓ کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا۔ ان میں جو جھگڑا ہوا اُس میں حضرت امام حسینؓ کی طرف سے زیادتی ہوئی۔ لیکن حضرت امام حسنؓ نے صبر سے کام لیا۔ اس جھگڑے کے وقت بعض اَور صحابہؓ بھی موجود تھے۔ جب جھگڑا ختم ہوگیا تو دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت امام حسنؓ جلدی جلدی کسی طرف جا رہے ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ حضرت حسنؓ کہنے لگے مَیں حسینؓ سے معافی مانگنے چلا ہوں۔ وہ کہنے لگا کیا آپ معافی مانگنے چلے ہیں؟ مَیں تو خود اُس جھگڑے کے وقت وہاں موجود تھا اور مَیں جانتا ہوں کہ حسینؓ نے آپ کے متعلق سختی سے کام لیا پس یہ اُن کا کام ہے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں نہ یہ کہ آپ ان سے معافی مانگنے چلے جائیں۔حضرت حسنؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ مَیں اِسی لیے تو اُن سے معافی مانگنے جارہا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر سختی کی تھی۔ کیونکہ ایک صحابیؓ نے مجھے سنایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا جب دو شخص آپس میں لڑ پڑیں تو اُن میں سے جو پہلے صلح کرتا ہے وہ جنت میں دوسرے سے پانچ سوسال پہلے داخل ہوگا۔ میرے دل میں یہ بات سن کر خیال پیدا ہوا کہ کل مَیں نے حسینؓ سے بُرا بھلا سُنا اور انہوں نے مجھ پر سختی کی۔ اب اگر حسینؓ معافی مانگنے کے لیے میرے پاس پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے صلح کرلی تو مَیں دونوں جہان سے گیا کہ یہاں بھی مجھ پر سختی ہوگئی اور اگلے جہان میں بھی مَیں پیچھے رہا۔ چنانچہ مَیں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھ پر جو سختی ہوگئی ہے وہ تو ہوگئی اب مَیں اُن سے پہلے معافی مانگ لوں تاکہ اس کے بدلہ میں مجھے جنت تو اُن سے پانچ سوسال پہلے مل جائے۔ یہ خواہش تھی جو انہیں نیکیوں میں ترقی کرنے کی طرف لے جاتی تھی۔ بات سننا اور کان سے نکال دینا یہ کوئی مفید طریق نہیں۔ ہزار بات سننے اور عمل نہ کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ انسان ایک بات سنے اور اُس پر عمل کرے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں ایک شخص آیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں ہمیں دور سے ہی اُس کی گنگناہٹ کی آواز آرہی تھی۔ گویا وہ راستہ میں آتے ہی اپنے منہ میں سوال و جواب کررہا تھا۔ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں پہنچا تو اُس نے صحابہؓ سے پوچھا کہ کون ہیں تمہارے صاحب؟ صحابہؓ کہتے ہیں ہم نے کہا وہ جو مجلس میں تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ اس کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا مَیں آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو خدا نے لوگوں کو یہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ مَیں دنیا میں اپنی رسالت کا اعلان کروں۔ وہ کہنے لگا تو بہت اچھا۔ مَیں اِس پر ایمان لایا ہوں۔ پھر وہ کہنے لگا اب بتائیے یہ جو نمازوں کا حکم ہے کیا یہ ٹھیک ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں! ٹھیک ہے۔ وہ کہنے لگا۔ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کوان پانچ نمازوں کا خدا نے حکم دیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! مجھے خدا نے ہی پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد اس نے اسی طرح روزوں کے متعلق پوچھا۔ پھر حج کے متعلق دریافت کیا۔ پھر زکوٰۃ کے متعلق سوال کیا اور ہر بات وہ آپ سے قسم دے کر پوچھتا رہا۔ جب وہ یہ باتیں دریافت کرچکا تو کوئی اَور بات کیے بغیر وہ وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا خدا کی قسم! مَیں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا۔ مگر ان پر کوئی بات زیادہ بھی نہیں کروں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس وقت فرمایا اگر اِس شخص نے اپنی بات کو پورا کرلیا تو نجات پاگیا۔4
تو دیکھو وہ شخص تھوڑی دیر کے لیے آیا اور چند منٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں بیٹھا۔ باتیں اُس نے تھوڑی سی دریافت کیں مگر پھر وہ اِس ارادہ سے کھڑاہوگیا کہ اب مَیں اِن باتوں پر عمل کرکے رہوں گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ صرف سنوں اور عمل نہ کروں۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی تھے جو بیسیوں دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے، ہزاروں باتیں انہوں نے سنیں مگر وہ منافق کے منافق ہی رہے۔ انہوں نے باتیں تو سنیں مگر اُن پر عمل نہ کیا اُن سے انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زیادہ باتیں سننے والے تو جہنم میں چلے گئے اور چھوٹی سی بات سن کر اس پر عمل کرنے والا جنت میں چلا گیاتونیکی کی باتوں کو سننا اور ان پر عمل کرنا بڑی اہم بات ہوتی ہے اور جتنا کوئی ثواب کے حصول کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ ان باتوں کو یاد رکھتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بعض دفعہ نیک کاموں میں حصہ لینے کے باوجود انسان کے ایمان کا جو برتن ہوتا ہے اس کے پیندے5 میں شگاف ہوتا ہے مگر وہ اس کی طرف سے غافل ہوتا ہے۔ ایسا انسان نماز تو پڑھتا ہے مگر چونکہ اس کے نماز کے برتن میں شگاف ہوتا ہے اِس لیے اُس کی غفلت کی وجہ سے وہ نماز اس شگاف میں سے نیچے گر جاتی ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان نماز تو پڑھتا ہے مگر اس کا دھیان کسی اَور طرف ہوتا ہے۔ یا وضو میں اُس سے کوئی بے احتیاطی ہوجاتی ہے مگر اسے علم نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے مگر وہ نماز پیندے کے سوراخ میں سے نیچے گر جاتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میری ہزار نمازیں جمع ہوچکی ہوں گی حالانکہ وہاں صرف سَو نمازیں ہوتی ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کے بٹوے یا جیب میں شگاف ہو مگر اُسے علم نہ ہو۔ وہ تو یہی سمجھتا رہے گا کہ میری جیب یا بٹوے میں اتنے روپے ہیں مگر جب وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے گا تو اُسے وہاں کوئی روپیہ نہیں ملے گا۔ اسی لیے ر سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا بھی حکم دیا ہے تاکہ اگر کچھ نمازیں انسان کی غفلت کی وجہ سے گرجائیں تو نوافل ان کا قائم مقام بن سکیں۔ یا ذکر الٰہی کا حکم دے دیا تاکہ اگر نوافل میں کمی آجائے تو ذکرِ الٰہی ان نوافل کا قائم مقام ہوجائے۔ پس اگر تم روحانی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہوکر روحانی فیوض حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے قائم کردہ نظام سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو نمازوں کی درستی کی طرف توجہ کرو اور بَیْنَ الْاَرْکَان حرکات کو وقار سے ادا کرو۔
پھر دو چیزیں اَور بھی ہیں جن کا میں ذکر کردینا چاہتا ہوں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ کم سے کم مقدار میں ان امور کی پابندی کریں تاکہ اُن کے دلوں کا نور بڑھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر نازل ہوں۔ اُن دو باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ۔6 فرماتے ہیں دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمان کو بہت پیارے ہیں خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں۔ عالم، جاہل، عورت، مرد، بوڑھا، بچہ ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کرسکتا ہے۔ اگر تم دوسال کے بچہ کو وہ کلمات سکھانا چاہو تو وہ بھی ان کو سیکھ جائے گا۔ اگر ایک بڈھے کھوسٹ کو وہ کلمات سکھانے لگو تو وہ بھی ان کو سیکھ لے گا۔ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيْزَانِ لیکن قیامت کے دن جب اعمال کا وزن ہوگا تو جس شخص کی نیکیوں کے پلڑے میں وہ ہوں گے وہ اسے بہت بھاری بنا دیں گے اور اُسے دوسرے پلڑے سے نیچا کردیں گے۔ وہ کلمے یہ ہیںسُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ۔یہ کتنا چھوٹا سا کلمہ ہے۔ اگر تم اپنے دوسالہ بچے کو یاد کرانا چاہو تو وہ بھی اسے آسانی سے یاد کرے گا۔ کیونکہ اس کا وزن ایسا ہے جس میں توازنِ شعری قائم ہے اور انسان ان کلمات کے پڑھتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا ایک جھولا جھول رہا ہے جو کبھی اونچا ہوجاتا ہےاور کبھی نیچا ہوجاتا ہے۔پس چونکہ ان میں تناسبِ صوتی پایا جاتا ہے اس لیے ان کا یاد رکھنا بڑا آسان ہے اور اسے اپنی زبان سے دُہرانا تو اَور بھی آسان ہے۔ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تسبیح و تحمید اور تکبیر کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں تسبیحوں میں یہ تسبیح آپ نے بڑی اہم قرار دی ہے۔ پس مَیں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے۔ وہ چاہے تو سوتے وقت پڑھ لے، چاہے تو ظہر کے وقت پڑھ لے، چاہے تو عصر کے وقت پڑھ لے، چاہے تو مغرب کے وقت پڑھ لے، چاہے تو عشاء کے وقت پڑھ لے، چاہے تو فجر کے وقت پڑھ لے۔ بہرحال ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ۔پڑھ لیا کرے گا۔
اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکات اور آپ کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے۔ بے شک ہر نماز میں تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے۔ وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کے لیے ضروری ہے۔لیکن تقرب اِلَی اللہ کے حصول کے لیے اِس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہیے۔ پس مَیں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم سے کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے۔ یہ اس کا اختیار ہے کہ خواہ فجر کے وقت پڑھ لے، خواہ ظہر کے وقت پڑھ لے، خواہ عصر کے وقت پڑھ لے، خواہ مغرب کے وقت پڑھ لے، خواہ عشاء کے وقت پڑھ لے، خواہ سونے سے پہلے پڑھ لے۔ بہرحال بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھ لیا جائے۔ مگر درود پڑھنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان محض درود کے الفاظ اپنی زبان سے دہراتا جائے بلکہ اسے چاہیے درود سمجھ کر پڑھے۔ یہ نہیں کہ خالی مُنہ سے اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ کہہ دیا جائے بلکہ جب انسان اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ کہے تو اسے پتہ ہو کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! تُو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما، آپ کے درجات کو بلند کر، آپ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلا، آپ کا نور دنیا میں روشن کر اور آپ جس کام کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں اُس میں آپ کو کامیاب فرما۔ تاکہ ساری دنیا آپ کے جھنڈے کے نیچے آجائے،ساری دنیا صداقت کو قبول کر لے اور ساری دنیا آپ کی غلامی کو اختیار کرلے۔ جب کوئی شخص اس درد سے درود پڑھے گا کہ دنیا کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت حاصل ہو اور آپ کا لایا ہوا نور وہ قبول کرلے تو یہ لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ اس شخص کو بھی اِس امر کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے میں حصہ لے اور آپ کے احکام کی دنیا میں اشاعت کرے۔
ہم دیکھتے ہیں جب کوئی شخص کسی غریب آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اسے کسی امیر کے دروازے پر لے جاتا ہے اور کہتا ہے اس کی مدد کی جائے تو اِس کے اپنے دل میں بھی اس کے متعلق رحم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ خدا سے کہےگا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلا تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پیدا ہوگا کہ مَیں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤں۔ جب یہ خدا سے کہے گا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دنیا میں روشن فرما تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پیدا ہوگا کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو دنیا میں روشن کرنے کا موجب بنوں۔ جب یہ خدا سے کہےگا کہ خدایا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی دنیا میں اشاعت فرما تو اس کے اپنے دل میں بھی درد پیدا ہوگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی اشاعت میں حصہ لوں۔ اور چونکہ آل کے لفظ میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اتباع کرتے اور آپ کے انوار کو پھیلانے میں حصہ لیتے ہیں۔ بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں شریک ہیں۔ اس لیے جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجے گا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھی اس میں شامل ہوجائے گا۔ لیکن یہ بھی جائز ہے کہ مخصوص طور پر انسان درود میں یہ الفاظ زائد کرلے کہ وَعَلٰى عَبْدِكَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ۔ان الفاظ کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ فیضان جو بواسطہ مسیح موعود مقدر ہے اُس کی طرف اس کی خاص طور پر توجہ رہے گی اور یہ کوشش کرے گا کہ مَیں اس فیضان سے بھی حصہ لوں۔ بہرحال ہماری جماعت کو درود پڑھنے کی طرف بھی خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے۔ ابتدائی طور پر مَیں نے ہر شخص کے لیے دن میں بارہ دفعہ درود پڑھنا ضروری قرار دیا ہے۔ اور گو درود اس سے زیادہ پڑھنا چاہیے مگر سب سے بہتر کام وہی ہوتا ہے جس کو انسان عمدگی سے نباہ سکے۔
پس ہر احمدی مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اُس کو چاہیے کہ شروع میں وہ کم سے کم روزانہ بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِاور بارہ دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود پڑھا کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی لمبا درود ہو۔ اگو کوئی شخص لمبا درود نہیں پڑھ سکتا تو وہ چھوٹے سے چھوٹا درود بھی پڑھ سکتا ہے۔ وہ یہ کہہ کر بھی اپنے اس فرض کو ادا کرسکتا ہے کہ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمْ اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ یہ درود ایسا ہے جو معمولی سے معمولی علم والا بھی یاد کرسکتا ہے۔ یہ درود ایسا ہے جو چھوٹی سے چھوٹی عمر والا بھی یاد کرسکتا ہے۔ بچے اس درود کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ بوڑھے اس درود کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ معمولی علم رکھنے والے اِس درود کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ اور پھر باوجود اتنا چھوٹا درود ہونے کے سارا مضمون اس میں آجاتا ہے۔ برکت کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے، سلامتی کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے، رحمت اور فضل کی دعا بھی اس میں آجاتی ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے دوست یہ قدم اٹھا لیں تو اس کا ذکر اور درود کا وِرد اِنْشَاءَ اللہ بڑھتا جائے گا اور پھر ان کے دلوں میں خودبخود نیکی اور تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فیوض سے وہ حصہ لینا شروع کردیں گے اور انوارِ الٰہیہ بھی جلد جلد نازل ہونے لگ جائیں گے۔ انوار تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور نازل ہوں گے۔ بڑی چیز یہ ہے کہ ان انوار سے تم کو بھی حصہ ملے۔ مَیں تمہیں وہ باتیں نہیں بتاتا جن سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برکتیں ملیں اور تم کو نہ ملیں۔ بلکہ مَیں تمہیں وہ طریق بتا رہا ہوں جس سے تم کو بھی اُن برکات سے حصہ مل سکے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ضرور برکتیں ملیں گی۔یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو برکات عطا نہ فرمائے اور ان کے انوار دنیا میں روشن نہ کرے۔ پس تمہیں ان کا فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں یہ فکر ہونا چاہیے کہ تم ان برکات سے حصہ لیتے ہو یا نہیں لیتے۔ پس تمہارے منہ سے یہ باتیں اس لیے نکلوائی جاتی ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کروگے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات و انوار نازل ہونے کی وجہ سے تمہیں بھی ان برکات سے حصہ مل جائے گا۔اگر تم درود پر دوام اختیار کرو گے، اگر تم تسبیح و تحمید اور تکبیر میں حصہ لوگے،اگر تم اپنی نمازیں درست کرو گے، اگر تم ارکانِ نماز کو آہستگی اور اطمینان کے ساتھ ادا کرو گےتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب زمین پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی برکتیں نازل ہوں گی تو ان برکات سے تم کو بھی حصہ ملے گا اور تمہارا خاندان اور تمہاری نسلیں ان برکات سے محروم نہیں رہیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ جاؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو دنیا میں پھیلاؤ، جاؤ اور آپ کی برکات سے زمین والوں کو حصہ دو تو اُس وقت خدا اپنے فرشتوں کو یہ بھی حکم دے گا کہ دیکھنا میرے فلاں بندے کو بھی یاد رکھنا کیونکہ وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت اور سلامتی نازل ہونے کے لیے مجھ سے عاجزانہ طور پر دعائیں کیا کرتا تھا۔ پس جب تم آسمان سے رحمتوں کے خزانے لے جاؤ تو اس کے گھر کو نہ بھولنا بلکہ اُسے بھی ان رحمتوں سے مالا مال کردینا۔ پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے، اُن کے گھر رحمتوں سے بھر دئیے جائیں گے اُن کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہوجائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعماء سے وہ لذت اندوز ہوں گے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہوگی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اکنافِ عالَم تک پہنچے اِس لیے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور درد مندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہوسکتا ہے۔ دنیوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ایک ذریعہ ہیں۔ ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہوگا ۔اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں مُمِد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اُس سے کرتے رہیں گے"۔ (الفضل23 ؍مئی 1944ء)


19
آئندہ چندہ تحریک جدید میں
شامل ہونے والوں کے لیے شرائط
(فرمودہ 19 مئی 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"یہ تحریک جدید کا دسواں سال ہےاور پہلی سکیم کے مطابق یہ گویا اس کے پہلے دَور کا آخری سال ہے جس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ آئندہ تحریک جدید میں اگر کوئی حصہ لینا چاہے تو اس کے لیے کوئی معیّن صورت ہونی چاہیے اور قواعد ہونے چاہییں۔ تااگر کوئی آئندہ اس میں شامل ہونا چاہے تو معلوم کرسکے کہ وہ کس طرح شامل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کا پہلا دَور تو ختم ہوچکا ہے۔ مَیں نے اس تحریک میں چندوں کے وعدوں کی آخری تاریخ 30؍ اپریل رکھی ہوئی تھی ہندوستان کے اُن علاقوں کے لیے جہاں کی زبان اردو نہیں ہے۔ اور فروری کا پہلا ہفتہ آخری تاریخ تھی ہندوستان کے اُن علاقوں کے لیے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے اب کوئی شخص اس میں ان قواعد کے لحاظ سے تو شامل نہیں ہوسکتا۔ اور ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں آئندہ اِس میں شامل ہونے کی خواہش پیدا ہو ایک سکیم کا فیصلہ کیا ہے اور آج میں اُس کا اعلان کرتا ہوں۔ تا وہ لوگ جو اَب تک شامل نہیں ہوسکے اگر اب اُن کے دل میں شوق پیدا ہو تو وہ اس میں حصہ لے سکیں۔شروع زمانہ میں یہ ایک اکٹھا کام تھا اس لیے ایک وقت مقرر کردیا جاتا تھا کہ جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں وہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وعدے کرسکتے ہیں۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس میں حصہ لینا چاہے تو کس طرح لے سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سلسلہ کی اشاعت کے لیے ایک مستقل فنڈ کا قیام ایک ایسی بات ہے کہ جس میں حصہ لینے کی خواہش ہمیشہ ہی دلوں میں پیدا ہوتی رہے گی۔ اس لیے ایسے لوگوں کے شامل ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہیے۔ جو لوگ اس تحریک کی ابتدا میں اس میں شامل ہوئے جبکہ اس کی ایسی شکل نہ تھی جو لوگوں کے لیے دلکشی کا موجب ہو اور اُس وقت شامل ہوئے جب ذہنوں میں یہ بات نہ تھی کہ اس تحریک کو خدا تعالیٰ اسلام کی اشاعت وترقی کے لیے ایک مستقل فنڈ کی صورت دے دے گا۔ اور جب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اِس میں شامل ہوکر انہیں کتنی قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اور اُس وقت اِس میں شامل ہوئے جب جماعت نازک دَور میں سے گزر رہی تھی اور دشمن حملہ کرکے اس سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہتا تھا وہ دوسروں سے ممتاز ہیں اور ممتاز ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ مگر بعد میں آنے والی نسلیں اور بعد میں جوان ہونے والے یا بعد میں حصہ لینے کے قابل ہونے والے لوگ بھی اگر اپنے دل میں شوق محسوس کریں تو ان کے لیے بھی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ پہلے کوئی پابندی نہ تھی۔ صرف یہی شرط تھی کہ پانچ روپیہ سے کم چندہ نہ دیا جائے اور تاریخ مقررہ کے اندر اندر وعدے کر دیئے جائیں۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ اُن کی آمد زائد تھی مگر چندہ وہ صرف پانچ روپیہ لکھواتے تھے مگر ہم اُن پر اعتراض نہ کرسکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا اعلان کردہ شرائط کے مطابق تھا۔ جہاں بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں سَو سوا سَو سے زیادہ نہ تھیں مگر وہ ہر سال دو اڑھائی سو روپیہ چندہ دے دیتےتھے وہاں ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں تو پانچ سو یا ہزار روپیہ ماہوار تھیں مگر چندہ وہ کم دیتے تھے۔ یا تاجر وغیرہ تھے جن کی آمد تو کئی سو روپیہ ماہوار تھی مگر چندہ کم ہوتا تھا اور یہ دونوں قسم کے لوگ اِس تحریک میں شامل تھے اور چونکہ کوئی معیار نہ تھا اِس لیے اپنی آمد کی نسبت سے بہت ہی کم چندہ دینے والوں پر بھی ہم کوئی اعتراض نہ کرسکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا قواعد کے مطابق تھا۔ کیونکہ قاعدہ یہی تھا کہ ہر شخص پانچ روپیہ یا اس سے زیادہ دے کر شامل ہوسکتا ہے۔ اور السَّابِقُوْنَ میں وہ لوگ شمار ہوتے تھے جو ہر سال پہلے سال سے بڑھا کر دیتے۔ خواہ زیادتی ایک پیسہ یا ایک آنہ کی ہی ہو۔ مگر وہ زمانہ گزر گیا اور السَّابِقُوْنَ نے اپنا حق قائم کرلیا۔ آئندہ اگر کوئی شخص شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کا ایک سال کا چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو۔ یعنی اگر کسی شخص کی تنخواہ سو روپیہ ماہوار ہے تو جب تک وہ ایک سال میں ایک سو روپیہ چندہ نہ دے وہ شامل نہ ہوسکے گا۔ اسی طرح جس کی آمد ایک ہزار روپیہ ماہوار ہے وہ اگر شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک سال میں ایک ہزار روپیہ چندہ دے۔
دوسری شرط یہ ہوگی کہ آئندہ شامل ہونے والوں کوبجائے دس سال کے انیس سال چندہ دینا ہوگا اور ہر سال پہلے سال سے اتنی زیادتی کرنی ہوگی جتنی کہ آمد میں زیادتی ہوگی۔ مثلاً ایک شخص کی آمد سو روپیہ ماہوار ہے اور اس نے پہلے سال سو روپیہ دے دیا، اگلے سال اس کی آمد ڈیڑھ سو روپیہ ہوگئی تو اسے دوسرے سال ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دینا ہوگا۔ ہاں اگر اس کی آمد میں کوئی بھی ترقی نہ ہو تو پھر دوسرے سال اسے کچھ نہ کچھ زیادتی کرنی ہوگی۔ اضافہ بہرحال کرنا ضروری ہوگا اور وہ اضافہ اتنا ہوگا جتنا وہ پسند کرے۔ اگر اس نے پہلے سال سو روپیہ دیا اور اگلے سال اس کی آمد میں اضافہ نہیں ہوا تو وہ خواہ سو روپیہ ایک آنہ یا سو روپیہ ایک پیسہ دے دے یا جتنی زیادتی وہ چاہے کرتا جائے۔ اس صورت میں زیادتی اس کی اپنی مرضی سے ہوگی۔ لیکن اگر آمد میں زیادتی ہو تو اس سال کے چندہ میں زیادتی آمد میں زیادتی کے برابر ہوگی اور اس طرح دس سال تک زیادتی کرنی ہوگی۔ گیارھویں سال میں وہ پھر نویں سال کے برابر چندہ دے گا، بارھویں سال آٹھویں سال کے برابر، تیرھویں سال ساتویں سال کے برابر، چودھویں سال چھٹے سال کے برابر، پندرھویں سال پانچویں سال کے برابر، سولھویں سال چوتھے سال کے برابر، سترھویں سال تیسرے سال کے برابر، اٹھارویں سال دوسرے سال کے برابر اور انیسویں سال پہلے سال کے برابر چندہ دینا ضروری ہوگا۔سوائے اس کے کہ کوئی فوت ہوجائے۔ جس طرح پہلے دَور میں یہ شرط تھی کہ اگر کوئی پہلے سال میں شامل ہوا اور پھر فوت ہوگیا تو اسے آخر تک شامل ہی سمجھا جائے گا۔ کیونکہ وہ اِسی نیت سے شامل ہوا تھا کہ آخرتک شامل رہے گا۔ اِسی طرح اس دَور میں ہوگا کہ جو شخص ایک سال یا چند سال شامل ہونے کے بعد فوت ہوجائے تو اُس کا شمار آخر تک شامل ہونے والوں میں ہوگا۔ اس طرح اگر کسی کی پنشن ہوجائے تو اُس کی آمد کے لحاظ سے ہی اُس سے چندہ لیا جائے گا۔ جس کی آمد سو روپیہ ماہوار تھی اور اس سے سو روپیہ چندہ لیا جاتا تھا پنشن ہونے کی صورت میں چونکہ اس کی آمد پچاس روپیہ ماہوار ہوجائے گی اس لیے اس سے چندہ بھی اتنا ہی لیا جائے گا اور یہ کمی، کمی شمار نہ ہوگی بلکہ قواعد کے مطابق ہی سمجھی جائے گی۔
تیسری شرط یہ ہوگی کہ اگر کسی کی آمد کا ذریعہ بند ہو جائے یا ملازمت سے کوئی علیحدہ ہوجائے تو اُس کا فرض ہوگا کہ اپنا معاملہ فردی طور پر تحریک جدید کے دفتر کے سامنے پیش کرے اور دفتر اُس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ پس اگر کسی کی ملازمت جاتی رہے یا تجارت میں نقصان ہوجائے یا کسی کے پاس پہلے زمین تھی اور بعد میں وہ اس کے قبضہ میں نہ رہے تو وہ اپنا معاملہ دفتر تحریک جدید میں پیش کرے گا۔ پھر اس کی موجودہ حالت کے مطابق اس کے لیے چندہ مقرر کردیا جائے گا۔ یہ وہ شرائط ہیں جن کی پابندی آئندہ شامل ہونے والوں کے لیے ضروری ہوگی۔ پس اب اگر کوئی شخص اس تحریک میں حصہ لینے کی خواہش کرے تو دفتر اسے لکھ دے کہ ان شرائط کی پابندی لازمی ہوگی سوائے اس کے کہ کوئی فوت ہوجائے یا بیمار ہوجائے۔ مثلاً مفلوج ہوجائے یا دماغ میں نقص پیدا ہوجائے اور اس کی آمد بالکل جاتی رہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ قواعد کے مطابق اس تحریک میں حصہ لینے والے ہیں۔ خواہ یہ حالت ایک ہی سال حصہ لینے کے بعد پیدا ہوجائے یا چند سال کے بعد۔ کامل ایمان پیدا نہ ہوتو کوئی قربانی نہیں کی جاسکتی۔ جب انسان کو یہ کامل یقین ہو کہ وہ جس راستہ پر چل رہا ہے وہ کامیابی کا راستہ ہے،بربادی اورتباہی کا نہیں تو پھر قربانی کی راہ میں کوئی روک نہیں رہتی۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی موت اسے حیات بخشے گی۔ اس کا یا اس کی اولاد کا قتل ہوجانا اسے اور اس کے خاندان کو زندہ کردے گا اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے جدائی ہی حقیقی وصال کا موجب ہوگی۔ پھر وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔
صحابہ کرام ؓ کو دیکھ لو چونکہ ان کے اندر حقیقی ایمان پیدا ہوچکا تھا اس لیے ان کے نزدیک موت و حیات برابر تھے، وطن کو چھوڑ دینا اور عزیزوں سے جدائی اختیار کر لینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں انہیں نہ اپنی موت کی پرواہ تھی اور نہ اپنے رشتہ داروں کی، نہ انہیں اپنے وطن چھوڑنے کا خوف تھا اور نہ رشتہ داروں سے جدائی کا۔ ان کے سامنے صرف ایک ہی بات تھی اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا تھی۔ اس کے لیے وہ سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاواقعہ مَیں نے کئی بار سنایا ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے آپ کے لڑکے عبدالرحمان بھی تھے اور باتیں ہور ہی تھیں۔ عبدالرحمان بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور بدر کی جنگ میں وہ کفار کے ساتھ ہوکر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ بدر کی جنگ میں آپ ایک موقع پر جوش میں بہت آگے نکل گئے۔ مَیں ایک پتھر کی اوٹ میں اِس تاک میں بیٹھا تھا کہ یہ مسلمان جب واپس آئے گا تو اُس پر حملہ کرکے قتل کر دوں گا۔ جب آپ قریب پہنچے تو مَیں حملہ کے لیے آگے بڑھا۔ مگر جب دیکھا کہ آپ ہیں تو پیچھے ہٹ گیا اور مَیں نے خیال کیا کہ مجھے اپنے باپ کو نہ مارنا چاہیے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے بے ساختہ کہا کہ عبدالرحمان! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان نصیب کرنا تھا اس لیے مَیں نے تمہیں نہ دیکھا۔ خدا کی قسم! اگر مَیں تمہیں دیکھ لیتا تو ہر گز زندہ نہ چھوڑتا۔1 دیکھو دونوں دشمن کی صفوں سے آئے تھے۔ ایک یہ سمجھ کر جان دینے کے لیے میدان میں آیا تھا کہ اسلام جھوٹا ہے اور دوسرا یہ سمجھ کر آیا تھا کہ کفر جھوٹا ہے۔ وہ بھی اس نیت سے آیا تھا کہ اپنے مدمقابل کو شکست دینی ہے اوروہ بھی اِسی ارادہ سے آیا تھا مگر فرق یہ تھا کہ کفر موقع آنے پر پدری محبت سے مغلوب ہوگیا مگر اسلام نے بھائی کے دل سے بھائی کی، باپ کے دل سے بیٹے کی، بیٹے کے دل سے باپ کی ، خاوند کے دل سے بیوی کی اور بیوی کے دل سے خاوند کی محبت کو سرد کر دیا تھا۔ وہ صرف یہی سمجھتے تھے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تلوار اٹھا کر میدان میں آیا ہے وہ نہ ہمارا باپ ہے اور نہ بیٹا، نہ بھائی ہے نہ کوئی اور رشتہ دار۔ یہی بات تھی جس نے اُن کو ہر چیز سے بے نیاز کردیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ خدا ہے اور اگر ہم اس کے لیے قربانی کریں تو اس کی محبت حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ اِس نیت سے اپنے گھروں سے نکلے تھے کہ خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنی ہے اور اس راہ میں کوئی روک ان کے رستہ میں حائل نہ ہوسکتی تھی۔
اِسی سلسلہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کا واقعہ ہے۔ ایک دفعہ بعض انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہوگیا تو عبداللہ بن اُبی نے جو منافق تھا انصار کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ2 یعنی جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو سب سے زیادہ معزز انسان (یعنی وہ خبیث خود) سب سے زیادہ ذلیل انسان (یعنی نَعُوْذُ بِاللہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کو مدینہ سے نکال دے گا۔ یہ بات صحابہ کرام میں پھیلی تو عبداللہ بن ابی کا لڑکا جو مخلص مسلمان تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یارسول اللہ! میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے جس کی سزا قتل کے سوا کوئی نہیں ہوسکتی۔ مَیں جانتا ہوں کہ اُس نے آپ کی ہتک کی ہے اوراُس کی سزا قتل ہے اور مَیں ایک درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور وہ یہ کہ اس کے قتل کا حکم کسی اَور کو دینے کے بجائے مجھے دیں۔ تاایسا نہ ہو کہ کسی وقت ایمان کی کمزوری کی حالت میں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر مَیں کسی مسلمان پر حملہ کردوں۔ پس آپ میرے باپ کے قتل کا حکم مجھے دیں تاکسی مسلمان کا بُغض میرے دل میں پیدا نہ ہو۔3 پس صحابہ نے بیٹوں، باپوں، بھائیوں، بیویوں اور خاوندوں وغیرہ سب کی محبت کو دلوں سے نکال دیا تھا۔ ان کے قلوب میں صرف خدا تعالیٰ کی محبت رہ گئی تھی یا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں تھی۔
اوپر مثالیں تو مردوں کی محبت کی تھیں۔ عورتوں کی محبت بھی کم نہ تھی۔ اُحد کی جنگ کے موقع پر جب یہ خبر مدینہ میں مشہور ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہوگئے ہیں اور مسلمانوں کا لشکر تتّر بتّر ہوگیا ہے تو یہ ایک ایسی خبرتھی کہ اس قسم کی خبر کو سن کر ہمارے ملک کی عورتیں اور بچے تو گاؤں چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ مگر مسلمان عورتیں اور بچے اِس خبر کو سن کر بجائے اِس کے کہ مدینہ سے بھاگتے اکٹھے ہوکر اُحد کی طرف چل پڑے۔ حدیثیں اِس بارہ میں خاموش ہیں کہ وہ کیوں اُحد کی طرف چلے۔ مگر عقل بتاتی ہے کہ ان کی ایک ہی غرض ہوسکتی تھی اور وہ یہ کہ وہ سمجھتے تھے اگر واقعی مسلمانوں کا لشکر تتربتر ہوچکا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہوچکے ہیں تو وہاں جاکر آپؐ کے جسمِ اطہر کی حفاظت کرنےکے سوا اُن کی اَور کوئی غرض نہ ہوسکتی تھی۔ بعد میں معلوم ہوگیا کہ یہ خبر غلط تھی۔ یہ ہجوم تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسلامی لشکر واپس آرہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کچھ لوگوں کو آگے بھیجا تھا کہ جلد پہنچ کر مدینہ میں اطلاع دیں تا وہاں جو لوگ ہیں اُن کی پریشانی دور ہو۔ وہ ہجوم اُحد کی طرف جارہا تھا کہ تھوڑے ہی فاصلہ پر ایک مسلمان سوار واپس آتا ہوا ملا۔ اس نے عورتوں اور بچوں کے اس ہجوم کو دیکھا تو ایک عورت کو ان میں سے پہچانا۔ وہ عورت آگے بڑھی اور اس سپاہی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خیریت سے دیکھ کر آیا تھا، اُس کا دل مطمئن تھا اِس لیے اُس نے اس عورت کے سوال کا توکوئی جواب نہ دیا بلکہ اُسے کہا کہ بہن! افسوس ہے تمہارا باپ شہید ہوگیا۔ یہ سن کر اُس عورت نے کوئی جزع فزع نہ کی بلکہ پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر بھی چونکہ اس شخص کے دل میں اطمینان تھا اُس نے کہا کہ افسوس! تمہارا خاوند بھی مارا گیا۔ مگر اس عورت نے پھر اِس بات کی کوئی پروا نہ کی اور پوچھا کہ مَیں جو پوچھ رہی ہوں وہ بات مجھے بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟اس نے پھر بھی اس سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ تمہارا بھائی بھی مارا گیا ہے۔ یہ سن کر بھی اس عورت نے یہی کہا کہ مَیں نے نہ باپ کا پوچھا ہے، نہ بھائی کا اور نہ خاوند کا۔ مَیں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے۔ تب اس کی آنکھیں کھلیں اور اس نے دل میں کہا کہ یہ عورتیں اپنے اخلاص میں ہم مردوں سے کم نہیں ہیں اور اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو خیریت سے ہیں۔ یہ سُن کر اُس نے کہا اَلْحَمْدُ لِلہ اگر آپؐ خیریت سے ہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ میرا باپ، بھائی اور خاوند مارے گئے۔4
تو یہ اخلاص اُن کے اندر کس چیز نے پیدا کیا تھا؟ یہ ایمان ہی کا نتیجہ تھا ان کو خدا تعالیٰ پر اور اس کے کلام پر بے انتہا یقین تھا شبہ کی حالت نہیں تھی۔ شبہ کی حالت میں انسان اس قدر قربانی نہیں کرسکتا کیونکہ کبھی وہ خیال کرتا ہے کہ شاید یہ بات صحیح ہو اور کبھی خیال کرتا ہے شاید صحیح نہ ہو۔ مگر وہ لوگ یقینِ کامل کے مقام پر تھے۔موت کے بعد کی زندگی پر بھی انہیں کامل یقین تھا اور وہ خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے بے تاب رہتے تھے اور دین کی راہ میں مرنا بہت بڑی نعمت یقین کرتے تھے۔ ضرارؓ بن ازور ایک بہت بڑے جرنیل اور بہادر سپاہی تھے۔ ایک جنگ کے موقع پر کفار کے ایک پہلوان نے مسلمانوں کے بہت سے سپاہی مار دیئے۔ آخر حضرت ضرار اس کے مقابلہ پر بھیجے گئے۔ آپ اس کے سامنے ہوئے تو معاً واپس دَوڑ پڑے اور اپنے لشکر میں پہنچ کر سیدھے اپنے خیمہ میں گُھس گئے۔ یہ دیکھ کر تمام مسلمانوں میں ہراس پھیل گیا اور اسلامی کمانڈر بھی بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ اس نے کسی آدمی کو حکم دیا کہ ضرار سے پوچھو کیا بات ہے۔ وہ پوچھنے گیا تو ضرار اُس وقت خیمہ سے باہر آچکے تھے۔ اس نے پوچھا تو ضرار نے جواب دیا کہ میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے۔ مَیں میدان سے بھاگا نہیں مَیں جب اس کے مقابل پر ہوا تو اُس وقت میں نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ میرے نفس نے کہا کہ کیا یہ زِرہ تُو نے اس لیے پہن رکھی ہے کہ اِس کافر کے ہاتھ سے مارا نہ جاؤں۔ کیا تُو خدا تعالیٰ سے ملنے میں خوف محسوس کرتا ہے۔ اس پر مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں مارا گیا تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مَیں زِرہ کی مدد سے تیرے سامنے آنے سے بچنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں واپس آگیا کہ زرہ اُتار دوں۔ اب مَیں ننگے بدن اس کے مقابل پر جاتا ہوں۔ اسے میں نے اس لیے اتار دیا ہے تا میرے اور میرے خدا کے درمیان کوئی روک نہ ہو۔
یہ یقین اور وثوق جب کسی قوم میں پیدا ہو تو تبھی وہ کامیابی کا منہ دیکھ سکتی ہے۔ ایسا یقین حاصل ہونے کے بعد کوئی قوم مرنے سے نہیں ڈر سکتی اور جو قوم مرنے کے لیے تیار ہوجائے اُسے کوئی مار نہیں سکتا۔ جو لوگ خود اپنے لیے موت قبول کر لیتے ہیں فرشتے ان کو زندہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موت کے بعد زندگی ہوتی ہے اور اس لیے جو خود اپنے لیے موت وارد کرے اُسے ہزاروں جانیں مل جاتی ہیں۔ ایسی قوم کا اگر ایک فرد مارا جاتا ہے تو ہزار اَور کھڑے ہوجاتے ہیں۔
پس سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا ایمان اور یقین پیدا کرو ۔اور اس کے پیدا کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن مجید کو بار بار پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو بار بار پڑھو۔خدا تعالیٰ کا تازہ کلام انسان کے ایمان میں تازگی بخشتا ہے۔ قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جو کسی زمانہ میں بھی پرانی ہوجائے۔ یہ ہمیشہ ہی تازہ ہے۔ اس میں آج بھی ویسے ہی معارف ہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ہمیشہ یہ خزانہ اِسی طرح رہے گا۔ اس کی عبارتوں کا آپس میں جوڑ، الفاظ کی ترتیب اور اس کی سورتوں کا آگے پیچھے ہونا سب کچھ معجزہ ہے اور اس لیے اِسے جب بھی پڑھا جائے یہ ایمان کو تازگی بخشتا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تازہ کلام اور اس لحاظ سے ایمان کو تازہ کرنے والے ہیں۔ ان کو ہر زمانہ میں پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ فلاں الہام اس کے اپنے گھر میں یا ہمسایہ میں یا محلہ یا شہر میں یا ملک میں یا کسی اَور ملک میں پورا ہورہا ہے اور اس سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ زندہ ایمان بخشنے کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے تازہ کلام کے سوا اور کوئی نہیں۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا تازہ کلام پڑھتے رہواور اس بات کو مدنظر رکھو کہ خدا تعالیٰ کا تازہ سے تازہ کلام قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم ایسا کلام ہے جو کبھی بھی باسی نہیں ہوسکتا۔ پھر اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہیں۔ اس کے بعد کئی ایسی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتائیں اور پھر وہ اُسی طرح کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا پوری ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں بھی میرے ذریعہ پوری ہوئی ہیں اور یہ بھی ایک ہوش مند انسان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب ہیں۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرو۔
اس کے بعد تین چیزیں ہیں جب تک وہ جماعت میں قومی طور پر پیدا نہ ہوجائیں قومی ترقی ممکن نہیں۔ فردی ترقی تو ہو سکے گی مگر قومی نہ ہوگی۔ ان میں سے پہلی چیز سچ بولنا ہے۔ مَیں نے بار بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جب تک قوم میں سچ بولنے کی عادت پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ترقی ممکن نہیں۔ سچ میں بہت فوائد ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ خدا تعالیٰ کا اپنا نام حق ہے۔ لوگ اپنے لڑکوں کے نام عبدالحق، عطاء الحق وغیرہ خدا تعالیٰ کے اِسی نام پر رکھتے ہیں یعنی حق کا بندہ، حق کی عطاء۔ پس جو سچ کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے۔ یورپ کی قوموں کو گوہم سچا نہیں سمجھتے مگر ان میں یہ صفت ہے کہ مقدمات کے وقت ہر شخص کوشش کرتا ہے کہ سچ بولے۔ مگر یہاں سچ بولنے والا بھی کوشش کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ جھوٹ ضرور بولے۔ یورپ کے مجرم جھوٹ بولتے ہیں مگر کم سے کم۔ جتنا وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ضروری سمجھتے ہوں۔ مگر یہاں بلاوجہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ پھر اگر کسی کے دوست پر کوئی الزام آتا ہو تو اس کو بچانے کے لیے بھی جھوٹ بول دیتے ہیں اور یہ کوئی نہیں سوچتا کہ مَیں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور میرے دوست نے اپنی قبر میں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ سچ بولو خواہ وہ تمہارے اپنے نفس کے خلاف ہو، خواہ ماں باپ اور بچوں کے خلاف ہو، خواہ بھائی کے خلاف ہو۔ ہمیشہ دلیری کے ساتھ سچی گواہی دو۔5 ہماری جماعت میں ایک آدمی ہے جو بظاہر نیک ہے۔ وہ سلسلہ کا کام بھی خوب کرتا ہے۔ ممکن ہے اب اس کی اصلاح ہوگئی ہو۔ مَیں نے ایک دفعہ اُس سے سچی بات معلوم کرنے کے لیے آدھ گھنٹہ تک اُس پر سوالات کیے مگر اُس نے سچی بات نہ بتائی۔ جب مَیں اسے پوچھتا کہ فلاں وقت فلاں آدمی وہاں تھا؟ تو وہ جواب دیتا کہ میرا مُنہ اُس وقت فلاں طرف تھا۔ آخر آدھ گھنٹہ کی کوشش کے بعد مَیں نے اُسے کہہ دیا کہ آپ سے سچ نکالنے میں مجھے بڑی دقت پیش آئی ہے۔تو وہ مبلغ بھی ہے،سلسلہ کا کام بھی کرتا ہے(آنریری طور پر، ورنہ کارکن نہیں ہے) مگر سچ بولنا گویا اُس کے لیے موت تھا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جب بھی کسی سے گواہی لینے کا موقع ملا وہ سیدھی بات کرنے کے بجائے ضرور ایچا پیچی سے کام لیتا ہے۔ ساری عمر میں مَیں نے ایک شخص سے مرعوب کردینے والا سچ سنا ہے۔ یہ بہت ہی تھوڑی مثال ہے۔ مگر سچ بھی بڑا شاندار ہے۔ اُس سے بہت بڑا جرم سرزد ہوا۔ پھر یہ بھی نہیں کہ وہ گستاخ تھا اور یہ بھی نہیں کہ وہ مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ مَیں نے اُسے بلایا اور پوچھا کہ آپ نے یوں کیا ہے؟ اس کے اس جرم کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ کوئی گواہی اس کے خلاف نہ تھی۔ مگر جونہی مَیں نے اس سے سوال کیا اُس کے چہرہ پر سرخی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے سر نیچے ڈال دیا اور کہا ہاں مَیں نے ایسا کیا ہے۔ یہ ایک واقعہ میری ساری عمر کا ہے۔ اِس واقعہ پر 24، 25 سال بلکہ اِس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب اُس نے یہ جواب دیا۔ تو حیثیت ہی بدل گئی اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ جج ہے اور مَیں مجرم ہوں جو اس کے سامنے پیش ہوں۔ تو سچ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر تم اسے اپنے اندر پیدا کرلو تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتے ہو۔ مگر سچ صرف اپنے اندر پیدا کرنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اپنی اولاد، بیوی، بھائی بہنوں، ماں باپ، خاوند سب کے اندر سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور سب کے متعلق سچ بولا جائے۔ بہت لوگ ہیں جو شاید اپنے متعلق تو سچ بول دیں مگر جب سوال پیدا ہوتا ہے بیوی بچوں کا، ماں باپ کا یا دوسرے رشتہ داروں کا تو ایچ پیچ کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تم خواہ مخواہ سچ بیان کرتے پھرو۔ بلکہ اُس وقت سچ بولو جب وہ شخص پوچھے جسے خدا تعالیٰ نے پوچھنے کا حق دیا ہے۔ اس کے سامنے سچی بات بیان کردو۔ اگر کسی کا کوئی عیب دیکھو تو سچ بولنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہر جگہ بیان کرتے پھرو۔ یہ سچ نہیں بلکہ یہ غیبت ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ صحابہؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہ! کیا کسی کے متعلق سچی بات کا بیان کرنا بھی غیبت ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے۔ اگر بیان کردہ بات سچ نہ ہو تو وہ جھوٹ ہے۔6 تو سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسروں کی کمزوریوں کو ہر جگہ بیان کرتے پھرو۔ سچ کو اپنے مخالف سے بدلہ لینے کا ذریعہ بنانا جائز نہیں۔ یہ سچ نہیں بلکہ بُغض اور کینہ ہے اور مُردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ سچ بولنے کے معنے یہ ہیں کہ جب قاضی کے سامنے شہادت کا موقع آئے تو سچی بات بیان کردو اور جب پوچھا جائے کہ فلاں واقعہ تم نے دیکھا ہے وہ کس طرح ہوا۔ تو بغیر اِس بات کا خیال کیے کہ سچا واقعہ بیان کرنے سے تمہارے دوست یا بھائی یا باپ یا بیوی یا خاوند پر کوئی الزام آئے گا سچی بات بیان کردو۔ اپنے کسی دوست یا عزیز کے بارہ میں جھوٹا پروپیگنڈا بھی کبھی نہ کرو۔ اگر تم سچ نہیں بول سکتے تو جھوٹ بھی نہ بولو اور چُپ رہو۔ پس اگر قوم کے اندر سچائی قائم کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہی ہے کہ بغیر اِس بات کا خیال کیے کہ تمہارا کوئی دوست یا عزیز رشتہ دار زیر الزام آتا ہے صحیح واقعہ بیان کردو اور جہاں خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ سچ بات بیان کرو وہاں کبھی جھوٹ نہ بولو۔ اور یہ عہد کرلو کہ جب بھی کوئی بات بیان کرنے کا موقع آئے گا، سچ بیان کرو گے، جھوٹ کبھی نہ بولو گے۔ سچ بولنا ایسا مشکل ہوگیا ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص نے وصیت کی ہے اور ہم سے اُس کی تصدیق مانگی گئی ہے ہم کیالکھیں؟وہ ڈرتے ہیں کہ اگر سچی بات لکھی تو وہ شخص دشمن ہوجائے گا۔ وہ انسان کی دشمنی سے ڈرتے ہیں خدا تعالیٰ بے شک دشمن ہوجائے اس کی پروا نہیں۔ جب قوم میں سچ بولنے کی عادت ہوجائے گی تو بہت سے نقائص خود بخود دور ہوجائیں گے۔ جب ایک شخص کو معلوم ہوگا کہ اگر مَیں نے دوسرے کو گالی دی تو میرا باپ یا میرا بھائی جو بھی موقع پر موجود ہےمیرے خلاف گواہی دے دے گا تو وہ دوسرے کو گالی دینے سے پہلے ضرور سوچ لے گا کہ مَیں سزا سے نہیں بچ سکوں گا اور اس طرح گالیاں دینے کی عادت خودبخود ترک ہوجائے گی۔ اسی طرح کسی کو مارنے والے کو جب یہ احساس ہوگا کہ میرے اپنے عزیز اور دوست بھی میرے خلاف گواہی دے دیں گے تو وہ اسی صورت میں مارے گا کہ جب وہ سمجھتا ہوگا کہ مجھے خود قاضی کے سامنے جاکر ماننا پڑے گا کہ مَیں نے مارا ہے اور اس طرح مَیں خود بھی مار کھاؤں گا۔ تو سچ سے سب قومی اخلاق درست ہوسکتے ہیں۔ پس سچ کو اپنے اندر قائم کرو۔
دوسری چیز یہ ہے کہ ہر شخص دیانتدار ہو اور دیانت پر قائم رہنے کا عہد کرے۔ کسی کا روپیہ کسی کے پاس امانت ہے اُسے بروقت ادا کرنا بہت ادنیٰ درجہ کی دیانت ہے۔ مگر بہت لوگ کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے کا پیسہ کھینچا جاسکے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ میرا کوئی پیسہ کسی کے پاس چلا جائے تو بے شک چلا جائے کسی کا میری طرف نہ رہے۔ صحابہ کرام نے اگر تھوڑے ہی عرصہ میں عظیم الشان ترقیات حاصل کیں اور دلوں کو موہ لیا تو اِسی لیے کہ اُن میں دیانت تھی۔ مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا۔ مگر بعد میں اسے خالی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسلامی کمانڈر نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اپنا عقب محفوظ کرنے کے لیے باربرداری کے راستہ کو چھوٹا کرنا ضروری ہے اس لیے یروشلم کو چھوڑنا ضروری ہے۔ مگر ان لوگوں سے ہم ایک سال کا ٹیکس اس وعدہ پر وصول کرچکے ہیں کہ ان کی حفاظت کریں گے۔ اب چونکہ ان کی حفاظت نہ کرسکیں گے اس لیے اس وصول شدہ ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ ٹیکس فوراً واپس کیا جائے۔ چنانچہ ہر شخص سے جتنا جتنا ٹیکس وصول کیا گیا تھا اُسے واپس کردیا گیا۔ یہ دیانت کی ایسی اعلیٰ مثال ہے کہ دنیا کی کوئی اور حکومت اِس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔دنیا کی حکومتوں کا قاعدہ یہ ہے کہ جب وہ کسی علاقہ یا شہر کو چھوڑتی ہیں تو اس امر کی پروا نہیں کرتیں کہ سپاہی اس علاقہ کو لوٹ لیں۔ کیا کوئی امید کرسکتا ہے کہ اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو ملک سے وصول شدہ مالیہ واپس کردیں گے؟ ہرگز نہیں۔ سارے ملک کا تو کجا کسی ایک شہر یا گاؤں کا بھی واپس نہ کریں گے۔ مگر مسلمان جب یروشلم کے علاقہ سے ہٹے تو تمام وصول شدہ ٹیکس واپس کردیا۔ اس کا اتنا اثر تھا کہ باوجودیکہ یروشلم پر جو فوج بڑھ رہی تھی وہ عیسائیوں کی تھی اور اس کے افسر یروشلم کے پادری تھے جب مسلمان واپس ہورہے تھے تو عیسائی مرد اور عورتیں اور بچے رو رو کر دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم لوگوں کو واپس لائے۔ 7 اسی طرح اگر تم بھی دیانت پر پوری طرح قائم ہوجاؤ تو لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو یہاں لائے۔ لیکن اگر دیانت تم میں پیدا نہ ہوگی تو کوئی بھی تمہارے لیے ایسی دعا نہ کرےگا اور اگر بددیانتی ہوگی تو لوگ یہ دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو غارت کرے۔ پس اپنے اندر دیانت پیدا کرو۔ لین دین میں صفائی پیدا کرو، نہ صرف اپنے اندر بلکہ اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے اندر بھی دیانت پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ تمہارا جو دوست بددیانت ہو اس کے پیچھے پڑ جاؤ کہ وہ اس سے باز آجائے اور اسے بتا دو کہ تمہاری دوستی اس سے اسی صورت میں رہ سکتی ہے کہ وہ دیانتدار بنے ورنہ نہیں۔ کیا کبھی کوئی شخص کسی کوڑھی سے دوستی پیدا کرتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو تم ایک بددیانت سے کس طرح دوستی رکھ سکتے ہو۔ پس خود بھی صفائی کے ساتھ دوسروں کے حقوق ادا کرو اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں بھی یہ بات پیدا کرو۔ ورنہ تم روحانی لحاظ سے کوڑھی ہوگے۔ اور یہ چیز نہ صرف اپنے نفسوں میں بلکہ اپنے بھائیوں، بیٹوں، ماں باپ، خاوند، بیوی، غرضیکہ سب میں پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اگر ہر شخص اس رنگ میں دوسروں کے لیے نگران بن جائے تو قوم میں دیانت پیدا ہوسکتی ہے۔
تیسری چیز عورتوں کی اصلاح ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ مجھے فرمایا ہے کہ "اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی"۔تو عورتوں کی اصلاح بھی جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ ان کے حقوق پوری طرح ادا کیے جائیں۔ مَیں نے نہایت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ عورتیں بھینس اور گائیں ہیں۔ جیسا سلوک چاہا اُن سے کرلیا۔ مَیں نے کئی بار مخلّٰی بِالطبع ہوکر سوچا ہے اور مَیں اِسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ اور اسی طرح عورتوں کے بھی مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے عورتوں پر مردوں کے۔ اور مَیں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ جو کتاب عورت اور مر د کے حقوق میں فرق کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں ہوسکتی۔ جس خدا نے ایک جیسے دل اور ایک جیسے دماغ دونوں کو دیئے ہیں ضروری ہے کہ وہ ایک ہی جیسے حقوق بھی دے۔ دنیا میں انصاف قائم رکھنے کے لیے کسی کے ہاتھ فیصلہ کی آخری کنجی رکھ دینا اور بات ہے۔ مگر جہاں تک حقوق کا سوال ہے اسلام نے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں کیا۔ جیسا کہ فرمایا۔وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔8 یعنی جیسے ہم نے عورتوں پر مردوں کے حقوق رکھے ہیں ویسے ہی مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں۔ مگر لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ عورتوں پر ظلم کرتے ہیں۔جب چاہا طلاق دے دی، جب چاہا گھر سے نکال دیا۔ ایسی حالت میں یہ امید رکھنا کہ عورتیں بھی دین کے لیے ویسی ہی قربانیاں کریں جیسی مرد کرتے ہیں بالکل غلط امید ہے۔ جب تک عورتوں میں بھی مردوں جیسا ہی جذبہ قربانی کا پیدا نہ ہو فتح حاصل نہیں ہوسکتی اور جب تک ہم نہ صرف تعلیم سے بلکہ عمل سے بھی یہ نہ ثابت کردیں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں ان کے حقوق بھی ویسے ہی محفوظ کیے گئے ہیں جیسے مردوں کے، عورتوں میں قربانی کی صحیح رُوح پیدا نہیں ہوسکتی۔ جب تک عورتیں یہ نہ سمجھیں وہ خدا تعالیٰ کی کتاب پر سچے دل سے ایمان نہیں لاسکتیں۔ اور اگر واقعی ایسا نہ ہو تو وہ حق رکھتی ہیں اِس بات کا کہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کی کتاب نہ سمجھیں کیونکہ خدا کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا۔ جب اس نے عورتوں کو بھی دل ویسے ہی دیئے ہیں جیسے مردوں کو۔ جب دماغ ایک سے دیئے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کو حقوق بھی ویسے ہی دے۔ اگر خدا تعالیٰ نے مردوں کو یہ حق دیا ہوتا کہ وہ جیسا چاہیں عورتوں سے سلوک کریں اور ان پر حکومت کریں تو وہ عورتوں کو ویسا ہی دل و دماغ نہ دیتا۔ اس نے بھینس پر ہمیں حکومت دی ہے مگر بھینس کو ہمارے جیسا دل اور دماغ نہیں دیا۔ گائے بکری پر حکومت دی ہے مگر گائے بکری کو ہمارے جیسا دل اور دماغ نہیں دیا۔ پس عورتوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کے حقوق دیے جائیں۔ اگر مسلمان عورتوں کو قرآن کریم کے حکم کے مطابق حقوق دیں تو یہ یقینی بات ہے کہ عورتیں بھی دین کی راہ میں پورے شوق سے قربانی کریں گی۔ اگر تم ان کے حقوق ادا کرو، اُن کے ساتھ ویسا ہی حُسنِ سلوک کرو جیسا کہ اسلام کا حکم ہے اور پھر ان سے کہہ دو کہ اگر تم اسلام کی راہ میں قربانی نہ کرو گی۔ تو ہمارے ساتھ تمہارا نباہ نہ ہو سکے گا، مجبوراً تمہیں طلاق دینی پڑے گی تو یقینی بات ہے کہ وہ تمہارے ساتھ قربانی کے لیے تیار ہوجائیں گی۔ کیونکہ وہ سمجھیں گی کہ جیسا حسنِ سلوک مسلمان کرتے ہیں اَور کسی قوم میں عورت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ وہ مجبور ہوں گی کہ تمہارے دوش بدوش قربانی کریں اور اپنی اولاد کو اسی طرح قربانی کا بکرا بنا دینے کے لیے تیار ہوجائیں گی جس طرح مرد ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ محسوس کرتی ہوں گی کہ اگر ہماری عزت ہے، وقار ہے تو مسلمان خاوند کی وجہ سے ہی ہے ورنہ اس سے الگ ہوکر ہم گائے اور بھینس بن جائیں گی۔ پس تم عورتوں کو اُن کے حقوق ادا کرو اور وہ قوم اور اسلام کے حقوق ادا کریں گی اور وہ تمہارے دوش بدوش قربانی کے لیے اُسی خوشی کے ساتھ تیار ہوجائیں گی جس خوشی سے عید کے دن بکرا قربان کیا جاتا ہے۔
پس خوب یاد رکھو کہ ان چیزوں کے بغیر کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ پہلی چیز ایمان ہے، دوسری چیز سچ ہے، تیسری دیانت اور چوتھی عورتوں کی اصلاح۔ ان کو قومی کیرکٹر کا جزو بناؤ۔ پھر دیکھو تمہارے کام کس طرح خود بخود ہوتے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے بغیر جب اسلام کی لڑائی لڑنے کا دن آئے گا تو وہ تمہارے لیے بہت تلخ تجربہ لائے گا۔ لیکن اگر تم ان چیزوں کو اپنے اندر پیدا کرلوتو خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ کے ساتھ اُٹھے گا۔ تم پر وار کرنے والا تم پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر وار کرنے والا ہوگا اور تم دشمن پر وار نہیں کرو گے بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ اُس پر وار کرنے والا ہوگا"۔ (الفضل28 مئی 1944ء)


20
دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے
وقف کی حقیقت سمجھیں
(فرمودہ26؍مئی 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج مَیں ایک ایسے امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا تھا جو بعض اہم مضامین پر مشتمل تھا اور جس کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کا جماعت کے مختلف حصوں تک پہنچنا نہایت ضروری ہے۔ لیکن چونکہ لاؤڈ سپیکر کی حالت ٹھیک نہیں پہلے تو بندہی تھا اب کہتے ہیں کبھی بند ہوجاتا ہے اور کبھی کھل جاتا ہے مَیں نے اپنا اراد ہ بدل دیا ہے کیونکہ مَیں اس مضمون کو ایسی حالت میں بیان کرنا نہیں چاہتا کہ اس کا سب تک پہنچنا خطرے میں ہو۔ اس لیے مَیں آج اختصاراً ایک دو اَور باتوں کی طرف جماعت کو توجہ دلا دیتا ہوں جن کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی جاچکی ہے۔ لیکن پھر بھی ہر امر ایک دفعہ بیان کرنے سے ذہن نشین نہیں ہوجاتا بلکہ بعض امور کے متعلق متواتر اور بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض امور تو صدیوں تک بیان کرنے کے باوجود پھر بھی پورے طور پر ذہن نشین نہیں ہوسکتے۔
سب سے پہلی بات جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اعلان کردیا گیاتھا کہ وہ 25 مئی تک انٹرویو کے لیے قادیان پہنچ جائیں تاکہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ سلسلہ ان کا وقف قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں یا سلسلہ انہیں کس کام پر مقرر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلہ میں بعض لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا وقت پر حاضر نہیں ہوئے۔ مَیں تحقیقات کروں گا کہ اُن کے وقت پر حاضر نہ ہونے کی ذمہ داری تحریک جدید کے دفتر پر ہے یا اُن پر ہے۔ اگر تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا کہ اس کی ذمہ داری دفتر تحریک جدید پر ہے اور اُس نے میرے کہنے کے باوجود ان لوگوں کو اطلاع نہیں دی تو اس صورت میں اس کی سرزنش اور پُرسش کا مستحق دفتر تحریک جدید ہوگا۔ لیکن اگر یہ ثابت ہوا کہ ان لوگوں کو اطلاع تو مل گئی تھی مگر باوجود اطلاع مل جانے کے وہ نہیں آئے اور کم سے کم انہوں نے یہ اطلاع بھی نہیں دی کہ ہم وقت پر فلاں مجبوریوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتے۔ تو ایسے احمدی جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا انہیں یاد رہنا چاہیے کہ اب ان کو انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جائے گا۔ بلکہ ان کو اس لیے بلایا جائے گا کہ کیوں نہ اُن کو اس جُرم کی بناء پر سلسلہ سے خارج کردیا جائے۔
مَیں بارہا بتا چکا ہوں کہ وقف جہاد کا ایک حصہ ہے۔ ہر وہ شخص جو وقف کو کھیل سمجھتا ہے وہ اپنی بے ایمانی پر مُہر لگاتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کو درحقیقت سلسلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ ایک کھیل اور تماشا سمجھ کر اس جماعت میں داخل ہوا تھا۔ قرآن کریم میں نہایت وضاحت سے فرمایا گیا ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے شخص کے لیے جہاد میں مر جانا یا فتح حاصل کرکے واپس لَوٹنا یہ دو ہی چیزیں ہیں۔ اگر کوئی شخص موقع سے پیچھے ہٹتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوزخ کے سوا اُس کا کہیں ٹھکانا نہیں ہے۔1
حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام ایسی مصیبت میں مبتلا ہے جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی قیاس اور واہمہ سے باہر ہے۔ آج دنیا میں ہر شخص کے لیے ٹھکانا ہے لیکن اگر ٹھکانا نہیں تو محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے دین کے لیے۔ جیسے حضرت مسیح ناصریؑ نے کہا تھا کہ پرندوں کے لیے گھونسلے ہیں اور درندوں کے لیے غاریں لیکن ابن آدم کے لیے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں۔2 یہی حال آج اسلام کا نظر آرہا ہے۔ آج دنیا میں ہرقوم کے لیے ٹھکانا ہے لیکن اسلام کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں۔ اگر ہندوستان میں مسلمان ہیں تو وہ ہندؤوں اور انگریزوں کے رحم پر ہیں۔ اگر ہندوستان سے باہر مسلمان ہیں تو وہ کُلّی طور پر عیسائیوں کے رحم پر ہیں۔ مصر ہے تو وہ بھی انگریزوں کے رحم پر ہے۔ پہلے اس میں فرانسیسی بھی شامل تھے مگر اب وہ انگریزوں کے رحم پر ہی ہے، ٹرکی ہے تو وہ بھی انگریزوں اور دوسروں کے رحم پر ہے، ایران ہے تو وہ بھی انگریزوں اور روسیوں کے رحم پر ہے، افغانستان ہے تو وہ بھی انگریزوں اور روسیوں کے رحم پر ہے۔ کوئی احمق اور جاہل اور کُودن3 شخص ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان حکومتوں کو کوئی طاقت حاصل ہے۔ اس قسم کے پاگل لوگ ہی تھے جو آج سے پچاس سال پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ ٹرکی کا بادشاہ جب باہر نکلتا ہے تو یورپ کے بارہ بادشاہ اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر چلتے ہیں۔ اِسی طرح کوئی پاگل اور احمق ہی ٹرکی اور ایران اور مصر اور عرب اور افغانستان کی حکومتوں کے متعلق یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان کو یورپین حکومتوں کے مقابلہ میں کوئی طاقت حاصل ہے۔ ان کے پاس اگر حکومت ہے تو محض اس لیے کہ دنیا کے پردہ پر چند بڑی بڑی کھیل کرنے والی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ بظاہر ان ملکوں کا آزاد رہنا ہمارے لیے مفید ہے۔ جس طرح بلی چوہے سے کھیلتی ہے اِسی طرح وہ لوگ اِن ملکوں سے کھیل رہے ہیں۔ پس بے شک اِن کو آزادی حاصل ہے مگر یہ آزادی اُس ترحُّم کی وجہ سے ہے یا اُن اغراضِ فاسدہ کی وجہ سے ہے جو یورپین لوگوں کو انہیں آزاد رکھنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ورنہ دیکھ لو وہی ایران جس کے متعلق یہ کہتے تھے ایران ہمارا دوست ہے، ایران ہمارا بھائی اور ایران ہمارا برادر ہے۔ اسی دوست، اسی بھائی اور اسی برادر کے متعلق جس دن انہیں معلوم ہوا کہ وہ جرمنوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اُسی دن انہوں نے اس کے بادشاہ کو پکڑ کر ملک سے باہر نکال دیا اور خوداس پر قبضہ کرلیا۔گویا وہی جسے وہ سچا دوست اور ہمارا بھائی کہہ کہہ کر پکارتے تھے چند دنوں کے اندر اندر ان کا چپڑاسی اور ان کا غلام اور ان کا قیدی بن گیا۔ بھلا ایسا سلوک کوئی دوسری طاقت انگریزوں سے، امریکہ والوں سے یا روس والوں سے کرسکتی تھی؟ اب تو روس اپنی مرضی سے انگریزوں کے ساتھ ہے لیکن اگر وہ انگریزوں کے ساتھ نہ ہوتا بلکہ جرمنوں کی تائید میں ہوتا تو کیا انگریز اور امریکن روس سے کہہ سکتے تھے کہ اگر تم جرمنوں کو اپنے ملک سے نہیں نکالو گے تو ہم تمہارے ملک پر جنگی مفادات کے لیے قبضہ کر لیں گے؟ اور وہ ایسا کبھی نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ روس ایک طاقت ہے۔ اور ایران کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی طاقت نہیں۔ وہ ایک مسکین اور غریب ملک ہے، جدھر اس کی ناک موڑو وہ مُڑ جائے گا۔ پس چاہے وہ اِس ملک کو آزاد کہہ دیں، چاہے اِسے اپنا بھائی کہہ دیں،چاہے اِسے اپنا برادر قرار دیں، چاہے اِس کی حکومت کو اپنے بھائی کی حکومت قرارد دیں پھر بھی اِس کے معنے یہی ہوں گے وہ ہمارا غلام ہے، وہ ہمارا چپڑاسی ہے، وہ ہمارا قیدی ہے۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر وہ یہ بھی کہیں کہ شہنشاہِ ایران ہمارا سرتاج ہے تو بھی اِس کے یہی معنے ہوں گے کہ اِس غلام کو ہم اِتنے دن ظاہر میں آزاد رکھنا چاہتے ہیں اِس سے زیادہ اس کے کوئی معنے نہیں۔
غرض دنیا میں اسلام سے بڑھ کر اَور کوئی بے کس نہیں۔ بے شک مسلمان تعداد کے لحاظ سے کافی ہیں مگر وہ تعداد ایسی ہے جو مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی ہے اور اس انتشار کی وجہ سے مسلمانوں سے بہت زیادہ ہندؤوں کو طاقت حاصل ہے۔ کیونکہ ہندو جتنے بھی ہیں سب ایک ملک میں ہیں، سب ایک جگہ اکٹھے ہیں، ایک ہی ملک میں وہ تیس کروڑ تک پہنچے ہوئے ہیں۔ مگر چالیس کروڑ مسلمان وہ ہیں جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایک جگہ پر تیس کروڑ آدمیوں کو جو طاقت حاصل ہوسکتی ہے وہ ان چالیس کروڑ آدمیوں کو حاصل نہیں ہوسکتی جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوں۔ اگر ایک خاندان کے دس آدمی شہر کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہوں تو چور یقیناً ان کے گھر پر حملہ کرسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ دس آدمی اپنے گھر میں اکٹھے ہوں تو چور ان کے گھر پر حملہ کرنے سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ دس آدمی لٹھ لے کر کھڑے ہوجائیں اور میرا سر پھوڑ دیں۔ پس گو بظاہر سیاستاً بظاہر کمزور نظر آتے ہیں مگر ان کی پوزیشن اور ان کا مقام ایسا ہے جس نے انہیں مسلمانوں سے زیادہ طاقتور بنایا ہوا ہے۔ ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کو ایک نئی زندگی اور نئی حیات بخشنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پس چاہے اِس کو کوئی شکل دے دو، چاہے اِس کاکوئی نام رکھ لو بہرحال یہ ایک جہادہے جو اسلام کے احیاء کے لیے جاری ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو۔ اگر کسی وقت نظامِ سلسلہ کی طرف سے کسی شخص کو اِس جہاد میں شامل ہونے کے لیے نہیں بلایا جاتا تو وہ گنہگار نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کو بلایا جاتا ہے اور بلایا بھی ایسی صورت میں جاتا ہے جب وہ طوعی طور پر اپنا نام پیش کرچکا ہوتا ہے اور اُسے کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت حاضر ہوجاؤ تو اس کے بعد اگروہ مقررہ وقت پر پہنچنے میں ایک منٹ کی بھی دیر کردیتا ہے تو وہ باغی ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اُسے جماعت سے خارج کردیا جائے۔ اُسی وقت وقفِ زندگی کے عہد میں ان کی سنجیدگی سمجھی جاسکتی تھی جب فرض کرو قادیان ایک پہاڑی مقام پر ہوتا اور اُس کے چاروں طرف برف جمی ہوئی ہوتی جس پر چلنا مشکل ہوتا مگر پھر بھی مرکز کی طرف سے اعلان ہونے پر اپنی زندگی وقف کرنے والے پیٹوں کے بل گِھسٹتے ہوئے اور اپنے ناخن زمین میں گاڑتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاتے۔ تب بے شک ان کو مومن سمجھا جاسکتا تھا۔ تب بے شک کہا جاسکتا تھا کہ انہوں نے اپنے عہد کو پورا کردیا۔ مگر موجودہ صورت تو ایسی ہے جو کسی حالت میں بھی قابلِ عفو نہیں۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ جب مہدی آئے گا اُس وقت اگر تمہیں گھٹنوں کے بل گِھسٹتے ہوئے بھی اُس کے پاس جانا پڑے تو جاؤ اور اُس کی آواز پر لبیک کہو۔4 اِس حدیث کے معنے درحقیقت یہی ہیں کہ جب تمہارے کان میں مہدی کی طرف سے آواز آئے تو تم اِس جوش کے ساتھ اُس آواز پر لبیک کہو اور اِس طرح پروانہ وار اُس کی طرف بھاگو کہ رستہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی تمہارے سامنے نہ ہو۔ جب وہ دعوٰی کرے اس وقت تمہیں راستہ ملے، یا نہ ملے تمہیں گُھٹنوں کے بل چلنا پڑے یا پیٹ کے بل، تم اُس کے پاس پہنچو۔ بلکہ اگر تمہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بھی گزرنا پڑتا ہے تو تم اِس بات کی پروا مت کرو۔ اگر تمہیں پِھسلنا پڑتا ہے تو اپنے پِھسلنے کی پروا نہ کرو اور جلد سے جلد اُس کے پاس پہنچ جاؤ۔
مَیں دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فورًا ایسے لوگوں کے نام میرے سامنے پیش کرےاور پھر اپنے ڈاک کے رجسٹروں سے یہ ثابت کرے کہ اُس نے ان سب کے نام چٹھیاں بھجوا دی تھیں۔ اس کے بعد وہ مجھ سے ایک تاریخ مقرر کروا کر الفضل میں اعلان شائع کرادے کہ یہ لوگ فلاں تاریخ کو میرے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں اور جواب دیں کہ کیوں نہ اُن کو اِس جرم کی وجہ سے جماعت سے خارج کردیا جائے۔ مَیں اس موقع پر ان لوگوں کو جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں ایک بار پھر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ دیکھو زندگی وقف کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم نے اپنی جان دین کے لیے دے دی۔ مَیں نے متواتر سمجھایا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو وقف کردیتا ہے تو اِس کے بعد اُس کا کوئی باپ نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی ماں نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے،کوئی بہن نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے،کوئی بھائی نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی بیوی نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے، کوئی بچے نہیں ہوتے سوائے سلسلہ کے۔ اس وقف کے معنے یہ ہیں کہ وہ دنیا سے کٹ گیا۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک برابرمائیں اِس قسم کے رقعے لکھتی رہتی ہیں کہ ہمارے بچوں کا خیال رکھا جائے، باپ رقعے لکھتے رہتےہیں کہ ہمارے بیٹوں کا خیال رکھا جائے بلکہ ابھی ایک واقفِ زندگی کے باپ نے مجھے لکھا کہ میرے بیٹے نے چونکہ فلاں وقت اپنی زندگی وقف کی تھی اس لیے اسے فلاں جگہ رکھا جائے۔ وہ اپنے آپ کو باپ سمجھتا ہوگا مگر ہم تو اُسے اِس لڑکے کا باپ سمجھتے ہی نہیں۔ جس دن اُس نے اپنے بیٹے کو دین کے لیے وقف کردیا اُس کے بعد اس کا کوئی حق نہیں رہا کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق ہم سے کوئی بات کہے۔ اگر کوئی باپ ایسا رقعہ بھیجتا ہے تو ہم اسے پھاڑکر پھینک دیتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے کہ اِس میں کیا لکھا ہے۔ لڑکا اگر کچھ کہنا چاہتا ہے تو بے شک کہے۔ اگر لڑکا کوئی ایسی بات کہے گا جو اُس کے حقوق سے تعلق رکھتی ہوگی اور ہم سمجھیں گے کہ وہ چیز اُس کے وقف میں روک نہیں تو اُس کا مطالبہ پورا کردیا جائے گا۔ اور اگر کوئی ایسی بات کہے گا جو اُس کے وقف کے خلاف ہوگی تو اسے مجرم سمجھا جائے گا۔ بہرحال کسی واقفِ زندگی کے باپ یا ماں یا بھائی یا بہن یا بیوی یا بچے کا کوئی حق نہیں کہ وہ وقف کے متعلق ہم سے کوئی بات کرے۔ اگر کوئی ایسا رقعہ لکھے گا تو ہم اسے پھاڑ دیں گے۔ اور اگر وہ کوئی بات کرے گا تو ہم اُسے سننے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوں گے۔ ہاں! اگر کوئی باپ اپنے بچے کی شادی کے متعلق کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو گو اِس صورت میں بھی سلسلہ ہی اُس کا باپ ہے اور سلسلہ ہی اس کی ماں۔ مگر چونکہ جسمانی رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا اس لیے ایسے امور جو وقف سے تعلق نہیں رکھتے ان کے متعلق ہم ان کی بات سن بھی سکتے ہیں۔مثلاً وہ کہہ سکتا ہے کہ لڑکا جوان ہے اِس کی شادی کا انتظام کیا جائے۔ لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات کہے گا جو وقف سے تعلق رکھتی ہوگی مثلاً وہ یہ لکھے گا کہ اسے فلاں جگہ مقرر کیا جائے یا اُس کی تعلیم کے متعلق کوئی بات لکھے گا یا اُس کے کام کے متعلق کوئی بات لکھے گایا جس ملک میں تبلیغ کے لیے اُسے بھجوانے کا ارادہ ہو اُس کے متعلق وہ بات لکھے گا یا اُس کے گزارہ کے متعلق کوئی بات لکھے گا تو ہمارا ایک ہی جواب ہوگا کہ ہم اس کے رقعہ کو پھاڑ کر پھینک دیں گے۔ چاہے اُس کے نزدیک اِس رقعہ میں کتنی ہی اہم باتیں کیوں نہ لکھی ہوں۔ کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہی نہیں کہ اِن معاملات میں وہ باپ رہ گیا ہے یا ماں رہ گئی ہے یا بھائی رہ گیا ہے یا بہن رہ گئی ہے۔ ان کا باپ بھی سلسلہ ہے، ان کی ماں بھی سلسلہ ہے، ان کی بہن بھی سلسلہ ہے اور ان کا بھائی بھی سلسلہ ہے۔ بلکہ اگر ان کے لڑکے کو یہ پتہ لگ جائے کہ میری ماں یا میرا باپ میرے کام کے متعلق یا اُن ذمہ داریوں کے متعلق جو تحریک جدید کی طرف سے مجھ پر عائد کی گئی ہیں کوئی رقعہ لکھنے والے ہیں تو ایسی صورت میں اگرو ہ لڑکا اپنے باپ یا اپنی ماں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو ہم اُس کے متعلق بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ اپنے وقف میں ثابت قدم نہیں۔ اسے صاف طور پر کہہ دینا چاہیے کہ تم میرے ماں باپ نہیں ہو۔ جب تم نے مجھے وقف کردیا، جب تم نے مجھے سلسلہ کے سپرد کردیا تو اب صرف میری شخصیت کا سوال رہ سکتا ہے۔ وہ جہاں تک کام کا تعلق ہے، جہاں تک جسم کا تعلق ہے، جہاں تک تقرر کا تعلق ہے میرا باپ بھی سلسلہ ہے، میری ماں بھی سلسلہ ہے، میری بہن بھی سلسلہ ہے اور میرا بھائی بھی سلسلہ ہے۔
حضرت مسیح ناصریؑ نے کیا ہی عمدہ اور لطیف بات کہی۔ ایک دفعہ ان کی ماں اور ان کے بھائی ان سے ملنے کے لیے آئے مگر چونکہ وہ اُس وقت سلسلہ کا کام کر رہے تھے اِس لیے انہوں نے کہا مَیں نہیں جانتا میراباپ کون ہے، مَیں نہیں جانتا میری ماں کون ہے، مَیں نہیں جانتا میرا بھائی کون ہے اور پھر اپنے حواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا یہ ہیں میرے باپ، یہ ہیں میرے بھائی اور یہ ہے میری ماں۔5 یہ وہ ایمان ہے جس کا حضرت مسیح ناصریؑ نے اظہار کیا اور یہی وہ ایمان ہے جس کے بعد انسان سچی قربانی کر سکتا ہے۔ جب ہم اِس چیز کو تسلیم کر لیتے ہیں توہمارے لیے پہلی دفعہ قربانی کا راستہ کُھلنا شروع ہوتا ہے اور پھر جُوں جُوں ہم اخلاص دکھاتے ہیں یہ راستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر ہوشیار کردیتا ہوں کہ وہ وقف کی حقیقت سمجھیں۔ ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ایسی باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ قربانی کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔ مگر مَیں کہتا ہوں وہ لوگ جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے، وہ لوگ جو وقف کی حقیقت سے غافل ہیں، وہ لوگ جو نام پیش کرتے وقت تو سب سے آگے آجاتے ہیں مگر جب قربانیوں کے لیے بلایا جاتا ہے تو اُن کا قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی مجھے قطعاً ضرورت نہیں۔ وہ ایک شکست خوردہ اور ماری ہوئی قو م ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اگر جماعت میں ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے نام پیش کرنے کے لیے تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن اگر سلسلہ اُن سے کام لیتا ہے یا سلسلہ اُن کو ڈانٹتا ہے تو وہ اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں تو مَیں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں تمہیں سات سلام، تم مُردہ ہو تم کسی کام کے اہل نہیں۔ تم اپنے گھر بیٹھو مَیں اپنے گھر میں خوش ہوں۔ وہی جماعتیں دنیا میں کام کرسکتی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے وہ جان دینے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ فرانس کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ نہ معلوم وہ تاریخی واقعہ ہے یا کہانی۔ بہرحال ایک مؤرخ جو کہانیوں کے رنگ میں واقعات لکھنے کا عادی ہے اُس نے لکھا ہے کہ فرانس کے یورپین خاندان کے خلاف جب بغاوت ہوئی اور لوگوں نے اِس خاندان کو اپنے ملک سے نکال دیا تو وہ خاندان فرانس سے نکل کر انگلستان چلاآیا۔ کچھ عرصہ کے بعد بادشاہت کے مدعی نے انگلستان سے ایک مختصر سا دستہ فرانس بھجوایا تا کہ وہ دوبارہ بغاوت پیدا کرکے اس کی بادشاہت کے لیے راستہ تیار کرے۔ جس جہاز میں یہ جماعت سو ارتھی اُسی جہاز میں ایک اَور شخص بھی سوار تھا۔ مگر سپاہیوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی مسافر ہے جو اِسی جہاز سے سفر کررہا ہے یا کوئی اَور گمنام شخص ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اِس شخص کا کیا عُہدہ ہے یا کیا کام کرتا ہے۔ ایک دن ایک سپاہی جو پہرے پر مقرر تھا اُس کی غفلت کی وجہ سے ایک توپ کا ہُک کُھل گیا۔ جہاز میں جب توپیں رکھی جاتی ہیں تو انہیں باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ توپیں بڑی بڑی وزنی ہوتی ہیں۔ اگر انہیں باندھا نہ جائے تو جہاز کے چلتے وقت وہ لڑھکنے لگ جائیں اور جہاز چونکہ لکڑی کا ہوتا ہے اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ ٹوٹ کر ڈوب جائے۔ اِسی وجہ سے جہاز میں بڑے بڑے ہُک لگے ہوتے ہیں جن سے توپوں کو باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک دن اتفاقاً سپاہی سے کوئی بے احتیاطی ہوئی اور ہُک سے وہ رسّہ نکل گیا جس سے توپ بندھی ہوئی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تختہ جہاز پر توپ اِدھر اُدھر لڑھکنے لگی۔ توپ چونکہ سَو سَو بلکہ بعض دفعہ دو دو سَو من کی ہوتی ہے، اِس لیے جب وہ دائیں طرف لڑھکتی تو جہاز دائیں طرف جھک جاتا اور جب بائیں طرف لڑھکتی تو جہاز بائیں طرف جھک جاتا۔ سمندر کی لہروں کی وجہ سے جہاز پہلے ہی خطرے کی حالت میں تھا۔ اب توپ کے کھل جانے کی وجہ سے یہ خطرہ اَور بھی بڑھ گیا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز ٹوٹ کر غرق ہوجائے گا۔ لوگوں میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوگئی اور انہوں نے لحاف اور توشکیں اور کمبل وغیرہ اکٹھے کرکے توپ کے آگے پھینکنے شروع کردیئے تاکہ اُس کا راستہ رُک جائے اور وہ حرکت نہ کرسکے۔ مگر توپ کا لڑھکنا نہ رُکا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اِس امر کا یقین ہوتا چلا گیا کہ اب جہازضرور ڈوب جائے گا۔ جب بالکل مایوسی کی حالت پیدا ہوگئی تو وہی سپاہی جس سے یہ غفلت ہوئی تھی کُود کر اُس تختے پر چلا گیا جہاں توپ کا ہُک تھا اور جہاں اُس کو باندھا جانا تھا۔ جب لڑھکتے لڑھکتے توپ اُس مقام پر پہنچی تو لوگو ں نے یہ یقین کر لیا کہ اب یہ شخص اِس توپ کے نیچے پِس جائے گا۔ مگر وہ نڈر ہوکر کھڑا رہا۔ جب توپ ہُک کے پاس پہنچی تو اُس نے دَوڑ کر اُس کا رسّہ ہُک میں ڈال دیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ رسّہ ہُک میں پھنس گیا اور توپ باندھی گئی۔ اب ایسا سومیں سے ایک دفعہ بلکہ ہزار میں سے ایک دفعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ورنہ نوسوننانوے دفعہ ایسے حالات کے پیدا ہونے پر یہی یقین ہوتا ہے کہ جہاز ٹوٹ جائے گا اور سب لوگ غرق ہوجائیں گے۔ لوگ بھی اُس وقت یہی سمجھتے تھے کہ اس شخص کے جسم پر سے توپ گزر جائے گی اور یہ اس کے نیچے پِس جائے گا۔ کیونکہ ایک سیکنڈ میں لڑھکنے والی توپ کو ہُک کے ساتھ باندھنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ مرجائے گا۔ وہ خود بھی یہی سمجھتا تھا کہ مَیں مر جاؤں گا۔ مگر اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بچ گیا اور اُس نے اپنے ملک کی فوج کو بھی بچا لیا۔ گویا وہ اتفاق جو ہزار میں سے ایک دفعہ ہی ہوسکتا تھا اُس وقت پیدا ہوگیا اور خطرہ جاتا رہا۔جب توپ باندھی گئی تو وہی شخص جسے سپاہیوں نے مسافر سمجھا تھا کھڑا ہوا اور اُس نے بتایا کہ مَیں فلاں افسر ہوں۔ پھر اُس نے سب سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا جس شخص سے یہ غلطی ہوئی تھی اُسے سامنے لاؤ۔ جب اُسے سامنے لایا گیا تو اُس نے فرانس کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ اُس کے سینہ پر لگایا اور کہا لو مَیں یہ تمغہ تمہیں بادشاہ کی طرف سے سب سے بڑی بہادری دکھانے پر دے رہا ہوں۔ اس کے بعد اُس نے بارہ سپاہی مقرر کیے کہ اس شخص کو دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے باڑ6 مار دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے باڑ ماردی۔ جب وہ افسر ساحلِ فرانس پر اُترا اور کشتی میں سوار ہوا تو اتفاقاً اُس کی کشتی پر جو ملاح مقرر تھا وہ اُس سپاہی کا بھائی تھا جسے اُس نے گولی سے اڑا دیا تھا۔ جب کشتی ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی اُس ملاح نے موقع پا کر افسر سے کہا آپ کو معلوم ہے مَیں کون ہوں؟ وہ کہنے لگامجھے تو پتہ نہیں۔ملاح کہنے لگا مَیں اُس شخص کا بھائی ہوں جسے آپ نے گولی مارنے کا حکم دیا تھا اور چونکہ آپ نے میرے بھائی کو مروا دیا ہے اِس لیے مَیں نے اُسی وقت یہ نیت کر لی تھی کہ مَیں آپ سے اپنے بھائی کا انتقام لوں گا اور مَیں اِسی موقع کی تاڑ میں تھا۔ اُس وقت سمندر میں طوفان زیادہ تھا مگر آپ کاحکم تھا کہ مجھے جلدی سےساحل پر پہنچایا جائے مَیں نے اپنے آپ کو اِسی نیت سے پیش کیا تھا کہ مجھے موقع مل گیا تومَیں راستہ میں اپنے بھائی کا بدلہ لے لوں گا۔ اب آپ قتل ہونے کے لیے تیار رہیے۔ آپ نے میرے بھائی کو ہلاک کرکے مجھے اتنا صدمہ پہنچایا ہے کہ اب سوائے اِس کے میرے پاس کوئی صورت نہیں کہ مَیں اِس کشتی کو غرق کردوں اور خود بھی مرجاؤں اور آپ کو بھی مار ڈالوں۔ وہ افسر اُس سے کہنے لگا تمہیں پتہ ہے مَیں نے تمہارے بھائی کو کیوں مروایا؟ وہ کہنے لگا مجھے پتہ ہے۔ مگر اُس نے اپنے جُرم کا ازالہ بھی تو کردیا تھا۔ افسر کہنے لگا اُس نے ازالہ تو کیا مگر کیا یہ ازالہ اُس کے اختیار میں تھا؟ کیا ہزار میں سے نوسَوننانوے دفعہ یہ امکان نہیں تھا کہ جہاز ڈوب جائے اور فوج تباہ ہوجائے؟ اگر نوسوننانوے دفعہ یہ امکان تھا تو اُس کا ایک دفعہ کامیاب ہوجانا صرف اتفاق کہلائے گا اور یہی کہنا پڑے گا کہ اُس نے نوسوننانوےدفعہ اپنے ملک کو تباہ کردیا صرف ایک دفعہ اس نے اپنے ملک کو بچایا۔ مگر وہ بھی ایک اتفاقی امر تھا۔ اُس کے اختیار کی بات نہیں تھی۔ بہرحال اُس کا یہ فعل ایسا تھا جس کی وجہ سے نو سو ننانوے دفعہ ناکامیاں ہی پیش آسکتی تھیں۔صرف ایک دفعہ کامیابی حاصل ہوئی اور وہ بھی اتفاقی طورپر۔ پس چونکہ اُس نے نوسوننانوے دفعہ فرانس کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور صرف ایک دفعہ حُسنِ اتفاق سے اپنی جان کو ہلاکت کے خطرہ میں ڈال کر اپنے ملک کو بچا یا اِس لیے مَیں نے ایک طرف تو تمہارے بھائی کو اُس کے اچھے کام کی وجہ سے فرانس کا سب سے بڑا بہادری کا انعام دے دیا اور دوسری طرف نوسوننانوے دفعہ اُس نے اپنے ملک کو جس خطرے میں ڈالا تھا اُس کی پاداش میں اُسے گولی سے اُڑا دیا۔ اگر تمہارا دل فرانس کی محبت سے خالی ہے تو میری جان کا کیا ہے۔ مَیں نے تو دشمن کے ہاتھ سے بھی مرنا ہی ہے۔ اگر تم مجھے یہیں ماردو گے تو اِس میں کونسی بڑی بات ہے۔ مگر یاد رکھو کہ اگر تم مجھے مارو گے تو تم مجھے نہیں مارو گے بلکہ فرانس کو مارو گے۔ جب افسر نے یہ بات کہی اُس کے بھائی کی رائے بالکل بدل گئی اور اُس نے کہا مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں غلطی پر تھا۔ اب مَیں خطرات میں پڑ کر بھی آپ کو اُس مقام پر پہنچاؤں گا جہاں کوئی اَور شخص آپ کو نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اِس وقت سمندر میں طوفان ہے اور کوئی اَور ملّاح اِس سمندر میں کشتی چلانے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اُس نے ہر قسم کے طوفانی خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے افسر کو اُس کے مقام تک پہنچا دیا۔
جب دنیوی قربانیوں کا یہ حال ہے تو جو شخص ایسے نازک اوقات میں جبکہ اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت خطرے میں ہے کوئی کمزوری دکھاتا یا اپنا سینہ تان کر آگے نہیں آتا اس کا اپنے متعلق یہ امید رکھنا کہ ہم اسے مسلمان سمجھیں یا خادمِ دین قرار دیں یا اُسے خدا اور رسول سے محبت رکھنے والا سمجھیں کس طرح درست ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں تو ہر شخص کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آگے آئے۔ اور پھر جو شخص آگے آئے اُس کا دوسرا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ بے نیاز ہوجائے سارے تعلقات سے، وہ بے نیاز ہوجائے سارے رشتہ داروں سے، وہ بے نیاز ہوجائے ساری محبتوں سے۔ اور ایک ہی مقصود اس کے سامنے رہ جائے کہ مَیں نے اسلام کے لیے اپنی جان دینی ہے، مَیں نے قرآن کے لیے اپنی جان دینی ہے، مَیں نے احمدیت کے لیے اپنی جان دینی ہے۔ جس وقت یہ روح جماعت میں پیدا ہوجائے گی اُس وقت اور صرف اُس وقت ہماری جماعت کامیاب ہوگی۔ اور گو اِس وقت ہم تھوڑے ہیں، گو ہم ذلیل اور حقیر سمجھے جاتے ہیں، گو ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام ہمیں آنکھیں دکھانے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ وہ مسلمان جو سکھوں کی گُھرکیوں سے ڈر جاتے ہیں، وہ مسلمان جو ہندوؤں کی گُھرکیوں سے ڈر جاتے ہیں۔وہ مسلمان جو عیسائیوں کی گُھرکیوں سے ڈر جاتے ہیں، وہ بھی ہمیں غصہ سے لال لال آنکھیں نکال کر دکھاتے ہیں۔ اور وہ حکومت جو سکھوں سے ڈر جاتی ہے، وہ حکومت جو ہندؤوں سے ڈر جاتی ہے وہ بھی اپنے سارے ایکٹ قادیان کے احمدیوں کو ستانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ لیکن اگر یہ روح ہماری جماعت اپنے اندر پیدا کرلے تو نہ ہندو اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ سکھ اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ مسلمان اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ ہندوستان کے انگریز اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ برطانیہ کے انگریز اُسے ڈرا سکتے ہیں، نہ دنیا کی کوئی اَور قوم اُسے ڈرا سکتی ہے۔ کیونکہ یہ روح قوموں کو ایسی زندگی بخشتی ہے، ایسی طاقت بخشتی ہے، ایسی مضبوطی بخشتی ہے کہ دنیا کی کوئی تلوار اس کو کاٹ نہیں سکتی۔ دنیا کی کوئی توپ اس کو مٹا نہیں سکتی۔ جو شخص خدا کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اُس کو مارنے والا وجود آج تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا اور قیامت تک پیدا نہیں ہوسکتا۔
دوسری دو چیزیں جن کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام ہے۔ مَیں پہلے بھی جماعت کو کالج کی طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔ جہاں تک کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لڑکوں کی طرف سے درخواستیں آنے کا سوال ہے وہ بھی ابھی توجہ طلب ہے۔ اور جہاں تک کالج کے لیے روپیہ کا سوال ہے وہ بھی ابھی بہت کم جمع ہوا ہے۔ آخری رپورٹ نظارت بیت المال کی طرف سے اِس بارہ میں یہ تھی کہ بیاسی ہزار روپیہ کی رقوم اور وعدے آچکے ہیں۔ کچھ اَور اطلاعات میرے پاس بھی آئی ہوئی ہیں اگر اُن کو بھی شامل کر لیا جائے تو پچاسی ہزار کے قریب یہ رقم بن جاتی ہے۔ مگر جو نیا اسٹیمیٹ(ESTIMATE) لگایا گیا ہے اُس کی بناء پر دو لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے اور رقم ابھی تک نصف بھی جمع نہیں ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی جماعت کا بہت سا حصہ ایسا رہتا ہے جس نے اِس چندہ میں حصہ نہیں لیا۔ مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس رفتار سے اِس تحریک میں حصہ لیا گیا ہے وہ بہت ہی سُست ہے۔ مَیں نے مجلس شورٰی میں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور بعد میں بھی مختلف مواقع پر مَیں توجہ دلاتا رہا ہوں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس قدر یہ ضروری امر ہے اُسی قدر جماعت نے اِس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اِس کی طرف توجہ کرنے میں بہت بڑی سُستی سے کام لیا ہے۔ پہلے سال کالج پر دولاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔ اس کے بعد تیس چالیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ آئے گا۔ مَیں نے بتایا تھا کہ یورپ کے فلسفہ کی اِس وقت اسلام کے ساتھ ایک عظیم الشان جنگ جاری ہے اور اِس فلسفہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شبہات پیدا کیے جارہے ہیں۔ کہیں خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں ملائکہ کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں روح کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، کہیں مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ غرض قسم قسم کے شبہات اور وساوس ہیں جو لوگوں کے قلوب میں پیدا کرکے اُن کو اسلام اور ایمان سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔اِس زہر کے ازالہ کا بہترین طریق یہی ہے کہ وہ کالج جن میں یورپ کا یہ فلسفہ پڑھایا جاتا ہے اُنہی کالجوں میں ایسے پروفیسر مقرر کیے جائیں جو دین کو سیکھنے اور اُس پر غور کرنے والے ہوں اور اُن کا یہ کام ہو کہ وہ دن رات اِس جستجو میں رہیں کہ ان شبہات کا کس طرح ازالہ کیا جاسکتا ہے جن کو یورپ کا موجودہ فلسفہ لوگوں کے قلوب میں پیدا کررہا ہے۔ پھر ہمارا کام ہوگا کہ ہم اُن پروفیسروں کو بلائیں، اُن کے دلائل سنیں، انہیں ہدایات دیں، اُن کے علوم میں دلچسپی لیں اور ایسے دلائل مہیا کریں جن سے یورپ کے اِس زہر کا ازالہ ہوسکے اور قرآن کی حکومت دنیا پر قائم ہو۔ مگر ایسے مواقع قادیان سے باہر ہندوستان کے کسی کالج میں میسر نہیں آسکتے۔ بلکہ ہندوستان کیا ساری دنیا میں کوئی ایسا کالج نہیں جہاں اِن شبہات کے تدارک کا سامان ہو۔ بے شک باہر کئی قسم کے کالج ہیں مگر اُن کالجوں کی غرض یورپ کے اِن پیدا کردہ شبہات کو ردّ کرنا نہیں بلکہ ان شبہات کی تائید کرنا اور ان وساوس میں اَور ہزاروں لوگوں کو مبتلا کرناہے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی کالج ہے تو اُس کے پروفیسر بھی ایسے ہیں جو خود اِن شبہات میں مبتلا ہیں اور وہ اسلام کی فوقیت یورپ کے موجودہ فلسفہ پر ثابت نہیں کرسکتے۔ اِس لیے اُن کی اس طرف توجہ ہی نہیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو دینی علوم سے واقفیت رکھتے ہوں۔ مگر بیرونی دنیا میں وہ خود انگریزی دان طبقہ کے تابع ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسوسی ایشن (ASSOCIATION)ایسی نہیں جہاں دین کے لوگ حاکم ہوں اور انگریزی دان اُن کے محکوم ہوں۔
ساری دنیا میں صرف قادیان ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں وہ لوگ جو دین کے نگران ہیں وہ تو حاکم ہیں لیکن انگریزی دان اور پروفیسران کے ماتحت ہیں۔ اور یہ ایک ایسی امتیازی خصوصیت ہے جو دنیا میں اَور کسی مقام کو حاصل نہیں۔ پس جہاں اَور سوسائیٹیوں اور جماعتوں کا مقصدِ اول یہ ہوتا ہے کہ وہ یورپ کے فلسفہ کی اسلام پر فوقیت ثابت کریں وہاں ہماری جماعت کا مقصدِ اول یہ ہے کہ وہ خدا اور اُس کےرسول کی حکومت دنیا میں قائم کرے اور یورپ کے فلسفہ کا جھوٹا ہونا ثابت کرے۔ اس لیے ہماری ہدایت کے ماتحت جو پروفیسر کام کریں گے درحقیقت وہی ہیں جو یورپ کے پیدا کردہ شبہات کا ازالہ کرسکیں گے۔ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری اِس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ قادیان میں ہمارا اپنا کالج ہونا چاہیے۔ بلکہ ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے کالج کے قیام کے متعلق کوشش بھی کی تو مَیں نے اُنہیں کہا کہ ابھی اِس کی ضرورت نہیں کالج پر بہت روپیہ خرچ ہوگا۔ لیکن پچھلے سال مجلس شورٰی کے موقع پر بحث کے بعد یکدم جب بعض دوسرے لوگوں نے تحریک کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کردی کہ واقع میں قادیان میں جلد سے جلد ہمیں اپنا کالج کھول دینا چاہیے۔ حالانکہ اُس وقت تک نہ صرف اِس تحریک کا میرے دل میں کوئی خیال نہیں تھا بلکہ جب بھی کسی نے ایسی تحریک کی مَیں نے اُس کی مخالفت کی۔ لیکن اُس وقت یکدم خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اِس خیال کی تائید پیدا کردی اور نہ صرف تحریک پیدا کی بلکہ بعد میں اِس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی سمجھا دیئے۔ ہمارا کالج در حقیقت دنیا کی اُن زہروں کے مقابلہ میں ایک تریاق کا حُکم رکھتا ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف قوموں میں سائنس اور فلسفہ اور دوسرے علوم کے ذریعہ پھیلائی جارہی ہیں۔ مگر اِس زہر کے ازالہ کے لیے خالی فلسفہ اور دوسرے علوم کام نہیں آسکتے۔ بلکہ اِس غرض کے لیے عملی نتائج کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک کثیر حصہ سائنس کی ایجادات سے دھوکا کھا گیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ سائنس کے مشاہدات اور قانونِ قدرت کی فعلی شہادات اسلام کو باطل ثابت کر رہی ہیں۔ اِسی لیے کالج کےساتھ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے تاکہ بیک وقت اِن دونوں ہتھیاروں سے مسلّح ہوکر کفر پر حملہ کیا جاسکے۔ اِس انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر بھی دولاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ پہلے سال کا خرچ تو اسّی، نوے ہزار کے قریب ہے لیکن اگلے سال جب عمارت کو مکمل کیا جائے گا اور سائنس کا سامان اکٹھا کیا جائے گا کم سے کم دو لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر سالانہ ستّر، اسّی ہزار کے خرچ سے یہ کام چلے گا۔اس کام کو چلانے کے لیے ہمیں قریباً بیس آدمی ایسے رکھنے پڑیں گے جنہوں نے سائنس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کی ہو۔ گویا کالج سے بھی زیادہ عملہ اِس غرض کے لیے ہمیں رکھنا پڑے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد اُمید ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ خود روپیہ پیدا کرنے کے قابل بھی ہوسکے گی۔ کیونکہ اِس ادارہ میں جب علومِ سائنس کی تحقیق کی جائے گی تو ایسی ایجادات بھی کی جائیں گی جو تجارتی دنیا میں کام آسکتی ہیں یا صنعت و حرفت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اُن ایجادات کو دنیا کے تجارتی اور صنعتی اداروں کے پاس فروخت کیا جائے گا۔ ہم اُن اداروں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے محکمہ نے یہ یہ ایجادات کی ہیں اگر تم خریدنا چاہتے ہو خرید لو۔ اِس طرح جو روپیہ آئے گا اُس کے ذریعہ اس کام کو اِنْشَاءَ اللہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے گا۔
اِسی طرح میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ سائنس کی جو ایجادات ایسی مفید ہوں کہ جماعت ان کو اپنے خرچ پر جاری کرسکتی ہو وہ ایجادات ہم اپنےہاتھ میں رکھیں گے اور جماعتی خرچ سے اُن کو دنیا میں فروغ دیں گے۔ جیسے ہوزری(HOSIERY) کا کارخانہ ہے۔ اِس نے ایک لمبے عرصہ تک نقصان اٹھایا۔ مگر اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً سو فیصدی نفع دے سکتا ہے۔ تیس فیصدی نفع تو دے بھی چکا ہے۔ اِسی طرح آہستہ آہستہ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایجادات کے ذریعہ بھی سلسلہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت کچھ روپیہ جمع ہونا شروع ہوجائے گا۔ انگلستان جوساری دنیا کی دولت پر قبضہ کیے ہوئے ہے اِس نے اِسی طرح دولت کمائی ہے کہ اِس میں دو کمپنیاں ایسی پیدا ہوگئیں جو غیر ملکوں میں چلی گئیں اور اُنہوں نے اپنا کاروبار شروع کردیا۔ ایک امریکہ میں چلی گئی اور دوسری ہندوستان میں آگئی۔ ہندوستان کی کمپنی زیادہ ترقی کر گئی اور اِس طرح رفتہ رفتہ ان دوکمپنیوں کی وجہ سے انگلستان نے کئی مُلکوں کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ حالانکہ انگلستان کی آبادی بنگال کی آبادی سے بھی کم ہے۔ لیکن باوجود اِس کے کہ اِس کی آبادی اس قدر کم ہے، اِس نے ہندوستان پر بھی قبضہ کر لیا، اِس نے افریقہ پر بھی قبضہ کرلیا، اِس نے آسٹریلیا پر بھی قبضہ کر لیا جو ہندوستان سے دُگنا ملک ہے۔ اِسی طرح اَور سینکڑوں نہیں ہزاروں چھوٹے چھوٹے جزیروں اور ملکوں کو اپنے زیرِنگیں کرلیا۔ اُس وقت جب انگلستان کی دوکمپنیاں غیرملکوں میں تجارت کے لیے گئی تھیں کون شخص یہ خیال بھی کر سکتا تھا کہ انگلستان اِس ذریعہ سے اپنے علاقہ سے کئی سَوگُنے زیادہ علاقہ پر اور اپنی آبادی سے دَسیوں گُنے زیادہ آبادی پر حکومت کرلے گا۔انگلستان کی ساری آبادی چار کروڑ کی ہے لیکن اگر انگلستان کی رعایا کی آبادی دیکھی جائے جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے تو وہ اسّی کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ گویا آبادی کے لحاظ سے اس نے بیس گُنا آبادی کو اپنے ماتحت کرلیا اور رقبہ کے لحاظ سے اپنے ملک سے کئی سو گُنے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا۔ مگر یہ بات ان کو کس طرح نصیب ہوئی؟اِسی طرح کہ وہ دنیادار لوگ تھے انہوں نے کہااگر ہم دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں توہمارا کام یہی ہے کہ ہم دنیا کمانے کے لیے صحیح طریق اختیار کریں اور پھر اپنی جدوجہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں۔ لیکن ہمارا کام دین کی تقویت کرنا اور اسلام کی بنیادوں کو ایسا مضبوط بنانا ہے کہ آئندہ کسی دشمن کو اِس پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ پس اگر وہ دنیا میں اِس طرح مصروف ہوگئے تھے کہ انہیں اپنے سر پیر کی بھی ہوش نہیں رہی تھی تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم دین کی ترقی کے لیے اِن امور کی طرف ایسی توجہ کریں کہ اسلام اور قرآن کی اشاعت کے سامان بھی پیدا ہوجائیں، جماعت میں کام کرنے کی عادت بھی پیدا ہوجائے، اسے محنت ومشقت کا برداشت کرنا بھی دوبھر معلوم نہ ہو اور وقت کو ضائع کرنے کی عادت بھی اِس سے جاتی رہے۔دنیا میں جس قدر سائنس کی انسٹی ٹیوٹز(INSTITUTES) ہیں اُن کے موجد اِس لیے ایجادات کرتے ہیں کہ تا اسلام تباہ ہو اور یورپ کا فلسفہ دنیا پر غالب آئے۔ مگر ہمارے موجد اِس لیے ایجادات کریں گے تاکہ کفر تباہ ہو اور اسلام یورپ کے فلسفہ اور یورپ کے تمدن پر غالب آجائے۔ یہ لڑائی ہے جو اسلام اور یورپ میں جاری ہے، یہ لڑائی ہے جو احمدیت اور یورپ کا فلسفہ آپس میں لڑنے والے ہیں۔اگر وہ اِس طرف لگے ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو اُس کے کلام کے خلاف پیش کریں توہم اِس طرف لگے ہوئے ہیں کہ اگرخدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو اُس کے کلام کی صداقت اور تائید میں پیش کریں۔ اور یہ بات بالکل صاف ہے کہ اگر کوئی خدا ہے اور یقیناً ہے۔ اگر دنیا کو اُس نے پیدا کیا ہے اور یقیناً اُس نے پیدا کیا ہے اگر قانونِ قدرت اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے اور یقیناً اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے تو یقیناً نیچر سے جو کچھ ظاہر ہوگا قرآن کی تائید میں ہی ظاہر ہوگا، اسلام کی تائید میں ہی ظاہر ہوگا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں ہی ظاہر ہوگا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی قولی شہادت کچھ اَور کہہ رہی ہو اور اُس کی فعلی شہادت کچھ اَور کہہ رہی ہو۔ اگر دشمن خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے خدا تعالیٰ کے کلام کے خلاف استنباط کررہا ہے، اگر وہ سائنس کے بل بوتے پر خدا کا کلام اُس کی فعلی شہادت کی روشنی میں غلط ثابت کرنا چاہتا ہے تو چونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ ہونہیں سکتا کہ خدا کی فعلی شہادت اس کے کلام کے خلاف ہو اِس لیے ہمیں اِس بات پر کامل یقین ہے کہ سائنس کے ذریعہ ہمیں ایسے علوم عطا کیے جائیں گے کہ یورپ کو اِس مقابلہ میں سوائے پیٹھ دکھانے کے اَور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔پس ہمارے لیے اِس میدان میں کُود کر دشمن پر فتح پانا بہت زیادہ آسان اور بہت زیادہ ممکنُ الْحصول ہے۔ کیونکہ اِس میدان میں ہم اکیلے نہیں جاتے بلکہ خدا کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔
جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت جن لوگوں کے قتل کیے جانے کا حکم دیا تھا اُن میں ایک ہندہ بھی تھی۔ کیونکہ اُس نے لوگوں کو روپے دے دے کر کئی مسلمان مروا ڈالے تھے۔ مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی۔اُسے جب اِس حکم کا علم ہوا تو اُس نے چادر اوڑھ لی اور عورتوں کے ساتھ مل کر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کے لیے آئی تھیں آپؐ کی بیعت کرنی شروع کردی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اِن عورتوں میں ہندہ بھی بیٹھی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے لیتے اِس مقام پر پہنچے کہ تم اقرار کرو ہم کبھی شرک نہیں کریں گی تو ہندہ سے نہ رہا گیا اور کہنے لگی یَارسولَ اللہ! کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں ہم شرک میں گرفتار رہیں گی؟ ساری قوم ہمارے ساتھ تھی اور آپؐ اکیلے تھے،ہمارے پاس دولت تھی لیکن آپؐ کے پاس دولت نہ تھی، ہمارے پاس جتھا تھا لیکن آپؐ کے پاس جتھا نہ تھا، ہمارے پاس سپاہی تھے لیکن آپؐ کے پاس کوئی سپاہی نہ تھے پھر ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہمارے بُت ہیں جو ہمارے خدا ہیں لیکن آپؐ کے ساتھ کوئی خدا نہیں۔ گویا ہم اپنے آپ کو خدا والا اور آپؐ کو خدا کی مدد سے محروم قرار دیتے تھے۔ ہم سب نے آپؐ کا مقابلہ کیا اور متواتر اور مسلسل مقابلہ کیا۔مگر یَارسولَ اللہ! ہر میدان میں آپؐ نے ہمیں پِیٹا، ہر میدان میں آپ نے ہمیں لتاڑا، ہر میدان میں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ آپؐ ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس، دس سے سو اور سو سے ہزار اور ہزار سے دس ہزار ہوئے اور ہم دس ہزار سے چار ہزار، چار ہزار سے دو ہزار، دو ہزار سے ایک ہزار اور ایک ہزار سے چند سو ہوئے اور پھر آخر میں یہاں تک ذلیل اور خوار ہوئے کہ اب ہمیں ندامت اور شرمندگی کے ساتھ آپؐ کے پاس آنا پڑا۔ یَارسولَ اللہ! کیا اب بھی ہمارے دل میں اسلام کی صداقت کے متعلق کوئی شبہ رہ سکتا ہے اور کیا اب بھی ہمیں بتوں کی طاقت کا کوئی یقین ہوسکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہندہ ہے؟ اُس نے کہا یَارسولَ اللہ! ہندہ تو ہوں مگر مسلمان ہندہ ہوں، کافر ہندہ نہیں۔ اب مَیں کلمہ پڑھ چکی ہوں اور آپؐ مجھے قتل نہیں کرسکتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب سن کر مسکرائے اور خاموش ہوگئے۔7
تو دیکھو! ہندہ نے اسلام کی صداقت کے متعلق اُس وقت کیا ہی لطیف جواب دیا۔ یہی جواب ہم آج بھی دے سکتے ہیں کہ اگر دنیا کی پیدائش کا یہ سلسلہ، اگر دنیا کا ذرہ ذرہ، اگر دنیا کے کوئلے اور تارکول اور کیمیائی مرکبات اور گرمی سردی کا اثر، اگر میٹر کا پھیلنا اور تنگ ہونا، اگر ستاروں اور سورج اور چاند کی شعاعیں اور ان کے اثرات جو خدا نے پیدا کیے ہیں اِن سے یورپ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے یا جہالت کی وجہ سے یا شرارت اور فتنہ وفساد کی نیت سے ایسے دلائل اخذ کرسکتا ہے جو خدا کے کلام کو لوگوں کی نگاہوں میں باطل ٹھہرانے والے ہوں تو کیا اگر مسلمان سچے دل سے کائناتِ عالَم کے اِس سلسلہ پر غور کریں گے تو یہ سورج اور یہ چاند اور یہ ستارے اور یہ کیمیکل اجزاء اور یہ گرمی اور سردی کے اثرات اور یہ مادے کا پھیلنا اور تنگ ہونا جن کا خالق خدا ہے، جن کا مالک خدا ہے، جن کو نیست سے ہست میں لانے والا خدا ہے اُس کی صفات کو کائنات کا یہ ذرہ ذرہ اُسی طرح ظاہر نہیں کرے گا جس طرح سورج اور چاند اور ستارے اپنی روشنی ظاہر کر رہے ہیں؟ اگر کافروں کے ہاتھ میں یہ چیزیں بولنے لگ جاتی ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ دنیا کا ایک ایک ذرّہ ہمارے ہاتھ میں آکر خدا کی تائید میں نہ بولنے لگ جائے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح یہ چیزیں ہمارے ہاتھ میں ایک سال کے اندر اندر بول سکتی ہیں یورپ کے ہاتھ میں اِس طرح سَو سال میں بھی نہیں بول سکتیں۔کیونکہ یورپ اِن چیزوں سے جھوٹی گواہی دلوانا چاہتا ہے اور جھوٹی گواہی دلوانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ہم ان چیزوں سے سچی گواہی دلوائیں گے اور سچی گواہی دلوانا بہت آسان ہوتا ہے۔ پس یہ دو بہت بڑے کام ہیں جو اِس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں تک یورپ کے فلسفہ پر اسلامی احکام کی فوقیت کو ثابت کرنے کا مسئلہ ہے ہم نے کالج کی داغ بیل رکھ دی ہے۔ لیکن ابھی ہم نے اِس کالج کو ڈگری کالج بنانا ہے۔ پھر ایم اے تک پہنچانا ہے۔ پھر ڈاکٹری کی تعلیم کا اِس میں انتظام کرنا ہے۔پس بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بہت بڑی قربانیاں ہیں جن میں ہماری جماعت نے ابھی حصہ لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں بار بار قربانیوں کی تحریک کررہا ہوں اور بار بار جماعتوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کا جائزہ لیں، صدق وصفا کا وہ نمونہ دکھائیں جو اسلام کے احیاء کے لیے ضروری ہے۔بے شک یہ سال قربانیوں کا سال ہے مگر یاد رکھو! قربانیوں کے سال انسانوں پر کبھی کبھی آتے ہیں اور یہ دن خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے ہی نصیب ہوا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کے لیے رزق کی فراوانی کا یہ سامان پیدا کیا ہواہے کہ جنگ ہورہی ہے اور انہیں پہلے سے زیادہ مال حاصل ہورہا ہے۔ پس جنگ کی وجہ سے جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ مال مل رہا ہے تو تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اِس مال کو زیادہ سے زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ ورنہ دنیا میں کسی کے پاس مال نہیں رہا۔ اگر کوئی شخص خدا کے لیے اپنے مال کو خرچ نہیں کرے گا تو اُسے اپنی اولاد کے لیے یا مکان کے لیے یا بیماریوں کے علاج کے لیے اِس مال کو خرچ کرنا پڑے گا۔ پھر کیسا بدقسمت ہے وہ انسان جسے خدا کے لیے تو اپنا مال خرچ کرنے کی توفیق نہ ملی مگر دنیا کے لیے اُس نے اپنا مال خرچ کردیا۔ پس اب موقع ہے کہ تم آگے بڑھو اور اپنی خوشی سے خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو قربان کردو۔ اگر تم خوشی سے اپنے اموال خدا کی راہ میں نہیں لُٹاؤ گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض دفعہ انسان بڑی بڑی مشکلات میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ پس تم خوشی سے اپنے اموال قربان کرو تاکہ خدا تم کو کسی ایسی تکلیف میں نہ ڈالے جس پر روپیہ الگ خرچ ہو اور تمہیں الگ مصیبت برداشت کرنی پڑے۔ بعض دفعہ گھروں میں بیماریاں آجاتی ہیں تو پانی کی طرح روپیہ بہانا پڑتا ہے۔ اگر وہی روپیہ انسان اپنی خوشی سے خدا کی راہ میں دے دے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُسے آنے والی بیماریوں سے بھی بچالیتا ہے۔ یا اگر بیماری نہیں آتی توبعض دفعہ کوئی مقدمہ بن جاتا ہے اور اُس پر روپیہ خرچ ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔یا کسی سے لڑائی جھگڑا ہوجاتا ہے اور اُس میں روپیہ برباد ہوجاتا ہے۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو اِن دونوں امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ مَیں نے ابھی سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف جماعت کو چندہ کے لیے توجہ نہیں دلائی اور نہ اِس وقت میرا منشاء اس کے لیے کسی چندہ کی تحریک کرنا ہے۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ دو کام ایسے ہیں جو یورپ کی دہریت کے ردّ کے سامان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ سامان تو سب قرآن مجید میں موجود ہیں مگر ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ہم قانونِ قدرت کو اُس کے کلام کی تائید میں بطور گواہ پیش کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے قول اور فعل میں کوئی تخالف نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو دیکھ لو۔ آپ نے جہاں اسلامی مسائل کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات پیش کی ہیں وہاں آپ نے قانون قدرت سے بھی دلائل پیش کیے ہیں اور فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کی سچائی کا شاہد خدا کا فعل ہے اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کا قول اور ہو اور اُس کا فعل کچھ اَور ظاہر کررہا ہو۔ ہمارا کام بھی یہی ہے کہ ہم خدا کی فعلی شہادت اسلام اور احمدیت کی تائید میں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہی مقصدکالج کے قیام کا ہے اور یہی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہے۔ جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی تعلیم کے ماتحت دین کی تائید کو مدنظر رکھتے ہوئے نیچر پر غور کیا جائے گا۔ تاکہ ہم اسلام کی سچائی کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کرسکیں اور یورپ کے لوگوں سے کہہ سکیں کہ آج تک تم نیچر اور اس کے ذرّات کی گواہی قرآن کے خلاف پیش کرتے رہے ہو مگر یہ بالکل جھوٹ تھا۔ تم دنیا کو دھوکا دیتے رہے ہو، تم جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتے رہے ہو۔ آؤ! ہم تمہیں دکھائیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ قرآن اور اسلام کی تائید کررہا ہے اور نیچر اپنی عملی شہادت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا اعلان کررہا ہے۔ یہ کام بہت مشکل ہے، یہ کام بہت لمبا ہے اور اس کے لیے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ ابتدائی کام کے لیے بیس ایم ایس سی ایسے درکار ہوں گے جو رات اور دن اِس کام میں لگے رہیں اور اسلام کی تائید کے لیے نئی سے نئی تحقیقاتیں کرتے رہیں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اِس کام پر ستّر ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ ہوگا اور شروع میں کم سے کم اِس غرض کے لیے دولاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی۔یورپ میں تو دو دو، چار چار کروڑ روپیہ کے سرمایہ سے ایسے کاموں کا آغاز کیا جاتا ہے اور ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ یہ انسٹی ٹیوٹ اپنی آمد خود پیدا کرے گی اور مستقل اخراجات کے لیے چندہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سرِدست مَیں نے اِس کا سارا بوجھ تحریک جدید پر ڈال دیا ہے جماعت سے کسی علیحدہ چندے کا مطالبہ نہیں کیا۔ مَیں اِس وقت صرف کالج کے لیے جماعت کے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ اپنے لڑکے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجو اور کالج کے اخراجات کے لیے روپیہ بھی دو۔ ابھی تک لڑکے بہت کم آئے ہیں اور چندہ بھی ضرورت سے بہت تھوڑا اکٹھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری سُستی کو دور کرے اور تمہارے لیے بھی اور میرے لیے بھی اپنے فضلوں کے دروازے کھول دے"۔ (الفضل31؍مئی 1944ء)

21
اطاعت، اطاعت، اطاعت خلاصہ ہے دین کا
(فرمودہ2؍جون 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"دنیا میں ہر کام کے لیے کچھ رستے ہوتے ہیں اور اُن رستوں کے بغیر کسی جماعت کا ترقی کرنا بالکل ناممکن ہوتا ہے۔ قومی ترقی کے رستوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو قومی کارکن اور جماعتی خادم ہوں اُن کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پایا جائے۔ جب تک اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پوری طرح نہ پایا جائے جماعتی کام کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ جماعتوں کےسرے ہمیشہ مضبوط ہاتھوں میں نہیں ہوسکتے۔کبھی یہ ایسے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو مضبوط ہوتے ہیں اور کبھی ایسے ہاتھوں میں جو کمزور اور نرم ہوتے ہیں۔ جس وقت یہ رشتہ مضبوط دل والے آدمی کے ہاتھ میں ہو اطاعت سے گریز کرنے والے یا تو اپنا رویہ بدل لیتے ہیں یا علیحدہ کر دیے جاتے ہیں۔ مگر جب یہ رشتہ کسی ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو جو کمزور دل کا ہو تو اُس وقت ایسے سرکش لوگ جماعتوں کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں خواہ اُن کی نیتیں کیسی ہی نیک اور اعلیٰ کیوں نہ ہوں۔ پس جماعتی ترقی کے لحاظ سے اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ کارکنوں میں ہونا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے۔ اِسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيْرِیْ فَقَدْ أَطَاعَنِيْ وَمَنْ عَصٰى أَمِيْرِیْ فَقَدْ عَصَانِيْ1 یعنی جو شخص میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا میری اطاعت کرتا ہے اور جو میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتاہے۔ مگر انسانی کمزوریوں میں جہاں اَور نقائص ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ، غیبت، سُستی، کسل وغیرہ یا طنز و طعن کی بات کرنا وہاں بعض لوگوں میں یہ نقص بھی ہوتا ہے کہ وہ اطاعت سے گریز کرتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی حکم ایسا دیا جاتا ہے جو اُن کی پسند کے خلاف ہوتا ہے تو وہ مقا بلہ کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں سے قوم کو کلی طور پر پاک کرنا تو ناممکن ہوتا ہے مگر اس کی برداشت کرلینا بھی ناممکن ہے۔ بے شک ایک انسان کی عادت ہی ایسی ہوسکتی ہے اور وہ اپنی فطرت کے لحاظ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ افسر کے احکام کو نہ مانے اور جب وہ کوئی حکم دے تو اس پر حملہ کرنے اور کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر جہاں وہ اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے وہاں سلسلہ بھی مجبور ہے کہ اگر ایسا انسان اپنی اصلاح نہ کرے تو اُسے جماعتی کاموں سے علیحدہ کردیا جائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہے اور وہ مجبور ہے مگر جماعت بھی مجبور ہے کہ اگر وہ اپنی طبیعت کی اصلاح نہ کرے تو اُسے جماعتی کاموں سے علیحدہ کردے۔ عدمِ اطاعت کی کئی وجوہ ہوتی ہیں۔ ایسا شخص کبھی تو ایسے خاندان سے تعلق رکھنےوالا ہوتا ہے کہ جس کی لوگ عزت کرتے ہیں اور اِس وجہ سے اُس کا دماغ خراب ہوچکا ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کسی کو مجھے حکم دینے کا حق نہیں۔ کبھی اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بیماری کے نتیجہ میں اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔ کبھی اُس کے اندر غرور اور کِبر کا مادہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مَیں اتنا بڑا عالم اور عقلمند انسان ہوں کہ کسی کو مجھے کوئی حکم دینے کا حق ہی نہیں۔ پھر بعض لوگ ایسی دماغی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جو کام بھی اُن کے سپرد کیا جائے وہ کہتے ہیں کہ جب تک اس کام کی باگ ڈور کُلّیۃًً میرے ہاتھ میں نہ دی جائے اور تمام اختیارات مجھے حاصل نہ ہوں کام ٹھیک طرح چل ہی نہیں سکتا۔ ہندوستان کے لوگوں میں بالخصوص یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جو کام بھی اُن کے سپرد ہو وہ چاہتے ہیں کہ تمام کے تمام اختیارات اُن کے ہاتھ میں ہوں۔ سندھ کی زمینوں کے بارہ میں مَیں نے اس کا خوب تجربہ کیا ہے۔ وہاں جس شخص کو مقامی ایجنٹ بنایا جائے وہ یہی کہتا ہے کہ اختیارات میرے ہاتھ میں نہیں پھر کام کس طرح ٹھیک طور پر چل سکتا ہے۔ اور اُس کی مراد اِس سے یہ ہوتی ہے کہ مرکز نے جو اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں وہ بھی جب تک ایجنٹ کے ہاتھ میں نہ دے دیے جائیں کام ٹھیک طرح نہیں چل سکتا۔ اور منیجر(MANAGER) یہ کہتے ہیں کہ جب تک اختیارات ایجنٹ کے ہاتھ میں ہیں کام ٹھیک نہیں ہوسکتا اختیارات ہمارے ہاتھ میں ہونے چاہییں۔ مینجروں کے بعد منشی ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اختیارات تو منیجروں کے ہاتھ میں ہیں کام کیسے چلے۔ تمام خرابی اِسی لیے ہے کہ اختیارات منیجروں کے سپرد ہیں۔ اور ہاری کہتے ہیں کہ ہمیں آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں پھر دیکھیں کیسا اچھا کام ہوتا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ سب کے دماغ پریشان ہیں۔ نہ ایجنٹ کا دماغ ٹھیک ہے نہ منیجر کا، نہ منشی کا ٹھیک ہے اور نہ ہاری کا۔ ہندوستان میں یہ عام مرض ہے کہ جو بھی کسی کام پر مقرر کیا جائے وہ کہتا ہے کہ سارے اختیارات مجھے مل جائیں تب کام ٹھیک طور پر چل سکتا ہے ورنہ نہیں۔ حالانکہ نظام کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اختیارات تقسیم ہوجائیں۔مگر ہر شخص چاہتا یہ ہے کہ تمام اختیارات اُس کے ہاتھ میں ہوں۔ پھر اِس کے اُلٹ ایک اَور بات بھی ہے۔ جس طرح ہر ماتحت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تمام اختیارات مجھے مل جائیں اِسی طرح ہر افسر یہ کوشش کرتا ہے کہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔ جس طرح ہر ماتحت اپنے اوپر والے کے اختیارات چھیننا چاہتا ہے اِسی طرح ہر اوپر والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سب اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک عرصہ تک اصلاح کی صورت رہنے کے بعد پھر یہ مرض سلسلہ کے بعض کارکنوں میں پیدا ہونے لگا ہے۔ آج سے 15، 20 سال پہلے ایسی خرابی پیدا ہوئی تھی مگر وہ دبانے سے دب گئی۔ لیکن اب پھر کچھ نوجوان ایسے ہیں جو حکم نہیں مانتے اور سرکشی کرتے ہیں۔ جس طرح جب کسی جانور کو چھیڑا جائے تو وہ دولتی مارتا ہے اِسی طرح ان کی حالت ہے۔ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو وہ دولتی مارنے اور کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا کلام غیر شریفانہ اور ناشائشتہ ہوتا ہے۔ انہیں مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اطاعت و فرمانبرداری کی عادت ڈالیں۔ اور مَیں افسروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی سیدھا راستہ اختیار کیا کریں۔ وہ صاف کہہ دیں کہ مجھے یہ حکم دینے کا اختیار ہے اور مَیں یہ حکم دیتا ہوں۔ اگر مانتے ہو تو مانو ورنہ انکار کردو اور پھر ایسے موقع پر بزدلی نہ دکھانی چاہیے اور ایسے لوگوں کے متعلق فورًا فیصلہ کردینا چاہیے۔ خط و کتابت پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ جواب دِہ ہیں اپنے افسروں کے سامنے، اپنے ماتحتوں کے سامنے نہیں۔ صدر انجمن احمدیہ میرے سامنے ذمہ دار ہے، ناظر صدر انجمن احمدیہ کے سامنے ذمہ دار ہیں، ان کے ماتحت مجالس یا افسر اُن کے سامنے ذمہ دار ہیں اپنے ماتحتوں کے سامنے نہیں۔ پس ایسی صورت میں کسی افسر کو خط و کتابت پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ صاف کہہ دے کہ یہ میرا اختیار ہے اور مَیں یہ حکم دیتا ہوں اور اِس کی تعمیل ضروری ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ وہ ماتحت اُس حُکم کے خلاف اپیل کرسکتا ہے۔ مگر حُکم ملتے وقت اُس کا فرض ہے کہ اُس حکم کی تعمیل کرے۔ اِس کے بعد اگر وہ سمجھتا ہے کہ اُس حکم کا دینا افسر کے اختیار میں نہ تھا تو وہ اس کی اپیل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی انکار کرتا ہے تو فورًا اُس کے متعلق فیصلہ کیا جائے لٹکانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی بزدلی کی بات ہوتی ہے کہ ماتحت کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور بحث اور دلائل میں پڑا جائے۔ اِس کے بعد وہ کارکن یا تو حکم کی تعمیل کرے گا اور کام کرے گا یا پھر کام چھوڑ دے گا۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حکم مان لے مگر افسروں کے پاس اپیل کرے۔ اگر اپیل کا فیصلہ اُس کے حق میں ہو تو پھر افسر کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے۔
اِس سال تعلیم الاسلام ہائی سکول کا نتیجہ بہت خراب نکلا ہے۔ سال بھر میرے پاس ایسی شکایات آتی رہی ہیں کہ اساتذہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور ہیڈماسٹر سے تعاون نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ نتیجہ سخت خراب نکلا ہے۔استاد اپنی تنخواہیں بھی لیتے رہے ہیں، اپنے عُہدوں پر بھی قابض رہے ہیں مگر کام دیانتداری سے نہیں کرتے رہے اور انہوں نے نوجوانوں کی عمر یں خراب کردی ہیں۔ وہ اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ سکول کی بلڈنگ نہایت شاندار ہے، فلاں انسپکٹر اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اُس نے کہا کہ ایسی شاندار بلڈنگ سارے پنجاب میں کسی اَور سکول کی نہیں۔ مگر اس میں خوشی کی کونسی بات ہے اگر استاد نالائق ہیں اور وہ قوم کے نوجوانوں کی عمریں تباہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ تو سلسلہ کے کارکن ہیں اور اس کام کو دیانت داری کے ساتھ کرنے کی صورت میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے۔ اِس خدمت کا معاوضہ صرف وہ تنخواہ ہی نہیں جو ان کو ملتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا وعدہ بھی ہے۔ مگر وہ اطاعت اور فرمانبرداری اُن لوگوں جتنی بھی نہیں کرتے جو صرف تنخواہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت اور انعامات کے وعدوں کے باوجود اور متقی، مخلص اور مومن کہلانے کے باوجود اوقات کوضائع کرتے اور اپنے لڑائی جھگڑوں میں قوم کے نوجوانوں کی عمریں تباہ کرتے ہیں ان سے زیادہ بے ایمان کون ہوسکتا ہے۔ انہوں نے دولتیاں مار مار کر ثابت کر دیا ہے کہ بعض انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایااُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ2 اور انہوں نےاپنے عمل سے ثابت کردیا کہ واقعی بعض انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو پھر متنبہ کرتا ہوں جیسا کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا مَیں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر۔ سلسلہ کے مقابلہ میں کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ حتّٰی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اُس کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ کوئی انسان بھی سلسلہ سے بالا نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی بالا ہیں۔ اِسی طرح احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی بالا ہے۔ اسلام اور احمدیت کے لیے اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں گے۔ لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے۔ پس تم اپنے اندر سلسلہ کی صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا فضل تم پر نازل ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ بے دینوں کی موت نہ مرو اور ایسے مقام پر کھڑے نہ ہو کہ موت سے پہلے اللہ تعالیٰ تم کو مرتدین میں داخل کردے تو اپنے اندر صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو۔ احمدیت یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ احمدیت ایک ایسی دھار ہے کہ جو بھی اِس کے سامنے آئے گا وہ مٹادیا جائے گا۔ یہ تلوار کی دھار ہے اور جو بھی اِس کے سامنے کھڑا ہوگا وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ جس سلسلہ کو قائم کرنا چاہے اُس کی راہ میں جو بھی کھڑا ہو وہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اِس لیے اِس کے مقابلہ میں کسی انسان کی پروا نہیں کی جائے گی۔ خواہ وہ کوئی ہو، خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا کیوں نہ ہو۔ خواہ وہ میرا بیٹا کیوں نہ ہو۔سلسلہ مقدم اور غالب ہے ہر انسان پر۔ پس مَیں نے پھر ایک دفعہ کھول کر اس بات کو بیان کردیا ہے تاکوئی یہ نہ کہہ سکے کہ غفلت ہوگئی اور خیال نہ رہا۔ خوب یاد رکھو کہ اطاعت، اطاعت، اطاعت خلاصہ ہے دین کا۔ جو شخص افسر کی اطاعت نہیں کرتاوہ سمجھ لےکہ اُس کی نمازیں اور اُس کے روزے اور اُس کا ایمان اُسے کوئی فائدہ نہ دے سکے گا۔ وہ کفر کی سرحد پر کھڑا ہے اور ایک دھکّے سے کافروں میں جاگرے گا اور اُس کی نمازیں اور اُس کے روزے اور اُس کی زکوٰۃ اور اُس کے صدقات اُس کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ جو شخص نمازیں پڑھتا ہے، چندے دیتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، صدقات کرتا ہے اور دوسری نیکیاں بجا لاتا ہے مگر اُس میں یہ نقص ہے کہ وہ اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتا تو وہ ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ابلیس تھا۔ ابلیس بھی اپنے آپ کو موحّد سمجھتا تھا۔ مگر چونکہ اُس نے نشوز اختیار کیا اور نافرمانی کا مادہ اُس کے اندر تھا اِس لیے ایک دن وہ کچھ اَور تھا اور دوسرے دن کچھ اَور ہوگیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی بہت خدمات کی تھیں۔ اِس لیے اُن کو خیال تھا کہ مجھ سے بڑا کون ہوسکتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو انہوں نے کہا کہ میری خدمات بہت ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مامور کرنا ہوتا تو مَیں اِس کا مستحق تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک شخص زید نام تھا جو شرک کا سخت مخالف تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ اُسے کھانا پیش کیا گیا تو اُس نے کہا کہ مَیں مشرکوں کا کھانا نہیں کھایا کرتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مَیں نے شرک کبھی نہیں کیا۔ تو وہ شخص شرک کا مخالف تھا مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعویٰ کیا وہ منکر ہوگیا۔ کسی نے اُس سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو وہی تعلیم دیتے ہیں جو آپ دیا کرتے تھے۔ یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو اُس نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہوتا تو مجھے نہ بناتا۔ تو وہ انسان جو اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتا اور سلسلہ کے کام میں تعاون نہیں کرتا وہ اس خطرہ میں ہے کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بے دینوں اور کافروں کی موت مرے۔
پس مَیں آج پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی روح پیدا کرو۔ جب تک یہ روح زندہ رہے گی احمدیت زندہ رہے گی۔ لیکن جب یہ روح مٹ گئی اور نشوز اور سرکشی کی عادت پیدا ہوگئی وہ دن اگر تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی سلسلہ کے خاتمہ کا دن ہوگا تو تم اس کا گلا گھونٹنے والے ہوگے۔ لیکن اگر وہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سلسلہ کے خاتمہ کا نہ ہوگاتو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تمہارا گلا گھونٹ دیں گے۔
دوسری بات جس کے متعلق مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مَیں نے پچھلے دنوں بعض تحریکات کی تھیں اور اُن کے متعلق جماعت کی حالت کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس حد تک جماعت نے قربانی کا عزم کیا تھا شاید عزم کی آخری حد پہنچ گئی ہے۔ ان تحریکات کے جواب میں رفتار بہت سُست ہے اور جُوں کی چال چلی جا رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جسم تھکے ہوئے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جب ایک شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ مَیں فلاں جگہ تک چلوں گا جب وہ جگہ آجاتی ہے تو اُس کی رفتار میں سُستی پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر یہی چیز ہماری راہنمائی کا موجب بن سکتی ہے۔ انتہائی قربانیوں کے مقام پر پہنچ جانا ہی بتاتا ہے کہ اب ہمیں اپنے ارادے اَور بلند کرنے چاہییں اور وہ وقت اب ہمارے لیے آگیا ہے۔ اب ہمیں قربانیوں کے متعلق اپنے معیار کو اَور بلند کرنا ہوگا۔ اب بار بار قربانی ہوگی۔ جانوں کی بھی اور اموال کی بھی۔ بے شک جماعت نے بہت قربانی کی ہے۔ ایسی قربانی کہ جس کی مثال اَور کسی قوم میں نہیں مل سکتی۔ مگر اب وقت ایسا آگیا ہے کہ ہمیں قربانیوں کے معیار کو اَور بلند کرنا پڑے گا۔ بعض ایسے کام شروع کیے گئے ہیں کہ لاکھوں کا خرچ بڑھ گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اِس سال چار پانچ لاکھ روپیہ کا خرچ بڑھ گیا ہے۔ کالج جاری کردیا گیا ہے، سائنس انسٹی ٹیوٹ بھی کھولی جارہی ہے۔ کالج کے سلسلہ میں بلڈنگ وغیرہ کی بھی ضرورت ہے اور ان سب کے لیے چار پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ اِس کے یہ معنے نہیں کہ جماعت پر زائد بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیوں کے پہلے معیار سے آگے بڑھانا چاہتا ہے اور جو کہے گا کہ مَیں آگے نہیں بڑھوں گا بلکہ کھڑا ہی رہوں گا وہ کھڑا نہ رہ سکے گا بلکہ گِرے گا۔ نظامِ قدرت میں کوئی چیز کھڑی نہیں رہ سکتی بلکہ حرکت کرتی ہے۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ستارے ساکن ہیں مگر اب اِس خیال کی تردید ہوچکی ہے اور ثابت ہوگیا ہے کہ سب چل رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز کھڑی نہیں حتّٰی کہ ہمارے جسم کے ذرات بھی چکر کھاتے ہیں۔ ہم جو روٹی کھاتے ہیں، جو چائے پیتے ہیں، جو چیز بھی استعمال کرتے ہیں سب میں ایک حرکت ہے۔ اگر یہ حرکت نہ ہو تو وہ طاقت مٹ جائے جس سے وہ قائم ہیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں مگر جتنی دیر میں خطبہ ختم ہوگا زمین ایک لمبا فاصلہ طے کر جائے گی۔ اگرچہ ہم اس حرکت کو محسوس نہیں کرتے مگر حرکت ہوضرور رہی ہے۔ جیسے ایک شخص لاہور سے گاڑی پر بیٹھتا ہے وہ خود بیٹھا ہی رہتا ہے مگر امرتسر پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی حرکت متوازی ہوجاتی ہے ریل کی حرکت کے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ حرکت کر رہا ہے۔ دو گھوڑے اگر بالکل متوازی دوڑتے جائیں تو اُن پر جو سوار ہوں گے وہ اگرچہ اوپر بیٹھے ہوں گے اور ساکن نظر آئیں گے، وہ آپس میں باتیں بھی کر رہے ہوں گے گویا بیٹھے ہوئے ہیں مگر دراصل وہ حرکت کر رہے ہوں گے۔ تو خدا تعالیٰ کے کاموں میں کوئی ساکن نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح کسی شخص کا ایمان بھی ایک جگہ پر ساکن نہیں رہ سکتا۔ جس وقت وہ کھڑا ہوگا گِرے گا۔ اِس وقت قربانیوں کا جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم قربانی کے متعلق اپنے معیار کو بلند کریں۔ پہلے ہم نے اگر یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ دس فیصدی تک قربانی کریں گے تو اب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس معیار کو بڑھا کر بیس فیصدی کردیں۔ اگر پہلے ہمارا معیار بیس فیصدی تھا تو اِس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے قبول کرلیا اور اب وہ چاہتا ہے کہ اسے بڑھا کر چالیس فیصدی کردیں۔ تو مومن سے جب بھی زیادہ قربانی کا مطالبہ کیا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پچھلی قربانی کو قبول کرلیا ہے اور اب وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ایمان میں ترقی کریں۔
پس مَیں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ جو تحریکیں کی گئی ہیں ان کی طرف پوری توجہ کریں۔ مَیں نے مجلس مشاورت کے موقع پر غرباء کے لیے غلّہ فراہم کرنے کی تحریک کی تھی۔ جماعتوں کے نمائندے اُس موقع پر موجود تھے۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ واپس جاکر انہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ قادیان کی جماعت نے بھی اور باہر کی جماعتوں نے بھی اِس میں بہت کم حصہ لیا ہے۔ مَیں نے خود پچھلے سال سَو من غلّہ اِس تحریک میں دیا تھا۔ مگر اِس سال دو سومن دیا ہے۔ اِسی طرح ملک عمر علی صاحب نے اِس سال دوسَومن غلّہ دیا ہے۔ مگر باقی دوستوں نے اِس طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ اور جنہوں نے اِس تحریک میں حصہ لیا بھی ہے اُنہوں نے دس دس یا پندرہ پندرہ سیر گندم اس تحریک میں دی ہے حالانکہ مومن کے ایمان میں ترقی کے ساتھ قربانی کا معیار بڑھنا بھی ضروری ہے۔ یہی حال دوسرے چندوں کا ہے۔ ان میں بھی بہت کوتاہی ہو رہی ہے۔ کالج کے متعلق چندہ کو اگر دیکھا جائے تو ایک درجن سے کم آدمی ایسے ہیں جن کا چندہ چالیس ہزار روپیہ ہے۔ باقی جماعتوں نے اس میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے۔ ان چند آدمیوں کا چندہ اگر نکال کر باقی کو جماعتوں پر پھیلایا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں کس قدر کوتاہی کی گئی ہے۔ پشاور کی ایک جماعت ہے جس نے جماعتی لحاظ سے معقول حصہ لیا ہے اور اڑھائی ہزار روپیہ دیا ہے۔ باقی کسی جماعت نے جماعتی لحاظ سے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ ان میں سے بعض افراد نے اچھا حصہ لیا ہے۔ اسے اگر الگ کردیا جائے تو جماعتی چندہ بہت کم رہ جاتا ہے۔ کلکتہ کے ایک دوست نے پانچ ہزار روپیہ دیا ہے مگر وہ ایک فرد ہیں جماعت ان کے چندہ کو اپنے چندہ میں شمار کرکے یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے اپنا فرض ادا کردیا۔ کلکتہ کی جماعت کا بحیثیت جماعت کالج کا چندہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے افراد کے چندوں کو شمار کرکے جماعتوں کا یہ سمجھ لینا کہ انہوں نے کافی رقم دے دی ہے اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت کسی شادی میں شامل ہوئی۔ وہ بخیل تھی مگر اُس کی بھاوج حوصلہ والی تھی۔ اس عورت نے ایک روپیہ کا تحفہ دیا مگر اُس کی بھاوج نے بیس روپے کا۔ جب وہ واپس آئیں تو کسی نے اس بخیل عورت سے پوچھا کہ تم نے شادی کے موقع پر کیا خرچ کیا؟ اُس نے کہا کہ مَیں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیے ہیں۔ تو بعض افراد کے خاص چندوں کو جماعتوں کا اپنی طرف منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسا اس بخیل عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیے ہیں۔ان چندوں کو نکال کر اگر دیکھا جائے تو جماعتوں کی آنکھیں کُھل جائیں کہ انہوں نے کتنی کوتاہی کی ہے۔ مجلس مشاورت کے موقع پر مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ غرباء کے لیے غلہ کی تحریک بہت اہم ہے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ سرگودھا، لائلپور، منٹگمری اور ملتان کے اضلاع سے اگر زمین کے لحاظ سے بھی چندہ لیا جائے تو کافی غلہ جمع ہوسکتا ہے۔ جس شخص کی ایک مربع زمین ہو وہ بڑی آسانی سے من ڈیڑھ من غلہ اِس تحریک میں دے سکتاہے۔جس کی زمین ایک مربع ہو وہ چھ سات کیلے گندم ضرور کاشت کرتا ہے اور اگر اوسط پیداوار فی کیلہ بیس من بھی سمجھ لی جائے تو گویا اس کی کُل گندم 120 یا 140 من ہوگی اور اتنی گندم میں سے من ڈیڑھ من اس تحریک میں دے دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ ایک یا ڈیڑھ فیصدی پیداوار کا غرباء کے لیے دے دینا بالکل معمولی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب درختوں پر پھل آئیں یا کوئی فصل ہو تو غرباء کو فراموش نہ کرو اور ان کا حصہ ادا کرو۔3 مگر معلوم ہوتا ہے مجلس مشاورت میں جو نمائندے آئے تھے وہ سوئے ہوئے تھے جب مَیں نے یہ تحریک کی تھی۔ انہوں نے واپس جاکر اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ کوئی کام کیااور نہ رپورٹ بھیجی اور نہ کوئی چندہ بھجوایا۔ حالانکہ ان اضلاع میں احمدیوں کی ملکیت قریباً ایک ہزار مربع اراضی ہوگی اور اگر فی مربع من ڈیڑھ من بھی چندہ وصول ہوتا تو بارہ تیرہ سَو من ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر ایک من ہی فی مربع دیا جاتا اور نادہندوں کو بھی چھوڑ دیا جائے تو کم سے کم سات آٹھ سَو من غلّہ پھر بھی ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر صرف اِس وجہ سے کہ مَیں نے دوبارہ اعلان نہیں کیا اِس طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے۔ حالانکہ جب ایک دفعہ توجہ دلا دی جائے تو مومن کا فرض ہے کہ خود خیال رکھے۔
جیسا کہ مَیں بیان کرچکا ہوں کالج کے متعلق چندہ کابھی یہی حال ہے اور جماعتی چندوں کی مقدار بہت کم ہے۔ ہاں پشاور اور حیدر آبار کی جماعتیں مستثنیٰ ہیں اُن کا چندہ جماعتی لحاظ سے ایک خاص مقدار میں آیا ہے۔ باقی قادیان کی بھی اور باہر کی جماعتوں نے بھی بہت کوتاہی کی ہے اور جماعتی لحاظ سے بہت کم توجہ کی ہے۔ اگر کئی سو افراد کی جماعت سے سو دو سو روپیہ چندہ آبھی گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے اپنا فرض ادا کردیا۔
پس میں جماعتوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا قربانی کا معیار ختم ہوچکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اگر سلسلہ کا موجودہ بار اٹھانا ہے تو جماعت ایمان کا معیار بڑھائے۔ ایمان کے سابق معیار پر اب جماعت نئے بوجھوں کو نہیں اٹھا سکتی۔ 1944ء کا احمدی 1943ء کے احمدی سے ایمان میں بڑھے گا تب وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکے گا ورنہ ناکام ہوکر ذلت کا منہ دیکھے گا۔ پس دوستوں کوچاہیے کہ نئے ارادے اور نئے عزائم پیدا کریں ورنہ خطرہ ہے کہ خدا نخواستہ 1922ء والی حالت نہ ہوجائے۔ جبکہ صدر انجمن ایسی مقروض ہوگئی تھی کہ کئی سالوں تک سخت مشکلات میں کام کرنا پڑا اور کئی سال تک یہ بوجھ نہ اُتر سکا۔ مگر مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ1922ء کا احمدی وہ نہ تھا جو 1944ء کا ہے اور آج کا ایمان 1922ء کے ایمان سے بہت زیادہ ہے۔ مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ یقین ہے کہ ویسی حالت پھر نہ ہوگی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے احمدیوں سے اِس سال ایک نیا عہد لیا ہے۔ خدا تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے ایمان کے اونچے معیارکے مطابق قربانی کے معیار کو بھی بلند کرسکیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نِیَّةُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِہٖ4 یعنی مومن کی نیت اُس کے عمل سے اونچی ہوتی ہے۔ اِس کے مطابق خدا تعالیٰ جماعت کو قربانیوں کے معیار کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا قربانی کا جو موقع بھی آئے ہمارے دلوں کی خواہش ہمیشہ ہماری قربانی سے بالا ہو"۔(الفضل15؍جون1944ء)


22
دینی علم نہ ہونے اور عربی زبان سے
ناواقفیت کی وجہ سے دقتیں
(فرمودہ 9 جون 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"چونکہ قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی احادیث بھی عربی میں ہیں اور عرب اِس وقت سب سے پیچھے ہیں تعلیم میں، دین میں اور دین پر عمل کرنے میں اور زیادہ تر مقابلہ جو اسلام کا غیر مذاہب سے ہورہا ہے وہ دوسرے ممالک خاص کر ہندوستان میں ہورہا ہے۔عرب میں دجّالی فتنے اتنے زور شور سے داخل نہیں ہوئے جتنے زور سے دوسرے ممالک میں داخل ہوئے ہیں۔ بوجہ عربوں میں تعلیم کی کمی کے اور بوجہ اس ملک کے غیر ذی زرع ہونے کے غیر قوموں کی توجہ کو اس نے اپنی طرف اس طرح نہیں کھینچا جس طرح دوسرے زرخیز ممالک نے کھینچا ہے۔ اس وجہ سے وہ قومیں جو مختلف رنگوں میں اسلام پر حملہ آور ہیں اس کثرت سے اس ملک میں داخل نہیں ہوئیں جس کثرت سے دوسرے ممالک میں داخل ہوئی ہیں۔ اس لیے اسلام اور غیر اسلام کی جنگ کا میدان اِس زمانہ میں عرب نہیں بلکہ دوسرے ممالک ہیں اور خصوصاً ہندوستان ہے کیونکہ ہندوستان ہی اِس زمانہ میں سب مشہور مذاہب کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دوسرے ممالک میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ مثلاً مصر ہے۔ وہ اتنا دور ہے ہندو مذہب سے اور وہ اتنا دور ہے ہندو تہذیب سے کہ وہاں ہندو دھرم کی اسلام سے جنگ نہ ہو سکتی تھی۔ اسی طرح مصر اتنا دور ہے بدھ مت سے اور اتنا دور ہے بدھ تہذیب سے کہ وہاں اسلام اور بدھ مت کا مقابلہ نہیں ہوسکتا تھا۔ بے شک بعض اَور ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسلام کی غیر مذاہب سے جنگ ہوسکتی تھی مگر وہاں بھی سارے اَدیان سے نہیں ہوسکتی تھی۔ ایسی جنگ صرف ہندوستان میں ہی ہوسکتی تھی اور ہورہی ہے۔ یہاں عیسائیت موجود ہے کیونکہ حکمران عیسائی ہیں۔ یہاں یہودی قوم کی بھی پرانی نسل اور کئی نئی نسلیں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور زرخیز اور تجارتی ملک ہے اور یہودی تجارت پیشہ لوگ ہیں اور بڑے بھاری تُجّار ہیں اس لیے وہ ہندوستان میں آئے اور یہاں بس گئے۔ اِسی طرح زرتشت مذہب بھی بحیثیت قوم ہندوستان میں پایا جاتا ہے اور صرف ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے۔ سیر وسیاحت کے لیے اِس مذہب کے لوگ کسی اَور ملک میں چلے جائیں تو اَور بات ہے مگر بحیثیت قوم یہ مذہب ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح قدیم مذاہب میں سے ہندودھرم ہے اور ہندوستان اِس کا مرکز ہے۔ پھر جین مت ہے اِس کا مرکز بھی ہندوستان میں ہی ہے۔پھر بدھ مت ہے اِس کا مرکز بھی ہندوستان ہی ہے۔ گواَور علاقوں کی طرف یہ مت ہندوستان کی نسبت زیادہ پھیل گیا ہے مگر ہندوستان کے ساتھ پہلے برما بھی شامل تھا اور برما میں اِس مذہب کا بہت بڑا مرکز ہے۔
پس ہندوستان دنیا کے تمام معروف اور قدیم مذاہب کا یا تو مرکز ہے یا وہ کسی نہ کسی وجہ سے ہندوستان میں جمع ہوگئے ہیں۔ ہندو دھرم، بدھ مت، جین ازم اور پارسی مذاہب کا تو ہندوستان مرکز ہے۔ عیسائی گو یہاں کثرت سے نہیں لیکن ان کے حاکم ہونے کی وجہ سے یہ مذہب بھی ہندوستان میں آگیا۔ یہودی چونکہ تاجر لوگ ہیں وہ تجارت کی وجہ سے ہندوستان میں آگئے۔ اسلام تو ہندوستان میں ہے ہی۔ غرض جو مذاہب پرانی تہذیبوں کے مدعی ہیں یا دوسروں پر اپنی فوقیت کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ ہندوستان میں موجود ہیں۔ گو یا بہت سے تو ایسے مذاہب ہیں جن کا یا تو ہندستان مرکز ہے یا پھر وہ باہر سے ہندوستان میں آگئے ہیں۔ اِس لیے اِس زمانہ میں ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام اور غیر مذاہب کی مکمل جنگ ہوسکتی تھی۔ ادھر ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو عربی زبان سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اگر کوئی محنت اور کوشش کرکے قرآن کریم اور احادیث پڑھ لے تو اَور بات ہے ورنہ پنجابی جاننے والے، بنگالی جاننے والے، مرہٹی جاننے والے، تلنگو جاننے والے اور ہندوستان کی دوسری زبانیں جاننے والے عربی زبان سے بہت دور ہیں کیونکہ یہ زبانیں عربی سے بہت دور ہیں۔ البتہ اردو کسی قدر عربی زبان کے قریب ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمان دینِ اسلام سیکھنے کی آسانی میں سب سے پیچھے ہیں۔ بے شک چین میں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں اور وہاں بھی ان کی کروڑوں کی تعداد ہے مگر پھر بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد کے برابر اُن کی تعداد نہیں اور نہ اَور مذاہب کے لوگ مثلاً جینی، پارسی اور ہندو وہاں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنا مامور اِس ملک میں بھیجا جو سارے مذاہب کا مرکز ہے اور وہ ہندوستان ہے۔ مگر ہمارے لیے سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ بڑی محنت سے اور بڑی کوشش سے دین کی واقفیت حاصل ہوسکتی ہے۔ ورنہ زبان سے تعلق رکھنے والی جو آسانیاں ہوتی ہیں وہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو حاصل نہیں ہیں۔ نہ تو عرب سے ہندوستان کی سرحد ملتی ہے، نہ عربی تمدن ہندوستان میں پایا جاتا ہے، نہ ہندوستان کے لوگ عربی زبان جانتے ہیں۔ بلکہ ایسی زبانیں جانتے ہیں جو کسی وقت گو عربی زبان سے ہی نکلی ہوں کیونکہ عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنَہ ہے۔ مگر اِس وقت اِن زبانوں کا عربی سے اتنا بُعد ہوچکا ہے کہ گویا عربی سے اِن کا کبھی جوڑ ہوا ہی نہیں تھا۔ مرہٹی اور گجراتی زبانوں کے لہجے اور مالا باری اورتلنگو زبان کے الفاظ عربی زبان کے سامنے رکھے جائیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اِن کا کوئی تعلق عربی زبان سے ہے۔ "ڑ" اور"ڈ" کا اِن میں اتنا زور ہوتا ہے کہ عربی سے اِن کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ اِس وجہ سے مَیں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پیش کرنے میں اور آپ کے سلسلہ کی اشاعت کرنے میں اَور مشکلات ہیں وہاں زبانِ عربی سے لوگوں کا ناواقف ہونا بھی بہت بڑی مشکل ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے اور آپ پر ایمان لانے والوں کی تربیت کرنا بھی بے حد مشکل ہے۔
عربوں کے لیے عربی جاننے کی وجہ سے دین سیکھنے میں بہت آسانی تھی۔ جب تک اُن کےسامنے یہ سوال ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور راستباز ہیں یا نہیں، قرآن خدا کا کلام ہے یا نہیں، اُس وقت تک اُن کے لیے مشکل ہوتی تھی۔ لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اُن پر واضح ہوجاتی اور وہ آپ پر ایمان لے آتے اور یقین کرلیتے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے تو پھر قرآن کریم اُن کے لیے بالکل کھلی ہوئی کتاب ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشادات سمجھنا بالکل آسان ہوتا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ جو کچھ فرماتے وہ عربی زبان میں بیان فرماتے اور سننے والے بآسانی اسے سمجھ لیتے اور اس کے مطابق اپنے عقائد اور اعمال بنالیتے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے روحانی مدارج حاصل کرتے جاتے۔ اِس طرح اُن کے لیے کس قدر آسانی تھی۔ اِسی طرح یہود کی زبان عبرانی تھی اور اُن میں جو انبیاء آئے وہ عبرانی میں باتیں کرتے تھے اور عبرانی میں ہی دین کی تعلیم دیتے تھے، اِسی زبان میں اُن کی مقدس کتابیں تھیں۔ مگر اِس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایک نیا طریق جاری کیا اور وہ یہ کہ عرب میں ایک ایسا نبی بھیجا جو ساری دنیا کے لیے تھا اور دنیا کی ساری زبانیں بولنے والے لوگوں کے لیے تھا۔ عرب اس کے پہلے مخاطب تھے اور عربوں نے خدا تعالیٰ کے اس انعام اور فضل کی جو قدر کی اور اس کے لیے جس قدر قربانیاں کیں کسی اَور قوم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔مگر 50، 60 سال سے زیادہ عرصہ تک عربوں کے پاس حکومت نہ رہی۔ بنو امیہ کی سوسال تک حکومت رہی۔ وہ خالص عرب تھے اور عربوں کی پرورش بھی کرتے رہے مگر انہوں نے عرب کو چھوڑ کر اپنا مرکز دمشق کو بنالیا۔ بنوعباس بھی عرب تھے مگر انہوں نے مرکز کے طور پر بغداد کو چُنا اور اُن پر عجمی اثر اتنا غالب تھا کہ عرب سے اُن کا تعلق نہ رہا۔ انہوں نے اکثر اپنے وزراء اور جرنیل بھی عجمی مقرر کیے۔ غرض جہاں تک قومی حکومت کا تعلق ہے عربوں کا اِس قدر جلدی تنزّل ہوا کہ شاید ہی کسی اَور قوم کا ہوا ہو۔ جہاں نہایت قلیل عرصہ میں عربوں کی ترقی کی مثال نہیں ملتی وہاں اتنے قلیل عرصہ میں ان کے تنزّل کی بھی مثال نہیں ملتی۔ جب یہ قوم اٹھی تو چند ہی سال میں ساری دنیا پر چھا گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کے ساڑھے پچیس سال کے عرصہ میں عربوں نے ساری دنیا کو روند ڈالا۔ مگر پھر 12،14 سال کے اندر اندر بحیثیت عرب ختم ہوگئے۔ بلکہ جس دن دمشق میں حکومت چلی گئی اُسی دن ملکِ عرب بحیثیت حکومت ختم ہوگیا۔ حضرت علیؓ اور بنوامیہ کے زمانہ میں بھی عربوں کا اثر تھا مگر اسے ملکِ عرب کا اثر نہیں کہا جاسکتا تھا۔ گویا عربوں نے 25 سال کے عرصہ میں جو کچھ فتح کیا تھا اُسے 12،13 سال میں کھودیا گیا۔ شام کا ملک تھا جہاں مسلمان بادشاہ تھے مگر ان کا عرب مرکز نہ تھا۔ مختلف ممالک پر اس خاندان کی حکومت 98 سال کے قریب بنتی ہے۔ اگر اس خاندان کی حکومت کو عرب کی قومی حکومت بھی قرار دے دیا جائے اور اِس کے زمانۂ حکومت سے 25 سال کامیابی اور ترقی کے نکال دیے جائیں تو گویا 73 سال کے عرصہ میں مسلمان بالکل ملیامیٹ ہوگئے۔
پھر جہاں تک عربی تمدن کا تعلق تھا وہ بھی بہت جلد ختم ہوگیا۔ بنوعباس عرب تھے مگر عرب بحیثیت قوم ان کی ترقی کے اثرات سے محروم تھے۔ عربوں نے سپین میں بڑی ترقی کی مگر اس کا اثر بھی عربوں پر نہ پڑا۔ عرب جو سپین میں جاتا وہ ذاتی طور پر فائدہ اٹھا تا مگر عرب کا ملک محروم تھا۔
اب خدا تعالیٰ نے عرب کو اسلام کے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے نہ چُنا بلکہ ہندوستان کو منتخب کیا کیونکہ عرب نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چُنا اور مرگیا اُسی طرح جس طرح ایک ماں بچہ جننے کے بعد مرجائے تو دوسری شادی کی جاتی ہے۔ اب خدا تعالیٰ نے ہندوستان کو چُنا اور ہندوستان اِس بات کا حق دار تھا کہ اسے چُنا جاتا۔ کیونکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہندوستان ہی اِس زمانہ میں تمام معروف مذاہب کی جولانگاہ ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ہندوستانیوں کے لیے عربی پڑھنا اور سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا اہلِ زبان کے لیے ہے۔ اِس وجہ سے بعض مشکلات ہیں۔ عوام الناس کا جہاں تک تعلق ہے اور جتھا بندی کا جہاں تک سوال ہے ایسی اصلاح اُسی وقت ہوسکتی ہے جب قوم میں عام علم ہو۔ اور ساری کی ساری قوم میں علم پیدا کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس کے لیے بڑی جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کا تمدن، ہندوستان کی زبان اور ہندوستان کا علم چونکہ بالکل الگ ہے اس لیے سب کچھ نئے سرے سے سکھانا اور پڑھانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے جہاں یہ کام بہت بڑا اور بہت مشکل ہے وہاں عربی نہ جاننے کی وجہ سے بعض لوگوں کو کئی رنگ میں ٹھوکریں بھی لگ جاتی ہیں اور اسی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے لمبے عرصہ میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ درحقیقت مامور اور نبی ایک ہی ہوتا ہے۔ پیغامی اِسی بات سے ٹھوکر کھاگئے۔ انہوں نے مامور اور نبی کو الگ الگ سمجھ لیا۔ حالانکہ نبی اور مامور ایک ہی ہوتا ہے۔ جسے خدا تعالیٰ امر دے کر لوگوں کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے وہی نبی، وہی رسول اور وہی مامور ہوتا ہے۔ ان میں فرق کرنے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ جاتا ہے۔ اور مَیں دیکھتا ہوں عجیب لطیفہ یہ ہے کہ یہ بات نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسے لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم مامور ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نبوت کا دروازہ بند سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مامور اور نبی ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص نبی ہو مگر مامور نہ ہو۔ یا نبی نہ ہو اور مامور ہو۔ جسے خدا تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کے لیے حکم دے کر کھڑا کرتا ہے وہی مامور ہوتا ہے اور اُسی کو نبی کہا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ جب ایک بندہ کو یہ حکم دے کر بھیجتا ہے کہ جاؤ جاکر لوگوں سے میرے احکام منواؤ تو لوگوں کے لیے بھی اُس کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے ہماری طرف سے کہتا ہے۔تمہارا فرض ہے کہ اسے مانو۔ مگر کتنا تعجب ہےاِس عقیدہ پر کہ گویا خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے یہ تو کہتا ہے کہ تم میر ی طرف سےمامور ہو اور تمہارا کام یہ ہے کہ لوگوں سے جاکر میرے احکام منواؤ۔ مگر لوگوں کے متعلق اُس کا یہ فیصلہ ہے کہ تم اسے مانو یا نہ مانو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ یہ کتنی صاف اور واضح بات ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی ایسا نہیں کرسکتا۔ مگر عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے کئی لوگ اِس بات کے سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ یعنی جسے مامور قرار دیتے ہیں اُس کے متعلق خیال کرلیتے ہیں کہ اُس کا نبی اور رسول ہونا ضروری نہیں ہے اور اُس کی بات کا ماننا سب پر فرض نہیں ہے۔ حالانکہ کوئی نبی لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کوئی خبر دے گا کس طرح، جب تک کہ خدا تعالیٰ اُسے بھیجے گا نہیں۔ اور جب وہ خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوگا تو رسول بھی ہوگا۔ پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو رسول بنا کر بھیجے اور وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی خبر نہ پہنچائے اور چُپ چاپ گھر میں بیٹھ رہے۔ وہ نبی کیسا۔ وہ تو جہنمی ہوگا۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لیے مامور ہونے والا جب خدا تعالیٰ کےسامنے کان سے کام لیتا ہے تو رسول ہوتا ہے، جب خدا کی بات پہنچانے کے لیے بندوں کے پاس بھیجا جاتا ہے اور زبان سے کام لیتا ہے تو نبی ہوتا ہے۔ گویا کان کے لحاظ سے رسول ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بات زبان کے ذریعہ پہنچانے کے لحاظ سے نبی۔ اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک بندہ خدا تعالیٰ کی بات کان سے سُنے مگر لوگوں کے سامنے اُس کی زبان نہ چلے۔ جسے خدا تعالیٰ نبی بناتا ہے وہ زبان بھی ضرور ہلاتا ہے۔ ورنہ جو یہ دعوٰی کرے کہ مجھے خدا نے لوگوں کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے مگر لوگوں کو خدا کی بات نہ پہنچائے وہ مفتری ہوگا نبی نہ ہوگا۔ یہ ساری مشکلیں عربی زبان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
اِسی طرح جو شخص نبوت کا دعوٰی اس بناء پر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے کہ نبی آتے رہیں گے اُس سے پوچھنا چاہیے کہ تمہاری صداقت کے دلائل کیا دیے ہیں؟ کیونکہ خدا تعالیٰ کسی کو بِلا دلیل نہیں بھجوایا کرتا۔ ایک دفعہ تیماپوری قادیان میں آیا تو مجھ سے کہنے لگا مَیں مامور ہوں آپ مجھے مانیں۔مَیں نے کہا خدا تعالیٰ نے آپ کی سچائی کی کیا دلیل پیش کی ہے کہنے لگا نشان بعد میں ظاہر ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعوٰی کے وقت کیا دلائل پیش کیے تھے مَیں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پھبتی تھی کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ہونے کا دعوٰی کریں۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے ایسا مضبوط کریکٹر دیا تھا جو سارے علاقہ میں شائع اور معروف تھا اور ہرشخص جانتا تھا کہ ممکن ہی نہیں کہ آپ نَعُوْذُ بِاللہِ جھوٹ بولتے۔ جب صبح کو آپ نے دعوٰی کیا تو چونکہ رات کو سونے تک آپ کو سارے علاقہ میں صادق یقین کیا جاتا تھا اِس لیے قوم کو تسلیم کرنا پڑا کہ آپ نے خدا پر بھی جھوٹ نہیں بولا اور جو شریف الطبع انسان تھے انہوں نے پہلے ہی آپ کو مان لیا۔ پس یہ دلیل تھی جو معجزات سے پہلے خدا تعالیٰ نے آپ کومہیا کرکے دی۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعوٰی سے قبل براہین احمدیہ جیسی کتاب تصنیف فرمائی اور اس میں اسلام کی صداقت کے متعلق جو دلائل پیش فرمائے وہ اِتنے شاندار اور اِتنے بے مثل تھے کہ تقوٰی رکھنے والے انسان انہیں دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ دلائل کوئی ایسا انسان نہیں لکھ سکتا جو مفتری ہو۔ یہ تو ایسا ہی انسان لکھ سکتا ہے جو اسلام کو دوسرے تمام مذاہب پر غالب کرنے والا، اسلام کو زندہ اور زبردست دین ثابت کرنے والا ہو۔ کیونکہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک جھوٹے اور مفتری سے ایسا کام لے۔ مَیں نے کہا یہی بات دیکھ کر مولوی نورالدین صاحب اور دوسرے مخلص لوگوں نے آپؑ کو صادق مان لیا اور پھر اور لوگ مانتے چلے گئے۔ کہنے لگا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ مَیں نے کہا براہین احمدیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھنی شروع کی تھی نامکمل رہ گئی ہے اسے پورا کردو۔ اگر ایسا کردو تو مَیں تمہاری بیعت کرلوں گا۔ مگر اِس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔
تو جن کے سپرد خدا تعالیٰ کوئی کام کرے وہ مامور ہوں یا غیر مامور، اُن کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایسا مصلح یا تو پہلے نبی کے کام کو مکمل کرنے کے لیے آتا ہے۔ اُس وقت نئے دین کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اُس دین کے قبول کرنے والوں میں قوتِ عملیہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جو کام جاری ہوتے ہیں اُنہیں مکمل کرنا اُس مصلح کا کام ہوتا ہے۔ جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام آئے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد حضرت یوشعؑ آئے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ مَیں ان کے کام کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس صورت میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ایسے مصلح نے وہ کام پورا کردیا یا نہیں۔ اگر کردیا تو اُس کے آنے کا مقصد حل ہوگیا اور اُس کے آنے کی غرض پوری ہوگئی۔ دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ مصلح اور مامور نئی شریعت لاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پسرِ موعود اور مصلح موعود کے متعلق جو پیشگوئی کی وہ اپنے دعوٰی کی صداقت کے ثبوت کے لیے کی۔ جب ہوشیار پور میں آپ نے دعا کی تو یہی کی کہ الٰہی! مَیں جو دعوٰٰی صداقت ِاسلام اور برتری کا دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں لوگ اسے نہیں مانتے۔ ا ے خدا! تُو دنیا کو میری صداقت کا کوئی زندہ نشان دکھا۔ اِس دعا کی قبولیت میں آپ کو پسر ِموعود کا نشان دیا گیا۔ اب پسرِ موعود کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوٰی کی تکمیل کے لیے ہے اِس سے علیحدہ کوئی چیز نہیں اور کوئی نیا دعوٰی نہیں ہے۔ لیکن دوسری قسم کا مدعی اُس وقت مبعوث کیاجاتا ہے جب قوم میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ پسرِ موعود نے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت پیش کرنی اور آپ کے مقاصد کی تکمیل کرنی ہے۔ اِس لیے اِس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ جماعت میں کسی خرابی کی تلاش کی جائے۔ جہاں تک اس کے نام مصلح موعود کا تعلق ہے وہ غیر احمدیوں کے لیے ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مصلح موعود اُن کے اِس خیال کو غلط ثابت کرے گا اور سلسلہ کو پہلے سے بہت زیادہ طاقت، شوکت اور وسعت دے گا اور ان لوگوں کی اصلاح کرکے انہیں احمدیت میں داخل کرے گا۔ گویا وہ اِس طرح کا مصلح موعود نہ ہوگا جو کسی جماعت کے بگڑجانے کے بعد اُس کی اصلاح کے لیے آتا ہے۔ کیونکہ اِس قدر قریب نبی کے بعد اُس کی جماعت نہیں بِگڑا کرتی۔ اگر اِس قدر جلدی نبیوں کی جماعتیں بِگڑ جائیں تو دوسروں کو مومن کون بنائے۔ ہر نبی اپنے بعد ایک مومن جماعت چھوڑ کر جاتا ہے جو اُس کے کام کو جاری رکھتی ہے اور ایک عرصہ تک صداقت پر قائم رہتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اِدھر نبی فوت ہو اور اُدھر اُس کی جماعت مرتد ہوجائے۔ اگر کوئی جماعت کسی مدعی کی وفات کے معاً بعد مرتد ہوجاتی ہے تو وہ خدا کی جماعت نہیں ہوسکتی اور نہ اُس کا بانی خدا کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ نبی کی جماعت ایک عرصہ تک صداقت پر قائم رہتی ہے اور ترقی کرتی ہے۔ پھر اُس میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور وہ اصلاح کی محتاج ہوجاتی ہے۔ اِس سے نبی کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ لیکن اگر اُس کی جماعت ابتدا میں ہی بگڑ جائے اور صداقت سے روگرداں ہوجائے تو اُس سے اس کی صداقت قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر گٹھل سے پودا نکلے جو سال دو سال کے بعد جل جائے تو اُس کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اپنی عمر کو پہنچ کر ختم ہوا۔ لیکن اگر وہ بڑھا، پھولا اور اس نے پھل دیا اور پھر سُوکھ گیا تو اِس کے کامیاب ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔ اِسی طرح وہ جماعت جس میں کوئی نبی آئے اُس کی نسلیں چلیں اور ٹھیک و درست راستہ پر چلیں، پھل دیں اور بعد میں گندی ہوجائیں تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ہوگی۔ ایک عرصہ کے بعد ہر ایک جماعت ایسی ہوہی جاتی ہے۔ اِس وجہ سے کسی جماعت کو ناکام نہیں کہیں گے۔ لیکن اگر جماعت کی وہ اکثریت جو نبی کے ہاتھ پر جمع ہوئی ہو اپنی زندگی میں تباہ ہوجائے اور گمراہی کے گڑھے میں جاگرے اور اصل تعلیم پر قائم نہ رہے تو ایسا مامور جھوٹا ثابت ہوگا۔ غرض جماعت احمدیہ میں تو مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن اور آپ کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے آیا ہے۔ اب چاہے خدا تعالیٰ اسے اتنی کامیابی اور اتنی عظمت دے کہ دنیا کے کناروں تک اسلام پھیل جائے اور ایمان زمین سے عرش تک پہنچ جائے۔ جماعت چلے گی اُدھر ہی جدھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلایا ہے اور اُسی تعلیم پر عمل کرے گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے۔ اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہونے میں تباہی و بربادی ہے اور ایسے لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہوسکتا۔ اِسی بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے جتنے مدعی کھڑے ہوتے ہیں وہ کوئی اَور راہ اختیار کرکے کہتے ہیں کہ ہم جماعت کی اصلاح کرنے کے لیے آئے ہیں۔ دراصل انہوں نے اصل حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ بلکہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں مصلح دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مصلح جو نبی کے بعد اِس لیے آتا ہے کہ اُس کے کام کو جاری رکھے اور اُسے وسعت دے۔ جیسے حضرت سلیمانؑ حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد اور یوشعؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے۔ اُس وقت بنی اسرائیل میں کوئی خرابی نہ پیدا ہوگئی تھی بلکہ اِس لیے آئے تھے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے جو تعلیم دی تھی اُسے پھیلائیں اور ترقی دیں۔ اُس وقت یہودی اپنی غلطی سے تائب ہوچکےتھے۔ حضرت یوشعؑ نے آکر اُنہیں بُت پرستی کے گڑھے سے نہیں نکالا۔ بُت پرستی سے تو وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے وقت میں ہی نکل چکے تھے۔ حضرت یوشعؑ نے یہی کہا کہ مَیں موسٰیؑ کا شروع کیا ہوا تسلسل قائم رکھنے کے لیے آیا ہوں۔ اِسی طرح مصلح موعود کا جماعت احمدیہ میں آنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہے اور اُسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے آیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔ نہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو جماعت قائم فرمائی ہے وہ بِگڑ چکی ہے اور اس کی اصلاح کے لیے آیا ہے۔ دوسری قسم کا مصلح اُس وقت آتا ہے جب قوم کی قوم بگڑ جاتی ہے اور اصل دین کھو بیٹھتی ہے۔ دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں پیش فرمائیں جو اسلام نےپیش کی ہیں۔ لیکن مسلمان چونکہ بگڑ چکے تھے،اسلام کی اصل تعلیم فراموش کرچکے تھے اور سراسر غلط عقائد پر قائم تھے اِس لیے غیر احمدیوں نے یہ سمجھا کہ آپؑ نے ہر بات نئی اور خود ساختہ پیش کی ہے۔ لیکن میرے وقت میں جماعت کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت وہی باتیں مانتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور وہی کہتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل تعلیم پر قائم ہے۔
غرض ہمارے راستہ میں بہت سی دقتیں ہیں۔ بعض لوگ یہ تو مان لیتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے تھے لیکن یہ مان لینے سے اُن کی دَوڑ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ مسائل تک ہی ہوتی ہے۔ چونکہ ہماری دینی زبان عربی ہے اور وہ عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں اس لیے دین کے مغز تک نہیں پہنچتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی ایک آدھ رؤیا ہوگیا تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کہ ہم پر وحی نازل ہوتی ہے اور ہم مامور ہیں۔ پھر اس کے ساتھ جب اُسے خیال آتا ہے کہ دعوٰی تو کردیا مگر کام کچھ ہے نہیں۔ لوگ متوجہ کیونکر ہوں گے۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی توکہہ دیتا ہے کہ میں محمدی مقام پر فائز ہوا ہوں اور کوئی اِس سے بھی بڑا مقام اپنے لیے تجویز کرلیتا ہے۔ دراصل وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آگے بڑھ جانے کے لیے اِس قسم کی حرکات کرتے ہیں اور اصل چیز کو نہیں دیکھتے۔ ایسے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر تو وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کی اور اس کی رو سے اُن کے لیے کسی قسم کے دعوٰی کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ تو وہ خیال کرتے ہیں کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جُدا نہ ہوں گے اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔ کیونکہ لوگ پوچھیں گے کہ جب باتیں وہی ہیں تو آپ کے تشریف لانے کی کیا ضرور ت تھی اور اس طرح اپنا اڈہ قائم نہیں کیا جاسکے گا۔ اس لیے وہ ساتھ نہیں رہتے بلکہ الگ راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ کوئی تیماپور میں، کوئی لاہور میں اور کوئی کہیں اَور بیٹھا دعوٰی کردیتا ہے کہ مَیں مصلح موعود ہوں اور مَیں دنیا کی نجات کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ چونکہ نہ اُنہیں علمِ دین حاصل ہے اور نہ خدمتِ دین کرنے والے اور تبلیغِ اسلام میں حصہ لینے والے آدمی اُن کے پاس ہیں اِس لیے ان کے پاس ایک ہی چیز رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی بڑا سا دعوٰی کردیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ کچھ نہ کچھ تو ہے۔ حالانکہ مصلح خدا تعالیٰ نام کے لیے نہیں بھیجتا بلکہ کام لیے بھیجتا ہے۔ اور یا تو اُس کاکام وہی ہوتا ہے جو اُس سے پہلے نبی نے جاری کیا ہوتا ہے اور یاپھر پہلے نبی کی تعلیم کولوگ بُھول چکے ہوتے ہیں وہ اُس کو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ اگر تو وہ اُسی کام کو جاری رکھنے کے لیے آتا ہے تو جماعت اُس کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ تسلسل قائم رہتا ہے۔ وہ آگے آگے چلتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے چلتی ہے مگر رستہ وہی ہوتا ہے جو پہلے نبی نے بتایا ہوتا ہے۔ یا پھر مصلح کا یہ کام ہوتا ہے کہ نبی کی تعلیم میں جو بگاڑ پیدا ہوجائے اُس کو دور کرکے صحیح تعلیم اور صحیح نقشہ پیش کرے۔ مگر یہ باتیں ان دعوٰی کرنے والوں کے پاس نہیں ہوتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی اس تعلیم کی جسے بگاڑ دیا گیا تھا جو اصلاح کی ہے قرآن کریم کے ذریعہ اور الہامِ الٰہی کے ذریعہ، اِس کے ہوتے ہوئے کسی اَور اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ الہام، وحی، معجزات، ملائکہ، یومِ آخرت وغیرہ مسائل کے سمجھنے میں لوگوں کو جو غلطی لگی ہوئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے دور کرکے ان مسائل کو صاف کردیا ہے۔ اِسی طرح ناسخ ومنسوخ، اِحیائے موتٰی وغیرہ مسائل میں لوگوں نے جو گڑبڑ پیدا کردی تھی اُسے دور کردیا ہے۔ اب دعوٰی کرنے والے بتائیں کہ اسلام کی تعلیم میں جو خرابیاں پیدا کر دی گئی تھیں اُنہیں دُور کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی اَور مدعی کو بھیجنا تھا۔ دراصل یہ ساری خرابی دین سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ نے ایسے مدعیوں کو سچا بنایاہوتا تو اُن کو کچھ عطا بھی کرتا اور اُن پر انعام بھی نازل کرتا۔ مگر اِس قسم کی کوئی بات ان میں نہیں پائی جاتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایک شخص یہاں آیا۔ اُس کے متعلق لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ وہ الہام کا دعوٰی کرتا ہے۔ آپ نے اُسے بُلا کر پوچھا آپ کو کیا الہام ہوئے؟ اُس نے کہا یہی کہ کبھی مجھے کہا جاتا ہےتُو موسٰی ہے، کبھی کہا جاتا ہےتُو نوح ہے، کبھی کہا جاتا ہے تُو عیسٰی ہے، کبھی کہا جاتا ہے تُو ابراہیم ہے، کبھی کہا جاتا ہے تُو محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہے۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو کچھ نہ کچھ خاص کمالات دیے ہیں اگر تم کو خدا تعالیٰ نے فیِ الْواقع موسٰی، عیسٰی، نوح، ابراہیم اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) قرار دیا ہے تو کیا اُن کے کمالات بھی دیے ہیں؟کیا جب تمہیں نوح کہا جاتا ہے تو نوح کی طرح کشتی بھی عطا کرتا ہے؟ جب موسٰی کہتا ہے تو کیا یدِبیضاء بھی اُس نے عطا کیا ہے؟ جب ابراہیم کہتا ہے تو کیا احیائے موتٰی کا معجزہ بھی دکھاتا ہے؟ یا جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جومکمل اور کامل کتاب نازل کی اُس کے معارف اور باریکیاں بھی سمجھاتا ہے؟ کہنے لگا کہتا تو ہے کہ تُو محمد ہے، تُو ابراہیم ہے، تُو موسٰی ہے، تُو نوح ہے مگر دیتا کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر آپ کو سمجھنا چاہیے کہ شیطان آپ کو دھوکا دے رہا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ جب کسی کو کوئی منصب دیتا ہے تو اُس منصب کے مطابق انعامات بھی نازل کرتا ہے۔ وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔ پس مصلح یا تو وہ ہوگا جو پہلے نبی کے تسلسل کو جاری رکھنے والا ہوگا یا نئی شریعت یا شریعت کی نئی تفسیر لانے والا ہوگا۔ اگر وہ صاحبِ شریعت ہونے کا مدعی ہوگا تو اُسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پہلی شریعت میں یہ یہ بگاڑ پیدا ہوگیا تھا اور اُس کی مَیں نے یہ اصلاح کی ہے۔
جب مَیں ولایت گیا تو مجھے ایک عورت ملنے کے لیے آئی جو بہائی تھی۔ مَیں نے اُسے کہا بہاء اللہ جو شریعت پیش کرتا ہے اُس کی ضرورت ہی کیا ہے۔قرآن کریم ہر دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ کوئی ضرورت ایسی ہے جسے قرآن کریم پورا نہیں کرتا یا اُس میں کوئی نقص ہے جسے بہاء اللہ نے آکر دُور کردیا ہے تو مَیں مان لوں گا۔ کہنے لگی قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ یہ قابلِ اصلاح بات ہے اور بہاء اللہ نے ایک ہی شادی جائز قرار دی ہے۔ مَیں نے کہا دلیل تو نہایت ناقص ہے۔ کیونکہ خاتمِ شریعت، نبی کی ایک خرابی کے دور کرنے کے لیے نہیں آیا کرتے۔ لیکن اگر یہ بات درست ثابت ہو تو چلو مَیں پھر بھی مان لوں گا مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اس انگریز عورت نے اس کا بشدّت انکار کیا۔ لیکن آخر جب مَیں نے اُسے مجبور کیا کہ اپنے ساتھ کی عورت سے جو ایرانن تھی اور چھ ماہ کے قریب مرزا عباس علی کے پاس رہ آئی تھی، اِس بارہ میں پوچھے تو اول تو اُس ایرانن عورت نے جو خود بھی پکی بہائی تھی جواب دینے سے انکار کیا لیکن آخر مجبور کرنے پرکہا دو شادیوں کا ذکر تو آتا ہے مگر بہاء اللہ نے لکھا ہے کہ میرے کلام کی جو تشریح مرزا عباس علی کریں وہی درست ہوسکتی ہے اور انہوں نے یہی تشریح کی ہے کہ ایک ہی شادی کرنی چاہیے اِس پر اُس انگریز عورت نے کہا کہ دیکھیے بات حل ہوگئی۔ مَیں نے کہا اول تو یہ غلط ہے کہ دو کا مطلب ایک ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر یہی مطلب ہے تو پھر اِس سے پوچھو کہ کیا وجہ ہے کہ بہاء اللہ نے خود بھی دو شادیاں کیں۔ اِس سوال پر اُس ایرانن عورت نے پھر عذر معذرت شروع کی۔ مگر آخر کہنے لگی ہاں! دو شادیاں کی تھیں۔ مگر دعوٰی کے بعد ایک بیوی کو انہوں نے بہن قرار دے دیا تھا۔اِس پر پھر اُس انگریز عورت نے خوشی کا اظہار کیا۔ لیکن مَیں نے کہا تمہارا عقیدہ ہے کہ امام کو دعوٰی سے پہلے بھی ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ اگر بہاء اللہ کو یہ علم تھا کہ مجھے بیوی کو بہن قرار دینا پڑے گا تو انہوں نے دوسری شادی کیوں کی؟ مگر وہ انگریز مُصِر رہی کہ بس! یہ جواب کافی ہے۔ اِس پر مَیں نے اُسے کہا کہ اپنی بہائی بہن سے جو ایرانن ہے پوچھو کہ کیا اس بہن کے بطن سے بہاء اللہ کے ہاں اولاد بھی ہوئی تھی یا نہیں؟ اِس پر وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دینے لگ گئے ہیں۔ مَیں نے کہا یہ گالیاں نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ تم اِس بہائی بہن سے پوچھو کہ کیا دعوٰی کے بعد بہاء اللہ کے ہاں اس دوسری عورت سے اولاد ہوئی یا نہیں؟ اِس دفعہ اُس ایرانن نے دیر تک جواب دینے سے انکار کیا۔ مگر آخرتسلیم کر لیا کہ دوسری بیوی سے دعوٰی کے بعد بھی ان کے ہاں اولاد ہوئی تھی۔ جس پر وہ انگریز عورت غصہ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ مَیں نے کہا بہاء اللہ کو ہم اِسی صورت میں مان سکتے تھے کہ قرآن کریم کے ساتھ ہماری دینی ضروریات پوری نہ ہوسکتیں اور بہاء اللہ وہ ضرورت پوری کردیتے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے اور اُدھر کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے جسے اسلامی شریعت پوری نہ کرسکے تو پھر ان کو ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پس اگر کوئی مدعی پہلے نبی کے قائم کردہ امور کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے آتا ہے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ اُس تسلسل کو قائم رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر اُن کاموں کو پورا کرتا ہے اور اُس کی جماعت کو ساتھ لے کر اُسے ترقی کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اُسے مان لیں گے۔ لیکن اگر وہ نیا دعوٰی پیش کرتا ہے اور نیارستہ اختیار کرتا ہے تو ہم اُس سے پوچھیں گے کہ وہ کیا نئی چیز ہے جو تم خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے ہو اور جو پہلے موجود نہ تھی۔ یعنی جو پچھلا نبی آیا اُس کے ذریعہ لوگوں کو نہ ملی۔ یہ دونوں باتیں ضروری طور پر ایسے نکمّے وجودوں کی حقیقت ظاہر کردیتی ہیں اور کوئی سمجھدار انسان ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ مگر ساری دقتیں دینی علم نہ ہونے اور عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ جب کبھی پدبھیڑے1 کی طرح ایسے لوگ کھڑے ہوتے ہیں تو کچھ بیوقوف انہیں ایسے مل جاتے ہیں جو اُن کو کھمب سمجھ لیتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جو جُھوٹے مدعی کھڑے ہوئے تھے وہ کچھ نہ کچھ تعلیمیں بھی پیش کرتے تھے۔ خواہ وہ تعلیمیں کیسی ہی بے ہودہ ہوتی تھیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دعوٰی پیش کرنے کے بعد اِس بات کا مطالبہ ہوگا کہ تم لائے کیا ہو۔ لیکن آجکل مصیبت یہ ہے کہ نہ تو نئی شریعت لانے کا دعوٰی کیا جاتا ہے، نہ پرانی شریعت کی تفصیلات پر نئی روشنی ڈالنے کا جس کے بغیر ایمان اور عمل لوگوں کا ناقص تھا۔ نہ سابقہ نبی کی تعلیم کا تسلسل قائم رکھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا نے ہمارا یہ نام رکھ دیا ہے۔ اِس پر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے نام کے ڈر کی وجہ سے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ غور کے قابل بات ہے حالانکہ وہ بات قابلِ غور نہیں ہوتی بلکہ ان لوگوں کی حالت قابلِ غور ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اِتنا بھی نہیں جانتے کہ اِس وقت خدا تعالیٰ نے اِس قسم کا مدعی کیوں بھیجا ہے اور اِس کی ضرورت کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سینکڑوں اور ہزاروں مسائل میں اِتنی اصلاح کی کہ عام لوگ کہنے لگ گئے کہ آپ کوئی نیا دین لائے ہیں۔ حالانکہ آپ کوئی نیا دین نہیں لائے تھے۔ بلکہ لوگ اصل دین کی سب باتیں چونکہ بُھول چکے تھے یا اُن کو بگاڑچکے تھے۔ اِس لیے جب وہی باتیں اصل صورت میں اُن کے سامنے پیش کی گئیں تو وہ اُنہیں نئی سمجھنے لگ گئے۔ لیکن جُوں جُوں اُنہیں معلوم ہورہا ہے کہ آپ نے اصلاح کرکے جو تعلیم پیش فرمائی ہے وہی اصل دین ہے تو اسے مانتے جارہے ہیں۔ مثلاً حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کا اقرار بڑے بڑے علماء کررہے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے نئے نئے معارف بیان کیے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ جو تفسیریں لکھی جاچکی ہیں اُن سے باہر کوئی معنی کرنا جائز نہیں۔ مگر اب دوسرے لوگ بھی یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ نئے نئے مطالب بیان کریں۔
غرض کوئی ایک اصلاح نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درجنوں اور بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں غلطیاں ہیں جو آپ نے نکالیں اور بتایا کہ اِن سے یہ یہ نقصان پہنچا ہے۔ پھر جو اصلاح فرمائی اب دنیا اُسی طرف آرہی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آپ کے آنے کی خاص ضرورت تھی اور ایک عظیم الشان کام تھا جو آپ کے سپرد کیا گیا۔ مگر اب دعوٰی کرنے والے صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم پر یہ تجلی ہوئی اور یہ الہام ہوا ہے، کرکے کچھ نہیں دکھاتے اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے سپرد اصلاح کا کیا کام کیا گیا ہے۔ یہ علمِ عربی نہ جاننے اور دین کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اور اِسی وجہ سے ایسے مدعیوں کو کچھ ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو اُن کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد عربوں میں بھی کئی مدعی کھڑے ہوگئے تھے۔ گو وہ جھوٹے تھے مگر کچھ نہ کچھ ثبوت تو اپنے دعوے کے متعلق پیش کرتے تھے۔ گو وہ کیسا ہی بیہودہ ہوتا تھا۔ یہ تو نہ کہتے کہ ہم مامور ہیں، ہم پر خدا کی کامل تجلی ہوئی ہے مگر اِس کا ہم کوئی ثبوت نہیں دیتے۔ کچھ اَور نہیں تو وہ یہی کہہ دیتے کہ ہمارے دعوٰی کا ثبوت یہ ہے کہ ہم دومن لکڑیاں پھاڑ سکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں ایک شخص محمد بخش ہوتا تھا۔ تھی تو یہ لغو ہی بات مگر مناسبت کی وجہ سے اِس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکے نے اُسے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو غَیر زبانوں میں بھی الہام ہوتے تھے تم جو دعوٰی کرتے ہو کیا تمہیں بھی ایسے الہام ہوتے ہیں؟ اُس نے کہا ہاں! مجھے بھی انگریزی میں یہ الہام ہوا ہے کہ "آئی وٹ وٹ"۔ لڑکے نے کہا۔ یہ تو کسی زبان کا کوئی بامعنی فقرہ نہیں۔ کہنے لگا یہ خدا کی انگریزی ہے تمہاری انگریزی نہیں۔ یہ کیسی لغو بات تھی مگر دعوٰی کی مناسبت کے لحاظ سے اُس نے دلیل تو دی۔مگر مصلح موعود ہونے کا دعوٰی کرنے والوں کی یہ دلیل تو اِتنی بھی مناسبت نہیں رکھتی کہ چونکہ جماعت بگڑ گئی ہے اِس لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں اور جماعت کے بگڑنے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں نہیں مانتی۔ یہ بھی جماعت کے بگڑنے کا کوئی ثبوت ہے؟ کوئی نہ کوئی عقائد کی خرابی یا تعلیمات کی خرابی پیدا ہوتی ہے تب خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح کے لیے مامور بھیجتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی اور نہ تنزل کے کوئی آثار ہیں جن سے یہ سمجھاجائے کہ جماعت گِرنے لگی ہے۔ غرض ان کے دعوٰی اور دلیل میں کوئی بھی مناسبت نظر نہیں آتی۔ مگر محض اِس لیے انہیں قرآن اور حدیث نہیں آتی ایسا دعوٰی کردیں گے اور درجندو درجن بیوقوف اُن کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ اِس قسم کی خرابیوں کا علاج یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت میں زیادہ سے زیادہ عربی تعلیم جاری کریں، عربی تمدن جاری کریں تاکہ لوگ اِس قسم کا دھوکا نہ کھائیں جو بِالبداہت دھوکا ہو"۔
(الفضل5؍جولائی1944ء)


23
اَلْاِنْذَار
(فرمودہ 16جون 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"دلوں کا فتح کرنا اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔اول تو لوگ اپنی عقل سے کام لینے کے عادی ہی نہیں ہوتے۔رسم و رواج کی ظلمت اُن کے دلوں پر چھائی ہوتی ہے اور اس پردے کو چاک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے رسم ورواج کے مقابلہ میں خدا اور رسول کے احکام کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ مسلمانوں سے گورنمنٹ نے پوچھا کہ تم شریعت کے پابند ہونا چاہتے ہو یا رسم و رواج کے؟ تم قرآن کی حکومت اپنے اوپر جاری کرنا چاہتے ہو یا اپنے باپ دادا کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت چلنا چاہتے ہو؟ پنجاب کے مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی زمیندار ہیں۔ اُس وقت ایک کے بعد دوسرا مسلمان زمیندار آگے بڑھتا اور کہتا ہم قرآن کی حکومت نہیں چاہتے، اپنے باپ دادا کے قوانین پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سارے زمینداروں نے ایک زبان سے یہ اقرار کیا کہ ہمیں خدا اور رسول کی حکومت منظور نہیں، رسم و رواج کی پابندی ہمیں منظور ہے۔ یہ کتنی بڑی ظلمت ہے جو ان کے دماغوں پر چھائی ہوئی تھی۔ جب کوئی نئی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے پہلی ظلمت یہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آباء واجداد کی اقتداء کو ترک کرنا پسند نہیں کرتے۔ جیسے عنکبوت نے اپنے ارد گرد ایک جالا بُنا ہوتا ہے جس میں سے نکلنا وہ پسند نہیں کرتی اِسی طرح ان کے آباء واجداد نے ایک جالا تَن دیا ہوتا ہے جس میں سے نکل کر وہ خدا کی وسیع دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔
پھر دوسری ظلمت عادات کی ہے۔ بہت سے احکام تو رسم و رواج کے ماتحت لوگ چھوڑ دیتے ہیں جن کا اُن سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔اور جو باتیں رسم و رواج سے باہر رہ جاتی ہیں وہ عادات کے چکّر میں آجاتی ہیں۔ جیسے شادی بیاہ کا معاملہ ہے، اولاد کی تربیت کا معاملہ ہے، عورتو ں سےحُسنِ سلوک کا معاملہ ہے، کسی کے مرنے کےبعد اُس کے بعض رشتہ داروں کا ایصالِ ثواب کے عمل کا معاملہ ہے۔ یہ ساری چیزیں رسم و رواج کے ماتحت آجاتی ہیں۔ پھر اِن سے ہٹ کر جو نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل ہیں وہ عادتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچپن سے انہیں نماز اور روزے کی عادت ہی نہیں ہوتی۔ جب کوئی شخص اُن کے پاس پہنچے، انہیں دین کی تعلیم دے، انہیں خدا اور رسول کے احکام پر چلنے کے لیے کہےتو وہ کہتے ہیں بات تو ٹھیک ہے لیکن ہم نے یہ کام کبھی کیے نہیں اِس لیے ہم سے ایسا نہیں ہوسکتا۔
پھر تیسری ظلمت اکابر کا اثر ہوتا ہے۔ یعنی قوم میں جو بڑے لوگ ہوتے ہیں اُن کی باتیں عام لوگ رد نہیں کرسکتے۔ پس اگر کوئی چیز رسم و رواج کی زد میں نہیں آتی، اگر کوئی چیز عادات کی زد میں نہیں آتی تو وہ اکابر کے اثر کی زد میں آجاتی ہے۔لوگ کہتے ہیں فلا ں چودھری صاحب جب یوں کہتے ہیں، فلاں رئیس صاحب جب اِس طرح کہتے ہیں تو ہم ان کو کس طرح چھوڑ دیں۔ یہ تو عوام کا حال ہے۔ بڑوں کے لیے تیسری ظلمت جتھا بندی کی ہوتی ہے۔ جس طرح عوام کہتے ہیں ہم بڑوں کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح بڑے کہتے ہیں کہ ہم جماعت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑی محبت رکھتے تھے اور واقع میں اُنہوں نے ایسی شاندار قربانیاں دینِ اسلام کی امداد کے لیے کی ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ کس طرح وہ شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جماعت میں شامل نہیں تھا آپؐ کے لیے ہر طرح قربانیاں کرتا رہا۔ ایک دفعہ ابوطالب کی قوم کے لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا ابوطالب! ہم نے اب تک تمہاری خاطر تمہارے بھتیجے کو کچھ نہیں کہا۔ مگر اب اس کی باتیں حد سے بڑھتی جاتی ہیں۔ وہ ہمارے معبودوں کی نسبت روز بروز ایسے الفاظ استعمال کررہا ہے جن کا سُننا ہماری طاقتِ برداشت سے باہر ہے اور اب ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر اِس کی طرف سے یہی کیفیت جاری رہی تو ہم تمہارا بھی لحاظ نہیں کریں گے۔ پس یا تو زور ڈال کر اس سے ہماری باتیں منوا لو۔ ہم اَور کچھ نہیں چاہتے وہ صرف اِتنا کرے کہ ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا نہ کہے۔ اپنی تعلیم بے شک پیش کرتا رہے لیکن ہمارے معبودوں کے نقائص اور ان کی کمزوریاں بیان نہ کرے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو اے ابوطالب! ہمیں تم کو چھوڑ دینا پڑے گا۔ ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے! میری قوم کے سردار آج میرے پاس آئے تھے انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے تیری خاطر تیرے بھتیجے کو اب تک زیادہ تکلیف نہیں دی مگر اب اس کی باتیں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ وہ ہمارے معبودوں کی تنقیص کرتا ہے، وہ ان کی کمزوریاں اور نقائص بیان کرتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جس کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ پس اپنے بھتیجے کو سمجھا لو۔ ہم اس سے اَور کچھ نہیں چاہتے۔صرف اِتنا کہتے ہیں کہ وہ ہمارے معبودوں کے نقائص بیان نہ کیا کرے اَور جو کچھ چاہے کہتا رہے۔ جاتے ہوئے انہوں نے آخری دھمکی بھی دے دی ہے کہ اے ابوطالب! اگر تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ گے نہیں تو ہم تم سے بھی قطع تعلق کرلیں گے۔ مَیں نے جیسا کہ بتایاہے یہ چوتھی ظلمت بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے یا اگر چوتھی نہیں تو اکابر کے لحاظ سے اسے تیسری ظلمت سمجھ لو۔ بہرحال یہ ظلمت اکابر کے لیے بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوطالب یہ ذکر کرتے ہی رو پڑے اور کہنے لگے اے میرے بھتیجے! تُو جانتا ہے کہ قوم کا چھوڑنا کتنا گراں ہوتا ہے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا اور مَیں نے تجھ کو اِسی لیے بلایا ہے کہ تجھ سے دریافت کروں کہ آیا تُو اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ اپنے مہربان چچا کی رقت اور اُن کی پُرنم آنکھوں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ آپ نے فرمایا چچا! آپ نے مجھ پر جو مہربانیاں کی ہیں وہ میری نظر سے پوشیدہ نہیں۔ مَیں ان کا شکر گزار ہوں۔آپ میری خاطر اپنی قوم سے نہ بگاڑیں۔ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ آج سے مَیں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو چھوڑ دیا ہے۔ باقی رہا میرا فیصلہ سو خدا کی قسم! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لاکر کھڑا کردیں، تب بھی میں توحید کی تعلیم اور شرک سے نفرت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔1
یہ ایسا شاندار جواب تھا کہ ابوطالب کا دنیا دار دل بھی اِس کو برداشت نہ کرسکا اور وہ بے اختیار ہوکر بولے نہیں! اگر یہی سوال آئے گا تو تمہاری خاطر مَیں اپنی قوم کو چھوڑ دوں گا۔ تم جس طرح چاہو کہتے رہو۔ مگر یہی ابوطالب تھے کہ جب وفات کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے کہا اے چچا! اب تو کلمہ پڑھ لو تاکہ مَیں خدا کے سامنے آپ کی شفاعت کرسکوں۔ تو ابوطالب نے کہا اے میرے بھتیجے! تیرے دین کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔پَر مَیں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ 2 مرتے وقت انہوں نے اپنی قوم کی کیا لیڈری کرنی تھی چند منٹ میں ان میں اور ان کی قوم میں اتنا بڑا فاصلہ ہوجانا تھا جسے کوئی انسانی طاقت طے نہیں کرسکتی۔ مگر چند منٹ کی لیڈری بھی ابوطالب قربان نہ کرسکے۔ پس یہ تیسری ظلمت بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
چوتھی ظلمت ظلمتِ جہل ہے۔ یعنی جہالت اور ناواقفیت کی ظلمت دلوں پر چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ انسان دین کی باتوں پر غور ہی نہیں کرتا۔ نئی سے نئی باتیں اُس کے سامنے پیش کی جاتی ہیں مگر اُسے ان پر غور کرنے کی عادت ہی نہیں ہوتی۔وہ کوشش ہی نہیں کرتا کہ ان باتوں کو سمجھے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اپنا قدم بڑھائے۔ وہ ظلمتِ جہل میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہے اور دین کی باتوں کی طرف توجہ سےکام نہیں لیتا۔
پس بہت سی ظلمتیں ہیں جو بنی نوع انسان پر چھائی ہوئی ہوتی ہیں۔ مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور وہ تمام ظلمتوں کو پھاڑ کر اپنی منزلِ مقصود کو پالیتے ہیں۔ کونسا نبی دنیا میں ایسا آیا جو اپنی تعلیم کو پھیلانے میں ناکام رہا، کونسا نبی دنیامیں ایسا آیا جس نے رسم و رواج کی چادر کو پھاڑ کر نہیں رکھ دیا، کونسا نبی دنیامیں ایسا آیا جس نے عادات کی چادرکو پھاڑ کر نہیں رکھ دیا، کونسا نبی دنیامیں ایسا آیا جس نےاکابر کا رُعب خاک میں نہیں ملا دیا، کونسا نبی دنیامیں ایسا آیا جس نے جتھا بندی کا رعب لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال دیا۔ آدم سے لے کر آج تک جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں وہ اِن چاروں ظلمتوں کو دور کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہوئے اور اُن کی جماعتیں اِن ظلمتوں کو پھاڑتی ہوئیں لوگوں کے دلوں تک خدا تعالیٰ کا نور پہنچانے میں کامیاب ہوئیں اور سچے مذہب کو انہوں نے پھیلا دیا۔ پس جو کچھ آج تک ہزاروں سال سے ہوتا چلا آیا ہے ہم کس طرح مان لیں کہ وہ ہمارے لیے نہیں ہوسکتا۔ بے شک ہمارے راستہ میں رسم و رواج کا پردہ حائل ہے مگر جس طرح پہلے انبیاء کی اُمتوں نے اِس پردے کو چاک کردیا اُسی طرح ہم اگر کوشش کریں تو اس پردے کو چاک کر سکتے ہیں، بے شک ہمارے رستہ میں عادتوں کا پردہ حائل ہے لیکن جس طرح پہلے انبیاء کی امتوں نے اِس پردے کو چاک کردیااُسی طرح ہمارے لیے بھی وہ سامان مہیا ہیں کہ جن سے اِس پردہ کو چاک کرکے ہم لوگوں کے دلوں تک پہنچ سکتے ہیں، بے شک جس طرح پہلے زمانوں کے اکابر اور انبیاء کی جماعتوں کے درمیان جتھا بندی کا پردہ حائل ہوا کرتا تھا ویسا ہی ہمارے درمیان اور ہمارے مخالفوں کے درمیان حائل ہے مگر جس طرح اُنہوں نے جتھا بندی کے پردے کو چاک کردیا اور وہ صداقت کانور لے کر لوگوں کے دلوں تک پہنچ گئے اور ان کو حلقہ بگوشِ دین بنادیا اُسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔
مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں تبلیغ کی اہمیت کا وہ احساس پیدا نہیں ہوا جو اس زمانہ میں اصلاحِ نفس اور اصلاحِ عالَم کے لیے ضروری ہے۔ دو ارب دنیا میں افراد بس رہے ہیں اور اِن دو ارب لوگوں میں سے اِس وقت تک پانچ لاکھ کے قریب احمدی ہیں۔ اگر دنیا کی ایک کروڑ آبادی ہوتی تو اِس کے مقابلے میں احمدی پانچ فیصدی ہوتے۔ لیکن چونکہ دنیا کی آبادی دو ارب کے قریب ہے اِس لیے چار ہزار آدمیوں کے مقابلے میں ایک احمدی بنتا ہے۔ گویا ابھی تک کوئی نسبت ہی آپس میں نہیں اور یہ ساری منزل ابھی ہم نے طے کرنی ہے۔ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں یہ احساس پوری طرح پیدا نہیں ہوا۔ ہر دل دُکھیا نہیں، ہر دل میں اسلام کی وہ محبت پائی نہیں جاتی جو انسان کو دیوانہ اور مجنون بنا دیتی ہے۔ ہزاروں انسان ایسے ہیں جن کے باپ، جن کی مائیں، جن کے بھائی، جن کی بہنیں، جن کے چچا، جن کے بھتیجے، جن کے ماموں، جن کے بھانجے اور جن کے دوسرے کئی رشتہ دار غیر احمدی ہیں۔ وہ اُن سے ملتے جُلتے ہیں، وہ اُن سے ہر طرح کے تعلقات رکھتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اُن کو بھی احمدی بنائیں۔ بے شک وہ اِتنا کر لیتے ہیں کہ جب مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ ہمارا باپ احمدی ہوجائے، ہماری والدہ احمدی ہوجائے،ہمارا بھائی احمدی ہوجائے، ہماری بہن احمدی ہوجائے، ہمارا فلاں رشتہ دار احمدی ہوجائے۔ مگر یہ رسمی بات تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے۔ اگر واقع میں ان کے دلوں میں درد ہوتا کہ وہ کیوں ابھی تک احمدیت میں شامل نہیں ہوئے تو مَیں سمجھتا ہوں وہ کھانا پینا اپنے اوپر حرام کر لیتے اور اپنے اپنے غیر احمدی عزیزوں اوررشتہ داروں کے پاس جاکر بیٹھ جاتے اور کہتے یا ہم مرجائیں گے اور یا پھر آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے۔ہم اُس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے، ہم اُس وقت تک پانی نہیں پئیں گے جب تک آپ ہم سے کھل کر باتیں نہ کرلیں اور ہم پر یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم ایک غلط راستہ پر جارہے ہیں۔ اور یا پھر آپ نہ مان لیں کہ ہم سچائی پر ہیں اور آپ ایک غلط راستہ پر جارہے ہیں۔ ہم اُس وقت تک یہاں سے ہلیں گے نہیں جب تک اِس بات کا فیصلہ نہ ہوجائے اور جب تک ہم پھر مل کر ایک نہ ہوجائیں۔ ہمیں یہ دکھ اور درد تڑپا رہا ہے کہ ہم اَور طرف جارہے ہیں اور آپ اَور طرف جارہے ہیں۔ اب فیصلہ اِسی طرح ہوگا کہ یا آپ ہم پر ہماری غلطی ثابت کردیں یا ہم آپ پر آپ کے عقائد کی غلطی ثابت کردیتے ہیں۔ پھر جس کی بھی غلطی ثابت ہوجائے اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان لے تاکہ یہ اختلاف دُور ہو اور ہم پھر ایک دوسرے سے مل جائیں۔مَیں سمجھتا ہوں اگر اِس رنگ میں سب احمدی اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس بیٹھ جائیں اور کہیں کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یا ہم مرجائیں گے یا آپ سے ہدایت منوا کر رہیں گے تو وہی لوگ، جو تمسخر کیا کرتے ہیں، جو ہنسی اور مذاق سے کام لیا کرتے ہیں، جو گالیوں اور بدزبانیوں پر اُتر آتے ہیں سنجیدگی سے باتیں کرنے لگ جائیں گے اور چند دنوں میں ہی سچائی کوقبول کرکے اسلام اور احمدیت میں شامل ہوجائیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر سو میں سے ایک میں بھی یہ درد ہوتا، اگر سو میں سے ایک میں بھی یہ جنون ہوتا تو سو غیر احمدیوں میں سے پچاس اب تک احمدیت کو قبول کرچکے ہوتے اور ہماری جماعت کی تعداد پانچ لاکھ نہ رہتی بلکہ اب تک وہ پچاس لاکھ سے بھی متجاوز ہوچکی ہوتی۔ کیونکہ ہر آدمی کے دس، بیس، پچاس، سو رشتہ دار ہوتے ہیں اور وہ اُن کو آسانی سے تبلیغ کرسکتا ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ جماعت تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اب ہماری جماعت ہندوستان سے باہر تو زیادہ پھیلنی شروع ہوگئی ہے اور ہندوستان میں اِس کی اشاعت کم ہونی شروع ہوگئی ہے۔ چنانچہ اِس وقت دونوں کی آپس میں جو نسبت ہے وہ نہایت ڈراؤنی صورت اختیار کررہی ہے۔میرے نزدیک سارے ہندوستان میں ہماری معلومہ جماعت اب تک تین لاکھ کے قریب ہے اور ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں ہماری جماعت کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ سال دو سال کے اندر اندر بیرونی ممالک کے احمدیوں کی تعداد ہندوستان کے برابر ہوجائے گی۔ لیکن جڑ اور درخت کی یہ ایک خطرناک نسبت ہے جو دکھائی دے رہی ہے۔ جس جماعت نے مبلغین تیار کرنے ہوں، جس جماعت نے مذہب کی حفاظت کا کام سرانجام دینا ہو اُس جماعت کی بنیاد بہت زیادہ وسیع ہونی چاہیے۔
ہٹلر نے جس وقت جرمنی پر قبضہ کیا ہے اُس نے ایک کتاب لکھی جس میں اُس نے اِس امر پر بہت لمبی بحث کی ہے۔ اس کے کام خواہ ہم کتنے ہی ظالمانہ سمجھیں،اس نے اپنی کتاب میں یہ ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے کہ کوئی قوم جو حکمرانی کرنا چاہے وہ دنیا پر حکمرانی نہیں کرسکتی جب تک اُس کے ملک کی آبادی وسیع نہ ہو۔ وہ کہتا ہے عمارت بنانے کا اصول یہی ہے کہ بنیاد ہمیشہ موٹی تیار کرتے ہیں اور اُس پر عمارت بنیاد کے مقابلہ میں چھوٹی تیار ہوتی ہے۔ اگر دو فٹ کی دیوار بنانی ہو تو بنیاد تین فٹ رکھیں گے۔ اگر چار فٹ کی دیوار بنانی ہو تو بنیاد چھ فٹ رکھیں گے۔ کیونکہ اگر بنیاد وسیع نہ ہو تو وہ بوجھ کو سہار نہیں سکے گی اور جو عمارت تیار ہوگی وہ بنیاد کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے گر پڑے گی۔ اِسی طرح جس ملک کو خدا تعالیٰ صداقت اور ایمان کے لیے چُنتا ہے اُس ملک میں بھی صداقت کے پیروؤں کی بہت زیادہ تعداد ہونی چاہیے۔ شروع شروع میں تو ہندوستان میں ہماری جماعت کی تعداد زیادہ تھی اور بیرونی ممالک میں کم تھی۔ اگر ہندوستان میں پانچ دس ہزار احمدی تھے تو باہر چند سو سے زیادہ نہیں تھے اور اگر ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تو بیرونی ممالک میں پندرہ بیس ہزار تک احمدیوں کی تعداد ہوگئی۔ مگر اب ان دونوں نسبتوں میں بڑا بھاری فرق پیدا ہوتا جارہا ہے۔ جہاں تک بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تعداد کا ترقی کرنا ہے ہم اسے خدا کا فضل سمجھتےہیں۔ لیکن جہاں تک ہندوستان میں ہماری جماعت کی تعداد کا کم ہوجانا ہے یہ ایک نہایت ہی تشویش ناک امر ہے۔ بیرونی ممالک میں سے سماٹرا، جاوا اور بورنیو کی جماعتوں کو ملا کر۔ اسی طرح افغانستان کی جماعت کو (گو یہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے ہی قائم ہے) اور مشرقی افریقہ کی جماعتوں کو ملا کر، پھر فلسطین اور مصر وغیرہ کی جماعتیں ملا کر بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم مغربی افریقہ میں چلے جائیں تو وہاں بھی مختلف علاقوں میں ہزاروں احمدی پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح یورپ کے مختلف حصے ہیں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں، امریکہ کے کئی علاقے ہیں جہاں جماعتیں قائم ہیں۔ دنیا کے بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ وہاں بیس بیس، تیس تیس ہزار احمدی موجود ہیں۔ ان ساری جماعتوں کو ملا لیا جائے تو بیرونی ممالک میں دو لاکھ کے قریب احمدی بن جاتے ہیں۔ اگر بیرونی ممالک کی جماعتیں اِسی طرح بڑھتی چلی گئیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کفر پر حملہ کی ابتدا ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور ہندوستان کی مرکزیت جاتی رہے گی۔ چونکہ موجودہ زمانہ میں دین کا آغاز قادیان سے ہوا ہے اور دین کی باتیں صحیح طور پر جاننے والے قادیان کے ہی لوگ ہیں اِس لیے دینی امور کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق قادیان ہی رکھتا ہے۔مگر جب بیرونی ممالک کے احمدی تعداد میں زیادہ ہوجائیں گے تو وہ دینی امور کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جس طرح عیسائیت جب مرکز میں کمزور ہوگئی اور باہر زیادہ پھیلنی شروع ہوگئی تو اُنہوں نے عیسائیت کو اپنے رنگ میں ڈھال لیا اور بجائے توحید کے تثلیث کا عقیدہ اختیار کرلیا۔ اِسی طرح اگر مرکز میں احمدیت کمزور ہوگئی تو باہر کے لوگ دینی امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے اور چونکہ وہ احمدیت سے ناواقف ہوں گے اِس لیے وہ احمدیت کو بدل ڈالیں گے۔
پس ہماری جماعت اِس وقت ایک نہایت ہی نازک مرحلہ پر آپہنچی ہے اور ضروری ہے کہ ہم اپنے دانتوں میں زبان دباکر اور پوری طرح کمر کس کر ہندوستان میں اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے کھڑے ہوجائیں اور کوشش کریں کہ آئندہ ایک صدی تک بیرونی ممالک میں احمدیوں کی تعدادجس نسبت سے ترقی کرے اُس سے کئی گُنا بڑھ کر ہندوستان میں ہماری جماعت پھیلے۔ گویا بیرونی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ سرعت سے ہندوستان میں احمدیت پھیلنا شروع کردے۔ کیونکہ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جس کے رہنے والے اردو زبان جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو زیادہ سمجھ سکتے ہیں، جو باربار قادیان آسکتے ہیں، جو ہم سے مل کر دینی مسائل کو عمدگی سے سیکھ سکتے ہیں، جو ہماری تربیت کے زیر اثر دوسروں تک دین کی باتیں پہنچا سکتے ہیں، جن کے علماء ہماری نگرانی میں تیار ہو کر دین کی حقیقت کو اچھی سمجھ سکتے ہیں اور دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ وہی بات ہے کہ جب ہندوستان میں احمدیوں کی کثرت ہوگی تو باقی ممالک کے لوگ اگر دین سیکھنا چاہیں گے تو ہندوستان کے لوگوں سے ہی سیکھیں گے اور وہ اپنے آپ کو دینی امور میں ہندوستان کا تابع سمجھیں گے۔ لیکن اگر بیرونی ممالک میں احمدیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد کم رہی تو وہ سمجھیں گے کہ اب ہم لوگ اِس بات کا حق رکھتے ہیں کہ دین کے معاملات میں دخل دیں اور چونکہ وہ خود دینی باتوں سے پورے واقف نہ ہوں گے اِس لیے نتیجہ یہ ہوگا کہ دین بدل جائے گا اور اِس میں غلط باتیں شامل ہوجائیں گی۔
پس یہ ایک نہایت خطرناک موقع پیدا ہوگیا ہے جس سے مَیں جماعت کو ابھی سے ہوشیار کردیتا ہوں۔ مَیں نے متواتر جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں تبلیغ کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ آج مَیں پھر ان کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دیتا ہوں کہ اگر جماعت نے تبلیغ کی طرف توجہ نہ کی اور اگر ہندوستان کی جماعت اِس میدان میں بیرونی ممالک سے کئی گُنا نہ بڑھ گئی تو دین خطرناک ہاتھوں میں چلا جائے گا اور پیشتر اِس کے کہ وہ پنپے اِس پر مُرجھانے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوجائیں گے۔ کوئی عمارت جو پتلی بنیاد پر کھڑی کی جائے کبھی اونچی نہیں ہوسکتی۔ جب بھی وہ اونچی ہوگی ٹیڑھی ہوجائے گی اور جب اَور زیادہ اونچی ہوگی تو گرجائے گی۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ ہماری بنیاد چھوٹی ہے اور اوپر کی دیوار جلد جلد چوڑی ہورہی ہے۔ پس ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس بنیاد کو اَور زیادہ چوڑا کیا جائے اور پھر اِس بنیاد کو ہم چوڑا کرتے چلے جائیں تاکہ اِس پر جو بھی عمار ت تیار ہو وہ بنیاد کے مقابلہ میں چھوٹی ہو۔ اور پھر جُوں جُوں وہ عمارت اونچی ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم بنیا د کو اَور بھی وسیع کرتے چلے جائیں۔ تب احمدیت مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہوگی اور تب خدا کا دین ایک لمبے عرصہ تک محفوظ ومصئون صورت میں چلتا چلا جائے گا۔
مَیں نے بعض جماعتوں کو خصوصیت سے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور مَیں دیکھتا ہوں کہ ان میں کچھ بیداری بھی پائی جاتی ہے مگر ابھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کچھ کام بھی کرکے دکھایا ہے یا نہیں۔ مثلاً لاہور کی جماعت کو مَیں نے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ وہاں سینکڑوں کی جماعت ہے مگر تبلیغ کرنے کا صرف پچیس تیس لوگوں نے وعدہ کیا۔ اور پھر اُن پچیس تیس لوگوں کی کارگزاری کی جو پہلی رپورٹ میرے سامنے آئی اُس میں دس پندرہ کی نسبت یہ لکھا ہوا تھا کہ انہوں نے کہا، ہم نےاِس ہفتہ میں تبلیغ یہ کی ہے کہ اسلام کی ترقی کے لیے دعا کی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کا ایک ذریعہ دعا بھی ہے مگر جب تبلیغی رپورٹ پیش کی جارہی ہو تو اُس وقت یہ کہنا کہ ہم نے اِس ہفتہ صرف دعا کی ہے دین اور مذہب سے تمسخر کرنا ہے۔ گویا اوّل تو سینکڑوں کی جماعت میں سے صرف پچیس تیس آدمیوں نے اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے پیش کیا اور پھر وہ پچیس تیس جنہوں نے وعدہ کیا تھا اُن میں سے بھی اکثر میدانِ جنگ سے بھاگ گئے۔ حالانکہ لاہور کی جماعت میں سے تین چار سو بلکہ پانچ سو کے قریب ایسے آدمی نکل سکتے ہیں جو تبلیغ کریں۔ اور قادیان میں سے تو تین چار ہزار آدمی مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لیے جاسکتے ہیں۔
مَیں نے گزشتہ دنوں یہاں تبلیغ کے لیے حلقے مقرر کرنے کی ہدایت دی تھی اور میری غرض یہ تھی کہ لوگ وہاں متواتر جائیں اور تبلیغ کریں۔ مگر انہوں نے بھی تبلیغ کو ایک تمسخر کا ڈھانچہ بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ اِردگرد کے چند علاقوں میں پندرہ دن میں ایک دفعہ چالیس پچاس آدمی گئے اور انہوں نے تبلیغ کی۔ حالانکہ میرا منشاء یہ تھا کہ حلقے مقرر کرکے مختلف لوگوں کے سپرد کردیے جائیں اور اُن کا یہ فرض قرار دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کے تمام دیہات میں متواتر جائیں اورتبلیغ کریں۔ تبلیغ کے لیے ایک وسیع حلقہ میں پندرہ دن کے بعد ایک روز جانے کے کوئی معنے ہی نہیں۔ قریب کے گاؤں میں ہر دوسرے دن انسان تبلیغ کے لیے جاسکتا ہے۔ بلکہ اگر کوشش کرے تو روزانہ بھی جاسکتا ہے۔ مگر انہوں نے اتنا ہی کافی سمجھ لیا کہ پندرہ دن کے بعد ایک دن سیر کے لیے نکل گئے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کی کوئی اہمیت ہی دلوں میں باقی نہیں رہی۔ اور جب بھی کوئی کام کیا جاتا ہے معمولی سا قدم اٹھا کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا کام کرلیا۔ حالانکہ قادیان میں تین چار ہزار آدمی موجود ہیں۔ اگر ہر شخص سچا احمدی ہوتا تو اُس کے اندر ایک جنون ہونا چاہیے تھا کہ مَیں احمدیت کو پھیلاؤں۔ اور یہ جنون اِس حد تک بڑھا ہوا ہوتا کہ اگر ان میں سے کسی شخص کو روٹی کھانے کے لیے کہا جاتا تو وہ کہتا کہ میں روٹی اُس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک دین کی کچھ نہ کچھ تبلیغ نہ کرلوں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگوں کے کام مرکزی ہوتے ہیں۔ مگر یہ تو نہیں کہ جو لوگ تبلیغ کے لیے نہیں جاتے وہ سب کے سب مرکزی کاموں میں مصروف ہیں۔ اگر قادیان کے چار ہزار افراد میں سے تین ہزار نو سو پچاس دین کا مرکزی کام کر رہے ہوتے، جسے چھوڑ کر باہر جانا اُن کے لیے ناممکن ہوتا تو مَیں مان لیتا کہ وہ چالیس پچاس جو تمسخر کے طور پر پندرہ دن کے بعد ایک دفعہ بٹالہ یا امرتسر چلے جاتے ہیں۔ اُن کا پندرہ روزہ تبلیغ کے لیے باہر جانا اپنے اندر کوئی معقولیت رکھتا ہے۔ مگر مَیں تو دیکھتا ہوں کہ ان تین ہزار نو سوپچاس لوگوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو مرکز میں دین کا کوئی کام نہیں کرتے۔ وہ رات دن دنیا کے کاموں میں مصروف رہتےہیں۔ کوئی اپنی تجارت کے کام میں لگا ہوا ہے، کوئی زراعت کے کام میں لگا ہوا ہے، کوئی صنعت و حرفت کے کام میں لگا ہوا ہے دین سے ان کو کوئی مسّ ہی نہیں۔ جب حالت یہ ہے تو اُن پچاس آدمیوں نے کرنا ہی کیا ہےاور ان کا اثر ہی کیا ہوگا۔ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ پندرہ روز کے بعد ایک دن اُٹھے اور دَورہ کرنے کے لیے چلے گئے جیسے کوئی شخص سیر کرنے کے لیے چلا جاتا ہے۔ حالانکہ قادیان میں ہی اتنے احمدی موجود ہیں کہ اگر سچے طور پر ان میں اخلاص ہوتا، ان میں تقوٰی ہوتا، ان میں دین کی محبت ہوتی تووہ ہزارہا کی جماعت اب تک بڑھا چکے ہوتے۔ پھر جُوں جُوں جماعت بڑھتی چلی جاتی دائرہ تبلیغ کو بھی ہم وسیع کرسکتے تھے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اِسی طرح باہر کے لوگوں کا حال ہے۔ بعض جماعتوں پر سالہا سال گزر جاتے ہیں مگر اُن میں کوئی نیا احمدی داخل نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ تبلیغ نہیں کرتے، سُستی ان پر چھا جاتی ہے، دین ان کا کمزور ہوجاتا ہے اور مذہبی احکام پر عمل بہت کم ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ان کی نمازوں میں بھی سُستی آجاتی ہے، ان کے روزوں میں بھی سُستی آجاتی ہے، ان کی زکوٰۃ میں بھی سُستی آجاتی ہے، ان کے صدقہ و خیرات میں بھی سُستی آجاتی ہے۔ بے شک چندہ ایسی چیز ہے جس کے متعلق ہماری جماعت میں بیداری پائی جاتی ہے مگر وہ بیداری شاید اس لیے ہے کہ بیت المال کا صیغہ دعوۃ و تبلیغ سے زیادہ احساس اپنے اندر رکھتا ہے۔ ان کو فکر ہے کہ اگر چندہ پورا نہ ہوا تو سلسلہ کے کام بند ہوجائیں گے اور لوگ اعتراض کریں گے۔ لیکن دعوۃ و تبلیغ والوں کو یہ کوئی فکر نہیں کہ وہ نئے آدمی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جماعت کو بھی اَس کے متعلق کوئی احساس نہیں۔ اگر ہم نے کوئی کام نہ کیا تب بھی جماعت کوئی اعتراض نہیں کرے گی۔
بہرحال ہماری جماعت میں تبلیغ کے متعلق خطرناک طور پر سُستی پائی جاتی ہے۔ جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ابھی یہ خطرہ نمایاں نہیں ہوا کیونکہ جنگ کی وجہ سے بیرونی ممالک کی تبلیغ پر زیادہ زور نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس خطرہ سے آنکھیں بند کرلینا انتہائی طور پر نادانی اور حماقت ہے۔ میرے اعلان پر سینکڑوں لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کی ہیں اور بیسیوں مبلغ ہیں جو بیرونی ممالک کی تبلیغ کے لیے تیار ہورہے ہیں اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ ہندوستان سے باہر تبلیغ کے لیے بھجوا دیئے جائیں گے۔ اور جیسا کہ گزشتہ تجربہ بتارہا ہے جب یہ لوگ تبلیغ کے میدان میں کھڑے ہوئے تو اِنْشَاءَ اللہ ہر علاقہ میں یکدم ہزاروں لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہوجائیں گے۔باہر کے لوگوں میں ہندوستان کے لوگوں سے زیادہ بیداری پائی جاتی ہے۔ چنانچہ جس جس ملک میں ہم نے اپنے مبلغ بھجوائے ہیں وہاں ہزاروں لوگوں نے بیعت کرلی ہے۔ پس جب بیسیوں مبلغ باہر کے ممالک میں تبلیغ کے لیے بھجوائے گئے تو چند سالوں میں ہی لاکھوں لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہوجائیں گے۔ مگر یہ بات ہندوستان کے لوگوں کے لیے نہایت ہی شرمناک ہوگی اور اس صورت میں باہر کے لوگوں کی باگ سنبھالنا بھی اس کے لیے سخت مشکل کام ہوجائے گا۔ وہ لوگ کہیں گے کہ تمہارا کیا حق ہے کہ ہماری رہنمائی کرو۔ ہم تعداد میں تم سے زیادہ ہیں۔ ہم قربانیوں میں تم سے زیادہ ہیں اور تم ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ اس لیے لوگوں کی رہنمائی کا حق ہمیں حاصل ہونا چاہیے اور مرکز ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے تاکہ ہم جس طرح چاہیں دین کی اشاعت کا کام کریں۔ تب احمدیت کے لیے وہی خطرہ کی صورت پیدا ہو جائےگی جو روما میں عیسائیت کے لیے پیدا ہوئی۔ جب فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد کم ہوگئی اور اٹلی میں عیسائیت زیادہ پھیلنی شروع ہوئی تو عیسائیت کا مرکز فلسطین نہ رہا بلکہ اٹلی بن گیا۔ اور چونکہ وہ مرکزِ کفر تھا اس لیے عیسائیت کفر کے رنگ میں رنگین ہونی شروع ہوگئی۔ اِسی طرح قادیان کی نگرانی کے بغیر جو مرکز بنے گا چونکہ وہ قادیان کے مقدس ماحول کے زیر اثر نہیں ہوگا اس لیے وہ مرکز دین کے لیے تباہی کا موجب ہوگا اس کے لیے کسی خیر اور برکت کا موجب نہیں ہوگا۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو ہوشیار کردیتا ہوں کہ اسے ہندوستان کی تبلیغ کی اہمیت سمجھنی چاہیے۔ مَیں جماعت کو بتا دیتا ہوں کہ اِس وقت ہندوستان کی مرکزی حیثیت خطرے میں ہے۔ اگر جلد ہی ہندوستان کے احمدیوں نے اپنے اندر چستی اور ہوشیاری پیدا نہ کی تو قادیان جو ہمارا تبلیغ کا مرکز ہے اور ہندوستان جو اِس مرکز کا ماحول ہونے کی وجہ سے تمام دنیا میں احمدیت کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کے لیے بنیادی طور پر ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اِس میں کمزوری اور ضعف کے آثار پیدا ہونے شروع ہوجائیں گے۔ اور ایسی صورت پیدا ہوجائے گی کہ بجائے اِس کے کہ ہندوستان کے لوگ دوسروں کی اصلاح کریں اور اُنہیں دینی مسائل سکھائیں وہ اَور لوگوں کے رحم پر ہوں گے کہ وہ جس طرح چاہیں اِن سے سلوک کریں اور جس طرح چاہیں دین کو بدلتے چلے جائیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں ہندوستان دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کا محتاج قرار دیا جائے گا گو ہوگا نہیں۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ یہ میری آخری تنبیہہ جماعت کی اصلاح اور اس کی بیداری کا موجب ہوگی۔ مَیں اس کو آخری تنبیہہ اس لیے کہتا ہوں کہ وقت ایسا نازک آگیا ہے کہ چند مہینوں یا چند سالوں کے اندر اندر بیرونجات میں نہایت سرعت کے ساتھ احمدیت پھیلنے والی ہے اور جنگ کے بعد ان جماعتوں کے بڑھنے کا زبردست طور پر امکان پایا جاتا ہے۔ پس پیشتر اِس کے کہ بیرونجات کے احمدی مرکز کواپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں اور ہندوستان کے لوگوں کی راہنمائی کا حق جاتا رہے چاہیے کہ ہندوستان میں ہماری جماعت کےافراد اپنی تعداد کو موجودہ تعداد سے کئی گُنا بڑھا کر دکھا دیں اور پھر تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ کریں تاکہ ہندوستان کا حق قائم رہے اور اس کی رہنمائی پر کوئی اَور ملک قبضہ نہ کرلے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گی اور نہ صرف تعداد میں اپنے آپ کو بڑھانے کی کوشش کریں گی بلکہ تنظیم میں بھی دوسروں کے لیے نمونہ بنیں گی۔ میرا منشاء ہے کہ پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ ایک اَور سیکرٹری ایسا مقرر کروں جس کا کام ہندوستان کے لوگوں کو تبلیغ کی طرف توجہ دلانا ہو۔ اس کا یہ بھی کام ہوگا کہ وہ بیعتوں کا نقشہ تیار کرکے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اخبار میں شائع کرتا رہے تاکہ جماعتوں کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ انہوں نے تبلیغی لحاظ سے کیا جدوجہد کی ہے اور جو جماعتیں غافل اور سست ہوں وہ بھی بیدار ہونے کی کوشش کریں۔ اس طرح جو مبلغین باہر جاتے ہیں ان سے بھی کہا جائے گا کہ فلاں فلاں علاقہ میں جماعتیں کم ہیں ان علاقوں میں احمدیت کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ مَیں سمجھتا ہوں ہمیں تبلیغی نقطۂ نگاہ سے شہروں کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔ مثلاً دہلی ہے، لکھنو ہے، لاہور ہے، امرتسر ہے، پشاور ہے، راولپنڈی ہے، ملتان ہے، منٹگمری ہے کیونکہ شہروں میں تنظیم اور تربیت نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ دیہات میں تبلیغ ضروری نہیں۔ دیہات اِس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی طرف توجہ کی جائے۔ مگر گاؤں کے لوگوں میں عام طور پر ابھی ایسا ملکہ پیدا نہیں ہوا کہ وہ دوسروں کو احمدیت سکھا سکیں۔ بعض گاؤں ایسے ہیں جہاں صرف ایک دو دفعہ ہمارا کوئی مولوی گیا تو وہاں کے لوگوں نے اُس سے احمدیت کی بعض باتیں سیکھ لیں۔ اس سے زیادہ ان کو دین کا کوئی علم نہیں۔پس شہروں کی جماعتوں کو مضبوط کرکے ارد گرد کے علاقوں کے لیے تعلیمی مرکز بنائے جائیں تاکہ گاؤں والے آسانی کے ساتھ وہاں مسائلِ دین سیکھ سکیں۔ شہروں میں تعلیمی مرکز قائم کرکے چاہیے کہ گاؤں کی جماعتوں کو تحریک کی جائے کہ اپنا ایک ایک نمائندہ وہاں بھجوا دیں تا چار پانچ ماہ میں دین کے بڑے بڑے مسائل سیکھ لے اور اس طرح آہستہ آہستہ سارے علاقہ میں علمِ دین پھیل جائے۔ اور ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی شخص ایسا موجود رہے جو احمدیت کو خود بھی سمجھتا ہو اور دوسروں کو بھی سمجھا سکتا ہو۔ اسی طرح ضروری ہے کہ بیرونجات کی جماعتیں اپنا ایک ایک طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان بھی بھجوائیں۔ میرے نزدیک دعوۃ وتبلیغ والوں کو ایک سال کا کورس ایسا تیار کرنا چاہیے جو باہر سے آنے والے لوگوں کو پڑھایا جاسکے اور جس کو پڑھ کر وہ سلسلہ کے ضروری مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں۔ اس کورس کی تیاری کے بعد ہرجماعت پر یہ واجب کردیا جائے کہ جس طرح وہ چندے دیتی ہے اسی طرح ہر جماعت آئندہ اپنا ایک ایک آدمی بھی تعلیم کے لیے قادیان بھیجا کرے۔ اس کا سال بھر کا خرچ وہاں کی جماعت کو خود برداشت کرنا پڑے گا۔ جب ایک لڑکا تعلیم حاصل کرکے واپس چلا جائے تو اگلے سال جماعت دوسرا طالب علم بھجوا سکتی ہے۔ بہرحال ہر جماعت کو مجبور کیا جائے کہ جس طرح وہ روپیہ کی صورت میں چندہ دیتی ہے اِسی طرح وہ آدمیوں کی صورت میں بھی چندہ پیش کرے تاکہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو مسائلِ دینیہ سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر یہ دونوں طریق اختیار کیے جائیں تو جماعت میں ایک عظیم الشان بیداری پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن جب تک یہ انتظام نہ ہو جس جس کو جو کچھ آتا ہے اُسی کو لے کر وہ باہر نکل جائے اور لوگوں کو تبلیغ کرنا شروع کردے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے تبلیغ کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس چلا جائے اور اُن سے کہے کہ اب مَیں نے یہاں سے مرکر ہی اٹھنا ہے ورنہ یا تم مجھ کو سمجھا دو کہ مَیں غلط راستہ پر ہوں اور یا تم سمجھ جاؤ کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو۔ اِس عزم اور ارادہ سے اگر ساری جماعت کھڑی ہوجائے تو مَیں سمجھتا ہوں ابھی ایک سال بھی ختم نہیں ہوگا کہ ہماری ہندوستان کی جماعت میں صرف احمدیوں کے رشتہ داروں کے ذریعہ ہی ایک لاکھ آدمی بڑھ جائیں گے۔ سوال صرف ہمت کا ہے۔اگر لوگ ہمت کریں اور اِس ارادہ کو پورا کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں تو بہت جلد اِس کے نیک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی اس اہم ذمہ داری کو سمجھے اور اپنے اندر چُستی اور بیداری پیدا کرکے تبلیغ احمدیت کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجائے ورنہ نہایت ہی خطرناک ایام قریب آرہے ہیں۔ جیسے عذاب کی آندھی اٹھتی ہے تو دُور سے اُس کی سُرخی نظر آتی ہے جسے دیکھتے ہی دل کانپ اٹھتے ہیں اِسی طرح کی سُرخی مَیں بھی فضا میں دیکھ رہا ہوں۔ اَور وہ دن مجھے قریب آتے نظر آرہے ہیں جب ہندوستان اپنی راہنمائی کا حق کھو بیٹھے گا کیونکہ بیرونی ممالک میں احمدی زیادہ ہوجائیں گے اور ہندوستان میں کم ہوجائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اِس نہایت ہی نازک موقع پر ہماری راہنمائی کرے گا۔ مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم وقت پر بیدار ہوجائیں، مستقبل کے آثار کو پہچان لیں اور اُن کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں"۔ (الفضل6؍جولائی1944ء)


24
خدام الاحمدیہ میں
ہر احمدی نوجوان کا شامل ہونا لازمی ہے
(فرمودہ 23 جون 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کے قانون میں ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ جو چیزیں اپنی ضرورت کے زمانہ تک چلتی چلی جاتی ہیں اُن میں تناسل کا سلسلہ جاری نہیں ہوتا۔مثلاً سورج ہے۔ جب تک سورج چلے گا یہ دنیا بھی اُس کے ساتھ چلے گی۔ جب سورج فنا ہوجائے گا تو اُس کے اِردگِرد کے جو کُرّے ہیں وہ بھی فنا ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورج کے لیے تناسل کا سلسلہ جاری نہیں کیا۔ تناسل کا سلسلہ جاری کرنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس چیز کا قائم مقام پیدا ہو اور سورج کے قائم مقام کی چونکہ ضرورت نہیں اُس نے اپنے مقصد تک اپنے آپ کو لے جانا ہے اِس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے سلسلۂ تناسل جاری نہیں کیا۔ جب وہ فنا ہوجائے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح کا اَور سورج پیدا کردے گا۔ اسی سورج میں سے اَور سورج نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح پہاڑ ہیں۔ جو پہاڑ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں وہی چلے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ آج ہمالیہ نے بچہ دیا ہے یا آج ہمالیہ مرگیا۔ آج فلاں چٹان نے بچہ دیا یا آج فلاں چٹان مرگئی۔ آج لوہا دنیامیں مر گیا یا آج لوہے کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اس لیے کہ جب تک لوہے کی ضرورت ہے وہی لوہا دنیا میں کام آتا رہے گا۔ اس لیے ان چیزوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ تناسل جاری نہیں کیا۔ مگر وہ چیزیں جو اپنے قومی مقصد و مدعا کے حصول سے پہلے ختم ہوجاتی ہیں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے تناسل کا سلسلہ جاری کیا ہے۔ جب تک دنیا ہے اور انسان اس میں آباد ہیں سواری اور بوجھ اٹھانے کے لیے گھوڑوں کی ضرورت ہے، خچروں اور گدھوں کی ضرورت ہے۔ مگر یہ چیزیں مرتی ہیں۔ گھوڑے مرجاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اَور گھوڑے پیدا کر دیتا ہے۔ خچر یں مرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اَور خچریں پیدا کردیتا ہے۔ گدھے مرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اَور گدھے پیدا کر دیتا ہے۔ ان کے لیے سلسلۂ تناسل جاری ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ انسان کو اللہ نے خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔وہ مقصد کسی خاص انسان کے ساتھ وابستہ نہیں۔ کوئی ایک انسان نہیں جس کے ساتھ انسانی پیدائش کی غرض پوری ہوجاتی ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی پیدائش کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے تاجب تک اس مقصد کی تکمیل کا وقت آئے انسان دنیا میں موجود رہے اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اُس کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ مگر چونکہ انسان مرتے ہیں اس لیے ان میں سلسلۂ تناسل جاری کیا گیا ہے۔ ایک انسان مرتا ہے تو اُس کے پیچھے دو تین، چار پانچ یا کم و بیش بچے اُس کے قائم مقام موجود ہوتے ہیں۔ تو جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے انسان میں تناسل کا سلسلہ موجود ہے۔
اس کے مقابلہ میں روحانی حالت ہے۔ اس کے لیے بھی تناسل کا سلسلہ ضروری ہے کیونکہ جب تک تناسل کا سلسلہ جاری نہ ہو ایک نسل کے بعد پھر کفر و بدعت دنیا میں پھیل جائے۔ جس طرح جسمانی لحاظ سے سلسلۂ تناسل ضروری ہے اسی طرح روحانی لحاظ سے بھی ضروری ہے۔ جس طرح جسمانی نسل چلانے کے لیے مرد و عورت باہم ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتا ہے اِسی طرح روحانی نسل کے لیے مامور اور مرید یا معلّم اور متعلّم کا ملنا ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی آتا ہے اور اُس کی اُمت کے لوگ اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ اس کے حسن کو اپنے دلوں پر نقش کرلیتے ہیں اور اس کی تعلیمات کو سیکھتے ہیں۔ اور جس طرح جب ایک انسان فوت ہوتا ہے تو اُس کا حُسن اُس کے بعد بھی اُس کی اولاد میں موجود ہوتا ہے نبی اور مامور کے بعد اس کے متبعین میں اُس کا حسن منتقل ہوجاتا ہے۔ جس طرح ایک انسان کی وفات کے بعد اس کی جسمانیت اس کی اولاد میں منتقل ہوجاتی ہے اِسی طرح نبی اور مامور کی وفات کے بعد اُس کا نور اور اس کی روحانیت اس کے متبعین میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر اس کی اولاد ایسی نہیں جو رجولیت سے محروم ہو تو وہ پھر آگے ایسے لوگ جَنتی ہیں جن میں ان کا اثر موجود ہوتا ہے اور پھر وہ آگے اس سلسلہ کو چلاتے جاتے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ زمانہ آجاتا ہے جب روحانی نسل روحانی طور پر بانجھ اور نامرد پیدا ہوتی ہے اور نسل بند ہوجاتی ہے۔ مگر چونکہ جسمانی نسل بند نہیں ہوتی اور سلسلۂ تناسل جاری ہوتا ہے اِس لیے اللہ تعالیٰ ایک نیا روحانی آدم پیدا کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نئے آدم کے پیدا کیے جانے سے پچھلی اُمت کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ نیا آدم جو پیدا ہوگیا اس لیے ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔ خدا تعالیٰ اُن سے کہے گا کہ اگر مَیں نے نیا آدم پیدا کیا تو اِس لیے کہ تمہاری وجہ سے روحانی سلسلہ بند ہوگیا۔ اور اس سلسلہ کو بند کرنے کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی *** کے نیچے آجاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کے بچہ کو مار دے اور کہے کہ کیا ہوا مار دیا، ماں باپ ابھی زندہ ہیں اَور بچہ پیدا کر سکتے ہیں تو کیا اُس کے ماں باپ اُس کو چھوڑ دیں گے؟اِسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ جواب دے گا کہ مَیں نے نیا آدم تو اِس مجبوری کی وجہ سے پیدا کیا کہ پہلا سلسلہ تم نے بند کردیا۔ اگر تم اُسے جاری رکھتے تو نیا آدم پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ تو روحانی نسل کا جاری رکھنا بلکہ آئندہ نسل کو پہلی سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔
انگریزوں کی خواہ کوئی کتنی بُرائی کرے اِس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ لوگ اپنے ملک میں بھی اور یہاں بھی ہمیشہ بیج کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ بیج پہلے سے اچھے ہوں۔ ہندوستان میں پہلے گندم بہت ادنیٰ قسم کی ہوتی تھی۔دانے بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے اور جھاڑ1 بھی بہت کم ہوتا تھا۔ بے شک ایک قسم کی گندم یہاں ہوتی تھی جسے وڈانک2 کہتے تھے۔ اس کا دانہ بے شک موٹا ہوتا تھا مگر اسے بونا اور پرورش کرنا بہت مشکل تھا۔ عام طور پر جو گندم یہاں ہوتی تھی اس کےدانے چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ مگر انگریزوں نے بیجوں کو ترقی دے دے کر کئی اقسام کی اعلیٰ درجہ کی گندم پیدا کردی ہے۔ کوئی؀ 518ہے، کوئی ؀ 591 وغیرہ وغیرہ ہے اور اس طرح بڑھاتے بڑھاتے کئی قَسمیں گندم کی پیدا کرلی ہیں جن کا دانہ بھی اچھا ہوتا ہے اور جھاڑ بھی زیادہ ہوتا ہے۔اِسی طرح کپاس کا حال ہے۔ اس کے بیج کو بھی ترقی دے کر ایسی اقسام پیدا کرلی ہیں کہ دیسی روئی سے بہت اعلیٰ روئی پیدا ہونے لگی ہے جس کے ریشے بھی لمبے ہوتے ہیں اورقیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دیسی روئی اگر بارہ روپے من بکتی ہے تو وہ بائیس روپے من بکتی ہے۔ جھاڑبھی زیادہ ہوتاہے، کپڑا بھی اس سے عمدہ اور نرم تیار ہوتا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ جس قوم کو پیدا کرتا ہےاس کا فرض ہوتا ہےکہ و ہ صرف یہ نہ دیکھے کہ وہ ایمان لے آئی ہے بلکہ یہ بھی دیکھے کہ اُس کی آئندہ نسل پہلی نسل سے اچھی ہو۔ اگر پہلے لوگ آدھ گھنٹہ تہجد پڑھتےہیں تو اگلی نسل کے لوگ ایک گھنٹہ پڑھنے والے ہوں۔ ایک نسل اگرنماز کو اِس طرح پڑھتی ہے کہ پانچ نمبر ملتے ہیں تو اگلی نسل ایسی ہونی چاہیے کہ جو سات آٹھ نمبر حاصل کرنے والی ہو۔ پہلی نسل کی نسبت دوسری نسل عرفان میں زیادہ ہو۔ اگر اِس بات کا خیال رکھا جائے تو دنیا میں ہدایت پھیل سکتی ہے ورنہ اگر یہ نہ ہو تو قوم کا روحانی فیض بند ہوجائے گا۔ بچپن میں ہمیں کئی دفعہ لدھیانہ آنا جانا پڑتا تھا۔ وہاں ایک دریا ہے جسے بڈھا دریا کہتے ہیں۔ اُس کا پانی بہت کم ہے اور وہ ریت میں ہی جذب ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح جو قوم اپنی آئندہ نسل کی روحانی ترقی کا خیال نہیں کرتی اُس کا روحانی فیض بند ہوجاتا ہے۔
اِسی غرض کے لیے مَیں نے خدام الاحمدیہ کاقیام کیا تھا۔ بڑوں کا فرض ہے کہ نوجونوں کی اصلاح کریں۔ مگر مَیں نے خدام الاحمدیہ کی تحریک اس لیے جاری کی کہ اگر بڑے نوجوانوں کی اصلاح کے کام میں سُستی کریں تو نوجوان خود اس کی کوشش کریں۔ پہلے یہ صرف قادیان کے لیے ہی تھی۔ پھر قادیان میں اسے لازمی کردیا گیا اور باہر کی جماعتوں میں جو عہدیدار چالیس سال سے کم عمر کے ہوں اُن کے لیے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری قرار دے دیا گیا۔ اب تک یہ صرف تجربہ ہی تھا۔ اب اسے مستقل کیا جارہا ہے اور مَیں یہ قاعدہ بنانے والا ہوں کہ ہندوستان میں جہاں جہاں بھی جماعت ہے وہاں کے نوجوانوں کے لیے جو پندرہ سال سے زیادہ اور چالیس سال سے کم عمر کے ہوں مجلس خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا لازمی ہوگا اور ضروری ہوگا کہ وہ اس میں شامل ہوں۔ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قریب زمانہ میں اِس کا اعلان کرنے والی ہے۔ اور اس خطبہ کے ذریعہ مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو نوجوان اِس میں شامل نہ ہوگا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے آمادہ نہیں اور وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو قومی غدار قرار دیتا ہے۔ اور ہر وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو اس میں شامل کرنے میں حصہ نہ لیں گے سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو سچا مسلمان بنانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ اور ہر وہ جماعت جو اِس تحریک کو کامیاب بنانے میں حصہ نہ لے گی اور اپنے نوجوانوں کو اِس میں شامل ہونے پر مجبور نہ کرے گی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنا فرض ادا نہیں کررہی۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے قومی زندگی کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ قوم کے نوجوان پہلے سے بہتر ہوں۔ پس اس کے لیے مَیں خدام کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ذکر الٰہی، نمازوں کو پابندی اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک خدّام میں یہ باتیں پوری طرح نظر نہیں آتیں۔ نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک میں جو مجلس ہوتی ہے اُس میں بعض دفعہ کوئی ایسا سوال بھی کردیتا ہے جو عقل کے خلاف ہوتا ہے اور مَیں نے دیکھا ہے کہ اِس پر نوجوان ہنس پڑتے ہیں۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے کہ کھٹا کھٹ کی وجہ سے وہ نماز خراب کرنے لگ جاتے ہیں۔ ابھی مَیں سنتیں ہی پڑھ رہا ہوتا ہوں کہ وہ نیچے سے اوپر آنے لگ جاتے ہیں اور اِس طرح نماز خراب کرتے ہیں اور اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ اِس طرح شور کرکے نماز خراب نہ کریں۔ تنظیم کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تعلیم دی جائے اور نوجوانوں کو سمجھانا چاہیے کہ نماز بہت ضروری چیز ہے اسے وقار کے ساتھ اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اِس کی کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی ایک رکعت سُنتوں کی بھی پوری نہیں کرنے پاتے کہ وہ نماز ختم کرکے اوپر آنے لگ جاتے ہیں؟ گویا ایک رکعت ختم کرنے سے بھی پہلےوہ دونوں رکعت سنت ادا کرلیتے ہیں اور نماز فرض کی جو رکعتیں اُن کی باقی ہوتی ہیں وہ بھی پوری کر لیتے ہیں۔ نیچے عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں آکر جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور جب تک مَیں آدھی سُنتیں ادا کرتا ہوں وہ ساری نماز ختم کرکے اوپر آنا شروع کردیتے ہیں اور دوسروں کے آدھی نماز ادا کرنے تک وہ سنتیں بھی ادا کر لیتے ہیں اور فرض بھی پورے کر لیتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہ آگے جگہ حاصل کرسکیں۔ وہ نہ صرف اپنی نماز کووقار اور عمدگی کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ قریب جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں پہلے آنا چاہیے۔ نماز کو ہمیشہ آہستگی اور وقار کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اِسی طرح ذکر الٰہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نماز کے بعد 33 دفعہ تسبیح، 33 دفعہ تحمید اور 34 دفعہ تکبیر کہنی چاہیے3 اور جو لوگ نیچے سے اتنی جلدی اوپر چڑھنے لگتے ہیں وہ یہ ذکر بھی نہیں کرتے ہوں گے۔ گویا ایک تو وہ جلدی جلدی نماز ادا کرتے ہیں اور دوسرے ذکر الٰہی بھی نہیں کرتے۔اور جو لوگ مجلس میں تو آتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے اُن کے آنے کا کیا فائدہ؟ کچھ مدت ہوئی ایک خطبہ میں نمازوں کو اچھی طرح ادا کرنے کی طرف مَیں نے توجہ دلائی تھی۔ اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ دو آدمی جو کسی گاؤں کے رہنے والے معلوم ہوتے تھے نماز کو بہت اچھی طرح ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ گاؤں کے رہنے والے بھی وقار، آہستگی اور عمدگی سے نماز پڑھ رہے ہیں۔ گاؤں کے لوگ تو سن کر عمل کرنے لگے مگر کس قدر افسوس کہ قادیان کے نوجوان اِس طرف توجہ نہیں کرتے اور نماز جلدی جلدی ختم کرکے دَوڑتے ہوئے اوپر آنے لگتے ہیں اور کھٹا کھٹ کے شور سے دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں۔ صرف اِس لیے کہ مجلس میں اچھی جگہ مل سکے۔ حالانکہ اگر ان کی یہ خواہش ہے تو انہیں چاہیے کہ پہلے آئیں۔ ایک تو پیچھے آنا پھر جلدی جلدی نماز ختم کرنا، ذکر الٰہی نہ کرنا اور دوسروں کی نماز بھی خراب کرنا یہ سب روحانیت کو مارنے والی باتیں ہیں۔پھر تہجد کی عادت بھی نوجوانوں میں بہت کم ہے۔ خدا م کا فرض ہے کہ کوشش کریں سوفیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں۔ یہ ان کا اصل کام ہوگا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے تہجد کے بارے میں اَشَدُّ وَطْاً4 فرمایا ہے۔ یعنی یہ نفس کو مارنے کا بڑا کارگر حربہ ہے۔ پس خدام الاحمدیہ کو دیکھنا چاہیے کہ کتنے نوجوان باقاعدہ تہجد گزار ہیں اور کتنے بے قاعدہ ہیں۔ باقاعدہ تہجد گزار وہ سمجھے جائیں جو سوفیصدی تہجد ادا کریں۔ سوائے اس کے کہ کبھی بیمار ہوں یا رات کو کسی وجہ سے دیر سے سوئیں یا سفر سے واپس آئے ہوں اور صبح اٹھ نہ سکیں۔ اور بے قاعدہ وہ سمجھے جائیں جو ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی ادا کریں۔ باقاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں اِلَّا مَاشَاءَ اللہُ۔ سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کرسکیں تو قابل ِمعافی ہوں۔ اگر یہ بات ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوجائے تو ان میں ایسا ملکہ پیدا ہوجائے گا کہ وہ دین کی باتوں کو سیکھ سکیں گے اور اگر یہ نہیں تو باقی صرف مشق ہی رہ جاتی ہے جو انگریز، جرمن اور امریکن بھی کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ہمارے نوجوانوں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں۔
اِسی طرح دیانت، محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت بھی ہمارے نوجوانوں میں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں مشقت برداشت کرنے کی عادت بہت کم ہے۔ جہاں کوئی ایسا کام پیش آیا جس میں محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے تو فوراً دل چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں سب سے زیادہ محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت کی ضرورت ہے۔ مَیں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ دنیا میں ہماری نسبت چار ہزار کے مقابل میں ایک کی ہے اور جب تک ہم دوسروں کی نسبت چار ہزار گُنا زیادہ کام نہ کریں کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جتناگُڑ ڈالا جائے اُتنا ہی میٹھا ہوگا۔ پس جتنی محنت ہم کریں گے اُتنی ہی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔ جب ہمارا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو ہم سے چار ہزار گُنا ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اُس کا کام وقت، مشق، نیک نیتی، قربانی اور اخلاص کے لحاظ سے ایسا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور چار ہزار افراد کے کام کے برابر شمار ہوسکے۔ تب ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہم دنیا پر غالب ہوں گے۔ کیونکہ گو ہم تعداد میں کم ہوں گے مگر قربانی میں چار ہزار کے برابر ہوں گے۔
مولوی محمد علی صاحب کو مُباہلہ کی دعوت:اس کے بعد مَیں ایک اَور مضمون کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حال ہی میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں ہمیں بہت سی گالیاں دی ہیں۔ ان گالیوں کے متعلق تو مَیں کچھ نہیں کہوں گا۔ برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی باہر آتا ہے۔ مگر ایک بات ایسی ہے جس کا جواب دینے سے مَیں باز نہیں رہ سکتا۔ ان کی طرف سے بار بار ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے اور اِس مضمون میں بھی اس الزام کو دہرایا گیا ہے کہ ہم کلمہ طیبہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسااتہام ہے کہ مَیں نہیں سمجھ سکتا اِس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے۔ وہ قوم جو کلمہ طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہو اُس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اسے منسوخ قرار دیتی ہے اتنا بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولادوں کو قتل کردینا بھی اس سے کم دشمنی ہے۔ ہماری اولادوں کو قتل کردینا اِتنی بڑی دشمنی نہیں جتنا یہ کہنا کہ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکے منکر ہیں۔ اور ایسا جھوٹ بولنے والے کے دل میں خدا تعالیٰ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ جس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت ہو وہ ایسا جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا۔ یہ ہم پر اِتنا بڑا الزام ہے کہ ہمارے کسی بڑے سے بڑےمگر شریف دشمن سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ اگر مولوی صاحب میں تخمِ دیانت باقی ہے تو وہ اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اِس بارہ میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کلمہ طیبہ کے منکر ہیں؟ اور اگر ان کی جماعت اِس بارہ میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر میرے ساتھ مباہلہ کریں۔ مَیں بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کروں گا۔ اور اگر ان کی جماعت ان کا ساتھ نہ دے اور وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مباہلہ کریں تو مَیں بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مباہلہ کروں گا۔ وہ بھی یہ اعلان کریں کہ اے خدا! جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جو دلوں کی باریکیوں کو بھی جانتا ہے مَیں تیری قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مرزا محمود احمد اور اس کی جماعت کلمۂ شہادت کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور اگر مَیں اِس دعوٰی میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اور میری اولاد پر عبرت ناک عذاب نازل کر۔ اور مَیں بھی یہ اعلان کروں گا کہ اے خدا! جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے، جو ہمارا خالق اور مالک ہے اور جو دلوں کی باتوں کو بھی جانتا ہے اگر ہم اس اظہار میں منافقت سے کام لے رہے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر ہمارا کامل ایمان ہے اور اِسے ہم نجات کا ذریعہ یقین کرتے ہیں تو ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کر کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے تُو نے کسی پر ایسا عذاب نازل نہ کیا ہو۔ پس اگر مولوی صاحب میں تخمِ دیانت باقی ہے تو وہ اِس طریقِ فیصلہ کو منظور کریں۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں اوراِس کے باوجود اِس جھوٹ پر قائم رہیں تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے اور ممکن ہے اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ اُن کو اور ان کے ساتھیوں کو ظاہر طور پر بھی کسی ایسی بے ایمانی میں مبتلا کردے جو لوگوں کے لیے عبرت کا موجب ہو یا اگر اب نہیں تو آئندہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر کردے کہ ان کی جماعت میں ایمان نہیں۔
پس اگر مولوی صاحب میں تخمِ دیانت باقی ہے تو وہ اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لیے نکلیں اور اگر ان کی جماعت ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو تو اپنے خاندان کو ساتھ لے کر نکلیں اور میرے خاندان کے ساتھ مباہلہ کریں۔ ہم قسم کھائیں گے کہ ہمیں کلمہ پر پورا پورا ایمان ہے اور ہمارے نزدیک اِس پر ایمان کے بغیر کسی کی نجات نہیں ہوسکتی۔ سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو بخش دے۔ ہم خدا کے فضل کی حدبندی نہیں کرسکتے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی کہتے ہیں تو اِس کا صرف یہ مطلب ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مظہر اور آپ کا بروز بن گئے اور ایسا قُرب حاصل کیا کہ محمدیت کی چادر اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنا دی۔ یہ گویا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہی نبوت ہے جو ہم آپ میں دیکھتے ہیں۔ ورنہ نئی نبوت کا دعویدار ہمارے نزدیک کافر اور دجّال ہے۔ ایسا ہی شخص نبی ہوسکتا ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی چادر ڈال دی گئی۔ ہاں! ہم نبوت کی چادر کو نبوت ہی کہیں گے اگرچہ بروزی طور پر ہی نورِ نبوت حاصل ہوا ہو۔ اس کے بغیر ہم کسی نبوت کو نہیں مانتے۔ پس مولوی محمد علی صاحب کو چاہیے کہ اس طریق پر فیصلہ کرلیں۔ اگر ان میں ہمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزام صحیح ہے تو ان کے لیے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اور انہیں چاہیے کہ سامنے آئیں اور اپنی جماعت کو ساتھ لائیں۔یا اگر وہ شامل نہ ہو تو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئیں اور اس طرح اس الزام کا فیصلہ کرلیں۔ وہ بھی اپنی جماعت کے ساتھ یا اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس الزام کے جھوٹا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب طلب کریں اور مَیں بھی اِس الزام کے صحیح ہونے کی صورت میں اپنے لیے اور اپنی جماعت یا اپنے بیوی بچوں کے لیے جو بھی صورت ہو عذاب طلب کروں۔ پس یہ فیصلہ کا آسان طریق ہے اور مولوی صاحب میں اگر ہمت ہے تو وہ اسے اختیار کرکے فیصلہ کرلیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ بزدل ہمیشہ اتہام لگاتا ہے مگر مقابل پر نہیں آیا کرتا۔مولوی محمد علی صاحب بزدل بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ وہ کبھی اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اِس عظیم الشان جھوٹ بولنے کے بعد بزدلوں کی طرح بہانوں سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ وہ وقتی طور پر بے شک بچ جائیں لیکن اگر و ہ اس اِتہام سے باز نہ آئیں گے اور خدا تعالیٰ کی پھانسی سے بھی بھاگنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو ایک دن آئے گا کہ خواہ وہ اِس پھانسی سے بھاگیں، پھانسی خود ان کے پاس جائے گی اورخدا تعالیٰ کی *** کذّابوں کی طرح ان کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گی اور وہ بھی اور اس افتراء میں شرکت کرنے والا ان کا ہر ساتھی خدا کی چکّی میں پِیس دیا جائے گا۔ وہ اپنے افتراء کی *** کو اپنے صحنوں میں اُترتا ہوئے دیکھیں گے اور کذّابوں کی موت مریں گے"۔ (الفضل7؍جولائی1944ء)


25
ہندوستان میں تبلیغِ احمدیت کے لیے
خاص جدوجہد کی جائے
(فرمودہ 30 جون4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے پچھلے خطبات میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں تبلیغ کی طرف سے بہت ہی استغناء پیدا ہورہا ہے۔ 1942ء میں مَیں نے دیکھا کہ تبلیغ کےذریعہ سے غالباً تین ہزار کے قریب احمدی ہوئے تھے لیکن 1943ء میں پندرہ سولہ سَو رہ گئے۔ اور اب 1944ء کی بیعت میں اگرچہ فرق نظر آتا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ متوجہ ہے مگر اِس کی وجہ جماعت کے افراد کی تبلیغ نہیں بلکہ المصلح الموعود کا اعلان ہے۔ کیونکہ بالعموم اِس امر کا ذکر ان کے خطوط میں ہوتا ہے اور اس طرح جو بیعت میں شامل ہوئے ہیں ان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے مصلح موعود کا دعوٰی سن کر توجہ کی ہے۔ مگر اسے جماعت کی تبلیغ کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا یہ تو الٰہی کام ہے۔
آجکل کاغذ کی بہت دِقّت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اس اعلان کو کثرت سے شائع کیا جاتا تو چونکہ طبائع میں قدرتی طور پر یہ مادہ ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سےجب آواز آئے تو قبول کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ بلکہ اگر جھوٹا شخص بھی کہے کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں تو اس سے بھی لوگ ڈر جاتے ہیں۔ گو بعد میں تحقیق سے پتہ لگ جائے تو انکار کردیتے ہیں۔ سچائی کو خدا کی آواز ہونے کی وجہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور لوگوں کو خدا کی طرف سے کہنے کی وجہ سے توجہ پیدا ہوتی ہے۔ جو رَو تعلیم یافتہ طبقہ میں چلی ہے متواتر خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ لوگ تحقیق کرنے لگے ہیں۔ یہ جماعتی تبلیغ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خدا کے اعلان کے نتیجہ میں ہے کہ لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ اب خاموش رہنا مناسب نہیں۔ بلکہ خدا کی آواز پر غور کرنا ضروری ہوگیا ہے ورنہ مجرم بن جائیں گے۔ یوں جماعتی تبلیغ میں کمی ہے۔
یہ بھی خدا تعالیٰ نے جماعت پر حجّت کا ذریعہ پیدا کردیا ہے کہ ایک طرف تو تعلیم یافتہ طبقہ متوجہ ہورہا ہے۔ کچھ مان رہے ہیں، کچھ قریب ہورہے ہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے جماعت پر حجت قائم کردی ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ ماننے والوں کا گروہ کم ہوگیا ہے۔ اگر یہ کم ہوتا تو لوگ کہہ سکتے تھےکہ اب باقی وہی لوگ رہ گئے ہیں جو نوحؑ کی قوم کی مانند عذاب ہی کے قابل تھے۔ اِس اعلان (مصلح موعود) نے لوگوں کے اِس خیال کی اِس طرح تکذیب کردی کہ جن تک اعلان پہنچ رہا ہے وہ توجہ کررہے ہیں اور ایک نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں۔ اب جب اِس خیال کی تردید ہوگئی تو ایک ہی بات رہ گئی کہ جماعت میں تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہمارے آئندہ حالات پر یہ امر خطرناک طور پر اثر انداز ہونے والا ہے۔ اب بیرونی جماعتیں قریب قریب ہندوستان کی جماعتوں کی تعداد کے برابر پہنچ رہی ہیں۔ ہندوستان میں اندازاً تین ساڑھے تین لاکھ کے قریب احمدی ہیں جو جانی بوجھی ہوئی جماعت ہے۔ یوں تو عام تعداد زیادہ ہوگی لیکن جماعتی کاموں میں حصہ لینے والے یا تعلق رکھنے والے سارے ہندوستان میں اندازاً تین ساڑے تین لاکھ کے قریب رہے ہیں۔ ہندوستان سے باہر خصوصاً افریقہ اور جاوا، سماٹرا میں جماعت چند سالوں میں اِس سرعت سے پھیلی ہے کہ اُن کی تعداد دولاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اب یہ خطرناک بات ہے کہ جس جماعت نے باہر اشاعت کرنی ہو اُس کی تعداد توساڑھے تین لاکھ ہو اور بیرونی جماعت دو لاکھ ہو۔
بیرونی ملکوں میں اِس قدر جلدی احمدیت پھیلی ہے کہ جہاں کوئی نیا مبلغ پہنچا ہے سال دو سال میں ہزاروں کی تعداد میں احمدی ہوگئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان سے باہر مخالفت نہیں۔ یہاں رقابت ہے۔ بجائے اِس کے کہ لوگ خوش ہوں کہ ہم میں سے نبی آیا، اُلٹا مخالف ہورہے ہیں کہ ہم میں سے کیوں آیا۔ خدا تعالیٰ رسولوں کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ1 رسول بھجواتے ہیں۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کیوں رسول آیا۔ لیکن اگر باہر سے آتا ہے تو کہتے اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُولًا2 کیا بشر کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیج دیا؟ گویا عرب اِس پر خوش نہ تھے کہ عربوں میں سے ایک رسول آیا ہے بلکہ وہ اس بات پر بھی خوش نہ تھے کہ انسانوں میں سے رسول آئے۔ گویا گھوڑا یا بیل رسول ہو کر آسکتا تھا لیکن انسانوں میں سے کوئی اِس کا مستحق نہیں تھا کہ ان میں سے رسول آئے۔ یہی حال آجکل ہندوستانیوں کا ہے۔
پس رقابت کا بُغض ہندوستان میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ جب کسی کو تبلیغ کی جائے تو گاؤں کے لوگ عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ اجی ہندوستان میں ہی خدا نے رسول بھیجنا تھا؟ مکہ میں آجاتا یا قاہرہ میں آجاتا ہندوستان میں کیوں آیا؟گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا اتنا مقہور اور اتنا مطرود سمجھتے ہیں کہ وہ اس کی کسی بھی نعمت کے مستحق نہیں۔ لیکن بیرونِ ہند میں ایسا نہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ اس لیے وہ ہماری تبلیغ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور سچائی کو صرف توجہ ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب لوگ توجہ کرتے ہیں تو گو سارے تو نہیں لیکن ستّر اسّی فیصدی شکار ہوجاتے ہیں۔ باہر کے لوگوں پر یوں بھی ہندوستان کا اثر ہے۔ اول تو اِس لیے کہ یہاں بہت سے مسلمان ہیں۔ دوسرے اِس لیے کہ آخری حکومت یہاں پر مسلمانوں کی تھی۔ تیسرے انگریزوں کی بڑائی کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی وجہ سے ان کی عظمت بڑھی ہے اورہندوستان کو انگریزوں کے تاج کا ہیرا سمجھا جاتا ہے۔ اِس لیے جب بھی مسیح موعود کانام لو تو باہر کے لوگ یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان میں مسیح کیوں آیا۔ اور مبلغ کو حقارت سے نہیں دیکھتے۔بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان واقعی بڑا ملک ہے، وہاں بڑی کثرت سے مسلمان ہیں اِس لیے وہاں خدا تعالیٰ کا مامور آئے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔جب یہ خیال اُن کو آتا ہے تو وہ سلسلہ کی باتیں سنتے اور لٹریچر پڑھنے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سنیں کیوں۔ بلکہ وہ صرف یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم مانیں کیوں؟ تم دلائل دو ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔ اِس وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ بیرونی ممالک میں جہاں بھی احمدی گئے ہیں کثرت سے اور بہت جلدی احمدیت پھیلی ہے اور ان میں اخلاص پایا جاتا ہے۔
یہاں کی آبادی کی کثرت نے لوگوں کے خیالات کو خراب کردیا ہے۔
شُد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا
اتنی بڑی آبادی کو پڑھانا مشکل ہے۔ لیکن دوسرے ملکوں میں آبادی کم ہے۔ حکومت کی ذرا سی توجہ سے لوگ تعلیم یافتہ ہوجاتے ہیں۔ اِس وجہ سے جتنا بھی لٹریچر اُن تک پہنچے وہ پڑھ لیتے ہیں۔ مِصری یا افریقن جماعتوں کی قربانی کے متعلق جو خبریں آئی ہیں، وہ ہندوستان کی بہت سی جماعتوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ان میں باوجود وحشی ہونے کے پھر بھی تعلیم کاچرچا اور ذوق و شوق زیادہ ہے۔ جب حکومت اعلان کرتی ہے کہ علم سیکھنا چاہیے تو خواہ وہ علم حاصل نہ کرسکیں اُن کو ذوقِ مجالس پیدا ہوجاتا ہے اور وہ ہر مجلس میں پہنچ جاتے ہیں۔ اِس لیے اُن کے اندر علم کی اہمیت قائم ہے اور ہمارے ملک میں جہالت کی اہمیت قائم ہے۔ اگر ہم تبلیغ کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کیا تعلق ؟ یہ تو پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں۔ لیکن بیرونِ ممالک میں یہ نقطہ نگاہ لیتے ہیں کہ اگر ہم کتابیں نہیں پڑھ سکتے تو مبلغ کی مجلس میں پہنچ کر ہی اُس کی باتیں سن لیں۔ اِسی طرح وہاں علم کا غلبہ ہے تو یہاں جہالت کا غلبہ ہے اور اسی وجہ سے ہندوستانی چاہے پڑھا لکھا بھی ہو پھر بھی وہ ہماری باتیں سننے سے انکار کردیتا ہے۔
اِن حالات کے ماتحت گو احمدیت کی ترقی کے سامان باہر زیادہ ہیں مگر ساتھ خطرات بھی زیادہ ہیں۔ اگر وہاں جماعت زیادہ ہوگئی تو احمدیت کی تعلیم خطرہ میں پڑ جائے گی۔ جیسا کہ مسیح ناصریؑ کے زمانہ میں ہوا کہ عیسائیت اپنے مرکز سے نکل کر روما چلی گئی۔ جب تک اپنے مرکز میں تھی اُس میں شریعت کا ادب تھا۔ مسیحؑ کو خدا کا نبی مانتے تھے لیکن جب روما میں گئی جو کفر کا مرکزتھا تو مذہب کی اہمیت جاتی رہی اور کفر کے نقش و نگار چڑھنے شروع ہوئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں کچھ کا کچھ بن گئی۔چنانچہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے کیٹاکومبز (CATACOMBS) کو دیکھا ہے اور اُس وقت کی عیسائیت مشاہدہ کی ہے۔ ایک پادری ہمارے ساتھ تھا جو کتبوں کا ترجمہ کرکے ہمیں سناتا جاتا تھا۔ اُن سے وضاحت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لوگ مسیحؑ کو خدا کا نبی مانتے تھے، بیٹا بھی مانتے تھے مگر بمعنی نبی جیسا کہ بائبل میں دوسرے انبیاء کو بیٹا کہا گیا ہے۔ غرض جتنے نشان تھے عہدنامہ قدیم سے تھے اور یونؑس نبی کے معجزہ پر خاص طور پر زور دیا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی عیسٰی علیہ السلام کے اِس معجزہ پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ جیسا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے۔ ایسا ہی مسیح علیہ السلام کے لیے ضروری تھا کہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوں اور زندہ نکلیں۔ اس نشان کی ہزاروں تصاویر وہاں تھیں۔ لیکن اِس قسم کی کہ مسیح سے دعا ہو کہ مسیح ہم پر فضل کرے، بہت ہی شاذ تھیں۔ اتنا ظلم ہوتا ہے کہ مسیح سے درخواست کی جاتی تھی کہ اے مسیح! خدا سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ ہم پر فضل کرے۔ غرض عیسائیت کی موجودہ خرابی اِسی وجہ سے نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مرکز سے نکل کر روما چلی گئی۔ یہی خطرہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف ہم بیسیوں مبلغ تیار کر رہے ہیں، مَیں کانپ جاتا ہوں جب سوچتا ہوں کہ اگر چار پانچ مبلغوں کے ذریعہ سے دس بیس ہزار کی جماعت بن جاتی ہے۔ اگر سَو دو سَو مبلغ گئے تو دس بارہ سال میں تیس چالیس لاکھ بن جائے گی۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب اُن کا زور زیادہ ہوجائے گا تو وہ اس بات کا بھی دعوٰی کریں گے کہ ہم خود تبلیغ کریں گے ہم کو بھی تبلیغ کا شوق ہے۔ ہندوستان کے مبلغ کی اب ضرورت نہیں اِس کو کسی نئے علاقہ میں بھیج دیا جائے اب ہم آپ اپنے مبلّغ تیار کریں گے۔ پہلے پہلے شیطان نیک خیال پیدا کرتا ہے۔وہ پہلے تو یہ کہیں گے کہ قادیان کی حکومت سرآنکھوں پر مگر ہمیں بھی ثواب کا موقع ملنا چاہیے۔ ہندوستان کا مبلغ بیوی بچوں کو چھوڑ کر آتا ہے، اِس کو کسی اَور ملک میں بھیج دیا جائے۔ ہمارے ملک میں ہمارے اپنے ملک کا مبلغ مناسب رہے گا۔ تو پہلے چھوٹی سی خرابی پیداہوتی ہے آخر وہی بڑھتے بڑھتے کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اور مرکز کے دور ہونے کی وجہ سے خرابی بڑھتی جائے گی۔ پس جب تک ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ اور تربیت میں نگرانی ہندوستان اور قادیان کی نہ رہے گی احمدیت کی جڑیں مضبوط نہ ہوں گی۔بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتظام کے لحاظ سے قادیان کو مرکزقرار دیا ہے۔ پس وہ مرکز رہے گا۔ لیکن اگر تبلیغ اورتربیت پر بھی لمبی نگرانی نہ رہی تو عقیدہ اور عمل میں بگاڑ پیدا ہونا لازمی ہے۔ان حالات کی اصلاح تبھی ہوسکتی ہے کہ جماعت پورے طور پر اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور تبلیغ کرے۔ اِس طور پر کہ اگر وہاں ایک احمدی ہو تو اس کے مقابلہ میں یہاں تین ہوں۔جہاں جماعت باہر بڑھے تو ساتھ ہی یہاں کی جماعت بنیاد کے طور پر بڑھے۔ کیونکہ بنیاد اوپر کی دیوار سے موٹی ہونی چاہیے۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس کے متعلق میں نے پچھلے خطبہ میں توجہ دلائی تھی۔ گو میں نے یہ کہا تھا کہ یہ میری تنبیہہ آخری بار ہے لیکن پھر بھی یہ ایسا امر نہیں ہے کہ اسے ایک دفعہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے بلکہ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا ہر سیکرٹری، ہر خطیب اس کو دُہراتا رہے کہ ہندوستان کی جماعت کو بڑھاؤ ورنہ خطرہ ہے کہ وہ مصفّٰی تعلیم جو تیرہ سَو سال کے بعد آئی ایسے ہاتھوں میں چلی جائے جو اسے ناپاک کردیں۔پس مَیں پھر جماعت کو توجہ دلا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے خدا کے فضل نے دکھا دیا ہے کہ لوگوں کو توجہ ہے اور لوگوں کے دل ماننے کو تیار ہیں۔لوگ لٹریچر منگواتے ہیں، احمدیوں کو تلاش کرکے ان سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے ایسا دعوٰی سنا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ خصوصیت سے اِس طرف متوجہ ہے۔ پس یہ کہنا کہ سنتے نہیں یہ غلط ہے۔ جہاں جماعتوں نے توجہ کی ہے لوگ سنتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ تعصب بھی دکھاتے ہیں اور روکیں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن روکیں مٹانا ہمارا فرض ہے۔ خدا کے فرشتے اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النّاسِ۔3 وقت آگیا ہے کہ سعید روحیں تیری مدد کریں اور تُو لوگوں میں روشناس کرایا جائے۔ اَور بھی الہامات ہیں جیسے یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُكَ۔4 یہ الہام بتاتا ہے کہ آپ کو دنیا قبول کرے گی لیکن سوال تو یہ ہے کہ اِن نعمتوں کو لے جانے والا کون ہوگا۔ خواہ وہ لے جانے والا میرابیٹا ہی ہو۔ مگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں مجھے بیٹے سے بھی رقابت پیدا ہوگی۔ سچے مومن کو یہی شوق ہونا چاہیے۔ جہاں تک تعلیم کا سوال ہے مَیں اپنے بیٹے کو تعلیم دلاؤں گا۔ لیکن جب کام کا سوال پیدا ہوگا تو عشق کی علامت یہی ہوگی کہ وہ انسان یہ چاہے کہ زیادہ کام مَیں ہی کروں ۔ کام تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ترقی کرنے والی جماعت کے لیے نئے سے نئے کام نکلتے آتے ہیں۔ جب دنیا سمجھتی ہے کہ پروگرام ختم ہوگیا ہے تو نیا نکل آتا ہے۔ جب کبھی بھی دنیا میں ایک قوم ترقی حاصل کرے گی، اسے ایک اَوربلندی اوررفعت کا مقام نظر آجائے گا۔ پس یہ غلط ہے کہ اگر باپ ایک کام کو کرجائے تو اُس کی اولاد کیا کرے گی۔ اولاد کے لیے اَور کام خدا تعالیٰ پیدا کردے گا۔ پس ہر شخص کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سب کام مَیں ہی کرجاؤں۔ اسے بالکل نہیں گھبرانا چاہیے کہ میرے بعد آنے والے لوگ کیا کریں گے۔ کیونکہ ان کے لیے نئے کام نکل آئیں گے۔ بہرحال اُس کے سامنے جو کام ہیں اُسے اپنے ہی زمانہ میں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اِس طرح اگر لوگ کام کرنے لگ جائیں تو خدا تعالیٰ تبلیغ کا دروازہ کھول دے گا اور اُس کی برکتیں اور رحمتیں اعلیٰ پیمانہ پر نازل ہونی شروع ہوجائیں گی"۔ (الفضل19؍جولائی1944ء)
٭ بعد میں مَیں نے خط پڑھ لیا ہے، خبر صحیح ہے۔
1 :وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۝ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪۝
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ۝ (المومنون:13تا15)
2 :صحیح بخاری كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام
1 : بخاری كِتَاب الْأَذَانِ بَاب أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَا يُتِمُّ رُكُوعَهٗ بِالْإِعَادَةِ
2 : مسلم كِتَاب المساجد بَاب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ
3 :ترمذي ابواب الْجَنَائِزِ بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ
4 :مسلم كِتَاب الْإِيمَانِ بَاب السُّؤَالِ عَنْ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ
5 :پیندے:پیندہ:تلا۔ کسی چیز کا نچلا حصہ
6 : بخاری كِتَاب التوحید بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالٰى وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِیومِ الْقیٰمۃ
1 :مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 475 کتاب معرفۃ الصحابۃ۔ مناقب عبدالرحمان بن ابی بکر مطبوعہ بیروت 1978ء
2 :المنافقون:9
3 :تفسیر ابن جریر، تفسیر سورۃ المنافقون
4 :سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 93 مطبوعہ مصر 1965ء
5 :كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (النساء:136)
6 :مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الْغِیْبَۃِ
7 :فتوح البلدان بلاذری صفحہ 143، 144 مطبوعہ قاہرہ مصر 1319ھ
8 :البقرۃ:229
1 :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ۝ وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ۝ (الانفال 16-17)
2 :متی باب 8 آیت 20
3 :کُودن:کند ذہن۔ نادان۔ احمق
4 :ابن ماجہ ابواب الفتن بَاب خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ
5 :متی باب 12آیت 46تا50
6 :باڑ: بوچھاڑ،یلغار، لگاتار۔باڑ مارنا(محاورہ) گولیوں کی بوچھاڑ کرنا(اردو لغت تاریخی اصول پر جلد دوم ترقی اردو بورڈ کراچی)
7 :تفسیر رازی جلد 29 صفحہ 307 مطبوعہ طہران 1328ھ
1 :بخاری کتاب الاحکام بَاب قَوْلِ اللہ تَعَالٰی أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ
2 :الاعراف:180
3 : كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ (الانعام : 142)
4 :المعجم الکبیر جلد 6 صفحہ 228 مطبوعہ عراق 1979ء میں یہ الفاظ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں۔
1 : پدبھیڑے:ایک قسم کی (چھتری نما)جڑی بوٹی جو برسات کے دنوں میں زمین سے نکلتی ہے(پنجابی اردو لغت مرتبہ تنویر بخاری صفحہ 343اردو سائنس بورڈ اپر مال لاہور)
1 :سیرت ابن ہشام جلد463 ، 464مطبوعہ القاہرہ مصر 1964ء
2 :بخاری کتاب مناقب الانصار باب قصة أبی طالب
1 :جھاڑ:پھل۔ نتیجہ
2 :وڈانک:گندم کی ایک قسم جس کا پودا بڑے قد کا ہوتا ہے اور دانے موٹے ہوتے ہیں۔
3 :بخاری کتاب الاذان باب الذِّکْر بَعْدَ الصَّلٰوۃِ
4 :المزّمّل:7
1 :التوبۃ:128
2 :بنی اسرائیل:95
3 :تذکرہ صفحہ66۔ ایڈیشن چہارم
4 :تذکرہ صفحہ595۔ ایڈیشن چہارم
------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
26
ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بلندمقام وشان رکھنے والا دنیا میں اور کوئی انسان نہیں
(فرمودہ 7 جولائی 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تعلیم دی ہے اُس کا بنیادی اصول انسانوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق ہے۔ اللہ تو اللہ ہی ہے۔ اس کے ساتھ تو کسی مخلوق کی کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی۔ اور نہ دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ اور مقابلہ ہوسکتا ہے۔ جہاں تک بنی نوع انسان کا تعلق ہے ہمیں یہ سبق گُھٹّی میں پلایا گیا ہے، بار بار اِس پر زور دیا گیا ہے اور بڑے تکرار اور تواتر سے اِس کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ سبق ہمارے رگ و ریشہ اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ میں داخل ہوگیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ بلند مقام رکھنے والا اور آپ سے زیادہ بلند شان رکھنے والا دنیا میں اَور کوئی انسان نہیں۔
مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ لاہور میں آریہ سماج نے ایک جلسہ کیا اور اُس جلسہ کے متعلق بار بار پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی معرفت اور پھر تحریراً انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ بھی ان سوالات کے متعلق اپنا مضمون لکھ کر بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے تو انکار کیا اور فرمایا یہ لوگ سخت بدزبانی کرنے والے ہیں اِن کے وعدوں کا مجھے کوئی اعتبار نہیں۔ مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے یقین دلایا کہ ایک ڈاکٹر جو میرا دوست بھی ہے اِس جلسہ کا سیکرٹری ہے اور اُس نے پختہ یقین دلایا ہے کہ اِس جلسہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو دوسرے مذاہب والوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو، نہ کسی مذہب کے بانی کے خلاف کوئی بات کہی جائے گی بلکہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ہی بیان کی جائیں گی۔ اور پھر تحریراً بھی انہوں نے اقرار کیا کہ یہ جلسہ نہایت پُر امن ہوگا، اس میں کسی مذہب کے بانی کے خلاف کوئی بات نہیں کہی جائے گی بلکہ ہر مذہب کا نمائندہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرے گا۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مضمون لکھا اور چونکہ مولوی عبدالکریم صاحب جو اِس قسم کے مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے جلسوں میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے فوت ہوچکے تھے اِس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجد مبارک میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب اور حضرت خلیفہ اول سے یہ مضمون پڑھوا کر سُنا۔ شاید مرزا خدا بخش صاحب سے بھی یہ مضمون سنا گیا۔ مگر اِن تینوں کے پڑھنے پر آپ کی تسلی نہ ہوئی اور آپ نے فرمایا، کسی کی آواز اونچی نہیں،کسی کی آواز بھرّائی ہوئی ہے اور کسی میں کوئی اَور نقص ہے۔ مگر بہرحال آپ نے فیصلہ فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول یہ مضمون پڑھ دیں۔ کیونکہ آپ کا عالمانہ رنگ ہے اور مضمون کی عبارت وہاں صحیح طور پر پڑھی جائے گی۔ جب اِس مضمون کے سنائے جانے کا فیصلہ ہوا تو آریہ سماج کے اس جلسہ میں شمولیت کے لیے قادیان سے بھی اور باہر کی جماعتوں کی طرف سے بھی بہت سے لوگ چلے گئے۔ کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ یہ جلسہ نہایت پُر امن ہوگا، کسی تقریر میں بدزبانی سے کام نہیں لیا جائے گا اور نہ دوسرے مذاہب اور اُن کے بانیوں کے خلاف اعتراضات کا دروازہ کھولا جائے گا بلکہ ہر مذہب کا نمائندہ صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کو ہی بیان کرے گا۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ جب ایسا ہو کہ ہر مذہب والا صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں اور اس کی تعلیم کے محاسن کو ہی بیان کرنے پر اکتفا کرے، دوسرے مذاہب پر دل آزار اور گندے حملے نہ کرے اور نہ ایسے اعتراضات کرے جو واقعات کے خلاف ہوں تو ایسی حالت میں اسلام ہی تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوگا اور اسی کی فضیلت ثابت ہوگی۔ کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر بحث کرتا اور ہر ضرورت کے متعلق نہایت کامل اور احسن تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ اخلاق پر بھی بحث کرتا ہے، وہ عادات پر بھی بحث کرتا ہے، وہ رسم و رواج پربھی بحث کرتا ہے، وہ تمدن اور سیاست پر بھی بحث کرتا ہے، وہ خدا اور بندوں کے تعلقات پر بھی بحث کرتا ہے اور ان تمام معاملات میں انسانی فطرت کے مطابق تعلیم دیتا ہے۔ مگر باقی مذاہب وہ ہیں جو ان مسائل کو چُھوتے ہی نہیں۔ اور اگر ان مسائل کے متعلق کوئی تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ ایسی ہوتی ہے جس کے خلاف انسانی فطرت بغاوت کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے اس لیے یہ ایک لازمی اور منطقی نتیجہ تھا کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا کہ اِس جلسہ میں اسلام کو بڑی بھاری کامیابی ہوگی۔ اور جب اسلام کی وہ فطرتی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جائے گی جس میں ہر درجہ اور ہر نوع کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے۔ اور اسلام کی وہ زندگی بخش تعلیم لوگوں کو پڑھ کر سنائی جائے گی جو قلوب کو ہر قسم کی ظلمات سے پاک کرکے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز کردیتی ہے تو تمام مذاہب والوں پر بڑا بھاری اثر ہوگا اور اسلام کا کمال اور اُس کی صداقت کا اعتراف کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ چنانچہ ہماری جماعت کے دوست اسلام کی فتح کا ڈنکا بجاتے وہاں پہنچے اور وہ اِس یقین اور وثوق کے ساتھ گئے کہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے میں کوئی مذہب اسلام کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گا۔ مَیں بھی اُس وقت ساتھ تھا اور میری عمر سترہ سال کے قریب تھی۔ شہری لوگ چونکہ مذہب سے بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ ہر وقت مادیات کی طرف جھکے رہتے ہیں اِس لیے لاہور کے رہنے والے اس جلسہ میں کم شامل ہوئے۔ وہ ہال جس میں یہ جلسہ ہوا اُس میں چودہ پندرہ سو آدمی ہوں گے۔ اِن چودہ پندرہ سو میں سے تین چار سو باقی مذاہب کے پیرو تھے، چھ سات سَو احمدی تھے اور باقی آریہ سماجی تھے۔ گویا آریہ سماج کے اِس جلسہ کی رونق کی بنیاد ہماری جماعت کے افراد تھے۔ کیونکہ ہماری جماعت کی طرف سے چھ سات سو آدمی اس جلسہ میں شریک ہوئے۔ اور دو تین سو مسلمان جو تقریریں سننے کے لیے آئے۔ وہ بھی درحقیقت ہماری وجہ سے ہی آئے تھے کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اس جلسہ میں چونکہ اسلام کی طرف سے بھی مضمون پڑھا جانے والا ہے اِس لیے ضروری ہے کہ یہ مضمون سب پر غالب رہے اور باقی مذاہب اپنی تعلیموں میں اسلام کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکیں۔ غرض آریہ سماج کے اس جلسہ کی کامیابی محض ہماری وجہ سے تھی۔ اگر ہماری جماعت کا چھ سات سو آدمی اس جلسہ میں شریک نہ ہوتا اور اگر ہمارا مضمون جو اسلام کی صداقت اور اس کی تائید میں تھا، سُننے کے لیے دو تین سو مسلمان نہ آتے تو آریہ سماج کا یہ جلسہ نہایت ہی بے رونق ہوتا اور کسی کو اس کی طرف ذرا بھی توجہ پیدا نہ ہوتی۔ جلسہ شروع ہوا اور مختلف لوگوں نے اپنے اپنے مذاہب کے متعلق تقریریں کیں۔ جہاں تک اِس بات کا تعلق تھا کہ کسی مذہب کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جو اس مذہب کے پیرؤوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو، عیسائیوں اور سناتنیوں وغیرہ نے اِس کا لحاظ رکھا اور انہوں نے اپنے مضامین میں ایسی کوئی بات نہ کہی جو مسلمانوں کے لیے دل آزاری کا باعث ہوتی۔ آریہ سماج نے اپنا مضمون سب سے آخر میں رکھا ہوا تھا۔ درمیان میں ایک مقام پر پروگرام کے مطابق جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی مضمون پڑھ کر سنادیا گیا۔ آخر آریہ سماج کی باری آئی اور وہی ڈاکٹر صاحب جنہوں نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو یقین دلایا تھا کہ اِس جلسہ میں کسی مذہب کے پیرؤوں کی دل شکنی نہیں کی جائے گی اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے گی جو مسلمانوں یا دوسری اقوام کے لیے دل آزار ہو مضمون پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور انہوں نے بجائے آریہ سماج کی خوبیان بیان کرنے کے اپنا رُخ اسلام کی طرف پھیر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) ڈاکو اور فریبی اور اِسی طرح کے اَور نہایت ہی گندے اور ناپاک الفاظ استعمال کرنے شروع کردیے۔ شدید سے شدید دل شکنی جو ہوسکتی تھی اُنہوں نے کی اور شدید سے شدید دل آزاری جو وہ کرسکتے تھے اس سے انہوں نے دریغ نہ کیا۔ مجھے یاد ہے میری عمراُس وقت سترہ سال کی تھیمگر مَیں اِس بدگوئی کو برداشت نہ کرسکا اور مَیں نے کہا مَیں تو ایک منٹ کے لیے بھی اِس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا مَیں یہاں سے جاتا ہوں۔ اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی جو پہلے ہماری جماعت میں شامل تھے مگر بعد میں پیغامی ہوگئے اور پھر پیغامیوں سے بھی علیحدہ ہوکر دوسرے مسلمانوں سے جاملے ان کوتاریخ کا بہت ہی شوق تھا اور انہوں نے اِسی علم میں اپنی تمام عمر گزار دی اور پھر اِس میں ایسی ترقی کی کہ وہ ہندوستان کے مشہور مؤرخوں میں سے سمجھے جانے لگے اور تمام ہندوستان میں مشہور ہوگئے۔ وہ اُس وقت میرے پاس ہی بیٹھےتھے۔ جب مَیں اٹھنے لگا تو انہوں نے مجھے روک لیا۔ حضرت خلیفہ اول اُس وقت خلیفہ نہ تھے کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے۔ لیکن بہرحال اُنہیں جماعت میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ان کا ذکر کرکے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اُٹھ کر باہر جارہے ہیں۔ اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی؟ مَیں نے کہا کچھ ہو مجھ سےتو یہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتی۔ وہ کہنے لگےآپ کو کم سے کم نظام کی تو اتباع کرنی چاہیے۔ مولوی صاحب اِس وقت ہمارے لیڈر ہیں اِس لیے جب تک وہ بیٹھے ہیں اُس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کو اُٹھ کر باہر نہیں جانا چاہیے۔ اُن کی یہ بات اُس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور مَیں بیٹھ گیا۔ جب ہم واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اِس واقعہ کا علم ہوا تو مجھے یاد ہے آپ کو اِس قسم کا غصہ پیدا ہوا کہ ویسا غصہ آپؑ میں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے۔آپ بار بار فرماتے دوسرے مسلمان تو مُردہ ہیں اُن کو کیا علم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کیا شان ہے؟ لیکن ہم نے تو اِس طرح اسلامی تعلیم کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اور اِس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل اور آپ کے کمالات کو روشن کیا ہے کہ اِس کے بعد یہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری جماعت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کیا شان ہے۔ آپ نے فرمایا تمہیں تو ایک منٹ کے لیے بھی اُس جگہ پر بیٹھنا نہیں چاہیے تھے۔ بلکہ جس وقت اُس نے یہ الفاظ کہے تھے تمہیں اُسی وقت کھڑے ہوجانا چاہیے تھا اور اُس ہال سے باہر نکل آنا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ تمہیں نکلنے کے لیے راستہ نہ دیتے تو پھر اُس ہال کو خون سے بھرا ہوا ہونا چاہیے تھا۔یہ کیونکر تم نے بے غیرتی دکھائی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموشی سے بیٹھ کر ان گالیوں کو سنتے رہے؟ حضرت خلیفہ اول اُس وقت آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جماعت کے ایک بڑے آدمی تھے مگر وہ بھی سر ڈالے بیٹھے رہے۔ آپؑ بار بار فرماتے تمہاری غیرت نے یہ کیونکر برداشت کرلیا کہ تم اُس جگہ پر بیٹھے رہو جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک ہو رہی ہے۔ تب مولوی محمد احسن صاحب امروہی گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک ناراضگی کے موقع پر یہ الفاظ کہے تھے کہ رَضِيْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا1اِسی قسم کے الفاظ اُنہوں نے کہے اور پھر کہا حضور! ذہول ہوگیا۔ یعنی ہر آدمی سے بعض موقعوں پر غلطی ہوجاتی ہے ہم سے بھی ذہول کے ماتحت یہ غلطی ہوئی ہے، حضور درگزر فرمائیں۔ آخر بہت دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غصہ فرو ہوا اور آپ نے اِس غلطی کو معاف فرمایا۔
پھر ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ذرا اُن سے کوئی بڑا آدمی ملنے کے لیے آجائے تو اُن کی سب غیرت جاتی رہتی ہے اور وہ اُس بڑے آدمی کے آنے میں ہی اپنی عزت سمجھنے لگتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی بہت بڑی عزت ہے کہ ہمیں فلاں قوم کا لیڈر یا فلاں جماعت کا سردار ملنے کے لیے آیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق جس قدر غیرت پائی جاتی تھی اُس کا ثبوت اِس واقعہ سے بھی ملتا ہے جب پنڈت لیکھرام آپ سے ایک دفعہ ملنے کے لیے آیا۔ مَیں تو اُس وقت چھوٹا تھا اِس لیے مجھے تو یہ واقعہ یاد نہیں لیکن جو آدمی اُس وقت موجود تھے وہ اِس واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ایسا ہے جو بار بار چَھپ بھی چکا ہے کہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود تھے کہ پنڈت لیکھرام آپ سے ملنے کے لیے آیا۔ہماری جماعت اب بھی چھوٹی سی ہے مگر اُس وقت تو بہت ہی چھوٹی تھی۔ آریوں سے مقابلہ رہتا تھا اور آریہ وہ تھے جن کی تعداد اور دولت کا مقابلہ ہماری جماعت اُس وقت کرہی نہیں سکتی تھی۔ ان آریوں کا لیڈر پنڈت لیکھرام اتفاقا سٹیشن پر آ نکلا اور جب اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تو وہ آپ کی طرف آیا اور آکر سلام کیا۔ مگر آپؑ نے اُس کے سلام کا کوئی جواب نہ دیا۔ شیخ رحمت اللہ صاحب جو لاہور کے مشہور تاجر تھے انہوں نے جب دیکھا کہ پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کرنے کے لیے آیا ہے تو اُنہوں نے اپنے دل میں فخر محسوس کیا کہ آریوں کا ایک لیڈر آپؑ کو سلام کرنے کے لیے آیا ہے۔ مگر جب اُنہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو دیکھا نہیں۔ پنڈت لیکھرام نے بھی یہی سمجھا کہ مجھے جو آپ کی طرف سے سلام کا جواب نہیں ملا تو اِس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے مجھے دیکھا نہیں۔ ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ مَیں آپ کو سلام کرنے کے لیے آتا اور آپ سلام کا جواب تک بھی نہ دیتے۔ چنانچہ وہ دوسری طرف سے مُڑ کر آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب! سلام۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر بھی جواب نہ دیا۔ تب وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے اُنہوں نے سمجھا کہ عزت افزائی کا یہ اتنا بڑا موقع کیوں ضائع ہو کہ آریوں کا ایک لیڈر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سلام کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ اِس سے بڑی عزت اَور کیا ہوسکتی ہے کہ مخالف قوم کا ایک لیڈر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں آتا ہے اور حاضر ہوکر سلام عرض کرتا ہے۔ چنانچہ شیخ رحمت اللہ صاحب آگے بڑھے اور اُنہوں نے کہا حضور نے ملاحظہ نہیں فرمایا، پنڈت لیکھرام صاحب حضور کو سلام کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے جوش سے فرمایا شیخ صاحب! مَیں نے دیکھ لیا ہے لیکن وہ شخص جو میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے کیا اُسے شرم نہیں آتی کہ وہ مجھے جو اُس کا ایک ادنیٰ خادم ہوں آکر سلام کرتا ہے!!
یہ ایسے واقعات نہیں جو صرف ایک دو ہوں۔ بلکہ یہ متعدد واقعات ہیں اور باربار ہم نے دیکھے ہیں۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بھلا ہمارے جذبات اور دوسرے لوگوں کے جذبات آپس میں مل ہی کس طرح سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اور ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اپنے تجربہ سے اِس کو صحیح سمجھ سکتے ہیں کہ ؎
بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم
گر کفر ایں بَوَد بخدا سخت کافرم2
میری قوم کے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُو کافر ہے کافر ہے ؏
بعد از خدا بعشقِ محمد مخمّرم
فرماتے ہیں میرا مذہب تو یہ ہے کہ مَیں خدا کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں اور آپ سے زیادہ عشق مَیں اَور کسی انسان سے نہیں رکھتا؏
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا کفر ہوتا ہے اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنا کفر ہوتا ہے تو پھر جتنا چاہو مجھے کافر کہہ لو۔ تم جتنا کافر مجھے کہو ان معنوں میں مَیں اس سے بھی زیادہ کافر ہوں۔ مجھے یاد ہے گو اُس وقت یہ بات مجھے بُری معلوم ہوئی لیکن بعد میں مَیں نے سمجھا کہ یہ بات نیک نیتی سے ہی کہی گئی تھی اور وہ یہ کہ جب گورنمنٹ نے مذہب کے متعلق یہ قانون پاس کیا کہ کسی مذہب کے لیڈر اور اُس کے بانی کے خلاف کوئی ایسا سخت کلمہ استعمال نہ کیا جائے جو اُس مذہب کے پیرؤوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہو اور جس سے تنافر اور تباغض پیدا ہوسکتا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی مذہب کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرے گا یا اُس مذہب کے بانی کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرے گا جو دل آزار ہوں یا قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث ہوں تو اُسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ اُن دنوں مرزا سلطان احمد صاحب ایک دفعہ رخصت پر قادیان آئے۔ مرزا سلطان احمد صاحب اُس وقت تک احمدی نہیں ہوئے تھے اور گو اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت تھی مگر بیعت میں شامل نہیں تھے۔ بعد میں تو وہ اپنی عقیدت میں بہت ترقی کرگئے اور خدا تعالیٰ نے انہیں بیعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی عطا فرمادی۔ مگر اُس وقت تک وہ احمدی نہیں تھے اور شاید گوجرانوالہ میں ای۔ اے۔سی تھے۔ قادیان میں چند دنوں کی چھٹی پر آئے ہوئے تھے کہ مَیں اُن سے ملنے کے لیےگیا۔ باتوں باتوں میں وہ بڑے جوش سے کہنے لگے مَیں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہوگئے تو اچھا ہی ہوا۔ میری طبیعت پر اُن کا یہ فقرہ بہت ہی گراں گزرا۔ مگر اُن کے اگلے فقرہ نے بتا دیا کہ ان کامنشاء بُرا نہ تھا بلکہ اچھا تھا۔ گو اُن کا فقرہ مجھے پھر بھی گستاخانہ ہی معلوم ہوا۔ اُنہوں نے کہا مَیں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہوگئے تو اچھا ہی ہوا ورنہ گورنمنٹ نے جو یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص کسی مذہب کے پیرؤوں کی دل شکنی کرے گا، اُسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ اگر یہ قانون ان کی زندگی میں بن جاتا اور کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کردیتا تو انہوں نے باز نہیں آنا تھا۔ وہ اُس کی ایسی خبر لیتے اور اِس طرح سختی کے ساتھ اُس مذہب کی بُرائیاں بیان کرتے کہ ذرا بھی قانون کی پروا نہ کرتے اور جیل خانے چلے جاتے۔ مَیں اُس وقت سمجھا کہ انہوں نے نیک معنوں میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور اِس طرح اُس محبت اور عشق کا اظہار کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ تھا۔چنانچہ انہوں نے بڑے زور سے کہا مَیں تو کہتا ہوں بڑے مرزا صاحب فوت ہوگئے تو اچھا ہی ہوا۔ ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اگر کوئی سخت کلامی سے کام لیتا تو انہوں نے باز نہیں آنا تھا اور ضرور جیل خانے چلے جانا تھا۔
یہ واقعات ہیں جو ہم نے دیکھے ہوئے ہیں۔ پس ہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب اور احترام ہمارے دلوں میں کس طرح کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کتنا بڑا بلند مقام ہے اورہم جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے حضور جو مقامِ قُرب حاصل ہے اُس کے قریب بھی اور کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔
مَیں ایک دفعہ قصور گیا اور وہاں مَیں نے اسلام کے محاسن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل کے متعلق تقریر کی۔ مَیں نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ ہمارے لیے راہنمائی کا کام کررہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتدا کریں اور دیکھیں کہ آپ نے ہمارے سامنے کیا نمونہ پیش کیا ہے کیونکہ اخلاق کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے نمونہ موجود نہ ہو اور ہم اس کی راہنمائی میں صحیح راستہ پر نہ چل سکتے ہوں۔ ایک ہندو رئیس بھی میری اِس تقریر میں موجود تھا۔ جب لیکچر ختم ہوگیا تو وہ بعد میں مجھ سے ملنے کے لیے آیا اور کہنے لگا مجھے عام طور پر مذہبی امور سے دلچسپی ہے اور جہاں بھی مجھے یہ معلوم ہو کہ مذہب کے متعلق کوئی تقریر ہونے والی ہے مَیں وہاں پہنچتا ہوں۔ مگر اب تک اسلام کے متعلق مَیں نے جس قدر لیکچر سُنے ہیں اُن میں یہی ذکر ہوتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بال ایسے تھے، آپ کا رنگ ایسا تھا، آپ کی آنکھیں ایسی تھیں، آپ کا قد ایسا تھا۔ وہ شخص ہندو تھا اور ہندو ہونے کی وجہ سے اُس کا سخت الفاظ استعمال کرنا باعثِ تعجب نہ تھا بلکہ اِس موقع پر اُس نے سخت الفاظ استعمال بھی کیے۔ چنانچہ اُس نے کہا کوئی بتائے کیا ہم عشق کرنے کے لیے ایسے مواقع پر آتے ہیں؟ ہماری غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ہم دیکھیں آپؐ نے دنیا میں آکر لوگوں کو دین کس طرح سکھایا اور اُن کے اخلاق کی کس طرح نگہداشت کی۔ مگر آج تک مجھے کہیں بھی یہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا کہ آپؐ نے یہ یہ تعلیم پیش کی ہے جو اخلاق اور روحانیت کے لیے عطیہ ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مَیں نے بانیٔ اسلام کے فضائل ایک جلسہ میں سُنے۔ ورنہ اب تک تو ہمیں یہی پتہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک کمبل اپنے جسم پر لپیٹ لیتے تھے، لمبی لمبی زلفیں تھیں، رنگ سفید تھا اور شکل ایسی تھی، اِس سے زیادہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اسلام کے بانی کی کیا شکل ہے۔ آج پہلی دفعہ میں نے آپ کی تقریر میں یہ باتیں سُنی ہیں جس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام کے بانی کی کیا تعلیم تھی اور انہوں نے اپنے نمونہ سے لوگوں کے سامنے کیا کیا باتیں پیش کی ہیں۔ مَیں نے معذرت کی کہ مسلمانوں میں واقع میں یہ کوتاہی پائی جاتی ہے اور ان میں یہ کمزور ی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کے بے مثال کارناموں کو پیش کرنے کی بجائے وہ یہی باتیں بیان کرتے رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شکل ایسی تھی اور آپ کا رنگ ایسا تھا لیکن باوجود اِس کے ہمیں اصل چیز کو دیکھنا چاہیے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ لوگ اپنی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں اس شکل کو بگاڑ کر کس رنگ میں پیش کررہے ہیں۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور آپ کاعشق ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ مگر باوجود اِس کے جب مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض مسلمان اپنی نادانی اورجہالت کی وجہ سے بلکہ تعصب اور دشمنی میں حد سے نکل جانے کی وجہ سے ہماری باتوں کو توڑ مروڑ کر اور اُنہیں اصل معنوں سے پِھرا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ان کے ایمانوں کو کیا ہوگیا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے ایک موقع پر مَیں نے بعض باتیں کیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو درجہ اور مقام حاصل کیا ہے وہ اپنے زورِعمل سے حاصل کیا ہے۔ ہم یہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو اس مقام پر کھڑاکردیا اور پھر باقی لوگوں اور آپؐ کے درمیان وہ خود کھڑا ہوگیا۔ تاکہ کوئی شخص اُس مقام تک نہ پہنچ سکے جس مقام پر اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہنچایا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ عقیدہ بالکل غلط اور خلافِ قرآن ہے۔ اگر ایسا سمجھا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ خدا تعالیٰ نے بِلا اِستحقاق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا اور باقی دنیا کو اُس نے خود ہی اُس مقام تک پہنچنے سے روک دیا تو اِس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی کمال نہیں ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کمال اِسی میں ہے کہ اس روحانی میدان میں دنیا کی تمام ارواح کو دوڑانے کے لیے کہا جائے اور کسی ایک شخص کو بھی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے نہ روکا جائے۔ مگر پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے آگے نکل جائیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ باوجود اِس کے کہ خدا نے ہر ایک کے لیے میدان کُھلا رکھا تھا، خدا نے ہر ایک کے لیے دروازہ کُھلا رکھا تھا، خدا نے ہر ایک کے اندر ترقی کا مادہ پیدا کیا تھا۔ پھر بھی اِس دَوڑ میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آگے نکل گئے اور ساری دنیا پیچھے رہ گئی۔ میرا یہ خطبہ جب شائع ہوا تو "پیغامِ صلح" لاہور نے جو ہماری دشمنی میں یزید سے بھی دو قدم آگے رہتا ہے، کتربیونت3 کرکے اس خطبہ کے کچھ اقتباس شائع کیے اور لوگوں کو اشتعال دلایا ۔جس پر "احسان"، "زمیندار"، "شہباز" اور "پیام دہلی" وغیرہ نے یہ شور مچانا شروع کردیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کی گئی ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اِس دَوڑ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ سکتے تھے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ یہی بات اگر ان کے باپ کے متعلق کہی جائے، اگر ان کے بیٹے کے متعلق کہی جائے، اگر ان کے بھائیوں کے متعلق کہی جائے تو وہ سر پھوڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ مگر جب یہی بات وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کہتے ہیں تو انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر کسی کا لڑکا یا کسی کا بھائی یا کسی کا باپ یا کسی کا کوئی اَور رشتہ دار کہیں اعلیٰ درجہ کی ملازمت حاصل کرلے اور اُس کے متعلق یہ کہا جائے کہ اُسے سرکار نے خود ہی اونچے درجے پر پہنچا دیا ہے اُس نے اپنے زورِ بازو سے یہ درجہ حاصل نہیں کیا تو اُس کے رشتہ دار یہ بات کہنے والے سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اور کہیں گے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تھا تو نالائق، تھا تو نااہل مگر گورنمنٹ نے رعایت کرکے ایک نالائق اور نااہل شخص کو یہ مقام دے دیا اور باقی لوگوں کو اس کے حصول سے محروم کردیا۔ غرض کسی کے متعلق بھی یہ فقرہ کہہ دیا جائےاُس کے عزیز اور رشتہ دار اِس فقرہ کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور اسے سب ہتک قرار دیں گے۔ مگر ہماری دشمنی کی وجہ سے یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اِس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اورانہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اِن الفاظ کے پردہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی خطرناک ہتک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود بخود ایک خاص مقام دے دیا اور لوگوں کو اس مقام تک پہنچنے سے جبراً روک دیا تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ دنیا میں کئی لوگ ایسے تھے جو رسول کریم سے اِس روحانی دَوڑ میں بڑھ سکتے تھے مگر چونکہ خدا نے اُن کو جبراً روک دیا اور وہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کے درمیان حائل ہوگیا اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا خاص قُرب حاصل کرگئے ورنہ اَور لوگ بھی ایسے ہوسکتے تھے جن کو اگر موقع دیا جاتا تو وہ اس مقام کو حاصل کرلیتے۔ میرے نزدیک اِس سے بڑھ کر اَور کوئی گالی نہیں ہوسکتی۔ یہ خدا کے لیے بھی گالی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی گالی ہے۔ خدا کے لیے اس طرح گالی ہے کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ پر ناجائز طرفداری کا الزام عائد ہوتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ جولوگ آگے بڑھنے کے مستحق تھے اُن کو تو خدا نے بڑھنے نہ دیا اور جو شخص اس مقام کا مستحق نہیں تھا، اُسے آگے بڑھا دیا۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس میں اِس طرح ہتک ہے کہ اِس کے نتیجہ میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقام بلند حاصل کیا وہ آپ نے اپنی قابلیت سے حاصل نہیں کیا۔ اگر قابلیت کا سوال ہوتا تو اَور کئی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکتے تھے۔
پس تعجب ہے کہ وہ بات جس کا سُننا کوئی ماں اپنے بیٹے کے متعلق برداشت نہیں کرسکتی، کوئی بیٹا اپنے باپ کے متعلق برداشت نہیں کرسکتا، کوئی بھائی اپنے بھائی کے متعلق برداشت نہیں کرسکتا وہ محض ہماری مخالفت کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہی جاتی ہے اور ہمارے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نَعُوْذُ بِاللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھنے سے نہیں روکا۔اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو بڑھ جائے۔ مگر وہ بڑھے گا نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قربانی کی ہے کوئی وہ قربانی دینے کا اہل نہیں ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ بڑھ سکنا اَور چیز ہے اور بڑھنا اَور چیز۔ بڑھ سکنے کے یہ معنی ہیں کہ ہر شخص کے لیے آگے بڑھنے کا موقع تھا اور یہ راستہ اُس کے لیے بند نہیں تھا بلکہ کُھلا تھا۔ لیکن جب کوئی شخص آپ سے بڑھا نہیں تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عشق کا نمونہ دکھایا ویسا نمونہ اور کوئی نہیں دکھا سکا۔ عام آدمی تو الگ رہے وہ نمونہ ابراہیمؑ، موسٰیؑ اور عیسٰیؑ بھی نہیں دکھا سکے۔ اب اِس عقیدہ میں رسول کریم کی ہتک کونسی ہوگئی۔یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے کہ خدا نے سب لوگوں کے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا کہ آؤ! اور اِس دروازے میں داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اِس پر سب لوگ دَوڑے مگر چونکہ ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عشق نہ تھا وہ اس زور سے نہ دوڑ سکے جس زور سے محمد رسول اللہﷺ دوڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔ پس اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کالج میں جب طالب علم جاتے ہیں تو ہر ایک کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے آگے نکل جائے۔ مگر جب نتیجہ نکلتا ہے تو ایک آگے بڑھ جاتا ہے اور باقی پیچھے رہ جاتےہیں۔ اب اس کے آگے نکل آنے پر دوسرے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس سے خاص رعایت کی گئی ہے۔ کیونکہ رعایت کا تب سوال پیدا ہوتا ہے جب اُن کے لیے محنت کا دروازہ بند کیا گیا ہوتا اور کہا جاتا کہ ہم نے اِسی لڑکے کو آگے بڑھانا ہے، دوسروں کو آگے نہیں بڑھانا۔ مگر جب ہر ایک کے لیے دروازہ کھلا تھا کہ وہ دوسروں سے آگے نکل جاتا تو ایک لڑکے کا محنت اور کوشش کرکے دوسروں سے آگے نکل جانا اُس کی قابلیت کا ثبوت ہوگا۔ لیکن اگر یونیورسٹی کسی کو خاص طور پر آگے کردے اور دوسروں کو جبراً پیچھے رکھے تو ہر شخص کہے گا یہ دھوکا بازی ہے، یہ جانبداری اور طرفداری ہے۔ دوسروں کا رستہ روک کر ایک کو آگے کر دینا ہرگز اُس کی قابلیت اور کمال کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔ ہاں! اگر ہر ایک کے لیے راستہ کُھلا ہو، ہر ایک کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی محنت کے مطابق جو مقام حاصل کرنا چاہے کرلے تو اِس کے بعد اگر ایک شخص محنت کرے، کوشش کرے، عرق ریزی سے کام لے، دماغی قوتوں کا صحیح استعمال کرے اور پھر دوسروں سے آگے بڑھ کر دکھا دے تو بے شک اس میں اُس کی بہت بڑی عزت ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بھی یہی دو باتیں تسلیم کرنی پڑیں گی۔ یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قابلیت اور اپنے زور سے تمام بنی نوع انسان کو شکست دے کر اور اُن کو اِس میدان میں پیچھے چھوڑ کر باوجود اِس کے کہ اُن کے لیے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ترقی کے راستے کُھلے تھے اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھ گئے۔ وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی قربانیوں کی وجہ سے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی وفاداریوں کی وجہ سے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنی دینداری کی وجہ سے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اپنے تقوٰی اور اپنے اخلاص اور اپنی محبت کی وجہ سے۔ اور اِس طرح اُنہوں نے وہ مقام حاصل کرلیا جس کو دوسرے لوگ حاصل نہ کرسکے۔ پس ایک تو یہ توجیہہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کی جاسکتی ہے اور ایک توجیہہ یہ ہے کہ بہتیرے آدمی ایسے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکتے تھے۔ آپ کا آگے نکل جانا آ پ کے کامل نبی ہونے کی نَعُوْذُ بِاللہِ کوئی دلیل نہیں کیونکہ خدا رستہ میں حائل ہوگیا تھا اور اُس نے درمیان میں کھڑے ہوکر باقی سب لوگوں کو وہاں تک پہنچنے سے محروم کردیا ۔یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ قابلیتیں دیں جو دوسروں کو نہیں دیں اِس لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے اور دوسرے لوگ پیچھے رہ گئے۔
ہم وہ ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اِس دَوڑ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اَور لوگ اس لیے نہیں بڑھے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو وہ طاقتیں نہیں دی تھیں جو خاص طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے عملی طور پر دکھا دیا کہ سب لوگ دَوڑے مگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تیز دَوڑ نہ سکا اور اِس وجہ سے جو مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حاصل کیا وہ کوئی دوسرا شخص حاصل نہ کرسکا۔ مگر یہ لوگ اِس بات کے قائل ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اَور لوگ بھی بڑھ سکتے تھے۔ مگر خدا نے اُن کو جبراً آگے بڑھنے سے روک دیا۔ وہ خود اُن کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے درمیان حائل ہوگیا اور اِس طرح اُن کو ترقی کے حصول سے جبری طور پر محروم کردیا۔ ہر وہ شخص جس کے اندر تخمِ دیانت پایا جاتا ہے اِن دونوں امور پر غور کرکے بتائے آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ پہلو زیادہ مناسب اور آپ کی عزت کو بڑھانے والا ہے کہ خدا نے زبردستی آپ کو آسمان پر بٹھا دیا اور دوسروں کو زمین پر گِرا دیا یا یہ پہلو آپ کی شان اور عظمت کو بڑھانے والا ہے کہ خدا نے ہر ایک کے لیے ترقی کا راستہ کُھلا رکھا تھا، ہر ایک کے لیے موقع تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آگے بڑھ سکتا مگر کوئی شخص ایسا نہ نکلا جو اپنی قربانی اور اپنی محبت اور اپنے ایثار اور اپنے خلوص اور اپنے تعلق باللہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے آگے بڑھ جاتا۔ یہ ایسی بات ہے جسے ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے مگر ہماری دشمنی کی وجہ سے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کمی کی وجہ سے یا سچائی سے بیزاری کی عادت رکھنے کی وجہ سے جو بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کو بڑھانے والی ہے اُس کو ماننے سے تو وہ انکار کرتے ہیں اور جو باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی عظمت کو کم کرنے والی ہیں اُن کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً مسلمانوں میں مولود کی رسم ہے۔ مولود میں سوائے اِس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ایک مولوی اُٹھ کر وعظ کرنا شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بال ایسے تھے۔ کوئی اُن سے پوچھے کیا خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لمبے اور ملائم بالوں کی وجہ سے رسول بنا کر بھیجا تھا؟ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ ایسا تھا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سفید رنگ کی وجہ سے نبی بنا کر بھیجا تھا؟ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قد ایسا تھا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اچھے قد کی وجہ سے نبی بناکر بھیجا تھا؟ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ایسی تھیں؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدانے اعلیٰ درجہ کی آنکھوں کی وجہ سے نبی بناکر بھیجا تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تو یہ مقام اُس قربانی اور ایثار کی وجہ سے ملا تھا جس کا آپؐ نے اپنے عمل سے ثبوت دیا۔ اُس محبت کی وجہ سے ملا تھا جو آپؐ کے دل میں پائی جاتی تھی۔ آپؐ نے ایک طرف خدا تعالیٰ سے ایسی محبت کی جس کی مثال دنیا کاکوئی اَور شخص پیش نہ کرسکا اور دوسری طرف بنی نوع انسان سے ایسی محبت کی جس کا نمونہ کوئی اَور شخص نہ دکھا سکا۔ آپؐ کو یہ مقام اُس عشق کی وجہ سے حاصل ہوا جو آپ کے رگ و ریشہ میں پایا جاتا تھا، اُس عبادت کی وجہ سے حاصل ہوا جس پر آپ کو دوام حاصل تھا، اُن اعلیٰ صفات کی وجہ سے حاصل ہوا جو آپؐ سے ظاہر ہوتی تھیں، اُن جذبات کی وجہ سے حاصل ہوا جو آپؐ میں پائے جاتے تھے اور جن کے نتیجہ میں آپؐ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر قربانی کرنے پر تیار رہتے تھے۔ مگر جن چیزوں کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمدؐ کہلائے مسلمان اُن کا تو ذکر نہیں کرتے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپؐ نے ایک کمبل لپیٹا ہوا ہوتا تھا، آپؐ کے گیسو ایسے تھے اور آپؐ کا رنگ ایسا تھا۔ یہ توصریح ہتک ہے جو مسلمانوں کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، کی جاتی ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ ہٹلر کی لوگ کیوں تعریف کرتے ہیں؟ تو وہ کہے اِس لیے کہ اُس کا قد پانچ فٹ کا ہے، وہ فلاں کوٹھی میں رہتا ہے اور اُس کی زبان ایسی ہے۔ اِس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ یا تو یہ تعریف کرنے والا پاگل ہے اور یا اُسے اندرونی طور پر دوسرے شخص سے کوئی شدید دشمنی ہے جس کا وہ اِس رنگ میں اظہار کررہا ہے۔ اِسی طرح مسلمان وہ باتیں تو بیان نہیں کرتے جن سےرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی شان ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آپؐ کے گیسو ایسے تھے اور آپؐ کا رنگ ایساتھا۔ حالانکہ لمبے گیسوؤں والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، سفید رنگ والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، اچھے قد والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں، خوبصورت آنکھوں والے دنیا میں ہزاروں مل سکتے ہیں۔ اور یہ خوبیاں ہرگز ایسی نہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے ممتاز ہوں۔ جس چیز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منفرد ہیں اور جس چیز میں دنیا کا کوئی شخص آپؐ کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جاسکتا وہ محبت اور وہ عشق ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تھا۔ تم ایسا کوئی شخص دنیا میں تلاش نہیں کرسکتے جس نے خدا سے وہ محبت کی ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، جس نے اُس عشق کا اظہار کیا ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوا۔ تم لمبے گیسوؤں والے ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی دنیا میں دکھا سکتے ہو لیکن آدم سے لے کر قیامت تک تم ایک شخص بھی ایسا پیش نہیں کر سکتے جس نے پاکیزگی اور طہارت کا وہ نمونہ دکھایا ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رسالت کے اِس بلند ترین مقام پر پہنچاے والی آپؐ کی وہ صداقت تھی جس کا آپؐ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدمؑ سے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی۔ اس مقام پر پہنچانے والی آپؐ کی وہ امانت تھی جس کا آپؐ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی۔اِس مقام پر پہنچانے والا آپؐ کا وہ انصاف تھا جس کا آپ نے نمونہ دکھایا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک دنیا کے کسی شخص میں نہیں مل سکتی۔ اِس مقام پر پہنچانے والا آپؐ کا وہ ایثار تھا جو بنی نوع انسان کے لیے آپؐ سے ظاہر ہوا اور جس کی مثال آدم سے لے کر قیامت تک اَور کسی شخص میں نہیں مل سکتی۔ اِس مقام پر پہنچانے والا آپؐ کا دین کے لیے اپنے آپ کو اِس طرح وقف کردینا تھا کہ آدمؑ سے لے کر قیامت تک ایسا کوئی شخص پیش نہیں کیا جاسکتا جس نے دین کے لیے اپنے آپ کو رات اور دن اس طرح وقف کردیا ہو۔ یہ اور اِسی قسم کی ہزاروں نہیں لاکھوں خوبیاں ایسی ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالکل منفرد ہیں اور کوئی شخص ان خوبیوں اور کمالات میں آپؐ کی ہمسری کا دعوٰی نہیں کرسکتا۔ مگر مسلمان اِن خوبیوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور بیان یہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلفیں ایسی تھیں اور آپ کا رنگ ایسا تھا اور آپ کا قد ایسا تھا۔ اور آپؐ کی خوبیوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنا عُہدہ عشقِ الٰہی اور خدمتِ خلق کے کمال سے حاصل نہیں کیا بلکہ یونہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اِس مقام پر کھڑا کردیا تھا۔ اِن باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب دشمن کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ ہنستا ہے اور بجائے اِس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور آپؐ کے کمالات اور فضائل کا اُس پر اثر ہو، وہ تعجب کرتا ہے کہ کہنے والے کی عقل کو کیا ہوگیا کہ وہ آپؐ کی ذاتی خوبیاں تو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہہ کر کہ خدا تعالیٰ نے یونہی آپؐ کو اعلیٰ مقام دے دیا تھا آپؐ کی ذاتی خوبیوں کا انکار کرتا ہے اور وہ خوبیاں پیش کررہا ہے جن میں آپؐ کا کوئی دخل نہیں۔ یہ خوبیاں کہ آپ کا رنگ ایسا تھا اور آپ کا قد ایسا تھا اور آپؐ کی زلفیں ایسی تھیں ایسی ہی ہیں جیسے تاج محل کے متعلق کہا جائے کہ وہ بڑا خوبصورت ہے۔ بیشک تاج محل بہت خوبصورت ہے مگر کیا تاج محل اپنے اِس حُسن پر فخر کرسکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خوبی کے بدلہ میں مجھے بھی جنت میں کوئی اعلیٰ مقام ملنا چاہیے؟ آخر تاج محل کیوں اپنے حُسن پر فخر نہیں کرسکتا اور کیوں یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ اُسے بھی اس خوبی کی وجہ سے جنت میں جگہ ملنی چاہیے؟ اِسی لیے کہ تاج محل کی خوبیاں اُس کی ذاتی نہیں بلکہ کسی معمار کی مرہونِ منت ہیں۔ ایک معمار نے جس رنگ میں چاہا اِسے بنادیا۔ معمار نے اُسے تاج محل بنادیا تووہ تاج محل بن گیا۔ اگر وہ اسے معمولی مکان بنادیتا تو وہ ویسا ہی بن جاتا۔ اِسی طرح دنیا کے خوبصورت پہاڑی مقامات مثلاً کشمیر یا ڈلہوزی یا کھجیار4 وغیرہ کیا جنت میں کسی اعلیٰ درجہ کے مقام کے مستحق ہوسکتے ہیں؟ اور کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارے اندر بھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اِس لیے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت میں جگہ ملنی چاہیے؟ آخر کیوں وہ یہ مطالبہ نہیں کرسکتے؟ اِسی لیے کہ اُن کی بناوٹ اور اُن کی پختگی میں اُن کا کوئی ذاتی دخل نہیں۔ اِسی طرح اگر خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زور سے ایک بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوْذُ بِاللہِ عزت کے مستحق نہیں کیونکہ اُن کا اِس مقام کو حاصل کرنا اُن کی کسی ذاتی خوبی کا نتیجہ نہیں خدا نے زبردستی دوسروں کا راستہ روک کر اُن کو اس مقام پر پہنچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے مقام کا احترام صرف اِسی صورت میں ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص کے لیے خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا موقع تھا۔ ہرشخص کا اختیار تھا کہ وہ آگے بڑھتا اور اپنے عشق اور اپنی محبت کے زور سے اس مقام کو حاصل کر لیتا۔ خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے اندر قابلیتیں رکھی تھیں، ہر شخص کے اندر اُس نے طاقتیں رکھی تھیں، ہر شخص کے اندر اُس نے یہ ملکہ رکھا تھا کہ وہ نوع انسان کی خدمت یا عبادت یا محبتِ الٰہی میں ترقی کرکے اللہ تعالیٰ کے قرب کا بلند سے بلند مقام حاصل کرلے۔ مگر باوجود اِس کے کہ سب کو مشابہ طاقتیں دی گئی تھیں، سب کو مشابہ قابلیتیں دی گئی تھیں، سب کو آگے بڑھنے کے مشابہ مواقع حاصل تھے، سب کے لیے خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کھلے تھے پھر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور سب سے آگے بڑھ گئے۔جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کے لیے موقع حاصل تھا ویسا ہی موقع آدمؑ کو حاصل تھا، ویسا ہی نوحؑ کو حاصل تھا، ویسا ہی ابراہیمؑ کو حاصل تھا، ویسا ہی موسٰیؑ کو حاصل تھا، ویسا ہی عیسیٰؑ کو حاصل تھا اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے کمالات کو طے بھی کیا۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال یہ ہے کہ آپؐ نے اُن سب سے بڑھ کر اپنے عشق و محبت کا ثبوت دیا اور اِس طرح دنیا کے تمام لوگوں سے آگے بڑھ کر دکھا دیا۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر کہیں بڑے بڑے پہلوان جمع ہوں اور اُن میں سے ایک پہلوان سب پر غالب آجائے تو وہ بہت زیادہ عزت اور بہت زیادہ انعام کا مستحق سمجھا جائے گا۔ بھلا اِس میں کسی کی کیا عزت ہے کہ بہت سے پہلوان جمع ہوں تو ایک شخص کو بِلاوجہ آگے کردیا جائےاور دوسروں کو پیچھے ہٹا دیا جائے ۔ یہ بات اُسے معزز ثابت کرنے والی نہیں ہوگی۔ بلکہ اُسے دوسروں کے مقابلہ میں نااہل قرار دینے والی ہوگی۔
ہمیں تو جس چیز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نظر آتی ہے ہم اسی کو پیش کرتے ہیں۔ مگر اِن مسلمانوں کے دلوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اِتنی نکل چکی ہے، ان کا تعلق آپؐ سے اتنا کٹ چکا ہے اور ہمارا بُغض ان کے دلوں میں اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا کہیں تو وہ چھوٹا کہہ دیتے ہیں، ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدارسیدہ قرار دیں تو وہ آپؐ کو نَعُوْذُ بِاللہِ خدا سے دور قرار دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔مَیں نہیں سمجھ سکتا یہ کیسا ایمان ہے اور کس طرح یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پایا جاتا ہے۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ اِس بنیاد پر اور اپنی اس حالت کے ہوتے ہوئے ہم سے یہ بحث کی جاتی ہے کہ انہیں کافر کیوں کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں ہماری دشمنی اِتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دشمنوں کی نگاہ میں ذلیل کرنے کے لیے تیار ہیں محض اِس وجہ سے کہ اُن کی باتوں سے لوگوں میں ہمارے خلاف اشتعال پیدا ہوجائے اُن کے ایمان کا خیال بھی کسی کو کس طرح آسکتا ہے۔ ہمارے خلاف اگر وہ لوگوں کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو بیشک بھڑکائیں ہمیں ان کی مخالفت کی کوئی پروا نہیں۔ اگر وہ ہمارے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں تو بیشک دلائیں۔ پہلے کب لوگوں نے ہمارے خلاف اشتعال کا اظہار نہیں کیا ا اور پہلے کب انہوں نے ہماری مخالفت میں اپنی انتہائی کوشش صَرف نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور ہمارا بھی یہی مذہب ہے کہ ؎
در کوئے تو اگر سرِعُشّاق را زَ نَند
اوّل کسے کہ لافِ تعشّق زَنَد مَنَم5
اگر تیرے کوچہ میں یہ حکم ہو کہ جو شخص تیری محبت کا دعوٰی کرے گا اُس کا سر قلم کردیا جائے گا تو پہلا شخص جو تیرے کُوچہ میں اپنے عشق و محبت کا اظہار کرے گا وہ مَیں ہوں گا۔
پس "پیغامِ جنگ"یا "پیام دہلی" یا "شہباز" یا "زمیندار" یا "احسان" کی مخالفت کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔ہمارے خلاف اِس سے پہلے بڑے بڑے فتوے شائع کیے گئے اور ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ان فتووں کی تشہیر کی گئی اور کوشش کی گئی کہ جماعت احمدیہ کو مٹا دیا جائے۔ مگر کیا ہم ان کے فتووں سے ڈر گئے؟ یا ان کی مخالفتیں ہمارا کچھ بگاڑ سکیں؟ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے اور آپ کی عزت کو قائم کرنے کے لیے دنیا میں کھڑے ہوئے ہیں اور ہم نے یہ کام سخت سے سخت مشکلات اور شدید سے شدید مخالفت میں بھی کیا ہے۔ دشمن نے ہمیں کہا کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کا ارتکاب کرتے ہو۔ مگر یہ نہیں ہوا کہ اِس مخالفت کے ڈر سے ہم نے اُن عقائد کو اختیار کرلیا ہو جو اِن ظالم دشمنوں اور دین سے بیزار لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں اور جن سے آپ کی ہتک ہوتی ہے۔ بلکہ ہم اُنہی عقائد پر قائم ہیں اور قائم رہیں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو بڑھانے کا موجب ہیں۔ اگر گورنمنٹ اِس جُرم پر ہم سب کو گرفتار کرلے اور ہمارے سروں پر آرے رکھ کر جسموں کو چِیر ڈالے تب بھی ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں گے اور ہم یہی کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کے میدان میں اپنے زور سے بڑھے ہیں۔ یہ نہیں ہوا کہ خدا نے ان کو زبردستی آگے کردیا ہو اور باقی لوگوں کا رستہ روک لیا ہو۔ پس یہ جہالت ہے کہ "زمیندار" کے ایک مضمون سے یا "پیغام جنگ"یا "پیام دہلی" اور "شہباز" یا "احسان" کے لکھنے سے ہم ڈر جائیں اور اپنے ان عقائد کو ترک کردیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند کرنے کا موجب ہیں۔ ہم تو خدا کے فضل سے توپوں کے منہ کے سامنے کھڑے ہوکر بھی یہی کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور ہم آپؐ کی عزت دنیا میں قائم کرکے رہیں گے۔ دنیا آج نہیں تو کل مجبور ہوگی کہ وہ ہمارے اِن عقائد کو تسلیم کرے اور اِنہی کو صحیح اور درست سمجھے۔
کیا ہمیں یہ نظارے نظر نہیں آتے کہ چالیس سال پہلے جن مسائل کی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے، آج اُنہی مسائل کو مسلمان اپنے اعتقادات قرار دے رہے ہیں؟ کہا جاتا تھا کہ قرآن کریم کی کئی آیتیں منسوخ ہیں مگر آج ہر تعلیم یافتہ مسلمان قرآن کریم میں نسخ کے عقیدہ کو باطل عقیدہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔ بلکہ سارے کا سارا قرآن بنی نوع انسان کے لیے واجب العمل ہے۔ اِسی طرح آج سے چالیس سال پہلے محض اِس بناء پر کہ ہم وفات مسیحؑ کے قائل ہیں، ہم پر کفر کے فتوے لگائےگئے۔ مگر آج ہر تعلیم یافتہ انسان سمجھتا ہے کہ عیسٰی مر گیا۔ حالانکہ یہ وہ مسئلہ تھا جس کو ماننے پر ہمیں گالیاں دی جاتی تھیں، ہمیں پتھراؤ کیا جاتا تھا، ہمیں کافر اور دجّال کہا جاتا تھا۔ مگر ہم اُس وقت بھی یہی کہا کرتے تھے کہ عیسٰیؑ اگر مرتا ہے تو بے شک مرے، ہمیں تو اسلام کی زندگی کی ضرورت ہے۔ اگر اسلام کی زندگی عیسٰیؑ کی وفات میں ہے تو عیسٰی خواہ سَو دفعہ مرے ہمیں اِس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ہم صرف اسلام کے احیاء کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ غرض بیسیوں عقائد اور بیسیوں مسائل ہیں جن میں احمدیت کو فتح حاصل ہوئی۔ اِسی طرح ہم پر کفر کا فتوٰی لگانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے متعلق کہا جاتا تھا یہ لوگ ہندوؤں میں سے بُت پوجنے والے کو نبی کہتے ہیں یعنی اُن لوگوں کو جن کو ہندو اوتار کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں۔ مگر آج دیکھ لو مسلمانوں کا اکثر تعلیم یافتہ طبقہ اِس مسئلہ کو اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کر رہا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے نبی تھے۔ چنانچہ لاہور، دہلی اور حیدر آباد سے مسلمانوں کی یہ آوازیں اُٹھنی شروع ہوگئی ہیں کہ حضرت کرشنؑ بھی خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور حضرت رامچندر بھی خدا تعالیٰ کے نبی تھے۔ حالانکہ اِنہی باتوں کی وجہ سے پہلے ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتےتھے۔ تو ہمارا تجربہ بتا رہا ہے کہ جو بات ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے، چالیس پچاس سال کے بعد وہی بات مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ جب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوگی، جب اُن میں سچا اخلاص پیدا ہوگا، جب اُن کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت پیدا ہوگی تو وہ اِس بات کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت آیا اِس بات میں ہے کہ آپ نے ساری دنیا کا مقابلہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو شکست دے کر اور اُن کو اپنے پیچھے چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے خاص قرب کا مقام حاصل کرلیا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اِس بات میں ہے کہ خدا نے ان کو زبردستی لوگوں کے آگے کردیا اور خود روک بن کر لوگوں میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حائل ہوگیا اور اُس نے آگے بڑھنے سے اَوروں کو جبراً روک دیا تا وہ کہیں اس مقام تک نہ پہنچ جائیں جس مقام پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا چاہتا تھا۔ مَیں یقیناً سمجھتا ہوں جب ہماری مخالفت کم ہوگی، جب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوگی تو وہ تسلیم کر لیں گے کہ یہی عقیدہ درست ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں سب لوگ دوڑے اور ہر ایک نے چاہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرے۔ مگر اِس میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے تمام انسانوں کو شکست دے دی اور خود وہ مقام حاصل کر لیا جو تمام مقامات سے ارفع و اعلیٰ ہے اورجہاں نہ کوئی پہلے پہنچا اور نہ قیامت تک کوئی شخص پہنچ سکتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے اور یہی وہ عقیدہ ہے جس سے نہ خدا پر کوئی اعتراض عائد ہوتا ہے، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات میں کوئی نقص ثابت ہوتا ہے۔
غرض بِلاوجہ ہم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور ہمیں آپ کے مقام کو گرانے والا قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہم ہی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کرنے والے اور آپ کے نام کو بلند کرنے والے ہیں۔ ان باتوں سے جہاں ہمیں تعجب پیدا ہوتا ہے کہ ہماری دشمنی لوگوں کے دلوں میں کس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اِس دشمنی کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کو کم کرنے اور آپ کے درجہ کو گرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے، وہاں ہم اِس مخالفت سے ذرا بھی نہیں گھبراتے اور ہمارے لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ کیونکہ ہمارا تجربہ بتا رہا ہے کہ جو بات ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے وہی چالیس پچاس سال کے بعد مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں۔ مَیں نے غیر مذاہب کے متعلق جلسے منعقد کرنے کی تحریک کی تو پہلے اس کی بڑی مخالفت ہوئی مگر اب ہر جگہ یہ جلسے ہوتے ہیں اور تقریروں میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں امن قائم کرنے اور باہمی بُغض و کینہ کو دور کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ اِسی طرح اِس مسئلہ کے متعلق بھی ہمارے لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یہی لوگ یا اِن کی اولادیں اِسی مضمون کو بیان کرنے لگ جائیں گی اور وہ کہیں گی احمدیوں کو کیا پتہ ہے، یہی ہمارے باپ دادا کا عقیدہ ہوا کرتا تھا"۔ (الفضل16؍جولائی1944ء)


27
الہامِ الٰہی کی بناء پر معاملات کی صفائی
اور مظلوم کی امداد کے متعلق تحریک
(فرمودہ 14 جولائی 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں آج ایک ایسے امر کے متعلق بیان کرنے لگا ہوں جو اِس لحاظ سے کہ جن لوگوں کے ساتھ اِس کا تعلق ہے اُن میں سے اکثر اِس وقت موجود نہیں ہیں، کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن مَیں نہیں چاہتا کہ اِس کے اظہار کے لیے ایک دن کی بھی دیر لگاؤں۔ اِس لیے اس کو بیان کردیناضروری سمجھتا ہوں۔
تین چار دن کی بات ہے کہ صبح کے وقت جب میری آنکھ کُھلی تو اُس وقت ایک لمبا مضمون میرے دل پر نازل ہورہا تھا۔ وہ اِتنا لمبا مضمون تھا کہ مَیں اُس کو یاد رکھ ہی نہیں سکتا تھا لیکن اس کا مفہوم اختصاراً یاد رہ گیا ہے۔ اِس حالت میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں گویا اپنی اولاد کو مخاطب کرکے کچھ کہہ رہا ہوں۔ وہ مضمون تو جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے بہت لمبا تھا لیکن اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ مَیں کہتا ہوں کہ جس طرح حِلف الفضول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی تھی اگر ایسا ہی ایک معاہدہ میری اولاد کرلے تو اِس کے نتیجہ میں اِس پر خدا کے فضل خاص طور پر نازل ہوں گے اور وہ کبھی تباہ نہ ہوگی۔
یہ چیز جس کی طرف مَیں نے اشارہ کیا ہے اِس وقت پوری طرح یاد نہیں کہ تاریخوں میں اس کا نام حَلفُ الْفضول ہے یا حِلفُ الْفضول ہے۔ بہرحال دونوں لفظ عربی ہیں۔ حَلف کے معنے قسم کے ہیں اور حِلف معاہدہ کو کہتے ہیں۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے غالباً حِلفُ الْفضول کا لفظ ہے۔ یہ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے اِس لیے اِس کو حِلفُ الْفضول کہتے ہیں۔ اور اِس معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ ہم مظلوموں کو اُن کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اوراگر کوئی اُن پر ظلم کرے گا تو ہم اس کو روکیں گے۔ باہر سے جو لوگ مکہ میں آتے ہیں اُن میں سے کوئی حج کے لیے آتا ہے، کوئی عمرہ کے لیے آتا ہے اورکوئی تجارت کے لیے آتا ہے۔ یہاں کی غذا اور دیگر تمام ضروریات باہر سے پوری ہوتی ہیں۔ اِس لیے اگر وہ نہ آئیں تو گزارہ نہیں ہوتا اوراگر آئیں تو اُن پر ظلم ہوتا ہے۔ بعض دفعہ لوگ اُن سے چیزیں لے لیتے ہیں اورقیمت نہیں دیتے اور بعض دفعہ چیز خراب کرکے واپس کر دیتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے معاہدہ کیا کہ جب کبھی اِس قسم کی بات ہوگی حِلفُ الْفضول والے مل کر یا اکیلے اکیلے مظلوم کا حق دلوایا کریں گے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ایک آدمی آیا اور اُس نے ذکر کیا کہ اِس قسم کا ایک معاہدہ ہوا ہے آپ بھی اِس میں شامل ہوں۔ آپ نے اِس کو بہت پسند فرمایا اور اس معاہدہ پر آپ نے بھی دستخط کر دیئے یعنی شمولیت کا اظہار فرمایا۔ ورنہ ویسے تو آپ دستخط نہیں کرسکتے تھے۔ بعد میں نبوت کے ایام میں بلکہ مدینہ کی زندگی میں ایک دفعہ ایک شخص نے ذکر کیا کہ یارسولَ اللہ! کفر میں بھی بعض اچھے کام ہوتے تھے۔ چنانچہ اُس نے حِلفُ الْفضول کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ سنا ہے آپ بھی اُس میں شامل ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اگر جاہلیت کی کسی ایسی ہی چیز کی طرف جس طرح کہ حِلفُ الْفضول تھی مجھے پھر بلایا جائے تو مَیں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں شامل ہوں۔فرمایا لَوْ دُعِيْتُ لَأَجَبْتُ۔1 آج بھی مَیں اس قسم کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ اَور کافروں کا تو پتہ نہیں کہ انہوں نے اِس معاہدہ پر عمل کیا یا نہیں لیکن آپ نے اس پر عمل کیا۔
نبوت کےدعوٰی کے بعد جبکہ مخالفت شدید ہوگئی اور مخالف ہر رنگ میں آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے تھے۔ جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوا کہ مخالفین، احمدیوں کا مال کھا لینا اور ان کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے ہیں۔اِسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکّہ میں صحابؓہ کو یہ سب تکالیف ہوتی تھیں۔ کفار کے بڑے بڑے سردار جن میں ابوجہل، عتبہ اور شیبہ وغیرہ شامل تھے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کرنے کا معاہدہ کیا کہ کوئی شخص ان کے ساتھ کلام نہ کرے، ان کےسلام کا جواب نہ دے، ان کے حقوق کو دبا لینا سراسر جائز ہے اور ان کی کوئی بات خواہ وہ بالکل سچی ہو بالکل نہ مانو۔اُس زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ باہر سے ایک شخص آیا۔ ابوجہل نے اُس سے کچھ مال خریدا تھا اور اس کی قیمت ادا نہیں کرتا تھا اور نہ ہی مال واپس کرتاتھا۔ وہ شخص آیا اور جن جن لوگوں نے حِلْفُ الْفضول میں حصہ لیا تھا باری باری اُن کے پاس گیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ مظلوم کی مدد کریں گے آپ میری مدد کریں اور ابوجہل سے میرے مال کی قیمت یا میرا مال واپس دلوا دیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک شخص ابوجہل جیسے بدگو انسان کے پاس جانے سے ڈرتا تھا اور پھر وہ رئیس بھی تھا اِس لیے ہر ایک نے انکار کردیا کہ وہ نہیں جاسکتا۔ آخر پِھرتے پِھراتے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اس اس طرح ابوجہل نے مجھ سے مال لیا تھا اب نہ وہ قیمت دیتا ہے اور نہ مال ہی واپس کرتا ہے۔ آپ میری مدد کریں اور میرا مال واپس دلوا دیں یا قیمت لے دیں۔ آپ نے فرمایا ہاں چلو۔ اور باوجود اِس قدر شدید مخالفت کےکہ وہ آپ کی بات سننا بھی ناپسند کرتا تھا آپ اُس کے ساتھ چل پڑے اور ابوجہل کے گھر پر جاکر دستک دی۔ اُس نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)۔ اُس نے دروازہ کھول دیا اور پوچھا کہ کس طرح آئے ہیں؟آپ نے فرمایا یہ شخص کہتا ہے کہ آپ نے اِس سے کچھ سامان لیا تھا اور اس کے روپے نہیں دیے۔مَیں اس لیے آیا ہوں کہ اس کے روپے ادا کر دیجیے۔ اُس نے بغیر کسی چون و چرا کے کہا بہت اچھا اور روپے لا کر دے دیے۔ جس شخص پر آپ نے اتنا بڑا احسان کیا تھا وہ کب خاموش رہ سکتا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو اس کا ذکر نہیں کرنا تھا۔ لیکن اُس نے ہر جگہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ مَیں فلاں کے پاس گیا اور اُس نے میری مدد نہ کی، فلاں کے پاس پہنچا اوراُس نے مدد سے انکار کردیا۔ آخر مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس گیا اور انہوں نے میرا حق دلوا دیا۔ جب یہ بات پھیلی تو لوگوں نے ابوجہل پر ہنسنا شروع کیا کہ یہ عجیب بے غیرت آدمی ہے۔ یہ تو کہا کرتا تھا کہ اِن کے ساتھ بات کرنا بھی منع ہے اور اِن کی سچی بات کو ماننا بھی جائز نہیں۔ لیکن جس بات سے یہ لوگوں کو منع کیا کرتا تھا خود اس نے اِس کی خلاف ورزی کی اور محمد سے ڈر کر اس کی بات مان لی۔آخر بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ چھوٹوں سے بڑوں نے سنا اور بڑوں سے پھر اُن سے بڑوں نے سنا اور ہوتے ہوتے یہ بات عتبہ، شیبہ وغیرہ کے پاس بھی جاپہنچی اور انہوں نے ابوجہل کو اِس بات پر مجلس میں پکڑا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟جس بات سے تم دوسروں کو روکا کرتے تھے تم خود اس کے مرتکب ہوئے یہ کیا تمسخر ہے؟ ابوجہل نے جواب دیا خدا کی قسم! معلوم نہیں کیا ہوا۔مَیں ان کی بات تو سننے والا نہیں تھا۔ لیکن جب مَیں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ دو وحشی اونٹ محمد کے دائیں اور بائیں سے اِس طرح میری طرف بڑھے کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ اگر مَیں نے انکار کیا تو یہ مجھے کھا جائیں گے۔ اِس وجہ سے مجھے طاقت نہ رہی کہ مَیں انکار کرتا۔2
اب چاہے اس کو معجزانہ طور پر سمجھ لو اور چاہے یہ سمجھ لو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اخلاقی طاقت اور جرأت دیکھ کر کہ باوجود شدید مخالفت کے آپؐ ابوجہل کے گھر پر جاپہنچے، ابوجہل کے مشرک دماغ پر توہّم کے اثر سے یہ صورت پیدا ہوگئی۔ پس چاہے اِس کو ابوجہل کے دماغ کے وہم کی ایجاد سمجھ لو، چاہے صرف خدا کی نصرت کا معجزہ سمجھ لو بہرحال ہوا یہی کہ ابوجہل نے بغیر کسی چون وچرا کے فوراً مال کی قیمت ادا کردی۔
تو یہ ہے وہ حِلْفُ الْفضول جس کے متعلق مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں اپنی اولاد کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں کہ اگر اِسی قسم کا ایک معاہدہ وہ بھی کریں اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنے فضل نازل فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس سے مراد جسمانی اولاد ہے یا جماعت مراد ہے کیونکہ جماعت بھی روحانی اولاد ہی ہوتی ہے۔ بہرحال یہ ایک ایسا مضمون ہے جو شاید سالہاسال سے بھی میرے ذہن میں نہیں آیا ہوگا۔ آٹھ دس سال سے تو حِلْفُ الْفضول کا لفظ بھی میرے ذہن میں نہیں آیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ الہامِ ربانی ہے۔ اِس میں نفس کا دخل نہیں۔ درحقیقت یہ اِس زمانہ کی اہم درجہ کی نیکی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اِس زمانہ میں بالخصوص امیر لوگ غریبوں کو لُوٹتے ہیں اور اِس لُوٹنے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی شخص نے جس کا نام نانک تھا یا شاید اس نے شرارتاً بابا نانکؒ کا نام لے کر یہ شعر بنالیا۔ حضرت بابا نانکؒ تو نیک آدمی تھے۔ ان کی زبان سے تو اس قسم کی بات نہیں نکل سکتی۔ وہ کہتا ہے ؎
مال پرایا نانکا جیوں بُوری مہیں دا دودھ
کھائیےپئیے ورتیے تے کارن ہوون سُدھ
یعنی اے نانک! پرایا مال ایسا سمجھنا چاہیے جس طرح بھوری بھینس کا دودھ ہوتا ہے۔ بھوری بھینس کے دودھ کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر سیاہی مائل بھینس کثرت سے ہوتی ہے۔ خالص بھوری بھینس کم ہوتی ہے۔ جیسے کالی گائے کم ہوتی ہے اِس کے دودھ کو بھی عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ تو کالی گائے اور بھوری بھینس دونوں کم ملتی ہیں۔ بِالعموم بھینسیں پوری سیاہ یا سیاہی مائل ہوتی ہیں۔ تو وہ کہتا ہے کہ جس طرح بھوری بھینس کا دودھ طاقتور اور لذیز ہوتا ہے ایسا ہی دوسروں کا مال بھی لذیز ہوتا ہے۔ اِس لیے پرائی چیز اگر لینے والی ہو تو لے لو۔ اگر برتنے والی ہو تو اُسے برتو۔ اگر کھانے والی ہو تو اُسے کھاؤ۔ اگر ایسا کرو گے تو" کارن ہو ون سُدھ"۔ اگر غیر کے مال کو اٹھانا جائز سمجھو گے تب تمہارے کام درست ہوں گے۔ اور اگر نیکی اور تقوٰی اختیار کروگے کہ غیر کے مال کو لینا حرام اور ناجائز ہے تو مصیبت میں پڑے رہو گے اور اس طرح تمہیں امن نہیں ملے گا۔
یہ گویا اس وقت کے لوگوں کا نقشہ ہے۔ کسی نانک نے جو یقیناً حضرت باوانانکؒ نہیں بلکہ کوئی ایسا نانک ہے کہ جو خدا اور رسول کی عزت اپنے دل میں نہیں رکھتا تھا اپنے زمانہ کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ اِس وقت دنیا کا یہ حال ہے کہ اس زمانہ میں تقوٰی اور امانت کو بالکل نقصان دہ اور خرابی والی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر عمل کرے جو اسلام نے نیکی، تقوٰی، دیانتداری وغیرہ کے متعلق بتائی ہیں بلکہ دوسرے مذاہب نے بھی نیکی اور دیانت کے متعلق جو تعلیم دی ہے اِس میں سارےمذہب شامل ہیں۔ ہندو بھی یہی کہتے ہیں کہ دیانت داری بڑی اچھی چیز ہے، عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، یہود بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے۔پس جہاں تک اصول کا تعلق ہے کوئی مذہب بھی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ امانت نہ برتو یا سچائی اوردیانتداری سے کام نہ لو یا انصاف نہ کرو۔ لیکن اِس کا کہنے والا اس قسم کی باتوں پر عمل کرنا اپنی بربادی سمجھتا ہے اور اپنی راحت اور چَین اور سُکھ اِسی میں سمجھتا ہے کہ غیروں کا مال جس طرح چاہو ہتھیاؤ اور کھاؤ اور پیؤ۔ اگر ایسا کروگے تو یہی سُکھ کا موجب ہوگا اور اگر ایسا نہیں کروگے تو راحت اور چین نہیں ملے گا۔ اس کے نزدیک یہ بھی کوئی عقلمندی ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہ ہوں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بغیر اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بیٹھے رہیں۔ عقلمندی یہی ہے کہ اپنی ضرورت کو پورا کرنا چاہیے اگرچہ ڈاکہ ڈال کر یا بددیانتی سے پوری کرنی پڑے۔ یہ چیز اِس زمانہ میں ہم عام طور پر دیکھ رہے ہیں اور سو میں سے ننانوے آدمی اسی خرابی میں مبتلا ہیں۔
ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ پاک ہے۔ مگر پھر بھی معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد میں بہت کچھ ترقی کی ان کو ضرورت ہے۔ یاد رکھو! بعض چیزیں تقوٰی شعار ہوتی ہیں اور ہر زمانے کا یہ شعار اُس زمانے کی نیکی کے لحاظ سے اونچا نیچا ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے مَیں نے بارہا خطبات اور تقاریر میں اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ کبائر کے یہ معنے کرنا کہ وہ کوئی خاص جرائم ہیں یہ غلط ہے۔ کبیرہ تو اُس کو کہتے ہیں جس کا چھوڑنا نفس پر بوجھل ہو۔ پس جو چیز جسم پر بوجھل محسوس ہو اُسی کو کبیرہ کہیں گے۔چنانچہ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اِنہی معنوں میں آیا ہے کہ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ3 کہ نماز نہ ڈرنے والوں کی طبیعت پر بوجھل ہے۔ تو کبائر کے معنے یہ ہیں کہ جن کا چھوڑنا طبائع پر بوجھل محسوس ہو۔ اِسی طرح نیکیوں میں سے بھی جو نیکی زمانہ یا طبائع کے لحاظ سے زیادہ گراں ہوگی اُس زمانہ میں اُسی کو بڑی نیکی کہا جائے گا۔اگر کسی زمانہ میں مثلاً لوگوں کو روپیہ ضائع کرنے کی عام عادت ہو لیکن جان دینے سے ڈرتے ہوں تو اُس زمانہ میں چندے دینا بڑی نیکی نہیں ہو گی بلکہ جان دینا بڑی نیکی ہوگی۔ اور اگر کسی زمانہ میں کھانے پینے کے لحاظ سے لوگ اِس بات کے عادی ہوچکے ہوں کہ وہ بُھوکا رہنا برداشت نہ کرسکیں تو اُس زمانہ میں نہ جان دینا بڑی نیکی ہوگی اور نہ چندہ دینا بلکہ روزہ رکھنا بڑی نیکی سمجھا جائے گا۔ ایسا ہی اگر کسی زمانہ میں عدل و انصاف اُڑ گیا ہو تو اُس زمانہ میں عدل و انصاف کو قائم کرنا سب سے بڑی نیکی ہوگی۔ اگر کسی زمانہ میں ماں باپ کا ادب اولاد کے دلوں سے اٹھ گیا ہو تو اس زمانہ میں ماں باپ کا ادب سب سے بڑی نیکی کہلائے گا۔ پس جو نیکی طبائع پر گراں گزرتی ہو اُس زمانہ کے لحاظ سے وہی سب سے بڑی نیکی ہوگی۔ اور جس بدی کا چھوڑنا طبیعت پر گراں ہو اُس زمانہ میں وہی بدی اس زمانہ کے لحاظ سے کبیرہ کہلائے گی۔تو گناہ بھی اور نیکیاں بھی زمانہ کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں۔
اِس زمانہ میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسرے سارے کام کرلیں گے، چندے بھی دیں گے، نمازیں بھی پڑھیں گے،اَور بھی کئی کام کرلیں گے لیکن جہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا پڑے گا وہاں اِن میں سے کچھ کمزوری دکھلائیں گے۔ پس ایسے موقع پر چندہ دینا بڑی نیکی نہیں کہلائے گا بلکہ اس موقع پر دین کو دنیا پر مقدم کرنا سب سے بڑی نیکی ہوگی کیونکہ ہر موقع پر نیکی کی شکل بدلتی رہتی ہے اِسی طرح یہ بھی ہے کہ امیر اور غریب میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ قضاء اور عدالت کے معاملہ میں کمزوری دکھائی جاتی ہے۔ اَور تو اَور بعض لوگ میرے پاس بھی آجاتے ہیں حالانکہ مَیں وہ آخری شخص ہوں جس کو قضاء کا احترام قائم کرنا چاہیے۔ لیکن وہ میرے پاس بھی آجائیں گے اور مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا4 کی آیت پڑھ کر کہیں گے کہ مَیں اُن کی شفاعت کروں یا بطور قاضی یہ بددیانتی کروں کہ جس کا حق ہے اُس کے حق کو نظر انداز کرکے ان کو وہ حق دلا دوں۔ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ انصاف اور عدالت کی عظمت باقی نہیں رہی۔ ورنہ یہ بات تو انہیں ایک چوہڑے کےسامنے بیان کرتے ہوئے بھی شرم کرنی چاہیے تھی۔ مگر وہ چوہڑے کے پاس نہیں، کسی مومن کے پاس نہیں، کسی صالح کے پاس نہیں، کسی صدیق کے پاس نہیں بلکہ خلیفۂ وقت کے پاس براہ راست جاکر یہ بات کہتے ہیں کہ یوں کردو۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے انسان کا دل اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ5 کے مطابق جانور کی طرح بلکہ اُس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ اور پھر ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھتے جائیں گے کہ شفاعت کا حکم تو خدا نے دیا ہے حالانکہ اس موقع پر خدا اور اُس کے فرشتے *** بھیج رہے ہوتے ہیں۔
غرض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ عدل اور انصاف آجکل بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک میں بغیر کمی بیشی کے کسی چیز کی خریدوفروخت نہیں ہوتی۔ دو پیسے کا سَودا لینا ہو آدھ گھنٹہ بحث کریں گے تب جا کر اسے خریدیں گے۔ یہاں ڈلہوزی کا واقعہ ہے کہ ہمارے ایک ساتھی ایک دکان سے تصویروں کا ایک سیٹ خریدنے کے لیے گئے اور گھنٹہ بھر اُس دکاندار سے بحث کرتے رہے اور جھگڑا چھ آنے سے بارہ آنے تک اوپر نیچے ہوتا رہا اور اِس پر ایک گھنٹہ صَرف کردیا۔ آخر دکاندار نے اُن سے کہا کہ آپ نے خوامخواہ میرا بھی وقت ضائع کیا اور اپنا بھی اور اپنے ان ساتھیوں کا بھی۔ تو ہمارے ملک میں یہ عام مرض ہے کہ کسی طرح دوسرے کو لُوٹ لیں۔
پس حِلْفُ الْفضول یہ ہے کہ یہ معاہدہ کیا جائے کہ ہر شخص کا جو حق ہو وہ اُس کو دلانے کی کوشش کی جائے۔ اور یہ عادت چھوڑ دیں کہ کسی کا حق ماریں بلکہ جس شخص کا حق مارا جا رہا ہو اُس کا حق دلانے کی کوشش کریں۔ خود میرے بھائیوں، بیویوں اور اولاد کے بارے میں بھی مجھ پر یہی اثر ہے کہ وہ سب اِس نیکی میں سَو فیصدی پورے نہیں اُترے۔ بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بھی بعض سَودا کرتے وقت یا لین دین کے وقت چاہیں گے کہ رعایت سے اُن کو حق سے کچھ زیادہ ہی مل جائے۔پس مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی ہے۔ جس سے اگر میری جسمانی اولاد مراد ہے تو وہ اور اگر روحانی مراد ہے تو وہ اِس قسم کا معاہدہ کریں کہ امانت، عدل اور انصاف کو قائم کریں گے۔ شروع میں ہر چیز کی بنیاد چھوٹی ہوتی ہے مگر پھر اُسی پر بڑی عمارت تیار ہوتی ہے۔ ابتدا میں ہر چیزقلیل ہوتی ہے اور پھر اُس سے ترقی کرتے کرتے بڑی بنتی ہے۔چھوٹے چھوٹے مادے جن کو نیوکلیس(Neuclious)کہتے ہیں شروع میں باریک ذرے ہوتے ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے اربوں ارب ٹن کے اجرام بن جاتے ہیں جن کے سامنے زمین بھی ذرّہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہی چیز پہلے چھوٹے چھوٹے ذرّات ہوتے ہیں جو غبار میں حرکت کرتے رہتے ہیں اور پھر چکر کھانا شروع کردیتے ہیں۔ درمیان میں گریوٹی (Gravity) پیدا ہوجاتی ہے اور چکر کھاتے کھاتے اور ذرّے اُس کے ساتھ چمٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک گولا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح بڑھتے بڑھتے جب وہ گیند کے برابر ہوجاتا ہےتو اُس کے اندر اَور طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب فٹ بال کے برابر ہوجاتا ہے تو اُس کے اندر اَور طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے جزیرہ بن جاتا ہے۔ پھر اَور کشش ہوتی ہے۔ اِدھر سے چکّر اُدھر سے کشش۔ لازمی بات ہے کہ جب کسی چیز کے اندر چکر پیدا ہو تو وہ کچھ چیزوں کو اپنے اندر کھینچتی ہے اور کچھ چیزوں کو باہر پھینکتی ہے۔ آخر اِسی طرح کشش اور چکر کے نتیجہ میں زمین تیار ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح اگر چند مومن اِس کام کے لیے کھڑے ہوجائیں کہ آئندہ ہم نہ کسی کا حق ماریں گے اور نہ مارنے دیں گے۔ تو خدا کے نزدیک وہ اِس زمانہ کے آدم ہوں گے امانت کے، آدم ہوں گے دیانت کے، آدم ہوں گے عدل و انصاف کے۔ اگر میری اولاد کو خدا تعالیٰ یہ توفیق دے تو وہ یہ عہد کریں کہ جہاں کہیں بھی انہیں یہ معلوم ہو کہ کوئی کسی کا حق مار رہا ہے تو وہ اُس کو سمجھائے اور کسی کا حق مارنے سے اُسے روکے۔ اِس سے اپنی بھی اصلاح ہوتی ہے کیونکہ اگر منع کرنے والے شخص کے اپنے اندر یہ نقص ہوگا تو جب وہ دوسرے کو منع کرے گا تو وہ اُسے پکڑے گا کہ تُونے فلاں شخص کا حق مارا تھا۔ تو اِس طرح انسان کو اپنے نقص کا پتہ لگتا رہے گا۔یا اگر وہ مراد نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ روحانی اولاد کو توفیق دے دے کہ وہ یہ عہد کریں کہ ہم کسی کا حق نہیں ماریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کوئی کسی کا حق مار رہا ہے ہم وہاں جاپہنچیں گے اور خواہ کوئی ہم سے پوچھے یا نہ پوچھے ہم ضرور اُس میں دخل دیں گے کہ اُس کا حق ملنا چاہیے۔ جیسے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور ابوجہل کے گھر پر جاپہنچے جو آپ کا دشمن تھا۔
اِسی طرح ہماری جماعت کے چند افراد یہ عہد کرلیں کہ ہم دیانت اور امانت کو قائم کریں گے اور جہاں پتہ لگے گا کہ کسی کی حق تلفی ہو رہی ہے چاہے کوئی پوچھے یا نہ پوچھے ہم چودھری بن کر جاپہنچیں گے اور کوشش کریں گے کہ مظلوم کا حق دلایا جائے۔ مگر اس حِلْف کے لیے ابتدا میں کچھ تعداد ہونی چاہیے۔ اکیلے معاہدہ کرنے کے کوئی معنے نہیں۔ اکیلے میں بعض لوگ دشمنی کا بدلہ لینا ہو تو تقوٰی کا نام لے کر جس سے دشمنی ہوگی اُس کے خلاف شور مچانا شروع کردیں گے کہ اس نےفلاں کا حق مار لیا۔ لیکن اگر جماعتی معاہدہ ہوگا تو نگرانی بھی ہوتی رہے گی اور باقی ساتھی اُس شخص کو جو اِس عہد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفوں کو ذلیل کرنا چاہے گا پکڑیں گے کہ تم نے تو اِس عہد کو اُلٹا غصہ نکالنے کا ذریعہ بنالیا ہے اور اِس طرح جماعت روک بن جائے گی اُس کے غلط استعمال میں۔پس کچھ لوگ چاہییں جو یہ معاہدہ کریں کہ اِس معاملہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے، مظلوموں کو اُن کے حق دلوائیں گے، دیانت، امانت، عدل اور انصاف کو قائم کریں گے۔
پس مَیں نے یہ بات آج خطبہ میں بیان کردی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری جسمانی اولاد مراد ہے تو پھر بھی یہ بڑی رحمت ہے اور خدا فرماتا ہے کہ جو اِس طرح کریں گے وہ تباہ نہیں ہوں گے اور اُن پر خدا کے فضل نازل ہوں گے۔ اور اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی روحانی اولاد مراد ہو تو چاہیے کہ جماعت کے چند آدمی یہ معاہدہ کریں کہ وہ نہ خود کسی کا حق ماریں گے اور نہ کسی کو مارنے دیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے میں شامل ہونے کی تحریک کریں۔ اگر جماعت اِس پر پورا پورا عمل کرے تو چند سالوں کے اندر ہی امانت اور دیانت اور عدل و انصاف لوگوں کے دلوں میں قائم ہوجائے۔ پس مَیں نے اپنے فرض سے یہ کہہ کر سبکدوشی حاصل کر لی ہے کہ خطبہ میں اِس کا اعلان کردیا ہے۔بجائے اِس کے کہ مَیں قادیان جاؤں یا لڑکے یہاں آئیں، مَیں نے فوراً اِس کا بیان کردینا ضروری سمجھا۔ کیونکہ یہ پیغام ایسا نہیں کہ مَیں ایک دن کی بھی اِس میں دیر کروں۔ بلکہ میں اِس میں دیر کرنا ناجائزسمجھتا ہوں۔ کیا معلوم انسان پر کونسا وقت آجائے کہ پھر وہ پیش ہی نہ کرسکے۔ اِس لیے اِس خیال سے کہ جمعہ کی تقریب پر وہ وقت آیا ہوا ہے مَیں نے یہی ضروری سمجھا کہ اِس کے بیان میں دیر نہ کروں۔پس ہر وہ شخص جس کے دل میں تقوٰٰی اور احکام میں سابق بننے کی خواہش ہے وہ آگے بڑھے اور یہ معاہدہ کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اِس نیکی کا آدم بنے۔ جس طرح نیکی کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہوتا ہے اسی طرح نیکی کا آدم بھی ہوتا ہے۔ ہر وہ شخص جس سے کسی نیکی کی ابتدا ہو وہ اُس نیکی کا آدم کہلاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ توفیق دے کہ ہر شخص آگے بڑھے اور بغیر اِس بات کا انتظار کرنے کے کہ دوسرے کب اُس نیکی میں شامل ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔آمین"۔٭
(الفضل22؍جولائی 1944ء)


28
ہندوستان کے سات مقامات میں
مراکزِ تبلیغ بنانے کی ضرورت
(فرمودہ 21جولائی 4419ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"بعض اصول ایسےہوتے ہیں جو ابتدا میں بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن اپنے خواص کے لحاظ سے اور اپنے فوائد کے لحاظ اور اپنے نتائج کے لحاظ سے وہ بہت وسیع ہوتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ایک بیج کی سی ہوتی ہے کہ جس طرح ایک گٹھلی بوئی جاتی ہے اور اس گٹھلی کے بوئے جانے کے فعل کو ہر ایک شخص اتنا حقیر جانتا ہے کہ اس کو قابلِ توجہ بھی خیال نہیں کرتا۔ مگر اُسی بیج اور اُسی گٹھلی کے نتیجہ میں چند سال کے بعد ایک بڑا بھاری درخت تیار ہو جاتا ہے جس کے نیچے سینکڑوں آدمی آرام کرتے، اس کے نیچے بسیرا کرتے اور اس کے سایہ سے راحت حاصل کرتے ہیں۔ بعض گاؤں میں تو وہ پبلک ہال کا کام دیتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس اِتنا روپیہ اور اِتنی توفیق تو نہیں ہوتی کہ وہ ہال کمرے بنواسکیں اِس لیے وہ بَڑ کے درخت کے نیچے یا پیپل کے درخت کے نیچے جمع ہو جاتے ہیں۔ وہی اُن کا پبلک ہال ہوتا ہے۔ وہی مہمانوں کو دن کے وقت ٹھہرانے کی جگہ ہوتی ہے اور وہیں ان کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ اب یہ کتنا بڑا فائدہ ہے مگر یوں دیکھو تو بَڑ کا بیج اِتنا چھوٹا اور رائی کے دانے کے برابر ہوتا ہے کہ اُس کودیکھ کر کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کرسکتاکہ اِس سے اتنا بڑا درخت نکل آئے گا۔
یہی حال ہم کوانسانوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی نطفہ کتنی حقیر چیز ہے مگر اِس حقیر قطرہ سے بڑے بڑے پہلوان، بڑے بڑے طاقتور، بڑے بڑے عالم و فاضل اور بڑے بڑے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح بعض حکمتوں کا بھی اِسی اصل سے تعلق ہے کہ جسم کے لحاظ سے تو نہیں مگر اپنی حکمت کے لحاظ سے بعض چیزیں نشوونما پانے والی ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔1 سب سے پہلا مکان جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ اور ہدایت کے لیے بنایا وہ مکہ میں ہے۔ اب وہ مکان جو مکہ میں بنایا گیا ہے کوئی جسمانی شان نہیں رکھتا اور کوئی ظاہری شوکت اُس میں نہیں پائی جاتی۔ معمولی پتھر کا ایک مکان ہے۔ اسی قسم کے پتھروں کے بعض مکان اس سے زیادہ قیمتی اور ظاہری لحاظ سے اس سے زیادہ شان رکھتے ہیں۔ مگر وہ مکان جو کہ آج سے نہ معلوم تین ہزار سال پہلے یا چار ہزار سال پہلے یا پانچ ہزار سال پہلے یا دس ہزار سال پہلے کب بنایا گیا تھا بہرحال خدا فرماتا ہے اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ کہ یہ پہلا مکان ہے جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے مکہ میں بنایا گیا ہے۔ کس شان و شوکت کا مالک ثابت ہوا ہے۔ پس خواہ اس کے یہ معنے کریں کہ نماز کے لیے پہلا مکان تھا جو تیار کیا گیا ہے، خواہ یہ معنے کریں کہ اجتماعی نماز کے لیے یہ پہلا مکان تھا جو تیار کیا گیا ہے اس کی شان بے مثل نظر آتی ہے۔ میرے نزدیک اِس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کوئی اَور مکان نہیں تھا جس میں عبادت ہوتی تھی۔ بلکہ اِس کے یہ معنے ہیں کہ ایسی عبادت کے لیے یہ پہلا مکان ہے جو اجتماعی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ عبادت تو پہلے بھی ہوتی تھی۔ لیکن انفرادی طور پر کسی جگہ پر جا کر عبادت کرنا اَور چیز ہے اور ایک جگہ پر مل کر اکٹھے عبادت کرنا بالکل اَور چیز ہے۔ جیسے مندر میں جا کر عبادت کرنا اجتماعی نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہاں ایک ہی وقت میں سب جمع ہوکر عبادت نہیں کرتے بلکہ جو آیا ماتھا ٹیکا اور چلا گیا مگر یہ اجتماعی عبادت کے لیے پہلا گھر ہے جو مکہ میں بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت کے یہ بھی معنے ہوسکتے ہیں کہ عبادتوں کے لیے تو اَور بھی مکان تھے مگر جو مکان ساری دنیا کے لیے بنایا گیا تھا، جس میں ہر اسود و احمر، ہر جاہل و عالم، مشرقی و مغربی، سامی اور آرین تمام قوموں کی آمد مدّنظر تھی وہ مکہ میں ہی تعمیر کیا گیا تھا۔
اگر کوئی کہے کہ یہ جو کہا گیا ہے اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ کہ یہ پہلا مکان ہے جو لوگوں کے فائدہ کے لیے بنایا گیا ہے تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے بعد اَور مکان بھی اِسی غرض سے بنائے جائیں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ اس کے بعد اس غرض کو پورا کرنے کے لیے اور مکانات بھی بننے والے ہیں۔ مگر ایسے سب مکانوں میں سے پہلا مکان یہ ہے۔ ہوسکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کو عالمگیر عبادت گاہ قرار دیتے اور آپ اس میں کامیاب نہ ہوتے۔مگر خدا تعالیٰ نے اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَكَّةَ میں بتایا ہے کہ یہ مکان اپنی شان کے لحاظ سے پہلا تو ہے مگر آخری نہیں۔ بلکہ اس کی نقل پر اَور بھی عمارتیں بنیں گی جو اس کی قائم مقام ہوں گی اور جس طرح یہ مکان هُدًی لِّلنَّاسِ ہے اسی طرح وہ بھی هُدًی لِّلنَّاسِ ہوں گی۔خدا تعالیٰ کی فرمائی ہوئی یہ بات ایسی درست اور صادق ثابت ہوئی کہ دنیا بھر میں کعبہ کے نقش پر عمارتیں بن رہی ہیں۔ کوئی بستی ایسی نہیں(سوائے اس کے کہ وہاں کے حالات روک ہوں) جہاں مساجد کا سلسلہ نہ ہو۔ بعض جگہ اتنی بڑی بڑی مسجدیں ہیں جو ظاہری وسعت کے لحاظ سے خانہ کعبہ کے برابر ہیں۔ مَیں نے مصر میں مسلمانوں کے زمانہ کی بنی ہوئی مسجدیں دیکھی ہیں جن میں سے مسجد عمرو بہت بڑی مسجد ہے۔ عمرو بن العاص نے اس کو بنایا تھا اس لیے اِس کو مسجد عمرو کہتے ہیں۔ اب تو وہ ویران ہے اور اس کے ارد گرد آبادی نہیں لیکن اس کو دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ جب کبھی وہ آباد تھی ایک وقت میں ایک لاکھ آدمی اس میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا تھا۔ وہ اتنی وسیع مسجد ہے کہ اتنی وسیع مسجد ہندوستان میں کوئی نہیں۔ پھر لاہور کی شاہی مسجد ہے جو غالباً ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ پھر دہلی کی جامع مسجد ہے۔ پھر کئی اَور بھی ہیں۔ پس یہ ساری کی ساری مساجد اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِکی پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہیں کہ یہ گھر جو خدا نے تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے مکہ میں بنایا ہے۔ یہ پہلا گھر ہے آخری نہیں۔ اِس کی نقل اور اتباع میں اَور کئی گھر بنیں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے سے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی یہ پیشگوئی نہایت وضاحت اور شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ حتّٰی کہ جس گاؤں میں صرف دس بیس مسلمان رہتے ہوں وہاں بھی ایک چھوٹی سی کچی مسجد اس پیشگوئی کے سچا ہونے کی شہادت دے رہی ہوتی ہے۔
پس اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِمیں یہ زبردست پیشگوئی تھی کہ یہ گھر بطور بیج اور گٹھلی کے ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان ایک جگہ محدود ہو کر رہ جائیں گے یا ہم اس تحریک کو تباہ کر دیں گے یا یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان اس جگہ سے باہر نہیں پھیلیں گے اور مٹ جائیں گے۔ ان سب کو یہ اعلان کر کے بتا دیا کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ کیونکہ مکہ کا یہ گھر جسے خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تمام بنی نوع انسان کی عبادت کے لیے مقرر فرما دیا ہے یہ پہلا تو ہے مگر آخری نہیں۔ بلکہ اس کے نقش پر اور اس کی اتباع میں اَور کئی گھر بنیں گے جن میں ہر اسود و احمر، مشرقی اور مغربی، کالے اور گورے، امیر اور غریب ہر قسم کے لوگوں کے لیے سکون اور راحت کا سامان ہوگا۔ سب اکٹھے مل کر ان میں نماز پڑھیں گے اور ان میں کالے اور گورے،امیر اور غریب، مشرقی اور مغربی، کے درمیان کوئی امتیاز اور کوئی افتراق نہیں ہوگا۔بلکہ وہ جگہیں هُدًی لِّلنَّاسِہوں گی۔ ان میں تمام بنی نوع انسان کا حق مشترک طور پر قائم ہوگا۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ پہاڑوں میں بعض اتنی چھوٹی چھوٹی مساجد ہوتی ہیں کہ ان میں بمشکل تین چار آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بس ایک چھوٹی سی محراب ہوتی ہےجوکسی چھوٹے سے کونے میں بنی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ تمام مسجدیں ان کی ایک ایک اینٹ اور ان کو لگی ہوئی مٹی کا ایک ایک ذرہ اِس اعلان اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِکی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کہ عبادت کا گھر مکہ میں پہلا ہے آخری نہیں۔ یہ پھیلے گا اور پُھولے گا اور ساری دنیا میں اِس کی نسل پھیل جائے گی۔ پہاڑوں کی چوٹیاں، دریاؤں کے موڑ، جنگلوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں جہاں پر اس پہلے گھر کی اتباع میں مسجدیں بنائی گئی ہیں ان کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک ذرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ پیشگوئی بالکل سچی اور عظیم الشان طور پر پوری ہوئی۔
اس پیشگوئی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اہم سمجھا کہ اس کو پورا کرنے کے لیے کہ یہ گھر اوّل ہے آخری نہیں آپ کی ایک حدیث ہے۔ اِس مضمون کی اَور بھی کئی حدیثیں ہیں مگر اِس وقت جس کو بیان کرنے کا میرا منشاء ہے وہ حدیث احمد بن حنبلؒ نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے۔ جو یہ ہے کہ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ قَالَ مَنْ بَنٰى بَیْتاً لِلّٰهِ وَلَوْ كَمَفْحَصِ القَطَاةِ لِلْبِيْضِ فَبَنَى اللّٰهُ لَهٗ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ2 کہ جو شخص خدا کے لیے گھر بناتا ہے خواہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ بھٹ تیتر3 کے انڈا دینے کے لیے زمین کھودنے کی جگہ کے برابر ہو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ شراح اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ بھٹ تیتر کے انڈا دینے کے لیے کھودی ہوئی جگہ کی مثال کو یہاں پر اِس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ بہت چھوٹی سی ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی چھوٹی سی مسجد بھی بنائے گا تو اس کا بھی اُسے ثواب ملے گا۔ گویا مبالغہ کے طور پر بھٹ تیتر کے انڈا دینے والی جگہ کو بیان کیا ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی چھوٹی مسجد بنائے خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کا جنت میں گھر بنائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ4 کے مطابق ہر شخص کو اس کی نیت کے برابر بدلہ ملتا ہے۔ اگر ایک جگہ پر پانچ سات آدمی ہیں اور اُن کو اِتنی ہی توفیق ہے کہ وہ دو چار گز کی مسجد بنالیں تو خدا تعالیٰ ان کی نیت کے موافق ان کو بدلہ دے گا۔ کیونکہ ان کی نیت بڑی مسجد بنانے کی تھی لیکن ان کے پاس مال نہیں تھا اور نہ اتنے نمازی تھے کہ وہ بڑا گھر بناتے۔ پس اگر انہوں نے اپنے گاؤں کی ضرورت کے مطابق اور اپنی وسعت کے مطابق خدا کا گھر بنا دیا تو خدا تعالیٰ بھی اپنی وسعت کے مطابق ان کو جنت میں گھر دے گا۔کیونکہ بندے نے اپنی وسعت کے مطابق گھر بنانا ہے اور خدا نے اپنی وسعت کے مطابق۔ اس لیے چاہے بندے نے دو انچ کی جگہ کے برابر خدا تعالیٰ کا گھر بنایا ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو وسیع محل دیا جائے گا۔ بہرحال خدا وہی بنائے گا جو اس کی شان کے مطابق ہے۔ دیکھو! بادشاہ اگر کسی کو خلعت دے گا تو وزیر کو وزیر کے درجہ کے مطابق دے گا، امیر کو امیر کے درجہ کے مطابق دے گا اور خادم کو خادم کے درجہ کے مطابق دے گا اور جہاں وہ لینے والوں کے درجہ کو مدنظر رکھے گا وہاں خلعت دیتے وقت وہ اپنی شان کو بھی مدنظر رکھے گا۔ بادشاہ سے اُتر کر اگر کوئی اَور شخص انعام دے گا تو وہ بادشاہ سے کم دے گا مگر حفظِ مراتب کو وہ بھی اپنے درجہ کے مطابق ملحوظ رکھے گا۔ غرض جب بھی کوئی کسی کو انعام دیتا ہے اس میں دینے والے کی حیثیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور لینے والے کی حیثیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پس اس حدیث کے بعض نے یہ معنے کیے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اُس انسان کو جو خدا کے لیے گھر بناتا ہے اُس کی نیت اور حیثیت کے مطابق بدلہ دے گا مگر اپنی شان کو بھی مدنظر رکھے گا۔ اگر کوئی چھوٹی سی مسجد بناتا ہے تو خدا تعالیٰ قیامت کے دن بہت بڑا محل اس کو دے گا۔
بعض نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جو میرے نزدیک بہت عمدہ ہے کہ ظاہری لفظوں سے صرف اتنا پتہ لگتا ہے کہ جو شخص بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کی جگہ کے برابر مسجد بنائے خدا تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ لیکن بھٹ تیتر کی کھودی ہوئی جگہ کے مطابق بنائی ہوئی مسجد اتنی چھوٹی ہوگی کہ اُس میں ایک آدمی بھی کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکے گا۔ پس اِس مثال کے استعمال میں ضرور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی حکمت رکھی ہے۔ اور وہ حکمت وہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا ہی فرما دیتے کہ جو شخص خدا کے لیے گھر بنائے گا خدا تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا تو پھر ایسی صورت میں صرف امراء یا صاحبِ توفیق لوگ ہی اس میں حصہ لے سکتے تھے۔ اِس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ الفاظ بیان فرما کر اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسجد کا ایک حصہ بھی مسجد ہی ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص مسجد بنانے میں اِتنا حصہ لیتا ہے جتنی کہ بھٹ تیتر کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے تو وہ گویا خدا کا گھر بنانے کے ثواب میں شریک ہے اور اس کے لیے خدا تعالیٰ جنت میں گھر بنائے گا۔ گویا اِس حدیث سے یہ بتایا ہے کہ صرف اُس شخص کو جنت میں گھر نہ ملے گا جو اکیلا مسجد بنائے بلکہ ہر وہ شخص جو کسی مسجد کی تعمیر کے چندہ میں حصہ لیتا ہےاُسے بھی جنت میں گھر ملے گا خواہ اس کے چندہ سے مسجد کا ایک انچ ٹکڑا ہی کیوں نہ بنا ہو۔میرے نزدیک بھی یہ معنے بہت لطیف ہیں۔ کیونکہ کثرت کے ساتھ مساجد چندہ سے ہی بنتی ہیں۔ ورنہ اگر یہ صورت نہ ہوتو صرف بادشاہوں اور امیروں کے لیے ہی جنت میں گھر بنیں اور غریب محروم رہ جائیں۔ مگر ان معنوں کے لحاظ سے غریب کا بھی حصہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس نے ایک آنہ چندہ دیا ہے یا دو آنے چندہ دیا ہے تو گویا اُس نے مسجد کا اُتنا حصہ بنادیا جو بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کے لیے کھودی ہوئی جگہ کے برابر ہے اور اِس طرح وہ بھی خدا کے نزدیک جنت میں گھر لینے کا مستحق بن گیا۔ خدا تعالیٰ اُس کو یہ نہیں کہے گا کہ تم نے ایک کمرہ نہیں بنایا اِس لیے تمہیں جنت میں گھر نہیں ملے گا،تم نے صحن نہیں بنایا اِس لیے تمہیں جنت میں گھر نہیں ملے گا، تم نے دیوار نہیں بنائی اِس لیے تمہیں جنت میں گھر نہیں ملے گا۔ بلکہ اگر مسجد کے بنانے میں اُس نے بھٹ تیتر کے انڈا کے رکھنے کی جگہ کے برابر بھی حصہ لیا ہوگا تو خدا تعالیٰ جنت میں اُس کا وسیع گھر بنائے گا۔
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لَوْكَمَفْحَصِ القَطَاةِ کا لفظ رکھ کر فرمایا کہ یہ نہیں کہ صرف امیروں کو ہی بدلہ ملے گا بلکہ ہر ایک کو اُس کے حصہ کے مطابق بدلہ ملے گا۔ حتّٰی کہ اگر کسی نے ایک انچ کے برابر بھی مسجد بنانے میں حصہ لیا ہے تو وہ بھی ضائع نہ جائے گا۔ بلکہ اُس کو اس کا بدلہ ملے گا۔ اگر کوئی پیسہ یا دو پیسے چندہ دیتا ہے تو اس کے حصہ میں ایک انچ کے برابر جگہ تو ضرور آہی جائے گی۔ گویاحقیر سے حقیر چندہ دینے والے کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں گھر ملنے کا وعدہ دے کر سب کو آمادہ کیا کہ جس کو زیادہ توفیق ہے وہ زیادہ قربانی کرے۔ امیر اور صاحبِ توفیق اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے اَور غریب اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں معنے جو اوپر بیان ہوئے ہیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور صحیح ہیں۔ اگر کوئی اکیلا خدا کا گھر بناتا ہے تو اُس کو بھی خدا تعالیٰ جنت میں گھر دے گا اور اگر چند آدمی مل کر بناتے ہیں تو اُن کو بھی خدا تعالیٰ جنت میں گھر دے گا۔ اور اگر اُس کے بنانے میں کسی شخص کا بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کے لیے کھودی ہوئی جگہ کے برابر حصہ ہے تو خدا تعالیٰ اُس کے لیے بھی جنت میں گھر بنائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ بھٹ تیتر کے انڈا رکھنے کی جگہ کے برابر۔ اِس میں بھی ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے۔ آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ جو شخص ایک بالشت کے برابر یا اس کے دسویں حصہ کے برابر خدا تعالیٰ کاگھر بناتا ہے۔ خدا تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ مگر انڈا رکھنے کی جگہ کے الفاظ استعمال کرکے جو لفظ مَسْکَن پر دلالت کرتا ہے اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسجد کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ انڈا سینےکی جگہ۔ وہاں سے پرندوں کی نسل چلتی ہے۔ اِسی طرح مسجد سے روحانی پرندوں کی نسل چلتی ہے اور صداقت کے پھیلانے کے لیے وہ ایک مرکز ہوتی ہے۔ پس مَفْحَصُ الْقَطَاةِ لِلْبِيْضِکے الفاظ نے معنوں کو اَور زیادہ وسیع کردیا۔بالشت کا لفظ استعمال کرنے سے مضمون تو اَور ہو جاتا۔ مگر یہ خوبی نہ رہتی۔
پس میرے نزدیک اس حدیث میں اوپر کے دونوں معنوں کے علاوہ ایک اَور لطیف مضمون ادا ہوا ہے جس کی طرف شراح کی نظر نہیں گئی۔ مَفْحَصُ الْقَطَاةِ لِلْبِيْضِکہہ کر مسجد کو روحانی پرندوں کی نسل کے پھیلنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ بھٹ تیتر جب انڈا رکھنے کے لیے جگہ کھودتے ہیں تو اُس جگہ پھر ان انڈوں کو سیتے ہیں، ان پر بیٹھ کر ان کو گرمی پہنچاتے ہیں، ان میں سے بچے نکلتے ہیں۔ پھر وہ ان کی پرورش کرتے ہیں اور پھر بڑے ہوکر وہ بچے بھی اِسی طرح کرتے ہیں۔ پس میرے نزدیک یہ ایک اَور لطیف مضمون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مساجد تبلیغِ اسلام کے لیے ایسی ہی ہیں جس طرح کہ انڈے سینے کی جگہ ہوتی ہے۔ جس طرح جانور انڈوں کو سیتا ہے اور پھر اس سے بچہ نکالتا ہے۔ پھر اس بچہ سے اِسی طرح اَور بچے نکلتے ہیں اور ان سے پھر آگے اَور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مساجد کے ذریعہ سے اسلام کی نسل پھیلتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص مسجد بناتا ہے تو یقیناً وہ جنت میں گھر لینے کا مستحق ہے۔ کیونکہ جو دوسروں کو خدا کے گھر میں لاتا ہے وہ بھلا خود کیونکر خدا کے گھر سے باہر رہ سکتا ہے۔ انڈے کے لفظ سے اِس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ مسجد تبلیغ کا مرکز ہوتی ہے۔ جو لوگ بھی مسجد میں آئیں گے وہ فائدہ اٹھائیں گے۔ تو پھر یہ شخص جس نے مسجد بنائی اور اِس فائدے کا موجب بنا یہ تو خدا کے حضور سے باہر رہ سکتا ہی نہیں۔ اگر کسی شخص کا بچہ گم ہوجاتا ہے اور ایک شخص اُس کو اٹھا کر اُس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دیتا ہے تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ گھر والے اُس شخص سے یہ کہیں گے کہ بچہ تو ہمارے حوالہ کردو اور تم گلی میں کھڑے رہو۔ کوئی بے شرم انسان نہیں۔ جس کا کھویا ہوا بچہ اُس کو واپس مل جائے اور وہ بچہ لانے والے کو یہ کہے کہ بچہ تو مجھے دے دو اور تم خود باہر گالی میں کھڑے رہو۔ کوئی ذلیل سے ذلیل اور کمینہ سے کمینہ انسان بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ اُس شخص کا ممنون ہوگا۔ اس کو چارپائی پر بٹھائے گا اور اُس کی خاطر تواضع کرے گا اور اگر وہ باہر کا رہنے والا ہوگا تو اُسے کہے گا کہ آج آپ یہی رہیں اور اُس کو اصرار کے ساتھ اپنے پاس بٹھائے گا اور اُس کی عزت کرے گا۔ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ جو شخص دین سے بے بہرہ ہے اور سچے دین کو بُھول چکا ہے اور اُس کا مجھ سے محبت کا تعلق نہیں رہا ایسے سب انسان میرے بُھولے ہوئے بچے ہیں۔ جو کوئی ان کو واپس لاتا ہے وہ ایسا ہی ہے جس طرح کہ ایک گمشدہ اوربُھولے ہوئے بچے کو والدین سے لاکر ملا دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس کی مثال بدر کے موقع پر بیان فرمائی ہے۔ بدر کے موقع پر ایک عورت کا بچہ گم ہوگیا۔ جنگ کے بعد آپ صحابہؓ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ عورت کبھی اِدھر بھاگی بھاگی جاتی اور کبھی اُدھر جاتی۔ جنگ کا میدان بڑا وسیع اور پھیلا ہوا تھا۔ وہ اس وسیع میدان میں دَوڑتی پھرتی تھی۔ اگر راستہ میں اسے کوئی بچہ مل جاتا تو وہ اُسے گلے سے لگا لیتی۔ کچھ دیر اُس سے پیار کرتی اور پھر اُس کو چھوڑ کر آگے چلی جاتی۔ پھر اَور کوئی بچہ مل جاتا تو وہ اس کو بھی گلے سے لگا لیتی اور تھوڑی دیر پیار کرکے پھر اُسے چھوڑ کر آگے بھاگ جاتی۔ یہاں تک کہ پھرتے پھراتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُس کو گلے سے لگا کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دیکھااور صحابہؓ کو اشارہ کیا کہ اس عورت کی طرف دیکھ۔ یہ اپنے بچے کے لیے کس طرح بیتاب تھی کہ کسی طرح اِس کا بچہ مل جائے اور اس جنون میں جو بچہ بھی اسے مل جاتا تھا اُسے پیار شروع کردیتی تھی۔ اب جبکہ اِس کو اپنا بچہ مل گیا ہے تو یہ اُسے پاکر اطمینان سے بیٹھ گئی ہے۔ اس کو پتہ ہی نہیں کہ جنگ کے میدان میں بڑے بڑے سردار مارے گئے ہیں، سپاہی زخمی ہوئے ہیں۔ کیا تم نے اِس کی محبت کو دیکھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا ہاں یارَسولَ اللہ۔ آپؐ نے فرمایا خدا کو اپنی مخلوق سے اِس ماں سے بھی زیادہ محبت ہے۔ جب اُس کا کوئی بندہ گمراہ ہوجاتا ہے تو اُس کو اتنی ہی گھبراہٹ ہوتی ہے اور جب وہ بُھولا ہوا بندہ اُس کی درگاہ میں واپس آجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو ایسا ہی اطمینان اور ایسی ہی راحت ہوتی ہے جیسے کہ ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کے مل جانے سے ہوتی ہے۔5 پس بُھولے بھٹکے انسان بھی خدا تعالیٰ کے حضور ایسے ہی ہیں جیسے ایک ماں کا گمشدہ بچہ۔ اور ان کا خدا کے حضور میں واپس آ جانا اور ہدایت پا جانا ایسا ہی ہے جیسے ماں کو اُس کا بچہ مل جائے۔ کوئی ذلیل سے ذلیل اور کمینی سے کمینی ماں بھی اس شخص کے متعلق جو اُس کا گمشدہ بچہ اُس کے پاس لائے یہ نہیں کر سکتی کہ اپنے بچہ کو تو واپس لے لے اور اُس لانے والے کو کہے کہ تم اپنے گھر جاؤ۔ وہ کوشش کرے گی کہ اُس کی خدمت کا اسے موقع ملے اور اس کی عزت کرے گی۔پس کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص ایسا سامان کرے جس سے خدا تعالیٰ کے بُھولے بھٹکے بندے اُس کی درگاہ میں واپس آ جائیں اور خدا تعالیٰ اُس کو کہے کہ تم میرے بچہ کو تو لے آئے، یہ مجھے دے دو اور تم جنت سے باہر رہو۔ لازمی بات ہے کہ جو شخص بھی خدا کے بندوں کو واپس لائے گا خدا تعالیٰ جنت میں اُس کا گھر بنائے گا۔پس یہ ایک طبعی بدلہ ہے جو مسجد بنانے سے نکلتا ہے۔
انسان کے بدلہ دینے اور خدا تعالیٰ کے بدلہ دینے میں یہاں ایک یہ فرق ہے۔ انسان جانتا ہے کہ جو شخص اُس کے گمشدہ بچہ کو واپس لایا ہے اُس کا اپنا بھی گھر ہے، اُس کے اپنے بھی بیوی بچے ہیں جن کو وہ چھوڑ نہیں سکتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں یہ بات نہیں۔ کیونکہ وہاں پر اس شخص کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوگا، اس کے بیوی بچے بھی وہیں ہوں گے جہاں خدا اُس کے لیے گھر بنائے گا۔ اِس لیے بندے کی جزاء اور خدا تعالیٰ کی جزاء میں فرق ہے۔ انسان اپنے گمشدہ بچہ کو لانے والے کو چند دن کا مہمان بناتا ہے خدا تعالیٰ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر میں جگہ دیتا ہے۔ پھر خدا کا گھر اِتنا وسیع ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کے بدلہ میں بھی جومکان ملے گا اُس کی چوڑائی زمین اور آسمان کے برابر ہوگی۔ پس بندہ اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق بدلہ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی حیثیت کے مطابق بدلہ دے گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک طرف تو یہ فرمایا ہے کہ مسجد کا بنانا ایسا ہے جیسے بھٹ تیتر اپنے انڈے کے لیے جگہ بناتا ہے، جہاں پر اُس کو سیتا اور اُس میں سے بچہ نکالتا ہے۔ یعنی وہ تبلیغ وہدایت کے لیے افزائشِ نسل کا موجب ہیں اور دوسری طرف آپ نے اشاعتِ اسلام کے یہ معنے فرمائے ہیں کہ تبلیغ کرکے خدا تعالیٰ کے بُھولے بھٹکے انسانوں کو راہِ راست پر لانا ایسا ہی ہے جیسے کھوئے ہوئے بچہ کو واپس لانا۔
ان دونوں باتوں کے بعدایک تیسرا نتیجہ بھی طبعی طور پر نکلتا ہے۔ جو یہ ہے کہ اگر مسلمان حقیقی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے مرکزی کاموں اور مرکزی چیزوں کو بِالخصوص مساجد کو مضبوط بنائیں۔ اسلام نے تمام کاموں کا مرکز مسجد کو قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے تمام کام مساجد میں ہوتے تھے۔ قضاء کا کام مسجدوں میں ہوتا تھا، معلّم مسجدوں میں درس دیتے تھے، فقیہہ مسجدوں میں فقہ کے مسائل بیان کرتے تھے، نمازیں مسجدوں میں ہوتی تھیں، ذکر الٰہی مسجدوں میں ہوتا تھا، قومی اجتماع اور قومی کام مسجدوں میں ہوتے تھے، لشکر کشی کے فیصلے مسجدوں میں ہوتے تھے۔ پس مسجد کو اسلام نے یہی نہیں کہ صرف تسبیح پھیرنے کی جگہ بنایا ہے بلکہ قومی اجتماع کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ تبلیغ اور تنظیم کا کام مسجد میں ہوتا ہے۔ جہاد کے متعلق مشورہ کرنا ہو تو مسجد میں ہوتا ہے، نماز پڑھنی ہو تو مسجد میں پڑھی جاتی ہے، ذکر الٰہی کرنا ہو تو مسجد میں کیا جاتا ہے، اگر علمی باتوں کے متعلق مجلس ہو تو مسجد میں ہوتی ہے۔ غرضیکہ مسجد مرکز ہے تمام قومی کاموں کا، مرکز ہے تمام اجتماعی کاموں کا، مرکز ہے اندرونی انتظامات کرنے کا، مرکز ہے بیرونی انتظامات کرنے کا۔
یہ ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس کا قومی مرکز نہ ہو وہ پورے طور پر اپنی تعلیم اور تبلیغ کو پھیلا نہیں سکتی۔اس لیے جہاں بھی کوئی جماعت پورے طور پر اپنی تعلیم کو پھیلانا چاہتی ہو۔ اس کے لیے مرکز کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اول تو شُہرت ہی مرکز سے ہوتی ہے۔ ایک شخص جو تبلیغ کرنے کے لیے باہر جاتا ہے اور وہاں پر کرایہ کے مکان میں رہتا ہے سارے جانتے ہیں کہ اُس کی رہائش یہاں پر عارضی ہے اِس لیے کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی شُہرت ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی اُس کا پتہ دریافت کرے کہ فلاں شخص کہاں رہتا ہے؟ توکوئی بھی نہیں بتائے گا۔ اور اگر کسی بڑے شہر مثلاً نیویارک یا لندن میں کوئی شخص کسی کا نام لے کر اُس کا پتہ پوچھتا پھرے کہ جی! فلاں شخص کہاں رہتا ہے تو وہ ہنس پڑیں گے۔ کیونکہ کرایہ دار تو ہر مہینے جگہ بدل لیتا ہے لیکن اگر وہاں پر مسجد ہو تو اُس میں چونکہ تبدیلی نہیں ہوسکتی وہ پتہ مشہور ہوجائے گا اور ہر شخص اِس یقین کے ساتھ پتہ پوچھے گا کہ جو اس جگہ کو جانتا ہے جہاں آج سے کچھ مہینے پہلے مرکزِ تبلیغ تھا اس کا علم اب بھی میرے لیے صحیح ثابت ہوگا (ہم تو پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ بعض مجبوریوں میں تبدیلی ہوسکتی ہے مگر دوسرے مسلمانوں کے نزدیک تو کسی صورت میں بھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔گو ہمارے نزدیک بھی تبدیلی والی صورت بالکل شاذ ہے ورنہ عام حالات میں ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ مسجد میں تبدیلی نہیں ہوسکتی)۔
غرض اگر اس شہر میں مسجد ہوگی تو یہ چونکہ ایک مستقل مرکز ہے اس لیے آہستہ آہستہ لوگوں میں اس کی شُہرت ہو جائے گی اور پھر وہ شُہرت بڑھتی چلی جائے گی۔ پھر چاہے برلن جیسے شہر میں یا نیویارک جیسے شہر میں بھی کوئی شخص پوچھے گا کہ مسجد کہاں ہے؟ تو وہ بتا دیں گے۔ جب مَیں لنڈن گیا تو مجھے اِس کا تجربہ ہوا۔ لندن کتنا بڑا شہر ہے۔ اگر نیویارک اِس سے بڑھ نہیں گیا تو وہ دنیا میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اور اگر نیویارک اس کے برابر ہوچکا ہے تو دو بہت بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ جب مَیں لندن گیا ہوں تو ہم مسجد سے دور ایک اَور جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ پہلی دفعہ جب جمعہ پڑھنے کے لیے ہم مسجد کی طرف گئے تو اتفاقاً موٹر میں بیٹھے۔ لوگوں میں سے کسی کو بھی مسجد کا صحیح پتہ معلوم نہ تھا۔ نہ ہمیں یاد رہا کہ مسجد کا پتہ پوچھ لیں اور نہ ہی مسجد والوں کو اِس کا خیال آیا کہ وہ ہم کو بتا چھوڑتے۔ اتفاق کی بات ہے جس موٹر میں ہم سوار ہوئے۔ اُس کا ڈرائیور بھی لندن کے باہر کا تھا۔ اُس کو بھی لندن کا پورا علم نہیں تھا۔ ہم کو صرف اتنا پتہ تھا کہ مسجد پٹنی میں ہے۔ اب پٹنی ایک علاقے کا نام ہے۔ جیسے امرتسر ہے یا شاید لدھیانہ یا سیالکوٹ کے برابر ہوگا۔ اب نہ موٹر والے کو مسجد کی جگہ کا پتہ کیونکہ وہ دوسری جگہ سے کرایہ پر موٹر لے کر آیا ہوا تھا اور نہ ہی ہمیں اُس کا کوئی پتہ معلوم تھا۔ ہم بہت گھبرائے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے لوگ مسجد میں جمع ہوں گے اور ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ یہ پہلا جمعہ تھا جوہم نے وہاں پر پڑھنا تھا۔ خیال تھا کہ اگر ہم وقت پر نہ پہنچ سکے تو لوگوں پر بُرا اثر پڑے گا کہ یہ لوگ وقت کے بھی پابند نہیں۔ موٹر والے کو صرف جہت کا پتہ تھا وہ اُس طرف موٹر لے گیا۔ اُس علاقہ میں ایک شخص کو ہم نے دیکھا جو موٹر سائیکل لیے ایک شخص سے جو موٹر میں سوار تھا باتیں کر رہا تھا۔ ہم نے ڈرائیور سے کہا ان سے پتہ پوچھو۔ اُس نے ان سے پتہ دریافت کیا تو موٹر سائیکل والا شخص کہنے لگا لنڈن ماسک (London Mosque)۔ ہاں مَیں جانتا ہوں۔ چنانچہ وہ ہمارے ساتھ آیا اور مسجد کے دروازہ تک چھوڑ کر واپس گیا۔ جہاں وہ شخص ہمیں ملا تھا وہ جگہ مسجد سے کوئی دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر تھی۔ اب یہ مسجد کے نام کی خوبی تھی۔ حالانکہ وہ ابھی بنی بھی نہیں تھی کیونکہ مَیں نے جا کر اُس کی بنیاد رکھی تھی۔ صرف مسجد کی جگہ کی وجہ سے وہ زمین "مسجد لنڈن" کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ اگر کرایہ کی جگہ پر نماز ہوا کرتی تو کسی کو بھی اس جگہ کا علم نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ سڑک کی نُکڑ پر رہنے والوں کو بھی پتہ نہ ہوتا۔
پس جہاں پر جماعت کا مرکز ہو وہاں دین کا کام کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے اور ملنے کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے بھی سہولت ہوتی ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جہاں پر مرکز ہوگا۔ قدرتی طور پر جماعت کے لوگ بھی اُس کے اردگرد مکان بنائیں گے تاکہ مرکز کے قریب رہیں، نہیں تو مکان اُس کے قریب کرایہ پر ہی لے لیں گے۔ لیکن یہ خوبی کرایہ کی جگہ میں نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اگر کسی شہر میں کرایہ کی جگہ لے کراُس میں مبلغ رہتا ہے تو دوسرے لوگ اِس طرح اُس کے قُرب میں آنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کرایہ کی جگہ ہے۔ اگر کل اِس کو نکال دیا گیا تو پھر ہم کو بھی نکلنا پڑے گا۔ لیکن اگر مستقل طور پر اپنا مرکز ہو تو پھر خواہ لوگوں کو اس کے آس پاس آ کر کرایہ پر رہنا پڑے وہ کوشش کریں گے کہ مرکز کے قریب رہیں اور اس طرح تبلیغ اور تربیت کے کام میں بہت آسانی ہو جاتی ہے۔پھر مسجد ایک ایسی جگہ ہے کہ پانچوں وقت اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آواز وہاں سے اٹھتی ہے جس کے ذریعہ سے تبلیغ ہوتی رہتی ہے۔ مساجد کے اندر ایسا سامان بیج کے طور پر ہوتا ہے جس سے اسلام کی شعاع مسجد سے نکلنا شروع ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے پھر وہ اَور شعاعوں کا مرکز بن جاتا ہے۔
پس یہ حدیث ہمیں اِس طرف توجہ دلاتی ہے کہ جس طرح بھٹ تیتر زمین میں گڑھا کھودتا ہے اور اُس میں انڈے سیتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد اُس میں سے بچہ نکل آتا ہے اِسی طرح مساجد بظاہر مٹی اور گارے کی بنی ہوئی ہوتی ہیں لیکن اتنے فوائد اپنےاندر رکھتی ہیں کہ ان کے اندر سے روحانی پرندے پیدا ہوتے ہیں اور اُن پر خدا کی برکات نازل ہوتی رہتی ہیں۔ پس اِس نکتہ کے ماتحت میں نے ایک فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان آج کے خطبہ میں کرنا چاہتا ہوں (قادیان سے باہر ہونے کی حالت میں اعلان کرنے کا افسوس بھی ہے کہ ایک محدود طبقہ میں ہوتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دے رکھا ہے کہ خطبہ شائع ہوکر تمام جماعت تک پہنچ جاتا ہے)۔مَیں نے سوچا ہے کہ ہندوستان میں اشاعتِ اسلام میں جو کوتاہی ہوئی ہے اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے موزوں جگہوں میں مرکز بنانے کی طرف توجہ نہیں کی جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر اشاعتِ اسلام کے لیے بیج کا کام دیں ۔اور مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہندوستان میں جو اہمیت رکھنے والی جگہیں ہیں وہاں پر ایسے مراکز قائم کیے جائیں جن کے اخراجات کا ایک حصہ گو لوکل جماعت پر ڈالا جائے مگر چونکہ وہ مقامات بہت گرا ں ہیں اور وہاں کی جماعتیں چھوٹی ہیں اِس لیے ہم بھی مرکزی ذمہ داری اور جماعتی نظام کے ماتحت ان کی امداد کریں اور کمی کو مرکز سے پورا کریں۔ جس طرح گورنمنٹ سرحدوں پر بعض انتظامات کے لیے خرچ کرتی ہے۔ مگر چونکہ اُن اخراجات کا موجب مقامی ضروریات نہیں ہوتیں بلکہ فوجی ضروریات ہوتی ہیں اِس لیے وہ اُس کا ایک حصہ ملٹری ضروریات کے لحاظ سے مرکز پر ڈال دیتی ہے اور فیصلہ کر دیتی ہے کہ اگر آمد خرچ سے کم رہی تو اس کمی کو ملٹری پورا کر دے گی۔ اِسی طرح اگر ہم بھی اِس قسم کے مراکز قائم کرنے کا بوجھ مرکزی جماعت پر ڈال دیں کہ جو کمی رہ جائے اُس کو جماعتی ذمہ داری کے ماتحت پورا کیا جائے تو اِس سے اشاعتِ اسلام کا کام زیادہ آسان ہو جائے گا۔
مَیں نے سوچا ہے کہ ہندوستان میں اِس طرح کی سات جگہیں ہیں جن جگہوں میں ہمارے مرکز قائم ہونے ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک جگہ پشاور ہے جہاں پر ہمارا مرکز ہونا ضروری ہے۔گو وہاں پر ہماری مسجد موجود ہے مگر وہ چھوٹی ہے۔ یہ شہر صوبہ سرحدکا دار السلطنت ہونے کے علاوہ یہ اہمیت بھی رکھتا ہے کہ ایک طرف افغانستان کا دروازہ ہے ایک طرف روس ہے اور ایک طرف ہندوستان ہے۔ گویا یہ شہر ایک قسم کا سہ حدّہ ہے۔ یہاں پر ہمارا ایک مضبوط مرکز ہونا چاہیے جس میں ایک بڑی مسجد ہو، لائبریری ہو، مہمان خانہ ہو، مبلغ کے رہنے کا مکان ہو تاکہ اس مرکز سے تبلیغ ِاسلام وسیع طور پر کی جاسکے اور فارسی، پشتو اور ان علاقوں کے لیے دوسری مناسب زبانوں میں وہاں پرلٹریچر رکھا جائے۔ اِسی طرح دوسرا مرکز کراچی ہے۔ یہ شہر ایران، بلوچستان اور عراق کا مرکز ہے۔ عرب کا دروازہ ہے جو ملک ہمارے لیے اسلام اور ہدایت کا موجب ہوا۔ ایک حصہ افغانستان کا بھی ملتا ہے اور پھر ایک طرف سے کچھ مارواڑ کا علاقہ ہے۔ پس ان تمام علاقوں کے لیے کراچی بھی ایک اہم مرکز ہے۔ وہاں بھی ہماری ایک مسجد اور اُس کے ساتھ لائبریری اور مہمان خانہ اور مبلغ کے لیے رہنے کا مکان ہونا چاہیے۔ اور عربی، فارسی، پشتو، سندھی وغیرہ زبانوں میں ان ممالک کے لیے لٹریچر ہو تو یہاں سے بہت دور دور تک تبلیغ پہنچائی جا سکتی ہے۔
پھر ہندوستان میں اِسی قسم کی ایک اہم جگہ بمبئی ہے۔ یہ ہندوستان میں دوسرے نمبر کا شہر ہے اور غالباً تمام دنیا میں چھٹے درجہ کا ہے اور پھر اِس لحاظ سے بھی یہ جگہ اہم ہے کہ یورپ کا دروازہ ہے۔ پھر حج کے لیے جانے کا بھی مرکز ہے، افریقہ کا بھی راستہ ہے، مشرقی افریقہ کے تمام ممالک کے جہاز یہیں آ کر ٹھہرتے ہیں۔ پس یہ بھی بہت بڑا مرکز ہے جو یورپ، مصر، شام، فلسطین، عدن، یمن اور حج کو جانے والوں کا مرکز ہے۔ اِس لیے یہ جگہ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں پر بھی ہماری مسجد، مہمان خانہ، لائبریری اور مبلغ کے رہنے کا مکان ہونا چا ہیے اور مختلف زبانوں کا لٹریچر رکھا جائے۔ بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کو رہنے کے لیے جگہ نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو بہت خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہمارا مہمان خانہ ہو تو ہمارا کوئی زیادہ خرچ نہیں ہوگا مگر تبلیغ کے لیے بہت مفید ہوگا اور اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بن جائے گا۔
چوتھی جگہ مدراس ہے جو تمام جزائر سیلون، سماٹرا، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ کا دروازہ ہے، برما اور جاپان کا بھی دروازہ ہے ہے، اِسی طرح ساؤتھ امریکہ کا دروازہ ہے۔ اور یہاں پر بعض پرانی قومیں آباد ہیں جن کو ڈریویڈینز (DRAVIDIANS) کہتے ہیں۔ ان کی زبان بھی پرانی ہے، یہاں بیٹھے بیٹھے اُن کو تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہمارا ایک مرکز مدراس میں ہونا ضروری ہے۔
اس قسم کا پانچواں مقام کلکتہ ہے جو ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہےجو ایک طرف برما، جاپان اور جزائر کا دروازہ ہے اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ کا دروازہ ہے۔ چونکہ یہ بڑا بھاری شہر ہے اور ہندوستان کا پرانا دارالامارۃ ہے اِس لیے بعض کمپنیوں کے جہاز بمبئی کی بجائے سیدھے کلکتہ آتے ہیں۔ پھر یہ بنگال کا دارالامارۃ ہے۔ پنجاب کی کُل آبادی اڑھائی کروڑ ہے جس میں سے نصف مسلمان ہیں۔ لیکن بنگال کی کُل آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے نصف مسلمان ہیں۔ گویا پنجاب میں جتنے ہندو، سکھ اور مسلمان ہیں بنگال میں اتنی تعداد صرف مسلمانوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔پس یہ خاص اہمیت رکھنے والا صوبہ ہے اور کلکتہ ایک ایسا اہم مقام ہے کہ جہاں پر ہمارا مرکز ہونا نہایت ضروری ہے جس میں مسجد ہو، مہمان خانہ ہو، لائبریری ہو، مبلغ کے رہنے کا مکان ہو اور مختلف زبانوں میں لٹریچر رکھا جائے۔
پھر کلکتہ سے واپس لوٹتے ہوئے راستے میں دہلی ہے جو سارے ہندوستان کا دارالامارۃ ہے اور آجکل خصوصیت سے چاروں طرف سے مختلف قسم کے لوگوں کی ایک خاصی تعداد یہاں آ کر بسی ہوئی ہے جو جنگی کاموں کے سلسلہ میں آئے ہوئے ہیں۔ پھر یہاں پر مرکزی اسمبلی ہے اور راجے مہاراجے ہندوستان کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے یہاں آ کر رہتے ہیں۔ غرضیکہ یہ جگہ ہندوستان کا مرکزی مقام ہے اور یہاں پر بھی احمدیت کا مرکز قائم کرنے کے لیے مسجد کے لیے ایسی جگہ ہونی چاہیے جو اس مرکزی شہر کی شان کے مطابق ہو۔ اور صرف دہلی کی جماعت پر اِس کام کو چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ اِس لیے ضرورت ہے کہ مرکزی جماعت اِس کام کی ذمہ داری لے اور جماعت سے پوری قربانی کروانے کے بعد مرکزی طور پر امداد کا انتظام کروائے۔
پھر وہاں سے اِدھر آکر لاہور ہے۔ یہاں پر مسجد بھی موجود ہے اور جماعت بھی کافی تعداد میں ہے۔ لیکن لاہور جیسے شہر کے لیے جو پنجاب کا مرکز ہے اِس بات کی ضرورت ہے کہ یہاں پر ایک وسیع مسجد ہو۔ موجودہ مسجد اِتنی چھوٹی ہے کہ اگر ساری جماعت کے دوست آئیں تو اِس میں سما نہیں سکتے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لاہور میں قیام کے دوران میں جب مَیں جمعہ پڑھانے کے لیے مسجد میں جایا کرتا تھا تو لوگ گلی میں اور چھتوں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے کیونکہ مسجد کے اندر جگہ نہیں ہوتی تھی۔ پس وہ مسجد تو جماعت کی موجودہ وسعت کے لحاظ سے بھی ناکافی ہے چہ جائیکہ جماعت کی آئندہ ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کافی سمجھ لیا جائے۔ اگر پورے زور سے تبلیغ کی جائے گی جیسا کہ چاہیے تو وہ مسجد بہت جلد بالکل ناکافی ثابت ہو گی۔ پس پنجاب کے اِس مرکزی شہر کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں پر ایک وسیع مسجد ہو جس کے ساتھ لائبریری ہو، مہمان خانہ ہو، مبلغ کا مکان بھی ہو اور مختلف زبانوں میں لٹریچر بھی موجود ہو۔
یہ سات مقامات ایسے ہیں کہ میرے نزدیک اِس وقت ہندوستان میں ان جگہوں پر ہمارے مراکز ہونے نہایت ضروری اور لازمی ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ لَوْ كَمَفْحَصِ الْقَطَاةِ لِلْبِيْضِکی حدیث میں اِس طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ترقی چاہتے ہو تو جس طرح جانور گڑھا کھودتا ہے اور اُس میں اپنے انڈے کو سیتا ہے اور پھر اُس سے بچے نکلتے ہیں۔ اِسی طرح تم بھی مسجدوں کو زیادہ کرو۔ کیونکہ ترقی اِسی طریق سے ہوسکتی ہے۔ اور اِس وجہ سے فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اگر تم نے پوری مسجد نہ بنائی تو تم کو کیا ملنا ہے۔ اگر تم نے اس کا تھوڑا حصہ بھی بنایا ہوگا تو خدا کے نزدیک اُس کی جنت میں گھر لینے کے مستحق ہوگے۔ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے پہلے سے یہ الفاظ کہلوا دیے کہ چونکہ تم مسجد بنانے میں حصہ لے کر اسلام کی اشاعت اورتبلیغ کے لیے ایک مرکز قائم کرتے ہو اور چونکہ اِس طریق سے گم گشتہ انسانوں کو واپس لاتے ہو۔ اِس لیے ساری مسجد کا سوال نہیں بلکہ اگر تم نے اتنا بھی حصہ لیا ہے جتنا کہ جانور کے انڈا رکھنے کی جگہ ہوتی ہے تو چونکہ تم خدا کے گم گشتہ بندے کو خدا کے گھر میں واپس لانے کا موجب ہوئے ہواَس لیے خدا تعالیٰ تمہارا گھر جنت میں بنائے گا۔ اور اِس طرح رغبت دلائی کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کے بدلہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے وسیع انعام ملے گا۔ تم نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور خدا اِس کے بدلہ میں وہ انعام دے گا جو اُس کی حیثیت کے مطابق ہوگا اور اِس طرح سے اِس بات پر آمادہ کیا کہ کہیں اپنی کوششوں کو حقیر سمجھ کر پیچھے نہ ہٹ جانا۔ اگر تھوڑی سی نیکی بھی تم کرو گے تو خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُس کو بڑھائے گا۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اُس تھوڑی نیکی کے بدلہ میں بھی تمہیں وسیع انعام ملے گا۔ پس مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان سات مقامات کی مساجد بنانے کے لیے مرکزی جماعت کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ میرا اندازہ ہے کہ اِن سات جگہوں پر کم از کم سات لاکھ روپیہ خرچ آئے گا۔ چالیس پچاس ہزار روپیہ ایک مسجد کے لیے زمین خریدنے پر اور چالیس پچاس ہزار روپیہ اوپر کی عمارت پر کم از کم خرچ آئے گا۔کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں کہ شاید وہاں پر کم خرچ ہو۔ مثلاً کراچی میں زمین نسبتاً سستی ہے۔ اب تو شاید جنگ کی وجہ سے وہاں بھی مہنگی ہوگئی ہو۔ اِسی طرح ممکن ہے پشاور میں بھی کم خرچ ہو۔ لیکن بمبئی اور کلکتہ میں لاکھ یا سَوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ پس اوسط اندازہ سات لاکھ روپے کا ہے۔ بعض جگہوں پر وہاں کی مقامی جماعت کی طرف سے بھی کافی رقم اکٹھی ہو جائے گی۔ مثلاً بمبئی کی جماعت بھی کچھ رقم دے گی اور کچھ حیدر آباد والے بھی جو بمبئی سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ اِس کام میں بمبئی کی مدد کریں گے، باقی رقم مرکز چندہ کرکے ادا کرے گا۔ کلکتہ کی جماعت نے تو پچاس ہزار روپیہ زمین کے لیے جمع کر لیا ہے اور انہوں نے امید دلائی ہے کہ اوپر کی عمارت کے لیے بھی ہم اَور رقم جمع کریں گے تو گویا بہت ساری رقم وہاں سے ہی مل جائے گی اور شاید تھوڑی مدد ہمیں دینی پڑے۔ اِسی طرح دہلی کی جماعت نے تیس ہزار کے وعدے بھیجے ہیں۔ وہاں بھی چالیس ہزار کی زمین خریدی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ زمین کی قیمت وہاں کی جماعت خود ہی ادا کر دے گی۔ فِی الْحال ہم نے اُن کو زمین خریدنے کے لیے روپیہ قرض دے دیا ہے۔ امید ہے کہ اس جگہ کی مسجد کے لیے اور یہاں پر مرکز قائم کرنے کے لیے کچھ روپیہ وہاں کی مقامی جماعت اَور دے دے گی اور کچھ حصہ ہمیں مرکزی ذمہ داری کے ماتحت ادا کرنا پڑے گا۔ پس بمبئی، کلکتہ اور دہلی میں کام شروع ہو چکا ہے۔ کراچی میں بھی جلدی شروع ہو جائے گا۔ ہماری جماعت کے بہت سے دوستوں کی سندھ میں زمینیں ہیں۔ ممکن ہے سارا یا بہت سا حصہ وہاں سے پورا ہو جائے۔ لاہور میں بھی ہمیں وقت پر سستی زمین مل گئی تھی وہاں پر اچھی وسیع مسجد بن جائے گی۔ باقی مدراس اور پشاور میں ابھی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ارادہ کی دیر ہے۔ اِس طرح اگر خدا چاہے تو ایک دو سال میں اِن سات مقامات پر ہمارے مرکز قائم ہوسکتے ہیں۔
اِس وقت مَیں کوئی چندہ کی تحریک نہیں کر رہا۔ مَیں یہ اعلان صرف اِس لیے کر رہا ہوں تا کہ جماعت آمادہ رہے کہ آئندہ ہمارے پروگرام میں سات ایسے مقامات ہیں جہاں پر ہمارا مرکز ہونا نہایت ضروری ہے۔ پس جماعت کو تیار کرنے کے لیے مَیں یہ اعلان کر رہا ہوں۔ تاکہ وقت پر اِس کام کے لیے احباب پورا پورا حصہ لے سکیں۔ مَیں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی اور اِس وقت تک اندازہ ہے کہ ایک کروڑ یا اِس سے زیادہ کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ پس اگر اِس تحریک میں کچھ کمی رہ جائے گی تو وقف کی تحریک سے پوری ہوسکتی ہے۔ مثلاً اگر تین چار لاکھ روپیہ چندہ جمع ہو جائے تو باقی تین لاکھ رہ جاتا ہے جو اگر وقف جائیداد سے پورا کر لیا جائے تو واقفین کو صرف تین فیصدی اپنی جائیداد کا دینا پڑے گا جو کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے اعلان کیا ہوا ہے وقفِ جائیداد والی سکیم تو آخری سہارا ہے۔ جس طرح فوج اپنے لیے ایک آخری خندق بناتی ہے کہ اگر فلاں جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا اور فلاں جگہ سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا تو اس آخری خندق کو استعمال کریں گے۔ اِسی طرح وقفِ جائیداد میں سے اِس کمی کو پورا کرنا بھی آخری خندق ہے جو اُسی وقت استعمال ہوسکتی ہے جب کوئی اَور صورت نہ ہو۔ اِس لیے پہلی کوشش یہی ہوگی کہ طوعی تحریک کے ذریعہ سے اس رقم کو پورا کیا جائے۔
مَیں سمجھتا ہوں جس قسم کی بیداری ہماری جماعت کے قلوب میں پیدا ہو رہی ہے اُس کے سامنے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا سَیَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَاءِ6 کہ تیری مدد ایسی جماعت کرے گی جس پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔ چنانچہ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر جو مالی قربانی کا مادہ پیدا ہورہا ہے یہ اُس الٰہی وحی کا نتیجہ ہے جو آسمان سے خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر نازل کرتا ہے۔ کوئی تحریک ہو وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب ہو جاتی ہے۔ خصوصاً ان دو تین سالوں میں جماعت نے اِس نصرت الٰہی کا بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ اِس سال تین لاکھ سے اوپر تحریک جدید کا چندہ ہوا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب کالج کا چندہ ہوا ہے اور دوسرے طوعی چندے ملا کر چھ سات لاکھ کے قریب بن جاتا ہے جن میں سے چار پانچ لاکھ وصول ہوچکا ہے۔ یہ ایسی قربانی ہے کہ دو تین سال میں بھی جماعت نے اِتنی قربانی نہیں کی جتنی کہ اِس سال کی ہے۔ پس اس کام کے لیے پہلے طوعی تحریک کے ذریعہ چندہ کیا جائے گا اور اگر یہ رقم پوری نہ ہوئی تو پھر وقف جائیداد والی چیز تو بہرحال ہمارے پاس موجود ہی ہے۔ لیکن میرا منشا یہ نہیں کہ ابھی سے اس سکیم کو شروع کر دیا جائے۔ کیونکہ اگر یکدم شروع کر دیا جائے تو ہمارے پاس اتنے مبلغ کہاں سے آئیں گے۔ ابھی تو ان کے تیار ہونے میں بھی تین چار سال لگ جائیں گے۔ سرِدست دہلی، کلکتہ اور ممبئی تین جگہیں ہیں جہاں پر کام شروع ہوگیا ہے۔ کلکتہ میں جماعت نے چالیس پچاس ہزار کے قریب رقم جمع کر لی ہے۔ دہلی میں بھی زمین خریدی جا رہی ہے۔ بمبئی میں زمین کا انتظام ہو رہا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ سردست وہاں کی جماعت کو زمین کی قیمت قرض کے طور پر دے دی جائے۔ پھر کچھ حصہ اُس علاقہ کے احمدیوں سے وصول کیا جائے اور باقی رقم تمام دوسری جماعتوں سے چندہ کرکے لی جاوے۔ سب سے مقدم زمین کا خریدنا ہے۔ زمین ہو تو اگر ہم چھپر ڈال کر ہی کام شروع کر دیں یا خیمہ لگا کر ہی وہاں مبلغ بیٹھ جائے اور بورڈ لگا دے تب بھی ایک شُہرت ہو جائے گی جو اشاعتِ اسلام اور تبلیغ کا موجب ہوگی اور اس طرح ایک طاقت اور قوت پیدا ہوگی۔ بہرحال اِس قسم کے مراکز کی اشد ضرورت ہے تاکہ کثرت سے اشاعتِ اسلام ہوسکے اور لوگوں پر دھاک بیٹھ جائے اور یہ رَو پیدا ہو جائے کہ ہندوستان میں اگر طاقتور اور فعّال جماعت ہے تو صرف جماعت احمدیہ ہی ہے۔ اگر ہم یہ رَو پیدا کر دیں تو پھر جب ہمارا مبلغ امریکہ میں یا کینیڈا میں جائے گا اور وہاں کے لوگ کہیں گے کہ آپ کو ہم نہیں جانتے تو جو امریکن یا کینیڈین یہاں ہندوستان میں ہمارے کام کو دیکھ چکے ہوں گے وہ آگے بڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم جانتے ہیں۔ ہندوستان میں اگر کام کرنے والی اور زندہ جماعت ہے تو یہی ہے۔ پس اِس وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اِس وقت کثرت سے غیر ممالک کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔ چاہیے کہ بمبئی، کلکتہ اور دہلی میں کم از کم زمین فوراً خرید لی جائے اور پھر وہاں پر قناتیں لگا کر یا چھپر ڈال کر اور بورڈ لگا کر اور مختلف زبانوں کا لٹریچر لے کر ہمارے مبلغ بیٹھ جائیں تاکہ ان مقامات پر احمدیت کے مرکز قائم ہو جائیں۔
مَیں اِس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اِس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی سے ہندوستان کی جماعتی تبلیغ کے مراکز کی طرف وہ اپنی توجہ پھیر لے۔ اور ابھی سے ایسی مضبوط بنیاد تیار کر لی جائے کہ جب ہمارے مبلغ تیار ہو جائیں تو ہندوستان کے تمام علاقوں پر یک لخت تبلیغی دھاوا بولا جاسکے۔ اور جو دلوں کا لوہا عذاب الٰہی کی آگ سے نرم ہو رہا ہے۔ اُس کو پیشتر اِس کے کہ وہ ٹھنڈا ہو کُوٹ لیا جائے۔ کیونکہ جب تک لوہا گرم ہو اُس کو کُوٹنا آسان ہوتا ہے۔ مگر جب وہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر اُس کو کُوٹنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے"۔
(الفضل4؍اگست،1944ء)


29
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
کی ترتیبِ الفاظ میں حکمت
(فرمودہ 28 جولائی 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے چونکہ کل سے نقرس کے درد کا دورہ ہے اِس لیے مَیں جمعہ کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع کرکے پڑھاؤں گا۔ کیونکہ بار بار مَیں باہر نہیں آسکتا۔ اِسی طرح خطبہ بھی لمبا نہیں پڑھ سکتا کیونکہ مجھے تکلیف ہے۔
ہماری شریعت کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ جو باتیں بھی خدا تعالیٰ کے کلام میں پائی جاتی ہیں خواہ وہ الہامات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام، کیونکہ وہ بھی الٰہی تصرف کے ماتحت ہے اِن دونوں میں اِس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ اِن میں کوئی بات زائد اور فضول نہیں۔ دونوں میں تھوڑے سے تھوڑے الفاظ زیادہ سے زیادہ معنوں کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر جس رنگ میں وہ الفاظ ہوتے ہیں یہ نہیں کہ اُن کی ترتیب یونہی رکھ دی گئی ہے بلکہ وہ الفاظ حکمت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے کلمہ کا پہلا جُزو یہ ہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اِس کلمہ کی اصل غرض تو یہ ہے کہ خدا کی توحید کو قائم کیا جائے اور خدا سے بندے کو روشناس کرایا جائے۔ لیکن اِس فقرہ کی بناوٹ اِس کے اُلٹ ہے۔ بجائے اللہ سے پہلے روشناس کرانے کے پہلے معبودانِ باطلہ کی نفی کی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ موجود ہے یا اللہ ایک ہے اور اُس کے سوا اَور کوئی معبود نہیں۔ مثلاً اَشْھَدُ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْاِلٰہُ وَ لَا اِلٰہَ سِوَاہُ نہیں فرمایا تا پہلے اللہ کا اِلٰہ ہونا ثابت ہو اور بعد میں دوسرے معبودانِ باطلہ کی نفی کی جائے بلکہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فرمایا۔ یعنی مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالیٰ معبود ہے۔ پس کلمہ کے اِس جُزو میں معبودانِ باطلہ کی نفی پہلے کی گئی ہے اور بعد میں اُس چیز کو رکھا ہے جو اصل مقصود تھی۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے باقی کلمات سب کے سب پُرحکمت ہیں تو اِس میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے۔ اِس حکمت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم غور کریں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کو سب سے پہلے کس چیز سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ آیا سب سے پہلے اللہ سے روشناس کرایا جاتا ہے یا غیراللہ سے؟تو اِس کلمہ کی طبعی ترکیب ہماری سمجھ میں آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کلّی علم ہے۔ بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتی ہیں۔ ان کے دیکھنے سے انسان کو اُن کا علم ہوجاتا ہے۔ مثلاً بچہ کے سامنے اگر اُنگلی رکھیں تو قطع نظر اِس سے کہ وہ اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اُس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اُس بازو کے پیچھے کندھا ہے۔ وہ کندھا گردن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اُس سر میں ایک دماغ ہے کہ جس کے حکم سے ان چیزوں نے حرکت کی ہے اور پھر یہ اُنگلی میرے سامنے آگئی ہے۔ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اِتنی لمبی اور اِتنی موٹی ایک چیز سامنے آگئی ہے۔ پس اُنگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اُس وقت تک کُلّی علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہم خدا تعالیٰ تک اُس کی مخلوقات کے ذریعہ سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے، دوسری کے بعد تیسری چیز کا اور تیسری کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خدا تعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے۔
ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اگر غور کرے تو اُس کے لیے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کی دلیل موجود ہے۔ جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو، اُس کے موجود ہونے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟تو وہ ہنس پڑا کہ مَیں اِتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں۔ بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو مَیں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گزری ہے، اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اُسے دیکھ کر مَیں سمجھ لیتا ہوں کہ اِدھر سے اونٹ گزرا ہے۔ تو کیا اِتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اِس ساری دنیا کا خالق اور اِس نظام کا پیدا کرنے والا ہے؟ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں؟ اس لیے خالی زمین وآسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ اِن کا کوئی خالق ہے۔ بعض چیزیں اتفاقاً ہوجاتی ہیں۔ ہم روزمرہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بات اتفاقاً ہوجاتی ہے اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے۔ قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرینِ یورپ کے اِس اعتراض کی تردید میں یہ دلیل دی ہے کہ خالی اِس دنیا کا وجود بیشک خدا تعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اِس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالَم میں ایک ترتیب کا پایا جانا اور ہر ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا اور ہر ایک چیز اور اُس کے ایک ایک ذرّہ میں حکمت کا پایا جانا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں۔ بلکہ اِس دنیا کی ترتیب اور ہر ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ایک ذرّہ کی حکمت یہ سب چیزیں اِس بات کی دلیل ہیں کہ اِس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنے والا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اِس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے۔ انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اِس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے۔ ناک پیدا کی جس سے انسان سُونگھتا ہے تو اِس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی۔ کان پیدا کیا جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جُنبش کرتی ہے اور اُس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے۔ اب کیا دیکھنے کے لیے اگر آنکھ اتفاقاً پیدا ہوگئی تو اِس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہوگئی؟ سونگھنے کے لیے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہوگئی تو کیا اِس کے مقابل میں خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہوگئی؟ اگر سننے کے لیے کان اتفاقاً پیدا ہوگئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جُنبش کرکے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہوگئی؟ پس اِن چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ ہوتا، کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو اِن کو اتفاق کہا جاسکتا تھا۔ لیکن دنیا کا کوئی ذرّہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو، کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی حکمت نہ ہو، کوئی چیز ایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو۔ تو ہم کس طرح مان لیں کہ یہ ساری کی ساری چیزیں اوریہ سارے کا سارا نظام خودبخود اور اتفاقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے موجود ہونے کی یہ دلیل قرآن مجید نے دی ہے۔ مگر یہ دلیل اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور اِن چیزوں پر غور کرے۔ آنکھوں سے دیکھے، دل اور دماغ سے سوچھے، اِدھر اِن چیزوں پر نگاہ ڈالے، اُدھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے، سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے، ہوا اور اُس کے اثرات پر غور کرے، گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے، سبزیوں اور ترکاریوں کے پیدا ہونے اور ان خاصیتوں پر غور کرے۔ جب تک وہ اِن چیزوں پر غور کرنے اور اِن سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اُس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ایک بچہ اِن تمام چیزوں پر غور کرکے اِس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے۔ بچہ تو سب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اُسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ پھر جب اُس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لاکر دیتا ہے تو پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے۔ بڑا ہوکر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر اُن سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلاؤ، اُس کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو اُن سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو ر؃وٹھ جاتا ہے کہ میرا اُس کے بغیر گزارہ نہیں۔ پھر اَور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکا ر سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی کو بے لُطف سمجھتا ہے۔ غرض یہ چیزیں ایک ایک کرکے اُس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ گویا وہی اُس کا خدا ہوتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ اِن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر بھائیوں اور دوستوں سے محبت ہوتی ہے تو اُن کو اپنا خدا سمجھتا ہے، پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو اُن کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب عاقل بالغ ہو جاتا ہے پھر اگر اُس پر خدا کا فضل ہو جائے، اچھا اُستاد مل جائے جو اُسے علم سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ اِن تمام چیزوں کو چھوڑ کر اصلی خدا کی طرف آجائے گا اور سمجھ لے گا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو مَیں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ اصل خدا تو یہ ہے جو اِن سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ پس اِس طبعی ترتیب کے مطابق اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ ہی پہلے ہے۔پہلے غیراللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار اِنہی پر ہے۔ لیکن ایک ایک کرکے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سُکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے۔ جب اُن سے مل کر کھیل رہا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا۔ اُس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے۔ پھر اَور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے۔ پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بُھول جاتا ہے اور اُس کی ساری خوشیاں سیر و شکار میں ہوتی ہیں۔ اگر اُس کو اِن چیزوں سے روکا جائے تو اِس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ اِن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غوروفکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اُس کو نظر آجاتی ہے اور اِن تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے۔
پس اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی ترتیب اِس حکمت کے ماتحت رکھی گئی ہے کہ طبعی طور پر انسان پہلے غیراللہ سے روشناس ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرکے اللہ تک پہنچتا ہے۔ اس لیے پہلےلَا اِلٰہَ رکھا اور بعد میں اِلَّا اللّٰہُ فرمایا۔اِسی ترتیبِ طبعی کے ماتحت مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی یہ تفسیر کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھاتو اُس کو اپنا خدا سمجھ لیا، پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اُس سے زیادہ روشن ہے تو اُس کو اپنا خدا سمجھ لیا، پھر سورج کو دیکھا کہ ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور بہت زیادہ روشن ہے تو اُس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ مگر جب ایک ایک کرکے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۔اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ1 آخر میں آپؑ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اِس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسانی دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ تک جاتا ہے۔ بچے کے نزدیک ابتدا میں اُس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا خدا ہوتی ہے۔ بلکہ اُس کو ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی۔ وہ سب سے پہلے پستان ہی کو اپنا خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے۔ اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے۔ پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اُس سے محبت کرتا ہے۔ پھر بھائی سے محبت کرتا ہے۔ پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ گلی اور محلے والوں سے محبت کرتا ہے۔ پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ اِن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اُسے خدا تک پہنچا دیتی ہیں۔اگرسال یا چھ ماہ کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہوکر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دے گا؟ تو وہ اِس بات سے اِتنا ہی حیران ہوتا جتنا کہ ایک سائنسدان اِس بات سے حیران ہوتا کہ اُسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج چلتا نہیں بلکہ کھڑا ہے یا چاند کی روشنی مکتسب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے۔ غرض جس طرح ایک سائنسدان اوپر کی باتوں سے حیران ہوگا وہ بچہ بھی اگر اُس کو یہ بات سمجھائی جاسکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اُتر جائے گا اور اُس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائے گی حیران ہوتا۔ اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہوکر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اُس سے تیری رغبت زیادہ ہو جائے گی اور تُو اپنی ماں کو چھوڑ دے گا تو وہ کہے گا مَیں ایسا پاگل نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑ دوں۔ وہ اَور ہوں گے جو ایسا کرتے ہیں۔ مَیں تو کبھی اِس طرح نہیں کرسکتا۔ تو رات میں بھی انسان کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ تجھے یہ سزا دی جائے گی کہ تیرا بچہ تجھ کو چھوڑ کر اپنی عورت سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ 2 پس یہ ایک فطرتی چیز ہے کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اُس چیز سے رغبت کر رہا ہوتا ہے اُس وقت وہ یہ وہم بھی نہیں کرسکتا کہ ایک دن مَیں اِس چیز کو چھوڑ دوں گا۔ اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اِس بات کا اُسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت مَیں اِس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اِس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتاتھا۔
ہم نے دیکھا ہے کہ بڑا بچہ چھوٹے بچہ کو گود میں بیٹھا ہوا دیکھ کر بہت بُرا مناتا ہے اور حقارت سے اُس کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ ہر وقت گود میں بیٹھا رہتا ہے، کبھی نیچے اُترتا ہی نہیں۔ اور اگر چھوٹے بچہ کو کھانے پر بیٹھا ہوا دیکھ لے تو کہے گا ہر وقت کھانے پر ہی دھرنا مار کر بیٹھا رہتا ہے، یہاں سے اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ مگر اُس کو پتہ نہیں کہ پہلے اُس کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ بھی گود میں بیٹھتا تھا اور اُس سے نیچے نہیں اُترتا تھا۔ وہ بھی سارا دن کھانے پر بیٹھا رہتا تھا اور وہاں سے ہلنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ پس جس چیز کو ایک وقت میں وہ خود اچھا سمجھتا تھا اُسی چیز کو دوسرے وقت میں حقیر سمجھتا ہے۔ جس چیز کو ایک وقت اپنے لیے ضروری سمجھتا تھا دوسرے وقت میں اُسی چیز کو دوسرے کے لیے غیر ضروری قرار دیتا ہے۔ یہی معنے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ہیں کہ پہلے انسان غیراللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیراللہ کا راستہ ہے۔ مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو اُس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی، اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اُس کو باپ سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی،اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اُس کو بھائی بہنوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی، اگر بچہ کو بھائی بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اُس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اور اگر اُس کو اپنے اپنے وقت پر اِن اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بھی اپنےوقت پر نہ پاسکتا۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں جو خلاء محسوس کرتا ہے اُس کو پُرکرنے کے لیے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کردے۔ جب اُس چیز سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی توپھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہوجائے۔ پھر جب اُس چیز سے بھی اُس کا خلاء پُر نہیں ہوتا تو تیسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہاں میرا مقصد مل جائے۔ جب اُس سے بھی اُسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو۔ یہاں تک کہ ایک ایک کرکے اِن تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خدا تک جاپہنچتا ہے۔ پس لَا اِلٰہَ راستہ ہے اِلَّا اللّٰہُ کا۔ جو شخص اپنے خدا سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے وہ اپنی اس تڑپ میں ہر غیراللہ کو اللہ سمجھ لیتا ہے اور اُس کی پرستش شروع کر دیتا ہے۔ یعنی اُس کی طرف کامل طور پر متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اُس کو اللہ مل جاتا ہے تو اُس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا۔ جس طرح ایک شخص زید کی تلاش میں ہو اوراُسے پتہ نہ ہو کہ زید کہاں رہتا ہے؟ وہ ایک دروازہ پر جا کر دستک دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا زید یہاں رہتا ہے۔ اندر سے جواب ملتا ہے یہاں نہیں آگے جاؤ۔ آگے جا کر وہ دوسرے دروازے پر دستک دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا زید یہاں ہے؟ وہاں سے بھی یہی جواب ملتا ہے کہ یہاں نہیں آگے جاؤ۔ یہاں تک کہ مختلف دروازوں پر پھرتے پھراتے جب اُسے زید کا دروازہ مل جاتا ہے تو پھر وہاں بیٹھ جاتا ہے۔ پس اس شخص نے غیر زید کا جو دروازہ بھی کھٹکھٹایا وہ غیر زید کی محبت میں نہیں کھٹکھٹایا بلکہ زید کی محبت اور زید سے ملنے کی تڑپ میں کھٹکھٹایا۔ پس ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ غیروں کے دروازہ پر پھرتا رہا بلکہ زید کی محبت اور تڑپ اُس سے یہ کام کروا رہی تھی اور وہ ہر غیر زید کا دروازہ، زید کا دروازہ سمجھ کر کھٹکھٹاتا رہا۔ اُسے غیروں سے محبت نہیں تھی بلکہ زید کی محبت اور زید کی تلاش تھی یہاں تک کہ اُس کی تڑپ اُس کو زید کے دروازے تک لے آئی۔
پس بچپن میں غیراللہ سے روشناس ہونا اللہ تک پہنچنے کا رستہ ہے۔ کیونکہ وہ ہر غیر اللہ کے پاس اللہ سمجھ کر جاتا ہے لیکن عقلی "لَا اِلٰہَ" " اِلَّا اللّٰہُ"تک پہنچنے کا رستہ نہیں۔ جس شخص کو بڑے ہوکر اللہ کا علم ہوچکا ہو اُس کا غیراللہ کی محبت میں پھنسے رہنا عرفان نہیں بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کہلائے گا۔ جس طرح اُس شخص کو جو زید کی تلاش میں تھا اگر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زید کا گھر نہیں بلکہ غیر زید کا ہے اور وہ زید کی تلاش کو چھوڑ کر وہیں بیٹھ جاتا ہے تو اُس کا ٹھہر جانا عرفان نہیں کہلاتا بلکہ ہٹ دھرمی کہلاتا ہے۔ پس اِلَّا اللّٰہُسےپہلے لَا اِلٰہَ ایک فطرتی دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان خدا تک پہنچتا ہے۔ بچہ ماں کی محبت میں سے گزرتا ہے، باپ کی محبت میں سے گزرتا ہے، بھائی کی محبت میں سے گزرتا ہے، دوستوں اور ہمجولیوں کی محبت میں سے گزرتا ہے، کھیل کُود کی محبت میں سے گزرتا ہے، کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کی محبت میں سے گزرتا ہے اور ان سب چیزوں میں سے گزر کر آخر خدا تک جا پہنچتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِلٰی رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا3 کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیراللہ ہیں گزر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک جا پہنچتا ہے اور وہ فوراً ہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا۔ بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے۔ پستان کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، ماں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، باپ کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، دوستوں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے، کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کو بھی خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اُس کی انگلی پکڑ کر اُسے خدا کے قریب کر دیتی ہے۔
پس اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ میں یہ حکمت ہے کہ اگر انسان نیک نیتی اور حقیقی تڑپ کے ساتھ خدا کی تلاش میں بظاہر غیراللہ سے محبت کرتا ہے اُس کی محبت اور تڑپ آخر اُسے خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا4 کہ جو شخص سچی محبت اور حقیقی تڑپ کے ساتھ ہماری تلاش کرتا ہے، ہماری تلاش میں اُس کا ہر قدم اُسے ہمارے قریب کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اِس نکتے کو اگر ہم سمجھ لیں تو دنیا کی ساری خرابیاں دور ہو جائیں۔ دنیا کی ساری خرابیاں اِس وجہ سے ہوتی ہیں کہ اللہ کا علم ہونے پر بھی انسان نیک نیتی سے اُس تک پہنچنے کی جدوجہد نہیں کرتا۔ اُسے اللہ تعالیٰ کا علم تو ہوتا ہے مگر پیار نہیں ہوتا۔ اُسے اللہ تعالیٰ کا علم تو ہوتا ہے مگر اُس تک پہنچنے کی حقیقی تڑپ نہیں ہوتی۔اِس لیے جب بھی اُسے ٹھوکر لگے وہ خدا کو چھوڑ دیتا ہے اور غیراللہ کی محبت میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
تھوڑا عرصہ ہوا مَیں نے قادیان میں عورتوں کے درس میں یہ بات بیان کی تھی کہ معلوم ہوتا ہے عورتوں کا ایمان مردوں کے لیے ہوتا ہے۔ قادیان میں جتنے مردوں پر بھی ابتلاء آئے اور وہ مرتد ہوئے اُن سب کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ہی مرتد ہو گئیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا دین اور اُن کا ایمان صرف خاوند کی وجہ سے تھا۔ جب خاوند کہتا تھا احمدیت ٹھیک ہے بیوی بھی کہتی تھی احمدیت ٹھیک ہے۔ جب خاوند نے کہہ دیا کہ احمدیت درست نہیں تو بیوی نے بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ احمدیت درست نہیں۔ جب خاوند کہتا تھا خدا ہے بیوی بھی کہتی تھی خدا ہے اور جب خاوند کہتا ہے خدا کوئی نہیں بیوی بھی کہتی ہے خدا کوئی نہیں۔ جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی سچی محبت اور تڑپ نہیں ہوتی بلکہ غیراللہ سے پیار ہوتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ تک پہنچنے سے پہلے درمیان میں جتنی چیزوں سے انسان محبت اور رغبت کرتا ہے یا تو عدمِ علم کی وجہ سے کرتا ہے جیسے بچہ کو علم نہیں ہوتا وہ تو ضرور اصل مقام پر پہنچے گا کیونکہ اُس کے اندر حقیقی تڑپ ہے جو اُسے وہاں تک پہنچائے گی۔ اور یا اللہ کاعلم ہونے کے بعد بھی غیراللہ سے رغبت رکھتا ہے اور اُن کی محبت کو نہیں چھوڑتا وہ لازمی طور پر گمراہ ہے۔ کیونکہ وہ اُس فطری خلاء کو پُر کرنے کے لیے غیراللہ پر نہیں ٹھہرا بلکہ اصل چیز سے اُسے بُعد اور تنفّر ہے جس کی وجہ سے وہ غیراللہ پر ہاتھ مارتا ہے اور اُس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ پس اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ میں بتایا کہ تم اگر اپنی فطرت پر غور کرکے دیکھ لو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح قدم قدم پر تم غیراللہ کو چھوڑتے آئے ہو۔ پستان کو چھوڑا، ماں کی گود کو چھوڑا، ساتھ کھیلنے والوں کو چھوڑا، سیروشکار کو چھوڑا، کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کی محبت کو چھوڑا اور آخر جب ہمارے پاس پہنچ گئے تو یہاں آکر پھر ایسا دھرنا مارا کہ پھر یہاں سے نہیں ہلا۔ کیونکہ یہی اُس کا اصل مقصود تھا جو اُسے مل گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تیرے سر پر آرہ رکھ کر تجھے چِیرا جائے اور پھر بھی تیرے ایمان میں تزلزل یا وسوسہ پیدا نہ ہو تو یہ ادنیٰ بشاشتِ ایمان ہے۔5 جب انسان کے سر پر آرہ رکھ کر اُس کو چِیر دینا اور اُس کا متزلزل نہ ہونا ادنیٰ بشاشتِ ایمان ہے تو پھر اعلیٰ کیا ہو گی۔ دنیا میں یہ انتہاء درجہ کی جسمانی سزا ہے کہ انسان کے سر پر آرہ رکھ کر اُسے چیر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ ادنیٰ بشاشتِ ایمان ہے کہ انسان اِس سزا کو قبول کر لے۔ پس معلوم ہوا کہ جب انسان غیراللہ کو چھوڑ کر خدا کے دروازہ پر جاپہنچتا ہے تو پھر کوئی چیز اُسے وہاں سے نہیں ہلاسکتی۔ اُس کے سر پر آرہ رکھ کر اُس کو چِیر دیا جائے تب بھی وہ اس مقام سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور کوئی چیزاُسے وہاں سے متزلزل نہیں کرسکتی۔
بدر کی جنگ کے موقع پر ایک عورت کا بچہ گم ہوگیا۔ وہ اُس کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر بھاگی پھرتی تھی۔ راستہ میں جو بچہ بھی اُسے مل جاتا وہ اپنی تڑپ اور محبت کی وجہ سے اُس بچہ کو گلے سے لگا لیتی۔ تھوڑی دیر پیار کرتی اور پھر اُسے چھوڑ کر آگے چلی جاتی۔ یہاں تک کہ جب اس کا اپنا بچہ مل گیا تو اُسے لے کر وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔ اِسی طرح انسان پہلے غیراللہ کو اپنا معبود سمجھ کر غلط فہمی میں اُس سے پیارکرتا ہے مگر پھر اُس کو چھوڑدیتا ہے یہاں تک کہ لَا اِلٰہَ سے گزر کر اِلَّا اللّٰہُ تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے نہیں ہلتا۔ راستہ میں چلنے والا انسان ہلتا رہتا ہے۔ مگر جو اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے وہ نہیں ہلا کرتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفارِ مکہ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تمہارے بھتیجا کی باتیں سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔ آئے دن ہمارے معبودوں کی جو ہتک کی جاتی ہے اب ہم اِس کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اِس لیے یا تو آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ اِن باتوں سے باز آجائے اور یا آپ اس کی حفاظت چھوڑ دیں۔ ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا کہ اے بھتیجے!آج قریش کے سردار میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا ہے کہ یا تو تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ ہمارے معبودوں کی ہتک سے باز آ جائے اور یا تم اس کی حفاظت چھوڑ دو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تب بھی مَیں اُن باتوں کے کہنے سے نہیں رُک سکتا جن کا کہنا خدا کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔6 پس اپنی جگہ پر پہنچی ہوئی چیز کہاں ہِل سکتی ہے۔ غیراللہ والے ہلتے رہتے ہیں اور کبھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتے۔ مگر جو اللہ کو پا لیتے ہیں وہ کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتے چاہے زمین و آسمان ہل جائیں۔ اسی لیے فرمایا یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ۝ ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۝7 جو شخص خدا تک پہنچ جاتا ہے اُس کے اندر کوئی اضطراب نہیں رہتا اور اسے طمانیت نصیب ہو جاتی ہے۔ پس اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی ترتیب و الفاظ میں ایک حکمت ہے کہ انسان غیراللہ کے واسطہ سے اللہ تک پہنچتا ہے اور اُن چیزوں سے جو غیراللہ ہیں پہلے اُن کو اپنا مقصود سمجھ کر اُن سے رغبت رکھتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اُن کو چھوڑ کر اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی چیزوں سے رغبت رکھتا ہے جو غیراللہ ہیں اور پھر اُن کو چھوڑنا نہیں چاہتا تو اُس کی مثال ایسی ہے جیسے سفر میں چلنے والا انسان کسی جگہ پر سستانے کے لیے بیٹھ جائے اور پھر وہاں سے نکلنے کو اُس کا دل نہ چاہے تو ایسے شخص کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اُس کے دماغ میں خرابی ہے۔ پس بچپن میں دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہونا اَور بات ہے۔لیکن جب انسان جوان اور عقلمند ہو کر بھی اصل مقصود کو چھوڑ کر غیراللہ سے رغبت رکھتا ہے تو یہ بچپن سے بھی گئی گزری بات ہے اور اُس کی ضد اور جہالت کی علامت ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کا علم ہونے پر بھی غور نہ کرے اور دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہو تو آخر اُس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اُس پر زنگ لگ جاتا ہے"۔ (الفضل6؍اگست1944ء)


30
سابق واقفینِ زندگی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں
(فرمودہ 4؍اگست 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"چند ماہ کا عرصہ ہوا مجھے ایک الہام ہوا تھا جس کو مَیں نے ایک خطبہ جمعہ میں بیان بھی کیا تھا کہ ؏
روزِ جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے
اُس وقت مَیں نے اِس کا جو مطلب سمجھا تھا وہ یہ تھا کہ اسلامی فتوحات کا زمانہ قریب ہے۔ لیکن ابھی ہماری تیاری مکمل نہیں اور جو راستہ ہم نے طے کرنا ہے وہ ابھی بہت دور ہے۔ اِس الہام کے بیان کرنے کے بعد جو حالات ظاہر ہوئے ہیں اُن سے میرا خیال اِس طرف جاتا ہے کہ اِن معنوں کے علاوہ جو مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں اِس الہام کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ موجودہ جنگ عظیم کا خاتمہ شاید قریب ہے اور ہماری جماعت کو تبلیغ کے لیے ابھی بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں اِس عرصہ میں اتحادیوں کو اِس طرح متواتر فتوحات نصیب ہوئی ہیں اور محوریوں 1 کو اِس طرح متواتر شکستیں ہوتی جا رہی ہیں کہ جن کو دیکھ کر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کچھ دنوں میں ختم ہونے والی ہے۔
آج سے دو تین سال پہلے جبکہ جنگ کا پہلو انگریزوں کے خلاف تھا اُسی وقت مَیں نے اِس بات کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ میری رائے میں جنگ 1944ء کے آخر یا 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی۔ مَیں نے جو یہ بات کہی تھی اس کی بنیاد کسی الہام پر نہیں تھی۔ بلکہ اِس بات پر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور میرے الہامات اور جماعت کے بعض اَور لوگوں کے الہامات سے معلوم ہوتا تھا کہ تحریک جدید کا اجراء خاص الٰہی تصرف کے ماتحت ہوا ہے۔ چونکہ تحریک جدید کے پہلے دَور کی میعاد 1944ء کے آخر میں ختم ہو جاتی ہے اِس لیے میرا خیال تھا کہ اس خدائی فعل کا خاتمہ ضرور کسی اہم مقصد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور جس وقت مَیں نے تحریک جدید شروع کی تھی اُس وقت مَیں نے بتایا تھا کہ چونکہ حکومت کے بعض افسروں نے ہم پر ظلم کیے ہیں اِس لیے ان کو ضرور اِس ظلم کی سزا ملے گی۔ اور مَیں نے بیان کیا تھا کہ ہمارے پاس تو ایسے سامان نہیں کہ ہم اِن کو سزا دے سکیں لیکن خدا کے پاس ہر قسم کے سامان ہیں وہ ضرور ان کو ان کے ظلم کی سزا دے گا۔ یہ بات میرے 1934ء اور اس کے بعد کے خطبات میں موجود ہے جس کے ماتحت انگریزوں کا جنگ میں حصہ لینا مقدر تھا۔ مَیں نے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ گو آخر میں فتح انگریزوں کے لیے مقدر ہے مگر حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ انصاف کرنے میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ اُن کی سزا اِن کو ضرور ملے گی۔ چنانچہ جنگ میں بے شک اِن کی فتح تو ہو جائے گی لیکن اِن کے لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں اور کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا ہے۔ پس انگریزوں کو فتح گو حاصل ہو جائے گی مگر مالی لحاظ سے وہ کچلے جائیں گے اور ان کے لیے جنگ کے بعد سر اٹھانا مشکل ہوگا۔ دراصل جنگ کے بعد مالی لحاظ سے انگریز امریکنوں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کی حالت اقتصادی طور پر جنگ کے بعد کے چند سالوں تک امریکہ کے مقابل ایک ماتحت کی سی رہ جائے گی۔ یعنی اگر امریکن ان پر کوئی دباؤ ڈالنا چاہیں تو انگریز انکار نہیں کر سکیں گے۔ اِس کے مقابلہ میں جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے یہ طاقت روس کی بہت بڑھ گئی ہے۔ روس نے فوجی لحاظ سے اِتنی عظیم الشان طاقت پیدا کر لی ہے کہ جنگ کے بعد جہاں امریکہ مالی لحاظ سے سب سے آگے نکل جائے گا وہاں فوجی طاقت کے لحاظ سے روس بہت آگے نکل جائے گا۔ بہرحال تحریک جدید کا اجراء جن اغراض کے ماتحت الٰہی تصرف سے ہوا تھا اُن کی وجہ سے مَیں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید کا پہلا دَور جب ختم ہوگا تو خدا تعالیٰ ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تحریک جدید کی اغراض کو پورا کرنے میں جو روکیں اور موانع ہیں خدا تعالیٰ ان کو دور کردے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا۔ اور چونکہ تبلیغ کے لیے یہ سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے میسر نہیں آسکتے اِس لیے مَیں سمجھتا تھا کہ 1944ء کے آخر یا 1945ء کے شروع تک یہ جنگ ختم ہوجائے گی اور ہمیں تبلیغ کے لیے آسانی سے سامان میسر آسکیں گے۔ چنانچہ اب اِس قسم کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ مستقبل کے متعلق یقینی طور پر تو نہیں کہا جاسکتا لیکن "ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات"۔ آثار سے پتہ لگتا ہے کہ میرا وہ خیال درست تھا۔ اب ایسے تغیرات پیدا ہو رہے ہیں کہ جنگ اِس سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی ششماہی میں ختم ہوجائے گی۔
چنانچہ آج انگلستان کے وزیر اعظم کی اخبارات میں تقریر شائع ہوئی ہے کہ عنقریب ہم جرمنی کو شکست دیں گے جس کے بعد جاپان بھی ہتھیار ڈال دے گا۔ اِس کےساتھ ہی انگلستان کے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا موجودہ اجلاس ختم ہوتا ہے۔ اب 20 ستمبر کو پارلیمنٹ کُھلے گی۔ اگر اس عرصہ میں دشمن نے ہتھیار ڈال دیے تو 20 ستمبر سے پہلے ہی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جائے گا۔ اِس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کو امید ہے کہ شاید دشمن 20 ستمبر سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دے گا۔ یہ حالات بتا رہے ہیں کہ جنگ اس سال کے آخر یا 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی۔جنگ کے ختم ہو جانے کے معاً بعد تبلیغ کے لیے تمام سہولتیں میسر نہیں آسکتیں مگر بہت سی تنگیاں ضرور دور ہو جائیں گی۔ اگر پہلے گورنمنٹ پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی تھی تو جنگ کے بعد بخل تو کرے گی مگر اتنا نہیں۔ پہلے اگر دس بیس آدمیوں کو پاسپورٹ ملتا تھا تو پھر پچاس ساٹھ آدمیوں کو ملنے لگ جائے گا۔ غرض کچھ نہ کچھ سہولتیں جنگ کے خاتمہ پر ضرور میسر آ جائیں گی اور جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک سال کے اندر اندر تو اِنْشَاءَ اللّٰہُ حالات بالکل پلٹا کھا جائیں گے۔ فوجوں کے اپنے اپنے ملکوں میں واپس چلے جانے کے سبب بہت سے جہاز فارغ ہو جائیں گے۔ جنگی سامان بھی اِدھر اُدھر لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، سپاہی واپس آ جائیں گے۔ چھ سات ماہ یا آٹھ نو ماہ تک تو جہازوں پر سے جنگ کا بوجھ بالکل اٹھ جائے گا اور کثرت سے جہاز فارغ ہو جانے کی وجہ سے پھر جہاز ران کمپنیوں کا آپس میں مقابلہ شروع ہوجائے گا۔ جب مقابلہ ہوگا تو جہاز سواریوں کے محتاج ہوں گے اور جب سواریوں کے محتاج ہوں گے تو لازماً زیادہ جگہ ملے گی۔ گورنمنٹ تجارت کو فروغ دینے کے لیے جہازی انتظام کو ترقی دیتی ہے۔ جب جہازی انتظام وسیع ہوگا اور اس میں ترقی ہوگی تو لازماً پاسپورٹوں کے حاصل کرنے میں زیادہ سہولتیں دی جائیں گی۔ کیونکہ اگر پاسپورٹ زیادہ نہیں ملیں گے تو سواریاں کم ہوں گی اور اگر سواریاں کم ہوں گی تو جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہوجائے گی اور اگر جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہوگی تو ملک کی تجارت بھی لازماً کمزور ہو جائے گی۔ اس لیے لازماً گورنمنٹ جہازوں کے انتظام کو ترقی دینے کے لیے زیادہ پاسپورٹ دے گی تاکہ جہازی کمپنیوں کے کام میں ترقی ہو۔ پس جہاز رانی کی ترقی کے ساتھ جب سفر میں سہولت ہو جائے گی جب گورنمنٹ جہاز رانی کی ترقی اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے زیادہ پاسپورٹ دے گی تو ہم آسانی سے جہاں چاہیں گے مبلغ بھیج سکیں گے۔
تحریک جدید کے واقفین کو تین تین چار چار سال پڑھائی کرتے ہو گئے ہیں مگر ابھی بہت فاصلہ باقی ہے جس کو انہوں نے طے کرنا ہے۔ واقفین کے اس گروپ کی پڑھائی کی تکمیل کا اندازہ ایک سال کا ہے۔ یہ ایک سال بھی دنیاوی علوم کے لیے ہے۔ اس کے بعد علم کلام، بائیبل اور غیر مذاہب کے لٹریچر کے مطالعہ اور سلسلہ کے لٹریچر کے مطالعہ پر بھی کچھ عرصہ لگے گا۔ گویا قریب ترین میعاد دو سال کی ہے۔ اگر واقفین دیانت داری اور محنت سے تعلیم حاصل کریں تو دوسال میں وہ تیار ہوں گے اور جنگ کے خاتمہ پر جو تغیرات پیدا ہوں گے اُن سے ہم پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اِس وجہ سے مَیں نے واقفین تحریک جدید پر زور ڈالا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو جلدی مکمل کریں۔ مگر افسوس ہے کہ جتنی پڑھائی انہوں نے اِس عرصہ میں کی ہے میرے نزدیک اگر دیانت داری اور محنت سے کام لیا جاتا تو اِس سے آدھے وقت میں اِتنی پڑھائی ہوسکتی تھی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ باری باری ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر اور دوسری سے تیسری سیڑھی پر چڑھا جاتا ہے۔ ممکن ہے واقفین کا دوسرا بیج(Badge)، پہلے بیج(Badge) کی پڑھائی کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہوا زیادہ سہولت کے ساتھ اور زیادہ تفصیلی علم حاصل کرے۔ مگر اس سے پہلے بیج (Badge)کی قدر ضرور کم ہوجائے گی۔ پس مَیں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا اور محنت سے کام نہ لیا تو ان کے لیے پہلی صف میں لڑنے کا موقع کھویا جائے گا۔ جتنی جلدی وہ پڑھائی مکمل کریں گے اُتنی ہی جلدی ان کو بطور مبلغ باہر بھیجا جاسکے گا۔ اور جتنی وہ پڑھائی میں دیر کریں گے اُتنا ہی ان کو باہر بھیجنے میں دیر لگے گی یا اگر جلدی بھیج دیا گیا تو وہ مبلغ بے تیاری کے باہر جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے بعد آنے والا گروہ کامل علم والا ہوگا اور آخر عمر تک فوقیت رکھنے والا ہوگا۔ کیونکہ پہلے گروہ میں سے جب کسی کو ایک جگہ تبلیغ کا انچارج مقرر کردیا جائے گا تو پھر اُس سے یہ امید رکھنا مشکل ہے کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرسکے گا۔ لیکن دوسرا گروہ زیادہ علم حاصل کر لے گا اور یہ لازمی بات ہے کہ جو علم میں بڑھ کر ہوگا اُس کو پہلی صف میں کام کرنے کا موقع زیادہ ملے گا اور یہ پہلا گروہ پہلی صف کی جگہ دوسری صف میں کھڑا ہونے پر مجبور ہوگا۔
پس ایک تو مَیں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ محنت اور دیانت داری سے پڑھائی کریں۔ دوسرے مَیں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ واقفین کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ اِس وقت تک جتنے آدمیوں نے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جو سوتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کر دیتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا کہ وقف کیا چیز ہے؟ اور اس کے بعد کون کونسی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کرتے ہیں مگر جب اُن کو بلایا جاتا ہے تو پھر آتے نہیں۔کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اخلاص سے وقف کے لیے پیش کیا لیکن درحقیقت اُن کی قربانی وقت کے لحاظ سے مفید نہیں کیونکہ ان میں سے یا تو اچھے اچھے پیشوں پر لگے ہوئے ہیں یا اچھی اچھی کمائیاں کر رہے ہیں۔ مثلاً بعض وکیل ہیں، بعض ڈاکٹر ہیں، بعض اَور اچھے اچھے کاموں پر لگے ہوئے ہیں اور ان کی عمر کا کافی حصّہ گزر چکا ہے۔ اس قسم کے لوگ اگر پنشن لے کر اور اپنے کام سے فارغ ہو کر مرکز میں آکر کام کریں تو سلسلہ کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو ولایت یا امریکہ باہر کسی جگہ تبلیغ کے لیے بھیج دیا جائے تو وہ مفید نہیں ہوسکتے۔کیونکہ اول تو ان کی عمر کا وہ حصہ گزر چکا ہے جس میں ان کو مبلغ بننے کے لیے ٹرینڈ کیا جائے اور دوسرے وہ خود اور ان کے بیوی بچے پانچ پانچ، چھ چھ سو یا ہزار ہزار روپے میں گزارہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب اگر ان کوبیس پچیس روپے دیے جائیں تو اِس میں وہ گزارہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایسے موقع پر اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگ کہیں اپنا پہلا ایمان بھی نہ کھو بیٹھیں۔ اگر اِس قسم کے واقفین کو نکال دیا جائے تو باقی واقفین کی تعداد سوڈیڑھ سو رہ جاتی ہے۔ باقی یا تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بغیر سوچے سمجھے پیش کردیا ہے اور اُن کو وقف کی حقیقت کا بالکل علم نہیں۔ اِس قسم کے واقفین میں سے ایک شخص کی چِٹھی آئی کہ مَیں اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں مگر یہ بتائیے تنخواہ کیا ملے گی؟ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر انگریزوں نے کشمیر کے راجہ سے کہا کہ تم بھی ہماری مدد کے لیے فوج بھیجو۔ چنانچہ راجہ نے افسروں کو حکم دیا کہ فوج تیار کرو۔ افسروں نے فوج سے جا کر کہا کہ تم سرکار کا نمک کھاتے رہے ہو، اب لڑائی کا موقع ملا ہے تمہارا فرض ہے کہ حقِ نمک ادا کرو۔ تمہیں انعام ملیں گے اور عزت بھی بڑھ جائے گی۔ اِس کے بعد پھر افسروں نے راجہ سے درخواست کی کہ ہم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ راجہ نے اجازت دی اور اُن کشمیری فوجی افسروں نے آکر عرض کیا کہ حضور! فوج تیار ہے اور فوج کے سب لوگ خوش ہیں کہ انہیں لڑنے کا موقع ملا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ پٹھانوں سے لڑائی ہے اور وہ بہت سخت ہوتے ہیں اِس لیے ہمارے ساتھ مضبوط پہرہ کا انتظام کیا جائے۔ اِسی طرح واقفین کا حال ہے کہ بار بار خطبے سنتے اور پڑھتے ہیں، وقف کی شرائط اور فارم چھپے ہوئے ہیں۔ اُن میں لکھا ہوا ہے کہ وقف کرنے والا یہ عہد کرے کہ مَیں بغیر کسی معاوضہ کے دین کا کام کروں گا اور اگر سلسلہ کی طرف سے مجھے کچھ دیا جائے گا تو مَیں اُس کو خدا کا احسان سمجھوں گا۔ لیکن بعض واقف ایسے ہیں کہ اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش تو کرتے ہیں لیکن جب ان کو بلایا جائے تو کہتے ہیں یہ بتائیے تنخواہ کیا ملے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کانوں میں روئی ٹھونس کر خطبہ سنتے ہیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر شرائط پڑھتے ہیں۔ اِس قسم کے لوگوں سے دین کی خدمت کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ ایسا انسان سوتا ہی پیدا ہوتا ہے، سوتا ہی زندگی بسر کرتا ہے اور سوتا ہی مر جاتا ہے اور سلسلہ کو اس سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید صرف نام پیش کردینے سے ہی عزت مل جائے گی۔ حالانکہ نام پیش کرکے پیچھے ہٹ جانا خدا تعالیٰ کے عذاب کو بلانے کا موجب ہے۔ پس واقفین میں سے ایک طبقہ تو اِس قسم کا ہے کہ اُس کو وقف کی حقیقت کا علم نہیں اور دوسرا طبقہ اِس قسم کا ہے کہ انہوں نے اخلاص سے اپنا نام پیش کیا ہے لیکن اُن کے حالات ایسے نہیں کہ اُن کا وقف مفید ہوسکے۔ کیونکہ یا تو وہ مفید کاموں پر لگے ہوئے ہیں اور یا اُن کا اس جگہ سے ہٹانا اُن کے لیے اور اُن کے خاندان کے لیے ٹھوکر کا موجب ہوگا۔ اور طاقت و قوت اور عمر کے لحاظ سے اُن کو کام سپرد کرنا ایسا ہی ہے جیسے لنگڑے آدمی کو دوڑنے کے لیے کہا جائے۔ اِس دوڑ میں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جن کی دونوں ٹانگیں سلامت ہوں۔ اگر ہم ایسے آدمی کو دوڑنے کا حکم دیں جس کی دونوں ٹانگیں ماری ہوئی ہوں یا ایک ٹانگ ماری ہوئی ہو تو یہ چیز ہماری کم عقلی پر دلا لت کرے گی کہ ہم نے صحیح انتخاب نہیں کیا۔ پس اگر اِس قسم کے آدمیوں کو نکال دیا جائے تو چار پانچ سو میں سے صرف چالیس پچاس یا ساٹھ ستّر واقفین ایسے رہ جاتے ہیں جو تمام شرائط کے مطابق اُتریں گے۔ لیکن جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کے لیے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔
پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقف کے لیے ایسے نوجوانوں کو تیار کر لیں کہ ایک تو اُن کی عمر تیس سال سے کم ہو اور دوسرے جسم کے لحاظ سے ایسے مضبوط ہوں کہ علم حاصل کرسکتے ہوں۔ تیسرے یہ کہ عربی یا انگریزی کے گریجوایٹ ہوں تا اُن کو جلدی ٹریننگ دے کر تیار کیا جاسکے۔
ہم نے اِس سال انٹرنس2(ENTRANCE) پاس بھی لیے ہیں اور مدرسہ احمدیہ کے ساتویں پاس بھی لیے ہیں۔ کیونکہ فوری ضرورت تھی۔ اب چونکہ تیس چالیس نوجوان پڑھائی کرنے والے ہو گئے ہیں۔ اِس لیے آئندہ وقف کے لیے شرط یہ ہے کہ یا عربی گریجوایٹ ہو (ہمارے نقطۂ نگاہ سے عربی گریجوایٹ سے مراد مولوی فاضل نہیں۔ مولوی فاضل کو ہم نے اِس سال سے اُڑا دیا ہے بلکہ گریجوایٹ سے اپنی یونیورسٹی کا گریجوایٹ مراد ہے یعنی جو جامعہ کی چار جماعتیں پاس ہو) یا پھر پنجاب یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہو۔ ہاں! اگر کوئی ایسا طالب علم اپنا نام پیش کرے جو ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس کو بھی لے لیا جائے گا۔ لیکن اُس کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے طور پر تعلیم مکمل کرے اور تعلیم کا خرچ خود برداشت کرے سلسلہ اُس کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ اگر اِس طرح اُس پر روپیہ خرچ ہوتا رہے تو آئندہ تبلیغ کے رستہ پر چلنا مشکل ہو جائے گا۔
تیسرے مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دَور کی قربانی ابھی ابتدائی قربانی ہے جس میں زیادتی کی گنجائش ہے۔ تحریک جدید کے دوسرے دَور کا اعلان تو مَیں اِنْشَاءَ اللّٰہُ نومبر میں کروں گا جس میں دوسرے دور کے قواعد وغیرہ بیان کروں گا۔ اِس وقت مَیں جماعت کے کارکنوں اور تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جماعت کو دوسرے دَور میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کریں۔ جنہوں نے پہلے دَور میں حصہ نہیں لیا و ہ دوسرے دَور میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور جنہوں نے پہلے دَور میں حصہ لیا ہے وہ دوسرے دَور میں پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں تاکہ تحریک جدید کے دوسرے دَور میں پہلے دَور سے زیادہ ریزرو فنڈ قائم ہوجائے جو تبلیغ کو وسیع کرنے میں مُمد ہو۔
ابھی جماعت میں اِس تحریک کا بہت موقع اور گنجائش ہے۔ ہماری لاکھوں کی جماعت ہے مگر صرف پانچ ہزار آدمی ہیں جنہوں نے تحریک جدید کے پہلے دَور میں حصہ لیا ہے۔ اگر اِس تحریک کو زیادہ وسیع کیا جائے تو دو تین لاکھ آدمی حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر اِس تعداد میں سے آدھے بچے نکال دیے جائیں تو ڈیڑھ لاکھ اور اگر عورتوں کو بھی نکال دیں تو 75 ہزار آدمی تحریک میں حصہ لینے والے ہونے چاہییں جن میں سے پہلے دور میں صرف پانچ ہزار نے حصہ لیا ہے اور 70 ہزار باقی ہیں۔ اگر تحریک جدید کا محکمہ مضبوط خط و کتابت کرے اور جماعت کے لوگ بھی کوشش کریں تو دوسرے دَور میں پہلے دَور سے بھی زیادہ ریزرو فنڈ قائم ہوسکتا ہے۔
مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ زمانہ ٹھہرنے کا نہیں بلکہ دوڑنے اور کام کرنے کا زمانہ ہے۔ دشمن جتنا آگے دوڑتا جار ہا ہے اُس کو پکڑنے کے لیے اُس سے زیادہ رفتار کے ساتھ ہم کو اُس کے پیچھے بھاگنا چاہیے۔ جو آگے دوڑنے والے سے کم دوڑتا ہے یا اُس کے برابر دوڑتا ہے وہ آگے دوڑنے والے کو کبھی نہیں پکڑ سکتا۔ وہی پکڑے گا جو آگے دوڑنے والے سے زیادہ تیز رفتار ہو۔ پس جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ تیز رفتاری اختیار نہیں کرتے، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ قربانیاں نہیں کرتے، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ محنت نہیں کرتے، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ سلسلہ کے کاموں پر وقت خرچ نہیں کرتے اُس وقت تک یہ امید رکھنا غلطی ہے کہ دین کی فتح کا کام ہمارے ہاتھوں سے ہوگا اور خدا تعالیٰ ہماری جگہ کسی اَور کو کھڑا نہیں کرے گا۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس وقت اپنی طرف سے پوری کوشش اور پوری طاقت خرچ کر دی جائے تو بقیہ کمی خدا اپنے پاس سے پوری کر دیتا ہے۔ لیکن جب تک مومن کافر سے زیادہ محنت نہیں کرتا، جب تک مومن کافر سے زیادہ قربانی نہیں کرتا، جب تک مومن کافر سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہوتا، جب تک مومن کافر سے زیادہ اپنا وقت دین کے کاموں پر خرچ نہیں کرتا اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کمی کو پورا کر دے گا یہ خدا تعالیٰ سے تمسخر ہے۔ اور یاد رکھو بادشاہوں سے تمسخر کبھی اچھے پھل نہیں لایا کرتا"۔
(الفضل29؍اگست، 1944ء)


31
ہماری ساری زندگی رمضان میں زندگی کی طرح بسر ہونی چاہیے
(فرمودہ یکم ستمبر 4419ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گو میرے گلے کی تکلیف ابھی باقی ہے لیکن اِس میں چونکہ کچھ تخفیف پیدا ہو گئی ہے اِس لیے مَیں نے ضروری سمجھا کہ خود ہی اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھوں۔ یہ مہینہ رمضان کا ہے اور رمضان کا مہینہ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ قرآن کریم رمضان کے مہینہ میں اُترنا شروع ہوا اور اِس نسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِس کو ہمارے لیے روزوں کا مہینہ قرار دیا ہے۔ روزے کیا ہوتے ہیں؟ ان میں انسان کا عام طریقِ زندگی تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں جو انسان کے لیے جائز ہوتی ہیں ناجائز ہو جاتی ہیں۔بلکہ بعض دفعہ انسان کی ضروری اورپسندیدہ چیزیں بعض وقتوں میں اُس کے لیے ممنوع، بعض وقتوں میں اُس کے لیے مکروہ اور بعض وقتوں میں ناجائز ہو جاتی ہیں۔گویا ضروری اور جائز کے مقابلہ میں ان چیزوں کو غیر ضروری اور ناجائز کی صورت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ جب کبھی خدا کی طرف سے کوئی پیغام دنیا میں آتا ہے تو اُس زمانے میں اُس کلام کے ماننے والوں کو اپنی زندگی کے عام دستور کو تہہ و بالا کرنا پڑتا ہے۔قرآن مجید کے نزول کے مہینہ کو ہمیشہ کے لیے روزوں کا مہینہ قرار دے کر اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کے نازل ہونے کے بعد انسانی زندگی کا عام دستورالعمل قائم نہیں رہ سکتا۔ کبھی بھی کوئی پیغامِ الٰہی دنیا میں نہیں آیا جس کے نازل ہونے کے بعد انسانی زندگیوں کا دستور اور قاعدہ اُسی طرح قائم رہا ہو جس طرح کہ اُس پیغامِ الٰہی کے نازل ہونے سے پہلے تھا۔ جس طرح روزوں کے مہینہ میں انسان کو جائز ضرورتوں اور جائز چیزوں کو بعض وقتوں میں ترک کرنا پڑتا ہے اِسی طرح انبیاء کی بعثت کے ایام میں اُن پر ایمان لانے والوں کو جائز رزق سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ کچھ تو دشمن کی کارروائیوں کی وجہ سے اور کچھ خود نظامِ سلسلہ کی پابندی کی وجہ سے۔ کچھ تو دشمن ایمان لانے والوں کا بائیکاٹ کرکے اور اُن کی تجارتوں کو نقصان پہنچا کر اُن کے جائز اموال سے اُن کو محروم کر دیتا ہے اور اُن پر قسم قسم کے مظالم توڑ کر اُن کی زندگی کے دستور کو تہہ و بالا کر دیتا ہے اور کچھ نظامِ سلسلہ کے ماتحت جہاد کے لیے، اشاعتِ دین کے لیے، تبلیغ کے لیے اور تعلیم کے لیے اُن پر چندے لگا دیے جاتے ہیں۔
غرض دو طرف سے ان کے اموال کی لُوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ خدا کی طرف سے بطور ٹیکس کے اور دشمن کی طرف سے بطور تعذیب کے۔ گویا وہ زمانہ ان کے لیے روزوں کا زمانہ ہوتا ہے۔ رمضان کے روزے تو سال میں ایک مہینہ ہوتے ہیں مگر وہ ساری عمر ہی روزے رکھتے ہیں۔ اور جس طرح روزوں کے مہینہ میں جائز چیزوں کو بعض وقتوں میں چھوڑنا پڑتا ہے اِسی طرح انبیاء کی بعثت کے ایام میں جائز چیزوں اور جائز ضرورتوں اور جائز خواہشوں کو یا تو خدا کے دین کی خاطر اور یا دشمن کی تعذیب کے ماتحت چھوڑنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک کا محاورہ ہے کہ اِتنی تکلیف پہنچی کہ "نیند حرام ہو گئی"۔روزوں میں بھی نیند حرام ہوجاتی ہے، کچھ تو سحری کے وقت کھانا پکانے کے لیے اُٹھنا پڑتا ہے اور کچھ تہجد اور دعا کے لیے۔ جس کی وجہ سے نیند کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح انبیاء کی بعثت کے زمانہ میں اُن پر ایمان لانے والوں پر قسم قسم کے مصائب کی وجہ سے نیند حرام ہوجاتی ہے۔ گویا اُن کو ساری عمر روزوں کی زندگی میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس طرح رمضان میں تہجد اور دعاؤں پر زور دیا جاتا ہے اِسی طرح انبیاء کے زمانہ میں مومنوں کی جماعت کو خصوصیت سے دعائیں کرنی پڑتی ہیں کیونکہ جو کام اُن کے سپرد ہوتا ہے وہ انسانی طاقت سے بالا ہوتا ہے۔کسی نبی کی قوم نہیں جس نے اپنی طاقت اور اپنی قوت سے فتح حاصل کی ہو۔ ہر نبی کے زمانہ میں دعاؤں اور التجاؤں سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ اور اگر وہ پورے طور پر اپنے فرض کو سمجھیں اور انبیاء کی بعثت کی غرض کو جانیں تو یقیناً اُن پر راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ تہجد پڑھتے ہیں، رات کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے ہیں اور گڑگڑا کر اور آہ وزاری سے خدا کے حضور فریاد کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اُن کی کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور اپنے فضل سے انہیں کامیاب فرمائے۔ اگر کوئی قوم ایسا نہیں کرتی اور سمجھتی ہے کہ صرف چندے دے کر یا صرف اپنی طاقت سے کام لے کر بغیر دعاؤں کے، بغیر راتوں کو اٹھ اٹھ کر آہ و زاری کرنے کے اور بغیر نمازیں اور تہجد پڑھنے کے کامیاب ہوسکتی ہے تو وہ دنیا کی بدترین احمق قوم ہوگی۔ اِسی طرح رمضان کے مہینہ میں ایک وقت میں مرد و عورت کے تعلقات بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز بھی نبیوں کے زمانہ میں پائی جاتی ہے۔ اُس زمانہ میں ایمان لانے والوں کو اپنے عزیزوں سے تعلقات منقطع کرنے پڑتے ہیں، کبھی ان کے مخالف ہونے کی وجہ سے اُن کو چھوڑنا پڑتا ہے اور کبھی سلسلۂ حقّہ کی ضرورتوں کے ماتحت دور دراز ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے کی وجہ سے اُن سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ گویا کبھی کفر کی بناء پر اُن سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایمان کی بناء پر ان سے الگ ہونا پڑتا ہے۔
پس رمضان کا مہینہ جہاں انفرادی طور پر ایک فرد کے ایمان اور اخلاص کے لیے آزمائش کا مہینہ ہے اور ہر زمانہ میں قیامت تک کے لیے آزمائش کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے وہاں انبیاء کی جماعت کے لیے بھی سبق اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنے سے ہی وہ جماعت کامیاب ہوسکتی ہے۔ اگر وہ جماعت اپنے جائز امور اور جائز ضرورتوں کو خدا کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار نہیں تو اُس جماعت کا کوئی فرد صرف یہ کہہ کر کہ حرام چیزیں اُس کے لیے حرام ہیں اور ناجائز چیزوں کو وہ ناجائز سمجھتا ہے کسی صورت میں بھی جماعت کے لیے مفید وجود ثابت نہیں ہوسکتا۔ نبیوں کے زمانہ میں وہی شخص دین کی حقیقی خدمت کرنے والا ہوتا ہے جو نہ صرف حرام چیزوں کو حرام سمجھ کر چھوڑ دے بلکہ بعض وقتوں میں سلسلۂ حقّہ کی صورتوں کے مطابق جائز چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام کرے۔
خدا تعالیٰ انبیاء کے زمانہ میں عجیب تضاد پیدا کر دیتا ہے کہ انبیاء اپنی بعثت کے زمانہ میں ایک طرف تو حرام کو حلال کر دیتے ہیں جیسے خدا کا کلام کرنا، اُس کا دیدار نصیب ہونا۔ اِن چیزوں کو اُن کی بعثت سے پہلے لوگ حرام سمجھتے ہیں۔ انبیاء آکر نئے سرے سے اِن کو جائز کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف انبیاء آکر حلال کو حرام کر دیتے ہیں۔ وہی چیزیں جو بعد میں یا پہلے جائز ہوتی ہیں دین کے مطالبات کے ماتحت حرام ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں دفعہ مومنوں کی جماعت کو کھانا پینا، اپنی جائیداد، عمدہ جذبات، خواہش اور وطن جس کی محبت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایمان کی علامتوں میں سے بیان فرمایا ہے 1 اِن سب چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مومن ایسا نہ کرے تو اُس کا ایمان باطل ہو جاتا ہے۔ گویا انبیاء ایک طرف تو حرام چیزوں کو حلال کر دیتے ہیں اور جن چیزوں سے دنیا محروم ہوتی ہے وہ اُن کو نئے سرے سے لے آتے ہیں اور دوسری طرف جو چیزیں ضروری اور جائز ہوتی ہیں اُن کو حرام کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں اور اس کے مطابق جائز حقوق اور جائز چیزوں کو دین کے مطالبات کے ماتحت چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ ایمان کی حد سے نکل جاتا ہے۔ وطن کی محبت ایمان میں شامل ہے لیکن خدا تعالیٰ بعض دفعہ ہجرت کا حکم فرماتا ہے اور وطن کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔2 لیکن دین کے مطالبات کے ماتحت اِس مال کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ پس جو چیز دوسرے وقت میں ایمان میں شامل ہوتی ہے نبی کے وقت میں وہی چیز دین کے مطالبات کے ماتحت حرام اور قطعی حرام ہو جاتی ہے اور اگر کوئی شخص پھر بھی اُس کو لینے کی خواہش کرے تو وہ مومن نہیں بلکہ کافر ہو جاتا ہے۔ پس انبیاء آکر کچھ تو حرام حصہ کو حلال کر دیتے ہیں اور کچھ حلال حصہ کو حرام کر دیتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو کبھی حقیقی ایمان کا نمونہ قائم نہ ہوسکے۔
ہماری جماعت کے آدمی بھی بعض دفعہ لڑ پڑتے ہیں کہ ہمارا یہ حق مارا گیا اور ہمارا وہ حق نہیں ملا۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ انبیاء کے زمانہ میں حقوق تلف کرنے میں ایمان ہوتا ہے۔ جوشخص اپنا مال، اپنی دولت،اپنا آرام و آسائش، اپنے جذبات، اپنی خواہش، اپنی جائیداد، اپنے عزیز رشتہ دار اِن سب چیزوں کو خدا کے حکم کے مطابق اور دین کی ضرورت کے ماتحت قربان نہیں کرتا وہ کبھی بھی نہ سلسلہ کے لیے مفید ہوسکتا ہے اور نہ مومنوں کی جماعت میں شامل ہونے کے قابل ہے۔ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اس کی اہمیت سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود تو کسی بات کو سمجھ لیتے ہیں مگر دوسروں کو سمجھانے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ حالانکہ انبیاء کی جماعت کو تو دوسروں کو سمجھانے میں لگے رہنا چاہیے۔ انبیاء سے دُوری کے زمانہ میں اگر پچاس فیصدی لوگوں میں ایمان پایا جائے اور وہ دین کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہوں تو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن نبیوں کے زمانہ میں تو ننانوے فیصدی لوگوں میں ایمان کا پایا جانا اور دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر اُس زمانہ میں ہی اُن کے اندر خرابی پیدا ہوجائے تو سلسلہ کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ انبیاء کے زمانہ کے بعد دین کی حفاظت کا وقت نہیں ہوتا بلکہ عمل کا وقت ہوتا ہے۔ لیکن نبیوں کی بعثت کے زمانہ میں تو دین کی حفاظت کا سوال ہوتا ہے۔ پس انبیاء کے زمانہ میں نہ صرف انفرادی ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ قومی ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، دین کی ضرورتوں کے مطابق قومی قربانیاں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب تک قومی رنگ میں ایمان پیدا نہ ہو اور جب تک قومی رنگ میں قربانیاں نہ کی جائیں اُس وقت تک نبی کی بعثت کی غرض پوری نہیں ہوتی۔ اور جب تک نبی کی بعثت کی غرض پوری نہ ہو اُس نبی کی قوم بری الذمہ نہیں ہوتی۔ بلکہ مجرم ٹھہرتی ہے کہ جو کام اُس کے ذمہ لگایا گیا تھا اُس کو اُس قوم نے پورا نہیں کیا۔
پس ہمیں ہر رمضان سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سال میں رمضان کا ایک مہینہ ہر مسلمان پر روزے رکھنا فرض ہے ہمارے لیے سارا سال ہی رمضان ہے۔ ہمارے لیے صرف ایک مہینہ ہی روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ بارہ مہینے ہی روزوں کے مہینے ہیں۔ جب تک اسلام دوبارہ دنیا میں پھیل نہ جائے اور جب تک تمام دنیا کے لوگ اسلام میں داخل نہ ہو جائیں اُس وقت تک ہماری جماعت کے لیے صرف سال میں ایک مہینہ ہی روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ سال میں بارہ مہینے ہی روزوں کے مہینے ہیں۔ ہماری مثال بالکل اُس بزرگ کی سی ہے جس سے کسی نے پوچھا زکوٰۃ کے متعلق کیا حکم ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ عام لوگوں کے لیے چالیس روپوؤں پر ایک روپیہ زکوٰۃ ہے اور میرے لیے چالیس رپوؤں پر اکتالیس روپے زکوٰۃ ہے۔ کیونکہ عام لوگوں کے لیے عام حکم ہے مگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ میری ساری ضرورتیں وہ خود پوری کرتا ہے اور اُس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ مَیں تیری تمام ضرورتوں کا کفیل ہوں۔ اگر باوجود اِس کے مَیں روپیہ جمع کروں تو وہ روپیہ مَیں ناجائز حالت میں جمع کروں گا جو مجھے واپس کرنا چاہیے اور ایک روپیہ جرمانہ کا ادا کرنا چاہیے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مَیں نے اپنی ضرورتوں کے لیے خود انتظام کیا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ لوگوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ رمضان یعنی روزوں کا ہوتا ہے مگر ہمارے لیے سارا سال ہی روزوں کا ہونا چاہیے اور ہماری ساری زندگی رمضان کی طرح بسر ہونی چاہیے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ سارا سال ہی روزے رکھے جائیں۔ یہ تو منع ہے کہ کوئی شخص تمام سال روزے رکھتا رہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے لیے اپنے نفس کو خدا کے احکام کے تابع کرکے ضروری اور جائز چیزوں کو بھی حرام اور غیر ضروری قرار دینا ہوگا۔
پس ہمارے لیے بارہ مہینے ہی رمضان ہے اور شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ3 میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ انبیاء کی بعثت کے زمانہ میں ان کے ماننے والوں کے لیے بارہ مہینے ہی بلکہ ساری زندگی ہی رمضان میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عام لوگوں کے لیے بارہ میں سے صرف ایک مہینہ روزوں کا ہوتا ہے مگر ہمارے لیے بارہ مہینوں میں سے بارہ ہی روزوں کے مہینے ہیں۔ کیونکہ جس وقت خدا کا کلام نازل ہوتا ہے تو وہ روزوں کا زمانہ ہوتا ہے۔ جس طرح کہ قرآن مجید کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اتارا گیا ہے"۔ (الفضل19؍ستمبر، 1944ء)


32
رمضان کا آخری عشرہ اور جماعت احمدیہ
(فرمودہ 8 ستمبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"نقرس کے درد کی وجہ سے مَیں اِس قابل تو نہ تھا کہ جمعہ میں شامل ہوسکوں اور خطبہ پڑھوں۔ مگر چونکہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے اور چند ہی روز کے بعد رمضان کا مہینہ ختم ہو جائے گا۔ اِس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ جماعت کو اِن ایام میں اُس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔ دعا کا ہر انسان محتاج ہے۔ چاہے وہ دعا کو مانے یا نہ مانے۔ مگر ہر انسان کی فطرت ضرور دعا کرتی ہے۔ علاج کیا ہے؟ وہ بھی تو ایک دعا ہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون سے فائدہ اٹھانا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل نہیں یا دعا پر اعتقاد نہیں رکھتے مصیبت کے وقت اُن کے دل میں بھی یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کاش! اُن کا بیمار اچھا ہو جائے یا اُن کی مصیبت دور ہو جائے، اُن کی پریشانی رفع ہو ، اُن کا دشمن ناکام رہے یا جس غرض کے حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں ہیں وہ حاصل ہوسکے۔ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جو دیانتداری سے یہ کہہ سکے کہ اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ کسی دہریہ سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ جب اُس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہوتا ہے اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے یا نہیں کہ کاش! وہ اچھا ہوجائے۔ چاہے وہ خدا کا بھی قائل نہ ہو مگر اُس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کاش! اُس کا رشتہ دار اچھا ہوجائے اور اگر کوئی خدا نہیں تو اُس کی فطرت یہ "کاش "کس سے کہتی ہے اور یہ خواہش کس سے کرتی ہے؟ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اُس کی فطرت ایسے وجود کی متمنی یا قائل ہے جو اُس کے مریض کو اچھا کرنے پر قادر ہے یا کم سےکم اُس کے مریض کو اچھا کرنے پر قادر ہو۔اِسی طرح کسی دہریہ سے یا ایسے شخص سے جو کسی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہو پوچھا جائے کہ اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے یا نہیں کہ" کاش"! وہ مقدمہ جیت جائے۔ تو معلوم ہوگا کہ ضرور ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی خدا نہیں، کوئی ایسی بالا طاقت نہیں تو اِس خواہش کے پیدا ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں۔ واقعات کے لحاظ سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ نکل کر رہے گا اور جب کوئی ہستی اِن واقعات میں دخل دینے والی ہے ہی نہیں تو اِس خواہش کے پیدا ہونے کے کیا معنے ہوسکتےہیں۔ اِس کے معنے یہی ہیں کہ گو وہ شخص عقیدۃً خدا تعالیٰ کا قائل نہیں یا دعا کا قائل نہیں مگر جب اُس پر مصیبت آئی تو اُس کے دل نے یہ خواہش کی کہ کاش! کوئی ایسی ہستی ہوتی جو میری اِس تکلیف دہ حالت کو بدل سکتی۔ پس یہ خواہش یا باریک رنگ میں ایمان ہر فطرت میں داخل ہے اور ہر انسان خواہ وہ دعا کو مانے یا نہ مانے دعا کرتا ضرور ہے۔ مومن تو اِس طرح دعا کرتا ہے کہ اے خدا! فلاں بیمار کو اچھا کردے۔ اے خدا! میرے قرضوں کو دور کردے، میرے مقدمہ میں مجھے کامیاب کر، مجھے ذلتوں سے بچا لے۔ مگر دہریہ یا ایک ایسا انسان جو دعا کا قائل نہیں وہ بیشک اِس طرح تو دعا نہیں کرتا مگر اُس کا دل بھی یہ ضرور کہتا ہے کہ کاش! ایسا ہو جائے۔ یہ بِالواسطہ دعا ہے۔ جیسے بعض متکبر لوگ دوستوں سے یہ تو نہیں کہتے کہ میری فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیں لیکن مجلس میں بیٹھے ہوئے اِس رنگ میں بات کر دیتے ہیں کہ مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ اگر اِس بات کے اِس طرح ہو جانے کا سامان پیدا ہوسکے اور اُس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دوسرے اِس بات کو سُن کر اس کی ضرورت کو پورا کر دیں۔
تو ہر انسان دعاؤں کا محتاج ہے۔ مگر وہ قوم جس کی حالت ایسی ہو جیسے بتیس دانتوں میں زبان کی، ساری دنیا جس کی مخالف ہو، حکام اور رعایا دونوں جسے مٹانے پر تُلے ہوئے ہوں۔ پھر جس قوم کے مقاصد اتنے عالی ہوں کہ ان کے پورا ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی ہو ایسی قوم تو دعا کی بہت ہی محتاج ہے۔ اور آج دنیا میں ایسی قوم جماعت احمدیہ کے سوا اَور کوئی نہیں۔ اَور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس کے مقاصد اتنے بلند ہوں جتنے ہماری جماعت کے مقاصد بلند ہیں۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں جس کے راستہ میں اتنی مشکلات ہوں جتنی ہمارے راستہ میں ہیں۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں جو ایسی بے سروسامان ہو جیسی بے سروسامان جماعت احمدیہ ہے۔ اَور کوئی قوم ایسی نہیں جس کے اتنے دشمن ہوں جتنے جماعت احمدیہ کے ہیں۔ پس ہمیں دعاؤں کی انتہا درجہ کی ضرورت ہے۔ اگر خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا نہ ہو تو سوفیصدی ناکامی اور نامرادی ہمارے حصہ میں ہے۔ مگر ہم اُس خدا کے ماننے والے ہیں جو فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو مَیں قبول کروں گا۔ جیسےکہ فرمایا ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ1 تم مجھ سے مانگو مَیں سنوں گا۔ وہ خدا رمضان کے مہینہ میں خصوصاً اِس کے آخری عشرہ میں دعائیں سننے پر دوسرے وقتوں کی نسبت زیادہ آمادہ ہوتا ہے۔ پس ہم جن کے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نہیں، جن کے چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور جن کا کوئی ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا نہیں اور جن کا کام اتنا بڑا ہے کہ کسی بڑی سے بڑی حکومت اور طاقت کا کام بھی اتنا بڑا نہیں۔ ہمارے لیے تو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا وقت ہے۔ ہماری بے بسی اور کمزوری اور بے سروسامانی کو دیکھ کر آج وہ آسمان سے اُترا ہے تاہم اُس سے مانگیں اور وہ ہمیں دے۔ اور اگر ہم اپنے فرض کو سمجھتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہیں تو ہمیں اِس رمضان کے دنوں میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام اور احمدیت کی فتوحات کے لیے اور جماعت کی اصلاحِ نفس کے لیے اور اسلام کی تعلیم پر ثابت قدم رہنے کے لیے خدا تعالیٰ کا ایسےرنگ میں دامن پکڑیں کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے اُس وقت تک نہ چُھوٹے جب تک کہ خدا تعالیٰ خود یہ نہ کہہ دے کہ اے میرے بندے! مَیں نے تیری دعاؤں کو سنا اور قبول کیا۔ زمانہ ہمارے لیے تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے، مشکلات زیادہ سے زیادہ بڑھتی جاتی ہیں، دشمن روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور آئندہ آنے والے مصائب گزشتہ مصائب کی نسبت بہت زیادہ نظر آتے ہیں اور ہماری کمزوریاں روز بروز دشمنوں پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔ اگر آج ہمارے لیے آسمان سے نصرت نازل نہ ہو، رحمت نازل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور بخشش نازل نہ ہو تو دنیا میں ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو آج جذب نہیں کرسکتے، اگر اُس کی رحمتوں کو آج جذب نہیں کرسکتے تو ہمارے لیے زمین کی سطح کی نسبت قبروں کی لحدیں زیادہ اچھی ہیں اور ہماری زندگیاں بےحقیقت اور بے فائدہ ہیں۔ بلکہ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے عار اور اسلام کے لیے ننگ کا موجب ہے۔
پس آؤ! اِن دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کریں، خدا تعالیٰ کے حضور اِس طرح گڑگڑا کر دعائیں کریں کہ وہ رحیم و کریم ہستی ہماری بے بسی اور بے کسی پر رحم کرتے ہوئے ہمارے کسی عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فضل سے ہماری کسی کوشش کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے احسان سے اور محض اپنی بخشش سے ہمارے ہاتھوں سے اُس مقصد کو پورا کرا دے جس کے پورا کرنے کے لیے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ اور جس کے لیے آج سے تیرہ سو سال قبل برگزیدہ ترین انسان اور نبیوں کے سردار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اُس نے قرآن کریم نازل فرمایا تھا۔ کاش!ہمیں یہ توفیق عطا ہو کہ ہم اُس سے دعائیں کریں جنہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور ہم اپنی موتوں سے پہلے اُس کے جلال کو ظاہر ہوتا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔ اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ"۔
(الفضل10؍ستمبر، 1944ء)


33
دنیا پر واضح کر دو کہ چلو! ہم پاگل تو پاگل ہی سہی
(فرمودہ 22 ستمبر 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مختلف حالات کے لحاظ سے انسانوں کی محنتیں اور کوششیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو حواس پیدا فرمائے ہیں اُن میں سے ایک حِسّ موازنہ کی بھی ہے۔ انسانی جسم میں خدا تعالیٰ نے ایک مادہ یہ بھی رکھا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اُس کے دماغ کے ایک خاص حصہ میں اُس کام کا ایک وزن قرار دیا جاتا ہے۔ اُس وزن کے مطابق جسم کو زور لگانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اور جب اُس کے دماغ کا فیصلہ اُس چیز کے وزن کے مطابق ہو جاتا ہے تو وہ کام ہو جاتا ہے اور جب اُس کے دماغ کا فیصلہ اُس چیز کے وزن کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ کام نہیں ہوتا۔ یہ حِسّ ایسی ہے جس کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ کی ہے بلکہ دنیا میں اِس کا احساس پیدا ہی اِس قریب زمانہ میں ہوا ہے۔ پہلے صرف حواسِ خمسہ کہلاتے تھے۔ حالانکہ حواس پانچ نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ موجودہ تحقیقات کی رُو سے نو حِسّیں ہیں۔ ممکن ہے اَور بھی ہوں مگر اِس وقت تک نو ثابت ہو چکی ہیں۔ اِن میں سے ایک حِسّ موازنہ کی ہے یعنی جس کے ساتھ کسی کام یا کسی چیز کا دماغ میں وزن کیا جاتا ہے۔ اِسی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک میزان مقرر ہے 1یعنی ہر کام کے مناسبِ حال ایک طاقت مقرر کی گئی ہے۔اِسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر جن چیزوں کے اٹھانے یا جن چیزوں کے ہلانے کی عادت ہوتی ہے جب انسان اُن کو اٹھانے یا اُن کو ہلانے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کو اُن کے اٹھانے یا ہلانے سے صدمہ نہیں پہنچتا کیونکہ اُس کو اُس چیز کا وزن معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب کبھی وہ اُس کا وزن معلوم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے تو اُس کو اُس کے اٹھانے میں صدمہ پہنچتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کو اندھیرے میں ایک چِیز پڑی ہوئی نظر آتی ہے وہ سمجھتا ہے یہ لکڑی کی چیز ہے مگر ہے وہ لوہا ۔تو اُس چیز کو اٹھاتے ہوئے اُس اٹھانے والے کو اُسی قسم کا صدمہ پہنچے گا جس طرح بجلی کی تار کو ہاتھ لگانے سے صدمہ پہنچتا ہے۔ پھر بھی وہ چیز ہلے گی نہیں۔ بعد میں جب پتہ لگ جائے گا کہ وہ لوہا ہے تو دوسری دفعہ وہ اُس کو اٹھانے میں کامیاب ہوجائے گا کیونکہ اب اُس کا دماغ اُس چیز کو اٹھانے کے لیے اُتنی ہی طاقت بھیج دے گا جتنی طاقت کی کہ ضرورت تھی اِس لیے دوسری دفعہ وہ اس کو اٹھا لے گا۔
جب مَیں کوئی 19 ، 20 سال کا تھا پہلی مرتبہ ڈلہوزی آیا۔ پہاڑ تو پہلے بھی دیکھا ہوا تھا۔ اس سے پہلے شملہ گیا تھا مگر ڈلہوزی پہلی مرتبہ آیا تھا۔ فارگوسن عیسائیوں کا ایک بڑا مشہور پادری تھا۔ سیالکوٹ میں ہزارہا لوگ اس کی محنت اور کوشش سے عیسائی ہوئے تھے۔ جب مَیں اس سے ملا ہوں اُس وقت اِس کی عمر کوئی 75 سال کے قریب تھی۔ اس وقت وہ پونا2 میں مقرر تھا اور تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے یہاں آیا ہوا تھا۔ وہ روزانہ ڈلہوزی میں مختلف قسم کے دو دو چار چار صفحات کے ٹریکٹ بانٹا کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں ہیجان تھا۔ مسلمان یہ سب کچھ دیکھتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ اُن میں جواب کی طاقت اور ہمت نہیں ہے۔ مَیں بچہ ہی تھا مگر احمدی تبلیغ کی دھاک مدتوں سے لوگوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اِس لیے بعض مسلمان میرے پاس آئے اور مجھے تحریک کی کہ آپ اِس پادری سے بات کریں۔ مَیں نے آمادگی کا اظہار کیا۔ اُس وقت عیسائی لٹریچر کا مطالعہ تو مجھے نہیں تھا۔ وہی باتیں معلوم تھیں جو احمدیہ لٹریچر میں عیسائیوں کے متعلق پڑھی ہوئی تھیں۔ وہ 75 سال کا تجربہ کار اور اُس کے مقابلہ میں مَیں 20 سال کا ناتجربہ کار۔ مگر باوجود ناتجربہ کاری کے اتنا مَیں جانتا تھا کہ عیسائیوں کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کرتے وقت بارِ ثبوت مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک حملہ آور کی حیثیت سے پیش کیا کرتے ہیں۔ یہ بات میرے ذہن میں تھی اور جاتے جاتے مَیں سوچ رہا تھا کہ میرا تجربہ کم ہے اور علم بھی کم ہے۔ اِس کے مقابل میں اس پادری کا تجربہ بھی زیادہ ہے اور علم بھی زیادہ ہے۔ اس کی ساری عمر بحث مباحثے کرنے میں گزر گئی ہے۔ وہ بات کو اس رنگ میں غلط کرنے کی ضرور کوشش کرے گا کہ اپنے آپ کو معترض اور حملہ آور کی حیثیت دے کر ہم پر اعتراض کرے۔ اس لیے مَیں نے سوچا کہ مناسب یہی ہے کہ میرا پہلو جارحانہ ہو اور اُس کا پہلو مدافعانہ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو پادری صاحب کو کہلا بھیجا کہ ہم آپ سے بات کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس نے کہا آ جائیں۔ ہم اندر جاکر بیٹھ گئے۔ پادری صاحب نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ مَیں نے کہا ہم مذہبی تحقیق کے لیے آئے ہیں۔ کہنے لگا آپ کا مذہب کیا ہے؟ مَیں نے کہا جب مَیں تحقیق کرنے کے لیے آیا ہوں تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ میرا مذہب کیا ہے۔تحقیق کے بعد جو مذہب سچا معلوم ہوگا اُسے مانوں گا۔ اگر ثابت ہو گیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے تو مَیں کہوں گا جو مذہب سچا ہے مَیں اُس پر قائم ہوں اور اگر ثابت ہو گیا کہ عیسائیت سچی ہے تو اس کے بعد یہ سوال ہی نہیں رہے گا کہ تحقیق سے پہلے میرا کیا مذہب تھا۔پس میری حیثیت تو ایک تحقیق کرنے والے کی ہے۔اس لیے مَیں مطالعہ کے بعد ہی اِس کا جواب دے سکوں گا کہ میرا کیا مذہب ہے۔ مَیں آپ کے پاس تو تحقیق کے لیے آیا ہوں آپ مجھے عیسائیت کی بات بتائیں۔ آپ روزانہ ٹریکٹ تقسیم کرتے ہیں کہ عیسائیت سچی ہے اور باقی مذاہب درست نہیں ہیں، آپ بتائیں مَیں کیونکر مانوں کہ آپ کی بات درست ہے۔ اس نے جواب دیا عیسائیت کو سچا ماننے کی وجہ یہ ہے کہ خداوند کی ہستی کا جو ثبوت اور خداوند کی جو حقیقت عیسائیت میں بیان کی گئی ہے وہ اَور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی اور چونکہ خداوند خدا کی ذات پر ایمان لانے کے بغیر نجات حاصل نہیں ہوسکتی اِس لیے عیسائیت دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں سچی ہے۔ مَیں نے کہا آپ کے نزدیک خدا تعالیٰ کی تعریف کیا ہے ؟جو تعریف آپ بیان کریں گے اُسی کے مطابق ہم آپ سے بات کریں گے۔ مَیں نے سنا ہے کہ عیسائی باپ کو بھی خدا مانتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ تینوں ایک ہی خدا کی الگ الگ حیثیتیں ہیں یا تینوں حقیقتاً خدا ہیں؟اُس نے کہا یہ حیثیتیں نہیں بلکہ حقیقتاً تینوں خدا ہیں۔ اُس وقت میں یہ بات سمجھتا تھا کہ اگر صفات کے متعلق پہلے سے ہی بات صاف نہ کر لی گئی تو یہ دلیل میں پھنس کر اپنے بچاؤ کے لیے صفات کی طرف آجائے گا اور کہہ دے گا کہ تینوں اقنوم ایک خدا کی صفات ہیں الگ ہستیاں نہیں اِس لیے مَیں نے اس سے منوا لیا کہ یہ صفات نہیں بلکہ حقیقتاً تینوں خدا ہیں۔ پھر مَیں نے پوچھا یہ تینوں مل کر ایک خدا بنتا ہے یا تینوں اپنی اپنی ذات میں خدا ہیں؟ کہنے لگا چونکہ تینوں ایک ہی مقصد کے لیے ہیں اِس لیے ایک ہی ہیں اور چونکہ تینوں اپنی اپنی ذات میں مکمل ہیں۔ اِس لیے تین ہیں۔ پھر مَیں نے سوال کیا یہ بتائیے اگر تینوں اپنی اپنی ذات میں مکمل ہیں تو یہ جو دنیا نظر آ رہی ہے کیا اِس کو پیدا کرنے کی اکیلے باپ میں طاقت تھی؟کیا اکیلے بیٹے میں اِس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی؟ کیا اکیلے روح القدس میں اِس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی؟ کہنے لگا ہاں۔ اس کے بعد مَیں نے کہا اب مَیں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ فرض کرو آپ کو نوٹ کرنے کے لیے اِس پنسل کی ضرورت ہے جو آپ کے سامنے میز پر پڑی ہے۔ اِس کو اٹھانے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ آپ اُٹھیں اور خود ہی اِس پنسل کو اٹھا لیں۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ وہ صاحب جو سامنے بیٹھے ہیں آپ اُن سے کہیں کہ مہربانی کرکے یہ پنسل اُٹھا دیں۔ یہ دونوں طریق تو سمجھ میں آ جاتے ہیں لیکن اگر آپ اِس کی بجائے یہ طریق اختیار کریں کہ آپ کھڑے ہو جائیں اور اپنے پاس والے کو بھی کہیں کہ مہربانی کرکے ذرا میری مدد کریں اور اِردگرد بیٹھنے والوں کو بھی بُلا لیں اور اپنے بیرے اور خانسامہ کو بھی آوازیں دینا شروع کردیں کہ ذرا اِدھر آنا اور پھر سب مل کر اِس ایک پنسل کو اٹھانے کی کوشش کریں تو اب بتائیں یہ پاگل پن کی بات ہوگی یا عقلمندی کی؟ کہنے لگا اِس کا ہماری بات سے کیا تعلق ہے؟ مَیں نے کہاتعلق ہے یا نہیں۔ اِس کو آپ رہنے دیں۔ پہلے جو مَیں پوچھتا ہوں آپ اُس کا جواب دیں۔ کہنے لگا یہ تو یقیناً پاگل پن کی بات ہوگی کہ ایک پنسل کو اٹھانے کے لیے میں اِتنے آدمیوں کو اکٹھا کروں اور اپنی مدد کے لیے بلانا شروع کر دوں۔مَیں نے کہا اب آپ فرمائیے کہ آپ
اُس وقت میاں شریف احمد صاحب سامنے بیٹھے تھے۔ ابھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اکیلے باپ میں اِس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی۔ اکیلے بیٹے میں بھی اس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی۔ اکیلے روح القدس میں اِس دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی۔ اگر یہ بات درست ہے تو آپ کو یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ صرف ایک خدا نے یہ سب کام کیا اور باقی دو خدا نکمے بیٹھے ہیں۔ اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ خدا باپ یا خدا روح القدس یا خدا بیٹا اکیلا یہ کام کرسکتا تھا مگر باوجود اِس کے کہ ان میں سے ہر ایک اکیلا یہ کام پوری طرح کرسکتا تھا پھر بھی تینوں خدا مل کر اِس کام کے کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین کو خدا باپ بھی بنا سکتا تھا، خدا بیٹا بھی بنا سکتا تھا، خدا روح القدس بھی بنا سکتا تھا مگر سارے کے سارے مل کر اِس کام کو کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کو اکیلا خدا بھی کرسکتا تھا۔ آپ انسانوں کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ اِس پنسل کو اگر سارے مل کر اٹھائیں تو یہ پاگل پن کی بات ہے اور خدا کے لیے تو زمین و آسمان کا پیدا کرنا اور اس سلسلہ کو چلانا اس سے بھی زیادہ آسان ہے جتنا کہ آپ کے لیے پنسل اٹھانا آسان ہے۔ پھر جب ہماری طاقت کی نسبت کے لحاظ سے جو کام ہمارے لیے آسان ہے اگر ہم اِس کو ایک سے زیادہ آدمی مل کر کریں تو یہ پاگل پن ہے۔ تو وہ ہستیاں جن کے لیے زمین و آسمان کا پیدا کرنا ہمارے پنسل اٹھانے سے بھی زیادہ سہل ہے۔ وہ اگر اِس کام کو ایک سے زیادہ مل کر کریں تو کیا یہ ہمارے مذکورہ بالا فعل سے بھی زیادہ پاگل پن کی بات نہ ہوگی؟پادری حیران سا ہو گیا اور کہنے لگا آسمانی باتوں میں عقلی دلیل نہیں چلا کرتی۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی کام کے مطابق اپنی طاقت خرچ کرتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول ایک شخص کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید نہیں اِس کا ایمان محفوظ رہے اور اس کی موجودہ حالت قائم رہے۔ یہ ضرور ٹھوکر کھائے گا۔ اب تو پتہ نہیں وہ شخص مرگیا ہے یا زندہ ہے اُس کی کافی زمین تھی اور اچھی خاصی آمدنی تھی۔ قریباً سَو دو سَو روپیہ ماہوار آمدنی تھی۔ ایک زمیندار کے لیے یہ بڑی چیز ہے۔ حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے جب سے اس کی حالت درست ہوئی ہے اس کا یہ حال ہو گیا ہے کہ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ دوسروں پر ہی سارا انحصار رکھتا ہے۔ فرمایا مَیں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا جب تم باہر سفر پر جاؤ قُلّی تو ضرور کرتے ہو گے۔ کہنے لگا ہاں مولوی صاحب اس کے بغیر عزت قائم نہیں رہتی۔ مَیں اپنا سامان قُلّی سے اٹھواتا ہوں بلکہ اگر سامان ساتھ نہ ہو تو قُلّی کو اپنا رومال دے دیتا ہوں کہ اس کو اٹھا کر میرے ساتھ چلو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جائیداد بِک گئی، آمدنی جاتی رہی اور بالکل کنگال ہو جانے کے بعد آخر عیسائی ہو گیا۔معلوم نہیں اب وہ شخص زندہ ہے یا نہیں۔ دو تین سال ہوئے زندہ تھا۔
پس موازنہ کی حِسّ ایک اہم چیز ہے۔ بڑے کام کے لیے چھوٹی طاقت خرچ کرنا یہ بھی پاگل پن کی علامت ہے اور چھوٹے کام کے لیے بڑی طاقت خرچ کرنا یہ بھی پاگل پن کی علامت ہے۔ پنسل کو اگر دو تین آدمی مل کر اٹھائیں جیسے کھمبا اٹھایا جاتا ہے تو یہ بھی پاگل پن کی علامت ہے۔ اِسی طرح اگر پہاڑ کی چوٹی کو ایک آدمی ہلا رہا ہو کہ اُس کے ہلانے سے وہ پہاڑ گر جائے گا تو اِس کو بھی پاگل کہیں گے۔ جب ایک کام میں اور اُس کام کے کرنے والے انسان کی طاقت میں زیادہ فرق نہ ہو تو ہم اسے غلطی خوردہ کہیں گے۔ اور اگر اس کام میں اَور کرنے والے کی طاقت میں نمایاں فرق ہو جسے وہ کر ہی نہیں سکتا تو ہم اسے پاگل کہیں گے۔مثلاً اگر کوئی شخص کسی چیز کے متعلق اندازہ لگاتا ہے کہ 20 ، 25 سیروزنی چیز ہے جسے وہ اٹھا سکتا ہے مگر ہو وہ من دو من کی تو ہم اسے غلطی خوردہ کہیں گے کہ اس کو اس چیز کا اندازہ لگانے میں غلطی لگی ہے۔ مگر جب بہت بڑی چیز ہو اور اس کا اندازہ بھی بڑا ہو جسے ایک آدمی اٹھا سکتا ہی نہیں مگر وہ اکیلا اٹھانا چاہتا ہو تو اسے پاگل کہیں گے۔ اِسی طرح ایک چیز کے متعلق ایک شخص سمجھتا ہے کہ من دو من کی ہے اور اُس کو اٹھانے کے لیے دوسرے آدمیوں کو ساتھ ملا لیتا ہے مگر ہو وہ 20 ، 25 سیر کی تو ہم اسے غلطی خوردہ سمجھیں گے کہ اس کو اندازہ لگانے میں غلطی لگی ہے۔ دراصل یہ چیز اُتنی نہیں تھی جتنی یہ سمجھ رہا تھا۔ لیکن اگر وہ اِتنی چھوٹی چیز ہو کہ اُسے ایک آدمی آسانی سے اٹھا سکتا ہے جیسے مَیں نے پنسل کی مثال دی ہے مگر وہ دوسروں کو ساتھ ملا کر اٹھانا چاہتا ہو تو یہ پاگل پن کہلائے گا۔
اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو دیکھنا چاہیے کہ کس قسم کی طاقت استعمال کرنے والا کام اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ ہمارے سامنے جو کام ہے وہ اتنی بڑی طاقت کا استعمال چاہتا ہے کہ معمولی طاقت ہرگز اس کام کے کرنے پر قادر نہیں ہوسکتی۔ بلکہ یہ کام اتنی طاقت اور اتنی قربانی چاہتا ہے کہ اس قسم کے کام کی مثال دنیا میں نہیں ملتی یا کم سے کم اس سے زیادہ قربانی اور اس سے زیادہ طاقت کے محتاج کام کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مذہب کا قیام اور ایسی قوم کو زندہ کرنے کا کام ہمارے سپرد کیا ہے جو ہر جگہ ذلیل اور کمزور ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بھی پوزیشن نہیں کہ دنیا کی حکومتیں آئندہ نظام کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے وقت ان سے مشورہ بھی لیں۔ بلکہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
آج انگلستان، امریکہ، روس اور چین یہ چار طاقتیں ہیں جو آئندہ نظام کے متعلق فیصلے کرتی ہیں مگر مسلمانوں کا ان فیصلوں میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ وہ قوم جس کی آج سے چھ سات سوسال پہلے یہ حالت تھی کہ دنیا میں اِس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا،وہ قوم جو یورپ کے مغربی کنارہ سے لے کر ایشیا کے مشرقی کنارے تک حکومت کرتی تھی آج اس کی یہ حالت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آئندہ نظام کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے وقت اِتنا بھی نہیں کرتیں کہ اس سے بھی رائے پوچھ لیں۔ گویا اِس کی رائے کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں۔ جنگ سے پہلے تو بعض مسلمان حکومتوں کو محض تمسخر کے طور پر مشوروں میں بُلا بھی لیا جاتا تھا یا بعض دفعہ مصلحتاً کوئی بات پوچھ لی جاتی تھی۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے موقع پر تو اِس طرح بھی نہیں پوچھا جاتا۔ بلکہ اب صرف اِتنا کہا جاتا ہے کہ آئندہ نظام میں ہم تمہاری پرورش کا خیال رکھیں گے۔ گویا مشورہ یا رائے نہیں لی جاتی صرف پرورش کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ پہلے مصلحتاً مشورہ لیا جاتا تھا مگر اب وہ بھی نہیں۔ جو قوم اِس حالت میں سے گزر رہی ہے ہمارا دعوٰی ہے کہ ہم اِس کو طاقتور بنا دیں گے۔ یہ کتنا عظیم الشان کام ہے۔ یہ الفاظ کہنے والے اگر امریکن یا روسی ہوں تو بھی یہ کام بہت بڑا ہے۔ مگر کرنے والے بھی چونکہ طاقتور ہوں گے اِس لیے ہم اس کو پاگل پن نہیں کہیں گے۔ لیکن اِس کے مقابل میں ہماری یہ حیثیت دنیا میں کسی ایک جگہ بھی نہیں۔ ایشیا میں بھی نہیں، ہندوستان میں بھی نہیں، پنجاب میں بھی نہیں۔ سارے پنجاب میں احمدیوں کی آبادی دو تین لاکھ ہے اور سارے ہندوستان میں چار لاکھ اور باہر کی ملا کر پانچ چھ لاکھ احمدیوں کی کُل تعداد ہے۔ یہ اتنی تھوری تعداد ہے جس کی خود اپنے ملک میں بھی کوئی اہمیت نہیں۔ہمارے صوبہ کی گورنمنٹ احمدیوں کے مفاد، احمدیوں کی دلداری اور احمدیوں کی دلدہی3 کی پروا نہیں کرتی۔ کیونکہ ہماری تعداد اِتنی تھوڑی ہے کہ دوسروں کو ناراض کرکے وہ احمدیوں کے مفاد کا خیال رکھنے اور ان کی دلداری کرنے کے لیے تیار نہیں۔
1917ء کا واقعہ ہے مَیں نے شملہ یا دہلی میں چودھری سَر ظفراللہ خان صاحب کو کمانڈر اِنچیف کے پاس ایک کیس کے سلسلہ میں بھیجا۔ کیس یہ تھا کہ ایک احمدی پر فوج میں سختی کی گئی اور پھر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ قصور اُس کا نہیں، فوج سے بِلا وجہ نکال دیا گیا تھا۔ اس کیس کے متعلق بات کرنے کے لیے مَیں نے چودھری صاحب کو کمانڈر انچیف کے پاس بھیجا۔ چودھری صاحب نے اُس سے جاکر کہا کہ دیکھیے کتنے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور مظلوم ہے اُس کو بِلا وجہ فوج سے نکال دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہماری جماعت ایسی ہے جو ملک کی خدمت کے لیے کام کرتی ہے روپیہ کی غرض سے نہیں۔کمانڈر انچیف ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا کہ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت ملک کی خدمت کی خاطر فوج میں کام کرتی ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اِس جماعت کے اندر حُبُّ الْوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے اور اِسی جذبہ کے ماتحت یہ جماعت کام کرتی ہے روپیہ کی خاطر کام نہیں کرتی۔ تنخواہ تو ہمارے انگریز بھی لیتے ہیں مگر وہ تنخواہ کی خاطر کام نہیں کرتے بلکہ ملک اور قوم کی خاطر کام کرتے ہیں۔ اِسی طرح آپ کی جماعت بھی روپیہ کی خاطر کام نہیں کرتی بلکہ اِس کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ ملک کی خدمت کرے ۔اور مَیں اس بات کو بھی سمجھتا ہوں کہ دوسروں پر اُتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جتنا کہ آپ کی جماعت پر ہمیں اعتماد ہے لیکن ایک بات مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ اِس کا جواب دیں۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کی حفاظت کے لیے اِس وقت اڑھائی تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔ اگر ہم آپ کے ایک آدمی کی خاطر اور اس کے حق بجانب ہونے کی بناء پر دوسروں کو خفا کر لیں اور وہ ناراض ہو کر کہہ دیں کہ ہم فوج میں کام نہیں کرتے ہمیں فارغ کردیں تو کیا آپ کی جماعت اڑھائی تین لاکھ فوج ملک کی حفاظت کے لیے مہیا کرکے دے سکتی ہے؟ اگر یہ ممکن ہے تو پھر آپ کی بات پر غور کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی ناممکن ہے تو بتائیے ہم آپ کی جماعت کی دلداری کی خاطر سارے ہندوستان کی حفاظت کو کس طرح نظر انداز کرسکتے ہیں۔ جب چودھری صاحب نے کمانڈر انچیف کی یہ بات میرے پاس آکر بیان کی تو مَیں نے کہا اُس نے ٹھیک کہا ہے اور اُس کی یہ بات بالکل معقول ہے کیونکہ جب بہرحال حکومت نے ملک کی حفاظت کرنی ہے تو پھر ہمارا یہ مطالبہ کرنا کہ ہماری اِتنی دلداری کرو کہ اگرچہ دوسرے خفا ہو کر چلے جائیں پھر بھی تم ہمارا خیال رکھو یہ فضول مطالبہ ہے۔
پس ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی ہماری بات کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔حکومت جو تمام رعایا سے یکساں سلوک کا دعوٰی کرتی ہے وہ بھی بعض دفعہ افسروں کی مخالفت کی وجہ سے اور بسااوقات اِس وجہ سے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے کہ ہمارا ساتھ دینا حکومت کے لیے ضُعف کا موجب ہوگا اور وہ نہیں چاہتی کہ جماعت کی بات کو مان کر ملک کی اکثریت کو ناراض کرے۔ پس جو ایسی کمزور قوم ہو اور اتنے بڑے کام کے لیے کھڑی ہو کہ اگر امریکہ اور روس جیسی طاقتوں کے سپرد وہ کام کیا جاتا تب بھی وہ کام ان کی طاقت سے بالا نظر آتا۔ گو وہ پاگل پن نہ کہلاتا کیونکہ اُن کے پاس دنیا کی طاقت ہے تو اس قوم کو دنیا پاگل نہ کہے تو اَور کیا کہے۔پس اسی وجہ سے لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں۔ہمیں کوئی شک نہیں کہ ایک گروہ مخالفوں کا ہمیں متفنّی،بدعتی اور فتنہ پرداز کہتا ہے۔مگر ایک گروہ جو تعلیم یافتہ ہے وہ ہمیں پاگل ہی سمجھتا ہے کہ اِتنے بڑے کام کا دعوٰی کرتے ہیں جو اِن کی طاقت سے بالکل باہر ہے۔
پس ایسے حالات میں اس مقصد کے حصول کے لیے کہ جس کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں جدوجہد پاگلوں جیسی ہی چاہیے۔ کم از کم ہمیں دنیا پر یہ تو ثابت کردینا چاہیے کہ اگر تم ہمیں پاگل کہتے ہو تو ہم اِس کام کے لیے پاگلوں والا زور لگانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اگر لوگ ہمارا نام پاگل رکھتے ہیں تو ہمیں اپنی ہر ایک بات اور ہر ایک کام میں ثابت کردینا چاہیے کہ چلو پاگل تو پاگل ہی سہی۔ لیکن دنیا ہمیں پاگل کہے اور ہمارا عمل عقلمندوں والا ہو اور ہم اُتنی جدوجہد نہ کریں جتنی کہ ہمارے لیے ضروری ہے۔ خواہ وہ جدوجہد کام کے مطابق نہ ہو تو یہ ایک نہایت بے اصول بات ہوگی۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی دعوٰی تو ایسے کام کا کرے جو اُس کی طاقت سے بہت بالا ہو، اِتنا بلند کہ اس دعوٰی کی بناء پر اُسے پاگل کہا جائے مگر عمل ایسا کرے جو اپنی ہڈی پسلی کو بچانے والا ہو تو وہ شخص فِی الْواقع پاگل ہے جو اپنی ہڈی پسلی کو بچا کر رکھنے کی خواہش رکھتا ہو۔ اُسے ایسے ہی کاموں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جو ناممکن نہ ہوں۔ مگر جو ایسے کام پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ایسے کام کا دعوٰی کرتا ہے جس کا دعوٰی اُس کے مخصوص حالات میں جنون ہی کہلا سکتا ہو تو پھر اُس کو پاگلوں کی طرح عمل بھی کرنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک عورت جواستانی تھی پاگل ہو گئی۔ درمیان میں کبھی کبھی اُس کی حالت درست بھی ہو جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ عورتوں میں درس ہو رہا تھا۔ وہ بھی درس میں شامل تھی۔ ہمارے گھر میں ہی درس ہوا کرتا تھا۔ یکدم اُس عورت کو جنون کا دَورہ ہوا اور وہ کھڑکی میں سے کُود کر نیچے گرنے لگی۔ حضرت خلیفہ اول نے اٹھ کر اُسے پکڑ لیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے دوچار ماہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ ابھی حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے نہیں گرے تھے اور آپ میں اِتنی طاقت تھی کہ بعض دفعہ اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اسے ٹیڑھا کرکے دکھا دے۔ آپ نے اُٹھ کر اُس عورت کو پکڑ لیا لیکن باوجود سارا زور لگانے کے وہ دُبلی پتلی عورت آپ کے ہاتھوں سے نکلی جاتی تھی۔ اِس پر آپ نے عورتوں کو آواز دی کہ یہ تو گرنے لگی ہے میری مدد کے لیے آؤ۔ پھر پانچ سات عورتوں نے آپ کے ساتھ مل کر اُسے باندھا۔ حالانکہ عقل اور ہوش کے زمانہ میں اس عورت کو 17،18 سال کا بچہ بھی پکڑ سکتا تھا۔پس مجنون انسان اپنی انتہائی طاقت استعمال کر دیتا ہے۔ مگر دانشمند اُس حد تک استعمال نہیں کرسکتاکیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خاص حد سے زیادہ اُس نے اپنی طاقتوں کا استعمال کیا تو اُسے نقصان پہنچے گا۔ لیکن پاگل کا دماغ اُسے حد سے زیادہ طاقت خرچ کرنے سے نہیں روکتا۔ کیونکہ وہ انجام کی پروا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاگلوں میں بہت زیادہ طاقت آ جاتی ہے۔ایک پاگل کو آٹھ آٹھ دس دس آدمی مل کر پکڑتے ہیں تب وہ قابو میں رہتا ہے۔ اور وہی آدمی اگر عقلمند ہو اور اُس کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اُس کو پکڑنے کے لیے ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ پس پاگل دو ہی وجہ سے پاگل کہلاتا ہے۔ ایک تو اِس وجہ سے کہ ایسے کام کا دعوٰی کرے جو عقل سے بالا ہو۔ دوسرے اِس وجہ سے کہ اِس قدر جوش کام میں دکھائے جو عقل کے خلاف ہو۔ ہم میں پاگلوں والی ایک وجہ تو پائی جاتی ہے مگر دوسری نہیں پائی جاتی۔ ہم دعوٰی تو ایسا کرتے ہیں جو دنیا والوں کی عقل سے بالا ہے اور اِس قسم کا دعوٰی عقلمند نہیں کرسکتا۔ مگر اِس کے مقابلہ میں اُتنی طاقت خرچ نہیں کرتے اور اتنا زور نہیں لگاتے جو پاگل لگایا کرتے ہیں۔پس ہمیں درحقیقت اِسی چیز کی ضرورت ہے اور اگر ہم یہ کر لیں تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ باقی کمی ہم اپنی طرف سے پوری کردیں گے۔
مجھے کشمیر کا ایک نظارہ یاد ہے۔ کشمیر میں ایک جھیل ڈل ہے جو قریباًدو میل لمبی اور میل بھر چوڑی ہے۔ اس میں کشمیری لوگ گیلیاں لے کر اُن پر مٹی ڈال دیتے ہیں اور اُن پر سبزیاں بوتے ہیں جن کو جھیل کے پانی کی نمی پہنچتی رہتی ہے اور اوپر سے پانی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سرینگر کو یہیں سے سبزیاں جاتی ہیں۔ صبح کے وقت کشتیاں بھر کے لے جاتے ہیں۔ ہم ڈل کی سیر کے لیے گئے۔ ڈل میں ایک سوراخ کرکے اُسے اُس نہر سے ملا دیا گیا ہے جو دریائے جہلم میں سے نکلتی ہے اور سرینگر کے گرد چکر لگاتی ہے۔ وہاں ہم کھڑے تھے کہ اِتنے میں سبزیوں والی ایک کشتی شہر کی طرف سے آئی جو سبزیاں بیچ کر واپس آ رہی تھی۔ بعض دفعہ جب دریائے جہلم میں طغیانی ہو تو نہر میں زیادہ پانی چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہر کا پانی ڈل کے پانی سے اونچا ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ڈل سے نہر کی طرف کشتی مشکل سے لے جائی جاسکتی ہے۔ اِس کے برخلاف بھی ایسا ہوتا ہے کہ نہر کا پانی کم ہو جانے پر نیچا ہو جاتا ہے اور ڈل کا پانی اونچا ہو جاتا ہے۔ اُس وقت نہر کی طرف سے ڈل کی طرف کشتی لے جانی مشکل ہو جاتی ہے۔اُس وقت یہی حالت تھی یعنی ڈل کا پانی اونچا تھا اور نہر کا پانی نیچا تھا۔ اِس وجہ سے ڈل کی طرف کشتی لے جانا بہت مشکل تھا۔ کشتی والوں نے زور لگایا مگر کشتی ڈل میں چڑھ نہ سکی۔ کشمیری لوگ زیادہ تر دو چیزوں کو مانتے ہیں۔ ایک مقامی پیر ہیں یعنی شاہ زین الدین صاحب اور دوسرے سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔ تیسرے وہ ضرورت کے موقع پر کبھی کبھی خدا کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ مجھے اب یاد نہیں کہ وہ شاہ زین الدین صاحب کا کیا نام لے کر نعرہ لگاتے ہیں مگر سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا "یا پِیر دستگیر" کہہ کر نعرہ لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر لَا یلٰہَ یلَّا اللّٰہ کہہ کر کرتے ہیں۔ چونکہ وہ ہمزہ ادا نہیں کرسکتے اِس لیے ہمزہ کی جگہ "ی" بولتے ہیں اور لَا یلٰہَ یلَّا اللّٰہ کہتے ہیں۔ اُس کشتی والوں نے جب زور لگایا اور پھر بھی کشتی نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ کیونکہ نہر نیچی اور ڈل اونچا تھا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ معمولی طریقوں سے کام نہیں بنے گا۔ تب اُنہوں نے شاہ زین الدین صاحب کو پکارنا شروع کیا اور ان کا نعرہ لگا کر زور لگانا شروع کیا۔ کشتی میں جو آدمی بیٹھے تھے اس نعرہ کے ساتھ ہی اُن میں سے دو تین چھلانگ لگا کر باہر آ گئے اور اُنہوں نے رسّوں سے پکڑ کر کشتی کو کھینچنا شروع کیا مگر ڈل اور نہر کے پانی کا فرق چونکہ زیادہ تھا اس لیے باوجود اِس قدر کوشش کے بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے۔جب اِس طرح بھی کام نہ بنا تو پھر جتنے مرد کشتی میں بیٹھے تھے سارے کُود کر باہر آگئے اور انہوں نے لَا یلٰہَ یلَّا اللّٰہ، لَا یلٰہَ یلَّا اللّٰہ کہہ کر بے تحاشا زور لگانا شروع کیا مگر پھر بھی کشتی اوپر نہ چڑھ سکی۔ تب اُنہوں نے پیر دستگیر کو پکارنا شروع کیا اوریا پیردستگیر کا نعرہ لگانا شروع کیا اور اِس موقع پر بچوں اور عورتوں نے بھی کشتی میں سے کُود کر اِس طرح زور لگانا شروع کیا کہ کشتی کو نکال کر لے گئے۔مَیں نے کہا اِن کے دل میں جس ہستی کی سب سے زیادہ عزت تھی اُس کی خاطر انہوں نے اپنی ساری طاقت صَرف کر دی۔ زین الدین کی عزت کم تھی اِس کے لیے تھوڑے آدمیوں نے زور لگایا۔ اللہ تعالیٰ کی عزت اُس سے زیادہ تھی اِس کے لیے سارے مرد نیچے اُتر آئے اور انہوں نے اپنی طاقت صَرف کی۔ پیر دستگیر کی عزت سب سے زیادہ تھی اس کے لیے بچے اور عورتیں بھی کُود پڑے اور اُن سب نے مل کر اپنی ساری طاقت خرچ کردی اور کشتی کو کھینچ کر لے گئے۔یہ نظارہ دیکھ کر مَیں نے کہا کہ چاہے ہم اِن کو مشرک اور پیر پرست کہیں مگر جس وجود کی سب سے زیادہ عزت اِن کے دل میں تھی اُس کے نام پر انہوں نے کام کرکے دکھا دیا۔
اب تم غور کرو کہ اگر ایک مومن اور موحّد خدا کا نام لے کر ایک کام کرے اور پھر اپنا سارا زور نہ لگائے تو یہ کتنے شرم کی بات ہوگی۔ اگر دستگیر کی عزت اور محبت اپنے دل میں رکھنے والے دستگیر کا نعرہ لگا کر اپنی تمام طاقت صَرف کردیں اور ان کے بچے اور ان کی عورتیں بھی اپنا سارا زور لگا دیں تو ایک مومن اور موحّد کہلا کر اور یہ اعلان کرکے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کام کرنے کے لیے کہا ہے پھر اگر ہم خدا تعالیٰ کے نام پر اپنا سارا زور نہ لگائیں اور مرد اور عورتیں اور بچے سب مل کر اپنی طاقت صَرف نہ کریں تو کیا یہ نہایت بے ایمانی کی بات ہوگی یا نہیں؟ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اسلام کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے، خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ قرآن مجید کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے، خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت قائم کرنا تمہارا کام ہے۔ یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ اِس کے لیے ہماری محنتیں اور ہماری کوششیں پاگلانہ ہونی چاہییں۔ اگر ہم اپنی طرف سے اپنی تمام طاقت صَرف کر دیں گے تو باقی کمی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پوری کر دے گا۔
پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اِس کام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کریں۔ ہمیں اپنی ساری باتوں کو بُھول کر اسلام اور قرآن مجید کی حکومت کے قیام کے لیے اپنی ساری طاقت صَرف کر دینی چاہیے۔ اور ایسا زور لگانا چاہیے کہ دنیا صرف ہمارے دعوٰی کی وجہ سے ہمیں پاگل نہ کہے بلکہ کام کی وجہ سے بھی پاگل کہے۔ ہماری کامیابی میں اِتنی ہی دیر ہے کہ جس طرح لوگ ہمارے دعوٰی کی وجہ سے ہمیں پاگل کہتے ہیں اِسی طرح ہمارے کام کی وجہ سے بھی ہمیں پاگل کہنے لگیں۔ اگر ایسا ہو جائے اور ہم پاگلوں کی طرح اشاعت و قوتِ اسلام کے لیے کام کرنے لگیں تو ہماری کامیابی میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا۔کیونکہ خدا تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اِس وقت کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ جب وہ وقت آگیا تو وہ ہماری مدد کے لیے کُود پڑیں گے اور جب وہ ہمارے ساتھ مل گئے تو اسلام کی کشتی کا پار لگانا ایک مجنونانہ دعوٰی نہیں بلکہ ایک سہل ترین کام ہوجائے گا"۔ (الفضل5؍اکتوبر، 1944ء)


34
جنگ کے بعد دنیا پھر ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے
(فرمودہ 29 ستمبر 4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"پچھلے جمعہ میں مَیں نے اِس مضمون پر خطبہ بیان کیا تھا کہ ہر کام کے لیے ایک مناسبِ حال طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک اس کے مناسبِ حال طاقت اور قوت استعمال نہ کی جائے اُس وقت تک اُس کام میں کامیابی بالکل محال اور ناممکن ہوتی ہے۔ اور یہ کہ اگر کسی قوم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ دیا جائے کہ باوجود غیر معمولی حالت کے جن میں عام طور پر کسی شخص کا اپنی کامیابی کے متعلق دعوٰی کرنا جنون سمجھا جاتا ہے، اُس قوم کو کامیابی حاصل ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ اُس قوم سے یہ ضرور امید رکھتا ہے کہ وہ اتنی محنت، اتنے جوش اور اتنی قربانی سے کام کرے کہ دنیا اُسے پاگل کہنے لگ جائے۔ اور مَیں نے بتایا تھا کہ ہمیں دنیا ایک لحاظ سے پاگل کہتی بھی ہے۔ یعنی اِس لحاظ سے کہ ہم ایک ایسا کام کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں جس کام میں کامیابی بظاہر حالات بالکل ناممکن ہے۔ اِس لیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ قوم مجنون ہے۔ لیکن اِس کے علاوہ ایک دوسرا طریق بھی ہوتا ہے جس کے ماتحت انبیاء کے زمانہ میں اُن پر ایمان لانے والے لوگ ہمیشہ مجنون کہلاتے رہے ہیں اور وہ طریق یہ ہے کہ وہ ایسی محنت کرتے ہیں جو محنت عام طور پر عقلمند انسان نہیں کیا کرتا۔ ایک عقلمند انسان کی مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں۔ مختلف خواہشات ہوتی ہیں،مختلف اغراض ہوتی ہیں، مختلف میلانات ہوتے ہیں اور وہ ان مختلف خواہشوں، مختلف میلانوں اور مختلف اغراض کے ماتحت اپنے اوقات اور اپنے اموال کی تقسیم کر دیتا ہے۔ ہر چیز کے مناسبِ حال رقم مقرر کر دیتا ہے اور ہر چیز کے مناسبِ حال وقت مقرر کر دیتا ہے۔ لیکن پاگل چونکہ ایک ہی طرف لگ جاتا ہے اور باقی تمام پہلوؤں سے اپنی توجہ کو ہٹا لیتا ہے اِس لیے لوگ اُس کو پاگل کہتے ہیں۔ ایک ہوش مند اور عقل و فہم رکھنے والا انسان کچھ وقت اپنے بیوی بچوں میں صَرف کرتا ہے، کچھ وقت ہمسائیوں کے حقوق کی ادائیگی میں صَرف کرتا ہے، کچھ وقت دکان وغیرہ میں صرف کرتا ہے، کچھ وقت اپنے پیشہ پر صَرف کرتا ہے اور کچھ حصہ اُس کے اوقات کا سیروسیاحت میں صَرف ہو جاتا ہے۔ اِس طرح اُس کا وقت مختلف کاموں اور مختلف ضرورتوں کو سرانجام دینے کے لیے تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن پاگل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر اُسے اینٹیں ڈھونے کا خیال آ جائے تو وہ دن کو بھی اینٹیں ڈھوتا رہے گا، رات کو بھی اینٹیں ڈھوتا رہے گا، صبح کو دیکھا جائے تو اس وقت بھی وہ اینٹیں ڈھو رہا ہو گا اور شام کو دیکھا جائے تو اُس وقت بھی وہ اینٹیں ڈھونے میں مشغول ہو گا۔ نہ اُسے بیوی کا خیال ہو گا، نہ اُسے دوستوں اور عزیزوں کا خیال ہوگا اور نہ اُسے کسی اَور کام کا خیال ہوگا۔ وہ اپنے تمام اوقات صَرف ایک ہی کام میں صرف کر دے گا۔ یہی وہ بات ہے جس کی طرف مومنوں کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ1 فرماتا ہے اے مسلمانو! تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہیے کہ ہم نے مکہ فتح کرنا اور وہاں اسلام کو قائم کرنا ہے۔ اس لیے مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ تم جہاں سے بھی نکلو، جدھر سے بھی چلو تمہارے دل اور تمہارے دماغ پر صرف ایک ہی خیال غالب رہے کہ ہم نے کسی طرح مکہ فتح کرنا ہے اور وہاں اسلام کی بنیادوں کو پوری مضبوطی کے ساتھ قائم کردینا ہے۔ یہ پروگرام تھا جو مسلمانوں کا مقرر کیا گیا۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پروگرام ان کی طاقت سے بہت بالا تھا۔ بے شک عرب آرگنائزڈ سٹیٹ(ORGANIZED STATE) نہیں تھی مگر وہ انارکی بھی نہیں تھی۔عرب کی ایک حکومت سمجھی جاتی تھی۔ مختلف بادشاہ اُس کے ساتھ تعلق رکھتے اور معاہدات وغیرہ کرتے تھے۔ اِس طرح مکہ گو ڈِس آرگنائزڈ(DISORGANIZED) ہو مگر بہرحال وہ ایک ایسے ملک کا دارالحکومت تھا جس کی آبادی 15،20 لاکھ تھی۔ ارد گرد کے تمام قبائل کی نگاہیں اِسی کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ اِس کے فیصلوں اور حکموں کو واجبُ الْاِطاعت سمجھتے تھے۔ پھر اُس زمانہ کے لحاظ سے وہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ پندرہ سولہ ہزار اُس کی آبادی تھی۔ اور نہ صرف تمام کی تمام آبادی بلکہ ملک بھر کے پندرہ بیس لاکھ آدمی سب کے سب سپاہی تھے۔ فنونِ جنگ میں بہت بڑی مہارت رکھتے تھے۔ جنگجو، بہادر اور لڑاکے تھے اور مسلمانوں کے لیے اُن کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جس وقت یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوئی ہے اُس وقت مسلمانوں میں صرف چار پانچ سَو سپاہی تھے۔زیادہ سے زیادہ ہزار سمجھ لو اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کو ملا کر اُن کی کُل تعداد گیارہ بارہ ہزار ہوگی اِس سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد نہیں تھی۔ اور ان کی جنگی طاقت تو بہرحال ناقابلِ ذکر تھی۔ مگر ایسی حالت میں جب کہ مسلمان سخت کمزور تھے، جب اُن کی تعداد کفار کے مقابلے میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی تھی، جب اِن کے پاس لڑائی کا کوئی سامان نہ تھا اور جب اِن کی جنگی طاقت کفار کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی اللہ تعالیٰ تمام کفار کو چیلنج دیتا ہے کہ یہ مسلمان گو تمہیں تھوڑے دکھائی دیتے ہیں، تمہیں کمزور اور ناطاقت نظر آتے ہیں مگر یہی مسلمان ایک دِن تمہارے ملک کو فتح کریں گے، تمہارے دارالحکومت پر قابض ہوں گے اور وہاں اِن کو اِس قدر غلبہ میسر آجائے گا کہ یہ اسلام کے احکام کو وہاں جاری کریں گے اور کفر کو عرب کی سرزمین سے بالکل مٹا دیں گے۔ یہ دعوٰی مسلمانوں کی حالت کے لحاظ سے ایک مجنونانہ دعوٰی تھا اور پھر یہ دعوٰی ایساتھا جو کسی خاص علاقہ سے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس دعوٰی کا اثر وسیع سے وسیع تر تھا۔ کیونکہ نہ صرف اِس میں مکہ کو فتح کرنے کی پیشگوئی کی گئی تھی، نہ صرف عرب پر غالب آ جانے کا اعلان کیا گیا تھا بلکہ عیسائیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، یہودیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، مجوسیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، ہندومت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا اور بڑے زور سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اِن تمام مذاہب کو شکست دے کر اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا۔ یہ دعوٰی بھی ایک مجنونانہ دعوٰی تھا۔ اِس وجہ سے کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پاگل کہا کرتے تھے اور صحابہؓ کو بھی وہ پاگل سمجھتے تھے کیونکہ وہ ایک ایسا دعوٰی کر رہے تھے جس کے پورا ہونے کے اِس مادی دنیا میں اُنہیں کوئی اسباب نظر نہیں آتے تھے۔ دعوٰی کے لحاظ سے جس طرح لوگ آج ہمیں پاگل کہتے ہیں اور اُن کا حق ہے کہ وہ ہمیں پاگل کہیں۔ اِسی طرح دعوٰی کے لحاظ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو بھی پاگل کہا کرتے تھے۔ اور جہاں تک ان کی محدود عقلوں کا سوال تھا اُن کا حق تھا کہ وہ ایسا کہتے کیونکہ یہ دعوٰی ایسا تھا جو انسانی طاقتوں سے بالا تھا۔ مگر جس طرح مَیں نے گزشتہ خطبہ میں توجہ دلائی تھی صرف دعوٰی کے لحاظ سے نہیں بلکہ عمل کے لحاظ سے بھی دنیا کو ہمیں پاگل سمجھنا چاہیے اور ہمیں ایسے جوش، ایسی محنت اور ایسی قربانی سے کام کرنا چاہیے کہ دنیا کہہ اُٹھے یہ قوم صرف اپنے دعوٰی کے لحاظ سے ہی اپنے اندر جنون نہیں رکھتی تھی بلکہ عملی لحاظ سے بھی ایک پاگل اور دیوانی قوم ہے۔یہی بات قرآن کریم نے مسلمانوں کے سامنے رکھی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ پاگل وہ ہوتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ صرف ایک کام کی طرف لگا دیتا ہے۔ اور جب کوئی شخص دِن رات صرف ایک کام میں مشغول رہتا ہے، کسی اَور کام کا اُسے ہوش نہیں ہوتا تو لوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے۔ کیونکہ اُسے کسی اَور بات کا خیال ہی نہیں۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے اور جاگتے اُسے ایک ہی دُھن لگی ہوئی ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ تم دنیا کا کوئی کام کر رہے ہو، تم تجارت میں مشغول ہو یا زراعت میں مصروف ہو یا اپنے دوست کی ملاقات کے لیے جا رہے ہو یا لڑائی کے لیے نکل رہے ہو فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ تمہارا منہ ہمیشہ مکہ کی طرف رہنا چاہیے۔ یعنی تمہارے سامنے صرف ایک مقصد رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے اور کوئی خیال، کوئی کام، کوئی جذبہ اور کوئی خواہش تمہارے اِس مقصد پر غالب نہیں آنی چاہیے۔ یہی دُھن ہے جو تمہیں آٹھوں پہر رہے۔ یہی خیال ہے جو ہر وقت تمہارے دماغوں میں چکر لگاتا رہے اور یہی پروگرام ہے جوتمہاری نظروں کے سامنے رہے۔ اور کسی شخص کا ایک ہی مقصد کی طرف اپنی تمام توجہ کو صَرف کردینا اِسی کو دنیا جنون کہتی ہے۔ بلکہ موجودہ طب میں تو مانومینیا(MANOMANIA)2 ایک اصطلاح بھی بن گئی ہے جو اِسی جنون کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس میں انسان پر ہمیشہ ایک ہی قسم کا خیال غالب رہتا ہے۔ وہ اَور باتوں میں عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے لیکن پھر بھی اُسے پاگل کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں یہ وہ شخص ہے جس کی ساری توجہ صرف ایک بات کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔ اور گو دوسری باتوں کے لحاظ سے اُس میں معقولیت بھی دکھائی دیتی ہے مگر چونکہ کسی خاص بات کی طرف وہ حد سے زیادہ توجہ کرتا ہے اور وہ خیال اُس کے دل اور دماغ میں ایسی مضبوطی سے جا گزیں ہو جاتا ہے کہ گویا اُس خیال نے اُس کا چاروں طرف سے احاطہ کر لیا ہے اور بجز اُس خیال کے وہ کسی اَور کام کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اِس لیے طبّی اصطلاح میں اِس کو مانومینیا کہا جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے آج تک دشمنانِ اسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ الزام لگاتے چلے آئے ہیں کہ آپ نَعُوْذُ بِاللہِ پاگل تھے کیونکہ وہ حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ کیسا شخص ہے کہ رات اور دِن اور اُٹھتے اور بیٹھتے اور سوتے اور جاگتے اسے ایک ہی دُھن ہے کہ جس مقصد کے لیے مَیں دنیا میں بھیجا گیا ہوں وہ پورا ہوجائے اور اسلام اپنی پوری شان کے ساتھ قائم ہو جائے۔
دنیا میں اَور بھی کئی لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہیں بعض کاموں کی بڑی دُھن تھی۔ نپولین بڑی دُھن والا تھا، ہٹلر بڑی دُھن والا ہے، اِسی طرح مسولینی بڑی دُھن والا تھا۔ مگر اِن لوگوں کی زندگیوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں اَور کاموں اور بعض دوسری قسم کے مشاغل میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ کوئی آرٹ کا دلدادہ ہوتا ہے، کوئی میوزک کا دِلدادہ ہوتا ہے اور کوئی کسی اَور چیز کا دلدادہ ہوتا ہے۔ مثلاً مسولینی تھا اُس کو ہوائی جہازوں کا بڑا شوق تھا۔ ہوائی جہازوں کے کارخانوں میں جانا، اُن کو دیکھنا اور ہوائی جہازوں کو اُڑانا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ اِسی طرح وہ اپنے بیوی بچوں میں وقت کا ایک کافی حصہ صَرف کیا کرتا تھا۔ ہٹلر ہے اُس کو بھی بعض قسم کے شوق ہیں۔ نپولین تھا اُس کو بھی بعض قسم کے شوق تھے۔ پس باوجود ایک دُھن رکھنے کے یہ لوگ بعض اَور مقاصد سےبھی دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے اوقات ان میں صَرف کیا کرتے تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ اپنی بیویوں سے جب بات کرتے ہیں تو یہی ہوتی ہے کہ اسلام دنیا میں کس طرح پھیل سکتا ہے۔ بچوں سے بات کرتے ہیں تو اُس کا بھی ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اسلام کسی طرح دنیا میں قائم ہو، ہمسائیوں سے ملتے ہیں تو اُس کی تہہ میں بھی ایک ہی غرض کام کر رہی ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیم لوگوں کے قلوب میں راسخ ہو۔ اِسی طرح قضاء کا کام کرتے ہیں تو اُس میں بھی اسلام کا غلبہ مدنظر ہوتا ہے۔ جرنیلی کا فرض سرانجام دیتے ہیں تو اُس وقت بھی یہی بات پیش نظر رہتی ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آئے اور کفر کا خاتمہ ہو۔ لڑائی کرتے ہیں تو اُس میں بھی کوئی ذاتی غرض کام نہیں کر رہی ہوتی بلکہ اسلام کا غلبہ، دین کا قیام اور خدا تعالیٰ کے احکام کا اجراء ہر وقت سامنے ہوتا ہے۔ غرض کوئی کام ہو، کوئی بات ہو، کوئی شغل ہو صرف ایک ہی چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رہتی تھی یعنی اسلام کا غلبہ اور دین کا قیام۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو لوگ جنون کہتے ہیں۔ اِسی کو جب وہ کسی ادنیٰ مقصد کے لیے ہو اور لغو ہو طبی اصطلاح میں مانومینیا کہتے ہیں اور ایسے ہی شخص کو لوگ پاگل اور مجنون کہا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک غیر معمولی کاموں کے لیے ہر انسان کے اندر وہ حالت نہ پیدا ہوجائے جسے بعض حالتوں میں طب مانومینیا کہتی، جب تک وہ اَور تمام مقاصد کو بُھول نہ جائے، جب تک اُس کے اندر ہر وقت ایک خلش اور بے تابی نہ پائی جائے اور جب تک ان غیر معمولی کاموں کے لیے اُس کے اندر جنون کا سا رنگ پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک اُن کاموں میں کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ پس جس چیز کی طرف مَیں اپنے سابق خطبہ میں توجہ دلا چکا ہوں اُسی کی طرف قرآن کریم نے بھی اِن الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ تم باقی تمام مقاصد کو بھول جاؤ اور صرف اِس مقصد کو اپنے سامنے رکھو کہ ہم نے اسلام کے لیےدنیا کو فتح کرنا ہے۔ لوگ اِس آیت کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ کرو۔ حالانکہ اگر اِس آیت کے یہ معنے ہوتے کہ تم قبلہ کی طرف ہمیشہ اپنا منہ رکھا کرو تو مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ کے الفاظ آیت میں نہ ہوتے بلکہ ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ تم جہاں کہیں ہو قبلہ کی طرف اپنا منہ رکھو۔قبلہ کی طرف منہ کرنے کے لیے جہاں کہیں کے الفاظ ہونے چاہییں تھے نہ یہ کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ پھیر دو۔ کیا لوگ کہیں سے نکلنے کے وقت نمازیں پڑھا کرتے ہیں؟نکلنے کے وقت تو لوگ چلا کرتے ہیں نمازیں نہیں پڑھا کرتے۔ پس اِس آیت کا نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اِس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ تم جہاں سے بھی نکلو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا اور وہاں اسلام کو قائم کرکے سارے عرب کو اپنے زیر اثر لانا ہے۔ اِن معنوں کے لحاظ سے مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ کا نماز کے ساتھ کوئی جوڑ ثابت نہیں ہوتا۔ نماز تو انسان کھڑا ہو کر پڑھتا ہے۔ اس کا انسان کے خروج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پس اِس آیت کے معنے یہی ہیں کہ تم کوئی کام کرو، کسی طرف سے بھی نکلو، چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ مشرق کی طرف ہو، چاہے تم اُس مقام سے نکلو جس کا منہ مغرب کی طرف ہو، چاہے تم اُس مقام سے نکلو جس کا منہ شمال کی طرف ہو اور چاہے تم اُس مقام سے نکلو جس کا منہ جنوب کی طرف ہو بہرحال تمہارا منہ مکہ کی طرف ہونا چاہیے۔ یعنی تمہاری توجہ اور تمہارا خیال اور تمہارا ذہن صرف اِسی بات کی طرف رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ کو فتح کرنا ہے۔ وُجُوْہٌ کے معنے توجّہات کے بھی ہوتے ہیں۔ پس معنے یہ ہیں کہ تمہارا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے خانہ کعبہ کو فتح کرکے اسے اسلام کا مرکز بنانا ہے۔ کیونکہ جب تک مکہ میں اسلام پھیل نہیں جاتا، جب تک مکہ مسلمانوں کے ماتحت نہیں آ جاتا اُس وقت تک باقی تمام عرب مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ہماری جماعت کے لیے بھی اِس اصول کے ماتحت چلنا نہایت ضروری ہے اور اگر جماعت کے افراد اپنے کاموں میں اِس کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو وہ اپنی ترقی کی ساعت کو بہت پیچھے ڈال دیتے ہیں۔
مَیں نے بتایا تھا کہ جس کام کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ دنیا کے تمام کاموں سے ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یورپ اور انگلستان اور امریکہ جیسے عیاش ملکوں اور چین اور جاپان جیسے آزاد ملکوں کو جو کسی شریعت کے پابند نہیں ہیں اسلام کا حلقہ بگوش بنانا اور وہاں کے رہنے والوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا کوئی آسان کام نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بے شک عملاً آزادی ہے مگر عقیدۃً اور ذہناً وہ آسمانی قانون کو قبول کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن چین اور جاپان کسی آسمانی قانون کو نہیں مانتے۔ اِس لیے گو ان میں اتنی آزادی نہیں جتنی یورپ اور امریکہ میں پائی جاتی ہے مگر پھر بھی ان کے دماغ آسمانی قانون کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں یورپ اور امریکہ آسمانی قانون ماننے کے لیے تو تیار ہیں لیکن اپنی عادتوں اور طرزِ رہائش وغیرہ کی وجہ سے وہ آسمانی قانون کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے آسمانی باتوں کو مانا تو ہمیں اپنے تمدن اور اپنے طریقِ رہائش کو یکسر بُھولنا پڑے گا اور یہ چیز بظاہر حالات ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اِن سارے ملکوں کو اور پھر ان مسلمانوں کو جو دنیا میں بالکل گرے ہوئے ہیں اور جن کی کہیں بھی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی اسلام کا تابعِ فرمان بنانا ہمارا اولین فرض ہے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ ہم مسلمانوں کو نئے سرے سے مسلمان بنائیں گے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ ہم دنیا میں نئے سرے سے قرآن کی حکومت قائم کریں گے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ ہم دنیا کے تمام مذاہب اور تمام حکومتوں کو اخلاقی طور پر مٹا کر خدا کی بادشاہت دنیا میں جاری کریں گے اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا یہ دعوٰی ایسا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے الہامات اور ایمان سے علیحدہ ہو کر ہم خود بھی اِس پر غور کرنے لگیں اور یہ فیصلہ کرنے بیٹھیں کہ ہم اِس دعوٰی میں عقل سے کام لے رہے ہیں یا جنون اور پاگل پن کی کیفیت ہم پر طاری ہے تو ہمیں یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم پاگل اور مجنون ہیں۔ کیونکہ ہم وہ دعوٰی کر رہے ہیں جن کے پورا ہونے کی بظاہر حالات کوئی صورت نہیں۔ لیکن ہمارے اِس دعوٰی کی بنیاد محض اِس بات پر نہیں کہ چونکہ ہم ایسا کہتے ہیں اِس لیے دنیا میں یہ تغیر پیدا ہو کر رہے گا بلکہ ہمارے دعوٰی کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسا کہا ہے۔ اور جس کام کے کرنے کا خدا تعالیٰ وعدہ کرے وہ کام دنیا میں ہو کر رہتا ہے۔ حکومتیں مٹ جاتی ہیں، طاقتیں فنا ہوجاتی ہیں، روکیں کٹ جاتی ہیں لیکن وہ بات سچی ہو کر رہتی ہے جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہو۔ پس جس طرح کسی تاگے سے کوئی چیز لٹکی ہوئی ہو اور اگر اُس تاگے کو توڑ دو تو وہ چیز گر کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اِسی طرح ہم میں اور مجنون میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہمارا دعوٰی الٰہی الہام کی بنیادوں پر قائم ہے۔ ورنہ ہماری سب باتیں مجنونوں سے ملتی ہیں، پاگلوں سے ملتی ہیں، دیوانوں سے ملتی ہیں اور ہم میں اور اُن میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اور چونکہ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اس بات کے قائل نہیں اور وہ اِس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ خدا نے ایسا کہا ہے اِس لیے جب وہ ہمارے منہ سے اِن باتوں کو سنتے ہیں تو وہ ہمیں پاگل اور مجنون کہتے ہیں۔ ہم خود بھی اپنے سارے حالات کے لحاظ سے اپنے آپ کو مجنون ہی کہتے ہیں۔ لیکن اِس عقیدہ کی وجہ سے کہ خدا نے یہ باتیں ہمیں کہی ہیں۔ ہم حقیقتاً پاگل نہیں ہیں۔ مگر دوسری طرف اِس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عملی طور پر جب تک واقع میں ایک جنون کی سی کیفیت پیدا نہ ہو جائے اور جب تک پاگلوں کی طرح ہر وقت یہ مقصد لوگوں کے سامنے نہ رہے کہ ہم نے خدا کا نام دنیا میں پھیلانا ہے، ہم نے خدا کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک دائمی سنت ہے جس کا اُس نے اِن الفاظ میں اظہار فرمایا ہے کہ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ یعنی فتح تو ہوگی مگر اُسی صورت میں جب تم رات اور دن اور صبح اور شام اِس کام میں مشغول رہو گے اور اپنی توجہات کا نقطۂ مرکزی صرف اِسی امر کو ٹھہراؤ گے کہ تم نے اسلام کو قائم کرنا ہے، تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دنیا میں روشن کرنا ہے۔
اِسی لیے مَیں نے جماعت کو کچھ عرصہ سے تین مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ جماعت کا سارا زور اور اِس کی طاقت اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں صَرف ہو۔ اسلامی عقائد کے قیام میں وہ مشغول ہو جائے اور اعمالِ خیر کی ترویج میں اس کی تمام مساعی صَرف ہونے لگ جائے۔ جماعت کے یہ تین اہم ترین حصے انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ ہیں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جس قسم کا کوئی آدمی ہوتا ہے اُسی قسم کے لوگوں کی وہ نقل کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ بوڑھے عام طور پر بوڑھوں کی نقل کرتے ہیں اور نوجوان عام طور پر نوجوانوں کی نقل کرتے ہیں اور بچے عام طور پر بچوں کی نقل کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی بچہ تھا جو مکان کی چھت پر چڑھ کر اُس کے کنارہ کی طرف چلا گیا اور آہستہ آہستہ ایسی جگہ پہنچ گیا کہ قریب تھا وہ نیچے گر جائے۔ وہ چھت کے کنارے پر کھڑے ہو کر بازار کی طرف جھانک رہا تھا کہ اُس کی ماں نے اُسے دیکھ لیا اور اُس نے گھبرا کر اُسے پکڑنا چاہا تاکہ وہ کہیں نیچے نہ گر جائے۔ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر اُن کو پکڑنے کے لیے کوئی دوڑے تو وہ اَور آگے کی طرف بھاگتے ہیں۔ جب اُس کی ماں نے گھبراہٹ کی حالت میں اُسے پکڑنا چاہا تو کسی سمجھدار انسان نے اُسے دیکھ لیا اور اُسے کہا کہ یہ بے وقوفی نہ کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو بچہ آگے کی طرف دَوڑے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ نیچے گر جائے گا۔ اگر تم بچے کو آرام سے نیچے اتارنا چاہتی ہو تو اُس کا طریق یہ ہے کہ اس کے پیچھے کی طرف کوئی بچہ لا کر بٹھا دیا جائے۔ اُسے دیکھ کر یہ پیچھے کو مڑ جائے گا۔ اور یا کوئی شیشہ رکھ دیا جائے اُس شیشہ کو جب یہ دیکھے گا تو اپنا عکس اُس میں دیکھ کر خیال کرے گا کہ یہ بھی کوئی بچہ ہے اور جب یہ اُس کی طرف جھکے گا توسمجھے گا کہ دوسرا بچہ بھی میری طرف جھک رہا ہے۔ اِس طرح وہ دوسرے بچہ کے خیال کے ماتحت اُسی جگہ بیٹھ جائے گااور اس کے گرنے کا خطرہ جاتا رہے گا۔ چنانچہ وہ شیشہ لائی یا کوئی بچہ لا کر اُس کے پیچھے بٹھا دیا اور اِس طرح اُس بچہ کو سلامتی کے ساتھ نیچے اُتارنے میں کامیاب ہو گئی۔
تو دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ ایک قسم کی چیزیں ایک دوسرے کی طرف زیادہ جھکتی ہیں۔ نوجوان قدرتی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ بوڑھوں کا کیا ہے وہ اپنی عمریں گزار چکے ہیں اور ہم وہ ہیں جو ابھی جوانی کی عمر میں سے گزر رہے ہیں۔ اِس وجہ سے اگر کوئی بوڑھا اُنہیں نصیحت کرے کہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، اپنے اشغال اور افعال میں نیکی اور تقوٰی مدنظر رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو اخلاق اور مذہب کے خلاف ہو۔ تو وہ اُس کی بات کو مذاق میں اُڑا دیتے ہیں، اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں بوڑھوں کا کیا ہے یہ اپنے وقت میں تو مزے اُٹھا چکے ہیں اور اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہیں کہ ہم ہر قسم کے کاموں سے اجتناب کریں۔ لیکن اگر ویسی ہی نصیحت اُنہیں کوئی نوجوان کرے تو وہ اُس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اپنی عمر عیش و عشرت میں گزار کر اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہو۔ بلکہ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اُس کی نصیحت پر کان دھریں اور اُس کی بات کو تسلیم کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نصیحت کرنے والا بالکل ہمارے جیسا ہے۔ یہ بھی اُسی عمر کا ہے جو ہماری عمر ہے۔ اس کا بھی ویسا ہی دل ہے جیسا ہمارا دل ہے۔ اس کے اندر بھی ویسے ہی جذبات اور احساسات ہیں جیسے جذبات اور احساسات ہمارے اندر ہیں۔ لیکن جب یہ بھی ہمیں نصیحت کر رہا ہے تو ہمیں ضرور اس کی بات پر غور کرنا چاہیے۔ اور اگر کچھ نوجوان ایسے بھی ہوں جو اُس کی نصیحت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو کم سے کم وہ اعتراض کا کوئی اَور طریق اختیار کریں گے یہ نہیں کہیں گے کہ خود جوانی کی عمر میں مزے اٹھا کر اب ہمیں روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم نیکی کی طرف توجہ کریں۔ اِسی طرح بچے بچوں کے ذریعہ بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور بوڑھے بوڑھوں کے ذریعہ باتیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کسی بوڑھے کے پاس کوئی نوجوان جاکر کہے کہ جناب! فلاں بات اِس طرح ہے اور آپ اس طرح کر رہے ہیں تو وہ فوراً اُس کی بات سنتے ہی کہہ دے گا کہ میاں! کوئی عقل کی بات کرو۔ تم ابھی کل کے بچے ہو اور مَیں بوڑھا تجربہ کار ہوں۔ تم اِن باتوں کی حقیقت کو کیا سمجھو۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ بات کس طرح ہے اور نیکی اور تقوٰی کا کونساپہلو ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی بچہ بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ نصیحت کی بات اُس بچہ کے مُنہ سے سُن کر ہنس پڑے گا اور کہے گا یہ پاگل ہو گیا ہے۔ ابھی تو خود ناتجربہ کار ہے۔ بچپن کے زمانہ میں ہے اور نصیحت مجھے کررہا ہے۔ لیکن اگر بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ ضرور اُس نصیحت پر کان دھرے گا۔ کیونکہ وہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تجربہ میں مجھ سے کم ہو مَیں تمہاری بات کس طرح مان سکتا ہوں۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ‘‘ ہم عمر ’’ ہی اپنے‘‘ ہم عمروں’’ کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں۔ بلکہ مَیں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ اگر عمر میں پانچ دس سال کا فرق ہو تب بھی دوسرا شخص سمجھتا ہے کہ مَیں تو اَوروں کو نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ مگر کوئی دوسرا شخص جو عمر میں مجھ سے کم ہے چاہے چند سال ہی کم ہو یہ حق نہیں رکھتا کہ مجھے نصیحت کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں جب مختلف معاملات پر بحث ہوتی تو بسااوقات خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب ایک طرف ہوتے اور بعض دوسرے دوست دوسری طرف اِن میں سے شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد احسن صاحب امروہی سے عمر میں صرف چار پانچ سال چھوٹے تھے۔ مگر مَیں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جب آپس میں کسی بات پر بحث شروع ہو جاتی تو مولوی محمد احسن صاحب امروہی شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کرکے کہتے کہ تم تو ابھی کل کے بچے ہو، تمہیں کیا پتہ کہ معاملات کو کس طرح طے کیا جاتا ہے۔ میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے اور جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے۔ حالانکہ مولوی محمد احسن صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کی عمر میں صرف چار پانچ سال کا فرق تھا۔ مگر چار پانچ سال کے تفاوت سے ہی انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اِس بات کا حق حاصل ہے کہ دوسروں پر حکومت کروں، مجھے حق حاصل ہے کہ مَیں دوسروں کو نصیحت کا سبق دوں اور اُن کا فرض ہے کہ وہ میری اطاعت کریں اور جو کچھ مَیں کہوں اُس کے مطابق عمل بجا لائیں۔ پس ایسی صورت میں اگر کوئی نوجوان کسی بوڑھے کو نصیحت کرے گا تو یہ صاف بات ہے کہ بجائے نصیحت پر غور کرنے کے اُس کے دل میں غصہ پیدا ہوگا کہ یہ نوجوان مجھے نصیحت کرنے کا کیا حق رکھتا ہے۔ اِس طرح بجائے بات کو ماننے کے وہ اَور بھی بِگڑ جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ انسان ایک بچہ کے منہ سے بھی نصیحت کی بات سن کر سبق حاصل کر لیتا ہے۔ مگر ایسا شاذ و نادر کے طور پر ہوتا ہے۔ اِسی طرح بعض دفعہ ایک نوجوان کے منہ سے کوئی بات سن کر ایک بوڑھا انسان بھی سبق حاصل کرسکتا ہے۔ مگر ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے۔ عام طور پر عمر کے تفاوت کے ماتحت چاہے ایک بڑی عمر والا بیوقوف ہی کیوں نہ ہو وہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میری بات کو مانا جائے کیونکہ مَیں بڑی عمر کا ہوں دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجھے نصیحت کرے یا مجھے کسی نقص کے اصلاح کی طرف توجہ دلائے۔ یہی حکمت ہے جس کے ماتحت مَیں نے انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو۔ بچے بچوں کی نقل کریں، نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں۔ جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں، وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں، وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور اُن کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں، وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو اُن کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دِل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور اِس وجہ سے اُس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ مگر یہ تغیر اُسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہوجائے اور کوئی بچہ، کوئی نوجوان اور کوئی بوڑھا ایسا نہ رہے جو اِس نظام میں شامل نہ ہو۔ اگر جماعت کے چند بوڑھے اِس مقصد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے چند نوجوان اِس نظام کو جاری کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے چند بچے اِس امر کی اہمیت کو سمجھ کر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو اِن چند نوجوانوں، چند بوڑھوں اور چند بچوں کی وجہ سے اِس نظام کے وسیع اثرات ظاہر نہیں ہوسکتے اور نہ اِس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں بیداری پیدا ہوسکتی ہے۔ ساری دنیا میں اِس تحریک کو قائم کرنے، ساری دنیا کو بیدار کرنے اور ساری دنیا کو اِس نظام کے اندر لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اِس قدر منظّم کر لیں کہ وہ یقینی اور حتمی طور پر کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم کا کام اُس کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر لیا ہے۔ اسی طرح بچے اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کی مدد سے اِس قدر منظّم کر لیں کہ تنظیم کا کوئی پہلو ناقص نہ رہے اور اُن کا اندرونی نظام ہر جہت سے مکمل ہوجائے۔ یہی حال انصار اللہ کا ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح منظّم کر لیں، اِس طرح ایک نظام میں اپنے آپ کو منسلک کر لیں کہ وہ مسرّت کے ساتھ یہ اعلان کرسکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم پورے طور پر مکمل کر لی ہے۔ اب ہم میں تنظیم کے لحاظ سے کسی قسم کی خامی اور نقص باقی نہیں رہا۔ جب خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ اور اطفال الاحمدیہ تینوں اپنے آپ کو اِس رنگ میں منظّم کر لیں گے اور اپنی اندرونی خامیوں کو کُلّیۃًً دور کردیں گے تب وہ اِس قابل ہوسکیں گے کہ دوسروں کی اصلاح کریں اور تب دنیا مجبور ہوگی کہ اُن کی باتوں کو سُنے اور اُن پر غور کرے۔
مَیں نے دیکھا ہے بعض بچے چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ذہین ہوتے ہیں اور دین کی باتوں کو سمجھتے ہیں اِس لیے اُن کا طبعی طور پر دوسرے بچوں پر نمایاں اثر ہوتا ہے اور وہ بھی اِس رنگ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ رنگ اُن کو خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور وہ باتیں اُن کو جاذبیت رکھنے والی معلوم ہوتی ہیں۔ہمارا ایک عزیز بچہ ہے۔ تین چار سال اُس کی عمر ہے مگر ذہین اور ہوشیار ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے جس گھر میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اُس گھر کے بچوں پر اُس کا اِتنا اثر ہوا کہ انہی میں سے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا کہ آپ اپنے فلاں بچہ کو اجازت دیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر ایک دفعہ میوزیکل کَنْسَرٹ (MUSICAL CONCERT)دیکھ لے۔ اُس نے لکھا کہ مَیں نے اسے بہت کہا ہے کہ ایک دفعہ ہمارے ساتھ میوزیکل کَنْسَرٹ دیکھ لو مگر وہ مانا نہیں۔ اُس نے کہا ہے کہ ہم ایسی چیزیں نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہمیں اِن چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اُس نے یہ بھی لکھا کہ مجھے اس کی باتیں سن کر احمدیت کے متعلق رغبت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ بھی ایک چھوٹا بچہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے عزیز کی طرح وہ بھی ذہین ہے اور بات کو بہت جلدی سمجھ جاتا ہے۔ پس ایک چھوٹی عمر کے بچے کا دوسرے سے یہ کہنا کہ ہم میوزیکل کَنْسَرٹ میں شامل نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمیں اِن چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور پھر دوسرے لڑکے کا میری طرف خط لکھنا کہ اسے ایک دفعہ اجازت دیجیے کہ وہ میوزیکل کَنْسَرٹ دیکھ لے بتاتا ہے کہ بچوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں۔ اور نوجوانوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور بوڑھوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور اپنے علم اور اپنی عقل سے دوسروں کی راہنمائی کرسکیں۔ مگر یہ فرض اپنی پوری خوش اسلوبی سے اُس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام نوجوان، تمام بوڑھے اور تمام بچے اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے۔
ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے۔ مگر یہ عظیم الشان کام اُس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر لیتے اور اُس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ دنیا میں ہمیشہ یہی طریق ہوتا ہے کہ پہلے اندرونی کمروں کی صفائی کی جاتی ہے پھر بیرونی کمروں کی صفائی کیا جاتی ہے۔ پھر صحن کی صفائی کی جاتی ہے۔ پھر ڈیوڑھی کی صفائی کی جاتی ہے اور پھر گلی کی صفائی کی جاتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص ڈیوڑھی یا باہر کی گلی تو صاف کرنے لگ جائے اور اُس کے اندرونی کمروں میں گند بھرا ہوا ہو۔ ہمیشہ بیرونی صفائی سے پہلے اندرونی صفائی کی جاتی ہے۔ باہر کی سڑکوں اور گلیوں اور صحن وغیرہ کو صاف کرنے سے پہلے اندرونی کمروں کی غلاظت اور گند کو دور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بیرونی کمروں کی صفائی کا وقت آتا ہے۔ پھر صحن کی صفائی کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔ پھر گلی کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور جب اِن تمام مراحل کو طے کر لیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ میونسپل کمیٹی کی شکل میں سارے شہر کی صفائی کا اہتمام کریں۔ پھر اس سے ترقی کرکے اللہ تعالیٰ بعض اَور لوگوں کو یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ ایک حکومت کی شکل میں سارے ملک کی صفائی کا انتظام کریں۔ بہرحال یہ تدریج ضروری ہے اور بغیر جماعتی تنظیم اور اصلاح کو مکمل کرنے کے ہم ساری دنیا کی تنظیم اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرسکتے۔ ہم اُسی وقت باہر کی طرف توجہ کرسکتے ہیں جب ہم اپنی اندرونی اصلاح کو مکمل کرلیں۔جب ہم اپنے داخلی نظام کو مکمل کرلیں گے، جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کرلیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کرسکیں گے۔ اِس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لیے مَیں نے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اُس مقصد میں جواِن کے قیام کا اصل باعث ہے اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصار اللہ،خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اُس اصل کو اپنے مدنظر رکھیں جو حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اُس فرض کی ادائیگی میں اِس طرح مصروف ہوجائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لیے اپنے تمام اوقات کو صَرف کر دیتا ہے۔ جب تک رات اور دن انصاراللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے، جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور جب تک اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمام اوقات کو صَرف نہیں کر دیتے اُس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کرسکتے۔ اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اُس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کرسکتے۔
یاد رکھو!وہ دن قریب ترین آتے جاتے ہیں جب دنیا کسی نہ کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ اِس وقت فاتح مغربی اقوام کے دماغ اِس امر کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ جنگ کے بعد مفتوح قوموں کو بالکل کچل کر رکھ دیں اور ان کو ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیں۔ گویا پرانے زمانہ میں جس غلامی کا دنیا میں رواج تھا اُسی غلامی کو بلکہ اُس سے بھی بدتر غلامی کو وہ اب پھر دنیا میں رائج کرنا چاہتی ہیں۔ اور ان اقوام میں سے بعض سرکردہ لوگ اِس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پرانے زمانہ کے غلاموں سے بھی بدترین سلوک جرمنی اور جاپان کے ساتھ کریں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لو کہ جیسے ابتدائی ایام میں آرین اقوام نے ہندوستان کی دیگر اقوام سے سلوک کیا تھا اور اُنہوں نے اِن اقوام کے لیے بعض خاص پیشے مقرر کر دیے تھے اور کہہ دیا تھا کہ و ہ اِن پیشوں کے علاوہ اپنی معاش کے لیے کوئی اَور ذریعہ اختیار نہیں کرسکتے اور نہ ترقی کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرسکتے ہیں۔ اِسی طرح آج انگلستان اور امریکہ کے بعض اکابرین کی طرف سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان دونوں کے لیے بعض پیشے مقرر کر دیے جائیں گے اور فیصلہ کردیا جائے گا کہ وہ ان مخصوص پیشوں کے علاوہ اَور کوئی پیشہ اختیار نہیں کرسکتے۔ یہ چیزیں جب ظاہر ہوتی ہیں اُس وقت طبائع قدرتی طور پر فیصلہ کی طرف مائل ہوتی ہیں اور وہ اِس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ موجودہ نظام کے علاوہ کوئی اَور نظام دنیا میں رائج ہونا چاہیے جو کمزور کی حق تلفی نہ کرے اور طاقتور کو ناجائز حقوق نہ دے۔ پس اگر جنگ کے بعد مفتوح اقوام سے اُسی قسم کا وحشیانہ سلوک کیا گیا جس قسم کا وحشیانہ سلوک اچھوت اقوام سے کیا گیا تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور جاپان میں بھی اور جرمنی میں بھی دنیا کے موجودہ نظام کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی، طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوگا کہ موجودہ نظام تسلی بخش نہیں۔ اور وہی وقت ہوگا جب گرم گرم لوہے پر چوٹ لگا کر اُسے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالا جاسکے گا۔
دیکھو! قرآن کریم نے لیگ آف نیشنز کے بعض اصول بیان کیے ہیں اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ جب تک ان اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اُس وقت تک دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ مَیں نے 1924ء میں اپنی کتاب "احمدیت یعنی حقیقی اسلام" میں ان اصول کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان کیا تھا۔اِسی طرح جب مَیں ولایت گیا تو وہاں مختلف لیکچروں میں نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ میں نے ان اصول کا ذکر کیا۔ اِس کے بعد 1935ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے اپنے ایک لیکچر میں جو سیاسیاتِ عالم کے متعلق تھا اِس امر کو پھر بڑی تفصیل سے بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ جب تک قرآنی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اُس وقت تک دنیا بین الاقوامی جھگڑوں سے کبھی امن حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ تمام اصول میری کتاب میں چَھپے ہوئے ہیں اور دنیا دیکھ سکتی ہے کہ وہ کیسے پختہ، کیسے شاندار اور کیسے زبردست اصول ہیں۔ آج لیگ آف نیشنز اگر اپنے مقصد میں ناکام ہوتی ہے تو اِسی وجہ سے کہ اُن اصول کو اس نے اپنے نظام میں شامل نہیں کیا تھا۔ اُنہی اصول میں سے ایک اصل مَیں نے یہ بیان کیا تھا کہ یہ خیال کر لینا کہ اِس نظام کے قیام کے لیے کسی فوجی طاقت کی ضرورت نہیں نادانی اور حماقت ہے۔ یہ نظام قائم نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ فوج کی بہت بڑی طاقت نہ ہو تاکہ جب بھی کوئی قوم لیگ آف نیشنز کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرے اُس کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے اُسے اپنے ناجائز طریقِ عمل سے روک دیا جاسکے۔ غرض مَیں نے وضاحت کے ساتھ اِس امر کا ذکر کر دیا تھا کہ لیگ آف نیشنز اُس وقت تک صحیح معنوں میں قائم نہیں ہوسکتی اور نہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتی ہے جب تک اُس کے ساتھ فوجی طاقت نہ ہو۔ مَیں نے یہ اصل اپنی کتاب میں بیان کیا، اپنے لیکچروں میں بیان کیا اور بار بار اِس بات پر زور دیا مگر یورپین لوگوں کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہم تو دنیا کو لڑائی سے بچانا چاہتے ہیں اور آپ پھر ایسی تجویز پیش کر رہے ہیں جس میں فوج اور طاقت کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے۔ انگلستان میں جب میرے لیکچر ہوتے تو ان کے بعد عام طور پر لوگ یہی کہا کرتے کہ یہی تو وہی پرانی جنگی سپرٹ ہے جو دنیا میں پہلے سے قائم ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تجویز درست نہیں، ہم نے لیگ کے اصول ایسے رکھے ہیں جن میں فوجی طاقت کو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ اُس کے اصول میں یہی روح کام کر رہی ہے کہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ دوسروں کو سمجھا کر صلح اور پیار کی طرف مائل کیا جائے اور اسے بدعنوانیوں سے روکا جائے۔ انسانی فطرت ایسی ہے کہ جب کسی غلط بات پر قائم ہو جائے تو خواہ اُسے ہزار کہا جائے وہ اپنی بات کو غلط تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یورپین مدبّرین نے اُس وقت میری بات کو قابلِ اعتناء نہ سمجھا۔ مگر آج تمام مدبّرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس فوجی طاقت نہیں تھی۔ اگر اس کے پاس فوجی طاقت ہوتی تو اُس کا یہ انجام نہ ہوتا۔ حالانکہ یہ وہ اصول ہے جو قرآن کریم نے آج سے پورے چودہ سوسال پہلے سے بیان کیا ہوا ہے،قرآن کریم میں موجود ہے اور مَیں نے بڑی وضاحت سے آج سے کئی سال پہلے اِس کا اپنی کتابوں اور اپنے لیکچروں میں ذکر کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ لیگ آف نیشنز کے ساتھ فوجی طاقت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ لیکن اُسوقت توجہ نہ کی گئی جس کا نتیجہ نہایت تلخ اور افسوس ناک نکلا۔
اِسی طرح ایک دوسری بات بھی مَیں نے اپنی کتاب "احمدیت" میں بیان کی ہوئی ہے جس کو آج مَیں بڑے زور سے بیان کر دیتا ہوں۔ پہلی بات کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اِس کا علم نہیں تھا کہ آپ نے اس اصول کا ذکر کیا ہوا ہے۔ اِس لیے اب مَیں دوسری بات کو ایک دفعہ پھر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ایسی اہم ہے کہ اُس ہدایت کی خلاف ورزی دنیا میں کبھی نیک نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ اور ہمارے غیرممالک کے مبلغین کو چاہیے کہ فوراً اِس اصل کی عام طور پر اشاعت شروع کردیں تا بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ وقت پر ہمیں اِس طرف توجہ نہ دلائی گئی تھی۔ دوسری بات جو مَیں نے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی ہوئی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم طاقت استعمال کرکے بگڑی ہوئی اور نافرمان پارٹی کو مفتوح کر لو، اُس پر پوری طرح غلبہ و اقتدار حاصل کر لو اور تم آخر میں اپنے اور دوسروں کے حقوق کے متعلق فیصلہ کرنے لگو تو یاد رکھو! اُس وقت جوش میں مفتوح قوم پر اپنا غصہ مت نکالو بلکہ جس حد تک جھگڑا ہو صرف اُسی حد تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو۔یہ نہ ہو کہ جوش اور غصہ کی حالت میں تم اپنی حدود سے متجاوز ہو جاؤ اور اُس پر مظالم کرنے لگ جاؤ۔ یا کوشش کرو کہ وہ قوم اِس طرح کُچلی جائے کہ آئندہ صدیوں تک تمہارے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکے۔ تمہارا فرض ہے کہ تم صرف جھگڑے تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو اور ناجائز پابندیاں، ناجائز قیود اور ناجائز دباؤ مفتوح قوم پر مت ڈالو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اِس کے نتیجہ میں پھر فساد پیدا ہوگا، پھر بدامنی پیدا ہوگی، پھر لڑائی شروع ہوگی اور پھر دنیا کا امن برباد ہوجائے گا۔ یہ اصول ہے جس کو مَیں نے بڑی وضاحت سے اپنی کتاب میں بیان کیا ہوا ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں جس طرح مغربی اقوام نے پہلے اصول کی خلاف ورزی کی تھی اُسی طرح آج وہ اِس اصول کی خلاف ورزی کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ چنانچہ اِس قسم کی آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد جب روس، برطانیہ، امریکہ اور چین سب طاقتیں مل کر دنیا میں امن قائم کریں گی تو جرمنی اور جاپان سے نہ صرف وہ تمام چیزیں لے لی جائیں گی جن پر اُنہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تھا بلکہ ان کی بغاوت کی سزا کے طور پر ہمیشہ کے لیے اُن کی قوت کو کچل دیا جائے گا اور انہیں ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے گا۔ ابتدائی انسانی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہر شخص کو اِس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو پیشہ اپنے لیے مناسب سمجھتا ہے اُس پیشہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا لے۔ اگر وہ تجارت کرنا چاہتا ہے تو تجارت کرے، زراعت کرنا چاہتا ہے تو زراعت کرے، صنعت و حرفت اختیار کرنا چاہتا ہے تو صنعت و حرفت اختیار کرے، سائنس کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہے تو سائنس کی طرف توجہ کرے ۔مگر اِس حق سے بھی جرمنی اور جاپان کو محروم کرنے کی سکیمیں تیار ہو رہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان کے انڈسٹریل سکول بند کر دیے جائیں گے، انڈسٹریل سوسائیٹیاں توڑ دی جائیں گی اور اُن کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ صرف زمیندارہ کریں اور ضرورت سے زائد اُن کے پاس جو کچھ بچے وہ اُن سے خرید لیا جائے۔ یہ وہی سلوک ہے جو ہندوؤں نے اچھوت اقوام سے روا رکھا اور جس کی بناء پر انہوں نے مدتوں تک اچھوتوں کو سر نہ اٹھانے دیا۔ گویا وہی سلوک جو ہندوؤں نے اچھوت اقوام سے کیا تھا اب خطرہ ہے کہ مغربی اقوام اپنی مفتوح قوموں سے ویسا ہی سلوک کریں اور پھر دنیا کے ایک طبقہ کو بدترین غلامی کے چکر میں پھنسا دیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہندوؤں نے تو اچھوت اقوام سے ہزاروں سال تک فائدہ اٹھا لیا۔ اب ممکن ہے مغربی اقوام بھی اِس طریق سے ایک لمبے عرصہ تک فائدہ اُٹھا لیں۔ ہندوؤں کی تاریخ بہت مبالغہ آمیز ہے۔ اِس لحاظ سے ہزاروں سال کہنا تو صحیح نہیں ہوسکتا لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ڈیڑھ دو ہزار سال تک اچھوت اقوام کو اپنے ماتحت رکھا اور اس طرح ان سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ پس اِس مثال کی بناء پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب ممکن ہے یہ قومیں ددسری قوموں کو اچھوت بنا کر اُن سے لمبے عرصے تک فائدہ اٹھاتی رہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ گو اچھوت قوموں سے ہندو ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہے لیکن اِس کے ساتھ ہی ہندوستان کے ایک طبقہ کو اچھوت بنا کر خود ہندو قوم بھی ایک ہزار سال سے مغلوب ہوتی چلی آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ چُوڑھوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ سانسیوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ بھیلوں سے مغلوب نہیں ہوئی مگر وہ پہلے یونانیوں اور پھر پٹھانوں اور بعد میں مغلوں سے مغلوب ہو گئی۔ اور اِس مغلوبیت کی وجہ یہی تھی کہ ملک کی اکثریت ایسی تھی جسے حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں تھی، اس کے معاملات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس کی خیرخواہی اور بھلائی اس کے مدنظر نہیں تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہم خواہ جیئیں یا مریں حکومت کو ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ پس اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھوت اقوام سے آرین اقوام نے ذلت کا سلوک روا رکھا، اُن کے حقوق کو تلف کیا اور ان کی ترقی کو روک دیا۔ مگر اِسی وجہ سے خدا نے اَور قوموں کو کھڑا کردیا جنہوں نے مقابلہ کیا۔ اس طرح وہی قوم جس نے اچھوتوں کو ذلیل کیا تھا اُسے خود دوسروں کا محکوم بننا پڑا۔ اِسی طرح بالکل ممکن ہے کہ اگر فاتح مغربی اقوام جرمنی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جرمنی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اٹھائیں مگر اِس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اَور قومیں کھڑی کردے جن کا مقابلہ ان کے لیے آسان نہ ہو۔
پس دنیا پھرخدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے۔ پھر خدانخواستہ ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے۔پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا پیدا نہیں ہوسکتا۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اِس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے۔ اوردوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اِس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغِ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اِس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے۔ یعنی جرمنی اور جاپان۔ یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ خصوصاً جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو اِس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو! عیسائیت کتنی نا کام رہی کہ عیسائیت کی قریباً دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانہ کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی۔ اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ آؤ ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے۔ پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنےہمیں عیسائیت کی نا کامی اوراسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا۔اِسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھدار طبقہ کو (اور کوئی ملک ایسے سمجھدار طبقہ سے خالی نہیں ہوتا) اسلام کی تعلیم کی برتری بتاسکیں گے۔ مگر یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہماری طاقت منظّم ہو، جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہوں، جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لیے ہر قسم کے سامان ہمیں میسر ہوں۔ اِسی طرح یہ کام اُسی وقت ہوسکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منظّم ہوں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو اِس تنظیم میں شامل نہ ہو۔ وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لیے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرنا ہے اِس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے۔ وہ بُھول جاتا ہے اپنی بیوی کو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے بچوں کو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اگر ہم یہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلیں اور اگر ہماری جماعت کا ہر فرد دن اور رات اِس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کردے گا۔ اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا دنیا پر غیرمعمولی رُعب پایا جاتا ہے اور بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں احمدیہ انجمنیں قائم ہو چکی ہیں۔ بے شک ایسے بھی کئی شہر ہیں جہاں ابھی تک کوئی احمدی نہیں اور ایسے بھی شہر ہیں جن میں صرف ایک ایک احمدی ہے مگر باوجود اِس کے ہندوستان میں ہماری جماعت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور لوگوں کے دل محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک کام کرنے والی اور دنیا میں ترقی کرنے والی زندہ قوم ہے۔ اِسی طرح تم مصر چلے جاؤ، عرب چلے جاؤ،شام چلے جاؤ، ٹرکی چلے جاؤ سب جگہ لوگوں کو یہی کہتا سنو گے کہ جماعتِ احمدیہ بہت بڑا کام کر رہی ہے۔ حالانکہ ساری دنیا میں ہمارے صرف آٹھ دس مبلغ ہیں اور تعداد کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے۔ مگر بوجہ اِس کے کہ ہماری جماعت کے افراد دوسروں سے بہت زیادہ قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کے لیے وہ جس قدر کوشش کرتے ہیں اُس کا عُشر ِعشیر بھی دوسرے مسلمانوں میں نظر نہیں آتا۔ جہاں چلے جاؤ احمدیت کی تعریف میں لوگ رطبُ اللّسان ہوں گے اور وہ اِس حقیقت کو برملا بیان کر رہے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ ایک زندہ جماعت ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں اِس وقت تک قریباً بارہ کتابیں ایسی چَھپ چکی ہیں جو احمدیت کے متعلق ہیں یا ان کتابوں میں احمدیت کے متعلق کوئی نہ کوئی مضمون لکھا گیا ہے۔ اِن سب کتابوں میں یورپین اور عیسائی مصنفین نے اقرار کیا ہے کہ مسلمانوں میں صرف جماعت احمدیہ ہی ایک کام کرنے والی اورہرقسم کی قربانیوں میں حصہ لینے والی قوم ہے۔ اگر عیسائیت کو آج کسی قوم سے خطرہ ہے تو وہ صرف احمدی قوم ہے۔ اور کسی مذہب یا مذہب کے کسی فرقہ سے عیسائیت کو اتنا خطرہ نہیں جتنا احمدیت سے ہے۔ حالانکہ ہم اپنی جماعت کے جو حالات جانتے ہیں اُن کے لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ظاہری طاقت کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ پس جب ہماری تھوڑی سی کوشش، تھوڑی سی قربانی اور تھوڑی سی جدوجہد کے بعد دنیا پر اِس قدر رعب پڑسکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت منظّم ہوجائے، اگر ہماری جماعت کے نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور بچے بھی اپنی اندرونی اصلاح کرنے کے بعد بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں تو غور کرنا چاہیے ہمارے اِس رُعب میں کتنا بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یقیناً موجودہ رُعب سے ہزاروں گُنا رُعب ہماری جماعت کا ہوسکتا ہے۔ اور موجودہ تعداد سے ہزاروں گُنا تعداد ہماری جماعت کی بڑھ سکتی ہے۔ اور نہ صرف رُعب اور تعداد کے لحاظ سے ہماری جماعت میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ ہم موجودہ کام سے ہزاروں گُنا زیادہ کام کرکے دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ اب بھی ہماری یہ حالت ہے کہ باوجود اِس کے کہ ہم کمزور ہیں، ہمارے پاس سامان نہیں،ہمارے پاس دولت اور طاقت نہیں ہے پھر بھی بعض ممالک میں احمدیت کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ مثلاً! افریقہ ایک بہت بڑا برّاعظم ہے۔ اُس کا مغربی حصہ نصف برّاعظم ہے۔ اس نصف برّاعظم میں ہمارا تبلیغ کرنا ایسا ہی ہے جیسے روس کے کنارہ سے جاپان تک کے علاقہ کو تبلیغ کی جائے۔ ہمارے اس وسیع علاقہ میں صرف چار مبلغ کام کر رہے ہیں۔ مگر ان چار مبلغوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں افریقہ کے سارے کنارے میں ایک دھوم مچی ہوئی ہے۔ ہزارہا لوگ ہیں جو احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ گورنمنٹ ہے تواُس پر جماعت کا اثر ہے اور یورپین مصنفین کُھلے بندوں تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کے مشنری اس علاقہ میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ عیسائیت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ غرض گورنمنٹ کیا اور پبلک کیا سب جماعت احمدیہ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ دلائل کے میدان میں ہمارا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ ہمارے وہاں صرف چار مبلغ ہیں۔ چار مبلغ ایک ضلع کے لحاظ سے بھی بہت کم ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہے اور وہ اپنے فضل سے ہماری ناچیز کوششوں میں بھی برکت پیدا کر دیتا ہے۔ اِس لیے اُن چار احمدی مبلغین کا ایک وسیع علاقہ پر حیرت انگیز اثر ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ علاقہ اِتنا وسیع ہے کہ اُس کی لمبائی کئی ہزار میل کی ہے اوراس علاقہ کو اگر ایک جہاز طے کرنے لگے تو اُسے بھی سات آٹھ دن لگ جاتے ہیں۔ مگر اتنے وسیع علاقہ میں صرف چار احمدی مبلغین کی تبلیغ کے نتیجہ میں جماعت کی دھاک بیٹھ چکی ہے اور ہر جگہ یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں بعض مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں مگر وہ بھی ہمارے مبلغین نے ہی تیار کیے ہیں۔ اس لیے اُن کا کام بھی ایک لحاظ سے ہمارے مبلغین کا ہی کام ہے۔ پس اگر چار مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں ایک وسیع برّاعظم کے لوگوں میں اِتنا بڑا تغیر پیدا ہوسکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے کھڑی ہوجائے اور دن اور رات اِس کام میں لگ جائے، وہ اپنے آرام کو نظر انداز کردے، اپنی سہولت کو پسِ پُشت پھینک دے اور دیوانہ وار اس کام میں مشغول ہوجائے تو گو ہماری تعداد تھوڑی ہے، ہمارے پاس اَور اقوام کے مقابلہ میں سامان بہت کم ہیں مگر یقیناً اِس مجنونانہ کوشش کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہوجائے گا اور ایک بہت بڑا انقلابِ الٰہی ہاتھوں سے ظاہر ہوگا۔ بے شک آج ہمارے دعووں کو جنون سمجھا جاتا ہے، آج ہمارے دعووں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے، آج ہمارے کاموں کی تحقیر کی جاتی ہے لیکن اگر ہماری جماعت اپنی کوششوں کو اِسی طرح بڑھاتی چلی جائے تو کل دنیا میں یہ سمجھا جائے گا کہ اِن ہاتھوں سے اُس عظیم الشان قربانی کی وجہ سے جس کا نمونہ اِس جماعت نے دکھایا یہ کام ہو جانا لازمی اور ضروری تھا۔ ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ ہمارے اندر ایک مجنونانہ جوش پیدا ہوجائے، ایک آگ ہو جو ہمارے سینہ میں ہر وقت سُلگ رہی ہو، بے تابی ہو جو ہمیں کسی پہلو چین نہ لینے دیتی ہو اور ہم پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اِس بات پر قائم ہوں کہ ہماری زندگیوں کا مقصد سوائے اِس کے اَور کچھ نہیں کہ اسلام اور احمدیت پر عمل اوراسلام اور احمدیت کے لیے قربانی"۔ (الفضل11؍اکتوبر، 1944ء)


35
دعا کرو کہ خدا تعالیٰ
تیسری جنگ کی نوبت نہ آنے دے
(فرمودہ 6؍اکتوبر4419ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے گزشتہ دو خطبوں میں اِس بات کا ذکر کیا تھا کہ جنگ اپنے اختتام کی طرف آ رہی ہے۔ مگر اس کے معنی صرف اِتنے ہی ہیں کہ توپوں اور بموں کی جنگ اختتام کی طرف آ رہی ہے۔ لیکن اصلی جنگ کے خاتمہ میں ابھی بہت دیر ہے۔ لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ توپیں چلنے اور بم پھینکنے کا نام ہے حالانکہ اصل جنگ نام ہے اُن عداوتوں اور اُن تنافروں اور اُن حسدوں اور اُن بغضوں اور اُن کینوں کا جو قوموں کو آپس میں مل کر بیٹھنے نہیں دیتے۔ توپ اور بم یا ایسے ملکوں میں جہاں توپیں اور بم نہیں ہوتے وہاں لاٹھیاں اور سونٹے اور پتھر وغیرہ یہ بیماری کی علامتیں ہیں اصلی بیماری نہیں ہیں۔ جس طرح انسانی جسم میں کچھ بیماریاں ہوتی ہیں اور کچھ بیماریوں کی علامتیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ چیزیں خود اپنی ذات میں بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامتیں اور اس کو پہچاننے کے نشانات ہیں۔ ایک شخص کو درد ہو رہا ہوتا ہے اور اُس درد کی وجہ سےوہ کراہ رہا ہوتا ہے۔ اسے کسی پہلو قرار نہیں آتا۔ وہ بار بار کروٹیں بدلتا اور شدتِ درد کی وجہ سے چیخ رہا ہوتا ہے۔ اگر اُسے دیکھ کر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اُس کی اصل بیماری یہ درد ہی ہے تو وہ غلطی کا مرتکب سمجھا جائے گا۔ اس لیے کہ درد اصل بیماری نہیں بلکہ درد کسی جگہ خون کے اجتماع کا نام ہے یا اعصاب پر بوجھ پڑ جانے کا نام ہے یا قوتِ جسمانی کا نظام بِگڑ کر اعصاب کو کسی تکلیف کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ اور درد ایک علامت ہے جو کسی ایسی بیماری پر دلالت کرتی ہے جو درد کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ جب تک اصل بیماری دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے گی محض درد کو فرو کرنے کی کوشش بالکل عبث اور فضول ہوگی۔ مثلاً اگر کسی شخص کے پیٹ میں کوئی سُدّہ پھنس گیا ہے اور اِس وجہ سے اُسے درد ہو رہا ہے تو اُس وقت اصل بیماری درد کو نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اصل بیماری یہ ہوگی کہ سُدّہ پھنسا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اُس درد کا صحیح ترین علاج سوائے اِس کے اَور کچھ نہیں ہوگا کہ اُس سُدّہ کو نکالنے کی کوشش کی جائے۔ جب تک اُس سُدّہ کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اُس وقت تک خواہ کسی اَور طریق سے درد کو دبانے کی کوشش کی جائے بیماری کا مادہ جسم میں موجود رہے گا۔ پھر وہ عارضی سبب کے دور ہونے پر نمودار ہوجائے گا۔ اِسی طرح جب انسانوں میں تنافر اور تباغض اور کینہ اور غصہ اور جوش پیدا ہو گیا ہو تو جب تک طبیعتوں میں یہ بُغض اور کینہ اور حسد اور ایک دوسرے کے خلاف غیظ و غضب کا مادہ موجود رہے گا اُس وقت تک جنگ کا امکان بہرصورت رہے گا۔ اور اگر جنگ کو کسی نہ کسی طرح دبا دیا گیا تب بھی بیماری کا اصل مادہ موجود رہے گا اور اس کے متعلق ہر وقت یہ خطرہ ہوگا کہ عارضی روکوں کے دور ہونے پر پھر پُھوٹ کر ظاہر ہوجائے اور دنیا کو پھر تباہی اور بربادی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ پس جب تک اِس جنگ کی بنیادی وجوہ کو دور نہیں کیا جاتا، جب تک اُس بُغض اور کینہ اور غصہ کو دور نہیں کیا جاتا جو اندر ہی اندر قوموں کے دلوں میں پایا جاتا ہے اُس وقت تک ہتھیار چھین کر یا دباؤ ڈال کر جنگ کو بند کرا دینا محض بیماری کی ایک علامت کو دبانا ہوگا اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسے شدتِ درد سے تڑپنے والے مریض کو افیون کِھلا دی جائے۔ اگر ہم کسی ملک پر غلبہ حاصل کرکے اُسے دبا لیتے ہیں، اُس کی توپیں چھین لیتے ہیں، اُس کے بم چھین لیتے ہیں، اُس کے ہوائی جہاز چھین لیتے ہیں، اُس کی تلواریں چھین لیتے ہیں، اُس کی مشین گنیں چھین لیتے ہیں، اُس کی فیکٹریاں چھین لیتے ہیں، اُس کی تجارت پر قبضہ کر لیتے ہیں، اُس کی صنعت و حرفت کو برباد کر دیتے ہیں اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہم نے جنگ کے امکانات کا کُلّی طور پر انسداد کردیا ہے تو ہم ایسا ہی کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر مریض کو افیون کھلا کر اُس کی بیماری کو دبا دیتا ہے یا اُس کی بے چینی کو عارضی طور پر کم کر دیتا ہے۔بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ مریض کو آرام آگیا ہے لیکن جب افیون کا اثر کم ہوگا، جب عارضی علاج کے اثرات جاتے رہیں گے تو اُس کی بیماری پھر عَود کر آئے گی اور یا پھر اسی افیون کے نشہ میں بیمار مرجائے گا۔ اِسی طرح اگر اِس جنگ کے اختتام پر صرف یہ کیا گیا کہ مغلوب قوموں سے ہتھیار لے لیے گئے، اُن کے حقوق کو تلف کردیا گیا اور اُن کے ساتھ ذلت اور ناانصافی کا سلوک روا رکھا گیا تو یہ صرف ایک علامت کا دبانا ہوگا بیماری موجود رہے گی اور وہ پھر کسی نہ کسی صورت میں دنیا میں ظاہر ہو کر رہے گی۔ یہی بات دیکھ لو کیا ہندوستان سے انگریزوں نے ہتھیار نہیں لے لیے تھے؟ مگر کیا دنیا کا کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان میں جنگ نہیں ہو رہی؟ وہ ہزاروں ہزار آدمی جو کانگرسی یا انارکسٹ ہیں جو انگریزوں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، جو انگریزوں کی حکومت کو ایک لمحہ کے لیے بھی پسند نہیں کرتے گو اُن کے پاس تلواریں نہیں ہیں، گو اُن کے پاس بندوقیں نہیں ہیں، گو اُن کے پاس توپیں نہیں ہیں، گو اُن کے پاس بم نہیں ہیں، گو اُن کے پاس ہوئی جہاز نہیں ہیں مگر اُن کی لڑائی انگریزوں سے برابر جاری ہے۔اُن کے دل کا ہر وہ خیال جو انگریزوں کے خلاف پیدا ہوتا ہے،اُن کی زبان کا ہر وہ لفظ جو انگریزوں کے خلاف نکلتا ہے تلوار اور بندوق اور توپ اور بم کا ہی قائم مقام ہوتا ہے۔ صرف بیچارگی کی وجہ سے، صرف بیکسی کی وجہ سے، صرف کمزوری کی وجہ سے ہوائی جہازوں کی جگہ اُن کے خیال نے لے لی اور بموں کی جگہ اُن کی زبان نے لے لی ورنہ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کی انگریزوں سے لڑائی جاری ہے۔ اور یہ خیال کرلینا کہ چونکہ انگریزوں نے ہندوستان سے ہتھیار لے لیے ہیں اِس لیے یہ لڑائی بند ہو چکی ہے نادانی اور حماقت ہے۔ وہ ہال جن میں کھڑے ہو کر وہ تقریریں کرتے ہیں اور وہ چوک جن میں انگریزوں کے خلاف وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہی میدان جنگ ہیں۔ صرف مجبوری اور بیکسی کی وجہ سے میدانِ جنگ نے ہالوں اور چوکوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہے۔ ورنہ اگر یہ مجبوری اور بیکسی نہ ہوتی اور یہ لوگ باقاعدہ میدانِ جنگ میں نکلنے کی طاقت رکھتے تو یہ بھی اُسی طرح انگریزوں سے لڑتے جس طرح اَور قومیں آپس میں برسرپیکار ہو رہی ہیں۔ پس صرف توپوں اور بموں کا کسی قوم سے چھین لینا قیامِ امن کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ اُن اسباب کو دُور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو لڑائی کی محرک ہوتی ہیں۔ اگر موجودہ جنگ کے نتیجہ میں بھی بعض قوموں سے بم چھین لیے گئے، توپیں چھین لی گئیں، ہوائی جہاز چھین لیے گئے تو اِس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ لڑائی بند ہو گئی بلکہ اِس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ لڑائی کی ایک علامت کو دبا دیا گیا ہے ورنہ لڑائی کا مادہ موجود رہے گا اور خطرہ ہے کہ کسی دوسرے وقت زیادہ شدّت سے نمودار ہوجائے۔ کیونکہ لڑائی تلوار کے استعمال کا نام نہیں، لڑائی توپیں چلانے کا نام نہیں، لڑائی بم گرانے کا نام نہیں، لڑائی ہوائی جہازوں کو استعمال کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ علامتیں ہیں لڑائی کی۔ اِس لیے اگر صرف ان علامتوں کو دبا دیا گیا اور لڑائی کے اصل سبب کو قائم رہنے دیا گیا تو وہی قومیں جن کو آج ذلیل سمجھا جاتا ہے پھر اپنے بُغض اور کینہ کو نکالنے کے لیے ایک اَور جنگ کی آگ بھڑکا دیں گی۔ یہ خیال کر لینا کہ جو قومیں آج مغلوب ہوں گی وہ ہمیشہ دنیا میں مغلوب ہی رہیں گے نادانی ہے۔ قوموں کا عروج اور زوال ایک دَوری کیفیت رکھتا ہے اور جو قوم آج غالب ہوتی ہے وہ کل مغلوب نظر آتی ہے۔ اور جو آج مغلوب ہوتی ہے وہ کل غالب نظر آتی ہے۔ آج سے چھ سات سو سال پہلے کون شخص یہ خیال کرسکتا تھا کہ انگریزوں کو کسی زمانہ میں بہت بڑی طاقت حاصل ہوجائے گی۔ یا آج سے چھ سات سوسال پہلے کون شخص خیال کرسکتا تھا کہ امریکہ کسی زمانہ میں بہت بڑی طاقت شمار ہوگی۔ یا آج سے بیس سال پہلے کون یہ خیال بھی کرسکتا تھا کہ روس دنیا کی ایک مضبوط طاقت بننے والا ہے۔ وہ ایک راندہ ہوا اور مردود ملک تھا۔ ساری قوموں نے اِس کو ذلیل سمجھا ہوا تھا اور وہ وہاں تک سامان بھی نہیں پہنچنے دیتے تھے مگر آج روس دنیا کی بہت بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ جو قومیں اِس جنگ میں گر جائیں گی وہ آئندہ کبھی ترقی نہیں کریں گی اور ان کے حقوق کا فیصلہ صرف فاتح اقوام کے ہاتھوں میں ہی رہے گا نادانی اور جہالت کی بات ہے۔ طاقتور قومیں مغلوب ہوتی چلی آئی ہیں اور مغلوب قومیں طاقتور بنتی چلی آئی ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت تاریخ کے اوراق میں موجود ہے۔
پس دنیا میں امن کے قیام کے لیے سامانِ جنگ کا چھین لینا یا مغلوب قوموں کو ان کے ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کردینا قطعاً کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ صرف بیماری کی علامتوں کو دبانا ہے اور بیماری کی علامتوں کو دبانا مگر اصل بیماری کا علاج نہ کرنا انسان کو ہرگز شفاء نہیں دے سکتا۔ اِسی طرح دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک اُس بُغض اور اُس حسد کو دور نہ کیا جائے جو تمام فتنہ و فساد کی جڑ ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے آتشِ جنگ کے شرارے دنیا کے امن کو راکھ کر دیتے ہیں۔ پس دنیا میں امن کے قیام کے لیے نفوس کی اصلاح کی ضرورت ہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ بُغضوں اور کینوں کو دور کیا جائے اور دلوں میں محبت اور پیار پیدا کیا جائے۔ مذہبی لَااُبَالِیْ بھی آپس کے بُغض اور کینہ سے پیدا ہوتی ہے اور دنیوی لڑائیاں بھی آپس کے بُغض اور کینہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مگر لوگ غلطی سے اُن سامانوں کو تو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو محض بیماری کی علامتیں ہوتی ہیں مگر اصل اندرونی اسباب کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں بھی مذہبی لڑائیوں کے پیدا ہونے پر بِالعموم لوگ اسی قسم کے علاج سے کام لیا کرتے ہیں جو عارضی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔ مگر حقیقی اور صحیح علاج کی طرف ان کی نظر نہیں اٹھتی۔
جب عیسائیوں کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک نہایت ہی گندی کتاب "امہاتُ الْمومنین" نکلی تو مسلمانوں نے بڑا زور اِس بات پر دیا کہ گورنمنٹ کو چاہیے اس کتاب کو ضبط کر ائے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا کہ اِس کتاب کو ضبط کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ "اُمہاتُ الْمومنین" کی تصنیف تو نتیجہ ہے اُس بُغض اور اُس کینہ کا جو عیسائیوں وغیرہ کے دلوں میں اسلام کے خلاف پایا جاتا ہے۔ وہ ایک آہ ہے جو اُن کے سینوں سے بلند ہوئی ہے اور وہ ایسی ہی آہ ہے جیسے درد سے کراہنے والا شدتِ درد میں آہیں بھرتا چلا جاتا ہے۔ یا کسی شخص کو جنون ہوجائے تو وہ بے تحاشا گالیاں دینے لگ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر انسان دوسرے کے زخم کو دور کرنے کے بغیر یا اُس پر مرہم کا پھایا1 لگانے کے بغیر اُس کی آہوں کو دبانا چاہے یا ایک پاگل اور مجنون شخص کی گالیوں کو روکنا چاہے تو وہ آہیں اور وہ گالیاں کس طرح رُک سکتی ہیں۔ وہ آہیں پھر نکلیں گی، پھر نکلیں گی اور پھر نکلیں گی۔ اِسی طرح اگر بغیر جنون کا علاج کرنے کے کوئی شخص ایک مجنون اور پاگل کی گالیوں سے بچنا چاہے تو وہ بچ نہیں سکتا۔ ضرور ہے کہ اُس کو گالیاں ملیں اور ضرور ہے کہ وہ دکھ اٹھائے کیونکہ جنون کی موجودگی میں گالیوں کا ملنا ضروری ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ "اُمہاتُ الْمومنین" کو ضبط کرانا اصل علاج نہیں ہے۔ بلکہ اصل علاج یہ ہے کہ اُن طریقوں کو اختیار کیا جائے جن پر چل کر اِس قسم کی لڑائیاں دور ہوسکتی ہیں۔ اور وہ طریق یہی ہے کہ جو مذہب سچاہے اُس کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ لوگوں کو دوسرے مذہب کے خلاف اِسی لیے غصہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سنجیدگی سے غور کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ اگر بار بار اُن کے سامنے ایک سچائی کو پیش کیا جائے اور اُنہیں کہا جائے کہ اگر تمہارے مذہب میں بھی ایسی ہی سچائی پائی جاتی ہے تو اُس کو پیش کرو تو وہ اِس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ سچے مذہب کو اختیار کریں۔ اور یا پھر دوسری صورت اِن مذہبی جھگڑوں کے انسداد کی یہ ہوسکتی ہے کہ ہر مذہب کا پیرو صرف اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے، دوسروں پر حملہ کرنا اور اُن کی عیب چینی میں مشغول رہنا ترک کردیا جائے۔ جب یہ طریق اختیار کیا جائے گا تو اِس کے نتیجہ میں اسلام کو فتح حاصل ہوگی۔ کیونکہ جب وہ اسلام کی خوبیاں دیکھ لیں گے اور جب وہ اپنے مذاہب کو ان خوبیوں سے بالکل خالی پائیں گے تو اُن کے دل اسلام کی صداقت پر مطمئن ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کی مخالفت کرنا صحیح نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں عیسائیوں اور ہندؤوں وغیرہ کے مجمع میں جب اسلام کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں، جب قرآن کریم کی خوبیاں پیش کی جاتی ہیں تو بعد میں کئی ہندو اور عیسائی یہ کہتے سنُے جاتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا اسلام ایسا اچھا مذہب ہے، ہمیں پتہ نہیں تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں یہ یہ کمالات پائے جاتے ہیں۔ جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم اس لیے گالیاں دیتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے اسلام بہت بُرا مذہب ہے اور ہم اِس لیے لڑتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نَعُوْذُ بِاللہِ اچھے آدمی نہیں تھے۔ پس جو چیز اُن کی زبانوں اور اُن کے قلموں سے نکلتی ہے اُس کا موجب اُن کے دلی خیالات ہوتے ہیں۔ اگر ان خیالات کی اصلاح کردی جائے، اگر اُن کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور اگر اُن کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے تو اُن کی زبان بھی اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کرنے لگ جائے اور اُن کے قلم بھی اِسی کام میں مشغول ہو جائیں۔
یہی حال حکومتوں کا ہوتا ہے اگر ان کے بُغض اور اُن کے کینہ کو دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ انہیں سختی سے دبا کر رکھا جائے، اُن کے حقوق کو تلف کر دیا جائے، اُن کی ترقی کے مواقع کو مسدود کردیا جائے اور اُن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا جائے تو اُن کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ غالب اقوام موقع پاکر بڑھ گئی ہیں اب یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی دوسری قوم ان سے بڑھ سکے۔ یہ احساس ہے جو اِس دباؤ کے نتیجہ میں لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ تم اِس احساس کو غلط کہو یا صحیح بہرحال جب تک یہ احساس موجود رہے گا، جب تک مغلوب اقوام کے دلوں میں یہ خیال رہے گا کہ بڑھنے والی قومیں یہ نہیں چاہتیں کہ روس کی جگہ جرمنی لے لے یا انگلستان کی جگہ جاپان لے لے اور یہ ہمیشہ دوسروں کو دبا کر اُن پر تسلّط اور غلبہ قائم رکھنا چاہتی ہیں اُس وقت تک ہر وہ تجویز جو امن کے قیام کے لیے کی جائے گی ناکام ثابت ہوگی، ہر کوشش رائیگاں جائے گی، ہر تدبیر بے اثر رہے گی۔ اور یہ خیال مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا کہ ہماری کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے سے محض اِس لیے روکا جاتا ہے کہ اس دَور میں بعض اَور قومیں آگے نکل چکی ہیں۔ چنانچہ جب بھی غالب اقوام کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جنگ کے بعد ہم فیصلہ کریں گی کہ کس قوم کے کیا حقوق ہیں، ہم فیصلہ کریں گی کہ ان کو کیا کیا مراعات ملنی چاہییں اور ہم اِس امر کی نگرانی رکھیں گی کہ ان کے جائز مطالبات پامال نہ ہوں۔ تو دوسرے الفاظ میں اِس قسم کے اعلان کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم مائی باپ ہیں، ہم تمہارے حاکم ہوں گے۔ اور تم ہمارے محکوم ہوگے اور یہ وہ بات ہے جس کو دنیا کی کوئی آزاد قوم برداشت نہیں کرسکتی۔
پس جو باتیں اِس وقت علاج کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں وہ دنیا کے بُغض اور اُس کے کینہ کو اَور بھی بڑھانے والی ہیں۔ جس وقت اتحادیوں کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم اِس امر کی نگرانی رکھیں گے کہ چھوٹی چھوٹی قوموں کے حقوق کو کوئی اَور قوم تلف نہ کرے تو وہ حقارت کی ہنسی ہنستی ہیں کیونکہ وہ الائنز (Alliance)کے ماتحت نہیں ہیں۔ وہ قومیں اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہیں اور وہ اِس قسم کے اعلان کا سوائے اِس کے اَور کوئی مفہوم نہیں سمجھتیں کہ دنیا میں غالب اقوام کی طرف سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ہم اتالیق ہوں گی اور تم ہماری زیرنگرانی رہنے والے شاگرد ہوگے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو فتنہ و فساد کی آگ کو اَور بھی بھڑکانے والی ہے۔ پس یہ علاج جو آج تجویز کیا جا رہا ہے خطرات کو بڑھانے والا اور فتنہ و فساد کی آگ کو اَور بھی ہوا دینے والا ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں غیرت باقی ہے، جب تک لوگوں کے دلوں میں حُبُّ الْوطنی کا جذبہ باقی ہے، جب تک لوگوں کے دلوں میں انسانی شرافت کا احساس باقی ہے۔ اُس وقت تک بنی نوع انسان لازمی طور پر کسی ایسے نظام میں جکڑا جانا پسند نہیں کرسکتے جس نظام کو وہ اپنی خوشی اور مرضی سے اپنے لیے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ ایک صاف اور سیدھی بات ہے اور انسانی فطرت کے اس جذبہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چاہے کوئی عیسائی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، کوئی ہو، کسی مخالف سے مخالف کے سامنے بھی یہ بات بیان کی جائے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ اِس کو ماننے سے انکار کرسکے کہ انسان اُسی نظام پر تسلی پاتا ہے جس نظام کو اُس نے خود چُنا ہو یا جس کے چُننے میں اُس کا ہاتھ ہو۔ دنیوی باتوں کو جانے دو نماز جو ایک شرعی فرض ہے اِسی کے متعلق مَیں نے خود بعض لوگوں کی زبان سے یہ فقرہ سنا ہے کہ جب اُن سے کہا گیا کہ آؤ اور نماز پڑھ لو تو اُنہوں نے اِس غصہ میں کہ یہ کون ہیں نماز کی تحریک کرنے والے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ جاؤ ہم نماز نہیں پڑھتے۔ نماز پڑھنی ہوگی تو ہم خود پڑھ لیں گے تم کون ہو جو ہماری نمازوں میں دخل دیتے ہو۔ اب دیکھو! نماز ایک ایسا فرض ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے مگر جب اِس فرض کی طرف بعض لوگوں کو توجہ دلائی جاتی ہے تو محض توجہ دلانے پر ہی وہ بگڑ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس کا میرے اور میرے خدا کے درمیان واسطہ ہے اِس میں کوئی دوسرا کیوں دخل دے رہا ہے۔ اگر نمازجیسی چیز پر لوگ چِڑ جاتے اور غصہ میں آ جاتے ہیں تو وہ ملکی نظام اپنے لیے کس طرح برداشت کرسکتے ہیں جس میں اُن کا کوئی دخل نہ ہو، جس نظام کو جاری کرنے میں اُن کا کوئی ہاتھ نہ ہو اور جس نظام کے ساتھ اُن کی رضا مندی شامل نہ ہو بلکہ دوسروں کا یہ اختیار ہو کہ وہ آئیں اور فیصلہ کریں۔ ہاں جو نظام پہلے سے جاری ہو اور جس میں انسان ایک دفعہ شامل ہو چکے ہوں اُس نظام کی پابندی کرنا انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے اور اُس کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ اُس کے خلاف آواز بلند کرے۔ مثلاً ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے۔ یہ بحث کرنا کہ ہندوستان پر انگریزوں نے کیوں قبضہ کیا، اُن کا کیا حق تھا کہ وہ ہندوستانیوں پر حکومت کرتے بالکل فضول اور لغو ہے۔ ہندوستان بہرحال انگریزوں کے ماتحت ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ وہ انگریزوں کے ماتحت کس طرح آیا اِس میں ہندوستانیوں کا اپنا قصور تھا یا انگریزوں کا۔ بہرحال ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے۔ ہندوستان اُس نظام کو قبول کر چکا ہے جو انگریزی نظام ہے اور جب ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے تو لازماً انگریزوں کو ہندوستان کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ہندوستانیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہیں کہ انگریزوں نے اُن کے ملک پر کیوں قبضہ کیا یا اُن کے حقوق کا فیصلہ کرنے کا انگریز کیا اختیار رکھتے ہیں۔ مگر آزاد حکومتیں یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتیں کہ اُن پر حکمرانی جتائی جائے اور اُن کے حقوق کے تصفیہ کے لیے یہ قومیں آگے بڑھیں اور ہمیشہ اُن کو اپنے ماتحت رکھنے کی تدابیر عمل میں لائیں۔ آزاد قوموں پر اُن قوانین کا جاری کرنا جو ماتحت اور مفتوح قوموں پر جاری کیے جاتے ہیں فتنہ و فساد کی نئے سرے سے بنیاد رکھنا ہے۔ اور اگر موجودہ جنگ کے بعد اِس بہت بڑے نقص کو دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو لازماً ایک نئی لڑائی کی بنیاد قائم ہوجائے گی۔ اور اگر یہ قومیں خود مقابلہ کے لیے نہیں اُٹھ سکیں گی تو دوسروں کو لڑائی کے لیے اکسائیں گی۔ دوسروں کو جنگ کے لیے برانگیختہ کریں گی اور اِس طرح ایک نئی جنگ کا دروازہ کھول کر اپنے بُغضوں اور کینوں کو نکالنے کی کوشش کریں گی۔ دنیا میں مظلوم کا یہی طریق ہوا کرتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے مَیں خود انتقام لینے سے قاصر ہوں، میرے اندر ایسی طاقت نہیں کہ ظلم کا بدلہ لے سکوں تو وہ کسی دوسرے کو اُکسا کر اپنے جذبۂ انتقام کو فرو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مجھے اِس بارہ میں ایک قریب کا تجربہ ہے۔ ہم ایک دفعہ موٹر میں جا رہے تھے کہ ایک پولیس افسر نے ہمارے ڈرائیور کو دِق کیا۔ میرے خیال میں بھی اُس افسر کا رویہ ناجائز تھا۔ کیونکہ بعض باتیں مَیں نے خود دیکھی تھیں اور مَیں سمجھتا تھا اُس افسر نے دیانتداری سے کام نہیں لیا۔ مگر ایک ڈرائیور کی یہ طاقت کہاں ہوتی ہے کہ وہ انسپکٹر کا مقابلہ کرسکے۔ پولیس افسر نے جب اُسے ناجائز طور پر دِق کیا تو اُسے بہت غصہ آیا کیونکہ اُس پر ناجائز الزام لگایا گیا تھا اور مَیں بھی اِس بات کا گواہ تھا مگر وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا اور اپنی کمزوری کی وجہ سے اُس افسر کے مقابلہ میں کچھ کہہ نہ سکا۔ کچھ دور جانے کے بعد اسی افسر نےایک اَور موٹر والے کو اِسی طرح دِق کیا۔ اُس موٹر میں ایک کرنیل سوار تھا۔ ہم بھی اُس وقت اُسی جگہ سے گزر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر موٹر ڈرائیور مجھے کہنے لگا آپ مجھے اجازت دیں کہ مَیں اِس جگہ موٹر ٹھہرا کر اس کرنیل سے تھوڑی دیر کے لیے بات کرلوں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تمہارا اُس سے کیا واسطہ؟ مگر وہ کہنے لگا آپ اجازت دے دیں۔ یہ پولیس افسر اِسی طرح دِق کیا کرتا ہے اور اِس کا علاج کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ میری اجازت پر اُس نے کرنیل کی گاڑی کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کر لی جس پر اُسے بھی ٹھہرنا پڑا اور پھر اُس نے نیچے اُتر کر کرنیل کو خوب اکسایا کہ یہ افسر اِسی طرح ہر موٹر ڈرائیور کو دِق کیا کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کرنیل نے منزل پر پہنچ کر پولیس افسر کو خوب گالیاں دیں۔ تو دیکھ لو اُس نے اپنا بدلہ لیا۔ مگر اِس رنگ میں کہ ایک طاقتور شخص کو اُس نے دوسرے کے خلاف اکسا دیا۔اس میں خود یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ ظالم افسر سے بدلہ لے سکتا مگر چونکہ وہ ہوشیار تھا اِس لیے اس نے انتقام لینے کا یہ طریق سوچا کہ کسی طاقتور شخص کو اُس کے خلاف بھڑکا دوں۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور اپنا انتقام اس افسر سے لے لیا۔
اِسی طرح اگر اِس قسم کے فساد جاری رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جرمنی اور جاپان وغیرہ سے کوئی امریکہ سے مل جائے گا، کوئی روس سے مل جائے گا، کوئی انگریزوں سے مل جائےگا اور جس طرح درباری خوشامدیوں کا طریق ہوتا ہے وہ بات بات پر کہیں گے کہ دیکھیے آپ کے فلاں کام میں امریکہ نے دخل دے دیا حالانکہ امریکہ کا کیا حق تھا کہ وہ اِس میں دخل دیتا۔ امریکہ کو کہیں گے فلاں کام میں انگریزوں نے مداخلت کردی ہے حالانکہ انگریزوں کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ مداخلت کرتے۔ اِسی طرح کوئی پارٹی روس سے جا ملے گی اور اُسے انگریزوں اور امریکنوں کے خلاف اکساتی رہے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ فساد کی روح بڑھ جائے گی اور پھر دنیا ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔ یہ خیال کرنا کہ اتحادی جس طرح آج مل کر لڑ رہے ہیں۔ اِسی طرح ہمیشہ ان میں اتحاد رہے گا بیوقوفی کا خیال ہے۔ اگر فتنہ وفساد کی اِس روح کو کچلا نہ گیا اور مفتوح قوموں کی مختلف پارٹیاں امریکہ اور روس اور انگلستان سے جا ملیں اور ان طاقتوں کو اُنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف اکسانا شروع کردیا تو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرے گا کہ آپس میں اختلاف شروع ہوجائے گا۔ اور جب سیاسی معاملات میں حکومتوں کا آپس میں اختلاف شروع ہوتا ہے تو اُس وقت کچھ لوگ تو سنجیدگی سے معاملات پر غور کرتے ہیں مگر کچھ جوشیلے لوگ ہوتے ہیں وہ اُسی وقت مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں ملک کے لوگوں کی کیا طاقت ہے کہ ہمارے مقابلہ میں اٹھ سکیں۔ ہم کل تک ان کی مدد کرتے رہے تھے اور آج وہ ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس میں سرپھٹول شروع ہوجاتی ہے۔
حقیقی امن ہمیشہ دل کی صفائی سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب تک ایسے طریق اختیار نہیں کیے جائیں گے جو امن کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے والے ہوں اُس وقت تک محض جنگ کی علامات کو دبا دینا قطعاً کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔ ہم اِس بات کے قائل ہیں کہ مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم انجیلی تعلیم کی طرح ہرگز اِس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف دوسری گال بھی پھیر دینی چاہیے۔ 2 مگر ہم اِس کے ساتھ ہی اِس بات کے بھی قائل ہیں کہ سزا میں محبت کا جذبہ ہونا چاہیے۔ عداوت اور بغض اور کینہ سزا دیتے وقت دل کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جب حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں سے کہا کہ خدا محبت ہے 3 تو درحقیقت اُنہوں نے سچ کہا اور اُنہوں نے اِسی نظریہ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ عفو اور سزا دونوں کی بنیاد محبت پر ہونی چاہیے۔ جب تم عفو کرو تب بھی محبت اس کا باعث ہو اور جب تم کسی قصور پر مجرم کو سزا دو تب بھی اس کا باعث صرف محبت ہو۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ تم محبت سے عفو کرو یا محبت سے سزا دو۔ محبت ہی اصل چیز ہے۔ اور یہی تمہارے تمام کاموں کی بنیاد ہونی چاہیے۔ جب تم سزا دو تب بھی اصلاح مدنظر رکھو اور جب تم عفو سے کام لو تب بھی اصلاح مدنظر رکھو۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ۔4 پس اسلام سزا میں بھی اصلاح کا پہلو مدنظر رکھتا ہے اور عفو میں بھی اصلاح کا پہلو مدنظر رکھتا ہے۔ گویا اسلام میں عفو بھی اُس وقت تک جائز نہیں جب تک جذبۂ محبت اور جذبۂ اصلاح عفو کے پیچھے کام نہ کررہا ہو۔ایک شخص کسی جگہ ڈاکہ ڈال کر آتا ہے اور وہ اِس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اُسے سزا دی جائے مگر وہ افسر کی خوشامد شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے معاف کر دیا جائے۔ اُس وقت اگر وہ افسر یہ جانتے ہوئے اُسے معاف کر دیتا ہے کہ اگر مَیں نے اسے معاف کیا تو یہ یہاں سے اٹھتے ہی کسی اَور جگہ ڈاکہ ڈالے گا اور لوگوں کا مال و اسباب لُوٹ لے گا اور اُن کی جانوں کو نقصان پہنچائے گا تو اُس کا عفو بزدلی کی علامت ہوگا، کمزوری کی علامت ہوگا، ناجائز خوشامد کا نتیجہ ہوگا جس سے وہ اپنی جبلّی طبیعت کے ماتحت متاثر ہوا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اُس نے جذبۂ محبت کے ماتحت عفو سے کام لیا ہے کیونکہ اُس نے عفو اصلاح کی وجہ سے نہیں کیا، محبت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اُس نے عفو بزدلی کی وجہ سے کیا، اُس نے عفو خوشامد کی وجہ سے کیا اُس نے عفو طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے کیا۔ لیکن اگر وہ اِس لیے دوسرے کو معاف کرتا ہے کہ اُس کی اصلاح ہو چکی ہے تو اُس کے متعلق بے شک یہ کہا جاسکے گا کہ اُس نے جذبۂ محبت کے ماتحت دوسرے کو معاف کیا۔
پس ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ عفو بھی جذبۂ اصلاح کے ماتحت ہونا چاہیے اور سزا بھی جذبۂ اصلاح کے ماتحت دینی چاہیے۔ اور چونکہ جنگ کے حالات ایسی صورت اختیار کر رہے ہیں جب یہ خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے کہ اتحادی اپنی فتح اور غلبہ کے گھمنڈ میں مفتوح اقوام پر ناجائز دباؤ نہ ڈالیں اور اُنہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرکے ایک نئی جنگ کی بنیاد نہ رکھ دیں اِس لیے ہماری جماعت کو آجکل خصوصیت سے یہ دعائیں کرنی چاہییں۔ اللہ تعالیٰ اتحادیوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ انصاف سے کام لیں اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو امن کو برباد کرنے والا یا آئندہ کسی نئی جنگ کی آگ میں دنیا کو جھونکنے والا ہو۔ ہم ذاتی طور پر بھی یہ پسند نہیں کرسکتے کہ یہ جنگ ایسی صورت میں ختم ہو کہ پھر ایک نئی جنگ کی ابھی سے بنیاد قائم ہوجائے۔ ہم نے اِس جنگ کے لیے بہت بڑی قربانیاں کی ہیں اور ہماری خواہش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو فتح دے اور اس کے ساتھ ہی انہیں اِس بات کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں اور ناجائز دباؤ ڈال کر لوگوں کے دلوں میں بُغض و عداوت کی آگ کو نہ بھڑکائیں۔ جہاں تک لڑائی کا سوال ہے ہمیں اِس بات کا یقین ہے کہ جرمنی وغیرہ ظالم تھے اور انہوں نے بِلاوجہ جنگ کی۔ اِسی بناء پر ہم انگریزوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور اِن کی کامیابی کے لیے ہم نے دعائیں بھی کیں۔ لیکن اِس کے مقابلہ میں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رویہ اختیار کیا گیا جس کے آثار ابھی سے ظاہر ہو رہے ہیں تو یہ لڑائی جاری رہے گی۔ چاہے جرمنی اور جاپان مقابلہ میں نہ کھڑے ہوں۔ مگر اَور کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں وغیرہ کو لڑائی کے لیے آگے آنا پڑے گا۔ بے شک لڑنے والے ہاتھ اَور ہوں گے مگر وہی بم ہوں گے جو آجکل استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہی جہاز ہوں گے جن سے آجکل کام لیا جاتا ہے۔ وہی توپیں اور مشین گنیں ہوں گی جن سے آجکل ہلاکت برپا کی جاتی ہے اور پھر دنیا ایک ہولناک تباہی کے کناروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ اِتنی بڑی لڑائی اور اِتنی بڑی خونریزی کے بعد جو موجودہ جنگ میں ہوئی ہے جلد ہی دنیا کا ایک اَور جنگ کے لیے تیار ہو جانا ایک ایسا خیال ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتا ہے۔ اِس لیے خدا تعالیٰ کے حضور ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہییں کہ اللہ تعالیٰ اتحادیوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ صرف لڑائی کی علامات کو ہی نہ دبائیں بلکہ لڑائی کے اسباب کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اِس جنگ کے بعد اتحادیوں نے اپنی غلطی سے لڑائی کے حقیقی اسباب کو دور کرنے کی کوشش نہ کی اور مفتوح قوموں پر ناجائز دباؤ سے کام لیا تو جلد یا پندرہ بیس سال کے بعد جب ہم میں سے بہت سے لوگ چل بسے ہوں گے پھر ہماری اولادوں کو ایک نئی مصیبت پیش آئے گی۔پھر انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پھر انہیں لوگوں کے سامنے لیکچر دینے پڑیں گے کہ جاؤ اور میدانِ جنگ میں اپنی جانیں قربان کرو۔ جاؤ اور اپنے آپ کو قوم اور ملک کی حفاظت کے لیے فنا کر دو۔ آخر وہ کیوں اپنی جانیں قربان کریں اور کیوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں۔ اگر کسی نہ کسی رنگ میں اِس قربانی سے محفوظ رہ سکتے ہوں۔ بے شک جب مصیبت سر پر آ جاتی ہے اُس وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے انسانوں کو تیار ہونا پڑتا ہے لیکن اگر کسی آنے والی مصیبت کو روکا جاسکے، اگر حکمت عملی سے کام لے کر تباہی کے دروازہ کو بند کیا جاسکے تو وجہ کیا ہے کہ ابھی ایک نسل اپنی قربانی سے فارغ بھی نہیں ہوئی کہ پھر پھانسی کا پھندا دوسری نسل کے لیے تیار ہوجائے۔ پھر گولیاں اُن کے سینہ کو چھلنی کرنے کے لیے تیار ہونی شروع ہو جائیں اور پھر تباہی اُور بربادی ان کو اپنا لقمہ بنانے کے لیے منہ کھولے کھڑی ہو۔ پس اگر اس تباہی کو روکا جاسکتا ہو تو ہمارے لیے اِس کا روکنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل اِس مصیبت سے محفوظ رہے اور اسے اپنی جانوں کی قربانی نہ کرنی پڑے۔ مگر یہ کام ایسا ہے جس کو سرانجام دینے کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہم دوسروں کو صرف نصیحت کرسکتے ہیں اور یا پھر اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے فاتحین کی آنکھیں کھولے، ان کے دماغوں کو روشنی بخشے، ان کے دلوں کو ہر قسم کے بُغض اور کینہ سے پاک کرے اور ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ پھر کسی تیسری جنگ کی بنیاد اپنے ہاتھوں نہ رکھ دیں۔ تا ایسا نہ ہو کہ بیس پچیس سال کے بعد پھر قومیں ایک دوسری سے برسرپیکار ہوں اور پھر دنیا ہلاکت کے گڑھے میں گر جائے۔ جس طرح پہلی جنگ سے اس دوسری جنگ میں بہت زیادہ خونریزی ہوئی ہے۔ اِسی طرح یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر اِس جنگ کے بعد تیسری جنگ ہوئی تو وہ اِس دوسری جنگ سے بہت زیادہ خطرناک ہوگی۔
یہ خیال بھی کسی قوم کے افراد کو اپنے دلوں میں نہیں لانا چاہیے کہ جب ہم لوگوں سے توپیں چھین لیں گے، تلواریں چھین لیں گے، ہوائی جہاز چھین لیں گے، بم چھین لیں گے، اِسی طرح ان کی فیکٹریوں اور کارخانوں وغیرہ پر قبضہ کر لیں گے تو اِس کے بعد لڑائی کے لیے ان کے پاس کونسی چیز باقی رہ جائے گی۔ کیونکہ ایجادات کا سلسلہ دنیا میں جاری ہے اور اِس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر ان ہتھیاروں کو چھین لیا گیا تو اِس کے بعد لڑائی کے لیے کسی نئی چیز کی ایجاد نہیں ہوسکے گی۔ گزشتہ جنگ میں توپوں کی کثرت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ اگر کسی قوم سے توپیں لے لی جائیں تو وہ لڑائی کے ناقابل ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد ہوائی جہاز نکل آئے۔ اور اب موجودہ جنگ میں تو فلائنگ بم کی ایجاد سے خطرہ بہت بڑھ گیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ایک خطرناک ایجاد ہے جو نبی نوع انسان کو توپوں اور ہوائی جہازوں سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جب آج تک ایجادات کا سلسلہ جاری رہا اور جنگ کے اسلحہ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو کسی کو کیا پتہ کہ کل کوئی ایسی گیس نکل آئے جس کا لوگوں کو علم بھی نہ ہو اور وہ آناً فاناً اُن کو ہلاک کردے۔ پس یہ بالکل احمقانہ بات ہوگی اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ فلاں ملک کو ہم نے مغلوب کر لیا ہے، وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے، چند لاکھ اُس کی آبادی ہے، ہتھیار اُس سے چھین لیے گئے ہیں اور اب وہ ہمارے خلاف لڑائی کے لیے کبھی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ جب دلوں میں بُغض اور کینہ موجود ہو اور لوگوں کے اندر یہ احساس ہو کہ ہم نے دوسری قوم سے انتقام لینا ہے تو وہ ایسے ہتھیار ایجاد نہیں کرتے جن کے کارخانے لوگوں کو نظر آتے ہوں۔ بلکہ وہ اِس قسم کے ہتھیاروں کے بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں جن کے کارخانے نظر نہیں آتے اور اِس طرح باوجود ہتھیار بنانے کے وہ پکڑے نہیں جاتے۔ پس ممکن ہے جب مغلوب اقوام یہ دیکھیں کہ ہمیں ایسے ہتھیار بنانے نہیں دیئے جاتے جن کے کارخانے نظر آتے ہوں تو وہ کہیں آؤ ہم ایسی گیسیں دریافت کرنے میں لگ جائیں جو ملک کے ملک کو ایک لمحہ میں فنا کر دیں۔ پچھلی ایجادات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں ایجادات کا وسیع سلسلہ رکھا ہوا ہے۔ پس ممکن ہے اِس غصہ اور بُغض اور کینہ کے نتیجہ میں کوئی قوم کسی خطرناک گیس کے تیار کرنے میں کامیاب ہوجائے جو ملکوں کے ملک ایک آن میں تباہ کرسکتی ہو۔ اور اگر ایسی گیس ایجاد ہوگئی تو پھر سوائے اِس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ ایک دن جب دنیا سو کر اُٹھے گی تو آدھی دنیا فنا ہو چکی ہوگی اور آدھی دنیا خوف سے کانپ رہی ہوگی۔ پس یہ ایک خطرناک رَو ہے جس کو روکنا ہماری جماعت کے لیے نہایت ضروری ہے اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اِن دنوں خصوصیت سے اُسی طرح دعائیں کریں جس طرح میری ہدایت کے ماتحت وہ اِس جنگ کے شروع میں دعائیں کرتے رہے ہیں۔ پہلے میری ہدایت یہ تھی کہ جماعت کے دوست یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں اور اُن کے ساتھیوں کو موجودہ جنگ میں فتح دے۔ اُن دعاؤں کے نتیجہ میں یہ فتح خدا تعالیٰ کے فضل سے آ چکی ہے۔ مگر اب ہمارے لیے یہ دعائیں کرنا نہایت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں اور اُن کے ساتھیوں کو ایسی فتح عطا فرمائے جس کے نشہ میں مخمور ہوکر وہ کوئی ایسی بنیاد قائم نہ کردیں جس کے نتیجہ میں پھر جنگیں ہوں، پھر لڑائیاں ہوں، پھر مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوں۔ بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں حاصل ہیں اور وہ اگر چاہے تو اپنے فضل سے اِس مشکل مرحلہ کو بھی طے کرسکتا ہے۔ جہاں تک اِس جنگ کے متعلق مجھے رؤیا ہوئے ہیں اور جہاں تک قرآن کریم اور احادیث کی پیشگوئیوں کا تعلق ہے اُن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس بات کا سخت خطرہ ہے کہ اِس دوسری جنگ کے اختتام پر تیسری جنگ کی بنیاد ڈال دی جائے گی اور وہ تیسری جنگ اِس دوسری جنگ سے زیادہ خطرناک ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ہماری دعا اُس سے یہی ہے کہ وہ لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرے اور اِنہی دو جنگوں کو لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی سمجھ لے۔ لیکن اگر اُس کی مشیّت کے ماتحت ایک تیسری جنگ بھی آنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس وقت تک ہماری جماعت کو اِتنی طاقت عطا فرما دے کہ وہ آنے والی جنگ کے بداثرات ہمیشہ کے لیے دور کر سکے"۔(الفضل2؍جنوری 1945ء)


36
دنیا کی آٹھ بڑی بڑی زبانوں میں تراجم قرآن کریم اور دوسرا تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی سکیم
(فرمودہ 20؍ اکتوبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اسلحہ کی جنگوں میں بعض وقت جبری تعطل آتے ہیں اور بعض وقت عارضی صلح کے ذریعہ ضرورۃً تعطل قائم کیا جاتا ہے۔ عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے اُس کی ایک غرض تو یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنے اپنے مُردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو اُٹھا لیں۔ اور جبری تعطل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنی اپنی طاقتوں کو مجتمع کر لیں اور ہمتوں کو استوار کر لیں۔ پس عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے اُس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنے اپنے مُردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو مستشفٰی میں پہنچا سکیں۔ اور جو تعطل جبری طریق سے پیدا ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقتوں کے مجتمع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے دن اور رات بنائے ہیں۔دن کو لوگ لڑتے ہیں اور رات کے وقت تاریکی کی وجہ سے آپ ہی آپ لڑائی کا بیشتر حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ آجکل بے شک ایسے ذرائع نکل آئے ہیں جن سے مصنوعی روشنی پیدا کرکے حملے کیے جاتے ہیں۔ مگر یہ مصنوعی روشنی ہر رات استعمال نہیں کی جاسکتی اور نہ ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور باوجود ان ذرائع کے رات کو پھر بھی ہر ایک فریق غنیمت سمجھتا ہے تاکہ فریقین آرام کرسکیں اور اپنی اپنی طاقتوں کو بحال کر لیں۔ خاص خاص ایام میں اور خاص خاص حملوں کے موقع پر جبکہ ایک فریق لمبی تیاری کے بعد حملہ آور ہوتا ہے اُس وقت بے شک رات کو بھی جنگ جاری رہتی ہے ورنہ عام طور پر صرف دن کو ہی لڑائی لڑی جاتی ہے۔ رات کے وقت تھوڑے تھوڑے سپاہی خبر رسانی کے طور پر کام کرتے ہیں تاکہ اگلے پچھلے حالات کا علم ہوتا رہے۔ یا بعض دفعہ چھاپہ بھی مارا جاتا ہے مگر فوج کے بیشتر حصہ کو آرام کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی طاقت کو بحال کرکے دن کی لڑائی کے لیے تیار ہوجائے۔ اگر اللہ تعالیٰ رات کو پیدا نہ فرماتا تو بعض مجنون دشمن دن اور رات لڑائی جاری رکھ کر خود بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کر لیتے اور مدِّمقابل کو بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کرا دیتے۔ جس طرح یہ اسلحہ کی جنگ میں ہوتا ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ تبلیغی جنگوں میں بھی وقفوں کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ مثلاً یہی جنگِ عظیم جو ہو رہی ہے یہ 1939ء میں شروع ہوئی تھی اور اِس وقت تک اِس کو شروع ہوئے پانچ سال گزر گئے ہیں۔ اِس جنگ کی وجہ سے تبلیغ کے رستے رُکے ہوئے ہیں۔ سوائے لڑائی کے کاموں کے عام سفر کے لیے جہاز بند ہیں۔ حکومتیں پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی ہیں کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ ہمارے ملک کا آدمی باہر جاکر کہیں نقصان کا موجب نہ ہو۔اِس وجہ سے ہماری تبلیغ پانچ سال سے بیرونی ممالک میں رُکی پڑی ہے۔ بعض جگہ جہاں جنگ سے پہلے کے مبلغ موجود ہیں، وہ پھیل نہیں سکتے اور لٹریچر نہ پہنچا سکنے کی وجہ سے ہم بھی اُن کی زیادہ مدد نہیں کرسکتے۔ کیونکہ پارسلوں کا جانا آنا بند ہے۔ بہت ہی تھوڑی تعداد میں پارسل جاسکتے ہیں۔ گویا خدا تعالیٰ نے پانچ سال کی رات ہم پر نازل فرمائی ہے تاکہ تحریک جدید کی تیاری میں موقع مل سکے۔ اگر لڑائی کی وجہ سے یہ وقفہ پیدا نہ ہوتا تو جماعت کے بعض ایسے احباب جو نچلا بیٹھنا نہیں جانتے شور مچانا شروع کر دیتے کہ تحریک جدید کو شروع ہوئے اتنے سال گزر گئے اور کام شروع نہیں ہوا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا منہ بند کرنے کے لیے ایسا سلسلہ شروع کردیا کہ وہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہاں جی حالات ہی ایسے ہیں کہ ان حالات میں کام ہو ہی نہیں سکتا۔ پس یہ اتنا لمبا عرصہ خدا تعالیٰ نے ہمیں تیاری کے لیے دیا ہے تاکہ ہم اپنی طاقت کو جمع کر لیں۔ لیکن اب یہ عرصہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ جنگ ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ کوئی نہ کوئی فریق بلکہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ محوری طاقتیں ہتھیار ڈالنے اور اتحادیوں کی اطاعت قبول کر لینے پر مجبور ہو جائیں گی۔ اِس کے بعد چھ سات ماہ یا سال تک رستے کُھل جائیں گے اور عام آمدورفت جاری ہوجائے گی۔
اِس عرصہ میں ہم نے مبلغ تیار کرنے اور ریزرو فنڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مادی کوششوں کے لحاظ سے ہماری کوشش بہت محدود ہے۔ عیسائیوں کی کروڑ کروڑ، دو دو کروڑ روپے کی ایک ایک انجمن ہوتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ہمارا دس پندرہ لاکھ روپے کا ریزرو فنڈ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ بلکہ اِس میں مشنوں کے سامانوں کو دیکھتے ہوئے ساری دنیا تو الگ رہی ایک ایک ملک میں بھی دس پندرہ لاکھ کی کوئی حقیقت نہیں۔ مگر بہرحال جس خدا نے ہمیں اِتنی طاقت دی ہے کہ دس پندرہ لاکھ ریزرو فنڈ اکٹھا کریں۔ وہ اِس سے زیادہ کی بھی طاقت دے گا۔ مگر جس طرح دنیا کی جنگ کے لیے تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح دین کی جنگ کے لیے بھی تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر شخص اِس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ مبلغ بن سکے۔ جب تک وہ اسلامی مسائل اور علومِ دینیہ سے اچھی طرح واقف نہ ہو۔ جو اِن باتوں سے ناواقف ہوگا وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی تباہی جن وجوہ کی وجہ سے ہوگی ان میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ ایسے لوگ غالب ہوں گے جو علومِ دین سے ناواقف ہونے کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔1 اگر ہم بھی اِسی قسم کے مبلغ باہر بھیج دیتے جو دینی علوم سے واقف نہ ہوتے تو وہ اصلاح کرنے کی بجائے خرابی پیدا کرنے کا موجب ہوتے۔ اِس لیے ضروری تھا کہ جن کو تبلیغ کے لیے باہر بھیجا جائے، اُن کو علومِ دینیہ پر عبور حاصل ہو۔ یہ ہماری نئی کوشش تھی۔ سامان تھوڑے تھے، ذرائع کم تھے اور تجربہ کوتاہ تھا۔ اِس میں ہم نے شروع شروع میں غلطیاں بھی کیں۔ جن کی وجہ سے جو کام دوسال میں ہوسکتا تھا۔ اُس پر چار سال صَرف ہوئے مگر بہرحال خدا کے فضل اور کرم سے ایک جماعت تیار ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے جو علومِ دینیہ سے واقف ہے۔ اور اِنْشَاءَ اللّٰہُ ایک دو سال تک اِس جماعت کے طلباء پورے عالم ہو جائیں گے اور ہم اُن کو باہر تبلیغ کے لیے بھیج سکیں گے۔ مگر جتنے مبلغ تیار ہوں گے اُن کا اور اُن کے لیے تبلیغ کے سامان مہیا کرنے کا تمام بوجھ ہمارا موجودہ ریزرو فنڈ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن جس خدا نے آج تک ہماری مدد فرمائی ہے اُس پر ہمیں وثوق ہے کہ وہ آئندہ بھی ہماری مدد فرمائے گا اور جو کمیاں اور خامیاں ہمارے کام میں رہ جائیں گی اُن کو اپنے فضل سے پورا کردے گا اور جماعت کو بھی اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق بخشے گا۔
جُوں جُوں وہ دِن نزدیک آتا جا رہاہے کہ اسلحہ کی جنگ ختم ہو اور تبلیغ کی جنگ شروع ہوجائے ہمارے لیے فکر کا موقع بھی بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ ابھی ہم نے بہت سا رستہ طے کرنا ہے۔ ایسی زبانیں جو دنیا میں کثرت سے رائج ہیں اور اُن ممالک کے علاوہ جن کی وہ مادری زبانیں ہیں دوسرے مختلف ممالک میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں نو زبانیں ہیں۔
ان میں سے ایک زبان عربی ہے جو سب سے زیادہ غیر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بعض ممالک ایسے ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں تھی مگر اب وہاں پر عربی ہی مادری زبان کے طور پر رائج ہے اور یہ زبان اپنے ملک سےنکل کر غیرممالک میں پھیل گئی ہے اور کثرت سے ان ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اِس قسم کی دوسری زبان انگریزی ہے۔ یہ زبان بھی اُس ملک کے علاوہ جس کی یہ مادری زبان ہے دوسرے ممالک میں رائج ہے اور کروڑوں کروڑ انسان یہ زبان بولتے اور سمجھتے ہیں۔
اِس قسم کی تیسری وسیع زبان روسی ہے۔ روس کی سلطنت بہت وسیع ہے جو ایشیا کے مشرقی کنارے سے لے کر یورپ کے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی ہے۔اِس کی حکومت کے کنارے سمندر کے واسطہ سے ایک طرف جاپان سے ملتے ہیں اور دوسری طرف چین کی سرحد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے ہیں۔ چین کا ملک بہت وسیع ملک ہے مگر باوجود اِس کی وسعت کے روس کی سرحد اِس کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ چین کا ملک ختم ہو جاتا ہے۔ اُس سے آگے پھر روس کی سرحد افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں سے ٹکراتی ہوئی اِن دونوں ملکوں کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ پھر ایران کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر ٹرکی کا ملک شروع ہوتا ہے اور روس کی سرحد اُس کے ساتھ ساتھ بھی چلتی ہے۔ اِس کے بعد اصلی روسی ملک کے ایک طرف فِن لینڈ ہے، پھر پولینڈ ہے، زیکوسلواکیہ اور رومانیہ سے بھی اس کی سرحدیں ٹکراتی ہیں۔ غرض یہ اِتنا وسیع ملک ہے کہ دنیا کی آٹھ حکومتوں کے ساتھ اِس کی سرحدیں ملتی ہیں۔صرف تھوڑی تھوڑی جگہ سے نہیں بلکہ بڑی لمبائی تک ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اِتنے بڑے وسیع ملک کی زبان بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔
اِس قسم کی چوتھی زبان جرمن ہے۔ اِس زبان کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ جرمن بڑے علمی لوگ ہیں۔ ہم ان کے کتنے ہی عیوب بیان کریں مگراِس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ جرمن لوگ علوم کو علوم کی خاطر حاصل کرتے ہیں۔ علوم کی خاطر جو جدوجہد جرمنوں نے کی ہے اِس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔ دوسری قومیں رسوخ اور اثر پیدا کرنے کی خاطر علمی جدوجہد کرتی ہیں مگر جرمن لوگ علم کو علم کی خاطر کرتے ہیں۔ اِس لیے اعلیٰ علوم کی خاطر جرمن زبان کا جاننا ضروری ہے۔ مثلاً سائنس کے علم میں جرمنوں نے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ جدوجہد اور بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اس لیے جب تک جرمن زبان نہ سیکھی جائے سائنس کے اعلیٰ علوم سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یہ زبان بھی بہت اہمیت رکھنے والی ہے۔
پانچویں زبان فرانسیسی ہے۔ یہ زبان اِس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ پرانے زمانہ میں یورپ کی عام زبان فرانسیسی تھی۔ جس طرح ہندوستان میں اُردو ہے۔ ہندوستان میں جہاں تامل زبان بولی جاتی ہے وہاں اردو بھی سمجھی جاتی ہے، جہاں اڑیا زبان بولی جاتی ہے وہاں اُردو بھی سمجھی جاتی ہے، جہاں مرہٹی زبان بولی جاتی ہے وہاں اُردو بھی سمجھی جاتی ہے، جہاں گجراتی زبان بولی جاتی ہے وہاں اردو بھی سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح یورپ کے تمام ممالک انگلستان، اٹلی اور سپین وغیرہ میں جہاں اپنی اپنی زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان بھی سمجھی جاتی ہے اور اِس زبان کے ذریعہ کئی معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ یورپ کے ملکی تعلقات اور معاملات میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ انگریزوں کے بعد فرانس ہی ایک ایسا ملک ہے جس کا دوسرے کئی ممالک پر اثر ہے اور اِس کی نوآبادیات کثرت سے باہر پھیلی ہوئی ہیں۔ شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ کا ایک حصہ اس کی نوآبادیات میں شامل ہے۔ پھر بحرہند کے کئی جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے۔ چین تک اس کی نوآبادیات پھیلی ہوئی ہیں۔ امریکہ کے پاس بھی بعض جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے۔ پس پانچویں وسیع اثر رکھنے والی زبان فرانسیسی ہے۔
اِس قسم کی چھٹی زبان اطالوی ہے۔ اِس زبان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یورپ کی علمی اصطلاحات لاطینی سے تیار کی جاتی ہیں اور لاطینی زبان ماں ہے اطالوی زبان کی۔ بیٹی اپنی ماں سے الگ نہیں ہوتی بلکہ ماں کا اثر ضرور اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس لیے لاطینی اصطلاحات کے لیے اطالوی زبان کا جاننا ضروری ہے۔ اِسی طرح مسیحیت کا مرکز ہونے کی وجہ سے پادریوں کے ذریعہ سے اطالوی زبان ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ مزید برآں اطالوی نسل بڑی جلدی جلدی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے کئی کروڑ اطالوی نسل کے آدمی امریکہ میں جابسے ہیں۔ اِسی طرح اٹلی کی نَوآبادیات جن پر جنگ سے پہلے اٹلی کا قبضہ تھا اُن میں بھی اِس زبان کو سمجھا جاتا ہے۔ پھر مصر اور مشرقِ بعید کے علاقوں پر بھی اٹلی زبان کا اثر ہے کیونکہ وہاں بھی اٹلی کے لوگ تجارتوں اور دوسرے کاموں کی وجہ سے بہت پھیلے ہوئے ہیں۔پس یہ چھٹی زبان ہے جو نہایت اہمیت رکھنے والی ہے اور مختلف ممالک میں اِس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ساتویں زبان ڈچ ہے جو ہالینڈ کی زبان ہے۔سماٹرا، جاوا وغیرہ کے جزائر جن میں کئی کروڑ کی مسلمان آبادی ہے یہ لوگ ڈچ حکومت کے ماتحت ہیں اِن میں تبلیغ کرنے کے لیے ڈچ زبان کا جاننا ضروری ہے۔ اِن جزائر میں جتنے تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ سب ڈچ زبان جانتے ہیں اور اِس زبان کو سماٹرا، جاوا وغیرہ میں وہی اہمیت حاصل ہے جو ہندوستان میں انگریزی کو حاصل ہے۔ ہندوستان میں کئی تعلیم یافتہ لوگ ایسے ہیں جن کو اگر اردو رسالہ پڑھنے کو دیا جائے تو کہیں گے اگر کوئی انگریزی رسالہ ہو تو دیجیے۔ اپنی زبان اردو ہے مگر مانگیں گے انگریزی۔ اِسی طرح لمبی حکومت کی وجہ سے سماٹرا، جاوا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ڈچ زبان کو پسند کیا جاتا ہے اور مقامی زبان کو اس کے مقابلہ میں کم پسند کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں تبلیغ کرنے کے لیے اِس زبان کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے۔
آٹھویں زبان ہسپانوی ہے۔ ہسپانیہ تین چار کروڑ کا ملک ہے۔ افریقہ کی بہت سی آبادی کا اسلامی حصہ خصوصاً وہ مورش قوم جنہوں نے سپین پر حکومت کی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک سپین میں اسلامی حکومت کے علمبردار رہے ہیں۔ اُس کا بڑا حصہ ہسپانیہ کے ماتحت ہے اور وہاں کے علمی لوگ ملازمت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے اور حکام کے ساتھ تعلقات رکھنے کے لیے ہسپانوی زبان سیکھتے ہیں۔ اِسی طرح جنوبی امریکہ کا ایک حصہ بھی ہسپانیہ کے ماتحت تھا۔ اب وہ آزاد ہے مگر چونکہ ہسپانوی نسل وہاں آباد ہے اِس لیے ہسپانوی زبان وہاں بولی جاتی ہے۔ پس سپینش زبان جاننے کا نہ صرف ہسپانیہ میں تبلیغ کرنے کے لیے فائدہ ہوسکتا ہے بلکہ افریقہ کے بعض اسلامی ممالک میں بھی اور جنوبی امریکہ کے بیشتر حصہ میں بھی اِس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
نویں زبان پُرتگیزی ہے۔ پرتگیزی قوم کی باہر تو تھوڑی سی نَوآبادیات ہیں لیکن جنوبی امریکہ کی بعض حکومتوں کے ماتحت کثرت سے پُرتگیزی نسل آباد ہے۔ علاوہ ازیں پُرتگیزی قوم کی بھی نَوآبادیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں۔ اِس لیے اصل ملک کے علاوہ وہاں پر تبلیغ کرنے کے لیے بھی پرتگیزی زبان کا جاننا ضروری ہے۔
پس یہ نو زبانیں ہیں جو نہ صرف اپنے اپنے ملک میں بلکہ غیر ممالک میں جاکر بھی کام دیتی ہیں۔ اگر ہم دنیا میں تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمارے لیے اِن نو زبانوں کا جاننا اور اِن نو زبانوں میں لٹریچر مہیا کرنا ضروری ہے۔ عربی، انگریزی، روسی، جرمن، ڈچ، فرانسیسی، اطالین، ہسپانوی اور پرتگیزی۔ اگر ہم اپنے مبلغ اِن ممالک میں بھیجیں یا اُن ممالک میں بھیجیں جہاں یہ زبانیں بولی یا سمجھی جاتی ہیں یا وہاں کی علمی زبان ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہمارے مبلغ کے پاس جب تک اُس زبان میں لٹریچر نہیں ہوگا وہ مبلغ آسانی کے ساتھ وہاں تبلیغ نہیں کرسکے گا اور جلدی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ ایک دن میں ایک مبلغ یہی کرسکے گا کہ دو یا تین آدمیوں کو تبلیغ کر لے گا مگر تین یا چار یا دس کروڑ کی آبادی والے ملک میں روزانہ دو تین آدمیوں کو تبلیغ کرنے سے کیا بنے گا۔ پھر سال کے تمام دن کام کرنا مشکل ہے۔ کسی دن آدمی بیمار ہوتا ہے، کسی دن کسی اَور وجہ سے ناغہ ہو جاتا ہے۔ حسابی لوگوں نے سال میں اڑھائی سَودن کام کی اوسط لگائی ہے۔ اگر اِس کو بڑھا کر تین سَودن بھی کام کا شمار کر لیا جائے اور ایک مبلغ دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کرے تو اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ تین مبلغ سال بھر میں اٹھارہ سَو آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور ایک سَوسال میں ایک لاکھ اسّی ہزار آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور وہ بھی اِس طریق سے کہ ایک ایک آدمی کو صرف ایک ایک گھنٹہ تبلیغ ہوگی اور ہر روز نئے آدمی کو تبلیغ کی جائے تب اِتنی تعداد بنے گی۔ حالانکہ ایک گھنٹہ تبلیغ کرنے سے کیا بنتا ہے۔ ایک ایک آدمی کو سو سو گھنٹے تبلیغ کی جائے تب جاکر کہیں کامیابی ہوتی ہے۔ پس اگر صرف مبلغ کے ذریعہ تبلیغ پر اکتفا کیا جائے تو تین مبلغ اوسطًا دو دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کرکے سال بھر میں صرف اٹھارہ سَو آدمیوں کو تبلیغ کرسکیں گے۔ لیکن اگر ان کے پاس اس زبان کا لٹریچر ہو تو ایک مبلغ ایک دن میں ہزار آدمیوں کو تبلیغ کرسکتا ہے۔ وہ اس لٹریچر کو لائبریریوں میں رکھے گا، لوگوں میں تقسیم کرے گا۔پھر مشہور کتابیں بِک بھی جاتی ہیں وہ ان کو ایجنٹوں کی معرفت فروخت بھی کرے گا۔ پس اگر ملکی زبان کا لٹریچر پاس ہو تو مبلغ کامیاب طور پر تبلیغ کرسکتا ہے اور یہ طریقہ ایسا ہے جس کے ذریعہ سے دو تین یا چار مبلغ پانچ کروڑ کی آبادی کے ملک میں سال بھر میں کئی لاکھ آدمیوں کو کامیاب طور پر تبلیغ کرسکتے ہیں۔ گو پوری تبلیغ پھر بھی نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اتنی آبادی والے ملک کے لیے تو تین چار سو مبلغ کی ضرورت ہے۔ مگر بہرحال اِس طریق سے ایسی تبلیغ ہوسکے گی جسے نظر انداز نہ کیا جاسکے اور جو بااثر ہو۔ تین چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہمارے مبلغ ایک سال میں چار پانچ لاکھ آدمیوں تک لٹریچر پہنچا سکیں گے اور ہزاروں کے پاس فروخت کرسکیں گے اور اِس طریق سے ہماری تبلیغ اس ملک میں پھیل جائے گی۔
پس اگر ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور اس کا اچھا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے سامان پیدا کریں کہ جہاں ہمارے مبلغ جائیں اُن کے پاس اُس ملک کی مروّجہ زبان میں ایسا لٹریچر ہو جس کے ذریعہ اُس ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام کے اندر ہیجان پیدا کیا جاسکے۔
اِس غرض کو پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کے ترجمہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ جامع کتاب ہے جس میں تمام علوم اور سارے مضامین جمع ہیں۔ باقی کتابوں میں ایک ایک مضمون ہوتا ہے مگر یہ تمام مضامین کا مجموعہ ہے۔ پھر دوسری کتابوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہمیں زور لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر قرآن مجید اپنا زور آپ لگاتا ہے۔ ہر ملک کی زبان میں اگر اِس کا ترجمہ کردیا جائے تو جس زبان میں بھی اِس کا ترجمہ ہوگا اُس زبان کے جاننے والے لوگ بڑے شوق سے اسے لیں گے اور پڑھیں گے۔ دوسری کتابوں کے لیے ہمیں پروپیگنڈا کرنا پڑتا ہے مگر قرآن مجید کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اِس کا پروپیگنڈا ہو چکا ہے اور تیرہ سو سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ اِس لیے بڑی سہولت کے ساتھ یہ تمام دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ پس سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ آٹھ زبانوں میں کردیا جائے۔ عربی میں تو وہ پہلے ہی ہے۔باقی آٹھ زبانوں میں اِس کا ترجمہ ہونا ضروری ہے۔ انگریزی، روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالین، ڈچ، سپینش اور پرتگیزی۔اِن آٹھ زبانوں میں اگر قرآن مجید کا ترجمہ ہوجائے تو دنیا کے ہر گوشہ میں قرآن مجید پہنچ سکتا ہے اور ساری دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے سوائے چین اور جاپان کے۔ مگر یہ دونوں محدود زبانیں ہیں۔ چین میں چونکہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے اِس لیے وہاں عربی کام دے سکتی ہے۔ البتہ جاپان ایسا ملک ہے جو باہر رہ جائے گا۔ مگر وہ دنیا کا ہزارواں حصہ ہے۔ فِی الْحال اگر اِس کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ فوری طور پر ان آٹھ زبانوں میں تراجم شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اِن زبانوں میں ہمارے نقطہ نگاہ سے صحیح تراجم شائع ہو جائیں تو مبلغین آسانی سے اُس ملک یا اُس زبان کے جاننے والے علمی طبقہ تک پہنچ سکیں گے اور کہہ سکیں گے کہ آپ کی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ خرید کر یا فلاں لائبریری سے لے کر پڑھ لیں۔ انگریزی کا ترجمہ ہمارے ہاں دیر سے ہو رہا ہے۔گو افسوس ہے کہ کسی نہ کسی غلطی کی وجہ سے جو تراجم کے مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہوجاتی ہے اُس پُھرتی سے کام نہیں ہو رہا جس پُھرتی سے ہونا چاہیے۔ مگر بہرحال اِس کی پہلی جلد شائع ہو رہی ہے اور پریس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مارچ اپریل تک اِس کو مکمل کرکے دے دیں گے۔ ترجمہ سارے قرآن مجید کا ہو چکا ہے،ضروری نوٹ بھی قریباً سارے ہو چکے تھے مگر ان میں کچھ نقص رہ گیا تھا۔ اِس لیے اب مَیں دوبارہ اپنی ہدایات کے مطابق ان کی اصلاح کروا رہا ہوں اور وہ اصلاح پندرہ سولہ پارہ تک ہو چکی ہے۔ چنانچہ پہلی جلد کا کام ختم ہو چکا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے پریس والوں کا وعدہ ہے کہ مارچ اپریل تک چھاپ کر دے دیں گے۔
اب باقی سات زبانیں رہ جاتی ہیں۔ انگریزی زبان چونکہ بہت پھیلی ہوئی ہے اور اس میں بعض سہولتیں بھی میسر ہیں جو دوسری زبانوں میں میسر نہیں اِس لیے انگریزی ترجمہ کے ساتھ تفسیر بھی ہے۔ مگر باقی زبانوں میں اِس لمبے کام کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے حجم کا قرآن مجید مختصر نوٹوں اور ترجمہ کے ساتھ شائع ہوجائے تو کثرت سے لوگ خرید سکتے ہیں۔ انگریزی میں تو ہو چکا ہے۔ باقی سات زبانوں میں بھی اگر ترجمہ ہوجائے تو ساری دنیا میں قرآن مجید کی اشاعت ہوسکتی ہے۔ سوائے جاپان کے جس کو سرِدست اگر نظر انداز کردیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ وہاں مبلغ بھیجے جائیں گے تو ترجمہ کروا لیں گے۔ میری اِس سکیم کے ماتحت ساتوں زبانوں میں ترجمہ شروع کرا دیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ 1945ء کے نصف یا اُس کے آخر تک اِنْشَاءَ اللّٰہُ ساتوں زبانوں میں ترجمہ مکمل ہوجائے گا۔ پچھلے دنوں تار آیا تھا کہ ساتوں زبانوں میں تین تین پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد دو تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ اِس لیے چار یا پانچ پاروں تک ہو چکا ہوگا۔
اِس کے خرچ کا مَیں نے اندازہ کروایا ہے۔ چونکہ انگریزی ترجمہ کی نسبت سے یہ چھوٹا کام ہے کیونکہ لمبی تفسیر نہ ہوگی اِس لیے ایک ایک زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ پر چھ چھ ہزار روپیہ اوسطاً خرچ آئے گا اور سات ترجموں پر بیالیس ہزار روپیہ لگے گا۔ مَیں جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مستقل کام ہے جو صدیوں تک دنیا کی ہدایت کا موجب بننے والا ہے۔ پس اگر اِن سات تراجم کا خرچ مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں تو یہ چیز دائمی ثواب کا ذریعہ ہے۔ روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالین، ڈچ، ہسپانوی اور پرتگیزی یہ سات زبانیں ہیں۔مَیں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے ایک زبان کے ترجمہ کی رقم مَیں ادا کروں گا۔٭باقی چھ ترجمے رہ جاتے ہیں۔ ان چھ میں سے ایک ترجمہ کے لیے مَیں نے تجویز کیا ہے کہ سارے ہندوستان کی لجنہ مل کر ایک ترجمہ کا خرچ ادا کرے اور یہ ترجمہ جرمن زبان کا ہو۔ کیونکہ جرمنی میں مسجد کی تعمیر کا ارادہ بھی لجنہ ہی نے کیا تھا۔ باقی رہ گئیں پانچ زبانیں۔ مَیں سمجھتا ہوں خدا کے فضل سے قادیان کی آبادی اِتنی ہے کہ یہاں کی جماعت آسانی سے ایک ترجمہ کا خرچ ادا کرسکتی ہے۔ یہاں کی جماعت ہمیشہ اخلاص دکھانے میں آگے قدم رکھا کرتی ہے۔ قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع کے لیے ایک دن میں چوبیس ہزار روپیہ جمع ہو گیا تھا۔ اِس لیے چھ ہزار روپیہ جمع کرنا اِن کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ پس مَیں ایک ترجمہ کی رقم قادیان کی جماعت کے ذمہ لگاتا ہوں۔ باقی چار رَہ گئے۔ میرے نزدیک باقی چار ترجموں کی رقم چار شہروں کی جماعتیں یا افراد اپنے ذمہ لے لیں٭٭۔ مَیں ان جماعتوں کے نام نہیں لیتا بلکہ جماعتوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود آگے بڑھیں۔ جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اٹھانا چاہے وہ اکیلا اٹھا لے۔ جو چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہو وہ ایسا کر لے۔ جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ جماعت اس کا وعدہ کر لے۔ جو صوبہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ صوبہ اس کا وعدہ کر لے۔ مَیں اگر چاہتا تو سہولت سے بعض جماعتوں کے نام لے سکتا تھا مگر مَیں نہیں چاہتا کہ جماعتوں کا یا افراد کا ثواب ضائع کروں۔ ہاں اپنا حق مَیں مقدم سمجھتا ہوں کیونکہ تمام ذمہ داری مجھ پر ہے۔ اِس لیے ایک ترجمہ کی رقم مَیں نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ قادیان کا بھی حق ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے مُرسل کا مرکز ہے۔ اِس لیے مَیں نے اِس کا نام چُنا ہے۔ چُنا نہیں بلکہ اِس کے ثواب کو بچانے کے لیے کہ اِس کی جگہ کوئی اَور نہ لے لے مَیں نے قادیان کا نام لے دیا ہے۔ عورتیں بھی چونکہ بے زبان ہوتی ہیں اور اُن تک آواز پہنچنے میں دیر لگ جاتی ہے اِس لیے مَیں نے ان کا بھی نام لے دیا ہے۔ میرا حق تھا کہ اِس کام میں میرا حصہ ہو اِس لیے مَیں نے اپنا نام لے دیا ہے۔ قادیان کا حق تھا کہ اِس کام میں اِس کا حصہ ہو اِس لیے مَیں نے قادیان کا نام لے دیا ہے۔ عورتوں کا حق تھا کہ اِس کا م میں اِن کا حصہ ہو اِس لیے مَیں نے عورتوں کا نام لے دیا ہے۔ جن کے حقوق ظاہر تھے اُن کے نام مَیں نے لے دیے ہیں اور باقی چار٭ ترجموں کی رقم مَیں نے جماعتوں پر چھوڑ دی ہے۔ مختلف شہر یا صوبے، یا افراد اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے لیں اور یہ چندہ مارچ 1945ء کے آخر تک پہنچ جانا چاہیے۔ اِس وقت تک ہم نے تحریک جدید کے فنڈ سے رقم خرچ کی ہے جو تراجم کی رقوم وصول ہونے پر تحریک جدید کو واپس کردی جائے گی۔ اس لیے چندے اور وعدے بھی تحریک جدید کے نام آنے چاہییں یعنی اس کے فنانشل سیکرٹری کے نام۔ اس کے بعد چھپوائی کا سوال رہ جاتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اِن سات تراجم کی پانچ پانچ ہزار کاپیاں پندرہ پندرہ ہزار روپیہ میں چَھپ سکیں گی اور جماعت کے جوش اور اخلاص کو دیکھا جائے تو اس کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی رقم نہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں جس وقت تراجم مکمل ہو جائیں گے اُس وقت اِس پندرہ پندرہ ہزار روپیہ کی رقم کا ادا کرنا جماعت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
اِس کے بعد ہمارے مبلغوں کے پاس قرآن مجید کے علاوہ کچھ اَور لٹریچر ہونا بھی ضروری ہے جو مخصوص اور ضروری مسائل پر مشتمل ہو۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ ہمارے مبلغوں کے پاس ہونا چاہیے جسے وہ فروخت کرسکیں یا تحفۃً دے سکیں۔ اِس سیٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا ہونا ضروری ہے، تبرک کے طور پر اور اِس لحاظ سے بھی کہ حضور علیہ السلام کی کتب میں اِس زمانہ کی ضرورت کے مطابق تمام قسم کے علوم اور مسائل آ گئے ہیں۔ اِن میں سے ایک "اسلامی اصول کی فلاسفی" اور دوسری "مسیح ہندوستان میں" ہونی چاہیے۔ باقی دس رہ جاتی ہیں۔ ایک میری کتاب "احمدیت یعنی حقیقی اسلام" رکھ لی جائے۔ کیونکہ اِس میں بھی موجودہ ضروریات کے مطابق بہت سے مسائل آ گئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری یہ دو کتابیں بھی ضروری ہیں۔ ایک کتاب ترجمہ احادیث رکھی جائے۔ اِسی طرح پرانے اور نئے عہد نامہ میں سے‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں’’یہ مضمون بھی عیسائی ممالک میں اثر پیدا کرنے والا ہے۔ اِس لیے ایک کتاب اس مضمون پر مشتمل ہونی چاہیے۔ اِسی طرح پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید پر بھی ایک کتاب ہونی ضروری ہے جو تثلیث کی تردید کرے۔ الہامی لحاظ سے بھی اور پرانے اور نئے عہد نامہ کے حوالوں کی رو سے بھی۔ نظام نَو پر بھی ایک کتاب ہونی چاہیے آجکل کے لحاظ سے یہ مضمون بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ نو کتابیں بن جاتی ہیں۔باقی تین کتابوں کے متعلق بعد میں تصفیہ کر لیا جائے گا۔ یا تو پرانی کتابوں میں سے انتخاب کرکے سیٹ میں رکھ دی جائیں گی یا نئے مضامین مقرر کرکے ان پر کتابیں لکھوا لی جائیں گی۔ مَیں سوچ رہا ہوں کہ کس قسم کے مضامین ہونے چاہییں جو اثرانداز ہوں۔ باقی دوست بھی اِس کے متعلق مشورہ دیں۔ پس اِن بارہ کتابوں کا سیٹ آٹھ زبانوں میں تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ سیٹ عیسائی ممالک کے لیے ہے۔ عربی ممالک کے لیے اَور قسم کی کتابوں کا سیٹ تجویز ہونا چاہیے جو اُن کی ضرورت کے مطابق اور اُن کے مناسبِ حال مضامین والی کتابوں پر مشتمل ہو۔
اِس کے علاوہ چونکہ ہر شخص یہ کتابیں خرید کر نہیں پڑھ سکتا اور نہ ہی ہر ایک کو مفت دی جاسکتی ہیں ضروری ہے کہ اِن نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں جو چار چار صفحے سے لے کرسولہ سولہ صفحے تک کے ہوں۔ تاکہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہوسکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جاسکیں۔ ہمارے ملک میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ نہیں بکتے۔ لیکن عیسائی ممالک میں اِس قسم کے ٹریکٹ بِک بھی جاتے ہیں۔ مبلغ کو اجازت ہو کہ وہ ان ٹریکٹوں اور اشتہاروں کو جس قدر چاہے مفت تقسیم کرے اور جس قدر بِک سکیں بیچ دے۔پس اِس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہار بھی کثرت سے اِن نو زبانوں میں تیار کیے جائیں۔ کثرت سے چھپوانے پر کم خرچ ہوتا ہے۔ اگر ہم اوسطاً فی اشتہار آٹھ صفحہ کا سمجھیں اور چھپوائی کا اندازہ فی صفحہ دو روپے فی ہزار لگا لیں توسولہ سو روپیہ میں آٹھ صفحے کا ایک لاکھ اشتہار ایک زبان میں چَھپ سکتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ نو زبانوں میں ایک ایک لاکھ اشتہار چھپوانے پر ساڑھے چودہ ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ ممکن ہے یہ خرچ اَور بھی کم ہو کر دس ہزار تک آجائے۔ اور چالیس ہزار روپیہ میں ہم ہر ایک زبان کا چار چار لاکھ اشتہار شائع کرسکیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر میں اِتنے اشتہارات شائع کرکے ہم ایک سال میں چھتیس لاکھ انسانوں تک اپنا پیغام پہنچا دیں گے۔ بعض دفعہ ایک ایک اشتہار کو کئی کئی آدمی پڑھتے ہیں۔ اِس طرح یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی۔ لیکن اگر سال میں چھتیس لاکھ انسانوں تک بھی ہمارا پیغام پہنچ جائے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ ایک ایک روپیہ میں نوّے نوّے یا سو سو آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچ جائے گا۔ گویا اِتنی تبلیغ پر فی آدمی ایک پیسہ بھی خرچ نہ آئے گا۔
پس یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔ اول آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ، دوسرے نو زبانوں میں بارہ کتابوں کا سیٹ، تیسرے نو زبانوں میں مختلف چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہارات۔ شروع شروع میں ٹریکٹ تھوڑے تھوڑے چھپوا لیے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی اشاعت کو بڑھاتے چلے جائیں۔ جب اشاعت بڑھ جائے گی تو یہ ٹریکٹ اپنا خرچ خود نکالنے لگ جائیں گے۔ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ بڑی کتاب کی نسبت زیادہ بکِتے ہیں۔ اگر ایک ٹریکٹ ایک پیسہ میں بھی فروخت ہوجائے تو کافی خرچ نکل سکتا ہے۔ مگر پیسہ کا رواج صرف ہمارے ملک میں ہے انگریزی ممالک میں کم از کم سکّہ ایک آنہ ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ایک ٹریکٹ ایک ایک آنہ میں فروخت کیا جائے تو ہزاروں کی آمدنی ہوسکتی ہے اور اِس آمدنی سے اَور اشتہارات چھپوائے جاسکتے ہیں۔
پس یہ ایک ایسی سکیم ہے جو تبلیغ کو کامیاب بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ایک تو قرآن مجید کا سات زبانوں میں ترجمہ ہے۔ اِس پر فوری طور پر عمل کرنے کے لیے چندہ کی ضرورت ہے۔ ایک ترجمہ کا خرچ تو مَیں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے،ایک ترجمہ کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگایا ہے اور ایک کا سارے ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگایا ہے۔ ایک ترجمہ کا خرچ چودھری ظفراللہ خان صاحب نے اور ان کے چند دوستوں نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ باقی تین ترجموں کا خرچ مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں۔ اور اُمید ہے کہ جماعتیں جلدی اپنے اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کا خرچ لے لیں گی(مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کی جماعت غالباً دو تراجم کا بوجھ اٹھا ئے گی اور اِسی طرح لجنہ اماء اللہ بھی دو تراجم کا خرچ دے گی۔ اگر ایسا ہوا تو صرف ایک ترجمہ بیرون جات کی جماعت کے حصہ میں آتا ہے)۔ بہت ساری جماعتیں ایسی ہیں جن کے لیے یہ معمولی بات ہے۔ ممکن ہے خدا تعالیٰ بعض افراد کو بھی توفیق دیدے۔ چونکہ اس سکیم پر عمل کرنے کے لیے چندہ کی فوری ضرورت ہے۔ اِس لیے مَیں نے اس کے متعلق اعلان کردیا ہے کہ جماعتیں اپنے اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے کر جلدی اطلاع دیں۔باقی دو یعنی کتابوں کا سیٹ اور ٹریکٹوں کے متعلق مَیں نے اِس لیے اعلان کیا ہے تاکہ جماعتیں مفید مشورہ دے سکیں کہ کون کونسی کتابیں سیٹ میں رکھنی چاہییں اور ٹریکٹ اور اشتہارات کس قسم کے ہونے چاہییں تاکہ جب کام کا وقت آئے تو ہم سہولت کے ساتھ کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ کس قسم کی کتابیں اور ٹریکٹ ہونے ضروری ہیں۔
اس کام کے پورا ہو جانے کے بعد مَیں سمجھتا ہوں جہاں ہمارا مبلغ جائے گا وہ اکیلا نہیں ہوگا بلکہ اُس کے پاس جتنے ٹریکٹ ہوں گے اُس کے ساتھ اِتنے رسالے جنگ کے ہوں گے (ہمارے ہاں ٹریکٹ کو رسالہ کہتے ہیں)۔ اگر اُس کے پاس پچاس ٹریکٹ ہوں گے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ اُس کے ساتھ پچاس رسالے فوج ہوگی۔ اگر اُس کے پاس بارہ کتابیں ہوں گی تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ بارہ تجربہ کار جرنیل ہوں گے۔ اگر اس کے پاس قرآن مجید ہوگا تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کمانڈر اِنچیف ہوگا جس نے تیرہ سو سال تک کامیابی سے حکومت کی ہے۔ اِس کے بعد پھر وہ مبلغ اکیلا ہونے کی وجہ سے ناکام نہیں ہوگا بلکہ خدا کے فضل سے چند مہینوں کے اندر تہلکہ مچاسکتا ہے۔
پس مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے باہمت افراد اور جماعتیں خدا کے فضل کو جذب کرنے کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں گی۔ اور اُمید ہے کہ جماعت کے علماء اور بیرونی ممالک کے مبلغ اپنے تجربہ کی بناء پر کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق ٹھوس مشورہ دیں گے کہ کس قسم کی کتابیں اور کس قسم کے ٹریکٹ باہر مفید ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد جب آمدورفت کے لیے رستے کُھلیں تو سینکڑوں قوموں میں ہماری تبلیغ شروع ہوجائے۔ اسلحہ کی جنگ کے خاتمہ پر اُدھر سے صلح کا بِگل بجےاور اِدھر ہماری طرف سے تبلیغی جنگ کا بگل بجا دیا جائے"۔
(الفضل27؍اکتوبر، 1944ء)


37
تراجم قرآن کریم
اور دوسرے تبلیغی لٹریچر کے اخراجات کا اندازہ
(فرمودہ 27؍اکتوبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے جو تحریک کی تھی مَیں امید کررہا تھا کہ اس کے متعلق اس جمعہ کے خطبہ میں بعض اَور امور مفصّل بیان کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت اِس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ مَیں مفصّل طور پر ان کو بیان نہیں کرسکتا۔ کل کا واقعہ ہے مَیں قرآن شریف کے نوٹ ٹھیک کرا رہا تھا، مولوی نورالحق صاحب آئے ہوئے تھے۔ ان نوٹوں میں ایک سوال تھا جس کے جواب کے لیے کتاب سے حوالہ دیکھنے کی ضرورت تھی۔میں نے کہا ابھی کتاب نکال کر یہ حوالہ دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ مَیں اُٹھ کر اپنی لائبریری میں گیا۔ کتابوں کی الماری کے اوپر ایک لکڑی کی بنی ہوئی جھالر تھی جو الماری کو خوبصورت بنانے کے لیے اوپر لگائی ہوئی ہوتی ہے۔ جھاڑنے اور صفائی کرنے سے وہ کہیں اپنی جگہ سے ہل گئی ہوئی تھی۔ مَیں نے جب الماری کھولنے کے لیے اُس کا دروازہ اپنی طرف کھینچا تو کھینچنے کے ساتھ ہی وہ جھالر گر کر میرے سر پر آ پڑی جس کی وجہ سے سر میں چوٹ آئی اور ورم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے رات کو بخار بھی ہو گیا۔ پس وہ لمبی تفصیل تو مشکل ہےکیونکہ چوٹ کے اثر سے اب بھی سر میں درد ہو رہا ہے۔ آج اگر خدا نے توفیق دی تو گزشتہ طریق کے مطابق مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بھی بیٹھنے کا بھی ارادہ ہے۔ لیکن اگر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو پھر آج بھی بیٹھنا مشکل ہوگا۔ اس صورت میں اگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا تو اِنْشَاءَ اللّٰہُ کل سے بیٹھوں گا۔
مَیں نے پچھلے خطبہ میں جو مضمون بیان کیا تھا اُس کے کئی پہلو ابھی باقی ہیں۔ لیکن ان پہلوؤں کے بیان کرنے کے لیے جتنی تفسیر اور جتنی وضاحت کی ضرورت ہے میری حالت جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں ایسی ہے کہ شاید مَیں اُتنی تفسیر اور اُتنی وضاحت نہ کر سکوں۔ تاہم گزشتہ مضمون کا تسلسل قائم رکھنا چونکہ ضروری ہے اِس لیے اس مضمون کے متعلق اختصار کے ساتھ کچھ باتیں بیان کر دیتا ہوں۔ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اب چونکہ جنگ ختم ہونے والی ہے اور ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ چھ ماہ یا سال کے اندر اندر یا سال سے کچھ کم یعنی سات آٹھ ماہ کے اندر جنگ ختم ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد چھ ماہ یا سال تک گویا آج سے ڈیڑھ سال یا دو سال کے عرصہ تک آمد و رفت کے رستے کُھل جائیں گے اور مبلغین باہر جاسکیں گے۔ اس لیے ہمیں آج ہی سے تیاری کرنا چاہیے۔ کچھ تیاری تو پچھلے پانچ سال میں ہم نے کی ہے اور ایسے مبلغ تیار کیے ہیں جو خدا کے فضل و کرم سے غیرممالک میں جاکر تبلیغ کرسکتے ہیں۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ اکثر عربی اور بعض انگریزی میں اچھے ماہر ہیں اور اِن دو زبانوں والے ممالک میں وہ اچھی طرح کام کرسکتے ہیں۔ عربی کے ذریعہ اسلامی ممالک میں تبلیغ ہوسکتی ہے اور بہت سے ممالک میں انگریزی کے ذریعہ تبلیغ ہوسکتی ہے۔کیونکہ یہ زبان اکثر یورپین ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور لوگ اِس کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔
باقی سات زبانوں کے جاننے والے ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوئے۔ اگر کوئی ہیں تو بہت کم یا ایسے ماہر نہیں کہ ان زبانوں میں پوری طرح قابل ہوں اور اپنے لٹریچر کا ان زبانوں میں ترجمہ کرسکیں۔ سوائے دو چار کے مثلاً ملک محمد شریف صاحب اٹلی میں ہیں۔ انہوں نے وہاں شادی بھی کر لی ہے۔ اگر ان کی شادی ہمارے پروگرام میں روک نہ بن سکے یعنی مزید تعلیم حاصل کرنے میں حارج نہ ہو کیونکہ ان کی عربی تعلیم ابھی کم ہے تو اس صورت میں وہ اٹالین زبان کو جاننے والے ہوں گے۔ دوسرے مولوی رمضان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں ہیں۔ ممکن ہے اِس وقت تک پرتگیزی یا سپینش زبان انہوں نے سیکھ لی ہو اور وہ اِس قابل ہو چکے ہوں کہ ان زبانوں میں تبلیغ کا کام کرسکیں۔ تیسرے صوفی عبدالقدیر صاحب جاپان میں رہ آئے ہیں۔ مزید کوشش کے بعد وہ جاپانی زبان میں مہارت پیدا کرسکتے ہیں۔ باقی زبانوں کے جاننے والے ہماری جماعت میں کوئی نہیں۔ ہماری جماعت میں بعض جرمن زبان جانتے ہیں لیکن صرف اِتنی کہ کتابیں پڑھ سکیں۔ یہ نہیں کہ اِس زبان میں کتابیں لکھ سکیں یا ترجمہ کر سکیں یا اس زبان میں تقریریں کرسکیں۔مگر بہرحال خدا کے فضل سے گزارہ کے لیے ہمارے پاس ایسے آدمی تیار ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں جو عربی اور انگریزی جاننے والے ممالک میں تبلیغ کا کام کرسکیں۔ انگریزی زبان یورپ کے قریباً ہر ملک میں استعمال ہوتی ہے اور ہر ملک میں لاکھوں آدمی یہ زبان بولتے اور جانتے ہیں۔ اِس زبان کے ذریعہ یورپین ممالک میں کام شروع ہوسکتا ہے۔ اِسی طرح اسلامی ممالک میں عربی اور فارسی جاننے والے مبلغ کام کرسکتے ہیں۔ باوجود وہاں کی لوکل زبان نہ جاننے کے وہاں کام شروع ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسلامی ممالک کا بیشتر حصہ عربی اور فارسی سمجھتا اور جانتا ہے۔ پھر دو تین سال وہاں رہنے سے مبلغین وہاں کی لوکل زبان بھی سیکھ لیں گے۔پس جہاں تک مبلّغوں کی تیاری کا سوال ہے ہم نے خدا کے فضل سے ابتدائی تیاری کر لی ہے۔ اِس وقت تک جو واقفین ہم نے لیے ہیں وہ ساٹھ کے قریب ہیں جن میں سے کچھ تو دفاتر میں کام کرنے کے لیے ہیں اور کچھ باہر تبلیغ کی خاطر بھیجنے کے لیے۔ گو یہ تعداد کافی نہیں ہمیں بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے۔ مگر بہرحال اِس سے کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ روپیہ کا سوال اِس حد تک حل ہو چکا ہے کہ وہ روپیہ مرکزی اور دفتری کاموں کا بوجھ اٹھا سکے۔ لیکن مبلّغین کے لیے لٹریچر مہیا کرنے اور دوسری تبلیغی ضروریات پورا کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ تحریک جدید کے گزشتہ دَور میں دس پندرہ لاکھ کا ریزرو فنڈ قائم ہوا ہے۔ یہ فنڈ ایسا ہے جس میں وہ روپیہ بھی شامل ہے جو جائیداد کی صورت میں ہے بلکہ یہ تمام ریزرو فنڈ جائیداد کی صورت میں ہی ہے۔ پس یہ فنڈ اِس حد تک تعاون کرسکتا ہے کہ دفتری اور مرکزی کام کا بوجھ اٹھا سکے اور یہ بوجھ جماعت پر نہ پڑے۔ لیکن مبلغین کی دوسری تمام ضروریات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے تحریک جدید کے آئندہ دَوروں کے ذریعہ یہ فنڈ اِس حد تک بھی ہوجائے کہ تبلیغ کے لیے لٹریچر مہیا کرنے اور مبلغوں کے اخراجات کی برداشت کرسکے مگر اِس وقت تک جو ریزرو فنڈ قائم ہورہا ہے وہ اس کی برداشت نہیں کرسکتا۔ البتہ اِس کے ذریعہ غیر ممالک میں تبلیغ کی ابتدا کی جاسکتی ہے۔ وسیع پیمانہ پر تبلیغ کے لیے بھاری فنڈ کی ضرورت ہے جو مبلغین کی تبلیغی ضروریات پورا کرسکے اور کتب رسالے وغیرہ کثرت سے لٹریچر شائع کرنے کا بوجھ اٹھا سکے۔
پچھلے جمعہ مَیں نے جو خطبہ دیا تھا اُس میں مَیں نے جماعت کے سامنے ایک سکیم یہ پیش کی تھی کہ ہمیں فوری طور پر آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی ضرورت ہے اور مَیں نے بتایا تھا کہ خدا کے فضل سے یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ انگریزی ترجمہ تو مکمل ہو گیا ہے جو دو جلدوں میں اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی شائع ہوگا۔ پہلی جلد چھپ رہی ہے جس کے مجلس شورٰی تک شائع کردینے کا پریس والوں نے وعدہ کیا ہے۔ دوسری جلد کے تفسیری نوٹوں کی مَیں اپنی ہدایات کے مطابق اصلاح کرا رہا ہوں۔وہ بھی اِنْشَاءَ اللّٰہُ جلدی مکمل ہوجائے گی۔باقی سات اَور زبانوں میں تراجم کی ضرورت ہے۔ اور مَیں نے بتایا تھا کہ ان ساتوں زبانوں میں تراجم شروع ہو چکے ہیں۔ یعنی روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالین، ڈچ، پرتگیزی اور سپینش زبانوں میں۔ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ یہ تراجم غالباً جون یا جولائی 1945ء تک مکمل ہو جائیں گے۔ اِس کے بعد کچھ وقت نظرثانی پر بھی لگے گا۔ اِس لیے جنگ کے خاتمہ تک تراجم اِنْشَاءَ اللّٰہُ بالکل تیار ہو جائیں گے۔ پھر چھپوائی پر بھی کچھ وقت لگے گا۔ مَیں نے تراجم کے خرچ کا اندازہ بتایا تھا کہ فی ترجمہ اگر چھ ہزار روپیہ اوسط لگا لیں تو سات تراجم کے لیے بیالیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے۔ اِس بارہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ تراجم کے کرنے کا وعدہ سات جماعتوں یا افراد کی طرف سے آچکا ہے (1)میری طرف سے (2، 3) لجنہ اماء اللہ کی طرف سے (4 ، 5)قادیان و کارکنان صدر انجمن کی طرف سے (6) سرمحمد ظفراللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے (7)میاں غلام محمد صاحب اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے یا لاہور کی جماعت کی طرف سے ان دو امیدواروں کی نسبت بعد میں فیصلہ ہوگا کہ کسے حق دیا جائے۔ اِس کے علاوہ کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے۔ بَعْدَہٗ ملک عبدالرحمان صاحب مِل اونر قصور اور سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب سکندر آباد کی طرف سے بھی ایک ایک ترجمہ کےخرچ کا وعدہ آچکا ہے۔ جَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ لیکن اب یہ مد ختم ہو چکی ہے۔ اِس وجہ سے پانچ وعدے شکریہ کے ساتھ واپس کرنے ہوں گے۔
اِس کے بعد چھپوائی کا سوال ہے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ترجمہ کی چھپوائی کا اندازہ پندرہ ہزار روپیہ اوسطاً لگا لیں تو سات تراجم کی چھپوائی پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ گویا تراجم کا خرچ شامل کرکے ساتوں کی مکمل اشاعت پر ایک لاکھ سینتالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور اگر جِلد بندی وغیرہ کا خرچ بھی تیرہ چودہ ہزار روپیہ شمار کر لیا جائے توایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ بنتا ہے۔ قرآن مجید کے تراجم کے علاوہ مَیں نے بتایا تھا کہ مختلف مسائل کی کتابوں کا ایک سیٹ ہونا چاہیے اور یہ سیٹ میں نے بارہ بارہ کتابوں کا تجویز کی تھا۔ پس ساتوں زبانوں کی چوراسی کتابیں بنتی ہیں۔
آج مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِن پر کتنا خرچ ہوگا۔ انگریزی اور عربی کے لیے ترجمہ کے خرچ کی ضرورت نہیں۔ صرف سات زبانوں میں ترجمہ کے خرچ کی ضرورت ہے۔ پس اِن چوراسی کتابوں کا اگر ایک ہزار روپیہ اوسطاً فی کتاب ترجمہ کا خرچ لگا لیں تو چوراسی ہزار روپیہ بنتا ہے اور اگر ایک ایک روپیہ اوسطاً فی کتاب جِلد بندی سمیت لاگت شمار کر لیں تو اِس کے یہ معنے ہوئے کہ ایک زبان میں ایک کتاب کی پانچ ہزار کاپیاں چھپوانے پر پانچ ہزار روپیہ خرچ ہوگا اور ایک زبان میں بارہ کتابیں پانچ پانچ ہزار چھپوانے پر ساٹھ ہزار روپیہ لگے گا اور ساتوں زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ چھپوانے پر چار لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ انگریزی اور عربی زبانوں میں بارہ بارہ کتب کے سیٹ کے چھپوانے پر مزید ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ اِس میں چوراسی ہزار روپیہ کتابوں کے تراجم کا خرچ شامل کیا جائے تو کُل خرچ کتب کے ترجمہ اور چھپوائی پر چھ لاکھ چوبیس ہزار ہوتا ہے۔ اِس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ قرآن مجید کے تراجم کا بھی شمار کر لیا جائے تو سات لاکھ اٹھاسی ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا مختلف قسم کے ٹریکٹوں اور اشتہارات کی بھی ان زبانوں میں ضرورت ہے۔ اگر چالیس ہزار روپیہ اشتہارات کا خرچ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ آٹھ لاکھ چوبیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر خط و کتابت تاریں اور دوسرے فوری اخراجات کو شامل کر لیا جائے تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اِس سارے کام کے لیے ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ اِتنی رقم ہمارے پاس ہونی چاہیے تاکہ ہم کام کی ابتدا کرسکیں۔ جس طرح فوجوں کے لیے میگزین مہیا کیا جاتا ہے اِسی طرح ہمارے لیے بھی دنیا میں تبلیغ کی ابتدا کرنے کے لیے اِس میگزین کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں یہ روپیہ مہیا کرنا ہوگا تاکہ جنگ کے خاتمہ پر ہم تیار ہوں اور مبلغین کو باہر بھیج سکیں۔
اس کے علاوہ جماعت کے نظام کو مکمل کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے مجلس شورٰی کے موقع پر مَیں نے تحریک کی تھی کہ انجمن کا کام بڑھ رہا ہے۔ اِس کے لیے بہت سے زائد عملہ کی اب ضرورت ہے۔ چنانچہ بہت سے نائب ناظر اور معاون ناظر اور کلرکوں کی جگہ بجٹ میں رکھی گئی تھی۔اِس بڑھے ہوئے خرچ کے چلانے کے لیے بہت سے زائد روپیہ کی بھی ضرورت ہوگی اور تنگی کے زمانوں کے لیے ایک بڑے ریزرو فنڈ کی بھی۔ اِس وقت جنگ کی وجہ سے ہمارے بہت سے آدمی اچھے کاموں اور اچھی تنخواہوں پر لگے ہوئے ہیں۔ پس اگر یہ کام اِس وقت نہ ہوا تو جنگ کے خاتمہ پر اِس کا ہونا بہت مشکل ہوگا۔ جنگ کے بعد اگر جماعت کے چندہ کا یہی معیار قائم رہا جو اِس وقت ہے تو یقیناً یہ بات خطرناک ہوگی کیونکہ جنگ کے بعد بہت سے لوگ جو اِس وقت چندہ دے رہے ہیں ملازمتوں سے برخواست کر دیے جائیں گے۔ مثلاً اِس وقت فوج میں ہمارے دو سو کے قریب آدمی کنگز کمیشن حاصل کیے ہوئے ہیں جو اِس وقت پانچ سو سے آٹھ سو تک تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اگر ہم دو سو کی بجائے ایسے ڈیڑھ سو آدمی شمار کر لیں اور ہر ایک کی تنخواہ اوسطاً چھ سو روپیہ سمجھ لیں تو یہ نوے ہزار روپیہ ماہوار کی آمدنی بنتی ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وصایا نہیں ہیں اور عام چندے دیتے ہیں تب بھی ستّر ہزار روپیہ کے قریب اِن کا سالانہ چندہ بن جاتا ہے۔ یہ چندہ صرف ان ملازموں کا بنتا ہے جو کنگز کمیشن حاصل کردہ ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ہیں جو وائسرائے کے کمیشن پر فائز ہیں۔ مثلاً صوبیدار جمعدار وغیرہ ہیں۔ پھر ہزاروں کی تعداد میں فوج کے عام ملازم ہیں۔ اِن سب کو ملا کر کوئی پونے دو لاکھ کی رقم چندہ کی بنتی ہے جو سالانہ صدر انجمن میں آنی چاہیے اور غالباً اِس کے قریب آتی ہوگی(یہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس قدر آتی بھی ہے یا نہیں)۔ یہ لوگ سوائے اِس کے جو مستقل ہیں سارے ایسے ہیں کہ جنگ کے بعد فارغ ہو کر واپس آ جائیں گے اور جو اس وقت پانچ چھ سو روپیہ ماہوار لیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی تنخواہوں کے لحاظ سے وہ ساٹھ ستّر روپے ماہوار لے سکیں گے۔ اور جو اِس وقت سو سو روپیہ ماہوار لے رہے ہیں وہ پچیس تیس روپے ماہوار لے سکیں گے۔ بشرطیکہ کام مل جائے۔ بہت سارا طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جسے کام نہیں ملتا۔ تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ بجائے پونے دو لاکھ روپیہ سالانہ آمد کے جو اِس وقت براہ راست یا ان کے رشتہ داروں کے ذریعہ ان لوگوں کی طرف سے ہمیں ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ تیس چالیس ہزار روپیہ کی آمد رہ جائیگی اور باقی ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ یا ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ کی آمد خطرے میں پڑ جائے گی۔ ممکن ہے خدا تعالیٰ ان کے لیے ایسا سامان کردے کہ وہ اچھی کمائیاں کر سکیں۔ مگر پھر بھی حساب کا طریق یہی ہے کہ حساب کرتے وقت خطرے کو زیادہ سے زیادہ مدنظر رکھا جاتا ہے اور حُسنِ ظنی کو کم ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ جہاں افراد کے متعلق یہ طریق ہے کہ حُسنِ ظنی سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے وہاں حساب کے معاملات میں یہ طریق ہے کہ حُسنِ ظنی کو نظرانداز کرکے خطرے کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے۔ اِسی طرح دوسری آمدنیوں کی طرف ہم دیکھتے ہیں تو جنگ کے بعد وہ بھی بظاہر کم ہو جائیں گی۔ زمینداروں کی آمد اِس جنگ میں زیادہ ہے مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اِس جنگ میں اتنی قربانی نہیں کی جتنی گزشتہ جنگ کے موقع پر کی تھی۔ اِس لیے زمینداروں کے لحاظ سے اِتنا خطرہ نہیں۔ مگر تاجروں کے لحاظ سے زیادہ خطرہ ہے۔ کیونکہ تاجروں نے گو پورا حصہ نہیں لیا مگر جتنا لیا ہے وہ پچھلی جنگ کی نسبت سے بہت زیادہ ہے۔ پس اگر تاجروں اور زمینداروں دونوں کو شامل کر لیا جائے تو کُل دو تین لاکھ کی آمد خطرے میں پڑ جائے گی۔ اِس وقت اگر کُل چندہ کی آمد سات لاکھ ہے تو جنگ کے بعد پانچ لاکھ یا چار لاکھ رہ جائے گی۔ گو میرا اندازہ ہے کہ اگر محکمہ بیت المال زور دے تو موجودہ آمد زیادہ ہوسکتی ہے اور اگر وہ محنت کرے تو جنگ کے ایام میں ایک بڑا ریزرو فنڈ جمع کر لینے کے علاوہ وہ انجمن کا معمولی چندہ بھی اتنا زیادہ کرسکتا ہے کہ ریزرو فنڈ کی مدد لینے کی ضرورت ہی کبھی نہ پیش آئے۔ بہرحال خطرے کا موقع آرہاہے۔اگر ہم آج سے ہی اس کا مقابلہ کرنے کا عزم اور ارادہ پیدا نہ کریں تو نئی سکیموں پر عمل کرنا تو ایک طرف رہا پرانے کاموں کا چلانا بھی مشکل ہوگا۔
مَیں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی اِس وقت تک جو جائدادیں وقف ہو چکی ہیں وہ ساٹھ لاکھ روپیہ کی ہیں۔ ابھی پانچ چھ سو آدمی ایسے بھی ہیں جنہوں نے وقف جائیداد کے فارم نہیں بھجوائے۔ ان کو شامل کرکے ایک کروڑ روپیہ کی جائدادیں وقف ہو چکی ہیں اور صحیح حسابی نقطۂ نگاہ سے سوا کروڑ روپیہ کی۔ کیونکہ کچھ آمدنیاں بھی وقف ہیں اور ہم نے ان کو اتنا ہی شمار کیا ہے جتنی کہ آمدنی ہے۔ حالانکہ جائیداد اور آمدنی میں فرق ہے۔ جائیداد سے اُس کی مالیت کا بیسواں حصہ آمدنی ہوتی ہے۔ سوروپیہ کی جائیداد ہو تو اس سے پانچ روپیہ کی آمد درست سمجھی جاتی ہے۔ پس اِس کے برخلاف اگر پانچ روپیہ کی آمد وقف ہو تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سو روپیہ کی جائیداد وقف ہو گئی۔ چونکہ ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ کی آمد وقف ہو چکی ہے اِس لیے حسابی لحاظ سے ہم کہیں گے کہ چھبیس لاکھ روپیہ کی جائیداد وقف ہو گئی ہے۔ اِس حساب سے بجائے نوے لاکھ کے ایک کروڑ سترہ لاکھ کی جائیداد وقف ہو چکی ہے۔ ابھی جماعت میں بہت سا حصہ باقی ہے اگر وہ بھی اِس امر کو سمجھیں کہ یہ چیز بہت ضروری ہے تو یہ وقفِ جائیداد کا فنڈ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ زمیندار طبقہ نے اِس طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ اس وقت تک جس قسم کے لوگوں نے سَوا کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف کی ہیں ان کے مقابلہ میں صرف سرگودھا، لائل پور اور منٹگمری کے علاقوں میں ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہوسکتی ہیں۔ بہرحال اِس وقت تک ایک کروڑ سترہ لاکھ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ اگر کسی وقت ہم اس کے پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو اس کے معنے ہیں سَوا چھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ ہم ضرورت کے وقت مہیا کرسکتے ہیں۔ اور اگر وقف جائیداد کی تحریک مکمل ہوجائے اور جن لوگوں نے ابھی تک اِس میں حصہ نہیں لیا وہ بھی حصہ لیں تو پھر اِس روپیہ کی مقدار جسے ہم ضرورت کے وقت مہیا کرسکتے ہیں اَور بھی بڑھ جائے گی۔ لیکن جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں۔ یہ آخری حد اور ہماری آخری خندق ہوگی۔ اِس سے پہلے ہم اپنا سارا زور لگا دیں گے کہ طوعی چندہ سے سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوں۔ وقف جائیداد کی سکیم ہماری آخری خندق ہے مگر یہ ایسی چیز ہے اور ایسی شاندار خندق ہے کہ اِس کی وجہ سے کام کرنے والوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں اور حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں جب کوئی صورت نہ رہے گی تو ہمارے پاس ایک ایسی چیز موجود ہے جس سے کام کی ضرورت کے مطابق ہم روپیہ لے سکتے ہیں۔ اِس وقت تک ساری جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ اِس وقت تک صرف سولہ سو کے قریب آدمیوں نے وقف جائیداد کی تحریک میں حصہ لیا ہے اور یہ قریباً سَوا کروڑ روپیہ کا وقف صرف سولہ سو آدمیوں کی جائیدادوں اور آمدنیوں کے وقف سے قائم ہوا ہے۔ اگر جماعت کے باقی افراد بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس تحریک میں حصہ لیں۔ بلکہ اگر صرف پانچ چھ ہزار آدمی ہی اِس تحریک میں حصہ لیں تو یہ تحریک بہت مضبوط ہوسکتی ہے اور اِس وقت تک جتنی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں اگر ہم ان وقف کرنے والوں کی جائیدادوں کی قیمت موجودہ واقفین کی جائیداد کی قیمت سے نصف بھی لگا لیں تو بھی موجودہ وقف شدہ جائیدادیں ملا کر اڑھائی کروڑ روپیہ کا وقف ہوجائے گا۔ بلکہ اِس سے بھی زیادہ۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ اگر ہم اڑھائی کروڑ روپیہ کی وقف شدہ جائیدادوں پر صرف پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو بارہ تیرہ لاکھ روپیہ کی آمدنی چند ماہ میں ہوسکتی ہے۔
پس اگر ہم دنیا میں وسیع پیمانہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں ہیجان پیدا کردے تو اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے ذریعہ ہم فوری ضرورت کو پورا کرسکیں۔ ممکن ہے کسی ملک میں ایسا جوش پیدا ہوجائے کہ وہاں پر بہت سے مبلّغین بھیجنے پڑیں اور ہمیں مبلغین کی تعداد اور خرچ کو بڑھانا پڑے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک موقع پر اکٹھے چالیس مبلغ ایک قبیلہ کے لیے بھیجنے پڑے۔1 حالانکہ اُس وقت صرف ہزاروں کی جماعت تھی اور محدود سلسلہ تھا۔ مگر ایک قبیلہ کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چالیس مبلغ بھیجے۔ ایک دوسرے موقع پر آپ نے ایک جگہ ستّر مبلغ بھیجے۔2 اِسی طرح ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ مبلغین بھیجنے کی ضرورت پڑے۔ ممکن ہے روس میں ہماری تبلیغ سننے کا جوش پیدا ہوجائے یا امریکہ میں جوش پیدا ہوجائے یا جرمنی میں جوش پیدا ہوجائے یا سپین میں جوش پیدا ہو جائے۔ اگر ہم وقت پر ان کے جوشوں کو نہیں سنبھالیں گے تو وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اور اگر سنبھالیں گے تو کسے معلوم ہے کہ دو ہزار مبلغوں تک کی ضرورت یک دم پیش نہ آجائے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمیں ان کے اخراجات کے لیے بہت سے روپیہ کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ہم لٹریچر وغیرہ ملا کر ایک مبلغ کا خرچ تین ہزار روپیہ اوسطاً لگا لیں تو ہمیں دو ہزار مبلغین کے لیے ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑے گی۔
پس جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنا چاہیے اور آنے والی ضرورت کو آج ہی محسوس کرکے اُس کے لیے سامان مہیا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ دوسری طرف تبلیغ پر بھی ہمیں زور دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اِس وقت ہماری تعداد بہت کم ہے اور جتنا وسیع ہمارا کام ہے اُتنی بنیاد نہیں۔ عمارت بنانے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے وہ بنیاد ہے۔ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اور اُس میں جتنی روڑی کُوٹی جائے گی عمارت بھی اُتنی ہی مضبوط ہوگی اور بلند جاسکے گی۔ دین کی جو عمارت بنے گی اُس میں ہماری حیثیت روڑی کی ہے اور ہمارا مقام روڑی کا ہے۔ اِس لیے ہماری جتنی کُوٹائی ہوگی ہم پر بننے والی عمارت اُتنی ہی مضبوط ہوگی۔ اِس منارۃ المسیح کی بنیاد 30 فٹ کھود کر اِس میں کو ٹائی کی گئی تھی۔ مَیں اُس وقت بچہ تھا۔ مَیں اِس قدر گہرے گڑھے کو ایک بے ہودہ کام سمجھتا تھا اور حیران ہوتا تھا کہ عمارت کے لیے اِتنا گہرا گڑھا کھودنے کی کیا ضرورت ہے۔ عمارت تو آپ اپنی طاقت سے کھڑی ہوگی۔ مگر جب بڑے ہو کر عمارت کے فن سے کچھ واقف ہوا تو معلوم ہوا کہ زمین ہی عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہے اوراس کی بنیاد کو جتنا گہرا کھودا جائے گا اور جتنی مضبوط کوٹائی کی جائے گی اُتنی ہی عمارت بھی مضبوط بنے گی۔ اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی سے بڑی عمارت کا قیمتی حصہ وہ روڑی ہوتی ہے جو اس کی بنیادوں میں کُوٹی جاتی ہے۔ صحابہؓ کی روڑی اور اس کی کوٹائی اِتنی مضبوط تھی کہ تیرہ سو سال تک کام دیتی رہی اور اس پر مضبوط عمارت قائم ہوئی۔ پس جتنی زیادہ گہری بنیاد ہوگی اور اس میں جتنی زیادہ روڑی کوٹی جائے گی اتنی ہی وہ عمارت مضبوط بنے گی۔ لیکن اگر اُس عمارت کی بنیاد کے لیے دس ہزار بورے روڑی کی ضرورت ہو اور ہم اُس میں ڈالیں ایک ہزار بورا۔ تو عمارت کی بنیاد کبھی مضبوط نہیں ہوگی۔ جب تک کہ اُس کے لیے ہم دس ہزار بورے مہیا نہ کریں۔ اس زمانہ میں ہم نے اسلام کی عمارت کے لیے اِس کی ضرورت کے مطابق روڑی بھی مہیا نہیں کی۔ جس کا سب سے پہلے مہیا کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم نے اِس روڑی کو مہیا نہ کیا تو ہمارا کامیابی حاصل کرنے کا زمانہ پانچ دس گُنا اَور لمبا ہوجائے گا اور اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہوں گے جب تک زیادہ کوٹائی نہ ہولے اور مضبوط بنیاد کا کام دینے والی بنیاد تیار نہ ہو۔
پس ایک تو اِس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی طرف توجہ کرے اور اپنی تعداد کو بڑھائے اور دوسرے اِس بات کی ضرورت ہے کہ وقفِ جائیداد کی تحریک میں زیادہ سے زیادہ آدمی حصہ لیں اور وقف کے فنڈ کو بڑھائیں۔ تیسرے اِس بات کی ضرورت ہے کہ عام چندوں کو باقاعدہ شرح کے ساتھ ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور بیت المال اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھی پوری شرح کے ساتھ باقاعدہ چندہ ادا کرنے سے باہر نہ رہے۔ اور جو استثناء کیا جائے وہ باقاعدہ مرکز سے اجازت لے کر کیا جائے، اگر اِس کام کو پوری کوشش کرکے وسیع کیا جائے تو موجودہ آمد ڈیڑھ گُنا بڑھ سکتی ہے۔ مثلاً اِس وقت اگر سات لاکھ ہے تو کوشش کرنے سے دس گیارہ لاکھ ہوسکتی ہے۔ اگر پوری توجہ اور کوشش سے کام لیا جاتا تو جتنی آمدنی اِس وقت جنگ کے ایام میں ہو رہی ہے۔ اِتنی آمدنی جنگ سے پہلے ہوسکتی تھی اور جنگ کے ایام میں یہ آمدنی بڑھ سکتی تھی۔ میرے نزدیک اب بھی اگر بیت المال پوری کوشش سے کام کرے تو جنگ کے بعد موجودہ مد نہ صرف قائم رہ سکتی ہے بلکہ بڑھ سکتی ہے۔ اور جنگ کے بعد جس کمی کا خطرہ ہے اُس کمی کو اِس کوشش سے پورا کیا جاسکتا ہے کہ جماعتوں میں باشرح اور باقاعدہ چندہ ادا کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ درحقیقت ہماری جماعت کے پورے حصہ کے اندر یہ احساس نہیں پایا جاتا کہ وہ باشرح چندہ دے۔ مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا پچاس فیصدی حصہ ایسا ہے جس پر ہماری آمدنی کا انحصار ہے۔ باقی پچاس فیصدی ایسے ہیں جو یا تو بالکل چندہ ادا نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو شرح سے کم اور بے قاعدہ۔ پس اگر بیت المال اِس نظام کو مکمل کرکے باقاعدہ اور باشرح چندہ وصول کرنے کا انتظام کرے تو آمدنی بڑھ سکتی ہے اور جو جماعتیں یا افراد پہلے سے باقاعدہ اور پوری شرح سے ادا کر رہے ہیں اُن میں بھی قربانی کی روح کو مضبوط کیا جائے۔ قربانی کی روح ایمان سے بڑھتی ہے کثرتِ اسباب سے نہیں بڑھتی۔پس جو قربانی کر رہے ہیں اُن کے اندر ایمان ہے اور جس کا ایمان جتنا جتنا بڑھتا جائے گا اُتنا اُتنا ہی اُس کے اندر قربانی کا مادہ بھی ترقی کرتا جائے گا۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کو ایک اَور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مفصّل طور پر تو مَیں اِنْشَاءَ اللّٰہُ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا اِس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ تبلیغی شعبہ کو مکمل کرنے کے لیے ہماری جماعت کے مختلف پیشہ وروں کے ادارے ہوں جن کے ذریعہ تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے۔ اب ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تاجروں کی ایک انجمن ہو، صنّاعوں کی ایک انجمن ہو، مزدوروں کی ایک انجمن ہو، محکمہ تعلیم کے کارکنوں کی انجمن ہو، وکیلوں کی انجمن ہو، ڈاکٹروں کی انجمن ہو تا کہ اِس طریق سے یہ تمام ادارے وَحَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ3 کے اصول کے مطابق اپنے اپنے حلقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر تبلیغ کرسکیں۔ وکیل وکالت کے ذریعہ اپنے اثرورسوخ کو وسیع کرکے تبلیغ کا کام کرے، ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری کے ذریعہ جہاں جائے اسلام کی تعلیم پھیلانے کا موجب بنے، تاجر اپنی تجارت کے ذریعہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر تبلیغ کا میدان پیدا کرے، صنّاع اپنی کاریگری کے ذریعہ اثر و رسوخ پیدا کرکے تبلیغ کا ذریعہ بنے۔ اِن سب پیشہ وروں کی انجمنیں ہونی چاہییں جو اس کام کو چلائیں۔ جب تک تاجر اپنی تجارت کو اِس رنگ میں بدل نہیں لیتے کہ اُن کی تجارت سے اُنہی کو فائدہ نہ ہو بلکہ اسلام اور احمدیت کی ترقی میں بھی وہ مُمِد ہو۔جب تک صنّاع اپنے آپ کو اس رنگ میں نہیں ڈھال لیتے کہ اپنی کاریگری کے ذریعہ تبلیغ کا موجب ہوں۔ جب تک ڈاکٹر اور وکیل اپنے آپ کو اِس رنگ میں منظم نہیں کر لیتے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اپنے کام کے لحاظ سے اس قسم کا اثر و رسوخ پیدا کریں جو نہ صرف اُن کے لیے مفید ہو بلکہ احمدیت کی مضبوطی کا بھی موجب ہو اُس وقت تک غیروں میں ہماری تبلیغ کبھی کامیاب اور وسیع نہیں ہوسکتی۔ ایک تبلیغ عقلی اور علمی ہے اور ایک تبلیغ یہ ہے کہ عقلی دلائل کو عمل میں لا کر تبلیغ کی جائے۔ جب تک ہم علمی اور عملی دونوں کو ملا کر تبلیغ نہ کریں اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اِس کے متعلق پوری تفصیل مَیں اِنْشَاءَ اللّٰہُ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا۔ فِی الْحال مَیں نے جماعت کے ان لوگوں کو اِس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ آنے والے کام کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کر لیں، اپنے ایمانوں کو پختہ کر لیں اور اپنے کمزوروں کو چُست کرلیں۔ پس وقفِ جائیداد کے حصہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ضرورت کے وقت کارکنوں کو تسلی ہو کہ دشمن اگر ہمیں پیچھے دھکیل دے گا تو ہمارے پیچھے ایک خندق اور ایک مضبوط مورچہ موجود ہے۔ اُس پر جاکر ہم پھر دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اِس وقت اِس تحریک کے صرف یہ معنی ہیں کہ جب ہمارے سارے ذرائع ختم ہو جائیں تو اُس وقت اسلام کی ضرورت کے لیے مطالبہ کرنے پر کسی اشتباہ یا دغدغہ4 کا سوال باقی نہ رہے بلکہ اس وقت ہمارے پاس "وقف جائیداد" کا سہارا موجود ہو اور ہم وقف کرنے والوں سے مطالبہ کرسکیں کہ آپ کا وعدہ ہے کہ یہ جائیداد اسلام کی ضرورت کے لیے وقف ہے آج اسلام کو اِس کی ضرورت ہے اور اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم آپ سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ اس میں سے ہمیں اِتنا حصہ دے دیں۔ چونکہ ہر مومن جب وعدہ کرتا ہے تو اُسے پورا کرتا ہے۔ اِس لیے ہم یقین رکھیں گے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اسلام کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ مَیں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں قادیان میں ہی وقف ہوسکتی ہیں۔ ایک کروڑ نہ سہی پچاس ساٹھ لاکھ روپے کی جائیدادیں تو ضرور قادیان میں وقف ہوسکتی ہیں۔ پس اگر ساری جماعت اِس کی اہمیت کو سمجھے تو "وقف جائیداد" کا اتنا بڑا فنڈ قائم ہوسکتا ہے جو بغیر فوری بوجھ کے جماعت کو مضبوط کر دے۔ اور یہ فنڈ اسلام کے مجاہدین کے لیے تسلی کا موجب ہوگا اور و ہ اس اطمینان کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہمارے پیچھے گولہ بارود بھیجنے والا ذخیرہ محفوظ ہے"۔ (الفضل3؍نومبر، 1944ء)
٭ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ نماز شروع کرتے وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے۔ اِس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہیے۔ اِس لیے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اطالین زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ مَیں ادا کروں گا۔
٭٭ خطبہ کے بعد ایک ترجمہ کا خرچ چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب اور ان کے چند اَوردوستوں نے اپنے ذمہ لیا۔ اِس طرح صرف تین تراجم باقی رہ گئے ہیں۔
٭ چودھری صاحب کے وعدے کے بعد تین
1 : مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 513 حدیث نمبر 15437 مطبوعہ بیروت لبنان 1944ء میں حضرت عمر ؓ کے حوالہ سے ‘‘ رَضِیْنَا بِاللہِ رَبًّا وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ رَسُوْلًا’’ کے الفاظ ہیں۔
2 :ازالہ اوہام، جلد اول، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 185
3 :کتربیونت:کانٹ چھانٹ
4 :کھجیار:(KHAJJIAR)ہماچل پردیس(انڈیا) کا ایک خوبصورت مقام جسے مِنی سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے
5 : درثمین فارسی صفحہ 143۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
٭سر دست یہ عہد اپنے دل میں ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ مَیں اِس کے قواعد بنا کر ایک مجلس کی تشکیل اسے دوں۔
1 :سیرت ابن ہشام۔ الجزء الاول زیر عنوان فی شھودہٖ علیہ الصلٰوۃ والسلام حلف الفضول صفحہ258 ۔مطبوعہ القاہرہ 1964ء
2 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ29 ، 30۔ مطبوعہ مصر 1936ء
3 :البقرۃ:46
4 :النساء:86
5 :الاعراف:180
1 :آل عمران:97
2 :مسند احمد بن حنبل، جلد 1، صفحہ399 نمبر 2158 مسند اہل بیت مسند عبداللہ بن عباس بیروت لبنان 1994ء میں"مَنْ بَنٰى لِلّٰهِ مؒسْجِدًا وَلَوْ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ لِبَيْضِھَا بَنَى اللّٰهُ لَهٗ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ" کے الفاظ ہیں۔
3 :بھٹ تیتر:ایک قسم کا تیتر جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔(بھٹ:غار۔ کھوہ)
4 :بخاری کتاب بدء الوحی۔ باب کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ………
5 :بخاری کتاب الادب باب رَحْمۃِ الولد و تقبیلہٖ و معانقتہٖ
6 :تذکرہ صفحہ50۔ ایڈیشن چہارم میںیَنْصُرُكَ کے الفاظ آتے ہیں۔
1 :الانعام:79،80
2 : متی باب 19 آیت 5
3 :النازعات:45
4 :العنکبوت:70
5 :بخاری کتاب المناقب بَاب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمكَّةَ
6 : سیرت ابن ہشام۔الجزء الاول صفحہ 463،464 مطبوعہ قاہرہ 1964ء
7 :الفجر:28، 29
1 :محوریوں(The Axis)دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی، اٹلی اور جاپان کا باہمی اتحاد
2 :انٹرنس:(Entrance)وہ امتحان جِسے پاس کر کے طالبعلم کالج میں داخلہ لے سکتا ہے۔
1 :موضوعات مُلاعلی قاری صفحہ 35 مطبوعہ دہلی 1315ھ
2 :بخاری کتاب المظالم باب مَن قَاتَلَ دُونَ مَالِہٖ
3 :البقرۃ:186
1 :المومن:61
1 :وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ( الرحمان:8)
2 :پونا: ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹر کا ایک شہر
3 :دِلدہی:تسلّی۔ تشفّی۔
1 :البقرۃ:151
2 :مانومینیا:(MANOMANIA)اپنی خواہش، خیال یا نظریہ کے پیچھے دیوانہ ہو جانا اور اپنے اوپر غالب کر لینا
1 :پھایا:پھاہا:کپڑا جس پر مرہم رکھ کر زخم پر چپکاتے ہیں۔
2 :متی باب 5آیت 40
3 :2۔کرنتھیوں باب 13آیت 11
4 :الشورٰی:41
1 :مسلم کتاب العلم باب رَفْع العِلْم و قَبْضُہٗ
1 : عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع والرعل و ذکوان الجزء السابع عشر صفحہ 174 الطبعۃ االاولیٰ 1702 ء مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ بلوچستان
2 :بخاری کتاب الجھاد بَاب مَنْ يُنْكَبُ أَوْ يُطْعَنُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
3 :البقرۃ:151
4 :دغدغہ:خدشہ۔ کھٹکا۔ تشویش۔ خوف
------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------

------------------------------------------------------------











38
سات زبانوں کے تراجمِ قرآن اور سات زبانوں کی ایک ایک کتاب کے خرچ کی علاقہ وارتقسیم
(فرمودہ3 نومبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"تین دن سے مجھے پھر نقرس کی تکلیف ہو گئی ہے۔ پہلے یہ تکلیف ایک ایک پاؤں میں ہوا کرتی تھی اب دونوں میں ہوتی ہے۔ اِس وجہ سے خطبہ دینا مشکل تھا۔ یہاں تک مسجد میں آنا بھی مشکل تھا کیونکہ اِس وقت بھی درد ہو رہا ہے۔ جُوتی میں پاؤں ڈالنا بھی مشکل ہے۔ مگر میں اِس لیے چلا آیا ہوں کہ قرآن کریم کے تراجم کے لیے چندہ کی تحریک میں جونئی بات پیدا ہو گئی ہے اُس کے لحاظ سے بعض امور بیان کروں۔ مَیں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں 20؍اکتوبر کوقرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی۔ جہاں تک اس کی کامیابی کا سوال تھا مجھے اِس میں کسی قسم کا شُبہ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اِس وقت تک خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اُس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے۔ لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہو گئی ہے کہ اِس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لیے۔ اور ابھی بیرون جات سے چِٹھیاں آ رہی ہیں کہ وہ اِس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔ اِس لیے اِن درخواستوں میں وہ شامل نہیں۔ کیونکہ وہ جلدی مشورہ کرکے اِتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتی تھیں۔ یہ درخواستیں صرف اُن جماعتوں کی طرف سے ہیں جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اٹھا سکتی تھیں۔ یا افراد کی طرف سے ہیں مثلاً چودھری ظفراللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے، میاں غلام محمد صاحب اختر اور اُن کے دوستوں کی طرف سے، لاہور کی جماعت کی طرف سے، کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق صاحب اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے، ملک عبدالرحمان صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبداللہ بھائی سکندر آباد کی طرف سے۔ یہ سب درخواستیں اُن جماعتوں کی ہیں جہاں یا افراد زیادہ ہیں اور وہ اِس ذمہ داری کا بوجھ بغیر دوسری جماعتوں سے مشورہ کرنے کے خود اُٹھا سکتی ہیں یا اُن افراد کی طرف سے ہیں جو صاحبِ توفیق ہیں اور یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس رنگ میں چندہ ہو رہا ہے اِس رنگ میں دو کا بھی سوال نہیں بلکہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس وقت تک لجنہ قادیان کی طرف سے چھ ہزار تین سَو روپے کے وعدے آ چکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سَوروپیہ کے وعدوں کی اور امید ہے٭۔ گو مَیں نے سارے ہندوستان کی لجنہ کے ذمہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا اُس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہو چکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری لجنائیں باقی ہیں۔اِسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ صدر انجمن کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے۔ کارکنوں کے علاوہ دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک لاکھ سے زیادہ کا ہو چکا ہے اور ابھی اور ہو رہا ہے۔ اب اُن جماعتوں یا افراد کی طرف سے جن کا حصہ نہیں لیا جاسکا الحاح کی چِٹھیاں آ رہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی اِس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجیے۔ لیکن مَیں سات تراجم میں سے بارہ حصہ لینے والوں کو کس طرح موقع دے سکتا ہوں۔ مَیں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ جو پہلے ہوں اُن کو پیچھے کر دوں۔ اِس طرح اِن تراجم میں وہی حصہ لے سکے گا جو قُرب میں رہتا ہے۔ مَیں اِس میں دخل نہیں دے سکتا اور کوئی صورت انسانی ذہن میں ایسی نہیں آسکتی کہ قُرب میں رہنے والوں اور باہر رہنے والوں کو قربانی کا ایک سا موقع دیا جاسکے اور نہ ہی کوئی ایسی شرط لگائی جاسکتی ہے جس سے دونوں برابر ہو جائیں۔ فرض کرو ہم یہ شرط لگا دیں کہ فلاں وقت کے بعد آکر اپنے وعدے دے جائیں تو اُس وقت بھی جو قُرب میں رہتا ہوگا وہ دروازہ پر آکر کھڑا رہے گا اور جب بھی وہ وقت ہوگا اپنا وعدہ دے جائے گا۔ پس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ خدائی فرق مٹ جائے۔ اِس کا مٹانا ناممکن ہے۔ صرف بے وقوف یا خشک فلسفی جنہوں نے روحانیت اور ایمان میں قدم نہیں رکھا وہی اِس قسم کی مساوات کا قائل ہوسکتا ہے جس میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ تعلیم کو ہی لے لیا جائے تو کیا سارے تعلیم حاصل کرنے والے ایک جیسی قابلیت اور ایک جیسے دماغ کے ہوتے ہیں؟اور کیا سکول میں پڑھنے والوں میں سے سارے انٹرنس پاس کر لیتے ہیں؟ سارے لڑکے ایک ہی وقت میں ایک ہی استاد سے ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں مگر اُن میں سے ایک کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے اور اُس کے اندر زیادہ قابلیت پیدا ہوجاتی ہے اور دوسرے کے اندر وہ قابلیت پیدا نہیں ہوتی۔ یہی انٹرنس پاس تھے یا ان سے کم تعلیم یافتہ لوگ جن میں سے ایڈیسن اور ایسے ہی اَور مشہور لوگ پیدا ہوئے کہ بڑے بڑے انٹرنس پاس اور بڑے بڑے سائنسدان اُن کے سامنے طفلِ مکتب کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک طرف وہ بھی تھے اور دوسری طرف بعض انٹرنس پاس بھی ہوتے ہیں کہ اگر اُن کو ایک فقرہ لکھایا جائے تو صحیح نہیں لکھ سکیں گے۔ پس اِس قسم کی مساوات انسانی طاقت سے بالا ہے۔ ایسے موقع پر یہی کیا جائے گا کہ جنہوں نے قرب میں رہنے کے لیے قربانی کی ہوگی اُن کی وہ قربانی کام آجائے گی اور دوسروں سے پہلے دین کے کاموں میں حصہ لے سکیں گے۔پس اِن حالات میں نہ تو مَیں یہ کرسکتا ہوں کہ جو پہلے ہیں اُن کو پیچھے کر دوں اور نہ ہی یہ کرسکتا ہوں کہ سات تراجم کے لیے بارہ کے وعدے لے لوں۔ آخر سوچ کر مَیں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ سینکڑوں کے دل میں اِس موقع سے محروم رہنے سے خلش پیدا ہو رہی ہے اِس لیے چاہیے کہ ان کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے۔ اور ایسے حالات میں مَیں نے مناسب سمجھا کہ گزشتہ جمعہ میں جس امر کے متعلق خطبہ دینے کا اعلان میں نے کیا تھا اُسے ملتوی کرکے آج کے خطبہ میں اِس بات کے متعلق بیان کر دوں تاکہ جو تراجم میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہیں اُن کو بھی موقع دیا جائے اور اُن کے لیے بھی اِس تحریک میں حصہ لینے کا رستہ کھل جائے۔
جیسا کہ مَیں نے اعلان کیا تھا سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی مکمل اشاعت کے خرچ کا اندازہ پانچ لاکھ چار ہزار روپیہ ہے (عربی اور انگریزی میں بارہ بارہ کتب کا سیٹ چھپوانے پر ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ اِس کے علاوہ ہے) اور قرآن مجید کے تراجم کی چھپوائی کا اندازہ ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ اور جِلد بندی کا خرچ شامل کرکے ایک لاکھ بائیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے۔تراجم کا بیالیس ہزار کا وعدہ تو آچکا ہے۔ اب چھپوائی کا خرچ باقی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اِس خرچ کے حصے کر دوں تاکہ سب کو حصہ لینے کا موقع مل سکے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ پڑے کہ وہ دوسرے اہم چندوں میں پیچھے ر ہ جائیں۔ اِس لیے مَیں نے تجویز کی ہے کہ قرآن مجید کے سات تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی مکمل اشاعت کا خرچ (یعنی پانچ ہزار روپیہ ایک کتاب کا جِلد بندی سمیت چھپوائی کا خرچ اور ایک ہزار روپیہ ایک کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ کا خرچ) میں خود جماعتوں پر تقسیم کر دوں۔ قرآن مجید کے ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کا پندرہ ہزار روپیہ اور ایک زبان میں ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا چھ ہزار روپیہ یہ اکیس ہزار روپیہ بنتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو چند افراد مل کر یا ایک ایک جماعت ہی یہ اکیس ہزار روپیہ کر تو سکتی ہے مگر اِس قسم کی ساری جماعتیں نہیں ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کلکتہ کی جماعت نے ایک ترجمہ کا خرچ اور ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ جس کے معنے ہیں اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ کلکتہ کی جماعت نے ابھی ابھی بغیر دوسرے لازمی چندوں میں کوئی کمی کرنے کے پچاس ہزار روپیہ وہاں کی مسجد کے لیے جمع کیا تھا۔ اِتنی بڑی قربانی کے بعد وہ بھی زیادہ روپیہ نہیں دے سکتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو توفیق دی اور انہوں نے اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لیا ہے۔مگر عام طور پر وہ حلقے جو ایک قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کے ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا بوجھ اُٹھا سکیں اِتنے وسیع ہیں کہ اپنے علاقہ سے مشورہ کرنا اُن کے لیے بہت وقت چاہتا ہے۔ سوائے قادیان کے حلقہ کے کہ یہ جماعت ایسی ہے کہ وہ اکیلی یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے اور بوجہ ایک شہر کی جماعت ہونے کے فوراً مشورہ کرسکتی ہے۔ باقی جماعتیں ایسی ہیں جو اگر حصہ لینا چاہیں تو تین تین چار چار یا پانچ پانچ ضلعے مل کر اِس رقم کو پورا کر سکتی ہیں اور اِس وجہ سے اُن کا جلدی مشورہ کرکے اِس تحریک میں حصہ لینے کی اطلاع دینا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ لیکن جن کے دلوں میں جوش اور اخلاص ہے اُن کو اِس موقع سے محروم کردینا بھی ظلم ہے۔ مومن ہی سمجھ سکتا ہے کہ قربانی کا موقع نہ ملنے سے اُسے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ منافق تو موقع نکل جانے پر سمجھتا ہے چلو چُھٹی ہوئی۔ مگر مومن کی اِس چھ ہزار یا پانچ ہزار یا دس ہزار روپیہ کی قربانی کو اگر قبول نہ کیا جائے تو اُس کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اُس کو دس ہزار روپیہ واپس کردیا گیا ہے یا پانچ ہزار روپیہ واپس کردیا گیا ہے یا چھ ہزار روپیہ واپس کردیا گیا ہے بلکہ اُسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چھ ہزار خنجر اُس کے سینہ میں گھونپ دیا گیا ہے۔ اِس تکلیف کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کی روحانی آنکھیں ہوں۔ دوسری دنیا اِس تکلیف کو نہیں سمجھتی۔
پس اِن حالات کو مدنظر رکھ کر مَیں نے تجویز کیا ہے کہ قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ مَیں خود ہی علاقوں پر تقسیم کردوں تاکہ سب کو اِس تحریک میں حصہ لینے کا موقع مل سکے اور اِس ثواب سے وہ محروم نہ رہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کلکتہ کی جماعت نے خود اپنے ذمہ اکیس ہزار روپیہ لیا ہے۔ اِس کے علاوہ وہاں کے ایک خاندان کے دو بھائیوں نے چھ ہزار روپیہ جماعت سے علیحدہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ پس وہاں سے یہ رقم آسانی سے جمع ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے خود ہی یہ بوجھ اُٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ پس اِن سات حصوں میں سے پہلے حصہ کے بوجھ اُٹھانے کا حق کلکتہ کو ملتا ہے۔ یعنی قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا خرچ۔ اور یہ حق مَیں ان کو دیتا ہوں۔ اگر وہ چاہیں تو ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بنگال کی دوسری جماعتوں کو بھی اِس میں شامل کر لیں۔ اِس کے علاوہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگاتا ہوں۔ یہ دو تراجم کے خرچ کے علاوہ ہوگا۔ اگر میری اور میرے خاندان کی حالت اِس وقت ایسی ہوتی کہ ہم اپنے ذمہ ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ علیحدہ لے سکتے تو مَیں اپنا حصہ الگ لے لیتا لیکن سرِ دست مَیں اِس کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اِس لیے سرِدست ہم بھی باقی جماعت قادیان کے ساتھ شامل ہو کر ایک ترجمہ کی اشاعت میں حصہ لے لیں گے۔ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی ایک زبان میں مکمل اشاعت کا خرچ مَیں لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگاتا ہوں۔ لجنہ کی طرف سے بارہ ہزار کا وعدہ پہلے آچکا ہے۔ یعنی دو تراجم کرانے کا خرچ اِس بارہ ہزار کو اِس نئی ذمہ داری کے ساتھ ملایا جائے تو کُل تینتیس ہزار روپیہ بنتا ہے۔ اِس رقم کا جمع کرنا ان کے لیے مشکل نہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر وہ اچھی طرح کو شش کریں تو تینتیس ہزار روپیہ سے بھی زیادہ جمع کرسکتی ہیں۔ مسجد جرمن کے لیے ستّر ہزار سے زیادہ روپیہ انہوں نے جمع کر لیا تھا اور اب اُس وقت سے جماعت بھی زیادہ ہے اور مالی حیثیت کے لحاظ سے بھی پہلے کی نسبت اب اچھی حالت ہے۔ اِس لیے بغیر اِس کے کہ دوسرے چندوں پر کوئی اثر پڑے وہ یہ بوجھ آسانی سے اٹھا سکتی ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اِس سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتی ہیں۔ اگر لجنہ کی تنظیم اچھی ہو اور اچھا کام کرنے والیاں ہوں جو پروپیگنڈا کریں اور چِٹھیاں لکھیں تو وہ ایک لاکھ روپیہ بغیر کسی مشکل کے بڑی آسانی سے ادا کرسکتی ہیں۔ ہماری جماعت میں دو تین سَو آدمیوں کی بیویاں ایسی ہیں جو سو سو روپیہ آسانی سے دے سکتی ہیں۔ یہ سو سو روپیہ میں نے کم سے کم بتایا ہے ورنہ بعض ایسی بھی ہیں جو تین تین چار چار سو دے سکتی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو ہزار ہزار روپیہ دے سکتی ہیں۔ بہرحال ایسی مالدار عورتیں آسانی سے تیس چالیس ہزار دے سکتی ہیں اور باقی متوسط طبقہ اور غرباء کو ملا کر آسانی سے ایک لاکھ روپیہ جمع ہوسکتا ہے کیونکہ مالدار طبقہ سے زیادہ چندہ غرباء کا ہوتا ہے۔ غرباء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ پس اگر ہماری جماعت کی غریب مستورات سے اٹھنّی اٹھنّی بھی جمع کی جائے تو پچاس ہزار روپیہ بن جائے گا۔ پس عورتوں کے ذمہ ایک لاکھ روپیہ بھی لگا دیا جائے تو آسانی سے دے سکتی ہیں۔ مگر چونکہ تحریک جدید بھی اور دوسری بھی بعض مدیں ہیں اِس لیے فی الحال اکیس ہزار روپیہ کی رقم ان کے ذمہ اَور لگاتا ہوں۔ بارہ ہزار کا ان کا پہلا وعدہ ہے۔ اکیس ہزار روپیہ یہ ملا کر تینتیس ہزار روپے ہو جائیں گے۔ چوتھا حصہ حیدر آباد دکن صوبہ مدراس اور بمبئی اور میسور کی جماعتوں کو دیتا ہوں۔ گویا بمبئی، مدراس اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں یہ سب مل کر اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لے لیں۔ اگر یہ جماعتیں اخلاص سے چندہ دیں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ رقم دے سکتی ہیں۔ گو اِن علاقوں میں جماعتیں کم ہیں مگر آسودہ حال لوگ خاصی تعداد میں ہیں۔ باقی تین حصے رہ گئے۔ چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت نے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ قصور کے عبدالرحمان صاحب مِل اونر نے کیا ہوا ہے اور یہ بارہ ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے اور صرف نو ہزار کی زائد ضرورت رہتی ہے۔ پس اِس حصہ کی رقم کو پورا کرنے کی ذمہ داری مَیں اضلاع لاہور، فیروز پور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور امرتسر پر مقرر کرتا ہوں۔ یہ پانچ اضلاع مل کر اکیس ہزار روپیہ آسانی سے دے سکتے ہیں۔ اگر جماعتوں کے کارکن اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو اِن پانچ ضلعوں کے لیے یہ کوئی بڑی رقم نہیں۔ ایک ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اکیس ہزار روپیہ صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ مل کر اُٹھا سکتے ہیں۔ان صوبوں میں جماعتیں بے شک کم ہیں لیکن اگر وہاں کے کارکن صحیح طور پر کوشش کریں تو اِتنا چندہ کوئی مشکل نہیں۔ پھر اِس کی ادائیگی کی مدت بھی ایک سال تک چلے گی اِس لیے اِس عرصہ میں ایسی کوشش کی جاسکتی ہے کہ بغیر دوسرے چندوں پر اثر ہونے کے یہ رقم آسانی سے جمع ہوسکے۔31؍اکتوبر1945ء تک اِس وعدہ کی ادائیگی کی میعاد ہے۔ اس کے متعلق مجھے پوری واقفیت نہیں کہ اِن صوبوں میں جماعتوں کی تعداد کتنی ہے۔ اگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی تعداد تھوڑی ہے اور اِس لحاظ سے اکیس ہزار روپیہ کی رقم زیادہ ہوئی تو پھر پنجاب کے بعض اضلاع مثلاً ملتان، ڈیرہ غازیخاں، مظفر گڑھ، راولپنڈی، کیمل پور وغیرہ بھی ان کے ساتھ شامل کر دیے جائیں گے۔ یہ چھ حصوں کی تقسیم ہوئی۔ ساتویں ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ مَیں ضلع لدھیانہ، ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ، دہلی، یوپی اور بہار کے علاقوں کے ذمہ لگاتا ہوں۔ یہ تین صوبے اور کچھ حصہ پنجاب کا۔ ہندوستان کا یہ وسطی علاقہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اکیس ہزار روپیہ میرے نزدیک آسانی سے جمع کرسکتا ہے۔ اِن سات جگہوں پر ایک ایک ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ مَیں نے خود تقسیم کردیا ہے۔ لیکن ایسا مَیں نے حُکماً نہیں کیا بلکہ ان کی آسانی اور سہولت کے لیے ایسا کیا ہے۔
لاہور کے علاقہ کی ذمہ داری مَیں لاہور کی جماعت پر ڈالتا ہوں کہ وہ شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیروز پور اور امرتسر کے اضلاع سے مشورہ کریں۔ اور اگر اِس مشورہ کے بعد وہ ایک حصہ کی ذمہ داری اُٹھا سکتے ہوں تو ایک حصہ اس حلقہ کے لیے لے لیں۔ اگر معلوم ہوا کہ یہ حلقہ اِس رقم کو پورا نہیں کرسکتا اور کچھ کسر رہ جاتی ہے تو کچھ اَور اضلاع اِس حلقہ میں ملا دیے جائیں گے۔ لیکن اگر فرق زیادہ ہوا تو پھر یہ حصہ کسی اَور جماعت اور حلقہ کو دے دیا جائے گا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ اگر وہ یہ انعام نہ لینا چاہیں تو پھر یہ انعام اَور علاقوں کو دے دیا جائے گا۔ اِسی طرح صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے امراء اپنے اپنے صوبہ کی جماعتوں سے مشورہ کرکے اطلاع دیں کہ اُن کا صوبہ کس حد تک یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ جب اِن دونوں کی طرف سے اطلاع آجائے گی تو پھر ہم اندازہ کرسکیں گے کہ آیا دونوں صوبے مل کر اکیس ہزار روپیہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر اِس اندازہ سے کچھ کمی ہوئی تو پھر اَور علاقہ ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ لیکن اگر یہ معلوم ہوا کہ وہ رقم اندازہ سے بہت کم ہے تو پھر یہ انعام ہم کسی اَور علاقہ کو دے دیں گے۔ اِسی طرح دہلی کے حلقہ کے لیے دہلی مرکز ہے۔ دہلی کی جماعت اپنے حلقہ یعنی ضلع لدھیانہ، ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ، یوپی اور بہار کی جماعتوں سے مشورہ کرکے اطلاع دے کہ آیا یہ حلقہ اکیس ہزار روپیہ کا بوجھ بغیر اِس کے کہ دوسرے چندوں پر اِس کا اثر پڑے اپنے ذمہ لے سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ان کا جواب آیا کہ ہاں ہم آسانی سے لے سکتے ہیں تو پھر یہ انعام ان کو دے دیا جائے گا ورنہ یہ انعام ہم کسی اَور علاقہ کو دے دیں گے۔ کلکتہ والوں نے خود ہی وعدہ کیا ہے۔ اِس لیے ان کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں۔ البتہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بنگال کی جماعتوں کو ساتھ ملا لیں۔ حیدر آباد کے حلقہ کے لیے مَیں سکندر آباد اور حیدر آباد کی جماعتوں کے امراء اور سیکرٹریوں کو ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ میسور، بمبئی اورمدراس کی جماعتوں کے امراء اور کارکنوں سے مشورہ کرکے اطلاع دیں۔ اگر ان جماعتوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ اٹھا سکیں گے تو یہ انعام ان کے پاس رہنے دیں گے۔ یا اگر انہوں نے کہا کہ فلاں حد تک اُٹھا سکتے ہیں تو پھر اَور قریب قریب کے علاقوں کو ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اور اگر انہوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے یا وہ اندازہ سے بہت کم اٹھا سکتے ہوں کیونکہ اِس طرف جماعتیں بہت کم ہیں تو پھر ہم یہ انعام کسی اَور علاقہ کو دے دیں گے۔
پس اِن سات جگہوں پر مَیں نے یہ انعام اپنی طرف سے تقسیم کردیا ہے۔ حُکم کے طور پر نہیں بلکہ ان کی سہولت اور آسانی کے لیے ۔کیونکہ خود حلقے مقرر کرنا جماعتوں کے لیے ناممکن تھا تاکہ وہ اس انعام سے محروم نہ رہ جائیں۔ ابھی بہت سے علاقے باقی ہیں سیالکوٹ، گجرات، جہلم، سرگودھا، لائلپور، ملتان، منٹگمری، جالندھر، ہوشیارپور وغیرہ۔ یہ سب اضلاع ابھی تک ریزرو کے طور پر رکھے ہیں تاکہ اگر دوسرے حلقوں میں سے بعض یہ پورا بوجھ نہ اُٹھا سکیں اور اُن کے چندوں میں کچھ کمی رہ جائے تو اِن علاقوں میں سے کچھ حصہ اُن کے ساتھ ملا دیا جائے۔ یا اگر کوئی علاقہ یہ بوجھ نہ اٹھانا چاہے تو پھر وہ انعام ریزرو اضلاع کو دے دیا جائے۔ متذکرہ علاقوں کے سِوا اَور بھی کئی علاقے ہیں جن کو مَیں نے ریزرو کے طور پر رکھ لیا ہے۔ پس یہ اعلان مَیں نے اِس لیے کردیا ہے تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں اِس تحریک میں حصہ لینے اور اِس موقع سے فائدہ اٹھانے کا جوش ہے وہ مایوس نہ ہوں۔ تراجم کا خرچ پورا ہو چکا ہے۔ مگر خالی ترجمہ اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک چَھپ کر اُس کی اشاعت نہ ہو۔ اِس لیے ان تراجم کا چھپوانا بھی ترجمہ ہی کا حصہ ہے۔ اور جن کو تراجم میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا وہ ان کی چھپوائی میں حصہ لے کر ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ترجمہ جب تک چَھپ نہ جائے بالکل ایسا ہی ہے جس طرح ایک آدمی گونگا ہو اور بات نہ کرسکے اور بہرا ہو کسی دوسرے کی بات بھی نہ سن سکے۔ ایسے ہی ترجمہ بھی اُس وقت تک بے کار ہے جب تک اُسے شائع نہ کیا جائے۔ پس تراجم کی اشاعت میں حصہ لینے والے تراجم کرانے میں حصہ لینے والوں سے کم نہیں۔ اُنہوں نے ترجمہ کروانے میں حصہ لے کر ثواب حاصل کیا، یہ اِس ترجمہ کو چھپوا کر اس ثواب میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جنہوں نے تراجم میں حصہ لے لیا ہے اُنہوں نے اِس لیے حصہ نہیں لیا کہ وہ دوسروں سے اخلاص میں زیادہ تھے بلکہ اِس لیے کہ قرب میں رہنے کی وجہ سے ان کو حصہ لینے کا پہلے موقع مل گیا۔ ہماری شریعت کا فیصلہ ہے کہ جس کے اندر جوش اور اخلاص ہو خدا تعالیٰ اُس کو ثواب میں حصہ دے دیتا ہے۔ مگر چونکہ ظاہر طور پر حصہ نہ لے سکنے کا دل کو صدمہ ہوتا ہے اِس لیے میں نے ظاہر میں بھی موقع مہیا کردیا ہے تاکہ مومنوں کے دلوں کو صدمہ نہ ہو اور وہ ظاہر و باطن میں ثواب اور کام میں شریک ہوں۔ اور اِسی غرض کے لیے مَیں نے ایک ایک ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اِن سات حصوں پر تقسیم کردیا ہے۔ ایک ترجمہ قرآن مجید اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ سارے ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگایا ہے۔ ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ ڈالا ہے۔ ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ لاہور، امرتسر، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور فیروز پور کی جماعتوں پر ڈالا ہے۔ ایک قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ دہلی، بہار، یوپی اور ضلع لدھیانہ، ضلع انبالہ اور ریاست پٹیالہ کے ذمہ لگایا ہے۔ ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ پہلے ہی کلکتہ کی جماعت نے اپنے ذمہ لے لیا ہوا ہے۔ ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ حیدر آباد دکن، میسور، بمبئی، مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے ذمہ لگایا ہے۔ اور ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کی جماعتوں کے ذمہ لگایا ہے۔ یہ سات تراجم قرآن کی اشاعت اور سات کتب کی اشاعت کا خرچ ہے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ ذمہ داری اختیاری ہے جبری نہیں۔ جو حلقہ اِس بوجھ کو نہ اُٹھا سکے وہ اطلاع دے۔ اُس کا حصہ کسی دوسرے حلقہ کو دے دیا جائے گا۔ پس جب اِن علاقوں کی طرف سے اطلاع آجائے گی کہ انہوں نے یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہے اُس وقت سے یہ چندہ ان کے ذمہ سمجھا جائے گا۔ مَیں نے صرف ان کو مشورہ دیا ہے اور اِس لیے ان کے نام لے دیے ہیں تاکہ وہ اِس موقع سے محروم نہ رہ جائیں۔ ورنہ ضروری نہیں کہ وہ یہ بوجھ اپنے ذمہ لیں۔ مَیں نے صرف اِس لیے نام لے دیے ہیں تاکہ مشورہ کرکے ہمیں جلدی اطلاع دے سکیں۔ اور اگر وہ حصہ نہ لینا چاہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی ہمارے پاس جماعت کے ایسے حصے ریزرو ہیں جو اِس بوجھ کو اُٹھا لیں گے یا یوں کہو کہ اِس انعام کو اُچک لیں گے۔
پس مَیں نے جماعتوں کے نام بھی بتا دیے ہیں اور ہر جگہ کا مرکز بھی مقرر کر دیا ہے۔ ہر علاقہ کے مراکز کو چاہیے کہ مجھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک اپنے حلقہ کی جماعتوں سے مشورہ کرکے اطلاع دیں کہ کس حد تک ان کا علاقہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اِن وعدوں کی ادائیگی کے لیے ایک سال کی میعاد ہے۔ آخری میعاد 31؍ اکتوبر 1945ء ہے۔ پس مجھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک بلکہ 25 نومبر تک یہ اطلاع پہنچ جانی چاہیے کہ آیا وہ علاقے جن کے مَیں نے نام لیے ہیں یہ بوجھ اُٹھانے کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ تاکہ اگر وہ تیار نہ ہوں تو ہم یہ انعام دوسروں کو دے سکیں۔ ابھی پنجاب کے کئی ضلعے باقی ہیں اور ابھی ہندوستان کے کئی علاقے باقی ہیں جن پر ہم یہ انعام تقسیم کرسکتے ہیں۔ اِسی طرح ہندوستان کے باہر کے علاقے باقی ہیں۔ اور ابھی بعض افراد کے گروپ بھی باقی ہیں جو آسانی سے یہ بوجھ اپنے ذمہ لے سکتے ہیں۔ اِس لیے جن علاقوں کے مَیں نے نام لیے ہیں اُن پر کوئی جبر نہیں بلکہ اُن کی سہولت کے لیے نام لیے ہیں ۔چاہیں تو یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیں اور نہ چاہیں تو معذوری ظاہر کردیں۔ ہم بغیر کسی شکوہ کے یہ بوجھ کسی اَور علاقہ کے سپرد کردیں گے"۔ (الفضل8 نومبر، 1944ء)


39
مخلصینِ جماعت کی التجاؤں پر تراجم قرآن کریم
کے اخراجات کی نئی تقسیم
(فرمودہ 10 نومبر4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے بعض حالات کی وجہ سے اِس دفعہ پھر گزشتہ خطبات کے تسلسل میں ہی جمعہ کا خطبہ پڑھنا پڑا ہے اور وہ حالات یہ ہیں کہ جماعت کے مختلف افراد کی طرف سے، اُن کی طرف سے بھی جنہوں نے چندہ کی پیشکش کی تھی اور اُن کی طرف سے بھی جو اِس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے متواتر اور مسلسل اِس بات پر زور دیا گیا کہ اُنہیں اِس تحریک میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کے تراجم کے متعلق پوری رقم کا وعدہ کیا تھا اُنہوں نے تو گو وہ مختلف جگہوں کے ہیں یہ سوال اٹھایا ہے جس کا ایک رنگ میں مَیں پچھلے جمعہ میں جواب دے بھی چکا ہوں کہ جس وقت ہم نے خطبہ پڑھا ہے اُس وقت ہم نے اپنی درخواست بھجوا دی تھی۔اِس لیے ہم میں اور اُن لوگوں میں امتیاز نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے کہ خطبہ کے بعد اُسی عرصہ میں اپنی درخواستیں بھجوائی ہیں۔ان میں سے بعض نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جو تراجم آپ نے جماعت پر تقسیم کیے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو اُن لوگوں نے خود نہیں مانگے جن کے سپرد اُس ترجمہ کے اخراجات کا مہیا کرنا کیا گیا ہے مثلاً لجنہ اماء اللہ کے سپرد جو دو تراجم کیے گئے ہیں وہ دونوں ایسے ہیں جو لجنہ نے خود نہیں مانگے۔ اِسی طرح قادیان کے رہنے والوں کو جن تراجم کا حق دیا گیا ہے ان میں سے ایک ایسا ہے جس کا انہوں نے خود مطالبہ نہیں کیا۔ اس طرح تین تراجم ایسے ہیں یا اگر ایک کو اِس وجہ سے الگ کردیا جائے کہ عورتیں بھی اس تحریک میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں تو دو تراجم ایسے ہیں جو بجائے اُن لوگوں کو ملنے کے جنہیں زائد طور پر یہ حصہ دے دیا گیا ہے اُن دوسرے لوگوں کو ملنے چاہییں جن کا حق مارا گیا ہے۔ اور جو اگر پورے ترجمہ کے خرچ میں حصہ نہیں لے سکے تو وہ اپنی طاقت اور توفیق کے مطابق اِس تحریک میں شامل ہو کر ثواب حاصل کرنے کی انتہائی آرزو رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اپنے خطوط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم تو پورے ترجمہ کا حصہ لینا چاہتے تھے لیکن پیشتر اِس کے کہ ہم رقم کا انتظام کرسکتے یہ اعلان ہو گیا کہ تمام حصے ختم ہو گئے ہیں۔ اِسی طرح وہ لوگ جو انفرادی طور پر اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے تھے اُنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو تقسیم کی گئی ہے اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں رکھا گیا۔ مثلاً ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں بھرتی ہو کر گئے ہیں اُن میں سے بعض کے مجھے خطوط آئے ہیں کہ ہمیں کسی گروہ میں بھی شامل نہیں کیا گیا حالانکہ ہم بھی اِس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اِسی طرح بعض اضلاع ایسے ہیں جن کو ریزرو کے طور پر رکھا گیا تھا ممکن ہے اُن کے دلوں میں بھی اِس تقسیم کے متعلق کوئی اعتراض پیدا ہو۔ انہی اعتراضات میں سے ایک اعتراض اُن افراد کی طرف سے بھی آیا ہے جو براہِ راست مرکز میں اپنا چندہ بھجوایا کرتے ہیں کہ اس تحریک میں بڑی بڑی جماعتیں تو شامل کر لی گئی ہیں لیکن وہ افراد جو براہ راست اپنا چندہ قادیان بھیجا کرتے تھے رہ گئے ہیں اور اُن کو اِس تحریک میں شمولیت کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔ غرض مختلف جماعتوں اور مختلف افراد کی طرف سے اِس بارہ میں مجھے خطوط پہنچ رہے ہیں۔ اور بعض خطوط میں تو اِس قسم کے اضطراب کا اظہار کیا گیا ہے اور اِس قدر قلق اور گھبراہٹ کا ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری جماعت کے ان دوستوں کو جنہیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا سخت تکلیف ہو رہی ہے اور اُن کے لیے یہ امر انتہائی کرب اور دُکھ کا موجب ہوا ہے۔
جس دوست نے یہ لکھا ہے کہ بعض حصے بِلا طلب کرنے کے بعض کو زائد طور پر دے دیے گئے ہیں جیسے لجنہ اماء اللہ ہے کہ اُسے بجائے ایک حصہ کے دو حصے دے دیے گئے ہیں مَیں نے اُس دوست کے اِس سوال پر غور کیا ہے اور مجھے اُس کی یہ بات معقول معلوم ہوئی ہے۔ یعنی جہاں تک مطالبہ کرنے والوں کا سوال ہے اُسے نظر انداز کرکے بھی بعض جماعتوں کو اُن کے حق سے زائد حصہ دے دیا گیا ہے۔ مثلاً لجنہ اماء اللہ کو پہلے ایک حصہ دیا گیا تھا اور اِس کی وجہ جیسا کہ مَیں نے بیان بھی کی تھی یہ تھی کہ عورتیں ایک بے زبان گروہ ہیں جو ابھی پورے طور پر منظّم نہیں ہوئیں اور اُن کے لیے اکٹھا ہونے اور باقاعدہ طور پر اِس تحریک میں اپنی شمولیت کا اعلان کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ اِس لیے مَیں نے اُن کو ایک ترجمۂ قرآن کے خرچ کا حق اپنے طور پر دے دیا تھا۔ لیکن بعد میں ان کو جو دوسرا حصہ دیا گیا وہ یقیناً ایک زائد چیز ہے۔ اِسی طرح قادیان والوں کا ایک حصہ تو اُن کا حق کہلا سکتا ہے لیکن دوسرا حصہ جو اُن کو دیا گیا وہ اُن کا حق نہیں کہلا سکتا بلکہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ ایک جگہ اور ایک مقام میں رہنے والوں کو بجائے ایک کے دو حصے دے دیے گئے ہیں۔ پس اِس حصہ کے متعلق بھی جو اعتراض دوستوں کی طرف سے کیا گیا ہے وہ ایک حد تک وزنی ہے اور میرے نزدیک وہ اِس سوال کے اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ جب وہ اِس بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار ہیں تو پھر جن کو زائد از حق ملا ہے ان سے و ہ حصہ انہیں واپس دلایا جائے۔
ہماری جماعت کے وہ چندہ دہندگان جو براہ راست اپنا چندہ مرکز میں بھجوایا کرتے ہیں اور جنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ہمیں اِس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُن کا اعتراض بھی ایک حد تک وزنی ہے۔ گو مَیں نے ایسے تمام دوستوں کو ریزرو کے طور پر رکھا ہوا تھا اور میرا منشاء یہ تھا کہ اگر چندہ میں کمی رہی یا بعض اضلاع اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے سے قاصر رہے تو ایسے دوستوں کو اِس ثواب میں شامل ہونے کا موقع دے دیا جائے گا۔ مگر جو لوگ ریزرو کے طور پر علیحدہ رکھے گئے ہوں ضروری نہیں ہوتا کہ اُن تک حصہ پہنچے۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ بچا ہوا کھانا ہم تمہیں دیں گے۔ جب کسی کو یہ کہا جائے تو ضروری نہیں ہوتا کہ اُسے کھانا ملے بلکہ اُس کو کھانا ملنا اِس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ضرورت سے زائد اگر کچھ بچا تو دیا جائے گا ورنہ نہیں۔ اسی طرح ضروری نہیں تھا کہ ریزرو میں جن اضلاع یا جن افرادِ جماعت کو رکھا گیا تھا اُن کو اس تحریک میں شامل ہونے کا ضرور موقع ملتا۔ بالکل ممکن تھا کہ یہ تحریک دوسرے دوستوں کے ذریعہ ہی پوری ہوجاتی۔ اِسی وجہ سے اُن کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں اُن کا یہ اعتراض درست ہے۔
جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں ملازم ہیں اُن کی طرف سے یہ سوال پیش ہوا ہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں ہماری جان جانے کا ہر وقت خطرہ ہے اور ہم اس مقام پر محض آپ کے ارشاد اور آپ کے حکم کی تعمیل میں آئے ہیں۔ آپ نے ہمیں کہا کہ ہم جنگ میں بھرتی ہوں اور آپ نے ہمیں کہا کہ اِس جنگ میں شامل ہونا انصاف کے قیام اور اسلام کی ترقی کے لیے مُمِد ہے۔آپ کے اِس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہم جنگ میں شامل ہوئے اور اب ہر وقت اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے ہم تیار کھڑے ہیں۔ مگر ہمارا اِس تحریک میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا۔ جب ہم آپ کے حکم سے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں اور مرکز سے دُور چلے گئے ہیں تو قرآن کریم کے ترجمہ میں حصہ لینے سے اِس لیے محروم رہ جانا کہ ہم دُور ہیں اور ہم تک فوراً آواز نہیں پہنچ سکتی درست نہیں۔ اُن کی یہ بات بھی میرے نزدیک بہت معقول ہے اور اس قابل ہے کہ اِس کی طرف توجہ کی جائے۔
اِسی طرح پنجاب کے بہت سے اضلاع ایسے ہیں جنہیں اِس تحریک میں شامل نہیں کیا گیا۔ مجھے اُن اضلاع کی طرف سے ابھی تک اجتماعی رنگ میں کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے۔ میرے پاس یا تو اُن افراد کی طرف سے خطوط آئے ہیں جنہوں نے ایک ایک ترجمہ کا پورا خرچ چندہ کے طور پر پیش کیا تھا مگر اُن کا وعدہ اِس لیے قبول نہ کیا گیا کہ اُس وقت تک بعض اَور دوست مطلوبہ رقم کو پورا کر چکے تھے یا جو اِس طرح حصہ لینا چاہتے تھے مگر اطلاع دینے سے پہلے ہی حصے ختم ہو گئے۔ یا اُن لوگوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں جو سپاہی وغیرہ ہیں اور فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں۔ اور یا پھر اُن افراد کی طرف سے خطوط پہنچے ہیں جو جماعتوں میں شامل نہیں۔ انفرادی طور پر الگ الگ مرکز میں اپنا چندہ بھجواتے ہیں۔ ممکن ہے وہ جماعتیں جن کو اِس تحریک میں ابھی تک شامل نہیں کیا گیا وہ بھی موقع پر احتجاج کرتیں جیسے سیالکوٹ ہے، سرگودھا ہے، لائل پور ہے، منٹگمری ہے، گجرات ہے، جہلم ہے، جالندھر ہے، ہوشیار پور ہے مگر ابھی تک اُن کی طرف سے مجھے اِس قسم کے کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے۔ صرف تین گروہ ہیں جن کی طرف سے مجھے اعتراضات پہنچے ہیں۔
اوّل وہ جنہوں نے پورے ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اِس وجہ سے کہ اُس وقت تک تمام تراجم کے حصے پورے ہو چکے تھے اُن کا وعدہ قبول نہ کیا گیا اُن کا یہ اعتراض ہے کہ جماعت میں سے ترجمۃ القرآن کے سلسلہ میں بعض کو چندہ دینے کا دُہرا حق دے دیا گیا ہے اور پھر بعض صورتوں میں یہ دُہرا حق اُن کو دیا گیا ہے جنہوں نے اِس حق کو مانگا نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اول تو اگر کوئی مانگے بھی تو اُسے دُہرا حق نہیں ملنا چاہیے لیکن بغیر مانگنے اور بغیر تقاضا کرنے کے تو کسی کو اُس کے حق سے زائد کوئی چیز دے دینا بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ بعض اَور لوگوں کے حقوق پر اس کا اثر پڑتا ہو درست نہیں ہوسکتا۔ اور مَیں نے جیسا کہ بیان کیا ہے میرے نزدیک اُن کا یہ اعتراض معقول ہے۔
دوسرے وہ ہیں جو براہ راست چندہ بھیجا کرتے ہیں اُنہوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ ہمارے لیے اِس تحریک میں شامل ہونے کاکوئی حق نہیں رکھا گیا۔ تیسرے وہ جو میدانِ جنگ میں گئے ہوئے ہیں یا فوج میں مختلف عُہدوں پر کام کر رہے ہیں اُن کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ جب ہم آپ کے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں تو ہمارا بھی اِس تحریک میں حصہ ہونا چاہیے۔
درحقیقت ہندوستان میں تین قسم کے سپاہی کام کر رہے ہیں۔ ایک وہ جو محض تنخواہ اور روپیہ کے لیے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ اُن کا مقصد صرف دنیا کمانا ہوتا ہے کوئی اَور مقصد اُن کے سامنے نہیں ہوتا۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا پیشہ سپاہ گری ہوتا ہے اور وہ فوج میں بھرتی ہو کر اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ گو ان لوگوں کے دلوں میں بھی حُبّ الْوطنی کا جذبہ موجود ہوتا ہے مگر بہرحال فوج میں شامل ہونے سے اُن کی اصل غرض اپنی فوجی روح اور جنگی سپرٹ قائم رکھنا ہوتی ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بلند مقصد کے لیے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں جیسے ہماری جماعت کے افراد جو فوج میں بھرتی ہوئے انہوں نے میری ہدایات اور میرے احکام کے مطابق اپنے آپ کو بھرتی کے لیے پیش کیا بلکہ ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی معقول ملازمتیں ترک کرکے محض میرے حکم کی اطاعت کے لیے فوج میں بھرتی ہو گئے تاکہ وہ اُس جنگ میں حصہ لے سکیں جس کے متعلق مَیں نے اُنہیں یہ کہا تھا کہ یہ ملک کی خدمت اور دُنیا سے ظلم اور تعدی کو مٹانے کا ذریعہ ہے۔
مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہماری جماعت میں سے جس قدر لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ہیں وہ سب کے سب بِلااستثناء اِسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں۔ ممکن ہے بعض احمدی بھی روپیہ کمانے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے ہوں۔ اِسی طرح ممکن ہے بعض احمدی بھی جنگی روح اور اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھنے کے لیے فوج میں شامل ہوئے ہوں۔ لیکن بہرحال ہماری جماعت کے وہ دوست جو محض میرے حکم کی تعمیل کے لیے اِس جنگ میں شامل ہوئے ہیں جو اِس لیے فوج میں بھرتی نہیں ہوئے کہ دنیا کمائیں یا اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھیں بلکہ اِس لیے گئے ہیں کہ یہ جنگ دنیا سے ظلم مٹانے کے لیے لڑی جا رہی ہے اور مومن کا کام ہے کہ وہ جَور اور ظلم کو مٹائے اور اپنے ملک کی خدمت کرے وہ یقیناً دنیا کمانے کے لیے نہیں گئے بلکہ ثواب کمانے کے لیے گئے ہیں۔ اور ایسے آدمی اگر اِس جنگ میں مارے جائیں گے تو وہ یقیناً جیسا کہ گزشتہ دنوں "الفضل" میں ایک بحث بھی چَھپی تھی ایک رنگ کے شہید قرار پائیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شہادت کا دائرہ محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے دائرہ کو آپ نے بہت وسیع قرار دیا ہے۔ ایک شہادت وہ ہوتی ہے جو خالص دینی جنگ میں شامل ہونے پر انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جب اسلام پر اس کو مٹانے کے لیے دشمن کی طرف سے حملہ ہو تو اس وقت خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اُس وقت جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اِسی لیے جو شخص اِس قسم کی مذہبی جنگ میں شامل ہوتا اور اپنی جان اسلام کے لیے قربان کر دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے شہید قرار دیا ہے۔ لیکن شہادت صرف یہی نہیں بلکہ اَور بھی کئی قسم کی شہادتیں ہیں جنہیں اسلام نے تسلیم کیا ہے۔ انہی شہادتوں میں سے ایک یہ بھی شہادت ہے یعنی اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص اس جنگ میں مارا جاتا ہے تو وہ یقیناً شہید ہے۔ بشرطیکہ اُس کی نیت درست ہو اور وہ محض اِسی ارادہ سے اِس جنگ میں شامل ہوا ہو کہ مجھے اپنے امام کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا سے ظلم اور تعدی کو مٹانے اور اسلام کے راستہ سے مختلف قسم کی روکوں کو دور کرنے کے لیے اِس جنگ میں شمولیت ضروری ہے۔ پس وہ لوگ جو میرے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں اُن کا حق یقیناً ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اِسی طرح وہ لوگ جن کو اِس چندہ میں بالکل شامل نہیں کیا گیا اور اُنہیں اِس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُن کا اعتراض بھی وزنی ہے۔
اِن حالات میں مَیں نے غور کیا کہ کیا مَیں کوئی ایسی تدبیر اختیار کرسکتا ہوں جس سے یہ تمام اعتراضات مٹ جائیں۔ آخر غور کرنے کے بعد مَیں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ سب سے پہلے مَیں اپنی قربانی پیش کروں اور اِس ذریعہ سے دوسرے دوستوں کے لیے اِس تحریک میں شامل ہونے کا راستہ صاف کر دوں۔ چنانچہ مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں نے جو ایک ترجمۃ القرآن اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مخصوص کیا ہوا تھامَیں اِس ترجمہ کی رقم کو قادیان کے چندہ میں ہی جمع کرا دوں اور اپنا حق چھوڑ دوں۔ مَیں نے جس رقم کا وعدہ کیا تھا وہ بہرحال قائم رہے گی لیکن اب بجائے اِس کے کہ وہ ترجمۃ القرآن میری طرف سے شائع ہو قادیان کی جماعت کی طرف سے شائع ہوگا اور میرا چندہ بھی قادیان کے چندہ میں ہی شامل ہوگا۔
لجنہ اماء اللہ کو جو حصہ حق کے طور پر مل سکتا ہے وہ درحقیقت ایک ہی ہے۔ دوسرا حصہ اُن کو زائد طور پر اِس امید پر دیا گیا تھا کہ وہ اس حصے کا بوجھ بھی اٹھا سکیں گی اور زائد طور پر اِس قدر چندہ اکٹھا کر لیں گی۔ خود لجنہ کی طرف سے اِس قسم کی درخواست نہیں آئی تھی۔ پس وہ دوسرا حصہ جو لجنہ اماء اللہ کو دیا گیا تھا اُس سے بھی مَیں لجنہ اماء اللہ کو فارغ کرتا ہوں۔ اِن دو حصوں کو فارغ کرنے کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ میرے پاس اِس سلسلہ میں جو دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں مَیں یہ فارغ کردہ حصے اُن میں تقسیم کر دوں۔ مثلاً حلقہ لاہور کی طرف سے ہی میرے پاس دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں۔ مگر دو حصے کسی ایک حلقہ کو نہیں دیے جاسکتے۔ کیونکہ اِس طرح پھر وہی اعتراض پیدا ہوجائے گا جو پہلی تقسیم پر کیا جا چکا ہے اور چونکہ یہ اعتراض خود دوسرے دوستوں نے ہی اٹھایا ہے۔ اِس لیے اب دوبارہ کسی کو دو حصے دینا کوئی معنے نہیں رکھتا۔ بہرحال حلقہ لاہور کو ایک حصہ ہی مل سکتاہے دو حصے نہیں مل سکتے۔ پس دو حصے جو فارغ ہوئے ہیں ان میں سے ایک حصہ مَیں حلقہ لاہور کے دوستوں کو دیتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور اس کی چھپوائی کا خرچ اِسی طرح بارہ کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کے ترجمہ کی اشاعت اور اُس کی چھپوائی کا خرچ جو ستائیس ہزار روپیہ ہوگا حلقہ لاہور برداشت کرے۔ ملک عبدالرحمان صاحب قصور والوں نے ایک ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کے متعلق جو اطلاع دی ہوئی ہے وہ بھی اِسی میں شامل ہوگی۔ چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت کر چکی ہے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ ملک عبدالرحمان صاحب قصور والوں کی طرف سے ہے اِس لیے یہ دونوں رقمیں مل کر بارہ ہزار روپیہ بن گیا۔ باقی صرف پندرہ ہزار روپیہ رہ جاتا ہے جو اُن پانچ اضلاع کے لیے پورا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ جو حلقہ لاہور میں شامل کیے گئے ہیں یعنی اضلاع لاہور، فیروز پور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور امرتسر۔ اب میں چھٹا ضلع سیالکوٹ بھی اِن کے ساتھ شامل کر دیتا ہوں۔ سیالکوٹ وہ مقام ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے۔ اس لحاظ سے سیالکوٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پس مَیں سیالکوٹ کو بھی حلقہ لاہور میں ہی شامل کرتا ہوں تاکہ وہ اِس ثواب میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے۔
دوسرا بچا ہوا حصہ مَیں کلکتہ والوں کو دیتا ہوں۔ ان کی طرف سے بھی دو تراجم کے خرچ کو برداشت کرنے کا وعدہ آیا ہوا ہے۔ پس مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ بحیثیت جماعت کلکتہ کے ذمّہ ہوگا۔ کلکتہ کی جماعت کے علاوہ جس نے ایک ترجمہ قرآن اور اس کی چھپوائی کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے ایک اَور درخواست ترجمہ قرآن کا خرچ دینے کی شیخ محمد صدیق اور شیخ محمد یوسف صاحبان کی طرف سے بھی ہے۔ یہ دونوں بھائی ہیں اور اکٹھا ہی تجارت کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے تو یہاں تک اپنے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے کہ ان کی طرف سے مجھے چٹھی آئی ہے کہ اگر آپ قرآن کریم کا ایک ترجمہ ہمیں نہیں دیتے تو کم از کم قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا سارا خرچ جو پندرہ ہزار روپیہ ہے ہمارے ذمہ ڈال دیا جائے۔ اِس جماعت کے ذمہ بھی ستائیس ہزار روپیہ کا اکٹھا کرنا ہوگا۔ مگر چونکہ انگلستان سے اطلاع آئی ہے کہ تراجم کا خرچ زیادہ ہوگا اِس لیے مَیں بجائے ستائیس ستائیس ہزار روپیہ کے اٹھائیس ہزار روپیہ فی حصہ مقرر کرتا ہوں جس کے اندر ایک زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا خرچ اور ایک زبان میں قرآن کریم کو چھپوانے کا خرچ، اِسی طرح ایک زبان میں سلسلہ کی کسی کتاب کو چھپوانے کا خرچ شامل ہوگا۔ قِسم کے لحاظ سے دو لیکن حصوں کے لحاظ سے یہ چار کتابیں بن جاتی ہیں۔ یعنی دو ترجموں اور دو کتابوں کی اشاعت ایک ایک حلقہ کے ذمہ ہوگی۔ یہ دونوں مل کر چار کتابیں بن جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ ایک ترجمہ قرآن اور ایک اس ترجمہ قرآن کی اشاعت کا خرچ ہوگا اور یہ ایک ہی چیز ہے۔ اِسی طرح کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کتاب کی اشاعت کا خرچ علیحدہ ہوگا اور یہ بھی ایک ہی چیز ہے۔اِس لیے اقسام کے لحاظ سےتو یہ چار اقسام چندہ کی ہیں لیکن کام کے لحاظ سے دو ہی ہیں۔ پس اِس حصہ کا خرچ مَیں کلکتہ والوں پر ڈالتا ہوں۔ مگر چونکہ دوسری جماعتیں بھی اِس چندہ میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں اِس لیے بنگال اور اڑیسہ اور آسام اور برما فرنٹ کی طرف کے تمام فوجیوں کو مَیں اِس جماعت کے چندہ میں حصہ لینے کا حق دیتا ہوں۔ یہ تمام جماعتیں اور افراد اگر اِس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بڑے شوق سے لیں اور قادیان میں اپنا چندہ بھجوا دیں۔ تحریک جدید کا سیکرٹری چونکہ اِس تحریک کا بھی سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے اِس لیے جب اِن جماعتوں کی طرف سے چندہ آئے گا تو فنانشل سیکرٹری اِن جماعتوں کا چندہ کلکتہ کے حلقہ میں درج کرے گا۔ اِس طرح بنگال کے اگر کوئی اَور دوست اِس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بھی لے سکتے ہیں۔ آسام کی طرف کے جس قدر فوجی ہیں اور جو اِس چندہ میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں وہ بھی بڑے شوق سے اِس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اُن کو میری طرف سے اِس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ گویا یہ چندہ خالص کلکتہ کی جماعت کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ کلکتہ اور اُس کے نواحی کی تمام جماعتوں اور افراد کو یہ حصہ دیا جائے گا۔
ایک حصہ جیسا کہ پہلے اعلان ہو چکا ہے مَیں سارے ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کو دیتا ہوں۔ پہلے لجنہ اماء اللہ کے سپرد تینتیس ہزار روپیہ کا جمع کرنا تھا۔ مگر اس لیے کہ اب لجنہ اماء اللہ کو صرف ایک حصہ دیا جائے گا اٹھائیس ہزار روپیہ اُس کے ذمہ ڈالا جاتا ہے جو سارے ہندوستان کی عورتوں کی طرف سے ہوگا۔ مَیں اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو جو حلقے مقرر کیے گئے ہیں اُن حلقوں کی عورتوں کا چندہ اُن کے حلقوں میں شمار نہیں ہوگا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اُس کو شامل کیا جائے گا۔ مثلاً لاہور کے حلقہ میں عورتوں کی طرف سے جو چندہ جمع ہوگا وہ لاہور کے حلقہ میں شامل نہیں ہوگا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اُس روپے کو شامل کیا جائے گا۔ اِسی طرح کلکتہ یا دوسرے حلقوں کی عورتیں جو چندہ جمع کریں گی وہ چندہ اُن حلقوں میں شمار نہیں ہوگا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے حلقہ میں شمار ہوگا۔پس قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور اُس کی چھپوائی کا خرچ، اِسی طرح سلسلہ احمدیہ کی کتابوں یا اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اُس کتاب کی چھپوائی اور اُس کی اشاعت کا خرچ لجنہ اماء اللہ کے ذمہ ہوگا۔یہ تین حصّے ہوئے۔ اِس کے علاوہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ، اِسی طرح ایک کتاب کے ترجمے کا خرچ اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ خلیفہ قادیان کے ذمہ ہوگا۔ یہ چار حصے ہوئے۔ اب صرف تین حصے اَور رہ گئے ہیں۔ مَیں اپنے حق کی قربانی کا اعلان کر چکا ہوں اور مَیں نے بتایا ہے کہ دوستوں کی خواہشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ حق جو مَیں نے اپنے لیے رکھ لیا تھا اُسے مَیں نے ترک کردیا ہے۔ پس مَیں اپنا چندہ جو چھ ہزار روپیہ ہے قادیان کی جماعت کے چندہ میں اِنْشَاءَ اللّٰہُ جمع کرادوں گا۔لجنہ اماء اللہ نے چونکہ خود مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ اُنہیں زائد طور پر ایک حق دے دیا گیا تھا اِس لیے مَیں نے اُن کا وہ حصہ باہر کی جماعتوں کو دے دیا ہے۔ مَیں اِس نمونہ کو پیش کرتے ہوئے قادیان کی جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اُن کو دو تراجم کا حق نہیں بلکہ صرف ایک ترجمے کا حق حاصل ہے۔ مگر چونکہ وہ دوسرے ترجمے کے متعلق مجھ سے اجازت لے چکے ہیں اِس لیے مَیں یہ معاملہ اُن پر چھوڑتا ہوں کہ اگر وہ اپنے باہر کے بھائیوں کے جذبات اور اُن کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ایک حق کو چھوڑنا چاہیں تو جس طرح مَیں نے اپنے حق کو دوسروں کی خاطر چھوڑ دیا ہے اِسی طرح وہ بھی اپنے ایک حق کو جو اُنہیں زائد طور پر دیا گیا تھا دوسرے بھائیوں کی خاطر چھوڑ دیں۔ اگر کارکنان صدر انجمن احمدیہ جنہوں نے بعد میں ایک ترجمہ قرآن کا چندہ اپنے ذمہ لے لیا تھا اپنے دوسرے بھائیوں کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنا حصہ قادیان کے ہی چندہ میں منتقل کردیں گے جس کا حق قادیان والے پہلے حاصل کر چکے ہیں اِس دوسرے حصے سے دست بردار ہو جائیں تو اس طرح ایک اَور ترجمہ فارغ ہوجائے گا جو باہر کی جماعتوں کو دیا جاسکے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان یہ قربانی کریں اور اِس طرح ایک ترجمہ اَور فارغ ہوجائے تو یہ حصہ ہم صوبہ سرحد والوں کو دے دیں گے۔ اِس صورت میں صوبہ سرحد والوں کا فرض ہوگا کہ وہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ، اِسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ اپنے اوپر برداشت کریں۔ یہ حصہ تمام شمال مغربی اسلامی حلقہ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اور چونکہ مَیں اِس چندہ میں ساروں کو شامل کرنا چاہتا ہوں اِس لیے صوبہ سرحد میں صرف صوبہ سرحداور اُس کی جماعتیں شامل نہیں ہوں گی بلکہ صوبہ سندھ بھی شامل ہوگا۔ اِسی طرح بلوچستان کا علاقہ بھی اِسی میں شامل ہوگا۔پھر نہ صرف سندھ اور بلوچستان صوبہ سرحد کے ساتھ شامل ہوں گے بلکہ جس قدر شمال مغربی اضلاع حلقہ لاہور میں شامل نہیں کیے جاسکے وہ سب کےسب اِس میں شامل ہوں گے۔ چنانچہ جہلم، گجرات، راولپنڈی، میانوالی، کیمل پور، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، ملتان، منٹگمری، جھنگ، سرگودھا اور لائل پور تمام اضلاع اِسی حلقہ میں شامل ہوں گے۔ اِسی طرح ریاست کشمیر بھی، اِسی طرح جس قدر اسلامی ممالک اِس تحریک میں حصہ لینا چاہیں اُن کا چندہ بھی اِسی حلقہ میں شمار ہوگا۔ مثلاً ایران، افغانستان، عراق، شام، فلسطین اور مصر وغیرہ اسلامی ممالک کی طرف سے اگر چندہ آیا تو وہ بھی اِسی حلقہ میں شمار کیا جائے گا۔اب گویا ایک قرآن قادیان والوں کے حصہ میں آگیا، ایک قرآن لجنہ اماء اللہ کے حصہ میں آگیا، ایک قرآن حلقہ لاہور کے حصہ میں آگیا ایک قرآن حلقہ کلکتہ کے حصہ میں آگیا اور ایک قرآن صوبہ سرحد کے حصہ میں آگیا۔ اب رہا دہلی۔ دہلی میں چودھری ظفراللہ خان صاحب نے ایک ترجمۃ القرآن کے متعلق اپنا حصہ لیا ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اُن کو توفیق دے اور وہ بھی جماعت کے لیے اپنے اِس حق کو چھوڑ دیں اور جو چندہ اُنہوں نے دینا ہے وہ اِس حلقہ والوں کو دے دیں تو اس طرح قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ، اِسی طرح اسلامی کتب میں سے ایک کتاب کے ترجمے کا خرچ اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ دہلی والوں کے حصہ میں آ جاتا ہے۔اِس حلقہ میں بعض اُن اضلاع کو بھی شامل کرتا ہوں جو دوسرے حلقوں میں نہیں آسکے۔ جیسے جالندھر، ہوشیارپور، لدھیانہ، انبالہ، ریاست ہائے پٹیالہ، نابھ، مالیر کوٹلہ وغیرہ ہیں۔ مَیں اِس علاقہ کو دہلی کے حلقہ میں ہی شامل کرتا ہوں۔ اِسی طرح یوپی اور بہار وغیرہ کا چندہ بھی حلقہ دہلی میں شامل سمجھا جائے گا۔ گویا ہندوستان کا تمام شمالی اور مشرقی اور مغربی حصہ اِس تحریک میں شامل ہو گیا۔ اب صرف ایک ترجمہ رہ جاتا ہےجس کے اخراجات کو پورا کرنا مَیں حیدر آباد کے حلقہ کے سپرد کرتا ہوں۔ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ زیر بحث تھا وہ اب میں اِس حلقہ کو دیتا ہوں۔ گویا (1)ایک ترجمہ قادیان کی جماعت کی طرف سے ہوگا (2)ایک لجنہ اماء اللہ کی طرف سے (3) ایک حلقہ لاہور کی طرف سے (4) ایک حلقہ صوبہ سرحدکی طرف سے (5) ایک حلقہ کلکتہ کی طرف سے (6) ایک حلقہ دہلی کی طرف سے (7) ایک حلقہ حیدر آباد کی طرف سے۔ حیدر آباد سکندر آباد کے حلقہ میں ناگپور، میسور، بہار، مدراس، بمبئی اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں سب شامل ہوں گی۔ اِسی طرح سیلون بھی حیدر آباد کے حلقہ میں شامل ہوگا اور افریقہ کے مشرقی اور مغربی علاقے جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ بھی حیدر آباد دکن کے ساتھ شامل ہوں گے۔ اگر اُن کی طرف سے کوئی چندہ آیا تو وہ اِس حلقہ میں شامل ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں یورپین لوگوں میں خواہش ہوسکتی ہے کہ وہ قرآن کریم کے اِن تراجم کے اخراجات میں حصہ لیں اور ہم اُن کی خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ انگلستان میں تو چھوٹی جماعت ہے مگر امریکہ میں خدا کے فضل سے ہزاروں نو مسلم ہماری جماعت میں شامل ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ جب اُن کے پاس یہ تحریک پہنچے تو اُن کے دلوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہو کہ اُنہیں اِس تحریک میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ اِس لیے مَیں یورپین ممالک کو قادیان کے حلقہ میں شامل کرتا ہوں تاکہ دنیا کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے جس کو اِس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہ ملا ہو۔ جاوا، سماٹرا وغیرہ علاقے اِس وقت جنگ کی آگ میں گھرے ہوئے ہیں ان کی طرف سے کچھ رقم بطور ثواب کلکتہ کے حلقہ میں شامل کردی جائے گی تا یہ لوگ بھی اِس تحریک میں شامل ہو جائیں۔
اطالین زبان کے ترجمہ کے متعلق چونکہ مَیں نے یہ اعلان کیا تھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ میری طرف سے شائع ہوگا اور اب مَیں نے اپنے حق کی قربانی کرکے اُس چندہ کو جماعت قادیان کے چندہ میں منتقل کردینے کا اعلان کیا ہے اِس لیے مَیں یہ بھی تصریح کر دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ میرا چندہ اب قادیان کے چندہ میں جمع ہوگا اور مَیں نے اطالین زبان کا ترجمہ اپنے لیے مخصوص کیا ہوا تھا اِس لیے اب اطالین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اطالین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی، اِسی طرح اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کی چھپوائی قادیان کی جماعت کے چندہ سے ہوگی۔ دوسری زبان جرمن ہے۔ جرمنی میں مسجد قائم کرنے میں چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں نے حصہ لیا تھا اِس لیے مَیں اُن کی اِس نیکی کی یادگار کے طور پر اعلان کرتا ہوں کہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور جرمن زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی، اِسی طرح جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی لجنہ اماء اللہ کے چندہ سے ہوگی۔ تیسری زبان ڈچ ہے جس پر کلکتہ کے حلقہ کی طرف سے جمع شدہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ گویا ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت، اِسی طرح ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی حلقہ کلکتہ کے چندہ کے ذریعہ سے ہوگی۔کیونکہ جاوا اور سماٹرا کا ان علاقوں کے ساتھ تعلق ہے جن میں کئی کروڑ مسلمان آبادی ہے اور وہ ڈچ حکومت کے ماتحت رہتے ہیں اُن میں تبلیغ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کلکتہ کی طرف سے جو ترجمۃ القرآن شائع ہو وہ ڈچ زبان میں ہو۔دہلی کی زبان اردو ہے جو ہندوستان کی لینگوافرینکا1(LINGUA FRANCA) کہلاتی ہے دوسری طرف یورپ کی لینگوافرینکا فرانسیسی زبان کہلاتی ہے۔ اِس مناسبت کی بناء پر مَیں اعلان کرتا ہوں کہ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اورفرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی، اِسی طرح فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے ایک کتاب کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی چھپوائی حلقہ دہلی کے چندہ سے ہوگی۔ اور چونکہ مَیں نے اسلامی ممالک کو صوبہ سرحد والے علاقہ میں شامل کرلیا ہے اور ان علاقوں میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اُس ذمہ داری کو ادا کریں جو اُن پر اپنے اُن آباء و اجداد کی طرف سے عائد ہوتی ہے جنہوں نے مدتوں تک سپین پر حکومت کی اور پھر بزدلی سے اس ملک کو چھوڑ دیا اِس لیے مَیں ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا خرچ اورہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت کا خرچ، اِسی طرح ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ صوبہ سرحد کے حلقہ پر ڈالتا ہوں۔ اور فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ ترجمہ اُن کے جمع کردہ چندہ سے شائع کیا جائے۔ پرتگیزی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اوراُس کی اشاعت کا خرچ، اِسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ مَیں حیدر آباد دکن کے سپردکرتاہوں۔یہ ترجمہ اس حلقہ کے چندہ سے شائع کیا جائے گا۔ کیونکہ پرتگیز ہندوستان میں اِسی علاقہ سے آئے تھے اور اب تک اُن کی نوآبادیاں اِس علاقہ میں موجود ہیں۔ اِسی طرح بمبئی اور مدراس وغیرہ سے اُن علاقوں کی طرف جہاز جاتے رہتے ہیں جہاں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے۔اِسی طرح روسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اوراس کی چھپوائی اور ایک اسلامی کتاب کے ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ مَیں لاہور کے حلقہ کے ذمہ لگاتا ہوں کہ یہ علاقہ اِس وقت کمیونسٹ تحریک کا مصنوعی یا حقیقی مرکز بنا ہوا ہے۔ غرض سات زبانوں میں تراجمِ قرآن سات حلقوں کی طرف سے ہو گئے۔ ایک حلقہ کی طرف سے صرف ایک زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اوراُس کی اشاعت کا خرچ، اِسی طرح ایک زبان میں کسی ایک کتاب کے ترجمہ اوراُس کی اشاعت کا خرچ لیا جائے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر وہ لوگ جنہیں زائد حصہ دیا گیا تھا قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہوئے اِس موقع پر اپنے حق کو ترک کر دیں تو یہ دوسرے لوگوں کی دلجوئی اور اُن کی خوشی کا موجب ہوگا۔ اُنہیں اللہ کی طرف سے جو ثواب ملنا تھا وہ تو مل گیا۔ کیونکہ جب اُنہوں نے میری طرف سے ایک آواز کے بلند ہونے پر اپنا وعدہ لکھو ا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثواب دے دیا۔ پس اگر وہ اِس موقع پر اپنے حق ترک کر دیں گے تو اِس سے اُن کے ثواب میں کوئی فرق نہیں آسکتا اور نہ اُن کے اخلاص میں اِس سے کوئی کمی آئے گی۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو وعدہ کیا تھا اُس کا ثواب خدا نے اُن کو دے دیا۔ اب اگر وہ چاہیں تو قربانی کرکے اپنے اِس حق کو اَوروں کے لیے ترک کردیں تاکہ اُن کے وہ بھائی جو اَب تک اِس ثواب میں شامل نہیں ہوسکے اور جن کے دل اِس شوق سے تڑپ رہے ہیں کہ اُنہیں بھی اِس تحریک میں شمولیت کا موقع ملے وہ بھی اِس میں شامل ہو جائیں اور ان کے دل بھی اطمینان اور سکون حاصل کریں۔ لیکن اگر وہ اپنے حق کو ترک کرنا نہ چاہیں تو پھر دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں اور قرآن کریم کے کسی ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کے ترجمہ اور چھپوائی پر کفایت کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے نیکیوں میں حصہ لینے کے اَور کئی راستے کھول دے گا۔ بہرحال مَیں نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے اور لجنہ اماء اللہ کو جو ایک زائد حق دے دیا گیا تھا وہ بھی مَیں نے اُس سے واپس لے لیا ہے۔ باقی دوستوں کی طرف سے بعض درخواستیں آئی تھیں جن کو قبول کر لیا گیا اور چونکہ مَیں نے اُن کے وعدوں کو منظور کر لیا تھا اِس لیے مَیں اُنہیں حُکماً تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے حق کو چھوڑ دیں لیکن مَیں نے اپنی مثال ان کے سامنے پیش کردی ہے۔ اور مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ میری اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی دوسروں کے لیے نمونہ پیش کریں گے اور اپنے حصہ کو بعض دوسری جماعتوں اور افراد کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اور اپنا موعودہ چندہ ان جماعتوں کے چندہ میں شامل کردیں گے تاکہ انہیں بھی اِس ثواب میں شامل ہونے کا موقع مل سکے۔ اِس تقسیم کے مطابق اٹھائیس اٹھائیس ہزار روپیہ کے سات وعدے بن جاتے ہیں۔ گو مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقے ایسے ہیں جن کی طرف سے اِس سے بھی زیادہ چندہ وصول ہونے کی امید ہے۔ گورداسپور کے ضلع کے متعلق مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اِس کا چندہ قادیان میں ہی شامل ہوگا۔ پس گورداسپور کے ضلع میں سے جو دوست خواہش رکھتے ہوں کہ اُنہیں اِس تحریک میں شامل ہونے کا موقع ملے وہ اپنا چندہ مرکز میں بھجوا دیں۔ اُن کا چندہ قادیان کے چندہ میں شامل کر لیا جائے گا۔ مَیں نے بتایا ہے کہ بعض اضلاع کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا تو مطلوبہ رقم سے بھی زیادہ رقم اُن کی طرف سے جمع ہوجائے گی اور اِس بات کی ضرورت بھی ہے کیونکہ تراجم کے خرچ کے متعلق میرا پہلے جو اندازہ تھا وہ غلط ثابت ہوا ہے۔ مَیں نے فی کتاب ایک ہزار روپیہ ترجمہ کے خرچ کا اندازہ لگایا تھا اور مَیں نے سمجھا تھا کہ چونکہ کتابیں چھوٹی بڑی ہوں گی اِس لیے کسی کتاب کے ترجمہ پر پانچ چھ سو روپیہ خرچ آجائے گا اور کسی پر ہزار یا اِس سے زائد، اور اِس طرح مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ کے خرچ کی اوسط نکل آئے گی۔ لیکن میرا یہ اندازہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب "اسلامی اصول کی فلاسفی" کے متعلق میرا اندازہ تھا کہ چونکہ یہ چھوٹی سی کتاب ہے اِس لیے پانچ چھ سو روپیہ میں اِس کا ترجمہ ہو جائے گا۔ مگر میرے اندازہ سے اِس کے حروف زیادہ نکلے اوراِس طرح اِس کے ترجمہ کا خرچ بڑھ گیا۔ غرض تراجم کے متعلق جو انتظام کیا گیا ہے اُس کے متعلق اخراجات کا جو پہلا اندازہ تھا اُس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح "احمدیت" کے متعلق میرا خیال تھا کہ اِس کا ڈیڑھ ہزار روپیہ میں ترجمہ ہوجائے گا اور چھوٹی بڑی کتاب مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ پر خرچ آجائے گا۔ لیکن "احمدیت" کے ترجمہ کے متعلق مجھے ولایت سے یہ اطلاع آئی ہے کہ سات زبانوں میں اس کا ترجمہ اڑھائی سَو پونڈ میں ہوگا۔جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ ہزار روپیہ محض "احمدیت"کے ایک زبان میں ترجمہ کرنے پر خرچ ہوگا۔ پس میرا اندازہ جو ڈیڑھ ہزار روپیہ کا تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ گو ہماری طرف سے اٹھائیس اٹھائیس ہزار روپیہ کا ہی مطالبہ کیا گیا ہے لیکن امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقوں کی رقوم اِس سے بڑھ جائیں گی اور اِس طرح اندازہ سے زائد جو اخراجات ہوں گے وہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ پورے ہو جائیں گے۔لیکن اگر روپیہ خدانخواستہ کم اکٹھا ہوا تو پھر قرآن کریم کے تراجم کو مقدم رکھا جائے گا۔ اگر قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کے اخراجات کے بعد روپیہ بچا تو وہ دوسری کتب کے ترجمہ اور اُن کی اشاعت پر خرچ کیا جائے گا ورنہ جس قدر روپیہ باقی بچا اُسی کے مطابق کتابیں شائع کی جائیں گی یعنی جس قدر زبانوں میں اِس وقت ترجمہ کرا یا جائے گا جب ان کے لیے روپیہ ہمارے پاس جمع ہوگا۔ بہرحال مقدم قرآن کریم کا ترجمہ اور اِس کی اشاعت ہوگی۔
اور چونکہ یہ کام اپنے اندر بہت بڑی وسعت رکھتا ہے اور ہر جماعت اپنے اپنے حلقہ کی خود نگرانی نہیں کرسکتی اِس لیے مَیں ایک دفعہ پھر دفتر تحریک جدید کو توجہ دلاتا ہوں کہ اِس تحریک کی نگرانی کرنا، اِس کی کامیابی کے لیے متواتر جدوجہد کرنا، لوگوں سے چندہ وصول کرنا، ان کا باقاعدہ حساب رکھنا اور وعدہ کرنے والوں کو اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا یہ تحریک جدید کے مرکزی کارکنوں کا فرض ہے۔ صرف مقامی جماعتوں پر ہی اِس کی ذمہ داری نہیں۔ بے شک وہ جماعتیں بھی ذمہ دار ہوں گی کہ اِس بوجھ کو اٹھائیں مگر مرکز اپنی نگرانی کے فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ مَیں اِس موقع پر پھر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میری طرف سے وہ شرط برابر قائم ہے جس کا مَیں ایک دفعہ پہلے بھی اعلان کر چکا ہوں کہ اگر کوئی جماعت اِس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتی تو وہ بیشک ہمیں اطلاع دیدے۔ ہم یہ انعام اُس کی بجائے کسی اَور کو دے دیں گے۔ لیکن اگر وہ جماعتیں خوشی سے اِس بوجھ کو اُٹھا لیتی ہیں تو اِس کے بعد گو اصل ذمہ داری ان جماعتوں پر بھی عائد ہوگی اور اُن کا یہ ذاتی فرض ہوگا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں اور چندوں کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ لیکن مرکز اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوگا۔ بلکہ مرکز کی ذمہ داری ان کے ساتھ شامل ہوگی۔ مرکز کو اِس تحریک کے متعلق اِس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ گویا ان علاقوں پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور ان علاقوں میں رہنے والوں کو اِس تحریک کے متعلق اِس طرح کوشش کرنی چاہے کہ گویا مرکز پر کوئی ذمہ داری نہیں۔یہ ذمہ داری جو مرکز پر عائد کی جا رہی ہے میری طرف سے ہے۔ جماعتوں کا یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ بعد میں یہ کہیں کہ چونکہ مرکز نے ہماری مدد نہیں کی تھی اِس لیے ہم اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرسکے۔ وہ اپنی اپنی جگہ اِس بات کے ذمہ دار ہوں گے کہ جو اخراجات اُن کے حلقہ کے سپرد کیے گئے ہیں اُن کو وہ جلد سے جلد پورا کریں۔ وہ اِس تحریک کو اپنے علاقوں میں پھیلائیں، لوگوں کو اِس سے واقف کریں، اُن سے جلد سے جلد وعدے لیں اور پھر وہ وعدے دفتر فنانشل سیکرٹری تحریک جدید میں بھجوا دیں۔ کیونکہ چندہ کی وصولی براہِ راست مرکز کی طرف سے ہوگی۔وصولی کرنا ان کا کام نہیں مگر ان کا یہ فرض ضرور ہے کہ وہ اپنے اپنے حصہ کی رقم جلد سے جلد پوری کریں۔ وعدے مرکز کو بھجوائیں اور پھر ان وعدوں کی ادائیگی کا فکر کریں۔ دفتر تحریک جدید والوں کو چاہیے کہ وہ ان حلقوں کے متعلق الگ الگ کھاتے اور رجسٹر تیار کر لیں۔ ایک حلقہ وسطی ہے جس میں لاہور اور اِس سے تعلق رکھنے والے اضلاع شامل ہیں۔ ایک حلقہ مغربی ہے۔ ایک حلقہ قادیان کا ہے۔ ایک حلقہ لجنہ اماء اللہ کا ہے۔ ایک حلقہ وسطی ہند کا ہے۔ ایک حلقہ مشرقی ہند کا ہے اور ایک حلقہ جنوب مغربی ہے۔ یہ حلقے ہیں جو مقرر کیے گئے ہیں اور اِن حلقوں کے نام پر الگ الگ چندے جمع ہوں گے۔ پس تحریک جدید والے بھی سات الگ الگ کھاتے کھول لیں اور پھر خط و کتابت کے ذریعہ ہر ضلع کی جماعتوں اور اُن کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو اِس تحریک کی طرف توجہ دلائیں۔ اِس غرض کے لیے اگر انہیں زائد عملہ کی ضرورت ہو تو وہ فورا ً مجھ سے اِس کی منظوری لے کر اپنے عملہ میں اضافہ کر لیں۔ لیکن بہرحال میں تحریک جدید والوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری ان پر نہیں تھی بلکہ جماعتوں پر تھی جس طرح میں جماعتوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری مرکز پر تھی جماعتوں پر نہیں تھی۔اُن جماعتوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ اِس بوجھ کو برداشت کرنے کی اپنے اندر طاقت نہیں رکھتیں تو اِسی وقت انکار کردیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں اور بہت سے افراد ایسے ہیں جو اِس بوجھ کو خوشی سے اٹھا لیں گے۔ لیکن اگر وہ انکار نہیں کرتے بلکہ خوشی سے اِس ذمہ داری کو قبول کرتے ہیں تو اِس کے بعد اُن کی طرف سے کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور اُن کا فرض ہوگا کہ وہ اِس روپیہ کو پورا کریں۔ خواہ چند افراد سے لے کر پورا کریں اور خواہ ساری جماعتوں سے لے کر پورا کریں۔ گومناسب یہی ہے کہ اِس تحریک کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اِس میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔
دوسرے اِس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو تین ہفتہ تک میری طرف سے تحریک جدید کے نئے دَور کا اعلان ہونے والا ہے۔ تحریک جدید تبلیغِ احمدیت کے لیے ایک بنیاد کے طور پر ہے اور کتابیں اور لٹریچر وغیرہ ہتھیار کےطور پر ہیں۔ بے شک ہتھیار بھی نہایت ضروری ہوتے ہیں لیکن جس طرح ہتھیار کے بغیر سپاہی کسی کام کا نہیں ہوتا اِسی طرح اگر سپاہی نہ ہوں تو وہ ہتھیار بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اچھے سپاہی کے لیے اچھے ہتھیار وں کا ہونا ضروری ہے اور اچھے ہتھیاروں کے لیے اچھے سپاہی کی موجودگی ضروری ہے۔ پس مَیں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے صرف ایک تحریک میں حصہ نہیں لینا بلکہ عنقریب تحریک جدید کا بار بھی اُن پر پڑنے والا ہے۔ مَیں جماعت کے مخلصین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے دین کی خدمت کے لیے ہر بوجھ کو خوشی سے برداشت کریں گے اور اپنے ثبات و استقلال کو قائم رکھتے ہوئے قربانیوں کے میدان میں بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ ہمارا کام بہت وسیع ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور ہمارے فرائض اتنے نازک ہیں کہ ہماری ذرا سی غفلت اور ذرا سی کوتاہی بھی بہت بڑے نقصان کا موجب بن سکتی ہے۔ مَیں ابھی اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ یہ تحریک کس رنگ میں اور کس شکل میں جماعت کے سامنے آنے والی ہے۔ لیکن بہرحال مَیں امید رکھتا ہوں کہ مومن کا اخلاص ہر مصیبت اور ہر مشکل کے وقت اُس کے کام آتا ہے اور وہ کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ خواہ وہ اس کے سامنے کسی شکل میں ہی کیوں نہ پیش ہو۔مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا وہ طبقہ جو اپنے دلوں میں نورِ ایمان رکھتا ہے، جو اپنے قلوب میں اخلاص اور محبت کی آگ رکھتا ہے، جس کا ایمان صرف زبانوں پر نہیں بلکہ اُس کے قلوب ایمان کی روشنی سے منور ہیں وہ اِس بوجھ کو بھی اٹھائے گا اور آنے والے بوجھ کو اٹھانے کے لیے بھی پوری ہمت کے ساتھ تیار ہوگا۔ اور جب اُس کے سامنے اُس قربانی کو پیش کیا جائے گا تو وہ انتہائی جوش کے ساتھ اُس میں حصہ لیتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوجائے گا اور اپنے نفس کے لیے دائمی ثواب حاصل کر لے گا۔لیکن وہ جو کمزور ہیں، جو قربانیوں کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، جن کے پاؤں میں ثبات نہیں اور جن کے ارادوں میں مضبوطی نہیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اخلاص سے حصہ عطا فرمائے، اُن کے دلوں میں دین کے لیے قربانی اور اُس کی رضا کے لیے مر مٹنے کا جوش بے انتہاء طور پر پیدا فرمائے، اُن کی غفلتوں کو دور فرمائے اور اُن کی کمزوریوں کو نیکیوں سے بدل دے تاکہ وہ ہر قسم کی قربانی پر آمادہ ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی آواز سن کر آگے کی طرف بڑھیں۔ پیچھے کی طرف ہٹنے والوں میں سے نہ ہوں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے ہم نے نہیں کرنا اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جس بات کے کرنے کا خدا تعالیٰ ارادہ کر لے وہ ہو کر رہتا ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؎
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے2
یہ ٹلنے والی بات نہیں۔ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو آخر ہو کر رہے گا۔ہماری غفلتیں اِس فیصلہ کو روک نہیں سکتیں۔ ہاں اگر ہم کوشش کریں تو ہمارے لیے یہ ایک ثواب کی بات ہوگی اور ہم بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے قرار پا جائیں گے۔ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی شہداء میں شامل فرمائے وہ شہداء جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے جلال اور اُس کے جمال کا جھنڈا دنیا میں بلند کیا جاتا ہے۔ جو اس کے عشق اور محبت کی ایک غیر فانی یادگار ہوتے ہیں اور جن پر اَبد تک خدا تعالیٰ کی رحمتیں برستی رہتی ہیں لیکن جب تک ہمیں ان حقیقی شہداء میں شامل ہونے کا موقع میسر نہیں آتا ہمیں کم سے کم اتنی کوشش تو کرنی چاہیے کہ ہم لہو لگا کر ہی شہیدوں میں شامل ہو جائیں۔ اگر آج ہم لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری یہی قربانی آئندہ بہت بڑی قربانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز بلند ہوگی اور مومنوں کو اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کی حفاظت کے لیے اُس کے آستانہ پر قربان کر دینی پڑیں گی جس طرح ایک چِڑیا کا خون بہاتے وقت کسی انسان کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا اِسی طرح اُس وقت کسی قربانی میں رحم سے کام نہیں لیا جائے گا اور مومنوں کا فرض ہوگا کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی جانیں ایک بے حقیقت شے کی طرح اُس کے آستانہ پر قربان کردیں۔ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا جو حقیقی ایمان کے مظاہرہ کا وقت ہوگا اُسوقت تک ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم لہو لگا کر ہی شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں تاکہ ایمان اور اخلاص اور محبت کا کوئی نہ کوئی رنگ ہم اپنے ساتھ رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم ننگے، اندھے، بہرے اور گونگے ہونے کی حالت میں نہ کھڑے ہوں۔اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ"۔
(الفضل14؍اکتوبر1944ء)

40
صنعت و حرفت کے متعلق اسلام کے چند اہم اصول
(فرمودہ 17نومبر4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گزشتہ دو خطبات سے پہلے مَیں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا کہ تبلیغی لحاظ سے جہاں مَیں نے قرآن شریف کے تراجم اور بعض دوسری اسلامی کتابوں کے تراجم کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں اِسی سلسلہ میں مَیں ایک اَور مضمون کی طرف بھی جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ مضمون اُس کی تجارت اور صنعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ آج مَیں اِسی مضمون کے متعلق اپنے بعض خیالات کا تفصیلی طور پر اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں جب کبھی مذہبی یا غیر مذہبی جماعتیں بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں تو اُن کے کام بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ فرض کرو پہلے ایک جماعت زمینداروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے تو پھر ترقی کرکے وہ ملازموں کو اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر مزدور پیشہ لوگوں کو وہ اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر کاریگر اُس میں شامل ہوتے ہیں۔ پھر صنّاع اُس میں شامل ہوتے ہیں۔ پھر تاجر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک جماعت جو اس بڑی جماعت میں آکر داخل ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ اپنی روایتیں لاتی ہے، اپنے ساتھ اپنی خوبیاں لاتی ہے۔ اور اپنے ساتھ اپنے نقائص بھی لاتی ہے بہرحال بڑھنے والی جماعت مجبور ہے کہ وہ چاروں گوشوں میں ترقی کرے۔ اگر وہ چاروں طرف ترقی نہیں کرے گی تو وہ ایک بیمار جسم کی صورت اختیار کر لے گی۔ جیسے اچھا درخت وہی ہوتا ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہوں۔ اگر کسی درخت کی شاخیں صرف ایک طرف نکلی ہوئی ہوں یا دو طرف پھیلی ہوئی ہوں یا صرف تین طرف پھیلی ہوئی ہوں تو ہرشخص دیکھ کر اُسے بیمار اور کمزور قرار دے گا۔ اعلیٰ درجے کا درخت قرار نہیں دے گا۔ پس مذہبی جماعت ہو یا دنیا کی کوئی اَور جماعت ہو جب کبھی ترقی کرے گی اُس کے کاموں میں تنوّع پیدا ہوتا چلا جائے گا، اُس کے کاموں کی مختلف قسمیں نکلتی آئیں گی اور اُس کے کاموں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ اُس کی مثال بالکل بچّہ کی سی ہوتی ہے کہ جب وہ بڑھتا ہے تو اُس کے تمام اعضاء متناسب طور پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو اُس کے جسم کے سارے اعضاء بنتے ہیں اور پھر سارے اعضاء ترقی کرتے جاتے ہیں۔ اِسی طرح جُوں جُوں وہ جماعت طاقت پکڑتی جاتی ہے اُس کے باقی ماتحت حصے بھی اُس کے ساتھ ہی ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ بچّہ جب بڑھتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ اُس کے ہاتھ چھوٹے رہ جائیں اور پاؤں بڑھ جائیں، یا پاؤں چھوٹے رہ جائیں اور ہاتھ بڑھ جائیں، یا سر تو بڑھتا رہے مگر سینہ نہ بڑھے، یا سینہ تو بڑھے مگر سر چھوٹا رہے ایسا نہیں ہوتا بلکہ اُس کی ساری چیزیں یکساں طور پر ترقی کرتی ہیں۔ اِسی طرح جب کوئی جماعت پھیلنے لگتی ہے تو جہاں اُس کے پھیلنے کے ساتھ دین ترقی کرتا ہے وہاں اُس کی دنیا بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ہاں یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی جماعتیں اپنی ترقی کی نسبت تین قسم کے خیالات رکھتی ہیں:۔
(1)بعض جماعتوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب نام ہی اِس بات کا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دیا جائے اور کُلّی طور پر تمام افراد اپنے تمام اوقات دینی کاموں میں مشغول رکھیں۔ ایسی جماعتیں یا تو دنیا میں صرف تصوّف کا ایک سلسلہ ہو کر رہ گئی ہیں اور یا پھر وہ اپنی بات پر عمل نہیں کرسکیں۔ بہت سے سادھو اور فقیر دنیا میں ایسے نظر آتے ہیں جو اِس قسم کی تعلیم دیتے ہیں کہ دنیا کمانی نہیں چاہیے، کارخانوں کو جاری نہیں کرنا چاہیے، تجارتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے، زمیندارہ کام کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اِن تمام کاموں کو چھوڑ کر صرف خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کی محبت میں اپنی عمر گزار دینی چاہیے۔ مگر ایسی جماعتیں ہزاروں اور لاکھوں سے آگے کبھی نہیں بڑھیں۔ کیونکہ وہ فطرتِ انسانی کے خلاف تعلیم دیتی ہیں اور اگر کوئی جماعت باوجود اِس تعلیم کے بڑھی ہے تو وہ اس تعلیم کو پسِ پُشت پھینک کر بڑھی ہے اِس پر عمل کرکے نہیں بڑھی۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص سے کہا پہلے اپنا مال لٹاؤ اور پھر میرے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے آؤ۔ یا کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بات کہی کہ "اونٹ کا سُوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو"۔1 یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام نے دی اور جس کا موجودہ اناجیل میں ذکر آتا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بے شک عیسائی بڑھے اور اُنہوں نے دنیا میں خوب ترقی کی لیکن کیا عیسائیوں کی ترقی اِس تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہوئی یا اِس تعلیم کو ردّ کرنے اور اِس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دینے کے نتیجہ میں ہوئی؟ ہر شخص جو ذرا بھی عقل و فہم سے کام لے سمجھ سکتا ہے کہ عیسائیوں کی ترقی اِس تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس تعلیم سے منہ پھیر لینے کا نتیجہ ہے۔ بے شک دنیا میں سب سے زیادہ مال آج عیسائیوں کے پاس ہے، دنیا میں سب سے زیادہ کارخانے آج عیسائیوں کے قبضہ میں ہیں، دنیا کی تجارتوں کا اکثر حصہ یورپین اقوام کے ہاتھ میں ہے۔ اِسی طرح زراعت پر ان کا قبضہ ہے، مختلف پیشوں اور فنون پر ان کا تسلط ہے۔ اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت نے ترقی کی مگر حضرت مسیحؑ کی طرف جو تعلیم منسوب کی جاتی تھی اُسے توڑ کر اور اُس کی خلاف ورزی کرکے انہوں نے ترقی کی ہےاُس تعلیم پر عمل کرکے ترقی نہیں کی۔
(2)پھر بعض قومیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کو دولت کمانے کے ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں۔ دین اور مذہب عقیدہ سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔ مذہب کا اِس بات سے کیا تعلق ہے کہ ہم کیا کماتے ہیں، کس طرح کماتے ہیں اور کِن ذرائع سے کماتے ہیں۔ ایسی جماعتوں نے بے شک دنیا میں ترقی کی مگر اُن کا مذہب ایک مُرجھائی ہوئی جھاڑی کی طرح رہ گیا۔ وہ جماعتیں بے شک دنیا میں بڑھیں اور اُنہوں نے خوب ترقی کی مگر اِس نظریہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دنیا ہی دنیا ان کے پاس رہ گئی دین اور مذہب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ رہا۔
(3) اِن دونوں اصول کے خلاف اسلام نے ایک اَور تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کہتا ہے ہم دنیا کمانے سے تمہیں منع نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں مال کا نام فضل اللہ رکھا گیا ہے2 اور بتایا گیا ہے کہ مال و دولت کا میسر آنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل اور اُس کے انعامات میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے۔ پس اسلام دنیا کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔ اسلام کہتا ہے کہ بے شک تم دنیا کماؤ مگر کماؤ اسلام کے قواعد کے نیچے رہتے ہوئے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تم اسلامی احکام سے الگ ہو کر دنیا کمانے میں مشغول ہو جاؤ۔ تم دنیا کما سکتے ہو مگر اسلامی قواعد کی پابندی اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے۔ اگر ان احکام کی پابندی کرتے ہوئے تم دنیا کماؤ تو ہم تمہیں اِس سے روکتے نہیں۔ لیکن اگر تم اِن قواعد کو توڑ کر دنیا کماؤ تو ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ تم مذہبی آدمی ہو۔ ایسی حالت میں تم مذہب کو چھوڑنے والے قرار پاؤ گے اور مذہب کی طرف منسوب ہونا تمہارے لیے جائز نہیں ہوگا۔
وہ ہدایتیں جو اسلام دنیا کمانے کے متعلق دیتا ہے یا مال و دولت اپنے پاس رکھنے والوں کے متعلق دیتا ہے اُن میں سے بعض تجارت اور صنعت کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو ہر ایسے شخص کے متعلق ہیں جس کے پاس کسی قسم کا مال ہو خواہ اُس نے کسی اَور ذریعہ سے ہی کیوں نہ کمایا ہو۔ اور چونکہ مَیں اِس وقت صرف تجارت اور صنعت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اِس لیے مَیں نے اِن دونوں باتوں کو جمع کردیا ہے۔ وہ باتیں بھی جو خاص طور پر تجارت اور صنعت کے متعلق ہیں اور وہ باتیں بھی جو ہر اُس شخص کے متعلق ہیں جو کسی ذریعہ سے مال کمائے یا مال اُس کے پاس آجائے۔ وہ قواعد جو اسلام نے تجویز کیے ہیں اور جن کو پیش کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ صنعت و تجارت منع نہیں مگر بعض حدود کے اندر لوگوں کو رہنا چاہیے اگر وہ اسلامی حدبندی کے اندر ہیں اور اس کے لیے مفید اور نفع رساں وجود بنیں تو تجارت اور صنعت جائز ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسی چیز ہوگی جو روکنے کے قابل ہوگی۔ سارے کے سارے اصول تو مَیں اِس وقت بیان نہیں کرسکتا۔ صرف چند موٹے موٹے اصول جو اسلام نے بیان کیے ہیں اُن کو مَیں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پہلا قاعدہ قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مسلمان رہتے ہوئے لوگ مال کمانا چاہیں تو اُن کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ لَا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ3 مومنوں کو بیع و شرا خدا تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں کرسکتے۔ پس مومن کہلانے والے بے شک تجارت کریں، وہ بے شک خرید و فروخت کریں مگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک نہیں ہونی چاہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر کے راستہ میں تجارت اور بیع وغیرہ حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایک شخص صنعت و حرفت کے ذریعہ مال کمانا چاہتا ہے تو اسلام کہتا ہے بے شک تم مال کماؤ اور بے شک صنعت و حرفت اختیار کرو مگر دیکھو اِس کے ساتھ ہی تمہیں پانچوں وقت نماز کے لیے مسجد میں آنا پڑے گا۔ یا اگر ایک شخص تجارت کرنا چاہے تو اسلام کہے گا بے شک تجارت کرو مگر تمہیں پانچ وقت روزانہ اپنی دکان بند کرکے مسجد میں آنا پڑے گا۔ اِسی طرح اگر تجارت اور صنعت و حرفت کرتے ہوئے روزوں کے ایام آ جاتے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم روزے رکھو۔ یہ نہ کہو کہ تجارت یا صنعت و حرفت میں مشغول رہنے کی وجہ سے روزے رکھنے ہمارے لیے مشکل ہیں۔ اگر یہ چیزیں نماز کے رستہ میں روک بنتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں روزوں کے رستہ میں روک بنتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں اور کئی قسم کے دینی کاموں میں روک بنتی ہیں تو اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ ان کاموں کو چھوڑ دو اور اپنے دین کو خراب ہونے سے محفوظ رکھو۔ لیکن اگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک نہیں تو پھر بے شک دنیا کماؤ اسلام تمہیں اِس سے منع نہیں کرتا۔ اِسی طرح ذکر الٰہی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ پانچ نماز وں کے علاوہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر علیحدگی میں خدا تعالیٰ کو یاد کیا کرو، اُس کی حمد کرو، اُس کی تسبیح کرو، اُس کی بڑائی بیان کرو، اُس کی صفات پر غور کرو، اپنے نفس کو الٰہی احکام کا تابع کرنے کی کوشش کرو اور اپنے قلب کو ہر قسم کی کدورتوں اور ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کرکے ایک ایسا مصفّٰی اور روشن آئینہ بن جاؤ جس میں خدا تعالیٰ کا چہرہ منعکس ہوجائے اور خدا کی صفات کا ظہور تمہارے ذریعہ سے ہونے لگے۔ اگر تم ایسا کرتے ہو تو پھر بے شک تم اچھے لوہار بنو، اچھے تاجر بنو، اچھے صنّاع بنو، اچھے کارخانہ دار بنو اور خوب مال کماؤ ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ کیونکہ تمہارے یہ کام ہمارے دین اور ہمارے ذکر میں حائل نہیں ہیں۔ پس پہلی شرط جس کو اسلام پیش کرتا ہے وہی ہے جس کا اِس آیت میں ذکر آتا ہے کہ رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ مومن بے شک تجارت بھی کرتے ہیں، خریدو فروخت بھی کرتے ہیں، صنعت و حرفت بھی کرتے ہیں مگر اِس اصل کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کے دین کی مدد میں روک بن کر حائل نہ ہو جائیں۔
پس ایک مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن بھی تجارت کرتا ہے اور غیرمومن بھی تجارت کرتا ہے، مومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے اور غیر مومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے مگر غیر مومن جب اِن کاموں میں مشغول ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کی توجہ بالکل ہٹ جاتی ہے۔ لیکن جب ایک مومن یہ کام اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر میں روک نہیں بنتیں، اِن مشاغل کے باوجود اُس کی ذکر الٰہی کی عادت پھر بھی قائم رہتی ہے، نمازیں پھر بھی باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، زکوٰۃ پھر بھی باشرح ادا کرتا ہے، روزے پھر بھی پوری احتیاط سے رکھتا ہے، حج پھر بھی استطاعت پر کرتا ہے۔ گویا دنیوی مشاغل دین کی خدمت کے راستہ میں روک نہیں بنتے۔ اور چونکہ دین کا پہلو مضبوط رہتا ہے اِس لیے اسلام کہتا ہے کہ ہمیں تمہارے دنیا کمانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر مثلاً تبلیغ کا وقت آجائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کے لیے وقت دے اور اُس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں تبلیغ کے لیے وقت کس طرح دے سکتا ہوں مَیں اگر وقت دوں تو میری دکان کا نقصان ہوتا ہے تو اسلام کہے گا یہ تجارت تمہارے لیے جائز نہیں۔ یا اگر کوئی کارخانہ دار کہے کہ مَیں کس طرح تبلیغ کے لیے باہر جاسکتا ہوں مَیں اگر باہر جاؤں تو کارخانے کا تمام کام درہم برہم ہوجائے گا تو اسلام کہے گا ایسا کارخانہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پس مومن وہی ہیں کہ لَا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ تجارت اور بیع اُن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہیں روکتی، دین کے کاموں میں یہ چیزیں حائل نہیں بنتیں بلکہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہوتی ہے ایک مومن تاجر، ایک مومن کارخانہ دار اور ایک مومن صنّاع اپنی تجارت اور اپنے کارخانہ اور اپنی صنعت کو چھوڑ کر اُس آواز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام کو پورا کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔
دوسری شرط اسلام نے یہ مقرر کی ہے کہ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ4 یعنی وہ لوگ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں سے نہیں کہلا سکتے جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں۔ جو شخص مال کماتا ہے اور اُس کو ذریعہ بنا لیتا ہے سونا اور چاندی جمع کرنے کا، بخل کا مرض اُس میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے، اِدھر روپیہ کماتا ہے اور اُدھر اُس کو غُلّق5 میں جمع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا شخص مومن نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بھی اپنی تجارتوں کو بڑھاتے ہیں۔ اگر وہ اپنی تجارتوں کو ترقی نہیں دیں گے تو اُن کے پاس روپیہ کس طرح آئے گا۔ روپیہ کمانے کے لیے ضروری ہے کہ تجارت اور صنعت کو فروغ دیا جائے لیکن اگر کسی تجارت یا صنعت کا یہ نتیجہ نکلے کہ انسان روپیہ جمع کرنا شروع کردے تو اسلام کے لحاظ سے وہ تجارت اور وہ صنعت بالکل ناجائز ہوگی۔ وہی تجارت اور وہی صنعت جائز ہے جس کے نتیجہ میں روپیہ جمع نہ کیا جائے۔
تیسری چیز جس پر خصوصیت سے اسلام نے زور دیا ہے اور جس کی طرف قرآن کریم میں بارہا توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ روپیہ بے شک کماؤ مگر جو کچھ کماؤ اُس پر زکوٰۃ ادا کرو۔6 اسلام نے بے شک روپیہ جمع کرنا ناجائز قرار دیا ہے مگر روپیہ کمانا منع نہیں کیا۔ پس فرماتا ہے اگر تم روپیہ کماتے ہو اور کچھ روپیہ اپنی ضروریات کے لیے عارضی طور پر جمع کر لیتے ہو جس پر ایک سال گزر جاتا ہے تو اُس روپیہ پر زکوٰۃ ادا کیا کرو۔
چوتھی بات یہ ہے کہ علاوہ زکوٰۃ کے اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ سَرّاء اور ضَرّاء دونوں حالتوں میں اِنفاق کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہے کہ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ7 مومن کشائش کی حالت میں بھی اور تنگی کی حالت میں بھی غرباء و مساکین کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ہر انسان پر خواہ وہ کس قدر مالدار ہو بعض تنگی کی حالتیں آتی ہیں اور بعض حالتیں کشائشِ رزق کے اعتبار سے اچھی ہوتی ہیں۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مومن کا فرض ہے وہ اِن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے رستہ میں غرباء و مساکین پر خرچ کرتا رہے۔ ضَرّاء کے یہ معنے نہیں کہ انسان کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی وہ خرچ کرے۔ بلکہ ضَرّاء کا لفظ استعمال کرنے کی اصل غرض یہ ہے کہ بڑے بڑے تاجروں پر بھی بعض دفعہ تنگی کے اوقات آ جاتے ہیں۔ دس بیس لاکھ کا کارخانہ ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے مال کا فروخت ہونا رُک جاتا ہے۔ اُس وقت لوگ کہتے ہیں ہم پر بڑی مصیبت آگئی ہے اب ہم کیا کریں۔ پہلی سی حالت ہماری نہیں رہی ہم بڑی تنگی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ایسی حالتیں آئیں اُس وقت بھی تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے مال خرچ کرو۔ کیونکہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ایک دس لاکھ روپیہ کے مالک کارخانہ دار کا کام خراب ہو گیا ہے تب بھی چار پانچ لاکھ روپیہ اُس کے گھر میں موجود ہو گا۔ پس اسے سمجھنا چاہیے کہ اگر دین کے لیے وہ شخص قربانی کرتا ہے جس کی آمد پانچ دس یا پندرہ لاکھ روپے ہے تو اُس کے لیے دین کی خاطر قربانی کرنے میں کونسی مشکل درپیش ہے جب کہ اُس کے قبضہ میں دیوالیہ ہونے کے باوجود چار پانچ لاکھ روپیہ مال ہے۔ پس اِس آیت کے صرف یہ معنے نہیں ہیں کہ مومن غربت اور امارت دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں بلکہ یہ مطلب بھی ہے کہ امیر پر بھی بعض دفعہ تنگی کی گھڑیاں آ جاتی ہیں۔ پس اُن تنگی کی گھڑیوں کے متعلق اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ تم اُس حالت میں بھی غرباء و مساکین پر اپنا روپیہ خرچ کیا کرو اور یہ نہ کیا کرو کہ ہم کس طرح خرچ کریں ہماری آجکل بِکری کم ہے۔ جب وہ شخص جس کے پاس تمہارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں دین کی خاطر قربانی کرتا رہتا ہے تو تمہارے پاس تو پھر بھی لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپے موجود ہیں تمہارے لیے ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔
پانچویں ہدایت جو اسلام نے اِس سلسلہ میں دی ہے اور جو تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اُن لوگوں سے بھی جو تجارت اور صنعت و حرفت کرنے والے ہیں اور اُن سے بھی جن کے پاس کسی اَور ذریعہ سے مال آتا ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی8 جو شخص بھی کوئی کام کرتا ہو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیکی اور تقوٰی کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرے۔پس وہی تجارت اور وہی صنعت مفید ہوسکتی ہے جوبِرّ اور تقوٰی پر دوسروں سے تعاون کرتی ہے۔ اس کی تشریح اِنْشَاءَ اللّٰہُ آگے چل کر کروں گا۔
چھٹی بات یہ ہے کہ ایک عام اصل جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کو مدنظر رکھنا ہر وقت ضروری ہے وہ یہ ہے کہحَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ9 یعنی جس کام میں بھی تم لگے ہوئے ہو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہیے اور وہ یہ کہ دین کے غلبہ اور ترقی کے لیے تم نے کوشش کرنی ہے۔ پس اگر کوئی شخص تجارت کرتا ہے یا صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے تو اُسے ہر وقت یہ اصول اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اِس اصول کے ماتحت اگر کوئی شخص اپنی تجارت یا اپنی صنعت کو اسلام کی شوکت اور اُس کے غلبہ کا ذریعہ بناتا ہے تو وہ دنیا نہیں کماتا بلکہ دین کماتا ہے۔ خواہ وہ اپنی تجارت اور صنعت کے ذریعہ لاکھوں روپے کیوں نہ کما رہا ہو۔
ساتواں حکم قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ ماپ تول اور وزن درست ہونا چاہیے۔10 تاجروں میں بالعموم یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جائز طور پر مال کمانے کے علاوہ وہ ماپ اور تول میں ضرور کچھ نہ کچھ کمی کر دیتے ہیں۔ کبھی بٹے چھوٹے رکھتے ہیں، کبھی ڈنڈی مار دیتے ہیں اور اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ وزن میں کچھ نہ کچھ کمی کر لیں۔
آٹھواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ دھوکا اور فریب اور بناوٹ جائز نہیں۔11 بے شک تم تجارت کرو مگر تجارت میں یہ چیزیں نہیں ہونی چاہییں۔
نواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم جو مال بناؤ یا دوسروں سے خریدو اُسے روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہو گیا اُس وقت ہم فروخت کریں گے۔12 اگر کوئی تاجر مال کو اس لیے روک کررکھ لیتا ہے کہ جب مال مہنگا ہو گیا اُس وقت وہ اسے فروخت کرکے زیادہ نفع کمائے گا تو اسلام کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔
دسواں حکم یہ دیتا ہے کہ تم مزدور کو اُس کا پورا حق دو اور پھر وہ حق اپنے وقت پر ادا کرو۔13 گویا مزدور کے متعلق دو حکم اسلام دیتا ہے۔ اوّل یہ کہ اُس کی تنخواہ کام کے مطابق مقرر کرو۔ دوسرے یہ نہ کرو کہ وقت پر اُس کی مزدوری ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے لگ جاؤ۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بِالعموم لوگ اِس حکم کی پروا نہیں کرتے۔ وہ مزدور سے پورا کام لیتے ہیں لیکن جب اُس کی تنخواہ یا اُجرت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو اس میں تساہل سے کام لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے دروازے پر بار بار آتا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اِس پر بھی وہ اُسے اُس کا حق ادا نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں آج نہیں کل آنا۔ کل آتا ہے تو کہتے ہیں پرسوں آنا۔ اِس طرح بار بار اُسے اپنے پاس آنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھی کسی دن اُسے ایک روپیہ دے دیتے ہیں، کسی دن دو روپے دے دیتے ہیں، کسی دن چار روپے دے دیتے ہیں۔ گویا اُسے خراب کرکے اُس کی مزدوری دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مزدوری سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔اگر اُسے اکٹھی اُجرت مل جاتی تو وہ اپنی ضروریات اکٹھی خرید لیتا اور اِس طرح اُسے فائدہ رہتا۔ لیکن چونکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اجرت دی جاتی ہے اِس لیے اُسے تکلیف الگ اٹھانی پڑتی ہے اور پھر اکٹھی اجرت ملنے سے جو فائدہ اسے پہنچ سکتا تھا وہ بھی نہیں پہنچتا۔ پس اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کے ساتھ اِس قسم کا سلوک نہ کیا جائے۔ اُسے اُس کا حق پورا ادا کرو اور پھر عین وقت پر ادا کرو۔ یہ نہ ہو کہ وہ اپنے حق کے لیے تمہارے دروازے کھٹکھٹاتا رہے اور تم اُسے بار بارٹالتے رہو۔
گیارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ بیشک تم مال کماؤ لیکن دیکھو اِس کے نتیجے میں تمہارے اندر کِبر اور خیلاء پیدا نہ ہو۔اگرکِبراور خیلاء تمہارے اندر پیدا ہوجائے تو پھر مال کمانا تمہارے لیے جائز نہیں ہوگا۔
بارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ مالدار شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی موت کے وقت رشتہ داروں کو یہ وصیت کر جائے کہ وہ اُس کے مال کا کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اُس کے غریب بندوں کے فائدہ اور ترقی کے لیے خرچ کردیں۔14
یہ بارہ موٹے موٹے حکم ہیں جو قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتے ہیں۔ پس صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جاسکتا بشرطیکہ وہ شرائط پوری ہوں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ اسلام تجارت اور صنعت و حرفت سے منع نہیں کرتا۔ اگر اسلام منع کرتا تو اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ اسلام اس امر کو روا رکھتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو اسلام میں داخل ہو لیکن دوسرا حصہ بے شک داخل نہ ہو۔ مثلاً جہاز رانی دنیا کی تجارت کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ اگر جہاز بنانے اور جہاز چلانے اسلام کے نزدیک منع ہوتے تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی۔ یا تو سفر منقطع ہوجاتے اور دنیا کی تہذیب اور اُس کے تمدن پر ایک کاری ضرب پڑتی اور یا پھر اِس بات کو تسلیم کرنا پڑتا کہ جو لوگ جہاز بناتے اور جہاز چلاتے ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں ہندو یا عیسائی یا سکھ ہی رہیں کیونکہ اگر وہ اسلام میں داخل ہوئے تو اُنہیں اِس کام سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ مگر یہ بات بھی عقل کے خلاف اوردیدہ دانستہ دنیا کے ایک طبقہ کو اسلام سے محروم رکھنا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ یا مثلاً کان کنی ایک ایسی چیز ہے جس سے حکومت کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اسلام روپیہ کمانے سے بنی نوع انسان کو منع کرتا ہے تو وہ یہ حکم دے دیتا کہ تم نے کان کنی نہیں کرنی۔ کیونکہ اگر کان کنی کرو گے تو تمہیں روپیہ حاصل ہوگا۔ اور یا پھر یہ کہا جاتا کہ دنیا میں جس قدر کانوں کے مالک ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں۔ اور یا پھر یہ حکم دیا جاتا کہ کانوں کا کھودنا ہی بند کردیا جائے تاکہ دین کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یا مثلاً غیر ملکوں سے مال کا لانا ہے یہ ایک بہت بڑی فائدہ بخش تجارت ہے اور کروڑوں روپیہ اِس تجارت کے ذریعہ کمایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کام بڑے بڑے تاجر ہی کرسکتے ہیں۔ دس بیس چالیس یا پچاس ہزار روپیہ سرمایہ بھی اگر کسی شخص کے پاس ہو تو وہ یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ اتنے معمولی سرمایہ سے وہ انگلستان سے یا امریکہ سے یا فرانس سے یا چین سے یا جاپان سے بڑی مقدار میں مال منگوا سکتا ہے۔ کیونکہ غیر ملکوں سے تمام مال جہازوں کے ذریعہ آتا ہے اور کوئی معمولی تاجر اِس قسم کی تجارت میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ لازماً ایسے ہی تاجر انگلستان سے مال منگوائیں گے یا امریکہ سے مال منگوائیں گے یا فرانس اور جاپان وغیرہ سے مال منگوائیں گے یا جرمنی سے مال منگوائیں گے جن کے پاس دس بیس بلکہ چالیس پچاس لاکھ روپیہ ہوگا۔ بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر ایسے ہی تاجر اِس میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس کروڑ کروڑ روپیہ ہو۔ پس اگر اسلام روپیہ کمانے کی اجازت نہ دیتا تو دو ہی صورتیں ہوسکتی تھیں۔ یا تو یہ اعلان کردیا جاتا کہ اس قسم کی تجارت کرنے والے بے شک مسلمان نہ ہوں۔ وہ تجارتیں کرتے رہیں مگر اسلام قبول نہ کریں کیونکہ اِسلام اس قسم کی تجارتوں سے منع کرتا ہے۔ اور یا پھر یہ کہہ دیا جاتا کہ لوگ مسلمان بے شک ہو جائیں مگر اپنی تجارتیں بند کردیں۔ آئندہ وہ کوئی مال ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جاسکتے کیونکہ ہمارے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے۔ لیکن یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں۔ نہ تجارتوں کو بند کیا جاسکتا ہے اور نہ اِن تجارتوں میں حصہ لینے والوں کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بےشک ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہیں اسلام میں داخل نہ ہوں۔ بہرحال دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یا تو ہم سب تجارتوں کو بند کرکے دنیا کے تمدن اور اس کی تہذیب کو برباد کردیں اور لوگوں پر ان کی زندگیاں وبالِ جان بنا دیں اور یا پھر یہ کہہ دیں کہ ان تجارتوں میں حصہ لینے والوں کا مسلمان ہونا ناجائز ہے۔ اگر کارخانوں کا کوئی مالک ہمارے پاس مسلمان ہونے کے لیے آتا ہے تو یا تو اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ تم اپنے کارخانے کو بند کر دو اور یا پھر اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ چونکہ کارخانے کو بند کرنا دنیا کی مشکلات کو بڑھا دیتا ہے۔ اِس لیے بے شک تم مسلمان نہ بنو ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہو۔ یا موٹر کے کارخانے کی مثال لے لو۔ ایک ایک موٹر، چار چار، دس دس، بیس بیس ہزار روپے میں آتا ہے اور موٹر کا کارخانہ وہی شخص کھول سکتا ہے جس کے پاس دس بیس کروڑ روپیہ موجود ہو۔ اگر اسلام دنیا کمانے کی اجازت نہ دیتا اور موٹروں کے کارخانہ کا کوئی مالک ہمارے پاس اسلام قبول کرنے کے لیے آتا تو یا تو ہم اُسے یہ کہتے کہ تم مسلمان نہ بنو۔کیونکہ اگر تم مسلمان بنے تو دنیا کو نقصان پہنچے گا اور تمہیں اپنا کارخانہ بند کرنا پڑے گا۔ تم بے شک عیسائی ہی رہو یا سکھ ہی رہو یا ہندو ہی رہو اسلام کو قبول مت کرو۔ اور یا پھر ہم اُسے یہ کہتے کہ تم آئندہ موٹریں بنانی چھوڑ دو اور کارخانہ بند کر دو۔ مگر یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو ناجائز ہیں۔ نہ اسلام ایک کو جائز قرار دیتا ہے اور نہ دوسری صورت کو درست تسلیم کرتا ہے۔ اِن مشکلات کو اپنے سامنے دیکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جاسکتا اور دوسری طرف قبولِ اسلام میں بھی کسی قسم کی دیوار کو حائل نہیں کیا جاسکتا۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اِن دونوں حالتوں کے درمیان کوئی راستہ تلاش کیا جائے جس سے یہ دونوں مشکلات دور ہو جائیں۔ نہ دنیا کے تمدن اور اِس کی تہذیب کو نقصان پہنچے اور نہ اسلام میں داخل ہونے سے کسی شخص کو روکا جاسکے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اسلام نے اِسی نظریے کے ماتحت بعض قواعد پیش کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم لوگوں کو دنیا کمانے سے منع نہیں کر سکتے۔ وہ بیشک تجارت کریں، وہ بے شک صنعت و حرفت اختیار کریں مگر ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعض قواعد کی پابندی اپنے اوپر لازم کر لیں تاکہ دین کو بھی کوئی نقصان نہ ہو اور دنیا کی مشکلات میں بھی کوئی اضافہ نہ ہو۔ چنانچہ اُن قواعد کو مَیں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ یہ قواعد ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے باوجود تجارت اور صنعت کا کام کرنے کے وہ خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں جو تجارتوں اور صنعت و حرفت کے کاموں سے دنیا میں عام طور پر پیدا ہوتی ہیں۔
اب مَیں تفصیل سے اوپر کی بارہ باتوں کو بیان کرتا ہوں۔
پہلی چیز جس کا مَیں نے ذکر کیا تھا وہ یہ تھی کہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تجارت اور صنعت ذکرِ الٰہی میں روک نہیں ہونی چاہیے۔ مَیں نے اِس کی تشریح بھی کردی تھی کہ مثلاً جہاد کا وقت آ جاتا ہے یا موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تبلیغ پر زور دینے کا وقت آ جاتا ہے اور ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو باہر بھیجیں تاکہ وہ دوسروں کو احمدیت میں داخل کرسکیں۔ ایسے موقع پر اگر کوئی کارخانہ دار یا کوئی تاجر یہ کہتا ہے کہ مَیں تبلیغ کے لیے نہیں جاسکتا کیونکہ اگر مَیں جاؤں تو میری تجارت یا میرے کارخانے کو نقصان پہنچے گا تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا کارخانہ اور اُس کی تجارت اسلام کے منشاء کے مطابق نہیں بلکہ یقیناً اسلام کے خلاف ہے اور وہ اپنے لیے جائز کمائی نہیں کررہا بلکہ ناجائز اور حرام مال کما رہا ہے۔ اسلام ایسی ہی تجارت اور ایسے ہی کارخانہ اور ایسی ہی صنعت کی اجازت دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کے دین کے کام میں روک بن کر کھڑی نہ ہوجائے۔ اسلام کے نزدیک انسان مال بے شک کما سکتا ہے مگر اُسی صورت میں جب وہ خدا کو اور خدا کے دین کو دنیا پر مقدم رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس طرح ایک چھوٹے سے فقرہ میں اسلام کے اِس قیمتی اصل کو بیان فرما دیا ہے کہ "مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا"۔15 دنیا کمانے کے متعلق بھی یہ ایک نہایت ہی قیمتی اصل ہے جس کو اپنے سامنے رکھ کر ہر شخص اپنے متعلق یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ جائز رنگ میں دنیا کما رہا ہے یا ناجائز رنگ میں۔ اگر کوئی شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کی دنیا، دنیا نہیں بلکہ اِس تقدم کی وجہ سے اُس کی دنیا بھی دین بن گئی ہے۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی ملازم جو اپنے آقا کے حکم کے مطابق کام کرنے کا عادی ہو۔ لازماً اُسی قسم کے کام کرے گا جس قسم کے کام کرنے کا اُس کے آقا کی طرف سے اُس کو حکم ملے۔ فرض کرو ایک شخص بخیل اور کنجوس ہے لیکن اُس کا آقا رحم دل ہے اور وہ غریبوں سے حُسنِ سلوک کرنے کا عادی ہے تو ایسا شخص خواہ بخیل اور کنجوس ہی کیوں نہ ہو جب وہ رحم دل اور سخی آقا کے ماتحت کام کرے گا اور آقا اُسے کہے گا کہ وہ بھی اپنے مال میں سے غریبوں کا حق ادا کرے اور وہ اِس حکم کی تعمیل میں غریبوں کی مدد کرے گا تو لازماً اُسے اپنے آقا کی خوشنودی حاصل ہوگی اور وہ بھی آہستہ آہستہ اپنے آقا کا ہم رنگ ہوجائے گا۔ اِسی طرح جو شخص دنیا کماتا ہے لیکن پھر اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع کر دیتا ہے تو اُس کی دنیا بھی دین بن جاتی ہے۔ کیونکہ اُس نے وہ سب کچھ کیا جس کے کرنے کا اُسے خدا نے حکم دیا تھا۔ پس اُس کا مال کمانا دنیا نہ رہا بلکہ دین کا ایک حصہ بن گیا۔
دوسری ہدایت اسلام نے یہ دی ہے کہ روپیہ جمع نہ کیا جائے۔ یہ ہدایت بھی ایسی ہے جس کی طرف خاص طور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اِس ہدایت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کسی کے گھر روپیہ نہ ہو۔ وہ روپیہ جس کا رکھنا کسی خاص غرض کے لیے ضروری ہو مثلاً کام کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے یا مکان وغیرہ کے لیے یا روزانہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تو ایسا روپیہ ہر شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ پس روپیہ جمع نہ کرنے کے معنے یہ نہیں کہ کسی قسم کا روپیہ بھی انسان کے پاس جمع نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ اسلامی ہدایت کے ماتحت اِتنا روپیہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے جو اُس کے کاموں کے لیے ضروری ہو۔ مثلاً ایک شخص نے کارخانہ کھولا ہوا ہے اُسے کارخانہ کے لیے کبھی لوہا خریدنا پڑتا ہے، کبھی کوئلہ خریدنا پڑتا ہے، کبھی مٹی کا تیل خریدنا پڑتا ہے، کبھی آٹے یا سُوجی بنانے کے لیے اسے گیہوں خریدنا پڑتا ہے۔ یا اگر بوٹ کا کارخانہ اُس نے جاری کیا ہوا ہو تو اُسے مشینیں خریدنی پڑتی ہیں، کیل خریدنے پڑتے ہیں، چمڑا خریدنا پڑتا ہے اور پھر بعض دفعہ کارخانوں میں کام کرتے کرتے مشینوں کے پُرزے ٹوٹ جاتے ہیں، بعض دفعہ کوئی مشین ہی ناکارہ ہوجاتی ہے اور اُس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ اَور مشین یا مشین کے اَور پرزے خریدے جائیں۔ اِن تمام کاموں کے لیے جب تک روپیہ پاس نہ ہو کوئی کارخانہ دار اپنے کارخانے کو چلا نہیں سکتا۔ اسلام کے نزدیک اِس قسم کے کام کو چلانے کے لیے جتنے روپیہ کی ضرورت ہو وہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص نے دو تین سال تک اپنے کسی بچہ کی شادی کرنی ہے اور روپیہ اُس کے پاس نہیں اِس ضرورت کے لیے اگر وہ روپیہ کو پس انداز کرنا شروع کر دیتا ہے یا مکان بنانے کے لیے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے یا کسی اَور ایسی ہی ضرورت کے لیے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے لیے اُس کی روزانہ کی آمد کافی نہیں ہوسکتی تو یہ اسلام کے خلاف نہیں ہوگا اور نہ یہ اُس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا کہلائے گا جس رنگ میں روپیہ جمع کرنا اسلام نے منع قرار دیا ہے۔ یہ صرف بعد میں آنے والے ضروری اخراجات کو مہیا کرنے کی ایک جائز صورت ہوگی۔ یا دوسرے الفاظ میں یُوں کہہ لو کہ بعد میں اُس نے جو کچھ خرچ کرنا ہے اُس کے لیے یہ اُس کی تیاری ہے۔ پس چونکہ یہ روپیہ محض جمع رکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے وقت خرچ کرنے کے لیے ہے اِس لیے اِس قسم کا روپیہ پس انداز کرنا اسلام کے رو سے بالکل جائز ہوگا۔ ہاں جن لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد روپیہ ہوتا ہے اور وہ اُس روپیہ کو جمع کر دیتے ہیں تو اسلام اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ جیسے کئی لوگ ضرورت سے زائد روپیہ بنکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بنک میں روپیہ جمع نہ کیا تو گھر میں ہی خرچ ہوجائے گا۔ یا بعض لوگ چوری چھپے اِس لیے روپیہ جمع کرتے رہتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ نہ لگے کہ ان کے پاس مال ہے۔ اِس قسم کا روپیہ جمع رکھنا اسلامی احکام کے ماتحت ناجائز ہے۔ اسلام کے نزدیک اگر ایک شخص دس لاکھ روپیہ سے ایک کارخانہ جاری کر دیتا ہے تو یہ بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ غُلّق میں بند کرکے رکھ دیتا ہے تو یہ ناجائز ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص دس لاکھ روپیہ کسی کارخانے پر لگاتا ہے تو اُسے کئی ہزار روپیہ مشینوں کے خریدنے پر صَرف کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان مشینوں سے کام لینے والے مستریوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے، فٹروں کی اسے ضرورت ہوتی ہے، مزدوروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے اور اِس طرح سینکڑوں لوگوں کے لیے روزگار کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح جب کوئی کارخانہ جاری کیا جاتا ہے تو اُس میں کچھ لوگوں کو افسر مقرر کرنا پڑتا ہے، کچھ ماتحت ہوتے ہیں، کچھ قلّی ہوتے ہیں، کچھ نگران ہوتے ہیں۔ اِس طرح دو دو سو، چار چار سو، پانچ پانچ سو بلکہ ہزار ہزار آدمیوں کے لیے روزگار کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور بڑے بڑے کارخانوں میں تو بعض دفعہ بیس بیس ہزار آدمی ایک وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اِس طرح اُس کا روپیہ بند نہیں رہتا بلکہ بنی نوع انسان کے کام آتا رہتا ہے۔ یا اگر کوئی شخص اپنے روپیہ سے تجارت کرتا ہے تب بھی وہ لوگوں کے کام آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ بند کرکے رکھ دیتا ہے تو چونکہ لوگ اُس روپیہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اِس لیے اسلام کے نزدیک اِس قسم کا روپیہ جمع رکھنا ناجائز ہوگا۔پس گو روپیہ کم ہو مگر اُس کا جمع کرنا ناجائز ہے اور گو روپیہ زیادہ ہو مگر اُس کو کام میں لگانا جائز ہے کیونکہ روپیہ کو کام پر لگانے سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
تیسرا حکم اسلام کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس روپیہ جمع ہو وہ اپنے مال کی دیانتداری سے زکوٰۃ ادا کرے۔ اگر کوئی شخص باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو دین کی خاطر کماتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا محض دنیا کی خاطر کما رہا ہے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا شوق اُس کے دل میں نہیں۔ اگر واقع میں اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب اور اُس کی محبت کو جذب کرنے کا احسا س ہوتا، اگر دنیا کو وہ دین کی خاطر کما رہا ہوتا تو اُس کا فرض تھا کہ وہ اپنے مال میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرتا اور پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتا۔ لیکن جب وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا تابع ہے خدا تعالیٰ کے احکام کا تابع نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے معاملہ میں مَیں دیکھتا ہوں کہ تاجروں میں بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے۔ پرانے زمانہ میں تو غیراحمدی تاجروں نے بالکل اندھیر مچا رکھا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ بھیرہ میں ایک بہت بڑا مسلمان تاجر تھا جو ہر سال باقاعدگی سے زکوٰۃ دیا کرتا تھا مگر اُس کی زکوٰۃ دینے کا طریق یہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بند کر دیتا تھا۔ فرض کرو اُس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا جس میں سے اڑھائی ہزار روپیہ زکوٰۃ دینا اس پر فرض ہوتا تو وہ اڑھائی ہزار روپیہ ایک گھڑے میں ڈال دیتا اور اُن روپوں کے اوپر دو چار سیر گیہوں ڈال کر کسی ملّا کو بلاتا اور اُس کی خوب پُر تکلّف دعوت کرتا۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہو جاتا تو اُسے کہتا مولوی صاحب! اِس گھڑے میں جو کچھ ہے وہ مَیں آپ کی مِلک کرتا ہوں۔ لوگوں کو بھی اُس کے اِس طریق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ گھڑے میں اس نے زکوٰۃ کا روپیہ رکھا ہوا ہے جو اڑھائی یا تین ہزار روپیہ ہے۔ مگر اُسے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی کہتا کہ آپ اِس گھڑے کو اُٹھا کر کہاں لے جائیں گے اِسے میرے پاس ہی بیچ ڈالیے۔ بتائیے آپ اِس گھڑے کی کیا قیمت لیں گے؟ ملّا ڈرتے ڈرتے کہ نہ معلوم کس حد تک سَودا ہو پانچ دس یا پندرہ روپے بتا دیتا تھا اور وہ جھٹ اُتنے روپے نکال کر اُس کے سامنے رکھ دیتا اور کہتا کہ مولوی صاحب! جو کچھ اِس میں ہے وہ آپ نے پندرہ روپے میں مجھے دے دیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ گھڑا اُٹھا کر اندر رکھ لیتا اور سمجھ لیتا کہ اُس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے۔ تو دنیا میں اِس قسم کی دھوکا بازی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکام سے تمسخر کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اُن پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو فرض عائد ہوتا تھا اُس کو انہوں نے ادا کردیا ہے۔
ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس قسم کے لوگ تو نہیں مگر ابھی ہماری جماعت میں لوگ احتیاط سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ بالخصوص تاجروں میں زکوٰۃ کے معاملے میں بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے حالانکہ زکوٰۃ کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنے شدید احکام پائے جاتے ہیں کہ صحابہؓ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا۔وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ تم جو کچھ مال کماتے ہو اُس میں دوسرے لوگوں کا بھی حصہ ہے۔کیونکہ مال جن چیزوں سے کمایا جاتا ہے وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو کسی خاص شخص کی مِلک نہیں بلکہ ساری دنیا اُن پر حق رکھتی ہے۔ مثلاً تجارت کو لے لو، تجارت لوہے کی ہوتی ہے یا لکڑی کی ہوتی ہے یا اَور بعض چیزوں کی ہوتی ہے۔ مگر کیا لوہا اور لکڑی تاجر آپ بناتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے لکڑی بنائی ہے سارے انسانوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے کوئلہ بنایا ہے سارے انسانوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے مٹی کا تیل بنایا ہے سارے انسانوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے کپاس بنائی ہے سارے انسانوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے گندم بنائی ہے سارے انسانوں کے لیے۔ مگر جب ایک شخص اِن چیزوں سے خاص طور پر نفع کماتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اُس کا ٹیکس ادا کرو کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ساری دنیا مالک ہے۔ پس جس طرح مزارع اپنے مالک کو ٹیکس ادا کرتا ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی ٹیکس ادا کرے۔ وہ فرماتا ہے چونکہ تم کسان بنے اور تم نے اِس زمین میں زراعت کی جو ساری دنیا کی ہے اِس لیے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اُس کا حق دو۔ چنانچہ اڑھائی فیصدی ٹیکس اُس سے وصول کیا جاتا ہے اور پھر جو نظام مقرر ہوتا ہے وہ اِس ٹیکس کو غرباء کی مدد کے لیے خرچ کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کرتا یا ادا کرتا ہے مگر پورے طور پر ادا نہیں کرتا، کسی قدر حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ ایک چور کی حیثیت رکھتا ہے۔ بظاہر ایک شخص کپڑے کا تاجر ہوگا لیکن درحقیقت وہ چور ہوگا۔ کیونکہ کپڑا آخر کن چیزوں سے تیار ہوتا ہے؟ کپڑا تیار ہوتا ہے روئی سے۔ اور روئی تیار ہوتی ہے زمین سے۔ اور زمین کسی خاص شخص کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لیے بنائی ہے۔ پس جب زمین ساری دنیا کے لیے بنائی گئی ہے اور اِسی زمین میں سے روئی کی فصل تیار کرکے ایک شخص کپڑے کی تجارت کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اُس ٹیکس کو ادا کرے جو اُس پر عائد ہوتا ہے کہ اُس نے اُس چیز سے فائدہ اٹھا یا جس میں ساری دنیا کا حصہ تھا۔ اِسی طرح زمینوں پر زکوٰۃ کا حکم ہے کیونکہ زمین کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے۔ اگر بعض وجوہ سے کوئی ٹکڑا کسی شخص کے قبضہ میں چلا گیا ہے تو بہرحال اُسے غریبوں کو اُن کا حق دینا پڑے گا اور وہ یہ کہہ کر اس ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا کہ جب مَیں نے اپنی ذاتی کوشش سے یہ روپیہ کمایا ہے تو مَیں غریبوں کو اپنے مال کا ایک حصہ کیوں دوں؟ اِس لیے کہ گو اُس نے ذاتی محنت سے روپیہ کمایا مگر بہرحال اُس نے روپیہ ایک ایسی چیز سے کمایا ہے جو ساری دنیا کے لیے مشترک تھی اور جس میں غرباء کا حق بھی رکھا گیا تھا۔ پس اسلام کی ہدایت کے مطابق اُس شخص سے زکوٰۃ لی جائے گی اور غرباء پر خرچ کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو وہ یقیناً چو رہے۔ خواہ وہ یہ کہے کہ مَیں نے رات اور دن محنت کرکے کپڑے کی تجارت سے یہ روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ یہ کہے کہ مَیں نے رات اور دن محنت کرکے لوہے کے کارخانہ سے یہ روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ یہ کہے کہ مَیں نے رات اور دن محنت کرکے مٹی کے تیل کی تجارت سے یہ روپیہ کمایا ہے،، خواہ کسی چیز کی تجارت سے اُس نے روپیہ کمایا ہو اُس میں ساری دنیا کا حصہ ہے اور اُس کا فرض ہے کہ وہ اس حصہ کو ادا کرے اور اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے روپیہ اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو وہ چور ہے، ڈاکو ہے، دھوکے باز ہے اور قطعاً اسلام اُسے مومن کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ اِس زمانہ میں چونکہ ٹیکس دُہرا ہو گیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اور اسلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے اِس لیے جس پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہو اگر اُس کے ٹیکس کی رقم زکوٰۃ کے برابر یا زکوٰۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوٰۃ دینا اُس پر واجب نہیں ہے۔ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ لیکن اسلام اُس مال سے زکوٰۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو اور جس پر سال گزر گیا ہو۔ فرض کرو ایک شخص دس ہزار روپیہ سالانہ کماتا ہے اور گورنمنٹ اُس سے ٹیکس لے لیتی ہے اور وہ ٹیکس زکوٰۃ سے زیادہ ہے تو ہم کہیں گے اب ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ جیسے زمیندار سے بھی گورنمنٹ مالیہ وصول کر لیتی ہے تو اس کے بعد اگر وہ مالیہ زکوٰۃ کے برابر یا اُس سے زیادہ ہوتا ہے تو اُس پر زکوٰۃ واجب نہیں رہتی۔ لیکن اگر کوئی زمیندار معاملہ ادا کرنے کے بعد اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لینا شروع کر دیتا ہے اور اِس طرح وہ کچھ روپیہ پس انداز کر لیتا ہے جس پر ایک سال گزر جاتا ہے تو اُس روپیہ پر زکوٰۃ کا حکم عائد ہوجائے گا۔ فرض کرو اُس نے کفایت کرتے کرتے پانچ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے اور اُس پانچ ہزار روپیہ پر ایک سال گزر گیا ہے تو اسلام کی طرف سے اُس پر زکوٰۃ کا ٹیکس لگ جائے گا۔پس جمع شدہ مال پر جب سال گزر جائے اور وہ مال زکوٰۃ کے نصاب کے اندر ہو تو شریعت کی طرف سے زکوٰۃ کا حکم انسان پر عائد ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ زمیندار کا مال ہو یا تاجر کا ہو یا کسی اَور کا ہو۔ ہاں! اُس مال میں سے جس پر ٹیکس گورنمنٹ نے زکوٰۃ کے برابر یا اُس سے زائد لے لیا ہو بچا ہوا روپیہ اگر سال ہی میں خرچ ہوجائے تو اُس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کے لیے طوعی طور پر انسان کو پھر بھی دینی چاہیے۔ ہاں! اگر اِنکم ٹیکس یا مالیہ کم ہو اور زکوٰۃ یا عُشر اُس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائے گی اُس کو پورا کرنا اُس کا فرض ہوگا۔ فرض کرو زکوٰۃ کے بیس روپے کسی شخص کے ذمہ تھے۔ گورنمنٹ نے ٹیکس کے ذریعہ پندرہ روپے وصول کر لیے تو باقی پانچ روپے اسلام کا قائم کردہ نظام اُس سے ضرور وصول کرے گا۔ لیکن اگر گورنمنٹ نے اُس سے ٹیکس اکیس روپے لے لیے ہیں تو پھر زکوٰۃ اُس پر واجب نہیں ہوگی۔ زکوٰۃ کا حکم ایسے شخص پر اُسی صورت میں عائد ہوگا جب وہ اپنی آمد کو جمع رکھے اور پھر اُس جمع شدہ مال پر جب وہ نصاب سے زائد ہو ایک سال گزر جائے۔
چوتھی بات مَیں نے یہ بتائی تھی کہ اسلام نے ایک یہ حکم بھی اپنے ماننے والوں کو دیا ہے جن میں تاجر اور صنّاع خصوصیت سے شامل ہیں کہ وہ تنگی کی حالت میں بھی انفاق سے کام لیں۔ اِس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر بھی توجہ دلائی ہے۔ فرماتا ہے وَفِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ16 یعنی اُن کو بھی دو جو سوال کرتے ہیں، اُن کو بھی دو جو سوال نہیں کر سکتے۔ اور اُن کو بھی دو جو سوال کر ہی نہیں سکتے۔ سوال نہ کرسکنا کئی طرح سے ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص گونگا ہوتا ہے اور وہ بول ہی نہیں سکتا۔ یا جانور ہیں کہ وہ جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو دوسرے سے کوئی سوال نہیں کرسکتے۔ دنیا میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی جانور بوڑھا ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے تو لوگ اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں اور کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں رہتا۔ ایسے جانوروں کو پالنا مالک کا کام ہوتا ہے یا پھر حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مالک کو مجبور کرے کہ اُس جانور کو اپنے گھر میں رکھے۔ آخر یہ کوئی انصاف نہیں کہ جب تک کسی جانور سے کمائی کی جاسکتی تھی اُس وقت تک تو اُسے کھلایا پلایا اور جب وہ بوڑھا ہو گیا اور کام کے قابل نہ رہا تو اُسے مار کر اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔گائے اور بیل ایسے جانور ہیں جن کے بوڑھا یا ناکارہ ہونے پر لوگ اِن کو ذبح کر لیتے ہیں مگر گھوڑا اور گدھا وغیرہ ایسے جانور ہیں جن کو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَفِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ لوگوں کے اموال میں اُن کا بھی حق ہے جو محروم ہیں اور بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے۔انصاف یہ ہے کہ اول تو مالک کو مجبور کیا جائے کہ وہ اُس جانور کو رکھے۔ جب ساری عمر اُس نے کمائی کی ہے تو اب بوڑھا ہونے پر اُسے گھر سے نکال دینا اور اس کی خبرگیری نہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اور اگر مالک کسی طرح بھی اُس کو رکھنے کے لیے تیار نہ ہو اور حکومت اپنے ہاتھ میں نہ ہو تو پھر ملک کا فرض ہے کہ وہ اُس کی خبر گیری کرے۔ یہ مالداروں پر خصوصاً حق مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے روپیہ میں سے سائل اور محروم دونوں کا خیال رکھیں۔
پانچویں بات تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی تھی۔یہ فرض بھی جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے سب پر عاید ہوتا ہے۔لیکن تجارت اور صنعت و حرفت کا کام کرنے والوں پر خصوصاً یہ اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی کریں۔ تاجر اور صنّاع دو ایسے گروہ ہیں کہ اُن کا تعاون بہت وسیع ہوسکتا ہے۔ مثلاً صنّاع اگر ایسی صورت میں اپنی صنعت و حرفت کو فروغ دیں کہ اُن کی صنعت سے مذہب کو شوکت حاصل ہونے لگ جائے، دین کی شُہرت پھیلنے لگ جائے اور سلسلہ کی مضبوطی پہلے سے بڑھ جائے تو یقیناً اُن کی صنعت دین کا ایک حصہ سمجھی جائے گی۔ یا اگر کوئی شخص دو کام کرسکتا ہو اور ان دونوں میں سے ایک کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد ہوتی ہو اور دوسرا کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد نہ ہوتی ہو تو اُسے بہرحال وہ کام کرنا چاہیے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو۔ خواہ اُس میں تھوڑے بہت نفع کا فرق ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ایسا شخص وہ کام اختیار کرتا ہے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو تو وہ یقیناً ثواب کا مستحق ہوگا اور اُس کا دنیا کمانا محض دنیا نہیں بلکہ دین کا ایک حصہ ہوگا۔ عام لوگ اِس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح بعض تجارتیں دین کے لیے مفید ہوسکتی ہیں اور نہ اِن تمام باتوں کو تفصیلاً بیان کرنے کا یہ موقع ہے۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ بعض تجارتیں اور بعض صنعتیں دین کے لیے مفید ہوتی ہیں اور بعض تجارتیں اور بعض صنعتیں دین کے لیے مفید نہیں ہوتیں۔ اور اِس کی تفصیل تاجروں اور صنّاعوں کو بتائی جاسکتی ہے۔ پس اُنہیں صرف اُن تجارتوں اور اُن صنعتوں کو ترجیح دینی چاہیے جن سے دین کی تائید ہوتی ہو۔
اِسی طرح تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی میں جہاں یہ بات داخل ہے کہ ایسی تجارتیں اور ایسی صنعتیں اختیار کی جائیں جو دین کی تقویت کا موجب ہوں وہاں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا بھی اِس آیت میں حکم پایا جاتا ہے۔ آخر ایک شخص کی تجارت کیوں چل نکلتی ہے اور دوسرے شخص کی تجارت کیوں رہ جاتی ہے؟ اِسی لیے کہ ایک شخص کو تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے گُر معلوم ہوتے ہیں اور دوسرا شخص تجارت کے اصول سے ناواقف ہوتا ہے۔ ایک شخص جانتا ہے کہ سَودا کہاں سے سستا ملتا ہے، سودا کس طرح فروخت کرنا چاہیے، کس منڈی میں بیچنے سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے اور کس منڈی میں بیچنے سے کم نفع حاصل ہوتا ہے۔ مگر دوسرا شخص ان باتوں کو نہیں جانتا۔ پس اگر ہماری جماعت کے تاجر اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ کسی اَور آدمی کو بھی تجارت کا کام سکھا دیں اور اُسے بھی تجارت کے رازوں سے واقف کردیں تو یہ بھی ایک قومی تعاون ہوگا اور اس کے نتیجہ میں بھی وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اِسی طرح اگر ایک شخص کو کوئی پیشہ یا ہنر آتا ہے تو اُسے چاہیے کہ اُس پیشہ یا ہنر کو اپنے پاس ہی نہ رکھے بلکہ دوسرے کو بھی سکھا دے۔ پرانے زمانہ میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ وہ بعض ہُنر مخفی رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہُنر اُن کے ساتھ ہی چلے گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نسخہ معلوم تھا۔ دور دور سے لوگ اُس کے پاس علاج کے لیے آتے اور فائدہ اٹھاتے مگر وہ اتنا بخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی اُس مرہم کا نسخہ نہ بتاتا اور کہتا کہ یہ اِتنا بڑا ہُنر ہے کہ اِس کے جاننے والے دو آدمی ایک وقت میں نہیں ہوسکتے۔ بیٹے نے بہتیری منتیں کیں اور کہا کہ مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیتا کہ مرتے وقت تمہیں بتاؤں گا اس سے پہلے نہیں بتا سکتا۔ بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں وہ کس وقت آجائے آپ مجھے ابھی یہ نسخہ بتا دیں۔ مگر باپ آمادہ نہ ہوا۔ آخر ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور سخت نازک حالت ہو گئی۔ بیٹا کہنے لگا باپ! مجھے اب تو نسخہ بتا دیں۔ مگر وہ جواب دیتا کہ مَیں مرتا نہیں اچھا ہو جاؤں گا۔ پھر اَور حالت خراب ہوئی تو بیٹے نے پھر منتیں کیں مگر اُس نے پھر یہی جواب دیا کہ کیا تُوسمجھتا ہے مَیں مرنے لگا ہوں؟ مَیں تو ابھی نہیں مرتا۔ غرض اِسی طرح وہ جواب دیتا رہا یہاں تک کہ مر گیا اور اُس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا۔
تو اسلام اِس بات کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اسلام کہتا ہے کہ تم علم کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھو بلکہ اُسے وسیع کرو اور دوسرے لوگوں میں پھیلاؤ۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علم اور بعض پیشے ایسے ہیں جن میں ایک حد تک اور ایک وقت تک اخفاء جائز ہوتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے اخفاء جائز نہیں ہوتا۔ یورپ میں اَدویہ کو پیٹنٹ(PATENT) کرانے کا ایک نہایت ہی مفید طریق جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر کوئی شخص ایجاد کرے تو چالیس سال تک وہ اُس سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اُس کی نقل کرے۔ لیکن چالیس سال کے بعد اجازت ہونی چاہیے کہ سب لوگ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ درحقیقت یہ ایک بہت ہی اچھا طریق ہے جو یورپ والوں نے ایجاد کیا ہے کہ وہ کچھ وقت موجد کو دے دیتے ہیں کہ وہ اُس میں اپنی ایجاد سے فائدہ اٹھائے اور پھر ساری دنیا میں اُس کو پھیلا دیتے ہیں تاکہ اَور لوگ بھی اگر اُس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھا لیں۔اِسی طرح صنّاع اور تاجر اگر اپنی صنعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی یہ پیشے سکھا دیں یا اِن پیشوں کے سیکھنے میں اُن کی مدد کریں تاکہ دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں میں صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ حاصل ہو تو یہ بھی ایک رنگ کی زکوٰۃ ہوگی جو اُن کی تجارت اور صنعت کو پاک کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی میں تجارتی کمیٹیاں اور صنّاعوں کی کمیٹیاں بھی شامل ہیں کہ ایک دوسرے کے مال کے فروخت کرنے میں مدد دیں اور ایک دوسرے کی تجارتوں کے فروغ میں مدد دیں۔ مسلمان عموماً تجارت میں اس لیے نقصان اٹھاتے ہیں کہ اِن کی تجارتوں کو نہ دوسرے تُجّار سے مدد ملتی ہے اور نہ گاہکوں سے۔ اِس کے بالمقابل ہندو تاجروں کو دونوں طرف سے مدد ملتی ہے اور وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
چھٹے میں نے بتایا تھا کہ اسلام نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ۔ اِس میں یہ گُر بتایا گیا ہے کہ صنّاع اور تاجر جہاں کہیں ہوں اُن کی پالیسی اور اُن کا طریق ایسا ہونا چاہیے کہ اُن کے کام کے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو، دین کی طاقت بڑھے اور مذہب کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو۔ اس اصل کے ماتحت ہر شخص پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے خصوصاً تاجروں اور صنّاعوں پر کیونکہ تاجروں اور صناعوں کو لوگوں میں زیادہ رسوخ حاصل ہوتا ہے۔ انہیں ایک دوسرے سے ملنے کے زیادہ مواقع ملتے رہتے ہیں اور وہ اگر چاہیں تو اپنے اِس رسوخ سے دین کی خاطر بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پس تاجروں اور صنّاعوں کا وجود مذہب کی تائید اور دین کی تقویت کا بہت زیادہ موجب بن سکتا ہے۔ اور اگر وہ صرف دنیا کمانے میں اپنے آپ کو مشغول نہ رکھیں تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے وہ بہت کچھ ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔
ساتویں اسلام نے وزن اور ماپ وغیرہ کی درستی کی ہدایت کی ہے۔ یہ نقص بھی تاجروں میں خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ پہلے تو وہ صرف ڈنڈی مارا کرتے تھے مگر اب کئی قسم کے بٹّے بنا لیے گئے ہیں۔ پہلے بھی جب اسلام میں تجارت کا زور تھا لوگوں میں یہ نقص پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ پرانی کتب میں بھی ذکر آتا ہے کہ پرانے زمانہ میں بھی تین قسم کے بٹّے ہوا کرتے تھے۔ ایک لینے کے لیے، ایک دینے کے لیے اور ایک افسروں کو دکھا نے کے لیے۔ پس پہلے بھی یہ نقص تھا مگر اِس زمانہ میں اِس نقص نے بہت بڑی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مومن کو چاہیے وہ تول اور ماپ میں کسی قسم کی کمی نہ کرے۔ جب کوئی چیز لے تو تول کر لے اور جب کوئی چیز دے تو تول کر دے۔ کسی قسم کی دھوکا بازی اور فریب اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اور اگر کوئی تاجر یا صنّاع ایسا کام کرتا ہے تو اُس کا کام محض دنیا داری ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب نہیں بلکہ اُس کی ناراضگی کو بھڑکانے کا موجب ہے۔ جب وہ اِس قسم کے دھوکا کے بعد کوئی مال کما کر اپنے گھر میں لے آتا ہے تو حرام مال ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جیسے چوری اور ڈاکہ سے حاصل کیا ہوا مال ہو۔ چاہے اُس نے دکان پر ہی بیٹھ کر کیوں نہ حاصل کیا ہو۔
آٹھویں دھوکا، فریب اور بناوٹ سے اسلام نے نہایت شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔ یہ نقص بھی ایسا ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔ ہندوستان میں تو یہ مرض اِس قدر پھیلا ہوا ہے کہ کوئی چیز دھوکا اور بناوٹ سے نہیں بچی۔ گھی فروخت کریں گے تو اس میں چربی یا تیل وغیرہ ملا کر، تیل بیچیں گے تو وہ خالص نہیں ہوگا۔ بلکہ اُس میں بعض اَور تیلوں کی ملاوٹ ہوگی۔ یہی باقی تمام چیزوں کا حال ہے۔سب ہی میں دھوکا اور فریب سے کام لیا جاتا ہے اور خالص چیز خریداروں کو مہیا نہیں کی جاتی۔ غیرملکوں سے تو اَب یہ عیب اٹھتا جا رہا ہے۔ یورپ میں بھی بہت کم رہ گیا ہے۔ مگر ہندوستان میں ابھی یہ نقص کافی حد تک پایا جاتا ہے۔ یہ نقائص صرف اِسی زمانہ میں نہیں بلکہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں بھی یہ نقائص پائے جاتے تھے اور اِنہی کو دور کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی طرف سے محتسب مقرر تھے۔ ہم نے بھی مرکز میں ایک محتسب اِسی قسم کے کاموں کی نگرانی کے لیے رکھا ہوا تھا۔ غرض کئی قسم کے دھوکوں اور فریبوں سے اشیاء کو خراب کیا جاتا اور بجائے خالص چیز کے ناقص اور گندی اشیاء لوگوں کو مہیا کی جاتی ہیں۔
میرے پاس عربی کی ایک کتاب ہے جو دو تین سَو صفحوں کی ہے اور جس میں بازار کے تمام ہتھکنڈوں کا پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ وہ کتاب درحقیقت اسلامی زمانہ میں محتسب کی راہنمائی کے لیے لکھی گئی تھی۔ چنانچہ جب کسی شخص کو اِس ڈیوٹی پر مقرر کیا جاتا تو اُسے بتایا جاتا تھا کہ لوگوں کی طرف سے چیزوں کو کس طرح خراب کیا جاتا ہے اور ہمیں ان خرابیوں کا کس طرح انسداد کرنا چاہیے۔ یا کس طرح معلوم کرنا چاہیے کہ اِن چیزوں میں ملاوٹ اور دھوکا بازی سے کام لیا گیا ہے۔ گویا وہ محتسب کا نصابِ تعلیم تھا جسے پڑھا کر اُسے احتساب کے کام پر مقرر کیا جاتا تھا تاکہ وہ خالص چیزیں لوگوں کے لیے مہیا کرے اور اُنہیں دھوکابازی کا شکار ہونے سے بچائے۔ اِس کتاب کو پڑھ کر حیرت آ جاتی ہے کہ کوئی پیشہ ایسا نہیں جس میں دھوکا اور فریب کا کوئی نہ کوئی رستہ پیدا نہ کر لیا گیا ہو۔ پھر اِس دھوکا اور فریب کو پہچاننے کے لیے کئی کئی قسم کی تراکیب بتائی گئی ہیں۔ مثلاً بتایا گیا ہے کہ عنبر کو لوگ اِس طرح خراب کرتے ہیں اور اِس اِس طریق پر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ عنبر خالص ہے یا اُس میں بعض اور چیزوں کی ملاوٹ ہے۔ اِسی طرح اس میں بتایا گیا ہے کہ لوگ گھی کو کس طرح خراب کرتے ہیں، موم کس طرح خراب کرتے ہیں۔ تیل کو کس طرح خراب کرتے ہیں، لوہے کو کس طرح خراب کرتے ہیں اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب لوگ ان چیزوں کو خراب کر دیں تو تم کس طرح اِن خرابیوں کو معلوم کرسکتے ہو۔ پس یہ بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس کو دور کرنا چاہیے۔
نویں اسلام کا یہ حکم ہے کہ احتکار نہ ہو۔ احتکار کے معنے صرف جمع کرکے رکھنے اور بعد میں مہنگا فروخت کرنے کے ہیں۔ اِس میں غلّہ کی کوئی شرط نہیں بلکہ کسی چیز کو بھی اگر اس غرض کے لیے بند کرکے رکھ لیا جاتا ہے کہ جب وہ چیز مہنگی ہوگی تو اُس وقت ہم فروخت کریں گے تو اسلام کے نزدیک یہ احتکار ہوگا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلّہ خرید کر اس لیے روک لیتا ہے کہ جب غلہ مہنگا ہوگا تو اس وقت مَیں اُسے فروخت کروں گا تو وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔17 بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ حکم صرف غلہ کے متعلق ہے اَور چیزوں کے متعلق نہیں۔ حالانکہ تفقّہ کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ جو حکم کسی خاص موقع پر دیا جائے اُس کے متعلق یہ دیکھا جائے کہ اُس حکم کی غرض کیا تھی۔ اور پھر جہاں جہاں وہ غرض پائی جائے اُس حکم کو چسپاں کردیا جائے۔ پس گو احتکار کا حکم غلہ کے متعلق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف غلہ کے تاجر کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ غلہ کو روک لیتا ہے اِس ارادہ اور اِس نیت سے کہ جب غلہ مہنگا ہوگا تب فروخت کروں گا تو وہ ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔ لیکن اِس سے استدلالِ عام کیا جائے گا۔ کیونکہ اِس حکم کی اصل غرض یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کو روک کر نہ رکھیں تاکہ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ پس جس طرح غلہ روک کر ایک شخص احتکار کرتا اور شریعت کے نزدیک مجرم قرار پاتا ہے اِسی طرح اگر کوئی کپڑے کا تاجر کپڑے کو روک لے اور لوگوں میں فروخت نہ کرے تو وہ بھی ایسا ہی سمجھا جائے گا۔ یا اگر کوئی لکڑی کو روک لیتا ہے یا لوہے کو روک لیتا ہے یا کوئلے کو روک لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ چیزیں مہنگی ہوں گی تب میں اِن کو فروخت کروں گا تو وہ یقیناً اسلام کے خلاف چلتا ہے۔ پس شریعت اسلامی کے رو سے کوئی ایسی تجارت اَور کوئی ایسی صنعت جائز نہیں جس میں احتکار سے کام لیا گیا ہو۔ یعنی یہ مدنظر رکھا گیا ہو کہ جب چیزیں مہنگی ہوں گی تب اِن چیزوں کو ہم فروخت کریں گے اُس سے پہلے ہم فروخت نہیں کریں گے۔
احتکار کے سلسلہ میں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض تاجر اِس پردہ میں بھی دوسرے کو دھوکا اور فریب دے دیتے ہیں۔ مثلاً ایک تاجر ایسا ہے جس کے پاس سَو من غلہ ہے۔ ایک دوسرے تاجر کو یہ بات معلوم ہوجاتی ہے جس کے پاس پہلے ہی دو تین سَو من غلہ موجود ہے اور وہ اُس کے پاس آکر کوشش کرتا ہے کہ اُس سے بھی سَو من غلہ خرید لے تاکہ غلہ صرف اُسی کے پاس رہے اَور کسی کے پاس نہ رہے۔ وہ اُس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اپنا ایک سَو من غلہ میرے پاس فروخت کر دو۔ اِس پر اگر دوسرا شخص انکار کردے تو وہ بالکل حق بجانب ہوگا۔ کیونکہ وہ اُس کے پاس غلہ فروخت کرنے سے اِس لیے انکار نہیں کرتا کہ وہ خود احتکار کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لیے انکار کرتا ہے کہ اگر مَیں نے غلہ فروخت کردیا تو اُس دوسرے تاجر کو احتکار کرنے کا زیادہ موقع مل جائے گا۔ پس وہ احتکار کے لیے نہیں بلکہ احتکار کو روکنے کے لیے غلہ فروخت کرنے سے انکار کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص ایسا ہے جس کے پاس پہلے ہی کافی غلہ موجود ہے۔ مگر اس کا منشاء یہ ہے کہ ارد گرد سے سب غلہ اکٹھا کر لے اور اسے گراں قیمت پر فروخت کرے۔ پس چونکہ وہ احتکار کے لیے نہیں بلکہ دوسرے کو احتکار سے بچانے کے لیے غلہ فروخت کرنے سے انکار کرتا ہے اس لیے اُس کا یہ فعل اسلامی تعلیم کے رو سے بالکل جائز اور درست ہوگا۔
غرض احتکار کی اسلام میں نہایت سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور یہ ایک ایسا عیب ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔ آجکل جنگ کی وجہ سے تاجروں میں خصوصیت سے احتکار پایا جاتا ہے۔ اُن کے پاس کپڑا موجود ہوتا ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارےپاس کپڑا نہیں۔ اِس سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب کپڑا اَور زیادہ مہنگا ہوگا تب ہم فروخت کریں گے۔ اِسی طرح لکڑی موجود ہوتی ہے مگر جب کوئی لکڑی کا خریدار آتا ہے تو اُس کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس لکڑی نہیں۔ کوئلہ موجود ہوتا ہے مگر جب کوئلہ مانگنے کے لیے آتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئلہ نہیں۔ شریعت کے رو سے یہ بالکل ناجائز ہے۔ اور ہر شخص جو احتکار کے نتیجہ میں روپیہ کماتا ہے اُسے اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حرام خوری کا ارتکاب کرتا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کمانے کے جو جائز ذرائع رکھے ہوئے ہیں صرف اُن ذرائع سے کام لینا چاہیے۔ ناجائز اور گندے اور ناپاک ذرائع جن کا اسلام دشمن ہے، جن سے اُس نے بڑی شدت کے ساتھ منع کیا ہے اُن کو اختیار کرنا دین کی ہتک کرنا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں موردِ غضب اور قہر بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لیے دنیا کا مال کمانا اِس لیے جائز رکھا ہے کہ دنیا اُس کے دین کے لیے مددگار ہو۔ اگر کوئی شخص دین کو نظر انداز کر دیتا ہے تو اُس کا دنیا کمانا اُس کے لیے *** کا ایک طوق ہے جو اسے خدا تعالیٰ کے حضور ایک مجرم کی حیثیت میں کھڑا کرے گا۔ انسان کو ان گندے ذرائع اختیار کرنے کا لالچ صرف اِس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی ایسا کر رہے ہیں۔ جب وہ اپنے کسی ہمسایہ یا اپنے کسی دوست یا اپنے کسی واقف تاجر کو اِس قسم کے ذرائع اختیار کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی خیال آ جاتا ہے کہ مَیں بھی اس ذریعہ سے دولت کما دیکھوں۔ حالانکہ اگر وہ جھک مارتا ہے تو کیا تم بھی جھک مارنے لگ جاؤ گے۔ اگر کل کو وہ شراب پینے لگ گیا تو کیا تم بھی شراب پینے لگ جاؤ گے؟ اور کہو گے کہ مَیں شراب کیوں نہ پیوں، میرا فلاں ہمسایہ جو شراب پیتا ہے۔ اِسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو سؤر کھاتے ہیں۔ پھر کیا تم ا؃ن کو دیکھ کر سؤر بھی کھانے لگ جاؤ گے؟ اور کہو گے کہ ہم اُن سے کیوں پیچھے رہیں؟ دنیا میں بعض مُردار خور قومیں ہیں جو مُردار اور خون تک کھا جاتی ہیں۔ کیا ایسی حالت میں تم بھی مردار کھانے لگ جاؤ گے اور اپنے دین کو تباہ کر لو گے؟
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک غریب شخص کسی گاؤں میں رہتا تھا۔ وہاں کا نمبردار ایک دن اُس کے پاس آیا اور بعض برتن اُس سے مانگ کر لے گیا کیونکہ اُس کے ہاں شادی کی تقریب تھی۔ اُس شخص نے سمجھا کہ نمبردار چند روز تک میرے برتن مجھے واپس کر دے گا مگر جیسے جابر زمینداروں کا طریق ہوتا ہے اُس نے برتن واپس نہ کیے یہاں تک کہ مہینہ دومہینے گزر گئے۔ ایک دن وہ اتفاقاً اُسی زمیندار کے گھر جا نکلا۔ تو اُس نے دیکھا کہ وہ اُسی کے پیالہ میں ساگ کھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اُسے سخت جوش آیا اور زمیندار سے کہنے لگا چودھری! یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے کہ تم مجھ سے برتن مانگ کر لائے اور پھر کئی مہینے گزرنے کے باوجود تم نے واپس نہ کیے بلکہ آج تم میرے پیالہ میں ہی ساگ کھا رہے ہو!!پھر ایک گالی دے کر کہنے لگا تم مجھے بھی ایسا ویسا سمجھنا اگر مَیں تمہارا برتن نہ لے جاؤں اور اُس میں پاخانہ ڈال کر نہ کھاؤں۔ اب دیکھو اُس نے ایک بات تو کہی مگر سوائے اپنی ناک کاٹنے کے اُس نے اَور کیا کیا؟ اُس نے چاہا تو یہ تھا کہ دوسرے کو ملامت کرے مگر اپنی بیوقوفی کی وجہ سے خود ہی ذلیل ہو گیا۔ تو وہ شخص جو کہتا ہے کہ چونکہ فلاں ایسا کرتا ہے اِس لیے مَیں نے بھی ایسا ہی کیا وہ اپنی بیوقوفی کا آپ اقرار کرتا ہے اور اِس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ چونکہ فلاں نے جھک ماری اِس لیے مَیں بھی جھک مارتا ہوں یا چونکہ فلاں نے نجاست کھا لی اِس لیے مَیں بھی اس کے کھانے سے باز نہیں رہ سکتا۔اگر کوئی اَور شخص ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو بجائے اِس کے کہ تم اُس کی نقل کرو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خدا کا نافرمان ہے۔ خدا کے احکام کا دشمن ہے۔ اُس کے دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ اُسے اپنی موت کا کوئی یقین نہیں۔ اُسے جنت اور دوزخ پر کوئی ایمان نہیں۔ اگر تمہارا بھی یہی حال ہے تو بے شک تم بھی ایسا ہی کر لو۔ اور اگر تم اپنے دل میں ایمان رکھتے ہو تو تمہیں گندے افعال میں دوسرے کی متابعت کا خیال ہی کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔
دسویں مَیں نے بتایا ہے کہ مزدور کو اُس کا حق دو اور وقت پر دو۔ یہ بھی ایک ایسا حکم ہے جس کی طرف عام طور پر توجہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ یورپ میں تو مزدوروں نے اپنی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں یہ بات نہیں۔ یہاں اول تو لوگ مزدور کو اُس کے حق سے کم دیتے ہیں اور پھر جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی وقت پر نہیں دیتے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ نہ صرف مزدور طبقہ کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ مالکوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گویا اِس فعل کے نتائج دُہرے طور پر نکل رہے ہیں۔ مزدور بھی نقصان اٹھا رہے ہیں اور مالک بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ مالکوں کو مزدوروں سے ہی کام لینا پڑتا ہے اور جب اُن کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے تو وہ خوش دلی سے کام نہیں کرتے۔ جس کا اثر اُس کام پر پڑتا ہے جو اُن کے سپرد کیا جاتا ہے اور اِس طرح مالک بھی مزدور کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یورپ میں مَیں نے دیکھا ہے کوئی شخص چلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ دَوڑ رہے ہیں۔ جب ہم یورپ گئے تو ایک دفعہ مَیں نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا یا حافظ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نے لنڈن میں کسی کو چلتے بھی دیکھا ہے؟ اِس کا جواب اُنہوں نے مجھے یہ دیا یا مَیں نے اُنہیں یہ جواب دیا کہ لنڈن میں ہم نے کسی شخص کو اُس طرح چلتے نہیں دیکھا جس طرح ہمارے ملک میں لوگ چلتے ہیں۔ بلکہ وہاں ہم نے جس کو بھی دیکھا ہے دوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ بازاروں میں بھی ہم نے کسی کو اپنے ملک کے لوگوں کی طرح چلتے نہیں دیکھا بلکہ ہر ایک ہمیں دوڑتا ہوا ہی نظر آیا ہے۔ وہاں ہم نے ایک دفعہ ایک عمارت بنتی دیکھی تو حیرت آگئی کہ کس پُھرتی کے ساتھ مزدور وہاں کام کر رہے ہیں۔ ہمارا مزدور جب اینٹ اٹھانے لگتا ہے تو ہاتھوں میں اٹھا کر اور ایک آہ بھر کر ٹوکری میں ڈالتا ہے۔ پھر دوسری اینٹ اٹھاتا اور یہ دکھانے کے لیے کہ وہ کام کررہا ہے اِس طرح پھونک مار مار کر اُس پر سے گرد ہٹاتا ہے کہ گویا اطلس یا کمخواب کا کوئی تھان اُس کے سامنے پڑا ہوا ہے۔کبھی اُس کے ایک طرف پھونک مارے گا کبھی دوسری طرف پھونک مارے گا اور بہانہ صرف یہ ہوگا کہ کچھ نہ کچھ دیر لگ جائے۔ پھر آرام سے اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُسے معمار کے پاس لے جاتا ہے اور جب اِس انداز میں وہ دو تین ٹوکریاں اٹھا لیتا ہے تو اُس کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں حُقّہ کے دو گھونٹ تو پی لوں۔ مگر یورپ میں یہ بات نہیں۔ وہاں ہر شخص دوڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔اور پھر جس عمارت کا مَیں نے ذکر کیا ہے وہ عمارت جس طرح مَیں نے منٹوں میں اُٹھتی دیکھی ہے اُس طرح گھنٹوں میں بھی ہمارے ملک میں کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی۔ پس اَس کا نتیجہ دونوں کے حق میں خراب نکل رہا ہے مزدور کے حق میں بھی اور آقا کے حق میں بھی۔ جب مزدور کو اُس کی مزدوری صحیح طور پر نہیں دی جاتی تو وہ بھی دل لگا کر کام نہیں کرتا۔ بلکہ اگر اُسے پوری اُجرت دو تب بھی وہ کام نہیں کرتا۔ کیونکہ سُستی اور کاہلی اور نکمے پن کی اُس کے اندر عادت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ اِس کے لیے ہمیں ایک ایسے انتظام کی ضرورت ہے جو دونوں طرف کی بُری عادتوں کو دور کردے۔ اِدھر مزدوروں کو محنت اور دیانتداری سے کام کرنے پر مجبور کرے اور اُدھر مالکوں کو اِس بات پر مجبور کرے کہ وہ مزدوروں کو اُن کا پورا حق دیں اور ٹھیک وقت پر دیں۔
مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مَیں نے اِس ملک میں پوری دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے والا ایک مزدور بھی نہیں پایا۔ خواہ لوہار ہوں، نجّار ہوں، معمار ہوں سب میں مَیں نے یہ نقص دیکھا ہے کہ اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آنکھ بچا کر کسی طرح کام سے بچ جائیں۔ دوسری طرف مالکوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مزدوروں کا خون چُوستے رہتے ہیں اور اُن کی جائز مزدوری دینا بھی اُن کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ اسلام نے اِس نقص کی طرف بھی تاجروں اور صنّاعوں کو خاص طور پر توجہ دلائی ہے اور ہدایت کی ہے کہ مزدور کو اس کی پوری مزدوری دو اور پھر وہ مزدوری عین وقت پر دو۔
گیارھویں بات یہ ہے کہ انسان کے اندر تکبر اور خیلاء وغیرہ پیدا نہ ہو۔ دولت کمانے سے اسلام کبھی منع نہیں کرتا۔ اسلام صرف یہ کہتا ہے کہ تم دولت تو کماؤ مگر وہ دولت امیر اور غریب میں فرق پیدا کرنے کا موجب نہ بن جائے۔ اگر کوئی دولت امیر اور غریب میں فرق ڈال دیتی ہے، امارت اور غربت میں امتیاز پیدا کر دیتی ہے تو وہ دولت اسلامی نقطۂ نگاہ سے ناجائز ہوگی۔ اگر کوئی امیر اپنے غریب بھائی سے مل کر بیٹھ نہیں سکتا، اگر وہ ایک دسترخوان پر اُس کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا، اگر وہ ملنے کے لیے آتا ہے تو امیر آدمی اُس سے اپنی پیٹھ موڑ لیتا ہے یا وہ بات کرتا ہے تو یہ غصے اور جوش کی حالت میں اُس سے کہتا ہے تم جانتے نہیں مَیں کون ہوں؟ تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص دولت کمانے کے بعد انسان نہیں رہا بلکہ حیوان بن گیا ہے۔ اور دولت صرف انسان کے لیے جائز ہے حیوان کے لیے جائز نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس دولت تو آ جاتی ہے مگر اِس کے باوجود اُس میں اور دوسرے غریب بھائیوں میں مغائرت کی کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی، وہ اپنے آپ کو کوئی علیحدہ جنس سمجھنے نہیں لگتا، وہ دوسروں کو تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، وہ اُن سے محبت کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، اُن کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتا ہے، اپنے آپ کو کوئی الگ قِسم کا آدمی اور غریبوں کو کوئی الگ قسم کا آدمی نہیں سمجھتا تو ایسے شخص کے لیے دولت کمانا بالکل جائز ہے۔
بارھویں مَیں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک یہ حکم بھی دیا ہے کہ كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَا١ۖۚ ا۟لْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ18 یعنی اگر کوئی شخص مرنے لگے اور مال و دولت اُس کے پاس ہو تو وہ کچھ روپیہ غرباء کی بہبودی اور دین کی خدمت کے لیے وقف کردے۔گو اِس آیت کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ رشتہ داروں کو وصیت کر جائے کہ شریعت کے مطابق اُس کی جائیداد کی تقسیم ہو۔ لیکن اِس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ جب کسی شخص کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو تو وہ موت کے وقت ایک حصہ کی وصیت کر جائے۔ اور جہاں کسی آیت کے دو معنے ہوسکتے ہوں وہاں دونوں لیے جائیں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ ایک معنے ترک کر دیے جائیں اور دوسرے معنے لے لیے جائیں۔
اِس وقت مَیں خصوصیت سے اپنی جماعت کے تاجروں اور صنّاعوں کو صنعت و حرفت اور تجارت کی اِن ذمہ داریوں میں سے تین باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یوں تو بارہ کی بارہ ہدایات ہی اِس قابل ہیں کہ ان کی طرف ہمیشہ اور ہر آن توجہ رکھی جائے۔ لیکن اِس وقت خصوصیت کے ساتھ مَیں تین باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
اول۔ تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی
دوم۔حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ
سوم۔مزدور کے حق کی ادائیگی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ اگر تُو اپنی بیوی کے مُنہ میں ثواب کی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی تیری طرف سے ایک صدقہ ہے۔19 بیوی انسان کی ایک نہایت ہی پیاری چیز ہوتی ہے جسے انسان کھلاتا پلاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گو تمہارا اپنی بیوی سے پیار ایک نفسیانی بات ہے گو جذباتی لحاظ سے تم اُس سے محبت رکھتے ہو اور گو اپنی شہوات کو پورا کرنے کے لیے تم اُس سے محبت کرتے ہو اور اُسے اچھا کھلاتے اور اچھا پہناتے ہو لیکن اگر تم اپنی بیوی کی خاطر تواضع کرتے ہوئے اُس سے پیار اور محبت کرتے ہوئے یہ نیت کر لیا کرو کہ چونکہ خدا کا حکم ہے کہ بیویوں سے محبت کی جائے اِس لیے مَیں محبت کرتا ہوں۔ اور چونکہ خدا نے ان کو کھلانے کا حکم دیا ہے اس لیے مَیں اسے کھلاتا ہوں تو تمہارا یہ کام شہوانی نہیں رہے گا بلکہ دین بن جائے گا۔ خواہ تمہارا وہ کام صرف اتنا ہو کہ تم نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دیا ہو۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک اگر کام کی نیت درست ہو اور اسے تمدن و مذہب کی درستی کے لیے استعمال کیا جائے تو دنیا کا کام بھی دین بن جاتا ہے۔ پس اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صنّاع اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور اُن تین باتوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں جن کا ابھی مَیں نے ذکر کیا ہے اور جو تمدن کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتی ہیں تو اُن کی تجارت اور اُن کی صنعت و حرفت دنیا نہیں رہے گی بلکہ دین بن جائے گی۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ باقی کی نو باتیں بھی نہایت ضروری ہیں مگر مَیں اِن تین کا خصوصیت سے اِس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ تین باتیں جماعتی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ اگر ہم تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی سے کام لیں، اگر ہم حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ کا اصل ہر وقت اپنے سامنے رکھیں اور اگر ہم مزدور کو اس کا حق دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہ لیں اور اُس کا حق بر وقت ادا کردیں تو گو تجارت اور صنعت و حرفت بظاہر دنیا کمانا ہے لیکن چونکہ ایسا تاجر اور صنّاع دین کے لیے مفید وجود ہوگا۔ اِس لیے اس کا دنیا کمانا دنیا کمانا نہیں ہوگا بلکہ دین کمانا ہوگا۔پس ہر صنّاع اور ہر تاجر اگر اپنے کام کو دین کی مدد کی نیت سے کرتا ہے تو یہ کام اُس کے لیے ثواب کا موجب ہوجائے گا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ محض دنیا کمانا ہوگا جو اس کے لیے *** کا موجب بن جائے گا۔ مَیں اِس وقت تاجروں کی نسبت کلام کررہا ہوں لیکن چونکہ ہماری جماعت میں ایک بہت بڑا طبقہ زمینداروں کا بھی ہے اور وہ بھی مال کماتے ہیں۔ اِس لیے مَیں زمینداروں کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھو! قادیان ہماری جماعت کا مرکز ہے اور مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان میں جس قدر ہماری جماعت کی مضبوطی ہوگی اور جس قدر اُس کی طاقت اور قوت میں اضافہ ہوگا اُسی قدر یہ مضبوطی ہماری سب جماعت کی طاقت اور اُس کی قوت کا موجب بنے گی۔اِس حقیقت کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اگر ایک زمیندار قادیان یا اُس کے نواح میں ایک گھماؤں یا دو گھماؤں یا چار گھماؤں زمین خریدتا ہے تو زمین کے لحاظ سے وہ صرف دنیا کماتا ہے۔ کیونکہ زمین ایک ایسی چیز ہے جو باہر بھی خریدی جاسکتی ہے۔ وہ گجرات میں بھی خرید سکتا ہے، وہ گوجرانوالہ میں بھی خرید سکتا ہے، وہ شیخوپورہ میں بھی خرید سکتا ہے، وہ لاہور میں بھی خرید سکتا ہے، وہ فیروز پور میں بھی خرید سکتا ہے، وہ جھنگ میں بھی خرید سکتا ہے۔ اگر اُس نے قادیان میں زمین خرید لی تو اِس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ گیا۔ لیکن اگر یہ زمین اُس نے اِس لیے خریدی ہے کہ اِس سے دین کو طاقت حاصل ہوگی، مجھے یہاں رہنے کا موقع مل جائے گا، میری اولاد اِس جگہ تعلیم حاصل کر لے گی اور وہ اپنی آئندہ زندگی میں دین کی خدمت کرنے کے قابل بن سکے گی۔ اِسی طرح میرا یہاں زمین خریدنا جماعت کی اقتصادی ترقی کا موجب ہوگا تو اُس کا زمین خریدنا دین کا ایک کام بن جائے گا۔ دانہ یہاں سے بھی پیدا ہوگا اور وہاں سے بھی۔ لیکن اگر وہ شیخوپورہ یا جھنگ یا گوجرانوالہ میں زمین خریدتا تو اُس کا زمین خریدنا محض دنیا ہوتا۔ لیکن یہاں اُس کا زمین خریدنا دین بن گیا۔ قادیان اور اُس کے نواح میں بہت سے احمدی زمینداروں نے زمینیں خریدی ہوئی ہیں اور اگر اُنہوں نے اِسی نیت سے زمینیں خریدی ہیں کہ یہ امر مرکزِ سلسلہ کی تقویت کا موجب ہوگا اور خود اُن کے لیے اور اُن کی اولاد کے لیے روحانی برکات کے حصول کا موجب ہوگا تو اُن کا زمینیں خرید نا دنیا نہ رہا بلکہ دین بن گیا اور وہ زمین خرید کر خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے مستحق ہو گئے۔ اگر وہ باہر زمین خریدتے تو روٹی اُن کو وہاں بھی مل جاتی اور ویسی ہی ملتی جیسے قادیان میں زمین خرید کر اُن کو روٹی ملتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ قادیان میں زمین خریدنے والے کو غلّہ زیادہ ملنے لگ جاتا ہے یا اس کی پیداوار خاص طور پر بڑھ جاتی ہے۔ دنیوی لحاظ سے جس طرح باہر کی زمینوں سے ایک انسان فائدہ اٹھاتا ہے اُسی طرح قادیان کی زمین سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن چونکہ قادیان میں زمین خریدنے والے اپنی نیتیں درست کر لیتے ہیں اور وہ محض دنیا کے لیے نہیں بلکہ دین کی تقویت کے لیے یہاں زمینیں خریدتے ہیں اِس لیے گو بظاہر اُن کا قادیان میں زمینیں خریدنا ویسا ہی ہے جیسے گجرات یا شیخوپورہ یا لاہور یا فیروز پور میں زمین خرید لے مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اُن کا یہ فعل قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے اور وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔اِسی طرح اگر تاجر اور صنّاع اپنی تجارت اور اپنے کارخانوں کے قیام میں اس بات کو مدنظر رکھیں کہ وہ اپنی تجارتوں اور اپنے کارخانوں کو ایسے رنگ میں چلائیں گے کہ اسلام کی مدد ہو، احمدیت کو مضبوطی حاصل ہو اور جماعت کی ترقی میں یہ امور مُمِد و معاون ہوں تو وہ دنیا نہیں بلکہ دین کماتے ہیں۔ بے شک اُنہیں اپنے کارخانوں اور اپنی تجارتوں کے نتیجہ میں مال بھی ملے گا، دولت بھی ملے گی اور وہ سب چیزیں اُنہیں حاصل ہوں گی جو دنیا داروں کو تجارت اور صنعت و حرفت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں لیکن پھر بھی خدا کی نگاہ میں وہ دیندار سمجھے جائیں گے۔کیونکہ انہوں نے اپنے سامنے اصل مقصد صرف دین کی خدمت اور جماعت کے ساتھ تعاون رکھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا نے اُنہیں تابع کے طور پر دنیا بھی دے دی۔ چنانچہ صحابہؓ کو دیکھو اُنہوں نے جہاد کیا اور اِس لیے کیا کہ کفار نے اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ انہوں نے اسلام کی حفاظت کے لیے محض دین کی خاطر خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے کلمہ کے اعلاء کی خاطر جہاد کیا اور اپنی جانیں قربان کردیں۔ مگر اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اسلام قائم ہوا بلکہ اُنہیں بادشاہت بھی حاصل ہو گئی۔ اگر وہ صرف بادشاہت کے لیے لڑتے تو وہ دنیا کے کیڑے سمجھے جاتے۔ لیکن چونکہ وہ خدا کے لیے لڑے اِس لیے نہ صرف وہ شہید قرار پائے بلکہ اُس کا ایک یہ نتیجہ بھی نکلا کہ وہ دنیا کے بادشاہ بن گئے۔ جنگ کرنے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لحاظ سے وہ اُسی طرح لڑتے تھے جس طرح آجکل روسی اور جرمن اور انگریز اور فرانسیسی لڑ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر دنیا کو بالکل چھوڑ چکے تھے اور اُنہوں نے جنگیں اِس لیے نہیں کی تھیں کہ وہ دنیا کمائیں بلکہ اُنہوں نے اِس لیے جنگیں کیں کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اور چونکہ اُنہوں نے محض خدا کی رضا کی خاطر لڑائی کی اِس لیے گو وہ اُسی طرح لڑے جس طرح آجکل کی جنگوں میں لوگ لڑتے ہیں مگر نیت اور ارادہ کے فرق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو صالح اور شہید اور صدیق قرار دیا اور اُن کو اپنے ابدی انعامات سے اس طرح نوازا کہ آج تک رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ 20 کہتے کہتے مسلمانوں کے منہ سُوکھ جاتے ہیں۔ اور پھر اِس پر مزید انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ حاصل ہوا کہ اُن کو حکومتیں بھی ملیں اور بادشاہتیں بھی حاصل ہوئیں۔
اِسی طرح اگر ہماری جماعت کے صنّاع اور تاجر اِس نیت اور ارادہ سے صنعت و حرفت اور تجارت کریں کہ وہ تَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی کریں گے، ہر کام میں اسلام کی شوکت اور اُس کی ترقی کو مدنظر رکھیں گے اور مزدوروں کو اُن کا حق ادا کریں گے تو اِس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دنیوی لحاظ سے بھی اُن کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ دین کا کام کرنے والے قرار پا جائیں گے۔ آخر دنیوی لحاظ سے جو فائدہ ایک ایسے تاجر کو حاصل ہوسکتا ہے جو محض دنیا کمانے کے لیے تجارت کرتا ہے وہی فائدہ اُس تاجر کو بھی حاصل ہوتا ہے جو دینی قواعد کی پابندی کرتے ہوئے تجارت کرتا ہے، جس طرح وہ بُوٹ فروخت کرتا ہے اُسی طرح یہ بھی بُوٹ فروخت کرتا ہے، جس طرح وہ لوہا بیچتا ہے اُسی طرح یہ بھی لوہا بیچتا ہے، جس طرح وہ کپڑا بیچتا ہے اُسی طرح یہ بھی کپڑا بیچتا ہے اور جس طرح وہ نفع کماتا ہے اُسی طرح یہ بھی نفع کماتا ہے لیکن اگر یہ شخص اِس نیت اور اِس ارادے سے کپڑے بیچتا یا بُوٹوں کی تجارت کرتا یا لوہا فروخت کرتا ہے کہ اسلام کو فائدہ حاصل ہو، دین کی شوکت اور اُس کی طاقت میں اضافہ ہو، قومی رُعب میں ترقی ہو، جماعت کی اقتصادی حالت درست ہو اور اِس نیت کے ماتحت وہ اسلام کی مقرر کردہ پالیسی اور نظام اور قانون کے ماتحت تجارت کرتا ہے تو روٹی تو وہ بھی کماتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جب وہ بُوٹ یا کپڑا یا لوہا یا تیل یا کوئی اَور چیز فروخت کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے وہ دین کا کام کر رہا ہے۔ وہ بُوٹ نہیں بیچتا بلکہ کفر کی بربادی کے سامان کرتا ہے اور وہ پیسے لے کر اپنے گھر میں واپس نہیں لوٹتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کا تحفہ لے کر گھر میں آتا ہے۔ پس تجارت اور صنعت جو بظاہر دنیوی ترقی کے اسباب میں سے ہیں اور جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا یہ سب کی سب دین بن جاتی ہے بشرطیکہ اسلام کی شوکت اور دین کی ترقی میں یہ چیزیں مُمِد ہوں۔
یہ مضمون بہت وسیع ہے اور کسی ایک خطبہ میں اِس مضمون کی تمام تفصیلات کو بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن چونکہ مَیں ایک ہی خطبہ میں اِس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں اِس لیے میں خلاصۃً اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ:
(1) ہماری جماعت کے تاجر اور صنّاع آپس میں تعاون کریں اور ایک ایسی کمیٹی بنائیں جس کی غرض یہ ہو کہ وہ اپنے کارخانے اور تجارتیں اِس طرح چلائیں گے کہ دین کی مدد ہو۔ میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے تاجر اور صنّاع ایک کمیٹی بنائیں جو صرف تاجروں اور صنّاعوں پر مشتمل ہو۔ اور اُس کمیٹی کے قیام کی اصل غرض یہ ہو کہ وہ اپنے کارخانے اور اپنی تجارتیں اِس رنگ میں چلائیں گے کہ دین کو تقویت حاصل ہو اور سلسلہ کی عظمت میں اضافہ ہو۔
(2) دوسرے اِس کمیٹی کی تشکیل کے بعد اُنہیں اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ اِس طرح کام کریں گے کہ دوسرے دوستوں کے لیے بھی کام مہیا ہوسکے اور ہر جگہ احمدیوں کی تجارت مضبوط ہو۔ گویا اُن کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک تنظیم کے ماتحت دوسرے شہروں اور دوسرے علاقوں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اپنی تجارت کو پھیلائیں گے۔ اور جو غریب احمدی ہوں گے اُن کی مدد کرکے اُنہیں کام پر لگائیں گے اور اُنہیں بھی تجارتوں اور کارخانوں کی ترقی کے اصول سے واقف کریں گے تاکہتَعَاوُن عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی کا سلسلہ اُن کی طرف سے جاری رہے اور جماعت کے غریب طبقہ کی ترقی کا سامان ہوتا رہے۔ پھر نہ صرف انہیں غریب احمدیوں کی مدد کرنی چاہیے بلکہ اگر وہ ترقی کرکے دوسرے مسلمانوں کی مدد کرسکیں تو یہ اَور بھی بہتر ہے۔ بلکہ اِس سے بڑھ کر اگر وہ ہندوؤں اور سکھوں کی مدد کرسکیں تو اُن کی مدد کرنے سے بھی اُنہیں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہیے۔ بِالخصوص اچھوت اقوام ایسی ہیں کہ اُن کی طرف خاص طور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا تعاون محدود نہیں ہوتا بلکہ غیرمعمولی طور پر وسیع ہوتا ہے۔ بے شک پہلا حق اپنی جماعت کا ہوتا ہے لیکن اُنہیں یہ کبھی خیال تک بھی اپنے دل میں نہ لانا چاہیے کہ ہم دوسروں کی مدد نہیں کریں گے۔ اگر وہ ایسا خیال اپنے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ایک گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مثلاً تجارت ہے اِس کے متعلق یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کثرت سے ہندؤوں کے ہاتھ میں ہے۔ مگر پھر بھی سارے ہندؤوں کے ہاتھ میں تجارت نہیں۔ بلکہ خود ہندؤوں میں سے ایک طبقہ بہت بُری حالت میں ہے اور وہ اِس بات کا مستحق ہے کہ اُس کی مدد کی جائے۔ اِسی طرح سکھ اکثر زمیندار ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تنزل کے وقت سکھوں نے فائدہ اٹھا کر بہت سی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا مگر پھر بھی سارے سکھ زمیندار نہیں بلکہ اُن میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو سخت غربت اور تنگی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن گزارتے ہیں۔ پس بے شک ہماری جماعت کے تاجروں اور صنّاعوں کا پہلا کام احمدیوں کی مدد کرنا ہے لیکن اِس کے بعد اُنہیں اپنی مدد کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے مسلمان جو تجارت اور صنعت میں پیچھے ہیں یا دوسری اقوام جو تجارت اور صنعت میں پیچھے ہیں اُن کی مدد کریں۔ یہ تجاویز ابھی خیالی ڈھکوسکے معلوم ہوتی ہیں لیکن جب کوئی جماعت طاقت پکڑ لیتی ہے اور وہ اپنے تمام افراد کو پورے طور پر منظّم کر لیتی ہے تو تھوڑے دنوں میں وہ خود بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجاتی ہے اور دوسری اقوام کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہے۔
(3)تیسرے وہ ایسی صنعتوں اور تجارتوں کی طرف توجہ کریں جو دین کی ترقی کے لیے مددگار ہوں۔ مَیں ابھی اِس کی تشریح نہیں کرتا۔ جب کمیٹی بن جائے گی تو اس وقت میں کمیٹی کے سامنے اِس کی تفصیل بیان کروں گا کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف کمیٹیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا عام لوگوں کے سامنے ذکر کردینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ پس چونکہ اِس کی تفصیل کمیٹی کے سامنے ہی بیان کرنی مناسب ہے۔ عام لوگوں میں بعض رازوں کا اظہار نہیں کیا جاسکتا اِس لیے مَیں اِس وقت صرف اِسی قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تاجروں اور صنّاعوں کو صرف ایسی تجارتوں اور صنعتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جس کی طرف توجہ کرنا دینی لحاظ سے مفید ہو۔
(4)چوتھے وہ اپنے کاموں کا انتظام اِس طرح کریں کہ مزدور کو اُس کا جائز حق ملے اور وقت پر ملے۔
(5)پانچویں مزدور بھی اپنی انجمن بنائیں جس طرح صنّاع اور تاجر اپنی انجمن بنائیں۔ مگر جہاں کارخانہ داروں اور تاجروں کی انجمن کی غرض یہ ہوگی کہ وہ مزدوروں کو اُن کا جائز حق دلائیں وہاں مزدوروں کی انجمن کی غرض یہ ہو کہ وہ مزدوروں میں محنت اور دیانت کا مادہ پیدا کریں۔ ہم یورپ کا طریق اپنے ہاں جاری کرنا نہیں چاہتے۔ وہاں مزدور اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے، تاجر اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے اور صنّاع اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔ مگر ہم اَور رنگ میں کام کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا تاجر اور ہمارا صنّاع یہ مطالبہ کرے کہ مزدوروں کو اُن کا حق دیا جائے اور ہمارا مزدور اِس بات کا مطالبہ کرے کہ مزدوروں میں دیانت اور محنت کا زیادہ سے زیادہ مادہ ہونا چاہیے۔اور ہم یہ طریق اپنے ہاں رائج کرنا نہیں چاہتے کہ مالک اپنا حق مانگتا پھرے اور مزدور اپنے حق کا مطالبہ کرتا رہے۔ یورپ نے یہ طریق اختیار کیا اور اِس کے نتیجہ میں فسادات نے ترقی کی۔ اِس لیے ہم یورپ کی نقل کرنا نہیں چاہتے۔ ہم اسلام کا قائم کردہ نظام دنیا میں جاری کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مزدور اپنا حق نہ مانگے بلکہ مالک کا حق ادا کرے۔ مزدور یہ نہ کہے کہ مَیں اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہوں بلکہ مزدور مزدوروں کو سمجھائے اور اُنہیں نصیحت کرے کہ تم محنت اور دیانت داری سے کام کرو۔ اِسی طرح مالک اکٹھے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ مالکوں کو سمجھائیں کہ مزدوروں کو اُن کا حق دو اور ٹھیک وقت پر دو۔ اگر اِس طرح مزدور اور سرمایہ دار دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو نہ مزدوروں میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور نہ تاجروں اور صنّاعوں کی حق تلفی ہوسکتی ہے۔
(6)چھٹے مزدوروں کی ایک مشترکہ انجمن ہو کہ وہ آپس میں مِل کر ایک دوسرے کے حقوق پر غور کریں۔ لیکن جہاں وہ آپس میں تصفیہ نہ کرسکیں وہاں سلسلہ سے اِس بات کو طے کرائیں اور قضاء کے ذریعہ باہمی اختلاف کو دور کریں۔ اسلامی قانون یہی ہے کہ جب مزدور اور آقا میں کوئی جھگڑا ہو تو وہ قضاء سے فیصلہ کرائیں۔ اِس طرح بڑی آسانی سے آپس کے تمام تنازعات کا تصفیہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ محکمہ قضاء غیرجانبدارانہ رنگ میں غور کرتا ہے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ ان میں سے بعض امور ابھی تشریح طلب ہیں اور پھر وہ تشریحات ایسی ہیں جن کو خطبہ میں بیان کرنا مناسب نہیں۔ مثلاً! اگر مَیں اِس وقت بتا دوں کہ فلاں قسم کے کام اگر احمدی تاجر اور صنّاع شروع کردیں تو جماعت کو بہت بڑی ترقی حاصل ہوسکتی ہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسروں کو پتہ لگ جائے گا اور چونکہ لوگ ہمارے دشمن ہیں اِس لیے اِن باتوں کا علم ہونے پروہ ہمارے راستہ میں روکیں پیدا کردیں گے۔ اور بجائے اِس کے کہ ہمارے قبضہ میں وہ تجارتیں آئیں اُن تجارتوں پر وہ خود قابض ہونے کی کوشش کریں گے۔ اِس لیے مَیں تفصیلی باتیں اُسی وقت بیان کروں گا جب کمیٹی بن جائے گی۔ اس انجمن کے قیام کے لیے ابھی یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک ایک شہر میں ہزار ہزار تاجر یا صنّاع ہوں اور ہر شہر میں ایک ایک کمیٹی بنا دی جائے۔ یہ ابھی دور کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب ہماری جماعت میں تاجروں اور صنّاعوں کی زیادتی ہوئی تو اُس وقت ہوسکتا ہے کہ ایک ایک شہر میں انجمن بنا دی جائے۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الگ الگ صوبوں کی انجمنیں بنا دی جائیں۔ اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آل انڈیا یا آل ورلڈ انجمن بنا دی جائے۔ مگر سرِدست اِس کام کے چلانے کے لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ مرکز میں اِس کی ایک شاخ کھول دی جائے اور ایک سیکرٹری مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ جماعت کے تمام صنّاعوں اور تاجروں کی لسٹیں تیار کرے اور پھر اُن کو بلا کر مشورہ طلب کرے کہ کونسی تجارتیں ہماری جماعت کے لیے مفید ہوسکتی ہیں یا کونسی صنعتیں ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے اسلام اور احمدیت کو طاقت حاصل ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح اُس سیکرٹری کا یہ بھی کام ہوگا کہ وہ جماعت میں تجارت اور صنعت کے متعلق ایک عام تحریک کرے تاکہ لوگوں کو اس طرف توجہ پیدا ہو۔ ہماری جماعت کے دوستوں میں سے اِس وقت دو سو بلکہ اِس سے بھی کچھ زیادہ ایسے لوگ ہیں جو کنگز کمیشن حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جب جنگ کے ختم ہونے پر یہ لوگ واپس آئیں گے تو ان سب کو نوکریاں تو نہیں مل سکیں گی۔ ان کے لیے بہترین ذریعہ معاش اس وقت یہی ہوگا کہ ان کو تجارت پر لگا دیا جائے۔ اور میرے نزدیک ایسے کئی ذرائع ہیں جن کے نتیجہ میں وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور تبلیغ بھی وسیع ہوسکتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے سندھی قوم میں سے شکار پور کے رہنے والوں میں بیداری پیدا ہوئی اور وہ تجارت کے لیے باہر نکل گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یورپ میں چلے جاؤ، افریقہ میں چلے جاؤ سب جگہ شکار پور کے تاجر موجود ہوں گے۔ اِسی طرح اگر ہماری جماعت کے نوجوان غیرملکوں میں تجارت کے لیے چلے جائیں تو وہ بھی بہت بڑے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ بیرونی ممالک کے مبلغ مجھے اطلاعات بھجوا رہے ہیں کہ وہاں کئی قسم کی تجارتیں شروع کی جاسکتی ہیں اور کئی علاقے ہیں جہاں اگر کام کیا جائے تو بہت وسیع ہوسکتا ہے۔ ایسی جگہوں میں ایک ایک دو دو نہیں بلکہ بعض دفعہ سو سو آدمی ہمیں یکدم بھیجنے پڑیں گے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو جماعت کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوجائے گی اور احمدیت کو بھی ترقی حاصل ہوگی۔ یہ ذرائع ایسے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم بہت جلد بغیر کسی خاص قربانی کے اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ان امور کی تفصیلات مَیں اِس جگہ بیان نہیں کرسکتا۔ ان کو علیحدہ انجمن کے سامنے اِنْشَاءَ اللّٰہُ بیان کروں گا۔
تجارت اور صنعت وحرفت میں ترقی کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت کے افراد میں محنت اور دیانتداری کا مادہ پیدا کیا جائے اور سائنس کی تعلیم کو اِس قدر وسیع کیا جائے کہ ہمارا ہر نوجوان سائنس پڑھا ہوا ہو۔ اِن دوباتوں میں سے سائنس کی تعلیم کے لحاظ سے تعلیم الاسلام کالج اور اخلاق میں سے محنت اور دیانتداری کی عادت نوجوانوں میں پیدا کرنے کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ کی مدد کی ہمیں ضرورت ہے۔خدام الاحمدیہ کا یہ ایک اہم ترین فرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں محنت، جفاکشی اور دیانتداری کا مادہ پیدا کریں۔ مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کے نوجوانوں میں محنت اور جفاکشی کی عادت پیدا نہیں ہوئی۔ اگر سلسلہ کا کوئی انتہائی ضروری کام بھی ان کے سپرد کیا جائے تو وہ چھ گھنٹے کام کرنے کے بعد اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کا فرض ادا ہو گیا۔ ان کی سمجھ میں اِتنی بات نہیں آتی کہ جب ایک کام اُن کے سپرد کیا گیا ہے تو اُس کے لیے چھ گھنٹے کیا اگر اُن کو چوبیس گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے تو کرنا چاہیے۔ مگر بِالعموم ایسا نہیں کیا جاتا اور دفتری اوقات میں کام کرنا ہی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ زندہ قوموں میں سے ہر شخص اپنے فرض اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے اگر اُسے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرتا۔
انگریزوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک گاؤں کے پاس دریا کا ایک بند تھا جس میں ایک دن چھوٹا سا شگاف ہو گیا۔ آٹھ دس سال کا ایک لڑکا شام کے وقت اُدھر سے گزر رہا تھا کہ اُس نے دیکھا بند میں شگاف ہو گیا ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ اُسی جگہ بیٹھ گیا اور اُس نے اپنی انگلی اُس شگاف میں دے دی۔ کچھ دیر کے بعد وہ شگاف اَور چوڑا ہو گیا تو اُس نے اپنا ہاتھ اُس میں دے دیا اور اِسی طرح وہ اُس جگہ بیٹھا رہا۔یہاں تک کہ رات ہو گئی اور شگاف پانی کے زور سے اَور چوڑا ہو گیا۔ تب اُس نے اپنے سارے جسم کو اُس شگاف کے سامنے ایک دیوار کی طرح رکھ دیا تاایسا نہ ہو کہ پانی بڑھ کر تمام گاؤں کو برباد کردے۔ جب صبح ہوئی تو چند زمیندار اُس طرف آ نکلے اور انہوں نے دیکھا کہ لڑکے نے اُس بند کے شگاف میں اپنے آپ کو ڈالا ہوا ہے اور خود بیہوش پڑا ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے بچے کو نکالا اور اُس شگاف کو بند کردیا۔ اب دیکھو! وہ آٹھ دس سال کا بچہ تھا اور اُسے بظاہر اِس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ بند ٹوٹتا ہے یا سلامت رہتا ہے مگر چونکہ وہ ایک زندہ قوم کا فرد تھا اُس نے سمجھا کہ اگر مَیں اِس وقت چلا گیا تو سارا گاؤں تباہ ہوجائے گا۔ لیکن اگر مَیں اپنے آپ کو فنا کرکے اِس بند کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھتا ہوں تو گاؤں بچ جائے گا۔ چنانچہ اُس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا اور سارے گاؤں کو بچا لیا۔ وہ لڑکا اگر زندہ رہتا اور یہ کام نہ کرتا تو آج دنیا میں کوئی اُس کا نام بھی نہ جانتا۔ مگر آج سارے انگریز وہ نظمیں پڑھتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ لڑکا ایسا بہادر تھا، ایسا بہادر تھا۔ تو اُسے اپنی اِس قربانی کا جو بدلہ ملا وہ ایسا شاندار ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو یہ بدلہ اُسے کبھی نہ ملتا۔
پس محنت اور جفاکشی اور دیانتداری کا مادہ جماعت کے ہر فرد میں پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ اِس طرف خاص طور پر توجہ کریں اور نوجوانوں کا امتحان لیا کریں کہ اُن میں محنت اور دیانت کا مادہ کہاں تک پایا جاتا ہے۔ اِسی طرح انہیں نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ جب کوئی اہم کام ان کےسپرد کیا جائے تو پھر چھ گھنٹوں کا سوال نہیں اگر چوبیس بلکہ اَڑتالیس گھنٹے بھی انہیں مسلسل کام کرنا پڑتا ہے تو کرنا چاہیے اور یہ جواب ہرگز اُن کے منہ سے نہیں نکلنا چاہیے کہ چونکہ وقت ہو گیا تھا اِس لیے مَیں کام کو چھوڑ کر چلا آیا۔ دوسرا حصہ جو سائنس کی تعلیم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اِس میں کالج والے جماعت کی مدد کرسکتے ہیں۔ کالج والوں کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ جو لڑکے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئیں وہ زیادہ سے زیادہ سائنس لیں۔ یہاں تک کہ سائنس کو اِتنی ترقی ہو اِتنی ترقی ہو کہ ہماری جماعت کا پچاس فیصدی حصہ سائنس کو پوری طرح جانتا ہو۔ جب جماعت کے نوجوان سائنس سے اِس طرح واقف ہو جائیں گے تب صنعت و حرفت کامیاب ہوگی۔سائنس کے بغیر صنعت و حرفت میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
غرض اِس سکیم کو کامیاب بنانے کے لیے سرِدست ایک مرکزی دفتر کا کھولا جانا ضروری ہے۔ دفتر کا کام یہ ہوگا کہ وہ لوگوں میں صنعت اور تجارت کے متعلق تحریک کرتا رہے۔ اِسی طرح اُس کا یہ بھی کام ہوگا کہ و ہ صنّاعوں اور تاجروں کی فہرستیں تیار کرے، کمیٹی کے اجلاس بلائے اور پھر اِس امر کی نگرانی رکھے کہ تاجر اور صنّاع ان قواعد کی کہاں تک پابندی کر رہے ہیں جو اسلام نے ان کے لیے تجویز کیے ہیں۔ اِس غرض کے لیے ایک ایسا افسر بھی مقرر کرنا پڑے گا جس نے تجارتی تعلیم پائی ہو یا تجارتی کاموں سے اُس کا تعلق رہا ہو۔ اُس کا کام یہ بھی ہوگا کہ وہ جماعتوں میں دورہ کرکے صنّاعوں اور تاجروں کو منظّم کرے۔ اِسی طرح اُس کا یہ بھی کام ہوگا کہ وہ خط و کتابت کرکے ساری جماعت کے صنّاعوں اور تاجروں کی آراء اور اُن کے خیالات معلوم کرتا رہے تاکہ اُن آراء سے جماعتی رنگ میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔
مَیں سمجھتا ہوں پہلے سال اِس کام پر دس ہزار روپیہ خرچ ہوگا اور چونکہ یہ کام محض تاجروں اور صنّاعوں کی بہبودی کے لیے شروع کیا جا رہا ہے اِس لیے میں صرف تاجروں اور صنّاعوں کو یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ اِس چندہ میں حصہ لیں اور دس ہزار روپیہ جو پہلے سال کا خرچ ہے جمع کردیں۔ سردست اِس کمیٹی کا ایک سیکرٹری مقرر کردیا جائے گا جو اُس وقت تک سلسلہ کے ماتحت کام کرے گا جب تک کہ تمام تاجر اور صنّاع منظّم نہیں ہوجاتے۔ پھر آہستہ آہستہ تاجر اور صنّاع اپنا دفتر بھی بنا سکتے اور اپنے کام کو زیادہ وسیع کرسکتے ہیں۔ بہرحال سیکرٹری کا کام یہ ہوگا کہ وہ تاجروں سے مشورہ طلب کرے کہ کون کونسے ایسے کام ہیں جن کو اگر شروع کیا جائے تو سلسلہ کے لیے وہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ اِس قسم کی تمام تجاویز کو جمع کرنا سیکرٹری کا کام ہوگا۔ اسی طرح اس کا ایک یہ کام بھی ہوگا کہ تاجر اور صنّاع ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ایک دوسرے کی تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً ایک شخص نے کسی شہر میں اپنا کارخانہ کھولا ہوا ہو اور وہ اپنے حلقہ میں نہایت مفید کام کررہا ہو تو اگر اس کی ایجنسیاں مختلف جگہوں میں قائم کردی جائیں تو یہ بات اُس کارخانہ کی ترقی میں اَور بھی ممد ہوسکتی ہے۔ پس تاجروں اور صنّاعوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اپنے اپنے شہر یا اپنے اپنے صوبہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے کی ایجنسیاں اپنے ہاں قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری جماعت کی تجارت میں ترقی ہو۔ بعض قسم کی تجارتیں ایسی ہیں جن پر اِس وقت قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ سیکرٹری کا کام ہوگا کہ وہ تاجروں اور صنّاعوں سے اِس بارہ میں خط و کتابت کرکے فیصلہ کرے کہ کون کونسی تجارتیں ایسی ہیں جن پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اور کون کونسی تجارتیں ایسی ہیں جن پر قبضہ اسلام اور احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے زیادہ مفید ہے۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ اِس تحریک کا چندہ صرف تاجروں اور صنّاعوں کے ذمہ ہے۔ اُن کا فرض ہے کہ وہ اِس چندہ میں حصہ لیں۔ جب تاجروں اور صنّاعوں کی طرف سے جواب آجائے گا تو پھر کسی تعلیم یافتہ شخص کو جس نے تجارتی اور صنعتی تعلیم حاصل کی ہوگی سیکرٹری مقرر کرکے اِس کام کا عملی رنگ میں اِنْشَاءَ اللّٰہُ آغاز کردیا جائے گا۔ وہ سیکرٹری مختلف مقامات کا دورہ کرے گا، تاجروں اور صنّاعوں کو منظّم کرے گا اور ان سے مشورہ کرکے سلسلہ کے سامنے یہ رپورٹ پیش کرے گا کہ آئندہ ہم اپنی تجارت اور صنعت کو اس رنگ میں کس طرح چلا سکتے ہیں کہ
اول اس سے اسلام کو مدد پہنچے۔
دوم اس سے جماعت کے دوسرے افراد کو فائدہ پہنچے اور وہ بھی تجارت اور صنعت و حرفت کے اصول اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے رازوں سے واقف ہو جائیں۔
سوم مزدوروں کو اُن کے حقوق ادا ہوتے رہیں اور ایسی تہذیب اورشائستگی اور متانت سے اُن کے ساتھ برتاؤ رکھا جائے کہ دوسری قومیں ہماری جماعت کے تاجروں اور صنّاعوں کو دیکھ کر سبق حاصل کریں۔ اور وہ اِس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہ رہیں کہ مومن تجارت میں کسی غریب شریک کا حق نہیں مارتا۔ بلکہ خوشی سے اُس کو اُس کا حق دیتا اور ٹھیک وقت پر دیتا ہے۔وَ اٰخِرُ دَعْوٰىنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ"۔(الفضل22؍نومبر، 1944ء)


41
زبان گو میری ہے مگر بُلاوا خدا تعالیٰ کا ہے
(فرمودہ 24 نومبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج سے دس سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنے کرم سے ایک فتنہ جماعت کے خلاف اٹھوایا تھا۔ تھا تو وہ فتنہ مگر الٰہی منشاء ُاس کے اٹھائے جانے میں یہ تھی کہ اُس کے ذریعہ سے جماعت میں بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو۔ مولانا روم فرماتے ہیں ؎
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
یعنی مسلمانوں کے لیے جو بَلاء بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اُس بَلاء کے نیچے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور احسان سے ایک بڑا خزانہ مخفی کر دیتا ہے۔ اِس وقت بیٹھے بٹھائے بغیر اِس کے کہ ہماری طرف سے کوئی انگیخت ہو احرار نے تمام پنجاب میں پروپیگنڈا کرکے قادیان میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کی تیاری کی اور بڑے زور شور سے اعلان کیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے بلکہ بعض نے یہاں تک کہا کہ وہ مقبرہ بہشتی اور ہمارے دوسرے مقدس مقامات پر حملہ کریں گے۔ ایسے موقع پر قدرتی طور پر جماعت کو خود حفاظتی کی ضرورت تھی اور نظارت امور عامہ نے جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی کہ وہ اِس موقع پر قادیان جمع ہوں اور اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کا فرض ادا کریں۔ یہ ایک جائز بات تھی۔ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے نہ کہ احرار کا۔ قادیان ہمارا مرکز ہے نہ کہ احرار کا۔اور اِس لیے اگر کسی شخص کو قادیان آنے کا حق ہے تو وہ احمدی ہے کسی دوسرے شخص کایہ مذہبی حق نہیں۔ مگر اُس وقت کی پنجاب گورنمنٹ نے یہ نرالا طریق اختیار کیا کہ باوجود اِس کے کہ وہ اطلاع جو نظارت کی طرف سے احمدیوں کو قادیان میں جمع ہونے کی دی گئی تھی حکومت کی طرف سے یہ یقین دلائے جانے پر کہ وہ حفاظت کا انتظام پوری طرح کرے گی منسوخ کر دی گئی تھی اور جماعتوں کو لکھ دیا گیا تھا کہ ان کے یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ اچانک کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ (CRIMINAL LAW AMENDMENT ACT) کے ماتحت حکومت کی طرف سے مجھے یہ نوٹس دیا گیا کہ قادیان میں جماعت کے آدمیوں کو بلانے کی آپ کو اجازت نہیں۔ یہ بالکل نئی قسم کی چیز تھی۔ یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے کسی کے ماں باپ کو یا بچے کو لوگ مار رہے ہوں اور گورنمنٹ مارنے والوں کو تو کچھ نہ کہے مگر جسے مارا جا رہا ہے اُس کے رشتہ داروں کو حکم دیدے کہ تم اپنے گھروں سے باہر مت نکلو۔ غرض اُس وقت پنجاب بلکہ سارے ہندوستان میں ہمارے خلاف فضا مکدر ہو چکی تھی اور گورنمنٹ اور رعایا مل کر احمدیت کو کُچلنا چاہتے تھے۔
یہ حالات دیکھ کر مجھے اِس امر کا ااحساس ہوا کہ یہ نتیجہ ہے اِس امر کا کہ ہم نے تبلیغ میں کوتاہی کی ہے اور ہمیں قلیلُ التعداد اور تھوڑے سمجھ کر جو چاہتا ہے ہم پر ظلم کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ تبلیغ کے کام کو وسیع کرنا چاہیے اور جماعت کی قوت اور شوکت کو بڑھانے کے لیے ہر قسم کے سامان جمع کرنے چاہیں۔ اِس خیال کے ماتحت دس سال پہلے مَیں نے ایک تحریک جاری کی جس کا نام اب تحریک جدید مشہور ہو چکا ہے۔ اس تحریک کے کرنے کے وقت خود میرے دل میں اِس کی پوری اہمیت نہ تھی اور نہ ہی کام کی وسعت کا اندازہ تھا۔ مَیں نے نوجوانوں کو پکارا کہ وہ آگے آئیں بغیر اِس کے کہ کوئی خاص تعداد میرے ذہن میں مستحضر ہو۔ جماعت کے نوجوانوں نے دلیری سے آگے بڑھ کر میری اِس آواز پر لبیک کہا۔ پھر میں نے جماعت کے آسودہ حال لوگوں کو پکارا کہ وہ اپنے روپوں کو پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود اِس کے کہ مَیں نے کُل 27ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور وہ بھی تین سال میں۔ مگر جماعت نے پہلے ہی سال ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ پیش کردیا اور تین سال میں بجائے 27ہزار کے چار لاکھ کے قریب جمع کردیا۔ اور جُوں جُوں یہ کام وسیع ہوتا جاتا ہے اس کی اہمیت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوتی جاتی ہے۔
اِس تحریک کے پہلے دَور کی میعاد دس سال تھی اور یہ اس دور کا آخری مہینہ ہے اور اِس کے ساتھ پہلے دَور کی میعاد پوری ہوجائے گی۔ اِس دَور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے۔ اُس کا اندازہ اِس سے ہوسکتا ہے کہ اُس نے اس عرصہ میں جو چندہ اِس تحریک میں دیا وہ 13، 14 لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ اور اِس روپیہ سے جہاں ہم نے اِس دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کیے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریزرو فنڈ بھی قائم کیا ہے اور اِس ریزرو فنڈ کی مقدار 280 مربع زمین ہے۔ اِس کے علاوہ ابھی ایک سَو مربع زمین ایسی ہے جس میں سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے۔ اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کُل رقبہ 380 مربع ہو جاتا ہے۔ اگر پنجاب کی زمینوں کی قیمتوں پر قیاس کیا جائے تو یہ تمام زمین قریباً ستّر اسّی لاکھ روپیہ کی ہوتی ہے۔ مگر آج کل سندھ میں زمین کی جو قیمتیں ہیں اُن کے لحاظ سے بھی یہ جائیداد 25 ، 26 لاکھ روپیہ کی ہے جو ہمارے قبضہ میں آ چکی ہے یا خریدی گئی ہے یا جس کے بیانے دیئے جا چکے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں جہاں ہمیں کام کے جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی وہاں ریزرو فنڈ کے قائم کرنے کی بھی توفیق بخشی۔ مگر جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کے لحاظ سے یہ ریزرو فنڈ ابھی اِتنا بھی نہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں قطرہ ہوتا ہے۔ بہت بڑا کام ہمارے سامنے ہے اور ہم پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اِس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے، تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے، تحریک جدید کے ماتحت سماٹرا اور جاوا میں مبلغ گئے، سنگاپور میں گئے اور اِس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے سپین، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، البانیہ، یوگوسلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے اور افریقہ کے بعض ساحلوں پر بھی اِسی تحریک کے ماتحت مبلغ گئے اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے اور دنیا کے دور دراز کناروں تک اس تحریک کے ماتحت احمدیت کا نام اور اس کی شُہرت پہنچی۔ تحریک کے شروع میں جو مبلغ لیے گئے وہ ہنگامی طور پر لیے گئے تھے اُن کی تبلیغی تعلیم پوری نہ تھی۔ اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہ اور ان مبلغین میں سے بعض اِس وقت لاپتہ ہیں۔ مثلاً مولوی محمدالدین صاحب یہاں سے افریقہ بھیجے گئے تھے۔ راستہ میں وہ جہاز جس میں وہ سفر کر رہے تھے غرق ہو گیا اور اب ہمیں پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اگر زندہ ہیں تو اِس وقت کہاں ہیں۔
تحریک جدید کے بعض مبلغین اِس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔ سٹریٹ سیٹلمنٹ میں ہمارے مبلغ مولوی غلام حسین صاحب ایاز تھے، جاوا سماٹرا میں مولوی شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب گئے تھے اور یہ تینوں اِس وقت جاپانیوں کی قید میں ہیں۔ تو گویا یہ تین قید ہیں اور ایک اِس وقت تک لاپتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس دس سال کے عرصہ میں سلسلہ کو خاص ترقی دی اور احمدیت کا نام اور اِس کی شُہرت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا۔اور یہ ایک ایسی غیرمعمولی کامیابی ہے کہ جس کی مثال ہمارے سلسلہ کے دَور ِخلافت میں نہیں ملتی۔ مگر یہ کام اِس قسم کا نہیں کہ آج ہی ہم اِسے ختم کردیں۔ بے شک ہم نے ایک ریزرو فنڈ تو قائم کیا ہے مگر کام کی وسعت کے مقابلہ میں یہ بہت ہی کم ہے۔ سندھ میں زمینداری کا کام ابھی نیا نیا ہے اور یہ کام کرانے والے بھی ابھی نئے ہیں اور زمیندارہ کام سے ناواقف ہیں بلکہ کام کرنے والے بھی ابھی ناواقف ہیں۔ اس لیے وہاں زمین کی آمد ابھی پنجاب کی زمینوں کی آمد کی نسبت دسواں بیسواں حصہ بھی نہیں اور اِس وقت کُل آمد پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں زمین کا کچھ حصہ ابھی ایسا ہے جس کی قیمت بھی ابھی ادا کرنی ہے۔ کچھ قرضے بھی ہیں اور اندازہ ہے کہ جب ساری زمین پوری طرح آزاد ہوجائے گی اور قرضے وغیرہ اُتر جائیں گے تو لاکھ سَوا لاکھ روپیہ تک آمد ہوسکے گی۔ ابھی چار لاکھ روپیہ کے قریب بار اِس زمین پر ہے۔ گو کچھ روپیہ ہمارے پاس محفوظ بھی ہے مگر اسے نکال کر بھی دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب رقم قرضہ کی ہے اور ہم نے ادا کرنا ہے۔ اور اس عرصہ میں جو اخراجات ہوں گے وہ علاوہ ہیں۔
جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں ہمارے سامنے جو کام ہے وہ بہت بڑا ہے اور ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ابھی تک ہم ہندوستان سے باہر تبلیغ کی طرف بہت تھوڑی توجہ دے سکے ہیں کیونکہ اس کے لیے ابھی مبلغ تیار نہیں ہوسکے۔ مگر پھر بھی اِس وقت تحریک کا ستّر اسّی ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہے۔ اس کے علاوہ اب بعض نئے کام بھی جاری کیے گئے ہیں سال کے اخراجات علاوہ ہیں اور یہ سب ملا کر تین لاکھ کے قریب کل خرچ ہے۔ اور پھر اِس کام کو چلانے کے لیے الگ روپیہ کی ضرورت ہے۔ اور وہ قرضے جو ابھی ادا کرنے ہیں وہ اِس کے علاوہ ہیں اور انہیں ادا کرکے ہی زمین کو آزاد کرایا جاسکتا ہے۔ پھر ریزرو فنڈ کو بڑھانے اور اسے مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ سب کام ایسے ہیں کہ اِن کے لیے روپیہ کی سخت ضرورت ہے۔ اِس عرصہ میں ہم نے تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے جو تیاری کی ہے اِس کے سلسلہ میں چالیس کے قریب نوجوان ہیں جو تیار کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے بیس کے قریب تو ایسے ہیں کہ جو اپنی تعلیم کو جلد ہی ختم کرنے والے ہیں اور بیس کے قریب ابھی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ تین چار سال میں اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں گے اور کام کے قابل ہوسکیں گے۔
اِس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حکمت کے ماتحت یہ بات بھی سُجھا دی کہ تحریک جدید کے ماتحت علماء کی تیاری کا کام کس قدر اہم ہے اور وہ اِس طرح کہ اِس عرصہ میں علمی لحاظ سے بعض ایسے صدمے پہنچے کہ مَیں نے محسوس کیا کہ اگر ہماری غفلت اِسی طرح جاری رہی تو جماعت علماء سے محروم ہوجائے گی۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کی وفات بھی اِسی عرصہ میں ہوئی اور پھر میر محمد اسحٰق صاحب فوت ہو گئے اور اِس طرح پرانی طرز کے علماء میں سے صرف مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب باقی رہ گئے۔ پہلے علماء میں سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی برہان الدین صاحب، مولوی غلام حسین صاحب، مولوی برہان الملک صاحب مشہور صَرفی عالم، حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی تھے۔ ان میں سے چار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خلافتِ اولیٰ تک وفات پا گئے۔ ان کے بعد مولوی عبدالقادر صاحب، مولوی برہان الملک صاحب، قاضی امیر حسین صاحب، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، مولوی محمد اسمٰعیل صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحٰق صاحب باقی رہ گئے۔ اور اِس عرصہ میں جماعت کی توجہ ایسے کاموں کی طرف رہی کہ اسے علماء پیدا کرنے کا خیال ہی نہ آیا اور اس نے ایسے علماء پیدا کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا جو ہر قسم کے دینی علوم کی تعلیم دے سکتے ہوں۔ اور اِس وقت یہ حالت ہے کہ اِس قسم کے علماء میں سے صرف ایک باقی ہیں۔ یعنی سید محمد سرور شاہ صاحب اور وہ بھی اب نہایت ضعیف العمر ہو چکے ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر ستّر سال کے قریب ہے۔ جس طرح حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اِس طرف مبذول ہوئی کہ ایک مدرسہ قائم کیا جانا چاہیے جہاں ان علماء کے جانشین تیار ہوسکیں اور آپ نے مدرسہ احمدیہ جاری کرایا۔ اِسی طرح میر محمد اسحٰق صاحب کی وفات کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ جماعت میں علماء کی تیاری کا کام بہت تیزی سے ہونا چاہیے۔ اگرچہ جامعہ احمدیہ موجود ہے اور اِس میں بہت سے نوجوان مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کرتے تھے مگر اِس زمانہ کے مولوی فاضل پاس اور پرانی طرز کے علماء میں بہت بڑا فرق ہے۔ مولوی فاضل کا امتحان ایک خاص قسم کا نصاب پڑھ کر دیا جاسکتا ہے۔ مگر اسے پاس کرکے کوئی شخص ایسا عالم نہیں ہوسکتا کہ ہر قسم کی علمی مشکل کو حل کرنے کے قابل ہو۔ بہت سی علمی کتابیں ایسی ہیں کہ جنہیں نہ وہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی اُن کے پڑھنے کا ان کو موقع مل سکتا ہے اور اِس لیے جو علماء تیار ہو رہے تھے وہ درمیانی قسم کے تھے۔ مگر کسی قوم کے دیگر اقوام پر غالب آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس میں ایسے چوٹی کے علماء ہوں جو ہر علم و فن کے ہر گوشہ میں مخالفین کو شکست دے سکیں۔ مثلاً فقہ کا علم ہے اِس کے ایسے علماء ہوں جو فقہی لحاظ سے بھی احمدیت کے نقطۂ نگاہ کی فضیلت ثابت کرسکیں۔ پھر احادیث کا علم ہے، پرانی تفاسیر ہیں، فلسفہ ہے تو ہر فن کے ایسے علماء کا جماعت میں ہونا ضروری ہے جو احمدیت کے نقطہ نگاہ کی فضیلت ثابت کرسکیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ احادیث، تفسیر اور فلسفہ وغیرہ علوم کے اعلیٰ درجہ کے ماہر علماء ہم میں موجود ہوں۔ قرآن کریم کی ادبی شان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ادبی شان کو ظاہر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صَرف و نحو اور ادب میں اعلیٰ درجہ کا کمال رکھنے والے علماء ہم میں پائے جاتے ہوں اور اِس لیے اِن علوم کی تکمیل کرانا انتہائی طور پر ضروری ہے۔ اِس کے بغیر علمی لحاظ سے احمدیت کو دنیا میں غالب کرنا ممکن نہیں۔ فرض کرو ہمارا ایک مبلغ مصر جاتا ہے۔ وہاں جامعہ ازہر ہے جو نہ صرف مصر بلکہ تمام دنیا میں علمی لحاظ سے ایک چوٹی کی جگہ ہے۔ وہاں ہمارا ایک مبلغ جائے اور اُن علوم میں جو وہاں پڑھائے جاتے ہیں وہاں کے علماء کا مقابلہ نہ کرسکے۔ تو گو یہ تو صحیح ہے کہ ہمیں مذہبی شکست تو نہ ہوگی مگر مخالفین کو شور مچانے کا موقع تو ضرور مل جائے گا اور یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے ہدایت سے محروم ہوجانے کا ذریعہ ہوجائے گی۔ اِسی طرح ہندوستان میں دیوبند ہے جو علمی لحاظ سے کافی شُہرت رکھتا ہے۔ اگر ہمارے علماء وہاں کے علوم سے واقف نہ ہوں اور وہاں کے علماء کو ساکت نہ کرسکیں تو وہاں کے علماء اپنے علمی غرور میں سچائی کو ماننے سے محروم رہ جائیں گے اور اُن کے ماننے والے بھی ہدایت نہ پاسکیں گے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کو اُس کے اصل معیار پر پرکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اُسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ تھے۔ وہ لوگ نہ صَرف ونحو سے واقف تھے اور نہ دیگر ایسے علوم سے۔ حدیث کے قواعد تو مدوَّن ہی بعد میں ہوئے۔ وہ تو صرف اِتنا جانتے تھے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ بات سُنی اور اُسے آگے سنانا ہے۔ اُس وقت تک اسناد وغیرہ کے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہی نہ ہوئی تھیں۔ یہ تو سَو دو سَو سال بعد میں ہوئی ہیں۔ تو اصل صداقت معلوم کرنے کے لیے اِن باتوں کی ضرورت نہیں۔ مگر جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے اِن کی ضرورت ہے۔ اور پھر وسعتِ نظر کے لیے بھی یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہر قسم کے علوم سے مزیّن علماء اور چوٹی کے علماء جماعت میں موجود ہوں۔ اور میر محمد اسحٰق صاحب کی وفات نے میری زیادہ توجہ اِس طرف پھیری کہ جماعت میں چوٹی کے علماء پیدا کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے کام ہونا چاہیے۔ گو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مَیں ایک سال پہلے سے ہی اس طرف توجہ کر رہا تھا، تعلیم کے طریق مَیں تبدیل کر چکا تھا مگر میر صاحب کی وفات پر اِس طرف اَور زیادہ توجہ ہوئی اور دو درجن کے قریب طلباء کو مَیں نے اعلیٰ علوم کی تکمیل کے لیے مقرر کردیا ہے۔
غرض اب جبکہ تحریک جدید کے پہلے دس سال کا دَور ختم ہونے کو ہے، کام کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اِس کی مشکلات آگے سے بہت زیادہ واضح ہو چکی ہیں۔ چنانچہ جماعت کو بھی اِس کا احساس ہو رہا ہے اور بعض دوست مجھے لکھ رہے ہیں کہ اِس عرصہ میں ہمیں قربانی کی عادت ہو گئی ہے۔ اب یہ دَور ختم ہونے والا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آئندہ ہم اِس نیکی سے محروم ہو جائیں۔ کسی نہ کسی صورت میں اِس قربانی کا دروازہ جماعت کے لیے کُھلا رہنا چاہیے۔مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے دلوں میں کہتے ہوں گے کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ ہمیں اِس تحریک میں حصہ لینے کا موقع مل گیا۔ اب دس سال پورے ہو رہے ہیں اور یہ تحریک ختم ہوجائے گی اور ہمیں آرام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اور عجیب بات ہے کہ عین اِس موقع پر جب تحریک جدید کے دس سال پورے ہونے کو ہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے خلاف بعض فِتنے پیدا کردیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ جماعت کے بعض دوستوں کے دلوں میں سُستی کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اِن فِتن میں سے ایک تو یہ ہے کہ احرار نے پھر قادیان میں جلسہ منعقد کرنے کی کوشش کی اور اِس کی بنیاد اِس امر پر رکھی کہ مَیں نے دہلی میں کہا تھا کہ احراری قادیان میں آئیں اور جلسہ کریں۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ جب دہلی میں جلسہ ہوا اور مَیں وہاں گیا تو وہاں بعض لوگوں نے ہمارے خلاف سخت فتنہ اٹھایا، بہت سے پتھر مارے اور حملہ کردیا اور اِس طرح کوشش کی کہ جلسہ نہ ہوسکے اور لوگ ہماری باتیں نہ سن سکیں۔ اِس پر مَیں نے کہا کہ یہ طریق بالکل غلط اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ ہماری باتیں سننے میں اِن لوگوں کا کیا حرج ہے۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حق اُن کے پاس ہے تو پھر ہماری باتیں سننے سے اُن کو کیا خطرہ ہوسکتاہے، اور پھر میں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ جو لوگ احمدی ہوئے ہیں وہ اِس وجہ سے ہوئے ہیں کہ ان لوگوں کی باتیں سننے کا اُن کو موقع نہیں مل سکا تو بے شک اپنے نقطہ نگاہ کو احمدیوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے اُن کا کوئی عالم قادیان آئے۔ مَیں اُس کا خرچ بھی خود دوں گا اور جماعت کے دوستوں کو بھی جمع کرا دوں گا تا وہ اُنہیں اپنی باتیں سُنا سکے۔ اب ظاہر ہے کہ اِس بات کا کہ جو آئے گا اُس کا خرچ مَیں دوں گا اور اُس کی تقریر سننے کے لیے احمدیوں کو جمع بھی کرا دوں گا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ جو آئے گا وہ مجھے پوچھ کر آئے گا اور مجھ سے دریافت کرکے کہ آپ میری تقریر سننے کے لیے کب احمدیوں کو جمع کرسکیں گے آئے گا۔ میری بات کے یہ معنی تو کسی صورت میں بھی نہیں ہوسکتے کہ تمام ملک میں سے غیر احمدیوں کو قادیان پر یورش کرنے کی مَیں نے دعوت دی ہے۔ مَیں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ غیراحمدی اکٹھے ہو کر قادیان آئیں اور اپنے مولویوں کی تقریریں سُنیں۔ بلکہ مَیں نے تو یہ کہا تھا کہ غیر احمدیوں کے کوئی بڑے مولوی اگر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانے کے لیے آنا چاہیں تو مَیں اُن کا خرچ بھی برداشت کروں گا اور ان کی باتیں سننے کے لیے احمدیوں کو جمع بھی کرا دوں گا۔ غیر احمدیوں کو اپنے مولویوں کی باتیں سننے کے لیے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو ان کی باتیں دہلی میں بھی سن سکتے ہیں، لاہور میں بھی سن سکتے ہیں، امرتسر میں بھی سن سکتے ہیں۔ اُن کو یہاں آکر سننے کی کیا ضرورت ہے؟ میری غرض تو یہ تھی کہ غیراحمدی علماء کا اگر یہ خیال ہو کہ جو لوگ احمدی ہوئے وہ اِس وجہ سے ہوئے ہیں کہ ہماری باتیں سننے کا اُنہیں موقع نہیں مل سکا تو وہ بے شک قادیان آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنائیں مَیں اُن کا خرچ بھی خود دوں گا۔ اور یہ بات مَیں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر اُن کے کوئی بڑے عالم مثلاً مفتی کفایت اللہ صاحب یا مولوی شبیر حسین صاحب دیوبندی مجھے لکھیں کہ وہ قادیان میں آکر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہتے ہیں اور ان کے آنے پر غیراحمدیوں کا کوئی مظاہر ہ یا جلسہ نہ ہوگا تو مَیں اِس کا انتظام کر دوں گا اور اُن کا خرچ بھی ادا کروں گا اور مَیں خود گورنمنٹ سے بھی یہ کہوں گا کہ اِس میں کوئی حرج نہیں اور اِس میں کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ اجتماع احمدیوں کا ہوگا صرف ایک دو مولوی صاحبان تقریر کرنے والے باہر سے آئیں گے اور اِس صورت میں فتنہ کا کوئی خوف نہیں۔ مگر مَیں نے تو کہا تھا کہ اگر کوئی غیراحمدی عالم احمدیوں کو اپنی باتیں سنانے کے لیے قادیان آنا چاہے تو بے شک آئے مَیں اُس کا خرچ بھی دوں گا مگر اِن لوگوں نے سارے ہندوستان میں اعلان کیا کہ غیر احمدی کثرت سے قادیان پہنچیں اور وہاں ہماری باتیں سُنیں۔ حالانکہ غیر احمدیوں کو اپنے علماء کی باتیں سننے کے لیے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ یہ باتیں تو ہر جگہ سن سکتے ہیں۔ کسی غیراحمدی عالم کے یہاں آنے کی غرض تو یہی ہوسکتی ہے کہ احمدیوں کو وہ باتیں سنائی جائیں۔ پس مَیں اب بھی وہ بات کہتا ہوں جو دہلی میں کہی تھی کہ اگر کوئی غیر احمدیوں کا بڑا عالم یہاں آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنانا چاہے تو اُس کا انتظام کر دوں گا اور اُس کا خرچ بھی دوں گا اور گورنمنٹ سے بھی یہ کہہ دوں گا کہ اُس کے یہاں آنے اور تقریر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ احمدیوں کے سامنے تقریر کرے تا اُسے تسلی ہوسکے کہ جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اچھی طرح موازنہ کرکے کیا ہے۔ اور اگر اُس کا یہ خیال درست ہوگا کہ جو لوگ احمدی ہوئے ہیں وہ دھوکا کا شکار ہوئے ہیں تو اُس کی تقریر سننے والے احمدی خودبخود اُس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو اُس تقریر کو سن کر ان کے ایمان اَور زیادہ مضبوط ہوں گے۔غرض اِن دونوں باتوں میں یعنی جو کچھ مَیں نے دہلی میں کہا اور جو کچھ احرار نے میری طرف منسوب کیا زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مَیں نے تو کہا تھا کہ ان کے علماء قادیان میں آکر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہیں تو مَیں اس کا انتظام کر دوں گا۔ مگر اُنہوں نے سارے ہندوستان میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ غیراحمدی جمع ہو کر قادیان چلیں۔ میں نے تو کہا تھا کہ اُن کی تقریر کے لیے انتظام مَیں کردوں گا۔ مگر اُنہوں نے خود ہی لوگوں کو جمع کرکے قادیان میں لانے کی کوشش شروع کردی۔
قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ اِس کی آبادی تیرہ چودہ ہزار سے زیادہ نہیں اور اِس میں احمدیوں کی آبادی قریباً دس ہزار ہوگی۔ تو ایک ایسی چھوٹی سی بستی میں چاروں طرف سے مخالفین کو اکٹھا کرکے لانا ایک ایسی بات ہے کہ کون امید کرسکتا ہے کہ یہ فتنہ کا موجب نہ ہوگی۔ پھر ان لوگوں کی طرف سے اشتعال بھی دلایا جا رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اِس بات پر آمادہ ہوجاتے کہ ہمارے مقدس مقامات پر حملہ کردیں۔ جیسا کہ پہلے ان کی طرف سے اِس ارادہ کا اظہار بھی ہو چکا ہے۔ پس ان لوگوں نے جو کچھ کرنا چاہا وہ میری تجویز ہرگز نہ تھی۔ مَیں نے جو بات پیش کی تھی اُس کے مطابق اگر یہ لوگ چاہیں تو اَب بھی انتظام ہوسکتا ہے۔ وہ ایسی بات ہے کہ جس پر گورنمنٹ کو بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ اگر قادیان میں احمدی جمع ہوں اور اُس مجمع میں کوئی غیراحمدی مولوی تقریر کرے تو گورنمنٹ کو فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا اور ایسے اجتماع کے انعقاد کے لیے مَیں بھی اُن کے ساتھ مل کر گورنمنٹ سے اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔ کیونکہ اس میں فتنہ کا کوئی خدشہ نہیں۔ مگر ان لوگوں نے ایک نرالا ڈھونگ رچایا اور لوگوں کو اکٹھا کرکے قادیان پر یورش کرنا چاہی اور جب گورنمنٹ نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی تو شور مچا دیا کہ احمدیوں نے ہمارا جلسہ بند کرا دیا۔ یہ صحیح ہے کہ سلسلہ کے ایک افسر نے اِس بارہ میں ذمہ دار سرکاری افسر سے ملاقات کی تھی مگر جب وہ ملا تو اُس سرکاری افسر نے کہا کہ مَیں تو دو روز ہوئے اِس جلسہ کے بند کیے جانے کا حکم دے چکا ہوں۔ پس یہ بات غلط ہے کہ ان کے جلسہ میں روک جو پیدا ہوئی وہ ہماری وجہ سے ہوئی اور اِس طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ ہمارے بعض جلسوں پر اُنہوں نے جو حملے کیے، پتھر پھینکے اور احمدیوں کو زخمی کیا اُس کی وجہ قادیان میں اُن کے جلسہ کا بند کیا جانا ہے۔ کیونکہ دہلی میں تو ہمارا جلسہ قادیان میں اُن کے جلسہ کے اعلان سے بھی بہت پہلے منعقد ہوا تھا اور وہاں ہمارے جلسے پر ان لوگوں نے پتھر پھینکے اور حملے کیے تھے۔ پس اُن کا یہ کہنا کہ لاہور اور امرتسر وغیرہ مقامات پر سیرت النبیؐ کے جلسوں کے موقع پر ان لوگوں نے جو حملے کیے ہیں وہ قادیان میں ان کے جلسہ کو بند کرانے کا انتقام لیا ہے بالکل غلط ہے۔ دہلی میں ہمارے جلسہ پر اِس قدر سخت پتھراؤ کے بعد یہ کہنا کہ یہ قادیان میں ان کے جلسہ نہ ہونے دیے جانے کا انتقام ہے صریح جھوٹ ہے۔ پہلے ان لوگوں نے لدھیانہ میں ہمارے جلسہ کے موقع پر گالیاں دیں، پتھر پھینکے اور سوانگ1 نکالے۔ پھر دہلی میں ہمارے جلسے پر پتھراؤ کیا ۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جب آپ دہلی تشریف لے گئے تو مخالفین نے سخت شور و شر کیا۔ پھر امرتسر میں جلسہ کو روکا اور پتھر پھینکے۔ لاہور میں بھی اِسی طرح کیا۔ یہ سب کچھ نصف صدی پہلے ان کے قادیان میں کونسے جلسہ کو روکے جانے کے انتقام کے طور پر کیا گیا تھا؟ اب بھی ان کے جلسہ کو اگر روکا تو حکومت نے روکا۔ اور وہ اِس لیے کہ اِس سے فتنہ و فساد کی بُو آتی تھی۔ مگر یہ لوگ تو ہمیشہ سے ہمارے جلسوں پر پتھراؤ کرتے آئے ہیں۔ 1931ء میں جب مَیں سیالکوٹ گیا تو میری تقریر کے وقت انہی مولوی عطاء اللہ صاحب کی انگیخت پر قریباً بیس ہزار کا مجمع پورا ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ ہم پر پتھراؤ کرتا رہا اور پھر ان پتھراؤ کرنے والوں کی بہادری یہ تھی کہ جب مسٹریوسٹس نے جو اُس وقت وہاں ڈپٹی کمشنر تھے حکم دیا کہ اگر پانچ منٹ تک یہ مجمع منتشر نہ ہوا تو وہ پولیس کو حملہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو پانچ منٹ کے اندر اندر ہی یہ لوگ اِس طرح جلسہ گاہ سے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پس ان لوگوں کا ہمارے جلسوں پر حملے کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ اِن فتنوں کے اِس وقت اٹھنے میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کو متنبہ کرے کہ اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھنا۔ فِتنے ابھی موجود ہیں اور دشمن احمدیت کو مٹانے کے لیے کھڑا ہے۔ اگر اِن حالات سے جماعت آنکھیں بند کر لے تو اِس کی مثال وہی ہوگی کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور وہ کسی بہتر نتیجہ کی امید نہیں کرسکتی۔ پس یہ سامان اللہ تعالیٰ نے خود اِس لیے پیدا کیا ہے کہ تا دلوں سے غفلت کو دور کرے اور ہماری سُستیوں کے ازالہ کا سامان فرمائے اور جیسا کہ اِس سال کے شروع میں اُس نے مجھے رؤیا میں دکھایا تھا کہ اسلام کے لیے جنگ کرنے میں مجھے دنیا میں دَوڑنا ہوگا اور جب مَیں دوڑوں گا تو اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے دَوڑنا لازمی ہوگا۔بیعت کرتے وقت ہاتھ میں ہاتھ دینے کے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ جس طرح ماں باپ جب تیز چلنے لگتے ہیں تو بچہ کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تا وہ ساتھ ساتھ چل سکے اِسی طرح بیعت کرنے والا بھی ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چلنے کا اقرار کرتا ہے۔ پس مَیں جب دَوڑوں گا تو جن لوگوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہے اُن کے لیے بھی لازمی ہوگا کہ یا تو میرے ساتھ دَوڑیں اور یا پھر اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ اور جو شخص میرے ساتھ دوڑنے میں کوتاہی کرتا ہے وہ گویا اپنی بیعت کے ناقص ہونے کا اقرار کرتا ہے۔
یاد رکھو! کہ آج اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حقیر اور کمزور نہیں۔ وہی طاقتیں جو کسی زمانہ میں اِس کی قوت کا موجب تھیں مثلاً ایران، افغانستان، بخارا، مصر وغیرہ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ اگر مصر، مراکو، الجیریا، سوڈان، عرب، شام، فلسطین، ترکی، بخارا، البانیہ، ایران، افغانستان سب ایک حکومت کے ماتحت ہوتے تو دس بارہ کروڑ کی آبادی اس کی ہوتی۔ جیسے امریکہ کی ہے اور اِس صورت میں اِس کی کوئی آواز بھی ہوتی۔ مگر اب تو ایسا وقت ہے کہ شاید ان کی بات سننے کے لیے بھی کوئی تیار نہ ہوگا۔ نام کو تو یہ کئی حکومتیں ہیں مگر چھوٹی چھوٹی اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی آواز نہیں۔ وہی حکومتیں جو آزادی کے نام پر جنگ کر رہی ہیں اُن میں سے ایک نے ایران کو نوٹس دیا ہے کہ اپنے تیل کے ذخائر ہمارے حوالے کر دو۔ کیا یہی نوٹس کوئی انگلستان، امریکہ یا روس کو دے سکتا ہے؟ جس چیز کا ہزارواں حصہ اپنے بارہ میں مداخلت سمجھا جاتا ہے اُس بات کو دوسرے کمزور ہمسایوں کے بارہ میں حق اور جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف کمزوری کا نتیجہ ہے۔
غرض آج مسلمانوں کا کوئی وقار دنیا میں نہیں۔ پھر علمی لحاظ سے بھی ان کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے پرانے علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ پرانے علوم اب مٹتے جا رہے ہیں اور اب مسلمانوں میں ان کے حصول کا شوق باقی نہیں رہا۔ مصر کی ازہر یونیورسٹی جو اِن علوم کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اس سے لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہو رہی ہے۔ مصر میں بھی نئے علوم کی یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں اور ہوشیار طلباء زیادہ تر اُن ہی میں داخل ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اب تصوف بھی باقی نہیں رہا۔ پہلے تو تصوف کے یہ معنے تھے کہ تصوف کی گدی پر بیٹھنے اور اس رستہ پر چلنے والا اللہ تعالیٰ کی ڈیوڑھی کا دربان ہوتا تھا مگر آج صوفی کے معنے دنیا کے پیسوں کا رکھوالا کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت اب ان کے ساتھ نہیں رہی اور صوفی کہلانے والے توکّل کے مقام سے بہت دور ہیں اور اب صوفیوں میں عام دنیا داروں والی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مولوی امام الدین صاحب مرحوم جو قاضی اکمل صاحب کے والد تھے اُن کو تصوف کی باتوں کا بہت خیال رہتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھ سے سوال کیا کرتے تھے کہ پرانے صوفیاء کی مجالس میں جو باتیں ہوتی تھیں وہ یہاں نہیں ہیں۔ کبھی عرش پر سجدے اور کبھی عرش پر خدا تعالیٰ سے باتیں ہوتی تھیں۔ یہ کمالات یہاں بھی دکھائے جائیں۔ مَیں اُن کو جواب دیا کرتا تھا مگر اُن کی تسلّی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا اور مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ بادشاہ کے نوکر کو کبھی یہ بھی فکر ہوسکتا ہے کہ اُسے کھانا کہاں سے ملے گا؟ وہ تو جانتا ہے کہ جہاں سے بادشاہ کے لیے آئے گا اُس کے لیے بھی آجائے گا۔ اگر ان صوفیاء میں جن کی مجالس کے قصّے آپ بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر حقیقی توکّل ہو تو اُنہیں کوئی ذاتی ہوس نہ ہو اور دنیا کی محبت اُن کے قلوب سے سرد ہوجائے۔آ پ جن صوفیاء کا ذکر کرتے ہیں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اُن میں حقیقی توکّل پایا جاتا ہے؟ اور کیا اُنہیں اللہ تعالیٰ پر ایسا ایمان ہے کہ وہ خود اُن کا کفیل ہوگا اوریہ کہ انہیں بندوں کی مدد کی ضرورت نہیں؟ اِس پراُن کی سمجھ میں بات آگئی اور اُنہوں نے کہا کہ بس اب مَیں سمجھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ایک استاد تھے اور جب بھی مَیں اِس قسم کے سوالات کرتا تھا تو مجھے انہی کا خیال آیا کرتا تھا مگر اُن کی عادت یہ تھی کہ جب غلہ نکلنے کا موسم آتا تو وہ زمینداروں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھی خیال رکھنا۔ تو آج صوفیاء میں حقیقی توکّل نام کو باقی نہیں رہا۔ کئی ایسے ہیں جو تصوف کی آڑ میں ٹھگ بنے پھرتے ہیں اور لوگوں کے زیورات اور نقدی وغیرہ کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھگ کر لے جاتے ہیں۔ آج مسلمانوں میں نہ ظاہری شان و شوکت ہے نہ علومِ ظاہری ہیں اور نہ تصوف۔ ہر لحاظ سے ان پر ایک جمود کی حالت طاری ہے۔
دیکھو! عیسائیت کتنا جھوٹا مذہب ہے۔ وہ ایک بندے کو خدا بناتا ہے مگر اُن کے پادری کس جوش سے کام کرتے ہیں۔ کہیں وہ لوگوں کو علوم سیکھنے کی تحریک کرتے ہیں، کہیں لوگوں کو علوم سکھاتے ہیں، کہیں غرباء کی خدمت کرتے ہیں، کہیں بیماروں کا علاج کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کی مصائب اور مشکلات میں مدد کرتے ہیں اور ان میں ایک استغناء کا رنگ نظر آتا ہے، ایک وقار پایا جاتا ہے۔ مگر ان کے مقابل مسلمان مولویوں کی کیا حالت ہے۔ اِلَّا مَاشَاءَاللّٰہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب میں بددیانتی پائی جاتی ہے۔ مَیں نے بچپن میں ایک دفعہ دیکھا کہ رام باغ امرتسر میں ایک مولوی صاحب جا رہے تھے اور پیچھے پیچھے ایک غریب آدمی اُن کی منتیں کرتا جاتا تھا اور وہ مولوی صاحب اُسے جھڑکتے اور گالیاں دیتے جاتے تھے۔ آخر مولوی صاحب آگے نکل گئے اور وہ بیچارہ پیچھے رہ گیا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اُس نے بتایا کہ مَیں مزدوری کرتا ہوں۔ مزدوری سے ہی تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر اِن مولوی صاحب کے پاس جمع کراتا گیا کہ شادی پر خرچ کروں گا۔ اب سَو یا دو سَو روپیہ جمع ہو گئے تو مَیں نے ان سے واپس مانگے مگر اِس پر یہ مجھے گالیاں دیتے اور جھڑکتے جاتے ہیں اور میری رقم دینے سے انکار کرتے ہیں۔ تو اِن لوگوں میں سے دیانت اور امانت بالکل مٹ گئی ہے اور ایسے حالات میں آج اسلام جس قدر مدد کا محتاج ہے وہ ظاہر ہے۔ جس قدر مدد کا محتاج آج اسلام ہے اور کوئی مذہب نہیں۔ فرض کرو اگر عیسائیت دنیا میں غالب آجائے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹ گیا۔ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی یعنی وہ تین سو کے قریب تھے اور کفار کا لشکر بہت زیادہ تھا اور بظاہر مسلمانوں کے غلبہ کی کوئی صورت نہ تھی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر آج یہ مسلمانوں کا چھوٹا سا گروہ مٹ گیا تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔2 وہی حال آج احمدیت کا ہے اگر یہ غالب نہ آئے، اگر احمدیت کا درخت مُرجھا کر رہ گیا تو دنیا میں خدا تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔
پس چاہیے کہ ہمارے سامنے خواہ کس قدر مشکلات ہوں ہم اپنے خون کے آخری قطرہ تک کو خدا تعالیٰ اور اسلام کی راہ میں بہا دیں۔ اور اگر ہم اِس کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر ہم اِس قربانی سے ہچکچاتے ہیں، اگر ہمیں ایسا کرنے میں کوئی تامل ہے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا محض ایک دکھاوا ہے، فریب ہے، مکاری ہے اور دغابازی ہے۔ دنیا میں لوگ انسانوں سے دھوکا کرتے ہیں، ایک دوسرے سے فریب کرتے ہیں اور دغابازی سے کام لیتے ہیں اور شریف لوگ ایسے لوگوں کو ادنیٰ اخلاق کا اور بہت گِرا ہوا سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اِس وقت خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہ کہیں گے، اگر اسلام کے لیے قربانی کرنے سے ہچکچائیں گے تو ہم اُن لوگوں سے بھی گئے گزرے سمجھے جائیں گے جو ایک دوسرے سے دھوکا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ باوجود اپنے گرے ہوئے اخلاق کے اپنے لیڈروں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ ہم اگر خدا تعالیٰ کی آواز پر بھی لبیک نہ کہیں تو ہم سے وہ دنیا دار لوگ ہی اچھے ہوں گے۔ اور یہ ایک ایسا بدترین مظاہرہ ہوگا جو ہمیں انسانیت کے درجہ سے گرا کر حیوانیت کے درجہ پر پہنچا دے گا۔ بے شک قربانیوں کا رستہ لمبا ہوتا جاتا ہے مگر اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک کوئی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اُسے قربانیاں کرنی پڑیں گے۔ قربانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔ اور جس دن کوئی قوم یہ چاہے کہ خدا تعالیٰ اُس سے قربانی کا مطالبہ نہ کرے، اُس کو ابتلاء میں نہ ڈالے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ چاہتی ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے چھوڑ دے۔ قربانی کے مطالبہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ اُسے یاد کر رہا ہے۔ اور جو شخص قربانی کے دروازہ کے بند کیے جانے کا خیال بھی دل میں لاتا ہے وہ ایمان کی حقیقت سے واقف نہیں۔ جو امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے دروازہ کو بند کردے وہ گویا دعا کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے چھوڑ دے۔ اے خدا! مجھے بُھول جا۔ اے خدا! مجھے کبھی یاد نہ کر۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی دعا کرنے والا مومن نہیں ہوسکتا۔ مومن کا جواب تو قربانی کے ہر مطالبہ پر وہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہیے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر میں بیان فرمایا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔
در کوئے تُو اگر سرِ عشاق را زنند
اول کسے کہ لافِ تعشّق زندمنم3
یعنی اگر یہ فیصلہ ہوجائے کہ یار کے کُوچہ میں ہر عاشق کا سرکاٹ دیا جائے گا تو اِس فیصلہ کو سننے کے بعد جو سب سے پہلے یہ کہے گا کہ مَیں عاشق ہوں وہ مَیں ہوں گا۔
خوب یاد رکھو کہ موت ہی میں دراصل زندگی ہے اور قربانی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ اُسے شمار کرنا مشکل ہوگا۔ آپ نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی نسل کو تباہ کردینا چاہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا کہ مَیں چاہتا ہوں تُو اپنے بیٹے کو میری راہ میں قربان کردے تو آپ نے کہا اے میرے رب! مَیں اِس کے لیے تیار ہوں۔ اِس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ مَیں تیری نسل کو کبھی نہ مرنے دوں گا۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ر سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقام تو سب نبیوں سے بلند تر ہے پھر یہ دعا کیوں سکھائی گئی کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ۔اِس کے ہم اَور معنے بھی کرتے ہیں۔ مگر ایک معنے اِس کے یہ بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ مَیں تیری نسل کو کبھی فنا نہ ہونے دوں گا۔ سو درود میں آپؑ کا نام شامل کرکے اللہ تعالیٰ اُس وعدہ کو یاد دلا رہا ہے کہ جو اُس کا ہو جاتا ہے وہ کس طرح اُسے ہمیشہ کے لیے قائم کرا دیتا ہے۔
انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک دفعہ تو تم نے بے چکھے چکھا تھا مگر اب کہ تم اسے چکھ چکے ہو۔ اسے چکھنے کے بعد ایک بار پھر چکھو۔ایک مٹھائی کو تم نے پہلے بغیر چکھنے کے چکھا تھا مگر اب کہ تم اِس کے مزے سے آشنا ہو چکے ہو۔ ایک دفعہ اسے اَور چکھو۔ اِسی طرح مَیں کہتا ہوں کہ تحریک جدید کا پہلا دَور تو ایسا ہی تھا کہ جیسے بغیر پہلے چکھنے کے کسی مٹھائی وغیرہ کو چکھنا۔ اُس وقت تو کوئی علم نہ تھا کہ یہ بیج جو ہم بو رہے ہیں یہ کتنا بڑا درخت پیدا کرے گا۔ مگر اب کہ تم دیکھ چکے ہو کہ اِس کے نتیجہ میں کتنا بڑا ریزرو فنڈ قائم ہو چکا ہے۔ اِتنا بڑا کہ گو وہ اپنی ذات میں کتنا ہی حقیر ہو مگر ہماری جماعت کی مالی حالت کے لحاظ سے اس کا ہم کبھی خیال بھی نہ کر سکتے تھے۔ پھر اِس کے نتیجہ میں احمدیت کی تبلیغ اور اس کی شہرت دنیا کے چاروں طرف پھیل چکی ہے۔ ہماری تنظیم اُس سے بہت زیادہ مضبوط ہو چکی ہے جتنی دس سال قبل تھی۔ اور آج ہماری جماعت ہر لحاظ سے دس سال قبل کی نسبت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گُنا اچھی ہے۔ تو مَیں کہتا ہوں کہ جو کام پہلے دَور میں آپ لوگوں نے چکھے بغیر کیا تھا وہی اب کہ اِس کی لذت سے آپ لوگ آشنا ہو چکے ہیں آپ کو چاہیے کہ اَور بھی زیادہ جوش کے ساتھ کریں۔ اور چونکہ کسی کام میں حصہ لینے کی طرف رغبت دلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کام کی اہمیت بیان کر دی جائے اِس لیے مَیں مختصر طور پر اب یہ بتاتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے جس سے ہم دنیا میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں۔ تحریک جدید کا کام تبلیغ کو منظّم اور زیادہ وسیع کرنا ہے۔ میرے نزدیک تبلیغ کا کام تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔
(1) تبلیغ بیرون ہند
(2)تبلیغ اندرون ہند
(3) مبلغ تیار کرنے والا نظام۔
تبلیغ بیرون ہند کے کئی حلقے ہیں۔ ایک حلقہ اِن میں سے اسلامی ممالک کا ہے۔ یہ ممالک اِس بات کے حق دار ہیں کہ ہدایت اُن تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے کہ انہی ممالک کے لوگوں کے ذریعہ اسلام پھیلا اور ہم تک پہنچا۔ ان ممالک میں آج جو لوگ بستے ہیں اُن کے آباء و اجداد کا یہ احسان تھا کہ انہوں نے اسلام کو پھیلایا اور اِس طرح وہ ہم تک پہنچا۔ اِس لیے ہمارا فرض ہے کہ آج جب اُن کی اولادیں اسلام سے غافل ہو چکی ہیں ہم پھر اُنہیں اسلام کی طرف لائیں۔ اِس حلقہ میں عراق، شام، فلسطین، مصر، ایران، لبنان(گو اس ملک میں عیسائی زیادہ آباد ہیں مگر پھر بھی یہ اسلامی تحریک کا مرکز ہے) وغیرہ ممالک ہیں۔ اِن ممالک میں کم سے کم دو دو مبلغ ہونے چاہییں۔ ایک ایک ملک کے لیے دو دو مبلغ بہت ہی کم ہیں۔ دو مبلغ تو ضلع گورداسپور کے لیے بھی کافی نہیں ہوسکتے۔ مگر فِی الحال اگر ہم اِن ممالک کے لیے دو دو مبلغ بھی رکھیں تا کم سے کم وہاں اسلام کی آواز اُٹھتی رہے تو بھی یہ بارہ مبلغ ہوئے۔ اِس کے بعد ایک حلقہ افریقن ممالک کا ہے۔ ان میں سے اکثر میں اسلامی آبادی ہی زیادہ ہے اور ان میں مسلمان بکثرت آباد ہیں۔ مثلاً سوڈان، نائیجیریا، گولڈکوسٹ، سیرالیون، آزاد علاقہ یعنی لائبیریا، پانچ فرانسیسی علاقے، بیلجین کانگو اور پرتگیزی علاقہ میں۔ کُل بارہ علاقے ہیں۔اِن میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ بھی رکھے جائیں تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ 36 مبلغ اِن علاقوں کے لیے درکار ہیں۔ پھر یورپین ممالک ہیں انگلینڈ، جرمنی، فرانس، اٹلی، ہالینڈ اور سپین تو بڑے ملک ہیں۔ اِن کے علاوہ مشرقی اور شمالی یورپ کے ممالک کا اگر ایک ایک دائرہ شمار کیا جائے تو یہ کل آٹھ علاقے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ رکھے جائیں تو ان ممالک کے لیے کل 24 مبلغین کی ضرورت ہے۔ اِس کے بعد امریکہ ہے جس میں کینیڈا، یونائیٹڈ سٹیٹس اور جنوبی امریکہ کی ریاستیں ہیں۔ اِن کے لیے ضرورت تو بہت زیادہ مبلغین کی ہے لیکن اگر اِن کے پانچ حلقے مقرر کرکے ہر ایک کے لیے تین تین مبلغ رکھے جائیں تو پندرہ مبلغ یہ ہوئے۔ اِس کے بعد مشرقی ممالک ہیں چین، سماٹرا، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ اور جاپان ہیں۔ اگر جاپان اور چین کے لیے چھ مبلغ ہوں۔ جاوا، سماٹرا وغیرہ میں احمدیت خدا کے فضل سے ایک حد تک پھیل چکی ہے مگر پھر بھی ان کے لیے دس مبلغ کم سے کم ہونے چاہییں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے لیے تین۔ گویا کُل 19 ہوئے۔ یہ قلیل سے قلیل تعداد مبلغین کی ہے جس سے دنیا میں ایک حرکت پیدا کی جاسکتی ہے۔ یوں تو ہر ملک میں اِس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے۔ مثلاً انگلستان، جرمنی، فرانس وغیرہ ممالک کے لیے تین مبلغ کافی نہیں ہوسکتے۔ لیکن فِی الْحال اگر تین تین بھی بھیجے جاسکیں تو کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ ایک اِن میں سے کوئی رسالہ وغیرہ نکال لے، ایک دورے وغیرہ کرتا رہے اور ایک ہیڈ کوارٹر میں رہے، کتب وغیرہ فروخت کرے اور چھوٹے پیمانے پر کوئی لائبریری وغیرہ جاری کر لے۔ یہ صرف کام شروع کرنے کے لیے ہے ورنہ تین تین مبلغین بہت تھوڑے ہیں۔ قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے اور پندرہ بیس علماء یہاں ہر وقت موجود رہتے ہیں پھر بھی شور رہتا ہے کہ آدمی کافی نہیں ہیں اور اِس لحاظ سے جن ممالک کی آبادی پانچ چھ کروڑ ہو وہاں تین مبلغین کی مثال ایسی بھی نہیں جیسے آٹے میں نمک کی۔ ان کی حیثیت اِتنی بھی نہیں جتنی جسمِ انسانی کے ایک بال کی جو نسبت جسم میں ہے پانچ چھ کروڑ آبادی کے ملک میں تین مبلغین کی نسبت اِتنی بھی نہیں بنتی۔ اور یہ تعداد صرف اِتنی ہی ہے جو جھنڈا بلند رکھے اِس سے زیادہ نہیں۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ مبلغ ساری عمر وہاں نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ اِن کے بیوی بچے یہاں ہوں گے۔ ان سے ملنے نیز دین کی تعلیم کو تازہ کرنے کے لیے ان کو تین چار سال کے بعد واپس بلانا لازمی ہوگا۔ اِس لیے کم سے کم دُگنی تعداد ہی کام دے سکتی ہے۔ یہ حلقہ وار مبلغین کی تقسیم جو مَیں نے بیان کی ہے اِس کی مجموعی تعداد 106 بنتی ہے۔ پس اتنے ہی مبلغ ہمیں یہاں رکھنے پڑیں گے تا تین تین یا چار چار سال کے بعد ان کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہے۔ غیرممالک میں کام کرنے والے تین چار سال کے بعد قادیان آ جائیں اور یہاں جو ہوں وہ اُن کی جگہ جاکر کام کریں۔ ورنہ غیرممالک میں کام کرنے والے مبلغین کی مثال ویسی ہی ہوگی جو اِس وقت ہمارے امریکہ کے مبلغ کی ہے۔ ان کو کچھ مشکلات درپیش ہیں اور وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور وہ لکھ رہے ہیں کہ مجھے واپس آنے دیا جائے۔ مَیں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہا بھی ہے کہ ان کو بعض خاندانی مشکلات ہیں ان کو واپس بلایا جائے مگر اِس نے ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا۔ صدر انجمن احمدیہ نے بعض نام امریکہ میں بطور مبلغ بھیجنے کے لیے میرے سامنے پیش کیے ہیں مگر ان میں ایک صاحب ایسے ہیں کہ جو 24 سال سے قادیان نہیں آئے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ گھر سے نکلوں تو نزلہ کی تکلیف ہوجاتی ہے۔ ایک صاحب ایسے ہیں جو اِس وقت موتیا بند کی مرض میں مبتلا ہیں۔ ایک ان میں سے انٹرنس (ENTRANCE)فیل یا شاید انٹرنس (ENTRANCE) پاس ہیں اور اس طرح بہت سے ایسے نام میرے پیش کر دیے گئے ہیں کہ جن کو نہ دینی تعلیم ہے اور نہ دنیاوی۔ یہ نتیجہ آدمی تیار نہ کرنے کا ہوتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو یہ نام پیش کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ انجمن میں پانچ سات تعلیم یافتہ اور ذمہ دار آدمی ہیں۔ جب وہ یہ رپورٹ میرے پاس بھجوانے کے لیے لکھ رہے تھے اُن کے ہاتھ کیوں نہ کانپ گئے۔ یہ تمسخر ہے جو خدا، رسول اور اُس کے خلیفہ سے کیا گیا۔ امریکہ میں جو علمی لحاظ سے چوٹی کا ملک ہے کسی انٹرنس فیل یا انٹرنس پاس کو بطور مبلغ بھیج دینا جو دینی علوم سے بھی کورا ہے یا ایک ایسے شخص کو بھیج دینا جو 24 سال سے قادیان اِس واسطے نہ آئے ہوں کہ گھر سے نکلیں تو بیمار ہوجاتے ہیں جگ ہنسائی کی بات ہے۔ درحقیقت یہ نتیجہ ہے آدمی تیار نہ کرنے کا۔ مگر ہم ایسی غلطی اِنْشَاءَ اللّٰہُ نہ کریں گے۔ ہم اگر 106 مبلغ بیرونی ممالک میں بھیجیں گے تو اتنے ہی یہاں رکھیں گے تا پہلے مبلغ تین چار سال کے بعد واپس آسکیں اور دوسرے ان کی جگہ لے سکیں۔ اِس انتظام کے بغیر کوئی تبلیغی مرکز کھولنا ہنسی اور مذاق ہوگا۔
اِن تبلیغی مراکز کے علاوہ یہاں ایک تعلیمی ادارہ کا ہونا بھی ضروری ہے جس میں علماء تیار ہوتے رہیں کیونکہ کسی جماعت کی زندگی کا انحصار اُس کے علماء پر ہوتا ہے۔ اِس لیے علاوہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کے چھ ایسے علماء کا مرکز میں موجود رہنا ضروری ہے جو چوٹی کے علماء تیار کرسکیں اور جو ہر وقت مرکز میں موجود ہوں۔پھر اِسی طرح ہندوستان میں دوسرے مقامات پر بھی مرکز کھولنے چاہییں۔ اِس کے بغیر تعلیمی تنظیم مکمل نہیں ہوسکتی۔ بنگال، بہار اور یوپی وغیرہ کے طالب علم قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بکثرت نہیں آسکتے۔ کیونکہ ایک تو یہاں آکر تعلیم حاصل کرنے میں خرچ زیادہ ہوتا ہے دوسرے بعض اپنے اپنے علاقہ کے رسم و رواج کی مشکلات ہوتی ہیں اور پھر بعض والدین بھی بچوں کو اپنے سے جُدا کرکے کسی اَور جگہ پر بھیجنے سے کتراتے ہیں اور اِس لیے جب تک مختلف مقامات پر تعلیمی مراکز قائم نہ کیے جائیں فائدہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے میرے نزدیک ایک مدرسہ دینیہ بنگال اور بہار کے لیے ہونا چاہیے، ایک سندھ کے لیے، ایک صوبہ بمبئی کے لیے، ایک مدراس کے لیے اور ایک صوبہ سرحد کے لیے اور ایک یوپی کے لیے۔ اِن مراکز کے قائم کرنے کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان علاقوں کے طلباء ان میں تعلیم حاصل کریں گے۔ بنگال کا ایک لڑکا اگر قادیان میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے تو اُس سے باقی بنگالیوں میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان بھیجنے کا زیادہ شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر ان کے لیے بنگال میں ہی ایک تعلیمی مرکز کھول دیا جائے تو ضرور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ان میں پیدا ہوگا اور یہی حال دوسرے صوبوں کا ہے۔ اگر ہم صوبہ مدراس کے لیے دو چوٹی کے عالم مقرر کردیں، دو بنگال کے لیے، دو بمبئی کے لیے، دو سندھ کے لیے، دو صوبہ سرحد کے لیے اور دو یوپی اور بہار کے لیے تو اِس سے ان علاقوں میں دینی تعلیم کے حصول کا شوق بہت جلد پیدا ہوجائے گا اور ہر علاقہ میں ایسے علماء پیدا ہو جائیں گے جو علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں کو سنبھال سکیں گے۔ اِس طرح بارہ مدرّس ان مراکز کے لیے درکار ہوں گے۔ ان کے علاوہ دو عالم زائد رکھنے ہوں گے تا ان میں سے اگر کسی کو رخصت وغیرہ پر آنا پڑے یا کوئی بیمار ہوجائے تو کام بند نہ ہو۔ اِس طرح یہ بیس علماء رکھنے ضروری ہیں۔ اِس انتظام کے بغیر ہم علمِ دین کو عام نہیں کر سکتے۔ اور جب تک علماء عام نہ ہوں تربیت کا کام ناقص رہے گا۔ اب بھی یہ شکایت عام ہو رہی ہے کہ جماعتیں تو قائم ہو رہی ہیں مگر انہیں سنبھالنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں اور اِس طرح جماعت کی ترقی میں بھی روک پیدا ہو رہی ہے اور تربیت میں بھی نقص رہتا ہے۔ لیکن اگر اِس طرح مختلف صوبوں میں ہم مدارس قائم کر دیں تو بیسیوں علماء پیدا ہوسکیں گے اور جماعت بھی ان کے ذریعہ بہت ترقی کرے گی۔ ایک ایک عالم کے ذریعہ بعض اوقات سینکڑوں ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ بنگال میں ایک عالم مولوی عبدالواحد صاحب گزرے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی براہین احمدیہ حصہ پنجم میں شائع شدہ ہے۔ ان کے ذریعہ بنگال میں ہزاروں لوگوں نے بیعت کی۔ تو جہاں جہاں بھی کوئی بڑا عالم ہوا ہے سینکڑوں ہزاروں نے اُس کے ذریعہ بیعت کی ہے۔ پس اگر اِس طرح ہم علماء تیار کرسکیں تو تبلیغ کے کام میں بھی بہت ترقی ہوسکتی ہے اور لوگوں میں دینی ذوق پیدا ہونے کا سامان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر مختلف صوبوں میں قائم شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے چھ چھ طلباء کو بھی وظائف دیے جائیں تو کم سے کم 36 طلباء کا مزید بوجھ سلسلہ پر پڑے گا۔
اِس سلسہ میں تیسری چیز دیہاتی سکیم کی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میری توجہ اِس طرف منعطف ہوئی کہ ہمارے موجودہ مبلغ چونکہ اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں اور شہری تمدن رکھتے ہیں۔ اِس لیے وہ دیہات میں اور زمینداروں میں تبلیغ کا کام کَمَاحَقُّہٗ نہیں کرسکتے۔ دیہاتیوں میں تبلیغ وہی کرسکتا ہے جو اُن میں رہے، اُن جیسا ہی تمدن رکھتا ہو۔ چنانچہ دیہات میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں وہ عام طور پر پٹواریوں، دیہاتی مدرّسوں اور نمبرداروں وغیرہ کے ذریعہ سے ہوئی ہیں۔ اور اب بھی جہاں کوئی پٹواری یا مدرّس احمدی ہو تھوڑی بہت جماعت بڑھتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ نے سامان بھی ایسے کر دیے کہ بہت سے پٹواری، دیہاتی مدرّس اور نمبردار وغیرہ جماعت میں داخل ہو گئے۔ یہ لوگ چونکہ دیہاتیوں میں ہی رہتے اور اُن سے ملتے جُلتے رہتے ہیں اس لیے زیادہ کامیابی کے ساتھ اُن کو تبلیغ کرسکتے ہیں۔ اِس لیے مَیں نے خیال کیا کہ دیہات کی تبلیغی ضرورت کو پورا کرنے والے علماء تیار کیے جائیں۔ چنانچہ مَیں نے دیہاتی مبلغین کی سکیم تیار کی۔ دیہات میں تبلیغ کرنے والوں کو زیادہ منطق اور فلسفہ وغیرہ علوم کی ضرورت نہیں۔ بلکہ قرآن کریم کا ترجمہ، تفسیر، کچھ حدیث کا علم اور کچھ فقہی مسائل کا علم ہونا کافی ہے اور کچھ طب کا جاننا ضروری ہے تا وہ تکلیف کے وقت دیہاتیوں کی مدد کرسکیں اور خود بھی کچھ کما سکیں۔ دیہاتی مبلغین کی ہمیں کس قدر ضرورت ہے؟ اِس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اندازاً تین سَو اضلاع ہیں۔ ہر ضلع میں اوسطاً چار تحصیلیں ہیں اور ہر تحصیل میں کم و بیش پانچ سَو دیہات ہیں۔ گویا ایک ضلع میں دو ہزار کے قریب دیہات ہیں اور اِس طرح ہندوستان بھر میں دیہات کی تعداد قریباً چھ لاکھ ہے اور ریاستی علاقہ برطانی ہندکے 1/3کے قریب ہے۔ اِس لیے قریباً دو لاکھ گاؤں ریاستوں کے ہیں اور اُنہیں شامل کرکے ہندوستان کے کُل دیہات کی تعداد کم و بیش آٹھ لاکھ ہوجاتی ہے۔ اِس لحاظ سے ابھی ہر جگہ مبلغ رکھنے کا تو ہم واہمہ بھی نہیں کرسکتے سوائے اِس کے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق دیدے کہ وہ تبلیغ کے لیے باہر نکل جائے۔ موجودہ صورت میں تو اگر ایک ایک مبلغ کے سپرد پچاس پچاس گاؤں بھی کیے جائیں تو بھی کم سے کم سولہ ہزار مبلغ درکار ہوں گے اور ہم تو یہ بھی فِی الْحال نہیں کر سکتے حالانکہ ایک آدمی کا پچاس دیہات میں تبلیغی کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ پندرہ سولہ دیہات میں کام کرسکتاہے۔لیکن اگر ہم اعلیٰ پیمانہ پر کام نہ کرسکیں تو اِس کے یہ معنے نہیں کہ بالکل ہی نہ کریں۔ اس لیے فِی الْحال ہم سَو دیہاتی مبلغوں سے بھی کام شروع کرسکیں تو بھی بڑی بات ہے۔ان کے ذریعہ اَور جماعتیں پیدا ہوں گی اور وہ اَور بوجھ اٹھائیں گی اور اُن کے ذریعہ اَور ہوں گی اور آگے وہ بھی اَور بوجھ اٹھائیں گی اور اِس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ چاہے تو ترقی کرتا جائے گا۔ اور جُوں جُوں جماعت ترقی کرتی جائے گی یہ بنیاد مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔ اور جتنی جتنی بنیاد مضبوط ہوتی جائے گی اُتنی اُتنی ہی عمارت اونچی ہوتی جائے گی۔
اب اِن کاموں کے اخراجات کا اندازہ سن لیں جو قلیل ترین اخراجات کا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیے جو 106 مبلغ ہوں گے ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر سات سو روپیہ ماہوار سفر خرچ اور لٹریچر کے خرچ کو شامل کرکے رکھا جائے جو بہت ہی تھوڑا ہے تو یہ خرچ چوہتّر ہزار دو سور روپیہ ماہوار ہوگا اور سال کا یہ خرچ آٹھ لاکھ نوّے ہزار دو سو روپیہ ہوگا۔ اور 106 مبلغ جو ریزرو رہیں گے اور جن سے پہلے گروپ کا تبادلہ ہوتا رہے گا، ہندوستان میں چونکہ خرچ تھوڑا ہوتا ہے اور اُنہیں سفر بھی کم کرنا پڑے گا گو اُن سے بھی ہندوستان میں کام لیا جائے گا ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر دو سو روپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو ان پر کُل خرچ 24,200روپیہ ماہوار ہوگا۔ گویا ان پر سالانہ خرچ دو لاکھ چوّن ہزار چار سو روپیہ ہوگا۔ مدرّسین میں سے ہر ایک کا خرچ بھی اگر دو سَو روپیہ ماہوار رکھا جائے تو بیس مدرّسین کا ماہوار خرچ چار ہزار اور سالانہ اڑتالیس ہزار ہوگا۔ چھتیس طلباء میں سے ہر ایک کو اگر بیس روپیہ وظیفہ دیا جائے تو اِن وظائف پر سال بھر میں 8640 روپیہ صَرف ہوگا۔ اِس کے علاوہ دفتری اخراجات ہیں، نگرانی کے اخراجات ہیں، عملہ کے اخراجات ہیں، ڈاک تار وغیرہ کے اخراجات ہیں اور یہ سب ملا کر میرا اندازہ ہے کہ اِن پر ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ خرچ آئے گا اور اِس طرح گویا کُل خرچ13,98,700 روپیہ ہوگا۔ اور اِتنے اخراجات سے ہم جو کام شروع کریں گے اُس کی حیثیت آٹے میں نمک کی ہوگی۔ ہم نے یہ جو اندازہ کیا ہے یہ قریباً 350مبلغین کا، دیہاتی مبلغین اور مدرّسین کو ملا کر ہے۔ مگر عیسائیوں کی ایک ایک سوسائٹی کے دس دس ہزار منّاداِس وقت کام کر رہے ہیں اور اُن کے کُل مبلغین کی تعداد پچھتّر ہزار ہے جن کے دو لاکھ کے قریب مددگار بھی ہیں۔ اور ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور دنیا بھر میں عیسائی مشنریوں کی کُل تعداد کا اندازہ بیس لاکھ کے قریب ہے۔ ان کا ہی نہیں حکومت کا اندازہ ہے کہ ہندوستان میں چھ لاکھ کے قریب ہندو سادھو ہیں جو ملک میں پھرتے رہتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مذہب کا مبلغ ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد کے مقابلہ میں ہم 350 مبلغ بھیج بھی دیں تو اتنی بڑی تعداد سے ان کی نسبت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ 350 مبلغ بھیجنے کے لیے بھی ہمیں قریباً ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور بظاہر ہماری جماعت یہ بوجھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے اور اگر ہم اس کام کا فِی الْحال چوتھا حصہ بھی شروع کریں تو بھی اسے شروع کرنے کے لیے 3,42,475 روپیہ کی ضرورت ہے۔ مشرقی ممالک میں اور افریقہ کے بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اخراجات یورپین ممالک کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ پھر افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں کہ جہاں کے احمدی کچھ عرصہ کے بعد تبلیغ کا کچھ خرچ خود بھی برداشت کرسکیں گے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے اگر ساڑھے تین لاکھ روپیہ کُل اخراجات کی رقم سے کم بھی کردیا جائے تو بھی 10,09,900روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ اور اگر اِس کا بھی نصف کیا جائے پھر بھی قریباً پانچ لاکھ روپیہ سالانہ چاہیے۔ اِس سلسلہ میں ایک اَور سوال یہ ہے کہ ابھی ہمارے پاس اِتنے علماء تیار بھی نہیں ہیں۔ اِس وقت ساڑھے تین سومیں سے صرف چالیس آدمی ہمارے پاس ہیں اور وہ بھی ابھی تیار ہو رہے ہیں زیادہ مبلغ تیار ہونے میں ابھی تین چار سال اَور لگیں گے اور اس کے بعد اس چھوٹی سکیم پر کام شروع کیا جاسکے گا جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ پس جب تک پورے مبلغ تیار ہوں اُس وقت تک دو لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوگا۔ اِس وقت تک ہم نے جو ریزرو فنڈ قائم کیا ہے اُس کی آمد اگر ایک لاکھ روپیہ سالانہ تک بڑھ جائے تو پانچ سال میں کہیں جاکر وہ سابق قرض کو اُتار سکے گی۔ پس اس کی آمد پر ہم ابھی کسی کام کا بوجھ نہیں رکھ سکتے۔
اِس لیے مَیں تحریک کرتا ہوں کہ دوست آگے آئیں اور جس طرح تحریک جدید کے دس سالہ دَور میں وہ ہر سال اپنے چندوں کو بڑھاتے گئے ہیں اُسی طرح آئندہ نو سالوں میں ہر پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دیتے جائیں یعنی گیارھویں سال میں اپنے نویں سال کے چندہ کے برابر دیں، بارھویں سال میں آٹھویں سال کے برابر، تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر، چودھویں میں چھٹے سال کے برابر، پندرھویں میں پانچویں سال کے برابر، سولھویں میں چوتھے سال کے برابر، سترھویں میں تیسرے سال کے برابر، اٹھارھویں میں دوسرے سال کے برابر اور اُنیسویں سال میں پہلے سال کے برابر چندہ دیں (اس کے بعد موقع کے لحاظ سے پھر حالات پر غور کر کے فیصلہ کیا جائے گا) اِس طرح اُن کے چندہ کی رقم ہر سال بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اِس نئے دَور میں بعض لوگ حصہ نہ لے سکیں۔ بعض پنشنوں پر آ گئے ہوں۔ کچھ دوست وفات پا گئے ہوں گے اِس لیے ہوسکتا ہے کہ پہلے دَور کی نسبت اب چندہ کم ہو۔ مگر ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت دی ہو اور جو بڑھ کر حصہ لیں۔ وہ دسویں سال کے برابر ہی دیں یا اس سے بھی بڑھا دیں۔ بہرحال ہر دوست جس سال کا چندہ دے کم سے کم اُس کے مقابل کے سال کے چندہ کی رقم کے برابر دے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریزرو فنڈ پر کوئی بار نہ پڑے گا اور وہ زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا۔
دوسری تحریک مَیں یہ کرتا ہوں کہ پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے جو اِس تحریک میں حصہ لے۔ جس طرح پہلے دَور میں حصہ لینے والوں کے چندہ کی رقم ہرسال کم ہوتی جائے گی ان کے چندہ کی رقم ہر سال بڑھتی جائے گی۔ مگر ان نئے شامل ہونے والوں کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ ہر سال کم سے کم ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں۔ اضافہ خواہ ایک آنہ بلکہ ایک پیسہ کا ہی ہو مگر وہ اضافہ کرتے ضرور جائیں۔ پس آج مَیں یہ دو تحریکیں کرتا ہوں۔ دوست اِن میں حصہ لیں اور جب تک ہمارا ریزرو فنڈ مضبوط نہ ہوجائے اِس طرح اِس بوجھ کو اٹھائیں۔ امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں اب جنگ ختم ہوجائے گی۔ چھ سات ماہ تک یورپ کی جنگ ختم ہو جانے کی امید ہے اور اگر جرمنی کی طاقت کا خاتمہ ہوجائے تو جاپان زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کرسکے گا اور اِس طرح رستے کُھل جائیں گے۔ اور ہمیں چاہیے کہ اگلی جنگ جس کے سامان دنیا پیدا کر رہی ہے اور جس کی خبر مجھے اللہ تعالیٰ نے دو سال ہوئے دے دی تھی اور جو مَیں یہاں بیان بھی کر چکا ہوں۔ گو نام ظاہر نہیں کیے گئے اور چَھپی ہوئی موجود ہے۔ اس کے شروع ہونے تک کے درمیانی وقفہ سے فائدہ اٹھائیں اور جتنا فائدہ اٹھایا جاسکے اٹھائیں۔
اِس کے علاوہ مَیں نے قرآن کریم کے تراجم کی تحریک بھی کی ہے۔ اُن سے تبلیغ کو بہت مدد ملے گی۔ مختلف زبانوں میں لٹریچر کا نہ ہونا تبلیغ کے رستہ میں بڑی روک تھی جو خدا تعالیٰ نے چاہا تو اب دور ہوجائے گی۔ایک اَور روک یہ بھی رہی ہے کہ ہم مبلغین کو صرف اُتنا ہی خرچ دیتے ہیں کہ وہ کھانا کھا سکیں۔ انگلینڈ کے مبلغ کو خرچ اُتنا ہی ملتا ہے کہ وہ روٹی کھا سکے یا مکان کی معمولی مرمت وغیرہ کراسکے۔ کرایوں وغیرہ کے لیے کافی رقم نہیں دی جاسکتی کہ سفر کرے اور اس طرح تبلیغ کے کام کو وسیع کرے۔ اور جب کوئی مبلغ دورہ نہ کرسکے تو جانے کا فائدہ ہی کیا۔ پھر تبلیغ کے لیے کافی لٹریچر چاہیے اور ہم اب تک وہ بھی مہیا نہیں کرسکے۔ اب تک تو یہ حالت ہے کہ ہم صرف مبلغ بھیج دیتے ہیں مگر تبلیغ کے لیے کافی سامان مہیا نہیں کرتے۔ گویا ہم صرف اُسے اِس لیے کسی بیرونی ملک میں بھیج دیتے ہیں کہ وہاں جاکر روٹی کھاؤ۔ یہاں کی روٹی تمہیں ہضم نہیں ہوسکتی اس لیے انگلستان میں جاکر کھاؤ یا امریکہ میں جاکر کھاؤ۔ گو امریکہ میں یہ حالت نہیں۔ وہاں کی جماعت مبلغ کے دورہ کے اخراجات برداشت کر لیتی ہے۔ مگر انگلینڈ میں ایسا نہیں۔ پس ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں جائیں اُن کے لیے کافی رقم سفر خرچ کے لیے مہیا کی جائے، کافی لٹریچر مہیا کیا جائے اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اُن کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔ ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہیے۔ اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لیے کافی روپیہ مہیا کرنا ضروری ہے۔ ابھی ہم نے تین نوجوانوں کو افریقہ بھیجا ہے۔ وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور لاریوں میں سفر کریں گے۔ مگر پھر بھی 17،18 سو روپیہ اُن کے سفر خرچ کا اندازہ ہے۔ اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال 33 فیصدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور 33 فیصدی اُن کی جگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو صرف یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوگا اور یہ صرف سفر خرچ ہے۔ اور اگر مبلغین کو چار چارسال کے بعد بلائیں تو یہ خرچ پھر بھی پچھتّر ہزار روپیہ ہوگا اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد ان کو بلانا نہایت ضروری ہے تا اُن کا اپنا ایمان بھی تازہ ہوتا رہے اور اُن کے بیوی بچوں اور خود اُن کو بھی آرام ملے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمان صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ جب وہ گئے تو اُن کی بیوی حاملہ تھیں۔ بعد میں لڑکا پیدا ہوا اور اُن کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں! ہمارے ابّا کی شکل کیسی ہے؟ اِسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس انگلستان گئے ہوئے ہیں اور صدر انجمن احمدیہ اِس ڈر کے مارے ان کو واپس نہیں بلا تی کہ ان کا قائم مقام کہاں سے لائیں۔ اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ اُن کے بھی بیوی بچے ہیں جو اُن کے منتظر ہیں۔ اُن کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے کہ میرے ابّا کو واپس بلا دیں۔ پھر اِتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں بانجھ ہوجاتی ہیں اور آئندہ نسل کا چلنا بند ہو جاتا ہے۔ ایک اَور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں اُن کے بچہ نے جو خاصا بڑا ہے نہایت ہی درد ناک بات اپنی والدہ سے کہی۔ اُس نے کہا امّاں دیکھو!ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار ہوا تو اُس کا بیٹا اُسے پوچھنے کے لیے آیا۔ تم نے ابّا سے کیوں شادی کی جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا؟ اُس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا اور اِس طرح ہنسی کی بات بن گئی۔ مگر حقیقت پر غور کرو تو یہ بات بہت ہی دردناک ہے۔ اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم اُن کو واپس نہیں بلاسکے۔ پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے اور ایک مبلغ کو واپس بلانے پر اگر وہ تھرڈ کلاس میں سفر کرے، دک پر یعنی کُھلے میدان میں سوئے، ہزاروں میل لاریوں میں سفر کرے تو بھی اُس کا خرچ کم سے کم پندرہ سوروپیہ ہوگا اور اُس کے قائم مقام کے جانے کا خرچ بھی اِتنا ہی ہو گا۔اگر چھوٹی سے چھوٹی سکیم بھی جاری کی جائے اور ہر چار سال کے بعد مبلغین کو تبدیل کیا جائے تو بھی پچھتّر ہزار روپیہ اِس پر خرچ ہوگا اوراگر اس سے کم عرصہ کے بعد تبدیلی ہوتو اس سے بھی زیادہ خرچ ہوگا اور اِس طرح اخراجات اِس قدر زیادہ ہیں کہ اگر جماعت خوشی اور ہمت کے ساتھ قربانی کے لیے تیار نہ ہو تو انہیں پورا نہیں کیا جاسکتا۔
پس آج مَیں خدا تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے تحریک جدید کے دورِ ثانی کا اعلان کرتا ہوں۔ اور پھر یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ علاوہ پرانے انصار کے نئے پانچ ہزار دوست اَور آگے آئیں جنہوں نے پہلے دَور میں حصہ نہیں لیا۔ اور ان میں سے ہر ایک کم سے کم ایک ماہ کی آمد کے برابر حصہ لے۔ پھر مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ دوست دعائیں بھی کریں۔ ریزرو فنڈ کی مضبوطی کی کچھ مزید تجاویز جن میں سے بعض زرعی اور بعض صنعتی ہیں میرے ذہن میں ہیں۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں کامیاب کرے اور خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کو ایسے خادم دے جو دیانتداری اور محنت سے کام کرنے والے ہوں۔ اور ہمارے کاموں میں برکت دے تابجائے اِس کے کہ وہ سونے میں ہاتھ ڈالیں تو وہ مٹی ہوجائے وہ مٹی میں بھی اگر ہاتھ ڈالیں تو وہ سونا بن جائے اور خدا تعالیٰ اپنے دین کو غلبہ عطا کرے۔ مَیں اللہ تعالیٰ سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے جماعت کے دوستوں میں محبّت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتاہی رہ جائے گی اُسے وہ اپنے فضل سے پورا کردے گا۔ یہ اُسی کا کام ہے اور اُسی کی رضا کے لیے مَیں نے یہ اعلان کیا ہے۔ زبان گو میری ہے مگر بُلاوا اُسی کا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بُلاوا سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ رحم کرے اُس پر جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے۔ آمِیْنَ"۔ (الفضل28؍نومبر 1944ء)


42
مالی قربانی کے لیے دو تحریکیں
(فرمودہ یکم دسمبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے گزشتہ ایام میں دو تحریکیں جماعت کے سامنے پیش کی تھیں۔ ایک تحریک قرآن کریم کے تراجم کے متعلق تھی جو سات مغربی زبانوں میں کیے جائیں گے یا یوں کہنا چاہیے کہ کیے جا رہے ہیں اور ان تراجم کی اشاعت کے اخراجات کے متعلق اور اس کے ساتھ ہی ایک ایک کتاب اسلام کے متعلق جو سات زبانوں میں ترجمہ کی جائی گی اور ساتوں زبانوں میں شائع کی جائے گی۔ مَیں نے اِس تحریک کو سات حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک حصہ کا بوجھ لجنہ اماء اللہ پر ڈالا گیا تھا، ایک حصہ کی ذمہ داری قادیان اور ضلع گورداسپورکی جماعت پر جس میں یورپین ممالک بھی شامل ہیں، ایک حصہ کی ذمہ داری لاہور اور اُس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری دہلی اور اُس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری کلکتہ اور اُس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری جنوبی ہند اور اُس کے متعلقات پر اور ایک حصہ کی ذمہ داری صوبہ سندھ اور صوبہ سرحد اور اُس کے متعلقات پر۔ یہ ساری تحریک ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ کی تھی۔ جہاں تک مَیں اُن وعدوں سے اندازہ کرتا ہوں جو اِس وقت تک دفتر میں پہنچ چکے ہیں میرا اندازہ ہے کہ غالباً اِس تحریک کی مدّ میں جو رقم مانگی گئی ہے اس سے زیادہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ وصول ہوجائے گی کیونکہ اِس وقت تک دفتر تحریک جدید میں جو وعدے آ چکے ہیں وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ کے ہیں اور بقیہ کمی کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی جماعتوں کی طرف سے اٹھالی گئی ہے۔ بعض حلقوں کی رقم مقرر کردہ اٹھائیس ہزار کی رقم سے زائد ہے۔ بعض حلقوں کی رقم قریب قریب اُتنی ہی ہے اور بعض حلقوں کی رقم میں ابھی فرق ہے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جماعتوں نے جن کے ذمہ جو حصہ مقرر کیا گیا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے حصہ کو پورا کرنے کا اقرار کر لیا ہے۔ چونکہ وصولی میں بعض دفعہ بعض رقمیں رہ جاتی ہیں۔ مثلاً بعض وعدہ کرنے والے فوت ہوجاتے ہیں، بعض وعدہ کرنے والوں کو کوئی مالی ابتلاء پیش آ جاتا ہے یا کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے اِس وجہ سے اگر وصولی میں ایک دو فیصدی کا فرق پڑ جائے تو جو زائد وصولی ہوگی اُس کے ذریعہ سے اُس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ پس اگر وعدوں کی وصولی برابر رہی تو پھر اُس حساب سے تراجم شائع کیے جائیں گے جو پہلے بتایا گیا ہے اور اگر وصولی بڑھ گئی تو پھر جتنی وصولی بڑھ جائے گی اُس حساب سے اُتنے ہی اَور کتابوں کے تراجم بڑھا دیے جائیں گے۔
دوسری تحریک مَیں نے گیارھویں سال کے لیے تحریک جدید کے متعلق کی تھی۔ گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے اِس کا اعلان کیا تھا اور اِس وقت تک اِس تحریک میں گیارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں۔ جس بنیادپر اِس کا اعلان کیا گیا تھا اُس کے لحاظ سے گیارھویں سال کے کم از کم ایک لاکھ نوے ہزار کے وعدے آنے چاہییں۔ اِس بارہ میں بعض باتیں گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں وہ باتیں مَیں اِس خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ بعض دوست اِس غلطی میں پڑے ہیں یا اُن کو یہ غلطی لگ سکتی ہے کہ چونکہ یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ گیارھویں سال کے وعدے کم از کم نویں سال کی رقم کے برابر ہوں۔ گو جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔ وہ جتنا زیادہ دیں گے اُتنا ہی اُن کے لیے زیادہ برکت کا موجب ہوگا۔ مگر گیارھویں سال کا وعدہ کم از کم نویں سال کے وعدہ کے برابر ہونا چاہیے۔ اِس سے بعض دوستوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ گویا ہم نے حُکماً گیارھویں سال کے لیے وہ رقم مقرر کردی ہے جو اُنہوں نے نویں سال میں دی تھی اور اب اُن کو گیارھویں سال کا وعدہ لکھوانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ہی آپ دفتر والے سالِ نہم کے مطابق اُن کا وعدہ لکھ لیں گے لیکن یہ بات غلط ہے۔ تحریک جدید کی بنیاد شروع سے ہی طوعی چندوں پر رکھی گئی ہے ہم اِس میں کوئی چندہ حُکماً مقرر نہیں کرتے، اور جیسا کہ مَیں نے تحریک جدید کو جماعت کے سامنے پیش کرتے وقت بیان کیا تھا اِس کی وجہ یہ ہے کہ حُکماً قربانی کرنے میں گو ثواب تو مل جاتا ہے لیکن اُس قدر نفس کی صفائی نہیں ہوتی جس قدر کہ انسان کو اس کے نتیجہ میں نفس کی صفائی حاصل ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے اپنے ذمہ کوئی رقم مقرر کرے۔ اِس لیے مَیں یہ اعلان کر دیتا ہوں اور جماعت پر واضح کر دیتا ہوں کہ کسی کے ذمہ خودبخود کوئی رقم مقرر نہیں کی جائے گی۔ جو نہیں لکھوائیں گے اُن کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ نہیں لکھوانا چاہتے۔ یہ نہیں ہوگا کہ دفتر والے آپ ہی آپ نویں سال کے مطابق اُن کا وعدہ لکھ لیں۔ بے شک ایک رنگ اخلاص کا یہ بھی ہے کہ دوست یہ کہیں کہ جب ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ خدا کی راہ میں اسلام کی خاطر وقف ہے تو جو رقم بھی ہمارے ذمہ مقرر کی جائے گی ہم اُس کو ادا کردیں گے۔ مگر اِس سے وہ غرض فوت ہوجاتی ہے جو تحریک جدید میں رکھی گئی ہے۔ یہ تحریک شروع سے آخر تک طوعی رہی ہے اور طوعی رہے گی۔ جس کی مرضی ہوگی اپنا وعدہ لکھوائے گا اور جس کی مرضی نہیں ہوگی وہ نہیں لکھوائے گا۔ اور جو اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا دفتر والے آپ ہی آپ اُس کا وعدہ نہیں لکھیں گے۔ پس قادیان کی جماعت پر بھی اور باہر کی جماعتوں پر بھی مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جب تک کوئی شخص گیارھویں سال کے لیے خود اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا اُس وقت تک اُس کے نام کوئی رقم نہیں لکھی جائے گی۔
دوسری بات جو گزشتہ خطبہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ مَیں نے وقت نہیں بتایا تھا۔ اب مَیں یہ اعلان کر دیتا ہوں جیسا کہ گزشتہ سالوں میں قاعدہ رہا ہے اِس سال بھی وعدے بھجوانے کا اصل وقت تو 31 دسمبر تک ہے۔ جماعت کے جو دوست پہلے دس سالوں میں حصہ لے چکے ہیں اور آئندہ اپنا حصہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اُن کو چاہیے کہ 31دسمبر تک انفرادی طور پر یا جماعتی رنگ میں اپنے وعدے تحریک جدید میں بھجوا دیں۔ لیکن چونکہ جلسہ سالانہ پر آنے کی وجہ سے بعض جماعتوں کے وعدوں کی فہرستیں جلدی مکمل نہیں ہوسکتیں اور بعض علاقے ذرا دور کے بھی ہیں اِس لیے اجازت ہوگی کہ سات فروری 1945ء تک جو وعدے قادیان پہنچ جائیں گے یا اِس تاریخ تک اپنے شہر سے روانہ ہو جائیں گے اُن کو رجسٹر میں درج کر لیا جائے گا۔ گو بہتر یہی ہوگا کہ 31 دسمبر تک وعدے آ جائیں۔ لیکن ہندوستان کے وہ علاقے جہاں اردو سمجھی جاتی ہے اُن علاقوں کی جماعتوں یا افراد کو سات فروری تک وعدے بھجوانے کی مُہلت ہوگی۔ سات فروری آخری میعاد ہے۔ اُس کے بعد کوئی وعدہ ہندوستان کی اُن جماعتوں کی طرف سے جہاں اردو سمجھی جاتی ہے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہر سال یہ اعلان کیا جاتا ہے اور ہر سال ہی مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ سات فروری کے بعد بعض درخواستیں آ جاتی ہیں کہ ہم میعاد کے اندر وعدہ بھجوانے سے رہ گئے تھے ہمیں بھی شامل کر لیا جائے اور ہر سال ہی سوائے کسی استثنائی صورت کے ہمیں ایسے وعدوں کو ردّ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ جہاں چندہ لینے سے ہماری یہ غرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دوست اپنے اموال خرچ کریں اور اِس سے اسلام کی تائید ہو وہاں ساتھ ہی ساتھ ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ جماعت کو تربیت کی صحیح لائن پر لایا جائے۔ اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جب کوئی وقت مقرر کیا جائے تو اُس وقت کے اندر اندر وہ اپنی قربانی پیش کرے۔ پس اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم ردّ کر دیتے ہیں تو وعدہ کرنے والوں کو جو دکھ اِس سے پہنچتا ہے اُس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ اُن پر ہے۔ اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم بِلا وجہ قبول کر لیں تو اِس کے یہ معنے ہیں کہ ہم اَور لوگوں کو بھی سُستی کی تحریک کرتے ہیں۔ پس مَیں اَس امر کی وضاحت کیے دیتا ہوں کہ بہتر تو یہی ہے کہ 31 دسمبر تک تحریک جدید کے گیارھویں سال کے وعدے مرکز میں پہنچ جائیں۔ لیکن اگر کوئی روک پیدا ہوجائے تو سات فروری 1945 ء تک وعدے بھجوانے کی اجازت ہے۔ اور جیسا کہ گزشتہ سالوں میں بھی ہوا کرتا تھا سات فروری آخری میعاد ہے۔ اِس کے بعد آنے والے وعدے قبول نہیں کیے جائیں گے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ وعدہ کرنے والے کی معذوری روزِ روشن کی طرح واضح ہو۔ اِسی طرح جن علاقوں میں اردو نہیں سمجھی جاتی مثلاً بنگال ہے یا مدراس کا علاقہ ہے وہاں اردو بہت کم سمجھی جاتی ہے اور اُن تک بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے ایسے علاقوں کے لیے پہلے بھی 30؍ اپریل تک کی میعاد مقرر ہوتی ہے اب بھی اُن کے لیے آخری میعاد 30؍ اپریل 1945ء ہوگی۔ وہ اپنے گیارھویں سال کے وعدے اِس میعاد کے اندر اندر بھجوا دیں۔ اور چونکہ جنگ کی وجہ سے ہندوستان سے باہر کی جماعتوں تک آواز پہنچنے میں دو تین ماہ کی دیر ہوجاتی ہے اور پھر دو تین ماہ تیاری پر لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ سارے علاقہ میں بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے، وہ ملک ہمارے ہندوستان سے چار گُنا ہے اور صرف ایک مبلغ وہاں کام کرتا ہے جو ہر ایک جماعت تک جلدی نہیں پہنچ سکتا اور اُن جماعتوں تک بات پہنچنے میں دیر لگ جاتی ہے اِس لیے اِن باتوں کی وجہ سے اور اِن مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لیے ہمیشہ جون کی آخری تاریخ وعدہ کی آخری میعاد مقرر ہوتی ہے۔ چنانچہ اب بھی مَیں جون کی آخری تاریخ ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدوں کی آخری میعاد مقرر کرتا ہوں۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی جماعتوں کے دسویں سال کے تحریک جدید کے وعدے جون کے چلے ہوئے اب نومبر کے شروع میں آکر ہمیں ملے ہیں۔ اِسی طرح اب تو جاوا اور سماٹرا جاپان کے قبضہ میں ہیں اور ہمارے ساتھ ان کے تعلقات قائم نہیں۔ جب تعلقات قائم تھے اُس وقت سماٹرا اور جاوا کے وعدے بھی جلدی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل اور احسان ہے کہ ہندوستان میں کوئی اسلامی جماعت ایسی نہیں بلکہ کوئی غیراسلامی مذہبی جماعت بھی ایسی نہیں جس کو خدا تعالیٰ نے ان اقوام سے مدد دلائی ہو جو اِس وقت اسلام کے مدّمقابل ہیں۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں سارے ایشیا بلکہ سارے مشرق میں کوئی ایسی مذہبی جماعت نہیں جس کے مذہبی چندوں کی تحریک میں مغربی لوگوں نے حصہ لیا ہو۔ صرف ہماری جماعت کو استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ ہمارے مذہبی چندوں کی تحریک میں ہر سال انگلستان کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں اور امریکہ کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں۔ چنانچہ اِس سال بھی امریکہ کی جماعت نے اڑھائی ہزار روپیہ کے وعدے بھجوائے ہیں۔پس وقتوں کے متعلق بھی مَیں نے تشریح کر دی ہے اور وعدوں کے متعلق بھی مَیں نے تشریح کر دی ہے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کے اُس طبقہ کو توجہ دلاتا ہوں جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ نہیں لیا۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کو اُس وقت مالی کشائش حاصل نہیں تھی جب تحریک جدید شروع کی گئی اور اب حاصل ہے۔ کئی ایسے ہیں جو اُس وقت نابالغ تھے اور اب بالغ ہو چکے ہیں۔ دس سال کی بات ہے جب مَیں نے یہ تحریک شروع کی تھی۔ کئی لڑکے ایسے تھے جن کی عمر اُس وقت نو یا دس سال کی تھی اور اب اُن کی عمر اُنیس یا بیس سال کی ہو چکی ہے۔ کئی ایسے تھے جن کی عمر اُس وقت بارہ یا تیرہ سال کی تھی اور اب اُن کی عمر بائیس یاتیئیس سال کی ہو چکی ہے اور اب اُن کو ملازمتیں یا کام مل گئے ہیں اور وہ برسر ِروزگار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ بھی اِس تحریک میں حصہ لیں۔ ایسے لوگوں کے لیے مَیں نے اجازت دی ہے کہ ایک نیا رجسٹر کھولا جائے جس میں ایسے نئے شامل ہونے والوں کے نام درج کیے جائیں۔ مگر جہاں گزشتہ سالوں میں حصہ لینے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ پہلے سال پانچ یا دس یا پندرہ یا پانچ کے وعدہ کے لحاظ سے بڑھا کر کوئی رقم دیں وہاں اب نئے شامل ہونے والوں کے لیے یہ شرط ہوگی کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال اُس پر کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے چلے جائیں۔ ایسے کچھ لوگوں کی طرف سے درخواستیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جس طرح پہلے دس سالوں میں پانچ ہزار آدمیوں نے اِس تحریک میں حصہ لیا ہے اِسی طرح نئے شامل ہونے والے بھی پانچ ہزار آدمی ہونے چاہییں جو اِس تحریک میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں تاکہ اِس تحریک کے ذریعہ سے اسلام کی تبلیغ اور تائید کے لیے مضبوط ریزرو فنڈ قائم ہو۔ چونکہ دَورِ ثانی کا لفظ جو آجکل استعمال کیا جا رہا ہے یہ مشتبہ ہے یعنی یہ شبہ پڑتا ہے کہ اُن کا بھی دَور ثانی ہے جو دس سالوں کے بعد حصہ لے رہے ہیں۔ اِس لیے میرے نزدیک تحریک جدید کا دوسرا حصہ یعنی جس میں نئے حصہ لینے والے شامل ہوں اِس کے لیے الگ رجسٹر کھولا جائے جس کا نام دفتر ثانی رکھ دیا جائے۔ پہلے دس سالوں سے جو لوگ حصہ لیتے چلے آرہے ہیں اُن کے نام جس رجسٹر میں درج ہوں اُس کا نام دفتر اول رکھ دیا جائے۔ اِس طرح تحریک جدید میں پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں اور اب نئے شامل ہونے والوں کے درمیان امتیاز ہوجائے گا۔ پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں یعنی جو دفتر اول والے ہیں اُن کا یہ دَور کم از کم اُنیس سال کا ہوگا جو آج سے نو سال بعد جاکر پورا ہوگا اور دفتر ثانی والوں کے لیے یعنی جو نئے شامل ہونے والے ہیں ان کے لیے بھی کم از کم اُنیس سال کا دَور مقرر ہوگا جو اِس سال سے شروع ہو کر آج سے اُنیس سال بعد جاکر پورا ہوگا۔ پہلے دفتر والوں کے لیے یہ شرط نہیں تھی لیکن دوسرے دفتر والوں کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر اِس تحریک میں چندہ دیں اور پھر ہر سال اِس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے چلے جائیں۔
تیسری بات مَیں اُن لوگوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جو دفتر اول میں بعد میں چندہ دے کر شامل ہوئے۔ مثلاً اِس تحریک کے شروع میں وہ اس لیے شامل نہ ہوسکے کہ اُس وقت وہ نابالغ تھے اُن کی عمر چودہ یا پندرہ سال کی تھی۔ بعد میں جب وہ جوان ہوئے اور اُن کو ملازمتیں مل گئیں تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفترِ اول میں نام لکھوا لیا۔ یا بعض ایسے تھے جو اِس تحریک کے شروع میں بے کار تھے بعد میں اُن کو کام مل گیا اور وہ برسر ِروزگار ہو گئے تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفتر ِاول میں اپنا نام لکھوا لیا۔ چونکہ انہوں نے آٹھ یا نویا دس سالوں کا اکٹھا چندہ دینا تھا اِس لیے اُنہوں نے اِس رعایت سے فائدہ اٹھایا کہ پہلے سالوں میں تھوڑا تھوڑا چندہ دے کر اور آخری سال میں زیادہ چندہ دے کر دفتر اول میں اپنا نام لکھوا لیا۔ مثلاً بعض ایسے ہیں جو پانچ سو روپیہ یا چھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے ہیں۔ اُن کو چونکہ اکٹھا چندہ دینا پڑا اِس لیے وہ پہلے سالوں میں دس یا پندرہ یا بیس روپیہ کے حساب سے چندہ دے کر اور آخری سال میں پانچ سو روپیہ چندہ دے کر دفتر اول میں شامل ہو گئے۔ اب اگر گیارھویں سال میں وہ نویں سال کے برابر چندہ دیں یا بارھویں سال میں آٹھویں سال کے برابر چندہ دیں یا تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر چندہ دیں تو اُن کی موجودہ آمد کے لحاظ سے یہ چندہ بہت حقیر اور اُن کی قربانی کو گرانے والی چیز ہے۔ اُن کو پہلے سالوں میں کم چندہ دینے کی اجازت تو اِس لیے دی گئی تھی کہ اُنہوں نے ایک سال یا دو سال یا تین سال میں پچھلے سالوں کا چندہ اکٹھا دینا تھا اِس لیے اُن کے لیے یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ گزشتہ تمام سالوں کا اکٹھا چندہ ادا کرنے کی وجہ سے اُن پر بار تھا۔ اب چونکہ وہ بار اُن سے اُتر چکا ہے اور واپسی کی طرف اِس طرز پر لَوٹنا ہے کہ گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ہو۔ تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق گیارھویں سال کا چندہ دیں نہ کہ نویں سال کے برابرجواُن کی موجودہ حیثیت کے معیار سے بہت گری ہوئی چیز ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر خدا کے فضل سے اخلاص پایا جاتا ہے۔ خطبہ شائع ہوئے ابھی چار پانچ روز ہی ہوئے ہیں کہ جماعت نے اپنے اخلاص کا نمونہ دکھانا شروع کردیا ہے۔ میرے پاس بِالعموم ایسی چِٹھیاں آئی ہیں کہ خطبہ پڑھنے کے بعد پہلے ہم نے گیارھویں سال کا وعدہ نویں سال کے برابر لکھا دیا مگر دوسرے دن سخت شرم آئی کہ پیچھے کی طرف جانے کی بجائے ہم اپنا قدم خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے کیوں نہ رکھیں۔ اِس لیے ہم نویں سال کے برابر چندہ دینے کی بجائے گیارھویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے خطبہ پڑھنے کے بعد ہی گیارھویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کردیا اور اُنہوں نے لکھا کہ ہم تو زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے آگے ہی بڑھیں گے پیچھے کی طرف بھاگ کر ہم اپنا ثواب کیوں کم کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی سوچ سکتا ہے کہ ان کی قربانی کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو دین اور دنیا میں خداتعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔ جو ہر قربانی کے موقع پر نہ صرف یہ کہ ثابت قدم رہتے ہیں بلکہ ہر قربانی کے موقع پر دوسرا قدم پہلے قدم سے بڑھا کر رکھتے ہیں اور دین کے راستہ میں ہر قربانی کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اِسی طرح وہ ہر قربانی کو زیادہ سے زیادہ کرکے پیش کرتے ہیں۔
پس مَیں سمجھتا ہوں کہ عام طور پر تو جماعت میں یہی احساس پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی قربانی کو گھٹا کر پیش کرنے کی بجائے پہلے سے بڑھا کر پیش کریں تاکہ وہ زیادہ ثواب حاصل کریں۔ لیکن سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو آٹھویں یا نویں یادسویں سال میں آکر اِس تحریک میں شامل ہوئے ہیں اُن کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس غفلت میں اپنے ثواب کو کم نہ کریں کہ اب ہمیں پیچھے کی طرف جانے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ گیارھویں سال کا چندہ نویں سال کے مطابق لکھوا کر اپنی قربانی کو حقیر نہ بنائیں۔ وہ بے شک کمی کریں مگر اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق نویں سال اُنہوں نے مثلاً چالیس یا پچاس روپے چندہ دیا تھا اور دسویں سال اُن کا چندہ پانچ سو روپیہ تھا تو اب گیارھویں سال کے لیے اگر وہ کمی کریں تو دسویں سال کی حیثیت سے کریں نہ کہ نویں سال کے مطابق۔ کیونکہ نویں سال کا چندہ اُن کی حیثیت سے بہت کم تھا اور اُس وقت کمی کی رعایت اُن کو اِس لیے دی گئی تھی کہ اُنہوں نے گزشتہ تمام سالوں کا چندہ اکٹھا ادا کرنا تھا۔ اب جب وہ اُس بار کو اُتار چکے ہیں تو اُن کو گیارھویں سال کا چندہ لکھواتے وقت اپنی موجودہ حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہیے نہ کہ نویں یا آٹھویں یا ساتویں سال کے معیار کو جو اُن کی حیثیت سے بہت گرا ہوا ہے۔
ہماری جماعت کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس کام کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں وہ کام بے دریغ قربانی چاہتا ہے۔ جب تک ہم بے دریغ قربانی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتےاسلام اپنے حق کو واپس نہیں لے سکتا جو غیروں کے پاس جا چکا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ عیسائیت کے قبضہ میں جا چکا ہے۔ اِس کو واپس لانا آسان نہیں۔ اگر ساری دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ متفق ہوتے تو نسبتاً یہ کام آسان ہوتا۔ مگر مسلمانوں کا ہمارے ساتھ متفق ہونا تو الگ رہا وہ تو اجتماع کرکے اور انفرادی طور پر پورا زور لگا رہے ہیں کہ اس جماعت کو تباہ کردیں جو اسلام کو اُس کا حق دلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ورثہ کوغیروں سے واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بجائے اِس کے کہ وہ ہماری مدد کرتے وہ اِس کوشش میں رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ورثہ کو واپس لانے والی قلیل جماعت جو اُنگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے اُس کو نقصان پہنچائیں تاکہ وہ بھی آسانی سے یہ کام نہ کرسکے۔ پس ہم تھوڑے سے لوگ جو اِتنے بڑے کام کے لیے کھڑے ہوئے ہیں جب تک اپنی تمام طاقتوں کو مجنونوں کی طرح نہ لگا دیں اور دیوانوں کی طرح ہر ایک قربانی کے لیے تیار نہ ہوں اُس وقت تک یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہونا مشکل ہے۔
شاہجہان کی بیوی ممتاز محل جب فوت ہوئی تو چونکہ اُس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اِس لیے اُس کی وفات کی وجہ سے شاہجہان کے قلب پر بہت صدمہ تھا۔ ایک دن اُس نے خواب دیکھا جس میں اُس کو ایک محل دکھایا گیا کہ یہ تیری بیوی کی قبر کی جگہ ہے۔ شاہجہان نے دربار کے تمام انجنیئروں کو بلایا اور اُن کے سامنے اپنا خواب بیان کیا اور خواب میں اُس نے جو عمارت دیکھی تھی اُس کا نقشہ اُن کے سامنے پیش کیا کہ اِس قسم کی عمارت ہے جو مَیں بنوانا چاہتا ہوں۔ یہ عمارت تیار کرا دو۔ مختلف انجنیئروں نے اُس نقشہ پر غور کیا اور آخر سب نے انکار کر دیا کہ ہم اِس قابل نہیں ہیں کہ اِس قسم کی عمارت تیار کراسکیں۔ آخر ایک انجنیئر جو کوئی چوٹی کے انجنیئروں میں سے تو نہیں تھا مگر اچھے پایٔہ کا تھا اُس نے کہا مَیں اِس بات کے لیے تیار ہوں اور جس کام سے باقی بڑے بڑے انجنیئروں نے انکار کردیا ہے مَیں وہ کام کرسکتا ہوں۔ مگر میری ایک درخواست ہے کہ بادشاہ سلامت میرے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر جمنا پار تشریف لے چلیں اور دو لاکھ روپوں کے توڑے اپنے ساتھ کشتی میں رکھ لیں۔ مَیں دریا کے اُس طرف جاکر اپنا مشورہ دوں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے دو لاکھ روپیہ اپنے ساتھ رکھ لیا اور اُس انجنیئر کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر دریا میں روانہ ہوا۔ دو لاکھ روپیہ کے کوئی دو دو ہزار کے توڑے تھے۔ جب کشتی کنارے سے گز بھر کے فاصلہ پر گئی تو اُس انجنیئر نے روپوں کی ایک تھیلی پکڑ کر دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت! جو عمارت آپ بنوانا چاہتے ہیں اُس پر اِس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر ذرا اَور گز بھر کے فاصلے پر کشتی گئی تو اُس نے دوسری تھیلی پکڑ کر دریا میں ڈال دی اور کہا بادشاہ سلامت! آپ کے ذہن میں جس قسم کی عمارت بنوانے کا نقشہ ہے اس پر اس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر کشتی ذرا اَور آگے گئی تو اُس نے تیسری تھیلی دریا میں پھینک دی اور کہا کہ بادشاہ سلامت! اِس عمارت پر اِس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ اِسی طرح دوسرے کنارے تک پہنچتے پہنچتے اُس نے سارا روپیہ دریا میں پھینک دیا۔ مگر بادشاہ کے ماتھے پر کوئی بَل نہ آیا۔ جس وقت دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچے تو اُس انجنیئر نے کہا بادشاہ سلامت! مبارک ہو اَب یہ عمارت تیار ہوجائے گی۔ اگر پہلے انجنیئروں نے اِس کام میں ہاتھ نہیں ڈالا تو صرف اِس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جس قسم کی عمارت کا نقشہ آپ نے بتایا ہے اُس پر اِتنی رقم خرچ آئے گی کہ حکومت اس رقم کو برداشت نہیں کرسکتی۔ مگر اب مَیں نے امتحان لے لیا ہے کہ آپ واقعی سچی نیت کے ساتھ یہ عمارت بنانا چاہتے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس عمارت کے بنانے میں آپ بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ عمارت تیار ہوسکتی ہے۔ چنانچہ پھر وہ عمارت بنائی گئی جو آج ساری دنیا میں نمونہ کی عمارت ہے۔ کچھ عرصہ ہوا حکومت کی طرف سے سارے سامانوں کے ساتھ اُس کی مرمت شروع کی گئی۔ ابھی تھوڑی سی مرمت ہوئی تھی کہ لوگوں نے شور مچا دیا کہ تم اُس کی مرمت نہیں کر رہے بلکہ اس کو بگاڑ رہے ہو۔ مرمت کو جانے دیجیے اور اس عمارت کو اس کی حالت پر رہنے دیجیے۔ چنانچہ اب تک اس عمارت کی بعض باتوں کا حل نہیں ہوسکا۔ پس جب تک ہم اِس ارادہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے جو ارادہ شاہجہان تاج محل بنانے کے متعلق رکھتا تھا بلکہ اُس سے بہت زیادہ ارادہ کے ساتھ اُس وقت تک ہم اسلام کی عمارت کو کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تاج محل سے اسلام کی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ بلکہ تاج محل کی عمارت کو اسلام کی اس عمارت سے کوئی واسطہ اور کوئی نسبت ہی نہیں جس عمارت کو قائم کرنے کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں۔ اِتنے بڑے کام کے مقابلہ میں ہم ہیں ہی کیا۔ پنجاب میں ہماری مردم شماری لاکھ سوا لاکھ ہے۔ آج سے دس سال پہلے ستّر ہزار تھی تو اب لاکھ سوا لاکھ ہوگی۔ لیکن یوں ہماری تعداد اِس سے زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری میں کام کرنے والے لوگ متعصب تھے اِس لیے اُنہوں نے ہماری تعداد کم درج کی۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ پنجاب میں ہماری تعداد اڑھائی لاکھ ہے اور سارے ہندوستان میں ساڑھے تین لاکھ ہے اور ہندوستان سے باہر ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اِس طرح ساری دنیا میں ہماری تعداد کوئی پانچ چھ لاکھ کے قریب ہے جو ہمیں معلوم ہے۔ یوں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے احمدی بھی ہیں جن کا ہمیں پتہ نہیں یا ایسے ہیں جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اُن کو ملا کر کوئی دس بارہ لاکھ کے قریب ہماری تعداد بنتی ہے۔ مگر جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اُن سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہم صرف اُنہی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کا ہمیں علم ہے اور جو منظم ہیں۔ ایسی جماعت جو منظّم ہے وہ پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ قربانی کا بوجھ ہندوستان کی جماعت پر ہے۔ ہندوستان سے باہر جو جماعتیں ہیں اُن میں بہت ساری ایسی ہیں جو نومسلموں کی جماعتیں ہیں۔ بہت ساری ایسی جماعتیں ہیں جو غیرتعلیم یافتہ ہیں۔مغربی افریقہ میں ساٹھ ستّر ہزار کے قریب احمدی ہیں اور ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے ننگے پِھرا کرتے تھے۔ اب اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے کپڑے پہننا شروع کیے ہیں۔ بہت سارے ایسے ہیں جو جنگلوں میں رہتے ہیں اور اُن کی کوئی آمدنی نہیں۔ اُن کی خوراک یہ ہے کہ سارا سال مکئی کا آٹا بھون کر پانی میں بھگو کر استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی آمد کیا ہوگی اور وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ بہت سی بیرونی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو بوجھ اٹھا رہی ہیں مگر اُن کا بوجھ اٹھانا محض اخلاص کے اظہار تک محدود ہے۔ پس اصل بوجھ ہندوستان پر ہے جس میں ہماری تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے۔ تو ساڑھے تین لاکھ میں سے کمانے والا چالیس پچاس ہزار آدمی ہے جس کا مقابلہ ساری دنیا کی دو ارب آبادی سے ہے۔ اور یہ آبادی ایسی نہیں جو ہمارے کام کو محبت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ایسی آبادی نہیں جو ہمارے کام کو بے توجہی سے دیکھتی ہے بلکہ یہ دو ارب آبادی ایسی ہے جس کا اکثر حصہ جتنی ہمیں مٹانے کی کوشش کرتا ہے اُتنی ہی اُسے راحت محسوس ہوتی ہے۔ پس اِتنے بڑے دشمن کے مقابلہ میں اِتنی تھوڑی سی جماعت جب تک اپنی قربانیوں کو انتہا تک نہ پہنچا دے اُس وقت تک کامیابی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ اور اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دینے پر بھی کامیابی اِس لیے نہیں ہوگی کہ ہم نے اِس کام کے برابر قربانی کر دی ہے بلکہ اِس لیے ہوگی کہ جب ہم اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیں گے تو آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو یہ کام کریں گے۔ اور پھر بھی کامیابی ہمارے ہاتھ سے نہیں ہوگی بلکہ خدا کے ہاتھ سے ہوگی۔ پھر بھی کامیابی اُن تدبیروں کی وجہ سے نہیں ہوگی جو ہم زمین پر کریں گے بلکہ اُن تدبیروں سے ہوگی جو ہمارا خدا عرش پر کرے گا۔ اور اگر ایک دن نہیں، ایک گھنٹہ نہیں، ایک منٹ نہیں بلکہ ایک سیکنڈ بھی ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور اپنی تدبیروں سے کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہمارے مجنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کے لیے جب تک ہم اپنے آپ کو مُردوں کی طرح اُس کے دروازہ پر نہ ڈال دیں اُس وقت تک اُس کا فضل کھینچنے میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
پرسوں ہی انگلستان کی قربانیوں کی فہرست شائع ہو رہی ہے جو اس نے جنگ کے دوران میں کیں۔ ان کو پڑھ کر حیرت آ جاتی ہے۔ جتنی قربانیاں انہوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے کی ہیں وہ ہمارے لیے قابلِ غور ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی جنگ چند سال کے لیے ہے اور ہماری جنگ ہمیشہ کے لیے ہے مگر پھر بھی یہ تو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہماری قربانیوں کو ان کی قربانیوں سے کوئی نسبت تو ہو۔ انگلستان، سکاٹ لینڈ اور ویلز کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کی ہے اور اِس پانچ سال کے عرصہ میں ساڑھے چار کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس لاکھ سپاہی انہوں نے تیار کیا ہے۔ یعنی ہر دس آدمیوں میں سے ایک آدمی سپاہی بنا یا گیا ہے۔ ان کے ہاں دنیا کی جنگ میں جو مقام سپاہی کا ہے وہی مقام ہمارے ہاں دینی جنگ میں مبلغ کا ہے۔ اگر اِسی لحاظ سے ہماری جماعت مبلغ تیار کرے تو ہندوستان کی ساڑھے تین لاکھ کی آبادی میں سے پینتیس ہزار مبلغ ہونے چاہییں۔ کُجا پینتیس ہزار مبلغ اور کُجا مبلغوں کی موجودہ تعداد۔ اِس وقت ساری کی ساری مبلغوں کی تعداد ڈیڑھ سَو کے قریب ہے۔ پس جب اِس چھوٹے سے ملک نے جس کی زمین پر دشمن نے حملہ کیا، جس کے جسم پر دشمن نے حملہ کیا تو اِس حملہ کے دفاع کے لیے اس ملک نے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس لاکھ سپاہی گویا کُل آبادی کا دسواں حصہ سپاہی تیار کیے۔ اگر ہماری جماعت کو بھی خدا تعالیٰ توفیق دے اور دین کی جنگ کے لیے ہم پینتیس ہزار مبلغ تیار کر لیں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ پانچ دس سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ جائے اور پھر لاکھوں ہزاروں کا سوال ہی نہ رہے بلکہ ایک معقول عرصہ میں ہندوستان میں احمدیوں کی اکثریت ہوجائے۔ پھر انگلستان پر جو تباہی اور بربادی آئی ہے اُسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انگلستان کا کچھ بھی نہیں رہا۔ انگلستان میں کُل ڈیڑھ کروڑ مکان ہیں اور ڈیڑھ کروڑ مکانوں میں ساڑھے چار کروڑ آدمی رہتا ہے۔ اِس پانچ سال کے عرصہ میں یہ راز انگلستان کی حکومت نے چُھپائے رکھا جسے اب ظاہر کیا گیا ہے کہ پانچ سال کی جنگ میں انگلستان کے مکانوں کا ایک تہائی حصہ جرمنی کی بمباری سے تباہ ہوا یعنی پینتالیس لاکھ مکان برباد ہو گئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کی مالی قربانیوں کی فہرست جو شائع ہوئی ہے وہ بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے۔ جنگ سے پہلے انگلستان کے سینکڑوں آدمی کروڑ پتی تھے اورکروڑ کروڑ ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ روپیہ اُن کی سالانہ آمدنی تھی اور اب یہ حالت کہ جنگ میں ٹیکسوں کے ادا کرنے کے بعد صرف دو تین درجن آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کی سالانہ آمدنی پچھتر ہزار روپیہ ہے اور اب انہوں نے پچاس فیصدی تک جنگ کے لیے ٹیکس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گویا جس کو سَو روپیہ آمد ہوگی وہ پچاس روپیہ جنگ کے لیے ٹیکس ادا کرے گا، جس کی پچیس روپیہ آمد ہوگی وہ ساڑھے بارہ روپیہ ٹیکس ادا کرے گا۔پس ایسی ہی قربانی ہوا کرتی ہے جس کے ذریعہ کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے۔
ہماری جماعت بھی جب تک اِس عظیم الشان کام کے لیے جو اِس کے سپرد کیا گیا ہے اور اس اعلیٰ درجہ کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اِس کے سامنے ہے اپنی قربانیوں کو انتہا تک نہ پہنچا دے گی اُس وقت تک اِس کام میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔پس جہاں مَیں دفتر اول کو لمبا کرنے اور دفتر ثانی کو کھولنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ پانچ ہزار آدمی اَور آگے آئیں اور اپنے اموال اسلام کی خاطر پیش کریں وہاں مَیں جماعتوں کو یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری معمولی قربانیوں سے دین کو فتح حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ہمیں ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ہماری جماعت کے نوجوانوں میں بے انتہاء جوش نہ ہو کہ وہ آگے بڑھیں اور دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں اور جب تک ہماری جماعت میں بے انتہا جوش نہ ہو کہ وہ بڑھ بڑھ کر اپنے اموال خدا کی راہ میں پیش کریں اُس وقت تک کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔
یاد رکھو! یہ اموال ہمیشہ نہیں رہیں گے اور یہ زندگیاں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ کوئی انسان زندہ نہیں رہتا۔ ہم بھی اپنی زندگیاں بسر کرکے خدا کے پاس جانے والے ہیں۔ یہ تنگیاں ہمارے ساتھ نہیں جائیں گی بلکہ ہمارے چندے اور ہماری قربانیاں ہمارے ساتھ جائیں گی۔ یہاں کا کھایا ہوا ہمارے کام نہیں آئے گا بلکہ جو خدا کے رستہ میں خرچ کیا ہوا ہوگا وہی ہمارے کام آئے گا۔ پس ابدی اور دائمی زندگی حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھو۔ آپ لوگوں کا دعوٰی ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کے مثیل ہیں۔ مگر منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بنتا۔ وہ قربانیاں پیش کرو جو صحابہؓ نے پیش کیں۔ اُسی طرح اپنی جانیں خدا کی راہ میں پیش کرو جس طرح صحابہؓ نے پیش کیں۔ اُسی طرح اپنے اموال دین کے رستہ میں خرچ کرو جس طرح صحابہؓ نے خرچ کیے۔ اُسی طرح اپنے وطنوں کو قربان کرو جس طرح صحابہؓ نے اپنے وطنوں کو قربان کیا۔ اور دین کی خدمت کے لیے ہر وقت کمربستہ رہو جس طرح صحابہؓ ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ اور ہر طریق سے اپنی قربانیوں کو خدا کے حضور پیش کرو۔ اور جس طرح تم زبان سے کہتے ہو کہ ہمیں صحابہؓ کا مثیل بننے کا موقع ملا۔ خدا کرے وہ دن آئے کہ جب تم خدا کے حضور پیش ہو تو تمہارا خدا اور اُس کا رسول یہ کہے کہ یہ ہیں میرے صحابہؓ جو بعد میں آئے مگر اِن کی قربانیوں نے اِن کو صحابہ میں شامل کردیا۔ اور یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال اور اپنی عزتیں اور اپنے وطن اور اپنی ہر چیز کو خدا کی راہ میں قربان کردیا۔پس صحابیت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلے، صحابیت وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے نکلے، صحابیت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے۔ ہمارے منہ کی باتوں کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ قائم اور دائم اور ثابت رہنے والی عزت اور نیک نامی وہی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے ملے۔ سُکھ وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملے۔ عزت وہی ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ملے۔ نام وہی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے ملے۔ کاش! خدا اور اُس کے رسول کے نزدیک آپ اِس مبارک نام کے مستحق ہوں۔ خدا کرے کہ آپ اپنی جانوں، اپنے اموال اور اپنے وجود اور اپنی ہر ایک چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں تاکہ ہمارے خدا کے منہ سے نکلے کہ یہ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ۔ اور خدا اور اُس کے رسول کے منہ سے نکلے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنی ہر ایک چیز کو دین کی خاطر قربان کرکے اسلام کو زندہ کرنے والے ہیں"۔(الفضل6؍دسمبر 1944ء)


43
تحریک جدید کے مالی پہلو کے ساتھ ساتھ
دیگر مطالبات کی طرف بھی توجہ کریں
(فرمودہ8 دسمبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں آج پھر تحریکِ جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مگر اِس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے مَیں اِس آنے والے جلسہ سالانہ کے متعلق یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اِس سال کسی الٰہی مصلحت کے ماتحت عورتوں میں کثرت سے بیماریاں پائی جاتی ہیں اور یہ کثرت حیرت انگیز ہے۔ معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے بعض باریک قانون ایسے ہیں جن کو ابھی طب نہیں سمجھ سکی۔ بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ بوڑھوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ زیادہ حملہ بیماریوں کا نوجوانوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ زیادہ حملہ بچوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ مردوں پر ہوتا ہے، بعض دفعہ بیماریوں کا زیادہ حملہ عورتوں پر ہوتا ہے اور اس سال بیماریوں کا زیادہ حملہ عورتوں پر معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیماریوں کا حملہ عورتوں کے متعلق اِس سال ایسا حیرت انگیز ہے کہ ایک دن ایک ڈاک میں پانچ مختلف مقامات سے پانچ احمدی خواتین کی وفات کی خبریں آئیں اور ان سب کی وفات قریباً ایک ہی بیماری کے نتیجہ میں واقع ہوئی تھی۔ اور پانچ خواتین کی وفات کی اطلاع کے ساتھ چھ تار آئے اور ہر تار کے الفاظ یہی تھے کہ
Wife seriously ill, pray.
یعنی میری بیوی سخت بیمار ہے دعا کی جائے۔ ایک محدود ڈاک میں ایک دن میں ہی گیارہ ایسی اطلاعات کا ملنا جن میں سے پانچ اطلاعات وفات کی اور چھ سخت بیماری کی ہیں سخت حیرت انگیز بات ہےاور سب کی بیماری قریباً ایک ہی جیسی تھی۔ یعنی یا تو اِسقاط ہوا اور یا پھر زیادہ خون کا آنا لکھا تھا۔ علاوہ اِس کے عورتوں کی بیماری کی خبریں متواتر آ رہی ہیں۔ گو چند دنوں کی ڈاک میں زیادہ خبریں تو نہیں آئیں مگر پھر بھی متواتر ایسی خبریں آ رہی ہیں۔ خود قادیان میں بھی متواتر ایسے کیس ہوئے ہیں کہ اِسقاط ہو گیا یا غیرمعمولی طور پر خون کے زیادہ آنے کی وجہ سے وفات ہو گئی یا بیماری کا سخت حملہ ہو گیا۔ ایسے حالات میں عورتوں کے لیے جلسہ پر آنے کے لیے سفر کرنا مَیں سمجھتا ہوں مناسب نہ ہوگا۔ پچھلے سال بھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے مَیں نے اعلان کیا تھا کہ جہاں تک ہوسکے عورتیں نہ آئیں۔ مگر پھر بھی قادیان کے ساتھ محبت کے جوش میں عورتیں آ ہی گئی تھیں اور عورتوں کے جلسہ میں حاضری پہلے سالوں کی نسبت کم نہ تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔
اِس میں شبہ نہیں کہ اخلاص اور محبت انسان سے بہت کچھ قربانیاں کرا لیتی ہے۔ مگر اِس میں بھی شبہ نہیں کہ مومن کی جان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بہت قیمتی ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر مومن کی جان نکالنے کا فعل بہت گراں ہوتا ہے۔1 تو مومن کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔ خصوصاً عورتوں کی جان بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہے جو آئندہ نسل کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اِن حالات میں مَیں سمجھتا ہوں مجھے پچھلے سال سے زیادہ زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ اِس دفعہ عورتیں بِالعموم نہ آئیں۔ خصوصاً ایسی بیماری کے دنوں میں بچے بیماری کے اثر کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور یہ عورتوں میں بیماری کی وباء کا خاص موسم ہے۔ بارشیں بھی نہیں ہوئیں اور خشک سردی پڑ رہی ہے اور اِس وجہ سے بھی عورتوں اور بچوں کے بیماری کا شکار ہو جانے کا زیادہ موقع ہے۔ اور اِس سال ایک نئی بات یہ پیدا ہو گئی ہے کہ چونکہ گاڑیوں کے دروازوں میں اور پائیدانوں پر کھڑے ہو کر سفر کرنے کی وجہ سے ایسے حوادث ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں کئی اموات ہوتی رہی ہیں اِس لیے قریباً ایک ہی ہفتہ ہوا گورنمنٹ نے ایک نیا آرڈیننس جاری کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص گاڑی کے دروازہ میں یا پائیدان پر کھڑا ہو کر سفر کرتا ہوا پایا گیا تو اُسے قید کی سزا دی جائے گی۔ اور قادیان آنے کے لیے اول تو ویسے بھی گاڑیوں کا انتظام کم ہے اور پھر جب گاڑیوں کے کمروں میں عورتیں بھر جاتی ہیں تو مردوں کو مجبوراً باہر کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے اور گورنمنٹ نے جو حکم نافذ کیا ہے اُسے اُس نے ضرور پورا کرنا ہے اور دوسری طرف گاڑیوں کے اندر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مردوں کے لیے باہر کھڑے ہو کر سفر کرنے کے سوا چارہ نہ ہوگا۔ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمارے سینکڑوں آدمی بِلا وجہ اور بغیر کسی ایسے قانون کو توڑنے کے جس سے ملک کا امن برباد ہوتا ہو قید و بند کی مصیبت میں مبتلا ہو جائیں گے۔
پس عورتوں میں بیماری کی کثرت، بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے، خشک سردی کے باعث بچوں اور عورتوں کے بیماریوں کا شکار ہو جانے کے خطرہ اور گورنمنٹ کے اِس نئے قانون کی وجہ سے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کی عورتیں اِس سال جلسہ سالانہ پر نہ آئیں۔ اِس میں مَیں یہ استثنا کر دیتا ہوں کہ بعض لوگوں کے رشتہ دار کہیں دُور دراز مقامات پر باہر گئے ہوئے ہوتے ہیں اُن کے ہاں شادی وغیرہ کا موقع ہوتا ہے اور وہ جلسہ کے موقع پر ہی شادی کی تاریخ رکھ لیتے ہیں اور اِس وجہ سے اُن کی عورتوں کا آنا ضروری ہو جاتا ہے وہ آسکتی ہیں۔ یا جن عورتوں کے ساتھ بچے نہ ہوں یا جن کو سفر کی سہولتیں حاصل ہوں مثلاً وہ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کرسکتی ہوں یا موٹر میں کر سکتی ہوں وہ بھی اِس سے مستثنیٰ ہیں مگر عورتیں بالعموم اِس سال جلسے پر نہ آئیں سوائے کسی اشدّ ضرورت کے۔ مثلاً جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے شادی کی کوئی تقریب ہو یا اَور کوئی ایسی ہی ضرورت ہو۔ انسان کے لیے کوئی مکمل قانون بنانا مشکل ہوتا ہے۔ ممکن ہے کسی کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جو اِس وقت میرے ذہن میں نہ ہو۔ ایسی صورت میں تو عورتوں کو اجازت ہے اور ایسی ہی عورتیں آسکتی ہیں۔ یا پھر وہ عورتیں آسکتی ہیں جن کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے نہ ہوں۔ یا وہ آسکتی ہیں جن کو سواری کی سہولتیں میسر ہوں۔ ایسی عورتوں کے سواپنجاب کی عورتیں نہ آئیں۔ پنجاب سے باہر کے لیے مَیں نے یہ پابندی نہیں رکھی کیونکہ ان کے لیے قادیان آنے کا موقع جلسہ سالانہ ہی ہوتا ہے مگر پنجاب کی عورتیں دوسرے موقع پر بھی آسکتی ہیں۔ مثلاً مجلس شورٰی کے موقع پر مرد کم آتے ہیں اِس لیے عورتیں آسانی سے آسکتی ہیں۔ کیونکہ اُن کے لیے اُن ایام میں گاڑیوں میں زیادہ گنجائش نکل سکتی ہے اور وہ قادیان کو دیکھنے، یہاں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے اور برکت حاصل کرنے کے لیے آسانی کے ساتھ آسکتی ہیں۔ ایسے مواقع پر جب تکالیف کا وقت ہو حج بھی جو فرض ہے منع ہو جاتا ہے۔ احادیث اور کتب فقہ میں آتا ہے کہ حج صرف اُس کے لیے ہی کرنا فرض ہے جس کے پاس حج کے اخراجات کے لیے کافی رقم ہو اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی کافی خرچ دے سکتا ہو اور جسے سفر کے لیے ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہوں۔ اگر اِن شرائط کے بغیر کوئی حج کے لیے جاتا ہے تو چونکہ وہ حج کی شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے اِس لیے فقہ والوں کے نزدیک وہ گنہگار ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں حج کے متعلق ایک عام اصول بیان گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا2 یعنی جب تمام ضروری سامان مہیا ہوں تو حج کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔ تو جب ایسا موقع بھی ہوتا ہے کہ جب حج جو ایک فرض ہے منع ہو جاتا ہے تو ہمارا جلسہ تو بہرحال نوافل میں سے ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مومنوں کی جانیں نوافل کے لیے قربان کرنے کا خطرہ برداشت کیا جائے۔ جو مرد جلسہ پر آئیں وہ واپس جاکر وہ باتیں جو وہ یہاں سُنیں عورتوں کو سنا سکتے ہیں اور یہاں آنے سےعلوم میں زیادتی کا جو موقع عورتوں کو میسر آسکتا ہے اُسے وہ اپنے خاوندوں یا بھائیوں یا بیٹوں یا باپوں سے حاصل کرسکتی ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اصرار اور توجہ کے ساتھ میری اِس ہدایت پر کاربند ہونے کی کوشش کریں گی اور عورتوں کو اِس بات پر آمادہ کریں گی کہ وہ قربانی کریں اور اپنی اور اپنے مردوں کی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں۔ ہاں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں اور اشدّ ضرورت کے ماتحت جیسے کوئی شادی ہو۔ مثلاً کسی کا کوئی رشتہ دار جو فوج میں ملازم ہے جلسہ پر آیا ہے اور اُسے دو تین روز کی ہی رخصت ہے اور وہ جلسہ کےبعد گھر جاکر اپنے رشتہ داروں سے نہ مل سکے گا۔ایسے لوگوں کی رشتہ دار عورتیں آسکتی ہیں۔ ورنہ عام ہدایت یہی ہے کہ پنجاب کی عورتوں کو جلسہ پر آنے سے روکا جائے۔ سوائے اُن کے جن کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے نہ ہوں۔ اِس سے زیادہ عمر کے بچے ایک حد تک سفر کی تکالیف برداشت کرسکتے ہیں اور ان میں علم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر جن عورتوں کے ساتھ چھ سات سال سے کم عمر کے بچے ہوں وہ نہ آئیں اور جن کو سفر کی سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں وہ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اِس کے بعد مَیں تحریک جدید کی طرف دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں۔ جہاں اِس کا ایک پہلو مالی تھا وہاں کچھ اَور قیود بھی تھیں مثلاً سادہ زندگی اختیار کرنا اور کھیل تماشوں وغیرہ سے اجتناب۔ جہاں تک مجھے علم ہے جماعت کی اکثریت نے اِس پر عمل کیا ہے۔ مگر پھر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس نے پورے طور پر اِس پر عمل نہیں کیا۔ چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے دہلی سے ایک نوجوان کا خط مجھے ملا کہ یہاں بعض نوجوان سینما جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے نہ دیکھنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک قانون کا سوال ہے جبراً روکنے کا اختیار حکومت کو ہی ہوسکتا ہے ہمیں یہ اختیار نہیں۔مگر روکنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک روکنا محبت اور پیار کے ذریعہ ہوتا ہے۔ بچے اگر ماں باپ کی بات مانتے ہیں تو محبت اور پیار کی وجہ سے ہی مانتے ہیں ورنہ کونسا ایسا قانون یا قاعدہ ہے کہ جس سے ماں باپ بچوں کو مجبور کرکے حکم منوا سکتے ہیں۔ بسا اوقات بچے جوان ہوتے ہیں، خود کماتے ہیں اور ماں باپ کی بھی پرورش کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی ماں باپ اُن کو کوئی ہدایت کریں تو وہ اسے مانتے ہیں۔ اِس لیے نہیں کہ اگر وہ نہ مانیں تو ماں باپ مجبور کرکے منوا سکتے ہیں۔ بلکہ اِس لیے کہ ماں باپ کے ساتھ اُن کا تعلق محبت اور پیار کا ہوتا ہے۔ اِسی طرح ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے۔ کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں۔ بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمدیت میں خلافت ہمیشہ بغیر دنیوی حکومت کے رہنی چاہیے۔ دنیوی نظامِ حکومت الگ ہونا چاہیے اور خلافت الگ تا وہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کرسکے۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے کہ خلفاء کو ہمیشہ عملی سیاسیات سے الگ رہنا چاہیے اور کبھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہوجائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کی ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نِفاذ نہ ہوا تھا اور چونکہ شریعت کا نِفاذ ضروری تھا اِس لیے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کردیا گیا۔ اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ الگ الگ ہوں۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہمیں حکومت دے اُس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور ان سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپرد ہی رہنے دیں۔ پس اگر حکم کا سوال ہے تو میرا نقطۂ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری چلے تو مَیں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے پر بھی خلفاء اسے اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ انہیں اخلاق اور احکامِ قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہیے۔ پس اگر کوئی ہماری نصیحت کو نہیں مانتا تو اس طرح کا حکم تو جیسے حکومت کے احکام ہوتے ہیں نہ ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہم دے سکتے ہیں اور نہ اس کا نفاذ کراسکتے ہیں۔ اور میرے دل کا میلان یہ ہے کہ ایسے اختیارات کو لینا مَیں پسند ہی نہیں کرتا۔ اِس لیے ہم تو جب بھی کوئی بات کہیں گے محبت اور پیار سے ہی کہیں گے۔ اور اگر اس سے کوئی یہ استدلال کرتا ہے کہ حکم نہیں تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے احکام دینا نہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہی ہم ایسے احکام کے نفاذ کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور ایسے لوگ جو حکم تلاش کرتے ہیں وہ اِس جماعت میں داخلہ سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ فائدہ وہی حاصل کرسکتا ہے جو محبت کے تعلق کو قائم رکھے اور یہ نہ دیکھے کہ کوئی بات حُکماً کہی گئی ہے یا نہیں۔ بلکہ صرف یہ دیکھےکہ جس سے پیار ہے اُس کی بات کو وزن دینا ضروری ہے اور اُس کے نقشِ قدم پر چلنا لازمی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا گیا کہ آپ کی مجلس میں بعض ایسے لوگ بھی بیٹھتے ہیں جو داڑھیاں مُنڈواتے ہیں اور آپ اُن کو داڑھی مُنڈوانے سے روکتے بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا تعلق تو محبت کا ہے۔ جب اِن لوگوں کو ہمارے ساتھ محبت ہوگی اور یہ دیکھیں گے کہ ہم داڑھی رکھتے ہیں اور داڑھی کا رکھنا پسند کرتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی داڑھی تھی اور آپ اسے پسند کرتے تھے تو خودبخود رکھنے لگ جائیں گے اور اِس کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے گی کہ مجبور کرکے اِن کو داڑھی رکھوائی جائے یا کوڑے مار کر یا سزا دے کر رکھوائی جائے۔ جب اِن کے اندر عشق پیدا ہوگا تو اِس عشق کی وجہ سے یہ خودبخود رکھنے لگ جائیں گے۔3 تو بے شک اِن معنوں میں تو ہم نے حکم نہیں دیا کہ تماشے وغیرہ نہ دیکھے جائیں جن معنوں میں حکومت کے احکام ہوتے ہیں ورنہ ہدایت بھی حکم ہی ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کہاں یہ حکم دیا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھایا جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا کوئی ایسا حکم معیّن الفاظ میں ہی ہو تو اُس کو مانا جائے۔ ہر مومن جب دیکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے کھاتے تھے اور اسے پسند کرتے تھے اور بعض دوسروں کو آپ نے اِس کی ہدایت کی تو وہ اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے۔اور اگر وہ اس پر عمل نہیں کرے گا تو یقیناً اُس کے ایمان میں رخنہ پیدا ہوگا۔ تو یہ بات ہی غلط ہے کہ ہر بات کے لیے حکم ہی ہو تو اُس پر عمل ہوگا ورنہ نہیں۔ اگر ہر بات کے لیے حکم ہو تو وہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیں کوئی آقا تھا جو اپنے نوکروں پر بہت سختی کیا کرتا تھا۔ ایک شخص اُس کے پاس آکر نوکر ہوا اور اُس نے کہا کہ جناب مجھے لکھ کر دے دیجیے کہ مجھے کیا کیا کام کرنے ہوں گے۔ اگر مَیں ان میں سے کسی میں بھی کوتاہی کروں تو جو سزا چاہیں دیں۔ اور اگر مَیں آپ کے وہ تمام احکام بجا لاؤں تو پھر آپ کو خفگی کا کوئی حق نہ ہوگا۔ آقا بے وقوف تھا وہ دھوکے میں آ گیا اور اُس نے خیال کیا کہ اب یہ اچھی طرح قابو آجائے گا۔ وہ لکھنے بیٹھ گیا اور بہت دیر تک سوچ سوچ کر اُس نے ایک لمبی فہرست تیار کی اور نوکر کو دے دی۔ نوکر کچھ دن وہ تمام کام کرتا رہا۔ ایک دن آقا گھوڑے پر سوار تھا اور نوکر ساتھ چلا جا رہا تھا کہ گھوڑا بِدک گیا اور ایسا بھاگا کہ آقا نیچے گر گیا۔ مگر اُس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنسا رہ گیا۔ گھوڑا بھاگا جا رہا تھا اور وہ ساتھ ساتھ گِھسٹتا جا رہا تھا۔ اُس نے نوکر کو آواز دی کہ بھاگ کر آؤ اور میرا پَیر رکاب میں سے نکالو۔ نوکر نے جیب سے اُس کے تحریر کردہ احکام کی فہرست نکالی اور کہا :۔
دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں۔
اب بھلا یہ بات کس کے ذہن میں آسکتی ہے کہ یہ بھی لکھ دوں کہ اگر مَیں کبھی گھوڑے سے گِر پڑوں اور پاؤں رکاب میں پھنس جائے تو اسے نکالنا بھی تمہارا فرض ہے۔ تو اِس قسم کا تعلق بالکل بے معنی ہوتا ہے۔ کسی کا باپ، بیٹا، بھائی یا کوئی اَور عزیز اِس طرح گر رہا ہو اور وہ ساتھ ہو تو خواہ اُسے کوئی حکم نہ بھی ہو وہ فوراً بھاگ کر اُس کی مدد کو پہنچے گا۔بلکہ اگر کوئی تعلق رشتہ داری کا نہ ہو تب بھی انسان ایسی حالت دیکھ کر بے تاب ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں سارا تعلق احکام پر ہی ہو وہاں یہی مثال صادق آتی ہے جو اس آقا اور نوکر کی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جب عمرہ کے لیے گئے تو حدیبیہ کے مقام پر کفار نے ان کو روکااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق یہی مناسب سمجھا کہ صلح کر لی جائے۔ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے مکہ کا ایک سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بات چیت کرنے لگا۔ آپ اُس کی پیش کردہ شرائط پر جرح فرماتے اور بعض شرائط کے متعلق فرماتے کہ یہ سختی ہے اسے بدلو۔ وہ بعض دفعہ آپ کی بات مان لیتا اور بعض دفعہ زور دیتا کہ آپ اُس کی بات مان لیں۔ وہ بوڑھا آدمی تھا اِس لیے بعض اوقات کہتا کہ دیکھو مَیں باپ کی جگہ ہوں میری بات مان لو اس میں آپ کے لیے فائدہ ہے۔ اور باتیں کرتے وقت وہ کبھی آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا اور کہتا کہ میری یہ بات مان لیں۔ یہ عام طریق ہے کہ بڑی عمر کے آدمی جب کسی سے کوئی بات کرنے لگتے ہیں تو کبھی اپنی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو! میری اِس داڑھی کا لحاظ کرو اور میری بات مان لو اور کبھی دوسرے کی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اب یہ کوئی شریعت کا حکم نہیں تھا کہ اگر کوئی کافر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگائے تو صحابہؓ کا فرض ہے کہ اُسے روکیں۔ مگر محبت خود حکم تجویز کر لیتی ہے۔ جب اُس نے دو تین بار اِس طرح آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا تو ایک صحابی سے نہ رہا گیا اور اُنہوں نے آگے بڑھ کر تلوار کا کُندا اُس کے ہاتھ پر مار کر اُس کا ہاتھ ہٹا دیا اور کہا اپنا ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریشِ مبارک کو مت لگاؤ۔ اب جہاں تک عمر کا سوال ہے یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر کے آدمیوں سے بات کرتے وقت کبھی اپنی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں اور کبھی دوسرے کی داڑھی کو۔ اور گو وہ شخص عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا تھا مگر صحابہؓ کے نزدیک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کے مقابل میں اُس کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔اُس صحابی نے جب اِس طرح اُس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا تو اُس نے نظر اوپر اٹھا کر اُس صحابی کی طرف دیکھا۔ اُنہوں نے خَود پہنا ہوا تھا جس سے چہرہ ڈھکا ہوا تھا صرف آنکھیں ننگی تھیں۔ اِس لیے اُسے پہچاننے میں کچھ دیر لگی مگر اُس نے پہچان لیا اور کہاکہ کون؟ کیا تم فلاں کے بیٹے ہو؟ اُس صحابی نے کہا ہاں۔ اُس نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسا سلوک کرتے ہو؟ تمہارے خاندان پر میرے یہ یہ احسانات ہیں پھر تم نے یہ حرکت کیسے کی؟ واقع میں وہ محسن طبیعت کا آدمی تھا، سب کی خدمت کیا کرتا تھا اور قریباً سب اہل مکہ اُس کے زیرِ احسان تھے۔ عربوں بالخصوص مسلمانوں میں احسان کی بڑی قدر تھی اِس لیے گو صحابؓہ کے دل یہ دیکھ کر کہ وہ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا تھا جل رہے تھے مگر اُس کے احسانات کی وجہ سے خاموش تھے اور وہ پھر بڑے جوش سے باتیں کرتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیتا اور کہتا کہ دیکھو! مَیں عرب کا باپ ہوں میری یہ بات مان لو اِس میں آپ لوگوں کا فائدہ ہے۔ وہ اِس طرح باتیں کررہا تھا کہ جس طرح بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر والوں سے باتیں کیا کرتے ہیں اور صحابہؓ میں سے کسی کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ اُسے روکیں کیونکہ قریباً سب مکہ والے اُس کے زیر احسان تھے۔ اُس نے دو تین بار جو اِس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا تو صحابہؓ میں سے ایک آگے بڑھا اور اُس کے ہاتھ کو پیچھے ہٹا کر کہا کہ اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا۔ تُو کون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اُس نے اس صحابیؓ کی طرف دیکھا اور پھر پہچان کر کہا کہ کون ہے؟ ابوبکر ابوقحافہ کا بیٹا؟ اور پھر کہا کہ بے شک تمہارا حق مجھے روکنے کا ہے۔ تمہارے خاندان پر بے شک میرا کوئی احسان نہیں۔4 حضرت ابوبکرؓ کی طبیعت شرمیلی تھی مگر آپ سمجھ گئے کہ اُس شخص کو روکنے کی جرأت اب کوئی صحابی نہیں کرسکتا۔ مَیں ہی ہوں جس پر اس کا کوئی احسان نہیں اور اس لیے آگے بڑھ کر اسے روک دیا۔ تو اب یہ کونسا حکم تھاکہ اگر کوئی کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دے تو اُسے روکا جائے۔ یہ صرف محبت کا ہی تعلق تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منع فرماتے تب بھی صحابہؓ کے دل اِس موقع پر اُبلنے ضروری تھے۔ آخر جب معاہدہ تحریر کیا جانے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لکھوایا کہ مَیں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اہل مکہ کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہوں۔ اِس پر اُس شخص نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو پھر کسی معاہدہ کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر تو ہم آپ پر ایمان ہی لے آتے۔ پس اِس معاہدہ میں جو دو فریقوں کے درمیان ہو رہا ہے رسول اللہ لکھنے کے کیا معنے ہیں۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لکھنے والے سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر اِس کی بجائے محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علیؓ لکھنے والے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ مَیں تو رسول اللہ کا لفظ کاٹنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اب یہاں تو حکم بھی تھا کہ یہ لفظ کاٹ دو مگر حضرت علیؓ کی محبت نے اُنہیں ایسا نہ کرنے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن سے فرمایا کہ لاؤ کاغذ مجھے دو اور اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا۔5 تو یہاں بظاہر حُکمبھی تھا مگر اس حُکم کے ہوتے ہوئے بھی حضرت علیؓ اُسی رستہ پر چلے جو محبت اور ادب کا رستہ تھا۔ مگر چونکہ کفار کا یہ اعتراض صحیح تھا کہ اگر ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے تو پھر آپ سے کوئی معاہدہ ہی کیوں کرتے۔ معاہدہ کرنے کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے اِس لیے اِس معاہدہ میں وہ لفظ نہیں لکھا جانا چاہیے جو ہم مانتے ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن الفاظ کو خود کاٹ دیا۔ یہ آپ کا انصاف تھا۔
مگر آج احرار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارہ میں یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ جب امرتسر کے جلسہ میں ایک معزز سکھ نے حضرت محمدؐ صاحب کہا تو وہ گالیاں دینے لگ گئے کہ حضرت محمدؐ صاحب کیوں کہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیوں نہیں کہتے؟ حالانکہ اُن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنا نمونہ موجود تھا کہ جب کفار نے رسول اللہ کے لفظ پر اعتراض کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ دیا۔ مگر جس فیصلہ کا اعلان آج سے چودہ سو سال قبل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما چکے ہیں یہ احراری آج اسے رد کر رہے ہیں اور پھر اِس طرزِ عمل کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ محبت کا دعوٰی بھی کرتے ہیں۔ اور نادان اِتنا نہیں سمجھتے کہ اگر وہ شخص آپ کو رسول اللہ مانتا تو پھر سکھ کیوں رہتا مسلمان کیوں نہ ہو جاتا۔ اُس کا حق یہی تھا کہ "حضرت محمدؐ صاحب" کہہ دیتا اور مسلمانوں کو اُس کا ممنون ہونا چاہیے تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام احترام کے ساتھ لیتا ہے۔ مگر احراریوں نے شور مچا دیا اور گالیاں دینے لگے حالانکہ خود مسلمانوں کے لٹریچر میں کئی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر صرف محمدؐ اور احمدؐ کہہ کر کیا گیا ہے۔ گو یہ محبت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک ضمنی بات تھی اور یہ مثال میں نے اِس لیے دی ہے کہ جہاں محبت کا تعلق ہو وہاں حکم تلاش نہیں کیے جاتے بلکہ ہدایت اور منشاء کو تلاش کرکے پیچھے چلنا ضروری ہوتا ہے۔
احادیث میں اس کی ایک اَور مثال بھی ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ بعض لوگ کناروں پر دیواروں کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ اس لیے پیچھے کے لوگ آواز کو سن نہ سکتے تھے۔ آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ جب آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گلی میں آرہے تھے وہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ "بیٹھ جاؤ" آپ کے کان میں پڑے اور آپ وہیں بیٹھ گئے اور پھر جس طرح بچے گِھسٹ گِھسٹ کر چلتے ہیں گھسٹنے لگے اور اِسی حالت میں خطبہ گاہ کی طرف آنے لگے۔ پیچھے سے ایک اَور صحابی آئے اور اُنہوں نے کہا عبداللہ! یہ کیا بے ہودہ حرکت کر رہے ہو؟تم تندرست اور توانا آدمی ہو یہ کیا حرکت کر رہے ہو؟ حضرت عبداللہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ ارشاد میرے کان میں پڑا تھا کہ "بیٹھ جاؤ" اور مَیں نے سوچا کہ اگر خطبہ گاہ تک پہنچنے سے قبل میری موت واقع ہوجائے تو مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس حکم پر عمل کیے بغیر ہی مر جاؤں گا۔ اس لیے مَیں نے ضروری سمجھا کہ فوراً ہی اِس حکم پر عمل کرلوں۔6 حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ یہ حکم حضرت عبداللہؓ کے لیے نہ تھا بلکہ اُن لوگوں کے لیے تھا جو کناروں پر کھڑے تھے۔ مگر پھر بھی جونہی آپ کے یہ الفاظ کہ "بیٹھ جاؤ" اُن کے کان میں پڑے ایک عاشقِ صادق کی طرح وہ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور اِس طرح چلنے لگے کہ جس طرح سنجیدہ لوگ عام طور پر نہیں چلتے۔ اور یہی مناسب سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء مبارک مجھے بھی پورا کرنا چاہیے۔ گو آپؐ کی مراد مجھ سے نہیں۔
قرآن کریم میں حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے کوئی مشورہ لو تو پہلے صدقہ دے لیا کرو۔7 کہتے ہیں حضرت علیؓ نے اِس حکم سے پہلے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مشورہ نہ لیا تھا۔ مگر جب یہ حکم نازل ہوا تو حضرت علیؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ رقم بطور صدقہ پیش کرکے عرض کیا کہ مَیں کچھ مشورہ لینا چاہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے الگ جاکر حضرت علیؓ سے باتیں کیں۔ کسی دوسرے صحابی نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ کیا بات تھی جس کے متعلق آپ نے مشورہ لیا؟حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ کوئی خاص بات تو مشورہ طلب نہ تھی مگر مَیں نے چاہا کہ قرآن کریم کے اِس حکم پر بھی عمل ہوجائے۔شیعہ اِس واقعہ سے دوسرے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکالتے ہیں۔ مگر اُن کی یہ بات بالکل لغو ہے۔ یہ واقعہ حضرت علیؓ کی محبت کا ثبوت ضرور ہے مگر اِس میں دوسرے صحابہؓ کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں۔ شیعہ لوگ اِس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن کریم میں ءَاَشۡفَقۡتُمۡ کا جو لفظ آیا ہے یعنی کیا تم اِس بات سے ڈر گئے ہو کہ مشورہ لینے سے پہلے صدقہ دے لیا کرو۔8 اِس سے مراد یہ ہے کہ صحابہؓ صدقہ کے حکم سے ڈر گئے تھے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حکم پہلے دن نازل ہوا کہ مشورہ لینے سے پہلے صدقہ دے لیا کرو اور دوسرے دن اسے منسوخ کرنے والا حکم نازل ہو گیا۔ کیونکہ صحابہؓ اِس بات سے ڈر گئے تھے کہ اب انہیں صدقہ دینا پڑے گا مگر حضرت علیؓ نے اِس حکم پر عمل کیا۔ حالانکہ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ حضرت علیؓ نے زیادہ سے زیادہ ایک دینار صدقہ دے دیا ہوگا۔ مگر صحابہؓ میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چندہ کی تحریک فرمائی۔ حضرت عمرؓ نے چاہا کہ اس تحریک میں مَیں ابوبکرؓ سے بڑھ جاؤں۔ چنانچہ وہ اپنا نصف مال لے آئے۔ وہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ پہلےسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچ چکے تھے اور اپنا چندہ پیش کر چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن سے کہا ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور رسول کا نام ہی گھر میں چھوڑا ہے اور کچھ نہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے دل میں کہا کہ مَیں اِن سے بڑھ نہیں سکتا۔9 تو جن لوگوں نے اپنے سارے مال اور نصف مال پیش کر دیے کوئی اندھا اور نادان ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک دینار پیش کرنے سے ڈر گئے۔
ایک غزوہ کی تیاری کے لیے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چندہ کی تحریک کی تو حضرت عثمانؓ نے بارہ ہزار دینار پیش کیے۔ 10 پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ ایک دینار بطور صدقہ پیش کرنے سے ڈر گئے۔ شیعوں کی یہ بات صرف صحابہؓ سے بُغض اور کینہ کا نتیجہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک نیکی کا خیال حضرت علیؓ کو آیا اور اُنہوں نے اِس پر عمل کیا۔ مگر یہ نہیں کہ اِس واقعہ سے دوسرے صحابہؓ کی تنقیص ثابت ہوتی ہے۔
بعض دفعہ کسی کو ایک نیکی کا خیال آ جاتا ہے اور وہ اُس پر عمل کر لیتا ہے مگر اِس سے دوسروں پر اُس کی فضیلت ثابت نہیں ہوسکتی۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جنت کا ایک مقام ایسا ایسا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے وہ مقام عطا کرے گا۔ یہ بات سنتے ہی ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور عرض کیا یارسولَ اللہ! دعا فرمائیں مَیں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم بھی میرے ساتھ ہوگے۔ یہ سن کر ایک اَور صحابی کھڑے ہوئے اور کہا یَارسولَ اللہ! میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ مَیں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا جس نے اِس سے فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا۔11 اب تو ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے۔ تو کسی نیکی کا خیال بعض اوقات کسی کو آ جاتا ہے اور کسی دوسری نیکی کا خیال کسی دوسرے کو آ جاتا ہے۔ یہ موقع اس آیت کی تفسیر کا نہیں ہے اِس لیے مَیں اِس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا۔ مگر بہرحال یہ اعتراض خلافِ عقل اور خلافِ واقعہ ہے۔ ہاں ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت علیؓ کو ایک نیکی کا خیال آگیا اور اُنہوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھا لیا۔ مگر یہ بات بالکل غلط ہے کہ دوسرے صحابہؓ ڈر گئے تھے۔ جن لوگوں نے اپنے نصف اموال پیش کر دیے بلکہ جنہوں نے سارے اموال دے دیے اور ایک ایک تحریک میں بارہ بارہ ہزار دینار دیے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک دینار پیش کرنے سے ڈر گئے۔ تو مومن یہ نہیں دیکھا کرتا کہ حکم کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ بات کی غرض و غایت کیا ہے اور پھر اُس پر عمل کرتا ہے اور اُس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سینما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اِس زمانہ کی بدترین *** ہے۔ اِس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گویّا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے۔ مَیں ادبی رسالے وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں اور مَیں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور اُن کے اخلاق اور اُن کا مذاق ایسا گندا ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ سینما والوں کی غرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا۔ اور وہ روپیہ کمانے کے لیے ایسے لغو اور بے ہودہ فسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفاء جب ان میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی جن کو وہ سینما دیکھنے کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور سینما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کُن اثر ڈال رہے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر مَیں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خودبخود اِس سے بغاوت کرنی چاہیے۔
اِسی طرح سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک ہے۔ گو یہ بھی حکم نہیں بلکہ بعض حالات میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 12 اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ہے تو انسان کے بدن پر بھی اُس کا اثر ظاہر ہونا چاہیے۔13 مگر آج اسلام کے لیے قربانیوں کا زمانہ ہے اور ایسا زمانہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اسلام کی خاطر قربانی کرنے کی غرض سے جائز خواہشات کو بھی جہاں تک چھوڑ سکیں چھوڑ دیں۔ جب تک ایسا نہ کیا جائے اسلام کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔ آج ہمیں جائز خواہشات کو بھی اسلام کے لیے ترک کردینا چاہیے۔ اسلام مَیں نے نازل نہیں کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے بھی یہ نہیں یہ تو خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ مَیں تو صرف اِس کی خدمت کرنے والا ہوں۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے پیغامبر تھے۔ اِس کی ذمہ داری صرف مجھ پر نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بھی نہیں خود قرآن کریم آپؐ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تُو داروغہ نہیں14 حالانکہ آپ اسلام لانے والے تھے اور آپ کو حکم تھا کہ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ15 اور اِس لحاظ سے اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہے۔ اور جب اِن کے متعلق اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ تُو نگران، محافظ اور ذمہ دار نہیں تو مَیں کس طرح ذمہ دار ہوسکتا ہوں۔ مَیں تو صرف بات پہنچاتا ہوں۔ جن کے دل میں عشق اور محبت ہے اُن کو خودبخود اِس پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن جس کے دل میں محبت اور عشق نہیں اُن کو اگر ہزار حکم بھی دیے جائیں تو بھی وہ عمل نہیں کریں گے۔ اثر تو عشق اور محبت کے نتیجہ میں ہوتا ہے کسی کے حکم دینے یا زور دینے سے نہیں ہوسکتا۔
ایک دفعہ ایک چندہ کے لیے تحریک کرنی تھی۔ مَیں نے ایک دوست سے کہا کہ اِس کے لیے تحریک لکھیں۔ اور چونکہ وہ نرم طبیعت کے آدمی تھے مَیں نے کہا کہ ذرا زور دار تحریک لکھیں۔ اُن کی تو طبیعت ہی نرم تھی زور دار اُنہوں نے کیا لکھنا تھا اُنہوں نے تحریک لکھی وہ شائع ہوئی تو بعض دوستوں نے مجھے آکر کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اِس تحریک میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں کہ مَیں زور سے کہتا ہوں۔ تو اِس طرح زور دینے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ جو کچھ ہوتا ہے دل کی محبت اور عشق سے ہوتا ہے۔ جس کے دل میں محبت ہے اُس کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے اور جس کے دل میں محبت ہی نہیں اُسے خواہ کتنے زور سے تحریک کی جائے اُس پر اثر نہ ہوگا۔ بلکہ جس کے دل میں محبت ہی نہیں اُس پر تو لاٹھی سے بھی کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔
پس جن لوگوں کے قلوب میں محبت ہے، اسلام کی خدمت کا احساس ہے اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں۔ اور ایسا بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ خدمتِ اسلام کرنے کے قابل ہوسکیں اور دنیا میں حقیقی مساوات قائم کرسکیں جس کے بغیر دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اور جب تک حقیقی مساوات قائم نہیں ہوتی دنیا سے مفاسد، تفرقے اور عیاشی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں محبت ہے وہ الفاظ کو نہیں دیکھتے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا حکم دیا گیا ہے یا حکم نہیں دیا گیا بلکہ وہ بات کی غرض و غایت کو سمجھتے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے اِس اقرار کو دیکھتے ہیں جو اُنہوں نے بیعت کے وقت کیا تھا۔ مگر جن کے دلوں میں محبت نہیں اُن پر میرے الفاظ کیا اثر کرسکتے ہیں اُن پر تو قرآن کریم بھی اثر نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم آہستہ آہستہ نازل ہوا تا دلوں پر اثر کرے۔ ابوجہل نے قرآن سنُا مگر اُس پر کوئی اثر نہ ہوا، عتبہ و شیبہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مگر ہزاروں لوگ ایسے ہیں کہ ایک ایک آیت کو ہی سُن کر ایمان لے آئے۔ پس ایمان تو تمہارے دلوں سے ہی پیدا ہوگا میرے الفاظ سے نہیں۔مَیں تو صرف معلّم ہوں اور مَیں نے بات پہنچانی ہے۔ اِس پر عمل کرنے کا جوش تمہارے اندر سے پیدا ہوگا۔ اور یہ جوش محبت اور عشق کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر محبت ہی نہیں تو ہزار حکم بھی بیکار ہیں۔ ارشادات کا بھی کوئی فائدہ نہیں اور توجہ دلانا اور زور دینا بھی بے سُود ہے۔ لیکن اگر حقیقی محبت اور عشق پیدا ہوجائے تو مَیں ایک لفظ بھی نہ بولوں پھر بھی تم پروانوں کی طرح دَوڑے آؤ گے۔ پس اصل سوال تو دل کی محبت کا ہے احکام کا نہیں۔ اگر محبت نہیں تو سارا قرآن سنانے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ لیکن اگر محبت پیدا ہوجائے تو دنیا خواہ تمہیں روکنے کے لیے پورا زور لگائے پھر بھی تمہارا قدم اُسی طرف اٹھے گا جس طرح کہ روکتے روکتے بھی پروانے شمع پرہی آ گرتے اور اپنی جانیں فدا کر دیتے ہیں"۔ (الفضل12؍دسمبر، 1944ء)


44
جلسہ سالانہ کے متعلق ضروری ہدایات
(فرمودہ 15 دسمبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تو دس دن تک ہمارا جلسہ سالانہ شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ ایام میں بوجہ جنگ کے نئے مکانات کا بننا قریباً ناممکن ہو گیا ہے اور اِس وجہ سے قادیان میں بہت ہی کم مکانات کی زیادتی ہوئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف جنگ پر جانے والے لوگوں میں سے ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو قادیان بھجوا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے قادیان کی آبادی زیادہ ہو گئی ہے اور مکانوں کی تنگی پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ اِن حالات میں جلسہ سالانہ کے لیے مکانوں کا انتظام ایک نہایت ہی مشکل امر ہو جاتا ہے۔ میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ کچھ عرصہ سے شہریت کا بھی اثر قادیان میں ہو رہا ہے۔ جس تنگی کو قادیان کے لوگ پہلے خوشی سے برداشت کر لیتے تھے اب اسے برداشت کرنے کی عادت کم ہوتی جاتی ہے۔ جلسہ کے دنوں میں قادیان کے لوگ پہلے جو قربانی کرتے تھے اب شہری تمدن کے باعث اُس میں کچھ کمی آتی جاتی ہے۔ پہلے تو اِس طرح ہوتا تھا کہ جس گھر کے دو کمرے ہوں اُس کے ایک کمرہ میں عورتیں ہوجاتی تھیں اور مہمان عورتوں کو اپنے ساتھ لے لیتی تھیں اور ایک کمرہ میں مرد مہمان مردوں کو اپنے ساتھ لے کر گزارہ کر لیتے تھے۔ مگر اب مَیں محسوس کرتا ہوں کہ اِس قسم کا تمدن نہیں رہا اور مہمانوں کے لیے تکالیف اُٹھانا کسی قدر کم ہو رہا ہے جو اچھی علامت نہیں۔ اگرچہ ابھی تغیر بہت تھوڑا ہے مگر جب بیماریاں شروع ہوتی ہیں تو پہلے تھوڑی تھوڑی شروع ہوتی ہیں اور بہت معمولی معمولی نظر آتی ہیں اور دیکھنے والے اُنہیں دیکھ کر یہی کہہ دیتے ہیں کہ کیا حرج ہے۔ مگر پھر وہی بڑھتے بڑھتے ایسی صورت اختیار کر لیتی ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا اور ان کو مٹانا مشکل ہوجاتا ہے۔
وہی تمدن جو آج ہندوستان کے گاؤں میں رائج ہے آج سے تین چار سَو سال قبل یورپ میں یہی تمدن رائج تھا۔ پرانی تاریخیں اور کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کی خبر گیری کرنا، ہمسائیوں کے آرام کا خیال رکھنا اور مہمانوں کے آنے پر گھر والوں کا ایک ہی کمرہ میں جمع ہو جانا یہ سب باتیں یورپ والوں میں پائی جاتی تھیں۔مگر آج ایسا تغیر اُن کے تمدن میں ہو چکا ہے کہ اگر ماں باپ کے پاس بیٹا بھی آئے تو وہ ناپسند کرتے ہیں کہ وہ اجازت لیے بغیر اور یہ پوچھے بغیر کہ وہ اُسے کتنے دن اپنے پاس ٹھہرا سکیں گے آجائے۔ اور بسااوقات اگر وہ آکر ٹھہرے تو اُس کے ٹھہرنے کے بعد اُسے خرچ کا بل پیش کردیا جاتا ہے کہ تمہارے کھانے وغیرہ پر اِتنا خرچ آیا ہے یہ رقم ادا کرو۔ امراء کی حالت تو اَور ہے۔ اُن کی مہمان نوازی تو ساری سیاسی ہوتی ہے اور پھر اُن کے پاس سرمایہ بھی ہوتا ہے۔ مگر معمولی طبقہ کے لوگوں کے درمیان اور اوسط طبقہ کے لوگوں کے درمیان یہ طریق رائج ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی خرچ لے کر اُن کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور اُن کا کوئی قریب ترین رشتہ دار بھی اگر آئے تو وہ ایک حدبندی کے ساتھ اُسے اپنے پاس ٹھہراتے ہیں۔ماں بیٹی کو خط لکھے گی کہ تمہیں ملنے کو دل چاہتا ہے اور اِس لیے ہم نے یہ انتظام کیا ہے کہ تم تین روز کے لیے یہاں آ جاؤ۔ اگر اِس طرح ہندوستان میں کوئی ماں اپنی بیٹی کو وقت معیّن کرکے بُلائے تو وہ شاید آنا بھی پسند نہ کرے۔ یہاں اگر کسی کا بیٹا، بیٹی یا اَور کوئی رشتہ دار آئے تو وہ اصرار کرتے ہیں کہ ابھی اور ٹھہرو۔ مگر وہاں یہ حال نہیں۔ وہاں اگر کوئی آسودہ حال آدمی ہے تو اس نے مہمانوں کے لیے الگ کمرہ رکھا ہوگا اور اُسی میں رشتہ داروں کو باری باری ٹھہرائیں گے۔ یہ نہیں کہ جو کوئی چاہے آجائے اور جتنا عرصہ چاہے ٹھہرا رہے۔ یہ تمدن کہ ہر ایک کے لیے الگ کمرہ، الگ غسل خانہ اور الگ پاخانہ ہونا چاہیے اور یہ تمدن کہ مہمانوں کو آرام پہنچانے کے لیے گھر کی عورتیں ایک کمرہ میں ہو جائیں اور مہمان عورتوں کو ساتھ لے لیں اور مرد الگ ہو کر مہمان مردوں کے ساتھ گزارہ کر لیں اِن دونوں تمدنوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا۔ اور اگر ہمارے اِس تمدن میں تغیر پیدا ہوجائے تو ہمارے لیے بہت مشکل پیش آئے گی۔
پس مَیں وقت پر قادیان کی جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں۔اب تک وہ جس قسم کی قربانی کرتی آئی ہے آئندہ اُس میں زیادتی ہونی چاہیے کمی نہ ہونی چاہیے۔ جو تمدن اِس میں حائل ہوتا ہے، جو تمدن قربانیوں میں روک بنتا ہے وہ شیطانی ہے آسمانی نہیں اور وہ ناجائز ہے جائز نہیں۔ جو چیز نیکی سے محروم کرتی اور جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک بنتی ہے وہ شیطانی ہے خدائی نہیں ہوسکتی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اگر قادیان کے دوست انتہائی قربانی سے کام نہ لیں تو ہمارا جلسہ سالانہ جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا انتظام کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جُوں جُوں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی جاتی ہے ہمارا سالانہ اجتماع بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ بیسیوں سے سینکڑوں تک پہنچا اور سینکڑوں سے ہزاروں تک اور اب وہ درجنوں ہزاروں تک پہنچ چکا ہے۔ اور کوئی زمانہ آئے گا جب وہ لاکھوں اور شاید کروڑوں تک پہنچ جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اِتنے لوگوں کے لیے نئے مکانات تیار نہیں کرائے جاسکتے۔ اگر جلسہ کے مہمانوں کے لیے الگ مکانات بنوائے جائیں تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ بعض نئے محلے صرف جلسہ کے لیے تعمیر ہوں جو سال میں تین چار روز آباد اور پھر سارا سال ویران پڑے رہیں۔ اور یہ ممکن نہیں کہ جلسہ کے لیے الگ محلے بنوائے جائیں۔ پس ہماری حالت دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو یہ کہ جلسہ میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے یہ کوشش کریں کہ لوگ کم سے کم آئیں اور یا پھر قربانی کے معیار کو بلند کرتے جائیں اور جتنے بھی مہمان آئیں دوست اُن کی رہائش کے لیے اپنے گھروں میں انتظام کرنے کے لیے تیار ہوں۔پس مَیں دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ اِس موقع پر جبکہ آبادی بڑھ چکی ہے اور مکانات نہیں بڑھے اور جبکہ مہمان جنگ سے پہلے زمانہ کی نسبت زیادہ آتے ہیں مکانوں کی تنگی کی وجہ سے اپنے دلوں کو زیادہ پھیلائیں۔ اور اگر وہ اپنے دلوں کو زیادہ پھیلا لیں تو مکانوں کی تنگی محسوس نہ ہوگی۔ لیکن اگر وہ اپنے دلوں کو نہ پھیلائیں گے تو مکانوں کی تنگی اُن کو بھی محسوس ہوگی اور آنے والے مہمانوں کو بھی۔ اور منتظمین کو بھی تنگی محسوس ہوگی۔ اور اگر مکانوں کی تنگی کی وجہ سے تکلیف ہونے کے باعث جلسہ کے موقع پر مہمانوں کے آنے میں کمی ہو گئی تو یہ گناہِ عظیم قادیان کے باشندوں کے سر ہوگا۔
دوسری نصیحت جو مَیں جلسہ کے سلسلہ میں کرنا چاہتا ہوں اور جو گزشتہ سال بھی کی تھی یہ ہے کہ یہ سخت گرانی کا زمانہ ہے۔ ایک روپیہ کی چیز کی قیمت اِس وقت پانچ روپیہ ہے۔ پہلے جلسہ سالانہ کا خرچ بیس اکیس ہزار روپیہ ہوتا تھا۔ مگر اب جلسہ سالانہ کا بجٹ چھپن ہزار روپیہ ہے۔ یہ چھپن ہزار روپیہ کی رقم اگر جماعتیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو چندہ سے وصول ہوسکتی ہے۔ ہمارے چندہ عام کی رقم چھ لاکھ روپیہ کے برابر ہوتی ہے اور اگر چندہ جماعت کی آمد کا سولہواں حصہ بھی سمجھا جائے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ آمد چھیانوے لاکھ روپیہ ہے۔ مگر اِس چندہ میں چونکہ وصیت وغیرہ کی رقم بھی ہوتی ہے اُسے اگر الگ کر دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جماعت کی آمد اسّی لاکھ روپیہ ہے۔ گو یہ اندازہ ہے بالکل غلط۔ میرے خیال میں ہماری جماعت کی کُل آمد دو کروڑ روپیہ کے قریب ہے۔ لیکن اگر اَسّی لاکھ ہی سمجھ لی جائے تو اِس کا مطلب ساڑھے چھ لاکھ روپیہ کے قریب ماہوار ہے۔ اور اگر اس کا دسواں حصہ چندہ جلسہ سالانہ میں وصول کیا جائے تو یہ چندہ ساٹھ ہزار روپیہ سے زائد ہوسکتا ہے۔ پس جلسہ سالانہ کے اخراجات کا جو بجٹ ہے اُتنی رقم کا وصول کرنا میرے نزدیک مشکل نہیں۔ مگر چونکہ چندہ جلسہ سالانہ میں عام طور پر سُستی کی جاتی ہے، قادیان کے دوست بھی اپنی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور زمیندار دوست بھی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور شہری جماعتیں بھی پوری ذمہ داری محسوس نہیں کرتیں اِس لیے وصول بہت کم ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر جماعت کے دوست ماہور آمد کا دس فیصدی بھی دیں تو بھی ساٹھ ستّر ہزار روپیہ وصول ہوسکتا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ اِس وقت تک صرف اٹھارہ ہزار روپیہ چندہ کے وعدے آئے ہیں اور گزشتہ سال غالباً کُل وعدے ستائیس ہزار کے آئے تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس سال بھی ستائیس ہزار ہی آمد سمجھ لی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلسلہ کے دوسرے کاموں کاتیس ہزار روپیہ جلسہ سالانہ پر خرچ کرنا پڑے گا اور تیس ہزار روپیہ کی رقم ایک غریب جماعت کے لیے معمولی نہیں۔ پس جہاں اِس بوجھ کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ جماعتیں اپنی ذمہ داری کو پوری طرح سمجھیں اور جلسہ سالانہ کا چندہ پوری شرح کے ساتھ ادا کریں، اور جہاں ایک اَور ذریعہ اس بوجھ کو کم کرنے کا یہ ہے کہ بیت المال بھی اِس چندہ کی وصولی کی خاص طور پر کوشش کرے اور زور سے اِس کی تحریک کرے اِسے عام تحریک سمجھ کر نہ چھوڑ دے وہاں ایک اَور ضروری ذریعہ اِس بوجھ کو کم کرنے کا یہ بھی ہے کہ قادیان کی جماعت کے افراد اور کارکن اخراجات کی تخفیف کی انتہائی کوشش کریں۔ ورنہ یہ بار بڑھتے بڑھتے دوسرے کاموں کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ اور اگر ہر سال یہ تیس ہزار کا بوجھ پڑتا جائے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ دس سال کے عرصہ میں یہی رقم تین لاکھ ہوجائے گی۔ اور اگر جائیداد رہن رکھ کر یہ تین لاکھ روپیہ حاصل کیا جائے تو گویا قریباً پندرہ ہزار روپیہ کا خرچ اَور بڑھ جائے گا اور اس طرح یہ سالانہ بوجھ پینتالیس ہزار روپیہ کا ہوگا۔ بعض سوراخ چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر اُن کو بند نہ کیا جائے تو پُل ٹوٹ جاتے ہیں، عمارتیں گر جاتی ہیں، علاقے ویران ہوجاتے ہیں اور شہر برباد ہوجاتے ہیں۔ پس مومن کو اپنے کاموں میں ہوشیار ہونا چاہیے اور بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جب آدمی اپنے گھر کے کاموں میں احتیاط سے کام لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر خرچ بڑھتا گیا تو میری جائیداد تباہ ہوجائے گی اور میرے لیے مشکلات پیدا ہوں گی تو خدا تعالیٰ کے کاموں میں تو مومن کو بہت ہی زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ پس مَیں قادیان کی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے عزم اور ارادہ کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیں کہ خرچ زیادہ نہ ہونے دیں گے۔
جہاں تک ایسے گھروں کا سوال ہے جن میں مہمان اِس کثرت کے ساتھ اُترتے ہیں کہ اُن کے لیے گھر میں اپنے لیے کھانا پکانا ناممکن ہو جاتا ہے اُن کے گھروں میں بے شک تین چار دنوں میں کھانا لنگر سے آنا چاہیے۔ گو جو صاحبِ توفیق ہیں اُن کے لیے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخراجات کے برابر آٹا یا اجناس لنگر خانہ میں دے دیں۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کیے بغیر لنگر سے کھانا لیں گے تو اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ اپنی خدمت کا معاوضہ لیتے ہیں۔ اور گو شریعت نے یہ جائز رکھا ہے کہ وہ لوگ جو غریب ہوں اور جن کے گزارہ کی کوئی صورت نہ ہو وہ اپنی خدمت کا معاوضہ لے سکتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مواقع پر خدمت کا معاوضہ لینا جائز قرار دیا ہے۔ 1 مگر صاحبِ توفیق کے لیے ایسا معاوضہ لینا اُس کے ایمان کی ہتک ہے۔ پس جب وہ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے اور ان کی خدمت میں مصروفیت کی وجہ سے اور اِس وجہ سے کہ مہمانوں کی کثرت کے باعث اُن کے گھروں کا انتظام خراب ہو جاتا ہے اور وہ اپنے لیے کھانا نہیں پکا سکتے اپنے لیے بھی کھانا لنگر سے لیں تو اُن کو چاہیے کہ اپنے اخراجات کے مطابق آٹا اور دالیں وغیرہ لنگر میں بھجوا دیں۔ گو ایسے لوگوں کے لیے لنگر سے کھانا لینا جائز ہے۔ مگر ایک کامل ایمان والے انسان کے لیے یہ نامناسب ہے کہ وہ زائد بوجھ لنگر پر ڈالے۔ ہاں جو صاحبِ توفیق نہیں ہیں اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مزدوری وغیرہ کرکے گزارہ کرتے ہیں اور اِن ایام میں اُن کو کام بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور اِس طرح اُن کو نقصان ہوتا ہے اُن کے لیے جائز ہے کہ وہ کھانا لنگر سے لے لیں اور معاوضہ بھی نہ دیں۔ میرے نزدیک اِس غلطی کے ازالہ کی بہترین صورت یہ ہے کہ جس جس گھر میں مہمان ٹھہرتے ہیں اُن کے اپنے افراد کی فہرستیں پہلے سے حاصل کر لی جائیں اور اُن کے ہاں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے کھانے سے اتنے افراد کا کھانا زیادہ ان کو دے دیا جائے۔ اِس طرح جو بے حساب کھانا گھروں میں جاتا ہے وہ نہ جاسکے گا۔ بعض لوگ کھانا لیتے وقت تعداد زیادہ لکھوا دیتے ہیں اور اِس جھوٹ کا نام وہ احتیاط رکھتے ہیں مگر یہ احتیاط نہیں بلکہ جھوٹ اور اِسراف ہے۔ وہ باقاعدہ حساب سے کھانا نہیں لیتے بلکہ اگر اُن کے ہاں چالیس مہمان ہوں تو کہہ دیتے ہیں کہ ستّر آدمیوں کی پرچی دے دی جائے۔ اگر اُن کے گھر کے افراد کی صحیح تعداد معلوم ہو تو مہمانوں کی تعداد کے ساتھ اُن کے گھر کے افراد کی تعداد ملا کر ایک حساب کے مطابق اُن کو پرچی دی جاسکتی ہے۔ اور یہ اِسی طرح ہوسکتا ہے کہ اُن کے گھر کے افراد کی صحیح تعداد پہلے سے معلوم ہو۔ اِس طرح بہت سا کھانا بچ سکتا ہے۔ مگر جب حساب کوئی نہ ہو اور بے حساب تعداد کا کھانا ایک شخص مانگے تو منتظمین مجبور ہوتے ہیں کہ اُسے اُتنا ہی کھانا دیں۔ چونکہ کوئی حساب وغیرہ ہوتا نہیں بعض لوگ تعداد کو حد سے بڑھا دیتے ہیں مگر حساب میں آکر زیادہ پابندی ہوجاتی ہے۔ پس افسروں کو چاہیے کہ جن لوگوں نے اپنے مکان مہمانوں کے لیے پیش کیے ہیں یا جن گھروں میں مہمان اُتریں گے اُن کے افراد کی فہرست پہلے سے حاصل کر لیں اور یہ معلوم کر لیں کہ اُن کو اپنے گھر کے لیے کتنے آدمیوں کا کھانا درکار ہوگا۔ ایسی فہرستیں حاصل کرکے وہ اُن کو وقت سے پہلے چیک بھی کرسکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ واقعی اُن کے افراد اتنے ہی ہیں جتنے انہوں نے بتائے ہیں اور انہوں نے اس تعداد میں کوئی زیادتی تو نہیں کی۔ جلسہ کے بعد دیکھا گیا ہے کہ بچی ہوئی سینکڑوں من روٹیاں جانوروں وغیرہ کے لیے فروخت ہوتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ بے احتیاطی سے کھانا منگوا لیتے ہیں۔ پس ایک تو اِس احتیاط کی ضرورت ہے۔
دوسرا طریق یہ ہے کہ پبلک کی اچھی طرح تربیت کی جائے اور اُن کو اچھی طرح سمجھایا جائے کہ اِس بے احتیاطی سے سلسلہ کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ صحیح تربیت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ میرا ایک خطبہ میں ایک بات بیان کردینا کافی نہیں ہوسکتا۔ چاہیے کہ اِن ایام میں متواتر جلسے کیے جائیں اور ضروری ہدایات ہر چھوٹے بڑے کے اچھی طرح ذہن نشین کی جائیں۔ اِس کے بغیر تربیت نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے کہ جب خدا تعالیٰ نے حکم دے دیا ہے تو اب میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتا وہ میری کب مانے گا۔ اور اگر صحابہؓ یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی تاکید فرمائی ہے پس جس نے خدا تعالیٰ کی نہیں مانی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں مانی وہ ہماری کب مانیں گے تو کیا اسلام پھیل سکتا اور دنیا میں اِتنے لوگ نماز پڑھنے والے پیدا ہوجاتے؟ ہرگز نہیں۔ خدا تعالیٰ نے حکم دیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس کی تاکید فرماتے رہے۔ پھر ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ اور ہزاروں دوسرے صحابؓہ۔ پھر ان کے بعد تابعین اور تابعین کے بعد تبع تابعین اور پھر اُمت کے اولیاء۔ مثلاً سید عبدالقادر جیلانیؒ، معین الدین چشتیؒ، نظام الدین اولیاءؒ وغیرہ اِس کی تلقین کرتے رہے۔ مگر پھر بھی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کیا سب لوگ نمازیں پڑھتے ہیں؟ بلکہ آجکل تو اکثر مسلمان بھی نہیں پڑھتے۔ پس بار بار کہتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔ بار بار کہنے سے ہی قوموں کی تربیت ہوتی ہے۔ جب کسی قوم میں یہ خیال پیدا ہو کہ اب کہنے کی ضرورت نہیں، جب کسی قوم کے افراد کو تکرار بُرا لگنے لگتا ہے تو وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے۔ تکرار سے ہی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ جماعت میں ہمیشہ نئے آدمی شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جن کو علم نہیں ہوتا اُن کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اگر غفلت کریں گے تو ضروری ہے کہ اُن کا ہمسایہ بھی غفلت کرے گا۔ وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ ہمسایہ واقف نہیں بلکہ اُسے دیکھ کر خود بھی اِس بات کو جائز سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر نئی پود بھی ترقی کرتی رہتی ہے۔ جو بچےآج تیرہ سال کے ہیں وہ دس سال قبل تین سال کے تھے۔ اُن کو سمجھانا بھی ضروری ہے۔ وہ اگر نہیں سمجھیں گےتو اُنہیں دیکھ کر اُن کے اَور ساتھی خراب ہوں گے۔ پس تربیت کے لیے ضروری باتوں کا دہرانا اور بار بار سکھانا ضروری ہوتا ہے۔پس چاہیے کہ ہر محلہ والے متواتر جلسے کریں اور تمام افراد کو سکھائیں۔ عورتوں کو، مردوں کو، سب کو اچھی طرح اِن باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ خدام الگ جلسے کریں، انصار الگ کریں، اطفال الگ کریں، لجنہ کے الگ جلسے ہوں اور محلوں والے الگ کریں۔ اور اچھی طرح یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کریں کہ جماعتی بوجھ کا کم کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور بہت ثواب ہے۔ ہر روٹی کا ٹکڑا جو ضائع ہوگا، دال کا ہر چمچہ جو ضائع ہوگا یا جو غیرحق دار کے پاس پہنچے گا اُتنا ہی کلمۂ شہادت کے پھیلانے میں رکاوٹ پیدا ہوگی، اُتنا ہی تبلیغ کے کام میں کمزوری پیدا ہوگی۔ اگر ہر ایک کے کان میں یہ بات ڈال دی جائے، جماعت میں ایسی بیداری پیدا کردی جائے کہ ہر شخص یہ سمجھے کہ اگر ایک چیونٹی بھی سلسلہ کے خزانہ سے گندم کا ایک دانہ لے جاتی ہے تو وہ اُس کے لیے جواب دِہ ہے تو بہت سا بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ اگر یہ روح افرادِ جماعت میں پیدا ہوجائے تو قومی دیانت ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ پھر ایمان کو کبھی گُھن نہیں لگ سکتا۔ کیونکہ گُھن ہمیشہ گندم کے دانے کو لگتا ہے، سُسری گندم کو کھا سکتی ہے۔ ایمان کے دانہ کو نہ گُھن لگتا ہے اور نہ اسے سُسری کھاتی ہے۔ پس جس قوم کے افراد کے قلب میں ایمان کی روئیدگی پیدا ہوجائے وہ تباہ نہیں ہوسکتی۔ خدا نے وہ سُسری پیدا ہی نہیں کی جو ایمان کے دانے کو کھا سکے۔ جب کسی قوم کی بنیاد ایمان پر قائم ہوجاتی ہے تو دنیوی ذرائع اُسے تباہ نہیں کرسکے۔ پس یہ باتیں جماعت کے ہر فرد کو سکھائیں اور اِس کے لیے محلوں والے الگ جلسے کریں۔ خدام، انصار، اطفال اور لجنات کے جلسے الگ ہوں اور یہ باتیں اچھی طرح ہر ایک کے ذہن نشین کی جائیں۔ یہ صحیح ہے کہ پھر بھی کچھ نہ کچھ کمزور رہ جائیں گے یا منافق ہوں گے مگر اُن کا کوئی علاج نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی جب منافق موجود تھے تو ہمارا یہ خیال کرنا کہ ہم میں منافق نہیں رہیں گے بالکل غلط بات ہے۔ اگر کوئی اِس امر کا سب سے زیادہ مستحق تھا کہ اُس کے زمانہ میں منافق نہ ہوتے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔ اور جب آپؐ کے زمانہ میں بھی منافق موجود تھے تو کسی اَور زمانہ کے لوگوں کا یہ امید رکھنا کہ ان میں منافق نہ ہوں گے موہوم امید ہے۔ ساری خرابی اِس سے پیدا ہوتی ہے کہ بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم میں منافق نہیں ہیں یا نہیں ہوسکتے۔ منافق ہمیشہ بھیس بدل کر لوگوں کے ایمان کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں میں قصہ کے طور پر یہ بات مشہور ہے۔ ایسے قصص کو ایمان کی بنیاد سمجھنا تو غلطی ہوتی ہے البتہ اِن سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیطان مور کے بھیس میں جنت میں داخل ہوا تھا۔ مور کا مطلب یہی ہے کہ وہ گو بظاہر بہت خوبصورت تھا مگر اندر سے جانور تھا۔ تو منافق بھی اندر سے تو جاہل اور احمق ہوتا ہے مگر باہر سے بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ لوگ عام طور پر ظاہری شکل پر فریفتہ ہوجاتے ہیں مگر اندرونی حماقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پس ہماری جماعت میں بھی منافقوں کا ہونا ضروری ہے اور جب تک بار بار سمجھا کر کمزوروں کو مضبوط نہ کریں اور اس طرح اُنہیں منافقوں کا شکار ہونے سے نہ بچائیں اور جو منافقت میں پختہ ہو چکے ہیں اُن کی غلطی کو اَلَمۡ نَشۡرَحۡ نہ کردیں ہم نقصان سے محفوظ نہیں ہوسکتے اور نگرانی کو نہیں چھوڑ سکتے۔
تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ نگرانی اچھی طرح کی جائے۔ مثلاً خدام اگر یہ کام اپنے ذمہ لے لیں اور سَو گھروں کو بھی روزانہ چیک کرنے کا انتظام کر لیں۔ اچانک پہنچ کر مہمانوں کی لِسٹیں جمع کریں اور دیکھیں کہ آیا وہ کھانے کی لِسٹوں کے مطابق ہیں؟ تو اِس سے بھی بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر خدام روزانہ ایک سَو گھر بھی اِس طرح چیک کرنے کا انتظام کر لیں تو پانچ روز میں پانچ سو گھر چیک کرسکتے ہیں۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ کمزور سمجھ جائیں گے کہ ہم اپنی کمزوری کو نہیں چُھپا سکیں گے اور بے احتیاطی کرنے والے محتاط ہو جائیں گے ناواقفوں کو علم ہوجائے گا۔
پس یہ تین ذرائع ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو جلسہ کی آمد بڑھائی اور خرچ گھٹایا جاسکتا ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت اپنے روایتی اخلاص کے مطابق اِس بارہ میں بھی اصلاح کرے گی اور ایسا رویہ اختیار کرے گی کہ ہر فرد یہی سمجھے گا کہ سلسلہ کے اموال کی حفاظت میرے ذمہ ہے اور مَیں ہی اِس کے لیے جواب دِہ ہوں۔ اور وہ ثابت کردیں گے کہ سلسلہ کے اموال کی نگرانی وہ اپنے اموال سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اگر اِن باتوں پر عمل کیا جائے تو اخلاقی طور پر بھی بہت عمدہ اثر ہوسکتا ہے۔ مثلاً جب کوئی شخص گھر میں بے حساب روٹی منگواتا ہے اور مہمانوں کے علاوہ اُس کے گھر والے بھی وہی کھاتے ہیں تو مہمانوں کو یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ بددیانتی کرتا ہے۔ بعض لوگ بے حساب کھانا منگوا لیتے ہیں۔ خود تو کھاتے ہی ہیں مگر روٹی اور سالن ضائع بہت کرتے ہیں اور اِرد گرد بانٹ بھی دیتے ہیں اور اِس طرح دوسروں پر اپنا احسان قائم کرتے ہیں۔ اور ایسا کرکے جہاں سلسلہ کا نقصان کرتے ہیں وہاں اپنے ساتھ اُن مہمانوں کا تقوٰی بھی کمزور کرتے ہیں جن کے سامنے ایسا کرتے ہیں۔ ایسی باتوں کو دیکھ کر مہمانوں پر یقیناً بُرا اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر باہر سے آنے والے دیکھیں کہ قادیان کے ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچے اور ہر بوڑھے کو سلسلہ کے مال کا درد اپنے مال سے بھی زیادہ ہے اور اگر وہ دیکھیں کہ جو لوگ اپنے لیے بھی لنگر سے کھانا منگواتے ہیں وہ عَلَی الْاِعْلان منگواتے ہیں تو پھر اُن پر بُرا اثر نہیں ہوسکتا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ محلوں والے بھی، خدام بھی، انصار بھی، اطفال بھی اور لجنات بھی اپنے الگ الگ جلسے کرکے لوگوں کو پوری طرح یہ باتیں سمجھائیں گے کہ وہ کھانا ضائع کرکے سلسلہ کا نقصان نہ کریں۔ اور سب مل کر کوشش کریں گے کہ اس سال جلسہ کا خرچ کم سے کم ہو۔ اور نظارت بیت المال، جماعتیں اور قادیان کے دوست کوشش کریں گے کہ جلسہ کا چندہ قواعد کے مطابق اور بَروقت وصول ہو تاایسا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کا چندہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے ناجائز بوجھ سلسلہ کے دوسرے کاموں پر پڑے"۔(الفضل20؍دسمبر 1944ء)


45
جلسہ سالانہ بہت دُعا اور گریہ و زاری کرنے کا موقع ہے
(فرمودہ 22دسمبر 4419ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے کام دنیا میں جاری کیے جاتے ہیں خواہ وہ اُس کی روحانی شریعت کے مطابق ہوں یا اُس کے بنائے ہوئے طبعی قانون کے مطابق ہوں سب میں ایک لہر پائی جاتی ہے۔یعنی ان میں اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔خدا تعالیٰ نے سمندر بنائے ہیں تو اُن میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے،خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنائے ہیں تو اُن میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے، خدا تعالیٰ کی ہوائیں چلتی ہیں تو اُن میں بھی لہروں کا سلسلہ جاری ہے، خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی آگ جلتی ہے تو اُس میں بھی لہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ کبھی شعلہ اوپر اٹھتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روحانی سلسلے قائم ہوتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ بعض دن خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے ہوتے ہیں اور بعض دن ابتلاؤں اور ٹھوکروں کے آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک الہام میں فرمایا ہے کہ اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ1 یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں کبھی اِفطار کرتا ہوں اور کبھی روزہ رکھتا ہوں۔ یعنی کبھی میری طرف سے دنیا پر ابتلاء آتے ہیں اور کبھی مَیں ان ابتلاؤں اور اِن ٹھوکروں کو واپس لے لیتا ہوں اور ان کو ہٹا دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں اَلْقَابِضُ اور اَلْبَاسِطُ بھی نام ہیں۔ یعنی وہ قبض بھی کرتا ہے اور بسط بھی کرتا ہے۔ یہ لہروں کا سلسلہ جو ہے اِس کی حکمت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رات اور دن کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا2 یعنی رات کا وقت انسان کے لیے لباس کے رنگ میں آتا ہے جو اُس کی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے متواتر کام نہیں کر سکتا۔ اگر اسے متواتر کام پر لگا دیا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ تھک جائے گا اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑے گا۔ انسان کی اِس کمزوری کو ڈھانپنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات بنائی ہے۔ انسان کی یہ جو کمزوری ہے کہ وہ متواتر کام نہیں کرسکتا اور تھک جاتا ہے رات اِس کمزوری کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن چڑھنے پر وہ پھر کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہی حالت روحانی ترقی اور……… ترقیات کی ہے۔ انسان پر بھی ایسے وقت آتے ہیں جب اُس کی روحانیت قبض کی حالت میں ہوتی ہے اور اُس پر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب اُس کی روحانیت پر بسط کی حالت ہوتی ہے۔ ایک معمولی درجہ کے مومن پر بھی کوئی وقت ایسا آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا سے مل گیا ہے اور اُس کا خدا اُس کے سامنے ہے اور اپنے سارے جلال اور ساری شان و شوکت کے ساتھ اس پر ظاہر ہو رہا ہے۔ اور دوسرے وقت میں وہی مومن اپنی نماز کو کھڑا کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ وہ اُسے کھڑا کرتا ہے مگر وہ گرتی ہے۔ وہ اُسے پھر کھڑا کرتا ہے اور وہ پھر گرتی ہے۔ وہ پھر کھڑا کرتا ہے مگر وہ پھر گرتی ہے۔ اور یہ حالت معمولی درجہ کے مومن کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ اونچے درجہ کے مومن بھی اپنے اپنے مدارج کے لحاظ سے اِس حالت میں سے گزرتے ہیں۔ ایمان و روحانیت کے اعلیٰ مقامات میں بھی انسان پر یہ حالت گزرتی ہے۔ گو اُس حد تک نہیں جس حد تک کہ معمولی درجہ کے مومنوں پر گزرتی ہے۔ مگر اَس میں شک نہیں کہ اعلیٰ درجہ کے مومن پر بھی قبض اور بسط کی حالت آتی ہے اور یہ حالت انسان کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آتی ہے۔ جیسے نماز میں کبھی انسان قیام کرتا ہے،کبھی رکوع کرتا ہے، کبھی سجدہ کرتا ہے اور کبھی قعدہ۔اگر ایک ہی حالت ہو
اصل مسودہ میں یہاں لفظ پڑھا نہیں جاتا۔ (مرتب) تو انسان پر غفلت طاری ہوجائے اور کمزوری پیدا ہوجائے۔یہ مختلف حالتیں اِس لیے رکھی ہیں کہ انسان پر غفلت طاری نہ ہونے پائے اور قیام میں ہی رہنے کی وجہ سے عادت کے طور پر وہ الفاظ کو ادا نہ کرتا رہے۔ یا رکوع میں اگر ہو تو عادت کے طور پر ہی وہ نماز کے الفاظ کو نہ ادا کرتا جائے۔ یا سجدہ کی عادت کے ماتحت وہ غافل ہو کر الفاظ منہ سے نہ نکالتا رہے۔ اور ایک حالت سے دوسری بدلنے کی وجہ سے اُس کی غفلت دور ہوجائے اور وہ سوچ سمجھ کر نماز کو ادا کرے۔ اِسی طرح انسان کی روحانیت میں بھی قبض اور بسط کی حالت ہوتی ہے تا وہ کسی حالت کا عادی ہو کر ترقی سے محروم نہ ہوجائے۔اگر یہ حالتیں بدلتی نہ رہیں اور انسان پر ایک ہی حالت رہے تو اگر یہ حالت قبض کی ہے اور یہی حالت ہمیشہ رہے تو اُس کا دل مر جائے گا۔ اور اگر بسط کی حالت ہی رہے تو وہ عادتاً عبادت کرنے لگ جائے گا اور اُس کو نیکیوں میں عزم و ارادہ اور خواہش باقی نہ رہے گی۔
پس انسانی مقام کو قائم رکھنے کے لیے اور اِس لیے کہ نیکی کرتے ہوئے اُس کا ارادہ اور عزم بھی قائم رہے اور اُس کی توجہ بھی قائم رہے ہر مومن پر خواہ اُس کا مقام بڑا ہو یا چھوٹا لہروں کا زمانہ آتا رہتا ہے۔ اور ہر مومن اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے کبھی اونچا اٹھتا ہے اور کبھی نیچے گرتا ہے اور کبھی درمیانی حالت میں ہوتا ہے۔ اور ہر مومن اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے لہروں کے نیچے چلتا ہے۔ اور یہ لہروں کا سلسلہ تمام قانونِ قدرت میں چلتا ہے۔ یہ سلسلہ انفرادی حالات میں بھی ہوتا ہے اور قومی حالات میں بھی ہوتا ہے۔ قوموں پر بھی کبھی قبض کی حالت آتی ہے اور کبھی بسط کی، کبھی قوم پر ابتلاؤں کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوتی ہیں اور کبھی اُس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہو رہی ہوتی ہے، کبھی اُس پر کامیابی کا سورج طلوع ہوتا ہے کبھی رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہوتی ہے، کبھی قوم کے اندر نشوونما اور نمو کا جوش ہوتا ہے اور کبھی غفلت طاری ہوجاتی اور اُس کے اندر آرام کرنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اِن دونوں حالتوں میں جو قوم یا جو انسان زنجیر کو نہیں چھوڑتا اور تسلسل کو قائم رکھتا ہے وہ ترقی کر جاتا ہے۔ اور جو اِس تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکتا وہ گر جاتا ہے۔ جو اپنی زنجیر کو چھوڑ دیتا ہے وہ توازن کھو دیتا ہے اور پھر اپنے درجہ سے نچلے درجہ میں گر جاتا ہے۔ پھر وہاں سے اَور نچلے درجہ میں گرتا ہے اور پھر اُس سے بھی نچلے درجہ میں چلا جاتا ہے۔ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔ بسااوقات کوئی قوم غفلت اور قبض کے زمانہ میں اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبض کی حالت سے سقوط کی حالت میں آ جاتی ہے۔ اور بجائے اِس کے کہ اپنے مقام کی بلندی اور پستی کے درمیان قبض اور بسط کی حالت میں چکر کھائے وہ اپنے مقام سے نچلے مقام میں گر جاتی ہے اور یہی چیز ہے جس کا نام قومی تنزل ہے۔ جب تک تو کوئی قوم اپنے مقام کی بلندی اور پستی کے درمیان چکر کھاتی رہتی ہے وہ گر نہیں سکتی۔ کیونکہ یہ قبض اور بسط کی حالت ہر انسان اور ہر قوم کے لیے مقدر ہے اور کوئی اِس سے بچ نہیں سکتا۔ مگر جب کوئی قوم یا انسان اپنے مقام سے گر کر نچلے درجہ میں چلا جائے تو پھر حالت خراب ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے قوموں میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اِس کے لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ روحانی مقامات ایسے ہیں کہ بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا اور قوم اپنے درجہ سے گر جاتی ہے۔ اِس سے بچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مومن دعاؤں میں لگے رہیں۔ خصوصاً جب اجتماعی حالت ہو تو دعاؤں پر خاص طور پر زور دینا ضروری ہوتا ہے۔
بعض نقائص انفرادی ہوتے ہیں اور انفرادی حالت سے پیدا ہوتے ہیں مگر قومی نقائص اجتماعات کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں۔ قوم کبھی خلوت میں تباہ نہیں ہوتی ہمیشہ جلوت میں تباہ ہوتی ہے۔ اِسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی جلسہ یا مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو کم سے کم ستّر بار استغفار پڑھتے۔3 اب ہمارا جلسہ سالانہ آنے والا ہے جس میں شامل ہونے کے لیے لوگ جمع ہوں گے۔ اِن آنے والوں میں کمزور بھی ہوں گے اور مخلص وجوشیلے بھی، سموئی ہوئی طبیعت کے لوگ بھی ہوں گے اور ڈھیلی طبیعت کے بھی، چُست اور ہوشیار بھی ہوں گے اور سُست اور غافل بھی، متقی اور تقوٰی کی راہ پر چلنے والے بھی ہوں گے اور اِس راہ سے دُور رہنے والے بھی۔ اور وہ ایک دوسرے کو اپنی باتیں سنائیں گے۔ کئی بسط کی حالت میں ہوں گے اور کمزوروں کو اپنی باتیں سُنا کر چُست اور ہوشیار بنا دیں گے اور کئی اپنی قبض کی حالت میں ہوں گے وہ کمزوروں کو ملیں گے اور جس طرح کُنڈی مچھلی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اُن کو اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ پس یہ موقع بہت دعاؤں کا اور بہت گریہ و زاری کا ہے۔ قادیان کے دوست بھی دعائیں کرتے رہیں اور باہر سے آنے والے بھی دعاؤں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اِس اجتماع کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے بچائے۔ قادیان والے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ باہر سے آنے والوں کے ایمان اور تقوٰی کو اِس اجتماع کے نتیجہ میں بڑھائے اور ٹھوکروں اور ابتلاؤں کا شکار ہونے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ اُنہیں باہر سے آنے والوں کے لیے ٹھوکر کا موجب نہ کرے کہ وہ بدقسمت جو کسی کے لیے روحانیت میں ترقی کا باعث بننے کی بجائے اور کسی کو نیکی کی طرف لانے کی بجائے اُس کے لیے ٹھوکر اور ابتلاء کا موجب بنتا ہے اُس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے راندہ ہوا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ جمعہ ہمارے سالانہ جلسہ سے پہلے آخری جمعہ ہے اِس لیے مَیں باہر کی جماعتوں کو بھی اور قادیان کی جماعت کو بھی اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ ایام اور جلسہ کے ایام کو بھی اور اس کے بعد کے چند ایام کو بھی خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گزاریں اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کے لیے دعائیں کریں، سلسلہ کے کاموں کی کامیابی کے لیے بھی دعائیں کریں اور یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اِس اجتماع کو اُن کے لیے بھی اور سلسلہ کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ برکات کا موجب بنائے۔ اُن کے لیے بھی اور اُن کے رشتہ داروں، دوستوں بلکہ ساری دنیا کے لیے برکات کا موجب بنائے۔ اُن کا آنا بھی برکت کا موجب ہو اور اُن کا جانا بھی برکت کا موجب ہو۔ یہاں بھی اور یہاں سے جانے کے بعد بھی آئندہ جلسہ تک اُن کی روح اِس برکت کو اور اُن کے قلوب ایمان کی حرارت کو محسوس کرتے رہیں۔ اور یہ جلسہ اُن کے اندر کوئی ایسا نقص نہ رہنے دے جو غفلت، سُستی اور تباہی کا سامان پیدا کرنے کا موجب ہوسکے۔اٰمِیْنَ"۔ (الفضل25؍دسمبر1944ء)


46
جلسہ سالانہ کے موقع پر مخالفین کی نہایت گندی
اور غلیظ گالیاں اور حُکام کی فرض ناشناسی
(فرمودہ 29 دسمبر 4419ءبمقام قادیان)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"چونکہ شام کی گاڑی سے بہت سے مہمانوں نے جانا ہے اور اُنہوں نے ابھی تیاری وغیرہ کرنی ہے، کارکنوں نے بھی کھانا وغیرہ تیار کرانا ہے اِس لیے مَیں جمعہ کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع کر کے پڑھاؤں گا۔ یہاں سے خطبہ پڑھنے کے بعد مَیں مسجد نور میں جاؤں گا اور وہاں جاکر نماز پڑھاؤں گا۔ مکبّرین احتیاط سے تکبیریں کہیں تا کہ نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خرابی پیدا نہ ہو۔ایک آدمی مستورات کی طرف بھی تکبیر کے لیے مقرر کر دیا جائے تاکہ تکبیروں کے ساتھ نماز کی اتباع میں سہولت پیدا ہو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارا جلسہ سالانہ بخیروخوبی ختم ہو چکا ہے۔ لیکن اِس دفعہ ایک ایسی بات پیدا ہو گئی ہے جس سے بعض طبائع میں بہت جوش پیدا ہوا ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ مخالفین کی طرف سے غلیظ گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی ہیں اور لاؤڈ سپیکر لگا کر دی گئی ہیں۔ اور اِس کی وجہ سے بعض احمدی جن کے کانوں میں وہ گالیاں پڑی ہیں نہایت ہی جوش میں آ گئے اور دوسرے ممبروں کو اُنہیں دبا کر رکھنا پڑا۔ اِس کی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہے۔
مَیں حیران ہوں کہ یہ کس طرح کی دوغلی پالیسی ہے کہ باہر تو مثلاً امرتسر میں ہماری جماعت کو پُر امن جلسہ کرنے اور باجازت جلسہ کرنے سے روکا گیا جو کسی دوسرے کے جلسہ میں رخنہ انداز نہیں تھا اور آئندہ کے لیے ڈی سی نے کہا ہے کہ مَیں احمدیوں کا جلسہ غیرمعیّن وقت تک نہیں ہونے دوں گا۔ مگر اِس جگہ جہاں عین ہمارے سالانہ جلسہ کے ایام میں دشمن کے جلسہ میں ہمیں غلیظ گالیاں دی گئیں اس کو گورنمنٹ نہیں روکتی۔ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے اور قادیان میں ہمارا سالانہ اجتماع عبادت کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے خاص منشاء سے قائم ہوا اور 53 سال سے ہو رہا ہے۔ عین اِس اجتماع کے موقع پر گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مخالفین کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ جلسہ کریں اور لاؤڈ سپیکر لگا کر ہمیں گندی گالیاں دیں اور حُکام خاموشی سے یہ سب کچھ سنتے رہیں اور اِس پر کوئی اقدام نہ کریں۔ میرے نزدیک ایک وحشی اور غیر مہذب گورنمنٹ کے سِوا اِس حرکت کی اجازت کوئی نہیں دے سکتا۔ اِس لیے گورنمنٹ کو چاہیے کہ اُن حکام کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اس قسم کی صورتِ حالات پیدا ہونے کی اجازت دی ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اِس متضاد پالیسی کی ذمہ داری انگریز افسران پر ہے یا وزراء پر جو کہ اکثر صوبوں میں تقریروں وغیرہ میں تو بہت کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن اندرونی طور پر مستقل حکام کی مرضی پر چلتے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ احرار کو جو شورش پیدا کرنے کی جرأت از سرِ نو ہو رہی ہے یہ پالیسی وزراء کی ہے یا مستقل حکام کی۔ بہرحال یہ فعل نہایت ناپسندیدہ ہے اور دنیا کا ہر عقلمند اور شریف انسان اِس فعل کو ناجائز قرار دے گا اور اِس قسم کی رعایت کو بزدلی یا اخلاق کی کمزوری کا نتیجہ سمجھے گا۔ ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت صبر اور حوصلہ کی تعلیم پائی ہے اور اِس کے مطابق خدا تعالیٰ نےعمل کرنے کی بھی توفیق بخشی ہے۔ لیکن ہمارا خدا اِس بات کو خوب دیکھ رہا ہے۔ یقیناً وہ افسر جن کی نرمی اور خاموشی اِس صورتِ حالات کی ذمہ دار ہے خواہ وزارت سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقل حکام سے تعلق رکھتے ہوں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے سِوا سب بادشاہ، پارلیمنٹیں، وزیر، گورنر اور ماتحت افسر اُسی طرح جواب دِہ ہیں جس طرح کہ معمولی آدمی۔ جب خدا تعالیٰ نے اُن کو اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کریں۔ اور اگر وہ انصاف نہیں کریں گے تو ہم تو پھر بھی اِس پر صبر کریں گے مگر ہمارا خدا صبر نہیں کرے گا اور یقیناً کسی نہ کسی رنگ میں وہ لوگ جو اِس صورتِ حالات کے ذمہ دار ہیں اِس کی سزا خدا تعالیٰ کی طرف سے بُھگتیں گے۔ جو حاکم یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ مَیں حاکم ہوں مجھے کوئی کچھ نہیں کر سکتا دنیوی نقطہ نگاہ سے خواہ صحیح ہو دینی نقطۂ نگاہ سے ہرگز صحیح نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ کا پکڑنا ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ اُس میں انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ پس مَیں حکام بالا کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔اُن کا فرض ہے کہ وہ مجسٹریٹ یا پولیس کے افسر جو اِس صورت حالات کے ذمہ دار ہیں اُن کو سزا دیں اور آئندہ کے لیے اِس قسم کی شرارت کا ازالہ کریں۔
جب سرایمرسن جو پنجاب کے گورنر تھے اُن کے زمانہ میں احمدیت کی مخالفت شروع ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اپنی ٹرم (Term) پوری کرکے ریٹائر ہونے والے تھے تو ہوم گورنمنٹ نے اُن کی مدت کو اَور بڑھا دیا تھا۔ جماعت کی طرف سے مجھے خطوط آئے کہ یہ تو ظلم ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مَیں نے اُن کو لکھا کہ مَیں نے تو سر ایمرسن کو مبارکباد دی ہے اِس لیے کہ میرے ساتھ گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں۔ اس کا مقابلہ تو خدا تعالیٰ سے ہے۔ پس اگر ان کی میعاد میں توسیع ہو گئی ہے تو اِس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوگی اِس میں گھبرانے کی کونسی بات ہے۔ خدا کی قدرت گورنمنٹ نے اُن کی میعاد میں توسیع کردی۔ مگر کچھ ہی دیر بعد وہ بیماری کی چُھٹی لے کر ولایت چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ قطعی طور پر کام کرنے کے قابل نہیں، آپ کام سے فارغ ہو جائیں،آپ کا آپریشن ہوگا۔ چنانچہ وہ مستعفی ہو گئے اور ڈاکٹری رائے کے مطابق چند ہفتے آرام کرتے رہے۔ اس کے بعد جب وہ ڈاکٹروں کے پاس آپریشن کے لیے آئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ تو اچھے بھلے ہیں،خبر نہیں ہم نے اُس وقت کس طرح یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کام کے قابل نہیں۔ دیکھو کہ بغیر اِس کے کہ ہم ایک لفظ بھی کہتے خدا تعالیٰ نے خود ہی ہماری طرف سے جواب دے دیا۔ پس جماعت کو صبر کرنا چاہیے اور جوش میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور وہی اِس کا ذمہ دار ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے حاکم نہیں بنایا کہ ہم ایسی شرارتوں کا علاج کریں۔ جن کو حاکم بنایا ہے وہ ذمہ دار ہیں۔ اور اگر وہ رعایت کریں گے تو جس خدا نے اُنہیں حاکم بنایا ہے وہ خدا اُن سے پوچھے گا۔
پھر یہ بھی سوچو کہ کونسا نبی ہے جس کو گالیاں نہیں دی گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو گالیاں دی گئیں۔ ایک یہودی شاعر تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق شعروں میں کہا کرتا تھا نَعُوْذُ بِاللہِ آپ کے خاندان کی فلاں عورت سے میرے ایسے ایسے تعلقات ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہؓ ایسے گند سُنتے تھے اور اُن کو صبر سے برداشت کرتے تھے۔پس اگر ایسی ہی گالیاں ہمیں دی جائیں تو ہمارے جوش میں آنے کی کیا معقول وجہ ہوسکتی ہے۔ آخر ہماری عزت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت سے زیادہ تو نہیں۔ پس اگر اِس قسم کی گالیاں سُن کر کسی کو غصہ آتا ہے تو مَیں یہ نہیں سمجھوں گا کہ وہ شخص بڑا غیرت مند ہے بلکہ مَیں اِس کے معنے یہ سمجھوں گا کہ وہ کمزور ہے اور اُس کے اندر قوتِ برداشت نہیں۔ پس صبر سے کام لو اور اِس بات کو خوب یاد رکھو کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے سامنے ہی اپنی فریاد پہنچانی ہے۔ دنیا کے قانون میں تو ایک کانسٹیبل چاہے اُس کا ایک بڑے سے بڑے عالم سے مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے تاجر کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے صنّاع کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو، بڑے سے بڑے موجد کے ساتھ اُس کا مقابلہ ہو اور چاہے کانسٹیبل نے ظلم ہی کیا ہو گورنمنٹ یہی کہے گی کہ ایک سرکاری آدمی کو اُس کی ذمہ داری سے روکا گیا ہے۔ لیکن خدا کی گرفت سے کانسٹیبل ہی نہیں بلکہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی نہیں بچ سکتا۔
پس تم خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی التجا پیش کرو۔چنانچہ مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ یکم جنوری1945ء سے چالیس دن تک ہماری جماعت کے دوست متواتر اور باقاعدہ اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ1 کی دعا عشاء کی آخری رکعت میں پڑھا کریں۔ اِس دعا کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! ہم پر دشمن حملہ آور ہوا ہے ہمارے پاس تو مقابلہ کی طاقت نہیں اِس لیے ہم دشمن کے مقابلہ میں تجھے پیش کرتے ہیں۔ تُو ہی اُن کے حملہ کا جواب دے۔ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ ہمیں تباہ کرنے کے لیے دشمن جو شرارت کرتا ہے اُس کے بد اثرات سے ہمیں بچا۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ احرار کے فتنہ کے زمانہ میں ہم نے یہ دعا کی اور اِسی دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احرار کو کچل کر رکھ دیا۔ اب دشمن پھر سر نکال رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور باقاعدگی سے دعا مانگیں۔ اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو دشمن کو تباہ کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ اُس کو ڈھیل دے گا توپھر اِسی میں دین کا فائدہ ہوگا۔ اور ہمارا فائدہ اُسی بات میں ہے جس میں دین کا فائدہ ہو۔
پس مَیں جماعت کو کسی اَور بات کی اجازت نہیں دے سکتا۔ صرف اِس بات کی اجازت دیتا ہوں بلکہ تحریک کرتا ہوں کہ یکم جنوری 1945ء سے متواتر چالیس دن تک اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا مانگیں کہ اے خدا! حاکموں میں یا رعایا میں سے، غیر مسلموں میں سے یا مسلمان کہلانے والوں میں سے جو بھی ہمارے خلاف قدم اُٹھاتا ہے اور ہم پر حملہ آور ہوتا ہے ہماری طرف سے تُو ہی اُس کا مقابلہ کر اور اُن کی شرارتوں سے ہمیں محفوظ رکھ۔ پس یہ طریقہ ہے اور یہی ہتھیار ہے جو دوسرے تمام ہتھیاروں سے مفید ہے۔ صبر و برداشت سے کام نہ لینا اور گالی کا جواب گالی سے دینا یہ اچھا ہتھیار نہیں۔ اور خدا تعالیٰ مذہبی جماعت سے اِس کی امید نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ نبیوں کی جماعت کو صبر کا حکم دیتا ہے کہ صبر کرو گے تو کامیابی ملے گی۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہ َ مَعَ الصَّابِرِیْنَ2 کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پس جبکہ ساری دنیا سے ہماری لڑائی ہے اور دشمن ہمیں بُرا بھلا کہتا ہے اگر ہم صبر کرنے والے نہ ہوں تو ہم وہ نہ ہوں گے جن کے ساتھ خدا ہوتا ہے۔ اور جن کے ساتھ خدا نہ ہو اُن سے بڑھ کر بدقسمت اَور کون ہوگا۔ پس صبر کرو اور صبر کرو اور صبر کرو اور دعائیں کرو اور دعائیں کرو اور دعائیں کرو۔ تمہارے لیے تو گھبرانے کی کوئی بات ہی نہیں۔ جب بچہ ماں کی گود میں نہیں گھبراتا تو تم خدا کی گود میں ہوتے ہوئے کیونکر گھبرا سکتے ہو؟"
(الفضل30؍دسمبر1944ء)
٭ خطبہ صاف کرتے وقت تک آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں۔
1 :لینگوافرینکا:(LINGUA FRANCA) ایسی زبان جس میں مختلف زبانیں بولنے والے تبادلۂ خیال کر سکیں۔
2 :درثمین اُردو۔ صفحہ158۔ زیرِ عنوان متفرق اشعار
1 :متی باب 19آیت 24
2 : … وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰـهَ كَثِيرًا… (الجمعۃ:11)
3 :النور:38
4 :التوبۃ:34
5 :غُلّق:غلک ، نقدی رکھنے کا برتن
6 : وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ (البقرۃ: 44)
7 :آل عمران:135
8 :المائدۃ:3
9:البقرۃ:151
10: اَوْ فُوْالْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام: 153 )
11: صحیح بخاری کتاب البیوع باب النجش و من قال لا یجوز ذٰلک البیع
12 : ابن ماجہ ابواب التجارات باب الحکرۃ والجلب
13: ابن ماجہ کتاب الرھون باب اجر الاجراء
14: كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَا١ۖۚ ا۟لْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ(البقرۃ :181)
15:الحکم 24 جولائی 1902ء صفحہ 11
16:الذاریات:20
17:سنن ترمذی ابوابُ البیوع باب ماجَاء فِی الْاِحْتِکَار
18:البقرۃ:181
19:بخاری کتاب الایمان باب ما جاء اَنَّ الْاَعْمَال بِالنِّیَّۃِ وَالْحِسْبَۃِ
20:البینۃ:9
1 :سوانگ: تماشہ ، شعبدہ، نقل (فیروز اللغات اردو جامع)
2 : صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر
3 :درثمین فارسی صفحہ143 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ
1 :بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
2 :آل عمران:98
3 : سیرت المہدی روایت نمبر 257
4 :سیرت ابن ہشام جزو 3 صفحہ331 ، 332 مطبوعہ قاہرہ 1965ء (مفہوماً)
5 :تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 1546۔ بیروت لبنان
6 :اسدالغابۃ جلد 3 صفحہ157۔ مطبوعہ ریاض 1286ھ ابوداؤد ابواب الجمعۃ بَاب الْإِمَامِ يُكَلِّمُ الرَّجُلَ فِي خُطْبَتِهٖ
7 :اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً (المجادلة:13)
8 :ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ (المجادلة:14)
9 :ترمذی ابواب المناقب باب رِجَاءَہٗ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّکُوْنَ اَبُوْبَکْرٍ
:10تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 12 زیر عنوان غزوۃ تبوک دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1971ء میں "بعشرۃ اٰلاف دینار" کے الفاظ ہیں۔
:11بخاری کتاب الرِّقَاق بَاب يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ
:12الضُّحٰی:12
:13جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء اَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَنْ یَّرٰی اَثْرَ نِعْمَتِہٖ علٰی عَبْدِہٖ
:14 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ(الغاشیۃ 23 :)
:15المائدة:68
1 :بخاری کتاب الاجارۃ بَاب مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ
1 :تذکرہ صفحہ660 ایڈیشن چہارم
2 :النبأ:11،12
3 :ابوداؤدکتاب الوتر باب فی الاستغفار میں "مِائَۃَ مَرَّۃٍ" کے الفاظ ہیں۔
1 :ابوداؤدکتاب الصلٰوۃ باب ما یقول اذا خاف قومًا
2 :البقرۃ:154
------------------------------------------------------------
 
Top