• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 27

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 27


1
تبلیغی جہاد میں شامل ہونے والے واقفینِ زندگی اپنے ناموں سے اطلاع دیں
(فرمودہ 25 جنوری 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے آج پھر مجھے خطبہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ گو ابھی صحت ایسی اچھی تو نہیں کہ مَیں بیٹھ کر سجدہ کر سکوں بلکہ تکیوں پر ہی سجدہ کرتا ہوں۔ سجدہ کرنے کے لئے اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تین چار دن سے مَیں بغیر کَرُچز 1(Crutchs)کے چلتا ہوں جس کی وجہ سے گھٹنوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹری مشورہ یہی تھا کہ جب اس درد سے آرام آ جائے تو مجھے تھوڑا تھوڑا چلنا چاہئے تاکہ جوڑ اپنی جگہ پر رُک نہ جائیں۔ مَیں نے سمجھا کہ اس حالت میں جبکہ مَیں چلنے لگ گیا ہوں مجھے خطبہ کے لئے ضرور جانا چاہئے۔ سیڑھیاں کَرُچز کے سہارے چڑھ لوں گا اور منبر تک بغیر کسی سہارے کے چلا جاؤں گا۔ اگر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور خطبہ سے مجھے کوئی خاص تکلیف پھر دوبارہ نہ ہو جائے اور وہ اپنے فضل سے موجودہ تکلیف کو برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے تو مَیں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ جلد ہی باہر کے کاموں کی دیکھ بھال شروع کر دوں گا۔ میری یہ بیماری نہ صرف اس لئے تکلیف دہ تھی کہ بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لئے بھی بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہوئی کہ یہ ایسے موقع پر آئی جبکہ ہمارے مبلغین کے وفود غیر ممالک کو جانے والے تھے۔ اور جلسہ سالانہ بھی قریب تھا۔ وفود کا باہر بھیجنا کوئی معمولی کام نہیں۔ ایک نادان اور کوتاہ بین انسان کے نزدیک کسی وفد کا بھیجنا کوئی اہم کام نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر بے انتہا کوشش اور متواتر سُرعت کے ساتھ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے گزشتہ ایام میں پچیس مبلغ غیر ممالک میں بھیجے ہیں اور آٹھ نو کے قریب تیار ہیں جو جلدی ہی باہر جانے والے ہیں۔ لیکن ان کے چلے جانے پر ہمارا کام پورا نہیں ہو جائے گا بلکہ ان پچیس مبلغوں کے جانے کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے اپنے گھر کے پچیس نئے دروازے کھولے ہیں اور جو لوگ ان دروازوں میں سے داخل ہوں گے وہ اپنی ضروریات کو ہمارے سامنے پیش کریں گے۔ چنانچہ ایک ملک سے مبلغین کی طرف سے دو تاریں آئی ہیں۔ ایک تار میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں دس مبلغ بہت جلد بھیجے جائیں۔ کرایہ اور دیگر اخراجات کا انتظام ہم کریں گے۔ اور دوسری تار میں انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ جماعت نے مطلوبہ مبلغین کے لئے کرایہ اور دوسرے اخراجات کے لئے کئی ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے۔ اب ہمیں فوراً مبلغین بھیج دئیے جائیں۔ اسی طرح ایک اور جماعت سے اطلاع آئی ہے جو ہے تو اس جماعت کی قدرت اور طاقت سے باہر۔ لیکن رپورٹ آئی ہے کہ اس ملک کی جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپس میں انہوں نے تجویز کی ہے کہ ڈیڑھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ جمع کیا جائے اور پھر خلیفۂ وقت کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی جائے تاکہ مصلح موعود والی خواب میں وہ بھی شریک ہو جائیں۔ کیونکہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مَیں دوسرے ملکوں کی طرف جا رہا ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس خواب میں ان کے ملک کا بھی حصہ ہو اور وہ بھی اس میں شریک ہو جائیں۔
ایک اَور جگہ سے تار آئی ہے کہ وہاں انگریزی پڑھانے والے مدرّسین کی بہت ضرورت ہے اور بی۔ اے۔ بی ٹی پاس لوگوں کی وہاں بہت کھپت ہے۔ گو یہ تبلیغ کا حصہ نہیں لیکن اشاعتِ اسلام اور تبلیغ احمدیت میں یہ لوگ بہت مُمد و معاون ہو سکتے ہیں۔ یہ سب امور ایسے ہیں جو فوری طور پر کام کی طرف توجہ چاہتے ہیں۔ بہرحال ہم ان کی اس مانگ کو پیچھے نہیں ڈال سکتے لیکن اس وقت ہمارے پاس ایسے مبلغ موجود نہیں جن کو ہم فوری طور پر ان کےپاس بھیج دیں۔ نئے مبلغ اس صورت میں ان کے پاس بھیجے جا سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہے اور ان کو ابھی تک بلایا نہیں گیا ان میں سے کچھ مولوی فاضل ہوں یا بعض انگریزی اعلیٰ تعلیم رکھتے ہوں۔ مثلاً بی۔ اے یا ایم۔ اے ہوں۔ اگر ایف۔ اے یا انٹرنس پاس ہوں تو انہیں بھی کام پر لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وہاں بھیج دیا جائے اور وہاں کے مبلغین ان کو خود تیار کر لیں۔ لیکن یہ کہ ہم ان کو تیار شدہ مبلغ دیں یہ ہمارے لئے فِی الْحال مشکل ہے۔
مجھے اس بیماری میں دل کو کمزور کرنےو الی دوائیاں دی گئی ہیں۔ کیونکہ اس مرض کا علاج ایسی ہی دوائیوں سے ہوتا ہے اور چونکہ مجھے دن میں ہر چار چار گھنٹے کے بعد دوائی دی جاتی تھی اس لئے طبعی طور پر میرے حافظے پر ان دوائیوں کا اثر پڑا۔ اور مَیں بعض دفعہ بات کرتا کرتا بھول جاتا کہ کیا کہنے لگا تھا۔ اور بعض دفعہ دو منٹ کے بعد بات بالکل بھول جاتی تھی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس بیماری میں ایسی دوائیاں پلائی جاتی تھیں جو مجھے ایک قسم کے نشے میں رکھتی تھیں۔ گو دوائی تو نشہ آور نہیں تھی لیکن اس دوائی سے دل کی کمزوری، ضعف اور نقاہت اتنی ہو جاتی تھی کہ مَیں مدہوش سا رہتا تھا۔ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ اس بیماری سے بھی کوئی سبق دینا چاہتا ہے اگر ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اب مَیں اس پہلی تقریب پر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں(جلسہ سالانہ پر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو خطاب کرنے کی توفیق مل گئی تھی۔ اس کے بعد مَیں کوئی خطبہ یا تقریر نہیں کر سکا۔ اس لحاظ سے یہ پہلی تقریب ہے)کہ سترہ اٹھارہ ممالک میں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں۔ اور ان میں سے ایک ملک میں ان کے پہنچتے ہی وہاں سے تار آئی ہے کہ ہمیں دس مبلغین کی فوری ضرورت ہے۔ ان مبلغین کے اخراجات اور کرایہ کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ مَیں تمام ایسے واقفین کو جن کو بلایا نہیں گیا گو وہ اعلیٰ تعلیم نہ رکھتے ہوں ۔ لیکن وہ سمجھتے ہوں کہ وہ مبلغ کا کام سنبھال لیں گے اس غرض کے لئے بُلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ناموں سے ہمیں اطلاع دیں۔ ہم عموماً اس وقت تک اعلیٰ تعلیم کے لوگوں کو لیتے رہے ہیں یعنی عربی کے لحاظ سے مولوی فاضل اور انگریزی کے لحاظ سے بی۔ اے یا ایم۔ اے ۔ بعض ایف اے بھی تھے۔ لیکن دینی لحاظ سے وہ اچھا علم رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ہم لے لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ دنیوی علم تو خود پڑھ سکتے ہیں اور دینی تعلیم، قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیثیں ہم ان کو پڑھا دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسے نوجوان ہوں جو انٹرنس یا ایف۔اے پاس ہوں لیکن وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتب کا مطالعہ رکھتے ہوں، دینی امور سے واقفیت رکھتے ہوں تو ایسے نوجوانوں کو بھی جلد ہی باہر بھیجا جا سکتا ہے۔ پس یہ وقت ہے کہ جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرکے اس کامیابی اور کامرانی کو حاصل کر سکتے ہیں جو اس زمانہ میں احمدیت کے لئے مقدر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا ایک حوالہ آج ہی خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو کتنی حسرت تھی اس بات کی کہ مسلمان اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ آپ فرماتے ہیں مَیں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی ہے اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کرتے۔2رسول کریم ﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی اس وقف سے مراد بھی درحقیقت وہی صحابہ کا وقف ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زندگی وقف کرنے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت فرض تھی۔ خواہ کسی حصہ میں کوئی شخص ایمان لاتا اس کے لئے حکم تھا کہ فوراً ہجرت کر کے مدینہ پہنچو اور خدمتِ اسلام کے لئے اپنی جان اور مال لگا دو۔
ہمارے وقف اور صحابہؓ کے وقف میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم واقفین اپنے ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ لیکن صحابہؓ دوسرے ملک سے اپنے ملک میں بلائے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں وقف کی یہ صورت تھی کہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاؤ۔ ہمارے زمانہ میں وقف کی یہ صورت ہے کہ اپنا وطن اور اپنا گھر بار چھوڑ کر غیر ممالک میں اشاعتِ اسلام کے لئے چلے جاؤ۔ دونوں صورتوں میں گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے، وطن سے بے وطن ہونا پڑتا ہے اور باہر جا کر دشمنوں سے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ پس ہمارے واقف جو حقیقی طور پر اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں وہ بھی مہاجر ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے وطن اور اپنے گھر بار چھوڑ دئیے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ ہماری جماعت میں بھی بہت سے نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف نہیں کیں۔ اگر وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تو میرے نزدیک وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تبلیغِ اسلام کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہو اور وہ بھی پوری نہ ہو۔ اور دوسری طرف جنگ یورپ میں اپنی قوموں کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے لکھوکھہا آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہو۔ اب جبکہ اسلامی جنگ شروع ہوئی ہے تو قدرتی بات ہے کہ باہر سے مانگ پر مانگ آئے گی۔ ابھی پیچھے ہی ایک ملک کے مبلغین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر ہمیں بارہ مبلغ اَور مل جائیں تو دس سال کے اندر اندر ملک کی اکثریت احمدیت میں داخل ہو جائے گی۔ وہ تمام قسم کے اخراجات خود برداشت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ صرف ہم سے کام کرنے والے آدمی مانگتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افریقہ میں ایک لاکھ شلنگ کا ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے کہ جس کی آمد سے ہمارے وہاں کے مبلغ لٹریچر وغیرہ شائع کریں گے۔ یہ کتنی بیداری اور کتنا جوش ہے جو اِن ممالک میں احمدیت کے لئے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے جوش اور اخلاص میں ترقی دے۔ آمین
دوسری سکیم مَیں نے وقف تجارت کی جماعت کے سامنے پیش کی تھی۔ ابھی تک اِس تحریک میں ساٹھ ستّر نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ میرے نزدیک اس میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ابھی تک فوجوں سے فارغ نہیں ہوئے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ تعداد کم ہے۔ اگر یہاں کے لوگ جو فارغ ہیں وہی اپنے آپ کو پیش کرتے تو یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی۔ انہیں دینی فائدہ بھی ہوتا اور وہ دنیوی فائدہ بھی اٹھاتے۔
تجارت ایک ایسی چیز ہے جس سے یہ دونوں چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ جس جگہ پر لاکھوں لاکھ روپیہ ہمارا سالانہ خرچ ہونا تھا اس کی بجائے ہمیں کئی لاکھ روپیہ اس طرح سے مل جائے گا اور تبلیغ بھی ہوتی رہے گی۔ تجارت کے لئے رستے کُھل رہے ہیں اور دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں لکھ رہے ہیں کہ آپ آدمی بھیجیں ہم ان کی ہر قسم کی امداد کریں گے۔ اسی طرح ہندوستان کے متعلق بھی ارادہ ہے کہ تجارت کے ذریعہ تبلیغ کے دائرہ کو وسیع کیا جائے۔ اگرہماری یہ سکیم کامیاب ہو جائے اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب ہو گی تو ہمیں مفت میں پانچ ہزار مبلغ مل جائیں گے۔ بجائے اس کے کہ ہم پانچ ہزار مبلغین پر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کریں۔ ان کے ذریعہ ہمیں لاکھوں روپیہ کی آمد شروع ہو جائے گی۔ فرض کرو فی مبلغ ہمیں سو روپیہ دینا پڑے تو ایک سال کے لئے ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بعض شہر ایسے ہیں جہاں ایک سو میں گزارہ نہیں ہو سکتا جیسے بمبئی یا کلکتہ ہے۔ ایسے شہروں میں تین یا چار سو روپیہ ماہوار خرچ دینا پڑے گا۔ لیکن اگر یہی فرض کریں کہ فی مبلغ ایک سو روپیہ ماہوار دیں تو ایک مہینہ کا خرچ پانچ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور ایک سال کا خرچ ساٹھ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے پانچ ہزار نوجوان تجارتی اصول پر اپنی زندگیاں وقف کریں تو ہمیں یہ ساٹھ لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی بجائے پندرہ یا بیس لاکھ روپیہ سالانہ وہ نوجوان بھجوائیں گے۔ گویا ایک صورت میں ہمیں پندرہ بیس لاکھ روپیہ کی سالانہ آمد ہوتی ہے اور دوسری صورت میں ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کتنی مفید اور جماعت کی مالی حالت کو درست کرنے والی یہ سکیم ہے۔ لیکن اس سکیم کی طرف جماعت نے ابھی تک پوری توجہ نہیں کی۔
تیسری چیز جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ تعلیم ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ جب مَیں کسی چیزکے متعلق تحریک کروں تو اس کے معاً بعد اس چیز کی ضرورت محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اب تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم والوں کا مطالبہ ہم سے بے انتہاء طور پر شروع ہو گیا ہے۔دو ملک والوں نے لکھا ہے کہ ہمیں بائیس مبلغین دئیے جائیں اور ابھی ان کے علاوہ سترہ اٹھارہ ملک ایسے ہیں جہاں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں اور ابھی ان کے مطالبے باقی ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں چار پانچ سو مبلغین کی ضرورت ہے۔ اور یہ علاقے ایسے ہیں جن میں ایسے مبلغین کی ضرورت ہے جو بی۔ اے یا ایم۔ اے ہوں۔ پھر ہمارے محکمے اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ تین سال کے اندر اندر کارکنوں کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ تحریک جدید نے ابھی اپنے آپ کو منظّم نہیں کیا۔ وقف زندگی کرنے والے نوجوان اس میں اکثر کام کرتے ہیں۔ اگر ان کو انہی کاموں پر روک رکھا جائے تو بیرونجات کے مبلغین میں کمی آ جائے گی۔ اسی لئے مَیں نے بار بار تعلیم پرزور دیا ہے کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو دن بدن تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ غیرتعلیم یافتہ آدمی باہر نہیں بھیجے جا سکتے۔ نہ ہی ان کے سپرد کوئی ذمہ داری کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سلسلہ کی بعض اَور سکیمیں جاری ہیں ان کے لئے بھی ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سلسلہ کے دفاتر کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے بعض دفاتر کے کام اسی لئے پوری طرح نہیں ہو رہے کہ ان میں کارکنوں کی کمی ہے۔ اور نئے آدمی ہمیں اس لئے نہیں مل رہے کہ ہمارے اندر تعلیم کی کمی ہے۔ ہندوؤں کے اندر اس زمانہ میں بھی پندرہ پندرہ بیس بیس روپے کے کلرک مل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر تعلیم اتنی زیادہ ہے کہ وہ تمام کے تمام عمدہ نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے اور جو فارغ رہ جاتے ہیں وہ پندرہ پندرہ بیس بیس روپے کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں ہندوؤں سے تعلیم نسبتاً کم ہے گو دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ ہے اس لئے ہماری ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں دوسری قوموں کی نسبت زیادہ بیداری ہے اور ہماری جماعت کے نوجوان دوسری مسلم جماعتوں کے نوجوانوں سے محنتی زیادہ ہیں اس لئے گورنمنٹ کے محکموں میں ان کو عزت مل جاتی ہے۔ جس محکمہ میں ایک احمدی ہو افسر اس کو کہتے ہیں کہ اَور احمدی بلاؤ۔ ایک محکمہ کے افسر نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں اپنے محکمہ میں احمدیوں کو تلاش کر کر کے رکھتا ہوں حالانکہ مَیں احمدی نہیں ہوں اور نہ ہی احمدیت سے مجھے کوئی دلچسپی ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ احمدی محنتی اور دیانتدار ہوتے ہیں اس لئے مَیں احمدیوں کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں۔ پس اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جو احمدیوں کو ان کے محنتی اور دیانتدار ہونے کی وجہ سے بڑی محبت سے ملازم رکھتے ہیں۔ تو کچھ تعلیم یافتہ طبقہ تو ملازمت میں چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں کی نسبت ہماری جماعت میں ملازمت پیشہ لوگ زیادہ ہیں ۔ اور کچھ حصہ ایسا ہے جو تجارت میں لگا ہؤا ہے اور وہ تجارت کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ آزاد کام کرنے کے عادی ہیں۔ پس ان دو چیزوں کی وجہ سے ہمیں تعلیم یافتہ آدمی کم ملتے ہیں۔ یعنی ایک تو ملازمت اور دوسرے تجارت یا صنعت و حرفت۔ ان دونوں سے جو بچتے ہیں وہ اتنے تھوڑے رہ جاتے ہیں کہ سلسلہ کی ضرورت ان سے پوری نہیں ہوتی۔ اور ہماری جماعت میں ابھی تعلیم کی اتنی کمی ہے کہ جب کسی علاقہ سے کسی واقف کو قادیان میں باہر بھیجنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو علاقے کا علاقہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ آپ یہیں اس کو وقف سمجھ لیں۔ اس کے علاوہ کوئی شخص اس علاقہ میں کام کرنے والا نہیں ہے۔ اگر ہماری جماعت میں تعلیم زیادہ ہو تو یہ دقتیں پیش نہ آئیں۔ اگر ہماری جماعت میں زیادہ مولوی فاضل ہوں تو ہماری مشکلات بہت حد تک دور ہو سکتی ہیں۔ اب تو جامعہ احمدیہ میں طلباء کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ایک طرف سارے پنجاب کے مولوی فاضل ہوں اور دوسری طرف ہمارے۔ تو پھر بھی ہمارے مولوی فاضل ان سے کئی گُنا زیادہ ہوں گے۔ لیکن باوجود اس کے پھر بھی ہمارے کاموں کے لئے کم ہیں۔ آجکل آٹھ نو طالب علم مولوی فاضل کا امتحان دیتے ہیں لیکن غیر احمدی امتحان دینے والے جو پہلے کم ہوتے تھے اب بڑھ گئے ہیں۔ اسی لئے مَیں نے دوبارہ تحریک کی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچوں کو اعلیٰ دینی تعلیم دلانے کے لئے انہیں مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانا چاہئے۔ اس پر تیس پینتیس لڑکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ جن میں سے کچھ داخل ہونے کے بعد کِھسکنے شروع ہو گئے لیکن پھر بھی پچیس چھبیس باقی ہیں۔ لیکن ان پچیس سے ہمارا کام نہیں بنتا،پچاس سے بھی کام نہیں بنتا، سَو سے بھی کام نہیں بنتا بلکہ ہمیں ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مَیں نے اس سے پیشتر جماعت کو بتایا تھا کہ اگر سو لڑکا ہر سال جامعہ احمدیہ سے تحصیل ِعلم کے بعد فارغ ہو تو دس سال میں جا کر ہم ہزار مبلغ تیار کر سکتے ہیں لیکن اگر ہر سال بمشکل پچیس طلباء جامعہ سے فارغ ہوں تو اس لحاظ سے تو ہم دنیا کی مانگ کو کسی صورت میں پورا کر ہی نہیں سکتے۔ اب دنیا کے چاروں طرف سے مبلغین کی مانگ آنے والی ہے اور مبلغین کا کام بہت وسیع ہونے والا ہے۔ ابھی ابھی ایک جگہ سے دس مبلغین کی اور دوسری جگہ سے بارہ مبلغین کی مانگ آئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اس سےز یادہ کی ضرورت ہے کیونکہ مانگنے والا ڈرتا ہے کہ کہیں زیادہ مطالبہ سے کام نہ بگڑ جائے۔ بے شک انہوں نے اس وقت بارہ مبلغوں کا مطالبہ کیا ہے لیکن جب ہم ان کو بارہ مبلغ دے دیں گے تو وہ کہیں گے اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ چوبیس مبلغ دے دیں تو پھر کام ہو جائے گا۔ جب چوبیس مبلغ دے دئیے جائیں گے تو پھر کہیں گے کہ ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکا اور اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اگر آپ چھتیس مبلغ ہمیں دے دیں تو کام ہو جائے گا۔ جب ان کو چھتیس مبلغ دے دئیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی۔ اصل میں سَو مبلغوں کی ضرورت ہے اگر آپ سَومبلغ دے دیں تو پھر یہ کام ضرور ہو جائے گا۔ آخر ملکوں میں تغیر پیدا کرنا اور ان کے مذہب کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے بہت بڑی جد و جہد اور بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور غیر ممالک کی جماعتوں کا تو ہمیں یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ تبلیغ کا خرچ خود اٹھاتی ہیں اور ہم پر بار نہیں بنتیں اور بعض ملک مبلغین کا کرایہ وغیرہ بھی خود برداشت کرتے ہیں۔ ہمارا کام صرف ایسے آدمی بھیجنا ہوتا ہے جو وہاں جا کر کام کریں۔ شام، فلسطین اور مصر سے جو آمد ہوتی ہے وہ ہماری اس رقم سے جو ہم ان کے لئے خرچ کرتے ہیں کم نہیں ہوتی اور ہمیں کچھ اپنے پاس سے ادا نہیں کرنا پڑتا۔ گویا وہ حقیقت میں آپ ہی اپنی رقم خرچ کرتے ہیں۔ پس اس وقت ایسے تعلیمیافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے جو غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجے جا سکیں۔ جیسا کہ مَیں نے تحریک جدید کے شروع میں کہا تھا کہ اس کے کاموں کو چلانے کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ روپیہ پیدا کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے،تبلیغ کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، صنعت و حرفت کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، تجارت کے کاموں کو چلانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ پس آج آدمیوں کی ہمیں سخت ضرورت ہے لیکن ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو مخلص اور تعلیم یافتہ ہوں۔ تعلیم کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک سکولوں اور کالجوں میں لڑکوں کی تعداد آٹھ دس گنے بڑھ جانی چاہئے تھی۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے سکول نے پہلے سے ترقی کی ہے۔ آج سے چھ سات سال پہلے ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں چھ سات سو کے قریب طالب علم تھے اور اب اس میں سولہ سو سے کچھ اوپر طالب علم ہے لیکن درحقیقت جماعت کی ضرورتوں کے مطابق یہ ترقی کچھ بھی ترقی نہیں ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہؤا کہ ہمارے کالج میں جو احمدی لڑکے داخل ہوئے ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جو تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں۔ کل کو احمدی والدین کالج کے پروفیسروں پر الزام لگائیں گے کہ انہوں نے ہمارے بچوں کو کچھ پڑھایا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے لڑکے خود تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں۔ اس نکھد3 ڈویژن کے پاس شدہ لڑکوں کے فیل ہونے پر پروفیسروں پر کیا الزام آ سکتا ہے۔ مَیں نے جماعت کے دوستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ والدین کو بچپن میں بچوں کی پوری نگرانی کرنی چاہئے۔ جو والدین بچوں کی نگرانی نہیں کرتے اور ان کی تعلیم کی فکر نہیں کرتے وہ قتلِ اولاد نہیں کرتے تو اَور کیا کرتے ہیں۔ یہ قتلِ اولاد نہیں تو اَور کیا ہے کہ انسان بچوں کی محبت کی وجہ سے ان کو تعلیم سے غافل رکھے۔ صرف کامیابی ہی مقصود نہیں ہوتی، جنت میں جانے والا انسان ادنیٰ درجہ میں جائے تو اس پر اسے خوش ہونا نہیں چاہئے۔ جو بچوں کی روحانی تربیت مکمل نہیں کرتے ان کی اولاد جنت میں گئی تو ادنیٰ درجہ کی جنت میں جائے گی۔اور جو تعلیم میں غفلت کرتے ہیں ان کی اولاد کے لئے دنیاوی جنت میں سوائے چپڑاسیوں کی جنت کے اَور کوئی جگہ نہیں ہے۔ پس ایسے لوگوں کے لئے نہ دنیا میں عزت ہے اور نہ آخرت میں۔
ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے درس کےد وران میں بیان فرمایا کہ دوزخ عارضی چیز ہے اور کچھ مدت کے بعد دوزخیوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور انہیں اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا۔ (جیسا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے) ایک امیر آدمی بھی اس درس میں شامل تھا کہنے لگا مولوی صاحب! جَزَاکَ اللہ۔ پہلے اس بات کا علم نہ تھا اور ڈر رہتا تھا کہ ہمیشہ کی دوزخ میں پڑیں گے۔ اب یہ بات سن کر سر سے بوجھ اُتر گیا ہے کہ آخر تو سب جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس پر حضرت خلیفۂ اول نے فرمایا کہ مَیں تمہیں پچیس روپے دیتا ہوں تم باہر نکل کر پانچ جوتیاں کھا لو۔ اس پر وہ بہت سٹ پٹایا اور کہنے لگا مولوی صاحب! شرم کی بات ہے، آپ نے غصہ ہو کر ان طالب علموں میں میری بے عزتی کر دی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہیں ان طالب علموں کے سامنے اتنی بات پر اعتراض ہے تو جہاں تمہارے باپ دادے، پڑدادے سب جمع ہوں گے اور دوزخ میں تمہیں سب کے سامنے پچاس ہزار سال تک جوتیاں پڑیں گی کہ تم دوزخ کے عارضی ہونے پر خوش ہو گئے ہو وہاں تمہیں شرم نہ آئے گی؟ لیکن ہمارے لوگ کہتے ہیں شکر ہے لڑکا پاس تو ہو گیا ہے۔ ان کو یہ علم نہیں کہ جوں جوں تعلیم آگے چلتی ہے مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ سکولوں کا نتیجہ عام طور پر ستّر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے لیکن کالج میں جا کر وہی نتیجہ پینتالیس فیصدی ہو جاتا ہے حالانکہ کالج میں پڑھنے والے تو وہی طلباء ہوتے ہیں جو ان سکولوں سے جاتے ہیں۔ جہاں ان کا نتیجہ ستّر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالب علم کالج میں جا کر کُند ذہن ہو جاتے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ معیارِ تعلیم بلند ہو جاتا ہے۔ پس جو لڑکا پہلے ہی سکول میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کا عادی ہو وہ کالج میں جا کر کیا ترقی حاصل کر سکتا ہے۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے میں تو پھر بھی بعض لڑکے فرسٹ ڈویژن حاصل کرتے ہیں لیکن ایم۔ اے میں جا کر فرسٹ ڈویژن حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض یونیورسٹیاں ایسی ہیں کہ جن میں آج تک کوئی طالب علم ایم اے کا فرسٹ ڈویژن میں پاس نہیں ہؤا۔ ہمارا ایک احمدی لڑکا ہے اس نے انٹرنس (Intrance) میں ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ایف اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بی۔ اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا۔ سنا گیا ہے کہ جب وہ لڑکا ایم۔ اے میں آیا تو ہندو پروفیسروں نے غصے سے اسے کہا کہ دیکھو! ہم تمہاری خبر لیں گے۔وہ اب شاید کوئی الزام لگا کر خبر لیں گے۔ لیکن اس سال خبر آئی ہے کہ ایک ہندو لڑکے کو انہوں نے سو فیصدی نمبر دئیے ہیں تاکہ آئندہ کوئی لڑکا یہ نہ کہہ سکے کہ اس نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اگر سو فیصدی نمبر بھی حاصل کر لے گا تو اتنے نمبر لینے والا ایک لڑکا پہلے موجود ہو گا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس طرح انہوں نے اس احمدی لڑکے کا رستہ بند کر دیا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ جوں جوں طالب علم کالج کی اوپر کی کلاسوں میں جاتا ہے تعلیم سخت ہوتی جاتی ہے۔ اگر انٹرنس سے ہی طلباء تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوں تو وہ ایف۔ اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے۔ اور اگر کچھ طالب علم پاس بھی ہو جائیں تو وہ بی۔ اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے۔ وہ شخص جو اپنے لڑکے کے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے پر خوش ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گنّا چِھیلیں تو رَس تو ہمارا دشمن لے جائے اور چھلکا ہم لے آئیں۔ جس کا کچھ حصہ ہم جلا دیں اور کچھ حصہ سے پچھی 4وغیرہ بنا لیں۔ تم خود ہی بتاؤ کہ کون فائدہ میں رہا۔ ہم یا ہمارا دشمن؟ ہم دشمن کا مقابلہ اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ خالی تھرڈ ڈویژن میں کسی بچے کا پاس ہو جانا کوئی خوشی کی بات نہیں بلکہ اس بات پر خوش ہونا بھی بہت شرم کی بات ہے۔ تعلیم کی کمی کی ذمہ داری صرف والدین اور جماعت پر ہی نہیں بلکہ سکول والوں پر بھی ہے کیونکہ لڑکے دن کا اکثر حصہ سکول میں گزارتے ہیں۔ سکول والے کیوں ان کی نگرانی نہیں کرتے اور کیوں ان کو محنت سے کام کرنے کی تاکید نہیں کرتے؟ والدین تو ان اوقات میں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے۔ پس میرے نزدیک بہت حد تک اس معاملہ میں سکول پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں نگرانی نہیں کی۔ بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ننانوے فیصدی ذمہ داری اس کی اساتذہ پر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سکول کے طالب علم نکمے ہوتے ہیں لیکن آریہ سکولوں کے طالب علم ہوشیار ہوتے ہیں۔ کیااحمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے نَعُوْذُ بِاللہ ان پر نحوست چھا جاتی ہے؟ کیا احمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے؟ مَیں اس بات کو کبھی مان نہیں سکتا کہ بچوں کےدماغ اچھے نہیں بلکہ مَیں کہتا ہوں تمہاری دس سال کی پڑھائی نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ جب وہ لڑکا قادیان میں رہتا ہے، اس کے والدین بھی قادیان میں رہتے ہیں تو جب وہ لڑکا سکول سے غیر حاضر ہوتا ہے استاد کیوں سو رہتے ہیں؟ کیوں اس کے والدین کو نہیں کہتے کہ تمہارے لڑکے میں فلاں خرابی ہے اس کو دور کرو۔ کیوں استادوں پر افیون کھانے والے کی سی حالت طاری رہتی ہے؟ اور کیوں نہیں وہ پانچویں چھٹے دن بولتے کہ ان لڑکوں میں یہ خرابی ہے؟ اور کیوں مقامی لڑکوں کے والدین کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کرتے؟ اور جو لڑکے بورڈر ہیں ان کے تو وہ خود ذمہ دار ہیں۔ ان کے والدین نےانہیں ان کے سپرد کیا ہے وہ ان کی تعلیم اور ان کے اخلاق کے ذمہ دار ہیں۔ پس بورڈروں کے لئے ان کے پاس کیا بہانہ ہے؟ کیونکہ وہ تو چوبیس گھنٹے انہی کے پاس رہتے ہیں۔ ایسے بہانے کرنے سے تو بہتر ہے کہ زمین پھٹ جائے اور یہ بہانے کرنے والے اس میں سما جائیں۔ اگر بے حیائی سے کام لیا جائے تو اَور بات ہے لیکن اگر یہ استاد لڑکوں کی نگرانی کرنا چاہتے تو کیا وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے ؟ اور جو لڑکے باوجود ان کےسمجھانے کے اپنی اصلاح نہ کرتے وہ ان کے والدین سے کہتے اگر وہ بھی اصلاح کے لئے کوشش نہ کرتے تو مقامی انجمن سے کہتے۔ بار بار جلسے کرتے اور ان کے والدین کو توجہ دلاتے۔
ہٹلر نے دس سال میں اپنی قوم کے خیالات بدل ڈالے اور ان میں ایک ایسی روح بھر دی کہ وہ اس کے لئے جان پر کھیلنے کو تیار ہو گئے۔ ہر ایک بات کا انتظام خلیفہ یا انجمن کرے یہ نہیں ہو سکتا۔ آخر یہ اساتذہ کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ دو پوستی ایک بیری کےد رخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس سے ایک سپاہی گزرا تو ان میں سے ایک نے اس سپاہی کو آواز دی۔ میاں سپاہی! خدا کے واسطے میری بات سننا۔ سپاہی سمجھا کہ کوئی بے چارہ مصیبت میں مبتلا ہو گا۔ جب وہاں گیا تو دیکھا کہ دو آدمی وہاں لیٹے ہوئے ہیں۔ سپاہی نے ان سے پوچھا کیوں بھئی! تم نے مجھے کس لئے بلایا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا۔ میاں سپاہی! تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ یہ بیر جو میری چھاتی پر پڑا ہے ذرا تکلیف کر کے میرے منہ میں ڈال دینا۔ سپاہی کو بہت غصہ آیا۔ ایک تو بات ہی غیر معقول تھی اوردوسرے وہ تھا بھی سپاہی۔ اس نے اسے گالیاں دینی شروع کیں۔ خبیث، بدمعاش، تُو نے مجھے سو گز سے بلایا۔ کمبخت! تیرے ہاتھ موجود نہیں کہ تُو چھاتی سے بیر اٹھاکر منہ میں ڈال لے۔ اس کا ساتھی بولا میاں سپاہی! یہ ایسا کمبخت ہے کہ اس کی بات کچھ نہ پوچھو ساری رات کُتّا میرا منہ چاٹتا رہا ہے اس نے ہشت تک نہیں کی۔ یہی حال ہمارے ان اساتذہ کا ہے۔ ہر کام میں کہتے ہیں کہ انجمن کچھ نہیں کرتی، خلیفہ ہماری مدد نہیں کرتا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ پڑھانا تم نے ہے یا ہم نے؟ کیا ہمارے پاس کوئی اور کام نہیں ہےہم اپنے محکموں میں کام کریں یا تمہارا کام کریں؟ یہ تمہارا فرض تھا کہ اگر لڑکے کام نہیں کرتے تھے تو تم ان کے ماں باپ کو بلاتے اور ان کو ان کے حالات سے آگاہ کرتے۔ محلّوں میں جلسے کرتے اور ان کو اس کی طرف متوجہ کرتے۔ آخر محبت اور پیار کے ساتھ ہزاروں باتیں ہو جاتی ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ تم ان کو محبت اور پیار سے بار بار کہتے، ان کے والدین کو توجہ دلاتے تو وہ لڑکے سُدھر نہ جاتے۔ اگر بفرضِ محال بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی کچھ رہ جاتے جو اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو پھر تم ان کو قواعد کے مطابق سزائیں دیتے۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آرام سے بیٹھے رہیں اور ان کا کام کوئی اَور کر دے۔ پس میرے نزدیک اس کی کُلّی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے۔ اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عُذر کرے تو مَیں تو کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے۔ اگر لڑکے ہوشیار نہیں تھے ، اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑکے پڑھائی کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے۔ اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں۔
ہماری جماعت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول اب نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی کیونکہ کام پر کام نکل رہے ہیں جس کی وجہ سے مانگ پر مانگ آ رہی ہے۔ صنعت و حرفت کا محکمہ ہے۔ اس کے ماتحت محکمہ والے نئی نئی سکیمیں بنا کر لاتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں اس کے لئے آدمی لاؤ مگر چونکہ آدمی نہیں ہوتے اس لئے سکیم رہ جاتی ہے۔ اگر پچاس سکیموں کے چلانے کا اس وقت موقع ہوتا ہے تو آدمیوں کی قلت کی وجہ سے بمشکل ایک یا دو سکیمیں چلتی ہیں اور اس طرح ایک دن کا کام بیس پچیس دن میں ہوتا ہے۔ پس ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمیوں کی ضرورت کا ایک حصہ ماں باپ پورا کر سکتے ہیں اور دوسرا حصہ سکول اور کالج کے لوگ پورا کر سکتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ اور دوسرے باہر کے احمدیہ مدارس اس حصہ کو پورا کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ صحیح رنگ میں کوشش کریں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر آدمی نہ ملے تو لڑائی کس طرح لڑی جا سکتی ہے۔ آخر یہ تو بات نہیں کہ پھونکیں مارنے سے کام ہو جائے گا۔ ہماری جماعت کی موجودہ حالت میں آدمیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے ویسی ہی مثال ہے جیسے بخارا میں مولویوں نے کیا۔ جب روس نے بخارا پر حملہ کیا تو مولویوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا منع ہے اور چونکہ توپوں میں آگ استعمال ہوتی ہے اور بندوقوں میں بھی۔ اس لئے جو شخص توپ اور بندوق استعمال کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ اس وجہ سے بخارا والوں نے ان کے مقابل پر توپیں اور بندوقیں نہ بنائیں۔ جب روس نے حملہ کر دیا تو چونکہ بخارا والے توپیں اور بندوقیں نہیں چلا سکتے تھے اس لئے وہ تلواریں اور نیزے لے کر میدانِ جنگ میں ان کے مقابل پر آئے۔ ان کے میدانِ جنگ میں آنے پر توپچیوں نے گولے برسانے شروع کر دئیے۔ بھلا توپ کے آگے تلوار کا کیا کام۔ دو تین گولوں سے ہی کئی آدمی مارے گئے اور باقی سب ڈر کر بھاگ آئے اور انہوں نے علماء کو کہا کہ وہ تو قابو نہیں آتے، بہت سخت ہیں۔ علماء نے کہا اچھا ہم وہ آلے لے کر جن سے بکریوں کے لئے پتے جھاڑے جاتے ہیں جائیں گے اور کافروں کے پاؤں میں ڈال ڈال کر ان کو کھینچیں گے۔ چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ان کی طرف پھونکیں مارنی شروع کر دیں۔ ابھی دو چار گولے ہی پڑےتھے کہ مولوی بھاگ نکلے اور میدان صاف ہو گیا۔ واپس آ کر کہنے لگے کہ بہت خبیث شیطان معلوم ہوتے ہیں جن پر قرآن بھی اثر نہیں کرتا۔ ہماری جماعت کو ہر ایک عقلمند تسلیم کرتا ہے اور سب کو یہ اعتراف ہے کہ یہ عقلمندوں کی جماعت ہے۔ پھر بھی عقل و شعور رکھتے ہوئے معلوم نہیں کیوں جماعت ان مولویوں کی طرح اپنی جہالت کا ثبوت مہیا کر رہی ہے۔ آخر جماعت کو عقلمندی سے کام لینا چاہئے۔ جہاں روپے کی ضرورت ہے وہاں ہماری جماعت کو روپیہ دینا پڑے گا، جہاں آدمیوں کی ضرورت ہے وہاں ہماری جماعت کو آدمی پیدا کرنے ہوں گے۔ روس کو دیکھو۔ انہیں آدمیوں کی ضرورت تھی۔ جنگ سے پہلے روس کی آبادی سترہ کروڑ تھی۔ اڑھائی کروڑ کی آبادی انہوں نے ‘‘لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی’’ کے مقولہ کے مطابق مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے بڑھالی۔ یہ بیس کروڑ ہو گئے۔ جنگ میں اس کے ایک کروڑ کے قریب لوگ مر گئے لیکن پانچ کروڑ کی نئی نسل انہوں نے پیدا کر لی ہے اور اب روس کی آبادی کا اندازہ 24، 25 کروڑ کا ہے۔ گویا ایک کروڑ آدمی کے مرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ملک کی آبادی بڑھا لی ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ بعض لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ بچے ہوں تو خرچ کس طرح چلے گا اس لئے نسل کم کی جائے لیکن زندہ قومیں اس کی پروا نہیں کرتیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کمی کو پورا کریں۔ اسی طرح اگر تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہو تو پھر وہ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔ اگر تجارت اور صنعت و حرفت کی ضرورت ہو تو اس طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔ غرض جس چیز کی بھی ضرورت ہو زندہ قومیں فوراً اس طرف متوجہ ہو کر اس کمی کو پورا کر لیتی ہیں۔ اور درحقیقت بیداری کے معنے یہی ہیں کہ جہاں کہیں سوراخ ہو اس کو بند کر دیا جائے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ استاد کہتے ہیں ، والدین اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور والدین کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے لڑکے ان کو سونپ دئیے ہیں اب ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں۔ اور والدین کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہےکیونکہ انہوں نے اپنی اولاد ان کے سپرد کر دی ہے۔ اب استادوں کا کام ہے کہ ان کی طرف متوجہ ہوں اور ان کی اصلاح کریں۔ اگر ان کی اصلاح نہیں ہوئی اور اگر وہ اپنا کام صحیح طور پر نہیں کرتےاور نالائق ثابت ہوتے ہیں تو یہ ان اساتذہ کی نالائقی کا ثبوت ہو گا۔ اساتذہ کو تو چاہئے تھا کہ وہ لڑکوں اور ان کے والدین کو بار بار سمجھاتے۔ کبھی کسی محلے میں جلسے کرتے اور کبھی کسی محلہ میں۔ جس محلہ میں جلسہ کرتے اس محلہ کے طالب علموں کے والدین کوبلاتے اور انہیں بتلاتے کہ آپ کا لڑکا اتنےدن سکول سے غیر حاضر رہا ہے۔ اس میں یہ یہ کمزوری اور خامی ہے۔ اس طرح والدین کو بھی ان کی کمزوری اور خامی کا علم ہوتا ۔ اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو والدین کو کیا پتہ کہ وہ روزانہ سکول کا کام کرتا ہے یا نہیں۔ یا جو کام اس کو سکول سے ملا ہے اس نے کیا ہے یا نہیں۔ اگر والدین کو ان کی ان خامیوں کا علم ہو تو وہ پھر اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔ شروع میں شاید نہ بھی ہوں لیکن تم انہیں اس بات پر مجبور کردو کہ یا تو ہمیں اجازت دو کہ ہم مار پیٹ کر ان کی اصلاح کریں اور یا پھر خود ان کو باقاعدہ بناؤ۔ اس طرح یقیناً لڑکے سُدھر جائیں گے۔
دیکھو! جب چندے کی تحریک شروع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اسے ایک پیسہ سے شروع کیا تھا مگر اب کم ہی ایسے ہوں گے جو چندہ نہ دیتے ہوں یا جو چندوں میں سُستی کرتے ہوں ورنہ اکثریت ہماری جماعت میں ایسے ہی لوگوں کی ہے جو دو آنے فی روپیہ یا تین آنے فی روپیہ یا چار آنے فی روپیہ بلکہ پانچ آنے فی روپیہ تک چندہ دے دیتے ہیں۔(یعنی چندہ عام اور دوسرے چندے تحریک جدید وغیرہ کے ملا کر) یہ سب ترقی آہستہ آہستہ ہوئی ہے۔ مَیں مانتا ہوں کہ یکدم کوئی تغیر نہیں ہو سکتا لیکن یہ تمہارا کام تھا کہ تم جلسے کرتے، والدین کو توجہ دلاتے، بار بار محلوں میں جاتے اور لوگوں کو بتاتے کہ ہمارے سکول کا نتیجہ خراب ہوتا ہے،ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے آپ لوگ کیوں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کرتے ؟ کیوں ان کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں رکھتے؟ کیوں وہ آوارگی کی طرف مائل رہتے ہیں؟ یا تو آپ اس کا انتظام کریں یا ہمیں سزا کی اجازت دیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو اساتذہ کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور نکل آئے گا یا تو والدین اس کی خود اصلاح کریں گے یا ان کو سزا کی اجازت دے دیں گے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمیں تعلم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے سکول والے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے عدمِ تعاون کررہے ہیں اور ہماری امداد کرنے کی بجائے انہوں نے سٹرائیک کی ہوئی ہے۔ جو نکمے اور نکھد لڑکے ہوتے ہیں وہ ہمیں دیتے ہیں۔ نہ وہ تعلیمی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں، نہ ان کو محنت کی عادت ہوتی ہے۔ جب ان کو کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو وہ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہیں پیاسا رہوں گا، ایک پیسہ تک سلسلہ سے نہ لوں گا، جنگلوں میں جاؤں گا، پہاڑوں میں جاؤں گا، جہاں جانا پڑے مجھے کوئی عذر نہ ہوگا، اپنی جان و مال اور عزت کی قربانی کروں گا۔ لیکن جب اس کو کسی جگہ مقرر کیا جاتا ہے تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور ساتھ ہی خط بھی لکھ دیتا ہے کہ چالیس روپے میں گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے مَیں اس کام کو چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ مجھے معاف کیا جائے اور مجھے واقفین میں ہی سمجھا جائے۔ کُجا وہ وعدہ جو اس نے ہمارے ساتھ کیا تھا اور کُجا اس کا یہ فعل۔ ایک واقف نے لکھا کہ مَیں اداس ہو گیا تھا اور وہاں میرا دل نہیں لگتا تھا اس لئے مَیں وہاں سے گھر آ گیا ہوں مجھے معاف کیا جائے۔ امید ہے کہ میرے وقف کو توڑا نہیں جائے گا۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے شخص کا وقف کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ میدان سے بھاگ کر اپنے ماں باپ کی بغل میں بیٹھا رہے یا بیوی کے پاس وقت گزارے اور اس کا وقف بھی قائم رہے یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے۔ ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی ذمہ داریاں ڈالی ہوئی ہیں۔ ان کو پورا کرنے والا ہی مجاہد کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک نوجوانوں میں محنت سے کام نہ کرنے کی عادت کی ذمہ داری استادوں اور والدین پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انہوں نے بچوں کو محنت اور مشقت کا عادی نہیں بنایا۔
ہمارا مقابلہ تو اُن قوموں سے ہے جن کے نوجوانوں نے چالیس پچاس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی عمریں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مر گئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجادیں اپنی قوم کو دے گئے۔ مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے ردّی شدہ بندوقیں منگوائیں اور انہی سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جرمن آ جائے ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے۔ اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے۔ اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے توہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کر سکے تو کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ چلے جائیں گے۔ مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے۔ ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے نوجوان دئیے جاتے ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم بھوکے رہیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم جنگلوں اور پہاڑوں اور ویرانوں میں جائیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم وطن سے بے وطن ہوں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے لیکن جب ان کو کام پر لگایا جاتا ہے تو کوئی کہہ دیتاہے کہ میرا چالیس روپے میں گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے بھاگ آیا ہوں، کوئی کہہ دیتا ہے کہ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا اس لئے مَیں کام چھوڑنے پر مجبور ہؤا۔ اور ساتھ ہی لکھ دیتا ہے کہ سلسلہ میرے اس فعل پر بُرا نہ منائے اور میرا وقف قائم رکھا جائے ۔ جاتا تو وہ اپنے ماں باپ یا بیوی کی معیت میں وقت گزارنے کے لئے ہے کیونکہ وہ اداس ہو گیا تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میرا وقف قائم رکھا جائے۔ ایسے نوجوان ہیں جو ہمیں دئیے جاتے ہیں۔ ان سے کسی نے کام کیا لینا ہے ۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہلیں سوائے اس کے کہ ان کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے پیچھے نہ آئے۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بر دوش ہےمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ5 کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کر رہے ہیں۔ یہ وقف ہے جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے۔
پس اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور انہیں محنت کا عادی بنائیں۔ نماز، روزہ اور دیگر اسلامی احکام کا ان کو پابند کریں۔ دین کے کاموں کے متعلق ان کے اندر دلچسپی پیدا کریں۔ اساتذہ طالب علموں کے ماں باپ کو انگیخت کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا پورا پورا خیال رکھیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی اپنے بچوں کے آئندہ اچھے یا بُرے مستقبل کی ذمہ دار ہوتی ہیں کیونکہ بچہ اکثر اخلاق چھوٹی عمر میں سیکھتا ہے۔ اگر مائیں کڑی نگرانی کریں اور ان کے اندر کوئی بری عادت پیدا نہ ہونے دیں تو وہ بڑے ہو کر بہت حد تک بری عادات سے محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن اگر بچپن میں ہی بچے کو چوری کی یا جھوٹ بولنے کی یا کوئی اَور بری عادت پڑ جائے اور والدین پیار کی وجہ سے اسے اس عادت سے باز نہ رکھیں تو وہ بڑا ہو کر اس عادت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی ماں تھی اس کا لڑکا چور ہو گیا۔ پھر چور سے ڈاکو بنا۔ ایک دفعہ ڈاکہ میں اس سے قتل ہو گیا۔ اس قتل کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ملی۔ جب اسے پھانسی دینے لگے تو اس نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ مَیں اپنی ماں سے ایک بات کر لوں۔ اس پر ماں کو بلایا گیا۔ جب وہ آئی تو اس نے کہا مَیں اس سے کان میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا اسی طرح کر لو۔ اس نے اپنا منہ ماں کے قریب لے جا کر زور سے اس کے کلّے کو کاٹا۔ ماں چیخیں مارتی ہوئی پیچھے کو بھاگی۔ لوگوں نے اس کو *** ملامت کی کہ تم بڑے بد کردار آدمی ہو ، تمہیں پھانسی مل رہی ہے اور پھر بھی تم نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی اور تمہارا دل نرم نہیں ہؤا۔ اب تم نے ماں کے کلّے پر کاٹ کھایا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ لوگوں کو علم نہیں کہ مجھ کو یہ پھانسی میری ماں کی وجہ سے مل رہی ہے۔ میرا کلّہ کاٹنا پھانسی کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ میری ماں کو میری جگہ پھانسی ملنی چاہئے تھی۔ پھر اس نے بتایا کہ مَیں چھوٹا بچہ تھا لیکن آوارہ پھرا کرتا تھا۔ اگر کوئی شخص میری ماں سے میرے متعلق کوئی شکایت کرتا تو میری ماں اس سے لڑتی تھی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں۔ یہ لوگ دشمنی سے ایسا کہتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ان کو میرے بچے سے دشمنی ہو گئی ہے میرا بچہ تو نالائق نہیں۔ مَیں مدرسے سے پنسل، کاغذ، قلم، دوات وغیر چُرا کر لاتا تو میری ماں مجھے کہتی یہاں نہ رکھو کوئی دیکھ لے گا وہاں رکھو۔ اگر کوئی شخص میری چوری کے متعلق شکایت کرتا تو میری ماں اسے گالیاں دیتی کہ ناحق میرے بچے کو بدنام کر رکھا ہے۔ ان باتوں سے مَیں چور بنا اور پھر چور سے ڈاکو بنا۔ پھر ڈاکہ میں مجھ سے یہ قتل ہؤا جس کی وجہ سے مجھے پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔ اس قتل کی ساری ذمہ داری میری ماں پر ہے۔ اس لئے اس کا کلّہ کاٹا جانے کی بجائے درحقیقت پھانسی کی سزا اسے ملنی چاہئے تھی نہ کہ مجھے۔ اسی طرح بعض لڑکے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتے ہیں اور ماں باپ روکتے ہیں کہ زندگی وقف نہ کرو بلکہ کسی دوسری جگہ ملازمت کر لو۔ چندہ سے دین کی خدمت کرتے رہنا حالانکہ جہاں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں چندہ سے کام نہیں بنتا۔ میرے نزدیک اس کی ایک حد تک ذمہ داری لجنہ اماء اللہ پر بھی ہے۔ اگر لجنہ اماء اللہ دین کی ضرورتوں اور وقف کی اہمیت کو اچھی طرح عورتوں کے ذہن نشین کرا دے تو سال کے اندر اندر جس طرح کہتے ہیں کہ زمین نے اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیا اسی طرح عورتیں بھی اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیں۔ عورتوں کا کلیجہ اولاد ہوتی ہے ۔ اگر مائیں اپنے لڑکوں کو زندگی وقف کرنے اور دوسرے دینی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کریں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کرنے لگ جائیں۔
اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ اسلامی لشکر کو ایک جگہ کچھ شکست ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے تمام آدمی جومہیا کئے جا سکتے تھے اس لشکر کی مدد کے لئے بھیج دئیے مگر لشکر پھر بھی کم تھا۔ ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ تھی او رمسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیس ہزار تھی اور جس مقام پریہ جنگ ہو رہی تھی اس مقام کےد رمیان اور مدینے کے درمیان کوئی روک نہ تھی۔ اسلامی جرنیل نے اس وقت ایک تقریر کی کہ تم آج اسلام کے احیاء اور بقا کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم آج شکست کھا گئے تو تمہارے اور مدینے کے درمیان کوئی فوج نہیں جو اس لشکر کو روک سکے۔ اگر دشمن یہاں سے نکل گیا تو سیدھا مدینے پر جا کر حملہ کرے گا۔ اس وقت خنساء نامی ایک مشہور شاعرہ عورت نے اپنے تینوں لڑکوں کو بلایا اور کہا۔ تمہارا باپ بدکار تھا۔ مَیں اپنے بھائی سے قرض لا لا کر اسے دیتی رہی۔ آخر وہ مر گیا اور تم چھوٹے چھوٹے رہ گئے۔ مَیں نے محنت مزدوری کر کے تمہیں پالا اور اپنی ساری زندگی پاکیزگی اور پاکدامنی سے گزاری اور تم ان تمام باتوں کے گواہ ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر خنساء نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ مَیں نے تمہیں بہت محنت و مشقّت سے پالا ہے۔ اور اس کے بدلے میں تم سے کوئی خدمت نہیں لی؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ پھر ماں نے کہا تم میرے تین بچے ہو اور تمہارے بغیر میرا دنیا میں کوئی نہیں اور میری محبت تمہاری خدمت سے ظاہر ہے۔ دیکھو! آج اسلام پر ایسا وقت ہے کہ اسے لڑائی کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے تم لڑائی میں جاؤ ۔ اگر شام کو فتح پا کر لَوٹے تو زندہ لَوٹنا نہیں تو تمہاری لاشیں میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی نظر آئیں۔ اگر تم نے میرا یہ حکم نہ مانا تو مَیں قیامت کے دن تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ لڑکوں نے کہا۔ ہاں اماں ہمیں منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے۔6سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں کو اس جنگ میں پیش آئی وہ یہ تھی کہ ایرانی اس جنگ میں لڑائی کےسد ھائے ہوئے ہاتھی مقابلہ پر لے آئے تھے ۔ جب کوئی گھوڑا یا اونٹ ہاتھیوں کے سامنے آتا تھا تو بھاگ جاتا تھا۔ ایک مسلمان جرنیل آیا اور اس نے ان تینوں میں سے دو بھائیوں کو کہا کہ تم میرے ساتھ مل کر چلو۔ ہم سامنے سے ہاتھیوں پر حملہ کر دیں۔ گو موت یقینی ہے لیکن امید ہے کہ اس طرح باقی مسلمان بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا ہمیں منظور ہے۔ ہاتھی پر سامنے سے حملہ کرنا بہت مشکل ہوتاہے کیونکہ جو لڑائی کے لئے سدھائے ہوئے ہاتھی ہوتے ہیں وہ آدمی کو سونڈ میں لپیٹ کر زمین سے اٹھا کر دے مارتے ہیں۔ انہوں نے جاتے ہی سردارِ لشکر کے ہاتھی پر حملہ کر دیا ۔ دونوں بھائیوں میں سے ایک ہاتھی کے دائیں طرف ہو گیا اور دوسرا بائیں طرف اور وہ جرنیل خود سامنے کھڑا ہوگیا۔ جب سامنے سے جرنیل حملہ کرتا تو ہاتھی دائیں بائیں منہ پھیرتا۔ جب ہاتھی دائیں طرف منہ کرتا تو دائیں طرف والا اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا۔ ہاتھی اسے اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا۔ پھر جب ہاتھی بائیں طرف منہ کرتا تو دوسرا بھائی اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا۔ ہاتھی اسے بھی اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا لیکن وہ دونوں بھائی اس کے پہلوؤں سے نہ ہٹے حتّٰی کہ انہوں نے اسے بُری طرح زخمی کر دیا۔ آخر ہاتھی گھبرا کر پیچھے بھاگا۔ اس ہاتھی کا بھاگنا تھا کہ دوسرے اس کے ساتھ کے ہاتھی بھی بھاگ نکلے اور ہاتھیوں کے بھاگنے سے دوسرے لشکر میں کھلبلی مچ گئی اور سارا ایرانی لشکر بھاگ نکلا اور اسلامی لشکر نے فتح پائی۔ پس یہ بھی عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کا میدانِ جنگ میں شہید ہونا پسند کیا اور ناکامی کی صورت میں ان کا منہ دیکھنا پسند نہ کیا۔ اور آج وہ عورتیں ہیں کہ بچوں کو زندگی قربان کرنے کی تعلیم دینا تو الگ رہا انہیں زندگی وقف کرنے سے روکتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں جذباتی رنگ بہت غالب ہوتا ہے ۔ اگر ان کے جذبات سے اپیل کی جائے تو وہ نیکی میں کہیں سے کہیں نکل جاتی ہیں۔
ایک جنگ میں حضرت سعدؓ کمانڈرتھے ۔ ان کو ایک نو مسلم سپاہی کے متعلق شکایت پہنچی کہ اس نے شراب پی ہے۔ حضرت سعدؓ نے اسے قید کر دیا۔ حضرت سعدؓ کے سُرین پر گمبھیر 7تھا۔ اس لئے سواری پر نہ بیٹھ سکتے تھے۔ آخر عرشہ بنوایا گیا اور عرشے پر نیم دراز ہو کر حضرت سعدؓ احکام جاری فرماتے رہے۔ جہاں حضرت سعدؓ کا خیمہ تھا اس کے پاس ہی وہ سپاہی قید تھا۔ جس وقت لڑائی کے نعرے بلند ہوتے یا لڑائی کے میدان سے کوئی افسوسناک آواز آتی تو یہ نَو مسلم غصے کی وجہ سے زنجیر کو کھینچتا اور کہتا اے کاش! مَیں آج جنگ میں شریک ہوتا۔ کوئی مسلمان ایسا ہے جو مجھے آزاد کر دے گو مَیں گنہگارتو ہوں لیکن اسلام کا درد میرے سینے میں دوسروں سے کم نہیں۔ مگر مسلمان سپاہی اس کو آزاد کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت سعدؓ کی ناراضگی سے ڈرتے تھے۔ آخر ان کی بیوی نے کہا کہ خواہ کچھ ہو جائے مَیں اس کی زنجیر کھول دیتی ہوں۔ مجھ سے اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ انہوں نے اس کی زنجیر کھول دی اور اسے آزاد کر دیا۔ وہ منہ پر نقاب ڈال کر مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔ مسلمان لشکر کے ساتھ مل کر وہ جس جگہ بھی حملہ کرتا باقی لشکر کے دل بھی بڑھ جاتے تھے۔ جب شام کو لڑائی بند ہوئی تو وہ بھاگ کر اپنی جگہ پر آ گیا اور حضرت سعدؓ کی بیوی نے اس کو پھر زنجیر لگا دی۔ حضرت سعدؓ کو شک پڑتا تھا کہ آج حملہ کے وقت فلاں آدمی معلوم ہوتا تھا کیونکہ حملہ تو اسی طرح کرتا تھا۔ پھر کہتے وہ تو قید ہے وہ نہیں کوئی اَور ہو گا۔ اگلےد ن پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو حضرت سعدؓ کی بیوی نے اسے کھول دیا اور وہ پھر مسلمان لشکر میں جا ملا اور نہایت شجاعت اور بہادری سے دشمن کے لشکر پر حملہ کرتا رہا۔ آخر شام کو جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور حضرت سعدؓ کو شک پڑ گیا کہ حملہ کےو قت مجھے وہی سپاہی معلوم ہوتا تھا جسے مَیں نے قید کیا ہؤا ہے۔ بیوی سے کہا تمہاری شرارت معلوم ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے تم نے اسے کھول دیا تھا۔ مَیں تمہیں قانون شکنی کی سزا دوں گا۔ بیوی نے کہا آپ جو سزا چاہیں مجھے دیں لیکن میری غیرت نے یہ برداشت نہ کیا کہ میرا خاوند تو محض لڑائی کا نظارہ دیکھتا رہے اور جس شخص کو اسلام کا اس قدر درد ہو کہ وہ لڑائی کی آوازوں پر زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرے اسے اس طرح قید رکھا جائے۔ بیوی کی یہ دلیرانہ بات سن کر حضرت سعدؓ کا غصہ جاتا رہا اور انہوں نے اس نومسلم کو معاف کر دیا۔8
پس عورتوں میں جذباتی رنگ غالب ہوتا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کا فرض تھا کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کرتی کہ آج اسلام کو ان کے نوجوان لڑکوں کی ضرورت ہے، آج اسلام کو ان کے خاوندوں کی ضرورت ہے، آج اسلام کو مالوں کی ضرورت ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز بِلا دریغ پیش کر دیں۔ اگر یہ طریق اختیار کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ لو گ جو ایمان میں کمزور تھے وہ بھی اعلی اخلاص کا نمونہ پیش کرتے۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے تو میری بیوی نے پختہ احمدی بنایا ہے۔ جب مَیں تنخواہ لے کر آتا تو وہ مجھے کہتی کہ کیا آپ چندہ دے آئے ہیں؟ مَیں کہتا کل دے دوں گا تو وہ کہتی مَیں اس مال سے کھانا نہیں پکاؤں گی۔ اس پر بسا اوقات مجھے آدھی آدھی رات کو جا کر چندہ دینا پڑا اور جب مَیں رسید دکھاتا تب وہ کھانا پکاتی، نہیں تو کہہ دیتی کہ مَیں حرام روپیہ سے کھانا نہیں پکاؤں گی۔پس اگر عورتیں ہمارا ساتھ دیں اور وہ بچوں سے کہیں کہ اگر تم زندگی وقف نہ کرو گے، اگر تم اپنے اندر دینداری پیدا نہ کرو گے تو مَیں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور مَیں خدا سے کہوں گی کہ اس نے میرا حق ادا نہیں کیا، میرا بیٹا میرا عاق ہے اس نے میرا کہا نہیں مانا تو تھوڑے ہی عرصے میں کایا پلٹ سکتی ہے۔ اگر مائیں یہ طریق اختیار کریں تو ننانوے فیصدی لڑکوں کی اصلاح ہو جائے اور ننانوے فیصدی لڑکے تعلیم میں تیز ہو جائیں اور ان کے اندر بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہو جائے۔
مَیں اس موقع پر جماعت کی عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو تحریک کریں کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کریں اور جن لڑکوں کو سلسلہ قبول نہیں کرتا ان کو تحریک کریں کہ وہ اپنے خرچ سے بچا ہؤا روپیہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئےد یں۔ اگر ان کے لڑکے اس کام کے لئےتیار نہ ہوں تو ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ دے کہ تم نے میرا حق ادا نہیں کیا اور مَیں قیامت کے دن خدا کے سامنے تمہارے متعلق کہہ دوں گی کہ یہ میرا نافرمان بیٹا ہے اس نے میرا کہا نہیں مانا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عورتیں ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں۔ جس دن عورتیں یہ طریق اختیار کریں گی تم سمجھ لو کہ لڑکوں کی اصلاح کرنا بہت آسان ہو جائے گا اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں بیداری سے کام کرنے لگیں گے۔ پس تعلیم کی ترقی ہماری جماعت کے لئے از حد ضروری ہے۔ تعلیم انسان کو صحیح راستہ تلاش کرنے اور حقیقت کے سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے اور جو کام بھی انسان کرے اس کے لئے اس میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ ایک دوست نے ذکر کیا کہ میرا دادا احمدی تھا لیکن باپ غیر احمدی ۔ مَیں نے خیال کیا کہ میرا دادا بزرگ آدمی تھا وہ ناحق پر نہیں ہو سکتا۔ کوئی صداقت ضرور ہو گی جس کی وجہ سے اس نے احمدیت کو قبول کیا۔ چنانچہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور مَیں احمدی ہو گیا۔ اب یہ نتیجہ اس کی تعلیم کا نکلا ۔ اگر غیر تعلیم یافتہ ہوتا تو اسے ایسا خیال بھی نہ آتا۔ خیال آتا تو اَن پڑھ ہونے کے سبب سے کتب نہ پڑھ سکتا۔ پس جماعت کو اس وقت سینکڑوں نہیں ہزاروں تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ تحریک جدید کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ علاوہ ان کے پانچ ہزار واقفینِ تجارت کی ضرورت ہے اور ہماری یہ ضرورت پوری ہو نہیں سکتی جب تک جماعت تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط نہ کرے۔ ہماری جماعت میں اس قدر بی۔ اے اور ایم۔ اے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے اپنی ضرورت کو پورا کریں اور جو ہماری ضرورت سے بچیں وہ ہم گورنمنٹ کو دے سکیں۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سُرعت کے ساتھ جماعت کی ترقی کےد روازے کھل رہے ہیں اور وہ چیز جو ہمیں دور نظر آتی تھی بہت جلد آنے والی ہے۔ جس رنگ میں لوگوں میں بیداری اور توجہ پیدا ہو رہی ہے وہ بتاتی ہے کہ یوسف گم گشتہ کی خوشبو اب آ رہی ہے۔ یہ ہماری ہی کوتاہی اور غفلت ہو گی کہ ہم قافلہ نہ لے جائیں اور وہاں سے یوسف کو اپنے گھر نہ لے آئیں۔ ’’ (الفضل 30جنوری 1946ء)
1: کَرُچز : CRUTCHS: بیساکھی
2: ملفوظات جلد 1 صفحہ 369
3: نکھد: نکمّا ، ادنیٰ (اردو جامع فیروز اللغات)۔
4: پچھی: گنّے کا چِھلکا، پھوگ۔
5: الاحزاب: 24
6: اسد الغابة جزء خامس صفحہ 443 ۔ مطبوعہ طہران 1377 ھ
7: گمبھیر: ایک قسم کا پھوڑا۔
8: تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475،476۔ مطبوعہ بیروت 1965ء

2
عرش کا مالک خدا تم سے دین کے لئے قربانی طلب کرتا ہے
( فرمودہ یکم فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘چونکہ یہ دن دوائی کی باری کے ہیں اور ان دواؤں سے مجھے ضعف کی شکایت ہو جاتی ہے اس لئے مَیں زیادہ بول نہیں سکتا۔ صرف اختصاراً جماعت کو مَیں پھر اس مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف مَیں نے گزشتہ جمعہ میں بھی توجہ دلائی تھی۔ بالخصوص اس امر کی طرف مَیں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت متواتر مبلغین کی مانگیں آ رہی ہیں۔ بیرون ہند سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے بھی۔ او ربعض لوگ اپنے خرچ پر بھی مبلغ رکھنے کے لئے تیار ہیں مگر ہمارا مبلغین کا خزانہ بالکل خالی ہو چکا ہے۔ وہ مبلغ جو باہر گئے ہیں ابھی ان کے قائم مقام بھی ہمارے پاس پورے نہیں قریباً پچیس مبلغ باہر جا چکے ہیں لیکن ان کے قائم مقام ہمارے پاس صرف دس ہیں جو اس وقت تعلیم پا رہے ہیں اور ان میں سے بھی بعض ایک لمبے عرصہ کے بعد تعلیم سے فارغ ہوں گے۔ چنانچہ جو طالب علم آئندہ نکلنے والے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو تین سال کے اندر بھی فارغ نہیں ہو سکتے۔ کچھ چار سالوں میں فارغ ہوں گے اور کچھ پانچ سالوں میں۔ پس جماعت کے وہ نوجوان جن کے دلوں میں باہر جانے والے لوگوں کے کارنامے پڑھ پڑھ کر گدگدیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں خواہش ہوتی ہے کہ کاش! ہم بھی یہ کام کر سکتے، ان کو مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ نیک تحریکیں بھی دَورہ کے طور پر آیا کرتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب کوئی شخص نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سفید نقطہ لگ جاتا ہے اور جب کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح سیاہ اور سفید نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر کسی کی نیکیاں غالب آ جاتی ہیں تو اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور اگر کسی کی بدیاں غالب آ جاتی ہیں تو اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ 1 پس جب کسی شخص کے دل میں نیکی کی تحریک پیدا ہو اس کو چاہئے کہ جلد اس کی طرف قدم اٹھائے ورنہ اگر بار بار تحریک کے باوجود اس کا قدم نہ اٹھا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ رسول کریم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ایک دن اس کا دل پورے طور پر سیاہ ہو جائے گا۔ ہماری جماعت کے لئےیہ خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے کہ متواتر اور متواتر اور متواتر ہر جمعہ اور ہر تقریب پر ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی طرف بلائے جانے کے لئے آواز بلند کی جاتی اور دینِ اسلام کے لئے قربانی کرنے کے لئے تحریک کی جاتی ہے۔ ہر ذریعہ کو استعمال کر کے، اسلامی اور قرآنی شواہد کو استعمال کر کے، صحابہؓ کی بے نظیر قربانیوں کا نمونہ بتا کر، رسول کریم ﷺ کی خواہشات کو بیان کر کے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی تحریرات کو پیش کر کے، آپ کے زمانہ کے صحابہؓ کی قربانیاں پیش کر کے ، عقل کے ساتھ، زمانہ کے حالات اور زمانہ کے مفاسد دکھا دکھا کر، غرض ہررنگ میں تحریک کی جاتی ہے اور جب بھی وہ تحریک ہوتی ہے نوجوانوں کے دلوں میں ہمیشہ خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ہم بھی اس پر عمل کریں۔ لیکن پھر اردگرد کی مشغولیتیں، دوستوں کی مجلسیں اور اپنے عزیزوں اور ماں باپ کی حاجتیں حائل ہو جاتی ہوں گی۔ ان کے دل کا سفید نقطہ مُرجھانا شروع ہو جاتا ہو گا اور اس کی جگہ سیاہ نقطہ لگ جاتا ہو گا۔ اور ہر دفعہ جب یہ تحریک ہوتی ہو گی بجائے ان کو نیکی کی طرف توجہ دلانے کے ان کے سفید نقطہ کو آہستہ آہستہ سیاہ نقطہ میں تبدیل کر دیتی ہو گی۔ پس جہاں یہ بار بار کی تحریکیں جماعت کے ایک حصہ میں بیداری پیدا کرنے کا موجب ہیں وہاں دوسرے حصہ کے لئے خطرناک بھی ہیں کیونکہ وہ انہیں نظر انداز کرنے کے بعد اپنے دل پر سیاہ نقطہ لگانے کا موجب ہو جاتے ہیں۔ پس جماعت کے دوستوں کو جن کے دلوں میں ان تحریکوں سے کوئی نیکی کا ارادہ پیدا ہوتا ہے چاہئے کہ جلد از جلد اپنے مقصود اور نیک ارادوں کو پورا کرنے کے لئے قدم اٹھائیں۔ دنیا میں انسان پیدا بھی ہوتے ہیں اورمرتے بھی ہیں، دنیا میں مغلوب بھی ہوتے ہیں اور غالب بھی ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جو نبی کے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ خوش قسمت وہ قوم ہوتی ہے جو اس کے ابتدائی زمانہ میں ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے نبی کے ساتھ ہر قسم کی قربانی میں شریک ہو جائے۔ اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ بد قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کا زمانہ پایا لیکن اس کو نہ مانا۔ اور پھر سب سے زیادہ بد قسمت وہ شخص ہوتا ہے جس نے نبی کا زمانہ پایا اور خدمت کے مواقع بھی آئے لیکن اس نے خدمت نہ کی اور آسمانی تحریک اور آسمانی آواز کو کمزور کرنے کا موجب ہو گیا۔
پس مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام کا وقت ہے باتیں بنانے کا وقت نہیں۔ خدا تعالیٰ تمہارے دلوں پر نگاہ کئے بیٹھا ہے۔ دنیا کے بادشاہ نہیں بعض دفعہ ایک معمولی انسان بھی آواز بلند کرتا ہے تو لوگ اپنے جوابوں کے ذریعہ فضا میں ایک گونج پیدا کر دیتے ہیں۔ کسی جگہ گاندھی جی کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ کسی مجلس میں مسٹر جناح کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ مگر تم جانتے ہو تمہیں کس کی آواز بُلا رہی ہے؟ میری نہیں، کسی اَور انسان کی نہیں، کسی اَور بشر کی نہیں بلکہ عرش پر بیٹھے ہوئے خدا نے ایک آواز بلند کی ہے۔ تمہیں پیدا کرنے والا رب تمہیں اپنے دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے بلاتا ہے ۔ دنیوی لیڈروں کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی لبیک کا نتیجہ موت یا فتح ہو سکتی ہے اور دائمی موت بھی نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی آواز کا جواب دینے والوں کے لئے سوائے زندگی کے کچھ نہیں۔ اس کو کوئی شیطانی طاقت مار نہیں سکتی ۔کیونکہ جو پیدا کرنے والے کے لئے مارا جاتا ہے وہ ہمیشہ ہی زندہ کیا جاتا ہے۔
ہے تو یہ ایک کہانی اور تمسخر کی بات مگر ہندو بزرگوں نے لوگوں کو نیکی کی ترغیب دلانے کے لئے حقیقت کو ایسے واقعات میں بیان کیا ہے۔ ان میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک راجہ تھا اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ کسی نے اسے بتایا کہ برہما جو اصل خدا کا نام ہے اور جو سب سے بڑا خدا ہے اور جو اولاد دینے والا ہے اس کی پرستش کرو (ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کے جس قدر نام ہیں وہ سب اس کی طاقتوں یا ملائکہ کے نام ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کو خدا کا درجہ دے دیا گیا اور انہی کی پرستش شروع کر دی گئی اور برہما کو چھوڑ دیا گیا۔ اب شاید صرف ایک جگہ برہما کا معبد ہے اور کہیں بھی نہیں) چنانچہ اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہؤا ۔ جب لڑکے نے ہوش سنبھالا تو باپ کے دل میں خیال آیا کہ برہما نے جو کام کرنا تھا کر لیا اب مارنا تو شِو جی نے ہے۔ اس لئے اب برہما کو چھوڑ کر شِو جی کی پرستش شروع کر دینی چاہئے۔ چنانچہ اسی خیال سے اس نے برہما کو چھوڑ کر شِو جی کی پرستش شروع کر دی۔ جب لڑکابڑا ہؤا اور اس نے یہ باتیں سنیں کہ میری پیدائش اس رنگ میں ہوئی تھی تو اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی۔ باپ نے اس کو بہت منع کیا لیکن اس نے باپ کی بات کو نہ مانا اور کہا کہ جس نے احسان کیا ہے مَیں تو اس کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتا۔ آخر باپ بیٹے میں لڑائی شروع ہوئی اور اس نے اتنا طول پکڑا کہ باپ کےد ل میں ضد اور غصہ پیدا ہو گیا اور اس نے بیٹے کے خلاف شِو جی سے دعا مانگی کہ یہ میرا باغی ہو گیا ہے اور باوجود منع کرنے کے آپ کی پرستش نہیں کرتا بلکہ برہما کی پرستش کرتا ہے۔ آپ اس کی جان نکال لیں۔ چنانچہ شِو جی نے اس کی جان نکال لی۔ جب برہما کو معلوم ہؤا کہ وہ جو میری پرستش کرتا تھا اس کو میری پرستش کرنے کی وجہ سے مارا گیا ہے تو اس نے کہا کہ مَیں اسے دوبارہ زندہ کروں گا۔ چنانچہ اس نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ شِو جی نے غصے میں آ کر اسے پھر مار دیا۔ برہما نے اسے پھر زندہ کیا۔ شِو جی نے اسے پھر مار دیا اور برہما نے اسے پھر زندہ کر دیا او رغالباً یہ سلسلہ اس وقت سے لے کر اب تک جاری ہے اور آسمان پر برہما جی اسے زندہ کرتے ہیں اور شِو جی اسے مارتے ہیں۔
یہ ہے تو ایک کہانی مگر اس میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی راہ میں مارا جائے تو خدا اس کو دوبارہ دنیا میں زندہ کر دیا کرتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی قیمتی حقیقت ہے کہ خدا کے پرستار مرا نہیں کرتے۔ وہ مرتے ہیں تو پھر زندہ کر دئیے جاتے ہیں۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے لئے جانیں دیں اور وہ بے نسل تھے ،جوان تھے، ابھی ان کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے مگر ان کا نام آج تک زندہ ہےا ور قیامت تک زندہ رہے گا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو رسول کریم ﷺ کے مقرب صحابی تھے۔ وہ ابھی نوجوان تھے پندرہ سولہ سال کی عمر تھی کہ اسلام لائے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ میں اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ کسی نے جوش میں آ کر آپ کی ایک آنکھ نکال دی۔ انہوں نے ہجرت کی اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ جہاد میں شامل ہوئے اور جنگ اُحد کے موقع پر شہید ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کو وہ نہایت ہی پیارے تھے۔ اس قدر پیارے کہ رسول کریم ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم جب فوت ہوئے تو آپ نے ان کو غسل دے کر قبر میں ڈالتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس۔2 گویا رسول کریم ﷺ نے عثمان بن مظعونؓ کو اپنا بیٹا قرار دیا۔ عثمان بن مظعونؓ بغیر شادی کے اور بغیر اولاد کے فوت ہوئے تھے۔ لیکن آج اگر اس زمانہ میں دنیا کی سطح پر نوے فیصدی آبادی عثمان بن مظعونؓ کی اولاد ہوتی۔ ایسے عثمان بن مظعونؓ کی جس کو رسول کریم ﷺ کی صحبت نصیب نہ ہوئی ہوتی، ایسے عثمان بن مظعون کی جس کو رسول کریم ﷺ کے ساتھ اسلام کی قربانیوں کی توفیق نہ ملی ہوئی ہوتی، ایسے عثمان بن مظعون کی جسے رسول کریم ﷺ کے لئے جان قربان کرنے کی توفیق نہ ملی ہوئی ہوتی تو یقینی اور قطعی طور پر وہ نوے فیصدی آبادی دنیا کی نہ جانتی کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارا ایک دادا تھا جس کا نام عثمان بن مظعونؓ تھا۔ اگر کسی نہ کسی رنگ میں وہ عثمان بن مظعونؓ کا نام بھی سنتے تو ان کے دلوں میں کوئی جذبہ پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی تحریک ہوتی کہ وہ اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن آج جبکہ تیرہ سو سال گزر چکے ہیں، جبکہ عثمان بن مظعونؓ کے جسمانی تعلق کو دنیا سے ختم ہوئے تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے صرف اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے لئے کی، اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے دین کے لئے کی۔ جب بھی ایک مومن عثمان بن مظعونؓ کا نام لیتا ہے تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
بہرحال مرنے والے مرتے ہیں، بعض بغیر نسل کے مر جاتے ہیں اور بعض اولادیں چھوڑ کر مرتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ دنیا میں ان کی اولاد زندہ ہوتی ہے آخر وہ بے نسل ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی اولاد ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوتی۔ مگر جو خدا تعالیٰ کے لئے مارے جاتے ہیں، بے نسل ہوتے ہوئے بھی ان کی نسل دنیا میں باقی رہتی ہے اور ہرمومن اپنے آپ کو ان کی اولاد میں سےسمجھتا ہے اور ہر مومن کے دل سے ان کے لئے دعائیں بلند ہوتی ہیں جو ان کےد رجات کو بڑھاتی رہتی ہیں۔ پس وہ لوگ جو خدائے واحد کے لئے اپنی زندگی دیتے ہیں وہ موت قبول نہیں کرتے بلکہ زندگی قبول کرتے ہیں۔ اور جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے جان دینے سے دریغ کرتے ہیں وہ زندگی حاصل نہیں کرتے بلکہ موت کو قبول کرتے ہیں۔
پس تمہارے سامنے دونوں راہیں ہیں زندگی کی بھی اور موت کی بھی۔ تم میں سے ہر عقلمند اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا وہ موت کو پسند کرتا ہے یا زندگی کو۔ کیا وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کے دین کے لئے اپنی جان پیش کر کے اس کی محبت اور ابدی زندگی کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا بظاہر اپنی جان بچا کر *** کی موت اور گمنامی کی ذلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ’’
(الفضل 3 فروری 1946ء)
1: سنن ابن ماجہ کتاب الزّھد باب ذکر الذنوب
2: کنز العمال جلد 11 صفحہ 737 مطبوعہ حلب 1974ء

3
قادیان کے الیکشن میں مردوں نے عورتوں کے مقابلہ میں آدھا کام بھی نہیں کیا
( فرمودہ 8 فروری 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ آج مَیں ایک ایسے امر کے متعلق جو بظاہر دنیوی معلوم ہوتا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ آجکل پنجاب اسمبلی کے الیکشن شروع ہیں اور بعض احمدی دوست بھی بطور امیدوار کھڑے ہوئے ہیں۔ جن جن حالات میں اور جس جس پارٹی کے متعلق ہم نے مناسب سمجھا اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعض جگہ ہم نے مسلم لیگ کی مدد کی ہے اور بعض جگہ یونینسٹ(Unionist) پارٹی کی مدد کی۔ اس وقت مناسب نہیں کہ ان حالات کا مفصّل طور پر ذکر کیا جائے کیونکہ اگر اس وقت تفصیل کے ساتھ ان باتوں کا ذکر کیا جائے تو ان پارٹیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ الیکشن کے بعد جس وقت نقصان کا اندیشہ نہ رہے گا اس وقت ان حالات کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ بیان کیا جائے گا۔ اگر اب ان حالات کو بیان کیا جائے تو بہت سے اختلافات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کشمیر ایجی ٹیشن کے وقت ہم نے جو خدمات کیں ان کا ریکارڈ موجود ہے لیکن بعد میں انہی لوگوں میں سے جو ہم سے امداد اور مشورہ لیتے تھے اور ایک حد تک اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ بعض ایسے بدل گئے کہ انہوں نے اپنے علاقوں میں یہ بحث شروع کر دی کہ احمدیوں کو کشمیر کی انجمنوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت کئی لوگ میرے پاس آئے جن میں سے بعض احمدی بھی تھے کہ آپ بھی ان کے اسرار جو آپ کے پاس ہیں ظاہر کر دیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ احمدیوں سے کتنی امداد لیتے رہے ہیں اور اب کس طرح احسان فراموشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن مَیں نے ان کو جواب دیا کہ جب تک وہ براہ راست ہماری خدمات کاانکار نہ کریں مَیں ان کے اسرار کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا۔ اس دوران میں بعض آدمیوں نے اعلان کر دیا کہ احمدیوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ تو مَیں نے بعض خطوط نکال کر اپنے دوستوں کو دے دئیے کہ یہ خطوط ان کے جواب میں شائع کر دو۔ مگر بعض ایسے تھے جنہوں نے براہ راست کوئی ایسی بات نہیں کہی اس لئے مَیں نے ان میں سے کسی کے خطوط ظاہر نہیں کئے۔ او ربعض آج تک ہمارے پاس محفوظ ہیں کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں یہ بات وفاداری کے خلاف ہے۔ اگر وہ شرافت کے معیار سے گر گئے ہیں تو ہمیں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے اور ہمیں شرافت کے معیار سے نہیں گرنا چاہئے۔ اسی طرح اب بھی بعض سے گفتگوئیں ہوئی ہیں اور بعض سے تحریریں لی گئی ہیں لیکن وہی لوگ اب طرح طرح کی مخالفتیں کر رہے ہیں۔ مَیں ان تمام باتوں کے باوجود الیکشن کے دوران میں کسی کے متعلق کوئی بات ظاہر کرنا نہیں چاہتا اور نہ سلسلہ کے کسی کارکن کو اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔ بے شک وہ ہم پر اعتراض کرتے جائیں، ہمیں بُرا بھلا کہتے رہیں کہ ایسے نالائقوں سے کسی نے کیا مدد لینی ہے۔ کوئی عقل مند ایسے گردن زدنیوں سے مدد لینے کی کب خواہش رکھتا ہے مگر چونکہ اس وقت الیکشن میں ایسے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اس لئے مَیں ان کے متعلق باوجود ان کی مخالفت کے کسی قسم کا ذکر کرنا نہیں چاہتا ۔ لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہماری جماعت سے اچھے تعلقات رکھتا ہے اور وہ احسان اور نیکی کی قدر کو جانتا ہے اس کے متعلق ہمیں کوئی شکایت نہیں۔
اس کے بعد مَیں آج جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قادیان میں الیکشن ختم ہو چکا ہے اور جو کچھ کیا جا سکتا تھا یا جو کچھ کیا جا سکا ہے وہ سب ہو چکا ہے۔ اور جو بھی کمی کوشش میں رہ گئی ہے اب اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا لیکن جو جد و جہد بھی ہوئی ہے اس کا میرے دل پر اثر پڑا ہے کہ مردوں نے عورتوں سے آدھا کام بھی نہیں کیا۔ اور مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ قادیان کے مردوں نے اعلیٰ نمونہ قربانی کا پیش نہیں کیا۔ الیکشن کے پہلے ہی دن ستاسی سے لے کر ایک سو پچاسی تک ایسے آدمی ووٹ دینے کے لئے نہ آئے جو یہاں موجود تھے۔ مگر اپنے کسی کام کے لئے اِدھر اُدھرچلے گئے اور پھر وہ واپس وقت پر نہ پہنچے۔ خلیل احمد صاحب ناصر جو واقف زندگی ہیں، قادیان کے الیکشن کے انچارج تھے اور ان کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اس بارہ میں غفلت سے کام لیا۔ ایسی غفلت اور سستی سے کہ ایک واقف سے اس کا ہزارواں حصہ بھی سستی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ جب پہلے دن میں نے پوچھا تو اس وقت تک ایسے نقشے بھی تیار نہیں تھے جن سے یہ پتہ لگ سکے کہ کتنے آدمی حاضر ہیں، کتنے غیر حاضر ہیں، کتنے فوت شدہ ہیں، کتنے باہر ہیں جن کے آنے کی امید ہے اور کتنے ایسے ہیں جن کے آنے کی کوئی امید نہیں۔ مجھے جب وہ ملے اور مَیں نے ان سے پوچھا کہ ووٹوں میں اتنی غیر معمولی کمی کی وجہ کیا ہے؟ مجھے نقشہ لا کر دکھاؤ۔ تو انہوں نے کہا مَیں نقشہ لا کر دکھاتا ہوں۔ پھر وہ گئے اور ایسے گئے کہ رات بھی گزر گئی اور اگلا دن بھی گزر گیا اور دوسرے دن شام کو نقشہ میرے پاس لائے اور وہ بھی آئندہ الیکشن کے متعلق اور وہ بھی ناقص۔ چنانچہ ان کے حساب کےر و سے تین سو ووٹر گزر سکتا تھا مگر جب میاں بشیر احمد صاحب نے سب محلوں کے پریذیڈنٹوں کو بلا کر ساری رات بیٹھ کر نقشہ تیار کروایا تو پانچ سَو سے اوپر ووٹ موجود تھا اور وہ گزر بھی گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ نقشہ ان کے پاس تیار نہ تھا۔ میرے پوچھنے پر وہ نقشہ تیار کیا گیا اور پھر وہ نقشہ اس دن کا تھا جس دن کا پولنگ(Polling) ابھی ہؤا نہ تھا۔ اور گزشتہ پولنگ(Polling) کا نقشہ پھر بھی تیار نہ ہؤا تھا بلکہ جب مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تو کہا گیا کہ وہ الیکشن کے بعد بنا دیا جائے گا۔ بھلا الیکشن کے بعد اس نقشہ کے تیار کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ کہتے ہیں
مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلّۂ خود باید
کہ وہ گھونسہ جو جنگ کے بعد یاد آئے اپنے منہ پر مارنا چاہئے یعنی اگر بعد میں خیال آئے کہ مَیں دشمن کے فلاں جگہ گھونسہ مارتا تو وہ ہار جاتا تو ایسی صورت میں وہ گھونسہ خود اپنے کلّہ پر مارنا چاہئے کہ کیوں اسے وہ تجویز وقت پر نہیں سُوجھی۔ لیکن مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ گو حساب نہ جاننے کی وجہ سے ان سے بعض غلطیاں ہوئیں لیکن ان کا مجھے وقت پر پتہ لگ گیا اور مَیں نے ان غلطیوں کو دور کرنے کے متعلق ہدایات دے دیں ۔ جن کے مطابق انہوں نے نہایت تن دہی اور محنت سے کام کیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آ جائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت ہی قریب آ جائے۔ عورتوں نے اس دیوانگی سے کام کیا ہے کہ ان میں سے بعض کی شکلیں تک پہچانی نہیں جاتیں۔ انہوں نے کھانے کی پروا نہیں کی، انہوں نے سونے کی پروا نہیں کی، انہوں نے آرام کی پروا نہیں کی اور ایسی محنت سے کام کیا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں ان میں سے کسی کا تین سیر، کسی کا چار سیر اور کسی کا پانچ سیر وزن کم ہو گیا ہے۔ مگر مردوں نے عورتوں کے مقابل پر بہت کم کام کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی ذلیل کام کیا ہے۔ اور دفتر امور عامہ نے تو ایسے رنگ میں کام کیا ہے کہ گویا اس نے سلسلہ سے کوئی پرانی دشمنی نکالی ہے۔ ایک ہی کام کے متعلق محلہ کے پریذیڈنٹوں کو، خدام الاحمدیہ کے زعماء کو اور لجنہ اماء اللہ کو بِلا سوچے سمجھے اندھا دھند چٹھیاں لکھی گئیں اور اس سے گڑ بڑ پیدا ہو گئی۔ پھر عملی کام کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ اگر دفتر امور عامہ صحیح طور پر کام کرتا تو میرے نزدیک پندرہ سو ووٹ نیا بن سکتا تھا جو سستی کی وجہ سے نہیں بنایا گیا۔ اور پھر ایک کافی تعداد ایسے ناموں کی بھی ہے جو بالکل غلط طور پر چَھپے ہیں۔ قادیان میں چار ہزار آٹھ سو ووٹوں میں سے تین ہزار چھ سو ووٹ گزرا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ بارہ سو ووٹ ایسے ہیں جو رد ّی گئے ہیں۔ مجھے قادیان کے چار ہزار آٹھ سو ووٹ بتائے گئے تھے اور میرا ا ندازہ پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا تھا لیکن مَیں نے سمجھا کہ چار ہزار آٹھ سو ووٹ مجھے اس لحاظ سے بتائے گئے ہیں کہ فوجیوں کے ووٹ اس کے علاوہ ہیں۔ اس وجہ سے مجھے کُریدنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ فوجیوں کے ووٹ بھی اس چار ہزار آٹھ سو میں شامل ہیں تو مَیں ووٹوں کی کمی کی وجہ دریافت کرتا۔ میرے نزدیک قادیان میں چھ ہزار کے قریب ووٹ تھے جس میں سے چار ہزار آٹھ سو ووٹ بنوایا گیا اور اس میں سے تین ہزار چھ سو کے قریب گزرا اور اس طرح بارہ سو کے قریب ووٹ ضائع گیا۔ اور ایک ہزار سے زائد کے ووٹ بنوائے ہی نہیں گئے حالانکہ ایک ہزار ووٹ کوئی معمولی چیز نہیں۔ بعض علاقوں میں ہمارے آدمی پندرہ پندرہ دن تک دَوڑ دھوپ کرتے رہے اور موٹریں اور لاریاں کام کرتی رہیں مگر باوجود اتنی دوڑ دھوپ کے سو ووٹ بھی نہیں ملے۔ پس یہ ایک ہزار ووٹ جو ضائع ہؤا ہے دفتر امور عامہ کی غفلت اور کوتاہی سے ہؤا ہے بلکہ میرے نزدیک ایک ہزار سے بھی زائد ووٹ تھا جو ضائع ہؤا۔ مجھے کثرت سے مردوں اور عورتوں کی طرف سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان کے گھروں میں بہت سے ووٹ رہ گئے ہیں۔ ایک دوست جن کا مکان یہاں ہے اور وہ خود آجکل دہلی میں رہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر کے چھ ووٹ تھے۔ ان میں سے صرف دو امور عامہ نے بنائے ہیں۔ ایک اور دوست نے بتایا ہے کہ ہمارے گھر کے چار ووٹ تھے ان میں سے صرف ایک ووٹ بنا ہے ۔ اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ ہمارے گھر میں چار ووٹ بن سکتے تھے لیکن صرف ایک بنا ہے۔ پس قادیان میں بارہ سو کے قریب ووٹ رہ گئے ہیں۔ اگر پوری محنت اور کوشش سے کام لیا جاتا تو قادیان سے ہی چھ ہزار ووٹ بن سکتے تھے۔ اور بعض ووٹ اس وجہ سے ضائع گئے ہیں کہ ان کے لکھنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ بعض جگہ زوجہ کی بجائے دختر لکھا گیا ہے اور دختر کی بجائے زوجہ لکھا گیا ہے۔ قانوناً تو یہ جائز ہے کہ اگر ووٹر کا نام یا ولدیت وغیرہ کسی قدر غلط چھپ گئی ہو تو وہ ووٹ دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن دختر کے لئے یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ وہ اپنے باپ کی زوجہ ہے۔ یا زوجہ کے لئے یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ مَیں فلاں کی لڑکی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایسا کہے تو اس کا مذاق تو بہرحال بن جائے گا مگر قانوناً اس پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس کی غلطی نہیں بلکہ لکھنے والے کی غلطی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان غلطیوں میں گورنمنٹ اور دفتر امور عامہ کے کارکنوں کا قصور ہے کیونکہ انہوں نے فہرستیں توجہ سے تیار نہیں کیں۔ اوپر نیچے جب نام لکھے جاتے ہیں تو اس قسم کی غلطیاں عموماً واقع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جب فہرست میں کوئی شخص یہ لکھتا چلا جائے کہ فلاں زوجہ فلاں، فلاں زوجہ فلاں، فلاں زوجہ فلاں، تو اس دوران میں اگر کسی کی دختر آ جائے تو اسے بھی جلدی میں زوجہ ہی لکھ دے گا۔ یا کوئی شخص لکھتا جا رہا ہے فلاں دختر فلاں، فلاں دختر فلاں، فلاں دختر فلاں۔ درمیان میں آگیا کہ فلاں زوجہ فلاں تو اسے بھی عادت کی وجہ سے دختر ہی لکھ دے گا۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب انسان ایک ہی رنگ میں کوئی بات لکھتا چلا جائے اور درمیان میں کوئی اَور بات آ جائے تو اسے بھی وہ پہلی چیز کی ذیل میں شمار کر لیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے دفتر امور عامہ والوں نے ستائیس آدمیوں کی ایک فہرست بنائی کہ فلاں لیگی اور فلاں یونینسٹ کی مدد کرنے کا جماعت نے فیصلہ کیا ہے۔ وہ فہرست پہلے امور عامہ کے کلرک نے تیار کی پھر اسے سپرنٹنڈنٹ نے دیکھا پھر اسے ناظر امور عامہ نے چیک کیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی تو مَیں نے اس میں تین غلطیاں نکالیں۔ کسی جگہ مسلم لیگی کو یونینسٹ لکھا تھا اور کسی جگہ یونینسٹ کو مسلم لیگی لکھ دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اوپر سے لکھتے چلے آئے کہ فلاں لیگی، فلاں لیگی اور درمیان میں جب ایک یونینسٹ آیا تو اسے بھی لیگی لکھ دیا گیا۔ اسی طرح جب اوپر سے لکھتے آئے کہ فلاں یونینسٹ، فلاں یونینسٹ، فلاں یونینسٹ اور درمیان میں ایک مسلم لیگی کا نام آگیا تو اسے بھی یونینسٹ لکھ دیا۔ اب ستائیس آدمیوں کی فہرست تھی۔ تین آدمیوں نے اسے تیار کیا اور پھر بھی اس میں تین غلطیاں نکل آئیں۔ جب ستائیس آدمیوں کی فہرست میں سے تین غلطیاں نکل سکتی ہیں تو جہاں ہزاروں نام ہوں وہاں تو غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے مگر پھر بھی ہمیں اپنے فائدہ کے لئے ان غلطیوں کو دور کرانے کی کوشش وقت پر کرنی چاہئے تھی۔ اگر ایسی کوشش ہوتی تو یقیناً ہمارا ووٹ چھتیس سو سے بہت زیادہ ہوتا۔ بہرحال امور عامہ نے اندازاً چوبیس سو ووٹ ضائع کئے ہیں اور کم سے کم دو ہزار ووٹ تو بہر صورت ضائع ہؤا ہے۔ پس مجھے افسوس ہے کہ ہمارے مردوں نے قربانی کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جو عورتوں نے کیا ہے۔ باہر کے لوگوں نے بھی قادیان کے لوگوں سے اچھا نمونہ پیش کیا ہے۔ باہر سے آنے والے دوست بہت لمبا سفر طے کر کےا ور بڑی مشکل سے رخصت حاصل کر کے قادیان پہنچے اور ووٹ دیا۔ ان باہر سے آنے والے لوگوں کو جن میں سے کوئی سندھ سے، کوئی بمبئی سے، کوئی بہار سے، کوئی بنگال سے، کوئی صوبہ سرحد سے اور یا کسی مختلف علاقہ جات پنجاب سے آئے تھے فریقِ مخالف پر بھی اور پولنگ آفیسرز پر بھی بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ اور جو قربانی عورتوں نے کی اس کا بھی دیکھنے والوں اور فریق مخالف کے نمائندوں اور پولنگ آفیسرز پر بہت ہی گہرا اثر پڑا ہے۔ جو عورتیں پولنگ آفیسر کی امداد کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے آئی تھیں وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ ان کے یہ الفاظ تھے کہ ہم نہیں سمجھ سکتیں کہ یہ جماعت کیسی ہے اور اس میں قربانی کی یہ روح کیسے پیدا ہو گئی ہے۔ بعض عورتیں ایسی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ ان کو بچہ ہونے والا تھا اور دردِ زہ شروع تھا۔ بعض ایسی تکلیف کی حالت میں آئیں کہ ووٹ دیتے ہی وہ بے ہوش ہو گئیں۔ بعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے صرف بارہ گھنٹے گزرے تھے کہ وہ اسی حالت میں سٹریچر(Stretcher) پر لیٹ کر ووٹ دینے کے لئے آ گئیں۔ ایک واقعہ ہو تو انسان اسے نظر انداز کر سکتا ہے مگر یہاں تو ایک درجن سے زائد ایسی عورتیں تھیں کہ بعض کو دردِ زہ لگی ہوئی تھی اور وہ ووٹ دینے کے لئے آ گئیں۔ او ربعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے چند گھنٹے گزرے تھے اور وہ ووٹ دینے کے لئے آ گئیں اور بعض عورتیں ایسی بیماری کی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ وہ بیٹھ بھی نہ سکتی تھیں۔ ان کو ڈولی میں لایا گیا اور ایک رشتہ دار نے دائیں طرف سے اور دوسرے نے بائیں طرف سے ا ن کو پکڑا ہؤا تھا کہ کہیں گِر نہ پڑیں۔ ایک درجن سے زیادہ مثالیں اس قسم کی قربانی کی موجود ہیں او راس قربانی کا اس قدر اثر تھا کہ وہ عورتیں جو مخالف پارٹی کی طرف سے بطور ایجنٹ کے تھیں وہ بھی عورتوں کی اس قربانی پر حیرت کا اظہار کر رہی تھیں۔ مگر اس کے مقابل پر قادیان کے مردوں نے پہلے دن کم ا زکم ستاسی ووٹ ضائع کر دئیے اور وہ بجائے وقت پر پہنچ کر ووٹ دینے کے اِدھر اُدھرچلے گئے۔ ان کی نظر میں بے شک ان ووٹوں کی قیمت نہ ہو لیکن وہ شخص جس کی عقل صحیح طور پر کام کرتی ہو۔ وہ جانتا ہے کہ ان ووٹوں کی قیمت کئی ہزار کے برابر تھی۔ شاید یہ لوگ بٹالہ یا کسی گاؤں سے سودا وغیرہ خریدنے کے لئے چلے گئے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھتے ہوئے انہوں نے وقت پر پہنچنے کی کوشش نہ کی۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے تو ان کا فرض تھا کہ مرتے یا جیتے بہرحال وقت پر قادیان پہنچ جاتے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے قومی بیداری کا ثبوت نہیں دیا۔ وہ شخص جس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے وہ اس کو ہر حالت میں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک احمدی دکاندار جن کا نام محمد اکرام ہے اور بھائی محمود احمد صاحب کی دکان کے ساتھ ان کی دکان ہے وہ پہلے لاہور میں رہتے تھے۔ جب پہلا الیکشن ہؤا ہے اس وقت کانگرس نے الیکشنوں کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور جو شخص ووٹ دینے کے لئے جاتا وہ اسے گالیاں دیتے، پتھر مارتے اور بُرا بھلا کہتے ۔ جس کی وجہ سے لوگ ووٹ دینے سے رُک گئے۔ ان دنوں لاہور میں ہمارا غالباً ایک ہی ووٹ تھا۔ اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاہور میں ہمارے سینکڑوں ووٹ ہیں لیکن اس وقت صرف ایک ہی ووٹ تھا۔ اس وقت دو مسلمان امیدوار کھڑے ہوئے تھے ۔ ایک ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ اور ان کے مقابلہ پر محرم علی صاحب چشتی ۔ چشتی صاحب مرزا سلطان احمد صاحب کے دوست تھے۔ لیکن سلسلہ سے بہت عِناد اور تعصب رکھتے تھے لیکن غالباً مرزا سلطان احمد صاحب کی سفارش پر جماعت نے ان کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ جب کانگرسیوں کی طرف سے پتھر پڑے اور گالیاں دی گئیں تو سب ووٹر بھاگ گئے۔ اس وقت سارے الیکشن میں غالباً صرف اسّی ووٹ گزرے تھے۔ اور وہ بھی ایسے جو غوغائیوں کے اجتماع سے پہلے وہاں چلے گئے تھے۔ اور جب یہ حالت ہو اُس وقت ایک ایک ووٹ بھی بہت بڑی قیمت رکھتا ہے۔ جب یہ کانگرسی سب لوگوں کو ووٹ دینے سے روک رہے تھے۔ شیخ محمد اکرام صاحب بھی اپنا ووٹ محرم علی صاحب چشتی کے حق میں دینے کے لئے گئے تو کانگرسیوں نے انہیں بھی گالیاں دینی شروع کیں۔ اور ان پر پتھر پھینکنے شروع کئے لیکن یہ بڑھتے گئے اور کہتے جاتے تھے کہ مجھے تو اپنے امام کا حکم ہے اس لئے مَیں نے ووٹ ضرور دینا ہے۔ یہ چلے جا رہے تھے کہ ان کے ایک پتھر لگا اور اس پتھر کے لگنے کی وجہ سے خون بہنے لگا لیکن یہ گزرتے چلے گئے اور یہی کہتے گئے کہ مجھے تو اپنے امام کا حکم ہے اس لئے مَیں نے ضرور جانا ہے۔ آخر پتھر مارنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ احمدی ہے اس نے تو ضرور جانا ہے۔ یہ رُکے گا نہیں اسے کچھ نہ کہو۔ اس بات کا محرم علی صاحب چشتی پر اس قدر اثر ہؤا کہ وہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ مَیں تو اس ایک ووٹ کی وجہ سے احمدیت کا قائل ہو گیا ہوں۔ اور مَیں مانتا ہوں کہ جو قربانی اس جماعت کے افراد میں پائی جاتی ہے وہ دوسرے لوگوں میں نہیں۔ حتّٰی کہ جب الیکشن پٹیشن ہوئی اور مجھے گواہ کے طور پر بلایا گیا تو انہوں نے عدالت میں میرے سامنے اس خیال کا اظہار کیا کہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک شخص کو گالیاں دی جائیں، پتھر مارے جائیں لیکن وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مَیں نے ووٹ ضرور دینا ہے کیونکہ مجھے میرے امام کا حکم ہے کہ فلاں شخص کو ووٹ دو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باہر سے آنے والے دوستوں نے بھی قربانی کی ہے اور بعض کی قربانی واقع میں حیران کُن ہے۔ بعض دوست پونا سے ووٹ دینے کے لئے آئے، بعض کراچی اور بمبئی سے ووٹ دینے کے لئے آئے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قادیان کے مردوں نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا۔٭
شاید لوگ سمجھتے ہوں کہ یہ دنیوی کام ہے او ردنیوی کاموں کے لئے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، قربانی تو دین کے لئے ہوتی ہے۔ مَیں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے راستہ میں آجکل قرآن کریم کی آیات پڑھ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں یا حدیث کے غلط معنے کر کے ہمارے راستہ میں روکیں ڈالی جاتی ہیں؟ ہمارے راستہ میں تو پبلک یا گورنمنٹ کے افسروں کو برانگیختہ کر کے روکیں پیدا کی جاتی ہیں اور دشمن اپنے منصوبوں کے ذریعے حکومت کے افسروں کو ساتھ ملا کر ہمارے مقاصد سے ہمیں دور رکھنا چاہتے ہیں۔ پس اگر گورنمنٹ میں ہمارے نمائندے موجود ہوں جو ہماری آواز کو بلند کریں۔ تو یہ روکیں کم ہونی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آجکل دشمن کس راستہ سے حملہ کرتا ہے۔ جس راستہ سے وہ حملہ کرے اسے مسدود کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جو حق گورنمنٹ ہمیں خود دیتی ہے اس کو نہ لیا جائے۔
قادیان سے بعض مُخْرَجِیْن نے ایک اشتہار نکالا ہے جس کے پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بڑے مخلص احمدی نے اسے شائع کیا ہے۔ اس اشتہا رمیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو سیاست میں حصہ لینے سے منع
٭گو بعد کے دو دنوں میں اس کی تلافی انہوں نے کی اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور ان کے عملہ اور طلباء نے عورتوں کے انتظام میں جس قدر مردوں کی امداد کی ضرورت تھی اسے پورا کیا۔ جَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء ۔ لیکن میرے دل پر پہلے دن کے پولنگ کے نقص اور ووٹوں کی تیاری کے نقص کا بہت اثر ہے۔
فرمایا ہے۔ اس لئے احمدیوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے منشاء کے خلاف ہے۔ اگر یہ بات درست ہے جو اس میں لکھی گئی ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ کل کو خدا تعالیٰکے فضل سے جب کسی ملک کے سب لوگ احمدی ہو جائیں تو احمدی علماء فتویٰ دے دیں کہحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا ہؤا ہے اس لئے کوئی احمدی بادشاہ نہیں ہو سکتا نہ وزیر ہو سکتا ہے، نہ کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ہوسکتا ہے۔ اس لئے باہر کے کسی ملک سے ہندو یا عیسائی منگوائے جائیں جو آ کر احمدیوں کے ملک پر حکومت کریں۔ خود احمدیوں کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ کیا کوئی عقل مند اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا یہی منشاء تھا؟
اصل بات یہ ہے کہ جب حکومت انگریزوں کے ہاتھ میں تھی تو ان کی مرضی تھی کہ وہ کسی کو اس کا کچھ حصہ دیں یا نہ دیں۔ اگر بغیر ان کی رضامندی کے زور اور سختی کے ساتھ مطالبہ کیا جاتا تو ٹکراؤ ہو جاتا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی جماعت کو روکا کہ یہ مناسب نہیں کہ حکومت سے ٹکراؤ پیدا کیا جائے کہ اس سے تبلیغ کی طرف سے توجہ ہٹتی ہے جو ہمارا اصل مقصد ہے۔ لیکن اب صورتِ حالات اَور ہے۔ اب انگریز خود کہتے ہیں کہ حکومت تم سنبھال لو اور جتنا کسی کا کوئی حصہ نکلتا ہے وہ اپنا حصہ ہم سے لے لے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر انگریز تمہیں کوئی چیز دینا بھی چاہیں تو تم لینے سے انکار کر دینا۔ بہرحال پہلے حالات اور آج کے حالات مختلف ہیں۔ اس وقت انگریز کہتے تھے کہ ہم ہندوستان کے حاکم اور بادشاہ ہیں لیکن آج انگریز کہتے ہیں کہ ہندوستانی ہی ہندوستان کے حاکم اور بادشاہ ہیں۔ اور جب صورتِ حالات یہ ہے تو ہمارا اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنا سیاست میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اپنے اس حصہ کو لینے کی کوشش کرنا ہے جس کو دینے کے لئے خود انگریز تیار ہے۔ فرض کرو کہ ملک میں یہ تحریک پیدا ہو جائے کہ گورنمنٹ کی زمینیں چھین لو تو ہم کہیں گے یہ سیاست ہے۔ ہماری جماعت کو اس میں حصہ نہیں لینا چاہئے ۔ لیکن اگر گورنمنٹ خود کہے کہ اتنے مربعے ہیں اور یہاں کے لوگ انہیں بانٹ لیں تو ہم اپنا حصہ ضرور لیں گے اس وقت کوئی شخص ہمیں اپنے حق سے محروم نہیں کر سکے گا۔ یا فرض کرو ایک کارخانہ کے مزدور اس وجہ سے سٹرائک کر دیں کہ کارخانہ کا مالک انہیں روپیہ کی بجائے سَوا روپیہ یومیہ مزدوری نہیں دیتا تو ہم احمدیوں کو سٹرائیک کرنے سے روکیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس سے منع فرمایا ہے۔لیکن اگر کارخانہ کا مالک خود ہی ان کو روپیہ کی بجائے سَوا روپیہ یومیہ مزدوری دینا چاہے تو کوئی احمدی بھی ایسا نہ ہو گا جو انہیں روکے کہ روپیہ کی بجائےسَوا روپیہ تم نہ لو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں انگریز ملک پر قابض تھے اور وہ حکومت کا کوئی حصہ بھی ہندوستانیوں کو نہیں دیتے تھے۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے سیاست میں حصہ لینے سے منع فرمایا کہ تم اپنی توجہ دین کی طرف رکھو اور ان مطالبات کے پیچھے پڑ کر اپنی توجہ دوسری طرف مت پھیرو۔ لیکن اب جبکہ انگریز خود بلاتے ہیں کہ آؤ اور آ کر اپنا حصہ لے لو تو ہم بھی اپنا حصہ لینے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ اگر اپنا حق جو کہ مل رہا ہو لینے کو سیاست سمجھا جائے تو ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ پر مکہ میں جہاد فرض نہ ہؤا اور مدینہ آتے ہی آپ پر جہاد فرض ہو گیا۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ مکہ کے حالات اَور تھے اور مدینہ کے حالات اَور۔ مکہ میں آپ بطور رعایا کے تھے لیکن مدینہ میں آپ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی۔ اسی طرح پہلے انگریز یہ کہتے تھے کہ ہندوستان کے حاکم ہم ہیں کسی دوسرے کا یہ کام نہیں کہ ہمارے معاملات میں دخل دے ۔ لیکن اب حکومت کا اکثر حصہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو دے دیا ہے۔ پس ہم تو اپنے حصے کا تصفیہ کر رہے ہیں اور یہ چیز جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اور بے شک یہ بظاہر دنیوی نظر آتی ہے لیکن جماعت کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے بہت ہی ضروری چیز ہے۔
پس مردوں کا فرض تھا کہ قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اچھا نمونہ پیش نہیں کیا۔ آج ہی بعض کاموں کے لئے مَیں نے میاں بشیر احمد صاحب کو ایک کام کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی دن رات کام کرنے کی وجہ سے تھک کر چُور ہو چکے ہیں اور سائیکل بھی کوئی نہیں ملتا ۔ اس میں شک نہیں کہ خود میاں بشیر احمد صاحب اور قادیان کے بعض اَور دوست ان کے ساتھ رات کے تین تین بجے تک کام کرتے رہے ہیں اور اگر محلوں کے پریذیڈنٹ بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں تو ان سب کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہو جاتی ہے لیکن قادیان کی آبادی اس وقت بارہ ہزار کی ہے۔ اتنی آبادی میں سے صرف بیس پچیس آدمیوں کا کام کرنا سب کو بری نہیں کر دیتا۔ بے شک یہ بیس پچیس آدمی ایسے ہوں گے جو تھک کر چُور ہو گئے ہوں۔ باقی تو سب ترو تازہ ہیں۔ اگر ابھی سب کو قَسم دے کر پوچھا جائے کہ جس جس نے الیکشن کے کام میں حصہ لیا ہے وہ کھڑا ہو جائے تو دس فیصدی لوگ بھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ باقی سب لوگ ایسے ہی ہیں جو اپنے کاموں میں مشغول رہے۔ یا دن کو الیکشن کا کام کیا تو رات کو آرام سے سو رہے۔ اس لئے وہ اگر سچے دل کے ساتھ کام کرنا چاہیں تو بخوبی کر سکتے ہیں۔ تھکاوٹ کا عذر ان کی طرف سے پیش نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اصل کام آج سے شروع ہونے والا ہے اور اب وہ دن ہیں کہ بیرونجات میں دن رات ایک کر کے لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ تمام امیدواروں میں سے بہترین امیدوار چودھری فتح محمد صاحب ہی ہیں۔ ان کے بعد دوسرا مسلم لیگی ممبر ہے۔ لیکن چونکہ اس کی کامیابی کی امید کم ہے اس لئے بلحاظ مسلمان ہونے کے اور مسلمانوں کے صحیح خیالات کی ترجمانی کرنے کے چودھری صاحب سے بہتر امیدوار ان کو کوئی نہیں مل سکتا۔ دوسرے چودھری صاحب زمیندار ہیں اس لئے زمینداروں کے حالات سے وہ سب سے زیادہ آگاہ ہو سکتے ہیں۔ پھر مسلم لیگی ممبر کے ووٹوں میں دو تین ہزار کی کمی ہے جس کو پورا کرنا سخت مشکل امر ہے۔ چودھری صاحب کو اس وقت اَڑتالیس سو کے قریب ووٹ مل چکے ہیں اور میاں بدر محی الدین صاحب کو بتیس سَو کے قریب اور لیگی امیدوار کو ساڑھے بائیس سو کے قریب ۔ گویا اگر مسلم لیگ والے اپنے ممبر کو کامیاب بنانا چاہیں تو انہیں یہ ستائیس سو کا فرق پورا کر کے پھر اتنا ہی ووٹ اَور حاصل کرنا ہو گا جو ایک امر محال ہے۔ اس لئے لیگ والوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ بجائے اپنے آدمی کو کامیاب بنانے کے ایسے آدمی کی مدد کریں جو ان کا ہم خیال ہے اورمسلم لیگ کے مقاصد سے دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برخلاف وہ میاں بدر محی الدین صاحب کو کوئی موقع کامیاب ہونے کا دیں تو ان سے ضلع کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک عرصہ تک ممبر رہ چکے ہیں مگر انہوں نے اس ضلع کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ پس بجائے اس کے کہ مسلم لیگی لوگ اس فرق کو پورا کرنے کی کوشش کریں انہیں چودھری صاحب کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ وہ قریباً دو ہزار ووٹ میاں بدر محی الدین صاحب سے زیادہ حاصل کر چکے ہیں اور ان کی کامیابی کی امید بہت زیادہ ہے بہ نسبت مسلم لیگی ممبر کے۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی اِردگرد کے گاؤں میں جہاں پولنگ ہو رہا ہے واقفیت ہو یا رشتہ داری ہو تو انہیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ چودھری صاحب کے لئے حاصل کریں۔ پھر دَوڑ بھاگ کے لئے بہت سے سائیکلسٹوں کی ضرورت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بھی قادیان میں ایک سَو سے زائد سائیکل ہوں گے۔ تین چار سال ہوئے کہ مَیں نے قادیان کے سائیکلوں کا اندازہ کرایا تھا اس وقت قادیان میں سائیکلوں کی تعداد تین چار سو کےقریب تھی۔ پس اگر دوست قومی مفاد کی اہمیت کو سمجھیں تو آج ہی سو آدمی ایسا مل سکتا ہے جو سائیکلوں کے ساتھ مختلف مقامات پر یہ تمام خدمات سر انجام دینے کے لئے چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 1مومن ہر چیز میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تاکہ وہ چیز پاک ہو جائے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنا زیور غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیتی ہےتو اس زیور پر زکوٰة واجب نہیں۔ اس کا غریبوں کو دینا ہی زکوٰة ہے ۔ یا جو شخص اپنی سواری کا گھوڑا کسی غریب کو سواری کے لئے دیتا رہے یا خدا کی راہ میں اس پر سفر کرتا رہے تو وہی اس کے مال کو پاک کرنے کا موجب ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے روپے میں سے غریبوں کو کچھ حصہ دیتا ہے وہ اپنے روپے کو پاک کرتا ہے۔ کیا تم باقی سب چیزوں کو تو پاکیزہ اور حلال رکھنا پسند کرتے ہو لیکن سائیکل کو پاک کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں؟اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری روٹی حلال ہو، تمہارا روپیہ حلال ہو، تمہارا کپڑا حلال اور پاکیزہ ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم اپنے سائیکل کا حلال اور پاکیزہ ہونا پسند نہیں کرتے۔ سائیکل کی زکوٰة یہی ہے کہ اسے بوقت ضرورت دینی اورملی خدمات کے لئے دیا جائے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یقیناً سمجھ لو کہ جتنی دیر تم اس سائیکل پر سوار ہو گے تم ایک حرام چیز سے کام لے رہے ہو گے۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان باقی چار پانچ دنوں میں بے انتہا آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر اس وقت قربانی نہ کی گئی تو جماعت کو بہت بڑی ندامت کا سامنا ہو گا۔ ہمیں سائیکلوں کی ضرورت ہے اور سائیکل سواروں کی ضرورت ہے اور جن کے پاس سائیکل نہ ہوں لیکن ان کی قوم کے آدمی ان علاقوں میں ہوں جن میں پولنگ ہو رہا ہے اور وہ سمجھتے ہوں کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں پر اثر ڈال لیں گے تو انہیں بھی اپنے نام پیش کرنے چاہئیں۔ مَیں اس معاملہ میں کسی کو حکم نہیں دیتا۔ صرف اہمیت بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں اور ان امور کی اہمیت بیان کرنا میرا فرض ہے۔ ابھی سری گوبند پور، فتح گڑھ چوڑیاں اور ڈیرہ بابا نانک میں پولنگ باقی ہے۔ جن دوستوں کی وہاں رشتہ داریاں ہوں انہیں بھی اپنے ناموں سے اطلاع دینی چاہئے یا ایسے لوگ جو سمجھتے ہوں کہ ہمارے اندر یہ ملکہ ہے کہ ہم لوگوں پر اثر ڈا ل لیں گے اور انہیں اپنی بات منوا لیں گے۔ ان کو بھی اپنے نام لکھوا دینے چاہئیں۔
عورتوں سے تو پہلے ہی تم پھسڈّی 2 نکلے ہو۔ اب کوشش کر کے ان کے برابر تو ہو جاؤ۔ امیر تیمور نے ایک دفعہ مولویوں کو عورتوں سے پیچھے جگہ دی۔ جب انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے کہا کہ تم عورتوں سے بھی پیچھے ہو چکے ہو اس لئے تمہیں جگہ بھی ان کے پیچھے ملے گی اسی طرح تم بھی اب عورتوں سے پیچھے رہ چکے ہو۔ کوشش کرو کہ ان دنوں میں اس کمی کو پورا کر کے ان کے برابر ہی ہو جاؤ کیونکہ اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ فضلیت تو تقدم حاصل کرنے والے کو ہوتی ہے۔ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے اور بار بار جماعت کے سامنے اس واقعہ کو لایا جائے۔ انہوں نے بے نظیر قربانی اورنہایت اعلیٰ درجہ کی جان نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل گئی ہیں۔ مردوں کو مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ قومی کاموں میں سست ہیں اور قومی قربانی کے مفہوم کو پورے طور پر نہیں سمجھتے۔ دین کے لئے قربانی کا ذکر آئے تو وہ اس کے لئے تیار نظر آتے ہیں لیکن قومی مفاد کو برقرار رکھنے کے لئے اگر کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے۔ لوگوں کی اسی ذہنیت کی وجہ سے گورنمنٹ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ کوئی شخص خدا کے غضب سے ڈرا کر ووٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسرے مسلمانوں کو دیکھ لو ۔ان کو خدا تعالیٰ کے غضب اور دوزخ اور جہنم سے ڈرایا جائے تو کس قدر ان میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور اچھے کام کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن قومی مفاد کا نام لے کر ہزار شور مچاؤ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم تباہ ہو یا باقی رہے، قوم غلام بنے یا آزاد رہے، حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں جائے یا عیسائیوں کے ہاتھ میں، ملک کو نقصان ہو تو بے شک ہو وہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ لیکن جب ان کو کہا جائے کہ خد اتعالیٰ قیامت کے دن تمہیں جہنم میں ڈالے گا تو فوراً چوکس ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ حالانکہ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جو دوزخ کے ڈر سے ہی نہیں کئے جاتے بلکہ کئی اور باتیں ان کاموں کی محرک ہوتی ہیں۔ کیا تمہیں روزانہ یہ نظارہ نظر نہیں آتا کہ تم دن میں بیسیوں کام کرتے ہو، کوئی کام خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو، کوئی کام ماں باپ کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو، کوئی کام بیوی کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو اور کوئی کام رشتہ داروں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہو۔ اسی طرح ہر شخص اپنے تعلق والوں کو خوش کرنے کے لئے مختلف قسم کے کام کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا۔3انسان کے قلب میں اپنے محسن کے لئے محبت ڈال دی گئی ہے۔ کوئی شخص خدا تعالیٰ کو اپنا محسن سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے، کوئی رسول کو اپنا محسن سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے خداتعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس سے محبت کروں۔ خدا تعالیٰ کے رسول نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس سے محبت کروں۔ میرے ماں باپ نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میری ماں نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میری بہن نے مجھ پر احسان کیا ہے مَیں کیوں نہ اس کی مدد کروں۔ میرے دوستوں نے مجھ پر احسانات کئے ہیں مَیں کیوں نہ ان کی مدد کروں۔ غرض مختلف قسم کے احسانات کی وجہ سے وہ ان کی مدد کرتا ہے۔ وہ یہ خدمتیں اور مددیں دوزخ سے بچنے کے لئے نہیں کرتا۔ تم دن اور رات میں جتنے کام کرتے ہو اگر ان کو گِننا شروع کرو تو دوزخ کے خوف کی وجہ سے تم نے زیادہ سے زیادہ آٹھ دس کام ہی کئے ہوں گے اور دوسرے تعلقات کی وجہ سے بہت زیادہ کئے ہوں گے۔ رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں بعض کام مستحب ہوتے ہیں اور بعض مباح مثلاً اگر تم نے کالا کوٹ نہ پہنا، اگر سبز کوٹ نہ پہنا، اگر زرد کوٹ نہ پہنا تو کیا تمہیں ان کے نہ پہننے کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر جب تم بازاروں میں پھرتے ہوئے کبھی ایک دکان پر جاتے ہو اور کہتے ہو کالے رنگ کا کپڑا کوٹ کے لئے چاہئے اور جب وہاں سے نہیں ملتا تو دوسری دکان پر جا کر پھر یہی کہتے ہو کہ کالے رنگ کا کپڑا چاہئے اور جب یہاں سے بھی نہیں ملتا تو تیسری دکان پر جاتے ہو اور کہتے ہو کالے رنگ کا کپڑا چاہئے۔ تو کس غرض سے مختلف دکانوں کا چکر کاٹتے ہو؟ صرف اپنی خواہش پورا کرنے کے لئے۔ یا تمہاری بیوی کہتی ہے کہ مجھے پھول دار کپڑا یا نینون 4 کا دوپٹہ چاہئے اور تم سارے بازار میں پھول دار کپڑا اور نینون کا دوپٹہ ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ کیا اگر تمہاری بیوی یہ کپڑے نہ پہنے تو خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔ یا کیا تم اپنی بیوی کو جہنم سے بچانے کے لئے یہ کپڑے خریدتے ہو؟ نہیں۔ بلکہ اس لئے خریدتے ہو کہ یہ تمہاری بیوی کی خواہش ہے اور اسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے تم ہر دکان پر پھرتے ہو اور ان کپڑوں کو تلاش کرتے ہو۔ پھر کبھی تمہارا بچہ کہتا ہے کہ مجھے فلاں قسم کی مٹھائی چاہئے اور تم اس قسم کی مٹھائی خریدنے کے لئے بازار میں جاتے ہو۔ تم اِس لئے تو مٹھائی خریدنے نہیں جاتے کہ اگر نہ خریدی تو خدا اور رسول ناراض ہو گا بلکہ اِس لئے کہ تمہارے بچے نے خواہش کی تھی۔ اگر تم بچوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم بھائیوں اور بہنوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم ہمسایوں کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم اپنے ماں باپ کے لئے قربانی کرتے ہو، اگر تم اپنے دوستوں کے لئے قربانی کرتے ہو تو اِس سے بڑھ کر تمہیں قوم کے لئے قربانی کرنی چاہئے۔ یہ قربانیاں ادنیٰ ہیں اور قوم کے لئے قربانی اعلیٰ ہے۔ بے شک سب سے بڑی قربانی خدا اور رسول کے لئے ہے مگر یہاں خدا اور رسول راستے میں حائل تو نہیں۔ یہ تو خدا اور اس کا رسول نہیں کہتا کہ اگر کام کیا تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے۔ جہاں خد ا اور رسول کچھ نہیں کہتے وہاں قومی کام سب سے مقدم ہوتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو چاہو کرو اور جس میں فائدہ ہے کرو تو پھر جس کام میں قومی فائدہ ہو وہ ہمیں کرنا چاہئے کیونکہ خدا اور رسول اس کے راستہ میں حائل نہیں۔ پس مَیں دوستوں کو وقت پر اطلاع دیتا ہوں۔ آج آٹھ تاریخ ہے اور تیرہ تاریخ تک ووٹنگ ہو گی۔ پانچ دن باقی ہیں۔ آج کا دن تو ضائع ہو گیا مگر ابھی وقت ہے۔ اب اِس میں ایک منٹ بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ جن جن دوستوں کے دلوں میں خدمت کا جوش ہے وہ اپنے آپ کو پیش کریں اور جن جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور اُن کے پاس سائیکلیں ہیں وہ اپنے سائیکل پیش کریں۔ اور اگر کوئی اَور سواری مثلاً گھوڑا وغیرہ اُن کے پاس ہے تو اسے پیش کریں تا آدمیوں اور سواروں کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے۔ ’’ (الفضل 15 فروری 1946ء )
1: البقرة : 4
2: پھسڈّی: کم درجہ، ناقص، شکست خوردہ، پست
3: اَلْجَامِعُ الصَّغِیْرلِلسَّیُوْطِی صفحہ 218۔ مطبوعہ بیروت 2002ء
4:نینون: ایک قسم کا باریک سوتی کپڑا جس پر آنکھ کی مانند تارے تارے سے بنے ہوتے ہیں ،
پھول دار کپڑا

4
خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کی جائیں کہ ہماری کاغذی ناؤ کو پار لگا دے
( فرمودہ 15 فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ حضرت علیؓ کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ 1 مَیں نے اپنے رب کو بڑے بڑے پختہ ارادوں کی ناکامیوں اور ان کی شکستوں کی وجہ سے پہچانا ہے۔ یہ ہے تو ایک چھوٹا سا فقرہ لیکن درحقیقت اس میں انسانی زندگی کی تاریخ کا نچوڑ بیان کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنے ارادوں کی پختگی پر ایسا اعتبار کرتا ہے کہ بسا اوقات وہ خدا تعالیٰ کو بالکل ہی بھول جاتا ہے۔ غیر مومن اور ایک دہریہ کی بات تو الگ رہی، ایک رسمی مومن کی بات تو الگ رہی، ایک کمزور مومن کی بات تو الگ رہی، مَیں نے اپنی ساری زندگی میں جو کہ مذہبی ماحول میں گزری ہے اور ان تمام تعلیمات کے باوجود جو قرآن کریم کے متعلق ہمارے پیشرو دیتے رہے ہیں یا مَیں دیتا رہا ہوں بالعموم احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سُنی ہے کہ یہ بات تو ضرور ہو کر رہے گی۔ ہم نے یہ بھی کر لیا ہے، وہ بھی کر لیا ہے، یوں بھی کر لیا ہے، وُوں بھی کر لیا ہے اب اِس کے اندر تبدیلی کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ اور مَیں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اِن دعووں کو کُلّی طور پر تو نہیں لیکن جزوی طور پر غلط ہوتے بھی دیکھا ہے۔ کیونکہ درمیان میں بیسیوں چیزیں ایسی آ جاتی ہیں جن کو انسان اپنے عزم اور ارادہ سے دھوکا کھاتے ہوئے بالکل نظرانداز کر دیتا ہے۔ بیسیوں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ مَیں نے کسی کو کہا کہ فلاں کام کر دو اور کچھ دیر کے بعد اس نے اطلاع بھجوا دی کہ کام ہو گیا لیکن بعد میں معلوم ہؤا کہ نہیں ہؤا۔ اس سے پوچھا گیا کہ کام کیوں نہیں ہوا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ مَیں نے تو فلاں کو کہہ دیا تھا۔ حالانکہ کہہ دینے کا نام تو ‘‘ ہو گیا’’ نہیں ہوتا۔ کہہ دیا تو محض ایک ارادہ ہے اور ارادہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ پورا بھی ہو جائے۔ تو لوگ محض ارادہ کا نام وقوع سمجھ لیتے ہیں اور بعض دفعہ اس ارادہ کو پورا کرنے کے لئے ایک فعل کرتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ انجام کے راستہ میں کوئی روک باقی نہیں رہی اس شخص کی طرح جو کسی کو ایک کام کہہ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ کام ہو گیا ہے اورجب بعد میں کام نہ ہونے پر پوچھا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے تو اُسے کام کرنے کے لئے کہہ دیا تھا لیکن اُس سے سُستی ہوئی۔ ایسی حالت میں جب سُستی کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے تو کسی مومن کو حق کیا ہے کہ وہ خدائی اپنے ہاتھ میں لے لے اور کہہ دے کہ فلاں بات بالکل یقینی ہے۔ شاید میری زندگی کا ایک بہت بڑا عُقدہ جماعت کے لوگوں کو یہی سمجھانا رہا ہے کہ اس قسم کا اعتماد انسانی افعال پر نہیں کرنا چاہئے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کے خانہ کو ہمیشہ خالی رکھنا چاہئے۔ اور اس کی تقدیر پر ایمان رکھنا چاہئے لیکن ابھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جن میں یہ مادہ نظر آتا ہے کہ اپنی ساری تدبیروں کے باوجود وہ یہ سمجھیں کہ ہماری تدبیریں خدا تعالیٰ کی تقدیر سے ٹکرا کر بعض دفعہ پاش پاش ہو جایا کرتی ہیں۔
ہماری قومی زندگی کا موجودہ دَور بھی ایک بہت بڑی اہمیت رکھنے والا ہے کیونکہ تحریک جدید کے ذریعہ ہم نے دنیا بھر کی تبلیغ کے لئے ایک نقشہ بنایا ہے۔ بیسیوں نوجوان اِسی غرض کے لئے تیار کئے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک میں جائیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کریں کہ اشاعتِ اسلام بھی ہو، اُن کے گزارے کی صورت بھی نکل آئے اور علمی طور پر بھی ان ممالک پر احمدیت کا رُعب چھا جائے۔ لیکن ہمارا یہ دَور اب تک صرف تمہیدی دَور گزرا ہے۔ جماعت نے چندے دئیے، نوجوانوں نے زندگیاں وقف کیں، پڑھنے والوں نے پڑھا، لٹریچر لکھنے والوں نے کچھ لٹریچر تیار کیا اور بعض نوجوانوں کو غیر ممالک میں تبلیغِ اسلام کے لئے روانہ کیا گیا۔ لیکن اِس کے بعد ابھی یہ مرحلہ باقی ہے کہ باہر جانے والے ایسے طور پر کام کرنے میں کامیاب ثابت ہوں کہ ان کے ذریعہ غیر ممالک میں ایسی آواز پیدا ہو جائے کہ لوگوں کے قلوب ہِل جائیں اور وہ ان کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ وہ اپنے گزاروں کے لئے ایسے راستے نکال سکیں کہ جن سے تبلیغ کو وسیع سے وسیع تر کیا جا سکے۔ مَیں نے جو قدم اٹھایا ہے وہ دنیا کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی معنے ہی نہیں رکھتا۔ دنیا میں دو اَرب کے قریب آدمی ہے۔ اگر ایک ہزار آدمیوں کے لئے ایک مبلغ رکھا جائے تو یہ سمجھ لو کہ دو لاکھ مبلغین کی ہمیں ضرورت ہے لیکن ہم نے اِس وقت تک جو مبلغین بھیجے ہیں اگر اُن میں پُرانوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو چالیس کےقریب تعداد بنتی ہے۔ جہاں دو لاکھ کی ضرورت ہو وہاں چالیس مبلغ بھلا کیا کام دے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے زمیندار کی اوسط خوراک پانچ چھٹانک سمجھی جاتی ہے۔ پانچ چھٹانک کے معنی ہوئے پچیس تولے۔ اور رتّیوں کے لحاظ سے قریباً چوبیس سَو رَتی بنی۔ اور چاولوں کے لحاظ سے یہ قریباً اُنیس ہزار چاول بنے۔ شہری لوگوں کی خوراک تو کم ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ ایک یا ڈیڑھ چھٹانک پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں لیکن ایک محنت کش مزدور کی عام خوراک اُنیس ہزار چاول ہوتی ہے۔ اب تینتیس مبلغین کو دو لاکھ کے مقابل میں رکھ کر دیکھ لو کہ کیا نسبت بنتی ہے۔ اگر ہزار مبلغ ہوں تو دوسواں حصہ ہو گا۔ اگر سَو مبلغ ہوں تو ہزارواں حصہ ہو گا۔ اور اگر تینتیس مبلغ ہوں تو وہ دو لاکھ کا چھ ہزارواں حصہ بنیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ایک عام آدمی کی خوراک کے مقابل پر ہم دنیا کو روحانی خوراک کے تین چاول پیش کرتے ہیں۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک محنت کش اور مزدور پیشہ زمیندار کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ رکھ سکتے ہو۔ اگر ایک محنت کش مزدور کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ نہیں رکھ سکتے تو تم دنیا کو بھی تینتیس مبلغین کے ساتھ کسی صورت میں زندہ نہیں رکھ سکتے۔ مگر یہاں تو سوال زندہ رکھنے کا نہیں بلکہ سوال زندہ کرنے کا ہے۔ زندہ رکھنے کے لئے تو بے شک پانچ چھٹانک غذا کافی ہو جائے گی لیکن مُردہ نہ سہی نیم مُردہ کو بھی زندہ کرنے کے لئے یہ غذا کافی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے کئی سیر غذا کے خلاصہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایسی حالت میں جو سٹیمولینٹ (Stimulant)2 استعمال کئے جاتے ہیں وہ سیروں خوراک کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ پس زندہ کرنے اور زندہ رکھنے میں فرق ہے۔ ہماری جماعت کے مبلغ اس لئے نہیں گئے کہ وہ لوگوں کو زندہ رکھیں بلکہ اس لئے گئے ہیں کہ وہ لوگوں کو زندہ کریں۔ اس لئے ان کی مثال دنیا کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی تین چاولوں کی ہوتی ہے بلکہ ان کی مثال تو ایک چاول کے ہزارویں حصہ کی بھی نہیں رہ جاتی۔ جس طرح ایک شخص کا روٹی کی بجائے صرف سانس لے لینا اسے زندہ نہیں رکھ سکتا اسی طرح یہ مبلغ دنیاکی ضروریات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایک بیج ہے جو زمین میں بویا گیا مگر وہ بیج نہیں جو کسی ملک کی ضروریات کومدنظر رکھتے ہوئے بویا جاتا ہے۔ گورنمنٹ بیج بوتی ہے تو وہ یہ امر مدنظر رکھتی ہے کہ اِتنا بیج ہو جو آٹھ دس یا پندرہ بیس سال میں سارے ملک کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ لیکن ہمارا یہ بیج اِس قسم کا بھی نہیں بلکہ ہمارا بیج اِس قسم کا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت دنیا میں بویا اور وہ لاکھوں لاکھ سال میں ترقی کو پہنچا۔ اگر اس تدریجی ترقی کے ساتھ یہ بیج بڑھا تو اس کے لئے لاکھوں یا ہزاروں سال کی ضرورت ہو گی۔ لیکن دنیا میں کوئی مذہب بھی آج تک ہزارہا سال تک زندہ نہیں رہا۔ موجود تو رہا ہے مگر زندہ نہیں رہا۔ ہندو مذہب ہندوؤں کے مقولہ کے مطابق لاکھوں سال سے ہے اور یورپین لوگوں کی تحقیقات کے مطابق یہ مذہب اڑھائی تین ہزار سال سے ہے ۔ مگر مذہب کا موجود ہونا اَور چیز ہے اور مذہب کا زندہ ہونا اَور چیز ہے۔ وہ حقیقتیں جو رِشی لائے تھے، وہ حقیقتیں جو کرشنؑ اور رامچندرؑ لائے تھے وہ اب کہاں ہیں؟ وہ زندگی کا ثبوت جو حضرت کرشنؑ اور حضرت رامچندرؑ پیش کیا کرتے تھے وہ اب کہاں ہے؟ وہ ان کا خدا تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ اب کہاں ہے؟ اور کن لوگوں کے ساتھ ہے؟ یہ نہ سہی وہ کون سے ہندو ہیں جو ویدوں پر عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ساری ہندو دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ویدوں کی تعلیم کے مطابق باطنی طور پر تو الگ رہا ظاہری طور پر ہی عمل کر رہا ہے۔ عیسائی مذہب اُنیس سو سال سے موجود ہے لیکن موجود ہونا اَور چیز ہے اور زندہ ہونا اَور چیز ہے۔ حضرت مسیح ؑ تو دنیا کو للکار کر چیلنج دیتے ہیں کہ اگر تم میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو گا تو تم ہؤاؤں کو کہو گے تھم جاؤ تو وہ تھم جائیں گی ، تم دریاؤں کو کہو گے کہ ٹھہر جاؤ تو وہ ٹھہر جائیں گے، تم پہاڑوں کو کہو گے کہ چلو تو وہ چلنے لگ جائیں گے۔ 3 ہم مانتے ہیں کہ یہ استعارے کا کلام ہے۔ پہاڑ سے مراد ہمالیہ نہیں، دریاؤں سے مراد گنگا جمنا یا انڈس نہیں اور ہواؤں سے مراد وہ ہوائیں نہیں جو درختوں کو ہلاتی ہیں بلکہ یہ سب استعارے کا کلام ہے۔ مگر استعارہ کے رو سے جو معنے ہواؤں کے ہیں، جو معنے دریاؤں کے ہیں، جو معنے پہاڑوں کے ہیں وہ معنے بھی تو آج پورے نہیں ہو رہے۔ وہ کونسا تغیر ہے جو عیسائیت کے ذریعہ دنیا میں ہو رہا ہے؟ عیسائیت نے تو یہ کہہ کر کہ شریعت ایک *** ہے ساری شریعتوں کو بیکار قرار دے دیا ہے۔ صرف دس احکام بتلائے ہیں مگر کیا اُن دس احکام پر بھی عیسائی عمل کر رہے ہیں؟ ہم مان لیتے ہیں کہ ایک حصہ کمزور ہوتا ہے جو شرعی احکام پر عمل نہیں کرتا لیکن آخر کچھ حصہ تو اس پر عمل کرتا ہے مگر عیسائیوں میں تو وہ حصہ بھی نہیں ملتا۔ اول تو وہ ہیں ہی دس احکام اور پھر ان پر بھی وہ عمل نہیں کر سکتے۔ اس کے مقابل پر ایک کمزور سے کمزور مسلمان بھی دن بھر میں پچاس احکام پر عمل کر لیتا ہے حالانکہ بڑے سے بڑا عیسائی حضرت مسیح کے دس احکام پر بھی عمل نہیں کرتا۔ پس عیسائیت ہے تو سہی لیکن عیسائیت زندہ نہیں۔ اس کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ، حضرت زرتشتؑ اور دوسرے انبیاء کی تعلیم پر عمل بالکل مفقود ہے۔ پس ہزارہا سال تک کوئی قوم اور کوئی مذہب زندہ نہیں رہ سکتا، چِھلکا رہ جاتا ہے، فُضلہ رہ جاتا ہے مگر حقیقت باقی نہیں رہتی۔
مَیں جب بھی دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے کوئی مذہب بھی تین چار سَو سال سے زیادہ زندگی والا نظر نہیں آتا۔ رسول کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ فَیْجُ الْاَعْوَجِ 4 کہ اسلام کی سب سے اچھی صدی پہلی ہو گی۔ اس کے بعد دوسری ہو گی اور پھر تیسری صدی ہو گی اس کے بعد بد اخلاق جماعت ہو گی۔ رسول کریم ﷺسے بڑھ کر شان والا اَور کون آدمی ہو گا مگر آپ کی تعلیم بھی تین چار سَو سال تک ہی چلی۔ آگے نہیں۔ پس جو قوم کامیاب بننا چاہتی ہے اُس کو اِس خیال میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اس کے لئے ہزارہا سال کام کرنے کے لئے پڑے ہیں۔ کیونکہ آج تک ہزار سال تک ایک قوم بھی زندہ نہیں رہ سکی اور ہمارے اندر کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی کہ ہم ہزارہا سال تک مذہب کو زندہ رکھنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ ابھی تو مزید تربیت کی ضرورت ہے تاکہ جماعت صحابہؓ کے مقام تک پہنچے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے آدمی ہم کو ملے ہیں جو صحابہؓ کے مقام تک پہنچے لیکن ہماری جماعت ابھی جماعتی لحاظ سے صحابہؓ کے مقام تک نہیں پہنچی اور ابھی جماعت کو اُس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت بڑی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہے۔ مگر صحابہؓ کی قربانیاں بھی اسلام کو تین سو سال تک ہی زندہ رکھ سکیں۔ پھر فَیْجِ اَعْوَج آ گیا۔ اگر ہم صحابہؓ کے مقام پر بھی پہنچ جائیں تب بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تین سو سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ حضرت مسیح ناصری کی تعلیم میں تو ڈیڑھ سَو سال بعد ہی شرک پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پس ہمارے لئے ایک تھوڑا سا وقت مقدر ہے اس تھوڑے سے وقت میں کیا تینتیس مبلغ دو لاکھ مبلغوں کا کام کر سکتے ہیں؟ یقیناً جب تک غیر معمولی کوشش ہماری طرف سے نہ ہو، جب تک غیر معمولی فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہو اُس وقت تک یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں خدا تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو تو دنیا میں آپ ہی آپ ایک نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا۔ اور صبح کو اُٹھے گا تو کافر ہو گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح اُٹھے گا تو مومن ہو گا۔5 اس کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ان دنوں بڑے زور سے جاری ہو گی۔ ایک شخص کا رات کو مومن سونا اور صبح کو کافر اُٹھنا یہ تو ہمارے کام میں داخل نہیں اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام اس کام کے لئے دنیا میں آئے۔ یہ تو دشمنوں کا حصہ ہے۔ ہمارا حصہ یہ ہے کہ ایک شخص رات کو کافر سوئے اور صبح اُٹھے تو مومن ہو۔ یہ تقدیر ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کو کھینچنا ہمارا اصل کام ہے۔ اس غرض کے لئے جو آدمی ہم نے تیار کر کے باہر بھیجے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بلکہ آٹے میں جتنا نمک ہوتا ہے اس سے یقیناً بہت کم ہیں اور درحقیقت اسے تبلیغی جد وجہد کہنا بھی غلط ہے۔ پھر نہ معلوم جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو کس طرح کام کریں گے۔ ان کےد ماغ کتنے روشن ہوں گے، ان کے اندر عرفان کس حد تک پیدا ہو گا، ان کا ایمان انہیں کتنی قربانی پر آمادہ کرے گا اور پھر ان کی آواز میں کتنا اثر ہو گا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ ان کے قلوب ان کی طرف کھنچ جائیں اور وہ ایمان کی طرف قدم اٹھانے کے لئےتیار ہو جائیں۔ یہ سار اکام ایسا ہے جو ہمارے قبضہ میں نہیں بلکہ اس میں سے کچھ حصہ تو ہمارے مبلغین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کچھ حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ہماری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کاغذ کی ناؤ بنائی اور دریا میں چھوڑ دی۔ اب یہ کاغذ کس حد تک پانی کے حملہ سے بچا رہتا ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ ہلکی ہلکی ہواؤں کو چلاتا اور کاغذ کی ناؤ کو پار اتار دیتا ہے۔ یہ سارا کام اسی کا ہے ہمارے بس کی بات نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ کاغذ کی ناؤ آج نہ ڈوبی کل ڈوبے گی۔ ہماری ناؤ بھی کاغذ کی ہے اور ہم اس کے متعلق یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناؤ آج نہ ڈوبی کل ڈوبے گی۔ آگے یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسے دوسرے کنارے پر سلامتی کے ساتھ پہنچا دے۔ اور یہ محض اس کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے ہماری کوششوں سے نہیں۔ پس ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اس ناؤ کو سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچا دے۔ جہاں تک انسانی تدابیر اور کوششوں کا سوال ہے کاغذ کی ناؤ کا دوسرے کنارے پر جانا تو الگ رہا وہ اپنے کنارہ سے چلے بغیر ہی ڈوب جایا کرتی ہے۔
ایک بہت بڑا کام ہمارے سپرد ہے اور ہمیں کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا بھر کے دلوں کو بدل ڈالنا معمولی بات نہیں۔ درحقیقت زمین وآسمان کو پیدا کرنا آسان ہے مگر دنیا کے قلوب کو بدل ڈالنا آسان بات نہیں۔ مَیں نے یہ بات یونہی نہیں کہی۔ مجھ سے پہلے بزرگوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ فرمایا۔ اگر تمہیں کوئی شخص کہے کہ اُحد پہاڑ اپنی جگہ سے ہِل گیا ہے تو مان لینا لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کی طبیعت بدل گئی ہے تو نہ ماننا۔ گویا حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کی طبیعت کے بدل جانے کو ایک پہاڑ کے ہِل جانے سے زیادہ مشکل قرار دیا ہے اور مَیں نے تو ساری دنیا کے قلوب کو بدلنے کی اہمیت بتائی ہے۔ پس جو نسبت مَیں نے آسمان اور زمین کی ساری دنیا کے قلوب سے لگائی ہے وہ غلط نہیں ہے۔ واقع یہی ہے کہ قلوب کو بدلنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہمارا چند پیسے چندوں میں دے دینا یا ہمارے چند نوجوانوں کا زندگی وقف کر دینا محض ایسا ہی ہے جیسے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہو جانا۔ قلوب جب بھی بدلتے ہیں آسمانی تقدیر کے ساتھ بدلتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن ضدی طبائع کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں اور بعض غیر معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرح اثر کرتی چلی جاتی ہیں جس طرح موافق ہوا کے باعث بادبانی کشتی اُڑتی چلی جاتی ہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آجکل خدا تعالیٰ کے حضور خاص طور پر دعائیں کریں۔ مگر دعائیں اس رنگ میں نہیں ہونی چاہئیں جس رنگ میں عام طور پر لوگ کرتے ہیں بلکہ حقیقی رنگ میں دعا کرنی چاہئے اور حقیقی دعا وہ ہوتی ہے کہ جب قلوب پر اثر ہوتا ہے تو آپ ہی آپ دل اور زبان سے دعا نکلتی چلی جاتی ہے۔ انسان کام بھی کرتا جاتا ہے اور دعا بھی نکلتی جاتی ہے۔ تم سجدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم رکوع چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم قیام چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے، تم قعدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے لیکن چوبیس گھنٹے تمہارے دل میں ایک جوش رہ سکتا ہے اور ا س کی وجہ سےدعا تمہارے دل پر جاری رہ سکتی ہے۔ شاید تم میں سے کوئی کہے کہ انسان تو رات کو سو جاتا ہے پھر چوبیس گھنٹے کس طرح کوئی دعا جاری رہ سکتی ہے؟ لیکن یہ اعتراض علم کی قلت کا نتیجہ ہے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ علم تصوف کی رُو سے بھی اور علمُ النفس کی رُو سے بھی کہ انسان جن خیالات میں سوتا ہے وہ خیالات ساری رات نیند میں بھی جاری رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ رات کو سوتے وقت آیتُ الکرسی اور آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھ پر پُھونک مارو اور پھر ہاتھ اپنے جسم پر پھیر لو اور پھر خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہوئے سوؤ کہاَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَ وَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ وَ فَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَ الْجَأْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَةً وَّ رَھْبَةً اِلَیْکَ لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتَابِ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَ نَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ۔ 6 اور اس کے بعد کوئی بات نہ کرو۔ آخر کیوں رات کو سوتے وقت یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا گیا اور کیوں یہ کہا گیا کہ اِس کے بعد کوئی بات نہ کی جائے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ جن خیالات میں انسان رات کو سوتا ہے وہی خیالات ساری رات اس کے دماغ میں چکر لگاتے رہتے ہیں حالانکہ وہ سو رہا ہوتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ رات کو دماغ خالی ہوتا ہے۔ دماغ رات کو بھی سوچتا رہتا ہے۔ صرف اِتنا فرق ہے کہ دماغ کا بیرونی حصہ جس کی وجہ سے انسان بیرونی دنیا کی باتیں سنتا ہے وہ سویا ہوا ہوتا ہے لیکن اندرونی حصہ برابر کام کر رہا ہوتا ہے۔ تم کہو گے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کو علم بھی نہ ہو اور دماغ بھی اپنا کام کر رہا ہو؟ مَیں یہ بات سمجھانے کے لئے ایک موٹی مثال دیتا ہوں۔ تم ایک چیز کھاتے ہو، اُس کے بعد تمہیں پتہ نہیں ہوتا کہ تمہارے معدے میں کیا ہو رہا ہے،تمہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ تمہارے جگر میں کیا ہو رہا ہے، تمہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ تمہارےدل میں کیا ہو رہا ہے اور دس پندرہ دن کے بعد وہ کھانا ایک بیماری کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ اُس کی وجہ یہی ہے کہ جسم کے ایک حصہ کو اس کا علم تھا اور دوسرے کو اُس کا پتہ نہیں تھا۔ ظاہر اِس بات سے ناواقف تھا کہ اندر زہر کی ایک فیکٹری بن گئی ہے لیکن باطن اس فیکٹری کو جانتا تھا۔ پس یہ عجیب بات نہیں ۔ روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم ظاہری علم کے لحاظ سے نہیں جانتے لیکن ہمارا اندر اُنہیں جانتاہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم ظاہر میں بھی جانتے ہیں۔ اسی طرح رات کے وقت انسان جن خیالات میں سوتا ہے وہی ساری رات اس کے قلب میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ پس جب طبیعت میں جوش پیدا ہو جائے اور انسان خواہ کسی حالت میں ہو دعا کرتا رہے تو وہ دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ مَیں نے خود کئی دفعہ دیکھا ہے مَیں کام بھی کرتا رہتا ہوں اور دعا بھی دل سے نکلتی چلی جاتی ہے۔ اُس وقت مجھے یقین ہوتا ہے کہ یہ دعا ضرور قبول ہو گی۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی اسی طرح دعا کریں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ قلب کی یہ کیفیت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ ہوتی ہے دوسری دعاؤں کا۔
بہرحال افراد کی ضروریات بھی خدا تعالیٰ پوری کرتا ہے اور قوم کی ضروریات بھی خدا تعالیٰ پوری کرتا ہے لیکن اسلام کی ضروریات کو پورا کرنا تو وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ اسلام کو اس نے بھیجا۔ رسول کریم ﷺ کو اس نے بھیجا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو اس نے بھیجا۔ پس جس ہستی نے رسول کریم ﷺ کو بھیجا اور قرآن شریف کو نازل کیا، جس ہستی نے دونوں کے نام کو دوبارہ روشن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو بھیجا اُس ہستی کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہم سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی فکر مند نہیں۔ یقیناً وہ ہم سے زیادہ فکر مند ہے۔ سوال صرف اِس قدر ہے کہ ہم اس کے آلہ کار بن جائیں تاکہ ہمارے ذریعہ وہ مقصد پورا ہو جائے ۔اس کے لئے ہمیں اُس کے حضور جُھک کر اِيَّاكَ نَعْبُدُ 7کے ماتحت اپنی زندگیاں وقف کر دینی چاہئیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 8کے ماتحت اپنی دعاؤں کو وقف کر دینا چاہئے۔ اگر ہم ایسا کر دیں تو یقیناً اِس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ایسا صراطِ مستقیم پیدا فرما دے گا جس سے احمدیت دنیا میں غالب آ جائے گی، رسول کریم ﷺ کا نام دنیا میں پھر روشن ہو جائے گا۔ قرآن کریم پھر بولنے والی کتاب بن جائے گی جو لوگوں سے باتیں کرے گی، اُن کی اصلاح کرے گی اور ان کے اندرونی نقائص کو دور کر دے گی۔ مگر ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو اُس کے فضلوں کے مستحق بنائیں۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں کہ وہ ہمیں اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنا آلۂ کار بنا لے، وہ ہماری زبانوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہماری آنکھوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہمارے ہاتھوں میں اثر پیدا کرے تاکہ اگر ہم کچھ لکھیں تو وہ لوگوں کےد لوں میں اُتر جائے۔ کسی طرف آنکھ اٹھائیں تو اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جائے، کوئی بات کریں تو لوگ اس کے ماننے پر آمادہ ہو جائیں۔ اور پھر وہ ہمارے قلوب کی ایسی حالت کر دے کہ جب ہم خواہش کریں کہ فلاں علاقہ اسلام میں داخل ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آمین کہیں اور خدا تعالیٰ عرش سے حکم نازل کرے کہ ایسا ہو جائے۔ ہم تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہدایت پا جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس خواہش کو ‘‘ہدایت پا جائیں’’ کی بجائے ‘‘ہدایت پا گئے’’ کی صورت میں بدل سکتا ہے۔ اگر ہماری یہ خواہش اخلاص پر مبنی ہے اور ہمارا اسلام کی ترقی کے لئے مبلغین کو باہر بھیجنا تقویٰ پر مبنی ہے تو اِس صور ت میں خدا تعالیٰ جس بات کا پہلے سے ارادہ کر چکا ہے اُس کا ظہور میں آ جانا کوئی مشکل امر نہیں۔ پس دوستوں کو ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں اور اپنی ذات کی بھی اصلاح کرنی چاہئے۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو اگر وہ ہم میں سے کسی کے بیٹے نہیں تو بہرحال وہ کسی ماں اور کسی باپ کے بیٹے ہیں دنیا میں بھیجا ہے۔ تن تنہا بغیر سامانوں کے، بغیر ہتھیاروں کے، بغیر تجربہ کے اور بغیر اُن علوم کے جن کو پیش کئے بغیر یورپین لوگ بات ہی نہیں مانتے۔ مَیں نے جیسا کہ پہلے بھی مثال دی ہے ہم نے اُن کو ایسی صورت میں بھیجا ہے جیسے کاغذ کی ناؤ کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اُس کی مدد مانگیں۔
مَیں نے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں خنساء ؓ کا ایک قصہ سنایا تھا۔ اُس وقت جو حصہ سنایا تھا وہ اُس مضمون کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہ جب ایک جنگ میں مسلمانوں کے لئے خطرناک صورت پیداہو گئی تو خنساءؓ نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا مَیں نے تمہیں بیوگی کی حالت بڑی بڑی مصیبتوں میں رہ کر پالا اور تمہاری پرورش کی ہے۔ مَیں اپنا دودھ قیامت کے دن تمہیں معاف نہیں کروں گی جب تک تم فتح پا کر نہ لَوٹو گے یا مارے نہ جاؤ گے۔ لیکن دوسرا حصہ وہ ہے جو آج کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔ خنساءؓ نے اپنے بیٹوں کو بھیج تو دیا لیکن اُنہیں بھیج کر وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو گئی اس نے اپنے بیٹوں کو موت کے لئے بھیجا اور اسلام کی طرف سے جو اُس پر ذمہ داری تھی اُسے ادا کر دیا۔ اِس کے بعد اُس پر جو دوسری ذمہ داری تھی یعنی مامتا کی اُس نے اُسے ادا کیا۔ وہ اُن کو موت کے منہ میں بھیج کر خود خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئی اور کہا اے میرے رب! مَیں نے اپنی جوانی دکھ میں گزاری ہے کیونکہ میرا خاوند بدمعاش آدمی تھا۔ پھر مَیں نے اپنا بڑھاپا دکھ میں گزارا کیونکہ تین بچوں کی پرورش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اب اے میرے رب! جب مجھے آرام ملنے کا موقع تھا مَیں نے اپنے تینوں بچوں کو جو میری ساری عمر کی کمائی ہیں تیرے دین کی خدمت کے لئے یہ کہہ کر بھیج دیا ہے کہ جاؤ یا تو فتح پا کر واپس آنا یا وہیں مر جانا۔ لیکن اے میرے رب! اب میری مامتا تیرے عرش کے آگے اپیل کرتی ہے کہ اُن کو زندہ ہی واپس لانا۔ چنانچہ وہ زندہ ہی واپس آئے اور فتح پا کر آئے۔
اب بھی جب کہ بعض ماؤں نے اپنے بچوں کو گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا ہے، جب نوجوانوں نے اپنی زندگیاں دینِ اسلام کے لئے وقف کر دی ہیں اور باپوں نے اپنی نسلیں خدا تعالیٰ کے لئے دے دی ہیں اور جتنی اسلام کے لئے قربانی کی ذمہ داری تھی وہ بعضوں نے پوری کر دی اور بعض پوری کرنے کی کوشش کر رہےہیں تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک کر کہیں کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی عمر کی کمائی تیرے دین کے لئے دے دی ہے۔ اب تُو خود ہی اُن کی حفاظت کر اور اُن کو بامراد واپس لا کہ ہمارے دل بھی خوش ہوں اور تیرے دین کی بھی ترقی ہو۔ یہی وہ ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہے۔ اُسی طرح جس طرح خنساءؓ پر تھی۔ بلکہ دین کا رشتہ دنیا کے رشتہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر خنساء ؓاپنے جسمانی بچوں کی بقا اور ان کی حفاظت کے لئے اس قدر بیتاب ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئی تھی توپھر ہمارا تو یہ فرضِ اولین ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک جوش پیدا ہو اور ہم ان نوجوانوں کے لئے جو دین کے لئے باہر چلے گئے ہیں یا باہر جانے والے ہیں خدا تعالیٰ کے حضور التجا کریں کہ اے ہمارے رب! تُو اُن کو صحیح راستہ دِکھلا، اُن کے کاموں میں برکت دے، اُن کو کامیابی عطا فرما اور اُن کو فاتح بنا کر واپس لا۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد نہ آئی تو ہمارے کام کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی شخص سارا دن مزدوری کرے اور شام کو اپنی مزدوری دریا میں ڈال دے۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی کیفیت پیدا کر دے گا کہ ہمارے دل بولنے لگ جائیں گے اور رات اور دن وہی خیالات ہمارے دلوں میں جاری رہیں گے۔ ہم دنیا کے کام کر رہے ہوں گے اور دعائیں ہمارے دلوں سے نکلتی چلی جائیں گی۔ ایک بڑھئی اپنی لکڑی چیر رہا ہو گا اور ساتھ ہی اس کے دل سے آواز نکل رہی ہو گی۔ کلہاڑی کھٹ کھٹ کر رہی ہو گی اور ساتھ ہی اس کے دل کی آہٹ خدا تعالیٰ کے سامنے پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہو گی کہ اے خدا! ہمارے مبلغین کو آرام سے رکھیو اور ان کی مدد اور نصرت فرمائیو۔ اور جب ایک طبقہ کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ ان کے دل بولنے لگ جائیں گے جیسے صوفیاء کہا کرتے تھے کہ فلاں کا دل بولنے لگ گیا ہے تو ہماری کامیابی یقینی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دل باتیں کرنے لگ جاتا اور کلمہ پڑھنے لگ جاتا ہے حالانکہ دل بولنے کے یہ معنے نہیں ہوتے بلکہ دل بولنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ دل میں سے دعائیں خود بخود پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور ارادے کا سوال ہی نہیں رہتا۔ رات اور دن دل میں ایک فکر پیدا ہو جاتا ہے اور رات اور دن دل دعا میں لگا رہتا ہے۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ بندے کے قریب ہو جاتا ہے اور اسی کا نام صوفیاء نے دل کا بولنا رکھا ہے۔ نادانوں نے دل بولنے کے معنے یہ سمجھ لئے ہیں کہ زبان سے جس طرح آدمی کلام کرتا ہے اِسی طرح دل بھی بولنے لگ جاتا ہے مگر یہ معنے نہیں۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی اُس وقت ہمارے لئے کامیابی بالکل یقینی ہو جائے گی۔ مگر ایسی صورت پیدا کرنے کے لئے پہلے زبان سے دعائیں کرنی چاہئیں جو کامیابی کا پہلا قدم ہے۔ غرض دوستوں کو اِس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مشکل کام کو ہمارے لئے آسان کر دے اور ہم سُرخرو ہو کر اس کی خدمت میں حاضر ہوں۔’’ (الفضل 20 فروری 1946ء )
1: موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم جلد 2 صفحہ 1735مطبوعہ بیروت
1996ء میں یہ الفاظ ہیں‘‘عَرَفْتُ اللہَ بِفَسْخِ الْعَزَائِم’’
2: سٹیمولینٹ: خون کی روانی کو بڑھانے والی چیز۔ محرک
3: متی باب 17 آیت 20۔ (مفہوماً)
4: بخاری کِتَاب فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ بَابُ فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ (الخ) میں
یہ الفاظ ہیں۔‘‘ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔’’
5: مسلم کِتَابُ الْاِیْمَانِ بَاب اَلْحَثُّ عَلَی الْمُبَادَرَةِ بِالْاَعْمَالِ (الخ)
6: بخاری کِتَاب الدَّعْوَاتِ بَاب اَلنَّوْم عَلَی الشِّقِّ الْاَیْمَنِ
7،8 : الفاتحة: 5


5
چندہ تحریکِ جدید میں حصہ لے کر عظیم الشان ذمہ داری کے کام کے لئے بہت بڑے اخراجات کی ضرورت پوری کی جائے
(فرمودہ 22 فروری 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘پہلے تو مَیں جماعتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس دفعہ الیکشن کی وجہ سےتحریک جدید کے چندوں کی آخری تاریخ لمبی کر دی گئی تھی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو تاریخ مقرر کی گئی تھی اُس میں بھی لوگوں کے لئے کام کا ختم کرنا مشکل ہو گا کیونکہ بعض جگہوں پر پندرہ تاریخ کو الیکشن ختم ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر سترہ اٹھارہ تاریخ کو اور بعض جگہ پر بیس تاریخ کو۔ پھر لوگ الیکشن ختم کر کے اپنے گھروں کو واپس گئے ہوں گے اور کچھ دن اپنی تکانیں دور کی ہوں گی۔ اس لئے بجائے 28 فروری کے مَیں تحریک جدید کے وعدوں کی آخری تاریخ دس مارچ مقرر کرتا ہوں۔ جو وعدے دس مارچ تک ہمیں پہنچ جائیں گے یا وہ وعدے اور خطوط جن پر ڈاکخانہ کی دس مارچ کی مہریں لگی ہوئی ہوں گی اُن تمام وعدوں کو قبول کر لیا جائے گا۔ سوائے ہندوستان کے اُن علاقوں کے جہاں اردو نہیں بولی جاتی کہ اُن علاقوں میں حسبِ قاعدہ اپریل تک کے وعدے قبول کئے جائیں گے اور ہندوستان سے باہر کے وعدے جون کے آخر تک تبدیل کئے جائینگے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے اِس نازک فرض کو پہچانتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کریں گے اور جن لوگوں نے پہلی تحریک میں حصہ لیا ہے جہاں تک ممکن ہو سکے پہلے سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں گے۔ اِسی طرح جنہوں نے پہلی تحریک میں حصہ نہیں لیا اور وہ دفتر دوم میں پچھلے سال شامل ہوئے تھے وہ اپنے وعدے اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کے وعدے اُنیس سال کے لئے ہیں جلد از جلد اپنے وعدوں کو لکھوا دیں گے۔ اور وہ جو ابھی تک اس نئی تحریک میں شامل نہیں ہوئے وہ بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے۔
ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہمارے مبلغ بیرونجات میں گئے ہیں او راب وہاں خرچ کا سلسلہ باوجود انسانی قربانی کے زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پھر کئی ممالک میں ہمارے لئے تبلیغ کے نئےر استے کھل رہے ہیں۔ مثلاً ملایا میں ہمارے مبلغ پہلے قید تھے، جاوا میں قید تھے، سماٹرا میں قید تھے اور راستے بند تھے جس کی وجہ سے ان کو خرچ نہیں بھیجا جا سکتا تھا لیکن اب راستے کھل گئے ہیں اور اب پھر ان کو خرچ بھیجنا شروع کیا جائے گا۔ تحریک جدید کے جو مبلغ گزشتہ عرصہ میں قید رہے ہیں اُن کا ماہوار خرچ جب سے کہ وہ قید ہوئے ہیں ہماری طرف سے خزانہ میں الگ جمع کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ جب بھی آزاد ہوں ان کی رقوم ادا کی جا سکیں۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ سے غفلت ہوئی اور شروع میں اس نے اس طرف توجہ نہیں کی بعد میں میرے کہنے پر صدر انجمن احمدیہ کے مبلغین کا بھی اسی طرح انتظام کیا گیا۔ یہ مَیں نہیں جانتا کہ انہوں نے صرف اُسی دن سے اُن کا روپیہ جمع کیا ہے جس دن مَیں نے حکم دیا تھا یا جب سے کہ وہ قید ہوئے۔ بہرحال انہوں نے بھی اپنے مبلغین کا خرچ علیحدہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ جہاں تک تحریک جدید کے مبلغین کا سوال ہے ان کی رقوم ہمارے خزانے میں الگ ان کے نام سے جمع ہوتی رہی ہیں۔ اس لئے جونہی روپیہ بھیجنے کی اجازت ہو گئی ہم ان کے نام پر جمع کی ہوئی رقوم میں سے ان کا خرچ انہیں بھیج دیں گے لیکن گزشتہ تبلیغ اور اس تبلیغ میں ایک فرق ہے۔ اب ہم زیادہ زور سے تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے ہم نے صرف مختلف جگہوں پر مبلغ بٹھائے ہوئے تھے لیکن اب ہمارا منشاء یہ ہے کہ ہر جگہ لوگوں کے لئے لٹریچر بھی مہیا کریں تاکہ اس کے ذریعہ لاکھوں آدمیوں تک سلسلہ کا پیغام پہنچ سکے۔ پس یہ عظیم الشان ذمہ داری کا کام جو ہمارے سامنے آنے والا ہے اس کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔ بعض تبلیغ کے نئے راستے کُھلے ہیں، بعض کُھل رہے ہیں اور بعض کُھلنے والے ہیں۔ امریکہ کی طرف ہمارا مبلغ روانہ ہو گیا ہو گا یا کل پرسوں تک اِنْشَاءَ اللہ روانہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جہاز والوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بائیس سے پچیس تک جو جہاز جائے گا اُس میں خلیل احمد صاحب ناصر کو جگہ دے دی جائے گی۔ پس یا تو اُن کو آج جگہ مل گئی ہو گی یا کل پرسوں اور اترسوں تک مل جائے گی۔ اور اِس طرح امریکہ کی طرف ہمارا تحریک جدید کا پہلا مبلغ روانہ ہو جائے گا۔ گو تبلیغ کا کام ابھی شروع نہیں ہو گا کیونکہ خلیل احمد صاحب ناصر کو پاسپورٹ طالب علم کی حیثیت سے ملا ہے۔ وہ وہاں کسی یونیورسٹی میں داخل ہوں گے اور اس کے بعد اگر گورنمنٹ نے اجازت دی تو وہ وہاں رہ سکیں گے ورنہ پھر کسی دوسرے ملک میں واپس آ کر اُنہیں دوبارہ پاسپورٹ لے کر جانا ہو گا۔ دو اَور مبلغ بھی تیار ہیں جن کے متعلق محکمہ کی طرف سے سستی برتی گئی ہے اور اب تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں کئے گئے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیوں ابھی تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں ہوئے تو منتظم صاحب نے جواب دیا کہ ابھی ان دونوں کے متعلق غور کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ پاسپورٹ کے لئے درخواست دیں یا نہ دیں۔ گویا انہوں نے ایک سال درخواست دینے کے لئے غور کرنے پر لگا دیا۔ جس کی وجہ سے ان دونوں کو پاسپورٹ نہیں مل سکے۔ اور چونکہ مبلغ کی حیثیت میں پاسپورٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے اب وہاں ہمیں کسی اَور ذریعہ سے جانا ہو گا۔ اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ ہمیں کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور سمجھا دے گا یا کسی نہ کسی رنگ میں ان کے افسروں کی عقلوں پر پتھر ڈال دے گا۔ جس کی وجہ سے ہمارے آدمی باوجود مخالفت کے ان ملکوں میں گُھس ہی جائیں گے۔
پس ایک وسیع کام ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے ہمیں اب ہر قدم آگے کی طرف ہی بڑھانا چاہئے اور تحریک جدید کا دَور اول ہمیں شاندار طور پر ختم کرنا چاہئے۔ اس سال کو ملا کر آٹھ سال باقی رہ جاتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس عرصہ میں ہم دورِ دوم کو اتنا مکمل کر لیں کہ اس کی آمد دورِ اول سے بڑھ جائے۔ ابھی تو دورِ دوم کے وعدے بہت کم ہیں۔ پچھلے سال پچپن یا ساٹھ ہزار کے وعدے ہوئے تھے جن میں سے صرف بیالیس ہزار روپیہ وصول ہوا۔ ضرورت یہ ہے کہ اس دَور کو ہم پہلے سے بھی زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کریں۔ اس دفعہ دفتر چونکہ زیادہ کوشش کر رہا ہے اس لئے امید ہے کہ پچھلے سال سے وعدے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد تحریک جدید کے دَورِ سوم اور چہارم اور دَورِ پنجم آئیں گے اور ہم دین کے لئے قربانیاں کرتے چلے جائیں گے۔ جس دن ہم نے دین کے لئے جد و جہد چھوڑ دی اور جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے کہا کہ دَور اول بھی گزر گیا، دَورِ دوم بھی گزر گیا، دَورِ سوم بھی گزر گیا، دَورِ چہارم بھی گزر گیا، دَورِ پنجم بھی گزر گیا، دَورِ ششم بھی گیا، دَورِ ہفتم بھی گزر گیا۔ اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے، آخر کہیں نہ کہیں اس کو ختم بھی تو کرنا چاہئے وہ اقرار ہو گا ان لوگوں کا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہو چکی ہے اور ہمارے ایمان کمزور ہو گئے ہیں۔ ہم تو امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دَور غیر محدود دَور ہوں گے اور جس طرح آسمان کےستارے گِنے نہیں جاتے۔ اسی طرح تحریک جدید کے دَور بھی گِنے نہیں جائیں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ تیری نسل گِنی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل نے دین کا بہت کام کیا۔ یہی حال تحریکِ جدید کا ہے۔ تحریک جدید کا دَور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے اِس لئے اس کے دَور بھی اگر نہ گِنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیاد اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہو گی۔
اس کے بعد مَیں اُس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے متعلق دوستوں کو کل معلوم ہی ہو چکا ہے۔ یعنی چودھری فتح محمد صاحب اِس حلقے سے ہمارے صوبہ کی اسمبلی کی ممبری کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے منتخب ہو گئے ہیں۔ سوال اِس وقت چودھری صاحب کی کامیابی کا نہیں یا اِس بات کا نہیں کہ اسمبلی کی ممبری میں ایک احمدی کامیاب ہو گیا ہے۔ اسمبلی میں پہلے بھی احمدی ممبر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً چودھری ظفر اللہ خان صاحب، چودھری اسد اللہ خان صاحب اور پیر اکبر علی صاحب بھی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔ پس خالی اس بات کا سوال نہیں کہ ایک احمدی اسمبلی کا ممبر ہو گیا بلکہ ہمیں جو خوشی ہے وہ یہ ہے کہ قادیان کے علاقہ سے جس کے متعلق آج سے گیارہ سال پہلےا حرار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے احمدیت کو یہاں کچل دیا ہے اِس حلقے میں سے لیگ کے ٹکٹ پر نہیں ، یونینسٹ کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ خالص احمدیت کے ٹکٹ پر ایک احمدی کامیاب ہوا ہے۔ ہم نے لیگ سے ٹکٹ طلب کیا تھا مگر انہوں نے نہیں دیا۔ ہم نے یونینسٹ سے صرف اِتنا کہا تھا کہ تم صرف اپنے ہاتھ شرارت سے روک لو اور افسرانہ دخل اندازی سے باز آ جاؤ مگر اُنہوں نےکہا ہم ایسا نہیں کر سکتے اور اُنہوں نے ہمارے خلاف سارا زور لگایا بلکہ تمام پنجاب میں گورنمنٹ کا زور کسی بھی تحصیل میں اُتنا نہیں لگا جتنا بٹالہ کی تحصیل میں۔ وہ تمام کارروائیاں جو ہمارے خلاف کی جا سکتی تھیں کی گئیں۔ حتّٰی کہ مجھے مرزا ناصرا حمد نے سنایا کہ گورداسپور میں یونینسٹ پارٹی کے ایک آدمی نے جو لوگوں میں اپنے آپ کو وزیر اعظم کا پرسنل اسسٹنٹ قرار دیتا تھا (گو مرزا ناصر احمد کے سامنے اُس نے اِس سے انکار کیا) کہا کہ جو زور ہم نے یہاں یونینسٹ نمائندہ کی تائید میں لگایا ہے سارے پنجاب میں اُتنا زور کہیں نہیں لگایا۔ مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے احمدیت کو کامیاب کر کے بتا دیا کہ احرار کا یہ دعویٰ کہ ہم نے قادیان کے مرکز میں احمدیت کو کچل دیا ہے کتنا جھوٹا ہے۔ آج سے گیارہ سال پہلے یہاں کا کوئی احمدی ڈسٹرکٹ بورڈ کا بھی ممبر نہیں تھا لیکن آج گورنمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود پنجاب کی اسمبلی میں احمدی ممبر آ گیا ہے۔ دراصل خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ہی لیگ کو روک دیا کہ وہ ہمیں ٹکٹ نہ دے کیونکہ اگر ہم لیگ کا ٹکٹ لے کر جیت جاتے تو لوگ کہتے احمدی تو مُردہ ہیں لیگ کی مدد سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر یونینسٹ سمجھوتہ کر لیتے تو لوگ کہہ دیتے کہ احمدیت تو مر ہی چکی ہے یہ تو گورنمنٹ کی مدد سے کامیاب ہوئے ہیں۔ یا ایک طاقتور پارٹی کی مدد سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان دونوں باتوں سے ہمیں محروم کر دیا۔ اُس وقت ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ بُرا سلوک ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ نے بعد میں سمجھا دیا کہ ہمارے ساتھ اچھا ہوا، بُرا نہیں ہوا۔ کیونکہ اس ذریعہ سے ثابت ہو گیا کہ احمدی ممبر احمدیت کے زور پر آگے نکلا۔ چنانچہ 6368 ووٹ ہم نے حاصل کئے مگر چونکہ کچھ ووٹوں میں گڑ بڑ بھی ہوئی ہے اس لئے گورنمنٹ کے حساب سے 6266 ووٹ ہم نے حاصل کئے ہیں۔ ان میں سے احمدی ووٹ 5000 ہیں۔ گویا خدا تعالیٰ نے جماعت کو اتنی ترقی دی کہ آج پانچ ہزار ووٹ صرف ایک تحصیل میں ہیں۔ اگر عام نسبت کو مدنظر رکھا جائے یعنی اس بات کو کہ ہمارے ملک میں ووٹر آبادی کا دسواں حصہ ہیں توصرف تحصیل بٹالہ میں پچاس ہزار احمدی ثابت ہوتے ہیں مگر ہماری جماعت کے ووٹ دینے والوں کی نسبت اس سے زیادہ ہے۔ اس لئے اس قدر اندازہ لگانا درست نہیں۔ پس یہاں صرف ممبری کا ہی سوال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تعداد اور اس کی عظمت کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ووٹ اس تحصیل میں 6800 تھا مگر بہت سے ووٹ ضائع ہو گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ تجربہ نہیں تھا۔ اگر کوشش کی جاتی تو سات ہزار سے بھی زیادہ احمدی ووٹ ہوتے۔ درحقیقت ہماری تعداد اس تحصیل میں قادیان کو ملا کر میرے خیال میں بیس پچیس ہزار کے قریب ہے۔ لیکن اگر سات ہزار ووٹ ہوتے تو گورنمنٹ کے حساب کی رو سے ہماری تعداد ستّر ہزار ہوتی۔ پھر گورداسپور میں بھی ہمارا دو ہزار کے قریب ووٹ موجود تھا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو روز بروز ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا ثبوت ہےجو ہمارا پیش کیا ہوا نہیں بلکہ گورنمنٹ کی آراء شماری اس کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
مَیں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کے متعلق اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے پوری قربانی سے کام نہیں لیا اور جیسے کمزور انسان کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اپنے سے نچلے سے اس کا بدلہ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے بھی بجائے اس کے کہ اس پر فخر کرتے اور خوش ہوتے کہ ہمیں تو جھاڑ پڑ گئی لیکن ہماری عورتیں تو کچھ کر کے آ گئیں انہوں نے گھروں میں جا کر عورتوں کو طعنے دینے شروع کر دئیے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں جھاڑ پڑی ہے۔ گویا مطلب یہ تھا کہ تم بھی کام نہ کرتیں تو کیا ہی اچھا ہوتا ہماری ناک تو بچ جاتی۔ حالانکہ یہ کتنی غلطی تھی۔ اپنی ناک کو اونچا کر کے عزت حاصل کرنی چاہئے یا دوسرے کی ناک کٹوا کر عزت حاصل کرنی چاہئے۔ مجھے عورتوں نے یہ بات بتائی کہ ہمارے مرد یُوں طعنہ دیتے ہیں تو مَیں نے انہیں کہا ہارے ہوئے طعنے ہی دیا کرتے ہیں تم پروا نہ کرو۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورتوں نے واقع میں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے۔
بعد میں مجھے ایک اَور مثال کا پتہ لگا جو حیرت انگیز تھی اور جس نے قادیان کی مثالوں کو بھی مات کر دیا۔ ہمارے جو آدمی الیکشن کے کام کے لئے گئے ہوئے تھے اُن میں سے ایک نے سنایا کہ ایک گاؤں میں ایک احمدی عورت ووٹر تھی جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ ووٹ دینے کی مقررہ تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے اُسے اسقاطِ حمل ہو گیا اور چونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وہ ووٹر ہے اِس لئے ہم نے وہاں کوئی سواری نہ بھجوائی اس دن جب کئی گھنٹے ووٹنگ پر گزر گئے تو ایک آدمی نے آ کر بتایا کہ فلاں جگہ ایک عورت بیہوش پڑی تھی اور لوگ اس کو اٹھا کر اس کے گاؤں واپس لے گئے ہیں۔ اس کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ وہ ووٹ دینے آئی تھی۔ چنانچہ ہمارے آدمی وہاں گئے لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔ اس پر انہوں نے فوراً اس کے لئے اس کے گاؤں میں سواری بھیجی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس بیماری کی حالت میں ہی چل پڑی اور اپنے گاؤں سے دو میل دور آ کر بیہوش ہو کر گر پڑی۔ گاؤں والوں نے اسے اٹھایا اور واپس لے گئے۔ لیکن جب اسے ہوش آیا تو وہ اُٹھ کر پھر دوڑنے لگی اور کہا کہ مَیں نے تو ووٹ دینا ہے۔ اس اثناء میں سواری بھی پہنچ گئی اور وہ اس پر سوار ہو کر ووٹ دینے آ گئی۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ خلیفة المسیح نے کہا ہے کہ جس سے ممکن ہو وہ ووٹ دینے کے لئے ضرور پہنچ جائے اِس لئے مَیں اپنا سارا زور لگانا چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ووٹ دے آؤں۔
اس عرصہ میں بیرونجات سے آنے والے لوگوں میں سے بھی بعض کی مثالیں بڑی شاندار معلوم ہوئی ہیں۔ کل ہی مجھے ایک فوجی کا خط ملا ہے وہ انبالہ میں تھا۔ یہاں سے اسے تار گیا کہ تمہارا ووٹ ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے جو چٹھی جاتی ہے وہ نہیں گئی۔ وہ خط میں لکھتے ہیں کہ جب تار وہاں پہنچا تو دفتر کا افسر جو ہندو تھا چونکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ مَیں ووٹ کے لئے جاؤں اس نے تار دبا دی۔ کرنل چُھٹی پر جا رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے مجھے تار دکھائی۔ مَیں نے وہ تار اپنے نچلے افسر کو دی۔ اس نے کہا مَیں تو رخصت نہیں دے سکتا بڑے افسر کے پاس جاؤ۔ مَیں اس بڑے افسر کے پاس گیا تو اس نے کہا کرنل کی موجودگی میں چُھٹی مل سکتی تھی مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اس نے کہا یہ تو بناوٹی تار ہے۔ مَیں نے کہا میرا ووٹ ہے اور وہاں سے تار آیا ہے بناوٹی نہیں۔ انہوں نے کہا کچھ بھی ہوتمہیں چُھٹی نہیں مل سکتی۔ مَیں وہاں سے آ کر سیدھا سٹیشن کی طرف بھاگا اور ریل میں سوار ہوا۔ امرتسر پہنچا تو بٹالہ کی ریل روانہ ہو چکی تھی۔ وہاں سے دوڑ کر لاری لی۔ جب لاری بٹالہ پہنچی تو قادیان کی ریل روانہ ہو چکی تھی۔ اس پر میں بٹالہ سے قادیان پیدل روانہ ہوا اور دَوڑتے ہوئے قادیان پہنچ کر اپنا ووٹ دیا۔ انہوں نے جگہ کا نام تو نہیں بتایا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیان میں ہی آئے تھے کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں ووٹ دے کر خلیل احمد صاحب ناصر کے پاس جو انچارج تھے آیا اور کہا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔ تم چلے جاؤ۔ مَیں واپس آیا تو پہلے مجھے قید کر دیا گیا کہ تم بغیر چُھٹی کیوں گئے تھے پھر میرا رَینک توڑ کر مجھے سپاہی بنا دیا گیا۔ اب دیکھو یہ دوست فوجی تھے اور جانتے تھے کہ اگر مَیں بِلا اجازت چلا گیا تو مجھے قید کی سزاملے گی مگر باوجود اس کے وہ بھاگ کر یہاں آ پہنچے اور ووٹ دیا۔ یہی اخلاص ہے جو قوموں کو کامیاب کیا کرتا ہے۔
لوگ تو مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم جنت کا لا لچ دے کر یا دوزخ سے ڈرا کر کام لیتے ہو حالانکہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرانے کے قائل ہی نہیں۔ نہ مذہبی طور پر اور نہ سیاسی طور پر۔ اگر ہم دشمن کو دوزخ سے ڈرائیں تو احمدیوں کو تو ووٹ ملنا بالکل ہی ناممکن ہو جائے کیونکہ احمدیوں کی تعداد دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہمیں یہ ضرورت ہی نہیں کہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرائیں یا جنت کا لالچ دلا کر کام کرائیں کیونکہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قومی بیداری اس قسم کی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کام دنیوی ہے اکثر لوگ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دُنیوی حقوق کو محفوظ کرنا بھی ثواب کا کام ہوتا ہے۔ اسی طرح میرے خطبہ کے بعد قادیان والوں نے بھی فرض شناسی سے کام لیا اور انہوں نے چالیس کے قریب سائیکل چند گھنٹوں کے اندر اندر میاں بشیر احمد صاحب کے پاس پہنچا دئیے۔ اسی طرح بہت سے آدمیوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور فوراً بیرونجات میں چلے گئے۔ آج الیکشن کے سلسلہ میں ہمارے کارکن مجھے ملنے آئے تو انہوں نے کہا کہ گاؤں کے احمدیوں نے تو کمال کر دیا۔ وہ سارے علاقہ میں ٹڈی دل کی طرح پھیل گئے تھے۔ بالخصوص گاؤں کے لوگوں نے۔ اور ان میں سے بھی خصوصیت کے ساتھ ونجواں کھوکھر اور لودھی ننگل، خان فتح، ننگل، اٹھوال، گلانوالی، دھرم کوٹ، قلعہ ٹیک سنگھ وغیرہ وغیرہ ۔ تلونڈی والوں نے بھی اچھا کام کیا ہے لیکن اتنا نہیں جتنی ان سے امید کی جاتی تھی۔ مگر بہرحال انہوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ نکمّوں میں سے نہیں تھے۔ (میرا یہ ذکر الیکشن سے پہلے کی رپورٹ پر تھا۔ بعد میں انہوں نے جیسا کہ بتایا گیا ہے اچھا کام کیا ہے) بعض اَور جماعتوں نے بھی بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اس وقت مجھے اُن کے نام یاد نہیں رہے۔ فَجَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔ ان سب نے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ جب مومن کام کرنے پر آتا ہے تو وہ ہر قسم کے عواقب سے نڈر ہو کر کام کرتا ہے۔ ونجواں میں مخالفین کی شرارت پر پولیس نے احمدیوں کے ووٹوں کو روکنے کی کوشش کی۔ مگر نوجوان مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے آدمی لے کرجانے ہیں خواہ پولیس دخل اندازی ہی کیوں نہ کرے۔ پولیس نے ایک دو ووٹروں کو روکے رکھا اور باقیوں کو چھوڑ دیا لیکن جب ہمارے دوسرے آدمی پہنچ گئے تو باقیوں کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ بہرحال جماعت نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے۔ جہاں تک الیکشن کروانے کا سوال تھا جماعت نے اپنی قربانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بے مثال قربانی پیش کر کے جماعت کی ترقی کے لئے ایک راستہ کھول دیا ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک دوسرا مرحلہ ہے اور وہ یہ کہ چودھری صاحب وہاں جا کر ایسے رنگ میں کام کریں جو احمدیت کی شان کے مطابق ہو۔
ہمارے ملک کی یہ خاص مصیبت ہے کہ لوگ پارٹی بازیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایک ہندو کسی جگہ جاتا ہےتو وہ مسلمانوں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے، اگر ایک مسلمان کسی جگہ جاتا ہے تو وہ ہندوؤں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی سکھ جاتا ہے تو وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔غرض ہر فرقہ کا آدمی دوسرے فرقہ کے آدمی کا گلا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ضلع کا آدمی دوسرے ضلع میں جاتا ہے تو دوسرے ضلع کے لوگوں کی ضرورتوں سے بالکل بے پروا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم کا آدمی دوسری قوم کے آدمیوں کا خیال نہیں کرتا۔ مَیں یہ تو بڑی لمبی اور دُور کی باتیں کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے سوا اور کسی کا بھی فکر نہیں ہوتا۔ پس ہمیں وہاں کھیل کُود اور لڑائی جھگڑے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ ہم وہاں جا کر اپنی جماعت کے لئے حقوق مانگیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری جماعت کو جب نقصان پہنچ رہا ہو تو اس نقصان کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے لئے وہاں ہمارا نمائندہ ہونا ضروری ہے لیکن اصل کام یہ ہے کہ ہمارا نمائندہ ایسے رنگ میں کام کرے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں اور سکھوں کا آپس میں سمجھوتا ہو جائے اور یہ قومیں مل جل کر کام کریں اور صوبہ کی ترقی میں ممد و معاون ہوں اور یہ صوبہ ایسی مثال قائم کرے کہ سارے ہندوستان کے لوگوں کے اندر تعاون اور محبت کی روح پیدا ہو جائے تاکہ ہمارا ملک جو اپنی بدبختی سے غلامی کے جُوئے کے نیچے دبا چلا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے افراد کو بھی آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ جہاں تک ہو سکے گا ہم بھی اپنے نمائندہ کو اِس بارہ میں ہدایات دیتے رہیں گے۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ جو کام کرنے والا ہوتا ہے زیادہ تر اس کی اپنی ہی روح کام کرتی ہے۔ ورنہ سب قسم کی ہدایات دینے کے بعد بھی اگر انسان کے اندر ذاتی جوش نہ ہو تو ساری ہدایات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ جیسے مثل مشہور ہے کہ ‘‘پرنالہ اوتھے دا اوتھے’’
پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمارے پہلے نمائندہ کو جو احمدیت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا ہے گو اَب وہ مسلم لیگ کے ساتھ جماعتی ہدایت کے مطابق شامل ہو گیا ہے احمدیت کا اچھا نمونہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو دوسروں کے لئے مثال بنائے اور اس کے ذریعہ سے ملک کے فسادات اور جھگڑے دور ہوں اور ہر قوم اپنا حق پائے۔ اس کے ذریعہ سے نہ غیر قوموں کو کوئی تکلیف پہنچے اور نہ اپنوں کو۔ وہ اپنے لئے بھی مفید ہو اور غیروں کے لئے بھی۔ اور ایک ایسی اچھی مثال قائم کرنے والا ہو کہ پنجاب کی فضا بدل جائے اور پھر باقی ہندوستان کے صوبے بھی اس سے ہدایت پائیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارا وہ سارا وقت جو ان کے لئے جد و جہد میں صَرف ہوا (اور جو اس خیال کے ماتحت دینی کاموں میں ایک حد تک کمی کر کے صَرف کیا گیا کہ اگر اس کا اچھا نتیجہ نکلا تو یہ بھی دین کی ترقی کا موجب ہو گا۔ اور اخلاق اور نیکی کے پھیلانے کا ذریعہ ہو گا) نیک نتائج پیدا کرنے والا ہو گا۔ اور ہمارے دلوں میں اس وقت کے صَرف کرنے پر ملامت پیدا نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہمارا ممبر بھی ایک عام ممبر ہی ہوا، اگر ہمارا ممبر بھی اسی قسم کے جھگڑوں میں پڑا رہا جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں اور اگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوا جو ہمارا اصل مقصد ہے تو ہمارے دل ہمیں ملامت کریں گے کہ ہم نے اپنے وقت کو بلاوجہ ضائع کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ملامت اور حسرت سے بچائے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارے ممبر کی وجہ سے دوسرے ممبروں میں بھی صلح، آشتی اور نیکی اور تقویٰ کی روح پیدا ہو جائے۔ اگرچہ بظاہر ایک آدمی ایک سو پچھتر میں سے کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا لیکن اپنے اخلاق کے زور اور تعلیم کی برتری سے وہ یقیناً نیک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ممبر کو ایسے مواقع بہم پہنچائے جن سے وہ ہمارے فائدہ کا موجب ہو نہ کہ نقصان کا اور وہ قوم اور ملک کی بہترین خدمت کرنے والا ثابت ہو۔’’ (الفضل یکم مارچ 1946ء )

6
ہمیں جہادِ صغیر سے ہٹ کر جہادِ کبیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے
( یکم مارچ 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ رسولِ کریم ﷺ جب بھی کسی دشمن کے حملہ کےد فاع کے لئے باہر تشریف لے جاتے اور اُس حملہ کے دفاع سے فارغ ہو کر واپس آتے تو فرماتے ہم چھوٹے جہاد سے فارغ ہو گئے ہیں۔ اب آؤ ہم بڑے جہاد میں مشغول ہوں۔1 حالانکہ وہ جہاد مذہبی تھے مگر چونکہ ان میں ایک دنیوی رنگ پایا جاتا تھا اور گو حقیقتاً مذہب کی خاطر وہ جنگیں تھیں مگر دشمن اپنے سیاسی غلبہ اور سیاسی زور کے حصول کے لئے اسلام کو تباہ کرنا چاہتا تھا اور اِدھر اس حملہ کو دور کر کے اسلام کو بھی سیاستاً ایک غلبہ حاصل ہوتا تھا اِس لئے آپ نے اِس جہاد کا نام جہادِ اصغر رکھا۔ لیکن اس کے بالمقابل آپ خالص تبلیغ اور خالص تربیت کو۔جہادِ اکبر قرار دیتے تھے۔
ہماری جماعت کو بھی بعض دفعہ بعض کام ایسے کرنے پڑتے ہیں جو بظاہر دنیوی رنگ رکھتے ہیں۔ گو جس انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ خدا تعالیٰ کی طرف اس کی رغبت ہو وہ اپنی ہر ایک چیز دین کی طرف بدل کر لے جاتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے میرے شیطان کو بھی مسلمان کر دیا ہے۔2 وہ جو بات بھی مجھے کہتا ہے اسلام ہی کی کہتا ہے۔ درحقیقت اس کے معنی یہ تھے کہ جیسے کہتے ہیں‘‘ ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شُد’’ رسول کریم ﷺ کا تقویٰ اور نیکی ایک اتنا بڑا سمندر تھا کہ شیطان کی باتیں بھی اس میں پڑ کر نیک ہی بن جاتی تھیں جیسے سیپی میں گرنے والا قطرہ بھی موتی بن جایا کرتاہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ مگر مَیں نے جو یہ مثال دی ہے۔ اپنی زبان کے محاورہ کے مطابق دی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیپ میں پانی کا قطرہ گر کر موتی بن جاتا ہے۔ پس جو بات بھی رسول کریم ﷺ کے دل میں داخل ہوتی تھی نیک بن جاتی تھی۔ کیونکہ جس شخص کے دل میں نیکی ہو گی اس کے دل پر عَلیٰ قدرِمراتب ہر چیز کا ایک نیک اثر پڑے گا۔ رسول کریم ﷺ تمام انسانوں سے چاہے وہ سابق زمانہ میں گزرے ہوئے ہوں اِس زمانے میں ہوں یا آئندہ زمانہ میں آنے والے ہوں۔ اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے۔ آپ انبیاء کے بھی سردار تھے اور بنی نوع انسان کی پیدائش کے مقصود تھے۔ اس لئے آپ کا مرتبہ تو بہرحال بڑا ہی تھا۔ مگر آپ سے اتر کر جو انبیاء و صلحاء گزرے ہیں۔ وہ بھی اپنے رنگ میں اس بات کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں کہ ان پر جو برائی پڑتی وہ نیکی کا رنگ اختیار کر لیتی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ ایک گلی میں سے گزر رہے تھے۔ وہاں ایک کُتّا مرا پڑاتھا ان کے ساتھ ان کے جو حواری تھے وہ وہاں سے جلدی جلدی دوڑے اور کہا کتنی سخت بدبو ہے اور کتنی گندی چیز ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور فرمایا اس کے دانت تو دیکھو کیسے موتیوں کی طرح روشن ہیں۔ تو نیک آدمی کو نیک چیز نظر آتی ہے اور بد آدمی کو بد چیز نظر آتی ہے۔ ایک کمزور معدے والا انسان مٹھائی بھی کھاتا ہے تو بیمار ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مضبوط معدے والا مرچیں بھی کھاتا ہے تو زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ غریبوں کے بچے بازاروں میں پڑے ہوئے خربوزوں کے چِھلکے کھا جاتے ہیں اور وہ زیادہ موٹے اور تر و تازہ ہوتے جاتے ہیں لیکن آسودہ حال لوگوں کے بچے اگر اس کاایک سَو پچاسواں حصہ بھی کھا لیں تو شدید پیچش میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات اس کے نتیجہ میں وہ مر جاتے ہیں۔ کیونکہ ا س کے اندر بیماری ہوتی ہے اور اس کے اندر صحت ہوتی ہے۔ اس کے اندر تازہ خربوزہ بھی بیماری پیدا کر دیتا ہےاور اس کے اندر خربوزے کا چِھلکا بھی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ صحت کا سمندر ہے اور یہ بیماری کا سمندر ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ چونکہ نیکی کا سمندر تھے اس لئے جو چیز بھی آپ کے دل میں پڑتی تھی نیک ہو جاتی تھی۔
یہی حال قوموں کا ہے۔ جن قوموں کے اندر خدا تعالیٰ روحانیت پیدا کرتا ہے دنیوی باتیں بھی اُن کے لئے دین بن جاتی ہیں کسی بزرگ نے کہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر اس بات کو دُہرایا کرتے تھے کہ نیکی اور تقویٰ یہ ہے کہ‘‘ دست در کار و دل بایار’’3 یعنی نکمے نہ بیٹھو، فضول وقت ضائع نہ کرو۔ لوگوں پر بار نہ بنو۔ کماؤ اور کھاؤ۔ مگر جس وقت تم بظاہر سَودا دے رہے ہو تمہار ادل اس وقت خدا تعالیٰ سے باتیں کر رہا ہو۔ تمہاری مادی آنکھیں گاہک پر ہوں لیکن دل کی آنکھیں اپنے مولیٰ کے چہرے پر ہوں۔ ایسے آدمی کا ہر کام ہی دین ہو جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت اور اس سے تعلق کے اظہار کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتا ہے تو وہ صدقہ ہو جاتا ہے۔4 یہ مطلب نہیں کہ وہ ویسا ہی صدقہ ہو گا جیسے غرباء کو دیا جاتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہ اس کی نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور گو وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لقمہ ڈالا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ وجود میرے سپرد کیا ہے اور اس نے اس سے حُسنِ سلوک اور پیار کرنےکا حکم دیا ہے اِس لئے اس کا یہ فعل ایک نیکی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے نفس کے لئے ایسا کرتا تو گناہ بن جاتا اور اگر وہ محض اخلاقاً ایسا کرتا تو ایک مباح چیز ہو جاتی۔ یہ بھی وہی مثال ہے کہ جب نیک چیز کے اندر بُری چیز پڑتی ہے تو وہ بھی نیک ہو جاتی ہے۔ تو بعض بندے ہر چیز کو خدا تعالیٰ کے لئے بنا لیتے ہیں۔ مگر پھر بھی مارج ہوتے ہیں۔5 بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا جب وہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہو بیشک نیکی ہے مگر جہاد کے لئے اپنا مال دینا اس سے بڑھ کر نیکی ہے کیونکہ اس کا ظاہر بھی نیک ہے اور باطن بھی نیک ہے۔ اس کے ظاہر میں بھی نفس کی خواہش نہیں اور اس کے باطن میں بھی نفس کی خواہش نہیں۔ پس بہرحال جو خالص دین کے کام ہوں گے وہ زیادہ اہمیت رکھنے والے اور خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب کر دینے والے ہوں گے۔
ہماری جماعت کے لوگوں نے پچھلے دنوں یہاں بھی اور باہر بھی الیکشن کے کاموں میں حصہ لیا ہے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھا انہوں نے خدا تعالیٰ کے نزدیک اِحْتِسَابًاہی ایسا کیا مگر پھر بھی اس کے ساتھ کچھ دنیوی اغراض وابستہ تھیں۔ اب ہم اس کام سے فارغ ہو چکے ہیں اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ آؤ جس طرح رسول کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایک چھوٹے جہاد سے فارغ ہو گئے ہیں آؤ اب ہم بڑے جہاد کی طرف مائل ہوں اسی طرح ہم بھی بڑے جہاد کی طرف مائل ہوں۔ سب سے بڑا جہاد انسان کا یہی ہوتا ہے کہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرے اور اپنے ہمسائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف راجع کرے۔ پس اصلاحِ نفس اور اشاعتِ دین یہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ اور تقویٰ کے تمام مدارج بندوں کی اصلاح اور خدا تعالیٰ سے بندوں کی صلح کرانے میں ہی مرکوز ہیں۔ یہی ایک کام ہے جو تمام انبیاء کرتے چلے آئے ہیں اور یہی تمام انبیاء کی بعثت کا مقصود تھا۔ اگر اس کام میں ہم کوتاہی کریں تو ہماری زندگی بالکل لغو اور فضول ہو جاتی ہے۔ اور اگر اس کو پورا کر لیں تو ہماری زندگی خدا تعالیٰ کے عین منشاء کے مطابق ہوتی اور ہماری موت ہماری زندگی سے زیادہ مبارک ہوتی ہے کیونکہ یہ بیج بونے کا وقت ہے اور وہ فصل کاٹنے کا وقت ہے۔ زمیندار بیج بوتے وقت بھی خوش ہوتا ہے اور فصل کاٹتے وقت بھی۔ لیکن فصل کاٹتے وقت تو اس کا دل بلّیوں اچھل رہا ہوتا ہے۔ پس مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب جب کہ ہم الیکشن کے کام سے فارغ ہو چکے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اس سے زیادہ اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں اور اپنے نفس کی اصلاح اور سلسلہ کی تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں۔ تبلیغ کا کام اتنا بڑا اور وسیع کام ہے کہ اس کے لئے ہمارے پاس ابھی پورے سامان بھی نہیں بلکہ ان سامانوں کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر، ماں باپ کو چھوڑ کر اور اپنے وطن کو چھوڑ کر غیر ملکوں کے راستے اختیار کئے ہیں اور وہ وہاں غیر زبان میں غیر قوموں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی باتیں سناتے ہیں۔ کیا ہم لوگ یہ بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک میں رہ کر اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کی باتیں اپنے ملک کے لوگوں کو سنائیں؟ کیا ایک انگریز کا یا کیا ایک امریکن کا یا کیا ایک جرمن کا یا کیا ایک فرانسیسی کا یا کیا ایک سپینش یا ایک ویسٹ افریقن یا ایک ایسٹ افریقن یا ایک ارجنٹائنا کے رہنے والے کا یا ایک برازیل کے رہنےو الے کا ہم پر زیادہ حق ہے یا ایک ہندوستانی ہمسائے کا ہم پر زیادہ حق ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم اس بات پر تو خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مبلغ دنیا کے کناروں تک پہنچا دئیے مگر اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ہم اپنے ہمسائے کو جو جہنم میں گِر رہا ہے وہاں سے ہٹا کر جنت کے دروازہ پر کھڑا کر دیں؟ یقیناً ہمارے دل میں اگر اپنے ہمسائے کی ہمدردی نہیں یقیناً اگر ہمارے دل میں اپنے ملک کے لوگوں کی ہمدردی نہیں تو ہماری بیرونی تبلیغ ایک تمسخر کہلائے گی، ایک رِیاء کہلائے گی، اور کوئی شخص بھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ جو شخص اپنے ہمسائے کو گمراہی میں گِرتے دیکھتا ہے لیکن اس کے لئے کوشش نہیں کرتا اور انگلستان مبلغ بھجوا رہا ہے وہ مخلص ہے۔ ہم اس وقت مخلص کہلانے کے مستحق ہوں گے جب ہم مبلغین کو باہر بھیجنے کے ساتھ اپنے ہمسائیوں کی خرابی پر بھی نظر رکھیں اور جو مبلغ ہم نے باہر بھیجے ہیں۔ اس وقت تک ہم ان کے کام میں بھی حصہ دار نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنا وقت تبلیغ پر خرچ نہ کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہر ایک سمجھنے والا یہی سمجھے گا کہ دنیا میں نام پیدا کرنے کے لئے انہوں نے بیرونی ممالک کی تبلیغ میں حصہ لیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر آٹھ میل کےفاصلہ پر آگ لگے تو تم فوراً اس طرف آدمی دوڑاؤ اور اس میں حصہ لو لیکن جب تمہارے ہمسایہ کے گھر میں آگ لگے تو تم بیٹھے رہو۔ اورپھر کہو کہ ہم نے محض انسانی بھلائی اور نیکی اور ہمدردی کی غرض سے آٹھ میل دور آدمی بھیجے تھے۔ اگر تم نے بھلائی اور نیکی کی غرض سے وہاں آدمی بھیجے تھے تو پھر تمہیں یہاں کیا ہو گیا تھا۔ اگر تمہارے اندر تقویٰ ہوتا تو تم ضرور یہاں بھی آدمی بھیجتے۔ لیکن تمہارا صرف وہاں آدمی بھیجنا اور یہاں نہ بھیجنا بتاتا ہے کہ تم وہاں کسی خاص غرض کے لئے گئے تھے۔ پس اپنے ملک کے لوگوں تک تبلیغ پہنچانا احمدیت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے جسے نظر انداز کرکے ہم اپنے تمام کاموں کو شبہ میں ڈال دیتے ہیں۔ ہماری نماز بھی مشتبہ ہو جاتی ہے، ہماری زکوٰة بھی مشتبہ ہو جاتی ہے، ہماری تبلیغ بھی مشتبہ ہو جاتی ہے اور ہمارے چندے بھی مشتبہ ہو جاتے ہیں۔
مَیں متواتر مختلف طریقوں سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک جماعت نے پورے طور پر اس کام کی طرف توجہ نہیں کی۔ نہ قادیان کے لوگوں نے اور نہ باہر کے لوگوں نے۔ قادیان کے لوگوں کے لئے یہ مزید فکر کی بات ہے کیونکہ قادیان کے لوگوں کو ایک ایسے ماحول میں رہنے کا موقع ملا ہوا ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی تبلیغ کی روح کچلی جا رہی ہے اور ان کی نسلوں میں بھی نمایاں کمزوری نظر آتی ہے۔ بیرونی لوگوں میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کے رشتہ دار غیر احمدی ہوتے ہیں۔ جب کسی کے والدین مرتے ہیں تو ان کی اولادوں میں سے جو کمزور ایمان والے ہوتے ہیں وہ اپنے رشتہ داروں کے اثر کے نیچے غیر احمدی ہو جاتے ہیں اور جو مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں وہ احمدیت پر قائم رہتے ہیں مگر بہرحال وہاں صرف دو ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں یا مرتد ہونے والے لوگ ہوتے ہیں یا نہایت ہی مخلص اور جوشیلے ہوتے ہیں۔ تیسری قسم نہیں ہوتی۔ مگر قادیان میں ایک تیسری قسم بھی پیدا ہو گئی ہےجو زیادہ خطرناک ہے۔ قادیان میں بعض لوگوں کی نسلیں احمدیت سے بالکل مستغنی نظر آتی ہیں۔ وہ مرتد تو نہیں ہوتیں، نعرے لگانے کے لئے ساتھ ہوتی ہیں مگر دین کے لئے جو جوش اور ولولہ چاہئے اور جس کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی ان میں نہیں پایا جاتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ دشمن کے نرغہ میں گِھرے ہوئے نہیں بلکہ دوستوں میں رہتے ہیں اور امن میں رہتے ہیں۔ امن میں رہنے کی وجہ سے جو دین کی ضروریات ہیں ان کو محسوس نہیں کرتے اور دشمن کے نرغہ میں ہونے کی وجہ سے جو گرمی اور جوش پیدا ہوتا ہے وہ ان میں نہیں ہے۔ پس قادیان کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ایسے راستے سوچیں کہ جن پر چل کر ان کی زندگی بےکار نہ ہو اور روحانی لحاظ سے وہ مُردار نہ ہوں۔ صرف میرا خطبہ اس کے لئے کافی نہیں۔ مقامی انجمن کو چاہئے کہ وہ جماعت میں بیداری پیدا کرے۔ وہ مختلف محلّوں میں جلسے کرے اور لوگوں سے طریق پوچھے کہ وہ کس طرح اس دیوار کو توڑ سکتے ہیں جو ہمارے اردگرد حائل ہو گئی ہے۔ جس طرح ہر بدی اپنے ساتھ نیکی رکھتی ہے اسی طرح ہر نیکی بھی اپنے ساتھ بدی رکھتی ہے۔ جب بیماری کے جرمز(Germs) پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے جسم میں ہی سامان پیدا کر دیتا ہے اور بیماری کے ساتھ صحت کے سامان بھی پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب صحت ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں بیماری کے سامان بھی پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر نعمت اپنے ساتھ خطرہ رکھتی ہے۔ ہر فرشتے کے مقابلہ میں ایک شیطان ہے۔ جس طرح ہر شیطان کے مقابلہ میں ایک فرشتہ ہے۔ تمہیں صرف یہی قانون اپنے سامنے نہیں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطانوں کی سرکوبی کے لئے فرشتے بنائے ہیں بلکہ تمہیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ فرشتوں کے کام کوخراب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے شیطان بھی بنائے ہیں۔ اگر نیکی سامنے آئے تو سمجھو کہ اس کے مقابلہ میں بُرائی بھی کھڑی ہے اور اگر بُرائی سامنے آئے تو تمہیں مطمئن رہنا چاہئے کہ اسے دور کرنے والے اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی مقرر کئے ہیں۔ خطرے کے وقت میں اطمینان رکھنا صرف یہی نیکی نہیں بلکہ اطمینان کے وقت گھبرانا بھی نیکی میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ مومن کا ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہوتا ہے مگر ان دونوں کے موقعے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر مومن کے لئے جب امن پیدا ہوتا ہے تو وہ خوف کے مقام پر ہوتا ہے اور جب خوف پیدا ہوتا ہے تو وہ رجا کے مقام پر ہوتا ہے۔ خطرہ ہو تو مومن کے دل میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے لیکن جب آرام آتا ہے تو وہ مطمئن نہیں ہوتا بلکہ گھبراتا ہے اور کہتا ہے کہ شیطان میرے دروازے پر کھڑا ہے مجھے جلدی اس کا انتظام کرنا چاہئے۔ پس اسے آرام کے وقت میں خوف ہوتا ہے اور خطرے کے وقت میں اطمینان ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقی تقویٰ کا مقام ہے جس کے ساتھ انسان کا ایمان محفوظ ہوتا ہے۔ پس قادیان کے لوگوں کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اس لئے کہ چاروں طرف سے احمدیت کی آوازیں اٹھتی ہیں اور ان کےاٹھنے کی وجہ سے دشمن کے اعتراضات جن سے طبیعت میں ایک گرمی اور جوش پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اندر تبلیغی مادہ کی روح پیدا ہوتی ہے مدھم پڑ جاتے ہیں۔ احرار یہاں جلسے کرتے ہیں لیکن وہ جلسے ایسے نہیں کہ جن سے تبلیغ کا جوش پیدا ہو بلکہ وہ ایسے جلسے ہیں جن سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ چند لوگ باہر سے آتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر لگا کر گالیاں دے جاتے ہیں۔ یا کچھ اَئِمَّةُ الْکُفْر ہیں جو اپنی مخالفت میں انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں۔ مگر بیرونجات میں ہزارہا لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اعتراضات اخلاص پر مبنی ہوتے ہیں وہ اپنے اعتراضات بات کو سمجھنے کے لئے کرتے ہیں۔ اس لئے سننے والا ان کے اعتراضوں سے غصہ میں نہیں آتا بلکہ سننے والے کے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ اس کو تبلیغ کر کے ہدایت کی طرف کھینچے۔ پس قادیان کے لوگوں کو بجائے غافل ہونے کے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی تبلیغ کا دائرہ کس طرح وسیع کریں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر مقامی انجمن صحیح طور پر کام کرے اور صحیح طور پرآدمیوں کو منظّم کرے تو قادیان کے اردگرد بھی ابھی تبلیغ کی بہت سی گنجائش باقی ہے۔ ہزارہا آدمی ہمارے اردگرد موجود ہیں جو ہدایت پا سکتے ہیں اور جن کو ہدایت دینے کے لئے کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہاں تو میدان ہمارے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بیرونی جماعتوں کے اردگرد کا میدان غیروں کے ہاتھ میں ہے وہاں ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے سمندر میں کارک6 پھینک دیا جاتا ہے۔ جماعت وہاں کی لہروں میں تیرتی پھرتی ہے اور جہاں اسے لہر پھینکتی ہے اُدھر چلی جاتی ہے۔ ابھی اَور جماعتیں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنی ایککِیلے کی ہوتی ہے۔ ایک کِیلاجس سے جانور باندھا جاتا ہے۔ اس کیلے کی حیثیت اتنی تو ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ پر گڑا ہوتا ہے لیکن ہماری تو اتنی بھی حیثیت نہیں۔ ہماری حیثیت قادیان سے باہر محض ایک کارک کی سی ہے جو سمندر میں تیرتا پھرتا ہے جس کی اپنی کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ اس کو جو جگہ دی جائے وہ اسے قبول کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح بیرونجات کی جماعتوں کو بھی جو جگہ غیر دیتے ہیں انہیں قبول کرنی پڑتی ہے ان کی اپنی جگہ کوئی نہیں۔ سوائے چند ایک جماعتوں کے اور وہاں بھی وہی خطرہ پیدا ہے جو قادیان میں پیدا ہو چکا ہے۔ پس دونوں صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی تنظیم کرنی چاہئے۔ ان لوگوں کی حفاظت کے لئے بھی جو دشمن کے نرغے میں ہیں اور ان کے لئے بھی جن کے اردگرد تو ان کے دوست ہیں لیکن وہ شیطان کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ تحریک کی ہے لیکن وہ ہَوا میں اُڑ گئی۔ کچھ لوگوں پر اثر ہؤا اور کچھ بیداری پیدا ہوئی لیکن حقیقتاً وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اس بات کا عہد کر لے کہ وہ سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے گا تو مَیں سمجھتا ہوں کہ پچاس ساٹھ سال تو الگ رہے چھ سات سالوں میں ہی اتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا کہ اس کی مثال ڈھونڈنی مشکل ہو گی۔ لاکھوں کی جماعت ہو اور سَو آدمی کام کرنے کا ارادہ کرے اور باقی غافل رہیں تو اس سے کیا بنتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ مَیں نے جو دفتر بیعت قائم کیا ہے وہ مبلغین کے ذریعہ اور جماعتوں کے تبلیغی سیکرٹریوں کے ذریعہ جماعتوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعتوں سے یہ عہد لیں کہ ہم نے بحیثیت مجموعی تم سے اتنے احمدی اس سال لینے ہیں۔ اور یہ صرف جماعتوں سے ہی بحیثیت جماعت عہد نہ لیا جائے بلکہ جماعتوں سے بحیثیت جماعت الگ عہد لیں اور افراد سے بحیثیت افراد الگ عہد لیں اور پھر وہ اس کی نگرانی کریں۔
وجہ کیا ہے کہ ایک جماعت اپنا چندہ پورا دیتی ہے تو سمجھ لیتی ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ حالانکہ اصل چندہ تو نیکی کا چندہ ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ ان چندوں کے ساتھ ساتھ وہ کس حد تک اپنے جوشوں کو قائم رکھتے ہیں، کس حد تک وہ اپنی اصلاح کرتے ہیں اور کس حد تک وہ تبلیغ کرتے ہیں اور پھر کس حد تک اس کے نتائج نکلتے ہیں۔ اگر اس رنگ میں تبلیغ کی جائے اور ان چندوں کی طرح یہ چندے بھی باقاعدگی سے ادا کئے جائیں اور ہر فرد یہ چندہ ادا کرے تو ان چندوں کی طرح جن کی تعداد بیرونجات و مرکز کے چندوں کو ملا کر پچیس لاکھ سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بھی پچیس لاکھ سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔ پس یہ کام ایسا مشکل نہیں صرف ارادے، عزم اور صحیح طریقے کی ضرورت ہے۔ پس مَیں مقامی کارکنان کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور قادیان کے افراد اور انجمن کو بھی کہ وہ قادیان کے اردگرد کی تبلیغ کو وسیع کرنے کے متعلق سوچیں، سکیمیں بنا کر میرے سامنے پیش کریں اور پھر ان پر عمل کریں۔ اسی طرح مَیں بیرونجات کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وقت نازک ہے۔ اس سال میں سے کچھ دن ضائع ہو گئے ہیں اس لئے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ الیکشن میں جماعت اگرچہ دینی اثر کے ماتحت لگی رہی مگر بہرحال وہ دنیوی کام تھا۔ ہمیں اب اس جہاد صغیر سے ہٹ کر جہاد کبیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے نام کو جلد سے جلد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر تمام دنیا میں پھیلا دیں اور ہماری آنکھیں اس نظارے کو دیکھ لیں کہ زین العابدین کی طرح بیمار و بے کس دین خدا تعالیٰ کے حضور میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی پھر نئے سرے سے طاقتور اور آزاد ہو گیا ہے۔ ’’ (الفضل 7 مارچ 1946ء )
1: موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ 40 مطبوعہ دہلی 1346ھ
2: مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان (الخ)
3: ملفوظات جلد 5 صفحہ 81
4: بخاری کتاب الایمان باب مَا جاءَ ان الاعمال بالنّیّة
5: مَارج: بھڑکنے والا شعلہ
6: کارک: ایک درخت کی چھال جس سے بوتلوں وغیرہ کے ڈاٹ بنائے جاتے ہیں۔
(اردو جامع فیروز اللغات)

7
اسمبلی کے الیکشن کے متعلق چند اہم امور
( فرمودہ 8 مارچ 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
(1) جو مقصد ہمارے سامنے ہے اس کے لئے تو ہم اربوں روپیہ صَرف کریں گے: ‘‘آج مَیں الیکشن کے بارہ میں پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کچھ دن ہوئے مجھے اپنے کمرہ میں بلند آواز سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ مَیں نے سمجھا کہ شاید ہماری جماعت کا کوئی جلسہ ہو رہا ہے مگر چونکہ مجھے اُس کا علم نہیں تھا اِس لئے مَیں نے برآمدہ کی طرف باہر نکل کر سننا چاہا کہ کیسا جلسہ ہے۔ مَیں نے مسجد اقصیٰ کی طرف دیکھا لیکن وہاں خاموشی تھی۔ پھر برآمدے کی دوسری طرف گیا تو معلوم ہوا کہ شاید سکھوں کے گوردوارہ میں کوئی تقریر ہو رہی ہے ۔مَیں تھوڑی دیر وہاں ٹھہرا تو مَیں نے سنا کہ بڑے زور و شور سے یہ کہا جا رہا تھا کہ غریب قوم کے چندوں کا روپیہ الیکشنوں میں اُڑایا جا رہا ہے۔ ہماری زبان کی ایک مثال ہے کہ‘‘ داتا دے اور بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔’’ روپیہ کسی کا، خرچ کوئی کرتا ہے اور فکر کسی اَور کو ہو رہی ہے۔ وہ غریب جماعت جس کا چندہ ہے اگر فرض بھی کر لو کہ وہ خرچ ہو رہا تھا تو وہ قوم تو اس کام کے لئے خود بھاگی بھاگی پھر رہی تھی کام کر رہی تھی اور رات دن اس میں مشغول تھی لیکن جو جماعت میں شامل نہیں تکلیف ان کو ہو رہی تھی۔ حالانکہ اگر ہم نے دنیا میں اپنے نظام کی کوئی مضبوطی پیدا کر لی ہے اور جو حقوق ملک کو ملنے ہیں ان میں حصہ لیا ہے تو لازمی طور پر ہم کو ایک سخت جدو جہد بھی اس کے لئے کرنی پڑے گی کیونکہ ہم اقلیت ہیں اور ہمارے افراد ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری جماعت کسی ایک ضلع یا دو ضلعوں میں جمع کر دی جائے تو الیکشنوں پر ہمارا کچھ بھی خرچ نہ آئے کیونکہ کثرت احمدی ووٹروں کی ہو گی۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ہماری جماعت کے چالیس پچاس ہزار کے درمیان ووٹر ہیں۔ اس حلقہ میں چودھری فتح محمد صاحب کے ووٹ صرف چھ ہزار دو سو تھے۔ اگر تین ممبروں کے سوال کو اڑا دیا جائے تو چار ہزار دو سو ووٹ میں سے جو مسلم لیگ کو ملے اگر آدھے بھی دوسروں کو مل جاتے اور آدھے چودھری فتح محمد صاحب کو تو پھر یہ آٹھ ہزار تین سو ووٹ لے کر جیت جاتے یا ہمارے حساب سے آٹھ ہزار پانچ سو ووٹ لے کر۔ کیونکہ ہمارے دو سو ووٹ غائب ہو گئے ہیں یا دوسرے فریق کے حساب میں گِنے گئے ہیں اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جس وقت ووٹ گنے جاتے ہیں اس وقت فریقین کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا سرکاری افسر گناکرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں شبہ ہے کہ ہمارے دو سو ووٹ دوسرے کے ووٹوں میں شمار ہو گئے ہیں یا کر لئے گئے ہیں۔ بہرحال ہمارے حساب سے چودھری صاحب آٹھ ہزار پانچ سو پر جیت جاتے اور ان کے حساب سے آٹھ ہزار تین سو پر۔ گورداسپور میں تو تناسب اس سے بھی کم ٹھہرتا ہے کیونکہ وہاں ووٹوں کی تعداد کم ہے۔ وہاں پانچ ہزار ووٹ والا جیت جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ چھ ہزار فرض کر لو۔ ہماری جماعت کے چونکہ پینتالیس پچاس ہزار ووٹ ہیں اس حساب سے ہمیں چھ سیٹیں آپ ہی آپ آ جاتی ہیں لیکن بوجہ اقلیت ہونے کے اور سارے پنجاب میں پھیلے ہونے کے ہم اپنے حقوق نہیں لے سکتے ورنہ حقوق کے لحاظ سے ہمیں چھ سیٹیں ملنی چاہئیں لیکن باوجود بڑی کوشش کے ہم صرف ایک سیٹ جیت چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے باہر کے تمام ووٹ پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ہماری جماعت دوسری جگہوں پر جیت نہیں سکتی۔ اگر نوّے سیٹوں میں ہمارے دو دو ہزار ووٹ پھیلے ہوئے ہوں تو دو ہزار والے کسی صورت میں بھی جیت نہیں سکتے حالانکہ اس طرح ایک لاکھ اسّی ہزار ووٹ بنتا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد ہو جانے پر بھی ہم ایک سیٹ بھی نہیں لے سکیں گے۔ اس وقت ہمارے ووٹروں کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ اس کو سارے پنجاب میں تقسیم کریں تو ایک ایک سیٹ کے لئے صرف پانچ پانچ سَو ووٹ بنتے ہیں اور پانچ سَو ووٹوں سے کون جیت سکتا ہے۔ پس اگر ہم نے زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہیں تو اس کے لئے ہمیں لازماً بڑی جد و جہد کی ضرورت ہو گی اور اس جد و جہد کے لئے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یونینسٹ نے جو پچیس لاکھ روپیہ لوگوں سے جمع کیا تھا وہ سارے کا سارا خرچ ہو گیا ہے۔ لیکن جیتے ان کے صرف دس آدمی ہیں بلکہ اب تو اس پارٹی میں صرف چھ رہ گئے ہیں۔ پچیس لاکھ تو انہوں نے فنڈ سے خرچ کیا اور جو نمائندوں نے خود خرچ کیا وہ الگ ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کا روپیہ بھی خرچ ہوا ہے۔ دوسرے ممبر تو زیادہ تر اپنے زور اور طاقت پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں ابھی ایسے مالدار آدمی نہیں کہ وہ اپنے زور اور طاقت پر کھڑے ہو سکیں۔ اگر وہ کھڑے ہوں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہار جائیں گے۔ اس لئے اگر ہم نے اپنے آدمی کھڑے کرنے ہیں تو یقیناً جماعت کو ان پر روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔
پس یہ سوال ہی غلط ہے کہ کیوں غریب آدمیوں کا چندہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ اول تو ہم کہتے ہیں تم کو اس سے کیا تکلیف ہو رہی ہے۔ دینے والے ہم، خرچ کرنے والے ہم عجیب بات ہے کہ جن کا روپیہ ہے ان کو تو احساس ہی نہیں ہوتا اور جن کا روپیہ نہیں وہ خوانخواہ شور مچا رہے اور اپنی ہمدردی ظاہر کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے متعلق ایک دوسری مثال بھی ہے کہ ‘‘ماں سے زیادہ چاہے کُٹنی1 کہلائے’’یعنی جو شخص اصل تعلق والے سے زیادہ محبت کا اظہار کرتا ہے اُسے کُٹنا کہا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ بات ہی غلط ہے کہ چندے کا روپیہ الیکشن پر خرچ کیا گیا ہے۔ اب ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے اور اتنی طاقت پکڑ چکی ہے کہ اس کے پاس چندے کے علاوہ آمد کے اَور بھی ذرائع ہیں اور وہ آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چندے کے سارے روپے کو اشاعتِ اسلام پر لگا دینے کے باوجود پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری دوسری آمدنیوں سے اتنا روپیہ مل سکتا ہے اور ملنا شروع ہو گیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایسے حقوق پر جن کا ملنا جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ خرچ کر سکتے ہیں۔ او رایسی سکیمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سامنے ہیں کہ جن کے بعد ہماری یہ ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے اَور بھی بڑھ جائے گی۔ یہ تو ہزاروں کے خرچ پر شور مچاتے ہیں حالانکہ جو مقصد ہمارے سامنے ہے اور جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہزاروں کا بھی سوال نہیں اربوں ارب روپیہ خرچ آئے گا۔ ہم نے دنیا میں یونیورسٹیاں بھی بنانی ہیں، کالج اور سکول بھی بنانے ہیں اور ہم نے دنیا میں مبلغین کا جال بھی پھیلانا ہے۔ آخر احمدیت قادیان کے اردگرد تک تو نہیں رہے گی۔ احمدیت نے تو ساری دنیا میں پھیلنا ہے۔ پس ہمارا مقصد صرف یہی نہیں کہ یہاں ایک کالج بنا دیا جائے یا ایک سکول بنا دیا جائے یا چند مبلغ تبلیغ کے لئے مقرر کر دئیے جائیں بلکہ ہمارا مقصد ساری دنیا میں کالج بنانے کا ہے، ہمارا مقصد ساری دنیا میں یونیورسٹیاں بنانے کا ہے اور ہمارا مقصد ساری دنیا میں سکول بنانے کاہے اور ہمارا مقصد ہزارہا بلکہ لکھوکھہا مبلغین کو ساری دنیا میں پھیلانے کا ہے۔ ان کے لئے اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہو گی بلکہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی طاقت کے امیدوار ہیں کہ جس کا مقابلہ بڑی بڑی حکومتیں بھی نہ کر سکیں اور یہ مقصد اپنا حق لینے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کو جن کا کوئی تعلق نہیں خواہ مخواہ تکلیف ہو رہی ہے۔لیکن ہم عَلَی الْاِعْلَان کہتے ہیں کہ خواہ سَو سال تک ہم ہارتے چلے جائیں ہم ہر دفعہ قادیان کی سیٹ کے لئے لڑیں گے کیونکہ یہ ہماری مرکزی جگہ ہے اور ہم اس جگہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر سارے پنجاب میں دوسری جگہوں پر دوسری پارٹیاں ہم سے مدد لیتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس جگہ کے متعلق ہمارایہ حق تسلیم نہ کیا جائے کہ یہ سیٹ ہمیں بہرحال ملنی چاہئے تا دشمن یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے قادیان میں احمدیوں کو شکست دے دی ہے۔ بلکہ ہر پانچ سال کے بعد یہ بات واضح ہوتی رہے کہ ان کا قادیان کے متعلق فتح کا ڈھنڈورا پیٹنا بالکل غلط ہے۔ آخر جماعت کا اعتبار مجھ پر ہے اور وہ مجھے چندہ دیتی ہے۔ اس خرچ پر دوسروں کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ پھر یہ ایک واضح بات ہے کہ الیکشن میں اپنے آدمیوں کے پھیلانے میں اور لاریوں وغیرہ کے حاصل کرنے میں بہت کچھ خرچ ہوتا ہے اور اس دفعہ تو لاریوں پر خصوصاً بہت خرچ ہوا ہے۔ بعض لاریوں والے سَو سَو روپیہ روزانہ مانگ لیتے تھے اور ایک نے تو اس سے بھی زیادہ مانگا۔ عام طور پر پنجاب میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ لینے کے لئے ساٹھ روپے روزانہ کے خرچ سے ایک ایک لاری ملتی رہی ہے۔ چنانچہ کئی امیدواروں نے اس خرچ پر ایک ایک ماہ تک لاریاں لیں۔ اس قسم کے اخراجات چونکہ ضروری ہوتے ہیں اس لئے ہر امیدوار نے یہ خرچ کئے۔ اور جس نے نہیں کئے وہ بری طرح ہار گیا۔ اگر جماعت اس بوجھ کے اٹھانے میں جھجک محسوس کرے گی تو مَیں اِنْشَاءَ اللہ خود اس بوجھ کو اٹھاؤں گا۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم جیت جائیں اور پچھلی دفعہ بھی ہمارا مقصد یہ نہیں تھا۔ بلکہ پچھلی دفعہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم نے احرار سے زیادہ ووٹ لینے ہیں اس کے لئےمَیں نے دوستوں سے کہا تھا کہ تم ساری تحصیل میں پھیل جاؤ، اپنے دوستوں سے ملو اور کوشش کرو کہ وہ احمدی امیدوار کو ووٹ دیں۔ رشتہ داروں کے پاس جا کر کوشش کرو اور ان کو اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ احمدی امیدوار کو ووٹ دیں تاکہ ہمارے ووٹ احرار سے زیادہ ہو جائیں اور ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جائے کہ ہم نے احمدیوں کو ان کے مرکز میں شکست دے دی ہے۔ گو اس الیکشن میں میاں بدر محی الدین صاحب جیت گئے لیکن ہمارے امیدوار کے ووٹ احرار سے تقریباً تین سو زیادہ تھے۔ اس طرح دنیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ احرار کا یہ دعویٰ کہ ہم نے قادیان کو فتح کر لیا ہے بالکل غلط تھا۔ اگر فتح کر لیا ہوتا تو احمدیوں کو ووٹ ان سے زیادہ کیوں ملتے۔ پس یہاں ہمارے ایک نمائندہ کے جیتنے کا سوال نہیں بلکہ یہ ایک جماعتی کام ہے ۔ اگر اس کے لئے چندہ بھی کرنا پڑے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر مخلص احمدی کا فرض ہو گا کہ اس میں حصہ لےاور ہر الیکشن پر ثابت کر دے کہ احرار کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ انہوں نے قادیان کو فتح کر لیا ہے۔ لیکن علاوہ اس ذریعہ کے جو مَیں نے بتایا ہے اَور ذرائع بھی ہیں۔ چندے کے علاوہ ہماری جماعت کو اَور بھی آمد ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ بھی سکیم ہے کہ جماعت کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ وہ ان اخراجات میں حصہ لے جو عام چندہ ہے اس سے ہمیں خرچ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے لئے خاص طور پر جماعتوں سے چندہ لینا ان کی اپنی بیداری کے لئے ضروری ہے۔ جب ہر احمدی اس میں حصہ لے گا تو اس کو احساس ہو گا کہ یہ میرے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے۔ چندے کی غرض صرف یہی نہیں ہوتی کہ روپیہ فراہم ہو جائےبلکہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان کے اندر احساس پیدا ہو جائے کہ اس کام کو پورا کرنا میرے ذمہ ہے۔ پس ایک سکیم میرے ذہن میں یہ بھی ہے کہ آئندہ اس کے لئے چندہ مانگا جائے تا جماعت میں بیداری پیدا ہو ۔
پچھلی دفعہ الیکشن میں بٹالہ کے حلقہ کے سکھوں نے اپنی بیداری کا ایک حیرت انگیز نمونہ دکھایا تھا۔ وہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ نہ صرف سینکڑوں بلکہ ہزاروں سکھ پیدل چلتے اور گاتے ہوئے اپنے پنتھک امیدوار کے لئے جاتے۔ اَور لوگ تو کھانا کھاتے تھے کوئی کہتا تھا فلاں جگہ پر ووٹ دینے جانا ہے ہمیں تانگہ یا لاری کے لئے کرایہ دو۔ مگر ان کا یہ حال تھا کہ وہ پیدل جاتے اور وہاں پہنچ کر اپنے امیدوار کے ہاتھ میں ہر ووٹر ایک ایک روپیہ دیتا چلا جاتا۔
پس اگر کوئی قومی کام ہو تو قوم کو وہ بوجھ اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت تو یہ بات ہی غلط ہے کہ یہ روپیہ قومی چندے سے خرچ ہوا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اَور ایسے ذرائع بھی ہیں جن سے علاوہ چندے کے اَور آمد ہوتی رہتی ہے لیکن آئندہ میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کے کاموں کے لئے بھی چندے کی تحریک کی جائے تاکہ جماعت میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہو۔
(2) الیکشن سے ہم نے کئی سبق سیکھے: دوسری بات مَیں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ الیکشن سے ہمیں ایک بہت بڑا فائدہ ہوا ہے اور بہت سے سبق ہم نے حاصل کئے ہیں۔ ہماری جماعت کے لوگوں نے مقامی حالات کے مطابق جو فیصلے کئے تھے اکثر انہی کو مرکز نے منظور کر لیا تھا۔ گویا ہم نے فیصلے نہیں کئے بلکہ خود ان جماعتوں نے جو مشورہ کر کے ہمیں اپنا فیصلہ بتایا ہم نےاسی کا اعلان کر دیا تھا۔ ممکن ہے کوئی جگہ ایسی بھی ہو جہاں ہمارا کوئی ووٹر نہ ہو۔ لیکن بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں ہماری جماعت کا تین چار ہزار کے قریب ووٹ ہے۔ تحصیل بٹالہ میں ہی اس دفعہ چھ ہزار آٹھ سو ووٹ احمدیوں کا تھا۔ اصل میں ووٹ تو آٹھ ہزار کے قریب تھا لیکن بعض نقائص کی وجہ سے کچھ ووٹ خراب ہو گئے اور کچھ ووٹ بنائے ہی نہیں گئے۔ ہمارے دوستوں نے ہر جگہ اپنے ووٹوں کو استعمال کیا اور اکثر مقامات پر ہمارے ووٹ مسلم لیگ کو ملے۔ البتہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے ہم نے یونینسٹ پارٹی کی مدد کی۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یونینسٹ کے دس گیارہ ممبر جو کامیاب ہوئے ہیں ان میں سے پانچ چھ ممبر ایسے ہیں جو محض ہماری امداد کی وجہ سے جیتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہم نے مسلم لیگ کی تو بہت زیادہ امداد کی ہے۔ اس الیکشن میں ہمیں یہ تجربہ ہؤا ہے کہ جس طرح ہر قربانی کے لئے عادت کی ضرورت ہے اسی طرح الیکشن کے لئے بھی لوگوں میں قربانی کی عادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ چندہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے کی چونکہ جماعت میں عادت پیدا ہو چکی ہے اس لئے مَیں نے دیکھا ہے کہ چندے کی تحریک کرو تو جماعت نہایت اعلیٰ اخلاص کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرو تو نوجوان اپنی زندگیاں فوراً وقف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آہستہ آہستہ جماعت میں ان باتوں کی عادت پیدا ہو گئی ہے اِس لئے ہر موقع پر ان کا قدم ترقی کی طرف اٹھتاہے۔ لیکن ہر نیا کام ایک قسم کا امتحان بن جاتا ہے۔ مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ چندے میں اور زندگیاں وقف کرنے میں اور بعض دوسری قسم کی قربانیوں میں کوئی بڑی سے بڑی جماعت بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر کانگرس بھی زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کرے تو میرے خیال میں اتنے لوگ زندگیاں وقف نہ کریں جتنے ہمارے نوجوان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے نوجوانوں کو قید ہونا پڑے تو وہ گھبرائیں گے کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نیا کام ہو گا۔ لیکن اگر عادت پڑ جائے تو کانگرس ہم سے بہت پیچھے رہ جائے گی۔ پس صرف عادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عادت پیدا ہو جائے تو ہمارے آدمی اس معاملہ میں کانگرس کے آدمیوں سے بیس گُنے زیادہ جرأت دکھائیں گے کیونکہ ہمارے اندر وہ ایمان موجود ہے جو ان میں نہیں۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر نئے کام سے ہچکچاتا ہے اور وہ کام اس کے لئے امتحان بن جاتا ہے۔
اس الیکشن کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے کمزوریاں دکھائی ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جماعت کے مُعْتَد بہ حصہ نے کمزوری دکھائی ہے، مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ چالیس پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار نے کمزوری دکھائی ہے، مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ دو تین ہزار نے کمزوری دکھائی ہے۔ مگر دو تین سو آدمی ضرور ایسا ہے جس نے کمزوری دکھائی ہے۔ وہ کمزوریاں تین قسم کی ہیں۔
ایک تو یہ کہ بعض لوگوں نے اخلاص کے لباس میں اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کیا ہے۔ اگر ان کو کسی یونینسٹ امیدوار سے ہمدردی تھی تو انہوں نے یونینسٹ کے حق میں رائے دی اور اگر ان کو کسی مسلم لیگ کے امیدوار سے ہمدردی تھی تو انہوں نے مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں رائے دی ۔ اورسلسلہ کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ ذاتی ہمدردی کو اخلاص کا رنگ دے کر یہ ظاہر کیا کہ گویا وہ جماعتی نظام کی اِتباع کی وجہ سے اس پارٹی کے امیدوار کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے ذاتی تعلقات ان سے تھے جن کی وجہ سے وہ ان کی تائید کر رہے تھے اور یہ ممکن تھا بلکہ غالب امر تھا کہ اگر ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا جاتا تو ان کو ٹھوکر لگتی۔ گو ایسے آدمیوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن پھر بھی ایک مخلص جماعت میں ایسے آدمیوں کا پایا جانا بہت تکلیف دِہ بات ہے۔ اور بعض ایسے آدمیوں کے متعلق جو کہ ذمہ دار آدمی ہیں اور اچھی شہرت رکھنے والے ہیں یہ یقین کرنے کی کافی وجوہ ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی اغراض کو جماعتی فائدہ پر مقدم کیا اور اسے شکل یہ دی کہ گویا وہ جماعتی اتباع اور اخلاص کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
دوسرا نقص یہ دیکھا گیا کہ باوجود مرکز کا حکم پہنچ جانے کے بعض جماعتوں نے اس میں اختلاف کیا۔ جماعتوں نے کثرتِ رائے سے مشورہ کر کے جو فیصلہ ہمیں بتایا اس کے مطابق ہم نے فیصلہ کر دیا لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ مثلاً تحصیل گوجرانوالہ کے احمدیوں کی دو پارٹیاں بن گئیں۔ ایک پارٹی مسلم لیگ کی تائید میں تھی اور دوسری پارٹی یونینسٹ کو ووٹ دینا چاہتی تھی۔ دو دفعہ مَیں نے آدمی بھیجا مگر یہ لوگ صلح سے فیصلہ نہ کر سکے۔ قومی کاموں میں جدھر اکثریت ہو اقلیت کو اپنی رائے ان کی رائے کے ماتحت کر دینی چاہئے سوائے دین کے معاملہ کے۔ اگر دین کے معاملہ میں اکثریت دین کے خلاف کوئی فیصلہ کرے مثلاً یہ کہے کہ خدا تعالیٰ کو ایک نہ مانو تو اس معاملہ میں اکثریت کی رائے کی پروا نہیں کی جائے گی۔ لیکن دنیوی معاملات میں اکثریت کی رائے کا خیال رکھا جانا ضروری ہوتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ اکثریت کے فیصلہ کو قبول کرنے سے قومی مفاد کو نقصان پہنچنے کا کوئی شدید احتمال نہ ہو۔ یہ ایسی صاف بات ہے کہ جس کو ہر عقل مند انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تحصیل گوجرانوالہ میں نہ اقلیت نے اکثریت کی رائے کا کوئی خیال کیا اور نہ اکثریت نے فتنہ دور کرنے کی نیت سے اقلیت کی بات کو مانا۔ جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو اکثریت کو ہی خاموشی اختیار کر لینی چاہئے تھی۔ پس مَیں اقلیت اور اکثریت دونوں کو ملزم گردانتا ہوں۔ جب اکثریت نے دیکھا تھا کہ کچھ لوگ قومی نظام کو توڑ رہے ہیں تو وہ کہہ دیتے کہ ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود تمہارے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن اقلیت نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ ضرور اپنی بات منوا کر رہیں گے اور اکثریت نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہماری اکثریت ہے ہم اپنی بات ضرور منوائیں گے۔ حالانکہ اقلیت کا یہ فرض تھا کہ وہ اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کرتی اور اپنی ذاتی اغراض کو پسِ پُشت ڈال دیتی۔ اور اگر اقلیت اس بات پر مُصر تھی تو اکثریت کا فرض تھا کہ دانائی کو کام میں لاتے ہوئے اقلیت کے پیچھے چل پڑتی تاکہ تفرقہ پیدا نہ ہوتا۔ جس طرح فرض تو بیٹے کا ہے کہ وہ اپنے باپ کی بات مانے لیکن کبھی باپ ہی اپنے بیٹے کی بات مان لیتا ہے۔ اسی طرح اس جھگڑے کو اس صورت میں بھی طے کیا جا سکتا تھا کہ دونوں فریق کہہ دیتے کہ نہ ہم کسی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں نہ آپ کسی کے حق میں ووٹ دیں۔ دونوں اپنے اپنے گھر بیٹھ جاتے۔ ہم بھی کہتے کہ ہم تمہیں معاف کر دیتے ہیں کیونکہ تم لوگوں نے تفرقہ کا دروازہ کھولنے سے اپنے تئیں روکا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے خوب پارٹی بازی کی اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ مَیں نے وہاں کے لوگوں کو اس لئے سزا نہیں دی کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کی یا کچھ لوگوں نے یونینسٹ پارٹی کی کیوں تائید کی بلکہ مَیں نے اس لئے ان کو سزا دی ہے کہ ایک دنیوی معاملہ کے لئے انہوں نے جماعت کے اندر تفرقہ پیدا کیا۔ مَیں نے ان کو یہ سزا دی ہے کہ تحصیل گوجرانوالہ کا کوئی شخص میرے ساتھ ملاقات نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مجلس شوریٰ میں ان کو حقِ نمائندگی سے محروم کیا جاتا ہے۔ آخر ووٹ دینا مقدم نہ تھا۔ مقدم بات یہ تھی کہ احمدیوں کا آپس میں اتحاد قائم رہے۔ پس ہم نے اس لئے ان کو سزا نہیں دی کہ کیوں ان میں سے کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کی تائید کی یا کیوں ان میں سے کچھ لوگوں نے یونینسٹ پارٹی کی تائید کی۔ اگر مسلم لیگ کی تائید کی وجہ سے ان کو سزا دی جاتی تو یونینسٹ کی تائید کرنے والوں کو سزا نہیں ہونی چاہئے تھی؟ اور اگر یونینسٹ کی تائید کی وجہ سے سزا دی جاتی تو مسلم لیگ کی تائید کرنے والوں کو سزا نہیں ہونی چاہئے تھی۔ لیکن سزا دونوں پارٹیوں کی تائید کرنے والوں کو دی گئی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک ایسے اختلاف کی صورت میں اس بات کی اہمیت نہیں رہتی کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں یا یونینسٹ کو۔ ہم نے ان کو سزا اس لئے دی ہے کہ انہوں نے کیوں اس معاملے کو اس قدر اہمیت دی کہ جماعت میں لڑائی پیدا کر دی۔ الیکشن میں ووٹ دینا کوئی دینی معاملہ نہ تھا۔ دینی معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنے اندر اتحاد قائم رکھتے۔ قومی اتحاد احکامِ دینیہ میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا2تم اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پورے زور سے پکڑ لو تو تمہارے اندر کمزوری پیدا نہیں ہو گی۔ اور جو جماعت نظام کی رسّی کو چھوڑ دے گی وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکے گی۔ پس یہ سزا ان کو نظام کی رسّی چھوڑنے کی وجہ سے دی گئی ہے۔ اکثریت جس کے حق میں فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض نے مجھے لکھا ہے کہ ہمیں تو معاف کیا جائے ہم نے تو شور و شر نہیں کیا۔ مَیں نے ان کو جواب دیا ہے کہ بے شک تم نے شور و شر نہیں کیا لیکن جب تمہیں علم ہو گیا تھا کہ مَیں نے اس تفرقہ کو ناپسند کیا ہے تو تمہارا فرض تھا کہ تم تفرقہ نہ ہونے دیتے۔ تم دوسری پارٹی سے کہہ دیتے کہ نہ ہم اِدھر ووٹ دیتے ہیں نہ آپ اُدھر ووٹ دیں۔ گورنمنٹ کا کوئی قانون آپ لوگوں کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کرتا تھا لیکن اب ووٹ دے کر اور جماعت میں تفرقہ پیدا کر کے معافی مانگنا کیا معنے رکھتا ہے۔ یہ کمزوریاں ہیں جو جماعت کے ایک طبقہ سے ظاہر ہوئی ہیں۔ مگر ان باتوں کا معلوم ہو جانا بھی ہمارے لئے ایک خوش قسمتی کی بات ہے ۔ اگر یہ باتیں جماعت میں رائج ہو جاتیں تو پھر ان کا دُور کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ابھی جماعت کے لئے الیکشنوں کا امتحان باقی ہے۔ روپے کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی، وقف زندگی کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی، تحریک جدید کا امتحان آیا تو ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اب الیکشن کے امتحان میں بھی انشاء اللہ ہم ہی جیتیں گے۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم ہو گیا ہے۔
غرض اس موقع پر تین قسم کی کمزوری دکھائی گئی ہے۔بعض لوگوں نے جماعتی نظام کے خلاف کیا اور تفرقہ کی صورت پیدا کی ہے یعنی انہوں نے الیکشن کو مقدم اور جماعتی نظام کو مؤخر کر دیا۔ اور بعض جگہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے کیا تو وہی جو جماعتی طور پر پاس ہوا تھا مگر وہ جماعتی فیصلے جماعتی فیصلے نہیں تھے۔ اصل میں ذاتی فیصلے تھے اور بعض جگہ پر یہ تیسری بات بھی نمایاں ہوئی کہ بعض لوگوں نے جماعتی نظام کو توڑ دیا۔ جماعت نے کثرت رائے سے ایک فیصلہ کیا اور بعض لوگوں نے کثرت رائے کے خلاف عمل کیا۔ اس قسم کے آدمی بہت کم ہیں اور شاید ایک درجن کے قریب ہوں گے مگر بہرحال ایک درجن ایسے آدمیوں کے پیدا ہو جانے کو بھی میری طبیعت برداشت نہیں کر سکتی۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ اگر دس کروڑ آدمی جماعت میں ہوں یا سو کروڑ ہوں اور جماعتی طور پر ایک فیصلہ ہو جائے تو ایک شخص بھی اس کے خلاف نہ جائے۔ کُجا یہ کہ چند لاکھ کی جماعت میں سے دس بارہ یا پندرہ بیس ایسے ہوں جو اپنے مقامی جماعت کے فیصلہ اور مرکز کی تائید کے بعد بھی اس کے اُلٹ کرنے لگ جائیں۔ دنیا میں بھی یہی دستور ہے کہ جب اکثریت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اقلیت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم میں بعض اس کے خلاف ہوں۔ ڈیمو کریسی کے یہی معنی ہوتے ہیں۔کونسلوں میں بھی وہپ(Whip) 3مقرر کرتے ہیں اور وہپ یہی ہوتا ہے کہ پارٹی ایک فیصلہ کرتی ہے جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد وہپ جاری کر دیا جاتا ہے اور اس پارٹی کے ہر ممبر کو وہ فیصلہ بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر ممبر پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے فیصلہ کی تائید کرے اور اس کے خلاف نہ چلے۔ سیاسی معاملات میں بھی یہ طریق جاری ہے۔ دنیوی معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں بے شک خواہ اکثریت یہ کہے کہ ہم اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں تب بھی اس کی اتباع ضروری نہیں ہو گی کیونکہ یہ آخرت کا معاملہ ہے اور ہر انسان اپنے اعمال کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور جواب دِہ ہو گا لیکن اگر دین کا معاملہ آئے تو کثرت کی اتباع کرنی چاہئے سوائے اس کے کہ اس سے کوئی دینی رخنہ پیدا ہوتا ہو یا اخلاقی طور پر کوئی نقص ہو یا دنیوی طور پر کسی شدید نقصان کا احتمال ہو۔ پس تین نقائص ہیں جو اس دفعہ ہمیں معلوم ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بعض سرکردہ آدمی بھی نفسانیت کے پیچھے چلے اور حقیقتاً انہوں نے سلسلہ کے مفاد کو نہیں دیکھا اور ظاہر یہ کیا ہے کہ وہ گویا جماعتی فیصلہ کی اتباع کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کچھ لوگوں نے اس موقع کو فساد اور جھگڑے کا موجب بنایا اور جماعتی اتحاد کو الیکشن کے تابع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے جماعتی فیصلہ کے خلاف بھی عمل کیا۔ اب ہمارا یہ کام ہے کہ عقل اور تدبیر سے کام لیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اس مرض کا علاج کریں جو ہمیں اپنی زندگی میں معلوم ہو گیا ہے۔ اور کوشش کریں کہ جماعت ایسے مقامِ فرمانبرداری پر کھڑی ہو جائےکہ اگر مقامی جماعت کی اکثریت کوئی فیصلہ کرے یا ساری جماعت کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرے تو اس فیصلہ کی سارے کے سارے پیروی کریں او ران میں سے کوئی ایک بھی اس کے خلاف نہ جائے اور ان چیزوں کو جو دنیوی ہیں جماعتی نظام کے توڑنے کا موجب نہ بنائے۔ ورنہ یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی شخص مکھی کی خاطر اپنا گھوڑا مار ڈالے۔ ایک طرف دین ہے اور دوسری طرف دنیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے لئے اتنے جھگڑے ہوں کہ دین پر اس کا خطرناک اثر پڑے ایسی صورت میں تو ایک دنیوی کام کو نہ کرنا ہی اچھا ہے جس سے دین میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو۔ مثلاً جب جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو گوجرانوالہ کے لوگ ووٹ ہی نہ دیتے۔ اگر گوجرانوالہ کی جماعت ہوشیار ہوتی تو یہ فیصلہ کرتی کہ چلو ہم گھر میں بیٹھ جاتے ہیں آپس میں کیوں لڑائی کریں، ہمیں کوئی قانون مجبور نہیں کرتا کہ ووٹ دیں۔ پس ضروری ہے کہ جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا کیا جائے کہ وہ مداہنت کا رنگ اختیار نہ کرے۔ ظاہر تو یہ کیا جائے کہ ہم سلسلہ کی فرمانبرداری اور اسلام کی خیر خواہی کر رہے ہیں اور سلسلہ کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن درحقیقت ذاتی تعلقات ان کو ایک فیصلہ پر ابھار رہے ہوں۔
(3) احرار کو ووٹ کیوں دئیے: تیسری بات جس کا بہت کچھ چرچا رہا ہے اور جس کی وجہ سے جماعت کے لوگوں کے دلوں میں بھی ایک خلش پیدا ہو رہی ہے اس کے متعلق بھی مَیں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ڈسکہ کے علاقہ میں جماعت نے احرار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے دو قسم کی خلش پیدا ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ احرار کو ووٹ کیوں دیا جبکہ وہ ہم کو گالیاں دینے والے ہیں۔ دوسرے یہ کہا جاتا ہے کہ احرار کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہےکہ احمدیوں نے جھوٹ بولا ہے ہم نے ان سے قطعاً کوئی مدد نہیں مانگی۔ انہوں نے ہمیں بدنام کرنے کے لئے ہمیں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ پرسوں سرحد سے ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ اشتہارات کے ذریعہ اور لیکچروں کے ذریعہ یہ کہا گیا ہے کہ احمدیہ جماعت جو کہتی ہے کہ ہم نے احراریوں کو مدد دی ہے یہ بالکل غلط ہے۔ نہ انہوں نے ہمیں مدد دی ہے اور نہ ہم نے ان سے مدد طلب کی ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس معاملے میں اس وقت تک میری زبان بند تھی کیونکہ مَیں ایک معاہدہ کی رو سے اس کا پابند تھا کہ الیکشن تک اس بات کو ظاہر نہ کروں لیکن اب جبکہ الیکشن ختم ہو چکے ہیں مَیں ساری حقیقت بیان کرتا ہوں کہ کس طرح یہ واقعہ ہوا۔ بات یہ ہے کہ نواب محمد دین صاحب جو نارووال کے علاقہ سے امیدوار تھے ان سے پہلے وہاں ان کے لڑکے مسٹر محمد نقی امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے بوجہ اپنے تعلقات کے یونینسٹ پارٹی سے ٹکٹ مانگا تھا اور یونینسٹ پارٹی نے غور کرنے کے بعد یہی فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی شخص واقع میں اس علاقہ کی سیٹ جیت سکتا ہے تو وہ محمد نقی ہی ہے ۔ لیکن چونکہ ہماری ہمدردیاں لیگ کے ساتھ تھیں بلکہ ہر جگہ اس قسم کے احکام جاری کئے گئے تھے کہ لیگ کے لئے کوشش کرو اس لئے ملک خضر حیات خان صاحب نے نواب صاحب کو بلا کر کہا کہ اگرچہ اس سیٹ کے لئے محمد نقی مناسب ہے لیکن مَیں نے یہ سنا ہے کہ احمدی جماعت کا مسلم لیگ سے کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ اگر نقی الیکشن کے ایام آنے پر پھسل جائے اور دوسرے فریق کی طرف چلا جائے یا بیٹھ جائے۔ تو ہماری سیٹ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لئے مجھے تسلی دلواؤ کہ ایسا نہیں ہو گا۔ چنانچہ نواب محمد دین صاحب میری بیماری کے ایام میں قادیان آئے۔ مَیں چارپائی پر لیٹا ہؤا تھا اور اسی حالت میں مجھے ملے اور کہا کہ اس قسم کا خدشہ ملک صاحب نے بیان کیا ہے۔ آیا مَیں انہیں یقین دلا دوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اور آیا واقع میں کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہے یا نہیں؟ مَیں نے کہا معاہدہ والی بات غلط ہے۔ لیکن اگر وہ آپ کو ٹکٹ دے دیں اور پھر بعد میں لیگ سے ہمارا معاہدہ بھی ہو جائے تو ہم کسی احمدی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہیں کریں گےاور محمد نقی کو معاہدہ کی پابندی سے مستثنیٰ کر دیں گے۔ ہم کہیں گے کہ چونکہ اس نے پہلےسے معاہدہ کیا ہے اس لئے اس پر یہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہوتا (چنانچہ ایسا ہی واقعہ بھلوال کی تحصیل میں ہوا ہے۔ وہاں شیخ فضل حق صاحب پراچہ لیگ کی طرف سے کھڑے تھے۔ پہلے ان کے خلاف فیصلہ ہوا تھا۔ اس وقت میرے پاس ملک صاحب خان صاحب نون آئے جو خود بھی اس حلقہ سے امیدوار تھے انہوں نے کہا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہ مَیں فلاں صاحب سے جو مقابل پر کھڑے ہیں معاہدہ کر لوں؟ کیونکہ ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ مَیں نے کہا اجازت ہے۔ جب مَیں نے اجازت دے دی تو وہ وہاں گئے اور غالباً احمدیت کے سوال کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ مجھے ووٹ کم ملیں گے اس لئے تیسرے امیدوار سے کہا کہ تم کھڑے رہو۔ مَیں تمہاری مدد کروں گا اور خود کھڑا نہ ہوں گا۔ اس امیدوار نے ان سے کہا قسم کھاؤ کہ میری مدد پر قائم رہو گے۔ چنانچہ انہوں نے قسم کھائی۔ اسی اثناء میں مسلم لیگ کے بعض لیڈروں سے جو باتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے نتیجہ میں جماعتی فیصلہ یہ ہوا کہ شیخ فضل حق صاحب پراچہ کی مدد کی جائے۔ چنانچہ شیخ فضل حق صاحب پراچہ کی مدد کے متعلق جماعتوں کو ہدایتیں چلی گئیں۔ اس پر ملک صاحب آئے کہ مَیں نے تو آپ کے کہنے کے بعد قسم کھائی تھی پھر مَیں کیا کروں؟ کیا میرے لئے کوئی ایسی راہ کھلی ہے جس سے مَیں بجائے ان کی مدد کرنے کے جماعت کے ساتھ مل کر لیگ کی مدد کروں؟ مَیں نے کہا ایسی کوئی راہ نہیں کھلی۔ آپ نے ان کی مدد کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اور قسم بھی ہماری اجازت کے بعد کھائی ہے اس لئے کوئی صورت بھی ایسی نہیں کہ آپ اس معاہدہ کو توڑسکیں اس لئے آپ اس حکم سے مستثنیٰ رہیں گے۔ آپ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے کہ اپنا معاہدہ پورا کریں خواہ باقی جماعت دوسری طرف ووٹ دے۔ چنانچہ ملک صاحب خان صاحب نون یونینسٹ امیدوار کی مدد کرتے رہے اور باقی جماعت لیگ کی مدد کرتی رہی۔ پس معاہدہ کی خلاف ورزی ہمارے اصول کے خلاف ہےبشرطیکہ معاہدہ حقیقی ہو۔ مثلاً جماعت کی اجازت سے ہو، جماعت کی اجازت کے بغیر ہو تو اسے ہم معاہدہ ہی نہیں کہتے۔ کیونکہ جماعت کے کسی فرد کو جماعت کے مشورہ اور اس کی اجازت کے بغیر کسی ایسے معاہدہ کی اجازت نہیں ہوتی جو قومی امور پر اثر انداز ہو۔ لیکن اگر جماعت کی اجازت سے کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو ہم اس کو بدلنے نہیں دیتے۔ خواہ کچھ ہو جائے ۔جب نواب صاحب اٹھنے لگے تو مَیں نے کہا اگر یونینسٹ پارٹی ہم سے یہ سلوک کرے گی کہ ہم کو ایک ٹکٹ دے دے تو ہم بھی اس کے ساتھ سلوک میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہم ڈسکہ کی جماعت کو مشورہ دیں گے کہ وہ بھی یونینسٹ امیدوار کو ووٹ دے۔ چنانچہ نواب صاحب نے یہ بات ملک خضر حیات خاں صاحب تک پہنچا دی اور یونینسٹ پارٹی نے عزیزم محمد نقی صاحب کو ٹکٹ دے دیا۔ لیکن جب ان کے مقابل پر نواب محمد ممتاز صاحب دولتانہ کھڑے ہوئے تو چونکہ وہ بڑی پوزیشن کے آدمی تھے اس لئے یونینسٹ پارٹی نے نواب محمد دین صاحب سے کہاکہ یہ بچہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا بہتر ہو گا کہ آپ کھڑے ہو جائیں۔ چنانچہ نواب صاحب کھڑے ہو گئے اور چونکہ ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ڈسکے کی جماعت کے ووٹ یونینسٹ امیدوار کوووٹ دیں گے اس لئے ہم اپنے وعدے کے مطابق اس کے پابند تھے کہ یونینسٹ امیدوار کوووٹ دیں۔ یونینسٹ کی طرف سے چودھری غلام رسول صاحب ذیلدار کھڑے کئے گئے تھے لیکن دسمبر میں شبہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ چنانچہ اس دوران میں سر ظفر اللہ خاں صاحب ملک خضر حیات خان صاحب کو ملنے گئے تو انہوں نے چودھری صاحب سے ذکر کیا کہ چودھری غلام رسول صاحب کی کامیابی کی امید کم نظر آتی ہے۔ دوسرے وہاں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہاری کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ مَیں آپ کے ساتھ مل جاتا ہوں مجھے آپ مدد دیں۔ اگر مَیں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے حق میں فیصلہ دے دوں تو کیا جماعت اس پر تیار ہو جائے گی کہ صاحبزادہ صاحب کی مدد کرے؟ چودھری صاحب نے کہا کہ جب تک مَیں مرکز میں اطلاع نہ دوں او رمشورہ حاصل نہ کر لوں اس بارہ میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں جبکہ آپ کی پارٹی کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے تو جس کو بھی آپ کہیں گے ہم ان کو ووٹ دے دیں گے۔ ہمارا تو آپ سے وعدہ ہے نہ کہ غلام رسول صاحب سے یا فیض الحسن صاحب آلو مہاری سے۔ اگر آپ ان کو کھڑا کر دیں گے تو ہم ان کو ووٹ دے دیں گے۔ لیکن وہ جماعت احمدیہ کے مقررہ معاہدہ کی پابندی کا عہد کریں۔ ملک صاحب نے کہا مَیں انہیں یہ بات سمجھا دوں گا لیکن آپ یہ بات مرکز میں پہنچا دیں۔ سر ظفر اللہ خاں صاحب نے آ کر مجھے یہ بات بتائی۔ مَیں نے کہا۔ آپ نے صحیح جواب دیا ہے۔ ہمارا وعدہ یونینسٹ پارٹی سے ہے۔ اگر یونینسٹ پارٹی صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کو کھڑا کرے تو خواہ ہمیں وہ امیدوار پسند ہو یا نہ ہو ہم اپنا وعدہ پورا کرنے کے پابند ہیں اور ہم اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔
اس کے بعد جنوری میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب اور خان بہادر قاسم علی صاحب قادیان تشریف لائے اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی معیت میں مجھ سے ملے۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میرے چانسز (chances)زیادہ ہیں۔ اگر ملک خضر حیات خان صاحب میری سفارش کر دیں۔ تو کیا آپ کی جماعت مجھے ووٹ دے دے گی؟ مَیں چونکہ جماعت سے پہلے ہی مشورہ کر چکا تھا اور اکثر دوستوں نے یہی بتایا تھا کہ اگر ہماری جماعت ان کو ووٹ دے تو اُن کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے اس لئے مَیں نے صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ اگر آپ جماعتی معاہدہ کے لئے تیار ہوں تو ہماری جماعت آپ کو ووٹ دے دے گی۔ بشرطیکہ ملک خضر حیات خاں صاحب آپ کی سفارش کر دیں کیونکہ ہمارا وعدہ اصل میں ان سے ہے۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ مَیں جماعتی معاہدہ لکھ کر دینے کو تیار ہوں اور ملک صاحب کی تحریر آپ کو جا کر بھجوا دوں گا۔ میرے معاہدہ کے متعلق یہ شرط ہو گی کہ الیکشن کے آخر تک اسے ظاہر نہ کریں۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ ہمارا یہ طریق نہیں کہ ہم معاہدات کو یونہی ظاہر کریں۔ ہمارے ساتھ چالیس پچاس آدمیوں کے معاہدے ہوئے ہیں لیکن ہم نے کسی ایک کے معاہدہ کو بھی شائع نہیں کیا۔ پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا۔ مَیں نے سنا ہے کہ نارووال کی تحصیل سے نواب صاحب کھڑے ہوئے ہیں اور نارووال کی تحصیل کے راجپوتوں میں میرے بہت سے مرید ہیں۔ مَیں ان سے کہوں گا کہ وہ نواب صاحب کے حق میں ووٹ دیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ ہم کسی لالچ کی وجہ سے آپ کو ووٹ نہیں دے رہے اور نہ ہم سودا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارا ملک صاحب سے وعدہ تھا کہ جو آدمی بھی آپ کا کھڑا ہو گا ہم اس کو ووٹ دیں گے ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ آپ کے مریدوں کے ووٹ حاصل کرنا ہمارے مدنظر نہیں۔ وہ بے شک ہمارے خلاف ووٹ دیں۔ (چنانچہ اکثر ووٹ راجپوتوں کے ہمارے خلاف ہی گئے ہیں) پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ اگر آپ احرار کی شدید مخالفت کے باوجود میرے حق میں فیصلہ کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت احرار بھی آپ سے تعاون کے لئے ہاتھ نہ بڑھائے۔ مَیں نے کہااس بات کا بھی سوال نہیں۔ آپ کی جماعت تعاون کا ہاتھ بڑھائے یا نہ بڑھائے ہم نے تو ملک صاحب سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ کر دیں گے ہم اسے ووٹ دیں گے خواہ اس کے تعلقات ہمارے ساتھ اچھے ہوں یا بُرے۔ پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ مَیں جاتا ہوں اور ملک صاحب سے فیصلہ کر کے آپ کو اطلاع دوں گا۔
(اِس جگہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کی شہادت بھی درج کرتا ہوں جن سے صاحبزادہ فیض الحسن صاحب میری ملاقات سے پہلے ملے تھے۔ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہاری اواخر جنوری 1946ء میں قادیان آئے تو حضرت ۔۔۔خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الثَّانِیْ اَیَّدَہُ اللہُ بِنَصْرِہٖ کے پاس جانے سے قبل میرے مکان پر بھی تشریف لائے تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ مکرم چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور خان بہادر چودھری قاسم علی صاحب آف ڈسکہ بھی تھے۔ مکرمی چودھری صاحب نے میرے ساتھ صاحبزادہ صاحب کا تعارف کرایا۔ جس پر مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ اتنی مخالفت کے باوجود کس طرح تشریف لائے ہیں۔ لیکن ابھی مَیں نے کوئی بات نہیں کی تھی کہ چودھری صاحب نے از خود ہی فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب اپنے لئے حلقہ ڈسکہ کے احمدی ووٹروں کی امداد حاصل کرنے کے واسطے قادیان آئے ہیں اور مَیں حضرت صاحب کی ملاقات سے قبل انہیں آپ کے پاس لے آیا ہوں۔ اس پر مَیں نے احرار پارٹی کی شدید مخالفت کے پیشِ نظر صاحبزادہ صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس بارے میں اپنی پارٹی کے ساتھ بھی بات کر لی ہے؟ صاحبزادہ صاحب نے فرمایا۔ ہاں مَیں نے بات کر لی ہے اور خصوصیت سے مولانا مظہر علی صاحب اظہر کا نام لیا کہ مَیں ان کے ساتھ بات کر کے ہی قادیان آیا ہوں۔ مَیں نے کہا۔ فیصلہ تو حضرت صاحب فرمائیں گے لیکن اس قدر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ ایک سیاسی کام ہے اس لئے مذہبی اختلاف کی بناء پر انکار نہیں کیا جائے گا۔ چودھری صاحب نے فرمایا۔ مَیں نے بھی صاحبزادہ صاحب سے یہی کہا ہے۔ اس کے بعد چودھری صاحب نے مکرمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کی طرف پیغام بھجوایا کہ جو معاہدہ الیکشن میں امداد لینے والے امیدواروں سے لکھایا جاتا ہے اس کی نقل بھجوا دیں تا وہ صاحبزادہ صاحب کو دکھا دیا جائے۔ چنانچہ پیغام جانے پر مکرمی ناظر صاحب امور عامہ اس معاہدہ کا مسودہ خود اپنے ساتھ لے کر تشریف لے آئے اور صاحبزادہ فیض الحسن صاحب نے ہم سب کےسامنے اسے پڑھا اور پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سےمجھے اس معاہدہ کے لکھ دینے سے انکار ہو۔ اس کے بعد صاحبزادہ صاحب حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ فقط خاکسار مرزا بشیر احمد’’
اس کے کچھ دن بعد مَیں کھانا کھا رہا تھا کہ فون آیا کہ پریمیر(Premier) صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ جس بات کے لئے ملک خضر حیات خاں صاحب نے مجھے فون کیا وہ تو اَور تھی گو الیکشن کے سلسلے میں ہی تھی۔ مگر اسی سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب میرے پاس آئے تھے لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ مَیں نے ان سے کہا مَیں نے تو وعدہ آپ سے کیا تھا۔ اب آپ جس کے حق میں فیصلہ کر دیں ہم اسے ووٹ دیں گے۔ اسی فون میں یا غالباً دوسرے فون میں (میرا خیال ہے کہ دوسرے فون میں جو کچھ دنوں کے بعد ملک خضر حیات خان صاحب نے کیا) انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں تحریر تو نہیں دے سکتا۔ آپ میری طرف سے ضمانت دے دیں۔ مگر مَیں ان کی ضمانت کس طرح دےسکتا ہوں کیونکہ مَیں انہیں پوری طرح جانتا نہیں۔ مَیں نے ملک صاحب سے کہا۔ ہمارا وعدہ تو آپ سے ہے۔ آپ جس کے متعلق فیصلہ کریں گے ہم اس کے حق میں ووٹ دے دیں گے۔ آخر جب دو فروری تک کوئی فیصلہ نہ ہوا تو سیالکوٹ کے نمائندے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے اس بارہ میں مشورہ طلب کیا۔ مَیں نےانہیں سارا معاملہ بتا کر کہا کہ چودھری اسد اللہ خان صاحب کے پاس چلے جائیں مَیں نے انہیں سب معاملہ سمجھا دیا ہے۔ وہ ملک صاحب سے پوچھ کر آخری فیصلہ آپ کو بتا دیں گے۔ جو وہ کہیں وہی میری رائے سمجھی جائے۔ چنانچہ مَیں نے سب بات لکھ کر چودھری اسد اللہ خان صاحب کو بھجوا دی۔ جب چودھری صاحب نے ملک خضر حیات خان صاحب سے دریافت کیا کہ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے متعلق کیا فیصلہ ہوا ہے؟ تو ملک صاحب نے یا ان کے سیکرٹری نے چودھری صاحب سے کہا کہ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں تحریر نہیں دے سکتا۔ آپ ضمانت دے دیں اور ہم ضمانت نہیں دے سکتے۔ ویسے وہ ہمارے ہی آدمی ہیں۔ اگر آپ پسند کریں تو ان کو ووٹ دے دیں۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ بات مجھے فون پر کہی۔ تو مَیں نے ان سے کہا کہ ملک خضر حیات خان صاحب سے کہیں کہ ہماری پسند اور ناپسند کا تو سوال ہی نہیں ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کے آدمی کو ووٹ دیں گے اور ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ اس طرح غالباً تین فروری کو صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ یونینسٹ پارٹی کی طرف سے ہوا اور چودھری اسد اللہ خان صاحب نے وہاں کی جماعتوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے ووٹ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کو دیں۔
یہ واقعات ہیں جن کی بناء پر صاحبزادہ صاحب کو جماعت نے ووٹ دئیے۔ جماعت کا یونینسٹ پارٹی سے یہ وعدہ تھا کہ ان کا جو نمائندہ وہاں کھڑا ہو گا۔ جماعت اسے ووٹ دے گی۔ یونینسٹ نے صاحبزادہ صاحب کو اپنا لیا اور جماعت نے اپنے وعدہ کے مطابق صاحبزادہ صاحب کو ووٹ دئیے۔ ہم نے یونینسٹ پارٹی سے یہ شرط نہیں کی تھی کہ اگر وہ آدی ہماری مرضی کے مطابق ہو گا تو اسے ووٹ دیں گے اور اگر ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہو گا تو اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ یونینسٹ پارٹی نے صاحبزادہ صاحب کو کھڑا کیا۔ ہم نے انہیں ووٹ دے دئیے۔ پھر صاحبزادہ صاحب خود یہاں آئے اور جماعتی معاہدہ کرنے کے لئے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے گواہ خان بہادر قاسم علی صاحب اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہیں۔ (خان بہادر قاسم علی صاحب احمدی نہیں ہیں) چونکہ الیکشن گزر چکا ہے اور صاحبزادہ صاحب کے یہ الفاظ تھے کہ الیکشن کے دوران مَیں اس بات کو ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ مجھے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ الیکشن کے بعد آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں۔ اور دوسرے ان کی پارٹی نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے احمدیوں سے کوئی مدد وغیرہ نہیں مانگی اور نہ احمدیوں نے ان کی مدد کی ہے،احمدیوں نے محض احرار کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کیا ہے۔ اس لئے مَیں اس حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں اور مَیں جماعت کے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ احرار کو اگر ہم نے ووٹ دئیے ہیں تو سیاسی معاملہ میں دئیے ہیں نہ کہ کسی دینی معاملہ میں۔ اس سے پہلے مولوی ظفر علی خان صاحب کو جو کہ سنٹرل اسمبلی کے ممبر ہوئے ہیں ہماری جماعت نے ووٹ دئیے تھے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیوی معاملے میں اگر ایک احراری مسلمان قوم کے لئے زیادہ مفید ہو سکتا ہے تو ہم احراری کو کیوں ووٹ نہ دیں۔ ہر مسلمان جو سیاسیات کے لحاظ سے مسلمان کہلاتا ہے اگر ہم اس کے متعلق یہ سمجھتے ہوں کہ وہ زیادہ اچھا کام کر سکتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے ووٹ دیں خواہ وہ شیعہ ہو یا سُنّی۔ یا وہابی ہو یا غیر وہابی۔ اسی طرح اگر ہم ایک مسلم لیگی کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے مفید کام کر سکتا ہے تو ہمیں اس کے احمدی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ووٹ دینے میں کوئی دریغ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ کسی اَور پارٹی کے آدمی کو جو مسلمانوں کے لئے مُضِر نہ ہو۔
(4)غیب سے سلسلہ کی ترقی کےسامان: چوتھی بات مَیں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے سلسلہ کی ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ چنانچہ انہی دنوں خدا تعالیٰ نے بعض ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو انسان کو تعجب میں ڈالتے ہیں۔ دنیامیں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ہم لوگوں کا جانا خصوصاً ہندوستانیوں کا جانا قریباً ناممکن ہے۔ اور جو ہندوستانی پہلے سے وہاں گئے ہوئے ہیں وہ بھی کئی قسم کی تکالیف اٹھاتے رہتے ہیں۔ جیسے ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ والے نئے ہندوستانیوں کو وہاں نہیں آنے دیتے اور پرانے ہندوستانی باشندوں پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ ریسٹوران اور ہوٹلوں میں ہر جگہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانی یہاں نہیں آ سکتے۔ ریل گاڑیوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو یہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ان کے لئے بعض مخصوص ڈبّے ہوتے ہیں جن پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ ہندوستانیوں کے لئےہیں۔ ہوٹلوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو ان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یا لکھا ہوتا ہے کہ فلاں کمرے میں ہندوستانی بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ ایسی جگہ پر ہمارے کسی آدمی کا پہنچنا بالکل ناممکن تھا۔ سالہا سال سے ہم حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی ذریعہ وہاں آدمی بھجوانے کا نکل آئے تو ہم وہاں اپنا مبلغ بھیج دیں لیکن کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا۔ پیر کے دن اچانک مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب جنہوں نے انگلستان میں ڈاکٹری پاس کی اور وہیں اپنی جوانی کے ایام میں رہے ہیں اچانک قادیان میں آ پہنچے ہیں۔ مجھے اس سے پہلے نیر صاحب کا خط آیا تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب قادیان آ رہے ہیں اور مَیں حیران تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب کے آنے کی نہ شمس صاحب نے اطلاع دی ہے اور نہ کسی اَور نے۔ یہ بات کیا ہے؟ مگر ابھی نیر صاحب کو اس بارہ میں کوئی خط نہیں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب اچانک قادیان پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گزاری ہے۔ انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی تھی لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا۔ ان کے والد صاحب امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اسی پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان کے والد کیپ ٹاؤن کے علاقہ کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندھی نٹال کے۔ اور دونوں مل کر کام کیا کرتے تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندھی کئی دفعہ ہمارے گھر آ کر ٹھہرتے اور کئی دفعہ ہم ان کے گھر جا کر ٹھہرتے۔ ان کےد وسرے بھائی بھی احمدی ہیں لیکن ہمشیرہ احمدی نہیں۔ امیر آدمی ہونے کی وجہ سے گزارے سے بے فکر ہیں۔ کیونکہ جائیداد کے کرایہ کی آمد انہیں کافی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بہت دیر سے احمدی ہیں۔ جب مَیں ولایت گیا تو یہ کچھ دنوں کے لئے اتفاقاً وطن گئے ہوئے تھے۔ اس لئے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اب پہلی دفعہ مَیں نے ان کی شکل دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں اصل میں ساؤتھ افریقہ جا رہا تھا اور مَیں نے وہیں کا پاسپورٹ لیا ہوا تھا ۔ جب کلکتہ پہنچا تو ارادہ ہوا کہ ہندوستان میں ٹھہر جاؤں۔ کیونکہ کلکتہ کی غلاظت دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ مَیں نے ارادہ کیا کہ کوئی علاقہ تجویز کر کے ہندوستان کے لوگوں کو صفائی کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالوں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کروں۔ وہ چونکہ پہلی دفعہ یہاں آئے تھے اس لئے ان کو بات آہستگی سے سمجھانی پڑتی تھی۔ مَیں نے کہا اس قسم کے نیک ارادے لے کر یہاں بڑے بڑے پادری آئے لیکن ہم لوگوں کو صفائی سکھاتے سکھاتے وہ خود تھک گئے۔ سینکڑوں سال کی عادتیں آہستہ آہستہ ہی ہٹتی ہیں۔ ایک آدمی کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتا ہے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آپ جن لوگوں کو صفائی سکھانا چاہتے ہیں کیا کبھی ان کی معذوریاں بھی آپ نے سوچی ہیں؟ آپ کا ملک مالدار ہے جہاں آپ نے عمر گزاری ہے۔ وہ ملک بھی مالدار ہے لیکن ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ فی آدمی ڈیڑھ آنہ روزانہ آمد ہوتی ہے۔ کسی کے پاس چار کنال زمین ہے، کسی کے پاس گھماؤں ، کسی کے پاس دو گھماؤں اور کسی کے پاس پانچ چھ سات یا آٹھ گھماؤں۔ اور کثرت ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس سات آٹھ گھماؤں سے بھی کم زمین ہے اور وہ بھی پھیلی ہوئی۔ کسان بیچارہ صبح چار بجے اٹھتا ہے، سات آٹھ گھنٹے ہل چلاتا ہے، پھر بھینسوں کو نہلاتا ہے، جانوروں کو چارہ ڈالتا ہے۔ اور چونکہ اکثروں کے پاس اتنی زمین نہیں ہوتی کہ اس سے چارہ نکال سکیں اس لئے کُھرپا لے کر باہر نکل جاتے ہیں ۔کچھ گھاس سڑک کے اس کنارے سے کاٹا اور کچھ اُدھر سے کاٹا اور پھر کچھ تیسری جگہ سے کاٹا اور کئی گھنٹہ کی محنت کے بعد کچھ گھاس اپنے بیلوں کو لا کر ڈالتے ہیں۔تب ان کے بیل زندہ رہتے ہیں اور ان کے بچوں کو روٹی ملتی ہے اور وہ بھی دو وقت کی نہیں۔ کبھی ایک وقت کی ملتی ہے اور کبھی دو وقت کی۔ اب بتائیں جس کو سارا دن کام کرنے کے بعد پیٹ بھر کر کھانے کے لئے روٹی بھی نہ ملے اس کو کپڑا کہاں سے ملے گا؟ جس بیچارے کے پاس صرف ایک تہہ بند ہے اس کے پاس ہمت کہاں کہ وہ کپڑوں کو صاف رکھے؟ وہ تو کام سے تھک کر اور چُور ہو کر لیٹتا ہے اور اسے چار بجے تک ہوش ہی نہیں آتا۔ چار بجے اٹھتے ہی وہ پھر باہر چلا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے اس کا بھی خیال کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ یہاں کی گورنمنٹ مجھے بوجہ ساؤتھ افریقن ہونے کے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی۔ مَیں بھی چاہتا ہوں کہ وہیں اپنے وطن میں رہوں اور سلسلہ کی تبلیغ کروں۔ مَیں نے کہا کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ وہاں انہیں استاد کر کے بھیج سکتے ہیں؟ مَیں کہوں گا کہ مجھے اپنے لئے دین کے استاد کی ضرورت ہے اس طرح وہ میرے استاد بن کر جا سکتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ آپ جائیں اور استاد کے لئے درخواست دے دیں۔ اجازت ملنے پر ہم وہاں اپنا مبلغ اِنْشَاءَ اللہ بھیج دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میری جائداد کافی ہے وہ مبلغ ہمارے مکانات میں رہے گا اور اس کےسارے اخراجات بھی وہیں سے چل جائیں گے۔ یہاں سے کسی قسم کی ضرورت نہ ہو گی۔ اور تبلیغ کے لئے وہاں اِنْشَاءَ اللہ اچھا موقع نکل آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ساؤتھ افریقہ میں اچھی حیثیت والے جاوا کے لوگ ہیں جو کسی وقت جاوا سے جلاوطن کئے گئے تھے۔ ان کے حقوق ہندوستانیوں سے زیادہ ہیں۔ اس پر مَیں نے تجویز کی کہ ہو سکا تو ہم ایک جاوی احمدی کو مبلغ بنا کر بھجوائیں گے جسے انہوں نے پسند کیا۔ پرسوں پھر مَیں نے ان سے ذکر کیا کہ کیا آپ وہاں پر پریکٹس کریں گے یا کوئی اَور کام کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مَیں اپنی زندگی تبلیغ کے لئے صَرف کروں گا۔ کھانے کی مجھے فکر نہیں ،کھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے کافی دیا ہوا ہے۔ ہاں غریبوں کے لئے مفت پریکٹس کروں گا اور اپنی قوم میں احمدیت کو پھیلانے کے لئے تبلیغ میں لگ جاؤں گا اور یہ مفت پریکٹس بھی تبلیغ میں ممد ثابت ہو گی۔ ایک تو مَیں خود مبلغ ہوں گا اور دوسرے مبلغ کو بھی وہاں منگوانے کی کوشش کروں گا اور مجھے امید ہے کہ اِنْشَاءَ اللہ اجازت مل جائے گی جیسا کہ پادریوں کو ملتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان کو بلانے کی اجازت ہو اور ہمیں نہ ہو۔ پھر مجھ سے انہوں نے کہا کہ مَیں خود بھی بخوبی تبلیغ کر سکتا ہوں لیکن چونکہ مَیں نے یہاں سے مکمل تعلیم حاصل نہیں کی اور میرے دماغ پر بائیبل چھائی ہوئی ہے اور مَیں نے اپنی ساری عمر انگریزوں کے ساتھ ہی بسر کی ہے اس لئے ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی بات ایسی میرے منہ سے نکل جائے جو احمدیت کے خلاف ہو اور پھر اس کو بعد میں مٹانا مشکل ہو جائے اور لوگ کہیں کہ پہلے مبلغ نے ہمیں یہ بات سکھائی تھی اب اس کے خلاف کیوں کہتے ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ ایک مبلغ ہو جو ان لوگوں کو صحیح تعلیم پہنچائے۔ مَیں اس کی ہر طرح مدد کروں گا اور پھر اس کے ذریعہ مجھے بھی علم حاصل ہو جائے گا۔
اب دیکھو یہ خدائی سامان ہیں ۔نہ ارادہ نہ خیال ، مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آ رہے ہیں۔ اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا اور اچانک خدا تعالیٰ کی طرف سے ساؤتھ افریقہ میں تبلیغِ احمدیت کے سامان پیدا ہو گئے۔ اسی طرح اب ایک دوست کا امریکہ سے خط آیا ہے۔ وہ ایک مخلص نوجوان ہے۔ اس خط میں اس نے ایک سکیم لکھی ہے ۔ اگر اس کو ہم جاری کر سکے تو ہمارے مبلغین کا امریکہ پہنچنا بہت آسان ہو جائے گا اور ان کا وہاں کا خرچ بھی ہمارے ذمہ نہ ہو گا۔ اگر اس سکیم کے متعلق ہماری ہر طرح تسلی ہو گئی تو ہم اس کو جاری کرنے کا جلد اِنْشَاءَ اللہ انتظام کریں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے لئے ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ جوش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں لگ جائیں۔ ہمارے مبلغوں کے لئےز یادہ سے زیادہ جگہیں اور زیادہ سے زیادہ مقامات اپنی گودیں کھولتے جا رہے ہیں اور ہمارا کام دن رات بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ان تمام مقامات کے لئے مبلغ مہیا کرنا ہمارا کام ہے کیونکہ فی الحال بیرونی ممالک کے لوگ مبلغ تیار نہیں کر سکتے۔ مبلغ کے لئے تمام دینی علوم کا جاننا اور اپنی جماعت کے تمام مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور یہ بات فِی الْحال باہر کسی جگہ پیدا نہیں ہوئی۔ پس ابھی سَو یا دو سَو سال تک قادیان سے ہی مبلغ باہر بھیجے جائیں گے۔ پھر جب احمدیت بیرونی ممالک میں کثرت کے ساتھ پھیل جائے گی اور احمدیت کو اللہ تعالیٰ غلبہ دے دے گا تو باہر والے بھی مبلغ تیار کر لیں گے۔ جب تک وہ زمانہ نہیں آتا ہمیں اپنے بچے اشاعت دین کے لئے قربان کرنے ہوں گے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر کوئی قربانی کی روح دیکھی ہی تھی تبھی تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو ہمارے درمیان بھیجا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے جگر گوشوں کو دین کی اشاعت کے لئے قربان کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی اس حُسن ظنی کو پورا کریں جو اس نے ہمارے متعلق کی۔او راپنے آقا کی بات کو جھٹلائیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں پورا اتارے۔ آمین ’’
(الفضل 20 مارچ 1946ء)
1: کُٹنی: عیّارہ۔ چالاک۔ عورتوں کو ورغلانے والی۔ دلّالہ
2: آل عمران: 104
3: وہپ: (Whip)(i)اطلاع نامہ جس میں اراکین سے کسی متوقع ووٹنگ کے لئے حاضر
ہونے کو کہا گیا ہو(ii)سیاسی جماعت کا نظم و ضبط اور ہدایات۔
(Oxford English Urdu Dictionary,Oxford University Press)

8
جماعتی اخبارات و رسائل کی خریداری اور تبلیغ کے متعلق ہدایات
( فرمودہ 15 مارچ 1946ء بمقام ناصر آباد سندھ)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جس طرح تیل اپنے اندر جلنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن جب تک اسے دِیا سلائی نہ لگائی جائے وہ جل نہیں سکتا اسی طرح انسانی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب تک اس کے لئے بیداری اور ہوشیاری کے سامان پیدا نہ ہوں اس وقت تک وہ بیداری کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے بیداری کا ایک ذریعہ بیان فرمایا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا1 یعنی اے مسلمانو! تم سارے کےسارے مضبوطی سے اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑو اور اس اعتصام کی وجہ سے تمہارے اندر ایک بیداری رہے گی۔ اور اس بیداری کی وجہ سے تمہارے اندر ایک نور پیدا ہو گا جس سے تم خدا تعالیٰ کو دیکھ لو گے۔ انسان خدا تعالیٰ کو اس کی صفات اور اس کے کاموں سے دیکھتا ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے رسّے پر مضبوطی کے ساتھ ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے خواہ دینی ہوں یا دنیوی پورے طور پر فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے اپنےبندوں کے لئے پیدا کی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رسّی وہ رسّی نہیں جو بان سے بٹی جاتی ہے بلکہ خدا کی رسّی وہ نظام ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ماموروں کے ذریعہ دنیا میں قائم کرتا ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو اس نظام سے منسلک کر لیتے ہیں تو ان میں بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو جاتی ہے۔ پس اس حَبْلُ اللہ سے مراد یہ ہے کہ ہم جہاں بھی ہوں اپنے نظام سے پختہ تعلق رکھیں اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے رسے کو پکڑنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ سارے کے سارے مسلمان گھر بار چھوڑ کر ایک مرکز میں آ بیٹھیں اور خلیفہ وقت کے ساتھ ہی نمازیں پڑھیں۔ یہ بات ناممکن ہے۔ سب سے بڑی مثال اس اعتصام کی رسول کریم ﷺ کے زمانے کی ہے مگر رسول کریم ﷺ کےز مانہ میں دس پندرہ ہزار مسلمان مدینہ میں رہتے تھے۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر گزر چکی تھی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر صحابی ایسے تھے جو مختلف علاقوں سے آئے۔ رسول کریم ﷺ کی شکل مبارک دیکھی، آپ کے منہ سے باتیں سنیں اور چند دن رہ کر اپنے وطن کو واپس چلے گئے۔ اور ایسے اشخاص بہت کم تھے جو رسول کریم ﷺ کی مجلس سے اٹھنے کا نام نہ لیتے ہوں اور رات دن آپ کی مجلس میں حاضر رہتے ہوں۔ مدینے کے تمام لوگ ایسے نہ تھے کہ وہ تمام نمازیں آپ کے ساتھ ادا کرتے ہوں بلکہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اَور مساجد بھی تعمیر کی گئی تھیں جن میں لوگ نمازیں ادا کرتے تھے۔ سب سے بڑی فوج جو رسول کریم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر تیار کی وہ دس ہزار تھی۔ اسی طرح غزوہ تبوک کے موقع پر بھی فوج کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس لحاظ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مدینہ کی آبادی چالیس پچاس ہزار کے درمیان ہو گی۔ لیکن یہ تمام فوج مدینہ کی ہی نہ تھی بلکہ آپ نے اردگرد کے علاقوں سے بھی فوج کے لئے آدمی جمع کئے تھے۔ بہرحال تمام مسلمان مدینہ میں ہی جمع نہیں ہو گئے تھے بلکہ اپنے اپنے وطنوں میں تبلیغِ اسلام کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جب کوئی مامور یا خلیفہ آئے تو اس کے ماننے والے سب کے سب اپنے وطنوں کو چھوڑ کر وہاں جمع ہو جائیں اور دن رات اس کی مجلس میں بیٹھے رہیں اور اس کی باتیں سنتے رہیں۔ بلکہ ہمیشہ لوگ اپنی اپنی جگہوں پر رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ آتے ہیں اورمرکز سے دین کی باتیں سیکھ کر واپس جاتے ہیں اور اس آواز کو بلند کرتے ہیں جو مرکز سے اٹھائی گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ2کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو الٰہی دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرے اور مرکز سے دین سیکھ کر آئے اور واپس آ کر اپنے لوگوں کو دین سکھائے اور یہ لوگ قائم مقام ہوں گے اس مامور یا خلیفہ کے جس تک ان کا پہنچنا مشکل ہے۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ خط سے نصف ملاقات ہو جاتی ہے۔ اگر ایک خط سے نصف ملاقات ہو جاتی ہے تو ایک شاگرد جو اپنے خلیفہ کے منہ سے باتیں سن کر آئے اور واپس آ کر دوسرے لوگوں کو سنائے وہ بہرحال نصف ملاقات سے زیادہ ملاقات ہو گی۔ صحابہؓ کے متعلق ہم پڑھتے ہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آتے، مسائل پوچھتے اور واپس جا کر اپنی قوم کو وہ مسائل بتاتے اور اپنی قوم میں وہ رسول کریم ﷺ کے نائب ہوتے تھے۔
ایک ذریعہ تو اعتصام کا یہ ہے اور ایک اَور ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہمارے لئے بنا دیا ہے۔ وہ پریس ہے۔ اخبار ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ اخباری حالات اور مذہبی خیالات کا لوگوں تک پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ خط تو کبھی کبھی آتے ہیں لیکن اخبار روزانہ آتے ہیں۔ خط میں مضمون بھی تھوڑا ہوتا ہے لیکن اخباروں اور رسالوں میں مضامین بہت تفصیل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں او رہر شخص نصف ملاقات سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس طرح وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًاپر عمل کر سکتا ہے ۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اکثر جماعتیں سلسلہ کا اخبار ‘‘الفضل’’ منگوانے میں کوتاہی سے کام لیتی ہیں اور اس کی اہمیت کو پورے طور پر نہیں سمجھتیں۔ سندھ کی باقی جماعتوں کے متعلق تو مَیں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ہاں ‘‘الفضل’’ کا پرچہ آتا ہے یا نہیں، ناصر آباد کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ یہاں الفضل کا پرچہ آتا ہے اور جب ہمارا پرچہ لیٹ ہو جاتا ہے تو ہم وہ پرچہ منگوا کر پڑھ لیتے ہیں۔ پس میرے نزدیک یہ بہت ضروری بات ہے کہ ہر جماعت کم از کم الفضل کا ایک پرچہ ضرور منگوائے تاکہ ان کو جماعت کے نئے نئے مسائل کے متعلق علم ہوتا رہے اور مرکز کے احکام ان تک پہنچتے رہیں۔ اسی طرح سلسلہ کے بعض رسائل ایسے ہیں جو ہفتہ واری ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ماہوار ہیں۔ ان ماہواررسالوں میں سے ایک رسالہ ریویو آف ریلیجنز ہے۔ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کی یہ خواہش تھی کہ اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہوجائیں لیکن مجھے تعجب آتا ہے کہ جماعت نے اس کی طرف سے بالکل توجہ ہٹا لی ہے اور اس کی اشاعت بہت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کا کوئی احساس ہو تو دس ہزار خریدار کوئی مشکل چیز نہیں۔ جب ہمارےاخبار الفضل کا خطبہ نمبر 3800 چھپتا ہے اور روزانہ 2900 چھپتا ہے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں کہ ایک ماہوار رسالہ کے دس ہزار خریدار نہ مل سکیں۔ اس رسالہ کا اتنی تھوڑی تعداد میں شائع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔
پنجاب میں ہماری جماعت کی تعداد چار پانچ لاکھ کے قریب ہے اور سارے ہندوستان میں چھ سات لاکھ کے قریب ہے۔ اگر پانچ آدمی فی کنبہ سمجھ لئے جائیں تو قریباً ایک لاکھ خاندان بنتا ہے۔ اور اگر فی خاندان ایک مرد شمار کریں تو پانچ لاکھ مرد ہماری جماعت کے ہندوستان میں ہوں گے۔ اور اگر یہ سمجھا جائے کہ لاکھ مردوں میں سے چالیس فیصدی یا تیس فیصدی یا کم از کم بیس فیصدی ایسے ہیں جو اخبار پڑھ سکتے ہیں تو بیس ہزار آدمی ایسے ہوں گے جو اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ حالانکہ ہماری تعلیمی اوسط اس سے بہت زیادہ ہے۔ اور اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ بیس ہزار میں سے دس ہزار آدمی ایسے ہیں جو اس رسالہ کے خریدنے کے ناقابل ہیں تو پھر بھی دس ہزار آدمی ایسے باقی رہ جاتے ہیں جو یہ رسالہ خرید سکتے ہیں۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس دس ہزار میں سے بھی صرف پانچ ہزار آدمی ایسا ہے جو اس رسالہ کو خرید سکتا ہے اور اگر جماعت کے دوست کوشش کرتے تو پانچ ہزار خریدار غیر احمدیوں میں سے بنا سکتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری اس معاملہ میں سمجھی ہی نہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جُوں جُوں جماعت کے اخبارات اور رسائل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں لوگوں کی توجہ ان کی طرف سے کم ہوتی جا رہی ہے حالانکہ وہ اخبارات اور رسائل جماعت کے دوستوں کے لئے اعتصام کا ایک ذریعہ ہیں اور دینی علم میں زیادتی کا باعث ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنا شور ابتداء میں کسی تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ بعد میں نہیں رہتا ہے۔ سب سے پہلے جب رسول کریم ﷺنے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کہا تو کفار نے اسے بہت اچنبھا سمجھا اور بہت شور مچایا حالانکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ قرآن کریم کی ایک سطر کے برابر ہے۔ پھر اس کے بعد سورۂ بقرہ پر اِتنا شور نہیں پڑا جتنا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کے اعلان پر پڑا تھا۔ سورہ بقرہ اڑھائی پارے کے قریب ہے اور اگر فی صفحہ سولہ سطریں سمجھی جائیں اور سورہ بقرہ تقریباً تیس چالیس صفحوں میں ہے۔ اگر چالیس صفحے فرض کئے جائیں تو 640 سطریں ہو گئیں لیکن جو شور ابتدا میں ایک سطر سے پڑا تھا وہ چھ سو چالیس سطروں سے نہیں پڑا۔ اسی طرح جب مسائل کثرت کے ساتھ سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں تو کمزور طبیعتیں سستی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں کہ کس کو یاد کریں اور کس کو نہ کریں۔ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ جس قدر یاد کر سکیں کر لیں اور جو نہ یاد ہو اسے چھوڑ دیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا3 یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ پس جتنی طاقت ہو اتنا ہی یاد کر لیا جائے۔ مگر اس کی بجائے طبائع میں غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بالکل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں کرتے۔ عربی میں ایک مثل ہے مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ کہ جو چیز ساری حاصل نہیں کی جا سکتی وہ ساری چھوڑی بھی نہیں جا سکتی۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم کیا کچھ پڑھیں ہم سے کچھ بھی نہیں پڑھا جاتا او رجو اخبار خریدتے ہیں وہ اسے سنبھال کر نہیں رکھتے۔ مَیں نے تو اپنے اخبار سنبھال کر رکھنے کی دفتر کو سخت تاکید کی ہوئی ہے تاکہ کم از کم دفتر میں تین چار فائل تو ہوں تاکہ ہماری اولاد باری باری ایک دوسرے سے مانگ کر پڑھ سکے۔
آج لوگوں کے نزدیک ‘‘الفضل’’ کوئی قیمتی چیز نہیں۔ مگر وہ دن آ رہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہو گی۔ لیکن کوتہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے۔ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جو باتیں ہوتی تھیں وہ اس زمانہ کے لوگوں کے نزدیک اتنی اہم نہ تھیں جتنی اہمیت ان کی بعد میں ہوئی۔ بڑے بڑے بادشاہ ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے اور بڑے ادب کے ساتھ پوچھتے
کیا آپ نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا تھا؟ یا کیا آپ نے فلاں دیکھنے والے کو دیکھا تھا۔ یا اس کے دیکھنے والے کو دیکھا تھا؟ آپ کا قد کیسا تھا؟ آپ کا جسم کیسا تھا؟ آپ کس طرح چلتے تھے؟ ایک زمانہ وہ تھا کہ رسول کریم ﷺ خود اپنے آپ کو دکھایا کرتے لیکن لوگ آپ کی طرف توجہ نہ کرتے۔ یا ایک زمانہ وہ آیا کہ آپ کو دیکھنے والوں کو دیکھنے کے لئے لوگ ہزاروں میل سے دوڑے جاتے تھے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ رسول کریم ﷺ خود لوگوں کو باتیں سناتے لیکن لوگ آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ یا پھر وہ زمانہ آیا کہ بڑے بڑے بادشاہ آپ سے باتیں سننے والوں یا سننے والوں سے باتیں سننے کے لئے جاتے تھے۔ پس لوگوں کو یہ عادت ہے کہ ابتدا میں وہ قیمتی چیز کی قدر نہیں کرتے۔ لیکن جب ترقی کا زمانہ آتا ہے تو پھر بڑی بڑی قیمتیں دے کر خریدتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہؤا ہے کہ پٹھانکوٹ کے ایک دکاندار کے پاس قادیان کے کسی آدمی نے کئی من الفضل ردّی میں بیچ دیا۔ جب وہ شخص جس نے یہ اخبار فروخت کیا تھا پکڑا گیا تو اُس نے بتایا کہ یہ اخبار کئی مَن اس کے پاس پڑا ہے جو اُس نے ردّی میں لوگوں سے خریدا ہے۔ اگر اس بیچنے والے یا اس کے پاس اخبار بیچنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئیوں پر ایمان ہوتا اوراَگر انہیں یقین ہوتا کہ آئندہ زمانہ میں احمدیت کو بڑی بڑی ترقیات ملنے والی ہیں۔ تو وہ اسے ردّی کے بھاؤ نہ بیچتے بلکہ سنبھال کر رکھتے کہ آئندہ اگر ان کی اولاد میں دین کا جوش نہ بھی ہؤا اور اس سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو بھی اس کی قیمت ہزاروں ہزار روپیہ پڑنے والی ہے۔ ہم اس وقت اسے فروخت کریں گے۔ اس کے پڑا رہنے سے ہمارا کیا حرج ہے۔
رسول کریم ﷺ کا وصال ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ آپ کے تبرکات لوگوں نے ہزاروں ہزار روپے کو مانگنے شروع کر دئیے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس کا نام کعب بن زہیر تھا۔ یہ شخص مسلمانوں کا سخت مخالف اور جانی دشمن تھا۔ اسلام کے خلاف بہت گندے شعر کہتا اور مسلمانوں پر اپنے اشعار میں طرح طرح کے بے ہودہ الزامات لگاتا اور ان کی تشہیر کرتا۔ جب مکہ فتح ہؤا تو ایسے خاص الخاص پانچ آدمیوں کے متعلق قتل کا اعلان کیا گیا کہ وہ جہاں پائے جائیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک یہ شخص بھی تھا۔ مکہ میں تو وہ رہ نہیں سکتا تھا کیونکہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور اس میں اسلام کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور ملک کے دوسرے علاقوں کو بھی مسلمان فتح کرتے جا رہے تھے۔ وہ ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں مارا مارا پھرتا۔ جب مسلمان اس کے نزدیک پہنچتے تو وہ اگلے قبیلہ میں چلا جاتا۔ آخر ایک قبیلہ کے لوگوں نے اسے کہا کہ تُو کب تک اس طرح بھاگتا پھرے گا۔ مسلمان تو دریا کی طرح بڑھے آ رہے ہیں تُو کہاں تک بھاگتا جائے گا؟ اس نے کہا پھر کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ تُو مدینے جا اور جا کر معافی مانگ۔ اس نے کہا کہ مَیں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کئے ہیں اور مَیں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ تیرے لئے کم سزا ہے کہ قبیلہ قبیلہ میں مارے مارے پھرتا ہے، تُو جہاں جاتا ہے مسلمان وہاں پہنچ جاتے ہیں اور تجھے اگلے قبیلے میں بھاگنا پڑتا ہے، اس ذلت سے موت بہتر ہے۔ آخر اس نے رسول کریم ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا اور بھیس بدل کر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جا پہنچا اور عرض کی کہ مَیں کچھ شعر سنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا سناؤ۔ اس نے شعر سنانے شروع کئے۔ جیسا کہ عرب کے شعراء کا طریق تھا کہ پہلے وہ اپنی معشوقہ کا ذکر کرتے تھے، پھر اس کے بعد اونٹنی کا ذکر کرتے اور پھر اونٹنی کے ذکر کے بعد اپنے مطلب کی طرف آتے۔ اسی طرح اس نے اپنے قصیدہ کو شروع کیا۔ پہلے تو آہستہ آہستہ شعر سنانے شروع کئے تاکہ کوئی شخص اس کی آواز نہ پہچان لے۔ ہوتے ہوتے اس کی بناوٹی آواز جاتی رہی اور اصل آواز ظاہر ہو گئی۔ لوگوں نے اس کی آواز پہچان لی لیکن رسول کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے خاموش رہے۔ اسی حالت میں اس نے یہ شعر کہا ؂
نُبِّئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْعَدَنِیْ وَ الْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ مَاْمُوْلٗ
جس کا مفہوم یہ تھا کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تمہارے لئے محمد رسول اللہ (ﷺ) نے قتل کا حکم دے دیا ہے۔ مگر مَیں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے تم یہ تو بتاؤ کہ دنیا میں کوئی شخص محمد رسول اللہ (ﷺ) جیسا معاف کرنے والا ہے۔ جب اس نے یہ شعر پڑھا تو انصاری لوگوں نے اسے پہچان لیا اور اپنی تلواریں میانوں سے نکال لیں لیکن رسول کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے کچھ کر نہ سکتے تھے اور منتظر تھے کہ آپ اشارہ کریں تو اس کا سر کاٹ دیں۔ مگر رسول کریم ﷺ اس کے شعر سنتے رہے۔ اس نے کچھ شعر اسلام کی تعریف میں سنائے اور کچھ شعر قرآن کی تعریف میں۔ جب اس نے یہ شعر پڑھا کہ :
مَھْلًا ھَدَاکَ الَّذِیْ اَعْطَاکَ نَافِلَةَ الْقُرْاٰنَ فِیْھَا مَوَاعِیْظُ وَ تَفْصِیْلٗ
تو آپ نے اپنی چادر اُتار کر اس پر ڈال دی۔ پچھلے زمانے میں یہ دستور تھا کہ بادشاہ جسے معاف کرتے اس پر اپنی چادر ڈال دیتے تھے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا تھا کہ ہم نے اسے معاف کر دیا ہے اور اب یہ شخص ہماری پناہ میں ہے۔ اسی دستور کے مطابق رسول کریم ﷺ نے اپنی چادر اس پر ڈال دی۔ جب صحابہؓ نے یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے اپنی تلواریں میانوں میں رکھ لیں اور خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ قصیدہ آج تک قصیدہ بُردہ کہلاتا ہے۔ یعنی وہ قصیدہ جس کے پڑھنے پر رسول کریم ﷺ نے اسے چادر عطا فرمائی تھی۔ یہ شخص رسول کریم ﷺ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہا۔ حضرت معاویہؓ نے اسے اس چادر کے لئے بیس ہزار دینار پیش کئے لیکن اس نے دینے سے انکار کیا۔4 حضرت معاویہؓ رسول کریم ﷺ کے سالے تھے اور ایک مدت تک رسول کریم ﷺ کے گھر میں بھی رہے۔ اور ان کے لئے موقع تھا کہ وہ جتنے تبرکات چاہتے جمع کر لیتے کیونکہ ان کی بہن اُمّ حبیبہؓ رسول کریم ﷺ کے گھر میں تھیں اور وہ اکثر اپنی بہن کے پاس آتے جاتے بلکہ اپنی بہن کے پاس رہتے بھی تھے۔
اُمّ حبیبہؓ اور حضرت معاویہؓ کی عمر میں کافی فرق تھا۔ اُمّ حبیبہؓ حضرت معاویہؓ سے عمر میں کافی بڑی تھیں۔ ایک دن رسول کریم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت اُمّ حبیبہؓ حضرت معاویہؓ کو گود میں لِٹا کر پیار کر رہی تھیں۔ رسول کریم ﷺ سے شرمانے کی وجہ سے حضرت معاویہؓ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ رسول کریم ﷺ نے اُمِّ حبیبہؓ سے پوچھا ۔ کیا یہ تمہیں پیارا ہے؟ حضرت اُمّ حبیبہؓ نے جواب دیا ہاں یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھے پیارا ہے۔ بھائی جو ہؤا۔ آپ نے فرمایا۔ اگر تمہیں پیارا ہے تو ہمیں بھی پیارا ہے۔ حضرت معاویہؓ کے لئے اتنا موقع تھا تبرکات کے جمع کرنے کا۔ اور ضرور انہوں نے تبرکات جمع کئے ہوں گے مگر پھر بھی حضرت معاویہؓ نے اس شخص کو بیس ہزار دینار پیش کئے کہ یہ چادر تم مجھے دے دو۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ مَیں تبرک کی قیمت نہیں ڈالوں گا۔ بیس ہزار دینار قریباً ایک لاکھ روپیہ بنتا ہے اور یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جو رسول کریم ﷺ کے گھر میں رہتا تھا۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جس کے پاس رسول کریم ﷺ کے بہت سے تبرکات ہوں گے۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جس کو رسول کریم ﷺ کے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ رقم وہ شخص دے رہا تھا جو آپ کا قریبی رشتہ دار تھا۔ پس ابتداء میں بعض چیزوں کی قیمت و قدر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوتی ہے لیکن بعد میں جب ان چیزوں کی حقیقت لوگوں پر واضح ہو جاتی ہے تو وہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ صَرف کر کے اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
پس آج ‘‘الفضل’’ لوگوں کی نظر میں وہ اہمیت نہیں رکھتا جو آئندہ اس کو حاصل ہونے والی ہے۔ پس اس بارہ میں پھر یہاں کی جماعتوں کو اور دوسرے صوبوں کی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اخبار کا خریدنا ہر جماعت اور ہر مستطیع کے لئے ضروری ہے۔ جو ایسا کرتا ہے حَبْلُ اللہ کو پکڑنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ جو ایسا نہیں کرتا اس کا ہاتھحَبْلُ اللہ سے جدا ہو جاتا ہے اور اس کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ جو لوگ اخبار منگوائیں انہیں مَیں نے کئی بار یہ ہدایت دی ہے کہ جمعہ کے دن ‘‘الفضل’’سے میرا خطبہ پڑھ کر سنایا جائے تاکہ جماعت کو علم ہوتا رہے کہ ان کا امام ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔
اس کے بعد اسی سلسلہ میں مَیں تبلیغ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ پچھلےسال بھی مَیں نے جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ اس سال کنری میں جلسہ بھی ہوا ہے اور اس جلسہ کے نتیجہ میں کچھ سندھی آدمیوں نے بیعت بھی کی۔ لیکن ابھی بہت بڑا کام باقی ہے اور ایک بہت بڑی خلیج ہے جو ہمارے اور سندھیوں کے درمیان حائل ہے۔ اس خلیج کو دور کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس وقت مسجد میں سو ڈیڑھ سو کے قریب آدمی ہوں گے لیکن ان میں سے سندھی کتنے ہیں؟ صرف پانچ چھ ہوں گے۔ ممکن ہے ایک دو اس سے زیادہ ہوں ۔ مگر کیا پانچ چھ فیصدی ہونے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ تعداد صاف طور پر بتاتی ہے کہ ہم اس فرض کے ادا کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت چاہئے یہ تھا کہ 150 میں سے 130 یا 140 سندھی ہوتے اور دس پندرہ پنجابی ہوتے۔ اگر یہ حالت ہو جائے کہ ہمارے جلسہ یا جمعہ میں 100 میں سے 95 سندھی ہوں اور پانچ دوسرے آدمی ہوں اور 1000 میں سے 950 سندھی ہوں اور پچاس دوسرے آدمی ہوں۔ اور 10000 میں سے 9500 سندھی ہوں اور 500 پنجابی یا دوسرے آدمی ہوں تو ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارا قدم اب ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے۔ کیونکہ جب سندھ میں کوئی غیر احمدی مولوی لیکچر دے گا تو سننے والے زیادہ سندھی ہوں گے نہ کہ پنجابی۔ اسی طرح ہم جب کوئی لیکچر وغیرہ دیں تو یہ بات ضروری ہے کہ ہمارے لیکچر میں بھی سندھی زیادہ ہوں۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے نہ سننے کی وجہ یہی ہےکہ ان کو احمدیت سے واقفیت نہیں ہے۔ اگر ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسلام کی خستہ حالی کا علاج اب صرف احمدیت ہی ہے اور یہ تمام بلائیں جو روز بروز مسلمانوں پر وارد ہو رہی ہیں ان کا واحد علاج احمدیت ہی ہے تو وہ یقیناً احمدیت کی باتیں بڑے شوق سے سنیں گے۔ سندھ میں پچاسی فیصدی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت میں زیادہ ہاتھ ہندوؤں کا ہے۔ مسلمانوں میں سے سات مسلمان ہندوؤں کے ساتھ جا ملے ہیں اور مسلمان حکومت ایک تمسخر بنی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد قائم نہیں رہا ہے اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے غیروں کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ یہی حال پنجاب میں ہے۔ مسلم لیگ کے پچھتّر نمائندے تھے اور اب تو اسّی ہو گئے ہیں لیکن باوجود اسّی نمائندے ہونے کے مسلمانوں کو کچھ مل نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے سات آٹھ نمائندے ہندوؤں کے ساتھ جا ملے اور ان سے مل کر گورنمنٹ بنا لی۔ یہ تمام حالات اس وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے طاقت اور جتھا سے محروم ہو گئے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی طاقت اور جتھاہوتا تو کیا مجال تھی کہ کوئی شخص ان کی بات کو ردّ کرتا۔ مسلمانوں میں اس وقت یہ بہت بڑا مرض پیدا ہو گیا ہے کہ ہر شخص اپنے ذاتی تعلقات کو قومی مفاد سے مقدم رکھتا ہے اور اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اس کے اس فعل سے اسلام اور مسلمانوں پر کیا کیا مصیبت آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو نہایت ہی حقیر چیزوں کے بدلے بیچا جا رہا ہے۔ کوئی شخص چند روپوں کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص آٹے کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص ایک لحاف کی خاطر خدا کو بیچ رہا ہے ، کوئی شخص ایک چادر کی خاطر اللہ تعالیٰ کو بیچ رہا ہے، کوئی شخص چاولوں کی ایک مٹھی کے پیچھے خدا کو بیچ رہا ہے اور کوئی شخص زمین کے لئے خدا کو بیچ رہا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب سے کوئی خائف نہیں ہوتا بلکہ اس کے احکام کی بے حرمتی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص اسی نظریہ کا قائل نظر آتا ہے کہ مجھے قومی مفاد سے کیا غرض ہے میرے لئے اپنی دوستیاں ہی کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے رسول کی ناراضگی سے میرا کیا بگڑ سکتا ہے کیونکہ دنیاوی طاقت جس کا نام حکومت رکھا جاتا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ مسلمانوں میں یک جہتی نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن زیادہ اختلافات رونما ہوتے جاتے ہیں۔ ایک مولوی کی رائے کے خلاف اگر مسلمان لیڈر کوئی بات کریں تو مولوی صاحب اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے اور ہزاروں ہزار آدمی اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی پارٹی کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگر کسی لیڈر کی رائے کے خلاف اکثریت کوئی فیصلہ کر دے تو وہ لیڈر ایک اور جماعت کھڑی کر دیتا ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا رُعب دن بدن اٹھتا جا رہا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی آواز کا کوئی اثر نہیں۔ جب بھی کوئی بات پیدا ہوتی ہے تو وہ فوراً ننگے ہو جاتے ہیں اور ان کا فتنہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تمہاری جماعت میں بھی کوئی فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن مَیں ان اعتراض کرنے والوں پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فتنہ کا ظاہر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والے اپنے آپ کو پوشیدہ نہیں رکھ سکے اور ننگے ہو گئے ہیں۔ وہ فتنہ جو اندر ہی اندر کام کرتا رہے وہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے اس فتنہ سے جو ظاہر ہو جائے۔
پس ان فتنوں کا ظاہر ہو جانا بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ ان سے ہمارا کوئی نقصان نہیں۔ دوسرے مسلمانوں میں جب کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ جَمعیةُ الْعُلَمَاء والے اختلاف پیدا ہونے کی وجہ سے کانگرس کے ساتھ مل گئے اور ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی اپنے ساتھ مسلم لیگ سے نکال کر لے گئے۔ لیکن ہماری جماعت سے جب کوئی مولوی نکلتا ہے تو اکیلا ہی کُکڑوں کُوں کر کے نکل جاتا ہے اور جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں بیداری ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ مولوی ہو گا تو اپنے گھر ہو گا ہمارا اب اس سے کیا تعلق۔ افریقہ سے شیخ مبارک احمد صاحب کا خط آیا ہے جسے پڑھ کر مجھے بے انتہاء خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایمان کے کیسے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے۔ شیخ مبارک احمد نے مجھے لکھاہے کہ اس علاقہ میں بعض وحشی قبیلہ کے لوگ احمدی ہوئے تھے۔ مَیں چار پانچ ماہ کے لئے باہر دَورہ پر گیا ہؤا تھا۔ میرے بعد بعض رئیسوں نے یہ سمجھ کر کہ مَیں باہر دورہ پر ہوں۔ان حبشیوں کو مرتد کرنا چاہا۔ وہ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا دیکھو! فلاں رئیس مرتد ہو گیا ہے، فلاں بڑا آدمی مرتد ہو گیا ہے، تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ۔ سب با اثر اور با رسوخ لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ پڑھ کر مجھے حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسا پختہ ایمان عطا کیا ہے۔ وہ نہ کبھی قادیان آئے اور نہ انہوں نے ہماری کتابیں پڑھیں لیکن جو جواب انہوں نے ان رئیسوں کو دیا۔ اس سے ان کے ایمان کا پتہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں احمدیت کا پتہ مولوی مبارک احمد صاحب سے لگا ہے۔ لیکن اگر مولوی مبارک احمد صاحب بھی احمدیت سے مرتد ہوجائیں تو ہم ان کی پروا نہیں کریں گے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ احمدیوں میں کمزور آدمی نہیں ہیں۔ احمدیوں میں بھی کمزور تو ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ہم پِسے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں لیکن کبھی کبھار آٹے میں سے گندم کا دانہ نکل آتا ہے۔ اس پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آٹا خراب ہے۔ اسی طرح ہم میں بھی بعض کمزور انسان ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مجھے شیخ مبارک احمد صاحب کی تحریر پڑھ کر وَجد آ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان میں کس قدر زبردست طاقت رکھی ہے۔
پس احمدیت ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں میں حقیقی اتحاد قائم ہو سکتا ہے اور مسلمان تمام مصائب سے نجات پا سکتے ہیں۔ یہ کس قدر ظلم کی بات ہو گی کہ ہم مسلمانوں کی اس خستہ حالی کو دیکھ کر ان کے علاج کی کوشش نہ کریں۔ اور ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو نہیں سکتے جب تک کہ ہم منظم طور پر تبلیغ کے لئے جد و جہد نہیں کرتے۔ اس علاقہ میں ہمارے ایک یا دو یا چار مبلغ کیا کام کر سکتے ہیں۔اور پھر سندھیوں کا خود تبلیغ کرنا ہمارے پنجابی مبلغوں سے بہت زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہر علاقہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کچھ آدمی قادیان بھجوائیں۔ وہ وہاں سے تعلیم حاصل کر کے پھر واپس جا کر اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ کریں۔ اگر سندھی طلباء قادیان آئیں اور وہاں سال دو سال رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں اور پھر واپس آ کر سندھ میں تبلیغ کریں تو یہ طریق زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ ہمارے پنجابی مبلغ کے لئے سب سے بڑی دقّت یہ ہو گی کہ وہ زبان نہیں جانتا ہو گا۔ اور اگر وہ سیکھ بھی لے تو اس کا لہجہ سندھیوں سے بالکل جداگانہ ہو گا۔ پنجابی اردو بھی بولے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ پنجابی بول رہا ہے۔ ہمارا پنجابی خواہ کتنی ہی عربی پڑھ لے لیکن جب وہ عربی بولے گا تو یوں معلوم ہو گا کہ گویا وہ پنجابی بول رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے کا دارو مدار لہجہ پر ہے۔ مصر کے ایک احمدی دوست قادیان آئے۔ وہ تاجر ہیں ، کوئی بڑے عالم نہیں ہیں۔ ان کے اعزاز میں ایک جلسہ ہؤا جس میں ہمارے مبلغین نے عربی میں تقریریں کیں۔ کسی دوست نے ان سے کہا دیکھو ! ہمارے عالموں نے بھی عربی میں تقریریں کیں تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ پنجابی بول رہے ہیں۔ میرا یہ اپنا تجربہ ہے کہ لہجہ کے بدل جانے سے زبان کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انگلستان جاتے ہوئے ہم عدن میں اُترے۔ وہاں مَیں نے ایک عرب دکاندار سے عربی میں کھجوروں کا بھاؤ دریافت کیا۔ اس نے جو جواب دیا مَیں اسے سمجھ نہ سکا۔ مَیں نے دوبارہ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ میری بات سمجھا نہیں پھر اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے پھر مجھے وہی جواب دیا۔ مَیں پھر اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ اسی طرح دو چار دفعہ ہم میں سوال و جواب ہؤا۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم میرے پاس ہی کھڑے تھے۔ وہ اس سوال و جواب کو سن کر بے اختیار ہنسنے لگے۔ مَیں نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ عربی بول رہے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ آپ پنجابی بول رہے ہیں اور صرف اندازہ لگا کر جواب اردو میں دے رہا ہے۔ لیکن آپ اس کے لہجہ کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ عربی بول رہا ہے۔ لیکن ایسی خراب زبان بول رہا ہے کہ آپ اسے سمجھ نہیں سکتے حالانکہ وہ عربی نہیں اردو میں جواب دے رہا ہے۔ پس لہجوں کا فرق بہت بڑا فرق ہے۔ ایک سندھی جب سندھی زبان بولے گا تو وہ سندھی ہی ہو گی لیکن ایک پنجابی جب سندھی زبان بولے گا تو وہ سندھی پنجابی معلوم ہو گی۔ پس اگر ان لوگوں میں تبلیغ کی جائے تو میرا خیال ہے کہ بہت جلد وہ احمدیت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ کیونکہ یہ لوگ مذہبی جذبات رکھتے ہیں۔ خصوصاً گاؤں کے لوگوں کے جذبات تو بالکل مذہبی ہیں۔
حُروں نے جو قربانی مذہبی جذبات کے ماتحت کی ہے وہ کسی اَور صوبہ کے لوگوں میں نظر نہیں آتی۔ ان کی عورتوں اور ان کے مردوں نےا یک شاندار قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ لوگ احمدیت قبول کر لیں تو وہ اس سے بڑھ کر قربانی کا نمونہ دکھا سکتے ہیں۔ پس سندھیوں میں تبلیغ کرنے کے لئے یہ بہت ضروری بات ہے کہ ہر سال کچھ سندھی طالب علم قادیان جائیں اور سال دو سال کی تعلیم کے بعد واپس آ کر سندھیوں میں تبلیغ کریں۔ اس وسیع علاقے میں جس کی آبادی ساٹھ ستّر لاکھ ہے اور جس کےسات ضلعے ہیں ہمارے ایک یا دو مبلغ کیا کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص دریا کو روکنے کے لئے اس کے دہانہ میں گندم کا دانہ رکھ دے اور سمجھ لے کہ دریا رُک جائے گا۔ ایسا کرنے والے کو سب لوگ بے وقوف خیال کریں گے۔ اگر دریا کو روکنا ہو تو اس کے مطابق انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے قادیان کے اِردگرد تھوڑے سے علاقہ میں پندرہ بیس مبلغ رکھے ہیں مگر پھر بھی وہ تھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم سندھ میں مؤثر طور پر تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا یہی ذریعہ ہے کہ ہر سال کچھ طالب علم قادیان جائیں اور ان کو ضروری مسائل سکھا کر یہاں مقرر کر دیا جائے۔ اور اگر کسی بڑے مولوی سے ٹکر ہو جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مولوی غلام احمد صاحب کو یا اور جو مبلغ یہاں ہو اسے بُلا لیا جائے۔ تبلیغ کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ انسان بہت بڑا عالم ہو بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کے اندر تبلیغ کے لئے جوش ہو۔ صرف پڑھائی کچھ کام نہیں آتی جب تک کہ اس کا استعمال نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ زراعت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں سے بسا اوقات معمولی معمولی زمیندار بعض باتوں میں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دن رات کام کرنے کی وجہ سے ان کا تجربہ صرف کتابی علم رکھنے والوں سے بعض باتوں میں بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے ایک احمدی دوست جن کا نام شیر محمد تھا اور وہ بنگہ کے رہنے والے تھے یکّہ چلایا کرتے تھے۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھے لیکن ان کے ذریعہ اتنے احمدی ہوئے کہ کئی مبلغ بھی ان سے پیچھے ہیں۔ اس وقت سلسلہ کا اخبار الحکم ہی تھا اور ہفتہ وار نکلتا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ پڑھے لکھنے نہ تھے لیکن الحکم باقاعدہ منگواتے تھے۔ اخبار پاس رکھتے۔ جب یکہ چلاتے تو یکّہ میں بیٹھنے والوں سے پوچھ لیتے کہ آپ میں سے کوئی پڑھا ہؤا ہے؟ جو شخص کہتا کہ مَیں پڑھا ہؤا ہوں اسے اخبار دیتے اور کہتے یہ پرچہ میرے نام آیا ہے ذرا پڑھ کر سنا دیں کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔ یکّے میں انسان کو دھکّے لگتے ہیں اور ہر ایک سواری دوسری سواری سے اجنبی ہوتی ہے۔ گھرسے باہر ہونے کی وجہ سے طبیعت اداس ہوتی ہے۔ اگر ایسی حالت میں اخبار مل جائے تو طبیعت بہل جاتی ہے۔ پس ہر شخص اس بات پر راضی ہو جاتا ۔ وہ ٹائیٹل پیج سے شروع کراتے اور آخر تک پڑھوا کر چھوڑتے۔ درمیان میں خود ہی سوال کرتے چلے جاتے کہ یہ بات کس طرح لکھی ہے؟ پڑھنے والا پھر اسے دوبارہ پڑھتا۔ وہ ایک ایک بات پر سوال کر کے اسی طرح بار بار دہرواتے کہ مسئلہ سننے والوں کے ذہن نشین ہو جاتا۔ اور جب سواریاں ٹانگہ سے اترتیں تو بعض ان میں سے اسی وقت کہہ دیتیں کہ میرا بھی بیعت کا خط لکھوا دیں۔ اور بعض پیج لے کر چلے جاتے اور بعد میں خود تحقیق کر کے احمدی ہو جاتے۔ جب ان کی مجھ سے ملاقات ہوئی تھی اس وقت تک پندرہ بیس آدمی ان کے ذریعہ احمدی ہو چکے تھے اور اس کے بعد وہ پندرہ بیس سال تک زندہ رہے اور اس عرصہ میں بھی کئی آدمی ان کے ذریعہ احمدی ہوئے ۔اور پھر ان کے ذریعہ سے آگے احمدیت پھیلی۔ اگر کوئی آدمی کام کرنا چاہے تو اس کے لئے تعلیم کی کمی روک نہیں ہو سکتی۔
پس ہماری جماعت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے۔ اس لئے اس اپنے مقصد کو ہر وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اس کا تمام تر انہماک دنیاوی مشاغل میں ہی نہیں ہونا چاہئے کہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت نہ بچے۔ جس طرح زمیندار کو کوئی کام کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے تو مرنے کی بھی فرصت نہیں لیکن جس دن اس کی بیوی یا اس کا بیٹا بیمار ہو جائے تو اسے ان کے علاج معالجہ کے لئے فرصت مل جاتی ہے۔ جس طرح اپنے مال سے ہر احمدی پر چندہ دینا فرض ہے اسی طرح اس پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ وقت کا بھی چندہ دے، اپنے اخلاق کا بھی چندہ دے، اپنے علم کا بھی چندہ دے اور ہر قسم کی بد دیانتی، بے ایمانی اور جھوٹ سے اجتناب کرے۔ جو شخص ان چیزوں سے اجتناب نہیں کرتا اس کا مالی چندہ دینا اسے کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ اس زمانہ میں جھوٹ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اس کی تعریف ہی بدل گئی ہے۔ ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے مگر سمجھتا یہ ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ اسی الیکشن کے سلسلہ میں ایک صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے۔ ان کے ساتھ ہمارے وہاں کے امیر جماعت بھی تھے۔ انہوں نے اپنی تعریف شروع کی کہ مَیں بہت راست باز ہوں۔ آپ کے امیر صاحب مجھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مَیں جو وعدہ کرتا ہوں اسے پورا کرتا ہوں۔ مجھے احمدیوں کے ووٹوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ امیر صاحب سے میرے تعلقات ہیں۔ مَیں نے امیر صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں سے میرے تعلقات ہیں اس لئے آپ لوگ مجھے ہی ووٹ دیں۔ پھر انہوں نے کہنا شروع کیا کہ مَیں نے مسلم لیگ کو آپ سے وابستہ کرنے کے لئے بہت کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مسلم لیگ کے ایک بڑے لیڈر سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ احمدیوں کو خوش کریں ورنہ ہمارا جیتنا محال ہے۔ اور مَیں نے کہا کہ میرے حلقہ میں 1327 ووٹ احمدیوں کے ہیں۔ اگر وہ ووٹ مجھے نہ ملیں تو مَیں جیت نہیں سکتا اس لئے آپ لوگ احمدیوں کو خوش کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں نہیں جانتا کہ احمدیوں کے ووٹ میرے علاقہ میں ایک ہے یا دو ہیں یا دس ہیں یا بیس ہیں لیکن مَیں نے 1327 اس لئے بتائے کہ ان پر رُعب پڑے اور تیرہ سو کے اوپر 27 کا عدد اس لئے بڑھایا کہ انہیں یقین ہو جائے کہ یہ گِن کر آیا ہے یونہی اندازہ سے نہیں بتا رہا۔ اب دیکھئے کہ وہ اسی مجلس میں اپنے سچا ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور اسی مجلس میں اپنا جھوٹ بیان کر رہے تھے لیکن ہماری جماعت کی یہ حالت نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہماری حالت ایسی ہونی چاہئے کہ دوسرے لوگ ہمارے نمونہ سے متأثر ہوں۔ مومن کے لئے سچ بہت پیاری چیز ہے اور وہ اس کو کسی حالت میں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اگر ہماری جماعت سختی کےساتھ سچ پر کاربند ہو جائے تو ساری تبلیغ خود بخود ہو جاتی ہے۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لوگ دنیاوی معاملات میں سچ بولتے ہیں تو سمجھیں گے کہ دینی معاملات میں بھی سچ ہی بولتے ہوں گے۔ پس ہماری جماعت کو تبلیغ کے تمام ذرائع کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی ترقی کے ذرائع پیدا کر دئیے ہیں اور دن بدن زیادہ پیدا کرتا جا رہا ہے اور دنیا میں ایک تزلزل پیدا ہو چکا ہے۔ اس وقت موقع ہے کہ اسلام پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ پس دوستوں کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی تمام کمزوریوں کا سدّ باب کرکے اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کے سامان پیدا کرے۔’’ (الفضل 28 مارچ 1946ء)
1: آل عمران: 104
2: آل عمران: 105
3: البقرة: 287
4:سیرت ابن ہشام جلد4صفحہ 144تا158مطبوعہ مصر1936ء و تاریخ ابن اثیر جلد2
صفحہ 274تا276مطبوعہ بیروت 1965ء

9
سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لئے منتخب کیا ہے۔ محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہئے
( فرمودہ 22 مارچ 1946ءبمقام محمد آباد سندھ )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جو کام اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپرد کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے ان کا مہیا کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی قربانی کرتی ہے۔ اتنی بڑی قربانی کہ اس کی مثال دنیا کی کسی جماعت میں نہیں پائی جاتی۔ ہندوستان میں ہماری تعداد پانچ چھ لاکھ ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے یعنی ہم فی دو سو دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہیں۔ لیکن جتنی قربانی ہماری جماعت کرتی ہے اس کا سواں حصہ بھی دوسرے مسلمان نہیں کرتے۔ ہماری صدر انجمن کا سالانہ چندہ آٹھ لاکھ ہے اور تین لاکھ تحریک جدید کا چندہ ہے۔ اس کےعلاوہ دوسرے چندے جیسے کالج، سکول اور مساجد وغیرہ کے بھی لاکھ ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ۔ یہ ساڑھے بارہ لاکھ ہو گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے چندے ایسے ہیں جو مرکز میں بھیجے نہیں جاتے بلکہ مقامی طور پر خرچ کر لئے جاتے ہیں۔ مثلاً افریقہ کے ایک علاقہ کا چندہ گزشتہ سال تیس ہزار سے زائد تھا۔ وہ چندہ مرکز میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ وہیں کے سکولوں، مدارس اور تبلیغی کاموں میں خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعتیں بڑے بڑے شہروں میں مساجد بنواتی ہیں تو اس کا خرچ بھی وہ خود برداشت کرتی ہیں مثلاً کلکتہ کی جماعت نے اسّی ہزار روپیہ مسجد کے لئے جمع کیا ہے۔ اگر ان چندوں کو بھی ملا لیا جائے تو پندرہ لاکھ سے اوپر ہماری جماعت کے سالانہ چندے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے مقابلے میں دوسرے مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہےاگر وہ بھی اسی طرح قربانی کریں جس طرح ہماری جماعت قربانی کرتی ہے تو وہ کئی ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں۔ غیر احمدیوں میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اگر وہ ہمت کریں تو وہ ایک ایک آدمی اپنی دولت کی زیادتی کی وجہ سے ہماری جماعت سے زیادہ چندہ دے سکتا ہے۔ لیکن اگر اس بات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بہرحال چونکہ وہ ہم سے دو سو گُنے زیادہ ہیںاس لئے ان کا چندہ بھی ہم سے دو سو گُنا ہونا چاہئے۔ جس کے معنے یہ ہوئے کہ ان کی آمد تیس کروڑ روپیہ سالانہ ہونی چاہئے لیکن ہندوستان میں پچھلے پچاس سال میں کسی ایک سال میں بھی ایک کروڑ مسلمانوں نے جمع نہیں کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ اخلاص نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو عطا کیا ہے۔ اگر ان کے اندر بھی وہی اخلاص پیدا ہو جائے تو ان کا چندہ یقیناً گورنمنٹ آف انڈیا کے بجٹ سے بڑھ جائے۔ گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ایک ارب روپیہ سالانہ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے اور اگر پانچ روپے سالانہ چندہ فی آدمی رکھ لیا جائے تو پچاس کروڑ روپیہ بن جاتا ہے لیکن چونکہ ان میں کئی آدمی بڑے بڑے مالدار بھی ہیں اس لئے بغیر تکلیف کے ایک ارب روپیہ سالانہ جمع کر سکتے ہیں اور ایک ارب روپیہ سالانہ گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ہے۔ گورنمنٹ ٹیکسوں کے ذریعہ حکومت کے دباؤ سے یہ روپیہ وصول کرتی ہے لیکن ہمارے سب چندے طوعی ہوتے ہیں۔ نہ ہمیں جبر کرنے کی طاقت ہے نہ ہم نے جبر کرنا ہے۔ روپیہ دو ہی طرح جمع ہو سکتا ہے یا تو حکومت کے دباؤ سے یا پھر لوگوں کا ایمان اتنا اعلیٰ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر چیز قربان کرنا اپنی سعادت سمجھیں۔ پس احمدیوں کا دوسروں کے چندوں سے بڑھ جانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے حلاوتِ ایمان بخشتی ہے۔ ہمارا ایک احمدی جو بھوکوں مر رہا ہو وہ اپنے ایمان کی وجہ سے بیوی، بچوں کا پیٹ کاٹ کر روپیہ دو روپیہ ماہوار چندہ دے دیتا ہے۔ لیکن ایک غیر احمدی کے لئے جو مالی لحاظ سے بہت اچھا ہو روپیہ دو روپیہ ماہوار دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی شخص قومی کام کے لئے ایک سو روپیہ دے دے تو اخباروں میں شور مچ جاتا ہے کہ فلاں رئیس نے ایک سو روپیہ قومی کام کے لئے دیا ہے حالانکہ جو شخص ایک سَو مربعے کا مالک ہے اس کے لئے ایک سَو روپیہ دینا کونسی قربانی ہے۔ ہمارے ہاں ایک غریب آدمی بھی کئی سو روپیہ چندہ دے دیتا ہے جو اس کی حیثیت سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے لیکن اس کا نام کسی اخبار میں نہیں چھپتا۔ اور اگر وہ دے کر اس روپیہ کا دوبارہ نام بھی لے تو ساری جماعت بُرا مناتی ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کو دیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا۔ لیکن باوجود اتنی قربانیوں کے ہمارے ذمہ جو کام ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے مقابل میں ہمارے سامان بہت تھوڑے ہیں اور وہ کام صرف اس روپے سے نہیں چل سکتا۔
اس سال تحریک جدید کےد فتر دوم میں ستّر ہزار کے وعدے آئے ہیں اور دفتر اول میں دو لاکھ پنتالیس ہزار کے وعدے آئے ہیں۔ اور دونوں دفتروں کے وعدے تین لاکھ پندرہ ہزار بنتے ہیں اور ابھی ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدے باقی ہیں۔ اگر وہ شامل کر لئے جائیں تو یہ پونے چار لاکھ کے وعدے ہو جائیں گے ۔لیکن کیا تحریک جدید اس روپے سے تمام غیر ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ہمیں اس وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے جن کو ہم غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مقرر کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ہم ان ممالک کے اخراجات اس چندے سے پورے کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ غیر ممالک کے اخراجات ہمارے ملک کی نسبت پانچ چھ گنے ہیں۔ ہمارے مبلغ یہاں ایک سو روپیہ میں گزارہ کر لیتے ہیں لیکن چین اور دوسرے ممالک میں ایک مبلغ کا پانچ سو میں بھی گزارہ ہونا مشکل ہے۔ یہی حال ایران کا ہے۔ وہاں بھی چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ یہاں روپے کی دو سیر کھانڈ بِکتی ہے لیکن وہاں دس روپے سیر کھانڈ ملتی ہے۔ یہاں ہمارا مبلغ دال روٹی کھا کر پچاس روپے میں بھی گزارہ کر لیتا ہے لیکن وہاں دال روٹی کھا کر بھی پانچ سو میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ ہم نے ان ممالک میں تبلیغ کرنی ہے اس لئے وہاں کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوں گے۔ اگر ہم ایک ہزار مبلغ فِی الْحال رکھیں تو ہمیں پانچ لاکھ روپیہ ماہوار یا ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ دفتر اول کے ابھی آٹھ سال باقی ہیں اور دفتر اول کا چندہ دفتر دوم سے بہت زیادہ آ رہا ہے۔ جب یہ آٹھ سال ختم ہوں گے تو سارا بوجھ دفتر دوم پر ہو گا مگروہ ابھی بہت کم ہے، اتنا کم کہ سب ضرورت کا چھٹا حصہ بھی اس سے پورا نہیں ہو سکتا حالانکہ ہماری یہ سکیم ہے کہ دفتر اول کے بعد دفتر دوم آئندہ ان تمام اخراجات کا متحمل ہو۔ تحریک جدید کے روپیہ سے جو زمین خریدی گئی ہے اس سے ابھی کوئی خاص آمد نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک زمین کی درستی اور زمینوں کے پچھلے قرضہ کے ادا کرنے میں مشغول ہیں اور ابھی ایک دو سال تک یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اس کے بعد ہمیں اِنْشَاءَ اللہ معقول آمدنی ان زمینوں سے شروع ہو جائے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے کارکن اخلاص اور رغبت سے کام کریں اور پوری احتیاط سے فصلوں کے بونے اور کاٹنے کا خیال رکھیں۔ مگر یہ رقم جیسا کہ مَیں بار بار بتا چکا ہوں ابھی ایک مضبوط ریزرو فنڈ بنانے میں جمع ہو گی۔ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا پانچ کروڑ کا ریزرو فنڈ بیرونی مشنوں کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے۔ جس کے لئے مَیں تیاری میں لگا ہؤا ہوں۔ غرض ان زمینوں کی آمد سے ہمیں بیرونی مشنوں کے قائم رکھنے میں بہت مدد ملے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تمام دنیا کی طرف آئے ہیں اور ہم نے ساری دنیا کو آپ کا پیغام پہنچانا ہے اور ہمیں ساری دنیا میں اس آواز کو بلند کرنے کے لئے کم از کم بیس ہزار مبلغ چاہئیں۔ اور بیس ہزار مبلغ کے لئے کم از کم پچاس کروڑ روپے کی سالانہ ضرورت ہے۔ کیونکہ جب ہم بیس ہزار مبلغ باہر تبلیغ کے لئے روانہ کریں گے تو ہمیں ان کو واپس بلانے کے لئے بھی بیس ہزار مبلغ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مبلغ کو متواتر کئی سال تک اس کےر شتہ داروں اور اس کے بیوی بچوں سے جُدا رکھنا بہت تکلیف دِہ امر ہے۔ اس لئے ہمیں یہ بھی انتظام کرنا ہو گاکہ پہلے مبلغ تین سال کے بعد واپس آ جائیں اور ان کی جگہ اور نئے مبلغ چلے جائیں۔ پس بیس ہزار مبلغین کا مختلف علاقوں میں پھیلانا ایک ایسا کام ہے جو صرف چندے کی رقوم سے نہیں ہو سکتا۔ اگر ہماری جماعت بہت زیادہ قربانی کرے اور چندہ کے فراہم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے تو پھر بھی وہ رقم بیس تیس لاکھ سے زیادہ نہ ہو گی۔ لیکن جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں کروڑوں کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے ۔
اگر ہماری جماعت تجارت کی طرف متوجہ ہو جائے اور تجارت کے ایک حصہ پر ہماری جماعت قابض ہو جائے تو اس کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے اور غیر ممالک میں تبلیغ کا کام جو اسے مشکل نظر آتا ہے وہ بھی بہت آسان ہو جائے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ دوسری اقوام کے لوگ تجارت سے کمایا ہؤا روپیہ اپنی عیاشیوں ، کنچنیوں کے ناچ گانے میں خرچ کر رہے ہیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں روپیہ ان کی جیبوں سے ان کاموں کے لئے نکل آتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ان کی جیبیں خالی ہیں اور ان سے ایک پیسہ بھی نہیں نکل سکتا۔ پس ضروری ہے کہ کچھ روپیہ تجارت سے بھی آئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس میدان پر صرف شیطان کا قبضہ ہو۔ ہم نے تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کے لئے قادیان میں بعض کارخانے بھی جاری کئے ہیں اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی کھولی ہے۔
تاجروں کے بعد زمینداروں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مال کا اکثر حصہ بھی عیاشیوں میں خرچ ہوتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کچھ بوجھ خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لئے زمینداروں پر بھی پڑے مَیں نے تحریک جدید کے لئے یہاں زمینیں خریدی تھیں۔ ان کی قیمت اس وقت تک قریباً پندرہ لاکھ روپیہ ادا کی جا چکی ہے۔ اگر ہم یہی روپیہ مختلف تجارتوں پر لگاتے اور اگر ہمیں پندرہ فیصدی نفع ہوتا تو بھی ہمیں سَوا دو لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی لیکن ہمیں ابھی تک صرف ایک لاکھ کی سالانہ آمد ہو رہی ہے۔ اس کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کارکن سُستی اور غفلت سے کام کرتے ہیں اور اپنےفرائض پوری تن دہی سے سر انجام نہیں دیتے۔ اس دفعہ محمد آباد میں یہ پہلا سال ہے کہ مجھے محمد آباد کے کارکنوں کے کام سے خوشی ہوئی ہے اور مجھے ان کے کام میں ترقی نظر آئی ہے۔ اس سال محمد آباد کے کارکنوں نے پچیس فیصدی اپنے کام میں ترقی کی ہے لیکن جہاں ہم ان لوگوں سے سو فی صدی ترقی کی امید رکھتے ہیں۔ وہاں پچیس فیصدی ترقی ہمارے دل کو تسلی نہیں دے سکتی۔ ہاں اس ترقی پر اظہارِ خوشنودی بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بھی کہ اس نے ہمارا قدم درستی کی طرف اٹھایا۔
پنجاب کی زمین سندھ کی زمین کے مقابلہ میں بے انتہا آمدنی پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ سندھی لوگوں کی نسبت زیادہ محنتی ہیں۔ ایک دوست جو کہ زراعت کے محکمہ میں افسر ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لائلپورمیں دو مربعے ہیں او رانہوں نے دونوں 6400 روپے سالانہ ٹھیکہ پر دئیے ہوئے ہیں۔ یعنی انہیں فی مربع 3200 روپیہ ملتا ہے۔ اگر ہمیں بھی 3200 روپیہ فی مربع آمد ہو تو تحریک جدید کے 400 مربعوں سے ہمیں بارہ تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جائے۔ لیکن ہمیں ابھی تک ایک لاکھ روپیہ کی آمد ان زمینوں سے ہوتی ہے ۔ یہ ایام قیمتوں کی زیادتی کے ہیں۔ اگر قیمتیں گر جائیں اور پیداوار کی یہی حالت رہے تو پھر تو پچاس ساٹھ ہزار کی آمد کا اندازہ رہ جاتا ہے لیکن تحریک کے واقفین اور دوسرے کارکن عقل اور قربانی اور محنت سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب کے برابر آمد یہاں سے پیدا نہ کر سکیں۔ بہرحال اس سال مَیں کارکنوں کے کام پر خوش ہوں اور ان کے اچھے کام کی تعریف کرتا ہوں۔ پہلے تمام سالوں سے اس سال فصلیں اچھی ہیں اور آئندہ فصلوں کی تیاری بھی اچھی ہے۔ اب ایک بات کی نگرانی باقی ہے کہ جس طرح انہوں نے پہلے محنت اور کوشش سے کام کیا ہے اسی طرح اب فصلوں کے کاٹنے میں بھی حفاظت سے کام لیں اور پوری پوری نگرانی کریں کہ فصل کا کوئی حصہ بھی ضائع نہ ہو۔ اگر کارکنوں نے پوری طرح نگرانی کی تو مجھے امید ہے محمد آباد کی فصل تمام اسٹیٹوں سے بڑھ جائے گی۔ اور اگر ان اسٹیٹوں کی فصل بھی اس کے برابر ہو گئی یا اس سے بڑھ گئی تو مَیں سمجھوں گا کہ محمد آباد کے کارکنوں نے فصل کی پوری طرح حفاظت نہیں کی۔
اگر آج ہم زراعت کی طرف متوجہ ہیں تو محض اس لئے کہ ان جائیدادوں کے ذریعہ قرآن کریم اور حدیث اور اسلام کی تائید کے لئے کتابیں پھیلا سکیں۔ اگر ہم تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو محض اس لئے کہ ہماری اتنی آمد ہو جائے کہ اس سے ہم اسلام اور احمدیت کی تمام دنیا میں اشاعت کر سکیں۔ پس ہمارا زراعت اور تجارت کی طرف متوجہ ہونا دنیوی معاملہ نہیں بلکہ دینی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ ہم ہندوستان میں دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں دو سو کے مقابلہ میں ایک ہیں اور دنیا کی آبادی دو ارب ہے اس لئے ہم دنیا کے مقابلے میں چار ہزار کے مقابلہ میں ایک ہوئے اور چونکہ ہماری اس تعداد میں سب عورتیں اور بچے وغیرہ شامل ہیں۔ اور اگر ہر گھر کے پانچ فرد سمجھے جائیں اور ان میں سے صرف ایک مرد بالغ عاقل سمجھا جائے تو بیس ہزار کے مقابلہ میں ہم ایک ہوئے۔ اور چونکہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی عقل تیز نہیں ہوتی یا تبلیغ کرنے میں سُست ہوتے ہیں یا جاہل ہوتے ہیں تبلیغ کر نہیں سکتے۔ تو اس لحاظ سے ہم دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک ہوئے۔ اب دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک آدمی کیا کر سکتا ہے۔ پس ضرورت ہے اس امر کی ہے کہ جماعت کی تعداد کو جلدی جلدی بڑھایا جائے۔ جب تک تعداد زیادہ نہیں ہوتی تبلیغ کا عام ہونا بہت مشکل ہے۔ اس دفعہ تبلیغ میں بھی محمد آباد سب سے بڑھ گیا ہے۔ سندھیوں میں سب سے زیادہ محمد آباد کے لوگوں نے تبلیغ کی ہے اور تیرہ چودہ آدمی بیعت بھی کر چکے ہیں اور سُرعت کے ساتھ ترقی کی طرف قدم اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ اس دفعہ محمد آباد باقی اسٹیٹوں سے دو لحاظ سے اول نمبر پر رہا ہے۔ اول فصلوں کے لحاظ سے۔ جیسی فصل اس دفعہ محمدآباد میں ہے ایسی فصل ہماری کسی اَور اسٹیٹ میں نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ محمد آباد ایک دنیوی کام میں سب سے بڑھ گیا ہے بلکہ ہم اس کامیابی کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ محمد آباد نے خدا کے نام کی جائیداد کو باقی اسٹیٹوں سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے کام آنے والی جائیداد کی آمدنی میں ایک پیسہ کی بھی زیادتی کرتا ہے گویا وہ ایک پیسہ اپنی آمدنی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی فصل کو زیادہ کرتا ہے تو جو آمدن اس زائد فصل سے ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں اسی کے نام لکھی جاتی ہے۔ گویا اس نے اپنے پاس سے خدا کی راہ میں خرچ کی۔ پس اس اسٹیٹ کے لوگوں کا فصل کو بڑھانا دنیوی لحاظ سے بھی گو فائدہ مند ہے لیکن دینی لحاظ سے بھی کارکنوں کےلئے ثواب کا موجب ہے اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو ہمت دے اور ان کی محنت میں برکت دے۔ دوسرے تبلیغی لحاظ سے محمد آباد اول نمبر پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ان کے ذریعہ دین کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کی خوشبو دور دور تک پھیلے۔ ہمارے لئے تبلیغی لحاظ سے سندھ بہت اعلیٰ جگہ ہے۔ سندھ وہ ملک ہے جہاں اسلام ہندوستان میں سب سے پہلے آیا۔ جہاں مقامی روایات کے مطابق رسول کریم ﷺ کے بعض صحابہ تشریف لائے او رجہاں آپ کے صحابہؓ فوت ہوئے۔ ناصر آباد کے پاس ایک گاؤں ہے جس کا نام دیہہ صحابو 1ہے یعنی صحابی کا گاؤں۔ وہاں ایک صحابیؓ کی قبر بھی ہے اور عین میری زمین میں ہے۔ اسی طرح بمبئی کے پاس ایک جگہ تھانہ ہے وہاں بھی صحابہؓ کی قبریں بیان کی جاتی ہیں۔
اہلِ عرب میں تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا رستہ سندھ ہے۔ ہم پنجاب سے عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم بنگال سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم یو۔ پی سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ہم افغانستان سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں تو سندھ کے رستے سے ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ہندوستان کی تمام تجارت عرب سے سندھ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عرب کی کھجوریں، چٹائیاں، رسیاں اور اسی قسم کی دوسری چیزیں کراچی آ کر اُترتی ہیں۔ کراچی سے غلہ، کھانڈ اور باقی اشیاءِ تجارت عرب کو جاتی ہیں۔ یہ تجارت زیادہ تر کشتیوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عربوں کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے جہالت کےز مانہ میں آ کر ہم کو ظلمت سے نکالا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملایا، رسول کریم ﷺ سے روشناس کرایا۔ یہ ان کی اتنی بڑی نیکی ہے کہ جس کا کسی طرح بدلہ نہیں دیا جا سکتا۔ اور اب جبکہ عرب خدا تعالیٰ سے دور جا چکے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ملائیں۔ اور عربوں کو تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ یہی ہے کہ ہم سندھیوں کو احمدی بنائیں۔ اگر سندھی لوگ کثرت سے احمدی ہو جائیں تو ہماری آواز بہت ہی آسانی کے ساتھ عربی ممالک میں پہنچ سکتی ہے کیونکہ عرب کا اور سندھ کا سمندر ملا ہوا ہے۔ عرب سے سندھ کو اور سندھ سے عرب کو کثرت سے کشتیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر کشتیاں چلانے والے یا کشتیوں کے مالک احمدی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی ممالک میں احمدیت کی آواز نہ پہنچے۔ اگر ہم کشتیوں کی تجارت پر قابض ہو جائیں تو ہم بہت مؤثرپیرائے میں عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں خواہ عربی ممالک میں ہمارے مبلغوں کو داخلہ کی اجازت نہ بھی ہو۔ کیونکہ دوسرے رستوں سے تو ہمارے مبلغوں کو حکومت روک سکتی ہے لیکن تُجّار کے رنگ میں کام کرنے والوں کو حکومت کس طرح روک سکتی ہے۔ اگر حکومت ان کشتیوں کی آمد و رفت روک دے تو اسے وہ چیزیں نہ مل سکیں گی جو ان کو ہندوستان سے پہنچتی ہیں اور حکومت مجبور ہو گی کہ ان کشتیوں کو اپنے ساحل پر آنے دے۔
پس یہ عربی ممالک میں تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کشتیوں کی تجارت میں احمدیوں کا ہاتھ ہو۔ ہماری جماعت کو اس علاقہ کی اہمیت کو جاننا چاہئے۔ صرف یہی نہیں کہ سندھ عرب کا دروازہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کو سندھ میں جائیدادیں عطا کی ہیں اور یہ بات بھی بلاوجہ نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو ہندوستان میں بلا وجہ نہیں بھیجا اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سندھ میں ہمیں جائیدادیں عطا کرنا بلاوجہ نہیں۔ کیوں نہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب میں یا یو۔پی میں ہمارے لئے زمین خریدنے کے سامان کر دئیے۔ پنجاب میں بھی زمینیں بِکتی ہیں اور یو۔پی میں بھی اچھی اچھی زمینیں مل سکتی تھیں۔ پھر یہاں سندھ میں لانے کی کوئی وجہ تو ضرور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ زمینیں ایک خواب کی بناء پر خریدی گئی ہیں۔ جب مَیں نے وہ خواب دیکھا تھا اس وقت ابھی سکھر بیراج نہیں بنا تھا اور نہ اس قسم کی کوئی خاص سکیم تھی۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک نہر کے کنارے ایک بند پر کھڑا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس علاقے میں طغیانی آ گئی ہے اور گاؤں کے گاؤں غرق ہونے شروع ہو گئے ہیں اور مَیں حیرت کے ساتھ یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے کسی نے مجھے آواز دی کہ پیچھے کی طرف سے پانی بہت قریب آ گیا ہے۔ مَیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھا کہ تمام قصبے اور گاؤں زیرِ آب ہو رہے ہیں او رپانی بہت قریب آ گیا ہے۔ جس کنارے پر مَیں کھڑا ہوں۔ وہاں کچھ اَور اشخاص بھی میرے ساتھ کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں پانی اَور بھی زیادہ قریب آ گیا ہے اور اس نے وہ کنارا بھی اُکھاڑ پھینکا جس پر مَیں کھڑا تھا اور مَیں نہر میں تیرنے لگ گیا ہوں۔ یہ نہر دُور تک چلی جاتی ہے اور اب ایک دریا کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مَیں کوشش کرتا ہوں کہ کسی جگہ میرے پَیر لگ جائیں۔ آخر مَیں تیرتا تیرتا فیروز پور کے آگے نکل گیا اور بار بار کوشش کے باوجود میرے پاؤں کہیں نہیں لگے۔ اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ نہر ،ستلج سے جا ملی ہے اور اب یہ دریا سندھ دریا میں ملنے کے لئے جا رہا ہے تب میں بہت گھبرایا اور مَیں نے دعا شروع کی کہ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پَیر لگ جائیں۔ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پَیر لگ جائیں۔ اس دعا کے بعدمَیں دیکھتا ہوں کہ یکدم ایک اونچی جگہ پر میرے پیر لگ گئے ہیں۔
جب سندھ کا علاقہ آباد ہونا شروع ہؤا تو یہ خواب مجھے یاد آ گئی اور اس خواب کی بناء پر مَیں نے یہاں زمینیں خرید لیں۔ جس وقت مَیں نے یہ خواب دیکھی تھی اُس وقت سندھ کے آباد ہونے کے کوئی آثار نہ تھے اور جتنے بڑے بڑے انجینئر تھے وہ سب سکھر سے نہریں نکالنے کے خلاف تھے۔ آخر لارڈ لائڈ 2نے جو کہ بمبئی کا گورنر تھا چند انجینئروں کو اپنے ساتھ متفق کیا اور سکھر بیراج کی سکیم منظور کروا لی اور اسی کے نام سے اس بیراج کا نام لائڈ بیراج ہے۔ غرض یہ جائیداد ایک معجزہ اور ایک نشان ہے۔ اس کا ہر ایکڑ خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس جگہ جائیداد کا پیدا ہونا ایک الٰہی سکیم کے مطابق ہے۔ اور ہمیں چاہئے کہ اس جائیداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ پس اگر کسی دوست کو معلوم ہو کہ کسی جگہ اس علاقہ میں اَور زمین ملتی ہے تو اسے ہمیں اطلاع دینی چاہئے۔ اس وقت ہماری زمینیں ضلع میر پور خاص اور ضلع حیدر آباد میں ہی ہیں لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ہماری زمینیں پھیل جائیں کیونکہ جہاں ہماری زمینیں ہوں گی وہاں ہمارے کارکن بھی رہیں گے اور ان کے ذریعہ سندھیوں میں احمدیت پھیلے گی۔ پس دوستوں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ جہاں کہیں کسی جائیداد کا پتہ لگے کہ وہ سلسلہ کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی ہے فوراً مجھے یا تحریک جدید کو اطلاع دیں۔
اس کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی یادگار کو تازہ رکھنے کے لئے مَیں نے سلسلہ کی جائیداد کے مختلف گاؤں کے نام بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے۔ رسول کریم ﷺ چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے آپ کے نام پر اس گاؤں کا نام جو تحریک کی جائیداد کا مرکز ہے محمد آباد رکھا گیا ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کے مرکز کا نام احمد آباد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔ محمد آباد آٹھ ہزار ایکڑ کا رقبہ ہے۔ اس لحاظ سے میرا خیال ہے اس میں چھ سات گاؤں اَور آباد ہو سکتےہیں۔ اگر بارہ سَو ایکڑ کا ایک گاؤں بنایا جائے تو سات گاؤں اس رقبہ میں آباد ہو سکتے ہیں۔ اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہو چکی ہیں ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اول کے نام پر نور نگر ہے۔ اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی جو سٹیشن کے پاس ہے اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے۔ اور مغربی طرف کی دو آبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد میں، اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحب کی یادگار میں رکھا گیا ہے۔ پہلے مَیں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کر دیا تاکہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو۔ جس طرح رسول کریم ﷺ سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اور اس کے اِردگرد باقی گاؤں بطور ستاروں کے ہوں۔ میرا ارادہ بعض اَور نام بھی رکھنے کا ہے۔ مثلاً برہان نگر مولوی برہان الدین صاحب کے نام پر اور اسحاق نگر میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے نام پر۔ اسی طرح ایک دو گاؤں احمد آباد کی زمین میں بھی آباد ہو سکتے ہیں ان کے ساتھ بھی نگر لگایا جائے گا۔ اور جو گاؤں احمد آباد میں آباد ہوں گے ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کے نام پر رکھے جائیں گے۔ ان گاؤں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں گے کیونکہ ایک وہ دن تھا کہ قادیان میں اگر تین چار سَو روپیہ چندہ آ جاتا تھا۔ تو بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی۔ اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کو لاکھوں لاکھ کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گاؤں آباد ہو رہے ہیں۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ایک گاؤں کا نام تحریک نگر رکھا جائے جو تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی یادگار ہو۔ پس اگر کسی دوست کو اضلاع حیدر آباد، نواب شاہ، سکھر، دادو، کراچی یا میر پور خاص میں کسی اچھی زمین کا علم ہو تو وہ ہمیں فوراً اطلاع دے۔ خواہ وہ قیمتاً ملتی ہو یا مقاطعہ3 پر ملتی ہو۔ اگر ہمارے قریب ہو تو تھوڑی زمین بھی خریدی جا سکتی ہے لیکن اگر دُو رہو تو پندرہ سو یا دو ہزار ایکڑ سے کم نہ ہو کیونکہ اس سے تھوڑی زمین کا انتظام بہت مہنگا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہماری اسٹیٹوں کے قریب تھوڑی زمین بھی ہو تو وہ خریدی جا سکتی ہے اور پھر تبادلوں کے ذریعہ اسے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔
زمین کےعلاوہ میرا ارادہ ہے کہ حیدر آباد اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں کارخانے جاری کئے جائیں۔ تحقیقات کے لئے کہ کہاں کہاں کارخانے مفید ہوں گے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کارکن کو مقرر کیا ہے۔ اب واپس جا کر اس کی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ ہو سکے گا کہ کس کس جگہ کس کس قسم کے کارخانے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لئے انتخاب کیا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی قدر کرنی چاہئے اور محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہئے۔ پس مَیں تمام کارکنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور انہیں کَمَاحَقُّہٗ ادا کریں اور سستی اور غفلت سے سلسلہ کی جائیداد کو کسی رنگ میں نقصان کی طرف نہ لے جائیں۔ اسلام کو دوبارہ تمام ادیان پر غالب کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جو داغ بیل ڈالی ہےاس میں وہ ممد ہوں اور روک نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اسلام سے باغی قومیں ہمارے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کی بنیاد ایسی مضبوط اور شاندار طور پر قائم ہو کہ غیر مسلموں کی فوقیت کُلّی طور پر مٹ جائے۔ اور وہ ایسے نظر آئیں جیسے سورج کے مقابلہ میں ایک جگنو ہوتا ہے۔’’
(الفضل 2 اپریل 1946ء)
1:دیہہ صحابو: ناصر آباد ضلع عمر کوٹ سے تقریبًا آدھا کلومیٹر دور ایک گاؤں۔
2: لارڈ لائڈ(The Lord LLOYD) (1941-1879)
اس کا پورا نام جارج ایمبروز لائیڈ تھا ۔دسمبر1918ءمیں اسے بمبئی کے گورنر کے طور پر
مقرر کیا گیا۔(Wikepedia, the free Encylopedia “The Lord LLOYD”)
3: مقاطعہ: اِجارہ۔ ٹھیکہ

10
یاد رکھو جھوٹ ایک کیڑا ہے جو قوم کے برگ و بار کو کھا جاتا اور اسے بڑھنے نہیں دیتا
( فرمودہ 29 مارچ 1946 ء بمقام ناصر آباد سندھ)
تشہد، تعوّذ او رسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘کل انشاء اللہ پانچ بجے کی گاڑی سے جانے کا ارادہ ہےاِس لحاظ سے یہ جمعہ اِس دَورے کا آخری جمعہ ہے۔ مَیں نے گزشتہ خطبات میں جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج مَیں اختصار کے ساتھ ایک تربیتی امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ انسانی تربیت کے لئے جس حد تک اخلاق کا تعلق ہے ان میں سے سچ تبلیغ کے لئے سب سے بڑا حربہ ہے۔ اگر ہماری جماعت سچ پر کاربند ہو جائے تو ہماری تبلیغ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے ۔ اس زمانہ میں جھوٹ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ سچی بات کا تلاش کرنا محال ہو گیا ہے۔ مجالس میں عَلَی الْاِعْلَان جھوٹ بولا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص وہاں سچ بول دے تو ساری مجلس کی فضا بدل جاتی ہے۔ عدالتوں میں لوگ اپنی دوستی اور لالچ کی خاطر خوب جھوٹ بولتے ہیں اور ایسے طور پر بنا بنا کر جھوٹ بولتے ہیں کہ جج کو ان کے جھوٹ کا علم نہ ہو سکے اور جب عدالت سے باہر نکلتے ہیں تو اپنی چالاکی اور ہوشیاری دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جج کو یوں دھوکا دیا، ہم نے اس طرح بات کو بدلا کر بیان کیا۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسے اچھے جھوٹے ہیں کہ ہمارے جھوٹ کا جج کو بھی پتہ نہیں لگ سکتا۔ جج عَالِمُ الْغَیْب تو ہوتا نہیں کہ اس کو گواہوں کے سچے یا جھوٹے ہونے کا علم ہو جائے اس نے تو گواہوں کی شہادتوں کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق واقعہ آتا ہے کہ انہیں اسلامی حکومت کی طرف سے ساری مملکت کا قاضی القضاة مقرر کیا گیا۔ یہ اتنا بڑا عہدہ ہے کہ بعض باتوں میں بادشاہ کو بھی اس کے حکم کے ماتحت چلنا پڑتا ہے کیونکہ دین کے معاملہ میں جو حکم قاضی القضاة کی طرف سے جاری کیا جائے بادشاہ پر بھی اس کی فرمانبرداری لازمی ہوتی ہے۔ اور اگر کسی شخص کو بادشاہ کے خلاف کوئی شکایت ہو تو وہ قاضی القضاة کے پاس اس کی شکایت کر سکتا ہے اور بادشاہ کو اس کی جواب دہی کے لئے قاضی القضاة کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ چونکہ اب بے دینی عام ہو گئی ہے اس لئے اب لوگوں کو اپنے عہدوں کی ذمہ داریوں کا احساس پورے طور پر نہیں رہا ۔اور اگر کسی شخص کو کوئی دنیوی عہدہ ملے تو وہ خوشی کے مارے پُھولا نہیں سماتا اور وہ ذمہ داریاں جو اس پر اس عہدہ کی وجہ سے عائد ہوتی ہیں وہ اس کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں۔ اور اگر اسے وہ عہدہ نہ ملے تو تأسف اور رنج اس کی طبیعت کو ایک عرصہ تک پریشان کئے رکھتا ہے۔ جب اس بزرگ کو قاضی القضاة کا عہدہ دیا گیا تو ان کے دوست انہیں اس بات کا احساس کرانے کے لئے کہ ہم بھی آپ کی خوشی میں شامل ہیں ان کے گھر پر مبارک دینے کے لئے آئے۔ جب وہ ان کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بچوں کی طرح زار و قطار رو رہے ہیں۔ ان کے دوستوں نے انہیں اس طرح روتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آپ اس طرح چیخیں مار رہے ہیں؟ اور ساتھ ہی کہا۔ ہم نے تو کوئی ایسا المناک واقعہ نہیں سنا۔ ہم تو آپ کے قاضی القضاة ہونے کی خبر سن کر آپ کو مبارک دینے کے لئے آئے ہیں۔ اپنے دوستوں کی یہ بات سن کر انہوں نے پھر زور زور سے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے یہ مبارک دینے کا موقع ہے یا افسوس کرنے کا۔ جس کو آپ لوگ خوشی کا موقع سمجھتے ہیں اسی لئے تو مَیں رو رہا ہوں۔ یہ رونے کی بات نہیں تو اَور کیا ہے۔ مَیں عدالت میں بیٹھا ہوں گا۔ ایک شخص مدعی ہونے کی حیثیت سے میرے سامنے آئے گا اور کہے گا کہ ایک سال ہؤا مجھ سے فلاں شخص نے اتنا روپیہ قرض لیا تھا اور اب واپس نہیں دیتا۔ او رجو شخص مدعا علیہ ہونے کی حیثیت سے میرے سامنے آئے گا وہ کہے گا کہ مَیں نے تو روپیہ لیا ہی نہیں یا کہہ دے گا کہ لیا تو تھا لیکن واپس کر چکا ہوں۔ اب مدعی کو بھی علم ہے کہ سچ کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی علم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن مجھ ایک تیسرے شخص کو اس بات کے لئے مقرر کیا گیا ہے کہ معلوم کروں کہ سچ کیا ہے حالانکہ مجھے معلوم نہیں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ کہہ رہا ہے۔ روزانہ ایک اندھا عدالت کی کرسی پر اس لئے بیٹھے گا کہ وہ دو سجاکھوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ مَیں روتا اس لئے ہوں کہ جو مجھ سے غلط فیصلے ہوں گے ان کے متعلق قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور کیا جواب دوں گا۔
ہمارے زمانہ میں تو عدالتوں میں سچ بالکل ہی مفقود ہو چکا ہے۔ مدعی اور مدعا علیہ دونوں خوب دل کھول کر جھوٹ بولتے ہیں اور بعض لوگ تو بغیر کسی خطرہ کے اور بغیر کسی وجہ کے بے تحاشا جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں اور جھوٹ بولنا ان کی عادت ثانیہ ہو چکا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ہماری جماعت بھی ابھی سچائی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑی نہیں ہوئی جس پر اسے کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ اور ابھی ہمارے تمام افراد میں سو فیصدی سچ بولنے کی عادت پیدا نہیں ہوئی۔ کل ہی ہماری اسٹیٹوں کے مینجروں کا اجلاس ہؤاجس میں اسٹیٹوں کی ترقی کے لئے تجاویز سوچنا مدنظر تھا۔ کچھ عرصہ ہؤا محکمہ زراعت نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر ایک ایکڑ کے آٹھ حصے کر دئیے جائیں اور اسے علیحدہ علیحدہ طور پر پانی لگایا جائے تو بہت کم پانی خرچ ہوتا ہے اور اس طرح زیادہ زمین کاشت کی جا سکتی ہے۔ مَیں نے اس تجویز پر عمل کرنے کی مینجروں کو ہدایت کی تھی کہ پہلے سال ایکڑ کے دو حصے کر لو۔ پھر اگلے سال تک کم سے کم چار حصے کر لینا۔ کل مَیں نے پوچھا کہ اس تجویز پر کہاں تک عمل ہو چکا ہے؟ تو مجھے جواب دیا گیا کہ اس سال سو فیصدی اس پر عمل ہو چکا ہے۔ مَیں نے کہا جب اس پر سو فیصدی عمل ہو چکا ہےتو پھر کیا بات ہے کہ پانی نہیں بچا اور کاشت میں بھی اضافہ نہیں ہؤا اور پیداوار پہلے کی نسبت کم ہے؟ پہلے تم اسی پانی سے ایک ہزار ایکڑ کاشت کرتے تھے۔ پھر تم نے کہا کہ اگر تھوڑا سا رقبہ کم کر دیا جائے تو پیدوار بڑھ جائے گی اور تم نے ہزار کی بجائے نو سو ایکڑ زمین کاشت کی اور اب ہوتے ہوتے چھ سات سو ایکڑ رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود پیداوار نہیں بڑھی اس کا سبب کیا ہے؟ یا تو محکمہ زراعت والے جھوٹ کہتے ہیں یا پھر آپ لوگوں نے اس تجویز پر پورے طور پر عمل نہیں کیا۔ محکمہ زراعت والے جو دلیل دیتے ہیں وہ معقول ہے اور ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک ایکڑ کو ایک ہی طرف سے پانی دیا جائے تو پانی زیادہ خرچ ہو گا۔ بہ نسبت اس کے کہ اس کے چار حصے کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ رستوں سے پانی دیا جائے۔ میری اس بات کے جواب میں سب نے کہا کہ ہم نے توایکڑ کے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں لیکن پتہ نہیں کہ پانی کیوں نہیں بچا۔ آخر مَیں نے عزیزم داؤد سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا وجہ ہے کیوں پانی نہیں بچتا اور کاشت کیوں زیادہ نہیں ہو رہی؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ ایک ایکڑ کے چار ٹکڑے کر دئیے گئے ہیں لیکن پانی ایک ہی منہ سے دیا جاتا ہے۔ میرا چاروں ٹکڑوں کے متعلق پوچھنے سے بھی مقصد یہی تھا کہ چاروں حصوں کو الگ الگ پانی دیا جاتا ہے یا ایک ہی طرف سے۔ لیکن وہ جواب میں یہ کہتے جاتے تھے کہ ہم نے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک تھی کہ انہوں نے واقع میں چار ٹکڑے کر دئیے تھے لیکن پانی ان چاروں کو ایک ہی طرف سے ملتا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے چار ٹکڑے کر دئیے ہیں مجھے دھوکا دینے کے لئے تھا کہ مَیں ان کے ان الفاظ سے دھوکا کھا جاؤں۔ جب ان کو علم تھا کہ ہم چار ٹکڑے کرنے کی غرض کو پورا نہیں کر رہے تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ صاف کہہ دیتے کہ چار حصے تو کر دئیے ہیں لیکن ابھی پانی ایک ہی طرف سے جاتا ہے۔ بس بات ختم ہو جاتی۔ خواہ مخواہ میرے دو گھنٹے ضائع کرا دئیے۔ اس بات کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی احمدیوں میں بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ اس قسم کا فقرہ بولیں جس کے لفظ بظاہر کم ہوں مگر مفہوم غلط ہو تو وہ اس میں حرج نہیں سمجھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سچائی کو دنیا میں قائم کریں گے۔ مجھے ان کی اس حرکت سے سخت تکلیف ہوئی ہے۔ مومن کا کام ہے کہ جو بات اس سے پوچھی جائے اسے صاف طور پر بیان کرے تا کہ پوچھنے والا کسی نتیجہ پر پہنچ سکے۔ لیکن آجکل حالت یہ ہے کہ عوام کے نزدیک اس قسم کا جھوٹ ،جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اور سچ بولنے کی وجہ سے جو شرمندگی اور ندامت اٹھانی پڑتی ہے اس کو برداشت کرنے کے لئے لوگ تیار ہی نہیں ہوتے۔ جھوٹ بول کر سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا گو ہے تو وہ شرم کا مگر شریعت میں ایسی باتوں کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک دفعہ نماز میں میری ہوا خارج ہو گئی اور مَیں نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے چلا گیا۔ جب مَیں وضو کر کے آیا تو ایک شخص آگے بڑھ کر مجھے کہنے لگا۔ سُبْحَانَ اللہ آپ نے کمال جرأت دکھائی۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ مَیں بے وضو ہی نماز پڑھاتا رہتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود وضو کے ٹوٹ جانے پر بے وضو ہی پڑھ لیتا ہو گا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ پس آج لوگ ذرا سی شرمندگی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور مَیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس وقت تک ہماری جماعت ہر رنگ میں اچھا نمونہ قائم نہیں کرتی اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی پیدا کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اگر ہمارے کارکن سچائی کے پابند ہو جائیں تو ہمیں معاملات کی حقیقت سمجھنے میں وہ مشکلات پیش نہ آئیں جو اَب ہمیں پیش آتی ہیں۔ مَیں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ ضائع کر کے اس نتیجہ پر پہنچا کہ انہوں نے ایک ایکڑ کے چار حصے تو کر دئیے ہیں مگر پانی ایک راستہ سے ہی دیتے ہیں اور جن لوگوں نے یہ میرا وقت ضائع کیا اور سچ نما جھوٹ بولنے کی کوشش کی وہ قریباً سارے واقف زندگی ہیں جو اَور بھی قابلِ افسوس امر ہے۔ جھوٹی عزت کی خاطر انہوں نے میرے سامنے جھوٹ بول دیا۔ چونکہ سچ کا قیام میرے نزدیک نہایت ہی ضروری چیز ہے اس لئے جب تک میرے ساتھ معاملہ ہے چاہے میرا کوئی بڑے سے بڑا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اگر اس کا بھی جھوٹ ثابت ہو جائے تو مَیں اس کے جھوٹ کو بھی نہیں چھپاؤں گا۔ اسے کھلے بندوں اس کی غلطی کی طرف متوجہ کروں گا تا اسے اپنی اصلاح کی فکر ہو۔ اگر مَیں ان کے جھوٹ کو ظاہر نہ کروں تو آئندہ ایسے آدمیوں کو جھوٹ پر زیادہ جرأت ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جھوٹ کا کسی کو پتہ نہیں لگ سکتا۔ اور اگر ان کا جھوٹ ظاہر کر دیا جائے تو انہیں اپنی اصلاح کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
سچائی تو انسانی اخلاق میں سے ایک بنیادی چیز ہے اور جو شخص اپنے مکان کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھے اس کی اوپر کی عمارت کیونکر سیدھی رہ سکتی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک شخص کے والدین اسے بی۔ اے یا ایم۔ اے تک پڑھاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا لڑکا پڑھنے کے بعد تحصیلدار یا ای۔ اے۔ سی۔ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس یا آئی۔سی۔ ایس بنے گا۔ لیکن وہ زندگی وقف کر کے ان کی تمام امیدوں کے گلے پر چُھری پھیر دیتا ہے اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خواہ اسے افریقہ بھیجا جائے یا امریکہ بھیجا جائے یا جاوا، سماٹرا بھیجا جائے یا چین یا جاپان بھیجا جائے۔غرض جہاں بھی اسے بھیجا جائے وہ بغیر کسی عذر کے وہاں جائے گا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اسے حکومتیں تکلیف دیں گی اور کس طرح اسے دوسروں لوگوں کے ہاتھوں تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن وہ ان سب باتوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اگر اس کا قدم سچ پر نہ پڑے تو کتنے افسوس کی بات ہے۔ حالانکہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جس کی امید ہم ایک عام آدمی سے بھی رکھتے ہیں اور سچائی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ تمام جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔ لمبے لمبے مقدمات جو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کے مال کو گُھن کی طرح کھاتے ہیں بہت جلد ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ مدعی بھی سچ میں جھوٹ ملانے کی کوشش کرتا ہے اور مدعا علیہ بھی سچائی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
سیالکوٹ کا ایک واقعہ ہے کہ دو فریقوں میں ایک جھگڑا چلا آتا تھا۔ ایک فریق نے دوسرے کو صلح کی دعوت دی اور ان کو اپنے ہاں بُلا کر ان میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ ان قتل کرنے والوں میں سے کچھ احمدی تھے اور کچھ غیر احمدی۔ ہماری ہمدردی لازماً مقتول کے وارثوں کے ساتھ تھی اور ہم نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کر دیا لیکن مقتول کے وارثوں نے چند ایسے آدمیوں کے نام قاتلوں میں لکھوائے جو اس واقعہ کے دن گاؤں میں ہی نہ تھے یا جائے وقوعہ پر نہ تھے۔ محض عداوت اور دشمنی کی بناء پر ان کو اس قتل میں شریک بتایا گیا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ عداوت کی وجہ سے کچھ ایسے آدمیوں کے نام قاتلوں کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں جو بالکل بے گناہ ہیں اور جو اس واقعہ کے دن یہاں موجود ہی نہ تھے اور صریح غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں تو ہماری ہمدردی ان کےساتھ بھی نہ رہی ۔کیونکہ اگر ایک انسان کو قتل کرنا ظلم ہے تو اسی طرح ایک ایسے شخص کو جس کا اس قتل میں دخل نہیں۔ اس پر الزام لگانا بھی تو ویسا ہی ظلم ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ لوگوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے جب کسی شخص سے اس کے دوست کے متعلق کوئی شہادت پوچھو تو وہ شروع کرتے ہی کہنا شروع کرے گا کہ اصل یوں ہے اور پھر اِدھر اُدھر کی رطب و یابس باتیں جن کا اصل بات سے کوئی تعلق نہیں بیان کرتا چلا جائے گاتاکہ قاضی کا دماغ پراگندہ ہو جائے اور وہ اصل بات تک نہ پہنچ سکے۔ جب پوچھا جائے کہ فلاں شخص فلاں جگہ گیا تھا؟ تو بجائےاس کےکہ جواب میں یہ کہا جائے کہ ہاں گیا تھا یا نہیں گیا تھا۔ وہ اپنے دوست کو بچانے کے لئے لمبی کہانی شروع کر دے گا کہ اصل بات یوں ہے اور پانچ سات منٹ تک ایک بے معنی کہانی سناتا چلا جائے گا تاکہ پانچ سات منٹ میں سننے والے کا دماغ پراگندہ ہو جائے او راسے اصل بات بھول جائے۔ حالانکہ مومن کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ جب اس سے کوئی بات پوچھی جائے تو وہ سیدھا سادہ جواب دیتا ہے اور حق پوشی اور دروغ گوئی کے قریب بھی نہیں جاتا۔
مَیں ہر سال جب یہاں آتا ہوں تو یہاں کے لوگوں کو اپنے سوالات پیش کرنے کا موقع دیتا ہوں لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ محض جھوٹی باتیں پیش کرتے ہیں۔ اسی سال محمد آباد کے ایک شخص نے میرے سامنے یہ بات پیش کی کہ مینیجر صاحب نے کپاس کے موقع پر سب فصل کپاس قرض میں لے لی اور پھر گندم کے موقع پر گندم بھی قرض میں وصول کر لی۔ایسا انتظام کیا جائے کہ گندم تو ہمارےکھانے کے لئے رہنےد ی جائے۔ مَیں نے اسے کہا یہ بات تو بِالبداہت باطل ہے۔ اگر تمہارا قرضہ ختم ہو چکا ہے ۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ مینیجر صاحب تم سے قرضہ کا مطالبہ کریں۔ یہ بات پیش کرنے والا ایک پنجابی احمدی مزارع تھا۔ مَیں نے اسے کہا کہ آخر آپ اتنا قرض کیوں لیتے ہیں جو واپس نہ ہو سکے؟ یہ سلسلہ کا مال ہے اور اس کے نمائندوں کا فرض ہے کہ قرض وصول کریں۔ اگر آپ اپنی پیداوار سے زیادہ قرض لیں گے تو لازماً پیداوار بھی جائے گی اور قرض بھی سر پر کھڑا رہے گا۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا جب کپاس مینیجر نے وصول کی تو آپ کے ذمہ کوئی قرض نہ تھا۔ اگر تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ اس قرض کو مینیجر گندم کے موقع پر وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ کے کھانے کے برابر گندم آپ کے پاس چھوڑ دینی چاہئے تھی۔بتلائیے آپ کی گندم کتنی ہوئی تھی؟ کتنے آپ کے افراد ہیں او رکتنی مینیجر نے وصول کی؟ انہوں نے بتایا کہ 81 من گندم تھی ۔تین افراد گھر کے ہیں۔ 32 من مینیجر نے وصول کی اور 49 من چھوڑ دی۔ مَیں نے کہا آپ کے گھر کا خرچ زیادہ سے زیادہ تیس من ہو گا او رچھوڑی 49 من ہے۔ پھر آپ کو کیا گِلہ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اور افسر نے رجسٹر پیش کر کے کہا کہ ہماری بات بھی سن لی جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کپاس پر ہم نے ان کی سب کپاس قرض میں وصول کر لی او ران کے پاس کچھ نہ رہا۔ یہ رجسٹر ہے اس میں دیکھ لیں کہ ان کی کپاس کی قیمت 280 روپیہ ہوتی ہے۔ یہ رقم سابق قرض میں ہم نے ان سے وصولی کر لی لیکن وصولی کے تیسرے چوتھے دن یہ آکر پھر تین سو روپیہ قرض لے گئے ۔ گویا عملاً انہوں نے کپاس پر قرض واپس نہیں کیا بلکہ بیس روپے اَور قرض لے گئے۔ مَیں نے شکایت کنندہ سے پوچھا کیا یہ ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد افسر نے کہا باقی رہی گندم سو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے 32 من گندم ان سے لے لی گو جیسا کہ آپ نے خود کہا ہے کہ پھر بھی ان کے پاس کافی گندم موجود تھی مگر اس کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ چند دن بعد ہی یہ بیس من گندم پھر قرض لے گئے کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور چھ سات سو روپیہ جو انہوں نے قرض لیا تھا اس کے مقابل پر ان کی دونوں فصلوں میں سے صرف 12 من گندم وصول ہوئی یعنی کوئی سو روپیہ۔ اس کی بھی شکایت کنندہ نے کھسیانے ہو کر تصدیق کی۔ اس پر مَیں نے ان سے کہا کہ آپ کا مطلب یہ ہؤا کہ آپ سلسلہ سے قرض لیتے جائیں اور وصولی آپ سے بالکل نہ کی جائے۔ مگر باوجود اس کے شکایت آپ کو یہ ہے کہ کپاس بھی لے لی اور گندم بھی لے لی۔ حالانکہ واقع یہ ہے کہ کپاس کے موقع پر آپ نے کپاس کی قیمت سے زیادہ روپیہ لیا اور گندم کے موقع پر صرف ساتواں حصہ گندم کا قرض میں دیا۔ اب دیکھو! یہ احمدی میرے پاس مینیجر صاحب کے ظلم و تعدی کی ایک کہانی بنا کر لایا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ کسی انسان کے ساتھ ہمدردی تو اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب سننے والے کو یقین ہو کہ وہ شخص سچ بولنے والا ہے اور واقع میں اس وقت کسی مصیبت میں مبتلا ہے۔ لیکن جب ایک آدمی کی ہر بات میں جھوٹ پایا جائے تو کسی کے دل میں اس کے لئے ہمدردی پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب بھی وہ کوئی بات بیان کرے گا، سننے والا کہے گا۔ لگا ہے مجھے دھوکا دینے۔ ایسے حالات پیدا کر کے وہ شخص خود اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتا ہے کہ اس سے ہمدردی نہ کی جائے۔
ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک لڑکا جنگل میں جانور چرانے جایا کرتا تھا۔ ایک دن اسے یہ شرارت سوجھی کہ گاؤں کے لوگوں سے مذاق کرنا چاہئے۔ ایک ٹیلے پر چڑھ کر اس نے شور مچانا شروع کیا شیر آیا شیر آیا دوڑیو۔ گاؤں کے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر اور لٹھ لے کر دوڑے دوڑے وہاں پہنچے مگر وہاں جا کر دیکھا کہ لڑکا کھڑا ہنس رہا ہے اور شیر وغیرہ کا نام و نشان نہیں۔ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا مَیں تو تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔ لوگ غصے اور ناراضگی کا اظہار کر کے واپس آ گئے۔ لیکن چند دنوں کے بعدسچ مچ وہاں شیر آ نکلا۔ لڑکے نے شور مچانا شروع کیا شیر آیا شیر آیا دوڑیو لیکن اب گاؤں کے لوگوں کی حالت بالکل اَور تھی۔ اب کنویں پہ بیٹھا ہؤا شخص حُقّہ پیتا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا ایک دفعہ تو تم نے ہم کو بیوقوف بنا لیا کیا اب بھی ہم بیوقوف بن سکتے ہیں؟ ایک دانے پیسنے والا شخص دانے پیستا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا کہ ایک دفعہ تو تم نے ہمیں دھوکا دے لیا کیا اب بھی ہم تمہارے دھوکے میں آ سکتے ہیں؟ جب رات ہوئی تو وہ لڑکا گھر نہ پہنچا۔ گھر والوں نے تلاش شروع کی۔ آخر ایک جگہ سے اس کی ہڈیاں پڑی ہوئی ملیں۔ معلوم ہؤا کہ اس دفعہ واقع میں شیر آیا تھا اور بوجہ امداد نہ پہنچنے کے لڑکا اس کے حملہ سے بچ نہیں سکا تھا۔ پس جب جھوٹ کا ماحول پیدا ہو جائے تو انسان دھوکا کھا جاتا ہے کہ کہیں یہ شخص مجھے فریب نہ دے رہا ہو۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس کے سامنے ایک کثیر تعداد جھوٹ بولنے والوں کی آئے تو باقی جو سچ بولنے والے ہوں ان کے متعلق بھی اسے شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ بھی جھوٹ نہ بول رہے ہوں۔ فرض کرو میرے پاس دس آدمی آتے ہیں ان میں سے پہلے نو آدمی جھوٹ بولتے ہیں اور دسواں آدمی سچ بولتا ہے لیکن ان پہلے نو آدمیوں کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے میری طبیعت پر یہ اثر ہو گا کہ یہ دسواں بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ اور اگر اس دسویں آدمی کو واقع میں کوئی تکلیف ہے بھی، تو بھی مَیں اس کی امداد کرنے کو تیار نہیں ہوں گا کیونکہ مَیں یہ سمجھوں گا کہ جہاں پہلے نو آدمی مجھے بیوقوف بنانے آئے تھے یہ دسواں بھی مجھے بیوقوف بنانے آیا ہے۔
پس یاد رکھو جھوٹ قوموں کے لئے ایک کیڑا ہے جو ان کے برگ و بار کو کھا جاتا ہے اور انہیں بڑھنے نہیں دیتا۔ یہاں سب آدمیوں کے سامنے مَیں نے ان باتوں کا ذکر اس لئے کیا ہے تا تمہیں اپنی اصلاح کی فکر ہو ۔کیونکہ میرے ذکر کرنے کی وجہ سے تم شرمندگی محسوس کرو گے اور آئندہ کوشش کرو گے کہ تمہیں دوبارہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ اور اگر اس دفعہ مَیں تمہاری چالاکی کو نظر اندازکر دیتا تو آئندہ تمہیں جرأت پیدا ہوتی اور تم اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان کو کسی معاملہ میں شرمندہ ہونا پڑے تو نفس میں مقابلہ کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آئندہ کے لئے اس فعل سے اجتناب کرتا ہے۔ پس مَیں افسروں کو اور ماتحتوں کو اور مزارعین کو سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سچائی کو اپنا شیوہ بنائیں اور لوگوں کے سامنے اپنا اچھا نمونہ پیش کریں جو احمدیت کی تبلیغ میں ممد ہو۔ اور ایسا نمونہ نہ پیش کریں جو احمدیت کی تبلیغ میں روک بنے۔ سچائی سے اگر شکست بھی ہو تو وہ ہزار فتح سے بہتر ہے اور وہ فتح جو جھوٹ سے حاصل ہو وہ ہزار شکست کے برابر ہے۔ آجکل یہ بات لوگوں کے منہ پر عام ہے کہ اس زمانہ میں جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ بات ان کی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سچائی کے رستہ کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور جھوٹ کا رستہ چونکہ آسان ہے اس لئے اس کی طرف مائل ہو گئے۔ اگر ہر ایک شخص عہد کرے کہ مَیں جھوٹ نہیں بولوں گا اور جھوٹ سے حرام کمائی نہیں کروں گا اور جھوٹ کے تمام رستے اپنے اوپر بند رکھوں گا تو وہ ضرور سچائی کے رستہ کی طرف قدم اٹھائے گا اور سچائی کے رستہ کی تلاش کرے گا۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان کسی چیز کی جستجو کرتا ہے تووہ چیز اسے مل جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جھوٹ بولنے پر مجبور کیا ہے اور سچ کا رستہ انسان کے لئے بند کر دیا ہے۔ یہ خیال ان کا کم فہمی کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو رَبُّ الْعَالَمِیْن اور اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن ہے۔ اس نے انسانوں کے لئے سچ کا رستہ کھلا رکھا ہے لیکن جو شخص جھوٹ کے رستے کو پسند کرتا ہے اس پر سچ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ جو شخص سچائی سے اپنی روزی کمانے کا اللہ تعالیٰ سے عہد کرے یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے بھوکا رکھے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق قدم اٹھاتا ہے۔ مشکلات تو ہر رستہ میں انسان کو پیش آتی رہتی ہیں ۔ ہمارے سامنے اس کی مثال موجود ہے کہ انسان سچائی سے ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ پہلے مسلمان سچائی کا پابند ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں غالب آئے تھے او رہر حکومت ان کی ناراضگی سے ڈرتی تھی لیکن آج مسلمان دنیا بھر میں غلام ہیں۔ ہندو ، سکھ، عیسائی، پارسی سب کے بوٹ ان کے سر پر ہیں۔ یہاں سندھ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت ہندوؤں کی ہے۔ صوبہ سرحد میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن غلبہ ہندوؤں کا ہے۔پنجاب میں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر حکومت ہندوؤں کی ہے۔ آج مسلمان جھوٹے اور ڈرپوک ہیں۔ پہلے مسلمانوں میں بہادری تھی۔ وہ سچ اور راستبازی اور دیانتداری کے لئے اپنی جان دے دیتے تھے لیکن ان چیزوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ جب کوئی مسلمان کہتا تھا کہ مَیں مر جاؤں گا تو لوگوں کو یقین ہو جاتا تھا کہ یہ واقع میں مر جائے گا۔ اس لئے لوگ اس کے رستہ سے ہٹ جاتے تھے اور اس کا رستہ چھوڑ دیتے تھے۔ آج ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمان کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے لیکن ان کی یہ آواز کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پس سچ سے ہی کامیابی ہے اور سچ سے ہی انسان کا رُعب قائم رہتا ہے۔ اگر ہمارے افسروں اور ماتحتوں میں ہمارے مزارعوں اور کاشت کاروں میں سچائی کی وہ روح نہیں جو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں تو مَیں انہیں بتا دیتا ہوں کہ ان کو ابھی حقیقی ایمان نصیب نہیں۔ انسان دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ پس مَیں آج کے خطبہ میں تمام کارکنوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں اس قسم کی کمزوریاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو ان سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
اس کے بعد مَیں بچوں کی تعلیم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں تعلیمی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بعض اسٹیٹوں کے لئے استاد ہی نہیں ملتے تھے اس لئے بچوں کی تعلیم کا وہاں انتظام نہیں ہو سکا۔ لیکن اب ہم انتظام کر رہے ہیں ۔اور جس جگہ استاد موجود ہیں وہاں دوستوں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے بچے پڑھنے کے لئے جاتے ہیں یا نہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ زمیندار لوگ بچوں کی پڑھائی کا پورے طورپر خیال نہیں رکھتے۔ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر بہت بڑا ظلم ہے بلکہ اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک لڑکا بی۔ اے یا ایم۔ اے تک ہی تعلیم حاصل کرے بلکہ اپنی مادری زبان پڑھ لکھ لینا بھی بعض حالات میں بہت مفید ہوتا ہے۔ جو بچہ اپنی مادری زبان اچھی طرح پڑھ لکھ سکتا ہے وہ اپنی زندگی اچھے رنگ میں گزار سکتا ہے۔ انگریزوں میں ایم۔اے، بی۔ اے کے لئے لوگ اس کثرت سے کوشش نہیں کرتے۔ ایم۔ اے اور بی۔ اے کی ڈگری کی اہمیت تو ہمارے لئے ہے۔ جو غیر ممالک والے ہیں۔ انگلستان والوں کی تو انگریزی مادری زبان ہے۔ اس لئے ان کے ہاں بی۔ اے، ایم۔ اے وغیرہ کو یہ اہمیت حاصل نہیں۔ ان میں سے بہت ابتدائی پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں اور پھر خود بخود ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان اپنی مادری زبان پڑھ لکھ سکے۔ اس سے آگے ترقی کرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ اب ہم اِنْشَاءَ اللہ جلدی ہی مدرّسین کا انتظام کر دیں گے اور جس جگہ مدرسین نہیں ہیں وہاں کے لئے قادیان جا کرمدرّسین بھجوا دیں گے۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ یہاں ایک ہائی سکول قائم کیا جائے تاکہ ہمارے بچوں کی پڑھائیاں خراب نہ ہوں اور وہ لوگ جو اپنے بچوں کو میٹرک تک پڑھانا چاہتے ہوں ان کے لئے آسانی پیدا ہو جائے۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک پرائمری تعلیم کا بھی احساس نہیں۔ زمینداروں سے جب بچوں کے پڑھانے کے لئے کہا جائے تو وہ کہتے ہیں اگر ہمارے بچے پڑھنے بیٹھ جائیں تو ہمارے جانور کون چرائے اور ہمارے ہل کون چلائے۔ ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ ایک ادنیٰ چیز کی خاطر اپنے بچوں کو اعلیٰ چیز سے محروم کر رہے ہیں۔ ان کے بچوں کی پیدائش سے پہلے بھی تو ان کے جانور چرنے کے لئے باہر جاتے تھے اور ان کے بچوں کے ہل چلانے سے پہلے بھی تو وہ ہل چلاتے تھے۔ اگر خدا تعالیٰ انہیں یہ بچے نہ دیتا تو پھر بھی وہ خود اپنے کام کرتے۔ اب اگر خدا نے انہیں یہ بچے دے دئیے ہیں تو انہیں چاہئے کہ چند سال قربانی کریں اور انہیں تعلیم کے لئےفارغ کر دیں۔ مَیں نے بار بار تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن پھر بھی لوگ اس میں سستی سے کام لیتے ہیں۔ مَیں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ تم دوسرے کے بچے پر رحم کرو۔ مَیں تم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم ہمسائے کے بچے کو نہ مارو بلکہ مَیں تو تمہیں یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے بچے کی جان پر ظلم نہ کرو ا ورا س کی تعلیم کی فکر کرو۔ کیااس میں بھی کسی عقلمند کو کوئی کلام ہو سکتا ہے؟ پس مَیں زمینداروں سے کہتا ہوں کہ جہاں تم نے اتنے سال یہ محنت و مشقت برداشت کی ہے وہاں دو چار سال اَور برداشت کر لو۔ خود ہل چلاؤ اور خود جانوروں کے چارے کا انتظام کرو اور بچوں کو تعلیم کے لئے فارغ رہنے دو۔ دو چار سال کے بعد چاہو تو انہیں اپنے کام میں ہی اپنے ساتھ لگا لینا اور چاہے انہیں کسی جگہ ملازم کرا دینا۔ یہ دو چار سال کی تکلیف ہے اسے برداشت کرو اور بچوں کے مستقبل کو اپنے ادنیٰ کاموں کی خاطر تاریک نہ کرو۔’’
(الفضل 13 اپریل 1946ء )


11
تعلیم الاسلام کالج کے لئے دو لاکھ روپے کی اپیل
(فرمودہ 5 ؍اپریل 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ مَیں نے گزشتہ ایام میں تعلیم الاسلام کالج کے متعلق جماعت سے چندہ کی اپیل کی تھی۔ تعلیم الاسلام کالج کی ایف۔ اے کلاسز کو کھلے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور ا س سال ہمارے لڑکے ایف۔ اے اور ایف۔ ایس۔ سی کے امتحانات دیں گے۔ اس کے بعد ان میں سے جو کامیاب ہوں گے ان کو بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی پاس کرنی ہو گی کیونکہ اس کے بغیر ان کی تعلیم مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز کے متعلق ایک لمبے عرصہ تک میرے اوربعض کارکنان کے درمیان اختلاف رہا۔ وہ بی۔ ایس۔ سی کی جماعتیں کھولنے کے مخالف تھے۔ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ اس وقت نہ تو عملہ دستیاب ہو سکتا ہے اور نہ ہی سامان۔ لیکن مجھے اصرار تھا کہ اگر ہم نے ان جماعتوں کو نہ کھولا تو ہمارے ایف۔ ایس۔ سی کے پاس شدہ طالب علم یا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یا پھر قادیان چھوڑ کر ان کو باہر جانا پڑے گا جہاں غالباً بہت سے لڑکے کالج میں داخل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ بی۔ ایس۔ سی جماعتوں میں کم گنجائش ہوتی ہے او رپھر ایک کالج کے طلباء کو دوسرے کالج والے داخل نہیں کرتے۔ اس طرح ہم ان کو ر استہ میں ہی چھوڑ دیں گے اور یہ مناسب نہیں ۔ جب تک تو مَیں یہ اصرار کرتا رہا کہ اس کلاس کو جاری کرنا چاہئے اس وقت تک کالج کمیٹی کے ممبر اس بات پر مُصِر رہے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے دیکھا ہے جب کسی کی بات مان لی جائے تو پھر اس کے دل میں اُلٹ احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ شاید یوں ہونا چاہئے۔ چنانچہ لمبے عرصہ کے اختلاف کے بعد جب مَیں نے یہ کہا کہ اس سال بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز جاری نہ کی جائیں تو تیسرے دن ہی ممبروں کی چِٹھیاں آنی شروع ہو گئیں کہ اسے ضرور جاری کرنا چاہئے۔ اس طریقِ کار کی وجہ سے ہمارا کام کئی مہینے پیچھے جا پڑا لیکن بہرحال جب وہ لوگ بھی اسی رائے کے ہو گئے تو مَیں نے اپنا پہلا فیصلہ واپس لے لیا کیونکہ مَیں خود اس بات پر مُصر تھا کہ یہ جماعتیں کھولی جائیں۔ اس کے لئے اخراجات کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ دو لاکھ پانچ ہزارروپے کا ہے۔ مَیں نے فِی الْحال دو لاکھ روپے کی اپیل جماعت کے سامنے کی ہے۔ فی الحال اس لئے کہا ہے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کلاسز پر اپنا کام ختم کر دیں۔ ابھی ہم نے دو کام اَور کرنے ہیں۔ ایک ایم۔ اے اور ایم۔ ایس۔ سی کلاسز جاری کرنی ہیں اور دوسرے ڈاکٹری کی ایف۔ ایس۔ سی کی کلاسز جاری کرنی ہیں۔ ان تینوں کلاسز کو کھولنے کے لئے غالباًتین چار لاکھ روپے کی اَور ضرورت ہو گی اور پانچ سات لاکھ روپے کی ریزرو فنڈ کے طور پر ضرورت ہو گی تا عام اخراجات اس کی آمد سے چل سکیں۔ پس مَیں نے جو فِی الْحال کہا ہے اس سے کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ اس دو لاکھ کی رقم سے تمام کام ہو جائے گا۔ یہ دو لاکھ اس سال کے لئے چاہئے اگلے سال یا دو سال بعد ایک یا دو قسطوں میں ہی مزید روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ درحقیقت ایک اچھے کالج کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ڈیڑھ لاکھ روپیہ پہلے چندہ سے لے چکے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ اَور بھی اس پر خرچ کیا جا چکا ہے اور دو لاکھ کی اب ضرورت ہے۔ یہ پانچ لاکھ ہو گیا۔ تین لاکھ کی پھر ضرورت ہو گی تو یہ آٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں پندرہ سولہ لاکھ روپے کی ریزرو فنڈ کی ضرورت ہو گی جس سے لاکھ سَوا لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی رہے اور کالج مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکے ۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا۔
یہاں آریوں کا مڈل سکول ہؤا کرتا تھا۔ شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہئے، گوشت کھانا ظلم ہے۔ وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے جو کہ اسلام پر حملہ تھے۔ لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے۔ یہاں ایک پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ پہلے دن جب مَیں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا اور دوپہر کو میرا کھانا آیا تو مَیں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا کھانا کھانے کے لئے جا بیٹھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی۔ اس وقت میاں عمر الدین صاحب مرحوم جو میاں عبد اللہ صاحب حجام کے والد تھے وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور مَیں پہلی جماعت میں تھا۔ مَیں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آ پہنچے اور دیکھ کرکہنے لگے ‘‘ہیں ماس کھاندے او ماس’’ حالانکہ وہ مسلمان تھے۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے۔ ماس کا لفظ مَیں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا اس لئے مَیں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے چنانچہ مَیں نے کہا یہ ماس تو نہیں کلیجی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کو ہی کہتے ہیں۔ پس مَیں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ غرض آریہ مدرّس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑکے گھروں میں آ آکر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں ۔ آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کر دینا چاہئے۔ چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا ہے۔ اس عرصہ میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم و مغفور ہجرت کر کے قادیان آ گئے۔ انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا چنانچہ انہوں نے مالیر کوٹلہ میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہؤا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں چاہتا ہوں اس کو مڈل کر دیا جائے۔ مَیں وہاں سکول کو بند کر دوں گا اور وہ امداد یہاں دے دیا کروں گا۔ چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا۔ پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی خان صاحب اور کچھ حضرت خلیفة المسیح الاول کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے۔ چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا۔ لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانےو الےا نٹرنس(Intrance) پاس تھے اور بعض شاید انٹرنس فیل بھی۔ مگر بہرحال ہائی سکول کا نام ہو گیا۔ زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا مگر آخروہ وقت بھی آ گیا کہ گورنمنٹ نے اس بات پر خاص زور دینا شروع کیا کہ سکول اور بورڈنگ بنائے جائیں۔ نیز یہ کہ سکول اور بورڈنگ بنانے والوں کو امداد دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں یہ سکول بھی بنا اور بورڈنگ بھی۔ پھر آہستہ آہستہ عملہ میں اصلاح شروع ہوئی او رطلباء بڑھنے لگے۔ پہلے ڈیڑھ سو تھے پھر تین چار سو ہوئے پھر سات آٹھ سو ہو گئے اور مدتوں تک یہ تعداد رہی۔ اب تین چار سالوں میں آٹھ سو سے یکدم ترقی کر کے سکول کے لڑکوں کی تعداد سترہ سو ہو گئی ہے اور مَیں نے سنا ہے کہ ہزار سے اوپر لڑکیاں ہو گئی ہیں۔ گویا لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد ملا کر قریباً تین ہزار بن جاتی ہے۔ پھر مدرسہ احمدیہ بھی قائم ہوا اور کالج بھی۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ احمدیہ میں بھی میری گزشتہ تحریک کے ماتحت طلباء بڑھنے شروع ہو گئے ہیں اور پچیس تیس طلباء ہر سال آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے طلباء کی تعداد بھی چھ سات سَو تک یا اس سے زیادہ تک پہنچ جائے گی اور اس طرح ہمیں سو مبلغ ہر سال مل جائے گا۔ جب تک ہم اتنے مبلغین ہر سال حاصل نہ کریں ہم دنیا میں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے۔
1944ء میں مَیں نے کالج کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہماری آئندہ نسل کی اعلیٰ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہماری جماعت میں بہت چھوٹے عہدوں اور بہت چھوٹی آمدنیوں والے لوگ شامل تھے۔ بے شک کچھ لوگ کالجوں میں سے احمدی ہو کر جماعت میں شامل ہوئے لیکن وہ حادثہ کے طور پر سمجھے جاتے تھے ورنہ اعلیٰ مرتبوں والے اور اعلیٰ آمدنیوں والے لوگ ہماری جماعت میں نہیں تھے سوائے چند محدود لوگوں کے۔ ایک تاجر سیٹھ عبدالرحمان حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی تھے لیکن ان کی تجارت ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ہوئے۔ ان کے سوا کوئی بھی بڑا تاجر ہماری جماعت میں نہیں تھا اور نہ کوئی بڑا عہدیدار ہماری جماعت میں شامل تھا۔ یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے دیکھو میاں! قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء پر ابتدا میں بڑے لوگ ایمان نہیں لائے۔ چنانچہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی شامل نہیں۔ چنانچہ کوئی ای۔ اے۔ سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ای۔ اے۔ سی بہت بڑا آدمی ہوتا تھا مگر اب دیکھو کئی ای۔ اے۔ سی یہاں گلیوں میں پھرتے ہیں اور ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ لیکن ایک زمانہ میں اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کا ہماری جماعت میں اس قدر فقدان تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی داخل نہیں چنانچہ کوئی ای اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ہماری جماعت ای۔اے۔ سی کی بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی لیکن اب تو کئی آئی۔ سی۔ ایس بھی ہماری جماعت میں شامل ہیں۔ اسی طرح چودھری ظفر اللہ خان صاحب فیڈرل کورٹ کے جج ہیں۔ نواب اکبر یار جنگ بہادر نظام دکن کے ہائی کورٹ کے جج تھے۔ پھر بڑے بڑے تاجر بھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے اخلاص کا ثبوت دیتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اخلاص دکھلائیں تو بہت بڑی رقمیں دے سکتے ہیں۔ باقی رہا اعلیٰ عہدے دار سو اس جنگ کے دوران میں فوج میں ہمارے کنگز کمیشن والے افسر جو پانچ سو سے دو ہزار بلکہ زیادہ تنخواہ لیتے تھے دو سو سے زیادہ تھے۔ پہلے ہماری جماعت میں صوبیدار بھی بہت کم نظر آتے تھے لیکن اس وقت کئی کرنیل ہماری جماعت میں ہیں۔ کئی میجر ہماری جماعت میں ہیں اور کیپٹن اور لیفٹیننٹ تو درجنوں ہیں اور پھر ہر محکمہ میں ہیں۔ ہوائی جہازوں کے محکمہ میں بھی ہیں، جہازوں کے محکمہ میں بھی ہیں، برّی فوج میں بھی ہیں۔ مثلاً انفنٹری میں، آرٹلری میں، آرڈیننس میں اور سپلائی میں۔ چنانچہ ہمارے فوجی دوست بتلاتے ہیں کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی ہماری تبدیلی ہوتی ہے کوئی نہ کوئی احمدی وہاں موجود ہوتا ہے اور شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا احمدی ساتھی نہ ملے کیونکہ سارے ہندوستانی افسر دس ہزار کے قریب ہیں اور ان میں سے دو سو سے اوپر احمدی ہیں۔ مسلمان افسروں میں سے تقریباً چھ سات فیصدی احمدی ہیں۔ گویا وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں اور اتنا زبردست ان کا حصہ ہے کہ وہ ہر جگہ اپنے آپ کو احمدیوں ہی میں گِھرے ہوئے پاتے ہیں۔ عراق، ایران، فلسطین، اٹلی، یونان، برما، ملایا، جاوا، جاپان۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہمارے فوجی کنگز کمیشن آفیسر موجود نہیں۔ کسی جگہ کرنیل ہیں، کسی جگہ میجر اور کسی جگہ کیپٹن اور لیفٹیننٹ اور قدرتی طور پر ان لوگوں کےد لوں میں جن کو یہ عہدے ملے ہیں خواہش پیدا ہوتی ہو گی کہ وہ اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ چنانچہ ایسی تعلیمی دوڑ کی وجہ سے اب کالجوں میں پہلے سے دُگنے طالب علم داخل ہوں گے اور یہ لازمی بات ہے کہ کالج میں داخل ہونے والے طلباء اپنے اردگرد کے حالات سے ضرور متأثر ہوتے ہیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو اردگرد کے بد اثرات سے محفوظ کر کے احمدیت کے ماحول میں تربیت دیتے ہوئے ان کے دلوں میں احمدیت کو راسخ کرتے ہوئے ترقی کی طرف لے جائیں تا احمدیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوطی حاصل ہو۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے عیسائیت کو دیکھتے ہوئے بھی اس کےا چھے طریق کو اختیار نہ کیا۔ عیسائیت نے جتنی تعلیم دی ہے پادریوں کے ذریعہ دی ہے۔ یورپ میں جتنے بھی کالج ہیں پادریوں کے قائم کئے ہوئے ہیں اور وہ سو فیصدی پادریوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے باوجود ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم پا جانے کے نوجوانوں کے دلوں میں عیسائیت کی محبت مٹتی نہیں۔ بعض لوگ دہریہ بھی ہو جاتے ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت اور دین ِعیسوی کی برتری کا احساس ان کے دلوں میں قائم رہتا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ دینِ عیسوی میں کچھ نقائص ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان سب سے بہتر عیسوی مذہب ہے مگر مسلمانوں میں یہ نہیں ہؤا۔ اس لئے کہ مسلمانوں نے جہاں تعلیم کا انتظام کیا وہاں صرف مذہبی تعلیم کا انتظام کیا حالانکہ طب بھی تو تعلیم تھی۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ سو فیصدی مسلمان مولوی بن جاتے۔ اگر سارے مولوی بن جائیں گے تو روزی کمانے والا کون ہو گا۔ اور ان مولویوں یا مدرّسین کو خرچ دینے والا کون ہو گا۔ قومی ترقی کا یہی ذریعہ تھا کہ کچھ لوگ قانون کے ماہر ہوتے، کچھ انجینئر ہوتے، کچھ طبیب اور ڈاکٹر ہوتے اور کچھ اَور علوم میں مہارت حاصل کرتے۔ مگر مسلمانوں نے بحث مباحثہ کے خیال سے منطق او رفلسفہ تو اپنی تعلیم میں شامل کر لیا مگر باقی ساری تعلیموں کو خارج کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے بجائے اپنے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے دوسرے اداروں میں بھیجنا پڑا اور چونکہ وہ مخالف ماحول میں رہے اس لئے مذہب کی محبت ان کے دلوں میں نہ رہی ۔ ایک طرف اگر مولویوں کا گروہ مدارس سے نکل کر مذہبی تعلیم دیتا تھا تو دوسرا تعلیم یافتہ گروہ مذہب کے خلاف لوگوں کو اُکساتا تھا۔ اس طرح ایک ہی وقت میں دو دریا چل رہے تھے جو باہم ملنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ لیکن عیسائیت کا ایک ہی دریا چل رہا تھا۔ انہی کالجوں میں سے نکلنے والے پادری کہلاتے تھے اور انہی کالجوں میں سے نکلنے والے انجینئر کہلاتے تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کی تعلیم بھی آخر ناکام رہی مگر اس طرح انہوں نے اٹھارہ سَو سال تک اپنے سلسلہ کو ممتد کر لیا لیکن مسلمانوں نے جو طریقہ اختیار کیا اس سے وہ چند سو سالوں میں ہی بگڑ گئے اور دینی اور دنیوی علماء میں لڑائی شروع ہو گئی۔ دین کے علماء نے فنون اور حرفے والوں کو کہنا شروع کر دیا کہ تم دہریہ اور دین سے خارج ہو اور حرفت اور صنعت والوں نے مولویوں کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم قُلْ اَعُوْذِئیے اور کھڑکنّے ہو۔ غرض ایک دوسرے کا نام رکھنے لگ گئے۔ مگر عیسائیت میں یہ بات نہ تھی۔ گو آج اٹھارہ سو سال کے بعد اُلٹی گنگا چلنی شروع ہو گئی ہے لیکن اٹھارہ سو سال تک انہوں نے اس سے گزارہ کیا ہے۔ پہلے پادری کالجوں میں جا کر لڑکوں کو عیسائیت کا قائل کیا کرتے تھے مگر اب پادری خود دہریہ ہونے لگ گئے ہیں مگر ہر چیز میں آخر خرابی تو آ ہی جایا کرتی ہے ۔ بہرحال یہ تو نظر آتا ہے کہ عیسائیت میں خرابی پہلے آئی اور اس کی تعلیم کے انتظام میں بعد میں خرابی پیدا ہوئی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بغاوت کہیں پہلے شروع کر دی تھی مگر علماء نے عیسائیت سے بغاوت بہت بعد میں شرو ع کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بغاوت کے یہ معنے ہیں کہ مسیحیوں نے سچے مذہب کو چھوڑ دیا مگر عیسائیت سے علماء کی بغاوت کے یہ معنے ہیں کہ جس قسم کا عیسوی مذہب پیش کیا جاتا تھا اس سے علماء بھی منکر ہو گئے ۔ یہ انکار بہت بعد میں پیدا ہؤا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا کیونکہ عیسوی تعلیم رسول کریم ﷺ کی بعثت سے بھی پہلے بگڑ چکی تھی۔ لیکن اس قوم کے علماء اور صنّاعوں وغیرہ نے عیسوی مذہب کو جس حالت میں بھی وہ تھا کئی سَو سال بعد چھوڑا۔ بلکہ درحقیقت رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بارہ سو سال بعد انہوں نے اس سے انحراف شروع کیا۔ یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ انہوں نے اپنی قوم کو گو ہر قسم کے علوم کی تعلیم دی مگر اس کی نگرانی پادریوں کے ہاتھ میں رکھی۔ لیکن یہ نقطہ نظر مسلمانوں سے اوجھل رہا اس لئے جلد ہی مسلمان ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہمارے سامنے مسلمانوں اور عیسوی امت کا کام موجود ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ان دونوں کے نیک حصوں کو لے کر ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کی غلطیوں سے بچیں۔
جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں اعلیٰ درجے کا طریقِ تعلیم یہ ہے کہ تعلیم دنیوی، دینی علماء کے ہاتھوں سے ہو تا کہ مذہب سے لگاؤ قائم رہے ۔ لوگوں نے تو انجینئر بننا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ انجینئرنگ کی تعلیم دینے والا مولوی یا واقفِ زندگی نہ ہو۔ ہاں اگر ہم یہ کہیں کہ تم نے انجینئر نہیں بننا تو وہ ضرور ہم سے اختلاف کریں گے کہ انجینئرنگ میں کیا قباحت ہے کہ تم ہمیں انجینئر نہیں بننے دیتے۔ لیکن اگر ہم کہیں کہ انجینئر تو بنو لیکن ایک واقف تحریک جدید سے پڑھ کر یا ایک عالمِ دین سے پڑھ کر۔ تو یقیناً ایک کمزور سے کمزور ایمان والا بھی اس سے تعلیم حاصل کرنے سے انکار نہیں کرے گا اور یقینی طور پر جو تعلیم وہ حاصل کرے گا اس کے نتیجہ میں اس کا دین محفوظ رہے گا۔ پس اب جب کہ بیداری پیدا ہو چکی ہے اور جب کہ تعلیم کا احساس پیدا ہو چکا ہے اور جب کہ ہماری جماعت کو ایسے ذرائع حاصل ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکے اگر ہمارے پاس کالج نہ ہو اور اعلیٰ درجے کا کالج نہ ہو اور انتہائی تعلیم دینے والا کالج نہ ہو تو ہمارا قدم دوسری اقوام کی نسبت پیچھے رہ جائے گا۔ مثلاً ایک شخص انگلستان جانے کا ارادہ کرے اور کہے کہ مَیں لنگڑے گدھے پر سوار ہو کر انگلستان جاؤں گا تو ہر دیکھنے والا اور ہر سننے والا اس پر ہنسے گا اور اسے ایک تماشہ سمجھے گا ۔ لوگ کہیں گے یہ اول تو راستہ میں ہی مر جائے گا اور اگر پہنچے گا بھی تو بڈھا ہو کر۔ کیونکہ جن راستوں سے ایک گدھا انگلستان پہنچ سکتا ہے وہ سات آٹھ ہزار میل کا ہے۔ ایک لنگڑا گدھا دن میں زیادہ سے زیادہ اسے پانچ چھ میل لے جائے گا اور اگر وہ روزانہ بھی سفر کرے گا تو بیس دنوں میں زیادہ سے زیادہ سَو میل چلے گا۔ سَو دنوں میں پانچ سو میل ، دو سو دنوں میں ہزار میل اور سولہ سَو دنوں میں آٹھ ہزار میل طے کرے گا ۔ اگر وہ پانچ سال متواتر چلتا رہے تب جا کر انگلستان پہنچے گا۔ لیکن انسان تھک بھی جاتا ہے، بیمار بھی ہوتا ہے اس لحاظ سے پانچ سال کی بجائے پندرہ سال سمجھنے چاہئیں۔ پس اس زمانے میں اگر کوئی شخص لنگڑے گدھے پر انگلستان جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ احمق ہے کیونکہ جب لوگ ریلوں میں جا رہے ہیں، ہوائی جہازوں میں جا رہے ہیں، بحری جہازوں میں جا رہے ہیں، اس وقت وہاں گدھے پر جانے کی کوشش کرنا کسی احمق کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم تعلیم پھیلانے کے لئے وہ ذرائع استعمال نہ کریں گے جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور جلد سے جلد تعلیم دلانے والے ہوں تو دوسری اقوام کے مقابلہ میں ہم ٹھہر نہیں سکتے اور اس وقت تک کام چلانے والے نئے لوگ ہمیں نہیں مل سکتے۔
یہ پچھلی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو نئے کارکن نہیں ملتے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مَیں نے تحریک جدید کے واقفین میں سے پانچ چھ گریجوایٹ نائب ناظر کے طور پر لگا دئیے ہیں تاکہ کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ کے ناظروں نے اس طرف کبھی بھی توجہ نہیں کی تھی اور انہیں کبھی یہ خیال ہی نہ آیا تھا کہ ہم نے بھی بیمار ہونا اور مرنا ہے۔ مگر باوجود صدر انجمن احمدیہ کو تحریک جدید کے چھ سات آدمی دے دینے کے ابھی ہم اس کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ابھی اَور ایسے پچیس آدمیوں کی ضرورت ہے مگر ہماری جماعت میں سے ہر سال صرف چار پانچ گریجوایٹ نکلتے ہیں۔ کچھ ان میں سے نوکری اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ تجارت کر لیتے ہیں باقی اگر کوئی بچے تو وہ ہمارے پاس آ سکتا ہے۔ فرض کرو ہمیں ہر سال ایک آدمی مل جاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ سو سال میں جا کر ہماری یہ ضروریات پوری ہوں گی۔ اس کے علاوہ اَور بھی بہت سی جگہیں ہیں جہاں ہمیں گریجوایٹس کی ضرورت ہے۔ اور اگر تمام ضروریات کو شامل کیا جائے تو ہمیں تین چار سو گریجوایٹس کی ضرورت ہے۔ کالج میں پڑھانےوالے گریجوایٹ چاہئیں، تبلیغ کے لئے باہر جانےو الے گریجوایٹ چاہئیں، صیغوں کے انچارج گریجوایٹ چاہئیں اور یہ ضروریات اسی وقت پوری ہو سکتی ہیں جب ڈیڑھ دو سو نوجوان ہر سال کالجوں میں سے بی اے پاس ہو کر نکلیں۔ اگر اتنی تعداد سالانہ نکلے تب دس پندرہ سالوں میں ہماری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا کالج مکمل کریں او رکوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ طالب علم یہاں داخل ہوں تاکہ ہم اپنے کالج سے سو گریجوایٹ سالانہ نکال سکیں او ربیرونی کالجوں میں داخل ہونے والے بھی سو کی تعداد میں نکلیں تب جا کر ہماری ضروریات ایک معقول عرصہ میں پوری ہو سکتی ہیں۔ لیکن جس طرح کام روزانہ بڑھتا چلا جاتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہ اندازہ بھی کافی نہیں۔ مَیں نے خدا تعالیٰ کا ہمیشہ یہ سلوک دیکھا ہے کہ جو کام ہم شروع کرتے ہیں اس میں زیادتی ہی زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً ہر سال ہم جلسہ گاہ کو بڑھا دیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ پہلے مسجد میں جلسہ ہوتا تھا لیکن اب ہم ہر سال جلسہ گاہ کو وسیع کرتے ہیں۔ پس یہ اہم ضروریات ہیں جن کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے پورے طور پر اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا۔ کالج کے چندہ کی اپیل پر پندرہ سولہ دن ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک چالیس ہزار کے قریب وعدے آئے ہیں اور صرف اُنگلیوں پر شمار کئے جانے والے افراد کے وعدے آئے ہیں۔ چھبیس ہزار کے وعدے تو صرف چار آدمیوں کی طرف سے ہیں۔ دو نے دس دس ہزار کےو عدے کئے ہیں۔ ایک نے پانچ ہزار کا اور ایک نے ایک ہزار کا۔ ایک تو دس ہزار کا وعدہ میرا ہے، دوسرا دس ہزار دینے کا وعدہ سیٹھ محمد صدیق صاحب کلکتے والے اور ان کے بھائی سیٹھ محمد یوسف صاحب نے کیا ہے۔ تیسرے پانچ ہزار کا وعدہ سیٹھ عبد اللہ بھائی کی طرف سے ہے اور چوتھے ایک ہزار کا وعدہ شیخ امام دین صاحب کا ہے جو بمبئی کی طرف تجارت کرتے ہیں۔ گویا اس میں چھبیس ہزار کے وعدے صرف چار آدمیوں کے ہیں۔ چھ ہزار کا وعدہ قادیان کی لجنہ کا ہے۔ اس طرح بتیس ہزار ہو گئے ۔ اگر قادیان کی لجنہ کو ایک فرد شمار کیا جائے تو پانچ افراد نے بتیس ہزار چندہ دیا ہے اور پانچ لاکھ افراد نے چھ سات ہزار۔ میرے نزدیک اس کی بہت بڑی ذمہ داری بیت المال پر بھی ہے ۔ بیت المال والے اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی تحریک جدید والے کرتے ہیں۔مَیں جس دن تحریک جدید کے چندہ کی تحریک کرتا ہوں اسی دن شام کو پیغام پہنچ جاتا ہے کہ آپ کی تحریک سے اتنے وعدے آئے اور یہ اثر ہؤا۔ اس تحریک کو کئے ہوئے سولہ دن ہو گئے ہیں لیکن بیت المال والوں نے مجھے ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ کیا حال ہے۔ مَیں نے خود دریافت کیا تو اَب جمعہ میں آتے ہوئے ان کا جواب پہنچا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اگر مجھے بتایا جاتا کہ تحریک کا کیا اثر ہؤا ہے تو میرے اندر زیادہ جوش پیدا ہوتا اور مَیں زیادہ زور سے تحریک کرتا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ خودقادیان اب اتنا بڑا ہو چکا ہے اور اتنا کام یہاں پیدا ہو چکا ہے کہ قادیان والوں کو ہی چندے کا کثیر حصہ برداشت کرناچاہئے۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے قادیان والے اگر صحیح قربانی کریں تو پچاس ہزار کے قریب چندہ دے سکتے ہیں مگر تاجروں کا حصہ ایسا ہے جو چندہ دینے میں بہت سُست ہے۔ مَیں نے بیت المال کو توجہ دلائی تھی کہ ان کی آمد کی صحیح تشخیص کرنی چاہئے ورنہ وہ ہمارے لئے ناسور بن جائیں گے جو باقی جماعت کو کھانا شرو ع کر دیں گے مگر بیت المال نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ انہیں چاہئے کہ وہ ہر دکاندار کے پاس ایک کلرک بٹھا دیں جو دن بھر یہ دیکھتا رہے کہ اس کی کتنی بِکری ہوئی ہے اور پھر اس سے پوچھا جائے کہ جب تمہاری آمد زیادہ ہے تو پھر تم چندہ کیوں کم دیتے ہو؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اگر دس ہزار روپیہ بھی خرچ کرنا پڑے تب بھی بیت المال کو یہ روپیہ خرچ کرنا چاہئے۔ اگر اس کا کوئی اَور فائدہ نہیں ہو گا تو کم از کم اس طرح حقیقت تو کھل جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے تاجروں کی کیا حالت ہے۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ ہمارے تاجر سلسلہ کا ہزاروں روپیہ دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دس روپے چندہ دیتے ہیں اور پھر اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ ہماری اس قربانی پر لوگ کتنی واہ وا کرتے ہیں۔
قادیان ہمیشہ چندوں میں اول رہا ہے اور اب بھی اول ہے مگر امراء کی وجہ سے نہیں جو سارا روپیہ اپنے نفس پر خرچ کرتے ہیں یا زمینیں خریدتے اور جائیدادیں بناتے ہیں بلکہ غرباء کی وجہ سے اول ہے جو اپنے پیٹ کاٹ کر اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کر چندہ دیتے اور سلسلہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ پس ہمیں اس روپیہ کے لئے فکر نہیں بلکہ فکر ہے اس جذام کی جو امراء اور تاجروں کے جسم میں پیدا ہو رہا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر پیدا ہو گیا تو ہم باقی جسم کو کس طرح بچائیں گے۔ مَیں تو کہوں گا کہ بے شک بیت المال والے ان سے روپیہ لے کر دریائے بیاس میں پھینک دیں۔ مگر ان کی جیبوں میں سے ضرور نکال لیں تا وہ بے ایمان ہو کر نہ مریں۔ اگر قادیان کے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو بہت سے لوگ اس میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کو لینا چاہئے۔ باقاعدہ تاجروں کے علاوہ یہاں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کام مستقل طور پر نہیں کرتے، کبھی ایک کام کرتے ہیں اور کبھی دوسرا کام کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت بڑی آمد پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا بھی چندہ میں بہت کم حصہ ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے ۔ اسی طرح بیرون جات کے بہت سے تاجر بھی اپنی ذمہ داریوں کو بہت کم سمجھتے ہیں۔ اس وقت ہزارہا احمدی تاجر ہیں اور پھر مَیں نے جو تحریک کی ہے کہ ہماری جماعت کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے نتیجہ میں بھی ہم ہزارہا اَور تاجر پیدا کریں گے لیکن ان تاجروں میں سے اکثر سست ہیں۔ بہت کم ہیں جو چست ہیں۔ اور جو چست نظر آتے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں کہ اگر وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو ان کے چندے ان کی آمدنیوں کے لحاظ سے بہت کم ہوں گے۔ پھر ہزارہا ہمارے افسر ایسے ہیں جن کو بڑی تنخواہیں ملتی ہیں۔ اگر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ باوجود دوسرے چندوں میں شامل ہونے کے پھر بھی وہ ابھی کافی مقدار میں چندے دے سکتے ہیں اور جلد دو لاکھ کی رقم پوری کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پس مَیں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اور باہر کے لوگوں کو عموماً، اسی طرح قادیان اور باہر کی جماعتوں میں سے تاجروں کو خصوصاً خواہ وہ دکاندار ہوں یا کبھی کبھی تجارتی کام کرنے والے، توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے ۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ان سے روپیہ ضرور لیا جائے خواہ بیاس میں پھینک دیا جائے لیکن لینا ان سے ضرور چاہئے۔ اسی طرح مَیں ان کو بھی کہتا ہوں کہ وہ روپیہ جو وہ کما کر اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں اور غریبوں پر خرچ نہیں کرتے اور لوگوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے نہیں لگاتے وہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے ایسے لوگ جو روپیہ کما کر اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں اور دین کی راہ میں خرچ نہیں کرتے قیامت کے دن وہ روپیہ پِگھلایا جائے گا اور پھر ا س سے ان کے ماتھوں اور پیٹھوں پر نشان لگایا جائے گا۔ 1
مَیں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اسلام روپیہ کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن جو لوگ روپیہ کمانے میں ہی لذت سمجھتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ گھروں میں رکھ چھوڑتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ الٰہی سلسلہ میں ایسے لوگوں کا کوئی کام نہیں اور ایسے لوگوں کا ایمان کبھی بھی قائم نہیں رہتا۔ اسلام مال کمانے سے منع نہیں کرتا مگر مال دار ہونے سے منع کرتا ہے۔ مال کمانا اَور چیز ہے اور مال دار ہونا اَو رچیز ہے۔ بے شک کماؤ ، کچھ خود کھاؤ کچھ اولاد پر خرچ کرو۔ کچھ ان کی تعلیم پر خرچ کر و، کچھ غرباء کو دو۔ اگر ایسا کرو تو یہ کمائی بابرکت ہو گی اور خدا کے سامنے تمہیں مجرم نہیں بنائے گی۔ لیکن اگر اس کمائی سے تمہارے اندر حرص پیدا ہوتی ہے کہ مَیں نے جو دس روپے چندہ دینا ہے اگر نہ دوں تو اگلے ہفتہ دس سے پندرہ بن جائیں گے اور بلیک مارکیٹ ہیں۔پچیس تیس بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ میں پچاس بن جائیں گے۔ پھر پچھتّر بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ دو سو بن جائیں گے۔ پھر اگلے ہفتہ پانچ سو بن جائیں گے اور پھر اس سے اگلے ہفتہ ایک ہزار بن جائیں گے۔ اور جب وہ ہزار پر پہنچتا ہے تو دس روپے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے اور کہتا ہے مَیں تو بڑی غلطی کرنے لگا تھا۔ تو ایسا انسان یقیناً مجنون ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری جماعت میں تو بڑے بڑے مالدار نہیں ہیں ہم میں یہ نقص کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ امارت ایک نسبتی امر ہے۔ جس شخص کے پاس دس روپے ہیں اس سے وہ شخص زیادہ مالدار ہے جس کے پاس بیس روپے ہیں اور جس کے پاس سو روپے ہیں اس سے زیادہ مالدار وہ شخص ہے جس کے پاس دو سو روپے ہیں۔ پس دولت اور امارت ایک نسبتی امر ہے۔ اس لحاظ سے ہماری جماعت میں سے بھی جس کے پاس دوسروں کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ روپیہ ہے وہ مالدار ہو گا خواہ اس کے پاس دس یا بیس یا سو یا دو سو روپے ہوں۔ بہرحال اسلام دولت کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن دولت جمع رکھنے سے اور اسے غرباء پر خرچ نہ کرنے سے ضرور منع کرتا ہے۔ اسلام بالشوزم کی طرح یہ نہیں کہتا کہ امیروں کو لوٹ لو لیکن یہ ضرور کہتا ہے کہ جو ان میں سے اپنا روپیہ جمع کرتے اور بڑھاتے ہی جاتے ہیں لیکن اس کا مناسب حصہ دین اور غرباء پر خرچ نہیں کرتےاُن کو گندے اور خراب عضو کی طرح اپنے جسم سے کاٹ کر الگ کرو۔ بالشوزم بھی ان کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی اور اسلام بھی ان کو اپنے اندر شامل نہیں کرتا۔ ہاں بالشوزم ان کا روپیہ لُوٹ لیتی ہے اور پھر ان کو الگ کر دیتی ہے لیکن اسلام ان کو بھی اور ان کے مالوں کو بھی گندہ قرار دے کر جہنم میں پھینک دیتا ہے۔
پس جہاں میں تعلیم پر زور دیتا ہوں اور جہاں میں صنعت و حرفت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں وہاں مَیں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر چندے کی جو ذمہ داری عائد ہے اس میں کوتاہی نہ کریں۔ ورنہ دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی۔ یا تو ان کے مالوں میں بے برکتی ہو جائے گی اور ان کے دیوالے نکل جائیں گے اور یا ان کا ایمان ضائع ہو جائے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنے فرائض کو پورے طور پر ادا کرے گی اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرتی رہی تو اس کے بعد ہم بہت بڑے بڑے کام قریب کے زمانے میں کر سکتے ہیں اور خدا چاہے گا تو بفضلہٖ تعالیٰ کر کے رہیں گے۔’’ (الفضل 16 اپریل 1946ء )
1: وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۔ يَّوْمَ يُحْمٰى عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ۔
(التوبة: 34 ،35)


12
احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو وقف کرنا رضاء ِالٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے
( فرمودہ 12 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘قادیان کے اور باہر کےسکولوں کے امتحانات یا تو ہو چکے ہیں یا عنقریب ختم ہونے والے ہیں۔ ہم نے یہ قانون پاس کیا ہؤا ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں مڈل پاس لڑکے لئے جائیں اور چار سال میں وہ مدرسہ احمدیہ کا ابتدائی کورس پاس کر کے پھر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہماری جماعت جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ ایک ایسا مقام ہے جس میں درحقیقت ہمیں ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کرنے کے لئے ایک سو مبلغ سالانہ کی ضرورت ہے۔ ایک سو مبلغ سالانہ کے معنے یہ ہیں کہ اگر آج سے ایک سو مبلغ ہمیں حاصل ہوں تو دس سال کے بعد ایک ہزار مبلغ ہم کو میسر آ سکتے ہیں حالانکہ دنیا کی آبادی اور اس کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تعداد کچھ بھی چیز نہیں۔ درحقیقت دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں اس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے۔ مگر کم سے کم ہمارا پہلا قدم اتنا تو ہونا چاہئے کہ ہم ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کے لئے ایک ہزار مبلغین کا اندازہ رکھیں۔ اس وقت ہمارے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مبلغ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ساٹھ ستّر کے قریب تو افریقہ میں ہیں اور پچیس کے قریب افریقہ کے علاوہ دوسرے ممالک میں ہیں۔ غیر ممالک میں جو مقامی مبلغ مقرر کر لئے جاتے ہیں اُن کی تعداد کا سوائے افریقہ کے کوئی صحیح اندازہ نہیں۔ بہرحال یہ 85 کے قریب مبلغ تو باہر کے ہو گئے۔ ستّر اسّی کے قریب ہندوستان میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور پچاس کے قریب دیہاتی مبلغ تیار ہو رہے ہیں۔ ان سب کو اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد دو سو کے قریب بن جاتی ہے مگر ان دو سَو مبلغین میں سے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مبلغ بہت کم ہیں۔ وہ مولوی فاضل یا گریجوایٹ جن کو ہم نے باقاعدہ تعلیم دلوائی ہے اگر ان سب کا اندازہ کیا جائے تو وہ ساٹھ ستّر سے زیادہ نہیں نکلیں گے۔ باقی سب ایسے ہی ہیں جنہیں وقتی ضرورت کے ماتحت تبلیغ کے کام پر لگا لیا گیا ہے۔ جہاں تک تبلیغ کے کام کا سوال ہے وہ اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں مگر جہاں تک سلسلہ کے مسائل کوکَمَاحَقُّہٗ سمجھنے کا سوال ہے وہ خود بھی ان مسائل کو کَمَاحَقُّہٗ نہیں سمجھ سکتے۔ کُجا یہ کہ دوسروں کو سمجھانے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہو سکتی جس کے تمام افراد علمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر ہوں۔ ضرور اُن میں سے کچھ زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کم علم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں حضرت ابو بکرؓ بھی تھے، حضرت علیؓ بھی تھے، حضرت عمرؓ جیسے انسان بھی تھے مگر ساتھ ہی بعض اس قسم کے بھی صحابہؓ تھے جو مسائلِ اسلامیہ کو کَمَاحَقُّہٗ سمجھنے کی استعداد اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ چند موٹے موٹے مسائل سمجھ لیتے اور اسی پر وہ اکتفا کرتے تھے جیسے حضرت بلالؓ تھے۔ یا فقہی مسائل کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ گو ظاہری علم ان کا زیادہ تھا جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ بہرحال کسی جماعت میں بھی سارے افراد یکساں طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک میں بھی مثل مشہور ہے کہ
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
یعنی خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچ انگلیوں کو بھی برابر نہیں بنایا۔ ان میں بھی کوئی چھوٹی ہے اور کوئی بڑی۔ مگر جہاں یہ حقیقت ہے کہ کسی جماعت کے تمام افراد علمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے وہاں اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ نہ کچھ سطح کا برابر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچوں انگلیوں کو برابر نہیں بنایا۔ لیکن اگر ایک انگلی بغل کے پاس ہوتی اور ایک انگلی ہاتھ کے سرے پر تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس فلسفہ کے ماتحت کہ خدا نے پانچ انگلیوں کو برابر نہیں بنایا بغل والی انگلی ہتھیلی کے ساتھ والی انگلی سے مل کر کوئی کام کر سکتی؟ یقیناً وہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ پہلی صورت میں انگلیوں میں فرق تو ہے مگر زیادہ فرق نہیں اور دوسری صورت میں دونوں انگلیوں کے درمیان اتنا بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی آپس میں مل کر کام نہیں کر سکتیں۔ پس دو چیزوں میں فرق تو بے شک ہوتا ہے مگر وہ فرق ایسا ہی ہونا چاہئے کہ بڑی چیز اپنے آپ کو نیچا کر سکے اور نیچے والی چیز اپنے آپ کو اونچا کر سکے۔ چنانچہ دیکھ لو خدا تعالیٰ نے پانچوں انگلیاں بے شک برابر نہیں بنائیں مگر لقمہ اٹھاتے اور منہ میں ڈالتے وقت وہ پانچوں انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں۔ بڑی انگلی نیچے جھک جاتی ہےاور چھوٹی انگلی اونچا ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اِس طرح ساری انگلیاں باوجود آپس میں فرق رکھنے کے برابر ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جماعتوں کے افراد میں اگر باہمی فرق اتنا زیادہ ہو کہ وہ آپس میں مل ہی نہ سکیں۔ ایک زمین کی کہتا ہو اور دوسرا آسمان کی۔ تو ایسی جماعت کبھی عمدگی سے کام نہیں کر سکتی۔ ہاں اگر فرق تو ہو لیکن وقت آنے پر اوپر کے درجہ والا نیچے جھک جائے اور چھوٹے درجے والا اوپر اٹھنے کی کوشش کرے تو وہ جماعت یقیناً کامیاب ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک بچہ کو جب باپ پیار کرنے لگتا ہے تو ایک طرف بچہ اپنی ایڑیوں کے بل کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف باپ اس کو پیار کرنے کے لئے نیچے کی طرف جھکتا ہے۔ لیکن اگر بچے کا قد چیونٹی کے برابر ہوتا تو تم سمجھ سکتے ہو کہ نہ باپ اِس قدر نیچے جھک سکتا اور نہ بچہ اس قدر اونچا ہو سکتا کہ وہ اپنے باپ کے پیار کو حاصل کر سکتا۔ اتنا بڑا فرق جب بھی پیدا ہو جائے قومی ہلاکت اور تباہی کا موجب بن جاتا ہے۔ اور جب کسی جماعت کے افراد کے اندر اتنا بڑا فرق سخت مُضِر ہوتا ہے تو مبلغین کے اندر اگر اسی قسم کا تفاوت پیدا ہو جائے تو وہ کیوں مُضِر نہیں ہو گا۔
بہرحال جب تک ہماری ساری جماعت علمی معیار کے لحاظ سے بلندی تک نہیں پہنچ جاتی اور جب تک ہماری جماعت موجودہ علمی حالت سے کئی گنا زیادہ ترقی حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک ہمیں اَور بھی زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے بڑے علماء ہماری جماعت میں ہر وقت تیار رہیں اور اتنی بڑی تعداد میں رہیں کہ جماعت کو ضرورت کے وقت وہ آسانی کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے یا اتنی بڑی تعداد میں اپنی جماعت میں علماء پیدا نہیں کریں گے کہ وہ ضرورت کے وقت جماعت کو سنبھال سکیں اس وقت تک ہر ٹھوکر کے وقت جماعت کے گرنے کا خطرہ ہو گا۔ اور علمی لحاظ سے بھی جماعت کبھی اتنی ترقی نہیں کر سکے گی کہ ضرورت کے وقت اس کے افراد آپ آگے بڑھیں اور جماعتی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔ پس ضروری ہے کہ جماعت کے بڑھنے کے ساتھ ہی علماء کی تعداد بھی ہماری جماعت میں بڑھتی چلی جائے۔ اس وقت ہماری جماعت میں علماء پیدا کرنے کا ذریعہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے جب ہماری ضروریات کے لئے صرف مرکزی مدارس ہی نہیں ہندوستان کے کالج اور سکول بھی کافی نہیں ہوں گے اور ہمیں دنیا کے گوشہ گوشہ میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قائم کرنے پڑیں گے۔ بلکہ ہر برِاعظم میں ہمیں ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم کرنی پڑے گی جو دینیات کی تعلیم دینے والی ہو اور جس سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ مگر جب تک ہمارا یہ خواب پورا نہیں ہوتا اور جب تک ہمیں ایسے سامان میسر نہیں آتے اس وقت تک ہمیں کم سے کم اتنا تو کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس جگہ جو مدرسہ عطا فرمایا ہے اور جو جماعت میں علماء پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے اس کی ترقی کے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کریں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس مدرسہ کی طرف ابھی تک پوری توجہ نہیں کی۔ مَیں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جس کے نتیجہ میں جماعت میں بیداری پیدا ہوئی اور تیس بتیس کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں شامل ہوئے۔ گو دوران سال میں یہ تعداد کچھ کم ہو گئی کیونکہ بعض لڑکے ایسے تھے جنہیں ماں باپ نے واپس بُلا لیا اور بعض لڑکے ایسے تھے جو خود ہی بھاگ گئے۔ اس طرح آٹھ دسکے قریب تعداد میں کمی واقع ہو گئی۔ مگر پھر بھی جو تعدادباقی رہی وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی۔ پہلے ہر سال صرف تین چار لڑکے مدرسہ میں داخل ہوتے تھے مگر اس تحریک کے نتیجہ میں قریباً تیس بتیس ہو گئے۔ ان میں سے اگر پچیس چھبیس لڑکے بھی پاس ہو جائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں آج سے چند سال کے بعد پچیس چھبیس مبلغ ملنے شروع ہوجائیں گے۔ یہ حالت پہلی حالت سے یقیناً بہتر ہے کیونکہ پہلے یہ تعداد دو تین پر آ کر رُک چکی تھی مگر اب پھر یہ تعداد بڑھتے بڑھتےپچیس چھبیس تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ گو باقی تمام پنجاب کی نسبت ہمارے علماء بہت زیادہ ہیں پھر بھی ہماری ضروریات کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے۔ سارے پنجاب میں جس قدر مولوی فاضل پاس ہوتے ہیں ان میں سے چالیس فیصدی احمدی ہوتے ہیں مگر یہ نسبت بھی ایسی ہے جس میں ہم پہلے مقام سے اب گر گئے ہیں۔ پہلے یہ حالت ہؤا کرتی تھی کہ احمدی اگر اَسّی فیصدی ہوتے تھے تو غیر احمدی بیس فیصدی ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہماری تعداد گرتی گئی اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ گویا دونوں طرف سے فرق پیداہونا شروع ہو گیا۔ ہماری طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے کم ہوتے چلے گئے اور اُن کی طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اَسّی فیصدی سے گر کر چالیس فیصدی پر آ گئے۔ اب میری طرف سے جو تحریک کی جا رہی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنے چاہئیں۔ اگر یہ تحریک کامیاب طور پر جاری رہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ چند سالوں میں ہی ہم خد اتعالیٰ کے فضل سے پچاس ساٹھ بلکہ ستّر فیصدی تک پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال گو تعداد ہماری زیادہ ہے مگر کام کرنے والوں کے لحاظ سے یہ تعداد زیادہ نہیں۔ ہماری جماعت میں سے پچاس ساٹھ طلباء مولوی فاضل کے امتحان میں ہر سال ضرور کامیاب ہونے چاہئیں بلکہ پچاس ساٹھ مولوی فاضل بھی بہت کم ہیں کیونکہ ہماری ضروریات اس سے زیادہ ہیں۔ پھر ہمارے سامنے ترقی کا جو وسیع پروگرام ہے اس کے لحاظ سے قطعی طور پر علم کا وہ معیار کافی نہیں سمجھا جا سکتا جو اس وقت ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے۔ جب تک صرف احمدیت کو سمجھنے کا سوال تھا ، جب تک احمدیت کو سمجھ کر لوگوں کے کانوں تک اس کی آواز کو پہنچانے کا سوال تھا اس وقت تک ہمیں اور قسم کے علوم کی ضرورت تھی، اگر ہم قرآن کریم کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے۔ اگر ہم احمدیت کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے تو یہ بات ہمارے لئے کافی تھی کیونکہ احمدیت کی غرض اس سے پوری ہو جاتی تھی۔ لیکن اگر ہم نے دنیا میں باہر نکلنا ہے، اگر ہم نے عرب علماء سے بھی ٹکر لینی ہے اور اگر مروّجہ علوم کے بڑے بڑے ماہرین کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو پھر لازمی طور ہمیں اپنے ظاہری علوم کا معیار بھی بڑھانا پڑے گا۔ ہم جس قسم کے علماء تیار کرتے رہے ہیں یا تیار کر سکتے تھے وہ ایسے ہی تھے کہ جہاں علمی لحاظ سے وہ قرآن کریم اور احادیث کو علماءِ ازہر سے بہتر سمجھتے تھے وہاں اگر عربی زبان میں گفتگو کرنے کا سوال آ جاتا تھا یا بعض خاص قسم کی اصطلاحات کا سوال آ جاتا تھا تو دوسرے لوگ ہمارے علماء سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اور چونکہ عام طور پر لوگ ظاہر کی طرف دیکھتے ہیں مغز کی طرف ان کی نظر نہیں جاتی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ظاہر ایک بیرونی چیز ہے جس کی طرف ہر شخص کی نگاہ فوراً اٹھنے لگتی ہے اور مغز اندر کی طرف ہوتا ہے جسے ظاہر بیں نگاہ نہیں دیکھتی۔ اس لئے وہ لوگ جو ظاہری علوم کے دلدادہ تھے ہمارے مبلغین سے پوری طرح متأثر نہیں ہوتے تھے۔ اب چونکہ ہم نے ان علاقوں میں بھی اشاعتِ احمدیت کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہے اس لئے ہمیں پہلے سے بہت زیادہ علماء کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی جماعت کے ایک طبقہ کو زیادہ اعلیٰ درجہ کے علمی معیار پر پہنچا سکیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باطنی طور پر ان کو اعلیٰ معیار پر پہنچانا ہمارے قبضہ میں ہے لیکن ظاہری طور پر اعلیٰ معیار پر پہنچانا اس وقت دوسروں کےقبضہ میں ہے۔ اور ہم اس وقت تک اس رَو کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہماری جماعت میں بھی ایسا طبقہ موجود نہ ہو جو ظاہری علوم کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے معیار کو حاصل کئے ہوئے ہو۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس معیار پر جلد سے جلد پہنچیں اور ہماری جماعت میں اعلیٰ درجہ کے علوم کے ماہرین کی ایک کافی تعداد پیدا ہو جائے تاکہ ہماری جماعت میں نئے علماء کی ضرورت کا سوال بہت حد تک حل ہو جائے۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت تک جماعت کے لوگوں نے میری تحریک پر کیا توجہ کی ہے۔ اصل طریق یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی تحریک کی جائے تو اس کے نتائج سے امام کو آگاہ رکھا جائے کیونکہ تمام کام امام کی آواز پر ہؤا کرتا ہے۔ مَیں نے اخبارات میں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی طرف سے اس قسم کے اعلانات تو دیکھے ہیں کہ دوستوں کو اپنے لڑکے یہاں تعلیم کے لئے بھجوانے چاہئیں مگر مجھے کسی نے بتایا نہیں کہ اس بارہ میں لڑکوں کی طرف سے کوئی درخواستیں آئی ہیں یا نہیں ۔اور اگر آئی ہیں تو کتنی ہیں۔ اگر مجھے بتایا جاتا تو مَیں اندازہ لگا سکتا کہ حالات امید افزا ہیں یا مایوس کُن۔ بہرحال میرا فرض ہے کہ مَیں چند سال تک متواتر جماعت میں بیداری پیدا کرتا چلا جاؤں یہاں تک کہ لوگوں پر اس کی اہمیت واضح ہوجائے اور وہ خود بخود اس طرف توجہ کرنا شروع کر دیں۔ اس سال پھر مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ ان کے دو ہی مالک ہیں۔ ایک سچا مالک ہے اور ایک جھوٹا مالک ہے۔ ایک خدا ان کا مالک ہے اور ایک شیطان ان کا مالک ہے۔ تم مجبور ہو اس بات پر کہ بہرحال ان دو میں سے ایک کے سپرد اپنی اولاد کو کر دو۔ اگر تم کسی کے سپرد نہیں کرو گے تو بہرحال تمہاری اولاد یاخدا کی طرف چلی جائے گی یا شیطان کی طرف چلی جائے گی۔ اگر تم اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد نہیں کرو گے تو یقیناً وہ شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں گی۔ اور اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے پاس ہر وقت اتنے علماء موجود رہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز کو ہر احمدی اور ہرغیر احمدی کے کان میں ڈالتے رہیں۔ جب تک ہماری آواز دنیا میں چاروں طرف پھیل نہیں جاتی اور جب تک ایسا ماحول پیدا نہیں ہو جاتا کہ احمدیت اس میں زندہ رہ سکے اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارا صرف بیج بو دینا کافی نہیں بلکہ اس بیج کے لئے مناسب ماحول کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا میں خالی بیج کافی نہیں ہوتا بلکہ بیج کے نشو و نما کے لئے زمین کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوا کی بھی ضرورت ہے، پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ساری چیزیں مل کر نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ صرف اتنا کافی نہیں ہوتا کہ بیج بو دیا اور اُٹھ کر گھر چلے آئے۔ اسی طرح ایک احمدی کا جب تک ماحول بھی احمدی نہ ہو اس کی احمدیت دائمی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی۔
احمدیت کی زندگی کی یہی صورت ہے کہ ایک احمدی بچہ جن بچوں کےسا تھ کھیلتا ہے وہ یا تو احمدیت قبول کرنے والے ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں۔ جن استادوں سے وہ تعلیم حاصل کرتا ہے وہ یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جن دفاتر میں وہ کام کرنے کے لئے جاتا ہے ان میں کام کرنے والے اور اس کے دائیں بائیں اور اِردگرد بیٹھنے والے یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جن بازاروں میں وہ سودا سلف لینے کے لئے جاتا ہے اُن بازاروں میں تاجر اور دکاندار یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ اسی طرح وہ اہلِ حرفہ اور اہلِ پیشہ جو اس کے گھر پر کام کرنے کے لئے آتے ہیں یا یہ ان کے گھر پر کام کرانے کے لئے جاتا ہےوہ سب کے سب یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں۔ اگر ایک مزدور اس کے گھر پر مزدوری کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے پاس کسی کام کے سلسلہ میں جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ مزدور احمدی ہو یا احمدیت سے متاثر ہو۔ اگر ایک سقّہ اس کے مکان پر پانی ڈالنے کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے مکان پر یہ کہنے کے لئے جاتا ہے کہ میرے گھر میں پانی ڈال دیا کرو تو وہ یا تو احمدی ہو یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہو۔ اسی طرح ایک نائی اس کے پاس حجامت بنانے کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے پاس حجامت بنوانے کے لئے جاتا ہے یا ایک درزی اس کے پاس کپڑوں کی سلائی لینے کے لئے آتا ہے یا یہ اس درزی کے پاس کپڑوں کو سلانے کے لئے جاتا ہے یا ایک دھوبی اس کے پاس کپڑے لینے کے لئے آتا ہے یا یہ دھوبی کے پاس کپڑے دینے کے لئے جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ نائی اور وہ درزی اور وہ دھوبی یا تو احمدی ہو یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہو۔ یا مثلاً ایک لوہار کسی کام کے لئے اس کے پاس آتا ہے یا یہ اس لوہار کے پاس جاتا ہے یا ایک ترکھان اس کے مکان کی مرمت کے لئے آتا ہے یا یہ اس ترکھان کے مکان پر جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ لوہار اور ترکھان یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں۔ جب تک ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی احمدی نہیں بنا لیتے، جب تک ہمارے دائیں اور ہمارے بائیں کام کرنے والے احمدی نہیں بن جاتے یا احمدیت کی آواز سے مرعوب نہیں ہو جاتے ا س وقت تک لازماً کان میں دو قسم کی آوازیں پڑتی رہیں گی اور دو قسم کی آوازیں ہمیشہ انسان کو یا تو گمراہ کر دیتی ہیں اور یا اس میں ہسٹیریا(HYSTERIA) کا مرض پیدا کر دیا کرتی ہیں۔
پرانے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے کہ دو کشتیوں میں قدم رکھنے والا سلامت نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی صحیح ہے لیکن اس سے بھی زیادہ صحیح وہ حقیقت ہے جو موجودہ زمانہ میں علم النفس کے ماہرین نے ثابت کی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ دو قسم کی آوازوں کا کان میں پڑنا دو کشتیوں میں قدم رکھنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کشتیاں اِدھر اُدھر ہوں تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کی ٹانگیں چِر جائیں لیکن جس شخص کے کان میں ہمیشہ دو قسم کی آوازیں آتی رہیں گی وہ یقیناً پاگل ہو جائے گا اور کسی شخص کا مر جانا اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہو کر زندہ رہے۔ پس جب تک ہم اپنے ماحول کو درست نہیں کر لیتے اس وقت تک ہماری اولادیں شیطانی حملوں سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ ہم خود انہیں دھکّے دے کر شیطان کی گود میں ڈالنے والے ہوں گے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری جماعت میں اس کا احساس پیدا ہو اور جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے وہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس وقت تک امراء اس تحریک میں حصہ لینے سے بہت حد تک محروم چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے بہت ہی کم بچے دین کی خدمت کے لئے وقف کئے ہیں۔ اگر ہم شمار کریں تو غرباء تو درجنوں کی مقدار میں ایسے نکل آئیں گے جنہوں نے اپنے بچوں کو خدمتِ دین کے لئے اس رنگ میں وقف کیا۔ لیکن اگر امراء کو گننے لگیں تو وہ دو چار سے زیادہ نہیں نکل سکیں گے۔ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کر کے ہم اس پر اپنی فوقیت یا اپنی قربانیوں کی عظمت ثابت نہیں کر سکتے۔ غرباء کا نمونہ اگر ہم پیش بھی کریں تو وہ کہہ دے گا کہ یہ بھوکے مرتے تھے، ان کے پاس اپنی تعلیم کا اَور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ جماعت نے وظائف مقرر کر دئیے اور وہ پڑھتے چلے گئے۔ اس میں انہوں نے قربانی کونسی کی ہے۔ اس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم غلط کہتے ہو۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اخلاص او رایمان کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اخلاص اور ایمان ایک ایسی چیز ہے جو ہم کسی کو دکھا نہیں سکتے۔ اگر وہ سارے کے سارے اخلاص سے کام لینے والے ہوں، سارے کے سارے ایمان کا اعلیٰ مقام رکھتے ہوں تب بھی دشمن کے مقابلہ میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے شک ہم نے ان کے لئے اپنا روپیہ خرچ کیا ہے لیکن اگر ہم روپیہ خرچ نہ کرتے تب بھی ان لوگوں میں ایسا اخلاص تھا کہ وہ ضرور قربانی کرتے اور اپنے بچوں کو بہرحال اس مدرسہ میں داخل کرتے؟ یہ ایک دل کی بات ہو گی جسے ہم ثابت نہیں کر سکیں گے اور ہمیں اپنے دشمن کے مقابلہ میں ضرور خاموش ہونا پڑے گا۔ اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ احمدیت نے غریبوں میں تو اخلاص پیدا کیاہے لیکن امیروں میں پیدا نہیں کیا۔ وہ کہے گا تم میں کھاتے پیتے لوگ بھی تھے۔ اگر احمدیت نے لوگوں کےد لوں میں واقع میں اخلاص پیدا کیا تھا تو وجہ کیا ہے کہ جو لوگ کھاتے پیتے ہیں انہوں نے اپنی اولادیں دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں مگر مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے کر دشمن کو ساکت نہیں کر سکتے۔ ہم سُرخرو ہو کر اس کے سامنے سے نہیں اٹھ سکتے۔ ہمیں ضرور شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ ہمارے جسم پر ضرور پسینہ آ جائے گا، ہماری زبان ضرور لڑکھڑانے لگ جائے گی اور ہمارا دل ضرور دھڑکنے لگ جائے گا۔ کیونکہ یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس کا سو فیصدی درست جواب دے سکتے ہیں۔ آخر جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے غریب اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے امیر اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے مرد اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کی عورتیں اچھی ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے بچے اچھے ہوں ۔یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے متوسط الحال لوگ اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اس کے علماء اچھے ہوں۔ یا جماعت اس کے معنے تو نہیں کہ اسکے جہلاء اچھے ہوں بلکہ جماعت اس کے معنے ہیں کہ اس کا ہر گروہ بحیثیت جماعت اچھا ہو۔ وہی جماعت اچھی کہلا سکتی ہے جس کے امراء بھی بحیثیت جماعت اچھے ہوں۔ شاذ و نادر کے طور پر اگر ان میں سے کوئی بگڑا ہؤا ہو تو یہ اَور بات ہے۔ ورنہ صحیح معنوں میں جماعت وہی کہلا سکتی ہے جس کے عام طور پر امراء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر غرباء بھی اچھے ہوں۔ جس کے عام طور پر علماء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر جہلاء بھی اچھے ہوں، جس کے عام طور پر مرد بھی اچھے ہوں اور جس کی عام طور پر عورتیں بھی اچھی ہوں، جس کے عام طور پر بچے بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر بوڑھے بھی اچھے ہوں۔ اگر کسی جماعت کا کسی ایک گروہ پر اثر پڑتا ہے دوسروں پر نہیں تو وہ یقیناً آسمانی جماعت نہیں کہلا سکتی۔ اس لئے کہ وہ محدود اثر رکھنے والی ہو گی۔ وہ قومی جماعت تو کہلا سکتی ہے مگر خدائی نہیں۔ خدائی جماعت وہ ہوتی ہے جو ہر گروہ کو مخاطب کرتی اور اپنے ہر مخاطب کو اپیل کرتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی جماعت غرباء کی جماعت ہوتی ہے مگر اس کے صرف اتنے ہی معنے ہوتے ہیں کہ انبیاء کی جماعتوں میں غرباء کثرت سے شامل ہوتے ہیں۔ یہ معنے نہیں ہوتے کہ امراء ان میں شامل ہی نہیں ہوتے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ رسول کریم ﷺ پر جو لوگ ایمان لائے وہ محض غرباء میں سے نہیں آئے بلکہ امراء میں سے بھی آئے۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ بھی آئے، حضرت عثمانؓ بھی آئے اور یہ دونوں مالدار تھے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ بھی مالدار خاندان میں سے تھے۔یہی حال حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کا تھا کہ وہ بھی اچھے مالدار خاندانوں میں سے تھے۔ اسی طرح غرباء بھی آئے، عورتیں بھی آئیں ، بچے بھی آئے، بوڑھے بھی آئے ، جوان بھی آئے۔ غرض سب کے سب آئے جو ثبوت تھا۔ اس بات کا کہ یہ کوئی خاص قسم کی پولٹیکل باڈی(Political - Body) نہیں تھی ۔ اگر پولٹیکل باڈی ہوتی تو اُنہی کی ہمدردی کھینچتی جن کو فائدہ پہنچانے کے لئے وہ کھڑی ہوئی تھی۔ مگر چونکہ یہ مذہب تھا اور مذہب کا تعلق ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی، امیر بھی شامل ہوتے ہیں اور غریب بھی، عالم بھی شامل ہوتے ہیں اور جاہل بھی، آزاد بھی شامل ہوتے ہیں اور غلام بھی۔ کیونکہ مذہب کا تعلق نہ امیر سے ہوتا ہے نہ غریب سے۔ نہ بوڑھے سے ہوتا ہے نہ جوان سے۔ نہ آزاد سے ہوتا ہے نہ غلام سے، نہ عالم سے ہوتا ہے نہ جاہل سے بلکہ سب سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص خواہش رکھتا ہے کہ مَیں اس میں داخل ہو کر نجات حاصل کروں۔ مگر جو قومی جماعت ہوتی ہے وہ چونکہ مخصوص لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اس لئے سب لوگ اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ احمدیت بھی اسی وقت دنیا پر اپنا رعب اور اثر پیدا کر سکتی ہے جب اس کا ہر طبقہ اپنے ایمان اور اخلاص کا ثبوت دے۔ محض غریبوں کا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کر دینا یا ان کا اپنی اولادوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دینا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ احمدیت نے ہر طبقہ پر اپنا اثر ڈال لیا ہے۔ لازماً اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہماری جماعت کے امراء احمدیہ نظام کی خوبی کے پوری طرح قائل نہیں۔ وہ اپنے پرانے نظام کےہی دلدادہ ہیں اور وہ چاہتےہیں کہ ان کے پلاؤ کھاتے بیٹے ہمیشہ پلاؤ ہی کھاتے رہیں اور ان کے مخمل پہننے والے بچے ہمیشہ مخمل ہی پہنتے رہیں۔چونکہ وہ احمدیہ نظام کو اس کے خلاف پاتے ہیں اس لئے وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
پس آج مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے، اگر احمدیت کی اتباع فائدہ بخش ہے اور اگر احمدیت کی اتباع انسان کو دین و دنیا میں سُرخرو کرنےوالی ہے تو امراء اور درمیانی طبقہ کے لوگ مجھے بتائیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس عظیم الشان خدمت سے محروم کر کے ان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں یا دوستی؟ اور کیا وہ اپنے بچوں کو اس طرف نہ بھیج کر اپنے ساتھ اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محبت کر رہے ہیں یا ان پر خطرناک ظلم کر رہے ہیں؟ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے اور اگر احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو وقف کرنا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے تو یقیناً قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور وہ لوگ سُرخرو ہوں گے جنہوں نے اپنے بچے خدمتِ دین کے لئے پیش کئے ہوں گے اور یقیناً وہ بچے بھی سُرخرو ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وقف کی ہوں گی۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شرمندہ ہوں گے جنہوں نے نہ خود دین سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر امراء اس طرف توجہ کریں تو انہیں بہت کچھ سہولت بھی ہے۔ وہ اپنی جائیداد کا کچھ حصہ ایسی اولاد کے لئے وقف کر سکتے ہیں۔ کلکتہ کے ایک احمدی دوست ہیں جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرا ایک بچہ جس کو مَیں نے خدمتِ دین کے لئے پیش کیا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے اپنی پچھتر ہزار کی ایک جائیداد وقف کر دوں تاکہ اس کی آمد اس کے کام آتی رہے۔ مَیں نے کہا یہ بہت عمدہ بات ہے۔ آپ ایسا ضرور کریں لیکن میرے نزدیک زیادہ بہتر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ یوں کریں کہ اپنی اس جائیداد کو ایک بچہ کے لئے وقف کر دیں۔ آپ اس جائیداد کو اس رنگ میں وقف کریں کہ آئندہ میری اولاد میں سے جو بھی اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرے گا، اس جائیداد کی آمد اس کے لئے وقف رہے گی۔ اگر آپ اس طرح جائیداد کو وقف کریں گے تو اس کا فائدہ صرف ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ آپ کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ اب دیکھو یہ کیسااچھا طریق ہے۔ جو اس دوست نے اختیار کیا اور اگر ایک شخص ایسا کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے لوگ بھی ایسا نہ کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اول بارہا فرمایا کرتے تھے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ اگر کسی کے دو بیٹے ہوں اور ان میں سے ایک دنیا کمائے تو وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے اس دوسرے بھائی کو نہ دے جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہو۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس کی بڑی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں یہاں تک کہ سب انصار نے یکدم اپنی ساری جائیدادیں مہاجرین کو پیش کر دیں اور انہیں اپنے ساتھ شریک کر لیا۔ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اے انصار! مہاجرین یہاں اجنبی ہیں، باہر سے آئے ہوئے ہیں اور یہاں ان کے کوئی رشتہ دار نہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تمہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دوں۔ چنانچہ آپ نے ایک ایک انصاری کو لیا اور اسے ایک ایک مہاجر کے ساتھ وابستہ کر دیا اور کہا کہ لو اب تم بھائی بھائی بن گئے ہو۔1 انہوں نے بھی اس اخوّت کو اتنی اہمیت دی کہ بعض نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ آؤ ہم اپنی جائیدادیں آپس میں تقسیم کر لیں کیونکہ جب ہم آپس میں بھائی بھائی بن چکے ہیں۔ تو اب ان جائیدادوں میں صرف ہمارا حصہ ہی نہیں بلکہ تمہارا حصہ بھی ہے۔ ایک شخص نے تو حد ہی کر دی وہ اپنے مہاجر بھائی کو گھر لے گیا اور کہا کہ میری دو بیویاں ہیں اور تم ابھی کنوارے ہو۔ ان دونوں میں سے جو بھی تمہیں پسند ہو مَیں اس کو طلاق دینے کے لئے تیار ہوں۔ تم اس سے شادی کر لو۔2 یہ الگ بات ہے کہ اس شخص کا یہ جوش انتہائی حد تک کو پہنچا ہؤا تھا۔ نہ مہاجر نے ایسا کیا اور نہ رسول کریم ﷺ نے اسے ایسا کرنے کے لئے کہا۔ مگر یہ بات ان کے اخلاص پر تو دلالت کرتی ہے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ وہ کس طرح آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے اور پھر کس طرح انہوں نے اپنی جائدادوں میں دوسروں کو شریک بنا لیا۔ اگر بغیر کسی جسمانی رشتے کے انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو آدھا آدھا مال دینے کے لئے تیار تھے تو کیا ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے بیٹے ایسا نہیں کر سکتے کہ ان میں سے جو شخص دنیا کما رہا ہو وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ اپنے اس بھائی کو دے دیا کرے جس نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہو۔ وہاں تو صرف ایک ہی رشتہ تھا یعنی انصار اور مہاجرین کےد رمیان صرف روحانی رشتہ تھا جسمانی نہیں۔ پھر جہاں جسمانی اور روحانی دونوں رشتے ہوں وہاں ایک دوسرے کے لئے کس قدر قربانی کرنی چاہئے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں اگر کسی باپ کے دو بیٹے ہوں تو ان دونوں کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے باپ سے کہیں کہ اے ہمارے باپ! آپ ہم میں سے جس کو چاہیں دین کی طرف بھیج دیں اور جس کو چاہیں دنیا کمانے پر لگا لیں۔ ہم میں سے جو شخص دنیا کمائے گا وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ ہمیشہ اس بھائی کو دے دیا کرے گا جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہو گا تاکہ اگر وہ کسی اَور طرح دین کی خدمت نہیں کر سکتا تو اسی رنگ میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرے۔ اگر قربانی اور ایثار سے کام لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں اس قسم کا عزم کر لینا کوئی مشکل بات نہیں۔
اور اس کی مثالیں ہمیں اَور قوموں میں بھی مل سکتی ہیں۔ چنانچہ ہندوؤں میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے۔ لالہ ہنسراج صاحب پرنسپل ڈی۔ اے۔وی۔ کالج لاہور جن کا ہندوؤں کی تعلیم میں سب سے زیادہ حصہ ہے وہ غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ ایسے غریب ماں باپ کے کہ ان کا تعلیم پانا بھی مشکل تھا۔ ان کا ایک بھائی ڈاکخانہ میں ملازم تھا اور وہی ان کو تعلیمی اخراجات دیتا تھا۔ چنانچہ اسی کی مدد سے انہوں نے کالج کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران میں پنڈت دیانند صاحب کی یادگار میں ڈی۔اے۔وی کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ چونکہ انہوں نے قومی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا ان کے بھائی نے کہا کہ مَیں ہمیشہ ان کو اپنی آدھی تنخواہ دیتا رہوں گا تاکہ یہ قوم پر بوجھ نہ بنیں۔ چنانچہ لالہ ہنسراج صاحب ساری عمرڈی۔ اے۔ وی کالج کے پرنسپل رہے اور انہوں نے اسے ادنیٰ حالت سے بہت بڑی ترقی تک پہنچا دیا۔ مگر قوم سے وہ کوئی روپیہ نہیں لیتے تھے۔ ہمیشہ ان کا بھائی اپنی تنخواہ میں سے نصف روپیہ ان کو بھجوا دیا کرتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں اس کی تنخواہ زیادہ ہو گئی تھی مگر بہرحال ایک ڈاکخانہ کے ملازم کی تنخواہ چار پانچ سو سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس تنخواہ کا آدھا حصہ وہ برابر ان کو دیتا رہا اور اسی پر ان کا گزارہ رہا۔ یہ درست ہے کہ ہندوؤں کے پاس روپیہ حاصل کرنے کے اَور بھی ذرائع ہوتے ہیں۔ چونکہ ہندو مالدار قوم ہے اس لئے اگر کسی کے پاس تھوڑا سا روپیہ بھی ہو تو قومی احساس رکھنے والے بینکروں کو وہ روپیہ دے کر ہزاروں روپے کی جائیدادیں پیدا کر لیتے ہیں۔ مسلمان ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن بہرحال ہندوؤں میں سے ایک شخص نے یہ مثال پیش کر دی کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو جس نے قوم کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا تھا ساری عمر اپنی آدھی تنخواہ دیتا رہا۔
یہ وہ نمونہ ہے جو سب سے پہلے رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ نے مدینہ میں پیش کیا جبکہ سارے شہر کے انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے آدھی آدھی جائیدادیں پیش کر دی تھیں۔ اگر رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ یہ نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کیا وہی مثال رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کا مثیل کہلانے والے احمدی اپنے نمونہ سے پیش نہیں کر سکتے؟ اور کیا آج ہر بھائی اپنے دوسرے بھائی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ بھائی! اگر تجھے دین کی خدمت کا شوق ہے تو بے شک خوشی سے جا اور یہ کام کر، مَیں ہمیشہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ تجھے دیتا رہوں گا تاکہ قوم پر تُو بوجھ نہ بنے اور اپنا کام عمدگی کے ساتھ کرتا رہے؟ مَیں سمجھتا ہوں ایک طرف ماں باپ کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلام کی خدمت کے لئے اِدھر بھیجیں اور دوسری طرف خود بچوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہئے کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے ماں باپ کو مجبور کریں کہ وہ انہیں اس طرف بھیجیں۔ یہ ایمان کا معاملہ ہے اور ایمان میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ ٔ نبوت فرمایا اور آپؐ نے تبلیغ شروع کی تو لوگوں نے ہچکچانا اور بھاگنا اور اعراض کرنا شروع کر دیا۔ آپ نے سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد ایک دن لوگوں کی دعوت کی اور ارادہ فرمایا کہ جب یہ لوگ کھانا کھا چکیں گے تو مَیں انہیں اسلام کی تبلیغ کروں گا۔ چنانچہ وہ لوگ آئے اور انہوں نے کھانا کھایا مگر جب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ تقریر کرنے لگے تو لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ رسول کریم ﷺ کو بہت ہی افسوس ہؤا کہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے جو تدبیر اختیار کی گئی تھی وہ کارگر ثابت نہ ہوئی۔ حضرت علی ؓ کی عمر اُس وقت گیارہ سال تھی۔ انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! آپؐ نے ان کو پہلے کھانا کھلا دیا اور تقریر بعد میں کی۔ اگر آپ پہلے تقریر کرتے اور انہیں کھانا بعد میں کھلاتے تو وہ کھانے کے انتظار میں ضرور بیٹھے رہتے اور آپ کی باتیں بھی سن لیتے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ہے تو بچہ مگر اس کی بات معقول ہے۔ چنانچہ آپ نے ان کی پھر دعوت کی۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے کھانا تقسیم کرنے سے پہلے ان کو اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔ روٹی کی خاطر وہ مجبوراً بیٹھے رہے اور انہیں آپ کی باتیں سننی پڑیں۔ آپ نے بڑے زور سے تقریر کرنے کے بعد فرمایا۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لئے ایک عظیم الشان دروازہ کھولا گیا ہے۔ اب تمہارے لئے موقع ہے کہ تم آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے اعلیٰ مدارج حاصل کرو۔ آج باقی ساری دنیا سے زیادہ تمہارے لئے ترقی کے دروازے کُھلے ہیں اور خدا نے تمہیں اپنے فضل سے ایک بہت بڑا قیمتی موقع عطا فرمایا ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور ترقی کے سامانوں سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا پیغام تم کو پہنچا چکا ہوں۔ کیا تم میں سے کوئی سعید روح ہے۔جو آپ آگے بڑھے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لَبَّیْک کہے؟وہ لوگ جو اپنے دلوں میں یہی سوچ رہے تھے کہ کھانا کب تقسیم ہوتا ہے، بِلاوجہ ہمارا وقت کیوں ضائع کیا جا رہا ہے وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے تھے۔ وہ خاموش رہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دو دفعہ پھر پوچھا مگر جب کسی نے جواب نہ دیا تو حضرت علیؓ جو اُس وقت گیارہ برس کے بچے تھے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! مَیں حاضر ہوں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ ایمان بچے اور بڑے میں کوئی فرق نہیں کیا کرتا۔ بہت سے نوجوان صحابہؓ میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ماں باپ ان کے شدید ترین مخالف تھے۔ وہ بارہ بارہ، چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ سالوں کی عمر کے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے ماں باپ ہمیں اس مذہب میں شامل ہونے سے روک رہے ہیں تو انہوں نے اپنی ماؤں کو چھوڑ دیا، اپنے باپوں کو چھوڑ دیا اور اپنے وطنوں کو چھوڑ دیا اور غریب الْوطنی کی زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک ہمارے ماں باپ کی اس دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جو وہ اسلام سے رکھتے ہیں تو انہوں نے اپنے ماں باپ کی شکلیں تک دیکھنا گوارا نہ کیا۔ وہ گئے اور انہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
پس یہ تحریک صرف بڑوں کے لئے نہیں بچے بھی اس تحریک کے مخاطب ہیں۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہیں اور بچوں کے دلوں میں ذاتی طور پر یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اے ہمارے باپ! یا اے ہماری ماں! آپ ہمیں دین کی تعلیم کے لئے آزاد کر دیں ۔ہمیں دنیوی کاموں پر لگانے کا ارادہ آپ ترک کر دیں اور دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں ۔ اور اگر بچوں میں یہ تحریک پیدا نہ ہو تو ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ خود اپنے بچوں پر زور ڈالیں اور انہیں کہیں کہ دنیوی تعلیم کو چھوڑو اور خدا کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو ۔ کیا پتہ کہ تم اپنی تعلیم کے مکمل ہونے تک زندہ بھی رہتے ہو یا نہیں مگریہ وہ تعلیم ہے کہ اگراس تعلیم کے حصول کے دوران میں بھی تم مر گئے تو تم مجاہد کہلاؤ گے۔ ایک شخص جو مدرسہ ہائی یا تعلیم الاسلام کالج میں پڑھتا ہے بغیر اس نیت اور ارادہ کے کہ وہ اس تعلیم کے نتیجہ میں دین کی خدمت کرے گا وہ اگر مر جاتا ہے پیشتر اس کے کہ اپنی تعلیم کو مکمل کرے تو وہ ایک ایسا بیج ہے جو ضائع گیا۔ مگر وہ جو دین کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نیت سے تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ اگر تعلیم کے دوران میں ہی مر جاتا ہے تو وہ ایسا بیج نہیں جو ضائع چلا گیا بلکہ ایک گٹھلی ہے جو یہاں سے نکالی گئی اور اگلے جہان میں بودی گئی۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے متعلق الہام ہؤا کہ ‘‘کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا۔’’3 جب دنیا نے کابل کی سر زمین میں ان کی زندگی کا پودا کاٹ کر پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ ان کی روح کو لے کر اپنی جنت میں لے گیا اور اس نے قادیان کے باغ ِجنت میں ان کو داخل کردیا۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ بڑے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور چھوٹے بھی۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہ ہوں تو بچوں کو چاہئے کہ وہ ان سے روٹھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ پہلے ہماری بات مانی جائے پھر ہم راضی ہوں گے۔ اگر بچے اپنے ماں باپ سے کپڑوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگر بچے اپنے ماں باپ سے کھانے پینے کی چیزوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگربچے اپنے ماں باپ سے جوتی اور بوٹ کے لئے روٹھ سکتے ہیں،اگر بچے اپنے ماں باپ سے روٹھ کر انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابّا جب تک آپ فلاں کپڑا مجھے خرید کر نہیں دیں گے مَیں کھانا نہیں کھاؤں گا، یا اماں جب تک مجھے فلاں چیز نہ دی گئی مَیں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ تو کیا وہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے اپنے ماں باپ سے روٹھ نہیں سکتے؟ کیا وہ اپنے ماں باپ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے ورنہ ہم روٹھےرہیں گے اور کوئی چیز نہ کھائیں گے نہ پئیں گے۔
ستیہ گرہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گاندھی جی کی ایجاد ہے حالانکہ ستیہ گرہ وہ چیز ہے جو بچوں نے آدم کےو قت سے ایجاد کی ہوئی ہے۔ گاندھی جی کی ستیہ گرہ تو ہم نے 1918ء یا 1919ء میں سنی ہے مگر ہم تو خود اپنے بچپن کے زمانہ میں کئی دفعہ ستیہ گرہ کیا کرتے تھے۔ بسا اوقات کسی بات پر خفا ہو کر ہم کھانا کھانا چھوڑ دیتے تھے اور گھر والے ہمیں منانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس ستیہ گرہ میں کئی دفعہ ہم اپنی بات ماں باپ سے منوا لیا کرتے تھے اور کئی دفعہ گاندھی جی کی طرح ہم شکست کھا کر روزہ توڑ دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے۔ پس اگر ماں باپ کے دلوں میں یہ رغبت نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں تو کیوں بچے خود صحن میں ستیہ گرہ کر کے نہیں بیٹھ جاتے اور کیوں اپنے ماں باپ سے نہیں کہتے کہ آپ ہماری زندگیوں کو کیوں تباہ کرتے ہیں اور کیوں ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے جانے نہیں دیتے۔ آخر کام تو سامانوں سے ہی ہؤا کرتے ہیں۔ روحانی کام ہوں یا جسمانی سب میں اسباب اور سامان ضروری ہوتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ روحانی ترقی کے اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ان سامانوں کو حاصل نہیں کرتے تو یقیناً ہم اپنی کامیابی کو دور پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ خدائی کام تو بہرحال ہو کر رہیں گے اور اسلام دوسرے اَدیان پر ضرور غلبہ حاصل کرے گا۔ یہ وہ خدائی تقدیر ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتی ۔لیکن اگر ہم اسلام کے غلبہ اور اس کی فتح کے دن کو ہر قسم کے اسباب سے کام لے کر اپنے قریب نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں اس دن کو اور زیادہ دور تو نہیں کرنا چاہئے۔
اس وقت ساری دنیا سے ہمیں آوازیں آ رہی ہیں اور لوگ پکار پکار کر ہم سے اپنی ضروریات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ آوازیں اتنی کثرت اور اس قدر تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں کہ ہم ان کا جواب دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ آدمی ہمارے پاس نہیں کہ ہم مختلف ممالک کو مہیا کر سکیں او رمطالبات ہیں کہ وہ روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ درجنوں آدمیوں کا افریقہ سے مطالبہ ہو رہا ہے اور درجنوں آدمیوں کی دوسرے غیر ممالک میں ضرورت ہے۔ ابھی سماٹرا اور جاوا کے راستے کھلنےو الے ہیں اور وہاں ہمیں درجنوں آدمی بھجوانے کی ضرورت ہو گی۔ ان علاقوں سے جو خطوط آئے ہیں ان میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اس جنگ میں اپنی آنکھوں سے وہ نظارے دیکھے ہیں جن کا قیامت کے متعلق پہلے ہم خیال کیا کرتے تھے۔ ان نظاروں کو دیکھنے کے بعد اب ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا ہمارے لئے آسان ہے۔ پہلے ہمیں پتہ نہیں تھا کہ دنیا کن کن حالات میں سے گزرنے والی ہے لیکن اب جبکہ ان حالات کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ہمیں اپنی زندگیاں بالکل حقیر معلوم ہوتی ہیں اور دنیا کا عیش اور آرام ہماری نگاہ میں بالکل بے حقیقت ہو گیا ہے کیونکہ ہم چار سال تک ایک دوزخ میں رہے ہیں اور ہم نے وہ نظارے دیکھے ہیں جنہوں نے دنیا کی محبت ہم پر سرد کر دی ہے۔یہ وہ ممالک ہیں جن میں رہنے والوں کے دل بالکل ہلے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں زیادہ زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ اب جوں جوں رستے کھلتے چلے جائیں گے ہمیں ان ممالک کی طرف زیادہ سے زیادہ لوگ بھجوانے پڑیں گے۔ اسی طرح یورپ اور دوسرے ممالک کے لئے بھی ہمیں درجنوں آدمیوں کی ضرورت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں خود بخود ایسے سامان پیدا کر رہا ہے جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے نہایت خوش کن ہیں اور آسمان سے ایک ایسی ہوا چل رہی ہے جو لوگوں کے قلوب کو صداقت کی طرف مائل کر رہی ہے۔ ایک طرف افریقہ کے حبشیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کے متعلق اپنی رغبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف عربوں میں باوجود ان کی شدید مخالفت اور تکبر کے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو رہا ہے جو احمدیت کے اصول کو درست سمجھتا اور اس کی تعلیم سے رغبت رکھتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہماری جماعت کے ایک دوست مصر گئے تو انہوں نے اَزہر یونیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم سے جو وہاں کے وائس پریذیڈنٹ اور مفتیوں کی مجلس کے صدر ہیں سے سوال کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں وہ یہ دلائل دیتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ اصل حقیقت کیاہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ اس عالم نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ قرآن کریم سے تو یہی پتہ لگتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ نیز انہوں نے مُتَوَفِّیْکَ کے معنوں کے متعلق لکھا کہ جہاں تک ہم عرب لوگ اس لفظ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں تَوَفِّیْ کے معنے قبضِ روح کے ہی ہیں۔ ان سے یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ اگر تَوَفِّیْ کے معنے موت کئے جائیں اور کہا جائے کہ قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ کی وفات ثابت ہے تو اس سے احمدیہ جماعت کو تقویت پہنچے گی۔ انہوں نے بڑی دلیری سے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے احمدیت کے پھیلنے یا نہ پھیلنے سے کوئی غرض نہیں۔ اگر احمدیت پھیلتی ہے توبے شک پھیل جائے قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اب دیکھو یہ کتنا دلیرانہ بیان ہے کہ ہر قسم کی ملامت سے بے خوف ہو کر انہوں نے کہہ دیا کہ دنیا خواہ کچھ کہے حقیقت یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں کیونکہ قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ غرض ایک عظیم الشان تغیر ہے جو دنیا میں پیدا ہو رہا ہے اور ایک رَو ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے سال ازہر یونیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم نے بیعت کی تھی۔ اب تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ازہر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار طلباء احمدی ہو گئے ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے نام ابھی ظاہر نہ کئے جائیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکال دیاجائے۔ ایک انگریز نَو مسلم کی اطلاع ہے کہ چار نہیں چھ سات کے قریب طالب علم احمدی ہو چکے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم الشان رَو احمدیت کی تائید میں چل رہی ہے۔ ازہر وہ یونیورسٹی ہے جہاں تعلیم حاصل کرنےو الے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص ان کو سکھانے والا نہیں ہو سکتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سال سے ایک عجیب تغیر پیدا ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال ایک شخص نے بیعت کی تھی اور اس سال چار طلباء نے بیعت کی ہے بلکہ انگریز نَو مسلم کی روایت کے مطابق چھ سات طلباء احمدی ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے اصل حقیقت یہ ہو کہ چار نے بیعت کی ہو اور دو تین بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ بہرحال یہ بڑھتی ہوئی رفتار بتا رہی ہے کہ علم کا وہ منبع جو دنیا میں چوٹی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے طلباء میں بھی یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہمیں اپنی روح کی تسکین کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے دین کا علم صحیح طور پر حاصل کرنا ہے اور اگر ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کا قُرب اور اس کی رضا کا حصول ہے تو یہ مقصد احمدیت کے سوا اور کہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ رَو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں پیدا کی جا رہی ہے اور جس کے نتیجہ میں لوگوں کی توجہ ہماری طرف پھر رہی ہے اس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریوں میں اَور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کریں اور اپنے پاس علماء کی ایسی جماعت تیار رکھیں جو ضرورت کے وقت ہم ان کی طرف روانہ کر سکیں۔ آخر یہ لازمی بات ہے کہ جب یہ آواز اَور زیادہ ممالک میں پھیلے گی۔ جب ازہر کے طلباء باہر نکلیں گے اور وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم احمدی ہیں تو لوگوں کی پیاس اور زیادہ بڑھنی شروع ہو جائے گی اور ان میں کُرید اور جستجو کا مادہ پہلے سے زیادہ ترقی کر جائے گا۔ وہ جو پہلے احمدیت کو تنفّر کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے اب محبت اور پیار سے دیکھنے لگ جائیں گے اور ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گا کہ آؤ ہم بھی دیکھیں احمدیت کیا چیز ہے۔ پھر جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آتی ہے یہ بیج اِنْشَاءَ اللہ ترقی کرے گا اور زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ آج اگر چار یا سات ازہر کے تعلیم یافتہ آدمی احمدی ہیں تو کل یہ تعداد دس تک پہنچ جائے گی؟ پھر دس سے بیس تک پہنچ جائے گی۔ پھر بیس سے پچیس تک پہنچ جائے گی اور پھر پچاس سے سینکڑوں تک پہنچ جائے گی؟ اور اتنی بڑی تعداد میں ازہر کے تعلیم یافتہ احباب کا احمدیت میں شامل ہونا یقیناً مصر میں ایک زلزلہ کے مترادف ہو گا۔ کیونکہ مصر ہمیشہ دعویٰ کرتا ہے کہ جامعہ ازہر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور جامعہ ازہر دنیا کے تمام مسلمانوں کی حفاظت کا کام سر انجام دے رہی ہے۔ اس دعویٰ کے ساتھ جب لوگوں میں یہ بات پھیلنی شروع ہوئی کہ ازہر کے طلباء او رعلماء سب احمدی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو یہ اتنا بڑا زلزلہ ہو گا کہ مَیں سمجھتا ہوں مصر میں اتنا بڑا زلزلہ پچھلے ہزار سال میں بھی نہیں آیا ہو گا۔ لوگ حیران ہوں گے کہ احمدیت کیا چیز ہے اور کیوں لوگوں میں اس کی قبولیت زیادہ سے زیادہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں یہ لازمی بات ہے کہ جب احمدیت کی آواز اردگرد کے علاقوں میں پھیلے گی اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گی کہ جامعہ ازہر میں پڑھنے والے احمدی بن رہے ہیں تو اَور ہزاروں لوگوں اور اردگرد کےتمام علاقوں میں بھی جستجو پیدا ہو گی کہ آؤ ہم بھی دیکھیں وہ کونسی چیز ہے جس نے ازہر پر بھی غلبہ پانا شروع کر دیا ہے۔ ہم بھی اس کی تحقیق کریں اور معلوم کریں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اس وقت جب لوگ ہم سے مطالبہ کریں گے کہ آپ اپنے آدمی بھجوائیں جو ہمیں احمدیت کی حقیقت سمجھائیں۔ کیا چیز ہے جو ہم ان کو پیش کریں گے ؟ کیا ہم ان کو یہ کہلا کر بھیجیں گے کہ ابھی ہم اپنے امراء میں جوش پیدا کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں۔ جب امراء کی اصلاح ہوجائے گی اور وہ اپنے لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں بھجوانا شروع کر دیں گے تو ہم پہلے چار سال ان کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے پھر جامعہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے اور پھر ایک عرصہ کے بعد جب ہمارے پاس علماء تیار ہو جائیں گے تو ہم انہیں تمہارے پاس بھجوا دیں گے؟ اگر ہم ان کو یہ جواب دیں گے تو ہمارا یہ جواب ایسا ہی ہو گا جیسے کہتے ہیں کہ ایک امیر کے پاس کوئی فقیر آیا اور اس نے کچھ صدقہ مانگا۔ وہ امیر تھا بخیل،اس نے اپنے نوکر کو آواز دی اور پھر اپنی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے بڑے بڑے نام لینے شروع کر دئیے اور کہا کہ اے ہیرے! تُو موتی سے کہہ اور اے موتی! تُو زمرد سے کہہ اور اے زمرد! تُو سونا سے کہہ اور اے سونے! تُو چاندی سے کہہ اور اے چاندی! تُو اِس فقیر کو کہہ کہ جا چلا جا میرے پاس کچھ نہیں۔ نام تو اس نے کتنے ہی لئے مگر آخر میں کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ یہی ہم کریں گے کہ جس جس ملک سے مبلغین کا مطالبہ ہو گا ہم اس بخیل امیر کی طرح انہیں یہی کہہ سکیں گے کہ ابھی ہم اپنی جماعت کے دوستوں کو تیار کر رہے ہیں اور ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر رہے ہیں، جس دن ان کے دلوں میں ایمان پیدا ہو گیا اور انہوں نے ہماری تحریک پر لبیک کہا ہم تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام شروع کر دیں گے۔ کیا وہ ہمیں یہ جواب نہیں دیں گے کہ اگر تم ابھی اپنی جماعت میں ایمان ہی پیدا کر رہے ہو تو ہم نے کیوں بیوقوفی کی کہ تمہارے پاس آئے؟ ہم نے تو سمجھا تھا کہ تمہارے پاس ایمان ہے۔ ایسی صورت میں دنیا ہمارے ان فقرات کا وہی جواب دے گی جو اس فقیر نے امیر کو دیا تھا۔ جب امیر نے اپنے نوکروں کے بڑے بڑے نام لے کر کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ تو وہ فقیر کہنے لگا اے خدا ! تُو جبرائیل سے کہہ اور اے جبرائیل! تُواسرافیل سے کہہ اور اَے اسرافیل! تُو میکائیل سے کہہ اور اے میکائیل! تُو عزرائیل سے کہہ ، وہ اس بخیل امیر کی جان نکال لے۔ ہم کو بھی دنیا کی طرف سے ایسا ہی جواب ملے گا اور ہم شرمندہ ہوں گے کہ ہم نے ان کے مطالبہ کو پورا نہ کیا۔ پس ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے تا جب بھی غیر ممالک کی طرف سے کوئی مطالبہ آئے ہم فوراً اس مطالبہ کو پورا کر سکیں۔
یاد رکھیں! مومن جماعت وہ ہؤا کرتی ہے جس کے سپاہی ہر وقت تیار کھڑے رہتے ہیں۔ صرف دروازہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے تو وہ اندر پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ دروازے کھل رہے ہیں اور ہم سپاہیوں کو بھرتی کرنے کی فکر میں اِدھر اُدھر پِھر رہے ہیں۔ مَیں جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے نازک موقع پر مومنوں کو غداری سے کام نہیں لینا چاہئے۔ آج ہر شخص کو چاہئے کو وہ آگے بڑھے اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دے۔ مگر چونکہ ہر شخص پہلے دن ہی اسلام کی خدمت نہیں کر سکتا بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ مدت تک تعلیم دلائی جائے اس لئے ہم پہلے کچھ عرصہ تک انہیں دینی تعلیم دلائیں گے اور پھر اصل کام پر مقرر کریں گے۔ بہرحال ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جو میٹرک پاس ہوں یا مڈل پاس دین کی خدمت کے لئے ہمارے سامنے پیش کریں۔ ان میں سے بعض کو مدرسہ احمدیہ میں اور بعض کو جامعہ احمدیہ کی سپیشل کلاس میں داخل کیا جائے گا تاکہ ان کو جلد سے جلد دین کی خدمت کے لئے تیار کیا جا سکے۔ جب یہ نوجوان تعلیم حاصل کر لیں گے تو ہم اس دن کا انتظار کریں گے جب باہر سے مطالبات آئیں اور ہم ان کو بیرونی ممالک میں اعلائے کلمۂ اسلام کے لئے بھجوا سکیں۔ لیکن اس کے علاوہ ہمیں فوری طور پر بھی ایسے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے جن کو قلیل سے قلیل عرصہ میں کاموں پر لگایا جا سکے۔ اس وقت ہمیں کئی قسم کے کارکنان کی ضرورت ہے مگر آدمیوں کی قلّت کی وجہ سے ہمارے بہت سے کام ادھورے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو ہم اس قسم کی ضروریات کو آسانی کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں۔
پس مَیں آج کے خطبہ کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔ اس وقت ہماری بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور ہماری حالت اُحد کے ان مُردوں کی طرح ہو رہی ہے جن کے کفن کے لئے اتنا تھوڑا کپڑا تھا کہ اگر ان کے سر ڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور اگر پَیر ڈھانکتے تھے تو سر ننگے ہو جاتے تھے۔ ہم ایک جگہ اپنا مبلغ بھجواتے ہیں تو دوسری جگہ کی مانگ کو پورا نہیں کر سکتے۔ دوسری جگہ کی مانگ کو پورا کرتے ہیں تو پہلی طرف سے ہمیں غافل رہنا پڑتا ہے۔ پس آج انتہائی ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ نوجوان جو مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہیں اپنے آپ کو خدمتِ سلسلہ کے لئے پیش کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ پھر بھی ابھی بعض مولوی فاضل اور گریجوایٹ چھپے بیٹھے ہوں اور انہوں نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو۔ کہتے ہیں جب مرتبان میں سے دوائی ختم ہو جاتی ہے تو تلاش کرنے سے اس کے کونوں میں سے کچھ نہ کچھ نکل آیا کرتی ہے۔ پس بے شک بہت سے گریجوایٹ اور مولوی فاضل جو ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے اور جو اس کام کے لئے فارغ ہو سکتے تھے ختم ہو چکے ہیں اور اب ایک دو سال تک ہمیں نئے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کا انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ ابھی بعض گریجوایٹ اور مولوی فاضل رہتے ہوں جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو۔ اور کچھ ایسے گریجوایٹ اور مولوی فاضل بھی ہو سکتے ہیں جو اس سال امتحان دینے والے ہوں۔ بہرحال جو بچے کھچے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہوں، اسی طرح وہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل جو اس سال امتحان دینے والے ہوں ان سب کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر پچھلے سالوں کے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اور کچھ ایسے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہمیں مل جائیں جو اس سال امتحان دینے والے ہوں تو ہم ان سب کو تیار کر کے اس دن کا انتظار کر سکتے ہیں جس دن ہمیں زیادہ شان اور زیادہ زور کے ساتھ دشمن پر دھاوا بولنا پڑے گا۔ آخر یہ کام نہ چند روپوں کا ہے نہ چند افراد کا ہے۔ جس طرح جرمنوں اور انگریزوں کی جنگ میں کئی کروڑ فوجی شامل ہوئے تھے اسی طرح اس روحانی جنگ میں بھی ہمیں کروڑوں افراد دھکیلنے پڑیں گے۔ بے شک ہماری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ ہم اس جنگ میں کروڑوں افراد دھکیل سکیں لیکن ہمیں کام تو ایسے رنگ میں کرنا چاہئے کہ ایک دن کروڑوں تک پہنچ جانے کی امید کی جا سکے۔ بہرحال جب تک وہ دن نہیں آتا ہمارا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجودہ وقت میں جو انتہائی طاقت ہے اسے صَرف کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرُو ہو جائیں۔ اگر ہم اس وقت اپنی انتہائی طاقت خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے صَرف کر دیں گے تو ہماری یہ انتہائی طاقت اس بات کی ضامن ہو گی کہ جس دن ہمارے پاس کروڑوں افراد آئیں ، اس دن ہم اپنے کروڑوں افراد بھی اس خدمت کے لئے پیش کر دیں گے اور اس میں ایک لمحہ کا بھی تأمل نہیں کریں گے۔ دنیا محض الفاظ پر تسلی نہیں پا سکتی۔ وہ ہمارے عمل کو دیکھتی اور اس سے نتائج اخذ کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر جنون کا رنگ پیدا کر کے دنیا کو دکھا دیں گے اور اگر ہم پاگلوں کی طرح ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بیتاب پھر رہے ہوں گے تو ان کی روح مطمئن ہو گی۔ وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے انہوں نے اپنے دل نکال کر ہماری طرف پھینک دئیے ہیں، انہوں نے اپنے جگر نکال کر ہماری طرف پھینک دئیے ہیں، انہوں نے اپنی انتڑیاں نکال کر ہماری طرف پھینک دی ہیں۔ اس سے زیادہ قربانی کی ہم ان سے امید نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسا خوشکن احساس ہو گا جس کے ماتحت وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور انہیں ہمارے متعلق کوئی شکوہ پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ دیکھیں گے کہ ہم آرام سے بیٹھے ہیں اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا ہمیں کوئی فکر نہیں۔ تو لازماً دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور رونما ہو گی۔ یا تو وہ اپنے کفر پر تسلی پا کر بیٹھ جائیں گے اور یا ایک نئی قسم کی احمدیت ایجاد کر کے اپنے اندر داخل کر لیں گے۔ اور یہ دونوں باتیں نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔
پس دونوں گروہوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ بڑوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور بچوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی کا فکر کریں تاکہ پیشتر اس کے کہ ہم پر وہ شرمندگی کا دن آئے کہ جماعتیں ہم سے آدمی طلب کریں اور ہم ان کی مانگ پورا کرنے سے قاصر ہوں۔ غیر ممالک کی طرف سے مبلغین کا مطالبہ ہو اور ہم کہیں کہ ہمارے پاس کوئی مبلغ نہیں۔ ہم اپنے آپ کو پوری طرح تیار کر لیں اور دنیا کی ضروریات پورا کرنے کا ہمارے پاس مکمل سامان موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی امداد کرے اور آپ کے ایمان اور اخلاص میں برکت پیدا کرے تاکہ اس اہم کام کی طرف آپ متوجہ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں۔’’ (الفضل یکم مئی 1946ء )
1: مسلم کتاب الجھاد باب رد المھاجرین الی الانصار منائحھم (الخ)
2: ترمذی کتاب البر و الصلة باب ما جاء فی مواساة (الاخ)
3: تذکرہ صفحہ 484 ایڈیشن چہارم


13
رسول کریم ﷺ کی صداقت کی ایک زبردست دلیل
( فرمودہ 19 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا۔1تُو نے اپنے رب کے اس اظہار کو نہیں دیکھا کہ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ اس نے کس طرح سائے کو لمبا کر دیا ہے۔ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا۔ اگر چاہتا تو وہ اس کو ساکن بنا دیتا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک دلیل بنایا ہے۔ یہ ایک زبردست صداقت رسول کریم ﷺ کی ہے۔ جس وقت سے رسول کریم ﷺ نے دنیا میں ظہور فرمایا ہے اس وقت سے برابر آپؐ کا سایہ کسی نہ کسی شکل میں ممتد ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپؐ کی زندگی میں ایک ساعت بھی تو ایسی نہیں آئی کہ آپؐ کی تعلیم نے پیچھے قدم ہٹایا ہو۔ پہلے ہی دن جب آپ پر الہام نازل ہؤا اور آپؐ اس بات سے گھبرائے کہ یہ کام مَیں کیونکر سر انجام دے سکوں گا، دلوں کا فتح کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ تو آپؐ گھبرائے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور اپنی بیوی کو یہ خدشہ بتایا کہ اتنی بڑی ذمہ داری خدا نے مجھ پر ڈال دی ہے اب مَیں کیا کروں؟ اس پر پہلا ہی جواب جو آپؐ کی بیوی نے آپؐ کو دیا وہ یہ تھا کہ کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا 2 ہرگز نہیں، ہرگز نہیں مجھے خدا کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ گویا جس وقت آپؐ نے اپنے خدشات کا اظہار فرمایا خدا تعالیٰ نے معاً آپؐ کے سایہ کو بڑھا دیا اور آپؐ کی بیوی آپؐ کے مذہب میں شامل ہو گئی۔
عورتیں بظاہر تردّد کرنے والی اور مُتَشَکِّک طبیعت کی ہوتی ہیں مگر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی بات کو سُنتے ہی کہا کہ پہلا سایہ تو مَیں آپؐ کا بنتی ہوں۔ پس فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہؓ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ وہ عربوں میں سے یہودی اور اسرائیلی علوم کے ماہر تھے۔ جب حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم ﷺ کو ان کے سامنے پیش کیا اور سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا بس ان پر وہی فرشتہ اُترا ہے جو موسیٰ پر اُترا تھا۔3 اس طرح ورقہ نے کہا کہ لو مَیں بھی اس سایہ میں شامل ہوتا ہوں۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ تم دیکھتے نہیں کہ ہم آپ کے سایہ کو کس طرح بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے ہی دن جب آپؐ دوسرے آدمی کے پاس پہنچے تو آپؐ کا سایہ اَور لمبا ہو گیا۔ پھر جب گھر میں آ کر اس بات کا ذکر میاں اور بیوی نے کیا تو ایک آزاد کردہ غلام کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بھی اپنے سایوں میں شامل کر لیجئے۔ جوانی کے قریب پہنچے ہوئے علیؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مَیں بھی آپؐ کا سایہ بنتا ہوں۔ آپؐ کے بچپن کے دوست ابو بکرؓ نے جب یہ واقعہ سنا تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُولَ اللہ! مَیں بھی آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہاَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ۔ دنیا میں نبیوں کی مخالفتیں تو ہؤا ہی کرتی ہیں اور آپؐ کی بھی سخت مخالفت ہوئی لیکن رسول کریم ﷺ کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی ایام میں ہی وہ لوگ جو آپؐ کے اردگرد رہتے تھے یا جن کی رائے کوئی قیمت رکھتی تھی آپؐ کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس طرح آپؐ کا سایہ فوراً ہی ممتد ہو گیا۔ ایک دن بھی تو رسول کریم ﷺ پر ایسا نہیں گزرا کہ آپؐ کا سایہ لمبا نہ ہؤا ہو۔ یہ نہیں ہؤا کہ آپؐ کے دعویٰ پر ایک دن گزر گیا ہو اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ دو دن گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ دس دن گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ یا مہینہ دو مہینے گزر گئے ہوں اور آپؐ کا کوئی تابع نہ ہؤا ہو۔ بلکہ پہلے ہی دن جب آپؐ اللہ تعالیٰ کے الہام کا ذکر فرماتے ہیں فوراً آپؐ کا سایہ لمباہو جاتا اور حضرت خدیجہؓ آپؐ پر ایمان لے آتی ہیں۔ پھر اسی دن جب آپؐ چل کر باہر ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچتے ہیں تو ورقہ بن نوفل آپؐ پر ایمان لے آتا ہے۔ گھر میں آپؐ نے بات کی تو علیؓ اور زیدؓ ایمان لے آئے او رپھر اسی شام یا دوسری شام حضرت ابو بکرؓ بھی آپؐ پر ایمان لانے والوں میں شامل ہو گئے۔ گویا نہ صرف خدا تعالیٰ نے فوراً آپؐ کا سایہ پیدا کر دیا بلکہ وہ اس سایہ کو لمبا کرتا چلا گیا ۔پھر بڑھتے بڑھتے اَور بھی کئی جماعتیں اس سایہ میں شامل ہونی شروع ہوئیں۔ مدینہ میں خبر پہنچی تو وہاں کے کئی افراد دوڑتے ہوئے آئے اور آپؐ پر ایمان لے آئے۔
پھر فرماتا ہے وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا اگر خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت تیرے شاملِ حال نہ ہوتی اور تُو خدا تعالیٰ کا سچا رسول نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ تیرے سایہ کو بڑھانے اور اس کو ترقی دینے کی بجائے خدا تعالیٰ تیرے سایہ کو چھوٹا کر دیتا۔ کیا تُو خدا تعالیٰ کی اس مدد کو نہیں دیکھتا کہ وہ تیرے سایہ کو لمبا کرتا چلا جاتا ہے؟ اور کیا تیرے منکروں اور دشمنوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو لمبا کرتے جا رہے ہیں؟
پھر بعض سائے ایسے ہوتے ہیں جو اتفاقی حادثہ کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں اور گو وہ سائے بھی بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں لیکن جس قدر وہ سائے ممتد ہوتے چلے جاتے ہیں صاف ظاہر ہوتا جاتا ہے کہ دنیوی ذرائع اور مادی سامان اس کو لمبا کرنے میں کام کر رہے ہیں۔ الٰہی تائید اور نصرت کا اس میں ہاتھ نہیں۔ مگر فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا تمہارا سایہ صرف لمبا ہی نہیں بلکہ ہم سورج کو بھی اس پر دلیل بنا رہے ہیں۔ یعنی ہر شخص کو نظر آ رہا ہے کہ یہ سایہ مصنوعی ذرائع سے پیدا نہیں ہؤا۔ دنیا میں سایہ لیمپوں سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک درخت کے پیچھے لیمپ رکھ دو تو ا س کا سایہ بن جائے گا، موم بتّی جلا دو تب بھی سایہ بن جائے گا مگر موم بتّی اور لیمپ خدائی ذرائع نہیں انسانی ذرائع ہیں ۔ لیکن سورج ایک ایسی چیز ہے جو محض خدائی ذریعہ ہے۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۔ تیری ترقی الٰہی سامانوں اور نصرتوں کی وجہ سے ہے نہ کہ انسانی سامانوں اور مادی ذرائع کی وجہ سے۔ کیا دشمن اس بات کو دیکھتا نہیں کہ ایک طرف تیری ترقی پر ترقی ہو رہی ہے اور دوسری طرف تیری ترقی مادی سامانوں اور انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدائی ہاتھ تجھ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ تُو ہمارا سچا رسول ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ ہم سایہ کو کھینچ لیں گے اور تین سو سال بعد اسلام پر رات آنے لگے گی ۔مگر اس کے بعد پھر دن چڑھے گا۔وَ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا4اور مسلمان سورج کے نئے طلوع کےذ ریعہ سے بیدار ہونے لگیں گے۔ اس آیت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں احمدیت بھی رسول کریم ﷺ کا ایک سایہ ہے۔ ہرشخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان لاتا ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کےسایہ کو اَور زیادہ ممتد کرتا ہے۔ اسی طرح ہر تائیدِ سماوی اور ہر الٰہی نصرت جو ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ صاف طور پر اس حقیقت کو واضح کر رہی ہے کہ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۔ یہ سب کچھ خدائی نصرت اور تائید سے ہو رہا ہے۔ انسانی سامانوں سے نہیں ہو رہا۔ آخر وہ کونسی چیز ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے دنیا کی اتباع کی ہے یا کونسا مسئلہ ہے جس کے متعلق رائج الوقت خیالات کی اصلاح کرنے کی آپ نے کوشش نہیں کی۔ بیسیوں مسائل ہیں جن کے متعلق قرآنی تعلیم کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے موجودہ زمانہ کی رَو کے بالکل خلاف اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے اور لوگوں کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلایا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اقتصادیات کی طرف لوگوں کا بہت بڑا رُجحان ہے۔ اور پنڈت جواہر لال نہرو ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ مذاہب کی آپس کی جنگ درحقیقت یونہی ہے۔ اصل جھگڑا روٹی کا ہے۔ اگر اس جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے تو مذاہب کی جنگ بالکل ختم ہو جائے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے انشورنس اور سُود کو منع کرکے بظاہر لوگوں کے لئے روٹی کے سامان بالکل بند کر دئیے ہیں۔ اگر دنیا میں روٹی کا ہی جھگڑا ہوتا تو چاہئے تھا کہ اس تعلیم کی وجہ سے لوگ حضرت مرزا صاحب سے دُور بھاگتے اور کہتے کہ یہ شخص ہماری روٹی بند کرتا ہے ،ہمیں سُود سے منع کرتا ہے، ہمیں انشورنس سے روکتا ہے، ہمیں ہر قسم کی ٹھگیوں اور دھوکا بازیوں سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر ہؤا یہ کہ اس تعلیم کے باوجود لاکھوں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی طرف کھنچے چلے آئے۔
دوسرے نمبر پریہ زمانہ عورتوں کی آزادی کا ہے۔ مسلمانوں کے قدیم سے قدیم خاندان بھی پردہ چھوڑتے چلے جاتے ہیں اور پردہ کے خلاف دنیامیں ایک عام رَو چل رہی ہے لیکن حضرت مرزا صاحبؑ نے کہا کہ اسلام نے اپنے متبعین کو جو پردہ کا حکم دیا ہے ہمیں بہرحال اس پر عمل کرنا ہو گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں دوسروں سے زیادہ تعلیم ہے پھر بھی اسلامی احکام کے مطابق پردے کا طریق ہماری جماعت میں رائج ہےا ور ہمیشہ کثرت کے ساتھ عورتیں اس سلسلہ میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں ایسی بھی ہیں جو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جن میں پردہ کا طریق رائج نہیں تھا۔ مگر احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے بھی پردہ اختیار کر لیا۔ پچھلے سے پچھلے سال ایک معزز خاندان جو صوبہ پنجاب سے باہر کا ہے اور جس کا نام مَیں نہیں لینا چاہتا اُس کی ایک لڑکی ہماری مستورات سے ملی اور آہستہ آہستہ اس کے ہماری مستورات کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو گئے اور احمدیت کی حقیقت اسے سمجھ آ گئی مگر وہ بار بار ہماری مستورات سے کہتی کہ مجھ سے پردہ نہیں کیا جا سکتا اور سینمانہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ دو چیزیں میرے راستہ میں روک ہیں۔ مگر آخر صداقت اس کے دل میں اتنا گھر کر گئی کہ اس نے ان تمام روکوں کے باوجود احمدیت قبول کر لی۔ میری بیوی نے مجھے سنایا کہ وہ بُرقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کے آنسو جاری تھے اور وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اب تو بُرقع پہننا ہی پڑے گا۔ غرض عورتیں جن کا اس وقت رعب داب پھیل رہا ہے اور جن کی حکومت نئے سرے سے قائم ہو رہی ہے۔ ان کی آزادی کی تحریک کے خلاف آپ ؑنے پردے کے حکم کی تصدیق فرمائی۔
اسی طرح عورتیں کثرت ازدواج کے سخت خلاف ہوتی ہیں۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک سے زیادہ بیویاں کی جا سکتی ہیں۔ خواہ وہ ضرورت قومی ہو یا فردی۔ بعض لوگ صرف فردی ضرورت کو اہم سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام نے فردی اور قومی دونوں ضرورتوں کے ماتحت کثرتِ ازدواج کو جائز رکھا ہے۔ اس حکم پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے خاص طور پر زور دیا اور فرمایا کہ جو عورت اس حکم کے خلاف چلتی ہے اس کے ایمان میں کمزوری پائی جاتی ہے۔5 مگر باوجود اس کے کثرت سے عورتیں احمدیت میں داخل ہوئیں اور ہمیشہ داخل ہوتی رہتی ہیں اور وہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ مسائل بالکل درست ہیں ۔
پھر یہ زمانہ سٹرائیکوں کا ہے۔ جتّھے بنا بنا کر حکومتوں کے خلاف کھڑے ہو جانایا مالکوں اور کارخانہ داروں اور اُستادوں وغیرہ سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے سٹرائیک (Strike) کر دینا ایک عام بات ہے اور اسے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے سٹرائیک سے بھی منع فرما دیا۔ گویا یہ جماعت جو دنیا میں ترقی کرنے والی تھی اس کے خلاف بھی حکم دے دیا۔ مگر باوجود اس کے ہماری جماعت میں کثرت سے طلباء داخل ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی نسبت ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے حالانکہ سٹرائیکوں میں طلباء کا ہی زیادہ تر دخل ہوتا ہے۔ اس طرح مزدور پیشہ لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں حالانکہ ان کے خلاف حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس وجہ سے بڑی بڑی تکالیف بھی اٹھائیں اور ہمیشہ اٹھاتے رہتے ہیں مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ ابھی گزشتہ دنوں نیوی کی بغاوت ہوئی ہے۔ اس میں احمدیوں کو مارا گیا، پیٹا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ بھی سٹرائیک میں حصہ لیں مگر وہ اَڑے رہے اور انہوں نے کہا کہ ہم سٹرائیک میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہماری جماعت کے یہی احکام ہیں۔
غرض جتنی تحریکیں اس زمانہ میں چل رہی ہیں ان ساری تحریکوں کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام نے وعظ فرمایا۔لیکن باوجود اس کے ایک یہاں سے ایک وہاں سے ایک اِس ملک سے اور ایک اُس ملک سے، ایک اِس طبقہ سے اور ایک اُس طبقہ سے، ایک اِس جماعت سے اور ایک اُس جماعت سے ہماری طرف کِھنچا چلا آیا اور یہ جماعت برابر اپنا قدم آگے ہی آگے بڑھاتی چلی گئی۔ دنیا کی کوئی مخالفت اس کو زیر نہیں کر سکی۔ نہ علماء کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے نہ فقہاء کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ فلسفیوں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے، نہ پروفیسروں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ گورنمنٹ کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ رعایا کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ نہ قوموں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے اور نہ مذہبوں کی مخالفت اس کو زیر کر سکی ہے۔ ہر جگہ ہم ٹکرائے اور ہر جگہ ہمارے خیرخواہوں نے ہم کو مشورہ دیا کہ فلاں مسئلہ جو آپ بیان کرتے ہیں اسے ترک کر دیں کیونکہ طبائع میں سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔ یا فلاں تحریک جو آپ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے ان باتوں کو نظر انداز کر دیا، پھینک دیا اور ردّ کر دیا اور صرف ایک بات کو سامنے رکھا کہ جو کچھ خدا کا حکم ہے اس کو ہم اپنے مدنظر رکھیں گے، چاہے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ جب ہم خدا کے حکم کے ماتحت یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر خدا نے ہمیں دوزخ میں گرنے کا حکم دیا ہے تو یہ دوزخ ہی ہمارے لئے جنت ہے۔ اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم اس دوزخ میں گر گئے۔ تو ہم نے دیکھا کہ دوسرے لوگ تو تپتی ہوئی ریتوں پر پڑے سِسک رہے ہیں اور ہم جنہوں نے ایک نظر آنے والے دوزخ میں اپنے آپ کو گرایا تھا ہم نے اپنے آپ کو ایک سرسبز و شاداب اور ٹھنڈے گلستان میں پایا۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا تمہاری ترقیات جس قدر ہوں گی انسانی تدابیر سے باہر ہوں گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تدبیر مادی نہیں کی جائے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ تدبیر مادی کے سامان بھی خدا تعالیٰ خود مہیا کرے گا تم نہیں کرو گے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ترقی دے کر اب ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا ہماری طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی اور ہمارے لئے اس مقام کے حصول میں اب بہت تھوڑی دیر باقی ہے۔
جیسا کہ پچھلے سال ستمبر کے ایک خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جسے ٹرننگ پوائنٹ(Turning Point) کہتے ہیں۔ یا ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے کسی عورت کے ہاں جلد ہی بچہ پیدا ہونے والا ہو۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب ترین عرصہ میں وہ وقت آنے والا ہے کہ دنیا ہماری جماعت کو ایک مستقل جماعت اور باقاعدہ جماعت تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اور ہمارا وجود اس بات کا ثبوت ہو گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایک سایہ دار درخت بنایا ہے۔ جو سایہ قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے ماتحت کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّدنیا میں روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ ورنہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے تو وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا کیا خدا تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اس کو ساکن کر دیتا۔ اگر اس سایہ کے بڑھانے میں انسانی تدابیر کام کر رہی ہوتیں خدا تعالیٰ کا اس سلسلہ میں کوئی دخل نہیں تھا تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ اس کو ترقی کرنے سے محروم کر دیتا۔ مگر فرماتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اس کو ساکن کرتا وہ اس پر دلیل بن گیا ہے اور اپنی نصرتوں اور تائیدات سے اس کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اور جس سلسلہ کو خدا تعالیٰ مٹاتا نہیں بلکہ بڑھا رہا ہے۔ اس کےسچا اور خدائی ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو جن شدید ترین دشمنوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا اُن میں سے بعض افراد کے متعلق اس موقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ حکم دے دیا کہ وہ جہاں بھی مل جائیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ انہی میں ایک ہندہ بھی تھی۔ جب اسے معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے قتل کرنے کا حکم دےد یا ہے۔ تو وہ عورتوں میں چھپی چھپی آپ کے پاس پہنچ گئی۔ جب عورتوں کی بیعت ہونے لگی تو وہ بھی ان عورتوں کے ساتھ مل کر الفاظ بیعت دہراتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اقرار کرو کہ ہم شرک نہیں کریں گی۔ ہندہ ایک نہایت ہی جابر عورت تھی اور اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو قتل کر کے ان کا کلیجہ نکال کر چبا جاتی اور سمجھتی کہ مَیں بہت اچھا کام کر رہی ہوں۔ جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو ہندہ اپنی جوشیلی فطرت کے اُبھار کو روک نہ سکی اور وہ جھٹ بول اٹھی کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟آپؐ اکیلے تھے اور ہم ایک زبردست قوم تھے، آپؐ اکیلے نے توحید کی آواز کو بلند کیا اور ہماری ساری قوم نے مل کر آپؐ کے مقابلہ میں بتوں کی عظمت قائم کرنے کا تہیّہ کیا۔ ہمارا اور آپؐ کا مقابلہ ہؤا اور اس مقابلہ میں ہم نے اپنا سارا زور صَرف کر دیا مگر اس کے باوجود ہم گھٹتے چلے گئے اور آپؐ بڑھتے چلے گئے۔ ہم ہارتے چلے گئے اور آپؐ جیتتے چلے گئے۔ اگر ہمارے بتوں میں کچھ بھی طاقت ہوتی تو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ ہمارے مقابلہ میں جیت جاتے۔ آپؐ کا ہمارے مقابلہ میں اکیلے ہوتے ہوئے جیت جانا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے بت بالکل بیکار ہیں اور خدائے واحد کی ہی اس دنیا پر حکومت ہے جس نے آپؐ کی مدد کی اور ہم سب کو آپؐ کے مقابلہ میں شکست دی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہندہ ہے؟ ہندہ بھی جانتی تھی کہ اسلام کی حکومت صرف مجھ پر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی ہے اس نے کہا ہاں ہندہ ہوں مگر مسلمان ہندہ۔ اب آپ کا پہلا حکم مجھ پر چل نہیں سکتا۔ 6تو الٰہی مدد کا ہونا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ شخص راستباز ہے۔ اور الٰہی مدد کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ باوجود دنیوی مخالفت کے ایک قوم بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوئی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک بہت بڑا نشان ہے کہ اس نے ہمیں ادنیٰ حالت سے بڑھایا اور کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ یہی جگہ ہے جہاں آج سے بتیس سال پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ کے ہاتھ میں جماعت کے تمام کاموں کی باگ ڈور دے دی گئی ہے، یہ لوگ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کر رہے ہیں ۔ کچھ زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہاں تباہی اور بربادی کے آثار پوری طرح ظاہر ہو جائیں گے۔ قادیان بالکل ویران ہو جائے گا اور وہ سکول جو اس وقت نظر آ رہا ہے اس پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا۔ مگر اب وہ سکول جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فقرہ کہا گیا تھا سکول نہیں بلکہ کالج بن چکا ہے اور اس سال اِنْشَاءَ اللہ ڈگری کالج بن جائے گا۔ اور وہ بچہ جسے قوم کو تباہ کرنے والا قرار دیا گیا تھا اب بچہ نہیں بلکہ بوڑھا ہے۔ بڑے بڑے بوڑھوں نے اس بتیس سال کے عرصہ میں اس بچے کا مقابلہ کیا مگر اپنا سر پھوڑنے کے سوا اُنہیں اور کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہؤا۔ ٭
پس خدا کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھو، سوچو اور سمجھو اور اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ جس کے نتیجہ میں تمہارا خدا تم سے اَور بھی زیادہ خوش ہو جائے۔ اور وہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو محمد ﷺ کا ممتد سایہ بنا دے اور تمہیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے سایہ کو ہمیشہ قائم رکھنے اور اس کو آگے سے آگے بڑھانے کا موجب بنو تاکہ شمس ہونے کی دلیل ہمیشہ قائم رہے۔ اور تمہارے لئے الٰہی نصرتیں ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں اور انسانی تدابیر تمہارے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام ہوتی رہیں۔’’
(الفضل 2 مئی 1946ء )
٭: پیغام نے آج اس قول کا انکار کیا ہے مگر یہ انکار ہی اس کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے۔ مَیں بتیس سال سے اس روایت کو جو مجھ سے بعض احمدیوں نے بیان کی دہراتا چلا آیا ہوں۔ مگر آج تک اس کا انکار نہیں کیا گیا۔ اب بتیس سال کے بعد اس کا انکار کیا جاتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اس عرصہ کے بعد خیال کر لیا گیا ہے کہ یا وہ راوی مر چکے ہوں گے یا بات بھول گئے ہوں گے۔ اگر یہ انکار کرنے کے قابل بات تھی تو کیوں بتیس سال کے بعداب اس کا انکار کیا جاتا ہے۔
1 : الفرقان: 46
2، 3: بخاری کتاب بَدْءُ الْوَحْی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الْوَحْی اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ
4: الفرقان: 48
5:مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 86(مفہومًا)
6: تفسیر رازی جلد 29 صفحہ 307۔ مطبوعہ طہران 1328ھ

14
ہمیں اپنے آدمی قربانی کے تنور میں پتوں کی طرح جھونکنے پڑیں گے
( فرمودہ 26 ؍اپریل 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ جب قوموں میں تنزل واقع ہو جاتا ہے، جب قوموں پر جہالت غالب آ جاتی ہے، جب قوموں کے دلوں سے دین کی محبت چلی جاتی ہے تو اس وقت ان کی حالت اپنی پہلی حالت سے بالکل مختلف ہو جاتی ہے اور کامیابی کے سامان اور کامیابی کے ذرائع دور سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے مُٹھی میں سے ریت نکلتی چلی جاتی ہے اس طرح بامراد ہونا اور مظفر و منصور ہونا ان کے ہاتھوں سے نکلتا چلا جاتا ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کسی قوم کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے ، جب وہ اس کے حوصلوں کو بلند کر دیتا ہے اور جب وہ اس کے ایمان کو مضبوط کر دیتا ہے تو اس قوم میں صحیح قربانی اور صحیح قسم کا ایثار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ دن بدن اپنے کاموں میں ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہ ایک قانون ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور ہمیشہ تک جاری رہے گا۔ خدا تعالیٰ کی سنتیں کبھی بدلا نہیں کرتیں۔ اور خدا تعالیٰ جس امر کا فیصلہ اپنے قانونِ قدرت کے مطابق کرتا ہے وہ آخر تک اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے۔
تُرک ایک بہادر قوم مشہور ہے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں اس نے اپنے وقت میں دنیا میں کئے ہیں لیکن پیچھے ایک ایسا زمانہ اس قوم پر آیا کہ اس کی ہمتیں سُست پڑ گئیں اور اس کے بڑے افراد میں قربانی اور ایثار کا مادہ نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ڈینیوب دریا 1کے کناروں اور یورال2 کے کناروں اور بحیرۂ ہند کے کناروں سے سمٹتے سمٹتے وہ ایک چھوٹی سی حکومت رہ گئی۔ اس کے کام کرنے والوں کے اندر سے دیانت اور امانت دونوں مٹ گئے اور اس کے بڑے آدمیوں میں سے قربانی اور ایثار کے نشان محو ہو گئے۔ جب کوئی قوم دنیا کی طرف جاتی ہے تو اگر اس کے اندر دین کی بنیاد ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اس سے دنیا بھی چھین لیتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم سچے دین کی خدمت کے لئے مقرر کی گئی ہو اور وہ اپنے فرائض میں سُستی کرے اور دین کی بجائے دنیا کی طرف مائل ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے پاس دنیا بھی رہنے دے ۔ جو اقوام بے دین ہیں اور جن کو روحانیت کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں وہ بے شک دنیوی ذرائع سے ترقی کرتی جاتی ہیں لیکن جن قوموں کو خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت سپرد کی ہوتی ہے وہ کبھی دُنیوی ذرائع سے ترقی نہیں کرتیں۔ وہ جب بھی دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتی ہیں خدا تعالیٰ ان کی دنیا بھی چھین لیتا ہے۔ مسلمانوں سے یہی ہؤا۔ عام طور پر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یورپ ترقی کر رہا ہے اور کوئی شخص نہیں کہتا کہ چونکہ اس نے مذہب چھوڑ دیا ہے اس لئے اس پر تنزل آنا چاہئے۔ ہندو قوم مال اور صنعت و حرفت میں ترقی کر رہی ہے اور کوئی شخص نہیں کہتا کہ چونکہ اس قوم نے دین چھوڑا ہؤا ہے اس لئے اس پر تنزل اور ادبار آنا چاہئے۔ اسی طرح شنٹو ازم کو ماننے والے جاپانی ترقی کرکے کتنا اونچا نکل گئے تھے۔ اب حماقت اور بے وقوفی سے زبردست قوموں سے ٹکراؤ کر کے انہوں نے اپنی ہلاکت کا سامان کر لیا ورنہ اس طرح جلدی جلدی وہ ترقی کےر استہ پر قدم زن ہو رہےتھے کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران تھی۔ حالانکہ شنٹو ازم کوئی سچا مذہب نہیں۔ مُردوں کی روحوں کو پُوجنا بھلا کونسی عقلمندی پر دلالت کرتا ہے مگر وہ قوم دنیوی امور میں عقلمند ہونے کے باوجود دین کے معاملہ میں اس قدر جاہل تھی کہ جس طرح یورپ سے لوگ خدا کے ایک بندے اور عورت سے پیدا ہونے والے انسان کو خدا کہتے ہیں اسی طرح جاپانی ایک بندے کو خدا بنا بیٹھے اور مُردوں کی ارواح کو پُوجتے تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کو چھوڑ دینے کے نتیجہ میں دنیا میں بھی تباہی واقع ہو جاتی ہے تو چاہئے تھا کہ جاپانی قوم پر وبال آتا اور وہ ترقی نہ کرتی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جاپانی قوم برابر ترقی کرتی چلی گئی تھی۔ اسی طرح یہودی لوگ دین سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ دنیا میں اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ مالیات کا صیغہ اب یہودیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ دنیا میں بظاہر انگلستان، امریکہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ حکومتیں کر رہے تھے مگر دراصل مالیات کے ذریعہ یہودی دنیا میں حکومت کر رہے تھے اور ان کی اس حکومت کو دیکھ کر ہی ہٹلر اور مسولینی نے یہودیوں کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ باوجود اس کے کہ ظاہری طور پر ہم بادشاہ ہیں درحقیقت بادشاہت ان کے اختیار میں ہے اور وہ جس طرف چاہتے ہیں تجارت کو مروڑ دیتے ہیں، جس طرف چاہتے ہیں صنعت و حرفت کو مروڑ دیتے ہیں، جس طرف چاہتے ہیں علوم و فنون کو مروڑ دیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں سیاسیات پر اثر ڈال کر مالیات کو مروڑ دیتے ہیں۔ اس لئے اس قوم کو اپنے ملک سے نابود کر دینا چاہئے۔ پس باوجود اس کے کہ دین کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا پھر بھی دنیوی لحاظ سے ان کو بہت بڑی عظمت حاصل ہوئی۔ ان مثالوں کی وجہ سے قدرتی طور پر اور جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیوی کوششوں کے ذریعہ عیسائی ترقی کر سکتے ہیں۔ اگر دنیوی کوششوں کے ذریعہ یہودی ترقی کر سکتے ہیں، اگر مذہب چھوڑنے کے باوجود ہندو مذہب ترقی کر سکتا ہے، اگر مذہب چھوڑنے کے باوجود شنٹو ازم ترقی کر سکتا ہے تو مذہب چھوڑنے کے باوجود مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ان مذاہب سے خدا پہلے ہی دُور ہو چکا ہے۔ جس گھر کو خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے اگر وہ ویران ہوتا ہے تو اس پر خفا ہونے کی کوئی وجہ نہیں لیکن جس گھر میں خدا بَستا ہے اگر اس گھر کو کوئی قوم ویران کرے گی تو یقیناً خدا اس سے ناراض ہو گا۔ جس مذہب سے خدا مٹ گیا اس کی مثال بالکل اس ملازم کی سی ہے جس نے اپنے آقا کی ملازمت کو ترک کر دیا ہو۔ وہ شخص جس نے نوکری چھوڑ دی ہے اس کے کاموں میں غفلت واقع ہونے سے آقا ناراض نہیں ہوتا ۔ لیکن جو شخص نوکر ہے اگر وہ اپنے کاموں میں غفلت برتتا ہے تو اس کا آقا اس پر ضرور ناراض ہوتا ہے۔ پس مسلمانوں کی دنیوی حالت اس لئے بگڑی کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ دیا۔ باوجود اس کے کہ وہ ایک سچے مذہب کے حامل تھے۔
یہی حالت اب احمدیوں کی ہے۔ اس وقت احمدیہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک سچے مذہب کا حامل بنایا ہے۔ اگر ہماری جماعت کے افراد دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ دین کے حامل نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ احمدیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا جو ایک بادشاہ اپنے باغیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
مَیں متواتر اور بار بار جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ہمارے تبلیغی ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور تبلیغ کی وسعت جو ہمارے ذمہ لگائی گئی ہے اس کا اندازہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لئے ہمیں اپنے آدمیوں کو قربانی کے تنور میں اس طرح جھونکنا پڑے گا جس طرح بھٹی والا اپنی بھٹی میں پتّے جھونکتا ہے۔ مگر باوجود اس کے مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں پوری طرح بیداری پیدا نہیں ہو رہی۔ مَیں مایوس تو نہیں کیونکہ ہر چیز آہستہ آہستہ آتی ہے لیکن مَیں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ جماعت کی سُستی کی وجہ سے ہمارے کاموں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ مَیں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ اگر تم اپنے لڑکوں کو اس مدرسہ میں داخل نہیں کرو گے تو آخر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے ہم کہاں سے مبلغ لائیں گے۔ اُس سال خدا تعالیٰ نے جماعت کو توفیق عطا فرمائی اور چالیس کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے لیکن آج جب مَیں نے پتہ لیا تو معلوم ہؤا کہ اس سال صرف چھ لڑکے داخل ہوئے ہیں اور چونکہ کچھ لڑکے بعد میں نکل بھی جاتے ہیں اس لئے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ قریباً قریباً اس جماعت کا بند کر دینا زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کو جاری رکھنے کے۔ کیونکہ دو تین لڑکوں کے لئے کسی سکول یا جماعت کے کھولنے کے کوئی معنے ہی نہیں ہو سکتے۔ لیکن دوسری طرف یہ حالت ہے کہ جماعتیں ہم سے آدمی ضرور مانگتی ہیں۔ جب بھی کوئی شخص ملتا ہے یہی کہتا ہے کہ یہاں کے ناظر بڑے سُست ہیں، انجمن بڑی سُست ہے۔ ہم چِٹھیاں لکھتے رہتے ہیں لیکن ہماری طرف کوئی آدمی نہیں بھیجتے۔ مَیں حیران ہوں کہ ایسے لوگوں کے دماغ میں کوئی فتور ہے یا روحانیت کی کمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہم اپنے لڑکے نہیں بھجوائیں گے تو وہ لوگ مبلغ کہاں سے بھیجیں گے۔
کئی احمقوں کو مَیں نے دیکھا ہے وہ لٹھ لے کر عورت کو مارنا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو نے روٹی کیوں نہیں پکائی؟ حالانکہ وہ گھر میں آٹا ہی نہیں لائے ہوتے۔ وہ غصہ میں مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتے ہیں لیکن انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ آٹا تو ہم نے لا کر نہیں دیا۔ یا اوپلے تو ہم نے لا کر نہیں دئیے اور مطالبہ یہ کر رہے ہیں کہ ہمارے لئے روٹی کیوں تیار نہیں کی گئی۔ یا مثلاً کسی چیز میں میٹھا کم ہو تو وہ اپنی بیوی سے لڑنے لگ جائیں گے حالانکہ واقع یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو پیسے ہی نہیں دئیے ہوتے کہ وہ ان سے میٹھا خرید سکتی۔ یہی حال اس وقت جماعت کا نظر آتا ہے۔ ہر فرد ِبشر شور مچا رہا ہے کہ ہائے ہمیں مولوی نہیں بھیجتے، ہمیں مولوی نہیں بھیجتے حالانکہ الزام ان پر آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی بجائے دنیا کی طرف بھیجتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں مولوی بھیجو، ہمیں مولوی بھیجو۔ ہم اگر ہندوؤں کو نوکر رکھنا شروع کر دیں اور ان کا نام مولوی رکھ دیں تو ایسے لوگ ہمیں کئی مل جائیں گے۔ ہر قوم میں ایسے لوگ ہیں کہ اگر چالیس پچاس روپے ان کو دے دئیے جائیں تو وہ غیر مذہب کی ملازمت کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے۔ کئی ہندو ہیں جو اس معاوضہ پر کام کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا تم اس بات پر خوش ہو سکتے ہو کہ تمہاری طرف ہندو مبلغ بھجوا دئیے جائیں۔ اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف ہندو بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف چُوڑھے بھجوا دئیے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف بھنگی بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف سانسی بھجوائے جائیں ، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف عیسائی مبلغ بھجوائے جائیں تو بڑے شوق سے اپنے لڑکے دین کی تعلیم کے لئے نہ بھجواؤ اور کہہ دو کہ کسی مذہب و قوم کا آدمی ہو ، اس کا نام مبلغ رکھ کر ہمیں بھجوا دو۔ لیکن اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک احمدی مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک مسلمان مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک علم ِدین پڑھا ہؤا انسان ہے تو وہ لوگ نہیں آ سکتے جب تک تم اپنے بیٹوں کو اس طرف نہیں بھجواتے۔ ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تم عقل کا منہ چِڑا رہے ہو اور ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم حقائق سے آنکھیں بند کر رہے ہو کیونکہ مبلغ لڑکوں سے ہی تیار ہو سکتے ہیں۔ جب تک کوئی جماعت اپنے لڑکے دین کی خدمت کے لئے دینے کو تیار نہیں اس وقت تک اس جماعت کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ہم سے مبلغ مانگے۔ مگر آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ کب تک ہم جماعت کو بیدار کرتے جائیں گے اور وہ خاموش بیٹھی رہے گی۔ یہ مثال تو وہی ہوگئی ہے جیسے غالب نے کہا کہ ؂
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا
ایک شخص حالِ دل سنائے چلا جاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کیا کہا؟ وہ پھر اپنا حال سنانا شروع کر دیتا ہے اور آدھ گھنٹہ ضائع کر دیتا ہے مگر دوسرا اس آدھ گھنٹہ میں بھی اِدھر اُدھر متوجہ رہتا ہے اور جب وہ خاموش ہوتا ہے تو کہتا ہے اچھا آپ نے کیا کہا؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے ہماری جماعت کے لوگ سمجھ نہ سکتے ہوں کہ اگر تم اپنے بیٹوں کو مدرسہ احمدیہ میں نہیں بھیجتے تو تمہیں سلسلہ کی طرف سے مبلغ بھی نہیں مل سکتے۔ تمہارے ہی بیٹے ہیں جو مبلغ بن سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے، ہندوؤں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے، سکھوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے۔ اور اگر تمہارے بیٹے بھی دنیوی کاموں کے لئے وقف رہیں گے تو پھر اسلام کا خانہ بالکل خالی ہے۔ پھر ہم سے مبلغ بھی مت مانگو بلکہ کہو کہ دین کا دروازہ ہم نے اپنے اوپر بند کر لیاہے۔ یہ کیوں کہتے ہو کہ مبلغ دو، مبلغ دو۔ یہ چیز اتنی انتہاء درجہ خلافِ عقل ہے کہ مَیں حیران ہوں وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں جماعت کو سمجھاؤں۔ سوتے کو جگانا آسان ہوتا ہے لیکن جاگتے ہوئے کو جگانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر تم واقع میں سوئے ہوئے ہوتے تو میرے وعظ اور نصیحت سے کبھی کے جاگ چکے ہوتے لیکن تم تو جاگتے ہوئے مچلے بن رہے ہو۔ اب میرے پاس کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں مچلے کو جگا سکوں۔ مچلے کو جگانے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہوتی بلکہ مچلے کو تو خدا بھی نہیں جگاتا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ابو بکرؓ کو ہدایت دی، ابو جہل کو نہیں دی۔ عمرؓ کو ہدایت دی، عتبہ کو نہیں دی۔ عثمانؓ کو ہدایت دی ،شیبہ کو نہیں دی۔ علیؓ کو ہدایت دی، ولید کو نہیں دی۔ جب تک تم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ دین کی بھی کوئی قیمت ہے، جب تک تمہارے نزدیک خدا تعالیٰ کے کلام کے معنے کرنے کی کوئی قیمت نہیں۔ لیکن اگر تمہارا بیٹا چاندی کا چمکتا ہؤا روپیہ تمہارے پاس لے آئے تو تم خوش ہوتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ حقیقی چیز ہے جو ہمارے بیٹے نے کمائی ہے تب تک تم سے دین کی خدمت کی امید رکھنا عبث اور فضول ہے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کے متعلق بعض دوستوں نے میرے پاس شکایت کی کہ وہ آپ کے بڑے دوست ہیں اور آپ ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے ایک لڑکی کی شادی پر شادی کر دی ہے۔ آپ فرماتے تھے مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے، ضرور کوئی غلط فہمی ہو گی۔ چنانچہ جب وہ ملنے کے لئے آئے تو مَیں نے ان سے کہا مولوی صاحب! مجھے آپ پر بڑی حُسنِ ظنی ہے لیکن مجھے آپ کی نسبت ایک شکایت پہنچی ہے جو مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ مَیں سمجھتا یہی ہوں کہ یہ شکایت غلط ہو گی۔ وہ شکایت مجھے یہ پہنچی ہے کہ کسی شخص نے آپ کے متعلق یہ افتراء کیا ہے کہ آپ نے ایک لڑکی کی شادی پر شادی کر دی ہے۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب! پہلے ساری بات مجھ سے پوچھ لیں پھر کوئی بات کریں۔ مجھے اس کی بات سے شبہ پڑا کہ چونکہ مُلّا آدمی ہے کوئی غلطی کر بیٹھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے زمینداروں نے مارا پیٹا ہو گا یا ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے ہوں گے کہ یہ نکاح پڑھو ورنہ ابھی تمہاری گردن توڑ دیں گے۔ چنانچہ مَیں نے کہا۔ آخر ہؤا کیا کچھ فرمائیے! تاکہ مجھے بھی پتہ لگے کہ آپ کو کیا حالات پیش آئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا۔ مولوی صاحب آپ ہی سوچئے جب انہوں نے چڑیا جتنا سفید روپیہ نکال کرمیرے سامنے رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ گویا کتنا بڑا ظلم ہے کہ لوگ میری شکایت کرتے ہیں حالانکہ جب انہوں نے ایک چمکتا ہؤا روپیہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا تو اس کے بعد یہ ہو کس طرح سکتا تھاکہ مَیں اپنے ایمان کو بچا لیتا ۔ ایک طرف خدا تعالیٰ تھا اور ایک طرف روپیہ۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللہ روپیہ کے سامنے خدا تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے کہ روپیہ کو تو چھوڑ دیا جاتا اور خدا تعالیٰ کو نہ چھوڑا جاتا۔ اسی طرح ہماری جماعت کا ایک حصہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کا بیٹا چمکتا ہؤا روپیہ کما کر لاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں دین کی تبلیغ اور اسلام کے بچاؤ کا کام کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ ہم اپنے بیٹے کو ایسے لغو کام پر کس طرح لگا سکتے ہیں کہ وہ ساری عمر لوگوں کو قرآن پڑھاتا اور بُھولے بھٹکوں کو دین کی طرف بلاتا رہے۔ ہم اسے کسی ایسے کام پر کیوں نہ لگائیں جس سے وہ چمکتا ہؤا روپیہ ہمارے پاس لائے۔
شاید تم میں سے ہر شخص حضرت خلیفہ اول کی مثال سُن کر مسکرا دیتاہو گا کہ وہ شخص کیسا احمق تھا جس نے کہا کہ جب لوگوں نے چِڑیا جتنا روپیہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ مگر تم اپنے نفسوں میں غور کرو اور سوچو کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتا کہ یہی کام تم بھی کر رہے ہو۔ ہر وہ شخص جو اپنی اولاد میں سے ایک حصہ کو دین کی طرف نہیں بھیجتا وہ گویا چِڑیا جتنے روپیہ کو محمد ﷺ کے احکام اور آپ کی تعلیم پر مقدم سمجھتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جیسے کہ کسی شاعر نے کہا کہ ؂
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
گویا دین کا کام ایسا ہے جو گدھوں پر ڈال دینا چاہئے۔ اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بوجھ کو گدھوں پر لاد کر خود دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائیں اور کہیں کہ ؂
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
یاد رکھو! اگر تم خدا تعالیٰ کے سامنے منہ دکھانے کے قابل بن کر جانا چاہتے ہو، اگر تم نہیں چاہتے کہ قیامت کے دن تمہارے چہروں پر کول تار3(Coaltar) مَلا جائے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں ذلت اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے اور اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں قیامت کے دن تمام اگلی اور پچھلی نسلوں میں شرمندہ اور ذلیل ہونا پڑے تو تمہیں اپنی ذمہ داریوں کو جلد سے جلد سمجھنا چاہئے اور دین کی حفاظت کے لئے اپنی نسلوں کو پیش کرنا چاہئے۔
یہ مت خیال کرو کہ مَیں یا کوئی اَور عقلمند یہ سمجھ لے گا کہ تم جو اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتے ۔ اگر کسی وقت جہاد کا زمانہ آ گیا تو تم اپنے بچوں کو فوراً اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دینے کے لئے پیش کر دو گے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگ یقیناً اس وقت بھگوڑوں میں سے ہوں گے اور سب سے پہلے میدانِ جہاد سے پیٹھ موڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ جو شخص چھوٹی قربانی نہیں کر سکتا وہ کبھی بڑی قربانی نہیں کر سکتا۔ آخر مبلغ مارا نہیں جاتا، اسے ایسی تکلیفیں نہیں پہنچتیں جیسے جہاد میں پہنچتی ہیں۔ پھر جو لوگ ان تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سو کی بجائے چالیس میں ان کےبیٹے گزارہ کریں جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اپنے بیٹوں کو تجار ت کی بجائے تبلیغ پر لگائیں ان سے یہ کیونکر امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے کے لئے تیار ہوں گے۔ ہرگز نہیں۔ جو شخص تیاری کیا کرتا ہے وہی موقع پر کامیاب ہوتا ہے اور جو شخص فصل بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ جو بوتا نہیں وہ کاٹتا بھی نہیں۔ پس اب وقت ہے کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اب وقت ہے کہ تم دنیا داری کی روح کو بالکل کچل دو ورنہ تمہارا وہ دعویٰ جو بیعت کے وقت تم اپنے امام کے ہاتھ پر کرتے ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے وہ ایک جھوٹ ہے، وہ ایک لاف ہے، وہ ایک بے دینی کا کلمہ ہے اور وہ تمہاری بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے۔’’
(الفضل 30؍ اپریل 1946ء )
1: ڈینیوب: (Danube) وسطی اور جنوب و مشرقی یورپ کا دریا۔ یہ 1750 میل لمبا ہے۔ والگا(وولگا)
کے بعد یورپ کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس کے زرخیز میدان بہت سے حملہ آوروں کے لئے باعثِ کشش بنے۔)اردوجامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1صفحہ635مطبوعہ لاہور1987ء)
2: یورال: (Ural): روس کا 1574 میل لمبا دریا جو یورپ اور ایشیا کے درمیان رسمی جغرافیائی سرحد کا حصہ ہے۔ اس کا کچھ حصہ جہاز رانی کے قابل ہے۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1905 مطبوعہ لاہور 1988ء)
3: کول تار: (Coaltar) تار کول

15
ساری دنیا کے کناروں سے آواز آ رہی ہے آدمی، آدمی، آدمی بھیجو
( فرمودہ 3 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہمارا ایک مبلغ امریکہ پہنچ چکا ہے۔ سرِدست اُس کا پاسپورٹ صرف تعلیم کے لئے ہے یعنی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وہاں یونیورسٹی میں داخل ہو اور اپنی پڑھائی جاری رکھے۔ اس لئے تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد سوائے خاص صورتوں کے اُسے گورنمنٹ کے قاعدہ کے مطابق ہندوستان واپس آنا پڑے گا۔ لیکن ہم نے اس امید کے ماتحت انہیں وہاں بھجوا دیا تھا کہ جب جنگ کا زور کم ہو گا تو ہم بعض اَور مبلغ امریکہ بھجوا دیں گے اور اگر اس مبلغ کو اجازت نہ بھی دی گئی تب بھی واپس آ کر وہ دوبارہ امریکہ میں داخلہ کی کوشش کر سکتا ہے۔ اب ایک اَور مبلغ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈالر ایکسچینج کی منظوری حاصل ہو گئی ہے اور وہ ویزا کے متعلق کوشش کرنے گئے ہیں۔ اگر امریکن گورنمنٹ نے انہیں ویزا دے دیا تو قریب ترین عرصہ میں وہ بھی وہاں پہنچ سکیں گے۔
امریکہ کا ملک اتنا وسیع ہے کہ وہ ہندوستان سے قریباً دو گنا ملک ہے۔ ہندوستان کا رقبہ تیس لاکھ مربع میل ہے اور امریکہ کا رقبہ پچاس لاکھ مربع میل سے بھی اوپر ہے۔ اتنے وسیع رقبہ میں اور ایسے لوگوں میں جو رات اور دن دُنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں،تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہمارا مشن اِس وقت صرف شکاگو میں ہے اور شکاگو امریکہ کے شمال میں واقع ہے۔ گویا امریکہ میں ہماری تبلیغ کی مثال کو یوں سمجھنا چاہئے جیسے ہندوسان میں کوئی مشن کشمیر میں کھول دیا جائے یا شملہ میں کھول دیا جائے اور امریکہ اور انگلستان میں یہ رپورٹیں شائع ہوں کہ ہندوستان کا مشن یوں کام کر رہا ہے۔ اب بظاہر وہاں کاہر شخص یہ سمجھے گا کہ یہ مشن کراچی میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، حیدر آباد سندھ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، ملتان میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، لاہور میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، پشاور میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، دہلی میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، الٰہ آباد میں بھی تبلیغ کر رہا ہے ، لکھنؤ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، بنارس میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، کلکتہ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، ڈھاکہ میں بھی تبلیغ کر رہا ہے، شیلانگ1 میں بھی تبلیغ کر رہا ہے۔ اسی طرح اُڑیسہ اور مدراس اور بمبئی وغیرہ سب جگہ تبلیغ کر رہا ہے حالانکہ باقی سب علاقوں کو یہ پتہ بھی نہیں ہو گا کہ کوئی مشن ہندوستان میں کام کر رہا ہے کیونکہ کہاں کشمیر اور کہاں مدراس اور پشاور اور کلکتہ اور کراچی اور ملتان اور ڈھاکہ وغیرہ ۔مگر چونکہ رپورٹوں میں ہندوستان کے مشن کا نام شائع ہو گا لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ مشن ہندوستان میں بڑا بھاری کام کر رہا ہے۔ یہی حال بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک حال امریکہ کی تبلیغ کا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگ جب سنتے ہیں کہ ہمارا ایک مشن یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں کام کر رہا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اس ایک مشن کے ذریعہ سارے امریکہ میں ہماری آواز پہنچ رہی ہے اور اب اس کا فتح کرنا بالکل آسان ہو گیا ہے حالانکہ ہمارا مشن شمال کے ایک شہر شکاگو میں ہے جو مشرقی اور مغربی ممالک سے ایک ایک ہزار میل کے فاصلہ پر ہے اور جنوبی ممالک سے دو ہزا رمیل کے فاصلہ پر ہے ۔ جیسے برما کے مشن کا پنجاب پر یا بمبئی پر یا مدراس پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اسی طرح شکاگو کے مشن کا مشرقی اور مغربی اور جنوبی ممالک پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ صرف اردگرد کے تین چار سو میل کے حلقہ میں ہمارے مبلغ کو جب فرصت ملے تو وہ چلا جاتا ہے۔ اور یہ فرصت بھی درحقیقت مصنوعی فرصت ہوتی ہے ورنہ اگر لاہور کے مبلغ کو اپنے علاقہ کے لئے فرصت نہیں مل سکتی جس کی آبادی شکاگو سے چھٹا حصہ کم ہے اور جس کی شہرت اور اہمیت شکاگو کے ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں تو شکاگو کے مشنری کو اردگرد کے علاقوں کے لئے کہاں فرصت مل سکتی ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ شکاگو کے مشنری کو اس محلہ سے باہر نکلنے کے لئے ہی کہاں وقت مل سکتا ہے۔ جس میں وہ رہتا ہے۔ شکاگو کی آبادی پچاس لاکھ سے اوپر ہے۔ گویا جتنی آبادی صوبہ سرحد کی ہے اس سے کہیں زیادہ صرف ایک شہر شکاگوکی آبادی ہے اور جتنی آبادی سارے صوبہ سندھ کی ہے اس کے قریب قریب اس کی آبادی ہے۔ صوبہ سندھ کی آبادی ساٹھ لاکھ ہے او رصوبۂ سرحد کی آبادی چھتّیس لاکھ۔ گویا سندھ کی آبادی کے قریباً برابر اور صوبۂ سرحد کی آبادی سے قریباً ڈیوڑھی امریکہ کے صرف ایک شہر شکاگو کی آبادی ہے۔ پس وہ شہر، شہر نہیں بلکہ درحقیقت ایک ملک ہے اور ایک ملک میں کبھی بھی ایک مبلغ کافی نہیں ہو سکتا۔ کُجا یہ کہ لوگ یہ کہیں کہ جب ہم نے صوبہ سرحد میں ایک مبلغ رکھا ہؤا ہے تو کیا وہ عرب اور ایران اور افغانستان کی خبر نہیں رکھ سکتا۔ جس طرح وہ بیوقوفی کا فقرہ ہو گا اسی طرح یہ بھی ایک احمقانہ خیال ہے کہ جب ہم نے شکاگو میں ایک مبلغ رکھا ہؤا ہے تو کیا وہ سارے امریکہ کی خبر نہیں رکھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی اَور علاقہ کا تو ذکر ہی کیا ہے ہمارا ایک مبلغ صرف شکاگو کے دسویں حصہ کی بھی خبر نہیں رکھ سکتا۔ ایک مبلغ اگر صحیح طور پر کام کرے اور محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے وقت کا استعمال کرے تو وہ صرف تین چار لاکھ کی آبادی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے لیکن جو پچاس ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر ہو اس میں ایک مبلغ نہیں بلکہ چودہ پندرہ مبلغ ہونے چاہئیں۔ تب اس میں ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔ اور جب کسی ایک مبلغ کے ذریعہ ایک شہر میں بھی آواز نہیں پہنچ سکتی تو وہ علاقے جو پندرہ پندرہ سو یا دو دو ہزار یا اڑھائی اڑھائی ہزار میل کے فاصلہ پر ہیں اُن تک ہماری آواز کہاں پہنچ سکتی ہے اور ان کو یہ پتہ بھی کس طرح لگ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کا کوئی مبلغ رہتا ہے۔
ہماری تبلیغ کی مثال تو وہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مچھر ایک بیل کے سینگ پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بیل سے کہنے لگا۔ بھائی بیل! مَیں بھی حیوان ہوں اور تم بھی حیوان۔ ہماری اور تمہاری آپس میں برادری ہے۔ یہ آدمی ہم پر بھی ظلم کرتے ہیں اور تم پر بھی۔ ہمیں بھی مارتے ہیں اور تمہیں بھی۔ اس لئے ہمارا اور تمہارا تو جوڑ ہے لیکن ان کا اور ہمارا کوئی جوڑ نہیں۔ مَیں اس وقت تھک کر تمہارے سینگ پر بیٹھ گیا تھا۔ اگر تمہیں بوجھ معلوم ہو تو بتا دینا مَیں اُڑ جاؤں گا۔ بیل نے اسے کہا مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہؤا کہ تم میرے سینگ پر بیٹھے کب تھے۔ یہی حال وہاں کی تبلیغ کا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے لوگوں سے کہیں کہ بتاؤ ہماری تبلیغ کا وہاں کتنا زور ہے؟ تو وہ جائز اور صحیح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کا کوئی مبلغ ہمارے ہاں کام کر رہا ہے۔ آخر دو ہزارمیل کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہیں ہوتا۔ یہاں سے دو ہزار میل کے فاصلہ پر مکہ مکرمہ ہے۔ مگر کیا اس جگہ کے کسی مولوی کا ہمیں پتہ لگ سکتا ہے حالانکہ مکہ مکرمہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں حج کے لئے اکثر لوگ آتے جاتے ہیں۔ لیکن شکاگو کی طرف تو کسی کا جانا ضروری نہیں ۔ وہ حج کا مقام نہیں ہے کہ امریکہ کے لوگ وہاں اکثر آتے جاتے ہوں۔ ایسی صورت میں بہرحال ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پے در پے اپنے علماء اور مبلغین کو امریکہ میں بھجوائیں اور تبلیغ کو صحیح پیمانہ پر وسیع کریں۔ فِی الْحال میری سکیم کے مطابق تین آدمی امریکہ کے لئے مقرر ہو چکے ہیں۔ ایک دوست پہنچ چکے ہیں، ایک دوست کا پاسپورٹ مکمل ہو چکا ہے لیکن امریکن گورنمنٹ کا ویزا ابھی نہیں ملا ٭ اور جب تک ویزا نہ ملے اس وقت تک اطمینان نہیں ہو سکتا ۔ اور ایک کا پاسپورٹ ابھی تیار ہونے والا ہے۔ لیکن یہ تینوں مبلغ اگر وہاں پہنچ بھی جائیں تب بھی اس شہر کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ ہمیں امریکہ جیسے ملک کے لئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہو گی لیکن کم سے کم مشن جن کا میرے نزدیک امریکہ میں قائم کرنا نہایت ضروری ہے نو ہیں۔ امریکہ کا مغربی ساحل قریباً دو ہزار میل لمبا ہے۔ اس ساحل پر ہمیں تین مرکز قام کرنے چاہئیں۔ ایک مرکز شمال میں ہو، ایک مرکز وسط میں اور ایک مرکز جنوب میں۔ اسی طرح مشرق میں ہمارا ایک مرکز شمال میں ہو، ایک مرکز وسط میں ہو اور ایک جنوب میں۔ وسطی امریکہ کے شمالی حصہ میں شکاگو میں ہمارا پہلے سے مرکز ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ہمیں اس علاقہ میں بھی دو اَور مرکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مرکز وسطی وسط میں ہو اور ایک مرکز وسطی جنوب میں۔ اگر ہم امریکہ میں نو مرکز قائم کر دیں تب ہمارے یہ تبلیغی مراکز ایسے ہوں گے جو ایک ایک ہزار میل کے فاصلہ پر آ سکیں گے یا دونوں جہات کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ پانچ سو میل کے فاصلہ پر آ سکیں گے
٭خطبہ کے بعد معلوم ہؤا کہ ویزا مل چکا ہے۔
اور ایسی صورت ہو جائے گی جیسے ہمارا ایک مشنری ملتان میں ہو اور ایک دہلی میں۔ ملتان اور دہلی میں جو فاصلہ ہے ویسا ہی فاصلہ ان نو مشنوں میں ہو گا جو امریکہ میں قائم کئے جائیں گے لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام مشن قائم کر دئیے جائیں ۔اگر امریکہ میں ہمارے نو مشن ہوں اور ہر مشن میں چھ مشنری کام کر رہے ہوں تو چوّن مشنریوں کی ہمیں صرف امریکہ کے لئے ضرورت ہو گی۔ اگر اس طرح ہم اپنے مشن وہاں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری آواز کا امریکہ میں پہنچ جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ گو یقینی پھر بھی نہیں ہو گا کیونکہ کروڑوں کی آبادی ہے۔لیکن بہرحال اگر سامان اور ذرائع ہمیں میسر آ جائیں تو ہم اپنی آواز ان نو مشنوں کے ذریعہ سے تمام امریکہ تک پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ صرف ایک ملک کا معاملہ ہے۔ اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ملک کی تبلیغ کے لئے بھی پورے سامان نہیں۔
مَیں نے متواتر اور مسلسل جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دلائی ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے ایک طبقہ میں اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کا پورا احساس پیدا نہیں ہؤا۔ اس وقت یہاں (مسجد اقصیٰ میں)چار ہزار سے اوپر احمدی موجود ہیں۔ اگر چار ہزار احمدی مردوں میں ہی بیداری پیدا ہو جائے تو کیا یہ چار ہزار احمدی یہ سامان مہیا نہیں کر سکتے؟ اسی طرح قادیان میں اِس وقت تین ہزار سے اوپر مرد عورت طالب علم موجود ہیں۔ اگر تین ہزار طالب علموں کے اندر ہی دین کی خدمت کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ دنیا کی خواہشوں اور کششوں کو نظر انداز کر دیں تو کیا چند سالوں کے اندر اندر یہ تین ہزار طالب علم ہی ہمارے لئے مبلغوں کی ایک معقول تعداد بہم نہیں پہنچا سکتے؟یقیناً مہیا کر سکتے ہیں لیکن چار مشکلات ہیں جو اس راستہ میں حائل ہیں۔
اول: طالب علم خود ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں دنیا کا غلبہ اور دنیا طلبی کا مرض بہت وسیع ہو گیا ہے۔
دوم: اساتذہ میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو ان کوورغلاتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ تبلیغ کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بعد میں ملازمت اختیار کر کے تبلیغ کے لئے چندہ دیتے رہنا یہی بڑا کام ہے۔ یہ دوسرا شیطان ہؤا ۔
تیسرا: شیطان باپ ہوتا ہے جو اپنے بچے سے کہتا ہے کہ دیکھو میاں! مَیں نے تمہیں اِتنا عرصہ تعلیم دلائی ہے اب میرے لئے گزارہ کی کوئی صورت نہیں۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کماؤ اور میرے گزارہ کا بندوبست کرو۔
چوتھی: شیطان ماں ہوتی ہے۔ جس وقت وہ تمام شیطانوں کو مار کر یہ سمجھتا ہے کہ مَیں ہر قسم کے شیطانی جال سے آزاد ہو گیا ہوں اُس وقت ماں کے آنسو اس کو پھر اسی شیطان کی بغل میں بٹھا دیتے ہیں۔ جب وہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ بیٹا میں کیا کروں گی تو ماں کی مَیں اس کی ساری انانیت اور جرأت اور بہادری کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ مگر باوجود ان چار شیطانوں کے بہت سے نوجوان ہیں جو ان کے پھندوں سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو گئے ہیں اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو جماعت کی بنیاد قرار دئیے جا سکتے ہیں۔
مجھے حیرت آتی ہے جب میں کورل آئی لینڈز (Coral Islands) کی حقیقت پر غور کرتا ہوں۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ کورل آئی لینڈز کیڑوں کی موت کے نتیجہ میں تیار ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کیڑا مرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ ایک جزیرہ بن جاتا ہے جس میں انسان بود و باش اختیار کرتا ہے۔ اگر ایک کیڑے میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ مَیں مر کر دنیا میں کوئی کام کر جاؤں اور اپنے وجود سے ایک ایسی بنیاد قائم کر دوں جو سینکڑوں سال تک لوگوں کے کام آتی چلی جائے تو کیسا ذلیل اور ناپاک وہ انسان ہے جو یہ خواہش نہیں رکھتا کہ مَیں اگر مرتا ہوں تو بے شک مر جاؤں لیکن مَیں ایک ایسی بنیاد قائم کر جاؤں جو اس زندگی سے ہزاروں درجے بہتر ہے جو بیکاری میں بسر ہوتی ہے، یا بے دینی اورعیاشی میں گزر جاتی ہے۔ کیسا شاندار وہ فقرہ ہے جو ہندوستان کے ایک مسلمان بادشاہ کے منہ سے نکلا۔ مَیں سمجھتا ہوں سترھویں صدی کے آخری حصہ اور اٹھارھویں صدی کے ابتدائی حصہ میں ہندوستان کے تمام مسلمان بادشاہوں میں سے صرف وہی ایک بادشاہ تھا جو غیرت مند تھا۔ باقی سارے مسلمان بادشاہ (خواہ مسلمان لیڈر اور مسلمان اخبارات مجھے کتنا ہی بُرا بھلا کہیں) ایسے ہی تھے جنہوں نے موقع پر غداری اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا۔ خواہ وہ دہلی کے بادشاہ تھے یا حیدر آباد کے بادشاہ تھے یا اودھ کے بادشاہ تھے یا بنگال اور ارکاٹ2 کے بادشاہ تھے۔ وہ سارے کے سارے بے غیرتی اور بے دینی کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ اگر کسی شخص نے غیرت کا صحیح مظاہرہ کیا تو وہ وہی شخص تھا جس کے نام پر مسلمان اپنی بدبختی سے کُتّوں کا نام رکھتے ہیں یعنی سلطان ٹیپو۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ اس کا نام کیا تھا شاید حیدر الدین یا اس سے ملتا جلتا لیکن بہرحال اس کے نام کے ساتھ ٹیپو کا لفظ ایسے طور پر مشہور ہے جسے پنجابی میں اَلْ کہتے ہیں اور جو عوام الناس میں نام کے حصہ کے طور پر مشہور ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے اس زمانہ میں ٹیپو کے کوئی معنے بھی ہوں لیکن اب ہمارے ملک میں کتّوں کا نام ٹیپو رکھا جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک مسلمان بادشاہ کی ہتک کر رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آپ عیسائیوں کے خوشامدی تھے اور اسلام اور مسلمانوں کی عظمت نَعُوْذُ بِاللہ آپ کےد ل میں نہیں تھی۔ یہ الگ سوال ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت قائم کرنے کے لئے وہ کچھ کیا جو گزشتہ تیرہ سو سال میں اور کسی مسلمان نے نہیں کیا۔ لیکن مَیں اس وقت دنیوی حُبِّ وطنی اور حُبِّ قومیت کے لحاظ سے آپ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں چھوٹا تھا تو چونکہ عام طور پر مَیں یہی سنتا تھا کہ لوگ اپنے کُتّوں کو ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس لئے مَیں سمجھتا تھا کہ ٹیپو کُتّے کا ہی نام ہوتا ہے۔ ایک دن ایک کُتّا میرے سامنے آیا۔ مَیں نے اپنی انگلی آگے کی اور کہا ٹیپو ٹیپو ٹیپو ٹیپو۔ میری زبان سے یہ الفاظ ابھی نکلے ہی تھے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑے غصہ سے یہ آواز آئی کہ کیا کرتے ہو ؟ تمہیں شرم نہیں آتی۔ ایک مسلمان بادشاہ کا نام ایک کتّے کو دیتے ہو۔ اس دن مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہؤا کہ ٹیپو کسی مسلمان بادشاہ کا نام ہے۔ بعد میں سکولوں میں تاریخ پڑھی تو حقیقت واضح ہوئی اورپتہ لگا کہ وہ کون تھا۔ جب ٹیپو انگریزوں سے لڑ رہا تھا، جب ٹیپو ہندوستان کے تمام مسلمان بادشاہوں سے اپنی مدد کے لئے خط و کتابت کر رہا تھا، جب ہندوستان کے مسلمان بادشاہ چھوڑ،وہ ہندوستان کے باہر کے مسلمان اور غیر مسلم بادشاہوں سے بھی خط و کتابت کر رہا تھا۔ چنانچہ نپولین سے بھی وہ خط و کتابت کر رہا تھا، اسی طرح ایران کے بادشاہ اور ٹرکی کے بادشاہ سے بھی خط و کتابت کر رہا تھا اور مسلمان بادشاہوں کو لکھ رہا تھا کہ اگر ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت چلی گئی تو عیسائیت غالب آ جائے گی اور پھر عیسائیت کے غلبہ سے تمہیں بھی نقصان پہنچے گا۔ تم جو بھی شرطیں طے کرو، مجھے سب منظور ہیں۔ لیکن آؤ اس موقع پر ہم متحد ہو کر عیسائیت کو اس ملک سے نکال دیں۔ اس وقت کسی کی غیرت جوش میں نہ آئی اور کوئی بادشاہ اس کی مدد کے لئے نہ اٹھا۔ نپولین اپنے سیاسی مصالح کے ماتحت اس کی مدد کے لئے آنے پر تیار ہؤا لیکن خود مسلمانوں نے اسے شام میں شکست دے دی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اگر نپولین آتا تو وہ اچھا سلوک کرتا۔ ممکن ہے وہ انگریزوں سے بھی بدتر سلوک کرتا لیکن سلطان ٹیپو نے اس سے بھی دریغ نہیں کیا کہ وہ نپولین کو اپنی مدد کے لئے بلائے۔ جب حیدر آباد اور دوسری مسلمان ریاستوں کی مدد سے انگریزی فوج ٹیپو پر غالب آ گئی تو آخر سلطان ٹیپو اپنے قلعہ میں محصور ہو گیا۔ ایک دن امراء میں سے بعض نے انگریزوں سے رشوت لے کر اس قلعہ کا دروازہ کُھلوا دیا۔ وہ ایک جگہ فصیل کے پاس کھڑا انگریزی فوجوں سے اپنی فوج کو لڑا رہا تھا۔ خندق پاس تھی اور وہ اپنے سپاہیوں کو مختلف احکام دے رہا تھا کہ اس کا ایک جانباز سپاہی دوڑتا ہواآیا اور اس نے کہا حضور! کسی غدار نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا ہے اور ایک بہت بڑی انگریزی فوج آپ کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اب ایک ہی صورت نکلتی ہے کہ آپ کسی طرح جان بچا کر یہاں سے نکل جائیں۔ اُس وقت ٹیپو نے نہایت ہی حقارت اور غصہ کی نگاہ سے اسے دیکھا اور کہا کیا فضول مشورہ دیتے ہو!! ایک شیر کی دو گھنٹہ کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ کہا اور تلوار کھینچ کر میدان میں کُود پڑا اور وہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
درحقیقت بات یہی ہے کہ ہر غیرت مند انسان کی ایک گھنٹہ کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اگر ہندوستان کے ایک شکست خوردہ مسلمان بادشاہ اسلام کی عزت بچانے کے لئے ایک گھنٹہ کی موت کو سو سال کی زندگی پر ترجیح دیتا ہے تو وہ کیسا احمدی ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میری چالیس یا پچاس یا ساٹھ یا سو سال کی زندگی جس میں مَیں نوکری اور دوسروں کی غلامی کے سوا کوئی اَور کام نہیں کر سکوں گا، وہ اسلام کے لئے مر جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ یقیناً ایسا انسان نادان ہے۔ یقیناً وہ مجنون ہے۔ یقیناً اس کی عقل پر پردہ پڑا ہؤا ہے اور یقیناً اسلام کی راہ میں ایک منٹ لڑتے لڑتے مر جانا انسان کی اس سو سالہ زندگی سے لاکھوں اورکروڑوں بلکہ اربوں گُنا زیادہ بہتر ہے جو کسی اَور کام میں صَرف ہو۔ اور یہ کام ایسا نہیں جو ہماری جماعت نہ کر سکے۔ سینکڑوں نوجوان ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے اپنی زندگیاں پیش کر کے اس بات کا ثبوت مہیا کر دیا ہے کہ یہ کام ہماری طاقتوں اور قوتوں کے اندر ہے اور ہمارے اخلاص اور ایمان کا یہی تقاضا ہے کہ ہم ان قربانیوں میں حصہ لیں۔ اگر سینکڑوں نوجوان ایک کام کر سکتے ہیں تو وہ سینکڑوں اور ہزاروں نوجوان کیوں ایسا نہیں کر سکتے جو ابھی اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے۔ پروانے آگ میں جلتے چلے جاتے ہیں مگر بعد میں آنے والے پروانے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ وہ اَو رزیادہ جوش اور زیادہ زور کے ساتھ آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا انسان ہی ایسے گندے مقام پر ہے کہ قربانی کرنے والوں کی قربانی کو دیکھ کر اس میں جوش پیدا نہیں ہوتا اور وہ اس سے بھی زیادہ جوش سے آگے نہیں بڑھتا جس جوش سے ایک پروانہ آگ کی طرف بڑھتا ہے۔ پھر صرف امریکہ کا ہی سوال نہیں اَور ممالک میں بھی جوں جوں ہمارے مبلغ جا رہے اور تبلیغ کے راستے کُھل رہے ہیں ہمیں اس بات کی ضرورت محسوس ہو گی کہ ہم ان کی طرف زیادہ سے زیادہ مبلغین بھجوائیں اور ان کے مطالبات کو پورا کریں۔ ابھی پرسوں تار آیا ہے کہ ہمارے وہ مبلغ جو فرانس کے لئے مقرر کئے گئے تھے اور جو انگلستان میں اب تک ویزا کا انتظار کر رہے تھے ان کو فرانسیسی گورنمنٹ نے ویزا دے دیا ہے اور وہ چند دنوں میں ہی فرانس کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ ہم نے فرانس میں دو مبلغ بھیجے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فرانس جیسے ملک میں دو مبلغ کافی ہو سکتے ہیں؟ وہ فلسفہ کا ملک، وہ دہریت کا ملک، وہ عیاشی کا ملک جن کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور جن کے دن تو کچھ ایسی چیز ہوتے ہیں جن کو ہم پہچان بھی نہیں سکتے۔ ان کی اصلاح اور بیداری کے لئے دو مبلغ کیا کام کر سکتے ہیں۔ مَیں نے پیرس دیکھا ہوا ہے اور مَیں نے پیرس کا وہ میدان بھی دیکھا ہے جس کا نام پیرس کے لوگوں نے شانزا لیز ا(Shanzelize)یعنی جنت کی گلی رکھا ہؤا ہے۔ واقع یہ ہے کہ اگر کسی انسان کی آنکھیں بند کر کے اس کو اس میدان میں لایا جائے اور اس کے بعد اس کی آنکھوں پر سے پٹی اتار دی جائے تو تاریک ترین رات کے نصف میں سے گزرتے ہوئے بھی اس کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ اس وقت رات ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ دن ہے کیونکہ ہزاروں ہزار کینڈل پاور کے ہزاروں ہزار لیمپ جل رہے ہوتے ہیں اور کسی انسان کے واہمہ میں بھی نہیں آ سکتا کہ مَیں اس وقت رات میں سے گزر رہا ہوں۔ جن لوگوں نے اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنی عشرت کے لئے ایسے ایسے سامان مہیا کئے ہوئے ہیں، ان کو جگانے کے لئے دو آدمی کہاں کافی ہو سکتے ہیں۔ یقیناً جب یہ مبلغ وہاں جائیں گے تو ہم سے اَور آدمی مانگیں گے،پھر اَور آدمی مانگیں گے، اور پھر اَور آدمی مانگیں گے۔ اس کے علاوہ اٹلی میں ہمارے دو مبلغ پہنچ چکےہیں۔ ہمارا پہلا مبلغ جو اٹلی میں مقیم تھا وہ بیمار پڑا ہے کیونکہ ٹکر لگ کر اس کی آنکھ پر چوٹ آئی تھی جس سے اس کی بینائی کو صدمہ پہنچا۔ اب سنا ہے اس کی بینائی درست ہو گئی ہے اور وہ خطرے سے نکل گیا ہے لیکن ابھی کام نہیں کر سکتا۔ ایک تار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی نو مسلم نے ہالینڈ میں اس بات کا انتظام کیا ہے کہ شمس صاحب ہالینڈ جا کر کچھ دن رہ سکیں۔ ہم نے تین مبلغ جرمنی کے لئے مقرر کر کے یہاں سے بھجوائے ہوئے ہیں مگر چونکہ جرمن مشن قائم کرنے میں ابھی کچھ دیر ہے اور ہالینڈ میں فوری طور پر ضرورت محسوس ہوئی ہے اس لئے مَیں نے ہدایت بھجوا دی ہے کہ جرمنی کے مبلغوں میں سے دو مبلغ ہالینڈ چلے جائیں۔ جرمنی کی فوجی طور پر ابھی اس طرح نگرانی کی جا رہی ہے کہ غیروں کو وہاں جانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ کہتے ہیں مختلف سوسائٹیوں کی طرف سے ہزاروں ہزار درخواستیں گورنمنٹ کے پاس آئی ہوئی ہیں مگر ابھی تک اس نے کسی درخواست پر غور نہیں کیا۔ پس چونکہ ہمارے وہ مشنری جو جرمنی کے لئے تجویز کئے گئے تھے ابھی لندن میں ہیں اور وہ رستہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس لئے مَیں نے اس تار کے پہنچنے پر کہ ہالینڈ میں انتظام کیا جا چکا ہے انہیں تار بھجوا دیا ہے کہ جرمنی کے مشنریوں میں سے فِی الْحال دو کو ہالینڈ بھجوا دیا جائے۔ کیونکہ ہالینڈ کے مشن کا انڈونیشیا یعنی جاوا اور سماٹرا سے بھی گہرا تعلق ہے۔ جاوا اور سماٹرا میں ہماری ہزاروں کی جماعت ہے اور چونکہ ہالینڈ کی تبلیغ کا سماٹرا اور جاوا پر اس طرح اثر ہو سکتا ہے جس طرح انگلستان کی تبلیغ کا ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے۔ اس لئے مَیں نے ہدایت دے دی ہے کہ سرِ دست جرمنی کے مبلغ ہالینڈ چلے جائیں۔ پھر جب نئے مبلغ مہیا ہو جائیں گے تو ان کو جرمنی بھجوا دیا جائے گا۔ مگر یہ کہنا تو آسان ہے لیکن نئے مبلغین کا مہیا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نئے مبلغ کہاں سے آئیں گے؟ اگر ہمارے نوجوانوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دین کی بھٹی میں گِر کر جل جانے کی خواہش پیدا نہیں ہو گی اور اگر وہ یکے بعد دیگرے اس جہاد کے میدان میں اس طرح کُودتے ہوئے نہیں چلے جاتے کہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ ان کے نزدیک موت اور حیات بالکل یکساں چیز ہے تو یہ کام کبھی سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
دیکھو کفر کے لئے بھی لوگوں نے جو قربانیاں کی ہیں وہ کچھ کم نہیں۔ جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی تمام یورپین ممالک سے لڑائی کر رہا تھا، جس وقت جرمنی اور انگلستان اور فرانس اور آسٹریا اور اٹلی اور یونان وغیرہ سارے ملکوں کی فوجیں شام میں جمع ہو گئیں اور اکیلے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کر رہی تھیں۔ جس کا ملک اتنا ہی تھا جتنی ہندوستان کی ایک ریاست ہوتی ہے مگر وہ انسان اپنی جانوں پر کھیل جانے والے تھے۔ وہ انسان ایمان کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے والے تھے۔ ایک تن تنہا چھوٹی سی ریاست پر سارے یورپ کی فوجوں نے حملہ کر دیا اور صرف یورپین فوجیں ہی نہیں بلکہ یورپ کے بادشاہ بھی وہاں چلے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ سب متحد ہو کر اسلام کو کچل ڈالیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ 3اور فرانس کا بادشاہ فلپ بھی وہاں جا پہنچا۔ اسی طرح جرمنی، آسٹریلیا، اٹلی اور یونان وغیرہ کے سب گرینڈ ڈیوک (Grand Duke) بھی وہاں جا پہنچے۔ انگلستان کا بادشاہ چاہتا تھا کہ یہ فتح میرے نام پر ہو اور فرانس کا بادشاہ چاہتا تھا کہ یہ فتح اس کے نام پر لکھی جائے لیکن خدا چاہتا تھا کہ یہ فتح صلاح الدین ایوبی کے نام پر لکھی جائے اور آخر وہی ہؤا جو ہمارے خدا نے چاہا۔ یورپ کی فوجیں شکست کھا کر واپس لَوٹیں اور وہ اپنے ارادوں میں بری طرح ناکام رہیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ ان ایام میں جب فلپ نے دیکھا کہ رچرڈ کا زور بڑھتا چلا جا رہا ہے تو اس نے اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے قرامطہ کے بادشاہ سے سمجھوتہ کیا کہ ہم دونوں مل کر سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ چونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی سنّی بادشاہ تھا اور قرامطہ شیعوں میں سے ایک بگڑی ہوئی قوم تھی جو مصر کے فاطمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور چاہا کہ سلطان صلاح الدین کے خلاف فلپ کے ساتھ مل جائیں اور اس کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے خیال کیا کہ اس کو شکست دینے کے بعد ہمارا علاقہ اور ہمارا اثر اَور زیادہ وسیع ہو جائے گا۔چنانچہ انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا اور آخری شرطیں طے کرنے کے لئے فلپ اور قرامطہ کا امام دونوں ایک پوشیدہ پہاڑی مقام پر جمع ہوئے۔ وہ قرامطہ کا ہی ایک قلعہ تھا جس میں فلپ قرامطہ کے امام سے ملنے کے لئے آیا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے تو فلپ نے قرامطہ کے امام سے کہا آپ کو پتہ ہے مَیں فرانس کا بادشاہ ہوں اور اپنے ساتھ بہت بڑی فوجیں رکھتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ کے پاس کتنی طاقت ہے جس کے ذریعہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے میں آپ میری مدد کر سکتے ہیں۔ چونکہ ہم اس وقت آپس میں معاہدہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اس لئے مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ میں کتنی طاقت ہے۔ قرامطہ کے امام جس محل میں بیٹھے ہوئے تھے اس کے چاروں طرف جیسے بورڈنگ تحریک جدید کی عمارت ہے اس طرز کی عمارت تھی۔ کئی منزلہ مکانات تھے اور ہر منزل پر کھڑکیوں اور دروازوں کے چھجوں پر ننگی تلواریں لئے سپاہی پہرہ دے رہے تھے گویا نیچے سے اوپر تک جس قدر منزلیں تھیں ان میں سے ہر منزل کے ہر دروازے او رہر کھڑکی کے آگے ایک ایک چھجہ تھا اور ہر چھجہ پر ایک ایک سپاہی ننگی تلوار لئے کھڑا تھا۔ جب فلپ نے کہا مَیں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی کیا طاقت ہے اور آپ میری کتنی مدد کر سکتے ہیں تو قرامطہ کے امام نے کہا آپ میری طاقت دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اوپر آنکھ اٹھائی اور دو سپاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اوپر کی منزل پر پہرہ دے رہے تھے اپنے سر کو نیچے جھکا دیا۔ اس کا اپنے سر کو نیچے جھکانا تھا کہ ان دونوں سپاہیوں نے نیچے چھلانگ لگا دی اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ فلپ نے یہ نظارہ دیکھا تو قرامطہ کے امام نے کہا شاید آپ کو خیال ہو کہ ان لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ نیچے گرنے کا کیا نتیجہ ہو گا اور انہوں نے شاید نادانی سے موت قبول کر لی۔ اگر ان کو علم ہوتا کہ ہم نیچے گِر کر ہلاک ہو جائیں گے تو ایسا نہ کرتے۔ مَیں اس شبہ کا بھی ازالہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو میری ذات سے کتنا اخلاص ہے۔ یہ کہہ کر اس نے پھر اوپر کی ایک کھڑکی کی طرف اپنی آنکھ اٹھائی اور دو سپاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے سر کو نیچے جھکا دیا۔ اس کا سر جھکانا تھا کہ پھر دو سپاہی گرے اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ فلپ اس نظارہ سے ایسا مرعوب ہؤا کہ اس کا دل گھٹنے لگا اوراس نے کہا مَیں اس وقت بیٹھ نہیں سکتا پھر کسی وقت آپ کی ملاقات کے لئے آؤں گا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں ایمان نہیں تھا محض ایک بناوٹ تھی اور اسلام کے اندر رخنہ ڈالنے کے لئے شیطانی تدابیر سے انہوں نے ایک جماعت قائم کی تھی مگر ان لوگوں کے اندر بھی اتنا جوش تھا کہ اپنے امام کے ایک اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ کیا ایک احمدی کو اس سے کم قربانی دکھا کر اپنےد عویٰ ایمان کو ثابت کرنے کا یقین ہو سکتا ہے؟ اگر قرامطہ صرف فلپ کو یقین دلانے کے لئے اپنی جانیں دے سکتے ہیں تو کیا ہم اسلام کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانیں نہیں دے سکتے؟
بہرحال اب فرانس میں بھی ہمارے مبلغ جا رہے ہیں۔ پچھلے مہینے اٹلی میں ہمارا مشن قائم ہؤا تھا اس مہینہ فرانس میں قائم ہو گیا اور خدا تعالیٰ چاہے تو ہالینڈ میں بھی قائم ہو جائے گا۔ پھر سپین اور دوسرے ممالک میں ہمارے مبلغین جائیں گے اور ہر ملک جہاں ہمارے مبلغ جائیں گے وہاں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے مانگ آنی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت سب سے زیادہ مانگ جہاں سے آ رہی ہے اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ کچھ عرصہ تک یہ مانگ برابر بڑھتی چلی جائے گی وہ افریقہ کا ملک ہے۔ وہاں ترقی کے ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو اندازہ ہم کرتے ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ابھی ہمارے نئے مبلغوں کے جانے پر وہاں سے رپورٹ آئی ہے کہ ان مبلغین کو ایسے علاقوں میں بھجوایا جا رہا ہے جہاں احمدی تو دیر سے موجود تھے مگر ان میں کوئی تنظیم نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک علاقہ میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبد الخالق صاحب روانہ کئےگئے ہیں۔ گولڈ کوسٹ کے ملک میں جہاں کے علاقہ کی رپورٹ ہے دو بڑی قومیں ہیں ایک اشانٹی اور دوسری فینٹی۔ جہاں تک لڑائی جھگڑے اور طاقت کا سوال ہے اشانٹی والے زیادہ مضبوط ہیں اور فینٹی قوم کے لوگ کمزور ہیں۔ جب بھی کوئی لڑائی ہوتی ہے اشانٹی قوم والے جیت جاتے ہیں اور فینٹی قوم والے ہار جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کا مرکز فینٹی قوم میں ہے اور مرکزی انجمن میں بھی زیادہ تر اسی قوم کے لوگ شامل ہیں۔ اشانٹی علاقہ شمال میں فرانسیسی علاقہ سے ملتا ہے اور اس پر عربی اثر بھی ہے۔ وہ لوگ سارے کے سارے حبشی ہیں بلکہ عرب آمیزش سے ایک ایسا طبقہ بھی ان میں موجود ہے جس کی شکلیں عرب لوگوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تر بُت پرست ہیں۔ پرسوں مولوی عبد الخالق صاحب کا مجھے خط آیا کہ مَیں اس علاقہ میں گیا تو لاری کے پہنچنے سے قبل ہی بہت سے لوگ ہجوم کر کے جمع تھے۔ جب میری لاری پہنچی تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ اَلْحَمْدُ لِلہِ۔ مَیں حیران ہؤا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اتنے میں یکدم انہوں نے پوچھا کہ ہمارا مبلغ کہاں ہے؟ تب مجھے معلوم ہؤا کہ یہ لوگ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مجھے ایک مکان پر لے گئے، بڑی عزت سے ٹھہرایا اور ایک گھنٹہ تک باتیں ہوتی رہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ ‘‘اوہان ہن’’ سے بھی آپ مل لیں۔ مَیں نے کہا ‘‘ اوہان ہن’’ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ ‘‘اوہان ہن’’ ہمارے ملک کا بادشاہ ہے۔ مَیں نے کہا۔ بادشاہ کیا ؟ یہ تو انگریزی علاقہ ہے۔ مگر بہرحال مَیں نے کہا بہت اچھا مَیں ان سے مل لیتا ہوں۔ جب مَیں اس کے محل پر پہنچا تو اس نے میرا استقبال کیا۔ درمیان میں ترجمان بیٹھ گیا اور ہم باتیں کرتے رہے۔ بعد میں مَیں نے تحقیقات کی تو معلوم ہؤا کہ انگریزوں نے اشانٹی قبائل والوں کو تلوار کے زور سے فتح نہیں کیا جب باقی ملک انہوں نے فتح کر لیا تو اشانٹی والوں نے انگریزوں سے معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ قانون ان کا اپنا چلتا ہے، مجسٹریٹ ان کے اپنے ہوتے ہیں اور زمین بھی ان کی اپنی ہے۔ انگریزوں کا براہِ راست کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس جگہ پر سب سے زیادہ کثرت بُت پرستوں کی ہے۔ دوسرے نمبر پر عیسائی ہیں اور تیسرے نمبر پر مسلمان ہیں۔ گویا بُت پرستوں اور عیسائیوں کی کافی تعداد ہے لیکن مسلمان کمزور ہیں۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں عیسائیوں نے ایک بہت بڑی میٹنگ کی تھی جس میں اس بات پر بہت زور دیا گیا تھا کہ مسلمانوں نے باقی علاقوں میں بہت بڑی تنظیم کر لی ہے۔ اب شمال کے علاقوں میں ہمیں متحدہ حملہ کر دینا چاہئے تاکہ احمدیوں کے پہنچنے سے پہلے پہلے ہم سب علاقہ کو عیسائی بنا لیں۔ پہلے وہاں صرف رومن کیتھولک والوں کا مشن تھا مگر اب تو اور بھی بہت سے عیسائی مشن کھل چکے ہیں اور سب نے مل کر اسلام پر دھاوا بول دیا ہے۔ عیسائی اپنی ان کوششوں میں مشغول ہی تھے کہ ہمارے مبلغ عیسائیت کے زہر کے ازالہ کے لئے پہنچ گئے۔ اس علاقہ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے ہیں۔ کوئی پانچ گھر کا،کوئی دس گھر کا، کوئی بیس گھرکا ، کوئی پچاس گھر کا۔ جہاں ‘‘اوہان ہن’’رہتا ہے وہ بھی ایک معمولی قصبہ ہے۔ مگر مولوی عبد الخالق صاحب لکھتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ اس قصبہ میں مسلمانوں کی تو صرف ایک مسجد ہے اور وہ بھی بہت شکستہ اور خراب حالت میں لیکن عیسائیوں کے اس چھوٹے سے گاؤں میں چھ بڑے بڑے شاندار گرجے ہیں جو لوگوں کی طبائع پر بہت بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک معمولی قصبہ میں جب اتنے زیادہ گرجوں کو مَیں نے دیکھا تو مجھ پر گہرا اثر پڑا اور مَیں نے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ یا اللہ! اس ملک میں عیسائیوں نے اتنا قبضہ جما لیا ہے کہ اب ان کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس پر پہلے مسلمانوں کا قبضہ تھا اور مسلمانوں نے ہی اس کو فتح کیا لیکن آج چاروں طرف عیسائیت ہی عیسائیت پھیل رہی ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ اس کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں رات جب مَیں سویا تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنے قصبہ واقع ضلع گجرات میں ہوں اور ہمارا مزارع آ کر کہتا ہے کہ کیکر پھر نکل آیا ہے۔ مَیں اس سے کہتا ہوں کہ اب کی دفعہ کیکر کو اس طرح جڑ سے کاٹو کہ وہ پھر نہ نکل سکے۔ اس سے مجھے خیال پیدا ہؤا کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی ایسا سامان کر دے جس سے عیسائیت کمزور ہو جائے اور اسلام کی ترقی کے آثار اس ملک میں ظاہر ہو جائیں۔ پھر مَیں اَور علاقوں میں گیا تو دورہ کرتے ہوئے مَیں نے ہر جگہ یہی دیکھا کہ عیسائیت کا زور ہے اور وہ جگہ جگہ اپنے سکول اور مشن قائم کر کے اسلام کی اشاعت میں روکیں پیدا کر رہے ہیں۔ اس پر میرے دل میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہاں زمین دے دے تو ہم اس جگہ اپنی ایک یونیورسٹی قائم کر دیں۔اور جس طرح پرانے زمانے میں مسلمانوں نے یہاں یونیورسٹی بنائی تھی اور ہزاروں طلباء اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتے تھے اُس طرح ہم بھی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کر دیں جہاں اسلام کے مبلغ تیار ہؤا کریں اور وہ اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے سارے علاقوں میں پھیل جایا کریں۔ یہ خیال مجھ پر اس قدر غالب آ گیا کہ جب مَیں باہر گیا تو پھر مَیں نے گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی شروع کر دیں اور آخر یہ خیال مجھ پر اس قدر غالب آتا چلا گیا کہ مَیں اس کے اظہار سے رُک نہ سکا۔ مَیں نے کہا کہ بے شک آج ہمارے پاس سامان کم ہیں اور احمدی بہت کمزور ہیں۔ لیکن کیا کوئی صورت ایسی نہیں ہو سکتی کہ ہمیں آج زمین کا ایک وسیع ٹکڑا مل جائے جس پر کسی آئندہ زمانے میں ہم ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھ سکیں؟ چنانچہ مَیں نے اپنے ترجمان سے کہا کہ آج تو ہماری طاقت نہیں کہ ہم کوئی یونیورسٹی قائم کر سکیں لیکن اگر آج ہمیں زمین کا کوئی وسیع ٹکڑا مل جائے تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ کسی وقت ہم اپنی یونیورسٹی قائم کر لیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ ہمیں اس غرض کے لئے زمین مل جائے؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ آپ ‘‘اوہان ہن’’ سے ملیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کریں۔ وہ بادشاہ ہے اور آپ کو اس غرض کے لئے زمین دے سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا وہ دے دے گا۔ آپ اس سے ذکر کریں۔ وہ علاقے گو چھوٹے چھوٹے ہیں مگر خواہ دس مربع میل کا کوئی حاکم ہو، وہ اپنے علاقہ میں بادشاہت کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس علاقہ کا اوہان ہن احمدی ہو چکا ہے۔ اس کا باقی خاندان تو سب کا سب بُت پرست ہے لیکن وہ خود احمدی ہے۔ ترجمان نے مجھ سے کہا کہ آپ اس سے کہیں وہ ضرور زمین دے گا۔ چنانچہ دوسرے دن ہم مل کر اس کے پاس گئے اور مَیں نے کہا۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ اگر آج ہمیں یہاں زمین کا کوئی ٹکڑا مل جائے تو آئندہ کسی وقت ہم اس پر اپنی عمارتیں کھڑی کر کے سکول قائم کر دیں اور پھر رفتہ رفتہ اس سکول کو وسیع کرتے جائیں لیکن ہمارے پاس عمارتوں کے لئے فوری طور پر کوئی سامان نہیں۔ اگر زمین ہو گی تو جماعت کو تحریک ہوتی رہے گی کہ اس زمین کو آباد کیا جائے۔ اور پھر ممکن ہے آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد اس پر ہم عمارتیں کھڑی کر لیں۔ میری خواہش ہے کہ اس وقت ہمیں زمین مل جائے۔ عمارتیں وغیرہ ہم بعد میں بنا لیں گے۔ کیا آپ اس بارہ میں کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ اس نے کہا۔ ہاں۔ مَیں اس غرض کے لئے آپ کو زمین دے سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے دوسرے ہی دن اپنے کونسلروں کو بلوایا او ران کے سامنے یہ تجویز پیش کی۔ اتنے میں ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس کے مشیروں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بے شک انہیں زمین دے دی جائے۔ چنانچہ وہ اس وقت ہمیں ساتھ لے گئے۔ وہاں ایک نالا بہتا ہے جس کے قریب بہت عمدہ زمین ہے اور ہوسا قوم جو اسلام کی تبلیغ کرنے والی ہے اس کی بھی وہاں بستیاں ہیں۔ انہوں نے وہاں جا کر ایک مربع میل یعنی پونے آٹھ سَو ایکڑ زمین ہمیں دے دی۔ مَیں نے پھر کہا کہ آپ نے جو یہ زمین دی ہے اس کے متعلق یہ امر یاد رکھیں کہ ہم اسے فوراً آباد نہیں کر سکیں گے۔ معلوم نہیں آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد ہم اس زمین کو آباد کریں۔ سرِ دست ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں جس سے ہم اس زمین پر اپنی عمارتیں کھڑی کر سکیں اس لئے اگر اس زمین کو آباد کرنے میں ہماری طرف سے دیر ہو تو آپ ہمیں طعنہ نہ دیں۔ وہ کہنے لگا مَیں یہ زمین اب احمدیہ جماعت کو دے چکا ہوں۔ آپ خواہ پچاس سال کے بعد اس پر کوئی عمارت بنوائیں یا سو سال کے بعد۔ اب زمین آپ کی ہو چکی۔ چنانچہ مولوی عبد الخالق صاحب نے لکھا ہے کہ سرکاری طور پر کاغذات تیار کئے جا رہے ہیں جب مکمل ہو گئے تو قبالہ4 قادیان بھیج دوں گا۔
اب بظاہر حالات خدا تعالیٰ نے وہاں ہماری ترقی کا ایک سامان پیدا کر دیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے متعلق بعد میں کیا صورت رونما ہو ۔ ممکن ہے حکام کو پتہ لگے تو انگریزی حکومت زور دے کر اس حکم کو منسوخ کرا دے لیکن بظاہر اوہان ہن نے اس بارہ میں قطعی فیصلہ کر دیا ہے، نشانات لگائے جا رہے ہیں اور انسپکٹروں سے اس نے کہہ دیا ہے کہ تین چار دن کے اندر اندر نشان لگا کر کاغذات کو سرکاری لحاظ سے مکمل کر دیا جائے اور میرے دستخط بھی کروا لئے جائیں اور پھر ان کو قبالہ دے دیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ جب اس علاقہ میں زمین لے لی گئی تو لازماً کچھ عرصہ کے بعد ہمیں وہاں عمارتیں بھی بنانی پڑیں گی، سکول بھی جاری کرنا پڑے گا اور پھر سکول کے لئے اور علاقہ کی تبلیغ کے لئے ہمیں مدرّس بھی بھجوانے پڑیں گے اور مبلغ بھی بھجوانے پڑیں گے۔ اگر وہاں کے لوگ ناواقف ہوتے ہوئے اور بُت پرستوں میں سے نو وارد احمدی ہوتے ہوئے یہ قربانی کر سکتے ہیں تو کیا ہم ان کو یونہی چھوڑ دیں گے؟ اگر ان لوگوں کے اندر اسلام کی ترقی کا درد ہے تو ہمارے اندر کیوں نہیں ہو گا؟ اور اگر وہاں کے لوگ اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی کر رہے ہیں تو ہمیں ان سے بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ پس افریقہ میں جس قدر مبلغ پہلے بھجوائے جا چکے ہیں ان سے کئی گُنا زیادہ مبلغین کی ہمیں اس ملک کے لئے ضرورت ہے۔ افریقہ کے علاقہ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انٹرنس(Entrance) پاس نوجوان بھی وہاں کام دے سکتے ہیں، گریجوایٹوں اور ایم اے پاس لوگوں کی ضرورت نہیں ۔ کچھ مولوی فاضلوں کی بے شک ضرورت ہے لیکن زیادہ مولوی فاضلوں کی نہیں۔ ہر علاقہ میں اگر دو دو تین تین مولوی فاضل ہو جائیں تو کافی ہیں۔ باقی سب جگہوں میں معمولی عربی پڑھے ہوئے نوجوان بھی کام دے سکتے ہیں اور انٹرنس پاس بھی کام دے سکتے ہیں۔ بہرحال مَیں سمجھتا ہوں قریب ترین عرصہ یعنی دو تین سال میں ہی ہمیں ڈیڑھ دو سو آدمی وہاں رکھنے پڑیں گے۔ اس وقت بارہ کے قریب مبلغ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ ایک گریجوایٹ کو ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے افریقہ بھجوا دیا جائے گا جہاں وہ سینئر کیمبرج سکول یا میٹرک سکول قائم کرے گا اور یہ سکول گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں قائم کیا جائے گا کیونکہ ہماری سب سے زیادہ جماعت اس جگہ ہے۔ مگر یہاں پھر وہی آدمیوں کا سوال آ جاتا ہے اور ایک ایک قدم پر یہ سوال ہمارے سامنے آ ئےگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ کا سوال بھی ہمارے سامنے آتا ہے مگر روپیہ کا سوال ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر سچا اخلاص اور دین کا حقیقی جوش رکھنے والے لوگ موجود ہوں تو روپیہ کا سوال خود بخود حل ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کو آخر کون خرچ دیا کرتا تھا؟ آپ نے ان سے یہی کہا کہ جاؤ تبلیغ کرو اور جب بھوک لگے تو لوگوں سے مانگ کر کھا لیا کرو۔ بدھؑ نے بھی اپنے پیروؤں کو یہی تعلیم دی کہ کشکول اٹھاؤ ، خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ اور جب کھانے کا وقت آئے تو لوگوں سے اپنے لئے کھانا مانگو اور کھاؤ۔ تم ان کا کام کرتے ہو ۔کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ تمہاری ضرورت کو پورا کریں اور تم کو کھانا کھلائیں؟ پس حقیقت یہ ہے کہ جب اخلاص سے کام لیا جائے تو روپیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل سوال آدمیوں کا ہے۔ روپیہ ایک تابع چیز ہے اگر مل جائے تو اس سے اپنے کام کو وسیع کیا جا سکتا ہے لیکن اگر روپیہ پاس نہ ہو تو اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ تبلیغ کو بند کر دیا جائے کیونکہ تبلیغ روپیہ کی محتاج نہیں۔ تبلیغ کے لئے ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ اگر روپیہ ہو گا تو ہم اپنے مبلغوں کو روپیہ دے دیں گے اور اگر روپیہ ہمارے پاس نہیں ہو گا تو حضرت مسیح ؑ کی طرح ہم انہیں یہی کہیں گے کہ جاؤ او رلوگوں کو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی خبر دو۔ اور جب تمہیں بھوک لگے تو لوگوں سے روٹی مانگو اور کھاؤ۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی خبر دو۔ اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ تمہارا پیٹ بھر دیں۔ یہ سودا ان کے لئے بہرحال سَستا ہو گا کیونکہ جو کچھ وہ دیں گے وہ ایک حقیر اور ذلیل چیز ہو گی۔ اگر دو روٹیاں وہ ایک مبلغ کے پیٹ میں نہ ڈالتے تو وہ سڑ جاتیں یا کُتّا ان کو کھا جاتا۔ لیکن اگر ان کو یہ روحانی تعلیم نہ ملتی اور وہ اس حالت میں مر جاتے تو دوزخ میں جاتے۔
پس آدمی اور آدمی اور آدمی، ساری دنیا کے کناروں سے یہی آواز آ رہی ہے کہ ہماری طرف آدمی بھیجو، ہماری طرف آدمی بھیجو، ہم تھوڑے ہیں مگر اتنے تھوڑے نہیں کہ ان ضرورتوں کو پورا نہ کر سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو، ہمارے اندر اخلاص ہو، ہمارے اندر تقویٰ ہو اور ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کی تڑپ ہو۔ اگر ایمان اور اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہر وقت ہمارے مدنظر ہو اور ہمارا دین اور دنیا کا کوئی کام بھی ان سے خالی نہ ہو تو پھر آدمی ہی آدمی ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہمارے اندر تقویٰ نہ ہو تو ہماری ایسی ہی مثال ہو گی جیسے ایک انگریز شاعر نے کہا کہ :
Water water Every where
and not a drop to drink
پانی، پانی، چاروں طرف پانی ہے مگر پینے کے لئے ایک قطرہ بھی نہیں۔ ایک شخص سمندر میں بہتا چلا جا رہا تھا اور چونکہ سمندر کا پانی پینے کے ناقابل ہوتا ہے اس نے کہا میرے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے مگر پینے کے لئے ایک قطرہ بھی میرے پاس نہیں۔ یہی حالت نَعُوْذُ بِاللہ ہماری ہوگی کہ ہمارے چاروں طرف آدمی ہی آدمی ہوں گے مگر کام کے آدمی ہمیں میسر نہیں ہوں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ خدا جس نے ہمیں سہارا دیتے ہوئے اس حد تک پہنچایا ہے کہ ایک بیج سے اس نے لاکھوں درخت پیدا کر دئیے ہیں وہ اس تاریکی اور ظلمت کے وقت میں جبکہ کام کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور ہمیں چھوڑے گا نہیں۔ بلکہ وہ خود لوگوں کےد لوں میں اخلاص اور ان کے دماغوں میں فکرِ صحیح پیدا کرے گا؟ اور جماعت کے لوگوں کو ہمت بخشے گا کہ وہ آگے بڑھ کر اس مَقْتَل میں جہاں خدا تعالیٰ کے عشّاق اور دین کے خدام شہید کئے جاتے ہیں اپنی گردنیں رکھتے چلے جائیں گے۔ اور یہ پروا نہیں کریں گے کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔ کیونکہ ہر شخص پورے یقین اور وثوق کے ساتھ اس ایمان پر قائم ہو گا کہ میرا آخری مقام بجز خدا تعالیٰ کی گود کے اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔’’ (الفضل 8 مئی 1946ء )
1:شیلانگ:بھارت کےشمال مشرقی صوبہ آسام کا دارالخلافہ۔
2:ارکاٹ: مشرقی وسطی مدراس کا قصبہ۔ اٹھارھویں صدی میں جنوبی ہند پر غلبے کے لئےفرانس اور انگلستان کی کشمکش میں اس شہر کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 88۔ لاہور 1987ء)
3: رچرڈ: (Richard 1) 1157ء- 1199ء
1189ء سے وفات تک انگلستان کا بادشاہ رہا ۔16سال کی عمر میں رچرڈ نے اپنی فوج کی کمانڈ
کرتے ہوئے اپنے والد ، بادشاہ ہنری دوم کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلا، تیسری صلیبی جنگ کے دوران مرکزی عیسائی کمانڈر تھا۔
( Wikipedia the free Encylopedia “ Richard 1 of England”)
4: قبالہ: بیع نامہ

16
احمدی زمیندار پہلے کی نسبت غرباء کے لئے زیادہ غلہ جمع کریں
( فرمودہ 10 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا ہے اور اسلام کے معنے سپرد کر دینے کے ہوتے ہیں اور اسلام کے معنے امن دینے کے بھی ہوتے ہیں۔ گویا اسلام میں سارے اسلام کا خلاصہ آ گیا۔ یہ متفقہ بات ہے کہ اسلام نے دو باتوں یعنی تعلق باللہ اور شَفْقَت عَلَی النَّاس کا حکم دیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا تعلق ہو جائے اور بنی نوع انسان پر شفقت کرے۔ اور اِسی چیز کا نام مذہب ہے۔ پس اسلام ایک ایسا لفظ چُنا گیا ہے جس میں یہ دونوں معنے ہیں کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دو اور دوسروں کو امن دو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے مذہب کا نام اسلام رکھ کر اس نام سے ہی مذہب کی ساری حقیقت کھول دی۔ یہ کتنا بڑا معجزہ ہے ہمارے دین کا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مذہب کا نام اسلام رکھا جس کے اندر مذہب کی تمام حقیقت آ گئی ہے۔ اور ہماری کتاب کا نام کَلَامُ اللہ رکھا اور کَلَامُ اللہ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ اس میں ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کااس میں کچھ حصہ نہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اورہر حرکت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ مگر دوسری کتب میں بہت کچھ تَدَاخُل ہے۔ جب وہ درست تھیں تب بھی ان میں تَدَاخُل تھا۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا تذکرہ ہے۔ اس میں بے شک الہامات ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فقرہ ہوتا ہے کہ آج رات مجھے یہ الہام ہؤا۔ یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کا نہیں ہوتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا زائد کردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب توریت میں ایسے فقرات اس وقت بھی موجود تھے جب وہ صحیح تھی۔ پس وہ کتاب شروع میں بھی مکمل الہامی نہیں تھی۔ اسی طرح انجیل کا حال ہے۔ لیکن قرآن کریم میں یہ کہیں پتہ نہیں ملتا کہ فلاں رات مجھے یہ الہام ہؤا۔ شروع سے لے کر آخر تک کَلَامُ اللہ ہے۔ پس ایک ہی مذہب ہے جس میں خدا تعالیٰ کے حقوق او ر بنی نوع انسان کے حقوق ادا کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام اسلام رکھا ہے۔ یعنی اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا او ربنی نوع انسان کو امن بخشنا۔ اور ایک ہی کتاب ہے جس میں کسی انسان کا قول نہیں اور اس کے نام کَلَامُ اللہ میں ہی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ یہ زائد بات بھی کہہ لو کہ ہم جس نام سے خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں اس نام سے کوئی اور مذہب اسے نہیں پکارتا۔ باقی سب نام مرکّب ہیں جو دوسروں کے لئے بھی استعمال ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہندو پرم ایشور کہتے ہیں۔ جس کے معنے ہیں بڑی روح۔ گاڈ (God)بھی مرکب استعمال ہوتا ہے لیکن یہ نام مرکّب نہیں۔ پھر رسول کریم ﷺ کا نام بھی اسم بامسمّٰی ہے۔ جیسے اللہ کے معنے ہیں تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہستی۔ اسی طرح محمدؐ کے معنے ہیں جس کی مذمت کوئی نہ کر سکے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ دشمنوں نے گالیاں دیں۔ تو صحابہؓ بڑے جوش میں آ گئے۔ آپؐ نے فرمایا کیوں جوش میں آتے ہو وہ مجھے کب گالیاں دیتے ہیں وہ تو مُذَمَّمْ کو گالیاں دیتے ہیں۔ مَیں تو محمد ہوں۔1 عرب کے لوگ یہ جانتے تھے کہ ان کا نام محمدؐ ہے اور محمدؐ نام لے کر گالی دینا مضحکہ خیز ہے۔ اس لئے عرب کے لوگ آپؐ کو مُذَمَّمْ کہہ کر گالی دیتے۔ پس ہمارے رسول کریم ﷺ کو بھی وہ نام ملا جس کے ساتھ کوئی گالی نہیں دے سکتا۔ اور ہمارے خدا کا وہ نام ہے جو کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ او رہمارے مذہب کا وہ نام ہے جس میں وہ دونوں خصوصیات شامل ہیں جن کے لئے مذہب آیا کرتا ہے۔ اور ہماری کتاب کو وہ نام ملا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں صرف اور صرف الہام ہی درج ہے۔ مگر کیا ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جس طرح اُنگلی کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو تمام جسم کو اس سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مسلمانوں میں سے کسی کو تکلیف پہنچے تو ضرور ہے کہ باقیوں کو بھی تکلیف پہنچے۔2
پچھلے سال گندم کا بھاؤ آٹھ نو روپے مَن کے درمیان تھا۔ اب نو اور گیارہ کے درمیان ہے۔ قادیان میں ساڑھے دس روپے من کے حساب سے بھی گندم بِکی ہے او رگیہوں کی اتنی قیمت ادا کر کے ہر ایک کہاں گندم خرید سکتا ہے۔ ہندوستان میں چپڑاسی کی تنخواہ آٹھ روپے ہوتی تھی۔ آجکل بیس روپے ہے۔ نو دس روپے مہنگائی الاؤنس مل جاتا ہے۔ اگر ہر ایک کے گھر میں اوسطاً دو بچے ہوں تو ایک گھر کے افراد کی تعداد چار بن جاتی ہے۔ اگر ایک فرد ماہوار پندرہ سیر گندم کھائے توا یک ماہ میں ساٹھ سیر یعنی پندرہ روپے کی گندم خرچ ہو گی۔ اس کے علاوہ دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ دال، سالن ، کپڑے وغیرہ۔ پھر بعض دفعہ بیماری بھی آ جاتی ہے۔ اور ان پر باقی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں غرباء پر جو کچھ گزرتی ہے وہ یقیناً ایک مصیبت ہوتی ہے۔ مگر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا ہماری جماعت اس مصیبت سے آزاد ہے؟ اگر ہے تو پھر بےشک ہماری جماعت آرام سے سوئے۔ لیکن اگر حقیقتاً ہماری جماعت غریبوں کی ہےاور اگر اس وقت ہمارے کچھ بھائی فاقہ کشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دوسروں کے دلوں میں درد پیدا نہ ہو تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسلام پر عمل کیا ہے۔ پچھلے سالوں میں ہم غرباء کو پانچ پانچ ماہ کا غلہ دیتے رہے ہیں اور اس سے قیمت نصف پر آ جاتی ہے۔ اگر چہ یہ مدد بہت کم ہے لیکن اس طرح ہم ان کے بوجھ کو ایک حد تک کم کر دیتے ہیں۔ جماعت کے دوستوں نے ہمیشہ اس تحریک میں حصہ لیا ہے لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پورے جوش سے حصہ نہیں لیا حالانکہ یہ ایمان کی ادنیٰ علامت ہے کہ غرباء کا خیال رکھا جائے۔ اسی طرح قادیان کے افرا دنے بھی پورے طور پر قربانی نہیں کی۔
حقیقت میں مومن وہ ہوتا ہے جو اپنے مومن بھائی کا مصیبت کے وقت حصہ دار ہو۔ احادیث میں آتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو رستہ میں کھانے کی کمی واقع ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔ چنانچہ آپؐ نے سب چیزیں جمع کر لیں اور ان سب کو ملا کر بطور راشن سب میں برابر تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔3 لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزوں نے راشن سسٹم جاری کیا ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ آج سے تیرہ سو سال پہلے اس پر عمل فرما چکے ہیں۔ آپ نے سب چیزیں جمع کر کے برابر برابر تقسیم کرنی شروع کر دیں۔ مثلاً اگر فی کس پانچ کھجوریں حصہ میں آتی تھیں تو جس شخص نے دس کھجوریں دی تھیں اس کو بھی پانچ ہی دی جاتیں اور جس نے ایک کھجور بھی نہ دی تھی اس کو بھی پانچ کھجوریں دی جاتیں۔ پس جب زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے اُس وقت مالدار اور غیر مالدار کا سوال نہیں رہتا بلکہ ہر فرد جو اپنے دوسرے بھائی کی کچھ مدد کر سکتا ہے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کی جان بچانے کی کوشش کرے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور بیرونی جماعتوں نے تو اس کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ۔ حالانکہ غلہ کی قیمت کے بڑھ جانے سے زمینداروں کی حالت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہو گئی ہے اور اس سال پچھلے سالوں کی نسبت گندم کی قیمت میں بھی پچیس فیصدی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ عام طور پر زیادہ خرچ کھانے کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن گندم زمیندار کے گھر کی ہوتی ہے وہ اپنے لئے ایک سال کا خرچ گندم میں سے رکھ لیتا ہے اور باقی بیچ ڈالتا ہے۔ فرض کرو ایک زمیندار کی آمد پہلے ایک سو روپیہ تھی تو اَب گرانی کی وجہ سے اس کی آمد کئی سو روپیہ ہو گئی ہے۔ گو اس سال بے شک فصلیں کم ہوئی ہیں لیکن گندم کی قیمت میں جو پچیس فیصدی کا اضافہ ہو گیا ہے وہ اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔ بہرحال زمینداروں کو اس معاملہ میں کوئی نقصان نہیں رہا۔ مصیبت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو گندم خرید کر کھاتے ہیں۔
مَیں نے پچھلے سالوں میں بھی تحریک کی تھی کہ زمینداروں میں سے جس کی گندم سو من ہو وہ ایک من غرباء کے لئے دے دے۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ہماری جماعت کا تین چار ہزار کے قریب مربع ہے۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس میں سے ایک ہزار مربع میں گندم بوئی گئی تھی اور دس من فی ایکڑ اوسط رکھ لی جائے تو اڑھائی لاکھ من گندم ہو جاتی ہے۔ اگر سو مَن پر ایک من غلہ لیا جائےتو اڑھائی ہزار من گندم ہمیں مربع والے زمینداروں سے نہایت آسانی کے ساتھ مل سکتی ہے۔ اور یہ گندم قادیان کے غرباء کے لئے کافی ہے۔ ہمیں چھوٹے زمینداروں پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ زمینداروں نے اس تحریک میں بہت کم حصہ لیا ہے اور زمینداروں کی نسبت شہریوں نے بہت زیادہ حصہ لیا ہے۔ شاید اس لئے کہ شہریوں میں تعلیم زیادہ ہےاور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ حقیقت کو جلدی سمجھ جاتے ہیں اور انہیں غریبوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا ہے۔ پس مَیں اس سال زمینداروں کو خصوصاً تحریک کرتا ہوں کہ وہ پہلے کی نسبت غریبوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں۔
زمینداروں کے سوا دوسرے دوستوں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ جو لوگ بازار سے گندم خرید کر کھاتے ہیں ان کے لئے مَیں نے ان کے گھر کے سالانہ خرچ پر چالیس مَن پر ایک من کا چندہ رکھا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے گھر کے سالانہ خرچ کے لئے چالیس من گندم خریدے وہ ایک من غرباء کے لئے دے۔ اور جو شخص بیس من خریدے وہ بیس سیر دے۔ اور جو شخص دس من خریدے وہ دس سیر دے۔ اور اگر وہ سالانہ خرچ کے برابر نہ خریدے تب بھی اسے اپنے ایک سال کے غلہ کے خرچ کے مطابق چالیسواں حصہ دینا چاہئے۔ چالیسواں حصہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم چالیس دن میں سے ایک دن اپنے بھائی کے لئے فاقہ کرتے ہو۔ کیا یہ بہتر ہے کہ تم چالیس دنوں میں سے ایک دن فاقہ کرو۔ یا یہ بہتر ہے کہ تم خود چالیس دن کھاؤ لیکن تمہارا بھائی چالیس دن فاقہ کرے۔ میرے نزدیک تمہارا چالیسواں حصہ اپنے غریب بھائیوں کے لئے دینا کوئی قربانی نہیں بلکہ یہ تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ تم اپنے اس طریق سے خدا تعالیٰ کے غضب کو دور کرو گے۔ اس کی رحمت کو اپنی طرف کھینچ سکو گے۔
ایک بات مَیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کی آمدنیاں زیادہ ہوں لیکن ان کو غلے کی ضرورت کم ہو وہ اس بات کا خیال نہ کریں کہ ہم نے چونکہ تھوڑا غلّہ خریدا ہے اس لئے ہم اِس کا چالیسواں حصہ ہی دیں گے بلکہ ان کو اپنی آمدنی کے مطابق غرباء کے لئے گندم دینی چاہئے۔ اسی طرح مَیں عورتوں پر بھی ذمہ داری ڈالتا ہوں کہ وہ گندم بچانے کی کوشش کریں۔ اگر عورتیں گندم بچانے کی کوشش کریں تو بہت کچھ بچا سکتی ہیں۔ بعض دفعہ گھر میں پُھلکے موجود ہوتے ہیں لیکن خاوند کو خوش کرنے کے لئے عورت کہتی ہے کہ مَیں ابھی آپ کو دو گرم گرم پھلکے پکا دیتی ہوں ۔ اسی طرح اَور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اگر ان کا خیال رکھیں اور عورتیں کفایت شعاری سے کام لیں تو اخراجات کو کم کر کے اپنے لئے ثواب کا موقع پیدا کر سکتی ہیں اور اپنی طرف سے اس تحریک میں حصہ لے سکتی ہیں۔
مَیں کئی سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں اور اس سال پھر اس خطبہ کے ذریعہ سے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ مصیبت کا سال ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کے غریب بھائی فاقوں سے بے حال ہو جائیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ مصیبت کے وقت جو لوگ اپنا مال دوسروں کے لئے خرچ کرتے ہیں انہیں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے قُرب کی راہیں کھولتا ہے۔ جب ایک طرف تکلیف اور مصیبت کے دروازے کھلتے ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ پس کوشش کرو کہ ان مصیبت کے ایام میں تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکو۔ زمینداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا خاص موقع پیدا ہؤا ہےانہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لائلپور، شیخوپورہ، سرگودھا، منٹگمری، ملتان اور سندھ کے زمیندار خاص طور پر میرے مخاطب ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ آسانیاں پیدا کی ہیں کہ ان کو نہروں سے پانی ملتا ہے اور ان کی فصلوں میں بارش کے نہ ہونے سے کوئی خاص کمی نہیں ہوتی۔ وہاں ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے غریب بھائیوں کی امداد کریں۔ سَو میں سے ایک مَن کی شرط تو مَیں نے چھوٹے زمینداروں کے لئے رکھی ہے اور جو بڑے زمیندار ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے رستے میں اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیں۔ بڑے بڑے زمیندار جن کی گندم ہزار دو ہزار یا چار ہزار من یا دس ہزار من ہوتی ہے ان کے لئے سَو من پر ایک من دے دینا کوئی قربانی نہیں۔ جو شخص دس ہزار من غلّہ فروخت کرتا ہے اس کو اتنا روپیہ آتا ہے جو اس کی ضرورتوں سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ جب اس کو روپیہ زیادہ آتا ہے تو اس کو قربانی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرنی چاہئے۔ سو من میں سے ایک من کی شرط تو چھوٹے زمینداروں کے لئے ہے۔ دراصل چھوٹے زمیندار کو بہت ہی کم بچتا ہے۔ کیونکہ اس نے گندم میں سے کمّی کو بھی دینا ہوتا ہے، اس کی گندم میں اس کے بیلوں کا بھی حصہ ہوتا ہے اور اس میں سےاس نے گورنمنٹ کو بھی کچھ دینا ہوتا ہے۔ دراصل اسے سَو من میں سے صرف چالیس من ہی بچتا ہے۔ پس گندم خریدنے والے سے سَو منوالے زمیندار کی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو پانچ چھ ہزار من غلہ بغیر کسی تکلیف کے جمع ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تک جو غلہ غرباء کے لئے جمع ہوتا ہے اس کی اوسط پندرہ سو من ہوتی ہے۔ اس پندرہ سَو من میں سے تین سو من تو ہمارے خاندان کا ہی ہوتا ہے۔ اور باقی بارہ سو من ہمالیہ سے لے کر راس کماری تک اور کراچی سے لے کر پشاور تک تمام جماعت کا ہوتا ہے۔ کتنی قلیل مقدار ہے جو جماعت کی طرف سے دی جاتی ہے حالانکہ بہت سے گھروں میں مائیں اپنے بچوں کو کھلونوں کی جگہ آٹے کی گڑیاں بنا کر کھیلنے کے لئے دے دیتی ہیں۔ اگر وہ گڑیوں والا آٹا ہی جمع کیاجائے تو کئی سَو آدمیوں کی جان بچ سکتی ہے جو روٹی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے درد ہو۔ درد کے بغیر انسان کوئی چھوٹی سے چھوٹی قربانی بھی نہیں کر سکتا۔ پس اگر تم حقیقی مسلم ہو اور اسلام کے لئے درد رکھتے ہو تو تمہیں اسلام کے مفہوم کو ہر وقت اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔ اسلام کے معنے ہیں اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا اور اس کے بندوں پر رحم کرنا لیکن وہ تمام لوگ جو اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد نہیں کرتے وہ مسلم کہلانے کے مستحق نہیں۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم نہیں کرتے وہ مسلم کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں
برعکس نہند نام زنگی کافور
بھلا حبشی کا نام کافور رکھنے سے کیا بنتا ہے۔ اسی طرح کئی آدمیوں کا نام سوہنا ہوتا ہے لیکن شکل دیکھو تو آنکھیں بند کرنے کو جی چاہتا ہے۔ پس مسلم کہلانے سے کوئی شخص مسلم نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد نہیں کرتا اور اس کے بندوں پر رحم نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بد صورت انسان ہو اور اس کا نام حسین رکھ لیا جائے۔ کیا اس کا نام حسین رکھنے سے واقع میں وہ حسین ہو جائے گا؟ مسلم نام اس شخص کا ہے۔ جو کلی طور پر اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور کلی طور پر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول رہے۔ اگر آج اس میں تھوڑی طاقت ہے تو وہ احمدیو ں کی خدمت کرے۔ اور اگر کل اسے زیادہ طاقت اور توفیق ملے تو وہ دوسروں کی بھی خدمت کرےاور جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَور زیادہ طاقت حاصل ہو جائے تو وہ ساری دنیا پر احسان کرے اور ساری دنیا سے عدل و انصاف کا معاملہ کرے اور اس زمین پر اَن داتا بن جائے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے وہ بھی ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے اور جس طرح اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے وہ بھی اپنے اندر رحمان اور رحیم کی صفت پیدا کرے۔ مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقیقی مسلم بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ مسلم ہونے کی حالت میں ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو تقویت دے اور ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے ۔اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہمارے آپس کے تعلقات برادرانہ اور مخلصانہ ہوں اور ہم ایک دوسرے کے لئے محبت کے جذبات رکھیں۔ اور ہم اپنے نفس کی قربانی کرنے والے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سُرخرو ہو کر پیش ہو سکیں۔ اٰمِیْن اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن۔ ’’ (الفضل 21 مئی 1946ء )
1: بخاری کتاب الْمَنَاقب باب مَا جَاءَ فِیْ اَسْمَاءِ رَسُوْلِ اللہ ﷺ
2: بخاری کِتَابُ الْاَدبِ باب تَعَاون الْمُؤْمِنِیْنَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا
3: بخاری کِتَابُ الشِّرْکَةِ باب الشِّرْکَة فِی الطَّعَامِ وَ النَّھْدِ وَ الْعُرُوْضِ (الخ)

17
ہندوستان میں تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی جائے
( فرمودہ 17 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا میں بہت سے انبیاء آئے ہیں ان میں سے بعض کے تھوڑے یا بہت حالات موجود ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام ایسے زمانہ میں آئے جبکہ حکومتیں اور بادشاہتیں نہیں تھیں اِس لئے قرآن کریم میں ان کے متعلق یہ ذکر تو نہیں آتا کہ اس زمانہ کے لوگوں نے ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیں۔ مگر یہ ذکر ضرور آتا ہے کہ ان کے خلاف دوسرے لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ پیدا ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ اس وقت تک دشمنیاں اور بُغض نکالنے کا جبری طریق ایجاد نہیں ہؤا تھا اس لئے لوگ ان کو کوئی ایذا نہ دے سکے۔ لوگ یہ تو چاہتے تھے کہ آدمؑ تباہ و برباد ہو جائے لوگ یہ تو چاہتے تھے کہ آدمؑ پر تباہی و بربادی نازل ہو مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کو کس طرح تباہ و برباد کریں۔ چونکہ وہ منظّم نہیں تھے اس لئے وہ جانتے نہیں تھے کہ اپنے غصہ کو کس طرح نکالیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو کس طرح برباد کریں۔ انہوں نے اپنے جوش نکالنے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے صلح اور دھوکا دہی سے کام لیا اور اس مقام سے ان کو نکال دیا جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم کیا تھا۔ گویا سوائے دھوکا دہی اور فریب دہی کے کوئی اَور ذریعہ اختیار نہ کر سکے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں کوئی منظّم بادشاہت نہ تھی۔ اس لئے ان کا دماغ اس طرف جا ہی نہ سکتا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو قتل کر دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں یا قید کر دیں۔ چونکہ یہ طریقے ان کو معلوم ہی نہ تھے اس لئے انہوں نے وہ طریقے اختیار کئے جو ماتحت یا برابر کے لوگ اختیار کیا کرتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی حالت بہت کچھ بدل چکی تھی اور وہ اِس حد تک ترقی کر چکے تھے کہ ان میں قبائل بندی پیدا ہو چکی تھی اور وہ جتّھا بندی کر کے لٹھ بازی کر لیتے تھے اور تکلیفیں اور مصیبتیں دینے کی جرأت اور طاقت ان میں پیدا ہو چکی تھی۔ مگر ابھی تک کوئی منظّم حکومت یا بادشاہت اُن کے اندر بھی موجود نہ تھی اور ان میں کوئی ایسا نظام نہ تھا کہ وہ لوگوں کو پھانسی یا قتل کی سزا دیں یا کسی کو قید کر دیں۔ اگر وہ کسی کو تکلیف دینا چاہتے تو لٹھ بازی اور پتھراؤ سے کام لیتے۔ حضرت نوح علیہ السلام کےز مانہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ اُس وقت حکومتیں قائم ہو چکی تھیں اور جماعتیں منظّم ہو چکی تھیں۔ اگر کسی کو کسی شخص کے خلاف غصہ پیدا ہوتا تھا تو وہ اسے حکومت کے ذریعہ سزا دلوانے کی کوشش کرتا تھا۔ جیسا کہ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تُو ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے ہم تمہارے خلاف حکومت سے فریاد کریں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حکومت کے پاس حضرت ابراہیمؑ کے خلاف شکایت کی اور حکومت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا اور پھر فیصلہ ہؤا کہ ابراہیم کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے۔ اس وقت قانون کا پنجہ اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ وہ افراد کو سزا دینے سے ذرا بھی نہ جھجکتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جیسے آجکل حکومت کے جج بالکل نڈر ہو کر پھانسی کا حکم سنا دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں مارنے کی کسی میں طاقت نہیں۔بہرحال یہ سلسلہ ترقی کرتا گیا اور مخالفتیں بھی نئی نئی شکلیں اختیار کرتی گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مخالفت کا زور اَور بھی بڑھ گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو بہت دردناک تکلیفیں دی گئیں۔ حضرت دانیال علیہ السلام کو شیروں کے آگے ڈال دیا گیا اور بنی اسرائیل میں سے بعض کے سروں پر آرے رکھ کر اُن کو چِیر دیا گیا۔ جیسا کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ دشمنوں نے آپ کو صلیب پر لٹکا دیا اور آپ کے خلفاء اور صحابہ میں سے بھی بعض کو قتل کیا اور بعض کو صلیب پر لٹکا دیا۔ پھر رسول کریم ﷺ کا زمانہ آیا اور مخالفت اپنے پورے زور کے ساتھ نمودار ہوئی۔ کئی صحابہ قتل کئے گئے۔ بعض کا مُثلہ کیا گیا ، کئی ایک کو اس طرح شہید کیا گیا کہ دو اونٹوں سے ان کی ٹانگیں باندھ کر ان اونٹوں کو مختلف جہات میں دوڑایا گیا اور اس طرح چِیر کر اُن کو دو ٹکڑے کر دیا گیا، عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ان کو مار دیا گیا، بعض صحابہؓ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا، بعض کو سخت پتھروں والی زمین پر گھسیٹا گیا، بعض کے سینوں پر جُوتوں سمیت ناچا گیا۔ غرض وہ تمام قسم کی مصیبتیں اور اذیتیں جو مختلف انبیاء کے زمانے میں ان کے دشمنوں نے ان کو دیں وہ سب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جمع ہو گئیں۔ پس زمانہ کے بدلنے کے ساتھ تکالیف کا رنگ بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے زمانہ میں چونکہ غیر حکومت تھی اور وہ ظالم کے ہاتھ کو بہت حد تک روکتی تھی اس لئے لوگ براہِ راست ہم پر مظالم نہیں کر سکے۔ لیکن جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں نے حکومت کے ذریعہ ان پر اور ان کے صحابہ پر مظالم کئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے دشمنوں نے آپ کو حکومت کے ذریعہ دکھ دینے کی کوشش کی۔ جلسوں میں آپ کے خلاف شور مچایا گیا، آپ کے خلاف قتل کی سازشوں کا الزام لگایا گیا، آپ پر قتل کے جھوٹے مقدمات کئے گئے، حکومت کو آپ سے بدظن کرنے کی کوششیں کی گئیں کہ یہ شخص ملک میں فساد ڈلوانے کی نیت رکھتا ہے اور ملک کے امن کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ غرض بہت سی جھوٹی رپورٹیں کر کے حکومت کے ذریعے آپ کو تکالیف میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اور ہندوستان سے باہر جہاں انگریزوں کی حکومت نہ تھی ہمارے کئی آدمی قتل کئے گئے اور نہایت بے دردی سے سنگسار کئے گئے۔ ہندوستان میں ہماری جماعت کی حالت پہلے نبیوں کی جماعتوں سے مختلف ہے۔ اگر ہماری جماعت کو ان مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن مصائب کا پہلے انبیاء کی جماعتوں کو سامنا کرنا پڑا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے مخالفین کو ہمارے خلاف غصہ کم تھا بلکہ اس لئے کہ ان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ ہم پر براہِ راست مظالم کرسکتے کیونکہ ایک اجنبی حکومت ہمارے ملک پر حکمران تھی۔ اس لئے وہ اپنے غصہ کا اس رنگ میں اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اسی زمانہ میں ہندوستان کے پہلو میں افغانستان نے متواتر ہمارے کئی آدمیوں کو مارا۔ مصر میں ہمارے ایک احمدی کے گھر کو اس کے دشمنوں نے آگ لگا دی اور اسے قسم قسم کے دکھ دئیے۔ اور اسی زمانہ میں دوسرے ممالک میں ہمارے مبلغین پر کئی قسم کے مظالم توڑے گئے ۔ روس میں ہمارے مبلغین کو مارا پیٹا گیا اور انہیں زنجیروں سے قید کر کے کئی قسم کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا لیکن باوجود اس کے ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ بڑھتی چلی گئی اور کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ مخالفت نے ہمارے قدم کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہو۔
آج ہماری جماعت کو قائم ہوئے ستاون سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں ہماری جماعت روز بروز زیادہ ترقی کرتی چلی گئی۔ احرار کے فتنہ کے موقع پر مخالفین کی طرف سے انتہائی زور لگایا گیا کہ ہماری جماعت کو نیست و نابود کیا جائے اور گورنمنٹ کے افسروں نے بھی ان کی مدد کی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمیں نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد مصری کا فتنہ کھڑا ہؤا ۔ گورنمنٹ کے افسروں نے اس کی مدد کی اور مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی۔ چونکہ حکومت کے افسر بھی آخر انسان ہوتے ہیں اِس لئے دوسروں کے ورغلانے میں آ جاتے ہیں لیکن یہ تمام حوادث ہمارے قدم میں ذرا بھی لغزش پیدا نہ کر سکے بلکہ ہمارا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف ہی اٹھتا رہا۔ اب مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حالات بدلنے والے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں آئندہ بہت سے تغیرات کا احتمال ہے کیونکہ انگریزوں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ اب ہمارے اپنے ملک کی حکومت ہم پر حکمران ہو گی۔ اس لئے ممکن ہے کہ ہمارے لئے تکلیفوں کے نئے دروازے کھل جائیں کیونکہ غیر حکومت کو ہم سے کوئی رقابت اور بُغض نہ تھا لیکن اپنی حکومت میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جسے ہم سے رقابت اور دشمنی ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ اس سے قبل جب کبھی بھی ہمارے خلاف فساد یا کسی قسم کی ناپسندیدہ حرکات کچھ لوگوں نے کیں او رہم نے ان کے لیڈروں کو توجہ دلائی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مقامی مخالفتوں میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں کانگرس کے ایک لیڈر کے سامنے ہم نے یہ بات پیش کی کہ ہم نے براہِ راست کبھی بھی کانگرس سے ٹکر نہیں لی لیکن کانگرسی افراد نے ہمیشہ ہمارے خلاف دوسرے فریق کی امدا دکی ہے۔ چنانچہ احرار کے مقابلہ میں کانگرس نے ہمارے خلاف احرار کی مدد کی اور کانگرسی افسر اور کانگرسی وکلاء اور کانگرسی سرمایہ ان کی مدد کرتا رہا۔ جب یہ بات پیش کی گئی تو اس لیڈر نے جواب دیا کہ مقامی جھگڑوں میں ایسی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں حالانکہ مقامی بات ہو یا مرکزی، دیانت اور انصاف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معاملہ کی اچھی طرح غور سے چھان بین کی جائے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں نے ظلم کیا ہے تو اس کے فعل پر نفرت کا اظہار کیا جائے کہ اس نے نہایت خیانت کا کام کیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ کانگرسیوں کے فعل پر نفرت کا اظہار کیا جاتا کہہ دیا گیا کہ مقامی اختلافوں کے نتیجہ میں ایسا ہو جاتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک انصاف اور تقویٰ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں۔
اصل چیز جوشوں کا اظہار ہے خواہ کسی رنگ میں کیا جائے۔ ممکن ہے کہ ہمیں اپنی حکومت سے آرام بھی ملے لیکن فِی الْحال زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ ہم ان کے ذریعہ مصائب کا نشانہ بن جائیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور ان تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ خود ہی معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم دوسروں سے سَودا نہیں خریدیں گے، خود ہی اس پر دستخط کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک پیسے کا فرق دیکھتے ہیں تو دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں اور اُن سے سودا خرید لیتے ہیں۔ جب تک یہ حالت ہے جماعتی نظام کس طرح چل سکتا ہے۔ جو شخص ایک پیسہ یا دو پیسے یا آنہ یا دو آنے کی قربانی نہیں کر سکتا ہم اس سے کس طرح امید کر سکتے ہیں کہ ضرورت کے وقت وہ اپنے بیوی بچوں کی قربانی پیش کر دے گا۔ ایسے لوگوں کی مثال اس مولوی جیسی ہے جس نے کہا تھا کہ انہوں نے چڑیا جتنا سفید روپیہ میرے سامنے نکال کر رکھ دیا تو مَیں کیا کرتا۔ کل اگر کچھ ہندو محلہ دا رالرحمت پر حملہ کر دیں اور احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں تو ایسے کمزور لوگ کہہ دیں گے کہ ہم کیا کرتے۔ ہمیں تو ہندوؤں نے ساٹھ ساٹھ روپے دے دئیے تھے۔ ایسے لوگ جماعتی نظام کے لئے سخت نقصان دِہ چیز ہیں۔ انسان کی اصل حقیقت اور اس کے اخلاص کا پتہ تو قربانی سے چلتا ہے۔ ایک روپے یا دو روپے یا دس روپے یا بیس روپے کا تو سوال ہی نہیں۔ اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔ جس دن یہ روح جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جماعت تمام خطرات اور ہلاکتوں میں سے صحیح سالم بچ کر نکل جائے گی۔ لیکن جب تک یہ روح پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک خطرہ لاحق رہے گا۔ پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ ہوشیار کرنا چاہتا ہوں تا کمزور لوگ اپنی اصلاح کریں اور بچ جائیں۔ منافقوں نے تو گرنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ ابتلا اسی لئے لاتا ہے تاکہ کمزوروں اور منافقوں کا بھانڈا پھوڑ دے اور کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کر دے۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان کو بھی وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء جب وعظ و نصیحت کرتے ہیں تو کئی کمزور اور منافق لوگ اپنی کمزوری اور نفاق کو دور کر دیتے ہیں۔ پس اب جبکہ ابتلاؤں اور امتحانوں کے دن قریب آ رہے ہیں جماعت کو پوری توجہ سے احمدیت کی تعلیم پر کاربند ہونا چاہئے اور جماعتی نظام کا پوری طرح خیال رکھنا چاہئے۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے احمدیت کے جامہ کو پھاڑ دے، تمہیں امتحان میں ناکام کر دے اور تمہیں ایمان سے محروم کر دے۔ آج جو لوگ روپے پیسے سے منہ پھیرتے ہوئے احمدیت کے لئے قربانی کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں رکھے گابلکہ دنیا کی تمام دولت ان کے ہاتھوں میں دے دے گا لیکن امتحان ضروری ہے۔ اگر کچھ لوگوں کے دلوں میں کمزوری یا منافقت پائی جاتی ہے تو ان کی وجہ سے ہماری فتح رُک نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ اس بات کا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ ہم کو ضرور فتح دے گا اور جو لوگ بوجہ کمزوری یا منافقت، احمدیت کو کمزور کرنا چاہیں گے اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح باہر نکال کر پھینک دے گا جس طرح کُتّے کی لاش شہر سے نکال کر باہر پھینک دی جاتی ہے۔ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی ہے اس وقت تک جب تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا علاج ہو سکتا ہے اور یہ لوگ تقویٰ حاصل کر سکتے ہیں اوراپنے ایمان اور انجام کو درست کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں علم ہو جائے کہ اُن کا مرض اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے شقاوت مقدر ہو چکی ہے تو پھر ہمیں ایسے لوگوں کی موت یا ہلاکت کا کوئی رنج نہیں ہو گا بلکہ ہم سمجھیں گے کہ یہ لوگ دوزخ کا ایندھن تھے سو دوزخ میں چلے گئے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے اسی وقت تک ہمدردی ہے جب تک ہم ان کے متعلق اصلاح کی امید رکھتے ہیں لیکن جب وہ خود ہی اپنے آپ پر ایمان کے دروازے بند کر لیں اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی شقاوت ظاہر کردے تو پھر ہمارا ایسے لوگوں سے ہمدردی کرنا جرم ہو گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فسق و فجور کرنے والوں کو لوگوں کے سامنے کوڑے لگائے جائیں اور تمہارے دلوں میں ان کے لئے رحم پیدا نہ ہو۔1 اس وقت رحم کے پیدا ہونے کو اللہ تعالیٰ نے جرم قرار دیا ہے۔ پس ان کمزور اور منافق لوگوں کی وجہ سے ہماری فتح رک نہیں سکتی۔ البتہ وہ اپنا انجام ضرور خراب کر لیں گے۔ احمدیت کو قائم ہوئے ستاون سال ہو چکے ہیں۔ اس ستاون سال کے عرصہ میں دنیا نے احمدیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت موجود ہے کہ مخالفین اپنے اس عمل میں ہمیشہ ناکام رہے اور یہ درخت زیادہ سے زیادہ پھیلتا چلا گیا۔ اس ستاون سال کے تجربہ کے بعد ہم بڑے بے ایمان ہوں گے اگر ہمارے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اگر مصائب اور ابتلا آئے تو جماعت کا کیا بنے گا۔ ہمارے پیش نظر یہ سوال نہیں کہ جماعت کو فتح حاصل ہو گی یا نہیں؟ کیونکہ یہ تو یقینی بات ہے کہ احمدیت کو فتح ہو گی اور شکست کا تو خیال بھی ہمارے دلوں میں نہیں آ سکتا۔ ہمیں اگر خیال ہے تو اس بات کا کہ زیادہ سے زیادہ آدمی احمدیت قبول کریں، احمدیت کی تبلیغ روز بروز وسیع ہوتی جائے اور ہمارے وہ بھائی جو عملی طور پر کمزور ہیں اور حقیقی احمدی نہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ٹھوکر سے بچائے کیونکہ اگر عملاً نہیں تو کم از کم دنیا کے سامنے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں۔ جب وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کا امتحان اور جائزہ لیتے رہیں کہ آیا آنے والے خطرات میں ان کا نفس اپنے مقام پر قائم رہنے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر کمزوری دیکھے تو اپنی اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! میرے گناہ اور خطائیں معاف فرما اور میری توبہ قبول فرما۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریاں دور کر دے گا اور تمہیں حقیقی ایمان بخشے گا۔ اور اگر تم دیکھتے ہو کہ تمہارا ایمان مضبوط ہے اور کبھی کمزور نہیں ہؤا، روپے کے لالچ اور دنیوی تعلقات سے کبھی متزلزل نہیں ہؤ ا اور تم جماعتی اور قومی نظام کے پوری طرح پابند ہو تو تمہیں پھر بھی اپنے ایمان کی زیادتی اور مضبوطی کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں جتنی بھی مل جائیں تھوڑی ہوتی ہیں۔’’ (الفضل 22 مئی 1946ء )
1:اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ (النور:3)

18
مسلمانوں کی چار نہایت اہم غلطیاں جو اُن کے سیاسی حقوق و مفادات کے لئے مہلک ثابت ہو رہی ہیں
( فرمودہ 24 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مجھے پرسوں سے پھر نقرس کا دَورہ ہے اور پاؤں کے علاوہ گُھٹنے میں بھی درد شروع ہو گیا ہے۔ اِس درد کے ازالہ کی تدبیر تو کی جا رہی ہے اور مَیں دوائی استعمال کر رہا ہوں لیکن اِس دوا کے استعمال کے ساتھ ڈاکٹروں نے پچھلے دورہ کے وقت سے یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ مجھے چلنا پھرنا نہیں چاہئے بلکہ لیٹے رہنا چاہئے۔ یوں بھی وہ دوا بہت مُضْعِف ہے اور چلنے پھرنے سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں دل پر بار نہ پڑ جائے۔ مگر مَیں نے جمعہ کی خاطر یہی پسند کیا کہ مَیں یہاں آؤں اور خطبہ جمعہ اور نماز پڑھاؤں۔
آج جس مضمون کے متعلق مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ ایک حد تک میرے راستہ سے ہٹ کر ہے یعنی بجائے خالص مذہبی مضمون ہونے کے وہ ایک حد تک سیاسی مضمون ہے۔ گو اس کا اثر چونکہ ہماری جماعت کی آئندہ بہبود پر بھی ہے اِس لئے ایک رنگ میں وہ مذہبی بھی ہو جاتا ہے۔
دوستوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ ایام میں وزراء کے کمیشن نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی سمجھوتہ کے متعلق ایک فیصلہ شائع کیا ہے۔ یہ فیصلہ مختلف اقوام کے زیر بحث ہے اوروہ اس میں سے ان اثرات کو اخذ کر رہے ہیں جو ان کی قوموں پر پڑنے والے ہیں۔ جب تک ایک اکثریت کو اقلیت نہ بنا دیا جائے اس وقت تک اکثریت کو تو کوئی خطرہ ہی نہیں ہوتا۔ اکثریت صرف اس بات پر شور مچایا کرتی ہے کہ اس کو اَور زیادہ حقوق مل جائیں۔ یا بعض دفعہ وہ پوری طرح تسلی یافتہ ہوتی ہے مگر پھر بھی وہ اس لئے شور مچاتی ہے کہ کہیں اقلیت اس کے اطمینان کو دیکھ کر بعض اَور مطالبات نہ پیش کر دے۔ اس لئے کانگرس کے لئے تو یہ امر بالکل غیر اہم ہے۔ سو میں سے پچھتّر جن کی تعداد ہو ان کے لئے شور مچانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ پچھتّر کی بجائے اگر بہتّر یا ستّر یا باسٹھ یا ساٹھ فیصدی بھی ان کی تعداد ہوتی تب بھی ان کے لئے خطرہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ اصل خطرہ تو اقلیت کے لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر اسے سارے حقوق مل جائیں تب بھی اس کی جان خطرہ سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی ملک کی اکثریت پچھتّر فیصدی ہے اور اقلیت پچیس فیصدی ،اور پچیس فیصدی اقلیت ایسی ہے جو اکثریت سے اتحاد نہیں رکھتی بلکہ اقلیت اور اکثریت دونوں آپس میں منافرت اور بُغض رکھتی ہیں تو ایسی صورت میں اگر اقلیت کو اس کا ایک ایک حق مل جائے تب بھی پچیس، پچیس ہی ہوں گے اور پچھتّر، پچھتّر ہی ہوں گے۔ بلکہ اگر اکثریت بہت بڑی فیاضی اور مہربانی سے اقلیت کو اس کے حقوق سے بھی زیادہ دے دے اورپچیس کی بجائے اسے تیس یاپینتیس یا چالیس فیصدی نیابت دے دے تب بھی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کچھ زیادہ نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی اسمبلی کے ساٹھ ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو پچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ بلکہ کسی اسمبلی کے اکیاون ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو پچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو یوں کہنا چاہئے کہ کسی اسمبلی کے سَوا پچاس ممبروں کی رائے بھی وہی وقعت رکھتی ہے جو سَو میں سےپچھتّر ممبروں کی رائے وقعت رکھتی ہے۔ سَو میں سے سَوا پچاس ممبر تو ایک طرف نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر کسی اسمبلی کے ممبرچارسَو ہوں تو اس کا سوا پچاس حصہ دو سَو ایک ممبر ہو جائیں گے اور دو سَو ایک ممبر بھی اسی طرح ایک سَو ننانوے کو شکست دے سکتا ہے جس طرح تین سَو شکست دے سکتا ہے۔ تو اکثریت کے لئے خطرہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ اکثریت اگر شور مچاتی ہے تو یا تو وہ حریص ہوتی ہے اور زیادہ طلبی عادتاً اختیار کر لیتی ہے یا اکثریت ڈرپوک ہوتی ہے اور اسے جو کچھ ملے اس پر وہ مطمئن نہیں ہوتی بلکہ ڈرتی ہے کہ نہ معلوم آئندہ کیا ہو جائے۔ یا اس کے نتیجہ میں مجھے کسی وقت کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اور یا پھر اکثریت ہوشیار ہوتی ہے اور وہ محض ڈرانے کے لئے تاکہ اقلیت کچھ اور حقوق نہ مانگنے لگ جائے، شور مچانے لگ جاتی ہے۔ اِن وجوہ کے سوا اکثریت کے شور مچانے کی اور کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس جہاں تک کانگرس کے لیڈروں کا سوال ہے مَیں حیران ہوں کہ وہ کس خیال میں ہیں ۔ اگر وہ ناتجربہ کار ہوتے تو مَیں سمجھتاکہ وہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں مگر وہ ناتجربہ کار نہیں بلکہ اچھے سیاستدان ہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ اتنی موٹی بات بھی نہ سمجھ سکیں کہ ہمارے حقوق بہرحال محفوظ ہیں۔ لیکن جہاں تک مسلم لیگ کا سوال ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم لیگ کی حیثیت اس فیصلہ کے مطابق بہت کچھ گر گئی ہے کیونکہ جن باتوں کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا وہ باتیں ان کو حاصل نہیں ہوئیں۔ اگر وہ اُن کا کم سے کم آخری مطالبہ تھا تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم لیگ کو اس کا کم سے کم مطالبہ حاصل نہیں ہؤا۔ اور اگر وہ ان کا زیادہ سے زیادہ مطالبہ تھا تو پھر بے شک مسلم لیگ کے لئے یہ سوچنے کا موقع ہے کہ اس کے مطالبات اور موجودہ فیصلہ میں کتنی کمی ہے۔ اور آیا اس کمی کے ہوتے ہوئے وہ اس فیصلہ کو قبول کر سکتی ہے یا نہیں۔
جہاں تک مَیں نے اس سکیم پر غور کیا ہے میرے نزدیک اس میں یقیناً ایسی خامیاں ہیں جن خامیوں کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق پوری طرح محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یا یہ کہو کہ اس وقت ملک کی جیسی فضا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف جو خیالات لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق پوری طرح محفوظ نہیں ہو سکتے۔ ورنہ اگر آپس میں بھائی چارہ ہو، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے محبت اور پیار رکھتے ہوں اور دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسرے کے سُکھ کو اپنا سُکھ سمجھتے ہوں تو پھر یہ سوال ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں کوپچیس فیصدی نمائندگی کیوں ملی ہے۔ آدھی نمائندگی کیوں نہیں ملی۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر اس قسم کی محبت پیدا ہو جائے اور پھر مسلمانوں کو کچھ بھی ملے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر آپس میں رواداری پائی جاتی ہو، ایک دوسرے سے محبت اور پیار قائم ہو، بُغض اور تنافر کا دلوں میں نشان تک نہ پایا جاتا ہو، تو پھر پچیس فیصدی کیا ایک فیصدی کا بھی کوئی سوال نہیں رہتا۔ اقلیت بڑی خوشی سے اکثریت کو کہہ سکتی ہے کہ آپ ہمارے نمائندے ہیں آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں ہمیں منظور ہے۔ خرابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کی ذہنیت اس قسم کی نہیں۔ ابھی تک وہ باتیں سیاست کی کرتے ہیں مگر سوچتے مذہب کے اثر کے ماتحت ہیں۔ ہر لفظ جو ان کے منہ سے نکلتا ہے سیاسیات میں ڈوبا ہؤا ہوتا ہے لیکن ہر فکر جو ان الفاظ کے پیچھے کام کر رہا ہوتا ہے وہ خالص مذہبی ہوتا ہے۔ گویا ایک دوغلی سی کیفیت ہمارے ملک میں پیدا ہو چکی ہے ۔اور لوگوں کی ویسی ہی مثال ہے جیسے پرانے زمانہ میں بَنیے آپس میں لڑا کرتے تھے۔ ہم نے خود اس قسم کی بَنیوں کی لڑائی دیکھی ہے۔ بَنیا چونکہ تاجر پیشہ ہوتا ہے، بہادری کی روح اس میں نہیں ہوتی، جب لڑائی ہوتی ہے تو ایک بھی پنسیری اُٹھا لیتا ہے اور دوسرا بھی۔ ایک شخص گالی دیتا ہے تو دوسرا پنسیری اٹھائے کُودنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے اب کے گالی دے تو مَیں اس پنسیری سے تیرا سر پھوڑ دوں گا۔ وہ پھر گالی دیتا ہے تو یہ پھر کُود کر کہتا ہے اب کے گالی دے تو تجھے مزا چکھاؤں۔ اس طرح ایک گالیاں دیتا جاتا ہے اور دوسرا یہی کہتا رہتا ہے کہ اب کے گالی دے تو تجھے بتاؤں کہ کس طرح گالی دی جاتی ہے۔ دو منٹ کے بعد پہلا شخص پھر اشتعال میں آ کر گالی دے دیتا ہے اور یہ پنسیری اٹھا کر پھر کُودنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے اگر اب کی دفعہ گالی دی تو تیرا سر پھوڑ دوں گا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسی حالت میں بعض دفعہ ایک شخص اشتعال میں آ کر آگے کی طرف بڑھتا ہے تو دوسرا شخص کود کر فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ اب کے گالی دے تو تجھے مزہ چکھاؤں۔ اس قسم کا نظارہ سخت تکلیف دِہ ہوتا اور اخلاق کی گراوٹ پر دلالت کیا کرتا ہے۔ ہمارے ملک کی دو بڑی قومیں ہیں اور جہاں تک انصاف کا سوال ہے، جہاں تک عقل کا سوال ہے وہ دونوں سیاست کے لحاظ سے ایک دوسری سے متحد ہو سکتی ہیں۔ مگر جب ذہنیت اس قسم کی ہو کہ ایک نے بھی پنسیری اٹھائی ہوئی ہو اور دوسرے نے بھی پنسیری اٹھائی ہو اور جب ان میں سے ایک شخص حملہ کے لئے آگے بڑھنے لگے تو دوسرا شخص یہ سوچ رہا ہو کہ مَیں اب کود کر کتنا پیچھے ہٹوں گا۔ تو ایسی حالت میں آپس میں کہاں اتحاد ہو سکتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ منہ سے تو سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں مگر ان باتوں کے پس پردہ مذہب کا اثر غالب ہوتا ہے اور جب کیفیت یہ ہو تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔ سننے والوں میں سے ناواقف لوگ بے شک دھوکا کھا جائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ یہ سیاست کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ محض سیاسی باتیں نہیں بلکہ مذہبی تعصب بھی ان کے دلوں پر اثر ڈال رہا ہے۔ ان حالات میں ملک کے لئے جو خطرات پیدا ہو سکتے ہیں وہ ظاہر ہیں۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ مسلمان واقع میں مسلمان ہوتے۔ اگر مسلمان واقع میں مسلمان ہوتے تب بھی ان کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ جو قوم مرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اس قوم کو کبھی کوئی مار نہیں سکتا۔ مسلمان اپنے متعلق کہتے ہیں ہم دس کروڑ ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دعویٰ صحیح ہے اور وہ واقع میں دس کروڑ ہی ہیں۔ لیکن مَیں کہتا ہوں دس کروڑ نہیں۔ اگر مسلمان پانچ کروڑ ہوتے بلکہ مَیں کہتا ہوں پانچ کروڑ بھی نہیں اگر مسلمان دو کروڑ ہوتے بلکہ دو کروڑ بھی نہیں، اگر مسلمان ایک کروڑ بھی ہوتے تب بھی اُنتالیس کروڑ آدمی کبھی اِن پر جابرانہ حکومت نہیں کر سکتے تھے۔ سوال صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ کیا لوگ اپنی زندگی کو زیادہ قیمت دیتے ہیں یا اپنے اصول کو زیادہ قیمت دیتے ہیں؟ جس قوم کے لوگ اپنے اصول کو زیادہ قیمت دیتے ہیں اُس قوم کو کوئی مار نہیں سکتا۔ اور جس قوم کے لوگ اپنی زندگی کو زیادہ قیمت دیتے ہیں اس قوم کو کوئی بچا نہیں سکتا۔ ہمارے ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کا شور مچایا جاتا رہا ہے مگر اس تمام شور کے باوجود خود مسلمانوں میں سے ہی ایک طبقہ ہمیشہ خریدا جاتا رہا ہے۔ ہندوستان کا کوئی صوبہ بھی تو ایسا نہیں جس میں کونسل کے ممبر یا باہر کے مسلمانوں میں سے کچھ خریدے نہ گئے ہوں۔ آخر یہ فرق کیوں ہے؟ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ فرق اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق کمزور ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے اپنے اخلاق کمزور ہیں تو پھر کمزور اخلاق والوں کو کونسا قانون بچا سکتا ہے۔
میرے نزدک جو غلطی ابتدا میں ہی مسلم لیگ سے ہوئی وہ یہ تھی کہ صرف سیاسی حقوق کی حفاظت اصل چیز سمجھ لی گئی اور وہ اصولی چیزیں جو کسی قوم کو بچایا کرتی ہیں مسلمان لیڈروں نے ان کی طرف توجہ نہیں کی۔ ہندوؤں کا بھی پہلے یہی حال تھا مگر گاندھی جی نے اِس میں تغیر پیدا کیا۔ ورنہ پہلے کانگرس بھی صرف سیاسیات کا شور مچایا کرتی تھی۔ گاندھی جی نے اِس نقص کو دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ خالص سیاسی شور کوئی چیز نہیں اصل چیز قومی کیریکٹر ہے۔ تم فوج چاہے کتنی بھرتی کر لو لیکن اگر سپاہیوں میں بہادری کی روح نہیں تو وہ فوج تمہارے کس کام آ سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس حد تک درست ہے مگر کہتے ہیں مہاراجہ کشمیر نے ایک دفعہ کشمیریوں کی ایک فوج تیار کی۔ لڑائی کا وقت آیا تو انگریزی حکومت نے مہاراجہ صاحب کشمیر کو لکھا کہ آپ بھی اپنی فوج لڑنے کے لئے بھجوائیں۔ مہاراجہ کشمیر نےفوج کے افسر کو بلایا اور اُسے کہا سرحد پر فوج کی ضرورت ہے تمہاری فوج کو جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ افسر نے کہا مَیں سپاہیوں کو حکم سے اطلاع دیتا ہوں۔ سپاہیوں کو اطلاع دے کر وہ پھر آیا او رمہاراجہ صاحب سے کہنے لگا ۔ ہم آپ کے نمک خوار ہیں اور ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ آخر ہم تنخواہ کس بات کی لیتے رہے ہیں لیکن حضور! رعایا کی صرف اِس قدر عرض ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ پٹھان بڑے سخت ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ پہرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم جانے کے لئے حاضر ہیں۔ اب چاہے لطیفہ ہی ہو مگرلطائف بھی تو حقائق کے بیان کرنے کا موجب ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بغیر اخلاق کے کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بغیر جرأت کے کوئی فوج لڑ نہیں سکتی اور بغیر قومی کیریکٹر قائم کرنے کے کوئی قوم دوسری پر غالب نہیں آسکتی۔ گاندھی جی نے اس نکتہ کو سمجھا اور انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ دنیا میں سیاسیات کا شور مچانا شروع کر دیا بلکہ قومی کیریکٹر کو مضبوط کرنے کے لئے بھی اُنہوں نے کئی قسم کی تدابیر سے کام لیا۔ مثلاً اسی چیز کو لے لو کہ انہوں نے اپنی قوم کو چرخہ کاتنے پر لگا دیا۔ اب بظاہر یہ ایک لغو بات ہے اور ہے بھی لغو، مگر گاندھی جی نے جس غرض کے ماتحت اس طریق کو رائج کیا تھا وہ ایک نہایت ہی اعلیٰ غرض تھی اور اس کے لحاظ سے انہوں نے یہ لغو کام نہیں کیا بلکہ قوم کے کیریکٹر کو مضبوط بنانے کے لئے ایک شاندار کام کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مَیں جن لوگوں کو انگریزوں کے ساتھ لڑنے کے لئےتیار کرنا چاہتا ہوں وہ رات اور دن انگریزوں کی غلامی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور خواہ تقریروں میں وہ یہی کہتے کہ ہم انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے، ہم ایک منٹ کے لئے بھی انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کریں گے مگر انگریز کی غلامی ان کی ذہنیت پر اس قدر غالب ہوتی کہ وہ ٹائی لے کر گھنٹوں شیشہ کے آگے کھڑے رہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ٹائی یوں تو نہیں ہو گئی یا وُوں تو نہیں ہو گئی۔ اب ٹائی کا یوں ہونا یا وُوں ہونا کس اثر کا نتیجہ تھا؟ یقیناً انگریز کی غلامی کے اثر کانتیجہ تھا۔ کیونکہ ہمارے باپ دادا نے تو کبھی ٹائی نہیں لگائی تھی ۔ پھر وہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کوٹ کے کپڑے کا رنگ اور ہماری ٹائی کا رنگ آپس میں مخالف تو نہیں۔ یہ قانون آخرکس کا تھا کہ کوٹ اور ٹائی کا رنگ آپس میں مخالف نہیں ہونا چاہئے؟ یقیناً انگریز کا تھا۔ ورنہ ہمارے باپ دادا تو نہ سوٹ پہنا کرتے تھے اور نہ ٹائی وغیرہ لگایا کرتے۔ پھر وہ ہمیشہ اس امر کو اپنے مدنظر رکھتے کہ ہمارے رومال اور ہمارے بُوٹ اور ہمارے بٹن اور ہمارے کالر ایٹی کیٹ (Etiquette)کے مطابق ہیں یا نہیں۔ گاندھی جی نے اس حالت کو دیکھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ مَیں ان لوگوں کو بالکل دوسری جانب لے جاؤں۔ جس کی شکل موجودہ شکل سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ یا تو ایک ہندوستانی خالص انگریز یا خالص جرمن بن رہا تھا اور یا پھر انہوں نے اسے بڑھیا بنا کر چرخہ کاتنے کی طرف متوجہ کر دیا۔ انہوں نے کہا مَیں لوگوں سے یہ کیا جھگڑاکرتا پھروں کہ تم اِس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ تمہاری ٹائی کا رنگ سرخ ہے یا سفید۔ یا تمہاری ٹائی اِدھر جاتی ہے یا اُدھر۔ یا تمہارے بُوٹ کو پالش کیا ہےیا نہیں۔ انہوں نے کہا مجھے اس بحث سے کوئی غرض نہیں۔ آؤ مَیں ان کو ایک اُلٹ راستے پر لے چلوں تاکہ انگریز کی غلامی کا خیال بھی ان کے دلوں سے نکل جائے۔ چنانچہ جس طرح ایک انگریز ٹائی کے پیچھے پڑا ہؤا تھا انہوں نے ایک ہندوستانی کو سُوت کاتنے پر لگا دیا اور اسے کہہ دیا کہ تم سارا دن بیٹھے چرخہ چلاؤ اور چُوں چُوں کی آواز نکالتے رہو۔ انہوں نے سمجھا کہ جو شخص میری اس سکیم پر عمل کرے گا انگریزی فیشن کی پابندی کو وہ خود بخود ترک کر دے گا۔ اور آپ ہی آپ سُوٹ اتار کر پھینک دے گا ورنہ یہ ایک عجیب مضحکہ انگیز صورت بن جائے گی کہ سوٹ پہنا ہؤا ہے، ٹائی لگائی ہوئی ہے اور زمین پر بیٹھے چرخہ چلا رہے ہیں۔ پس گاندھی جی نے صرف سیاسی حقوق کے متعلق اپنی قوم کی آواز بلند نہیں کی بلکہ انہوں نے ان کی غلامی کی ذہنیت بدلنے کے لئے بھی کئی قسم کی تدابیر سے کام لیا۔ جیسے چرخہ کاتنے کی تحریک لوگوں کی اخلاقی ذہنیت بدلنے کا ایک ذریعہ تھی۔ اسی طرح انہوں نے کھدر بھنڈار جاری کیا۔ گو بعض کانگرسیوں نے بھی کمال کر دیا کہ انہوں نے کھدر کےسُوٹ اور کوٹ پتلون بنوا کر پہننے شروع کر دئیے۔ مگر گاندھی جی کا یہ منشاء نہیں تھا۔ گاندھی جی کا اصل منشاء کھدر بھنڈار سے یہی تھا کہ کسی طرح انگریزوں کی نقل اور ان کی غلامی کا مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں سے نکل جائے۔ اسی طرح انہوں نے اور بھی کئی قسم کی تدابیر کیں اور صرف سیاسیات کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں رکھی بلکہ اخلاقیات کی طرف بھی انہوں نے اپنی توجہ مبذول کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آج کانگرس کو جو طاقت حاصل ہے وہ طاقت اسے پہلے حاصل نہیں تھی۔ پہلے وہ صرف سیاسی شور مچایا کرتے تھے مگر اب انہوں نے اپنے اخلاق میں بھی ایک تبدیلی پیدا کر لی ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے کانگرس کے اس طریقِ عمل سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ مسلمان گزشتہ کئی سال سے صرف سیاسی شور مچا رہے ہیں۔ اپنی اخلاقی اور تمدنی اصلاح کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی۔ گاندھی جی نے صرف سیاسی شور نہیں مچایا بلکہ لوگوں کی تمدنی اصلاح کی بھی کوشش کی اور کھدر بھنڈار جاری کر دئیے۔ وہ جانتے تھے کہ میرے چیلے جو میری اطاعت کرنے والے ہیں وہ کھدر بھنڈار سے سبق حاصل کر کے اقتصادی سکیم کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ برلا وغیرہ نے سبق سیکھا اور انہوں نے اپنی قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا۔ اسی طرح کانگرس کے دوسرے ممبر جو کھدر بھنڈار کے مخالف تھے اور اسے ایک لغو کام سمجھتے تھے انہوں نے بھی اپنی توجہات اقتصادی تنظیم کی طرف پھیر دیں اور ہندو قوم کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ یہ ساری چیزیں ایسی تھیں جن سے ایک قوم نیچے سے اوپر چلی جاتی ہے مگر مسلمانوں کی غفلت کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کی طرف سے ہمیشہ سیاسی شور مچایا جاتا رہا لیکن کبھی بھی ان امور کی طرف انہوں نے توجہ نہیں کی جو قوم کی حقیقی کامیابی کے لئے ضروری تھے۔ یہ شور تو مچایاجاتا رہا کہ پاکستان، پاکستان، پاکستان۔ مگر یہ کبھی خیال نہیں کیا گیا کہ مسلمان کے اندر جرأت اور بہادری پیدا کی جائے، ان کی اخلاقی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے، ان کی اقتصادی حالت کی درستی کی کوشش کی جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ان کی غلامی کی روح بالکل کچلی جائے۔ ایک ہندو انگریز کا جس قسم کا غلام تھا۔ آج اس سے وہ بہت کم غلام ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ انگریز کی غلامی سے بالکل آزاد ہو گیا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ انگریز کی غلامی سے بہت حد تک نکل چکا ہے اور اب پہلے کی نسبت وہ بہت کم غلامی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان ابھی انگریز کا ویسا ہی غلام ہے جیسے پہلے تھا بلکہ شاید اس میں غلامی کی روح اب کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہو۔ ان امور کی اصلاح ضروری تھی مگر ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی حالانکہ ان کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔
جب کسی قوم کی اخلاقی حالت گر جائے تو وہ لالچ اور فریب اور دھمکیوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ نقص موجود رہے گا کہ وہ دھمکیوں سے مرعوب ہو جائیں گے وہ لالچ اور حرص کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پائیں گے۔ اس وقت تک ان کی ترقی کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ یہ صحیح ہے کہ الیکشن کے موقع پر مسلمانوں میں بہت بڑا جوش پایا جاتا تھا اور انہوں نے اس جوش کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ مگر مسلمانوں کا جوش ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ گزشتہ بیس سال میں مسلمانوں نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے ان کے کسی جوش کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جا سکتی۔ وہ بڑے جوش سے ایک کام کا آغاز کرتے ہیں مگر ذرا بھی ان کو لالچ دے دیا جائے تو ان کا تمام جوش و خروش سرد ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پہلے طریق کے بالکل خلاف چلنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اَور تو اَور مسلم لیگ کے کئی ممبر جن سےہمارا تبادلۂ خیالات ہوتا رہتا ہے۔ وہ بھی بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی شکایتوں کی بناء پر اپنی پارٹی بدلنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ان میں سے بعض کو ہمیں سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ طریق تمہارے لئے مناسب نہیں۔ اس قسم کے حالات میں اگر کوئی قوم مقابلہ کے لئے کھڑی ہو تو کس طرح ہو۔ آخر وہ کونسے ہتھیار ہوں گے جن سے جنگ کی جائے گی جبکہ وہ اخلاقی طور پر غالب نہیں اور جبکہ وہ ہر جگہ خریدے جا سکتے ہیں۔
دوسری چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی آواز کو غیر ممالک کے لوگوں تک پہنچایا جاتااور ان پر مسلمانوں کے مطالبات کی اہمیت کو واضح کیا جاتا۔ مگر اس بارہ میں بھی بہت بڑی غفلت سے کام لیا گیا اور مسلمانوں کی آواز کو صحیح طور پر بیرونی ممالک کے لوگوں تک پہنچایا ہی نہیں گیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندو ہندوستان میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں لیکن امریکہ میں بھی اگر کوئی مضمون نکلتا ہے تو ہندوؤں کی تائید میں، مسلمانوں کی تائید میں نہیں نکلتا۔ انگلستان کے اخبارات میں بھی اگر مضامین شائع ہوتے ہیں تو ننانوے فیصدی ہندوؤں کی تائید میں ہوتے ہیں۔ پھر امریکہ اور انگلستان کا ذکر جانے دو اپنے گھر میں یعنی فلسطین، شام اور مصر میں بھی جب مضامین نکلتے ہیں تو ان میں اکثر ہندوؤں کی تعریف میں ہوتے ہیں۔ ٹرکی میں بھی اگر مضامین نکلتے ہیں تو اکثر ہندوؤں کی تائید میں ہوتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف رائے رکھتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کی قیمت کو سمجھا اور ہر جگہ اپنے نمائندے بھجوائے لیکن مسلمانوں نےپروا نہیں کی۔ وہ اس خیال میں مست رہے کہ بس ہم جو بھی ارادہ کریں گے اسے پورا کر کے رہیں گے۔ ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ دنیا کی رائے ہمارے مخالف ہے یا موافق۔ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے بڑی بھاری اہمیت رکھتی ہے۔ ہماری زبان میں مثل مشہور ہے کہ اگر تم کسی انسان کو کُتّا کہنا شروع کر دو تو تھوڑے دنوں کے بعد ہی لوگ اسے کُتّا سمجھنا شروع کر دیں گے۔ اگر کسی کو بُرا کہو تو اسے بُرا کہنے لگ جائیں گے۔ اچھا کہو تو اچھا کہنے لگ جائیں گے۔ چونکہ ہر ملک میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا اس لئے آج یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان بھی دوسرے مسلمان کے خلاف رائے رکھتا ہے۔ اور ہر ملک میں گاندھی جی یا کانگرس کی تائید میں ہی آواز اٹھتی ہے۔ اگر مسلمانوں کی تائید میں کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ اول تو بہت محدود ہوتی ہے اور پھر کبھی بھی وہ اس جوش و خروش سے بلند نہیں ہوتی جس جوش و خروش سے کانگرس کی تائید میں آواز بلند ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی بھاری کمزوری تھی جس کی وجہ سے آج کمیشن بڑی دلیری سے مسلمانوں کے حقوق کو تلف کرنے کے لئےتیار ہو گیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی آواز میری تائید میں ہے۔ لیکن اگر ہندو کے حقوق کو مَیں نے تلف کیا تو ساری دنیا میں میرے خلاف شور مچ جائے گا۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ساری دنیا میں سیاسی جھگڑے ہیں لیکن مذہبی جھگڑے صرف چند ملکوں میں ہیں جن میں سے ایک ہندوستان بھی ہے۔ اس وجہ سے دوسری دنیا سیاسی جھگڑے سننے کے لئے تو تیار ہو جاتی ہے لیکن مذہبی جھگڑے کا اگر اس کے پاس ذکر کیا جائے تو وہ اس کے سننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ایک امریکہ کا آدمی یہ محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کوئی قوم دوسری قوم پر ظلم کر سکتی ہے۔ ایک انگلستان کا آدمی یہ محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلاف کبھی ایسی خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنےمظالم کا تختۂ مشق بنا لے۔ ایک فرانس کا آدمی یہ کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ مذہبی اختلافات بھی اس قابل ہیں کہ ان کی اہمیت کو محسوس کیا جائے۔ یہی حال اَور ممالک کا ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ کہ ان میں سے کوئی ملک بھی مذہبی جھگڑوں کو کسی قسم کی اہمیت نہیں دیتا۔ اسی لئے جب کبھی کوئی سیاسی مسئلہ ان کے سامنے آتا ہے تو دوسری قوموں کے سیاست دان صرف اس نقطۂ نگاہ سے اس پر غور کرتے ہیں کہ ڈیما کریسی یعنی جمہوریت کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کی کیا قیمت ہے۔ جو مسئلہ جمہوریت کے نقطۂ نگاہ سے انہیں صحیح معلوم ہوتا ہے اس کی وہ تائید کر دیتے ہیں اور جو مسئلہ جمہوریت کے نقطۂ نگاہ سے انہیں صحیح معلوم نہیں ہوتا اس کو وہ رد کر دیتے ہیں۔ مثلاً جمہوریت کہتی ہے کہ اگر کسی ملک کے چار آدمی ہوں تو ان میں سے تین جو کچھ کہیں گے وہ درست ہو گا۔ اور ایک شخص جو کچھ کہے گا وہ درست نہیں ہو گا۔ چونکہ ہندوستان میں مسلمان ایک ہے اور ہندو تین ۔اس لئے امریکہ جب مسلمانوں کی آواز کو سنتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ بالکل فضول مطالبہ ہے۔ ہندو جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے۔ اسی طرح انگلستان والا جب سنتا ہے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات مانے جائیں تو وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے ہم ایک کی بات مانیں یا تین کی بات مانیں۔ تین کے مقابلہ میں ایک کا آواز اٹھانا تو بیوقوفی ہے۔ اور اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ڈیما کریسی نہ رہی بلکہ بادشاہت ہو گئی۔ یہی حال فرانس والوں کا ہے۔ وہ بھی جب مسلمانوں کے حالات سنتے ہیں تو جمہوریت کے اصول کے مطابق وہ ہندوؤں کی تائید کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مذہبی نقطۂ نگاہ ان کے نزدیک کسی توجہ کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ ان کے اپنے ملک میں مذہب کو اس طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ مذہب کا کوئی احساس بھی ان کے دلوں میں نہیں رہا۔ اور چونکہ وہاں مذہبی اختلاف کی وجہ سے کوئی قوم دوسری قوم پر ظلم نہیں کرتی۔ اس لئے جب مسلمان مذہبی اختلاف کی بناء پر اپنے خدشات ان کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ مان ہی نہیں سکتے کہ مسلمانوں کو کوئی حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی حکومت کو لمبا کرنے کے لئے بعض افسر ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ اور تو اَور خود انگلستان میں ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بڑے زور سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارے آئی۔ سی۔ ایس ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑواتے رہتے ہیں تاکہ ہماری حکومت لمبی ہو جائے اور کئی انگریز بڑی دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ محض ہمارے افسروں کی شرارت کا نتیجہ ہے ورنہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں کونسا جھگڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن کانگرس جب اپنی آواز بلند کرتی ہے تو اس کا غیر ممالک پر نمایاں اثر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہے ہم ہندوؤں کے نمائندہ نہیں اور جب وہ کہتی ہے کہ ہم ہندوؤں کے نمائندہ نہیں تو دوسرے الفاظ میں دنیا پر یہ اثر ڈالا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ہندو مسلم کوئی سوال نہیں۔ پھر کانگرس نے ہوشیاری یہ کی کہ پریذیڈنٹ مولانا ابولکلام آزاد کو بنا دیا۔ اسی طرح سیکرٹری وغیرہ عہدوں پر بعض مسلمان مقرر کر دئیے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب بھی کانگرس کے کسی کام کی رپورٹ دنیا کے سامنے جاتی ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مسٹر راجندر پرشاد نے فلاں کام کیا۔ اس کا طبعی طور پر لوگوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اس میں ساری قومیں شامل ہیں۔ ہندو بھی شامل ہیں، مسلمان بھی شامل ہیں، سکھ بھی شامل ہیں۔ پھر مسلمان کس طرح کہتے ہیں کہ یہ محض قومی آرگنائزیشن ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شروع سے اس کے خلاف طریقِ عمل رکھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ غیر قوموں سے بھی میل جول رکھتے۔ ہندوستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو ایسے ہیں جو حقیقی معنوں میں اپنی قوم سے دُکھیا ہیں۔ اگر ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی تو آج نتیجہ بالکل اَور نکلتا۔ مثلًا مسلم لیگ کی بجائے نیشنل لیگ بنا لیتے اور اس کے اصول اس قسم کے رکھتے جن کا طبعی نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلتا جس طرح کانگرس نے اپنے اصول ایسے رکھے ہیں جن کا طبعی نتیجہ ہندوؤں کے حق میں نکلتا ہے۔ تو ہر دیکھنے والا سمجھتا کہ یہ کوئی مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے جو تمام کمزور طبقوں کی حفاظت کا کام سر انجام دینے کے لئے کھڑی ہوئی ہے اور اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی کہ مَیں اس میں شامل ہو جاؤں۔ اسی طرح مسلم لیگ اگر اس رنگ میں کام کرتی کہ اس نے مظلوموں کو فائدہ پہنچانا ہے تو بے شک اَور قوموں کو بھی فائدہ پہنچتا مگر مسلمان چونکہ سب سے زیادہ مظلوم تھے اس لئے ان کو اَوروں سے زیادہ فائدہ پہنچتا۔ اگر ان اصول کے مطابق کام کیا جاتا تو اس انجمن میں کئی ہندو بھی شامل ہو جاتے، کئی سکھ بھی شامل ہو جاتے اور اچھوت اقوام میں سے تو لاکھوں لوگ اس میں شامل ہو جاتے لیکن مسلمان لیڈروں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ وہ ہمیشہ دوسروں سے الگ ہو کر کام کرتے رہے۔ حالانکہ اگر وہ دوسری قوموں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے تو آج ان کے پاس ایک بہت بڑی فوج ہوتی۔ ہندوؤں نے اس راز کو سمجھا اور انہوں نے ایک ایک کر کے تمام قوموں کو اپنےساتھ ملا لیا۔ ایک طرف اچھوتوں کو انہوں نے اپنے ساتھ ملایا دوسری طرف مسلمانوں میں سے بعض لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ تیسری طرف سکھوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ چوتھی طرف اینگلو انڈینز (Anglo Indians)اور کرسچینز (Christians)کو اپنے ساتھ ملایا اور اس طرح متحدہ طور پر اپنے مطالبات کو انگریزوں کے سامنے رکھا۔ مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عیسائی اٹھتے ہیں تو ان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اچھوت اٹھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہندوؤں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں پھر بھی وہ مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرتے اور ہندوؤں سے ہی اپنے تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ وہ بھی ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ آخر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ اگر اس وجہ کو تلاش کر کے دور کیا جاتا اور پھر تمام کمزور اور مظلوم اقوام کو اکٹھا کیا جاتا تو یقیناً ان کی آواز میں شدت پیدا ہو جاتی۔
پھر اگر مسلمانوں کی آواز مذہبی نقطۂ نگاہ سے یورپین ممالک میں نہیں سنی جاتی تھی تو مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ مذہب کو کسٹم کے رنگ میں پیش کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہی بات جو یورپ، مذہب کے نام سے سننے کے لئے تیار نہیں تھا کسٹم کے نام سے سننے کے لئے تیار ہو جاتا اور اس کی معقولیت کو تسلیم کرتا۔ تم کسی یورپین کے سامنے مذہب کا ذکر کرو اور کہو کہ فلاں مطالبہ مذہبی نقطہ نگاہ سے ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے تو وہ کہے گا کہ یہ لغو بات ہے ۔لیکن اگراسی کا نام تم رسم و رواج رکھ دو تو سارا یورپ کہنے لگ جائے گا کہ یہ بڑی معقول بات ہے۔ پس اگر وہ مذہب کی بجائے رسم و رواج نام رکھ لیتے یا طریقہ نام رکھ لیتے یا اقتصادی درستی کا اسے ایک ذریعہ قرار دے دیتے تو مَیں سمجھتا ہوں اس طریق سے سارے یورپ کو اپنے مطالبات کا قائل کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ گائے کی قربانی مذہبی نقطۂ نگاہ سے ہمارے لئے ضروری ہے تو سار ا یورپ کہے گایہ بالکل لغو بات ہے کیونکہ یورپ کے نزدیک مذہب کے نام پر کسی قسم کی قربانی ایک لغو حرکت ہے۔ پس اگر یہ مطالبہ کیا جائے کہ ہمیں قربانی کے لئے گائے ذبح کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اس قربانی کی تعلیم دیتا ہے تو سارا یورپ کہے گایہ لغو مطالبہ ہے۔ لیکن اگر اس بات کو اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ مسلمان غریب ہے، اس کے پاس کھانے کے لئے گوشت نہیں ہوتا مگر اپنی صحت قائم رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ گوشت کھائے اور اس کے پاس سوائے گائے ذبح کرنے کے اَور کوئی چارہ نہیں۔ ہندو چاہتے ہیں کہ مسلمان کو نقصان پہنچے، ان کی صحتیں بگڑ جائیں اور انہیں کھانے کے لئے گوشت میسر نہ آئے تو سارے یورپ کے لوگ کہہ اٹھیں گے کہ یہ بڑی معقول بات ہے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی ضرور اجازت ہونی چاہئے۔ تو ذرا سی شکل بدل دینے سے پروپیگنڈا کی شکل بدل جاتی ہے۔ ایک شکل میں یورپ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، امریکہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا، انگلستان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا لیکن اگر اسے دوسری شکل دے کر یہ کہنے لگ جاوے کہ ہماری دقتیں سیاسی دقتیں ہیں، ہماری دقتیں اقتصادی دقتیں ہیں، ہماری دقتیں تنظیمی دقتیں ہیں تو سارا یورپ ان باتوں کی قیمت دینے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ غرض اسلامی نقطہ نگاہ کبھی بھی سیاسی طور پر دنیا کےسامنے پیش نہیں کیا گیا۔ اقتصادی طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، تنظیمی طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا بلکہ مذہبی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس وجہ سے کہ ہمیشہ اس کو مذہبی رنگ میں پیش کیا گیا قوموں نے تُھو تُھو کرنا شروع کر دیا۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک میں بھی ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ مولویوں کے جھگڑے ہیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ باوجود اس کے کہ کمیشن کے فیصلہ میں مسلمانوں کے حقوق کو ایک حد تک تلف کیا گیا ہے۔ چاہے دانستہ تلف نہیں کیا گیا دنیا کی عام رائے کمیشن کی تائید میں ہی ہے مخالف نہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ کمیشن نے اپنی طرف سے یہ ضرور کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو ایک حد تک محفوظ کر دیا جائے مگر بوجہ اس کے کہ وہ تجاویز خود کمیشن کی سوچی ہوئی تھیں ان کی سکیم ویسی کارآمد نہیں جیسے وہ سکیم کار آمد ہو سکتی تھی جو خود مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جاتی۔
چوتھا نقص جو مسلمانوں کی کوششوں میں واقع ہؤا ہے یہ ہے کہ تمام قومیں مختلف تجاویز رکھتی ہیں تا اگر ایک تجویز ختم ہو جائے تو دوسری تجویز سامنے آ سکے جو پہلی تجویز کے قائم مقام ہو۔ اس وجہ سے کانگرس والے ہمیشہ ان لوگوں سے تعلقات رکھتے رہے ہیں جو ان کی پیش کردہ تجاویز سے نیچے اتر کر دوسرے نمبر کی سکیم پیش کر سکیں۔ چنانچہ کانگرس نے آزاد مسلم کانفرنس کے اراکین کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور پھر خود کانگرس کے لیڈر ان کو اپنے ساتھ لے کر کیبنٹ مشن (Cabinet Mission)سے ملاقات کراتے رہے۔ اگر یہ لوگ کانگرسی نہیں تھے تو کانگرس والوں کو کیا شوق تھا کہ وہ ان کو اپنے ساتھ رکھتے اور کیبنٹ مشن سے ان کی ملاقات کراتے۔ صاف ظاہر ہے کہ کانگرس کا آزاد مسلم کانفرنس والوں کو اپنے ساتھ رکھنا اور ان کی کیبنٹ مشن سے ملاقات کرانا بھی اس غرض سے تھا کہ اگر کمیشن مسلمانوں کے متعلق ہماری سکیم نہ مانے تو دوسرے نمبر کی کوئی اَور سکیم کمیشن کے سامنے آجائے جو بہرحال اَور سکیموں سے بہتر ہو گی۔ مگر مسلم لیگ والوں کا شروع سے یہ رویہ رہا ہے کہ ہماری سکیم کے خلاف جو شخص بھی کوئی آواز بلند کرے گا خواہ وہ ہم سے ایک فیصدی اختلاف ہی کیوں نہ رکھتا ہو وہ کشتنی اور گردن زدنی ہو گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب وزارتی کمیشن نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اصل شکل میں مسلمانوں کو نہیں دے سکتے تو اس سے نیچے اُتر کر مسلمانوں کے فائدہ کے لئے ان کے سامنے کوئی سکیم نہیں تھی اور انہیں خود سوچنی پڑی۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ کمیشن کے ممبر مسلمانوں کے فائدہ کے لئے وہ کچھ سوچ نہیں سکتے تھے جو خود مسلمان اپنے فائدہ کے لئے سوچ سکتے تھے۔ اگر مسلم لیگ اپنی اس غلطی کا تدارک کرتی اور وہ ان لوگوں کو ہم آہنگ بنا لیتی جو گو پاکستان کی پوری طرح تائید کرنے والے نہیں تھے لیکن سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے پاکستان سے نیچے اُتر کر بعض اَور ذرائع بھی ہو سکتے ہیں اور وہ ان ذرائع کو ایک سکیم کی صورت میں پیش کرتے یا مسلم لیگ ان کی آواز کمیشن تک پہنچا دیتی۔ تو کمیشن کو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق خود کچھ سوچنے کی تکلیف گوارہ نہ کرنی پڑتی۔ ممبرانِ کمیشن سمجھتے کہ اگر مسلم لیگ کی سکیم کو ہم نے قبول نہیں کیا تو مسلمانوں کے ایک اَور طبقہ کی طرف سے پاکستان سے نیچے اُتر کر ایک اور سکیم ہمارے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ آؤ ہم اس کو قبول کر لیں۔ اس طرح مسلمانوں کے حقوق موجودہ صورت سے بہت زیادہ محفوظ ہو جاتے یا کم سے کم وہ باتیں جو اَب مشن کے ذہن میں نہیں آئیں اس سکیم کے پیش ہونے کی صورت میں اس کے ذہن میں آ جاتیں اور ا س کے ممبر سمجھتے کہ مسلمانوں کے حقوق اس اس رنگ میں زیادہ محفوظ ہو سکتے ہیں۔ یہ طریق یقیناً زیادہ مفید ہوتا اور یقیناً اس کے نتائج مسلمانوں کے حق میں بہت بہتر ثابت ہوتے۔ کانگرس نے ہمیشہ یہ طریق استعمال کیا ہے اور ہمیشہ اپنی بغل میں ایک دشمن کو بھی رکھا ہے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ اپنی بغل میں کوئی دشمن نہیں رکھ سکتا اور اگر رکھتا ہے تو وہ ضرور اس کی کوئی سیاسی چال ہو گی کہ ظاہر میں تو اس کو دشمن قرار دیاجائے لیکن اندرونی طور پر وہ اس کا ہم خیال ہو اور اس کے منہ سے ایسی باتیں نکلوائی جائیں جو اس کو فائدہ پہنچانے والی ہوں۔ غرض کانگرس نے ہمیشہ یہ سیاسی چال چلی اوراس نے بعض لوگوں کو اپنے سے سوا ظاہر کر کے کمیشن کے سامنے پیش کیا تا اگر ان کی سکیم منظور نہ ہو تو وہ کہہ سکیں کہ اگر کانگرس مسلمانوں کے حقوق کے متعلق جو کچھ سکیم پیش کرتی ہے اُسے آپ منظور نہیں کر سکتے تو آزاد مسلم کانفرنس والے جو کچھ کہتے ہیں وہ مان لیا جائے۔ یہ تو نہ کانگرس میں شامل ہیں نہ مسلم لیگ میں۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہی دے دیا جائے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ درمیان میں رہنے والے نہیں تھے بلکہ کانگرس کے طرفدار تھے۔ اسی طرح مسلم لیگ کی طرف سے اگر یہ نہ کیا جاتا کہ جو شخص ذرا بھی مسلم لیگ کی سکیم سے اختلاف کرے گا اسے سوادِ مسلمین سے خارج قرار دیا جائے گا تو یقیناً اسلام اور مسلمانوں کے لئے یہ رواداری بہت زیادہ مفید ہوتی کیونکہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اسلامی نقطۂ نگاہ پاکستان سے نیچے اُتر کر کمیشن کے سامنے آ جاتا او رکمیشن کو خود اپنی طرف سے کوئی نیا نقطۂ نگاہ پیش نہ کرنا پڑتا جو لازماً اتنا ہمدردانہ نہیں ہو سکتا جتنا ہمدردانہ وہ نقطۂ نگاہ ہو سکتا تھا جو خود مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سے پیش کیا جاتا۔ غرض میرے نزدیک چار اہم غلطیاں ہیں جو مسلمانوں سے ہوئیں اور جن کا خمیازہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک اور کن کن صورتوں میں اُنہیں بُھگتنا پڑے گا۔ ابھی تو باہم گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو۔
اس مضمون کا دوسرا حصہ مَیں ابھی بیان نہیں کرتا کیونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے لیکن میرے نزدیک اب بھی اس فیصلہ میں بعض ایسی اصلاحیں کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جن سے مسلمانوں کے حقوق بہت حد تک محفوظ ہو سکتے ہیں اور وہ خطرہ جو اِس وقت مسلمانوں کو درپیش ہے کم ہو سکتا ہے۔ فِی الْحال مَیں صرف اتنا ہی بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک چار چیزیں ہیں جن کی مسلمانوں کو ضرورت تھی اور جن کی طرف عدمِ توجہ کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا۔ ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان اپنا قومی کریکٹر مضبوط کرتے، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان غیر ممالک میں پروپیگنڈا کی اہمیت کو سمجھتے، ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر قوموں سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے اور ضرورت تھی اس بات کی کہ مسلمان اس امر کو سمجھتے کہ تھوڑا بہت اختلاف جو قوم میں شقاق اور افتراق پیدا کرنے کا موجب نہ ہو اس کا برداشت کرنا قوم کے لئے مُضِر نہیں ہوتا بلکہ ترقی کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اب بھی مسلمان اگر ان امور کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو آئندہ ان کے بچاؤ کی بہت کچھ صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آئندہ خطبہ جمعہ میں یا ایک علیحدہ مضمون کی صورت میں مَیں وہ امور بیان کروں گا جن کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک اب بھی وزارتی کمیشن کے فیصلہ میں ایک حد تک اصلاح کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے۔’’ (الفضل 3 جون 1946ء )

19
احباب اپنی قربانیوں کا جائزہ لیں اور دین کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے اپنے چندوں میں اضافہ کریں
( فرمودہ 31 مئی 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا پر بھی ایک نازک زمانہ آ رہا ہے اور ہماری جماعت پر بھی ایک نازک سے نازک تر زمانہ آ رہا ہے۔ دنیا پر تباہی اور بربادی کے لحاظ سے اور ہماری جماعت پر اس تباہی اور بربادی کو اپنی قربانی اور اپنے ایثار سے دور کرنے کے لحاظ سے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نجات اور دنیا کے لوگوں کا تکالیف سے بچنا یہ صرف احمدی جماعت کی قربانی کےساتھ وابستہ کیا ہؤا ہے۔ ایک آدمی دریا یا تالاب میں ڈوبنے لگتا ہے تو چاروں طرف سے لوگ اس کو بچانے کے لئے بھاگ پڑتے ہیں اور لوگوں کے اندر اتنا شدید جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ایسے موقع پر بعض لوگ جو تیرنا نہیں جانتے وہ بھی جوش میں آ کر کُود پڑتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ دوسرے کو بچانا تو الگ رہا وہ خود اپنی جان کو بھی نہیں بچا سکتے۔ کسی انسان کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو سینکڑوں آدمی اس طرف دوڑ پڑتے ہیں بلکہ بعض تو بجائے مدد کرنے کے رستہ میں روک بن جاتے ہیں کیونکہ آدمی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ چلنے پھرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک انسان کی جسمانی موت جس موت سے اسے کوئی چارہ نہیں تھا، ایک گھر کا تباہ ہو جانا، جس گھر کو تباہی سے ہمیشہ کے لئے کسی صورت میں بھی بچایا نہیں جا سکتا اس کے لئے تو سینکڑوں اور ہزاروں انسان دیوانہ وار بھاگتے چلے جاتے ہیں اور جن میں طاقت اور قوت نہیں ہوتی وہ بھی اندھا دھند قربانی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن روحانی موت اور روحانی غرق اور روحانی اِحراق کو دیکھتے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں انسان آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنے تباہ ہونے والے بھائی، ایسے تباہ ہونے والے بھائی کی مدد سے دریغ کرتے ہیں جس کی تباہی دائمی اور ابدی ہے۔ وہ اس جان کے بچانے کی تو کوشش کرتے ہیں جس نے آج نہیں تو کل مر جانا ہے۔ وہ اس گھر کے بچانے کی تو کوشش کرتے ہیں جس نے آج نہیں تو کل گر جانا ہے مگر وہ اس روح کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیش کی زندگی مقرر فرمائی ہے۔ وہ اس گھر کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے جو دائمی ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے اس کا ایک گھر دوزخ میں بنایا جاتا ہے اور ایک جنت میں۔ انسان جُوں جُوں نیکیوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی جنتی گھر کے ساتھ وابستگی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کا دوزخی گھر دوزخیوں کو دے دیا جاتا ہے اور اگر وہ بدیوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا جنتی گھر اور جنتیوں کو مل جاتا ہے یا اس کو مل جاتا ہے جس پر اس نے ظلم کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو جب ایک شخص روحانیت سے دور ہو کر ایسے کام کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتے ہیں تو گویا اس کا جنت کا گھر گرایا جا رہا ہوتا ہے۔ ایسا گھر جس کو اگر بچا لیاجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ رہے۔ اگر ایک شخص گمراہی کےگڑھے میں گرتا ہے تو گویا ایک ایسی جان غرق ہونے لگتی ہے جس کے لئے ہمیشہ ہمیش کی زندگی مقدر کی گئی تھی۔ اگر اسے بچا لیا جائے تو ایک ایسی جان کو بچایا جا سکتا ہے جس کے لئے کوئی موت نہیں۔ مگر لوگ معمولی معمولی صدموں اور تکلیفوں پر تو بے کل ہو جاتے ہیں لیکن اس عظیم الشان بات کے متعلق لوگوں میں بے چینی اور کرب کم پیدا ہوتا ہے۔
اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس قسم کی مذہب سے دُوری اور منافرت پیدا ہو چکی ہے اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔ گویا جنت کے گھر گرائے جا رہے ہیں اور دوزخ کی آبادی کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مگر وہ جو دس روپے کے ایک جھونپڑے کو بچانے کے لئے ایک محلہ سے دوسرے محلہ کو دوڑتے ہیں وہ جنت کا مکان بچانے کے لئے اس قسم کی قربانیاں کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ بلکہ ہماری جماعت بھی جسے محض اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے ابھی پورے طور پر اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف متوجہ نہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ایسے ہیں جو مالی امداد تو دیتے ہیں مگر اتنی کم دیتے ہیں جو اُن کی عام مالی حالت سے بہت کچھ گری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کی تحریکیں جو سلسلہ کی طرف سے کی جاتی ہیں ان کی طرف اتنی توجہ نہیں ہوتی جتنی توجہ کی وہ مستحق ہوتی ہیں۔ مثلاً تحریک جدید ہی ہے۔ تحریک جدید کا کام اب اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ درحقیقت اس کا بوجھ بادشاہتیں بھی اچھی طرح نہیں اٹھا سکتیں۔ کونسا مسلمان بادشاہ ہے جس نے دنیا کے چاروں کونوں میں مبلغینِ اسلام بھجوائے ہوں۔ یہ کام ایسا ہے کہ نہ ترکوں کو اس کی کبھی توفیق ملی، نہ ایران کو کبھی یہ توفیق حاصل ہوئی، نہ مصر کو کبھی یہ توفیق ملی، نہ مراکش کے بادشاہ کو یہ توفیق ملی، نہ عرب کے بادشاہ کو یہ توفیق ملی اور نہ اب ان دوسری اسلامی حکومتوں کو یہ توفیق ملی یا مل رہی ہے جو قریب زمانہ میں قائم ہوئی ہیں۔ صرف احمدیہ جماعت ہی ہے جس کی طرف سے ساری دنیا میں مبلغ بھجوائے گئے ہیں یا بھجوائے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگیوں کو نہایت سادگی سے بسر کرتے اور ایسی تکلیف سے گزارہ کرتے ہیں کہ اس تکلیف کا اندازہ بھی دوسرا شخص نہیں لگا سکتا۔
ایک معمولی سی بات ہے جس سے انسان کسی قدر ان کی حالت کو سمجھ سکتا ہے۔ گو تکلیف کا احساس پورے طور پر نہ کر سکے۔ گورنمنٹ کی طرف سے جو طالب علم امریکہ جاتے ہیں ان میں سے ہر طالب علم کو وہ ڈیڑھ سو ڈالر ماہوار خرچ دیا کرتی ہے۔ گویا وہاں کے اخراجات کے لحاظ سے ڈیڑھ سو ڈالر فی کس مقرر ہے لیکن ہمارے مبلغ جو تین بچوں اور بیوی سمیت وہاں رہتے تھے ان کو سلسلہ کی طرف سے صرف ایک سو ڈالر ماہوار جایا کرتا تھا۔ گویا گورنمنٹ نے ایک طالب علم کا جو خرچ مقرر کیا ہؤا ہے اُس کا چھٹا حصہ ان کو ملا کرتا تھا۔ ایک احمدی دوست امریکہ سے آئے تو انہوں نے سب سے زیادہ زور جس امر پر دیا تھا وہ یہی تھا کہ اگر ہم نے امریکہ میں تبلیغ کرنی ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ اخراجات تو مبلغین کو دینے چاہئیں۔ انہوں نے اپنے طور پر اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ ہمارے مبلغ کی ایسی حالت نہیں کہ وہ اعلیٰ طبقہ میں تبلیغ کر سکے بلکہ اس کا لباس ایسا نہیں کہ وہ اوسط درجہ کے لوگوں میں بھی تبلیغ کر سکے۔ وہ غرباء میں ہی پھرتے ہیں اور لباس کی وجہ سے کھاتے پیتے لوگوں کے سامنے نہیں ہو سکتے۔ اب دیکھو تبلیغ کے کام میں یہ کتنی بڑی روک ہے۔ امریکہ کے اخراجات کے لحاظ سے سو سے لے کر ڈیڑھ سو ڈالر تک تو صرف کھانے پینے کے لئے چاہئے، باقی تبلیغ کے اخراجات کے لئے ٹریکٹوں کی چھپوائی اور ان کی اشاعت کے لئے ریل اور بسوں اور موٹروں کے کرایہ کے لئے، اسی طرح مختلف قسم کی کتابیں تقسیم کرنے اور لوگوں کے مطالعہ کے لئے، ایک لائبریری قائم کرنے کے لئے الگ اخراجات کی ضرورت ہے۔ ان تمام اخراجات کو اگر مدنظر رکھا جائے اور ایک مبلغ سے یہ امید کی جائے کہ وہ صحیح طور پر تبلیغ کرے تو اسے تین سو ڈالر ماہوار دینے چاہئیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں ایک مبلغ کو ہزار روپیہ مہینہ دینا چاہئے۔ لیکن یہ ہماری طاقت میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مبلغوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیاں اتنی سادہ بنائیں کہ اس سے زیادہ سادہ ہونا ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر سادگی کی حد تک تو انسان جا سکتا ہے۔ اس سے نیچے نہیں جا سکتا۔ ہم ان سے یہ تو مطالبہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ آجکل تنگی اور مصیبت کے دن ہیں تم گوشت کھانا چھوڑ دو۔ ہم یہ بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ تم دال کھانا بھی چھوڑ دو اور صرف چٹنی سے روٹی کھا لیا کرو۔ مگر ہم ان سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم کچھ کھاؤ ہی نہیں۔ آخر اخراجات کی تنگی ایک حد تک ہی چل سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے مبلغ کو ایک ہزار روپیہ ماہوار نہیں دے سکتے تو ہمیں اس سے اُتر کر اسے پانچ سو یا چھ سو روپیہ ماہوار تو دینا چاہئے۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم بازار سے لوٹ کر کھا لیا کرو۔ اگر بازار سے آٹھ آنے کو روٹی ملتی ہے تو تم آٹھ آنے خرچ کرنے کی بجائے چوری چُھپے روٹی اٹھا کر لے آیا کرو۔ یا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں اگر کپڑا نہیں ملتا تو ننگے رہا کرو یا دوسروں کے کپڑے چُرا کر پہننا شروع کر دو۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تم تبلیغ بند کر دو۔ یا اگر تبلیغ کے لئے جاؤ تو بغیر ٹکٹ کے ریل میں سوار ہو جایا کرو۔ اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تم ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں نہ جاؤ یا اگر جاؤ تو بس میں زبردستی بیٹھ جایا کرو۔ ہم بہرحال معقول مطالبہ کر سکتے ہیں، غیر معقول نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ملکوں کے اخراجات کو مدنظر رکھیں۔ ان ممالک میں اخراجات اِس قدر زیادہ ہیں کہ ہمارے ملک کے اخراجات پر ان ممالک کے اخراجات کا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے اخراجات اَور رنگ کے ہیں اور ان کے اخراجات اَور رنگ کے۔
گزشتہ دنوں انگلستان کی ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں اخراجات کی کیا نوعیت ہے۔ انگلستان امریکہ سے بہت سستا اور غریب ملک ہے۔ مگر پچھلے دنوں انگلستان میں مزدوروں نے سڑائیک کر دی اور سڑائیک کی وجہ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ ہماری مزدوری میں آٹھ شلنگ روزانہ کی زیادتی کی جائے۔ یہاں اگر مزدوروں کو بتایا جائے کہ انہیں آٹھ روپیہ روزانہ مزدوری ملا کرے گی۔ تو مَیں سمجھتا ہوں ان پر شادیٔ مرگ کی سی کیفیت طاری ہو جائے اور دس فیصدی کے ہارٹ فیل ہو جائیں۔ جنگ کے دنوں میں انہیں بارہ چودہ آنے مزدوری ملتی رہی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے انہیں چھ سات آنے ملا کرتے تھے۔ آٹھ شلنگ کی روزانہ زیادتی ان کے ذہن میں بھی کہاں آ سکتی ہے۔ یہاں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی آٹھ روپیہ مہینہ کی آمد ہوتی ہے۔ چونکہ قادیان میں غرباء کے لئے غلہ کا انتظام کیا جاتا ہے اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہمیں ان کی آمد کا صحیح علم ہو تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ امداد کے مستحق ہیں یا نہیں۔ اس لئے جب ان کی آمد کا پتہ لگایا جاتا ہے تو کافی تعداد ایسے لوگوں کی نکلتی ہے جن کی آمد9، 10، 12 اور 15 کے اندر اندر چکر لگا رہی ہوتی ہے۔ گویا ہمارے ملک میں ایک غریب خاندان کی جتنی ماہوار آمد ہوتی ہے وہاں اتنی رقم کا روزانہ تنخواہ کے طور پر نہیں،تنخواہ کی زیادتی کے طور پر مطالبہ کیا جاتا ہے اور زیادتی تنخواہ سے بہرحال کم ہوتی ہے۔ کسی کی پچیس روپیہ تنخواہ ہو تو وہ یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ مجھے ساٹھ روپیہ تنخواہ دی جائے وہ یہ تو کہتا ہے کہ میری تنخواہ پچیس کی بجائےتیس روپے ماہوار کر دی جائے یا پچیس کی بجائے پینتیس یا چالیس کر دئیے جائیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھےپچیس کی بجائے ساٹھ یا اسّی روپیہ تنخواہ دی جائے۔ تو زیادتی کا مطالبہ ہمیشہ اصل تنخواہ سے کم ہوتا ہے۔ پس جن کا مطالبہ یہ تھا کہ ہماری مزدوری میں آٹھ شلنگ روزانہ کی زیادتی کی جائے سمجھ لو کہ ان کی تنخواہ تو بارہ تیرہ شلنگ کے قریب روزانہ ہو گی۔
امریکہ میں اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ بعض مزدور اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جن کی تنخواہیں اپنے فن میں مہارت رکھنے کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے اور ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے مگر پھر بھی امریکہ میں ڈیڑھ سَو ڈالر سے لے کر تین سَو ڈالر تک عام مزدور لیتا ہے اور جو اپنے فن میں خاص طور پر ماہر ہوتے ہیں یا اعلیٰ درجہ کے مستری ہوتے ہیں وہ تو بہت زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں۔ گویا امریکہ میں ایک عام مزدور پانچ سَو سے لے کر ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ڈپٹی کی تنخواہ چھ سو روپیہ ہوتی ہے اور ڈپٹی ہونا یوں سمجھا جاتا ہے کہ گویا وہ عرش پر پہنچ گیا ہے۔ ایک غریب آدمی اگر ڈپٹی سے بات کرنے لگے تو وہ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لے گا اور کہے گا یہ بیوقوف اور جاہل اِتنا بھی نہیں جانتا کہ میں ڈپٹی ہوں۔ غرض ہمارے ملک میں ڈپٹی ہو جانا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایک ڈپٹی کی امریکہ کے مزدور سے آدھی تنخواہ ہوتی ہے۔ پس ان ملکوں میں گزارہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر ہم ان ممالک میں بھی اپنے مبلغین کو اتنا تنگ گزارہ دیتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
پھر جنوبی امریکہ میں شمالی امریکہ سے بھی زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ مگر ہم جنوبی امریکہ کے مبلغ کو بھی بہت تھوڑا گزارہ بھجواتے ہیں۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ ہم روپیہ خود جمع کرتے جاتے ہیں اور انہیں گزارہ کے لئے ایک معمولی سی رقم بھجوا دیتے ہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم ان کو بھیج دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ ان کے اخراجات کے مقابلہ میں بہت کم ہوتا ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ جنوبی امریکہ میں شمالی افریقہ سے بھی زیادہ اخراجات ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہم وہاں کے مبلغ کو چار سال تک صرف ساٹھ روپیہ مہینہ بجھواتے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لو کہ وہ کیسی تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔ جس ملک کے مزدور کو پانچ سو سے ہزار روپیہ تک تنخواہ ملتی ہو اس ملک میں ساٹھ روپیہ مہینہ لے کر کوئی شخص کیسے گزارہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح اَور کئی ایسے ممالک ہیں جن میں ہم اپنے مبلغین کو پندرہ پندرہ، بیس بیس روپیہ ماہوار بھجواتے رہے ہیں۔ حالانکہ پندرہ بیس روپیہ میں یہاں بھی انسان معقول گزارہ نہیں کر سکتا۔ اور غیر ملکوں میں تو جہاں بہت زیادہ گرانی ہے۔ پندرہ بیس روپے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ مگر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے مبلغوں سے دشمنی ہے؟ یا کیا تبلیغ کے فریضہ سے ہمیں دشمنی ہے؟ یا کیا ہم میں اتنی عقل نہیں کہ ہم اپنے ملک اور ان ملکوں کے فرق کو سمجھ سکیں؟ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے فریضۂ تبلیغ سے دشمنی نہیں بلکہ دلچسپی ہے اور دوسروں سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بے وقوف بھی نہیں بلکہ بُہتوں سے زیادہ سمجھ اور عقل رکھنے والے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے مبلغوں سے بھی دشمنی نہیں۔ وہ مبلغ ہمیں اپنے عزیزوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں کیونکہ وہ خدا کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔ پھر ہم کیوں ایسا کرتے ہیں؟ اس لئے کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہیں سمجھتی اور جو چندہ جمع کرتی ہے وہ ہماری ضروریات کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اب ایک ہی صورت ہے کہ یا تو ہم تبلیغ بند کردیں یا تبلیغ کو کم کر دیں اوریا پھر اس قسم کے مظالم کو جاری رکھیں ۔ کئی لوگ جو بیرونی ممالک سے واپس آئے ہیں انہوں نے انہی الفاظ میں مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا اس ظلم کی اِسلام اجازت دیتا ہے؟ اس وقت مَیں جبکہ میرا نفس اس سوال سے شرمندہ تھا صرف یہی جواب دے سکا کہ ہاں! اگر کوئی شخص خود اس ظلم کو خوشی سے برداشت کرتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہم جبری طور پر ایسا کریں تو یہ ظلم ہو گا۔ لیکن اگر وہ خود اپنی گردن ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک میری گردن کاٹ دو۔ تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ پس یہ ظلم تو ہے مگر ہمارا نہیں۔ بلکہ وہ ظلم ہے جس میں مظلوم خود اپنی خوشی سے شریک ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا کہ ؂
در کوئے تُو اگر سرِ عشاق را ز نند اول کسے کہ لاف تعشق زندمنم1
اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہوں اور اے خدا! تُو یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص بھی یہ کہے گا کہ مَیں عاشق ہوں اس کا سر کاٹ دیا جائے گا۔ تو
اول کسے کہ لافِ تعشّق زندمنم
اے میرے رب! اگر مجھے یہ پتہ لگ جائے کہ تُو نے ایسا حکم دے دیا ہے تو سب سے پہلے مَیں یہ کہوں گا کہ مَیں عاشق ہوں، مَیں عاشق ہوں۔
تو جو شخص خود اپنا سر کٹوانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے بے شک وہ ظلم نظر آئے لیکن درحقیقت وہ ظلم نہیں ہوتا۔ وہ سچی قربانی ہوتی ہے۔ وہ عاشقانہ اقدام ہوتا ہے۔ اس میں نہ ہم اس کی قدر کا اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ معاملہ کرنے والے کو ظالم کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے معاملات کو مَیں دیکھتا ہوں کہ ان میں بھی جماعت پورے جوش کےساتھ حصہ نہیں لے رہی۔ حالانکہ اب ہمارے کام بہت وسیع ہو چکے ہیں۔ شروع میں صرف شمالی امریکہ میں ہمارا مشن تھا لیکن اس کے بعد جنوبی امریکہ میں بھی ہمارا مشن کھل گیا۔ اسی طرح مشرقی افریقہ میں بھی مشن قائم ہو چکا ہے۔ پہلے وہاں صرف ایک آدمی تھا لیکن اب کئی آدمی جا رہے ہیں۔
فرانس میں بھی ہمارا مشن قائم ہو گیا ہے مگر وہاں اخراجات کی جو کچھ حالت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کے مبلغ نے لکھا ہے کہ یہاں صرف روٹی پر اوسطاً سَوا پونڈ کے قریب ایک شخص کا روزانہ کا خرچ ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ چالیس پونڈ ماہوار میں وہاں ایک آدمی صرف روٹی کھا سکتا ہے۔ اب تو وہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن اگر رہائش کے لئے الگ مکان مل جائے اور وہ کھانے کا اپنے طور پر انتظام شروع کر دیں اور اس طرح یہ خرچ آ دھا ہو جائے تب بھی بیس پونڈ ماہوار صرف ایک شخص کی روٹی کے لئے چاہئے۔ اس کے بعد مکان کا سوال ہے۔ اس کے لئےد س پونڈ فرض کر لو۔ پھر کپڑوں کا سوال آئے گا۔ اس ملک کے لحاظ سے اس غرض کے لئےبھی ہمیں دس پونڈ رکھنے چاہئیں۔ پھر اردگرد کے علاقوں میں پھرنے، لوگوں کو تبلیغ کرنے اور ٹریکٹ اور کتابیں وغیرہ شائع کرنے کے لئے اگر تیس پاؤنڈ رکھے جائیں تو یہ کل اخراجات ستّر پونڈ ماہوار بن جاتے ہیں۔ غرض ایک مبلغ کا ذاتی خرچ جس میں کھانے اور مکان اور کپڑوں کے اخراجات سب شامل ہیں کم سے کم چالیس پونڈ ماہوار ہے۔ مگر ہم نے ایک مبلغ کے لئے آٹھ یا دس پونڈ مقرر کئے ہوئے ہیں۔ گویا جس چیز سے وہ آٹھ دن صرف روٹی کھا سکتا ہے وہ ہم اسے مکان اور کپڑے اور روٹی اور تبلیغ کے اخراجات کے لئے دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بعض وقت بھوکا بھی رہ سکتا ہے لیکن کسی شخص سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کھانے کو کُلّیةً ترک کر دے۔ وہ بھوک اور پیاس کی تکلیف تو ایک حد تک برداشت کر سکتا ہے مگر زندگی کے قیام کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے اس کو وہ چھوڑ نہیں سکتا۔
ابھی ہمارے ایک مبلغ نے اٹلی سے لکھا ہے کہ یہاں اس قدر تنگی اور قحط ہے کہ اول تو ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے کہ روٹی مل سکے اور اگر پیسے پاس ہوں تو روٹی نہیں ملتی۔ اور اگر مل جائے تو کافی نہیں ہوتی اور چند دن کے بعد ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان بھوک سے بے تاب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ آج بھوک کی شدت کی وجہ سے میری ایسی حالت ہو گئی کہ مجھے سوائے اس کے اَور کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ مَیں جنگل میں چلا گیا اور مَیں نے درخت کے پتے کھا کر گزارہ کیا۔
غرض اٹلی میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ فرانس میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ سپین میں ہمارے مبلغین کے جانے کی اطلاع آ چکی ہے۔ ہالینڈ میں بھی ہمارا مشن قائم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انگلستان میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ ارجنٹائن میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ شام میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ ایران میں بھی ہمارا مشن قائم ہے۔ نو یہ ہوئے ۔آٹھ دس مشن ویسٹ افریقہ میں ہیں یہ سترہ ہو گئے۔ ایک مشن ایسٹ افریقہ میں ہے۔ ایک مشن ماریشس میں ہے۔ دو مشن سماٹرا میں ہیں۔ پانچ مشن جاوا میں ہیں۔ ایک مشن ملایا میں ہے۔ اسی طرح اَور کئی مقامات پر ہمارے مشن قائم ہیں اگر سب کو ملا لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مشنوں کی تعداد تیس کے قریب بن جاتی ہے۔ اور ان مبلغین کی تعداد جو ان مشنوں میں کام کر رہے ہیں پچاس کے قریب ہے۔ اگر ہم ایک شخص کو کم سے کم خرچ کھانے اورکپڑے کے لئے دیں اور کم سے کم خرچ تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے لئے دیں تو پانچ سو روپیہ سے کم کسی صورت میں بھی خرچ نہیں آ سکتا۔ اور یہ بھی ہمارا کم سے کم اندازہ ہے ورنہ امریکہ جیسے ملک میں تو پانچ سو سے صرف روٹی کپڑے کا گزارہ ہو سکتا ہے اور وہ بھی نہایت ادنیٰ صورت میں۔ باقی اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ بہرحال اگر فی کس پانچ سو روپیہ ماہوار خرچ کا اندازہ رکھا جائے تو تین لاکھ روپیہ کی رقم صرف پچاس مبلغین کے اخراجات کی ہی بن جاتی ہے۔ حالانکہ تحریک جدید کی ساری آمد تین لاکھ روپیہ سے کم ہے اور اس میں سے بھی ڈیڑھ لاکھ روپیہ صرف ہندوستان پر خرچ ہو رہا ہے۔ کئی طالب علم ہیں جن کو وظائف دئیے جاتے ہیں، کئی مدرِّس ہیں جن کو گزارے دئیے جا تے ہیں او رپھر دفاتر کو چلانے کے لئے بھی ایک معقول رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم باہر کے مشنوں کو ابھی اَور زیادہ نہ بڑھائیں تب بھی تین لاکھ روپیہ وہ اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ یہ۔ ساڑھے چار لاکھ روپیہ سالانہ ہمیں ان اخراجات کے لئے چاہئے۔ مگر تحریک جدید کی ساری آمد اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب ہوتی ہے۔ اسی لئے مَیں نے کہا تھا کہ اب جماعت کے دوستوں کو دفتر دوم کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ ہماری ان ضروریات کے پورا ہونے میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ مَیں نے کہا تھا کہ اگر ہماری جماعت کے وہ افراد جو دفتر اول میں حصہ نہیں لے سکے وہ دفتر دوم میں حصہ لینا شروع کر دیں او رمتواتر اُنیس سال تک حصہ لیتے چلے جائیں اور دوسری طرف نئے شامل ہونے والے یہ کوشش کریں کہ ان کی تعداد بھی پانچ ہزار تک پہنچ جائے اور اڑھائی لاکھ سالانہ دفتر دوم کی آمد شروع ہو جائے تو اس طرح آٹھ سال میں پندرہ بیس لاکھ روپیہ ریزرو فنڈ کے طور پر جمع ہو سکتا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اب دوسرا سال گزر رہا ہے مگر اس سال کےو عدے بھی ابھی اَسّی ہزار سے کم ہیں۔ جب ہماری جماعت کی یہ حالت ہے کہ وہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود اپنے فرائض کا صحیح احساس نہیں کرتی تو اتنا بڑا کام جو ہمارے سپرد ہے کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات غلط ہے کہ ہماری جماعت کے پاس روپیہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت اب ایسی ہے کہ اگر قادیان میں ہی چندہ کی تشخیص اور اس کی وصولی کی صحیح طور پر کوشش کی جائے تو اب جو کچھ قادیان سے چندہ وصول ہو رہا ہے اس سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ زیادہ آ سکتا ہے۔ اسی طرح بیرونجات کے چندوں میں جو کمی ہے اگر اس کی اصلاح کی جائے تو ہماری آمد میں قریباًپانچ چھ لاکھ روپیہ کی زیادتی ہو سکتی ہے۔ اور چونکہ اس وقت ہمارے روپیہ کا اکثر حصہ تبلیغ میں خرچ ہو رہا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی تعداد میں بڑھتی چلی جائے گی۔ اس لئے اگر پانچ سات سال تک یہ روپیہ برابر تبلیغ پر خرچ ہوتا رہا تو یہ ہماری آمد کو اتنا بڑھا دے گا کہ یہی پانچ چھ لاکھ پچیس چھبیس لاکھ بن کر ہمارے پاس آ جائے گا۔ مگر تجارت وہی کرتا ہے جس کے پاس سرمایہ سے کوئی چیز خریدی ہوئی ہوتی ہے۔ جس شخص نے کوئی چیز خریدی ہی نہیں وہ بیچے گا کیا او راسے نفع کیا حاصل ہو گا۔ ہم بھی اگر اس وقت بیج کے طور پر اپنا روپیہ زمین میں پھینکتے چلے نہیں جاتے تو روپیہ ہمارے پاس آئے گا کہاں سے؟ جو زمیندار فصل بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اگر آج ہم کچھ بوتے نہیں تو دین کی فصل کاٹنے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔
اسی طرح مَیں نے کالج کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی۔ درحقیقت ہمارا کالج نوجوانوں میں روحانیت اور دین پیدا کرنے کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے۔ اب جبکہ ہماری جماعت کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ تھی، امراء بھی ہماری جماعت میں زیادہ تھے اور سامان بھی ہمیں پہلے سے زیادہ میسر تھے۔ دو باتوں میں سے ایک بات لازمی تھی۔ یا تو ہمارے طالب علم بیرونی کالجوں میں تعلیم پانے پر مجبور ہوتے اور یا پھر وہ عیاشیوں میں مبتلا ہو جاتے۔ پس درحقیقت اب وقت آ گیا تھا کہ کالج قائم کیا جاتا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ اب وقت آ گیا تھا کہ اگر کالج قائم نہ کیا جاتا تو ہماری آئندہ نسل اسلام سے غافل اور بے دین ہو جاتی۔ پس مَیں نے کالج کی تحریک کی اور وہ قائم ہؤا۔ اب کالج خدا تعالیٰ کے فضل سے بی۔ اے کے سالوں میں داخل ہو رہا ہے اور یونیورسٹی کی طرف سے اس کی اجازت آ چکی ہے۔ چنانچہ دو تین دن ہوئے یونیورسٹی نے اجازت دے دی ہے کہ کالج میں بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی کلاسز کھول دی جائیں۔ آجکل ہر چیز روپیہ سے بنتی ہے۔ ہم نے بجٹ بنایاتو کالج کا کم سے کم بجٹ دو لاکھ پانچ ہزار روپیہ کا تیار ہؤا۔ مَیں نے جماعت کے دوستوں سے کالج کے لئے تین لاکھ روپیہ کی اپیل کی تھی مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ میری اس تحریک پر تین ماہ گزر رہے ہیں۔ اب تک صرف ایک لاکھ دو ہزار کےو عدے آئے ہیں اور چونکہ سارے وعدے پورے نہیں ہوتے اس لئے یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک لاکھ دو ہزار میں سے صرف اسّی نوّے ہزار وصول ہوں گے۔ حالانکہ ہمیں ضرورت دو لاکھ کی ہے اور وہ بھی اس سال ضرورت ہے۔ ہم اس چندہ کو اگلے سالوں تک پھیلا نہیں سکتے کیونکہ اگلے سالوں کے لئے ہمارے ذہن میں بعض اَورسکیمیں ہیں جو جاری کی جانے والی ہیں۔ یہ مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ اگر جماعت کی طرف سے ابھی دو لاکھ کے وعدے نہیں آئے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ جو کمی رہے گی وہ اگلے سال پوری ہو جائے گی۔ ایسا خیال درست نہیں۔ اگر ہم اس سال کی سکیم کو اگلے سال پر ترک کر دیں گے تو اگلے سال کی سکیم کو کہاں لے جائیں گے۔ ہمارے لئے بہرحال ضروری ہے کہ ہم اپنےفرائض کی اہمیت کو سمجھیں اور جس چیز کی فوری طور پر ضرورت ہو اسے فوری طور پر مہیا کریں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے۔ جس عمارت سے ہم نے دنیا کو اسلام کے مقابلہ میں شکست دینی ہے اور جس کفر کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے اس کے ایک ایک شہر کی یونیورسٹی پر ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو کروڑ روپیہ لگا ہؤا ہے۔ ہندوؤں نے بنارس یونیورسٹی پر ہی ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ خرچ کیا ہؤا ہے اور ان کے جو دوسرے کالج ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح لاہور کے آریہ سماج کالج کے متعلق پچھلےد نوں مَیں نے پڑھا کہ اس کی جائیداد کی موجودہ قیمت ڈیڑھ کروڑ روپیہ ہے۔ حالانکہ آریہ سماج کے پنجاب میں پندرہ بیس اور بھی کالج ہیں۔ پھر اگر آریہ سماج کی اَور جائیدادوں اور شدھی کے صیغوں کے اخراجات کو شامل کر دیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں آریہ سماج کا پنجاب میں سات آٹھ کروڑ روپیہ لگ چکا ہے۔ پھر اگر سناتن دھرمیوں اور عیسائیوں اور سکھوں کو ملا لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کی مختلف کوششوں پر اب تک تیس کروڑ سے کم روپیہ صَرف نہیں ہؤا ہو گا۔ اور یہ صرف پنجاب کی حالت ہے۔ اس کے بعد سارے ہندوستان کو لو، پھر سارے ایشیا کو لو،پھر ساری دنیا کو لو اور اندازہ لگاؤ کہ اب تک لوگ ان کاموں پر کتنا روپیہ صَرف کر چکے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں بے شک ہمارے مبلغ کم خرچ کر سکتے ہیں، بے شک ہمارے مبلغ آدھے پیٹ سے روٹی کھا سکتے ہیں، بے شک ہمارے آدمی چھ گھنٹے کی بجائے اٹھارہ گھنٹے کام کر سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو انسان بنایا ہے۔ ہم ان سے یہ تقاضا نہیں کر سکتے کہ تم فرشتوں کی طرح بن جاؤ او رانسانی حوائج اور ضروریات سے بالا ہو جاؤ۔ آخر قربانی ایک حد تک چلے گی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ پھر قربانی کا مطالبہ کرنے والے کے لئے بھی تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنا منہ شیشہ میں دیکھے کہ مَیں جو دوسروں سے قربانی کا مطالبہ کر رہا ہوں خود کیا کر رہا ہوں۔ ایک شخص جو روپیہ میں سے ایک آنہ دے کر بھوکا نہیں سوتا اور کہتا ہے کہ کیوں ہمارا مبلغ چھ گھنٹے کی بجائے بارہ گھنٹے کام نہیں کرتا؟ کیوں وہ دو روٹیاں کھانے کی بجائے ایک روٹی کھا کر گزارہ نہیں کرتا؟ کیوں اگر اسے پورے کپڑے میسر نہیں آتے تو وہ صرف تہہ بند باندھ نہیں لیتا؟ کیا ایسے انسان کو یہ الفاظ اپنی زبان سے نکالتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اور کیا اسے محسوس نہیں ہوتا کہ مَیں تو روپیہ میں سے ایک آنہ دین کے حوالہ کرتا ہوں اور اسے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنا جسم ہی نہ دے بلکہ اپنی روح بھی دین کے حوالے کر دے؟ لیکن ہمارے مبلغین اور واقفین کو اس سے بھی دریغ نہیں۔ وہ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں مگر جس چیز کی خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت ہی نہیں دی اس چیز کا ان سے مطالبہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ انسان آخر دوسرے کو وہی دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہو۔ جو چیز اس کے پاس ہی نہیں اور جسے خدا نے اپنے قبضہ میں رکھا ہؤا ہے وہ کسی دوسرے کو دے کس طرح سکتا ہے۔ بہرحال جماعت کو اپنی اصلاح کرنی پڑے گی اور بہرحال مطالبہ صرف ایک سے نہیں بلکہ دونوں سے ہو گا۔ ہم نوجوانوں سے بھی مطالبہ کریں گے کہ آؤ اور اپنی جانیں قربان کر دو اور ہم جماعت سے بھی مطالبہ کریں گے کہ آؤ اور اپنے اموال قربان کر دو۔
اسی طرح غرباء کے لئے غلہ فنڈ کی مَیں نے تحریک کی تھی ۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ سارے ہندوستان کے لئے نہیں، سارے پنجاب کے لئے نہیں صرف قادیان کے غرباء کے لئے اور وہ بھی سارے سال کے لئے نہیں صرف پانچ چھ ماہ کے اخراجات کے لئے مَیں نے غلہ کی تحریک کی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اب تک اس کی طرف پورے طور پر توجہ نہیں کی۔ دو چار دن سے مَیں نے لسٹ نہیں دیکھی مگر میرے خطبہ کے پندرہ دن بعد تک اِس مدمیں صرف دو سو روپیہ آیا تھا او ران دو سَو میں سے بھی ایک سو صرف ایک شخص کا تھا۔ اب تو شاید کچھ زیادہ روپیہ آ گیا ہو ۔ کیونکہ کچھ دنوں سے میرے پاس ناقص طور پر رپورٹ پہنچتی رہی ہے۔ وعدے بھی اڑھائی ہزار کے قریب ہیں جن میں سے صرف میرا وعدہ دو ہزار کا ہے اور باقی پانچ سو کا وعدہ ساری جماعت کی طرف سے ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ بے شک یہ تنگی کے دن ہیں لیکن تنگی کا ہی وقت ہے جب انسان زیادہ قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور وہی وقت انسان کے ایمان کی آزمائش کا بھی ہوتا ہے۔ یوں تو آجکل ہر ایک کے لئے تنگی اور قحط کے ایام ہیں لیکن جسے بہت زیادہ تنگی ہو اس کے لئے تھوڑی تنگی والے کو قربانی کرنی چاہئے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ سندھ کی گندم اِدھر آنہیں سکتی۔ یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم پنجاب کی گندم سے فائدہ اٹھائیں۔ مگر اس سال بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل بالکل تباہ ہو گئی ہے خصوصاً وہ زمینیں جو بارانی تھیں ان کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ میری اپنی گندم بھی بہت کم ہوئی ہے۔ چنانچہ اس سال صرف ایک سَو اَسّی من گندم مجھے ملی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے پہلے تو میرا ارادہ ہؤا کہ مَیں بھی پہلے جتنا ہی غلہ دوں مگر پھر میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ خدا تعالیٰ کی رحمت پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ایک لحاظ سے کمی واقع ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے لحاظ سے اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ اس سال پچھلے سالوں کی نسبت میری گندم بہت کم ہوئی ہے جہاں پچھلے سالوں میں مَیں ایک سو من غلہ دیا کرتا تھا وہاں اس سال مَیں نے دو سو من غلہ غرباء کے لئے دیا ہے۔ مَیں نے کہا بہرحال خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسے سامان عطا فرمائے ہیں کہ اگر ہمارے پاس اپنا غلہ نہ ہو تو ہم روپیہ سے اپنے لئے غلہ خرید سکتے ہیں لیکن وہ جو اپنی ضروریات کے لئے غلہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا یقیناً ہم سے زیادہ حق دار ہے۔ اور اگر کبھی فاقے کا سوال آئے اور یہ دریافت کیاجائے کہ وہ جو دوسرے اوقات میں کھاتا رہا ہے وہ فاقہ کرے ؟یا وہ جسے دوسرے اوقات میں کھانے کے لئے کم ملتا تھا وہ فاقہ کرے تو یقیناً ہم یہی کہیں گے کہ جو شخص کھاتا رہا ہے وہ اب فاقہ کرے اور جو فاقہ کرتا رہا ہے وہ اب کھائے۔ جب تک اموال کی اس رنگ میں تقسیم نہیں ہو گی کبھی بھی دنیا میں انصاف قائم نہیں ہو گا اور کبھی بھی بنی نوع انسان میں محبت قائم نہیں ہو گی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ہمیشہ اچھا کھائے اور مصیبت کے وقت بھی کہے کہ چونکہ مَیں ہمیشہ اچھا کھانا کھاتا رہا ہوں اس لئے اب بھی مجھے اچھا کھانا ملنا چاہئے۔ ہم کہیں گے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مصیبت برداشت کرو اور اپنے غریب بھائی کو کھانا کھلاؤ۔
درحقیقت اگر غور کیا جائے تو ہماری جماعت میں اس قسم کے غرباء کا حصہ کم ہے جو محض جماعت پر بار ہوں اور خود کسی قسم کی قربانی میں حصہ نہ لیتے ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کمزور بھی ہیں اور ہمیں اس دوران میں یہ تجربہ بھی ہؤا ہے کہ بعض ایسے لوگ بھی ہمارے پاس امداد کے لئے آ جاتے ہیں جو درحقیقت امداد کے مستحق نہیں ہوتے۔ لیکن بالعموم فاقہ کرنے والے غرباء بھی چندہ دیتے اور اپنی بساط کے مطابق دل کھول کر دیتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے مَیں کہاں سے زیور بنوا دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں۔ لیکن مَیں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی مَیں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ نہ دو کسی اَور وقت کام آ جائے گا۔ غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اَور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں۔ مَیں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی۔ مَیں نے کہا مَیں نے سرِ دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آ گئی اور مَیں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر مَیں کیا کروں گی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ مَیں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں۔ اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہرحال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور پر رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے۔ مَیں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت مَیں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ مَیں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے۔ اب مَیں اسے واپس نہیں لے سکتی۔ یہ نظارے غرباء میں بھی نظر آتے ہیں اور امراء میں بھی۔ لیکن امراء میں کم اور غرباء میں زیادہ۔ یہی ایثار اور یہی حوصلہ ہے جو ہمیں امید دلاتا ہے کہ ہم کفر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتح پائیں گے کیونکہ جب کسی قوم میں مخلص زیادہ ہو جاتے ہیں اور کمزور کم تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو کبھی ضائع نہیں کرتا ۔لیکن کچھ لوگوں کے مخلص ہونے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ باقی لوگ اپنےفرائض کو بھول چکے ہیں۔
پس مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو شہریوں کو بھی اور گاؤں کے رہنے والوں کو بھی، تاجروں کو بھی اور ملازم پیشہ لوگوں کو بھی، اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنی قربانیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنے چندوں میں اضافہ کرنا چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ملازم پیشہ لوگ ہر قسم کی تحریکات میں بہت زیادہ حصہ لیتے ہیں لیکن تاجر بہت کم حصہ لیتے ہیں اِلَّا مَا شَاءَ اللہ۔ بعض تاجر بے شک بہت بڑی قربانی کر رہے ہیں مگر بالعموم سو میں سے پانچ تاجر ایسے ہوتے ہیں جو قربانی کرتے ہیں اورپچانوے تاجر ایسے ہوتے ہیں جو چندہ تو دیتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پلہ ہلکا رہے اور ان کا پلہ بھاری رہے۔ اسی طرح زمینداروں میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو قربانی کرتا ہے اور ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے فرائض سے غافل ہے۔ مگر اَب وہ دن آ گیا ہے کہ یا تو ہماری جماعت کو پوری طرح قربانی کرنے پڑے گی اور یا اس میدان سے اپنے منہ پر کالک لگا کر بھاگنا پڑے گا۔ آخر جو کام روپیہ سے ہو سکتے ہیں وہ روپیہ کے بغیر کس طرح ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کے لئے بہرحال ضروری ہو گا کہ وہ مالی قربانی کریں اور سلسلہ کے کاموں میں کوئی روک واقع نہ ہونے دیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر روپیہ نہ ہؤا تو یہ نہیں ہو گا کہ ہمارے مبلغ دین کی خدمت سے منہ موڑ لیں۔ لیکن اس صورت میں وہ ان لوگوں کی ذاتی قربانی ہو گی، جماعت کی نہیں۔ اور برکت کی بات یہ ہوتی ہے کہ قربانی جماعت کی طرف منسوب ہو۔ امریکہ کا مبلغ امریکہ میں کام کر رہا ہو۔ وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے دور ہو۔ ہر قسم کی تکالیف اور مصائب برداشت کر رہا ہو لیکن ہر شخص اسے دیکھ کر یہ نہ کہے کہ وہ تبلیغ کر رہا ہے بلکہ یہ کہے کہ جماعت تبلیغ کر رہی ہے کیونکہ جماعت اس کی ہر قربانی میں شامل ہو تو یہ جماعتی تبلیغ ہو گی۔ مغربی افریقہ میں ہمارے مبلغین کو دیکھنے والا صرف ان کو نہ دیکھے بلکہ جب وہ جماعت کی تنظیم اور جماعتی قربانی اور جماعتی امداد پر نظر ڈالے اور جب اسے نظر آئے کہ کس طرح ان مبلغین کو جماعت کی طرف سے ہر قسم کا لٹریچر اور نشر و اشاعت کا سامان پہنچ رہا ہے، اسی طرح ہر قسم کی امداد جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں فوراً جماعت کی طرف سے پہنچ جاتی ہے تو وہ یہ نہ کہے گا کہ دس یا پندرہ افراد مغربی افریقہ میں تبلیغ کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں تبلیغ کر رہی ہے۔ اگر جماعت کے تمام افراد کام میں لگ جائیں اور ہر شخص کی نگاہ اسی طرف اٹھے۔ جس طرف مبلغ کی نگاہ ہو اور اس کا مال بھی اور اس کی جان بھی اور اس کا وقت بھی اور اس کی عقل بھی اور اس کا فہم بھی سب کا سب ان لوگوں کے لئے وقف ہو جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے لئے مختلف ممالک میں مختلف کوششوں میں مصروف ہوں تو ہر دیانتدار شخص ان کو دیکھتے ہوئے گو اُن کی ذاتی قربانی سے بھی متاثر ہو گا مگر وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ گو بظاہر ان ممالک میں یہ چند افراد تبلیغ کر رہے ہیں لیکن درحقیقت ساری جماعت تبلیغ کر رہی ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے دین کو اس بات کی کیا پروا ہو سکتی ہے کہ اس میں ایک لاکھ شامل ہیں یا ایک کروڑ۔ خدا تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ہر چیز اس کے دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ قطع نظر اِس سے کہ وہ پچاس ہوں یا ساٹھ۔ کیونکہ ایسے لوگ یقیناً اسلام کو غالب کرکے رہیں گے۔ یقیناً کفر کو مغلوب کرکے رہیں گے اور افسوس اُن پر ہو گا جو اِس فتح میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔’’
(الفضل 22 جون 1946ء )
1: درثمین فارسی صفحہ 143

20
انتخابات کی فہرستوں کی تیاری کے ضمن میں نہایت ضروری ہدایت
( فرمودہ 7 جون 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘میرے دانتوں میں چونکہ درد ہے اور بولنے سے تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے مَیں صرف چند منٹ اور وہ بھی آہستہ آواز سے خطبہ کہہ سکوں گا مگر پیشتر اِس کے کہ مَیں اُس مضمون کو بیان کروں جو آج بیان کرنا چاہتا ہوں مَیں نظارت امور عامہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے بار بار ہدایت دی ہے کہ لڑکوں میں اخلاق اور آداب کی عادت پیدا کرنی چاہئے لیکن باوجود اس کے ماں باپ اور افسران اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابھی چند دن ہوئے مَیں نے رات کی مجلس میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ حرکات اور گفتگو میں وقار کی عادت ہونی چاہئے۔ جلدی سے کُود کر آگے آنا اور دوسروں پر گرنا ناواجب بات ہے۔ لیکن میری اس تقریر کے چند دنوں کے اندر ہی یہ تو کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ میری آنکھوں کے سامنے کیونکہ اُس طرف میری پیٹھ تھی لیکن میری موجودگی میں بند کی طرف آتے ہوئے لڑکے اِس طرح کُود کر آگے آئے کہ وہ پہرہ داروں پر گرے اور پہرہ دار مجھ پر گرے۔ مَیں نظارت امور عامہ کے سپرد یہ معاملہ کرتا ہوں۔ وہ تحقیقات کریں کہ یہ لڑکے جو میرے سامنے بیٹھے ہیں کس سکول کے ہیں۔ پھر جس سکول کے یہ لڑکے ثابت ہوں اس کے افسران کو تنبیہہ کریں۔ ان لڑکوں کے متعلق مَیں حکم دیتا ہوں کہ تین مہینہ تک یہ اس مسجد کے صرف جنوب مشرقی کونہ میں بیٹھ سکتے ہیں کسی اَور حصہ میں نہیں بیٹھ سکتے۔’’
اس موقع پر حضور نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
‘‘ وہ کونہ جو نظر آ رہا ہے اس کے آخری حصہ میں ان کو بیٹھنے کی اجازت ہو گی۔ قریب آنے کی اجازت نہیں ہو گی اور امور عامہ اِس بات کا ذمہ دار ہو گا کہ اس کے آدمی آئندہ اس امر کی نگرانی رکھیں کہ یہ لڑکے امام کے راستہ میں یا اس کے قریب تو نہیں بیٹھتے۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ الیکشن پھر ہونے والے ہیں اور ان کے لئے لسٹیں بن رہی ہیں۔ میرے پاس جو رپورٹیں آتی رہتی ہیں ان سے مجھے یہ بات نہایت افسوسناک طور پر معلوم ہوئی ہے کہ جماعتیں پورے طور پر اس کام کی طرف توجہ نہیں کر رہیں۔ اَور تو اَور قادیان کی جماعت کا یہ حال ہے کہ ناظر امور عامہ نے مجھے لکھا کہ مَیں بعض محلوں میں گیا تو باوجود اس کے کہ اعلان پر ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے ایک پریذیڈنٹ نے کہا کہ ہم غور کر رہے ہیں کل یا پرسوں کام شروع کر دیں گے۔ مجھے اس پر ایک اپنا غور کرنے کا لطیفہ یاد آ گیا مگر وہ تو ایسا غور تھا کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو جاتی تو کوئی قومی نقصان نہیں تھا، زیادہ سے زیادہ ہمیں ایک وقت کھانے کی تکلیف ہو جاتی مگر یہ غور بڑا خطرناک ہے۔ مَیں ایک دفعہ دریا پر سیر کے لئے گیا یہاں قدرت اللہ صاحب مرحوم ایک مخلص احمدی تھے وہ اَن پڑھ تھے اور بھیل قوم میں سے تھے لیکن آدمی اخلاص والے تھے چونکہ ہمارے ساتھ قافلہ بہت بڑا ہوتا ہے مجھے ایک دو دن کے بعد معلوم ہؤا کہ آٹا ختم ہو رہا ہے۔ باورچی میرے پاس آیا اور اس نے اطلاع دی کہ کل صبح آٹا ختم ہو جائے گا آج ہی کوئی انتظام کرنا چاہئے ورنہ کل تکلیف ہو گی۔ مَیں نے ان کے اخلاص اور محبت کو دیکھ کر چاہا کہ یہ کام ان سے لیا جائے۔ یوں بھی اُن سے بے تکلفی تھی کیونکہ وہ ہمارے ہاں کام کرتے رہے تھے۔ مَیں نے ان کو بلایا اور کہا میاں قدرت اللہ صاحب! مَیں آپ کے سپرد ایک کام کرنا چاہتا ہوں مگر وہ کام ذرا جلدی کرنے والا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں بیسیوں مہمان آتے رہتے ہیں اور ہمارا قافلہ بھی بہت بڑا ہے۔ باورچی نے یہ اطلاع دی ہے کہ کل صبح آٹا ختم ہو جائے گا۔ آپ گندم کی دو بوریاں اُٹھوا کر لے جائیں اور کسی خراس سے پِسوا لائیں۔ پھیرو چیچی کے اِردگرد کئی خراس ہیں آپ کے سپرد مَیں یہ کام اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ واقف ہیں یہ کام ذرا جلدی کر لیں گے۔ بہرحال آج شام تک یہ کام ہو جانا چاہئے کیونکہ کل صبح ہمیں آٹے کی ضرورت ہو گی۔ وہ بوریاں اُٹھوا کر لے گئے اور مجھے یہ بات بھول گئی۔ دوسرے دن شام کو باورچی نے کہلا بھیجا کہ آج صبح اور شام کے لئے تو ہم نے آٹا مانگ کر گزارہ کر لیا ہے مگر آخر یہ حالت کب تک چلے گی۔ ایک وقت میں 25،30 سیر آٹا پکتا ہے اور گاؤں میں سے اتنا آٹا میسر آنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگوں نے گھروں میں چکیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں او روہ اتنا آٹا ہی پیستے ہیں جتنی ان کو ضرورت ہوتی ہے زیادہ ذخیرہ اپنے پاس نہیں رکھتے۔ اس لئے ہمیں دقّت پیش آ رہی ہے۔ گاؤں سے مسلسل اتنا آٹا مل نہیں سکتا اور اپنا آٹا اب تک نہیں پہنچا۔ مَیں نے ایک آدمی کو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ میاں قدرت اللہ صاحب کہاں گئے ہیں۔ وہ گندم کی دو بوریاں اُٹھوا کر لے گئے تھے مگر اب تک واپس نہیں آئے۔ خدا کرے خیر ہو۔ آدمی گیا اور اس نے واپس آ کر کہا کہ میاں قدرت اللہ صاحب ملے نہیں۔ مَیں نے کہا خیر ہو شاید آج رات تک پہنچ جائیں۔ وہ دن بھی گزرا تو تیسرے دن باورچی نے پھر شکایت کی کہ اس وقت بھی ہم نے آٹا قرض لے کر پکایا ہے مگر گاؤں والے آخر کب تک ہمیں آٹا مہیا کر سکیں گے۔ اس پر پھر میاں قدرت اللہ صاحب کی تلاش کی گئی تو وہ اپنے گھر میں ملے۔ باہر سے آدمی نے اُن کو آوازیں دینی شروع کیں کہ میاں قدرت اللہ صاحب! میاں قدرت اللہ صاحب! آپ اندر بیٹھے ہیں اور وہاں شور پڑا ہؤا ہے کہ آٹا نہیں، آپ بوریاں اُٹھوا کر لائے تھے اور آپ کو کہا گیا تھا کہ جلدی آٹا پِسوا کر لائیں مگر آپ نے کچھ خبر ہی نہیں دی کہ آخر ہؤا کیا۔ ہم لوگ گاؤں والوں سے قرض لے کر آٹا کھا رہے ہیں۔ کسی سے پانچ سیر لیا ہے، کسی سے تین سیر لیا ہے، کسی سے دو سیر لیا ہے، اِس طرح دو دن ہمیں لوگوں سے آٹا مانگتے گزر گئے ہیں اور آپ ابھی تک واپس نہیں پہنچے۔ انہوں نے اندر سے ہی آواز دی کہ فکر تو مجھے بھی بہت ہے اور پھر پنجابی میں یہ فقرہ کہا کہ ‘‘اسیں غور کر رہے ہاں کہ کِتّھے پِسوائیے’’۔ یعنی ابھی ہم یہی غور کر رہے ہیں کہ دانے کہاں سے پِسوائے جائیں حالانکہ ان سے پچاس گز پر کئی پَن چکیاں تھیں اور وہ اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے آٹا پِسوا سکتے تھے۔ مگر انہوں نے اس غور میں دو تین دن گزار دئیے کہ آٹا اِس پر پِسوائیں یا اُس پر پِسوائیں۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو مَیں نے کہا انہیں غور کرنے دو۔ وہ تو ہمارے جانے کے بعد بھی اس پر غور کر کے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ سرِ دست کوئی اَور آدمی چلا جائے اور آٹا پِسوا لائے۔ چنانچہ آدمی گیا اور آٹا پِسوا کر لے آیا۔ یہ بھی ویسا ہی غور ہے جیسا میاں قدرت اللہ صاحب مرحوم کا غور تھا۔ مگر اُس غور میں تو کوئی زیادہ حرج نہیں تھا کیونکہ گاؤں والوں سے آٹا مل جاتا۔ وہاں احمدیوں کا سو دو سو گھر ہے اگر دو دو چار چار سیر آٹا بھی ایک ایک گھر سے قرض لیا جاتا تو چار پانچ دن تک گزارہ ہو جاتا۔ بعد میں اپنا آٹا آجاتا تو لوگوں سے مانگا ہؤا آٹا انہیں واپس کیا جا سکتا۔ لیکن اگر ہمیں گاؤں والوں سے آٹا نہ مل سکتا تب بھی کیا ہوتا؟ یہی ہوتا کہ ایک دو وقت کا فاقہ آ جاتا اور فاقہ ایسی چیز نہیں جو انوکھی ہو۔ دنیا میں اَور بھی کئی لوگ فاقہ کرتے ہیں۔ مگر یہ کام ایسا نہیں کہ اگر اس کے متعلق ہمارا غور لمبا ہو جائے تو بعد میں اس سے پیدا شدہ نقصانات کا ازالہ ہو سکے یا ان نقصانات کو برداشت کیا جا سکے۔
ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہماری حالت اِس وقت بتیس دانتوں میں زبان کی طرح ہے۔ اور ہماری تھوڑی سی غفلت ہمارے کاموں کو اس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے کہ بعد میں ہمارے لئے اس کا ازالہ بالکل ناممکن ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دفعہ غور اتنا لمبا چلا جاتا ہے کہ کام کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہم امور میں غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ غور کا سلسلہ ختم ہی نہ ہو اور قومی کاموں کو نقصان پہنچ جائے۔ مگر عام طور پر لوگوں میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی بات ہو وہ کہتے ہیں ہم غور کر رہے ہیں اور پھر وہ وقت کبھی آتا ہی نہیں جب ان کے غور کا سلسلہ ختم ہو۔ گویا یہ ایک ایسا لفظ ہے جو بظاہر تو نہایت اچھا ہے لیکن جس مفہوم میں لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں وہ نہایت گندہ ہے۔ وہ الفاظ ایسے استعمال کرتے ہیں جو طبیعت پر نیک اثر ڈالنے والے ہوتے ہیں اور سننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے مدبر ہیں، انہیں غور اور فکر کی بڑی عادت ہے لیکن ان کا اصل مقصد کچھ اَور ہوتا ہے اور وہ اس اچھے اورنیک لفظ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی شخص نماز پڑھا کرتا تھا ۔ ایک دن اس سے کسی نے پوچھا کہ تم نماز کیوں پڑھتے ہو؟ اس نے کہا مَیں نماز اس لئے پڑھتا ہوں کہ سجدہ میں ہوا اچھی طرح خارج ہو جاتی ہے۔ جس طرح اس شخص نے ایک اچھا لفظ اپنے لئے اختیار کر لیا تھا کہ مَیں نماز پڑھتا ہوں لیکن دراصل اس کا مقصد نماز سے تمسخر اور استہزا تھا۔ اسی طرح عام طور پر غور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے معنے غور کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے سستی اور غفلت، بے توجہی اور عدمِ اعتنائی کے ہوتے ہیں۔ لیکن لفظ غور و فکر کا استعمال کیا جاتا ہے تا سننے والے سمجھیں کہ یہ لوگ بڑے نیک ہیں، بڑا غور اور فکر کرتے ہیں حالانکہ اس کے اصل معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہے۔
امام ابو حنیفہؒ ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کسی نے ایسی نصیحت کی ہے جس سے آپ کو فائدہ ہؤا ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ایسی نصیحت کی کہ ساری عمر مجھے وہ نصیحت نہیں بھول سکتی۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا نصیحت تھی۔ جس نے آپ کو فائدہ دیا؟ انہوں نے فرمایا مَیں ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہا تھا، بارش ہو رہی تھی کہ ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا دوڑتا ہؤا میرے پاس سے گزرا۔ مَیں نے اسے کہا بچے! ذرا آرام سے چلواگر پھسل گئے تو چوٹ لگے گی۔ میری یہ بات سن کر وہ بچہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا او رمجھے پہچان کر کہا۔ حضور! آپ آرام سے چلئے۔ مَیں پھسل گیا تو کوئی بڑی بات نہیں ایک معمولی لڑکا ہوں پھسلا تو ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی۔ لیکن اگر آپ پھسلے تو ساری اُمت پھسل جائے گی اُس کا مطلب یہ تھا کہ آپ احتیاط سے فتویٰ دیا کریں۔ اگر آپ کوئی علمی غلطی کر بیٹھے تو لاکھوں آدمیوں کو نقصان پہنچ جائے گا۔ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا اُس بچہ کی یہ بات مجھے آج تک نہیں بُھولی کہ امام صاحب! آپ احتیاط سے چلیں، آپ پھسلے تو ساری امت پھسل جائے گی۔
ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے دین کی محافظ ہے۔ اگر ہم پھسلے تو عالمِ اسلام کی تمام عمارت پھسل جائے گی، آسمان پھسل جائے گا، زمین پھسل جائے گی اور ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی اس کوتاہی کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو سستی اور غفلت سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ خصوصاً کارکنوں کو مَیں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں ان لسٹوں کی تیاری میں پوری محنت اور تندہی سے کام لینا چاہئے۔ چونکہ الیکشن کی لسٹیں باہر بھی تیار ہو رہی ہیں۔ اس لئے قادیان سے باہر کی جماعتوں کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے علاقوں میں کونسلوں کے انتخاب کے لئے جو نئی لسٹیں بن رہی ہیں وہ انہیں احتیاط اور توجہ سے بنوانی چاہئیں اور اس بارہ میں وقت کی جس قدر قربانی کی ضرورت ہو وہ انہیں قربان کرنا چاہئے۔ مجھے تعجب ہے کہ ابھی گزشتہ دنوں صدر انجمن احمدیہ کے ایک ادارہ سے انتخابات کے کام کے لئے ایک آدمی مانگا گیا تو اس نے آدمی دینے سے انکار کر دیا۔ میری ایک بیوی اس سال امتحان دے رہی ہیں۔ 15 جون کو ان کا امتحان ہونے والا ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ کام کرنا صرف تمہارے سپرد نہیں اور لوگوں کا بھی فرض ہے کہ کام کریں۔ تم اس وقت چھٹی لے لو کیونکہ تمہارا امتحان قریب ہے۔ ان کی جگہ اتفاقاً ایک استانی مقرر کی گئیں۔ اس پر محکمہ کو لکھا گیا کہ فلاں استانی کو کچھ دنوں کے لئے فارغ کر دیا جائے کیونکہ ان سے سلسلہ کا ایک اور ضروری کام لینا ہے۔ محکمہ نے جواب دیا کہ ہم اس استانی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ میرے نزدیک اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے افسر خود اس قابل ہیں کہ ان کو فارغ کر دیا جائے۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ قومی کام کیا ہوتا ہے اور وہ کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہم افسر ہیں اور ہماری مرضی ہے کہ ہم لوگوں سے جو چاہیں کام لیں۔ چاہے وہ مرضی ایسی ہی ہو جیسے آبِ زمزم میں پیشاب کرنے والے نالائق کی مرضی تھی۔ اس قسم کے لوگ اپنی گندی ذہنیتوں سے دوسروں کو بگاڑنے کا موجب ہوتے ہیں اور بالا افسران اور صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہے کہ ان کی اصلاح کریں۔ وہ ایسے پھوڑے ہیں جو چِیر کر درست کرنے کے قابل ہیں۔ قومی کاموں میں ہمیشہ بڑے کام کے مقابلہ میں چھوٹے کام کو قربان کیا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اصل ہے جو ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنے مدنظر رکھتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں سارے کام لوگ کرتے چلے جاتے تھے اور کبھی وہ یہ سوال نہیں اٹھاتے تھے کہ یہ کام ہم کیوں کریں، ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ہمیں جو کچھ کہا جاتا ہے سلسلہ کے لئے کہا جاتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو سر انجام دیں۔ آخر غور کرنا چاہئے کہ کیا اس زمانہ میں ہیڈ ماسٹروں کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہمارا نتیجہ اچھاہو، یا کیا اس زمانہ کے ہیڈ ماسٹروں اور افسروں کے دل پتھر کے تھے؟۔ اور آجکل کے ناظر اور ہیڈ ماسٹر اور مدرّس بڑے نرم دل ہیں جن کو کوئی ٹھیس نہیں لگنی چاہئے؟ ان کا نتیجہ اگر خراب نکلتا تھا تو بے شک نکلتا لیکن آجکل کے ہیڈ ماسٹروں اور مدرّسوں کا نتیجہ خراب نہیں نکلنا چاہئے۔ یقیناً جو کچھ پہلوں نے کیا وہ بُرا نہیں تھا بلکہ اچھا تھا اور جو شخص اس طریق سے ہٹتا ہے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ پہلوں کے دلوں میں فرشتہ بیٹھا تھا لیکن اس کے دل میں شیطان آ گُھسا ہے۔ او رہمارا فرض ہے کہ اگر ہم دیکھیں کہ کسی شخص کے دل میں شیطان گُھس گیا ہے، اُس کی ملّی اور مذہبی روح کمزور ہو گئی ہے اور انفرادیت کی روح اس میں ترقی کر رہی ہے تو اس خرابی کا سر کچلنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ جب کسی قوم کے افراد میں انفرادیت کی روح ترقی کر جاتی ہے اور انتظامی روح کمزور ہو جاتی ہے تو وہ پراگندہ ہو جاتے ہیں اور ان کی کچھ بھی وقعت باقی نہیں رہتی۔ پس مَیں ناظر اعلیٰ اور صدر انجمن احمدیہ کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کی روح کی اصلاح کریں۔ اب صرف آٹھ دس دن باقی ہیں ۔ اگر ہر محکمہ اسی قسم کا رویہ دکھائے تو کام کس طرح چلے۔ تب تو چاہئے کہ سو ڈیڑھ سو کارکن صرف ہنگامی کاموں کے لئے رکھے جائیں جن سے یہ کام لیا جائے۔ پس یا تو صدر انجمن احمدیہ ایسا ریزولیوشن پاس کرے کہ سو ڈیڑھ سو کارکنوں کو ہنگامی کاموں کے لئے رکھا جاتا ہے۔ وہ اَور دنوں میں فارغ رہیں گے لیکن جب ہنگامی طور پر کوئی ضرورت پیش آ جائے گی تو ان سے کام لیا جائے گا۔ ورنہ انجمن اپنے افسروں کی ذہنیت کو بدلے جو سلسلہ کا کام پیش آنے پر یہ جواب دے دیتے ہیں کہ ہم اس کام کے لئے کسی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ سلسلہ کے کام کا تو ہر شخص ذمہ دار ہے کُجا یہ کہ وہ شخص جو سلسلہ سے روٹی لے کر کھاتا ہو وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار نہ سمجھے۔ اگر دوسرے لوگ سلسلہ کے کاموں کے ذمہ دار ہیں تو وہ لوگ جو سلسلہ سے تنخواہ لے کر روٹیاں کھاتے ہیں وہ کیوں ذمہ دار نہیں۔ کیا یہ بات کسی معقول انسان کے ذہن میں آ سکتی ہے کہ ایک تاجر تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک مزدور تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک لوہار تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے، ایک ترکھان تو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار ہے مگر وہ لوگ جن کی روٹی انجمن کے خرچ پر چلتی ہے وہ اس کے کاموں کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ یقیناً کوئی شخص ایسی غیر معقول بات تسلیم نہیں کر سکتا۔ لیکن پھر بھی ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ انجمن کے بعض اپنے آدمی سلسلہ کے کام نہیں کرتے تو اُن کو ٹھوکر لگ جاتی ہے اور وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب انجمن والے یہ کام نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں۔ گو اُن کا یہ جواب ان کی بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ انجمن خدا نہیں۔ اگر انجمن ساری کی ساری مرتد ہو جائے، اگر انجمن ساری کی ساری گمراہ ہو جائے، اگر انجمن ساری کی ساری بے دین ہو جائے تب بھی ہم کہیں گے کہ ہمیں اس کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ ہم کہیں گے کہ جہاں دس شیطان پہلے موجود تھے وہاں بیس شیطان اَور پیدا ہو گئے ہیں۔ بہرحال اگر ہمارا خداتعالیٰ سے تعلق ہے تو ہمیں انجمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی۔ مومن اکیلا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ایک بڑھئی سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ ،ایک ڈاکٹر سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ اور ایک لوہار سلسلہ کے کاموں کا ویسا ہی ذمہ دار ہے جیسے صدر انجمن احمدیہ۔ پس ہمیں اس کی تو پروا نہیں ہونی چاہئے کہ انجمن کیا کرتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمزور دل لوگ اس کو بہانہ بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب صدر انجمن احمدیہ فلاں کام نہیں کرتی تو ہم کیوں کریں۔ اس قسم کے بیماروں کو بچانے کے لئے اگر صدر انجمن احمدیہ بعض آدمیوں میں یہ نقص دیکھتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم سلسلہ کے فلاں کام کے ذمہ دار نہیں تو اسے اپنے ان ساتھیوں کی دماغی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ دوسروں کے لئے کسی فتنہ کا موجب بن جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سب لوگ برابر ہیں لیکن اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایک بڑا شخص بُرا نمونہ دکھلائے گا تو اس کا بد اثر دوسروں پر بھی پڑے گا اور وہ بھی عمل میں سُست ہو جائیں گے۔ مثلاً نماز کے متعلق جس طرح ایک باپ خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہے اسی طرح ایک بیٹا خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر باپ نماز پڑھنے میں سُست ہو گا تو بیٹا بھی لازماً سُست ہو جائے گا۔ یوں خدا تعالیٰ کے سامنے دونوں ذمہ دار ہیں۔ باپ بھی ذمہ دار ہے اور بیٹا بھی ذمہ دار ہے۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں، باپ بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے اور بیٹا بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے۔ لیکن باپ سُست ہو گا تو بیٹا بھی ضرور سُست ہو جائے گا۔ یا مثلاً خدا تعالیٰ کے سامنے جس طرح ایک ماں شرعی امور کے متعلق جواب دِہ ہے اسی طرح بیٹی خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہے۔ ماں بھی خدا تعالیٰ کی بندی ہے او ربیٹی بھی خدا تعالیٰ کی بندی ہے لیکن اگر ماں سُست ہو گی تو بیٹی پر بھی اس کا ضرور اثر پڑے گا اور وہ بھی نماز روزہ میں سُست ہو جائے گی۔ پس انجمن کو اپنے کارکنوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اگر ان میں قومی روح نہیں ہو گی تو گو مومنوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ وہ کہیں گے انجمن جو چاہے کرے ہم خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار ہیں لیکن کمزور لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ جب یہ لوگ جو اس کام پر خاص طور پر مقرر ہیں فلاں کام نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں۔ ان کا یہ فقرہ تو بے ایمانی کا ہو گا مگر یہ بے ایمانی ایسی ہو گی جو اپنے اندر وسعت رکھتی ہے۔ پہلے ایک شخص بے ایمان ہو گا پھر دو شخص بے ایمان ہوں گے۔ پھر دس اور بیس بے ایمان ہوں گے۔ پس صدر انجمن احمدیہ کو اپنے کارکنوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ایسے ہنگامی کاموں کے وقت دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ صورت ہو سکتی ہے کہ انجمن بڑا وسیع عملہ رکھے اور سو ڈیڑھ سو کارکن صرف ہنگامی ضروریات کے لئے مہیا کرے۔ اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر دوسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ ہر وقت یہ امر اپنے مدنظر رکھے کہ ایسے ہنگامی کاموں او راہم قومی ضروریات کے لئے اگر آدھے یا دو تہائی آدمی بھی کسی وقت فارغ کرنے پڑیں تو بے شک فارغ کر دئیے جائیں اور جو لوگ باقی رہیں وہ دوسروں کا بوجھ اُٹھا لیں۔ دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ ایک زمیندار گھر میں دو آدمی ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک ہل چلاتا ہے اور دوسرا جانوروں کے لئے چارہ وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔ اگر کسی وقت چارہ کا انتظام کرنے والابیمار ہو جاتا ہےتو دوسرا شخص ہل بھی چلاتا ہے اور چارے کا بھی انتظام کرتا ہے۔ اسی طرح اگر دو ہالی ہوں اور ان میں سے ایک بیمار ہوجائے تو عارضی طو رپر دوسرا شخص اپنے اوپر زائد بوجھ ڈال لیتا ہے۔ اپنا ہل بھی چلاتا ہے اور دوسرے کی زمین میں بھی ہل چلاتا ہے۔ اسی طرح ہسپتال میں بعض دفعہ ڈاکٹر بیمار ہو کر آٹھ دس دن کی رخصت پر چلا جاتا ہے تو کمپونڈر(Compounder) اس کی جگہ کام کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر کمپونڈر بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر اس کا کام سنبھال لیتا ہے۔ یہی طریق دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور ہر محکمہ میں یہی ہوتا ہے کہ اگر بیماری یا کسی ہنگامی ضرورت کی وجہ سے ایک دو کارکن چند دنوں کے لئے چلے جائیں تو باقی کارکن ان کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ جب ہر محکمہ میں ایسا ہوتا ہے تو کیامدرّس ایسا نہیں کر سکتے؟ اگر ان میں نیکی اور تقویٰ ہو اگر ملّی اور مذہبی کاموں کو بخوشی سر انجام دینے کی روح ان میں پائی جاتی ہو تو یہ ہرگز کوئی ایسی بات نہیں جس پر ان کے دلوں میں اعتراض پیدا ہو۔ وہ اپنے آدمیوں میں سے ایک دو کو فارغ کر سکتے ہیں اور اس کی جگہ خود کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہسپتال میں اگر ایک ڈاکٹر آٹھ دس دن کی چُھٹی پر چلا جاتا ہے تو کمپونڈر اس کا کام سنبھال لیتے ہیں۔ کمپونڈر چلا جائے تو ڈاکٹر اس کی جگہ کام کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہل چلانے والا بیمار ہو جاتا ہے تو دوسرا شخص جو چارہ لانے کا کام کیا کرتا تھا وہی ہل بھی چلاتا ہے اور چارہ بھی لاتا ہے اُسی طرح مدرّسوں میں بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر چند مدرّس ہنگامی ضروریات کے لئے فارغ کرا لئے جائیں تو باقی مدرّس ان کا بوجھ اٹھا لیں اور کام کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔ آخر مدرّس سارا وقت کام نہیں کرتے زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے کام کرتے ہیں اور باقی وقت فارغ رہتے ہیں۔ اگر چند دنوں کے لئے انہیں دو چار مدرّسوں کی جگہ چار گھنٹہ کی بجائے چھ گھنٹہ بھی کام کرنا پڑے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ جو شخص تین گھنٹے کام کرتا ہے وہ چار گھنٹے بھی کام کر سکتا ہے اور جو چار گھنٹے کام کرتا ہے وہ پانچ گھنٹے بھی کام کر سکتا ہے اور کسی قسم کا حرج واقع نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہ ساری باتیں ہو سکتی ہیں مگر نیت بخیر ہونی چاہئے۔ جب نیت درست ہو تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فلاں ناظر نے کیا کیا یا فلاں نائب ناظر یا افسر صیغہ یا ہیڈ ماسٹر نے کیا کیا۔ انسان سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے میں ذمہ دار ہوں۔ مجھے اس امر کی کیا پروا ہے کہ زید نے کیا کیا یا بکر کیا کر رہا ہے۔ لیکن جب نیت خراب ہو جائے تو ایمان خراب ہو جاتا ہے اور پھر ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ پیچھے ہٹتے ہٹتے وہ جہنم میں جا پڑتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں جب ایمان مضبوط ہو تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو آپ محسوس کرتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میرا دوسرا ساتھی غفلت اور کوتاہی سے کام لے رہا ہے تو بجائے طعنہ زنی کرنےا ورہنسی مذاق سے کام لینے کے وہ آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کا کام ہے۔ مَیں نے اس کام کو بگڑنے نہیں دینا۔ تب وہ خود ذمہ دار بن کر کام کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ میدانِ جنگ میں کرنیل مارا گیا تو میجر نے کمان سنبھال لی۔ میجر مارا گیا تو کیپٹن نے کمان سنبھال لی، کیپٹن مارا گیا تو لیفٹیننٹ نے کمان سنبھال لی۔ لیفٹیننٹ مارا گیا تو صوبیدار نے کمان سنبھال لی، صوبیدار مارا گیا تو جمعدار نے کمان سنبھال لی حالانکہ جمعداروں کی فوجی لحاظ سے کوئی خاص تربیت نہیں ہوتی مگر بیسیوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ جمعداروں نے فوج کی کمان سنبھال لی اور وہ بڑی حفاظت سے اس کو واپس لے آئے۔ اسی طرح مومنوں میں سے جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں اور مرکزی کاموں پر مقرر ہیں وہ اگر اپنے کاموں میں کوتاہی کریں تو پھر ہر ادنیٰ سے ادنیٰ مومن کا فرض ہے کہ وہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے دین کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر حجت تمام کرنے کے لئے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کو اَن پڑھ رکھا ہے۔ ورنہ کیا خدا تعالیٰ میں طاقت نہیں تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی دنیوی تعلیم دلاتا کہ کوئی شخص ظاہری تعلیم میں بھی آپؐ کا مقابلہ نہ کر سکتا؟ یا کیا خدا تعالیٰ میں طاقت نہیں تھی کہ وہ آپ کو بڑا مالدار بنا دیتا؟خدا تعالیٰ یہ سب کچھ کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بتانے کے لئے کہ کبھی اسلام کے کاموں میں یہ عذر نہ کرنا کہ ہم پڑھے لکھے نہیں۔ تمہارا رسول جو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اور جو اولین و آخرین کا سردار تھا وہ بھی اَن پڑھ تھا۔ جب اس نے اَن پڑھ ہو کر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا تو تم اَن پڑھ ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیوں نہیں کر سکتے۔
پس دینی کاموں میں کبھی یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ مجھ سے بالا آدمی کیا کرتا ہے۔ مومن ہر ایک بالا ہوتا ہے اور مساوات کے معنے بھی یہی ہیں۔ چنانچہ نمازوں میں یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ اور گدا، امیر اور غریب سب ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی سبق سکھایا ہے کہ جب ضرورت پیش آ جائے اس وقت تمہیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ فلاں بڑا آدمی کیا کام کر رہا ہے۔ ہم نے بڑے اور چھوٹے کا امتیاز اپنی مسجد میں نہیں رکھا۔ اس لئے اگر ایک ایسا شخص جو تمہیں بظاہر بڑا نظر آتا ہے دین کے کاموں میں کوتاہی کرتا ہے تو تم جو بظاہر چھوٹے سمجھے جاتے ہو تمہارا فرض ہے کہ اس بوجھ کو اٹھا لو اور اسلام کے جھنڈے کو نیچا نہ ہونے دو۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور انہیں کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر یا نائب ناظر یا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹرس وغیرہ کیا کرتے ہیں۔ اگر وہ کام کریں تو اچھی بات ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری عمدگی سے ادا کرتےہیں تو ہمارے بھائی ہیں۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو وہ ہمارے نزدیک ویسے ہی ہیں جیسے غیر لوگ۔ ہمارا ان سے اتنا ہی تعلق اور پیار ہے جتنا ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ پایا جاتا ہے۔ اگر کسی وقت تقویٰ ان کے دلوں سے نکل جاتا ہے اور خشیت اللہ کی روح ان میں نہیں رہتی تو دوسرے لوگوں کو چاہئے کہ وہ دین کا کام خود سنبھال لیں اور چاہے کچھ ہو جائے سلسلہ کے کسی کام میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں۔ کیونکہ دین کے کام میں رخنہ پیدا ہونا مومن کی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ وہ بہرحال خدا تعالیٰ کے کام کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا چاہے اس کوشش میں اس کی جان چلی جائے۔’’ (الفضل 15 جون 1946ء )



21
کیا تم آنے والی جنگ کے لئے تیاری کر رہے ہو؟
(فرمودہ14 جون 1946ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا میں لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی بڑی بڑی تیاریاں کرتے ہیں تب جا کر اُنہیں تسلی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ ایک دفعہ قادیان سے میاں شریف احمد صاحب جو میرے چھوٹے بھائی ہیں شکار کے لئے یوپی گئے۔ وہاں ایک احمدی آفیسر تھے۔ ضمنی طور پر مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ان کے بڑے لڑکے جو اس وقت فوج میں کیپٹن ہیں ایک ابتلاء میں ہیں اور دعا کے لئے لکھ رہے ہیں۔ جن دوستوں کو توفیق ملے وہ ان کے لئے ضرور دعا کریں۔ وہ ایک جگہ تبدیل ہو کر گئے تھے وہاں پہلے ایک پارسی آفیسر تھا۔ جس نے بہت کچھ غبن کر لیا تھا۔ ان کے چارج لینے کے بعد اس نے ان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے غبن کیا ہے۔ بہرحال حقیقت ایک حد تک کھل گئی کیونکہ اس کی پہلی رپورٹیں ایسی نکل آئیں جو ان کی آمد سے پہلے کی تھیں اور جن میں اس نے مال میں کمی کو تسلیم کیا ہؤا تھا۔ اِسی لئے گورنمنٹ نے ان پر مقدمہ نہیں چلایا بلکہ پارسی افسر پر مقدمہ چلایا ہے۔ لیکن پھر بھی جب تک پوری طرح صفائی نہ ہو جائے وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خطرہ سے انہیں محفوظ رکھے۔ ان کے والد ایک نہایت ہی مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے میاں شریف احمد صاحب کو دعوت دی کہ آپ شکار کے لئے ہمارے ہاں آئیں۔ چنانچہ میاں شریف احمد صاحب ان کی دعوت پر شکار کے لئے گئے ۔ گرمیوں کا موسم تھا، انہوں نے جاتے ہی کہا کہ چلئے شکار کھیلیں۔ انہوں نے کہا شکار اِس طرح تھوڑا کیا جاتا ہے آپ ذرا صبر کیجئے، پہلے پوری طرح تیاری کر لیں پھر شکار کے لئے بھی چل پڑیں گے اس میں جلدی کی کونسی بات ہے۔ چنانچہ ایک دو دن انہوں نے تیاری میں لگا دئیے۔ آخر میاں شریف احمد کے اصرار پر وہ شکار کے لئے نکلے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ رتھیں تیار کی گئیں، ان میں برفیں رکھی گئیں، پھلوں کے ٹوکرے لادے گئے، کھانوں کے بہت سے توشہ دان رکھے گئے اور پھر وہ ایک رتھ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور شکار کے لئے قافلہ چل پڑا۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ جنگل میں سے کھانوں اور مختلف قسم کے ساز و سامان سے آراستہ رَتھیں گزر رہی ہیں، پان لگتے جا رہے ہیں، برفوں سے ٹھنڈے کئے ہوئے پھل کھائے جا رہے ہیں او رمقصد یہ ہے کہ شکار کیا جائے۔ میاں شریف احمد صاحب نے ان سے کہا کہ یہ دعوت ہوئی یا شکار ہؤا؟ وہ کہنے لگے وہ بھی کیا شکار ہے کہ ٹانگیں تڑوا کر انسان شام کو واپس آ جائے اور نہ کچھ کھائے نہ پئے۔ اب دیکھو یہ نتیجہ تھا اس احساس کا جو ان کے اندر پایا جاتا تھا کہ اگر ہم نے شکار کے لئے جانا ہے تو شکار پر جانے سے پہلے ہمیں اس کے لئےتیاری بھی کرنی چاہئے۔ جب کسی انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے تو وہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی تیاری شروع کر دیتا ہے اور یہی روح اسے بڑے کاموں کے لئے بھی مختلف قسم کی تیاریوں پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس دوران میں مجھے انہی کا ایک اَور واقعہ بھی یاد آ گیا۔ وہ ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عُہدہ پر جا پہنچے تھے اور گورنمنٹ کی طرف سے ایک ریاست کے منتظم مقرر ہوئے تھے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب گورنمنٹ نے مجھے کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ (Criminal Law Amendment Act)کے ماتحت نوٹس دیا تھا۔ مَیں نے اس نوٹس کے متعلق اپنے خطبات میں اظہارِ نفرت کیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ گورنمنٹ ہم سے یہ ظالمانہ سلوک اس لئے کر رہی ہے کہ ہماری جماعت چھوٹی ہے۔ اور وہ سمجھتی ہے کہ ہم اس جماعت سے جو سلوک بھی کر لیں وہ جائز ہے کیونکہ یہ جماعت ہم سے بدلہ لینے کی قوت نہیں رکھتی۔ لیکن گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو ہم اس سے بدلہ نہیں لے سکتے لیکن ہمارا خدا اس سے بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اس لئے گورنمنٹ کو یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا۔ بے شک ہمارے پاس توپیں نہیں لیکن خدا دوسروں کی توپیں اُن کی طرف پھیر دے گا اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایک بیکس جماعت کو ستانا اور اس پر ظلم کرنا کتنی خطرناک بات ہے۔ چنانچہ اس کے چند سال بعد ہی جرمنی نے جنگ شروع کر دی اور خدا تعالیٰ نے ہمارا بدلہ لینے کے لئے دوسری قومیں انگریزوں سے لڑوا دیں۔ پھر مَیں نے اپنی جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فعل یونہی نہیں۔ گورنمنٹ محسوس کرتی ہے کہ یہ ایک منظم جماعت ہے اور اس کے بڑھ جانے سے کئی قسم کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور گو یہ حماقت اور نادانی کا احساس ہے لیکن بہرحال گورنمنٹ میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ایسا نہ ہو یہ جماعت بڑھ جائے اور ہمارے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا ہو جائے۔ اس وقت ہمارے یہ عزیز دوست جو اَب فوت ہو چکے ہیں ایک ریاست کے افسر تھے گویا نواب کے قائم مقام تھے اور گورنمنٹ کی طرف سے اس کام پر مقرر کئے گئے تھے ۔ جب مَیں نے یہ خطبہ پڑھا ہے اس وقت وہ دورہ پر گئے ہوئے تھے اور جیسے مَیں نے ان کے شکار کی کیفیت بتائی ہے ویسی ہی کیفیت ان کے دورہ کی ہؤا کرتی تھی۔ چونکہ وہ ایک اچھے خاندان میں سے تھے اور ان کے والد بھی بڑے زمیندار تھے اور بڑا زمیندار ہونے کی وجہ سے جو تعیُّش اور راحت و آرام کے سامان یو۔پی میں ہوتے ہیں ایک پنجابی زمیندار ان کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں اصلی ریاست ہوتی ہے اور بڑے زمیندار ایک قسم کے راجے سمجھے جاتے ہیں۔ بڑے تکلّف سے وہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر قسم کے عیش کے سامان ان کو میسر ہوتے ہیں۔ بچپن میں وہ ایک بڑے زمیندار کے گھر میں پلے تھے اور ہرقسم کے آرام کے سامان ان کو حاصل تھے۔ پھر گورنمنٹ سروس میں آئے تو پہلے ای۔اے۔ سی بنے پھر ڈپٹی کمشنر کے عہدہ کے برابر کام کرتے رہے اورپھر ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے ۔ لیکن پیشتر اس کے کہ چارج لیتے مشیتِ ایزدی کے ماتحت فوت ہو گئے۔ جب میرا خطبہ شائع ہؤا ہے اس وقت وہ اس ریاست کا دورہ کر رہے تھے جس کے وہ افسر تھے اور جیسے ریاستیوں کا دستور ہوتا ہے کہ بہت سے فوجی سپاہی ساتھ ہوتے ہیں، پہرہ دار ساتھ ہوتے ہیں، دفتر کا عملہ ساتھ ہوتا ہے، خیمے ساتھ ہوتے ہیں اور پھر جنگلوں میں خیمے لگتے اور آفیسر اردگرد پھیل جاتے ہیں اِسی طرح وہ بھی بہت بڑے عملہ اور سپاہیوں اور پہرہ داروں کےساتھ ریاست کا دورہ کر رہے تھے۔ جب دن بھر کے کام سے فارغ ہو کر وہ شام کے قریب اپنے خیمہ میں آئے اور انہوں نے ڈاک دیکھی تو میرا خطبہ ان کی نظر سے گزرا۔ انہوں نے خود مجھے لکھا کہ رات کے وقت مجھے آپ کا خطبہ پہنچا اور جب مَیں نے اسے پڑھا تو مجھے نہایت ہی ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی کہ ساری عمر تو مَیں نے آرام اور آسائش میں گزار دی ہے اب اسلام کے لئے قربانی کرنے کا وقت آیا ہے تومیرے جیسا آرام پسند انسان کدھر جائے گا۔ وہ کہتے ہیں اس خیال کے آنے پر مجھ پر کرب کی حالت طاری ہو گئی اور مَیں بے تاب ہو گیا کہ کہیں اس امتحان میں مَیں بے ایمان ثابت نہ ہو جاؤں۔ اس وقت مَیں نے اپنے نفس سے کہا کہ ابھی امام کی طرف سے کوئی آواز تو نہیں آئی لیکن مجھے اس کے لئے تیاری تو شروع کر دینی چاہئے۔ پھر مَیں نے سوچا کہ مَیں کیا کام کر سکتا ہوں اور کونسا ذریعہ ہے جس سے مَیں اپنے نفس کو مارنے کا کام لے سکتا او رتکلیف برداشت کر سکتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ اگر مَیں لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتا تو کم از کم پہرہ تو دے سکتا ہوں مجھے اسی کی مشق کرنی چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے بندوق اٹھائی اور اپنے خیمہ کے اردگرد ساری رات پہرہ دیتا رہا۔ اس وقت جتنے افسر اور سپاہی وہاں موجود تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مَیں اپنے خیمہ کے اردگر د پہرہ دے رہا ہوں تو انہوں نے سمجھا کہ مَیں پاگل ہو گیا ہوں۔ چنانچہ ساری ریاست میں یہ بات پھیل گئی کہ فلاں افسر پاگل ہو گیا ہے۔ تو دیکھو یہ ایک حِس تھی جو ان میں کام کر رہی تھی۔ وہ شکار پر جانے کے لئے بھی تیاری کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ شکار ہی کیا ہؤا جس کے لئے انسان کوئی تیاری نہ کرے اور شام کو تھکا ماندہ واپس آ جائے۔ یہ عادت اس وقت بھی ان کے کام آ گئی جب انہوں نے امام کی آواز سنی کہ جماعت کے لئے قربانی کا وقت قریب آ گیا ہے تو انہوں نے سمجھاکہ کوئی کام بغیر تیاری کے نہیں ہو سکتا۔ مجھے ابھی سے اس کے لئے تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ چنانچہ وہ شخص جس کے لئے دوسرے لوگ خود پہرہ دے رہے تھے ، جس کے اردگرد بیسیوں پولیس کے افسر موجود تھے آپ بندوق پکڑ کر خیمہ کے اردگرد ساری رات پہرہ دیتا رہا۔واقع یہ ہے کہ کوئی کام تیاری کے بغیر ہو نہیں سکتا۔
مَیں نے جماعت کو متواتر اور بار بار توجہ دلائی ہے کہ آخر ہمارے کام کس طرح ہوں گے۔ محض ایک شخص کی آواز سن کر واہ وا کہہ دینا یا کسی کا نام لے کر کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا اچھا کام کر رہا ہے اس سے دوسروں کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ نہ کیا جائے یا وہ شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی اہلیت نہ رکھے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عذر کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے اگر غلطی ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی ذمہ داریوں کی طرف کسی شخص نے توجہ نہیں دلائی۔ یا میری عقل اتنی ناقص تھی کہ مَیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ لیکن تمہارے متعلق یہ بات نہیں کی جا سکتی۔ تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ دنیا کا کوئی ذریعہ نہیں جو مَیں نے باقی چھوڑا ہو۔ ہر ذریعہ سے مَیں نے جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر اہم پہلو مَیں نے جماعت پر اس کی تمام تفاصیل کے ساتھ واضح کیا ہے اور ہر قربانی کی طرف مَیں نے اس کو بلایا اور بار بار بلایا ہے۔ مَیں نے جماعت پر اس کی ذمہ داریوں کو مالی لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، جانی لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، وقت کی قربانی کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، علم کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، وطن کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے، سیاست کے لحاظ سے بھی واضح کیا ہے،اقتصاد کے لحاظ سےبھی واضح کیا ہے۔ غرض زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے جس کے متعلق مَیں نے بار بار اور بار بار توجہ نہیں دلائی۔ جس کی اہمیت مَیں نے واضح نہیں کی اور جس کی ضرورت مَیں نے جماعت پر منکشف نہیں کی۔ مَیں نے ہر پہلو کو اختیار کیا اور ہر ذریعہ جس سے کام لیا جا سکتا تھا اس سے مَیں نے کام لیا۔ تم میں سے کئی ہیں جن کے لئے میرا وجود نجات کا باعث بنا مگر تم میں سے کئی ہیں جن کے لئے میرا وجود عذاب کا بھی باعث ہے کیونکہ تم خدا کے سامنے اپنی کوتاہیوں کے متعلق اب کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ پس میرا وجود جہاں تم میں سے بُہتوں کے لئے ہدایت کا باعث ہے وہاں میرے وجود نے تمہارے لئے کوئی عذر بھی باقی نہیں چھوڑا۔ تم اپنی بریت کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی پہلو بھی تو پیش نہیں کر سکتے اور کسی ایک امر کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں اِس کا پتہ نہیں تھا یا اُس کا پتہ نہیں تھا۔ قیامت کے دن خدا تعالیٰ مجھے تمہارے سامنے پیش کر دے گا اور کہے گا اس نے تمہیں تمام باتوں سے ہوشیار کر دیا تھا مگر تم پھر بھی ہوشیار نہ ہوئے ، اور تم نے اپنی ذمہ داریوں کا کچھ بھی احساس نہ کیا۔اور تم میں سے بعض کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بشیر بنا کر بھیجا ہے اور تم میں سے بعض کے لئے خدا نے مجھے نذیر بنا کر بھیجا ہے کیونکہ میرے ذریعہ سے تم پر حجت تمام ہو گئی ہے اور قیامت کے دن تم خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ دن بدن سلسلہ کے مقاصد قریب سے قریب تر آتے جا رہے ہیں اور وہ دن اب بالکل قریب آ پہنچا ہے جب دنیا دیکھے گی کہ احمدیت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔ شیطان بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب احمدیہ جماعت اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگ جائے گی۔ اور فرشتے بھی بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب شیطان کو شکست فاش دے کر تم واپس لَوٹو گے۔ تمہارے قدم میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہو گا، تمہاری قوتوں میں اضمحلال رونما نہ ہو گا اور تم دشمن کو میدان سے ہمیشہ کے لئے بھگا دو گے۔ یہ دونوں الگ الگ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور دونوں تمہارے کام کے نتائج کے منتظر ہیں۔ یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ تم شیطان کومایوس کرو یا فرشتوں کو۔ تمہیں دیکھنا چاہئے کہ آیا تمہارے کاموں کی وجہ سے شیطان معقول طور پر یہ امید کر سکتا ہے کہ تم میدان سے بھاگ نکلو گے؟ یا تمہاری تیاریاں فرشتوں کو جائز طور پر یہ امید دلانے کا موجب بن سکتی ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے جانباز ا وربہادر سپاہی ثابت ہو گے اور اسلام کی فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے واپس لوٹو گے؟ دونوں میں سے کسی ایک چیز کا فیصلہ تم کر سکتے ہو۔ مَیں نہیں کر سکتا۔خدا تعالیٰ ہر وقت کر سکتا ہے کیونکہ وہ دلوں کے حالات کو جاننے والا ہے۔ اور باقی دنیا کام کے بعد کوئی نتیجہ نکال سکتی ہے پہلے نہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے بعد تمہیں بھی یہ طاقت حاصل ہے کہ تم اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کرو کہ تمہارے کام شیطان کو امید دلانے والے ہیں یا فرشتوں کو امید دلانے والے ہیں۔ تم اسلام کی فتح کا موجب بنو گے یا اسلام کی شکست کا موجب بنو گے۔ کیونکہ تمام کام قلب سے تعلق رکھتے ہیں اور تم اپنے قلبی حالات کا جائزہ لے کر آسانی سےفیصلہ کر سکتے ہو کہ تم اس قسم کی تیاری کر رہے ہو جو اسلام کی فتح کا موجب ہو گی یا اس قسم کی تیاری کر رہے ہو جو اسلام کی شکست کا موجب ہو گی۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ کوئی ملک بھی تو ایسا نہیں جہاں ایک شور برپا نہیں اورجہاں احمدیت کے لئے آوازیں بلند نہیں ہو رہیں۔ اسی ہفتہ میں متعدد جگہوں سے جو خطوط آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکوں میں شور مچا ہؤا ہے اور وہ اسلام اور احمدیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ اپنی رغبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابھی مشرق کی طرف سے ایک چِٹھی آئی ہے جس میں ایک ڈچ اور ایک جرمن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک احمدی ہوچکا ہے اور دوسرا احمدیت کے بہت قریب ہے اور وہ ارادہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنے ممالک میں تبلیغ کے لئے چلے جائیں۔ اسی طرح ہمارے پرانے نو مسلم جن سے جنگ کی وجہ سے ہمارا تعلق کٹ گیا تھا اور جن سے اس دوران میں ہماری خط و کتابت بھی نہیں رہی تھی، ہم سمجھتے تھے کہ چونکہ وہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اب اسلام کی تعلیم ان کے دلوں سے مٹ چکی ہو گی اور وہ پھر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ گئے ہوں گے مگر جنگ کے ختم ہونے پر اب پھر ان کی طرف سے خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ کے دوران میں بھی البانیہ کے ایک فوجی افسر کی طرف سے خط آیا تھا کہ احمدیت کا لٹریچر مجھے جلد بھجوایا جائے کیونکہ لوگ سخت متمنی ہیں۔ لیکن ہم انہیں لٹریچر بھجوا نہیں سکتے تھے کیونکہ جنگ کی وجہ سے اجازت نہیں تھی لیکن اس سے پتہ لگتا تھا کہ ایمان کی چنگاری ابھی ان کے دلوں میں سُلگ رہی ہے۔ اب اسی ہفتہ میں اور نو مسلموں کی طرف سے بھی چٹھیاں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ چنانچہ ایاز صاحب جو ہنگری اور پولینڈ کے مبلغ رہ چکے ہیں ان کے ذریعہ جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان میں سے ایک نو مسلم کی چٹھی آئی ہے۔ جس میں اس نے اپنا اور ایک اور دوست کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ ہم فلاں جگہ ہیں اور ٹرکی یا اَور کسی قریب کے ملک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ بھی اس بارہ میں ہمارے لئے کوشش کریں اور تبلیغ کے متعلق ہدایت دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام کی سچی محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اور لوگوں تک بھی اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اسی طرح کل اٹلی کے مبلغ مولوی محمد شریف صاحب کی طرف سے خط آیاہے کہ یوگو سلاویہ کے تین بڑے بڑے آدمی جن میں سے ایک انجینئر ، ایک ڈاکٹر اور ایک اَور تعلیم یافتہ شخص ہے اس بات کے لئے تیار ہیں کہ قادیان آئیں اور احمدیت سیکھ کر تبلیغ کا کام کریں۔ اسی طرح روم کے ایک بڑے آدمی کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ وہ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہ خبریں ہیں جو مختلف ممالک کی طرف سے آ رہی ہیں۔ مگر یہ خبریں ہمارے لئے کس طرح خوشی کا موجب ہو سکتی ہیں؟ بے شک ایک نادان انسان ان خبروں کو پڑھتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ لیکن عقلمند انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ ایسی خبریں سنتا ہے تو اس کا دل اپنی کمزور حالت کو دیکھ کر رنج سے بھر جاتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت بیرونی ممالک کے مشنوں کا موجودہ بوجھ بھی مشکل سے اٹھا رہی ہے۔ پس نئے ممالک جو ہم سے مبلغ مانگ رہے ہیں ہم ان کا کیاعلاج کر سکتے ہیں اور کونسا ذریعہ ہے جس سے ہم ان کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تکلیف دہ نظارہ ہے کہ ہماری کیفیت بالکل وہی ہو رہی ہے جو ایک جنگ میں مسلمان سپاہیوں کی تھی۔
ایک جنگ کا واقعہ ہے۔ اس میں بعض مسلمان شدید زخمی ہوئے او روہ پیاس کی شدت کی وجہ سے زمین پر تڑپنے لگ گئے۔ ایک صحابی جس کے پاس پانی کی چھاگل تھی اس نے جب بعض صحابہؓ کو میدان جنگ میں شدتِ پیاس کی حالت میں تڑپتے دیکھا تو وہ بے تاب ہو گیا۔ اور پانی کی چھاگل لے کر ان میں سے ایک کے قریب گیا اور چھاگل اس صحابی کے آگے کی تاکہ وہ اس سے پانی پی سکے۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک مسلمان پانی کی چھاگل لئے میرے قریب کھڑا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مَیں اس سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھاؤں تو اس نے اپنے پہلو میں ایک دوسرے مسلمان زخمی کی طرف اشارہ کیا۔ مطلب یہ تھا کہ اسے مجھ سے زیادہ پیاس ہے تم مجھے پانی نہ پلاؤ بلکہ میرے دوسرے ساتھی کی طرف چھاگل لے جاؤ اور اسے پانی پلاؤ۔ یہ صحابی چھاگل لے کر اس دوسرے کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے پہلو میں پڑے ہوئے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کیا کہ وہ پانی کا مجھ سے بھی زیادہ محتاج ہےتم اس کے پاس پانی لے جاؤ او رمجھے مت پلاؤ۔ وہ تیسرے کے پاس پہنچا تو اس نے چوتھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا فلاں بھائی مجھ سے بھی زیادہ پانی کا محتاج ہے تم جاؤ اور اس کو پانی پلاؤ۔ اس طرح ہر شخص نے بجائے خود پانی پینے کے اپنے پہلو کی طرف اشارہ کر کے اسے دوسرے بھائی کی طرف بھیج دیا۔ وہ دس بارہ آدمی تھے جو میدانِ جنگ میں زخمی پڑے تھے۔ انہوں نے باری باری اسے اپنے سے پرے بھیجنا شروع کیا او رکہا کہ ہمارا دوسرا ساتھی ہم سے زیادہ پانی کا محتاج ہے۔ جب وہ آخری زخمی سپاہی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ اور جب وہ پھر واپس لَوٹا تو اس نے دیکھا کہ ان میں سے ہر سپاہی پیاس کی شدت سے فوت ہو چکا تھا۔1 مگر اس کام میں تو ایک خوشی بھی تھی۔ ہر مرنے والا یہ سمجھتے ہوئے مرا کہ مَیں اسلام کے لئے قربان ہو رہا ہوں۔ مَیں اپنے آرام کو اپنے بھائی کے لئے قربان کر رہا ہوں اور دیکھنے والوں کے لئے بھی خوشی تھی کہ یہ ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی اولادوں کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں اور انہیں بتا سکتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا کس طرح قربانی کیا کرتے تھے۔
مگر ہمارا حال ایسا ہے کہ اس میں ہمارے لئے کوئی بھی خوشی کی بات نہیں۔ اگر ہم مختلف ممالک کے لئے تبلیغ کا سامان مہیا نہیں کریں گے تو وہ کونسا سبق ہو گا جو اس ذریعہ سے ہم اپنی اولادوں کے لئے چھوڑ جائیں گے اور وہ خوش ہوں گے کہ ہمارے باپ دادا بڑی قربانی کرنے والے تھے۔ ان پیاس سے مرنے والوں کا ذکر سن کر تو آج بھی ہر شخص کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے باپ دادا کتنے بزرگ تھے کہ موت کی حالت میں بھی وہ اپنی ضروریات پر دوسرے کی تکلیف کو مقدم رکھتے تھے اور اپنی جان دوسروں کو دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ لیکن ہم کیا کہیں گے اور کونسا نمونہ اپنی نسلوں کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ کیا ہماری نسلیں یہ کہیں گی کہ ہمارے بزرگ اتنے بلند پایہ اور اتنا شاندار کام کرنے والے تھے کہ لوگ ان سے تبلیغ کے لئے آدمی مانگتے تھے اور وہ نہیں دیتے تھے؟ سلسلہ ان سے تبلیغ کے لئے روپیہ مانگتا تھا اور وہ روپیہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان کو اپنے آرام اور اپنی آسائش کا تو ہر وقت خیال رہتا تھا لیکن خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جوش پیدا نہیں ہوتا؟ یا اتنا جوش پیدا نہیں ہوتا تھا جتنا ضروری تھا؟ آخر غور کرو کہ کیا ہم ان باتوں پر فخر کر سکتے ہیں؟ یا کیا ہماری اولادیں ان باتوں پر فخر کر سکتی ہیں۔ یا اگر ہماری طرف سے یہ باتیں پیش کی جائیں تو کیا ہماری اولادیں بلند حوصلہ ہو سکتی ہیں؟ یا کیا ان باتوں کے ذریعہ وہ اپنے ایمانوں کو تازہ کر سکتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں تو ہمارے سر آئندہ نسلوں میں نیچا کر دیں گی اور ان کی ہمتوں کو پست اور قوتوں کو مضمحل کر دیں گی۔ جب تک کسی کے کان میں امام کی طرف سے آواز نہیں آتی اس وقت تک ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ مجھے ابھی آواز نہیں آئی۔ اگر آواز آئی تو مَیں سب کچھ اسلام کے لئے قربان کر دوں گا ۔
لیکن آواز آنے کے بعد کسی کا پیچھے رہ جانا یقیناً افسوس کی بات ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ جب بدر کی جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو بعض کا خیال تھا کہ اس وقت کوئی بڑی جنگ نہیں ہو گی،محض کفار کے ایک تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو گا۔ اور گو رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہو چکا تھا کہ لڑائی ہو گی مگر آپؐ نے اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اس وجہ سے بہت سے مخلص صحابہؓ مدینہ میں ہی رہ گئے، ساتھ نہیں گئے۔ وہاں پہنچے تو لڑائی ہو گئی اور لڑائی بھی ایسی شان کی کہ جس نے مکہ کی شان و شوکت کو بالکل ہلا دیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مکہ کی طاقت ایسی نہیں جس کا مقابلہ نہ ہو سکے۔ جب یہ خبریں مدینہ میں پہنچیں اور لشکر ِاسلام بدر سے واپس لَوٹا تو لوگ ان صحابہؓ کے اردگرد جو لڑائی میں شامل ہوئے تھے جمع ہو جاتے اور کہتے لڑائی کا کوئی حال سناؤ۔ وہ سناتے کہ ہم اس اس طرح رسول کریم ﷺ کے اردگرد لڑے اور ہم نے اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کیں۔ دشمن اتنی زیادہ تعداد میں تھا اور ہماری تعداد اس قدر قلیل تھی ۔ پھر باوجود اس کے کہ وہ بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار جرنیل تھے ہمارے بچے نکلےا ورانہوں نے ابو جہل کو جو تمام فوج کا سپہ سالار تھا مار گرایا۔ مَیں نکلا تو فلاں کو قتل کر دیا۔ فلاں نے فلاں کو قید کر لیا۔ وہ لوگ جو مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے وہ ان باتوں کو سنتے تو لطف اٹھاتے اور ان کی بہادری کی ان کو داد دیتے۔ لیکن مخلصین کا دل ان واقعات کو سن کر اندر ہی اندر پگھلتا رہتا اور انہیں افسوس ہوتا کہ قربانی کا ایک موقع آیا تو ہم پیچھے رہ گئے اور یہ لوگ دوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے میدان میں بڑھ گئے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک مالک انصاریؓ بھی تھے ۔ جس وقت صحابہؓ اپنے واقعات سناتے اور دوسرے لوگ اُن کو داد دیتے ہوئے کہتے کہ کمال کر دیا، حد کر دی، اتنی قربانی کسی اَور نے کیا کرنی ہے، تم نے تو ایثار کا بے مثال نمونہ دکھایا ہے۔ اس وقت مالکؓ غصہ سے بھر جاتے اور کہتے یہ کونسی بات ہے؟ مَیں ہوتا تو بتاتا کہ لڑائی کیا چیز ہے۔ اب بظاہر یہ ایک جھوٹی لاف زنی ہے، بظاہر یہ بزدل آدمی کا کام ہے کہ وہ خود تو کوئی کام نہیں کرتا لیکن جب کوئی دوسرا کام کرتا ہے تو اسے طعنہ دینے لگ جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی مخلص اور بہادر انسان کے منہ سے بھی مجبوراً ایسے فقرے نکل جاتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر صحابہؓ کو یہ خیال تھا کہ لڑائی نہیں ہو گی اور رسول کریم ﷺ کسی خطرہ میں نہیں جا رہے اس لئے بہت سے صحابہؓ باوجود اخلاص اور بہادری کی روح اپنے اندر رکھنے کے پیچھے رہ گئے تھے۔ چنانچہ بدر کے موقع پر جب لڑائی کی صبح آئی تو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں صحابہؓ حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! میدان جنگ سے پیچھے فلاں جگہ ہم نے ایک سٹیج تیار کر دیا ہے آپ وہاں بیٹھئے اور خدا تعالیٰ سے اسلام اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعائیں مانگئے۔ پھر انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت ہم اس جنگ میں کامیاب نہ ہو سکیں اور سب کے سب مارے جائیں۔ صحابہؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم شکست کھا جائیں یا بھاگ جائیں کیونکہ وہ شکست کھانا اور بھاگنا جانتے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! ہو سکتا ہے کہ ہم سب کے سب مارے جائیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!ہم نے آپ کی حفاظت کے لئے سب سے تیز تر اونٹنی جو ہمارے قافلہ میں تھی چُن کر وہاں باندھ دی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری اونٹنی ابو بکرؓ کے لئے باندھ دی ہے جو ہم سب میں سے زیادہ قابلِ اعتبار آدمی ہے اور جس کے متعلق ہم ہر طرح یقین رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ یَارَسُوْلَ اللہ!اگر ہم سب کے سب مارے جائیں تو آپؐ اور ابو بکرؓ ان اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ چلے جائیں۔ وہاں ہمارے ایسے بھائی موجود ہیں جو قربانی اور اخلاص میں ہم سے کم نہیں۔ مگر ان کو پتہ نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!اگر اُنہیں پتہ ہوتا کہ جنگ ہونے والی ہے تو وہ پیچھے رہنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ پس آپ اُن کے پاس جائیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مرنے کے بعد اسلام کے جھنڈے کو کھڑا رکھیں گے اور ہر قسم کی قربانی سے کام لیں گے۔2
پس صحابہؓ نے بھی شہادت دی ہے کہ مدینہ میں پیچھے رہنے والوں میں کثرت ایسے لوگوں کی تھی جو بدری صحابہؓ سے کم نہیں تھے بلکہ رسول کریم ﷺ اور دین اسلام کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ مالکؓ بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ صحابہؓ اپنی بہادری کے واقعات سنا رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم نے یوں قربانیاں کیں تو وہ بے تاب ہو کر کہتے مَیں ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ کس طرح لڑائی کی جاتی ہے۔ بے شک تم نے بڑا کام کیا لیکن پھر بھی اگر مَیں ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ بڑا کام کسے کہتے ہیں۔ عام طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں، کمینے ہوتے ہیں اور دوسرے کی بہادری دیکھ کر اس کو برداشت نہیں کر سکتے مگر وہ واقعہ ایسا تھا کہ صحابہؓ میں سے مخلصین کی ایک جماعت پیچھے رہ گئی تھی اور جنگِ بدر میں شریک ہونے والے صحابہؓ بھی سمجھتے تھے کہ اگر ان کو موقع ملتا تو وہ ویسی ہی قربانیاں کرتے جیسی ہم نے کی ہیں۔ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ پس مالکؓ اور ان جیسے لوگ یہ باتیں اخلاص او رتقویٰ سے کہتے تھے اور حقیقی عشق کی بناء پر ایسے دعوے کرتے تھے نہ کہ لاف و گزاف سے۔ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے اُحد کا موقع پیدا کر دیا۔ جب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تتّر بتّر ہو گیا۔ تو جہاں رسول کریم ﷺ کھڑے تھے وہاں کفار نے حملہ کر دیا۔ آپؐ کے اِردگرد جو صحابہؓ حفاظت کے لئے کھڑے تھے ان میں سے بعض زخمی ہو کر گر گئے اور بعض شہید ہو گئے۔ خود رسول کریم ﷺ کے بعض دانت ٹوٹ گئے اور آپؐ بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں جا گرے۔ آپؐ پر بعض اَور صحابہؓ کی لاشیں آ پڑیں جس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ رسول کریم ﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں۔3 اس وقت تھوڑے بہت سپاہی جو میدان جنگ میں موجود تھے اور زیادہ گھبرا گئے ۔ اور حضرت عمرؓ تو ایک پتھر کی چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔ اتنے میں وہی مالکؓ جو کہا کرتے تھے کہ اگر مَیں ہوتا تو دکھاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ کے پاس سے گزرے۔ جب اس جنگ کے شروع میں اسلام کو فتح ہوئی تھی اس وقت مالکؓ نے یہ سمجھ کر کہ بھگوڑوں کا پیچھا کیا کرنا ہے۔ ایک طرف الگ ہو کر کھجوریں کھانی شروع کر دی تھیں کیونکہ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی۔ چند کھجوریں ان کے پاس تھیں اور وہ ایک پہاڑی کے دامن میں ٹہل ٹہل کر کھجوریں کھا رہے تھے اور آخری کھجور ان کے ہاتھ میں تھی۔ جب وہ ٹہلتے ٹہلتے ادھر آئے اور انہوں نے دیکھا کہ عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھ کر رو رہے ہیں تو انہوں نے کہا عمرؓ !یہ کیا بیوقوفی کی بات ہے؟ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور اسے کفار پر غلبہ عطا فرمایا ہےکیا تمہیں اسلام کے غلبہ پر رونا آتا ہے کہ اس طرح ایک چٹان پر بیٹھ کر آنسو بہا رہے ہو؟ انہوں نے کہا مالکؓ !شاید تمہیں پتہ نہیں کہ بعد میں کیا ہؤا۔ مالکؓ نے کہا کیا ہؤا؟ حضرت عمرؓ نے کہا معلوم ہوتا ہے تم فتح کے وقت پیچھے آگئے تھے اور تمہیں بعد کے حالات کا علم نہیں۔ بعد میں دشمن نے پھر حملہ کر دیا۔ مسلمان اس وقت غافل تھے نتیجہ یہ ہؤا کہ تمام آدمی تتّر بتّر ہو گئے اور صرف چند آدمی رسول کریم ﷺ کے گرد رہ گئے۔ مگر کفار کا حملہ اس قدر بڑھا کہ آپ کے اردگرد جو صحابہؓ کھڑے تھے وہ بھی یا تو زخمی ہو کر گرگئے یا شہید ہو گئے اور رسول کریم ﷺ بھی آخر شہید ہو گئے۔ مالکؓ کے ہاتھ میں اُس وقت آخری کھجور تھی اور وہ اسے اپنے منہ میں ڈالنے ہی والے تھے۔ جب انہوں نے یہ بات سُنی تو کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی اور کہا میرے اور جنت کے راستہ میں اس کھجور کے سوا کیا حائل ہے۔ پھر تعجب سے عمرؓ کو دیکھا اور کہا عمرؓ ! اگر یہ بھی ہو گیا ہے تو پھر بھی رونے کی کونسی بات ہے۔ عمرؓ !ہمارا محبوب جس جگہ گیا ہےہم کو بھی اس جگہ جانا چاہئے یا اس جگہ بیٹھ کر رونا چاہئے یہ کہہ کر تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں کفار کی تعداد تین ہزار تھی اور تین ہزار کے لشکرپر اگر اکیلا شخص حملہ کرے تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ پاگل تھا۔ یہ درست ہے اور وہ لوگ رسول کریم ﷺ اور اسلام کی محبت میں واقع میں پاگل تھے۔اگر آج ہمیں ایسے پاگل مل جائیں تو اسلام کی فتح میں ہمیں کوئی شک باقی نہ رہے اور ہمارے دلوں میں کبھی کوئی بے اطمینانی پیدا نہ ہو۔ مالکؓ محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں مجنون تھا اور اس نے وہی نمونہ دکھایا جو ایک پاگل دکھاتا ہے او رجو محبت کا پاگل بھی دکھایا کرتا ہے۔ اُنہوں نے تلوار لی اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ مگر اکیلے کی تین ہزار کے مقابلہ میں کیا طاقت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے جب بعد میں حالات بدل دئیے اور رسول کریم ﷺ کو بھی افاقہ ہو گیا تو ایک پہاڑی کے دامن میں آپؐ نے اپنے آدمی جمع کئے اور فرمایا جاؤ اور تلاش کرو۔ اگر کوئی مسلمان زخمی ہوں تو ان کی خدمت کرو اور انہیں راحت اور آرام پہنچانے کی کوشش کرو۔ اور جو لوگ فوت ہو گئے ہیں اُن کو پہچانو اور اُن کی لاشیں جمع کرو تاکہ جنازہ پڑھا جائے۔ صحابہؓ رسول کریم ﷺ کی اس ہدایت کے مطابق مسلمان شہداء اور زخمیوں کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اور انہیں مختلف جگہوں پر پڑی ہوئی کئی لاشیں ملیں۔ حضرت عمرؓ کی روایت کے مطابق وہ یہ تو سن چکے تھے کہ جب مسلمانوں کی فوج تتّر بتّر ہو چکی تھی مالکؓ اکیلے دشمن پر جا پڑے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ مالکؓ ضرور مارے گئے ہوں گے مگر باوجود تلاش کے انہیں مالکؓ کی لاش نہ ملی۔ وہ لوگ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اَور مسلمانوں کی لاشیں تو مل گئی ہیں مگر مالکؓ کی لاش ہمیں نہیں ملی۔ رسول کریم ﷺ نے پھر یہ ہدایت دی کہ مالکؓ کی لاش تلاش کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے پھر تلاش شرو ع کر دی اور آخر ایک لاش کے کئی ٹکڑے اُنہیں الگ الگ مقامات پر ملے۔ جب اُن ٹکڑوں کو جوڑا گیا تو ایک لاش بن گئی۔ مگر ا س لاش کو پہچاننے والا کوئی نہیں تھا۔ کیونکہ نہ آنکھیں نظر آتی تھیں، نہ ناک نظر آتا تھا، نہ کان نظر آتے تھے، نہ چہرے کا گوشت نظر آتا تھا۔ ہر چیز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مسخ ہو چکی تھی۔ آخر ایک انگلی سے مالک کی بہن نے پہچانا کہ یہ انگلی میرے بھائی کی ہے۔4 یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔5 مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کر کے دکھا دیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کر کے دکھانے کا موقع اُنہیں نہیں ملا۔ وہ ابھی انتظار کر رہے ہیں جب موقع آئے گا وہ بھی اپنی ہر چیز خدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دیں گے۔ مالکؓ نے کہا تھا تم نے کیا کام کیا۔ مَیں ہوتا تو تم کو دکھاتا کہ اسلام کے لئے کس طرح لڑنا چاہئے۔ چنانچہ مالکؓ نے جو کچھ کہا تھا اسے پورا کرکے دکھا دیا۔ وہ زمین کے ذرات جن پر مالکؓ کے خون کے قطرات گرے، وہ زمین کے ذرات جن پر مالکؓ کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہر طرف پھیل گیا، وہ زمین کے ذرّات جن پر مالکؓ کی قبر بنی اور وہ خاک جو مالکؓ کی نعش کے اوپر ڈالی گئی اور جس خاک میں مالکؓ کی نعش مل کر خاک ہو گئی۔ اس خاک کا ایک ایک ذرہ شہادت دے رہا ہے کہ خدا کے عاشقوں اور اس کے دین کے عاشقوں کو کسی قسم کے خطرہ کی پروانہیں ہو سکتی۔ وہ اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور اسلام کے لئے کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لیتے۔ آج مالکؓ کا ذرہ ذرہ ان لوگوں کو مجرم بنا رہا ہے جو قربانیوں میں حصہ لینے سے ہچکچاتے ہیں اور قیامت کے دن خدا ان کو ایسے لوگوں کے خلاف شاہد بنا کر کھڑا کرے گا اور ان سے کہے گا کہ دیکھو! تم نے بھی ویسا ہی اقرار خدا اور اس کے رسول سے کیا تھا جیسے مالکؓ نے کیا تھا۔ مگر تم اپنے اقرار کو وقت پر پورا نہ کر سکے اور مالکؓ نے اپنے اقرار کو پورا کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں پر حجت تمام فرمائے گا اور مالکؓ کو بطور شاہد اُن کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمائے گا کہ مَیں نے تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ جسم نہیں دئیے تھے۔ تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ قسم کی قوتیں نہیں دی تھیں، تم کو اور مالکؓ کو الگ الگ قسم کے اختیارات نہیں دئیے تھے۔ جو کچھ مَیں نے مالک ؓ کو دیا تھا وہی تم کو دیا تھا۔ مگر دیکھو! اس نے کیا کام کیا اور تم نے کیا کیا۔عذر انسان بنایا ہی کرتا ہے مگر کیا ہر عذر قبول ہو جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌۙ۰۰وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ۔6انسان عذر کرے گا مگر وہ سزا سے بچ نہیں سکےگا۔ چاہے ہزاروں عذر کرے کیونکہ ہر عذر اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے قبول کیا جائے۔
پس مت خیال کرو کہ تم اپنے عذروں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو خوش کر سکتے ہو۔ مت سمجھو کہ تم اپنے عذروں کے ذریعہ سے محمد ﷺ کے سامنے اپنی گردن اونچی کر سکتے ہو۔ اگر تمہارے اندر مالی اور جانی قربانی کا وہ مادہ نہیں جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہے تو تم نہ خدا کو منہ دکھانے کے قابل سمجھے جا سکتے ہو اور نہ آئندہ آنے والی نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد رکھے جانے کے مستحق ہو سکتے ہو۔ قربانیوں کے دن قریب سے قریب تر آ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے مختلف ممالک میں ایسے دل تیار کر رہا ہے جو احمدیت کی آواز سننے کے لئے بیقرار ہیں۔ آخر وہ کونسی طاقت ہے جو مختلف ملکوں میں لوگوں کو اُکسا رہی ہے کہ جاؤ اور قادیان سے مبلغ مانگو۔ پھر کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان ممالک میں اپنے مبلغ نہ بھیجیں؟ یا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے مبلغ تو بھیجیں لیکن ان کو خرچ نہ بھیجیں؟ ہم اگر ا س وقت اپنی انتہائی طاقت صَرف نہیں کر دیتے تو یقیناً ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ نہ صرف آئندہ نئے مشن قائم کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہو گی بلکہ پہلے مشن بھی ہمیں مجبوراً بند کرنے پڑیں گے۔ تحریک جدید کی مالی حالت اتنی کمزور ہے کہ اس کا قیاس کر کے بھی ایک مخلص انسان کا دل گھٹنے لگتا ہے کیونکہ تحریک جدید کے چندہ سے اس کے اخراجات کا بجٹ زیادہ ہے۔ جس قدر آمد ہوتی ہے خرچ اس سے زیادہ ہو رہا ہے اور ابھی بہت سارا پچھلا قرضہ بھی باقی ہے جو ادا ہونے والا ہے۔ اسی طرح مبلغوں کی بھی ابھی کمی ہے۔ گو جب سے مَیں نے اس بات پر زور دیا ہے
اصل مسودہ میں اس جگہ عبارت نہیں پڑھی جاتی۔
سینکڑوں نئی درخواستیں خدا تعالیٰ کے فضل سے آ چکی ہیں اور بہت سے نئے مبلغ رکھے گئے ہیں لیکن پھر بھی مبلغین کی ہمیں ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ سلسلہ کی اس ضرورت کو مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ، واقفین تحریک جدید، تعلیم الاسلام کالج کے طلباء اور بیرونی کالجوں کے احمدی طالب علم بڑی آسانی سے پورا کر سکتے ہیں۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور جلد از جلد اس کام کا اپنے آپ کو اہل ثابت کریں۔ لیکن اس کے علاوہ او رضروریات کے لئے بھی ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے۔
جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ابھی چندہ کی بہت گنجائش پائی جاتی ہے اور جتنا چندہ اس وقت جماعت دیتی ہے اگر وہ صحیح طور پر کوشش کرے تو اس سے دُگنا چندہ دے سکتی ہے۔ اگر ہمارے کمزور اپنی کمزوری کو چھوڑ دیں، ہمارے سُست اپنی سُستی کو چھوڑ دیں اور ہماری جماعت کے مخلص اَو رزیادہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو بڑی آسانی سے موجودہ جماعت کے افراد سے ہی دُگنا چندہ اکٹھا ہو سکتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے دو تین سال تک کے اخراجات کا بوجھ موجودہ جماعت ہی برداشت کر سکتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی اگر تبلیغ پر زور دیا جائے تو دو تین سال کے بعد نئے آدمیوں کے شامل ہو جانے کی وجہ سے ہمارے اندر وہ طاقت پیدا ہو جائے گی جواَب نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص جوش سے تبلیغ کرے اور اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرے بلکہ اگر ہو سکے تو اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانی کرنے کی کوشش کرے اور جماعت کی تعداد کو تبلیغ پر زور دے کر زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ دنیا میں کنویں کبھی کام نہیں دے سکتے جب تک آسمان سے بارش نازل نہ ہو۔ اسی طرح کسی جماعت کا اپنا چندہ اُس وقت تک کافی نہیں ہو سکتا جب تک باہر سے بھی اس کے چندہ کے اضافہ کی صورت پیدا نہ ہو۔ جس طرح کنویں بغیر بارشوں کے قائم نہیں رہ سکتے اِسی طرح کوئی جماعت بغیر تبلیغ کے زندہ نہیں رہ سکتی ، چاہے کسی جماعت کے دس کروڑ افراد ہوں یا دس ارب۔ جب تک اس میں باہر سے نئے آدمی آ کر شامل نہ ہوں اُس وقت تک اس کا ایمان مضبوط نہیں ہو سکتا۔
پس اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بھی تبلیغ ایک نہایت ضروری چیز ہے۔ علاوہ اس کے کہ یہ رحم ہے اُن لوگوں پر جو ہدایت اور نور سے محروم ہوں۔ یہ رحم ہے اپنے آپ پر کیونکہ خدائی سنت یہ ہے کہ کوئی جماعت اپنے ایمان کو قائم نہیں رکھ سکتی جب تک اس میں نو مسلم داخل نہ ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آدم سے لے کر اب تک خدا تعالیٰ کی یہ عادت چلی آئی ہے اور قیامت تک چلتی چلی جائے گی۔ اور یہ سنت اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کیا جائے اور تبلیغ پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے۔ اگر یہ دو خاصیتیں تم اپنے اندر پیدا کر لو تو تمہارے متعلق سمجھا جا سکتا ہے کہ تم آنے والی جنگ کے لئے تیاری کر رہے ہو۔ تب تم میں سے بُہتوں کو مالکؓ کی طرح قربانی کرنے کی توفیق مل جائے گی اور بُہتوں کو اگر مالکؓ کی طرح نہیں تو اتنی قربانی پیش کرنے کی توفیق ضرور مل جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اِتنے نمبر مل جائیں گے جتنے نمبر امتحان میں پاس ہونے والے کے لئے مقرر ہوتے ہیں۔’’
(الفضل 20 جون 1946ء )
1: اَلْاِسْتِیْعَابُ فِیْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَاب جلد 3 صفحہ 191۔ مطبوعہ بیروت 1995ء
2: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 272،273 مطبوعہ مصر 1936ء
3: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 84 ، 85، 88۔ مطبوعہ مصر 1936ء
4: سیرت ابن ہشام جلد 3صفحہ 88مطبوعہ مصر 1936ء میں حضرت انس بن نضر کا ذکر ہے۔
5: الاحزاب: 24
6: القیٰمة : 15، 16

22
ذرا ذرا سی بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت بھیانک اور ناپسندیدہ طریق ہے
(فرمودہ 21 جون 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘انسانی زندگی کے اہم ارکان میں سے میاں بیوی کے اجزا ہوتے ہیں۔ دنیوی زندگی کے لئے انسان کے لئے جو چیزیں لازمی ہیں اور جن کے ذریعہ انسان آرام اور سکینت حاصل کر سکتا ہے وہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات سے جو سکون اور آرام انسان کو ملتا ہے وہ اُسے کسی اَور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان وجودوں کو ایک دوسرے کے لئے سکینت اور تسکین کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اِسی طرح بائبل میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کے لئے حوّا پیدا کی تاکہ وہ آدم کے آرام اور سکینت کا موجب ہو۔ یعنی حوّا کے بغیر آدمؑ کے لئے تسکین اور آرام کی صورت اور کوئی نہ تھی۔ لیکن یہی دو وجود جو ایک دوسرے کے لئے تسکین ،آرام اور راحت کا موجب ہیں کبھی کبھی انہیں دو وجودوں کو لڑائی اور جھگڑے کا موجب بنا لیا جاتا ہے اور راحت اور سکون کی بجائے انسان کے لئے اس کا مدمقابل یعنی خاوند کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے خاوند دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دینے کا موجب بن جاتا ہے۔ ہزاروں خاوند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بدترین عذاب ثابت ہوتے ہیں اور ہزاروں بیویاں ایسی ہیں جو اپنے خاوندوں کے لئے بد ترین عذاب ثابت ہوتی ہیں۔ اسلام نے ایسے حالات میں ہمارے لئے ایسی اعلیٰ راہنمائی کی ہے کہ درحقیقت ان احکام کی موجودگی میں ہمارے لئے گھبراہٹ اور تشویش کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کتنے لوگ تیار ہوتے ہیں؟ غیر مسلم تو پہلے ہی اسلامی تعلیم پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ وہ مسلمان بھی جو اسلامی تعلیم کو ماننے والے ہیں اسلامی تعلیم سے بہت دور جا چکے ہیں اور قرآنی تعلیم کی طرف آنا پسند ہی نہیں کرتے بلکہ دوسری عدالتوں کے ذریعہ اپنا فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی مرد اور عورت میں جھگڑا پیدا ہو جائے او ران کو کہا جائے کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق اس جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرو تو رشتہ دار درمیان میں کُود پڑتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے کہیں گزارہ ہوتا ہے۔ ہم ان کے مطابق کیسے فیصلہ کریں۔ گویا اُن کے نزدیک قرآن کریم ایک افسانوں کی کتاب ہے جسے لائبریری کی زینت کے لئے رکھنا چاہئے لیکن اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ناقابلِ عمل ہے ایسا شخص اسلام کے دائرہ میں رہتا ہی کیوں ہے؟ ایسے شخص کو اسلام کی تعلیم کو چھوڑ دینا چاہئے اور کوئی ایسا مذہب تلاش کرنا چاہئے جس کی تعلیم اسے قابل عمل نظر آئے تاکہ کم از کم اُس کی ضمیر تو آزاد رہے۔ وہ جب اسلام کی تعلیم کو غلط اور ناپسندیدہ خیال کرتا ہے تو پھر ضمیر کو مارتے ہوئے اس کو کیوں پکڑے ہوئے ہے اور کیوں اسے چھوڑتا نہیں ؟
مَیں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت میں میاں بیوی کے جھگڑے پہلے کی نسبت زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ جہاں تک جھگڑوں کا سوال ہے جھگڑوں کا پیدا ہونا بُرا نہیں کیونکہ یہ انسانی خاصہ ہے کہ میاں بیوی میں کبھی کبھار رنجش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن جھگڑا پیدا ہونے کے بعد اسلامی تعلیم کو نظر انداز کر دینا یہ بہت بُری چیز ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگ ایسے حالات میں بالعموم اسلام کی تعلیم کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ظلم کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اسلامی تعلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ میرے لئے یہ صورت بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہمارے لئے رسول کریم ﷺ کامل اسوہ ہیں۔ ہم آپؐ کو دیکھتے ہیں کہ آپ نہ صرف خاوند تھے بلکہ آپ نبی بھی تھے، آپؐ پِیر بھی تھے اور آپ آقا بھی تھے۔ لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ کی حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ نے اپنی ایک بیوی کو ایک راز کی بات بتائی اور حکم دیا کہ کسی اَور کو نہ بتانا لیکن انہوں نے اپنی بعض سہیلیوں سے جو کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں سے ہی تھیں اس بات کا ذکر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتا دیا کہ آپ کی اس بیوی نے وہ راز آپ کی بعض دوسری بیویوں کو بھی بتا دیا ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے ان کی تنبیہہ کے لئے یہ فیصلہ فرمایا کہ مَیں مسجد میں ہی رہوں گا اور گھر میں بیویوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ آپؐ نے مسجد میں خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔1 آپؐ کے حکم پر مسجد میں آپؐ کے لئے خیمہ لگا دیا گیا او رآپؐ اُسی میں رہنے لگے۔ مکہ والے اپنی بیویوں سے نرمی کا سلوک نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جس طرح پنجابی عورتوں کی درستی کا ایک ہی علاج جانتے ہیں کہ ڈنڈا لیا اور مار مار کر سیدھا کر دیا۔ اسی طرح مکہ والے بیویوں سے سختی سے پیش آتے تھے اور ان کی عورتوں کو یہ جرٔات نہیں ہوتی تھی کہ کسی بات میں مشورہ دے سکیں یا مرد کے سامنے بول سکیں۔ مدینہ میں مکہ کی نسبت کسی حد تک عورتوں کو زیادہ آزادی تھی۔ گو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ جو آزادی عورتوں کو دلائی وہ اس پہلی آزادی سے بہت بڑھ کر ہے۔ بہرحال مدینے کی عورتیں کبھی کبھار اپنے مردوں کے سامنے بول لیتی تھیں لیکن مکہ والوں میں ابھی وہی سختی باقی تھی۔ جب رسول کریم ﷺ نے مسجد میں ڈیرا لگا لیا تو صحابہؓ میں چہ میگوئیاں ہونی شروع ہو گئیں کہ آپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ گھبرائے ہوئے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت عمرؓ مدینہ سے دو تین میل باہر ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں اُن دنوں ہمیں گزارے کی تنگی تھی اِس لئے ہم لوگ روزانہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہو سکتے تھے بلکہ ہم نے باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔ ایک ساتھی جاتا اور وہ سارا دن رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہتا اور شام کو واپس آ کر رسول اللہ ﷺ کی مجلس کی ساری باتیں اپنے ساتھی کو سناتا۔ دوسرے دن وہ کام کرتا اور اس کا وہ ساتھی جو پہلے دن نہیں گیا تھا رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتا ، آپؐ کی باتیں سنتا اور شام کو واپس آ کر تمام باتیں اپنے ساتھی کو سناتا۔ جس دن یہ واقعہ ہؤا اس دن حضرت عمرؓ کے ساتھی کی باری تھی۔ جب وہ مدینہ سے واپس گئے تو اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا۔ عمر! تجھے پتہ ہے کہ مدینہ میں کیا ہو گیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اُن کی یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بہت گھبرائے کیونکہ رسول کریم ﷺ کے نکاح میں حضرت عمرؓ کی بیٹی حفصہؓ بھی تھیں۔ حضرت عمرؓ مدینہ گئے اور جاتے ہی حضرت حفصہؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ جب پہنچے تو حضرت حفصہؓ بیٹھی رو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے جاتے ہی حضرت حفصہؓ سے کہا۔ بیوقوف! کیامَیں تمہیں منع نہیں کیا کرتا تھا کہ تم رسول اللہ ﷺ کا ادب کیا کرو او رتم عائشہؓ کی نقلیں نہ کیا کرو۔ عائشہؓ کا مقام اَور ہے اور تمہارا مقام اَور ہے۔ لیکن تم نے میری بات نہ مانی اور اب نتیجہ نکل آیا۔ پھر حضرت حفصہؓ سے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سب بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ حضرت حفصہؓ نے کہا۔ نہیں طلاق تو نہیں دی البتہ ناراض ہوکر چلے گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ وہاں سے نکلے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی۔ رسول کریم ﷺ نے آپ کو اندر آنے کی اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب مَیں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چٹائی کُھردری تھی۔ میرے جانے پر آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے مگر حالت یہ تھی کہ تمام جسم پر چٹائی کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ مَیں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! آرام اور آسائش کے تمام سامان قیصر و کسریٰ کے پاس ہیں اور وہ اپنے زندگی کے دن نہایت تعیُّش اور آرام کے ساتھ بسرکر رہے ہیں اور آپؐ کے لئے آرام کا کوئی سامان نہیں۔ آپؐ کے لئے یہ چٹائی ہے جس کے نشان آپ کے تمام جسم پر پڑ گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں مَیں نے یہ بات جان بوجھ کر کہی تاکہ اگر آپؐ کی طبیعت میں کوئی غصہ ہو تو وہ دور ہو جائے۔ میری بات پر آپؐ ہنس پڑے۔ مَیں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں طلاق تو نہیں دی۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں تو حفصہؓ کوسمجھاتا رہتا ہوں کہ تم عائشہ کی نقلیں نہ کیا کرو او رآپ کا بہت ادب و احترام کیا کرو۔ پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ہم مکہ والوں کے سامنے ہماری بیویاں بولتی نہ تھیں۔ ایک دن کسی بات پر میری بیوی مجھے مشورہ دینے لگی تو مَیں نے اسے کہا تُو اپنی حیثیت تو دیکھ۔ تیرا کیا کام ہے کہ تُو مجھے مشورہ دے۔ لیکن ہماری عورتوں کو بھی آہستہ آہستہ مدینے کی عورتوں نے خراب کر دیا۔ ایک دن مَیں بات کر رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھے کسی معاملہ کے متعلق مشورہ دینے کی کوشش کی۔ جب مَیں نے اُسے روکا تو اُس نے مجھے جواب دیا کہ رسول اللہ کے گھر میں ان کی بیویاں آپؐ کو مشورہ دیتی ہیں تو تم کون ہو ہمیں روکنے والے؟ اس طرح حضرت عمرؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں اس طرف اشارہ کیا کہ آپؐ نے ہی عورتوں کو آزادی دی ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو وہ معافی کی حقدار ہیں۔2 مگر باوجود ان تمام باتوں کے رسول کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کی نہایت اعلیٰ طور پر حفاظت کی۔ یہاں تک کہ آپؐ نے اپنی آخری تقریر میں بھی یہی وصیت کی کہ عورتوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا 3اور اپنے غلاموں کو اپنے بھائیوں کی طرح رکھنا او ران سے ایسا کام نہ لینا جو ان کی طاقت سے باہر ہو۔4
بہرحال اسلام نے عورتوں کے حقوق کی جتنی حفاظت کی ہے کسی اَور مذہب نے نہیں کی۔ لیکن چونکہ انسان ایک ایسا مرکّب وجود ہے جس میں مختلف قسم کی عادات اور خواہشات موجود ہوتی ہیں اس لئے میاں بیوی میں کبھی نہ کبھی اختلاف بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ان کے تعلقات ایک ہی حال پر نہیں رہ سکتے۔ اگر یہ اختلاف بہت شدت کا رنگ پکڑ لے تو ایسے مواقع کے لئے اسلام کا حکم ہے کہ مرد عورت کو طلاق دے دے یا عورت مرد سے خلع کرا لے۔ لیکن طلاق اور خلع سے پہلے کچھ احکام بیان کئے ہیں جن کو مدنظر رکھنا مرد، عورت اور قاضیوں کا فرض قرار دیا ہے تاکہ طلاق یا خلع عام نہ ہو جائے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْدَ اللہِ الطَّلَاقُ 5یعنی حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے۔ جب طلاق حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے تو ایک مومن جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے وہ اس چیز کے کس طرح قریب جا سکتا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ ہر کام جو جائز ہے ضروری نہیں کہ اسے کیا بھی جائے۔ تم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ بنارس، کلکتہ، مدراس یا بمبئی جانا حلال ہے لیکن کتنے ہیں جو ان جگہوں میں گئے ہیں؟ اگر حلال کے یہی معنے ہیں کہ اسے ضرور کیا جائے تو پھر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جن لوگوں کے پاس ان شہروں میں جانے کے لئے روپیہ نہ تھا وہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالتے اور اس حلال کام کو ضرور سر انجام دیتے۔ لیکن لوگوں کا اس پر عمل نہ کرنا بتاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بات حلال ہے ضروری نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے۔ جگہ ، مناسب موقع اور محلّ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایک حلال کام کے کرنے سے ناپسندیدگی کے سامان پیدا ہوتے ہیں تو اس کام سے بہرحال اجتناب کیا جائے گا۔ مثلاً پیاز کھانا حلال ہے لیکن مسجد میں پیاز کھا کر جانامنع ہے کیونکہ وہاں لوگوں کو اس کی بُو سے تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کے لئے یہ حلال ہے کہ وہ سبز رنگ کا کپڑا پہنے یا اُودے 6رنگ کا کپڑا پہنے یا زرد رنگ کا کپڑا پہنے۔ اگر کسی کا دوست کہے کہ یہ زرد رنگ کا کپڑا خرید لو تو وہ کہتا ہے۔ مجھے زرد رنگ اچھا نہیں لگتا۔ اب اس کے نزدیک حلال وہ چیز ہے جو اس کی پسند کے مطابق اور اس کی طبیعت کو اچھی لگتی ہے۔ کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حلال اور طیب چیزیں کھاؤ۔ لیکن بعض لوگ بینگن نہیں کھاتے۔ بعض لوگ کدو کو پسند نہیں کرتے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ بینگن کیوں نہیں کھاتے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں۔ یا دوسرے شخص سے پوچھا جائے کہ آپ کدو کیوں نہیں کھاتے؟ تو وہ کہتا ہے میری بیوی اس کو ناپسند کرتی ہے۔ اسی طرح جب لوگ مکان تیار کرتے ہیں تو اپنے مذاق اور اپنی طبیعت کے مطابق بناتے ہیں ۔ کوئی ایک منزلہ مکان بناتا ہے، کوئی دو منزلہ اور کوئی سہ منزلہ۔ کوئی مکان میں باغیچہ لگانا پسند کرتا ہے اور کوئی بغیر باغیچہ کے۔ اب یہ ساری چیزیں حلال ہوتی ہیں لیکن وہ سب پر عمل نہیں کرتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر حلال بات پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن جب بیوی کو طلاق دینے کا معاملہ پیش آ جائے تو یہ کہتے ہوئے کہ بیوی کو طلاق دینا جائز ہے۔ فوراً بے سوچے سمجھے طلاق دے دی جاتی ہے حالانکہ بعض حلال چیزیں انسان اپنے نفس کی خاطر ، بعض اپنے دوستوں کی خاطر اور بعض سوسائٹی کی خاطر ہمیشہ چھوڑتا رہتا ہے۔ درحقیقت ایسے موقع پر ایک مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس حلال کو خدا کی خاطر چھوڑ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چونکہ یہ کام میرے خدا کو پسند نہیں اِس لئے مَیں یہ کام نہیں کرتا تا میرا خدا مجھ پر ناراض نہ ہو۔
پس رُشد اور ہدایت یہ نہیں کہ طلاق کو عام کیا جائے بلکہ رشد اور ہدایت یہ ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ حلال کے معنے یہ ہیں کہ چاہو تو کر سکتے ہو۔ قانون کے لحاظ سے منع نہیں۔ لیکن تمہیں دوسروں کے خیالات، دوسروں کے جذبات، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ جس حلال پر عمل کرنے سے دوسروں کے خیالات، دوسروں کے جذبات، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کا خون ہوتا ہو، وہ حلال نہیں بلکہ ایسا حلال ایک جہت سے حلال ہے اور دوسری جہت سے حرام ہے۔ جب لوگ اپنے دوستوں کی ناراضگی، سوسائٹی کی ناراضگی اور قوم کی ناراضگی کا خیال رکھتے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی ایسی چیز ہے جس سے انسان کو بے پروا ہونا چاہئے؟ کیا خدا تعالیٰ کا وجود ہی ایسا کمزور ہے کہ جس کی ناراضگی انسان کے لئے قابل اعتناء نہیں؟ جب دنیوی اور سفلی عشق رکھنے والے لوگ اپنے محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی خفگی سے ڈرتے ہیں اور اس کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن جس نے ایمان کی حلاوت پائی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انتہائی طور پر خائف نہ ہو۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکرؓ کی کسی بات پر تکرار ہو گئی ۔ یہ تکرار بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت تیز تھی اِس لئے حضرت ابو بکرؓ نے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تاکہ جھگڑا خوامخواہ زیادہ نہ ہو جائے۔ حضرت ابو بکرؓ نے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکرؓ کا کُرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ۔ جب حضرت ابو بکرؓ اس کو چُھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کُرتہ پھٹ گیا۔ آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے۔ لیکن حضرت عمرؓ کو شبہ پیدا ہؤا کہ حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تاکہ مَیں بھی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ حضرت عمرؓ یہی سمجھے کہ آپ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی سیدھے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جا پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابو بکرؓ موجود نہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اِس لئے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ مَیں ابوبکرؓ سے سختی سے پیش آیا ہوں۔ حضرت ابو بکرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ میرا ہی قصور ہے۔ جب حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکرؓ کو جا کر کسی نے بتایاکہ حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں۔حضرت ابو بکرؓ کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تاکہ یکطرفہ بات نہ ہو جائے اور مَیں بھی اپنا نقطہ نگاہ پیش کر سکوں۔ جب حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓ عرض کر رہے تھے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ مَیں نے ابو بکرؓ سے تکرار کی او ران کا کُرتہ مجھ سے پھٹ گیا۔ جب رسول کریم ﷺ نے یہ بات سُنی تو غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابو بکرؓ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی۔ پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابو بکرؓ کو نہیں چھوڑتے؟ آپ یہ فرما رہے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ داخل ہوئے۔ یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ عذر کرنے کےکہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میرا قصور نہ تھا عمرؓ کا قصور تھا آپؓ نے جب دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں خفگی پیدا ہو رہی ہے، آپ سچے عاشق کی حیثیت سے یہ برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم ﷺ کو تکلیف ہو۔ آتے ہی رسول کریم ﷺ کے سامنے گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! عمرؓ کا قصور نہیں تھا میرا قصور تھا۔7 دیکھو حضرت ابو بکرؓ کس قدر سچے عاشق تھے کہ آپ یہ برداشت نہ کر سکے کہ آپ کے معشوق کے دل کو تکلیف ہو۔ آپ یہ دیکھ کرکہ رسول کریم ﷺ حضرت عمرؓ پر ناراض ہوئے ہیں، خوش نہیں ہوئے۔ عام طور پر لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے مد مقابل کو جھاڑ پڑتی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ خوب جھاڑ پڑی لیکن اس سچے عاشق نے یہ پسند نہ کیا کہ رسول کریم ﷺ کے دل کو تکلیف ہو۔ خواہ کسی وجہ سے ہو۔ آپ نے کہا مَیں مجرم بن جاتا ہوں لیکن مَیں اپنے معشوق کا دل رنجیدہ نہیں ہونے دوں گا۔ اور نہایت لجاجت سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! عمرؓ کا قصور نہیں میرا قصور ہے۔ اگر حضرت ابو بکرؓ رسول کریم ﷺ کے دل کے ملال کو دور کرنے کی خاطر مظلوم ہونے کے باوجود ظالم ہونے کا اقرار کرتے ہیں تا آپ کے دل کو تکلیف نہ پہنچے۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام نہ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے۔ بے شک رسول کریم ﷺ ہمیں بہت پیارے ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے بعد کسی سے اتنی محبت کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن پھر بھی خدا خدا ہے اور رسول کریم ﷺ رسول کریم ﷺ ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ کا بہت بلند مرتبہ ہے جو کسی اَور انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کے باوجود آپ عبد ہیں اور اللہ تعالیٰ معبود ہے۔ آپ مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ خالق ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نیچے ہیں اور اللہ تعالیٰ محسن ہے، آپ فانی تھے اور اللہ تعالیٰ غیر فانی اور ازلی ابدی ہے۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کے محتاج تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ آپ کمزور تھے اور اللہ تعالیٰ بے انتہاء طاقتوں کا مالک ہے۔ پس جب حضرت ابو بکرؓ کا دل رسول کریم ﷺ کا ملال دیکھ کر تڑپ جاتا ہے تو ایک مومن رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث پڑھ کر یا سن کر کہ اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْد اللہِ الطَّلَاقُ کس طرح آسانی سے جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب شریعت کہتی ہے کہ تم اس اَبْغضُ الْحَلَالِ کو اختیار کرنے سے پرہیز کرو۔ تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میں کمی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اس بات کو میاں بیوی کے تعلقات کی کشیدگی کے وقت بھول نہ جائے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ طلاق اور خلع درحقیقت ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔ اگر مرد عورت کو چھوڑتا ہے تو وہ طلاق کہلائے گی۔ اور اگر عورت ہی اس سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اسے آزاد کر ے تو وہ خلع کہلائے گا اور خلع بھی اَبْغَضُ الْحَلَالِ کے ماتحت ہی آئے گا۔ جہاں تک انسانی حقوق کا سوال ہے طلاق اور خلع دونوں ہی مسلمانوں کے اندر سے تلف ہو چکے تھے اور مسلمان اس پر کسی صورت میں بھی عمل کرنے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے عورتوں کے لئے از حد مشکلات کا سامنا تھا۔ احمدیت نے ان دونوں حقوق کو قائم کیا اور عورتوں کو ان تکالیف سے نجات دی جو ان حقوق کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو پہنچتی تھیں۔ اور ساتھ ہی اس حدیث کے مضمون کو بھی لوگوں کے سامنے بوضاحت بیان کیا اور بتایا کہ ان دونوں رستوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اَبْغَضَ الْحَلَالِ ہے۔ لیکن چونکہ یہ حق ابھی نیا نیا حاصل ہؤا ہے اورہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ ہر نئے حق کو لوگ خوب استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اِسی وجہ سے ہماری جماعت نے ان دونوں رستوں کے اختیار کرنے میں جلد بازی سے کام لیاہے اور جماعت کا ایک حصہ طلاق اور خلع کی طرف مائل ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ جب میاں بیوی میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کو دور کرنے کے لئے حَکم مقرر کئے جائیں۔ جو کوشش کریں کہ ان کی رنجش دور ہو جائے اور وہ پہلے کی طرح پیار اور محبت کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ لیکن اگر ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں کہ صلح کی صورت نہ ہو سکے تو پھر خلع کی صورت میں قاضی کے سپرد یہ معاملہ کیا جائے اور وہ اس کا فیصلہ کرے۔ یونہی ذرا ذرا سی بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت ہی افسوسناک امر ہے۔ اور یہ اتنا بھیانک اور ناپسندیدہ طریق ہے کہ ہر شریف آدمی کو اس سے نفرت ہونی چاہئے۔ میاں بیوی کا اتحاد معمولی اتحاد نہیں اور میاں بیوی کے تعلقات معمولی تعلقات نہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ایسے ہیں کہ باپ بیٹے کے تعلقات بھی ایسے نہیں۔ مرد اپنے جسم کے وہ حصے جن کو وہ اپنےباپ اور اپنی ماں کے سامنے بھی ظاہر نہیں کر سکتا اپنی عورت کے سامنے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح عورت اپنے وہ اجزا جن کا دیکھنا اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر حلال نہیں اپنے خاوند پر ظاہر کر دیتی ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے بعد اگر ایک مرد اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے یا عورت خلع کرانا چاہتی ہے تو اُن دونوں نے میاں بیوی کے تعلقات کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک یہ ایک کھیل ہے جو کھیلا گیا۔ ایک عورت جو خلع کرانا چاہتی ہے یا ایک مرد جو اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔ ان دونوں نے اسلامی تعلیم کو ایک تمسخر سمجھا ہے۔ وہ عورت جو خلع کرانا چاہتی ہے آخر خلع کیوں کرائے گی؟ اسی لئے کہ وہ کسی اَور مرد سے شادی کرے۔ گویا دوسرے الفاظ میں اس کا یہ مفہوم ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو منڈی میں بیچنا چاہتی ہے حالانکہ اسلام نے اس کی بہت بڑی عزت قائم کی ہے۔ اور وہ مرد جو طلاق دے کر عورت کی عزت کو برباد کرنا چاہتا ہے غیر مسلم لوگوں سے بھی اخلاق میں پیچھے ہے کیونکہ ہر سوسائٹی میں اور ہر مذہب اور ہر طبقہ میں خواہ وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، متمدن ہو یا غیر متمدن، عورت کی عزت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسے ایک مقدس وجود قرار دیا گیا ہے۔ پس اگر ایک مرد بلاوجہ اپنی عورت کو طلاق دیتا ہے تو وہ غیر مسلم لوگوں سے بھی اخلاق میں پیچھے سمجھا جائے گا۔ اور اگر کوئی عورت بِلا وجہ خلع لینا چاہتی ہے تو اس نے بجائے اپنی عزت کرانے کے اپنے آپ کو بازار میں بیچنے کا ارادہ کیا اور اپنے مقدس مقام کو وہ بھول گئی ہے۔ پس وہ تمام لوگ جو ان چیزوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتے وہ قومی اخلاق کو برباد کرنے والے ہیں۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ طلاق اور خلع کے خراب نتائج پر زور دے اور اس کو عام ہونے سے روکے۔ میرے پاس بعض مقدمات آتے ہیں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لوگ انشقاق کا موجب بنا لیتے ہیں۔ مرد کہتا ہے کہ میری بیوی جاتے ہوئے ایک ٹرنک ساتھ لے گئی ہے اور بیوی کہتی ہے کہ انہوں نے میری مُرکیاں لے لی ہیں واپس نہیں کرتے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلقات کو خراب کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اگر بیوی میں کوئی غلطی ہے تو اُس کی اخلاقی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اسے چھوڑ دینے پر آمادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہیڈ ماسٹر لڑکوں کو سبق دیتا ہے ۔ کیا جو لڑکے سبق یاد نہیں کرتے اُنہیں سکول سے نکال دیتا ہے؟ اِسی طرح انسانوں میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں، کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن مومن کا کام ہے کہ اُن کو دور کرنے کی کوشش کرے اور وہ جنس جسے اللہ تعالیٰ نے مقدس بنایا ہے اسے بازار میں بکنے والی جنس نہ بنا دے۔
پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے ایسے جھگڑے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور مَیں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ایسے معاملات میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ مَیں حیران ہوں کہ قاضیوں نے بھی ان معاملات کو محض ایک تمسخر سمجھ لیا ہے، مقدمات کو لمبا کرتے چلے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اصلاح کی صورت پیدا ہو، وقت کے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلوں میں شکوک و شبہات بھی زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ مَیں قاضیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے معاملات میں وہ کسی فریق کے وکیل کو قریب بھی نہ آنے دیں اور وہ بجائے قاضی کے باپ بننے کی کوشش کریں اور لڑکے کو اپنا بیٹا سمجھیں اور لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھیں۔ جس طرح باپ اپنے بچوں کو سمجھاتا ہے اسی رنگ میں ان کو سمجھائیں اور شریعت کے مسائل انہیں بتائیں اور انہیں طلاق اور خلع کے نقصانات بتائیں کہ اس کے عام ہونے سے قوم کے اخلاق گر جاتے ہیں۔ جن کی اولاد موجود ہو گی جب وہ بڑے ہوں گے تو اُن پر کیا اثر پڑے گا کہ ہمارے ماں باپ نے معمولی سی بات پر جدائی اختیار کر لی تھی اور وہ اپنے ماں باپ سے کونسا نیک نمونہ حاصل کریں گے اور ایسی اولاد کیسے ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ پس یہ چیزیں اخلاق کو سنوارنے والی نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والی ہیں۔ جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنی چاہئے کیونکہ میرے نزدیک یہ اہم امور سے بھی بالا چیز ہے۔ جب بھی قاضی کے پاس کوئی ایسا معاملہ پیش ہو اس کا دل کانپ جانا چاہئے کہ کہیں مَیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دوں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو۔ اور اسے معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے فیصلہ کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب کوئی ایسا جھگڑا ہو جائے تو نہ مرد کے ماں باپ اور نہ ہی عورت کے ماں باپ اس میں دخل دینے کی کوشش کریں اور وہ قاضی پر پورا اعتماد رکھیں۔ اگر انہیں فیصلہ میں کوئی سقم معلوم ہو تو وہ ہمیں لکھ سکتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ اس فیصلہ میں واقع میں کوئی سُقم موجود ہے یا نہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ قاضیوں کی بھی عقل تیز ہو جائے گی۔
شادی کے بعد ماں باپ کے حقوق ختم نہیں ہو جاتے بلکہ شادی کے بعد بھی ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہوتے ہیں۔ اگر ایک عورت ایسی ہے کہ اس کے پاس سوائے ایک لڑکی کے اَور کوئی بچہ نہیں جو اس کی خدمت کر سکے۔ جب وہ اس لڑکی کی شادی کر دیتی ہے تو اب اس کے داماد کا فرض ہے کہ یا تو اس لڑکی کو اپنی ماں کی خدمت کا موقع دے اور اسے اس کے پاس رہنے دے۔یا اگر وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی بوڑھی والدہ کا بھی بوجھ اٹھائے۔ کیونکہ اصل میں یہ بوجھ اس کی بیوی کے ذمہ تھا۔ لیکن جب وہ یہ چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ رہے تو اسے اپنی ساس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہئے۔ اسی طرح اگر لڑکے کے والدین بوڑھے ہیں اور انہیں خدمت کی ضرورت ہے تو لڑکی کا فرض ہے کہ ان کی خدمت کرے اور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آئے۔ یہ ذمہ داریاں میاں بیوی دونوں پر عائد ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ایسے موقع پر اپنے اخراجات کی تنگی کا عذر پیش کرتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ عذر اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ غریبوں کے گھروں میں اکثر بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ آخر وہ بھی اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ میرے پاس غرباء کی جو درخواستیں غلّے کے لئے آئیں ان میں سے اکثر آدمی ایسے تھے جن کے چھ سات سے آٹھ نو بچے تھے۔ مَیں حیران ہؤا کہ جو بھی درخواست کرتا ہے اسی کے آٹھ نو بچے ہوتے ہیں۔ مَیں یہ سمجھا کہ یہ لوگ مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن جب مَیں نے تحقیقات کرائی تو بات درست نکلی۔ اب یہ لوگ آٹھ آٹھ نو نو بچے پیدا کرنے اور اُن کے پالنے سے نہیں گھبراتے تو آپ ماں باپ کی خدمت سے کیوں گھبراتے ہیں۔ ایک دو آدمی کا بوجھ اٹھانا میرے نزدیک کوئی مشکل نہیں۔ بشرطیکہ انسان اس کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر تم اپنی بیوی کے ماں باپ کی خدمت کرو گے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آؤ گے تو تمہاری بیوی دل سے تمہاری وفادار ہو گی اور تم سے زیادہ محبت کرے گی اور پہلے سے زیادہ تمہاری فرمانبردار ہو گی۔ لیکن اس بات کو ہمیشہ یاد رکھو کہ اگر اس کے والدین کو اپنے پاس رکھتے ہو تو انہیں نوکر سمجھ کر نہ رکھو۔ بلکہ انہیں اپنا سردار سمجھ کر رکھو۔ اور ان سے ایسا سلوک نہ کرو جیسا کہ نوکروں سے کیا جاتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنے یا اپنی بیوی کے ماں باپ کو اپنے پاس لے تو آتے ہیں لیکن ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کا کام کاج بھی کریں۔ یہ طریق پسندیدہ نہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کے والدین لڑکی کویہ سمجھاتے ہیں کہ لڑکے کے والدین کو اس کے پاس نہ آنے دینا اور لڑکے کے ماں باپ لڑکے کو یہ سمجھاتے ہیں کہ دیکھنا! لڑکی کے والدین کو قریب نہ آنے دینا۔ ان کی ہدایت کے مطابق لڑکا اور لڑکی دونوں عمل کرنا شرع کرتے ہیں۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے۔ لڑکا کہتا ہے کہ یہ میرے والدین کو بُرا سمجھتی ہے اور لڑکی کہتی ہے کہ یہ میرے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ تمام وہ والدین جو اپنے لڑکے لڑکیوں کو یہ ہدایت دیتے ہیں وہ اپنی اولاد کے خیر خواہ نہیں بلکہ وہ اپنی اولاد کے بد ترین دشمن ہیں۔ اور وہ میرے نزدیک شیطان کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ شیطان کا کام ہے کہ وہ افتراق اور انشقاق کو پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی کسی دوسرے کے لڑکے یا لڑکی سے عزت نہیں کروا سکتے۔ جب ماں باپ ہی ایسی بیہودہ نصائح کریں تو تعلقات کیونکر اُستوار رہ سکتے ہیں۔ اور لڑکے اور لڑکی کی عمر تباہ کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ان کے والدین کا ہوتا ہے۔ چونکہ والدین نے یہی کچھ سکھایا ہوتا ہے کہ والدین کو قریب نہیں آنے دینا چاہئے اِس لئے شادی کے بعد ایک دفعہ میاں بیوی میں کشیدگی ضرور پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ یہ تفرقہ خلع یا طلاق کی نوبت اختیار کر لیتا ہے۔ اور اگر ان میں سے ایک مغلوب ہو جائے اور دوسرا غالب ہو جائے تو جو غالب ہوتا ہے وہ دوسرے کے والدین کو جواب دے دیتا ہے۔ بہرحال یہ ایک ذلّت کی بات ہے اور یہ طریق میرے نزدیک نہایت ظالمانہ ہے۔ فرض کرو بیوی اپنے خاوند پر غالب آ گئی اور اس نے ماں باپ سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی خدمت سے منہ پھیر لیا تو اُس لڑکے پر خدا کی *** ہو گی۔ لیکن ساتھ ہی اس لڑکی پر بھی خدا کی *** ہو گی۔کیونکہ اُس نے اُسے اس بات پر مجبور کیا کہ والدین سے قطع تعلق کرے۔ اور اگر لڑکی نے اپنے والدین کو چھوڑ دیا تو لڑکی پر خدا کی *** ہو گی اور ساتھ ہی اس لڑکے پر بھی خدا تعالیٰ کی *** ہو گی کیونکہ اُس نے اُسے سراسر مجبور کیا۔ پس اگر لڑکے کی وجہ سے لڑکی نے اپنے والدین کو چھوڑا تو لڑکی بھی *** ہوئی اور یہ لڑکا بھی *** ہؤا ۔ اور اگرلڑکی کی وجہ سے لڑکے نے اپنے ماں باپ کو چھوڑا تو لڑکا بھی *** ہؤا اور لڑکی بھی *** ہوئی۔ یہ چیز چاروں طرف سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے گِھری ہوئی ہے۔ مومن کا فرض ہے کہ اس سے بچنے کی کوشش کرے۔
ہمارے علماء کو چاہئے کہ رات دن اِن مسائل کو لوگوں کے سامنے بیان کریں اور اسلامی تعلیم کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ لوگوں کے ذہن نشین ہو جائے کہ طلاق اور خلع نہایت ہی ناپسندیدہ چیزیں ہیں اور اِن پر اُس وقت عمل کرنا چاہئے جبکہ کوئی صورت صلح کی باقی نہ رہے۔ اور قاضیوں کو بھی چاہئے کہ باپ بن کر صلح کرانے کی کوشش کریں اور کسی فریق کے وکیل کو دخل دینے کی اجازت نہ دیں اور ہمدردی، محبت او رنرمی سے جھگڑے کو مٹانے کی کوشش کریں۔ بعض اوقات حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں اور بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی لیکن اگر خلوصِ دل سے اس جھگڑے کو دور کرنے کا ارادہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان حالات کو درست کر دیتا ہے۔ ایک دفعہ میرے پاس اِسی قسم کا ایک جھگڑا آیا۔ میاں اور بیوی دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے سخت بُغض پیدا ہو چکا تھا۔ مَیں نے اُن دونوں کو بلایا اور محبت اور پیار سے سمجھایا لیکن لڑکے نے کہا کہ مَیں کبھی بھی اس کو رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس نے میرے بھائی کی سخت بے عزتی کی ہے۔ اور لڑکی نے کہا مَیں اس کی شکل تک دیکھنے کو تیار نہیں کیونکہ اس نے میرے باپ کو بُرا بھلا کہا ہے۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ ان کی صلح ہو جائے لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہؤا اور وہ صلح کے لئے رضامند نہ ہوئے۔ مَیں نے اُن کو رخصت کر دیا اور چونکہ نماز کا وقت ہو چکا تھا نماز کے لئے چلا گیا۔ نماز میں اُن کی ضِد دیکھ کر مجھ پر رقّت طاری ہو گئی اور مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا الٰہی! ہماری جماعت کے اخلاق کو کیاہو گیا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اِتنا طول دے دیتے ہیں ۔ دوسرے دن وہی لڑکی میرے پاس آئی اور وہ ہنس رہی تھی۔ اُس نے مجھے ہنستے ہوئے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا۔ مَیں نے کہا کیا بات ہے؟ اُس نے کہا وہ مجھے لینے آئے ہیں اور مَیں چلی ہوں۔ چنانچہ اُس کے بعد میاں بیوی میں محبت ہو گئی اور اب ان کے بہت سے بچے بھی ہیں۔
پس قاضیوں کا فرض ہے کہ وہ باپ بن کر معاملہ کو سُلجھانے کی کوشش کریں۔ وہ یہ سمجھیں کہ لڑکی کا خاوند میرا بیٹا ہے اور یہ لڑکی میری بیٹی ہے۔ اگر اس وقت میری بیٹی غلطی کرتی تو مَیں کیا کرتا۔ جو درد اُن کو اپنی اولاد کے متعلق ہے وہی درد انہیں دوسرے لوگوں کے متعلق ہونا چاہئے۔ اگر قاضیوں کے دل میں درد پیدا ہو گا تو لازمی بات ہے کہ دوسرے کے دل میں بھی درد پیدا ہو گا۔ میاں بیوی کے جھگڑے لین دین کے جھگڑوں کی طرح نہیں کہ قاضی ایک مجسٹریٹ کی حیثیت سے فیصلہ کرنے بیٹھے بلکہ یہ قوم کے اخلاق کا سوال ہے۔ اس لئے قاضی کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی رنگ میں بھی وہ انسانی اخلاق کو تباہ کرنے والا نہ ہو۔ جب وہ فیصلہ کرنے لگے تو اُسے نظر آئے کہ میری بیٹی یا میرے بیٹے کی عمر کی بربادی کا سوال درپیش ہے۔ کبھی کبھار اُسے طلاق اور خلع کی بھی اجازت دینی پڑے گی لیکن ایسی صورت میں اخلاق کے بگڑنے کا امکان کم ہو گا اور امید کی جاتی ہے کہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی پہلو اس میں نہیں ہو گا۔ ’’ (الفضل 25 جولائی 1946ء)
1،2: بخاری کتاب النِّکَاح باب مَوْعِظَةُ الرَّجُلِ اِبْنَتَہٗ لِحَالِ زَوْجِھَا
3: سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 251۔ مطبوعہ مصر 1936ء
4:طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 254 باب ذکر ما اوصیٰ بہٖ رسول اللہ ﷺ میں
حجۃ الوداع کے موقع کا ذکر ہے۔
5: ابو داؤد کتاب الطَّلَاق بابُ فِی کَرَاھِیَةِ الطَّلاق میں یہ الفاظ ہیں ‘‘ اَبْغَضُ الْحَلَالِ
اِلَی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَلطّلَاقُ۔’’
6: اُودے: اُودا: سُرخی لیے ہوئے کالا رنگ۔ بینگنی رنگ
7: بخاری کتاب فَضَائِلُ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ ﷺ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذً ا خَلِیْلًا

23
جماعت احمدیہ کان اور آنکھیں کھول کر گرد و پیش کے حالات کا جائزہ لیتی رہے اور ہر قوم کی کارروائیوں کی اطلاع مرکز میں دے
( فرمودہ 28 جون 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘آج مَیں قادیان کی جماعت کو خصوصاً اور بیرونی جماعتوں کو عموماً ایک ایسے امر کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں جو موجودہ حالات کے لحاظ سے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور جس کے متعلق اخبارات پڑھنے والے دوست اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ اخبار پڑھنے والے دوست یا وہ جو میری مجلس میں آتے رہتے ہیں یا اگر مجلس میں نہیں آتے تو دوسروں سے سن کر مختلف خبریں معلوم کر لیتے ہیں، جانتے ہیں کہ یہ ایام نہایت شورش اور فتنہ و فساد کے ایام ہیں۔ اور لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف سخت جوش اور ہیجان پایا جاتا ہے اور بعض قومیں کھلے طور پر یہ دھمکیاں دے رہی ہیں کہ وہ اپنا خون تک بہا دیں گی لیکن اپنے مزعومہ حقوق حاصل کر کے رہیں گی۔ جہاں تک اختلاف کا سوال ہے یہ ایک طبعی امر ہے اور اِس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ لیکن مار پیٹ اور خونریزی کی دھمکیاں دینا یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ مسلمانوں کا عام طریق یہ ہے کہ وہ دھمکی دینا جانتے ہیں لیکن وہ اس کو عملی جامہ پہنانا نہیں جانتے اور وہ اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ان کا کام صرف دھمکی پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اَس کے مقابل پر غیر قومیں جب دھمکی دیتی ہیں تو وہ حقیقی دھمکی ہوتی ہے صرف منہ کی لاف و گزاف نہیں ہوتی۔ لیکن مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہماری دھمکیاں عمل سے خالی ہوتی ہیں اُسی طرح غیر قوموں کی دھمکیاں بھی عمل سے خالی ہیں حالانکہ واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی تمام قوموں کی دھمکیاں خالی دھمکیاں نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس کے ساتھ ایسے سامان بھی بہم پہنچاتی ہیں جن سے وہ اُن کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ چنانچہ اِن ایام میں بعض مقامات سے متواتر اطلاعات آ رہی ہیں کہ بعض قومیں خاص طور پر فساد کے لئے تیاریاں کر رہی ہیں اور جو لوگ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں بندوقوں کے لائسنس لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور جن کے پاس لائسنس ہیں وہ زیادہ کارتوس اور بارود جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جو لائسنس حاصل نہیں کر سکتے وہ تلواریں وغیرہ جمع کررہے ہیں۔ اور جو زیادہ دلیر اور فساد کرنے والے ہیں وہ غیر آئینی طور پر نیزے، بندوقیں اور رائفلیں وغیرہ جمع کر رہے ہیں۔ یا گورنمنٹ نے ان کے لئے کارتوسوں کی جو تعداد مقرر کی ہے وہ اس سے بہت زیادہ جمع کر رہے ہیں اور چونکہ اس قسم کی اطلاعات ہمیں کثرت سے آ رہی ہیں اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ دھمکیاں صرف منہ کی باتیں نہیں بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت بڑی جد و جہد کی جا رہی ہے۔ جو لوگ قانون شکن ہوتے ہیں اُن کے لئے ایسے حالات اَور بھی زیادہ جرأت کا موجب ہوتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں جبکہ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ انگریزوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے اور اُن کی جگہ جرمن آنے والے ہیں اُس وقت بھی قوموں نے بہت شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف تیاریاں کیں۔یہاں تک کہ قادیان کے قریب کے ایک سکھ نے ہمارے ناظر اعلیٰ (اُس وقت کے) چودھری فتح محمد صاحب سے کہا کہ آپ کے پاس جو بندوق ہے وہ آپ مجھے دے دیں اور جو قیمت آپ چاہیں مجھ سے لے لیں۔ گویا اُس کے نزدیک جماعت احمدیہ اور اس کا چیف سیکرٹری اِس قدر غافل ہیں کہ خود حفاظتی کا جائز سامان جو اس کے پاس ہے وہ ایک سو یا دو سو روپے کی خاطر اپنے ہاتھ سے ضائع کر دے گا۔ اس شخص نے کتنی جرأت اور دلیری سے کام لیا کہ اُس نے اس بات کی پروا تک نہ کی کہ وہ ایک ایسے آدمی سے بندوق مانگ رہا ہے جو جماعت کا چیف سیکرٹری ہے اور اس کے ذریعہ یہ خبر جماعت کو پہنچ سکتی ہے۔ چونکہ اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا اِس لئے وہ اپنے آپ کو ان تمام باتوں سے مستغنی سمجھتا تھا کہ اگر جماعت کو اس بات کا علم ہو بھی جائے تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اب پھر مختلف جگہوں سے چِٹھیاں آ رہی ہیں۔ چنانچہ انبالہ سے ایک فوجی افسر کی چِٹھی آئی ہے کہ ہندو اور سکھ فوجی افسر کثرت سے اسلحہ جمع کر رہے ہیں اور تجویزیں کر رہے ہیں کہ فساد ہوتے ہی اسلحہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ اسی طرح ایک اَور دوست جو کہ فوج میں اعلیٰ عہدہ پر ہیں ان کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ ہندو اور سکھ مجھے کہتے ہیں کہ تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ اور ہماری پارٹی کی مدد کرو۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا گیا تو ملک کے لئے نہایت ہی خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ لوگ مکّوں، تھپڑوں اور گھونسوں سے ہی مار مار کر برا حال کر دیتے ہیں۔ اگر ایسے شوریدہ سر لوگوں کے ہاتھ میں توپیں، بندوقیں اور تلواریں آ جائیں تو وہ لوگوں کا کیا حال کریں گے۔
ہماری جماعت کے متعلق شروع سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی ہدایت ہے اور قرآن کریم کی تعلیم بھی یہی ہے کہ فساد کی تحریکوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ مَیں پھر دوبارہ اس بات کا اعلان کر دیتا ہوں کہ ہر احمدی جہاں بھی وہ ہو ایسی تحریکوں میں حصہ نہ لے۔ خواہ وہ تحریکیں کانگرس کی طرف سے ہوں یا مسلم لیگ کی طرف سے۔ مومن کاکام ہے کہ وہ ملک کے امن کو قائم رکھتا ہے لیکن جہاں مومن کو فساد سے بچنے کا حکم ہے وہاں مومن کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ پورے طور پر ہوشیار اور چوکس رہے۔ ایمان اور صلح جوئی کی علامت یہ نہیں کہ دشمن ہتھیار جمع کر رہا ہو اور جتھے بنا رہا ہو اور یہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے۔ بلکہ مومن سب سے زیادہ چوکس اور ہوشیار ہوتا ہے اور وہ آنے والے حالات کے لئے تیاری کرتا ہے۔ پس قادیان اور تمام بیرونی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان کھولیں اور ہر ایک چیز کا بغور مطالعہ کریں بلکہ مَیں کہتا ہوں کہ اِن دنوں ہر ایک احمدی کو جاسوس بن جانا چاہئے اور جس طرح سراغ رساں سراغ لگاتے ہیں۔ اِسی طرح ہمارا ہر احمدی سراغ رساں ہو۔ وہ اپنے محلہ، اپنے گاؤں اور اپنے علاقہ کے متعلق یہ معلوم کرتا رہے کہ اس کے اردگرد کی قومیں فساد کے لئے کس کس قسم کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ اور اگر اُسے کسی بات کا علم ہو تو وہ تحقیقات کر کے اُس کی تفصیلات کے متعلق مرکز کو فوراً اطلاع دے تاکہ مرکز اس کے دفعیہ کی کوشش کرسکے۔ تا اگر وہ منصوبے جماعت کے متعلق ہوں تو خود حفاظتی کے سامان بہم پہنچائے جائیں اور اگر دوسروں کے متعلق ہوں تو اُنہیں خبر دی جائے۔
پس جماعت کے دوستوں کو ایک طرف تو فساد کے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور فساد کی کسی تحریک میں کسی احمدی کو شامل نہیں ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ایسے فسادات سے محفوظ رکھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ ان فسادات کے بادلوں کو جو کہ اِس وقت سخت جوش مار رہے ہیں ایسے طور پر دور کر دے کہ گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ فسادات کے مقامات کو ہم سے اتنی دور کر دے کہ ان کا اثر ہم تک نہ پہنچ سکے اور ہمارا مرکز خطرہ سے محفوظ رہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو محفوظ بھی کر دے تب بھی ہمارا فرض ختم نہیں ہو جاتا بلکہ باقی ملک کو اِس تباہی اور بربادی سے بچانا بھی ہمارا فرض ہے اور ہم ایسا تبھی کر سکتے ہیں جب ہمیں فساد ہونے سے پہلے ان حالات کا علم ہو جائے تاکہ ہم پوری محنت اور کوشش کے ساتھ ہر قسم کی حفاظتی تدابیر اختیار کر سکیں۔ اگر ہمیں وقت پر علم ہو جائے تو ہمارے لئے موقع ہو گا کہ ہم دوسری جماعت کو جس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا گیا ہے وقت پر مطلع کر دیں تاکہ وہ مقابلہ کے لئے ہوشیار ہو جائے۔ اور ہم حکومت کے افسروں کو اطلاع کر دیں کہ اس اس قسم کی تیاریاں فلاں قوم نے کی ہیں اور وہ فلاں قوم کے متعلق بد ارادے رکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح ذمہ دار افسر اس فساد کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اور اگر ہمیں وقت پر اطلاع ہو جائے تو ہم ان فتنہ و فساد کرنے والوں کو بھی سمجھا سکتے ہیں۔ اور اگر وہ فتنہ و فساد ہماری جماعت کے خلاف ہو تو ہم اس کا تدارک کرنے کی فکر کریں گے اور اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کا سامان کریں گے۔ اور ہم جماعتی طور پر انشاء اللہ ایسی کوشش کریں گے کہ ہماری جماعت ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھول کر حالات کا جائزہ لیتی رہے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسلمان نہایت ہوشیار اور چوکس رہتے تھے اور رسول کریم ﷺ کو کفار کی تمام سازشوں کا علم ہوتا رہتا تھا ۔ لیکن دشمن کو آپؐ کی نقل و حرکت کا علم نہ ہو سکتا تھا۔ کوئی ایک لشکر بھی مکہ سے نہیں نکلا جس کا رسول کریم ﷺ کو علم نہ ہؤا ہو۔ حالانکہ صحابہؓ کی حالت یہ تھی کہ وہ مکہ سے نکالے ہوئے تھے اور ان کا مکہ جانا قتل ہونے کے مترادف تھا۔ لیکن باوجود اِس کےر سول کریم ﷺ نے اس قسم کے انتظامات کئے ہوئے تھے کہ کوئی لشکر مکہ سے نکلنے کا ارادہ کرتا تھا تو رسول کریم ﷺ کو اس کی قبل از وقت اطلاع ہو جاتی تھی۔ لیکن اس کے مقابل پر رسول کریم ﷺ نےا یسا انتظام کیا ہؤا تھا کہ کفار کو مسلمانوں کی کوئی بات نہیں پہنچ سکتی تھی۔ جب آپؐ نے مکہ پر چڑھائی کی تو یہ چڑھائی ایسی اچانک تھی کہ کفار بالکل حیران رہ گئے۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ جس میں خبر چھپائی نہیں جا سکتی تھی تو اس کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ بعض علاقے ہمارے ملک میں ایسے ہیں جہاں خبر چھپائی نہیں جا سکتی مثلاً ڈیرہ غازی خاں اور سندھ کے علاقے میں کوئی خبر چُھپ نہیں سکتی۔ جب ان میں کوئی ایک دوسرے سے ملتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو کھڑا کر لیتا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے کے بعد کہتا ہے دیو حال یعنی اپنے علاقہ کا حال بتاؤ۔ تو دوسرا آدمی تمام وہ باتیں جن کا اُسے علم ہوتا ہے بیان کرنا شروع کر دیتا ہے کہ فلاں کے گھر بیٹا ہؤا ہے، فلاں کی منگنی ہوئی ہے، فلاں کی شادی ہوئی ہے، فلاں جگہ لڑائی ہوئی ہے، فلاں پر مقدمہ کیا گیا ہے اور فلاں کو پولیس کے افسر تلاش کر رہے ہیں۔ جب وہ بیان کرتے کرتے تھک جاتا ہےتو دوسرے سے کہتا ہے اچھا تسیں دیو حال۔ تو پھر دوسرا شخص اسی طرح تمام باتیں جن کا اسے علم ہو بیان کرنا شروع کرتا ہے اور بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو اپنے پہلے ساتھی سے کہتا ہے کہ دیو حال یعنی جو خبریں باقی رہ گئی تھیں وہ بتاؤ۔ اس پر وہ بقیہ خبریں بیان کرنی شروع کرتا ہے۔ جب وہ تھک جاتا تو دوسرےسے کہتا ہے کہ تسیں دیو حال۔ پھر دوسرا بقیہ خبریں بیان کرنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ آدھ آدھ گھنٹہ ایک دوسرے کو حال دیتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ آگے چلتے ہیں تو جہاں انہیں کوئی اَور دوست ملتا ہے تو اس سے حال پوچھتے ہیں اور خود حال بتاتے ہوئے تمام وہ باتیں جو ان کے دوسرے ساتھی نے ان کے سامنے بیان کی تھیں وہ اس کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ پھر جب وہ اگلے سے ملتا ہے تو وہ یہ تمام خبریں اگلے کو پہنچا دیتا ہے۔ اور جب پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لئے نکلتی ہے تو وہ مجرم ان حال دینے والوں کے ذریعہ سے پہلے ہی آگاہ ہوجاتا ہے اور پولیس کے ہاتھ میں نہیں آتا۔ لیکن عربوں میں یہ حال دینے کا رواج نہیں تھا بلکہ وہ اپنی خبروں کو بڑی سختی کے ساتھ چھپاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود رسول کریم ﷺ کو ان کی خبریں معلوم ہو جاتی تھیں۔ا س کے برخلاف فتح مکہ کے موقع پر آپ اپنے ساتھ دس ہزار سپاہی لے کر نکلے اور عین مکہ کے قریب جا کر آپ نے ڈیرے ڈالے۔ ابو سفیان مدینہ سے ہو کر واپس آ رہا تھا۔ اس نے رسول کریم ﷺ کو مدینہ میں چھوڑا تھا۔ اکیلے آدمی کا سفر کرنا آسان ہوتا ہے بہ نسبت ایک فوج کے۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے ایسی مارا مار کر کے چڑھائی کی کہ وہ سب لوگ حیران رہ گئے ۔ ابو سفیان نے دور سے آپؐ کی فوج کو دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کس قبیلہ کے لوگ معلوم ہوتے ہیں؟ ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لئے اور ہر ایک نام جو اُنہوں نے لیا اُس کو ابو سفیان نے ردّ کر دیا کہ ان کی اتنی تعداد نہیں اور ان کی اِتنی بڑی فوج نہیں ہو سکتی۔ پھر ان کے ساتھیوں نے کہا شاید محمد (رسول اللہﷺ) اور ان کے ساتھی ہوں۔ تو ابو سفیان نے کہا۔ کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ مَیں مدینے میں ان کو آرام سے چھوڑ کر آیا ہوں۔ اتنی جلدی وہ کیسے یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ابو سفیان یہ باتیں ہی کر رہا تھا کہ یکدم صحابہؓ نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو گھیر لیا۔ حضرت عباسؓ سے ابو سفیان کی دوستی تھی۔ حضرت عباسؓ نے کہا کہ تم میرے پیچھے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ مَیں تمہیں رسول کریم ﷺ کی مجلس میں لے چلتا ہوں۔ تم وہاں چل کر توبہ کر لو تمہیں امان مل جائے گی۔ حضرت عباسؓ ابو سفیان کو گھوڑے پر بٹھا کر لے آئے اور رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آ کر اُن کو دھکّا دے کر کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ توبہ کرنے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ اور بعض اَور صحابہؓ ابو سفیان کے پیچھے بھاگے آ رہے تھے۔ حضرت عباسؓ نے ابو سفیان سے کہا کہ توبہ کر لو نہیں تو مارے جاؤ گے۔ لیکن چونکہ ابو سفیان اس ارادے سے نہ آئے تھے اس لئے جلدی میں توبہ کا خیال ان کو نہ آیا۔ حضرت عباسؓ بار بار کہتےابو سفیان! توبہ کرو اور وہ آنکھیں پھاڑے کبھی اِدھر دیکھتے کبھی اُدھر دیکھتے۔ حضرت عمرؓ اس انتظار میں تھے کہ رسول کریم ﷺ مجھے اشارہ کریں تو مَیں ابو سفیان کا سر تن سے جدا کر دوں۔1 کچھ دیر کے بعد ابو سفیان نے اپنا ہاتھ بیعت کے لئے نکالا اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جب ابو سفیان بیعت کر چکے تو حضرت عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!انہوں نے جھوٹی بیعت کی ہے۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!اگر آپ مجھے آنکھوں کا اشارہ کرتے تو مَیں ان کی گردن اُڑا دیتا۔ آپ نے فرمایا نبی خائن نہیں ہوتا۔ مَیں تمہیں کس طرح آنکھوں کا اشارہ کر سکتا تھا۔
پس رسول کریم ﷺ کا یہ طریق تھا کہ آپ بہت ہوشیاری اور احتیاط سے کام کرتے تھے۔ ہماری جماعت کو بھی ان دنوں بہت ہوشیار اور چوکس رہنا چاہئے اور ہر قوم اور ہر فرقہ کی کارروائیوں اور جتھے بندیوں سے مجھے یا ناظر اعلیٰ کو مفصّل طور پر اطلاع دیتے رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ مَیں بیرونی جماعتوں کو اس با ت کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں مقامی طور پر بھی اپنی تنظیم کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں پراگندگی اور تشتُّت نہیں ہونا چاہئے ورنہ وہ خود حفاظتی کی تدابیر نہیں کر سکیں گی۔ جماعت کے کارکنان کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بیرونی جماعتوں کی تنظیم ان ایام میں خاص طور پر نہایت ضروری ہے۔
مَیں جماعت کو پھر دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ اسے اپنے اردگرد اور اپنے ماحول کا بغور مطالعہ کرتے رہنا چاہئے اور ہر قسم کی اطلاعات مرکز کو بھجواتے رہنا چاہئے۔ اور جن لوگوں کو ایسی تیاریاں کرتے ہوئے پائیں اُنہیں سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ فتنہ و فساد کر کے اپنے ملک کو خونریزیوں کا اکھاڑہ نہ بنائیں۔ اور ساتھ ہی بِالالتزام دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو اِن خطرناک حالات سے بچائے۔ آمین۔ ’’ (الفضل 2 جولائی 1946ء)
1: سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 42تا46مطبوعہ مصر 1936ء

24
جماعت احمدیہ کو اپنی ذہنیت ملّی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے
( فرمودہ 5 جولائی 1946ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘بعض انسانی قوتیں اِس قسم کی ہیں کہ بظاہر وہ قدرت کا ایک عطیہ معلوم ہوتی ہیں مگر اس کے ساتھ ان میں کمی بیشی کا بھی امکان ہوتا ہے اور وہ کمی بیشی فردی، قومی اور نسلی کوشش سے پیدا ہو سکتی ہے۔ مثلاً بظاہر نظر، قدرت کا ایک عطیہ ہے اور دیکھنا طبیعت اور قانون کا ایک فعل ہے لیکن اس میں بھی کمی بیشی کی جا سکتی ہے اور کمزور نظر تیز کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جب ہم زیادہ غور کے ساتھ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض اقوام کی نظر تیز ہوتی ہے اور بعض اقوام کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ یہ فرق قوموں کے خاص پیشوں اور احتیاط کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ پڑھنے لکھنے والی قوموں کی آنکھیں لمبی ہو جاتی ہیں اور اُن کی نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ بعض قسم کی پیشہ ور اقوام ایسی ہیں جن کی نظر بہت تیز ہوتی ہے۔ گو اَب وہ اقوام پائی نہیں جاتیں۔ مثلاً شکاریوں کی ایک قوم نَسْـلًابَعْدَ نَسْلٍ شکار کرتی چلی جاتی تھی اور شکار میں تیز نظر کی ضرورت ہے اُن کی نظر اِس پیشہ کی وجہ سے تیز ہو جاتی تھی۔ شکار ایک ایسا پیشہ ہے جس میں نظر کی تیزی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ پس نظر کی متواتر مشق کی وجہ سے اور نظر کی تیزی کی طرف خاص توجہ ہونے کی وجہ سے نَسْـلًابَعْدَ نَسْلٍ ان اقوام کی نظر تیز ہوتی چلی جاتی تھی۔ جہاں نظر، اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے وہاں چند اَور چیزیں بھی ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہیں۔ مگر انسان کی متواتر کوشش سے ان میں کمی بھی اور بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک ذہن بھی ہے۔ اگر انسان ذہن کی تیزی کے لئے کوشش کرے تو اس میں بہت حد تک جِلا پیدا ہو سکتا ہے۔ سینڈو 1نے ورزش کے جو اصول نکالے ہیں وہ ایسے نہیں جو پہلے کسی کو معلوم نہ تھے اور صرف اسی نے معلوم کئے بلکہ وہ طریقے لوگوں کو پہلے بھی معلوم تھے۔ اس نے جو فرق پیدا کیا وہ صرف یہ ہے کہ اس نے ورزش کرنے والوں کو توجہ دلائی کہ ورزش کرنے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہم کیا کچھ بننا چاہتے ہیں۔ اور جو کوشش ہم کرتے ہیں اس کا طبعی نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اگر طبعی نتیجہ نہیں نکلتا تو ورزش کرنے والے کو جان لینا چاہئے کہ میرے اندر کوئی کمزوری ہے جس کی وجہ سے میرے جسم میں سڈول پن اور میرے اعصاب میں طاقت اور میرے مَسلز میں قوت نہیں آ رہی۔ جس طرح ان چیزوں کو فردی رنگ میں تیز کیا جاتا ہے اُسی طرح ان چیزوں کو قومی اور ملّی رنگ میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور جس طرح اس قوم کے افراد ان چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں دوسرے آدمی اس طور پر فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ دنیا صرف مادی قواعد سے ہی نہیں چلتی بلکہ ان قواعد کے ساتھ کچھ نفسیاتی قواعد بھی ہیں جو ان مادی قواعد سے مل کر نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً حافظہ ہے۔ یہ کسی کا کمزور او رکسی کا مضبوط ہوتا ہے۔ بظاہر حافظہ کی کمزوری پیدائش سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں سے کسی کا حافظہ تیز ہوتا ہےا ور کسی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد میں سے کسی کا حافظہ تیز ہوتا ہے اور کسی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے حافظہ کو گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ بعض خاص قسم کے قواعد ہیں جن پر عمل کرنے سے قوتِ حافظہ تیز ہو جاتی ہے اور اُن قواعد کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو حافظہ کم ہو جاتا ہے۔ حافظہ بے شک ایک طبعی چیز ہے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسے گھٹایا بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔
قومی ترقی منحصر ہے قومی ذہن پر۔ اگر افراد میں قومی ذہنیت پیدا نہیں ہوتی تو قوم کا ترقی کرنا بالکل محال ہے۔ لیکن جو قومیں اپنے اندر قومی ذہنیت پیدا کر لیتی ہیں وہ دوسری قوموں پر سبقت لے جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو اُٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کے ذہن کو تیز کر دیتا ہےاور جب کسی قوم کو گرانے کا فیصلہ کرتا ہے تو ان کے ذہن کو کمزور کر دیتا ہے۔ حافظہ کی قوت بظاہر ان میں موجود ہوتی ہے لیکن جو ذہن غالب قوم کا ہوتا ہے وہ ان کا نہیں ہوتا۔ وہ بات بات پر رُک جاتے ہیں اور اپنے اُلجھے ہوئے مسائل کو حل نہیں کر سکتے لیکن اگر کتابوں کے یاد کرنے کا سوال آئے تو وہ ایسی فر فر سناتے ہیں کہ ان کے حافظہ کی داد دینی پڑتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے جب کبھی قومی مقابلہ کا وقت آتا ہے تو وہ ہار جاتے ہیں اور وہ قوم جو بظاہر ذہنی طور پر اور اعصابی طور پر کمزور نظر آتی تھی جیت جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جماعتی ذہن کے متعلق فیصلہ فرما دیا ہوتا ہے کہ وہ جیت جائیں اور یہ لوگ جو جسم کے لحاظ سے ان جیت جانے والوں سے کم نہیں تھے ہار جاتے ہیں۔ آخر کیا چیز تھی جس نے ان کو غالب اور ان کو مغلوب کر دیا؟ وہ قومی ذہن کی تیزی تھی۔ ذہن ایک ایسی چیز ہے جو تمام انسانی قویٰ کی کنجی ہے۔ قوتِ ارادی جو انسان کو کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور ذہن کے ماتحت ہے اگر ذہن پورے طور پر صحیح خطرہ یا صحیح فائدہ کو نہیں سمجھے گا تو قوتِ ارادی بھی پوری تیاری نہیں کرے گی۔ ذہن جتنا تیز ہو گا اُتنی ہی قوتِ ارادی بھی تیز ہو گی۔ کیونکہ ذہن تمام حالات کا جائزہ لیتا ہے اور قوت ارادی اس کے جائزہ کے مطابق تیاری کرتی ہے۔ اگر ذہن حالات کو صحیح شکل میں پیش کرتا ہے تو قوتِ ارادی صحیح رنگ میں کام کرتی ہے اور اگر غلط طور پر پیش کرتا ہے تو قوتِ ارادی غلط قدم اٹھاتی ہے۔ اگر کسی کا ذہن تیز نہیں تو صرف قوت ارادی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ فرض کرو ایک شخص کی قوتِ ارادی بہت مضبوط ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ مَیں پہاڑ سے کُود پڑوں گا۔ ایسے شخص کی قوتِ ارادی خواہ کتنی ہی مضبوط ہو۔ وہ پہاڑ سے چھلانگ لگا کر بچ نہیں سکتا اور اس کی قوتِ ارادی کی مضبوطی اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ تمام لوگ ایسے شخص کو پاگل اور بے وقوف کہیں گے ۔ اگر اسے ذہن بھی ملا ہوتا تو وہ اس حرکت سے اجتناب کرکے کسی معقول ذریعہ سے اپنے مقصد کے حل کی کوشش کرتا۔ پس قوتِ ارادی کے ساتھ ذہن کی تیزی نہایت ضروری چیز ہے۔ یہ خدائی قانون ہے کہ اگر انسان ان ذرائع کو استعمال کرے جو خدا تعالیٰ نے اَذہان کو تیز کرنے کے لئے مقرر کئے ہیں تو اَذہان میں بہت حد تک تیزی پیدا ہو جاتی ہے۔
جس طرح انفرادی ذہن کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اِسی طرح قوموں میں قومی ذہنیت بھی بہت کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔ فردی لحاظ سے کئی لوگ بہت زیرک اور ہوشیار ہوتے ہیں لیکن جب وہ قومی طور پر کسی قوم کے مقابلے میں آتے ہیں تو ہار جاتے ہیں کیونکہ ان کا ذہن قومی ذہن نہیں ہوتا اور وہ فرداً فرداً کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لئے اجتماعی طور پر وہ کام کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے قیمتی سے قیمتی ہیرے، قیمتی سے قیمتی لعل اور قیمتی سے قیمتی زمرد بے جوڑ طور پر ایک انگوٹھی میں جوڑ دئیے جائیں تو کوئی شخص انہیں پسند نہیں کرے گا۔ او رخواہ ان کی قیمت کئی لاکھ روپیہ ہو کوئی انہیں سینکڑوں میں لینے پر بھی آمادہ نہ ہو گا۔ لیکن معمولی سے معمولی قیمت کے پتھر عمدہ طریق سے مناسبت کے ساتھ جوڑ کر انگوٹھی میں لگائے جائیں تو ان پچاس ساٹھ روپے کے پتھروں کے سینکڑوں ہزاروں گاہک پیدا ہو جائیں گے۔ اسی طرح قومی ذہن کے معنے یہ ہیں کہ ان لوگوں کے ذہنوں میں باہمی مناسبت ہو۔ اگر ذہین قوموں کے حالات کو ہم بغور دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ذہن ہی ہے جو ان کی اصل کامیابی کا موجب ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اذہان اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہوتے ہیں لیکن ایک لمبے تجربہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ایک حد کے اندر جذبات، عزم، محبت اور ارادے اور ایسی ہی دوسری قوتیں کم و بیش ہو جاتی ہیں۔ گویا ایک چیز اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کی تراش خراش کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ مثلاً گلاب کا پودا ہے۔گارڈینیا کا پودا ہے، ڈرانٹے کا پودا ہے یہ سب پودے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں لیکن اسے سجانے کی قوت پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے۔ اگر اسے اسی شکل میں چھوڑ دیا جائے جس میں خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کی تراش خراش نہ کی جائے تو اس میں دیدہ زیبی کا کوئی سامان پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن جب ڈرانٹے پر مالی کی قینچی چلتی ہے، جب گارڈینیا پر مالی کی قینچی چلتی ہےتو اس کی شکل بالکل بدل جاتی ہے۔ کہیں اس کی گنبد کی شکل بن جاتی ہے اور کہیں اس کے پودے دیواریں اور دروازے نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ڈرانٹے کا درخت مالی کی قینچی چلنے کے بعد نہایت خوشنما شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کہیں اس کے بنے ہوئے عمود اور ستون نظر آتے ہیں اور کہیں خوشنما دروازے اور دیواریں نظر آتی ہیں۔ اِسی طرح گلاب کا پودا اپنی ذات میں اتنا خوبصورت نظر نہیں آتا جتنا وہ اس وقت خوبصورت نظر آتا ہے جب اس کے پھول گلدستہ میں لگے ہوئے ہوں۔ پس ایک قسم کی خوبصورتی پیدا کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی دی ہے اور ہر چیز جو انسان کے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اس کے اندر وہ ایک مزید خوبصورتی پیدا کر دیتا ہے۔ جتنے پیوندی درخت ہیں یہ سب انسان کی خوبصورتی پیدا کرنے کی طاقت کا نتیجہ ہیں۔ آم، آڑو، سیب اور مختلف قسم کے پھل سب کے سب اپنی ذات میں اچھی چیز ہیں۔ لیکن انسان ان کو آپس میں پیوند لگا کر اُن کی نئی نئی شکلیں بنا دیتا ہے۔ جس طرح انسان آموں میں، انگوروں میں، سیب میں، ناشپاتی میں،آڑوؤں میں،آلوچوں اور دوسرے پھلوں میں تغیر و تبدّل کر سکتا ہے اسی طرح انسان اپنی قوتوں اور اپنی طاقتوں میں بھی تغیر و تبدّل کر سکتا ہے اور اپنے ذہن کو فردی اور قومی بنا سکتا ہے۔ یہی چیزیں ہیں جن سے قومیں جیتتی ہیں۔ کوئی قوم صرف اپنے مال اور اپنے سامان کی وجہ سے نہیں جیت سکتی۔
دیکھو عام طور پر مالدار لوگوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں اور ہر وقت انہیں چوری کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ لیکن مغربی قوموں میں چونکہ قومی ذہنیت پیدا ہو چکی ہے اس لئے انہوں نے بنک بنائے اور اس روپے سے سائنس اور انڈسٹری کے سامان خریدے اور ان سے ایجادیں کر کے اَور زیادہ روپے کمانے کے ذرائع نکالے اور کمپنیاں بنا کر تجارت کو اتنی وسعت دی کہ ایشیائی لوگ ان کے سامنے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔ ان کی تجارت کی وسعت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور فردی مفاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے تنزّل کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ انفرادی طور پر فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے بھائیوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھتے۔ وہ قومی مفاد کے نام سے نا آشنا ہیں۔
ہماری جماعت کو اس بات کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے کہ اس میں قومی ذہنیت پیدا ہو جائے کیونکہ ہماری جماعت ایک انتظامی جماعت ہے اور وہ جماعتی طور پر ہی ترقی کر سکتی ہے۔ فردی طور پر ساری دنیا تو کیا ہم ایک ملک میں بھی اپنا اثر اور نفوذ قائم نہیں کر سکتے۔ ایک ملک تو کیا صرف پنجاب میں بھی اپنا اثر و نفوذ قائم نہیں کرسکتے۔ پنجاب تو کیا صرف گورداسپور میں بھی اپنا اثر و نفوذ قائم نہیں کر سکتے۔ گور داسپور تو کیا صرف قادیان میں بھی اپنا اثر و نفوذ قائم نہیں کر سکتے۔ اگر ہمارا اثر و نفوذ کوئی چیز قائم کر سکتی ہے توو ہ ملّی جذبہ ہے۔ اگر ہمارے اندر ملّی جذبہ پیدا ہو جائے تو ہم یقیناً ساری دنیا پر غالب آ سکتے ہیں۔ ملّی جذبہ کی مثال ایک دریا کی طرح ہے اور انفرادی جذبہ کی مثال برسات کے پانی کی سی ہے۔ جب دریا بہتا ہے تو ہر چیز جو اُس کے رستہ میں آتی ہے تو اُسے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور انفرادی جذبہ خواہ کتنا ہی زبردست ہو وہ برساتی پانی کی مانند ہوتا ہے۔ برسات کا پانی بہتا ہے اور مختلف اطراف میں پھیل جاتا ہے اور اُس میں وہ زور نہیں ہوتا جو دریا کے بہاؤ میں ہوتا ہے۔ کیونکہ دریا نے اپنا ایک راستہ مقرر کر لیا ہوتا ہے لیکن برسات کے پانی کے لئے کوئی خاص رستہ مقرر نہیں ہوتا اِس لئے وہ اِدھر اُدھر پھیل جاتا ہے اور زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ لیکن دریا جب بہتا ہے تو اردگرد کی چھوٹی چھوٹی ندیاں آ کر اس میں شامل ہو جاتی ہیں اور اس کی طاقت کو بڑھا دیتی ہیں اور سمندر تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی حال مجموعی ذہانت کا ہوتا ہے۔ پس ہماری جماعت کو اپنی ذہنیت ملّی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ملّی اور قومی ذہنیت کے مواقع ہر انسان کو پیش آتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگر دو نوجوان ایک کمرے میں رہتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے آرام کا موجب بنتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں ملّی ذہانت پائی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ لڑتے جھگڑتے ہیں اور بجائے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے عدمِ تعاون کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ وہ ملّی ذہنیت سے عاری ہیں۔ اِسی رنگ میں ہم بڑے اجتماع اور بڑی تنظیم کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا اُن قوموں میں ملّی ذہنیت اور ملی جذبہ پایا جاتا ہے یا نہیں ایسے لوگ جو ملّی ذہنیت سے خالی ہوں خواہ وہ کتنے ہی ذہین اور قابل ہوں وہ قوم کے لئے عضوِ معطل کی طرح ہیں اورجماعت کے لئے زیادہ پریشانی کا موجب ہوتے ہیں۔ ان کی وہی حالت ہوتی ہے کہ ؂
اے روشنی !طبع تُو بر من بلاشدی
جب کسی قوم کے افراد کی ذہنیت تو بلند ہو جائے لیکن ان میں تعاون کی روح موجود نہ ہو تو اُس قوم میں سخت ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ذہنیت کی بلندی ان کے لئے تباہی کا موجب ہو جاتی ہے۔ ذہن اور حِسّ کی تیزی بے شک اچھی چیز ہے لیکن اگر تعاون کی روح نہ بڑھے۔ تو یہ حِسّ کی تیزی بہت خطرناک صورت اختیار کر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ذہن اور حِسّ کی تیزی بعض اوقات انسان کے لئے وبالِ جان ہو جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آدمیوں کو سخت سے سخت الفاظ بھی کہے جائیں تو اُن کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے۔ ہم عورتوں میں ہی دیکھتے ہیں کہ جو عورتیں کم حساس ہوتی ہیں ان کو ان کے خاوند ڈنڈے مارتے ہیں، سخت سے سخت الفاظ کہتے ہیں لیکن وہ اسی طرح چاق و چوبند رہتی ہیں۔ لیکن جو عورتیں حساس ہوتی ہیں ان کے خاوند نہ اُنہیں مارتے ہیں نہ ہی سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ صرف خاوند کے ایک طعنہ پر ہی مر کر مٹی ہو جاتی ہیں اور چند دنوں کے بعد ہی خون تُھوکنے لگتی ہیں۔ مگر ایک وہ ہوتی ہیں کہ خاوند چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹتاہے، بھوکا رکھتا ہے لیکن ان کے چہرے اور ان کے جسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی حِسّ تیز نہیں ہوتی۔ وہ ہر موقع پر ہنس کر کہہ دیتی ہیں چلو کیا ہؤا۔ لیکن جو عورتیں حساس ہوتی ہیں وہ بات بات پر کہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہؤا ؟اور چھوٹی سے چھوٹی بات ان کو محسوس ہوتی ہے اور ان کومسلول 2بنا دیتی ہے۔ تو احساس کی ترقی انسان کے لئے تکلیف کا موجب بھی ہوتی ہے۔ اور ذہن کی ترقی کے معنے بھی دراصل حِسّ کی ترقی ہی کے ہیں۔ جس قوم میں ملّی تعاون مفقود ہو اوراس کے افراد کے ذہن ترقی کر جائیں تو یہ ذہنی ترقی ان کے لئے رحمت نہیں بلکہ زحمت ثابت ہوتی ہے اور ان کی دولت ان کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ وہ اگر فقر اور غربت کی حالت میں ہوتے تو اچھا تھا۔ اگر ان کا ذہن اور ان کا حافظہ تیز نہ ہوتا تو وہ آرام میں رہتے کیونکہ جتنا کسی قوم کا حافظہ تیز اور ذہن بلند ہو گا اُتنا ہی اس کے افراد میں نکتہ چینی کا مادہ زیادہ ہو گا اور وہ ہر وقت یہی سوچتے رہیں گے کہ فلاں کام ہونا چاہئے تھا نہیں ہؤا۔ فلاں کام اس طور پر ہونا چاہئے تھا نہیں ہؤا۔ لیکن چونکہ ان میں باہمی تعاون نہیں، قومی روح نہیں اس لئےوہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔ اور ایسے لوگوں سے کام لینے والا شخص ان سب سے زیادہ دکھ میں ہوتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ مَیں نے فلاں کام کرنے کے لئے کہا تھا لیکن ابھی تک نہیں ہؤا۔ اگر اس کا حافظہ تیز نہ ہوتا تو وہ آرام میں رہتا اور وہ بھول جاتا کہ مَیں نے کسی کام کے کرنے کے لئے کہا تھا یا نہیں۔ لیکن اس کا حافظہ اسے وہ بات بھولنے نہیں دیتا۔ اگر اس کا ذہن تیز نہ ہوتا تو وہ اس بات کے نہ ہونے سے جو نقائص پیدا ہوتے انہیں محسوس نہ کرتا اور ہر وقت کے دکھ میں نہ پڑتا۔
پس احساسات اور ذہن کی ترقی کے ساتھ باہمی تعاون کی روح نہایت ضروری ہے۔ جس قوم میں ذہنی ترقی بھی ہو اور باہمی تعاون بھی ہو کوئی قوم اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ ملّی اور قومی کام ہے اور اسے قومی طور پر ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کی بنیاد باہمی تعاون پر رکھی ہے اِس لئے ہمیں قومی ذہنیت پیدا کرنی چاہئے۔ اگر ہمارے افراد میں ملّی جذبہ نہیں تو وہ جتنا ترقی کریں گے اتنا ہی جماعت کے لئے فتنہ کا موجب بنیں گے۔ لیکن اگر ہماری جماعت کے افراد ایک طرف تو فردی ترقیات کی طرف قدم اٹھائیں اور دوسری طرف ملّی جذبہ ہر وقت ان کے پیش نظر رہے تو پھر سونے پر سہاگہ اور موتیوں میں دھاگہ والی بات ہو گی۔ اور جتنی ترقی جماعت کرے گی اُتنی ہی وہ افراد کی ترقی کا موجب بنے گی۔ اور جتنی ترقی افراد کریں گے اُتنے ہی وہ جماعتی ترقی کا موجب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے تمام فضل ہم پر نازل ہوں گے۔’’ (الفضل 13 جولائی 1946ء )
1: سینڈو: Sandow: (1867ء تا 1925ء)جرمنی کے علاقہ Konigsberg
میں پیدا ہونے والا مشہور ریسلر اور باڈی بلڈر۔ اس کا پورا نام یوگین سینڈوتھا ۔ اس نے ساری
دنیا میں ہیلتھ کے حوالے سے بہت جدت پیدا کی اور فزیکل کلچر کو بہت فروغ دیا ،برطانیہ
میں اس حوالے سے ایک سکول بھی قائم کیا ۔
Everyman’s Encyclopedia – Vol 10 – page 593)
JM Dent & Sons Ltd ء1978(
2: مسلول: سِل کی بیماری والا

25
پنشن یافتہ احباب اپنے آپ کو خدمتِ دین کے لئے پیش کریں۔ تبلیغ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے تحریک جدید کے دفتر دوم کو پوری طرح مضبوط کرنا لازمی ہے
( فرمودہ 19 جولائی 1946ء )
تشہد، تعوّذ او رسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ چونکہ چند دنوں کے بعد رمضان آنے والا ہے اِس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ مَیں یہ جمعہ قادیان پڑھاؤں کیونکہ رمضان کے ایام میں بِلا کسی اہم سبب کے سفر پسندیدہ نہیں۔ مَیں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے لحاظ سے قسم قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے، آدمیوں کی بھی ضرورت ہے، روپے کی بھی ضرورت ہے، عقل و خرد اور تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک نئے نئے کام کرنے والے نہ ملیں ہم کچھ نہیں کر سکتے، جب تک روپیہ نہ ملے ہم کچھ نہیں کر سکتے، جب تک لوگ زندگیاں وقف نہ کریں اور کام کرنے والے ہمارے ساتھ کاموں میں پورا پورا تعاون نہ کریں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ساری جماعت ہماری پوری پوری مدد کو تیار نہیں ہوتی ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جہاں تک آدمیوں کا سوال ہے ہمیں خدا کے فضل سے بہت سے آدمی ملے ہیں اور ملتے جا رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں۔ بعض خاص قسم کے کاموں کے لئے خاص قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مَیں نے گزشتہ سالوں میں یہ تحریک کی تھی کہ گورنمنٹ کی ملازمت سے فارغ ہونے والے بجائے اِس کے کہ گھروں میں بیٹھ رہیں اگر چند سال سلسلہ کی خدمت کریں تو سلسلہ کی کئی اہم ضرورتیں ان کے ذریعہ پوری ہو سکتی ہیں۔ بعض کام ایسے ہیں جو نوجوانوں کے ہی سپرد کئے جا سکتے ہیں او ربعض کام ایسے ہیں جو بوڑھوں کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔ بوڑھوں کی جگہ نوجوان نہیں لے سکتے اور نوجوانوں کی جگہ بوڑھے نہیں لے سکتے۔ جہاں بھاگ دوڑ اور نئے نئے خیالات اور نئی نئی اُمنگوں کا سوال ہے نوجوان ہی مفید ہو سکتے ہیں کیونکہ بوڑھے ایک خاص خیال اور خاص نظریہ پر پختہ ہو جاتے ہیں اور نئے نئے خیال اُن کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن نوجوان جہاں کام کے میدان میں چست و چالاک ہوتے ہیں وہاں وہ غور و فکر اور مناسب سختی و نرمی کے میدان میں بوڑھوں کے مقابل پر کمزور ہوتے ہیں کیونکہ اِس میدان میں تجربہ کی ضرورت ہے اور بوڑھے ہی تجربہ کار ہوتے ہیں۔ نوجوان ہر ناپسندیدہ چیز کو مٹانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے حالانکہ ہر ناپسندیدہ چیز کا مٹانا مناسب نہیں ہوتا ا ورہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو وہ مٹانا چاہتا ہے وہ حقیقت میں ناپسندیدہ نہ ہوں بلکہ صرف اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہوں۔ لیکن اس کے مقابل پر ایک جذبہ نوجوان میں ایسا پایا جاتا ہے جو بوڑھوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ یہ کہ وہ بے دریغ جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ کئی نوجوانوں نے لغو سے لغو چیز کے لئے اپنی جان دے دی حالانکہ ایسا کرنے میں محض ان کے ذاتی میلان اور رغبت کا دخل ہوتا ہے۔ اس سے درحقیقت فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پس جوانی کا زمانہ بھی نہایت اہم زمانہ ہے کہ انسان اس زمانہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن وہ اس عمر میں چیزوں کی ماہیت اور حقیقت سے پورے طور پر آگاہ نہیں ہوتا۔ ایک لمبی عمر کے تجربہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو مَیں بُرا سمجھتا ہوں وہ حقیقت میں اچھی ہوں اور جن کو مَیں اچھی سمجھتا ہوں وہ درحقیقت بُری ہوں۔ اور جن چیزوں کو مَیں اپنے خیال میں اہمیت دیتا ہوں وہ لوگوں کے حالات اور ماحول کے مدنظر اس قابل ثابت نہ ہوں کہ ان کو اس قدر اہمیت دی جائے۔ جس قوم نے دنیا کے سامنے مذہب کو پیش کرنا ہے اس کے نزدیک اس کے دینی مطالب اور دینی مقاصد اور دینی ضرورتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے بیان کیاہے۔ہمیں نوجوانوں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ قربانی کے میدان میں ان کو بوڑھوں سے زیادہ اہمیت ہے اور ہمیں بوڑھوں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ تجربہ اور دانائی کے میدان میں بوڑھوں کو نوجوانوں سے زیادہ اہمیت ہے۔
ہمارے ہاں قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کے بیٹے کی شادی تھی اور بیٹی والوں کا خیال تھا کہ یہ رشتہ نہ کیا جائے لیکن صفائی سے انکار بھی نہ کر سکتے تھے کیونکہ بدنامی سے ڈرتے تھے۔ بادشاہ نے وزراء سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جائے؟ کوئی ایسی صورت بتاؤ کہ رشتہ بھی نہ ہو اور ہم بدنامی سے بھی بچ جائیں۔ اُنہوں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وقت مقرر کرتے وقت آپ یہ بات پیش کریں کہ ہمارے ہاں بعض رسم و رواج ہیں اُن کی پابندی آپ پر لازمی ہو گی۔ اُن رسوم میں سے ایک رسم یہ ہے کہ برات میں جتنے لوگ آئیں وہ سب کے سب نوجوان ہوں اوران میں کوئی ایک بھی بوڑھا نہ ہو۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ نوجوانوں کے سامنے ہم کوئی رسم بطور امتحان پیش کر دیں گے۔ نوجوانوں میں سوچ بچار کا مادہ کم ہوتا ہے وہ اس کو حل نہیں کر سکیں گے اور جوش میں آ جائیں گے ۔ ہم کہیں گے کہ ہماری ہتک ہو گئی ہم شادی کے لئے تیار نہیں۔ دوسرے بادشاہ کو جس کے لڑکے کی شادی تھی جب یہ بات پہنچائی گئی کہ برات میں سب کے سب نوجوان آئیں، کوئی بوڑھا نہ آئے تو وہ فوراً اس بات پر رضامند ہو گیا اور اس نے کہا اچھا ہے کہ نوجوان ہی خوش خوش ہنستے کھیلتے جائیں اور ہم ان پر بوجھ نہ بنیں اور ان کی خوشی میں خلل انداز نہ ہوں۔ بادشاہ کے بوڑھے وزیر نے شہزادے سے کہا۔ شہزادے! تمہارے باپ نے تو یہ شرط مان لی ہے کہ برات میں کوئی بوڑھا نہ آئے لیکن مجھے اِس کی تہہ میں کوئی خاص بات معلوم ہوتی ہے جس طرح ہو مجھے ساتھ لے چلو۔ شہزادے نے کہا جب یہ عہد ہو چکا ہے کہ برات میں کوئی بوڑھا نہیں آئے گا تو مَیں آپ کو کس طرح ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ وزیر نے کہا مجھے ایک صندوق میں بند کر لو اور اپنے ساتھ لے چلو۔ تمہارے ساتھ میرا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے خسر نے ضرور کوئی چالاکی کی ہے لہٰذا کسی تجربہ کار بڈھے کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ جب بڈھے وزیر نے بہت اصرار کیا تو شہزادہ مان گیا اور ایک صندوق لے کر اس کے پہلو میں شگاف کئے تاکہ وہ سانس لے سکے اور اسے اس صندوق میں بند کر کے اپنے ساتھ لے لیا۔ جب برات وہاں پہنچی تو اس صندوق کو بھی سامان کے ساتھ ہی رکھ دیا گیا۔ جب برات پہنچی تو لڑکی والوں نے برات والوں کے سامنے یہ شرط پیش کی کہ ہم شادی تب کریں گے کہ جب ہر ایک براتی ایک ایک بکرا کھائے۔ اس بات سے سب براتی گھبرا گئے کہ فِی براتی ایک ایک بکرا کھانا بالکل ناممکن بات ہے اور ہم یہ شرط پوری نہیں کر سکیں گے۔ اُنہوں نے لڑکی والوں کی بہت منت سماجت کی کہ یہ شرط نہ لگائی جائے لیکن وہ نہ مانے اور کہا کہ یہ تو ہمارے رواج کے خلاف ہے۔ آخر شہزادے کو بڈھا وزیر یاد آیا کہ اس سے اس کا حل پوچھنا چاہئے۔ چنانچہ وہ گیا اور صندوق کھول کر بڈھے وزیر سے کہا کہ اب تمہاری ضرورت پیش آئی ہے۔ لڑکی والوں نے یہ شرط پیش کی ہے کہ فِی براتی ایک ایک بکرا کھاؤ۔ وزیر نے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ ہا ں ہم کھائیں گے مگر پھر شرطیں بڑھاتے نہ جانا۔ شہزادہ نے اپنے سسرال کو یہ پیغام دیا ۔ جب ادھر سے منظوری ہو گئی کہ اَور شرطیں نہ ہوں گی تو اس نے منظور کر لیا اور بوڑھے وزیر سے پوچھا کہ اب کیا کر یں؟ وزیر نے کہا ان سے کہو کہ ایک ایک بکرا باری باری لاتے جائیں کیونکہ ہمارے ہاں رواج اکٹھے کھانے کا ہے۔ دو ہزار براتی میں ایک بکرا بھلا کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے۔ ایک ایک تِکّہ اٹھاتے تو بکرا غائب اور پھر دو ہزار بکرا ذبح کرنے اور بُھوننے میں بھی چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں پہلا کھایا ہؤا ہضم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ براتیوں نے اس شرط کو پورا کر دیا اور اس بوڑھے وزیر کو دعائیں دیتے ہوئے کامیابی کے ساتھ واپس لَوٹے۔
یہ واقعہ کے لحاظ سے محض ایک کہانی ہے مگر سبق کے لحاظ سے ایک مفید حکمت پر مشتمل ہے۔ پس ہر قوم میں نوجوانوں کی بھی ضرورت ہے او ربوڑھوں کی بھی ضرورت ہے۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے سارے آدمی نوجوان ہی بنا دئیے۔کیوں نہ خدا تعالیٰ نے سارے انسان بوڑھے ہی بنا دئیے۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے سارے انسان بچے ہی بنا دئیے۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے سب انسان مرد ہی بنا دئیے۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے سب انسان عورتیں ہی بنا دیں۔ آخر اِس کی کوئی تو وجہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو خصوصیت بچے میں ہے وہ نوجوان او ربوڑھے میں نہیں۔ جو خصوصیت نوجوان میں ہے وہ بچے اور بوڑھے میں نہیں اور جو خصوصیت بوڑھے میں ہے وہ بچے اور نوجوانوں میں نہیں۔ بچہ فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور اُس کے منہ سے ہزاروں باتیں ایسی نکلتی ہیں جو بڑے بڑے عقلمندوں کے اندر سے نہیں نکلتیں۔ بڑے آدمیوں کی حالت اس چشمہ کے مشابہہ ہے جو سو یا دو سو میل پر جا کر اپنا رستہ اختیار کرتا ہے لیکن دہانہ پر اس کی حالت اَور ہوتی ہے۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو بچوں میں پائی جاتی ہیں اور جوانوں اور بوڑھوں میں نہیں پائی جاتیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو جوانوں میں پائی جاتی ہیں اور بچوں اور بوڑھوں میں نہیں پائی جاتیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو بوڑھوں میں پائی جاتی ہیں اور بچوں اور جوانوں میں نہیں پائی جاتیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو عورتوں میں پائی جاتی ہیں اور مردوں میں نہیں پائی جاتیں۔ انسانیت کے چمن کو اِن چھ قسم کے پھولوں سے خوشنمائی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی مردوں میں سے کچھ بچے ہوں، کچھ جوان ہوں، کچھ بوڑھے ہوں۔ اسی طرح عورتوں میں سے کچھ بچیاں ہوں، کچھ جوان لڑکیاں ہوں اور کچھ بوڑھی عورتیں ہوں۔ یہ چھ پھول ہیں جن سے دنیا کے چمن کی رونق وابستہ ہے۔ بچہ فطرت کے ماتحت بولتا ہے اور بیسیوں باتوں میں بڑے آدمیوں کو سبق دیتاہے۔ بڑے آدمی اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کریں لیکن بچہ سیدھی سادی بات کر دیتا ہے اور وہ تصنّع سے پاک ہوتی ہے۔ اس لئے بچے کی زندگی سے انسان کو کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچے کی فطرت بولتی ہے لیکن یہ چیز اس عمدگی سے بڑے آدمیوں کے اندر نہیں ملتی۔ سوائے کسی حقیقی متقی اور پرہیز گار کے۔ اور ایسے لوگ سو میں سے ایک یا ہزار میں سے ایک ہو سکتے ہیں۔ ہندو، عیسائی اور مسلمان سب کے بچے فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتے ہیں اور فطرت صحیحہ پر رہتے ہیں۔ جب تک کہ ماں باپ ان کو خراب نہیں کرتے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 1 کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ فطرت کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ایک خدا پر ایمان رکھے۔ سیدھی سادی بات کرے اور تصنّع اور بناوٹ سے کام نہ لے۔ جھوٹ اور فریب سے بچے، ظلم اور حق تلفی کو بُرا سمجھے لیکن یہ بات ماں باپ کی تربیت اور ماحول کے اثرات کے نتیجہ میں قائم نہیں رہتی۔ باوجود اس کے کہ بچہ اپنی بچپن کی عمر کے لحاظ سے کمزور اور بے وقوف ہوتا ہے اور جوان آدمی طاقت کے لحاظ سے اور بوڑھا آدمی تجربہ کے لحاظ سے اس سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن جو فطرت کی صفائی بچے میں پائی جاتی ہے وہ نہ نوجوان میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی بوڑھے میں پائی جاتی ہے۔ ایک بڈھا آدمی باوجود اپنے لمبے تجربہ کے اپنا سر ایک پتھر کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین بچپن سے لے کر اس کی جوانی تک یہ خیالات اس کے دماغ میں داخل کرتے رہتے ہیں کہ پتھر ہم کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے حالانکہ اگر وہ ذرا عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس پتھر کو ایک بٹّہ مار کر توڑا جا سکتا ہے اور اس میں اتنی بھی طاقت نہیں جتنی ایک بلی میں یا ایک چوہے میں یا ایک مچھر میں ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی بھاگ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس پتھر میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ اپنے اوپر سے مچھر کو اُڑا سکے ۔ لیکن ایک بڈھا آتا ہے اور اُس پتھر کے سامنے اپنا سر جھکا دیتا ہے لیکن اُس کا بچہ اپنے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر ہنس پڑتا ہے کہ ہیں! پتھر میں بھی کوئی طاقت ہے کہ اسے اس پتھر کے سامنے سر جھکانے کی ضرورت پیش آئی؟ بچہ اس بُت کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ یہ اچھا خوبصورت بنا ہؤا بُت ہے۔ اس کا ناک اچھا ہے، اس کی نظر بُت کی صنّاعی پر پڑتی ہے لیکن اسے یہ خیال نہیں آتا کہ یہ بُت مجھے کچھ دے دے گا یا مجھ سے کچھ لے لے گا۔
اِسی قسم کا ایک واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے چچا کی بُتوں کی دکان تھی اور ان کے چچا کے نوجوان بیٹے دُکان پر کام کرتے تھے۔ آپ کے چچانے آپ کو بھی دکان کا کام سکھانے کےلئے ان کے ساتھ بٹھا دیا۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک نوّے پچانوے سال کا بڈھا سفید لمبی داڑھی، بُت خریدنے کے لئے آیا۔ جو بُت اسے پسند آیااُس نے اس بُت کے سامنے ماتھا رکھ دیا اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اس طرح کرتے دیکھ کر قہقہہ مارا۔ اور اس بڈھے کو کہا کہ کل ایک نوجوان سنگتراش یہ بُت دے کر گیا ہے او رتم اتنے بڈھے ہو کر اس بُت کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہو۔
لیکن جہاں بچہ فطرت سے بولتا ہے وہاں بچے میں ایک پہلو نادانی کا بھی ہوتا ہے۔ وہ بعض دفعہ رونا شرو ع کر دیتا ہے اور اپنی ماں یا ابّا سے کہتا ہے کہ مجھے انگور لا دو یا مجھے انار لا دو اور وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اُن چیزوں کا موسم بھی ہے یا نہیں۔ یا ایسی ضد کرنی شروع کر دیتاہے کہ جو ماں باپ کی طاقت سے بھی باہر ہوتی ہے۔ مجھے گھوڑا لے دو اور وہ نہیں جانتا کہ میری ماں کی اتنی حیثیت ہے یا نہیں اور وہ کس طرح اور کتنی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہی ہے۔ پس جہاں بچے میں یہ خوبی ہے کہ وہ فطرتی باتوں کا اظہار کرتا ہے وہاں اس میں یہ نقص بھی ہے کہ اس میں جہالت اور حماقت بھی پائی جاتی ہے۔ بچے کی فطرت کی صفائی قابلِ قدر چیز ہے لیکن اگر اس کی نادانی اور حماقت کی باتوں پر عمل کیا جائے تو ایک دن میں دنیا کا بیڑا غرق ہو جائے۔
بچپن کے بعد جوانی آتی ہے۔ انسان کے اندر نئی نئی خواہشات اور نئی نئی اُمنگیں موجزن ہوتی ہیں اور عقل ابھی کامل طور پر رسم و رواج کی غلام نہیں بنی ہوتی۔ جسم میں قوت ہوتی ہے اِس لئے جوان آدمی قربانیوں کے لئے جلدی آمادہ ہو جاتا ہے۔ ابھی بیوی بچے نہیں ہوتے کہ ذمہ داریوں کی وجہ سے دل ڈرتا ہو۔ جب اُسے کہا جائے کہ قوم کو اس کی جوانی کی ضرورت ہے تو وہ بے دریغ جس راہ کی طرف اسے اشارہ کیا جائے اُس پر چل پڑتا ہے خواہ اس راہ میں جان کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اسے کہا جائے کہ تم فوج میں داخل ہو جاؤ تو وہ بِلا خطر فوج میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنی بہادری کے کرشمے دکھاتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر مَیں مارا گیا تو میرے پیچھے کو نسے بیوی بچے ہیں جن کی پرورش نہیں کر سکوں گا۔ چونکہ یہ زمانہ نئی نئی اُمنگوں اور نئی نئی آرزوؤں کا ہوتا ہے اس لئے کئی شیطنت کے کام بھی ذہن میں آتے ہیں اِس لئے بعض دفعہ غلط راستہ بھی اختیار کر لیتا ہے۔ کیونکہ ابھی اس کے اندر دور اندیشی کا مادہ نہیں ہوتا۔لیکن بڑھاپے میں قربانی کا وہ جوش قائم نہیں رہتا کیونکہ بوڑھا انسان دیکھتا ہے کہ میرے بیوی بچے ہیں ان کی پرورش کون کرے گا۔ بچوں کی پڑھائی کا انتظام کون کرے گا۔ پس بڑھاپے میں وہ دلیری قائم نہیں رہتی جو جوانی میں انسان میں ہوتی ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ۔ حقیقی اور سچے مومن کے لئے تو باوجود بڑھاپے کے تینوں زمانے موجود ہوتے ہیں۔ اس میں بچپن کی فطرت کی صفائی بھی موجود ہوتی ہے اور جوانی کی قربانی کا جوش بھی موجود ہوتا ہے اور بڑھاپے کا تجربہ بھی اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے تینوں زمانے قائم ہوتے ہیں لیکن عام طور پر لوگ جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو واقع میں بوڑھے ہو جاتے ہیں اور جب وہ جوان ہوتے ہیں تو واقع میں ان میں جوانی ہی کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ بے شک استثنائی مثالیں اس کے خلاف پائی جا سکتی ہیں لیکن استثناء قانون کو باطل نہیں کرتا۔ قانون یہی ہے جو بوڑھے ہیں وہ بوڑھے ہیں۔ جو جوان ہیں وہ جوان ہیں اور جو بچے ہیں وہ بچے ہیں۔ بڑھاپے میں قوتِ عملیہ کمزور ہو جاتی ہے اور جسمانی قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے انسان ایسی قربانیاں نہیں کر سکتا جیسی قربانیاں کہ جوان کر سکتے ہیں کہ وہ وطن سے دور چلا جائے یا فاقہ برداشت کر سکے۔ لیکن جوان آدمی میں ان باتوں کی برداشت کی قوت موجود ہوتی ہے اور اس کی قوتِ عملیہ مضبوط ہوتی ہے اور جسمانی اعضاء میں طاقت اور توانائی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ اس میں لڑنے بھڑنے کا جوش زیادہ ہوتا ہے اور معمولی معمولی باتوں پر لڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ بوڑھا آدمی سوچتا ہے کہ میرے اس فعل کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اس کے لمبے تجربہ کی وجہ سے اس کے شہوانی رجحانات کم ہو جاتے ہیں اور بُرے جوش کم ہو جاتے ہیں اور لڑنے بھڑنے کا جذبہ کم ہو جاتا ہے اور تنظیم کا ہاتھ مضبوط ہو جاتا ہے۔ پس ہمیں سب قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں نوجوانوں کی بھی ضرورت ہے جو مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے اپنے وطنوں سے دور جائیں اور سفر کی تکالیف کو برداشت کریں اور ہمیں بوڑھوں کی بھی ضرورت ہے جن کو ہم نگرانی کے کاموں پر لگا سکیں۔
پس آج مَیں پھر ان دوستوں کو تحریک کرتا ہوں جو پنشن حاصل کر چکے ہیں کہ وہ آئیں اور خدمتِ دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ میری کوئی تحریک اتنی ناکام نہیں رہی جتنی یہ تحریک ناکام رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑھاپے میں قوتِ عملیہ کم ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم اب کام کے قابل نہیں رہے یا بعض یہ کہہ دیتے ہیں ابھی ہم پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ کسی جگہ دوبارہ عارضی ملازمت کر لیں۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کی تو چند سالوں کی قربانی ہے لیکن نوجوانوں میں سے سینکڑوں ایسے ہیں جنہوں نےاپنی ساری زندگیاں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وقف کر دی ہیں۔ نوجوانوں کی کتنی لمبی قربانی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قربانی کی جتنی توفیق ہمارے نوجوانوں کو ملی ہے ہمارے بوڑھوں کو وہ توفیق نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بوڑھوں کو ان کی دو راندیشیاں قربانی کی طرف قدم اٹھانے سے روکتی ہیں۔ نوجوانوں کو بے شک تم کوتاہ اندیش کہہ لو لیکن یہی کوتاہ اندیش قوموں کے رہبر اور رہنما بننے والے ہیں۔ ہمارے پاس نوجوان موجود ہیں اور ہم ان سے کام لے رہے ہیں۔لیکن ایک دن میں ہی ان کو ہم ناظر نہیں بنا سکتے اور فوری طور پر ناظروں کا کام ان کے سپرد نہیں کر سکتے۔ مجھے افسوس ہے کہ صدر انجمن نے بھی پہلے ناظروں کے قائم مقام پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بے شک ان کو ناظر مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن وہ نائب ناظر مقرر کرنے کی تجویزیں تو پیش کر سکتے تھے جو کہ ناظروں کے ساتھ مل کر کام سیکھیں۔ اب سوال تو نائب ناظروں کا ہے کہ وہ کیوں اب تک مقرر نہیں کئے؟ مَیں نے متواتر صدر انجمن کو توجہ دلائی لیکن اس نے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ جب یہ عمارت گر جائے گی تو پھر ان کو فکر لاحق ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو ناظروں کے لئے نام تجویز کرنے کی بھی اجازت نہیں لیکن یہ جواب درست نہیں۔ یہ کہنا کہ فلاں کو ناظر بنا دیا جائے ، یہ تو تَقَدُّمْ عَلَی الْخَلِیْفَہ ہے کیونکہ ناظر مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جس شخص کا نام پیش کیا گیا ہو خلیفہ اُسے ردّ کر دے۔ نظارت اُسے کہہ سکتی ہے کہ ہم نے آپ کا نام پیش کر دیا تھا لیکن خلیفہ نے منظور نہیں کیا۔ اس سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے اس لئے مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہؤا ہے کہ کسی نظار ت کو ناظر کی آسامی کے لئے نام پیش کرنے کی اجازت نہیں۔ لیکن نظارت کے لئے کسی نئے عہد ہ کا قیام یا نائب ناظر مقرر کرنے کی تجویز تو کسی صورت میں اس مناہی میں نہیں آتی۔ سوال تو یہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر کیوں غور نہ کیا گیا اور کیوں نئے آدمی تیار نہ کئے گئے۔ مَیں تو دیکھتا ہوں کہ انجمن کی بے توجہی کی وجہ سے مَیں نے جو خود نائب ناظر واقفین زندگی سے ناظروں کو دئیے ہیں ناظروں نے ان کو بھی کلرک بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ کسی شخص کو صرف نام دینے سے تو عقل نہیں آ جاتی۔ جب تک اُس پر ذمہ داری نہ ڈالی جائے اس وقت تک انسان کو پورا احساس نہیں ہوتا۔ پس اب ضرورت ہے کچھ تجربہ کار آدمیوں کی جو کہ نائب ناظروں اور ناظروں کا کام سنبھال سکیں۔ ایسے تمام لوگ جو کہ گورنمنٹ سروس میں ڈاکٹر، بیرسٹر یا انجینئر تھے اور اب پنشن حاصل کر چکے ہیں وہ ہمارے لئے بہت موزوں ہو سکتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ ایک لمبا تجربہ رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ عام طور پر پچپن سال کی عمر میں فارغ کر دیتی ہے اور فارغ ہونے کے بعد ایسے لوگ ساٹھ یا پینسٹھ سال کی عمر تک اچھا کام کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اُن پر کام کا وہ بوجھ نہ ڈالا جائے جو نوجوانوں پر ڈالا جاتا ہے۔
خان صاحب فرزند علی صاحب ستّر سال کی عمر تک بہت ہی عمدہ کام کرتے رہے ہیں اور اب فالج کی وجہ سے لاچار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جلد صحت بخشے اور پھر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پس ایسے ریٹائر شدہ آدمیوں سے کام لینے کے لئے یہ کیا جا سکتا ہے کہ دماغ ان کا ہو اور بھاگ دَوڑ کے لئے ان کو کچھ نوجوان دے دئیے جائیں۔ کیونکہ بوڑھے آدمی اس طرح بھاگ دوڑ نہیں کر سکتے جس طرح نوجوان بھاگ دوڑ کر سکتے ہیں۔ اور ایسے آدمیوں کے ساتھ کام کرتے کرتے آہستہ آہستہ نوجوان بھی کام سیکھ جائیں گے اور وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ ان کے سپرد زیادہ اہم کام کر دئیے جائیں۔اس کے علاوہ ابھی ہمیں کچھ ایسے گریجوایٹوں کی ضرورت ہے جن میں سے بعض کو تبلیغ کے لئے باہر بھیج سکیں اور بعض کو ٹرینڈ کر کے تحریک کے مرکز میں لگایا جائے۔
اس کے بعد مَیں تحریک جدید کے چندوں کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مَیں نے متواتر بتایا ہے کہ ہمارا تحریک جدید کا بجٹ ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے یعنی اخراجات کا بجٹ آمد سے تیس تینتیس فیصدی زیادہ ہے۔ تحریک جدید کی آمد کےوعدے دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار کے ہیں اور خرچ تین چار لاکھ کے درمیان ہے۔ اگر تحریک جدید اسی طرح خرچ کرتی جائے اور جماعت کوشش نہ کرے تو اگلے سال ڈیڑھ لاکھ کا قرضہ تحریک جدید کے ذمہ ہو جائے گا اور دو تین سال کے بعد تحریک کے کام بند کرنے پڑیں گے اور تمام مبلغین کو واپس بلانا پڑے گا۔ مَیں نے اس نقصان کے ازالہ کے لئےدفتر دوم جاری کیا تھا کہ دفتر دوم والے نو سال میں ایک ریزرو فنڈ قائم کریں جو آئندہ تحریک کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کا موجب ہو۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میری اس سکیم کی طرف جماعت نے بہت کم توجہ دی ہے اور دفتر دوم کے چندوں میں تو مجھے قربانی کی بہت کم روح دکھائی دیتی ہے۔ دفتر اول والوں میں سے بھی گو سب کے سب ایسے نہیں کہ جن کی قربانیاں درحقیقت قربانی کہلانے کی مستحق ہوں لیکن ان میں سے اکثر کی قربانیاں شاندار ہیں اور بعض کی قربانیاں تو دنیا کی بہترین قوموں کے سامنے بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں اور بعض کی قربانیاں صحابہؓ کی قربانیوں سے کم نہیں۔ عام لوگوں کو صرف رقم نظر آتی ہے اور وہ جذبہ نظر نہیں آتا جس کے ماتحت اُنہوں نے قربانی کی۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اُن کی آمد کتنی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کی ماہوار آمد بیس روپے ہے اور سال کی آمد دو سو چالیس روپے بنتی ہے۔ اس میں سے انہوں نے ساٹھ روپے تحریک جدید کا چندہ دیا اور انجمن کے چندے اور باقی ہنگامے چندے اس کے علاوہ ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ بیوی بچوں والے ہیں، بچوں کی تعلیم اور ان کی بیماری وغیرہ کا خرچ بھی ان کو کرنا ہوتا ہے۔ کیا یہ چھوٹی قربانی ہے؟ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی قربانی کو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ رسو ل کریم ﷺ کے ادنیٰ اشارہ پر حضرت ابو بکرؓ اپنا سارا مال اور حضرت عمرؓ اپنا آدھا مال لے آئے ۔2 جہاں تک چندہ کا سوال ہے اس قسم کی کئی مثالیں ہمارے تحریک جدید کے دورِ اول میں بھی ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دوسرے اعمال میں بھی ہماری جماعت کو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ اس سے پہلے مَیں نے ایک خطبہ تحریک جدید کی ضروریات کے متعلق پڑھا تھا۔ اس خطبہ کو پڑھ کر گجرات کے ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میرے پاس کُل سرمایہ پانچ سو روپیہ ہے لیکن چونکہ دین کی ضرورت مقدم ہے اس لئے مَیں اس پانچ سو میں سے تین سو روپیہ اشاعت اسلام کے لئے دیتا ہوں۔ بے شک ہماری جماعت میں بیسیوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے تحریک جدید میں پانچ سو سے ہزار تک چندہ دیا اور بیسیوں ایسے ہیں جنہوں نے ہزار سے دو ہزار تک چندہ دیا اور سینکڑوں ایسے ہیں جنہوں نے سو یا پچاس یا پچیس تک چندہ دیا ہے۔ لیکن جنہوں نے چار سو یا پانچ سو چندہ دیا ہے وہ ایسے ہیں کہ ان کی سالانہ آمد آٹھ دس ہزار روپیہ سالانہ ہے۔ جنہوں نے ہزار دو ہزار چندہ دیا ہے۔ وہ عام طور پر ایسے ہیں کہ ان کی سالانہ آمد ستّر ہزار یا اسّی ہزار ہے۔ ان کی قربانی اور اس شخص کی قربانی برابر نہیں ہو سکتی جس نے پانچ سَو رَاْسُ الْمال میں سے تین سو خدا کی راہ میں دے دیا۔ او رجیسا کہ مَیں نے کہا ہے۔ دَورِ اول میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہماری اولادوں او رہمارے نوجوانوں نے دفتر دوم کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے آباء کے دوش بدوش چلنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ بات یاد رکھو کہ دنیا میں وہی قوم عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور وہی قوم اپنی زندگی کو دیرپا بنا سکتی ہے جس کی آنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد سے زیادہ قربانی کرنے والی ہوں۔ یورپ کی ترقی کا تمام راز اِسی میں مضمر ہے کہ ان کی ہر آنے والی نسل اپنے باپ دادوں سے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اور مسلمانوں کے تنزل کی وجہ یہی ہے کہ آنے والی نسلیں اپنے باپ دادوں کے وقار کو قائم نہ رکھ سکیں۔ اس لئے ان کی ترقی باوجود صحیح راستہ پر ہونے کے رُک گئی اور عیسائیت باوجود شرک کے بد نما داغ کے ترقی کرتی چلی گئی۔ اگر مسلمانوں کی آنے والی نسلیں اپنے باپ دادوں سے زیادہ قربانی کرتیں تو آج اسلام عیسائیت پر ہر طرح غالب ہوتا اور عیسائیت کا نام و نشان بھی نہ ملتاکیونکہ عیسائیت پر شرک کا بد نما داغ ہے۔ لیکن اسلام اس بد نما داغ سے کُلّی طور پر پاک ہے۔ اسلام اپنے اندر توحید کی وہ خوبصورتی رکھتا ہے جو دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ مگر ضرورت اس بات کی تھی کہ اولادیں اپنے باپ دادوں سے زیادہ قربانی کرتیں۔ آج تحریک جدید کو جاری ہوئے گیارہ سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں ہماری کئی اولادیں جوان ہو گئی ہیں۔ تحریک جدید کے اجرا کے وقت جو بچے دس سال کے تھے اب وہ اکیس سال کے ہو گئے ہیں اور اکیس سال کے نوجوان اکثر کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کیا گیارہ سال کے بعد بھی ہماری جماعت میں سے پانچ ہزار نوجوان ایسے نہیں نکل سکتے جو پہلی پانچ ہزاری فوج کی جگہ لے سکیں؟ مَیں سمجھتا ہوں تعلیم کی زیادتی اور جماعتی تنظیم کی وجہ سے ہماری جماعت کی مالی حالت پہلےکی نسبت بہت اچھی ہے۔ اور باپوں سے بیٹوں کی آمد بہت زیادہ ہے۔ میرے نزدیک سو میں سے نوے افراد ایسے ہیں کہ جن کی آمد اپنے باپوں سے زیادہ ہے۔ جماعتی تنظیم کی وجہ سے جماعت کے افراد خود بخود ترقی کر رہے ہیں اور یہ چیز ہر ایک کو محسوس نہیں ہوتی۔ جب یہ بات درست ہے کہ ہماری اولادیں اپنے باپ دادوں سے مالی حالت اچھی رکھتی ہیں تو پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ دفتر دوم میں اس سال کُل اٹھہتّر ہزار کے وعدے ہوئے ہیں۔ جہاں تین چار لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو وہاں اٹھہتّر ہزار کا ریزرو فنڈ کیا کرسکتا ہے۔ فرض کرو ہمارا اس سال کا خرچ چار لاکھ ہے اور ہماری آمد دو لاکھ ساٹھ ہزار ہے تو ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ ہمیں اس سال اَور بڑھانا پڑے گا۔ اگر ہم دفتر دوم کی آمد جو کہ اٹھہتّر ہزار ہے وہ بھی خرچ کر لیں تب بھی ساٹھ ستّر ہزار کے قریب ہم پر قرض رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے اگلے دور کے لئے ریزرو فنڈ قائم کرنا ہے تو ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم دفتر دوم کو اس قدر مضبوط کر دیں کہ اس سے یہ کمی بھی پوری ہوتی رہے اور کمی کو پورا کرنے کے بعد اس قدر روپیہ بچ جائے کہ جس سے ہم تحریک جدید کے دوسرے دور کے لئے بھی ایک مضبوط ریزرو فنڈ قائم کر لیں۔ اس کی یہی صورت ہے کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والوں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور یہ بات نوجوانوں کے ذہن نشین کرائی جائے کہ اس بوجھ کو اٹھانا اب ان کا فرض ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ دفتر اول والوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے اپنا ایک ایک قائمقام پیدا کریں لیکن جن لوگوں نے ایسا کیا ہے اُنہوں نے عام طور پر پانچ پانچ روپے وعدہ کرنے والے لوگ پیش کئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار افراد اس میں حصہ لیں تو کُل پچیس ہزار روپیہ کی آمد ہو سکتی ہے۔ اور اگر وہ دس روپے کا وعدہ کرنے والے ہوں تو پچاس ہزار کی آمد ہو سکتی ہے اور اگر بیس روپے کا وعدہ کرنے والے ہوں تو ایک لاکھ کی آمد ہو سکتی ہے حالانکہ تمام کے تمام وعدے وصول نہیں ہو جاتے۔ پس کچھ افراد ایسے ہو نے چاہئیں جو ہزار یا پانچ سو روپے سال میں چندہ دیں، کچھ ایسے ہوں جو سو یا ڈیڑھ سو چندہ دیں، کچھ ایسے ہوں جو پچاس یا چالیس چندہ دیں اور ان سب کی اوسط ستّر روپے فی کَس ہو جائے اور پانچ ہزار افراد دفتر دوم میں حصہ لینے والے ہوں تو سالانہ چندہ کی رقم ساڑھے تین لاکھ ہو سکتی ہے۔
دفتر اول والوں میں سے ہر شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی جسمانی اولاد ہو جو اس کی وارث ہو۔ تو دین کے متعلق اس کے دل میں کیوں تڑپ پیدا نہ ہوئی کہ اس کا روحانی قائم مقام ہو۔ اور کیا وہ یہی پسند کریں گے کہ ان کے قائم مقام اسی قدر قربانی کرنے والے ہوں جو صرف پانچ روپے دے کر جان بچا لیں۔ ان کو ایسے قائم مقام پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو انیس سال کے لئے اپنے اموال صَرف کریں اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔ اس کے علاوہ بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے باوجود مالدار ہونے کے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا ان کو تحریک کی جائے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص کسی کو نیک کام کی تحریک کرتا ہے اور وہ شخص اس کی تحریک پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تحریک والے کو بھی اسی قدر ثواب دیتا ہے جتنا عمل کرنے والے کو۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والے کے ثواب میں کچھ کمی کرے۔3 پس ہماری جماعت کے وہ مخلصین جو خود توفیق نہ ہونے کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکے وہ ایسے لوگوں کے پاس جائیں جنہوں نے ابھی تک حصہ نہیں لیا حالانکہ وہ حصہ لے سکتے تھے۔ ان کو تحریک کریں کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لیں۔ اس سے زیادہ آسان طریق ثواب حاصل کرنے کا کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو تحریک جدید کا حصہ دار بنا کر خود بھی اتنے ہی ثواب کے مستحق ہو جائیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ تجسس کر کے پولیس کے سپاہیوں کی طرح ایسے لوگوں کو تلاش کریں جنہوں نے باوجود مالدار ہونے کے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ خدا کے حضور اسی طرح ثواب کے مَورد بنیں گے جس طرح تحریک جدید میں حصہ لینے والے۔ اور جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لیں اُن کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ایک ایسی جماعت اپنی جگہ کھڑی کریں جو اس کام کو مزید اُنیس سال تک چلاتی جائے۔ اگر ہر نسل میں یہ احساس پیدا ہو جائے اور وہ کوشش کرے کہ اپنی جگہ ایک ایسی جماعت قائم کر جائے جو اس تحریک کو انیس سال تک چلاتی چلی جائے اور قربانیوں سے کسی رنگ میں دریغ نہ کرے تو تم سمجھ لو کہ یہ تحریک ،قیامت تک جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے ذریعہ ایسی قوت اور طاقت عطا کرے گا کہ دنیا کا تم کو تباہ کرنا تو الگ رہا، تمہارے مقابل پر کھڑا ہونا بھی اس کے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ ’’ ( الفضل 4 اگست 1946ء )
1: بخاری کِتَابُ الْجَنَائِز بابُ مَا قِیْلَ فِیْ اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْنَ
2: ترمذی اَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ باب رِجَاؤُہٗ اَنْ یَّکُوْنَ اَبُوْ بَکْرٍ (الخ)
3: مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 274 مطبوعہ بیروت 1313ھ

26
ہماری جماعت پر قریب کے زمانہ میں ایک نیا دور آنے والا ہے
( فرمودہ 26 جولائی 1946ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘فرد کی زندگی کی طرح قومی زندگی بھی مختلف مراحل میں سے گزرتی ہے۔ مَیں نے پچھلے سال ڈلہوزی میں ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ہوتا ہے اِسی طرح قوموں کی پیدائش کا وقت بھی بہت نازک ہوتا ہے۔ جب تک بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس میں وہ جذبات پیدا نہیں ہوتے جو پیدا ہونے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اس فطرتی جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد جو بچہ سانس لے اُس کا جنازہ پڑھا جائے1اور جو بچہ سانس نہ لے اُس کا جنازہ نہ پڑھا جائے۔ اگر وہ سانس لیتا ہے تو وہ اس دنیا کا جزو بن جاتا ہے اور اُسے اِس دنیا کے لوگوں سے ایک دلچسپی ہوتی ہے۔ گو وہ کلام نہیں کر سکتا لیکن اس کی روح آنکھوں کے ذریعہ سے دوسری روحوں سے ہمکلام ہوتی ہے اور اس کو ایک تعلق اس دنیا سے پیدا ہو جاتا ہے۔ اور جس کے گھر میں وہ بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اس وقت سے صاحبِ اولاد ہو جاتا ہے اور اس بچہ کے متعلق امیدیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ملنے جلنے والے لوگ آتے ہیں اور مبارک باد کہتے ہیں۔ اس حال میں کوئی نہیں جانتا کہ بچہ کیسا ہو گا۔ لیکن جس طرح ایک چیز کا قانونی وجود تسلیم کیا جاتا ہے اِسی طرح بچے کی پیدائش کے بعد اُس کا قانونی وجود تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اِسی لئے تو شریعت نے اس کے جنازہ کا حکم دیا ہے۔ اور اگر وہ زندہ رہے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جہاں وہ دوسری رعایا کے لئے غذا اور لباس کا انتظام کرے وہاں اس بچہ کی غذا کا بھی انتظام کرے۔ حضرت عمرؓ نے شروع شروع میں دودھ پیتے بچوں کے لئے کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیا تھا لیکن بعد میں دودھ پیتے بچوں کا حق تسلیم کر لیا اور حکم دیا کہ اُن کا حصہ اُن کی ماؤں کو دیا جائے۔ پہلے حضرت عمرؓ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک بچہ دودھ پیتا ہے وہ قوم کے وجود میں حصہ نہیں لیتا، اُس کی ذمہ داری اس کی ماں پر ہے پبلک پر نہیں۔ لیکن ایک دفعہ حضرت عمرؓ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے۔ شہر سے باہر ایک قافلہ بدویوں کا اُترا ہؤا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایک خیمہ سے بچے کے رونے کی آواز سُنی۔ بچہ چیخ رہا تھا اور ماں تھپک تھپک کر سُلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب کچھ مدت تک تھپکی دینے کے باوجود بچہ چپ نہ ہؤا تو ماں نے بچے کو تھپڑ مار کر کہا رو عمرؓ کی جان کو۔ حضرت عمرؓ حیران ہوئے کہ اِس بات سے میرا کیا تعلق ہے؟ حضرت عمرؓ نے اُس عورت سے خیمہ میں داخل ہونے کی اجازت لی اور اندر جا کر اس عورت سے پوچھا۔ بی بی! کیا بات ہے؟ چونکہ وہ حضرت عمرؓ کو پہچانتی نہ تھی اس لئے کہنے لگی بات کیا ہے؟ عمرؓ نے سب کے گزارے مقرر کئے ہیں لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ دودھ پیتے بچوں کے لئے بھی غذا کی ضرورت ہے۔ اب میرے پاس دودھ پورا نہیں اور مَیں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے تا اس کا وظیفہ مقرر ہو جائے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت واپس آئے اور آپ نے خزانے سے آٹے کی بوری نکلوائی اور خود اٹھا کر چلنے لگے۔ وہ آدمی جو خزانہ پر مقرر تھے وہ آگے بڑھے کہ ہم اٹھا کر لے چلتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے کہا تم چھوڑ دو۔ مَیں خود اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ قیامت کے دن جب مجھے کوڑے لگیں گےتو کیا میری جگہ تم جواب دو گے؟ پتہ نہیں کہ اس طرح میرے ذریعہ کتنے بچے مر گئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ حکم دے دیا کہ دودھ پیتے بچوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا جائے۔ 2یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض بچے چھٹے ساتویں مہینے ہی روٹی مانگنا شروع کر دیتے ہیں یا اگر ماں کا دودھ کم ہو تو وہ بچے کو حریرہ وغیرہ بنا دیتی ہے اِس لئے حضرت عمرؓ نے قانون میں تبدیلی کر لی اور آپ پر اپنی غلطی ظاہر ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ بچے کا قانونی حق پیدا ئش سے ہی شروع ہو جاتا ہے نہ کہ ایک دو سال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو پیدائش سے ہی بچے کا قانونی حق بنا دیا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد اگر سانس لے تو مسلمانوں پر اُس کا اُسی طرح حق ہے جس طرح بڑے آدمیوں کا کہ اس کا جنازہ پڑھا جائے ۔ یہ حق اس قسم کا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے بعض آدمی اس حق کو پورا کر دیں تو باقیوں پر سے یہ حق ساقط ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بھی جنازہ نہ پڑھے تو سب مسلمان گنہگار ہوتے ہیں۔ پس بچے کا یہ قانونی حق اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے ہی مقرر کر دیا ہے او ررسول کریم ﷺ کے ذریعہ یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اگر سانس لے تو اس کا قانونی وجود مسلمانوں کو تسلیم کرنا چاہئے اور ورثہ میں اُس کا حصہ رکھنا چاہئے۔
پس جس طرح بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اسی طرح قومیں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی قوم کا قانونی وجود تسلیم کئے جانے کے معنے یہ ہیں کہ دنیا اسے قوم تسلیم کر لے اور ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات کے ردّ و بدل میں اس کا ہاتھ ہو۔ ورنہ اگر دس آدمی جمع ہو جائیں تو وہ بھی ایک کمیٹی بنا لیتے ہیں لیکن انہیں دنیا قوم تسلیم نہیں کرتی کیونکہ قومی وجود کے لئے ایک خاص تعداد کی ضرورت ہے ۔ اب کمیشن(commission) ہندوستان میں آیا تھا۔ اس نے بعض قوموں کے قومی وجود کو تسلیم کیا او ربعض کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ کمیشن نے اپنے مشوروں میں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، اینگلو اِنڈین(Anglo- Indian) اور عیسائیوں کو بلایا۔ لیکن ان کے علاوہ اَور بھی کئی جماعتیں ہیں جو اپنے مستقل وجود کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ان کو نہیں بلایا اور دستور ساز اسمبلی میں تو صرف تین قوموں کو رکھاہے۔
اینگلو اِنڈین اور عیسائیوں کو ان کی مذہبی اور نسلی حیثیت کے لحاظ سے بلایا تھا۔ سوائے اِن چند اقوام کے باقی تمام قوموں کا انہوں نے قانونی وجود تسلیم نہیں کیا۔ جس طرح انہوں نے شیعہ اور اہل حدیث کو نظر انداز کیا ہے اِسی طرح انہوں نے اچھوت کو باوجود لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے نہیں بلایا۔ اسی طرح انہوں نے ہماری جماعت کو بھی نہیں بلایا کیونکہ انہوں نے ہماری جماعت کا قانونی وجود تسلیم نہیں کیا۔
اِس میں شبہ نہیں کہ سیاسیات کے لحاظ سے اس وقت ہمارا مسلم لیگ سے اشتراک اور اتحاد ہے لیکن بحیثیت جماعت احمدیہ ہم سےلیگ کا کوئی فیصلہ نہیں۔ ہمارا اسمبلی کا ممبر بے شک مسلم لیگ کے ساتھ شامل ہو گیا ہے لیکن انتخاب کے وقت لیگ نے احمدیوں کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پس یہ نہیں کہا جا سکتاکہ چونکہ ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اِس لئے ہمیں نہیں بلایا گیا۔ مسلم لیگ تو خود ہمیں اپنے ساتھ شامل نہیں کرتی۔ تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم مسلم لیگ کا حصہ ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ ابھی دنیا ہمارا قانونی وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور ہماری تعداد کے لحاظ سے ملکی معاملات اور اقتصادی معاملات میں ہمارا حصہ اتنا چھوٹا اور اتنا تھوڑا ہے کہ دنیا اسے الگ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ دنیا ہماری نسبت یہی خیال کرتی ہے کہ جس طرح دنیا میں بعض اَو رسوسائٹیاں ہیں اسی طرح یہ بھی ایک سوسائٹی ہے۔ اس سے زیادہ وہ ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اور وہ اِس بات کو نہیں مانتی کہ مستقبل میں اس جماعت کو کوئی بڑی پوزیشن حاصل ہونے والی ہے اور دنیا کے کاروبار میں آئندہ اِس جماعت کا بہت کچھ دخل ہو گا او روہ اپنے مطالب کو اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی مؤثر کوشش کرے گی۔ اور دنیا اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتی کہ قریب زمانہ میں ہی اِس جماعت کے ذریعہ کچھ تغیر رونما ہوں گے جو دنیا کو مجبور کریں گے کہ وہ اس جماعت کا قانونی وجود مانے۔ لیکن مَیں آج یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ وقت بہت قریب زمانہ میں ہی آنے والا ہے کہ دنیا ہمارے قانونی وجود کو تسلیم کر لے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ جماعت کی یہ پیدائش بیس پچیس سال کے عرصہ میں ضرور ہوگی۔ اِنْشَاءَ اللہ۔ کوئی شخص یہ کہے کہ بیس پچیس سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہے اور اس عرصہ میں بڑے بڑے تغیرات ہو جاتے ہیں لیکن ایسے شخص کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ افراد کے تغیرات میں اور جماعت کے تغیرات میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک فرد کی پیدائش نو ماہ کے بعد ہو جاتی ہے لیکن جماعتوں کی پیدائش بعض دفعہ سَو سال کے بعد بعض دفعہ دو سو سال کے بعد اور بعض دفعہ تین سَو سال کے بعد ہوتی ہے۔ عیسائیت کی پیدائش دو تین سو سال کے بعد ہوئی۔ لیکن ساری انسانی زندگی بھی دو تین سَو سال نہیں ہوتی۔ گاندھی جی نے لکھا ہے کہ مَیں ایک سَو پچیس سال تک زندہ رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی یہ بات کہاں تک درست ہو گی لیکن اگر درست بھی ہوتو پھر بھی مسیحی قوم کی پیدائش کی مدت سے یہ کتنی تھوڑی مدت ہے۔ مَیں نے ڈلہوزی میں ہی ایک خبر پڑھی تھی کہ روس کے ایک ڈاکٹر نے ایک ٹیکا نکالا ہے جس کے متعلق اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اچھے حالات میں وہ ٹیکا کیا جائے تو وہ ڈیڑھ سو سے تین سو سال تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن ڈلہوزی میں ہی مَیں نے اس کے متعلق یہ خبر بھی پڑھی ہے کہ جس روسی ڈاکٹر نے وہ ٹیکا نکالا تھا وہ اس ٹیکا کے متعلق اعلان کے بعد دو تین ہفتے کے بعد ہی خود چونسٹھ سال کی عمر میں مر گیا۔ بہرحال عام انسانی عمر کی اوسط ساٹھ ستّر سال ہے۔ کوئی چالیس سال کی عمر میں فوت ہو جاتا ہے، کوئی پچاس سال کی عمر میں فوت ہو جاتا ہے اور کوئی نوّے سال کی عمر میں فوت ہو جاتا ہے، کوئی سَو سال کی عمر میں فوت ہو جاتا ہے۔ اوسط عمر ساٹھ ستّر سال ہو جاتی ہے لیکن کام کرنے والی جماعتوں کی عمریں افراد کی نسبت بہت لمبی ہوتی ہیں۔ عیسائیت کو پیدا ہوئے اُنیس سو سال ہو گئے ہیں اور یہودیت کو پیدا ہوئے بیالیس سَو سال ہو گئے ہیں۔ پس وہ قومیں جنہوں نے دنیا میں بڑے بڑے تغیرات پیدا کرنے ہوتے ہیں اُن کی پیدائش کا عرصہ بھی لمبا ہوتا ہے اور ان کی جوانی کا عرصہ بھی لمبا ہوتا ہے۔ اسلام کا پہلا دَور ہی تیرہ سو سال کا تھا اور خدا جانے قیامت تک اس کی ترقی کے کتنے دَور آئیں گے۔ اگر قیامت تک تین ہزار سال کا عرصہ سمجھا جائے تو اس کی عمر تینتالیس سو سال کی ہو جائے گی اور اگر چار ہزار سال کا عرصہ سمجھا جائے تو اسلام کی عمر تریپن سَو سال ہو جائے گی۔ اور اگر پانچ ہزار سال کا عرصہ سمجھا جائے تو تریسٹھ سو سال کی ہو جائے گی۔ پس قوموں کی پیدائش کوئی معمولی بات نہیں۔ قومی پیدائش کے لحاظ سے بیس پچیس سال کا عرصہ بہت معمولی عرصہ ہے۔ بیس تیس یا چالیس سال کے عرصہ میں کئی قومیں پیدا ہوتی ہیں اور اسی عرصہ میں مر جاتی ہیں اور ان میں اتنی طاقت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنے وجود کو دیرپا بنا سکیں اور دنیااُن کا قانونی وجود تسلیم کر لے۔
پس ہماری جماعت پر قریب کے زمانہ میں ایک نیا دور آنے والا ہے۔ قریب کا لفظ میں نے جان بوجھ کر بولا ہے کیونکہ قومی پیدائش کے لحاظ سے بیس پچیس سال کا عرصہ بہت ہی معمولی عرصہ ہے۔ اس عرصہ کے بعد ساری دنیا یا دنیا کا ایک حصہ اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہ ہماری جماعت کا قانونی وجود تسلیم کرے۔ اُس وقت کے آنے تک بعض چھوٹے چھوٹے دَور جماعت پر آئیں گے۔ بچے کی پیدائش نو ماہ کے بعد ہوتی ہے لیکن اس نو ماہ کے عرصہ میں اس پر سات دَور گزرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان اَدوار کو بیان فرمایا ہے کہ ابتدا میں بچے کی حالت ایک نقطہ کی ہوتی ہے۔ پھر وہ نقطہ گاڑھا ہو جاتا ہے پھر وہ مضغہ بنتا ہے۔ پھر مضغہ سے گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ پھر ہڈیاں بنتی ہیں۔ پھر اس میں جان پڑتی ہے۔ تو اِس نو ماہ کے عرصہ میں بچے پر سات دَور گزرتے ہیں۔ اسی طرح اس بیس سال کے عرصہ میں بعض سب سیکشنز (Sub Sections) یعنی چھوٹے چھوٹے حصے ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک دَور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے معلوم ہوتا ہے اپریل 1948ء تک آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ دَو رہماری جماعت پر کس رنگ میں اثر انداز ہو گا۔ آیا اس عرصہ کو تنظیمی رنگ میں اہمیت حاصل ہے یا اسے اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ وہ جماعت کے لئے مصیبت کا عرصہ ہے۔ مَیں نے اپریل 1948ء کہا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ چند مہینوں کا فرق ہو جائے۔ یعنی اپریل کی بجائے مئی، جون یا جولائی تک وہ تغیر پیدا ہو ۔ اِتنے لمبے اندازوں میں چند مہینوں کا فرق ہو سکتا ہے۔ پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر بھی تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ جب بھی کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے تو اس میں خیر اور شر دونوں کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ عوام الناس اور جاہل لوگ تغیرات کی پروا نہیں کرتے لیکن حقیقت آشنا لوگ ہر چھوٹے سے چھوٹے تغیر کے وقت گھبرا جاتے ہیں۔ بادل آتے ہیں تو عَوَامُ النَّاس خوش ہوتے ہیں اور بچے گاتے اور اُچھلتے کُودتے ہیں کہ ابھی بادل برسے گا لیکن رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب بادل آتا تو آپ گھبرا کر کبھی اندر جاتے اور کبھی باہر آتے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ بادل تو بارش کا پیغام لاتے ہیں اور وہ خوشی کا موجب ہیں آپ کیوں گھبرا جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اِنہی بادلوں سے پہلی قوموں کے لئے عذاب نازل ہؤا تھا۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ یہ بادل ہمارے کھیتوں کو سرسبز و شاداب کرے گا لیکن وہی بادل ان کی تباہی کا سامان تھا۔ 3 اگر آدم سے لے کر آج تک کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بادل کئی قوموں کی تباہی کا باعث ہوئے۔ حضرت نوح ؑ کی قوم کی تباہی بادلوں کے ذریعہ ہوئی۔ عاد کی قوم نے بادل کو دیکھ کر بہت خوشیاں منائیں لیکن وہی بادل اُن کی تباہی کا باعث ہؤا۔ وہ بادل ایک ایسی تُند ہوا کی صورت میں ظاہر ہؤا کہ جس نے شہروں کو اُلٹ کر رکھ دیا اورآج تک ریت کے تودوں میں سے آثارِ قدیمہ والے اُن کی بستیاں نکال رہے ہیں۔ جب تک کوئی تغیر پورے طور پر ظاہر نہیں ہو جاتا اُس وقت تک نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مبارک ہو گا یا مُضِر ہو گا۔ پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ہر تغیر کے وقت زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرے۔ قربانیاں بُری چیز کو بھی اچھی بنا دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ جا کر ان کو سمجھاؤ۔ آپ ان کے پاس گئے اور ان کو سمجھاتے رہےلیکن انہوں نے آپ کا انکار کر دیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ مَیں نے ان کو ہر طرح سمجھایا ہے لیکن یہ نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جاؤ ان کو تبلیغ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اگر نہیں مانو گے تو چالیس دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا۔ حضرت یونسؑ پھر ان کے پاس گئے اور ان کو تبلیغ شروع کی۔ انہوں نے کہا پہلے تم نے تھوڑی تبلیغ کی ہے کہ اب پھر باسی کڑہی میں اُبال آیا ہے۔ حضرت یونسؑ نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھے قبول نہیں کرو گے تو چالیس دن کے اندر اندر تم پر ایک سخت عذاب آئے گا جس سے تمہارے مرد و زن تباہ ہو جائیں گے۔ لیکن انہوں نے اس کے باوجود حضرت یونسؑ کوقبول نہ کیا۔ جب یہ مدت گزر گئی تو حضرت یونسؑ نے دیکھا کہ ایک بادل اُٹھا ہے۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ وہی عذاب ہے۔ آپ اس بستی سے نکل گئے۔ حضرت یونسؑ کی قوم اس بادل کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ پانی برسانے والا بادل نہیں کیونکہ وہ بادل سرخ ہوتا جا رہا تھا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ کوئی بگولا ہے جس میں آگ ہے۔ چونکہ پیشگوئی کا زمانہ بالکل قریب کا تھا وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی بات ہے جو حضرت یونسؑ نے کہی تھی اور یہ بادل ہماری تباہی کے لئے اٹھا ہے۔ انہوں نے فوراً پنچایت بٹھائی کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ پنچایت نے کہا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سارے کےسارے مرد و زن شہر سے نکل چلیں او رباہر چل کر خد اکے حضور گریہ و زاری کریں کہ وہ یہ عذاب ہم سے ٹلا دے۔ا ور انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ جانوروں کو بھی چارہ نہ دیا جائے اور مائیں بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔ چنانچہ وہ شہر سے نکل گئے اور باہر جا کر انہوں نے جانوروں کو باندھ دیا اور ماؤں نے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیا اور سب کے سب دعا میں مشغول ہو گئے۔ اُدھر بچوں نے رونا اور بلبلانا شروع کیا او رجانوروں نے رسّے تڑوانے شرع کئے۔ ان کی تدبیر بہت عقلمندانہ تھی کیونکہ بچوں کا رونا اور چِلّانا بہت رقّت پیدا کرتا ہے۔ مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ مجلس میں سے ایک آدمی رونا شروع کر دے تو سب رونا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے دس بارہ منٹ تک بالکل خاموشی رہتی ہے جونہی کسی نے ایک چیخ ماری ساری مجلس رونا شروع کر دیتی ہے۔ انہوں نے یہ تدبیر بھی اس لئے کی کہ بچوں کے رونے سے ہمارے اندر رقّت پیدا ہوگی اور دعاؤں میں سنجیدگی اور اخلاص پیدا ہو گا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایک کہرام برپا کر دیا اور بہت عاجزی سے دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس گریہ و زاری کو دیکھ کر فرشتوں کو حکم دیا کہ عذاب کو ٹلا دو۔ چنانچہ عذاب ٹل گیا۔ جب ان سے عذاب ٹل گیا تو انہوں نے اردگرد کے علاقہ میں کچھ آدمی دوڑائے جو حضرت یونسؑ کی تلاش کریں اور ان کو واپس بلا کر لائیں تاکہ حضرت یونسؑ آ کر ان کو ہدایت دیں اور انہیں بتائیں کہ وہ کیا کیا اعمال بجا لائیں جن کے بجا لانے سے خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو۔ لیکن ادھر حضرت یونسؑ ان کو چھوڑ کر دور چلے گئے۔ آپ کو کوئی مسافر اس طرف سے جانے والا ملا۔ آپ نے اس سے پوچھا بتاؤ نینوا شہر کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا وہ لوگ بالکل راضی خوشی ہیں۔ اس مسافر کو کیا معلوم تھا کہ نینوا کے متعلق عذاب کی پیشگوئی تھی اور انہوں نے گریہ و زاری کر کے اس عذاب کو ٹلا دیا ہے۔ جب اس مسافر نے حضرت یونسؑ کو بتایا کہ وہ لوگ راضی خوشی ہیں تو حضرت یونسؑ کو بہت صدمہ ہؤا کہ اب مَیں کس طرح اپنی قوم کو منہ دکھاؤں گا۔ جب مَیں ان کے سامنے جاؤں گا تو وہ کہیں گے تم کتنے جھوٹے ہو۔ تم نے کہا تھا کہ چالیس دن تک عذاب آئے گا لیکن عذاب نہیں آیا او رہم عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حضرت یونسؑ نے گِلے کے طور پر خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ مَیں تو تیرے رحم سے پہلے ہی جانتا تھا کہ تُو نے ان لوگوں کو چھوڑ دینا ہے اور مَیں ہی ان لوگوں کے سامنے ذلیل ہوں گا۔ اب اس حال میں مَیں اپنی قوم کے پاس نہیں جا سکتا۔ یہ کہہ کر آپ سمندر کی طرف گئے اور اپنی قوم سے دور جانے کے لئے کشتی میں سوار ہو گئے۔ جب کشتی چلی، سمندر میں ایک زبردست طوفان آیا۔ اس زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ کشتی سمندر میں اس لئے طوفان سے ڈگمگاتی ہے کہ کشتی میں کوئی چور ہو یا کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جا رہا ہو۔ جب طوفان آیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری کشتی میں ضرور یا تو کوئی چور ہے یا کوئی بھاگا ہؤا غلام ہے۔ اس پر حضرت یونسؑ نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ بھاگا ہؤا غلام مَیں ہوں لیکن کشتی والوں نے کہا۔ ہم نہیں مانتے کہ آپ بھاگ کر جا رہے ہیں۔ آپ تو بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں۔ آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی تو حضرت یونسؑ کا نام نکلا۔ اس پر بھی وہ خاموش ہو گئے۔ لیکن جب دیکھا کہ طوفان نہیں چھوڑتا اور کشتی کے ڈوبنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے تو انہوں نے حضرت یونسؑ کو پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا۔ جونہی انہوں نے آپ کو سمندر میں پھینکا آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک مچھلی نے نگل لیا اور دو تین دن اپنے اندر رکھنے کے بعد ایک جگہ کنارے پر پھینک دیا۔ باہر جس جگہ آپ کو مچھلی نے پھینکا وہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حلوہ کدو کی بیل نکل آئی۔آپ اس کے سائے کے نیچے لیٹے رہے۔ چونکہ آپ کو دو تین دن ہوا نہیں ملی تھی اس لئے آپ کو بہت کمزوری ہو گئی تھی۔ آپ نے کدو کا پانی پیا اور ا س کی بیل کے سایہ میں پڑے رہے۔ ٭ دو چار دن کے بعد کسی کیڑے نے اس بیل کی جڑ کاٹ دی اور وہ سوکھ گئی۔ حضرت یونسؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ بیل میرا سہارا تھی اور مَیں اس سے آرام حاصل کرتا تھا۔ اس بدبخت کیڑے نے اس کو کاٹ کر مجھے تکلیف میں ڈالا ہے۔ ابھی حضرت یونسؑ انہی خیالات میں تھے کہ آپ کو الہام ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ اے یونس! ہم نے تمہیں سبق دینے کے لئے یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ بیل تم نے اگائی نہیں تھی اور نہ ہی تمہارا کچھ اس پر خرچ ہؤا تھا۔ صرف تم اس سے آرام حاصل کرتے تھے۔ وہ سوکھ گئی تو تمہیں تکلیف ہوئی اور تم نے کیڑے پر غصہ کا اظہار کیا۔ یونس! ایک بیل جس کو تم نے پیدا نہیں کیا اس کے سُوکھ جانے سے تمہیں اس قدر صدمہ ہؤا ہے پھر تم مجھ سے کس طرح امید کرتے تھے کہ مَیں جس نے اس ہزاروں ہزار مخلوق کو پیدا کیا ہے تمہیں خوش کرنے کے لئے اسے مار ڈالتا۔4 باوجود اس کے کہ وہ توبہ کر رہے تھے۔ تمہاری قوم نے توبہ کی تھی۔ جاؤ اور جا کر ان کو ہدایت دو۔ پس حضرت یونسؑ اپنی قوم کی طرف لَوٹے۔
٭ کل ہی مجھے خیال آیا ہے کہ کدو کا تیل بھی دماغ کی طاقت کے لئے مفید ہے اور حلوہ کدو اگر پکا کر کھایا جائے تو وہ بھی دماغ کو اور بدن کو تقویت دیتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حلوہ کدو میں کچھ اَور بھی خصوصیات ہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کے لئے اس کی بیل نکالی۔ پس دماغی اور جسمانی طاقت کے متعلق کدو کی طرف اطباء کو توجہ دینی چاہئے۔
جب وہ اپنی قوم کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کی بہت قدر کی ۔
تو جب اللہ تعالیٰ نے تضرع اور گریہ و زاری کے نتیجہ میں غیر مشروط عذاب کو ٹال دیا تھا تو وہ ہم سے کیوں اِس تغیرکے بعد شر کو نہیں روک سکتا۔ اور ہمارا یہ زمانہ تو خیر والا ہے عذاب کا زمانہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کیجماعتوں کے لئے عذاب نہیں ہوتا بلکہ ابتلا ہوتے ہیں۔ جن میں ثابت قدمی دکھانے کے بعد ان کے لئے انعامات ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ صورت نہ بھی ہو تب بھی ہمارے سامنے نینوا کی مثال موجود ہے کہ باوجود بڑی زبردست پیشگوئی کے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹلا دیا۔پس ہم کو قربانیوں کے ذریعہ اِس تغیر کو نیک بنا دینا چاہئے۔ بے شک ہر چکر کامیابی کا ایک نیا میدان پیش کرتا ہے اور بغیر چکروں کے ترقی نہیں ہو سکتی لیکن ہر چکر اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے مناسب حال قربانی کی جائے۔ اور جو قومیں قربانی کرنے سے گریز کرتی ہیں وہ نئے چکر کے آنے پر گر جاتی ہیں اور تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں۔
پس ہماری جماعت کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس تغیر کو نیک بنائے ۔ ایک سال گزر گیا ہے اور چار سال باقی ہیں۔ پانچ میں سے ایک سال گزر جانے کا مطلب یہ ہے کہ کُل کا بیس فیصدی گزر گیا ہے اور بیس فیصدی کوئی معمولی چیز نہیں۔ پس دوستوں کو غفلت کو ترک کرتے ہوئے ہوشیار ہو جانا چاہئے اوراپنی تنظیم کو ہر رنگ میں مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر تو یہ خیر کا دَور ہے تو ہماری قربانیاں اسے زیادہ خیر کا دور بنا دیں گی اور اگر شر کا دَور ہے تو وہ ہماری قربانیوں سے نیک بن جائے گا۔
جن قوموں میں کثرت سے نشانات ظاہر ہوتے ہیں ان میں مساوات کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے اور ان کے دلوں سے نشانات کی قدر کم ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو یہاں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً خربوزہ اور آم یہاں کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ راستے پر ٹوکروں کے ٹوکرے ان کے پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور پاس سے گزرنے والا انہیں نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ لیکن یہی چیزیں انگلستان میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور وہ انہیں اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں جس طرح ہیروں او رموتیوں کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ او رجس دن وہ ان کو کھاتے ہیں تو وہ یہ محسوس کرتے ہیں گویا اُن کے لئے عید آئی ہے لیکن ہمارے ہاں غریب سے غریب آدمی بھی پیسے بٹی یا دو پیسے بٹی خربوزے لے کر کھا لیتا ہے اور اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس نے کوئی نئی چیز یا کوئی نیا پھل کھایا ہے۔ یہی حال ان قوموں کا ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے انعام ہوتے ہیں۔ انعامات کی کثرت کی وجہ سے ان کے دلوں میں ان انعامات کی قدر کم ہو جاتی ہے اور جب ان کے سامنے خدا کا کوئی نشان بیان کیا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ باتیں تو ہم ہر روز سنتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقی مومن کا طریق یہ نہیں۔ وہ ہر انعام کی قدر کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پہلے تمام نعماء اورتمام احسانات کو شمار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں جنتیوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ اس نگاہ سے نعمت کو نہیں دیکھیں گے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ ایک نعمت دی ہے بلکہ اس نگاہ سے دیکھیں گے کہ یہ نعمتوں کی کڑی میں سے ایک کڑی ہے۔ موتی اپنی جگہ بے شک بہت قیمت رکھتا ہے لیکن ہار کی قیمت ایک موتی کی قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جب بھی ان پر کوئی انعام ہو گا تو وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ اس کا یہی ایک انعام نہیں ہؤا بلکہ اس نے ایک لمبا سلسلہ انعاموں کا ہمارے لئے جاری کیا ہے۔ پس مومن اللہ تعالیٰ کے انعامات کا عادی نہیں ہو جاتا کہ نئے انعام کے وقت اسے یہ محسوس ہی نہ ہو کہ اس پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے بلکہ جب بھی اس پر اللہ تعالیٰ کوئی انعام کرتا ہے تو وہ اگلے پچھلے سب انعاموں کو یاد کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب بھی جنتیوں کو کوئی انعام دیا جائے گا تو وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ 5کہ یہ اب پہلی دفعہ انعام نہیں ہؤا بلکہ اس سے پہلے بھی فلاں فلاں موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسے ہی انعامات کئے تھے۔ یعنی جب جب ان کو کوئی نعمت ملے گی تو وہ کہیں گے کہ خدا تعالیٰ کا ایک اَور احسان نازل ہوا۔ غرض جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے نشان ظاہر ہوں اُس وقت مومنوں کا بھی یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان نشانات کی قدر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی کریں۔ ورنہ آہستہ آہستہ نشانات کے متعلق قوم میں بے توجہگی پیدا ہو جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسانات اور انعامات کا سلسلہ شروع ہو تو پھر اِس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ یہ انعام بڑا ہے اور یہ انعام چھوٹا ہے۔ ہر آنے والا انعام پہلے انعام سے بڑا ہوتا ہے۔ فرض کرو ایک شخص کے پاس دس روپے کا نوٹ ہے لیکن اگر اس میں ایک چونّی بھی شامل کر دی جائے تو وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے ۔ گو چونّی دس روپے سے چھوٹی ہے لیکن اس نے بھی دس روپے کے ساتھ مل کر اس میں زیادتی پیدا کردی۔ پس کسی نشان اور کسی انعام کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔
ہماری جماعت کے لئے یہ زمانہ بہت نزاکت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بارش ہو رہی ہے۔ اگر جماعت ان کی کَمَاحَقُّہٗ قدر نہ کرے گی تو یہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گی۔ رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی اتنی قدر کرتے تھے کہ جب بارش کے قطرات گرتے تو بعض دفعہ آپ اپنی زبان باہر نکالتے اور اُس پر قطرات گراتے اور آپ فرماتے۔ دیکھو میرے رب کی تازہ نعمت ۔6 جب آپ پانی کے ایک قطرے کی اِتنی قدر کرتے تھے تو باقی نعماء کی قدر آپ کتنی کرتے ہوں گے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چشمہ کا چشمہ بھی پی جائیں تو بھی ان کے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلہ نہیں نکلتا۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی تحقیر کر کے اپنا انجام خود خراب کرتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو اپنے اندر روحانیت پیدا کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے نشانات کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے نشانات کی جتنی قدر کریں گے اُتنا ہی آپ کا ایمان بڑھے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ نشانات کی قدر کریں اور آپ کا ایمان نہ بڑھے۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ میں ایمان ہو اور آپ نشانات کی قدر نہ کریں کیونکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جتنا کسی میں ایمان ہو گا اُتنا ہی وہ نشانات کی قدر کرے گا۔ ’’ (الفضل 9 اگست 1946ء )
1: ترمذی ابواب الجنائز باب مَا جَاء فی تَرْکِ الصَّلوٰۃِ عَلَی الطِّفْلِ حَتّٰی یَسْتَھِلَّ
2: کنز العمال جلد 12 صفحہ 648، 649۔ مطبوعہ حلب 1974ء، طبقات ابن سعد
جزء ثالث صفحہ 301 مطبوعہ بیروت 1985ء
3: ابو داؤد کِتَابُ الْاَدَب باب مَا یَقُوْلُ اِذَا ھَاجَتِ الرِّیْحُ
4: یوناہ باب 1 تا 4
5: البقرة: 26
6: ابو داؤد کِتَابُ الْاَدَب بَابُ فِی الْمَطَر

27
کامیابی کی جڑ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ا ُس کے رسول کی عزت دنیا میں قائم کی جائے
( فرمودہ 2؍ اگست 1946ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ہر ایک چیز میں انسان کے لئے سبق ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اُس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ورنہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو باوجود سمجھانے کے نہیں سمجھتے اور باوجود اس کے کہ ان کے لئےسبق حاصل کرنے کے تمام اسباب جمع ہوتے ہیں وہ سبق حاصل نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی مثال لکڑی کے کھمبوں کی طرح ہے جن پر سخت ہوائیں چلتی ہیں، سردیاں آتی ہیں۔ انسان سردی سے کانپتے ہیں، آگیں تاپتے ہیں، گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن وہ کھمبابرف میں، گرمی میں، سردی میں، بارش میں، اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور ان چیزوں کو محسوس نہیں کرتا۔ ابھی پچھلے دنوں سٹرائکیں ہوئی ہیں۔ ریل والوں کی سٹرائک ہوئی اورڈاک خانے والوں کی سٹرائک ہوئی۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو پہلے زمانہ میں موجود نہیں تھیں۔ آج سے تین سو سال قبل ریل اور ڈاک کا انتظام موجود نہ تھا اور ہمارے آبا ؤ اجداد ان کے بغیر گزارہ کرتے تھے اور ہمارے آبا ؤ اجداد سے پہلے لوگوں کو بھی یہ چیزیں حاصل نہ تھیں۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں، تورات اور انجیل میں بعض قوموں کو عیّاش اور آرام طلب کہا ہے اور ان کے حالات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے لیکن یہ چیزیں جو آج ہر کس و ناکس کو حاصل ہیں جو پہلے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھیں اور ان چیزوں کے استعمال کا عادی ہو جانے کی وجہ سے ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ پہلے لوگوں کا گزارہ کس طرح ہوتا ہو گا۔ آج ہر انسان ان چیزوں کے متعلق یہ خیال کرتا ہے کہ یہ میرا پیدائشی حق ہےاور میرا اِس کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ کس طرح انسان نئے نئے خیالات کی وجہ سے نئی نئی چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے اور اس میں یہ حِسّ پیدا ہو جاتی ہے کہ ان چیزوں کے بغیر اس کا گزارہ نہیں اور یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ پہلے لوگوں کا گزارہ ان کے بغیر کس طرح ہوتا تھا۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے خاص فضل ہیں او ران کے عوض ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمارے لئے یہ سامان پیدا کئے۔ او رجب وہ بند ہو جاتی ہیں تو کتنی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ جب ریلیں بند ہوئی تھیں تو ملک میں ایک شور برپا ہو گیا تھا اور اب ڈاک بند ہوئی ہے تو بھی ملک میں ایک شور برپا ہو گیا ہے۔ ڈاک تمام جگہوں میں بند نہیں ہوئی لیکن چونکہ بڑے بڑے شہروں میں ڈاک بند ہے اور بیرونجات کی ڈاک بھی بندرگاہوں میں آ کر اُترتی ہے اور وہاں سٹرائک ہے اس لئے بیرونی دنیا سے ایک لحاظ سے تعلق منقطع ہو گیا ہے اور اس سے تجارت اور صنعت و حرفت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ پس ڈاک کے رُکنے سے لوگوں کو بہت تکلیف محسوس ہوئی ہے کیونکہ کئی دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں ایک دوسرے کی اطلاع کا حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بعض مائیں ایسی ہوں گی جو اپنے بچوں کی اطلاع کے لئے تڑپ رہی ہوں گی ۔ ان کا بچہ کسی جگہ بیمار ہو گا اور وہ اس کی خیریت کی خبر حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہوں گی۔بعض مائیں ایسی ہوں گی کہ ان کے بچے مر چکے ہوں گے لیکن اطلاع نہ ملنے کی وجہ سے ان کو زندہ سمجھتی ہوں گی اور سجدوں میں رو رو کر خدا سے ان کی صحت کے لئے دعا کرتی ہوں گی حالانکہ ان کے بچے دفن ہو چکے ہوں گے اور ان کا صحت پانے کا زمانہ گزر چکا ہو گا اور خدا کا قانون ان پر نافذ ہو چکا ہو گا۔ لیکن وہ اپنے بچوں کے لئے صحت کی دعائیں کر رہی ہوں گی۔ یہ حالات کتنے تکلیف دہ ہیں۔ اگر بنی نوع اِس تکلیف سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں تو وہ اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ ایک چیز جس کے بغیر ہمارے آباؤ اجداد نے گزارہ کیا اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم کس قدر پریشان ہوئے ہیں۔ لیکن بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا کسی وقت بھی بنی نوع سے جدا ہونا تصور نہیں کیا گیا اور کوئی وقت ایسا نہیں آیا کہ انسان تھا اور وہ چیز نہ تھی اور وہ انسان کی عزت ہے۔ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کوئی زمانہ ایسا بھی تھا جس وقت افراد کی عزت نہ تھی یا قوم کی عزت نہ تھی۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ایک وقت ایسا تھا کہ جب ریل نہ تھی، ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب ڈاک کا انتظام نہ تھا لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی وقت ایسابھی تھا کہ جب قومی وقار نہ تھا اور کوئی وقت ایسا بھی تھا جب افراد کی نظروں میں ان کی عزت بے حقیقت تھی۔ جب سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اُسی وقت سے یہ جذبہ انسان کے دل میں موجزن ہے کہ وہ اعزاز کے مقام کو حاصل کرے اور عزتِ نفس کا یہ جذبہ جس طرح افراد میں موجزن ہے اسی طرح اقوام میں بھی موجزن ہے۔ لیکن جب کسی چیز کا احساس مٹ جائے تو وہی چیز ہاتھ سے نکل جانے پر انسان کو تکلیف نہیں ہوتی اور وہ اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو جتنا صدمہ ریل یا آجکل ڈاک کے بند ہونے سے ہؤا ہے کیا اس کا ہزارواں حصہ بھی ان کو اسلام کی شوکت کے ضائع ہونے پر ہؤا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جن کو اسلام کی کسمپرسی کی حالت دیکھ کر اتنا صدمہ ہؤا ہو جتنا انہیں ڈاک کے بند ہونے سے ہؤا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ریل اور ڈاک کے بند ہونے کی تکلیف اسلام کی شوکت کے ضائع ہونے کی تکلیف کے مقابل پر اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی کروڑ روپیہ کے مقابل میں ایک دھیلا کی۔ اگر ایک دھیلا کے برابر بھی مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے درد ہوتا تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اسلام سے کچھ لگاؤ ہے۔ لیکن ہمیں تو یہ حالت بھی نظر نہیں آتی۔
مَیں جب کبھی نقشہ پر نگاہ ڈالتا ہوں یا خیالی طور پر اپنے سامنے نقشہ رکھتا ہوں تو میرا دل تڑپ اٹھتا ہے کہ مسلمان کیا تھےاور کیا ہو گئے ہیں۔ کُجا وہ حالت کہ امریکہ اور چین اور دنیا کے دوسرے تمام ممالک تک مسلمان پہنچے اور ان علاقوں میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا او ردنیا پر یہ بات ثابت کر دی کہ اسلام کا مقابلہ ناممکن ہے۔ امریکہ میں بھی بعض مساجد پائی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بعض مسلمان کشتیوں کے ذریعہ امریکہ پہنچے۔ وہاں انہوں نے مساجد بنائیں مگر چونکہ جہاز رانی کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا اس لئے وہ واپس نہ آ سکے اور وہیں رہ گئے اور آخر امتدادِ زمانہ سے مٹ گئے۔ ان لوگوں کی ہمت کا خیال کر کے انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کشتیوں میں ہی بیٹھ کر امریکہ پہنچ گئے اور خطرات کی ذرا بھی پروا نہ کی۔ پس ہمیں دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ملتا جہاں مسلمان نہ پہنچے ہوں۔ پھر دنیا کا اکثر حصہ ان کے زیر نگیں تھا سوائے حبشہ کے۔ اس کی طرف مسلمانوں نے آنکھ تک اٹھا کر نہیں دیکھا کیونکہ شاہِ حبشہ کا مسلمانوں پر ایک احسان تھا۔ اس سے مسلمانوں کی شرافت کا پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو سر کر لیا لیکن اپنے پاس او راپنے پہلو میں حکومتِ حبشہ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ مکہ میں جب کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر شدید مظالم کئے جانے لگے اور مسلمانوں کا مکہ میں رہنا محال ہو گیا۔ مسلمانوں پر کفار کے مظالم کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کو بہت تکلیف ہوتی۔ ایک روز آپؐ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب مکہ کی تکلیف دہ صورت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ بہتر ہے کہ تم لوگ یہاں سے ہجرت کر جاؤ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُولَ اللہ! کیا آپ بھی ہمارے ساتھ ہجرت کریں گے؟ آپ نے فرمایا تم لوگ ہجرت کر جاؤ مَیں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کر رہا ہوں۔ جب مجھے ہجرت کا حکم ہو جائے گا تو مَیں بھی ہجرت کر لوں گا لیکن تمہارے لئے اجازت ہے تم لوگ ہجرت کر جاؤ۔ انہوں نے پوچھا یَا رَسُولَ اللہ! کونسا ملک ہے جہاں ہم ہجرت کر کے چلے جائیں؟ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اس طرف سمندر کے پار ایک ملک ہے جس کی حکومت انصاف پسند اور عادل ہے اور جہاں مذہب میں دخل اندازی نہیں کی جاتی۔1 چنانچہ صحابہؓ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے اور حبشہ میں آرام کے دن بسر کرتے رہے۔ یہ وہ احسان ہے جس نے مسلمانوں کو حبشہ کے فتح کرنے سے باز رکھا۔ مسلمان طوفانوں کی طرح اُٹھے اور آندھیوں کی طرح بڑھے اور مُوسلا دھار بارش کی طرح انہوں نے زمین کا چپّہ چپّہ ڈھانپ دیا۔ لیکن حبشہ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ احسان مند قوم کس قدر چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی لحاظ کرتی ہے۔ اور کیوں نہ کرتی جبکہ رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ کو یہاں تک وصیت کی کہ مَیں تم کو مصر پر چڑھائی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ لیکن اِس بات کا خیال رکھنا کہ مصر کے لوگوں کو تکلیف میں نہ ڈالنا اور ان پر سختی نہ کرنا کیونکہ تمہاری دادی ہاجرہؓ مصر کی تھیں2 جن لوگوں نے اپنے سے پہلے دو ہزار یا تین ہزار سال کی رشتہ داری کا خیال رکھا کہ ہماری ایک دادی مصر سے آئی تھی۔ وہ اس تازہ احسان کو کیونکر بھول سکتے تھے۔ غرض مسلمان کسی وقت حبشہ کے سوا ساری دنیا کے حاکم تھے۔ دنیا کے کچھ حصے براہِ راست ان کے ماتحت تھے اور بعض حصےبالواسطہ ماتحت تھے اور ان میں مسلمانوں کا اثر و نفوذ پورے طور پر قائم تھا۔ کُجا وہ حالت اور کُجا یہ حالت کہ آج مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں جہاں وہ آزادی کا سانس لے سکیں۔ یہ بات جاہلوں اور بے وقوفوں کو تو تسلی دے سکتی ہے کہ ٹرکی بڑی زبردست اور آزاد حکومت ہے اور افغانستان اور ایران بڑی زبردست آزاد طاقتیں ہیں لیکن عقلمند لوگ اس کی حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ یہ حکومتیں کس قدر طاقتور ہیں اور کتنی آزادی ان کو حاصل ہے۔ ہم بچپن میں عورتوں سے قصے کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ٹرکی کا بادشاہ بہت طاقتور ہے اور جب وہ نکلتا ہے تو دو سَو فرنگی بادشاہ اس کے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہوتا ہے لیکن بڑے ہوئے تو یہ نظر آیا کہ ہر فرنگی بادشاہ کی باگ پکڑنے پر ترک بادشاہ مجبور تھا لیکن ان حالات کے باوجود مسلمانوں کے دلوں میں درد نہیں اُٹھتا۔ اسلام اس وقت سخت مصیبت میں ہے۔ اس کے دشمن اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور مسلمان ہیں کہ غفلت کی گہری نیند سو رہے ہیں۔ کسی کے دل میں اسلام کے لئے غیرت جوش نہیں مارتی ۔ اسلام کی تعلیم سے ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے دلوں میں کوئی ٹیس نہیں اُٹھتی اور ان کی غیرت ان حملوں کے جواب دینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔
ابن تیمیہ کے زمانہ میں گو مسلمان تنزل کی طرف جا رہے تھے لیکن ان میں غیرت باقی تھی اور وہ اسلام کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے۔ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ ایک مولوی صاحب کو بطور وفد عیسائی بادشاہ کے پاس بجھوایا گیا۔ عیسائی پادریوں نے سوچا کہ مولوی صاحب سے کوئی ایسا مذاق کیا جائے جس سے اسلام کی تحقیر ہو۔ انہوں نے بادشاہ کو حضرت عائشہؓ کے قافلہ سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ سنا کر کہا کہ آپ مولوی صاحب سے پوچھیں کہ وہ کیا واقعہ ہؤا تھا؟ مولوی صاحب اس کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ چنانچہ جب مولوی صاحب دربا میں آئے تو بادشاہ نے کہا کیوں مولوی صاحب! سنا ہے کہ آپ کے نبی کی بیوی عائشہؓ ایک سفر میں پیچھے رہ گئی تھیں۔ وہ کیا واقعہ ہے؟ ذرا بیان تو کریں۔ مولوی صاحب کے اندر اسلامی غیرت باقی تھی۔ انہوں نے کہا واقعہ تو کچھ نہیں ۔ دنیا میں دو بڑی عورتیں گزری ہیں۔ ایک تو ہمارے نبی کی بیوی حضرت عائشہؓ تھیں اور دوسری آپ کے نبی کی ماں حضرت مریم۔ اِن دونوں پر خبیث لوگوں نے الزامات لگائے لیکن ہمارے نبی کی بیوی جو کہ خاوند والی تھی اسے باوجود خاوند والی ہونے کے بچہ نہ ہؤا او ر اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی عزت کی حفاظت کی لیکن دوسری جو آپ کے نبی کی ماں تھی اسے بغیر خاوند کے بچہ ہو گیا۔ بس اتنا ہی واقعہ ہے اَور تو کچھ نہیں۔ اس جواب کے سنتے ہی مجلس پر سناٹا چھا گیا اور آگے سے کوئی بات نہ کر سکا کیونکہ بات تو خود انہوں نے شروع کی تھی مولوی صاحب نے تو جواب ہی دیا تھا۔ پس اگر آج بھی مسلمانوں میں غیرت ہوتی تو وہ ہر اعتراض کا جواب دیتے جو دوسرے مذاہب کے لوگ رسول کریم ﷺ پر کرتے ہیں۔ لیکن ان اعتراضوں کا خود جواب دینا تو الگ رہا ، جو لوگ ان اعتراضات کا جواب دیتے ہیں ان کے خلاف بھی یہ مسلمان کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔ عیسائیوں نے رسول کریم ﷺ کی ذات ِبابرکات پر حیا سوز حملے کئے اور ایسے ایسے اعتراض کئے کہ جس کو پڑھ کر ایک سچے مسلمان کا خون کھولنے لگتا ہے لیکن جب انہی اعتراضات کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دئیے تو مسلمانوں کے علماء نے شور مچا دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کے فتوے لگائے۔ لیکن ہم آج بھی بآوازِ بلند کہتے ہیں اگر کوئی عیسائی، رسول کریم ﷺ کے متعلق کوئی نازیبا کلمہ استعمال کرے گا تو ہم ایک مسیح چھوڑ دس ہزار مسیح کی ہتک کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ جو شخص پہلے حملہ کرتا ہے یہ اس کافرض ہے کہ وہ حملہ کرنے سے باز رہے۔ دیکھو اس مولوی پر حضرت عائشہؓ کے متعلق اعتراض کیا گیا تو اس نے حضرت مریم کی عزت کی پروا نہیں کی اور اس نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ وہ عیسائی بادشاہ کے دربار میں بیٹھاہے اور فوراً اسی طرح الزامی رنگ میں جواب دے دیا۔ اس زمانہ میں بھی عیسائی رسول کریم ﷺ پر نہایت نازیبا حملے کرتے ہیں اور اس کا نام عیسائی صاحبان تبلیغ رکھتے ہیں۔ جب ہماری طرف سے بھی اسی طرح کا جواب حضرت مسیح موعودؑ نے دیا تو خود مسلمانوں نے عیسائیوں کےساتھ مل کر شور مچا دیا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں۔ بھلا تم کون ہو جو یہ شور مچاتے ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ہو گئی کیونکہ رسول کریم ﷺ خود فرماتے ہیں۔ لَوْ کَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ3کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے نوکروں میں ہوتے۔ پس حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والوں میں سے ہر ایک کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان میں سے جب بھی کوئی رسول کریم ﷺ کی عزت پر حملہ کرے گا تو ہم سو دفعہ ان کے موسیٰ و عیسیٰ کی عزت پر حملہ کریں گے۔ ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہودی جس موسیٰ ؑ کو پیش کرتے ہیں وہ قرآن کریم کاموسیٰ نہیں۔ کیونکہ اس نے تو خود رسول کریم ﷺ کے آنے کی پیشگوئیاں کیں اور اپنے متبعین کو آپ پر ایمان لانے کی تاکید کی۔ اسی طرح عیسائیوں کےعیسیٰ علیہ السلام وہ عیسیٰ نہیں جنہیں قرآن کریم نے پیش کیا کیونکہ انہوں نے خود رسول کریم ﷺ کے آنے کی پیشگوئیاں کیں اور اپنے متبعین کو ماننے کی تاکید فرمائی۔ پس اگر کوئی موسیٰ ؑ یا عیسیٰ رسول کریم ﷺ کے خلاف کوئی بات اپنے پیروکاروں کو بتاتا ہے تو وہ عیسیٰ یا موسیٰ قرآن کریم کا عیسیٰ یا موسیٰ نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن کریم کے موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں یا یہودیوں کے حملوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پس ہمارا جوابی حملہ یہودیوں کے موسیٰ اور عیسائیوں کے عیسیٰ کے خلاف ہو گا نہ کہ قرآنی موسیٰ اور عیسیٰ کے خلاف ۔
بہرحال مسلمانوں کی حالت پر رونا آتا ہے کہ ان کو اپنے رسول کی عزت کا پاس نہیں رہا۔ اگر ان کو پاس ہوتا تو وہ ان اعتراضوں اور ان حملوں کا جواب دیتے جو غیر مذاہب کی طرف سے اسلام پر کئے جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کو غیرت آتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ جس نے وہ اعتراض کئے ہوں اسے مار ڈالتا ہے حالانکہ اس کے مارے جانے سے اس کی قوم میں زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ سخت حملے کرتی ہے۔ اصل طریق یہ ہے کہ اعتراضوں کا جواب دلائل اور براہین سے دیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے جو روشن تعلیم اور روشن نشانات اسلام کو عطا کئے ہیں وہ ایسے لوگوں کے سامنے پیش کئے جائیں جن سے ان کے منہ بند ہو جائیں۔ بجائے مارنے کے ان کو تبلیغ کی جائے۔ ان کے بیوی بچوں کو تبلیغ کی جائے اور ان کے بیوی بچوں کو مسلمان بنایا جائے۔ اگر ہم اعتراضات کرنے والوں کو قتل کرنے کی بجائے ہر سال دس ہزار ہندو یا عیسائی مسلمان بنا لیں تو تم دیکھو گے کہ ان قوموں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جائے گی اور ان کے اندر ایک ایسی جلن پیدا ہو گی جو ان کو کبھی چَین نہ لینے دے گی۔ مارے جانے سے تو قوم سمجھ لیتی ہے کہ ان لوگوں کا خاتمہ ہو گیا لیکن جو افراد زندہ ہی اپنی قوم میں سے نکل کر دوسری قوم میں جا ملیں تو وہ اپنی قوم کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنی قوم کو کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اپنی قوم کے لئے اکثر اوقات ہدایت کا موجب بن جاتے ہیں اور دوسرے حصہ کا دل جلانے کا موجب ہوتے ہیں۔ یہی طریق ہے جو مسلمانوں کو ایک عظیم الشان کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تعجب ہے آجکل جو سٹرائک ہے اس سے ہر مسلمان کے گھر میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے لیکن دو سو سال سے اس سے بڑی سڑائک جاری ہے اُس کا مسلمانوں کو کوئی فکر نہیں۔ اگر ان کو فکر ہوتا تو وہ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے مقابل پر نکلتے۔ تبلیغِ اسلام کے لئے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ جاتے لیکن بجائے اس کے دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں کھڑے ہوں۔ اسلام کی طرف سے مقابلہ پر کھڑے ہونے والوں کے رستے میں روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت بہت افسوسناک ہے۔ اگر وہ ہمیں مدد نہیں دے سکتے تو نقصان پہنچانے سے تو پرہیز کریں اور ہمیں دشمنانِ اسلام سے نبرد آزما ہونے دیں۔ لیکن مسلمانوں کی مخالفت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے مذاہب والے بھی تبلیغ سے ہمیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے آج ہی ایک خط قادیان سے موصول ہؤا ہے۔ ہم اپنے ایک مبلغ کے لئے سوڈان کا پاسپورٹ تیار کروا رہے تھے ۔ لیکن سوڈان کے حاکم نے اِس وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا ہے کہ آپ کے یہاں آنے سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے مشنریوں کے وہاں آنے سے تو مسلمانوں کے جذبات مشتعل نہیں ہوتے لیکن رسول کریم ﷺ کی خوبیوں اور آپ کی تعلیم کو پھیلانے والے مبلغوں سے ملک کے مسلمانوں میں جوش پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام حالات اِس سے پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں کہ عیسائی اور یہودی مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی غیرت ہی مر گئی ہے۔ ورنہ ایک مسلمان جس میں غیرت باقی ہو وہ ان حالات کو دیکھ کر یقیناً پاگل ہونے کے قریب ہو جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنے والے مسلمانوں کا مقابلہ ناممکن ہے۔ چالیس کروڑ تو بہت بڑی تعداد ہے مَیں کہتا ہوں کہ آپ سے سچی محبت رکھنے والے اگر صرف چار کروڑ ہی مسلمان ہوں تب بھی دنیا کی کوئی طاقت ان کو مٹا نہیں سکتی۔ چار کروڑ انسان کو مارنا کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان کا دل کانپ جاتا ہے ۔ یہودی صرف دو کروڑ ہیں اور دینی لحاظ سے انہیں مسلمانوں جیسی اہمیت بھی حاصل نہیں لیکن تمام یورپ کے لوگ ان کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے گھر میں سے ہی ان کے لئے جگہیں نکال رہے ہیں۔ حالانکہ تمام دنیا کے مسلمان اس بات کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے گھر میں آرام سے رہنے دیا جائے اور انہیں یہود کے رحم پر نہ چھوڑا جائے۔ لیکن مسلمانوں کی اس بات کو جس قدر وقعت دی گئی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
ہندوستان میں بھی مسلمانوں سے جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ اس بات پر شاہد ہے کہ آج مسلمان ہر لحاظ سے مغلوب ہو چکے ہیں اور وہ دوسروں کے نرغہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے مسلم لیگ کے خلاف متواتر اپنے بیان میں ہندوؤں کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ گھبراتے کس بات سے ہو۔ آئین ساز اسمبلی میں اکثریت ہماری ہو گی، جو قانون چاہیں گے بنائیں گے۔ ہم بندوقوں اور رائفلوں سے کیونکر ڈر سکتے ہیں (یعنی ہم تو ایٹم بم کی طاقت رکھتے ہیں) اب مسٹر جناح نے جب اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے گو کسی حد تک انہوں نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جو نہیں چاہئیں تھے۔ لیکن اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو جو بات انہوں نے کہی ہے سچی ہے۔ لیکن انگلستان کے اخباروں میں شور مچ گیا ہے اور ساری انگریز قوم چیخ اُٹھی ہے کہ مشن کے ممبروں کی ہتک کی گئی ہے اور حکومتِ برطانیہ کی توہین کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں سے جو سلوک کیا جائے ، ان کے حقوق جس طرح چاہیں پامال کئے جائیں ان کی پروا نہیں لیکن اگر مسلمان اپنے دکھ کا اظہار کریں تو ایک شور مچ جاتا ہے کہ بس حد ہو گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اُس طاقت کے مالک نہیں سمجھے جاتے جس کے مالک ہندو ہیں۔ کانگرس جو چاہے مشن کے حق میں اور حکومتِ برطانیہ کے حق میں کہے۔ وہ سب بجا ہے لیکن مسلم لیگ اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرے تو اس کے الفاظ ہر ایک کو چبھتے ہیں اور شور برپا ہو جاتا ہے کہ اب تو حد ہو گئی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کو وہ طاقت حاصل نہیں جو کانگرس کو حاصل ہے۔ یہ حالت ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک بھیڑیا کسی نالے پر اوپر کی طرف پانی پی رہا تھا۔ اِسی اثنا ء میں ایک بکری کا بچہ بھی آ گیا اور اس بھیڑیے سے نچلی طرف پانی پینے لگا۔ بکری کے بچے کو دیکھ کر بھیڑیے کی نیت خراب ہو گئی اور اس نے ارادہ کیا ، ہو نہ ہو کوئی بہانہ تلاش کر کے اس بکری کے بچے کو کھا جاؤں۔ چنانچہ وہ بھیڑیا اس بکری کے بچے سے مخاطب ہؤا اور کہا نالائق! تمہیں اتنی بھی خبر نہیں کہ مَیں پانی پی رہا ہوں۔ تم نے آ کر نالے کے پانی کو گدلا کر دیا۔ بکری کے بچے نے کہا۔ جناب! آپ اوپر کی طرف پانی پی رہے ہیں اور مَیں نچلی طرف پانی پی رہا ہوں، آپ کی طرف سے پانی میری طرف آ رہا ہے نہ کہ میری طرف سے پانی آپ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ جواب سن کر بھیڑیے نے ایک تھپڑ مار کر کہا۔ نالائق! آگے سے جواب دیتے ہو، ہمارے ساتھ گستاخی سے پیش آتے ہو۔ یہ کہہ کر اُس پر جھپٹا اور تِکّہ بوٹی کر دیا۔ یہی حال مسلمانوں سے دوسری قوموں کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر کمزور آدمی معقول بات نہ کرے تو وہ مجرم اور اگر معقول بات کرے تو گستاخ بن جاتا ہے۔ مسلمانوں کی یہ حالت اس لئے ہوئی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو چھوڑ دیا ہے اور اس وجہ سے ان کے اندر تشتُّت اور پراگندگی پیدا ہو گئی ہے۔ مسلمانوں میں سے کوئی مغل ہے، کوئی سید ہے، کوئی پٹھان ہے اور کوئی راجپوت ہے۔ یہ مختلف اقوام اور مختلف نسلیں ایک رشتہ کی وجہ سے متحد تھیں اور ان کو جوڑنے والی اور ان میں وحدت پیدا کرنے والی چیز خدا اور اس کے رسول کی محبت تھی۔ جب وہ دلوں سے نکل گئی تو مسلمانوں کا شیرازہ بھی بکھر گیا۔ جس طرح ایک کتاب کی جب جِلد بندی ہو تو اس کے تمام اَوراق مجتمع اور محفوظ رہتے ہیں لیکن جب اس کی جِلد توڑ دی جائے تو اس کا ہر ورق دوسرے ورق سے جدا ہو جاتا ہے۔ پس جب سے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کو چھوڑا ہے اُسی دن سے ان کا شیرازہ پراگندہ ہو گیا ہے اور اسی دن سے وہ مغلوب ہو گئے ہیں۔ پس ان باتوں سے اور ان حالات سے اگر کوئی سبق حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے عمدہ موقع ہے۔ آج مسلمان نہایت ادنیٰ او رحقیر باتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ حاصل ہو جائیں تو ہمارے درد کا علاج ہو جائےگا اور جب انہیں ان امور کی طرف سے مایوسی ہوتی ہے تو ان کی جان نکلنے لگتی ہے۔ حالانکہ وہ باتیں حقیقت میں بہت چھوٹی ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ؂
نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تومرتے ہیں 4
وہ چیزیں جو مسلمانوں کو حاصل کرنی چاہئیں وہ اتنی بڑی ہیں کہ یہ چیزیں جن کے حصول کی وہ کوشش کر رہے ہیں روپیہ کے مقابلہ میں ایک پیسہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ دنیا سے اللہ تعالیٰ کی عزت اور اللہ تعالیٰ کے نام کو مٹا دیا گیا۔ مسلمانوں کو اس کا فکر لاحق نہیں ہؤا۔ دنیا سے رسول کریم ﷺ کی عزت کو مٹا دیا گیا اور آپ پر سخت سے سخت حملے کئے گئے۔ مسلمانوں کو فکر لاحق نہیں ہؤا۔ دنیا نے قرآن کریم کی عزت کو مٹانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کو فکر لاحق نہیں ہؤا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ ان کو فکر لاحق نہیں ہؤا۔ لوگوں نے نمازیں چھوڑ دیں ، مساجد ویران ہو گئیں۔ ان کو کوئی فکر لاحق نہیں ہؤا۔ قرآن کریم ہاتھ سے جاتا رہا، دنیا نے اس پر عمل کرنا ترک کر دیا اور عدالتوں میں جا کر عَلَی الْاِعْلَان کہہ دیا کہ ہم قرآن کریم کے مطابق فیصلہ نہیں چاہتے بلکہ اپنے رسم و رواج کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں ۔ اس سے زیادہ خطرناک زمانہ مسلمانوں پر اور کونسا آ سکتا ہے۔ لیکن مسلمان ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ لیکن جب بعض سیاسی حقوق کا سوال آیا تو مسلمان بپھرے کہ ہم ہر قسم کی قربانی کر کے دنیا کو بتا دیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں اور ہمارے جذبات سے کھیلنا آسان کام نہیں۔ لیکن مَیں کہتا ہوں اس وقت تم لوگ کہاں تھے جس وقت عیسائیوں نے تم سے قرآن کریم چھین لیا۔ شریعت اور اسلامی تعلیم سے تم کو ناواقف بنا دیا۔ رسول کریم ﷺ کی ذات پر عیسائیوں نے ناپاک حملے کئے اور تم میں سے لاکھوں کو عیسائی بنا کر گمراہ کر دیا۔ ان سب حالات میں تم کو غصہ نہ آیا۔ ہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے خلاف قلم اٹھایا او ران کے اعتراضوں اور ناپاک حملوں کے جواب دینے شروع کئے تو تمہیں سن کر غصہ آ گیا او رتم نے ایک شور برپا کر دیا کہ مسیح علیہ السلام کی ہتک ہو گئی۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے او ررسول کرم ﷺ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی قربانی نہیں کی ان سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ چند سیاسی حقوق کے لئے ہر قسم کی قربانیاں پیش کر دیں گے۔ کیا سیاست اللہ تعالیٰ سے بڑی ہے؟ کیا سیاست محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑی ہے؟ کیا سیاست قرآن کریم سے زیادہ عظمت رکھتی ہے کہ اس کے لئے مسلمان کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے؟ یہ اصولی بات ہے کہ جو شخص کسی بڑی چیز کے لئے قربانی نہیں کر سکتا اُس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹی چیز کے لئے قربانی کرے گا۔ مسلمانوں کے لئے قربانی کا اصل محرک اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی محبت ہے ۔ جب تک یہ پیدانہیں ہوتی اس وقت تک قربانی کا جذبہ ایک وقتی جوش ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ او رجب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت قلوب میں پیدا ہو جائے تو پھر ہزاروں یا لاکھوں یا کروڑوں کا سوال ہی نہیں رہتا۔ دس بیس انسانوں سے بھی لوگ ڈرتے ہیں اور ان کا رستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اگرایک چھوٹا بچہ اکیلا بازار میں سے گزر رہا ہو تو اسے ہر ایک کمزور سے کمزور آدمی تھپڑ مار سکتا ہے لیکن جب اس بچے کے ساتھ اس کا پہلوان باپ ہو تو پھر کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ پھر کیا حال ہو گا اس انسان کا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہو۔ دنیا اپنا انتہائی زور صرف کرتی ہے کہ کسی طرح وہ انسان دنیا سے نیست و نابود ہو جائے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اکیلا انسان نیست و نابود ہو وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں اس کے مقابلہ میں آنے کی وجہ سے نیست و نابود کر دئیے جاتےہیں اور نہایت حسرت کی موت مرتے ہیں۔ دنیوی حکومتوں کو ہی دیکھ لو کہ کسی شخص کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کسی امریکن سپاہی کو چھیڑ سکے یا کسی روسی سپاہی کو چھیڑ سکے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ امریکن سپاہی کی پُشت پر امریکہ کی حکومت ہے اس لئے اس کو چھیڑنا حکومتِ امریکہ کود شمن بنانا ہے۔ اسی طرح روسی سپاہی کے متعلق لوگ جانتے ہیں کہ اس کی پُشت پر روسی حکومت ہے اور اسے چھیڑنا روسی حکومت کو دشمن بنانا ہے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اسے کوئی شخص نقصان پہنچا سکے؟
پس کامیابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عزت کو دنیا میں قائم کیا جائے اور ان کی محبت کو دلوں میں قائم کیا جائےتا اللہ کی مدد اور اس کے رسول کی دعائیں ہمارے ساتھ ہوں۔ لیکن افسوس ہے کہ جو شخص اس کام کو کرنے کے لئے کھڑا ہؤا اس سے ان لوگوں نے یہ سلوک کیا ہے کہ بجائے مدد دینے کے اس کے رستے میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں او ربجائے اس کے کام کو سراہنے کے اسے گالیاں دیتے رہے۔ اور اس بات کو نہیں دیکھا کہ اس شخص نے آ کر قرآن کریم اور حدیث کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا ہے اور اسلام کو ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا۔ اور اس نے ایک ایسا میدانِ جنگ تیار کیا ہے کہ عیسائیت اور یہودیت اور دوسرے مذاہب اس میدان سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دشمن تلوار سے حملہ کرتا تھا اِس لئے تلوار سے جواب دیا گیا۔ آج دشمن قلم سے حملہ کرتا ہے اس لئے قلم سے ہی جواب دیا گیا ہے۔ بہرحال جہاد خواہ کسی رنگ کا ہو اس میں قربانی کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت اس جہاد کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کر رہی ہے۔ لیکن کیا وہ لوگ مومن ہو سکتے ہیں جو جہاد کے وقت اپنے دنیوی کاموں میں مشغول رہیں یا جو لوگ جہاد کے وقت اپنے حجرے بند کرکے تسبیحیں پھیرنی شروع کر دیں؟ مومن تو موقع او رضرورت کے مطابق عمل بجا لاتا ہے۔ اگر ان تسبیحیں پھیرنے والوں کے دلوں میں خدا اور رسول کی محبت ہوتی تو یہ مقابلے کے لئے اپنے گھروں سے نکلتے اور وہاں پہنچتے جہاں خدا اور رسول پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اپنے گھروں میں نہ بیٹھ رہتے ۔ لیکن ان لوگوں کے نزدیک سب سے بڑی قربانی یہی ہے کہ گھر میں بیٹھے تسبیحیں پھیرتے رہیں حالانکہ خدا اور اس کے رسول پر باہر حملے کئے جا رہے ہیں لیکن ان کو تسبیح پھیرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اگر ان کے لڑکے کی چھت پر سے گرنے کی خبر آجائے پھر ہم دیکھیں کس طرح بیٹھے تسبیح پھیرتے ہیں۔ سچا عاشق تو وہ ہوتا ہے جو اپنے معشوق کی عزت کے لئے جان تک دے دیتا ہے اور جہاں اس کے معشوق پر حملہ ہوتا ہے وہ وہاں پہنچتا ہے۔ لیکن یہ لوگ دعویٰ تو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے سچے عشق کا کرتے ہیں لیکن گھروں سے باہر قدم نہیں رکھتے اور کوئی ایسی کوشش نہیں کرتے جس سے اسلام دوسرے اَدیان پر غالب آئے۔ اور مسلمان دوسری اقوام پر فوقیت لے جائیں۔
اسلامی تاریخ میں ایک صحابیؓ کے متعلق یہ واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک جنگ میں قید ہوگئے۔ قید کرنے والوں نے یعنی مکہ والوں نے ان کو خرید لیا۔ کیونکہ ان کا ایک آدمی جنگ میں کام آیا تھا او رانہوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔ جب وہ مکہ پہنچے تو لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے۔ انہوں نے اس صحابیؓ سے کہا کہ کل تو تم مار دئیے جاؤ گے۔ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم مدینہ میں آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوتے او ر محمد (ﷺ) تمہاری جگہ یہاں قید ہوتے؟ اس صحابیؓ نے ان کو جواب دیا۔ تم تو کہتے ہو کہ مَیں مدینہ میں آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہؤا ہوتا اور محمد رسول اللہ ﷺ میری جگہ یہاں قید ہوتے۔ بے وقوفو! مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ مَیں مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہوتا اورمحمد رسول اللہ ﷺ کو مدینہ کی کسی گلی میں کانٹا چبھ جاتا۔5 یہ ہے اصل ایمان اور یہ ہے اصل محبت جو سچے عاشق کو اپنے معشوق سے ہوتی ہے۔ یہ بھی کوئی ایمان ہے کہ لوگ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے چلے جائیں اور آپ پر ناپاک حملے کرتے چلے جائیں۔ لوگ اسلام سے مرتد ہوتے چلے جائیں۔ اسلام دن بدن کمزور ہوتا چلا جائے لیکن مسلمانوں کو یا تو اپنی ملازمتوں اور تجارتوں کا فکر ہو اور یا پھر اپنے حجرے اور اپنی تسبیح سے ہی کام ہو۔ یہ تسبیحیں یقیناً بے ایمانی کی تسبیحیں ہیں اور یہ سجدے یقیناً ریا کاری کے سجدے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سجدے ان کے منہ پر مارے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ لوگ مجھ پر اور میرے رسولؐ پر حملے کرتے تھے اور تم حجروں میں آرام سے تسبیحیں پھیرتے رہے۔ جب جہاد کا موقع ہوتا ہے تو نماز باوجود ایک بڑے عظیم الشان رُکن کے پیچھے کر دی جاتی ہے اور کم کر دی جاتی ہے۔ فرض نمازوں کا وقت پیچھے کر دیا جانا بتاتا ہے کہ جس وقت جہاد ہو رہا ہو اس وقت جہاد کو ہی اہمیت حاصل ہے۔ جہاد کے وقت اگر کوئی شخص مصلّٰی بچھا کر نماز شروع کر دے تو اسے تمام مسلمان یا تو پاگل یا منافق خیال کریں گے۔
اِس وقت بھی اسلام پر چاروں طرف سے حملے کئے جا رہے ہیں گو یہ تلوار کے حملے نہیں ہیں بلکہ قلم کے حملے ہیں۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ جس رنگ میں دشمن اسلام پر حملہ کرے اسی رنگ میں اس کا جواب دیں۔ اس وقت مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے اموال وقف کریں اور ان کو ایسے رنگ میں صَرف کریں جن سے اسلام کی عظمت اور شوکت بڑھے اورمسلمانوں کی طاقت مضبوط ہوتی چلی جائے۔ اور جس جگہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر حملہ کیا جاتا ہو۔ وہاں پہنچیں اور اس کا مقابلہ کریں۔ یہ بے شک درست ہے کہ تمام کے تمام لوگ باہر نہیں نکل سکتے اور تمام کے تمام لوگ میدان جنگ میں نہیں جا سکتے لیکن جو لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ان میں سے بعض ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں، بعض اپنی فوج کے لئے اشیاء خوردنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ بعض اپنی فوج کے لئے گولہ بارود مہیا کر سکتے ہیں۔ ایسے کام کرنےو الے بھی درحقیقت جنگ میں شامل ہی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مسلمانوں کا فرض ہے کہ جو لوگ خدمتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور اپنے اموال وقف کرتے ہیں ان کی امداد کریں اور ان کے رستہ میں روک نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ احمدیت اور اسلام کو دنیا میں قائم کر کے چھوڑے گا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سامان پیدا کر رہا ہے لیکن ثواب کے مستحق وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ کو پورا کرنے میں اپنی قربانیاں پیش کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ پورا ہو او روہ لوگ جو اپنے مصلّوں پر بیٹھ کر تسبیحیں پھیرتے رہیں گے اور اس کے غلبہ کے لئے کوشش نہیں کریں گے وہ اپنی بد قسمتی پر آپ مُہر کرنے والے ہوں گے۔ پس وہ لوگ جو کہ اسلام کے غلبہ کا حل صرف سیاسی باتوں میں تلاش کرتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں او روہ لوگ جو مصلّوں پر بیٹھ کر درود و وظائف کرتے رہتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔
اسلام صرف اس طرح دنیا میں غالب آ سکتا ہےکہ خدا تعالیٰ کی محبت کو دلوں میں قائم کیا جائے اور اس کے رسولؐ کی محبت کو دلوں میں قائم کیا جائے او رشریعتِ اسلام کے قیام کے لئے انتہائی کوشش کی جائے۔ اور تمام وہ جگہیں جہاں سے اسلام کے خلاف زہر اُگلا جاتا ہے وہاں اسلام کا تریاق تقسیم کرنے والے بھیجے جائیں جو ان لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ کریں اور اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے بیان کریں۔ اور ہر انسان کی یہ کوشش ہو کہ میرا وجود اسلام کے لئے مفید ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرنے میں کسی کا محتاج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی تو ان بندوں کو پیدا کرتا ہے جو اس کے دین کی خدمت کرتے ہیں ا ور اس کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں نہ کہ ان کی کوشش سے خدا تعالیٰ پیدا ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ خود ہی اپنے دین کو قائم کر سکتا ہے لیکن یہ اس کا احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں کو توفیق دیتا ہے کہ وہ اس کے دین کی خدمت کر کے ثواب حاصل کرلیں۔’’
(الفضل 14؍ اگست 1946ء)
1: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 344 مطبوعہ مصر 1936ء
2: طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 50 مطبوعہ بیروت 1985ء
3: الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 22مطبوعہ مصر 1351ھ
4: در ثمین اردو صفحہ 11
5: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 230 مطبوعہ بیروت 1965ء
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
28
جماعت احمدیہ کی ترقی کےد ن قریب سے قریب تر آ رہے ہیں
( فرمودہ 9؍ اگست 1946ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مَیں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جماعت اپنے فرائض کو قطعاً ادا نہیں کر رہی مگر یہ ضرور کہنا پڑتا ہے کہ اپنے مقصد کی اہمیت کے مطابق ہماری جماعت کی کوشش پوری نہیں اترتی۔ اسلام پر ایک ہزار سال سے تنزل اور انحطاط کی حالت جاری ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الْفَیْجُ الْاَعْوَجُ 1کہ سب سے خیر کا زمانہ میرا زمانہ ہے۔ پھر دوسری صدی پھر تیسری صدی اس کے بعد تاریکی اور ظلمت کا زمانہ ہو گا۔ جیسا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ2کہ اللہ تعالیٰ ایک امر کی آسمان سے تدبیر کرے گا او رزمین پر اس کی اشاعت ہو گی۔ اس جگہ امر سے مراد اسلام ہے۔ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔پھر ترقی کے بعد اسلام ہزار سال میں آسمان کی طرف اُٹھنا شروع ہو جائے گا۔ آسمان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہو گا۔ اس میں یہ بتایا کہ چونکہ یہ دین اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اِس لئے اس کی طرف چڑھے گا۔ اگر یہ انسانوں کا بنایا ہؤا دین ہوتا تو وہ انسانوں کی طرف لَوٹتا۔ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایک کر کے اپنے احکام واپس لے لے گا اور اسلام کی ترقی اور اسلام کا غلبہ تین سو سال کے بعد رُک جائے گا اور مسلمان اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔ پہلا تین سو سال خیر کا زمانہ اور ہزار سال یہ سب مل کر تیرہ سو سال کا زمانہ بنتا ہے اور آج اسلام پر چودھویں صدی نصف سے اوپر گزر رہی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پونے گیارہ سو سال اسلام کا تنزل کا زمانہ ہو گیا۔ اسلام کی یہ کمزوری کوئی معمولی کمزوری نہیں اور یہ تکلیف کوئی معمولی تکلیف نہیں۔ انسان ایک دن کی تکلیف نہیں برداشت کر سکتا، دو تین دن کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا اور ایک مہینہ یا چند مہینے یا ایک سال کی تکلیف تو اُس پر بارِ گراں بن جاتا ہے جس کی برداشت کے قابل وہ اپنے آپ کو نہیں پاتا۔ اور اگر پانچ دس سال کی تکلیف ہوتو اس پر دشمن کو بھی رحم آ جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ گیارہ سو سال کا تنزل جو اسلام کو ہر قدم پر نیچے کی طرف لے جا رہا ہے اور کیا اِتنی لمبی کمزوری او راِتنی لمبی تکلیف ایسی نہیں جس سے اپنوں کے دلوں میں اسلام کے لئے رحم پیدا ہو اور وہ اسلام کی اس حالت کو دیکھ کر اپنی غفلت اور سُستی کو ترک کر دیں او راسکی کمزوری اور تکلیف کو دور کرنے کے لئےبیدار ہونے اور مقابلہ کرنے کی ضرورت کو محسوس کریں؟ بے شک یہ درست ہے کہ باقی مذہبی جماعتوں میں سے کوئی اَور جماعت ایسی نہیں جو دین کی خاطر اِتنی قربانی کرتی ہو، جتنی قربانی ہماری جماعت کرتی ہے۔ اور اس بات کا دوسرے لوگوں کو بھی اعتراف ہے کہ اگر آج کوئی جماعت دین کی خاطر قربانیاں کرتی ہے تو وہ صر ف اور صرف جماعت احمدیہ ہے۔ لیکن اگر قربانی کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو بحیثیت مجموعی جماعت کی قربانیوں کو عظیم الشان قربانیاں نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں زید اور بکر کا سوال نہیں۔ سوال تو جماعت کا ہے کہ جماعت نے کس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہے اور اس کے لئے کس حد تک تیاری کی ہے۔ فرض کرو کسی شخص کے سامنے کھانا پکانے کا سوال درپیش ہے۔ اب اس کے لئے آٹے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر سالن پکانا چاہیں تو کسی سبزی یا دال کی بھی ضرورت ہے۔ نمک اور مرچ کی بھی ضرورت ہے۔ لکڑیوں کی بھی ضرورت ہے۔ چولہے کی بھی ضرورت ہے۔ ہنڈیا کی بھی ضرورت ہے ۔ توے کی بھی ضرورت ہے اور پُھکنی کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک یہ تمام اشیاء مہیا نہ ہوں کھانا تیار نہیں ہو سکتا۔ اب ایک شخص ایسا ہے جس نے اِن چیزوں میں سے کچھ بھی جمع نہیں کیا۔ ایک اَور شخص ہے جس کے پاس صرف پُھکنی ہے۔ نہ چولہا ہے نہ لکڑیاں ہیں اور نہ ہی باقی سامان ہے کہ وہ لکڑیوں کو جلا کر کھانا تیار کر سکے ۔ ایسے شخص کو خالی پُھکنی کیا کام دے گی۔ ایک اَور شخص ہے جس کے پاس پُھکنی بھی ہے، لکڑیاں بھی ہیں لیکن نہ اس کے پاس چولہا ہے نہ توا ہے نہ دیگچی ہے۔ ایسا شخص بھی کھانا تیار نہیں کر سکتا۔ ایک اَور شخص ہے جس نے آٹے کا بھی انتظام کر لیا ہے، پُھکنی کا انتظام بھی کر لیا ہے، اس کے پاس لکڑیاں بھی ہیں اور اس کے پاس چولہا بھی ہے لیکن اس کے پاس ہنڈیا اَور توا نہیں۔ تو ایسا شخص بھی کھانا نہیں تیار کر سکتا حالانکہ اس نے بہت سی چیزیں جمع کر لی ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک دوسرے سے نسبتاً اچھے ہیں اور جتنا کسی نے سامان جمع کیا ہے اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ کامیابی کےز یادہ قریب ہے۔ لیکن کامیاب ہونے کے لئے اسے ابھی کئی اور چیزوں کی ضرورت ہے۔
پس یہ درست ہے کہ ہماری جماعت کی جد و جہد دوسری جماعتوں سے بہت زیادہ ہے اور نہ ہندوؤں میں سے او رنہ عیسائیوں میں سے اور نہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ ایسا ہے جو مذہب کی خاطر ایسی قربانی کرتا ہو جیسی ہماری جماعت کرتی ہے۔ بلکہ بعض حالات میں تو سیاسی جماعتوں سے بھی ہماری جماعت بڑھ گئی ہے۔ لیکن ابھی کُلّی طور پر ہماری جماعت کو فوقیت حاصل نہیں۔ اور اِس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت اپنے تمام کاموں میں کُلّی طور پر فوقیت حاصل کرنے کی کوش کرے۔ اور یہ کام ہو نہیں سکتا جب تک کہ جماعت کے افراد اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پاگلوں اور دیوانوں کی طرح کوشش نہیں کرتے۔ لوگ ابھی تک ہماری جماعت کو پاگل نہیں کہتے۔ جس دن سے لوگ تمہیں پاگل اور مجنوں کہنا شروع کریں گے تم سمجھو کہ تم اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے ہو۔ لوگ رسول کریم ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو عقلمند نہیں کہتے تھے بلکہ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو مجنون کے نام سے یاد کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ تیرے متعلق کہتے ہیں اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ 3 کہ تُو مجنون ہو گیا ہے۔ اور صرف رسول کریم ﷺ کو ہی مجنون اور پاگل نہیں کہا گیا بلکہ تمام انبیاء کے متعلق لوگ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ ان پر دیو سوار ہے۔ یہ پاگل ہو گئے ہیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ پاگل ہو گیا ہے، کسی نے کہہ دیا کہ عقل ماری گئی ہے، کسی نے مجنون اور دیوانہ نام رکھ دیا۔ ان تمام باتوں کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں۔ آخر لوگ ان کو ایسا کیوں کہتے تھے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سامنے جو مقصد تھا اُس کوحاصل کرنے کے لئے وہ کسی روک کی پروا نہیں کرتے تھے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کےسر پھوڑ دئیے گئے، ان کا خون بہایا گیا، وہ جلا دئیے گئے، چِیر دئیے گئے، تباہ و برباد کر دئیے گئے لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے قدم آگے ہی بڑھاتے گئے۔ ان کو لوگ پاگل اس لئے کہتے تھے کہ دنیا کے عقلمندوں کو ان کی تمام باتیں الٹی نظر آتی تھیں۔ دنیا کے لوگ روپیہ جمع کرتے تھے اور یہ پاگل کہلانے والے اپنے اموال کو خدا کی راہ میں بکھیرتے تھے۔ لوگ اپنے آرام کے لئے مال جمع کرتے تھے اور یہ پاگل کہلانے والے ان مالوں کو تقسیم کرتے تھے۔ لوگ اپنے بچوں سے محبت کرتے تھے اور ان کو اپنے سے جدا نہ کرتے تھے لیکن یہ پاگل اور دیوانے خدا کی راہ میں اپنے بچوں کو قربان کرتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ پاگل ہو گئے ہیں اس لئے ان کو اپنے بچوں سے محبت نہیں رہی۔ لوگ اپنی بیویوں سے جُدا نہیں ہونا چاہتے اور یہ پاگل کہلانے والے دین کی تبلیغ کے لئے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر تبلیغ دین کے لئے دور دور نکل جاتے تھے۔ لوگ اُن کو مارتے اور یہ خدا کی راہ میں ماریں کھاتے ا ورپھر بھی خوش رہتے۔ غرض تمام وہ باتیں جو عقلمند لوگ اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے یہ اس کے خلاف کرتے۔ سیاستدان بھی ان کو پاگل سمجھتے اور تاجر اور زمیندار لوگ بھی اُن کو پاگل سمجھتے تھے کیونکہ تاجروں کےنزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ مالِ تجارت کی حفاظت کی جائے اور اسے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ پاگل کہلانے والے جائیدادوں اور اموال کی پروا نہ کرتے ہوئے وطن سے ہجرت کر جاتے اور تجارتوں کو چھوڑ جاتے تھے۔ پس لوگ ان کی حیرت انگیز قربانیوں کو دیکھ کر ان کو پاگل کہنا شروع کر دیتے تھے۔
لیکن ہماری جماعت کی ابھی یہ حالت نہیں ہوئی اور دنیا ابھی ہمیں پاگل اور مجنون نہیں کہتی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہماری قربانیاں انبیاء کی جماعتوں کے معیار کو نہیں پہنچیں۔ بے شک بعض افراد نے شاندار قربانیاں پیش کی ہیں او رہم ان کی قربانیوں کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن بعض افراد کا ایسی قربانیاں پیش کرنا ساری جماعت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا بلکہ ہماری جماعت میں ایسی قربانیاں لاکھوں کی تعداد میں ہونی چاہئیں۔ سید عبد اللطیف شاہ صاحب شہید نے جو قربانی پیش کی ہے وہ اتنی عظیم الشان ہے کہ دنیا میں ایسی قربانیاں سوائے صحابہؓ کے اَور کسی نے نہیں کیں۔ وہ جب بیعت کر چکے تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میرے کان میں آواز آ رہی ہے کہ تیرے ملک کو تیری قربانی کی ضرورت ہے۔ عام لوگ اس زمانہ کو اپنے خیالوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ابھی قربانی کا زمانہ تو بہت دور ہے لیکن سید عبد اللطیف شاہ صاحب شہید نے قادیان سے ہی کہنا شروع کر دیا کہ میرا ملک میری جان کی قربانی مانگ رہا ہے۔ جونہی اپنے ملک میں پہنچے ، جاتے ہی بادشاہ کو احمدیت کا پیغام دیا اور بعض کتابیں بھی مطالعہ کے لئے بھجوائیں۔ لیکن بادشاہ نے ملک کے علماء کے فرمان کے مطابق گرفتاری کا حکم دیا۔ جب گرفتاری کے لئے گورنر نے بلوایا تو آپ نے بڑے شوق سے باہیں آگے کر دیں اور فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تیرے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ گرفتاری کے بعد جیسا کہ بعض معتبر اشخاص نے بیان کیا ہے اور ایک اٹالین انجینئر نے جو افغانستان میں ملازم تھا اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ سید عبد اللطیف سے کہا گیا کہ آپ بے شک یہی عقیدہ رکھیں لیکن آپ تقیہ کر لیں۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ مَیں کیوں تقیہ کر لوں۔ مَیں تو اِس وقت کا منتظر تھا۔ آپ نے ہر تجویز کو رد کر دیا تو آپ کو شہید کر دیا گیا۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم قربانی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں بھی اور باہر بھی کئی افراد نے اس قسم کی قربانیاں پیش کی ہیں لیکن ضرورت تو اس با ت کی ہے کہ ساری جماعت ایسی قربانیاں کرے اور ایسی قربانیوں کے لئے تیار ہو جائے اور ہماری جماعت کے بچے، جوان اور بوڑھے اور مرد اور عورتیں سب کے سب ایسی قربانیوں کے لئے تیار ہوں۔
اسلام روپیہ کمانے اور روپیہ جمع کرنے سے نہیں روکتا۔ اسلام زمینوں کی حفاظت سے نہیں روکتا لیکن اس کے ساتھ اسلام اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ جب اسلام کی طرف سے یہ آواز بلند کی جائے کہ اسلام کو تمہارے روپیہ اور تمہاری جائیدادوں کی ضرورت ہے تو پھر وہ چیزیں تمہاری نگاہ میں بے قدر ہو جائیں اور تم بِلا دریغ، ضرورتِ اسلام کے لئے ان چیزوں کو خرچ کر دو۔ اسلام میں روپیہ جمع کرنا منع نہیں۔ حضرت ابوبکرؓنے روپیہ جمع کیا ہؤا تھا تبھی تو وہ رسول کریم ﷺ کے فرمان پر جمع شدہ روپیہ گھر سے اٹھا لائے۔ اگر آپ کے پاس ہوتا ہی کچھ نہ تو آپ لاتے کہاں سے۔ پس اسلام یہ نہیں کہتا کہ روپیہ جمع نہ کرو لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مالی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو بلا دریغ او ربِلا چُون و چرا اس روپے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی کے دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور جماعت کی ترقی ہمارے لئے قربانیوں کے مطالبہ کو زیادہ سخت کرتی جا رہی ہے۔ جماعت کو جو عظمت اور جو عزت حاصل ہوئی ہے یا جو عزت اور عظمت حاصل ہو گی وہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہے۔ ہماری کوششوں اور قربانیوں سے نہیں ہوئی۔ باوجود اِس کے کہ ہم لوگ قربانیوں میں کمزورہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن ہماری جماعت کی عظمت بڑھتی جاتی ہے اور اب کئی ملک ایسے ہیں جو سیاسی طور پر ہماری جماعت سے خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں اور اپنے ملکوں میں احمدیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ مصر میں اب ہمارے کسی مبلغ کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ شام کی جماعت نے کوشش کی کہ وہاں جماعت کو تسلیم کیا جائے تو شامی گورنمنٹ نے اس سے انکار کر دیا ہے۔ گو ظاہر طور پر تعصّب کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ آزاد حکومت ہے اور آزاد حکومتیں یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ وہ مذہبی تعصب کے نقطہ نگاہ سے روک رہی ہیں بلکہ کئی قسم کے بہانے تراش لیتی ہیں کہ پولیس کی رپورٹ ٹھیک نہیں ہے یا ایسا ہی کوئی اَور بہانہ بنا دیا۔ ایک اَور ملک میں ہم اپنا مبلغ بھیجنے کے لئے پاسپورٹ کی کوشش کر رہے تھے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے جواب دے دیا ہے کہ یہاں کے مسلمان آپ کی جماعت کا داخلہ پسند نہیں کرتے اور چونکہ آپ کے مبلغ کےیہاں آنے سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں اس لئے آپ کو داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کیا عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا ملک اور اس میں مسلمان کے داخلہ سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس ملک میں سینکڑوں عیسائی مشنری داخل ہو چکے ہیں۔ ان کے داخلہ سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل نہیں ہوتے۔ اصل بات یہ ہے کہ گورنمنٹ جانتی ہے کہ احمدی مبلغ عیسائیت کا مقابلہ کرے گا اور اس سے عیسائیت کو نقصان پہنچے گا اِس لئے بہتر ہے کہ اسے داخلہ کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ پس ایک طرف تو حکومتوں میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ احمدیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا چاہئے اور دوسری طرف عَوَامُ النَّاس میں بھی خاص بیداری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اور ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر بھی لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ اگر ایک طرف مخالفتیں زور پکڑ رہی ہیں تو دوسری طرف عَوَامُ النَّاس میں بھی احمدیت کے متعلق تحقیق کی رَو جاری ہے او رایک سرے سے دوسرے سرے تک اور مشرق سے مغرب تک لوگوں میں بیداری او رتوجہ کا احساس بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت جماعت کے لئے خطرہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اگر جماعت قربانی کے اعلیٰ مقام پر نہ ہو تو وہ مخالفت کی شدت کو برداشت نہیں کر سکتی اور خطرہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے پھسل نہ جائے۔ اسی طرح اگر لوگوں میں زیادہ بیداری پیدا ہو جائے اور ہمارے پاس اتنے مبلغ نہ ہوں یا اگر مبلغ تو ہوں لیکن ان لوگوں کے پاس پہنچانے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو ایسے لوگ احمدیت کو قبول بھی کر لیں تو وہ احمدیت کی تعلیم سے پورے طور پر واقف نہیں ہوں گے۔ اور بجائے اس کے کہ وہ احمدیت کے لئے تقویت کا موجب بنیں وہ قومی تنزل اور کمزوری کا موجب ہوں گے۔ پس حکومتوں کی مخالفت بھی خطرے کا موجب ہے اور وہ ملک اور وہ علاقے جو ہمارے لئے اپنے دروازے کھول رہے ہیں وہ بھی خطرے سے خالی نہیں کیونکہ اگر ہم ان علاقوں کے لئے مبلغین کا انتظام نہیں کرتے تو ہم خدا کے حضور کیا جواب دیں گے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا مَیں نے تمہیں اشاعتِ اسلام کے لئے مقررکیا لیکن فلاں فلاں علاقے نے تم کو اپنے ملک میں تبلیغ کی دعوت دی اور تم نے قبول نہ کی۔ بتاؤ اس وقت ہم کیا جواب دیں گے؟ جن لوگوں نے ہمیں دعوت نہیں دی اور وہ ہماری بات سننا پسند نہ کرتے تھے اس کے متعلق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان کو سنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ہماری بات ہی نہیں سُنی۔ لیکن جو لوگ سننا چاہتے تھے اور ہم اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ان تک نہیں پہنچ سکے اُن کے متعلق خدا کے حضورہم کیا جواب دیں گے؟ یقیناً یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں اور ہم ایسے لوگوں کے متعلق بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
پس ہمارے دوستوں کو اپنے نفسوں کو ٹٹولنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ کیا ان کا نفس اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ ہر ایک احمدی پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سوچے کہ اس کا نفس اسلام کے لئے قربانی کے ہر مطالبہ کو پورا کرنے میں خوشی اورانبساط محسوس کرتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ اپنے نفس کو ایسا نہیں پاتا تو اُسے اپنے نفس کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ کسی وقت اسے ہلاکت کے گڑھے میں نہ گرا دے۔ جب تک ہم کُلّی طور پر دوسری دنیا سے قربانیوں میں فوقیت نہیں لے جاتے اُس وقت تک ہمارا اپنی منزل کے قریب پہنچنے کی خواہش کرنا بالکل عبث اور بے سود ہے۔ قربانی کے جتنے رستے اور جتنے مراحل ہیں اُن سب کا طے کرنا ضروری ہے۔ اور جو شخص قربانی کے ہر رستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ شیطان کے آنے کے ہر رستہ کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ شیطان کے آنے کے بھی سینکڑوں رستے ہیں۔ ان سب رستوں کو بند کرنے کے لئے مومن کا فرض ہے کہ ہر رنگ میں قربانی پیش کرتا جائے اور شیطان کے رستہ کو مسدود کرتا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم پورے طورپر اپنے فرائض کو پہچانیں اور احمدیت جس رنگ میں ہم سے قربانی کا مطالبہ کرتی ہے، ہم کرتے چلے جائیں تو ہم تھوڑے سے ہی عرصہ میں اپنے آپ کو اس مقام پر پائیں گے جو دنیا کو محوِ حیرت بنا دے گا۔ لیکن یہ چیزصرف باتوں اور منہ کی لاف و گزاف سے نہیں حاصل ہو سکتی بلکہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنے سے حاصل ہو گی۔ پس آج جماعت پر نازک وقت آگیا ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو ٹٹولے اور اپنے نفس کا بحیثیت قاضی کے محاسبہ کرے۔ اگر اس میں کمزوری اور غفلت پائے تو اسے مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ جس شخص نے باوجود اپنے نفس کے مجرم ہونے کے اسے بری قرار دیا وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہو گا۔ کیونکہ جس طرح ایک چور مجرم ہے اسی طرح وہ جج بھی خدا تعالیٰ کا مجرم ہے جو ایک چور کو چور سمجھتے ہوئے بَری قرار دیتا ہے۔ جس طرح ایک خائن مجرم ہے اسی طرح وہ جج بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک مجرم ہے جو ایک خائن کو خائن سمجھتے ہوئے بَری قرار دیتا ہے۔ پس جس شخص نے اپنے نفس کو ٹٹولنے کے بعد باوجود اسے مجرم پانے کے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور اصلاح کی طرف قدم نہ اٹھایا تو اس نے توبہ کا دروازہ اپنے اوپر خود بند کیا۔ لیکن جس شخص نے اپنے نفس کے خلاف فیصلہ دیا اور اسے مجرم گردانا تو اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
پس اپنے نفسوں کا اِس طرح محاسبہ کرو جس طرح ایک دکاندار ہر شام کو اپنی بِکری کا حساب کرتا ہے۔ اپنے نفسوں کو قربانیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تیار کرو کیونکہ تیاری کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اگر تم اپنے نفسوں کو قربانیوں کے لئے تیار نہیں کرو گے تو تم وہ کام نہیں کر سکتے جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے۔’’ (الفضل 22 اگست 1946ء )
1: بخاری کتاب فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ۔ بَابُ فَضَائِل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ (الخ)
میں یہ الفاظ ہیں ‘‘خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ’’
2: السّجدة : 6
7 3: الحجر:

29
جب تک مسلمان تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ دوسروں پر غلبہ نہیں پا سکتے
( فرمودہ 16 ؍اگست 1946ء بمقام ڈلہوزی )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اسلام کی اندرونی اور بیرونی تبلیغ ہماری جماعت سے وابستہ ہے۔ اسلام ابتدائی ایام میں ہی تبلیغ کے ذریعہ کہیں کا کہیں جا پہنچا۔ جب رسول کریم ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی اُس وقت مسلمانوں کی تعداد چار سو کے قریب تھی۔ جن میں سے اسّی کے قریب تو حبشہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے اور باقی تین سو، سوا تین سو میں سے کچھ رسول کریم ﷺ کے ساتھ کچھ آپ سے پہلے یا آپ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ کتنی قلیل تعداد تھی لیکن اس کے مقابلہ میں کئی بڑی بڑی جماعتیں اسلام کی مخالفت میں کھڑی تھیں۔ صرف مسیلمہ کذاب کے قبیلہ کے لوگ ہی ایک لاکھ سے اوپر تھے اور بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ مقاتل تھے۔ اور چونکہ اس زمانہ میں لڑائی میں شمولیت کے لئے وہ قوانین نہ تھے جو آجکل ہیں اس لئے بوڑھے اور جوان سب لڑائی میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کُل آبادی کا تیسرا یا چوتھائی حصہ لڑائی میں مصروف ہوتا تھا۔ لیکن آجکل عام طور پر کُل آبادی کا دس فیصدی حصہ فوج میں شامل سمجھا جاتا ہےکیونکہ شرائطِ صحت آجکل بہت سخت ہو گئے ہیں۔ اگر اس روایت کو صحیح سمجھا جائے کہ ایک لاکھ مقاتل تھا تو کُل آبادی تین چار لاکھ کے درمیان بنتی ہے اور یہ صرف مسیلمہ کے قبیلہ کی تعداد ہے۔ باقی تمام عرب بھی اُس وقت اسلام سے خالی تھا اور اندازاً عرب کی کُل آبادی اس وقت دس لاکھ کے قریب تھی۔ اس لحاظ سے چند سو آدمی دس لاکھ دشمنوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ تھے۔ لیکن ایک چیز جو مسلمانوں کے عزائم کو مضبوط کرتی جاتی تھی اور کفار کے دلوں کو خوف سے کمزور کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ دشمن کے اندر سے روزانہ ایک ایک دو دو آدمی نکل کر مسلمانوں میں شامل ہو رہے تھے۔ ہم بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتے تھے۔ پتہ نہیں کہ آجکل بچے وہ کھیل کھیلتے ہیں یا نہیں۔ ہم ریت کو مُٹھی میں پکڑ کر بھینچا کرتے تھے اور ریت انگلیوں کے سوراخوں میں سے گرتی جاتی تھی۔ گو ہم اسے روکنے کی بہت کوشش کرتے تھے مگر وہ رُکتی نہ تھی۔ اس ریت کا گرنا ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا گویا ایک بہت بڑی عمارت گرتی جا رہی ہے۔ اسی طرح کفار بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہماری عمارت گر رہی ہے اور اب گئی کہ اب گئی۔ اس بات نے ان کے اندر کمزوری پیدا کر دی تھی۔ جس قوم کے افراد اپنی قوم میں سے نکل نکل کر دوسری قوم میں شامل ہوتے ہوں اس قوم میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے۔ خواہ ایک آدمی ہی روزانہ نکلتا ہو۔ اور جس قوم میں نئے نئے آدمی شامل ہوتے رہتے ہوں خواہ ایک آدمی ہی روزانہ شامل ہوتا ہو اُس قوم کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔ اور ا س قوم کے افراد میں بہادری کی روح چمک اٹھتی ہے ۔ اُس وقت سوال یہ نہیں ہوتا کہ کتنے آدمی عادتاً آ کر شامل ہوئے یا کتنے آدمی عادتاً ایک قوم میں سے نکل گئے بلکہ ان کا عادتاً نکلنا اور عادتاً داخل ہونا ایسا اہم امر ہوتا ہے کہ جس قوم سے وہ نکلتے ہیں اس قوم کے اخلاق میں بگاڑ اور کمزوری شروع ہو جاتی ہے اور جس قوم میں وہ داخل ہوتے ہیں اس کے حوصلے بڑھنے شروع ہو جاتے اور اس کے اخلاق میں بہادری اور شوکت کا رنگ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے دلوں کی یہی کیفیت تھی۔ وہ آہستہ آہستہ تمام عرب پر اور پھر باقی تمام دنیا پر چھا گئے اور دنیا کے کونے کونے میں انہوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ چھوٹے ہوتے ہم پڑھا کرتے تھے کہ یورپین اندازہ کے لحاظ سے مسلمان سب روئے زمین پر بیس کروڑ ہیں۔ لیکن مسلمان چالیس کروڑ کا اندازہ بتایا کرتے تھے۔ بچپن میں مَیں یورپین اندازہ کو زیادہ صحیح سمجھا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ان کا اندازہ عام طور پر صحیح ہوتا ہے لیکن بعد میں جغرافیہ کو غور سے پڑھنے سے معلوم ہؤا کہ ان کا یہ اندازہ صحیح نہیں ہے بلکہ مسلمان چالیس کروڑ بلکہ اب تو اس سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن اگر چالیس کروڑ ہی سمجھے جائیں تو بھی یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ جو دنیا کی اکثر اقوام سے زیادہ ہے۔ آج بھی مسلمان اگر تبلیغ کی طرف توجہ کریں تو وہ بہت جلد اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور دنیا ان کے مقابلہ سے قاصر رہ جائے۔
غیر مذاہب میں رکھا ہی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ 1کہ کئی بار کفار کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش! یہ عقیدے ہمارے ہوتے اور یہ تعلیم ہماری ہوتی۔ کفار کی یہ خواہش ایک طبعی خواہش تھی جو ہر زمانہ کے کفار کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیم کا مقابلہ ناممکن ہے۔ لیکن ان کو اِردگرد کی بے بنیاد روایتیں سہارا دئیے رکھتی ہیں او روہ ایک قوم اور ایک سوسائٹی میں ہونے کی وجہ سے اس کے ترک پر تیار نہیں ہوتے جس طرح ایک ٹوٹی ہوئی اینٹ بھی عمارت کے اندر کھڑی رہتی ہے۔ اگر زور سے موسل2 مار کر اینٹ کو توڑ بھی دیں تب بھی وہ دوسری اینٹوں کے سہارے پر کھڑی رہے گی۔ لیکن باہر نکلی ہوئی اینٹ کو توڑو تو اُس کے ریزے بکھر جائیں گے۔ پس چونکہ آجکل کفر کے اردگرد چاروں طرف کفر ہی کفر ہے اس لئے اردگرد کا کفر اس کے لئے سہارے کا موجب بنا ہؤا ہے۔ لیکن اگر مسلمان چاروں طرف سے کفر پر حملہ شروع کر کے ایک نئی فضا پیدا کر دیں تو کفر ریت کی دیوار کی طرح یکدم زمین پر آئے گا۔ لیکن افسوس ہے کہ باقی جماعتیں تبلیغ جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی میں بہت کوتاہی سے کام کر رہی ہیں اور صرف ایک ہماری جماعت ہے جو اپنی طاقت سے بڑھ کر اس فریضہ کو سر انجام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ ہماری جماعت کی تعداد کم ہے اس لئے اس کی تبلیغ وہ گونج پیدا نہیں کرتی جو فضا کو بدلنے کے لئے ضروری ہے اور اس وجہ سے ہماری تبلیغ کا رُعب اغیار کے دلوں میں ابھی تک قائم نہیں ہؤا۔ لیکن ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان اگر سب کے سب اپنے فرض کو سمجھیں تو ہندوستان کی تبلیغ بہت ہی آسان ہو جاتی ہے اور غیر مسلموں کو اسلام کے حلقہ میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ایک مسلمان کے حصہ میں تین یا چار غیر مسلم آتے ہیں۔ اگر ایک آدمی کے پاس اسلام جیسی اعلیٰ تعلیم ہو او روہ دن رات اپنے تین چار ساتھیوں کےسامنے اس کی خوبیاں بیان کرتا رہے تو ہو نہیں سکتا کہ اسلام کی اعلیٰ اور فطرت کے مطابق تعلیم دوسروں کے دلوں میں گھر نہ کرے۔ اگر آج سے ہی اِس طریقہ پر تبلیغ شروع کر دی جائے تو آج سے ہی غیر مسلموں میں یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ ہمارے عقائد میں یہ خرابیاں ہیں اور ہمیں اس مذہب کی تلاش کرنی چاہئے جس میں یہ یہ خرابیاں موجود نہ ہوں۔ صرف توحید کا مسئلہ ہی دوسری قوموں کو مٹانے کے لئے کافی ہے۔ کسی مذہب میں توحید کا وہ نقشہ نہیں جو اسلام میں ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی مساوات ایک ایسی چیز ہے جو ہر مذہب والے کا منہ بند کر دیتی ہے۔ کوئی مذہب اس رنگ میں مساوات کی تعلیم نہیں پیش کرتا جس رنگ میں اسلام نے پیش کی ہے۔ اسلام ایسے روشن دلائل سے مزیّن ہے کہ دوسرے مذاہب اس کی تاب نہیں لا سکتے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اس کی طرف سے بے توجہگی پیدا کر لی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب تبلیغ کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جب تک مسلمان اس اہم فریضہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اس وقت تک وہ دوسروں پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ اور خصوصاً جو حالات آجکل ہمارے ملک میں پیدا ہو رہے ہیں یہ اِس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو جلد بیدار ہونا چاہئے اور اپنے مذہب کو ایسے مقام پر کھڑا کر نا چاہئے کہ وہ تمام مذاہب کو اپنے حملوں سے خاموش کرا دے اور دنیا کے لوگ اس بات کے ماننے پر مجبور ہوں کہ اسلامی تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو دنیا کےد ردوں کا علاج ہو سکتی ہے۔
غرض ہماری جماعت کو گو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اورنہ ہی ہم سیاسیات میں اُلجھ کر اپنی توجہ مذہبی کاموں سے پھیرنا چاہتے ہیں لیکن بعض اوقات ہمیں حالات مجبور کر دیتے ہیں اور ہمارے لئے سوائے اس کے اَور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ہم سیاسیات میں حصہ لیں۔ ایسی حالت میں ہم مجبوراً حصہ لیتے ہیں۔ فرض کروجیسا کہ ڈاکٹر مونجے کا خیال ہے کہ مسلمان ہندوستان سے نکل جائیں اور کسی وقت ہندو اکثریت یہ قانون بنائے کہ مسلمان ہندوستان سے چلے جائیں تو ایسی حالت میں احمدی بھی باقی مسلمانوں میں شامل سمجھے جائیں گے اور ان کو یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ ہندوستان میں رہ جائیں۔ اس قسم کے حالات میں ہمیں مجبوراً سیاسیات کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ سے ہماری جماعت کا تعلق ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قائم کیا ہے اس لئے وہ براہِ راست نئے نئے علوم کے ذریعہ اپنے نور کے ذریعہ اور اپنی ہدایت اور رُشد کے ذریعہ اس جماعت کی رہنمائی فرماتا ہے اور یہ چیز دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔ چونکہ وہ اس سے محروم ہیں اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں ہماری رہنمائی فرماتا ہے ان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ہاں جتھا اور اکثریت اُن کے ساتھ ہے اس لئے اُن کی غیر معقول بات بھی سننے والوں پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے جتھا ہے۔ لیکن ہماری معقول بات بھی غیر معقول سمجھی جاتی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی سی جماعت کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ مَیں نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات اختلاف نیک نتائج کی بجائے بد نتائج پیدا کرتا ہے اور مفید ہونے کی بجائے مُضِر پڑتا ہے۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے رستے موجود ہیں کہ جن کے ذریعہ مسلمان باوجود دوسروں سے تعداد میں قلیل ہونے کے ان پر غالب آ جائیں اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو نظر انداز نہ کر سکے۔ لیکن مَیں سمجھتاہوں کہ اس وقت ان کا بیان نہ کرنا ان کے بیان کرنے سے بہتر ہے کیونکہ بعض اوقات اچھی اور معقول بات بھی تفرقہ اور شِقاق کا موجب بن جاتی ہے۔ اور دنیوی کاموں میں بعض دفعہ سیدھا رستہ ان کے لئے مُضِر اور خطرناک ہوتا ہے کیونکہ تفرقہ پیدا ہو کر طاقت ضائع ہو جاتی ہے۔ لیکن غلط راستہ باوجود غلط ہونے کے کامیابی کے قریب کر دیتا ہے کیونکہ یکجہتی سے قوم کے اندر طاقت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی چونکہ دنیوی معاملہ ہے اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ مَیں اپنے خیالات کا ضرور اظہار کروں۔ صرف دینی امور ہی ہیں کہ ان کے بارہ میں انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جس بات کو وہ صحیح سمجھتا ہے اس کا اظہار کرنے سے دریغ نہ کرے۔ اگرچہ اس کی گردن تلوار کے نیچے کیوں نہ ہو۔ لیکن دنیوی معاملات میں خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے اور حکمت اور مصلحتِ وقت کومدنظر رکھنا مناسب ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص یہ جانتا ہے کہ اس کی تجویز اور اس کے مشورہ سے قوم میں افتراق اور انشقاق کا خطرہ ہے۔ اگر قوم میں افتراق پیدا ہو گیا تو اس کی کامیابی کا اِمکان صرف ایک دو فیصدی ہو گا۔ لیکن اس کے مقابل پر اگر اس میں اتفاق رہا تو اس کی کامیابی کا امکان پانچ دس فیصدی ہے تو اس حالت میں اس کے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہو گا۔
اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بات کا صحیح نقشہ ذہن میں نہیں رکھتے اور ان کی یہ عادت ہو چکی ہے کہ اول تو وہ سوچتے ہی نہیں او راگر سوچیں تو پھر بالکل جذباتی سکیم سوچتے ہیں جس کا چلانا ان کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے۔ اِس وقت مسلمان نہایت پراگندگی اور تَشَتُّت کی حالت میں ہیں او ران کی کئی قسمیں ہیں۔ یورپ کے مسلمان، ایشیائی مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں۔ گو ان کی تعداد ایشیائی ممالک کے مقابلہ میں بالکل کم ہے۔ لیکن اگر وہ بھی ایشیائی مسلمانوں سے متحد ہوں تو اس اتحاد سے یورپین ممالک او رایشیائی ممالک دونوں کے مسلمانوں کو بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یورپین ممالک میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے۔ پولینڈ میں کئی لاکھ مسلمان ہیں، رومانیہ میں کئی لاکھ مسلمان ہیں، یوگو سلاویہ اور البانیہ میں کئی لاکھ مسلمان ہیں۔ اسی طرح یورپین ٹرکی اور یونان میں کئی لاکھ مسلمان ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوں۔ لیکن یہ سارے کے سارے مسلمان بالکل بے بسی کی حالت میں ہیں ا ور اسلامی تعلیم سے بالکل ناواقف ہیں۔ وہ مغربی تعلیم کو ہی اپنا لائحہ عمل سمجھتے ہیں او راسلامی تعلیم سے اس قدر دور جا چکے ہیں کہ اسلامی تعلیم ان میں رسم و عادت بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہؤا ہے کہ وہ مرتد نہیں ہوتے۔ وہ اپنی قوم مسلمان سمجھتے ہیں اور کوئی شخص اپنی قومیت تبدیل کرنا پسند نہیں کرتا۔ اس لئے وہ بھی اسلام کو نہیں چھوڑتے اور یہ چیز ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ وہ عملاً عیسائیت اور دہریت کے اصولوں پر کاربند ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں؟ تو فخریہ طور پر کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک قوم کا نام ہے، مذہب کا نام نہیں کیونکہ وہ مذہب کے متعلق تو جانتے ہی کچھ نہیں۔ وہ اسلام کے نام پر اکٹھے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا سیاسی جتھا اسلام کے نام سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد مغربی افریقہ ہے۔ اس میں بھی بڑی بھاری تعداد میں مسلمان ہیں لیکن وہ بہت گری ہوئی حالت میں ہیں او ران سے یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی اسلامی ملک کی تائید میں شور مچائیں گے۔ شمالی افریقہ کے بعد مشرقِ قریب ہے جو ہمارے لحاظ سے مغرب ہے۔ اس میں مصر کی حکومت ہے، شام کی حکومت ہے، فلسطین ، عرب اور عراق کی حکومتیں ہیں۔ ایران، افغانستان کی حکومتیں ہیں۔ ان سب ممالک کی مجموعی آبادی چھ سات کروڑ ہے لیکن یہ سب تقسیم شدہ علاقے ہیں۔ مصر کی آبادی ایک کروڑ اسّی لاکھ کے قریب ہے۔ یہ ایک خود مختار علاقہ ہے۔ پھر شام اور لبنان کے علاقے ہیں۔ شام قریباً کُلّی طور پر اور لبنان قریباً نصف مسلمان ہے۔ یہ علاقے گو عربی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اپنی آزادی کو برقرار رکھنے پر مُصِر ہیں۔ پھر ٹرکی ہے اُسے اِن عربی علاقوں سے اس قدر اختلافات تھے کہ قریباً بتیس سال سے وہ ان ممالک سے بالکل روٹھا رہا ہے۔ اب قدرے ٹرکی کے رویہ میں تبدیلی ہوئی ہے۔ تمام عربی علاقوں کو ملا لیا جائے تو ان کی آبادی دو اڑھائی کروڑ کے قریب ہے۔ لیکن صرف عربی ممالک میں مصر کے سوا سات حکومتیں ہیں اور ان میں سے بعض بعض کی رقیب ہیں او روہ ایک دوسری سے پوری طرح تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ ایران آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے اور اس میں شیعیت کی وجہ سے اور دوسرے قومی تفرقہ و شِقاق کی وجہ سے اُبھرنے کے سامان موجود نہیں۔ اس سے بھی کسی اسلامی علاقہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ افغانستان سُنّی ہے لیکن چھوٹا ملک ہے اور تعلیم اور صنعت و حرفت میں بہت پیچھے۔ اس سے بھی امید نہیں کی جا سکتی کہ باوجود اُبھرنے کے دوسرے ممالک کی حمایت کر سکے۔ روس کے مسلمانوں کے متعلق بھی اُبھرنے کی فِی الْحال کوئی امید نہیں کیونکہ وہ ایک ایسی حکومت کے ماتحت ہیں جس نے ان کی مذہبی اور قومی آزادی چھین لی ہے اور ان کی ترقی کے راستے مسدود کر دئیے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان بھاری اقلیّت میں ہیں او ریہاں کے مسلمان اِس وقت ایسی پوزیشن میں ہیں کہ ان کی آواز غیروں کے مقابلہ پر کوئی خاص اثر نہیں رکھتی اور خصوصاً مسلمانوں کی غیر ملکی آواز تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر ملکی گورنمنٹوں پر اثر ڈالنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اکثریت ایک آواز کی تائید میں ہو۔ ورنہ اقلیت کی آواز فارن گورنمنٹوں پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ چین میں آٹھ دس کروڑ کے قریب اور تازہ یورپین اعداد و شمار کے لحاظ سے اڑھائی تین کرو ڑ مسلمان ہیں۔ بہرحال وہ ملک کی آبادی کا چھٹا ساتواں حصہ ہیں اِس لئے غیر ممالک میں ان کی کوئی آواز نہیں۔ غرض جس قدر علاقے مَیں نے گِنوائے ہیں اُن میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں کہ مسلمانوں کی آواز اثر پیدا کر سکتی ہو۔ ہندوستان کے مشرق میں انڈونیشیا یعنی جاوا، سماٹرا کے جزائر ہیں جن میں سات کروڑ کے قریب مسلمان ہیں۔ ان کی ایک ہی نسل او رایک زبان اور ایک ہی مذہب یعنی اسلام ہے۔ اسلامی دنیا میں سے صرف یہ ایک حصہ ایسا ہے جہاں کی آبادی بھی اچھی ہے اور جو ایک قوم ہونے اور ایک زبان بولنے کے علاوہ آپس میں متحد ہونے کے خواہشمند ہیں۔ ملایا کا ملک بھی گو ان سے حکومت الگ ہے مگر قوم اور بولی کے لحاظ سے ملتا ہے ۔ وہاں بے شک چینی اور ہندوستانی آبادی بھی ہے مگر اصل ملک ملائیوں کا ہے۔ سماٹرا، جاوا، بورنیو، جزائر مسلمان ہیں۔ صرف جاوا میں ہی چار کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اس علاقہ میں کوئی دس ہزار کے قریب چھوٹے بڑے جزیرے ہیں جو کہ قریباً سارے کے سارے مسلمان ہیں۔ کوئی پانچ مربع میل کا ہے، کوئی دس مربع میل کا ہے، کوئی بیس مربع میل کا ہے، کوئی پچاس مربع میل کا ہے۔ کسی جزیرہ میں بیس ہزار کی آبادی ہے، کسی میں دس ہزار کی آبادی ہے، کسی جزیرہ میں پانچ ہزار کی آبادی ہے، کسی میں دو ہزار کی آبادی ہے، کسی میں ایک ہزار کی آبادی ہے۔ اور سینکڑوں جزیرے ایسے ہیں جن میں کوئی آبادی نہیں او رجہاں انام(Annam)3 اور سیام(Siam)4 ان جزائر سے ملتے ہیں۔ وہاں بھی لاکھوں لاکھ مسلمان موجود ہیں۔ انڈونیشیا کے مسلمانوں نے اس لڑائی میں جو آزادی کے لئے وہاں لڑی جا رہی ہے اپنے متحد ہونے کا بہت اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور یہ ایسا نمونہ ہے جو ہمیں عربی ممالک میں بھی نظر نہیں آتا۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کی حکومتیں مصر سے ملنے کو تیار نہیں اور مصر کی حکومت عرب سے متحد ہونے کو تیار نہیں۔ شامی حکومت فلسطینی حکومت سے متحد ہونے کو تیار نہیں اور فلسطینی حکومت شامی حکومت سے متحد ہونے کو تیار نہیں۔ یمن کی حکومت نجد سے تعاون کرنے کو تیار نہیں اور نجد کی حکومت، یمن کی حکومت سے ملنے کو تیار نہیں۔ غرض کوئی علاقہ دوسرے علاقہ کے ماتحت یا اس سے متحد ہونے کو تیار نہیں لیکن انڈونیشیا کے جزائر نے اس اعلیٰ خوبی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے دوسری اسلامی دنیا قاصر رہی ہے۔ ان کی ابھی تک آواز ایک ہے ان کی بولی ایک ہے، ان کی حکومت ایک ہے ۔ ڈچوں نے گزشتہ چند ماہ میں بہت کوشش کی ہے کہ ان میں افتراق پیدا کر دیں لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ باقی اسلامی ممالک اتحاد کی خوبی کو محسوس نہیں کرتے۔ ان میں سے ہر ایک کی آواز جداگانہ رنگ رکھتی ہے۔ اب آ کر عربوں نے بَیْنَ الْاَقْوَامِی معاملات میں اتحاد کیا ہے۔ لیکن اندرونی معاملات میں ابھی اِنشقاق اسی طرح جاری ہے۔ انڈونیشیا کے جزائر ہی موجودہ وقت میں ایسے ہیں جن کی آواز ایک ہے اور جو اندرونی اور بیرونی معاملات میں متحد نظر آتے ہیں۔ یہ سات کروڑ کے پانچ سات جزائر ایشیائی ممالک کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ایشیائی ممالک کی کنجی سنگا پور ہے اور وہ بھی ان جزائر سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ وہ نسل اور زبان کے لحاظ سے اُن کا جزو ہے اور جس قوم کے ہاتھ میں سنگا پور ہو گا اگر وہ مضبوط ہوئی تو دوسرے ممالک لازمی طور پر اس سے صلح رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ سماٹرا جاوا میں جو تحریک چل رہی ہے اگر وہ کامیاب ہو جائے تو بعید نہیں کہ ملایا بھی ان کے ساتھ مل جائے۔ اگر ان جزائر کو آزادی مل جائے تو یہ جزائر اسلامی تعلیم کو پھیلانے اور اسلامی عظمت کو قائم کرنے میں بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ باقی اسلامی ممالک نے ان جزائر کی تائید میں بہت کم آواز اٹھائی ہے اور ان جزائر کی ہمدردی میں بہت کم حصہ لیا ہے۔ یہی ایک ایسا حصہ ہے جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان میں اتحاد ہے۔ ان کی آواز ایک ہے۔ مسلمانوں کو ایسے علاقہ کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور ان کی آزادی کا ڈچ حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے۔ اگر ان لوگوں کو آزادی مل جائے تو ان کی آزادی سے باقی اسلامی ممالک کو بھی بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ساری دنیا میں صرف انڈونیشیا ایک ایسا علاقہ ہے جس میں چھ سات کروڑ مسلمان ایک زبان بولنے والے اور ایک قوم کے بستے ہیں اور جن کے علاقے میں غیر لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور جن میں اتحاد کی روح اِس وقت زور سے پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں اَور کوئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی اس قدر اہلیت نہیں رکھتا۔ پس اِس وقت اِس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اخباروں میں ، رسالوں میں اور اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے ان بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں۔ اگر اب ان کی امداد نہ کی گئی اور اگر اب ان کی حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈچ ان کی آواز کو بالکل دبا دیں گے۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ انڈونیشیا کے شور پر قابو پا لیں اور ا س کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں اور دنیا کی نظریں اب انڈونیشیا کی طرف سے ہٹ گئی ہیں۔ اور انڈونیشیا کے لوگ خود بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔ لیکن اگر دنیا میں ان کی حمایت میں اور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں، ایک شور برپا ہو جائے تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑ رہے بلکہ ہمارےکچھ اَور بھائی بھی ہماری پُشت پر ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک انسان یہ سمجھتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے مقابلہ کو دیکھ رہے ہیں تو وہ زیادہ جوش کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ مَیں اکیلا ہوں اور مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اس کے جوش میں کمی آ جاتی ہے۔ پس اگر انڈونیشیاکے لوگوں کے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی رہیں کہ ہم تمہاری ہر قسم کی امداد کریں گے اور جہاں تک ممکن ہو گا ہم تمہارےلئے قربانی کریں گے۔ اس آزادی کی جنگ میں آپ لوگ اکیلے نہیں لڑ رہے بلکہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں او رپھر جہاں تک ممکن ہو دنیا کے مسلمان اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی کوشش کریں تو وہ اپنی آزادی کے لئے بہت زیادہ جد و جہد کریں گے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ان کو جلد آزادی مل جائے۔
مَیں نے جاوا، سماٹرا والوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایک خطبہ میں مشورہ دیا تھا کہ ابھی کچھ عرصے تک ایشیائی طاقتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے مغربی طاقتوں کی ضرورت ہے۔ فوراً ایک دن میں حکومت کے تمام سامان تیار نہیں ہو سکتے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ میرے پاس بھی تلوار ہے اور دشمن کے پاس بھی تلوار ہے۔ جو طاقتور ہؤا اس نے دوسرے کو زیر کر لیا بلکہ یہ زمانہ علمی ترقی کا ہے اور اب لڑائی کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم صرف فوج کی زیادتی پر بھروسہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ان نئے نئے آلاتِ حرب کی ضرورت ہے جو کہ موجودہ زمانہ کی لڑائیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ مثلاً ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کی ضرورت ہے اور توپوں اور ٹینکوں، بندوقوں اور مشین گنوں کی ضرورت ہے اور یہ سامان کم از کم پندرہ بیس سال کے عرصہ میں جا کر مہیا کئے جا سکتے ہیں یکدم ان کا مہیاکرنا محال ہوتاہے۔ اس لئے مَیں نے مشورہ دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ جتنی آزادی ملتی ہے لے لو ا ور پھر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تیاری شروع کر دو۔ اپنی فوجوں کو ترتیب دے لو۔ اگر آٹھ دس سال کے عرصہ میں آپ لوگ اپنی تنظیم اِس رنگ میں کر لیں تو پھر ڈچ والوں کی طاقت نہیں کہ وہ بغیر تمہاری مرضی کے تم پر حکومت کر سکیں اور اگر اسی طرح زیادہ دیر تک لڑائی کو جاری رکھا جائے تو اس کا نقصان یہ ہو گا کہ تمہاری طاقت کمزور ہو جائے گی اور تمہیں اس طاقت کو حاصل کرنے میں بہت وقت کی ضرورت ہو گی۔ لیکن اس وقت تمہارا عارضی صلح کر لینا تمہاری طاقت کو ضائع ہونے سے بچا لے گا۔ فرض کرو اگر اس وقت ڈچ والے انڈونیشیا کو چھوڑ کر چلے بھی جائیں تو انڈونیشیا میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے۔ اور یہ بات قرینِ قیاس بلکہ صاف طور پر نظر آتی ہے کہ دوسری مغربی قومیں انڈونیشیامیں دخل اندازی شروع کر دیں گی۔ اورخصوصاً روس کی نظریں تو ہر وقت انڈونیشیاکی طرف لگی رہتی ہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ نے چینی سمندر کے بعض اڈوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ان سمندروں میں اپنا اثر و نفوذ پیدا کر رہے ہیں۔ روس یہ چاہتا ہے کہ سماٹرا، جاوا پر میرا قبضہ ہو جائے اور اس طرح سے مَیں امریکہ اور برطانیہ کے اثر و نفوذ کو کم کر دوں اور ان کا مقابلہ کر کے ان سمندروں پر اپنا قبضہ جما سکوں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے ان کے مناسبِ حال یہ مشورہ دیا تھا کہ ڈچ والوں سے زیادہ سے زیادہ جتنی آزادی تمہیں مل سکتی ہے وہ لے لو اور پھر اپنی بری اور بحری طاقت بڑھانے کی کوشش کرو۔ پھر جب یہ طاقت تمہارے ہاتھ میں آجائے گی تو پچاس ساٹھ لاکھ کی آبادی کے ملک کی طاقت کیا ہے کہ وہ چھ سات کروڑ انسانوں پر حکومت کر سکے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایشیا کے مسلمانوں کا سیاسی مستقبل جاوا، سماٹرا کے مسلمانوں سے وابستہ ہے کیونکہ آج کسی ملک میں اِتنی تعداد میں مسلمان متحد نہیں جتنی تعداد میں انڈونیشیا میں متحد ہیں۔ اور دوسرے جو اہمیت اِن جزائر کو بوجہ جزیرہ ہونے کے حاصل ہے وہ اَور کسی ملک کو حاصل نہیں۔ بڑا جزیرہ ہونا بہت بڑی طاقت کا موجب ہوتا ہے۔ بوجہ سمندری راستوں کے وہ دوسرے ملکوں سے زیادہ تعلق پیدا کر سکتا ہے اور اسے بڑی حد تک قدرتی حفاظت کے سامان ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں باقی ممالک میں سے کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کو اس قدر اکثریت حاصل ہو۔ جس کی وجہ سے اس کی غیر ملکی آواز مسلمانوں کے حق میں مفید ہو سکے۔
جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں چین اور ہندوستان کے مسلمان اپنے اپنے ملک میں اقلیت میں ہیں۔ اس کے باوجود تعداد میں انڈونیشیاکے مسلمانوں سے زیادہ ہونے کے ان کی آواز نہ ملک کے انتظام میں اور نہ غیر ملکی تعلقات میں کوئی خاص اثر پیدا کر سکتی ہے۔ ایران اور افغانستان چھوٹے چھوٹے ملک ہیں اور تعلیم میں اتنے پیچھے ہیں کہ ان کی آواز کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔ نیز نیشنل ویلتھ ان کی زیادہ نہیں ہے ۔لیکن جاوا ، سماٹرا کو وہ ذرائع حاصل ہیں ۔ گو قوم چھوٹی ہے اور مختلف جزائر میں بٹی ہوئی ہے لیکن سب جزائر پاس پاس ہیں اور بعض جزائر تو اتنے بڑے بڑے ہیں کہ اس علاقہ کی آبادی آسانی سے چودہ پندرہ کروڑ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ پھر سب ایک مقصد کے لئے متحد ہیں اور اپنے اندر تفرقہ اور شقاق کو کسی صورت میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ڈچ والوں نے انتہائی کوشش کی ہے کہ انڈونیشیا کے لوگ اتفاق کو چھوڑ دیں اور پراگندہ ہو جائیں۔ لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگر سماٹرا ، جاوا والوں کو آزادی مل جائے تو اردگرد کے چھوٹے جزیرے بھی ان کا اثر ماننے کے لئے بہت جلد تیار ہو جائیں گے۔ اب بھی یہ حالت ہے کہ انڈونیشیا کے سپاہی جب بعض جزائر میں جاتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ مل کر بغاوت کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ڈچ اثر کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر سماٹرا جاوا والوں کو آزادی مل جائے تو یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ باقی جزائر والے مسلمان بھی ان کے ساتھ مل جائیں گے۔
جاوا سماٹرا والوں کو آزادی دلانے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے مسلمان ان کی آزادی کے لئے آوازیں اٹھائیں۔ مجھے امید ہے کہ اگر یہ ملک آزاد ہو جائے تو اسلامی عظمت اور شوکت کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے آج اس امر کے متعلق خطبہ دیا ہے تاکہ ہماری جماعت جو اندرون ہند یا بیرون ہند میں ہے اس بات کو ہر وقت مدنظر رکھے اور ہمارے مبلغ جو مختلف ممالک میں ہیں وہ اس آواز کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اور مختلف رسالوں اور اخباروں میں انڈونیشیا کی تائید میں مضامین لکھیں۔ ہمارے اپنے اخباروں اور رسالوں کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کو جہاں تک ممکن ہو بار بار اٹھاتے رہیں تاکہ ہمارے اخباروں اور رسالوں کی آواز جتنے مسلمانوں تک پہنچ سکے وہ انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت کرنےلگ جائیں۔ یہ بات مسلمانوں کے سامنے بار بار آتی رہنی چاہئے۔ باہر کے مبلغوں کو بھی چاہئے کہ اپنے اپنے علاقوں سے اس آواز کو بار بار اٹھاتے رہیں۔ خدا تعالیٰ کےفضل سے ایران میں ہمارے مبلغ ہیں، شام میں گو اس وقت مبلغ تو نہیں لیکن وہاں جماعت موجود ہے۔ فلسطین میں مبلغ موجود ہیں، مصر میں ہمارے مبلغ موجود ہیں، افریقہ کے مختلف حصوں میں ہمارے مبلغ موجود ہیں، یورپ کےپانچ ملکوں میں ہمارے مبلغ موجود ہیں، شمالی اور جنوبی امریکہ میں ہمارے مبلغ موجود ہیں۔ اگر جماعت کے افراد اپنے اس فرض کو سمجھیں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ اس مقصد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ وقتاً فوقتاً ہمارے اخباروں اور رسالوں میں ایسے مضامین چھپتےر ہنے چاہئیں کہ جاوا، سماٹرا کے لوگ اس بات کے حقدار ہیں کہ ان کو آزادی دی جائے۔ تعلیم اور دوسری صنعت و حرفت کے لحاظ سے وہ ترقی یافتہ ملک ہے اور وہ اتنی بڑی قوم ہے اور اس کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ڈچ جیسی چھوٹی قوم کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان پر حکومت کرے۔ غیر حکومت کی موجودگی کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کی حفاظت کر سکے لیکن ڈچ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ انڈونیشیا کو غیروں کے حملہ سے بچا سکے۔ برطانیہ بے شک باوجود ایک چھوٹی سی قوم ہونے کے اور باوجود اتنے فاصلہ کے ہندوستان کی حفاظت کر رہی ہے لیکن ڈچ والے یہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس نہ اس قدر حفاظت کے سامان ہیں نہ ہی ان کی اتنی تعداد ہے کہ وہ کسی بڑی طاقت کا مقابلہ کر سکیں۔ اسی طرح ڈچ کی حکومت اور انڈونیشیا کے لوگ نہ ہی ہم مذہب ہیں نہ ہی ہم قوم کہ انہیں حکومت کا حق حاصل ہو۔ پس جب اِن وجوہات میں سے کوئی وجہ بھی موجود نہیں جو کسی قوم کو دوسری قوم پر حکومت کا حق دیتی ہے کیونکہ نہ ہی ڈچ حکومت انڈونیشیا کی حفاظت کر سکتی ہے نہ ہی وہ اُن کی ہم قوم یا ہم مذہب ہے تو ایسی حالت میں ڈچ حکومت کا انڈونیشیاکو آزادی نہ دینا سوائے اس کے اَور کوئی معنے نہیں رکھتا کہ وہ اپنی اور جاوا، سماٹرا والوں کی طاقت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ بجائے اس کے کہ کشمکش کے ذریعہ ایک دوسرے کی طاقت کو کمزور کیا جائے ڈچ حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں سے اتحاد کر کے ان کو آزاد کر دے تاکہ وہ ایک دوسرے کی ترقی کا موجب ہوں۔ جاوا سماٹرا والے نام کے طور پر ڈچ حکومت کو ہی اپنا حاکم سمجھ لیں تا ایسا نہ ہو کہ جب تک انڈونیشیا طاقت پکڑے کوئی اَور حکومت حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پس اس قسم کے مضامین بار بار اخباروں میں لکھے جائیں اور ڈچ حکومت کو بتایا جائے کہ اگر وہ انڈونیشیاکو آزاد نہ کرے گی تو خطرہ ہے کہ کمیونزم وہاں پھیل جائے گا جو تمام دوسری حکومتوں کے لئے مُضِر ہو گا۔ اِس وقت امریکہ اور برطانیہ کمیونزم کے سخت دشمن ہیں۔ ان کو بھی اس وجہ سے توجہ پیدا ہو گی اور وہ ڈچ حکومت کو سمجھوتہ کے لئے مجبور کریں گے۔ یورپ میں باقی ممالک کےعلاوہ خود ہالینڈ والوں کو خاص توجہ دلانی چاہئے کہ تمہارا جاوا سماٹرا کو آزاد کرنا تمہارے لئے کمزوری کا باعث نہیں ہو گا بلکہ تقویت کا موجب ہو گا۔ اگر ایک شخص کے گلے میں سات من کا پتھر لگا دیا جائے تو وہ یقیناً مر جائے گا۔ لیکن اگر اس پتھر کو اُس کے گلے سے الگ کر کے رکھ لیا جائے تو اس سے کئی کام لئے جا سکتے ہیں۔ اس سے چَکیاں بن سکتی ہیں، پَن چکیاں بن سکتی ہیں لیکن وہ ایک انسان کے گلے میں تو ہلاکت کا ہی موجب ہے۔ اِسی طرح ڈچ والوں کو سمجھایا جائے کہ انڈونیشیاوالے غیر زبانوںمیں سے صرف ڈچ زبان بولتے ہیں اِس لحاظ سے بھی وہ تم سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اور انڈونیشیا والے تم سے تعلقات منقطع نہیں کریں گے اور نہ ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے کئی لیڈروں نے ڈچ عورتوں سے شادی کی ہوئی ہے اور ہالینڈ میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور جس قدر تعلیم یافتہ اس ملک میں ہیں وہ ڈچ زبان بولتے اور لکھتے ہیں۔ اور اس قسم کے تعلقات منقطع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پس اگر تم لوگ محبت اور صلح کے ساتھ ان کو آزاد کر دو گے تو اُن کے دلوں میں تمہارے لئے محبت کے جذبات پیدا ہوں گے اور اگر تم ان پر ظلم و تعدی کرو گے تو آزاد ہونے کے بعد ان کے دلوں میں تمہارے خلاف سخت بُغض ہو گا۔ کیونکہ اگر ایک شخص سے اس کا بھائی لڑے تو ان کے دل میں اس کے خلاف بہت زیادہ بُغض پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ بھائی ہو کر اس نے مجھ پر ظلم کیا، غیر کرتا تو مجھے افسوس نہ تھا۔ اِسی طرح اگر ڈچ والے انڈونیشیاکو آزاد نہ کر سکے تو ان کے خلاف ان کا بُغض شدید ہو گا کیونکہ ہالینڈ نے اس ملک سے سینکڑوں سال فائدہ اٹھایا ہے۔ اتنا لمبا عرصہ فائدہ اٹھانے کے بعدبھی اور اتنے تعلقات کے بعد بھی وہ جونک کی طرح چمٹے رہیں گے تو دلوں میں بغض زیادہ پیدا ہو گا۔ لیکن اگر ڈچ حکومت انڈونیشیا والوں سے صلح کر لے اور ان کے مطالبات مان لے تو یہ اس کی تقویت کا موجب ہو گا۔ اس کی کمزوری کا موجب نہ ہو گا کیونکہ پرانے تعلقات کی وجہ سے یقیناً انڈونیشیاکی حکومت سب سے زیادہ ہالینڈ کے ساتھ تعلق رکھے گی اور اپنے طبعی ذرائع کی فراوانی کی وجہ سے جب طاقت پکڑے گی تو یقیناً ہالینڈ کی مدد پر اُسی طرح تیار رہے گی جس طرح امریکہ انگلستان کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔
غرض ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں میں اِس سوال کو زندہ رکھے تا وقتیکہ جاوا سماٹرا والوں کے مطالبات مان لئے جائیں۔ گو ہمیں سیاسی معاملات سے دلچسپی نہیں بلکہ ہمیں مذہبی تبلیغ سے دلچسپی ہے لیکن جہاں اسلام کے مستقبل کا سوال ہو اور ہمارے تبلیغی کاموں میں کوئی نقص نہ پڑے تو ہم اس صورت میں اپنی ہر ممکن کوشش صَرف کریں گے۔ اور جیسے جیسے ضرورت محسوس ہو گی اپنی کوششوں کو وسیع کرتے جائیں گے۔ ہمیں جاوا سماٹرا سے اِس لئے بھی دلچسپی ہے کہ ایشیائی ممالک میں سے ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ تبلیغ جاوا سماٹرا میں ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں کافی تعداد میں جماعت موجود ہے اور ان لوگوں کے ہم سے بہت اچھے تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ بیرونی ممالک میں سے تعلیم کے لئے سب سے زیادہ طالب علم جاوا سماٹرا سے آئے تھے۔ لڑائی سے قبل سماٹرا کے بیس پچیس طالب علم ایک وقت میں قادیان میں پڑھتے تھے۔ اِس وجہ سے بھی ہماری خاص ہمدردی جاوا سماٹرا کے ساتھ ہے۔ اگر عرب سے ہماری خاص ہمدردی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام عربوں سے سیکھا ہے۔اور اگر انڈونیشیاوالوں سے ہماری خاص ہمدردی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بعد یہ علاقہ احمدیت کے قبول کرنے میں اول نمبر پر ہے۔ اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لئے جو کوشش کر سکتے ہیں کریں۔ اس کا ذریعہ یہی ہے کہ جماعت اپنے اخباروں اور رسالوں میں ان کی آزادی کی آواز اٹھاتی رہے اور دوسرے مسلمانوں میں بھی ان کے متعلق ہمدردی کے جذبات پیدا کرے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈچ حکومت مغربی ممالک کی مدد لے کر جاوا سماٹرا کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو سکی تو یہ چھ سات کروڑ مسلمان بھی غلامی کی زنجیروں میں پھنس جائیں گے۔ اور اگر ہماری جماعت ان کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئی تو جماعت کا یہ پہلا قدم ہو گا جو اسلام کی سیاسی مضبوطی کا موجب ہو گا۔’’ (الفضل 27 اگست 1946ء )
1: الحجر: 3
2: موسل: اناج کُوٹنے کا آلہ
3: انام (Annam): ہند چینی کی ایک سابق ریاست ۔اس کا800 میل لمبا ساحل بحیرہ چین
پر واقع ہے۔ یہاں چین کی حکومت 1418ء تک رہی۔ پھر اہلِ انام نے خود مختار سلطنت قائم کی۔1558ء کے بعد انام، ہُوے (Hue) اور ٹانکن (Tonkin) دو خاندانوں میں بٹ گیا۔ 1802ء میں ہُوے کے ماتحت دوبارہ متحد ہو گیا۔ 1954ء کے معاہدات جنیوا کے مطابق انام تقسیم ہو گیا۔ 2 جولائی 1976ء کو ویت نام میں شامل ہوا۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 135۔ مطبوعہ لاہور 1987ء)
4:سیام۔(Siam):تھائی لینڈ کا دوسرا نام۔ اس کا دار الحکومت بنکاک ہے۔ ملک کا اہم ترین
حصہ اس کا مرکزی میدانی علاقہ ہے جہاں چاول کی کاشت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ ساحل کے ساتھ ماہی گیری کے مرکز ہیں۔ اکثریت بدھ مت کی پیرو ہے۔ گیارھویں صدی میں ایک حصۂ ملک پر کمیئر سلطنت کا قبضہ ہوا۔ جدید سیام کی تاریخ اُس وقت شروع ہوئی جب تیرھویں صدی میں اہل کمیئر نکال دئیے گئے اور ایک اُبھرتے ہوئے تھائی خاندان نے ایو تھیا کو دار الحکومت بنایا۔ انیسویں صدی میں برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں سیام کی آزادی خطرے میں پڑ گئی۔ مگر سیام نے مغربی مشیروں کی خدمات حاصل کر کے آزادی برقرار رکھی۔ 1932ء تک یہاں مطلق العنان بادشاہی رہی۔ اس کے بعد شاہ پرجادیپک ایک انقلابی ہنگامے کے باعث ایک آئین منظور کرنے پر مجبور ہو گیا۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 400،401مطبوعہ لاہور 1987ء )

30
دعا کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ میری کیاکیا ضرورتیں ہیں
( فرمودہ 23 ؍اگست 1946ء بمقام ڈلہوزی )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اب رمضان کا مہینہ ختم ہو رہا ہے۔ آج پچیسواں روزہ ہے۔ اگر رمضان تیس دن کا ہؤا تو پانچ دن اور اگر اُنتیس دن کا ہؤا تو چار دن باقی ہیں۔ بہرحال اگلے جمعہ سے پہلے پہلے رمضان ختم ہو جائے گا او رجو برکات اس سے وابستہ ہیں وہ بھی ایک سال تک عام طور پر لوگوں سے چُھٹ جائیں گی۔ ایک متقی انسان کے لئے تو ہر دن ہی رمضان کا دن ہے اور ہر مہینہ ہی رمضان کا مہینہ ہے اور ہر رات ہی اپنے اندر لَیْلَةُ الْقَدْر کی برکات کو لئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے زمانہ کو لَیْلَةُ الْقَدْرقرار دیا ہےاور آپ کے لئے ہر دن لَیْلَةُ الْقَدْر تھا اور ہر رات لَیْلَةُ الْقَدْرتھی اور ہر صبح لَیْلَةُ الْقَدْرتھی اور ہر شام لَیْلَةُ الْقَدْرتھی۔ لیکن کیا ہر انسان اس مقام کا ہو سکتا ہے جس مقام پر رسول کریم ﷺ تھے؟ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دوسرا انسان اس مقام کا ہو ہی کہاں سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ1 کہ اے محمد (ﷺ)! اگر تیری پیدائش میرے مدنظر نہ ہوتی تو مَیں افلاک کو ہی پیدا نہ کرتا۔ گویا اَفلاک کی خَلق کا مقصد رسول کریم ﷺ ہی تھے۔ پس آپ کے بعد یہ سمجھنا کہ آپ جیسا سلوک کسی اَور شخص سے بھی ہو سکتا ہے بالکل حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے۔ ہر انسان سے اللہ تعالیٰ کا الگ الگ سلوک ہوتا ہے۔ عام دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک رمضان مقرر کیا ہے کہ تم میرے لئے روزے رکھو، بھوک پیاس کو برداشت کرو، جذبات پر ہر رنگ میں ضبط رکھو۔ جب تم یہ قربانی کرو گے تو میری طرف سے تمہارے ساتھ یہ سلوک ہو گا کہ مَیں تمہارے لئے آسمان سے اُتروں گا اور تمہاری دعاؤں اور التجاؤں کو سنوں گا اور تمہارے لئے اپنی خوشنودی کے رستے کھول دوں گا۔ پس جب عام لوگوں کے لئے یہ مہینہ گزر جائے گا تو اس کی برکات بھی ان سے رخصت ہو جائیں گی۔ اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اِس مہینہ کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو جائے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے روزے نہ رکھے یا وہ لوگ جن کے روزے ضائع ہو گئے ان کے لئے رمضان کا آنا اور نہ آنا دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ اگر ایک شخص روزہ رکھنے کے بعد روزہ کی شرائط کو ملحوظ نہیں رکھتا یعنی زبان کو جھوٹ اور فریب سے، آنکھوں کو بدنظری سے ، کانوں کو بُری باتوں کے سننے سے نہیں بچاتا۔ رسول کریم ﷺ ایسے شخص کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسا شخص بھوکا تو بے شک رہا لیکن اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے روزہ کی شرائط کو پورا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ کوئی شخص بھوکا رہے یا روٹی کھائے۔2 کسی کے روٹی کھانے سے اللہ تعالیٰ کو نقصان کیا ہے اور نہ کھانے سے کیا فائدہ ہے؟ اس میں تو سراسر انسان کا فائدہ ہے۔
علاوہ اَور اغراض کے روزہ کی ایک بڑی غرض یہ بھی ہے کہ انسان کو غریبوں اور مسکینوں کی تکلیف کا احساس ہو اور اسے محسوس ہو جائے کہ میرے غریب بھائی کس طرح تکلیف سے دن بسر کرتے ہیں۔ لیکن اگر اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا تو وہ شخص روزہ کی حقیقت سے بالکل نا آشنا ہے کیونکہ جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے روزہ مقرر کیا ہے اسے اس نے نظر انداز کر دیا ا ور اس کے صرف بھوکا رہنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ ہے۔ اسلام کے تمام احکام ایسے ہیں کہ ان کے اندر انسان کے لئے صدہا فوائد ہیں۔ پس ہمارا روزے رکھنا اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ منافق لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کو قبول کر کے اسلام پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے کہ تُو ان کو کہہ دے کہ تم مجھ پر احسان نہ رکھو۔ تمہارا مجھ پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔3 اسلامی شریعت باقی شریعتوں کی طرح چٹّی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے میں انسان کا خود اپنا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی انفرادی یا اجتماعی حکم مسلمانوں کو ایسا نہیں دیا جو بے فائدہ ہو اور غور کرنے سے اس کے فوائد نظر نہ آتے ہوں۔ اسلامی شریعت کے تمام کے تمام احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان کی بہبودی اور بہتری کے لئے ہیں۔ توحید ہے تو اُس کا فائدہ لَوٹ کر انسانوں کو پہنچتا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ کا علم ہے تو اُن کا فائدہ لَوٹ کر انسانوں کو پہنچتا ہے۔ نماز ہے تو اُس کا فائدہ لَوٹ کر انسانوں کو پہنچتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ4 کہ نماز بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے۔ اگر ایک انسان بدنامی اور ذلت سے بچ جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا فائدہ ہے یا بندے کا؟ اگر انسان فساد اور خون خرابہ سے بچ جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا فائدہ ہے یا بندے کا؟ اگر انسان غدار کہلانے سے بچ جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا فائدہ ہے یا بندے کا؟ اگر انسان ماریں کھانے اور جیل جانے سے بچ جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا فائدہ ہے یا بندے کا؟ اسی طرح روزے رکھنے سے بھی انسان کا اپنا فائدہ ہے کہ اس کے دل میں روزے کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہو اور وہ دُنیوی و اُخروی عذابوں اور مصیبتوں سے بچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کی غرض و غایت یہی بیان کی ہےلَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ5تاکہ تم بچ جاؤ۔ یعنی برائیوں اور بے حیائی کی باتوں اور قسم قسم کی تکلیفوں سے بچ جاؤ۔ مثلاً جیسا کہ مَیں بیان کر آیا ہوں کہ اگر روزہ نہ ہوتا تو امراء اور آسودہ حال لوگ غرباء کے فاقوں کی تکلیف کو محسوس نہ کر سکتے اور نہ ہی ان کی امداد کے لئے ان کے دلوں میں رحم کا جذبہ پیدا ہوتا۔ اور غرباء اپنی جگہ تکلیف میں رہتے اور امراء ان کی امداد نہ کرنے کی وجہ سے ثواب سے محروم ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورِد بنتے۔ لیکن اب جب ایک امیر روزہ رکھتا ہے اور اسے بھوک اور پیاس کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ باوجود اس کے کہ مجھے دو وقت کھانا ملتا ہے لیکن صرف آگے پیچھے کر دینے کی وجہ سے مجھے اس قدر تکلیف ہوئی ہے۔اگر اس میں ذرہ بھر بھی احساس باقی ہے۔ اگر اس میں ذرہ بھر بھی شرم و حیا باقی ہے تو وہ اس احساس کے پیدا ہوتے ہی فوراً اِس بات پر بھی غور کرے گا کہ ان غرباء کی کیا حالت ہوتی ہو گی جن کو کئی کئی دن فاقے آتے ہیں۔ جب وہ یہ سوچے گا تو یقیناً اُس کے دل میں رحم کے جذبات موجزن ہوں گے اور وہ غرباء کی امداد کی فکر کرے گا۔
بڑے آدمیوں کے علاوہ رمضان کے ایام میں آٹھ دس سال کے بچے بھی اصرار کرتے ہیں کہ ہم بھی سحری کھائیں گے اور روزہ رکھیں گے۔ والدین بار بار منع کرتے ہیں کہ نہ بچہ! روزہ نہ رکھیو کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس عمر میں یہ روزہ رکھے گا تو اس کے اعضاء پر بُرا اثر پڑے گا اور اس کے اعضاء کمزور ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ان میں شرم و حیا اور کوئی غیرت باقی ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ غریبوں اور مسکینوں کے بچوں کی قوت اور نشو و نما کس طرح قائم رہ سکتی ہے جبکہ انہیں فاقے پر فاقے آتے ہیں۔ پس اِن اجتماعی روزوں میں یہ حکمت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بچے میں نقل کا مادہ رکھا ہے جب وہ لوگوں کو روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح ماں باپ کو بچے کے فاقہ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
سال بھر میں رمضان کے ایام کے علاوہ بھی بعض لوگ روزے رکھتے ہیں۔ لیکن بچے کبھی بھی روزہ رکھنے پر اصرار نہیں کرتے کیونکہ ان دنوں میں کوئی شان او رنمود نہیں۔ لیکن رمضان کے ایام میں بچے دیکھتے ہیں کہ مرد اور عورت، آقا اور نوکر سب کے سب رات کو اُٹھتے ہیں اور رات کو کھانا پکاتے ہیں اور رات کو ہی کھانا کھا لیتے ہیں۔ بچے سمجھتے ہیں کہ شاید ایسا کرنے میں کوئی خاص لذت او رخاص مزا ہے جس سے مجھے گھر والے محروم کر رہے ہیں اور مجھے وہ مزا نہیں لینے دیتے۔ اگر انہیں روزے سے منع کیا جائے تو رونے لگیں گے او رروزے کے لئے سحری کے وقت ضرور جاگ اُٹھیں گے اور بڑوں کے ساتھ سحری ضرور کھائیں گے اور پھر روزہ رکھنے پر اصرار کریں گے۔ پس جماعتی عبادت ایک تماشہ بن جاتی ہے اور چھوٹے بڑے سب اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک مقولہ مشہور ہے کہ مرگِ انبوہ جشن دارد۔ اگر کوئی شخص دیکھے کہ پچاس جنازے جا رہے ہیں او رہرایک جنازہ کےساتھ پچاس ساٹھ یا سَو آدمی ہیں تو ایسے نظارہ کو دیکھ کر وہ اموات کو بھول جاتا ہے اور اس کی نظر اس طرف چلی جاتی ہے کہ یہ نظارہ کیساہے۔ جس طرح جشن کی موت اپنے اندر ایک نظارے کا سامان رکھتی ہے اسی طرح بچوں کے لئے یہ اجتماعی عبادت بھی ایک تماشہ کا رنگ رکھتی ہے اور وہ ماں باپ کی نقل کرتےہیں اور ماں باپ کے دلوں میں ان کے لئے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمزور ہو جائیں گے۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان ہو تو یقینی طور پر ان کے دلوں میں غریبوں کے بچوں کے لئے ضرور یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہمیں ان کی کمزوری کا بھی احساس کرنا چاہئے۔
اِس بات کا ثبوت کہ ان کو ضرور غرباء کی تکالیف کا بھی احساس ہو جاتا ہےیہ ہے کہ اسلام سب سے پہلا مذہب ہے جس نے راشن سسٹم(Ration-System) جاری کیا ہے اور اسلام پہلا مذہب ہے جس نے رعایا کے کھانے اور رہائش کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جس رنگ میں اسلام نے روزے رکھنے کا حکم دیاہے کسی اَور مذہب میں اس رنگ میں حکم نہیں پایا جاتا۔ جس قسم کا فاقہ اسلام میں کیا جاتا ہے کسی اَور مذہب میں نہیں کیا جاتا۔ اسلام نے اپنے ابتدائی ایام سے ہی راشننگ کو جاری کر دیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہر مسلمان کے کھانے اور رہائش کی ذمہ دار حکومت تھی۔
بعض نادان ایسے موقع پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے ہی کیوں راشن کا طریق جاری نہ ہؤا؟ یہ نادان نہیں جانتے کہ راشن کا طریق جاری کرنا سرمایہ دار حکومت کاکام ہے اور رسول کریم ﷺ کی وفات تک تو حکومت کے پاس کوئی سرمایہ ہی نہ تھا۔ اس لئے اس وقت تک راشن کا طریق ہی جاری نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن بعد میں جب فراخی کے سامان پیدا ہو گئے اور غیر ملک عرب کی حکومت کے تابع ہو گئے اور روپیہ اور غلہ کی فراوانی ہوئی تب حکومت اِس قابل ہو گئی کہ وہ راشن کے طریق کو جاری کر سکے۔ پس حضرت عمرؓ نے یہ طریق جاری کر دیا۔ بات یہ ہے کہ راشن اُس وقت مقرر کیا جا سکتا ہے جب ملک کے پاس ہر ایک کو غذا دینے کا سامان ہو یا پھر خاص قحط اور جنگوں کی مجبوریوں کے وقت اِس کا انتظام کیا جاتا ہے جیسا کہ اِس زمانہ میں جنگ کی وجہ سے تمام ملکوں میں راشن سسٹم جاری کیاگیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ حکومت کے پاس کافی سرمایہ یا غلہ نہ تھا؟ آپ نے عام طور پر راشننگ کا طریق جاری نہیں کیا لیکن تنگی کی خاص حالتوں میں آپ نے بھی اِس طریق کو جاری کیا ہے۔ چنانچہ ایک جنگ کا واقعہ ہے کہ آپ کو معلوم ہؤا کہ صحابہؓ کے پاس خور و نوش کا سامان کم ہے اورممکن ہے کہ بعض بالکل بھوکے رہیں تو آپ نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔ جب سب چیزیں جمع کر دی گئیں تو آپ نے غلہ، کھجوریں اور ستّو وغیرہ سب میں برابر برابرتقسیم کر دئیے 6اور یہی طریق راشننگ کا طریق ہے جو طریق آپ کے لئے ممکن تھا اس پر آپؐ نے عمل کیا اور جو طریق وسعتِ مالی چاہتا تھا وہ وسعت مالی حاصل ہونے پر حضرت عمرؓ نے جاری کر دیا اور حکم دیا کہ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت سے اس کی غذا کا انتظام کیا جائے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ساری اسلامی مملکت میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو یہ جانتا ہو کہ فاقہ کیا چیز ہے۔ ہر ایک کے لئے غلہ مقرر تھا اور ہر ایک کو غذا مل جاتی تھی۔ اِس طریق کی طرف کس نے ہدایت دی؟ یقیناً روزوں نے۔ روزوں نے مسلمانوں کےد لوں میں غریبوں کی ہمدردی کا احساس پیدا کیا اور انہوں نے قرآنی تعلیم پر غور کر کے سب کے لئے خوراک و لباس کے انتظام کا گُر معلوم کر لیا۔ اور اس کے مطابق سارے ملک میں احکام جاری کر دئیے۔ اس انتظام کی وجہ سے تمام اسلامی مملکت میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو یہ جانتا ہو کہ فاقہ کیا چیز ہے۔ لیکن آج کوئی ایک گاؤں بھی ایسا نہ ملے گا جس میں کچھ لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ فاقہ کیا چیز ہے؟ کتنا بڑا فرق ہے جو اسلامی حکومت میں اور آجکل کی حکومتوں میں ہے۔ اسلامی حکومت میں ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا مل جاتی تھی کیونکہ اگر غذا نہ ملے تو انسان کام نہیں کر سکتا اور اگر کام نہ کرے تو وہ قوم کے لئے مفید وجود ثابت نہیں ہو سکتا۔ پس اسلام کی اجتماعی اور انفرادی عبادات سب کی سب اپنے اندر بہت ہی حکمتیں رکھتی ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ ان حکمتوں کے متعلق سوچتے ہیں او ران عبادات سے پورے طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے اس میں عادت کا مادہ پیدا کیا ہے لیکن انسان بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کے اپنی کمزوری کی وجہ سے اندھا دھند کام کرنے لگ جاتا ہے اور عادت اس کے ذہن سے اس فعل کی حکمتوں کو نکال دیتی ہے اور بغیر سوچے سمجھے ہی عادت کے ماتحت کام کئے جاتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ کام مَیں کیوں کر رہا ہوں۔ حالانکہ عادت دوسری چیز ہے اور پہلا مقام سوچ بچار کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں عادت کامادہ اس لئے رکھا ہے کہ تا جب وہ سوچ بچار کر کے ایک عمل کرنے کا فیصلہ کرے تو پھر عادت سے وہ کام اس کے لئے آسان ہو جائے اور کم سے کم وقت میں وہ اسے بجا لائے۔ اگر عادت کا مادہ نہ ہوتا اور ہر دفعہ ہر عمل کے وقت سوچ اور فکر سے کام لیتا تو بہت ہی تھوڑا کام کر سکتا اور اس کی طبیعت پر بے حد بوجھ ہوتا۔ اس نقصان سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان میں عادت پیدا کر دی ہے تا وہ متواتر کام کرتا چلا جائے اور اسے ہر کام کے لئے نئے سرے سے جد و جہد نہیں کرنی پڑتی۔ اور آپ ہی آپ طبعی طور پر اس سے افعال صادر ہوتے جاتے ہیں۔ اگر ہر دفعہ کسی کام سے پہلے ہم سوچا کریں کہ ہم نے یہ کام کرنا ہے پھر یہ سوچیں کیوں کرنا ہےتو یہ کام بہت مشکل ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی یہ عادت بنا دی ہے کہ وہ افعال کی نوعیت کے متعلق سوچتا ہے اور ان کے نفع و نقصان کے متعلق فیصلہ کرتا ہے۔ پھر وہ اُن کاموں کو عادت کے طور پر بغیر کسی خاص جد و جہد کے سر انجام دیتا چلا جاتا ہے۔ پس عادت نے بہت بڑا فائدہ انسان کو پہنچایا ہے۔ بشرطیکہ ان افعال کی حکمتیں اس کے ذہن سے نہ نکلیں اور غور و فکر کا مادہ اس میں قائم رہے۔ لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ غو ر و فکر جو اصل چیز تھی اس کو لوگوں نے عادت کا غلام بنا دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ عادت تابع ہو فکر اور تدبر کے، تدبر اور فکر کو عادت کے تابع کر دیا ہے۔ انگریزی میں ایک مثال ہے کہ گھوڑا پیچھے گاڑی آگے۔ انسان کے لئے پہلا مقام غور و فکر کا ہے اور دوسرا مقام عادت کا ہے۔ لیکن اب لوگوں نے عادت کو پہلا مقام اور غور و فکر کو دوسرا مقام دے دیا۔ اگر ان سے کسی کام کی حکمت کے متعلق پوچھا جائے کہ آپ لوگ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟ تو کہہ دیتے ہیں ہمیں تو معلوم نہیں۔ ہمارے باپ دادے ایسا کرتے تھے اِس لئے ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔
جب مَیں حج کے لئے گیا تو ہمارے ساتھ ایک سیدھے سادے آدمی تھے۔ نانا جان مرحوم ان کو اپنے ساتھ حج کے لئے لے گئے تھے۔ اُن کا نام عبد الوہاب تھا۔ ایک دن ہم جدّے میں بیٹھے ہوئے تھے تو مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ کہنے لگے میرا مذہب؟ مَیں نے کہا ہاں آپ کا مذہب۔ مَیںسمجھا کہ وہ کوئی جواب دیں گے لیکن وہ خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر رُکنے کے بعد مَیں نے دوبارہ کہا کہ مَیں نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ تو کہنے لگے آپ اِتنی جلدی کیوں کرتے ہیں؟ ذرا سوچ لینے دیں۔ مَیں نے کہا آپ گھر سے حج کرنے کے لئے آئے ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ میرا مطلب یہ تھا کہ آپ حنفی ہیں یا شافعی ہیں یا اہل حدیث ہیں۔ میرے سوال پر پھر وہ کہنے لگے آپ اِتنی جلدی کیوں کرتے ہیں؟ سوچ تو لینے دیں۔ مَیں نے کہا۔ مذہب تو سوچی ہوئی چیز ہے۔ کچھ دیر کے بعد کہنے لگے کہ مَیں وطن جا کراپنے مُلّا سےلکھوا کر آپ کو بھجوادوں گا۔ مَیں نے کہا۔ مَیں آپ کا مذہب پوچھ رہا ہوں آپ کے ملّا کا مذہب نہیں پوچھ رہا۔ تو جس طرح کوئی انسان چِڑ جاتا ہے اسی طرح انہوں نے چِڑ کر کہا کہ آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں؟ مجھے سوچ تو لینے دیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے۔ میرا مذہب ہے عَلَیْہ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ میرا مذہب امام ابو حنیفہ رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہ کا مذہب ہے۔ باقی تو وہ کہہ نہ سکے اور صرف عَلَیْہ کہہ دیا۔ مَیں نے کہا عَلَیْہ تو کوئی مذہب نہیں۔ پھر کہنے لگے۔ اچھا سوچ تو لینے دیں۔ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے میرا مذہب ہے امام عَلَیْہ ۔ اسی طرح آگے پیچھے کر کے ایک ایک ٹکڑا ملاتے گئے مگر امام ابو حنیفہ رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہ نہ کہہ سکے۔پھر مَیں نے ان سے پوچھا۔ اچھا آپ یہ تو بتائیے کہ آپ کو حج کرنے کی کیا سُوجھی؟ کہنے لگے۔ مَیں نے کیا حج کرنا تھا۔ میرے بیٹے کہیں سے سن کر آئے کہ فلاں کے باپ نے حج کیا ہے تو میرے بیٹوں نے مجھے مجبور کیا کہ جا کے حج کرکے آؤ۔ اس لئے مَیں حج کرنے کے لئے آ گیا ہوں۔ اب یہ بھی عادت پہلے، فکر پیچھے والی مثال ہے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا تو اُن کو فکر لاحق ہوئی اور وہ سوچنے لگے کہ میرا مذہب کیا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز اور روزہ بھی بطور عادت کے کرتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی پوچھے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کو فکر لاحق ہوتی ہے ورنہ اندھا دھند عادت کے ماتحت کام کرتے چلے جاتے ہیں۔
بیسیوں غیر احمدی نوجوانوں سے مَیں نے رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت پوچھا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ بس آپؐ سچے تھے۔ مَیں نے کہا اس سے تو ہمیں بھی انکار نہیں اور نہ ہی کسی مسلمان کو اس سے انکار ہو سکتا ہے۔ لیکن آخر کوئی دلیل بھی تو ہونی چاہئے۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ہم نے کبھی اس کے متعلق غور نہیں کیا۔ ایسے لوگوں کو کچھ معلوم نہیں کہ قرآن کریم کیوں سچا ہے حالانکہ ان میں سے کئی ایسے ہوں گے جو رسول کریم ﷺ کی محبت میں جان تک دینے سے دریغ نہ کریں گے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپؐ کی سچائی کی دلیل کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے عادت کو پہلے اور غور و فکر کو پیچھے کر دیا ہے۔ لیکن مومن کی نگاہ ایسی نہیں ہوتی کہ وہ فکر کو عادت کے تابع کر دے ۔
اب رمضان ختم ہو رہا ہے جتنے دن باقی ہیں ان میں بہت دعائیں کرو۔ اور اگر پہلے کوئی سُستی تھی تو اسے ترک کر دو۔ لیکن یاد رکھو کہ دعا بھی بعض لوگ عادت کے طور پر کرتے ہیں اور اس بات کو نہیں سوچتے کہ ہماری ضرورت کیا ہے۔ جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے ہم اللہ تعالیٰ سے وہ مانگیں۔ بعض کا ہاتھ مالی لحاظ سے تنگ ہوتا ہے، بعض میں اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں، بعض کی علمی قابلیت کم ہوتی ہے، بعض کی صحت خراب ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر ایک کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ جب انسان دعا کرنے سے پہلے سوچے گا کہ مجھے کیا دعا مانگنی چاہئے تو اسے اپنی تمام کمزوریوں کا علم ہو جائے گا۔ اور جب اسے اپنی کمزوریوں کا علم ہو جائے گا تو یقینی بات ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بہت رقّت اور درد کے ساتھ دعا کرے گا۔ اور دوسرے خود بھی کوشش کرے گا کہ یہ کمزوریاں مجھ میں نہ رہیں او ران کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر اس طرح سوچ سمجھ کر دعا کی جائے تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو جلدی قبول فرمائے گا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس کے نفس کو اپنی ضرورتوں کے معلوم کرنے کی عادت پڑے گی۔
اصل میں دعا نفس کا محاسبہ ہے بشرطیکہ کوئی سچے طور پر دعا مانگے۔ لیکن عام طور پر لوگوں نے بعض فقرات یاد کئے ہوتے ہیں۔ ہر دعا کے وقت وہی فقرے دہرا دیتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے عام طور پر لوگ دعا کے وقت یہ فقرہ بہت کہتے ہیں۔ اے خدا! تُو ہماری دنیا بھی درست کر دے اور دین بھی درست کر دے۔ دنیا کی درستی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو تنگدستی سے بچا لے اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اندر مال بھرا پڑا ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دنیا تو میرے پاس موجود ہے مجھے اس کے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے شخص کی دنیا کی درستی تو یہ ہے کہ اس کے پاس سے وہ مال خدا کی راہ میں خرچ ہو اور اس کے لئے ثواب اور نیکی کا موجب بنے۔ نہ یہ کہ اور مال اس کو حاصل ہو۔ جو کمرہ سامان سے بھرا ہؤا ہو اُس کی درستی یہ ہے کہ اس میں سے کچھ سامان نکال لیا جائے، نہ یہ کہ اس میں کچھ اَور سامان ڈال دیا جائے۔ یہ دعا ایک عادت کے ماتحت کی جاتی ہے۔ کسی غریب آدمی کو دعا کرتے سنا کہ اے خدا! تُو میری دنیا کی درستی کر دے اور مجھے مال میں فراخی بخش۔ بس اُس سے سن کر بغیر غور کئے دعا کرنی شروع کر دی۔ دعا کا یہ طریق نہیں ہے۔بلکہ دعا کا طریق یہ ہے کہ انسان دعا کرنے سے پہلے سوچے اور غور کرے کہ میری کیا کیا ضرورتیں ہیں۔ اس کے بعد وہ خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی ضرورتوں کو رکھے۔ یہ دعا اصل دعا ہو گی کیونکہ جب اسے اپنی کمزوریوں اور اپنی ضرورتوں کا احساس ہو جائے گا تو وہ ضرور ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ سجدہ کرنے سے پہلے ہی اس کی اصلاح ہو جائے۔ کیونکہ حقیقی احساس بھی کمزوریوں کے دور کرنے کا ایک بہت بڑا علاج ہے۔ پھر ہر زمانہ کے کچھ عیب ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے زمانہ کے عیبوں کے متعلق سوچ بچار کر کےد عا کرنی چاہئے۔ صرف اتنا کہنے سے کہ اے خدا! رحم کر۔ اے خدا! رحم کر۔ رحم نہیں ہوتا جب تک وہ ضرورت مدنظر نہ ہو جس کے لئے رحم طلب کیا گیا ہے۔
اس زمانہ میں ہندوستان کے لوگوں میں ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک ذہن کی کوئی قیمت نہیں جو چیز زیادہ سے زیادہ اُن کے سامنے آتی ہے وہ اسی کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کسی بات کے متعلق سوچ بچار کر کے اس کے غلط یا صحیح ہونے کا اندازہ لگا سکیں اور ذہن کو بالکل عضوِ معطّل کی طرح چھوڑا ہؤا ہے حالانکہ ذہن ایسی چیز ہے کہ اگر ا سکے بڑھانے کی کوشش کی جائے تو وہ بڑھ سکتا ہے۔ لیکن ہمارے لوگوں کی نظر روزہ مرہ کے کاموں سے آگے تجاوز ہی نہیں کرتی۔ داناؤں کا قول ہے کہ ایک ضرورت پیش آئے تو دس اَور متعلقہ ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ لیکن آجکل حالت یہ ہے کہ بالکل بے سوچے سمجھے سیدھا چلتے چلے جاتے اور اپنے دائیں بائیں ماحول کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشان پر نشان اسلام کی صداقت کے لئے ظاہر ہو رہے ہیں لیکن یہ لوگ سؤروں کی طرح سیدھے ایک سمت میں چلتے چلے جاتے ہیں اور اپنے اردگرد کے حالات کو نہیں دیکھتے۔ ذہین آدمی کا کام ہے کہ اس کا منہ خواہ کسی طرف پھیر دو اور اس کے سپرد خواہ کوئی کام کرو وہ اپنے اردگر د کے حالات کا خوب مطالعہ کرے گا اوران کے متعلق چوکس اور چوکنّا رہے گا۔ اور اس کی باتوں میں معقولیت کا رنگ ہو گا ۔لیکن غیر ذہین اور غافل آدمی بعض دفعہ ایسی بات کرتا ہے جو اس کی ذلّت اور رُسوائی کا موجب ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ایک بزرگ کا قصہ سنایا کرتے تھے۔ دراصل بزرگ تو نہیں لیکن بزرگ بن بیٹھا تھا۔ اُس علاقہ کے بادشاہ کو اس کے وزراء نے مشورہ دیا کہ اس کے پاس دعا کرانے کے لئے چلنا چاہئے۔ چنانچہ بادشاہ ان کے مشورہ کے مطابق اس بزرگ کو ملنے کے لئے گیا۔ جب اس بزرگ سے باتیں شروع ہوئیں تو اس بزرگ نے اپنے دل میں خیال کیا کہ بادشاہ سے اس قسم کی باتیں کروں جن سے بادشاہ پر رُعب پڑے۔ چنانچہ اس نے کہنا شرع کیا۔ اے بادشاہ!اپنی رعایا سے انصاف کرنا چاہئے اور تمہیں دوسرے مسلمان بادشاہوں پر سبقت لے جانی چاہئے۔تم سے پہلے ایک مسلمان بادشاہ سکندر ذو القرنین گزرا ہے وہ بہت انصاف کرنے والا تھا۔ مسلمان بادشاہوں کو دوسرے علموں کے متعلق بے شک ناواقفیت ہو گی لیکن وہ تاریخ کا علم ضرور رکھتے تھے کیونکہ اُنہیں پہلی حکومتوں کے حالات سے کسی حد تک سبق لینا ہوتا تھا۔ اور ان کے نظام کے حُسن و قبح پر نظر رکھنی ہوتی تھی۔ جب اس نے یہ کہا کہ سکندر ذو القرنین ایک مسلمان بادشاہ تھا تو بادشاہ کو اس کی بزرگی کا اندازہ ہو گیا۔ بادشاہ وہاں سے اُٹھ کھڑا ہؤا اور اپنے وزراء سے کہنے لگا کہ یہ تو نہایت جاہل شخص ہے۔ اگر یہ تاریخ کے متعلق نہیں جانتا تھا تو اسے میرے سامنے تاریخ بھگارنے کی ضرورت کیا تھی۔ اب یہ اُس (بزرگ) کی بیوقوفی تھی کہ اس نے ایک ایسا رستہ اختیار کیاجس کے متعلق اُسے علم نہ تھا۔ اگر وہ ذہین ہوتا تو بجائے ایسی باتوں کے کوئی اَور نصیحت کرتا۔
پس ذہن کی تیزی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے لئے ہر عمر میں مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ ذہین آدمی دینی معاملات کو بھی بہت جلد سمجھ لیتا ہے اور دنیوی معاملات کو بھی بہت جلد سمجھ لیتا ہے۔ مثلاً ایک ذہین آدمی آجکل اخباروں کو ضرور پڑھے گا تاکہ اُسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ اُس کی قوم کو کس کس قسم کی مشکلات پیش آ رہی ہیں اور اسے کس قسم کی تیاری کرنی چاہئے۔ لیکن باوجود اس نازک زمانہ کے تمہیں ہزاروں ہزار نوجوان ایسے ملیں گے جو گپیں ہانکتے رہیں گے لیکن اخبار کا مطالعہ نہیں کریں گے اور اپنی قوم کی بہتری اور فائدہ کے لئے کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ ان کے دماغ پراگندہ ہو گئے ہیں اور ذہن مُردہ ہو گئے ہیں اور ان کو قومی خوبیاں یا قومی نقائص نظر ہی نہیں آتے۔ پس ایک مومن کو چاہئے کہ وہ بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرے کہ یا اللہ! رحم کر ، یا اللہ ! رحم کر۔ اپنی ذہنی حالت، اپنی علمی حالت اور اپنی ضرورتوں کا بغور مطالعہ کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! تُو میرے ذہن میں جِلا پیدا کر دے۔ یا الٰہی! تُو میرے دماغ میں وسعت پیدا کر دے کہ وہ باریک سے باریک مضامین کو اخذ کر سکے۔ یا الٰہی! تُو مجھے دینی مسائل سمجھنے کی توفیق عطا فرما اور تقویٰ کی باریک راہیں مجھ پر کھول دے۔ ایسی دعا صرف دعا ہی نہیں ہو گی بلکہ وہ ایک مدرسہ ہو گی جس میں اس کے ذہن اور عقل کی تیزی کے سامان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا اس دعا کو قبول کرنا ایک زائد بات ہو گی۔
مَیں نے ذہانت کے متعلق بتاتے ہوئےایک بزرگ کی مثال دی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ایک تازہ مثال مجھے یاد آئی ہے۔ مَیں نے پچھلے خطبہ میں انڈونیشیا کی ہمدردی کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی۔ جب وہ خطبہ میرے پاس نظر ثانی کے لئے آیا تو مجھے اس کو پڑھ کر بہت افسوس ہؤا ہے کہ ہماری جماعت دوسری تمام جماعتوں سے تعلیمی معیار کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے لیکن مجھے سخت حیرت ہوئی کہ خطبہ نویس مولوی فاضل ہے اور جامعہ احمدیہ کا پاس شدہ ہے۔ اس نے خطبہ میں میری طرف یہ منسوب کیا ہے کہ گو یا مَیں نے کہا تھا کہ انڈونیشیا میں فرانسیسی حکومت ہے۔ ہمارے مبلغ انڈونیشیا میں ہیں اور تبلیغی رپورٹیں چھپتی رہتی ہیں لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ انڈونیشیا میں کونسی حکومت ہے۔ ہمارے مبلغ وہاں بیس سال سے کام کر رہے ہیں ۔ اگر مبلغ نہ بھی ہوتے تو بھی میرا خدا کے فضل سے مطالعہ اِتنا وسیع ہے کہ مَیں اس قسم کی غلطی نہیں کرسکتا تھا۔ اگر اسے صحیح طور پر علم نہیں تھا تو اگر اس میں غور کرنے کا مادہ ہوتا تو وہ فوراً کسی سے پوچھ لیتا یا اخبار کی طرف توجہ کرتا۔ اگر اسے پہلے علم نہ تھا تو اسے میرے منہ سے سن کر ہی یاد رکھ لینا چاہئے تھا کہ وہاں ڈچ حکومت ہے یا فرانسیسی حکومت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اکثر جگہ ڈچ کا لفظ لکھ کر پھر کاٹا ہؤا ہے اور اس کی جگہ فرانسیسی حکومت لکھا ہؤا ہے۔ اس نیک بخت کو اِتنی بھی توفیق نہیں ملی کہ اخبار ہی پڑھ لیتا۔ معلوم نہیں لکھتے وقت اس کا دل کس فکر میں تھا۔ بس ایک ہی فکر ایسے لوگوں کو رہتا ہے کہ شام کو کیا کھانا ہے اور صبح کو کیا کھانا ہے۔ ایک اَورمضحکہ خیز بات لکھی ہے۔ مَیں نے تو کہا تھا کہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے ہمدردی نہیں گو اَب بین الاقوامی اتحاد کے لئے وہ عرب لیگ میں شامل ہو گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ملک یہ نہیں چاہتا کہ وہ دوسرے ملک کے تابع اور ماتحت ہو۔ شام یہ نہیں چاہتا کہ وہ مصر کے ماتحت ہو اور مصر یہ نہیں چاہتا کہ وہ شام کے ماتحت ہو۔ فلسطین اس با ت کے لئے تیار نہیں کہ وہ شام کے ماتحت رہے اور شام اس بات کے لئے تیار نہیں کہ وہ فلسطین کے ساتھ مل کر رہے۔ ایک مسلمان حکومت ٹرکی کی ہے وہ بھی ایک عرصے سے عربوں سے دلچسپی نہیں رکھتی۔ بے شک پہلے عرب کا علاقہ ٹرکی کے ماتحت تھا لیکن جب سے عرب نے آزادی حاصل کی ہے اس وقت سے ٹرکی کو عرب سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ مَیں نے تو یہ کہا تھا لیکن خطبہ لکھنے والے نے لکھ دیا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک ہزار سال پہلے ٹرکی کو عرب سے دلچسپی تھی ۔ ایک ہزار سال سے ٹرکی کو عرب سے کوئی دلچسپی نہیں رہی یعنی ایک ہزار سال پہلے تو عرب حکومت اور ٹرکی کے تعلقات اچھے تھے۔ اب ایک ہزار سال سے وہ تعلقات منقطع ہو گئے ہیں۔ خطبہ لکھنے والے کو اتنا بھی علم نہیں کہ ٹرکی کی حکومت کو قائم ہوئے چھ سو سال ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں پر عیسائی حکومت تھی۔ تو ایک ہزار سال پہلے کس طرح اس حکومت کے تعلقات عربوں سے اچھے تھے۔ اِس سے زیادہ جہالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ بس اُس کا علم فَعَلَ فَعَلَا فَعَلُوْا پر آ کر ختم ہو گیا ہے اور اُسے ضرورت نہیں محسوس ہوتی کہ وہ حکومتوں کے حالات اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ ایک بات میری طرف خطبہ میں یہ منسوب کی ہے کہ شمالی افریقہ کے مسلمان بالکل جاہل ہیں۔ وہ اسلامی دنیا کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ حالانکہ مَیں نے مغربی افریقہ کہا تھا۔ شمالی افریقہ کا ملک تو مصر ہے جو علم میں بہت بڑھا ہؤا ہے اور ساری اسلامی دنیا سے زیادہ بیدار ملک ہے۔ یہ خطبہ نویس مولوی صاحب تو وہاں کے علماء سے سالہا سال پڑھ کر بھی شاگردی کے مقام سے آگے نہیں نکل سکتے۔
پس دعا کے لئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں اور اپنی ضرورتوں کو اپنے سامنے لائے اور اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرے۔ یہ دعا ایسی ہو گی جو اسے فائدہ پہنچائے گی اور اُس کے لئے کامیابی کے رستے کھول دے گی۔ ورنہ یونہی یا اللہ! رحم کر۔ یااللہ!رحم کر کہتے جانا انسان کی فلاح او رکامیابی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو شخص اپنی کمزوریوں کا ندامت کے ساتھ احساس کرے گا اور اپنی حقیقی ضرورتوں اور اپنی جہالت اور کم علمی کا احساس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گرے گا وہ جاہل ہونے کی حالت میں رمضان میں داخل ہو گا اور عالم بن کر رمضان سے نکلے گا۔ تو اِن چیزوں میں انسان کی اپنی ذاتی قابلیتوں او راستعداوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال ایسی دعائیں کرنے والا شخص پہلے کی نسبت بہت آگے نکل جائے گا۔
ہر شخص سے خدا تعالیٰ کا الگ الگ معاملہ ہوتا ہے۔ میرے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ ہر شخص سے نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے دیکھا ہے مختلف علوم جن سے مجھے دلچسپی ہے وہ سب کے سب خدا تعالیٰ نے مجھے سکھائے ہیں اور ان دنیاوی علوم کے متعلق بڑی محنت سے تحقیقات کر کے جن لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں جب مَیں اُن کتابوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اُن کی کتابیں پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مسائل بیان کر رہے ہیں۔ ہاں جن علوم سے مجھے دلچسپی نہیں وہ مجھے بالکل نہیں آتے۔ مثلاً کوئی کہے کہ تمہیں باجا بجانا آتا ہے؟ تو مَیں کہوں گا نہیں۔ کیونکہ مجھے اس سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں۔ پس جو سلوک اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ ہے وہ ہر ایک کے ساتھ نہیں۔ عام طور پر انسان کوشش کرکے ہی کسی چیز کو حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کا محض فضل ہے کہ ایک شخص جو ظاہری لحاظ سے اس سلوک کامستحق نظر نہیں آتا وہ اس پر اپنا فضل نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاعام قانون بھی ہے کہ انسان کوشش کرے تو وہ مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوجاتا ہے۔ سقراط اور ارسطو نے فلسفے وغیرہ کے جو اصول مقرر کئے ہیں وہ سب ان کی سوچ بچار کا نتیجہ ہیں اور ان کی ذہنی کوشش کا پھل ہیں۔ پس سوچ سمجھ کر دعائیں کرو اور اپنی قوم کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اور ان کا احساس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سنے گا اور رمضان کا مہینہ تمہارا اُستاد بن جائے گا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سوچ بچار کرنے سے تم اپنے استاد آپ بن جاؤ گے۔
بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی دعا سکھا دیں۔ مَیں اُنہیں جواب دیا کرتا ہوں کہ سورة فاتحہ ہی سب سے بڑی دعا ہے۔ وہ تمہیں آتی ہے تو پھر تمہیں کسی اَور دعا کے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسروں کے دعائیں سکھانے سے کچھ نہیں بنتا۔ اصل دعا وہ ہے جو انسان کے اندر سے آپ پیدا ہوتی ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جو درد اندر سے پیدا نہ ہو دوسرے لوگوں کے کہنے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور دعا کی قبولیت کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس کے ساتھ رقت اور سوز و گداز ہو۔ جتنا سوز و گداز زیادہ ہو گا اتنی ہی دعا قبولیت کا رنگ اختیار کرے گی۔ کسی نے کہا ہے‘‘ جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا۔’’ جو مرتے نہیں اُن کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ صرف منہ سے کہہ دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا جب تک اُس دعا کے ساتھ پُر درد جذبات نہ ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے یتیم اور مظلوم کی دعا کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ عرشِ الٰہی کو ہِلا دیتی ہیں۔7 اُنہیں کوئی لمبی لمبی دعائیں کرنے کی ضرورت نہیں اُن کی ایک آہ ہی عرش کو ہلانے کے لئے کافی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ درد کے جذبات سے پُر ہوتی ہے۔ اور وہ اس بادل کی طرح ہوتی ہے جو پانی سے پُر ہوتے ہیں اور اپنے پانی سے زمین کا چَپہ چَپہ گِیلا کر دیتے ہیں۔ اور جو دعا جذباتِ درد سے خالی ہے وہ سُوکھے بادل کی طرح ہے کہ جس میں پانی کا ایک قطرہ نہیں ہوتا۔ صرف اس کےساتھ آندھی ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ گھروں کی چھتوں کو اُڑا کر لے جاتا ہے۔
پس تمام احمدی دوستوں کو، اپنے لئے، اپنے ہمسائیوں کے لئے، اپنی جماعت کے لئے، باقی مسلمانوں کے لئے، موجودہ زمانہ کی مشکلات اور اس کے خطرات کو سوچ سوچ کر دعائیں کرنی چاہئیں تا اُن کی دعائیں جذبات کے ماتحت ہوں۔ اور باقی مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہئے کہ وہ دعا کی طرف توجہ کریں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں میں اِس وقت دعا کی اہمیت کا احساس نہیں رہا۔ بیٹھے ہوئے تسبیحیں پھیرتے ہیں لیکن نماز، روزہ اور دعاکی غرض سے ناواقف ہیں۔ اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں قرآن کریم کی محبت کم ہو گئی ہے اور اس کی تعلیم سے نا آشنا ہو گئے ہیں ۔ اِس لئے اب ان کے دلوں میں قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی محبت کو قائم کرنا چاہئے اور اُنہیں اُس تکلیف اور مصیبت کا احساس کرانا چاہئے جو اُن پر پڑنے والی ہے۔ اگر اُن کو اس مصیبت کا احساس ہو جائے اور دردِ دل سے دعاؤں میں لگ جائیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ خدا جس نے یونس علیہ السلام کی قوم کی دعاؤں کو سن کر اُن سے عذاب کو ٹلا دیا تھا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت کی دعاؤں کو نہ سنے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا ؂
اے دل تُو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوئِ حُبِّ پیمبرم 8
اِس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سمجھایا ہے کہ دیکھو! یہ مسلمان تمہیں تکلیفیں بھی دیں گے، تمہارے آدمیوں کو قتل بھی کریں گے، تمہیں ہر قسم کے دکھ ان کے ہاتھوں سے پہنچیں گے۔ لیکن دیکھنا! غصے نہ ہونا کہ ‘‘آخر کنند دعویِٔ حُبِّ پیمبرم’’ کہ آخر تمہارے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کا لحاظ ضرور کرنا اور اِن کی سخت باتوں پر خفگی کا اظہار نہ کرنا۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو دوسرے مسلمانوں کو بھی سمجھانا چاہئے کہ وہ بھی دعاؤں میں لگ جائیں اور دردِ دل سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ ان مصائب کو مسلمانوں سے دور کر دے۔ او رجیسا کہ مَیں نے کہا ہے جماعت کا فرض ہے کہ وہ سمجھ سوچ کر دعائیں کرے اور ایسی دعائیں کرے جو اپنے ساتھ پُر درد جذبات رکھتی ہوں۔ اگر تم دردِدل سے دعائیں کرو گے تو تمہاری دعا پانی سے پُر بادل کی طرح ہو گی جو زمین پر سیلاب لے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عرش کو گِیلا کر دے گی او ر اس کی رحمت کو عرش سے کھینچ کر لے آئے گی۔’’ (الفضل 3 ستمبر 1946ء )
1: تفسیر غرائب القرآن بر حاشیہ تفسیر ابن جریر جلد 3 صفحہ 204۔ مطبوعہ مصر
2: صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور و العمل بہ فی الصوم
3: يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ
لِلْاِيْمَانِ (الحجرات: 18)
4: العنکبوت: 46
5: البقرة: 184
6: صحیح بخاری کتاب الشِّرْکَة باب الشِّرْکَة فِی الطَّعَامِ وَ النَّھْد (الخ)
7: بخاری کِتَابُ الْمَظَالِم باب اَلْاِتِّقَاء وَ الْحَذْر مِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُوْمِ میں صرف مظلوم کا ذکر ہے۔
8: درثمین فارسی صفحہ 107 مطبوعہ بار اول ضیاء الاسلام پریس ربوہ



31
مسلمانوں کی ہستی نہایت ہی خطرہ میں ہے
(فرمودہ 30 ؍اگست 1946ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘چونکہ وقت کافی ہو چکا ہے اور جمعہ کا وقت کم رہ گیا ہے۔ گو جمعہ کے متعلق بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ جمعہ اشراق سے عصر تک پڑھا جا سکتا ہے اور سارا دن ہی اِس کا وقت ہے لیکن تعامل یہی ہے کہ جمعہ ظہر کے اوقات میں ہی پڑھا جاتا ہے۔ اِس لئے مَیں اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھوں گا۔
مختلف کاموں کو مختلف زمانوں میں اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اس کی مثالیں کئی دفعہ مَیں نے بیان کی ہیں کہ ایک عبادت کو اُس کے مناسب اوقات میں بجا لانا ہی نیکی ہے اور اُس نیکی کو اُس کے مناسب اوقات میں بجا نہ لانا ہی اسے بدی بنادیتا ہے اور بعض دفعہ بدی کو کسی مناسب موقع پر کرنا بھی اسے نیکی بنا دیتا ہے۔ اس کی مثالیں مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں۔ مثلاً جہاد کا وقت ہو او رکوئی شخص مصلّٰی بچھا کر نماز شروع کر دے۔ اب بظاہر نماز ایک نیکی کا کام ہے اور جو شخص نماز نہیں پڑھتا اُس کے متعلق اسلام کا حکم ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لیکن جب جہاد شروع ہو نے والا ہو یا شروع ہو چکا ہو تو اُس وقت کسی کا نماز شروع کر دینا اُس کو گنہگار بنا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے تو وہ مسلمانوں کے جان و مال دونوں کو تباہ کر دے گا اور جب مسلمان ہی نہ رہے تو پھر نمازیں کون پڑھے گا۔ ایسے شخص کا ایک نماز پڑھنا لاکھوں بلکہ کروڑوں نمازوں کے ضیاع کا موجب ہو گا۔ جب جنگ بدر ہوئی تو صحابہؓ نے رسول کریم ﷺ کے لئے ایک عرشہ تیار کیا۔ اور آپ سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ اِس عرشہ پر بیٹھ کر دعا کریں اور لڑائی میں شامل نہ ہوں ۔ لڑائی کے لئے ہم کافی ہیں۔1 آپ ہمارے لئے دعا فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے نہایت رقت سے دعا شروع کی اور کہا اے خدا! اگر تُو نے اس مُٹھی بھر جماعت کو ہلاک کر دیا اور تُو نے ان کی مدد نہ کی فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ تو ان کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی شخص دنیا میں نہ رہے گا۔ 2 یعنی نمازیں پڑھنے والے نہ ہوں گے تو نماز کون پڑھے گا۔ پس جہاد کے موقع پر ایک نمازی کی غفلت سے کئی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ فرض کرو ایک مومن کی غفلت سے صرف ایک مومن کی جان ضائع ہوتی ہے تب بھی چونکہ عام طور پر انسان کی عمر پچاس ساٹھ سال ہوتی ہے اگر وہ ساٹھ سال زندہ رہتا تو ہزارہا نمازیں ادا کرتا۔ لیکن اس شخص کی ایک بے موقع نما زسے وہ سب نمازیں ضائع ہو گئیں۔ شریعت کا حکم ہے کہ سات سال کی عمر میں بچے کو نماز پڑھانی شروع کرنی چاہئے۔ اور اگر دس سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اُسے مار کر نماز پڑھائی جائے۔ 3 اگر ہم یہی فرض کریں کہ وہ پچاس سال زندہ رہتا اور ہر روز پانچ نمازیں پڑھتا تو ایک سال میں 1825 نمازیں پڑھتا۔ اور اسے پچاس سے ضرب دیں تو یہ تعداد اُس کی پچاس سال کی نمازوں کی ہو گی۔ لیکن ایک شخص کی بے موقع نماز نے یہ سب نمازیں گنوادیں۔ اور اگر اس شخص کی غلطی کی وجہ سے پانچ دس آدمی مارے گئے تو لاکھوں نمازیں ضائع ہوئیں۔ ایسے شخص کا جہاد کے وقت نماز پڑھنا نیکی نہیں کہلا سکتا۔
اِسی طرح بعض دفعہ بدی نیکی بن جاتی ہے اور اس کی مثال بھی مَیں کئی دفعہ دے چکا ہوں کہ بڑوں کی بے ادبی کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اُن کو جوتی یا بُوٹ مارنا تو اور بھی کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ اس کے باپ کے سر پر پیچھے سے سانپ چڑھ رہا ہے اور اس کو ڈسنے والا ہے تو اگر وہ کہے کہ والد صاحب آپ کی پیٹھ پر سانپ چڑھ رہا ہے تو اتنی دیر میں وہ سانپ اُس کے والد کو کاٹ لے گا۔ کیونکہ ان کیڑوں کو برانگیختہ کرنے کے لئے چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی نہایت خطرناک ہوتی ہے۔ اب اُس کے لئے سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اُسی جگہ پر اُس کا سر کچل دے اور اس کے پاس اس سانپ کو مارنے کے لئے کوئی چیز نہیں۔ اگر وہ کوئی چیز لینے جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ اس کے آنے جانے کی حرکت سے یا اتنے وقت میں وہ سانپ کاٹ کھائے۔ اُس کے لئے سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا بُوٹ اتار کر زور سے باپ کے سر پر مارے ۔ اگر نہیں مارے گا تو گنہگار ہو گا۔ دیکھو! وہی چیز جو بدی تھی نیکی بن گئی اور جو عام حالات میں گناہ کبیرہ تھا وہ ان خاص حالات میں نیکی بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی مومنوں کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ نیک عمل کرتے ہیں بلکہ ہر جگہ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِآتا ہے کہ وہ عملِ صالح بجا لاتے ہیں۔ اور صالح کے معنے عربی زبان میں مناسبِ موقع اعمال بجا لانے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ انسان اندھا دھند بغیر موقع شناسی کے نماز، روزہ اور حج یا دوسرے احکامِ شریعت کوبجا لاتا چلا جائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اِن عبادتوں کے ساتھ یہ بھی قید لگا دی ہے کہ وہ موقع او رمحل کے مطابق ہوں۔ جن اعمال کے ساتھ موقع اور محل کوملحوظ نہیں رکھا جائے گا۔ وہ نیکی کی بجائے بدی بن جائیں گے۔ روزہ ایک بہت بڑی نیکی ہے لیکن رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے۔ اسی طرح آپ نے نماز کے متعلق فرمایا کہ جو شخص سورج کے چڑھنے کے وقت یا جب سورج نِصْفُ النَّہَار پر ہو یا سورج کے غروب ہونے کے وقت نماز پڑھتا ہے وہ گنہگار ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ4کہ نماز پڑھنے والے کے لئے *** اور عذاب ہے۔ حالانکہ نماز ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے لئے بدی بن گئی؟ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مناسب موقع نہیں ۔ کیونکہ آگے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ صرف رِیاء اور دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں۔ پس ہر فعل کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ موقع او رمحل کے لحاظ سے درست ہے یا نہیں۔
آجکل تمام عبادات میں سے ضروری عبادت دعا ہے۔ آجکل جس قسم کے حالات میں سے مسلمان گزر رہے ہیں وہ نہایت ہی تاریک ہیں۔ ہندوستان، فلسطین، مصر، انڈونیشیا اِن سب جگہوں میں مسلمانوں کی ہستی نہایت ہی خطرہ میں ہے۔ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران میں روسی حکومت اپنا اثر و نفوذ پیدا کر رہی ہے اِس لئے ایرانی حکومت کو نہایت خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انڈونیشیا میں ڈچ حکومت مسلمانوں کو غلام بنانے کی خاطر تمام قسم کے ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ ملایا میں چینیوں کو زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ ہندوستان سے چل کر ایران پھر فلسطین، مصر، انڈونیشیا اِن سارے ہی علاقوں میں مسلمان سخت خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ پس تمام دوستوں کو چاہئے ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں کریں۔ دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہئے کہ وہ بھی دعاؤں میں لگ جائیں۔ سوائے اِس کے مسلمانوں کے لئے کوئی چارہ نہیں۔ مسلم لیگ آخر کیا کر سکتی ہے؟ وہ ریزو لیوشن ہی پاس کر سکتی ہے کیونکہ مسلمانوں میں استقلال سے کام کرنے کی عادت نہیں رہی۔ ایسے مسلمانوں سے آخر وہ کتنا کام لے سکتی ہے۔ جب تک مسلمان دنیا طلبی اور عیش و عشرت کے سامانوں کو نہیں چھوڑتے اور ہر قسم کی قربانیوں کے لئے منظّم نہیں ہو جاتے اور اپنے آپ کو ایسی قربانیوں کے لئے تیار نہیں کرتے جو کہ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوْفِ کی جاتی ہیں اُس وقت تک کامیابی ناممکن ہے اور ان سے کوئی شخص بھی کام نہیں لے سکتا۔ مسلمان خدائی مصیبتوں کو برداشت کر سکتے ہیں اور اس پر صبر کر سکتے ہیں لیکن انسانی مصیبتوں پر صبر نہیں کرسکتے کیونکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مصیبتوں کے سہنے کی عادت ہو گئی ہے اور اس قسم کے عذاب کا مقابلہ کرنے اور ان پر صبر کرنے کے لئے بے عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن جہاں انسانوں سے مقابلہ ہو وہاں ان کے عذاب اور تکلیف کو ہٹانے کے لئے عمل کی ضرورت ہے۔ بے عملی سے وہ عذاب اَور بھی شدید ہو جاتا ہے۔پس اِس وقت مسلمان خدائی مصیبتوں کے علاوہ بندوں کی مصیبتوں کا نشانہ بنائے گئے ہیں اور ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ سخت بے عمل ہو چکے ہیں اور کوئی تنظیم ان میں موجو دنہیں۔ اِن حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوستوں کو دعا کرنی چاہئےکہ اللہ تعالیٰ غیب سے مسلمانوں کی بیداری کے سامان پیدا کرے اور ان کی حالت کو بدل دے۔ گو عام طور پر اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ انسان کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہے۔ لیکن بعض وقت اللہ تعالیٰ جب ضرورت سمجھتا ہے تو معجزانہ طاقتیں بھی دکھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اگر مسلمان بیدار نہیں ہوتےتو خدا تعالیٰ ہی اپنی قدرت کا ہاتھ دکھائے۔ مسلمان چاہے کتنے ہی بُرے ہیں لیکن بہرحال مسلمان تو کہلاتے ہیں اور ان کے گرنے کی وجہ سے اسلام کی ترقی میں مشکلات پیدا ہوں گی اور تبلیغ کے رستہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ دوسری قوموں کی نظر میں اسلام ذلیل ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! تُو یہ نہ دیکھ کہ یہ مسلمان کیسے ہیں بلکہ تُو یہ دیکھ کہ مسلمانوں کے گرنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اِس طور پر اللہ تعالیٰ کی غیرت کو اُکسانا چاہئے او رمتواتر دعائیں کرنی چاہئیں اور ان حالات کی تفصیلات کو مدنظر رکھ کر دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ دل میں جوش پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور مسلمانوں سے یہ مصائب کے دن دور ہو جائیں۔ ’’
(الفضل 10 ستمبر 1946ء )
1: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ272، 273 مطبوعہ مصر 1936ء
2: کنز العمال جلد 13 صفحہ 37 مطبوعہ حلب میں غزوہ تبوک کا ذکر ہے۔
3: ابو داؤد کتاب الصَّلٰوة باب مَتٰی یُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلٰوةِ
4: الماعون: 5


32
وقت آ گیا ہے کہ جماعت تبلیغ کے لئے وفد در وفد نکلے
( فرمودہ 6 ستمبر 1946ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قرآن کریم میں رسولوں کا ایک ہی کام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا 1 کہ ہم نے تجھے ایک ہی کام کے لئے بھیجا ہے جس کے دو حصے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تُو مومنوں کو بشارت دے اور دوسرے متکبر اور سرکش انسانوں کو ہوشیار کرے۔ اِس آیت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نبی کا کام یہ ہے کہ جو لوگ اُس پر ایمان لے آئیں اُن کی تربیت کرے اور جو اسے نہیں مانتے ان کو سمجھائے کہ وہ سچائی کو قبول کر لیں۔ نبی اپنے ماننے والوں کے لئے بشیر اور نہ ماننے والوں کے لئے نذیر ہوتا ہے۔ نبی کی تعلیم پر عمل کرنے سے دنیا میں نیکی اور تقویٰ پھیلتا ہے اور بنی نوع انسان کو آرام اور سُکھ کی زندگی نصیب ہوتی ہے اور بلحاظ نذیر ہونے کے غافل لوگوں کو اُن کی خوابِ غفلت سے جگایا جاتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ انبیاء جو کام شروع کرتے ہیں اُن کی وفات کے بعد اُن کی جماعتیں اُن کاموں کو جاری رکھتی ہیں۔ نبوت کی ضرورت اُسی وقت ہوتی ہے جب لوگ ہدایت سے دور چلے جاتے ہیں اور پہلے نبی کی تعلیم اور اُس کے مشن کو بالکل بھول جاتے ہیں اور ان کی تبلیغی جد و جہد ختم ہو جاتی ہے ۔ دلوں میں محبت کی بجائے شقاق او رنفاق جاگزین ہو جاتا ہے اور ان میں اِس قدر پراگندگی پیدا ہو جاتی ہے کہ ان دلوں کا جمع کرنا محال ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں نبی آتا ہےوہ آ کر اُن چیزوں کو دور کرتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کے عقائد اور اخلاق سہولت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ایک بہت بڑی کشمکش کے بعد حق غالب آتا ہے اور باطل اپنی پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے۔ جب لوگ اپنے غلط عقیدوں پر پختہ ہو جاتے ہیں تو وہ ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ان غلط عقائد کو ان کے دلوں سے نکالنے کے لئے کافی وقت لگتا ہے۔ معمولی معمولی عادتوں کو چُھڑوانا بعض اوقات کئی سال لگا دیتا ہے۔ تو غلط عقائد کس طرح یکدم بدلے جا سکتے ہیں۔ بڑے آدمی تو ایک طرف رہے بچوں کی بد عادات کا دور کرنا ہی بہت مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے لئے ایک بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے۔ جب بچوں کی بد عادات بہت مشکل سے چُھڑائی جا سکتی ہیں تو کسی انسان کا یہ سمجھ لینا کہ وہ بڑے آدمیوں کے اعمال و عقائد کو آسانی سے تبدیل کر لے گا سراسر نادانی ہے۔ اس کام کے لئے جب تک رات دن ایک نہ کئے جائیں کامیابی ناممکن ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے لوگوں نے انبیاء کے پیغام کو آسانی اور سہولت سے نہیں مانا۔ اگر وہ ماننے کے لئے تیار ہوتے تو اُن کو دکھ اور تکلیف کیوں دیتے۔ حضرت آدمؑ کو اُس مقام سے نکلنا پڑا جس کو قرآن کریم نے جنت کہا ہے اور اُنہیں پُرمصائب زندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت نوحؑ کو بھی دشمنوں کی تکلیفوں کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ قوم کے اس سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن پر طوفان لایا اور اُن کو غرق کر دیا۔ اگر وہ آسانی سے مان جاتے اور حضرت نوحؑ سے اس قسم کا سلوک نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو غرق نہ کرتا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے لئے اُن کے دشمنوں نے چِتا تیار کی اور اُن کو آگ میں ڈال کر جلانے کا ارادہ کیا۔ آخر حضرت ابراہیمؑ کو ہجرت کرنی پڑی اور اپنے ملک کو خیر باد کہنا پڑا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم نے فرعون کے ہاتھوں بہت سے دکھ اٹھائے۔ آخر اپنے ملک کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ فرعون نے پیچھا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور آپ کے ساتھیوں کو نجات دی اور فرعون کو غرق کر دیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمنوں نے بھی وہی پہلی چال چلی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر لٹکا کر مارنے کی کوشش کی گئی، آپ کے حواریوں کو مارا پیٹا گیا اور بعض کو شہید کیا گیا اور ایک لمبے عرصے یعنی تین سَو سال کے بعد جا کر آپؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ رسول کریم ﷺ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو دکھ دئیے گئے تمام انبیاء کے مخالفین سے بڑھ کر تھے۔ آپؐ کے دشمنوں نے بے گناہ بچوں اور عورتوں کو قتل کیا اور اِس قدر مظالم کئے کہ اُن کو بیان کرتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر نبی کے خلاف اس کے دشمنوں کا کینہ و بُغض بتاتا ہے کہ غلط عقائد کو دلوں سے نکالنا آسان کام نہیں۔ ہمارے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو آپ کےد شمنوں نے تکلیفیں دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آپ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں آئینی حکومت تھی اور دشمن اپنی ناپاک کوششوں کے باوجود آپ کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچا سکے۔ لیکن ہندوستان سے باہر افغانستان میں ہمارے پانچ احمدی شہید کئے گئے، مصر میں ایک احمدی شہید کیا گیا اور کئی ملکوں میں احمدیوں کو بہت سی تکلیفیں دی گئیں۔ ابھی پیچھے ہی ایک احمدی دوست شریف دوتسا نامی جو کہ البانیہ کے رہنے والے تھے امن پسند ہونے اور کمیونزم کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے شہید کئے گئے۔ ہمارے ملک میں چونکہ آزاد حکومت نہ تھی اِس لئے دشمن احمدیوں کو سنگسار نہ کر سکے اور نہ ہی ان کو پھانسی پر لٹکا سکے۔ اِس کے سوا احمدیوں کو ہر قسم کی تکلیفوں کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں گھروں سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کر دیا گیا او رجہاں تک بس چلا مار پیٹ سے بھی دریغ نہ کیا۔ قادیان میں ہی جس کے ہم مالک ہیں لوگوں نے آپس میں سمجھوتہ کر کے ہمارا کُلّی طو پر مقاطعہ کر دیا۔ قادیان کے حجاموں کو منع کر دیا گیا کہ وہ ہماری حجامت نہ بنائیں، دھوبیوں کو منع کر دیا گیا کہ وہ ہمارے کپڑے نہ دھوئیں، کمہاروں کو منع کر دیا گیا کہ وہ ہمیں برتن بنا کر نہ دیں، قصابوں کو منع کر دیا گیا کہ وہ ہمیں گوشت نہ دیں۔ غرض ہرقسم کی تکلیفیں ہمیں دی گئیں۔ یہاں تک کہ مسجد کے آگے دیوار کھینچ دی گئی کہ احمدی نماز پڑھنے کے لئے نہ آ سکیں جو کہ دو سال کے مقدمے کے بعد گرائی گئی اور آج تک اِس قدر گالیاں قادیان میں دی جاتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ قادیان سے باہر تو احمدی اَور بھی زیادہ تختۂ مشق بنے ہوئے تھے۔ گاؤں میں کمین لوگوں میں سے کوئی اگر احمدی ہو جاتا تھا تو اُس کا گاؤں میں رہنا محال ہو جاتا تھا۔ کمزور اور غریب زمینداروں کی فصلیں کاٹ لی جاتی تھیں اور اس طرح انہیں مجبور کیا جاتا کہ وہ احمدیت کو چھوڑ دیں۔ قادیان میں جس کے ہم مالک ہیں ہمارے ساتھ ایسا تکلیف دہ سلوک کیا جاتا تھا تو باہر والوں سے کیا کچھ ہؤا ہو گا۔ ہماری جماعت میں سینکڑوں انسان ایسے ہیں جن کو اِس قسم کی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سینکڑوں والدین ایسے ہیں جن کو ان کے بچوں نے احمدیت کی وجہ سے چھوڑ دیا او رسینکڑوں بچے ایسے ہیں جن کو ان کے والدین نے احمدیت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ سینکڑوں خاوند ایسے ہیں کہ احمدی ہو جانے کی وجہ سے ان کی بیویوں نے ان کے گھر رہنے سے انکار کر دیا اور سینکڑوں عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوندوں نے ان کے احمدی ہو جانے کی وجہ سے ان کو طلاق دے دی اور بعض والدین نے تو یہاں تک کیا کہ اپنے احمدی بچوں کو اپنی جائیداد سے ہی لاوارث کر دیا۔ یہاں ڈلہوزی میں ہی ایک احمدی دوست ملنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد صاحب نے مجھے جائیداد سے لاوارث کر دیا ہے۔ جب سے مَیں احمدی ہؤا ہوں پہلے سے بہت زیادہ ان کی خدمت کرتا ہوں اور جو مانگتے ہیں حاضر کرتا ہوں حالانکہ میری مالی حالت اچھی نہیں۔ باوجود ان تمام باتوں کے میرے والد صاحب نے لکھ دیا ہے کہ مَیں اسے لاوارث کرتا ہوں۔ یہ لمبا سلسلہ عداوتوں کا بتاتا ہے کہ انبیاء کے دشمنوں کو انبیاء اور ان کی جماعتوں سے کس قدر کینہ اور ُبغض ہوتا ہے او راسے آسانی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ اسے دور کرنے کے لئے ایک بہت بڑی جد و جہد اور قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت دیوانہ وار تبلیغ میں لگ نہ جائے اور جب تک دنیا اسے مجنون نہ کہنے لگ جائے اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی۔
آج ہم بھی اسی رستہ پر چل رہے ہیں جس پر پہلے انبیاء کی جماعتیں چلتی رہی ہیں۔ اگر حضرت نوحؑ کے زمانہ میں حضرت نوحؑ کی جماعت کو دیوانہ اور مجنون کہا گیا، اگر حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں آپ کی جماعت کو دیوانہ اور پاگل کہا گیا، اگر حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں آپ کی جماعت کو دیوانہ اور پاگل کہا گیا، اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں آپ کی جماعت کو پاگل اور مجنون کہا گیا، اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کے ساتھیوں کو مجنون اور دیوانہ سمجھا گیا تو کیا وجہ ہے کہ ہماری جماعت کو دیوانہ اور مجنون نہیں کہا جاتا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی ہماری کوشش اس مقام پر نہیں پہنچی اور ابھی ہم نے اس رنگ میں کام شروع نہیں کیا کہ دنیا ہمیں مجنون سمجھنے لگ جائے۔ بغیر دیوانہ کہلائے منزلِ مقصود تک پہنچنا مشکل ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ابتلاؤں کے زمانہ کو لمبا کر دیا تاکہ ہمیں تکالیف سہنے کی عادت پیدا ہو جائے او رجُوں جُوں ہماری طاقت بڑھتی جائے ، تُوں تُوں ہم پر آہستہ آہستہ بوجھ لادا جائے۔ لیکن اب مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے لئے ابتلاؤں کے دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اِس وقت اِس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم تبلیغ کو وسیع کریں اور تبلیغ کے لئے نئے نئے مرکز کھولیں اور ہندوستان اور بیرونی مراکز کو مضبوط کریں۔ او ریہ کام ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ جماعت کی مرکزی ضروریات پوری نہیں ہوتیں او رجب تک مرکز ہر رنگ میں مضبوط نہیں ہوتا اُس وقت تک تبلیغ کو وسعت نہیں دی جا سکتی۔ کام کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو احمدیت کے مقابل پر دو چار لاکھ ، دس لاکھ یا بیس لاکھ آدمیوں کو احمدی بنانے کا سوال نہیں بلکہ صرف ہندوستان میں ہی چالیس کروڑ انسان رہتے ہیں۔ اِتنی بڑی تعداد کو احمدیت میں داخل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تو ساری دنیا کے لئے آئے ہیں او رہم نے ساری دنیا کو احمدی بنانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام اپنے آقا کے نقشِ قدم پر آئے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی بعثت تمام دنیا کے لئے تھی۔ اب آپؐ کے بعد جو بھی آپ کا غلام آئے گاوہ بھی تمام دنیا کے لئے آئے گا۔ لیکن رسول کریم ﷺ کو فوری طور پر جس ملک سے واسطہ پڑا اُس وقت اُس کی تعداد دس بارہ لاکھ تھی۔ گویاجتنی آبادی اس وقت تمام عرب کی تھی آج اُتنی آبادی صرف ضلع گورداسپور کی ہے۔ لیکن کیا ہماری تبلیغ کا وہی حال ہے جو صحابہؓ کی تبلیغ کا تھا۔ اگر صرف ضلع گورداسپور میں ہی ہماری اکثریت ہو جاتی تو بھی کسی حد تک اپنے آپ کو تبلیغ میں کامیاب سمجھ سکتے تھے لیکن ابھی ضلع گورداسپور میں بھی ہماری تبلیغ مؤثر نہیں سمجھی جا سکتی۔ اور پنجاب میں تیس ضلعے ہیں او رپنجاب کی کُل آبادی دو کروڑ اَسّی لاکھ کے قریب ہے۔ گویا رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے پچیس گُنے زیادہ ہے۔ اس آبادی کے لحاظ سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پچیس گُنے زیادہ تبلیغ کریں اور اگر سارے ہندوستان کو تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمیں تین سو ساٹھ گُنے زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے۔ گویا اگر صحابہ کرامؓ نے ایک دن تبلیغ کی تو ہمیں سال بھر تبلیغ کرنی چاہئے۔ لیکن صحابہؓ نے جو تیاری اپنے اس ایک دن کے لئے کی تھی ہم وہ تیاری تین سو ساٹھ دنوں کے لئے بھی نہیں کرتے بلکہ صحابہؓ کی ایک دن کی تیاری سے دسواں حصہ بھی تیاری نہیں کرتے۔ ہر کام کے لئے اس کے مناسبِ حال محنت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص نے دس سیر آٹا پکانا ہے تو اُسے اُس کے مطابق تیاری کرنی چاہئے۔ اور اگر ایک شخص نے ایک سیر آٹا پکانا ہے تو اُسے اس کے مطابق تیاری کرنی چاہئے۔ لیکن اگر ایک سیر والا تو اپنے لئے سامان جمع کرے اور جتنی چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب مہیا کرے لیکن جس نے دس سیر آٹا پکانا ہے وہ نہ لکڑیاں لائے اور نہ ہی دوسرا سامان جمع کرے تو ایسے شخص کو ہر انسان بے وقوف اور بداندیش کہے گا۔ فرض کرو کہ ایک شخص کے گھر میں ایک مہمان آتا ہے وہ اس کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے، بازار سے سودا لاتا ہے، اگر کوئی چیز گھر میں موجود نہیں ہے تو وہ ہمسایہ کے گھر سے مانگ لیتا ہے اور اپنے مہمان کو اچھی طرح کھانا کھلاتا ہے۔ جب اس کا مہمان کھانا کھالے گا تو وہ اس کے لئے عزت کا موجب ہو گا اور اسے عین وقت پر کوئی پریشانی نہ ہو گی۔ کیونکہ اس نے تمام اشیاء وقت سے پہلے جمع کر لی تھیں۔ لیکن ایک دوسرا شخص ہے جس کے گھر میں سو مہمان آئے ہیں لیکن اسے کوئی فکر نہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے سب انتظام ہو جائے گا لیکن کھانے کے وقت وہ مہمانوں کے کھانے کا انتظام نہیں کرسکا تو جو اسے ندامت اٹھانی پڑے گی اس کا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عقلمند انسان وہی ہوتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ مجھے ان ان چیزوں کی ضرورت پڑنے والی ہے اور وہ ان کے لئے پہلے سے تیاری شروع کر دے۔ پس اگر ہم پورے طور پر تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عرب سے تین سو ساٹھ گُنے زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے اور ہمیں صحابہؓ سے تین سو ساٹھ گُنے زیادہ قربانی کرنی چاہئے۔
صحابہؓ کی شاندار قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت جلد فتح عطا کی۔ مہاجرین اور انصار کے نام اس لئے عزت سے لئے جاتے ہیں کہ انہوں نے بہت شاندار قربانیاں پیش کیں اور اپنی جان و مال اور عزت ہر چیز کی قربانی کر کے اسلام کی بنیاد قائم کی۔ صحابہؓ کے بعد حضرت امام ابو حنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ، حضرت امام حنبلؒ،حضرت امام شافعیؒ جیسے لوگ آئے۔ ان لوگوں نے بھی اسلام کی بہت خدمت کی لیکن ان کا کام ایسا ہی تھا کہ مکان بن چکا ہو اور اس میں بیل بُوٹے بنائے جائیں۔ بے شک یہ لوگ بھی بڑے پائے کے انسان تھے لیکن ان سے حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت حسانؓ کا کام بھی زیادہ شاندار ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت حسانؓ نے اُس وقت کام کیا جس وقت اسلام کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور اسلامی عمارت تعمیر ہو رہی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے اس مکان میں بیل بوٹے بنانے کا کام کیا۔ اگر مکان میں بیل بُوٹے نہ ہوں تو بھی گزارہ ہو سکتا۔ لیکن مکان کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ جو کام حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے کیا۔ا گر وہ اِس کام کو سر انجام نہ دیتے تو آج اسلام نہ ہوتا۔ لیکن جو کام حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام حنبل ؒ اور حضرت امام شافعیؒ نے کیا۔ اگر وہ یہ کام نہ بھی کرتے تو بھی اسلام باقی رہتا۔
پس صحابہؓ کی عزت بعد میں آنے والے بزرگوں سے اس لئے زیادہ ہے کہ اسلام کی بنیاد ان کے ذریعہ پڑی۔ ورنہ روحانی لحاظ سے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ آج بھی انسان صحابہؓ کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آج کوئی شخص صحابہؓ کےد رجہ کو نہیں پہنچ سکتا تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ خود قرآن کریم کہتا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ 2اور اِسی سورة میں دوسری جگہ ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۔3 اِن آیات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ بعد میں بھی کچھ لوگ صحابہؓ کے درجہ کے ہوں گے۔ گو رسول کریم ﷺ کے قُرب کی وجہ سے پہلے لوگوں میں سے ایسے لوگ زیادہ تھے اور بعد میں آنے والوں میں سے تھوڑے ہوں گے کیونکہ اس وقت رسول کریم ﷺ سے بُعد ہو چکا ہو گا۔ آپؐ کے قُرب کی وجہ سے حضرت ابو بکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ جیسے لوگ سینکڑوں میں سے بیسیوں تھے اور آپ کے زمانہ کے بُعد کی وجہ سے آپ کے بعد آنے والوں میں سے لاکھوں میں سے سینکڑوں ہوں گے لیکن ہوں گے ضرور۔ اور کوئی وقت اسلام پر ایسا نہیں آیا او رنہ ہی آ سکتا ہے جبکہ اسلام پر بالکل اندھیرا چھا جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں جہاں تک روحانی مدارج کا سوال ہے حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام حنبلؒ، حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ اور معین الدین چشتیؒ میرے نزدیک کئی صحابہؓ سے کم نہ تھے۔ لیکن جہاں تک مقامِ عزت کا سوال ہے یہ لوگ صحابہؓ سے کم ہیں کیونکہ صحابہؓ اسلام کی عمارت کی بنیاد رکھنے والے تھے اور یہ لوگ اس عمارت کو سجانے والے تھے۔ یہ دونوں گروہ عزت کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔
پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو قربانی ہم پر عائد کی گئی ہے جب تک ہم وہ قربانی نہ کریں اُس وقت تک ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی برکت اور رحمت کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ اگر ہمیں جلدی جلدی فتوحات حاصل نہیں ہوئیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی ہم میں غفلتیں اور سُستیاں موجود ہیں جو ہمیں کامیابی کے قریب نہیں جانے دیتیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے دروازے ہمارے لئے بند نہیں۔ اگر پہلی جماعتوں نے قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا اور سینکڑوں طرح کی رحمتیں اور فضل ان پر نازل ہوئے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اگر ہم بھی اسی قسم کی قربانیاں کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنے فضلوں کے دروازے نہ کھولے۔ ان لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا کوئی رشتہ تھا کہ وہ ان کو جلدی کامیاب کر دے اور ہمارے لئے دیر کرتا چلا جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو شخص بھی صحابہؓ جیسے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے صحابہؓ جیسا ہی سلوک کرے گا۔ جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں جیسے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اُس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں جیسا ہی سلوک کرے گا۔ جو شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں جیسے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اُس سے آپ کے ساتھیوں جیسا سلوک ہی کرے گا۔ جو شخص حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھیوں جیسے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آپ کے ساتھیوں جیسا ہی سلوک کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ منصف ہے او رعادل ہے وہ ہر ایک سے عدل کرتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ وہ رحم کر کے عمل سے اس کی مزید جزا دیتا ہے اور وہ کسی کا حق نہیں مارتا۔ ہماری جماعت بھی اگر قربانیوں میں صحابہؓ کا رنگ اختیار کرے اور تبلیغ کے لئے نکل کھڑی ہو تو وہ کامیابی کو بہت قریب پائے گی۔
مَیں نے کل رات ایک رؤیا دیکھا ہے جس میں جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک کمرے میں ہوں اور خواب میں یہی سمجھتا ہوں کہ مَیں قادیان میں ہوں۔ کمرے میں کچھ لوگ میرے سامنے ہیں او رکچھ لوگ دروازہ میں سے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں جماعت کے دوستوں کو جماعت وار تبلیغ کے متعلق ہدایات دے کر تبلیغ کے لئے رخصت کر رہا ہوں۔ ایک وفد میرے سامنے آیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے مَیں اُن کو ہندوؤں کی طرف بھیج رہا ہوں۔ مجھے یاد ہے اس وقت میں جوش کےساتھ ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جاؤ یہ علاقے ہندوؤں کے ہیں ان میں پھیل جاؤ اور اُن کو کہو کہ جس اوتار کے آنے کی خبر تمہاری کتب میں ہے وہ اوتار آ چکا ہے تم اُسے مان لو۔ا گر نہیں مانو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورِد بن جاؤ گے۔تم اب اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گے جبکہ وہ بھی جو اس اوتار کا مثیل ہے آ گیا ہے اور تمہیں مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ تم اپنی زندگی برباد نہ کرو۔ پھر ان سے یہ بھی کہو کہ آنے والا اوتار اور اس کا مثیل بھی اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کا خادم کہتے ہیں۔ پس تم کو محمدؐ رسول اللہ پر ایمان لا کر مسلمان ہونا پڑے گا۔ پھر مَیں اس وفد میں جانے والے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اب تم جاؤ اور اس تمام علاقے میں چھا جاؤ۔ خواب میں مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے ہیں اِسی طرح میرے پاس مبلّغوں کا ایک تانتا بندھا ہؤا ہے جن کو مَیں مختلف قوموں کی طرف بھیج رہا ہوں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر جماعت جلدی کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہندوؤں میں تبلیغ کو مؤثر بنانے کے رستے کھولے گا او رہندوؤں میں یہ تجسس پیدا ہو گا کہ وہ اسلام کی طرف متوجہ ہوں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو کہ ہندوؤں کے متعلق ہے اے ردّھر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی ہے۔4 اسی طرح آپ کا ایک اَور الہام ہے ‘‘جے سنگھ بہادر’’5 یہ عجیب بات ہے کہ ہندو شروع شروع میں ‘‘بندے ماترم’’ کا نعرہ لگاتے تھے۔ اب انہوں نے‘‘ بندے ماترم ’’کا نعرہ چھوڑ دیا ہے اوراب ‘‘جے ہند’’ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جاپان سے لڑائی کےد وران میں سبھاش چندر بوس 6نے جو آزاد ہند فوج کھڑی کی۔ پہلے اس نے ‘‘جے ہند’’ نعرہ لگانا شروع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ آہستہ آہستہ ہندوؤں نے ‘‘بندے ماترم’’ کا نعرہ چھوڑ دیا ہے اور اب ‘‘جے ہند’’ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ یہ لوگ ‘‘جے ’’کے نعرے کے عادی ہو جائیں۔ اور جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں‘‘ جے’’ کا لفظ دیکھیں تو انہیں احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو۔
آپ کے الہامات میں سے ایک الہام ہندوستان کے متعلق یہ بھی ہے کہ‘‘ رسول اللہ ﷺ پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں’’7 معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عزت کا مقام حاصل ہونے والا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ باقی اسلامی دنیا میں سے اِس وقت ہندوستان ہی ایسی جگہ ہے جہاں اسلام ظاہری طور پر موجود ہے۔ احمدیت اور غیر احمدیت کے سوال کو جانے دو۔ جہاں تک رسمی اسلام کا سوال ہے ہندوستان میں مکہ اور مدینہ سے بھی زیادہ رسمی طور پر اسلام موجود ہے۔ مَیں دیکھتاہوں کہ مکہ مدینہ جانے والوں میں سے کئی لوگ وہاں سے دہریہ ہو کر لَوٹتے ہیں کیونکہ جب یہ لوگ مکہ مدینہ جاتے ہیں تو اپنے دلوں میں بہت نیکی اور تقویٰ کا تصور لے کر جاتے ہیں کہ وہاں کے لوگ بہت فرشتہ سیرت ہوں گے لیکن جب وہاں کے لوگوں کا بُرا نمونہ دیکھتے ہیں تو جلد ہی ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان لوگوں پر تیرہ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب ان کے پاس اصل اسلام نہیں رہا۔ یہ تو ان کی بگڑی ہوئی حالت ہے۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ اپنی حالت کو درست کرنے کی بجائے خراب کر کے آتے ہیں اور نیک دل ہونے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ سنگدل ہو کر واپس آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مثل مشہور ہے کہ کسی اسٹیشن پر ایک اندھی عورت گاڑی کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جب گاڑی آئی اور اُس میں سے مسافر اُترے تو کسی مسافر نے اس بیچاری بوڑھی عورت کی چادر اُٹھا لی۔ چونکہ صبح کی نماز کا وقت ہونے والا تھا اُس نے اپنی چادر تلاش کی لیکن نہ ملی۔ تو اس نے بے ساختہ کہا۔ بھائی حاجی! مجھ اندھی کے پاس ایک ہی چادر تھی وہ واپس کر دو ورنہ میں سردی سے مر جاؤں گی۔ ابھی وہ یہ بات کہہ ہی رہی تھی کہ ایک شخص نے چادر لا کردے دی اور کہا یہ لے اپنی چادر۔ لیکن تُو مجھے یہ بتا کہ تجھے کس طرح علم ہؤا کہ مَیں حاجی ہوں؟ اُس عورت نے جواب دیا کہ اس قسم کے سنگدلی کے کام حاجیوں کے سوا کون کر سکتا ہے۔ اِس سنگدلی کے پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ جب حاجی مکہ مدینہ جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی دنیا طلبی اور لُوٹ مار کی حالت دیکھتے ہیں تو اُن کے ایمان متزلزل ہو جاتے ہیں کہ اگر مکہ مدینہ کے رہنے والے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
اِس سے زیادہ تکلیف دہ نظارہ اَور کیا ہو سکتا ہے کہ منٰی کے مقام پر قربانی کے دن مَیں نے چھ بکرے ذبح کروائے۔ ایک بکرا رسول کریم ﷺ کی طرف سے ، ایک بکرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے، ایک حضرت خلیفہ اول کی طرف سے، ایک حضرت والدہ صاحبہ کی طرف سے، ایک اپنی بیوی کی طرف سے، ایک جماعت کی طرف سے اور دو تین بکرے میر صاحب اور دوسرے ساتھیوں نے ذبح کروائے ۔ لیکن وہاں حالت یہ تھی کہ قصاب چُھری پھیر کر ابھی ہاتھ نہیں اٹھاتا تھاکہ بکرا غائب ہو جاتا تھا۔ جب ایک دو بکرے اِس طرح غائب ہو گئے تو مَیں نے قصاب سے پوچھا کہ بکرا جو ذبح کیا گیا تھا وہ کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ تو یہ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں او راِسی طرح وہ تمام بکرے لُوٹ مار کر کے اُٹھا لے جائیں گے۔ یہاں کوئی شخص اگر بکرا بچانا چاہے تو لڑ کر ہی بچا سکتا ہے۔
ایک اَور واقعہ اِسی قسم کا عین خانہ کعبہ میں میرے ساتھ ہؤا۔ خانہ کعبہ میں طواف کرتے ہوئے ہر بار حجرِ اسود کو بوسہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور اِس ہجوم کی وجہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھوٹی سی جگہ ہے۔ لوگ قطاروں کی صورت میں چلتے ہیں۔ اس تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے یہ اجازت دے دی کہ اگر انسان اس طرف سے گزرتے ہوئے حجرِ اسود کی طرف ہاتھ یا سوٹی کا اشارہ کر کے چُوم لے تو وہ بھی حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ لیکن مَیں نے دل میں یہ پختہ ارادہ کیا ہؤا تھا کہ جس طرح بھی ہو۔ خواہ کتنی ہی دیر لگ جائے۔ مَیں ہر دفعہ حجر اسود کو بوسہ دوں گا۔ ایک دفعہ مجھے حجرِ اسود تک پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ ہجوم بہت تھا او ربڑی مشکل سے آہستہ آہستہ مَیں حجر اسود تک پہنچا۔ مَیں حجر اسود کو چومنے لگا ہی تھا کہ مجھے پیچھے سے آواز آئی یا شیخ! حرم!! کہ بھائی ایک طرف ہونا، عورتیں حجر اسود کو چُومنا چاہتی ہیں۔ مَیں اِس خیال سے کہ عورتیں پہلے چُوم لیں ایک طرف ہو گیا۔ لیکن مَیں نے دیکھا کہ وہاں عورت تو کوئی نہ تھی بلکہ کچھ عرب لمبے لمبے نوجوان ہنستے اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کو بوسہ دینے لگے۔ گویا وہ اس بات پر بہت خوش ہو رہے تھے کہ ہم نے دھوکا دے کر حجر اسود کو پہلے چُوم لیا ہے۔ اور یہ عین خانہ کعبہ کا واقعہ ہے جو کہ خشیتُ اللہ پیدا کرنے کے لئے انتہائی مقام ہے۔اس کے علاوہ مکہ مدینہ میں مسکرات کا استعمال کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ قتل و غارت کے واقعات بھی بکثرت ہوتے رہتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر حاجی لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب مکہ اور مدینہ میں یہ کچھ ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ اگر یہ گناہ کی بات ہوتی تو مکہ اور مدینہ کے لوگ کیوں کرتے۔
ایک خوبی جو مجھے مکہ کے لوگوں میں نظر آئی وہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ مکہ کے لوگ نمازوں کے بہت پابند ہیں اور خانہ کعبہ کو آباد رکھتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ اپنی اِس خوبی کی وجہ سے خدا کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ مکہ سے باہر نماز نہیں ہے۔ قاہرہ میں جو جامع مسجد ہے اس میں لاکھ آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ وہ مسجد دہلی کی جامع مسجد سے کئی گنا بڑی ہے۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ اس مسجد میں کل سات آدمی نماز پڑھ رہے تھے یعنی ایک امام اور چھ مقتدی۔ اور امام مسجد بجائے اصل محراب میں کھڑا ہونے کے ایک کونہ میں نماز پڑھا رہا تھا۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ آپ اصل محراب میں کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟ اس نے کہا کہ مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اگر کوئی عیسائی مسجد دیکھنے کے لئے آئے تو وہ کیا خیال کرے گا۔ اس لئے مَیں اصل محراب میں کھڑا نہیں ہوتا تاکہ اگر کوئی دیکھے بھی تو وہ یہ سمجھے کہ اصل جماعت تو ہو چکی ہے اور یہ لوگ اتفاقی طو رپر پیچھے رہ گئے تھے اور اب نماز ادا کر رہے ہیں۔ مَیں نے اسے کہا کہ آپ لوگوں کو نماز کے لئے تحریک کیوں نہیں کرتے؟ اس نے جواب دیا کہ کیا کروں؟ بہت کہا ہے مگر وہ آتے نہیں ہیں۔
ان کے اسلام کا تمہیں اس سے بھی اندازہ ہو جائے گا کہ مسقط کا مفتی میرے ساتھ جہاز میں سوار تھا۔ جب ہم قاہرہ میں اُترے تو اُس نے مجھے پتہ بتایا کہ فلاں ہوٹل میں مجھے ملنا۔ جب مَیں اسے ملنے کے لئے ہوٹل میں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ وہ اور قاہرہ کا مفتی بیٹھے ہوئے جؤا کھیل رہے تھے۔ میرے وہاں پہنچنے پر مسقط کا مفتی تو جؤا کھیلنے سے رُک گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مَیں مذہبی آدمی ہوں۔ لیکن قاہرہ کا مفتی چونکہ مجھے نہیں جانتا تھا اِس لئے وہ اُسے مجبور کرتا کہ کھیلو بھی، کھیل چھوڑ کر کیوں بیٹھ گئے ہو، کھیل خراب ہو رہی ہے۔ لیکن مسقط کا مُفتی مجھ سے شرمانے کی وجہ سے چھوڑ کر بیٹھ گیا۔
تو حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں ظاہری اسلام بھی نہیں ہے۔ لیکن ہندوستان میں تو ہزاروں لاکھوں میں ظاہری اسلام موجود ہے۔ بے شک ہندوستان کے مسلمانوں میں گناہ ہیں، خرابیاں ہیں لیکن دل میں اسلام کی محبت موجود ہے۔ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں پر اگر کوئی ظلم ہو تو ہندوستان کے مسلمان ان کے لئے شور مچاتے ہیں۔ ٹرکی پر اگر کوئی ظلم ہو تو ہندوستان کے مسلمان جان دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر مصر پر کوئی ظلم ہوتو ہندوستان کے مسلمان اس کے شریکِ غم بنتے ہیں۔ اگر عرب پر کوئی ظلم ہو تو ہندوستان کے مسلمان مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان اگر کسی تکلیف میں مبتلا ہوں تو ہندوستان کے مسلمان ان کے حصہ دار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایران اور افغانستان کو کوئی دوسرا ملک دبانے کی کوشش کرے تو ہندوستان کے مسلمان اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن دوسرے اسلامی ممالک کا ہندوستان سے یہ سلوک ہے کہ آجکل ہندوستان کے مسلمانوں پر مصائب نازل ہو رہے ہیں اور ان کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ان کے لئے نہ فلسطین کے مسلمانوں کے دلوں میں درد پیدا ہوتا ہے نہ مصر کے مسلمانوں کے دلوں میں درد پیدا ہوتا ہے،نہ ٹرکی کے مسلمانوں کے دلوں میں درد پیدا ہوتا ہے، نہ ہی ایران اور افغانستان کے مسلمانوں کے دلوں میں درد پیدا ہوتا ہے۔ وہ جھوٹی سچی اخوت اور ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ان ممالک کا ایسے موقع پر خاموش رہنا یہ بتاتا ہے کہ ان کو ہندوستان کے مسلمانوں کی تکلیف کا احساس نہیں۔
ہندوستان کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ابھی مسلمانوں کے لئے موقع ہے۔ اگر وہ قدم جمانا چاہیں تو جما سکتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری جماعت کی ذمہ داریاں اَور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اسی رؤیا میں جس کا مَیں اوپر ذکر کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت تبلیغ کے لئے وفد دَر وفد نکلے اور اپنی تبلیغ کو پوری طرح کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔ پس تمام افرادِ جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے اور تاریک مستقبل کو روشن بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہی مسلمانوں کا اور ہمارا محافظ ہے۔ ہماری ترقی دوسرے مسلمانوں کی ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر دوسرے مسلمانوں کو اِس وقت کوئی نقصان پہنچے توہم اس سے بچ نہیں سکتے۔ لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کی بھی مدد کریں لیکن سب سے مقدم فرض اسلام کو مضبوط کرنا ہے، اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ ورنہ ہم نے تمام دنیا کے اعمال اور عقائد کی غلطیاں نکال کر اُن کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ اگر ہم جلدی کامیاب نہ ہوئے تویہ لوگ اقتدار کے وقت ہماری تِکّا بوٹی اُڑا دیں گے۔ آج دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جو ہم سے خفا نہ ہو۔ عوام ہم سے خفا ہیں، لیڈر ہم سے خفا ہیں، سکھ ہم سے خفا ہیں ، عیسائی ہم سے خفا ہیں، کونسی جماعت اور کونسا مذہب ہے جس سے ہماری لڑائی نہیں ہوئی۔ گو یہ لڑائی عقائد کی لڑائی ہے لیکن دنیا میں اِس سے زیادہ مشکل لڑائی اَور کوئی نہیں۔ باوجود اِس کے کہ ہم کسی کو مارتے نہیں بلکہ ماریں کھاتے ہیں پھر بھی دنیا ہماری دشمن ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ عقائد اور خیالات پر جرح کرنا غیر مذاہب والوں کے نزدیک لڑائی سے کم نہیں۔ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ مکہ میں کسی کو مارتے تو نہ تھے پھر بھی دشمن نے آپؐ کو اور آپ کے صحابہؓ کو شدید سے شدید تکلیفیں دیں اور ان کے خلاف قتل کے منصوبے کئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ مکہ کے کفار کے عقائد اور اعمال کی غلطیاں نکالتے تھے اور آج وہی کام ہم کرتے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ ہم سے بھی ویسی ہی دشمنیاں اور عداوتیں رکھی جائیں۔ اور جب تک ہم یہ کام کرتے ہیں اس وقت تک دنیا ہمیں اپنا دوست نہیں سمجھتی۔ یہ تو صحیح ہے کہ ان کے خلاف ہم سازشیں نہیں کرتے، نہ ہی ہم ان پر حملہ کے منصوبے کرتے ہیں۔ پھر وہ کیوں ہمارے دشمن ہیں۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی جماعت کی قومی روایات پر حملہ کرنا اس کی جانوں پر حملہ کرنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ لوگ اپنی جانیں دے دیتے ہیں لیکن اپنی قومی روایات کے برخلاف نہیں سن سکتے کیونکہ قومی روایات پر جو حملہ ہوتا ہے اس سے ساری قومی عمارت گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پس یہ حملہ افراد پر حملہ کرنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی سکھ کے مرنے سے سکھوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر سکھوں سے یہ کہا جائے کہ حضرت باوا نانکؒ مسلمان تھے تو یہ عقیدہ ان کی ساری عمارت کو گِرا دینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح عیسائی مرتے ہیں ان کے مرنے سے یا ان کو مارنے سے عیسائیت کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو اِس سے عیسائی دنیا کی ساری عمارت جو اُلوہیتِ مسیح کے سہارا پر کھڑی ہے دھڑام سے زمین پر آ پڑتی ہے۔ مسلمان مرتے ہیں ان کے مرنے یا مارنے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ مسیح جس کے متعلق آپ لوگ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آ کر کافروں کو قتل کرے گا اور ان کی تمام دولت تمہارے حوالہ کر دے گا۔ تمہارا وہ مسیح نہیں آئے گا ، وہ مر چکا ہے اور جس نے آنا تھا وہ آ چکا ہے ایسا کہنے سے مسلمانوں کی امیدوں کے تمام قلعے مسمار ہو جاتے ہیں۔ ہندو ہر روز مرتے ہیں ان کے مرنے یا مارنے سے ہندو مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن اگر انہیں یہ کہا جائے کہ نہ کلنک اوتار جس کے تم منتظر ہو وہ آ گیا ہے مگر وہ ہندوؤں میں سے نہیں بلکہ وہ مسلمانوں میں سے آیا ہے اور اب جو اسے ماننا چاہے اس کے لئے رسول کریم ﷺ کی غلامی ضروری ہے۔ ایسا کہنے سے ان کے تمام خیالی محلات گرجاتے ہیں اور ان کی بادشاہت کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ پس کوئی قوم ایسی نہیں جس کی قومی عمارت پر ہم نے حملہ نہ کیا ہو اور کوئی قوم ایسی نہیں جس سے ہم نے ٹکر نہ لی ہو۔ اِس کے باوجود کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ غلبہ حاصل ہونے کی حالت میں یہ قومیں تم سے بدلہ لئے بغیر تمہیں چھوڑ دیں گی؟ وہ تو تمہارا قیمہ کر کے بھی خوش نہیں ہوں گی۔ بلکہ اگر اس سے بھی کوئی باریک چیز بن سکتی ہے تو وہ بنا کر خوش ہوں گی۔
پس ہو شیار ہو جاؤ اور بیدار ہو جاؤ کہ آنےو الا زمانہ بہت سی بھیانک اور مُہیب تکلیفیں اپنے ساتھ لا رہا ہے۔ تم میں سے جو ابھی تیاری نہیں کرے گا وہ حملہ کے وقت گر جائے گا۔ وہ پانچ سال جن میں جماعت کے لئے تغیرات کی توقع ہے وہ یہی پانچ سال معلوم ہوتے ہیں۔ وہ پانچ سال 1949ء میں جا کرختم ہوتے ہیں۔ ٭ بہرحال جتنے دن یا جتنے مہینے یا جتنے سال باقی ہیں اُن میں اپنی پوری تیاری کرو اور اپنے اندر عظیم الشان تغیر پیدا کرو اور دیوانہ وار تبلیغ میں لگ جاؤ۔ اگر ہماری تبلیغ کامیاب ہو گی تو ہماری زندگی بھی کامیاب ہو گی۔ ورنہ ہماری ذرا سی
٭پہلے ایک خطبہ میں 1948ء غلط چھپا ہے کیونکہ 1944ء میں مَیں نے وہ خواب دیکھا تھا۔
کوتاہی ہمیں بہت دور لے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری حقیر کوششوں کو بار آور کرے اور جب ہمیں موت آئے تو ہم خوش ہوں کہ ہم دنیا سے کامیاب جا رہے ہیں۔ ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ کامیابی کا سہرا اُس کے سر بندھے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس سے محروم نہ رہ جائیں۔’’ (الفضل یکم نومبر 1946ء )
1: الفرقان: 57
2: الواقعة : 40، 41
3: الواقعة : 14، 15
4: تذکرہ صفحہ 380۔ ایڈیشن چہارم میں الہام کے الفاظ یہ ہیں ‘‘ہے کرشن رُودّر گو پال تیری
مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔’’
5: تذکرہ صفحہ 672۔ ایڈیشن چہارم
6: سبھاش چندر بوس(Subas Chandra Bos)
1897 ءمیں پیدا ہوئے۔ نیتا جی(Netaji) کے نام سے معروف تھے ۔ ہندوستان کی
تحریک آزادی میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں سے تھے۔
7: تذکرۃ صفحہ 485 ۔ایڈیشن چہارم




33
بظاہر آنے والے دن ہماری جماعت کے لئے زیادہ خطرناک اور زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کرنے والے ہوں گے
(فرمودہ 13 ستمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:۔
‘‘زمانہ کے حالات بسُرعت بدل رہے ہیں اور ہر آنے والا تغیّر ہماری جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے والا معلوم ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو بظاہر حالات یہ تبدیلیِٔ مقام اپنے اندر بہت سے خطرات رکھتا تھا لیکن مسلمانوں کی قربانیاں اور اخلاص مل کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے جاذب ہوئے اور وہی چیز جو بظاہر ایک تکلیف دہ اور پُر مصائب نظر آتی تھی وہی آرام اور راحت کا موجب بنی۔ اور وہی چیز جو ناکامی اور نامرادی کا ذریعہ نظر آتی تھی وہی اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ مکہ والوں نے رسول کریم ﷺ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا۔ گو وہ اپنے قتل کے منصوبوں میں ناکام رہے لیکن وہ رسول کریم ﷺ کے مکہ چھوڑ جانے کو بھی اپنی فتح ہی سمجھتے تھے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد مکہ والوں نے مسلمانوں پر اس طرح ظلم کرنا چھوڑ دیا جس طرح وہ پہلے کیا کرتے تھے اور تین چار ماہ مسلمان اس قسم کی تکلیفوں سے بچے رہے کیونکہ مکہ والے سمجھتے تھے کہ ہم نے محمد( رسول اللہ ﷺ) کو نَعُوْذُ بِاللہ ختم کر دیا ہے۔ لیکن جب مکہ والوں نے دیکھا کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے فتح سمجھتے ہیں وہ دراصل ہماری شکست بن رہی ہے اور وہ چیز جسے ہم نے محمد (رسول اللہ ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کے لئے ناکامی اور نامرادی کا باعث سمجھا تھا وہ حقیقت میں اُن کے لئے کامیابی اور بامرادی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اور وہ شخص جسے ہم نے گھر سے بے گھر اور بے دَر کرنے کی کوش کی ہے وہ تو بہت سے گھروں کا مالک ہو گیا ہے تو مکہ والوں میں نئے سرے سے جوش پیدا ہؤا اور انہوں نے پھر مسلمانوں کو دکھ اور عذاب دینے شروع کر دئیے۔ پس وہ چیز جسے دشمنوں نے مسلمانوں کی ناکامی اور نامرادی کا ذریعہ سمجھا وہی اُن کے لئے کامیابی اور بامرادی کا ذریعہ بن گئی اور وہی تکلیفیں اور دکھ مسلمانوں کے لئے راحت و آرام کا موجب بن گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آپ کے دشمنوں نے جلانے کی کوشش کی اور وہ یہی سمجھتے تھے کہ آج ابراہیمؑ کو آگ میں جلا کر ان کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن وہ اپنی اس کوشش میں بالکل ناکام رہے۔ اور وہی آگ عوامُ النّاس کے خیالات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے گلزار بن گئی۔ اور ہمارے نزدیک یہ معجزہ اِس طور پر رونما ہؤا کہ دشمن بڑی کوشش سے آگ جلاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ جھٹ تیز ہوائیں چلا دیتا تھا جو اس آگ کو بجھا دیتی تھیں یا اللہ تعالیٰ بادل بھیج دیتا تھا جو آ کر زور سے برستے تھے اور آگ کو بجھا دیتے تھے۔ وہ اجتماع اس لئے ہؤا تھا کہ لوگ دیکھیں کہ ابراہیمؑ کس طرح جلتا ہے۔ بادشاہ اور اُس کے امراء اور وزراء اور عوامُ النّاس کا ہزاروں لاکھوں کا مجمع جمع ہو گیا کہ وہ دیکھیں کہ ابراہیمؑ کس طرح جلتا ہے لیکن وہاں اُنہوں نے کچھ اَور ہی نظارہ دیکھا کہ لکڑیوں کا ایک بہت بڑا الاؤ حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ لوگ لکڑیوں کو آگ لگاتے ہیں۔ جب وہ آگ بھڑکنے لگتی ہے تو تیز ہوائیں یا تیز بادل آ کر برستے ہیں اور اُس آگ کو بجھا دیتے ہیں۔ گویا اُس دن زمین و آسمان کی لڑائی ہو رہی تھی۔ بادشاہ او رامراء، وزراء آگیں لا لا کر ان لکڑیوں کو لگاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتے کبھی ہواؤں کے ذریعہ اور کبھی بارش کے ذریعہ اس آگ کو بجھا دیتے تھے۔ گویا زمین و آ سمان آپس میں لڑ رہے تھے۔ اہلِ زمین جن میں بادشاہ اور اس کے امراء اور وزراء اور قومیں شامل تھیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی کوشش کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی فوجیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اور زمین و آسمان میں صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی وہ شخص تھے جو فارغ بیٹھے اس تماشہ کو دیکھ رہے تھے۔ غرض وہی چیز جسے دشمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذلت اور رسوائی کا موجب سمجھتے تھے وہی آپ کے لئے عظیم الشان نشان بنی اور بے ایمانی اور کفر کو مٹانے اور آپ کے ماننے والوں کے لئے ازدیادِ ایمان کا موجب بنی۔ آپ کے ماننے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے آپ کے اس معجزہ کو پیش کرتے ہیں۔لیکن اس وقت ہمیں جو مشکلات درپیش ہیں مَیں ان کے متعلق نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہمارے لئے کامیابی کا موجب ہوں گی یا ناکامی کا باعث بنیں گی۔ نتائج تو خدا تعالیٰ کے پاس ہیں۔ ظاہر کو دیکھتے ہوئے یہی نظر آتا ہے کہ یہ مشکلات اور یہ مصائب احمدیت کے رستے میں روکیں پیدا کریں گے۔ خواہ دیدہ و دانستہ طور پر روکیں پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ لیکن قدرتی طور پر روکیں پیدا ہوتی نظر آتی ہیں اور ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ جن کی وجہ سے لوگوں کی توجہ تحقیقِ حق کی طرف سے پِھر جانے کا خطرہ ہے۔ مَیں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ ہمارا کام ساری قوموں سے جُداگانہ ہے اور بعض لحاظ سے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مشکلات ہمارے جیسی ہوں۔ اور بعض لحاظ سے ہماری جماعت کو ابھی تک وہ قربانیاں نہیں کرنی پڑیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑی تھیں۔ رسول کریم ﷺ کی جماعت کو تیرہ سال مکہ میں اور آٹھ نو سال تک مدینہ میں سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں اور رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی وہ لوگ قربانی کے تنوروں میں جھونکے گئے۔ آپ کی وفات کے بعد بارہ تیرہ سال تک مسلمان سخت مصائب میں مبتلا رہے۔ جس قسم کی قربانیاں آپ کے صحابہؓ نے پیش کیں اس قسم کی قربانیاں ہم نے پیش نہیں کیں۔ اور جس قسم کے مصائب ان لوگوں پر نازل کئے گئے اور جس قسم کی تکلیفیں ان لوگوں نے برداشت کیں وہ تکلیفیں ہمیں پیش نہیں آئیں۔اِس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت چندے میں بہت حد تک باقاعدہ ہے اور ہماری جماعت کے بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے احمدیت کی خاطر گالیاں سنیں۔ او ربہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے احمدیت کی خاطر ماریں کھائیں۔ اور بعض افراد ایسے بھی ہیں جو قتل کئے گئے لیکن پھر بھی ہماری قربانیاں اس معیار سے بہت نیچے ہیں جس پر صحابہؓ کی قربانیاں تھیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ صحابہؓ کے لئے باقاعدہ چندے کا حکم نہیں تھا لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں چندہ دینے کی توفیق تو تھی مگر اس کے باوجود ان کے لئے باقاعدہ چندے کا حکم نہ تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہؓ کے سارے مال لُوٹ لئے گئے تھے۔ آخر زکوٰة تو اسی شخص پر واجب ہے جس کے پاس کچھ ہو۔ لیکن صحابہؓ کی جائیدادیں اور ان کے اموال تو اللہ تعالیٰ کے رستے میں ان سے لے لئے گئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے دلوں میں مالی قربانی کی اتنی شدید خواہش ہوتی تھی کہ ان واقعات کو پڑھ کر انسان کا دل ہاتھوں سے نکلتا ہؤا معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح مکہ حضرت ابراہیم ؑ کی نسل کے لئے ایک اجنبی جگہ تھی اِسی طرح مدینہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے لئے اجنبی جگہ تھی۔ جس طرح مکہ پر حضرت ابراہیمؑ کی نسل کو حکومت ملی اسی طرح مدینہ پر رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کو حکومت ملی۔ حضرت اسماعیلؑ کے پوتے جو اس علاقہ کےر ئیس کے داماد تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو اس ملک کا حاکم بنا دیا۔ حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ بنو اسماعیل کی اصل ساکنینِ مکہ سے لڑائی ہوگئی اور مکہ کی بادشاہت حضرت اسماعیل کی نسل کو مل گئی اور یہ حکومت رسول کریم ﷺ کےزمانے سے پہلے تک چلی آئی۔ رسول کریم ﷺ کے دادا کے بعد آپ کے چچا ابوطالب کے پاس آئی لیکن رسول کریم ﷺ کی نصرت اور مدد کرنے کی وجہ سے آپ کے چچا آمدنی کے ذرائع سے محروم ہو گئے۔ لیکن آپ کےد ادا عبد المطلب کے متعلق عرب تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک مالدار آدمی تھے۔ لیکن ابو طالب غریب ہو گئے تھے کیونکہ رسول کریم ﷺ سے ہمدردی رکھنے کی وجہ سے اُن کی قوم نے اُن سے تعاون کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اور حضرت علیؓ ابو طالب کے بیٹے تھے۔ اُس زمانہ میں ریاست اِس قسم کی نہ تھی جو نسلاً بعد نسلٍِ ایک ہی حالت میں رہے بلکہ جس طرح پٹھانوں کے آزاد قبائل کے سردار ہوتے ہیں اِسی قسم کے یہ لوگ سردار ہوتے تھے۔ اور کوئی خاص قانون رائج نہ تھا کہ جس کی پابندی کی جائے۔ بلکہ تعاون کی حکومت تھی قانون کی حکومت نہ تھی۔ لیکن اسلام لے آنے کی وجہ سے ان لوگوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے چندے کی تحریک فرمائی۔ میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں بھی اس میں حصہ لوں لیکن پاس کچھ نہیں تھا۔ مَیں باہر نکل گیا او رباہر جا کر ایک زمیندار سے مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں تیرے کھیت کو پانی دیتا ہوں تم مجھے اس کے عوض میں کچھ غلہ دے دینا۔ چنانچہ اُس نے تین مُٹھی جَو دینے کا وعدہ کیا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں مَیں ایک پہر یا دو پہر تک اس کے کھیت کو پانی دیتا رہا۔ جب مَیں پانی دے چکا تو اس نے مجھے تین مٹھی جَو دئیے جو مَیں نے لا کر چندے میں دے دئیے۔ تو وجہ یہ نہ تھی کہ صحابہؓ میں باقاعدہ چندے دینے کا رواج نہ تھا بلکہ ان کے پاس چندہ دینے کے لئے مال ہی نہ تھا۔ ورنہ ہمارے مذہب میں چندے کی اتنی اقسام ہیں کہ کوئی قوم ہمارے ساتھ لگّا 1نہیں کھا سکتی۔ رسول کریم ﷺ خود بے شک کسی بڑی جائیداد کے مالک نہ تھے لیکن حضرت خدیجہؓ ایک مالدار عورت تھیں۔ انہوں نے نکاح کے بعد تمام مال رسول کریم ﷺ کی نذر کر دیا تھا۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ کے بڑے بڑے امراء بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے گاؤں کے امراء ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کایہ خیال غلط ہے ۔ مکہ میں بڑے بڑے مالدار لوگ بھی تھے۔ ان کے مالدار ہونے کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین کے لئے رسول کریم ﷺ نے مکہ کے ایک کافر رئیس سے تیس ہزار درہم قرض لئے اور کئی ہزار نیزہ قرض لیا اور اسی شخص سے کئی سو زِرہیں قرض لیں۔2 اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی لکھ پتی آدمی تھا اور ہمارے اس زمانہ کے لحاظ سے کروڑ پتی تھا کیونکہ اس زمانہ میں روپے پیسے کی بہت قدر تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سنایا کرتے تھے کہ مجھے ایک بڈھے سکھ نے سنایا کہ اس نے آٹھ آنے میں گائے خریدی تھی۔ اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن کے زمانہ میں مہینہ بھر کی صفائی کی اُجرت خاکروب کو چار یا آٹھ آنہ دی جاتی تھی اور اب ایک بوری ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھوائی جائے تو مزدور اس کی مزدوری آٹھ آنے مانگتے ہیں۔ لیکن اُس وقت خاکروب آٹھ آنے خوشی سے لے لیتا تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غلہ اور دوسری کھانےپینے کی چیزیں بہت سستی تھیں۔ ایک روپے کا دس پندرہ مَن غلہ اور چار پانچ سیر گھی آ جاتا تھا۔ ایک روپیہ کا ڈیڑھ سیر تو میری ہوش میں بھی تھا۔ جب چار پانچ سیر روپے کا گھی سیر ڈیڑھ سیر ہو گیا۔ تو لوگوں میں شور مچ گیا کہ گھی کا قحط پڑ گیا ہے ۔لیکن اب پانچ روپے سیر بِک رہا ہے۔ پس آجکل روپے کی قیمت اس وقت کے ایک آنے سے بھی کم ہے۔ اس لحاظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے پاس اس وقت ایک لاکھ روپیہ تھا آج کے لحاظ سے اُس کے پاس بیس پچیس لاکھ روپیہ تھا۔ حضرت خدیجہؓ بھی ان لوگوں میں سے تھیں جو کہ مکہ میں مالدار سمجھے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی تمام جائیداد اور روپیہ رسول کریم ﷺ کو دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ رسول کریم ﷺکو کچھ مکان وغیرہ ورثہ میں بھی ملے تھے۔ لیکن ہجرت کرنے کی وجہ سے وہ سب آپ کو چھوڑنے پڑے۔ جب مکہ فتح ہؤا تو صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ کس مکان میں ٹھہریں گے؟ آپ نے جو جواب دیا وہ ایسا دردناک تھا کہ اس کو پڑھ کر انسان کو معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو کس قدر مالی قربانیاں کرنی پڑیں۔ آپ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی جگہ مکہ میں چھوڑی ہے کہ ہم اس میں ٹھہریں؟3 ہمارے خیمے وہاں لگاؤ جہاں کفارِ مکہ نے قسمیں کھائی تھیں کہ ہم محمد (رسول اللہ ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کو تباہ کر دیں گے۔ کتنی بڑی قربانی ہے جو رسول کریم ﷺ نے کی۔ ہمارے چندے ان قربانیوں کے مقابل پر کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
پھر انصار کی قربانیوں کا تصور تو کرو کہ وہ کس قدر شاندار تھیں۔ جب صحابہؓ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے مہاجرین و انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا یعنی ایک ایک انصاری کو ایک ایک مہاجر کا بھائی بنا دیا۔ جب رسول کریم ﷺ نے مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنا دیا تو انصار نے اس بات پر اصرار کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! جب مہاجرین ہمارے بھائی بن گئے ہیں اور ان کے پاس گزارے کی کوئی صورت نہیں تو آپ ہماری جائیدادیں برابر برابر ہم میں بانٹ دیں۔ آخر ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی جائیداد سے حصہ ملنا چاہئے۔ آپ کیوں ہماری جائیدادیں ہمارے درمیان تقسیم نہیں کر دیتے۔4 کتنا محبت کا جذبہ ہے جو انصار نے مہاجرین کے لئے ظاہر کیا۔
ہمارے یہاں جلسہ سالانہ کے لئے سال کے بعد چند دنوں کے لئے مکانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے باہر سے آنے والے دوست سینکڑوں اور ہزاروں میلوں کا سفرطے کر کے آتے ہیں۔ کوئی مدراس سے آتا ہے، کوئی بمبئی سے آتا ہے، کوئی کلکتہ سے آتا ہے اور بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جو بیرون ہند سے جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں۔ یہ تمام لوگ سینکڑوں روپیہ عقیل حضرت علیؓ کے بڑے بھائی تھے۔
خرچ کر کے قادیان آتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں میں اِتنا اخلاص اور اتنی محبت بھی نہیں ہوتی کہ وہ سارا مکان نہیں بلکہ مکان کا کچھ حصہ چند دنوں کے لئے خالی کر دیں کہ آؤ بھائی! ہمارے ہاں ٹھہرو او رپانچ سات دن ہمارے ہاں آرام کرو۔ بجائے اِس کے کہ کسی محبت کے جذبہ کا اظہار کریں اکثر لوگ جلسہ سالانہ کے منتظمین کو جواب دے دیتے ہیں کہ ہمارے پاس کسی مہمان کو ٹھہرانے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اور بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اپنے رشتہ دار آنے والے ہیں۔ کوئی کچھ بہانہ بناتا ہے اور کوئی کچھ بہانہ بناتا ہے۔ مگر انصار کی قربانی کو دیکھو کہ انصار بار بار اصرار کرتے تھے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارا بھائی ہماری جائیداد میں حصہ دار نہ ہو۔ کیا بھائی حصہ نہیں لیا کرتے؟ جب رسول کریم ﷺ نے جائیدادیں تقسیم کرنے کی اجازت نہ دی تو انصار نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ ان جائیدادوں سے ہمیں جو آمدنیں ہیں آپ وہی ہمارے درمیان تقسیم کرا دیں۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ جب اس کی بھی اجازت نہ ملی تو انصار کے اخلاص اور محبت نے ایک اَور راہ نکال لی۔ وہ یہ کہ ہر مرنے والا انصاری اپنے مہاجر بھائی کے حق میں وصیت کر جاتا تھا کہ عرب دستور میں جو حصہ بھائی کو ملتا ہے میری جائیداد میں سے اتنا حصہ میرے مہاجر بھائی کو دیا جائے اور یہ طریق جاری رہا تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ نے اس طریق سے منع نہ فرما دیا۔ انصار نے کوئی راہ مجبور کرنے کا چھوڑا نہیں۔ اُنہوں نے ہر طرح کوشش کی کہ ہمارا مہاجر بھائی ہمارے مال اور ہماری جائیداد میں شریک ہو جائے۔
پھر ہماری وطن کی قربانی بھی اس رنگ کی نہیں جیسی صحابہؓ کی تھی۔ قادیان میں بے شک ایسے مخلصین بھی ہیں جن کو اپنے وطنوں میں ہر قسم کا آرام اور ہر قسم کی سہولت کے سامان میسر تھے اور وہاں ان کی زندگی بہت آرام سے گزرتی تھی۔ لیکن انہوں نے وطن کو اس لئے چھوڑا تاکہ وہ خدا کے نبی کے جوار میں رہ کر زیادہ سے زیادہ اپنے نفسوں کو پاک کر سکیں۔ لیکن ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے کیوں ہجرت کی؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہاں بہت تکلیفیں تھیں اور ہمارے لئے ان تکالیف میں رہنا مشکل تھا، اس لئے ہجرت کر لی ہے۔ یا بعض لوگ یہ جواب دیں گے کہ وہاں ہمارے لئے گزارے کی کوئی صورت نہ تھی اور یہاں گزارے کی دِقّت نہیں رہی۔ گویا ایسے لوگ یا تو تکلیفوں سے بچنے کے لئے یا گزارے کے لئے قادیان آ گئے ہیں۔ ان کے مدنظر کوئی قربانی نہ تھی۔ مگر صحابہؓ میں سے تمام کے تمام ایسے تھے جو دین کی خدمت اور دین کے رستہ میں قربانی کر کے آئے تھے۔ چنانچہ درجنوں آدمی ایسے تھے جو مسجد میں ہی پڑے رہتے تھے اور رسول کریم ﷺ کی وفات تک پڑے رہے تاکہ جب کبھی بھی رسول کریم ﷺ کو کسی خدمت کی ضرورت ہو تو ہم اس وقت حاضر ہوں۔ ایسے لوگوں کی تعداد پچاس سے ڈیڑھ سو ، دو سو تک بیان کی جاتی ہے۔ یہ لوگ محض اس لئے مسجد میں پڑے رہتے تھے کہ جب بھی رسول کریم ﷺ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو ہم وہ خدمت سر انجام دیں۔ اور ان لوگوں نے دس سال مدنی زندگی کے مسجد میں ہی گزار دئیے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ مَیں بھوک کے مارے بے ہوش ہو جاتا تھا لیکن مسجد سے باہر نہیں جاتا تھا۔5
جانوں کی قربانی میں ہمارے ہاں سید عبد اللطیف صاحب کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی چار پانچ شہادتیں افغانستان میں ہوئیں اور ہندوستان میں اِس قسم کی شہادت تو کوئی نہیں ہوئی۔ بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ دشمنوں نے کسی شخص کو احمدیت کی وجہ سے اس طرح مارا کہ وہ بعد میں مر گیا۔ اور گھروں سے نکالے جانے کی مثالیں بھی ہمارے ہاں ملتی ہیں۔ لڑکوں کو لاوارث کر دینے کی مثالیں بھی ملتی ہیں لیکن اس رنگ کی نہیں جس رنگ میں صحابہؓ گھروں سے نکلے تھے۔ جانی قربانی میں ہم میں اور صحابہؓ میں فرق نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ہم میں سے مرنے والا اس حسرت سے مرتا ہے کہ کاش! مَیں بھی نہ مرتا اور یہ کام بھی ہو جاتا۔ مگر صحابہؓ یہ کہتے تھے کہ ہم کو مرنے دو ، ہم تو مر جائیں، کام تو ہوتا ہی رہے گا۔ گویا وہ موت کو خوشی اور راحت کا ذریعہ سمجھتے تھے اور اس خوشی سے جان دیتے تھے کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا تھا کہ ان کو ہؤا کیا ہے؟ لیکن ہماری جانی قربانیاں اس قسم کی نہیں۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کے لحاظ سے دوسری تمام جماعتوں کے مقابلہ میں ہماری جماعت دین کے لئے زیادہ قربانیاں کرتی ہے۔ چونکہ صحابہؓ نے جلد سے جلد شاندار قربانیاں پیش کیں اِس لئے اللہ تعالیٰ کا فضل اُن پر جلد نازل ہؤا اور بہت جلد کامیابی تک پہنچ گئے۔ لیکن ہماری قربانیاں آہستہ آہستہ ہیں اِس لئے ہمارے لئے کامیابی کا وقت ابھی آہستہ آہستہ آئے گا۔ صحابہؓ نے بہت جلد اپنے نفوس کو پاک کر لیا۔ اِلَّا مَا شَاءَ اللہ۔ اِس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے جلدی حقدار بن گئے لیکن ہم ابھی اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں۔ اس لئے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ مشکلات ضرور ہی ہمارے لئے ترقی کا موجب ہوں گی بلکہ باہر جماعت کی سُستیوں اور غفلتوں کو دیکھتے ہوئے مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آنےو الے دن زیادہ خطرناک ہوں گے اور زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کرنے والے ہوں گے۔ انسان جتنی جلدی قربانیاں کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُتنی جلدی ہی اپنے فضلوں کو اس کے قریب لے آتا ہے۔
اِس کی مثال یوں سمجھ لو کہ ایک شخص چنوں کا ایک ایک دانہ کرکے کھاتا ہے تو اس کا پیٹ گھنٹے میں جا کر بھرتا ہے۔ لیکن ایک اَور شخص جو آدھے پُھلکے کا ایک لقمہ بناتا ہے اس کا پیٹ چند منٹ میں بھر جائے گا۔ صحابہؓ نے جان، مال، عزت، آبرو اور وطن کی قربانی کر کے اس پیمانہ کو جلدی بھر دیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا فضل بھی جلدی نازل ہؤا۔ اب اگر ہم قطرہ قطرہ کر کے قربانی کریں گے تو وہ پیمانہ مدتوں کے بعد بلکہ صدیوں کے بعد جا کر بھرے گا ۔
یا پھر تم اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ ایک شخص کسی مزدور سے یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ تم اتنے گھڑے بھر دو تو مَیں تمہیں اتنی اجرت دوں گا۔ اس مزدور نے بہت بڑی مشک لی جس کے اٹھانے سے اسے سخت تکلیف پہنچتی تھی او ربہت جلد پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ میں وہ سارے گھڑے بھر دئیے۔ اب وہ شخص پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ کے بعد اس انعام کا مستحق ہو گیا جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن ایک اَور انسان ہے جس کو گھڑے بھرنے پر لگایا گیا۔ اس نے بجائے کوئی مشک وغیرہ لینے کے بچوں کے کھیلنے کی کٹوری لی اور پانی بھرنا شروع کیا۔ آدھ میل پر پانی تھا۔ وہ ایک کٹوری لاتا اور گھڑے میں ڈال جاتا۔ پھر دوسری کٹوری لینے جاتا۔ ممکن ہے کہ اس کے دوسری کٹوری لانے تک پہلا پانی گھڑا ہی چوس جائے اور بالکل ممکن ہے کہ اسے وہ گھڑے بھرنے میں کئی مہینے بلکہ کئی سال لگ جائیں۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ساری عمر میں بھی نہ بھر سکے۔ یہ شخص ساری عمر میں بھی ان گھڑوں کو نہ بھر سکے گا۔ لیکن پہلے شخص نے تکلیف برداشت کر لی اور ایک بہت بڑی مشک لے کر پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ میں اُن گھڑوں کو بھر دیا اور اُسے اُس کا انعام آدھ گھنٹہ کے بعد مل گیا۔
بالکل اِسی طرح ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی قربانیوں کو تیز کر کے خدا کے انعاموں کے جلدی وارث بن جائیں۔ اور ہمارے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم قربانیاں کرنے میں دیر اور سُستی سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کو پیچھے کرتے جائیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہم سے مشروط ہے۔ ہم جتنی جلدی اپنی قربانیاں پیش کریں گے اللہ تعالیٰ اتنی جلدی ہی اپنا وعدہ پورا کرے گا اور ہم جتنی سستی سے کام لیں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ پیچھے ہٹتا جائے گا۔
پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں میں غور کرے اور کسی فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اپنے دلوں کو قوی کر کے اور اپنے حوصلوں کو بلند کر کے قربانیوں کے اس رستہ کو اختیار کرے جو جلد سے جلد ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دے۔ ہمارا قربانیوں کا موجودہ طریق ایسا ہے کہ اِس کے متعلق مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح وہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے صدیوں میں بھی ہو سکے گا یا نہیں۔ اگر ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم جلدی اس کام کو سر انجام دے لیں تو ہمیں اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی تبدیلی کو ہم تو ہم غیر بھی محسوس کرنے لگیں کہ اب یہ لوگ کچھ اَور ہی بن گئے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی اور یہ تغیر تم اپنے اندر پیدا نہیں کرتے اس وقت تک تمہیں کسی عظیم الشان کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ میرے نزدیک تو اکثر لوگ اس عہد کو ہی بھول جاتے ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا تھا کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ اگر لوگوں کو اپنا عہد یاد ہوتا تو مجھے وقفِ زندگی کا مطالبہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ بیعت کے معنے ہی اپنے آپ کو بیچ دینے کے ہیں لیکن اگر ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ عام لوگ اس عہد کو بھول جاتے ہیں تو پھر کم سے کم وہ لوگ جو اپنی زندگی وقف کرتے ہیں ان کو ہی بیعت کا مفہوم اور وقف زندگی کے معنے سمجھنے چاہئیں۔ جب ایک شخص زندگی وقف کرتا ہے تو وہ خود یہ معاہدہ کرتا ہے کہ مَیں کسی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوں گا۔ مَیں بھوکا رہوں گا، اگر مجھے پیدل چلنا پڑے گا تو پیدل چلوں گا، خواہ مجھے دنیا کے کناروں تک ہی کیوں نہ پیدل چلنا پڑے،آپ جہاں بھیجیں گے مَیں جاؤں گا۔ اور اگر اپنے خرچ پر جانے کے لئے کہا جائے گا تو اپنا خرچ کر کے جاؤں گا۔ یہ سب باتیں معاہدہ کرنے والا اچھی طرح پڑھتا اور سنتا ہے اور ان پر دستخط کرتا ہے کہ یہ ساری شرائط مجھے منظور ہیں۔ لیکن جب اسے کام پر لگایا جاتا ہے تو کچھ دنوں کے بعد اس کا خط آجاتا ہے کہ آپ نے مجھے فلاں جگہ پر بھیجا تھا یہاں مجھے روٹی پانی کی بہت تکلیف ہے مَیں گھر جارہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ معاف فرمائیں گے۔ آپ جیسے رحیم وکریم انسان سے یہی امید ہے کہ آپ ضرور معاف فرمائیں گے۔ حیرت آتی ہے کہ یہ لوگ کس طرح خیال کرتے ہیں کہ باوجود ان حالات کے کام صحیح طور پر ہوتا چلا جائے گا۔ جب اینٹیں ہی نہیں ہوں گی تو معمار عمارت کیسے بنائے گا۔ جب کپڑا ہی نہیں ہو گا تو درزی سئے گا کیا؟ جب آٹا ہی نہیں ہو گا تو روٹی کیسے پکے گی ۔ اگر آٹے کے بغیر روٹی نہیں پک سکتی، اگر کپڑے کے بغیر درزی کوئی لباس تیار نہیں کر سکتا، اگر اینٹوں کے بغیر معمار عمارت نہیں بنا سکتا تو خلفاء اور ائمہ آدمیوں کے بغیر کس طرح کام چلا سکتے ہیں۔ جب تم میں سے ایک حصہ انسان کہلانے کا ہی مستحق نہیں تو یہ سمجھنا کہ ایسے لوگوں کی فرضی قربانیوں سے کوئی تغیّر ہو سکتا ہے محض اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے۔ جو شخص وقف کرتا ہے اس کو چاہئے کہ سمجھ سوچ کر وقف کرے۔ اس کو کوئی شخص زندگی وقف کرنے کے لئے مجبور تو نہیں کرتا لیکن جب وہ زندگی وقف کر دیتا ہے تو پھر اس کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ اور پھر اس سے زیادہ رونے کا مقام تو یہ ہے کہ جب ایسے لوگ اپنی جگہ سے بھاگ جاتے ہیں تو جماعتوں کی جماعتیں ان کی سفارش کرنا شروع کر دیتی ہیں کہ آپ تو بڑے رحیم وکریم ہیں۔ نادان تھا غلطی ہو گئی آپ اسے معاف کر دیں۔ جو لوگ ان کی سفارش کرتے ہیں مَیں ان کو عقلمند نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک یہ لوگ نادانی کی وجہ سے سفارش کرتے ہیں ورنہ اگر ان کی سفارش کی تشریح کی جائے تو اس کے معنے یہی بنتے ہیں کہ وہ دوسرے لفظوں میں اقرار کرتے ہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی عزت نہیں کرتے اور ان کی ہمارے دل میں کوئی وقعت نہیں۔ جو شخص سفارش کرتا ہے گویا وہ اپنے منہ سے اقرار کرتا ہے کہ مَیں اس بھاگنے والے سے بڑھ کر بے ایمان ہوں۔ بھاگنے والا تو مجرم ہے،اُس نے تو اپنے فعل سے اپنے اوپر بے ایمانی کی مُہر ثبت کی اور یہ سفارش کرنے والا اس کی سفارش کر کے اس کی بے ایمانی میں شریک ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر صحابہؓ کا نمونہ ایسا پُر اخلاص اور ایسا شاندار تھا کہ اُس کو پڑھ کر انسان کو وجد آ جاتا ہے۔
جب رسول کریم ﷺ جنگِ تبوک کے لئے تشریف لے گئے تو ایک صحابی سفر پر گئے ہوئے تھے۔ وہ کچھ عرصے کے بعد سفر سے واپس آئے تھے۔ اپنی جوان اور خوبصورت بیوی سے جدا رہنے کی وجہ سے اُن کے دل میں محبت کے جذبات موجزن تھے۔ گھر میں آئے تو اپنی بیوی کی طرف بڑھے کہ اُسے گلے لگائیں۔ لیکن بیوی نے آگے سے دھکّا دیا۔ وہ حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ بیوی نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خدا کا رسول تو خطرے میں ہے اور تمہیں پیار کی سُوجھ رہی ہے۔ بیوی کی یہ بات سن کر انہوں نے دوسری نظر بیوی کی طرف نہیں اُٹھائی بلکہ اپنا اسلحہ لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کے لئے روانہ ہو گئے۔ یہ لوگ تھے قربانی کرنے والے۔ اور اس کا نام ہے قربانی اور وفائے عہد۔ اس کے سامنے وقفِ زندگی کیا حیثیت رکھتا ہے۔ لاکھوں کی جماعت میں سے چار پانچ سو آدمیوں نے زندگیاں وقف کیں اور ان میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو معمولی معمولی باتوں پر بھاگ جاتے ہیں کہ یہاں روٹی اچھی نہیں ملتی یا مجھے 35 روپے ملنے کی امید تھی لیکن مجھے 30 دئیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سفارش کر کے اپنی بے ایمانی پر مہر ثبت کرنا نہیں تو اَور کیا ہے۔ وہ مجھے رحیم وکریم کہہ کر مجھ سے معافی لینا چاہتے ہیں۔ گویا مَیں رحیم وکریم بنوں بے ایمانوں کے لئے۔ اور ظالم بنوں خدا اور اُس کے رسول کے لئے۔
دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت کی ترقی کادار و مدار وقف پر ہے لیکن ایسا وقف جو کہ کسی وقت اَور کسی حالت میں پیٹھ دکھانے کو تیار نہ ہو۔ او رہر احمدی کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اُس کی زندگی ، اُس کا مال، اُس کے اوقات سب کے سب اسلام اور احمدیت کے لئے وقف ہیں۔ آخر مَیں نے وقف کی تحریک علیحدہ طور پر جاری کی۔ یہ مطالبہ کسی نئی تحریک کی علامت نہیں تھا بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مَیں جماعت کی قربانی پر حُسنِ ظنّی نہیں کرتا ورنہ بیعت کے بعد وقف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا رسول کریم ﷺ بار بار وقف کی تحریک کیا کرتے تھے؟ بلکہ آپ نے بیعت کو ہی کافی سمجھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ نے بیعت کے وقت صحابہؓ کے چہروں سے نورِ ایمان دیکھ لیا۔ اس لئے آپ کو کسی عہد کی ضرورت پیش نہ آئی۔ لیکن مَیں نے وہ نورِ ایمان تمہارے چہروں سے نہیں دیکھا جو رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہؓ کے چہروں سے دیکھا تھا۔ مَیں نے سمجھا کہ مَیں تم کو یک دم قربانیوں کے لئے بلاؤں تو تم میں سے کئی مرتد ہو کر بھاگ جائیں۔ اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ تم کو آہستہ آہستہ قربانی کی عادت ڈالوں اور اس جماعت کے پیدا کرنے کے لئے مَیں نے تم میں سے بعض کو چُنا تاکہ وہ دوسروں کے لئے مثال بنیں۔ ان لوگوں میں سے بعض کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ بہت سے ثابت قدم بھی ہیں۔ لیکن اب جس قسم کا زمانہ آ رہا ہے اِس میں چند آدمیوں سے کام نہیں چل سکے گا۔ اس لئے جماعت وقف کے سلسلہ میں کثرت سے آگے آئے یا پھر جماعت کا ہر فرد اپنے آپ کو وقف سمجھے۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرے کہ میری بھلائی ، میری ترقی اور میری راحت اس میں نہیں کہ مَیں زندہ رہ کر آرام سے دن بسر کروں۔ بلکہ میری خوشی اور میری راحت اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اِذن ملے تو مَیں اُس کی راہ میں قربان ہو جاؤں۔’’ (الفضل 21 ستمبر 1946ء )
1: لَگّا:لَگّا کھانا : مطابقت کھانا ، ہم پلہ ہونا ، برابر کا ہونا، نسبت رکھنا،(فیروز اللغات اردو جامع
مطبوعہ لاہور)
2: السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 152،153 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002ء
3: السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 123 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002ء
4: بخاری کتاب مناقب الْاَنْصَار باب اِخّاءِ النَّبِیّ ﷺ (الخ)
5: بخاری کتاب الرِّقَاق ،باب کَیْفَ کَانَ عَیْش النَّبِیّ ﷺ وَ اَصْحَابِہٖ(الخ)

34
جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہوتا ہے وہی زندگی پاتا ہے
( فرمودہ 20 ستمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مومن اور کافر میں بہت بڑا فرق ہونا چاہئے۔ سچے مومن کو دوسروں سے یہ امتیاز ہوتا ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر چلتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دنیوی لحاظ سے بعض غیر مومن بھی بڑے ہوشیار ہوتے ہیں اور دنیا کے کاموں میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر کامل نہیں ہوتی کیونکہ وہ روحانی علم سے محروم ہوتے ہیں۔ علم تعبیر رؤیا میں آنکھ کے نہ ہونے سے مراد علم کا نہ ہونا ہے۔ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ اس کی دائیں آنکھ خراب ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی دینی حالت خراب ہے۔ اور اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس کی بائیں آنکھ خراب ہے تو اِس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی دنیوی حالت خراب ہے۔ اِن دونوں پہلوؤں میں سے دنیا کے لحاظ سے دنیوی پہلو پہلے ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ 1یہاں دنیا کو پہلے رکھا ہے اور دین کو بعد میں ۔ دین کو اِس لئے بعد میں رکھا کہ دنیا دین کے لئے بطور سیڑھی ہے۔ سیڑھی پر چڑھنے کے بعد ہی ہم منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ بہت سے دنیوی علوم ہیں جو دینی علوم کے جاننے کے لئے ضروری ہیں۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے عربی زبان سے واقفیت کی ضرورت ہے۔ اب عربی پڑھنا دین نہیں دنیا ہے۔ پھر قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے صَرف و نحو کی ضرورت ہے۔ صَرف و نحو کا پڑھنا بھی دنیا ہے دین نہیں ہے۔ پھر قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے علمِ جغرافیہ کی بھی ضرورت ہے۔ جغرافیہ کا پڑھنا بھی دین نہیں دنیا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے علمِ ہیئت کا جاننا بھی ایک حد تک ضروری ہے۔ اب علمِ ہیئت کا پڑھنا بھی دنیا ہے دین نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے کچھ علمِ سیاست کی بھی ضرورت ہے۔ سیاست کا جاننا بھی دین نہیں دنیا ہے۔ قرآن کے سمجھنے کے لئے کچھ علم النفس کی بھی ضرورت ہے۔ علم النفس کا جاننا بھی دین نہیں دنیا ہے۔ اسی طرح کے بیسیوں بلکہ سینکڑوں علوم ہیں جن کا سیکھنا دنیوی رنگ رکھتا ہے لیکن قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروری ہے۔ ان کے جاننے کے بغیر قرآن کریم کے معانی اور تفسیر میں غلطی کرنے کا اندیشہ ہے۔ قرآن کریم کے پڑھنے کے لئے سب سے ضروری حروف ابجد کا جاننا اور ان کا آپس میں ملانا ہے۔ ان حروف کا پڑھنا بھی دین نہیں دنیا ہے کیونکہ اگر حروف کے مخارج سے واقف نہیں تو تلاوت نہیں کر سکتا۔ اگر ایک انسان قرآن کریم کے الفاظ اور کلمات پڑھنے پر قادر نہیں تو وہ ان کے معنوں پر بھی قادر نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک انسان صَرف و نحو پر قادر نہیں تو وہ قرآن کریم کے صحیح معنوں پر بھی قادر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ مندرجہ بالا علوم میں سے کسی سے بھی بے بہرہ ہے تو پھر وہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق پر قادر نہیں ہو سکتا۔ تو دنیوی علوم بھی دینی علوم کے لئے ایک حد تک ضروری ہیں۔ ان کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا۔ جب دین مکمل نہ ہؤا تو آخرت مکمل نہ ہوئی۔ پس جبکہ ایک جھوٹا صوفی یا ایک جھوٹا مولوی جو کہ دنیا کے ظاہری علوم سے اندھا ہے۔ اگر اُس کے سامنے کوئی سچا مولوی اور سچا صوفی آ جائے جس کی دونوں قسم کی آنکھیں موجود ہوں یعنی وہ دینی علوم کے علاوہ دنیوی علوم میں بھی دسترس رکھتا ہو تو ایسا شخص یقیناً اپنے حریفوں سے زیادہ اعلیٰ مقام پر ہو گا اور وہ حملہ کے لحاظ سے اُن سے زیادہ محفوظ ہو گا۔
جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں ۔ ان کے ذریعہ دینی علوم کے علاوہ دنیوی علوم کی بھی ترقی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور دنیا دار لوگوں میں علوم کے پھیلانے میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا دار لوگ دنیوی علوم کو دینی علوم پر مقدم کر دیتے ہیں اور ان کی تمام تر توجہ دنیوی علوم کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے، دینی علوم سے وہ اِعراض کر لیتے ہیں۔ لیکن جو الٰہی علماء ہوتے ہیں وہ دنیوی علوم کو دینی علوم کے تابع کر دیتے ہیں او راُن کی زیادہ تر توجہ دینی علوم کی طرف ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے جب سے کام شروع کیاتو آپ کی تمام تر توجہ دین کی طرف تھی۔ آپ نےبہت سی دینی کتب لکھیں۔ پھر ان کی اشاعت کی۔ اور جہاں تک قرآن کریم کے سمجھنے کا سوال ہے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف کُھلنے کا سوال ہے یہ چیزیں باطنی علوم اور تَفَقُّہ فِی الدِّیْن سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن ان چیزوں کے پیدا کرنے کے لئے آپ نے مدرسے بھی بنائے۔ پھر آپ نے ایک ہسپتال بھی جاری کیا۔ لیکن آپ میں اور دوسرے دنیا دار لوگوں میں فرق یہ ہے کہ دنیا دار لوگوں کے نزدیک انگریزی تعلیم مقدم تھی۔ لیکن آپ کے نزدیک یہ چیز ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ اصل چیز دین تھی جس کے تابع آپ نے تمام علوم کو کر دیا۔ اِسی اختلاف کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیغامیوں کے دلوں میں یہ خیالات پیداہوئے کہ عَوَامُ النّاس کے خیال کے مطابق مدارس وغیرہ قائم کرنا اور دنیوی تعلیم کا انتظام کرنا ہی اصل دین ہے۔ چنانچہ ان کا یہ خیال یہاں تک تقویت پکڑ گیا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو مشورہ دیا کہ لنگر خانہ بند کر دیا جائے اور یہی روپیہ جو لنگرخانہ کا خرچ ہے اس سے کسی جگہ مدرسہ جاری کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا کہ اچھے بھلے بنے بنائے احمدی باہر سے آتے ہیں اور آ کر میری باتیں سنتے ہیں اور اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہیں۔ مَیں ان بنے بنائے احمدیوں کو کچھ خیالی صورتوں کے لئے کس طرح قربان کر دوں جن کا پیدا ہونا بھی شکی ہے۔ پتہ نہیں کہ وہ پڑھنے کے بعد احمدیت کے لئے کیسے ثابت ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بے شک ایک دینیات کے مدرسے کی اور ایک انگریزی کے مدرسے کی بنیاد قائم فرمائی اور آپ کے زمانہ میں ایک ڈسپنسری بھی بن چکی تھی۔ لیکن یہ چیزیں آپ کا مقصود نہ تھیں بلکہ آپ کا مقصود دینی تعلیم پر زور دینا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عرفان تک لوگوں کو پہنچانا تھا۔ کیونکہ بغیر سچے مومنوں کے مذہب کو کچھ بھی تقویت حاصل نہیں ہوتی۔ خواہ ساری دنیا ہی اس مذہب کو ماننے کیوں نہ لگ جائے۔ لیکن اگر بہت قلیل تعداد میں بھی سچے مومن ہوں تو وہ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ اگر مجھے چالیس سچے مومن مل جائیں تو مَیں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں۔2 اور مجھے دنیا کےفتح کرنے میں ذرا بھی شبہ نہیں رہتا۔ لیکن اِس وقت اسی جگہ پر ہی چار ہزار کے قریب لوگ بیٹھے ہیں جو کہ اس تعداد سے سو حصہ زیادہ ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر مجھے صرف چالیس سچے مومن مل جائیں تو مَیں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِن چار ہزار میں سے صرف چالیس آدمی یعنی ہر سو آدمی میں سے ایک کامل مومن ہو تو دنیا فتح ہو سکتی ہے۔ اِس مجلس ہی میں اُس تعداد سے سَو گُنے زیادہ بیٹھے ہیں۔ اور اگر بیرونی جماعتوں کو ملا لیا جائے تو وہ اس تعداد سے جو اس مجلس میں موجود ہے تقریباً سو گُنے زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ اب ہماری جماعت کی تعداد ہندوستان میں ہی چار پانچ لاکھ کے قریب ہے لیکن ابھی تک جماعت وہ کام نہیں کر سکی جو چالیس کامل مومن کر سکتے ہیں۔ پس سوچو تو سہی کہ تم میں سے کتنے ہیں جو اسلام اور احمدیت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام توجہ خرچ کرتے ہیں۔ تمہاری بے توجہگی کی وجہ یہی ہے کہ کبھی تم نے اُس ذمہ داری پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا جو تم پر ڈالی گئی ہے رسمی طور پر بیعت کر لینا انسان کو کچھ بھی نفع نہیں دیتا جب تک اس کےساتھ عمل کو شامل نہ کیا جائے۔ اور بعض لوگ ایُسے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیت میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے اور اب وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی جنت میں داخل نہ کرے۔ حالانکہ بندے پر اللہ تعالیٰ کے جو احسانات اور جونعمتیں ہیں وہ شمار ہی نہیں ہو سکتیں۔ اگر ایک طرف وہ نعمتیں اور انعام رکھے جائیں تو اُن کے مقابلہ میں بندے کی خدمتیں بالکل ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔ غالب ایک دنیا دار آدمی تھا۔ لیکن بعض دفعہ دنیا دار آدمی کے منہ سے بھی حکمت کی بات نکل جاتی ہے۔ غالب نے کیا اچھا کہا ہے ؂
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا3
یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے رستے میں جان بھی دے دی تو پھر بھی ہم نے کونسی قربانی کی ہے۔ ہمارے پاس سے کیا گیا؟ جان تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تھی جو اُسے واپس کر دی۔ اور اِس کے علاوہ اَور بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہمارے ذمہ قرضہ ہیں۔ ہم نے ان کے عوض اللہ تعالیٰ کو کیا دیا؟ حقیقت بھی یہی ہے کہ کونسی چیز ہے جو انسان اپنے پاس سے قربان کرتا ہے؟ کونسی چیز ہے جو انسان نے خود بنائی ہے؟ا نسان اللہ تعالیٰ کے رستے میں جو کچھ قربان کرتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتا ہے۔ اور انسان جب جان دیتا ہے تو اس کی بہت سی چیزیں دنیا میں باقی رہ جاتی ہیں جو اس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان نہیں کی ہوتیں۔ میرے خیال میں کوئی انسان ایسا نہیں جو ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربان کر جائے۔ بہت سے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں جانیں قربان کرتے ہیں تو ان کا مال پیچھے باقی ہوتا ہے جس سے اُن کی بیویاں اور بچے گزارہ کرتے ہیں۔ او راگر بیوی بچے بھی قربان کر جاتے ہیں تو پیچھے رشتہ دار ہوتے ہیں جو اُن کے مال و دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایسی مثالیں کہ جان دیتے وقت ان کی کوئی چیز باقی نہ ہو بہت کم ہیں بلکہ چند ہیں۔
صحابہؓ میں سے شہید ہونے والوں میں سے حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت حمزہؓ ایسے تھے کہ جنہوں نے جان کی قربانی کی اور پیچھے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ لیکن ایک چیز پھر بھی باقی رہ گئی اور وہ چیز ایسی تھی جو نہ مٹنے والی تھی ۔ وہ ان کی نیک نامی اور نیک شُہرت ہے۔ بے شک حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت حمزہؓ نے بیوی بچے اور جائیداد پیچھے نہیں چھوڑی اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربان کر دیا۔ لیکن وہ عزت اور وہ نیک نام اور وہ دعائیں جو ان کو عالَمِ اسلام سے ملتی ہیں وہ باقی ہیں اور ان چیزوں کے مقابلہ میں ان کی قربانیوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ کوئی سچا مسلمان ایسا نہیں جو عثمان بن مظعونؓ کے واقعات کو پڑھ کر آنکھوں سے آنسو نہ بہائے اور کوئی سچا مسلمان ایسا نہیں جو اِن واقعات کو پڑھ کر دعا کئے بغیر آگے گزرے۔ یہ کتنا بڑا انعام ہے۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ عثمانؓ کی جائیداد ہزاروں کی نہیں بلکہ لاکھوں کی ہو گی۔ لیکن جتنی دعائیں عثمان بن مظعونؓ کے لئے کی جاتی ہیں اگر آج مسلمانوں کو یہ حقیقت معلوم ہو جائے کہ عثمانؓ کو کیا کچھ ملا ہے تو وہ کروڑوں کروڑ کی جائیدادیں اسلام کے لئے قربان کر دیں۔
انسان اولاد کس لئے مانگتا ہے؟اِسی لئے کہ اس کا نام دنیا میں باقی رہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جن کے نام ان کی اولادوں کی وجہ سے باقی ہیں۔ آج سے ہزار سال پہلے کے کتنے لوگ ہیں جن کے نام ان کی اولادوں کی وجہ سے باقی ہیں۔ ہزار سال میں اربوں ارب بلکہ کھربوں کھرب دنیا گزر چکی ہے۔ اِس زمانہ میں ہی دنیا کی آبادی دو ارب ہے تو ہزار سال میں تو کھربوں کھرب دنیا گزر چکی ہے۔ لیکن ان میں سے صرف دو چار سو ایسے افراد ہوں گے جن کے نام اب تک ان کی اولادوں کی وجہ سے باقی ہیں او رباقی سب لوگ ایسے ہیں جن کے ناموں سے کوئی انسان واقف نہیں۔ ایک ہزار سال کا عرصہ تو بہت لمبا عرصہ ہے۔ مَیں جلسہ سالانہ کے موقع پر بعض لوگوں سے ان کے پردادوں کے نام پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں کہ ان کا نام کیا تھا۔ لیکن عثمانؓ نے رسول کریم ﷺ کی اتباع میں جو قربانی کی وہ آج تک ان کا نام زندہ کئے ہوئے ہے۔ اگر عثمانؓ رسول کریم ﷺ پر ایمان نہ لاتے۔ تو آج کسی کو ان کے نام سے بھی واقفیت نہ ہوتی لیکن آپ نے اسلام کے زندہ کرنے کے لئے رشتہ دار، وطن چھوڑے اور آخر رسول کریم ﷺ کے پہلو میں شہادت پائی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آج تک آپ کا نام زندہ رکھا ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہوتا ہے وہی زندگی پاتا ہے۔
ذرا غور تو کرو کہ بندہ جو قربانی کرتا ہے اس کے بدلے میں جو انعامات اور فضل اس پر نازل ہوتے ہیں۔ ان کا اور اس قربانی کا آپس میں کوئی مقابلہ ہو سکتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ قربانی سےگھبرانا اس بات کی واضح علامت ہے کہ ایسا شخص کمزوری ِٔایمان کا شکار ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں۔ اگر یقین ہوتا تو وہ بخل سے کام نہ لیتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان ان قربانیوں کے بدلے میں بہت جلد مادی نفع چاہتا ہے اور روحانی طور پر اسے جو کچھ ملتا ہے اس کی نظر اس قیمتی چیز کو دیکھ نہیں سکتی۔ وہ جلد گھبرا جاتا ہے کہ میری قربانیوں کا بدلہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔ اس زمانہ میں قربانیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو منتخب کیا ہے۔ ہماری جماعت کی تعداد اِس وقت چار پانچ لاکھ کے قریب ہے۔ اگر سب احمدیوں میں قربانی کی روح پیدا ہو جائے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے تو تم دیکھو کہ کس طرح بہت تھوڑے عرصہ میں دنیا تہہ و بالا ہو جائے اور دنیا میں احمدیت کا رُعب قائم ہو جائے۔
مَیں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ کم سے کم ہر ایک احمدی اپنے اوپر یہ فرض کر لے کہ وہ سال میں ایک احمدی ضرور بنائے گا۔ لیکن اِس کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ کی ہے۔ ذرا خیال تو کرو کہ اگر ہر ایک احمدی اپنے اِس فرض کو ادا کرے اور سال میں ایک احمدی بنا لے تو دس پندرہ سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت ایسے مقام پر کھڑی ہو جائے گی کہ دنیا اس کے مقابلہ سے عاجز آ جائے گی ۔ مَیں نے بار بار مختلف مواقع پر اس تحریک کی طرف جماعت کو توجہ دلائی لیکن تم میں سے اکثر لوگوں نے ایک کان سے سُنااور دوسرے کان سے نکال دیا۔ جیسے چِکنا گھڑا ہوتا ہے کہ اس پر پانی کوئی اثر نہیں کرتا اِسی طرح میری تحریک بھی ان پر کوئی اثر نہ کر سکی۔ انہوں نے میری تحریک کو سُنا اور اُٹھ کر گھروں کو چلے گئے۔ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ تمہارا یہ اپنا فرض تھا کہ تم تبلیغ کرتے لیکن تم نے اس اہم فریضہ کو فراموش کر دیا اور مَیں تمہیں بار بار یاد دہانی کراتا ہوں لیکن تم پھر بھی اسے بھلانے کی کوشش کرتے ہو۔ یہ حالت اچھی نہیں۔ آخر تمہارے دلوں میں کیا چیز ہے جس پر تم خوش ہو رہے ہو۔ اور تمہارے دل کس بات پر مطمئن ہیں تا مَیں بھی اُسے سمجھ سکوں۔ آخر صحابہؓ نے کونسا جرم کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کیا جب تک انہوں نے اپنی جان، مال اور عزت خدا تعالیٰ کے رستے میں قربان نہیں کر دئیے۔ کیا خدا تعالیٰ سے تمہاری رشتہ داری ہے کہ وہ باوجود تمہارے بخل کے تمہاری منتیں کرے گا کہ میری جنت میں ضرور داخل ہو جاؤ؟ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہارے استقبال کے لئے دوڑے چلے آتے ہوں؟ تمہاری موجودہ حالت یقیناً خطرہ سے خالی نہیں۔ تمہیں اپنے نفس کے متعلق فکر کرنی چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ تمہاری حالت تو دوسرے لوگوں سے بھی بدتر ہے۔ جو احمدیت میں داخل نہیں ہوئے اُن کو تو نور نظر بھی نہیں آیا۔ تم نے نور دیکھا لیکن اس کی قدر نہ کی۔ انہوں نے جو کچھ کمایا وہ اپنے نفس پر خرچ کر لیا لیکن تم نے ادھوری قربانی کی۔ تمہیں نہ خدا ہی ملا اور نہ دنیا ہی ملی۔ اللہ تعالیٰ ادھوری قربانیوں سے راضی نہیں ہوتا۔ اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ہر رنگ میں قربانی کرنے سے دریغ نہ کرے۔ مَیں نے کتنی دفعہ تمہیں کہا ہے کہ آگے آؤ اور اپنی زندگیاں خدمتِ دین کے لئے وقف کرو ۔لیکن تم میں سے اکثر نے اپنا قدم پیچھے کھینچا۔ کتنے آدمی ہیں جو آگے آئے؟ لاکھوں کی جماعت میں سے چند سو آدمیوں کا اپنے آپ کو پیش کرنا۔ جماعت کے لئے باعثِ فخر نہیں ہو سکتا۔ پھر مَیں نے یہ تحریک کی تھی کہ قادیان کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ سال میں سے ایک مہینہ تبلیغ کے لئے وقف کریں۔ قادیان ہجرت کرکے آنے والوں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کی خدمت اور مرکز کی مضبوطی کے لئے قادیان آئے ہیں۔ مَیں نے کہا تھا کہ ایسے تمام لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیں اور پیچھے رہ کر اپنے عمل سے اپنے ایمان پر منافقت کی مہر ثبت نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چودہ ہزار کی آبادی میں سے صرف نوّے آدمیوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ چودہ ہزار میں سے سات ہزار عورتیں ہوں گی اور پھر باقی سات ہزار مردوں میں سے بھی ساڑھے تین ہزار کے قریب بچے اور بوڑھے ہوں گے جن کو نکالنا پڑے گا۔ اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ بہرحال اڑھائی ہزار مرد قادیان میں ایسے ہیں جو اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اور اگر گرد و نواح کے احمدیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر واقع میں انسان کے اندر تقویٰ ہو اور اس کے اندر یہ عزم ہو کہ مَیں اسلام کے غلبہ کے لئے ہر وقت کوشاں رہوں گا تو ایک مہینہ کا وقف کرنا کونسی مشکل بات ہے۔ مگر تم میں سے بُہتوں نے سنا اور سن کر پیٹھ پھیر کر چلے گئے او راُن کی اِتنی ہمت نہ پڑی کہ ساری عمر نہیں، دس پندرہ سال نہیں، ایک سال نہیں بلکہ بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ بھی وقف کر دیں۔ کیا ایسے لوگوں کو اپنی عاقبت کا ذرا بھی فکر ہے؟ کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر وہ رات کو مر جاتے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے استقبال کے لئے آتے اور انبیاء ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے کہ آپ مہربانی فرما کر جنت میں ضرور تشریف لے چلیں؟ ایسے لوگ سخت فریب خوردہ ہیں ۔ جو شخص سال میں سے ایک مہینہ بھی خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کو تیار نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کس طرح امیدوار ہو سکتا ہے۔ جو فرض اُن کے ذمہ تھا وہ پورا نہیں ہؤا تو انعام کس بات کا؟ انعام تو خدمت بجا لانے کے بعد ملا کرتا ہے۔ کئی دفعہ سلسلہ کی طرف سے مختلف مالی مطالبے پیش ہوئے ہیں لیکن سوائے تھوڑے سے لوگوں کے باقی لوگ بدستور خاموش ہیں۔ انسان مالی لحاظ سے اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکتا ہے جب یا تو اُس نے اِس قدر مالی قربانیاں کی ہوں کہ جس کے بعد وہ کہہ سکے کہ اب میں کنگال ہو گیا ہوں اور اب مجھ میں حصہ لینے کی توفیق نہیں۔ یا پھر وہ ہر مالی مطالبہ میں اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیتا ہو۔ اور جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جائے تو کہہ سکے کہ مالی قربانیوں کی جتنی آوازیں مَیں نے سُنیں اُن سب میں اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں کہ جن کی مالی قربانیاں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے لیکن وہ ہزاروں ہی ہیں جو ہر قربانی کے وقت اور ہر مطالبہ کے وقت آگے آتے ہیں اور لاکھوں چُپ کر کے کِھسک جاتے ہیں۔ جب مَیں کوئی آواز اٹھاتا ہوں تو وہ ہزاروں پھر اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں کہ لیجئے ہم حاضر ہیں۔ لیکن وہ لاکھوں جو پیچھے ہیں ان کی مہر ِسکوت نہیں ٹوٹتی۔ وہ دبکے ہوئے ایک طرف بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی مَیں اُن کو اُن ہزاروں لوگوں کا نمونہ پیش کر کے ترغیب دلاتا ہوں اور کبھی مَیں ان کو قربانیوں سے پیچھے رہنے والوں کے عبرتناک انجام سنا کر ترہیب سے کام لیتا ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ پیچھے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ہزاروں پھر آگے آ جاتے ہیں۔ کتنا صاف فرق نظر آتا ہے ادنیٰ ایمان میں اور اعلیٰ ایمان میں۔ جو لوگ اپنے آپ کو قربانیوں کے لئے پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قریب کرتا جاتا ہے اور ان کا مزید قربانیوں کے لئے تیار رہنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قریب کر رہا ہے۔ ورنہ پہلی قربانی کے بعد ان کے دل میں خیال آتا کہ ہم قربانی کر چکے اب دوسروں کی باری ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ یہ تو پورا ہو کر ہی رہے گا لیکن ساتھ ہی ان کمزور ایمان والوں کا کام بھی تمام ہو جائے گا۔ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو یہ زنگ بڑھتا جائے گا اور آخر وہ آنکھوں اور کانوں سے محروم ہو جائیں گے۔ مجھے ان لوگوں کی کمزوریوں کا بہت فکر ہے۔ مگر مَیں کیا کروں۔ کوئی مشفق باپ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی اولاد اندھی، بہری ہو۔ اور کوئی امام یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی جماعت کے کچھ لوگ اندھے، بہرے اور گونگے ہو کر خدا تعالیٰ کے سامنے جائیں۔ ہم نے تو ساری دنیا کے دلوں کو تبدیل کرنا ہے اور اُنہیں بحرِظلمات سے نکالنا ہے۔ پھر ہم کس طرح یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ نابینا، بہرا اور گونگا ہو جائے۔ مگر یہ کام ایسا ہے کہ صرف میری کوشش سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اِس میں تمہاری اپنی کوشش کا بہت حد تک دخل ہے۔ اگر تم لوگ خود اپنی اصلاح کا عزم کر لو تو پھر یہ کام آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن بغیر تمہاری کوشش کے مَیں تمہارے دلوں کو کس طرح بدل سکتا ہوں۔ یہ کام ایسا ہے کہ جسے ہم مل کر،کر سکتے ہیں۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا علم نہیں دیا اوردین کی ضرورتوں کا تمہیں علم نہیں دیا۔ مجھے علم دیا ہے۔ اور ان باتوں کے متعلق مَیں تمہیں بار بار توجہ دلاتا رہتا ہوں مگر تمہارے نفس کی اصلاح اور نفس میں تبدیلی پیدا کرنے کا اختیار تم کو دیا ہے۔ وہ مجھے نہیں دیا۔ نفس کی پاکیزگی کے رستے بتانا میرا کام ہے لیکن ان پر چلنا اور ان پر قائم رہنا تمہارا کام ہے۔ جب تک یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک تم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے بلکہ خوشی کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔ کامیابی تو مقدر ہے اور وہ ہو کر رہے گی۔ جلد ہو یا بدیر۔ لیکن تم کو خوشی نہ ہو گی کیونکہ تم سارے کےسارے اس کے وارث نہ بن سکو گے۔ کیونکہ بعض لوگ کمزوریوں کی وجہ سے رستہ میں گر جائیں گے۔ خوشی تو اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ سارا قافلہ منزلِ مقصود پر پہنچ جائے اور رستہ میں کوئی رہ نہ جائے۔ پس مَیں پھر کہتا ہوں کہ وقت نازک سے نازک ہوتا جا رہا ہے اِس لئے زیادہ سے زیادہ نمازیں، زیادہ سے زیادہ روزے، زیادہ سے زیادہ عبادات، زیادہ سے زیادہ اَذکار، زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنے میں لگ جاؤ۔ اب بے شک وہ زمانہ نہیں کہ دین کے خادموں کے تلواروں سے سر قلم کئے جائیں لیکن زندگیاں وقف کرنے کا اب بھی دروازہ کھلا ہے۔ جو لوگ تمام زندگی وقف نہ کر سکتے ہوں وہ عمر کا کچھ حصہ وقف کر دیں۔ اور جو اِس کی بھی توفیق نہ رکھتے ہوں وہ کم سے کم سال میں ایک مہینہ ضرور وقف کریں۔ کیونکہ بغیر ایسی قربانیوں کے تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب نہیں کر سکتے۔ اتنی سہولتوں کے بعد جو شخص پیچھے ہٹتا ہے وہ اپنے عمل سے خود اپنے دل پر مہر لگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دل پر مہر لگانے کے معاملہ میں بندے کے فعل کے ماتحت چلتا ہے۔ جب بندہ خود کمزوری دکھا کر او رنیکی سے بُعد اختیار کر کے خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب مَیں اس قابل ہو گیا ہوں کہ میرے دل پر مہر لگائی جائے تو اللہ تعالیٰ دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہر کو اپنی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اب بغیر ہماری اجازت کے کوئی شخص اس مہر کو توڑ نہیں سکے گا۔ پس بندے خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمام دنیا کو ہدایت پر جمع کر دیتے۔ ہمارا کام تو ہدایت دینا ہے ، گمراہ کرنا ہمارا کام نہیں۔ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، اپنی اصلاح کرو اور قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اگر اب بھی تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرو گے تو وہ زنگ اَور بھی بڑھ جائے گا اور اُس کا دور کرنا تمہارے اختیار سے باہر ہو جائے گا۔ ’’
(الفضل 22 ؍اکتوبر 1946ء)
1: البقرة: 202
2: ملفوظات جلد 3 صفحہ 342
3: دیوانِ غالب صفحہ 50۔ تدوین میاں مختار احمد کھٹانہ۔ مطبوعہ لاہور 2004ء

35
جماعت احمدیہ اپنی ذمہ داریاں سمجھے اور اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے
( فرمودہ 27 ستمبر 1946ء بمقام دہلی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا پر مختلف قسم کے دَور آتے ہیں۔ کوئی امن کا دَور ہوتا ہے اور کوئی جھگڑوں کا دَور ہوتا ہے، کوئی آرام کا دَور ہوتا ہے اور کوئی جد و جہد کا دَور ہوتا ہے، کوئی نئی اساس اور نئی بنیاد رکھنے کا دَور ہوتا ہے اور کوئی کام کی تکمیل اور خاتمہ کا دَور ہوتا ہے۔ ان تمام ادوار کے مطابق انسان کے کام اور اُس کی کوششیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ اگر انسان موقع کے مطابق محبت اور کوشش سے کام کرے تو کامیاب ہوتا ہے اور اگر اس کی کوششیں موقع کے مطابق نہ ہوں تو اس کی ساری محنت رائیگاں جاتی ہے۔ اچھے سے اچھے کام اگر وہ موقع کے مناسب نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے دفتر میں گناہ لکھے جاتے ہیں۔پس اصل چیز یہی ہے کہ انسان موقع کے مطابق کام کرے اور انہی طریقوں کو اختیار کرے جن سے دنیا میں امن چَین اور اطمینان پیدا ہو او ردنیا کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہوں۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں نیک اعمال کا ذکر آتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے اعمالِ صالحہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اچھے کام کرو بلکہ فرمایا کہ اعمالِ صالحہ بجا لاؤ۔ اعمالِ صالحہ سے مراد وہ کام ہیں جو موقع کے مطابق ہوں۔ جیسا زمانہ ہو اس کے مطابق اور اُس کی ضرورت کے مطابق اعمال بجا لائیں۔ تمام عبادات جن پر ہماری نجات موقوف ہے ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ قید لگائی ہے کہ وہ موقع کے مناسب ہوں۔ دیکھو نماز کتنی اعلیٰ چیز ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اُس کی تسبیح کرتا ہے، قرآن مجید نے نماز کی کتنی تعریفیں بیان کی ہیں کہ وہ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن اسی نماز کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠1 کہ نماز پڑھنے والوں کے لئے عذاب اور *** ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نماز جو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہ ہو وہ انسان کے لئے باعثِ عذاب بن جاتی ہے۔ یہی حال روزہ کا ہے ۔ جو شخص روزہ کی شرائط ملحوظ نہیں رکھتا اس کا روزہ، روزہ نہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی زبان کو غیبت اور گندی باتوں سے نہیں روکا اُس نے بے شک اپنے پیٹ میں روٹی نہیں ڈالی۔ وہ بے شک بھوکا رہا۔ لیکن اس کا روزہ نہیں ہو گا۔ یہی حال دوسری عبادات کا ہے۔ بعض لوگ حج کے لئے جاتے ہیں اور ان کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ لوگ ہمیں حاجی کہیں اور ہماری تعریف کریں۔
مَیں جب حج کے لئے گیا تو مَیں نے دیکھا کہ منیٰ کی طرف جاتے ہوئے جو کہ تسبیح و تحمید کا وقت ہوتا ہے ایک نوجوان اردو کے عشقیہ شعر پڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آخر اسے حج کرنے کی ضرورت کیا تھی اور یہ حج کے لئے کیوں آیا؟ اتفاق کی بات ہے کہ واپسی پر جس جہاز میں مَیں سفر کر رہا تھا اسی جہاز میں وہ نوجوان سوار تھا۔ اُسے مَیں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ جہاز کیوں غرق نہیں ہو جاتا جس میں یہ شخص سفر کر رہا ہے۔ اس کی مراد مجھ سے تھی۔ گویا اسے اسلام کی غیرت اس قدر زیادہ تھی کہ وہ تمام جہاز والوں کو او راپنے آپ کو بھی غرق کرنا پسند کرتا تھا تا کسی طرح مَیں غرق ہو جاؤں۔ لیکن اس کی دینی حالت یہ تھی کہ اُسے تسبیح و تحمید کے لئے چند گھڑیاں میسر آئیں وہ بھی اس نے عشقیہ شعر پڑھتے ہوئے گزار دیں۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ تم منیٰ کو جاتے ہوئے عشقیہ شعر پڑھ رہے تھے۔ آخر تمہیں حج کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اس نے کہا مَیں بمبئی کے علاقہ کا رہنے والا ہوں اور میرا پیشہ تجارت ہے۔ پہلے ہماری دکان بہت زیادہ چلتی تھی۔ لیکن ہمارے ہمسایہ میں جس شخص کی دکان تھی وہ حج کے لئے آیا اور واپس جا کر اُس نے اپنے بورڈ پر حاجی لکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے ہماری دکان چھوڑ کر اُس کی دکان سے سَودا خریدنا شروع کر دیا ۔ میرے باپ نے محسوس کیا کہ اگر ہماری تجارت کی یہی حالت رہی تو ہماری تجارت بہت جلد گر جائے گی اِس لئے میرے باپ نے مجھے کہا کہ جاؤ تم بھی حج کر آؤ تاکہ ہم بھی بورڈ پر حاجی لکھ سکیں۔ اس کے کہنے پر مَیں حج کے لئے آیا۔ تو دیکھو اُس کی یہ عبادت اس کے لئے گناہ بن گئی اور اسے بہت سی نیکیوں سے محروم کرنے والی بن گئی۔
یہی حال زکوٰة کا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ اِس لئے صدقات دیتے ہیں کہ دنیا کے لوگ ان کی تعریف کریں اور کہیں کہ یہ بہت سخی آدمی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کی مثال اُس شخص کی ہے جس نے پتھر پر بیج ڈال دیا۔ جب بارش کے چھینٹے پڑیں گے تو وہ بیج کو اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے۔ جو لوگ نام و نمود کے لئے خرچ کرتے ہیں اِسی طرح بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے لئے رحمت کا پیغام لائیں اُن کے لئے *** اور خدا سے دوری کا پیغام لاتے ہیں۔ پس حالات کی تبدیلی سے اچھے سے اچھا کام بُرا ہو جاتا ہے اور بُرے سے بُرا کام اچھا ہو جاتا ہے۔
لڑائی کتنی بُری چیز ہے، کسی کو قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کو ان خاص جرائم میں رکھا ہے جن کے متعلق فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے ہمارا خاص عذاب اور سخت ناراضگی ہے مگر وہی قتل جہاد کی صورت میں کتنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی مومن لڑائی کے میدان سے بھاگتا ہے تو بجائے اِس کے کہ اُس کی تعریف کی جائے کہ اُس نے قتل و خون نہیں کیا اور وہ بہت امن پسند ہے اُس کو بزدل اور غدار کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی قوم سے دھوکا کیا اور اس کے لئے کمزوری کا باعث بنا۔ اور جو شخص ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور جان کی پروانہیں کرتا اور پیٹھ نہیں دکھاتا اُسے حقیقی مومن سمجھا جاتا ہے۔ اب دیکھو ایک وقت میں قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے مگر دوسرے وقت میں وہی قتل ایک اعلیٰ نیکی بن جاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ قتل دفاع اور خود حفاظتی کے طور پر ہو اور ظلم کا رنگ اُس میں نہ پایا جاتا ہو۔ بہرحال ایک چیز ایک وقت میں گناہ ہوتی ہے تو دوسرے وقت میں ثواب بن جاتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے مختلف مثالوں سے آپ دوستوں کے سامنے اس کو واضح کر دیا ہے۔ پس مومن کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ ہوشیار رہے اور اپنے ہر کام کو بغور دیکھے کہ آیا وہ ضرورتِ وقت کے مطابق ہے یا نہیں۔ خواہ وہ ذاتی کام ہوں یا وہ قومی کام ہوں۔ قومی کاموں کا پورا کرنا ذاتی کاموں سے زیادہ مقدم ہوتا ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ اس خیال میں مبتلا ہیں کہ ہم غیر احمدیوں سے بہت زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ غیر احمدی آزاد ہیں۔ وہ کسی حکم کے پابند نہیں۔ مالی اور جانی قربانیوں کا ان سے مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا مقابلہ یا ہماری مشابہت ان لوگوں سے نہیں اور ہمیں ان سے کوئی نسبت نہیں۔ یہ لوگ منبع سے بہت دور ہیں اور ہم لوگ منبع کے بہت قریب ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مامور آیا اور ہم نے اُس کو مانا۔ اور ہم وہی قربانیاں کریں گے جو حضرت ابراہیمؑ کے ماننے والوں، حضرت موسیٰ ؑ کے ماننے والوں، حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والوں اور حضرت زکریاؑ کے ماننے والوں، حضرت یحییٰ ؑ، داؤدؑ اور سلیمانؑ کے ماننے والوں، رام چندر اور کرشنؑ ، زرتشتؑ اور بدھؑ کے ماننے والوں نے کیں۔ ویسی ہی قربانیاں ہم بھی کریں گے۔ اِس دعویٰ کے بعد ہماری موجودہ زمانہ کے لوگوں سے کوئی نسبت قائم نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں گروہوں میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ اس کی مثال تم یوں سمجھو کہ کوئی شخص یہ دیکھ کر کہ چونکہ مرغی پندرہ بیس دانے کھا کر سیر ہو جاتی ہے وہ ایک گائے کے سامنے پچاس یا ساٹھ دانے ڈال کر یہ سمجھ لے کہ اب وہ سیر ہو جائے گی۔ یا ایک ہاتھی جو کہ منوں غذا کھاتا ہے اُس کے سامنے ساٹھ ستّر یا سَو دانے ڈال کر یہ سمجھ لے کہ اب ہاتھی سیر ہو جائے گا۔یا وہ یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ ایک مرغی ایک چھٹانک بوجھ اٹھا سکتی ہے اِس لئے ایک ہاتھی پر بھی ایک چھٹانک ہی بوجھ لادنا چاہئے۔ ایسے شخص کو تمام دنیا پاگل کہے گی۔ پس یاد رکھو کہ ہمارا مقابلہ تو رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ سے ہے۔ ہمارا مقابلہ تو حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھیوں سے ہے۔ ہمارا مقابلہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں سے ہے۔ ہمارا مقابلہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھیوں سے ہے۔ جب تک تم اس قسم کی قربانیاں نہیں کرتے جس قسم کی قربانیاں انہوں نے کیں اور جب تک تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے رستے میں فنا نہیں کرتے او ربڑی سے بڑی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہو جاتے اُس وقت تک تم ان کے مثیل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ بلکہ مَیں تو کہتا ہوں کہ تم ان انبیاء کی جماعتوں کی ہتک کر رہے ہو۔ کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم پہلے انبیاء کی جماعتوں کے مثیل ہیں۔ او راگر ہم قربانی کا ادنیٰ معیار قائم کرتے ہیں تو ہم دوسرے انبیاء کی جماعتوں کے متعلق دوسرے لفظوں میں یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے۔ اس لحاظ سے ہم ان جماعتوں کی ہتک کرنے والے ہیں۔ ہمارا موجودہ لوگوں سے اپنی قربانیوں کا مقابلہ کرنا بے وقوفی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ تو وہ ہیں جو انبیاء کے سینکڑوں سال بعد آئےا ور اب وہ گراوٹ اور تنزل کے بعد نئی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
کیا تم نے کبھی خیال کیا ہے کہ صحابہؓ کی زندگیاں اسی طرح گزرتی تھیں جس طرح آج تمہاری زندگیاں گزر رہی ہیں؟ کیا صحابہؓ اسی رنگ میں قربانیاں کیا کرتے تھے جس رنگ میں آج تم قربانیاں کر رہے ہو؟ کیا صحابہؓ دین کے لئے اتنا ہی وقت خرچ کرتے تھے جتنا تم آج خرچ کر رہے ہو؟ کیا صحابہؓ کی مالی قربانیاں اسی طرح کی تھیں جیسی تمہاری ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں بلکہ اُن کی قربانیاں تم سے سینکڑوں گُنا بلکہ ہزاروں گُنا بڑھ کر تھیں۔ تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم صحابہؓ کے مثیل ہیں۔ ہماری جماعت زیادہ سے زیادہ یہی کہے گی کہ کیا کیا جائے۔ ہم نے روٹی بھی تو کھانی ہے۔ لیکن مجھے کوئی بتائے کہ کیا صحابہؓ کے ساتھ پیٹ نہ تھے؟ کیا صحابہؓ روٹی نہ کھاتے تھے؟ ہماری جماعت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہمارے بیوی بچے ہیں اُن کا پالنا بھی ہمارا فرض ہے۔ لیکن مَیں تم سے یہ پوچھتا ہوں۔ کیا صحابہؓ نے شادیاں نہ کی تھیں؟ کیا ان کا کوئی بیوی بچہ نہ تھا؟ کیا ان کی اولاد نہ تھی؟ اگر صحابہؓ کی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے اور اس کے باوجود انہوں نے قربانیوں کی مثال قائم کر دی۔ تو تمہارے لئے تمہاری بیویاں اور بچے کیوں روک بن گئے؟ کیا تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہی جواب دو گے کہ ہمارے بیوی اور بچے تھے اس لئے ہم جانی اور مالی قربانیوں میں حصہ نہ لے سکے؟ اور کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا یہ جواب قبول کر لے گا؟ وہ تمہارے اس جواب کو تمہارے منہ پر مارے گا اور کہے گا کہ کیا محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے بیوی بچے نہ تھے جب وہ اُن کے رستے میں روک نہ بنے تو تمہارے لئے کیونکر روک بن گئے۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ صحابہؓ تجارت کرتے تھے اور ہم نوکریاں کرتے ہیں۔لیکن تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صحابہؓ میں سے بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کی نوکریاں تمہاری نوکریوں سے بہت زیادہ مشکل تھیں۔ وہ غلام تھے اور غلام کے چوبیس گھنٹے اس کے مالک کے ہوتے ہیں۔ اس کا مالک اس کے روپیہ جائیداد فن اور ہُنر ان تمام چیزوں کا مالک ہوتا ہے اَور کوئی چیز بھی ان کی اپنی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرنے کے مجاز نہ تھے۔ ان صحابہؓ کو ان کے مالک کئی قسم کی سخت سے سخت تکلیفیں دیتے تھے۔ ہمارے آجکل کے ملازمت پیشہ لوگ ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ وقت پر دفتر جاتے ہیں اور چند گھنٹے کام کرنے کے بعد واپس آ جاتے ہیں۔ گو یہ صحیح ہے کہ افسران اپنے ماتحت احمدی کارکنوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ تبلیغ نہ کریں۔ لیکن کیا یہ کوئی نیا حکم ہے؟ کیا صحابہؓ کو ان کے مالک اس قسم کے حکم نہیں دیتے تھے۔ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ اصل مقصد ہماری زندگی کا اسلام پھیلانا ہے اِس لئے وہ ان باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ جو سلوک صحابہ سے ہوتا تھا اُسے خیال کر کے انسان کا دل کانپ جاتا ہے۔ ایک صحابی کے متعلق آتا ہے کہ ان کا آقا انہیں زمین پر لٹا دیتا تھا اور خود موٹے موٹے تلووں والے جُوتے پہن کر اُن کی چھاتی پر کودتا تھا اور ان کو کہتا تھا کہ کہو اللہ تعالیٰ کے سِوا اَو رمعبود بھی ہیں اور توحید کا انکار کرو۔ کبھی ان کو گرم ریت پر لٹاتا اور ایسی ایسی تکلیفیں دیتا کہ وہ تمہارے وہم میں بھی نہیں آ سکتیں۔ تمہارا افسر اگر اپنے دفتر کے آدمیوں سے ایک دن بھی ایسا سلوک کرے تو اُسی دن برطرف کر دیا جائے لیکن صحابہؓ ایسی تکلیفوں کو ہر روز برداشت کرتے تھے۔ اس صحابی کا سینہ زخمی ہو جاتااور پھر ان کا مالک دس پندرہ منٹ کے بعد انہیں کہتا۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود بھی ہیں۔ تو وہ توتلی زبان سے جواب دیتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ کہ مار لو جتنا مارنا چاہتے ہو۔ مَیں تو یہی گواہی دوں گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس پر وہ انہیں پھر مارنے لگ جاتا اور پھر پندرہ بیس منٹ کے بعد کہتا ۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود بھی ہیں۔ لیکن وہ پھر یہی جواب دیتے۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔2 غرض وہ کونسی تکلیف ہے جو تم سمجھتے ہو کہ وہ صحابہؓ کو نہ دی جاتی تھی او رتمہیں دی جاتی ہے؟ اور وہ کونسی نرالی مصیبت ہے جو صحابہؓ پر نہ آئی اور تم پر ڈالی گئی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ صحابہؓ یہ سمجھ کر ایمان لائے تھے او رانہوں نے ان حالات کا مشاہدہ کر لیا تھا کہ خواہ ہمیں جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ہم اسلام کو کسی صورت میں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور اُ س سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہمارے لئے ہلاکت کا موجب ہے۔ مثل مشہور ہے جب اُکھلی میں سر دیا تو پھر موسلوں سے کیا ڈر۔ جب انسان اُکھلی میں سر دے دے تو پھر ڈنڈوں کی کٹائی سے کیا ڈرنا ہے۔ نبیوں کی جماعتوں کی یہ شان نہیں کہ وہ ماروں سے ڈریں اور چوٹوں سے ڈریں۔ اُکھلی تو بنائی ہی اس لئے جاتی ہے کہ اس میں کسی چیز کو رکھ کر چوٹیں لگائی جائیں۔ اور انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی غرض یہی ہے کہ وہ اپنی قربانیوں سے دنیا کی حالت کو بدل دیں۔ انبیاء کی جماعتوں سے قربانی کا مطالبہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں جو اتفاقی ہو۔ بلکہ ہر نبی کی جماعت کو اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ وہ اس کی راہ میں قربانی کرتے ہوئے دنیا کے قلوب کو فتح کرے اور کسی نبی کی جماعت اس کے سوا کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کرے۔
ہماری جماعت میں سے کسی ایک فرد کا بھی وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اُس کا وقت گپیں مارنے اور لغو باتیں کرنے سے ضائع نہ ہو۔ ہماری باتیں دین کے متعلق ہونی چاہئیں اور ہمارے اوقات دین کی تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے لئے خرچ ہونے چاہئیں۔ اگر ہم آج سے یہ کوشش شروع کر دیں تو آہستہ آہستہ وہ وقت ہمارے قریب آ جائے گا جبکہ خالص دینی باتیں اور خالص دینی مقاصد ہماری مجالس پر حاوی ہو جائیں گے۔ ہر احمدی کو سنجیدگی سے اپنے فرائض پر غور کرنا چاہئے ۔ جو شخص سنجیدگی سے غور کرے گا اور احمدیت کے مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا اس کے دماغ میں ایک نور پیدا ہو گا اور اس کی فکر زیادہ روشن ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دماغ تو ایک جیسے ہی عطا کئے جاتے ہیں لیکن ان سے صحیح طور پر کام لینے کی وجہ سے کچھ لوگ مفکر اور مدبر ہو جاتے ہیں اور بہت باریک مسائل حل کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے دماغوں سے صحیح طور پر کام نہ لینے کی وجہ سے بلید3 اور کُند ذہن بن جاتے ہیں اور ان کے دماغوں میں اعلیٰ قسم کا نور پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جو لوگ سوچنے کے عادی ہوتے ہیں وہ ہر کام کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے ہیں اور اُس میں ایک اصلاح کا پہلو نظر آتا ہے۔ پس تمہیں اپنے تمام کاموں کے متعلق غور و فکر کرنا چاہئے۔ تمہاری نمازیں دوسروں سے ممتاز ہونی چاہئیں۔ تمہارے روزے دوسروں سے ممتاز ہونے چاہئیں۔ تمہارے حج اور زکوٰتیں دوسروں سے ممتاز ہونی چاہئیں۔ دوسرے لوگوں کی نمازیں محض فرض اور چٹّی کے طور پر ہیں او ردوسرے لوگوں کی زکوٰتیں محض دکھاوا او رنمود ہیں۔ لیکن تم میں تو اللہ تعالیٰ کا ایک مامور آیا اور تم نے اللہ تعالیٰ کی باتیں سنیں اور تم اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے والوں سے ہمکلام ہوئے او رتم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ۔ دوسری قومیں تو روایتاً اللہ تعالیٰ کے احسان او رمحبت کے افسانے بیان کرتی ہیں لیکن تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کا ایک مامور آیا اور تم نے قریب زمانے میں اللہ تعالیٰ کے نشانات او رمعجزات دیکھے اور دیکھ رہے ہو۔ اِتنے نشانات دیکھنے کے بعد بھی اگر ہم میں اور دوسرے لوگوں میں کوئی نمایاں فرق نہ ہو تو بہت افسوس کی بات ہے۔ پس ہر کام کو تدبر اور تفکر کے ساتھ کرو۔ تمہاری نماز اگر کسی وقت ہلکی بھی ہو تو اس میں یہ جذبہ کام کر رہا ہو کہ میرا خدا مجھے مل جائے۔ اگر اس جذبہ کے ماتحت تم نماز ادا کرو گے تو یقیناًَ تم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے جاؤ گے۔ لیکن اگر تم یہ سمجھ کر نماز ادا کرو گے کہ نماز خدا کا حکم ہے اس لئے مَیں اسے ادا کرتا ہوں تو تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب نہیں کر سکو گے۔ اسی طرح اگر تمہارے چندے اور تمہاری زکوٰتیں اس نیت سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا دین ترقی کرے تو یقیناً وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں گے اور اگر کوئی شخص اس نیت سے قربانی کرتا ہے کہ میری عزت کا باعث ہو تو وہ قربانی اس کے لئے بجائے رحمت بننے کے زحمت بنے گی اور اللہ تعالیٰ سے دُوری کا موجب ہو گی۔ ہماری عبادتوں اور دوسرے لوگوں کی عبادتوں میں ایک نمایاں فرق ہونا چاہئے۔ ہمارا چندہ دینا دوسرے لوگوں سے جُدا گانہ ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہوئے مالی قربانیاں کریں کہ اصل میں جتنا مال ہمارے پاس ہے سب اللہ تعالیٰ کا ہے او رہم جو چندہ یا صدقہ یا جو زکوٰة دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا قرض اُتارتے ہیں۔ اور تھوڑا تھوڑا ادا کرتے جاتے ہیں تاکہ قرض اکٹھا نہ ہو جائے۔ دوسرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم زکوٰۃ دے کر اللہ تعالیٰ پر احسان کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے سارا مال نہیں مانگا اور اس نے کچھ ہمارے پاس بھی رہنے دیا۔ اگر وہ سارا مانگتا تو ہم سارا ہی قربان کر دیتے۔ پس دوسرے لوگوں کی قربانیوں میں او رہماری قربانیوں میں فرق ہونا چاہئے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ انفرادی نیکیوں میں بہت پیچھے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے نماز پڑھ لی، چندہ دے دیا تو پھر ہمارے ذمہ کوئی فرض نہیں رہا۔ جس طرح اسلام جماعتی نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اسی طرح انفرادی نیکیوں کو پورا کرنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ جہاں پرانے زمانے کے لوگ اس غلطی پر تھے کہ جب ہم نے اپنے ہمسایہ کی خبر گیری کر دی اور کسی غریب کو روٹی اور کپڑا دے دیا تو ہمارا فرض پورا ہو گیا۔ وہاں ہماری جماعت کے بعض افراد اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ جب ہم مرکز میں چندہ بھیجتے ہیں، باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں تو اس کے بعد ہمارے ذمہ اَور کونسی ذمہ داری باقی رہتی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے ان دونوں قسم کی نیکیوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے مال کا تیسرا حصہ بھی خدا کی راہ میں دے دیتا ہے لیکن اپنے ہمسائے سے بدسلوکی سے پیش آتا ہے۔ بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کی خبر گیری نہیں کرتا اور گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بری الذّمہ نہیں ہو سکتا ۔اور باوجود اس کے کہ اس نے اپنے مال کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا پھر بھی وہ مجرموں کی صف میں کھڑا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ مَیں نے یہ حکم بھی دیا اور وہ حکم بھی دیا تھا۔ ایک حکم کو تم نے پورا کیا اور دوسرے کو پسِ پشت ڈال دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے اندر کوئی نفسانیت تھی جس کی وجہ سے تم نے دوسرے حکم کو فراموش کر دیا۔ اور مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری نہ کی۔ اور اُن کے کام نہ آئے۔ اِسی طرح جو شخص یتیموں، غریبوں اور بیواؤں کی خبرگیری کرتا ہےاور اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرتا ہے، خلقِ خدا کی بہبودی کے لئے کوشش کرتا ہے لیکن قومی اور جماعتی کاموں کے بجا لانے میں دریغ کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکتا۔ پس نفس کی اصلاح کے لئے اجتماعی اور فردی دونوں قسم کی قربانیاں ضروری ہیں۔ ہر وہ شخص جو باجماعت نماز تو ادا کرتا ہے لیکن نوافل کی طرف سے غافل ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اور وہ شخص جو کہ جماعتی عبادات بجا نہیں لاتاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتا۔ پس انفرادی بھی اور جماعتی بھی دونوں قسم کی عبادتیں ضروری ہیں۔ جہاں تک فرضی عبادتوں کا سوال ہے اور ان کے چھوڑنے سے انسان مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اور جہاں تک نفس کی پاکیزگی کا سوال ہے۔ نفلی عبادتیں بھی اسی طرح ضروری ہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ نوافل سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہوتا ہے اورنفلی عبادتوں کے بجا لانے سے آہستہ آہستہ انسان پر ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ کام کرتا ہے۔ اور پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے۔4 غرض انسان کے تمام جسم پر اللہ تعالیٰ حاوی ہو جاتا ہے اور بندے کے تمام کام اللہ تعالیٰ کے اشارے پر صادر ہوتے ہیں۔ جماعتی عبادتوں میں ریاء اور نمود کا پہلو ہو سکتا ہے۔ لیکن انفرادی عبادتوں میں ریاء اور سَمْعَت 5 کا پہلو کم ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی عبادتیں مقرر فرمائیں۔ جب تک کوئی انسان دونوں قسم کی عبادتیں بجا نہیں لاتا اُس وقت تک وہ مکمل انسان نہیں کہلا سکتا۔ پس دونوں قسم کی عبادتیں ضروری ہیں۔ حقیقی مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کو مکمل کرنے کی کوشش کرے۔
مجھے دہلی کی جماعت سے ملنے کا کم موقع ملتا ہے۔ لاہور کی جماعت کے لوگ بار بار قادیان آتے رہتے ہیں اور مجھے بھی بار بار لاہور جانا پڑتا ہے اِس لئے ان سے ملنے کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں اور وہ میری باتیں اکثر سنتے رہتے ہیں۔ لیکن مجھے دہلی آنے کا کم موقع ملتا ہے اور دہلی کے لوگ بھی بار بار قادیان نہیں جاتے۔ اس لئے مَیں آج کے خطبہ میں دہلی کی جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ صدر کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ذمہ داری صدر پرپڑتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو ان میں ایک فقرہ یہ بھی تھا۔ اگر تم ایمان لاؤ گے تو تمہیں دُگنا ثواب ملے گا کیونکہ تمہارے ایمان لانے سے تمہاری رعایا بھی ایمان لائے گی۔ اِسی طرح انکار کرو گے تو تم کو عذاب بھی دُگنا ملے گا۔6اس لحاظ سے دہلی کی جماعت کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں کیونکہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے۔ یہاں مدراسی، بنگالی، بہاری، سی۔پی کے رہنے والے، بمبئی اور پنجاب کے رہنے والے اور دوسرے صوبوں کے رہنے والے آتے ہیں اور یہاں سے کچھ تأثرات لے کر جاتے ہیں۔ اگر ہماری جماعت کا اثر اور نفوذ مضبوط ہو تو یہ یقینی بات ہے کہ ضرور وہ احمدیت کا اثر بھی لے کر جائیں گے۔ لیکن اگر انہیں صدر مقام میں احمدیت کا اعلیٰ نمونہ نظر نہ آئے اور ان کے کانوں تک احمدیت کی آواز نہ پہنچے تو وہ یہ سمجھیں گے کہ مرکزی طور پر اس جماعت کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ اتفاقی طور پر چند افراد ہمارے علاقوں میں احمدی ہو گئے ہیں۔ اگر ان حالات میں دہلی کی جماعت اپنی تبلیغ کو مضبوط نہ کرے تو احمدیت کا رُعب قائم نہیں ہو سکتا۔ پس ضرورت ہے اس بات کی کہ دہلی کی جماعت دیوانہ وار تبلیغ میں لگ جائے اور اپنے نفسوں میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرے تاکہ باہر سے آنے والے لوگ جب دہلی آئیں تو وہ یہ محسوس کریں کہ دہلی میں چاروں طرف احمدیت کا چرچا ہے۔ اگر دہلی میں ہماری جماعت کی تبلیغ مضبوط ہوجاوے تو خواہ ہمارا مبلغ مدراس، بمبئی، مالا بار وغیرہ میں نہ پہنچ سکے تو بھی احمدیت کی آواز ان لوگوں کے کانوں تک پہنچتی رہے گی کیونکہ جو لوگ دہلی آ ئیں گے وہ یہاں سے گہرے طور پر احمدیت کا اثر لے کر جائیں گے۔ پس جو کام مالا بار کے لوگ نہیں کر سکتے تھے وہ دہلی کے لوگ کر سکتے ہیں اور جو کام مدراس کے لوگ نہیں کر سکتے تھے وہ دہلی کے لوگ کر سکتے ہیں۔ دہلی میں ہندوستان کے چاروں کونوں سے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ پس ان علاقوں تک تبلیغ پہنچانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ دہلی کی جماعت کو مضبوط کیا جائے اور اس کی تبلیغی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔ اور یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جبکہ جماعت دہلی جانی قربانی اور مالی قربانی کے لئے ہر طرح تیار ہو۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ جانی قربانیوں کا نام سن کر گھبراتے ہیں حالانکہ موت قبول کئے بغیرکوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور مجھے یہ تو بتاؤ کہ کون ہے جو موت سے بچ سکتا ہے؟ اگر موت کا وقت مقرر ہوتا تو بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ فلاں شخص ابھی اتنے سال اَور زندہ رہ سکتا ہے۔ فرض کرو اگر ہر ایک آدمی کے لئے سو سال کی عمر مقرر ہوتی تو ایک ساٹھ سال کی عمر میں جانی قربانی کرنے والے کے لئے ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ شخص چالیس سال پہلے اس جہان سے چلا گیا۔ لیکن حالت تو یہ ہے کہ انسان ایک پل کے لئے بھی اپنی زندگی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ اِس دنیا میں بعض ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جو پیدا ہونے سے پہلے ہی مُردہ ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو پیدا ہونے کے بعد چند گھنٹے زندہ رہتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔ اور بعض بچپن میں اور بعض جوانی میں او ربعض بڑھاپے میں مرتے ہیں۔ پس کسی کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ اور انسانی زندگی پر کوئی بھروسہ نہیں کر سکتا۔ یہ موت کا سلسلہ ابتدا سے چلا آ رہا ہے اور چلتا چلا جائے گا۔ ہر روز سینکڑوں ہزاروں لوگ مرتے ہیں۔ پس کسی کی عمر کی کوئی گارنٹی نہیں اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ وہ کل تک زندہ رہے گا یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ ایک طبعی جذبہ رکھا ہے کہ مَیں کوئی ایسی بنیاد رکھوں جس سے میرا نام قیامت تک زندہ رہے۔ اورعام طور پر دنیا کے لوگ اسی لئے اولاد کی خواہش رکھتے ہیں کہ اولاد سے انسان کا نام باقی رہتا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جن کے نام ان کی اولادوں کی وجہ سے اب تک زندہ ہیں؟ مجھے یہ شوق ہے کہ مَیں بعض دفعہ ملنے والوں سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ کے پڑدادا کا کیا نام تھا؟ اور اکثر لوگ جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے پڑدادا کا نام معلوم نہیں حالانکہ اس کے پڑدادا نے کتنی نذریں مانی ہوں گی؟ کتنی دعائیں کی ہوں گی کہ وہ صاحبِ اولاد ہو جائے تا اُس کا نام رہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے پڑپوتے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ میرے پڑدادا کا کیا نام تھا۔ پس اولاد کوئی ایسی چیز نہیں جس سے انسان کا نام دیر تک زندہ رہ سکے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ انسان میں یہ ایک طبعی جذبہ ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کے بعد اس کی یاگار قائم رہے۔ لیکن اس کے لئے جو طریق لوگ اختیار کرتے ہیں وہ درست نہیں۔ فرض کرو ایک شخص کسی جگہ بیٹھا ہؤا تھا جب وہ وہاں سے جانے لگا تو اس نے اپنی یادگار چھوڑنے کے لئے کاغذ کا ایک پُرزہ وہاں پھینک دیا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس سے اس کی یادگار قائم ہو جائے گی؟ نہیں ۔ جب بھی تیز ہوا چلے گی تو وہ اس کاغذ کے پرزہ کو اڑا کر لے جائے گی۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو اولاد کے ذریعہ یا مال و دولت کے ذریعہ اپنی یادگار چھوڑنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ یادگار جو کبھی مٹ نہیں سکتی وہ قربانی سےقائم ہوتی ہے۔ حیات مٹ جاتی ہے لیکن موت کے ذریعہ قائم ہونے والا نشان کبھی مٹ نہیں سکتا۔ ہماری جماعت میں کتنے مخلص لوگ ہیں۔ لیکن جتنا صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کا نام جماعت میں مشہور ہے کسی اَور کا نہیں حالانکہ بہت سے لوگ جو ان سے پہلے ایمان لا چکے تھے اِس قدر مشہور نہیں۔ صاحبزادہ صاحب کے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے ذریعہ ایک ایسی یادگار قائم کر دی جو قیامت تک مٹ نہیں سکتی اور باقی لوگوں کو اس قسم کی قربانی کا موقع نہ ملا۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 7 تُو ان لوگوں سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری عبادتیں اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ شہادت ایک بہت اعلیٰ مقام ہے اور اس بات کو بھی دیکھتے ہوئے کہ حضرت حمزہؓ اور دوسرے صحابہؓ جنہوں نے لڑائیوں میں اپنی جانوں کو بار بار شہادت کے لئے پیش کیا او راللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کئے گئے اُن کو رسول کریم ﷺ پر ترجیح نہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو ان سے کہہ دے کہ بے شک شہادت ایک بہت بڑی قربانی ہے اور شہادت مجھے بھی پسند ہے اور مَیں شہادت سے اپنے آپ کو بچانا نہیں چاہتا لیکن اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ مَیں میدانِ جنگ میں شہید کیا جاؤں۔ اس لئے تم میری عام موت کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرنا کہ مَیں شہادت سے بچنا چاہتا تھا بلکہ میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ میری زندگی اور میری موت خدا کے رستے میں شہادت کا مقام رکھتی ہیں۔ پس جس شخص کا جینا او رمرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اس سے زیادہ کامیاب اور کون ہو سکتا ہے۔
حضرت خالدؓ بن ولیدجب مرضُ الموت میں تھے تو ان کے ایک دوست ملنے کے لئے آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت خالدؓ بہت گھبراہٹ میں ہیں۔ انہوں نے حضرت خالدؓ کو تسلی دی اور کہا کہ مرنا سب نے ہے آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ اسلام کی خدمت کا آپ کو بہت موقع ملا ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر انعام حاصل کریں گے، گھبرانے کی کونسی بات ہے؟ حضرت خالدؓ بن ولید نے فرمایا کہ مَیں اس بات سے نہیں گھبراتا کہ مَیں مر رہا ہوں۔ موت سے کون بچ سکتا ہے بلکہ مجھے اس بات سے بے چینی ہے کہ مَیں نے ہزاروں دفعہ اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا اور مَیں ایسی جگہوں میں داخل ہؤا جہاں سے زندہ نکلنا محال تھا، اور مَیں نے یہ اس لئے کیا تا مجھے شہادت نصیب ہو۔ لیکن مَیں آج بستر پر مر رہا ہوں۔8مجھے اس بات سے پریشانی نہیں کہ اس وقت کیوں مر رہا ہوں بلکہ مجھے اس بات سے پریشانی ہے کہ مَیں پہلے کیوں نہ مارا گیا۔ یہ لوگ خوش قسمت تھے جو اپنی جانوں او رمالوں کو قربان کر کے ہمیشہ کے لئے اپنا نام زندہ کر گئے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو یا اپنے مال کو بچاتا ہے اسے ہم عقلمند نہیں کہہ سکتے کیونکہ اسے یادگار قائم کرنے کا موقع دیا گیا لیکن اس نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس موقع کو ضائع کر دیا۔
دہلی میں مختلف علاقوں سے آنے والے لوگ قلعہ اور دوسری عمارتوں پر چاقو سے اپنے نام کنندہ کر جاتے ہیں۔ یہ کتنا ذلیل فعل ہے لیکن اس سے ان کی اس خواہش کا پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنی یادگار چھوڑنے کے سخت حریص ہیں۔ وہ عمارتیں جو لاکھوں اور اربوں روپیہ خرچ کر کے بنائی گئی تھیں وہ صرف یادگاریں ہی نہیں بلکہ وہ اپنے بنانے والے بزرگوں کے اس جذبہ کا جس کے ماتحت انہوں نے وہ عمارتیں بنائیں اظہار کر رہی ہیں۔ قطب مینار صرف اس بات کی علامت نہیں کہ اسے ایک مسلمان بادشاہ نے بنوایا بلکہ وہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ ہندوستان شرک کا گڑھ تھا اور ہندوستان میں ضلالت اور گمراہی زوروں پر تھی یعنی آج سے ایک ہزار سال قبل کچھ لوگوں نے اپنے وطنوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے شہر کو چھوڑا اور دوسرے ملک میں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے آئے اور ان کے ذریعے اسلام کی بنیاد پڑی۔ اگر وہ مینار مٹی اور گوبر کا بھی ہوتا تو اس کی قیمت موتیوں اور ہیروں سے بہت زیادہ تھی۔لیکن جو لوگ ان کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں وہ چاقو سے اپنا نام کنندہ کر کے اِس یادگار کو خراب کر دیتے ہیں۔ ان کے اس فعل سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنا نشان چھوڑنے کی اس قدر خواہش رکھتے ہیں کہ اس خواہش کے پورا کرنے کے لئے وہ بڑے سے بڑا جُرم کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کتنے تھوڑے وقت کے لئے یہ لوگ ان یادگاروں کو دیکھنے کے لئے گئے اور اِتنی قیمتی چیز کو خراب کرنے سے گریز نہ کیا کہ کسی طرح ان کا نام باقی رہ جائے۔ پس انسان کی فطرت بول رہی ہے کہ وہ اپنی یادگار چھوڑنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ بغیر کسی قربانی کے اور بغیر کسی خدمت کے میرا نشان باقی رہے۔ اور وہ چیز جس کے ذریعہ انسان کا نشان قائم رہ سکتا ہے اُسے غفلت سے اور سُستی سے چھوڑ دیتا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ اپنے دائیں بائیں نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو صداقت کے قبول کرنے کی توفیق دی اور ہدایت کے قبول کرنے اور اس پر فخر کرنے کا آپ کو موقع ملا۔ کیا آپ کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ اِس وقت لوگ اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربان کرنے سے دریغ کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارے لئے عزت حاصل کرنے کا خاص موقع ہے اور آپ لوگ یہ سوچ کر اِس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے آگے آئیں اور اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں؟ لوگ روپیہ جمع کر رہے ہیں۔ آپ لوگ آگے بڑھیں اور اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں؟
اے عزیزو! یہ خاص موقع ہے۔ ایسا موقع صدیوں میں کہیں میسر آتا ہے۔ پس آپ اِس موقع کو ضائع مت کرو۔ اپنے اندر نیا ایمان اور نیا جوش پیدا کرو۔ جس وقت دوسرے لوگ کام نہ کر رہے ہوں ایسے وقت میں کسی شخص کا چھوٹا سا کام بھی بہت بڑی قیمت پا جاتا ہے۔ باقی دنیا دین سے غافل ہے اور دین سے بیزاری کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ ثواب کے مواقع اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کئے ہیں۔ تم کو کیا معلوم ہے کہ کل ہی ایمان کی رَو چل جائے اور تم سے زیادہ قربانیاں کرنے والے آ جائیں۔ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور جانی اور مالی قربانیوں کے کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔ تاکہ تمہارا نام اللہ تعالیٰ کے جانباز سپاہیوں میں لکھا جائے اور بھگوڑوں اور پیچھے رہنے والوں میں تمہارا نام نہ لکھا جائے۔ ’’ (الفضل 9 ؍اکتوبر 1946ء )
1: الماعون: 5
2: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ339،340مطبوعہ مصر 1936ء
3: بلید: کُند ذہن
4: بخاری کتاب الرِّقاق باب التَّوَاضُع
5: سَمْعَت: فَعَلَہٗ رِیَاءً وَّ سَمْعَةً : اس نے یہ کام لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے کیا۔
6: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ
7: الانعام: 163
8: اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 95۔ مطبوعہ ریاض 1285ھ

36
ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ہر قوم اور ہر مذہب کو مخاطب کرے
( فرمودہ 4 ؍اکتوبر 1946ء بمقام دہلی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۂ فرقان کی یہ آیت تلاوت فرمائیتَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا 1 پھر فرمایا:۔
‘‘ یہ ایک مختصر سی آیت سورۂ فرقان کے ابتدا میں آتی ہے لیکن اِس میں ہمارے لئے ایک وسیع اور مکمل لائحہ عمل مقرر کیا گیا ہے۔ یوں تو کروڑوں کروڑ مسلمان ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مگر کسی چیز کو نام دے دینے سے اس میں وہ حقیقت پیدا نہیں ہو جاتی۔ ہماری زبان کا محاورہ تو نہیں مگر اردو میں استعمال ہوتا ہے کہ
برعکس نہند نام زنگی کافور
کافور ایک سفید چیز ہے۔ اور عام طور پر حبشی غلاموں کا نام کافور ہوتا ہے حالانکہ حبشی سیاہی میں بے مثل ہے اور کافور سفیدی میں بے مثل ہے۔ اب یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ اِس طرح ہمارے ملک کا ایک شاعر کہتا ہے کہ دنیا بھی عجیب ہے جس میں ہر ایک بات اُلٹی نظر آتی ہے ؂
رنگی کو نارنگی کہیں بنے دودھ کو کھویا
چلتی ہوئی کو گاڑی کہیں دیکھ کبیرا رویا
یعنی نارنگی جو کہ ایک خوشنما رنگ رکھتی ہے اس کو نارنگی کہتے ہیں یعنی اس کا کوئی رنگ نہیں حالانکہ اس کا رنگ ہوتا ہے ۔ اور دودھ جب بن جاتا ہے تو اسے کھویا کہتے ہیں حالانکہ کھوئی ہوئی چیز وہ ہوتی ہے جو گم ہو جائے اور اس کا نام و نشان نہ ملے۔ اسی طرح جو چیز چلتی ہے اس کو گاڑی کہتے ہیں حالانکہ گاڑی اسی چیز کو کہناچا ہیے جو ہِل نہ سکے۔ کبیر کہتا ہے کہ دنیا کی یہ اُلٹی باتیں دیکھ کر میرے دل کو بہت دکھ ہؤا کہ یہ دنیا کتنی غیر معقول ہے کہ ہر چیز کا اُلٹا نام رکھتی ہے۔ کیا اس کی آنکھیں بھینگی ہو گئی ہیں کہ اسے سیدھی چیز بھی الٹی نظر آتی ہے۔ غرض جہاں تک نام کا سوال ہے کوئی نام رکھ لیا جائے خواہ وہ نام ہندوؤں والا ہو یا عیسائیوں والا ہو یا مسلمانوں والا ہو۔ اُس نام کی وجہ سے کوئی حقیقت پیدا نہیں ہوتی۔ ہزاروں ہزار لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی یا بدھ کہلاتے ہیں۔ لیکن وہ مغربی تعلیم سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ اُن کی زندگی، اُن کے افکار، اُن کے رہنے سہنے کی عادات، اُن کے لباس کو دیکھا جائے تو اُن میں کمال درجے کا اتحاد نظر آتا ہے۔ لیکن جب ان کے نام معلوم ہوں تو اس وقت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ فلاں کا نام مسلمانوں والا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہؤا ہوگا۔ چونکہ اس کا نام بُدھوں والا ہے اِس لئے معلوم ہوتا ہے یہ بُدھوں کے گھر میں پیدا ہؤا ہوگا۔ یا چونکہ اُس کا نام ہندوؤں والا ہے اِس لئے یہ ہندومذہب سے تعلق رکھتا ہو گا۔ لیکن ظاہرمیں اُن کے لباس کو، ان کی بات چیت کو، اُن کے طور طریقہ کو دیکھ کر انسان یہی سمجھتا ہے کہ وہ ایک متحد قوم ہے۔ حالانکہ کوئی ان میں سے مسلمان ہے، کوئی ہندو ہے، کوئی عیسائی ہے، کوئی یہودی ہے، کوئی پارسی ہے اور کوئی زرتشتی ہے۔ لیکن ناموں سے حقیقت پر پردہ نہیں پڑسکتا۔ حقیقت میں وہ سب کے سب انگریز ہوتے ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ انگریز کے نقّال ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیاں مغرب کی تقلید میں صَرف ہوتی ہیں۔ پس صر ف نام کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ نام کے ساتھ اس میں حقیقی طور پر صفات بھی پائی جائیں۔ مٹی کا بنا ہؤا کیلا بھی نام کے لحاظ سے کیلا ہی ہوتا ہے، مٹی کا بنا ہؤا انگور بھی نام کے لحاظ سے انگور ہی ہوتا ہے، مٹی کا بنا ہؤا سیب بھی نام کے لحاظ سے سیب ہی ہوتا ہے، مٹی کا بنا ہؤا آم بھی نام کے لحاظ سے آم ہی ہوتا ہے لیکن کیا ان چیزوں کو صرف نام دے دینے کی وجہ سے اُن کے اندر حقیقت پیدا ہوجاتی ہے؟ او رصرف نام دے دینے کی وجہ سے ان سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ اسی طرح کے وہ لوگ ہیں جو اپنے نام ایک مذہب کے مطابق رکھ لیتے ہیں۔ مگر حقیقتاً اس مذہب کی کوئی بات ان میں نہیں پائی جاتی اور انہیں اس مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اصل نام رکھنے والے وہ لوگ ہیں کہ جس مذہب کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں اُس کا نمونہ پورے طور پر ان میں موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےتَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ بڑی برکتوں والا ہے وہ خدا جس نے حق اور باطل میں تمیز کرنے والا کلام نازل کیا کہ کس طرح ایک ایک چیز میں حقیقت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ بےشک دنیا کے لوگ بھی سوچ بچار کے بعد کچھ اصول مقرر کرتے ہیں او رپھر انہیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کے الفاظ مبہم اور غیر معیّن ہوتے ہیں۔ ان میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ محض وہ اخلاقی فارمولے ہوتے ہیں جو وہ لوگ اپنی عقل و فہم کے زور سے بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن چونکہ ان کے ساتھ نمونہ نہیں ہوتا اِس لئے دنیا اُن پر عمل کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام برکتوں کا مالک خدا ہے۔ یہ صرف منہ کا دعویٰ نہیں بلکہ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ کہ اُس نے فرقان کو نازل کیا ہے اور ایسا کلام نازل کیا ہے جس کا ایک ایک لفظ حق و باطل میں فرق کر کے دکھلاتا ہے۔ وہ کلام ایسا نہیں کہ وہ چند اچھے اچھے الفاظ پر مشتمل ہو لیکن حقیقت سے خالی ہو یا شاعرانہ طور پر اسے بنا لیا گیا ہو بلکہ وہ کلام ایسا ہے کہ اس کا لفظ لفظ حق و باطل میں امتیاز کر دیتا ہے اور بے شمار حقائق و معارف پر مشتمل ہے۔ وہ کلام ایسا نہیں کہ اس کی عبارت چُست 2 ہو اور اس کے الفاظ غیر معیّن ہوں اوراپنے اندر کوئی معنے نہ رکھتے ہوں بلکہ وہ کلام فرقان ہے جو ہر ایک چیز کی حقیقت کو واضح کر دیتا ہے۔ صرف الفاظ کبھی بھی انسان کی تسلی نہیں کر سکتے۔
کچھ عرصہ ہؤا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں صرف یہ کہہ کر کہ ہم ہندوستانی بھائی بھائی ہیں اور بھائیوں کو آپس میں صلح سے رہنا چاہئے آپس میں صلح کرا دی گئی اور اصل حقیقت کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا۔ اُس وقت مَیں نے کہا تھا کہ اس صلح کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ وقتی طور پر صلح صلح کی آواز بلند کرنے سے لوگ لڑائیاں چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب تک بنیادی چیزوں کو اور اصل وجہ کو دور نہ کیا جائے اُس وقت تک جھگڑے دور نہیں ہو سکتے۔ اور جب تک آپس میں صحیح سمجھوتہ نہ کیا جائے اور ایک دوسرے کے حق کی تعیین نہ کی جائے اُس وقت تک صرف بھائی بھائی کہنے سے صلح نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ایک ماں کے جائے دو بھائیوں میں بھی لڑائی ہو جاتی ہے اور دونوں اپنی اپنی جائیدادیں تباہ کر دیتے ہیں بلکہ باپ بیٹوں میں بھی لڑائی ہوجاتی ہے۔ آجکل ہندوؤں میں ایک شخص بہت بڑا دوا ساز ہے۔ اس کی اور اس کے بیٹے کی آپس میں سخت لڑائی ہے۔ باپ یہ لکھتا ہے کہ یہ دوائی ہماری ایجاد ہے اس کا راز کسی کو معلوم نہیں۔ اگر کوئی ناخلف یہ کہتا ہے کہ مجھے اِس کا راز معلوم ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کسی شخص کو اس کا راز معلوم نہیں۔ اور صاحبزادہ باپ کا نام نہیں لیتا۔ اور وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ شخص غلط کہتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس دوائی کا راز کسی کو معلوم نہیں۔ ہم کو اس کا علم حاصل ہے اور بیس سال سے ہم خود یہ دوائی تیار کرتے رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ بعض لوگ جھوٹی دوائیں ملا ملا کر وہی دوائی تیار کرتے ہیں اور لوگوں کو اچھی چیز نہیں دیتےاِس لئے ہم نے الگ کارخانہ قائم کر لیا ہے۔ ہمارے کارخانہ کی دوائیں اصلی اجزاء سے تیار کی جاتی ہیں۔ اب دیکھو وہ باپ ہےا ور وہ بیٹا ہے۔ جب باپ بیٹے میں حقوق کے مطالبے پر لڑائی ہو سکتی ہے تو بھائی بھائی میں کیوں لڑائی نہیں ہو سکتی۔ پس بھائی بھائی کے لفظ سے کچھ عرصہ کے لئے تو اختلاف مٹ سکتا ہے لیکن پائیدار طور پر صلح نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہر ایک کا حق تسلیم نہ کیا جائے۔ اُس موقع پر مَیں نے ایک تقریر کی تھی۔ اُس میں مَیں نے کہا تھا کہ اب کانگرس نے بے شک یہ کہہ کر کہ ہندوستانی آپس میں بھائی بھائی ہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کی صلح کرا دی ہے اور بظاہر کانگرس کے کہنے پر مسلمانوں نے ضد چھوڑ دی ہے لیکن بغیر سمجھوتے کے اور بغیر ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرنے کے یہ صلح قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ بھائی بھائی ہونے کا دعویٰ زیادہ دیرتک نہیں چل سکے گا۔ کل کو جب حقوق کا سوال پیدا ہو گا تو دونوں طرف والے کہیں گے کہ کل صلح کر کے آج پھر لڑنے لگ گئے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کے متعلق کہیں گے کہ یہ بڑے بد دیانت اور جھوٹے ہیں، یہ صلح کرنے کے بعد پھر لڑائی کرتے ہیں، ہندوؤں نے مسلمانوں کا کوئی حق نہیں مانا تھا۔ اور مسلمان ہندوؤں کے متعلق کہیں گے کہ ہندو بہت جھوٹے اور بددیانت ہیں، صلح کرنے کے بعد پھر لڑائی کا سامان پیدا کرتے ہیں ،مسلمانوں نے ہندوؤں کا کوئی حق صلح کے وقت اپنے اوپر تسلیم نہیں کیا تھا۔ بغیر سمجھوتہ کرنے کے ہر فریق یہ سمجھے گا کہ دوسرا فریق میرے حق سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اور کچھ دن بعد جب یہ غلطی ظاہر ہو گئی تو غصہ اَور بھی بڑھ جائے گا۔ مَیں نے اُس وقت کہا تھا کہ صرف بھائی بھائی کہہ کر صلح کرانے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اصل صلح وہ ہے جو ایک دوسرے سے سمجھوتہ کر کے کی جائے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا وہ ہے جو سب سے زیادہ برکتوں والا ہے اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرقان کو نازل کیا ہے جو حق و باطل میں امتیاز کر کے دکھا دیتا ہے اور ہر انسان اس کےذ ریعہ صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ او روہ ہر چیز کے متعلق ایک صحیح فیصلہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ فلاں چیز حق اور صداقت ہے اُس کو قبول کرو۔ اور فلاں چیز جھوٹ سے ملوث ہے اُس سے اجتناب کرو۔ یہ ایسی کتاب ہے جو لفّاظی سے پاک ہے۔ اور یہ کتاب ہم نے اِس لئے اُتاری ہے تاکہ جھوٹ اور سچ میں امتیاز کر کے دکھا دے کہ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے اور انسان کو بتا دے کہ کس موقع پر اسے کیسا کام کرنا چاہئے۔
عیسائیت کی تعلیم کتنی معروف و مشہور ہے اور اپنی ظاہری شکل میں کتنی خوبصورت نظر آتی ہے۔ مسیح نے کہا کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال بھی پھیر دے ۔ جب عیسائی پادری یا عیسائی مشنری چوک میں کھڑے ہو کر گرج گرج کر یہ تعلیم بیان کرتا ہے تو مسلمانوں میں سے کئی اچھے مسلمان بھی شرمندگی سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں او روہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ اور جو کمزور مسلمان ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں۔ سُبْحَانَ اللہ کیسی اچھی تعلیم ہے۔ لیکن جب ان لفظوں پر عمل کا سوال آتا ہے تو وہ تعلیم غلط ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی مسیحؑ جس نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال پھیر دے۔ اور اگر تجھے ایک میل بیگار لے جائے تو تُو اُس کے ساتھ دو میل تک جا ۔اور اگر کوئی چادر چھینے تو تُو اُسے کُرتہ بھی ساتھ دے دے۔3 اِسی مسیحؑ نے دوسرے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ مَیں صلح کرانے کے لئے نہیں آیا بلکہ مَیں تو تلوار چلانے آیا ہوں4 بلکہ اپنے حواریوں سے کہا کہ اگر تمہارے پاس تلوار خریدنے کے لئے روپے نہ ہوں تو کپڑے بیچ کر تلوار خرید لو۔5 اب دیکھنا یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے اس تعلیم پر کہ‘‘ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا بھی پھیر دے’’ کس حد تک عمل کرتی ہے۔آجکل عیسائی ممالک کی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک ان کی طرف انگلی اٹھائے تو وہ سارے ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بنگال پر قبضہ کرنے کی وجہ انگریز یہ بیان کرتے ہیں کہ بنگالی بادشاہ نے ایک سو بیس انگریز بلیک ہول میں بند کر کے مار دئیے تھے۔ اول تو یہ قصہ سرے سے ہی غلط ہے۔ لیکن اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائےتو انگریزوں کو چاہئے تھا کہ وہ انجیل کی تعلیم پر عمل کرتے اور ایک سَو بیس کی بجائے دو سو چالیس آدمی پیش کر دیتے کہ ان سے بھی پہلوں جیسا سلوک کیا جائے۔ اور مسیح کا یہی حکم باقی عیسائی دنیا کے لئے بھی ہے۔ مگر آج تک اِس پر کبھی عمل ہوتے نہیں دیکھا۔ فرانس کو چاہئے تھا کہ جب جرمنی اُس کے ملک میں دخل اندازی کر رہا تھا ملک کی حکومت اُس کے سپرد کر دیتا اور خود ایک طرف ہو جاتا۔ یا امریکہ جاپان کی بات مان لیتا اور اپنے مقبوضات اُس کے سپرد کردیتا۔ لیکن عیسائیوں میں سے کوئی حکومت بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں ۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حقیقت میں انجیل کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ نرمی کی تعلیم کو سن کر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں اور محبت کی تعلیموں کو سن کر لوگ اُن کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب میدان ِ عمل میں اُترتے ہیں تو ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان پر عمل کرنا محال ہے۔
ایک عرصہ سے گاندھی جی یہ اعلان کرتے چلے آتے ہیں کہ آپس میں لڑنا نہیں چاہئے اور اہنسا 6کے قانون کے ماتحت فوج کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اب گورنمنٹ بدلی ہے تو چاہئے تھا کہ ساری فوجوں کو جواب مل جاتا کہ جاؤ گھروں میں جا کر بیٹھو لیکن بجائے پہلی فوجوں کو فارغ کرنے کے مَیں دیکھتا ہوں کہ I.N.A. 7کی دوبارہ بھرتی پر زور دیا جا رہا ہے۔ اور بجائے اس کے کہ فوجوں کو گھر بھیج دیا جاتا فوجوں کی تعداد کو بڑھانے کی طرف گورنمنٹ کی توجہ نظر آتی ہے۔ اِن باتوں کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی جی کی وہ باتیں صرف کہنے کے لئے تھیں عمل کرنے کے لئے نہ تھیں۔ ورنہ جہاں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مرن برت 8رکھنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اِتنے بڑے اصل کے ٹوٹنے پر کیوں مرن برت نہ رکھتے۔ پس ایسی تمام تعلیمیں کہنے کے لئے ہیں عمل کرنے کے لئے نہیں۔
لیکن قرآن مجید دعویٰ کرتا ہے کہ خدا وہ ہے جس نے فرقان نازل کیا ہے جو کہ جھوٹ اور سچ میں فرق کر کے دکھاتا ہے ۔ اور سچ اور جھوٹ میں ایسا امتیاز کر دیتا ہے کہ انسان پر اس کے مناسبِ حال طریقِ عمل ظاہر ہو جاتے ہیں۔ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ۔مصلح ہونے کا دعویٰ تو دنیا میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر جو باتیں وہ کہتے ہیں اُن پر عمل نہیں کرتے ۔ کہلاتے تو وہ مصلح ہیں لیکن اُن کا عمل اپنی تعلیم کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ یہ لوگ دوسرے لوگوں کے لئے گمراہی اور ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں۔ لوگ جب ان کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو اسے قابلِ تعریف کہتے ہیں لیکن جب ان کے اعمال کو دیکھتے ہیں تو ان سے نفرت آتی ہے۔ لوگ ان کی منافقت کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی اِسی قسم کی منافقت اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کے سامنے اچھی اچھی باتیں پیش کرنی چاہئیں۔ عمل بے شک اس کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ کہ بہت برکتوں والا وہ خدا ہے جس نے ایسا کلام نازل کیا جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے۔ او رپھر وہ اس لئے بھی برکتوں والا ہے کہ اس نے اپنا کلام ایک عَبْد پر اُتارا ہے یعنی اُس ہستی پر جو اپنے آپ کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے تابع کر دیتی ہے اور رات دن اُس کے احکام کے پورا کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ایک منافق آدمی بھی اچھی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے لیکن وہ اُس تعلیم پر عمل نہیں کرتا۔
ایک نبی کے تعلیم پیش کرنے اور دوسرے آدمیوں کے تعلیم پیش کرنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ نبی جو تعلیم لاتا ہے اُس کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ نبی کے آنے سے پہلے بہت حد تک صداقتیں تو دنیا میں موجود ہوتی ہیں لیکن دنیا کے لوگ اپنی کمیٔ ایمان کی وجہ سے ان صداقتوں کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں۔ نبی آ کر کہتا ہے کہ سچ بولو اور دنیا کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ سچ بولنا چاہئے۔ کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ دنیا کے لوگوں نے یہ کہا ہو کہ جھوٹ بولنا چاہئے یا جھوٹ بہت اچھی چیز ہے۔ نبی بھی آ کر یہی کہتا ہے کہ جھوٹ نہ بولو اوردنیا بھی یہی کہتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ نبی بھی یہی کہتا ہے کہ چوری نہ کرو ظلم نہ کرو۔ اِسی طرح دنیا کے لوگوں پر بھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب انہوں نے یہ کہا ہو کہ چوری بہت اچھی چیز ہے اور ظلم کرنا پسندیدہ بات ہے۔ ہٹلر اور مسولینی جن کو دنیا بہت بڑے ظالم سمجھتی ہے وہ بھی تو یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ظلم کرتے ہیں بلکہ اُن کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ ہم دنیا میں انصاف کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ بالشوزم والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ہر انسان سے انصاف کرانے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور مغربی ڈیماکریسی بھی یہی کہتی ہے کہ ہم خدمتِ خلق کے لئے مختلف علاقوں پر قابض ہیں۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا بوجھ ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہؤا ہے۔ پس جب دنیا کے لوگ ہمیشہ ان سچائیوں کو مانتے ہیں تو پھر نبی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ نبی کے آنے کی دو غرضیں ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ موٹی سچائیوں اور باریک سچائیوں میں فرق کر کے دکھاتے ہیں۔ دوسرے اپنے نمونہ سے ان کو قابل ِعمل ثابت کرتے ہیں۔لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ظلم نہ کرو لیکن جب ظلم کی تعریف میں پڑتے ہیں تو ہر فعل کو اپنے لئے جائز قرار دے لیتے ہیں۔ لوگ منہ سے یہ تو کہتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو لیکن باوجود اس کے جھوٹ بولتے ہیں۔ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ کسی کا مال غصب نہ کرو لیکن باوجود کہنے کے دوسروں کا مال چھین کر کھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان گناہوں کی تعریفیں بہت محدود ہو جاتی ہیں۔ نبی آ کر ان اعمال کی تعریفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صرف اس تعلیم کو دہرانے کے لئے نہیں آتے بلکہ اس پر عمل کرانے کے لئے آتے ہیں۔ باوجود اِس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ سچ بولنا چاہئے پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ او راگر اُن کو توجہ دلائی جائے کہ آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ تو کہتے ہیں سچ بولنے سے اِس دنیا میں کام نہیں چلتا۔ اور باوجود اِس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ دھوکا بازی ایک بُری چیز ہے پھر بھی دھوکا بازی کرتے ہیں۔ او راگر ان سے کہا جائے کہ تم دھوکا بازی کیوں کرتے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں اِس کے بغیر اس دنیا میں گزارہ نہیں۔ دنیا کےلوگ مال لُوٹتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ تم لوگوں کے مال کیوں لُوٹتے ہو؟ لوگوں پر کیوں ظلم کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں اس کے بغیر دنیا میں کام چل ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں ہر شخص بھیڑیا ہے۔ بھیڑیا بغیر بکری پر ظلم کئے رہ نہیں سکتا۔ اگر وہ بکری کا گوشت نہ کھائے تو بہت جلد مر جائے۔ اِن باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نئی نسلیں یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے لوگ باوجود یہ سمجھنے کے کہ سچ اچھی چیز ہے ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ سچ بولا نہیں جا سکتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم اچھی چیز ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم پر عمل کیا نہیں جا سکتا۔ لیکن نبی آ کر دنیا کے لئے نمونہ بنتا ہے اور اُنہیں اِن سچائیوں پر اور اِن صداقتوں پر عمل کر کے دکھا دیتا ہے۔ جو لوگ اِس لئے جھوٹ بول رہے تھے کہ اُن کے خیال میں سچ بولا ہی نہیں جا سکتا اور جو لوگ اس لئے ظلم کر رہے تھے کہ رحم کیا ہی نہیں جا سکتا اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ یہ بھی ہمارے جیسا ایک انسان ہے۔ یہ سچ بولتا ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا، کسی کا حق نہیں مارتا اور ہر قسم کی برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ تو ان کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور ان کی ہمتیں بندھ جاتی ہیں او روہ عزمِ صمیم سے نیکیوں پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں۔ پس نبی کی بعثت کی یہ دو غرضیں ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ اُن کے ذریعے تعلیم کی تکمیل ہوتی ہے۔ بے شک لوگ بھی نبی کی بعثت سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ سچ بولنا چاہئے مگر سچ کی تعریف بہت ناقص کرتے ہیں۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے لیکن ظلم کی تعریف غلط کرتے ہیں جس سے ظلم بند نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان کا عمل ان کی تعریف سے بھی ناقص ہوتا ہے۔ جس چیز کو وہ سچ کہتے ہیں اُس پر بھی عمل نہیں کرتے۔ اور جس امر کو وہ ظلم کہتے ہیں اُس سے بھی نہیں بچتے۔غرض لوگ جس تعلیم کو مانتے ہیں اسے بھی ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ جب نبی آتا ہے تو وہ اس پر عمل کر کے دکھا دیتا ہے اور اس طرح نمونہ پیش کر کے لوگوں کے حوصلے بلند کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ کہ بہت برکت والا وہ خدا ہے جس نے ایسی تعلیم اُتاری اور جس نے ایسا کلام بھیجا جوکہ تمام قسم کی باریکیاں بیان کرتا ہے اور حق و باطل میں امتیاز کر کے دکھا دیتا ہے۔ اور پھر برکت والا ہے وہ خدا جس نے وہ برکت کسی ایسے انسان کے سپرد نہیں کی جو بد عمل اور بد کردار ہو اور بجائے دین کی طرف لانے کے دین سے بیگانہ کرنے والا ہو۔ بلکہ اس نے وہ کتاب ایسے شخص کو دی جس نے اپنی ذات اور اپنی دنیوی زندگی پر موت وارد کی اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو اپنے نفس کے اندر داخل کر لیا اور اپنے پاک نمونہ سے دنیا کو نیکی کی طرف کھینچ لایا۔
پھر فرماتا ہے۔ برکت والا وہ خدا ہے جو یہ فرماتا ہے لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا۔ لِيَكُوْنَ میں ضمیر استعمال کی گئی ہے اور فاعل ظاہر نہیں کیا۔ اِس لحاظ سے ضمیر سے پہلے جتنے وجود گزرے ہیں اُن سب کی طرف پھر سکتی ہے۔ لِيَكُوْنَ سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا تَبٰرَكَ الَّذِيْ۔ اور قرآن کریم کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا نَزَّلَ الْفُرْقَانَ۔ پھر رسول کریم ﷺ کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا عَلٰى عَبْدِهٖ ۔ضمیر سے پہلے اِن تین وجودوں کا ذکر ہے اور تینوں کی طرف یَکُوْنَکی ضمیر پھر سکتی ہے۔ اور معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا نذیر بن جائے۔ قرآن کریم ساری دنیا کا نذیر بن جائے۔ رسول کریم ﷺ ساری دنیا کے نذیر بن جائیں۔ اور چونکہ ان میں سے کوئی معنے بھی اِس جگہ مُتَعَذَّرْ 9نہیں اِس لئے یہ تینوں معنے ہی پائے جانے ضروری ہیں۔ قرآن کریم میں یہ خوبی ہے کہ وہ ضمائر سے کام لیتا ہے اور اِس طرح سے ایک وسیع مضمون کو چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہے اور معانی کے وسیع دریا کو کوزے میں بند کر دیتا ہے۔ اگر یہاں لِیَکُوْنَ اللہُ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا ہوتا تو دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ فرماتا لِیَکُوْنَ الْفُرْقَانُ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا تو بھی دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا۔ اگر اللہ تعالیٰ لِیَکُوْنَ عَبْدُہٗ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًافرماتا تو بھی دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا لِیَکُوْنَ اللّٰہُ وَ الْفُرْقَانُ وَ رَسُوْلُہٗ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًاتو اِس طرح عبارت میں طوالت پیدا ہو جاتی ۔ اور اگر قرآن کریم ضمائر کو اِس رنگ میں بیان نہ کرتا تو موجودہ قرآن کریم سے دس گُنا بڑا قرآن ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ضمائر اور مصادر کو لا کر مضمون کی وسعت کو بھی برقرار رکھا ہے اور کلام میں اختصار بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اِس جگہ مضمون تبھی مکمل ہو سکتا تھا جبکہ ان تینوں کا ذکر کیا جاتا۔ چنانچہ ضمیر کے ذریعہ سے تینوں چیزوں کا ذکر کر دیا گیا ہے۔
پہلا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا خدا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی مشیت ساری دنیا کے لئے ہو اور وہ ساری دنیا کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کرے۔ رسول کریم ﷺ سے پہلے مختلف علاقوں کی طرف علیحدہ علیحدہ انبیاء آتے تھے اور وہ اپنی اپنی جگہ پر کام کرتے تھے ۔ اُن کی تعلیم اُن کے علاقہ سے مخصوص ہوتی تھی اور چونکہ اس تعلیم میں اس خاص قوم کو مخاطب کیا جاتا تھا اِس لئے جہاں وہ قومیں اس تعلیم کی رہنمائی میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتی تھیں وہاں ان میں آہستہ آہستہ یہ بھی خیال پیدا ہو جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ صرف ہمارا ہی خدا ہے دوسری قوموں کا نہیں۔ تورات میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہےوہاں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہی لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے۔ اب بھلا تورات کو پڑھ کر ہندوستان کے لوگوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھیں گے کہ وہ تو صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے ہمارا خدا نہیں۔ اس طرح دلوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے محبت پیدا نہیں ہوتی بلکہ تنافر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو۔ اِس میں ہر جگہ یہی لکھا ہے کہ مَیں ساری دنیا کا خدا ہوں۔ مَیں زمین و آسمان کا خدا ہوں، مَیں جِنّ و اِنْس کا خدا ہوں او رمَیں سب کا خیر خواہ ہوں۔ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا یہودی ہو یا پارسی ہو۔ اِس تعلیم کو پڑھ کر ایک یہودی کا دل یہ محسوس کرنے لگے گا کہ اِس کلام کا اُتارنے والا خدا اُسی طرح میرا خدا ہے جس طرح وہ مسلمانوں کا خدا ہے۔ اگر ایک عیسائی قرآن کریم کو پڑھے گا تو اُس کا دل بھی یہی محسوس کرے گا کہ قرآن کریم کے بھیجنے والا خدا اُسی طرح میرا خدا ہے جس طرح وہ مسلمانوں کا خدا ہے۔ اگر ایک ہندو قرآن کریم کو پڑھے گا تو اُس کا دل یہ محسوس کرے گا کہ اِس کتاب کو بھیجنے والا خدا اُسی طرح میرا خدا ہے جس طرح مسلمانوں کا خدا ہے۔ لیکن یہ بات کسی اَور کتاب میں نظر نہیں آتی۔ تورات اور ویدوں کو پڑھ کر دیکھ لو۔ صاف نظر آتا ہے کہ ان کا بھیجنے والا خدا اُنہی خاص قوموں سے تعلق رکھتا ہے جن کے لئے وہ کتابیں اتاری گئیں۔ دوسری قوموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان تعلیموں کو پڑھنے سے انسان کے دل میں محبت کی بجائے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اب ضروری تھا کہ دنیا کے سامنے اصلی شکل میں اللہ تعالیٰ کا وجود پیش کیا جاتا۔ کیونکہ وہ وقت آ چکا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کوئی ایسی تعلیم نازل فرمائے جو تمام دنیا کے لئے ہو اور اس تعلیم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ مَیں ساری دنیا کا خدا ہوں۔ اِسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ مَیں وہ خدا ہوں جو ہندوؤں ، عیسائیوں، آریوں، دہریوں، ایرانیوں اور یونانیوں سب کا خدا ہوں۔ مَیں ہر ملک میں رہنے والے کا خدا ہوں اور ہر زبان بولنے والے کا خدا ہوں۔ مَیں گورے کا بھی خدا ہوں اور کالے کا بھی خدا ہوں۔ دنیا میں جس قدر اقوام ہیں مَیں سب کا خدا ہوں او رسارے ہی میرے بندے ہیں اور مَیں نے سب کو بیدار اور ہوشیار کرنے کے لئے یہ کلام اُتارا ہے۔ یہ تعلیم جو قرآن کریم نے پیش کی ہے کیسی اچھی اور فطرت کے مطابق تعلیم ہے۔ اس تعلیم کو پڑھنے سے تو انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں لیکن ان پہلی تعلیموں کو پڑھ کر دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ جب تک دنیا اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک کے لوگوں سے جدا تھے۔ اگر اُس وقت ایک ایسی تعلیم بھیجی جاتی جو تمام دنیا کے لئے ہوتی تو بہت سے ملک اس تعلیم سے محروم رہ جاتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں مختلف تعلیمیں نازل کیں۔ وہ تعلیمیں اپنے اپنے وقت میں کامل تھیں او ران کے ذریعے مختلف قومیں ہدایت پاتی رہیں۔ لیکن اب جبکہ میل جول کے ذرائع وسیع ہو گئے او ررُسْل و رَسَائل کے رستے کھل گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم نازل فرمائی جو کہ تمام دنیا کے لئے ہے اور تمام دنیا کی ضرورتوں کا علاج اس میں موجود ہے۔تمام مؤرخ اِس بات پر متفق ہیں کہ پری ہسٹارک (Pre Historic) زمانہ سے مراد رسول کریم ﷺ سے پہلے کا زمانہ ہے اور ہسٹارک (Historic) زمانہ سے مراد رسول کریم ﷺ کے قریب کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِن رُسْل و رَسَائل کے ذرائع کو عام کر کے بتا دیا کہ اب لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کا زمانہ آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں بہت برکتوں والا خدا ہوں۔ مَیں نے ایسی کتاب نازل کی ہے جو تمام دنیا کو ہدایت دینے والی ہے اور حق و باطل میں فرق کرکے دکھا دیتی ہے۔ پہلی کتابیں بے شک اپنے اپنے وقت میں کامل تھیں لیکن وہ اپنے اندر عالمگیر تعلیم نہ رکھتی تھیں۔ اور اب دنیا ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے ایک ہی نذیر کی ضرورت ہے۔ پس برکت والے خدا نے ایک با دلیل کتاب اپنے فرمانبردار اور اعلیٰ نمونہ پیش کرنے والے بندہ پر اس لئے نازل کی ہے تاکہ وہ گورے، کالے، مغربی اور مشرقی سب کو ہوشیار کر دے۔ اِس آیت سے پہلا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ اسلام کی اصل غرض یہ ہے کہ دنیا کےسارے لوگوں کو خواہ ہندو ہوں، عیسائی ہوں، یہودی ہوں یا پارسی ہوں یا مجوسی ہوں اُن سب کو یہ بتایا جائے کہ اِس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے جو تمام دنیا کا مالک ہے۔ تمہیں اُسی کی ہی عبادت کرنی چاہئے۔
ہماری جماعت اِس بات کی مدعی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان لا کر رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں شامل ہو گئی ہے۔ لیکن کیا کبھی تم نے قرآن کریم کی اس آیت پر بھی غور کیا ہے۔ تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا۔تم خود ہی بتاؤ کہ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ مسلمانوں کے لئے وقف ہے؟ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ یہودیوں کے لئے وقف ہے؟ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ عیسائیوں کے لئے وقف ہے؟ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ زرتشتیوں کے لئے وقف ہے؟ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ بدھوں کے لئے وقف ہے؟ ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ پارسیوں کے لئے وقف ہے؟ہماری تبلیغ کا کتنا حصہ ہندوؤں کے لئے وقف ہے؟ اگر تم کہو کہ ہم مسلمانوں کو تبلیغ کرتے ہیں تو مسلمان اندازاً پچاس کروڑ کے قریب ہیں اور اس وقت دنیا کی کُل آبادی دو ارب کے قریب ہے ۔ اِس لحاظ سے مسلمان کُل آبادی کا چوتھا حصہ ہوئے۔ اِس دنیا کا 4/3 حصہ تمہاری تبلیغ سے خالی پڑا رہا۔ اور اِس 4/1 حصے میں بھی تمہاری تبلیغ بہت کمزور ہے اور اِس کا کوئی نمایاں اثر معلوم نہیں ہوتا۔ اور اگر مسلمانوں میں تمہاری تبلیغ ہزار گُنا سمجھی جائے تو اِس کے مقابل پر ہندوؤں میں ایک گُنا تبلیغ جاری ہے اور عیسائیوں میں دو تین گنا سمجھ لو۔ اور پارسیوں، زرتشتیوں اور بدھوں میں تو صفر کے برابر ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قرآن کریم کو نازل کرنے سے ہماری غرض یہ ہے تاکہ خدا تعالیٰ تمام دنیا کو ہوشیار کر دے۔ اگر تم صرف مسلمانوں کو تبلیغی لحاظ سے اپنا مقصود قرار دیتے ہو تو تم غلطی کرتے ہو اور لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کے خلاف چلتے ہو۔ اگر تم صرف عیسائیوں کو تبلیغ کرتے ہو تو تم لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کےخلاف کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا صاف بتاتا ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ سارے کام ہونے چاہئیں۔ اور ایک ہی وقت میں ہمارا حملہ سب مذاہب پر ہونا چاہئے۔ ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ مسلمانوں کو پہنچے۔ ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ ہندوؤں میں بھی ہونی چاہئے۔ ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ پارسیوں میں بھی ہونی چاہئے۔ ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ بدھوں میں بھی ہونی چاہئے۔ ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ اونچی ذاتوں میں بھی ہونی چاہئے اور ایک ہی وقت میں ہماری تبلیغ نیچی ذاتوں میں بھی ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کے ابتدائی نزول میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ کہ وہ خدا بہت برکتوں والا خدا ہے۔ اور وہ برکتوں والا خدا تبھی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ تم اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ثابت کر دو کہ وہ برکتوں والا ہےا ور اس کی خوبیوں اور اُس کی صفات کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو۔ دنیا کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ خود لڑنے کے لئے نہیں اُترا کرتا بلکہ اس کے بندے ہی کام کیا کرتے ہیں۔ پس لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا تبھی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ تمام دنیا کو اس کا پیغام پہنچ جائے اور دنیا کے لوگ جو اللہ تعالیٰ سے بہت دور جا چکے ہیں پھر اس کے اطاعت گزار بندے بن جائیں۔ لیکن اگر تم کوتاہی کرتے ہو، سُستی دکھاتے ہو اور ہر ایک قوم میں سے کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اسلام میں داخل نہیں کرتے تو تم اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو جھوٹا ثابت کرتے ہو۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ نے جب یہ کہا کہ قرآن کریم تمام دنیا کے لئے ہے اور رسول کریم ﷺ تمام قوموں کی طرف آئے ہیں اور آپ کی بعثت تمام دنیا کے لئے ہے تو صحابہؓ نے جو کچھ کہا اُسے سچ کر دکھایا۔ کیا تم نے بھی جس بات کا تمہیں دعویٰ ہے اسے سچا کر دکھایا ہے؟ مَیں یہ مانتا ہوں کہ مسلمانوں میں اور عیسائیوں میں تبلیغ ہو رہی ہے لیکن ہندو، بدھ اور زرتشتی لوگوں میں تبلیغ بالکل نہیں۔ اور ہماری تبلیغ اُن کو نہیں پہنچ رہی او ربغیر تبلیغ کے اسلام پھیل نہیں سکتا۔ ہمارا خدا ہمارے عملوں سے دیکھا جائے گا۔ لیکن جو چیز ہمارے عملوں سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم اسے صرف مسلمانوں کا اور عیسائیوں کا خدا سمجھتے ہیں۔ اِسی لئے تو ہماری تبلیغ مسلمانوں اور عیسائیوں تک محدود ہے۔ اگر کوئی ایک فرد بھی ایسا ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچاتے اور خدا تعالیٰ کے خطاب سے اسے باہر سمجھتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کو لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا نہیں سمجھتے۔ بے شک غفلت اور کوتاہی تمہاری ہے لیکن الزام اللہ تعالیٰ پر آئے گا ۔ اگر کسی امیر کے گھر میں پچاس ساٹھ نوکر ہوں تو ایسی حالت میں مالک مکان خود کام نہیں کیا کرتا بلکہ نوکروں سے کام کروایا کرتا ہے۔ فرض کرو اگر اُس امیر کے گھر میں کوئی مہمان آ جائے اور نوکر اُس کی صحیح طور پر مہمان نوازی نہ کریں تو مہمان یہ نہیں کہے گا کہ نوکروں نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا بلکہ وہ یہی کہے گا کہ مالک بڑا بد اخلاق ہے اور بخیل آدمی ہے۔ کوئی غیر تسلی یافتہ حالت میں جانے والا مہمان یہ نہیں کہے گا کہ نوکروں کی خرابی کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوئی بلکہ وہ یہی کہے گا کہ مالک بڑا پاجی 10آدمی ہے۔ اس نے کوئی توجہ نہیں کی۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہا لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کہ مَیں تمام دنیا کو ہوشیار اور خبردار کرنا چاہتا ہوں تو یہ کام اللہ تعالیٰ خود نہیں کرے گا بلکہ ہمارے ذریعہ سے ہو گا۔ اگر ہر قوم کو اور ہر جماعت کو، ہر زبان بولنے والے کو، ہر ملک کے رہنے والے کو تبلیغ نہیں پہنچے گی تو ہماری اس سُستی اور بے ایمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر الزام عائد ہو گا۔ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کی ذمہ داری ہماری جماعت پر پڑتی ہے۔ ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر قوم اور ہر مذہب کو مخاطب کرے اور ہر ایک تک اِس نور کو پہنچانے کی کوشش کرے۔ ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے۔ مہمان کی خاطر تواضع کرنا مہمان نواز کا کام ہے۔ اگر باوجود تمام اشیاء کے موجود ہونے کے مہمان خود نہیں کھاتا تو مہمان نواز کا قصور نہیں۔ اِسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر ایک آدمی تک اس آواز کو پہنچا دیں۔ ماننا یا نہ ماننا اُن کا کام ہے۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ کیا ہم خدا کے بندے نہیں ہمیں کیوں تبلیغ نہیں کی جاتی اور ہم تک کیوں خدائی آواز نہیں پہنچائی جاتی ؟ بلکہ بعض جگہ تو لوگ اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں مبلغ بھیجے جائیں۔ لیکن ہم مبلغین کی کمی کی وجہ سے ان کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتے۔ مغربی افریقہ میں ہی ایک نواب متواتر سات سال تک ہمارے مبلغین کو لکھتا رہا ہے کہ میرے علاقہ میں تبلیغ کی جائے اور یہاں مشن قائم کیا جائے۔ لیکن ہمارا مبلغ اسے یہ جواب دیتا رہا کہ ہمارے پاس ابھی آدمی نہیں۔ اسی حالت میں وہ نواب فوت ہو گیا اور ہم اس کے پاس آدمی نہ بھجوا سکے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا کہ تم احمدی کیوں نہ ہوئے؟ تو وہ یہی جواب دے گا کہ اے خدا! مَیں نے تو تیرے بندوں سے کہا تھا کہ وہ مجھے تیرا کلام سنائیں لیکن انہوں نے مجھے اس سے محروم رکھا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جائے گا تو چونکہ اسے اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں پہنچا اور اسے اس کی خواہش تھی اس لئے وہ تو یقیناً جنت میں جائے گا لیکن جن لوگوں نے اسے یہ پیغام پہنچانے میں سُستی اور غفلت کی اُن کے متعلق مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کس حالت میں کھڑے ہوں گے۔ پس جماعت کو سوچنا چاہئے کہ ہمارے ذمہ کتنا بڑا کام ہے۔ کیا ہم دنیا میں اپنے فرض کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہادی بننے کی بجائے مجرم تو نہیں بن رہے؟ اور بجائے اس کے کہ ہم لوگوں کو ہدایت کے دستر خوان پر جمع کریں، اس دستر خوان سے لوگوں کو دور کرنے والے تو نہیں بن رہے؟
دوسری ضمیر قرآن کریم کی طرف پھرتی ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے نذیر ہے۔ اِس سے پتہ لگتا ہے کہ نذیر بننا ہمارا کام نہیں بلکہ قرآن کریم ہی نذیر بن سکتا ہے۔ اور ہم دنیا کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ قرآن کریم ہی ہدایت دے سکتا ہے۔ اگر ہمارے ذریعے یا دوسرے لوگوں کے ذریعے دنیا کو ہدایت ہونی تھی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا لِتَکُوْنُوْا لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا تاکہ تم تمام دنیا کے لئے نذیر بن جاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ تمام دنیا کے لئے نذیر ہو۔ پس اگر کوئی چیز دنیا کو بیدار کر سکتی ہے اور اگر کوئی کلام دنیا کو ڈرا سکتا ہے تو وہ قرآن کریم ہے۔ تم دنیا کو بیدار اور ہوشیار نہیں کر سکتے بلکہ یہ کام قرآن کریم ہی کر سکتا ہے۔ جب قرآن کریم ہی دنیا کو بیدار کر سکتا ہے او روہی دنیا کو ہدایت دے سکتا ہے تو کیا تم میں سے ہر ایک نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ اور اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ اگر تمہارے پاس یہ نہیں تو تم نذیر نہیں ہو سکتے۔ اور جب قرآن کریم تمہارے لئے نذیر نہیں تو دوسروں کے لئے کس طرح نذیر بن سکتا ہے۔ اگر تم نے قرآن کریم پڑھا نہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو تم اسلام کے سپاہی ہرگز نہیں ہو اور تمہاری زندگی بیکار ہے۔ اگر تم خود قرآن کریم سے نہیں ڈرتے اور اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو تم دوسروں کو اِس سے کیا ڈرا سکتے ہو۔
مثل مشہور ہے کہ افغانستان کے کسی مسلمان رئیس کے لڑکے کو ایک ہندو ماسٹر پڑھایا کرتا تھا۔ رئیس کے لڑکے نے لوگوں سے سُنا کہ اگر کسی ہندو کو کلمہ پڑھایا جائے اور اُسے مسلمان بنایا جائے تو انسان جنت میں جاتا ہے۔ یہ سن کر اُس کےدل میں بھی جنت کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے کہا اَور کوئی شخص ملے نہ ملے مجھے اپنے ماسٹر کو ہی کلمہ پڑھانا چاہئے۔ جب ماسٹر پڑھانے کے لئے آیا تو وہ لڑکا اُس سے کہنے لگا کہ لالہ جی! کلمہ پڑھئے۔ اُس نے کہا مَیں تو ہندو ہوں۔ لڑکے نے کہا آپ ہندو ہیں اِسی لئے تو مَیں کلمہ پڑھوانا چاہتا ہوں تاکہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ لالہ جی نے کہا کہ میرے مسلمان ہونے سے تمہیں کیا ملے گا؟ لڑکے نے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی ہندو کو کلمہ پڑھواتا ہے وہ جنت میں جاتا ہے۔ لالہ جی نے کہا میرا مذہب اَور ہے اور تمہارا مذہب اَور ہے۔ مَیں کلمہ کیونکر پڑھ لوں۔ اُس لڑکے نے جوش میں آ کر تلوار نکال لی اور کہا کہ خُو مار ڈالے گا نہیں تو کلمہ پڑھو۔ لالہ جی وہاں سے بھاگے اور لڑکا ان کے پیچھے پیچھے بھاگا ۔ آخر ایک جگہ پر لڑکے نے لالہ جی کو پکڑ لیا اور کہا پڑھو کلمہ۔ چونکہ لالہ جی بہت ڈر چکے تھے اس لئے کہنے لگے اچھا پڑھاؤ۔ لڑکے نے پھر کہا پڑھو کلمہ۔ لالہ جی نے کہا ۔ کلمہ مجھے تو نہیں آتا تم پڑھاؤ تو مَیں پڑھ لوں گا۔ اِس پر لڑکا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا ۔ خُو تمہارا قسمت اچھا تھا کلمہ مجھے بھی نہیں آتا۔
ابھی تم یہ مثال سن کر کس طرح بے تحاشا ہنس پڑے ہو حالانکہ خطبہ میں ہنسنا منع ہے لیکن یہ چیز تمہاری نظروں سے اوجھل ہو گئی کہ مَیں تمہاری ہی مثال بیان کر رہا ہوں۔ جیسے کہتے ہیں کہ کسی حبشی نے پہلے دن شیشے میں اپنا منہ دیکھا تو چونکہ شکل بہت مکروہ تھی اِس لئے وہ حیران ہوا کہ یہ میری ہی شکل ہے یا کسی اَور کی۔ پس جس شکل کے متعلق مَیں نے ذکر کیا ہے وہ تمہاری ہی شکل ہے کسی اَور کی نہیں۔ تم دنیوی کاموں کے لئے کتنی کتنی محنتیں کرتے ہو اور کتنی تکلیفیں برداشت کرتے ہو۔ کبھی تم نے قرآن کریم کے پڑھنے کے لئے بھی اتنی محنتیں اور کوششیں کیں؟ اگر نہیں کیں اور یقیناً نہیں کیں تو تم دنیا کو کس طرح فتح کرو گے اور کس طرح دنیا کو ہدایت کی طرف لے آؤ گے؟
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تم کو اُس وقت تک فتح نہیں ہو سکتی جب تک تم قرآن کریم کو اپنے لئے نذیر نہیں بناتے، جب تک تم قرآن کریم کو اپنے لئے نذیر نہیں بناتے اُس وقت تک تم اسے دنیا کے لئے نذیر نہیں بنا سکتے۔ جب قرآن کریم تمہارے سینوں میں ہو گا ، جب قرآن کریم تمہاری زبان سے نکلے گا، جب قرآن کریم تمہاری قلموں سے نکلے گا اُس وقت قرآن کریم تمہارے لئے بھی اور باقی دنیا کے لئے بھی ہدایت کا موجب ہو گا۔ تمہاری روحانیت کی درستی اور باقی دنیا کی روحانیت کی درستی قرآن کریم کےساتھ وابستہ ہے۔ جیسا کہ مَیں اوپر بیان کر آیا ہوں کہ یا تو اللہ تعالیٰ نذیر ہے یا قرآن کریم نذیر ہے تم نذیر نہیں ہو۔ تم ان دونوں کے واسطہ سے نذیر بنتے ہو۔ خدا تعالیٰ تمام دنیا کے لئے نذیر اِس طرح ہے کہ اس کا روئے سخن سب کی طرف ہے۔ غریبوں ، امیروں میں اس کے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ زبانوں او رملکوں کا اس کے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ وہ سب کا خدا ہے اور سب کی ہدایت کے سامان اس نے پیدا کئے ہیں۔ اور دوسری ضمیر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے قرآن کریم کی طرف ہے کہ تم جب بھی بولو تو تمہاری زبانوں سے قرآن کریم جاری ہو اور تم جب لکھو تو تمہاری قلموں سے قرآن کریم جاری ہو اور تمہارے خیالات اور تمہارے جذبات اور تمہاری خواہشات سب قرآن کریم کے ماتحت ہوں۔ جب تک تمہاری زبانوں سے قرآن کریم نہیں بولے گا اور تمہاری قلموں سے قرآن کریم نہیں نکلے گا اُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے اور دنیا تمہارے ذریعہ ہدایت نہیں پا سکتی۔
تیسری ضمیر رسول کریم ﷺ کی طرف پھر سکتی ہے کہ بہت برکتوں والا وہ خدا ہے جس نے فرقان کے نازل کرنے کے لئے ایسے انسان کو چُنا جس کا ظاہر و باطن ایک ہے اور جو تمام دنیا کے لئے مثال اور نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس لئے چُنا تاکہ وہ دنیا کے لئے نذیر بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ تین وجودہی نذیر ہو سکتے ہیں۔ جب تک تمہارا روئے سخن سب دنیا کی طرف نہ ہو اُس وقت تک تک تم نذیر نہیں بن سکتے۔ جب تک قرآن کریم تمہاری زبانوں سے جاری نہ ہو اُس وقت تک تم نذیر نہیں بن سکتے۔ جب تک کہ قرآن کریم تمہاری قلموں سے جاری نہ ہو اُس وقت تک تم نذیر نہیں بن سکتے۔ اور اِس تیسری ضمیر کےمعنی یہ ہیں تاکہ رسول کریم ﷺ ساری دنیا کے لئے نذیر بن جائیں۔ جب تک ہر شخص تم میں سے چھوٹا محمد( ﷺ) نہیں بن جاتا تم نذیر نہیں ہو سکتے۔ جب تک تم اس مقام پر کھڑے نہیں ہوتے کہ جب تم کو کوئی دیکھے تو وہ رسول کریم ﷺ کی تصویر کو دیکھ لے اُس وقت تک تم نذیر نہیں بن سکتے۔ تصویر کو دیکھ کر انسان اُس کے معائب11 اور محاسن معلوم کر سکتا ہے ۔ اُس کی آنکھیں چھوٹی ہیں یا بڑی، اُس کا سر چھوٹا ہے یا بڑا۔ اگر کوئی شخص تصویر کو دیکھ کر یہ کہے کہ اُس کا سر چھوٹا ہے تو اُس وقت تم یہ نہیں کہو گے کہ تم یہ اعتراض کیوں کرتے ہو۔ یہ تو تصویر ہے اصل نہیں۔ اگر تم یہ جواب دو گے تو ہر شخص تمہیں پاگل سمجھے گا کیونکہ تصویر اصل انسان کا انعکاس ہوتا ہے۔ اِس لئے اگر تم صحیح طور پر رسول کریم ﷺ کی تصویر نہیں بنتے تو باقی دنیا کو تم اعتراض کرنے کا موقع دیتے ہو۔ پس جب تک تم چھوٹے محمد (ﷺ) نہیں بن جاتےاُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور جب تم اپنی زندگیاں رسول کریم ﷺ جیسی بنا لو گے تو تم تمام دنیا کے لئے نذیر بن جاؤ گے۔ اُس وقت یہ سوال نہیں رہے گا کہ تم فلاسفر ہو یا اَن پڑھ ہو، لائق ہو یا نالائق ہو۔ تم تمام دنیا پر غالب آ جاؤ گے اور دنیا تمہارے مقابلہ سے عاجز آ جائے گی۔
میری مثال دیکھ لو مَیں پرائمری میں بھی فیل ہؤا اور مڈل میں بھی فیل ہؤا لیکن چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اِس لئے اگلی جماعت میں بٹھا دیا گیا لیکن انٹرنس (Entrance)میں جا کر سوائے تاریخ اور جغرافیہ کے سب مضمونوں میں فیل ہو گیا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے مجھے دین کی خدمت کے لئے چُنا تو اپنے پاس سے مجھے تمام علوم سکھائے۔ مَیں کوئی دنیوی علم بھی نہیں جانتا یا کم سے کم مَیں نے دنیوی علوم دنیوی اُستادوں سے پڑھے نہیں لیکن یورپ امریکہ اور دوسرے ممالک کے بڑے بڑے فلاسفر اور کالجوں کے پروفیسر مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں اور مختلف سوالات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر مجھے غلبہ عطا کرتا ہے اور ہر شخص یہ کہہ کر جاتا ہے کہ ابھی مَیں نے پوری طرح سوچا نہیں تھا۔ پھر ان باتوں پر غور کروں گا۔ مَیں نے کوئی فلسفے کی کتاب نہیں پڑھی ، مَیں نے کوئی علم النفس کی کتاب نہیں پڑھی لیکن ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ مجھے دوسروں پر غلبہ عطا کرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں نے اپنا دماغ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے سپرد کر دیا ہے ۔ مَیں کسی بات کے متعلق ضد نہیں کرتا۔ ہمیشہ میرا مقصود یہی ہوتا ہے کہ سچائی کیا ہے؟ اِس لئے اللہ تعالیٰ میری مدد کرتا ہے۔ پس اگر تم بھی اپنے دماغ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے سپرد کر دو گے اور اِس ارادے اور اِس نیت سے قربانی کرو گے تو ہر مضمون کی سمجھ تمہیں عطا کی جائے گی۔ پھر سقراط، بقراط اور افلاطون جو بھی تمہارے مقابلہ میں آئے گا وہ شکست کھا ئے گا اور تم ہی جیتو گے۔ چونکہ مَیں نے اپنا دماغ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے اِس لئے اللہ تعالیٰ میرا اُستاد بن گیا ہے اور میرا علم قرآن کریم پر مبنی ہے۔ اِس لئے آج میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم میں بھی یہی روح کام کرنے لگ جائے تو پھر تمہیں کوئی چیز ڈرا نہیں سکے گی بلکہ بڑے بڑے فلاسفر تم سے ڈریں گے۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ پچھلے دنوں جب لاہور میں مَیں شیخ بشیر احمد کے ہاں ٹھہرا ہؤا تھا تو ایک طالب علم لڑکی جو کہ ایم اے فلاسفی میں پڑھتی تھی بعض سوالات پوچھنے کے لئے آئی۔ اُس کے ساتھ ایک اَور غیر مسلم عورت بھی تھی۔ گفتگو شروع ہوئی اُس نے فلسفیانہ رنگ میں بعض باتیں کیں۔ مَیں نے اُن پر جرح کی تو وہ جواب نہ دے سکی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے کہنے لگی کہ کیا آپ ایم۔ اے ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں پرائمری فیل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کیا آپ نے سیلف سٹڈی (Self Study) کی ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں تو پرائمری فیل ہوں سیلف سٹڈی کیا کر سکتا ہوں۔ پھر گفتگو شروع ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد پھر وہ کہنے لگی کیا آپ ولایت سے پڑھ کر آئے ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں تو پرائمری فیل ہوں میرے ولایت جا کر پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کچھ دیر کے بعد کہنے لگی کہ آپ وکیل ہیں؟ مَیں نے کہا وکیل تو میرے دوست ہیں جن کےگھر میں مَیں ٹھہرا ہؤا ہوں۔ پھر وہ پریشان ہو کر کہنے لگی کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ پرائمری فیل ہیں۔ وہ طالب علم پروفیسر قاضی اسلم صاحب کی شاگرد تھی اُس سے ملنے کے بعد مَیں نماز مغرب کے لئے باہر گیا۔ قاضی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے اُن سے مذاق کے طور پر کہا آپ کی ایک شاگرد مجھے ملنے آئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پڑھائی اچھی نہیں کراتے۔ وہ طالب علم جو مجھے ملنے آئی تھی اُس نے گفتگو کے شروع میں مجھ سے پوچھاکیا آپ ایم۔ اے ہیں؟ مَیں نے کہا نہیں مَیں تو پرائمری فیل ہوں۔ کچھ دیر بعد پھر اُس نے پوچھا کہ کیا آپ ولایت سے پڑھ کر آئے ہیں؟ مَیں نے اُسے کہا مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ مَیں پرائمری فیل ہوں۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ وکیل ہیں؟ کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہی کچھ پڑھایا کرتے ہیں کہ وہ بات کرنے والے کی بات کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ قاضی صاحب نے مجھ سے اُس کا نام پوچھا تو مَیں نے انہیں نام بتایا۔ اُس کا نام سن کر کہنے لگے کہ وہ تو میری چوٹی کی طالب علم ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ خواہ کوئی سیاست کا ماہر یا فلسفے کا عالم یا علم النفس کا جاننے والا میرے ساتھ گفتگو کرے، ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ میری مدد کرتا ہے اور کوئی سوال میرے لئے ایسا نہیں ہوتا جس کا مَیں جواب نہ دے سکوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو جب تمام دنیا کا نذیر بنا کر بھیجا تو آپؐ کو سب سے زیادہ علم دیا حالانکہ آپ اُمّی تھے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن مبعوث کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب قسم کےعلوم عطا کئے اور ایک ایسی تعلیم آپ کو عطا کی جو حق و باطل میں امتیاز قائم کرنے والی ہے۔ پس کوشش کرو کہ تم بھی رسول کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے والے بن جاؤ اور کسی کے علم سے مرعوب مت ہو۔ ہر بات جو قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے۔ تم اس کا دلیری کےساتھ مقابلہ کرو۔
یہ تین چیزیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں اِن کو مدنظر رکھے بغیر تم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نَذِیْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارا اِنذار ہر قوم کی طرف ہو اور ہر ہندو، سکھ، بدھ اور زرتشتی تمہارا مخاطب ہو۔ اور تم اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کو جو رستہ بھول چکے ہیں اللہ تعالیٰ کے گھر میں لے آؤ۔ اگر ایک ماں کے تین بچےگُم ہوجائیں اور ان میں سے دو کو تم واپس لے آؤ اور تیسرے کو دھتکار دو۔ تو اُن دو کے لانے پر وہ تمہیں انعام نہیں دے گی اور تم پر خوش نہیں ہو گی بلکہ وہ کہے گی کہ وہ تیسرا بھی مجھے اِسی طرح پیارا ہے جس طرح یہ دونوں پیارے ہیں۔ اِسی طرح اگر تم دنیا کی دو ارب آبادی میں سے ایک ارب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے کو واپس لے آتے ہو لیکن ایک آدمی کو چھوڑ دیتے ہو اور اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ تمہیں اس ایک کے چھوڑنے پر یہ کہے گا کہ وہ بھی میرا بندہ تھا۔ تم نے اسے واپس لانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم تمہارے دلوں پر اور تمہارے دماغوں پر حاوی ہو۔ چونکہ قرآن کریم کے لئے فتح مقدر ہے اِس لئے جب تم اپنے وجود کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی فتح عطا کرے گا۔ تیسری چیز یہ ہے کہ جب تک تم رسول کریم ﷺ کی نقل نہیں کرتے اور آپؐ کے نقشِ قدم پر نہیں چلتے اور جب تک تم چھوٹے محمد(ﷺ) نہیں بنتے اُس وقت تک تمہاری تبلیغ میں اثر پیدا نہیں ہو سکتا۔’’(الفضل 28 اکتوبر 1946ء )
1: الفرقان: 2
2:چُست: موزوں، ٹھیک، درست
3:متی باب 5 آیت 39 تا 41
4: متی باب 10 آیت 34
5: لوقا باب 22 آیت 36
6: اہنسا: مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی فلاسفی، تشدد کے مقابلہ میں عدم تشدد،ظلم کو برداشت
کرنا اور قدرت کے باوجود جواب نہ دینا(اردو لغت تاریخی اصول پر جلد نمبر 1صفحہ 1092
مطبوعہ 1977کراچی)
7: I.N.A: اِنڈین نیشنل آرمی
8: مرن برت: فاقہ جسے کرتے کرتے انسان مر جائے۔
9: مُتَعَذَّر: محال۔ مشکل۔ دشوار
10: پاجی: کمینہ۔ رذیل۔ ذلیل
11: معائب: معیب کی جمع۔ عیوب۔ نقائص۔ خرابیاں۔ کھوٹ۔ برائیاں

37
ہمارے پاس دنیا کو بچانے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ دعا ہے
( فرمودہ 11؍ اکتوبر 1946ء بمقام دہلی)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ آج مجھے آنے میں دیر ہو گئی ہے کیونکہ مَیں سخت کوفت محسوس کر رہا تھا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ میرے اعصاب کام کی زیادتی کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں۔ اخبار پڑھنے کے لئے چارپائی پر لیٹا۔ گیارہ بجے کے قریب آنکھ لگ گئی اور ساڑھے بارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی۔ اس کے بعد نہانے او رکھانا وغیرہ کھانے میں دیر ہو گئی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جو مشکلات اِس وقت ہندوستان میں پیش آ رہی ہیں اُن کی بہت بڑی ذمہ داری ہماری جماعت پر ہے۔ کیونکہ لوگ اپنی تدبیروں سے مشکلات کا علاج کرتے ہیں مگر ہم وہی کام آسمان پر اپنی التجاؤں سے کرتے ہیں۔ میرے اِس جگہ آنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مَیں قریب رہ کر یہاں کے حالات کا پتہ لگا سکوں اور اِس طرح زیادہ دعاؤں کی تحریک ہو گی۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختلافات کے متعلق جو خبریں دی ہیں اُن کے بعض حصے پورے ہو چکے ہیں او ربعض پورے ہو رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حصے جو خیر والے ہیں اُن کو پورا کر دے اور جو شروالے ہیں اُن کے بد نتائج سے محفوظ رکھے۔
خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ انذاری خبروں کو دعاؤں سے منسوخ کر دیتا ہے ۔اس لئے جماعت کو چاہئے کہ وہ خصوصیت سے دعاؤں میں لگ جائے اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے تحریک کرے۔ ہماری جماعت میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی دعاؤں میں اثر نہیں ہے لیکن یہ خیال کرنا کہ دوسروں کی دعاؤں میں اثر نہیں ہے غلط ہے۔ وہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ۔1یہ اس دعا کے متعلق ہے جو نبیوں کے مخالف ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ سچی جماعت کے سوا دوسروں کی دعائیں سُنی ہی نہیں جاتیں۔ اللہ تعالیٰ جیسے ہمارا خدا ہےاسی طرح ہندوؤں، سکھوں، یہودیوں، عیسائیوں، زرتشتیوں، بدھوں اور دوسری اقوام کا بھی خدا ہے اور وہ سب کی سنتا ہے۔ ہمارے سامنے یونسؑ نبی کی مثال موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو الہام کیا کہ چونکہ تمہاری قوم تکذیب میں انتہاء کو پہنچ گئی ہے اِس لئے تمہاری قوم ساری کی ساری تباہ کر دی جائے گی۔ جا اور اپنی قوم کو خبر دے کہ چالیس دن کے اندر اندر وہ تباہی تم پر آ جائے گی۔ حضرت یونسؑ چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صفت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ تمام باقی امور پر حاوی ہےاِس لئے انہوں نے عرض کیا کہ اے خدا! تُو مجھے ابتلا میں نہ ڈال تو رحیم و کریم ہے۔ وہ لوگ توبہ کریں گے تو تُو اُن کو معاف کر دے گا اور مَیں جھوٹا ٹھہروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا جو ہم کہتے ہیں اس پر عمل کر۔ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت یونسؑ اپنی قوم کے پاس آئے اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا بجائے اِس کے کہ وہ نیکی اور تقویٰ اختیار کرتے اُنہوں نے تمسخر اور ہنسی شروع کر دی۔ حضرت یونسؑ نے ان کو بتا دیا کہ چالیس دن کے اندر اندر تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہو گا جو تمہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ حضرت یونسؑ کچھ دنوں کے بعد اس خیال سے کہ اب میری قوم پر عذاب آنے والا ہے اپنی قوم کو چھوڑ کر باہر چلے گئے اور دور جا کر ڈیرا لگا لیا۔ چالیس دن کے بعد آخر جب وہاں سے کوئی شخص گزرا تو حضرت یونسؑ نے اسے پوچھا۔ بتاؤ۔ نینوا شہر والوں کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا۔ سب راضی خوشی ہیں۔ یہ خبر سن کر حضرت یونسؑ وہاں سے گھبرا کر بھاگے کہ اب مَیں اپنی قوم کو کیا منہ دکھلاؤں گا۔2 قرآن کریم نے یہ واقعہ اِس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت یونسؑ وہاں سے سمندر کے کنارے پر آئے اور ایک جہاز میں سوار ہوئے۔ کچھ دور جا کر جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ اس پر جہاز والوں نے قرعہ اندازی کی کہ کون بھاگا ہؤا غلام ہے۔ حضرت یونسؑ کا نام نکلا۔ جہاز والوں نے پکڑ کر آپ کو سمندر میں پھینک دیا اور آپ کو ایک مچھلی نے نگل لیا۔ تین دن رات پیٹ میں رکھنے کے بعد ایک جگہ سمندر کے کنارے پر اُگل دیا۔ چونکہ آپ کمزور اور نحیف تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سایہ کے لئے ایک بیل اُگا دی3 لیکن اس بیل کو کسی کیڑے نے کاٹ دیا او روہ سُوکھ گئی۔ حضرت یونسؑ نےاللہ تعالیٰ سے اُس کیڑے کے لئے بد دعا کی۔ انسان کے دل میں بعض دفعہ رنج پیدا ہوتا ہے اور وہ رنج شکایت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ حضرت یونسؑ نے شکایت کے طور پر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا کہ یہ بیل مجھ پر سایہ کئے ہوئے تھی، کمبخت کیڑے نے اُسے کاٹ دیا تُو اسے تباہ و ہلاک کر۔یا اِسی طرح کے کوئی اَور الفاظ کہے۔ یہ تمام واقعہ حضرت یونسؑ کو اس لئے پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک سبق دینا چاہتا تھا۔ جب وہ اپنے خیالات میں تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہؤا۔ اے یونسؑ! یہ بیل تمہاری پیدا کی ہوئی نہیں تھی یہ بیل ہماری پیدا کی ہوئی تھی۔ تمہارے ساتھ اس کا صرف اِتنا تعلق تھا کہ وہ تم پر سایہ کئے ہوئے تھی۔ تمہیں اس کے تباہ ہونے پر کتنا افسوس ہؤا ہے۔ اے یونس! کیا میرے لاکھوں لاکھ بندے جن کو مَیں نے پیدا کیا تھا۔ جب انہوں نے توبہ کی او راپنے فعل پر پشیمان ہوئےتو مَیں اُن کا خیال نہ کرتا اور ان کو ہلاک کر دیتا۔4 تب حضرت یونسؑ کو سمجھ آئی کہ میرا یہ فعل درست نہ تھا۔ وہ واپس نینوا والوں کے پاس گئے۔ وہاں جا کر ان کو معلوم ہؤا کہ واقع میں عذاب آ گیا تھا لیکن نینوا والوں نے چونکہ توبہ کی تھی اِس لئے وہ عذاب اُن پر سے ٹلا دیا گیا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ہی مثال ہے کہ کسی قوم پر عذاب آ گیا ہو اور وہ توبہ کرنے کی وجہ سے بچ گئی ہو اور وہ نینوا والوں کی مثال ہے۔ جب حضرت یونسؑ کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ عورت،مرد اور بچے سب شہر سے باہر نکل جائیں اور اپنے جانوروں کو بھی ساتھ لے جائیں اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں اور جانوروں کو چارہ نہ دیا جائے۔ چنانچہ مردوں اور عورتوں نے دعا شروع کی۔ اُدھر بچوں نے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بِلبلانا شروع کیا اور جانوروں نے چارہ نہ ملنے کی وجہ سے چلانا شروع کیا۔ بچوں کےر ونے اور چِلّانے کی وجہ سے ماؤں او ربہنوں نے زیادہ جوش اور درد کے ساتھ دعائیں شروع کیں۔ مردوں اور عورتوں کے رونے سے، بچوں کے بِلبلانے سے اور جانوروں کے چِلّانے سے فضا گونج اٹھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس گریہ و زاری کی حالت کو دیکھ کر ان سے عذاب کو ٹلا دیا۔ تو دیکھو وہ عذاب جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے نبی نے اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سنیں، ان کی توبہ کو قبول کیا او ران سے عذاب کو ٹلا دیا۔
تو یہ خیال کرنا کہ دوسرے مذاہب والوں کی دعائیں نہیں سُنی جاتیں یہ بالکل غلط ہے۔ یہ صحیح ہے کہ نبیوں کی جماعتوں کی اکثر دعائیں سنی جاتی ہیں اور دوسروں کی دعائیں اس کثرت سے نہیں سُنی جاتیں۔ لیکن جن دعاؤں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے۔ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ۔ اِس سے مراد وہ دعائیں ہیں جو نبیوں کی جماعتوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ انبیاء کے دشمنوں کی اُن دعاؤں کو بھی قبول کر لے جو وہ انبیاء کے خلاف کرتے ہیں تو تمام سچائیاں اور تمام صداقتیں دنیا سے مٹ جائیں۔ ابو جہل نے بدر کے موقع پر یہ دعا کی تھی کہ اے خدا! اگر یہ محمدؐ (ﷺ) سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا اور اگر یہ سچا نہیں ہے تو تُو اسے نیست و نابود کر دے۔5 اللہ تعالیٰ نے اُس کے اپنے حصے کی نصف دعا تو قبول کر لی اور اُسے ذلت کی موت نصیب ہوئی لیکن جو اس نے رسول کریم ﷺ کے خلاف دعا کی تھی وہ قبول نہ ہوئی۔ علاوہ ابو جہل کے اَو ربھی بہت سے لوگ رسول کریم ﷺ کے لئے روزانہ بد دعائیں کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو ردّ کیا اور آپ کی صداقت کو ثابت کر دیا۔ اِسی طرح موسیٰؑ، عیسیٰ ؑ کے دشمن ہمیشہ بد دعائیں کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی بددعائیں نہیں سنتا تھا۔ پس وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کی وہ دعائیں نہیں سنتا جو نبیوں اور سچائیوں کے خلاف ہوں۔ جو ذاتی دعائیں ہوتی ہیں وہ ان کی بھی سُنی جاتی ہیں کیونکہ وہ بھی تو خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔ پس ہر ایک انسان کی دعا اثر رکھتی ہے بشرطیکہ وہ دردِ دل سے کی جائے اور وہ نبیوں کے خلاف نہ ہو ۔ اس لئے ہماری جماعت کو خود بھی دعائیں کرنی چاہئیں اور اپنے ملنے والوں کو بھی دعاؤں کی تحریک کرنی چاہئے اور ہر ایک پر زور دینا چاہئے کہ یہ ایام خاص طور پر دعاؤں کے ہیں۔ ایک آدمی کی کوتاہی سے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان تباہی کے گڑھے میں گر جائیں گے اور فتنہ و فساد کی آگ سے بھسم ہو کر رہ جائیں گے اور بیسیوں سالوں کے لئے ملک کی حالت قابل رحم ہو جائے گی۔
دعاؤں سے علاوہ ان کی قبولیت کے ان کا ایک نفسیاتی اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان بُرے کاموں سے رُکنے کی کوشش کرتا ہے۔ فرض کرو ایک شخص یہ دعا کرتا ہے کہ یا الٰہی! تُو میرے دل کو صاف کر دے تو پہلا فائدہ جو اِس سے ہو گا وہ یہ ہے کہ اس کی دعا قبول ہو گی۔ اس کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا ہو گا اور اس کا دل صاف ہو جائے گا۔ علاوہ اس کے اسے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ جب اس کے دل میں بد خیال پیدا ہو گا تو وہ اس کا مقابلہ کرے گا کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ ابھی مَیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا تھا کہ تُو میرے دل کو پاک کر دے اور ابھی مَیں بد خیالوں کے پیچھے چل رہا ہوں۔ یہ خیال آتے ہی وہ بدی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور علاوہ آسمان کی مدد حاصل کرنے کے وہ بُرے خیالات کو خود بھی اپنے دل میں داخل ہونے سے روکے گا۔ پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں میں دعا کی تحریک کرے۔ اس طرح سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے دلوں میں جو ایک دوسرے کے لئے بُغض ہیں اور جو ایک دوسرے کی مخالفت ہے وہ کم ہو جائے گی۔ اور جو لوگ یہ دعائیں کریں گے اُن پر جو اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گا وہ اس سے الگ ہو گا ۔
یہ دن ایسے ہیں کہ ہماری جماعت کو اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو دن رات سمجھانا چاہئے کہ وہ کوئی شورش پیدا نہ کریں اور خود بھی امن سے رہیں اور دوسروں کو بھی امن سے رہنے دیں۔ خصوصاً دہلی والوں پر یہ ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ ہندوستان کے پایۂ تخت میں رہتے ہیں۔ مَیں نے ایک نفسیاتی ماہر کی کتاب پڑھی ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ ہزاروں ہزار پھانسیوں کی وجہ یہ تھی کہ جج کے ناشتہ پر انڈے حد سے زیادہ اُبلے ہوئے تھے یا کسی چیز میں نمک زیادہ تھا یا کسی قسم کا کوئی اَور معمولی نقص تھا۔ جس کی وجہ سے باہر نکلتے وقت جج کی طبیعت میں انقباض اور غصہ پیداہو گیا تھا اور بجائے گھر کے لوگوں پر غصہ نکالنے کے اُس نے دوسروں پر جا کر غصہ نکالا۔ تو طبائع کے چھوٹے چھوٹے اشتعال بعض دفعہ بہت بڑے فتنے پیدا کر دیتے ہیں کیونکہ ایک بات جب بار بار کسی کے کان میں ڈالی جائے تو آہستہ آہستہ وہ اثر کرنے لگ جاتی ہے۔ خواہ اُس میں حقیقت کچھ بھی نہ ہو۔
مثل مشہور ہے کہ ایک استاد لڑکوں کو بہت مار ا پیٹا کرتا تھا۔ سب لڑکوں نے مشورہ کیا کہ آج کوئی ایسی بات کی جائے جس سے وہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ آخر یہ طے ہؤا کہ آج ماسٹر صاحب کو یہ وہم ڈالا جائے کہ آپ بیمار ہیں۔ چنانچہ جُوں جُوں لڑکے استاد کے سامنے حاضر ہوئے باری باری ہر ایک لڑکے نے یہ کہنا شروع کیا کہ آج آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے۔ کیا آپ بیمار ہیں؟ پھر دوسرا اُٹھا اُس نے بھی اسی طرح کہا۔ پھر تیسرا آیا اُس نے بھی اسی طرح کہا کہ کیا آپ بیمار ہیں؟ پہلے تو اس نے گالیاں دینی شروع کیں۔ لیکن لڑکے اپنے مشورہ کے مطابق یہ کہتے چلے گئے کہ کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ کی طبیعت کچھ خراب سی معلوم ہوتی ہے۔ جب پانچ سات لڑکوں نے کہا تو آہستہ آہستہ استاد جی کا غصہ فرو ہو گیا۔ تو انہوں نے کہا مجھے کچھ نہیں ہؤا ، تم اپنا کام کرو۔ آخر جب پانچ دس اَور لڑکوں نے یہی بات کہی تو استاد صاحب کہنے لگے۔ یونہی کچھ طبیعت خراب سی معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر لڑکوں کو رخصت دی اور گھر جا کر چارپائی پر لیٹ گئے۔ یہ ایک قصہ ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو باتیں کثرت سے کان میں پڑتی رہیں اُن پر انسان کو یقین ہو جاتا ہے۔ تم تجربہ کر کےد یکھ لو۔ اگر ایک بات کے متعلق دس آدمی کہنا شروع کر دیں تو جو شخص اُن کے منہ سے سُنے گا وہ اسے ایسے طور پر آگے جا کر بیان کرے گا گویا اُسے اُس نے خود دیکھا ہے اور اس کے پاس بہت سے دلائل و شواہد موجود ہیں حالانکہ وہ ساری شنید ہو گی۔ اور اگر اس سے کہا جائے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ تو وہ کہتا ہے لوگ یونہی کہتے ہیں، ساری دنیا یونہی کہتی ہے۔ گویا وہ پانچ دس آدمی ساری دنیا بن جاتے ہیں۔ تو یہ واقع ہے کہ جو باتیں بار بار کانوں میں پڑیں آہستہ آہستہ ان کا اثر دلوں پر ہو جاتا ہے۔ اب اگر مسلمانوں کے کانوں میں یہ آواز بار بار پڑتی رہے کہ ہندو مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں اور وہ مسلمانوں کو مٹانا چاہتے ہیں تو آہستہ آہستہ یہ بات اس طرح ان کےد لوں میں راسخ ہو جائے گی کہ اس کو نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ یا اگر ہندوؤں سے یہ کہا جائے کہ مسلمان تمہارے متعلق بد ارادے رکھتے ہیں اور تمہارے مٹانے کے درپے ہیں اور یہ آواز بار بار ان کے کانوں میں پڑتی رہے تو پھر اِن خیالات کا ان کےد لوں سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب صلح کرانے والے بھی انسان ہی ہیں، ان کے دوست بھی ہیں اور ان کے نوکر چاکر بھی ہیں اور ان کے اردگرد شکایتیں کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کی باتوں سے متأثر ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے ہمسائے کی باتوں سے متأثر ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کی باتوں سے متأثر ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے نوکروں چاکروں کی باتوں سے متأثر ہو سکتے ہیں اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کی ذرا سی لغزش اور ذرا سی غلطی ملک کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔ ان سب باتوں کا علاج صرف دعا ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ کون کون ان کو ملنے کے لئے آیا اور کس کس کی بات نے انہیں راہ راست سے پھیرا۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کونسی بات ان کو راہ راست سے پھیرنے والی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ جو لوگ لڑائی جھگڑا کرانا چاہتے ہوں گے وہ اپنے اس بد اِرادہ میں ناکام رہیں گے اور وہ صلح کے اندر رخنہ اندازی نہ کر سکیں گے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! ہم تیرے سامنے التجا کرتے ہیں کہ تُو خود ہی ان اشتعال انگیزیوں کے سامانوں کو مٹا دے۔ اگر وہ اشتعال پیدا کرنے والے دیدہ دانستہ کرتے ہیں تو تُو اُن کو ہدایت بخش۔ اور اگر نادانستہ کرتے ہیں تو تُو اُنہیں اُن کی غلطی پر آگاہ کر دے۔
حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنی کوششوں سے شر کے تمام دروازے بند نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو۔ ہزاروں ہزار مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ بظاہر انسان کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور چاروں طرف بہت بڑی دیواریں اور روکیں نظر آتی ہیں۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرمائے تو وہ روکیں اور وہ دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے۔ جنگ خندق کے وقت جسے جنگ احزاب بھی کہا جاتا ہے دشمن نے ایسے طور پر مسلمانوں پر حملہ کیا کہ مسلمانوں کو بچاؤ کا کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔ مسلمانوں کی فوج کی تعداد بارہ سو تھی اور دشمن کی فوج کی تعداد دس ہزار سے چوبیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ اگر درمیانی تعداد نکالیں تو سترہ ہزار بنتی ہے۔ اُدھر سترہ ہزار کا لشکر اور اِدھر مسلمانوں کا صرف بارہ سو کا لشکر تھا۔ اتنے بڑے وسیع قصبے کی حفاظت بارہ سو آدمی کس طرح کر سکتے تھے۔ حفاظت کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا۔ آخر رسول کریم ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے پوچھا کہ آپ کے ملک میں ایسے موقع پر کیا کرتے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا کہ ایسے موقع پر شہر کے اردگرد خندق کھود کر شہر کی حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو یہ تجویز پسند آئی۔ آپ نے فرمایا یہ نئی چیز ہے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے صحابہؓ کو خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔6مدینہ کی وہ سمت جہاں سے کہ دشمن کے حملے کا زیادہ خطرہ تھا اُس طرف صحابہؓ نے خندق کھودنی شروع کر دی۔ آپ نے دس آدمیوں کو دس دس فٹ جگہ دے دی۔ گویا ایک آدمی کے حصہ میں ایک فٹ جگہ آئی اور اگر اس کی چوڑائی سات آٹھ فٹ اور گہرائی آٹھ نو فٹ سمجھی جائے تو ایک آدمی کے حصہ میں ساٹھ ستّر فٹ کی کھدائی کا کام تھا۔ اور یہ تمام کام صرف بارہ سو آدمی نہیں کر سکتا تھا اِس لئے بچوں اور عورتوں نے بھی اس کھدائی میں حصہ لیا۔ بچوں کے متعلق تو مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ وہ شامل تھے اور عورتوں کے متعلق بھی میرا قیاس ہے کہ وہ بھی ضرور شامل ہوئی ہوں گی کیونکہ صحابیات اکثر اجتماعی کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔ گویا اس طرح اس خندق کی کھدائی میں تین ہزار کے قریب افراد شامل ہوئے۔ جو خندق کھودی گئی وہ کچھ ایسی مکمل تو نہ تھی لیکن کسی قدر حفاظت کا سامان پیدا ہو گیا تھا۔ مدینہ کے سامنے جو میدان تھا اس طرف آپ نے خندق کھدوا دی۔ باقی تین اطراف کھلی تھیں۔ ان میں سے ایک طرف تو پہاڑیاں تھیں اور دشمن اس طرف سے حملہ آور نہیں ہو سکتا تھا اور دوسری طرف یہودیوں کی بستیاں تھیں اور باغات تھے اور یہودیوں سے رسول کریم ﷺ کا معاہدہ ہو گیا تھا کہ وہ لڑائی کے موقع پر آپ کا ساتھ دیں گے۔ اور تیسری طرف مدینہ کا شہر تھا اِس لئے اُس طرف سے بھی شدید حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دشمن جب مدینے پر حملہ آور ہؤا تو وہ خندق کی وجہ سے رُک گیا اور اس نے اس میدان میں ڈیرے ڈال دئیے۔ جب دشمن نے دیکھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنا مشکل ہو گیا ہے تو انہوں نے یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ تم ہمارے ساتھ مل جاؤ تو ہم مل کر حملہ کریں۔ یہودی مان گئے۔ انہوں نے رسول کریم ﷺکا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہودیوں کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے کفار کے لئے ایک اَور طرف مدینہ کی خالی ہو گئی۔ یہودی جب کفّار کے ساتھ مل گئے تو مسلمانوں کے لئے سخت خطرہ پیدا ہو گیا۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے خاندان کی عورتوں کو ایک میدان میں جمع کر دیا تھا جو یہود کی طرف تھا۔ چونکہ مرد خندق کی حفاظت کر رہے تھے اس لئے یہودیوں نے آدمی بھیج کر پتہ لگانا چاہا کہ مسلمان عورتیں کس جگہ جمع ہیں تاکہ ان پر حملہ کیا جا سکے۔ اس وقت حالت بہت نازک تھی۔ یہودیوں میں سے ایک شخص اس مکان تک جا پہنچا جس میں رسول کریم ﷺ کے خاندان کی عورتیں تھیں اور موقع تاڑ کر اند رگُھس آیا۔ وہاں پہرے پر ایک بیمار صحابیؓ مقرر تھے۔ انہوں نے مقابلہ کیا کرنا تھا۔ اُن عورتوں میں رسول کریم ﷺ کی پھوپھی بھی تھیں جو کہ بہت بہادر تھیں۔ اُنہوں نے اُس کو اندر آتے دیکھ کر اس صحابیؓ سے کہا کہ آپ اِس کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ بوجہ بیماری کے مقابلہ نہ کر سکے تو اُنہوں نے خود خیمے کی چوب نکال کر اس یہودی پر حملہ کیا اور اسے زخمی کر دیا اور پھر باقی عورتوں سے مل کر اسے مار دیا۔7 اس سے رسول کریم ﷺ کو علم ہو گیا کہ یہودی لوگ فساد پر آمادہ ہیں۔ آپ نے ان کا عندیہ معلوم کرنے کے لئے ان کی طرف آدمی بھجوائے۔ یہودیوں نے کہا ہمارا آپ سے کوئی معاہدہ نہیں ہم آزاد ہیں جس طرح چاہیں کریں۔ یہ خبر مدینہ کے مسلمانوں پر بجلی کی طرح پڑی۔ تب رسول کریم ﷺ نے خندق پر جو بارہ سو آدمی متعین کئے تھے ان میں سے دو سو آدمی اس جگہ کی حفاظت کے لئے بھجوا دئے۔ جہاں آپ کے خاندان کی عورتیں تھیں اور دوسرے ایسے خاندانوں کی عورتیں تھیں جس پر دشمن کی خاص نظر تھی۔ تین سَو کا لشکر اُس جگہ کی حفاظت کے لئے بھجوا دیا جہاں مدینہ کی دوسری عورتوں کو رکھا گیا تھا۔ گویا کُل سات سَو آدمی رسول کریم ﷺ کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کے لئے رہ گئے۔ اس تبدیلی سے مسلمانوں کی حالت اَور بھی نازک ہو گئی اور وہ گھبرا گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ چنانچہ قرآن کریم اس حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتا ہے۔زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا 8گویا اُن پر ایک قسم کا زلزلہ آ گیا تھا اور کمزور ایمان والے مسلمانوں نے بہانے بنانے شروع کر دئیے کہ ہمارے گھر ننگے ہیں، اُن میں کوئی مرد حفاظت کرنے والا نہیں اور بعض نے بیماری کے بہانے بنائے۔ وہ حالت ایسی نازک تھی کہ ایک عیسائی مؤرخ جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے کا عادی ہے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ دن ایسے خطرناک تھے کہ ان کے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ مسلمانوں کو رات دن جاگنا پڑتا تھا اور خطرناک سے خطرناک مصائب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ دوسری سب مصیبتوں کو بخوشی برداشت کر سکتے تھے لیکن جو چیز سب سے زیادہ اُن کے لئے تکلیف دہ تھی وہ یہ تھی کہ دشمن رسول کریم ﷺ پر حملہ کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ جہاں تک قربانی کا سوال ہے بعض دفعہ آٹھ دس صحابہؓ نے ہزار ہزار کا مقابلہ کیا ہے لیکن وہ اِتنے متفکر نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رسول کریم ﷺ امن میں ہیں لیکن اب مسلمان اس بات سے پریشان تھے کہ ہم تو مر جائیں گے لیکن رسول کریم ﷺ کی کون حفاظت کرے گا۔ پس انہیں اپنی جانوں کا ڈر نہ تھا بلکہ انہیں رسول کریم ﷺ کے متعلق خطرہ تھا کہ دشمن کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچا دے۔ میور جیسا متعصب مؤرخ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہؤا ہے کہ جب کفار نے حملہ کر کے رسول کریم ﷺتک پہنچنے کی کوشش کی تو مُٹھی بھر مسلمانوں نے اس طرح اپنی جانیں قربان کیں کہ دشمن کو باوجود کثیر التعداد ہونے کے پسپا ہونا پڑا۔9 ان خطرناک حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے یہ سامان کیا کہ ان سترہ ہزار آدمیوں میں سے ایک آدمی کے دل پر اسلام کی حقیقت کُھل گئی اور وہ رات کو چوری چوری رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور اسلام لایا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے عرض کیا ۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ مجھے کوئی کام بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لشکر اگر شرارت سے باز آ جائے تو بہت اچھا ہے۔ تم اس کے لئے کوشش کرو۔ وہ آدمی بہت ذہین تھا۔ وہ نہایت ہوشیاری کے ساتھ یہودیوں کے پاس پہنچا۔ چونکہ وہ یہودیوں کا دوست تھا اِس لئے اُنہیں اس پر بہت اعتماد تھا۔ وہ یہودیوں سے کہنے لگا مَیں تمہارا دوست ہوں اور تمہارا خیر خواہ ہونے کی حیثیت سے مَیں تمہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ اگر باہر سے آنے والے لشکروں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تو تم مشکلا ت میں پھنس جاؤ گے اور مسلمان تم کو سخت سزا دیں گے۔ اگر لڑائی نے ذرا بھی خطرناک صورت اختیار کی تو باہر سے آئے ہوئے لشکر اپنی جان بھاگ کر بچائیں گے ۔ اس وقت تم کیا کروگے؟ یہودیوں نے ان سے پوچھا آپ ہی بتائیں ہم کیا تدبیر کریں کہ جس سے ہماری تسلی ہوجائے۔ اس نے کہا کہ تم باہر سے آنے والے قبائل کے سامنے یہ مطالبہ رکھو کہ وہ ستّر آدمی بطور یرغمال کے دیں تاکہ وہ نہ ہی صلح کر سکیں او رنہ اپنے آدمیوں کو چھوڑ کر بھاگ سکیں۔ اُس کی یہ تجویز سن کر یہودی بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی تدبیر ہے ہم ایسا ہی کریں گے۔ وہاں سے اٹھ کر وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ تم نے یہودیوں سے معاہدہ تو کر لیا ہے لیکن اگر وہ مسلمانوں سے ڈر کر تم سے غداری کریں اور اپنے قلعوں میں سے تم کو راستہ نہ دیں تو پھر کیا کرو گے؟ اور اگر وہ یہ کہیں کہ ہمیں اپنے آدمی یرغمال کے طور پر دو تب اعتبار کریں گے اور پھر دھوکا کر جائیں تو آپ لوگوں کا کیا زور چلے گا؟ اُنہوں نے کہا ہم ایسا کبھی نہ کریں گے۔ اگر انہوں نے یرغمال مانگی تو ہم سمجھ لیں گے کہ وہ شرارت پر آمادہ ہیں اور ہم کل ہی حملہ کا فیصلہ کر کے انہیں اپنی مدد کے لئے بلاتے ہیں دیکھیں! وہ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح تشفّی کر کے وہ نَو مسلم اپنے خیمہ میں اطمینان سے چلے گئے۔ دوسرے دن کفار کے لشکر کے سرداروں نے یہودیوں کو پیغام بھجوایا کہ ہم اب فوری طور پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تم لوگ بھی تیاری کر کے ہمارے ساتھ آ ملو تاکہ یکدم حملہ کر کے مسلمانوں کو ختم کر دیں۔ یہودیوں نے ان کو جواب بھیجا کہ ہمیں شبہ ہے کہ ایسا نہ ہو تم حملہ کرنے کے بعد بھاگ جاؤ یا مسلمانوں سے صلح کر لو اس لئے تم ستّر آدمی بطور یرغمال کے ہمارے پاس بھیج دو۔ قبائل کے سردار یہودیوں کا یہ جواب سن کر سمجھ گئے کہ یہودی کوئی شرارت کرنا چاہتے ہیں اور ان کے ذہن اس شبہ کی طرف منتقل ہو گئے جو اس صحابی نے بیان کیا تھا۔ اُنہوں نے یہودیوں کو جواب دیا کہ اگر سیدھی طرح مدد کرنی ہے تو کرو ہم اپنے آدمی دے کر اپنے ہاتھ نہیں کٹوانا چاہتے۔ سارا دن یہ جھگڑا رہا۔ آخر دونوں فریقوں میں بدمزگی پیدا ہو گئی او ربدمزگی کی وجہ سے ان کے دلوں میں بزدلی پیدا ہو گئی۔10 ان قبائل میں یہ رواج تھا کہ رات کو تمام قبیلے اپنی اپنی آگ جلا کر رکھتے تھے۔ اگر تمام رات ان کی آگ جلتی رہتی تو وہ سمجھتے کہ آج کا دن مبارک ہے اور ہمارا دیوتا ہم پر خوش ہے۔ لیکن جس دن کسی قبیلہ کی آگ بجھ جاتی وہ قبیلہ سمجھتا کہ آج ہمارا دن منحوس ہے اور ہمارے لئے کوئی مصیبت لائے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہؤا کہ اُسی رات ایک قبیلہ کی آگ بجھ گئی۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آج کا دن ہمارے لئے مبارک نہیں اِس لئے آج ہمیں اپنے خیمے اُکھاڑ کر ایک دن کی منزل پر پیچھے چلے جانا چاہئے دوسرے دن پھر واپس آ جائیں گے۔ چونکہ سارا دن یہ باتیں ہوتی رہی تھیں کہ یہودیوں کی نیت خراب ہے اور وہ مسلمانوں سے مل کر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو جب اس قبیلہ نے اپنے خیمے اُکھاڑنے شروع کئے تو ہمسایہ قبائل نے یہ سمجھا کہ شاید یہودیوں نے مسلمانوں سے مل کر شبخون مارا ہے۔ اِس طرح پہلے ایک قبیلہ نے پھر دوسرے قبیلہ نے خیمے اکھاڑنے شروع کر دئیے اور وہ سترہ ہزار کا لشکر صبح تک میدان خالی کر کے چلا گیا۔ اس وقت قبائل میں اس قدر بھاگڑ 11مچی کہ ابو سفیان کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ اس کا اونٹ بندھا ہؤا تھا۔ وہ جلدی میں بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہو گیا او راسے سوٹیاں مارنے لگا۔ پاس سے کسی شخص نے توجہ دلائی کہ پہلے اونٹ کے پاؤں کی رسّی تو کھول لو پھر اُسے ہانکنا۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے رسول کریم ﷺ نے ایک صحابیؓ کو فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہؤا ہے کہ دشمن بھاگ چکا ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں۔ سخت سردیاں تھیں۔ رسول کریم ﷺ نے کئی دفعہ کہا کہ کوئی ہے جو جا کر دشمن کی خبر لائے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہماری زبانیں سردی کے مارے جم رہی تھیں او رہمارے منہ سے آواز نہ نکلتی تھی۔ آخر ایک صحابیؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!مَیں جاتا ہوں اور دشمن کی خبر لاتا ہوں۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ!لشکر کا تو سوال کیا۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں اور میدان خالی پڑا ہے۔12 یہ ایک الٰہی تدبیر تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے کی۔ تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ خطرناک سے خطرناک مواقع پر بھی کوئی نہ کوئی رستہ پیدا کر دیتا ہے۔
پس یہ مت سمجھو کہ ہم لوگوں کے دلوں کو کیسے صاف کر سکیں گے اور ان کےد لوں سے بُغض اور کینہ کو کس طرح دور کر سکیں گے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے روئیں اور چِلّائیں کہ اے خدا! تُو لوگوں کے دلوں کو صاف کر دے اور آنے والے حالات کے خطرناک نتائج سے اپنے بندوں کو بچا لے۔ اور اسی طرح دوسری پبلک کو بھی ہم یہی تحریک کریں کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے روؤ اور چِلّاؤ اور اللہ سے اپنا حق مانگو۔ اور کینوں اور بغضوں کو چھوڑ دو کیونکہ ان سے کام نہیں بنتا۔اگر ہماری جماعت کو یہ کینے اور بُغض لوگوں کے دلوں سے نکالنے کے لئے قربانی بھی کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بظاہر یہ حالات قربانیوں کے بغیر بدلتے نظر نہیں آتے۔ پس سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دلوں کو بدلیں۔ اگر ہم اپنے دلوں کو بدلیں گے تو ہمارے ہمسایوں اور ملنے جُلنے والوں پر بھی ہماری باتوں کا اثر ہو گا۔ چونکہ آج میری طبیعت پر بوجھ ہے اس لئے مَیں لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ صرف یہی کہتا ہوں کہ آج سے ہماری جماعت کو دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے اور نمازوں میں اور نمازوں کے بغیر چلتے پھرتے ہوئے ، کام کرتے ہوئے ہمارے دلوں سے یہی دعا نکلتی رہنی چاہئے کہ اے خدا! ہمارے ملک کی چالیس کروڑ آبادی پر تباہی اور بربادی کے بادل منڈلا رہے ہیں تُو اپنے فضل سے ان حالات کو بدل دے۔ چالیس کروڑ انسانوں کی تباہی کوئی معمولی چیز نہیں۔ لوگوں کے دل بہار اور کوئٹہ کے زلزلہ کو یاد کر کے کانپ جاتے ہیں حالانکہ بہار اور کوئٹہ کے زلزلہ میں ایک دو لاکھ انسان تباہ ہوئے تھے لیکن اب تو چالیس کروڑ انسان کی موت اور حیات کا سوال درپیش ہے۔ اگر اب کوئی فساد پیدا ہؤا تو اس میں اتنی تباہی ہو گی کہ دنیا کے پردے پر اس کی مثال نہیں ملے گی۔ مسلمان جوش میں آ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم لڑنے والی قوم ہیں۔ اگر ہمارا تیس کروڑ ہندوؤں سے مقابلہ ہؤا تو ہم ان میں سے کسی ایک کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فرض کرو اگر دس کروڑ مسلمان تیس کروڑ ہندوؤں کو مار بھی لیں تو کیا تیس کروڑ کا مارنا ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان باقی رہنے دے گا۔ اگر ہندو خدا کے سوا کسی بُت کے بندے ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا کوئی اَور ہےپھر تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمان ان کو مارنے کے بعد آرام اور چین کا سانس لے لیں گے۔ لیکن اگر وہ اسی خدا کے بندے ہیں جس نے مسلمانوں کو پیدا کیا تو مسلمان ان کو مار کر کس طرح آرام سے دن بسر کر سکتے ہیں ۔ یا اگر ہندو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم منظّم قوم ہیں اور ہم تیس کروڑ ہیں اس لئے ہم دس کروڑ کو آسانی سے مار لیں گے تو اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ انسان ہیں اوروہ یقیناً انسان ہیں تو آج وہ بے شک دس کروڑ کو مار لیں لیکن اس گناہ اور اس جُرم کو یاد کر کے آئندہ ان کی نسلوں کے دلوں سے خون کے آنسو ٹپکیں گے اور وہ اس جُرم اور گناہ کو یاد کر کے ان پر لعنتیں بھیجیں گے۔ بظاہر جوش میں انسان کو ایک دوسرے کا مارنا معمولی نظر آتا ہے لیکن جب وہ ٹھنڈے دل سے سوچتا ہے تو اس کا یہ فعل اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے تلخ بنا دیتا ہے۔
انسان انسانیت سے خواہ کتنا دور چلا جائے لیکن انسانیت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ یزید بن معاویہ کتنا بدنام ہے کہ اس نے ظلم و تعدی کر کے بادشاہت حاصل کی۔ لیکن اس کے بعد جب اس کے بیٹے کو بادشاہ بننے کے لئے کہا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ مَیں بادشاہت کا مستحق نہیں۔ میرے باپ نے ظالم بن کر دوسروں کا حق چھینا تھا۔ ماں نے بہت اصرار کیا کہ تم خاندان کی ناک کاٹ رہے ہو لیکن اس نے کہا۔ ماں! مَیں نے خاندان کی ناک کاٹی نہیں بلکہ کٹنے سے بچا لی ہے۔ اس پر بادشاہ بننے کے لئے بہت زور دیا گیا لیکن اس نے ہر دفعہ انکار کیا اور وہ روتے روتے چالیس دن کے بعد مر گیا۔ اس کے باپ نے اس لئے گناہ کیا تھا کہ اس کی اور اس کے خاندان کی عزت بڑھے لیکن خود اس کے بیٹے نے اس جھوٹی عزت پر لات مار دی اور رو رو کر جان دے دی۔
پس انسان انسانیت سے کتنا ہی دور چلا جائے اور شیطان اس پر کتنا ہی قابو پا لے لیکن ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت اس کے دل پر قائم ہو جاتی ہے۔ پس اگر ملک میں فساد ہؤا تو یا مسلمانوں کو گنہگار سمجھا جائے گا اور یا ہندوؤں کو گنہگار سمجھاجائے گا۔ اور یہ گناہ اتنا بڑا گناہ ہو گا کہ وہ نسلاً بَعْدَ نَسْلٍ دونوں قوموں کی خوشی اور راحت کو مٹا دے گااور ان کے دن اور راتیں عذاب میں گزریں گی۔ اور و ہ نہایت افسوس کے ساتھ کہیں گے کہ کاش! ہماری زندگیاں ختم ہو جائیں او رہمیں ان پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات مل جائے۔ پیشتر اس کے کہ وہ دن آئیں، ہم پر آئیں یا ہمارے بھائیوں پر آئیں ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا اِس عذاب سے بچ جائے۔ ہمارے پاس اِس وقت دنیا کو بچانے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ دعا ہے۔ پس ہماری جماعت کو خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کرنی چاہئیں اور دن رات جماعت کے دل دعاؤں میں منہمک رہیں، جاگتے ہوئے بھی اور سوتے ہوئے بھی یہ دعا تمہارے دلوں سے نکلتی رہے اور جب تمہاری آنکھ کُھلے اُس وقت بھی تمہاری زبان پر یہ دعا جاری ہو۔ جب دعا انسان پر غالب آ جاتی ہے اور انسان دعا کی چادر اوڑھ لیتا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے۔ اور اس پر خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں۔
پس صرف سجدوں میں ہی نہیں بلکہ ہر حالت میں تمہارے دل سے یہ دعا نکلتی رہے۔ اگر کوئی شخص نہانا چاہے اور بجائے نہانے کے پانی کاایک قطرہ ڈال کر یہ سمجھ لے کہ مَیں نے نہا لیا ہے تو ہر انسان اسے پاگل سمجھے گا۔ پس تم اپنے دلوں پر اس دعا کو حاوی کر لو اور کھاتے وقت، سوتے وقت، اُٹھتے بیٹھتے تم دعا کرو کہ اے خدا! تُو اپنے فضل سے ملک کے اِس فتنہ کو دور کر اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں کو صاف کر دے اور ان کے تعلقات آپس میں بھائیوں جیسے کر دے۔ ہمارا ملک جو سینکڑوں سال سے غلامی کی زندگی گزار رہا تھا بڑی مدت کے بعد آسمان سے آزادی کی خلعت اِس کے لئے اُتر رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے لئے قتل و غارت کا سامان پیدا کرنے والے ہوں۔’’ (الفضل 30 اکتوبر 1946ء)
1: الرعد: 15
2: تلخیص یوناہ باب 3، 4
3: وَ اِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَؕ۰۰۱۳۹اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ۰۰۱۴۰فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ
الْمُدْحَضِيْنَۚ۰۰۱۴۱فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِيْمٌ۰۰۱۴۲فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ۠ۙ۰۰۱۴۳لَلَبِثَ
فِيْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَۚ۰۰۱۴۴فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ سَقِيْمٌۚ۰۰۱۴۵وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ
يَّقْطِيْنٍۚ۰۰۱۴۶وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ۔(الصّٰفّٰت: 140 تا 147)
4: یوناہ باب 4 آیت 6 تا 11
5:صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الانفال باب قولہٗ اللّٰھم ان کان ھذا ھوالحق
من عندک فامطر
6: تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 165۔ مطبوعہ بیروت 1987ء
7: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 239مصر1936ء
8: الاحزاب: 12
9: Life od Mahomet page:322 by William Muir
مطبوعہ لندن1887ء
10:سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ 240تا242مطبوعہ مصر 1935ء،السیرۃ الحلبیۃ
جلد 2 صفحہ 346 تا348 مطبوعہ 1935 ء
11: بھاگڑ مچنا (محاورہ): ہل چل مچنا۔ شکست ہو جانا۔ بد انتظامی ہونا۔ بے ترتیبی۔
12: سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ 242تا244مطبوعہ مصر 1935ء

38
1۔جاوا کے ایک مخلص احمدی کی مخلصی کے لئے دعا کی جائے
2۔ جماعت احمدیہ زیادہ سے زیادہ اپنے لڑکے قادیان بھیج کر تعلیم دلائے
3۔ دہلی کا سفر اور اس کی غرض
( فرمودہ 18؍ اکتوبر 1946ء )
تشہد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف جہات میں جو وسعت بخشی ہے وہ مختلف انواع اور درجات کی ہے۔ کہیں کم کہیں زیادہ، کہیں خاص طبقہ میں اور کہیں عَوَامُ النَّاس میں، کہیں صرف ہندوستانیوں میں اور کہیں غیر ملکی لوگوں میں۔ ان ممالک میں سے اہم ترین ممالک میں انڈونیشیا کا علاقہ بھی ہے یعنی سماٹرا اور جاوا کا علاقہ۔ سماٹرا اور جاوا میں کثرت کے ساتھ ہماری جماعت پائی جاتی ہے۔ کثرت سے یہ مراد نہیں کہ وہاں کے ملک کے لحاظ سے ہماری جماعت کو اکثریت حاصل ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ہماری تبلیغی مساعی کے لحاظ سے وہاں کثرت سے جماعت پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح دوسرے جزائر میں بھی کم و بیش تھوڑے تھوڑے احمدی پائے جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سماٹرا اور جاوا کی جماعتوں کی تعداد اور دوسرے جزائر میں جو تھوڑے بہت احمدی پائے جاتے ہیں ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو ہمارا پندرہ ہزار آدمی ان علاقوں میں ہو گا۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں پندرہ ہزار کی نسبت کچھ بھی چیز نہیں۔ لیکن اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہماری جد و جہد ابھی معمولی ہے یہ تعداد بھی بہت خوشکن اور امید افزا ہے۔ درحقیقت ساڑھے سات کروڑ آدمی جو ہزار ہا جزائر میں پھیلے ہوئے ہیں اُن کے لئے مبلغ بھی ہزاروں چاہئیں۔ بلکہ ہزاروں کا بھی سوال نہیں ہمیں ان جزائر میں تبلیغ کرنے کے لئے لاکھوں مبلغین کی ضرورت ہے اور لاکھوں مبلغوں کے بعد ہم عظیم الشان نتائج کی امید کر سکتے ہیں۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ اِس وقت تک ہماری طرف سے وہاں صرف چھ سات مبلغ گئے ہیں اور چھ سات مبلغوں کی کوشش سے اِتنی بڑی تعداد کا شامل ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ اِس دَور انقلابی میں جو وہاں پیدا ہؤا کہ پہلے سماٹرا اور جاوا پر جاپان نے قبضہ کر لیا۔ پھر انڈونیشین کی خودمختار حکومت قائم ہوئی۔ پھر انگریزوں نے ڈچ کو داخل کرنے کی کوشش کی او راب وہاں ری پبلکن حکومت قائم ہے۔ بہت سے ابتلا بھی ہماری جماعت پر آئے اور جاپانی قبضہ کے زمانہ میں احمدیوں کے ساتھ سختی بھی کی گئی۔ پہلے تو اس طرف توجہ نہیں کی گئی تھی لیکن آہستہ آہستہ جب جاپانیوں کا ڈر دور ہؤا اور اُن کے پاس شکایتیں پہنچنے لگیں تو احمدیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ لیکن جب وہ اپنے ارادوں کو جماعت احمدیہ کے خلاف پوری مضبوطی سے قائم کر چکے تو یکدم اللہ تعالیٰ نے ان کی حکومت کو تباہ کر دیا اور انڈونیشیا میں ری پبلکن حکومت قائم ہو گئی۔ اِس ری پبلکن حکومت کے زمانہ میں اور ا ِس سے پہلے زمانہ میں بھی جب کہ افراد محض انفرادی طور پر اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے تھے ہماری جماعت نے ری پبلکن تحریک کا ساتھ دیا تھا اور ملک کی آزادی کے لئے اس نے ہر رنگ میں کوشش کی تھی۔ اِسی لئے جاپانی حکومت کے جانے کے بعد جب ری پبلکن حکومت قائم ہوئی تو عام طور پر ہماری جماعت کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔ افسروں کا رویہ ہماری جماعت کے ساتھ بہت بہتر رہا اور اُنہوں نے ہم سے اپنے تعلقات قائم رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوا میں اب بھی ہمارے مبلغین کام کر رہے ہیں۔ گو اُنہیں آہستگی سے کام کرنا پڑتا ہے لیکن بہرحال اُن کے کام میں کوئی خاص روک نہیں پائی جاتی۔ اور جیسا کہ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے بعض اعلیٰ حکام حتّٰی کہ بعض وزراء تک بھی ہمارے مبلغوں سے ملتے ہیں،اُن سے مشورہ بھی کرتے ہیں او ران کے ذریعہ سے ہندوستان پیغام بھی بھجواتے ہیں۔ وہاں ہماری جماعت کے ایک معزز دوست مولوی محی الدین صاحب ہیں جو ہمارے مبلغ مولوی عزیز احمد صاحب کے خسر ہیں۔ مولوی عزیز احمد صاحب کنجاہ ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں اور وہ تحریک جدید کے ماتحت اس ملک میں تبلیغِ اسلام کے لئے بھجوائے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں مولوی محی الدین صاحب کی لڑکی سے شادی کر لی۔ مولوی محی الدین صاحب وہاں ہماری جماعت میں بہت اعزاز رکھتے ہیں اور ری پبلکن حکام میں بھی ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر اب مولوی رحمت علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کی چِٹھیوں سے معلوم ہؤا ہے کہ رات کو چھاپہ مار کر کوئی اُن کو قید کر کے لے گیا ہے۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ ان کو کون قید کر کے لے گیا ہے۔ ایک ماہ بلکہ ڈیڑھ ماہ کے قریب عرصہ ہو گیا ہے ابھی تک ان کے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کو کس نے پکڑا ہے۔ وہاں اس وقت چار قسم کی جماعتوں کا زور ہے۔ اول ڈچ حکومت جو بعض ساحلی شہروں پر ہے۔ دوسرے بعض ساحلی شہروں پر برطانوی حکومت ہے جو جاپانی قیدیوں کا انتظام کرنے کے نام سے قائم ہے۔ پھر ایک ری پبلکن حکومت ہے یعنی جاوا اور سماٹرا کے اصل باشندوں کی حکومت۔ وہ آگے دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی ہے جس نے الگ انتظام کر رکھا ہے۔ یہ پارٹی ایک دفعہ ڈاکٹر شہر یار وزیر اعظم کو بھی پکڑ کر لے گئی تھی۔ دوسری انڈونیشین حکومت ہے جس کے پریذیڈنٹ ڈاکٹر سکارنو(Soekarno) اور وزیر اعظم مسٹر شہر یار ہیں۔ انہی چاروں میں سے کسی ایک کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ انہیں پکڑ کر لے گئی ہو۔ لیکن جہاں تک انسانی عقل کام کرتی ہے ری پبلکن حکومت کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ انہیں گرفتار کر کے لے گئی ہو کیونکہ ہماری جماعت ری پبلکن حکومت کے ساتھ کام کرتی رہی ہے اور اس زمانہ سے کام کرتی رہی ہے جب انڈونیشیا پر جاپان کا قبضہ تھا۔ مولوی محی الدین صاحب کے متعلق معلوم ہؤا ہے کہ چونکہ گزشتہ ڈچ حکومت کے زمانہ میں وہ ایک ذمہ دار عُہدہ پر فائز تھے، ڈچ حکومت نے ان کو بہت لالچیں دیں اور کہا کہ پھر ہماری ملازمت میں آ جاؤ۔ مگر انہوں نے ڈچ حکومت کی ملازمت سے انکار کر دیا اور کہا کہ مَیں اپنے ملک کی خدمت کر رہا ہوں مَیں تم میں شامل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہی شبہ ہو سکتا ہے کہ ڈچ حکومت نے انہیں قید کر دیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو خطرہ ہے کہ اُن کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ آج ہی ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ وہ اندرون ملک چلے جائیں اور وہاں نہ رہیں جہاں ڈچ حکومت ہے۔ لیکن ری پبلکن حکومت نے اُن کو مشورہ دیا کہ ابھی آپ نہ جائیں اور یہیں کام کرتے رہیں۔ اِس لئے غالب گمان یہی ہے کہ ڈچ حکومت نے ان کو پکڑ لیا ہے۔ بہرحال وہاں کی جماعت کو صدمہ ہے اور وہ بار بار خطوط لکھ رہے ہیں کہ مولوی محی الدین صاحب کے متعلق دعا کی جائے کیونکہ وہ جماعت کے بہت با اثر آدمی ہیں اور نہایت مفید کام کرنے والے وجود ہیں۔ زیادہ صدمہ کی بات یہ ہے کہ ان کی لڑکی یعنی مولوی عزیز احمد صاحب کی بیوی اس صدمہ میں پاگل ہو گئی ہے۔ یوں تو سب لوگ مرتے ہیں لیکن یہ خیال کہ نہ معلوم دشمن کی طرف سے میرے باپ کو کیا کیا تکالیف پہنچائی جا رہی ہوں گی اس نے ان کی لڑکی پر ایسا اثر ڈالا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔ مَیں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنی دعاؤں میں خاص طور پر مولوی محی الدین صاحب کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں حفاظت سے رکھے، خیریت سے واپس لائے اور جماعت کی خدمت کا انہیں مزید موقع عطا فرمائے اوران کی لڑکی کو بھی صحت دے۔ نہ صرف خود اس لڑکی کے خیال سے بلکہ اس خیال سے بھی کہ ہمارا مبلغ زیادہ سہولت اور دلجمعی سے کام کر سکے۔
2۔جماعت احمدیہ زیادہ سے زیادہ اپنے لڑکے قادیان بھیج کر تعلیم دلائے:اِسی سلسلہ میں مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے جس رنگ میں ہماری جماعت پھیل رہی ہے وہ ایک غیر معمولی امر ہے۔ بظاہر ایک ایک اور دو دو آدمی ہماری جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن وہ ایک ایک اور دو دو اس طرح داخل ہو رہے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص منشاء ان کے پس پردہ کام کر رہا ہے۔ ایک جزیرہ کے متعلق اطلاع پہنچی ہے ٭ کہ وہاں کا راجہ احمدیت میں داخل ہو گیا ہے۔ جزیرہ بہت چھوٹا سا ہے لیکن بہرحال اس جزیرہ کا راجہ احمدی ہو چکا ہے اور اس کے ذریعہ سے اس کا باقی خاندان بھی
٭ مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے اس کا پہلے بھی ذکر کیا ہے یا نہیں۔
احمدی ہو گیا ہے۔ اب وہ ہم سے مبلغ مانگ رہے ہیں تاکہ جزیرہ کی باقی آبادی میں بھی جو دس ہزار کے قریب ہے احمدیت پھیلائی جا سکے۔ اِسی طرح پر سوں اترسوں ایک اٹالین جو دورانِ جنگ میں بطور جنگی قیدی ہندوستان لائے گئے تھے احمدی ہوئے ہیں اور گو اٹلی میں ہمارے پہلے بھی احمدی دوست موجود ہیں لیکن یہ اٹالین نوجوان اٹلی کے سب سے پہلے احمدی ہوں گے جو دوسروں سے یہ کہہ سکیں گے کہ مَیں نے خود قادیان کو دیکھا اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا ہے۔اِسی طرح انگلستان سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ایک جرمن قیدی جو برطانیہ میں تھا اس نے خط و کتابت کے ذریعے ہمارے مشن سے سلسلہ کے حالات معلوم کئے اور اسلام لے آیا۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ احمدیت کا بیج بویا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ بیج نشو ونما حاصل کر کے بہت بڑی شاندار صورت اختیار کر لے۔ اِسی طرح مَیں پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ ایک روسی جو بھاگ کر سپین آ گیا تھا اور جو ایک معزز خاندان کا فرد ہے وہ احمدی ہو چکا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ جب بھی اسے موقع ملا وہ خط و کتابت کے ذریعے سے اور بعض دوسرے ذرائع سے اپنے ملک میں تبلیغ کرے گا۔ تبلیغ کے یہ نئے نئے رستے جو مختلف ممالک میں کُھل رہے ہیں ہماری جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ یہ لازمی بات ہے کہ جب تبلیغ پھیلے گی تو ہمیں زیادہ سے زیادہ مبلغوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ گزشتہ دنوں ہم نے اپنے سارے مبلغوں کے کھاتے پورے کئے اور ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اب چھ ماہ یا سال تک ہمیں مزید مبلغوں اور کارکنوں کی ضرورت نہیں ہو گی لیکن حالات جس سُرعت کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جلد ہی مزید گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کی ضرورت پیش آنے والی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دو تین سال تک متواتر ہر سال ہمیں پچاس پچاس، سو سو آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ہر جگہ سے ہمیں مطالبہ پر مطالبہ آ رہا ہے کہ اَور مبلغ بھیجواَور مبلغ بھیجو۔ اور ہر جگہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے سے نئے رستے کُھل رہے ہیں۔ بے شک بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں موجودہ حالات میں ہمارے لئے تبلیغ کرنا ناممکن ہے اور حکومتوں کی طرف سے اس میں روک ڈالی جاتی ہے مگر ہمیں اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ جب کام کرنے والے آدمی ہوں تو وہ اپنے کام کے لئےخود ہی راستے نکال لیا کرتے ہیں۔ قانون اَور چیزوں میں روک بن جاتا ہے لیکن تبلیغ میں روک نہیں بن سکتا۔ آخر مکہ والے بھی تو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو تبلیغ نہیں کرنے دیتے تھے مگر کیا رسول کریم ﷺ نے کبھی اِس بات کی پروا کی؟ پس جب بھی ہمارے پاس کافی مبلغ ہوئے ایسے ممالک میں بھی ہمارے مبلغوں کو جانا پڑے گا۔ اس وقت پانچ چھ ممالک ایسے ہیں جہاں قانونی طور پر مبلغین کو جانے نہیں دیا جاتا۔ اس وقت ہم خاموش ہیں اور اس بارہ میں کوئی جدو جہد کرنا اپنی طاقت کا ضیاع سمجھتے ہیں کیونکہ ابھی کئی ممالک جن میں ہمارے مبلغ جا سکتے ہیں خالی پڑے ہیں اور وہ ہم سے مبلغین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک کی موجودگی میں ان ممالک میں زبردستی جا کر تبلیغ کرنا جو اپنے ملکوں میں آنے کی اجازت نہیں دیتے اپنی طاقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب آزاد ممالک ہمارے مبلغین سے بھر جائیں گے اور ہم مجبور ہوں گے کہ ان ممالک کی طرف توجہ کریں جن میں قانونی طور پر اسلامی مبلغین کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ اس وقت ہمارا فرض ہو گا کہ ہم زبردستی ان ممالک میں جائیں اور پھر چاہے قید ہوں یا مارے جائیں ، برابر تبلیغِ احمدیت کا جھنڈا بلند کرتے چلے جائیں۔ پس ہماری جماعت کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ واقفین پیدا کرنے چاہئیں اور واقفین اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے جب تک زیادہ سے زیادہ تعلیم ہماری جماعت میں رائج نہ ہو۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کی تعلیمی ترقی کے لئے اس سال کالج میں جو بی۔ا ے ، بی۔ ایس۔ سی کی جماعتیں کھولی گئی تھیں اُن میں اب تک صرف بائیس لڑکے داخل ہوئے ہیں ٭ حالانکہ کالجوں میں عام طور پر چالیس پینتالیس فیصدی طالب علم پاس ہوتے ہیں۔ اگر اس سےبھی زیادہ اچھا نتیجہ نکلے تو بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمارے بی۔اے، بی۔ ایس۔ سی میں صرف دس گیارہ لڑکے پاس ہوں گے اور دس گیارہ لڑکوں میں سے تبلیغ کے لئے انتخاب کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ انتخاب کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لڑکوں کی تعداد زیادہ ہو کیونکہ کچھ ملازمت اختیار کر لیتے ہیں ، کچھ تجارت کی طرف چلے جاتے ہیں، کچھ کام کے نا اہل ہوتے ہیں
٭ اس کے بعد تعداد بڑھ کر ستائیس تک پہنچ گئی ہے۔
اور اس طرح قلیل تعداد ایسے لڑکوں کی نکلتی ہے جو تبلیغ کے لئے انتخاب میں آنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ پس اگر ہمیں دس گیارہ لڑکے ہی ملیں تو ان دس گیارہ میں سے ہم انتخاب کس طرح کر سکتے ہیں۔ مبلغین کا انتخاب تم اس وقت تک کامیاب طور پر نہیں کر سکتے جب تک ہر سال ڈیڑھ دو سو طالب علم بی۔ اے کے امتحان میں پاس نہ ہوں۔ کیونکہ امتحان پاس کرنے کے بعد جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کچھ تجارتیں شروع کر دیتے ہیں ، کچھ ملازمتیں اختیار کر لیتے ہیں، کچھ اَور کاروبار کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور جو باقی رہ جائیں وہ ہمارے کام آ سکتے ہیں۔ اِسی طرح جب تک ہر سال ہمیں سو ڈیڑھ سو مولوی فاضل نہ ملیں ہم اپنے کام کو صحیح طور پر سر انجام نہیں دے سکتے۔ ہمیں اپنے گزشتہ تجربہ سے معلوم ہؤا ہے کہ تبلیغ کے لئے فوری طور پر گریجوایٹ زیادہ مفید ہوتے ہیں کیونکہ گریجوایٹ ہونے کی وجہ سے وہ غیر زبان زیادہ آسانی سے سیکھ جاتے ہیں اور پھر بوجہ انگریزی زبان جاننے کے وہ ہر ملک میں کام کر سکتے ہیں کیونکہ انگریزی زبان جس سے انہیں واقفیت ہوتی ہے اس کے بولنے اور سمجھنے والے تمام ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ نقص ہے کہ گریجوایٹ دینی تعلیم جلد حاصل نہیں کر سکتے اِس لئے ہمارا بہترین تجربہ یہ ہے کہ تبلیغ کے لئے ایک مولوی فاضل اور ایک گریجوایٹ دونوں کو اکٹھا بھیجا جائے۔ مولوی فاضل انسائیکلو پیڈیا کا کام دیتا ہے او ر جن مسائل سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ بتاتا چلا جاتا ہے اور زبان دانی کے لحاظ سے گریجوایٹ زیادہ مفید کام کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ آخر اکٹھے رہنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ گریجوایٹ مولوی فاضل کی طرح دینی مسائل سے واقف ہو جاتا ہے اور مولوی فاضل گریجوایٹ کی طرح غیر زبانیں سیکھ جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کےفضل سے یہ سلسلہ جاری رہا تو چند سالوں میں ہی ہماری جماعت میں ایسے علماء پیدا ہو جائیں گے جو فرانسیسی زبان بھی جانتے ہوں گے، جرمن زبان بھی جانتے ہوں گے، اٹالین زبان بھی جانتے ہوں گے ، سپینش زبان بھی جانتے ہوں گے اور اسی طرح دوسری زبانیں جانتے ہوں گے۔ وہ دوسرے مسلمانوں کے علماء کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے والے ہوں گے۔ اور اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ مولوی ہوں انہیں کوئی دوسری زبان آتی ہی نہیں بلکہ آ ہی نہیں سکتی۔ مگر یہ ایسے لوگ ہوں گے جو اعلیٰ درجہ کے عالم ہونے کے باوجود فرانسیسی میں بھی تقریر کر سکیں گے، جرمن میں بھی تقریر کر سکیں گے، اٹالین میں بھی تقریر کر سکیں گے، سپینش میں بھی تقریر کر سکیں گے۔ ڈچ میں بھی تقریر کر سکیں گے۔ ہر شخص حیرت سے انہیں دیکھے گا اور کہے گا مولوی اور فرانسیسی میں تقریر،مولوی اور جرمن میں تقریر، مولوی اور اٹالین میں تقریر، مولوی اور سپینش میں تقریر،مولوی اور ڈچ میں تقریر،مولوی اور دوسری زبانوں میں تقریر۔ غرض ان کے لئے یہ ایک عجوبہ چیز ہو گی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عجوبہ ہر جگہ اثر کئے بغیر نہیں رہے گا۔ کیونکہ ہمارے مولوی صرف مولوی نہیں ہوں گے بلکہ ناظم بھی ہوں گے اور ان کو ان باتوں کا بھی علم ہو گا جن کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو ہوتا ہے۔ ابھی افریقہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے جو کمیشن بھیجا گیا تھا دہلی واپس آیا تو اس کمیشن کے مسلمان ممبر صاحب خاص طور پر مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے کہا کہ مَیں آپ سے اس لئے ملنے آیا ہوں کہ آپ کے مشرقی افریقہ کے مبلغ مولوی مبارک احمد صاحب سے ہمیں بہت مدد ملی ہے اور وہ سب معاملات کو نہایت اچھے طور پر جانتے ہیں ۔ وہ صرف مولوی ہی نہیں بلکہ تمام قسم کے معاملات کو سمجھتے اور بڑی عمدگی سے اپنے فرض کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری لیاقت کا معیار روز بروز بڑھتا چلا جائے گا اور ہمارے علماء پرانے علماء کی طرح کنویں کے مینڈک نہیں ہوں گے بلکہ وہ سمندر کے جہاز کی طرح ہوں گے جو دنیا کے ہر گوشہ میں جاتا اور مضبوطی کے ساتھ ہر طوفان کا مقابلہ کرتا ہے۔ مگر یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب زیادہ سے زیادہ تعلیم کا رواج ہماری جماعت میں ہو۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ جن کے بیٹے یہاں بی۔ اے میں پڑھ سکتے تھے انہوں نے معمولی معمولی عذرات کی بناء پر ان کو باہر کے کالجوں میں داخل کرا دیا ہے بلکہ دو کے متعلق تو مجھے شبہ ہے کہ انہوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ انہوں نے پہلے اپنے کالج کے پرنسپل سے مجھے لکھوایا کہ یہاں کالج میں مسلمان لڑکوں کا ہونا نہایت ضروری ہے آپ اجازت دیں کہ ان لڑکوں کو یہاں داخل کر لیا جائے۔ انہوں نے سمجھا کہ مَیں اِس طرح سے اجازت دے دوں گا اور وہ بعد میں بڑے دعویٰ سے کہہ سکیں گے کہ ہمارا تو یہی ارادہ تھا کہ ہم اپنے لڑکوں کو قادیان میں داخل کرائیں مگرآپ کے حکم سے ہم ان کو باہر داخل کرنے پر مجبور ہوئے۔ مگر جب سلسلہ کی طرف سے لکھا گیا کہ ان لڑکوں کو باہر کے کسی کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو اس کے بعد بھی غالب خیال یہی ہے کہ ان لڑکوں کو باہر کے کالج میں داخل کرا دیا گیا ہے کیونکہ وہ لڑکے اب تک یہاں کالج میں داخل نہیں ہوئے۔ گویا مجھ سے جو کچھ پوچھا گیا تھا وہ محض مجھے دھوکا دینے کے لئے تھا۔ دیانتداری پر مبنی نہیں تھا۔ انہوں نے مجھ سے چالاکی کرنی چاہی تھی مگر مَیں نہیں پکڑا گیا بلکہ وہ خود پکڑے گئے۔ ایسے واقعات نہایت افسوسناک ہیں۔ کاش! میرا یہ شبہ غلط نکلے اور اس کے بعد وہ لڑکے قادیان میں داخل ہو گئے ہوں۔ ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے لڑکے قادیان بھجوا کر انہیں تعلیم دلوائے۔ سرِ دست ہمارا ہر سال پندرہ سو لڑکا انٹرنس (Entrance) کی جماعتوں میں جانا چاہئے اور کم سے کم پانچ سات سو لڑکا کالجوں میں جانا چاہئے۔ اس وقت مسلمانوں میں ہر سال چار سو کے قریب گریجوایٹ نکلتے ہیں۔ اگر ہم صحیح طور پر کوشش کریں تو چار سو گریجوایٹ سالانہ ہم اپنی جماعت میں سے پیدا کر سکتے ہیں اور اِس طرح علمی لحاظ سے ان پر بہت بڑا تفوّق حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر علمی تفوّق کو جانے دو تب بھی ہماری مذہبی ضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی جماعت میں زیادہ سے زیادہ تعلیم رائج کریں۔ اگر ہم میں تعلیم نہیں ہو گی تو ہم اتنے مبلغ پیدا نہیں کر سکیں گے جتنے مبلغوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ اِس وقت ہمیں ہزاروں مبلغ چاہئیں لیکن اس ضرورت کے مقابلہ میں ہمارا تعلیمی معیار بہت کم ہے بلکہ جو تعلیم کا معیار اس وقت دوسری قوموں میں پایا جاتا ہے وہ بھی ہمارے لئے کافی نہیں۔ اگر وہی معیار ہمارے اندر آ جائے تو ہم ہزاروں نہیں سینکڑوں نہیں درجنوں مبلغ بھی ہر سال پیدا نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں اپنے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔ نہ صرف بلند بلکہ بہت زیادہ بلند۔ قوموں کے مقابلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے جس قدر زیادہ سے زیادہ تعلیم ایک انسان کے لئے ضروری ہو سکتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے ہر فرد میں وہ تعلیم رائج کریں تب ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
3۔دہلی کا سفر اور اس کی غرض: اس کے بعد مَیں اس سوال کی طرف آتا ہوں جس کے متعلق بہت سے دوستوں کے دلوں میں مختلف قسم کے سوالات اور گُدگُدیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں لگا کہ گزشتہ دنوں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ یعنی دہلی کا سفر اور اس کی غرض۔
مَیں نے دہلی کا سفر کیوں کیا؟ اس کی وجہ درحقیقت وہ خوابیں تھیں جو ‘‘الفضل’’ میں چھپ چکی ہیں۔ ان خوابوں سے مجھے معلوم ہؤا کہ اس مسئلہ کے حل کو اللہ تعالیٰ نے کچھ میرے ساتھ بھی وابستہ کیا ہؤا ہے۔ تب مَیں نے اس خیال سے کہ جب میرے ساتھ بھی اس کا کچھ تعلق ہے تو مجھے سوچنا چاہئے کہ مَیں کس رنگ میں کام کر سکتا ہوں۔ اِس مسئلہ پر غور کیا اور مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ممکن ہے برطانوی حکومت اس غلطی میں مبتلا ہو کہ اگر مسلم لیگ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو مسلمان قوم بحیثیت مجموعی ہمارے خلاف نہیں ہو گی بلکہ ایسے مسلمان جو لیگ میں شامل نہیں اور ایسی جماعتیں جو لیگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں اُن کو ملا کر وہ ایک منظّم حکومت ہندوستان میں قائم کر سکے گی۔ اس خیال کے آنے پر مَیں نے مزید سوچا اور فیصلہ کیا کہ ایسے لوگ جولیگ میں شامل نہیں یا ایسے لوگ جنہیں تعصب کی وجہ سے لیگ والے اپنے اندر شامل کرنا پسند نہیں کرتے۔ جیسے احمدی کہ ان کو تعصب کی وجہ سے لیگ میں شامل کرنا پسند نہیں کیا جاتا اِن دونوں قسم کے لوگوں کو چاہئے کہ آپس میں مل جائیں اور مل کر گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیں کہ خواہ ہم لیگ میں نہیں لیکن اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکراؤ ہؤا تو ہم اس کو مسلمان قوم کے ساتھ ٹکراؤ سمجھیں گے اور جو جنگ ہو گی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے۔ یہ سوچ کر مَیں نے چاہا کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے ان کو جمع کیا جائے۔ دوسرے مَیں نے مناسب سمجھا کہ کانگرس پر بھی اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کر سکے گی۔ اسی طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر بھی یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگرس کے ایسے حصوں کو سنبھال کر رکھیں اور ان کے جوشوں کو دبائیں۔ جن کا یہ خیال ہو کہ وہ مسلمانوں کو دبا کر یا ان کو آپس میں پھاڑ پھاڑ کر حکومت کر سکتے ہیں۔ یہ سوچ کر مَیں نے ایک تار نواب صاحب چھتاری کو دیا۔ وہ بھی لیگ میں شامل نہیں لیکن مسلمانوں میں بہت رسوخ رکھنے والے آدمی ہیں، یو۔پی کے گورنر رہ چکے ہیں اور اب حکومتِ آصفیہ کے وزیر اعظم کے عُہدہ سے واپس آئے ہیں۔ اس تار کا جواب آنے پر مَیں نے انہیں لکھا کہ میرا اب ایسا ایسا ارادہ ہے کیا آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں؟ دوسرا تار مَیں نے کانگرس سے میل جول کے لئے مسز نائیڈو کو دیا۔ مسز نائیڈو میری پرانی واقف ہیں اور وہ ہمیشہ کہا کرتی ہیں کہ میرے دل میں مسلمانوں کا بہت درد ہے اور مَیں ہندو او رمسلمان میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ مگر افسوس کہ انہوں نے تار کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ تار دیا گیا تو اس کا بھی جواب نہ دیا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونا پسند نہیں کرتیں۔ جب یہ باتیں ہو چکیں تو مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے جلدی قادیان پہنچنا چاہئے اور اس سکیم کے متعلق مزید کارروائی کرنی چاہئے۔ یہاں پہنچ کر جب مَیں نے غور کیا تو میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ خواب میں مَیں نے دیکھا ہے کہ صلح اور سمجھوتہ کرانے کے لئے مَیں بیچ میں ہوں۔ بیچ میں ہونے کے یہی معنے نہیں ہوتے کہ ضرور کوئی شخص بیچ میں ہو بلکہ یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کا ان باتوں سے کوئی اشتراک اور تعلق ہے۔ اس پر مَیں نے سوچا کہ چونکہ دلّی میں فیصلے ہو رہے ہیں مجھے بھی دلّی چلنا چاہئے۔ دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہو گا کہ دلّی میں ہمیں تازہ بتازہ خبریں ملتی رہیں گی اور اگر حالات بگڑتے معلوم ہوئے تو ہم فوراً دعا کر سکیں گے۔ قادیان میں تو ممکن ہے ہمیں ایسے وقت میں خبر ملے جب واقعات گزر چکے ہوں اور دعا کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ کیونکہ دعا ماضی کے لئے نہیں ہوتی مستقبل کے لئے ہوتی ہے۔ نیز مجھے یہ بھی خیال آیا کہ بعض اَور با رسوخ لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنا چاہئے جیسے سر آغا خاں ہیں۔ گو سر آغا خاں ہندوستان میں نہیں تھے مگر مَیں نے سمجھا کہ چونکہ ان کی جماعت بھی مسلمان کہلاتی ہے اگر ان کو بھی شریک ہونے کا موقع مل جائے تو گورنمنٹ پر یہ امر واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی ایک اَور جماعت بھی ایسی ہے جو اِس بارہ میں مسلم لیگ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ چنانچہ لنڈن مشنری کی معرفت مَیں نے سر آغا خاں کو بھی تار بھجوا دیا۔ اس دوران میں مَیں نے قادیان سے اپنے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھجوائے کہ وہ نواب صاحب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کر لیں اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی ملیں اور ان پر یہ امر واضح کر دیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں۔ اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا جائے ہم اِس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر مخالف نہ ہو تو ہم کام شروع کر دیں۔ اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیا کہ یہ تحریک ہمارے لئے مفید ہو گی، بالکل باموقع ہو گی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہماری مدد کی گئی ہے ہمارے رستہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے۔ چنانچہ مَیں دلّی پہنچ گیا۔ وہاں جو کچھ کام ہؤا اُس کی تفصیلات میں مَیں اس وقت نہیں جانا چاہتا۔ میرا خیال ہے کہ مَیں ایک کتاب ‘‘سفر دہلی’’ پر لکھوں کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جو اِس سفر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ کام کے رستے کھولنے والی ہیں۔ سرِ دست میں صرف اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جب مَیں دلّی گیا تو سر آغا خاں کی طرف سے بھی جواب آ گیا اور وہاں بعض اَور لیڈروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ جیسے سر سلطان احمد ہیں۔ مسلمانوں میں سے صرف ایک صاحب نے جواب نہیں دیا حالانکہ ان کو دو دفعہ تار دیا گیا تھا اوروہ سر محمد عثمان ہیں۔ ان کے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ تعلقات ہیں اور مجھ سے ملنے کا بھی موقع ہؤا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وہم میں مبتلا رہے ہوں کہ ہمارا کام کہیں لیگ کے لئے مُضِر نہ ہو۔ لیکن ہم نے لیگ کے نمائندوں سے پہلے مشورہ کر لیا تھا اور ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہماری یہ کوششیں ان کے نزدیک مُضِر ہوں تو ہم ان کو ترک کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بہرحال جیسا کہ ظاہر ہے ہم نہ لیگ میں شامل تھے نہ کانگرس میں، نہ لیگ نے ہمیں اپنا نمائندہ بنایا تھا نہ کانگرس نے۔ اس لئے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ انہی کی طرح باقاعدہ ہم بھی مشورہ کی مجالس میں شامل ہوتے۔ ہماری جماعت کے بعض ناواقف دوستوں نے لکھا ہے کہ وائسرائے پنڈت جواہر لال نہرو، مسٹر جناح کے مشوروں کا ذکر تو اخباروں میں آتا ہے آپ کا کیوں نہیں آتا۔ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ وہ تو اُن سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں جنہوں نے باہمی فیصلہ کرنا تھا اور ہم کسی سیاسی جماعت کے نمائندہ نہیں تھے بلکہ ہم اپنا اثر ڈال کر اُنہیں نیک راہ بتانے کے لئے گئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی نہ ہمارا کام تھا اور نہ گورنمنٹ یا کوئی اَور اِس رنگ میں ہمیں بُلا سکتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہم سے مشورہ لے اور ہمارے حقوق کا بھی خیال رکھے۔ ہماری جماعت ہندوستان میں سات آٹھ لاکھ کے قریب ہے مگر ہماری جماعت کے افراد اِس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کی آواز کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی۔ لیگ ہمیں اپنے اندر شامل نہیں کرتی اور کانگرس میں ہم شامل نہیں ہونا چاہتے۔ اِس کے مقابلہ میں پارسی ہندوستان میں تین لاکھ کے قریب ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے ایک پارسی وزیر سنٹر میں مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی جماعت کو قانونی جماعت تسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ ہماری جماعت اُن سے دُگنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ مَیں نے دہلی میں ایک انگریز افسر کو کہلا بھیجا کہ ہم شکوہ نہیں کرتے لیکن حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ نہایت غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے پارسیوں کا قانونی وجود تسلیم کیا مگر احمدیوں کا نہیں حالانکہ تم ایک ایک پارسی لاؤ مَیں اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا چلا جاؤں گا۔ صرف اس لئے کہ ہماری جماعت بولتی نہیں اور ہماری جماعت دوسروں کی طرح لڑتی نہیں، ہمارے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس نے کہا ہم آپ کی جماعت کو ایک مذہبی جماعت سمجھتے ہیں۔ میرے نمائندہ نے اس کو جواب دیا کہ بے شک ہم ایک مذہبی جماعت ہیں مگر کیا ہم نے ہندوستان میں رہنا ہے یا نہیں؟ اور کیا ہندوستان کی سیاسیات کا اثر ہم پر نہیں پڑتا؟ (دوسرا جواب اِس کا یہ ہے کہ کیا پارسی مذہبی جماعت نہیں اور عیسائی مذہبی جماعت نہیں۔ ان کے آدمی پارسی اور عیسائی کر کے لئے گئے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کر کے؟) بہرحال یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو کوشش صلح کے لئے ہو سکتی تھی وہ مَیں نے کی اور اسی سلسلہ میں مَیں مسٹر گاندھی سے بھی ملا۔ میرا منشاء تھا کہ مَیں ان سے تفصیل سے بات کروں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ آپس کا تفرقہ ٹھیک نہیں۔ ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ کچھ وہ چھوڑ دیں او رکچھ لیگ چھوڑ دے تاکہ ملک کی بد امنی خطرناک رنگ اختیار نہ کر لے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ لڑتے آپ ہیں لیکن آپ لوگوں کی جان پر اِس کا وبال نہیں بلکہ اُن ہزاروں ہزار لوگوں پر ہے جو قصبوں میں رہتے ہیں یا دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی کو نہیں سمجھتے۔ وہ ایک دوسرے کو ماریں گے، ایک دوسرے کو لُوٹیں گے اور ایک دوسرے کے گھروں کو جلا دیں گے۔ (جیسے جھگڑا لیگ اور کانگرس کا تھا لیکن مسجد اور لائبریری ڈھاکہ میں ہماری جماعت کی جلا دی گئی حالانکہ نہ ہم لڑے اور نہ ہم بد امنی پیدا کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر وہاں کے ہندوؤں نے ہماری مسجد اور ہماری لائبریری کو جلا کر یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے بڑا تیر مارا ہے اور یہ خیال کر لیا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جب اس قسم کے اختلاف پید اہوجائیں تو انسانی عقل ماری جاتی ہے۔ اور سیاہ اور سفید میں فرق کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے)۔ غرض گاندھی جی پر مَیں نے یہ بات واضح کی اور انہیں کہا کہ آپ کو اس بارہ میں کچھ کرنا چاہئے اور صلح کی کوشش کرنی چاہئے۔ گاندھی جی نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ یہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں مَیں نہیں کر سکتا۔ مَیں تو صرف گاندھی ہوں یعنی مَیں تو صرف ایک فرد ہوں اور آپ ایک جماعت کے لیڈر ہیں۔ مَیں نے کہا مَیں تو صرف پانچ سات لاکھ کالیڈر ہوں اور ہندوستان میں پانچ سات لاکھ آدمی کیا کر سکتا ہے مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں مَیں نہیں کر سکتا۔ جب مَیں نے دیکھا کہ گاندھی جی اس طرف نہیں آتے تو مَیں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور پھر مَیں انہیں دوسری نصیحتیں کرتا رہا جن کی خدا نے مجھے اس وقت توفیق عطا فرمائی۔ مَیں اس موقع پر صرف یہ بتانا چاہتاہوں کہ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتی ہے۔ جب رسول کریم ﷺ کے بعد عرب اور ایران میں لڑائی چِھڑی تو اس وقت ایران کے بادشاہ نے اپنے بعض رؤساء سے کہا کہ عرب ایک چھوٹا سا غیر آباد جزیرہ ہے اور وہاں کے باشندے متفرق اقوام میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کس طرح ہمارے ملک پر حملہ کر کے چڑھ آئے ہیں؟ لوگوں نے کہا ُاس قوم میں نئی بیداری پیدا ہوئی ہے اور اس وجہ سےاس میں جوش پایا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ان لوگو ں کو کچھ دے دلا کر واپس کر دینا چاہئے۔ چنانچہ اس نے اسلامی جرنیل کو لکھا کہ تم ایک وفد ہمارے پاس بھیج دو، ہم اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی اور بعض دوسرے آدمیوں پر مشتمل ایک وفد بناکر شاہِ ایران کے دربار میں بھجوا دیا۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا شورش برپا کر رکھی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کچھ روپیہ لے لو اور واپس چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم روپیہ لے کر واپس چلے جائیں۔ اس کی حماقت دیکھو جو قوم اس کے ملک پر چڑھ کر آئی تھی اس قوم کے متعلق اس نے یہ فیصلہ کیا کہ دو دو اشرفیاں سپاہیوں کو اور دس دس اشرفیاں افسروں کو دے کر رخصت کر دیا جائے۔ گویا لالچ بھی دی تو اتنی چھوٹی اور حقیر کہ چُوہڑے بھی اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا لغو بات ہے کہ تم نے خود لڑائی چھیڑی ہے ہم نے نہیں چھیڑی۔ اب اس کا فیصلہ میدان میں ہی ہو گا اور ہم جانتے ہیں کہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ خدا تعالی کا وعدہ ہے۔ بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے ایک شخص سے کہا۔ ایک تھیلی میں مٹی بھر کر لاؤ۔ جب وہ مٹی بھر کر لایا تو اس نے اسے حکم دیا کہ یہ مٹی کا بورا اس مسلمان افسر کے سر پر رکھ دو۔ اس صحابیؓ نے جب یہ دیکھا تو اس نے نہایت خاموشی سے اپنا سر جھکایا اور مٹی کا بورا اپنے سر پر اٹھا لیا۔ بادشاہ نے اسے کہا اب جاؤ اس کے سوا تمہیں اَور کچھ نہیں مل سکتا۔ گویا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں کھیہہ کھاؤ۔ اردو میں یوں کہہ لو کہ تمہارے سر پر خاک۔ ویسا ہی اس بادشاہ نے کیا اور مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر لادتے ہوئے کہا۔ جاؤ اس کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا۔ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ مومن کو بھی اپنے فضل سے ایک نور اور روشنی بخش دیتا ہے۔ جب اس نے مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر رکھوایا تو انہوں نے فوراً اس کو نیک تفاول پر محمول کرتے ہوئے اٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے دربار سے نکل بھاگے کہ آ جاؤ ایران کے بادشاہ نے خود اپنے ہاتھ سے ایران کی زمین ہمیں سونپ دی ہے۔ مشرک بزدل بھی بڑا ہوتا ہے۔ جب انہوں نے بلند آواز سے یہ فقرہ کہا تو اس نے گھبرا کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے کہا ہے۔ کسریٰ نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کر دی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ گھبرا گیا اور اس نے کہا جلدی جاؤ اور اس شخص کو پکڑ کر حاضر کرو مگر اتنے میں مسلمان گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں کے کہیں جا چکے تھے۔1 گاندھی جی نے بھی کہا کہ مَیں تو کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کر دیا اور میرے وہاں ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے کا تفصیہ ہؤا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تصفیہ مَیں نے کیا ۔ گو ہم برابر کوشش کر رہے تھے ۔مگر سوال یہ ہے کہ پہلے چار پانچ دفعہ صلح کی کوشش ہو چکی تھی۔ گورنمنٹ نے بھی زور لگایا مگر اس معاملہ کا کوئی تصفیہ نہ ہؤا۔ آخر میرے وہاں ہونےا ور دعائیں کرنے سے نہ معلوم کونسے دلوں کی کنجیاں کھول دی گئیں کہ میرے وہاں جانےسے وہ کام جو پہلے بار بار کی کوششوں کے باوجود نہیں ہؤا تھا ہو گیا اور گاندھی جی کا یہ فقرہ درست ثابت ہؤا کہ مَیں تو یہ کام نہیں کر سکتا آپ ہی کر سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس نقطہ پر لڑائی تھی گاندھی جی نے اسے تسلیم کر لیا تھا اور بالکل ممکن تھا کہ گاندھی جی کی بات مانی جاتی تو آپس میں صلح ہو جاتی۔ چنانچہ جب گاندھی جی سے نواب صاحب بھوپال نے ملاقات کی اور یہ فارمولا پیش کیا کہ لیگ کو مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جائے گا تو گاندھی جی نے اس کو تسلیم کر لیا اور اس پر دستخط بھی کر دئیے۔ لیکن جب دستخط ہو چکے تو پنڈت نہرو صاحب نے کہہ دیا کہ ہم گاندھی جی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس طرح وہ بات جو گاندھی جی نے کہی تھی پوری ہو گئی کہ مَیں تو صرف گاندھی ہوں میری بات کون مانتا ہے۔ چنانچہ پنڈٹ نہرو صاحب نے یہی کہا کہ اس معاملہ میں گاندھی جی سے ہمارا کیا تعلق یہ گاندھی جی کا اپنا فیصلہ ہے ہمارا فیصلہ نہیں۔ میرے نزدیک گاندھی جی نے محض بات کو ٹلانے کی کوشش کی تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ مَیں اس تحریک میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ حالانکہ مَیں وہاں محض ہندوؤں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے گیا تھا۔ ورنہ وزارتوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ اگر ہم دو تین ضلعوں میں اکٹھے ہوں تو یقیناً ہم اپنے نمائندے زور سے بھیج سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے دسویں حصہ کے برابر بھی اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے۔ پس مَیں وہاں اپنے لئے نہیں گیا تھا بلکہ اس لئے گیا تھا کہ وہ ہزاروں ہزار ہندو جو مختلف علاقوں میں مارا جا رہا ہے اُن کی جان بچ جائے۔ وہ ہزاروں ہزار مسلمان جو مختلف علاقوں میں مارا جا رہا ہےاُن کی جان بچ جائے۔ نہ وہ میرے رشتہ دار ہیں، نہ واقف ہیں، نہ دوست ہیں۔ کوئی بھی تو ان کا میرے ساتھ تعلق نہیں۔ سوائے اس تعلق کے کہ میرے پیدا کرنے والے خدا نے ان کو بھی پیدا کیا ہے اور میرا فرض ہے کہ مَیں ان کی جانوں کی حفاظت کروں۔ صرف اس دکھ اور درد کی وجہ سے مَیں وہاں گیا اور صرف اس دکھ اور درد کی وجہ سے مَیں نے ان کوششوں میں حصہ لیا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ گاندھی جی نے میرے اخلاص کی قدر نہ کی اور اُنہوں نے کہہ دیا کہ میری بات کون مانتا ہے۔ مَیں تو صرف گاندھی ہوں۔ انہوں نے یہ فقرہ محض ٹالنے کے لئے کہا تھا مگر خدا تعالیٰ نے واقع میں ایسا کر دکھایا اور پنڈت نہرو صاحب نے گفتگو کرنے والوں سے صاف کہہ دیا کہ یہ ہمارا فیصلہ نہیں۔ گاندھی جی کا فیصلہ ہے اور ہم گاندھی جی کا یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں۔ جب حالات یہ رنگ اختیار کر گئے تو مسٹر جناح نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے وائسرائے کو لکھ دیا کہ کانگرس سے تو ہمارا فیصلہ نہیں ہو سکا لیکن ہم آپ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کام بھی ہو گیا او ربات بھی بن گئی او رمسٹر گاندھی اس معاملہ میں خالی گاندھی بن کےر ہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہماری غرض بھی پوری کر دی۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے ہمارا دہلی سے جمعہ کو چلنے کا ارادہ تھا اور ہم سیٹیں بھی بُک کرا چکے تھے مگر بدھ کے دن ہمیں معلوم ہؤا کہ مصالحت کی گفتگو میں خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ چونکہ ہمارے تعلقات تمام لوگوں کے ساتھ تھے اس لئے قبل از وقت ہمیں حالات کا علم ہو جاتا تھا۔ جب مجھے معلوم ہؤا کہ کام بگڑ رہا ہے تو مَیں نے پھر دوستوں کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا اور انہیں کہا کہ ہم اِتنی مدت یہاں رہے ہیں۔ اب ہمیں پیر تک اَور ٹھہر جانا چاہئے۔ پہلے تو اتوار تک ٹھہرنے کا ارادہ تھا لیکن معلوم ہؤا کہ اتوار کو گاڑی ریزرو نہیں ہو سکتی اِس لئے ہم نے پیر کے دن چلنے کا فیصلہ کیا اور عین پیر کے دن صبح کے وقت فیصلہ ہو گیا اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس جھگڑے کو نپٹا کر اپنے گھر واپس آئے۔
اس سفر میں یہ ایک نہایت ہی خوشی کی بات مجھے معلوم ہوئی ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے تفرقہ اور نکمّا پن کی وجہ سے مشہور ہیں اُن میں بھی اب اخلاص اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ اپنے فرائض کو سمجھنے لگ گئے ہیں ۔چنانچہ نواب صاحب چھتاری، سر آغا خاں اور سر سلطان احمد نے نہایت بے نفسی کے ساتھ اس موقع پر کام کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ان کی بے نفسی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا حال پبلک کو معلوم ہو جائے تو وہ ان کی قدر کئے بغیر نہ رہے۔ پھر سب سے زیادہ کام نواب صاحب بھوپال نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے سب انسان برابرہیں، کوئی چھوٹا بڑا نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کی دیر سے عزتیں قائم ہوچکی ہیں وہ معمولی کام کرنے سے بھی گھبراتے ہیں لیکن نواب صاحب نے باوجود ایک مقتدر ریاست کا نواب ہونے کے جو ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی ان کو کرنا پڑا انہوں نے کیا۔ یہاں تک کہ منتیں بھی کیں۔ وہ گاندھی جی کے پاس گئے اور بھنگی کالونی میں ان سے ملاقات کی۔ پہلی ملاقات بے شک بڑودہ ہاؤس میں ہوئی تھی اور نواب صاحب کے مشیر نے کہا تھا کہ ہم یہ پسند نہیں کرسکتے کہ نواب صاحب بھنگی کالونی میں جائیں لیکن بعد میں انہوں نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ صرف بڑودہ ہاؤس میں ملاقات ہو بلکہ خود ان کے گھروں پر گئے اور رات اور دن کوشش کی کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ یہ علامت ہے اِس بات کی کہ اب مسلمانوں میں بھی قربانی اور بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ خواہ دنیا کی نگاہ سے نواب صاحب بھوپال، نواب صاحب چھتاری، سر سلطان احمد اور سر آغا خاں کی قربانی اوجھل رہے مگر اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور تمام رازوں کو جاننے والا ہے اُس نے یقیناً ان لوگوں کے ایثار اور ان کی قربانی کو دیکھا ہے اور خدا کی درگاہ سے یہ لوگ بدلہ لئے بغیر نہیں رہیں گے کیونکہ خدا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ مضمون تو اَور بھی بیان کرنا تھا مگر چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں۔’’
(الفضل 13 نومبر 1946ء)
1: طبری جلد 4 صفحہ 322 تا 325۔ مطبوعہ بیروت 1987ء

39
اپنی زندگی سادہ بناؤ،خلیفۂ وقت کے حکم پر ہر احمدی کو اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے
( فرمودہ 25؍ اکتوبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘انسانی اعمال اُس کے حالات کے ماتحت بدلتے رہتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ایسے اعمال جو جائز ہوتے ہیں ورنہ جو ناجائز اعمال ہیں وہ تو بہرحال ناجائز ہی ہیں۔ مگر جائز اعمال بھی حالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ۔ ایک شخص جو لاکھوں روپے کماتا ہے اگر اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 1کے ماتحت اُس کے جسم پر یا اُس کے کھانے میں ایسے آثار نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا شکریہ کہلانے کے مستحق ہیں تو یہ اَور بات ہے۔ لیکن وہی انسان اگر تجارت یا اپنے دوسرے کاموں میں نقصان کی وجہ سے اپنا مال کھو بیٹھتا ہے تو اس کو اپنے حالات کے ماتحت ان جائز کاموں میں بھی کمی کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر اس کی اولاد اس کے مال کی تقسیم کی وجہ سے تھوڑے تھوڑے مال کی وارث ہو جاتی ہے اور اُسے اپنے ماں باپ کی طرح اپنی زندگی گزارنے کی توفیق نہیں ملتی اُس وقت عقل کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ کم روپیہ میں گزارہ کرنے کی کوشش کرے اور یا پھر اپنی آمدنی کو بڑھانے کی تجویز کرے۔ اکثر تباہیاں دنیا میں اسی لئے واقع ہوتی ہیں کہ لوگ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ دنیا میں جس قدر بڑے بڑے خاندانوں کی تباہی کے واقعات ہوئے ہیں ان کی تباہی کی 99 فیصدی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہ کی۔ مثلاً اسلام نے وراثت کی تقسیم لازمی رکھی ہوئی ہے۔ اگر کسی کا لاکھ روپیہ تجارت پر لگا ہؤا ہے اور دس ہزار روپیہ سالانہ اس کی آمد ہے تو وہ گویا آٹھ سو روپیہ ماہوار کما رہا ہے۔ اور اگر اُس کا دو تین لاکھ روپیہ تجارت پر لگا ہؤا ہے تو وہ چوبیس سو روپیہ ماہوار کما رہا ہے۔ لیکن فرض کرو اس کےآ گے سات لڑکے ہیں۔ اگر اس کی آٹھ سو روپیہ آمدن تھی تو سات لڑکوں میں سے ہر لڑکے کی آمد ایک سو چودہ روپے کے قریب ہو گی اور ایک سو چودہ روپے کمانے والے کی حالت اور آٹھ سو روپیہ ماہوار کمانے والے کی حالت یکساں نہیں ہو سکتی۔ بہت سے اخراجات تو ایسے ہیں جو لازماً سب کو ایک جیسے کرنے پڑتے ہیں۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب ۔ مثلاً بیماری ہے۔ بیماری کے اخراجات میں کوئی فرق نہیں ہو سکتا۔ بے شک خدا تعالیٰ نے کچھ سَستی دوائیں بھی بنائی ہیں مگر طبیب کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ مریضوں کے حالات کے مطابق نسخہ لکھے۔ وہ تو قلم اٹھا کر جو نسخہ اسے یاد ہوتا ہے لکھتا چلا جاتا ہے اور اِس بات کی کوئی پروا نہیں کرتا کہ مریض دواؤں کے اخراجات کا متحمل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں۔ بے شک بعض ایسے طبیب بھی ہوتے ہیں جو بیماروں کی مالی حالت کا خیال رکھتے ہیں مگر ڈاکٹر قطعاً بیمار کا خیال نہیں رکھتے اور چونکہ عام طور پر ڈاکٹروں کو دوا خانوں سے کمیشن ملتا ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنا بھی قیمتی نسخہ لکھیں گے اتنا ہی ہمارا فائدہ ہو گا۔ قادیان میں جو ڈاکٹر ہیں ان کا تو یہ حال نہیں لیکن ماہر ڈاکٹروں کو چونکہ دواؤں میں سے کمیشن ملتا ہے اس لئے وہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قیمتی نسخے لکھیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک غریب آدمی ان کے پاس علاج کے لئے آتا ہے تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں کہ تمہیں سو روپے کے ٹیکے لگیں گے۔ روپیہ لاؤ تو ٹیکے کر دئیے جائیں گے۔ حالانکہ وہ غریب جو اپنے بچہ کی شادی پر بھی سو روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں رکھتا وہ ٹیکوں کے لئے سو روپیہ کہاں سے لاسکتا ہے۔ کسی نے دوڑ دھوپ کر کے دوستوں سے مانگ لیا تو علاج ہو گیا۔ ورنہ عام طور پر جب کوئی روپیہ خرچ نہ کر سکے تو اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہارا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہوتا ہے۔ آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بیماری کا علاج تو سو روپے کا ٹیکا رکھا ہو لیکن دیا اس کو ایک پیسہ نہ ہو۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو اس سے خدا تعالیٰ پر الزام عائد ہوتا ہے کہ اس نے ایک شخص کے جسم میں بیماری تو پیدا کر دی جس کا علاج سو روپیہ کے ٹیکوں کے سوا اَور کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا مگر اسے علاج کے لئے ایک پیسہ بھی نہ دیا۔ بہرحال دو صورتوں میں سے ایک صورت ہمیں ضرور تسلیم کرنی پڑے گی۔ یا تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ڈاکٹر جھوٹا ہے اور یا ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللہِ خدا تعالیٰ ظالم ہے۔ اب ڈاکٹر خود ہی سمجھ لیں کہ وہ ان دونوں میں سے کس بات کو درست تسلیم کرنے کی ہم سے امید کر سکتے ہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ پر الزام لگائیں گے یا ان کو غلطی پر سمجھیں گے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ خدا تعالیٰ پر الزام عائد نہیں کیا جا سکتااس لئے ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ وہ ڈاکٹر غلطی پر ہیں جو قیمتی دواؤں کے سوا اَور کوئی علاج ہی نہیں بتا سکتے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھ پر ایسا دور بھی آیا ہے جب کہ مَیں صرف جڑی بُوٹیوں سے لوگوں کا علاج کیا کرتا تھا۔ مریض آتا تو مَیں اسے کہہ دیتا کہ اس اس شکل کی ایک بُوٹی ہوتی ہے کل اُسے توڑ لانا تمہارا علاج ہو جائے گا۔ وہ توڑ لاتا اور اسی بُوٹی سے اس کے مرض کا علاج کر دیا جاتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے ہم نے سالہا سال تک اس کا تجربہ کیا اور ہمیں کبھی بھی کسی اَور دوا کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اسی طرح آپ کو شوق تھا کہ دواؤں پر کم سے کم خرچ آئے۔ چنانچہ ایک لمبے تجربہ کے بعد آپ نے دواؤں کی ایک ایسی لسٹ تیار کر لی تھی جو چند پیسوں میں تیار ہو جاتی تھیں اور بہت سے امراض میں کام آیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دوائی ہمیشہ مفت دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹروں کا عام طور پر یہ دستور ہوتا ہے کہ وہ نسخہ لکھ کر اپنے دوا خانہ میں بھجوا دیتے ہیں اور دوا خانہ والے جس قدر نفع چاہیں لے لیتے ہیں۔ مگر آپ ہمیشہ اپنے مطب میں دوائیں تیار کر کے رکھا کرتے تھے۔ مریض کو نسخہ لکھ دیتے اور وہ آپ کے دوا خانہ سے مفت دوا لے لیتا۔ شاذ و نادر کے طور پر آپ بعض لوگوں کو زائد دوائیں بھی لکھ دیتے تھے۔ مثلاً جوشاندہ وغیرہ جس کی اشیاء مریض کو بازار سے خریدنی پڑتی تھیں مگر وہ بھی اتنا سستا نسخہ لکھتے تھے کہ مریض پر ذرا بھی بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ مگر اس زمانہ میں عام طور پر ڈاکٹر بھی اور اب ڈاکٹروں کی اتباع میں اطباء بھی ایسے ایسے نسخے لکھتے ہیں جو نہایت گراں خرچ پر تیار ہوتے ہیں۔ غالباً اطباء نے یہ سمجھا ہے کہ اگر وہ اپنے نسخہ کی قیمت نہ بڑھائیں گے تو لوگ کہیں گے انہیں آتا کچھ نہیں۔ اِسی لئے پہلے تو وہ سستی دوائیں دیتے تھے مگر اب انہوں نے بھی دوائیں نہایت گراں قیمت پر فروخت کرنی شروع کر دی ہیں حالانکہ اگر وہ غور سے کام لیں تو جن دواؤں کا وہ گراں قیمت پر انتظام کرتے ہیں اُسی قسم کے فوائد رکھنے والی دوائیں وہ سستے داموں پر بھی لوگوں کو مہیا کر سکتے ہیں۔ بہرحال مَیں ذکر یہ کر رہا تھا کہ علاج ایک ایسی چیز ہے جس میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی جب تک خود ڈاکٹر کمی نہ کرے۔ مثلاً ڈاکٹر یہ دیکھ لے کہ اس شخص کے باپ کی آٹھ سو روپیہ آمد تھی اور اس کی سو روپیہ آمد ہے اِس لئے مَیں اگر اس کے باپ کو ایک سو روپیہ کا نسخہ لکھ کر دیا کرتا تھا تو اس کو دو آنے کا نسخہ لکھ کر دوں۔
ہمارے دادا کا قصہ مشہور ہے۔ ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سری گوبند پور میں شکار کے لئے آئے۔ ان کے ساتھ ایک باز والا تھا جسے اتفاقاً نزلہ ہو گیا۔ ہمارے دادا طب بھی کرتے تھے۔ دلّی میں انہوں نے باقاعدہ یہ علم حاصل کیا تھا اور گو انہوں نے علمِ طب کو پیشہ کے طور پر کبھی اختیار نہیں کیا لیکن مخلوق کی خدمت اور لوگوں کی خیر خواہی کے لئے اس فن سے بھی کام لیا کرتے تھے۔ جب باز والے کو نزلہ ہؤا تو وہ گھبرایا کہ کل شکار کا دن ہے اگر مَیں زیادہ بیمار ہو گیا تو مہاراجہ صاحب ناراض ہوں گے کہ عین کام کے دن بیمار ہو گیا۔ چنانچہ وہ ہمارے دادا کے پاس آیا اور علاج کی درخواست کی۔ آپ نے اس کے لئے نسخہ لکھا جو ایک پائی میں تیا رہو گیا اور اس کے استعمال سے اسے فوری طور پر افاقہ ہو گیا۔ اُسی دن مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے لڑکے کو بھی نزلہ ہو گیا۔ کسی نے ذکر کیا کہ باز والے کو یہی شکایت ہو گئی تھی جس پر مرزا صاحب نے اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیا اور اسے فوراً آرام آ گیا۔ شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور اپنے نزلہ کا ذکر کیا۔ اُنہوں نے ایک نسخہ لکھ کر دے دیا۔ جب نسخہ بنوانے کے لئے پنساری کے پاس بھیجا گیا تو اس نے بتایا کہ اِس پر پانچ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ شہزادہ یہ سن کر بہت ناراض ہؤا۔ آخر معمولی زمینداروں سے وہ یکدم بادشاہ بن گئے تھے۔ اُن کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ ایک ہی مرض کا نسخہ لکھوایا گیا تھا مگر ایک شخص کو تو انہوں نے ایسا نسخہ لکھ کر دے دیا جس پر ایک پائی خرچ آئی اور ہمیں ایک ایسا نسخہ لکھ کر دیا جس پر پانچ سو روپیہ خرچ آتا ہے۔ اس لئے شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور کہا کہ آپ کو مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ آپ نے مجھ سے یہ سلوک کیا؟ آخر مجھ کو بھی وہی بیماری تھی جو باز والے کو تھی۔ مگر باز والے کو تو آپ نے ایک پائی کا نسخہ لکھ کر دیا اور مجھے پانچ سو روپیہ کا نسخہ لکھ دیا۔ ہمارے دادا نے نسخہ لیا اور اسے پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا اگر نسخہ استعمال کرنا ہے تو یہی کرنا ہو گا۔ نہیں تو کسی اَور سے علاج کروا لیں۔ پھر کہا یہ جو پنساری ہیں آخر ان کا بھی گزارہ چلنا ہے یا نہیں۔ اگر مَیں پائی پائی کا ہی نسخہ لکھ کر دوں تو ان کی دکان کس طرح چل سکتی ہے ان کا تو ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ کا خرچ بھی اِس طرح نہیں نکل سکتا۔ مَیں نے باز والے کو اس کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے اور آپ کو آپ کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کی تجارت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا فن ترقی کرے تو مَیں آپ کے لئے ایسا ہی نسخہ لکھوں گا جو پانچ سو روپیہ میں تیار ہو۔ ورنہ آپ کی مرضی جس سے چاہیں آپ علاج کروا لیں۔ یہ بھی ایک طریق تو ہے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ بعض تجارتیں چلانے کے لئے امراء کو قیمتی دوائیں لکھ کر دی جا سکتی ہیں۔ مگر عام طور پر اس زمانہ میں سستے علاج کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور امیر و غریب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری کے معاملہ میں امیر اور غریب میں فرق کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ غریب یا تو بغیر علاج کے مر جاتا ہے یا اپنی ساری پونجی دواؤں پر تباہ کر دیتا ہے۔
مگر بہت سے اَور اخراجات اس قسم کے ہیں کہ ان میں فرق کیا جا سکتا ہے مثلاً باپ پلاؤ کھایا کرتا تھا تو بیٹا گوشت روٹی کھا سکتا ہے۔ یا باپ گوشت روٹی کھایا کرتا تھا تو بیٹا دال روٹی کھا سکتا ہے۔ یا باپ دال روٹی کھایا کرتا تھا تو بیٹا خالی روٹی کھا سکتا ہے۔ لیکن بہرحال جب تک وہ اپنے اخراجات کو اپنے باپ کے حالات سے بدلے گانہیں وہ آرام کی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ مثلاً شادی بیاہ کا معاملہ ہے۔ اِس بارہ میں عام طور پر عورت اگر اپنے مرد کو کوئی مشورہ بھی دے گی تو وہ ایسا ہی ہو گا جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ روپیہ خرچ ہو۔ وہ یہ نہیں سمجھتی کہ جو مشورہ مَیں اپنے خاوند کو دے رہی ہوں وہ خود میری اولاد کی تباہی کا موجب ہو گا۔ وہ ہر قسم کے عواقب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خاوند سے کہتی ہے۔ تمہاری بیٹیوں کی شادی ہے، اگر تم نے اس موقع پر کچھ خرچ نہ کیا تو وہ کیا کہیں گی۔ ان کی پھوپھیوں کی شادی ہوئی تھی تو تمہارے باپ نے اِس اِس طرح روپیہ خرچ کیا تھا۔ اب ان کی شادی کا وقت آیا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اسی طرح روپیہ خرچ کرو جس طرح تمہارے باپ نے خرچ کیا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھتی کہ جب ان کی پھوپھیوں کی شادی ہوئی تھی اس وقت خاندان کی کیا حالت تھی۔ اس وقت کتنا مال تھا اور اب کتنا مال ہے۔ اس وقت تو جس قدر مال تھا صرف باپ کے قبضہ میں تھا مگر اب اس کی جائیداد سات حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ مشورہ یہی دیتی ہے کہ تمہیں ویسا ہی خرچ کرنا چاہئے جیسے تمہارے باپ نے خرچ کیا تھا۔ پھر ہمسائے آتے ہیں اور اپنی آنکھوں میں جھوٹے آنسو بھر کر (خواہ مرچیں لگانے کی وجہ سے ہی انہیں آنسو آئے ہوں) کہتے ہیں آپ کے والد صاحب کا زمانہ یاد آ تا ہے تو رونا آتا ہے۔ اللہ بخشے بڑی خوبیوں والے انسان تھے۔ انہوں نے فلاں کام یوں کیا اور فلاں کام یوں کیا۔ بیٹا صاحب یہ بات سنتے ہیں تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اگر اولاد تباہ ہوتی ہے تو بے شک ہو جائے مگر مَیں اپنے والد کی ناک کو ضرور قائم رکھوں گا۔ حالانکہ ناک تو تب قائم رہ سکتی ہے جب اولاد موجود ہو۔ اگر اولاد ہی نہ ہو یا، اگر اولاد تو ہو مگر وہ ذلیل ترین زندگی بسر کر رہی ہو تو باپ کی ناک نے کیا قائم رہنا ہے۔ وہ تو سارے کا سارا گم ہو جائے گا کیونکہ اس کا نام اگر قائم ہو سکتا تھا تو اولاد کے ذریعہ۔ جب وہ ذلیل ہو گئی تو اس کا ناک کس طرح قائم رہا۔ مگر وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اسی معیار کو قائم رکھیں جو ان حالات سے جداگانہ حالات میں ان کے باپ دادا نے قائم کیا تھا۔ اس طرح خاندان تباہ ہوتے جاتے ہیں اور معزز لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں۔
جس طرح افراد کی زندگی پر اِس قسم کے دور آتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بھی ایسے دَور آیا کرتے ہیں اور پھر بسا اوقات ایسے قدرتی حوادث کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو کسی کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ فرض کرو ایک شخص کی بھی سو روپیہ آمدن ہے۔ دوسرے شخص کی بھی سو روپیہ آمدن ہے۔ تیسرے شخص کی بھی سو روپے آمدن ہے اور پھر اُن کے بیوی بچے بھی برابر ہیں۔ لیکن بارش ہوئی ایک کا مکان گر گیا اور دوسروں کے مکان سلامت رہے۔ اب خواہ ان تینوں کی آمد یکساں تھی۔ جب تک وہ سو روپیہ والا جس کا مکان بارش کی وجہ سے گر گیا ہے اپنے اخراجات میں کفایت سے کام نہیں لے گا اور دوسروں کے مقابلہ میں تھوڑے روپوں پر گزارہ نہیں کرے گا اس وقت تک وہ اپنا مکان دوبارہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اپنا مکان بنانا چاہے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ سال دو سال تک اسے اپنے اخراجات میں کمی کرنی پڑے گی۔ اگر وہ کم نہیں کرے گا تو بہرحال اسے قرض لے کر اپنا مکان بنانا پڑے گا اور پھر ممکن ہے قرض اُتارنے کے لئے اسے اپنا مکان کسی دوسرے کے پاس رہن رکھنا پڑے۔ پس گو آمدن سب کی برابر ہو گی لیکن حالات کے بدلنے کی وجہ سے اس پر اَور قسم کے بوجھ ہوں گے اور اُس پر اَور قسم کے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے ہمیشہ اپنی جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اسے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ایک مکان بنانے والے کو اپنے حالات بدلنے پڑتے ہیں، اگر شادی بیاہ کرنے والے کو اپنے حالات بدلنے پڑتے ہیں، اگر علاج کرانے والے کو اپنے حالات بدلنے پڑتے ہیں اور اسے اپنی آمدن میں سے ایک حصہ ان اشیاء کے لئے الگ کرنا پڑتا ہے تو وہ قوم جس کے ذمے ساری دنیا کی روحانی فتح ہے اور جس نے دنیا کو بدل کر ایک نئے رنگ میں ڈھالنا ہے اُس کے لئے اپنے حالات میں کتنے بڑے تغیر اور کتنی عظیم الشان تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پھر ہماری جماعت کے ذمہ یہ بھی کام ہے کہ وہ غریبوں اور امیروں میں مساوات قائم کرے۔ اور وہ خلیج جو اِن دونوں میں حائل ہے اُسے دور کرے۔ پھر ہماری جماعت کے ذمہ یہ بھی کام ہے کہ وہ اُن اخلاقِ حسنہ کو دوبارہ قائم کرے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں قائم کئے۔ آخر اللہ تعالی نے جو ہمیں کھڑا کیا ہے تو اس لئے تو کھڑا نہیں کیا کہ پہلے دنیا میں فساد کم تھا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک اَو رجماعت کو کھڑا کر کے اس فساد کو اَور بھی بڑھا دے۔ آخر کوئی چیزتھی جو کھوئی گئی تھی اور اس چیز کو واپس لانا اللہ تعالیٰ کے منشاء میں داخل تھا۔
رسول کریم ﷺ پر جب غارِ حرا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے کرتے اُس کا کلام نازل ہؤا اور فرشتہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو کر کہا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ۔ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۔2تو رسول کریم ﷺنے اپنی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کی کہ اِتنا بڑا کام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کیا گیا ہے مَیں کس طرح سر انجام دے سکوں گا۔ ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے اور مَیں بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام پانے کے اس کی نگاہ میں مجرم بن جاؤں۔ چنانچہ آپ اسی گھبراہٹ کی حالت میں اپنے گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ سے ذکر کیا کہ اِس اِس طرح خدا تعالیٰ کا کلام مجھ پر نازل ہؤا ہے اور پھر فرمایا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ3 خدا تعالیٰ کی بات پر تو مجھے یقین ہے لیکن مَیں ڈرتا ہوں کہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں۔ اِس پر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دی اور جو باتیں انہوں نے آپ کی تسلی کے لئے کہیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ4 وہ اخلاقِ فاضلہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے تھے آپ اُن کو قائم کر رہے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا آپ کو ضائع کر دے؟ وہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اس لئےکہ جو متاع دنیا سے کھوئی گئی تھی، جو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ مذاہب میں بھی نہیں رہی تھی اُسے آپ واپس لا رہے ہیں۔ اِس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ تباہ ہو جائیں کیونکہ اگر آپ تباہ ہو جائیں تو ساتھ ہی وہ چیز بھی تباہ ہو جائے گی جس کی دنیا کو اس وقت تلاش ہے۔ پس ضرور ہے کہ وہ آپ کے وجود کو قائم رکھے کیونکہ بغیر آپ کے وجود کے وہ اخلاقِ فاضلہ قائم نہیں ہو سکتے جن کا دنیا میں قائم ہونا ضروری ہے۔ اس لئے خدا آپ کی خود حفاظت کرے گا اور وہ آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ یہی نکتہ ہے جو ہر زندہ جماعت کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی جماعت قائم کی جاتی ہے صرف اس لئے قائم کی جاتی ہے کہ وہ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ کے مطابق اُن اخلاقِ فاضلہ کو جو دنیا سے مٹ چکے ہوں پھر دوبارہ قائم کرے اور پھر نیکی اور تقویٰ کی رَو دنیا میں چلا دے۔ جب تک کوئی جماعت اس کام کو سر انجام نہیں دیتی اُس وقت تک اُس کا وجود دنیا کے لئے قطعاً کسی فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ آخر جماعتیں دنیا میں پہلے بھی کم نہیں تھیں۔ ان جماعتوں کے ساتھ ایک اَور جماعت کا قیام اپنے اندر کیا حکمت رکھتا تھا۔ اگر کوئی اہم مقصد سامنے نہ ہو تو ایک کی جگہ دو انجمنوں کا قیام یا دو کی جگہ تین انجمنوں کا قیام اسلام اور مسلمانوں کے لئے مُضِر تو ہو سکتا ہے مفید نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر دوسری انجمن کسی اور کام کے لئے کھڑی ہوتی ہے جو اپنی ذات میں مفید ہوتا ہے اور تیسری انجمن کسی اَور کام کے لئے کھڑی ہوتی ہے جس کا اپنی ذات میں فائدہ ہوتا ہے تب بے شک ان کا تعدّد بھی مفید نتائج پیدا کرنے والا ہو سکتا ہے۔
پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہماری جماعت دنیا میں کس لئے قائم ہوئی ہے۔ کیا اِس لئے قائم ہوئی ہے کہ مسلمانوں کے بہتّر فرقے کم تھے اور وہ پوری طرح آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک تہتّرواں فرقہ قائم کر دے تاکہ وہ خوب لڑیں اور اللہ تعالیٰ ان کا تماشا دیکھے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اِس قسم کا تماشا دیکھنے سے بہت بالا ہے۔ وہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اُس کے بندے آپس میں لڑیں اور ایک دوسرے سے جھگڑا جاری رکھیں یا وہ لڑائی جھگڑا کریں تو خود تماشا دیکھنے لگ جائے۔ یہ ذلیل ترین انسان کا کام ہؤا کرتا ہے۔ شریف انسان بھی ایسا نہیں کیا کرتے ۔ اور خدا تعالیٰ کی ذات تو اس قسم کی باتوں سے بہت ارفع اور بالا ہے۔ اس کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اُس نے ایک نئی جماعت کا قیام محض فرقوں کی تعداد بڑھانے یا لڑائی جھگڑے میں اضافہ کرنے کی نیت سے کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو محض اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اخلاقِ حسنہ دنیا میں قائم کرے جو آج ہمیں معدوم نظر آتے ہیں۔
یہی غرض میری تحریک جدید کے قیام سے تھی۔ چنانچہ تحریک جدید کے جو اصول مقرر کئے گئے تھے اُن میں جہاں یہ امر مدنظر رکھا گیا تھا کہ جماعت اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کرے وہاں اس امر کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ ان اصول پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان میسر آ سکیں۔ اسی طرح تحریک جدید کے اصول میں اِس امر کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ امراء اور غرباء میں جو خلیج حائل ہے اور جس کی بنا ءپر امراء میں کبر اور خود پسندی او ربڑائی اور احسان جتانے کا مادہ پایا جاتا ہے اس کو دور کیا جائے۔ چنانچہ تحریک جدید میں کچھ قواعد مقرر کئے گئے جن کی غرض جماعت کے لوگوں میں اس قسم کا تغیر پیدا کرنا تھا۔ مثلاً کہا گیا کہ سب دوست یہ عہد کر لیں کہ وہ آئندہ ہمیشہ ایک کھانا کھائیں گے، سینما نہیں دیکھیں گے۔ شادی بیاہ میں جہاں تک ہو سکا اپنی حیثیت کے مطابق بلکہ اس سے بھی کم خرچ کریں گے اور اس طرح اپنے روپیہ کو بچا کر اسلام اور احمدیت کی خدمت سر انجام دیں گے۔ ان تمام مطالبات کا مقصد محض جماعت کے اندر اخلاقِ حسنہ کو قائم کرنا تھا اور ان مطالبات کا مقصد محض یہ تھا کہ جماعت اپنے حالات کے مطابق خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے۔ اِسی طرح امراء اور غرباء میں جو تفاوت پایا جاتا ہے وہ روز بروز کم ہوتا چلا جائے۔ سینما دیکھنے کی جو ممانعت کی گئی تھی وہ بھی اِسی کے ماتحت آ جاتی ہے کیونکہ اس سے روپیہ الگ ضائع ہوتا ہے اور اخلاق الگ تباہ ہوتے ہیں۔ جن دنوں یہ تحریک ہوئی ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی شدت سے اِس پر عمل کیا۔ اور مَیں نے دیکھا کہ غیروں پر اس کا نمایاں اثر تھا۔ چنانچہ جہاں سے بھی رپورٹیں آتی تھیں یہی آتی تھیں کہ لوگ اس تحریک کے اصول کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور وہ بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کتنے اعلیٰ درجہ کے قواعد تجویز کئے گئے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ لوگوں نے تحریکِ جدید کے اصول کی تعریف کی، انہوں نے ان قواعد کی نقل کرنے کی کوشش نہ کی۔ اب مسلمانوں پر بھی ایک مصیبت کا دَور آیا ہے تو مَیں دیکھ رہا ہوں کہ وہی اصول جو تحریک جدید کے ذریعے مَیں نے پیش کئے تھے آج مسلمان انہی کی نقل کرنے اور ان کو اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس طرح 1934ء میں ہمارا اور احرار کا مقابلہ ہؤا تھا اسی طرح اب مسلمانوں او راہلِ ہنود کا مقابلہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جیسے احرار کے مقابلہ میں مَیں نے تحریک کی تھی ویسی ہی تحریک گو مردوں میں تو نہیں مگر مسلمان عورتوں میں عام طور پر جاری ہو چکی ہےاور تمام پنجاب میں عورتوں کی طرف سے تقریریں کی جا رہی ہیں کہ انہیں اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لینا چاہئے۔ یہ تحریک دراصل اُنہی دنوں شروع ہو گئی تھی جب مَیں ڈلہوزی میں تھا اور مجھے معلوم ہؤا کہ عورتوں میں یہ تحریک بڑے زور سے جاری ہے کہ مسلمانوں سے سَودا خریدنا چاہئے۔ اپنے کپڑوں اور زیورات میں سادگی اختیار کرنی چاہئے، ایک کھانا کھانا چاہئے اور اس طرح اپنی مالی اور تنظیمی قوت کو مضبوط کرنا چاہئے۔ ایک عورتوں کی مجلس میں اِس کا ذکر ہؤا تو میری ایک بیوی جو اس میں شامل تھیں انہوں نے کہا کہ تم اپنے پروگرام میں یہ بات بھی شامل کرو کہ ہم سینما نہیں دیکھیں گی۔ شادی پر تو دس پندرہ سال کے بعد روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن سینما دیکھنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ہر ہفتہ میں کئی روپے اس پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اگر فی ہفتہ دو روپے بھی اوسط رکھی جائے تو آٹھ روپیہ ماہوار ایک شخص کا سینما پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر ایک خاندان کے چار افراد ہوں تو بتیس روپیہ ماہوار اُن کا خرچ ہو گا۔ اِس کے معنے یہ ہیں کہ ایک اوسط درجہ کے خاندان کا چار سو روپیہ سالانہ سینما پر خرچ آتا ہے اور دس سال میں چار ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے۔ عورتوں نے اِس کی معقولیت تسلیم کی اور کہا کہ ہم اپنے پروگرام میں اس چیز کو ضرور شامل کریں گی۔ چنانچہ کل جہلم سے ایک احمدی خاتون کا خط آیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ۔ یہاں مسلمان عورتوں کا ایک جلسہ ہؤا جس میں لاہور سے بھی تقریر کرنے والی عورتیں آئیں اور اُن سب نے اس موضوع پر تقریریں کیں کہ آئندہ ہمیں ایک کھانا کھانا چاہئے، سادہ کپڑے پہننے چاہئیں، زیورات پر کم خرچ کرنا چاہئے، مسلمانوں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدنی چاہئیں، شادی بیاہ پر اِسراف سے کام نہیں لینا چاہئے اور سینما نہیں دیکھنا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں ۔ مَیں اُن کی تقریریں سنتی تو مجھے یوم معلوم ہوتا کہ گویا تحریک جدید کے قواعد اور اصول ہی وہ جلسہ میں سنا رہی ہیں۔ اسی طرح اَور جگہوں سے بھی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ عورتوں میں یہ تحریک بڑے زور سے جاری ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب عورتوں میں یہ تحریک پورے طور سے کامیاب ہو گئی تو آہستہ آہستہ مرد بھی اس طرف متوجہ ہو جائیں گے بلکہ مردوں میں بھی سینما کے خلاف تحریک شروع ہو گئی ہے۔ ہمارا کام تو صرف اِتنا ہوتا ہے کہ نیک تحریک کر دی۔ جو لوگ اخلاص رکھنے والے ہوتے ہیں وہ آپ ہی اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ہاں یہ بات نہیں۔ ان کے ہاں ڈنڈے سے کام لیا جاتا ہے۔ چنانچہ جالندھر میں انہوں نے سینما پر پکٹنگ(Picketing) کا انتظام کیا ہے۔ مسلمان سونٹے لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو لوگ سینما دیکھنے کے لئے آتے ہیں انہیں منت سماجت سے روکتے ہیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو ان سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں۔
یہ ہماری جماعت کے لئے کتنی بڑی خوشی اور اس کے ایمان کو کتنی عظیم الشان ترقی دینےو الی بات ہے کہ جو چیز آج سے بارہ سال پہلے 1934ء میں مَیں نے جماعت کے سامنے رکھی تھی اور ان دنوں رکھی تھی جبکہ احرار نے ہماری جماعت کو مٹانے کی متحدہ کوشش شروع کی تھی۔ اسی چیز کی آج مسلمان اپنی مصیبت کے دنوں میں نقل کر رہے ہیں اور ان کے لئے سوائے اِس کے اَور کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ لفظاً لفظاً اُسی سکیم پر عمل کریں جو سکیم میری طرف سے جاری کی گئی تھی۔ انہوں نے ایک چیز بھی تو نئی نہیں نکالی۔ ساری کی ساری باتیں وہ ہیں جو تحریک جدید میں بیان ہو چکی ہیں۔ بے شک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو ابھی انہوں نے اختیار نہیں کیں لیکن بہرحال آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں وہ باتیں انہیں اختیار کرنی پڑیں گی۔ کیونکہ تحریک جدید کے پروگرام میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جسے چھوڑا جا سکے۔ بے شک بعض چیزوں کی شکل بدلتی چلی جائے گی لیکن اصول وہی رہیں گے جو تحریک جدید میں مَیں نے بیان کئے ہیں۔ مثلاً مَیں نے یہ تحریک کی تھی کہ قادیان میں مکان بنائے جائیں اور امانت فنڈ میں باقاعدگی سے حصہ لیا جائے تاکہ اس روپیہ سے قادیان اور اس کے اردگرد سلسلہ کے لئے جائیدادیں خریدی جائیں اور اس طرح مرکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ یہ تحریک بھی ایسی ہے جسے کسی صورت میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مسلمان اگر اپنی حفاظت چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اپنا مرکز قائم کریں اور پھر اس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ جب تک وہ بعض شہروں کو اپنے لئے مضبوط مرکز نہیں بنا لیتے۔ اس وقت تک وہ دشمن کے حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ نہیں ہو سکتے اور نہ ان کی طاقت بڑھ سکتی ہے۔ پس بےشک میری تحریک میں یہ ذکر ہے کہ قادیان میں مکان بنائے جائیں اور سلسلہ کے لئے جائیدادیں خریدی جائیں لیکن وہ اپنے لئے بعض اَور شہر ایسے تجویز کر سکتے ہیں جو ان کے لئے مرکز کا کام دیں۔ بہرحال ان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اسی طرح وہاں جائیدادیں خرید کر اپنے مرکز کو مضبوط بنائیں جس طرح ہم نے اپنے مرکز کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ میرے ذہن میں بعض شہر بھی ہیں جن کو مسلمان مرکز کے طور پر منتخب کر سکتے ہیں مگر اِس وقت اُن کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ مَیں سرِ دست صرف اِسی قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان ہندوستان میں ہندوؤں کے مقابلہ میں امن کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور وہ قومی طور پر اپنی طاقت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہو گا کہ جیسے مَیں نے قادیان میں یہ سکیم جاری کی تھی ویسی ہی وہ سکیم بعض اَو رشہروں کے متعلق بنائیں۔ جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے وہ ہندوؤں کے حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ نہیں ہو سکیں گے۔ بہرحال اس سکیم کی کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس سے آزاد ہو کر مسلمان ترقی کر سکیں۔
مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں اب یہ تحریک اُتنی مضبوط نہیں رہی جتنی پہلے ہؤا کرتی تھی بلکہ آہستہ آہستہ اس کے اصول پر عمل کرنے میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ مَیں اَور لوگوں کو کیا کہوں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان کیا تھا خود ہمارے گھروں میں اِس پر پوری طرح عمل نہیں رہا تھا اور کئی بہانوں سے حکم کو کمزور کیا جاتا رہا۔ آخر اِس دفعہ ڈلہوزی میں مَیں نے وہی طریق اختیار کیا جو قرآن کریم میں رسول کریم ﷺکو بتایا گیا کہ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ یا تو اِن اِن قواعد کی پابندی کرو ورنہ مجھ سے طلاق لے لو۔5 مَیں نے بھی اپنی بیویوں سے کہہ دیا کہ یا تو تم تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تم عمل کرنا نہیں چاہتیں تو مجھ سے طلاق لے لو۔ اس پر سب نے عہد کیا کہ وہ آئندہ تحریک جدید پر باقاعدگی سے عمل کیا کریں گی۔ چنانچہ اُس دن کے بعد ہمارے گھروں میں اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے حالات کو نہیں بدلتے، جب تک ہم اپنے اخراجات کو بعض حدود میں نہیں رکھتے اور جب تک اپنے اندر جفاکشی اور محنت کی عادت پیدا نہیں کرتے اس وقت تک ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
اِس وقت دنیا سے جو ہماری لڑائی جاری ہے وہ اتنی عظیم الشان ہے کہ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کروڑوں کروڑ روپیہ پانی کی طرح نہیں گرد و غبار کی طرح اُڑانا پڑے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہماری غریب جماعت یہ کروڑوں کروڑ روپیہ لائے گی کہاں سے؟ جب تک ہماری جماعت اپنے اخراجات پر پابندی عائد نہیں کر لیتی، جب تک ہماری جماعت کے اندر امراء اور غرباء میں برابری پیدا نہیں ہو جاتی، جب تک ہمارے اندر کامل طور پر احساس پیدا نہیں ہو جاتا کہ ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، جب تک کھانے کے لحاظ سے ہمارے اندر سادگی نہیں آ جاتی، جب تک کپڑوں کے لحاظ سے ہمارے اندر سادگی نہیں آ جاتی، جب تک زیورات کے لحاظ سے ہمارے اندر سادگی نہیں آ جاتی، جب تک قربانی اور ایثار اور محنت کی عادت ہمارے اندر پیدا نہیں ہو جاتی اُس وقت تک ہم دین کے لئے قربانی کس طرح کر سکتے ہیں۔ اگر کبھی دین کے لئے ہمیں اپنے وطنوں سے ہجرت کرنی پڑی تو ہم ہجرت کس طرح کر سکیں گے۔ اگر ہماری جماعت کے افراد کو جیل خانوں میں جانا پڑا تو وہ جیل خانوں میں کس طرح جا سکیں گے۔ آخر لوگ جیل خانوں میں کیوں خوشی سے نہیں جاتے؟ اِسی لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ یہاں تو ہمیں اچھا کھانا اور اچھا کپڑا ملتا ہے مگر وہاں نہ کھانا اچھا ملے گا نہ کپڑا، اور مشقّت کی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ اگر ایک شخص نے اپنے گھر میں بھی اچھا کھانا چھوڑ رکھا ہو، اچھا کپڑا پہننا ترک کر رکھا ہو اور محنت اور مشقّت کے کاموں کا عادی ہو تو اُس کے لئے جیل خانہ میں جانا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی۔ وہ کہے گا یہاں رہے تو کیا اور وہاں گئے تو کیا ۔ کوئی فرق تو نہیں۔ اس کی مثال بالکل ویسی ہی ہو گی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک نابینا آدمی رات کے وقت کسی سرائے میں بیٹھا دوسروں سے باتیں کر رہا تھا اور اس کی باتیں بہت لمبی ہو گئیں۔ پاس ہی ایک بیمار شخص لیٹا ہؤا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ باتیں ختم ہونے میں ہی نہیں آتیں تو اُس سے برداشت نہ ہو سکا تو اُس نے کہا حافظ صاحب!باتیں بہت ہو چکیں اب سو رہو۔ حافظ صاحب نے جواب دیا ‘‘ساڈا سونا کی اے چُپ ہی ہو رہنا ہے۔’’ سونے کی دو ہی علامتیں ہیں ایک آنکھوں کا بند ہوجانا، دوسرے خاموش ہو جانا۔ سو آنکھیں تو خدا تعالیٰ نے میری پہلے ہی بند کی ہوئی ہیں اب میرے لئے سونا سوائے اس کے اَور کیا ہے کہ مَیں خاموش ہو جاؤں۔ تو جو انسان اپنے لئے آپ جیل خانہ تیار کر لیتا ہے وہ جیل خانہ سے کب گھبرا سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِّلْمُؤْمِنِ 6دنیا مومن کے لئے جیل خانہ ہوتی ہے۔ اِس حدیث کا منشاء درحقیقت یہی ہے کہ تم اپنی زندگی کو سادہ بناؤ او راس طرح محنت اور مشقت کے عادی بنو کہ تمہارے لئے باہر بھی جیل خانہ ہی بنا رہے۔ جب کسی کی یہ حالت ہو جائے تو وہ جیل خانہ میں جانے سے ڈرے گا نہیں، بلکہ کہے گا کہ یہاں رہے یا وہاں بات ایک ہی ہے ۔فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ باہر اپنے پیسے سے کھانا کھایا کرتے تھے اور اندر دوسروں کے پیسےسے کھانا کھایا کریں گے۔
غرض تحریک جدید کے تمام اصول ایسے ہیں کہ اُن پر عمل قومی ترقی کے لئے نہایت ضروری چیز ہے اور آج جبکہ دوسرے لوگ بھی اُن اصول پر عمل کر رہے ہیں ہماری جماعت کو اِس سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ اس تحریک کو زندہ کرنا چاہئے۔ دوسرے لوگوں کا اِس تحریک پر عمل ہماری جماعت کے لئے ایسا ہی ہے جیسے کسی کے منہ پر چپیڑ مار دی جائے۔ اگر ہماری جماعت نے اِس تحریک پر عمل نہ کیا اور دوسرے لوگ عمل کر کے اسکے فوائد سے متمتع ہو گئے تو یہ ایک نہایت ہی افسوس ناک بات ہو گی اور دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ جس جماعت کو اس کے امام نے یہ ہدایات دی تھیں اس نے تو اس پر عمل نہ کیا اور غیروں نے اس پر عمل کر کے فائدہ اٹھا لیا۔ حالانکہ ہماری شریعت کا حکم ہے کَلِمَةُ الْحِکْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَجَدَھَا 7حکمت کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہوتی ہے۔ جہاں سے بھی اسے ملتی ہے وہ فوراً اسے اٹھا لیتا ہے۔ پس ہمارا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر ہم کسی دوسرے کے منہ سے بھی حکمت کی کوئی بات سنیں تو اُس کو فوراً اٹھا لیں۔ کُجا یہ کہ ہماری چیز دوسرے لوگ اٹھا لیں اور ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔
پس اس خطبہ کے ذریعے مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنی سُستی اور غفلت کو دور کرے اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر غور کرے کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کس حد تک عمل کر رہی ہے۔ جماعتوں میں ہر جگہ تحریک جدید کے سیکرٹری مقرر ہیں۔ مگر اُن کا کام صرف یہ نہیں کہ لوگوں سے چندہ وصول کریں بلکہ اُن کا یہ بھی کام ہے کہ وہ تحریک جدید کی سکیم پر لوگوں کو عمل کرنے کی تحریک کریں۔
مَیں نے گزشتہ عرصہ میں نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات دیکھی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی شاخیں تحریک جدید کے ساتھ رقابت رکھتی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ تحریک جدید کے پروگرام کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں وہ اس کےر ستہ میں روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کے حضور صدر انجمن احمدیہ کا نام پیش نہیں ہو گا، خدا تعالیٰ کے حضور تحریکِ جدید کا نام پیش نہیں ہو گا، خدا تعالیٰ کے حضور یہ نہیں دیکھا جائے کہ کون سیکرٹری اور کون پریذیڈنٹ تھا۔ خدا تعالیٰ تو یہ دیکھے گا کہ جماعت نے اس سکیم کو کامیاب کرنے کی کوشش کی یا نہیں جو اس کے امام نے اس کے سامنے رکھی تھی۔ اگر جماعت نے اپنے فرض کو نہیں پہچانا اور اس نے اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش نہیں کی جو خلیفۂ وقت کے منہ سے نکلی۔ تو چاہے صدر انجمن احمدیہ نام رکھ لو یا کچھ اَور۔ یہ ایک ذلیل ترین چیز ہو گی۔ پس مَیں جماعتوں کو متنبہ کرتا ہوں اور انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مَیں اس چیز کو دیکھ رہا ہوں اور افسوس سے دیکھ رہا ہوں۔ اگر انہوں نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کی تو شاید مجھےکوئی ایساقدم اٹھانا پڑے گا جو ان کے لئے تکلیف دہ ہو۔ جماعت کا ہر فرد جو اِس سلسلہ میں منسلک ہے اُس کا فرض ہے کہ امام کی طرف سے جو بھی آواز بلند ہو اس پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی تحریک کرے۔ اور چاہے صدر انجمن احمدیہ ہو یا کوئی اور انجمن۔ حقیقی معنوں میں وہی انجمن سمجھی جا سکتی ہے جو خلیفۂ وقت کے احکام کو ناقدری کی نگاہ سے نہ دیکھے بلکہ ان پر عمل کرے اور کرتی چلی جائے اور ا س وقت تک آرام کا سانس نہ لے جب تک ایک چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی ایسا موجود ہو جس پر عمل نہ کیا جاتا ہو۔ پس ہر احمدی جس نے منافقت سے میری بیعت نہیں کی اور ہر احمدی جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہونا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ خلیفۂ وقت کے احکام پر عمل کرنے اور دوسروں سےعمل کرانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے متعلق جوابدہ سمجھے۔ اگر امام کی طرف سے ایک آواز بلند ہوتی ہے،سننے والے سنتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی بجائے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو خواہ اِس قسم کا کام کرنے والی صدر انجمن احمدیہ ہو، خواہ تحریک جدید کا کوئی سیکرٹری ہو، خواہ فنانشل سیکرٹری ہو یا امیر جماعت مقامی ہو یا کوئی اور عہدیدار ہو۔ وہ محض اپنے نام سے اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہو سکتے۔ ان کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ ان کا عمل منافقانہ عمل ہے اور ان کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے اپنے امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔
جب رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی اس وقت حضرت ابو بکرؓ نے ایک تقریر کی۔ جس میں فرمایا اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمدؐ رسول اللہ ﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ محمدؐ رسول اللہ ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔لیکن وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی مر نہیں سکتا۔8 اسی طرح مَیں کہتا ہوں جس نے خلیفۂ وقت کی بیعت کی ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفۂ وقت کی بیعت کے بعد اس پر یہ فرض عائد ہو چکا ہے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے۔اور اگر کسی نے صدر انجمن احمدیہ کی بیعت کی ہے تو اس سے خدا وہی معاملہ کرے گا جو صدر انجمن احمدیہ کی بیعت کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے۔ خلیفۂ وقت کی بیعت کرنے والوں میں وہ شامل نہیں ہو گا۔
پس مَیں جماعت کو پھر متنبہ کرتا ہوں کہ اسے اپنے حالات کی اصلاح کرنی چاہئے۔ ہمارے سپرد ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ کام کبھی سر انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہر شخص اپنی جان اس راہ میں لڑا نہ دے ۔ پس تم میں سے ہر شخص خواہ دنیا کا کوئی کام کر رہا ہو اگر وہ اپنا سارا زور اس غرض کے لئے صَرف نہیں کر دیتا،اگر خلیفۂ وقت کے حکم پر ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار نہیں رہتا، اگر اطاعت اور فرمانبرداری اور قربانی اور ایثار ہر وقت اس کے سامنے نہیں رہتا تو اس وقت تک نہ ہماری جماعت ترقی کر سکتی ہے اور نہ وہ اشخاص مومنوں میں لکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رکھو! ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔ اگر اسلام اور ایمان اِس چیز کا نام نہ ہوتا تو محمد ﷺ کے ہوتے کسی مسیح کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اگر محمد ﷺ کے ہوتے مسیح موعود کی ضرورت تھی تو مسیح موعود کے ہوتے ہماری بھی ضرورت ہے۔ ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ مَیں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں،ہزار دفعہ کوئی کہے کہ مَیں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں ۔ خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اُس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں جماعت کو ایک دفعہ پھر بیدار کرتا ہوں اور ایسے وقت میں بیدار کرتا ہوں جبکہ حالات نہایت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں۔ ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر ایک نیا تغیر پیدا کرے، ایک نئی زندگی پیدا کرے، ایک نئی بیداری پیدا کرے اور اسلام کی ترقی کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے اُن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا قدم خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے مگر جُوں جُوں ہمارا قدم بڑھ رہا ہے مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور قربانیوں کے مطالبات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ واقع یہ ہے کہ موجودہ قربانیوں سے ہم دنیا کو فتح نہیں کرسکتے، موجودہ ذہنیتوں سے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے، موجودہ کشمکش سے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے، موجودہ حالات سے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے، جب تک ہم اپنی زندگی میں سادگی پیدا نہیں کرتے، جب تک ہم اپنی عبادات میں سوز اور گداز پیدا نہیں کرتے، جب تک ہم اپنی قربانیوں کو زیادہ اعلیٰ معیار پر نہیں پہنچاتے، جب تک ہم اپنی جد و جہد کی رفتار کو کئی گُنا زیادہ تیز نہیں کر دیتے، جب تک ہم اپنے کاموں میں زیادہ یکجہتی اور اتحاد کا ثبوت نہیں دیتے اس وقت تک وہ برکتیں اوررحمتیں نازل نہیں ہو سکتیں جو اِس زمانہ میں خد اتعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے مخصوص کی ہیں۔ وہ تو ایسی شرط کے ساتھ مخصوص ہیں کہ ہم اپنا فرض ادا کریں۔ جب ہم اپنا فرض ادا کر دیں گے تو خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہم پر نازل ہونے لگ جائیں گی۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت موجودہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے گی اور وہ اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا ازالہ کرے گی۔ اس سلسلہ میں مَیں تمام جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ قادیان میں بھی اور بیرونی جماعتوں میں بھی ہر جگہ جلسے کئے جائیں۔ لجنہ اماء اللہ الگ جلسے کرے ، انصار اللہ الگ جلسے کریں، خدام الاحمدیہ الگ جلسے کریں اور تحریک جدید کے مطالبات اور اس کے اصول کو پھر تازہ کیا جائے۔ پھر جماعت کے قلوب میں ان اصول کو راسخ کیا جائے اور پھر جماعتوں میں بیداری اور ہوشیاری پیدا کی جائے۔ بڑے شہروں میں جہاں جماعتیں مختلف حلقوں میں منقسم ہوں وہاں الگ الگ حلقوں میں جلسے کئے جائیں اور دوبارہ تحریک جدید کو زندہ کر کے اور اس کے مطالبات کی اہمیت بتا کر لوگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے۔ آئندہ ہمیں کفر سے جو جنگ پیش آنے والی ہے وہ پہلی جنگوں سے بہت بڑھ کر ہو گی اور اس میں پہلی قربانیوں سے بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی ۔اگر ہم وہ قربانیاں پیش نہیں کریں گے تو ہمارا انجام اچھا نہیں ہو گا اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور کبھی سرخرو نہیں ہو سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کےہر فرد کو بُرے انجام سے بچائے اور اسے قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ اپنا قدم آگے ہی آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ قیامت کے دن ہمارا اس کے حضور پیش ہونا ایک کامیاب اور بامراد اوربا وفا خادم کی طرح ہو نہ کہ بے وفا اور ناکام اور غدار خادم کی مانند۔’’ (الفضل 15 نومبر 1946ء )
1: الضُّحٰی: 12
2: العلق: 2 تا 5
3،4: بخاری کتاب بَدْءُ الْوَحْیِ بَابُ کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ (الخ)
5: يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ
اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا (الاحزاب: 29)
6: صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر
7: ابن ماجہ کتاب الزھد باب الحکمة میں یہ الفاظ ہیں۔‘‘ اَلْکَلِمَةُ الْحِکْمَةُ ضَالَّةُ
الْمُؤْمِنِحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا۔’’
8: بخاری کتاب فضائل اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ باب قَوْلِ النَّبِیِّ ﷺ لَوْ کُنْتُ
مُتَّخِذًا خَلِیْلًا

40
اپنے اندر ایمان اور جوش پیدا کرو
( فرمودہ یکم نومبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ او رسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر مامور دنیا میں آتے ہیں اُن کی آمد کی بڑی غرض یہی ہؤا کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو پراگندگی اور اختلاف کے مرض سے بچاتے ہوئے پھر خدائے واحد کے دروازہ پر لا کھڑا کریں اور یہی غرض ان کی جماعتوں کی ہؤا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انفرادی طور پر انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے۔ لیکن یہ امر کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے علاوہ دنیا کےد وسرے لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ہدایت کی طرف لائے اور ان کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو متواتر الہاموں اور کشوف اور رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ آپ کا اور آپ کی جماعت کا یہ فرض ہے کہ بنی نوع انسان کو دینِ واحد پر جمع کریں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دینِ واحد پر جمع کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جن لوگوں کو ہم نے دینِ واحد پر جمع کرنا ہے وہ اپنے آپ کو ہر رنگ میں ہم سے اعلیٰ اور بلند شان رکھنے والا سمجھتے ہیں اور جہاں تک دنیوی نگاہ کام کرتی ہے وہ ہم سے واقع میں بلند شان رکھتے ہیں۔ یعنی حکومتیں ان کے پاس ہیں، جماعتیں اُن کے پاس ہیں، روپیہ ان کے پاس ہے، زمینیں ان کے پاس ہیں، پیشے ان کے پاس ہیں، صنعت و حرفت اُن کے پاس ہے، تعلیم اُن کے پاس ہے، اقتصاد کی کنجی ان کے پاس ہے۔ غرض کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو دنیا میں کسی کو بڑائی دینے کا موجب ہوتی ہو اور ہمارے پاس ہو۔ ایسی صورت میں وہ لوگ آسانی کے ساتھ دینِ واحد پر جمع نہیں ہو سکتے۔ جب تک ہماری جماعت دیوانہ وار یہ کام نہ کرے اور اپنے تمام دوسرے کاموں پر اس کو مقدم نہ کر لے اُس وقت تک یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کام کریں یا نہ کریں۔ دلوں کی تبدیلی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنے فضل سے لوگوں کو ہدایت دے سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا فضل کھینچنے کے لئے بھی کوئی چیز ہونی چاہئے۔ خدا اپنا فضل اندھا دھند نازل نہیں کرتا۔ جب بھی خدا تعالیٰ کسی قوم کی ترقی کے سامان پیدا کرتا ہے، وہ پہلے اس سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے اور جب قوم اس مطالبہ پر اپنی قربانی پیش کر دیتی ہے تب وہ اپنے فضل اس پر بڑھا چڑھا کر نازل کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ابراہیمؑ کی نسل کو بڑھائے مگر پیشتر اس کے کہ وہ ابراہیمؑ کی نسل کو بڑھائے اس نے تقاضا کیا کہ ابراہیمؑ اپنے ایک ہی بیٹے کو جو اسے بڑھاپے میں ملا تھا، قربان کر دے۔ جب ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہؤا تب خدا کی طرف سے فیصلہ ہؤا کہ ابراہیمؑ کی نسل کو بڑھایا جائے۔ اسی طرح جب خدا نے چاہا کہ ابراہیمؑ کی نسل میں ہمیشہ کے لئے نبوت رکھ دے اور آئندہ جو بھی نبی آئے یا تو وہ براہِ راست ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہو یا ابراہیمؑ پر ایمان لانے والا ہو۔ تو خدا تعالیٰ نے اس انعام کے دینے سے پہلے اس سے تقاضا کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ آئے جہاں کامیاب زندگی کی صورت تو الگ رہی ، معمولی زندگی کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں پینے کے لئے پانی اور کھانے کے لئے کھیتی باڑی اور ساتھ رہنے کے لئے کوئی انسان نہیں تھا۔ ایک جنگل اور بیابان تھا جس میں نہ پانی تھا نہ کھانا، نہ مُونس نہ یارو مددگار۔ جب ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے دل پر چُھری پھیرتے ہوئے اس بات کو منظور کر لیا اور ایک ویران اور بے آباد جگہ میں وہ اپنی اولاد کو چھوڑ آیا۔ تب خدا نے فیصلہ کیا کہ اے ابراہیمؑ !جس طرح تُو نے میرے لئے قربانی کی ہے اور اس لئے ایک بے آب و گیاہ جنگل میں اپنی اولاد کو جا بسایا ہے کہ میرا ذکر بلند ہو اور ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو میری خاطر رکوع و سجود کرنےو الے ہوں اِس طرح مَیں بھی فیصلہ کرتا ہوں کہ دنیا کی تمام پاکیزگی ، دنیا کی تمام اصلاح اور دنیا کی تمام روحانی ترقی تیرے اور تیری اولاد کے ساتھ وابستہ رہے گی۔ پس جب کبھی خدا کسی قوم پر اپنا فضل نازل کرتا ہے وہ ہمیشہ اس فضل کے نازل کرنے سے پہلے اس سے قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب قوم اس مطالبہ پر اپنی قربانی پیش کر دیتی ہے تب اس کی طرف سے فضل نازل ہوتے اور اپنے انتہائی کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔
پس دین کی ترقی اور دلوں کو بدلنا بے شک خدا کے اختیار میں ہے مگر خدا اپنا اختیار تب استعمال کرتا ہے جب اپنے دل اس کے لئے قربان کر دئیے جائیں۔ جب ایک انسان اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کر دیتا ہے تو خدا اس کے لئے نئے دل پیدا کر دیتا ہے۔ یہ کام ہے جو ہمارے ذمہ ہے مگر ابھی ہماری جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ مَیں متواتر جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اسے اپنےفرائض کا احساس کرتے ہوئے تبلیغ میں پوری سرگرمی سے حصہ لینا چاہئےاور اب خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مجھے تازہ رؤیا و کشوف ہو رہے ہیں ان میں بھی متواتر بتایا جا رہا ہے کہ اس کام کی طرف خود بھی توجہ کرو اور جماعت کو بھی توجہ دلاؤ۔ جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی خبر دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کام کیا جائے۔ اور جب وقت آنے پر کوئی کام نہ کیا جائے تو آپ لوگ یہ جانتے ہی ہیں کہ بے وقت تو کوئی کام ہؤا ہی نہیں کرتا۔ لوگ گندم بوتے ہیں او راس کے موسم میں بوتے ہیں۔ کیا کسی نے دیکھا ہے کہ اگست یا جنوری فروری میں گندم کی فصل بوئی جا رہی ہو؟ یا کپاس لوگ مارچ سے جون تک بوتے ہیں۔ مگر کیا کسی نے دیکھا کہ کوئی شخص ستمبر یا جنوری میں کپاس بو رہا ہو؟ وہ اسی لئے نہیں بوتے کہ وہ جانتے ہیں اب گندم یا کپاس بونے کا وقت نہیں۔ اگر ہم بوئیں گے تو ہم اپنے بیج کو ضائع کرنے والے ہوں گے۔ تم اگر گندم کابیج بیس پچیس سیر کی بجائے تین چار مَن بھی جنوری فروری میں بو دو تو اس سے غلہ پیدا نہیں ہو گا بلکہ پہلا بیج بھی ضائع چلا جائے گا۔ پس بےموقع قربانی کام نہیں آیا کرتی بلکہ وہی قربانی انسان کے کام آتی ہے جو موقع کے مطابق کی جائے۔ جس طرح فصل کے بونے کا موقع ہوتا ہے اسی طرح تبلیغ کے بھی مواقع ہوتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ اور سب سے بہتر تبلیغ کا موقع وہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی نبی کو دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرماتا ہے۔ اُس وقت خدائی فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ دلوں کو بدل دیا جائے اور ان کو راستی اور ہدایت کی طرف پھیرا جائے اِس لئے اُس وقت ذرا سی کوشش بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب بن جاتی ہے۔ اس کے بعد مختلف دَور آتے ہیں۔ کبھی ترقی کا دَور آتا ہے اور کبھی اس میں روک واقع ہو جاتی ہے۔ پھر ایک ترقی کا دَور آتا ہے اور پھر اس میں روک پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ترقی کے دَور جو مختلف زمانوں میں آتے ہیں ان میں بھی نسبتی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں اور لوگوں کی کوششیں مفید نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہوتی ہیں۔ اِس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ کے متعلق بار بار اشارات ہو رہے ہیں۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ اب تبلیغ کا وقت ہے۔ اگر جماعت توجہ کرے تو وہ پہلے سے بہت زیادہ کامیابی اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ چنانچہ جہاں بھی جماعتوں نے اس طرف توجہ کی ہے انہوں نے اپنی تبلیغ کے نہایت اعلیٰ درجہ کے نتائج دیکھے ہیں۔ اس سفر میں کئی دوستوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگوں کے اندر خود بخود کیسا انقلاب پیدا ہو رہا ہے۔ پہلے لوگ ہمارے سلسلہ کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے تھے مگر اب ان میں بیداری کے آثار نظر آتے ہیں اور وہ خود ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے سلسلہ کی کیا حقیقت ہے؟ گویا وہ ہمارے حالات معلوم کرنے کے لئے بیتاب ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں اس بارہ میں معلومات بہم پہنچائی جائیں۔ غرض جن جن جماعتوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہت زیادہ ترقی ہو رہی ہے۔ ایک علاقہ کے لوگ مجھ سے دلّی میں ملنے آئے او رانہوں نے شکایت کی کہ ہمارے علاقہ میں بہت کم احمدی ہیں۔ سارے ضلع میں صرف پچیس چھبیس احمدی ہیں۔ انہوں نے مجھے دعا کی تحریک کی اور یہ بھی کہا کہ ہمیں مبلغ بھجوائے جائیں۔ جب وہ جانے لگے تو مَیں نے کہا آپ لوگ خود بھی تبلیغ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ترقی کے سامان پیدا فرما دے گا۔ چنانچہ ابھی ان کی طرف سے چٹھی ملی ہے کہ انہیں تبلیغ شروع کئے صرف پندرہ بیس دن ہی ہوئے ہیں۔ مگر پندرہ بیس دنوں میں ہی یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ ایک جگہ تبلیغ کے لئے گئے۔ تو ایک وقت میں ستائیس آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہو گئے حالانکہ پہلے سارے ضلع میں صرف پچیس چھبیس احمدی تھے۔ گویا ذرا سی توجہ سے وہ جماعت دُگنی ہو گئی۔
پس اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ دن خاص طور پر برکات کے حصول کے لئے بنائے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جماعت پورے زور سے تبلیغ کرے کیونکہ یہی تبلیغ کا موقع ہے۔ اِس وقت ہماری جماعت جو فصل بوئے گی خدا اسے وقت کی فصل قرار دے گا۔ اور جس طرح کچھ عرصہ کے بعد لوگ فصل کاٹا کرتے ہیں اور ایک مَن کی بجائے بیس بیس تیس تیس مَن غلہ اپنے گھر میں لے آتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالے گا اور انہیں پہلے سے بہت زیادہ کامیابی اور ترقی عطا فرمائے گا۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ تو کرتے ہیں مگر لوگ سنتے نہیں حالانکہ اصل حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو صحیح طور پر سناتے نہیں۔ سنانے کا بھی ایک طریق ہوتا ہے، جب تک اس سے کام نہ لیا جائے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پھر اگر لوگ نہ بھی سنیں تب بھی سنانے والے کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ سناتا چلا جائے اور اس بات کی پروا نہ کرے کہ لوگ اس کی بات کو سنتے ہیں یا نہیں۔ مکہ میں رسول کریم ﷺ جیسا انسان متواتر تیرہ سال تک لوگوں کو اپنی باتیں سناتا چلا گیا مگر کیا مکہ والوں نے آپؐ کی باتیں مان لیں؟ پھر سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم ﷺ نے اس وجہ سے کہ مکہ کے لوگ تو سنتے ہی نہیں، انہیں باتیں سنانی چھوڑ دی تھیں؟ آپؐ برابر اپنی باتیں سناتے چلے گئے اور ایک سال نہیں دو سال نہیں تیرہ سال مسلسل ان کو تبلیغ کرتے رہے اور اس بات کی آپؐ نے ذرا بھی پروا نہ کی کہ مکہ کے لوگ آپ کی باتوں کو مانتے ہیں یا نہیں۔ مگر ہمارے آدمی دو دن جاتے ہیں، دلائل سے دوسرے کو خاموش کر دیتے ہیں اور جب دوسرا شخص نہیں مانتا تو اسے چھوڑ کر اپنے گھر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اوریہ شکوہ کرنےلگ جاتے ہیں کہ لوگ ہماری باتیں نہیں سنتے۔ تم محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھو۔ آپؐ کتنا عرصہ لوگوں کو سناتے چلے گئے۔ بے شک لوگوں نے آپؐ کو گالیاں بھی دیں، بُرا بھلا بھی کہا اور ہر طرح آپؐ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی مگر پھر وہ وقت بھی آ گیا جب وہی لوگ جو آپ کو گالیاں دیتے تھے آپ پر فریفتہ اور شَیدا ہو گئے اور آپ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنا اپنی بہت بڑی سعادت سمجھنے لگے۔ پھر ایسے بھی لوگ تھے جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں آپؐ پر ایمان لائے۔ چنانچہ عکرمہ جو اسلام کے دشمن اور شدید ترین دشمنِ اسلام ابو جہل کے بیٹے تھے، عمرو بن العاص جو ایک دشمن کے بیٹے اور خود بھی اسلام کے دشمن تھے، اِسی طرح خالد بن ولید یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جو اسلام کے آخری زمانہ میں ایمان لائے اور نہایت جان نثار خادم ثابت ہوئے۔ عکرمہ تو اسلام کا اتنا دشمن تھا کہ جب مکہ فتح ہؤا تو رسول کریم ﷺ نے اس کی بعض خلافِ قانون حرکات کی وجہ سے جو اس سے جنگوں میں سرزد ہوئی تھیں یہ حکم دے دیا تھا کہ عکرمہ جہاں بھی ملے اسے قتل کر دیا جائے۔ عکرمہ یہ سن کر مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا مگر عکرمہ کی بیوی ایمان لا چکی تھی او روہ اپنے دل میں اسلام کو سچا سمجھتی تھی۔ جب رسول کریم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور اس کا خاوند مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا تو وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں آپ پر ایمان لاتی ہوں۔ پھر اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم بھی آپ کے رشتہ دار ہیں۔ بے شک ہم نے آپ کی مخالفتیں کیں مگر نادانی او رجہالت سے کیں اور یہ سمجھ کر کیں کہ ہم ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ عکرمہ بھی آپ کا رشتہ دار ہے۔ کیا یہ اچھا ہو گا کہ آپ کے حُسنِ سلوک کی وجہ سے وہ آپ کے ماتحت اپنے وطن میں زندگی کے دن گزارے یا یہ اچھا ہو گا کہ وہ غیر ممالک میں دوسرے لوگوں کا دستِ نگر اور ممنون احسان رہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اچھا ہم نے تمہاری خاطر عکرمہ کو معاف کیا۔1 وہ یہ سن کر خوشی خوشی اپنے خاوند کے پیچھے گئی۔ اُس وقت مکہ کی جو بندرگاہ تھی جدہ سے زیادہ فاصلہ پر تھی۔ عکرمہ وہاں پہنچ چکا تھا۔ جدہ تو مکہ سے دو منزل کے فاصلہ پر ہے اور اگر انسان گھوڑے پر سوار ہو تو چند گھنٹوں میں وہاں پہنچ جاتا ہے مگر اس بندرگاہ تک پہنچتے ہوئے تین دن لگ جاتے تھے۔ جب عکرمہ کی بیوی وہاں پہنچی، عکرمہ جہاز میں بیٹھ چکے تھے اور جہاز چلنے ہی والا تھا۔ وہ اپنے خاوند کے پاس گئی اور اس سے کہا۔ تم کہاں دنیا میں خوار ہوتے پھرو گے اور کیوں اس شخص کو چھو ڑکر جا رہے ہو جو اپنے دشمنوں سے احسان کرنا جانتا ہے۔اس نے کہا مَیں اب یہاں کس طرح رہ سکتا ہوں جبکہ مَیں نے اسلام کی اتنی مخالفت کی ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ اب میرے لئے اس ملک میں کہاں امن ہوسکتا ہے۔ اس کی بیوی نے کہا تم تو یہ خیال کرتے ہو او رمَیں محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی تھی اور مَیں نے تمہارے متعلق عرض کیا تھا۔ انہوں نے تم کو معاف فرما دیا ہے۔ اب تم واپس چلو اور باہر جانے کا ارادہ ترک کر دو۔ عکرمہ یہ سن کر جہاز سے اُتر آئے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی میرے پیچھے پیچھے گئی تھی اور اس نے مجھے کہا ہے کہ آپ نے مجھے معاف فرمایا دیا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ بالکل سچ کہتی ہے۔ ہم نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ جب عکرمہ نے یہ سنا تو اس کے لئے حیرت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ ابو جہل نے جو مظالم کئے تھے ان کو سب دنیا جانتی ہے اور عکرمہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ہی چل رہا تھا اور اس نے بھی انتہاء درجہ کے مظالم مسلمانوں پر کئے تھے۔ جب اس نے رسول کریم ﷺ کی یہ بات سنی تو اس نے کہا آپ نے مجھے کفر کی حالت میں اور ایسے وقت میں معاف کیا ہے جبکہ مَیں سمجھتا ہوں میرے لئے معافی کا کوئی استحقاق نہیں تھا۔ اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ معافی سوائے خدا کے برگزیدہ انسان کے اَور کوئی نہیں دے سکتا۔ پس مَیں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس کے رسول ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عکرمہ نہ صرف ہم نے تمہیں معاف کیا ہے بلکہ تمہارے دل میں جو بھی خواہش ہو مجھ سے مانگو۔ مَیں تمہاری وہ خواہش پوری کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر اب عکرمہ وہ عکرمہ نہیں تھا جو دنیا کی خاطر لڑائیاں لڑا کرتا تھا۔ اب عکرمہ مومن عکرمہ تھا۔ جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عکرمہ مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو تو عکرمہ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!میری اس سے زیادہ خواہش اَور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ گستاخیاں جو مَیں نے آپ کی کی ہیں اور وہ مخالفتیں جو مَیں نے اسلام اور مسلمانوں کی کی ہیں اللہ تعالیٰ وہ مجھے معاف فرمائے۔ جب آپ مجھے وہ کچھ دینے کے لئے تیار ہیں جو میری خواہش ہو تو میری درخواست یہ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ میرے گناہوں کو معاف کرے اور میرا خاتمہ بالخیر کرے۔ رسول کریم ﷺ نے اس کے لئے دعا کی اور فرمایا اے خدا! عکرمہ کے سب گناہ معاف فرما دے۔2 تو دیکھو یہ لوگ کتنے شدید دشمنِ اسلام تھے مگر پھر یہی لوگ اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے بن گئے۔
ایک اَور صحابی کا ذکر آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہؤا تو وہ ظاہر میں ایمان لے آئے مگر دل سے مخالف تھے۔ وہ خود کہتے ہیں مَیں صرف اس لئے ایمان لایا تھا کہ موقع پا کر رسول کریم ﷺ کو قتل کروں۔ کیونکہ مَیں نے سمجھا اب بالمقابل لڑائی کرنے کا وقت نہیں رہا اب ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اسی طرح کر سکتے ہیں کہ اندرونی طور پر فتنہ پیدا کریں اور بظاہر اسلام میں داخل ہو کر رسول کریم ﷺ کو موقع پا کر قتل کر دیں۔ جب حنین کی جنگ ہوئی تو اس میں مَیں بھی شامل ہؤا اور اس امید سے شامل ہؤا کہ جنگ میں سپاہی بعض دفعہ اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ جب مجھے کوئی ایسا موقع ملا مَیں رسول کریم ﷺ کو قتل کر دوں گا۔ چنانچہ عین جنگ کے وقت وہ موقع بھی آگیا۔ اسلامی لشکر پر جب دونوں طرف سے تیر اندازی ہوئی تو بوجہ ساتھی کفار کے بھاگنے کے وہ بے تحاشا میدان سے بھاگ پڑا اور رسول کریم ﷺ کے پاس صرف چند آدمی رہ گئے۔ لوگوں نے کھینچ کر آپ کو پیچھے ہٹانا چاہا مگر آپ نے پیچھے ہٹنے سے انکا رکر دیا۔ اور فرمایا مَیں خدا کا رسول ہوں، خدا کا رسول پیچھے نہیں ہٹا کرتا۔3 جب دشمن کا ریلا آیا تو وہ چند آدمی بھی جو رسول کریم ﷺ کے اردگرد تھے پیچھے ہٹ گئے اور صرف ایک دو آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے۔ اس وقت وہ صحابی کہتے ہیں مَیں آگے بڑھا اور مَیں نے اپنے دل میں کہا آج مجھے بدلہ لینے کا کیسا اچھا اور کتنی جلدی موقع مل گیا ہے۔ مَیں نے تلوار کھینچی اور رسول کریم ﷺ کی طرف چل پڑا۔ رسول کریم ﷺ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے میرا نام لے کر فرمایا آگے آؤ۔ مَیں تو خود آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ جب مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا اے خدا! اس کی بے ایمانیاں اور بُغض اس کے دل سے نکال دے۔یہ دعا کر کے آپ نے میرا نام لیا اور فرمایا آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ وہ صحابی کہتے ہیں جس وقت رسول کریم ﷺ نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو مجھے یوں معلوم ہؤا جیسے کفر میرے اندر سے بالکل نکل گیا ہے اور ایمان کا اتنا جوش میرے دل میں پیدا ہو گیا کہ اس وقت مجھے سب سے اچھی اور سب سے بہتر بات یہی معلوم ہوتی تھی کہ مَیں رسول کریم ﷺ کے آگے لڑتا ہؤا مارا جاؤں۔ چنانچہ مَیں آگے بڑھا اور دشمن سے لڑا۔ خدا کی قسم! اگر اس وقت میرا اپنا باپ بھی میرے سامنے آ جاتا تو مَیں اس وقت تک بس نہ کرتا جب تک اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دیتا۔4
تو دیکھو یہ لوگ کتنے بغیض تھے او رپھر کتنا عظیم الشان تغیر ان میں پیدا ہو گیا۔ مگر آخر یہ تغیر ایک دن کی تبلیغ سے پیدا نہیں ہؤا۔ سالہا سال ان کو تبلیغ ہوئی۔ مگر ان کے دلوں میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ پھر یہ لوگ غیر نہیں تھے بلکہ رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی کسی کا چچیرا بھائی تھا، کسی کا ممیرا بھائی تھا، کسی کا پھپھیرا بھائی تھا۔ کوئی برادر زادہ تھا اور کوئی اَور رشتہ دار۔ غرض مکہ کے سارے کے سارے لوگ خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا رؤسا ء میں سے۔ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے رشتہ دار تھے اور ان کے اندر رہتے ہوئے اور اپنی زندگی کا نیک پہلو دکھاتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے اپنی عمر بسر کی۔ مگر اس کے باوجود ان پر کوئی اثر نہ ہؤا ۔لیکن کیا رسول کریم ﷺ نے کبھی کہا کہ یہ لوگ تو سنتے ہی نہیں؟ دو سال ہو گئے، چار سال ہو گئے، دس سال ہو گئے، بیس سال ہو گئے۔ اب کب تک ان لوگوں کو ہم اپنی باتیں سناتے چلے جائیں۔ مکہ فتح ہؤا تو اس کے بعد بھی مخالف باقی رہے او ررسول کریم ﷺ ان کو برابر تبلیغ کرتے رہے۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو گو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں آپ پر ایمان لے آئے تھے مگر ان کا ایمان بہت بعد میں پختہ ہؤا۔ کسی کا ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور کسی کا عمرؓ اور عثمانؓ کے زمانہ میں ایمان پختہ ہؤا اور وہ صحیح معنوں میں مومن بنے۔پس ایمان کا دلوں میں پیدا ہونا ایک وقت چاہتا ہے۔ کیا وہ شخص عقلمند کہلا سکتا ہے جو بیج بوتے ہی یہ کہنے لگ جائے کہ مَیں نے تو بیج ضائع کر دیا۔ اس کو تو ابھی تک پھل نہیں لگا۔ جب لوگ بیج بونے کے بعد ایک عرصہ تک انتظار کرتے ہیں تو ہماری جماعت کے لوگ یہ کس طرح کہہ دیا کرتے ہیں کہ لوگ تو سنتے ہی نہیں۔ بات یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ان کا نفس تبلیغ کرنے سے گبھراتا ہے اور وہ آرام طلبی کی زندگی بسر کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اس لئے دو چار دن تبلیغ کرنے کے بعد تھک جاتے ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ اپنے نفس کو ملامت کریں وہ بہانہ یہ بناتے ہیں کہ لوگ سنتے نہیں حالانکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ لوگوں کو سنانے کی کوشش کی جائے اور وہ نہ سنیں۔ ان کو ہدایت کی راہ بتائی جائے اور وہ ہمیشہ انکار کرتے چلے جائیں۔ سو ائے ازلی شقی اور بد بخت لوگوں کے کہ جو دنیا میں بہت شاذ کے طور پر ہوتے ہیں۔اَور سب لوگ ہدایت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور ان میں صداقت کی جستجو ہوتی ہے۔ ورنہ اگر دنیا کی اکثریت ایسی ہو جو ہدایت پانے کے لئے تیار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنا نبی کیوں بھیجے۔ خدا تعالیٰ اپنا نبی اُسی وقت بھیجا کرتا ہے جب اُس کی طرف سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ لوگ ہدایت پائیں۔ پس مَیں تمہاری یہ بات کس طرح مان لوں کہ لوگ تمہاری باتوں کو نہیں سنتے۔ اصل بات یہ ہے کہ خود تم میں وہ روح نہیں جو دوسروں پر اثر ڈال سکے۔ تم میں وہ دیوانگی اور وہ جوش نہیں جس کے بعد انسان صبر سے بیٹھ ہی نہیں سکتا بلکہ وہ اٹھتے بیٹھتے تبلیغ کے لئے بیقرار رہتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے ایمان کے معاملہ پر اچھی طرح غور نہیں کیا۔ اگر وہ غور کرتی تو یقیناً اس کا عمل موجودہ عمل سے بالکل مختلف ہوتا۔ وہی لوگ جو یہ عذر کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم کیا تبلیغ کریں لوگ تو ہماری باتیں سنتے نہیں۔ اُنہی کو ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان کا لڑکا بیمار ہو تو دن اور رات اس کی تیمار داری میں لگے رہتے ہیں اور انہیں چین نہیں آتا جب تک وہ اچھا نہ ہو جائے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟ یہی کہ وہ بیماری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے بچے کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ اگر ایمان کی اہمیت کو بھی وہ سمجھتے،اگر کفر کی ہلاکت اور اس کی بربادی بھی ان کے دل کو دردمند کرتی تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ خاموش بیٹھے رہتے اور ان میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوتی۔ پیغامیوں کو کیوں ٹھوکر لگی؟ اِسی لئے کہ انہوں نے اِس مسئلہ کی اہمیت کو نہ سمجھا۔ انہوں نے خیال کر لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار معمولی بات ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ انہیں تبلیغ کی توفیق بھی نہیں ملتی کیونکہ ان میں یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارا بھائی کتنا بیمار ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی ہماری جماعت کو بھی اس کا پورا احساس نہیں۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں وقت سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور پھر ایک دفعہ اپنا سارا زور تبلیغ کے لئے صَرف کر دینا چاہئے۔ اب آپ لوگوں نے کافی آرام کر لیا ہے اوراب وقت ہے کہ دوبارہ تبلیغ پر زور دیا جائے۔ مگر اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب تک صحیح طور پر تبلیغ نہ کی جائے اُس وقت تک دوسروں پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ دوسروں پر اثر ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ تم پہلےا پنے اندر درد پیدا کرو اور اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو کبھی کبھار دنیا کو نصیب ہوتی ہے۔ جب تک تم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا اُس وقت تک تمہیں یہ شوق بھی نہیں ہو گا کہ تم احمدیت کی تعلیم لوگوں میں پھیلاؤ۔ لیکن جس دن تم نے احمدیت کی قدر و قیمت کو سمجھ لیا اس دن تم بے تاب ہو کر پھرو گے اور چاہوگے کہ اَور لوگ بھی دیکھیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ دنیا میں لوگ معمولی معمولی چیزیں جب تک دوسروں کو نہ دکھا لیں انہیں صبر نہیں آتا۔ اَور تو اَور لوگ حج کر کے آتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ حج کر چکے ہیں۔ اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے کا عادی ہو اور لوگ اس کے متعلق کہیں کہ وہ بڑا ذکر کرنے والا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ان کےا ندر یہ احساس ہے کہ اَور لوگ بھی اس نیکی کو دیکھیں اور اس کی نقل کر لیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان کے گھر پر جا کر چندہ مانگا جائے تو وہ پانچ دس روپے دے دیتے ہیں لیکن اگر مجلس میں ہنگامی طور پر چندہ طلب کیا جائے تو وہ ہزار ہزار روپیہ کا وعدہ کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کو خیال آتا ہے کہ اور لوگ بھی سنیں کہ ہم نے کیا کام کیا ہے۔ اگر دنیوی دولت کی نمائش کے لئے لوگ اتنا شوق رکھتے ہیں۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان روحانی دولت ملی ہو اور وہ اس بات کے لئے بے تاب نہ ہو کہ مَیں لوگوں میں پھروں اور انہیں بتاؤں کہ میرے پاس کتنی قیمتی چیز ہے۔ اگر وہ اس نعمت کا اظہار نہیں کرتا، اگر وہ لوگوں کو نہیں بتاتا کہ میرے پاس کتنی بڑی دولت ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اس کو دولت ہی نہیں سمجھتا۔ پس پہلے اپنے اندر احساس پیدا کرو ، اپنے اندر ایمان اور جوش پیدا کرو تاکہ تم دنیا کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ انعام دیا ہے جو دنیا میں شاذ و نادر ہی کسی کو ملا کرتا ہے۔ انبیاء کا زمانہ یا انبیاء کے قریب کا زمانہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازہ بتازہ نشانات ظاہر ہو رہے ہوں ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا۔ مگر خدا نے تم کو یہ زمانہ نصیب کیا ہے۔ اربوں ارب کی دنیا میں سے ہماری جماعت کے چند گنتی کے آدمی ہیں جن پر خدا تعالیٰ نے یہ مہربانی اور نوازش کی اور جنہیں اس انعام اور فضل کے لئے اس نے مخصوص کر لیا۔ پس ہماری جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا اظہار کرے اور دنیا کے ہر فرد کو بتائے کہ اس پر خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا انعام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۔5
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر جو انعامات نازل ہوں انہیں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو۔ یہ حکم ہے جو ہر مومن کو دیا گیا ہے اور جس کے بعد ہر مومن کا فرض ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی نعمت ملے اس کا لوگوں میں ذکر کیا کرے۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو اگر تمہیں کپڑا مل جائے تو تمہیں اس کا ذکر کرنا چاہئے، تمہیں روٹی مل جائے تو تمہیں اس کا ذکر کرنا چاہئے مگر تمہیں نبی مل جائے تو تمہیں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے؟ روپیہ اور کپڑے اور کھانا تو ایک مادی چیز ہیں جن کا جسمانی حیات کے ساتھ تعلق ہے لیکن نبوت ایک روحانی نعمت ہے جو انسان کی دنیوی اور اُخروی دونوں زندگیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اگر ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ کپڑے پر خدا کا شکر ادا کرے، اگر ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ روٹی ملنے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور لوگوں میں اس کا اظہار کرے تو نبی ملنے پر اُسے کس قدر بے تابی کے ساتھ اس نعمت کا اظہار کرنا چاہئے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو۔
جب رسول کریم ﷺ نے مکہ فتح کر لیا اور اس کے بعد بعض اَور جنگیں ہوئیں تو ایک جنگ کے بعد غنیمت کے وہ اموال جو آپؐ کو حاصل ہوئے تھے اُن کا کثیر حصہ رسول کریم ﷺ نے مکہ والوں میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ ایک ایک آدمی کو آپؐ نے دو دو تین تین سو اونٹ دے دئیے۔ جب رسول کریم ﷺ مالِ غنیمت تقسیم فرما چکے تو مدینہ کے بعض نوجوانوں کے دلوں پر یہ بات نہایت گراں گزری اور ان میں سے بعض نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور غنیمت کے اموال اور اونٹ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کو دے دئیے ہیں۔6 یہ بات رسول کریم ﷺ کو بھی پہنچ گئی۔ آپؐ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا۔ اے انصار! مَیں نے سنا ہے تم میں سے بعض نوجوانوں نے یہ بات کہی ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اونٹ اور غنیمت کے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دئیے ہیں۔ انصار نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ بات تو ٹھیک ہے مگر ہم میں سے بعض بیوقوف نوجوانوں نے کہی ہے۔ ہم اِس سے سخت بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔ بے شک تم نے یہ بات نہیں کہی مگر یہ ایک بات ہے جو کسی کے منہ سے نکل گئی اور اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) اکیلا تھا، اس کی قوم نے اس سے دشمنی کی، اس کے رشتہ داروں نے اس کی مخالفت کی، اس کے اہل بلدہ اس کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔جب اس کی قوم نے اسے دھتکار دیا، جب اس کے خاندان نے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا، جب اس کے رشتہ داروں نے اس کی مدد کا بیڑہ اٹھانے سے انکار کر دیا اور ہر ایک نے لعن طعن اور گالی گلوچ اور مار پیٹ سے کام لینا شروع کر دیاتو ہم نے مدینہ کے دروازے کھول دئیے۔ ہم اسے اپنے پاس لے گئے اور اس کی خدمت کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال وقف کر دئیے مگر اس کی قوم نے اس کا پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا اور مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تب ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کیں اور آخر وہ وقت آیا جب خدا نے اسے فتح دی اور اس کے دین کو تقویت بخشی۔ دشمن ہار گیا اور محمد ؐرسول اللہ فاتح اور کامیاب ہؤا۔ مگر جب دشمن ہار گیا تو محمد رسول اللہ (ﷺ) نے ہم کو تو خالی ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنی قوم کو مالِ غنیمت دے دیا۔7 فرمایا تم ایسا کہہ سکتے ہو اور ایک نقطۂ نگاہ یہ بھی ہے۔ انصار جنہوں نے اپنی زندگیاں محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں لگا دی تھیں یہ بات سن کر ان کی چیخیں نکل گئیں۔ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ مجلس میں کہرام مچ گیا۔ وہ روتے تھے اور چیخیں مار مار کر روتے تھے اور کہتے تھے یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم ایسا ہرگز نہیں کہتے، ہم اس نقطۂ نگاہ کو نہیں مانتے۔ یہ ہم میں سے بعض بیوقوفوں نے بات کہی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ اے انصار! مگر ایک اَور نقطۂ نگاہ بھی ہے۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں پیدا کیا، مکہ والے اس بات کے مستحق تھے کہ خدا نے انہیں جس نعمت سے نوازا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس برکت سے حصہ پائیں جو خدا نے اسلام کے ساتھ مخصوص کی ہے لیکن ان لوگوں نے وقت پر نہ پہچانا اور اسلام کی مخالفت اپنے انتہاء کو پہنچا دی۔ تب خدا اپنے رسول کو مدینہ میں لے گیا اور پھر خدا تعالیٰ نے ایسا فضل نازل فرمایا کہ دشمن زیر ہو گیا، اس کی طاقت ٹوٹ گئی، اس کی حشمت خاک میں مل گئی اور وہی مکہ جس سے اُسے نکالا گیا تھا اُس میں وہ فاتحانہ طور پر داخل ہؤا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے رعب اور اس کے جلال کو قائم کر دیا اور وہ اپنے دشمنوں پر غالب آ گیا تو مکہ والوں نے سمجھا کہ شاید ان کی کھوئی ہوئی عظمت ان کو پھر مل جائے گی، پھر خدا کا رسول ان کے وطن میں آ جائے گا اور وہ ان برکات کو حاصل کر سکیں گے جن سے وہ اپنی جہالت اورنادانی کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک محروم رہے تھے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو غلبہ عطا فرمایا تو مکہ والے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے ان میں سے انہیں صرف اتنا ہی حصہ ملا کہ وہ اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے گھروں کو لے گئے اور انصار خدا کے رسول کو دوبارہ مدینہ میں لے گئے۔8 انہوں نے پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!جو ناپسندیدہ بات آپؐ تک پہنچی ہے وہ ہم نے نہیں کی۔ بعض بیوقوف نوجوانوں کے منہ سے یہ بات نکل گئی ہے۔ ہم آپؐ کے ہر فعل کو جائز اور درست سمجھتے ہیں۔ تو دیکھو رسول کریم ﷺ نے مقابلہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ خدا کے رسول کے مقابلہ میں اونٹوں کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے کہ ان کا ذکر کیا جائے۔
اِسی طرح وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کا کیا صرف یہی مفہوم ہے کہ ہم اپنے کھانے اور پینے اور اپنے کپڑوں کی نمائش کریں؟ کیا کھانے اور پہننے کی چیزیں خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت رکھتی ہیں؟ اگر رکھتی ہیں تو انصار کے نوجوانوں کا اعتراض صحیح تھا کہ اونٹ تو مکہ والے لے گئے ہیں ہمیں کیا ملا؟ لیکن اگر یہ چیزیں خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں دین ملے تو تم چُپ کر کے نہ بیٹھ رہو بلکہ بےاختیار ہر ایک کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ خدا نے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ہے تم بھی اس نعمت سے حصہ لو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورِد بنو۔ جب تک یہ جذبہ اور یہ ولولہ دل میں پیدا نہ ہو اس وقت تک ایمان کے درست ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ایمان کی درستی کا سب سے بڑا ثبوت اور سب سے بڑا نشان یہی ہؤا کرتا ہے کہ دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہوتی ہے اور انسانی قلب میں یہ ولولہ موجزن ہوتا ہے کہ مَیں ایک ایک فرد تک خدا تعالیٰ کی آواز پہنچاؤں اور اسے بھی اس نعمت کا حصہ دار بناؤں۔ محض عقیدہ رکھنے سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ انسان کے دل میں بھی سچی محبت ہے کیونکہ بعض دفعہ بڑے بڑے دعویٰ کرنے والے لوگ عین وقت پر پھسل جاتے ہیں اور اس وقت ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط تھا کہ انہیں سچی محبت اور سچا عشق ہے۔
فارسی کی ایک حکایت ہے کہ ایک عورت جس کا نام میستی تھا، اس کی بیٹی بیمار ہو گئی اور روز بروز اس کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔ وہ روزانہ رات کو اٹھ کر اس کے لئے دعائیں کیا کرتی مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کی بیماری کسی طرح کم ہونے میں نہیں آ رہی اور موت قریب آ رہی ہے تو اس نے یہ دعائیں مانگنی شروع کر دیں کہ خدایا ! تُو نے اگر مارنا ہی ہے تو مجھے مار دے، میری بیٹی کو کچھ نہ کہہ۔ وہ روزانہ ایسا ہی کرتی اور روزانہ یہ دعائیں کرتی کہ خدایا! مَلکُ الْموت آئے تو میری طرف آئے، میری بیٹی کی طرف نہ جائے۔ اتفاقاً ایک رات اس کی گائے کھلی رہ گئی اور اس نے صحن میں اِدھر اُدھر چکر کاٹنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ گھڑے میں بھوسہ پڑا تھا۔ اس نے بھوسہ کھانے کے لئے گھڑے میں منہ ڈال دیا مگر جب سر نکالنے لگی تو سر پھنس گیا اور نکل نہ سکا۔ گائے کے لئے چونکہ یہ بالکل الگ بات تھی وہ گھبرا گئی اور اسی گھبراہٹ میں اس نے سر اٹھایا تو گھڑا بھی ساتھ ہی اٹھ آیا اور اس نے اِدھر اُدھر دوڑنا شروع کر دیا۔ شور کی آواز سن کر اس عورت کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جب دیکھا کہ رات کے وقت ایک چیز صحن میں پھر رہی ہے، اُس کا سر بہت بڑا ہے تو اس نے خیال کیا کہ وہ جو مَیں رات بھر دعائیں کیا کرتی تھی کہ خدایا! عزرائیل میری جان قبض کر لے وہ دعا قبول ہو گئی ہے اور یہ عزرائیل میری جان نکالنے کے لئے آ رہا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے ہوش اُڑ گئے اور اس نے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؂
ملک الموت من نہ میستی ام من یکے پیر زال محنتی ام
ملک الموت مَیں میستی نہیں۔ وہ میستی جو روزانہ دعائیں کیا کرتی تھی وہ اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی کہ وہ لیٹی ہے۔ اگر جان نکالنی ہے تو اس کی نکال لے۔ اب دیکھو وہ راتوں کو دعائیں بھی کرتی تھی، گریہ زاری بھی کرتی تھی، یہ بھی کہتی تھی آ عزرائیل! میری جان نکال لے، میری بیٹی کی نہ نکالے۔ مگر اسے اپنے دل کا حال معلوم نہیں تھا کہ اس میں بیٹی کی کتنی محبت ہے۔ اسی طرح ہزاروں ہزار انسان ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں ایمان ہے مگر درحقیقت ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہوتا۔ پھر ایمان کی شناخت کا کیا ذریعہ ہے؟ ایمان کی شناخت اُس کی علامات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اور ایمان کی شناخت کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان دیوانہ وار دوسروں کو بھی ایمان کے حصہ میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ احمدیت سچی ہے اس لئے میرا ایمان بھی پختہ ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کےا یمان کا پھل کیا پیدا ہؤا ہے۔ وہ نادان اور احمق انسان میستی کی طرح ایک خیالی جنت میں آباد ہوتا ہے۔ اس کا ایمان محض وہم اور اس کا ظاہر محض ملمع ہوتا ہے۔ اگر واقع میں اُس کے دل کے اندر ایمان ہوتا تو وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کے ماتحت وہ پاگل ہو کر چاروں طرف دوڑتا پھرتا اور لوگوں کو بتاتا کہ اسے کتنی بڑی دولت ملی ہے۔ کتنی بڑی نعمت ہے جس سے لوگ محروم ہو رہے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو تبلیغ پر بے انتہا زور دینا چاہئے۔ جب تک ہماری جماعت کے افراد میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تم یقین کر لو کہ اس وقت تک ان کا ایمان بھی پختہ نہیں ہوسکتا۔ تم میں سے جتنا کسی شخص کے دل میں یہ جذبہ موجود ہے کہ احمدیت جلد سے جلد پھیلے اور جس قدر زیادہ کوششیں وہ اس غرض کے لئے کرتا ہے اُتنا ہی اس کا ایمان پختہ ہے اور جتنی اس جذبہ میں کمی ہے اتنی ہی اس کے ایمان میں کمی ہے۔ مگر جذبہ سے میری مراد محض خیالات یا خواہشات نہیں بلکہ جذبہ سے میری مراد عملی کوشش ہے۔ اگر ہماری جماعت کے افراد رات اور دن دیوانوں کی طرح دین پھیلانے کے لئےمشغول رہتے ہیں، اگر وہ دفتر کا بھی کام کرتے ہیں تو دفتر سے فارغ ہوتے ہی کہتے ہیں ہم نے دنیا کا کام کر لیا آؤ اب ہم دین کا کام کریں اور وہ تبلیغ میں مشغول ہو جاتے ہیں، اگر وہ دکان پر کام کرتے ہیں تو دکان سے واپس آتے ہی کہتے ہیں چھ سات گھنٹے ہم نے دنیا کا کام کر لیا آؤ اب خدا کا نام بلند کریں او رلوگوں کوتبلیغ کریں، اگر وہ دس گیارہ مہینے مسلسل دنیوی مشاغل میں مشغول رہتے ہیں تو کہتے ہیں گیارہ ماہ تو ہم نے دنیا کے لئے صَرف کر دئے آؤ اب ایک ماہ ہم دین کے لئے وقف کر دیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تب تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کا ایمان سلامت ہے۔ لیکن اگر اس قربانی کا ان میں احساس نہیں، اگر تبلیغ کا نام سن کر وہ ڈر جاتے ہیں او رخیال کرتے ہیں کہ اگر ہم تبلیغ کے لئے گئے تو ہماری تجارتیں ٹوٹ جائیں گی، ہماری نوکریاں جاتی رہیں گی، ہماری آمدنیوں میں کمی واقع ہوجائے گی تو پھر انہیں یاد رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے اندر کوئی ایمان نہیں۔ پس یاد رکھو! جب تک تم دیوانہ وار تبلیغ میں مشغول نہیں ہو جاتے، جب تک تم رات اور دن اس کام میں مصروف نہیں رہتے اُس وقت تک تم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ بات مَیں نے تمہیں بتائی اور بار بار بتائی ہے اور پھر بھی بتاتا چلا جاؤں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک تم میں یہ احساس کامل طور پر پیدا نہ ہو جائے کہ تمہاری کیا ذمہ داری ہے اور تمہیں کس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ یا یہی کام کرتے کرتے مر جاؤں گا۔ مَیں آج تمہیں پھر بتاتا ہوں کہ جب تک تم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے، جب تک تم دیوانہ وار تبلیغ میں مصروف نہیں ہو جاتے اُس وقت تک تمہارا تمام جوش ناقص ہے اور ناقص جوش کبھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتا۔ پس ہر جماعت کے دوستوں کو چاہئے وہ اپنی تنظیم کریں۔ لوگوں سے وقفِ اوقات کا مطالبہ کریں او رپھر وقف کرنے والوں کو ایک نظام کے ماتحت پوری باقاعدگی کے ساتھ تبلیغ کے کام پر لگائیں۔ اور اس امر کی نگرانی رکھیں کہ وہ صحیح طور پر کام کرتے ہیں یا نہیں اور ان کے کام کے کیا نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔
مَیں نے گزشتہ دنوں تحریک کی تھی کہ قادیان کے دوست تبلیغ کے لئے ایک ایک ماہ وقف کریں۔ جب مَیں دہلی روانہ ہونے لگا تو اس وقت مجھے رپورٹ ملی تھی کہ ہم نے فلاں فلاں علاقہ کے لئے فلاں فلاں آدمی مقرر کر دئے ہیں مگر مَیں نے تو ان آدمیوں کو قادیان آ کر بھی قادیان میں پھرتے دیکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی وجہ سے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ اَور آدمی مقرر کر دئے گئے ہیں اور یا پھر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ اگر ان کی جگہ اَور آدمی مقرر کئے گئے تھے تو میرے پاس رپورٹ آنی چاہئے تھی اور مجھے بتانا چاہئے تھا کہ پہلے ہم نے یہ انتظام کیا تھا اب ہم نے فلاں فلاں وجوہ سے اُس میں یہ تبدیلی کی ہے۔ مگر میرے پاس کوئی رپورٹ نہیں آئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کا کام لینے والے بھی اپنے دلوں میں پورا جوش نہیں رکھتے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ ایسے اہم کام کی طرف توجہ نہ کرتے۔ ان کا اس کام کی طرف توجہ نہ کرنا ،مجھے اپنے حالات نہ بتانا اور اپنے کام کی باقاعدہ رپورٹ نہ بھجوانا بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ ایک خطرناک مرض ہے جو ہماری جماعت کے بعض افراد میں پیدا ہو رہا ہے کہ جب ان میں سے کسی کو کسی کام پر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے اب میرے لئے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں۔ مَیں خود اس کام کا اہل ہوں اور جس طرح چاہوں اس کام کو چلا سکتا ہوں۔ حالانکہ وہ صرف ایک حد تک اہل ہوتا ہے کُلّی طور پر اہل نہیں ہوتا۔ اور کُلّی طور پر اہل نہیں ہو سکتا جب تک وہ مرکز سے اپنا تعلق نہیں رکھتا، مرکز سے مدد نہیں مانگتا اور مرکز کو اپنے حالات کی پوری باقاعدگی سے اطلاع نہیں دیتا۔ صوبیدار کئی سپاہیوں پر افسر ہوتا ہے مگر کیا کبھی اکیلا صوبیدار لڑائی لڑ سکتا ہے؟پھر لفٹنٹ کئی صوبیداروں پر افسر ہوتا ہے مگر کیا اکیلا لفٹنٹ لڑائی کر سکتا ہے؟ پھر کپتان کئی لفٹنٹوں پر افسر ہوتا ہے مگر کیا اکیلا کپتان بھی لڑائی کر سکتا ہے؟ پھر کپتان سے اوپر میجر اور کرنل ہوتے ہیں مگر کیا میجر اور کرنل بھی اکیلے لڑ سکتے ہیں؟ وہ اُس وقت تک دشمن سے لڑ نہیں سکتے جب تک مرکز کو اپنے حالات کی اطلاع نہ دیں اور مرکز ان کی رہنمائی نہ کرے۔ اس کے بعد کمانڈر انچیف ہوتا ہے مگر کیا کمانڈر انچیف بھی مرکز کی راہنمائی سے مستغنی ہوتا ہے؟ وہ بھی لڑائی نہیں کر سکتا جب تک وزیر جنگ سے مشورہ نہ لے اور اس کی ہدایات پر عمل نہ کرے۔ غرض ہر جگہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ مرکز کو باخبر رکھا جائے۔ مرکز میں باقاعدہ رپورٹیں ارسال کی جائیں، مرکز سے ہدایات حاصل کی جائیں اور مرکز کے مشوروں کے مطابق کام کیا جائے۔ مگر ہماری جماعت کے بعض افراد میں یہ نہایت خطرناک نقص پیدا ہو چکا ہے کہ جب کوئی کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم کسی کے مشورہ کے محتاج نہیں۔ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں حالانکہ ان کی عقل ناقص ہوتی ہے، ان کا تجربہ ناقص ہوتا ہے، ان کا علم ناقص ہوتا ہے، ان کا عمل ناقص ہوتا ہے اور وہ مرکز کے مشورے اور اس کی مدد کے بغیر ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے درخت سے کٹی ہوئی شاخ۔ مگر وہ اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے اور اپنے زعم میں یہ کہتے ہیں کہ ہم سے بڑھ کر اس کام کا کون اہل ہے۔ اب ہمیں مرکز کی راہنمائی کی ضرورت نہیں۔ یہ مرض اِس قدر بڑھا ہؤا ہے کہ بعض مبلغ بھیجے جاتے ہیں تو وہ دو دو تین تین ماہ بلکہ سال سال بھر خاموش رہتے ہیں اور اپنے اپنے ناقص دماغ کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں حالانکہ اگر وہ سب کچھ کر سکتے تو خدا نے ان کو کیوں خلیفہ نہ بنایا۔ پھر تو چاہئے تھا وہ خلیفہ بنتے، مَیں خلیفہ نہ بنتا۔ پس ان کا اپنے کام کی رپورٹ نہ بھجوانا اس بات کی علامت نہیں ہوتی کہ ان میں عقل ہے بلکہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کی عقل کا خانہ بالکل خالی ہے اور وہ اتنی معمولی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہم کو ایک چھوٹی سی اینٹ بنایا ہے، مکان نہیں بنایا۔ مگر کیسے تعجب کی بات ہے ایک اینٹ تو سمجھتی ہے کہ وہ اینٹ ہے، ایک پتہ تو سمجھتا ہے کہ وہ پتہ ہے، ایک پھل توسمجھتا ہے کہ وہ پھل ہے، ایک بیج تو سمجھتا ہے کہ وہ بیج ہے مگر ہمارا مبلغ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ مَیں ایک بیج ہوں لاکھوں بیجوں میں سے، مَیں ایک دانہ ہوں کروڑوں دانوں میں سے، مَیں ایک پتہ ہوں کروڑوں پتوں میں سے، مَیں ایک پھل ہوں کروڑوں پھلوں میں سے۔ ایک پھل درخت کا قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ نہ ایک دانہ کھیتی کا قائمقام ہو سکتا ہے۔ مگر جہالت اور نادانی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت جو ایک جاہل اور اَن پڑھ صوبیدار جانتا ہے ہمارا مبلغ اس کو نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے مقام کو شناخت نہیں کرتا اورمرکز سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ یہ ایک مرض ہے جو ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ جب اُنہیں کسی کام پر مقرر کیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کو بھی برباد کرتے ہیں اور سلسلہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں او رپھر اپنے حالات سے مرکز کو باخبر نہ رکھنے کی وجہ سے مرکز سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور ایسے بھی ہو جاتے ہیں جیسے غیر احمدی۔ کیونکہ وہ شاخ جس کا اپنے درخت سے تعلق ہے وہی سرسبز رہ سکتی ہے خواہ وہ کس قدر کمزور اور ناطاقت کیوں نہ ہو۔ لیکن ایک شاخ خواہ کس قدر سرسبز اور مضبوط ہو ، تم اسے درخت سے کاٹ کر پھینک دو وہ دو چار دن میں سوکھ کر کانٹا ہو جائے گی اور اس کی تمام سرسبزی اور تمام شادابی اور تمام لطافت جاتی رہے گی۔ پس مَیں سمجھتا ہوں کام لینے والوں میں بھی ابھی یہ احساس پیدا نہیں ہؤا کہ وہ بیداری سے کام لیویں اور پھر کام کرنے والوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا پوری طرح احساس نہیں۔ دونوں طرف غفلت طاری ہے اور اس غفلت کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے۔
اِس موقع پر مَیں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی تنظیم کریں۔ اور تنظیم کے معنے یہ ہیں کہ وہ باقاعدہ اور بار بار مرکز میں اپنی رپورٹیں بھیجیں اور ہم سے اپنی مشکلات میں مشورہ حاصل کریں۔ جب تک وہ بار بار مرکز کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور جب تک بار بار ہم سے مشورہ نہیں لیں گے اُس وقت تک اُن کے کام میں کبھی برکت پیدا نہیں ہو سکتی۔ آخر خدا نے ان کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ نہیں دی میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ دی ہے۔ انہیں خدا نے خلیفہ نہیں بنایا مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور جب خدا نے اپنی مرضی بتانی ہوتی ہے تو مجھے بتاتا ہے اُنہیں نہیں بتاتا۔ پس تم مرکز سے الگ ہو کر کیا کر سکتے ہو۔ جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے، جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے، جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو۔ اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہو گی اور اس سے جس قدر دور رہو گے، اسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہو گی۔ جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کےساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اِسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو، وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کام کر سکتا ہے۔ پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے اپنی تنظیم کرنی چاہئے اور مرکز سے تعلق رکھ کر باقاعدہ اپنی رپورٹیں بھجوانی چاہئیں اور بار بار مشورہ حاصل کرنا چاہئے۔ جب تک ہر احمدی کو ہم تبلیغ کے کام پر نہیں لگا دیتے، جب تک ہر احمدی کچھ نہ کچھ وقت تبلیغ کے لئے نہیں دیتا، جب تک تم میں سے ہر شخص تبلیغ کے لئے بےقرار ہو کر نہیں پھرتا اُس وقت تک ہم میں مداہنت اور منافقت باقی رہے گی اور اس وقت تک بے ایمان اور کمزور لوگ ہم میں پیدا ہوتے رہیں گے۔ او رجب تک کسی جماعت میں بےایمان لوگوں کا پیدا ہونا بند نہ ہو اُس وقت تک وہ جماعت خطرے سے باہر نہیں ہو سکتی۔ آخر ایک مبلغ یہ کس طرح خیال کر لیتا ہے کہ جو کام خلیفۂ وقت کر سکتا ہے وہی کام وہ بھی سر انجام دے سکتا ہے۔ بسااوقات لوگوں سے کام لینے کے لئے روحانی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات جسمانی اور نظامی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ طاقت ایک مبلغ کو کہاں حاصل ہے۔ وہ تو جماعت کے لاکھوں افراد میں سے ایک فرد ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر وہ بنی بنائی چیز لے کر بیٹھ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب مجھے کسی اَور کی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اسے ضرورت ہو گی لوگوں کے تعاون کی، اسے ضرورت ہو گی مشکلات میں صحیح مشورہ حاصل کرنے کی، اُسے ضرورت ہو گی اپنے کام کو وسیع کرنے کی، اسے ضرورت ہو گی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی۔ اور یہ چیزیں اسے حاصل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ بار بار اور بار بار مرکز کو اپنے حالات نہیں بتاتا او ربار بار اس کی راہنمائی حاصل نہیں کرتا۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میرا لیمپ روشن ہے مجھے کسی سے تیل لینے کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ تمہارا بلب خواہ کس قدر روشن ہو۔ اگر اس کا سوئچ دبا دیا جائے یعنی اس کا مرکز سے تعلق کٹ جائے تو اس کی تمام روشنی ایک آن میں جاتی رہے گی اور اُس وقت تک روشنی اس میں واپس نہیں آئے گی جب تک اُس کا مرکز سے تعلق قائم نہیں ہو جاتا۔ پس تمہارا یہ کام نہیں کہ تم اس امر کی طرف نگاہ رکھو کہ تمہارا بلب کتنا روشن ہے بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم ہر وقت دیکھتے رہو کہ تمہار ابجلی کے مرکز سے کتنا تعلق ہے۔ اگر تمہارا مرکز سے تعلق قائم نہ رہا تو بلب چاہے کتنی پاور کا ہو وہ کبھی روشن نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح اگر اپنی لالٹین میں تیل ڈلوا کر کوئی شخص سمجھتاہے کہ اب یہ تیل ہمیشہ کے لئے کام آئے گا تو یہ اس کی نادانی اور حماقت ہو گی۔ اگر آج اسے تیل کی ضرورت نہیں تو کل اسے ضرورت محسوس ہو گی اور وہ اس بات کا محتاج ہو گا کہ تیل والے کے پاس جائے اور اس سے تیل کے لئے التجا کرے۔ اگر وہ تیل والے کے پاس نہیں جائے گا تو لالٹین کے ہوتے ہوئے وہ اندھیرے میں رہے گا۔ یہی اصول روحانی دنیا میں جاری ہے مگر ہمارے مبلغ اور سیکرٹری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی لالٹینوں میں ایک دفعہ تیل ڈلوا لیا ہے تو وہ تیل ان کے لئے ہمیشہ کام آئے گا حالانکہ جب تک وہ بار بار تیل نہیں ڈلوائیں گے ان کے لیمپ روشن نہیں رہ سکیں گے۔ اول تو روحانی لیمپ تیل کی موجودگی میں بھی بجھ جاتے ہیں۔ اگر مرکزِ روحانی سے انسان کا تعلق نہ ہو۔ لیکن بفرضِ محال اگر لیمپ جَلا بھی تو کتنی دیر جلے گا۔ اس کا جلنا بہرحال عارضی ہو گا اور دو چارگھنٹوں یا دس بارہ گھنٹوں کے بعد جب تیل ختم ہو جائے گا اُس کے لئےسوائے اندھیرے اور تاریکی کے اَور کچھ نہیں ہو گا۔ پس جماعتوں کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ انہیں خدا نے کس غرض کے لئے قائم کیا ہے اور سیکرٹریوں کو باربار قادیان آنا چاہئے او ربار بار ناظر دعوة یا وکیل التبشیر یا مجھ سے مشورہ حاصل کرنا چاہئے۔ او رایک ایک مشکل ہمارے سامنے پیش کر کے اس کا حل تجویز کرانا چاہئے۔
جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت نے وہ طریقۂ تبلیغ چھوڑ دیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا تھا۔ آپ ہی آپ ایک نئی شاہراہ اختیار کر لی ہے اور یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ فلاں طریقِ تبلیغ زیادہ مفید ہے۔ حالانکہ بسا اوقات معترض بات کچھ اَور کرتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی اَور بات ہوتی ہے۔ یہ ظاہری بات کا جواب دے دیتا ہے اور جو پیچھے اصل محرک کام کر رہا ہوتا ہے اس کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ پھنس جاتا ہے اور دشمن کو ہنسی کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر وہی طریق اختیار کیاجائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اختیار کیا تھا تو یہ مشکلات پیش نہ آئیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زمانہ کے حالات کے مطابق بعض دفعہ تبلیغ کے طریقوں میں بھی تبدیلی کرنی پڑتی ہے مگر میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو طریق اختیار کیاتھا وہ اب بھی ضروری ہے اور اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ وفاتِ مسیح ؑ وغیرہ مسائل کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے اور یہ نہیں سمجھا جاتا کہ دشمن ہمیں گھسیٹ کر اپنے میدان میں لے گیا ہے اور یہ ہمارے لئے نہایت خطرناک بات ہے۔ کامیاب جرنیل ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو دشمن کو اپنے میدان میں لاتا ہے۔ چنانچہ جنگوں میں عام طریق یہی ہوتا ہے کہ زمین میں سرنگیں بچھا دی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن اس طرف آ جائے۔ جب دشمن وہاں پہنچتا ہے تو سرنگیں اُڑا دی جاتی ہیں اور دشمن تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ہوشیار دشمن بجائے دوسرے کی بچھائی ہوئی سرنگوں میں جانے کے کوشش کرتا ہے کہ اس کو اپنے میدان میں لے آئے اور اسے تباہ کر دے۔ اس قسم کی غلطیاں جو تبلیغ میں ہو رہی ہیں اِسی لئے ہو رہی ہیں کہ جماعتیں ہم سے بار بار مشورہ نہیں لیتیں، ہمارے سامنے اپنے حالات نہیں رکھتیں اور ہماری ہدایت اور راہ نمائی کے ماتحت کام نہیں کرتیں۔ اگر باقاعدہ بحث مباحثہ اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا جائے تو خود بخود صحیح راستے نکلتے چلے آئیں اور مشکلات کا پیدا ہونا بہت ہی کم ہوجائے۔ پھر سب جگہوں کے حالات ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور نہ ہر علاقہ میں ایک جیسا طریق مفید ہوسکتا ہے۔ کسی علاقہ میں کوئی ذریعہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور کسی علاقہ میں کوئی۔ پھر مبلغ کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اَور رنگ میں تبلیغ کرے، ہندوؤں کو اَور رنگ میں تبلیغ کرے، عیسائیوں کو اَور رنگ میں تبلیغ کرے۔ اور بعض جگہ ایسے مشترک طریق سوچے جن سے بیک وقت ہندوؤں میں بھی تبلیغ ہو سکتی ہو، مسلمانوں میں بھی تبلیغ ہو سکتی ہو، عیسائیوں میں بھی تبلیغ ہو سکتی ہو۔ مگر یہ ساری چیزیں ایک ماہرِ فن سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اپنے طور پر کوئی شخص یہ باتیں نہیں نکال سکتا کیونکہ ہر انسان ماہر فن نہیں ہوتا۔ یوں ڈاکٹر دنیا میں ہزاروں موجود ہیں مگر کیا ہر ڈاکٹر ماہر ِفن ہوتا ہے؟ ایسے بھی ڈاکٹر ہیں جو صرف معمولی مرضوں کا علاج کرنا جانتے ہیں۔ جب مرض بڑھ جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ضلع میں جاؤ۔ وہاں کے ڈاکٹر ناکام ہوتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ لاہور جاؤ۔ لاہور میں علاج نہیں ہو سکتا تو کہہ دیتے ہیں کہ بمبئی یا کلکتہ جاؤ۔ بمبئی اور کلکتہ میں بھی علاج نہیں ہو سکتا تو کہتے ہیں کہ ولایت جاؤ یا امریکہ جاؤ۔ ممکن ہے وہاں کے ڈاکٹر اس مرض کا علاج کر سکیں۔ اگر کتاب پڑھ کے ہی ہر شخص علاج کر سکتا تو پھر کسی مریض کو ضلع کے صدر مقام میں اور پھر لاہور اور بمبئی اور کلکتہ اور یورپ اور امریکہ میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ضرورت اِسی لئے پیش آتی ہے کہ ڈاکٹر تو بہت ہوتے ہیں مگر ماہر ِفن ڈاکٹر بہت کم ہوتے ہیں۔ اسی طرح محض عالم ہو جانے یا محض مبلغ ہوجانے کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنے فن کی تمام باریکیوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر ہونے کے یہ معنے نہیں کہ وہ ڈاکٹری کی تمام باریکیوں کو سمجھنے لگ گیا ہے۔ دنیا میں ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو نزلہ اور زکام کا بھی علاج کرنا نہیں جانتے اور ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو معدہ اور جگر اور دل چِیر پھاڑ کر پھر ان کو اصل مقام پر رکھ دیتے ہیں اور انسان تندرست ہو کر چلنے پھرنے لگ جاتا ہے۔ پس محض عالم یا محض مبلغ ہونے اور ایک ماہرِ فن ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ پس مبلغوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ بے شک وہ عالم ہیں مگر مَیں ان سے کہتا ہوں‘‘ ایاز قدرے خود بشناس ’’۔ تمہارے مبلغ بن جانے کے یہ معنے نہیں کہ تم فن کی تمام باریکیوں سے واقف ہو گئے ہو اور اب تم دوسرے کے مشورہ کے محتاج نہیں رہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر ہماری جماعت کے افراد میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ جب ان میں سے کسی کو مبلغ یا کسی محکمہ کا انچارج بنا دیا جاتا ہے تو بجائے اپنی کمزوری محسوس کر کے انابت اور استغفار کرنے کے وہ مغرور ہو جاتا ہے اور اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ مرکز کو رپورٹ بھجوائے اور مرکز سے ہدایات حاصل کرے۔ حالانکہ اس کو ایک جگہ کا مبلغ یا انچارج بنانے کے صرف اِتنے معنے ہوتے ہیں کہ وہ اس جگہ کے حالات کے متعلق مرکز سے مدد حاصل کرے اور جو بھی کام کرے مرکز کے مشورہ اور اس کی ہدایات کے ماتحت کرے۔ مگر بجائے اِس کے کہ وہ مرکز سے مشورہ حاصل کر کے اپنے کاموں میں برکت پیدا کریں وہ من مانی کارروائیاں کر کے سلسلہ کو نقصان پہنچاتے اور اپنے ایمان کو بھی برباد کرتے ہیں۔ اِسی طرح مَیں بیرونی جماعتوں کے سیکرٹریانِ تبلیغ کو بھی انتباہ کرتا ہوں کہ ان کا صرف یہ کام نہیں کہ تبلیغ کریں یا دوسروں سے تبلیغ کا کام لیں بلکہ اُن کا یہ بھی کام ہے کہ وہ بار بار اپنی مشکلات پیش کر کے ہم سے مشورہ حاصل کریں۔ اس غرض کے لئے انہیں بار بار قادیان آنا چاہئے اور بار بار مجھ سے ملنا چاہئے۔ مگر مَیں نے دیکھا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی ذمہ داری سمجھیں وہ سال سال دو دو سال خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور پوچھا جائے تو شکوہ کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں، ہمارے علاقہ میں تو مبلغ آتے ہی نہیں۔ حالانکہ اگر ان کے سینہ میں اسلام کا درد ہوتا۔ اگر ان کے دل میں اسلام کا دکھ ہوتا، اگر ان کے اندر یہ جنون کام کر رہا ہوتا کہ ہم نے دنیا کو ہدایت کی طرف لانا ہے تو وہ گھروں میں کیوں بیٹھے رہتے ۔ وہ قادیان آتے، ہم سے ملتے، اپنی مشکلات پیش کرتے، ہماری ہدایات سنتے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے۔مگر پوچھنے پر ہمیشہ وہ عذر کر دیا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہماری طرف تو کسی نے توجہ ہی نہیں کی۔ اگر تمہاری طرف کسی نے توجہ نہیں کی تھی تو کیا تمہارا یہ کام نہیں تھا کہ تم خود دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرو؟ کیا جب کسی شخص کو درد گردہ ہو رہا ہو تو اُسے یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تمہیں گردہ کا درد ہے۔ کیا کسی کی آنکھ میں درد ہو تو اسے یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تمہاری آنکھ بیمار ہے؟ کیا کسی کے پیٹ میں درد ہو تو اسے یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ وہ خود بخود درد سے بیقرار پھر رہا ہوتا ہے اور یہ ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ اسے کوئی یاد دلائے۔ اور اگر وہ ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اسے درد نہیں اور اس کا یہ خیال کہ اسے درد ہے ایک بے معنی بات ہے۔ اِسی طرح اگر تمہارے دلوں میں بھی اسلام کا درد ہوتا تو کیا تمہاری یہی حالت ہوتی؟ یہ تو درد کے نہ ہونے کی علامت ہے کہ تم دو دو سال تک خاموش بیٹھے رہتے ہو اور تمہارے اندر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ تمہارے اندر اسلام کا درد نہیں۔ تمہارے اندر اسلام کا دکھ کوئی دکھ پیدا نہیں کرتا۔ افیونی کی طرح دو تین سال کے بعد تم آنکھ اُٹھا کر کہہ دیتے ہو کہ ہمارے علاقہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ تمہارے علاقہ کی طرف کون توجہ کرے جبکہ خود تمہیں اپنے علاقہ کی اصلاح کا احساس نہیں۔ اگر تمہیں اپنی اصلاح کا آپ خیال ہوتا تو کیا تم اسی طرح بیٹھے رہتے؟ تم رو رو کر مر نہ جاتے کہ ہمار ابرا حال ہو رہا ہے اور ہمیں کوئی پوچھ نہیں رہا۔ کیا ایسی حالت میں تم قادیان آ کر بیٹھ نہ جاتے اور تم یہ نہ کہتے کہ ہم یہاں سے ہلیں گے نہیں جب تک ہماری طرف توجہ نہ کی جائے۔
تمہاری حالت تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے قصہ مشہور ہے کہ ایک سپاہی چھٹی سے واپس جا رہا تھا کہ راہ چلتے اُس کے کانوں میں آواز آئی۔ میاں سپاہی! میاں سپاہی! خدا کے لئے بات سننا بڑا ضروری کام ہے۔ وہ سو دو سو گز پرے جا رہا تھا۔ اُس نے جب یہ آواز سُنی تو وہ رستہ چھوڑ کر گیا کہ دیکھے کیا بات ہے۔ جب وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک نے سپاہی کو مخاطب کر کے کہا۔ میاں سپاہی! مَیں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ میری چھاتی پر جو بیر پڑا ہے اسے اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو۔ سپاہی کو یہ سن کر سخت غصہ آیا۔ سپاہیوں کے اخلاق یوں بھی حکومت کی وجہ سے گر جاتے ہیں۔ وہ گالیاں دے کر کہنے لگا بیوقوف! مَیں نہایت ضروری کام کے لئے جا رہا تھا ۔ کیا تجھ سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ہاتھ سے بیر اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا؟ جب اس نے یہ بات کہی تو اس کا دوسرا ساتھی جو لیٹا ہؤا تھا اس نے کہا میاں سپاہی! جانے بھی دو یہ بھی کوئی انسان ہے، ساری رات کُتّا میرا منہ چاٹتا رہا مگر اس کمبخت سے اِتنا بھی نہ ہو سکا کہ اُسے ہشت ہی کر دے۔ یہی اِن لوگوں کا حال ہے۔ کہتے ہیں دو سال سے ہماری طرف کوئی آدمی نہیں آیا۔ اگر دو سال سے تمہاری طرف کوئی آدمی نہیں گیا تھا تو تم خود قادیان کیوں نہ آ گئے۔ تمہار اچُپ کر جانا اور تمہارا اس کے بعد کوئی حرکت نہ کرنا بتاتا ہے کہ تم مُردہ ہو اور جو خود مُردہ ہو وہ دوسروں پر کیا الزام عائد کر سکتا ہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرے ورنہ مُردے دنیا میں کام نہیں کیا کرتے۔ اگر وہ مُردہ بن گئے تو اللہ تعالیٰ بھی اُن سے اپنی مدد چھین لے گا اور کہے گا کہ اگر تم مرتے ہو تو مر جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں تبھی زندہ کرے گا جب تم خود زندہ ہونے کے لئے بیتاب ہو گے۔ ’’ (الفضل 20 نومبر 1946ء)
1،2: السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 106 مطبوعہ مصر 1935ء
3:مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ حنین
4: السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 127،128 مطبوعہ مصر 1935ء
5: الضُّحٰی: 12
6 تا 8: بخاری کتاب المَغَازِی باب غَزْوَة الطَّائِف (الخ)



41
مسلمانوں کو فتنہ و فساد سے بچنا چاہئے
( فرمودہ 8 نومبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میری طبیعت تو چند روز سے علیل ہے لیکن مَیں اپنے نفس پر جبر کر کے جمعہ پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں۔ مجھے کئی دنوں سے پیچش کی تکلیف ہے۔ یوں اسے پورے طور پر پیچش بھی نہیں کہا جا سکتابلکہ وہ ایک نئی طرز کی بیماری معلوم ہوتی ہے اور عام طور پر دوسرے لوگ بھی شکایت کرتے ہیں کہ انہیں یہ تکلیف ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ تکلیف وبائی رنگ اختیار کر گئی ہے۔ پیچش میں تو انسان کو جلدی جلدی اجابتیں ہوتی ہیں مگر اس مرض میں گلے سے لے کر انتڑیوں تک تمام جگہ زخمی اورماؤف معلوم ہوتی ہے۔ پیٹ میں درد کے دورے اٹھتے ہیں اور معدہ میں تشنّج ہوتا ہے۔ غرض یہ ایک نئی قسم کی مرض ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر پھیل رہی ہے کیونکہ پچھلے دنوں آٹھ دس دوستوں کی طرف سے متواتر یہ اطلاع آئی ہے کہ انہیں پیٹ درد اور انتڑیوں کی خرابی کی تکلیف ہے۔ مَیں نے یہ ذکر اس لئے کیا ہے کہ وبائی امراض کا اگر قبل از وقت خیال رکھا جائے تو ان سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے وہ دوست جن کو خدا تعالیٰ نے اس مرض سے محفوظ رکھا ہؤا ہے اُنہیں چاہئے کہ وہ آجکل غذا میں پرہیز رکھیں اور زیادہ تر نرم غذا استعمال کریں۔ اِسی طرح جو استعمال کر سکتے ہوں وہ روزانہ سبوس اسپغول، شربت بنفشہ سے پھانک لیا کریں۔ اس سے انتڑیاں صاف ہوتی ہیں اور درد سے افاقہ رہتا ہے۔ درحقیقت یہ نزلہ کی علامت ہے جو معدہ پر گرتا ہے اور نزلہ میں حضرت خلیفہ اول ہمیشہ سبوس اسپغول، شربت بنفشہ او رعرق بادیان استعمال کراتے تھے اور ہم نے اس کا استعمال اکثر مفید پایا ہے۔
اِس کے بعد مَیں خطبہ کے مضمون کی طرف آتا ہوں۔ دنیا میں بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جب بولنا بہت کچھ فائدہ رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جب بولنے کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور عمل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات ایسے آتے ہیں جب نہ بولنے سے کام چلتا ہے اور نہ خالی عمل اپنی جگہ کام آتا ہے۔ اُس وقت جہاں تک نتیجہ کا سوال ہوتا ہے صرف خدا ہی کی ذات رہ جاتی ہے جو انسان کے کام آ سکے اور جس کی امداد سے کوئی نیک نتیجہ پیدا ہو سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہمیں متواتر اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور خدا تعالیٰ کا قانون بھی دنیا میں یہی ہے کہ انسان کو مناسبِ حال عمل کرنے چاہئیں۔ پس مناسبِ حال عمل کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایک وقت تو انسان پر ایسا آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ عمل ہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت میرے کاموں کو سنوار دے گا مگر دوسرا وقت جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے بعض دفعہ ایسا بھی آتا ہے جب انسان عمل تو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب خدا نے مجھے کہا ہے کہ عمل کرو تو میرے لئے ضروری ہے کہ مَیں عمل کو ترک نہ کروں۔ لیکن ساتھ ہی وہ سمجھتا ہے کہ حالات اِس قسم کے ہیں کہ میرا عمل کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اب جو کچھ کر سکتا ہے خدا ہی کر سکتا ہے۔ یوں عمل اور دعا دونوں وقت ہی ہوتے ہیں۔ اُس وقت بھی عمل اور دعا دونوں اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب عام طور پر عمل نتیجہ پیدا کرتا ہے اور اُس وقت بھی دونوں موجود ہوتے ہیں جب صرف دعا ہی نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ مگر پہلے وقت میں دعا بطور عبادت کے ہوتی ہے کیونکہ وہ عام حالات میں عمل سے ہی کام کرنے والا ہوتا ہے۔ مثلاً کپڑا سینے والا کپڑا سیتا ہے، جُوتا بنانے والا جُوتا بناتا ہے اور اپنے کام کو شروع کرتے ہوئے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ کہتا ہے۔ جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مَیں خدا کی مدد سے کپڑا سیتا ہوں یا خدا کی مدد سے جُوتا بناتا ہوں یا خدا کی مدد سے تالا بناتا ہوں یا خدا کی مدد سے دروازہ بناتا ہوں یا خدا کی مدد سے عمارت بناتا ہوں۔ غرض ہر مومن مزدور کام کرتے وقت خدا کا نام لیتا ہے مگر وہاں یہ دعا بطور عبادت ہوتی ہے۔ اصل قانون جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے یہی ہے کہ کام کرو تو نتیجہ نکلے گا۔ پس نتیجہ کام کے بدلہ میں ہوتا ہے اور فضلِ الٰہی دعا کے بدلہ میں ہوتا ہے۔ گویا اس کام کا نتیجہ عمل پیدا کرتا ہے او ر اس کام کا ثواب دعا پیدا کرتی ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب دعا کے بغیر اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا ۔ اُس وقت دعا نتیجہ پیدا کرتی ہے اور کام ثواب پیدا کرتا ہے۔ یعنی وہ ایسا وقت ہوتا ہے جب بظاہر انسانی تدابیر بے کار اور انسانی کوششیں بےفائدہ ہو جاتی ہیں اور انسان اِس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اب میری کوششیں مجھے نفع نہیں دے سکتیں۔ اُس وقت وہ کام تو کرتا ہے مگر اس لئے کہ خدا نے کہا ہے کام کرو۔ اور دعا کرتا ہے اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے۔ آج دعا کے بغیر کام نہیں ہو گا۔ پس پہلی اور دوسری حالت بظاہر یکساں نظر آتی ہے۔ پہلی حالت میں بھی انسان دعا کرتا ہے اور دوسری حالت میں بھی انسان دعا کرتا ہے۔ پہلی حالت میں بھی انسان عمل کرتا ہے اور دوسری حالت میں بھی انسان عمل کرتا ہے اور بظاہر دونوں حالتیں ایک جیسی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقتاً ان میں فرق ہوتا ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلی حالت میں اصل نتیجہ عمل پیدا کرتا ہے اور دعا بطور عبادت ہوتی ہے لیکن دوسری حالت میں اصل نتیجہ دعا پیدا کرتی ہے اور عمل بطور عبادت ہوتا ہے۔ وہ عمل اِس لئے نہیں کرتا کہ نتیجہ نکلے بلکہ اِس لئے عمل کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ عمل کرو۔ غرض ایک میں عمل کو اہمیت ہوتی ہے نتیجہ کے لحاظ سے اور دعا کو اہمیت ہوتی ہے ثواب کے لحاظ سے۔ اور دوسری صورت میں عمل کو اہمیت بلحاظ ثواب حاصل ہوتی ہےاو ر دعا کو اہمیت بلحاظ نتیجہ حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگ سچے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو ان باتوں کو جانتے ہی ہیں۔ بعض دفعہ ایسے لوگ بھی جو مذہب سے دور جا چکے ہوتے ہیں اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ اب دعا ہی نتیجہ پیدا کر سکتی ہے عمل کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔
گزشتہ جنگ میں جبکہ مسٹر لائڈ جارج انگلستان کے وزیر اعظم تھے جب لڑائی اپنے آخری مرحلہ پر پہنچی تو حکومتِ جرمنی نے برطانیہ اور فرانس کی صفوں پر آخری حملہ اِتنی شدت سے کیا کہ انگریزی صفیں بالکل ٹوٹ گئیں اور اس طرح ٹوٹیں کہ اُن کی جگہ لینے کے لئے کوئی نئی انگریزی فوج آس پاس باقی نہ رہی۔ کمانڈر انچیف نے مسٹر لائڈ جارج کو جو اُس وقت وزیرِ اعظم تھے تار دیا کہ حالت سخت نازک ہے، ہماری صفوں میں دراڑ پیدا ہو چکی ہے اور دراڑ بھی معمولی نہیں سات میل کا ایک لمبا علاقہ ہے جس میں ہماری کوئی فوج نہیں۔ جرمن ٹینک اور موٹر اور اُس کے توپ خانہ کے دستے بڑی تیزی سے آگے بڑھتے آ رہے ہیں۔ جس وقت وہ اس حلقہ میں سے گزر گئے انگریزی فوج کے لئے کوئی ٹھکانا نہیں رہے گا۔ اس وقت ہم بے انتہاء مدد کے محتاج ہیں اور انگلستان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہتے تو اس تار کے پہنچنے اور پھر مدد آنے تک سب کچھ ختم ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اس نے حالات کو یکدم بدل دیا۔ جس وقت یہ تار مسٹر لائڈ جارج کو ملا اُس وقت وہ وزارت میں بیٹھے مشورہ کر رہے تھے مگر باوجود اس کے کہ تعلیم یافتہ انگریز عام طور پر مذہب سے کورے ہوتے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہیں ہوتا۔ جب افسر نے ان کو تار دیا اور انہوں نے وہ تار پڑھی تو وہ فوراً کرسی سے اٹھ کر دو زانو ہو گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ دوستو! اب باتیں کرنے کا وقت نہیں، اب کام کرنے کا بھی وقت نہیں، اب دعا کے سوا ہمارے لئے اَور کوئی چارہ نہیں۔ یہ ایک دہریہ صفت انسان کا کام تھا جو اسلام کی نورانی صفات سے بے بہرہ تھا۔ جو اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے جو دعاؤں کی قبولیت کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں قطعی طور پر ناواقف تھا مگر وہ جانتا تھا کہ اب بہرحال باتیں کام نہیں آ سکتیں۔ وہ جانتا تھا کہ اب بہرحال کوششیں کام نہیں دے سکتیں۔ اب کوئی تیسرا رستہ ہونا چاہئے اور وہ تیسرا رستہ سوائے اس رستہ کے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہمیشہ سے بتاتے چلے آئے ہیں، اُسے کوئی نظر نہ آیا۔ یعنی دعا اور خدا تعالیٰ کے سامنے التجا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ایک مرحلہ انسان پر ایسا بھی آتا ہے ۔جب نہ باتیں کام دیتی ہیں نہ کام کام دیتے ہیں۔ صرف دعا اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجا ہی انسان کے کام آتی ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ کام چھوڑ دیا جائے۔ کام اپنے پورے زور سے جاری رکھنا اور عمل کو کسی مقام پر بھی ترک نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے احکام میں شامل ہے اور جو شخص اسے چھوڑتا ہےوہ خدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے اور گستاخی کی وجہ سے انسان کی دعا ردّ کر دی جاتی ہے، قبول نہیں ہوتی۔
وہ واقعہ جس کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے اس میں بھی عمل اور دعا دونوں سے کام لیا گیا تھا مگر نتیجہ دعا نے ہی پیدا کیا، عمل نے نہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے سمجھا کہ ہم سوائے دعا کے اَور کچھ نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ نے بھی ایسے سامان پیدا کئے کہ انگریزوں کی شکست فتح میں بدل گئی۔ انگریزی کمانڈر نے ایک جرنیل کو بلایا اور اسے کہا میرے پاس کوئی فوج نہیں جو تمہیں مدد کے لئے دے سکوں مگر سات میل کا لمبا علاقہ اس وقت بالکل خالی پڑا ہے او رجرمن فوج سے ہمیں سخت خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مَیں بغیر اس کے کہ تمہیں مدد کے لئے کوئی ساتھی دوں، تم سے امید کرتا ہوں کہ تم اس خطرہ کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرو گے۔ جاؤ اور کسی طرح اس علاقہ کو محفوظ کرو۔ اس نے انتخاب بھی ایسے جرنیل کا کیا تھا جس کے متعلق وہ جانتا تھا کہ وہ انکار نہیں کرے گا بلکہ کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فوراً کوئی نہ کوئی تدبیر نکال لے گا۔ جب کمانڈر انچیف نے اُسے یہ بات کہی تو ا س نے کہا بہت اچھا۔ مَیں یہ کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن پر ہر وقت مُردنی چھائی رہتی ہے اور جن کو اگر دس ہزار فوج دے کر بھی کہا جائے کہ سات میل لمبے علاقہ کی حفاظت کرو تو وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ دس ہزار سے کیا بن سکتا ہے۔ پندرہ بیس ہزار فوج چاہئے۔وہ جانتا تھا کہ مَیں نے کام کرنا ہے اور مجھے اس کے لئے بہرحال کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنی چاہئے۔ جب کمانڈر انچیف نے اسے کہا کہ اس اس طرح ہم پر مصیبت آپڑی ہے۔ اب کسی طرح اس مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کرو تو اس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ مجھے آپ کوئی فوج تو دے نہیں رہے اور مطالبہ یہ کر رہے ہیں کہ مَیں سات میل لمبے علاقہ کو دشمن سے محفوظ کروں۔ اس نے جواب میں صرف اِتنا کہا بہت اچھا اور یہ کہہ کر اپنی موٹر میں بیٹھا اور تیزی سے دس پندرہ میل پیچھے اس جگہ پہنچا جہاں نانبائی روٹیاں پکاتے، دھوبی کپڑے دھوتے، موچی جُوتوں اور دوسرے چمڑوں کی مرمت کرتے، لوہار اور ترکھان ٹوٹی پھوٹی فوجی اشیاء کو درست کرتے تھے۔ اس نے تمام نانبائیوں، دھوبیوں، موچیوں ، لوہاروں، نجّاروں کو جمع کیا او ران سے کہا کیا تمہارے دلوں میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگر روٹی پکانے کی بجائے ہمیں اگلی صفوں میں اپنی جان قربان کرنے کا موقع ملے تو کیسا اچھا ہو۔ یا کپڑے دھونے کی بجائے اگر ہمیں بھی اگلی صفوں میں شریک ہو کر دشمن سے لڑنے کا موقع ملے تو کیسا اچھا ہو۔ یا بوٹوں کی مرمت کی بجائے اگر ہم بھی اگلی صفوں میں کھڑے ہو کر دشمن کا مقابلہ کریں تو کیسا اچھا ہو۔ آزاد ممالک میں وفادار لوگ کثرت سے موجود ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور اپنی قوم سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت کرنے کے لئے ہر قربانی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جب اُس نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے دلوں میں کبھی ایسی خواہش پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ہمارے دلوں میں تو بارہا ایسی خواہش پیدا ہوئی ہے۔ جرنیل نے کہااگر تمہارے دلوں میں یہ خواہش سچے طور پر پیدا ہؤا کرتی ہے تو آج خدا نے تمہاری اِس خواہش کوپورا کرنے کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ اِس وقت سات میل کے علاقہ میں ہماری کوئی سپاہ نہیں اور اگر یہی حالت رہی تو دشمن تھوڑی دیر میں ہی ان حالات سے باخبر ہو جائے گا اور وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر ہمیں شکست دے دے گا اور ہمارے لئے سوائے اس کے اَور کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ ہم میدان سے بھاگ جائیں۔ مَیں تمہاری طرف اِس لئے آیا ہوں کہ اگر تمہارے دلوں میں سچے طور پر یہ خواہش پیدا ہؤا کرتی ہے کہ ہمیں اگلی صفوں میں لڑنے کا موقع ملے تو آؤ اور اپنی اس خواہش کو پورا کر لو۔ آج خدا نے تمہارے لئے بھی موقع پیدا کر دیا ہے۔ مَیں تمہارے لئے توپیں نہیں لایا، مَیں تمہارے لئے بندوقیں نہیں لایا، مَیں تمہارے لئے تلواریں یا کوئی اَور ہتھیار نہیں لایا، تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ ہاتھ میں لو اور میرے ساتھ چلو۔ زندہ قوموں کے سارے آدمی ہی زندہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے فوراً کہا بہت اچھا۔ ہم چلنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ باورچیوں نے کفگیر پکڑ لئے، موچیوں نے چمڑا صاف کرنے کی کھرپی لے لی، مزدوروں نے پھاؤڑے لے لئے، کسی کے پاس تلوار اور بندوق بھی ہوتی ہے۔ جس کسی کے پاس تلوار اور بندوق تھی اس نے تلوار اور بندوق لے لی۔ غرض جو بھی چیز کسی کو مہیا ہو سکتی تھی وہ اس نے اٹھائی اور چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ لاکھوں سپاہیوں کے موچی اور دھوبی اور حجام بھی ہزاروں ہزار ہوتے ہیں۔ اس نے فوراً لاریوں کا انتظام کر کے ان ہزاروں ہزار آدمیوں کو سات میل کے علاقہ میں لا کھڑا کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ فوج دشمن کو روک نہیں سکتی تھی۔ جہاں جرمنوں نے لڑنے والے سپاہیوں کو تہہِ تیغ کر دیا تھا یا اُن کو میدان سے بھگا دیا تھا اور جہاں وہ اتنی شدت سے گولہ باری کر رہے تھے کہ انگریزی تربیت یافتہ فوج بھی اُن کا مقابلہ نہ کر سکی وہاں باورچی اور دھوبی اور موچی کیا کر سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعا سنتا ہے۔ اُس وقت جب انگلستان کی وزارت نے اس بات کا اقرار کیا کہ اے خدا! باوجود ایک بڑی طاقت ہونے اور نصف کرّہ پر حکمران ہونے کے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری طاقت تیرے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ جو کچھ کر سکتا ہے تُو کر سکتا ہے ، ہم نہیں کر سکتے۔ تو خدا تعالیٰ نے بھی یہ بات ظاہر کرنے کے لئے کہ خدا میں بڑی طاقت ہے ان کی دعا کو قبول کرکے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ جن کے نتیجہ میں انگریزوں کی حالت بالکل بدل گئی۔ جب یہ فوج اپنے پھاؤڑے اور کُھرپیاں اور کفگیریں لے کر میدان میں کھڑی ہو گئی تو جرمن فوج کو دھوکا لگ گیا۔ جرمن فوج یہ خیال بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کے مقابلہ میں باورچی، دھوبی اور موچی کھڑے ہیں ۔ اس کے افسروں نے سمجھا کہ برطانوی فوج جو مار کھا کے پیچھے ہٹ گئی تھی اس کی جگہ کوئی تازہ دم فوج آ گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جرمن فوج نے فوری طور پر آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور کوشش کی کہ وہ نئے سرے سے اپنے انتظامات کو درست کر لے تاکہ مقابلہ کرنے میں آسانی ہو۔ اِتنی دیر میں سو سو دو دو سو میل پر جو انگریزی فوجیں متعیّن تھیں وہ حالات سے اطلاع پا کر وہاں آنی شروع ہو گئیں اور چوبیس گھنٹوں میں ایک تازہ دم فوج جرمنوں کے مقابلہ کے لئے میدان میں کھڑی ہو گئی۔ چنانچہ جب جرمن فوج نے حملہ کیا تو اُس نے باورچیوں اور دھوبیوں اور موچیوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ ایک تازہ دم فوج پر حملہ کیا جوسو سو دو دو سو میل سے جمع کر لی گئی تھی اور اس طرح حالات بالکل پلٹ گئے۔ جرمن فوج شکست کھا کر بالکل پیچھے ہٹ گئی اور اللہ تعالیٰ نے طاقت اور قدرت کا ایک نمونہ دنیا کو دکھا دیا۔ غرض یہ چیز دنیا کے تجربہ میں متواتر آئی ہے کہ کبھی دنیا میں باتوں سے کام چلتا ہے ا ور ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے کو سمجھایا جائے۔ کبھی باتوں کی بجائے عمل سے کام ہوتا ہے۔ باتیں بہت ہو جاتی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ عملی رنگ میں کام کیا جائے۔ لیکن ایک وقت انسان پر ایسا بھی آتا ہے کہ جب نہ باتیں کام دیتی ہیں ، نہ کام، کام دیتا ہے مثلاً دشمن اچانک حملہ کر دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی تیاری نہیں ہوتی یا تیاری ہوتی ہے مگر نہایت ناقص ہوتی ہے اُس وقت سوائے خدا کے فضل اور رحم کے انسان کی نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔
مَیں سمجھتا ہوں آج ہندوستان میں بھی اور باقی دنیا کے مسلمانوں کے لئے بھی وہی وقت آ گیا ہے جس میں باتیں کام نہیں دیتیں۔ کام، کام نہیں دیتے بلکہ صرف دعا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ التجا ہی کوئی نتیجہ پیدا کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کام بہرحال جاری رکھنا چاہئے کیونکہ کام نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو اَور بھی بھڑکا دیتا ہے۔ لیکن کام کرنے کے ساتھ ہی دلوں میں یہ یقین ہونا چاہئے کہ گو ہم کام کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم کام کرو مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کام خدا کی مدد اور نصرت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ آجکل کے فسادات کے متعلق جو تاریں اخباروں میں چھپ رہی ہیں وہ گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت چھپتی ہیں اور ان میں مصلحتاً واقعات پر بہت حد تک پردہ رکھا جاتا ہے لیکن جو اطلاعیں ہمیں پرائیویٹ طور پر اپنی جماعت کے افراد کی طرف سے آ رہی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ایک حصہ میں آج مسلمان کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہے۔ کل ہی مجھے ایک تار ملی ہے ۔ معلوم نہیں وہ یہاں پہنچی کس طرح؟ انگریزی میں ایک محاورہ ہے۔ ایس او ایس 1جس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جب کوئی جہاز سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے تو برقی ذریعہ سے وہ تار دیتا ہے کہ اب ہم ڈوب رہے ہیں اگر تم ہماری کوئی مدد کر کے ہمیں بچا سکتے ہو تو بچا لو ورنہ یہ ہماری آخری صدا سمجھو جس کے بعد ہماری طرف سے تمہیں کوئی خبر نہیں پہنچ سکے گی۔ اِسی قسم کی تار کل ایک جگہ کے امیر جماعت اور ایک سابق پروفیسر کی طرف سے آئی ہے اور اس میں یہی فقرہ درج ہے کہ ہم یہ تار اپنی بے بسی کی آخری اطلاع کے طور پر دے رہے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں جس سے ہم ان کی مدد کر سکیں۔ سوائے اِس کے کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور اس سے عاجزانہ طور پر مدد چاہیں کیونکہ انسانی حیلے اور تدبیریں ایسی دیوانگی کے اوقات میں کام نہیں آیا کرتیں۔ آخر اقلیتیں، اقلیتیں ہی ہوتی ہیں اور اکثریتیں، اکثریتیں ہی ہوتی ہیں۔ جب اکثریتوں کے دل بدل جائیں اور جب وہ انتقامی جذبہ سے بھڑک اُٹھیں تو اُس وقت اقلیتیں سوائے اِس کے کہ وہ زیادہ منظّم ہو جائیں، سوائے اِس کے کہ وہ زیادہ طاقتور بننے کی کوشش کریں، سوائے اس کے کہ وہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کریں، سوائے اس کے کہ وہ علمی ترقی کی طرف قدم اٹھائیں۔ سوائے اس کے کہ وہ اپنی تعداد کو بڑھائیں اَور کوئی ذریعہ اپنے بچاؤ کا اختیار نہیں کر سکتیں۔ مگر مسلمانوں نے نہ کبھی اقتصادی حالت درست کرنے کی کوشش کی ہے نہ کبھی علمی ترقی کے لئے کوشش کی ہے۔ غرض ترقی کے لئے انہوں نے کبھی جد و جہد کی ہے اور نہ اپنے اندر تنظیم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ کمزور ہیں جیسے بھیڑ اور بکریاں۔ وہ دعوے تو خوب کرتے ہیں اور بڑے بلند بانگ کرتے ہیں مگر حقیقتاً مسلمانوں سے زیادہ بیکس اَور کوئی نہیں۔ اور ان کے دعوے ان کے لئے اَور بھی زیادہ *** کا موجب بن رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ مسلمان اَور اقوام کے مقابلہ میں بالکل کمزور اور بےبس ہیں انسانی تدابیر پر بھروسہ کرنا اور انہی کو اپنے لئے کافی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں جہاں مصیبت آئی ہے وہاں کے مسلمان اپنے بچاؤ کے لئے تدبیریں بھی کرتے ہوں گے۔ کبھی کہتے ہوں گے ہم یہاں سے بھاگ جائیں، کبھی کہتے ہوں گے ہم اکٹھے ہو جائیں اور مل کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ مگر حقیقی علاج یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جائیں کہ وہ اپنے فضل سے ایسی صورت پیدا کرے کہ مسلمانوں کے لئے بچاؤ کا راستہ نکل آئے۔
مَیں سمجھتا ہوں اس فساد کی ذمہ داری ایک حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ تمام فسادات جو ہندوستان میں ہو رہے ہیں ان کی بنیاد خود ہندوؤں سے ہوئی اور ہندو علاقوں سے ہوئی ہے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ گاندھی جی اور دوسرے ہندو لیڈر برابر یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے فساد کی ابتدا ہوئی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ سب سے پہلے احمد آباد اور الٰہ آباد میں فساد ہؤا ہے اور احمد آباد اور الٰہ آباد میں مسلمان اتنے کم ہیں کہ انہیں فساد شروع کرنے کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہاں ہندو ہی ہندو آباد ہیں اور مسلمان کسی صورت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے یہ خیال کہ احمد آباد اور الٰہ آباد میں مسلمانوں کی طرف سے فساد کی ابتدا ہوئی ہے عقلی لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ اس کے بعد دوسرے مقامات پر فساد ہوئے ہیں مگر بہرحال مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر احمد آباد اور الٰہ آباد میں مسلمان مارے گئے تھے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ تھوڑے ہیں اور تھوڑے ہونے کی ذمہ داری کسی اَور پر نہیں اُنہی پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں تنظیم نہیں اور تنظیم نہ ہونے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کافی تعلیم نہیں اور تعلیم نہ ہونے کی ذمہ دار ی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اقتصادی حالت درست نہیں اور اقتصادی حالت درست نہ ہونے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی صنعتی حالت درست نہیں اور صنعتی حالت درست نہ ہونے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ جب ساری کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں، جب وہ ہر لحاظ سے ناطاقت اور کمزور تھے تو کیا یہ حماقت کی بات نہیں کہ انہوں نے نواکھلی میں ہندوؤں کو مارنا شروع کر دیا۔ قطع نظر اِس بات کے کہ احمد آباد اور بمبئی اور الٰہ آباد میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو مارا ہے اور یقیناً ظلم سے کام لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اگر ظالمانہ فعل کریں تو اس سے مسلمانوں کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ جہاں وہ زیادہ ہوں وہاں ہندوؤں کو مارنا شروع کر دیں۔ یہ اتنی ظالمانہ بات ہے کہ کوئی شریف انسان اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے عقل دی ہے۔ انہیں عقلاً سوچنا چاہئے تھا کہ کیا ہم جو کچھ کر رہے ہیں عقل اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتی ہے۔ مذہباً تو یہ جائز ہی نہیں تھا۔ عقلاً ہی انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ کیا الٰہ آباد اور احمد آباد اور بمبئی کے مظالم کا یہ جواب ہو سکتا تھا کہ نواکھلی میں ہندوؤں کو مارا جاتا؟کیا نواکھلی 2 میں ہی ہندو بستے تھے؟ کسی اَور علاقہ میں ہندو نہیں رہتے تھے؟ اگر ہندو سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں تو وہ کس طرح سمجھ سکتےتھے کہ نواکھلی میں ہندوؤں کو مار کر وہ اَورعلاقوں میں ہندوؤں کے حملوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتداء ہندوؤں کی طرف سے ہوئی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس کی ذمہ داری اُن ہندو لیڈروں پر بھی ہے جو ابتداء میں جب ہندوؤں کی طرف سے فسادات ہو رہے تھے بالکل خاموش رہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی ذمہ داری انگریزی حکام پر بھی ہے جو کلکتہ کے فسادات پر تو بولے مگر احمد آباد اور الٰہ آباد اور بمبئی کے فسادات پر خاموش رہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی ذمہ داری پریس پر بھی ہے جس نے خبروں کو غلط طور پر شائع کیا۔ یعنی جو خبریں مسلمانوں کی تائید میں تھیں ان کو دبایا او رجو خبریں مسلمانوں کے خلاف تھیں ان کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ مگر باوجود یہ ساری باتیں مان لینے کے یہ کیونکر جائز ہو گیا کہ وہ طریق اختیار کیا جاتا جو عقلاً بھی مسلمانوں کے لئے مُضِر ہے اور عقیدةً بھی قرآن کریم کے خلاف ہے۔ دو ہی وجوہ سے کوئی کام کیا جاتا ہے یا اِس وجہ سے کہ عقل اس کا تقاضا کرتی ہے یا اس وجہ سے کہ مذہب اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر مسلمان قرآن کریم کو مانتے تو کیا قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اگر کسی جگہ کے ہندو مسلمانوں کو ماریں تو تم دوسری جگہ ہندوؤں کو مارنا شروع کر دو؟ اور اگر وہ قرآن کو نہیں مانتے محض دکھاوے کے لئے اس پر اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو کیا عقل اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اقلیت ایک جگہ کا بدلہ لینے کے لئے دوسری جگہ مار دھاڑ شروع کر دے؟ لازماً جب مار دھاڑ شروع ہو گی اکثریت ہی جیتے گی، اقلیت نہیں جیت سکتی۔ جب تین ہندو ایک طرف ہیں اور ایک مسلمان ایک طرف تو مسلمان یہ خیال بھی کس طرح کر سکتے ہیں کہ ہندوؤں کے مقابلہ میں وہ جیت جائیں گے۔ لازماً جب بھی مقابلہ ہو گا ایک ہارے گا اور تین جیتیں گے۔ اور پھر ایک بھی ایسا جس کے اندر نہ تنظیم ہو نہ طاقت، جس کے پاس نہ دولت ہو نہ علم۔ وہ بھلا جیت ہی کہاں سکتا ہے؟ پس اگر مسلمان قرآن کو بھول گئے تھے تو کم سے کم انہیں عقل سے تو کام لینا چاہئے تھا اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ایک مسلمان تین ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے نہ قرآن کریم کے مطابق کام کیا اور نہ عقل کے مطابق کام کیا۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو تمہیں مسلمانوں کے دکھ پر دُکھ کیوں ہوتا ہے اور تم ان کی تکلیف پر کُڑھتے کیوں ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مَیں صرف مسلمانوں کے لئے نہیں کُڑھتا۔ مَیں اپنے ملک کے لئے کُڑھتا ہوں ، مَیں اپنے ملک کی ہر قوم کے لئے کُڑھتا ہوں، مَیں اسی طرح مسلمانوں کے لئے کُڑھتا ہوں جس طرح ہندو قوم کے لئے کُڑھ رہا ہوں۔ کیونکہ اگر مسلمان مارے جائیں تو یقیناً ہندو قوم بھی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ پس میرا دل دکھتا ہے اس لئے نہیں کہ مسلمان مارے جا رہے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہندو مارے جا رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ اگر یہی طریق جاری رہا تو ہندو بھی اور مسلمان بھی اور ساتھ ہی ہندوستان بھی سارے کے سارے ڈوب جائیں گے۔ اور دنیا کی نگاہ میں اس ملک کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی۔ پس باوجود اس کے کہ ہندوؤں سے غلطیاں ہو رہی ہیں اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے غلطیاں ہو ئیں میرا دل کُڑھتا اور ان کی مصیبت پر غمناک ہوتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جاؤ اور مرو کیونکہ جب تم نے قصور کیا تو اَب تم اس قصور کی سزا بھی بُھگتو۔ کیونکہ دنیا میں کوئی شخص اپنے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنی بیوی یا اپنے دوست کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر یہ نہیں کہتا کہ جاؤ اور مرو بلکہ باوجود ان کی غلطی اور ان کے گناہ کے ان سے ہمدردی رکھتا ہے۔ پھر جب دنیا میں اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنی بیویوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں سے ان کی غلطی کے باوجود ہمدردی رکھی جاتی ہے تو مَیں کیوں ہندوؤں اور مسلمانوں سے ہمدردی نہ کروں۔ میری ہمدردی تب غلط ہو جب مَیں انہیں جرم کے لئے اکساؤں اور کہوں۔ اے ہندوؤ! مسلمانوں کو مارو۔ یا کہوں اے مسلمانو! ہندوؤں کو مارو۔ مَیں ایسا کرتا تو بے شک میری ہمدردی غلط اور ناجائز ہوتی۔ کیونکہ میری ہمدردی گناہ کی تائید میں ہوتی۔ پس مَیں اس بات پر غمگین نہیں کہ ہندوؤں نے کیوں مسلمانوں کو پوری طرح نہیں مارا یا کیوں مسلمانوں نے ہندوؤں کو پوری طرح نہیں مارا بلکہ مجھے اس بات کا غم ہے کہ خدا کے وہ بندے جن سے مجھے انسانیت کے لحاظ سے اشتراک حاصل ہے، جن سے مجھے وطن کا اشتراک ہے، جن سے مجھے بھائی بھائی ہونے کے لحاظ سے اشتراک ہے وہ انسانیت کو بھول گئے ہیں۔ وہ خدا کو بھول گئے ہیں۔ وہ مذہب کو بھول گئے ہیں۔ اور وہ کام جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے کہ مَیں پھر انسانوں کو ان کی انسانیت یاد دلاؤں، پھر انہیں خدا کی طرف واپس لاؤں اور زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پھر مجھے اس لحاظ سے بھی ہمدردی ہے کہ جب فسادات ہوتے ہیں تو لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں شخص کس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے بلکہ وہ بلا امتیاز ایک دوسرے کو مارتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ کوئی شیعہ ہے یا سنّی، احمدی ہے یا غیر احمدی۔ پس اگر ہندو مسلمانوں کی لڑائی ہو تو احمدی بھی جو ناکردہ گناہ ہوتے ہیں باوجود دونوں فریق سے ہمدردی رکھنے کے مفت میں پِس جاتے ہیں جس طرح گیہوں کےساتھ گھن پِس جاتا ہے۔ پس مجھے ہمدردی ہے مسلمانوں سے اس لئے کہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہر شخص اپنے بھائی اور اپنے رشتہ دار سے اس کی غلطی کے باوجود ہمدردی رکھتا ہے۔ بے شک مجھے ان کے فعل سے ہمدردی نہیں مگر مجھے ان کی ذات سے ہمدردی ہے۔ اِسی طرح مجھے ہندوؤں کے فعل سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کی ذات سے ہمدردی ہے۔ جب ہندوؤں نے احمد آباد اور الٰہ آباد اور بمبئی میں مسلمانوں کو مارا تو یقیناً انہوں نے ظلم کیا اور اب جبکہ ہندو بھاگلپور اور پٹنہ اور چمپارن3 اور آگرہ اور گیا 4اور بنارس اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کو مار رہے ہیں وہ یقیناً سخت ظلم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور مجھے ان کے فعل سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اِسی طرح مجھے ان مسلمانوں کے فعل سے کوئی ہمدردی نہیں جنہوں نے نواکھلی میں ہندوؤں کو مارنا شروع کر دیا تھا۔ مگر مجھے ان ہندوستانیوں سے ہمدردی ہے جنہوں نے خدا کو بُھلا دیا، جنہوں نے مذہب کو بُھلا دیا، جنہوں نے انسانیت کو بُھلا دیا۔ مجھے ان کے افعال سے ہمدردی نہیں مگر ان کی ذات سے ہمدردی ہے کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں یہ باتیں اسلام اور انسانیت کو سخت بدنام کرنے والی ہیں۔ اسی طرح ہندو خواہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف ہوں وہ انسانیت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور وہ ان فرائض کو سمجھتے ہیں جو انسانیت کے لحاظ سے ان پر عائد ہوتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ نہ ہندو قوم کے لیڈر اور نہ عوام الناس اور نہ مسلمان قوم کے بعض لیڈر اس طرف متوجہ ہوئے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو ملامت کریں اور اُنہیں ان ظالمانہ افعال سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیں۔ مسلمانوں میں سے تو بعض نے بڑی دلیری اور ہمت سے اپنی قوم کو ملامت کی ہے مگر ہندو لیڈروں نے اپنی قوم کو ملامت نہیں کی ۔ حالانکہ مسلمانوں کا جُرم ہندوؤں کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ مسلمانوں کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے کمزور ہوتے ہوئے زبردست کا مقابلہ کیوں کیا اور کیوں اتنی عقل سے کام نہ لیا کہ جب وہ اقلیت میں ہیں تو اکثریت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
بہرحال یہ وقت ایسا ہے جس میں ہماری جماعت کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اِن نازک حالات میں مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور ان کے بچاؤ کا کوئی راستہ پیدا کر دے۔ اب وہ کھیل کُود کا زمانہ نہیں رہا۔ جب چند لاکھ انگریز ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا۔ اور ہر قوم اسے اس طرح چھیڑتی تھی جس طرح ایک اجنبی راہگیر کو دیکھ کر بچے اسے اپنے مذاق کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کوئی اس کی چدر کو کھینچتا ہے اور کوئی اس کے پاجامہ پر ہنسی اڑاتا ہے۔ اب ہندوستان میں انگریزی حکومت نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی اپنی حکومت قائم کی جا رہی ہے۔ گو پورے طور پر ابھی قائم نہیں ہوئی۔ اس لئے اس وقت کی باہمی چھیڑ چھاڑ معمولی نہیں ہو سکتی۔ انگریزوں کے وقت جو چھیڑ چھاڑ تھی وہ بہت محدود تھی اور چند لاکھ کے خلاف چھیڑ چھاڑ تھی۔ مگر اب یہ چھیڑ چھاڑ چند لاکھ کے خلاف نہیں بلکہ کروڑوں ایک طرف ہیں اور کروڑوں کروڑ ایک طرف ۔ اس لئے اگر بر وقت انسداد نہ کیا گیا تو یہ لڑائی شہروں تک محدود نہیں رہ سکتی بلکہ خطرہ ہے کہ اب وہ ہر قصبہ، ہر گاؤں، ہر محلہ اور ہر گلی میں نہ پہنچ جائے اور اس طرح کسی جگہ کی چھیڑ چھاڑ محدود نہیں رہ سکتی۔
اس مضمون کے بہت سے پہلو ایسے بھی ہیں جو مزید توجہ چاہتے ہیں مگر مَیں اس خطبہ کو محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لئے صرف اتنی بات پر ہی مَیں یہ خطبہ ختم کرتا ہوں کہ یہ وقت مسلمانوں کے لئے نہایت ہی نازک ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی پرانی غفلتیں معاف کرے، انہیں قرآن کریم کے احکام کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ کینہ اور کپٹ 5اور دین سے نفرت اور محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کی پیشگوئیوں سے استغناء جو اُن کے اندر پایا جاتا ہے، اسے دور کر ے۔ اور انہیں اسلام پر صحیح طور پر چلنے کی توفیق عطا کرے تاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل وہ نہ ہو جو سپین میں ہؤا۔ بلکہ ہندوستان اسلام کے بڑھنے اور پھلنے اور پھولنے کے لئے ایک گلشن اور چمن ثابت ہو اور اسلام اِس ملک میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہو گا اور ہندوستان اسلام کی ترقی او راس کی نشأ ة ثانیہ میں بہت بڑا حصہ لینے والا ثابت ہو گا کیونکہ حضرت مسیح موعود کا الہام ہے‘‘ رسول اللہ ﷺ پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں۔’’6 (الفضل 25 نومبر 1946ء )
1: ایس او ایس (S.O.S): اچانک مدد حاصل کرنے والا لاسلکی نظام (یعنی وائر لیس)
2: نواکھلی(Noakhali) موجودہ بنگلہ دیش میں چٹاگانگ ڈویژن کا ایک شہر ۔
آبادی تقریبًا30,72,000
3: چمپارن(Champaran) ہندوستان کے صوبہ بہار میں واقع ایک تاریخی علاقہ ۔
1886ء میں چمپارن کو ضلع کا درجہ دیا گیا ۔1971ء میں اس کو دو اضلاع میں تقسیم کردیا
گیا ۔ پشم چمپارن اور پرلی چمپارن۔
4: گیا: (Gaya)ہندوستان میں صوبہ بہار کا دوسرا بڑا شہر جو پٹنہ سے 100کلو میٹر کے
فاصلہ پر دریائے فلگو پر واقع ہے۔ اس کی آبادی تقریبًا 4,63,454 ہے۔
5: کپٹ: دشمنی۔ عداوت
6: تذکرہ صفحہ 485۔ ایڈیشن چہارم

42
دعوت اِلی اللہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے بتائے ہوئے طریقوں کو استعمال کرو
( فرمودہ 15 نومبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ مَیں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ صرف تبلیغ ہی احمدیت کی جان ہے اور یہ کہ ہماری جماعت کے مبلغین کو تبلیغ کے اُن طریقوں پر عمل کرنا چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے بیان فرمائے ہیں۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس میں سُستی ہوتی جا رہی ہے اور جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ذریعے خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے تھے ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتابوں کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ زور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا وفاتِ مسیح ؑ کے مسئلہ پر ہوتا تھا۔ آپ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لو کہیں نہ کہیں چکر کھا کر اس میں وفات مسیح ؑ کا مسئلہ ضرور آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر قوم میں تبلیغ کرنے کے لئے کچھ گُر بتائے ہیں اور وہ ہر قوم کے لئے الگ الگ ہیں۔ اور اگر موقع اور محل کے مناسب اُن کو استعمال کیاجائے تو ہم ہر قوم میں تبلیغ کر کے بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں سے مسلمانوں کے اندر تبلیغ کرنے کے لئے سب سے بڑا گُر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلہ کو باطل ثابت کیا جائے۔ عیسائیوں میں تبلیغ کے لئے یہ گُر ہے کہ نقلی اور عقلی دلائل سے ان پر یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھے تو ضرور تھے مگر صلیب پر سے زندہ اُترے اور بعد میں طبعی موت مرے۔ سکھوں میں تبلیغ کے لئے یہ گُر ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے بزرگ حضرت بابا نانک صاحبؒ اسلام کو مانتے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کی خدمت پر کمر باندھی ہوئی تھی۔ اور ہندوؤں میں تبلیغ کا یہ گُر ہے کہ ان کی کتابوں سے جن کو وہ الہامی یا مقدس مانتے ہیں ان کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ ان کے اوتاروں نے یہ خبر دی تھی کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں ایک خاص زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور یہ کہ اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی بعثت ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے تشریف لانے سے وہ خبر پوری ہو چکی ہے۔ یہ تمام گُر گویا تبلیغ کی جان ہیں اور یہ ایسے کارآمد ہتھیار ہیں جو ہم ہر قوم کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے صحیح استعمال سے ہماری ہر میدان میں فتح یقینی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مختلف علاقوں کے لوگ مختلف طبائع کے ہوتے ہیں اور ان طبائع کے مطابق ذرائع بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ جس طرح لڑائی کے میدان میں دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کے اندفاع کے لئے کبھی ایک پہلو بدلنا پڑتا ہے، کبھی دوسرا پہلو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اور جو شخص نادانی سے ایک ہی پہلو اختیار کئے رکھتا ہے وہ دشمن پر فتح نہیں پا سکتا اور جو شخص ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے وہ دوسرے کے مطابق اپنا پہلو بدلتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح تبلیغ میں بھی پہلو بدلنا پڑتا ہے مگر تبلیغ میں اصولی باتوں کو نظر انداز کر دینا جائز نہیں۔
مَیں اس وقت صرف مسلمانوں میں تبلیغ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات تو نہ قرآن سے ثابت ہو سکتی ہے اور نہ حدیث سے اور اس میدان میں ہم ہمیشہ شکست کھاتے چلے آئے ہیں اور فتح احمدیوں کو ہی نصیب ہوتی رہی ہے۔ تو چونکہ اُن کے مقتدیوں اور دوسرے ماننے والوں پر ہمیشہ اثر پڑتا تھا ۔ انہوں نے اس پہلو کو بدل کر دوسرا پہلو اختیار کر لیا۔ مثلاً آجکل جب کبھی مسائل متنازعہ فیہ پر گفتگو ہو اور حیات و وفات مسیح کا مسئلہ درمیان میں آ جائےتو غیر احمدی علماء کہہ دیا کرتے ہیں کہ مسیح ؑ زندہ ہو یا مُردہ ہمیں اِس سے کیا؟ ہمیں تو صرف قرآن ہی کافی ہے۔ اور اِس طرح وہ اپنی شکست کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اس مسئلہ پر احمدیوں سے بحث کی تو ہم ضرور شکست کھا جائیں گے۔ اس مسئلہ پر بحث کا ذکر آتے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور موٹے حروف میں شکست کا لفظ لکھا ہؤا اُن کی نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ اور وہ یہ خطرہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے لوگ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ دیانتداری سے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں، بجائے اِس کے کہ وہ ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر صداقت کو قبول کر لیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی پر ندامت محسوس کریں اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی جھوٹی عزت کو حقیقت پر ترجیح نہ دیں وہ دوسری روش اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ اِسی لئے انہوں نے اپنا پہلو بدل لیا اور ایک نہایت اہم مسئلے کو باوجودیکہ اپنے دلوں میں وہ اب بھی اس کو اہم ہی سمجھتے ہیں غیر اہم اور غیر ضروری کہنا شروع کر دیا ہے۔ مگر ان کے ساتھ ہی ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی یہ سمجھ کر کہ ہم اب اس میدان میں بہت سی فتوحات حاصل کر چکے ہیں اپنی توجہ کو اصل مسئلہ سے ہٹا لیا ہے حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے۔ ہماری جنگ تو ان لوگوں سے اُس وقت تک جاری ہے جب تک ساری دنیا احمدیت کو قبول نہیں کر لیتی اور جب تک ساری دنیا پر اسلام کا پرچم نہیں لہراتا۔ اور یہ فتح تب ہی حقیقی معنوں میں فتح کہلا سکتی ہے۔ جب وہ لوگ یہ اقرار کر لیں کہ واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ اور رسول کریم ﷺ نے جس مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی، خدا تعالیٰ نے جس کی آخری زمانہ میں آمد کا ذکر فرمایا تھا وہ سب باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے وجود سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور وہ سب کی سب پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں۔ پس جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے وفاتِ مسیح کا مسئلہ نہایت ضروری اور اہم ہے۔ لیکن جہاں تک ہماری جماعتی تربیت کا سوال ہے ہمارے لئے وفات مسیح کی بجائے اور مسائل کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔ وفات مسیح ؑ کی بحث تو صرف غیروں کے لئے ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ کونسا ضروری ہے تو یہ جماعتی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ نہایت اہم اور ضروری ہے تو یہ ہم غیروں کو مدنظر رکھ کر کہتے ہیں۔ گویا یہ گھر کی تربیت سے تعلق رکھنے والا مسئلہ نہیں بلکہ بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہے۔ جہاں جماعتی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت کو سچائی کی تلقین کی جائے،نمازوں میں باقاعدگی کی عادت ڈالی جائے، روزہ، حج اور زکوٰة کے مسائل سمجھائے جائیں اورنیک نیتی اور نیک اعمال کے لئے زور دیا جائے۔ وہاں غیروں سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ ان مسائل کو مدنظر رکھا جائے جو اُن کے مذاہب کی غلطی ثابت کرنے کے لئے اصول کا حکم رکھتے ہیں۔
ہمارے سامنے اپنوں کی تربیت اور غیروں میں تبلیغ کے دو الگ الگ کام ہیں۔ جس طرح ایک زمیندار کے لئے گھر کا کام بھی ہوتا ہے اور کھیت کا کام بھی ہوتا ہے۔ جو کام اس کے لئے گھر کے متعلق ضروری ہوتے ہیں وہ کھیت میں غیر ضروری ہوتے ہیں اور جو کام کھیت میں ضروری ہوتے ہیں وہ گھر میں غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اگر وہ بے وقوفی سے اپنے گھر میں ہل چلانا شروع کر دے تو گھر تباہ ہو جائے گا اور اگر کھیت میں دیواریں بنانا شروع کر دے تو کھیت تباہ ہو جائے گا۔ اگر تم زمیندار ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہو گا کہ گھر کے انتظامات بھی کرو، مکانوں کی مرمت کرو، خراب چیزوں کی درستی کرو، کھانے پینے کی چیزوں کا بندوبست کرو، اپنے بیوی بچوں کی ضروریات مہیا کرو۔ مگر اِس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ تم زمینداری کرنا چھوڑ دو اور اگر تمہارے کھیت خراب ہو رہے ہوں تو تم اُن کا خیال ہی نہ کرو۔ اگر تم صرف اپنے گھر کے کام ہی کرتے رہو گے تو کھیت خراب ہو جائیں گے اور اگر تم صرف کھیتوں ہی میں کام کرو تو تمہارے گھر خراب ہو جائیں گے۔ پس جس طرح ایک زمیندار کے لئے یہ دو کام الگ الگ ہیں اور دونوں ایک ہی وقت میں ضروری ہیں۔ اسی طرح ہماری جماعت کے لئے بھی دو الگ الگ کام ہیں ۔ ایک تو غیروں میں تبلیغ کا کام ہے جو کھیت کے کام کا قائم مقام ہے اور ایک جماعتی تربیت کا کام ہے جو گھر کے کام کا قائم مقام ہے۔ جب تک جماعت میں طہارت پیدا نہیں ہوتی، جب تک جماعت میں نیکی پیدا نہیں ہوتی، جب تک جماعت قرآنِ کریم کا علم نہیں سیکھتی، جب تک جماعت قرآن کریم کے مطابق عمل نہیں کرتی اور جب تک جماعت رسول کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنا لائحہ عمل نہیں بناتی تربیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہی ہیں جیسے ایک آدمی اپنے گھر والوں کے لئے انتظامات کرتا ہے۔ مثلاً وہ گھر کے لئے غلہ مہیا کرتا ہے، بیوی بچوں کے لئے کپڑے مہیا کرتا ہے، اگر گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کا انتظام کرتا ہے مگر اس کا یہ سارا کام کھیتی کا قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ یہ تو سارے کا سارا گھر کا معاملہ ہو گا اور باہر کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہو گا۔ اگر ایک زمیندار اپنے بیوی بچوں کو لباس مہیا کرتا ہے تو یہ اس کے گھر کا کام ہو گا باہر کا کام نہیں کہلائے گا۔ کھیت میں ہل جوتنا اور مناسب موقع پر بیج ڈالنا، پانی دینا، کھیتی کاٹنا، فصل میں سے دانے نکالنا ، گنّے سے شکر اور گُڑ نکالنا، یہ سارے کھیت کے کام ہیں۔
پس گھر کے کام الگ ہیں اور کھیت کے کام الگ ہیں اور یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں ضروری ہیں۔ کھیت کا کام بھی ضروری اور گھر کا کام بھی ضروری ہے۔ اگر یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں نہیں ہوتے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو کھیت میں فصل اچھی نہیں ہو گی اور یا زمیندارکے گھر کا نقصان ہو جائے گا۔ چنانچہ یہاں کے زمیندار صرف کھیتوں میں ہی کام کرتے ہیں، گھروں کے کام کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ تم کسی بھی گاؤں میں چلے جاؤ، وہاں کی گلیاں نہایت گندی حالت میں ہوں گی۔ مکان نہایت گندے ہوں گے اور بود و باش کے تمام طریق نہایت گندے ہوں گے۔ لوگ گوبر جیسی پلید چیز کو پاتھ کر گھروں میں جلاتے ہیں حالانکہ گوبر کا جلانا صحت کے لئے بھی مُضِر ہے اور اقتصادی نقصان کا بھی موجب ہے۔ دوسرے ممالک کے لوگ گوبر کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کھاد بنا کر اپنی زمینوں میں ڈالتے ہیں۔ اِس طرح وہ گوبر سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور گندگی سے بھی بچتے ہیں۔ جہاں تک غلے کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر غیر ممالک والے سال میں دو مَن غلہ گھر میں لاتے ہیں تو یہ بھی ایک مَن لے آتے ہیں۔ بہرحال کچھ نسبت تو ضرور قائم ہے مگر جہاں تک صفائی کا سوال ہے یہ اُن کے مقابلے میں صفر بھی نہیں۔ انگریزوں کے ملک میں چلے جاؤ۔ وہاں کے دیہات صاف ستھرے نظر آئیں گے ،گلیاں صاف ہوں گی، میلے اور کچرے کے ڈھیر اور گندگی ہرگز نہیں ہو گی۔ یہاں کی عورت جو اپنے آپ کو بڑی صاف ستھری سمجھتی ہو گی، اس کو اگر گھر کی صفائی کا بہت زیادہ خیال آ جائے تو وہ یہ کرے گی کہ گھر کی تھوڑی بہت صفائی کر کے کوڑا کرکٹ اور بچے کا پاخانہ گلی میں پھینک دے گی۔ یا اگر گھر میں مرغ ذبح کیا گیا ہو تو اُس کی آنتیں گلی میں پھینک دے گی۔ جانوروں نے گوبر کیا ہو تو اس کی زیادہ سے زیادہ یہ احتیاط کرے گی کہ اپلے بنا کر گھر میں جلائے گی جس سے ہاتھ بھی نجس ہوں گے اور جو چیز اس سے پکائی جائے گی وہ بھی مکروہ ہو گی یعنی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے جانوروں کے گُوہ 1کے ساتھ روٹی پکائی۔ تورات میں جن قوموں پر *** کی گئی ہے انہیں کہا گیا ہے تم گُوہ سے روٹی پکاؤ گے 2یعنی جو چیز غلے کو بڑھاتی ہے اور ایک زمیندار کے لئے نہایت مفید چیز ہے اُس کو وہ جلاتا ہے اور ایک طرف تو وہ اتنی مفید چیز کو ضائع کر دیتا ہے اور دوسری طرف اس سے کام ایسا لیتا ہے جو بالکل نجس ہے۔ حالانکہ زمیندار کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی زمینوں میں درخت اُگائیں اور ان کی لکڑی بھی جلایا کریں اور دوسرے فوائد بھی اٹھائیں تاکہ وہ گُوہ سے روٹی پکانے والی *** سے بچ جائیں مگر کوئی بھی زمیندار اِس طرف توجہ نہیں کرتا۔ اگر زمیندار اپنی زمینوں میں سڑکوں کے کنارے درخت لگائے اور اپنے گھر میں بھی درخت لگائے تو اس کا گھر بھی خوشنما ہو جائے گا، وہ لکڑی بیچ بھی سکتا ہے اور اگر مکان کے چھت پر ڈالنے کے لئے لکڑی کی ضرورت ہو تو یہ ضرورت اس کی گھر سے ہی پوری ہو سکتی ہےا ور وہ گوبر جلانے کی بجائے اپنے کھیت میں ڈالے گا۔ اِس طرح اگر پہلے وہ اپنے کھیت سے ہزار مَن غلہ لاتا ہے تو گوبر ڈالنے سے اس کی فصل اتنی اچھی ہو جائےگی کہ وہ ہزار کی بجائے دو ہزار من غلہ لائے گا۔ اُدھر کھیت کے درخت اس کی گھر کی ضروریات کو پورا کریں گے۔ عموماً ایک زمیندار کے گھر میں چار یا پانچ آدمی ہوتے ہیں۔ ان کے لئے اندازاً دو سیر آٹا ایک وقت میں اس کے گھر میں پکتا ہے۔ جو لوگ کھانا پکانے میں تجربہ کار اور ماہر ہوتے ہیں اُن کا اندازہ ہے کہ ایک گھر میں جتنا آٹا روزانہ خرچ ہوتا ہے اُتنی ہی لکڑی روزانہ خرچ ہوتی ہے۔ زمیندار عموماً دن میں ایک دفعہ ہنڈیا پکاتے ہیں اِس لئے اگر دو سیر لکڑی ہنڈیا کے لئے شمار کی جائے تو چار سیر لکڑی آٹے کے لئے درکار ہو گی۔ اور کُل چھ سیر لکڑی اندازاً روزانہ ایک زمیندار کے گھر میں خرچ ہو گی۔ اور یہ اندازاً دو ہزار سیر سالانہ یا اَسّی مَن سالانہ بنتی ہے بلکہ حقیقتاً اِس سے بھی کم خرچ ہوتی ہے۔ اگر گاؤں کے زمیندار مشترکہ طور پر دو ایکڑ زمین میں درخت لگائیں تو اُن کی ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور گوبر بھی کھاد بنانے کے کام آ سکے گا۔ اور اگر ان کا مشترکہ طور پر میل جول نہ بھی ہو سکے تو ہر زمیندار اپنی اپنی زمین میں درخت لگا سکتا ہے ۔ او رجب فرصت ملے کبھی ایک درخت لگا لیا ، کبھی دوسرا لگا لیا۔ اِسی طرح سڑکوں اور راستوں کے کنارے پر بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح گاؤں کی ساری سڑکیں درختوں سے بھر جائیں گی جن سے سایہ بھی ہو گا اور ان کی لکڑی بھی کام آ سکے گی۔ گاؤں کے ساتھ جو اُفتادہ زمین بیلوں وغیرہ کے باندھنے کے لئے ہوتی ہے اُس میں بھی درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ مگر چونکہ زمیندار یہ کام نہیں کرتے اس لئے وہ اپنی زمینوں سے غلہ بھی بہت تھوڑی مقدار میں حاصل کرتے ہیں اور ان کے گاؤں بھی نہایت گندی حالت میں ہوتے ہیں۔ جس گاؤں میں بھی چلے جاؤ مرغوں کی آنتیں اور بچوں کا پاخانہ گلیوں میں پڑا ہو گا او رہر قسم کی غلاظت سے گلیاں بھری پڑی ہوں گی۔ جو عورت بڑی صاف ستھری ہو گی اُس کے گھر میں تو بے شک پوچا پِھرا ہؤا ہو گا مگر وہ اپنے بچے کو گلی میں پاخانہ پھرنے کے لئے بھیج دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں او رشہر اتنے گندے ہوتے ہیں کہ بسا اوقات انسان کے لئے گلی میں چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی چلے تو اس کے کپڑوں کو پاخانہ لگ جاتا ہے اور گندگی کی بُو سے طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ غرض یہاں کے زمیندار گھر کا مطلقاً خیال نہیں کرتے صرف باہر کا ہی کرتے ہیں ۔لیکن دوسرے ممالک کے لوگ دونوں طرف کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ گھر کا کام بھی کرتے ہیں اور باہر کا کام بھی کرتے ہیں۔
ہماری جماعت بھی اِس عام ہندوستانی غفلت میں مبتلا ہے۔ اس کے سامنے بھی دین کا کام دو طرح کا ہے ایک گھر کا دوسرا باہر کا۔ مگر وہ ایک یا دوسرے سے غفلت برتتی ہے۔ گھر کا کام تو یہ ہے کہ ہم جماعت کی تربیت کا خیال رکھیں، جماعت کو روزے اور نمازوں کا پابند بنایا جائے اور نصیحت کی جائے کہ کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو، کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ، قرآن کریم کا علم سکھایا جائے، حدیث کا علم سکھایا جائے، کسی کی جھوٹی حمایت کرنے سے روکا جائے۔ عام لوگوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کا بچہ ہمسائے یا کسی اَور کے بچے سے لڑے تو وہ شخص بجائے اس کے کہ پہلے تحقیق کرے کہ قصور کس کا تھا اُلٹا اپنے ہمسائے سے لڑنے لگ جاتا ہے اور اپنے بچے کی جھوٹی حمایت کرنا شروع کر دیتا ہے کہ تمہارابچہ میرے بچے سے کیوں لڑا۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا وفاتِ مسیح کا مسئلہ ہی رہ گیا ہے جسے ہر وقت بحث کا موضوع بنایا جائے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ یہ مسئلہ غیروں میں تبلیغ کے لئے بھی ضروری نہیں۔ غیروں میں تبلیغ کا جب بھی موقع آئے گا یہی مسئلہ نہایت ضروری بلکہ اہم ہو جائے گا لیکن چونکہ باہر کے کام یعنی تبلیغ کے ساتھ ہمارے اپنے گھر کا کام یعنی تربیت بھی نہایت ضروری ہے اِس امر کو ظاہر کرنے کےلئے ہم یہ کہا کرتے ہیں کہ کیا وفات مسیح کی بحث کے سوا اَور کوئی کام باقی نہیں رہا۔ کیونکہ جب تک تم میں سے ہر شخص سچائی کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا، جب تک تم میں سے ہر شخص لین دین کے معاملات میں ایمانداری سے کام نہیں لیتا، جب تک تم میں سے ہر شخص دیانت پر قائم نہیں ہوتا، جب تک تم میں سے ہر شخص نمازوں اور روزوں کا پابند نہیں ہوتا، جب تک تم میں سے ہر شخص حج اور زکوٰة کے فریضہ کو حسبِ استطاعت ادا نہیں کرتا ، جب تک تم میں سے ہر شخص چوری اور چکاری کو نہیں چھوڑتا اور جب تک تم میں سے ہر شخص ممنوعاتِ شرعیہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اُس وقت تک تمہاری تربیت مکمل نہیں ہو سکتی اور تمہارے گھر کو صاف نہیں کہاجا سکتا۔ اِن تمام باتوں پر عمل نہ کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ تمہارا گھر گندہ ہے اور تمہارے گھر میں کئی قسم کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ ایک زمیندار باہر سے کتنا بھی غلہ گھر میں لاوے اگر اُس کا گھر گندہ اور خراب ہو جس سے اُس کے بچوں کو سِل اور دِق کی بیماریاں لگ جانے کا خطرہ ہو تو اس کے زیادہ غلہ لے آنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ غلہ تو سارے کا سارا گھر کے بیماروں کے علاج معالجہ میں صَرف ہو جائے گا اور گھر کے مکین بھی برباد ہو جائیں گے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ اہم نہیں ہے تو یہ ہم اپنے گھر کے متعلق کہتے ہیں اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ نہایت اہم ہے تو یہ ہم باہر کے لئے کہتے ہیں اور ا س کےیہ معنے ہوتے ہیں کہ گھر کے کام کے علاوہ غلہ بھی پیدا کیا جائے۔ ہمارا غیروں میں تبلیغ کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے کھیت کی نگرانی کی جائے۔ جب کھیت میں ہل چلانے کی ضرورت ہو ہل چلایا جائے، جب بیج ڈالنے کی ضرورت ہو بیج ڈالا جائے اور جب پانی کی ضرورت ہو پانی دیا جائے۔ اور تربیت کرنا ایسا ہو گا جیسے اپنے گاؤں اور گھر کی صفائی کی جائے، اپنے بچوں کی نگہداشت کی جائے، بیوی اور بچوں کو لباس مہیا کیا جائے اور گھر کی دوسری تمام ضروریات کو پورا کیا جائے۔ پس ہم تربیت پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ گھروں اور شہروں کی صفائی بھی ضروری ہوتی ہے اور تبلیغ پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ باہر کے کام یعنی کھیتوں اور فصلوں کی دیکھ بھال بھی ضروری چیز ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے ہم کو یہ گُر بتایا ہے کہ وفات مسیح کا مسئلہ مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے نہایت اعلیٰ ہتھیار ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اِس مسئلہ کو چھیڑنے سے دشمن تمہیں ضرور کہے گا کہ اِس مسئلہ کو جانے دو، اِس مسئلہ میں کیا رکھا ہے لیکن اس مسئلہ کو جانے دینا ایسا ہی ہو گاجیسے تمہاری کسی دشمن سے جنگ ہو رہی ہو اور تمہارے پاس دشمن کو کچلنے کے لئے توپیں موجود ہوں اور دشمن کے پاس توپیں نہ ہوں او روہ تمہیں پیغام بھیجے کہ تم توپوں کو جانے دو اور صرف تیر اور تلوار کی جنگ لڑو۔ تو کیا تم دشمن کے کہنے سے توپوں کو جانے دو گے؟ دشمن تو ہمیشہ تمہارےوار سے بچنے کی کوشش کرے گا اور تمہارے تیز اور بھسم کر دینے والے ہتھیاروں کو دیکھ کر تم سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کرے گا۔ اگر تم اسے مجبور کرو اور کہو کہ ہم کیوں جانے دیں۔ تمہارے مولویوں، علماء، صوفیاء، پیروں، گدی نشینوں نے اسی مسئلہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر کفر کے فتوے لگائے تھے اس لئے ہم ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور جب تک اس کے متعلق فیصلہ کن بات نہ کر لیں گے ہرگز نہیں جانے دیں گے۔ اس طرح دشمن مجبور ہو جائے گا کہ تمہارے دلائل کو سنے اور وہ اقرار کرے گا کہ ہمارے مولویوں، علماء اور گدی نشینوں نے جھوٹ بولا تھا اور وہ اقرار کرے گا کہ ہم لوگ غلطی پر ہیں۔ وہ لوگ صداقت کے سامنے ہرگز نہیں ٹھہر سکتے۔ تمہارے زور دینے سے وہ مجبور ہو جائیں گے کہ تمہارے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ پھر تم اُنہیں کہو۔ تم تو کہتے ہو (نَعُوذُ بِاللہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام جھوٹے تھے اور دجّال تھے۔ مگر کیا تمہارے ہزاروں صوفیاء، علماء، گدی نشین اور بزرگ سب کے سب ہی غلطی پر تھے؟ کیا خدا تعالیٰ کی طرف سے اس غلط عقیدہ کے ابطال کی سمجھ صرف دجّال ہی کو ملی اور تمہارے ان ہزاروں بزرگوں کو نہ ملی؟ حضرت مرزا صاحب (علیہ الصلوٰة و السلام) کے سچا ہونے کی یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تمام جُبّہ پوش صوفیاء اور گدی نشین علماء اور زہاد پیر اور بزرگ کہلانے والے اس نکتہ کو سمجھنے سے قاصر رہے اور ان کو یہ توفیق خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ملی۔ یہ توفیق ملی تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کو ۔ اِس کا جواب اُس کے پاس کوئی نہ ہو گا۔ اس لئے وہ مجبوراً ہتھیار ڈال دے گا اور اقرار کرے گا کہ واقعی وہ علماء اور صوفیاء اور بزرگ کہلانے والے غلطی پر تھے ۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دشمن کے سامنے جب کوئی بات پیش کی جائے تو معقولیت کے ساتھ پیش کی جائے اور مضبوطی کے ساتھ اس کے ہر اعتراض کو رد کیا جائے۔ ورنہ بڑے بڑے دلائل بھی کام نہیں دے سکتے۔
ہمارے سلسلہ کے ایک بزرگ مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی اچھے عالم اور سلسلہ کے ایک بزرگ شخص تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ مگر ان میں قوتِ گویائی نہ تھی۔ وہ کہیں غیر احمدی علماء سے وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے جو وفات مسیح کے ثبوت میں قرآن کریم کی تیس آیات اپنی کتابوں میں لکھی ہیں مولوی صاحب نے ان میں سے ایک آیت مخالف کے سامنے پیش کی۔ دشمن نے اس پر اعتراض کر دیا۔ مولوی صاحب بجائے اِس کے کہ اُس کے اعتراض کا جواب دیتے۔ کہنے لگے۔ اچھا ۔ اسے نہیں مانتے تو دوسری آیت سنو۔ چنانچہ مولوی صاحب نے پہلی آیت کو چھوڑ کر ایک دوسری آیت پیش کردی۔ اس نے دوسری آیت پر بھی کوئی اعتراض کر دیا۔ مولوی صاحب نے اسے بھی چھوڑ دیا اور ایک تیسری آیت پیش کر دی۔ آخر لوگ تو سب پر ہی اعتراض کرتے رہتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر بھی کئی اعتراض کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ اسی طرح دیانت اور ایمان کے متعلق بھی اعتراض کر دیا کرتے ہیں اور دشمن کا تو کام ہی اعتراض کرنا ہے خواہ وہ سچائی اور تقویٰ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب مولوی صاحب نے تیسری آیت پیش کی تو اُس پر بھی دشمن نے اعتراض کر دیا۔ انہوں نے کہا اچھا اَور سہی۔ مولوی صاحب اسی طرح آیات پیش کرتے گئے اور دشمن سب پر ہی کوئی نہ کوئی اعتراض کرتا گیا۔ آخر تیسوں کی تیسوں آیات ختم ہو گئیں اور مخالف مولوی نے تیسویں آیت پر بھی اعتراض کر کے کہہ دیا ۔اب کوئی اَور آیت ہو تو اُسے پیش کرو۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا مَیں نے تو تیسوں کی تیسوں آیات پیش کی تھیں مگر دشمن نے ہر آیت پر کوئی نہ کوئی اعتراض کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ جب آپ نے دشمن کے سامنے ایک آیت پیش کر دی تھی تو دوسری کی طرف آپ گئے ہی کیوں تھے۔ دشمن تو ہمیشہ اعتراض کیا کرتا ہے مگر ہم نے اس کو سچائی سمجھانی ہوتی ہے۔ وہ بیمار ہوتا ہے اس لئے وہ ہماری ہر بات پر اعتراض کرتا ہے مگر ہمارا کام ہے کہ سچائی پر قائم رہیں اور جب تک دشمن سے اس سچائی کا اقرار نہ کرا لیں اس کو نہ چھوڑیں۔ دشمن تو جب بھی ہم کوئی سچائی پیش کریں گے یہی کہے گا اس کو بھی چھوڑو، اس کو بھی جانے دو۔ مگر تم اسے کہو کہ یا تو تسلیم کرو کہ وہ بات جو ہم نے پیش کی ہے ٹھیک ہے۔ اور اگر یہ غلط ہے تو کہو کہ غلط ہے۔ چھوڑ دینے اور جانے دینے کے کیا معنی ہیں۔ اور ہم اس کو چھوڑ کیسے دیں جبکہ ہزار سال سے تم غلطیاں کرتے آ رہے ہو۔ تمہارے علماء ، صوفیاء اور پیروں اور گدی نشینوں نے اسی مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر اور ہماری جماعت پر کفر کے فتوے لگائے اور اب کہتے ہو اِس مسئلہ کو چھوڑ دو اور جانے دو۔ ہم اس کو کیسے چھوڑ دیں۔ یا تو مانو کہ یہ صحیح ہے جو ہم کہتے ہیں اور یا کہو کہ یہ غلط ہے۔ اور اگر غلط کہتے ہو تو ہمارے ساتھ بحث کرو۔اس پر یا تو وہ تمہارے ساتھ بحث کرے گا اور یا تمہارے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گا۔ پھر تم اسے یہ بھی سمجھاؤ کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہارے ہزاروں ہزار علماء، صوفیاء اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو تو اس نکتہ کی سمجھ نہ آئی اور حضرت میرزا صاحب علیہ الصلوٰة و السلام کو سمجھ آئی جو تمہارے زعم میں (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) کافر اور دجال تھے۔ قرآن کریم کا صحیح علم تو اس کو آتا ہے جو پاک انسان ہو اور خدا تعالیٰ کا مقرب ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۔ 3 یعنی قرآن کریم کا علم صرف اُسی کو عطا کیا جاتا ہے جو مطہر ہو۔ یہ جو مطہر کی شرط رکھی گئی ہے یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مرزا صاحب (علیہ الصلوٰةو السلام) یقیناً اُن تمام علماء، صوفیاء، پیروں اور گدی نشینوں سے زیادہ مطہر تھے۔ اسی لئے تو آپ پر یہ باریکی کھلی۔ اگر وہ مطہر نہ ہوتے تو آپ پر یہ باریکی کیسے کھل سکتی تھی۔ پس اس رنگ میں دشمن کو مجبور کرو کہ وہ تمہارے سامنے اپنی شکست مان جائے اور پھر کبھی سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ ایک مسئلے کو دشمن کے سامنے پیش کرنا اور اس مسئلے کو پیش کرنا جو دشمن کے لئے توپ کے گولے سے کم نہیں اور پھر دشمن کے اتنا کہہ دینے پر کہ اس مسئلہ کو جانے دو اُس کو جانے دینا کیا اس سے بڑھ کر بھی اَور کوئی نادانی کی بات ہو سکتی ہے؟ دشمن تو ہمیشہ تمہیں یہی کہتا رہے گا کہ اِس مسئلے کو چھوڑو ہمیں اِس سے کیا؟ مسیح زندہ ہو یا وفات یافتہ ہمیں تو قرآن کریم سے کام ہے۔ مگر تم دشمن کے کہنے میں ہرگز نہ آؤ اور اسے کہو کل تو تم کفر کے فتوے لگاتے پھرتے تھے اور آج کہتے ہو ہمیں اس سے کیا مسیح زندہ ہو یا وفات پا گیا ہو۔ یا تو ہماری پیش کردہ صداقت کو قبول کرو اور یا میدان میں اُترو، ہم تمہیں ہرگز نہیں جانے دیں گے جب تک کوئی فیصلہ کن نتیجہ نہ نکل آئے۔ کیا کفر کے فتوے لگانا آسان ہے؟ آجکل عَوَامُ النَّاس کو مولویوں نے یہ پٹّی پڑھائی ہے کہ وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بحث ہماری شکست کا باعث ہو گی اور جن لوگوں میں بیٹھ کر ہم بڑی بڑی ڈینگیں مارتے ہیں ان کی موجودگی میں بحث کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہمارا سارا پول کھل جائے گا اور ہماری علمیت لوگوں پر ظاہر ہو جائے گی۔ پس اس مسئلہ کو نہ چھوڑو اور اصرار سے اپنے مد مقابل کو او رہر غیر احمدی رشتہ دار کو پکڑو اور کہو۔ ہزار سال سے تمہارے علماء، صوفیاء اور بزرگ سب کے سب یہی کہتے آئے اور اِسی غلط عقیدہ کو لوگوں میں پھیلاتے آئے کہ مسیح ؑ آسمان پر زندہ ہے مگر حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰة و السلام نے آ کر اس غلط عقیدہ کو باطل کیا اور صداقت کو ثابت کیا اور قرآن کریم سے ثابت کیا۔ کیا قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھنے والا نَعُوْذُ بِاللہ دجال ہے؟کیا وہ علماء اور صوفیاء اچھے ہیں جنہوں نے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کے ایمانوں کو ضائع کیا یا (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) وہ دجال اچھا ہے جس نے حق او رباطل میں فرق کر کے دکھا دیا؟یہ ایک سیدھی اور واضح حقیقت ہے جس کو مان لینے سے کوئی گریز نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی کرے تو تم اُسے پکڑو اور کہو کہ تم نے اور تمہارے علماء اور تمہارے دوسرے بزرگ کہلانے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام پر اور ہم پر اسی مسئلہ کی وجہ سے کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم نہیں جانے دیں گے ہمارے ساتھ فیصلہ کر کے جاؤ۔ اگر تم اسے غلط سمجھتے ہو تو کہہ دو کہ غلط ہے۔ اگر صحیح سمجھتے ہو تو پھر بھاگتے کیوں ہو اور پیچھا چُھڑانے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ اگر یہ صحیح ہے تو اس کو قبول کرو اور اپنے آبائی غلط عقیدے کو ترک کرو اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی تمام غلطیوں کا اقرار کر کے اس سے معافی مانگو۔
اسی طرح تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی اس صداقت کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایمانیات میں نہیں اِس لئے چلو ہم مسیح ؑ کو وفات یافتہ مان لیتے ہیں۔ مگر تم انہیں کہو چلو مان لیتے ہیں تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور اِس مسئلے کا یہ جواب ہی نہیں ہو سکتا۔ سیدھی طرح یا تو مانو اور یا انکار کر دو۔ جب قرآن کریم سے مسیح ؑ کی وفات ثابت ہوتی ہے تو اس کے ماننے میں تمہیں کیا انکار ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اس کو مان جائے تو اسے کہو کہ ہزار سال گزشتہ کے علماء، صوفیاء اور تعلق باللہ کے دعویداروں سے یہ صداقت کیوں نہ ثابت ہو سکی اور یہ عقیدہ حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰة و السلام پر ہی کیوں کُھلا۔ وہ اس قابل ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے جن پر قرآن کریم کُھلا یا وہ علماء اور صوفیاء اِس قابل ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے جنہوں نے کروڑوں کروڑ انسانوں کو یہ غلط عقیدہ بتایا؟ اِس کے بعد تعلیم یافتہ طبقہ میں صداقت پیش کرنے کا دوسرا گُر یہ ہے کہ ان پر اس بارے میں زور دیا جائے کہ اگر تو اسلام سچا مذہب ہے تو کوئی ایسی تجویز ہونی چاہئے جس سے اسلام کی حفاظت کی جا سکے۔ کیونکہ اسلام اس وقت چاروں طرف سے مصائب میں گھرا ہؤا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں سمجھاؤ کہ جو مصائب آئے دن اسلام پر آ رہے ہیں اِن سب کے متعلق رسول کریم ﷺ کی حدیثوں میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور انہی حدیثوں میں مسیح موعود کی آمد کی خبر بھی دی گئی ہے۔ اب تمہارا یہ کہہ دینا کہ مسیح نہیں آئے گا یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں جب رسول کریم ﷺ کی انہی پیشگوئیوں میں سے جو اِس زمانے کے متعلق تھیں سینکڑوں پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں تو ان کے ساتھ والی پیشگوئی جو کہ انہی پیشگوئیوں کا جُزو ہیں یعنی جب فلاں فلاں باتیں پوری ہوں گی مسیح موعود آئے گا وہ کیوں پوری نہ ہوئی۔ حدیثیں بیان کرنےو الے راویوں نے کس طرح تیرہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس زمانہ کی عورتیں اس قسم کے لباس پہنیں گی جس سے ان کے جسم ننگے معلوم ہوں گے، پردہ کا رواج جاتا رہے گا، لوگ شراب پینا کثرت سے شروع کر دیں گے۔ جوئے بازی عام ہو گی، چوری چکاری کثرت سے ہو گی۔ پھر انہوں نے یہ کیسے بتا دیا تھا کہ عیسائی تمام دنیا پر غالب آ جائیں گے حالانکہ اُس زمانہ میں یہ باتیں نہ تھیں۔ اُس زمانہ میں تو عیسائی ہر جگہ مغلوب تھے اور اُس وقت عیسائیت ایسی ہی تھی جیسے آجکل کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی غفلت تھی کہ انہوں نے عیسائیوں کو سر اٹھانے دیا ورنہ عیسائیت کوئی ایسی طاقت نہ تھی کہ بڑھ جاتی۔ اُس وقت جبکہ عیسائیت کی ترقی کے کچھ بھی آثار نہ تھے راویوں نے کس طرح یہ خبر دی کہ عیسائی اتنے عرصہ کے بعد تمام دنیا پر غالب آجائیں گے اور پھر یہ کس طرح خبر دی کہ ایک نئی قسم کی سواری نکل آئے گی اور اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی۔ پھر یہ کس طرح خبر دی تھی کہ ایک گائے کا سر ہزار روپے میں فروخت ہو گا۔ یہ تمام خبریں ایسے وقت میں دی گئی تھیں جب کہ ہر شخص سوائے کامل ایمان والوں کے ان باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا اور کفار ایسی باتیں سن کر تمسخر اڑاتے تھے۔ پس اس وقت یہ خبر دینا کہ اتنے عرصہ کے بعد یوں ہو جائے گا جبکہ اس کے متعلق کوئی آثار ہی نہ پائے جاتے تھے اور پھر ان تمام پیشگوئیوں کا حرف بحرف پورا ہونا کیا ایسی خبریں جھوٹی کہلاتی ہیں؟ اگر یہ سچی ہیں اور یقیناً سچی ہیں تو انہی خبروں میں حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور جس کا آنا انہی خبروں کے پورا ہونے کے ساتھ وابستہ تھا۔ صرف یہی پیشگوئی کیوں نہ پوری ہوئی اور باقی تمام پوری ہو گئیں۔ مثلاً رسول کریم ﷺ کی یہ پیشگوئی کہ ایک گائے کا سر ہزار روپیہ میں فروخت ہو گا۔4 یہ نہایت عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی۔ بلکہ ہزار روپیہ کو چھوڑ ،کروڑوں روپیہ تک میں ایک گائے کا سر فروخت ہؤا۔
پچھلی جنگ میں جرمن سکہ کی قیمت اتنی گر گئی تھی کہ حد ہی ہو گئی اور لوگوں نے یہاں کے روپیہ سے جرمن سکہ بدلنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت مجھے بھی بعض لوگوں نے تحریک کی کہ آپ بھی کچھ سکہ بدل لیں۔ چنانچہ مَیں نے اپنے ایک عزیز سے کہا کہ تم جرمنی جا کر تعلیم حاصل کر آؤ کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہاں تھوڑے سے روپے میں تعلیم حاصل ہو جائے گی۔ چنانچہ مَیں نے دو ہزار روپیہ جرمنی کے ایک بنک میں بھیج دیا جس کے بدلے میں جرمن سکہ وہاں میرے حساب میں قریباً دو تین لاکھ جمع ہو گیا۔ اُس وقت ہمیں اِن باتوں کا تجربہ نہ تھا اور اس وقت رسول کریم ﷺ کی ان حدیثوں کی طرف ہمارا ذہن نہ گیا کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس میں فائدہ نہیں بلکہ خرابی اور نقصان ہے۔ خیر مَیں نے اپنے اُس عزیز کو جرمنی روانہ کر دیا مگر رستہ میں اُسے حالات کچھ اِس قسم کے پیش آ گئے کہ وہ بجائے جرمنی جانے کے انگلستان چلا گیا۔ اس کے بعد خبریں آتی رہیں کہ اب جرمن سکہ کی قیمت اَور گر گئی ہے ، اب اَور گر گئی ہے یہاں تک کہ آخر میں اِس حد تک گر گئی کہ جب پھر بنک کو لکھا کہ میرے روپیہ کا اب کیا حال ہے؟ اُس میں سے کچھ مجھے مل بھی سکے گا یا نہیں؟ تو اِس کا جواب آیا کہ اب تو ایک پونڈ کی قیمت کئی کروڑ روپیہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر آپ اپنا روپیہ واپس منگوانا چاہیں تو وہ اب اِتنا بھی نہیں جو ڈاک کے ایک ٹکٹ کی قیمت کے برابر ہو سکے۔ ہمارے اس جواب پر جو ٹکٹ لگتا ہے وہ اس روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو آپ کا ہمارے پاس جمع ہے۔ اس پر مَیں نے لکھ دیا کہ بہتر ہے کہ اب میرا حساب ختم سمجھا جائے۔ اور اس روپیہ پر اِنَّا لِلہ پڑھ دیا۔اِس طرح وہ دو ہزار روپیہ تو ضائع ہو گیا مگر اس سے ایک سبق مجھے حاصل ہو گیا اور رسول کریم ﷺ کی حدیث مجھ پر حل ہو گئی۔ بات یہ ہے کہ اصلی روپیہ کی قیمت نہیں گر سکتی۔ وہ سکّہ جس کی قیمت گر جاتی ہے وہ کاغذی روپیہ اور نوٹ ہوتا ہے۔ سونے اور چاندی کے سکّے کی قیمت نہیں گرتی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آجکل کے بعض ساہوکار کرتے ہیں کہ اگر کسی زمیندار کے پاس ان کا روپیہ پھنس جائے تو وہ دوسرے ساہوکار سے کہتے ہیں میرا ہزار روپیہ فلاں زمیندار کے پاس پھنسا ہؤا ہے اُس کاپرونوٹ مَیں تمہیں پانچ سو روپے میں دیتا ہوں۔ دوسرا ساہوکار بھی لالچ میں آجاتا ہے اور وہ پرونوٹ پانچ سو روپے میں لے لیتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اگر قسمت سے ملے گا تو پانچ سو کی بجائے ہزارملے گا اور پانچ سو مفت میں نفع ہو گا۔ اِسی طرح جرمن نوٹوں کی ساکھ کھوئی گئی تھی اور قیمت گر گئی تھی۔ اُن دنوں دس کروڑ روپیہ تو بُوٹ کی قیمت تھی۔ گائے کا سر تو خدا جانے کتنے کو بِکا ہو گا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے گائے کے سر کی قیمت لاکھوں اور کروڑوں روپے بتائی ہو گی۔ مگر حدیث بیان کرنے والوں میں سے راوی نے سمجھا کہ میرے اس بیان کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا اِس لئے لاکھوں اور کروڑوں کو گھٹا کر ہزار روپیہ کہہ دیا۔
جیسے کہتے ہیں کسی مسجد میں کوئی نابینا مولوی تھا اُس سے گاؤں کے لوگ تاریخیں پوچھا کرتے تھے۔ وہ چاند کی تاریخوں کا کچھ حساب رکھتا تھا اور لوگ بیاہ شادی کے موقع پر اس سے تاریخ پوچھ لیا کرتے تھے کہ آج کیا تاریخ ہے اور چاند کی چودہ کب ہو گی یا فلاں تاریخ کتنے دنوں کے بعد آئے گی؟ اُس مولوی نے مسجد کے ایک کونے میں ایک گھڑا رکھا ہؤا تھا اور اُس کے پاس ہی اس نے تیس کنکر رکھےہوئے تھے۔ جب نیا چاند چڑھتا وہ لوگوں سے پوچھ کر کہ چاند آج چڑھا ہے ایک کنکر گھڑے میں ڈال دیتا تھا اور اس کے بعد وہ روزانہ ایک کنکر ڈال دیا کرتا تھا۔ اور جب کوئی تاریخ پوچھنے آتا تو وہ گھڑے میں سے کنکر گِن کر بتا دیا کرتا تھا۔ ایک دن جب کسی شخص نے تاریخ پوچھی تو حافظ صاحب مسجد کے اندر چلے گئے اور تھوڑی دیر گزرنے کے بعد واپس آکر اُس کو تاریخ بتائی۔ اتفاقاً اُس دن کچھ لڑکے بھی یہ بات دیکھ رہے تھے۔ لڑکے شریر ہوتے ہیں انہوں نے سوچا کہ جب کوئی حافظ صاحب سے تاریخ پوچھتا ہے تو بجائے اُسی وقت بتا دینے کے اندر جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر تاریخ بتاتے ہیں دیکھیں تو سہی وہ اندر کیوں جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ اندر چلے گئے اور دیکھا کہ مسجد کے کونے میں ایک گھڑا رکھا ہے اور کچھ کنکر اس کے اندر پڑے ہیں اور کچھ پاس ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے سمجھ لیا کہ یہی کنکر گِن کر حافظ صاحب تاریخ بتاتے ہیں۔ ان لڑکوں کو شرارت سُوجھی اور اپنی جھولیوں میں کنکر بھر کر لے آئے اور دبے پاؤں مسجد کے اندر جا کر گھڑے کو کنکروں سے بھر دیا۔ ایک دن کسی عورت نے آ کر حافظ صاحب سے تاریخ پوچھی تو وہ اٹھ کر تاریخ گننے کے لئےاندر چلے گئے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ گھڑے کو کنکروں سے بھرا ہو دیکھ کر اس شرارت کو سمجھ جاتے انہوں نے کنکروں کو گِننا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس عورت نے باہر سے آواز دی کہ جلدی تاریخ بتاؤ مگر کنکر کوئی تھوڑے سے تو نہ تھے کہ اتنی جلدی گِنے جا سکتے وہ گنتے چلے گئے ۔ اتنے میں باہر سے پھر شور ہؤا کہ تاریخ کیوں نہیں بتاتے؟ اندر کیا کر رہے ہو؟ مگر حافظ صاحب کنکر گننے میں لگے رہے۔ بھلا وہ گِن چکیں تو تاریخ بتائیں بغیر گنے کے کیسے بتائیں۔ جب عورت نے دو چار دفعہ آوازیں دیں اور حافظ صاحب نے تاریخ نہ بتائی تو اس نے کہا یہ کیا مخول ہے مَیں اِتنی دیر سے باہر کھڑی آوازیں دے رہی ہوں۔ جلدی تاریخ بتاؤ۔ اتنے میں حافظ صاحب کئی ہزار کی تعداد تک کنکر گِن چکے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ وہ عورت ناراض ہو رہی ہے تو وہ گھبرا کر باہر نکلے اور کہا آج کوئی دو سوویں تاریخ ہے۔ جب انہوں نے کہا کہ آج کوئی دو سوویں تاریخ ہے تو اس عورت نے سمجھا کہ حافظ مذاق کرتا ہے۔ اس نے کہا تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ عورتوں سے مذاق کرتے ہو۔ مَیں ابھی جا کر چودھری کو بتاتی ہوں۔ حافظ یہ دھمکی سن کر ڈر گئے اور بولے کہ مائی خدا کا خوف کر کے ہی مَیں نے دو سوویں تاریخ کہا ہے ورنہ گھڑے کے کنکروں سے تو پتہ چلتا ہے کہ کئی ہزارویں تاریخ ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہی حال اس حدیث سنانے والے راوی کا تھا کہ جب اس تک یہ روایت آئی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لاکھوں روپیہ تک گائے کا سر فروخت ہو گا تو وہ ڈر گیا اور خیال کیا کہ لاکھوں روپیہ تو کوئی نہ مانے گا اس لئے بہتر ہے کہ ہزاروں ہی بتا دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ قیمتیں گر چکی تھیں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ میں گائے کا سر فروخت ہوتا تھا اور اس نکتہ کو نہ سمجھتے ہوئے اس زمانہ میں جو ایک اخبارات پڑھنےو الا آدمی دھوکے میں آ گیا اور دو ہزار روپیہ ضائع کر دئیے اور قیمتیں اِتنی گر گئیں کہ ایک پونڈ کی قیمت دس ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اور میرے جو چند لاکھ روپے بنک میں جمع تھے ان کی قیمت ایک روپے کے ہزارویں حصے سے بھی کم ہو گئی بلکہ مجھے تو اس روپے کے بدلے میں ایک پیسے دھیلے اور دمڑی کا سواں حصہ بھی نہ ملتا اور دمڑی کا سواں حصہ تو ہوتا ہی نہیں۔
پس تم مخالف سے کہو کہ یہ خبریں اِس زمانہ کے لوگ چند سال پہلے بھی قیاس نہ کر سکتے تھے ۔ جھوٹوں اور دغا بازوں کو کیسے معلوم ہوئیں۔ یقیناً یہ خبریں عالم الغیب خدا نے رسول کریم ﷺ سے کہی تھیں۔ اور جب رسول کریم ﷺکی حدیثوں کی باقی تمام خبریں پوری ہو گئیں تو مسیح کی آمد کی خبر کیوں پوری نہ ہوئی؟ اور جب یہ تمام پیشگوئیاں اتنے عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئیں تو تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ یہ خبریں بیان کرنے والے جھوٹے تھے۔ جن کی حدیثوں میں یہ خبریں بیان ہوئی ہیں انہی حدیثوں میں مسیح کی آمد کی خبریں بھی ہیں۔ اگر تمہارا مخالف ایک خبر کو جھوٹا کہے گا تو اسے باقی سب کو بھی جھوٹا کہنا پڑے گا اور (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) امام بخاری رَحْـمَةُ اللہِ عَلَیْہِ سے لے کر ایک ادنیٰ سے ادنیٰ درجےوالے راوی کو جھوٹا کہنا پڑے گا۔ یہ اتنا عظیم الشان ثبوت ہے کہ کوئی اس کو ماننے سے گریز نہیں کر سکتا۔ مَیں نے تو مثال کے طور پر صرف چند باتیں بیان کر دی ہیں ورنہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسی خبریں ہیں جو اس زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں اور انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسیح موعودؑ آئے گا ۔ جب وہ ساری کی ساری خبریں پوری ہو چکی ہیں تو مسیح موعود(علیہ الصلوٰۃ والسلام)کی خبر بھی ضرور پوری ہو چکی ہو گی۔ مسیح موعودؑ کی آمد کے زمانہ کی جتنی علامتیں حدیثوں میں بیان ہوئی ہیں وہ سب پوری ہو چکی ہیں۔ جب وہ تمام علامتیں آ گئیں تو ہم ایک مخالف سے کہہ سکتے ہیں کہ لاؤ مسیح کہاں ہے؟ جب خداتعالیٰ کہتا ہے، خدا تعالیٰ کا رسول (ﷺ) کہتا ہے کہ اس زمانہ میں مسیح ؑ آئے گا تو تم کون ہوتے ہو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کو جھٹلانے والے؟ اب یا تو تمہیں مسیح ؑ اور مہدیؑ لانے پڑیں گے یا یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت میرزا صاحب علیہ الصلوٰة و السلام سچے تھے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ زمانہ مسیح ؑ کا ہے۔ خدا تعالیٰ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ یہ زمانہ مسیح ؑ کا ہے۔ اگر حضرت میرزا صاحب علیہ الصلوٰة و السلام (نَعُوْذُ بِاللہ) سچے نہ تھے تو تم سچے مسیح کو پیش تو کرو۔ یہ ایک ایسی زبردست دلیل ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مجبور ہو جائے گا کہ یا تو وہ تمہاری پیش کردہ صداقت کو مان لے یا تمہارے ساتھ بحث کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور یہی تمہاری فتح کی علامت ہو گی۔ اِس صداقت کو لے کر ہم جہاں بھی چاہیں لڑیں ہمیں ضرور کامیابی ہو گی۔ (اِنْشَاءَ اللہُ)۔
جب رسول کریم ﷺ بدر کے موقع پر جنگ کے لئے نکلے تو اس وقت یہ حالت تھی کہ بدر کے میدان میں پانی کے چشمے کے ایک طرف ریت تھی اور دوسری طرف میدان تھا۔ اور دشمن پانی کے چشمہ سے کچھ فاصلے پر ایک چٹیل میدان میں اُتر پڑا تھا۔ دشمن نے یہ اندازہ لگایا کہ ہم اپنے میدان میں اترتے ہیں۔ جب مسلمان حملہ کریں گے تو چونکہ ہمارے میدان کی زمین سخت ہو گی ہم آسانی سے بھاگ دوڑ کر سکیں گے۔ ہمارے پیدل اور سوار دستوں کو اِدھر اُدھر حرکت کرنے میں آسانی ہو گی۔ اور چونکہ ریت نہ ہو گی ہم آسانی سے مسلمانوں کو تباہ کر سکیں گے۔ جب رسول کریم ﷺ وہاں پہنچے تو ایک صحابی نے آپ کو مشورہ دیا کہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کر لیا جائے کیونکہ جب پانی کا چشمہ ہمارے قبضہ میں ہو گا اور دشمن کو پانی نہیں مل سکے گا تو آخر دشمن مجبور ہو جائے گا کہ بھاگ نکلے یا ہتھیار ڈال دے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابی کی اس تجویز کو پسند فرمایا اور ریت کے میدان میں اُترنے کا حکم دے دیااو رچشمے پر قبضہ کر لیا۔5 لیکن دقّت یہ تھی کہ دشمن چونکہ چٹیل میدان میں اُترا تھا وہ آسانی سے اِدھر اُدھر حرکت کر سکتا تھا اور مسلمان جس جگہ اُترے تھے وہاں ریت تھی اور ریت پر آسانی سے حرکت نہ کی جا سکتی تھی کیونکہ اس پر چلنے سے پیر ریت میں دھنس جاتے تھے۔ ایک شخص تیر اور نیزہ کی لڑائی میں دشمن سے تبھی بچ سکتا ہے جب وہ آسانی سے آگے پیچھے دائیں بائیں حرکت کر سکے اور جب دشمن تیر یا نیزہ مارےتو اِدھر ہٹ جائے یا اُدھر ہٹ جائے۔ اور اس قسم کی لڑائی میں ہر شخص یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ دشمن کے نشانہ کے سامنے نہ رہے کیونکہ دشمن کے وار سے بچنے کے لئے دائیں بائیں یا آگے پیچھے حرکت کی ضرورت ہوتی ہے او رنہایت تیزی اور پُھرتی سے حرکت کرنی پڑتی ہے۔ مگر ریت میں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ پیر ریت میں دھنس جاتے ہیں اور حرکت کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے تو پہلے یہ تجویز کی تھی کہ ہم چٹیل میدان میں اُترتے ہیں۔ اِس طرح ہم آزاد ہوں گے اور دشمن آزاد نہ ہو گا مگر اس صحابی کے کہنے پر پانی کے چشمہ پر قبضہ کر لیا گیا تھا لیکن دقّت یہ پیش آ گئی کہ دشمن تو تیزی سے حرکت کرسکتا تھا اور مسلمان نہ کر سکتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے رات کو بارش برسا کر مسلمانوں کے میدان کو اصلی بنا دیا اور دشمن کے میدان کو نقلی بنا دیا۔ رات کو جب بارش ہوئی تو مسلمانوں کی کامیابی کے آثار پیدا ہو گئے کیونکہ بارش سے ریت سخت ہو جاتی ہے اور اس پر چلنے سے پیر اس میں نہیں دھنستا اور بارش سے مٹی کیچڑ بن جاتی ہے اور اس میں حرکت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس جب پانی سے ریت دب گئی تو نتیجہ یہ ہؤا کہ باوجود دشمن کے بہت زیادہ تعداد میں ہونے کے بارش نے جنگ کے میدان کا نقشہ بالکل بدل دیا۔ اور جب لڑائی شروع ہوئی تو وہی دشمن جو کل یہ سمجھا ہؤا تھا کہ مسلمان چونکہ ریت میں اُترے ہیں اِس لئے اُن کو تباہ کرنا کونسا مشکل ہوگا۔ وہ خود کیچڑ میں پھنس گیا۔ جس کی وجہ سے نہ تو دشمن کے سوار اور نہ ہی پیدل آسانی سے حرکت کرسکتے تھے۔ اور نتیجہ یہ ہؤا کہ فتح مسلمانوں کونصیب ہوئی۔
پس جو عقلمند اور تجربہ کار جرنیل ہوتے ہیں وہ ہمیشہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ دشمن کو اس میدان میں لایا جائے جو ان کے اپنے لئے مفید ہو اور جو میدان دشمن کے لئے مفید ہو سکتا ہو اُس میں وہ کبھی نہیں گُھستے۔ جو جرنیل دشمن کے مقرر کردہ میدان میں بے دیکھے چلا جائے وہ لڑائی ہار دیتا ہے۔ اِسی لئے دشمن کو اپنے میدان میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس طرح ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کو میدان میں لانا ضروری ہوتا ہے ویسے ہی تبلیغی جنگ میں بھی دشمن کو اپنے میدان میں لانا ضروری ہوتا ہے۔ تبلیغی جنگ تبھی جیتی جا سکتی ہے جب ہم دشمن کو ان دلائل کی طرف لائیں جو یقینی طور پر ہمارے حق میں ہوں اور جس میدان میں ہم نے دیکھا او رآزمایا ہؤا ہے کہ دشمن ہم سے ہار گیا ہے اور وہ کبھی اس صداقت کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ دشمن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے باوجود شکست خوردہ ہونے کے شکست نہیں مانتا۔ مگر ہمیں اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ ہم دشمن کو اس کی شکست والے میدان میں پکڑیں گے۔ اگر وہ مانے گا تو چاروں شانے چِت گرےگا۔ اگر وہ بھاگے گا تو اس کے ساتھیوں، ماننے والوں اور مقتدیوں پر اثر پڑے گا۔ چنانچہ وفات مسیح کا مسئلہ ایسا ہے جس کے مقابلے سے دشمن مدتوں سے بھاگ چکا ہے اور انگریزی خواں طبقہ کے لئے کیا اور اردو خواں طبقہ کے لئے کیا، عَوَامُ النَّاس کے لئے کیا اور خواص کے لئے کیا، مولویوں کے لئے کیا اور گدی نشینوں کے لئے کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اسی ہتھیار کو چنا اورخدا تعالیٰ کے حکم سے چنُا۔ اور اِس ہتھیار سے دشمن کو ایسا مارا، ایسا پیٹا کہ اس کا کچومر نکال دیا اور وہ تا قیامت اُٹھنے کے قابل نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دشمن ہمیں دوسرے میدان کی طرف کھینچتا ہے مگر یہ کتنی نادانی کی بات ہو گی۔ اگر ہم اس میدان میں چلے جائیں جس میں دشمن ہمیں کھینچنا چاہتا ہے۔ ہماری تو یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم دشمن کو اپنے میدان میں کھینچ کر لائیں اور اس سے یہ بات منوائیں کہ تمہارے علماء اور صوفیاء تمہارے پیر اور گدی نشین سب کے سب جھوٹ بولتے تھے اور اس صداقت کو صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے پیش کیا ۔ جب یہ ہو جائے گا وہ ہر مسئلے میں تم سے دب کر رہے گا۔
پھر تم اُسے یہ بھی کہو کہ تمہارے صوفیاء، علماء، بزرگ، صلحاء، پیر اور گدی نشین اس بات کو پیش کرتے ہیں جس کو عقل بھی رد کرتی ہے، نقل بھی رد کرتی ہے، قرآن کریم بھی رد کرتا ہے اور رسول کریم ﷺ کی حدیث بھی رد کرتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فعل اور سنت بھی اس کو رد کرتے ہیں۔ کیا تم ہمیں ان کی طرف کھینچتے ہو جن کی بات کو کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں؟ اِس کے مقابل پر ہم تمہیں اس کی طرف بلاتے ہیں جس نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اکیلے کھڑے ہو کر تمہارے صدیوں کے علماء اور صوفیاء کو رگید کر رکھ دیا۔ کیا ہم ایسے لوگوں کے پیچھے جائیں جنہوں نے ایسی شکست کھائی کہ جس مسئلے پر پہلے وہ کفر کے فتوے لگاتے پھرتے تھے ابھی ان پر موت بھی نہ آئی تھی کہ وہ اُسی مسئلے کے متعلق یہ کہنے لگ گئے کہ یہ مسئلہ اہم نہیں ہے اور معمولی ہے؟
پھر اُن کو کہو کہ وہ اب اپنے مولویوں سے جا کر پوچھیں کہ اگر یہ مسئلہ معمولی تھا اور اہم نہیں تھا تو بے حیاؤ! اس کے لئے تم نے کفر کے فتوے کیوں لگائے تھے ؟اور شکست تو مرنے کے بعد یا ایک مدت کے بعد ہوتی ہے مگر یہ تو تمہاری زندگی میں ہی ہو گئی۔ اور تھوڑا عرصہ پہلے جس مسئلہ پر تم کفر کے فتوے لگاتے تھے اب کہنے لگے ہو کہ یہ معمولی مسئلہ ہے۔ اس سے زیادہ کمزوری ان کے اندراور کیا ہو سکتی ہے۔ کیا ان کے ایمان اور دیانت میں خلل نہیں واقع ہو چکا؟ کیا اگر وہ کفر کے فتوے لگانے کے وقت ایماندار تھے تو اب بے ایمان نہیں ہو چکے؟ کُجا یہ کہ اس مسئلے کو لے کر وہ گھر گھر، گلی گلی اور ملک ملک میں سرگرداں پھرے اور انہوں نے کفر کے فتوے تیار کئے اور کُجا اب یہ حالت ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ اہم نہیں ہے اِس کو جانے دو۔ پس یہ ایک ایسا کارآمد حملہ ہے جس میں دشمن ہرگز نہیں بچ سکتا۔
اِسی طرح تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی توجہ دلاؤ کہ کیا دین کے ضعف کا کوئی علاج کرنا چاہئے یا نہیں؟ پھر انہیں سمجھاؤ کہ اگر تم کہو کہ (نَعُوْذُ بِاللہ) یہ حدیثیں جھوٹی ہیں جن میں مسیح کی آمد کا ذکر ہے تو ان مولویوں نے اتنا سچ کیسے بتا دیا؟ان حدیثوں میں اتنا غیب بیان ہؤا ہے کہ بنی اسرائیل کے ہزار سے زیادہ نبیوں نے بھی اتنی خبریں نہ دی تھیں۔ کیا ان حدیثیں بیان کرنے والوں کو بنی اسرائیل کے نبیوں سے زیادہ غیب حاصل ہوتا تھا؟ گویا اُنہوں نے اس زمانے کے تمام حالات کا نقشہ اور فوٹو کھینچ کر رکھ دیا۔ کیا اس قسم کا نقشہ اور فوٹو کھینچ لینا کذابوں اور جھوٹوں کا کام ہو سکتا ہے؟ جن حدیثوں میں یہ خبریں بیان ہوئی تھیں جو اس زمانے میں پوری ہوئیں۔ اُنہیں حدیثوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کی آمد کی خبر بھی بیان ہوئی ہے۔اگر تم اُن حدیثوں کے باقی حصوں کو صحیح مانتے ہو تو انہیں حدیثوں کے اس حصہ کو جو مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے متعلق ہے۔ ماننے میں تمہیں کیوں انکار ہے؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ حدیثیں راویوں نے اپنے پاس سے ہی گھڑ کر بیان کر دیں اور دراصل رسول کریم ﷺ نے یہ خبریں بیان نہیں فرمائی تھیں؟ مگر کیایہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہتک نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ جو خدا تعالیٰ کے رسول تھے انہوں نے تو قیامت تک کے لئے غیب کی کوئی خبر نہ دی لیکن بعض جھوٹوں اور کذابوں نے غیب کی خبریں اس قدر بیان کر دیں جو نہایت عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں؟ کیا یہ کہنے سے ان کو زک نہ پہنچے گی؟اس سے یا تو وہ مانیں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللہ ذرا بھی علم غیب نہ تھا اوریا مانیں گے کہ یہ ساری کی ساری حدیثیں سچی ہیں۔ کیا وہ یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ یہ خبریں جھوٹی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اگر وہ یہ نہیں تسلیم کر سکتے تو اُنہیں ماننا پڑے گا کہ یہ حدیثیں صحیح ہیں۔ پس جب وہ مان جائیں کہ یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اُن سے پوچھو کہ مسیح موعودؑ کہاں ہے؟ جب رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں پوری ہوں گی اور جب باقی تمام باتیں پوری ہو چکی ہیں تو مسیح والی خبر بھی ضرور پوری ہونی چاہئے تھی۔ اسی مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے ساری دنیا کو چیلنج دیا تھا کہ اگر مَیں جھوٹا ہوں تو تم سچے مسیح کو لاؤ ،کہاں ہے؟ کیونکہ یہ زمانہ مسیح موعود کا ہے۔ اس زمانے کی اور مسیح موعود کے زمانے کی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں ۔اور یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں پوری ہونی ضروری ہیں مگر آجکل ہماری جماعت کے لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ جدھر دشمن ان کو کھینچتے ہیں یہ اُدھر ہی کو بھاگتے ہیں۔ حالانکہ تمہیں چاہئے کہ اُنہیں اِس میدان میں کھینچ کر لاؤ جس میں وہ شکست کھا چکے ہیں اور ان سے کہو کہ آؤ پہلے اس مسئلہ پر بحث کر لیں پھر ہم آگے چلیں گے۔ تم نے کفرکے فتوے لگائے ہوئے ہیں ہم تمہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح وہ اپنی غلطی کو ماننے کے لئے مجبور ہو جائیں گے۔ اور اگر وہ اپنی غلطی کا اقرار کر لیں گے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے احمدیت کی فتح کا جھنڈا گاڑ دیں گے۔
پس ہماری جماعت کو تبلیغ کا یہ صحیح طریقہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ورنہ دشمن کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔ تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے بتائے ہوئے طریقوں کو استعمال کرو اور اس کامیاب ہتھیار کو لے کر نئے سرے سے شہروں اور گاؤں پر حملہ کرو۔ تم جہاں جاؤ گے فتح اور کامیابی کے ساتھ واپس لَوٹو گے۔ اپنے دشمن سے کہو کہ جہاں سے لڑائی شروع ہوئی تھی ہم اُسی مورچے پر لڑیں گے۔ اِس پر دشمن اپنی شکست تسلیم کر لینے پر مجبور ہو جائے گا اور اس کے دیکھنے والوں، اس کے ماننے والوں اور اِس کے مقتدیوں پر اس بات کا گہرا اثر پڑے گا اور وہ سمجھ جائیں گے اور یقین کر لیں گے کہ ہمارا امام اور مولوی جھوٹا ہے اور احمدی سچا ہے۔ مگر ہتھیار بھی تبھی کارآمد ہو سکتا ہے جب اُس کے استعمال کرنے والا بھی دلیر اور ماہر ہو۔ جب تک تمہارے اندر تبلیغ کے لئے جرأت نہیں پیدا ہوتی اس وقت تک اچھے سے اچھا ہتھیار بھی بیکار ہے ۔ جیسے کہتے ہیں کسی شہزادہ نے دیکھا کہ ایک شمشیر زن سپاہی نے اپنا کرتب دکھاتے ہوئے تلوار کے ایک ہی وار سے گھوڑے کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے۔ شہزادہ نے نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ یہ خوبی تلوار ہی میں ہے۔ وہ سپاہی کے پاس گیا اور اس سے کہا یہ تلوار مجھے دے دو مگر سپاہی نے تلوار دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ شہزادہ روتا ہؤا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا کہ مَیں نے فلاں سپاہی سے تلوار مانگی تھی مگر اس نے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بادشاہ نے فوراً اس سپاہی کو بلوایا اور کہا تُو اِتنا نمک حرام ہے کہ ہماری تنخواہ سے پلا ہے اور شہزادے نے تم سے تلوار مانگی اور تم نے دینے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ سپاہی مفت تنخواہ نہیں پاتاوہ تو جان پیش کر کے تنخواہ پاتا ہے مگر بیچارے کی روزی چونکہ اس ملازمت سے وابستہ تھی اِس لئے انکار نہ کر سکا اور تلوار شہزادے کے حوالے کر دی۔ شہزادہ نے جھٹ ایک گھوڑا منگایا اور جس طرح اس نے سپاہی کو تلوار چلاتے دیکھا تھا اسی طرح گھما کر تلوار ماری مگر گھوڑے کے چاروں پاؤں کٹ جانے تو الگ رہے اُس کے پاؤں پر تلوار کا کہیں نشان بھی نہ پڑا۔ وہ پھر روتا ہؤا باپ کے پاس آیا اور کہا سپاہی نے دھوکا کیا ہے اور اس نے وہ تلوار نہیں دی جو اس نے خود استعمال کی تھی بلکہ کوئی دوسری تلوار دے دی ہے۔ بادشاہ نے سپاہی کو پھر ڈانٹا اور کہا تم نے تلوار بدل کر کیوں دی ہے؟ سپاہی نے کہا۔ بادشاہ سلامت! مَیں نے تو وہی تلوار دی ہے۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے تو ایک گھوڑا منگوائیں اور تجربہ کر لیں۔ بادشاہ نے ایک گھوڑا منگوایا اور سپاہی نے اسی تلوار سے گھوڑے کے چاروں پاؤں کاٹ دئیے۔ اس کے بعد اس نے بادشاہ سے کہا۔ حضور! میرا کوئی قصور نہ تھا۔ یہ حضور کا لڑکا خود فن سے کورا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کوئی اچھی سے اچھی تلوار بھی کام نہیں دے سکتی۔ پس ہتھیار اپنی ذات میں کچھ چیز نہیں ہے جب تک اس کو استعمال کرنے والا ماہر نہ ہو۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ پہلے تم اپنے اندر تبلیغ کے لئے جوش پیدا کرو۔ جب تک تم میں سے ہر شخص یہ عہد نہیں کر لیتا کہ وہ ساری دنیا کو احمدی بنا کر چھوڑے گا، کامیابی نہیں ہو سکتی۔ تم اس شہزادے کی طرح مت بنو کہ تلوار کے باوجود بھی گھوڑے کے پیر نہ کاٹ سکو بلکہ تمہیں چاہئے کہ اس سپاہی کی طرح بننے کی کوشش کرو۔ تلوار اور ہنر دونوں اچھی چیزیں ہیں مگر نہ تلوار ہی اکیلی اچھی ہے اور نہ ہنر ہی اکیلا اچھا ہے۔ تلوار اور ہنر دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جس شخص کے پاس تلوار ہو گی اور ہنر نہ ہو گا وہ تلوار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا اور جس شخص کے پاس ہنر ہو گا اور تلوار نہ ہو گی وہ ہنر اس کے لئے کچھ بھی فائدہ مند نہ ہو گا۔ پس تلوار تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے خدا تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے مگر اپنے اندر جوش اور اخلاص پیدا کرنا تمہارا اپنا کام ہے۔ اگر تم اپنے اندر جوش اور اخلاص پیدا کر کے صحیح طور پر اِس ہتھیار سے دشمن پر وار کرتے چلے گئے تو دنیا تمہاری ہے، مسیح موعود علیہ السلام کی ہے، اسلام کی ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے اور خدا کی ہے۔ اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی۔ ’’ (الفضل 2 دسمبر 1946ء)
1: گُوہ: گُو یعنی فضلہ۔ غلاظت۔ براز
2: حزقیل باب 4 آیت 13
3:الواقعہ:80
4:صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں یہ الفاظ ہیں۔ حَتّی یَکُوْنَ
رَأْسُ الثَّوْرِ لِاَحَدِھِمْ خَیْرًا مِنْ مِائَۃٍ دِیْنَارٍلِاَحَدِکُمْ الْیَوْمَ
5:سیرت ابن ہشام جلد2صفحہ272مطبوعہ مصر 1936ء

43
دو رؤیا جو واقعات نے سچے ثابت کر دیے
( فرمودہ 22 نومبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘پچھلے دنوں مَیں نے بعض رؤیا دیکھی تھیں جو مَیں نے بعض دوستوں کو بھی سنائیں اور الفضل میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ مَیں نے ایک رؤیا جو 25 اکتوبر کو مجلس میں بیان کی تھی اُس کے متعلق مَیں نے ذکر کیا تھا کہ وہ دہلی سے واپس آنے پر مَیں نے دیکھی ہے۔ اس کی تعبیر اُس وقت جو مَیں نے کی تھی وہ اُس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر بیان کی تھی اور میرا ذہن اصل تعبیر کی طرف نہیں گیا تھا لیکن بعد کے حالات نے بتا دیا کہ اصل میں وہ تعبیر صحیح نہ تھی اور رؤیا کے الفاظ قابلِ تعبیر نہ تھے بلکہ اُسی قسم کے حالات رونما ہونے والے تھے جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا۔ یہ رؤیا 31 اکتوبر کے الفضل میں شائع ہوئی ہے اور 25 اکتوبر کو بعد نماز مغرب مَیں نے بیان کی اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ مَیں نے اس خواب کا ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے بھی ذکر کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب میری بچی کے ہمراہ اس کے دانت دکھانے کے لئے لاہور جا رہے تھے۔ وہ 20 اکتوبر کو لاہور گئے ۔ مَیں نے ان سے 19 اکتوبر کو اس خواب کا ذکر کیا تھا۔ اس سے ایک دو دن پہلے کی یہ رؤیا تھی۔ پس بہرحال یہ رؤیا 17 یا 18 اکتوبر کو مَیں نے دیکھی ہے۔ چنانچہ اخبار میں یہ الفاظ چھپے ہیں کہ دہلی سے واپس قادیان آ کر مَیں نے یہ رؤیا دیکھا۔ اس رؤیا کے الفاظ یہ ہیں ۔
‘‘مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ سارہ بیگم مرحومہ میرے سامنے آئی ہیں۔ مَیں ان کی شکل خواب میں بالکل ویسی ہی دیکھتا ہوں جیسی کہ جاگتے میں نظر آتی تھی۔ گویا اس وقت مجھے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ خواب دیکھ رہا ہوں۔ شکل تو کُلّی طور پر وہی ہے مگر ان کے چہرے پر کچھ اداسی سی معلوم ہوتی ہے۔ ویسے چہرہ روشن ہے اور لباس بھی اچھا ہے۔ مَیں نے کہا سارہ! تمہارے چہرے پر اداسی کیوں ہے؟ وہ کہتی ہیں میرے تین بہن بھائی بیمار ہیں۔ اس پر مَیں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیا تکلیف ہے؟ وہ کہتی ہیں بڑے بھائی بہن اور چھوٹے بھائی کے پیٹ میں کیڑے ہیں۔ یہ سن کر مجھے تعجب ہؤا کہ ان کا چھوٹا بھائی تو کوئی نہیں پھر انہوں نے چھوٹے بھائی کا کس طرح ذکر کر دیا۔ چنانچہ مَیں نے کہا چھوٹا بھائی کونسا؟ انہوں نے کہا مجنہ۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ مجنہ تو کوئی نام نہیں ہوتا۔ شاید مَجِنّہ ہو۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔’’
اِس خواب میں مجھے چھوٹے بھائی کے لفظ سے غلط فہمی ہوئی۔ مَیں یہ سمجھا کہ چونکہ سارہ مرحومہ سے چھوٹا کوئی بھائی نہیں اس لئے خواب کی کوئی اَور تعبیر ہو گی اور مَیں نے یہ سمجھا کہ شاید بھائی بہن سے مراد ان کے بچے ہوں او ربھائی احمدیت کے لحاظ سے کہا گیا ہو۔ مَیں نے اُس وقت تعبیر کی کتاب بھی نہیں دیکھی۔ علم تعبیر میں کیڑے سے مراد دشمن ہوتا ہے اور پیٹ کے کیڑے سے مراد وہ دشمن ہوتا ہے جو بیچ میں رہنے والا ہو۔یعنی ایسے لوگ جو اپنے کہلانے والے ہوں جیسے بھائی بہن اور رشتہ دار یا جو ہم وطن کہلاتے ہوں وہ بھی پیٹ کے کیڑے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیچ میں مل جل کر رہتے ہیں۔ چونکہ چھوٹے بھائی سے اس وقت مَیں یہ سمجھا کہ وہ کہتی ہیں کہ میرا وہ بھائی جو مجھ سے چھوٹا ہے حالانکہ چھوٹے بھائی سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو بھائیوں میں سے چھوٹا ہو۔ مگر چونکہ خواب میں مَیں یہ سمجھا کہ وہ اپنے سے چھوٹا کہتی ہیں اِسی وجہ سے خواب کی تعبیر خواب سے بہت دور چلی گئی۔ مگر اب واقعات نے ظاہر کر دیا ہے کہ اس رؤیامیں درحقیقت فساداتِ بہار کی طرف اشارہ تھا۔ سارہ مرحومہ کے چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔ اِس خواب سے پتہ لگتا ہے کہ دو بھائیوں اور ایک بہن پر کوئی مصیبت آئے گی اور واقعات نے بتا دیا ہے کہ ایسا ہی ہؤا ہے۔ سارہ بیگم بہار کی رہنےو الی تھیں۔ ان فسادات کے وقت ان کا سب سے بڑا بھائی ا ور ان کا سب سے چھوٹا بھائی اور بہن ہی بہار میں تھے۔ بڑے سے چھوٹا بھائی کلکتہ میں تھا اور چھوٹے سے بڑا قادیان میں۔ مَیں نے یہ رؤیا17 یا 18 اکتوبر کو دیکھی اور بہار میں فسادات 22 اکتوبر کو شروع ہوئے۔ اگر کوئی کہے کہ خواب سنایا تو 25 کو گیا ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ 28 اکتوبر سے پہلے بہار سے باہر کسی کو ان فسادات کی خبر نہیں ہوئی نیز جس علاقہ میں سارہ بیگم کے بھائی بہن رہتے تھے وہاں تو فسادات ہوئے ہی 28 اور 29 کو ہیں۔ پس خواب ان فسادات کے شروع ہونے سے پانچ چھ دن پہلے آئی اور اس رؤیاکو مجلس میں بیان کرنے کے تین چار روز بعد بہار کے فسادات کی خبر یہاں پہنچی۔ اس سے قبل بہار گورنمنٹ اس کو چھپاتی رہی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس ہیبت ناک آفت سے پانچ چھ دن پہلے مجھے اس کے متعلق اطلاع دے دی کہ ایسے حالات رونما ہوں گے۔ گو تعبیر کرتے ہوئے مجھے چھوٹے بھائی کے لفظ سے مغالطہ لگا اور مَیں یہ سمجھا کہ خواب میں دو بھائیوں اور ایک بہن کا جو ذکر ہے شاید اس سے ان کے تین بچے مراد ہوں گے۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ لاہور کو جاتے ہوئے میری لڑکی اَمَةُ الرَّشِیْد نے (جو کہ پروفیسر علی احمد صاحب کے لڑکے میاں عبد الرحیم احمد سے بیاہی ہوئی ہے جو خود بہار کے ہیں) مجھ سے ذکر کیا کہ پروفیسر صاحب کہتے تھے کہ فساداتِ بہار میں ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک آدمی کے مرنے کی خبر آئی ہے۔ جس کا نام نجّو تھا اور حضور کی رؤیا میں جو مجنّہ نام آتا ہے شاید اس سے مراد نجّو ہو۔ یہ بات سنتے ہی میرا ذہن اصل تعبیر کی طرف چلا گیا۔ مَیں نے کہا نجّو وجّو کچھ نہیں۔بس اب مَیں اس خواب کی تعبیر سمجھ گیا۔ جیسا کہ مَیں اوپر بتا چکا ہوںسارہ مرحومہ کے چار بھائیوں میں سے فساداتِ بہار کے وقت ایک بھائی قادیان میں تھا اور ایک بھائی کلکتہ میں تھا اور سب سے بڑا بھائی اور سب سے چھوٹا بھائی اور بہن فسادات کے دنوں میں بہار میں تھے اور انہیں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بہار کے کُل سترہ ضلعے ہیں۔ ان میں سے چار ضلعوں میں فساد ہؤا اور تیرہ ضلعوں میں فساد نہیں ہؤا۔ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ بھائی وہاں ہوتے جہاں فساد نہیں ہؤا۔ چاہے وہ بہار میں ہی ہوتے۔ لیکن ان کو ان تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اور اس وقت یہ خواب ان پر چسپاں نہ ہو سکتی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک فسادات اور خطرناک حملے بھاگلپور، مونگھیر اور پٹنہ میں ہوئے اور ان فسادات کے وقت سارہ بیگم کے دونوں بھائی بھاگلپور میں تھے اور بہن اورین ضلع مونگھیر میں تھیں۔ ان دونوں جگہوں پر سخت فسادات ہوئے تھے۔ بھاگلپور کی تار تو الفضل میں چھپ چکی ہے۔ اورین کا بھی محاصرہ ہؤا اور کئی دن وہ لوگ سخت پریشان رہے۔ ان دونوں علاقوں میں جانی مالی نقصان کافی ہؤا۔ کھانے پینے کی بھی بہت تکلیف رہی۔ خواب میں کوئی دیکھے کہ اس کے پیٹ میں کیڑے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کا مالی نقصان ہو گا۔ ان جگہوں میں سخت فسادات ہوئے اور بہت سا جانی نقصان ہؤا۔ لیکن جیسا کہ خواب سے ظاہر تھا سارہ بیگم کے بھائیوں اور بہن کو جانی نقصان سے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ صرف مالی نقصان ہؤا اور پریشانی ہوئی۔ اورین میں بھی کئی دن تک بلوائیوں نے شہر کا محاصرہ رکھا۔ اورین میں ہی ان کی ہمشیرہ تھیں۔ غرض خواب میں سارہ بیگم کے دو بھائیوں اور ایک بہن کی خبر دی گئی تھی کہ ان کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کو اپنے ہمسایوں یا ہم وطنوں سے تکلیف پہنچے گی۔ لیکن اس میں مالی نقصان ہو گا، جانی نقصان نہیں ہو گا۔ یہی حالات وہاں رونما ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فسادات کے شروع ہونے سے چار پانچ دن پہلے مجھے بتا دیا۔ چنانچہ بھاگلپور میں 28 اکتوبر کو فسادات شروع ہوئے اور اورین میں 31 اکتوبر کو ہوئے۔ اس لحاظ سے ایک مقام کے متعلق بارہ دن پہلے اور دوسرے مقام کے متعلق چودہ دن پہلے اطلاع دی اور وہ خبر بعینہٖ پوری ہوئی۔ جو لوگ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کیسی پریشانی اور خطرات کے وہ دن تھے۔ چنانچہ ایک تار سارہ بیگم مرحومہ کے بھائی اور باپ اختر علی صاحب امیر جماعت بھاگلپور کی طرف سے ان دنوں آئی تھی اور الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اس تار کا مضمون یہ تھا کہ اس تار کو آپ ایسا ہی سمجھیں جیسے ڈوبتا ہؤا جہاز اِردگرد کے جہازوں کو خبر دیتا ہے کہ تم ہماری اِس اطلاع کو آخری اطلاع سمجھو۔ اگر اس کے بعد تمہیں کوئی اطلاع نہ آئے تو تم سمجھ لینا کہ ہم ڈوب چکے ہیں۔ اسی طرح کی ایک تار اورین سے بھی آئی تھی جہاں سارہ مرحومہ کی بہن محصور تھیں۔ یہ تار سیّد وزارت حسین صاحب نے اپنے لڑکے کو (جو پٹنہ میں ڈاکٹر ہیں) دی تھی کہ اگر ہمیں بروقت مدد نہ پہنچی تو تم سمجھ لینا کہ تمہارے ابا مارے جا چکے ہیں اور وہ تار عزیزم اختر حسین نے میرے پاس بھیج دی۔ اِن باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کیسے خطرناک حالات وہاں پیدا ہو گئے تھے اور یہ رؤیا کس صفائی سے پوری ہوئی ہے۔ خواب سے یہ پتہ لگتا تھا کہ دو بھائیوں اور ایک بہن کو کوئی حادثہ پیش آئے گا۔ اور پیٹ میں کیڑے ہونے سے یہ مراد تھی کہ اُن کو سخت پریشانی ہو گی، مالی نقصان بھی ہو گا لیکن جانیں بچ جائیں گی۔ اور سارہ مرحومہ کی اداسی سے مراد پریشانی تھی اُن حالات کے متعلق جو آئندہ ہونے والے تھے۔ پس ان کے دو بھائی اورایک بہن کو ہموطنوں کی طرف سے سخت تکالیف پہنچیں۔ وہ خود تو بچ گئے لیکن جائیدادوں کو کافی نقصان ہؤا ہے۔ ان کو تنگیاں بھی آئیں، کئی دن تک محاصرے میں رہے۔ یہ سب کچھ ہؤا لیکن اللہ تعالیٰ نے خواب کے مطابق سب کو جانی نقصان سے محفوظ رکھا۔
اِس کے بعد مَیں اپنی ایک اَور رؤیا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ رؤیا مَیں نے ڈلہوزی سے لکھ کر بھجوائی تھی اور الفضل (24 اگست 1946ء) میں چھپ چکی ہے۔ یہ رؤیا غالباً 1940ء یا 1941ء کی ہے۔ مَیں نے اُس وقت یہ رؤیا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو سنا دی تھی۔ مگر وہ کہتے ہیں مجھے یاد نہیں۔ بہرحال وہ رؤیاموجودہ حالات کے پیدا ہونے سے پہلے چھپ چکی تھی۔ وہ رؤیایہ تھی کہ مَیں نے دیکھا مَیں دہلی میں ہوں اور انگریز حکومت چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور ہندوستانیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے اور بڑی خوشی کے جلسے کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ ایک بہت بڑا چوک ہے اُس میں کھڑے ہو کر بڑے زور شور سے لوگ تقریریں کر رہے ہیں او رخطابات تجویز کر رہے ہیں کہ ہندوستان نے یہ حکومت حاصل کی ہے فلاں کو یہ رتبہ دیا جائے اور فلاں کو یہ عہدہ دیا جائے۔ مَیں نے ان کی ان خوشیوں کو دیکھ کر کھڑے ہو کر اُن میں ایک تقریر کی اور کہا ۔ یہ کام کرنے کا وقت ہے، خوشیاں منانے کا وقت نہیں۔ انگریز تو صرف عارضی طور پر پیچھے ہٹے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ پھر لَوٹیں اور یہ سب خوشیاں بے کار ہو جائیں۔ اس لئے تقریریں نہ کرو، خوشیاں نہ مناؤ، تنظیم کرو اور تیاری کرو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں پر میری بات کا اثر ہؤا ہے لیکن اکثروں پر نہیں ہؤا۔ اور وہ اِس خوشی میں کہ ہم نے ملک پر قبضہ کر ہی لیا ہے ،نعرے مارتے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ جب وہ نعرے مار کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور میدان خالی ہو گیا تو مَیں نے دیکھا کہ سامنے سے انگریزی فوج مارچ کرتی ہوئی چلی آ رہی ہے اور مَیں نے کہا دیکھو وہی ہؤا جس سے مَیں ڈرتا تھا۔ اُس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اب جبکہ ملک آزاد ہو چکا ہے، ملک کی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ مَیں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کتنے آدمیوں سے مَیں یہ کام کر سکتا ہوں اور مَیں نے خیال کیا کہ اگر پندرہ سو آدمی جمع ہو جائیں تو ہم اس آزادی کو برقرار رکھ سکیں گے۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔
اب دیکھو اس کے بعد کے واقعات بالکل اسی طرح رونما ہوئے۔ انگریزوں نے حکومت کانگرس منسٹری(Congress Ministry) کو دے دی اور ملک میں شور پڑ گیا کہ ہندوؤں کی حکومت ہو گئی۔ بس فیصلہ ہو گیا۔ کانگرس بھی حکومت کے غرور میں آگئی اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ اب ہمارا راج ہے۔ اب پرانا زمانہ نہیں رہا۔ پولیس اور فوج میں بھی گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ یہ کیا بن گیا ہے اور کانگرس اعلان پر اعلان کرتی کہ اب ہمارا راج ہے۔ اب کسی کو ہمارے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ یہ دس پندرہ دن مسلمانوں کے لئے نہایت بے چینی اور پریشانی کے دن تھے۔ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ اب ہندوؤں کا راج ہو گیا ہے۔ اس کے بعد مَیں دہلی گیا اور مسلمانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لئے ہم جو کوشش کرسکتے تھے ہم نے کی۔ ہم نے انتہائی کوشش کی کہ مسلم لیگ کسی طرح عارضی حکومت میں آجائے۔ ہم نے دعاؤں کے ذریعہ تدبیروں کے ذریعہ کوششوں کے ذریعہ اس کام کو سر انجام دینے کے لئے سعی کی۔ گو کانگرس یہ نہیں چاہتی کہ مسلم لیگ عارضی حکومت میں آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ مسلم لیگ عارضی حکومت میں داخل ہو گئی اور کانگرس پر ان کا اندر آنا گراں گزرنے لگا اور انہوں نے ایسی کارروائیاں شروع کیں کہ آزادی کے خواب خیال بننے لگ گئے۔ آخر وہی جو مَیں نے خواب میں کہا تھا پنڈت نہرو کو میرٹھ کے کانگرس کے اجلاس میں کہنا پڑا۔ انہوں نے کہاہے ہم یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں نے ہمیں آزادی دے دی ہے اور جو آزادی ہمیں ملنی چاہئے تھی وہ مل گئی ہے اور لارڈ ویول ہمارے ساتھ اس طرح کام کرتے رہے کہ ہمیں ان کے متعلق حسن ظنی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ جب سے مسلم لیگ حکومت میں آئی ہے۔ پہلے جیسے حالات نہیں رہے اور مسلم لیگ اور انگریزوں میں کوئی سازش معلوم ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز آہستہ آہستہ آزادی دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور انگریزوں کے ارادے اب بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب ہمیں آزادی دینے کو تیار نہیں اور مسلم لیگ ان کے پنجہ کو مضبوط کر رہی ہے۔ اب دیکھو کیسی وضاحت کے ساتھ پنڈت نہرو نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اب انگریز اپنےہاتھ کو پہلے کی نسبت مضبوط کر رہے ہیں۔ وجہ خواہ کوئی ہو حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آج سے چھ سال پہلے خواب میں بتایا گیا تھا پہلے ہمارے ملک میں یہ رَو چلی کہ ہم حاکم ہو گئے ہیںَ اور دوسری رَو یہ چلی ہے کہ انگریز اب آزادی کے رستے میں روک بن رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ کی اور انگریزوں کی آپس میں کوئی سازش ہو (یہ بات بالکل غلط ہے کہ مسلم لیگ اور انگریزوں کی کوئی سازش ہے) لیکن یہ بات درست ہے کہ انگریز اب اس طرح کانگرس کے ہاتھ میں حکومت دینے کو تیار نہیں رہا جس طرح پہلے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے فسادات کی وجہ سے یہ احساس ان میں پیدا ہؤا ہو کہ ہمارے فیصلے کی وجہ سے ہندوستان میں خون ریزی ہوئی۔ یا اِس وجہ سے اس ارادے میں تبدیلی ہوئی کہ کنزرویٹو پارٹی نے یہ اصرار کیا ہے کہ یہ فسادات لیبر پارٹی کی غلطی کی وجہ سے ہیں کہ اس نے یکدم ہندوستانیوں کو حکومت دے دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لیبر پارٹی نے یہ خیال کیا ہو کہ اگر ہم نے اس حال میں ہندوستانیوں کے ہاتھ میں حکومت دے دی تو کنزرویٹو پارٹی کے ہاتھ میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے ایک ہتھیار آ جائے گا اور اِس سے ہماری پارٹی کو نقصان ہو گا۔ اور یا ان کے دلوں میں ندامت پیدا ہوئی ہو کہ ہم نے صحیح فیصلہ نہیں کیا اور ہندوستان میں مسلمانوں کی جانیں محفوظ نہیں۔ اور اگر اب حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں دے دی گئی تو ملک میں حالت بدتر ہو جائے گی اور کنزرویٹو پارٹی کو ان کے خلاف لوگوں میں بدظنی پھیلانے کا موقع مل جائے گا۔ بہرحال خواہ اخلاقی لحاظ سے اور خواہ مصلحتی لحاظ سے۔ اب انگریز آزادی دینے کے اتنے شوقین نظر نہیں آتے جتنے وہ پہلے تھے اور اب ایسا نظر آتا ہے کہ انگریز دوبارہ ملک پر قبضہ کر رہے ہیں۔ یہ قبضہ خواہ عارضی ہو یا مستقل ارادہ سے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے دیکھا ہو کہ ہندومسلمان فساد کرتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم خود حکومت کریں تاکہ ان فسادات کی نوبت ہی نہ آئے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب یہ حالات سُدھر جائیں او رلوگوں میں اعتماد پیدا ہو جائے تو وہ حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کر دیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خواب کی بات ہمیشہ کے لئے چلی جائے۔ ہو سکتا ہے ایک ماہ، دو ماہ یا تین ماہ کے بعد یہ حالت نہ رہے۔ بہرحال موجودہ حالات میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اندرونی معاملات میں دخل دینا شروع کر دیا ہے اور پنڈت جواہر لال نہرو کا وائسرائے پر اِس دلیری سے حملہ کرنا بتاتا ہے کہ اب حالات پہلے سے نہیں رہےاور آزادی کے خواب پراگندہ ہو رہے ہیں۔ ایسے شخص کا اقرار کوئی معمولی بات نہیں۔ جب پنڈت جواہر لال نہرو گورنمنٹ میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھیوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ گورنمنٹ میں کیوں گئے ہیں؟ آپ کے وہاں جانے سے آزادی کی جد و جہد کمزور ہو جائے گی۔ لیکن انہوں نے اور گاندھی جی نے یقین دلایا کہ وہ آزادی کی جد و جہد کو زیادہ تیز کرنے کے لئے گورنمنٹ میں جا رہے ہیں۔ لیکن اب پنڈت جواہر لال نہرو مشکلات کا اقرار کر رہے ہیں او رکہہ رہے ہیں کہ انگریزوں کا پہلو مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے لئے دن بدن مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ گویا وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں اور ان کا دلیری کے ساتھ شکست کا اعلان کرنا بتاتا ہے کہ موجودہ حالات کا حکومت پر بہت گہرا اثر پڑا ہےا ور انہوں نے سمجھا کہ شکست کا اعلان زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اِس کے کہ اپنی قوم کو تاریکی میں رکھا جائے ۔
اب دیکھو یہ وہی حالات ہیں جو مَیں نے رؤیا میں دیکھے۔ اور یہ جو مَیں نے خیال کیا ہے کہ اگر پندرہ سو آدمی مجھے مل جائیں تو مَیں اس آزادی کو برقرار رکھ سکتا ہوں۔ اِس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کامل آزادی کے سامان پیدا کرے گا۔ بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ پندرہ سو آدمیوں سے کیا مراد ہے؟ مَیں نے اُنہیں یہ جواب دیا کہ تعداد بتائی گئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ پندرہ سو سے کس قسم کی تعداد مراد ہے کیونکہ ہماری جماعت تو لاکھوں کی ہے اور پندرہ سو کی تعداد کوئی ایسی تعداد نہیں جس سے کوئی سیاسی تحریک چلائی جا سکے یا دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اِس لحاظ سے یہ چیز مجھ پر حل نہیں ہوئی۔ اب پنڈت جواہر لال نہرو کا اقرار پڑھا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چیز بھی حل ہو گئی۔ وہ اس طرح حل ہوئی کہ جنگ احزاب میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ بارہ سو سے پندرہ سو کے درمیان آدمی تھے او ربعض روایات میں دو ہزار کی تعداد بھی بیان کی گئی ہے۔ لیکن بالعموم پندرہ سو کی تعداد ہی تاریخوں میں آتی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے یہ تعداد بتا کر اِسی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابھی تمہاری حالت جنگ احزاب کی سی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دشمن کے حملے کا دفاع کرنے کے لئے خندق کھودی تھی اور یہ پہلی جنگ تھی جس میں کئی دنوں تک فوجوں کو لڑنا پڑا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسی جنگ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ابھی تمہاری حالت دفاع کرنے والی ہے۔ ابھی حملہ کا وقت نہیں آیا۔ پس پندرہ سو آدمیوں سے مراد غزوۂ احزاب کا طریقِ کار ہے اور اس خواب سے مَیں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی مشکلات آہستہ آہستہ حل ہوں گی۔ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتیں۔ ہاں جس طرح غزوۂ احزاب آخری جنگ تھی اِسی طرح اب ہندوستان کی آزادی کے لئے جو جد و جہد ہو گی وہ بھی آخری جد و جہد ہو گی۔ اور اس کے بعد انگریزوں کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ اب آزادی دئیے بغیر چارہ نہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا میں یہ تسلی دلائی ہے کہ ہندوستان کو آزادی تو مل جائے گی لیکن کچھ دیر کے بعد ملے گی۔ یہ تعبیر ہے جو اَب میری سمجھ میں آئی ہے جو شخص اِس طریقِ کار پر چلے گا، کامیاب ہو گا۔ لیکن جو شخص جلدبازی اور عجلت سے کام لے گا وہ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کر سکے گا۔
ہر عقلمند آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہندو مسلمان کا سوال ایک دن میں حل ہونے والا نہیں بلکہ اِس کے لئے کچھ وقت کی ضرورت ہے اور پھر انگریز جو دو سو سال سے ہندوستان پر قبضہ کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایک منٹ میں اسے کیسے خالی کر دیں گے۔ مصر کے خالی کرنے کے لئے انگریز تین سال کی مہلت مانگ رہے ہیں اور مصری لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک سال کے اندر اندر اپنی فوجیں نکال لیں حالانکہ مصر میں ہندوستان کی نسبت انگریزوں کا روپیہ بھی کم لگا ہؤا ہے، فوجیں بھی کم ہیں اور دوسرے فوائد بھی کم ہیں۔ مصر میں انگریزوں کی فوج پچاس ساٹھ ہزار ہو گی اور ہندوستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہو گی اور ہزاروں ہزار سِولین افسر یہاں ہیں۔ پھر تجارتی مفاد بھی مصر کی نسبت یہاں زیادہ ہے۔ جب انگریز مصر کو خالی کرنے کے لئے تین سال کی مہلت مانگ رہے ہیں تو وہ ہندوستان کو کیسے فوراً خالی کرسکتے ہیں۔ پس میرے نزدیک تو وہی غزوہ احزاب والا طریق کارگر ہو گا کہ ہندوستان کو آزادی آہستہ آہتہ ملے گی۔ یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ انگریز دو چار ماہ میں چلے جائیں گے۔ ان کے لاکھوں سپاہی یہاں ہیں، ہزاروں افسر یہاں ہیں، ان کا اربوں ارب روپیہ ہندوستان میں لگا ہؤا ہے۔ ان افسروں کو اور سپاہیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے میں کچھ عرصہ لگے گا اور اس اربوں ارب روپیہ کو سمیٹنے میں بھی کچھ عرصہ لگے گا۔ اگر برطانیہ فوراً ہندوستان سے ہاتھ کھینچ لے تو اسے ان فوائد سے محروم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ رومانیہ اور بلغاریہ میں انگریزوں نے فوجیں رکھنے پر اصرار نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ روس اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ وہ دشمن ملک جن کو انگریزوں نے مغلوب کیا تھا اب بھبکیاں دے رہے ہیں اور ان کی باتوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ گویا انگریزوں نے اُن کو نہیں مارا بلکہ انہوں نے انگریزوں کو مارا ہے۔ وہ اس طرح انگریزوں سے سلوک کرتے ہیں گویا وہ حاکم اور غالب ہیں۔ لیکن جہاں انگریزوں کی فوجیں موجود ہیں وہاں انتظام میں خلل نہیں پڑتا۔ مثلاً جرمنی میں ان کی فوجیں ہیں، آسٹریلیا میں ان کی فوجیں ہیں۔ وہاں انتظام میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ پس جب تک ہندوستان سے ان کے سیاسی اور اقتصادی فوائد وابستہ ہیں اُس وقت تک وہ فوجیں واپس بلانے کو تیار نہیں ہوں گے۔ انگریزوں نے ہندوستان کا نقصان کیا یا اسے فائدہ پہنچایا؟ انہوں نے غلط کیا یا صحیح؟ اس کا سوال نہیں۔ اب تو صورت یہ ہے کہ ان کے فوائد ہندوستان سے وابستہ ہیں۔ جب تک وہ اپنے آدمیوں کو فارغ کر کےد وسری جگہ لگا نہ لیں اور اپنا روپیہ سمیٹ نہ لیں اُس وقت تک انگریزوں سے یہ امید نہیں کہ وہ ہندوستان کو خالی کر دیں گے۔ او رمیرا خیال ہے کہ ہندوستان میں اب امن قائم کرنے کے لئے وہ اَور بھی زیادہ ٹھہریں گے کیونکہ ہندو مسلم صلح صرف ایک بار ہاتھ جوڑنے سے نہیں ہو جائے گی۔ یہ کام ایک دو دن میں نہیں ہو سکے گا۔ جہاں کروڑوں کروڑ آدمی ایک طرف اور کروڑوں کروڑ آدمی دوسری طرف ہوں۔ ان سب میں صلح کرا دینا آسان کام نہیں۔ اگر صرف دو آدمیوں کے صلح کرنے سے صلح ہو سکتی تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ صلح کرانا کوئی مشکل بات نہیں۔ لیکن یہاں ایک دو دلوں کی صلح کا سوال نہیں بلکہ کروڑوں دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا نام صلح ہے۔ ہم یہ سچے دل سے مان لیتے ہیں کہ گاندھی جی کے دل میں مسلمانوں کے لئے بُغض اور کینہ نہیں۔ لیکن کیا گاندھی جی کے مسلمانوں سے ملنے سے باقی تمام ہندو اپنے ارادے چھوڑ دیں گے؟ بہار کے فسادات کے موقع پر بھی گاندھی جی نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ فساد کو بند کریں،نہیں تو مَیں مرن برت 1رکھ لوں گا۔ لیکن کیا ہندوؤں نے ان کی بات مان لی؟ وہ کتنی دیر سے آہنسا2 کی تعلیم دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن ہندوؤں پر گاندھی جی کی بات کا ذرا بھر بھی اثر نہیں ہؤا۔ اور انہوں نے گزشتہ چند ماہ میں کم سے کم بیس پچیس ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے اور لاکھوں کو زخمی کیا ہے اور ان کے گھر جلا دئیے ہیں۔ پس ہندوؤں اور مسلمانوں کی صلح سے مراد لیڈروں کی صلح نہیں بلکہ افراد کی صلح مراد ہے۔ جب تک افراد کے دلوں میں سے ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور بُغض نہیں نکلتا اُس وقت تک صلح ناممکن ہے اور کروڑوں کروڑ دلوں کو آپس میں ملانا کوئی ایک دو دن کا کام نہیں بلکہ اس کےلئے کچھ عرصہ کی ضرورت ہے اور ایک بہت بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے۔
پس مَیں سمجھتا ہوں کہ پندرہ سو کی تعداد کا اشارہ واقعہ احزاب کی طرف ہے۔ یعنی اگر ہندوستان کے لوگ غزوۂ احزاب کے طریق کار پر کام کریں گے یعنی خندقوں کے پیچھے ہو کر آہستگی سے کام کریں گے تو انہیں آزادی مل جائے گی۔ اور خواب میں جو مَیں نے خیال کیا کہ اگر پندرہ سو آدمی مجھے مل جائیں تو ہم آزادی کو برقرار رکھ سکتے ہیں اِس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ لوگ ہمیں ثالث مان لیں تو ہم ایسے احسن طو پر ان کے درمیان فیصلہ کریں گے کہ کسی طرف کو کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔ گو مَیں یہ جانتا ہوں کہ وہ ہمیں ثالث نہیں بنائیں گے اور یہ بات یوں بھی بظاہر حالات خلافِ عقل نظر آتی ہے۔ لیکن خلافِ عقل ہونا اَور بات ہے اور واقع میں کسی چیز کا موجود ہونا اَور بات ہے۔ گو یہ دنیا کے نزدیک عقل کے خلاف بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافِ عقل نہیں۔ ہندو مانیں نہ مانیں، مسلمان مانیں نہ مانیں، انگریز مانیں نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے احمدیت کو قائم کیا ہےوہ جانتا ہے کہ اب سوائے احمدیت کے اور سوائے احمدیت کے رہنما کے پیچھے چلنے کے کوئی علاج اِن مشکلات کا نہیں۔ اور آہستہ آہستہ دنیا خود ایسا کہنے پر مجبور ہو گی۔ پس ہمارے لئے اِن باتوں کا فیصلہ کرنا بہت آسان بات ہے۔
مثنوی رومی میں ایک قصہ آتا ہے کہ چار فقیر اکٹھے سارا دن مانگتے رہے لیکن انہیں کوئی پیسہ نہ ملا۔ آخر شام کے قریب کوئی مسافر گزر رہا تھا اُس کو ان کی حالت پر رحم آیا۔ اُس نے ان کو کوئی ایک پیسہ دیا اور کہا تم چاروں اپنی اپنی مرضی کی چیز لے کر کھا لینا۔ ایک پیسہ اور چار فقیر۔ ہر ایک یہ کہتا کہ میری خواہش پوری کرو۔ ان میں سے ایک پنجابی تھا۔ وہ کہتا مَیں تو داکھیں کھاؤں گا۔ انگور کو پنجابی میں داکھ کہتے ہیں۔ ایرانی کہنے لگا میری خواہش پوری کرو۔ مَیں تو انگور کھاؤں گا۔ جو تُرک فقیر تھا اُس نے تُرکی میں جو انگور کے لئے لفظ ہے وہ بولا اور کہا مَیں تو وہ کھاؤں گا۔ عربی نے کہا مَیں تو عِنَب کھاؤں گا۔ غرض ہر ایک یہی کہتا تھا کہ میری خواہش پوری کرو۔ چنانچہ ان میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ اِس نے اُس کا گلا پکڑا ہؤا تھا۔ اُس نے اِس کا گلا پکڑا ہؤا تھا اور آپس میں لڑ رہے تھے کہ اتفاق سے وہاں کوئی ایسا شخص آ نکلا جو چاروں زبانیں جانتا تھا۔ اس نے ان کے پاس آ کر وجہ دریافت کی۔ سب نے اپنی اپنی خواہش بتائی۔ اس نے کہا پیسہ مجھے دے دو مَیں تم سب کی خواہش پوری کر دوں گا۔ پیسہ لے کر وہ انگور والے کے پاس گیا اور وہاں سے ایک پیسے کے انگور لا کر سب میں تقسیم کر دئیے۔ اِس پر ہر ایک نے کہنا شروع کر دیا کہ بس یہی میرا دل چاہتا تھا۔ پس ہم کو بھی اللہ تعالیٰ نے مَنْطِقُ الطَّیْر عطا فرمائی ہے۔ ہم بھی چاروں زبانیں جانتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے سپرد کر دیں تو ہم تمام کے تمام جھگڑے چکُا سکتے ہیں۔ گو مَیں یہ جانتا ہوں کہ دنیا کے لوگ انبیاء کی جماعتوں پر اعتبار نہیں کیا کرتے۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو یہ بات سنا دیں کہ اگر وہ ہم کو ثالث مان لیں تو ہم ہر ایک کا حق دلا دیں گے اور کسی قوم کی حق تلفی نہ ہو گی۔ گو مجھے ان لوگوں سے امید نہیں کہ وہ مجھے ثالث بنائیں گے۔ بے شک آج دنیا ہمارے مشورہ کو قبول نہ کرے لیکن ہمارے لئے وقت مقدر ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری راہنمائی ہی صحیح راہنمائی تھی۔ ’’
(الفضل 6 دسمبر 1946ء)
1مرن برت: وہ فاقہ جسے کرتے کرتے انسان مر جائے۔
2: آھنسا: اصل تلفظ ہندی میں ‘‘اَہِنسا’’ہے یعنی تشدد کے مقابلے میں عدم تشدد۔ ظلم کو
برداشت کرنا اور قدرت کے باوجود جواب نہ دینا۔ مہاتما گاندھی کی عدم ِ تشدّد کی فلاسفی
(اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 1 صفحہ 1092 مطبوعہ 1977ء کراچی)

44
مصیبت زدگانِ بہا رکی امداد کے لئے احمدی ڈاکٹر اپنے آپ کو پیش کریں
( فرمودہ 6 دسمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ او رسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دوستوں کومعلوم ہے کہ بہار کے مصیبت زدگان کی مدد اور خبر گیری کے لئے جماعت احمدیہ کا ایک وفد بھی بہار گیا ہؤا ہے۔ اس میں دو احمدی ڈاکٹروں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں جو اِس وقت بہا رکے مختلف علاقوں میں بیماروں کا علاج کر رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک خبروں سے معلوم ہوتا ہے اس علاقہ میں اِس قدر زیادہ تباہی مچائی گئی ہے کہ صرف چند ڈاکٹر صحیح طور پر بیماروں اور زخمیوں کے علاج اور دیکھ بھال کا کام نہیں کر سکتے بلکہ وہاں بیسیوں اور سینکڑوں ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی۔ دوسرے مسلمانوں کی طرف سے بیماروں اور زخمیوں کے لئے جو انتظام کیا گیا ہے اور جو وفد بھیجا گیا ہے اس میں بالعموم ڈاکٹری کے طالب علم یا کمپونڈر وغیرہ شامل ہیں۔ تجربہ کار اور ماہر ڈاکٹر بہت کم ہیں۔ اس لئے جو لوگ زیادہ مریض اور زخمی ہیں اُن کے علاج میں دقّت اور مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ مجھے آج ہی وہاں کے ایک احمدی کارکن سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ زخمی اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ ان کے علاج معالجہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور جب تک مزید ڈاکٹر وہاں نہیں پہنچتے اِس کام کو سر انجام دینا بہت مشکل ہے۔ پس مَیں جماعت کو تحریک کرتا ہوں (خطبہ تو شاید دیر سے تیار ہو کر اخبار میں چھپے گا۔ الفضل والوں کو چاہئے کہ اِس خطبہ کا مختصر نوٹ کل سے الفضل میں چھاپنا شروع کر دیں تاکہ اگر یہاں قادیان میں کچھ ڈاکٹر ہوں۔ جو ایک مہینہ یا اس کے قریب وقت دے سکتے ہوں تو وہ جلد از جلد اپنے نام لکھوا دیں اور مصیبت زدگان کی امداد کر کے خدا تعالیٰ سے ثواب حاصل کریں) ٭ بیرونجات کے ڈاکٹر جن میں سے بعض رخصت پر ہیں یا رخصت پر تو نہیں مگر اس کام کے لئے رخصت حاصل کر سکتے ہیں اُن کے لئے بھی ثواب کا موقع ہے۔ انہیں چاہئے کہ ہر ممکن کوشش کر کے وہ اس کام میں حصہ لیں کیونکہ انسان کی زندگی اتنی محدود ہے اور خدا کےساتھ معاملہ اِتنا لمبا ہے کہ ان دونوں کو آپس میں کچھ نسبت ہی نہیں۔ اس لئے زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اور خدا کے ساتھ ابدی معاملہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے ثواب کے موقع کو ضائع نہیں جانے دینا چاہئے۔ اور جہاں تک ہو سکے اپنی زندگی میں سے لمبا وقت خدمتِ دین اور خدمت ِخلق میں گزارنا چاہئے تاکہ یہ کام دینی اور دنیوی ترقی میں مُمِد ہوں۔ مَیں نے پہلے بھی جماعت کو کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا معلوم ہے کہ کل اس کی اپنی حالت کیا ہو۔ اس لئے مصیبت کے وقت سب مصیبت زدوں کا اکٹھا ہو جانا ضروری ہوتا ہے ورنہ ایک ایک کر کے مارے جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور دشمن ہمیشہ تفرقہ سے ہی فائدہ اٹھایا کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ مدِّ مقابل قوم اختلافات اور تفرقہ میں مبتلا رہے اور وہ فرداً فرداً سب سے دوچار ہو سکے اور آسانی کے ساتھ انہیں تباہ کر سکے۔
اس قسم کے تفرقہ سے فائدہ اٹھانے کی ایک مثال مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک زمیندار کے باغ میں پھل پکے ہوئے تھے۔ ایک دن ایک سیّد کے لڑکے ، ایک مولوی کے لڑکے اور ایک عامی آدمی نے مشورہ کیا کہ زمیندار کے باغ میں چل کر پھل کھانے چاہئیں۔ وہ تینوں نہایت مضبوط اور ہٹّے کٹّے تھے۔ سیدھے باغ میں پہنچے اور پھل کھانے شروع کر دئیے۔ کچھ پھل تو انہوں نے کھائے، کچھ توڑےا ورکچھ پھینکے۔ اس طرح باغ کو اُجاڑ دیا۔ جب باغ والے زمیندار کو
٭ قادیان سے اسی دن میجر بدر الدین اور میجر محمد جی صاحبان نے اپنے نام دئیے اور وہ روانہ ہو چکے ہیں۔ مگر افسوس کہ امور عامہ نے حسب معمول سستی کر کے انہیں کئی دن بعد بھجوایا۔
اس کے متعلق اطلاع ہوئی کہ تین آدمی باغ کو نقصان پہنچا رہے ہیں تووہ جھٹ باغ میں پہنچا۔ مگر جب اُس نے ان تینوں نوجوانوں کو دیکھا تو خیال کیا کہ اگر مَیں نے ان سے کچھ کہا تو باغ تو پہلے ہی اُجڑ چکا ہے یہ میری بھی ہڈی پسلی توڑ دیں گے۔ اِس لئے اُس نے ایک ترکیب سوچ کر جھٹ اپنا چہرہ بشّاش بنا لیا او ران تینوں کے پاس پہنچ کر ہنستے ہوئے کہا آپ کے آنے سے بڑی خوشی ہوئی۔ کھائیے اور حظّ اٹھائیے یہ سب آپ ہی کا مال ہے۔ ہم تو صرف آپ کے خادم ہیں اوراس سے بڑھ کر ہمارے لئے خوشی اَور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ جیسے بزرگ ہمارے ہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ اِس پر وہ تینوں لڑکے نہایت خوش ہوئے۔ جب زمیندار نے سمجھا کہ میرا جادو چل گیا ہے تو اُس نے سیّد کے لڑکے کو الگ لے جا کر کہا۔ آپ تو سیّد ہیں اور ہمارے پیروں کی اولاد ہیں اس لئے ہمارا مال سب آپ ہی کا ہے۔ پھر آپ آلِ رسول بھی ہیں۔ اللہ اللہ! آپ کی کیا شان ہے۔ ہمارے پاس تو جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اور آپ کو بھلا ہمارے مال کے استعمال کے لئے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ جب چاہیں او رجو چیز چاہیں بڑی خوشی سے لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد زمیندار نے مولوی کے لڑکے کو الگ بلایا اور کہا آپ دین کی خدمت کرتے ہیں اِس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی خدمت کریں۔ جب آپ دین کے ہر قسم کے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں تو ہم بھلا ایسے ہو سکتے ہیں کہ آپ کی خدمت میںلَیْت و لَعْل کریں۔ مگر اس تیسرے آدمی کا کیا حق تھا کہ اس طرح بغیر پوچھے میرے باغ میں سے پھل کھاتا؟ چونکہ زمیندار نے ان دونوں کی انتہائی تعریف کی تھی اِس لئے اُن دونوں نے کہا۔ آپ نے بات تو نہایت معقول کی ہے۔ واقعی اس کا کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح آپ کے باغ میں داخل ہوتا۔ زمیندار نے کہا۔ اگر میری بات معقول ہے تو آپ آلِ رسول ہیں اور یہ مولوی صاحب کے فرزند ہیں میری داد رسی کیجئے۔ اِس پر اُن دونوں نے اور زمیندار نے مل کر اُس تیسرے کو درخت کےساتھ باندھا اور خوب پیٹا۔ ساتھ ہی زمیندار یہ بھی کہتا جاتا۔ تمہارا کیا حق ہے کہ اِس طرح میرے باغ میں بغیر پوچھے گھس جاؤ۔ یہ تو آلِ رسول ہیں اور یہ مولوی صاحب کے بیٹے ہیں تم کون ہو؟ اُن کا تو سب کچھ اپنا تھا اور یہ جب چاہیں باغ میں آ سکتے ہیں مگر تمہارا کیا حق تھا کہ اس طرح باغ اجاڑتے۔ زمیندار جب اچھی طرح اُس کو سزا دے چکا تو سیّد کے لڑکے کو الگ لے گیا۔ اور کہا شاہ صاحب! آپ تو آلِ رسول ہیں اور ہمارے پیرو بزرگ ہیں۔ مگر اس مولوی کے لڑکے کو کیا حق پہنچتا ہے۔ ہم آپ کے تو ہر طرح غلام ہیں مگر اس کا حق نہ تھا کہ اس طرح باغ میں گھس آتا۔ بھلا وہ آپ کی شان کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔کُجا سیّد! کُجا امتی! سیّد زادے نے جب اپنی تعریف سُنی تو بہت خوش ہؤا اور کہا بالکل ٹھیک ہے۔ بھلا اس کا کیا حق ہے کہ آپ کے باغ میں بلا اجازت داخل ہو۔ زمیندار نے کہا۔ اگر ٹھیک ہے تو میری حق رسی کرو۔ غرض ان دونوں نے مل کر مولوی کے لڑکے کو بھی درخت سے باندھ دیااور خوب پیٹا۔ زمیندار اُس کو پیٹتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا۔ بےشرم! تجھے ذرا شرم نہ آئی کہ تمہارا باپ دوسرے لوگوں کو مسئلے بتا بتا کر ایسے کاموں سے منع کرتا ہے اور تُو بلا اجازت پھل کھانے کے لئے میرے باغ میں گھس آیا۔ اب زمیندار نے دل میں سوچا کہ دو جوان تو باندھے جا چکے ہیں۔ اب یہ اکیلا بے چارا کیا کر سکتا ہے۔ اس نے عامی اور مولوی کے لڑکے کو باندھنے کے بعد سیّد کو بھی گردن سے پکڑ لیا ۔ کہا خبیث! کیا آلِ رسول کے اس قسم کے افعال ہوتے ہیں۔ اُس کو بھی اُس نے خوب مارا۔
یہ درحقیقت ایک مثال ہے اس امر کی کہ جب تمہارے کسی ہمسائے پر مصیبت آجائے تو تم یہ نہ سمجھو کہ یہ مصیبت صرف ہمسائے پر ہی ہے اور تم پر ابھی نہیں آئی۔ آج جو مصیبت تمہارے ہمسائے پر آئی ہے وہ کل تم پر بھی آ سکتی ہے۔ یہ مثال جو مَیں نے بیان کی ہے اس میں یہ سبق ہے کہ ایسے وقت میں سب مصیبت زدوں کو اختلافات اور تنازعات چھوڑ کر اکٹھے ہو جانا چاہئے۔ ورنہ دشمن تمہیں ایک ایک کر کے نہایت آسانی کے ساتھ تباہ کر دے گا۔ اِس مثال میں زمیندار کا اُن تینوں کو مارنا ظلم تو نہ تھا۔ بہرحال مظلوم کے مقابلہ کا سوال تھا اور اس نے یہ کام اپنی ہوشیاری اور عقلمندانہ تجویز سے سر انجام دے لیا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ سارے مظلوم اکٹھے نہ ہو جائیں۔ اگر کوئی ایک قوم مصیبت میں مبتلا ہو تو دوسری کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ مصیبت صرف اُسی پر ہے اور ہم اس سے محفوظ ہیں۔ بلکہ وہ سمجھے کہ آج نہیں تو کل یہ مصیبت ہم پر بھی ضرور آئے گی اور ایسے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ سب کے دلوں میں ہمدردی کا جذبہ اُبھر آ نا چاہئے۔ اور ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ تمہارے ہمسائے کے گھر میں آگ لگی ہو تو تمہارا گھر اس سے محفوظ رہ سکے گا؟ ہرگز نہیں ۔ اگر تم اپنے ہمسائے کے گھر میں لگی ہوئی آگ نہ بجھاؤ گے تو تھوڑی دیر نہیں گزرے گی کہ تمہارا اپنا گھر بھی نذر آتش ہو جائے گا۔ اِس لئے لوگوں کو چاہئے کہ جب اس قسم کے واقعات پیش آئیں سب کے سب مظلوم اکٹھے ہو جائیں اور آپس کے تنازعات اور مناقشات کو بالائے طاق رکھ دیں۔ جب دشمن دیکھے گا کہ سارے مظلوم اکٹھے اور یک جان ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار بیٹھے ہیں تو وہ تم میں سے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا اور کبھی تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہ کر سکے گا۔ جب دشمن دیکھے کہ مَیں نے ایک کے منہ پر تھپڑ مارا تھا مگر اس سے مَیں نے ہزاروں اور لاکھوں کو غصہ دلایا ہے اور کروڑوں کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ہے تو وہ سہم جاتا ہے اور دوسری دفعہ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن جب دشمن یہ دیکھے کہ مَیں نے ہزاروں کو مارا اور پیٹا ہے مگر دوسروں کے اندر اپنے ساتھی کے لئے جذبہ ہمدردی پیدا نہیں ہؤا۔ تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ سارے بیوقوف ہیں اور ان کو تباہ کر دینا ذرا بھی مشکل کام نہیں۔ اِس وقت بہار کے مظلومین کے ساتھ ہمدردی کرنا گویا اپنے ساتھ ہمدردی کرنا ہے۔ مظلوم کی مدد اس کو مظالم سے بچاتی ہے مگر ساتھ ہی ظالم کےہاتھ کو بھی روکتی ہے۔ ہماری جماعت پر خدا تعالیٰ کے ساتھ اخلاص کا تعلق رکھنے کے علاوہ یہ بھی فرض ہے کہ شفقت عَلٰی خَلْقِ اللہِ کا نمونہ دکھائے۔ یہ ایک ایسا فرض ہے جو ہر مومن کے لئے ادا کرنا ضروری ہے۔ اور جس طرح نماز اور روزہ وغیرہ اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اِسی طرح یہ فرض بھی نہایت اہم ہے۔ پس ہماری جماعت میں سے جو ڈاکٹر فارغ ہوں وہ جلد از جلد اپنے نام پیش کریں تاکہ ان کو وفد کی صورت میں مصیبت زدگان کی امداد کے لئے بجھوایا جا سکے۔ وہاں پندرہ یا بیس دن صَرف ہوں گے۔ اور اِس طرح تھوڑے دنوں میں ہی وہ کام کر کے واپس آ سکتے ہیں۔ اگر کسی ڈاکٹر کو جلسہ سالانہ میں شمولیت کا خیال ہو تو جلسہ سالانہ میں ابھی پورے بیس دن باقی ہیں اور یہ کافی وقفہ ہے۔ وہ اپنے کام کو سر انجام دے کر جلسہ سالانہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ جلسہ میں نہ بھی آ سکیں تو اُنہیں اُن کے اس کام کا اُتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر مل سکتا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ جلسہ سالانہ کا مقام ایک مذہبی مقام ہے اور اس میں شمولیت ہر احمدی کے لئے فرض ہے۔ لیکن اِس قسم کی خدمت کے موقع پر جلسے کو قربان بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ کام جلسے میں ہی شامل سمجھے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو وہی ثواب ملے گا جو جلسے میں شامل ہو کر وہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کا ثواب کسی صورت میں کم یا ضائع نہیں ہو گا۔ مَیں نے اندازہ لگایا ہے کہ اِس وقت ہماری جماعت میں اڑھائی تین سو کے قریب ڈاکٹر ہیں۔ جن میں سے اکثر اس وقت فوج میں ملازم ہیں۔ کچھ پنشن پا کر واپس لَوٹ چکے ہوں گے اور کئی رخصت پر گھر آئے ہوئے ہوں گے اور کئی ابھی تک مستقل ملازمت میں ہوں گے۔ اور کئی ایسے بھی ہوں گے جو اس وقت فوج سے فارغ ہو چکے ہیں۔ اور کسی اَور کام کی تلاش یا انتظار میں ہیں۔ ایسے تمام دوستوں کو دین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔ شاید خدا آئندہ ان کے لئے بہتر سامان پیدا کر دے۔ جو شخص دوسرے کی مصیبت میں کام آئے اللہ تعالیٰ اس کے کام کو ضائع نہیں کیا کرتا۔ ایسے جتنے بھی لوگ ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ جتنے عرصہ کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں وہ جلد سے جلد مرکز میں اطلاع دیں۔ جو قادیان کے اندر رہتے ہیں وہ خود آ کر اپنا نام پیش کریں اور جو قادیان سے باہر رہتے ہیں وہ تار یا خط کے ذریعہ سے مجھے اطلاع بھیجیں تاکہ جس قدر جلد ہو سکے وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے کام آ سکیں۔
اِس کے بعد مَیں دوستوں کو جلسہ سالانہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جلسہ سالانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے اور اس کے لئے قادیان میں بھی اور بیرون جات میں بھی ہر قسم کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بیرونی جماعتوں کے دوست جلسہ پر قادیان آنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اور قادیان کے دوست جلسہ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کے انتظام میں ہمہ تن مصروف ہوں گے اور مصروف ہیں۔ مَیں بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلسہ سالانہ ایک ایسا اہم موقع ہے جس کو بِلاوجہ ضائع کر دینا خدا کی نگاہ میں نہایت ناپسندیدہ امر ہے۔ اور سوائے ایسے ضروری اَور اہم کاموں کے جن کو کسی طرح سے بھی چھوڑا نہیں جا سکتا فراغت حاصل کر کے اِس موقع پر شامل ہونے کی ضرور کوشش کی جائے۔ ابھی تک تو ا س بارے میں معلوم نہیں ہو سکا مگر ممکن ہے کہ اِس سال ریل کے سفر میں پہلے سے زیادہ سہولتیں میسر آ سکیں اور دوستوں کو وہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے جو پچھلے تین چار سال متواتر اٹھانی پڑتی رہی ہے۔ کیونکہ اب جنگ کو ختم ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور ریلوے کے محکموں کو پہلے سے بہت زیادہ ریل کےسامان مہیا کئے جا رہے ہیں۔ کوئلہ بھی کافی مقدار میں مل رہا ہے اور گاڑیاں بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ریلوے انجن بھی کافی تعداد میں نئے آ چکے ہیں۔ ادھر ریل کی فوجی ضرورتیں بھی کم ہو گئی ہیں۔ اِس لئے عین ممکن ہے کہ پہلے چند سالوں کی نسبت اِس دفعہ ریل کے سفر میں بہت زیادہ سہولت ہو اور دور دور سے آنے والے دوستوں کو زیادہ مشقت اور تکلیف نہ برداشت کرنی پڑے۔ پھر یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس دفعہ قادیان آنے والی گاڑیوں میں بھی زیادتی ہو۔ اور اگر زیادتی نہ بھی ہو تو پھر بھی بٹالہ سے قادیان یا امرتسر سے قادیان تک کوئی اتنا لمبا سفر نہیں جس میں اگر تھوڑی بہت تکلیف اٹھانی پڑے تو نہ اٹھائی جا سکے۔ اور اگر دوستوں کو اوپر والے تختوں پر یا نیچے فرش پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑے تو وہ نہ کر سکیں۔ مَیں نے تو دیکھا ہے کہ لوگ دنیوی تماشوں پر پہنچنے کے لئے یا میلوں پر جانے کے لئے ریل کے باہر لٹک کر یا چھتوں اور بفر 1وغیرہ پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ اور کافی عرصہ تک ریلوں میں تنگی کی وجہ سے ایسا ہی ہوتا رہا۔ آخر گورنمنٹ کو مجبور ہو کر قانون بنانا پڑا کہ چھتوں پر یا ڈنڈا پکڑ کر باہر لٹک کر سفر کرنا جُرم ہے۔ ورنہ اس قانون کے بننے سے پہلے لوگوں نے اِس کو نہیں چھوڑا اور وہ برابر سفر کرتے رہے اور اب تک بھی بعض دلیر آدمی کرتے رہتے ہیں۔ جب دنیوی کاموں کے لئے اور غیر ضروری کاموں کے لئے لوگ اتنی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دینی ضروریات کے لئے اور ایک نہایت اہم موقع پر پہنچنے کے لئے ہماری جماعت کے لوگ ریل کے اندر اوپر والے تختوں پر بیٹھ کر یا نیچے فرش پر بیٹھ کر سفر نہیں کر سکیں گے۔ دینی ضرورتوں کے لئے توجتنی بھی تکلیف برداشت کی جائے اُتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ پس بیرونی جماعتوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے خود بھی جلسہ سالانہ پر آئیں اور زیادہ سے زیادہ غیر احمدیوں کو بھی اپنے ہمراہ لائیں۔ مگر وہ غیر احمدی ایسے ہونے چاہئیں جو سنجیدگی سے دین کے معاملات میں غور کرنے والے ہوں اور اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے ہوں کیونکہ صرف وہی لوگ صداقت کو قبول کر سکتے ہیں جو اپنےد لوں میں خدا کا خوف رکھتے ہوں اور ایمانداری اور سنجیدگی سے غور کرنے کے عادی ہوں۔ یہ اَور بات ہے کہ وہ بعض مسائل میں ہمارے ساتھ اختلاف رکھتے ہوں۔ یہ اَور بات ہے کہ کسی وجہ سے احمدیت ان کی سمجھ میں نہ آ سکی ہو۔ یہ اَور بات ہے کہ وہ احمدیت کے رستے میں روڑے اٹکانے والے ہوں۔ لیکن اگر وہ شرافت، ایمانداری اور سنجیدگی کے ساتھ اور خدا کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس معاملے پر غور کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ صداقت کو قبول کر لیں گے۔ اگر وہ اس لئے ہمارے مخالف ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح سمجھتے ہوں اور یقین رکھتے ہوں کہ احمدیت کا رستہ صحیح نہیں ہے اور وہ دھوکا دہی اور فریب سے کام نہ لیتے ہوں۔ یعنی باوجود یہ جان لینے کے کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے او رہم غلط راستہ پر جا رہے ہیں وہ پھر بھی ضد اور تعصب کی وجہ سے صداقت کا انکار نہ کرتے ہوں تو ایسے لوگ صداقت سے خالی نہیں ہو سکتے۔ اور اگر وہ تھوڑا بہت بھی غور کریں تو صداقت اُن کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ بعض اوقات احمدی دوست جلسہ سالانہ پر اپنے ساتھ آوارہ مزاج اور غیر شریفانہ چال چلن کے لوگوں کو لے آتے ہیں مگر ایسے لوگ سوائے اس کے کہ کوئی شرارت کریں یا احراریوں سے مل ملا کر کوئی پروپیگنڈا کرتے پھریں یا ان سے کہتے پھریں کہ احمدی ہمیں دھوکا دے کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں، ایسے آدمیوں سے اَور کیا امید ہو سکتی ہے؟ پس اس قسم کے اوباشوں کو ہمراہ لانا بے فائدہ ہے اور مومن کا روپیہ ضائع نہیں ہونا چاہئے اور کہیں بے فائدہ کاموں پر خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ اپنےساتھ ایسے آدمی کو لاؤ جو خواہ ہمارا دشمن ہی ہو مگر سچائی اور حقیقت کے ساتھ محبت رکھتا ہو۔ وہ کتنا بھی شدید دشمن کیوں نہ ہو صداقت کو دیکھ کر اُس سے انحراف نہیں کرسکتا۔ اور کچھ بھی ہو جائے وہ ضرور صداقت کو قبول کرتا ہے۔ پس ایسوں کو ساتھ لاؤ اور دیکھو کہ کس طرح خدا قلوب کو پھیرتا اور اُنہیں روشنی عطا فرماتا ہے۔
اِس کے بعد مَیں قادیان کے دوستوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جلسہ کے ایام میں مختلف کاموں کی سرانجام دہی کے لئے زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ یہ تکلیف تو بہرحال دوستوں کو برداشت کرنی ہی پڑتی ہےا ور یہ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کی جا سکتی۔ جلسہ سالانہ کی ترقی کا یہ حال ہے کہ ہر سال شامل ہونے والے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مگر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اس مہمان نوازی کے ثواب سے محروم نہ رہ جائیں۔ جلسے کی رونق تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ہر نیا سال نئے اضافہ کا موجب بنتا چلا جائے گا۔ آپ لوگوں کو یہ خدمات کسی صورت میں معاف نہیں کی جا سکتیں۔ جُوں جُوں جلسہ سالانہ کی تعداد میں زیادتی ہوتی چلی جائے گی تُوں تُوں تمہاری ذمہ داریاں بھی بڑھتی جائیں گی۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ دوست اپنی خدمات جلسہ کے ایام کے لئے وقف کریں۔ اب تو کالج بھی قائم ہو چکا ہے اور دو سو سے اوپر لڑکا کالج میں تعلیم پاتا ہے۔ ان میں سے اگر غیر احمدی اور سکھ نکال دئیے جائیں تو بھی ایک سو پچاس کے قریب لڑکے ایسے ہو سکتے ہیں جو جلسے کے ایام میں اچھے کارکن بن سکیں گے۔ اِسی طرح ہائی سکول میں اِس وقت سترہ سَو کی تعداد میں لڑکےتعلیم پا رہے ہیں۔ اگر ان میں سے چھوٹے بچوں کو نکال دیں تو آٹھ سو کے قریب کارکن وہاں سے مل سکتے ہیں۔ اِسی طرح مدرسہ احمدیہ اور جامعہ والے سو کے قریب کارکن دے سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ واقفین میں سے اور پیشہ وروں اور دکانداروں میں سے بھی کارکن لئے جا سکتے ہیں۔ آخر وہ سال بھر اپنے دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ وہ دو چار دن دینی کاموں میں حصہ نہ لے سکیں۔ اس لئے قادیان والوں کا یہ فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو جلسہ سالانہ میں کام کرنے کے لئے پیش کریں اور دو چار دن سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے وقف کریں۔ اِس وقت قادیان میں چودہ ہزار کے قریب آبادی ہے۔ اگر اس میں سے بچوں، عورتوں اور ایسے لوگوں کو نکال دیا جائے جو کام کرنے کے قابل نہیں ہیں تو چھ ہزار کے قریب کارکن مل جانا چاہئے۔ آخر یہ کام اتنا سخت تو نہیں کہ وہ نہ کر سکتے ہوں۔ اِس میں نہ تو فوجی پریڈ ہے اور نہ ہی زیادہ محنت کاکام ہے۔
دوسری طرف مَیں کام کرنے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے گزشتہ سال سے تو بوجہ ان ایام میں بیمار رہنے کے تجربہ نہیں کیا البتہ اس سے پہلے مَیں نے تجربہ کیا تھا کہ جلسہ کے ایام میں بہت سا کھانا غفلت،سُستی اور لاپرواہی کی وجہ سے ضائع چلا جاتا ہے اور یہ صرف مقامی آدمیوں کی بد انتظامی کی وجہ سے ہوتا ہے کہ کھانا محلوں اور گلیوں میں پھیل جاتا ہے۔ دین کا سچا خدمت گزار وہی کہلا سکتا ہے جو خدمت دین بھی کرے اور کھانا بھی اپنے گھر سے کھائے۔ جو شخص مزدوری کے بدلے میں دین کی خدمت کرے وہ حقیقی خدمت نہیں کہلا سکتی۔ اور نہ ایسا شخص اعلیٰ ثواب کا حقدار ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس کی خدمات نہایت اعلیٰ قسم کی ہوں اور وہ مزدوری بھی لے لیوے تو گو اُسے ثواب مل جائے گا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مزدوری لے کر خدمت کرنے سے ثواب کم ہو جائے گا۔ چاہے وہ مزدوری پیسے کی شکل میں ہو یا روٹی کی صورت میں ہو۔ اِس طرح وہ اتنے ثواب کا مستحق نہیں جتنا ثواب کہ اُس کو اس حالت میں مل سکتا تھا کہ وہ دین کی خدمت بھی کرتا اور مزدوری بھی نہ لیتا۔ پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ قادیان کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ کھانے کا انتظام اپنے گھر میں کریں یا اگر وہ ان جلسہ کے ایام میں سلسلہ پر بھی یہ بوجھ ڈالنا چاہتے ہوں تو وہ جلسہ سالانہ کے چندہ کے علاوہ بصورت نقد یا بصورت جنس علیحدہ چندہ داخل کرائیں تاکہ ان کی خدمت خدا کے گھر میں مزدوری کے بدلہ میں نہ شمار ہو۔ اگر وہ اس طرح کام کریں کہ سلسلہ کے کام کو اپنا کام سمجھیں تو اس کے لئے بہت بڑے انتظام کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ اگر اس کام کو محنت اور دیانتداری سے سر انجام دیا جائے تو سلسلہ کا ہزاروں ہزار روپیہ بچ سکتا ہے۔ مَیں منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس انتظام کے لئے ایک خاص محکمہ بنایا جائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ کھانے کی پرچی حاصل کرنے والوں کے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیج کر اس بارے میں تسلی کر لیا کرے کہ پرچی حاصل کرنےو الوں نے جتنے آدمیوں کی پرچی لی ہے واقعی اُن کےگھر میں اتنے آدمی موجود ہیں۔ کھانا صحیح آدمیوں کی تعداد پر ملنا چاہئے نہ کہ فی کس روٹی کے حساب سے۔ اِس میں قانونی سچ بولنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ حالانکہ سچ ایک مستقل شے ہے اور اس کی حفاظت ضروری ہے۔ قانونی سچ جھوٹ کے راستے کھولتا ہے اور اس محکمہ کو بہت زیادہ مضبوط کرنا چاہئے۔ اس محکمہ کا یہ بھی کام ہو کہ کوئی شخص کھانے کو ضائع نہ کرے اور ہر شخص لنگر سے اتنا کھانا حاصل کرے جتنے کی اس کو ضرورت ہو۔ کیونکہ اگر وہ ضرورت سے زیادہ حاصل کرے گا تو لازماً فالتو کھانا اِدھر اُدھر تقسیم ہو گا۔
سب سے آخر میں مَیں مکانوں کی دقت کے بارے میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ قادیان میں کئی سالوں سے عمارتی سامان نہ مل سکنے کی وجہ سے نئے مکان نہیں بن رہے ۔ اُدھر بعض لوگوں نے جنگ کے ایام میں اپنے رشتہ داروں اور خاندانوں کو قادیان میں بھیج دیا تھا جو ابھی تک قادیان میں ہی رہتے ہیں۔ اس لئے مکانوں کے بارے میں سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ مگر باوجود اِس دقت کے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے مکانوں کا انتظام کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے ہمیں جس قدر بھی تکلیف برداشت کرنی پڑے ہم ضرور کریں گے۔ اس بارے میں مَیں پہلی نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ قادیان کے سب دوست جلسہ کے ایام میں دو چار دن کے لئے تکلیف اٹھا کر اپنے مکانوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ مہمانوں کے لئے خالی کر دیں اور اپنے دو چار دن کے آرام کے لئے سلسلہ کو بدنام نہ کریں۔ آخر اِس قسم کے مصائب اور تکالیف لوگوں پر آتی ہی رہتی ہیں اور یہ مصائب بلکہ اِس سے کہیں بڑھ چڑھ کر مصائب بہار کے ہزاروں ہزار مظلوموں پر آئے اور اُن لوگوں کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور جو مصیبت انہوں نے گزشتہ ایام میں دیکھی ہے تم اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی مرضی سے دکھ برداشت کرتا ہے وہ بہت زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جو جبر سے کرتا ہے وہ اپنے ثواب کو خود کم کرنے کا موجب بنتا ہے۔ بہار کے وہ لوگ جو مہینوں سے سخت سردی میں باہر سونے کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں وہ بھی آخر انسان ہی ہیں ۔ وہ بیچارے جنگلوں میں بغیر مکانوں او ربغیر کپڑوں کے گزر اوقات کر رہے ہیں۔ مگر آپ لوگوں کو یہ نہیں کہا جاتاکہ آپ جنگل میں نکل جائیں اور مہمانوں کے لئے مکان خالی چھوڑ دیں۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ جن دوستوں کے پاس تین کمرے ہوں وہ ایک کمرہ اپنے پاس رکھیں اور دو کمرے مہمانوں کی خاطر خالی کر دیں او رجن دوستوں کے پاس چار کمرے ہوں وہ دو یا تین کمرے مہمانوں کے لئے خالی کر دیں۔ا ورایک یا دو اپنے پاس رکھیں۔ اِسی طرح تمام دوست جتنی زیادہ مکانیت مہمانوں کے لئے خالی کر سکتے ہوں کر دیں۔ بہار کے مصیبت زدگان لوگ تو جنگل میں پڑے ہیں اور ان پر جو عذاب نازل ہوا وہ اُن کی اپنی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں ہؤا ہے یا ان کے ہمسایوں کی شقاوتِ قلبی کے نتیجہ میں ہؤا ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ سلسلہ کے مہمانوں کی خاطر صرف دوچاردنوں کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں گے تو چونکہ آپ اپنی مرضی سے ایسا کریں گے آپ کو بہت زیادہ ثواب حاصل ہو گا اور اتنی تکلیف بھی نہیں پہنچ سکتی جتنی ان لوگوں کو پہنچی ہے اور پہنچ رہی ہے۔ پس تمام دوستوں کو چاہئے کہ جتنا زیادہ وہ سمٹ سکتے ہوں اتنا سمٹیں اور زیادہ سے زیادہ جگہ مہمانوں کے لئے خالی کر دیں۔ مگر اِس کے باوجودبھی سمجھا جاتا ہے کہ مکان پورے نہیں ہو سکیں گے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ بھی تکلیف ہے کہ کچھ لوگ بہار کے علاقے سے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ ان کو چاہئے تھا کہ جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو جاتا وہ اپنے مرکز کو نہ چھوڑتے۔ اِس طرح اپنے مرکز کو چھوڑ دینا سخت غلطی ہوتی ہے۔ چنانچہ کل اور آج کوئی تیس اور چالیس کے قریب آدمی آ چکے ہیں یا آ رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی جگہ نکالنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ خدا کے فضل سے مہمانوں میں ہر سال زیادتی ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے سب دوستوں کا فرض ہےکہ مہمانوں کی زیادتی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مکانوں کی قربانی پیش کریں۔ جو مخلص ہیں وہ تو کریں گے اور جو غیر مخلص ہیں ان پر میرا اختیار نہیں۔ اس کے علاوہ منتظمین کو چاہئے کہ وہ سو ڈیڑھ سو کے قریب خیموں کا بھی انتظام کریں اور کوئی مناسب جگہ منتخب کر کے خیمے لگا دئیے جائیں۔ مگر چونکہ خیمے لگانے کے باوجود بھی مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے اتنے خیمے مل بھی نہ سکیں اِس لئے دوسری صورت یہ ہے کہ قادیان کے محلوں میں جو خالی جگہیں پڑی ہوئی ہیں اور جو ایسی ہیں کہ اگر چور وغیرہ آ جائیں تو وہ آسانی سے بھاگ سکتے ہیں وہاں اس قسم کے کچے مکانات تیار کرا دئیے جائیں جس قسم کے عام طور پر دیہات میں ہوتے ہیں اور ایسی تمام زمینوں میں جن سے اُن کے مالک فائدہ نہ اٹھا رہے ہوں کچی دیواریں بنا کر اور اوپر پُھوس 2ڈال کر مکانات تیار کر لئے جائیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دیواریں بہت اونچی ہوں چھوٹی دیواریں بھی کام دے سکتی ہیں۔ مگر یہ کام جس قدر جلد ہو سکےسر انجام دیا جائے تاکہ ایسے لوگ جو مہمان آ رہے ہیں یا مصیبت زدہ ہیں اور اس کے علاوہ جلسہ سالانہ پر آنے والے ہیں ان مکانات سے فائدہ اٹھا سکیں مگر یہ کام ہمت اور محنت چاہتا ہے۔ اگر قادیان والے وقت کی قربانی کر کے ہمت اور محنت سے کام کریں تو بہت جلد مکانات تیار کئے جا سکتے ہیں۔٭
٭اس خطبہ سے دو دن پہلے ہی صدر انجمن کے ناظروں کو بلا کر ہدایت کر دی تھی مگر ہنوز روز اول کا معاملہ ہے انجمن اب تک سو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہم لوگوں پر رحم فرمائے۔
اور جو طریق دیہات کے لوگ استعمال کرتے ہیں وہی طریق اگر یہاں بھی استعمال کیا جائے تو جلسہ تک بیسیوں مکانات تیار کئے جا سکتے ہیں۔ دیہات والے عموماً پانی دے کر زمین کو نرم کر لیتے ہیں اور پھر جہاں دیواریں بنانی مقصود ہوں اُس کے آس پاس سے کیّوں 3سے مٹی کھودتے جاتے ہیں اور دیواریں بنانی شروع کر دیتے ہیں اور دو ہی دن میں چھوٹا سا مکان تیار ہو جاتا ہے۔ دیہات والوں کو تو مزدوروں کی ضرور ت ہوتی ہے اور ان کا تھوڑا بہت خرچ آتا ہے۔ مگر قادیان کے لوگ بغیر کچھ خرچ کئے خود اپنی ہمت اور محنت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اور ایک ہفتہ کے اندر اندر بیسیوں مکانات تیار ہو سکتے ہیں۔ جب چار دیواری مکمل ہو جائے تو اس پر پُھوس اور بانس ڈالے جا سکتے ہیں۔ یا پُھوس نہ ملے تو درختوں کی شاخیں ڈالی جا سکتی ہیں۔ اور اگر کسی نے آئندہ جلدی قادیان میں اپنا مکان بنانا ہو تو وہ دروازےلگا لے ورنہ دروازے لگانے کی بجائے بانس کے کھٹکے لگائے جا سکتے ہیں۔ اگراِس قسم کے مکانات تیار ہو جائیں تو سینکڑوں اور ہزاروں مہمان ان میں سما سکتے ہیں۔ مَیں نے کل بھی منتظمین کو اِس بارہ میں توجہ دلائی تھی اور آج پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام جس قدر جلد ہو سکے شروع کر دیا جائے اور اس میں ہرگز تأخیر نہیں ہونی چاہئے تاکہ یہ مکانات جلسہ کے دنوں میں کام آ سکیں۔ اس کام کے لئے اگر قادیان میں خالی پڑی ہوئی زمینیں ناکافی ہوں تو ایک اَور صورت بھی ہو سکتی ہے کہ مشرقی جوہڑ کے بالمقابل جو زمینیں احمدیوں کی ہیں ان سے ایک یا دو سال وہ زمینیں مقاطعہ 4پر لی جا سکتی ہیں۔ اور میرا خیال ہے وہ اس سے انکار بھی نہیں کریں گے۔ اور اس پر اگر کچھ خرچ بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہئے۔ کیونکہ فرض کرو اِس کام پر پانچ سات ہزار روپیہ خرچ ہو جائے تو اتنا روپیہ تھوڑے عرصہ میں کرایہ کا ہی نکل آئے گا اور مہمانوں کے لئے کافی جگہ نکل آئے گی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان میں ہزاروں ہزار مہمان ٹھہر سکتے ہیں۔ بے شک وہ مکانات کچےہوں گے مگر جو مہمان جلسے کے ایام میں نیچے بستر لگاتے ہیں اُن کو اِس میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ مکانات کچے ہیں۔ آخر مدرسہ احمدیہ میں ہر سال مہمان ٹھہرتے ہیں وہ مکان بھی تو کچے ہی ہیں۔ پھر مہمان خانہ میں ہمیشہ مہمان ٹھہرتے ہیں وہ مکان بھی کچے ہیں اور مہمانوں کو ان مکانوں میں ٹھہرانے کی اصل غرض تو یہی ہے کہ وہ رات کی سردی سے بچ سکیں اور سرد ہوا لگنے سے بیماری نہ پیدا ہو۔ آخر دیہات کے لوگوں کے مکانات کچے ہی ہوتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں انسان ان میں رہتے ہیں اور دیہاتی لوگ سینکڑوں پُشتوں سے کچے مکانات میں رہتے ہیں اور ان کو کبھی کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ پس مہمانوں کا ایسے مکانات میں دو چار دن گزارنا چنداں مشکل نہیں ہو سکتا۔ ہم بیسیوں دفعہ باہر سیر کو جاتے ہیں تو ہمیں ایسے ہی مکانات میں ٹھہرنا پڑتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی۔
ہم ایک دفعہ کشمیر گئے۔ رستے میں دریا آ گیا۔ وہاں ہمیں ٹھہرنا پڑا۔ ہم نے چاروں طرف مکان تلاش کیا مگر کوئی اچھا مکان نہ مل سکا۔ آخر ایک مکان کی چھت پر ایک نہایت چھوٹی سی جگہ ملی جو اسباب رکھنے والا طاقچہ تھا۔ ہم چھت پر لکڑی کی سیڑھی لگا کر چڑھے تو دیکھا کہ اوپر کے کمرہ کی چھت کوئی دو سوا دو فٹ اونچی ہے۔ مغرب و عشاء کی نماز کا وقت تھا۔ مَیں نے لازماً بیٹھ کر نماز پڑھی مگر لطف یہ تھا کہ بیٹھےہوئے بھی میرا سر چھت سے ٹکراتا تھا اور مجھے کمر جھکا کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ پھر اس کے ایک طرف کچھ گھاس پُھوس پڑا ہؤا تھا۔ مگر ہم نے جس طرح ہو سکا اُس میں گزارہ کیا۔ آخر جلسہ کے لئے لوگ کیوں کچے مکانات میں گزارہ نہ کر سکیں گے۔
ہم ایک اَور دفعہ پہاڑ پر گئے اور ہمیں وہاں ایسی جگہ ملی کہ جہاں مَیں سویا تھا میرے سرہانے کی طرف کوئی دو سو کے قریب بکریاں تھیں اور کئی مَن مینگنی پڑی ہوئی تھی۔ ہمارے ساتھ ایک نازک طبع دوست بھی تھے۔ انہوں نے کہا مجھ سے تو یہاں نہیں رہا جاتا۔ مَیں نے کہا اگر نہیں رہا جاتا تو باہر چلے جاؤ اور سرد ہوا کھاؤ ہم تو یہیں گزارہ کریں گے۔ ہم نے اُسی جگہ رات گزاری۔ اور سردی کے موسم میں ایسی جگہوں میں گزارہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ جب ایسی جگہ گزارہ ہو سکتا ہےتو کچے مکانات میں کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ پس قادیان والوں کو چاہئے کہ جس قدر جلد ہو سکے یہ کام سر انجام دیا جائے اور اگر دوست ہمت کریں تو ایک ایک دن میں بیس بیس مکان بن سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے دیواریں زیادہ اونچی بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ چھوٹی ہی بنا لی جائیں چاہے چھ چھ فٹ اونچی ہوں۔ عورتوں کا قدعموماً سوا پانچ یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے پانچ فٹ ہوتا ہے اور مردوں کا چھ فٹ تک ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے بھی لمبا ہو گا تو اس کو کسی دوسری جگہ ٹھہرا دیں گے۔ بہرحال دیواروں کی اونچائی چھ فٹ ہی کافی ہوگی کیونکہ وقت کی بچت کی بھی ضرورت ہے۔ مگر یہ کام جس قدر جلد ہو سکے سر انجام دیا جائے تاکہ جلسہ پر آنے والے دوستوں کو تکلیف نہ ہو۔ زمینوں میں پانی دے کر اور کیّوں سے کھود کر مکان بنانے شروع کر دو۔ اگر یہ مکان تیار ہو گئے تو علاوہ اِس کے کہ ان میں مہمان ٹھہر سکیں گے یا مصیبت زدہ لوگ گزارہ کر سکیں گے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ جو زمینیں خالی پڑی ہیں اور جو خالی رہنے کی وجہ سے ویسے بھی شہر کے لئے خطرناک ہیں، اور اگر چور آ جائیں تو وہ آسانی سے ان کھلے میدانوں میں بھاگ سکتے ہیں۔ وہ خالی جگہیں پُر ہو جائیں گی اور شہر کی حفاظت بھی ہو گی اور مکانوں کی تنگی کی وجہ سے خصوصاً جلسہ کے ایام میں جو دقت پیش آتی ہے وہ بھی کم ہو جائے گی۔ (اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی ) ’’ (الفضل 14 دسمبر 1946ء )
1: بفر: ٹکر۔ روک
(اردو لغت تاریخی اصول پر ۔ جلد دوم صفحہ 1181۔ مطبوعہ کراچی 1979ء)
2: پُھوس: وہ لمبی گھاس جس کا چھپر بناتے ہیں۔ پرانی گھاس
3: کیّوں: کَسیوں
4: مقاطعہ: ٹھیکہ

45
ہمارے نوجوان تحریک جدید کی اہمیت کوسمجھیں
( فرمودہ 13 دسمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ پچھلے ہفتہ سے مجھے سینے میں کچھ درد محسوس ہوئی تھی۔ پہلے تو مَیں نے سمجھا کہ شاید موسم کی وجہ سے ہوا لگ گئی ہے مگر بعد میں جب پاؤں میں بھی درد ہؤا تو میرا ذہن اِس طرف منتقل ہوا کہ یہ وہی جوڑوں کا درد ہے جس کا دورہ پہلے بھی کبھی کبھی ہو جایا کرتا ہے۔ جلسہ سالانہ قریب آنے کی وجہ سے مجھے فکر پیدا ہوا کہ گزشتہ جلسہ سالانہ پر بھی میں کام نہ کر سکا تھا اور اس دفعہ پھر بیماری کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب مجھے جلسہ سالانہ کا احساس ہوا اور میرا ذہن اِس طرف گیا کہ یہ وہی درد ہے جو پہلے بھی بعض اوقات ہو جایا کرتا ہے۔ تو مجھے اِس بیماری کے علاج کی طرف توجہ ہوئی۔ علاج شروع کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مرض میں کمی کر دی۔ اب بظاہر درد تو نہیں ہے مگر جوڑوں میں کمزوری واقع ہو گئی ہے اور سیڑھیوں پر یا اونچی نیچی جگہ چڑھتے اور اُترتے وقت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور پیر لٹکا کر بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ کیونکہ اِس طرح بیٹھنے سے درد زیادہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ صحت بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور بیماری بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہی ہےاِس لئے ہمارے ہاتھ میں تو دعا ہی ہے اور دعاؤں سے ہی کام لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل اور کرم سے اِس کمزوری کو دور فرمائے کیونکہ جلسہ سالانہ کے دن بھی بالکل قریب آتے جا رہے ہیں اور کام بھی بہت زیادہ ہے۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو تحریک جدید کے چندوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ آجکل تحریک جدید کے معاملہ میں دو قسم کی پریشانیاں ہیں جو کہ دن بدن کم ہونے کی بجائے شدت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہیں او ریہ امر کسی حد تک نہایت تشویشناک ہے۔ ایک پریشانی تو یہ ہے کہ تحریک جدید کے موجودہ اخراجات اس کی آمد سے بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں اور ایسے حالات میں بڑھ رہے ہیں جن کا دور کرنا بظاہر ہماری طاقت سے باہر نظر آتا ہے۔ یعنی باوجود تحریک جدید کے اکثر کارکنوں کے نہایت اعلیٰ تعاون اور محنت سے کام کرنے کے اِس کا خرچ اس کی آمد سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ بعض لوگ کمزور اور سُست بھی ہوتے ہیں اور وہ پوری محنت توجہ اور اقتصاد سے کام نہیں کرتے لیکن نوے فیصدی کارکن ایسے ہیں جو اپنے فرائض کو نہایت عمدگی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ اِن ساری باتوں کے باوجود تحریک جدید کے خرچ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ اضافہ ایسا ہے جو اس کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت زیادہ ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جو واقفین سندھ کی زمینوں پر کام کر رہے ہیں اُن میں سے اکثر کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ صرف نام کے واقف ہیں اور درحقیقت وہ اُس قربانی اور اخلاص سے کام نہیں کرتے جس سے کہ اُنہیں کرنا چاہئے تھا اور ان کے کام کے نتائج خوشکن ہونے کی بجائے حیرانی کا موجب بن رہے ہیں۔ بلکہ میرا تو اندازہ ہے کہ وہ اتنا بھی کام نہیں کرتے جتنا کہ ایک ہوشیار نوکر کرتا ہے۔ اِس وجہ سے یہ بہت بڑا ذریعہ آمد کا بند ہی چلا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس وقت غیر ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہیں جو نہایت محنت، تندہی اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں اور وہ نہایت تنگ حالات میں گزارہ کر رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ ایسے تنگ حالات میں گزارہ کر رہے ہیں جس کے متعلق ہم سے یہاں بیٹھ کر قیاس کرنا بھی ناممکن ہے۔ اور ان میں سے کئی کارکن تو ایسے بھی ہیں جو بعض مقامات میں فاقوں سے بھی دوچار ہوتے رہتے ہیں مگر وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے جس طرح ہو سکتا ہے گزارہ کر رہے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض کے پاس لباس نہیں ہوتا مگر وہ ہر صورت میں گزارہ کرتے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس ملک کے معیار کے لحاظ سے بہت ہی کم خرچ پر گزارہ کر رہے ہیں اور اگر اس ملک کے اخراجات اور اُس گزارہ کا جو ان کو دیا جاتا ہے موازنہ کیا جائے تو وہ گزارہ جو اُن کو ایک مہینے کے لئے دیا جاتا ہے ایک ہفتہ کے لئے بھی کافی نہیں ہو سکتا۔ مگر وہ بیچارے جس طرح بھی ہو سکتا ہے اسی ایک ہفتہ کے لئے بھی ناکافی خرچ سے مہینہ بھر گزارہ کرتے ہیں اور اس بارہ میں ان کو کئی قسم کی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض کو فاقوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ مگر وہ ان ساری باتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے اپنے کام کو نہایت خوبی سے سر انجام دیتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے گزارے کا یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں سب ملکوں سے غریب ملک روس ہے یا اس کے ساتھ جو متحدہ علاقے ہیں۔ مگر وہاں ایک انسان تین پاؤنڈ فی ہفتہ کماتا ہے یعنی بارہ پونڈ ماہوار۔ فرانس اور انگلستان کا معیار اس سے بہت بلند ہے وہاں کا مزدور چار پونڈ سے لے کر آٹھ پونڈ تک فی ہفتہ کماتا ہے۔ اور امریکہ میں تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ مگر فرانس اور انگلستان کو ہی لے لو وہاں کے مزدور کی کمائی قریباً سترہ پونڈ سے لے کر چونتیس پونڈ تک ماہوار بنتی ہے ۔ مگر ہم اپنے مبلغین کو انگلستان اور دوسری جگہوں میں زیادہ سے زیادہ چھ پونڈ ماہوار گزارہ دیتے ہیں اور بعض ایسی جگہوں کے مبلغین کو جہاں جنگ کے اثرات کی وجہ سے ہر قسم کی چیزیں نہایت گراں ہیں آٹھ پونڈ سے کچھ زائد بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن وہ خرچ جو ہم ان کو زائد دیتے ہیں وہ بھی عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ اُن کے رہائشی مکان کے کرایہ، تبلیغی مکان کے کرایہ یا ٹریکٹوں وغیرہ کی چھپوائی اور ریل وغیرہ کے کرایہ کے لئے دے دیا۔ ویسے ان کے اپنے گزارہ کےلئے کچھ زائد نہیں دیا جاتا۔ گویا ہم اُن کو وہاں کے ادنیٰ مزدوروں سے بھی کم خرچ دیتے ہیں اور اس خرچ سے ہمارے مبلغین نہایت تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔
ذرا غور تو کرو کہ اُن ممالک میں جہاں کا ایک مزدور سترہ پونڈ سے چونتیس پونڈ تک ماہوار کماتا ہے وہاں ایک مبلغ چھ پونڈ ماہوار گزارہ پا کر کس طرح گزر کرتا ہو گا اور اس کے ساتھ یہ امر بھی ہے کہ اُسے اعلیٰ سے اعلیٰ سوسائٹی میں ملنا پڑتا ہے۔ بہرحال وہ جس طرح ہوسکتا ہے اِسی رقم سے اپنے تمام اخراجات کو پورا کرتا ہے۔ اس کے لئے اُس کو کئی قسم کی مشکلات بھی پیش آتی ہیں مگر وہ ان کا مقابلہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی تحریک جدید کے اخراجات بڑھتے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں آمد کم ہوتی جاتی ہے۔ مثلاً ایک چیز یہ ہے کہ اب جبکہ ہم اپنے مبلغین کو باہر کے ممالک میں بھیج رہے ہیں اِس طرح کچھ مبلغین تو یہاں سے باہر کے ممالک میں جائیں گے اور کچھ مبلغین باہر سے واپس بھی آئیں گے۔ مبلغین کی موجودہ تعداد جو باہر جانے والی ہے اُن کوباہر بھیجنے کے خرچ کی اوسط تقریباً دو ہزار روپیہ فی مبلغ کا اندازہ لگایا گیا ہے اور اِس وقت تک پچاس کے قریب مبلغین باہر جا چکے ہیں جن کا خرچ ایک لاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مبلغین باہر جانے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے پاسپورٹ تیار کرانے اور ریل اور جہازوں کے کرایہ کا خرچ بھی پچاس آدمی کے لئے ایک لاکھ روپیہ تک بنتا ہے۔ اسی طرح باہر کے ممالک کے مبلغین کی تعداد سو تک پہنچ جائے گی۔ اگر یہ مبلغین تیسرے سال کے بعد بھی واپس آئیں اور خرچ اس وقت سے قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے کم بھی ہو جائے تب بھی ان کو لانے اور لے جانے کا مجموعی خرچ اندازاً ڈیڑھ لاکھ ہو گا۔ یعنی سو مبلغ بھجوانے اور سو مبلغ کو واپس بلانے کا یہ جو مَیں نے دو لاکھ کا خرچ اوپر بتایا ہے وہ صرف پہلی دفعہ کے مبلغین کے خرچ کا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دفعہ ہم صرف اپنے مبلغین کو باہر بھیج رہے ہیں اور باہر سے آنے والے کوئی نہیں ہیں۔ اور ان جانے والے مبلغین میں سے اکثر نئی جگہوں میں جا رہے ہیں۔ انگلستان میں پہلے مولوی جلال الدین صاحب شمس تھے۔ صرف ان کے واپس آنے کا خرچ ہؤا۔ لیکن ان کی جگہ اب چار نئے مبلغین تو جا چکے ہیں اور دو اب جا رہے ہیں۔ گویا ان کی جگہ چھ کے جانے کا خرچ برداشت کرنا پڑا۔ مگر آنے کا خرچ صرف ایک مبلغ کا برداشت کرنا پڑا۔ لیکن دو سال کے بعد چھ مبلغ کے آنے کا اور چھ مبلغ بھیجنے کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا۔ اِسی طرح امریکہ کی طرف بھی صرف یہاں سے مبلغین بھیجے جا رہے ہیں۔ وہاں سے واپس آنے والے صرف صوفی صاحب ہیں۔ فرانس کے ملک میں اس سے پہلے مبلغین نہیں تھے اب دو بھیجے گئے ہیں۔ اٹلی کے ملک میں پہلے صرف ایک مبلغ تھا اب دو اَور بھیجے گئے ہیں۔ سپین کےعلاقہ میں پہلے مبلغین نہیں تھے۔ اب دو بھیجے گئے ہیں۔ اسی طرح جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے علاقوں میں پہلے مبلغین نہیں تھے۔ اب تین بھیجے گئے ہیں۔ اِس کےعلاوہ ویسٹ افریقہ میں پہلے ہمارے صرف تین مبلغ تھے اب اَور بھیجے جا رہے ہیں۔ بارہ یا چودہ مبلغین تو وہاں جا چکے ہیں اور پندرہ یا سولہ اب جانے والے ہیں۔ پہلے صرف تین مبلغ وہاں تھے۔ اب اِنْشَاءَ اللہُ جلد ستائیسں اٹھائیس مبلغ ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایسٹ افریقہ میں صرف ایک مبلغ تھا اب چودہ پندرہ بھجوانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ایران میں بھی پہلے کوئی مبلغ نہ تھا اب دو مبلغین بھیجے گئے ہیں۔ فلسطین میں ہمارا صرف ایک مبلغ ہوتا تھا اُسے واپس نہیں بلایا گیا لیکن دو اَور مبلغ وہاں بھجوا دئیے گئے ہیں۔ صرف ان جانے والے مبلغین کے سفر خرچ کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ تک ہے۔ مگر چونکہ ہمیں یہ دو یا تین لاکھ کا خرچ ہر سال نہیں کرنا پڑے گا اور تین سال میں ایک دفعہ کرنا ہو گا اِس لئے حسابی طور پر اس خرچ کو تین سالوں میں پھیلا کر ستّر اسّی ہزار سالانہ کا یہ خرچ ہوتاہے۔ بلکہ آئندہ چند سال میں اگر کرائے اور اشیاء کی قیمتیں نہ گریں تو چار لاکھ کے قریب تین سالہ خرچ ہو گا۔ یا سوا لاکھ کے قریب سالانہ۔ بہرحال چندے میں سے ستّر ہزار روپیہ تو الگ کرنا پڑے گا اور یہ مبلغین کے صرف باہر بھجوانے اور پرانے مبلغوں کو بلوانے کا خرچ ہو گا۔ اِس کےعلاوہ ہمارے بیرونی مشنوں کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ ہے اور اتنا ہی خرچ یہاں کے تحریک جدید کے زیر تعلیم اور دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والے لوگوں پر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ یہ کُل خرچ تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ ہوجاتاہے اور اگر اِس میں مثلاً کتابوں اور ٹریکٹوں وغیرہ کا خرچ ملا لیا جائے تو یہ کُل خرچ چار لاکھ ستّر ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اگر باہر کے ممالک میں ایسی جگہوں میں جہاں پہلے سے مشن قائم نہیں ہیں اب نئے مشن قائم کئے جا رہے ہیں۔ اگر ان مشنوں کے لئے نئے مکان وغیرہ خریدنے کا بندوبست کیا جائے تا وہ مبلغ وہاں اطمینان کے ساتھ تبلیغ کا کام صحیح طور پر کرسکیں تو اس کا خرچ بھی اس میں شامل کرنا ہو گا۔ انگلستان میں ہمارا مشن قائم ہے۔ وہاں ہمارا اپنا دار التبلیغ اور مسجد ہے۔ کم سے کم ہمیں وہاں کے متعلق اطمینان تو حاصل ہے۔ مگر جہاں ہمارے اپنے مکان یا مبلغین کے لئے رہائش کی جگہیں نہیں ہیں وہاں اطمینان کے ساتھ کوئی مبلغ تبلیغ نہیں کر سکتا۔ اگر ہم فرانس میں جہاں اب نیا مشن قائم کیا جا رہا ہے اپنا مکان یا جائیداد خریدیں، اِسی طرح سپین اور جرمنی وغیرہ میں بھی خریدیں تو ہمارا ہر ملک کے مکان پر ساٹھ ستّر ہزار اور ایک لاکھ کے قریب مسجد پر خرچ ہو گا۔ اگر سرِ دست ان اخراجات کو ملتوی کر دیا جائے تو بھی چار لاکھ ستّر ہزار روپیہ کا خرچ بنتا ہے۔ اِس کے علاوہ قادیان میں تحریک جدید کے دفتر اور اس کے متعلقہ کاموں کے لئے عمارات بنوائی جائیں تو پچاس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ اس کا بھی رکھنا چاہئے۔ گویا یہ کُل خرچ پانچ لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔ گو اِس وقت خرچ کی اوسط اتنی نہیں ہے مگر اب جبکہ ہمارے مبلغین باہر جا اور آ رہے ہیں یقیناً ہمیں اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے۔ موجودہ اخراجات بھی تین لاکھ سالانہ سے اوپر ہیں۔ مگر پچھلے سال کے تحریک جدید کے وعدوں میں سے صرف دولاکھ چالیس ہزار روپیہ اِس وقت تک وصول ہؤا ہے۔ سرِ دست تو ہم اپنے مبلغین سے کہہ رہے ہیں کہ جس طرح ہو سکے تنگی سے گزارہ کرو۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ بوجھ ان سے بھی زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص چند مہینے تک ہمت، دلیری اور قربانی سے یہ بوجھ برداشت کرے اور کفایت شعاری سے کام لے کر اپنے کام کو سر انجام دے لے۔ مگر اس قسم کے بوجھ ہمیشہ کے لئے تو برداشت نہیں کئے جا سکتے۔ پس کچھ بھی ہو ہمارے مبلغین انتہا درجہ کی قربانی اور اخلاص سے بھی کام کریں۔ بہرحال قریب کے عرصہ میں یہ اخراجات ہم کو بڑھانے پڑیں گے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کو بڑھائے بغیر ہم اس عظیم الشان کام کو چلا ہی نہیں سکیں گے۔ ہم نے اس کے متعلق ایک نئی سکیم یہ سوچی تھی کہ دفتر دوم کے مجاہدین کی کُل رقم پورے نو سال تک جمع ہوتی رہے گی۔ اور اس طرح ہم ایک مضبوط ریزرو فنڈ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر اس روپیہ کو تجارت وغیرہ میں لگا کر بڑھایا جا سکے گا۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت دن بدن بڑھتی اور پھیلتی چلی جائے گی اِس لئے پانچ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار اور دس ہزار سے بڑھ کر پندرہ ہزار اور پندرہ ہزار سے بڑھ کر بیس ہزار تک مجاہدین پیدا ہوتے جائیں گے جو اخلاص اور جوش سے قربانیاں کرنے والے ہوں گے اور اس طرح یہ بوجھ پھیل کر ہلکا ہوتا چلا جائے گا۔ مگر موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سکیم بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ تحریک جدید کے دفتر دوم میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تعداد بہت ہی کم ہے اور اُن کے وعدوں کی ادائیگی تواس سے بھی کم ہے۔ یہ امر نہایت حیران کن اور تشویشناک ہے اور اِس کے دو ہی نتیجے نکالے جا سکتے ہیں۔ یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والی نئی فوج میں وہ جوش اور اخلاص نہیں جو دفتر اول میں حصے لینے والی پرانی فوج میں تھا۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے۔ اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ نئی فوج کی آمدنی اتنی نہیں ہے جتنی کہ پرانی فوج کی تھی۔ اور یہ امر بھی دنیوی لحاظ سے سخت خطرناک ہے۔ غرض اس کے کسی پہلو پر بھی غور کیا جائے یہ امر خالی از خطرہ نہیں ہے۔تحریک جدید کے دفتر دوم میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تعداد کو دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ کیا دفتر اول کی پہلی میعاد ختم ہونے تک یعنی دس سال میں اتنے بھی نئے مجاہدین پیدا نہ ہو سکتے تھے کہ ان میں ہر سال پانچ سو نیا ملازم ہوتا، پانچ سو نیا صنّاع ہوتا، پانچ سو نیا تاجرہوتا اور پانچ سو نیا پیشہ ور ہوتا۔ کیا اتنی بڑی جماعت سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا تھا؟ یہ ظاہری امر بالکل بدیہی تھا کہ اتنی بڑی جماعت سے سال میں پانچ سو نئے مجاہدین پیدا ہوں اور دس سالوں کے بعد ایک نئی پانچ ہزاری فوج تیار ہو جائے۔ جہاں تک حساب کا تعلق ہے، حساب کا معاملہ صاف ہے۔ اگر جماعت صحیح طور پر ترقی کرتی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہر سال پانچ سَو بلکہ ہزار ڈیڑھ ہزار آدمی جماعت میں ایسے نہ ہوں، جو پہلے چھوٹے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے اور اب اُنہوں نے اپنا کوئی الگ کام شروع کیا ہے اور ان میں سے کوئی لوہار بن گیا ہے ، کوئی معمار بن گیا ہے ، کوئی پیشہ ور بن گیا ہے اور کوئی تاجر بن گیا ہے۔ اور ایسے ہی احمدیوں کی تعداد ہندوستان میں ہر سال ہزار ڈیڑھ ہزار ہونی چاہئے۔ اور اگر کم از کم تعداد بھی لے لی جائے تو پانچ سو سے کسی صورت میں بھی کم نہیں ہو سکتا اور یہ تعداد دس سال کے عرصہ میں پانچ ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے آدمیوں کی آمدنی جو دکاندار یا پیشہ ور ہیں سو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار بن جاتی ہے اور پانچ ہزار کی چھ سات لاکھ ماہوار بن جاتی ہے جو سال میں اسّی نوے لاکھ بنتی ہے۔ اگر وہ اپنی آمدن میں سے پانچ فیصدی چندہ بھی تحریک جدید میں دیں تو چار پانچ لاکھ سالانہ چندہ تو اِس نئی جماعت سے ہی ہو جانا چاہئے۔ مگر تحریک جدید کے گزشتہ سال کے وعدے پچانوے ہزار کے قریب تھے اور ان میں سے اِس وقت تک ادائیگی صرف پچاس ہزار ہوئی ہے۔ اور جو پرانے حصہ لینے والے ہیں اُن کے وعدے دو لاکھ ساٹھ ہزار کے تھے، جن میں سے اِس وقت تک دو لاکھ چالیس ہزار وہ ادا کر چکے ہیں۔ یعنی پرانے لوگوں نے پچانوے فیصدی رقم ادا کر دی ہے اور باقی وہ ادا کررہے ہیں اور چونکہ اُن کی ادائیگی کی رفتار بھی کافی تیز ہے اِس لئے امید کی جاتی ہے کہ وہ جنوری تک ساری رقم ادا کر دیں گے۔ ان کے مقابلہ میں نئے نوجوانوں نے کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھایا اور بجائے اِس کے کہ وہ پُرانوں کے مقابلہ میں جوش اور اخلاص زیادہ دکھاتے اور اپنی قربانیوں کی ایک مثال قائم کر دیتے اُنہوں نے چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ اور چھیانوے ہزار کے وعدوں میں سے صرف پچاس ہزار روپیہ ادا کیا ہے اور چھیالیس ہزار اب تک بھی ادا نہیں کیا۔ اِس کے یہ معنی ہوئے کہ اُنہوں نے اپنے چندوں میں سے صرف باون فیصدی ادا کیا ہے اور نئی فوج کی فیصدی کو پرانی فوج کی فیصدی سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ کیونکہ پرانے مجاہدین نے پچانوے فیصدی چندے ادا کر دئیے ہیں اور باقی ادا کر رہے ہیں۔ مگر نئی فوج نے صرف باون فیصدی ادا کئے ہیں۔ پس اس قسم کے حالات نہایت تشویشناک ہیں۔ اگر یہی حالت رہی تو کل کو ہمیں اپنے بنے بنائے مشن چھوڑنے پڑیں گے۔ مگر مَیں یہ تونہیں سمجھ سکتا کہ ہم اپنے مشن چھوڑ دیں گے کیونکہ جب تک ہمارے اندر ایمان باقی ہے ہم موجودہ مشن تو نہیں چھوڑیں گے مگر جماعت کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے حیرت ضرورت آتی ہے۔
یاد رکھو جماعت کسی ایک نسل کا نام نہیں ہے بلکہ جماعت متواتر کئی نسلوں کا نام ہے۔ جس کے سپرد اِس وقت ان جھنڈوں کو گاڑنے کا کام ہے اور پھر اُن بنیادوں کو مستحکم بنانے کا کام ہے جن پر ہماری آئندہ نسلوں کے محلّات تیار ہوں گے۔ جماعت کے معنی تو یہ ہیں کہ ایک کے بعد دوسری نسل، دوسری کے بعد تیسری نسل، تیسری کے بعد چوتھی نسل متواتر قربانیاں کرتی چلی جائے۔ اِس وقت ہم جو قربانیاں کر رہے ہیں، ہماری قربانی کا انحصار جماعت پر نہیں بلکہ جتھے پر ہے۔ یعنی کچھ لوگ جمع ہو کر جتھے کی شکل میں قربانیاں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں یہ تو یقین رکھتا ہوں کہ یہ گروہ اپنی زندگیوں تک متواتر قربانیاں پیش کرتا چلا جائے گا۔ لیکن چونکہ یہ تحریک ایک سال یا دو سال یا دس سال کے لئے جاری نہیں کی گئی بلکہ یہ تحریک اس کے بعد بیس اور بیس کے بعد تیس اور تیس کے بعد چالیس سالوں تک اور اس کے بعد تک چلی جائے گی اِس لئے ضروری ہے کہ نوجوان جوش اور اخلاص کے ساتھ دین کے لئے قربانیاں کریں اور ہر نئی فوج پرانی فوج سے بڑھ کر قربانیاں کرتی چلی جائے اورنَسْلًا بَعْدَ نَسْلٍ یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ نوجوان اپنی اصلاح کریں۔ جب تک نوجوانوں کے اندر قربانی کا مادہ نہیں پیدا ہوتا، جب تک نوجوانوں کے اندر قربانی کے لئے حوصلہ نہیں پیدا ہوتا اور جب تک نوجوانوں کی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر نہیں ہو جاتی وہ صحیح طور پر قربانی نہیں کر سکتے۔ اور پھر جب تک ہر سال ہزاروں ایسے نوجوان نہیں پیدا ہوتے جو صنّاع، ملازم اور پیشہ ور بنیں۔ اِس قسم کی سکیم کو چلایا نہیں جا سکتا۔ مگر یہاں تو یہ حالت ہے کہ پرانی فوج تو متواتر کئی سالوں سے قربانیاں کرتی آ رہی ہے اور اس فوج کے مجاہدین نے اخلاص او رقربانی کی نہایت اعلیٰ مثال قائم کر دی ہے۔ لیکن نئی فوج پر ایک قسم کا جمود اور سکون طاری ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اُن کو ان باتوں کا احساس تک بھی نہیں ہے۔ حالانکہ ہماری کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ ہماری ہر دوسری نسل پہلی سے ترقی یافتہ ہو او رپہلوں سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرے اور اپنے جوش اور اخلاص کا مظاہرہ کرے۔ یہ نمونہ جو نئی فوج کے مجاہدین نے دکھایا ہے نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والا ثابت ہو گا۔ پس مَیں جماعت کے نوجوانوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہے اُن پر غور کریں۔ اور جو پہلے سے اِس جہاد میں حصہ لے رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کریں۔ اور جو نوجوان کسی وجہ سے اب تک اِس جہاد میں حصہ نہیں لے سکے وہ اب وعدے لکھائیں اور جہاں تک ان سے ممکن ہو سکے زیادہ سے زیادہ قربانی کریں۔ پرانے لوگوں کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح اُنہوں نے پہلے بھی جوش اور اخلاص سے اِس جہاد میں حصہ لے کر ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے اب وہ اس کو زیادہ سے زیادہ بے نظیر بنانے کی کوشش کریں تاکہ اُن کی آئندہ نسلیں بھی فخر اور عزت کے ساتھ یاد کریں۔ کیونکہ قربانی ہی دنیا میں ایک ایسی چیز ہے جو کسی کا نام زندہ رکھنے کا موجب بن سکتی ہے۔
اِس وقت تک دنیا میں اربوں انسان مر چکے ہیں اُن میں سے کروڑوں ایسے ہوتے ہیں جن کو مرے ہوئے ابھی چند سال بھی نہیں گزرتے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔ مگر ان کے مقابلے میں کئی لوگ ایسے بھی فوت ہوئے ہیں جن کی وفات پر ہزاروں سال گزر چکے ہیں مگر اُن کی قومیں اُن کی بے نظیر قربانیوں کی وجہ سے اُنہیں نہایت عزت کے ساتھ یاد کرتی ہیں۔ دنیا میں کونسا ایسا انسان گزرا ہے جس کا نام سوائے کسی نیک مثال کے اب تک زندہ ہے؟ اور اس لئے زندہ ہے کہ اس کی جسمانی نسل اب تک قائم ہے؟ کونسا صحابی ایسا ہے جس کو اس کی اولاد کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے؟ حتّٰی کہ دنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جسے اس کی اولادکی وجہ سے یاد کیا جاتا ہو بلکہ اُن سب کو صرف اُن کی عدیم المثال قربانیوں کی وجہ سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کو ہی دیکھ لو۔ کیا ہم آپ ؐ کو آپؐ کی اولاد کی وجہ سے یاد کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہم تو رسول کریم ﷺ کو اِس لئے یاد کرتے ہیں کہ آپؐ نے دین کے رستے میں قربانیوں اور اخلاص کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہ پہلوں میں اور نہ ہی پچھلوں میں مل سکتی ہے۔ پس ہم رسول کریم ﷺ کو اِس لئے یاد کرتے ہیں کہ آپ نے اسلام کے لئے وہ عملی نمونہ دکھایا جس کی نظیرپیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت ہمارے دلوں میں ہے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عزت اُن کی اولاد کی وجہ سے ہے؟ ہم میں سے تو اکثر ایسے ہیں جو جانتے تک نہیں کہ حضرت ابو بکرؓ کی نسل کہاں تک چلی اور ان کی نسل کے حالات ہی محفوظ نہیں ہیں۔ آج بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے آپ کو حضرت ابو بکرؓ کی اولاد ظاہر کر کے اپنے آپ کو صدیقی کہتے ہیں۔ لیکن اگر ان سے کوئی کہے کہ تم قسم کھاؤ کہ واقعی تم صدیقی ہو اور تمہارا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر ؓ تک پہنچتا ہے؟ تو وہ ہرگز قسم نہیں کھا سکیں گے۔ اور اگر وہ قسم کھا بھی جائیں تو ہم کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں او ربے ایمان ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی نسل کے حالات اتنے محفوظ ہی نہیں ہیں کہ آج کوئی اپنے آپ کو صحیح طور پر اُن کی طرف منسوب کر سکے۔ پس ہم حضرت ابو بکرؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام عالی شان ہے، ہم حضرت عمرؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے، ہم حضرت عثمانؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کارہائے نمایاں کر رہی ہے او رہم حضرت علیؓ کو اِس لئے نہیں یاد کرتے کہ ان کی نسل میں خاص خوبیاں ہیں۔ (حضرت علیؓ کا تو سلسلہ نسب بھی اب تک چل رہا ہے مگر ان کی عزت اس لئے نہیں کی جاتی کہ اُن کی نسل اب تک قائم ہے۔ ) باقی بھی جتنے صحابہؓ تھے اُن میں سے کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جسے اُس کی نسل کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہو۔ پس حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کو اُن کی ذاتی قربانیوں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ اور اُس زمانے کے یا بعد کے زمانہ کے جتنے لوگوں کو بھی ہم یاد کرتے ہیں، صرف اُن کی ذاتی قربانیوں کی وجہ سے ہی یاد کرتے ہیں۔ آج کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کی نسبت کہا جا سکے کہ اُسے اُس کی اچھی نسل یا خاندان کی وجہ سے عزت حاصل ہے۔ سب سے زیادہ عزت تو اس وقت سادات کی ہی کی جاتی ہے مگر بارہ تیرہ نسلیں گزرنے کے بعد ان کی عزت بھی کم ہونے لگی اور اب تو یہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی جیل خانے میں چلے جاؤ، تم کو بیسیوں سید ایسے ملیں گے جو چوری کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں گے۔ بیسیوں سید ایسے ملیں گے جو دھوکے بازی کے مقدمات میں گرفتار ہوں گے۔ بیسیوں سید ایسے ملیں گے جو ڈاکے اورٹھگی کے مقدمات میں زیر حراست ہوں گے اوربیسیوں سید ایسے ہوں گے جو اِسی قسم کے دوسرے برے افعال کی وجہ سے سزا بُھگت رہے ہوں گے۔ پس دنیا میں ہر شخص اپنے اعمال سے ہی عزت پاتا ہے اور ہم بھی اپنے اعمال سے ہی عزت پا سکیں گے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہماری نسلیں کب تک چلیں گی؟ کسی کی ایک نسل چلتی ہے، کسی کی دو نسلیں چلتی ہیں اور کسی کی اس سے زیادہ نسلیں چلتی ہیں مگر یہ سلسلہ آخر شُہرت کے لحاظ سے منقطع ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی ایک شخص کی ایک نسل دیر تک دین کو قائم رکھے۔ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ پوری قوم ایک نسل کو چلائے۔ پس قومی طور پر اسلام کا جھنڈا کھڑا کرنا بالکل ممکن ہے۔ مگر فردی طور پر ناممکن ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے پہلے بھی دین کی خدمت کی ہے، اب بھی اُن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تھک کر نہیں بیٹھ جائیں گے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں گے۔ کیونکہ اگر وہ اپنے ناموں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قربانیوں کے اُس معیار پر پورے اُتریں جس کا مطالبہ اِس وقت اسلام اُن سے کر رہا ہے۔ لوگ جتنی دنیوی کوششیں بھی اپنی اولادوں کے لئے کرتے ہیں صرف اِس لئے کہ اُن کا نام زندہ رہے۔ وہ سب کوششیں آخر بیکار جاتی ہیں مگر دین کی خاطر قربانی کرنا ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ ہمیش تک تمہاری یاد کو آئندہ نسلوں کےد لوں میں قائم رکھتی ہے۔ اور یہی ایک ایسی یادگار تم اپنے پیچھے چھوڑ جاؤ گے جو کسی کے مٹانے سے بھی نہیں مٹ سکے گی۔ بلکہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہماری جماعت کے اندر ایسے آدمی پیدا ہوں گے جو تمہارے ناموں کی بقا کے لئے اَن تھک کوشش کریں گے اور وہ کُرید کُرید کر لوگوں سے تمہارے حالات معلوم کیا کریں گے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی ایسے ہوں گے جو ان کتب کو خرید کر اپنے گھر میں رکھیں گے۔ پھر اُن کی جگہ نئے آدمی پیدا ہوتے جائیں گے جو تمہارے حالات کی کتب خرید کر اپنے پاس رکھیں گے۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا اور یہ اس وقت تک بھی جاری رہے گا جبکہ تمہاری نسلیں مٹ چکی ہوں گی۔
صحابہ ہی کو دیکھ لو۔ انہوں نے دین کے جھنڈے گاڑنے کے لئے نہایت بے نظیر قربانیاں کیں۔ ان کے بعد جُوں جُوں زمانہ گزرتا گیا تو جن لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت اور دین کے لئے اخلاص تھا اُن کو صحابہؓ کی قربانیاں معلوم ہوئیں تو اُن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ صحابہؓ کے حالات کو محفوظ کریں۔ چنانچہ انہوں نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ اِس کام کو سر انجام دیا اور اِس کام کے لئے اُن کو نہایت تندہی سے کام کرنا پڑا اور انہوں نے کُرید کُرید کر صحابہؓ کے حالات لوگوں سے دریافت کئے اور کئی قسم کے اخراجات برداشت کرکے اُنہوں نے صحابہؓ کی زندگیوں کے تمام پہلوؤں کے حالات قلمبند کئے۔ چنانچہ صحابہؓ کے حالات پر آٹھ آٹھ اور نو نو جلدیں لکھی گئیں اور زرِ کثیر خرچ کر کے لوگ وہ کتابیں اپنی لائبریریوں میں رکھتے ہیں۔ میری اپنی لائبریری میں بھی وہ کتابیں موجود ہیں۔ حضرت خلیفہ اول کی لائبریری میں بھی وہ کتابیں موجود ہیں۔ اِسی طرح انجمن کی لائبریری میں بھی کئی ایسی کتابیں موجود ہوں گی۔
وہ دن ہماری جماعت پر خدا کے فضل سے بہت جلد آنے والا ہے کہ جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہو جائیں گے جو ہمارے زمانہ کے حالات لکھیں گے اور وہ اسی طرح کُرید کُرید کر ہمارے حالات کو دریافت کیا کریں گے جس طرح پہلے مصنفین نے صحابہؓ کے حالات دریافت کئے تھے۔اور وہ ہر طبقہ کے قربانی کرنے والے احمدیوں کے حالات لکھیں گے۔ وہ ایک احمدی مزدور کے حالات بھی لکھیں گے، وہ ایک احمدی لوہار کے حالات بھی قلمبند کریں گے اور وہ ایک احمدی ترکھان کے حالات بھی محفوظ کریں گے۔ غرض وہ ایک ایک مخلص احمدی کے حالات تلاش کر کر کے بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں اسلام کی خدمت کرنے والے صحابہ یا بعد میں ہمارے زمانہ والے تمام احمدیوں کے حالات کتابوں میں محفوظ کئے جائیں گے اور ان سب کے نام یقیناً قیامت تک محفوظ رہیں گے او رجب ان کی نسل ختم ہو چکی ہو گی، جب ان کا نسب نامہ ختم ہو چکا ہو گا اور جب ان کی اولادوں میں سے ان کا کوئی نام لیوا بھی باقی نہ ہو گا اُس وقت لوگ ان کے کتابوں میں لکھے ہوئے حالات کو پڑھیں گے اور ان کے ناموں کو نہایت عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ اور ٹھیک اُسی طرح یاد کیا جائے گا جس طرح آج ہم صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کے ناموں کو عزت اور فخر کے ساتھ یاد کرتےہیں اور تمہاری آنے والی نسلیں جب تمہاری قربانیوں کے حالات پڑھیں گی تو ادب اور احترام کے ساتھ ان کےسر جھک جایا کریں گے۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارے لئے دین کے رستے میں قربانیاں کرنے کا یہی موقع ہے۔ پس تم دین کی خدمات میں بیش از بیش ترقی کرو جو اگلے جہاں میں بھی تمہارے کام آئے گی اور اِس جہاں میں تمہارا نام ابد آلاباد تک زندہ رکھنے کا موجب ہوں گی۔ مگر جب تک تم صحیح طور پر صحابہ ؓ کے نقش قدم پر نہیں چلو گے، دین کا کام تو رُک نہیں سکے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اس کام کو چلانے کا خود ذمہ دار ہے مگر تمہارا نام ضرور مٹ جائے گا۔ پس پرانی فوج جو ایک عرصہ سے قربانیاں کرتی چلی آ رہی ہے وہ اپنی قربانیوں کو اَور بھی زیادہ بڑھانے کی کوشش کرے اور نئی فوج بھی جو دفتر دوم میں حصہ لے رہی ہے اور جس کے ابھی ریزرو فنڈ قائم کرنے والے دَور میں سے سات سال باقی ہیں، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اُن کے اندر اِس بات کے لئے غیرت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے زمانے کے اخراجات کو خود برداشت کریں اور وہ اس بوجھ کو کسی دوسرے وقت کے لوگوں پر نہ پڑنے دیں۔ اِس وقت جیسا کہ ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے ان کی قربانیاں شاندار نہیں ہیں۔ کیونکہ اول تو ان کے وعدے ہی بہت کم ہیں اور پھر ان کے چندوں کی ادائیگی ان کے وعدوں سے بھی بہت کم ہے۔ اور یہ امر نہایت پریشانی کا موجب ہے۔
پس آج سے ہر نوجوان جس کی عمر اٹھارہ سال سے اوپر ہے اِس بات کا عہد کرلیوے کہ وہ اِس دور میں ضرور شامل ہو گا۔ اگر نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے تو تھوڑے ہی دنوں میں ان کی تعداد دس بیس ہزار تک پہنچ جائے گی اور پھر یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی۔ ہر نوجوان یہ سمجھ لے کہ یہ کام کسی اَور نے نہیں کرنا بلکہ مَیں نے ہی کرنا ہے او راِس کی سب سے بڑی ذمہ داری مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر نوجوان اس عظیم الشان ذمہ داری کو سمجھ لیں گے تو یقیناً ہم ایک نہایت مضبوط ریزرو فنڈ قائم کر سکیں گے۔ پھر ہر نئے دَور کے بعد نئے مجاہدین پیدا ہوتے چلے جائیں گے جو اِس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کے قابل ہوں گے اور یہ سلسلہ اِسی طرح قیامت تک جاری رہے گا۔ پس جماعت کا ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کر لے کہ وہ کسی زید بکر یا عمر کو نہیں دیکھے گا کہ وہ کیا کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی کو صحابہؓ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے گا۔ مَیں جماعت کے نوجوانوں کو خواہ وہ لاہور کے رہنے والے ہوں یا امرتسر کے، سیالکوٹ کے رہنے والے ہوں یا گجرات کے، پشاور کے رہنے والے ہوں یا دہلی کے اور اس سے آگے چل کر حیدر آباد کے کسی اَور علاقہ کے رہنے والے ہوں اِس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کو اپنے ذمہ لے لیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریق سے اِس اگلے دَور کو کامیاب بنانا ہے اور اِس کے لئے اُنہیں کتنی بھی قربانیاں کرنی پڑیں وہ ضرور کریں گے اور وہ کسی نوجوان کو بھی اس میں حصہ لئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔
مَیں جب دلّی گیا تو مَیں نے اندازہ لگایا کہ وہاں کے احمدیوں کی ماہوار آمدن پچاس ہزار روپیہ کے قریب ہے جو چھ لاکھ روپیہ سالانہ بنتی ہے۔ اور اگر ان میں وصیت والا کوئی نہ ہو تو ان کی طرف سے ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ سالانہ چندہ آنا چاہئے۔ اور اگر وصیت والے بھی ہوں تو ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ چندہ اُن کی طرف سے آنا چاہئے ورنہ کم از کم اڑتالیس ہزار سالانہ تو ضرور آنا چاہئے۔ مگر اُن کا سالانہ چندہ تیس ہزار روپیہ کے قریب آتا ہے حالانکہ اگر کوشش کی جائے تو اِس چندہ کی مقدار بڑھائی جا سکتی ہے۔ یہی حال لاہور کی جماعت کا بھی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا چندہ عام ہی اسّی ہزار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اور اِسی طرح تحریک جدید کا چندہ چالیس ہزار تک جا سکتا ہے مگر پوری طرح توجہ نہ کرنے کی وجہ سے دہلی اور لاہور کی جماعتوں کے تحریک جدید کے چندے صرف بیس ہزار روپیہ تک ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ مَیں نے چند اَور شہروں کے متعلق بھی اندازہ لگایا ہے کہ اگر وہاں کے کارکنان کوشش کریں تو وہاں کے چندوں کی مقدار کو بڑھا لینا کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ مگر یہ کام توجہ اور محنت چاہتا ہے۔ اگر جماعت کے لوگوں کے سامنے سلسلہ کی ضروریات اور تحریک جدید کی اہمیت کو اچھی طرح واضح کیا جائے تو یہ کام مشکل نہیں ہے۔ اس وقت صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ نو لاکھ روپیہ سالانہ کا ہے مگر میرا اندازہ یہ ہے کہ اب جنگ ختم ہونے پر اس کو بجائے کم ہونے کے پندرہ لاکھ روپیہ سالانہ، اِسی طرح تحریک جدید کا چندہ سات آٹھ لاکھ سالانہ، دونوں دَوروں کا مل کر ہونا چاہئے۔ لیکن اتنے وعدے نہیں ہوتے اور چندوں کی وصولی کی رفتار اور بھی سُست ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو اس کام کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اس سال کے تحریک جدید کے چندوں کی دونوں دور ملا کر کُل وصولی اس وقت تک دو لاکھ نوے ہزار ہے اور وعدے تین لاکھ پچپن ہزار کے ہیں۔ حالانکہ اگر لوگ قربانی سے کام لیتے تو اس وقت تک کم از کم وصولی ساڑھے تین لاکھ ہونی چاہئے تھی۔ پس ضرورت اِس با ت کی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ لوگ یہ جو کہا کرتے ہیں کہ فلاں سیکرٹری یا فلاں کارکن اچھی طرح کام نہیں کرتا تو مَیں کیوں کروں؟ یہ اُن کی ایمانی کمزوری پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سوائے کسی کمزور ایمان والے کے اس قسم کے خیالات کوئی شخص بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتا۔ صحابہؓ اِس قسم کی باتیں ہرگز نہیں کرتے تھے کہ فلاں شخص کام نہیں کرتا اِس لئے ہم بھی کام نہیں کرتے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے تھے۔ اگر لوگوں میں اِسی قسم کے خیالات پیدا ہو جائیں کہ وہ چند کمزور لوگوں کو دیکھ کر خود بھی کام کرنا چھوڑ دیں تو دین کے کام کون کرے گا؟
پس ہر شخص اپنے دل میں یہ سمجھ لیوے کہ دین کی ساری ذمہ داری مجھ پر ہی ہے اور میرے ایک کے سُستی یا کمزوری دکھانے سے دین کے کاموں میں حرج واقع ہو جائے گا۔ جب ہم میں سے ہر شخص اِس بات کو پوری طرح ذہن نشین کرے گا تو یہ تمام رُکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی۔ پس ہر شخص سمجھ لے کہ مَیں ہی دین کا ستون ہوں اور دین کی چھت میرے ہی سہارے پر کھڑی ہے اور اگر یہ چھت میری کسی کمزوری کی وجہ سے گر گئی تو مَیں خود بھی اس کے نیچے آ کر پِس جاؤں گا۔ ایک مثل مشہور ہے کہ کوئی چھوٹا سا جانور رات کو اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اونچی کر کے سویا کرتا ہے۔ ایک دن کسی نے اُس سے پوچھا کہ تم اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے کیوں سوتے ہو؟ تو اُس نے کہا مَیں اپنی ٹانگیں اس لئے آسمان کی طرف کر کے سوتا ہوں کہ اگر رات کو آسمان گر پڑے تو مَیں اس کو اپنی ٹانگوں پر سہار سکوں۔ یہ ایک مثال ہے جو کسی چھوٹے سے جانور کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو درحقیقت یہ مثال کسی چھوٹے سے جانور کی نہیں بلکہ مومن کی ہے۔ اور مومن کی مثال ایسی ہی ہونی چاہئے۔ ہر مومن کو اپنے دل میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مَیں نے ہی ساری دنیا کو بچانا ہے، مَیں نے ہی ساری دنیا کو کفر سے نجات دلانی ہے، مَیں نے ہی ساری دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانا ہےاور مَیں نے ہی ساری دنیا میں اسلام کے جھنڈے کو گاڑنا ہے۔ جب تم میں سے اگر سارے نہیں تو کچھ مومن بھی اس مقام کو حاصل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری امداد کا ذمہ لے لے گا او روہ تمہارے جھنڈے کو سر نگوں نہیں ہونے دے گا۔
جس وقت حضرت لوطؑ کی بستی پر عذاب آنے والا تھا تو فرشتوں نے اس عذاب کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے ہی اس کے متعلق خبر دے دی تھی۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کو اُس کے متعلق معلوم ہوا تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اس عذاب کے ٹل جانے کے لئے دعائیں کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے اللہ! اگر اس بستی میں 100 نیک آدمی ہوں گے تو کیا تُو ان کو بچانے کی خاطر باقی ساری بستی کو بھی نہ بچا لے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! اگر 100 آدمی ان میں سے نیک ہو گا تو مَیں ضرور اُن کی خاطر باقی تمام لوگوں کو چھوڑ دوں گا۔ تب حضرت ابراہیمؑ کو شبہ ہؤا کہ اس ساری بستی میں 100 مومن بھی نہیں ہے۔ پھر عرض کیا کہ اے اللہ! اگر 100سے بھی کم 90 ہی مومن ہوں تو100 کیا اور 90 کیا۔ کیا تُو 90 مومنوں کی خاطر بھی اس بستی کو اپنا عذاب نہیں ٹلا دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے ابراہیم! ہم نے تیری دعا کو سنا۔ اگر 90 مومن بھی اس بستی میں ہوں گے تو ہم ان کی خاطر باقی لوگوں کو بھی چھوڑ دیں گے۔ تب حضرت ابراہیمؑ کو پھر شبہ ہؤا کہ اس بستی میں 90 مومن بھی نہیں ہیں۔ آپ نے پھر عرض کیا کہ 90 کیا اور 80 کیا۔ کیا تُو 80 مومنوں کے لئے باقی لوگوں کو عذاب سے نجات نہ دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی منظور ہے۔ تب حضرت ابراہیمؑ نے سمجھا کہ اُس بستی میں 80 مومن بھی نہیں ہیں۔ اِسی طرح حضرت ابراہیم 70، 60، 50 اور آخر 10 تک پہنچے۔ اور عرض کیا اے خدا! 10 کیا اور 20 کیا۔ کیا تُو 10 مومنوں کی خاطر ساری بستی کو نہیں بچا لے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اگر 10 مومن بھی ہوں گے تو میرا عذاب ٹل سکتا ہے۔ تب حضرت ابراہیمؑ سمجھ گئے کہ اُس ساری بستی میں سوائے حضرت لوطؑ اور ان کے خاندان کے کوئی بھی مومن نہیں۔ پس وہ خاموش ہو گئے اور پھر دعا نہ کی۔1 غرض اللہ تعالیٰ تھوڑے نیکوں کی خاطر بُہتوں کی جان بھی بچا لیا کرتا ہے۔
یہ جو مَیں نے جانور کی آسمان کی طرف ٹانگیں کر کے سونے کی مثال بیان کی ہے ایک جانور بھلا کیا ٹانگیں کھڑی کرے گا؟ یہ تو مومن کی مثال ہے کہ مومن باوجود یکہ بظاہر چھوٹا ہوتا ہے وہ اِس عظیم الشان کام کے لئے کمر بستہ ہو جاتا ہے کہ وہ ساری دنیا کو عذاب سے بچا ئے گا۔ کوتاہ اندیش لوگ اُس کے اِن ارادوں کو دیکھ کر اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور ہنستے ہیں کہ یہ بیچارہ کسی کو کیا بچا سکتا ہے ؟ مگر وہی چھوٹا سا مومن، جس کا لوگ تمسخر اڑاتے ہیں اپنی محنت اور کوششوں کی وجہ سے خدا کے دربار میں کامیاب اور سرخرو ہو کر پیش ہوتا ہے۔ دنیا کے لوگوں کو تو یہی عادت ہے کہ وہ مومنوں کےا یسے دعووں کو سن کر ٹھٹھے کرتے ہیں اور بظاہر اس قسم کے دعوے ہوتے بھی عجیب سے ہیں۔ حکومتِ امریکہ کا سالانہ بجٹ بیس اور تیس ارب کے درمیان ہوتا ہے ، انگلستان کا سالانہ بجٹ پندرہ ارب کا ہوتا ہےا ور ہندوستان کی حکومت کا بجٹ چار ارب کے قریب ہوتا ہے اور ان کے مقابلہ میں ہماری جماعت کا سالانہ بجٹ صرف چند لاکھ کا ہوتا ہے۔ اور چند لاکھ کے بجٹ کو اربوں کے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔ اِس لئے جب ہم چند لاکھ روپے سالانہ بجٹ والے اِس قسم کے دعوے کرتے ہیں کہ ہم تمام دنیا کو کفر سے نجات دلائیں گے اور ہم تمام دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائیں گے تو اربوں روپے کے بجٹ والی حکومتوں کے لوگ ہماری باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ غریب بھلا کیا کر سکتے ہیں؟ پس ہمارا جو مبلغ اِس قسم کا دعویٰ کرتا ہے اُس کی مثال اُس جانور کی سی ہوتی ہے جو رات کو آسمان کی طرف اِس لئے ٹانگیں اونچی کر کے سوتا ہے کہ اگر آسمان ٹوٹ پڑے تو وہ اُس کو اپنی ٹانگوں پر سہار سکے۔ یہ مثال دراصل مومن کی ہے ورنہ جانور سے کون باتیں کر سکتا ہے؟ اِس قسم کا کام صرف مومن ہی کر سکتا ہے اور باوجود بظاہر انتہائی کمزور ہونے کے وہ ہر قسم کی قربانی پیش کرتا ہے۔اور جس طرح مثال میں ایک چھوٹا سا جانور کہتا ہے کہ اگر آسمان گر پڑا تو مَیں ساری دنیا کو بچا لوں گااور مَیں اپنی جان کی قربانی پیش کر دوں گا۔ اِسی طرح ایک مومن بھی کہتا ہے کہ مَیں ساری دنیا کو بچانے کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کر دوں گا۔
پس تمہیں چاہئے کہ تم بھی اِسی قسم کے مومن بنو کہ ساری دنیا کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی جان کی قربانی پیش کرو۔ جب مومن ہر دن اور ہر رات خد اکے سامنے اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے تب اُس کے راستہ سے ہر قسم کی مشکلات ہٹتی چلی جاتی ہیں اور خدا کا فضل نازل ہونا شروع ہو جاتاہے۔ اور خدا ہر میدان میں اپنے بندے کا ساتھ دیتا ہے اور شیطان کے لشکروں کو شکست ہوتی ہے اور خدا کی طرف سے جو عذاب دنیا پر نازل ہونے والے ہوتے ہیں اور جو تباہی کے سامان دنیا پر وارد ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب واپس چلے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اب میری دنیا مومنوں سے بھر رہی ہے اس لئے اب میرا عذاب اس پر حرام ہو جائے گا۔’’ (الفضل 23 دسمبر 1946ء)
1: پیدائش باب 18 آیت 20 تا 33 (مفہوماً)

46
جماعت روپے سے نہیں بلکہ ایمان سے زندہ رہتی ہے
(فرمودہ 20 دسمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے وصیت کی بنیاد اس امر پر رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے جماعتی فنڈ کی مالی حالت کو بہت کچھ ترقی دے گا اور تبلیغ ِاسلام کے لئے جن رقوم کی ضرورت ہو گی اللہ تعالیٰ اس تحریک کے ذریعہ انہیں پیدا کرے گا۔ تبلیغِ اسلام کا فریضہ اتنا وسیع ہے کہ اُس زمانے کی جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتاتھا کہ اس وصیت کے ذریعہ تبلیغِ اسلام کی ضرورتیں پوری ہوتی جائیں گی۔ اُس وقت جماعت کی مالی حالت باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لوگ بھی بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے تھے بہت کمزور تھی اور مشکل سے تین ہزار روپیہ سالانہ چندہ ہوتا تھا۔ حالانکہ ان لوگوں کی قربانیاں ایسی تھیں جن کو دیکھ کر انسان محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست منشی رستم علی صاحب ہوتے تھے۔ وہ کورٹ سب انسپکٹر تھے اور اُس زمانہ میں اِس سے اوپر کوئی عدالتی عُہدہ نہ تھا۔ اب تو کورٹ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی ہوتا ہے لیکن اُس وقت کورٹ سب انسپکٹر کا عُہدہ ہی سب سے اوپر تھا۔ اور اُس زمانہ میں تنخواہیں بھی کم ہوتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے ڈیڑھ دو سال پہلے 1906ء کے شروع میں یا 1906ء کے آخر میں گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ضلع کے انچارج کورٹ انسپکٹر ہؤا کریں ۔ اس سے پیشتر سب انسپکٹر ضلع کے انچارج ہوتے تھے۔ منشی رستم علی صاحب چونکہ پہلے ہی اپنے ضلع کے انچارج تھے اِس لئے اُن کو کورٹ انسپکٹر بنا دیا گیا اور یکدم ان کی تنخواہ میں اسّی نوے روپے کا اضافہ ہؤا۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار تھے کہ منشی رستم علی صاحب کا خط آیا اور آپ نے مجھے پڑھنے کے لئے فرمایا۔ اُس خط کے ساتھ ایک منی آرڈر بھی پہنچا۔ منشی رستم علی صاحب نے اس خط میں لکھا تھا کہ مَیں انسپکٹر بنا دیا گیا ہوں اور میری تنخواہ میں یکدم 80،90 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ آپ کی طرف سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تھی اور واقع میں سلسلہ کی امداد اہم فریضہ ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے یکدم ترقی دی ہے تو وہ اِسی لئے دی ہے کہ مَیں اس کی راہ میں زیادہ چندہ دے سکوں۔ یہ یکدم ترقی میرے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کے لئے دی گئی ہے۔ اس لئے مَیں اپنی پہلی تنخواہ پر بھی چندہ ادا کرتا رہوں گا اور یہ زائد ترقی ساری کی ساری سلسلہ کو دوں گا کیونکہ یہ میرے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے ہے۔ مگر باوجود اِس اخلاص کے پھر بھی یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں لنگر کو چلانے کے لئے بعض دفعہ آپؑ کو قرض لینا پڑتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تحریک کرنی پڑتی تھی کہ دوست چندہ کی طرف توجہ کریں اور مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے لئے آٹھ دس ہزار روپیہ کی سالانہ ضرورت تھی۔ اس لحاظ سے ساری پونجی جو سلسلہ کو سالانہ ملتی تھی 26 یا 27 ہزار کے قریب تھی اور یہ روپیہ بہت مشکل کے ساتھ جمع ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ مَیں فخر کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ سلسلہ کے ایک نشان کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ اب اکثر میرا سالانہ چندہ ہی تیس اور چالیس ہزار کے درمیان ہوتا ہے۔ گویا اُس زمانے کے تمام اخراجات میرے موجودہ چندوں سے پورے ہو سکتے تھے۔ لیکن اُس وقت ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جماعت کو بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑتی تھیں۔ اور یہ چیزیں جو اَب ہمیں نظر آ رہی ہیں اُس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے بہت مشکل نظر آتی تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا اس کے ماتحت آپ کو اس بات میں شبہ نہ تھا کہ ان کاموں کے لئے روپیہ آئے گا یا نہیں بلکہ آپ کو جس بات میں شبہ تھا وہ یہ تھی کہ اس روپیہ کو استعمال کرنے والے اِس کو دیانت سے استعمال کریں گے یا نہیں۔ گو ظاہر بین نگاہیں اُس وقت اس بات کے پورا ہونے کی کوئی صورت نہ دیکھتی تھیں۔ کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ کرنا اور ان کے لئے تعلیمی انتظامات کرنا، غرباء کی پرورش کرنا، سلسلہ کی تمام دوسری ضروریات کو پورا کرنا کوئی معمولی کام نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کو یقینی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ روپیہ آئے گا اور ضرور آئے گا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کے آنے کے وقت جماعت اپنی دیانت پر پورے طور پر قائم نہ رہ سکے۔ روپے کے زیادہ آنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ جماعت تعداد میں بڑھتی چلی جائے ۔ اِس طرح اس کی وصیتیں اور چندے بڑھتے چلے جائیں۔ دوم یہ کہ جماعت کا روپیہ بڑھے اور اس طرح پہلے لوگوں کا بھی چندہ ترقی کر جائے۔ یہ دو ہی ذریعے جماعت کے مال کو بڑھانے کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی تعداد کو بھی دن بدن بڑھا رہا ہے اور جماعت کے مالوں میں بھی ترقی دے رہا ہے۔ لیکن ابھی ہماری مالی حالت دنیا کے مقابل پر بہت کمزور ہے۔ دنیا میں ایسے مالدار لوگ بھی ہیں کہ ہمارا جتنا سالانہ چندہ ہوتا ہے ۔ وہ اس سے بھی کئی گُنا زیادہ دے دیں اور اُن کی جیب ذرا بھی ہلکی نہ ہو۔ چنانچہ کئی لوگ ایسے ہیں جو پندرہ بیس کروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر دیتے ہیں اور اُن کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے مال میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ امریکہ کےایک سخی آدمی کے متعلق مشہور ہے کہ اُس نے چار ارب روپیہ اپنی زندگی میں صدقہ و خیرات دیا لیکن یہ چار ارب روپیہ کوئی تکلیف برداشت کر کےا ور بوجھ اٹھا کر نہیں دیا گیا بلکہ اُس شخص کی ارب دو ارب کی سالانہ اِنکم تھی۔ اگر ایسا آدمی اپنی آمد کا چوتھا حصہ بھی نکالے تو وہ پچاس کروڑ بنتا ہےاور پانچواں حصہ نکالے تو چالیس کروڑ بنتا ہے اور اگر چھٹا حصہ دے تو تینتیس کروڑ بنتا ہے اور اگر دسواں حصہ دے تو بھی بیس کروڑ سالانہ بنتا ہے۔ اور اگر وہ بیس سال دے تو چار ارب بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کے لئے بیس کروڑ دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ غریب آدمیوں کے لئے دسواں حصہ دینا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اُن کی آمد کم ہوتی ہے اور خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ اور امیر آدمیوں کے لئے دسواں حصہ دینا کوئی مشکل نہیں ہوتا کیونکہ ان کی آمد زیادہ ہوتی ہے اور خرچ آمد کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے۔ ایسا شخص جس کی آمد ارب دو ارب روپیہ ہے اگر وہ بیس کروڑ روپیہ سالانہ دے دیتا ہے۔ اس کے لئے یہ مشکل نہیں ۔ لیکن ہماری غرباء کی جماعت ہے اور ہماری جماعت کے افراد اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر بچا بچا کر خدمتِ دین کے لئے دیتے ہیں اس لئے ان کی قربانیاں دو کروڑ سالانہ دینے والے سے زیادہ ہیں۔ پس جماعت کے مال کےبڑھانے کے دو ہی طریق ہیں۔ اول یہ کہ جماعت کے افراد تعداد میں بڑھتے جائیں اور دوسرے یہ کہ جماعت کے اموال اور جائیدادیں بڑھیں۔ پھر ہی جماعتی فنڈ زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی غیر معیّن بات بیان کی جائے تو اکثر اُس کے تمام پہلو مراد ہوتے ہیں۔ گو بعض اوقات اُس کے مخصوص پہلو ہی مراد ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ تمام پہلو مراد ہوتے ہیں۔ اِسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اِس پیشگوئی کے بھی سارے ہی پہلو مراد ہیں۔ اور اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے مالوں کو بے انتہا بڑھائے گا اورجماعت کے افراد میں دن بدن ترقی دے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی بڑا آدمی جماعت میں داخل نہیں ہؤا اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی کوئی بڑا آدمی جماعت میں داخل نہیں ہؤا۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کسی خیال میں پڑ گئے اور پھر کچھ دیر کے بعد مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ انبیاءؑ کی جماعتوں میں امراء ابتدائی حالت میں داخل نہیں ہوتے۔ اس وقت بڑے آدمیوں کا درجہ ای۔ اے۔ سی سے شروع ہوتا ہے اور ہماری جماعت میں کوئی ای۔ اے۔ سی نہیں ہے۔ کُجا وہ حالت کہ ہماری جماعت میں کوئی ای۔ اے۔ سی نہ تھا اور کُجا یہ حالت ہے کہ ہماری جماعت میں بہت سے ای۔ اے۔ سی ہیں اور کئی جج ہیں اور بعض ڈپٹی کمشنر ہیں اور بعض اس سے بھی اوپر ہیں۔ مثلاً چودھری ظفر اللہ خاں صاحب فیڈرل کورٹ کے جج ہیں اور وائسرائے کی کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ کُجا وہ حالت کہ جماعت میں کوئی ای۔ اے ۔ سی نہ تھا اور کُجا یہ حالت کہ اب ہماری جماعت میں کئی افسر ایسے ہیں جن کے ماتحت کئی ای۔ اے۔ سی کام کرتے ہیں اور یہ سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اِسی طرح انجمن کی جائیداد بھی حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں پندرہ بیس ہزار روپیہ کی تھی اور اب کم سے کم ایک کروڑ روپیہ کی ہے۔ یہ حالا ت بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ وا لسلام کی پیشگوئی دن بدن پوری ہو تی جا رہی ہے۔ اب جماعت بھی بڑھ رہی ہےاور جماعت کے اموال بھی بڑھ رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات سے پہلے جو جلسہ سالانہ ہؤا اُس میں سات سو آدمی شریک ہوئے اور اِس وقت ہمارے جمعہ میں چار ہزار کے قریب آدمی بیٹھتے ہیں۔ لیکن اُس سات سو کو دیکھ کر آپ کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ اب ہماری جماعت بہت بڑھ گئی ہے اور اب ہمارا کام ختم ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ جماعت خوب قائم ہو گئی ہے او راب اتنا ہجوم ہے کہ ہم ان کے ساتھ سیر بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اُس سالانہ جلسہ سے آج ہمارے اس جمعہ میں چھ گنا زیادہ آدمی بیٹھے ہیں۔ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کے آخری سال جو جلسہ سالانہ ہؤا اس میں اٹھارہ سَو آدمی شریک ہوئے اور اسے بہت عظیم الشان جلسہ سمجھا گیا۔ لیکن آج ہمارے جمعہ میں اُس جلسہ سالانہ سےاڑھائی گُنے زیادہ آدمی بیٹھے ہیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے جلسے ہمارے جمعے بنا دئیے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ کے جلسے ہماری روزانہ نمازیں بن گئیں۔ مَیں نے کئی دفعہ مسجد مبارک میں مغرب کے وقت حساب لگوایا ہے۔ کئی دفعہ نمازیوں کی تعداد سات سو سے اوپر ہوتی ہے۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی پیشگوئی کس طرح عظیم الشان طور پر پوری ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو تعداد میں بھی ترقی دے رہا ہے اور اموال میں بھی ترقی دے رہا ہے۔ پس یہ حصہ دن بدن پورا ہو رہا ہے لیکن دوسرا حصہ اس پیشگوئی کا سوچنے کے قابل ہے کہ کیا مالوں میں ترقی کے ساتھ جماعت کے افراد دیانت اور امانت پر قائم ہیں یا نہیں؟
مَیں دیکھتا ہوں کہ جنگ کے دوران میں لوگوں کو بہت مال کمانے کا موقع ملا ہے اور اس کا کچھ اثر قادیان پر بھی پڑا ہے۔ گو جماعت کی غلطی کی وجہ سے قادیان کے احمدیوں کا حصہ دوسرے لوگوں سے کم رہا ہے۔ مگر ان کو بھی حصہ ملا ضرور ہے۔ یہاں کارخانے کھل گئے ہیں، بعض بڑی بڑی دکانیں بن گئی ہیں۔ اسی طرح بعض اور صنعتی اور تجارتی رنگ میں ترقیات ہوئی ہیں اور جنگ کے اِس سات سال کے عرصہ میں پہلے کی نسبت بہت ترقیات ہو گئی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جس بات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ہوشیار اور بیدار کر دیا تھا، وہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اور ان اموال کی وجہ سے لوگوں کی دیانتیں ویسی صاف نہیں رہیں جیسی کہ پہلے تھیں۔ میرے پاس متواتر شکایات پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی دکاندار بلیک مارکیٹ کرتے ہیں اور وہ کنٹرول کی چیزوں کو چوری چوری زیادہ قیمتوں پر بیچتے ہیں ۔ مَیں اِس کے متعلق پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ یہ نہایت ہی مکروہ اور ظالمانہ فعل ہے۔ جماعت کے دکانداروں کو اِن باتوں سے بچنا چاہئے لیکن باوجود میرے سمجھانے کے پھر بھی بعض کے متعلق یہ رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ میرے نزدیک اِس کی ذمہ داری نظارت امور عامہ پر بھی ہے۔ وہ کیوں اِس قسم کے لوگوں کا پتہ نہیں لگاتے اور ان کو سزائیں نہیں دیتے۔ اور کتنے ذلیل ہیں وہ لوگ جو اس طریق پر روپیہ کماتے ہیں۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ کوئی جماعت روپے سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ جماعت ایمان سے زندہ رہتی ہے۔ اگر روپیہ ہی اصل چیز ہے تو یہودیوں، عیسائیوں، پارسیوں اور ہندوؤں کے پاس تم سے بہت زیادہ روپیہ ہے۔ کیوں خدا تعالیٰ نے اُن میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو مبعوث نہ فرمایا؟ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غرباء کی جماعت میں سے مبعوث فرمانا بتاتا ہے کہ ایمان کا روپے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ روپیہ بطور انعام کے دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کی ضروریات کو پورا کرے۔ ان کے ذریعہ غرباء کی امداد کرے اور کبھی روپیہ بطور آزمائش کے دیا جاتا ہے۔ اگر تو روپیہ کے آنے سے انسان کا ایمان سلامت رہا تو وہ روپیہ اُس کے لئے بطور انعام کے ہے اور وہ روپیہ اُس شخص کے لئے باعثِ برکت ہے۔ لیکن اگر وہ روپیہ انسان کےا یمان کو باطل کر دیتا ہے اور وہ روپیہ کے آجانے سے بے ایمانوں جیسی چالاکیاں کرنے لگ جاتا ہے اور چوروں اور ٹھگوں کی طرح لوگوں کو لوٹتا ہے تو وہ روپیہ اُس شخص کے لئے عذاب کا باعث ہے۔ میرے پاس کل بعض دوستوں نے شکایت کی کہ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ مکان بناؤ۔ نہیں تو ہم زمین واپس لے لیں گے۔ دوسری طرف اینٹوں کی یہ حالت ہے کہ اینٹوں والوں کے پاس جب ہم جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اینٹیں تو سب کی سب بِک چکی ہیں۔ اور پھر انہی اینٹوں کو بلیک مارکیٹ کر کے تیس روپے کی بجائے پچاس روپے میں بیچتے ہیں۔ پہلے ہی جنگ کی وجہ سے اینٹوں کی قیمت چار گُنے زیادہ ہے۔ کیونکہ جنگ سے پہلے چھ سات روپے ہزار اینٹ بِکتی تھی اور اب تیس روپے ہزار ہے۔ تو یہ پہلے ہی قیمت چار گُنے بڑھ گئی ہے۔ مگر یہاں کے بھٹہ والے اِس کو ڈبل کر کے یعنی پچاس روپے ہزار بیچتے ہیں۔ اِس حالت میں ہم لوگ مکان کس طرح بنائیں۔ ان کا یہ اعتراض وزنی ہے۔ اس حالت میں ہم لوگوں کو مجبور نہیں کر سکتے کہ تم ضرور آٹھ گُنا قیمت خرچ کر کے قادیان میں مکان بناؤ او رقادیان کی حفاظت کے سامان پیدا کرو۔ اِس قسم کے تاجر گویا لوگوں کو قادیان میں مکان بنانے سے روکنے والے ہیں اور قادیان کی حفاظت کے رستہ میں دیوار حائل کرنے والے ہیں۔ اس قسم کے تاجروں کی مثال اس کشمیری جیسی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جیٹھ ہاڑھ کے مہینے میں دھوپ میں بیٹھا ہؤا تھا۔ سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کے مارے ہانپ رہا تھا۔ کوئی شخص اس رستہ سے گزرا۔ اس نے کہا۔ میاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو؟یہ پاس ہی دیوار کا سایہ ہے اُس میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ تو وہ کشمیری ہاتھ لمبا کر کے کہنے لگا۔ اگر مَیں سایہ میں بیٹھ جاؤں تو آپ مجھے کیا دیں گے؟ یہی حالت ان حریص تاجروں کی ہے۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر فساد وغیرہ ہؤا تو سب سے پہلے مالدار ہی لُوٹے جائیں گے اور نقصان بھی زیادہ ان کا ہی ہو گا۔ غریب جس کے پاس اپنے کھانے پینے کو کچھ نہیں یا مشکل سے اپنا گزارہ کرتا ہے اُس کے پاس سے لُوٹا کیا جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ فساد وغیرہ ہوں بھی تو اُسے اپنے مال کا فکر نہیں ۔
کہتے ہیں کسی میراثی کے گھر میں چور آیا۔ اُس نے کمرے میں گھس کر کمرے کی تلاشی لینی شروع کی۔ کبھی وہ سوٹی کے ساتھ فرش کو ٹھکورتا اور کبھی انگلیوں کے ساتھ دیواروں کو بجاتا کہ کہیں خلا معلوم ہو جائے اور مَیں اُس میں سے دبا ہؤا خزانہ نکال لوں۔ اس حالت میں میراثی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ چور کی حرکات کو دیکھ کر آہستہ آہستہ ہنستا رہا۔ جب چور چاروں طرف تلاش کرتے کرتے تھک گیا تو اس کی نظر ایک جگہ روشنی پر پڑی جو کہ روشندان میں سے زمین پر پڑ رہی تھی۔ وہ گھبرایا ہؤا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ روپیہ نہیں تو کوئی چیز ہی مل جائے۔ اُسے روشنی جو نظر آئی۔ اُس نے سمجھا کہ یہ سفید سفید آٹا ہے۔ اُس نے جلدی سے آٹے کے اٹھانے کے لئے ہاتھ مارے لیکن دونوں ہاتھ مل گئے۔ میراثی یہ حالت دیکھ کر اپنی ہنسی کو ضبط نہ کر سکا اور زور سے قہقہہ مار کر کہنے لگا۔‘‘ ججمان! ایتھے سانوں دن نوں کجھ نہیں لبدا۔ تہانوں راتیں کی لبھنا۔’’ یعنی جناب! ہمیں تو یہاں دن کو کچھ نہیں ملتا آپ کو رات کے وقت یہاں کیا ملے گا۔ چور اُس کی آواز سن کر وہاں سے بھاگا ۔تو جن لوگوں کے پاس ہی کچھ نہیں اُن کا نقصان کیا ہو گا۔ لیکن یہ تاجر لوگ اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ وہ غریبوں کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔
ایک دفعہ ایک صحابیؓ ایک مجلس میں اپنے مال کا ذکر کر رہے تھے کہ میرے پاس اتنا مال ہے۔ رسول کریم ﷺ پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا کیا لغو باتیں کر رہے ہو۔ یہ مال تمہیں غریبوں نے ہی کما کر دیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ امراء کے مال غرباء کی وجہ سے بچے رہتے ہیں اور غرباء کی وجہ سے ہی امراء کی جانیں بچی ہوئی ہیں۔ قادیان کی آبادی اِس وقت بارہ ہزار کی ہے۔ اس میں سے ساڑھے گیارہ ہزار غرباء ہیں۔ او رپانچ سو آدمی ایسے ہیں جو کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ قادیان کے لحاظ سے مالدار کہلا سکتے ہیں۔ اگر یہ ساڑھے گیارہ ہزار ان امراء کو چھوڑ کر چلے جائیں تو دیکھو اس پانچ سو آدمی کو چور اور مفسد لوگ لُوٹتے ہیں یا نہیں۔ لیکن موجودہ حالت میں چور اور فتنہ پرداز لوگ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی امیر کو چھیڑا اور اُس کی چوری کرنی چاہی تو اردگرد کے غریب سب کے سب ڈنڈے لے کر مجھے مارنے کے لئے آ جائیں گے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود مالدار لوگ اپنی حفاظت میں رخنہ پیدا کرتے ہیں۔ اور پھر یہ کتنی بد دیانتی ہے کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ یہ چیز اِس ریٹ پر بیچی جائے۔ کنٹرول کی اشیاء حاصل کرنے والے لوگ گورنمنٹ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم کنٹرول کے نرخ پر ہی فروخت کریں گے لیکن گھر آ کر اپنے عہد سے پھر جاتے ہیں۔ بھٹہ والوں کو کوئلہ کنٹرول ریٹ پر دیا جاتا ہے اور گورنمنٹ سے وعدہ کر کے لاتے ہیں کہ ہم اس سے جتنی اینٹ تیار کریں گے وہ کنٹرول ریٹ پر فروخت کریں گے۔ لیکن یہاں آ کر بلیک مارکیٹ شروع کر دیتے ہیں۔ اِسی لئے مَیں نے ناظر صاحب امور عامہ کو آج حکم دے دیا ہے کہ وہ بھٹہ والوں کی لِسٹ بنائیں اور اُنہیں پورے طور پر تنبیہہ کر دیں کہ اگر کسی کے متعلق یہ ثابت ہو گیا کہ اُس نے گورنمنٹ کے ریٹ سے زیادہ قیمت پر اینٹ فروخت کی ہے تو ہم اسے سخت سزا دیں گے۔٭ اور آئندہ کے لئے
٭ مجھے بعد میں معلوم ہؤا کہ چند دن سے گورنمنٹ نے اینٹ پر سے کنٹرول اٹھا لیا ہے اور بھٹے بعض لوگ لکڑی سے پکا رہے ہیں۔ اس لئے اینٹ مہنگی پڑتی ہے۔ اس لئے مَیں نے حکم دیا ہے کہ ایک کمیٹی لاگت کا اندازہ لگائے اور پھر مناسب نفع لگا کر سلسلہ کی طرف سے قیمت مقرر کر دی جائے۔
ہم یہ قانون پاس کرتے ہیں کہ جماعت کے دوست اینٹوں کا سودا نظامت امور عامہ کی معرفت کریں۔ کیونکہ جو سودا نظارت کی معرفت ہو گا اس کے متعلق معلوم ہو جائے گا کہ کس نرخ پر بھٹہ والے نے اینٹیں فروخت کیں۔ اور اگر سودا نظارت امور عامہ کی معرفت ہو گا تو نظارت اس بات کی کوشش کرے گی کہ اس کی تمام اینٹیں جن کا سودا ہو چکا ہے خریدار کو دلائے اور بھٹہ والے اپنی بات سے پِھر نہیں سکیں گے۔ مَیں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ گورنمنٹ نے جو ریٹ مقرر کئے ہیں وہ کم نہیں ہیں بلکہ ان میں معقول نفع رکھا گیا ہے۔ گورنمنٹ نے ابتداء میں غلہ کی قیمت مقرر کرنے میں غلطی کھائی تھی لیکن بعد میں تجربہ ہو جانے کی وجہ سے 1943ء سے گورنمنٹ نے ان غلطیوں کو دور کر دیا ہے اور اب گورنمنٹ معقول قیمتیں مقرر کرتی ہے اور اس قیمت پر فروخت کر کے بھی انسان کافی نفع حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا ہے کہ جو انسٹی ٹیوشنز کوئلہ کنٹرول ریٹ پر منگوا کر دے دیتی ہیں اُن کو بیس روپے ہزار تک اینٹ بھٹہ والوں کی طرف سے پڑ جاتی ہے۔ اِس سے پتہ لگتا ہے کہ بھٹہ والوں کو تیس روپے میں اچھا نفع مل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تیس روپے ہزار میں پانچ چھ روپے ان کا منافع نکل آتا ہے۔ اور بیس پچیس فیصدی منافع اگر انسان کو مل جائے تو اُسے اور کیا چاہئے۔ لیکن جو بلیک مارکیٹ والی صورت ہے اس میں تو سو فیصدی نفع ہے۔ یعنی ایک روپے کی چیز دو روپے میں بیچی جائے۔ یہ ظالمانہ منافع ہے۔ جن چیزوں کے متعلق انسان مجبور نہیں ان کے متعلق اسے اختیار ہے خریدے یا نہ خریدے۔اور بیچنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے جتنی قیمت مانگ لے۔ مثلاً ایک شخص ہاتھی دانت کی سلائی بارہ روپے میں فروخت کرتا ہے۔ ہاتھی دانت تو اصل میں دو چار آنے کا ہو گا۔ باقی اُس کی محنت ہے۔ اگر وہ بارہ روپے میں بیچتا ہے تو اس کے لئے کوئی شخص مجبور نہیں کہ ضرور اس سے خریدے۔ لیکن مکان، کپڑا اور کھانا اِن کے بغیر انسانی زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔ اگر مکان نہیں ہو گا تو رہیں گے کہاں۔ اگر کھانا نہیں ملے گا تو جئیں گے کیسے؟ اور اگر کپڑا نہیں ملے گا تو صحت او راخلاق کس طرح قائم رہ سکیں گے۔ جن چیزوں کے خریدنے کے لئے انسان مجبور ہوتا ہے ایسی چیزوں کا منافع ایک حد تک ہونا چاہئے۔ پس آئندہ اگر کوئی شخص بلیک مارکیٹ کرتا ہؤا پکڑا جائے یا اُس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ بلیک مارکیٹ کرتا ہے اس کی فوراً ہمارے پاس رپورٹ کرو۔ ہم اسے سخت سزا دیں گے اور اس کے ساتھ اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی سے چیزیں نہ خریدے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم احمدیوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں سے سودا خریدنا شروع کر دو۔ اس بات کا بھی پورے طور پر خیال رکھو کہ کوئی احمدی کسی دوسرے دکاندار سے سَودا نہ خریدے۔ ہاں اگر تمہیں کسی قسم کی احمدی تاجر کے متعلق شکایت ہے تو اس کی فوراً نظارت امور عامہ کو اطلاع دو۔ اس لئے مَیں نے آئندہ اینٹوں کا سودا نظارت امور عامہ کی معرفت مقرر کر دیا ہے۔ اینٹ نکالنے سے پہلے بھٹہ والے ناظر صاحب کو اطلاع دیں کہ ہمارے پاس اتنا کوئلہ ہے اور ہم اس سے اتنی اینٹ نکالیں گے اور پھر اس کے مطابق نظارت امور عامہ نگرانی کرے۔ ہم بھٹہ والوں کو یہ نہیں کہتے کہ آپ لوگ ہمیں گورنمنٹ کے کنٹرول نرخ سے کم پر دیں بلکہ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ جو نرخ گورنمنٹ نے مقرر کئے ہوئے ہیں اُن کی پابندی کی جائے۔ لاہور میں اینٹ سترہ اٹھارہ روپے ہزار بِک رہی ہے۔ گو وہ قادیان کی اینٹ سے ایک آدھ انچ چھوٹی ہے لیکن اِتنا زیادہ فرق نہیں ہو سکتا۔ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قادیان کے سائز کے مطابق بائیس روپے میں مل سکتی ہے۔ جب لاہور میں بیس بائیس روپے کو پڑتی ہےتو کیا وجہ ہے کہ وہ قادیان میں پچاس روپے کو پڑتی ہے۔ اِس قسم کے ناجائز منافع اچھے نہیں ہوتے اور ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں کسی حریص اور لالچی آدمی کے پاس ایک مرغی تھی جو ہر روز سونے کا ایک انڈا دیتی تھی۔ اُس نے خیال کیا کہ اگر مَیں اسے زیادہ کھلاؤں پِلاؤں تو شاید یہ دو انڈے روزانہ دینا شروع کر دے۔ اس نے مرغی کو پکڑ لیا اور اس کا منہ کھول کر زور سے دانے ڈالنے شروع کئے۔ آخر اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ مرغی مر گئی اور وہ پہلے اس ایک انڈے سے بھی محروم ہو گیا۔ انسان کو نفع میں بھی عقل سے کام لینا چاہئے۔ صرف یہ سمجھ لینا کہ صرف دو چار آدمی ہی بھٹہ چلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اِس لئے جو نفع وہ لینا چاہیں وہ لے لیں اور جس طرح لوگوں کو لُوٹنا چاہیں وہ لُوٹ لیں۔ غیر منظّم جگہوں میں تو ڈاکہ ڈالا جا سکتا ہے اور یہ قطعی طور پر ڈاکہ سے کسی طرح کم نہیں لیکن ایک منظّم جگہ میں اِس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ باقی تجارتوں کے متعلق بھی شکایات پیدا ہو رہی ہیں کہ دکاندار بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ مثلاً دیا سلائیاں گورنمنٹ کے پاس سے دکاندار ڈیڑھ پیسہ فی دیا سلائی کے حساب سے لاتے ہیں لیکن یہاں ایک آنہ بلکہ دو آنہ میں فروخت کرتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس میں لینے والوں کا بھی قصور ہے ۔ وہ کیوں بلیک مارکیٹ سے خریدتے ہیں؟ جب گورنمنٹ کا قانون اس کی تائید میں ہے اور خدائی قانون بھی بلیک مارکیٹ میں بیچنے اور خریدنے سے منع کرتا ہے تو پھر ڈرنے کی کیا وجہ ہے؟ جب خدا تعالیٰ کی بادشاہت اور دنیا کی بادشاہت کسی معاملہ میں اکٹھی ہو جائیں تو پھر خطرہ کس بات کا رہ جاتا ہے۔؟ اگر زمینی بادشاہت اور آسمانی بادشاہت کے حکموں میں اختلاف ہو تو پھر بے شک ڈرنے کا مقام ہے۔ مومن تو اِس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر مَیں زمینی بادشاہت کا حکم مانوں تو آسمانی بادشاہت ناراض نہ ہو جائے اور منافق اِس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر مَیں نے دنیا کی بادشاہت کا حکم نہ مانا تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گی۔ پس مومن ڈرتا ہے کہ مَیں خدائی بادشاہت کے حکم کا انکار کر کے بے ایمان نہ ہو جاؤں او رمنافق ڈرتا ہے کہ زمینی طاقتیں میرے خلاف ہو جائیں گی اور وہ مجھے نقصان پہنچائیں گی۔ لیکن جب آسمانی اور زمینی طاقتیں ایک ہی حکم دیں تو پھر کسی کے لئے بھی خطرہ نہیں۔
پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ آپ فوراً شکایت کریں کہ فلاں دکاندار نے مجھے فلاں چیز اِس قیمت پر دی او راِتنی زیادہ قیمت وصول کی ہے۔ ہم اُسے پہلے جماعتی سزا دیں گے۔ اگر اِس کے باوجود اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اُسے جماعتی سزا بھی دیں گے اور گورنمنٹ کے سپرد بھی کریں گے۔ جو شخص باوجود ان تمام سہولتوں کے جو گورنمنٹ نے دی ہیں اور عمدہ قیمتوں کے جو گورنمنٹ نے مقرر کی ہیں پھر بھی ناجائز نفع حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُس کی وجہ سوائے اس کے اَور کوئی نہیں کہ وہ اپنی شقاوتِ قلب اور بد دیانتی کا ثبوت دینا چاہتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس شخص کو ہمارے اصول اور ہمارے احکام پسند نہیں وہ ہماری جماعت میں رہتا کیوں ہے؟ اُسے چاہئے کہ وہ فوراً الگ ہو جائے۔ ہم نے اُسے پکڑ کر نہیں رکھا ہؤا۔ لیکن ایک طرف تو ایک مذہب میں داخل ہونا اور دوسری طرف بد دیانتی کے کام کرنا یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ ایک دو پیسے کی دیا سلائی کے لئے ایک شخص جھوٹ بولتا ہے کہ میرے پاس نہیں ہے اور پھر ایک اَور شخص سے آنہ لے کر اسے کھڑکی میں سے دیا سلائی دے دیتا ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے اور پھر اس کے باوجود وہ محلہ کا پریذیڈنٹ یا کوئی اَور عُہدہ دار یا خدام الاحمدیہ کا ممبر یا انصار اللہ کا ممبر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں سے چیزیں خریدنے والا شخص بھی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ فعل معمولی بات ہے۔ پس ایسے لوگ دوسرے لوگوں کے دین کو خراب کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بھٹہ والوں کے پاس جب کوئی شخص اینٹ خریدنے کے لئے جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں چودھری صاحب نے تمام کی تمام اینٹ رُکوا لی ہے۔ ہم آپ کو نہیں دے سکتے ۔ اور پھر اگر وہی شخص دوسری طرف سے ہو کر کہے کہ اچھا پچاس روپے لے لیں اور میرا کام کر دیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اچھا ہم آپ کا کام کر دیں گے، آخر آپ کا لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے۔
حضرت خلیفہ اول ایک ڈپٹی صاحب کے متعلق سنایا کرتے تھے کہ وہ رشوت تہجد کے وقت لیا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص دن کے وقت اُن کے پاس آتا تو اُسے گالیاں دے کر نکال دیتے۔ آخر نوکر اُسے کہتے کہ ہمیں پانچ سات روپے آپ دے دیں ہم آپ کو ترکیب بتا دیتے ہیں۔ جب وہ اُن کا منہ بھر دیتا تو وہ اُسے بتا دیتے کہ تم تہجد کے وقت آ جانا اور اصرار کرتے چلے جانا۔ آخر ڈپٹی صاحب خود بخود تمہیں کہہ دیں گے کہ روپے رکھ جاؤ اور چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ شخص ان کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تہجد کے وقت آتا اور بیٹھ جاتا اور رقم پیش کر دیتا کہ آپ ہم غریبوں پر رحم کریں، ہم آپ کے پاس نہ آئیں تو کس کے پاس جائیں۔ ڈپٹی صاحب اُسے گالیاں دیتے، بے ایمان! تم نے تو میری نماز خراب کر دی۔ نماز کے وقت شور مچاتے ہو۔ وہ آنے والا کہتا مَیں کیا کروں۔ آخر مَیں بھی تو اللہ کا بندہ ہوں۔ یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے آپ ہم پر رحم کھائیں۔ آخر وہ غصہ سے منہ لال کر کے کہتے اچھا رکھ مصلّے کے نیچے اور دفع ہو جا۔ میری نماز خراب نہ کر۔ اور پھر اس کے بعد تسبیح پھیرنا شروع کر دیتے۔ اِسی قسم کے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ مومن روپیہ لائیں گے لیکن بعض بے ایمان لوگ اسے کھانا شروع کر دیں گے۔
مَیں حیران ہوں کہ کیا صرف بے ایمانی سے ہی روپیہ کمایا جا سکتا ہے؟ کیا صحابہؓ میں سے کوئی صحابی مالدار نہ تھے۔ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کی وفات کے بعد ان کا بچا کھچا روپیہ دو کروڑ نکلا۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف دین کے لئے بہت قربانی کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجود اُن کے پاس دو کروڑ روپیہ بچ گیا تھا۔ اُس وقت کا دو کروڑ روپیہ آجکل کے دو ارب روپیہ کے برابر ہے۔ تم صحابہؓ کی دیانتداری کا تصور تو کرو۔ ایک صحابی اپنا گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے۔ دوسرے صحابیؓ نے پوچھا کہ کتنے کو بیچو گے؟ انہوں نے کہا ایک ہزار درہم کو۔ دوسرے صحابی نے کہا۔ معلوم ہوتا ہے آپ کو گھوڑوں کی پوری واقفیت نہیں۔ اصل میں آپ کا گھوڑا دو ہزار درہم کا ہے۔ اگر آپ دو ہزار درہم لے لیں تو مَیں گھوڑا لے لیتا ہوں۔ وہ شخص جس کا گھوڑا تھا وہ کہنے لگے کہ مَیں صدقہ خور نہیں ہوں۔ جب مَیں جانتا ہوں کہ میرا گھوڑا ایک ہزار درہم کا ہے تو مَیں دو ہزار کس طرح لے لوں؟یہ ہے اصل ایمان۔ خریدار کہتا ہے کہ اگر قیمت بڑھاؤ تو مَیں گھوڑا خرید لیتا ہوں لیکن بیچنے والا کہتا ہے کہ جب مَیں جانتا ہوں کہ اِس کی قیمت اس سے زیادہ نہیں تو مَیں دو ہزار درہم کس طرح سے لوں لیکن یہ افعال کس طرح جائز ہو سکتے ہیں کہ گورنمنٹ کچھ نرخ مقرر کرتی ہے اور بیچا کسی اَور نرخ پر جاتا ہے۔ یہ احمدیت نہیں بلکہ احمدیت کو بدنام کرنا ہے۔ جس شخص کو دھوکا بازی کا خیال آتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ احمدیت سے ایک طرف ہو جائے۔ وہ خدا تعالیٰ کے صاف شفاف تالاب کو اپنے گند سے کیوں گندا کرتا ہے۔ ایسا صاف اور شفاف تالاب جس میں پاتال تک کی چیزیں نظر آ جاتی ہیں۔ پس جو شخص اِس قسم کے فعل کرتا ہے وہ اس صاف تالاب میں کیچڑ پھینکتا ہے اور ایسے لوگوں کے لئے احمدیت دگنے عذاب کا موجب بن جائے گی۔ ایک وجہ تو یہ ہو گی کہ اس نے بے ایمانی اختیارکی اور دوسری وجہ یہ ہو گی کہ ا س نے خدا تعالیٰ کے خوبصورت محل کو خراب کیا۔ جیسا کہ بعض بے وقوف اور نادان لوگ جب کسی تاریخی یا خوبصورت عمارت کو دیکھنے جاتے ہیں تو اُس پر اپنا نام لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں روپے کی یادگار ستیاناس کر دیتے ہیں۔ اور تیسری وجہ یہ ہو گی کہ اُس نے اپنے بد نمونہ سے دوسروں کا ایمان خراب کیا۔
پس جن لوگوں کے دلوں میں بلیک مارکیٹ کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اُنہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا ایمان محفوظ نہیں اور اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور جماعت کا بھی فرض ہے کہ وہ اس روح کو کچلنے کی کوشش کرے۔ گورنمنٹ نے جو قیمتیں مقرر کی ہیں میرے نزدیک وہ بالکل صحیح اور معقول ہیں۔ اِس کے بعد بھی اگر کوئی تاجر زیادہ قیمت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی شقاوتِ قلبی کا ثبوت دیتا ہے۔’’ (الفضل 26 دسمبر 1946ء)

47
کامیابی کی کنجی
( فرمودہ 27 دسمبر 1946ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے ایک مختصر سے خطبہ جمعہ میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
‘‘ زیادہ باتیں سننے کی عادت نہ ڈالو بلکہ تھوڑی بات سن کر اُس پر زیادہ عمل کرو۔ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔’’
(الفضل 28 دسمبر 1946ء )
 
Top