• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 28

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 28


1
مضافاتِ قادیان میں تبلیغی جدوجہد
(فرمودہ 10 جنوری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے جماعت کو عموماً اور جماعت قادیان کو خصوصاً تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس وقت تبلیغ کے لئے کوئی ایسی تنظیم نہیں کی گئی جس سے مفید نتائج نکل سکیں۔ مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر صحیح طور پر یہ کام کیا جاتا تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے۔ دنیا میں بہت سے لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیںکہ ممکن بات وہ ہے جو فوراً ہو جائے اور جو فوراً نہ ہو سکے وہ ممکن نہیں۔ حالانکہ جو چیزیں بالکل ممکن ہوتی ہیں وہ بھی ایک وقت چاہتی ہیں۔
غیر مانوس خیالات اور ایسے علوم جن سے لوگ مانوس نہیں ہوتے وہ آہستہ آہستہ ہی دلوں میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بات ممکن ہو اُسے لوگ فوراً ہی ماننے کے لئے تیار ہو جائیں۔ مثلاً ساری دنیا پہاڑوں کو مانتی ہے کہ دنیا میں پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں سے دس میل پر ایک پہاڑ نکل آیا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تمام لوگ اس بات کے سنتے ہی مان جائیں گے؟ نہیں بلکہ پہلے اُس کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے اس کو ایک دو آدمی دیکھنے کے لئے جائیں گے پھر پانچ دس دیکھنے کے لئے جائیں گے، پھر پندرہ بیس دیکھنے کے لئے جائیں گے اور جب یہ لوگ آ کر بیان کریں گے کہ واقع میں فلاں جگہ پہاڑ ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ لوگ بھی جنہوں نے پہاڑ نہیں دیکھا ہو گامان جائیں گے۔
ہم میں سے ہر ایک نے لندن نہیں دیکھا، ہم میں سے ہر ایک نے یورپ نہیں دیکھا،ہم میں سے ہر ایک نے عرب نہیں دیکھا ،ہم میں سے ہر ایک نے مکہ نہیں دیکھا، ہم میں سے ہر ایک نے حج نہیں کیا لیکن ہر مسلمان حج اور مکہ کا قائل ہے۔ اور اب ہر انسان یورپ کا قائل ہے۔ لیکن ابتدامیں ہر شخص یورپ کا قائل نہ تھا۔ بلکہ پہلے پہلے جب یورپین علاقوں کے لوگ مشرقی ممالک میں آئے تو لوگوں نے اُن کو پریاں اور دیو سمجھا۔ اور ان علاقوں کو پرستان 1سمجھا۔ یہ لوگ ٹھنڈے ملکوں کے رہنے والے تھے اور ٹھنڈے ملکوں کے لوگ عام طور پر مضبوط ،قد آور اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایشیا کی نچلی بستیوں کے لوگوں نے اُن کو پریاں اور دیو خیال کیا۔ ایران اور عراق کے لوگ چونکہ ان کے ملکوں سے آنے جانے کے راستے نہ جانتے تھے اس لئے ان لوگوں کے متعلق وہ یہی سمجھتے کہ یہ کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ اور یورپ کی سفید رنگ کی عورتیں جب ان کے ملک میں آتی تھیں تو عراق اور ایران والے انہیں پریاں تصور کرتے تھے۔ چونکہ انہیں ان کے علاقوں کا علم نہ تھا اس لئے وہ جرمنی والوں، فرانس والوں، اور روس کے لوگوں کا نام پریاں اور دیو رکھتے تھے۔ جب ان علاقوں کا لوگوں کو علم ہو گیا تو ان دیووں میں سے کچھ انگریز بن گئے، کچھ فرانسیسی بن گئے، کچھ جرمن بن گئے، کچھ روسی بن گئے۔ جب تک ان علاقوں کا علم نہ تھا اُس وقت تک ان کا قائل کرنا مشکل تھا۔ پس غیر مانوس باتیں آہستہ آہستہ ہی ذہنوں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ جو لوگ قادیان کے ارد گرد رہتے ہیں اُن کو ہماری باتوں کے متعلق پورے طور پر علم ہوچکا ہے۔ ہم سے باہر رہنے والے تو الگ رہے کئی لوگ باوجود ہمارے درمیان رہنے کے پھر بھی ہماری باتوں کے متعلق بہت کم علم رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے محلوں میں رہتے ہوئے ایسی ایسی باتیں سوچتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔
ایک عورت ہمارے گھروں میں ملازمہ تھی۔ اُس کے لڑکے کا نام لیکڑ تھا۔ وہ پہلے احمدی نہ تھا آخری عمر میں احمدی ہو گیا تھا۔ وہ لنگر خانہ میں کام کیا کرتا تھا۔ وہ عورت مختلف احمدی گھروں میں کام کرتی رہی مگر زیادہ تر حضرت خلیفہ اول کے گھر میں کام کرتی تھی۔ حضرت خلیفہ اول کے گھر میں ایک یتیم لڑکی تھی جس کا نام احمدہ تھا۔ اُس عورت نے یہ سوچا کہ میں اپنے لڑکے کے لئے حضرت خلیفہ اوّل سے اس لڑکی کا رشتہ مانگوں۔ چنانچہ ایک دن کام کاج سے فارغ ہو کر وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ میں اِتنی مدت سے آپ کے پاس کام کر رہی ہوں اور میرا لڑکا بھی آپ کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ مَیں یہ چاہتی ہوں کہ میرے لڑکے کی اس لڑکی سے شادی ہو جائے۔ حضرت خلیفۃ اوّل نے فرمایا کہ لڑکی تو احمدی ہے۔ مطلب یہ کہ احمدی لڑکی کا غیر احمدی لڑکے سے بیاہ نہیں ہو سکتا۔ وہ عورت بیس سال سے احمدیوں کے گھروں میں کام کرتی آ رہی تھی۔ لیکن اُسے یہ بھی علم نہ تھا کہ احمدی کسے کہتے ہیں اور غیر احمدی کسے کہتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اول کا جواب سن کر کہنے لگی۔ ’’ایہہ کیہڑی گل اے تے مُنڈا وی احمدا ہو جائے گا۔ ‘‘یعنی یہ کونسی ایسی بڑی بات ہے لڑکا بھی احمدا بن جائے گا۔ اُس نے خیال کیا کہ شاید حضرت خلیفہ اول کو لیکڑ نام پسند نہیں۔ اِس لئے اُس نے کہا اگر لیکڑ نام اچھا نہیں تو لڑکے کا نام بھی احمدا رکھ لیں گے۔ اب دیکھو! وہ بیس سال سے احمدیوں کے درمیان رہتی آ رہی تھی لیکن اُسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ احمدی او ر غیر احمدی کسے کہتے ہیں۔
اِسی طرح ایک خادمہ ہمارے ہاں کام کرتی تھی۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ وہ کہتی ہے کہ احمدی نمازیں نہیں پڑھتے۔ مَیں نے کہا کہ اُسے نظرنہیں آتا ہمارے گھر میں روزانہ نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ تومجھے بتایا گیا کہ اس کا خیال ہے کہ یہ نمازیں مجھے دکھانے کے لئے پڑھی جاتی ہیں۔ ورنہ اصل میں احمدی لوگ نمازیں نہیں پڑھتے۔ گویا ہمارے گھر کے تمام افراد اس ایک خادمہ کو دکھانے کے لئے نمازیں پڑھتے تھے۔ وہ عورت کوئی مولوی نہ تھی نہ ہی اُسے کوئی دینی علم تھا بلکہ سُنی سنائی باتوں کی وجہ سے اس کے دل میں ایک مخالف جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ اِسی طرح قادیان کے ارد گرد کے لوگوں کے متعلق یہ سمجھنا کہ چونکہ وہ ہمارے قریب رہتے ہیں اِس لئے وہ ہماری باتوں کو سمجھتے ہوںگے یہ صحیح نہیں۔ بلکہ ان کے قریب ہونے کی وجہ سے ان کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ مشکلات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو چیز روزانہ انسان کے سامنے آتی رہے اُس کے متعلق انسان کو جستجو نہیں رہتی۔ کئی دفعہ لوگ جب مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں تو ساتھ اپنے بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مَیں نے بچے کو دیکھ کر کہا یہ تو بھینگا ہے اور ماں باپ جن کے پاس وہ دن رات رہتا ہے اُن کو بھی میرے کہنے کی وجہ سے توجہ پیدا ہوئی ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہمیںپہلے کبھی یہ احساس نہیں ہؤا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چونکہ بچہ ہر وقت والدین کے پاس رہتا ہے اس لئے انہیں زیادہ غور کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
یہ ایک مسلّم امر ہے کہ جو چیز ہر وقت انسان کے سامنے رہے اس کے متعلق جستجو کا خیال دل سے نکل جاتا ہے۔ دور کے لوگوں کے لئے احمدیت ایک اجنبی چیز ہے۔ جب احمدیت کا ذکر آتا ہے تو لوگ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ احمدی کون ہوتے ہیں؟ دوسرے کہتے ہیں کہ جنہیں لوگ مرزائی کہتے ہیں۔ پھر وہ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ مرزائی کون ہوتے ہیں؟ تو وہ لوگ کہتے ہیں جنہیں قادیانی کہتے ہیں۔ اِسی طرح ہر دفعہ جب بھی احمدیت کا ذکر ان کے سامنے آتا ہے تو ان کے دلوں میں نئے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور وہ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ پاس رہتے ہیں اِس لئے جب ان کے سامنے احمدی یا مرزائی کا لفظ آتا ہے تو انہیں تجسس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اور ان کے کان اس لفظ کے بار بار سننے کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ احمدی کون ہوتے ہیں۔ گویا باوجود نہ جاننے کے وہ جاننے کے دعویدار ہوتے ہیں اس لئے یہ لوگ دوسروں کی نسبت ہدایت سے زیادہ محروم ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی نسبت گجرات، جہلم اور گوجرانوالہ کے لوگ احمدیت کے متعلق زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے لئے احمدیت نئی چیز ہے۔ اس لئے ہمیں ارد گرد کے علاقوں میں تبلیغ کے لئے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن تبلیغ کسی اصول کے ماتحت ہونی چاہیے۔ کام کا موجودہ طریق کسی اصول کے ماتحت نہیں۔ اگر کام کسی اصول کے ماتحت ہوتا تو اس سے کہیں زیادہ کامیابی کے آثار ہوتے۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ اتنے عرصے میںکامیابی ضروری ہے کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ اس میں تین چار سال لگ جائیں گے۔ لیکن کم از کم کامیابی کے آثار تو ظاہر ہونے چاہئیں۔ موجودہ صورت میں تو مجھے وہ آثار بھی نظر نہیں آتے۔ مثلاً میں زمیندار ہوں۔ مَیں نے آموں کے باغ لگوائے ہیں۔ مَیں نے اپنے باپ دادا کے لگائے ہوئے باغ دیکھے ہیں۔ مَیں یہ جانتا ہوں کہ چھ سات سال کے بعد آم کا درخت پھل لاتا ہے۔ اگر مَیں آم کا درخت لگتے ہی یہ فیصلہ کر وں کہ اس نے ابھی تک پھل کیوں نہیں دیا۔ تو یہ بات درست نہیں ہو گی۔ لیکن اگر مَیں دیکھوں کہ ایک شخص مکان کی چھت پر آم کا پودا لگا رہا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ مکان کی چھت پر آم کا پودا پھل نہیں لائے گاتو مَیں اُسے بتاسکتا ہوں کہ مکانوں کی چھتوں پر آم کے درخت نہیں لگ سکتے اور تمہارا طریق آم لگانے کا درست نہیں۔ اِسی طرح مَیں یہ جانتا ہوں کہ اتنی جلدی کامیابی مشکل ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر صحیح طور پر کام کیا جاتا تو یقینا موجودہ حالت سے بہت بہتر نتائج متوقع ہوتے۔
پس جماعت میں احساس پیدا کرنے کے لئے مَیں نے اس طوعی تحریک کو اب ایک رنگ میں جبری کر دیا ہے۔ جہاں تک طوعی تحریک تھی اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ اِس لئے مَیں اِس کا ایک حصہ جبری طور پر چلانا چاہتا ہوں۔ اور مَیں یہ کام اپنی نگرانی میں کرانا چاہتا ہوں تا کہ اس کی صحیح طور پر داغ بیل ڈالی جا سکے۔ مَیں جماعت کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ تمام محلوں میں سے اُن کی آبادی کا دو فیصدی آدمی اپنے آپ کو پیش کریں۔اِس وقت قادیان کی احمدی آبادی کا اندازہ بارہ اور چودہ ہزار کے درمیان ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ اتنا ضرور ہو گا کیونکہ قادیان کے ووٹروں کی تعداد 7100ہے۔ اس میں سے چار پانچ سو دوسرے لوگوں یعنی ہندوؤں سکھوں کے ووٹ ہوں گے اور باقی ساڑھے چھ ہزار احمدیوں کے ہوں گے۔ اس لحاظ سے احمدیوں کی آبادی کم ازکم تیرہ چودہ ہزار کی بنتی ہے۔ دو فیصدی کا مطلب یہ ہے سو میں سے دو آدمی اور ہزار میں سے بیس آدمی اور بارہ ہزار میں سے 240 آدمی ہو جائیں گے۔ فِی الْحَال مَیں یہ کام پریذیڈنٹوں اور تعلیمی اداروں کے سپردکرتا ہوں۔ ہم ان سے دو فیصدی کے حساب سے آدمی لے لیں گے۔ خواہ وہ یہ تعداد تحریک کر کے حاصل کریں یا جبری طور پر نام لکھ لیں۔ اگر لوگ اپنے آپ کو خود پیش کریں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا اور زیادہ ثواب کا موجب ہو گا۔ پس یہ تحریک ایک لحاظ سے طوعی بھی ہے اور ایک لحاظ سے جبری بھی۔ تعلیمی ادارے یعنی مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ، ہائی سکول اور کالج ان چاروں انسٹی ٹیوشنز (Institutions) کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر اپنی اپنی آبادی کے مطابق دو فیصدی آدمی پیش کریں۔ اِسی طرح صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید بھی اپنے آدمیوں میں سے دو فیصدی پیش کرے۔ ہم ان لوگوں سے ایک ایک ماہ کام لیں گے۔ اور جس مہینہ چاہیں گے کسی آدمی سے کام لے لیں گے اور جہاں چاہیں گے کسی کو مقرر کریں گے۔ اس میں کسی کو بولنے کا اختیار نہ ہو گا۔ ہم نے پہلے دوستوں کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مہینہ آپ اپنے لئے پسند کریں اُس میں کام کریں۔ لیکن ہمیں اِس کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔ جب ہمارا آدمی جاتا کہ آپ اِس ماہ میں فلاں جگہ تبلیغ کے لئے جائیں تو وہ کہہ دیتے کہ اس مہینہ میں نہیں اگلے مہینہ میں جائیں گے۔ جب اگلے مہینہ میں جانے کے لئے کہتے تو وہ کہتے کہ اِس ماہ میں ہمیں کچھ کام ہے اگلے ماہ میں ضرور چلے جائیں گے۔ ہم نے اکتوبر سے یہ تحریک شروع کی تھی۔ جب ہم نے اکتوبر میں جانے کے لئے کہا تو نومبر کا وعدہ کیا گیا اور جب نومبر میں جانے کے لئے کہا تو دسمبر میں جانے کا وعدہ کیا۔ جب دسمبر میں جانے کے لئے کہا تو جواب دیا گیا کہ اِس وقت کچھ ضروری کام ہیں اگلے مہینہ میں دیکھا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اِسی طرح باقی مہینے بھی گزر جائیں گے۔
ان لوگوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو دل سے بزدل تھا لیکن اپنے آپ کو بہادر ظاہر کرنے کے لئے اسے شیر گُدوانے کا شوق آیا۔ اُس زمانہ میں نائی جراحی وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ وہ نائی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ سرمے سے میرے کندھے پر شیر گود دو۔ نائی اُس کا کندھا ننگا کر کے اُس پر شیر گودنے لگا۔ وہ تھا اصل میں بزدل لیکن اپنے آپ کو بہادر ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ نائی نے جب کندھے پر سُوئی ماری تو اُس کے منہ سے اُف نکل گئی اور نائی سے پوچھنے لگا کہ کیا گودنے لگے ہو ؟اُس نے کہا شیر کا دایاں کان گودنے لگا ہوں۔ اِس پر اُس نے نائی سے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ اگر شیر کا دایاں کان کٹا ہوا ہو تو پھر بھی شیر،شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا ہاں شیر تو پھر بھی رہتا ہے۔ اُس نے کہا اچھا دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو۔نائی نے پھر سُوئی ماری۔ پھر اُسے تکلیف ہوئی۔اُس نے پھر پوچھا اچھا اب کیا گودنے لگے ہو؟ نائی نے کہا اب بایاں کان گودنے لگا ہوں۔ا س پر وہ بولا۔ اچھا اگر شیر کے دونوں کان کٹے ہوئے ہوں تو پھر بھی شیر، شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا ہاں شیر تو پھر بھی رہتا ہے۔ اِس پر وہ بولا اچھا اسے بھی چھوڑ دوا ور آگے چلو۔ نائی نے پھر تیسری دفعہ سُوئی ماری۔ پھر اُس کی چیخ نکل گئی۔ پھر نائی سے پوچھنے لگا اب کیا گودنے لگے ہو؟ اُس نے کہا اب شیر کا دایاں پیر گودنے لگا ہوں۔ اِس پر اُس نے کہا اچھا اگر شیر کا دایاں پیر کٹا ہوا ہو تو پھر بھی شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا ہاںشیر تو پھر بھی رہتا ہے۔ اِس پر اُس نے کہا اچھا اسے بھی چھوڑ دو آگے چلو۔ وہ اِسی طرح کرتا چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد نائی نے سُوئی رکھ دی اور الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ اس شخص نے نائی سے پوچھا کہ کام چھوڑ کر بیٹھ کیوں گئے؟ نائی نے کہا ایک ایک چیز کے بغیر تو شیر باقی رہ جاتا تھامگر اب شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا اس لئے میرا کام کرنا بے فائدہ ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے وہ وعدہ تو کرتے ہیں لیکن ہر ماہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا اس ماہ میں تو مَیں فلاں کام کی وجہ سے نہیں جا سکتا اور اگلے ماہ چلا جاؤں گا۔
مجھے ایسے لوگوں کے متعلق ایک اَور مثال یاد آ گئی۔ کہتے ہیں کسی پٹھان نے کچھ خربوزے خریدے۔ افغانستان کے خربوزے تو بہت میٹھے ہوتے ہیں اور ہندوستان کے خربوزے اتنے میٹھے نہیں ہوتے۔ خریدنے کے بعد اُس نے کچھ خربوزے تو کھا لئے اور باقی پر غصہ کی وجہ سے پیشاب کر کے چلا گیا کہ یہ ایسا گندہ خربوزہ ہے کہ اس پر پیشاب کرنا چاہئیے۔ ان پر پیشاب کرنے کے بعد اپنے کام میں لگ گیا ۔ کام کرنے کی وجہ سے ورزش ہوئی اور پہلا کھایا ہوا ہضم ہو گیا اور وہ کسّی چھوڑ کر خربوزوں کی طرف آیا اور ایک دو چکّر کاٹ کر پھر واپس جا کر کام کرنے لگا کہ جن خربوزوں پر مَیں نے پیشاب کیا ہے اُن کو کیسے کھاؤں۔ کچھ دیر کسّی چلانے کے بعد پھر شدید بھوک لگی۔ آخر کسّی رکھ کر خربوزوں کی طرف آیا اور ایک خربوزہ جو ایک طرف پڑا ہوا تھا اُسے اٹھا لیا اور کہا کہ اِس کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ اِس پر پیشاب نہیںپڑا اُسے چِیر پھاڑ کر کھا لیا اور پھر کام میں لگ گیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر سخت بھوک لگی پھر خربوزوں کے ارد گرد چکر کاٹا اور پھر ایک خربوزہ اٹھا لیاکہ اِس پر تو یقینا پیشاب نہیں پڑا اور اُسے بھی کھا لیا۔ اِسی طرح ہر دفعہ جب اُسے بھوک لگتی تو ایک خربوزہ اٹھا لیتا اور کھا لیتا۔ آخر ایک ہی خربوزہ رہ گیا۔ جب ایک رہ گیا تو کہنے لگا کہ خربوزوں پر پیشاب تو کیا تھا آخر کسی نہ کسی پر تو ضرور پڑا ہو گا۔ اب اسے کیسے کھا لوں۔ پھر خود ہی کہنے لگا۔ خو !ہم بھی کتنا بے وقوف ہے جس پر ہم نے پیشاب کیا تھا وہ تو ہم نے کھا لیا ہے اور جس پر نہیں کیا وہ چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ اُسے بھی اٹھا کر کھا لیا۔ یہی حال ایسے لوگوں کا ہے۔ نومبر کا مہینہ آیا تو کہہ دیا ہم دسمبر میں جائیں گے۔ دسمبر کا مہینہ آیاتو کہہ دیا جی ابھی نہیں جنوری میں جائیں گے۔ جب جنوری کا مہینہ آیا تو کہہ دیا جی نہیں ہم فروری میں جائیں گے۔ فروری کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے جی نہیں ہم مارچ میں جائیں گے۔ مارچ کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے۔ ہم اپریل میں جائیں گے۔ اپریل کا مہینہ آئیگا تو کہہ دیں گے ہم مئی میں جائیں گے۔ مئی کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے ہم جون میں جائیں گے۔ جون کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے ہم جولائی میں جائیں گے۔ جولائی کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے ہم اگست میں جائیں گے ۔ اگست کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے ہم ستمبر میں جائیں گے۔ ستمبر کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے ہم اکتوبر میں جائیں گے اور جب اکتوبر کا مہینہ آئے گا تو کہہ دیں گے کہ حضرت ہم نے جس مہینہ میں جانا تھا وہ تو غلطی سے گزر چکا ہے اب اس مہینہ میں تو ہم جا نہیں سکتے۔ بھلا یہ بھی کوئی انصاف اور تقویٰ کی بات ہے کہ جو کام تم نے کرنا ہے تم اُسے کیوں نہیں کرتے۔ جو مصیبتیں تمہارے لئے ہیں وہ بہرحال تمہیں برداشت کرنی ہونگی۔ تمہارا یہ روز کا وعدے کرنا تو دین کے ساتھ ایک تمسخر ہے۔ پس اب مہینے وغیرہ کی شرط کوئی نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ ہمارا کام ہو گا کہ دیکھیں کہ ہم کس ماہ میں کس سے کام لینا چاہتے ہیں۔ جس ماہ میں ہم چاہیں گے کسی کو بھیج دیں گے۔ ملکانہ کے علاقہ میں تبلیغ کرنے کے لئے ہم دوستوں کو اطلاع دے دیتے تھے کہ آپ فلاں مہینہ میں ملکانہ پہنچ جائیں اور دوست وقت مقررہ پر اپنی جگہ پر پہنچ جاتے تھے۔ خدا کے فضل سے جماعت نے ارتدادِ ملکانہ کے زمانہ میں ایسا شاندار کام کیا کہ آج اِس بات کو بائیس سال گزر چکے ہیں لیکن آج تک جماعت کے اس کام کی غیروں میں دھوم پائی جاتی ہے۔ اور یوپی اور پنجاب کے ایسے آدمی جو اس تبلیغ کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ملکانہ میں جماعت احمدیہ نے کمال کر دیا تھا۔
پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ قربانی ہی دلوں میں اثر کرتی ہے اور قربانی ہی دلوں کو صداقت کی طرف کھینچتی ہے۔ مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سردست محلہ وار فہرستیں تیار ہوں اور محلوں کے پریذیڈنٹ خود ہی آبادی کا اندازہ کر لیں کہ کتنی آبادی ہے۔ اور ہر ایک محلہ کا پریذیڈنٹ اِس بات کا اپنی فہرست میں ذکر کرے کہ ہمارے محلہ میں اتنی آبادی ہے۔ اُس کے لحاظ سے ہم نے اتنے آدمی پیش کئے ہیں اور ان کے نام یہ ہیں۔ جو لوگ انکار کریں اُن کے متعلق بھی ہمیں اطلاع دی جائے۔ ہم بہرحال سو میں سے دو آدمی لیں گے۔ محلہ کے پریذیڈنٹ خواہ تحریک کر کے یہ تعداد پوری کریں اور خواہ جبری طور پر یہ تعداد پوری کریں، جب یہ فہرستیں مکمل ہو کر میرے پاس آ جائیں گی مَیں ان سے کام لینے کے لئے ایک آدمی مقرر کروں گا جو ان لوگوں سے میری ہدایات کے مطابق کام لے گا۔ مَیں یہ چاہتا ہوں کہ علاقہ میں تبلیغ کی ایسے طور پر داغ بیل ڈالی جائے کہ ہماری یہ سکیم جلدی سے جلدی اچھے نتائج پیدا کر سکے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ ایک دفعہ ہر ایک گاؤں میں احمدیت کا بیج بود یا جائے۔ جب ہر ایک گاؤں میں دو دو چار چار احمدی ہوجائیں گے تو پھر تبلیغ کی ایک رَو چل پڑے گی۔ جہاں تک رَو پیدا کرنے کا سوال ہے وہ آہستہ آہستہ ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور جب رَو چل پڑے تو پھر وہ لوگ اپنے لئے تبلیغ کا خود رستہ بنا لیتے ہیں۔ اور لوگ اُس رَو کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ زیادہ طاقتور ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ رَو رُک جاتی ہے۔ کیونکہ پھر کان ان باتوں کو سننے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر کوئی اَور طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جیسے برسات کے بعد سردی۔ سردی کے بعد بہار۔ بہار کے بعد گرمی۔ جس طرح موسم بدلتے رہتے ہیں اِسی طرح تبلیغ کے ذرائع بھی مختلف اوقات میں بدلتے رہتے ہیں حالات کے مطابق کام کرناپڑتا ہے۔ بعض جگہ مبلغ رکھنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ بعض جگہ مدارس کھولنا زیادہ مفید ہوتا ہے اور بعض جگہ لٹریچر تقسیم کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے اور بعض جگہ لیکچر دینا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ مختلف طبائع مختلف ذرائع سے اثر قبول کرتی ہیں۔ ایک ہی طریقہ پر کام کرنے سے انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں امید کرتا ہوں کہ اگلے جمعہ سے پہلے پہلے تمام محلوں کے پریذیڈنٹ میرے پاس فہرستیں بھجوا دیں گے۔ آبادی میں مرد عورتیں، لڑکے، لڑکیاں سب شامل ہوں گی۔ سَو سے مراد میری صرف سَو مرد نہیں بلکہ سب مرد عورتیں لڑکے لڑکیاں ملا کر سَو کی تعداد مراد ہے۔ گویا سَومیں سے اگر چالیس عورتیں سمجھ لی جائیں اور پچیس لڑکے سمجھ لئے جائیں کیونکہ ہمارے یہاں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بہت سے طالب علم باہر سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ تو باقی پینتیس مرد رہ گئے۔ گویا اِس لحاظ سے مَیں نے مردوں میں سے پانچ چھ فیصدی کے درمیان آدمی طلب کئے ہیں۔ جب ان لوگوں کی فہرستیں ہمارے پاس پہنچ جائیں گی تو ہم ان سے ایسے طور پر کام لیں گے کہ ہماری تبلیغ زیادہ بہتر نتائج پیدا کر سکے۔ جب اللہ تعالیٰ ہمیں اِس سکیم میں یہاں کامیاب کر دے گا تو پھر بیرونی علاقوں میں بھی یہ طریق رائج کرنے کی کوشش کی جائیگی۔‘‘
(الفضل 24 جنوری 1947ئ)
1: پرستان:پریوں کے رہنے کی جگہ، پریوں کا ملک

2
تحریک جدید کے ہر دفتر میں حصہ لینے والوں کو اپنا بوجھ آپ اٹھانا ہے
جماعت کو کوشش کرنی چاہئیے کہ اس سال پچھلے سال سے زیادہ واقفین دیہاتی مبلغین کی کلاس میں داخل ہوں
(فرمودہ 17 جنوری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے جماعت کو پہلے بھی بہت دفعہ توجہ دلائی ہے کہ تبلیغ کا کام دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اور جب تک جماعت خاص قربانی نہ کرے گی اُس وقت تک اِس بوجھ کو اٹھانا مشکل نظر آتا ہے۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے ساٹھ کے قریب مبلغ باہر جا چکے ہیںا ور تیس کے قریب اَور جانے والے ہیں۔ امید ہے کہ اِس سال سو مبلغ غیر ممالک میں چلے جائیں گے۔ اِس کے علاوہ یہاں باہر جانے والے مبلغین کے قائمقام بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ کچھ واقفین عربی تعلیم حاصل کر رہے ہیںاور کچھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اِن سب کے اخراجات مل کر اتنے ہیں کہ موجودہ چندہ سے ان اخراجات کو بہت مشکل سے پورا کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ تو یہ کام اَور بھی زیادہ ہو جائے گا اور موجودہ چندہ اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکے گا۔ چندہ کو بڑھانے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جماعت تعداد میں بڑھے اور دوسری یہ کہ جماعت کی آمد بڑھ جائے۔ یہ دونوں صورتیں ہماری جماعت کے لئے ضروری ہیں۔ اگر جماعت کے چندوں میں آئندہ اضافہ نہ ہو تو ریزرو فنڈ قائم نہیں کیا جا سکتا بلکہ خطرہ ہے کہ یہ بوجھ پہلے ریزرو فنڈ کو بھی نہ کھا جائے۔
آج ہم پر تحریک جدید کا تیرھواں سال گزر رہا ہے۔ اِس سال کو اگر نکال دیا جائے تو اس دَورمیں حصہ لینے والوں کے لئے چھ سال باقی ہیں۔ اور اگر اس سال کو شامل کر لیا جائے تو سات سال ہو جاتے ہیں۔ اُن لوگوں نے جو پہلے دَور میں شامل ہیں تحریک جدید کے اخراجات کا بوجھ بھی اٹھایا ہے اور ساتھ ایک ریزرو فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ اور دفتر دوم والوں کا روپیہ فی الْحال جمع ہوتا جا رہا ہے۔ ہم دفتر دوم کو اِس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ وہ دفتر اول کے بوجھ کو اٹھا سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ اِس سال وعدوں کی تعداد تسلی بخش نہیں۔ بعض جماعتوں نے ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے۔ باوجود اِس کے کہ دفتر یاددہانی کروا رہا ہے۔ وعدوں کے بھجوانے کی آخری تاریخ 10 فروری ہے۔ اِس کے بعد ان حصوں کے وعدے نہیں لئے جائیںگے جہاں اردو بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً پنجاب، سرحد، یوپی وغیرہ۔ لیکن وہ صوبے جہاں اردو نہیں بولی جاتی بلکہ وہ غیر زبان بولتے ہیں۔ مثلاً بنگال وغیرہ اُن کے لئے آخری تاریخ اپریل ہے۔ اور ہندوستان کے باہر جون تک کے وعدے لے لئے جائیں گے۔ جون کے بعد جو وعدے آئیں گے وہ نہیں لئے جائینگے۔ آج 17 جنوری ہے۔ اِس حساب سے گویا وعدوں کے لئے چوبیس دن باقی ہیں اور ابھی نصف کے قریب وعدے باقی ہیں۔ اَور تو اَور قادیان کی جماعت میں ایک حصہ ایسا ہے جس نے اپنے وعدے ابھی تک نہیں بھجوائے۔ لجنہ کے متعلق تو مجھے یقینی طور پر علم ہے۔ اور مردوں میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جن کے وعدے موصول نہیں ہوئے۔ حالانکہ قادیان ایسی جگہ ہے جہاں ہر تحریک کے متعلق سب سے پہلے کام شروع ہونا چاہئیے۔ کیونکہ قادیان والوں کو بیرونی جماعتوں کی نسبت پہلے علم ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے قادیان کی جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ بیرونی جماعتوں کی نسبت زیادہ توجہ سے کام کریں۔ بیرونی جماعتوں میں سے بھی بہت سی جماعتیں باقی ہیں جن کے وعدے نہیں آئے۔ معلوم نہیں کہ کیوں اِس سال سُستی سے کام لیا گیا ہے۔ یا تو عہدیداروں نے پوری کوشش نہیں کی اور یا خود افراد نے ابھی تک پوری توجہ نہیں کی۔
مَیں آج کے خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اُس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ جماعت کو چاہئیے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوائے۔ اگر وعدے جلدی نہ بھیجے جائیں تو تبلیغی کاموں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جماعت کو خود اِس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ جماعت کی تبلیغی مساعی میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ مَیں نے پہلے بتایا تھا کہ اِس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک تحریک جدید کے کاموں کو چلانے کا سوال ہے جماعت نے اس معاملہ میں بے نظیر قربانی پیش کی ہے۔ اور ہر قربانی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کو آئندہ اُس سے بڑھ کر قربانی کرنے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومن کی قربانی اُس بیج کی طرح ہوتی ہے جو کہ پھولتا، پھلتا اور بار بار پھل لاتا ہے1۔ اگر ایک شخص اخلاص کے ساتھ تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُسے قبول کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئیے کہ آئندہ سال اُسے پہلے کی نسبت زیادہ قربانی کرنے کی توفیق ملے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے نصف سے زیادہ دوستوں کو پہلے کی نسبت زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے رہا ہے۔ اور جن کو قربانی میں بڑھنے کی توفیق نہیں ملی اُن کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئیے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہئیے اور اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئیے تا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی سُستیوں اور کمزوریوں کو دور کرے اور قربانیوں میں قدم آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
گزشتہ سال یعنی تحریک جدید کے بارھویں سال گزشتہ سالوں کی نسبت جماعت نے بہت اچھا کام کیا ہے اور اس سال 30 نومبر تک 92 فیصدی وعدوں کی وصولی ہو گئی۔ یہ خوشکن بات ہے۔ اور یہ چیز اِس بات کا ثبوت ہے کہ وعدہ کرنے والوں نے اخلاص سے وعدے کئے۔ اِسی لئے اُن کو ان کے پورا کرنے کی توفیق ملی۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی دوست پوری توجّہ کے ساتھ تحریک جدید کے کاموں میں حصہ لیں گے۔ دورِ اوّل والوں کے 19 سالہ دور میں سے بارہ سال گزر چکے ہیں۔ بارہ سال قربانی کرنے کے بعد سُستی کرنا ایک افسوسناک امر ہے۔ گویا 62 فیصدی زمانہ گزر چکا ہے۔ زیادہ رستہ طے ہو چکا ہے اور تھوڑا رستہ باقی ہے اور اب منزل قریب نظر آ رہی ہے۔ اب سُست ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ پس مَیں جماعت قادیان اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وقت پر اپنی پوری کوشش کے ساتھ جتنی جلدی ہو سکے اپنے وعدے بھجوا دیں تا کہ اگلے سال کا بجٹ تیار کیا جا سکے۔ گو نئے سال کا بجٹ مئی سے شروع ہوتا ہے لیکن بجٹ مارچ اپریل میں بن جاتا ہے اس لئے دس فروری آخری تاریخ رکھی جاتی ہے۔ اِس وقت تک دفتر والوں کو ایک اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمیں کتنی آمد کی امید ہے اور پہلے کی نسبت وعدوں میں کمی ہے یا زیادتی ہے۔ جو خرچ ہم کر چکے ہیں وہ تو روکے نہیں جا سکتے اور نہ ہی ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک جگہ پر ٹھہرنا پسند کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے ساٹھ مبلغ جا چکے ہیں اور ارادہ ہے کہ یہ تعداد سو تک پہنچ جائے لیکن پھر بھی اگلی زیادتی میں بجٹ کے اندازہ کو اور چندوں کی رفتار کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس بجٹ کے مطابق سکیم تیار کی جاتی ہے اور جب تک بجٹ تیار نہ ہو کسی سکیم کو چلایا نہیں جا سکتا۔
دوسرا سوال دفتر دوم کا ہے۔ گزشتہ سال دفتر دوم میں پچانوے ہزار کے وعدے تھے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ دفتر دوم ابھی اِس قابل نہیں ہوا کہ وہ دفتر اول کا بوجھ اٹھا سکے۔ اِس سال تحریک جدید کا بجٹ چار لاکھ سے کم نہیں ہو گا۔ اور ابھی چھ سال دَور اوّل کے باقی ہیں۔ نہ معلوم ان میں کتنی زیادتی ہو گی اور پچانوے ہزار تو چار لاکھ کا چوتھا حصہ بھی نہیں ۔ اِس لحاظ سے دفترد وم کی آمد بہت کم ہے اور یہ رفتار تسلی بخش نہیں۔ جب تک اگلی نسل قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کرتی اور پہلوں سے قدم آگے نہیں رکھتی اُس وقت تک ہم اپنے آپ کو کامیاب نہیں سمجھ سکتے۔ تحریک جدید میں صرف حصہ لے لینے سے انسان کو عزت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی تحریک جدید کے نام میں کوئی عزت ہے بلکہ اِس نام کے پیچھے جو روح کام کر رہی ہے وہ قابلِ عزت ہے۔ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جان، مال، جائیداد اور عزت ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائے۔ اگر یہ نہیں تو پھر تحریک میں صرف چند روپے دے کر انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بن سکتا۔ بلکہ اُس کا اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنا اُس کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بناتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والے بہت کم ہیں۔ اور اُن کے چندے کی وصولی کی رفتار اَور بھی سُست ہے۔ مَیں تو یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہماری نسلیں ہم سے بڑھ کر قربانی کرنے والی ہوں اور ہمارا قدم کسی رنگ میں بھی پیچھے کی طرف نہ پڑے۔ اور آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم ہر رنگ میں آگے کی طرف پڑ رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جہاں ایسے مخلص لوگ تھے کہ وہ اپنی آمد میں سے نصف سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کر دیتے تھے وہاں آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ نصف آمد یا نصف آمد سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیسہ فی روپیہ چندہ تھا۔ اس کے بعد دو پیسے فی روپیہ ہوا۔ پھر تین پیسے فی روپیہ ہوا۔ اور اب چار پیسے فی روپیہ ہے۔ یہی شکل وصیت کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بہت تھوڑے لوگ موصی تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں کی تعداد میں موصی ہیں۔ اور چندہ تو آنہ کی بجائے پانچ پیسے فی روپیہ سمجھنا چاہیئے ۔ کیونکہ چندہ جلسہ سالانہ بھی ایک مستقل چندہ ہے۔ اِس کو ملا کر پانچ پیسے فی روپیہ بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید جاری ہو گئی ہے اور جماعت یہ تمام قسم کے بوجھ اٹھاتی جا رہی ہے اور اس کا قدم دن بدن ترقی کی طرف پڑ رہا ہے۔ اگر انسان وفاداری کر سکتا ہے اور وفاداری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں وفاداری نہ کریگا۔ بلکہ وہ تو تمام دنیا سے بڑھ کر وفادار ہے اور کوئی چیز اسکی طرح وفادار نہیں۔ اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرینگے وہ قربانیاں اُن کے لئے اِس دنیا میں بھی بڑی بڑی برکتوں کا موجب ہوں گی اوراگلے جہان کا اندازہ نہ تم لگا سکتے ہو اور نہ مَیں لگا سکتا ہوں۔
پھر وقفِ زندگی کا مطالبہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں باقاعدہ طور پر کوئی ایک مبلغ بھی نہ تھا۔ اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر اڑھائی سو مبلغ کام کر رہے ہیں۔ اور بہت سے جانے کے لئے تیار ہیں۔ اور کچھ تیاری کر رہے ہیں۔ اور کافی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اور وہ اشارہ کے منتظر ہیں۔ وقف زندگی کرنے کے جذبہ کا احساس دوسری قومیں نہیں کر سکتیں کیونکہ اُن میں یہ روح نہیں۔ لیکن ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی مثال دوسری قوموں میں نہیں مل سکتی۔ بعض آدمی ایسے ہیں جو مستقل ملازمتیں چھوڑ کر آئے ہیں۔ وہ ہزار بارہ سو کے گریڈ میںکام کر رہے تھے اور یہاں آ کر انہوں نے سو ڈیڑھ سو روپیہ لے کر اُسی پر قناعت کی۔ اور بعض وکلاء ہیں جو کہ ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار کما سکتے تھے اور یہاں آ کر ساٹھ ستّر روپے پر گزارہ کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر رنگ میں ترقی ہو رہی ہے اور جماعت دن بدن اپنے اخلاص میں ترقی کر رہی ہے۔ بعض دفعہ کسی خاص نقص یا خاص خرابی کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جماعت کا قدم نیچے کی طرف آ رہا ہے بلکہ اس سے مراد صرف جماعت کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ مَیں دیکھتا ہوں کہ جس طرح پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جلنے میں سبقت کرتے ہیں۔ اِسی طرح سینکڑوں ہزاروں لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیوانہ وار فنا ہونے کو تیار ہیں۔ اور جب وہ مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں مجھے اُن کی حالت کو دیکھ کر اُن پر رشک آتا ہے۔ آنکھوںمیں آنسو ہوتے ہیں، جسم کانپ رہا ہوتا ہے اور پوچھتے ہیں کہ کس گناہ کی شامت میں ہمیں قبول نہیں کیا جا رہا۔ حالانکہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر ملازم ہوتے ہیں اور بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں۔ لیکن وہ اِس دنیوی ترقی کو نہایت حقیر سمجھتے ہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ اصلی عزت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت سے حاصل ہوتی ہے۔ جس جماعت میں ایسے لوگ ہوں اللہ تعالیٰ اُس جماعت کا خود محافظ ہوتا ہے اور اُس جماعت کو آپ ترقی دیتا ہے۔ لیکن دوسرا طبقہ جن کو زندگیاں وقف کرنے کی توفیق نہیں ملی اُن کو چاہئیے کہ وہ مالی قربانیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور مالی قربانیاں کر کے یہ ثابت کر دیں کہ ہم مُردہ نہیں ہیں ہم میں بھی روحانیت ہے۔ اور یہ تبھی ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کریں۔ دوسرے دفتر دوم والوں کو چاہئیے کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیںا ور ایک دوسال کے اندر اندر اپنے وعدے چار لاکھ تک پہنچا دیں۔ اور جب چھ سال دفتر اول والوں کے ختم ہوں تو وہ ان کے بوجھ کو بغیر کسی کی مدد کے اٹھا سکیں۔ جہاں تک غیرت کا سوال ہے دفتر دوم کے اخراجات کا بوجھ دفتر دوم والوں کو ہی اٹھانا چاہئیے۔ دفترا ول والوں نے اپنی قربانیوں سے اپنا بوجھ خود اٹھایا اور ساتھ کچھ ریزرو فنڈ بھی قائم کیا۔ کل کو یہ کتنی شرم کی بات ہو گی کہ دفتر دوم والے یہ کہیں کہ ہماری ضروریات بھی دفتر اول والوں کے ریزرو فنڈ سے پوری کی جائیں۔ کسی شاعر نے کیا عمدہ کہا ہے کہ
حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است
رفتن بپائے مردی ہمسایہ در بہشت
یعنی جنت میں دوسرے کی مدد سے جانا دوزخ میں جانے کے برابر ہے۔ پس کوئی غیرتمند یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کسی دوسرے کے سہارے پر زندہ رہے۔ اس لئے دفتر دوم والوں کو یہ امید نہ رکھنی چاہئیے کہ ہمارا بوجھ دفتر اول والے یا دفتر سوم والے اٹھائیں گے۔ بعض لوگ یہ حساب لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ اتنا ریزرو فنڈ ہے اُس سے کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ اِس قسم کے حساب لگانا ادنیٰ درجے کے آدمیوں کا کام ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص دوسرے آدمی سے یہ امید لگائے بیٹھا رہے کہ وہ میرا بوجھ اٹھائے گا۔ تم صحابہؓ کو دیکھو اُن میں یہ احساس کس قدر موجزن تھا کہ ہر شخص کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہئیے اور کسی کا سہارا نہیں ڈھونڈنا چاہئیے۔ ایک صحابیؓ کے متعلق آتا ہے کہ میدانِ جنگ میں عین لڑائی کے وقت اُن کا کوڑا گر گیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور فوج کو لڑوا رہے تھے۔ ایک دوسرا سپاہی اِس خیال سے کہ آپ کے کام میں حرج واقع نہ ہو کوڑا اٹھانے کے لئے جھکا۔ کوڑے والے نے اُسے آواز دے کر کہا کہ تجھے خدا کی قسم ہے میرا کوڑا نہ اُٹھانا میں خود اٹھاؤنگا۔ پھر وہ گھوڑے سے اُترے اور اُتر کر کوڑا اٹھایا اور گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اور اُس شخص کو جو کوڑا اٹھانے کے لئے جھکا تھا کہنے لگے۔ مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد کیا تھا کہ میں کسی سے سوال نہیں کرونگا2۔ یعنی گو مَیں نے آپ سے سوال نہیں کیا لیکن عملی رنگ میں یہ سوال ہی تھا اور مَیں نے یہ برداشت نہ کیا کہ مَیں نے جو عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا وہ ٹُوٹے۔ مَیں اسے آخر دم تک نبھانا چاہتا ہوں۔ یہ غیرت ہے جو انسان کو قربانیوں پر برانگیختہ کرتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا دار لوگ بھی اپنی روایتوں کو برقرار رکھنے کی انتہائی کوشش کرتے ہیں اور وہ کسی حالت میں بھی اپنے وقار پر حرف نہیں آنے دیتے اور کسی کا سہارا نہیں لیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سنایا کرتے تھے کہ آپ کے دادا ایک دنیا دار آدمی تھے وہ اسّی سال کی عمر میں پیچش کی مرض سے فوت ہوئے۔ اُن کو بار بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑتا تھا۔ مرنے سے ایک دو گھنٹے پہلے جبکہ وہ بہت کمزور ہو چکے تھے قضائے حاجت کے لئے اُٹھے تو نوکر نے اِس خیال سے کہ کمزوری بہت ہے کہیں گر نہ جائیں آپ کا بازو پکڑ لیا۔ آپ نے اُس کے ہاتھ کو پرے جھٹک کر کہا مَیں تمہارا سہارا نہیں لینا چاہتا۔ یہ ایک دنیا دار شریف آدمی کی غیرت ہے۔ مومنِ کامل کی غیرت اِس سے بہت زیادہ ہونی چاہئیے۔ پس دفتر دوم والوں کو چاہئیے کہ وہ بھی غیرت کا ثبوت دیں اور کہہ دیں کہ ہم کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیں گے۔ بلکہ ہم پر جو بوجھ پڑے گا ہم اُسے برداشت کریں گے۔ اور دفتر اول والوں یا دفتر سوم والوں کے ریزروفنڈ سے اپنی ضروریات پوری نہیں کریں گے۔
جیسا کہ مَیں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں۔ جب دفتر اول کا کام ختم ہو جائیگا تو دفتر سوم شروع کر دیا جائے گا تا کہ دفتر دوم کام چلاتا رہے اور دفتر سوم اپنا ریزرو فنڈ جمع کرتا رہے۔ اور جب دفتر دوم کا کام ختم ہو دفتر سوم اِس قابل ہو کہ اس بوجھ کو اٹھا سکے۔ پس اگر دفتر دوم والے دفتر اول والوں کے ریزرو فنڈ سے یا دفتر سوم والوں کی مدد سے بوجھ اٹھائیں تو وہ پَست حوصلہ اور دون ہمت ہونے کی مثال قائم کرنے والے ہوںگے۔ جب تک یہ روح نوجوانوں میں کام نہیں کرتی اور جب تک وہ اِس قابل نہیں بنتے کہ اپنا کام اپنے وقت میں اپنے قائم کردہ فنڈ سے چلائیں اُس وقت تک وہ گردن اٹھا کر قوم کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم غیرتمند ہیں۔ پس نوجوانوں کو اپنے عزم مضبوط کرنے چاہئیں اور اپنے حوصلے بلند کرنے چاہئیں تا کہ گزشتہ جماعتوں کی طرف ان کی نظر اوپر سے نیچے کی طرف آئے۔ جس طرح پہاڑ پر چلنے والا آدمی نیچے کے لوگوں کو دیکھتا ہے۔
دوسری بات جس کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اِس سال ہمارے پچاس واقفین جو کہ بطور دیہاتی مبلغین کے تعلیم حاصل کر رہے تھے تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے اور تبلیغ کرنے کے لئے مختلف مقامات پر متعین کر دیئے جائیں گے۔ آئندہ سال کے لئے ہمیں کم ازکم پچاس اَور مبلغین کی ضرورت ہے۔ مجھے اِس کے متعلق اطلاع نہیں دی گئی کہ کتنی درخواستیں اب تک موصول ہوئی ہیں۔ چونکہ تحریک تو مَیں نے کرنی ہوتی ہے اِس لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ مجھے رپورٹ پہنچتی رہے۔ لیکن نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ابھی تک مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ایک مسل کے ذریعہ مجھے سرسری طور پر یہ علم ہوا ہے کہ پندرہ سولہ درخواستیں آچکی ہیں۔ اور اب ممکن ہے بیس پچیس ہو گئی ہوں۔ لیکن ہمیں کم از کم پچاس آدمیوں کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کی اتنی تعلیم نہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے مبلغ بن سکتے ہوں اور وہ اپنے دل میں خدمت دین کا شوق رکھتے ہوں ایسے لوگوں کے لئے یہ بہترین موقع ہے۔ ہم دیہاتی مبلغین میں مڈل پاس اور اردو پرائمری پاس آدمیوں کو بھی لے لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ اُن کو دینی مسائل سکھائے جاتے ہیںا ور کچھ طب پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہیں پنجاب کے مختلف دیہات میں کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک ہم نے تجربہ کیا ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ کئی جماعتیں ایسی تھیں جو کہ چندوں میں سُست تھیںاب اُن میں بیداری پیدا ہو گئی۔ پہلے سال صرف پندرہ آدمی اس کلاس میں شامل ہوئے تھے اور پچھلے سال پچاس شامل ہوئے اِس سال چاہئیے کہ ستّر طلباء تو اس جماعت میں داخل ہوں اور پھر 1948ء میں ایک سَو بیس دیہاتی مبلغ تیار کئے جائیں۔ اگر اِس طرح ترقی کی طرف قدم اٹھایا جائے تبھی کامیابی ہو سکتی ہے۔ مبلغ بنانا جماعت کا کام ہے اور تبلیغ کا کام جماعت نے ہی کرنا ہے۔ آسمان سے فرشتے آ کر نہیں کریں گے اور نہ ہی دوسری قوموں کے آدمی آ کر کریں گے۔ کیا ہم وفاتِ مسیح اور صداقتِ مسیح موعودؑ کی تبلیغ کے لئے کچھ ہندوؤں، سکھوں، اور عیسائیوں کو مبلغ بنا سکتے ہیں ؟اگر ہم ان قوموں میں سے مبلغ رکھنا منظور بھی کر لیں تو وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان ہو گا وہ کبھی بھی اِس کام کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ اور اگر باوجود ایک مذہب پر ایمان رکھنے کے کوئی شخص دوسرے مذہب کی تبلیغ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مذہب کے ساتھ غداری کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے مذہب سے غداری کرتا ہے وہ تمہارے ساتھ کیونکر وفاداری کر سکتا ہے۔ اصل چیز تو ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص پیسے لے کر اپنا ایمان بیچتا ہے تو ایسے شخص سے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ سال میں بیسیوں چٹھیاں میرے پاس آتی ہیں کہ ہم اپنے مذہب سے بیزار ہیں۔ ہمیں بتایا جائے کہ اگر ہم آپ کے مذہب میں داخل ہوں تو ہمیں کیا دیا جائیگا؟ مَیں ایسے لوگوں کو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ پہلے آپ دیانتدار بنیں اور پھر قربانی کی نیت سے مذہب تبدیل کریں۔ تو خدا تعالیٰ آپ کو جزا دے گا۔ کوئی بندہ کسی کو کیا جزا دے سکتا ہے۔ دین کا بدلہ خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اگر تو کسی لالچ کی وجہ سے آپ مذہب چھورنا چاہتے ہیں تو ایسا نہ کریں اور اپنے مذہب سے وفاداری کریں۔ اور اگر حقیقت میں اسلام کو آپ سچا سمجھتے ہیں تو سچائی کے لئے قربانی کریں۔ چونکہ ہم کسی ایسے شخص کو جو لالچ کی وجہ سے مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے شامل نہیں کرتے اِس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت اخلاص میں ترقی کر رہی ہے۔ ورنہ اگر ہم روپیہ کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا چاہیں تو ہزاروں لاکھوں آدمی ہمیں مل سکتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کے لئے بجائے مفید ہونے کے مُضِر ہوتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ کسی اچھے تیراک کے گلے میں پتھر باندھ دیا جائے۔ وہ بجائے اِس کے کہ تیرنے میں مدد دے اُس کے ڈبونے کا موجب ہوگا۔ پس جب ہم دوسروں سے یہ کام نہیں لے سکتے تو جماعت کو خود اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئیے۔ اور تمام جماعتوں کو چاہئیے کہ وہ ہر سال ایک دو آدمی بھجوانے کی کوشش کریں۔ اِس وقت ہماری جماعت کئی ہزار گاؤں میں ہے۔ اور ایک ہزار کے قریب توانجمنیں ہیں۔اور بعض انجمنوں میں آٹھ دس گاؤں شامل ہوتے ہیں۔ او ر دیہاتی جماعتوں میں اگر مبلغین نہ پھیلائے جائیں تو اُن کی تربیت و اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اور چونکہ ہماری جماعت کے افراد بھی عام مسلمانوں میں سے آتے ہیں اِس لئے بعض لوگوں کو نماز سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے بعض کو نمازکا ترجمہ پڑھا نے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور احمدیت کے مسائل جب تک بار بار اُن کے سامنے بیان نہ کئے جائیں وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ احمدیت کیا چیز ہے۔ بلکہ بعض لوگ تو باوجود سمجھانے کے بھی نہیں سمجھ سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ عورتوں میں درس دینا شروع کیا۔ ایک خاتون جو کہ نابھہ سٹیٹ سے آئی ہوئی تھیں بڑے شوق کے ساتھ درس میں شریک ہوتیں اور سب سے آگے بیٹھتیں۔ پندرہ بیس دن تک آپ ضرورت نبوت، مامورین کی صداقت کے دلائل، معیارِ صداقت اور وفاتِ مسیح پر لیکچر دیتے رہے۔ پندرہ بیس دن کے بعد آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان لینا چاہئیے کہ وہ کچھ سمجھتی بھی ہیں یا نہیں۔ آپ نے اُسی خاتون سے جو نابھہ سٹیٹ سے آئی ہوئی تھیں اور سب سے آگے بیٹھا کرتیںپوچھا کہ تم بتاؤ میرے ان لیکچروں سے کیا سمجھی ہو؟ اُس عورت نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ ’’کوئی نماز روزے دیاں گلاں ای کردے ہوو گے۔ ہور کی کہنا سی‘‘ یعنی آپ کوئی نماز روزے کے متعلق ہی وعظ کرتے ہونگے اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس خاتون کا جواب سن کر آئندہ کے لئے اُس درس کو بند کر دیا کہ جب یہ سمجھ ہی نہیں سکتیں تو ان میں درس دینا تو تضییعِ اوقات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اُن خاتون کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ذکر کیا کہ ایک مامور آیا ہے تو انہوں نے کہا چلو ہم بھی مان لیتے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ اُن کے خاوند احمدی ہوں اور اِس وجہ سے وہ بھی احمدی ہو گئی ہوں۔ لیکن اُن کو بھی احمدیت کی تعلیم اورا س کے مسائل سے واقفیت ہی نہ تھی اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچروں کو سمجھ نہ سکی۔ پس جب تک ایسے لوگوں کی تربیت نہ کی جائے اور اُن کو مسائل سے آگاہ نہ کیا جائے وہ علم و عرفان کی باتوں کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ الف لیلیٰ سنائی جا رہی ہے۔ جماعت میں علم پیدا کرنے کے لئے، جماعت میں تنظیم پیدا کرنے کے لئے، جماعت کو بیدار کرنے کے لئے ہمیں دیہاتی مبلغوں کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہرگاؤں میں اپنا ایک ایک مبلغ بٹھائیں اور کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں ہمارا مبلغ موجود نہ ہو۔ لیکن اگر حالت یہ ہو کہ ہم تو سکھانے کو تیار ہوں، ہم تومبلغ بنانے کو تیار ہوں لیکن آدمی ہی نہ ہوں تو ہم سکھائیں کسے اور مبلغ کسے بنائیں۔
پس تمام جماعتوں کو چاہئیے کہ وہ اِس تحریک کو دوستوں میں پھیلائیں اور اِسی ماہ کے اندر اندر ایسے لوگوں کے نام بھجوا دیں جو کہ دیہاتی مبلغین میں کام کرنا چاہتے ہوں۔ یا اگر اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں خود یہ تحریک پیدا کرے تو ایسے انسان کو بھی دیر نہیں کر نی چاہئیے اور اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کر دینا چاہئیے۔ جتنی جلدی ہو سکے ہمارے پاس نام پہنچ جانے چاہئیں تا کہ ہم کلاس شروع کرا سکیں۔ اور شامل ہونے والے ابتداسے ہی کلاس میں شامل ہو جائیں۔ بعد میں آنے والے اپنی تعلیم میں کمی محسوس کرتے ہیں اور ساتھ چل نہیں سکتے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں یہ کلاس جاری کر دی جائے۔ جو لوگ بعد میں آئیں گے وہ تعلیم میں پیچھے رہ جائیں گے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جو دوست چار پانچ ماہ کے بعد آتے ہیں وہ کلاس میں چل نہیں سکتے اور پھر معذرت شروع کر دیتے ہیں کہ ہم یکدم اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ہم کلاس کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ ابتدامیں شامل ہونا اُن کے لئے بھی فائدہ مند ہے ہمارے لئے بھی فائدہ مند ہے اور سلسلہ کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ ہمارے لئے اِس طرح فائدہ مند ہے کہ ہم آسانی سے ان کی پڑھائی ختم کرا سکتے ہیں۔ اور ان کے لئے اِس طرح فائدہ مند ہے کہ وہ آسانی سے اپناکورس ختم کر سکتے ہیں۔ سلسلہ کا یہ فائدہ ہے کہ وہ زیادہ علم حاصل کر کے زیادہ اچھے مبلغ ثابت ہوں گے۔ پس میری اِس تحریک کو جماعت میں اچھی طرح پھیلایا جائے۔ اور یہ کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ دوست اپنی زندگیاں دیہاتی مبلغین کے طور پر وقف کریں۔ ہم دیہاتی مبلغین کی تعداد کو انشاء اللہ بڑھاتے جائیں گے۔ پہلے ایک ہزار پھر دو ہزار پھر تین ہزار پھر چار ہزار۔ اِس طرح جتنا ہو سکے گا اِس تعداد کو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں ہی آٹھ لاکھ گاؤں ہیں۔ اور اگر فی گاؤںایک مبلغ رکھا جائے تو آٹھ لاکھ تو یہ ہو گئے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں گاؤں کی نسبت دس دس گُنے، بیس بیس گُنے آبادی ہوتی ہے اِس لحاظ سے دو لاکھ مبلغ شہروں کے لئے درکار ہیں یہ کُل دس لاکھ بنتے ہیں۔ اگر ہمارا دس لاکھ آدمی کام کر رہا ہو تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں تبلیغ کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔ بے شک دنیا دار لوگوں کی نظروں میں ہماری یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں لیکن مومن کے نزدیک یہ خواب و خیال نہیں بلکہ یقینی ہیں۔ کیونکہ اس کی طرف سے کوشش میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل میں بھی کمی نہیں رہے گی۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ بیٹھا ہوا تماشہ دیکھتا رہے گا؟ دنیوی کاموں میں ایک فیصدی کام تم کرتے ہو اور نناوے فیصدی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کرتا ہے۔ جن کاغذوں پر لکھا ہوا تم علم حاصل کرتے ہووہ اللہ تعالیٰ نے بنائے۔ جن اُستادوں سے تم علم پڑھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ نے بنائے۔ جو علم تم پڑھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ جن دماغوں میں تم ان کو حفظ کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ نے بنائے۔ تم صرف اتنا کرتے ہو کہ ان علوم کو رَٹ لیتے ہو۔ اگر دنیوی کاموں میں اللہ تعالیٰ تمہاری ننانوے فیصدی مدد کرتا ہے تو دینی کاموں میں وہ کیوںتمہاری مدد نہ کرے گا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دینی کاموں میں اللہ تعالیٰ ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نَو سو ننانوے حصہ خود کرتا ہے اور لاکھ میں سے ایک حصہ تم کرتے ہو۔ پس یہ خواب کی باتیں نہیں بلکہ یقین پر مبنی ہیں۔ تم میں سے بہت سے لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ اِن باتوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں گے۔ اور دنیاختم نہیں ہو گی جب تک کہ ہر گاؤں اور ہر قصبہ میں اور شہر میں احمدی مبلغ پہنچ نہ جائیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں اور ضرور پوری ہو کر رہیں گی اور کوئی طاقت اِن کو پورا ہونے سے روک نہیں سکتی۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی پوری کوشش کے ساتھ اپنے زمانہ کی ضروریات کو پورا کرتے جائیں۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ ہر ایک جماعت یہ کوشش کرے گی کہ وہ جلد سے جلد ایک، دو یا اِس سے زیادہ جتنے آدمی مل سکیں پیش کرے۔ ہم ہر سال اِس کلاس کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو ہوتے ہوتے یہ کلاس ایک ہزار سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ اور پھر اِس سے بڑھنا شروع کرے گی۔ جماعتوں کی تربیت و اصلاح کرنے اور تعلیم کو فروغ دینے کے لئے سَو مبلغ فی سال کچھ بھی نہیں۔ ہر سال جماعتیں اپنی ضروریات پیش کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اتنے آدمی ہی نہیں کہ ہم اُن کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ پس جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہئیے کہ پچھلے سال کی نسبت بہرحال اِس سال زیادہ آدمی اِس کلاس میں شامل ہوں۔ اگر پچھلے سال پچاس آدمیوں کی کلاس تھی تو اِس سال ستّر یا اسّی کی کلاس ہو۔ اگر ہم ہر سال پچاس دیہاتی مبلّغ ہی تیار کریں تو دس سال میں جا کر ہمارے پاس پانچ سو دیہاتی مبلغ ہوں گے حالانکہ ہماری ضرورت ایک ہزار فی سال سے بھی پوری نہیں ہوتی۔ اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے جماعت کو چاہیئے کہ جتنی جلدی ہو سکے ایسے مخلصین کے نام بھجوا دے جوکہ اِس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہوں۔ اور وہ مخلصین جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ یہ تحریک پیدا کرے اُن کو بھی ناموں کے بھجوانے میں دیر نہیں کرنی چاہئیے۔ اور یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر پچھلے سال پچاس آدمی اِس کلاس میں شامل ہوئے تو اِس سال اُس سے ڈیوڑھے یا دُگنے شامل ہوں کیونکہ اِس سے کم میں ہماری ضرورت کسی طرح پوری نہیں ہو سکتی۔‘‘ (الفضل 30 جنوری 1947ئ)
1: (البقرۃ: 262) 2: ابن ماجہ کتاب الزکوٰۃ۔ باب کَرَاھِیَۃِ الْمَسْئَلَۃِ۔


3
پہاڑوں کی برف میں خدا کی حکمتیں
(فرمودہ 24؍ جنوری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے کاموں اور بندہ کے کاموں میں کتنا فرق ہے۔ جب مَیں باہر جاتا ہوں تو برف دیکھ کر میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر ساری دنیا کے کارخانے سارا سال برف بناتے رہیں تو بھی وہ صرف ڈلہوزی کے پہاڑوں کے پاسنگ 1 بھی نہ بنا سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ملائکہ چند مہینوں میں اِتنی برف بنا دیتے ہیں کہ تمام دنیا کے کارخانے اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ صرف ڈلہوزی کے پہاڑوں کی برف دیکھ کر ہی انسان محوِ حیرت ہو جاتا ہے اور دنیا کے باقی پہاڑوں کی برفوں کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔ یہی برفیں ہیں جو کہ سارا سال نہروں کو پانی مہیا کرتی ہیں۔ نہروں کے پانی سے سیراب ہونے والے مربعوں کے مالک اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے کمزور اور غریب لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ حالانکہ اُن کی تمام آمدنیں اور پیداواریں اِن برفوں کی وجہ سے ہوتی ہیںجوبرفیں پڑتی ہیں اور سورج کی گرمی سے آہستہ آہستہ پگھلتی ہیں۔ اوربرفوں کا پانی پہاڑوں سے دریاؤں میںجاتا ہے، دریاؤں سے نہروں میں جاتا ہے اور زمیندار اِس پانی سے اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہیں۔ اگر ایک سال برف نہ پڑے تو ان کی آمدنیں غائب ہو جائیں۔ پھر بجلی جس کے ساتھ ہمارے کارخانے چلتے ہیں اور جس سے رات کو ہمارے گھر روشن ہو جاتے ہیں، ہم اس سے پانی گرم کرتے ہیں، چائے پکاتے ہیں، کھانے تیار کرتے ہیں ،مشینیں چلاتے ہیں۔ یہ سارے کام پنجاب میں ہمارے لئے بجلی کرتی ہے۔ اور یہ بجلی بھی ایک چھوٹے سے نالے کا نتیجہ ہے جو، جوگندر نگر میں آ کر اونچائی سے گرتا ہے۔ وہ نالہ نہ تو دریاؤں میں شمار ہونے کے قابل ہے اور نہ ہی بڑے نالوں میں شمار ہونے کے قابل ہے کیونکہ بہت ہی چھوٹا سا نالہ ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے نالے کے پانی سے اِتنی بجلی تیار کی جاتی ہے کہ اس سے آدھا پنجاب رات کو روشن ہو جاتا ہے اور دن کو اس سے کارخانے چلتے ہیں۔ اگر پہاڑوں پر برف نہ پڑے اور اس نالے میں پانی نہ آئے تو یہ بجلی بھی پیدا نہ ہو سکے اور ہمیں یہ سہولتیں نہ رہیں۔ چنانچہ پچھلے سال برف کم پڑی تو گورنمنٹ نے اس سال اعلان کر دیا کہ ہم جنوری او ر فروری میں کارخانوں کو بجلی مہیا نہیں کرسکیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ نالہ دریاؤں کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس چھوٹے سے نالہ سے آدھا پنجاب اپنے کارخانے چلا رہا ہے۔ اب بھاکڑہ ڈیم 2 سے بھی بجلی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اِس جگہ کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں سے جو گندرنگر کی نسبت پندرہ سولہ گنا زیادہ طاقت حاصل کی جائیگی۔ جو گندرنگر کے کارخانہ کی طاقت کُل پچیس ہزار یونٹ ہے۔ اور بھاکڑہ ڈیم سے جو طاقت حاصل ہو گی اُس کا اندازہ تین چار لاکھ یونٹ کا ہے۔ گویا یہ پندرہ سولہ گُنا زیادہ ہو گی۔
یہ چیزیں حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے چھوٹے سے چھوٹے کھیل کا ایک حصہ ہیں اور اِس ایک حصہ تک پہنچ کر ہی دنیا کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ یہ نہایت ہی معمولی سے معمولی چیزیں ہیں۔ لیکن انسان سینکڑوں سال کی محنت کے بعد جا کر اِن کی حقیقت کو معلوم کرتا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء میں سے نہایت ہی ادنیٰ اور حقیر ہوتی ہیں۔ لیکن بڑے بڑے فلاسفر اور بڑے بڑے مفکر اپنی زندگیاں اِن کی کُنہہ معلوم کرنے میں صَرف کر دیتے ہیں۔ اور جب اپنی انتہائی تگ و دو کے بعد ایک مقام پر پہنچتے ہیں اور کسی حدتک کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو اُن کو کئی اَور لَایَنْحَلْ عُقدے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ حکیمِ مطلق کی حکمتوں کو اپنے علم اور اپنے افکار کے ذریعہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو اُمّی یا اُمّیوں کی طرح ہی ہوتے ہیں یعنی دنیوی تعلیمات اُنہوں نے حاصل نہیں کی ہوتیں اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم دیا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اوراس کے کرشموں سے انتہائی طور پر محظوظ ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک چیزاُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زندہ ثبوت ہوتی ہے۔ اور دنیوی علوم جاننے والوں کی تحقیقات اُن کے نزدیک ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے سورج کے مقابلہ میں چراغ۔ دنیا کی نظروں میں برف ٹھنڈی ہے اور اِس سے سردی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دل اِس برف کو دیکھ کر بھی اِس کی محبت میں گرم ہو جاتے ہیں اور اِس پھیکی برف سے بھی حلاوتِ ایمان حاصل کر لیتے ہیں۔ ‘‘ (الفضل4 فروری1947ئ)
1: پاسنگ: ترازو کے پلڑوں کی کمی بیشی کو پورا کرنے کی غرض سے جو وزن ترازو کی ڈنڈی سے
باندھا جاتا ہے۔
2: بھاکڑہ ڈیم: دہلی سے 225 میل دُور دریائے ستلج پر ایک ڈیم اس پر ابتدائی کا م 1946ء میں
شروع ہوا اور اس ڈیم پر تعمیراتی کام کا آغاز 1948ء اور اس کی تعمیر 1963ء میں مکمل ہوئی ۔اس
کا شمار دنیا کے بلند ترین ڈیمز میں ہوتا ہے اور یہ 741فٹ بلند ہے۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 277 مطبوعہ لاہور 1987ئ)


4
وعدوں کی آخری تاریخ دس فروری 1947ء ہے
جماعتوں کو فہرستیں مکمل کر کے جلدی ارسال کرنی چاہئیں
(فرمودہ 31 ؍جنوری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’تحریک جدید کے اس حصہ کے مخاطبین کے متعلق جو پنجاب میں یا سرحد میں، یوپی یا بہار میں رہتے ہیںوعدوں کی آخری تاریخ دس فروری ہے۔ دس فروری کے لکھے ہوئے وعدے قبول کئے جائیں گے۔ اس کے بعد کے وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے۔ اس کے بعد ان علاقوں کے دورِ اوّل میں حصہ لینے والوں کے وعدے نہیں لئے جائیں گے۔چونکہ دیہات میں ہفتہ میں ایک دو دفعہ ڈاک نکلتی ہے اِس لئے دس فروری کے لکھے ہوئے وعدے پندرہ سولہ فروری تک پہنچتے رہتے ہیں۔ اِس کے بعد ان علاقوں کے لئے اِس سال کے وعدوں کا دروازہ بند ہو جائیگا۔ اِس وقت وعدوں کی جو رفتار ہے وہ ایسی نہیں کہ اسکو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکے کہ اس سال احباب نے تندہی اور محنت سے کام کیا ہے۔ جب مَیں نے شروع شروع میں نئے سال کا اعلان کیا تو پندرہ بیس دن تک تو بڑے جوش کے ساتھ وعدے موصول ہوتے رہے اور جہاں تک ان دوستوں سے ہو سکتا تھا انہوں نے پچھلے سال کی نسبت اِس سال کے وعدوں میں زیادتیاں بھی کی تھیں۔ گو اَب بھی بعض دوست اپنے چندوں میں زیادتیاں کر رہے ہیںاور بعض تو غیر معمولی طور پر اپنے چندہ کو بڑھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جماعت نے تندہی اور محنت سے کام کیا ہے۔ کیونکہ اب تو وعدوں کی فہرستیں بہت آہستہ آہستہ آ رہی ہیں اور ان میں کوئی خاص نمایاں زیادتی نظر نہیں آتی۔ مَیں نے جماعت کو بارہا اِس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاں کسی ایک وقت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں۔ اور جس قسم کی فوری قربانیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کو کرنی پڑی تھیں اُس قسم کی قربانیاں ہم کو نہیں کرنی پڑیں۔ اور جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کو تھوڑا عرصہ قربانیاں کرنے کے بعد غلبہ حاصل ہو گیا تھااُس طرح ہمارے لئے تھوڑا عرصہ مقدر نہیں۔ صحابہؓ پر قربانیوں کا بے انتہاء بوجھ یکدم ڈالا گیا اور اُن کو تھوڑے سے عرصہ میں بے انتہا کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کیا ہے کہ ہماری ترقی صحابہؓ کی نسبت دیر سے ہو۔ اِس لحاظ سے ہمارے لئے قربانیوں کا عرصہ بھی لمبا کر دیا گیا ہے تا کہ ہماری قربانیاں صحابہؓ کی قربانیوں کے مشابہہ ہو جائیں اور ہمارا انعام اور جزا اُن کے انعام اور جزا کے مشابہہ ہو جائے۔ جو کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بیس سال یا یوں کہو کہ بتیس سال (کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی بارہ سال تک مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا رہا) میں کرنا پڑا۔ ہمارے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہماری جماعت اِس کو کتنے وقت میں کر سکے گی۔ مگر یہ تو ظاہر ہے کہ اِس وقت تک سلسلہ کے اعلان کو اٹھاون سال ہو گئے ہیں۔ اٹھاون سال کے عرصہ میں ابھی ہمارے کام کا خاتمہ پر پہنچنا تو درکنار ابھی تو وہ ابتدائی مراحل میں نظر آتا ہے۔ اور ابھی تک سلسلہ کی ترقی ایسی نہیں کہ اِس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکیں کہ بقیہ حصّہ کام کا پانچ سات یا دس سال میں ہو جائے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہت زیادہ عرصہ ہمیں اپنی قربانیوں کو جاری رکھنا ہو گا۔ اس معاملہ میں اسلام کی مثال بنی اسرائیل کی سی ہے اور ہم اُن کے نقش بنقش چل رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو بہت تھوڑے عرصہ میں فتح و کامرانی حاصل ہو گئی۔ لیکن حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے زمانہ میں عیسائیوں کو ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں کرنی پڑیں اور قریباً تین سو سال کی قربانیوں کے بعد انہوں نے کامیابی و کامرانی کا منہ دیکھا۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد کامیابی ہو گئی اور ہماری کامیابی میں دیر لگے گی۔ ہاں چونکہ مسیح ناصری سے مسیح محمدی افضل ہے اِس لئے اُتنا لمبا عرصہ تو نہیں ہو سکتا جتنا کہ عیسائیوں کے لئے مقدر تھا۔ اُس سے تو بہرحال کم ہی ہو گا۔ یہ استدلال اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے کم تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ساٹھ اور ستّر سال کے درمیان قربانیاں کرنی پڑیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو بتیس سال قربانیاں کرنی پڑیں گویا نصف سے بھی کچھ کم عرصہ بنتا ہے۔ اِسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی قربانیوں کا زمانہ چونکہ دو سَواسّی سال کا تھا اِس لحاظ سے ہمارے لئے ایک سَو بیس سال کا زمانہ ہوتا ہے۔ جس میں سے ستاون سال گزر چکے ہیں اور تریسٹھ سال باقی ہیں۔ اور اِس بات کو دیکھتے ہوئے کہ یہ زمانہ یوں بھی سُرعت کا ہے اور اِس میں دنیوی کام بہت سُرعت کے ساتھ ہو رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک سَو بیس سال سے بھی کچھ پہلے فتح و کامرانی حاصل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس لحاظ سے کتنا عرصہ پہلے ہمیں غلبہ اورترقی حاصل ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کام ستّر، اسّی، یا نوّے سال میں ہی ہوجائے اور اِسی عرصہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے احمدیت کو دنیا میں قائم کر دے۔ بہرحال قربانیوں کے اتنے کم سال بھی نہیں ہو سکتے جتنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے۔ صحابہؓ نے کُل بتیس سال قربانیاں کیں۔ اور بتیس سال میں اسلام کو وہ شان و شوکت حاصل ہو گئی تھی کہ دنیا کی تمام حکومتیں اُس کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتی تھیں۔ لیکن ہمارے اعلان کو اٹھاون سال گزر چکے ہیں اور ابھی ہمیں صحابہؓ کے مقابلہ میں کچھ بھی کامیابی نہیں ہوئی ۔اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مختلف ممالک میں احمدیت کا بیج بو دیا ہے۔ کچھ یہاں بویا ہے کچھ وہاں بویا ہے اور اِس بیج کا چھینٹا دنیا کے تمام ممالک میں دے دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بیج کو دنیا بھر میں اُگانا چاہتا ہے اور اسے بڑھانا چاہتا ہے اور دنیا کی ضروریات کو اِس سے پورا کرنا چاہتا ہے۔ باقی یہ کہ یہ کام کتنے عرصہ میں ہو گا؟ اِس کا پورا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے۔ مگر اس کامیابی اور کامرانی کے آثار نظر آ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ آخری لڑائی کب ہو گی۔ لیکن ہم اپنی اس لڑائی کے متعلق جو کہ دلائل اور بیّنات کی لڑائی ہے یہ بات یقینی طور پر جانتے ہیں کہ اِس کا انجام ہمارے حق میں ہو گا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی خبروںسے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم نہایت ہی اہم دَور میں داخل ہو رہے ہیں اور آئندہ ایک دو سال میں جماعت کو پہلے کی نسبت بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اس لئے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ پورے طور پر تیاری کریں اور زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کر کے اپنے اخلاص اور نیکی کانمونہ قائم کریں۔ جو لوگ اِس موقع پر سستی اور غفلت سے کام لیں گے وہ گر جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دروازے سے دھتکار دیئے جائیں گے۔ یہ بہت خوف کا مقام ہے۔ ہر احمدی کو چاہئیے کہ وہ تیز تیز قدم اٹھائے اور اپنے دوسرے ساتھیوں سے منزل پر پہلے پہنچنے کی کوشش کرے۔
دو سال ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک الہام کے ذریعہ بتایا تھا کہ جزا کا دن تو قریب آ چکا ہے لیکن جماعت ابھی منزل سے دور ہے۔ وہ الہام یہ تھا
’’روز جزا قریب ہے اور راہ بعید ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اِس میں بتایا ہے کہ ہم تو انعام دینے کو تیار ہیں لیکن جماعت کو چاہئیے کہ وہ انعام حاصل کرنے کے مقام پر پہنچ جائے تا کہ جب ہمارے انعام کا وقت آئے تو وہ پہلے سے اُس مقام پر کھڑے ہوں۔ یہ نہ ہو کہ ہم انعام دینے کے لئے آئیں اور وہ منزل سے دور ہوں۔ یہ حالت بہت خطرناک ہے اور اللہ تعالیٰ وہ دن نہ لائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام تقسیم کرنے کا اعلان ہو جائے اور ہم ابھی منزل پر ہی نہ پہنچے ہوں۔ مثلاً کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ مَیں فلاں وقت گاؤں سے ایک میل پر گھوڑا یا بیل یا گائے چھوڑ جاؤں گا تم وقت پر پہنچ کر وہ لے لینا۔ دینے والا شخص اپنے وعدہ کے مطابق اُس جگہ گھوڑا یا بیل یا گائے چھوڑ جائے لیکن لینے والا وقت پر نہ پہنچے۔ تو یقینی بات ہے کہ اُسے چور لے جائیگا۔ دینے والا تو دے گیا لیکن لینے والے نے اپنی سُستی اور غفلت کی وجہ سے اُسے ضائع کر دیا۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِس الہام میں بتایا ہے کہ مَیں تمہیں انعام تو دینا چاہتا ہوں لیکن ابھی تمہاری راہ بعید ہے اور تم ابھی اُس مقام سے دُور ہو جہاںمَیں نے انعام رکھنا ہے۔ اگر تم وقت پر نہ پہنچے تو کوئی دوسرا اٹھا کر لے جائیگا۔ اب انعام حاصل کرنا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئیے کہ انتہائی کوشش کے ساتھ دوڑ کر اُس مقام پر پہنچنے کی کوشش کرے۔ پس مَیں جماعت کوپھر توجہ دلاتا ہوں کہ دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور ابھی بہت سے وعدے باقی ہیں۔ جماعتوں کو کوشش کرکے فہرستیں جلدی جلدی مکمل کرنی چاہئیں۔ اور وقت سے پہلے بجھوانے کی کوشش کرنی چاہئیے تاکہ آئندہ سال کا بجٹ تیار ہو سکے اور کارکن اندازہ لگانے میں غلطی نہ کھائیں ۔ اندازہ کے غلط ہو جانے سے بجٹ میں بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیںا ورآئندہ کام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ نہ صرف ہم ہی تبلیغ کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے لئے تبلیغ کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ ہمارے مبلغ ایک ملک میں سے گزر کر دوسرے ملک میں تبلیغ کے لئے جا رہے تھے کہ اُس ملک کے لوگوں نے ہمارے مبلغین کو کہا کہ آپ لوگ اِتنی دور جا رہے ہیں اور ہمارا ملک جو کہ آپ کے رستہ میں ہے اِس میں آپ تبلیغ نہیں کرتے۔ آخر اِس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ہمارے ملک کو جو کہ رستہ میں ہے چھوڑ دیتے ہیں اور اِس سے دور آگے کے ممالک میں آپ تبلیغ کرتے ہیں؟ جب اس قسم کے متواتر کئی پیغام ہمارے پاس آئے تو مَیں نے سمجھاکہ ان لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی گئی ہے اور وہاں کے لوگوں کا خود مبلغ مانگنا اللہ تعالیٰ کی کسی خاص حکمت کے ماتحت ہے۔ چنانچہ ہم نے وہاں کی گورنمنٹ سے اپنے مبلغ کے داخلہ کی اجازت مانگی لیکن گورنمنٹ نے ہمیں جواب دیا کہ یہاں کے لوگ آپ کے مبلغ کے داخلہ کو ناپسند کرتے ہیں اِس لئے اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مَیں نے کہا چونکہ یہ خدائی تحریک ہے کہ وہاں کے غیر احمدیوں نے خود مبلغ کے بھجوانے کی خواہش ظاہر کی ہے اِس لئے یہ جواب ہمارے لئے کافی نہیں۔ ہم نے ایک پاس کے ملک والے مبلغ سے خط و کتابت کی کہ وہ اس دوسرے ملک کے کسی آدمی کو دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کرے تا کہ اِس ذریعہ سے اُس ملک میں تبلیغ کا راستہ کھل جائے۔ کیونکہ اُس علاقہ کے باشندوں کو گورنمنٹ داخل ہونے سے نہیں روک سکتی۔ چنانچہ کل ہی وہاں سے جواب آیا ہے کہ ایک دوست نے اِس کام کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہے اور اس دوست نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ ان ممالک کا گزارہ پہلے ہی بہت مہنگا تھا اور اب جنگ کی وجہ سے تو اَور بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ سفرِ ولایت میں جب ہم شام میں گئے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک نے اپنی قمیص دھونے کے لئے دھوبی کو دی۔ جب دھوبی قمیص دھو کر لایا تو اُس نے سَوا روپیہ قمیص کی دھلائی مانگی۔ میرے ساتھی نے کہا تم قمیص ہی لے جاؤ مَیں دھلائی نہیں دینا چاہتا۔ کیونکہ دھلائی قمیص کی اصل قیمت سے زیادہ ہے۔ چنانچہ وہ دھوبی قمیص لے کر چلا گیا۔ تو ان ممالک کے گزارے اِس قدر گراں ہیں کہ ہندوستان کے اخراجات پر اُن کا قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ باوجود ان باتوں کے اس دوست نے جو گزارہ اپنے لئے لکھا ہے وہ نہایت قلیل ہے۔ اس سے تو ہندوستان میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ وہ دوست نہ قادیان آئے اور نہ ہی انہوں نے سلسلہ کی کتب کا کوئی مطالعہ کیا ہے۔ لیکن قربانی کا جو نمونہ اس دوست نے پیش کیا ہے اُس پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مَیں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں۔ مَیں اپنا کام چھوڑ کر قادیان تعلیم کے لئے آنے کو تیار ہوں۔ میری دو بیویاں اور (دو مائیں) اور بچے ہیں۔ ان کے گزارہ کے لئے مجھے صرف اتنی اجازت دی جائے کہ مَیں قادیان میں کچھ کام کر کے اُن کو گزارہ بھجوا سکوں۔ اور گزارے کی رقم جس کے لئے اُنہوں نے کام کرنے کی اجازت مانگی ہے وہ بیس روپے لکھی ہے۔ وہ انگریزی درزی ہیں اور کٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ ہم نے اُن کو لکھا ہے کہ ہم آپ کو اور آپ کے بیوی بچوں کوبھی گزارہ دیں گے آپ قادیان آ جائیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ دینی کاموں میں ہماری مدد فرماتا ہے بلکہ اپنے فضل سے نئے نئے ملک ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے کہ ان میں بھی تبلیغ کرو۔ ہمارے جو مبلغ سپین میں کام کر رہے ہیںاُنہوں نے وہاں سے لکھا ہے کہ جو لوگ عربی ممالک کے یہاں آتے ہیں وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اِس کی کیا وجہ ہے کہ آپ عیسائی ملکوں میں تو تبلیغ کرتے ہیں اور ہمارے ملکوں میں تبلیغ نہیں کرتے۔ گویا ہمارے ایک ایک ملک کے مبلغوں سے دوسرے ملکوں کے لوگ ہماری جماعت کے متعلق علم حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ مبلغین کا مطالبہ شرو ع کر دیتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اور خدائی ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تبلیغی پروگرام کو زیادہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ اور مبلغین جتنے زیادہ ہوتے جائیں گے اُتنا ہی جماعت پر بوجھ بڑھتا جائے گا۔ ہمیں مبلغ حاصل کرنے کے لئے مدارس میں زیادہ طلباء کو داخل کرنا پڑے گا اُن کو وظائف بھی دینے ہوں گے۔ اور پھر نئے نئے مشن کھولنے کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن ان اخراجات کو دیکھ کر مَیں گھبراتا نہیں ۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن کر کافر کے سوا کوئی پیچھے نہیں رہ سکتا۔ اور اس شخص سے زیادہ شقی اور بدقسمت اَور کون ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ملاقات کے لئے بلایا اور وہ پیچھے بیٹھا رہا۔ اُس کے کانوں میں اللہ تعالیٰ کی آوازیں آئیںلیکن وہ اپنے غفلت سستی اور بخل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے محروم ہوگیا۔
پس یہ امتحان کا وقت ہے۔ ہر صبح اور ہر شام بلکہ ہر منٹ اور ہر سیکنڈ ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہئیے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرکے اپنے گھروں کو اُس کی برکتوں اور فضلوں سے بھر لیں۔‘‘ (الفضل 3 فروری 1947ئ)

5
تحریک جدید کے وعدوں اور قادیان کی زمینوں کی
خرید و فروخت کے متعلق بعض ضروری امور
(فرمودہ 7؍ فروری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج سات تاریخ ہے اور تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد تین دن تک ختم ہو رہی ہے۔ اِس وقت تک اِس سال کے وعدوں کی مقدار گزشتہ سال سے قریباً چالیس ہزار روپیہ کم ہے۔٭حالانکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر سال جماعت کے وعدوں کی مقدار پچھلے سال سے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ میعاد میں سے اب صرف تین دن باقی ہیں یا اگر آج کا دن بھی شامل کر لیا جائے تو چار دن باقی ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں دس تاریخ کے چلے ہوئے وعدے بھی بعد میں پانچ پانچ چھ چھ دن تک آتے رہتے ہیں۔ کیونکہ بعض ڈاک خانوں میں سے ہفتہ میں صرف ایک دفعہ اور بعض جگہ ہفتہ میں دو دفعہ ڈاک نکلتی ہے۔ اور بعض علاقے تو اتنی اتنی دُور واقع ہیں کہ وہاں سے دس تاریخ کا لکھا ہوا خط چھ چھ سات سات بلکہ آٹھ آٹھ دن کے بعد یہاں پہنچتا ہے۔ بِالخصوص آجکل تو ڈاک کا انتظام ایسا خراب ہے کہ قریب کے علاقوں کے خطوط بھی بعض دفعہ بہت دیر کے بعد پہنچتے ہیں۔ا س لئے غالباً تحریکِ جدید کے وعدے اٹھارہ بیس فروری تک آتے رہیں گے۔ لیکن پھر بھی اِس وقت تک جماعت کے گزشتہ ریکارڈ کی نسبت کمی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کے کام کرنیوالا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں وہ جماعت کے مخلصین کو ضرور اس بات کی توفیق عطا فرمائے گا کہ اُن کا قدم بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے ہی بڑھتا چلا جائے۔ ہمارے کام سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ خود بعض دفعہ غیب سے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ایک کمی جو نظر آ رہی ہوتی ہے اُس کو آناً فاناً زیادتی اور کثرت میں بدل دیتا ہے اور دیکھنے والا یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ جہاں انسانی ذرائع ختم ہو گئے وہاں خدا نے اپنے پاس سے برکت دے دی اور کمی پوری ہو گئی۔مگر پھر بھی مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مال خرچ کرنا کبھی بھی انسان کے لئے کمی کا موجب نہیں ہوتا۔ صرف ایمان چاہئیے اور توکل چاہئیے۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ غرباء کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے والوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جو لوگ غرباء کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے اموال کو بڑھاتا اور اُنہیں سَو سَو گُنا بدلہ دیتا ہے اگر عام انسانوں کی روٹی کے خرچ کے لئے، عام انسانوں کے کپڑے کے خرچ کے لئے، عام انسانوں کی بیماری کے علاج کے لئے، عام انسانوں کی رہائش کے انتظام کے لئے، عام انسانوں کی تعلیم کے انتظام کے لئے، عام انسانوں کی تمدنی بہبودی کے لئے روپیہ خرچ کرنے والا خدا تعالیٰ سے سَو گُنا انعام پاتا ہے۔ تو ایک مومن کو سمجھنا چاہئیے کہ جو شخص خدا کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اشاعت اور اسلام کی امداد کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتا ہے وہ یقینا خدا تعالیٰ سے سَو گُنے سے کہیں زیادہ بدلہ پائے گا۔ جس طرح کسی کھیت میں ڈالا ہوا بیج ضائع نہیں جاتا اور زمیندار اِس پر کسی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا اِسی طرح ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہئیے۔ جب مادی دنیا میں ایک زمیندار اپنے کھیت میں بیج ڈال کر گھبراتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے تو ایک مومن کا ایمان تو بہرحال ایک عام زمیندار سے زیادہ ہونا چاہئیے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ زمیندار کھیت میں بیج ڈال کر آئے تو وہ رونے لگ جائے کہ میرا بیج ضائع چلا گیا؟ زمیندار پر کھیتی کاٹنے کا زمانہ تو بعد میں آتا ہے۔ جس دن وہ اپنے کھیت میں بیج ڈال کر آتا ہے اُسی دن اُس کا دل خوشی سے بھر جاتا اور اُس کا قلب امیدوں سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے آج ایک ایسی بنیاد رکھ دی ہے جس سے میرا اور میرے خاندان کا سال بھر کا خرچ چلتا چلا جائیگا۔ اگر ایک ایسا زمیندار جو بعض دفعہ خدا کو بھی نہیں جانتا ،مذہب کو بھی نہیں جانتا ،اخلاق کو بھی نہیں جانتا دنیوی قانون پر ایسا یقین رکھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا بیج ضائع نہیں جائیگا تو وہ مومن کیسا مومن ہے جو خیال کرتا ہے کہ خدا کے حکم اور اُس کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت جو بیج میں اپنی کھیتی میں ڈالوں گا وہ ضائع چلا جائیگا اور وہ ’’دَہ در دنیا اور ستّر در آخرت‘‘ بلکہ اِس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر مجھے واپس نہیں ملے گا۔ پس مَیں اختصاراً آج پھر جماعت کو اُس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدمت دین کے اِس موقع کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ بلکہ جلد سے جلد اِعلاء ِکلمۂ اسلام کے لئے اپنے وعدے پیش کریں او ر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں تا وہ اور اُن کی اولادیں اُس کھیت کو کاٹتی چلی جائیں جو آج ان کے ہاتھوں سے بویا جائیگا۔
اِس کے بعد مَیں قادیان کی ایک مقامی ضرورت کے متعلق کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے متواتر جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قادیان میں رہائش کی دقتیں لوگوں کے لئے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ قادیان کی ترقی ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ قادیان بڑھتے بڑھتے دریائے بیاس تک پہنچ جائیگا۔1 یہ نظارہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق دیکھا اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ قادیان کی ترقی کا سارا نظارہ آپ کو دکھا دیا گیا ہو۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس سے کم قادیان کی ترقی نہ ہو۔ اگر زیادہ ہو جائے تو وہ اس پیشگوئی میں کوئی حارج نہیں ہو گی بلکہ اس کی شان اور عظمت کو بڑھانے والی ہو گی۔ پس یہ خواب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دیکھا اِس کے یہ معنی نہیں کہ اُس سے آگے قادیان نہیں بڑھے گا۔ ممکن ہے کسی وقت قادیان اِتنا ترقی کر جائے کہ دریائے بیاس قادیان کے اندر بہنے والا ایک نالا بن جائے اور قادیان کی آبادی دریائے بیاس سے آگے ہوشیار پور کے ضلع کی طرف نکل جائے۔ بہرحال اِس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جماعت کے مخلصین اپنے وطنوں کو خیر باد کہہ کر اور اپنی جائیدادوں کو ترک کر کے قادیان میں بس رہے ہیں اور بسنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہزاروں ہزار روپیہ خر چ کر کے زمینیں خرید سکتے ا ور اپنی رہائش کے لئے مکانات بنا سکتے ہیں۔ اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کی استطاعت نہیںرکھتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سینکڑوں میں ہی وہ زمین بھی خرید لیں اور مکان بھی بنا سکیں۔ اگر سینکڑوں تک وہ مکان وغیرہ بنا سکیں تب تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ ورنہ نہیں۔ دنیا میں کوئی شہر بھی خالص امراء کا شہر نہیں ہوتا۔ یورپ کے شہروں میں امراء بھی ہوتے ہیں اور غرباء بھی ہوتے ہیں۔ اور دینی سلسلوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اُس میں غرباء کی ہی کثرت ہوتی ہے۔ بالخصوص اُس کے ابتدائی ایام میں۔ اور قادیان کی زیادتی اور بڑھوتی میں بھی غرباء کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ اور آئندہ بھی خواہ قادیان کتنا بڑھ جائے اِس کی آبادی زیادہ تر غرباء کی ہی ہو گی۔ مگر قادیان میں زمین کی قیمتیں اِس طرح بڑھتی چلی جاتی ہیںکہ اب غرباء کے لئے قادیان میں بسنا سخت مشکل ہو گیا ہے۔ اگر تو یہ طبعی ترقی ہوتی تب بھی ہمارا فرض تھا کہ ہم اسکی اصلاح کی کوشش کرتے مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ طبعی ترقی نہیں بلکہ بناوٹی ترقی ہے اور زمین کی قیمتیں اِتنی ہرگز نہیں بڑھنی چاہئیے تھیں جتنی قیمتیں بڑھ گئی ہیںتو ہمیں زیادہ افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ قادیان کی ترقی کے راستہ میں وہ لوگ یقینا حائل ہو رہے ہیں جنہوں نے قادیان میں زمینوں کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ کہتے ہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اِسی طرح لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیک نمونہ دوسروں پر اثر کئے بغیر نہیں رہتا۔ پھر مَیں حیران ہوں کہ ہمارے نمونہ سے لوگوں نے کیوں فائدہ نہ اٹھایا۔
قادیان کے مالک ہم تھے۔ زمینیں ہمارے قبضہ میں تھیں۔ اگر ہم بھی اِسی طرح قیمتیں بڑھاتے چلے جاتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ جیسا کہ بعض لوگ جن کے پاس ہمارے مقابلہ میں بیسواں حصہ بھی زمین نہیں اُنہوں نے ہم سے دگنی دگنی قیمت اس بیسویں یا پچاسویں حصہ کو فروخت کر کے وصول کر لی ہے۔ دار الانوار کو ہی دیکھ لو۔ دار االانوار میں ہم نے آج سے دس سال پہلے دس روپیہ مرلہ زمین فروخت کی تھی۔ بعض نے کہا بھی کہ یہ قیمتیں کم ہیں زیادہ قیمت رکھنی چاہئیے۔ مگر ہم نے کہا ہمارا منشاء یہ ہے کہ قادیان بڑھے اور ترقی کرے ہمیں ذاتی نفع کا خیال نہیں۔ پھر ایک یہ وجہ بھی قیمت کو زیادہ نہ کرنے کی تھی کہ ہم نے سمجھا کسی وقت ہماری یہ زمین دو آنے مرلہ کی بھی نہیں تھی۔ اب اگر ہمیں دس روپیہ مرلہ کے ملتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئیے نہ یہ کہ قیمت کو اَور زیادہ بڑھا دینا چاہئیے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں اب وہی زمین لوگ سو سو ،ڈیڑھ ڈیڑھ سو بلکہ دو دو سو روپیہ مرلہ پر بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو اس سے بھی زیادہ روپیہ مانگتے ہیں۔ بعض ایسی زمینیں جو ہم نے چار پانچ روپیہ مرلہ پر فروخت کی تھیں اِس وقت لوگ اُن کا ہزارہزار روپیہ مرلہ مانگ رہے ہیں۔ آخر لوگوں کو سوچنا چاہئیے کہ جماعت کے دوست اتنا روپیہ کہاں سے لائیں۔ باہر بڑے بڑے شہروں میں تو کارخانے ہوتے ہیں، گورنمنٹ کے دفاتر ہوتے ہیں ،بڑی بڑی تجارت کی منڈیاں ہوتی ہیں، اور لوگ حرام کی کمائی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے لاکھ دو لاکھ زمین یا مکان پر خرچ کر دیا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ مگر قادیان کا یہ حال نہیں۔ قادیان میں آنے والے زیادہ تر غرباء ہیں اور وہ ان قیمتوں کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ مجھے اِس حالت کو دیکھ کر بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ اگر شروع سے ہم یہ قاعدہ مقرر کر دیتے کہ کوئی زمین تجارتی اغراض کے لئے فروخت نہ ہو تا ناجائز نفع کا دروازہ نہ کھلے تو ممکن ہے یہ صورتِ حالات پیدا نہ ہوتی۔ ہم نے سمجھا کہ قادیان کی ترقی ہو رہی ہے۔ حالانکہ جو لوگ خریدار تھے اُن میں سے بعض تاجر تھے اور انہوں نے ناجائز طور پر قیمتیں بڑھا دیں۔ اب مَیں دیکھتا ہوں کہ خود ہماری زمینیں اِتنی کم رہ گئی ہیں کہ ہم اِس تجارت پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتے۔ اگر ہماری زمینوں کی نسبت زیادہ ہوتی تو ہو سکتا تھا کہ دبا کر رکھی جا سکتیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک قدرتی ترقی ہے اس پر کسی کا اختیار نہیں۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ کسی زمانے میں ہماری زمین کی دو آنے مرلہ بھی قیمت نہیں تھی اور پھر وہی زمین ہم نے دس روپے مرلہ پر بیچی۔ مگر یہ معقول قیمت تھی۔اور یہ قیمت میں ترقی ساٹھ اسّی سال میں جا کر ہوئی۔ بلکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ۔ اُس وقت بعض لوگ کہتے تھے کہ زمین سستی دی جا رہی ہے۔ مگر اب جس رنگ میں لوگوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں اُن کو عام ذرائع سے ہم قابو میں نہیں لا سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صرف شہر کا بسنا کوئی چیز نہیں بلکہ شہر ایسے طور پر بسنا چاہئیے جس سے لوگوں کی صحتیں قائم رہیں اور وہ بیماریوں کا شکار نہ ہوں۔ اِسی طرح سڑکوں اور گلیوں کے لئے کافی جگہ ہونی چاہئیے تا کہ جو مکانات بنیں وہ صحت افزا ہوں اور لوگوں کو بیماریوں میں مبتلا کرنے والے نہ ہوں۔ مَیں نے آج سے کئی سال پہلے اِس بارہ میں اعلان بھی کیا تھا مگر میرے اُس اعلان کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ مَیں نے آج سے نو سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ:۔
’’آئندہ محلوں کی اندرونی گلیاں بیس فٹ سے کم نہ ہوں۔ محلہ کے ارد گرد سے گزرنے والی سڑک ساٹھ فٹ اور درمیان سے گزر نے والی پچاس فٹ سے کم نہ ہو۔ جب مکان بنانے کے لئے کوئی زمین خریدی جائے تو امور عامہ خیال رکھے کہ سڑکوں اور گلیوں کے لئے مقررہ فراخی کے مطابق زمین چھوڑی جائے۔‘‘2
مَیں سمجھتا ہوں اگر اس اعلان کے مطابق پچاس فٹ کی اندرونی اور ساٹھ فٹ کی بیرونی سڑک رکھی جائے اور بیس پچیس یا تیس فٹ کی گلی رکھی جائے تب لوگوں کی صحتیں درست رہ سکتی ہیں۔ ورنہ نہیں۔ کیونکہ جتنا بڑا شہر بنتا جائے اُتنے ہی سانس بڑھتے چلے جاتے ہیں اور بیماریوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جب موٹر گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں دس فٹ کی گلی چھوڑنے کا حکم تھا3۔ اِس سے قیاس کر لو کہ جہاں گھوڑوں اور گدھوں وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دس فٹ گلی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا وہاں آجکل کے زمانہ میں جبکہ موٹریں کثرت سے چلتی ہیں یقینا تیس فٹ کی گلی ہونی چاہئیے اور سڑک تو پچاس ساٹھ بلکہ ستّر فٹ کی ہونی چاہئیے۔ کیونکہ یہ زمانہ گھوڑوں اور گدھوں کا نہیں بلکہ موٹروں اور ٹانگوں اور گڈّوں کا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دفعہ سامان سے لدا ہوا گڈّا اگر سڑک پر سے گزرنے لگے تو بارہ تیرہ فٹ جگہ گھیر لیتا ہے۔ اگر دو گڈّے آمنے سامنے آ جائیں تو اُن کے گزارنے کے لئے چوبیس پچیس فٹ جگہ چاہئیے اور اگر ایک دو فٹ راستہ ان دونوں کے درمیان چھوڑ دیا جائے تو تیس فٹ جگہ ہونی چاہئیے۔ پھر ان کے ارد گرد پیدل چلنے والوں کے لئے بھی پچیس تیس فٹ جگہ چاہئیے۔ مگر افسوس ہے کہ زمینیں بیچنے والوں نے اِس طرف توجہ ہی نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے ایسے ایسے ٹکڑے خرید لئے ہیں جن میں گلیوں اورسڑکوں کے لئے راستے ہی نہیں۔ اِس سے لوگوں کی صحتیں بھی خراب ہونگی، شہر کی خوبصورتی کو بھی نقصان پہنچے گا اور آنے والے لوگوں پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ امریکہ سے ڈاکٹر زویمر 4 آئے اور وہ قادیان کو دیکھنے کے لئے بھی آ گئے۔ ڈاکٹر زویمر پادریوں میں سے اسلامی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والوں کے سردار اور لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُن کو قادیان دکھاتے پھرے۔ میری طبیعت اُن دنوں خراب تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ ڈاکٹر زویمر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بعد میں اُنہوں نے مجھ سے مل بھی لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے سنایا کہ جب مَیں اُنہیں قادیان دکھا رہا تھا تو یہاں کا کیچڑ اور گند دیکھ کر وہ مسکرائے اور پھر ہنس کر کہنے لگے۔ آج ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ نئے مسیح کا شہر کیسا صاف ہے۔ آخر وہ اسلام کا دشمن تھا اور اس نے اعتراض ہی کرنا تھا۔ چنانچہ اُس نے اعتراض کر دیا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کی طبیعت تیز بھی تھی اور حاضر جواب بھی۔ وہ اُن کی بات سن کر کہنے لگے۔ ابھی تک پہلے مسیح کی حکومت ہے اِس لئے یہ پہلے مسیح کی حکومت کا نمونہ ہے۔ جب ہمارے پاس حکومت آئی تب ہم بتا دیں گے کہ صفائی کس طرح رکھی جاتی ہے۔ا نہوں نے جواب تو دے دیا مگر اس چوٹ میں ہمارے لئے ایک سبق تھا۔
یہ امر یاد رکھو کہ زندہ قوم وہ ہوتی ہے جس میں فردی فائدہ کے احساس سے قومی فائدہ کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ جب افراد میں انفرادیت کی روح ترقی کر جائے تو جماعتی لحاظ سے وہ نہیںبڑھتی۔ یہودیوں کی طرح اس میں بڑے بڑے تاجر ہونگے مگر وہ بڑے کام نہیں کر سکیں گے۔ لیکن جب انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی روح افراد میں پیدا ہو جائے اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ جماعت کی نیک نامی یا ملک کا فائدہ یا قوم کی ترقی مقدم ہے اور ہمارا فائدہ پیچھے ہے تب وہ قومی طور پر ترقی کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے افراد کو بھی اپنے اندر انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی روح پیدا کرنی چاہئیے اور انہیں سمجھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کتنی برکت دی ہے کہ ان کے لئے مال کمانے کے جائز ذرائع اُس نے پیدا کر دیئے ہیں۔ مگر بجائے اِس کے کہ وہ اس فضل کا احساس کریں اگر وہ لُوٹ مار شروع کر دیں تو یہ کتنی خطرناک بات ہو گی۔ بہرحال چونکہ قادیان میں اراضیات کی خرید و فروخت کا کام کرنے والوں کی وجہ سے دقتیں دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہیں اس لئے مَیں ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں اور امور عامہ کو اِس بات کا ذمہ وار قرار دیتا ہوں کہ وہ اِس اعلان کی تعمیل کرائے اور جو شخص تعمیل نہ کرے اُس کا جماعتی طور پر مقاطعہ کیا جائے اور اعلان کر دیا جائے کہ اُس سے نہ کوئی زمین خریدی جائے اور نہ کسی اَور قسم کا لین دین اُس سے رکھا جائے۔ وہ اعلان یہ ہے کہ میری اوپر کی تصریحات کے بعد جس پر اب نو سال گزر رہے ہیں اگر کوئی زمین بھی ایسی فروخت ہوئی ہے جس میں سڑکوں اور گلیوں کے متعلق میری بیان کردہ ہدایات کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو وہ سودے سب کے سب منسوخ کر دیئے جائیں۔ اور خریدار کو اختیار دیا جائے کہ یا تو وہ اپنی زمین میں سے سڑکوں اور گلیوں کے لئے اُتنی جگہ نکالے جتنی جگہ کا مَیں نے اعلان کیا تھا ورنہ سلسلہ کی طرف سے مالک کو مجبور کیا جائے کہ وہ یا راستہ مقررہ قاعدہ کے مطابق چھوڑے یا خریدار کو روپیہ واپس دے دے اور زمین لے لے۔ میں چونکہ مالک کا بھی نقصان نہیں چاہتا اِس لئے اُس کے حالات کا بھی مَیں نے لحاظ کر لیا ہے۔ مثلاً ممکن ہے اُس نے زمین اِس اثر کے نیچے بیچی ہو کہ سڑکوں وغیرہ کو نکال کر جو زمین بچتی ہے مَیں صرف اُس کی قیمت وصول کر رہا ہوںنہ کہ ساری زمین کی۔ مثلاً وہ ہزار روپیہ پر ایک ٹکڑا بیچتا ہے ا ور سمجھتا ہے کہ درحقیقت اس کی پندرہ سو روپیہ قیمت ہونی چاہئیے، مگر ہزار روپیہ پر مَیں اِس لئے فروخت کرتا ہوں کہ اسے گلیوں اور سڑک وغیرہ کے لئے بھی رستہ دینا پڑے گا۔ اگر کسی شخص نے اِس رنگ میں کم قیمت وصول کی ہو تو اوپر کے قاعدہ سے اُس کے حق کی بھی حفاظت ہوجائے گی۔ جس طرح ہم یہ پسند نہیںکرتے کہ خریدار کو کوئی نقصان پہنچے اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ مالک کو کوئی نقصان پہنچے۔
پس مَیں اِس خطبہ کے ذریعہ تمام دوستوں میں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے گزشتہ نو سال کے عرصہ میں کوئی زمین فروخت کی ہے وہ فوراً امور عامہ میں اپنے اپنے نام نوٹ کرا دیں اور فروخت کردہ زمین کی تفصیل لکھ کر دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اُن کے متعلق سمجھا جائیگا کہ وہ جماعت کے باغی ہیں اور اُن سے تعلقات منقطع کر لئے جائیں گے۔ اِس فہرست کے بن جانے پر ہر خریدار کو اختیار دیا جائیگاکہ یا تو وہ سودا تسلیم کر لے اور گلیوں اور سڑکوں کیلئے خود ہی زمین دے دے۔ اور اگروہ اِس پر راضی نہ ہو تو فروخت کنندہ کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ راستے حسبِ قواعد بنا کر دے یا پھرسودے کو منسوخ کر کے خریدار کو اُس کا روپیہ واپس کرے۔ میرا اعلان یہ تھا کہ محلہ کی اندرونی گلیاں بیس فٹ سے کم نہیں ہو نی چاہییں۔ محلہ کے ارد گرد سے گزرنے والی سڑک ساٹھ فٹ کی ہونی چاہئیے اور درمیان سے گزرنے والی سڑک پچاس فٹ سے کم نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ اعلان ہے جس کے مطابق گلیوں اور سڑکوں کے لئے بہرحال زمین لی جائے گی۔ اگر خریدار خود بخود دیدے تو بات ختم ہو جائے گی ا ور اگر خریدار یہ سمجھے کہ اِس صورت میں سَودا مہنگا ہے اور جس قدر زمین باقی رہتی ہے اُسکی مجھ سے زیادہ قیمت وصول کی گئی ہے تو ہم مالک کو مجبور کریں گے کہ وہ راستے چھوڑے یا روپیہ واپس کر دے اور زمین حسبِ سابق اپنے قبضہ میں لے لے اور رستے چھوڑ کر دوبارہ جس کے پاس چاہے فروخت کر دے۔ بہرحال دونوں فریق کو کامل اختیار حاصل ہو گا۔ اگر خریدار یہ سمجھے گا کہ رستے نکال کر بھی جو زمین بچتی ہے وہ میری ادا کردہ قیمت پر مہنگی نہیں تو وہ خود بخود رستے دیدیگا۔ اور اگر وہ اس سودے کو مہنگا سمجھے گا تو مالک اُسے قیمت واپس کر دے گا۔ اور پھر مالک کو اختیار ہو گا کہ وہ حسبِ قانون رستے چھوڑ کر کسی اَور کے پاس زمین فروخت کر دے۔ یہ تو گزشتہ فروخت شدہ زمینوں کے متعلق میرا اعلان ہے۔
آئندہ کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو شہری کمیٹیوں کے سپرد ہوتے ہیں اور یہ کام بھی درحقیقت میونسپل کمیٹی کا ہی ہے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں کا خیال رکھے۔ اورآبادی کو ایسے رنگ میں بڑھنے نہ دے جو حفظانِ صحت کے اصول کے خلاف ہو اور شہر کی بدصورتی کا موجب ہو۔ اگر میونسپل کمیٹی اِس کام کو نہ کر سکے تو یہ کام امور عامہ کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہاں کی میونسپل کمیٹی کے وہ ممبر جو ہماری جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مَیں اُنہیں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً ایک افسر مقرر کریں جس کا یہ کام ہو کہ وہ قادیان کی موجودہ آبادی سے آدھ آدھ میل کے فاصلہ تک چاروں طرف جس قدر زمین ہے اُس کا ایک نقشہ تیار کرے۔ جس میں یہ تمام باتیں دکھائی جائیں کہ فلاں فلاں جگہ سڑکیں ہونگی، فلاں فلاں جگہ گلیاں ہوں گی، اور فلاں فلاں قطعات زمین ہیںجن میں رہائشی مکانات بنائے جا سکتے ہیں۔ اور فلاں فلاں جگہ منڈی اور بازار بنیں گے تا کہ اس کے بعد جو مکان بھی تعمیر ہو اُس نقشہ کے مطابق ہو اور لوگوں کو معلوم ہو کہ سڑکوں اور گلیوں کے لئے اتنی زمین بھی بہرحال چھوڑنی پڑے گی۔ بعد میں چونکہ جھگڑے پیش آتے ہیں اور لوگوں پر اپنی زمین کا کچھ حصہ چھوڑنا گراں گزرتا ہے اِس لئے پہلے سے ایسے نقشے تیار رکھنے چاہئیں تا کہ بعد میں جھگڑے نہ ہوں۔ اور شہر کی داغ بیل ایسے رنگ میں پڑے جو خوبصورتی کا موجب ہو اور لوگوں کی صحتوں کو درست رکھنے والا ہو۔ میونسپل کمیٹی اگر اِس کام کو آسانی سے نہ کر سکے یا امور عامہ کا تعاون حاصل کرنا چاہے تو امور عامہ کو اِس بارہ میں میونسپل کمیٹی کی مدد کرنی چاہئیے۔ اور میونسپل کمیٹی کو ایسے رنگ میں کام کرنا چاہئیے کہ جماعت کا تعاون کمیٹی کو حاصل رہے اورکمیٹی کا تعاون جماعت کو حاصل رہے۔ ہاں اگر کمیٹی اِس تجویز کے مطابق روپیہ خرچ نہیں کر سکتی تو پھر امور عامہ اپنے طور پر ایسے نقشے جلد سے جلد تیار کرائے۔ اور پھر اعلان کر دیا جائے کہ کوئی خرید و فروخت ان نقشوں کے خلاف نہ ہو۔ پس میں افسرانِ متعلقہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ قادیان کی موجودہ آبادی سے آدھ آدھ میل کے فاصلہ تک کے نقشے فوری طور پر تیار کئے جائیں۔ اور جماعت میں اعلان کر دیا جائے کہ ان نقشوں میں جہاں سڑکیں دکھائی گئی ہیں وہاں سڑکیں ہی بنیں گی اور جہاں گلیاں دکھائی گئی ہیں وہاں گلیاں ہی بنیں گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ فروخت کرنے والا اپنی مرضی سے سڑک یا گلی کی زمین بھی خریدار کو دے دے اور اس طرح قادیان کی آبادی بدصورتی کا موجب بن جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس طریق سے جو ٹکڑے قابلِ فروخت قرار پائیں گے اُن میں اگرمکانات بنائے گئے تو وہ صحت افزاء بھی ہوں گے اور شہر کی خوبصورتی کا بھی موجب ہوں گے۔
یہ سوال کہ زمین کی قیمتیں کس طرح کم کی جائیں؟ اس کے متعلق مَیں نے بہت غور کیا ہے اور بعض تجویزیں مَیں نے سوچی بھی ہیں۔ مگر سرِ دست میں اُنہیں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ اِس وقت مَیں صرف اِس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میرا منشاء ہے آئندہ انفرادی خرید و فروخت کو کُلّیۃً روک دیا جائے اور ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے واسطہ سے زمین بیچنے والے اپنی زمین بیچیں اور خریدنے والے خریدیں۔ سڑکوں کا انتظام چونکہ میونسپل کمیٹی کے سپرد ہوتا ہے اِس لئے سڑکوں کی درستی کے لئے ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئندہ ایک ٹیکس مقرر کر دیا جائے جو ہر زمین فروخت کرنے والے سے وصول کیا جائے ۔ مثلاً ہر زمین فروخت کرنے والا دس فیصدی قادیان کی ترقی اور صحت وغیرہ کی نگہداشت کے لئے دے۔ اِس طرح سڑکوں کی درستی کا کام اس روپیہ سے لیا جاسکتا ہے۔ اگر اِس طرح کام کیا جائے تو مالک اور خریدار دونوں کو کسی قسم کا نقصان نہیںہو سکتا۔ دراصل سڑکیں اور گلیاں وغیرہ چھوڑناشہر کی صفائی اور درستی اور خوشنمائی کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہر زمین فروخت کرنے والے سے دس فیصدی رقم لی جائے تو آہستہ آہستہ ایک ایسا مضبوط فنڈ قائم ہو سکتا ہے جس سے شہر کی درستی کے بہت کچھ کام لئے جا سکتے ہیں۔ غرض زمینوں کی خرید و فروخت کے لئے ایک کمیٹی کا بننا نہایت ضروری ہے۔ اب تو رقابت کے طور پر ہی ایک دوسرے کے مقابلہ میںقیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور غرباء کے لئے سخت مشکل پیش آ رہی ہے۔ کمیٹی بن گئی تو جو شخص زمین خریدنا چاہے گا اُس کی معرفت خریدے گاا ور جوشخص زمین بیچنا چاہے گا اُس کی معرفت بیچے گا۔ انفرادی خرید و فروخت کا سلسلہ قطعی طور پر بند کر دیا جائے گا۔ اِس طرح قیمتوں کے سلسلے میں ایک معقول حد مقرر کر دی جائے گی اور کہہ دیا جائے گا کہ اِس سے زیادہ قیمت وصول نہیں کرنی۔
اِس ضمن میں ایک اَور تجویز بھی میرے ذہن میں ہے مگر اُس پر ابھی میں نے پورے طور پر غور نہیں کیا۔ اور وہ تجویز ہے کہ جو شخص کوئی زمین خریدے اُس پر شرط عائد کر دی جائے کہ وہ بارہ مہینے کے اندر اندر اگر اُس زمین کو فروخت کرے تو دس فیصدی سے زیادہ نفع نہیں لے سکتا۔ دو سال کے بعد فروخت کرے تو بیس فیصدی سے زیادہ نفع نہیںلے سکتا۔ اِس طرح نفع کو ایک حد میں لایا جاسکتا ہے۔ مگر ابھی مَیں اِس کا اعلان نہیں کرتا۔ صرف اِس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میرے ذہن میں ایسی تجاویز ہیں جن سے آئندہ ناجائز نفع اندوزی کے سلسلہ کو کُلّی طور پر روک دیا جائے گا۔ اب تو یہ ہوتا ہے کہ آج ایک شخص پانچ سو روپیہ پر ایک کنال زمین خریدتا ہے تو چوتھے مہینے دو ہزار روپے پر بیچنے لگ جاتا ہے۔ اور بعض نے تو یہ تجارت کا سلسلہ اِس رنگ میںشروع کر رکھا ہے کہ ایک شخص جس نے چار سو روپیہ میں ایک کنال زمین خریدی تھی وہ دوسرے کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ قادیان میں زمینوں کی قیمتیں خوب بڑھ رہی ہیںاِ س لئے زمین ضرور خرید لو۔ جب وہ زمین خریدنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو کہتا ہے چار سوروپیہ میں مَیں نے زمین خریدی تھی تم پانچ سو روپیہ پر لے لو۔ وہ پانچ سو روپیہ میں زمین خرید لیتا ہے اور اسے سو روپیہ نفع ہو جاتا ہے۔ وہ چند دنوں کے بعد پھر اُس کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے آپ نے پانچ سو روپیہ میں زمین خریدی تھی اب میرے فلاں رشتہ دار کو اِس کی ضرورت ہے۔ تم مجھ سے چھ سَو لے لو اور زمین دے دو۔ جب اُسے سو روپیہ نفع نظر آتا ہے تو وہ چھ سو روپیہ میں اُسے دے دیتا ہے۔ اِس پر پھر وہ کسی اَور کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے قادیان میں زمین کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں آپ جلدی کوئی زمین لے لیں۔ میرے فلاں رشتہ دار نے چھ سو روپیہ میںزمین لی تھی آپ 900میں لے لیں۔ وہ900 میں خرید لیتا ہے اور اُسے دو سو روپیہ نفع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اُسی سے وہی زمین مثلاً ہزار میں خرید لیتا ہے اور پھر دوبارہ بارہ تیرہ سو میں فروخت کر دیتاہے۔ اِسی طرح یکدم چار چار، پانچ پانچ سو سے ہزار ہزار ، دو دو ہزار تک زمین کی قیمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ او ریہ سیڑھی بنانے میں یہ حکمت ہوتی ہے کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ اُس نے چار سو کی زمین چودہ پندرہ سو میں فروخت کی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو یہ سب خرید و فروخت بناوٹی ہوتی ہے۔ خریدار بھی وہی ہوتا ہے اور فروخت کنندہ بھی یہی ہوتا ہے۔ اور اُس کی اِس چال کو دیکھ کر لوگ اِس گھبراہٹ میں کہ زمین کی قیمتیں تو بڑھ رہی ہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں ہمیں اس قیمت پر بھی زمین نہ ملے فوراً خریدنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اِس طرح وہ آپ ہی آپ قیمتیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور لوگوں کو مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ چیز ہے جس کا ازالہ ہونا ضروری ہے اور اِس کا ازالہ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم نفع کی حد بندی کر دیں اور کہہ دیں کہ تم بیشک تجارت کرو مگر تجارت کے اصول کو نظر انداز نہ کرو۔ تجارت کا اصول یہ ہے کہ روپیہ پر آنہ دو آنہ نفع لے لیا جائے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ روپیہ کی چیز کے پانچ روپے وصول کئے جائیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو یہ محض لُوٹ ہوگی اور غرباء کو کچل دینے والی بات ہو گی۔
پھر اُن لوگوں کو جو زمینوں کی قیمتیں ناجائز حد تک بڑھا رہے ہیں یہ بھی تو سوچنا چاہئیے کہ آخر لوگ قادیان میں کیوں زمینیں خرید رہے ہیں؟ قادیان میں لوگوں کا زمینیں خریدنا محض اِس لئے ہے کہ وہ قادیان میں ہجرت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر خدا کا حکم نہ ہوتا کہ جماعت کے مخلصین قادیان میں ہجرت کر کے آئیں، اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہ ہوتا کہ قادیان کو بڑھاؤ۔ اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیشگوئیاں قادیان کی وسعت اور اُس کی ترقی کے متعلق نہ ہوتیں تولوگ دیوانہ وار اُن سے بڑی بڑی قیمتوں پر زمینیں کیوں خریدتے۔ وہ زمینیں خریدتے ہیں محض اِس لئے کہ خدا کا حکم پورا ہو اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیشگوئی کے پورا کرنے کے ثواب میں شریک ہوں۔ اِس اخلاص و ایمان کے ساتھ آنے والے لوگوں سے اِس قدر قیمتیں وصول کرنا ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ بعض لوگ خدا تعالیٰ کی آیتوں کو بیچ کر کھاتے ہیں 5 ۔ ایسے تاجر بھی خدا تعالیٰ کی آیات کو بیچ کر کھانے والے ہیں۔ لوگ آتے ہیں خدا کی بات پوری کرنے کے لئے۔ اُن کا اخلاص اور اُن کا ایمان تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو۔ مگر تاجر اُن کے اخلاص سے اِس رنگ میں ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ وہ اُن سے زیادہ سے زیادہ روپیہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریق جو نہایت ہی خطرناک ہے بہرحال جلد سے جلد ختم ہونا چاہئیے۔ مگر اِس کے متعلق ابھی پوری سکیم میرے ذہن میں نہیں۔ بعد میں اِس بارہ میں مفصّل اعلان کر دیاجائے گا۔ سرِ دست مَیں صرف اِس قدر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ زمینوں کے جتنے سودے میرے 1938ء کے اعلان کے بعد ہوئے ہیں اور جن میں میری مقرر کردہ شرائط کو جو مَیں نے گلیوں اور سڑکوں کے متعلق بیان کی تھیں ملحوظ نہیں رکھا گیا وہ تمام کے تمام سودے شرطیہ طور پر منسوخ کر دیئے جائیں۔ اگر گاہک گلیوں اور سڑکوں کے لئے زمین دے دیں اور سمجھیں کہ سڑکوں اور گلیوں کے لئے زمین دینے کے بعد بھی جو حصہ اُن کے پاس رہتا ہے وہ اُن کی ادا کردہ قیمت کے مقابلہ میں مہنگا نہیں تو اُن کا سودا قائم رہے گا۔ اور اگر وہ سمجھیں گے کہ اِس قدر زمین چھوڑنے کے بعد جو زمین ہمارے پاس رہتی ہے وہ کم ہے اور روپیہ ہم سے زیادہ لے لیا گیا ہے تو مالک کو مجبور کیاجائے گاکہ وہ اُنہیں قیمت واپس دے دے اور پھر خود رستے وغیرہ چھوڑ کر کسی دوسرے کے پاس زمین فروخت کر دے۔ ہمیں اِس طریق میں دونوں کا فائدہ مدنظر رہے گا۔ اگرگاہک یہ سمجھے گا کہ جو زمین میرے پاس باقی رہے گی وہ بھی میری ادا کردہ قیمت کے مقابلہ میں سستی ہے اور رستے خود بخود چھوڑ دے گا تو زمین اُس کے پاس رہے گی ورنہ اُسے قیمت واپس دلا دی جائے گی۔ اور مالک کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ رستے چھوڑ دینے کے بعد بھی اُس زمین کو مناسب قیمت پر کسی دوسرے کے پاس فروخت کردے۔ مگر اِس کے لئے یہ ضروری ہے کہ قادیان کی آئندہ وسعت کے متعلق ایک نقشہ جلد سے جلد تیار کیا جائے۔ فِی الْحَال محلہ کی آخری عمارت سے آدھ آدھ میل تک چاروں گوشوں کی زمین لے لی جائے یا اگر مناسب سمجھا جائے تو میونسپل حدود کو لے لیا جائے۔ مگر وہ چھوٹی ہیں۔ ایسی نہیں جس سے قادیان کی آئندہ ترقی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اگر اُن حدود کو لیا گیا تو قادیان کی آبادی کو ہم صحیح طور پر منظم نہیں کر سکتے۔ میرے نزدیک مناسب یہی ہے کہ ہر محلہ کی آخری عمارت سے نصف نصف میل تک کے دائرہ کاایک نقشہ تیار کیا جائے جس میں بتایا جائے کہ فلاں فلاں جگہ سڑکیں ہونگی ،فلاں فلاں جگہ گلیاں ہونگی، اور پھر اعلان کر دیا جائے کہ جو شخص ان حصوں میں کوئی مکان بنائے وہ سڑکیں اور گلیاں چھوڑ کر مکان بنائے۔ سڑکوں وغیرہ کی درستی کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ اگر میونسپل کمیٹی یہ بار برداشت نہ کر سکے تو پھر امور عامہ کے ساتھ وہ سمجھوتہ کرلے۔ اس کے بعد یہ قاعدہ بنا دیا جائے گا کہ ہر زمین فروخت کرنے والا دس فیصدی سڑکوں وغیرہ کی درستی کے لئے دے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ شرح بڑھائی بھی جا سکتی ہے لیکن اسے گھٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ فنڈ جب مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گیاتو اس روپیہ سے سڑکوں کو پختہ بنانے یا گلیوں وغیرہ کو درست کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کام ایسا ہے جو لوگوں کی صحتوں کو درست رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ہم نے دار الانوار بنایا تو لوگوں کو زمینیں بھی سستی مل گئیں۔ اور پھر اس وجہ سے کہ اس محلہ کی سڑکیں بہت چوڑی ہیں مَیں نے دیکھا ہے جتنی سڑک دار الانوار کی چلتی ہے اُتنی سڑک کوئی اَور نہیں چلتی۔ لوگ سیر کے لئے اُدھر ہی جاتے ہیں۔ شروع میں تو دارالرحمت اور دارالفضل وغیرہ کے لوگ بھی اسی طرف سیر کرنے کے لئے آتے تھے۔ کیونکہ چوڑی سڑکیں ہیں اور دیکھنے والے پر اِس کا نہایت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ خالی شہر کا بڑھنا کوئی چیز نہیں۔ شہر کا خوبصورت اور صحت افزا ہونا بھی نہایت ضروی ہوتا ہے۔ اور اس کا انسانی دماغ اور اس کی قوتوں پر خاص اثر پڑتا ہے۔ ورنہ اگر قادیان کی آبادی بڑھ جائے اور بوجہ آبادی کے گنجان ہوجانے اور مکانات کے تنگ و تاریک ہونے کے لوگوں کی صحتیں بگڑ جائیں اور وہ بیمار اور کمزور رہنے لگ جائیں تو ایسی آبادی کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے آجکل بھی بوجہ اس کے کہ قادیان کی آبادی بڑھ گئی ہے کئی قسم کے امراض لوگوں میں پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔ مثلاً ٹائیفائیڈ قادیان میں بڑی کثرت سے ہوتا ہے او ر ہر سال بیسیوں لوگ اِس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک مومن کی جان بھی بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے کُجا یہ کہ ہر سال بیسیوں جانوں کو نقصان پہنچے ا و راس کے تدارک کا کوئی فکر نہ کیا جائے۔ اِسی طرح سِل اور دِق کا مرض بھی قادیان میں پایا جاتا ہے۔ یہ بیماریاں اِسی وجہ سے ہیں کہ مکانات کشادہ نہیں۔ آبادی بڑھ گئی ہے اور جراثیم کمزور لوگوں پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کسی مرض کے نتیجہ میں انسانی جسم میں ضُعف واقع ہو جائے سِل اور دِق کے جراثیم اُس میں اپنا گھر بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ پس یہ سکیم سارے شہر کے فائدے کے لئے ہے۔ قطع نظر اِس سیکہ یہ میرا حکم ہے۔ ہر احمدی اگر اپنی عقل سے کام لے گا اور وہ اِس کے فوائد کو سوچے گا تو اُسے نظر آئے گا کہ یہ سکیم گاہک کے فائدے کے لئے بھی ہے، بیچنے والے کے فائدہ کے لئے بھی ہے او ر باقی لوگوں کے فائدہ کے لئے بھی ہے۔ اور اگر قادیان کے تمام لوگ غور کرنے کے بعد اِس نتیجہ پر پہنچیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اُن کا مشترکہ دباؤ ایسے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔
دنیا میں نفع اِس بات کا نام نہیں ہوتا کہ ایک کنال میں سے سارا نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ درحقیقت دنیا میں دو قسم کے تاجر ہوتے ہیں۔ ایک بیوقوف تاجرہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرے پاس دس من گندم ہے مَیں اِس دس من گندم سے جس قدر نفع حاصل کرنا چاہتا ہوں حاصل کر لوں۔ اور ایک ہوشیار تاجر ہوتا ہے جو نفع کم رکھتا ہے اور اُس کی بِکری بڑھ جاتی ہے۔ اِسی طرح ایک تاجر کی اگر دس کنال زمین فروخت ہوتی ہے تو دوسرے کی سَو کنال زمین فروخت ہوجاتی ہے۔ اور اس طرح اُسے وہی نفع مل جاتا ہے جو دس کنال والا حاصل کرتا ہے مگر انصاف سے اور جائز اور حلال کمائی کی صورت میں۔ پس ایک ایک کنال زمین کی قیمت بے تحاشا بڑھاتے چلے جانا بیوقوفی کی بات ہے۔ اس کے نتیجہ میں غرباء کے لئے مشکل پیش آئے گی اور وہ قادیان کی ترقی میں حصہ لینے سے محروم رہ جائیں گے۔
میرے نزدیک یہ بھی ہو جانا چاہیئے کہ ایک علاقہ ایسا مقرر ہو جائے جس میں غرباء کو چھوٹی چھوٹی عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی جائے۔ جیسا کہ بڑے شہروں میں بالعموم دستور ہوتا ہے اور وہاں قیمتوں کوزیادہ کنٹرول میں رکھا جائے۔ اُس علاقہ میں پانچ پانچ مرلے یا آٹھ آٹھ، دس دس مرلہ میں مکان بنانے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے متعلق سلسلہ کی طرف سے کوئی کمیٹی بنا دی جائے اور امراء سے روپیہ لے کر ایسا ٹکڑہ خرید لیا جائے۔ پھر سَستی قیمت پر لوگوں میں فروخت کیا جائے تا کہ غرباء کو مکانات بنانے میں کوئی دقّت محسوس نہ ہو کیونکہ غرباء ہی ہیں جن کی شہروں میں اکثریت ہوتی ہے۔اب تو یہ حال ہے کہ ایک غریب شخص چار پانچ ہزار روپیہ میں جو اُس کی عمر بھر کا اندوختہ ہوتا ہے ایک کنال زمین خرید لیتا ہے ۔ اور پھر اس میں سے دو دو تین تین مرلے بڑی قیمت پر بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہر کی ظاہری حالت نہایت گندی ہو جاتی ہے۔ پس یہ ایک ایسی تجویز ہے جس میں قادیان کے ہر باشندے کا فائدہ مضمر ہے۔ اور میرے نزدیک قادیان کے تمام باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اِس بارہ میں اشتراکِ عمل کا ثبوت دیں۔ کیونکہ اِس میں نہ صرف ہر شخص کا ذاتی فائدہ مضمر ہے بلکہ اُس کے رشتہ داروں اور دوستوں اور باقی تمام جماعت کا بھی اس سکیم کے ماتحت چلنے میں فائدہ ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو قادیان کی آبادی بڑھنی بند ہو جائے گی اور صرف مالدار ہی زمینیں خرید سکیں گے۔ مگر یہ بھی سوچو کہ ہماری جماعت میں مالدار ہیں کتنے۔ مزدور یا پھر اعلیٰ مخلص ایسی زمینیں خریدیں گے اور وہ کنگال ہو کر بیٹھ جائیں گے اور جماعت کو ان کا بار اٹھانا پڑے گا۔مثلاً فرض کرو ایک شخص کے پاس تین چار ہزار روپیہ کی پونجی ہے۔ وہ تین ہزار میں زمین خرید لیتا ہے۔ اور ایک ہزار میں کچّا سا کوٹھا بنا لیتا ہے تو اس کے بعد وہ کیا کرے گا۔ وہ اپنے مکان میں بیٹھ تو جائے گا مگر اُسے نظر نہیں آئے گا کہ وہ اب کیا کرے۔ اُس نے اپنے اخلاص میں قادیان آنا قبول کر لیا مگر تاجر پیشہ لوگوں نے اُس پر یہ ظلم کیا کہ اُنہوں نے اُس کی اور اُس کے خاندان کے کمانے کی طاقت کو سلب کر لیا۔ اور اُسے ایسا غریب اور کنگال کر دیا کہ وہ آئندہ ترقی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا۔ یہ کتنا بڑا گناہ ہے جس کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں ۔ پس یہ ایک نہایت ہی نازک معاملہ ہے اور امور عامہ کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد اس حکم کی تعمیل کر کے اگلے ہفتہ تک میرے پاس رپورٹ کرے۔ تمام محلہ جات میں بورڈوں پر اس کے متعلق اعلان کر دیا جائے۔ جمعہ میں مَیں نے اعلان کر دیا ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر وہ لوگ جنہوں نے9 سال کے اندر اندر کوئی زمین فروخت کی ہو یا خریدی ہو وہ اپنے نام امور عامہ میں نوٹ کرا دیں او ر بتائیں کہ انہوںنے اپنی زمینوں میں رستوں کو مدنظر رکھا ہے یا نہیں۔ اگر میرے حکم کے مطابق رستے رکھے گئے ہیں تب تو خیر ورنہ قادیان کی موجودہ آبادی سے نصف نصف میل پرے کے تمام سودے منسوخ کر دیئے جائیں۔ گاہک چاہے تو سودا منظور کر لے اور رستہ دے دے اور اگر وہ پسند نہ کرے تو اُسے مالکِ زمین سے قیمت واپس دلائی جائے اور مالک کو اختیار دیا جائے کہ وہ دوبارہ رستے بناکر جس کے پاس چاہے زمین فروخت کر دے۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں جس رنگ میں ہم انتظام قائم کرنا چاہتے ہیں اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے مالکوں کی یہ بیوقوفی ہو گی اگر وہ یہ سمجھیں گے کہ وہ بعد میں اپنی زمینوں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کیونکہ ہم اب ایسے قانون بنانے والے ہیں جن سے نفع ایک حد کے اندر رہے۔ ہم اب بھی قادیان کی زمینوں کے مالک ہیں اور سب سے بڑا حملہ اِس قانون کا خود میری ذات پر پڑنا ہے۔ پس مَیں کسی کی بدخواہی کے لئے ایسا نہیں کہہ رہاکیونکہ اِس کا سب سے زیادہ نقصان خود مجھ کو ہے۔ ہم یہاں کے بڑے زمیندار ہیں۔ اور ہماری ارد گرد بہت سی زمینیں ہیں۔ جو بھی حد بندی ہوئی اُس کا لازماً ہم پر دوسروں سے زیادہ اثر پڑے گا۔ مگر ہمیں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں۔ کیونکہ خدا کے منشاء کا پورا ہونا ہماری جیبوں کے پُر ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ خدا قادیان کو بڑھانا چاہتا ہے اور یقینا جو شخص قادیان کی آبادی کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے کام لے گا اللہ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرے گا۔ میرے ساتھ اُس کا یہی سلوک چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ بغیر کسی انسان کی مدد کے اُس نے ہمیشہ غیب سے ایسے سامان کئے کہ خود بخود میری جائیداد بڑھتی چلی گئی اور اِس بارہ میں نہ مَیں نے سلسلہ سے مدد لی او ر نہ کسی اَور فرد سے۔ ہمیشہ خدا نے میرے لئے غیر ت دکھائی اور وہ اپنے فضل سے میری جائیداد کی ترقی کے سامان کرتا رہا اور لوگ اپنی زمینیں خود بخود میرے پاس بیچتے چلے گئے۔ چنانچہ سندھ میں ایسی مشکلات پیش آئیں کہ وہ لوگ جن کی زمینیں تھیں اُن میں سے بعض نے منتیں کرنی شروع کر دیں کہ یہ زمینیں ہم سے لے لی جائیں۔ اور بعض کا ارادہ زمین خریدنے کے بعد بدل گیا اور اُنہوں نے دوسری جگہ پر جائیداد بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ جب مَیں نے وہ زمینیں لے لیں تو یکدم زمین کی قیمت بڑھ گئی اور غلہ کی قیمت بھی زیادہ ہو گئی۔ اس طرح جس چیز کو مَیں قربانی سمجھ رہا تھا خدا نے بتایا کہ درحقیقت یہ اُس کی ایک تدبیر تھی جس سے مجھے فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے لئے جو شخص قربانی کرتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں جاتا۔ پس میں مالکوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اِس حماقت کے ارتکاب کو ترک کر دیں جس میں وہ مبتلا چلے آ رہے ہیں۔ ان کے ایسے خیالات اللہ تعالیٰ پر ایمان کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ اگر وہ خدا کے لئے اس طریق کو اختیار کریں جو قادیان کی ترقی اور اس کی وسعت میں مُمد ہو اور جس سے قادیان کی خوبصورتی ترقی کرے تو یقینا خدا اُن کی جائیدادوں کو اَور زیادہ وسیع کر دے گا۔ ابھی تو قادیان نے بیاس تک پہنچنا ہے۔ اور قادیان کے اِدھر اُدھر بھی پانچ پانچ چھ چھ میل تک لاکھوں ایکڑ کا سودا ہونے والا ہے۔ وہ کیوں یہ خیال کرتے ہیں کہ مَیں نے جو کچھ نفع کمانا ہے پانچ دس کنال میں سے ہی کما لیں۔ پھر جب قادیان دریائے بیاس تک پھیل کر ایک بہت بڑا شہر بن گیا تو خرید و فروخت کا سلسلہ پھر بھی جاری رہے گا۔ کیونکہ شہروں میں لوگ ہمیشہ مکان بناتے اور فروخت کرتے رہتے ہیں۔
دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس میں یہ تجارت بند ہو گئی ہو۔ یہ تجارت ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ یہاں تک کہ لندن اور نیویارک جیسے شہروں میں بھی ایک شخص دوسرے سے مکان خریدتا اور پھر تیسرے کے پاس فروخت کر دیتا ہے۔ اور اس طرح عظیم الشان شہر بن جانے کے باوجود پھر بھی اربوں ارب روپیہ کی تجارت ہوتی رہتی ہے ۔یہ صرف تنگ خیالی اور کوتاہ نظری ہوتی ہے کہ انسان اپنے قریب کی چیز کو دیکھتا ہے اور دور کا نفع اُسے نظر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ملّا کے ہاتھ میں بیٹرا آ جائے تو پھر وہ اُسے چھوڑتا نہیں اور خیال کرتا ہے کہ پھر نہ معلوم کوئی بٹیر ہاتھ میں آئے یا نہ آئے۔ یہی حال بعض کوتاہ خیال تاجروں کا ہے جو چند کنال زمین کی فروخت سے ہی سارا نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ تجارت ایک ایسی چیز ہے جسے ہمیشہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں زمین بیچو آگے چل کر سستی خرید لو۔ پھر وہ بیچو اور آگے خرید لو۔ مگر کوئی ایسا ذریعہ اختیار نہ کرو جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے میں روک واقع ہو جائے۔ بیشک تمہیں عارضی نفع حاصل ہو جائے گا مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے پورا ہونے میں روک بننے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔ لیکن اگر تم اِس پیشگوئی کے پورا کرنے میں مُمد بنو گے تو تمہاری تجارتوں کی کوئی حد بندی نہیں ہو گی اور تمہارا نفع ہمیشہ ترقی کرتا چلا جائے گا۔‘‘ (الفضل 11 فروری 1947ئ)
1:تذکرۃ صفحہ 782ایڈیشن چہارم
2: فرمودہ 2 جنوری 1938ء مطبوعہ الفضل 4 جنوری 1938ء صفحہ 2۔
3: مسلم کتاب المساقاۃ باب قدر الطریق اِذا اختلفوا فیہ میں ’’اذا اختلفتم
فی الطریق جُعل عرضہ سبع اذرعٍ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
4: ڈاکٹر زویمر: امریکہ کے ایک مشہور مستشرق جو 28 مئی 1924ء کو قادیان آئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 439)
5: (التوبۃ: 9)

6
1 تحریک جدید کے وعدوں میں نمایاں اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا باعث ہے
2 دعوت الیٰ اللہ کرنے اور اسلامی شعار اختیار کرنے کی تلقین
(فرمودہ 14 فروری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’پہلے تو مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار کے لئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے جمعہ میں مَیں نے اعلان کیا تھا کہ تحریک جدید دَور اول کے وعدوں کی مقررہ تاریخ میں بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں اور گزشتہ سال کی نسبت ابھی چالیس ہزار کی کمی ہے۔ اور مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ کئی دفعہ جماعت پر ایسا وقت آیا ہے کہ بظاہر ہماری تدبیریں اور کوششیں بیکار نظر آتی ہیںا ور ہماری مشکلات بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن معاً اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ہماری ناامیدی امید میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مایوسی خوشی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بقیہ تین چار دنوں میں حیرت انگیز تغیر ہوا۔ اِس سے قبل ہزار ڈیڑھ ہزار روزانہ کی رفتار سے وعدے آ رہے تھے اور کُل وعدے دو لاکھ اٹھائیس ہزار تک کے آ چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اور کوئی آٹھ دس ہزار کے وعدے آ جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یکدم تغیرہوا اور آخری دو دنوں میں سے ایک دن تو کوئی اٹھارہ ہزار کے وعدے ایک ہی دن میں آ گئے اور وہ کمی پوری ہو گئی۔ اب اِس وقت تک دو لاکھ ساٹھ ہزار کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی بہت سے فوجیوں اور دوسرے علاقوں کے وعدے باقی ہیں۔ اِسی طرح دفتر دوم کے سال سوم میں بھی پہلے کی نسبت ترقی ہے۔ نوے ہزار کے وعدے اِس وقت تک آ چکے ہیں۔ اور ابھی بہت سا حصہ باقی ہے اور بیرون ہند کے وعدے بھی باقی ہیں۔ اب ہمیں امید ہے کہ دونوں دفتروں کے وعدے اپنے اپنے وقت پر پچھلے سال کی نسبت بڑھ جائیں گے۔ جب مَیں نے اعلان کیا تھا اُس وقت گزشتہ سال کی نسبت اُس تاریخ تک صرف دو سو روپے کا فرق تھا لیکن اب وہ فرق قریباً بیس ہزار روپے کا ہو گیا ہے۔
دوسری بات جس پر مَیں اظہارِ خوشنودی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس سال جماعت میں کسی قدر تبلیغ کے متعلق بھی بیداری پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے تبلیغ کے لئے جو جدوجہد کی ہے اُس کے خوشکن نتائج نکل رہے ہیں۔ اِس وقت تک یعنی 14 فروری تک جو بیعتیں ہوئی ہیں وہ پچھلے سال کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ اور اتنی بیعتیں پچھلے سال کسی مہینے میں نہیں ہوئی تھیں۔ اگر جماعت متواتر اپنے فرض کو سمجھے اور جماعت کے لئے اِس فرض کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو غیر معمولی ترقی حاصل ہونی شروع ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبق دینے کے لئے کچھ کام ہمارے ساتھ لگا دیئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام ایسے ہیں جو ہم روزانہ کرتے ہیں۔ کچھ کام ایسے ہیں جو ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ کچھ کام ایسے ہیں جو سارا دن نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کاموں کو ہمارے ساتھ لگا کر ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اہم اور ضروری کاموں کو ہمیشہ جاری رکھنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ جب تم اپنے طبعی تقاضوں کو بغیر بوجھ کے روزانہ اور بِلاناغہ ادا کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ اس سے اہم فرائض جو کہ تمہاری روحانی زندگی کا موجب ہیں تم اُن کے سرانجام دینے میں سُستی اور غفلت سے کام لیتے ہو۔ ہم میں سے ہر شخص روزانہ سو تا ہے۔ لیکن باوجود اِس کے کہ اُسے روزانہ سونا پڑتا ہے وہ گھبراتا نہیں کہ کیا مصیبت مجھ پر آگئی۔ اِسی طرح ہم میں سے ہر شخص اپنے ملکی رواج کے مطابق ہر روز کھانا کھاتا ہے ۔مثلاً پوربی 1 لوگ عام طور پر دن میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور پنجاب کے لوگ دن میں دو دفعہ کھاتے ہیں اور شہروں والے شہروں کے دستور کے مطابق تین چار دفعہ کھاتے ہیں اور یورپ کے لوگ اپنے رواج کے مطابق دن میں پانچ دفعہ کھاتے ہیں۔ لیکن کسی شخص کو ذرا بھی گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ہمیں دن میں چار پانچ دفعہ کھانا پڑتا ہے اور ہمیں کم کھانا چاہیئے۔ بلکہ جن کو کھانے کے لئے تھوڑا ملتا ہے وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں زیادہ کیوں نہیں ملتا۔ جب انسان کئی کام روزانہ کرتا چلا جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے اہم کام کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ہم سے یہ روزانہ نہیں ہو سکتا۔ وہ نمازوں کے متعلق کس طرح کہہ سکتا ہے کہ مَیں روزانہ نماز نہیں پڑھ سکتا۔ جب وہ یہ کہتا ہے تو وہ اپنے قول کی آپ تردید کررہا ہوتا ہے۔ وہ روزانہ سوتا ہے، وہ روزانہ کھاتا ہے۔ جب وہ یہ کام روزانہ کر سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ روزانہ نماز نہیں ادا کر سکتا۔ پھر بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ وہ کام ہر وقت ہی ہم کرتے رہتے ہیں۔ جیسے دیکھنا، سننا، بولنا وغیرہ۔ انسان ہر وقت سنتا ہے، ہر وقت دیکھتا ہے، اور دو دو منٹ، چار چار منٹ، اور دس دس منٹ کے بعد باتیں کرتا ہے۔ لیکن کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ یہ کیا عذاب آ گیا ہے کہ ہم ہر وقت ہی سن رہے ہیں۔ کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ بڑی آفت آ گئی کہ ہم ہر وقت ہی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی یہ شکایت نہیں کرتا کہ بڑی آفت آ گئی ہے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہمیں بولنا پڑتا ہے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان چیزوں کو عیب نہیں سمجھتا بلکہ خوبی سمجھتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ہر وقت نہ دیکھ سکے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اندھا ہو گیا ہے۔ اور اگر کوئی شخص سننے سے معذور ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص بہرہ ہو گیا ہے۔ اور اگر کوئی شخص بول نہ سکے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص گونگا ہو گیا۔ اور اگر کسی میں لمس کی طاقت نہ رہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص مفلوج ہو گیا۔ اور تمام لوگ ان حالتوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور کوئی شخص بھی ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ جس طرح لوگ ہر وقت کے دیکھنے، سننے اور بولنے کو اچھا سمجھتے ہیں اِسی طرح اگر ہماری جماعت میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ تبلیغ اچھی چیز ہے تو اِس کے دلوں سے یہ خیال نکل جائے کہ ہر وقت تبلیغ ہونہیںسکتی۔ اور جس طرح وہ ہر وقت سننے، دیکھنے اور بولنے کو ضروری سمجھتی ہے اِسی طرح وہ تبلیغ کو بھی ضروری سمجھنے لگ جائے۔ اور وہ کبھی بھی یہ خیال دل میں نہ لائے کہ ہر وقت تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی کے کان بہر ے ہو جائیں تو وہ فوراً ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے اور اُن سے علاج کراتا ہے۔ اگر کسی کی قوتِ بینائی میںکمی آ جائے تو اُسے فکر لاحق ہو جاتا ہے اور وہ فوراً حکیموں کے پاس جاتا ہے اور ان سے علاج کراتا ہے۔ اگر کوئی بول نہ سکے تو اسے فکر لاحق ہو جاتا ہے اور وہ فوراً اطبّاء کے پاس جاتا ہے اوراُن سے علاج کراتا ہے۔ اِسی طرح اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ تبلیغ سے میری روحانی زندگی میں ترو تازگی قائم رہے گی اوراگر مَیں تبلیغ نہ کروں گا تو بیمار ہوجاؤں گا تو پھر وہ تبلیغ کرنے میں کبھی بھی سُستی نہ کریگا۔ جب کئی ایسے کام ہیں جو لوگ ہر وقت کرتے ہیں۔ ہر وقت کرتے ہی نہیںبلکہ اگر اُن میں سے کوئی فعل بند ہو جائے تو شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کاموں میں سے بعض ایسے ہیں جن کی ہمیں ہر وقت ضرورت ہے۔ جیسے سننا یا دیکھنا۔ اور بعض ایسے ہیں جن کی ہمیں دن میں چار پانچ دفعہ ضرورت ہے جیسے کھانا۔ اور بعض ایسے ہیں جو کہ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک دفعہ ہم کرتے ہیں ۔ جیسے سونا۔ ہم ہر روز سوتے ہیں لیکن کبھی اسے ناپسند نہیں کرتے کہ ہم ہر روز کیوں سوتے ہیں۔ بلکہ اگر کسی کو ایک دن نیند نہ آئے تواُسکی آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں اور اُسکی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ اگر جسم کو روزانہ اِن چیزوں کی ضرورت ہے تو روح کو روزانہ تبلیغ کی کیوں ضرورت نہیں۔ اگر جماعت میں تبلیغ کا احساس پیدا ہو جائے تو جس طرح کسی کے کان بہرے ہو جائیں تو وہ گھبرا جاتا ہے۔ یا کسی کی آنکھوں میں بینائی کم ہو جائے تو وہ گھبرا جاتا ہے اِسی طرح ہماری جماعت کے لوگ تبلیغ کے مواقع پیدا نہ ہونے کی صورت میں گھبرا جائیں کہ ہماری روح گونگی ہوتی جا رہی ہے، ہماری روح اندھی ہوتی جا رہی ہے ہمیں اِس کا علاج کرنا چاہیئے۔
پس اپنے اندر تبلیغ کا احساس پیدا کرو اور پھر استقلال اور ہمت کے ساتھ تبلیغ کرتے جاؤ۔ اور دیکھو کہ تمہاری تبلیغ کے کیسے شاندار نتائج نکلتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تمہاری حقیر کوششوں میں کیسی برکت دیتا ہے۔ کسی کام کو متواتر کرتے جانا ہی اُسکی کامیابی کا راز ہوتا ہے۔ اچھا بڑھئی وہی ہوتا ہے جس نے دس پندرہ سال کام کیا ہوا ہوتا ہے۔ وہ رندے اور ہتھوڑے کو خوب چلاتا ہے۔ اور ایک ناواقف آدمی بہت سوچ سوچ کر کام کرتا ہے کہ کہیں مَیں اپنا ہاتھ یا پاؤں ہی زخمی نہ کر لوں۔ جب کسی شخص کو کسی کام میں دسترس حاصل ہو جاتی ہے تو وہ سُرعت کے ساتھ کام کرتا ہے اور اُس کا کام بھی عمدہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح جو لوگ متواتر اور باقاعدہ طور پر تبلیغ کرتے ہیں اُن کے اندر تبلیغ کرنے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کئی مبلغوں سے بڑھ جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سینکڑوں لوگوں کو ہدایت دے دیتاہے۔ ہماری جماعت کے ایک دوست تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے۔ وہ اب فوت ہو چکے ہیں اور اُن کا ذکر اخباراتِ سلسلہ میںکم آیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرانے مخلص صحابیوں میں سے تھے۔ اُن میں تبلیغ کا بے انتہاء جوش تھا۔ ان کا نام مولوی عبد اللہ تھا اور وہ کھیوہ باجوہ کے رہنے والے تھے۔ عام لوگ ایک بیعت کا وعدہ کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ لیکن مولوی صاحب کو تبلیغ کا اِس قدر شوق تھا کہ چالیس پچاس ساٹھ آدمی سالانہ احمدی بنانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر اپنے وعدے سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔ اُن کو تبلیغ کرنے کی ایک دُھن تھی اور ان کے ذریعہ کئی اضلاع میںجماعتیں قائم ہوئیں۔ اب بھی کئی دوست ایسے ہیں جو کہ تبلیغ کرنے کا بہت شوق دیکھتے ہیں اور جتنی تبلیغ وہ کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت میں یہ جنون کام کرتا ہوا نظر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی چیز کو اگر یقینی اور قطعی حساب کے ذریعہ معلوم کیا جائے تو وہ کہیں کی کہیں جا نکلتی ہے اور اسے ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے جس شخص نے شطرنج ایجاد کی جب وہ اُسے مکمل کر چکا تو وہ اُسے لے کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا بادشاہ سلامت! میں نے ایک ایسی کھیل ایجاد کی ہے جو کہ خالی کھیل ہی نہیں بلکہ اِس کے ذریعہ جنگ کے فنون اور سیاست کے علوم سیکھے جا سکتے ہیں۔ بادشاہ کو وہ کھیل پسند آ گئی۔ بادشاہ نے کہا اچھا مانگو تمہیں اِس کے بدلے میں کیا انعام دیا جائے؟ جوتم مانگو گے مَیں دونگا۔ کھیل کے موجد نے کہا مجھے اَور کچھ نہیں چاہیئے۔ صرف میری شطرنج کے خانوں کو کوڑیوں سے بھر دیا جائے۔ اور ایسے طور پر بھرا جائے کہ پہلے خانہ سے اگلے خانے میں دُگنی کوڑیاں ہوں۔ مثلاً پہلے میں ایک دوسرے میں دو تیسرے میں چار چوتھے میں آٹھ۔ بادشاہ نے کہا تم یہ کیا مانگ رہے ہو ہم سے کوئی بڑا انعام مانگو۔ اُس نے کہا مجھے یہی انعام چاہیئے۔ آپ مجھے یہی دے دیں۔ آخر بادشاہ چِڑ گیا اور اُس نے غصے کے ساتھ خزانچی کو کہا کہ اچھا اِس کی شرط کے مطابق شطرنج کے خانوں کو کوڑیوں سے بھر دو۔ تھوڑی دیر کے بعد خزانچی بادشاہ کی خدمت میںحاضر ہوا اور عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! ابھی تو آدھے خانے بھی نہیں بھرے کہ خزانے میں سے تمام روپے اور تمام ہیرے اور تمام جواہر اور تمام موتی ختم ہو چکے ہیں۔ پھر وہ موجد خود بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے کہا مَیں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ بعض دفعہ بظاہر ایک چیز بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن حساب لگانے سے وہ غیر معمولی ثابت ہوتی ہے۔ آپ مجھے کہتے تھے کہ تم پاگل ہو گئے ہو کہ ہم سے کوڑیاں مانگتے ہو۔ لیکن اب دیکھئے کہ آپ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور ابھی آدھے خانے بھرے گئے ہیں۔ مَیں بے وقوف نہیں تھا بلکہ آپ کو ایک سبق دینا چاہتا تھا۔ اب آپ کی مرضی ہے آپ جو انعام پسند کریں مجھے دے دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ایسے حساب بہت معمولی نظر آتے ہیں لیکن حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں۔ مَیں نے ان کوڑیوں کا حساب لگایا تھا۔ شطرنج کے چونسٹھ خانے ہوتے ہیں۔ ان چونسٹھ خانوں میں مجھے یاد پڑتا ہے دو کھرب روپے کے قریب کوڑیوں کے حساب سے آتے تھے اور ابھی مَیں نے کسور چھوڑ دی تھیں۔
اِسی طرح تم یہ حساب لگاؤ کہ اگر ہر شخص سال میں ایک احمدی بنائے تو شطرنج کے خانوں کی طرح بیس سال سے کم عرصہ میں تمام دنیا احمدی ہو سکتی ہے۔ اور ایک احمدی بنانا کوئی مشکل بات نہیں صرف تو جہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ اِس وقت ایک لاکھ احمدی بالغ ہیں۔ یہ ایک لاکھ آگے ایک لاکھ احمدی بنائیں تو دوسرے سال دو لاکھ ہو جائیں گے۔ تیسرے سال چار لاکھ ہو جائیں گے ۔ چوتھے سال آٹھ لاکھ ہو جائیں گے۔ پانچویں سال سولہ لاکھ ہو جائیں گے۔ چھٹے سال بتیس لاکھ ہو جائیں گے۔ ساتویں سال چونسٹھ لاکھ ہو جائیں گے۔ آٹھویں سال ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ہو جائیں گے۔ نویں سال دو کروڑ چھپن لاکھ ہو جائیں گے۔ دسویں سال پانچ کروڑ بارہ لاکھ ہو جائیں گے۔ لاکھ کی کسر کو چھوڑ دو اور پورا پانچ کروڑ ہی سمجھ لو۔ گیارھویں سال دس کروڑ ہو جائیں گے۔ بارھویں سال بیس کروڑ ہو جائیں گے۔ تیرھویں سال چالیس کروڑ ہوجائیں گے۔ چودھویں سال اسّی کروڑ ہو جائیں گے۔ پندرھویں سال ایک ارب اور ساٹھ کروڑ ہو جائیں گے اورسولہویں سال تین ارب اور بیس کروڑ ہو جائیں گے۔ اور تمام دنیا کی آبادی دو ارب ہے۔ گویا تمام دنیا سولہ سال میں احمدی ہو سکتی ہے۔ یہ کتنی چھوٹی سی چیز ہے۔ لیکن اِس کا نتیجہ کیسا شاندار ہے۔ میرے اِس نسخہ کو استعمال کرکے دیکھو۔ سولہ سال میں تمام دنیا احمدی ہو جائے گی۔ اور سولہ سال کے بعد اگر تم سب سے طاقتور لیمپ لے کر بھی کسی غیر مذہب والے کو تلاش کرو تو تمہیں کوئی غیر مذہب والا نہیں ملے گا۔ اِس نسخے کو استعمال کرنے کے لئے صرف ہمت اور استعمال کی ضرورت ہے۔ اگر ہر ایک احمدی کم از کم ایک احمدی ہر سال بنائے تو چند سالوں کے اندر اندر تمہیں ہندوستان میں کوئی غیر مذہب والا نہ ملے گا۔ اور سولہ سال کے بعد تمہیں تمام دنیا میں کوئی غیر احمدی نہ ملے گا۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ تم کو تبلیغ کی دُھن لگ جائے اور اس کے بغیر تم پر روٹی کھانا حرام ہو جائے۔ اور تبلیغ کے بغیر تمہیں چین اور آرام نہ آئے۔ جب تمہارے قلوب کی یہ حالت ہو جائے گی تو تم دیکھو گے کہ جماعت فوری طورپر ترقی کرنا شروع کر دے گی۔
مَیں جماعت کے اِس کام سے بھی خوش ہوں۔ لیکن حقیقی خوشی تبھی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ ہر احمدی ہر سال کم از کم ایک احمدی بنائے اور یہ سلسلہ متواتر چلتا جائے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہے یہ کام کوئی مشکل نہیں۔ صرف ذمہ داری کو سمجھنے اور اپنے فرض کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ہم نے پہلے ہی بہت سُستی اور غفلت کی ہے۔ اب اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیئے اور آئندہ جلدی جلدی قدم اٹھانا چاہیئے۔ ہماری جماعت کے اعلان پر 57 سال گزر گئے ہیں۔ اگر ابتداء سے ہی ہم لوگ اِس اخلاص کا نمونہ پیش کرتے کہ ہر احمدی کم از کم سال میں ایک احمدی ضرور بناتا تو آج تک کبھی کی دنیا فتح ہو چکی ہوتی۔ لیکن افسوس کی بات یہی ہے کہ اپنی ذمہ داری کو کَمَاحَقُّہٗ سمجھا نہیں گیا۔ مَیں اِس وقت تمام چہروں سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ لوگ حساب پر حیران ہوئے ہیں کہ کام کتنا معمولی ہے۔ یعنی سال میں صرف ایک احمدی بنانا اور نتیجہ کتنا شاندار ہے کہ سولہ سال میں تمام دنیا احمدی بن سکتی ہے۔ گویا ان کے سامنے یہ ایک نئی چیز پیش کی گئی ہے۔ جس طرح بادشاہ اُس موجد کی بات کو نہیں سمجھا تھا اِسی طرح آپ لوگ بھی اب تک میری بات کو نہیں سمجھے۔ اگر اب بھی آپ لوگ میری سکیم کے ماتحت پوری کوشش کے ساتھ تبلیغ کرنے لگ جائیں تو اِس کے اِتنے شاندار نتائج نکلیں گے کہ وہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کے نوجوانوں کو عموماً او ر قادیان کے نوجوانوں کو خصوصاً اِس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سالوں میں کئی دفعہ مَیں نے بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کو اسلام کے شعار پر عمل کرنا چاہیئے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اِس طرف ابھی تک توجہ نہیں ہوئی۔ مَیں نے خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلائی تھی لیکن انہوںنے بھی توجہ نہیں کی۔ مَیں نے کہا تھا کہ ہر ایک خادم کی نگرانی کی جائے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتا ہے یا نہیں۔ لیکن بجائے میری اس ہدایت پر عمل کرنے کے اب ہوتا یہ ہے کہ کئی ایسے لوگوں کو خدام الاحمدیہ کا افسر مقرر کیا جاتا ہے جوکہ خود ہفتہ ہفتہ تک مسجد میں نہیں گُھستے۔ حالانکہ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نماز باجماعت اد اکرے سوائے اِس کے کہ وہ بیمار ہو۔ بیماری کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ وہ گھر پر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اِسی طرح مَیں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں کے چہروں سے داڑھیاں غائب ہوتی جا رہی ہیں، وہ دن بدن اُن کو چھوٹا کرتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہم نے خشخشی 2 کی اجازت تو اُن لوگوں کو دی تھی جو کہ اُسترا پھیرتے تھے۔ اُنہیں کہا گیا تھا کہ تم اُسترا نہ پھیرو اور چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی ہی رکھ لو۔ لیکن یہ جواز جو کہ اُسترا والوں کے لئے تھا اِس پر دوسرے لوگوں نے بھی عمل کرنا شروع کر دیا۔ اور جن کی بڑی داڑھیاں تھیں اُن میں سے بھی بعض نے اِس جواز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خشخشی کر لیں۔ حالانکہ جواز تو کمزوروں کے لئے ہوتا ہے۔ ہمارا مطلب تو یہ تھا کہ جب اُسترا پھیرنے والے خشخشی داڑھیاں رکھ لیں گے تو پھر ہم اُن کو کہیں گے کہ اب اَور زیادہ بڑھاؤ۔ اور آہستہ آہستہ وہ بڑی داڑھی رکھنے کے عادی ہو جائیں گے۔ لیکن اِس جواز کا اُلٹا مطلب لیتے ہوئے بعض لوگوں نے بجائے داڑھیاں بڑھانے کے خشخشی کر لیں۔ اگر ایک مریض کو ڈاکٹر شوربا پینے کے لئے کہے تو کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ پولیس ڈنڈے لے کر تمام لوگوں کو شوربا پینے پر مجبور کرے کہ ڈاکٹر کا حکم ہے کہ شوربا پینا چاہیئے؟ ڈاکٹر کا حکم تو مریض کے متعلق ہے نہ کہ دوسروں کے لئے۔ چونکہ جو لوگ داڑھی مُنڈوانے کے عادی ہوتے ہیں وہ یکدم داڑھی نہیں رکھ سکتے اِس لئے ہم نے اُن کو اجازت دے دی کہ اچھا تم خشخشی رکھ لو۔ اِس سے ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ جن کی داڑھیاں بڑی ہیں وہ بھی خشخشی کر لیں۔ اصل بات یہ ہے کہ گو داڑھی کو مذہب میں کوئی بڑا دخل نہیں لیکن اغیار تمہاری داڑھیوں کو، تمہارے سر کے بالوں کو اور تمہارے کپڑوں کو اِس نظر سے دیکھتے ہیں کہ تم اپنے مذہب کے لئے کتنی غیرت اپنے دل میں رکھتے ہو اور تم اسلامی شعار کو قائم کرنے کی کس قدر کوشش کرتے ہو۔ پہلے مسلمانوں نے چونکہ داڑھی کے معاملہ میں کمزوری دکھائی ہے اِس لئے فوجوں اور پولیس میں مسلمانوں کو داڑھی مُنڈوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب مسلمان یہ کہتے ہیں کہ آخر سکھ بھی تو داڑھیاں رکھتے ہیں اُن سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ تو افسر جواب دیتے ہیںکہ وہ سارے کے سارے داڑھیاں رکھتے ہیں اِس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مذہب میں داڑھی رکھنے کا حکم ہے۔ لیکن تمہارے اکثر مسلمان مُنڈواتے ہیں اِس سے پتہ چلتا ہے کہ تمہارے ہاں کوئی حکم نہیں تم اپنی مرضی سے رکھنا چاہتے ہو ۔
ہمارے ایک واقفِ زندگی جو کہ اب تحریک جدید میں کام کر رہے ہیں۔وہ پہلے پولیس میں تھے۔ اُنہوں نے میرے اعلانات پر داڑھی رکھ لی۔ اِس پر افسر نے اُنہیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ آخر جب زیادہ تنگ کیا گیا تو اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ایک فوجی احمدی کو داڑھی رکھنے پر افسر نے فوجی حوالات میں دے دیا۔ یہ واقعات ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر سارے مسلمان داڑھی رکھیں تو کوئی افسر بھی اُن کو داڑھی مُنڈانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ مسلمان سکھوں سے پچیس گُنا زیادہ ہیں لیکن گورنمنٹ مسلمانوں کو تو داڑھیاں مُنڈانے پر مجبور کرتی ہے اور سکھوں کو داڑھیاں مُنڈانے پر مجبور نہیں کرتی کیونکہ وہ سکھوں سے ڈرتی ہے۔ گورنمنٹ جانتی ہے کہ اگر ان کو مجبور کیا گیاتو وہ نوکریاں چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔ اور سکھوں نے اِس معاملہ میں چونکہ جرأت دکھائی ہے اِس لئے گورنمنٹ ان کو مجبور نہیں کرتی۔ اگر مسلمان بھی جرأت سے کام لیں تو ان کا بھی رعب قائم ہو جائے۔ اگر باقی مسلمان یہ جرأت نہیں دکھاتے تو کم سے کم احمدیوں میں یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ہم داڑھیاں نہیں مُنڈوائیں گے۔ لیکن بجائے اِس کے کہ ہمارے نوجوان یہ ثابت کرتے کہ ہم اسلام پر عمل کرنے سے نہیں ڈرتے اب وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم سے اسلام کے حکموں پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے نوجوان اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے داڑھیاں رکھیں تو لوگ ہم پر ہنسیں گے۔ لیکن تم نے کبھی سوچا ہے کہ تمہارے اِس فعل سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جب تم داڑھی مُنڈواتے ہو یا چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھتے ہو تو تم اپنے منہ سے اقرار کرتے ہو کہ اسلام کے احکام پر عمل نہیں ہو سکتا۔ پھر تم یہ بتاؤ کہ تم دوسروں پر کیا اثر ڈال سکتے ہو اور تم انہیں کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں؟ اور پھر کتنے شرم کی بات ہے کہ ایک انگریز جویہاں مسلمان ہوا اُس نے تو مسلمان ہونے کے بعد داڑھی رکھ لی حالانکہ انگریزوں میں سب ہی داڑھی مُنڈاتے ہیں۔ اُس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی قربانی کا ثبوت دیا کہ مَیں اسلام کے احکام پر عمل کرکے دکھا سکتا ہوں۔ اُس کو اُس کے ملک کے لوگوں نے حیرت کی نظر سے دیکھا اور ولایت کے اخباروں میں اُس کے متعلق نوٹ بھی شائع ہوئے۔ بعض لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تم داڑھی رکھتے ہو لیکن لباس انگریزی پہنتے ہو۔ اِسکی کیا وجہ ہے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ کپڑوں کے متعلق اسلام نے مجھے کوئی خاص حکم نہیں دیا اور نہ اسلام مجھے ان کپڑوں کے پہننے سے منع کرتا ہے۔ لیکن اسلام مجھے داڑھی رکھنے کا حکم دیتا ہے اِس لئے مَیں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ جس طرح ایک انگریز کے داڑھی رکھنے پر انگلستان کے لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا اِسی طرح ہندوستان کے لوگ تمہارے داڑھی نہ رکھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوںکو تمہارے اندرونے کی صفائی کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے۔ اُن کی نظر تو ظاہر پر ہی پڑتی ہے۔ اگر تم ظاہر کو درست نہیں کرتے تو لوگ تمہارے دلوں کی صفائی کے کبھی قائل نہیں ہو سکتے۔ اور پھر جب غیروں کے ہاتھ ایک چھوٹی سی بات بھی آ جائے تو وہ اُسے خُوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ احمدی ایسے ہوتے ہیں۔ پس میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں داڑھی کے متعلق خوب پراپیگنڈا کریں۔ خدام نوجوانوں کو سمجھائیں اور انصار اللہ بڑوں کو سمجھائیں۔ اوریہ کوشش کی جائے کہ جو شخص داڑھی مُنڈاتا ہے وہ خشخشی داڑھی رکھے۔ اور جو خشخشی رکھتا ہے وہ ایک انچ یا آدھا انچ بڑھائے۔ اور پھر ترقی کرتے کرتے سب کی داڑھی حقیقی داڑھی ہو جائے۔
اسلام کے تمام احکام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ کوئی ایک حکم بھی بغیر مصلحت کے نہیں۔ داڑھی رکھنے میں بھی کئی حکمتیں اور کئی مصالح ہیں۔ یہ جسمانی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور جماعتی تنظیم کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہے۔ سکھوں کے کیس اور داڑھی پر سختی سے پابند ہونے کی وجہ سے کوئی شخص اُن کے مذہب پر حملہ نہیں کرتا۔ کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ داڑھی اور کیس پر اِس قدر سختی سے پابند ہیں اور اِس معاملہ میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے اگر اُن کی کسی مذہبی با ت میں دخل اندازی کی تو وہ یقینا کٹ مریں گے۔ اِسی طرح اگر ہماری جماعت میں بھی اسلامی شعار کو قائم رکھنے کا احساس ہو جائے اور وہ سختی سے اِس پر پابند ہو جائے تو یقینا اِس کا بھی لوگوں کے دلوں میں رعب قائم ہوجائے گا۔ اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ یہ لوگ اپنی بات کے پکے ہیں اور کسی کی رائے کی پروا نہیں کرتے۔ جب یہ لوگ داڑھی کے معاملہ میں اِس قدر سختی سے پابند ہیں تو باقی اسلامی احکام کے وہ کیوں پابند نہ ہوں گے۔ اگر ہم نے اِن کی کسی دینی بات میں دخل اندازی کی تو یہ لوگ مر جائیں گے لیکن اپنی بات کو پورا کر کے چھوڑیں گے۔ اِس کے مقابل میں اگر لوگ یہ دیکھیں کہ تم لوگوں کی باتوں سے ڈر کر اور لوگوں کی ہنسی سے ڈر کر داڑھی مُنڈا لیتے ہو یا چھوٹی کر لیتے ہو تو وہ خیال کریں گے کہ جو لوگ دنیا کی باتوں سے ڈر جاتے ہیںوہ گورنمنٹ کے قانون اور پولیس کے ڈنڈے سے کیوںمرعوب نہ ہوںگے۔ پس تمہارا داڑھیوں کے معاملہ میں کمزوری دکھانا جماعت کے رُعب اور اثر کو بڑھانے کا موجب نہیںبلکہ رُعب اور اثر کو گھٹانے کا موجب ہے۔
پھر نمازوں کی پابندی اِس سے زیادہ اہم ہے۔ داڑھی تو ایک ظاہری چیز ہے اور نماز روحانیت کا سرچشمہ ہے اور بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقرب بننے کا ذریعہ ہے۔ تم یہ جانتے ہو کہ اگر کوئی شخص سنکھیا کھا لے تو وہ یقینا مر جاتا ہے۔ اِسی طرح تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ نماز نہ پڑھنا بھی سنکھیا کھانے سے کم نہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ یہ سنکھیا ایسا ہے جو قیامت کے دن اپنا اثر دکھائے گا اور انسان کو اَبَدُ الْآبَاد تک کی دوزخ میں ڈال دے گا۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ یہ سنکھیا مارتا نہیں بلکہ یہ سنکھیا ایسا ہے جو کہ بہت سی اکٹھی موتیں انسان پر وارد کرے گا۔ انسان کو موت آئے گی لیکن وہ مر نہیں سکے گا۔ سنکھیا کھا لینا اِتنا مُضِر نہیں جتنا نماز نہ پڑھنا مُضِر ہے۔ کیونکہ سنکھیا کھانے سے تو انسان پر ایک موت وارد ہوتی ہے لیکن نماز نہ پڑھنے کے نتیجہ میں انسان جو سنکھیا کھاتاہے وہ ایسا ہے کہ اکٹھی کئی موتیں انسان پر لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے 3۔ کہ دوزخ میں انسان نہ مر سکے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا۔ ہر وقت اُس کو موت آتی رہے گی لیکن اِس کے باوجود وہ مر نہیں سکے گا۔ موت کی تکلیف اٹھانے کے بعد وہ بے حس نہیں ہوگا کہ اُسے باقی موتوں سے نجات حاصل ہو جائے ۔جتنے عیب اور جتنی سُستیاں اور جتنی بدیاں ہوں گی وہ سب موت کی شکل میں اُس کے سامنے نمودار ہوں گی اور ہر بدی اُس کے لئے ایک موت لائے گی۔ ایک نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک موت ہو گی۔ پھر دوسری موت دوسری نماز نہ پڑنے کی وجہ سے۔ اور تیسری موت تیسری نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ہو گی۔ اِسی طرح جھوٹ بولنے اور بددیانتی اور بے ایمانی کرنے کی وجہ سے اُس پر موتیں وارد ہوں گی۔ پس نماز نہ پڑھنا ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو اَبَدُ الْآبَاد کے دوزخ میںڈال کر اُس پر کئی موتیں وارد کرتا ہے۔ اِس سے بچنا چاہیئے اور نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرنی چاہیئے۔
اِسی طرح سچ ایک ایسی چیز ہے جو قومی وقار کو قائم کرتا ہے اور سچ بولنے والی قوم تمام دنیا میں اپنی اِس خوبی کی وجہ سے قابلِ تعظیم سمجھی جاتی ہے۔ اگر انسان سچ بولے تو دوسرا شخص مرعوب ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں ساری عمر میں سوائے ایک شخص کے کسی سے مرعوب نہیں ہوا۔ مجھے ایک شخص کے متعلق معلوم ہوا کہ اُس نے ایک خطا کی ہے۔ وہ اکیلے کی خطاتھی۔ کوئی شخص اُس پرگواہ نہ تھا۔ جب مجھے اُس کی اطلاع ہوئی تو مَیں نے خیال کیا کہ چونکہ موقع کا گواہ کوئی نہیں اِس لئے وہ کہہ دے گا کہ مَیں نے ایسا نہیں کیا۔ مَیں نے اُسے بلایا اور پوچھا تو اُس نے صاف طور پر اقرار کیا کہ ہاں مَیں نے یہ خطا کی ہے۔ جب اُس نے صاف طور پر اقرار کر لیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے میرے منہ پر مُہر لگا دی ہے۔ مَیں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر اُسے رخصت کر دیا۔ تو گناہ میں بھی سچ ایک قسم کا غلبہ رکھتا ہے اور جھوٹ نیکی میںبھی شکست دلاتا ہے۔ فرض کرو کہ کوئی شخص کسی کے پاس اپنا مال رکھواتا ہے اور پھر خود ہی کسی وقت وہ مال اٹھا کر لے جاتا ہے اور پوچھنے پر انکار کر دیتا ہے کہ مَیں نے نہیںلیا۔ تو گو مال اُس کا ہی تھا لیکن وہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے گنہگار ہو گیا۔ اور ہر شخص جسے اِس بات کا علم ہو گا وہ اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا کہ اُس نے اپنا مقام ضائع کر لیا۔
سچ کے یہ معنی بھی نہیں ہوتے کہ دوسرے پر ہر بات ظاہر کر دی جائے۔ اور نہ ہی کوئی شخص دوسرے کو ہر ایک بات کے ظاہر کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ہاں جن باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول حکم دیتا ہے اُن کو بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ گو اس کے لئے بھی کچھ پابندیاں ہیں۔ مثلاً قاضی کو بھی ہر بات پوچھنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس کے متعلق تعیین کر دی گئی ہے کہ قاضی اِس قسم کا سوال کر سکتا ہے اور اس قسم کا سوال نہیں کر سکتا۔ ہمارا خدا غفّار اور ستّار ہے۔ وہ غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر سکتا ہے اِس لئے ہر بات کا اعلان ضروری نہیں۔ ہاں جو بات تم سے قاضی پوچھے وہ تم بیان کر دو۔ اگر تم کو شریعت کے احکام کا علم ہو جائے تو تمہارے لئے سچ بولنا کوئی مشکل نہ رہے۔ مثلاً کوئی شخص تم سے پوچھتا ہے کہ تم فلاں جگہ گئے؟ اور تم نہیں بتانا چاہتے تو جھوٹ نہ بولو۔ اُس سے کہہ دو کہ مَیں نہیں بتانا چاہتا۔ اِسی طرح شریعت نے بے شک قاضی کو سوال کرنے کا حق دیا ہے لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جن میں قاضی کو بھی سوال کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ مثلاً شریعت کہتی ہے کہ بدکاری کے جب تک چار گواہ نہ ہوں اُس وقت تک اُن کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ لیکن کسی موقع پر کوئی شخص اکیلا گواہ ہے اور معاملہ کسی طرح قاضی کے پاس پہنچتا ہے اور قاضی اُس کو گواہی کے لئے بلاتا ہے تو وہ قاضی کو کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے دیکھا یا نہیں دیکھا اِس کا سوال نہیں۔ آپ کو گواہی لینے کا حق نہیں جب تک کہ چار گواہ نہ ہوں۔ غرض اِس صورت میں شریعت قاضی کو مجرم ٹھہراتی ہے کہ اُس نے اُس سے کیوں شہادت طلب کی۔ اور اُس شخص نے شریعت کی ہتک نہیںکی بلکہ قاضی نے شریعت کی ہتک کی ہے کہ صرف ایک آدمی سے گواہی مانگی ۔ پس شریعت کے مسائل کو سمجھو او ر سچ کو اپنا شعار بناؤ۔ جب دنیا پر ثابت ہو جائے گا کہ تم سچ بولتے ہو تو تمہارا مظلوم ہونا دنیا پر روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گا اور دنیا تمہاری طرف خود بخود مائل ہو جائے گی۔ اگر تمہارا ایک آدمی ایک طرف ہو گا اور ہزار آدمی ایک طرف ہوگا توبھی دنیا یہ کہے گی کہ جو بات یہ ایک آدمی کہتا ہے وہ صحیح ہے اور جو بات یہ ہزار آدمی کہتا ہے وہ غلط ہے۔
شملہ میں ایک انگریز افسر تھا۔ اُس کے میرے ساتھ کچھ تعلقات ہو گئے اور وہ مجھ سے ملتا رہتا تھا۔ اِس طرح اُسے ہماری جماعت کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ سچ بولتے ہیں۔ میرا ایک عزیز جو فوج میں ملازم تھا اُس کا افسر اُس پر خفا ہو گیا۔ اور اُس کے خلاف گورنمنٹ کے پاس رپورٹ کی اور اُس کی ملازمت خطرہ میں پڑ گئی۔ اُس نے شرم کے مارے مجھے نہ اطلاع دی۔ جب مجھے اِس معاملہ کا علم ہوا تو مَیں نے اُس انگریز سیکرٹری کو کہلا بھیجا کہ اصل میں واقعات اِس طرح ہیں۔ مَیں نے تحقیقات کر لی ہے۔ مَیں یہ نہیں چاہتا کہ ناجائز طور پر اس کی مدد کی جائے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو جائے تو بے شک اسے سزا دی جائے۔ لیکن میری تحقیق سے اس کا قصور ثابت نہیں ہوتا۔ آپ مہربانی کر کے اس کے بالاافسر سے اتنا کہہ دیں کہ جب وہ فیصلہ کرے تو ماتحتوں کی رائے پر عمل نہ کرے بلکہ خود اس معاملہ کی تحقیقات کر لے۔ اُس نے اِس کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اُس نے جو چٹھی اس محکمہ کے ڈائریکٹر کو لکھی اُس کی ایک کاپی مجھے خانصاحب منشی برکت علی صاحب نے (جو کہ آجکل جائنٹ ناظر بیت المال ہیں) بھجوائی (اُس وقت خان صاحب اس محکمہ کے افسر تھے) اُس چِٹھی میں یہ لکھا تھا کہ فلاں افسر کے خلاف رپورٹ ہوئی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس معاملہ کا آپ خود مسل پڑھ کر فیصلہ کریں، ماتحتوں کی رپورٹوں پر فیصلہ نہ کریں۔ آگے اُس نے لکھا تھا کہ گو اس افسر کے خلاف ایک انگریز افسر نے شکایت کی ہے لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ جس شخص نے میرے پاس سفارش کی ہے وہ ایسا راستباز ہے کہ جب تک اُس نے پوری تحقیق نہ کر لی ہو وہ سفارش نہیں کر سکتا تھا۔ اِس لئے مَیں اُس کی بات کو محکمانہ رپورٹ پر ترجیح دیتا ہوں۔ اب دیکھو جس شخص کی رپورٹ کو وہ ردّ کر رہا تھا وہ انگریز اور اپنے محکمہ کا افسر تھا۔ لیکن اُسے چونکہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ مَیں واقعہ کی بِلا تحقیق تائید نہیں کر سکتا اِس لئے اُس نے نہایت دلیری کے ساتھ لکھ دیا کہ خواہ رپورٹ کرنے والا افسر انگریز ہے لیکن جس شخص نے میرے پاس سفارش کی ہے وہ کبھی ایک غلط واقعہ کی تائید نہیں کر سکتا اِس لئے اُس کی بات درست ہے اور محکمانہ رپورٹ غلط۔ پس سچائی کو اپنا شیوہ بناؤ۔ کیونکہ سچائی دلوںکو موہ لیتی ہے اور دوسرے کو متأثر کئے بغیر نہیں رہتی۔
میں پھر قادیان کے نوجوانوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شعائرِ اسلام کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ خصوصاً سے میرا مطلب یہ ہے کہ قادیان جماعت کا مرکز ہے۔ اِس لئے مرکز کے نوجوانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ورنہ میرا یہ مطلب نہیں کہ لاہور والے یا دوسری جگہوں والے بے شک شعارِ اسلام کی پابندی نہ کریں اور وہ اپنی داڑھیاں بیشک مُنڈواتے رہیں۔ بلکہ سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اچھا نمونہ پیش کریں۔ اگر تم داڑھیاں رکھو گے تو دنیا میں اسلام کا رعب قائم ہونا شروع ہو جائیگا۔ اور لوگ خیال کریں گے کہ اِس دہریت کی زندگی میں، اِس فلسفیانہ فضا میں، اِس عَیّاشی اور نزاکت کی صدی میں جبکہ دنیا داڑھیوں سے ہنسی اور ٹھٹھا کر رہی ہے یہ لوگ اسلام کے اِس حکم پر عمل کرتے ہیں اور کسی کی رائے کا خیال نہیں کرتے۔ واقعی ان کے دلوں میں اسلام کا درد ہے۔ اور یہ لوگ وہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔
صرف قادیان والوں سے ہی میرا یہ خطاب نہیں بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس حکم کو مدنظر رکھے۔پھر نمازوں کے متعلق سختی سے پابندی کی جائے اور ہر ایک شخص کے متعلق نوٹ کیا جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتا ہے یا نہیں۔ اِسی طرح سچائی پر خصوصیت کے ساتھ کاربند ہونے کی کوشش کی جائے۔ اگر انسان سچ پر کاربند ہو جائے تو وہ تمام گناہوں سے بچ سکتا ہے ۔ تم ہمیشہ سچ کی تائید کرو اور سچائی کو پھیلانے کی کوشش کرو۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعتی دباؤ کے ماتحت بہت سے لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ جماعتی دباؤ ایک بہت بڑا حربہ ہے۔ تم غیر احمدیوں سے کئی دفعہ سنتے ہو کہ احمدیت تو سچی معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن رشتہ دار نہیں چھوڑے جا سکتے اور رشتہ داروں کی مخالفت برداشت نہیںہو سکتی۔ پس اگر قومی دباؤ جھوٹ کی تائید میں ہو گا تو جھوٹ پھیلے گا۔ اور اگر قومی دباؤ سچ کی تائید میں ہو گا تو سچ پھیلے گا اور لوگوں کو امن ملے گا۔ کیونکہ سچ سے ہی دنیا میں ہمیشہ امن قائم ہو تاہے۔ تم اِس قومی دباؤ سے فائدہ اٹھاؤ۔‘‘(الفضل 21 فروری 1947ئ)
1: پوربی: مشرقی گنگا کے مشرقی علاقے کارہنے والا۔ ایک زبان جو پورب میں بولی جاتیہے۔
ایک راگنی جو قبل مغرب گائی جاتی ہے۔
2: خشخشی: جڑ کے برابر سے کترے ہوئے بال۔
3: الاَعْلٰی: 14

7
احباب کو قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی ایک ہزار جِلد خرید کر سلسلے کے سپرد کر دینی چاہیئے تا سیاستدانوں، لیڈروں اور مستشرقین میں تقسیم کی جا سکیں۔
(فرمودہ 21 فروری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے کوئی بیس پچیس دن سے حرارت ہو جاتی ہے۔ اِس کی وجہ سے مَیں اکثر نمازوں کے لئے مسجد میں نہیں جا سکتا۔ بالعموم ظہر کے بعد حرارت شروع ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے مجھے بولتے وقت تکلیف محسوس ہوتی ہے او ر مَیں کسی مضمون کو کَمَاحَقُّہٗ بیان کرنے سے قاصر رہتا ہوں۔ بہرحال چونکہ جمعے کا دن ہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جس میں جماعت قادیان کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں۔ اِس لئے اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کے مناسبِ حال مضمون بیان کر دیتا ہوں تا کہ جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا رہے اورپہلے کی نسبت زیادہ محنت سے کام کرنے کی کوشش کرے۔ پھر یہ خطبہ تفصیل کے ساتھ الفضل میں بھی شائع ہو جاتا اور بیرونی جماعتوں کو پہنچ جاتا ہے اور جماعت کے لئے ایک رشتے اور تاگے کا کام دیتا ہے۔ جس طرح تاگہ تسبیح کے دانوں میں اتحاد اور یگانگت پیدا کر دیتا ہے اِسی طرح خطبہ جمعہ تمام جماعت کے خیالات اور جذبات میں اتحاد اور یگانگت کا موجب بن جاتاہے۔ جماعت قادیان تو خطبہ جمعہ یہاں مسجد میں سن لیتی ہے اوربیرونی جماعتیں اسے اخبار میں شائع ہونے کے بعد پڑھ لیتی ہیں اور اِس طرح جماعت کے خیالات میں اتحاد پیدا ہو جاتا ہے۔ جس طرح تاگے کے ذریعہ تسبیح کے دانے اکٹھے ہو جاتے ہیں اِسی طرح خطبہ جمعہ کے ذریعہ جماعت اپنے خیالات میں متحد ہو جاتی ہے اِس لئے اِس موقع کو مَیں حتی الوسع جانے نہیں دیتا۔
آج مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ جس کا ہماری جماعت کو ایک لمبے عرصہ سے انتظار تھا اور جس میں مولوی شیر علی صاحب کی صحت کی خرابی کی وجہ سے بہت دیر ہو گئی خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے اور ابتدائی دس پاروں کے تفسیری نوٹ بھی چھپ کر تیار ہو گئے ہیں۔ مَیں نے نوٹ لکھنے والوں کو ہدایت کی ہے کہ جو درس مَیں نے دیئے ہوئے ہیں اُن سے اور ان کے علاوہ میری کتابوں سے تفسیری نوٹ لئے جائیں۔ کیونکہ یہ کتاب میری ذمہ داری اور میری طرف منسوب ہو کر شائع ہو رہی ہے۔ چونکہ یہ توضیح میری طرف منسوب ہو گی اِس لئے اِس کے تفسیری نوٹ بھی میرے ہی ہونے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن جن آیات کی تفسیر کی ہے وہ خود بخود اس میں آ جائیگی۔ کیونکہ ہم نے انہی کے نور سے روشنی لی ہے اور وہ ہمارے علوم کا منبع ہیں۔ اِسی طرح حضرت خلیفہ اوّل سے مَیں نے قرآن کریم پڑھاہے ۔ آپ کی بیان کردہ تفسیر کے ضروری نکتے بھی اِس میں آ جائیں گے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی تمام باتیں اِس میں نہیں آسکتیں۔ اِسی طرح حضرت خلیفہ اول کی تفسیر کی تمام باتیں بھی اس میں نہیں آ سکتیں۔ نہ صرف اِس وجہ سے کہ تمام کو ایک تفسیر میں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ اِس وجہ سے بھی کہ ہو سکتا ہے مجھے بعض مقامات پر حضرت خلیفہ اول کی کسی تفسیر سے اختلاف ہو۔ یا بعد میں جو علوم ظاہر ہوئے ہیں اُنہوں نے قرآن کریم کے متعلق نئے انکشافات کا دروازہ کھول دیا ہو۔ بہرحال اِس موقع پر انتخاب ہی کام آ سکتا ہے ساری باتوں کو بیان نہیںکیا جاسکتا۔ یہ نوٹ پندرہ پاروں تک لکھے جاچکے ہیں اور ترجمہ سارے کا سارا مکمل ہو چکا ہے۔ اِتنی بڑی کتاب کا ایک ہی جلد میں شائع کرنا مشکل تھا اِس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے دو یا تین جلدوں میں شائع کیا جائے۔ چونکہ پہلی جلد کے ساتھ دیباچہ بھی لگے گا جو قرآن کریم کے مطالب کے سمجھنے کے لئے ایک مشعل راہ کا کام دے گا اِس لئے پہلی جِلد دس ساڑھے دس پاروں پر مشتمل ہو گی۔ا ور دوسری جلد میں بقیہ حصہ مضمون کا شائع کیا جائے گا۔ ڈلہوزی میں تفسیر کبیر کے کام کے علاوہ میں نے انگریزی ترجمۃ القرآن کا دیباچہ بھی لکھنا شروع کر دیا تھا جو کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ختم ہو گیاہے۔ انگریزی میں اس کے 260 یا 275 کے قریب صفحات بنیں گے اور اردو میں پانچ سو ساڑھے پانچ سو صفحے ہوں گے۔ اِس دیباچہ کے کُل 1045 کالم ہیں۔ اردو میں دو کالم کا ایک صفحہ بنتا ہے۔ اور انگریزی قرآن کریم کا سائز چونکہ بڑا ہے دوسرے انگریزی ٹائپ میں مضمون زیادہ آ جاتا ہے اِس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں 260 یا 275 صفحے کا مضمون ہو جائے گا۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دیباچہ کے مضمون کے آخری حصہ کا ترجمہ کر رہے ہیں اور قاضی محمد اسلم صاحب نے اس کے پہلے حصہ کا ترجمہ کیا ہے۔ چودھری صاحب کو اِس کام میں چونکہ مہارت ہے اس لئے امید ہے کہ وہ بقیہ کام بہت جلد ختم کر دیں گے اور آٹھ دس دن کے اندر اندر دیباچہ کا ترجمہ مکمل ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ یہ مضمون چھپتا بھی جا رہا ہے۔ چنانچہ مختلف قسطوںمیں پریس والوں کو مضمون بھجوایا جا چکا ہے اور باقی کے متعلق ہم ملک غلام فرید صاحب اور مولوی شیر علی صاحب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ پریس والوں پر زور دے کر جلدی چھپوانے کا انتظام کریں گے۔ 190 صفحے تک کا پیاں اُن کے پاس آچکی ہیں۔ اگر وہ بقیہ مضمون کے لئے پریس والوں پر زور ڈالیں گے تو امید ہے کہ یہ کام جلدی ہو جائے گا۔ دیباچہ کے متعلق میں نے کہہ دیا ہے کہ اِس میں آیات کا عربی متن درج نہ کیا جائے انگریزی ترجمہ کافی ہے۔ کیونکہ انگریزی پریس کو عربی ٹائپ کرنے کے لئے بہت دقّت محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے کہ اگر ہمارے آدمی جلدی مضمون پہنچاتے جائیں اور پریس والے بھی جلدی کرنے کی کوشش کریں تو اپریل میں مجلس مشاورت کے موقع پر دوستوں کو اسکی جلدیں انشاء اللہ مل سکیں گی۔ جہاں تک ترتیب و تصنیف کا کام تھا وہ تو ہو گئی۔ اشاعت کا سوال ابھی باقی ہے۔ یہ کتاب اِتنی بڑی ہے کہ میرا خیال ہے بیس پچیس روپے سے کم میں یہ نہیں مل سکے گی۔ لیکن جماعت میں سے جو صاحبِ حیثیت لوگ ہیں اُن کے لئے ایسی قیمتی چیز اتنی قیمت پر خریدنا کوئی مشکل نہیں۔ فِی الْحال ہم اسکی دو ہزار جِلدیں چھپوا رہے ہیں۔ اس میں ایک ہزار جِلد جماعت کے لئے ہے اور ایک ہزار جِلد دوسرے لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہے۔ جماعت میں ہزار کاپی کا لگ جانا کوئی مشکل بات نہیں۔ اور باہر والوں کے سامنے اس کتاب کو پیش کرنے کے کئی طریقے ہیں۔
ایک تو یہ کہ اس کے متعلق تحریک کی جائے اور دوسرے یہ کہ اشتہار دیئے جائیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو دوسر ے لوگوں میں ایک ہزار کاپی کا لگ جانا کوئی مشکل بات نہیں۔ لیکن افراد کا خریدنا ہمارے لئے نفع مند نہیں ہو سکتا۔ ہزار افراد تو پنجاب میں ہی ایسے نکل سکتے ہیں جو کہ ایک ایک کاپی بڑی خوشی سے خرید لیں گے۔ سارا پنجاب تو کیا صرف لاہور میں ہی ایسے لوگ نکل سکتے ہیں۔ لیکن اِس طرح ہزار کاپی تقسیم کرنے سے دنیا میں اس کے ذریعہ شور نہیں مچایا جا سکتا۔ دو ارب کی دنیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک ہزار افراد جو ایک گوشے میں پڑے ہوئے ہوں کیا آواز پیدا کر سکتے ہیں۔ اور اتنی بڑی دنیا کے مقابلے میں ان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اِس لئے ہمیں ان کاپیوں کو ایسے طور پر تقسیم کرنا چاہیئے جس سے ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ کو کھینچ سکیں اور جس سے ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متأثر کر سکیں۔ اِس کا ایک طریق یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں میں اِس کتاب کو تقسیم کریں جن کی آواز کو اہمیت دی جاتی ہے اور لوگ ان کی باتوں کا اثر قبول کرتے ہیں۔ مثلاً بڑے بڑے علماء تک اِس کتاب کو پہنچایا جائے۔ علماء سے مراد میری مسلمان علماء نہیں بلکہ ہر مذہب و ملّت کے عالم جو کہ اپنے فرقہ کے ہیڈ سمجھے جاتے ہوں اور لوگ اُن کی آواز سے متاثر ہوتے ہوں۔ مثلاً ہندوؤں میں آجکل گاندھی جی ہیں۔ اور اِس سے پہلے پنڈت مالویہ جی1 تھے۔ ایسے دس بیس آدمیوں میں یہ جلدیں تقسیم کی جائیں اور پھر مخالف یا مطابق جو رائے بھی دیں اُسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ اِس طرح لوگ ان کی آواز پر کان دھریں گے۔ یا بعض بادشاہوں کے سامنے اِس کتاب کو پیش کیا جائے کہ وہ اِس کتاب کا مطالعہ کریں اور اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کریں۔
ایک اَور طبقہ جو کہ یورپ امریکہ میں بہت بڑا اثر رکھتا ہے وہ مستشرقین کا گروہ ہے۔ یہ لوگ مشرقی ممالک کے مذاہب کی طرف توجہ کرتے ہیں اور انکا مطالعہ کرنے کے بعد اپنا ریویو اُن کے متعلق شائع کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں لوگوں کو دُنیوی کاموں سے بہت کم فرصت ملتی ہے۔ اور اکثر اُن میں سے تجارت، صنعت و حرفت اور دیگر شعبوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کا علاج کرے اُس کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ پروفیسر کا یہ کام ہے کہ وہ نئی نئی تھیوریاں بنائے اُسے مذہب کی ضرورت نہیں۔ بیرسٹر کا یہ کام ہے کہ وہ قانون کے متعلق غور و فکر کرے اس کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے مذہب کی راہ نمائی ضروری قرار دی ہے اور ہر انسان کے لئے دین سے تعلق قائم کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن یورپ و امریکہ والے اسے بھی دنیوی کاموں کی طرح کا ایک کام سمجھتے ہیںا ور خیال کرتے ہیں کہ جس طرح ہر شخص ڈاکٹر یا وکیل نہیں بن سکتا اِسی طرح ہر شخص مذہبی نہیں بن سکتا۔ اُن میں جو لوگ مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں وہ پادری کہلاتے ہیں۔ اور جو لوگ مشرقی مذاہب کے علوم کا مطالعہ کرتے ہیں وہ مستشرق کہلاتے ہیں۔ اور انگریزی میں وہ اورینٹلسٹ (ORIENTALIST ) کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر کالجوں کے پروفیسر یا فلاسفر ہوتے ہیں، مشرقی علوم کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور مشرقی علوم کا خلاصہ کرکے کبھی کبھی رسالے کی صورت میں اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے دوسرے لوگوں کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ مشرقی لوگ آجکل کیا کچھ کر رہے ہیں۔ گویا یہ لوگ دوسرے لوگوں کے لئے بطور وکیل کے کام کرتے ہیں اور مشرقی علوم کی مسل کا خلاصہ کر کے ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ا ور جب وہ کسی کتاب کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں تو سیاستدانوں اور امراء کا طبقہ اُس میں خاص دلچسپی لینے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کا دوسروں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اور وہ جس کتاب کے متعلق ریویو کر دیں لوگ اُسے ضرور پڑھتے ہیں۔
افراد کے علاوہ دوسری چیز لائبریریاں ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کسی اچھی کتاب کا سب سے زیادہ چرچا لائبریریوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ چونکہ وہ علمی مذاق کے لوگ ہیں اِس لئے وہ مہینہ دو مہینہ کے بعد لائبریری میں ضرور جاتے ہیں۔ اور لائبریری میں جا کر وہ نئی اور عجیب کتاب کے مطالعہ کی کوشش کرتے ہیں۔ اور خصوصاً وہ اُس کتاب کو ضرور دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے متعلق مستشرقین نے کوئی رائے ظاہر کی ہو۔ جب وہ کسی کتاب کے متعلق یہ پڑھیں گے کہ مستشرقین نے اُس کی خوبی کا اظہار کیا ہے یا اُس کے عجیب ہونے کاا ظہار کیا ہے تو وہ اپنی نوٹ بک میں نوٹ کر لیں گے اور جب موقع ملے گا لائبریری میں جائیں گے اور جا کر وہی کتاب مانگیں گے۔ کیونکہ ہر شخص اِتنی کتابیں خرید کر تو اپنے پاس رکھ نہیں سکتالائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر انسان آسانی سے کتاب لے کر پڑھ سکتا ہے۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں کتب چھپ رہی ہیں۔ ہر انسان ہر کتاب کو خرید کر نہیں پڑھ سکتا۔ اِس لئے لوگ لائبریریوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں سے مشہور کتابیں مانگ کر پڑھ لیتے ہیں۔ پس ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ کچھ کتابیں بڑے بڑے سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کے مذہبی عالموں اور مستشرقین کو دی جائیں۔ اور دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ کچھ کتابیں لائبریریوں میں رکھوائی جائیں۔ دنیا میں اِس وقت لاکھوں لائبریریاں ہیں اور ہمارے پاس کُل ایک ہزار کتابیں ہیں۔ جن میں سے تین سو ہم بڑے بڑے آدمیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور سات سو کتابیں لائبریریوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ صرف امریکہ میں ہی دس ہزار لائبریریاں ہیں۔ جب ہم امریکہ کہتے ہیں تو اِس سے ہماری مراد یونائیٹڈ سٹیٹس ہوتی ہے۔ ورنہ دراصل امریکہ نام ہے دو بہت بڑے علاقوں کا۔ جن میں سے ہر ایک براعظم ہے۔ اس کے دو حصے ہیں شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ۔ جس طرح ایشیا ایک بہت بڑا براعظم ہے اور اس میں چین، جاپان، ہندوستان، ملایا، جاوا، سماٹرا، کوچین (کیرالہ)، ایران، عراق، شام وغیرہ شامل ہیں۔ اِسی طرح امریکہ ایک بہت بڑا براعظم ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس اِس کا ایک حصہ ہیں۔ دونوں امریکی علاقوں کے پندرہ بیس ممالک ہیں۔ جیسے کینیڈا، ارجنٹائن، برازیل، اور چِلّی وغیرہ۔ ان میں بہت سی لائبریریاں ہونگی۔ پس اندازاً بیس تیس ہزار لائبریریاں تو صرف امریکہ میں ہی ہونگی۔ او ر ابھی برطانیہ، روس، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، جرمنی، یونان، بیلجیئم، ناروے، سوئٹزرلینڈ، فِن لینڈ، یوگوسلاویہ، اور افریقہ کے کئی ممالک، ایشیا ، آسٹریلیا کے ممالک کی لائبریریاں اِن کے علاوہ ہیں۔ اور ان ملکوں کی لائبریریاں بھی یقینا لاکھ سے زیادہ ہی بنیں گی۔ ان میں سے اب سات سو جگہوں کا انتخاب کرنا بھی بڑا کام ہے۔ مگر بہرحال مجبوراً مالی مجبوری کی وجہ سے سات سو لائبریریوں پر ہی کفایت کرنا ہو گا۔
اور اِس غرض کے پورا کرنے کے لئے جماعت کو ہمت دکھانی چاہیئے اور ایک ہزار کتاب خرید کر سلسلے کے سپرد کر دینی چاہیئے تا کہ بڑے بڑے سیاستدانوں، لیڈروں، مذہبی لوگوں اور مستشرقین میں اِن کتابوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ اگر کتاب کی قیمت بیس روپے ہوئی تو کُل بیس ہزار کی رقم بنتی ہے۔ اور اگر پچیس روپے ہوئی تو پچیس ہزار روپے کی رقم بنتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیس پچیس ہزار کی رقم جماعت کے لئے کوئی بڑا بوجھ نہیں۔ بلکہ جس قسم کا یہ کام ہے اِس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ رقم بہت ہی ادنیٰ ہے۔ کہتے ہیں ’’جو بولے وہی کُنڈا کھولے‘‘۔ اِس لئے مَیں اپنی طرف سے ایک سَو جلد خرید کر سلسلہ کو تقسیم کرنے کے لئے دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ ایک سو جلدوں کی جو بھی قیمت ہو گی وہ میں دونگا۔ باقی نو حصے جماعت کو پورے کرنے چاہئیں۔ لجنہ اماء اللہ قادیان نے دو سو جلدوں کا وعدہ کیا ہے۔ اس لئے اب صرف سات سو جلدیں باقی جماعت کے ذمہ رہ جاتی ہیں۔ ممکن ہے بعض مخلصوں کو اللہ تعالیٰ توفیق بخشے اور یہ حصے بھی لگ جائیں اورباقیوں کو افسوس کرنا پڑے۔ اِس لئے اِس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے دوستوں کو جلدی کرنی چاہیئے۔ ارادہ ہے کہ ایک سَو جلد جو کہ بادشاہوں اور حکومتوں کے پریذیڈنٹوں وغیرہ میں تقسیم کی جائے گی اُس کی جلدیں انگلستان سے خاص قسم کی بنوائی جائیں جو کہ اُن لوگوں کے اعلیٰ مذاق کے مطابق ہوں۔ یا پھر ہزار کی ہزار ہی انگلستان بھجوا دی جائیں اور ان میں ایک سو کاپیوں کی خاص قسم کی جلدیں بنوا لی جائیں او رباقی نو سو کی عام جلدیں وہاں کے مذاق کے مطابق بنوا لی جائیں۔ اور جِلدیں بنتے ہی وہ لیڈروں او ر مستشرقین کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں تاکہ وہ جلد سے جلد اِس کتاب کے مضامین سے واقف ہو جائیں۔ اگر ان میں سے بعض اِس پر ریویو کر دیں اور وہ اخباروں میں شائع ہو تو یکدم لاکھوں آدمیوں میں اِس کتاب کے متعلق تحریک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں بعض علمی اخبار بھی پندرہ بیس لاکھ تک چھپتے ہیں۔ اِس طرح ایک دن میں پندرہ بیس لاکھ انسان تک اِس کتاب کی خبر پہنچ سکتی ہے۔ لوگ مستشرقین کی رائے اخباروں میں پڑھیں گے اور اصل کتاب کو پڑھنے کے لئے لائبریریوں کی طرف آئیں گے۔
دوسری جِلد کے متعلق بھی ہم کوشش کریں گے کہ وہ جلد سے جلد چھپ جائے۔ جنگ کی وجہ سے اب اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر تین چار سال کے بعد یہ کتاب انگلستان سے چھپوائی جائے تو نصف قیمت پر چھپ سکے گی۔ جب قیمتیں سستی ہو جائیں گی۔ اُس وقت پھر دوبارہ اِس کتاب کو چھپوایا جائے گا۔ اور اِس کی مزید آٹھ دس کاپیاں افراد میں اور لائبریریوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک زندہ رہے گا اور کون پسند کریگا کہ وہ پہلی صف میں شامل ہونے کی طاقت رکھتے ہوئے دوسری صف میں شامل ہو۔
پس مَیں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ایک ہزار کتاب خرید کر سلسلہ کے سپرد کر دی جائے اور بقیہ ایک ہزار اپنے لئے خرید لی جائے۔ اور اس معاملہ میں سُستی سے کام نہ لیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کتابیں بِک جائیں اور بعد میں پھر پچھتانا پڑے۔ کُل ایک ہزار کتاب ہے اور خریدار یقینا ایک ہزار سے زائد ہو جائیں گے۔ اِس لئے جو لوگ پیچھے رہ جائیں گے اُن کو سوچ لینا چاہیئے کہ اُن کو دوسرے ایڈیشن تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اتنے لمبے انتظار کے بعد یہ کتاب شائع ہو رہی ہے ایسا نہ ہو کہ ان کے حصہ میں پھر بھی انتظار ہی آئے۔ یہ کتاب ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشن باہر کام کر رہے ہیں۔ اگر اِس وقت سے پہلے شائع ہوتی تو شاید اس کے اتنے شاندار نتائج نہ نکلتے۔ اِس سے پیشتر لوگ بعض دفعہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ اتنی دیر کیوں کی جا رہی ہے۔ لیکن بعض کاموں کا دیر سے ہونا ہمیں ناپسندیدہ نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت اُس کے پیچھے کام کر رہی ہوتی ہے۔ مَیں دیکھتا تھا کہ جماعت اِس تفسیر کے لئے بے چین نظر آتی تھی کہ اِتنی دیر ہو گئی ہے ابھی تک تفسیر شائع نہیں ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیّت یہ چاہتی تھی کہ بہت سے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو جائیں اور ہمارے مبلغ اس کتاب کے سمجھنے میں مدد دیں۔ اگر اُس وقت یہ کتاب بیرونی ممالک میں پہنچا دی جاتی جبکہ ہمارے مشن قائم نہ ہوئے تھے تو اگر کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ کس سے پوچھتا؟ لیکن اب تو مبلغین اُن کے پاس موجود ہیں۔ جس حصے کی سمجھ نہ آئے گی ہمارا مبلغ سمجھا دے گا۔ اور جو حصہ تبلیغ کا مبلغ کے لئے مشکل ہو گا اُس میں تفسیر اُس کی مدد کر دے گی۔ پس اِتنی مدت کے انتظار کے بعد جو چیز دوستوں کو مل رہی ہے اُسے جلدی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور جو دوست یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے انگریزی پڑھے ہوئے دوستوں کو انگریزی میں تبلیغ کریں اُن کو ضرور یہ تفسیر خرید لینی چاہیئے۔ اِتنی بڑی کتاب تحفۃً تو دی نہیں جا سکتی۔ یہی ہو سکتا ہے کہ کبھی ایک دوست کو اور کبھی دوسرے دوست کو ہفتہ دو ہفتے کے لئے مطالعہ کے لئے دے دی اور اس نے مطالعہ کرنے کے بعد واپس کر دی۔ یہ ذریعہ تبلیغ کا نہایت اعلیٰ ہے۔ اگر کسی شخص نے اس موقع پر سُستی اور غفلت سے کام لیا اور کتاب خریدنے میں دیر کی تو پھر اُسے یہ کتاب کسی قیمت پر بھی نہ مل سکے گی۔ مَیں پہلی تفسیر کبیر کے متعلق دیکھتا ہوں کہ ہم نے ہزار صفحے کی کتاب پانچ پانچ روپے میں فروخت کی۔ لیکن بعض دوستوں نے اُس وقت سُستی اور کوتاہی کی۔ لیکن اب بیسیوں آدمیوں کے خطوط آرہے ہیں کہ تفسیر کسی قیمت پر ملے ہمیں ضرور لے دیں۔ اَور تو اَور ہمارے بعض اداروں نے بھی اُس وقت سُستی کی اور بعد میں اب پچھتاتے ہیں۔ مَیں نے مختلف اداروں سے پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ کالج، جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ والوں نے پہلی جِلد نہیں خریدی اور دوسری جِلدیں خرید لی ہیں۔ پہلی جِلد کے متعلق وہ کہتے ہیں ہم نے بہت کوشش کی ہے ملتی ہی نہیں ہے۔ اور اب تو جنگ ختم ہو چکی ہے اور سماٹرا اور جاوا والے بھی مطالبہ کریں گے کہ ہمارا حصہ ہمیں دیا جائے، ہمیں کیوں اِس سے محروم کیا گیا ہے۔ وہ ایک ہزار صفحے کی کتاب تھی لیکن بوجہ جنگ کے ہم اُسے دوبارہ نہیں چھپوا سکے حالانکہ اس کے چھپوانے میں وہ دقتیں نہیں ہیں جو کہ انگریزی کتاب کے چھپوانے میں ہیں۔ کیونکہ انگریزی پریس والوں کے پاس عربی ٹائپ نہیں ہوتی اِس وجہ سے انگریزی کتاب کے چھپوانے میںاُس سے زیادہ دقتیں ہوتی ہیں۔ گوجنگ کے اثرات کے زائل ہونے کے بعد امید ہے کہ یورپ سے یہ کتاب چھپوائی جائے تو بہت سستی چھپ جائے گی۔ لیکن اِس کے لئے بھی تو چار پانچ سال کا انتظار کرنا ہو گا یا شاید زیادہ۔ پس افراد کو اور اداروں کو جلد سے جلد آرڈر دے دینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اِس تفسیر کی اشاعت میں خاص برکت بخشے اور دوسری جِلد یا جِلدوں کی اشاعت کے لئے بھی جلد راستہ کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔‘‘
(الفضل26؍ فروری 1947ئ)
1: پنڈت مدن موہن مالویہ: (1861ء - 1946ئ) ہندوستان کے ممتاز سیاسی رہنما جو دوبار
انڈین نیشنل کانگرس کے صدر رہے۔ بنارس یونیورسٹی کا قیام اِنہیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور وہ کئی برس
تک اس کے وائس چانسلر رہے۔ ملک کی آزادی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کے لئے
ہرقسم کی قربانی دی۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد 2 صفحہ 1387 مطبوعہ لاہور 1988ئ)

8
دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کو لڑائی جھگڑے اور فساد سے بچا لے
(فرمودہ 28 فروری 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں اِس بات کا اظہار کیا تھا کہ جماعت میں تبلیغ کے متعلق بیداری پیدا ہو رہی ہے اور جماعت میں تبلیغ کرنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ اگر یہ احساس قائم رہا تو امید ہے کہ جماعت کی ترقی کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ ہو جائے گی۔ میرا خوشی کا اظہار کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ مَیں اِس رفتار کو تسلی بخش سمجھتا ہوں بلکہ موجودہ رفتار ایسی نہیں کہ جسے جماعتی ترقی کا کوئی اہم دَور ہم سمجھ سکیں اور اسے قابلِ وقعت سمجھیں۔ بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس رفتار سے اگر ہزار یا پندرہ سو گُنے رفتار تیز ہو جائے تو پھر کوئی معتدبہ نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کی قدر کرنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان بڑھتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے 1 کہ اگر تم ہمارا شکر ادا کرو گے تو ہم اَور زیادہ دینگے۔ اِس لئے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے جماعت میں اِس بات کا احساس پیدا کر دیا ہے کہ جس طرح ہم چندوں میں دوسری جماعتوں سے افضلیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح تبلیغ کے میدان میں بھی ہمارا قدم دوسری قوموں سے بہت آگے ہو۔
پچھلے کئی سالوں سے جماعت کی توجہ تبلیغ کی طرف کم تھی اور جماعت کے افراد اکثر یہ شکایت کرتے رہتے تھے کہ لوگ ہماری باتیں سنتے ہی نہیں۔ یہ کہنا کہ لوگ ہماری باتیں سنتے ہی نہیں اِس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگ ہماری باتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر یہ معنی لئے جائیں تو اِس بات کے کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ لوگ ہماری تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اُسی وقت مامور بھیجتا ہے جبکہ لوگ صداقت سے دُور چلے جاتے ہیں اور اُن کو صداقت سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ قیاس کرنا کہ اِدھر ہم اُن کو صداقت کی باتیں کہیں گے اور اُدھر وہ مان جائیں گے یہ بالکل غلط قیاس ہے۔ اور یہ پہلے سے سمجھی ہوئی بات ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی مامور کو مبعوث کرتا ہے تو لوگ اُس کی باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ چنانچہ پہلا الہام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ یہی تھا کہ ’’دنیا میں ایک نبی آیا۔ پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ 2 اِس الہام سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا آسانی کے ساتھ اس نبی کی باتیں نہیں مانے گی اور اس نبی کی سچائی کو منوانے کے لئے اللہ تعالیٰ زور آور حملوں سے اس کی تائید کرے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ بہت زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو دنیا پر ظاہر کر رہا ہے اور کرتا رہے گا جب تک کہ دنیا اِس صداقت کو مان نہیں لیتی۔ پس یہ سوال کہ لوگ اس سچائی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ بالکل صاف ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ لوگ سچائی کو قبول کر ہی نہیں سکتے۔ یہ بات بھی بالکل خلافِ عقل ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے مامور کو اِس لئے بھیجتا ہے کہ لوگ اُسے قبول کریں اور اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ لوگ اُسے قبول کریں گے توہماری جماعت کے لوگ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیںکہ لوگ قبول نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مامور اِسی لئے بھیجا ہے کہ وہ قبول کر سکتے ہیں۔ ابتدائی مخالفت اَور چیز ہے لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ لوگوں کے دل سچائی کے قبول کرنے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے اور ارد گرد کی مشکلات کی وجہ سے اُن کا قبول کرنا مشکل نظر آتا ہو۔ لیکن ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم اُن کو ایسے طور پر تبلیغ کریں کہ اُن کے اندر ایمان پیدا ہو جائے۔ جب انسان کے اندر ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو وہ تمام قسم کے خوف دل سے نکال دیتا ہے اور جب دل سے ڈر نکل جائے تو صداقت کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے۔ پس تبلیغ کرتے ہوئے اِس خیال کو دل سے نکال دو کہ سننے والا تمہاری بات مانتا ہے یا نہیں۔ تمہارا کام ہے کہ تم صداقت اُس تک پہنچا دو۔ پھر ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ دفتر بیعت والوں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ مارچ 1945 ء سے لے کر اب تک دو سالوں میں سب سے زیادہ بیعتیں مارچ 1945ء میں ہوئی تھیں۔ مارچ کا مہینہ31 دن کا ہوتا ہے۔ لیکن اِس سال فروری میں جو کہ اٹھائیس دن کا ہے اِس سے بہت زیادہ بیعتیں ہوئی ہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تبلیغ کرنے کی رَو پیدا ہو رہی ہے اور جماعت اِس اہم فریضہ کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ گو بیعتوں کی موجودہ تعداد سے ہزاروں گنے زیادہ بیعتیں ہر سال ہونی چاہئیں۔ اور میرے نزدیک کم ازکم پچیس تیس ہزار آدمی روزانہ ہماری جماعت میں داخل ہونا چاہیئے۔ اگر اتنی تعداد میں لوگ شامل ہونا شروع ہو جائیں تو پھر ہم دنیا کو بہت جلد فتح کر سکتے ہیں۔ بہرحال دنیا صداقت کو قبول کر رہی ہے اور جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اب جماعت کو اپنی تبلیغ کے نتائج سے یہ محسوس ہو جائے گا کہ دراصل سُستی ہماری ہی تھی ورنہ لوگ ماننے کو تیار تھے۔ جہاں اللہ تعالیٰ جماعت پر اپنا فضل نازل کر رہا ہے اور زیادہ لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے رہا ہے وہاں جماعت کو بھی اِس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ ہماری رائے غلط تھی۔ دراصل ہمارے اندر ایسی دیوانگی اور جنون نہ تھا جو کہ لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچ لاتا۔
دوستوں کو ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ تمام قیمتی نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب تک ایمان کا درخت ہرا بھرا اور مضبوط نہیں ہوتا اُس وقت تک ہم اس سے کسی قسم کے پھل حاصل نہیں کر سکتے۔ جب تک تم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ایمان تمام چیزوں سے قیمتی چیز ہے ۔جب تک تم اپنے ایمان کو اپنی جانوں پر، اپنے مالوں پر، اپنی بیویوں پر، اپنے بچوں پر، اپنے بھائیوں پر، اپنی بہنوں پر اور اپنے دوسرے رشتہ داروں پر فوقیت نہیں دیتے۔ جب تک تم ایمان کو ہر چیز پر مقدم نہیں رکھتے اُس وقت تک تمہارے اندر تبلیغ کا جوش پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ ایمان ہر چیز پر مقدم ہے تو یہ جذبہ اُس کے اندر تبلیغ کے لئے جوش پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کے پاس تو اتنی قیمتی اور اعلیٰ نعمت ہو لیکن اُس کے بھائی بہن اُس نعمت سے محروم ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے کسی رشتہ دار کو بیمار دیکھتا ہے تو اُس کا دل رحم کی وجہ سے پگھل جاتا ہے۔ یا جب کوئی شخص اپنے رشتہ دار کو فاقے اور غربت کی مصیبتوں میں مبتلا دیکھتا ہے تو اُس کا دل پگھل جاتا ہے۔ جب اِن معمولی معمولی مصیبتوں میں انسان دوسرے کی حالت پر رحم کھائے بغیر نہیں رہ سکتا تو ایمان سے محرومی جو کہ سب سے بڑی مصیبت ہے وہ کیسے دیکھ سکتا ہے۔ا گر کسی شخص کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا تو اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اُس کے اندر ایمان کا فقدان ہے اور جتنی جتنی کسی میں ایمان کی کمی ہو گی اُتنا ہی اُسے دوسروں پر کم رحم آئے گا۔ اگر کسی شخص کو اپنے رشتہ داروں کی بدحالیوں پر تو رحم آتا ہے لیکن دوسری مخلوقِ خدا پر رحم نہیں آتا تو وہ شخص ایمان کی دولت سے محروم ہے۔ کیونکہ سب سے بڑا رشتہ تو یہ ہے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اِس رشتہ سے بڑا رشتہ انسانوں کے درمیان اور کوئی نہیں۔ محبوب کی چیز انسان کو محبوب ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کے کسی بندے کو تنگ کیا جائے اِس لئے اُس سے محبت رکھنے والے بھی اِس بات کا تعہد کرتے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
مثل مشہور ہے کہتے ہیں مجنوں کسی جگہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ اُس نے رستے میں ایک کُتّا دیکھا۔ وہ اُسے پکڑ کر چومنے لگ گیا۔ ساتھیوں نے کہا کیا تم پاگل ہو گئے ہو کہ ایک کُتّے کو پیار کر رہے ہو؟ اُس نے کہا آپ لوگوں کو غلطی لگی ہے۔ مَیں کُتّے کو پیار نہیں کر رہا بلکہ میں تو لیلیٰ کے کُتّے کو پیار کر رہا ہوں۔ غرض جب انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اُس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز اُسے پیاری لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی بنی نوع انسان سے محبت ہے۔ اگر محبت نہ ہوتی تو اسے اِس رنگ میں پیدا ہی کیوں کرتا۔ پس تمام وہ لوگ جن کے دلوں میں بنی نوع انسان کے متعلق ہمدردی نہیں اور تمام وہ لوگ جو اپنے دلوں میں بنی نوع انسان کے لئے کپٹ 3 . کینہ اور بُغض رکھتے ہیں اُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں۔ جتنی جتنی کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کم ہوگی اُتنی ہی اُس کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے ہمدردی کم ہوگی۔ اگر کسی انسان کی ایمان کی متاع محفوظ ہے تو یقینی بات ہے کہ اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والاانسان دوسرے انسانوں کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ 4 کہ مَیں نے جِنّ و اِنس کو اپنا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اِس سے ہمیں انسانی پیدائش کی غرض کا علم ہو گیا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا عبد بنے۔ اور مخلوق میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتا ہے وہ اُس کا بندہ ہے۔ اور جو اُس کے احکام کی پیروی نہیں کرتا وہ بندہ نہیں ہے۔ بیشک وہ مخلوق خدا تعالیٰ کی ہے لیکن وہ عبد نہیں ہے کیونکہ اُس نے اپنی پیدائش کی غرض کو فراموش کر دیا۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والے انسان اِس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام دنیا اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا اقرار کرے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی اِس خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام دنیا راہِ راست پر آجائے۔ اگر تمہارے دنیاوی کاموں میں ذرا سی خرابی پیدا ہو جائے تو تم پریشان ہو جاتے ہو۔ ایک چھوٹی سی دکان جس سے بمشکل تمہارے بیوی بچوں کا گزارہ ہوتا ہے اُس کے کامیاب نہ ہونے پر تم کس قدر گھبراتے ہو۔ بزرگوں اور دوستوں کو دعاؤں کے لئے کہتے ہو۔ اور دوستوں کو پراپیگنڈا کرنے کے لئے کہتے ہو تا کہ کسی طرح تمہاری وہ چھوٹی سی دُکان کامیاب ہو جائے۔ تمہیں اپنی اس چھوٹی سی دکان کے لئے اِتنا فکر ہوتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ جس نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اُسے ان کی ہدایت کا فکر نہیں؟ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو جبراً ایک منٹ میں سب کے اندر ایمان پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ایسا کرنے سے بنی نوع انسان کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو سورج ہونے کے لئے بنایا اور چاند کو چاند ہونے کے لئے بنایا اور پہاڑوں کو پہاڑ ہونے کے لئے بنایا۔ اِس لئے قیامت کے دن ان کو کسی قسم کا انعام نہیں ملے گا۔ چونکہ وہ جبری طور پر ایسے بنا دیئے گئے ہیں اِس لئے ان کے کام کا کوئی بدلہ نہیں اور وہ کسی انعام کے مستحق نہیں۔ اگر انسان بھی ایسے ہی ہوتے اور وہ بھی جبری طور پر نیک بنا دیئے جاتے تو وہ بھی انعام کے مستحق نہ ہوتے۔ پس انسانوں کو جبر سے ہدایت پر لانے سے ان کی پیدائش کی غرض فوت ہو جاتی اور وہ منعم علیہ نہ بن سکتے۔ کیونکہ ایسی حالت میں پتھر اور لوہے میں اور ان میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ پس انسان کو آزاد چھوڑا گیا اور تبلیغ کو اس کی ہدایت کا ذریعہ بنایا گیا۔
پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو تندہی سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور ہر احمدی کو اپنے اوپر یہ فرض کر لینا چاہیئے کہ مَیں ایک احمدی سال میں ضرور بناؤں گا۔ اور اگرمَیں سال میں کم از کم ایک احمدی نہ بناؤں تو میری زندگی بے کار ہے۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ جماعت کے دوست سال میں کم سے کم ایک احمدی بنانے کا ضرور عہد کریں گے۔ اور اپنے اِس عہد کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں گے۔ قادیان میں اِس وقت پندرہ ہزار کی آبادی ہے۔ اِس میں سے تین ہزار آدمی آسانی سے ایسے نکل سکتے ہیں جن کو قادیان کے ارد گرد ایک ماہ کے لئے تبلیغ پر بھیجا جا سکتا ہے۔ اور قادیان کی جماعت میں سے کچھ لوگ تبلیغ کے لئے ارد گرد کے دیہات میں جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس تنظیم کا بہت اچھا نتیجہ نکل رہا ہے۔ بعض جگہ لوگوں پر بہت نیک اثر ہو رہا ہے اور بعض جگہ لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اور ابھی تمام افراد میں اِس تنظیم کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا۔ اگر تمام لوگ اِس کی اہمیت کو سمجھیں تو ہمیں قادیان میں سے کم ازکم تین ہزار آدمی ہر سال تبلیغ کے لئے مل سکتا ہے اور ہم پچیس آدمی ہر ماہ تبلیغ کے لئے بھیج سکتے ہیں۔ اگر ان کی عورتیں بھی ان کے ساتھ مل کر کام کریں تو پھر اَور بھی زیادہ شاندار نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ مردوں کے دوش بدوش عورتیں بھی کام کریں تو اس طرح سے کام جلدی ختم ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ کا ایجی ٹیشن جائز تھا یا ناجائز اِس وقت ہمیں اِس سے بحث نہیں۔ بہرحال ہمیںیہ نظر آتا ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوںنے بھی ایجی ٹیشن میں حصہ لیا اور آخر کار گورنمنٹ کو مسلم لیگ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور مجبوراً صلح کرنی پڑی۔ اِسی طرح اگر ہماری عورتیں مردوں کے دوش بدوش کام کریں اور عورتیں عورتوں میں تبلیغ کریں اور مرد مردوں میں تبلیغ کریں تو ہماری تبلیغ بہت جلد مؤثر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہزاروں مرد ایسے ہیں جو کہ یہ جانتے ہیں کہ احمدیت اچھی چیز ہے اور اسلام کی خدمت کرنے والی آج صرف یہی جماعت ہے لیکن بیویوں کے ڈر کی وجہ سے احمدی نہیں ہوتے۔اور ہزاروں عورتیں ایسی ہیں جن کے دلوں میں احمدیت گھر کر چکی ہے لیکن اپنے خاوندوں کے ڈر کی وجہ سے احمدی نہیں ہوتیں۔ اور مرد اور عورت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ مرد اور عورت اپنے تعلقات میں کشیدگی کو گوارا نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر مل کر حملہ کیا جائے تو جو مرد اپنی بیوی کی مخالفت کی وجہ سے رُکا ہوا ہو گا وہ اپنی بیوی کے احمدی ہونے پر فوراً احمدی ہو جائے گا۔ اور جوعورتیں اپنے خاوند کے ڈر سے احمدیت میں داخل ہونے سے رُکی ہوئی ہوں گی وہ اپنے خاوندوں کے احمدی ہو جانے کی وجہ سے فوراً احمدی ہو جائیں گی۔ اوراِس طرح ہماری ترقی دگنی ہو جائے گی۔
اِس کے بعد مَیں اِسی سلسلہ میں دوستوں کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مومن کی سب سے قیمتی متاع اُس کا ایمان ہوتا ہے اور جس انسان کے دل میں ایمان ہو وہ دوسرے انسانوں کے لئے اپنے دل میں بُغض اور کینہ نہیں رکھتا۔ مومن وہی ہے کہ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ یَدِہٖ وَ لِسَانِہٖ 5۔ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مُسْلِمُوْنَ کا لفظ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان کے ضرر سے مسلمان امن میں رہیں۔ مگر اِس جگہ مسلم سے مراد مسلم نہیں۔ کیونکہ ایک دوسری جگہ آپ نے اَلنَّاس کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے یعنی جس کے ہاتھ اور زبان کے ضرر سے لوگ امن میں رہیں 6۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلم سے مراد مسلم نہیں بلکہ امن دینے والے کے ہیں یعنی جو شخص یا قوم صلح سے رہتی ہے مسلمان اُسے کبھی نقصان نہیں پہنچاتا۔ وہ ہمیشہ دفاع کے طور پر کام کرتا ہے۔ غرض اسلام ہر مسلمان سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ تیرے ہاتھ اور زبان سے کسی شخص کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیئے۔ خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو۔ اسلام نے اِس معاملہ میں تفریق کو پسند نہیں کیا اور اِسی نقطہ نگاہ سے ہر مسلمان کو دوسرے بنی نوع انسان کو دیکھنا چاہیئے۔لیکن ہمارے ملک کے حالات کچھ ایسے اُلجھے ہوئے ہیں کہ یہاں کانگرس اور مسلم لیگ کے جھگڑے چلتے چلے جا رہے ہیں۔
جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہم سیاسیات میں نہیں پڑتے لیکن اگر ان سیاسیات کے اثر کو دیکھا جائے تو ان اثرات سے ہم بھی محفوظ نہیں۔ بہرحال ہم سیاسیات میں دخل نہیں دیتے۔ ہاں مذہبی لحاظ سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے آپس میں لڑیں گے۔ ہمارے درد اور تکلیف کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ ہمارے محبوب کے بندے ہیں اور ان کی تکلیف ہم سے دیکھی نہیں جا سکتی۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ وغیرہ سب برابر ہیں۔ اِس لئے انسانیت کے لحاظ سے ہمارے دل میں درد پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہندو، سکھ، عیسائی سبھی ہمارے محبوب کی مخلوق ہیں اور ہم چاہتے ہیں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ لیکن اگر فسادات ہوئے تو تمام قومیں تکالیف اور مصائب کا شکار ہونگی۔ لیکن باقی قوموں کو جو تفکرات ہیں وہ سیاسی قسم کے ہیں اور وہ سیاسی نقطہ نگاہ کے ماتحت اُن کو دیکھتی ہیں اور ہم اسے مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ ابھی ہماری پوزیشن ایسی نہیں کہ ہم سیاسی معاملات میں کوئی آواز بلند کر سکیں اِس لئے اِس معاملہ میں ہمارے لئے سوائے دعا کے اور کوئی چارہ باقی نہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیئے کہ موجودہ تغیرات ملک کی تباہی اور بربادی کا موجب نہ بنیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دونوں قوموں کے دماغوں کی اصلاح کر دے اور ہر ایک قوم دوسری قوم کے جائز حقوق خوشی سے دے دے ۔ ہندو مسلمانوں کے حقوق مارنے کی کوشش نہ کریں اور مسلمان ہندوؤں کے حقوق دبانے کی کوشش نہ کریں تا کہ ہمارا ملک لڑائی کی آگ سے بچ جائے اور ہماری تبلیغ کے راستے میں کوئی دیوار حائل نہ ہو۔ کیونکہ جب سیاسی اختلافات بڑھ جاتے ہیں تو لوگ دین کی باتوں کی طرف کم دھیان دیتے ہیں اور اُن کے دماغوں میں سیاسی ہیجان کی وجہ سے دین کی طرف توجہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس اِن دنوں تمام جماعت کو چاہیئے کہ خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے انصاف سے پیش آنے کی توفیق دے اور وہ آپس میں تعاون اور مفاہمت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو جائیں۔ او ر ہر ایک قوم دوسری قوم کے متعلق عفو، درگزر سے کام لے تاکہ ہمارا ملک کامل آزادی کا منہ دیکھ سکے اور ہمارا ملک بھی آزاد ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکے۔ اور تبلیغ کے لئے جو آسانیاں اور سہولتیں اب ہمیں حاصل ہیں ان میں جھگڑے اور فساد کی وجہ سے کوئی روک واقع نہ ہو جائے۔ اِن حالات میں دعاؤں کی چونکہ اشد ضرورت ہے اِس لئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سات جمعراتوں کوجماعت کے دوست روزہ رکھیں۔ چونکہ یہ خبر فوراً تمام علاقوں تک نہیں پہنچ سکتی اِس لئے آئندہ جمعرات کی بجائے میں 20 مارچ سے روزے رکھنے کا اعلان کرتا ہوں تا کہ باہر کے لوگ بھی شامل ہو سکیں۔ پہلا روزہ 20 مارچ کو، دوسرا روزہ 27 مارچ کو، تیسرا روزہ 3 اپریل کو، چوتھا روزہ 10 اپریل کو، پانچواں روزہ 17 اپریل کو، چھٹا روزہ 24 اپریل کو، اور ساتواں روزہ یکم مئی کو۔ اِس طرح یکم مئی تک سات روزے ہو جائیں گے۔ اِس کے بعد اگر یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قلوب کی اصلاح کر دی ہے اور خطرہ کے آثار دُور ہو گئے ہیں تو صرف سات روزے ہی رکھے جائیں گے۔ لیکن اگر یہ محسوس ہوا کہ ابھی حالات میں کچھ تغیر پیدا نہیں ہوا تو پھر اِس تحریک کو لمبا کر دیا جائیگا۔ روزہ رکھنے سے انسان کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ روحانی اصلاح کے لئے روزہ بہت ہی مفید چیز ہے۔ پھر دعاؤں کی قبولیت کا ایک خاص ذریعہ ہے۔ اور جو شخص دعا کرنے کا عادی نہ بھی ہو وہ باقاعدگی کے ساتھ دعا کرنے لگ جاتا ہے۔ پس روزے رکھو اور باقاعدگی کے ساتھ دعائیں جاری رکھو تا کہ اللہ تعالیٰ اِس طرح سے ہمارے ملک کے قلوب کی حالت کو بدل دے۔ ہمارے پاس سیاسی طاقت تو ہے نہیں کہ کسی پر دباؤ ڈال سکیں۔ لیکن ایک چیز ہمارے پاس ایسی ہے جو کہ دوسرے لوگوں کے پاس نہیں اور وہ دعا کا حربہ ہے۔ یہ حربہ تمام حربوں سے زیادہ طاقت اور شوکت رکھتا ہے۔
قصہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی بزرگ تھا۔ اُس کی یہ عادت تھی کہ وہ رات کے وقت اپنے دوستوں اور عزیزوں کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام سناتا اور اُنہیں وعظ و نصیحت کرتا۔ اُس کے ساتھ ہی ایک امیر کا مکان تھا جو کہ ناچ اور گانے کا بہت شائق تھا۔ جب وہ بزرگ دوسروں کے ساتھ مل کر دعا اور ذکر الہٰی میں مشغول ہوتا تو اُس کے ساتھ کے گھر سے گانے اور باجے کی زور زور سے آواز بلند ہوتی اور ان لوگوں کی عبادت میں خلل پڑ جاتا۔ اِس پر لوگوں نے اُس امیر کو سمجھایا کہ ایسا نہ کیا کرو۔ لیکن چونکہ وہ بادشاہ کے خاص آدمیوں میں سے تھا اِس لئے اپنے غرور کی وجہ سے وہ کسی کی بات ماننے کو تیار نہ ہوا۔ آخر پھر محلہ والوں نے زور دیا کہ اگر اب بھی تم نے ہماری عبادت میں خلل ڈالا تو ہم تمہارے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ پیش آئیں گے۔ جب اُس نے لوگوں کے جوش کو دیکھا تو وہ بادشاہ کے پاس گیا اور بادشاہ سے کہا کہ میری حفاظت کے لئے ایک دستہ فوج کا دیا جائے۔ بادشاہ نے اُس کی بات مان لی اور حکم دے دیا کہ ایک دستہ فوج کا اُس کے گھر پر پہرہ دینے کے لئے متعین کر دیا جائے۔ جب اُسے اطمینان ہو گیا کہ اب فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کے لئے پہنچ جائے گا تو اُس نے واپس آ کر اُس بزرگ کو بُلایا اور بڑے تکبر کے ساتھ کہا۔ میری حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بادشاہ نے مقرر کر دیا ہے اب مَیں پہلے کی نسبت زیادہ ناچ اور گانے کا شغل کروں گا۔ اب دیکھوں گا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ اُس بزرگ نے جواب دیا کرنا کیا ہے ہم اُس دستے کا مقابلہ کریں گے۔ اُس نے کہا۔ آپ عقل مند آدمی ہیں، آپ غور تو کریں کہ آپ نہتے ہو کر شاہی فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ آخر کونسا ہتھیار آپ کے پاس ہے جس سے آپ مقابلہ کریں گے؟ اُس بزرگ نے نہایت سادگی کے ساتھ کہا ۔ اگر وہ تیر و تفنگ لے کر آئیں گے تو ہم بھی راتوں کے تیروں سے اِن کا مقابلہ کریں گے۔ ہم بے شک بے بس ہیں لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ ہے۔ جب تمہارے دستہ کے تیر ہماری طرف آئیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ یہ لوگ نہتے ہیں تم جا کر اُس دستے کا مقابلہ کرو۔ اور جس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آ جائیں وہ کب جیت سکتا ہے۔ یہ الفاظ اُن کے منہ سے کچھ ایسے وثوق سے نکلے کہ وہ امیر آدمی یہ الفاظ سنتے ہی گھبرا گیا اور اُس نے کہا بے شک بادشاہ کی فوجیں راتوں کے تیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ مَیں آئندہ اپنے افعال سے توبہ کرتا ہوں۔ پس سب سے زیادہ مؤثر رات کا تیر ہوتا ہے کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کو نظرنہیں آتا۔
اِس جنگ میں جرمنوں کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے مادی راتوں کاایک تیر نکالا تھا۔ وہ اِس قسم کی شعاعیں تھیں جو کہ دشمن پر ڈالی جاتیں تو اُسے وہ نظر نہ آتیں۔ لیکن شعاعیں ڈالنے والوں کو نظر نہ آنے والی ان شعاعوں کے اثر سے ان کی تمام نقل و حرکت بخوبی نظر آ جاتی اور وہ عین نشانے پر گولہ باری کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے جرمنوں کو شکست ہوئی اور انگریز جیت گئے۔ تو رات کا تیر درحقیقت سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ وہ جس پر پھینکا جاتا ہے اُسے نظر نہیں آتا۔ مادی دنیا کے تیر ایک خاص جگہ اور خاص مقام سے نکلتے ہیں اور خاص جگہ اور خاص مقام پر جا کر گرتے ہیں اور وہ دیکھنے والوں کو نظر آ جاتے ہیں۔ لیکن یہ رات کا تیر ایسا ہے جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا اور مادی تیروں کی نسبت بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔ اور پھر یہ تیر ایسا ہے جسے کوئی دوسرا ایجاد بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جو شخص اِن تیروں کا قائل ہو گا اور اِن تیروں کے ایجاد کرنے کی کوشش کرے گا وہ یقینا مسلمان ہو جائیگا ۔اور جب مسلمان ہو جائیگا تو وہ دشمن نہ رہے گا۔ یہ تیر ایک ہی قوم کے قبضہ میں رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان تیروں میں اثر پیدا کرنے والا خدا ایک ہے دو نہیں۔ بہرحال یہ تیر ایسا ہے جو کہ ایک ہی قوم کے قبضہ میں رہتا ہے اور جو اِس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ یقینا ہمارا ساتھی بن جائیگا۔
پس رو رو کر دعائیں کرو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہندوستان کو لڑائی اور جھگڑے سے بچا لے اور تمہاری دعائیں لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا باعث بن جائیں اور ان کے دِلوں کی میل دھو دی جائے۔ وہ رات کو غم و غصہ کے خیالات لے کر سوئیں اور صبح اُٹھیں تواُن کے خیالات میں تبدیلی ہو چکی ہو۔ پس مَیں اعلان کرتا ہوں کہ دین کی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے اور ملک کے فائدے کے لئے تمام دوست تعہد کے ساتھ روزے رکھیں کیونکہ حُبُّ الْوَطَنِیْ بھی ایمان میں سے ہے۔ مَیں نے جیسا کہ بتایا ہے یہ روزے 20 مارچ سے شروع کئے جائیں اور ہر جمعرات کو روزہ رکھا جائے۔ اِس طرح یکم مئی تک سات روزے ہو جائیں گے۔ اِسکے بعد مَیں دیکھوں گا کہ اِس تحریک کے جاری رکھنے کی ضرورت ہے یا اسے بند کر دیا جائے۔ پس ایسے طور پر خشوع اور خضوع کے ساتھ دعائیںکی جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جائے اور اُس کے فرشتے ہماری تائید میں لگ جائیں اور جس کام کو دوسری طاقتیں نہیں کر سکیں ہم اُسے کر لیں۔ او ر بدقسمت ہندوستان جو ایک لمبے عرصہ سے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا ہوا ہے اُسے اِس حالت سے باہر نکال لائیں۔ اور ہندوستانیوں کے دلوں کو بدل کر نیکی اور تقویٰ کی طرف کھینچ لائیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی ترقیات اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام اور احمدیت کے پھیلانے میں مُمِد ہوں گے۔‘‘ (الفضل 19 مارچ 1947ئ)
1: ابراہیم:8
2: تذکرہ صفحہ 104 ایڈیشن چہارم
3: کپٹ: دشمنی۔ حسد۔ بُغض
4: الذاریٰت: 57
5: بخاری کتاب الایمان باب اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ (الخ) میں حدیث کے الفاظ یہ
ہیں۔’’ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ یَدِہٖ۔‘‘
6: النسائی کتاب الایمان باب تَأوِیْلُ قَوْل اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ قَالَتِ الْاَعْرَابُ۔ (الخ)


9
ہر احمدی کے دل میں یہ احساس ہونا چاہیئے کہ وہ دنیاکی روحانی کھیتی کے لئے بیج کی حیثیت رکھتا ہے
(فرمودہ 7 مارچ1947ء بمقام کراچی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج جمعہ میں جتنے دوست آئے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے مَیں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ دورے کی نسبت (جس کو پانچ سال گزر چکے ہیں) اب یہاں کی جماعت کی ترقی ایک نظر آنے والی ترقی ہے لیکن جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کی حیثیت ابھی اتنی بھی نہیں جتنی کھیت کے مقابلہ میں بیج کی ہوتی ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دانے سے سات سَو دانے پیدا ہوسکتے ہیں1۔ بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اِس سے بھی زیادہ پیداوار ہو سکتی ہے۔ اور گو ہمارے ملک میں ایک دانے سے سات سو دانہ پیدا نہیں ہوتا لیکن قرآن کریم نے اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ زراعت میں اتنی ترقی کی جا سکتی ہے کہ ایک دانہ سے سات سو دانہ پیدا ہو۔ گویا ایک ایکڑ سے چار پانچ سو من تک پیداوار ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اوسط آمد سات آٹھ من فی ایکڑ ہے۔ اگر قرآن پاک کے اصول کے مطابق پیداوار ہو تو ہمارے ملک میں کروڑوں من گندم ضرورت سے زیادہ پیدا ہو سکتی ہے۔ درحقیقت قرآن کریم نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ اِس بات کے امکانات موجو دہیں کہ ایک دانے سے سات سو دانہ پیدا ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اِس سے بھی زیادہ ترقی کی امید دلائی ہے۔ اِس اصل کے ماتحت اگر زراعت کو ترقی دی جائے تو اتنا غلہ پیدا ہو سکتا ہے جو موجودہ آبادی سے پچاس گنا زیادہ آبادی کے لئے بھی کافی ہو سکتا ہے۔ گو بظاہر یہ بات ناممکن نظر آتی ہے اور بعض لوگ اِس بات پر اعتراض بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب زمین کی طاقت کے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہے اُس نے ثابت کر دیا ہے کہ زمین کے اندر ایسی قابلیت موجود ہے کہ اِس سے زیادہ غلہ حاصل کیا جاسکے۔ بہرحال اِس ملک میں غلّہ اور بیج کی جو نسبت ہے وہ اِس شہر کی آبادی اور ہماری جماعت کے افراد کی نہیں۔ سندھ میں عموماً تیس سیر فی ایکڑ بیج ڈالتے ہیں اور اوسط پیداوار قریباً آٹھ من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کُل پیداوار کا نواں حصہ بیج ہوتا ہے۔
اگر ہماری جماعت کا ہر فرد بیج کی حیثیت اختیار کر لے اور اپنے اندر ایسا اخلاص اور تقویٰ پیدا کرے کہ اُس کی تمام خواہشات پر اللہ تعالیٰ کے لئے موت وارد ہو جائے۔ اور جس طرح دانہ خاک میں فنا ہو کر ایک نئی پیدائش حاصل کرتا ہے وہی حالت ہمارے ہر فرد کی ہو جائے تو اِس لحاظ سے بھی شہر کی کُل آبادی کا نواں حصہ ہمارے آدمی ہونے چاہئیں۔ اور آدمی بھی ایسے مخلص ہونے چاہئیں جو بیج بننے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں اور ان کے اندر روحانی قابلیت موجود ہو۔ کیونکہ بہت سے بیج ایسے بھی ہوتے ہیں جو ضائع چلے جاتے ہیں۔ اگر ہماری جماعت کا ہر فرد اِس بات کا احساس رکھتا ہو کہ وہ دنیا کی روحانی کھیتی کے لئے بیج ہے اور وہ قربانی کر کے ہی دنیا کی حالت کو بدل سکتا ہے اور اگر ہر احمدی میں یہ احساس موجود ہو کہ میری زندگی دوسروں کے لئے ہے اپنے لئے نہیں تو پھر بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر احمدی بیج کا قائمقام ہے اور ہم آئندہ اچھے نتائج کی امید کر سکتے ہیں۔ ورنہ صرف نام رکھ لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسان بظاہر ایسے ہیں جو کہ انسان کہلاتے ہیں لیکن وہ انسانیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ تم مسلمانوں کو ہی دیکھ لو کہ مسلمان کہلانے والے تو کروڑوں ہیں لیکن اسلام پر عمل کرنے والے ان کے مقابلہ میں کتنے تھوڑے ہیں۔ اِسی طرح نام کے لحاظ سے تو گندے انڈے بھی انڈے ہی ہوتے ہیں لیکن اچھے اور گندے انڈے برابر نہیں ہو سکتے۔ جو انڈے گندے ہوتے ہیں اُن سے بچے پیدا نہیں ہو سکتے اور جو انڈے اچھے ہوتے ہیں اُن سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پس جو فرق اچھے اور گندے انڈے میں ہے وہی فرق اچھے اور بُرے بیج میں ہوتا ہے۔ اچھے بیج سے تو دس گُنا غلّہ پیدا ہوتا ہے۔ اور جو بیج کسی قدر خراب ہوتا ہے اُس سے دُگنا تِگنا غلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور جو بیج خراب ہوتا ہے اُس سے بعض دفعہ تو کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اور بعض دفعہ جتنا بیج ڈالا جاتا ہے اُتنا ہی اُس سے غلہ پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال ایسا بیج بیج کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ اِسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اول تو ہماری جماعت کی تعداد بہت کم ہے۔ اور پھر ان میں سے بھی وہ لوگ بہت کم ہیں جو حقیقی اخلاص اور تقوی کی روح اپنے اندر رکھتے ہوں۔ اور تمام دنیا کے بچانے کے لئے اُن کے دلوں میں ایک آگ سُلگ رہی ہو۔ اور وہ یہ کوشش کرتے ہوں کہ دنیا کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے نجات حاصل کرے۔ اور اگر زیادہ نہیں تو کم سے کم اپنے شہر والوں کے لئے ہی اُن کے دلوں میں درد پیدا ہوتا ہو کہ یہ کیوں ہدایت سے محروم ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ بظاہر سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ سمجھ رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔
میں نے پٹیالہ کی ایک عورت کا واقعہ کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کی علمی ترقی کے لئے ایک دفعہ عورتوں میں لیکچر دینے شروع کئے۔ دس پندرہ دن کے بعد آپ کو خیال آیا کہ عورتوں سے پوچھنا بھی چاہیئے کہ وہ کچھ سمجھتی بھی ہیں یا نہیں۔ آپ کے لیکچر وفاتِ مسیح، اجرائے نبوت اور ضرورتِ الہام وغیرہ کے متعلق تھے۔ دس پندرہ دن کے لیکچروں کے بعد آپ نے ایک دن ایک عورت سے جو کہ پٹیالہ کی رہنے والی تھیںاور سب سے آگے بیٹھا کرتی تھیں پوچھا۔ بی بی! بتاؤ کہ اِتنے دن مَیں اپنے لیکچروں میں کیا کہتا رہا ہوں؟ اُس نے جواب دیا کوئی اللہ اور رسول اور نماز اور روزہ کی باتیں ہی کرتے ہوں گے اور کیا کرتے ہوں گے۔ اب جس شخص کی یہ حالت ہو وہ اعلیٰ بیج کس طرح قرار پا سکتا ہے وہ توایک کھوکھلا بیج ہو گا۔ اور اگر کھوکھلا بیج تیس سیر بھی ڈالا جائے گا تو اُس سے تیس سیر غلہ پیدا ہونے کی بھی اُمید نہیں ہو سکتی۔
پس خالی قربانی کسی کام کی نہیں جب تک کہ اُس کے ساتھ ایسی روح نہ ہو جو آئندہ زیادہ اچھے نتائج پیدا کرنے والی ہو۔ اگر صرف جان دینا کافی ہو تو جان دینے کو تو غنڈے سب سے آگے ہوتے ہیں ۔لیکن کیا اُن کے جان دینے سے قوم کی حالت سُدھر جاتی ہے اور قومی عمارت مضبوط ہو جاتی ہے؟ مسلمانوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ جان دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اسلام کی شوکت و عظمت اور ترقی کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کر سکے۔ جو بیج فنا ہو کر زیادہ اچھے پھل پیدا نہیں کرتا ہم اُسے اچھا بیج نہیں کہہ سکتے۔ اچھا بیج وہی ہے جو کہ اچھے پھل پیدا کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مقصود اور مدعا کے لئے قربانی کرنا ہی انسان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور یہی جذبہ دوسرے لوگوں کے دلوں میں قربانیوں کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے ہر فرد کو اچھے بیج کی حیثیت اختیار کرنی چاہیئے جو کہ جلد جلد بڑھتا ہے اور ایک دانے سے سات سو دانے پیدا کرتا ہے۔ جس کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ بہت اچھا بیج ہے اُس کے حاصل کرنے کے لئے لوگ بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں۔ مثلاً مصر میں روئی بہت اچھی پیدا ہوتی ہے اور مصر کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمارا بیج سب سے اچھا ہے اِس لئے ہم دوسرے ملکوں کو نہیں دے سکتے۔ چنانچہ وہاں کی گورنمنٹ کا یہ قانون ہے کہ کوئی شخص مصر سے باہر روئی کا بیج نہیں لے جا سکتا۔ جب یہ قانون ہے تو ایسی صورت میں لوگ اُس بیج کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ کسی دوست کو خط لکھا تو اُس میں ایک بیج ڈال دیا۔ وہ دوست اُس ایک بیج کو نہایت احتیاط کے ساتھ بوتا ہے اور جب وہ اُگ کرپودے کی صورت اختیار کرتا ہے تو اُس ایک پودے سے پچاس ساٹھ بیج پیدا ہو جاتے ہیں۔ پھر اگلے سال اُن پچاس ساٹھ بیجوںسے تین چار سو بیج پیدا ہوتے ہیں۔ پھر تیسرے سال تین چار سو سے پانچ سات ہزار بیج بن جاتے ہیں۔ پھر چوتھے سال پچاس ساٹھ ہزار بیج بن جاتے ہیں۔ پھر پانچویں سال پانچ دس لاکھ بیج بن جاتے ہیں۔ غرض پانچ سات سال کی محنتِ شاقّہ کے بعد کہیں بیج تیار ہوتا ہے اور لوگ نہایت احتیاط کے ساتھ اُن پودوں کی نگرانی کرتے ہیں تا کہ وہ ضائع نہ ہو جائیں۔ پس جس شخص کے پاس تھوڑا بیج ہوتا ہے وہ اُس کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرتا ہے اور اُس سے زیادہ بیج حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمیں بھی اپنی تعداد کی طرف دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ دنیا میں زیادہ سے زیادہ احمدیت کے بیج کو پھیلانا چاہیئے۔ اور کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا کوئی بیج بھی کسی جگہ ضائع نہ ہو۔ ہم ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ احتیاط کریں اور ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ قربانی کریں تا کہ دنیا میں اِس بیج کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ بعض لوگ جو دوسرے علاقوں سے کوئی بیج یا پودا نکال لاتے ہیں اور اُس کو اپنے ملک میں ترقی دیتے ہیں وہ دنیا میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیںاور بعض تو تاریخی آدمی بن جاتے ہیں۔ اور احمدیت تو ایک مذہب ہے جس کا پودا لگانے والا کبھی بُھلایا نہیں جا سکتا۔ فرانس کے ایک بہت بڑے آدمی نے ٹرکی میں جا کر محض اِس لئے ملازمت اختیار کی تھی کہ قسطنطنیہ میں جو شاہی باغ تھا اُس میں خاص قسم کا گلاب تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کی ایک قلم حاصل کر سکے۔ چنانچہ اُس نے باغبان کے طور پر باغ میں کام کرنا منظور کیا اور وہاں سے گلاب کی ایک قلم نکال لایا اور اُسے اپنے ملک میں ترقی دی اور آج تک وہ گلاب اُس کے نام سے مشہور ہے۔ اُس شخص نے اپنی عمر کا ایک حصہ بطور باغبان محض اِس لئے خرچ کیا کہ وہ ایک چیز اپنے ملک میں لے آئے ۔اِسی طرح کسی ملک سے کوئی شخص آلو لے آیا۔ کوئی تمباکو لے آیا۔ کوئی کافی لے آیا۔ اُن کو اپنے اپنے ملک میں ترقی دی اور گورنمنٹ کے قانونوں سے بچتے ہوئے اپنے ملک کے لئے دولت کا سامان پیدا کیا۔ جب دنیوی بیجوں کے لئے لوگ اِتنی محنت اور قربانی کرتے ہیں تو وہ بیج جس سے ایمان کی کھیتی وابستہ ہے اور جس کا پھیلانا ہمارے لئے ضروری ہے اور جس کے بغیر اسلام کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی رستہ کُھلا نظر نہیں آتا اُس بیج کے لئے احمدیوں کو کس قدر قربانی اور محنت کرنی چاہیئے۔ یہ اس بیج کی اہمیت سے خود ظاہر ہے۔ پس اس بیج کے پھیلانے کے لئے سچی قربانی اور سچے عزم کی ضرورت ہے۔ ہماری حیثیت تو بیج کی مقدار کے برابر بھی نہیں اِس لئے ہمیں تو اَور بھی زیادہ قربانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے احمدیت کے بیج کو تمام دنیا میں پھیلانے کی کوشش نہ کی تو ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ ہمارے لئے یہ بات کافی نہیں ہو گی کہ ہم نے اپنی زندگی اچھی گزاری ہے۔ بلکہ ہمارے ذمہ یہ بھی فرض ہے کہ ہم اسلام کی کھیتی کو دوبارہ تروتازہ کریں اور اس کے لئے بمنزلہ بیج بنیں۔
بعض دفعہ انسان اپنے لئے زندگی بسر کرتا ہے اور بعض دفعہ اُسے دوسروں کے لئے زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ انبیاء کی جماعتوں کے لئے یہ بات کافی نہیں ہوتی کہ وہ خود نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکی اور تقویٰ پر قائم کرنا اُن کا فرض ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اس فریضہ کے سرانجام دینے میں کوتاہی سے کام لیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے مجرم ہوتے ہیں۔ ان میں اور دوسرے لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ عام لوگ اپنے لئے جیتے ہیں لیکن وہ دوسروں کے لئے جیتے ہیں۔ جو شخص دنیوی عزت کے لئے کام کرتا ہے وہ دنیا کی نظروں میں معزز ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے۔ لیکن اِن دونوں کے مرتبہ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے اور اِس کی مثال تم یوں سمجھو کہ ایک جرنیل بھی بڑا آدمی ہے اور ایک تاجر بھی بڑا آدمی ہے اور سوسائٹی میں صرف جرنیلوں کی ہی عزت نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے تاجروں کی بھی عزت کی جاتی ہے۔ لیکن جب تاریخ ان کا مقابلہ کرے گی تو اُس میں تاجر کو جُوتی کی حیثیت بھی نہیں دی جائے گی اور ایک جرنیل کی حیثیت تاج کی ہو گی۔ جرنیل کو یہ مقام اِس لئے دیا جائے گا کہ اُس نے اپنی قوم کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا اور اپنے ملک کے لئے زندگی بسر کی۔ لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے لئے زندگی گزارتا ہے وہ تو اتنی بڑی عزت کا مستحق ہے کہ دنیا کی کوئی عزت اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس وقت کی نزاکت کو سمجھو۔ اور زیادہ سے زیادہ قربانی کر کے اِس بیج کو شہروں، صوبوں، اور ملکوں میں پھیلانے کی کوشش کرو۔ اور اگر تمہاری نظر زیادہ وسعت نہیں رکھتی تو کم ازکم اپنے شہر کی درستی کی تو کوشش کرو۔ یوں تو ہر جگہ ہی ہمیں احمدیت کے پھیلانے کی ضرورت ہے لیکن سندھ کی طرف ہمیں خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1915ء کی بات ہے اُس وقت سندھ کو ابھی کوئی اہمیت نہ تھی اور سندھ بمبئی کی ایک کمشنری تھی کہ میںنے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک نہر کے کنارے پر ہوں اور اُس نہر کا نظارہ دیکھ رہا ہوں۔ میں ابھی وہیں کھڑا ہوں کہ شور پڑ گیا کہ دریا کا بند ٹوٹ گیا ہے اور تمام علاقے میں پانی پھیل گیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ارد گرد کے گاؤں پانی کی زد میں آ گئے ہیں۔ میں حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں مجھے آواز آئی کہ پانی ادھر بھی آ گیا ہے ۔میں اُس جگہ سے ابھی ہٹا نہیں تھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور میں پانی میں گِھر گیا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے یہ خیال کیا کہ یہ دریا آخر دریائے سندھ میں مل جائے گا۔ چنانچہ میں اُس وقت دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں۔ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں۔ میں تیرتا جاتا ہوں لیکن میرے پاؤں نہیں لگتے یہاں تک کہ میں اُس جگہ تک پہنچ گیا جہاں سندھ جا کر ڈیلٹا 2 بناتا ہے۔ اُس کے قریب جا کر میرے پاؤں لگ گئے۔
اِس رؤیا میں میری زبان پر اللہ تعالیٰ نے جو یہ دُعا جاری کی تھی کہ یا اللہ! سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں، اِس کا مجھے ہمیشہ خیال رہتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے سندھ کو اہم جگہ قرار دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ جب سندھ بیراج کی سکیم شروع ہوئی تو مجھے اپنی خواب یاد آگئی اور میں نے جماعت میں تحریک کی کہ جماعت کو اس علاقہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اُس وقت میری اِس تحریک کی اہمیت کو نہ سمجھا اور جماعت جس قدر اُس وقت حصہ لے سکتی تھی اس نے نہ لیا۔ میں نے دو دوستوں کو زمینوں کے متعلق تحقیقات کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ ایک ریونیو آفیسر سے ملے۔ اُس نے ہمارے آدمیوں سے کہا کہ ہمیں یہاں آبادی کے لئے آدمی نہیں ملتے آپ پنجابیوں کو یہاں بسائیں ہم آپ کو اِس کے عوض زمین کا حصہ دیں گے۔ لیکن ہماری طرف سے یہ پیش کیا گیا کہ دو فیصدی کمیشن ہمیں دیا جائے۔ چنانچہ یہ گفت و شنید کر کے ہمارے آدمی واپس آ گئے اور دو تین ماہ مشورہ میں گزر گئے۔ اِس عرصے میں پنجابی آنے شروع ہو گئے۔ جب دوبارہ ہمارے آدمی آئے تو اُس ریونیو آفیسر نے کہا کہ اب آپ کو کمیشن وغیرہ تو نہیں دیا جا سکتا البتہ آپ جس جگہ پسند کریں زمین کا انتخاب کر لیں۔ جس جگہ آپ انتخاب کریں گے وہیں ہم زمین کا انتظام کر دیں گے۔ پھر مشورہ کرتے کرتے دیر ہو گئی۔ آخر میں نے بعض دوستوں کو بھیجا۔ انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا انتخاب کر کے درخواست دے دی اور ہم یہ سمجھے کہ کام ہو گیا لیکن سات آٹھ ماہ گزر گئے اور ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر ہمیں فکر پیدا ہوا۔ ہم نے دوبارہ تحقیقات کرائی تو معلوم ہوا کہ ابھی معاملہ زیر غور ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد ایک افسر نے ہمیں یہ راز بتایا کہ گورنمنٹ وہ زمین جس کا آپ نے انتخاب کیا ہے انگریزوں کو دیناچاہتی ہے اور اُس نے انگریزوں کو مفت دینی ہے اور آپ قیمتاً مانگ رہے ہیں تو گورنمنٹ اِس اعتراض سے ڈرتی ہے کہ ہندوستانی اس زمین کو قیمتاً خریدنے پر تیار تھے لیکن اُن کو نہیں دی گئی اور انگریزوں کو مفت دی گئی ہے۔ اس لئے گورنمنٹ آپ سے ٹال مٹول کر رہی ہے تا کہ آپ تھک کر اِس زمین کا ارادہ چھوڑ دیں اور وہ زمین انگریزوں کو دے دے۔ اِس کیس کے لئے میں نے ولایت میں اپنے مبلغ کو لکھا کہ وہ سر اڈوائر اور لائڈ جارج کو ملیں اور اُنہیں کہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا بے انصافی کی جارہی ہے۔ سر اڈوائر کے میرے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ سر اڈوائر نے کہا کہ مَیں مسٹر ڈاؤ (جو کہ سندھ میں ریونیو آفیسر تھے) کو لکھوں گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور لائڈ جارج نے بھی کہا کہ میں بھی سفارش کروں گا۔ مسٹر ڈاؤریونیو آفیسر نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس زمین کے متعلق تو فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ وہ انگریزوں کو دی جائیگی۔ اِس پر ہمیں کہا گیا کہ آپ کوئی اَور ٹکڑا تجویز کر لیں۔ میں نے پھر آدمی بھجوائے اور یہ جگہ جو کہ اب احمد آباد اور محمود آباد وغیرہ کے نام سے موسوم ہے تلاش کی گئی۔ یہ پنتالیس سَو ایکڑ تھی۔ اِس میں سے بھی احمد آباد کی جو زمین تھی اس پر بھی انگریز قبضہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ گورنمنٹ کا وعدہ بیس ہزار ایکڑ کا ہے۔ ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ ہم لے چکے ہیں۔ اور اڑھائی ہزار ایکڑ باقی ہے یہ بھی ہم لے لیں گے۔ اِس ٹکڑے کو اگر ہم چھوڑ دیتے تو ہمارے پاس چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رہ جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اِس معاملہ میں ہماری مدد فرمائی۔
معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ میری خواب کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ مسٹر ڈاؤ کے ساتھ ایک ہندوستانی پارسی افسر تھے۔ اُن کے دل میں ہندوستانیوں کے لئے ہمدردی تھی۔ جب ہمارے آدمی اُن سے ملے تو اُنہوں نے کہا کہ مجھے تو غصہ آ رہا ہے یہ ہندوستانیوں کو محروم کیا جا رہا ہے اور تمام حقوق انگریزوں کو دیئے جا رہے ہیں۔ لیکن میں کیا کروں؟ گورنمنٹ معاہدہ کر چکی ہے کوئی ذریعہ آپ بتا دیں تو پھر میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔ جب اوپر کے افسر کی مدد کرنے کی خواہش ہو تو ماتحت بھی رستہ پیدا کر لیتے ہیں۔ اُس کے ایک کارکن نے کہا اگر جناب چاہتے ہیں کہ اِن کی مدد کی جائے تو میں رستہ آپ کو بتا سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بیشک گورنمنٹ نے بیس ہزار ایکڑ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انگریزوں نے خود ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ لے کر یہ تحریر کر دیا ہے کہ اڑھائی ہزار ایکڑ ہم چھوڑتے ہیں۔ آپ یہ رقبہ ان کو دے دیں۔ اور اگر انگریزوں کی طرف سے مطالبہ ہو تو آپ اُنہیں کہہ دیں کہ آپ باقی رقبہ خود چھوڑ چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے چودھری فتح محمدصاحب سیال کو بھیج دیا اور وہ روپیہ وغیرہ ادا کر کے زمین خرید کر واپس آ گئے۔ جب انگریزوں کی طرف سے زور دیا گیا تو اِس پارسی افسر نے کہہ دیا کہ میں تو دستخط کر چکا ہوں۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے سندھ میں ہمیں اپنا قدم جمانے کا موقع دیا۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ سندھ بمبئی سے علیحدہ ہو گیا اور اِسے صوبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اور پھر مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اسے خاص اہمیت حاصل ہو گئی۔ جب تک صوبہ بمبئی کے ساتھ اِس کا الحاق تھا اُس وقت تک ہندو اس پر غالب تھے۔ لیکن علیحدگی کے بعد یہ ایک ایسا صوبہ بن گیا جہاں مسلمانوں کو زبردست اکثریت حاصل ہو گئی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے سندھ میں کئی جگہ ہماری جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور لوگوں میں احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ِ 3 یعنی اے مسلمانو! تم جہاں سے بھی سفر کے لئے نکلو مکہ کی طرف منہ کیا کرو۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس آیت کا مطلب کیا ہے کہ تم جہاں کہیں سے نکلو مکہ کی طرف منہ کیا کرو۔ کیا ہر مسلمان گھر سے نکلتے ہوئے نماز پڑھتا ہوا نکلتا ہے؟ او رپھر جب پہلے ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ 4 تو پھر اِس جگہ دوبارہ اِس آیت کے لانے کی کیا ضرورت تھی کہ جہاں سے بھی نکلو مکہ کی طرف منہ کیا کرو؟ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلمان توحید کے علمبردار تھے۔ اور دوسرے لوگ یہ اعتراض کرتے تھے کہ بیت المقدس جو کہ بُتوں سے پاک ہے اُس کو چھوڑ کر مسلمانوں نے اب خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ بتوں سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ بتوں والی جگہ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اعتراض چونکہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہے اِس لئے تم جب بھی خروج کروخواہ تم شمال کی طرف نکلو خواہ جنوب کی طرف تمہارے مدنظر یہ ہونا چاہیئے کہ ہم نے کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا ہے۔ چونکہ تمہیں کافروں کے ساتھ لڑائیاں پیش آ رہی ہیں اِس لئے تمہیں ہر وقت یہ مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ہم نے مکہ کو فتح کرنا اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا ہے۔ اِس حکم میں اصولی طور پر اِس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو اپنا مقصد ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیئے اور خواہ وہ کسی کام میں مصروف ہو۔اُسے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیئے۔
ہماری جماعت کے اکثر لوگ ایسے ہیں جو چندہ ادا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ باقی روپیہ ہماری ذاتی چیز ہے ہم جس طرح چاہیں اُسے خرچ کرسکتے ہیں۔ اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات درست ہے۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کو مدنظر رکھنے سے باوجود اس کے کہ وہ اپنا روپیہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کریں گے اُن کو ثواب حاصل ہوتا رہے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ اُس روپے کو وہ ایسے طور پر خرچ کریںجس سے جماعت کو تقویت پہنچے۔ اگر ایک تاجر ایسے طور پر تجارت کرتا ہے کہ اُس سے سلسلہ کو فائدہ پہنچے ، اگر ایک صنّاع ایسے طور پر صنعت کرتا ہے کہ اُس سے جماعت کو فائدہ پہنچے تو وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اِس طرح ہمارے ہر کام پر یہ ٹھپہ لگا ہوا نظرآنا چاہیئے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ مثلاً اگر کسی شہر کے تاجر مل کر پچاس ساٹھ احمدیوں کو تجارت کا کام سکھادیتے ہیں اور اِسی طرح اُن کے لئے روزی کمانے کا سامان مہیا کر دیتے ہیں تو یہ چیز اُن کے ذاتی منافع سے بہت زیادہ قیمتی ہو گی۔ کیونکہ جان کی قیمت مال سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کی کوشش سے ایک بُھوکا شخص بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے تویہ ہمارے لئے زیادہ خوشی کا موجب ہے بہ نسبت اِس کے کہ ہمارا کوئی تاجر پچاس ہزار روپیہ کما لے۔ کیونکہ بھوک کا ڈر قوم کے اعضاء کو مضمحل کر دیتا ہے۔ لوگ دو بیویاں صرف اِس ڈر سے نہیں کرتے کہ ہمیں کھانے کو کہاں سے ملے گا۔بہار میں جو تباہی مسلمانوں پر آئی تھی اُس کا علاج میں نے بہار والوں کو یہی بتایا تھا کہ تم لوگ شادیاں زیادہ کرو۔ تمہاری عورتیں دوسری شادی کو پسند کریں یا نہ کریں لیکن چونکہ تمہارا ہندوؤں سے مقابلہ ہے اِس لئے ضروری ہے کہ تمہاری تعداد جلدی جلدی بڑھے ۔ بیشک عورت یہ پسند نہیں کرتی کہ اُس کا خاوند کوئی دوسری شادی کرے۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا یہ اجازت دینا بتاتا ہے کہ ایک وقت قوموں پر ایسا بھی آتا ہے جب اُنہیں فطری تقاضوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تَزَوَّجُوْا وَلُوْدًا وَ دُوْدًا 5 تم بچے پیدا کرنے والی اور محبت کرنے والی بیویوں سے شادی کرو۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر زیادہ بچے ہو جائیں گے تو ہم بُھوکے مریں گے۔ لیکن مجھے حیرت آتی ہے کہ کیا اِن قوموں کوصحابہؓ سے زیادہ بھوکے رہنے کا خطرہ ہے؟ صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ بعض دفعہ کھجوروں پر اور بعض دفعہ اونٹنی کے دودھ پر ہی گزارہ کر لیتے تھے۔ آجکل کے تو غریب بھی اُس وقت کے امراء سے بہت اچھا گزارہ کرتے ہیں اور امراء کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے عیش میں ذرا بھی کمی آنا پسند نہیں کرتے۔ اگر مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان پر عمل کریں تو پچاس ساٹھ سال کے اندر مسلمانوں کی گرتی ہوئی حالت درست ہو جائے اور اِن کی تعداد کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ لیکن بُھوک کا خوف اُنہیں اِس پر عمل کرنے نہیں دیتا۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کے وجود سے سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ سلسلہ تم سے سارا مال نہیں مانگتا۔ لیکن تم سے یہ خواہش ضرور کرتا ہے کہ تم اپنے مالوں اور پیشوں میں ایسے طور پر ترقی کرو کہ اِس سے سلسلہ کو فائدہ پہنچے۔ مثلاً ایک تاجر اگر سلسلہ کو فائدہ پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے کہ کسی احمدی کو اپنے ساتھ ملا کر تجارت کا کام سکھادے۔ جب وہ کام سیکھ جائے گا تو وہ دوسری جگہ اپنا کام چلا سکے گا۔ اِس طرح کام کرنے سے جماعت کو بہت تقویت پہنچے گی ۔
ہماری جماعت تو مذہبی جماعت ہے اِس میں قومی جذبہ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہونا چاہیئے۔ ہم تو دنیا دار لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنی خدمات اپنی قوم کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ انگریزوں کے ہندوستان میں داخل ہونے کا ذریعہ ایک انگریز ڈاکٹر تھا جس نے شاہجہان کی لڑکی کا علاج کیا۔ اور جب وہ اچھی ہو گئی تو شاہجہان نے خوش ہو کر اُس ڈاکٹر سے کہا کہ جو انعام چاہتے ہو مانگو۔ اُس انگریز ڈاکٹر نے کہا میں اَور کچھ نہیں مانگتا آپ صرف اِتنی مہربانی کریں کہ ہمارے جہازوں کو ٹھہرنے کے لئے ہندوستان کے ساحل پر کوئی جگہ دے دیں۔ اِس طرح انگریز قوم کے لئے ہندوستان میں قدم رکھنے کا رستہ کُھل گیا۔ اگر وہ ڈاکٹر اُس وقت دس بیس لاکھ روپیہ مانگتا اور بڑا امیر کبیر بن جاتا تو کیا اُس کی قوم کے دل میں اُس کی اتنی عزت قائم ہو سکتی تھی جتنی اب ہے؟ اور کیا اُس کی قوم ہندوستان میں داخل ہو سکتی تھی؟ لیکن اُس نے اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے قوم کے فائدہ کو مدنظر رکھا جس سے اُس کی تمام قوم ہندوستان کی زمین پر غالب آ گئی اور اُس کی نسلوں کو بھی کئی قسم کے منافع پہنچ گئے۔
پس ہماری جماعت کو انفرادیت کی روح کچل دینی چاہیئے اور ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ میں ایک بیج ہوں جو اپنی قوم کے مفاد کے لئے زمین میں دفن ہو کر اچھے نتائج پیدا کروںگا تا کہ تمہاری ہر قربا نی پہلی قربانی سے زیادہ شاندار نظر آئے اور ہر آنے والے سال میں تم پہلے کی نسبت بہت آگے نکل جاؤ۔ یاد رکھو جو شخص چھوٹی چیز پر تسلی پا لیتا ہے وہ خدائی فوج کا سپاہی نہیں کہلا سکتا۔ بے شک ریاستوں کے سپاہی چھوٹی چھوٹی فتوحات کو بھی بڑا سمجھتے ہیں لیکن آزاد حکومتوں کے جرنیل ملکوں کو فتح کر کے بھی تسلی نہیں پاتے۔ اِسی طرح بلند حوصلہ جماعتیں بھی چھوٹی چیز پر راضی نہیں ہوتیں اور کسی ایک مقام پر ٹھہر جانے کو وہ اپنے لئے موت کا پیغام سمجھتی ہیں۔ تمہیں بھی اپنے اندر یہی عزم پیدا کرنا چاہیئے اور سلسلہ کی ترقی کے لئے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ تب اور صرف تب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے اور خدا تعالیٰ کی رضاکے مستحق ہو سکتے ہو۔‘‘ (الفضل 20؍ اپریل 1947ئ)
1: البقرۃ:262
2: ڈیلٹا: (DELTA) تکونی زمین جو کسی دریا کے دہانے پر واقع ہو۔
3: البقرۃ:150
4: البقرۃ: 145
5: ابوداؤد کتاب النکاح باب اَلنَّھْیُ عَنْ تَزْوِیْجِ مَنْ لَّمْ یَلِدْ مِنَ النِّسَائِ میں یہ الفاظ ہیں
’’تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ۔‘‘

10
قومی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنے اندر طاقت پیدا کی جائے اور اپنے جسموں کو مضبوط بنایا جائے
(فرمودہ 14 مارچ1947ء ناصرآباد سندھ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی ترقی کے لئے جہاں اور بہت سے امور ضروری ہیں۔ وہاں اُس کی تجارت کا مضبوط ہونا بھی ایک اہم اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہندو تو جب بھی کوئی چیز خریدتا ہے تو وہ ہندو سے خریدتا ہے لیکن ایک مسلمان کو اگر ایک آنے کی چیز کسی ہندو سے تین پیسے میں بھی مل جائے تو وہ فوراً خریدنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں قومی ترقی کا وہ احساس نہیں جو ایک ہندو کے کے دل میں پایا جاتا ہے۔ ہندو اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ میرا روپیہ ہندو کے پاس جانا چاہیئے لیکن مسلمان کو اس بات کا خیال تک نہیں آتا کہ میرا پیسہ بھی میری قوم کے آدمیوں کے پاس جانا چاہیئے۔ اور تو اور مَیں نے قادیان کے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں حتی کہ سبزی تک بٹالہ سے خریدنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اپنے احمدی دکانداروں سے نہیں خریدتے۔ یہی حال میں ناصر آباد میں دیکھ رہا ہوں کہ احمدی دکاندار کو چھوڑ کر کُنری سے لوگ چھوٹی چھوٹی چیزیں خرید لاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ اپنا روپیہ بچا نہیں رہے بلکہ دوسروں کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ وہ باقی روپیہ بھی اُن کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ دو پیسے کی مہنگائی تو ان کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے لیکن اتنی بڑی مہنگائی جو کہ قوم کے مال کو تباہ کرنے کا موجب بنتی ہے ان کو نظر نہیں آتی۔ ہندو اپنے روپیہ کو اپنی قوم میں ہی چکر دیتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمان اپنا روپیہ دوسری قوم کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ ہندو یہ سمجھتا ہے کہ اگر میرا روپیہ میری قوم کے پاس جائے گا تو وہ بھی میرے کام آئے گا لیکن مسلمان خود جا کر ہندو کو دے آتا ہے کہ یہ لے کر اس سے میرے خلاف تیاری کرو۔ حالانکہ مسلمانوں کے پاس پہلے ہی بہت کم روپیہ ہے۔
اسی طرح قومی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنے اندر طاقت پیدا کی جائے اور اپنے جسموں کو مضبوط بنایا جائے۔ مثل مشہور ہے کہ کسی جگہ معمولی سی بات پر دو آدمیوں میں جھگڑا پیدا ہوا جس سے زیادہ بدمزگی پیدا ہوگئی۔ایک طرف ایک ہی آدمی تھا اور دوسری طرف دو باپ بیٹا تھے۔ انہوں نے جب اس اکیلے کو پکڑ کر مارنا شروع کیا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ جب اس کی چیخ نکلی تو بیٹے نے باپ سے کہا۔ ابا جان یہ تو وہی بَلا معلوم ہوتی ہے جو ہمارے جانوروںکو کھا جاتی تھی۔ وہ بھی اسی قسم کی چیخ مارتی تھی۔ اس پر انہوں نے اسے اور بھی مارنا شروع کیا۔ آخر جب اس کی حالت خراب ہونے لگی۔ تو انہوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ پاس ہی کوئی کشمیری بھی بیٹھا ہوا تھا۔ جب انہوں نے اس کو چھوڑا تو کشمیری اس مار کھانے والے سے کہنے لگا چُپ کرچُپ کر تُوں تے چُپ کر کے مار کھا لئی۔ خدا دی قسم جے میں ہندی تے تُھک تُھک کے منہ بھر دیندی۔ (کشمیری اردو یا پنجابی صحیح نہیں بول سکتے۔ اس لئے وہ اکثر اپنے لئے مونث کا صیغہ ہی استعمال کرتے ہیں۔) یعنی تم نے تو خاموشی سے مار کھا لی لیکن اگر مجھے مارتے تو میں تُھوک تُھوک کر ان کا منہ بھر دیتا۔ اگر کسی شخص میںجسمانی لحاظ سے طاقت نہ ہو اور وہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور ہو تو وہ بھی مونہہ پر تھوکنے کے سوا اَور کیا کر سکتا ہے۔ حالانکہ مومن کو ایسا ہوشیار ہونا چاہیئے کہ دشمن جب بھی اس کی طرف دیکھے تو اُسے بھاگتا ہوا پائے۔ جسم کی مضبوطی کے لئے سب سے ضروری چیز ورزش ہے۔ ورزش سے جسم میں چُستی پیدا ہوتی ہے اور انسان زیادہ پُھرتی کے ساتھ بھاگ دوڑ کا کام کر سکتا ہے۔ اس طرح تیر اندازی اور غلیل کے ساتھ نشانہ بازی کی بھی مشق کرتے رہنا چاہیئے۔ جو شخص غلیل کے نشانے کی مشق رکھتا ہے وہ بندوق آسانی کے ساتھ چلا سکتا ہے۔ اسی طرح ڈنڈ پیلنا، چھلانگ لگانا اور نیزہ بازی کی مشق کرتے رہنا بھی بڑی مفید چیز ہے۔ اس سے جسم میں چُستی اور بہادری کی روح پیدا ہوتی ہے۔ صبح کے وقت دوڑ لگانا اور بیٹھکیں نکالنا بھی مفید چیز ہے۔ اسی طرح گھوڑے کی سواری کا جاننا بہت ضروری ہے۔ قادیان میں توصرف دو تین گھوڑے ہیں۔ اس لئے وہاں گھوڑے کی سواری سیکھنے کے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں لیکن یہاں تو کثرت کے ساتھ گھوڑے ہیں۔ اس لئے گھوڑے کی سواری بہت آسانی کے ساتھ سیکھی جا سکتی ہے۔ مگر سواری سیکھنے والے کو کم از کم اتنی مشق ضرور ہونی چاہیئے کہ وہ بغیر کاٹھی یا بغیر لگام کے گھوڑے سے کام لے سکے۔ جبکہ سپاہیوں کو سکھایا جاتا ہے۔سپاہی اتنی مشق کرتے ہیں کہ گھوڑے ان کے اشاروں کو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اور درحقیقت سواری یہی ہے کہ انسان دن بھر گھوڑے پر سفر کرتا رہے اور تھکے نہیںاور بغیر لگام اور بغیر زین کے گھوڑے پر سواری کر لے۔ اس سے چھلانگیں وغیرہ لگوائے اُسے دوڑائے اور ہر حالت میں اُسے گھوڑے پر پوری طرح قابو حاصل ہو۔ جس ملک سے ہم آئے ہیں وہاں گھوڑے کی سواری کو بہت ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ وہاں اب بھی یہ دستور ہے کہ جب بچہ پانچ چھ سال کا ہو جاتا ہے تو اُسے گھوڑی پر بٹھا کر گھر سے نکال دیتے ہیں۔ دو تین سال تک وہ جنگلوں میں گھوڑی پر پھرتا پھراتا رہتا ہے اور بھوک پر جنگل کے پھل کھالیتا ہے۔ اِس طرح اسے سواری کی اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ وہ سواری سے تھکتا نہیں۔ اور جس طرح ہم کو پیدل چلنا آسان معلوم ہوتا ہے اس طرح وہ گھوڑے کی سواری کو آسان سمجھتا ہے۔ ایسا سوار لڑائی کے موقع پر بعض دفعہ سو (100) سو (100) آدمی کے حملہ کو روک دیتا ہے کیونکہ وہ ایسے طور پر گھوڑے کو کُداتا ہے کہ گھوڑا اُچھل کر ان پر حملہ کرتا ہے اور دوچار کو زخمی کر دیتا ہے اور باقی بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے آدمیوں کو بھی اس قسم کا سوار بننا چاہئیے اور اپنے اندر بہادری پیدا کرنی چاہیئے۔ جو شخص دشمن کے حملہ کے وقت اپنے آپ کو مجبور اور لاچار پاتے ہوئے مار کھا لیتا ہے وہ بہادر نہیں بلکہ بے غیرت ہوتا ہے۔ بہادر وہ ہے جو کہ طاقت رکھنے کے باوجود مار کھائے۔ ایک بزدل اور بے بس آدمی اگر مار کھا لیتا ہے تو وہ بے غیرت کہلاتا ہے۔ لیکن ایک طاقتور اور پوری تیاری والا انسان اگر مار کھا لیتا ہے تو وہ بہادر کہلاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دشمن سے مار کھائی۔ اور ہمارے ملک کے جولاہے بھی زمینداروں سے مار کھا لیتے ہیں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں مار کھائی جبکہ آپ کے پیچھے ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو کہ آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار تھے۔ اس لئے آپ کا مار کھانا بہادری کی دلیل تھا۔ لیکن جولاہا جب مار کھاتا ہے تو وہ بے بس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بے غیرت کہلاتا ہے۔ پس تمہیں اپنے اندر بہادری کی روح پیدا کرنی چاہیئے۔ مگر یہ بات بھی ہمیشہ مدنظر رکھو کہ مومن کبھی کسی پر حملہ نہیں کرتا۔ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ خود بھی امن میں رہے اور دوسروں کو بھی امن دے۔ اور یہی ہماری جماعت کے قیام کی غرض ہے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ تم لوگوں کو تبلیغ کرو اور احمدیت کے قلعہ میں ان کو داخل کرنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ سب سے بڑی تنظیم اور سب سے بڑی حفاظت احمدیت میں ہے۔ جب تک لوگ ایک ہاتھ پر جمع نہیں ہوتے کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اور یہ ہاتھ بھی ایسا ہاتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقررہ کردہ ہے اب اسلام کا شیرازہ احمدیت کی مضبوط رسّی سے وابستہ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ تبلیغ احمدیت پر زور دیں اور کوشش کریں کہ دنیا کا کوئی فرد ایسا نہ رہ جائے جسے ہم خدا اور اس کے رسول کا پیغام نہ پہنچا دیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ساتھ ہو اور اسے صحیح رنگ میں اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ)


11
کوئی قربانی رنگ لائے بغیر نہیں رہتی
جو شخص دین کے لئے قربانی کرتا ہے وہ ایسے کھیت میں بیج ڈالتا ہے جس سے اُسے کئی گنا زیادہ ملے گا
(فرمودہ 28 مارچ1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’دنیا میں دو ہی نقطہ نگاہ کام کر رہے ہیں۔ ایک نقطہ نگاہ دنیوی ہے اور ایک نقطہ نگاہ دینی ہے۔ دنیوی نقطہ نگاہ سے انسان کی تمام توجہ اور اس کے افعال کا انحصار اولاد پر ہوتا ہے اور دینی نقطہ نگاہ کا انحصار اُن نیک اعمال پر ہوتا ہے جو کہ انسان اِس دنیا میں کرتا ہے اور جو مرنے کے بعد انسان کو نفع بخشتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دو کے سوا کوئی تیسرا نقطہ نگاہ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک قربانی کا سوال ہے وہ ہر ایک کام کے لئے کرنی پڑتی ہے۔ خواہ وہ کام دینی ہو یا دنیوی ہو۔ اور ہمیں دنیا میں کوئی کام ایسا نظر نہیں آتا جس کے لئے انسان کو قربانی نہ کرنی پڑتی ہو۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص دین کے لئے قربانی کرتا ہے اور کوئی شخص دنیا کے لئے قربانی کرتا ہے۔ اَور تو اَور جو لوگ بُرے کام کرتے ہیں ان کوبھی قربانی کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایک شخص چوری کرتا ہے تو وہ اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے، اپنی رات کی نیند خراب کرتا ہے اور سردی گرمی کے اثرات کی پروا نہ کرتے ہوئے ایسے وقت میں گھر سے نکلتا ہے جبکہ لوگ میٹھی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر چوری کرتا ہے۔ اب دیکھو کہ چوری جیسا ذلیل کام بھی قربانی چاہتا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل کے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کرانے کے لئے آیا تو آپ نے اسے وعظ و نصیحت کرنی شروع کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہاتھ پاؤں اس لئے نہیں دیئے کہ تم ان سے حرام روزی کھایا کرو بلکہ اس لئے دیئے ہیں کہ تم ان کے ذریعہ حلال روزی کما کر کھایا کرو۔ تم چوری کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور کیوں حلال روزی نہیں کماتے؟ جب آپ نے اسے یہ وعظ و نصیحت کی تو اس کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سُرخ ہو گئیں۔ اور کہنے لگا اچھا مولوی صاحب! اگر یہ حلال کی روزی نہیں تو پھر اَور کونسی حلال کی روزی ہے۔ آپ لوگ میٹھی نیند سو رہے ہوتے ہیں اور ہم مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو ہمارے متعلق علم ہو جائے تو وہ ہمیں گولی مار کر ہی مار دے۔ ہم اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر چوری کرتے ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر اور کونسی حلال روزی ہو سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے سمجھا کہ اسے چوری کی عادت پڑ چکی ہے اور یہ کام کرتے کرتے اس کی فطرت مسخ ہو چکی ہے اور اب یہ کام اس کی نگاہ میں بُرا نہیں رہا۔ اس لئے اب بحث کے رنگ میں سمجھانے سے کوئی خاص فائدہ اسے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ آپ فرماتے کہ میں نے بات کو ٹلا دیا اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں تاکہ یہ بات اسکے ذہن سے نکل جائے۔ پھر میں نے اسے پوچھا اچھا تم یہ بتاؤ کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ اکیلا آدمی چوری نہیں کر سکتا بلکہ ہم چھ سات آدمی مل کر چوری کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک آدمی گھر کا راز دار ہوتا ہے اور وہ عام طور پر سقّہ یا چوہڑا وغیرہ ہوتا ہے کیونکہ رازدار کے بغیر چوری ہو نہیں سکتی۔ وہی کمروں اور دروازوں کے متعلق بتاتا ہے اور وہی اس بات کے متعلق اطلاع دیتا ہے کہ نقدی اور زیورات کہاں ہیں۔ اس کے بعد ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جسے سیندھ لگانی آتی ہو۔ اور وہ ایسے طور پر اوزاروں کو استعمال کرے کہ سیندھ لگانے کی آواز پیدا نہ ہو اور اس کی آواز سے گھر والے جاگ نہ پڑیں۔ پھر ایک تیسرآدمی ایسا ہونا چاہیئے جو تالے وغیرہ کھولنے میں مشّاق ہو۔ جب دوسرا آدمی سیندھ لگا چکتا ہے تو وہ ایک طرف ہو جاتا ہے اور پھر اِس تیسرے آدمی کا کام شروع ہوتا ہے اور وہ صندوقوں کے تالے کھولتا جاتا ہے۔ پھر ایک چوتھا آدمی ایسا ہونا چاہیئے جو کہ ایسے طور پر چلنے میں مہارت رکھتا ہو کہ اس کے پاؤں کی آہٹ محسوس نہ ہو۔ تیسرا آدمی تالے کھول کر سامان نکال کر چوتھے آدمی کو دیتا جاتا ہے اور وہ باہر والوں کو پکڑاتا جاتا ہے۔ یہ چار ہوگئے۔ پھر ایک پانچویں آدمی کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ گلی کے سرے پر کھڑا رہے کہ اگر کسی شخص کو آتا جاتا دیکھے تو سیٹی بجا دے یا کوئی اَور اشارہ کر دے تا کہ تمام آخری وقت پر ہوشیار ہو جائیں۔ یہ پانچ ہو گئے۔ پھر چھٹا ایک اَور ایسا ہونا چاہیئے کہ جو سفید کپڑے پہنے ہوئے ہو اور کسی کو اس کے چلنے پھرنے پر شک نہ گزرے۔ کیونکہ ہم تو ننگے دھڑنگے ہوئے اگر ہمیں کوئی دیکھ لے تو وہ یقینا ہم پر چور ہونے کا شبہ کرے۔ لیکن یہ آدمی ایسے کپڑوں میں پھرتا ہے کہ کسی کو اس پر شک نہیں گزر سکتا ہم نقدی اور زیورات وغیرہ اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ نہایت اطمینان سے مال لے کر چلا جاتا ہے اور ساتویں کو جو سنار ہوتا ہے دے دیتا ہے جو کہ سونے کو ہیرے اور جواہرات کو لاکھ سے جدا کرتا ہے اور اس کو پگھلا کر ایک نئی شکل دیتا ہے اور اس سونے کو آگے بیچتا ہے ا ور ہم سب آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اول فرماتے میں نے اُسے کہا کہ اگر تمہاری اتنی محنت کے بعد وہ سنا ر تمہارا سونا کھا جائے تو پھر تم کیا کر سکتے ہو؟ تو بے اختیار اس چور کے منہ سے نکلا کیا وہ اتنا حرام خور ہو گا کہ دوسرے کا مال کھا جائے گا؟ میں نے کہا بس اب تم سمجھ گئے ہو۔ معلوم ہوا نا کہ دوسروں کا مال کھانا حرام ہے۔ غرض چونکہ حرام مال کے لئے بھی محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے بعض لوگ حرام خوری کو بھی حلال خوری کی طرح جائز سمجھتے ہیں۔ جو لوگ عیاشیوں میں پڑتے ہیں وہ بھی قربانیاں کرتے ہیں۔ وہ راتوں کو جاگتے ہیں، دماغ ان کا خراب ہو جاتا ہے۔ اور جو لوگ کنچنیاں رکھتے ہیں وہ ان کے لئے کتنی قربانیاں کرتے ہیں۔ اپنی جائیدادیں تباہ کر دیتے ہیں اور خود بالکل مفلس اور کنگال ہو جاتے ہیں۔ پس کوئی بُرا کام بھی ایسا نہیں جس میں قربانی نہ کرنی پڑتی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان افعال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ لوگ اولادوں کے لئے قربانی کرتے ہیں کہ یہ بعد میں ہمارے نام روشن کریں گی حالانکہ نام روشن کرنے والے تو بہت کم ہوتے ہیں اور بدنام کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اولاد میں سے کسی کو اگر کوئی اچھا عُہدہ مل جائے تو وہ اپنے والدین سے ملنے میں شرم محسوس کرتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سنایا کرتے تھے کہ کسی ہندو نے بڑی محنت مشقت کر کے اپنے لڑکے کو بی۔ اے یا ایم۔ اے کرایا اور اس ڈگری کے حاصل کرنے کے بعد وہ ڈپٹی ہو گیا۔ آجکل تو ڈپٹی کی وہ عزت نہیں ہوتی لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بہت بڑی بات تھی۔ا س ڈپٹی کے باپ کو خیال آیا کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے میں بھی اُس سے مل آؤں۔ چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تو اس وقت اُس کے پاس وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی لے کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ باتیں ہوتی رہیں۔ کسی شخص کو اس غلیظ آدمی کا بیٹھنا بُرا محسوس ہوا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون گستاخ آدمی ہماری مجلس میں آ بیٹھا ہے؟ ڈپٹی صاحب اسکی یہ بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اور ذلت سے بچنے کے لئے کہنے لگا۔ یہ ہمارے نوکر ہیں۔ باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جَل گیا اور اپنی چادر سنبھالتے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا جناب! میں ان کا خادم نہیں میں اِن کی ماں کا خادم ہوں۔ (یعنی انکی ماں کے نوکر ہیں ) ساتھ والوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں تو انہوں نے ان کو بہت لعن طعن کی اور کہا اگر آپ ہمیں بتاتے تو ہم ان کی تعظیم و تکریم کرتے اور ادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے۔
بہرحال اِس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ کہ لوگ رشتہ داروں کے ملنے سے جی چُراتے ہیں تا کہ ان کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے۔ پس نام روشن تو کیا ہوگا۔ نام کو بٹہ لگانے والے ہی اکثر ہوتے ہیں۔ اور سوائے اُن لوگوں کے جو کہ دینی نقطہ نگاہ سے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو، سوائے ایسے لوگوں کے دنیا داروں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ والدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں۔ اور زمینداروں اور تعلیمیافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں۔ زمینداروں میں بھی اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب باپ بوڑھا ہو جاتا ہے تو اولاد خدمت نہیںکرتی۔ اور اگر باپ خدمت کا کوئی تقاضا کرے تو کہہ دیتے ہیں کہ محنت ہم کریں اور کھائے یہ۔ حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک باپ زندہ ہے وہ جائیداد اُس کی ہے اور وہ تو محنت کر کے نصف آمد کے حقدار بنتے ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں بہت کم بلکہ شاذ ہی ملیں گی کہ اولاد نے تمام جائیداد کی آمد کا نصف اپنے باپ کے سامنے پیش کر دیا ہو۔ پس یہ جو دنیوی قربانی ہے اس کا پھل اچھا نظر نہیں آتا۔
دوسری قربانی دینی ہے اور یہ ایسی قربانی ہے جو کہ کبھی بھی انسان کو خسارہ میں نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ قربانی راستبازی پر مبنی ہے اور سچائی کبھی بھی پھل کے بغیر نہیں رہتی۔ دنیوی قربانی میں نقطہ نگاہ اولاد ہوتی ہے او ردنیوی اولاد کے متعلق مَیں بتا چکا ہوں کہ وہ جیتے جی ہی ملنے اور خدمت کرنے سے جی چراتی ہے لیکن دینی قربانی کے نتیجے میں جو روحانی اولاد پیدا ہوتی ہے وہ ہزاروں سال تک اپنے آباء و اجداد کو نہیں بھولتی۔ سرحد کی طرف کے بعض طالب علم میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ان سے سنا تھا کہ سرحد میں اگر کسی کے ماں باپ کو گالی دی جائے تو وہ اتنا بُرا نہیں مناتا جتنا کہ اسے اپنے پیر کے متعلق کوئی بُرے الفاظ سن کر غصہ آتا ہے اگر کسی کے پیر کے متعلق کوئی بُرا لفظ کہہ دیا جائے تو فوراً دوسرے شخص کو مار ڈالے گا خواہ اُس کا پیر ہو یا نہ ہو۔ بہرحال لفظِ پیر کو ہی وہ قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں۔ امرتسر میں ہم نے دیکھا کہ کچھ سندھی جُوتیاں ہاتھ میںپکڑے ہوئے گزر رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے پیر کی قبر کی زیارت کے لئے جارہے ہیں۔ پتہ نہیں کہ اُن کا پیر کب کا فوت ہو چکا تھا لیکن اب تک اس کی عظمت ان کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے اور وہ اسکی قبر کے لئے ننگے پاؤں پیدل چل کر آتے ہیں۔ یہ نظارے روحانی اولاد کے متعلق ہی ہم دیکھتے ہیں۔ جسمانی اولاد تو دوسرے دن ہی بھول جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یہ پسند نہیں کرتی کہ اس کے پیاروں کی محبت دنیا کے دلوں سے نکل جائے۔ جب دنیا بھولنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی مامور کے ذریعہ پھر ان کے ناموں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو گزرے ہوئے ہزاروں سال گزر گئے ہیں اور کوئی شخص قسم کھا کر نہیں کہہ سکتا کہ نوح علیہ السلام میرے باپ تھے اور میں ان کی نسل میں سے ہوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کر کے دوبارہ آپ کی یاد آپ کی اولاد کے دلوں میں تازہ کر دی۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد بھی آپ کو بھول چکی تھی اور کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حضرت آدم کب پیدا ہوئے اور کہاں پیدا ہوئے اور ان کے حالات کس قسم کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بھی قرآن شریف میں ذکر کر کے دوبارہ تمام بنی نوع انسان کو یاد دلایا کہ حضرت آدم تمہارے باپ تھے اور ان کی زندگی اِس رنگ میں گزری۔ حضرت آدمؑ کی اولاد بھول گئی لیکن اللہ تعالیٰ اُن کو نہیں بھولا۔ پس دین کے لئے جو قربانیاں انسان کرتا ہے وہ اسے ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتی ہیں۔ حالانکہ دنیوی قربانیوں کے مقابلہ میں دین کی قربانی کتنی تھوڑی ہوتی ہے۔ انسان اپنے بیوی اور بچوں کے لئے سارا دن مارا مارا پھرتا ہے اور چوبیس گھنٹوں میں سے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیک کاموں میں صَرف کرتا ہے اور باقی بائیس یا تئیس گھنٹے وہ اپنی ضروریات کے پورا کرنے میں صَرف کر دیتا ہے۔ اور وہ یہ کوشش کرتا ہے محنت کر کے اور کوشش کر کے کچھ اندوختہ جمع کرے، کچھ جائیداد بنائے جو کہ اُس کی اولاد کے کام آئے اور تا کہ اُس کا بڑھاپا آسانی سے گزر سکے۔ لیکن وہی اولاد جس کے لئے وہ اپنے آپ کو تکا لیف میں ڈالتا ہے اور اپنے نفس پر اس کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے لئے سب کچھ کر گزرتا ہے اس میں بڑھاپا آتے ہی بغاوت اور نشوز کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ میرے پاس ہزاروں ہزار کیس ایسے آتے ہیں کہ بعض نوجوان اپنی ماؤں کی خبرگیری ترک کر دیتے ہیں۔ اور جب پوچھا جاتا ہے تو اُن کا یہ جواب ہوتا ہے کہ اماں جی کی طبیعت تیز ہے او رمیری بیوی سے ان کی بنتی نہیں۔ حالانکہ بیوی کو ماں سے کیا نسبت؟ بیوی نے اس کے فائدے کے لئے کیا کیا ہوتا ہے؟ وہ نوجوانی کی حالت میں اس کی خدمت کرتی ہے لیکن ماں جس نے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلایا ہوتا ہے اور جس نے اپنا خون دودھ کی شکل میں تبدیل کر کے اُس کی پرورش کی ہوتی ہے اور محنت مشقت کر کے اُسے پڑھایا ہوتاہے اُس سے اِس لئے اعراض کر لیا جاتا ہے کہ بیوی سے اُس کی بنتی نہیں۔ پس دنیوی لحاظ سے تو انسان کو جسمانی اولاد سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔ لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ہر چیز اولادوں کے لئے جمع کرتے چلے جاتے ہیں۔ خدا کی راہ میں بھی خرچ کرتے ہوئے ان کے دلوں میں بخل پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی ہمارے بچوں کے کام آئے۔ حالانکہ ان کی اُخروی زندگی کے لئے وہی اندوختہ کارآمد ہوتا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور جو اولاد کو دے دیا اس میں انکا حصہ نہیں رہتا۔ اگر اس میں سے اولاد اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتی تو وہ گنہگار بنتی ہے اور ساتھ یہ شخص بھی گنہگار بنتا ہے۔ او ر اگر اولاد اس مال میں سے خرچ کرتی ہے تو اس کا ثواب اولاد کو ملے گا جس نے خرچ کیا اس کے لئے کوئی ثواب نہیں ہو گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے قریب صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمہیں کونسا مال پسند آتا ہے؟ تمہیں اپنا مال پسند ہے یا دوسرے کا مال اچھا لگتا ہے یا جو ضائع ہو گیا وہ اچھا لگتا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! اِس کا جواب بالکل آسان ہے۔ انسان کو وہی مال اچھا لگتا ہے جو کہ اُس کا اپنا ہو۔ آپؐ نے فرمایا۔ پھر جو مال مرنے تک تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو وہ حقیقت میں تمہارا مال ہے اور جو مال تم باقی چھوڑتے ہو وہ تو اولاد کا ہے وہ تمہارا نہیں1 اور جو مال تم کھا پی لیتے ہو وہ ضائع ہو گیا وہ تم کو اگلے جہان میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اور واقع میں اگر دیکھا جائے تو انسان کا اپنا مال وہی ہوتا ہے جو اس نے اگلے جہاں میں بھیجا ہوتا ہے۔ جو باقی چھوڑتا ہے وہ اس کی اولاد کے لئے ہے۔ بعد میں وہ جس طرح چاہے گی خرچ کرے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس فرمان میں یہ ارشاد فرمایا کہ مومن کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ جتنی قربانی اُس سے ہو سکتی ہے وہ کرے تا کہ مرنے کے بعد اس کی اخروی زندگی اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیادہ سے زیادہ کامیاب ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمہیں بھی تکالیف او ر مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور تمہارے دشمنوں کو بھی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن تم میں اور ان میں ایک بہت بڑا فرق ہے وہ یہ کہ تمہیں ان کے بدلہ میں ثواب کی امید ہے لیکن کفار کو تو ثواب کی امید نہیں۔ 2 جب وہ قربانی کرتے ہیں تو پھر تمہارے لئے قربانی کرنا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ان کی قربانیوں کی مثال تو ایسی ہے کہ کسی شخص کو یہ کہا جائے کہ تم دو من گندم کنویں میں پھینک دو۔ اول تو وہ ہمیں پاگل سمجھے گا لیکن اگر کسی دباؤ کی وجہ سے کنویں میں پھینکنے پر تیار بھی ہو گا تو گالیاں دیتا ہوا چلا جائے گا۔ بہرحال وہ یہ کام خوشی کے ساتھ نہیں کرے گا لیکن ایک زمیندار کو اگر ہم کہیں کہ اب مناسب وقت ہے فصل بوؤ تو وہ شخص دعائیں دے گاکہ ہم نے اسے وقت پر مشورہ دیا۔ یہی حال قربانیوں کا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے وہ ایسے کھیت میں بیج ڈالتا ہے جس سے اسے کئی گنا زیادہ ہو کر ملے گا اور جو شخص دوسری اغراض کے لئے قربانی کرتا ہے گویا وہ اپنا بیج دریا میں پھینکتا ہے اور کوئی شخص بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی قربانی ضائع جائے۔ پس اس سے زیادہ احمق اور پاگل اور کون ہو سکتا ہے جو کہ سمندر میںیا دریا میں اپنا بیج پھینک دیتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ احمق اور پاگل اور کون ہو سکتا ہے جوکہ کھیت میں بیج ڈالتے ہوئے بخل سے کام لیتا ہے۔ اگر واقع میںاللہ تعالیٰ موجود ہے اور وہ جزا سزا کا مالک ہے تو پھر ہر مومن کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکررہنی چاہیئے۔ لیکن اگر کسی شخص کے نزدیک یہ صداقتیں اِس رنگ میں نہیں تو پھر اسے نماز میں وقت ضائع کرنیکا کیا فائدہ۔ اور اسے صدقہ خیرات سے کیا ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن جو شخص اِن صداقتوں کا قائل ہے اور پھر بھی وہ قربانیوں کے پیش کرنے میں کوتاہی سے کام لیتا ہے ہم اس کے متعلق یہی سمجھیں گے کہ اُسے دین سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ اگر اسے دلچسپی ہوتی تو وہ بلاوجہ اپنے آپ کو خسارہ میں نہ ڈالتا۔ پس تمام دوستوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کی قربانی صحیح قربانی ہو اور وہ قربانی ان کے لئے باعثِ ثواب ہو ۔ اگر ہر شخص اپنے اندر حقیقی قربانی کا جوش پیدا کر لے تو ہم بہت جلد دوسری قوموں سے آگے نکل سکتے ہیں۔
یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم تو تھوڑے ہیں اور تھوڑے آدمی آگے نہیں نکل سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قربانی کرنے والی قوم باوجود تھوڑی ہونے کے بڑی بڑی قوموں پر بھاری ہوتی ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر کفار کی تعداد ایک ہزار کی تھی اور صحابہؓ کی تعداد 313 تھی۔ جب مسلمانوں کا لشکر میدانِ جنگ میں اترا تو کفار نے ایک تجربہ کار آدمی کو بھجوایا کہ جا کر اسلامی لشکر کا اندازہ لگاؤ کہ مسلمانوں کی تعداد کیا ہے۔ اس نے واپس جا کر بتایا کہ مسلمانوں کی تعداد تین سو سوا تین سو کے درمیان ہے۔ پھر اس نے کہا گو مسلمانوں کی تعداد کم ہے لیکن اے میری قوم! میں آپ لوگوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کی جائے۔ جب اس شخص نے یہ بات کہی تو لوگوں نے اس پر الزام لگایا کہ تم بزدل ہو اس لئے لڑنے سے منہ پھیرتے ہو۔ اس نے کہا یہ بات نہیں کہ میںلڑنے سے ڈرتا ہوں بلکہ بات یہ ہے کہ میں نے سواریوں پر آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں اور میں نے ان کے چہروں سے محسوس کیا ہے کہ وہ مر جائیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ 3 چنانچہ جنگ بدر نے اس بات کی شہادت پیش کر دی کہ وہ تھوڑے سے سمجھے جانے والے لوگ ہی غالب آئے اور قربانی نے اپنا عظیم الشان نتیجہ پیش کر دیا۔
لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ کوئی قربانی بھی بغیر رنگ لائے نہیں رہتی۔ فوری طور پر بے شک اس کے نتائج نظر نہ آتے ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی لوگ چالاکیاں اور دغابازیاں کرتے تھے اور مسلمانوں کو دکھ دینے اور شہید کرنے کے لئے نئے نئے طریقے سوچتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قبیلہ کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم لوگ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کچھ عالم بھجوا دیں جو کہ ہمیں قرآن کریم سکھائیں۔ آپ نے ان کی درخواست پر قرآن کریم کے ستّر حفاظ ان کے ساتھ روانہ کر دیئے۔ ایک جگہ پہنچ کر اس شخص نے جواِن مسلمانوں کو لایا تھا اپنی قوم کے سرداروں کو کہلا بھیجا کہ میں مسلمانوں کو لے آیا ہوں۔ اب تم ان کے قتل کا انتظام کرو۔ چنانچہ پہلے مسلمانوں میں سے ایک نمائندہ کو بھجوایا گیا جو قبیلہ کے سردار سے باتیں کر رہا تھا ۔اس کو پیچھے سے نیزہ مار دیا گیا۔ اس کے بعد سب قبیلہ نے مسلمانوں کی جماعت پر( وہ جو گاؤں سے باہر تھی) حملہ کر دیا۔ اِس واقعہ کی نسبت ایک شخص جو بعد میں مسلمان ہو گیااور جو اس حملہ میں شریک تھا بیان کرتا ہے کہ جب میں نے ایک مسلمان کے پیچھے سے نیزہ مارا تو اس نے زمین پر گرتے ہوئے کہا فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ 4 خانہ کعبہ کے رب کی قسم!میں کامیاب ہو گیا۔اور میںنے دیکھا کہ اس شہید ہونے والے پر گھبراہٹ اور بے چینی کے کسی قسم کے آثار نہ تھے۔ یہ شہید ہونے والے حضرت ابوبکرؓ کے غلام تھے جو ہجرت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ شامل تھے۔ وہ راوی کہتے ہیں کہ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ان لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور یہ لوگ وطن سے دور، اپنے بیوی بچوں سے دورہیں، اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے دور ہیں ،لیکن ان میں سے کسی کے منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ ہائے میں کہاں مارا گیا۔ او ر کسی نے کوئی واویلا اور بے چینی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اگر کسی کے منہ سے کچھ نکلا تو یہ کہ خدا کی قسم! مَیںکامیاب ہو گیا۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے۔ میں نے ایک شخص سے جو کہ مسلمانوں کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا تھا اس بات کا ذکر کیا کہ میں نے آج بہت عجیب قسم کا نظارہ دیکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہم جب کسی کو قتل کرتے تھے تو ہر ایک کے منہ سے یہ نکلتا تھا۔ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کہ خدا کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا مر جانا کامیابی ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے کو مسلمان سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب میں نے یہ بات سُنی تومیں نے کہا وہ دین جھوٹا نہیںہو سکتا۔ 5 جس کے ماننے والے اپنی قربانی کو اس درجہ تک لے گئے ہیں کہ وہ موت میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ میں مسلمان ہو گیا۔
پس اصل بات یہی ہے کہ جب ایمان آ جاتا ہے تو انسان کو اپنی قربانیوں میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور انسان جتنی زیادہ قربانی کرتا ہے اتنی ہی زیادہ اُسے لذت محسوس ہوتی ہے اور وہ قربانی تکلیف کا باعث نہیں محسوس ہوتی بلکہ راحت کا موجب بنتی ہے۔ اور جتنا جتنا انسان قربانی میں ترقی کرتا ہے اتنا ہی اُسے زیادہ لذت محسوس ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی چیتے نے سخت کُھردرے پتھر کو چاٹنا شروع کیا۔ اس سے اُس کی زبان زخمی ہو گئی اور اس کو اپنی زبان کا خون ہی مزا دینے لگا۔ اور وہ اس پتھر کو اور بھی زیادہ چاٹتا چلا گیا یہاں تک کہ زبان بالکل ختم ہو گئی۔ تو کامل مومن کا بھی یہی حال ہوتا ہے وہ جوں جوں قربانی کرتا ہے اُتنا ہی اس میں اُسے لطف اور مزہ آتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے وقت بھی وہ یہ کہتا ہے کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ کہ میری زندگی کے ختم ہونے سے مجھے میرا انعام نظر آ رہا ہے۔ اگر کسی شخص کو قربانی کی زیادتی سے لطف آتا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کے اندر ایمان ہے۔ اور اگر قربانی کی زیادتی کی وجہ سے کسی کے دل میں انقباض پیدا ہوتا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ متاعِ ایمان سے محروم ہے کیونکہ ایمان کی یہ علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں انسان قربانی کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے اور اس کے دل میں انقباض پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘ (الفضل 15جولائی 1947ئ)
1: مسلم کتاب الزہد والرقائق باب الدنیا سجن للمؤمن (الخ)
2: (النسائ:105)
3:سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 274مطبوعہ مصر 1936ء
4:بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع (الخ)
5:سیرت ابن ہشام جلد 3صفحہ 196مطبوعہ مصر 1936ء


12
کامل ایمان اور کامل توکل پیدا کرو تاکہ نئی زندگی پاؤ
(فرمودہ 4؍ اپریل1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی بولنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور میںحسبِ موقع بغیر اس بات کے کہ مَیں نے پہلے سے مضمون کی تیاری کی ہو بسا اوقات گھنٹوں بول سکتا ہوں۔ لیکن کبھی انسان پر ایسا وقت آ جاتا ہے جب بولنا اُسے دو بھر معلوم ہوتا ہے اور بات کرنا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے اور آج مَیں اپنے آپ کو اُسی حالت میں پاتا ہوں جیسے بیمار کے سامنے جب کھانا آتا ہے تو وہ اس سے بے رغبتی کا اظہار کرتا ہے اور بسا اوقات اسے اچھے کھانے کو دیکھ کر متلی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی مَیں آج تقریر کرنے اور بولنے سے بے رغبتی محسوس کرتا ہوںا ور صرف جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اِس وقت سخت مصائب اور مشکلات میں سے گزر رہے ہیںا ور ان کا ازالہ سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے نہیں ہو سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہماری قربانیوں اور ایثار پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ انسان کے لئے اپنا فضل نازل کرتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے اور انسان کے لئے ترقی کے راستے کھولتا ہے لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ انسان سے قربانی اور ایثار اور ایمان اور توکّل کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب انسان سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے۔ لیکن جب تک انسان اپنے پاس کی چیز کو سینے سے لگائے رکھتا ہے اور اپنے بخل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ بھی اُس وقت تک اپنے فضلوں کے دروازے کھولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اور اتنے احسانات اور اتنے فضلوں کے باوجود جس شخص کے دل میںکامل ایمان اور کامل توکل پیدا نہیں ہوتاوہ نئی زندگی پانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ اور اُس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہیں ہوتا۔ اور وہ شخص اس قابل نہیں کہ اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا ہاتھ بڑھے۔ پس اعلیٰ قربانی کے مقام کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو اور اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا کرو۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ ہم قربانی کر کے دنیا کی بہترین قوم بھی بن سکتے ہیں اور قربانی سے اعراض کر کے دنیا کی ذلیل ترین قوم بھی بن سکتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین وجود بھی بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا کر مغضوب علیہم گروہوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل، سمجھ اور آنکھیں دی ہیں۔ ہم ان دونوںرستوں میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ اور اگر باوجود عقل رکھنے کے ہم ان دونوں رستوں میں فرق کرنے کو تیار نہیں تو ہماری تباہی اور بربادی میںکوئی شک نہیں۔ اور اس تباہی اور بربادی کا الزام اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں آئیگا بلکہ ہماری اپنی ذات پر آئے گا کیونکہ ہم نے خود ذلت اور بربادی کی تحریر پر دستخط کئے ہوں گے۔ اس سے اللہ تعالیٰ سے کسی قسم کا شکوہ کرنا بے جا اور ناواجب ہو گا کیونکہ ہم نے خود اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ردّ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناپاک انجام سے بچائے اور ہر قسم کی کمزوریوں سے نجات دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اپنے آپ کو فنا کر کے ایک ایسی زندگی حاصل کریں جو کہ انسان کو غیر فانی وجود بنا دیتی ہے۔‘‘
حضور جب خطبہ ثانیہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا:۔
’’جیسا کہ قاعدہ ہے کہ شوریٰ کے موقع پر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائی جاتی ہے آج بھی نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھاؤں گا اور اس کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا۔
ان میں سے پہلا جنازہ بابو عبد الرحمن صاحب امیر جماعت انبالہ کا ہے۔ بابو عبد الرحمن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور نہایت مخلص اور نیک انسان تھے۔ منشی رستم علی صاحب کی تبلیغ سے آپ احمدی ہوئے اور پھر اس کے بعد تمام عمر جماعت کی تربیت میںمصروف رہے۔ ان کی زندگی نیکی اور تقویٰ کی ایک مثال تھی۔ ایسے لوگوں کا گزر جانا قوم کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے۔ اور آنے والی نسلوںکا فرض ہوتا ہے کہ ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریںاور ان کے روحانی وجود کو دنیا میں قائم رکھیں۔
دوسرا جنازہ سیٹھ محمد غوث صاحب کا ہے۔ مجھے ان کے متعلق یہ یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آپ صحابی تھے یا نہیں تھے۔ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں میری ان سے واقفیت ہوئی اور مَیں جب حج کے لئے گیا تو مَیں نے ان کو بمبئی میں دیکھا کہ اُس وقت انہوں نے ایسے اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا کہ اُسی وقت سے ان کے تعلقات میرے ساتھ خانہ واحد کے تعلقات ہو گئے۔ مَیں اپنے سامان کی تیاری کے لئے جہاں جاتا وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگے رہتے اور جہاز تک انہوں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ ان کا اخلاص اتنا گہرا تھا کہ عبد الحی صاحب عرب نے (جن کو مَیں اپنے ساتھ بطور ساتھی کے لے گیا تھا) ایک دفعہ پانی پینے کے لئے ایک خوبصورت گلاس نکالا۔ مَیں نے ان سے پوچھا کہ یہ پہلے تو آپ کے پاس نہیں تھا اب آپ نے کہاں سے لیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے سیٹھ صاحب نے لے کر دیا تھا کہ جب اس میں پانی پیو گے تو مَیں یاد آ جاؤں گا۔ اُس وقت ان کو میرے لئے دعا کے لئے یاد کرا دینا۔ دوسری دفعہ جب مَیں بمبئی گیا تو سیٹھ صاحب پھرحیدرآباد سے بمبئی پہنچ گئے۔ حالانکہ حیدرآباد سے بمبئی بارہ چودہ گھنٹے کا رستہ ہے لیکن پتہ چلتے ہی فوراً وہاں پہنچ گئے اور آخر دن تک ساتھ رہے ۔ بلکہ مجھے ان کا ایک لطیفہ اب تک یاد ہے۔ وہ ایسے ساتھ ہوئے کہ ان کا ساتھ رہنا میری طبیعت پر گراں گزرنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جہاں جاتے، جب کھانے کا وقت آتا وہ اُسی جگہ کسی اچھے سے ہوٹل میں تمام قافلہ کے لئے کھانے کا انتظام کر دیتے اور کھانا کھانے پر مجبور کرتے۔ آخر میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو حد سے زیادہ مہمان نوازی ہو گئی ہے۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ سیٹھ صاحب کو کیوں ساتھ لے لیتے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہیں کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں اور اب تو مہمان نوازی بہت لمبی ہو چکی ہے۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ آج وقت سے دو گھنٹہ پہلے ہی یہاں سے نکل جائیں تا کہ جب سیٹھ صاحب آئیں تو ان کو ہمارے متعلق علم نہ ہو سکے۔ ہم لوگ موٹروں میں بیٹھ کر دو گھنٹہ سے پہلے ہی گھر سے روانہ ہو گئے۔ کچھ دور جا کر پھر ہم ریل میں سوارہوئے۔ جب ریل اُس اسٹیشن پر جا کر کھڑی ہوئی جہاں ہم نے اُترنا تھا تو ہم نے دیکھا کہ سیٹھ صاحب بھی وہاں کھڑے ہیں۔ جب ہم اُترے تو انہوں نے آتے ہی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور کہا چلئے کھانا تیار ہے۔ ہم حیران ہوئے کہ ان کو ہمارے پروگرام کا کس طرح علم ہو گیا ۔اس کے بعد مجھے جب بھی بمبئی جانے کا اتفاق ہوا سیٹھ صاحب بھی بمبئی پہنچ جاتے اور قیام کے دوران میں میرے ساتھ رہتے۔ اِس عرصے میں ان کی بیویوں کے میری بیویوں سے اور ان کی بچیوں کے میری بچیوں سے او رمیرے بچوں کے ان کے بچوں سے تعلقات ہو گئے اور آہستہ آہستہ یہ تعلقات ایک گھر کی مانند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچوں اور بچیوں میں بھی بہت اخلاص ہے اور اللہ تعالیٰ ان کودین کی خدمت کرنے کی توفیق دے رہا ہے۔ ان کے بڑے لڑکے محمداعظم صاحب سیکرٹری مال ہیں اور جماعت کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے بیٹے معین الدین صاحب ہیں وہ حیدر آباد میں خدام الاحمدیہ کے قائد ہیں اور تیسرا بچہ ابھی چھوٹا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اور ان کی لڑکیوں کے میری بیوی امۃ الحی مرحومہ سے بھی بہت تعلقات تھے۔
تیسرا جنازہ میاںعبد اللہ خاں صاحب کوہاٹ کا ہے۔ ان کو فوت ہوئے سالہا سال گزر گئے ہیں۔ ان کے جنازے کے متعلق جو تشریح ہے اس میں مَیں اِس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری خلافت میں یہ پہلی مثال ہے کہ مَیں ایک شخص کا اُس کی موت کے دس پندرہ سال کے بعد جنازہ پڑھا رہا ہوں اور پھر ایسے شخص کا جنازہ پڑھارہاہوں جو کہ مقاطعہ کی حالت میں فوت ہوئے۔ میاں عبد اللہ خان صاحب نے اپنی لڑکی اپنے ایک غیر احمدی رشتہ دار سے بیاہ دی۔ اور اس اصرار سے بیاہی کہ ہمارے ہاں تبلیغ مؤثر ثابت نہیں ہو رہی اور مَیں چاہتا ہوں اس طرح لڑکا احمدیت کے قریب ہو جائے گا اور احمدیت کو قبول کرلے گا۔ یہ قدرتی بات ہے ہم نے ان کے اس طریق کو بہانہ سمجھا اور ان کے مقاطعہ کا اعلان کر دیا۔ ان کا بچہ یہاں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا اور وہ میر محمد اسحاق صاحب کے زیر احسان تھا اور اب تک بھی وہ میر صاحب کی بیوی کو امّاں جی کہہ کر پکارتا ہے۔ جب اس کے والد فوت ہوئے تو وہ میرے پاس آیاا ور اس نے کہا کہ میرے والد صاحب نے غیر احمدیوںکو لڑکی دی تھی جس پر اُن کا مقاطعہ ہوا تھا لیکن وہ آخر تک احمدیت پر قائم رہے آپ ان کا جنازہ پڑھائیں۔ مَیں نے کہا یہ ہمارے اصول کے خلاف ہے۔ چونکہ وہ مقاطعہ کی حالت میں فوت ہوئے ہیں اس لئے میں ان کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔ وہ لڑکا روتا ہواچلا گیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ قادیان سے بھی باہر چلا گیا۔ بعض لوگ تو جان بوجھ کر گناہ کرتے ہیں لیکن بعض لوگوں کا گناہ بھی نیک نیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور میاں عبد اللہ خان صاحب کی کیفیت بھی یہی تھی کہ انہوں نے بھی یہ جُرم نیک نیتی سے کیا تھا۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مرتے دم تک جماعت میںشامل ہونے کا اعلان کرتے رہے اور جماعت کے خلاف نہ ہوئے۔ ورنہ اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب اُن کو جماعت کی طرف سے کوئی سزا دی جاتی ہے تو بجائے اِس کے کہ وہ توبہ و استغفار کریں جماعت کے خلاف ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہاری پروا نہیں کرتے۔ لیکن ان کے دل میں اخلاص تھا اور انہوں نے اِسی نیت سے لڑکی کا رشتہ دیا تھا کہ مَیں احمدیت کے لئے ترقی کا راستہ کھولنے لگا ہوں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا ہے۔ وہ لڑکا فوج میں گیا اور ہوتے ہوتے کپتان ہوگیا۔ اور اب جو مَیں سندھ گیاتو وہ کپتان صاحب مجھے حیدر آباد کے ا سٹیشن پر ملنے کے لئے آئے اور انہیں احمدیت سے بہت حد تک عقیدت ہو چکی تھی۔ وہ اس طرح کہ دو چار مہینے ہوئے حیدر آباد میں ایک احمدی عورت ان کے گھر گئی۔ وہ عورت لڑکیوں کو پڑھاتی تھی۔ اس نے ان کے گھر جا کر کہاکہ مَیں بچوں کو اردو پڑھا سکتی ہوں۔ا گر آپ بچوں کو اردو پڑھوانا چاہیں تو مَیں انہیں پڑھا دیا کروں؟ باتوں باتوں میں اس کپتان صاحب کی بیوی کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ عورت احمدی ہے۔ اس کے دل میں اِس بات کا احساس تو پہلے سے موجود تھا کہ مَیں ایک احمدی باپ کی لڑکی ہوں۔ چنانچہ اس میل جول سے کپتان صاحب کی بیوی کو احمدیت سے بہت زیادہ محبت ہو گئی۔ اور جب کپتان صاحب کومعلوم ہوا کہ یہاں بھی احمدی ہیں تو وہ بھی احمدیوں سے ملنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی سامان کر دیا کہ وہاں کچھ نوجوان احمدی فوج میں بھی تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت حد تک ان کی طبیعت احمدیت کے متعلق مطمئن ہو گئی۔ اور اب کراچی جاتے وقت حیدر آباد کے اسٹیشن پر وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا کہ مَیں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ اب تو وقت کم ہے۔ ہم فلاں تاریخ کو کراچی سے واپس آئیں گے آپ اُس دن جو کچھ پوچھنا چاہیں پوچھ لیں۔ چنانچہ کراچی سے واپسی پر وہ حیدر آباد کے ا سٹیشن پر مجھے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے اب مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے وہاں اسٹیشن پر ہی بیعت کی۔ پھر ہم وہاں سے اپنی زمینوں کی طرف چلے گئے۔ اب واپسی پر حیدر آباد کے اسٹیشن پر وہ بیوی سمیت ملنے کے لئے آئے اور ان کی بیوی یعنی میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم کی لڑکی نے مجھے کہا کہ اب تو آپ کا شکوہ دور ہو گیا ہے اور میرے خاوند نے بیعت کر لی ہے۔ اب تو آپ میرے والد صاحب کا جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ مَیں نے اُن سے وعدہ کیا کہ مَیں جنازہ پڑھوں گا۔ میرے دل نے محسوس کیا کہ گو خان صاحب مرحوم نے ایک غلطی کی تھی مگر کی ضرور نیک ارادہ سے تھی اِس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی کو نیکی سے بدل دیا اور وہ مستحق ہیں کہ ان کا جنازہ پڑھا جائے۔
چوتھا جنازہ ایک اَور دوست کا ہے جو کہ ایمن آباد میں فوت ہوئے وہاں بہت کم احمدی جنازہ پڑھنے والے تھے۔
پانچواں جنازہ ایک نوجوان ولی محمد صاحب کا ہے۔ دشمنوں نے ان کو مخالفت کی وجہ سے ضلع امرتسر میں قتل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ مخالفت دینی تھی یا دنیوی رنگ میں تھی۔ بہرحال اس کو ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا ہے۔ وہ کھیت سے چارہ کاٹ کر سر پر اٹھائے آ رہا تھا کہ دشمنوں نے پیچھے سے حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ اور پھر اس سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ارد گرد کی احمدی جماعتوں نے ڈر کے مارے اس کا جنازہ نہیں پڑھا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ بعض لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں اور دین کے مقابلہ میں اپنی جانوں کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ احمدیوں کو چاہیئے کہ جب ایک بھائی پر مصیبت آئے تودوسرے اس کی مصیبت میں شامل ہوں تا کہ دشمن یہ محسوس کرے کہ احمدی لوگ اپنے بھائی کے لئے جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تا کہ آئندہ دشمن کو اس قسم کے افعال کی جرأت نہ ہو۔ یہ پانچ جنازے مَیں عصر کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔‘‘ (الفضل 2 مئی 1947ئ)

13
ہمیں ہر قدم پر زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنی ہے
(فرمودہ 11؍ اپریل1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے کئی دنوں سے درد نقرس کا دَورہ ہے۔ اور پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ خطبہ جمعہ کے بعد بالعموم درد زیادہ ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن یہ دن ایسے ہیں کہ مَیں خطبہ سے پیچھے نہیں رہ سکتا۔ بلاشبہ اِس قسم کی تکلیف کی وجہ سے جہاں چلنے سے انسان معذور ہو جاتا ہے وہاں یہ تکلیف بہت سے ضروری کاموں میں بھی حارج ہو جاتی ہے۔ مگر مَیں نے مناسب جانا کہ مَیں خطبہ جمعہ خود بیان کروں۔
احباب یہ بات مجلس شوریٰ کے موقع پر سن چکے ہونگے اور جنہوں نے نہیں سنی وہ الفضل میں پڑھ چکے ہونگے یا اپنے دوستوں سے سن چکے ہونگے کہ سلسلہ کی مالی ضروریات اور وقتی پیدا ہونے والی مشکلات اِس قدر بڑھ چکی ہیں اور شاید سال دو سال تک ایسی حالت رہے کہ موجودہ چندوں سے ان کو پُورا نہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ میری ایک رؤیا سے استدلال ہوتا ہے موجودہ تغیرات کی پانچ سالہ میعاد اپریل 1949ء تک ہے۔ یا اگر عام اندازہ رکھا جائے تو اکتوبر 1949ء تک یہ میعاد جا سکتی ہے۔ اُس وقت تک کوئی ایسا نیا تغیر پیدا ہو جائیگا کہ موجودہ دَور نئے دَور کی شکل اختیار کرلے گا ۔اِس لحاظ سے 1947ئ،1948ء اور آدھا سال 1949ء کا یا ہمارے مالی سال کے لحاظ سے دو سال نہایت نازک ہونگے اور جماعت کو انتہائی قربانیوں سے کام لینا ہوگا۔ اِس میںکوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت دوسری تمام جماعتوں سے چندوں میں زیادہ حصہ لے رہی ہے۔ اور اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت دوسری کئی امیر جماعتوں سے بہت بڑھ کر دین کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ اور اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ علاوہ چندوں کے بھی جماعت پر ایسا بار ہے جو دوسری جماعتوں پر نہیں۔ مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر جس نسبت سے ہماری جماعت اکٹھی ہوتی ہے دنیا کی کوئی جماعت اس نسبت سے اپنے مرکز میں جمع نہیں ہوتی اور اس طرح بھی جماعت پر ایک بہت بڑا خرچ پڑ جاتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ ہمارے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور ریل والوں کی لسٹ یہی بتاتی ہے اور اگر ہم اوسط خرچ پانچ روپے فی آدمی رکھیں تو ایک طرف کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ بن جاتا ہے اور دونوں طرف کا خرچ تین لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ بالعموم ہماری جماعت کے دوست قریب کی جگہوں سے آتے ہیں مگر بعض دوست بہت دور دور سے بھی آتے ہیںا ور ایک ایک آدمی کا خرچ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو روپیہ ہو جاتا ہے۔ اگر ان تمام اخراجات کو برابر تقسیم کیا جائے تو دس روپے فی کس آمدورفت کے خرچ سے کم نہیں بنتا۔ پس تین لاکھ روپیہ تو صرف جلسہ سالانہ پر آنے جانے میں ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوگ ہماری تحریک کے مطابق وقتاً فوقتاً قادیان آتے رہتے ہیں۔ اگر ان اخراجات کا بھی اندازہ کیا جائے تو وہ بھی تین چار لاکھ بن جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ مستقل چندوں کا خرچ ہے۔ تحریک جدید کے چندے ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ کے چندے ہیں۔ وصیت کے چندے ہیں اور پھر کچھ نہ کچھ مقامی چندے بھی ہوتے ہیں۔ اِن تمام چندوں کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری چندوں کی آمد کے برابر ہی رقم متفرق دینی کاموں پر خرچ ہوتی ہے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جو مشکلات ہمارے راستے میں حائل ہیں وہ دوسروں کے رستہ میں حائل نہیں۔ اور جو ذمہ داریاں ہم پر ہیں وہ دوسروں پر نہیں ۔اور جو نصب العین ہم پیش کرتے ہیں وہ دوسرے لوگ پیش نہیں کرتے۔ ہماری مثال تو اُس پرندہ کی سی ہے جو ٹانگیں اوپر کر کے سویا ہوا تھا۔ کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو تم سوتے وقت ٹانگیں اوپر کر کے کیوں سوتے ہو؟ اس نے کہا مَیں اس لئے ٹانگیں اوپر کر کے سوتا ہوں کہ اگر آسمان گر پڑے تو میری ٹانگیں اُسے سہارا دے کر اٹھائے رکھیں۔ یہی حالت اِس وقت ہماری ہے۔ دنیا کی نظروں میںہمارا نصب العین مجنونانہ معلوم ہوتا ہے لیکن جہاں تک قربانی کا سوال ہے ہمیں اس نصب العین کو پورا کرنے کے لئے مجنونانہ قربانی ہی کرنی پڑے گی تب جا کر ہم یہ ثابت کر سکیں گے کہ ہماری باتیں معقول ہیں اور ہمارا نصب العین معقول ہے بلکہ سب سے اعلیٰ ہے۔ ورنہ صرف یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے گا یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جتنے بیوقوف اور نکمّے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی ہی پناہ لیتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم پاگل نہیں اور ہم میں اور سست اور نکمّے لوگوں میں نمایاں فرق ہے۔ دعویٰ کے لحاظ سے ہم دونوں برابر ہیں۔ ایک پاگل آدمی بھی یہی کہتا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے لئے کام کر رہا ہوں اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہرحال ہم میں اور ایسے لوگوں میں کوئی امتیاز ہونا چاہیئے اور وہ امتیاز یہی ہے کہ پاگل جو کچھ کہتا ہے اُس کے ساتھ قوت عملیہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون اُس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ لیکن ہم پاگل اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہمت کرو ہم ہمت اور محنت سے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اسراف سے بچو۔1 ہم اسراف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم اپنے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے جدوجہد کرو۔2 ہم جدوجہد کرتے ہیں بلکہ عام لوگوں سے زیادہ جدوجہد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم کرتے ہیں۔ پس ہم میں قوتِ عملیہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون بھی ہمارے ساتھ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو پاگل اِس لئے کہا جاتا ہے کہ جو باتیں وہ پیش کرتی ہیں وہ کوتاہ بین نگاہوں کو انہونی نظر آتی ہیں۔ دوسرے ان جماعتوں کی قربانیاں ایسی مجنونانہ ہوتی ہیں کہ دشمن ان کو پاگل سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پس ایک نبی کو بھی پاگل کہا جاتا ہے اور ایک پاگل شخص کو بھی پاگل کہا جاتا ہے۔ ان میں فرق کیا ہوتا ہے؟ فرق یہی ہوتا ہے کہ نبی کو لوگ دعویٔ ماموریت سے پہلے پاگل نہیں سمجھتے اور دعویٰ کے بعد پاگل کہنے لگتے ہیں لیکن جو پاگل ہوتا ہے لوگ اُس کو اُس کے دعویٰ سے قبل ہی پاگل کہہ رہے ہوتے ہیں۔
قادیان کے ایک دوست ایک دفعہ ایک مجنون آدمی کے پاس (جن کا نبوت کا دعویٰ تھا) گئے اور اسے کہنے لگے کہ آپ تو پاگل ہیں،آپ نبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس نے کہا دیکھو پہلے نبیوں کو بھی پاگل کہا گیا ہے یہ تو میرے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ جب اُنہیں یہ جواب ملا تو بھاگے بھاگے میرے پاس آئے کہ مَیں اس کا کیا جواب دوں ؟مَیں نے کہا خود آپ کا مجنون ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے۔ جس شخص کو آپ مجنون سمجھتے ہیں اسے تبلیغ کرنے کے کیا معنی۔ پھر مَیں نے کہا یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا جواب دینا مشکل ہو۔ نبی اور عام آدمیوں کو مجنون کہنے میں فرق ہے۔ نبی کو لوگ اُس کے دعویٰ سے پہلے نہایت عقلمند انسان سمجھتے ہیں لیکن دعویٰ کرنے کے بعد اسے پاگل کہنا شروع کرتے ہیں لیکن پاگل کو لوگ پاگل پہلے کہنا شروع کرتے ہیں اور دعویٰ وہ بعد میں جا کر کرتا ہے۔ مَیں نے کہا جا کر کہو کہ لوگ تو آپ کو دعویٰ سے پہلے ہی پاگل سمجھتے تھے۔ پس نبی اور مجنون میں یہ فرق ہوتا ہے کہ پاگل آدمی کی باتیں بغیر جدوجہد کے ہوتی ہیں۔ پاگل آدمی کہتا ہے مَیں بادشاہ ہوں حالانکہ ہم دیکھتے ہیں اس کے پاس کوئی ایسا سامان نہیں ہوتا، کوئی تیاری نہیں ہوتی اور کوئی ایسی معقول قربانی نہیں ہوتی جو اسے بادشاہت کا مالک بنا دے۔ لیکن جب نبی کہتا ہے تو اس کے ساتھ معقول قربانی بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ جتھا بندی بھی ہوتی ہے۔ نبی کی جماعت بڑھتی جاتی ہے اور وہ لوگ اپنی قربانیوں کے اعلیٰ نتائج دنیا کے سامنے پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ گو وہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن وہ صحیح راستہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کے ساتھ اُن کی مجنونانہ کوششیں ان کو جلد جلد بڑھانے کا موجب بنتی ہیں۔ اور یہ مجنونانہ کوششیں اُن کے پختہ ایمان کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور یہ کوششیں اپنے ساتھ عقل و فہم بھی رکھتی ہیں۔
پس ہمیں دنیا پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم پاگل نہیں اور ہم نکمے اور سست لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ہم انتہائی کوشش کرنے والے ہیں اور ہماری قربانی غیر جگہ اور غیر محل پر نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے نام کی اشاعت کے لئے ہوتی ہے۔ بے شک ہماری قربانیاں دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں لیکن ابھی ایسا رنگ نہیں آیا کہ ہماری جان مال اور عزّت کی قربانیاں ایسے مقام پر پہنچ گئی ہوں کہ وہ کامل قربانی کہلا سکیں۔ وہ مقام ابھی بہت اوپر ہے جس مقام پر اللہ تعالیٰ ہمیں لے جانا چاہتا ہے وہ بہت بلند ہے۔
کہتے ہیں روس کا ایک بادشاہ اپنی رعایا کی حالت معلوم کرنے کے لئے ملک میں چکر لگایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ چلتے چلتے رستہ بھول گیا۔ اس نے ایک فوجی افسر سے جوکہ کارپورل (CARPORAL)تھا اور چھٹی پر آیا ہوا تھا رستہ پوچھا۔ کارپورل انگریزی رینک ہے۔ اورہماری فوجوں کے لحاظ سے جمعدار سمجھ لو۔ گاؤں میں جمعدار ہونا بڑی بات ہے۔ وہ فوجی افسر توند نکالے اکڑ کر کھڑا تھا۔ بادشاہ نے جا کر اس سے رستہ پوچھا اس نے نہایت بددماغی سے کہا چلو چلو! مجھے رستے کا علم نہیں۔ بادشاہ نے خیال کیا عجیب متکبر آدمی ہے کہ رستہ بتانے میں تکبر سے کام لیتا ہے۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ فوجی آدمی ہے۔ بادشاہ نے اُسے پوچھا کیا آپ سپاہی ہیں؟ اس نے نہایت غصے کے ساتھ کہا اوپر بڑھو۔ بادشاہ نے کہا آپ لانس نائک (LAINCE NAIK) ہیں؟ اس نے کہا اوپر چڑھو اور گردن اُسی طرح اکڑی ہوئی ا ور توند باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ پھر بادشاہ نے کہا کیا آپ دفعدار ہیں؟ اس نے کہا اور اوپر چلو۔ پھر بادشاہ نے کہا کیا آپ جمعدار ہیں؟ تو اس نے کہا۔ ہُوں۔ مَیں جمعدار ہوں۔ جب بادشاہ وہاں سے چل پڑا تو اُس فوجی افسر کو خیال آیا کہ مَیں بھی اس سے پوچھوں یہ کون ہے۔ اس نے کہا مسافر! کیا مَیں تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ تم کون ہو؟ کیا تم سپاہی ہو؟ بادشاہ نے کہا اوپر چلو۔ پھر اُس نے کہا کیا آپ لانس نائک ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔اس نے کہا کیا آپ نائک ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ اس نے کہا کیا آپ دفعدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ اس نے کہا کیا آپ جمعدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔جب بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو تواُسکی نظریں نیچی ہو گئیں اور وہ سمجھ گیا کہ یہ تو کوئی مجھ سے بھی بڑا افسر ہے۔ پھر اس نے کہا کیا آپ صوبیدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہا کیا آپ صوبیدار میجر ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہا کیا آپ لیفٹیننٹ (LIEUTENANT)ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہا کیا آپ کیپٹن ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہا کیا آپ میجر ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ اب تو اس پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا کیونکہ میجر عام طور پر کمپنی کے کمانڈر ہوتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا آپ کرنیل ہیں؟ بادشاہ نے کہاا َور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہاکیا آپ جرنیل ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ پھر اس نے کہا کیا آپ کمانڈر انچیف ہیں؟ بادشاہ نے کہا اَور اوپر چلو۔ اب تو اس کے گھٹنے کانپنے لگ گئے اور یہ کہتا ہوا گر گیا کہ حضور بادشاہ سلامت ہیں۔ بادشاہ نے اسے کہا تم اپنی حیثیت کو دیکھو تم نے اپنے ملک کو تہذیب سکھانی ہے۔ا گر تمہارا یہ حال ہے تو تم دوسروں کو کیا تہذیب سکھاؤ گے۔
پس ہماری حالت بھی ابھی اس چھوٹے افسر کی سی ہے جو اپنے چھوٹے درجے پر متکبر ہو گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ ہمیںہر قدم پر کہتا ہے اَور اوپر چلو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ان چھوٹے درجوں پر نہیں چھوڑنا چاہتا بلکہ وہ تمہیں دنیا کے کمانڈر بنانا چاہتا ہے۔ ہم جو قربانیاں کرتے ہیں وہ جمعداروں والی ہیں لیکن ہمارا خدا ہمیں دنیا کا لیڈر بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ ہم سے ایسی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے جو لیڈر بننے کے لئے کرنی پڑتی ہیں۔ جب تک تم اپنی ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا نہیںکرتے اُس وقت تک یہ ثابت نہیںہو سکتا کہ تم دنیا سے محبت نہیں کرتے ۔جب تک تم اپنے عمل سے یہ ثابت نہیں کرتے کہ تمہاری ہر چیز اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اپنی ہر چیز تم کو دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ تمہارے پاس یا میرے پاس ہے ہی کیا۔ اور ہم کیا کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں۔ لیکن جو کچھ اللہ تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے اس کے مقابلہ میں یہ چیزیں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک ادنیٰ مومن کا انعام زمین و آسمان کی چوڑائی کے برابر ہے۔ 3 یعنی زمین و آسمان کے برابر جگہ اسے دی جائے گی۔ اور زمین و آسمان کی چوڑائی کے برابر جسے جگہ مل جائے دنیا کے بادشاہ تو اس کے سامنے چوہڑے چمار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کتنا بڑا درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پکڑ کر اونچا کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے آواز دے رہا ہے کہ آؤ اور میرے فضلوں کو حاصل کرو۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر نے کے لئے بہت اونچا ہونا پڑے گاپھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکیں گے۔ کیونکہ دینے والے کے پاس سائل ہی جایا کرتا ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں توہمیں اس کی عطا اور بخشش کو لینے کیلئے اپنے آپ کو عرش کے برابر بلند کرنا ہو گا تب ہم اس عطا کو حاصل کرینگے۔ پس ہمیں اپنی قربانیوں کے معیار کو بہت بلند کرنا چاہیئے اور ہم انشاء اللہ اپنا ہر قدم بلندی کی طرف ہی رکھیں گے۔
اِس وقت چونکہ سلسلہ کو فوری طور پر بہت سی مالی ضرورتیں پیش آ گئی ہیں جو عام آمد سے پوری نہیں ہو سکتیں اس لئے مَیں نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس فوری ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ جماعت کے افراد میں سے جس کسی نے اپنا روپیہ کسی دوسری جگہ بطور امانت رکھا ہوا ہے وہ فوری طور پر اپنا روپیہ جماعت کے خزانہ میںبطور امانت داخل کر دے تا کہ فوری ضرورت کے وقت ہم اس سے کام چلا سکیں۔ اس میں تاجروں کا وہ روپیہ شامل نہیں جو وہ چالو تجارت کے لئے رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی زمیندار نے کوئی جائیداد بیچی ہو اور آئندہ وہ کوئی اَور جائیداد خریدنا چاہتا ہو تو ایسے لوگ صرف اتنا روپیہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو فوری طور پر جائیداد کی خرید کے لئے ضروری ہو۔ اس کے سوا تمام روپیہ جو دوسرے بینکوں میںد وستوں کا جمع ہے سلسلہ کے خزانہ میں جمع ہونا چاہیئے۔ اگر ہندوستان کے تمام احمدی اس تحریک کی طرف توجہ کریں تو پچاس لاکھ روپیہ آسانی سے جمع ہو سکتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ دس پندرہ فیصدی آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو آئندہ مکان بنانا چاہتے ہیں اور ہم اوسط خرچ فی مکان ایک ہزار روپیہ رکھیں تو اس طرح پچیس لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔ پھر بعض دفعہ لوگ بچوں کی تعلیم کے لئے روپیہ جمع کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں کے لئے روپیہ جمع کرتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے لڑکے اور لڑکیاں ابھی جوان نہ ہوئے ہوں اور ان کو دو چار سال کے بعد اس روپے کی ضرورت پیش آنے والی ہو ایسے لوگوں کو بھی چاہیئے کہ وہ یہ روپیہ جماعت کے خزانہ میں جمع کرائیں اور دفتر محاسب کو یہ لکھ کر دے دیں کہ ہم یہ روپیہ لینے سے ایک دو یا تین ماہ پہلے اطلاع دیں گے اور نوٹس دینے کے بعد روپیہ منگوائیں گے ۔ اس طرح ان کا روپیہ زکوٰۃ سے بچ جائے گا کیونکہ کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے روپے پر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار بن رہے ہیں۔ اگر تم ایک ماہ یا دو ماہ کے نوٹس کے بعد لو گے تو اس طرح تمہارا روپیہ بطور قرض ہو گا اور قرض پر زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ پھر اس طرح تمہارا ایمان بھی مضبوط ہو گا کیونکہ تم طبعی طور پر یہ خیال کرو گے کہ ہم نے اپنا روپیہ اللہ تعالیٰ کے دین کے مرکز میں جمع کرا دیاہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیںاللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ ہے کہ وہ ہمارے مرکز کامحافظ ہے۔ دوسرے ہم نے مرکز کی ضرورتوں کو اپنی ضرورت پر مقدم کر دیا۔قادیان کے تو اکثر دوستوں کا روپیہ صدر انجمن کے خزانہ میںہی ہوتا ہے لیکن قادیان والوں کو بھی یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ ہم بھی ایک ماہ کے نوٹس کے بغیر روپیہ واپس نہیں لیں گے اس طرح وہ بھی زکوٰۃ سے بچ جائیں گے۔ اور باہر والوں کو بھی مَیں یہی مشورہ دیتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اگر صحیح طور پر اس بات کو لوگوں تک پہنچا دیا جائے تو پچاس لاکھ روپیہ کا ایک ماہ میںجمع ہونا کوئی مشکل بات نہیں۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر ہی چار لاکھ کے قریب وعدے ہو گئے تھے۔ حالانکہ شوریٰ پر آنے والے دوست تمام جماعت کا سواں حصہ بھی نہیں بلکہ ہزارواں بھی نہیں تھے۔ اگر ہم اُن کو دسواں حصہ بھی سمجھیں تو بھی چالیس لاکھ روپیہ بنتا ہے جو جماعت سے اکٹھا ہو سکتا ہے۔ اور اگر ان کو سَواں حصہ سمجھیں تو بھی اس حساب سے چالیس کروڑ روپیہ بنتا ہے۔ پس دوستوں کو پوری کوشش کے ساتھ اس تحریک کو پھیلانا چاہیئے۔
دوسری تحریک یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی جس کا ہر واقفِ جائیداد سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ جائیداد کی قیمت کا سَواں حصہ ہے اور جنہوں نے اپنی تنخواہ وقف کی ہوئی ہے ان سے ایک ماہ کی پوری تنخواہ مانگی گئی ہے۔ کسی دوست کے پاس اِس وقت روپیہ نہ ہو تو اُسے قرض لے کر روپیہ دے دینا چاہیئے اور پھر اُس قرض کو آہستہ آہستہ ادا کرنا چاہیئے۔ ہم نے دفتر کے ریکارڈ کے لحاظ سے اندازہ کیا ہے کہ اِس وقت تک 90 لاکھ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ اس حساب سے 90 ہزار روپیہ تو ان جائیدادوں سے ہی آ جائیگا۔ بلکہ اس سے زیادہ کی امید ہے کیونکہ اِس وقت پہلے کی نسبت ڈیوڑھی، دُگنی قیمتیں ہو چکی ہیں اور دو لاکھ سے زائد کی آمدنیں وقف ہیں۔ اگر ہم وقف شدہ جائیدادوں کو موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ جائیدادیں ڈیڑھ لاکھ کی بنتی ہیں۔ اِس طرح ہمیں ان سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ وصول ہو سکتا ہے۔ دو لاکھ تنخواہوں کو ملا کر ساڑھے تین لاکھ ہو جاتا ہے۔ ہم نے جائیداد پر سَواں حصہ اس لئے مانگا ہے کہ ہم نے جائیداد کی سالانہ آمد کو بارہ مہینوں پر تقسیم کیا تو اس طرح جائیداد کا سواں حصہ بنتا تھا۔ سو ہم نے سویں حصہ کا مطالبہ کیا ہے۔ تنخواہوں والوں اور جائیداد والوں کو ملا کر امیدہے کہ تین ساڑھے تین لاکھ روپیہ چندہ آ جائے گا۔ حالانکہ واقفینِ جائیداد کی تعداد بہت کم ہے۔ یعنی لاکھوں کی جماعت میں سے کُل اٹھارہ سو ہے او رہمارے پوری شرح سے ماہوار چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد پچیس تیس ہزار ہے۔ اگر پورے طور پر اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ چالیس ہزار نکل آئیں۔ پھر بہت سا حصہ بیکاروں کا بھی ہوتا ہے اور ان کا بھی جو کہ کبھی کبھی چندہ دیتے ہیں۔اگر اس حصے کو بھی شامل کر لیا جائے تو ساٹھ ہزار کے قریب یہ تعداد بن جاتی ہے۔ لیکن ساٹھ ہزار میں سے صرف اٹھارہ سو نے جائیداد وقف کی ہے۔
پھر ہم اکثر عورتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ زیور ضرور رکھتی ہیں۔ عورتوں کو زیور پہننے کا شوق ہوتا ہے خواہ ایک دو روپے کی چیز ہی کیوں نہ پہنیں۔ اور غریب سے غریب عورت بھی آٹھ آنے کی بالی ضرور پہنتی ہے۔ ہر شخص جو دیتا ہے اُسے اُس کے مطابق ہی ثواب ملتا ہے۔ اگر ایک شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے اور وہ اس کا سَواں حصہ ایک ہزار دیتا ہے تو ایک اٹھنّی کی بالی پہننے والی عورت ایک پائی دے کر اس کے برابر ثواب حاصل کر لیتی ہے اور وہ دونوں ثواب میں ایک جیسے شریک ہیں۔مَیں بیان کر رہا تھا کہ اکثر عورتوں کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے۔ اگر ہم سمجھیں کہ ہماری جماعت میں بیس ہزار عورتیں ہیں اور ہم اوسط قیمت ہر ایک عورت کے زیور کی پچاس روپے رکھیں تو دس لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس طرح دس ہزار روپیہ چندہ آ سکتا ہے۔ ہم نے جائیداد کے متعلق یہ شرط لگائی ہے کہ ایسی جائیدادہونی چاہیئے جس پر اس شخص کا گزارہ ہو۔ جس پر اس کا گزارہ نہ ہو وہ ایک ماہ کی آمد دے۔
اِس طرح مَیں یہ بھی چاہتا ہوں کہ بچے بھی اس سے پیچھے نہ رہیں اور بورڈنگ اور کالج کے طلباء کو جو خرچ گھروں سے ملتاہے اس میں سے کھانے کا خرچ اور سکول یا کالج کی فیس نکال کر جو بچتا ہو وہ اس کے برابر ادا کریں۔ افسروں کو چاہیئے بورڈروں کے علاوہ دوسرے لڑکوں کو بھی شامل کریں۔ ہمارے سکول میں اٹھارہ سو لڑکا ہے۔ اگر فی لڑکا پانچ روپے اوسط لگائی جائے تو نو ہزار روپیہ لڑکوں سے لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کالج میں سوا دو سو کے قریب لڑکے ہیں۔ کھانے اور کالج کی فیس کے علاوہ ان کے پاس یقینا دس روپے سے زیادہ بچتے ہوں گے۔ اگر دس روپے فی لڑکا اوسط لگائی جائے تو سَوا دو ہزار کے قریب روپیہ کالج کے لڑکوں سے وصول ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ زنانہ سکول ہے۔ پھر کارخانے ہیں۔ مَیں نے سنا تھا کہ تمام کارخانوں کی اوسط مزدوری پندرہ ہزار روپیہ ہوتی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پندرہ ہزار روپیہ کارخانوں سے وصول کیا جا سکتا ہے۔ پھر تاجر ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ سارے تاجر مخلص نہیں۔ لیکن اکثر تاجروں کی وہ ذہنیت جو اِنکم ٹیکس کے متعلق ہوتی ہے وہی چندوں میں بھی آ جاتی ہے۔ اگر پیش آنے والے خطرات کو سمجھتے ہوئے اور ادنیٰ ذہنیت سے بالا ہوتے ہوئے تاجر قربانی کریں تو قادیان کے تاجروں اور صنّاعوں سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہو سکتا ہے۔ غرض جہاں تک میرا اندازہ ہے سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ قادیان سے جمع ہو سکتا ہے۔ پچیس ہزار صدر انجمن نے دیا ہے۔ پندرہ ہزار کارخانوںوالے دیں۔ یہ چالیس ہزار ہو گیا۔ تاجر پیشہ اگر ساٹھ ہزار دیں تو یہ ایک لاکھ بن گیا۔ انجمن کے کارکنوں کا ماہوار بل پچیس ہزار کا ہوتا ہے۔ عورتوں اور زمینداروں کے چندے اس کے علاوہ ہیں اَور کچھ روپیہ تحریک نے بھی دیا ہے۔ اس طرح ڈیڑھ لاکھ روپیہ بآسانی جمع ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر جماعت کے تمام افراد تک یہ تحریکیں پہنچ جائیں تو مجھے امید ہے کہ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے لیکن چونکہ پورے طور پر ہر جگہ تحریک کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے اِس لئے اگر ہم اپنے معمولی ذرائع سے کام لے کر بھی اس تحریک کو پھیلائیں تو ہماری مانگ سے بہت زیادہ روپیہ جمع ہو سکتا ہے ا ور ممکن ہے کہ اگلے سال کوئی تحریک کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے سال اس سے بہت بڑھ کر قربانی پیش کرنی پڑے۔
بعض لوگ نادانی سے یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ تم پچھلے سال کی قربانی کو بڑی قربانی قرار دیتے تھے مگر جب وہ قربانی کر دی گئی تو اب پھر بڑی قربانی کا مطالبہ سامنے آ گیا ہے۔ اس کے متعلق مَیں نے بارہا سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے کسی قربانی کو بھی ہم بڑا نہیں کہہ سکتے اور کوئی مقام ایسا نہیں جس پر ہم کھڑے ہو کر یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بہت بڑی قربانی کر دی۔ اصل میں یہ چیزیں نسبتی ہوتی ہیں۔ جہاں ہم پچھلے سال تھے اس کے لحاظ سے گزشتہ سال کی قربانی ہی بڑی تھی۔ اور جہاں ہم اب ہیں اِس سے اوپر کی قربانی اب ہمارے لئے بڑی ہے۔ ورنہ ہمارا خدا تو غیر محدود ہے اور غیر محدود ہستی کو ملنے کے لئے محدود قربانیاں کیونکر بڑی قربانیاں کہلا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تم ہم سے یہ دعا کیا کرو کہ 4 اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام عمر یہ دعا مانگتے رہے۔ تو کیا تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی نعوذ باللہ بڑے ہو کہ تم کسی قربانی کے متعلق کہہ دو کہ اس سے بڑی قربانی نہیں ہو سکتی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہوا ور یہی تمہارا مقصد ہے تو تمہیں ہر قدم پر زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنی ہو گی۔ اس وقت کے لئے بڑی قربانی یہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ کے لئے بڑی قربانی کونسی ہو گی۔ مسیح ناصری علیہ السلام جس کی قوم کا تم مضحکہ اُڑاتے ہو اور جس کے متعلق کہتے ہو
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے5
اس مسیحؑ کے حواریوں نے ایسی قربانیاں پیش کیں کہ دنیا نے اُن کا نام فقیر رکھ دیا۔ یہ نہیں کہ وہ ابتدا سے ہی مفلس تھے بلکہ وہ بھی صاحب جائیداد تھے لیکن انہوں نے اس طرح قربانیاں کیں کہ دنیا کی نگاہوں میں وہ فقیر ہو گئے۔ لیکن ہمارا کام اُن سے بڑھ کر ہے۔ اور ہمارا امام بھی ان کے امام سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے قربانی کے میدان میں ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اور ہر ایک آدمی جس نے جائیداد وقف کی ہوئی ہے وہ جائیداد کا سواں حصہ اور جس نے آمد وقف کی ہوئی ہے وہ ایک ماہ کی آمد دے۔ جو لوگ ابھی تک شامل نہیں ہوئے ان کے لئے مَیں نے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ مقرر کیا ہے۔ تمام وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک واقفینِ جائیداد میں اپنے نام پیش نہیں کئے ان کو اس عرصہ میں اپنے نام پیش کر دینے چاہئیں۔ ان کا فرض ہو گا کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر اپنی جائیداد کا سواں حصہ ادا کریں۔ یہ لوگ بھی ثواب میںپہلے لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن جو لوگ اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں اپنی جائیدادیں وقف نہیں کریں گے ہم ان سے 1/2 فیصدی قیمت جائیداد کا لیں گے۔ یا 1/2 ماہوار آمد کا جو بھی اِن دونوں میں سے زیادہ ہو۔ (یاد رکھناچاہیئے کہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی کی جائیداد بھی ہو اور ماہوار آمد بھی خواہ تجارت سے خواہ نوکری سے۔ اس کی ماہوار آمد اگر جائیداد کی قیمت کے 1/10 سے زیادہ ہو تو اسے ماہوار آمد دینی چاہیئے اور اگر جائیداد کا 1/100 ماہوار آمد سے زیادہ ہے تو وہ دینا چاہیئے۔ اور جس سے ہو سکے وہ بے شک دونوں دے۔ مگر بہرحال جو زیادہ ہو وہ دے۔ کم والا پہلو اختیار نہ کرے۔ اور اگر واقفِ جائیداد نہ ہو تو 1/2 آمد ماہوار کا یا 1/200 جائیداد کی قیمت کا جو بھی زیادہ ہو دے۔ ) اور یاد رہے کہ جو جائیداد یاآمد وقف نہیں کرتے وہ اس انعام میں شامل نہیں ہو سکتے جو کہ پہلوں کے لئے ہے۔ وہ انعام اُنہی لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے جائیدادیں یا آمدنیں وقف کر دی ہیں۔ یا اِس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں اپنے نام پیش کر دیںگے۔ باقی 1/2 آمد ماہوار یا 1/2 قیمت کا جائیداد کی دے سکتے ہیں۔
بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ لوگ اس تحریک سے بھاگیں گے۔ لیکن میرا تجربہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ پرسوں سے لوگ مجھے رُقعوں پر رُقعے لکھ رہے ہیں کہ اگر اب ہم شامل ہو جائیں تو ہم کیوں ایک فیصدی نہیں دے سکتے یا کیوں ہم ایک ماہ کی آمد وقف نہیں کر سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایمان کی کمی نہیں ہاں تربیت کی کسی حد تک کمی ہے۔ اور مَیں اُس کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر ہماری ان کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ جماعت کے ایمان کو بڑھاتا جا رہا ہے۔ چندے کی کوئی تحریک ایسی نہیں جسے ناکام کہا جا سکے۔ یا جس سے لوگوں نے بچنے کی کوشش کی ہو۔ مَیں نے اِن پوچھنے والوں کو کہہ دیا ہے کہ تم لوگ بھی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر شامل ہو کر جائیداد کا ایک فیصدی یا ایک ماہ کی آمد دے سکتے ہو اور یہی میرا منشاء ہے۔ لیکن جو لوگ اس میعاد کے اندر اپنے وعدے نہ بھجوائیں گے اِن سے جائیداد کا 1/2 فیصدی اور ماہوار آمد کا نصف لیا جائے گا کیونکہ واقفین کو غیر واقفین پر فضیلت حاصل ہے۔
بعض لوگوں کو وقف جائیداد یا وقف آمد کے متعلق غلطی لگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف ایک دفعہ ہر سال ایک ماہ کی آمد یا جائیداد کا ایک فیصدی لیا کریں گے۔ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ بات ضرورت پر مبنی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے سال ہمیں ضرورت ہی نہ پڑے اور ہم کچھ نہ مانگیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے سال ایک فیصدی کی بجائے ہم دوفیصدی یا تین فیصدی یا 1/2 فیصدی یا 1/4 فیصدی جیسے حالات ہوں گے مانگ لیں۔ یہ مطالبہ تو حالات کی بناء پر ہو گا۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ یکدم جماعت پر ناقابلِ برداشت بوجھ پڑے بلکہ ہم چاہتے ہیں ہمارے لئے آئندہ پھر لینے کا راستہ کھلا رہے۔ کہتے ہیں کسی کی مرغی ہر روز سونے کا ایک انڈہ دیتی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ اگر مَیں اسے خوب دانہ وغیرہ کھلاؤں تو شاید یہ دو انڈے ہر روز دے دیا کرے۔ اس نے مرغی کو پکڑ کر زبردستی دانہ وغیرہ اس کے منہ میں ٹھونسا لیکن زیادہ کھا جانے کی وجہ سے مرغی مر گئی۔ عقلمند انسان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے طور پر قربانی کا مطالبہ کرے کہ اگلے سال پھر لوگ قربانی کرنے کے قابل ہو جائیں۔
مجھے عورتوں نے لکھا ہے کہ ہم اپنے زیور بیچ کر بھی یہ رقم پوری کرنے کو تیار ہیں۔ مَیں نے ان کو جواب دیا ہے کہ تم بھی اپنے حصہ کے مطابق قربانی کرو۔ لیکن عام رقم کے پورا کرنے کے لئے یہ بوجھ تم پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ مرد پہلے ہیں اور تم بعد میں ہو۔ پہلا قدم مردوں کے لئے ہے اور دوسرا قدم تمہارے لئے۔ چونکہ مردوں کو دُہری جائیداد ملتی ہے اس لئے دُہری قربانی کا بار بھی ان پر پڑنا چاہیئے۔ باپ کے ورثہ میں دو روپے بھائی کو اور ایک روپیہ بہن کو ملتا ہے۔ اس لئے چندے کے وقت بھی بھائی کو آگے آنا چاہئیے نہ کہ بہن کو۔ انگلستان میں یہ رواج ہے وہ عزت کے ہر کام میں عورتوں کو پہلے رکھتے ہیں۔ ہر عزت کے موقع پر وہ کہیں گے Ladies First بیگمات پہلے چلیں۔ اگر کمرے میں داخل ہونا ہو تو کہیں گے Ladies First۔ کھانے پر بیٹھیں گے تو کہیں گے Ladies First۔ غرض ہر کام میں وہ عورتوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اس بارہ میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک انگریز اپنی بیوی اور سالی کو لے کر رات کو سینما دیکھنے گیا۔ جب واپس آئے تو دروازہ کھلا ہوا دیکھا ۔شبہ پڑا کہ اندر چور ہے۔ مرد کچھ ڈرپوک تھا وہیں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا لیڈیز فسٹ عورتیں آگے چلیں لیکن اس کی سالی بجائے گھر میں داخل ہونے کے واپس چل پڑی اور کہنے لگی کہ مَیں پولیس میں اطلاع دینے جا رہی ہوں۔ ان کی بیوی بھی اس کے پیچھے چل پڑی کہ مجھے وہاں کمرہ کا سامان بتانا ہو گامَیں بھی جاتی ہوں۔ اس پر مرد گھبرا گیا اور بولا کہ مَیں تم کو اکیلے نہیں جانے دیتا چلو مَیں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔لیکن ہمارے ہاں خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ ہمارے مرد ایسے نہیں کہ وہ خود پیچھے بیٹھ رہیں اور عورتوں سے کہیں کہ تم آگے بڑھو۔ کوئی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ جب مرد تمام کے تمام مارے جائیں۔ اُس وقت عورتوں کاکام ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں۔ اور ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے۔ لیکن جب تک مرد موجود ہیں ہماری جماعت کا یہ طریق نہیں کہ وہ عورتوں کو بھی نعرے لگوائیں۔ ہاں جب مرد فنا ہو جائیں تو پھر بے شک عورتیں آگے آئیں اور دین کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں۔ لیکن عام حالات میں اُن کا یہ کام نہیں کیونکہ ان کے ساتھ حاملہ ہونے اور حائضہ ہونے کے جو عوارض ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں گھر بیٹھنے کے لئے بنایا ہے۔ پس جب تک ایک مرد بھی زندہ ہے اس کا کام ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کے لئے جان دیدے۔ اس کے بعد عورتیں بے شک میدان میں آئیں کیونکہ وہ بھی خدا کی بندیاں ہیں اور دین کے جھنڈے کو بلند رکھنا اِن کا بھی فرض ہے۔ اس لئے وہ لڑتی ہوئی میدانِ جنگ میں ہی جان دیدیں لیکن دین کے جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دیں۔ بہرحال اِس وقت مخاطب دونوں ہیں۔ مرد بھی میرے مخاطب ہیں اور عورتیں بھی میری مخاطب ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس سے اُتر کر عورتوں پر ہے۔ عورتوں میں سے بھی جو صاحبِ جائیداد ہوں اُن کو چاہیئے کہ وہ اپنی جائیداد کا ایک فیصدی دیں اور جن کو خاوند کچھ رقم بطور جیب خرچ دیتے ہیں وہ اس کے برابر دیں اور جن کی جائیداد آمد سے زیادہ ہے وہ جائیداد کا حصہ دیں کیونکہ مومن ہمیشہ قربانی کی زیادتی کو پسند کرتا ہے کمی کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ اور جس کی ماہوار آمد جائیداد سے زیادہ ہے وہ ماہوار آمد دے اور جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ دونوں ہی پیش کر دیں۔ یہ وقت جماعت کے امتحان کا ہے۔ ہر فرد کو کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو۔ ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر وقف کرنے والے بھی واقفین کی صف اوّل میں کھڑے ہوں گے۔ اور جو لوگ وقف نہیں کریں گے ہم اِن سے جائیداد کا 1/2 فیصدی اور ماہوار آمد کا 1/2 لیں گے۔ اُن سے جائیداد کا ایک فیصدی اور پورے مہینے کی تنخواہ قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ وہ غیر واقفین ہیں اور جو لوگ باوجود اس نازک وقت کے حصہ نہیں لیں گے ہم آئندہ ان کو کسی ہنگامی تحریک میں شامل نہیں کریں گے۔ قرآن کریم بھی ایسے لوگوں کے متعلق یہی فرماتا ہے کہ اِن لوگوں کو کہہ دو کہ تم ہمارے ساتھ جہاد کے لئے مت نکلو ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔6 لیکن ایسے لوگوں کو اسلام سے نہیں نکالا۔ اس لئے ہم بھی ایسے لوگوں کو جماعت سے نہیں نکالیں گے لیکن آئندہ ان کو ایسی تحریک میں شامل نہیں کریں گے۔
نادان کہے گا کہ اُن کے تو مزے ہو گئے کہ اُن کو کچھ بھی دینا نہ پڑا۔ لیکن وہ نہیںجانتا کہ مومن کے لئے اِس سے بڑھ کر اَور کوئی عذاب نہیں کہ اسے قربانی کرنے سے محروم کر دیا جائے۔ اس کے لئے وہ دوزخ کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ کیونکہ مومن قربانی کو سب سے بڑا انعام سمجھتا ہے۔ اُس کے لئے دوزخ آسان ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ قربانی پیش کرے اور اُسے رد کر دیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہمیں اس قسم کا ایک واقعہ نظر آتا ہے۔ ایک شخص جو بہت غریب تھا وہ آپ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! آپ میرے لئے دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے تا کہ مَیں بھی مالی قربانیوں میں حصہ لے سکوں۔ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور اس کے مال میں اتنی برکت پیدا ہو گئی کہ چند سالوں میں ہی اس کے پاس اتنا مال ہو گیا کہ اس کے جانوروں سے ایک وادی بھر جاتی تھی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا مقرر کردہ آدمی اُس کے پاس زکوٰۃ لینے کے لئے گیا تو اس نے کہا جب دیکھو چندہ مانگنے کی ہی فکر رہتی ہے۔ ان جانوروں کو کھلائیں پلائیں یا تمہارے لئے چندے کا انتظام کریں۔ وہ آدمی واپس آگیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں آدمی نے آج مجھے اس قسم کا جواب دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا آئندہ اس سے کبھی زکوٰۃ نہ لی جائے۔ معلوم ہوتا ہے اس کے اندر ابھی ایمان کی کوئی چنگاری باقی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے جبراً زکوٰۃ کا مطالبہ کیا جاتا تو اس کے اندر ضد پیدا ہو جاتی اور وہ چنگاری بجھ جاتی مگر اسے سزا دی گئی زکوٰۃ نہ لینے کی اور وہ سمجھ گیا کہ میرے لئے سب سے بڑی چوٹ یہی ہے کہ آئندہ کے لئے مَیں ثواب سے محروم کر دیا گیا ہوں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ وہ شخص بعد میں اپنا زکوٰۃ کا مال حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے کر آتا لیکن آپ اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ لکھا ہے کہ اس کے پاس اتنا مال زکوٰۃ کا جمع ہو گیا تھا کہ اس کے زکوٰۃ کے جانوروں سے ایک وادی بھر جاتی تھی لیکن جب وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس مال لے کر آتا تو آپ فرماتے جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ نہیں لی مَیں کس طرح لے سکتا ہوں۔ وہ روتا ہوا واپس چلا جاتا۔7 پس یہ مت سمجھو کہ ہم کمزوروں کے لئے راستہ کھول رہے ہیں بلکہ ہم تو ان کے ایمان کی چنگاری کو سلگا رہے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ ہمارے کاموں کا نگہبان ہے. جو شخص اللہ تعالیٰ کے رستہ میں قربانی کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے وہ انعام سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے ۔ پس ہماری جماعت کو اپنی قربانی کے معیار کو بہت بلند کرنا چاہیئے اور میرے نزدیک مومن کے لئے سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ اس کا چندہ قبول نہ کیا جائے۔ ہم اس کا ماہوار چندہ واپس نہیں کریں گے لیکن خاص چندوں میں وہ شریک نہیں ہو سکے گا۔ دنیا داروں کے نزدیک تو سزا یہ ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں جو شخص دینے سے گریز کرتا ہے اس سے دو گنا وصول کرو لیکن ہم اس کو یہ سزا دیتے ہیںکہ آئندہ اس کا چندہ قبول نہ کیا جائے۔ قادیان والوں کو تو یہ کام جھٹ پٹ کر دینا چاہیئے ان کیلئے تو ڈیڑھ ماہ کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے حیرت ہے کہ اب تک انہوںنے اس کام کو کیوں نہیں کیا۔ عورتوں کے متعلق مجھے رپورٹ ملی ہے کہ وہ بے تحاشا دوڑ دھوپ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ مردوں کو بھی چاہیئے تھا کہ وہ بھی رات دن ایک کر کے اس کام کو سرانجام دیتے۔یہ کتنا ایمان پرور نظارہ ہوتا کہ ایک بھائی کے دروازے پر دوسرا بھائی ایک دو بجے رات کے دستک دیتا اور اسے جائیداد وقف کرنے یا حصہ آمد ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا۔ اب بھی تمہارے لئے موقع ہے دو تین دنوں میں یہ کام کر کے فہرستیں پیش کردو تا کہ باہر کے لوگ یہ محسوس کریں کہ قادیان والوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ تمہاری ذمہ داریاں دوسرے مقامات والوں سے بہت زیادہ ہیں۔
مقاماتِ مقدسہ اور تعلیمی اداروں کا فائدہ بھی تمہیں ہی سب سے زیادہ پہنچتا ہے۔ باہر کے لوگ تو صرف تمہارے ساتھ ایمان میں شریک ہیں۔ تم ایمان میں بھی اور جان میں بھی دونوں میں شریک ہو۔ اس لئے تمہاری ذمہ داریاں باہر والوں سے بہت زیادہ ہیں۔ ایسانہ ہو کہ باہر والے قربانی میں بڑھ جائیں اور تم پیچھے رہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک قادیان کے لوگ پیچھے کبھی نہیں رہے۔ اور مجھے امید ہے کہ اب بھی قادیان کے لوگ دوسروں سے پیچھے نہیں رہیں گے کیونکہ قادیان اللہ تعالیٰ کے رسول کا تخت گاہ ہے۔
پھر مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وصیتیں کرو او رکوئی مرد اور عورت ایسا نہ رہے جو موصی نہ ہو۔ اپنے ایمان اور اخلاص میں ترقی کرو۔ نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ مَیں یہ بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کے چندے کا دوسرے چندوں پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔ ایسا نہ ہو کہ ماہوار چندوں یا وصیت کے چندوں یا تحریک جدید کے چندوں میں کمی واقع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حق دبا کر دوسرا حق ادا کرنا کبھی بھی فائدے کا موجب نہیں ہوتا۔ اس طرح ثواب کم ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالو۔ صحابہؓ کو دیکھو کہ وہ تم سے بہت تھوڑا کھا کر اور بہت تھوڑا پہن کر زندہ رہے۔ تم پر تو ابھی اسکا عشر عشیر بھی نہیں آیا۔ صحابہؓ کو مکہ میں تیرہ سال تک سخت سے سخت مصائب کا سامنا رہا او ران کو سالہا سال تک قربانی کرنی پڑی۔ اب اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ تم کو اس طرح کی قربانی کرنی پڑے گی تو ثواب میں بھی ان کے برابر ٹھہرو گے۔ پس اس ہنگامی چندے کا مستقل چندوں پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔ اگر تم کمی کرو گے تو ثواب کو ضائع کرنے والے ٹھہرو گے۔ اس لئے کوشش کرو کہ تحریک کے چندوں اور دوسرے مستقل چندوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ تمہارے اپنے مالوں میں اگر کمی واقع ہوتی ہے تو بیشک ہو جائے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے خزانے تمہارے لئے کھولے جائیں گے اور اس کی درگاہ میں تمہارا درجہ بلند کیا جائے گا۔‘‘
(الفضل16؍ اپریل 1947ئ)
1:۔(الانعام:142)
2: ٖ(الحج:79)(النجم:40)
3:مسلم کتاب الامارۃ باب ثبوت الجنۃ للشہید
4:طٰہٰ:115
5:درثمین اردو صفحہ 58
6:(التوبۃ:83)
7:اسد الغا بۃ جلد اول صفحہ 237،238

14
ہر قربانی کو انعام سمجھتے ہوئے پورا کرتے جاؤ
(فرمودہ 18؍ اپریل1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’پچھلے خطبہ جمعہ میں مَیں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا تھا اور یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ خطبہ جمعہ کے بعد عام طورپر دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ سو اِسی طرح ہوا۔ مَیں خطبہ جمعہ پڑھ کے گیا تو رات کو پیر زیادہ متورّم ہو گیا اور متواتر درد شروع ہو گیا۔ بیچ میں ٹائیفائڈ کے ٹیکہ کی وجہ سے یا موسم کی تبدیلی کیوجہ سے دو دن بخار ہو گیا۔ کل کسی قدر افاقہ محسوس ہوتا تھا مگر شام کو پاؤں میں درد زیادہ ہو گیا مگر اس تکلیف کے باوجود آج بھی مَیں نے مناسب سمجھا کہ مَیں خود خطبہ بیان کروں کیونکہ یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں امام اور جماعت کا تعلق جلد جلد تازہ ہوتے رہنا چاہئیے تا کہ ہر ایک شخص اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف متوجہ ہو۔
اسلامی جنگوں میں سے ایک جنگ اہم ترین جنگ تھی۔ اور وہ ایسی جنگ تھی کہ اس کے متعلق مسلمانوں کا خیال تھا کہ اس جنگ کا فیصلہ مسلمانوں کی حالت کو بالکل تہہ و بالا کرنے والا ہو گا۔ ایران کی سرحد پر ایک جگہ پر مسلمانوں نے غلطی سے دریا کو پُشت پر رکھا۔ اُس وقت عرب پانی سے گھبراتے تھے۔ گو بعد میں تو عرب ہی سمندر کے حکمران رہے ہیں او ر سمندری سفروں کے متعلق انہوں نے بہت سی ایجادیں کی ہیں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قبل عربوں کو سمندر سے کوئی لگاؤ نہ تھا اور وہ سمندر کے سفر سے گھبراتے تھے۔ کچھ عرصے تک یہی حالت رہی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ کے بعد مسلمانوں نے سمندری سفر شروع کئے اور ان کا خوف و ہراس بالکل جاتا رہا۔ اسلامی کمانڈر نے جب دریا کو پُشت پر رکھا تو بعض مسلمانوں نے اس کے سامنے یہ بات پیش کی کہ عربوں کو دریا پار کرنا نہیں آتا۔ اگر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا تو ان کی پوزیشن خطرناک ہو جائے گی لیکن کمانڈر نے ان کی بات نہ مانی۔ لڑائی شروع ہو گئی۔ دشمن کی سپاہ بہت زیادہ تھی۔ مسلمانوں کو اپنے بچاؤ کے لئے پیچھے ہٹنا پڑا۔ لڑائیوں میں فوجیں آگے بھی بڑھتی ہیں اور پیچھے بھی ہٹتی ہیں۔ موقع کے مطابق قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اسلامی فوجیں اس سے پیچھے ہٹیں کہ ہم ذرا پیچھے ہٹ کر اپنی تنظیم کو مضبوط کر لیں گے اور پھر زیادہ زور سے حملہ کریں گے لیکن دشمن کا اس قدر زور تھا کہ ان کو اتنا پیچھے ہٹنا پڑا کہ دریاکا کنارا آ گیا۔ جب وہ دریا کے کنارے تک پہنچ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں بھی اُن کے لئے کوئی ایسی جگہ نہ تھی جس میں وہ سب منظم ہو کر حملہ کر سکتے۔ اس لئے مسلمان ندی میں کود گئے اور چونکہ وہ تیرنا نہیں جانتے تھے بہت سے ان میں سے ڈوب گئے اور کچھ ایک چھوٹے سے پل کی طرف دوڑے جو کہ دریا کو عبور کرنے کے لئے بنا ہوا تھا اُس پر دشمن قبضہ کر چکا تھا۔ وہ درمیان میں ہی تھے۔ چنانچہ انہیں دشمن کی فوجوں نے گھیر لیا اور بُہتوںکو قتل کر دیا۔ بہت تھوڑے مسلمان وہاں باقی رہ گئے اور مدینہ قریباً ننگا ہو گیا اور مسلمانوں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ اب دشمن مدینہ پر حملہ کر دے گا۔ اُس وقت حضرت عمرؓ نے شام کی طرف آدمی بھجوائے کہ جتنی فارغ فوج وہاں ہے وہ بھیج دی جائے اور کچھ آدمی قبائل میں سے جمع کئے اور ایک چھوٹا سا لشکر مقابلہ کے لئے تیار کیا۔ وہ ایسا نازک موقع تھا کہ حضرت عمرؓ نے فیصلہ کیا کہ لشکر کی کمان مَیں خود کروں گا اور مَیں خود میدانِ جنگ میں جاؤں گا۔ باقی صحابہؓ نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ کا میدانِ جنگ میں جانا مناسب نہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ ہمیں شکست ہو تو آپ اَور لشکر بھجوا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ہمارے ساتھ میدان جنگ میں چلیں اور آپ خدانخواستہ شہید ہو جائیں تو پھر سوائے مسلمانوں کی تباہی اور ابتری کے اَور کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا۔ باقی صحابہؓ نے بھی حضرت علیؓ کی بات کی تائید کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی بات مان لی اور حضرت سعدؓ کو فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ عین اس خطرناک موقع پر انہیں ایک پھوڑا نکل آیا جس کی تکلیف کی وجہ سے آپ بیٹھ نہیں سکتے تھے جب تک کہ چاروں طرف سے کسی چیز کا سہارا نہ ہو لیکن فوج کی کمان بہرحال ضروری تھی اس لئے آپ کو ایک عرشہ پر بٹھایا گیا اور آپ عرشہ پر بیٹھے ہوئے فوج کی کمان کرتے۔غرض نازک مواقع پر افسر کو تکلیف اُٹھا کر بھی جماعت سے واسطہ قائم رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہ ایسا ہی زمانہ ہے ۔اِسی جنگ کے ایک واقعہ کی طرف میں آج جماعت کو توجہ دلاتا ہوں۔
حضرت خنسائؓ عرب کی ایک مشہور شاعرہ تھی۔ وہ کفر کے زمانہ میں بھی بہت شہر ت حاصل کرچکی تھیں اور آج تک ادبی دنیا میں بہت بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایّام میں ایمان لائیں۔ حضرت عمرؓ اُن کے اشعار کو بہت پسند کرتے تھے اور آپ اکثر حضرت خنسائؓ کے شعر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو اپنے ایک بھائی سے بہت محبت تھی۔ وہ ایک جنگ میں شہید ہو گئے۔ آپ جب بھی اِن کو یاد کرتے تو آپ پر رقت کی حالت طاری ہو جاتی۔ ایک دفعہ حضرت خنسائؓ آپ سے ملنے آئیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا مجھے اپنا کوئی قصیدہ سناؤ۔ حضرت خنسائؓ نے اپنے بھائی کے متعلق ایک قصیدہ کہا ہوا تھا وہ حضرت عمرؓ کو سنایا۔ وہ قصیدہ سُن کر آپکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپ نے فرمایا افسوس مَیں شاعر نہیں۔ اگر مَیں شاعر ہوتا تو مَیں بھی اپنے بھائی کے متعلق ایسا ہی مرثیہ کہتا۔ حضرت خنسائؓ نے کہا میرا بھائی تو کفر کی حالت میں مرا ہے لیکن آپ کا بھائی خدا تعالیٰ کی راہ میں مرا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پائی ہے۔ اگر میرابھائی اس طرح مرتا تو مَیں اس کا ہرگز افسوس نہ کرتی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ ٹھیک کہتی ہیں۔
خنسائؓ ایسی عورت تھیں کہ جن کی ساری عمر ہی مصیبت میں گزری اور وہ مصیبت ہی ان کو شاعرہ بنانے کا موجب ہوئی۔ وہ ایک رئیس کی لڑکی تھیں باپ نے ایک رئیس کے لڑکے سے ان کی شادی کی لیکن وہ لڑکا بہت عیاش اور جوئے باز تھا اور ہر وقت شراب کے نشہ سے بدمست رہتا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد اس لڑکے کا والد فوت ہو گیا۔ اس نے تمام جائیداد جوئے اور شراب میں تباہ کر دی اور خنسائؓ کے باپ نے جوکچھ دیا تھا وہ بھی کھا گیا اور اس عرصے میں خنسائؓ کا باپ بھی فوت ہو گیا۔ جب ساری جائیداد اس نے تباہ کر دی اور جؤا کھیلنے اور شراب کے لئے پاس کچھ نہ رہا تو وہ سخت غمگین ہوا۔ ایک دن افسوس کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا کہ خنسائؓ اس کے پاس گئیںا ور پوچھا اِس قدر افسردہ کیوں ہو؟ کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا ہونا کیا تھا سارا مال تباہ ہو گیا ہے اور اب گزارے کی صورت مشکل نظر آتی ہے۔ خنسائؓ نے کہا یہ بھی کوئی غمگین ہونے کی بات ہے۔ میرا بھائی زندہ ہے جب تک وہ زندہ ہے ہمیں کیا ڈر ہے۔ پھر اپنے بھائی کو اطلاع دی کہ ہم ملنے کے لئے آ رہے ہیں اور خاوند کو ساتھ لے کر بھائی کی ملاقات کے لئے چل پڑیں۔ بھائی بھی ایسا فراخ دل تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کے دل میں اپنے بہنوئی کو ملامت کرنے کا خیال پیدا ہوتا اس نے اردگرد کے قبائل کے سرداروں کو دعوت نامے بھجوائے کہ میری بہن اور میرا بہنوئی آ رہے ہیں ان کی آمد کی خوشی میں آپ لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان کے استقبال کے لئے بڑی شان و شوکت سے ایک دو منزل آگے گیا اور جب تک بہن اور بہنوئی اس کے پاس رہے دعوتیں ہوتی رہیں۔ جب بہن واپس آنے لگی تو اس نے ارد گرد کے قبائل کے سرداروں سے کہا کہ یہ میری بہن ہے اور مَیں اس کا بھائی ہوںاور یہ انصاف کے خلاف ہے کہ میری بہن غریب ہو جائے ا ور مَیں اسکی مدد نہ کروں۔ آپ لوگوں سے میری درخواست ہے کہ آپ میری دولت بانٹ کر آدھی میری بہن کو دے دیں۔ اُن دنوں روپے تو بہت کم ہوتے تھے اونٹنیاں اور بکریاں ہی دولت سمجھی جاتی تھیں اور ایک ایک امیر آدمی کے پاس سینکڑوں ہزاروں جانور ہوتے تھے اور اس کے علاوہ سامانِ حرب بھی دولت میں شمار کیا جاتا تھا۔ اُن رؤساء نے اُن کے مال کا اندازہ لگایا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بہن آدھا حصہ لے کر بھائی سے رخصت ہوئی۔ گھر پہنچ کر کچھ دیر تو اُس کا خاوند سنبھلا رہا لیکن پھر بدعادتیں لَوٹ آئیں اور وہی پہلے لچھن اس نے اختیار کر لئے۔ شراب اور جؤا پھر شروع ہو گیا۔وہ مال بھی تمام کا تمام ختم ہو گیا۔ پھر ایک دن اسے پریشان بیٹھا دیکھ کر خنسائؓ نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا سارا مال ختم ہو گیا ہے۔ اب کیسے گزر ہو گی؟ خنسائؓ نے کہا گھبراتے کیوں ہو میرا بھائی زندہ ہے۔ پھر بہن اپنے خاوند کو لے کراپنے بھائی کے پاس پہنچی۔ بھائی نے اس دفعہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ شاندار استقبال کیا اور زیادہ شاندار دعوتیں کیں۔ پھر آخر میں کچھ رؤسا سے کہا کہ میری آدھی دولت میری بہن کو دے دیں۔ پھر آدھی دولت لے کر بہن اپنے بھائی سے رخصت ہوئی۔ واپس آ کر کچھ دیرتو اس کے خاوند کی عادات میں اصلاح رہی۔ اس کے بعد بد عادات پھر عَود کر آئیں اور کچھ عرصے کے اندر اس نے وہ دولت بھی اڑا دی اور اب اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی کہ اب لینے نہیں جاؤں گا اور خود کشی کرلوں گا مگر خنسائؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا گھبراتے کیوں ہو میرا بھائی موجود ہے اس کی موجودگی میں ہمیں کیا ڈر ہے۔ اور وہ پھر اُسے ساتھ لے کر بھائی کے پاس گئیں۔ بھائی نے پہلے سے بھی زیادہ شاندار استقبال کیا اور زیادہ شاندار دعوتیں کیں۔ اور پھرکچھ رؤساء سے کہا میری دولت برابر برابر تقسیم کر کے آدھی میری بہن کو دے دو۔ اس دفعہ اس کی بیوی نے کہا کچھ خدا کا خوف کرو تمہارے بھی بیوی بچے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ وہ تو جواری ہے تم اسی طرح سب کچھ لُٹاتے جاؤ گے ؟بھائی نے اپنی بیوی سے کہا تم خاموش رہو۔ اگر مَیں مر گیا تو تم تو اَور خاوند کر لو گی لیکن میری بہن ہی ہے جو مجھے ساری عمر روئے گی۔ پھر بھائی نے آدھی دولت بہن کے سپرد کی۔ بہن وہ دولت لے کر پھر گھر واپس آ گئی۔ وہ بھی اس نے ضائع کرنی شروع کر دی لیکن کچھ عرصہ بعد وہ مر گیا اور اس نے غالباً تین بیٹے چھوڑے ۔ کچھ دیر کے بعد بھائی بھی مر گیا۔ اس محبت کرنے والے بھائی کی موت نے بہن کے دل پر ایسا گہرا زخم لگایا کہ اس نے اپنے بھائی کی یاد میں مرثیے کہنے شروع کر دیئے اور درد اور محبت کی وجہ سے ان کے خیالات ایسا رنگ پکڑ گئے کہ عرب کے بڑے بڑے شاعر ان کے شعروں کی داد دینے لگے اور حضرت خنسائؓ عورتوں میں سے سب سے بڑی شاعرہ بن گئیں۔ جب حضرت عمرؓ نے اوپر کی بیان کردہ شکست کے بعد دوبارہ لشکر تیار کیا تو اُس میں حضرت خنسائؓ کے بیٹے شامل تھے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بتا چکا ہوں اسلامی لشکر قریباً تمام تباہ ہو چکا تھا۔ جلدی جلدی حضرت عمرؓ نے تھوڑی سی فوج جمع کی۔ دشمن کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ تھی ا ور اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار سے لے کرتیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ عام روایت دس بارہ ہزار کی ہی ہے۔ یہ دس بارہ ہزار سپاہی بھی ناتجربہ کار اور فنونِ جنگ سے محض نابلد تھا۔ سوائے شام سے آنے والے حصہ کے کہ وہ تجربہ کار تھا۔ ایرانیوں نے اس لڑائی میںیہ تدبیر کی کہ وہ میدانِ جنگ میںہاتھیوں کو آگے رکھتے تھے۔ عرب لوگ ہاتھیوں سے ڈرتے تھے۔ اونٹ بھی ہاتھی سے ڈرتا ہے۔ جب ایرانی ہاتھیوں کو آگے کرتے تو اونٹ ڈر کر بھاگنا شروع کر دیتے اور ڈٹ کر لڑائی کرنا مشکل ہو جاتا۔ مسلمانوں کو اس لڑائی کا نتیجہ نظر آنے لگا اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر یہی حالات رہے تو ہم اب بھی فتح نہیں پا سکیں گے۔ آخر ایک دن مسلمان بہادروں نے فیصلہ کیا کہ کل کی لڑائی فیصلہ کن لڑائی ہو۔ اس طرح نہیں کہ حکمت اور داؤ پیچ کر کے جان بچا نے کی فکر کی جائے بلکہ کل سب کو فنا ہو جانا چاہیئے۔ سب مسلمانوں نے بہادری کے عہد کئے اور مختلف پارٹیاں بنائیں کہ اس طرح ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اس جنگ میں حضرت خنسائؓ بھی شامل تھیں۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو لے کر الگ ہو گئیں اور اپنے بیٹوں سے کہا میرے بیٹو !تم نے میری زندگی دیکھی ہے۔ مَیں نے تمہارے لئے ساری جوانی برباد کر دی اور دوسری شادی نہیں کی ۔ تم نے بھی سن لیا ہو گا کہ تمہارے باپ کا سلوک میرے ساتھ کیسا تھا۔ اس نے اپنی جائیداد اور میری جائیداد بھی شراب اور جوئے میں تباہ کر دی۔ باوجود ایسے ذلیل سلوک کے مَیں نے اس کی عزت کو قائم رکھا اور اپنی ساری جوانی لُٹا کر تم کو پالا۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟ بیٹوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ حضرت خنسائؓ نے کہا مَیں نے تمہاری کتنی خدمات کیں اور کس طرح مصیبتیں اٹھا کر تمہیں پالا۔ اِن خدمات کے عوض مَیں تم سے ایک مطالبہ کرتی ہوں کہ آج اسلام پر بہت نازک وقت آیا ہے تم لڑائی میں جا رہے ہو۔ مَیں تم سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یا تو تم فاتح ہو کر لَوٹو اور یا پھر وہیں شہید ہو جاؤ۔ مَیں تم کو زندہ نہ دیکھوں۔ اگر مسلمانوں کو شکست ہوا و ر تم زندہ رہے تو مَیں قیامت کے دن تمہیں اپنی یہ قربانی نہ بخشو ں گی۔ لڑکوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ لَوٹیں گے تو فاتح ہو کر لَوٹیں گے۔ نہیں تو میدانِ جنگ میں ہماری لاشیں دیکھ لینا ۔اور پھر انہوں نے اس وعدہ کو پورا بھی کیا۔ سب سے بڑا ہاتھی جو کہ ہاتھیوں کے آگے بڑھ کر حملہ کرتا تھا اُس پر حملہ کرنے کیلئے ایک عرب سردار نے اِن لڑکوں سے کہا کہ تم میرے ساتھ مل کر اس ہاتھی پر حملہ کر دو۔ اُس زمانہ میں بندوق اور توپ تو تھی نہیں تلوار سے ہی لڑائی ہوتی اور تلوار سے لڑنے والے کو دوسرے کے بالمقابل جانا پڑتا ہے۔ اس سردار نے کہا میں ہاتھی پر سامنے کی طرف سے حملہ کروں گا اور تم دائیں بائیں پہلوؤں پر رہنا۔ مَیں ہاتھی پر حملہ کرونگا تو وہ مجھے اپنی سُونڈ میں لے کر اٹھا کر مارے گا۔ تو تم اس اثناء میں اس پر دائیں اور بائیں سے حملہ کر دینا۔ وہ مجھے چھوڑ دے گا اور دوسری طرف متوجہ ہو گا۔ اس طرح ایک وقت میں ہم تین طرف سے اُس پر حملہ کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے حملہ کی وجہ سے ہاتھی بھاگ جائے یا زخمی ہو جائے۔ ہاتھی کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ حملہ کے وقت آدمی کو سُونڈ سے اٹھا کر زمین پر مارتا ہے اور گُھٹنوں کے نیچے لیکر اوپر چڑھ جاتا ہے۔ اور ہاتھی کا بوجھ سینکڑوں من ہوتا ہے انسان اُس کو برداشت نہیں کر سکتا اور مر جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اِسی طرح کیا۔ ہاتھی نے سُونڈ بڑھا کر حملہ آور کوپیٹھ پر سے پکڑ لیا اور زور سے اٹھا کر زمین پر دے مارا اور قریب تھا کہ وہ اس پر اپنے گُھٹنے رکھ دیتا کہ دوسرے ساتھیوں نے دائیں بائیں سے ہاتھی پر بے تحاشا تلواروں کے حملے کرنے شروع کر دیئے۔ اِس پر اُس نے سامنے کے آدمی کو چھوڑ کر دائیں بائیں والے آدمیوں میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اسے بھی زور سے زمین پر دے مارا۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہ اس کو اپنے گُھٹنے تلے کچل دیتادوسرے ساتھیوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اِسی طرح حملہ ہوتا چلا گیا۔ کبھی ہاتھی ایک کو اٹھا کر گراتا کبھی دوسرے کو مگر وہ لوگ نڈر ہو کر حملہ کرتے چلے گئے اور ہاتھی بُری طرح زخمی ہو کر پیچھے کو بھاگا۔ جب سب سے بڑا ہاتھی بھاگا تو باقی ہاتھی بھی اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے اور وہی ہاتھی جو کہ فوج کے بچاؤ کا موجب تھے فوج کی تباہی کا موجب ہوئے کیونکہ وہ اپنی ہی پیادہ فوجوں کو پاؤں تلے روندتے چلے جاتے تھے۔ انکی یہ قربانی بظاہر چھوٹی نظر آتی ہے مگر اِس میں جو بے جگری نظر آتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہی ہے۔
حضرت خنسائؓ کے متعلق لکھا ہے کہ اِدھر تو انہوں نے اپنے بیٹے مرنے کے لئے میدانِ جنگ میں بھیج دیئے اُدھر ماں کی مامتا جوش میں آئی اور وہیں جنگل میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر گئیں اور اپنے بیٹوں کے لئے دعا مانگنے لگیں کہ الہٰی! تُو جانتا ہے مَیں نے اپنی جوانی کس طرح برباد کی۔ میری ساری عمر کی کمائی یہی بچے ہیں۔ مَیں نے آج ان کو اسلام کے لئے قربان ہونے کے لئے بھیج دیا ہے اُن کا فرض یہی تھا اور میرا فرض بھی یہی تھا لیکن تجھ کو طاقت ہے کہ تُو اسلام کو بھی فتح دے اور میرے بچے بھی زندہ واپس آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور ان کے بچے بھی زندہ واپس آ گئے۔
مَیں اِس واقعہ کو بتا کر آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نازک وقتوں میں انتہائی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ایک چیز کا ایک درجہ ہوتا ہے اور ہر ایک درجے کے لئے علیحدہ علیحدہ چیز مناسب ہوتی ہے۔ اگر ایک دوپٹے کو آگ لگ جائے تو اسے پانی کے ایک لوٹے سے بجھا لیتے ہیں۔ اور اگر کسی چٹائی یا دری کو آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے لئے زیادہ پانی اور زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر کسی کمرے کو آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے لئے اور بھی زیادہ قربانی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر کسی گھر کو آگ لگ جائے توا س کے بجھانے کے لئے اس سے بھی زیادہ قربانی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر کسی محلے کو آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے لئے اس سے بھی زیادہ قربانی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر کسی شہر کو آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے لئے اس سے بھی زیادہ قربانی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی ملکوں میں بھی آگ لگ جاتی ہے اُس وقت اس آگ کو بجھانے کے لئے بہت زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ وقت ایسا ہی ہے۔
مَیں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی تھی۔ خطبہ کے دوسرے دن ہی میری سالی عزیزہ اپنے بھتیجے صباح الدین کو لے کر میرے پاس آئیں۔ اُس کی عمر نو دس سال کی ہے۔ اور مجھے بتایا کہ یہ کہتا ہے کہ مَیں نے خطبہ سنا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ سو فیصدی قربانی کرو۔ میرے پاس جو کچھ ہے مَیں سو فیصدی قربانی کروں گا۔ اس پر مَیں نے کہا کہ نہیں حضرت صاحب نے ایک فیصدی قربانی کا مطالبہ کیا ہے اس لئے تم ایک فیصدی دو۔ اس نے جواب دیا کہ میرے کانوں نے تو یہی سنا ہے کہ سو فیصدی قربانی کرو۔ اس لئے مَیں سو فیصدی ہی دوں گا۔ عقلمند والدین اپنے بچوں کو جمع کرنے کی عادت ڈالتے ہیںا ور مٹی کی ایک چھوٹی سی ہنڈیا جس کا منہ بند ہوتا ہے لا کر دے دیتے ہیں۔ اُس میں ایسا سوراخ ہوتا ہے کہ اس میں روپیہ پیسہ ڈالا تو جا سکتا ہے لیکن نکالا نہیں جا سکتا سوائے اِس کے کہ اُس کو توڑا جائے۔ بچے اُس میں پیسے روپے جمع کرتے رہتے ہیں۔ا س کے والدین نے بھی اُسے پیسے جمع کرنے کی عادت ڈالی تھی اور ویسا ہی مٹی کا برتن لا کر دیا ہوا تھا۔ مَیں نے یہ بات سن کر اس بچہ سے کہا کہ بہت اچھا! پھر تم وہ برتن یہاں لے آؤ۔ وہ گیااور مٹی کا برتن لے آیا جس میں اس نے پیسے جمع کئے ہوئے تھے۔ وہ برتن اس نے دیوار کے ساتھ مار کر توڑا اور اس میں سے چھبیس روپے ، سات آنے اور ڈیڑھ پائی نکلے۔ وہ روپے مَیں نے دفتر والوں کو دے دیئے اور ساتھ ہی یہ ہدایت کی کہ اس جذبہ میں بڑوں اور چھوٹوں، مَردوں اور عورتوں سب کے لئے ایک سبق ہے۔ اس سبق کو نمایاں رنگ میں جماعت کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن الفضل میں اسے نہایت بھونڈے طریق پرشائع کیا گیا ہے او ریہ لکھا گیا ہے کہ صباح الدین نے چھبیس روپے ، بارہ آنے اور چھ پائی چندہ دیا ہے۔ حالانکہ اگر خبر یہ تھی تو اس کے شائع کرنے میں کونسا فائدہ تھا؟ میری بیوی نے دفتر پرائیوٹ سیکرٹری کو میری ہدایت کے ماتحت میری موجودگی میں فون پر سب کچھ سمجھا دیا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے الفضل کو ایک ناقص رپورٹ بھجوا دی۔ اور الفضل والوں کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ آیا اس خبر میں حکمت کیا ہے کہ اسے شائع کیا جائے۔ چندے تو سارے لوگ دیتے ہیں اس کے شائع کرانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس میں ایک نکتہ تھا اور جماعت کے لئے ایک سبق تھا۔ اس میں سبق تھا بچوں کے لئے ۔اس میں سبق تھا بڑوں کے لئے۔ اس میں سبق تھا مردوں کے لئے۔ اس میں سبق تھا عورتوں کے لئے۔ایک چھوٹا بچہ اپنی پھوپھی سے کہتا ہے کہ آپ کے کانوں نے ایک فیصدی سنا ہو گا۔ آپ بے شک ایک فیصدی دیں۔ لیکن میرے کانوںنے چونکہ سو فیصدی سنا ہے۔ چاہے یہ غلط ہے یا صحیح میں سو فیصدی ہی دوں گا۔ یہ جذبہ اطاعت ہے جو ہر مومن کے اندر پیدا ہونا چاہیئے۔
اِسی قسم کا ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ گلی میں آ رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے کناروں پر کھڑے ہونے والوں کو کہا۔ دوست بیٹھ جائیں۔ پتہ نہیں کہ وہ لوگ بیٹھے یا نہ بیٹھے کیونکہ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستثناء سمجھتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے ہے۔ حالانکہ وہ حکم سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو گلی میں آ رہے تھے آپؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی آواز سنی تو آپؓ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے چلنا شروع کیا۔ کسی نے کہا آپؓ یہ کیا بچوں والی حرکت کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ جاؤ۔ مَیں بیٹھ گیا ہوں۔ اس گزرنے والے شخص نے کہا کہ آپؐ کا وہ حکم تو اُن لوگوں کے متعلق ہے جو مسجد میں ہیں نہ اُن کے متعلق جو کہ گلی میں چل رہے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کیا پیارا جواب دیا کہ بے شک آپؐ نے مسجد والوں کو ہی کہا ہو گا لیکن میرے کانوں نے جب آپؐ کی آواز سنی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مَیں آپ کا ایک حکم سنوں اور اس پر عمل نہ کروں۔ 1
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بہت پرانے صحابی تھے اور وہ ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہے۔ قرآن کریم کے حافظوں میں سے تھے اور ابتدائی ایمان لانے والوںمیں سے تھے۔ اِس کے باوجود ہم اُن کی اس اطاعت اور فرمانبرداری کی روح کو دنیا کے سامنے بطور مثال کے پیش کرتے ہیں کہ ایمانداروں کی فرمانبرداری اِسی طرح ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی حکم ایسا نہ رہے جس کو ہمارے کان سنیں اور ہم اُس پر عمل نہ کر سکیں۔ لیکن یہ ایک بچے کا واقعہ ہے اورایسے بچے کا جس کی عمر نو دس سال ہے۔ لیکن جس طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا تھا اُسی طرح کا جواب اِس کا ہے کہ ایک فیصدی نہیں سو فیصدی دوں گا کیونکہ میرے کانوں نے یہ سناہے۔ کتنا بڑا سبق ہے اِس میں عقلمندوں کے لئے۔ اگر ایک بچہ اس قسم کا پختہ ایمان پیش کر سکتا ہے تو وہ جو کہ مستقل اور پختہ ایمان والے ہیں اور جو کہ مستقل ایمان میں سے گزر رہے ہیں اُن کے اندراِس سے کہیں بڑھ کر قربانی کا جذبہ ہونا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کب تک اس کے اندر موجزن رہے گا کیونکہ بچوں پر مختلف دَور آتے رہتے ہیں۔ لیکن اِس وقت اِس نے جو جذبہ پیش کیا ہے وہ قابلِ رشک ہے۔ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن اس میں سبق بہت بڑ اہوتا ہے۔ا ور وہ روح جو اُس کام کے اندر ہوتی ہے وہ قابلِ تعریف ہوتی ہے۔ مَیں نے بھی اِسی نقطہ نگاہ سے اِس واقعہ کو لیا ہے کہ اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ مَیں نے شاید غلط سنا ہوگا تو وہ زیادہ قربانی سے بچ سکتا تھا لیکن اس نے کہا خواہ مجھے غلطی لگی ہو مگر چونکہ میرے کانوں نے سو فیصدی سنا ہے اِ س لئے مَیں زیادہ قربانی کی طرف جاؤنگا تھوڑی کی طرف نہیں جاؤنگا۔ اُس کی یہ بات سن کر کہ ’’میرے کانوں نے سنا ہے اِس لئے مَیں سو فیصدی ہی دونگا‘‘ مَیں نے فیصلہ کیا کہ اس سے سو فیصدی ہی لے لینا چاہیئے۔ کیونکہ معلوم ہوتا ہے اس کے کانوںمیں اللہ تعالیٰ کی آواز آئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی آواز کو جھوٹا نہیں کرنا چاہیئے۔ مَیں نے کہا اچھا لاؤ تم سے سو فیصدی ہی لے لیتے ہیں۔
ہماری جماعت کے لئے یہ امتحان کوئی پہلا امتحان نہیں بلکہ اس سے پہلے کئی امتحان آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ان امتحانات میں بالکل ثابت قدم رہی ہے۔ اور جتنا جتنا ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہمارے امتحانات بھی زیادہ شدت اختیار کرتے جائیں گے۔ اور کوئی وقت ایسا نہیں آ سکتا جبکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اب قربانیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیشہ قربانیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ اور مومن کے لئے قربانی ہی سب سے مزیدار چیز ہے اور وہی اصل چیز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک شعر ہے
در کوئے توُ اگر سرِ عشّاق را زنند
اوّل کسے کہ لافِ تعَشُّق زَنَد مَنَم 2
اِس کے ایک معنی تو یہ کئے جاتے ہیں کہ اگر تیرے کُوچے میں تیرے حکم سے عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہوں تو مَیں پہلا شخص ہوں گا جو کہ بآواز بلند کہوں گا کہ مَیں بھی عاشق ہوں۔ عام طور پر یہی معنی کئے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ ایک اَور نفسیاتی معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر میں قاتل کا ذکر نہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر تیرے کُوچے میں عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہوں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تُو سر کاٹتا ہو یا کاٹنے کا حکم دیتا ہو۔ اور جب کلام میں ایک چیز مبہم ہو تو معنوں میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس کے جتنے معنی ہو سکتے ہوں وہ سارے لئے جا سکتے ہیں۔ پس میرے نزدیک اِس شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اَور نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیوی نعمتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور لوگ جائیدادیں، زمینیں ، عُہدے اور لیڈریاں لے لے کر جار ہے ہیں۔ اور اِس میں شک بھی کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے۔ یہ غلّے کون دیتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ یہ پھل جسے میوہ فروش فروخت کرتے ہیں کون دیتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ یہ ترکاریاں جو کہ ہم دکانوں سے خریدتے ہیں کون دیتاہے؟ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ یہ دودھ اور مکھن دینے والے جانور کس نے پیدا کئے؟ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کئے۔ یہ سواری کے جانور اونٹ گھوڑے کس نے پیدا کئے؟ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کئے۔ یہ کَلیں 3بنانے والا لوہا کس نے پیدا کیا؟ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا۔ یہ سُوئی جس سے ہم کپڑے بناتے ہیں کس کے دروازے سے ملتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کے دروازے سے ہی ملتی ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر ایک اپنے اپنے مطلب کی چیز تیرے دربار سے لئے آ رہا ہے۔ زمیندار ہے تو وہ گندم، جَو، باجرہ، مکئی لئے آ رہا ہے۔ کوئی لوہا لکڑی لئے آ رہا ہے۔ کوئی پھل اور سبزیاں تیرے دربار سے لئے آ رہا ہے۔ اور کوئی دُنیوی علوم و فنون تیرے دربار سے لئے آ رہا ہے۔ مگر مَیں خاموش بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مادی انعامات کی طالب ہے اور وہ اپنے مادی انعامات لے کر واپس جا رہی ہے۔ مگر مجھے اُن سے واسطہ نہیں۔ ابھی میرا موقع نہیں آیا۔ جب دنیا ساری کی ساری مال و دولت اور جائیداد کو لے کر آ جاتی ہے اور حقیقی روحانیت کا خیال اُس کے دلوں سے مٹ جاتا ہے اور مادی انعامات میں منہمک ہو کر سب کچھ بھول جاتی ہے ۔اُ س کی نگاہ صرف اِن چیزوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ کسی کی گندم پر نگاہ ہوتی ہے۔ کسی کی پھلوں پر نگاہ ہوتی ہے۔ کسی کی سونے پر نگاہ ہوتی ہے۔ کسی کی چاندی پر نگاہ ہوتی ہے۔ کسی کی نگاہ کسی چیز کی طرف، کسی کی نگاہ کسی چیز کی طرف ہوتی ہے۔ تو میری نگاہ اُن ہاتھوں پر ہوتی ہے جو کہ اِن انعامات کو تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔ جب دنیا اپنے مادی انعامات سے اپنی جھولیاں بھر کر لے جاتی ہے تو یہی سونا، چاندی، پیتل اور لوہا لینے والے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے متعلق بُغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ اعلان کر دیتے ہیں کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کا عاشق ہونے کا دعویٰ کرے اسے قتل کیا جائے۔ اور یکدم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاشقوں کے امتحانات کا وقت آ جاتا ہے کہ آیا وہ اپنے دعویٔ عشق میں کامل ہیں یا نہیں۔ ایسے وقت میں مَیں بآوازِ بلند کہتا ہوں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں سے یہ بُغض اور کینہ ہر زمانہ میں رہا۔ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو مصریوں نے اِسی عشق کے دعوے کی وجہ سے قتل کرنا چاہا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو شام کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا عاشق ہونے کی وجہ سے ہی صلیب پر مارنا چاہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں عربوں نے آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا عاشق ہونے کی وجہ سے ہی قتل کرنا چاہا۔ وہ اِس لئے قتل کرنا چاہتے تھے کہ یہ عاشق اُن کی باتوں کی تردید کرتے تھے۔ اِن تمام زمانوں کے مادہ پرست لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کوئی نہیں اور اُس کی محبت کوئی چیز نہیں۔ محض ایک جنون ہے۔ او ر انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کا نام لے اُسے قتل کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کا نام لینے کی وجہ سے دنیا قتل کرنا چاہتی ہو ایسے موقع پر
اوّل کسے کہ لافِ تعشُّق زند منم
یہ وقت میرا ہو گا۔ اور ایسے وقت میں مَیں وہ شخص ہوں گا جو بآواز بلند کہوں گا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوں۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں پر ایک زمانہ وہ آتا ہے جب اُنہیں قتل کیا جاتا ہے۔ اور ایک زمانہ وہ آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی حکومت ہوتی ہے۔
حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒاور حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتیؒ ایسے زمانہ میں آئے جبکہ ہزاروں ہزار لوگ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کو سروں پر اُٹھاتے تھے اور اُس وقت سچائی کی حکومت قائم تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے زمانہ میں آئے جبکہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں اور عاشقوں کو قتل کیا جاتا تھا او رلوگوں کی تلواریں ایسے لوگوں کی تلاش میں تھیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں زور سے چِلّاتا ہوں کہ جسے تم مارنا چاہتے ہو وہ مَیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے نزدیک محبوب ترین چیز قربانی ہی ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے نام رکھے ہیں او ر آپ سے بہت سے وعدے ترقیات کے کئے ہیں۔ مگر صوفیاء نے غور و خوض کے بعد آپؐ کا سب سے بڑا نام جو نکالا ہے وہ عبد ہے یعنی خدا تعالیٰ کا بندہ۔ ان کے نزدیک محمدؐ فاتحِ مکہ بڑا نہیں۔ محمد عظیم الشان قاضی بڑا نہیں۔ محمد بہترین جرنیل بڑا نہیں۔ محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ سب سے بڑا ہے۔ کیونکہ اِس میں عشق و محبت کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اور عشق و محبت کی وجہ سے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ اور جو شخص عشق و محبت کے رستہ میں قربانی کرنے سے دریغ کرتا ہے اُس سے زیادہ بے وقوف او رکوئی نہیں ۔ کہتے ہیں ’’اُکھلی میں سر دیا تو موہلوں سے کیا ڈرنا‘‘ کہ اُکھلی میں سردے کر یہ کہنا کہ موہلے نہ مارو بے وقوفی کی بات ہے ہر جماعت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کی جاتی ہے وہ مار کھانے کے لئے ہی آتی ہے۔ اور اسے ہر چیز اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربان کرنی پڑتی ہے۔ یہی چیز ہے جو ابتدائی لوگوں کو بعد والوں پر فضیلت بخشتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگ ایسے وقت میں عشق کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ عشق کی قربانی سر کٹوانا ہوتی ہے اور دنیا اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے سر کاٹتی ہے۔ اور بعد والے ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ دنیا عاشقوں کو سر پر بٹھاتی ہے۔ دونوں ہی سچے عاشق ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی ابتدائی قربانیوں کی وجہ سے بعد والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ، اور حضرت زبیرؓ بھی عاشق تھے۔ اور بعد میں آنیوالے حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانیؒ، اور حضرت جنید بغدادیؒ بھی عاشق تھے۔ لیکن جب تم حضرت عثمان بن مظعونؓ کا ذکر کرتے ہو تو تمہارے قلوب میں ان کے لئے محبت اور پیار کا ایک طوفان اٹھتا ہے۔ لیکن سید عبد القادر صاحبؒ او رجنید صاحب بغدادیؒ کے لئے وہ جوش محبت نہیں اٹھتا۔ حالانکہ یہ سارے کے سارے ہی اللہ تعالیٰ کے عاشق تھے۔ یہ فرق اِس لئے ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایسے وقت میں عشق کا دعویٰ کیا جبکہ عاشقوں کے سر کاٹے جاتے تھے۔ اور سید عبد القادر جیلانی ؒاور جنید بغدادیؒ نے ایسے وقت میں عشق کا دعویٰ کیا جبکہ عاشقوں کو سر پر بٹھایا جاتا تھا۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ کا واقعہ تم کئی دفعہ سن چکے ہو کہ ایک دفعہ عکاظ کا میلہ لگا ہوا تھا۔ اور اُس میں دور دراز کے شعراء اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ حضرت لبیدؓ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ وہ بھی اپنا کلام سنانے کے لئے آئے تھے اور لبیدؓ عرب کے شاعروں میں سے مانے ہوئے شاعر تھے۔ حضرت لبیدؓ نے اپنا قصیدہ پڑھنا شروع کیا اورجب انہوں نے کہا
اَلَا کُلُّ شَیْ ئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٌ۔
توحضرت عثمانؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے سوا باقی تمام چیزیں فناء ہونے والی ہیں۔ حضرت لبیدؓ کو اِس بچے کی داد بہت بُری معلوم ہوئی۔ انہوں نے کہا اے رؤسائے مکہ! اب تم میں شرافت باقی نہیں رہی؟ یہ کل کا بچہ میرے شعروں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیا اِس کی تصدیق کے بغیر میرے شعر مانے نہیں جا سکتے۔ لوگوں نے اُن کو ڈانٹا کہ خبردار بچے! اب نہ بولنا۔ پھر انہوں نے دوسرا مصرعہ پڑھا۔
وَ کُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ۔
تو حضرت عثمانؓ نے فوراً کہہ دیا۔ یہ غلط بات ہے۔ جنت کی نعمتیں تو ہمیشہ رہیں گی۔ اِس پر ایک سردار کو غصہ آیا تو اس نے اُٹھ کر زور سے اُن کے منہ پر گھونسا مارا اور وہ گھونسا آپ کی آنکھ پر لگا اور انگوٹھا آنکھ کے اندر گُھس گیا جس سے آنکھ کا ڈھیلا باہر آ گیا۔ اِس پر آپ کے باپ کا ایک دوست جس نے آپ کو پہلے پناہ دی ہوئی تھی وہ آپ کی یہ حالت دیکھ نہ سکا۔ لیکن کہتے ہیں’’ اکیلا چنا بھاڑ ڈھائے؟‘‘ وہ اکیلا کیاکر سکتا تھا۔ چونکہ تمام رؤساء سے اکیلا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے بجائے اُن کو ناراض ہونے کے حضرت عثمانؓ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا۔ مَیں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ تم میری پناہ میں رہو؟ تم نے میری پناہ میں رہنا پسند نہ کیا اور آج اس کا نتیجہ دیکھ لیا کہ تمہاری آنکھ نکل گئی۔ وہ کافر تھا اُسے اُس چاشنی کا کیا علم تھا جو حق کے اندر ہوتی ہے۔ وہ حضرت عثمانؓ کی اُس مصیبت کو دیکھ کر بے تاب ہو رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے کہا آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں میری ایک آنکھ نکل گئی۔ خدا کی قسم! میر ی تو دوسری آنکھ بھی نکلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔4 یہ ہے وہ عشق کی چاشنی کہ
در کُوئے تُو اگر سر عشّاق را زنند
اول کسے کہ لاف تعشّق زند منم
عاشقوں پر دو ہی قسم کے زمانے آتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جب عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور عشق کی سزا قتل ہوتی ہے۔ اور پھر بعد میں وہ زمانہ آتا ہے جب کہ لوگ عشق کے نام پر عاشقوں کو سروں پر اُٹھاتے ہیں۔ اگر اب تم عشق کے راستے میں قربانیاں پیش کرو گے تو اجر بھی پہلے لوگوں جیسا پاؤ گے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہر قربانی کے مطالبہ کو انعام سمجھتے ہوئے پورا کرتے جائیں اور اسے مصیبت خیال نہ کریں۔ اور ہم میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ ہم سے ایک فیصدی کی بجائے 1/2 فیصدی کیوں نہیں لیا جاتا۔ بلکہ ہم میں احساس پیدا ہو تو یہ ہو کہ ہم سے سَو فیصدی کا کیوں مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ ایک فیصدی کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر احساس اور بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ ہماری جماعت میں ایمان موجود ہے۔ جب بھی جماعت بیدار ہوتی ہے تو وہ اعلیٰ درجے کی قربانی پیش کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسے زمانہ سُلا ضرور دیتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن جب جماعت بیدار ہوتی ہے تو شیروں کی طرح بیدار ہوتی ہے۔ اور اب بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت بیدار ہو رہی ہے۔ اور وہ اپنے شایان شان قربانی کا نمونہ پیش کرے گی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جو لوگ بیدار ہو چکے ہیں وہ دوسروں کو بھی بیدار کریں تا کہ جماعت بحیثیت جماعت اس قربانی میں اعلیٰ نمونہ پیش کرے۔ یہ مت خیال کرو کہ پہلے امتحانات میں سے پاس ہونا ہی تمہارے لئے کافی ہے بلکہ ہر امتحان جو نئے سال میں آتا ہے اُس کا پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر تم نے پہلی، دوسری، تیسری او رچوتھی کا امتحان پاس کر لیا ہے تو پانچویں میں بھی پاس ہونا ضروری ہے۔ اِسی طرح اگر تم نے پانچویں ، چھٹی اور ساتویں کا امتحان پاس کر لیا ہے تو آٹھویں میں بھی پاس ہونا ضروری ہے۔ اس طرح اگر تم نے نویں جماعت کا امتحان پاس کر لیاہے تو دسویں جماعت میں بھی پاس ہونا ضروری ہے ۔ یا اگر تم نے دسویں، گیارھویں اور بارھویں اور تیرھویں کا امتحان پاس کر لیا ہے تو چودھویں سال بھی کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ا ِس کے سوا تم بی اے کی ڈگری حاصل نہیں کر سکتے۔ اور اگر تم بی اے میں فیل ہو گئے تو پچھلی ساری عزت اور محنت برباد ہو جائیگی۔ پس ہر امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرو۔
لیکن مَیں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بعض بڑی بڑی جماعتیں ابھی تک بیدار نہیں ہوئیں۔ سیالکوٹ کی جماعت سے ایک کوتاہی ہوئی۔ ناظر بیت المال نے اُس پر گرفت کی تو بجائے بیدار ہونے کے انہوں نے غلط رویہ اختیار کیا۔ یہ کوتاہی ان سے سہواً ہو گئی ورنہ مَیں سمجھتا ہوں کہ سیالکوٹ کی جماعت بہت مخلص جماعت ہے اور اس کے متعلق بعض میری خوابیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیالکوٹ کی جماعت اسلام کی خدمت میں ایک دفعہ پھر نمایاں حصہ لے گی۔ انہوں نے مجھے سندھ میں اس بارہ میں ایک خط لکھا کہ معاملہ اِس اِس طرح ہے جس سے بجائے انکی بریت ثابت ہونے کے وہ ملزم ہی ثابت ہوئے تھے۔ لیکن اب جو اُنکی طرف سے رپورٹ آئی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوتاہی کا کفارہ کر دیا ہے۔ اِسی طرح بعض اَور جماعتوں سے جو رپورٹیں آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعتیں بیداری سے کام کر رہی ہیں۔ قادیان میں عورتیں خصوصاً بہت اچھا کام کر رہی ہیں مرد بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن مردوں کی طرف سے مجھے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ لیکن چونکہ میری بیوی لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری ہیں اس لئے اُن کو میرے کان میں بات ڈالنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں بعض بڑی جماعتوں کا کام غیر تسلی بخش ہے۔ مثلاً لاہور کی جماعت کی ہی جو رپورٹ پہنچی ہے اس میں لاہور کی جماعت کی جائیدادوں کا سواں حصہ بھی درج نہیں۔ اسی طرح آمد کی جو رپورٹ ہے وہ دسویں حصہ کی بھی نہیں۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت اپنی قربانی کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ رپورٹ نامکمل ہو گی۔ لاہور کی جماعت کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ہیں۔ اور اِس شوریٰ کے موقع پر اگر کسی نے حفاظتِ مرکز کے سوال پر جماعت کی صحیح طورپر نمائندگی کی تھی تو وہ شیخ صاحب ہی تھے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ لاہور کی جماعت قربانی کا صحیح نمونہ پیش کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو بہت ہی سستی قربانی ہے آئندہ بہت بڑی قربانیاں آنیوالی ہیں تم اُن کے لئے تیاری کرو۔ ہماری لاکھوں کی جماعت ہے اگر جماعت اپنے فرض کو سمجھے تو چندہ کی رقم کروڑوں سے نیچے نہیں ہو سکتی۔ خواہ تم اس رقم کو کتنا ہی چھوٹا کرو پھر بھی کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پس مَیں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تم تبھی اپنے آپ کو سچے عاشق کی حیثیت میں پیش کر سکتے ہو جب کہ سچے عاشقوں والی قربانیاں کر کے دکھاؤ۔
عاشق بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اندھے عاشق ہوتے ہیں اور ایک سجاکھے عاشق ہوتے ہیں۔ مومن سجاکھے عاشق ہوتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اندھے عاشق اور بینا عاشق برابر نہیں ہوتے۔ درحقیقت کافر بھی تو عاشق ہی ہوتے ہیں لیکن وہ اندھے عاشق ہوتے ہیں۔ ابوجہل کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ اپنے وطن سے دور مدینہ پر جا کر حملہ کرتا۔ وہ لات و عزیٰ کا عشق ہی تھا جو اسے اپنے وطن سے دور لے گیا۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا بھی عشق تھا جو آپؐ کو مکہ سے مدینہ لے گیا۔ لیکن آپ کا عشق بِینا عشق تھا اور مکہ کے لوگوں کا اپنے بتوں سے اندھا عشق تھا۔ ورنہ مسلمانوں نے اُن کی جائیدادوں پر تو قبضہ نہیں کیا تھا کہ کفا راُن کے جانی دشمن بن گئے۔ وہ لات و منات او رعُزیٰ کا عشق ہی تھا جو اُن کو دشمن پر برانگیختہ کرتا تھا۔ پس دونوں طرف ہی عشق تھا۔ لیکن ایک طرف اندھا عشق تھا اور دوسری طرف بِینا عشق تھا۔ دنیادار سجاکھے عاشق بھی اپنا نام دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں اور دنیادیر تک اُن کو یاد کرتی رہتی ہے۔ گو ان واقعات کی فرضی شکل بنا دی جاتی ہے۔ شیریں اور فرہاد کے عشق کا واقعہ مشہور ہے اور صدیوں سے مشہور چلا آتا ہے۔ فرہاد کے علاوہ بھی ہزاروں ہزار عاشق دنیا میں گزرے ہیں لیکن اُن کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ یہاں قادیان میں ہی ایک چوہڑا عاشق بنا پھرتا تھا اور گلیوں میں چلتے چلتے کہا کرتا تھا کہ میرا محبوب مجھے ملا دے۔ لیکن آج کون اُسے یاد کرتا ہے اور کتنے لوگوں نے اُس کے عشق کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ لیکن فرہاد بینا عاشق تھا اور وہ عشق کی ذمہ داریوں کو سمجھتا تھا۔ جب اُس کے سامنے یہ شرط پیش کی گئی کہ شیریں تمہیں تب مل سکتی ہے جب تم پہاڑ کی دوسری جانب جو دریا بہتا ہے اُس میں سے نہر کاٹ کر لے آؤ۔ تو وہ تیشہ لے کر اکیلا ہی لگا رہا اور نہر کاٹ کر لے آیا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ عاشق نکما اور سُست نہیں ہوتا اور قربانی کرنے سے وہ جی نہیں چُراتا۔ اُس کا عشق مادی عشق تھا مگر باوجود مادی عشق ہونے کے اس کی یاد آج تک لوگوں کے دلوں میں موجود ہے کیونکہ وہ بینا عاشق تھا۔ یہی حال مومن کا ہوتا ہے۔ اُس کا عشق آنکھیں کھلے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے ہوتا ہے۔ اور وہ یہ جانتے ہوئے عشق کا دعویٰ کرتا ہے کہ عاشق مارے جانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اور عاشق اس کوشش میں رہتا ہے کہ محبوب کوئی چیز مانگے تو مَیں حاضر کروں۔ دنیا کے لوگوں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ اتنا کیوں مانگا گیا؟ اور اِس کو شکوہ یہ ہوتا ہے کہ سارا کیوں نہیں مانگا گیا؟
پس جماعت کو چاہیئے کہ عشق کے معیار کو حقیقی طور پر بلند کرے۔ حقیقی عاشق عامل ہوتا ہے۔ وہ بیہودہ باتیں نہیں کرتا بلکہ جو بات کرتا ہے ماپ تول کر کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ۔5 وطن کی محبت ایمان میں سے ہے۔ اورمومن کو اپنا وطن عزیز ہوتا ہے۔ آجکل دیکھو کتنی جگہ فسادات ہو رہے ہیں اور لوگوں کی بے وقوفی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ مارا امرتسر کے سکھوں نے اور بدلہ ملتان کے سکھوں سے لیا گیا۔ یا مارا ملتان کے مسلمانوں نے اور بدلہ گوڑ گانواں کے مسلمانوں سے لیا۔ یہ کوئی عقل کی بات ہے؟ اِن حالات میں جماعت کا فرض ہے کہ ایک طرف تو دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو اِن فسادات سے نجات دے اور دوسری طرف مظلوم کی مدد میں لگ جائے۔ ہم مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے مظلوم سمجھتے ہیں اور ان کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہیں لیکن ہم اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ مسلمان ہندوؤں پر یا ہندو مسلمانوں پر ظلم کریں۔ اس لئے تمہیں ہر جگہ مظلوم کی مدد کرنی چاہیئے۔ خواہ سکھ مظلوم ہو، خواہ مسلمان مظلوم ہو، خواہ ہندو مظلوم ہو۔ اِن حالات کا بدلنا قربانی چاہتا ہے۔ اور دنیا میں سب سے پاکیزہ قربانی تمہاری ہے۔ اگر تم قربانی کر کے ان فسادات کے روکنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تمہارا آئندہ قدم زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہو گا۔‘‘
(الفضل یکم مئی 1947ئ)
1:اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 157مطبوعہ ریاض 1286ھ نیزابوداؤد ابواب الجمعۃ
باب الامام یکلم الرجل فی خطبتہٖ
2:درثمین فارسی صفحہ 143 طابع وناشر سیدعبدالحی شاہ صاحب
3:کَلیں۔ کَل کی جمع۔ مشین، آلہ
4:سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 8تا 10 مطبوعہ مصر 1936ء
5:موضوعات ملّا علی قاری صفحہ 35مطبوعہ دہلی 1315ھ


15
جلد جلد قدم اٹھاؤ تا کہ نصرت و فتح کے نظّارے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو
(فرمودہ 25 اپریل1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اِس سال بجٹ کمیٹی کی طرف سے حفاظتِ مرکز کی جو تحریک ہوئی ہے اُس میں اب تک میرے نزدیک جماعت نے اُس کوشش اور جدوجہد سے کام نہیںلیا جس کوشش اور جدوجہد سے اسے کام لینا چاہیئے تھا۔ کچھ تو اس میں دفاتر کی غلطی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ باوجود کافی عملہ ہونے کے دفاتر میں کام کو ساتھ ساتھ کیوں جاری نہیں رکھتے۔ جہاں تک وقفِ جائیداد اور وقفِ آمد کا تعلق ہے اِس وقت تک چار لاکھ کے وعدے معیّن صورت میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اَور وعدے بھی آنے ہیں۔اگر اُن کو بھی شامل کر لیا جائے تو ساڑھے چار لاکھ کے وعدے بن جاتے ہیں۔ لیکن نظارت بیت المال کی فہرست ایک لاکھ کے ارد گرد ہی چکر لگا رہی ہے۔ دفتر بیت المال والے شاید اس وہم میں مبتلا ہیں کہ لوگوں کو دو دفعہ وعدہ کرنا چاہیئے ایک دفعہ وہ دفتر وقفِ جائیدادو آمد کو اطلاع دیں کہ ہم نے اپنی ایک ماہ کی آمد وقف کر دی ہے یا ہماری جائیداد کا سواں حصہ اتنا بنتا ہے۔ اور دوسری دفعہ وہ نظارت بیت المال کو اطلاع دیں کہ ہم اتنی آمد وقف کرتے ہیں یا ہم اپنی وقفِ جائداد کا اتنا روپیہ دینگے۔ میرے نزدیک دفتر بیت المال کا یہ خیال غلط ہے۔ جب ہم نے قانون بنا دیا ہے کہ ہر آدمی جو وقف کرنا چاہتا ہے ہماری تحریک کے ماتحت اپنی ایک ماہ کی آمد وقف کرے یا اپنی جائیداد کا سواں حصہ دے تو دفتر کا فرض ہے کہ جو شخص وقف کے دفتر میں اپنی وقف ِآمد یا وقفِ جائیداد کی اطلاع دیتا ہے اُس سے مطالبہ شروع کر دے۔ اس کے لئے مزید وعدے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک سیدھی سادی بات تھی لیکن دفتر اس کو بھی نہیں سمجھ سکا۔اُ ن کافرض تھا کہ وقفِ جائیداد والوں سے فہرستیں لے لیتے اور مطالبہ شروع کر دیتے۔ دفتر وقفِ جائیداد کی طرف سے جو وعدوں کی فہرست میرے پاس آئی ہے اُس کے حساب سے ساڑھے چار لاکھ کے کل وعدے ہوتے ہیں۔ جہاں واقفین یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے دفتر وقفِ جائیداد کو اطلاع دے دی کہ ہماری جائیداد اتنی ہے اور ہم سے 1/100 لے لیا جائے تو ہمارا وعدہ ہو گیا۔ اسی طرح وقف آمد والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ایک ماہ کی آمد کی اطلاع دے دی ہے۔ ہمارا وعدہ چلا گیا ہے۔ اور وہ اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں کہ ہمارا وعدہ پہنچ گیا ۔مگر دفتر بیت المال والے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ وعدہ کرنے والے لوگ دوبارہ ہمیں لکھیں کہ جوبات ہم نے دفتر وقف جائیداد کو لکھی تھی وہ سچی ہے، جھوٹی نہیں ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ جب وہ ایسا لکھ دیں گے تو بیت المال والے سمجھیں گے کہ اب ان کا وعدہ آگیا ہے۔ یہ طریق کار میری سمجھ میں نہیں آیا۔ دفتر بیت المال والوں کا فرض تھا کہ جب لوگوں نے دفتر وقف جائیداد میں اطلاع دے دی تھی وہ فوراً وقف کرنے والوں سے مطالبہ شروع کر دیتے کہ اگر آپ نے یکدم دینا ہے تو ابھی بھجوائیے اور اگر آپ نے قسط وار ادا کرنا ہے تو ابھی سے اس کا 1/6 بھجوا دیجئے کیونکہ چھ ماہ کا عرصہ اس چندہ کی ادائیگی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تو دفتری غلطی تھی۔ دوسری طرف مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بھی اِس کے متعلق پوری بیداری نہیں۔ اور زمیندار جماعتوں نے تو اِس تحریک کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے اس سے پہلے بیان کیا ہے ہماری جماعت کے ایک ہزار سے زیادہ مربعے پنجاب میں ہیں۔ اور میرے نزدیک اِس سے دُگنی زمین مربعوں کے علاوہ احمدیوںکی ملکیت ہے۔ یعنی وہ زمین جو کہ چاہی یا بارانی یا نہری ہے اور لائل پور ، منٹگمری، ملتان اور سرگودھا کے اضلاع کے علاوہ ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ دُگنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ یہ کم سے کم اندازہ ہے۔ اور اِس اندازہ کے لحاظ سے کم از کم پچھتر ہزار ایکڑ زمین بنتی ہے۔ حقیقت میں اس سے بہت زیادہ زمین احمدیوں کے پاس ہو گی۔ آجکل کی قیمت کے لحاظ سے اگر کم سے کم پانچ سو روپیہ فی ایکڑ قیمت رکھیں تو یہ جائیداد چار کروڑ روپے کی بنتی ہے۔ اور حقیقت میں قیمت کا یہ اندازہ بالکل غلط ہے کیونکہ قادیان کے اردگرد کے دیہات میں چھ سو سے لے کر بارہ سو روپے تک فی ایکڑ زمین بکتی ہے۔ اِسی طرح مربعوں کی قیمتیں بھی آجکل بہت بڑھی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر اوسط قیمت فی ایکڑ پانچ سو روپیہ ہی رکھی جائے تو صرف پنجاب کی زمینیں ہی چار کروڑ کی بنتی ہیںاور اِس کا 1/100 چار لاکھ بنتا ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ زمیندار ہ جماعتوں نے اِس طرف بالکل توجہ نہیں کی۔ سوائے مدرسہ چٹھہ کی جماعت کے۔ مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں بہت چھوٹی سی جماعت ہے اور اس کو جماعتی لحاظ سے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں لیکن اس چھوٹی سی جماعت نے 1648/- روپے کا وعدہ بھجوایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جائیدادوں کی قیمت ایک لاکھ چونسٹھ ہزار آٹھ سو روپیہ ہے۔ اِس چھوٹی سی جماعت نے اپنے وعدے پیش کرنے میں بہت اچھا نمونہ پیش کیا ہے۔ باقی پندرہ بیس زمیندار اَور ہیں جنہوں نے متفرق جگہوں سے اپنے وعدے بھجوائے ہیں لیکن بیشتر حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے اِس تحریک کی طرف توجہ نہیں کی۔ مثلاً ضلع گورداسپور میں قادیان کی جماعت کے علاوہ چالیس ہزار کے قریب احمدی افراد ہیں۔ اور ان میں سے اکثر زمیندار ہیں۔ لیکن ضلع گورداسپور میں سے کسی ایک جماعت کا وعدہ بھی نہیں آیا ہے۔٭ پھر اس کے بعد بڑی جماعت ضلع سیالکوٹ کی ہے۔ اِس میں سے بھی کسی ایک جماعت نے بھی اپنے وعدے نہیں بھجوائے۔ پھر اِ س کے بعد بڑی جماعت ضلع گجرات کی ہے۔ وہاں سے بھی کسی ایک جماعت نے بھی اپنے وعدے نہیں بھجوائے۔ پھر اِس کے بعد لائلپور، سرگودھا، منٹگمری، ملتان اور شیخوپورہ کی جماعتیں ہیں۔ اِن اضلاع میں سے بھی کسی ایک جماعت نے بھی اپنے وعدے نہیں بھجوائے۔ لائلپور سے ایک دیہاتی جماعت نے وعدہ بھجوایا ہے۔ مگر وہ وعدے درست معلوم نہیں ہوتے۔ کیونکہ ساری جماعت کی جائیداد دس ہزار لکھی ہے۔ حالانکہ ایک ایک مربعہ کی قیمت بیس سے پچاس ہزار تک اِن دنوں ہے۔ گوجرانوالہ میں سے بھی مدرسہ چٹھہ کی جماعت کے سوا اَور کسی جماعت کی طرف سے وعدوں کی اطلاع نہیں آئی۔ گویا اِن نو ضلعوں میں سے صرف ایک جماعت کا وعدہ موصول ہوا ہے۔ حالانکہ پنجاب میں سو ڈیڑھ سو ٭اس خطبہ کے بعد گلانوالی ضلع گورداسپور کی جماعت کا اور ایک سیالکوٹ کی جماعت کا وعدہ آیا ہے۔
جماعتیں ایسی ہیں جو کہ زیادہ اہمیت اور حیثیت رکھتی ہیں لیکن وہ سب کی سب خاموش ہیں۔ اِسی طرح شہری جماعتوںمیں سے اکثر کے وعدے نہیں آئے۔ شہری جماعتوں میں سے سوائے سیالکوٹ کے جس کا ذکر گزشتہ خطبہ میں ہو چکا ہے۔صرف دہلی اور لاہور کی جماعتوں نے اپنے وعدے بھجوائے ہیں۔ مگر دہلی کی جماعت نے متفرق طور پر اور لاہور کی جماعت نے نہایت ناقص طور پر وعدے بھجوائے ہیں۔ ان شہری جماعتوں کے وعدے ہمارے اصول کے مطابق نہیں آئے۔ سب سے زیادہ توجہ اِس تحریک کی طرف فوجیوں میں نظر آتی ہے۔ وقفِ آمد میں بھی فوجی آگے ہیں اور اِس وقت قربانی میں بھی فوجی آگے ہیں۔ اور بعض نے تو لبیک کہتے ہوئے ساتھ ہی چیک (Cheque) بھی بھیج دیئے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا تعلق علم اور عقل سے ہوتا ہے۔ چونکہ اکثر فوجیوں میں سے لکھے پڑھے ہوتے ہیں۔ہماری جماعت کے فوجیوں کا اکثر حصہ لکھے پڑھوں میں سے ہے اور دوسرے باہر پھرنے کی وجہ سے انکی عقل تیز ہو جاتی ہے وہ نتائج تک جلد پہنچ جاتی ہے۔ اور یا پھریہ وجہ ہے کہ ان لوگوں نے خطرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ خطرات بعض اوقات کس قدر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے شہروں کو اجڑتے اور بستیوں کو ویران ہوتے دیکھا ہے اور انہوں نے یہ دیکھا ہے کہ قومیں اپنی ذرا سی سُستی اور لغزش کی وجہ سے کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہیں۔ا ِسی طرح انہوں نے قوموں کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ اُنہوں نے عورتوں اور بچوں کو جنگلوں میں بھاگتے ہوئے اور چُھپتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لئے اُن کے تجربہ نے اُن کی آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ قربانیوں میں پیش پیش ہیں۔
قادیان میں لجنہ اماء اللہ نے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے اور ان کے وعدوں کی مکمل فہرست میرے پاس آ چکی ہے۔ لجنہ اماء اللہ قادیان کے وعدے چودہ ہزار کے ہیں۔ اگر عورتوں کے وعدوں پر قیاس کرتے ہوئے مردوں کے وعدوں کا اندازہ لگایا جائے تو وہ ستّر،اسّی ہزار سے کم نہیں ہونے چاہئیں۔ میرے پاس مردوں کی طرف سے اِکّا دُکّا رپورٹیں آئی ہیں۔ ممکن ہے کہ مرد بھی ابھی کوشش کر رہے ہوں۔ صرف ایک محلے کی مکمل رپورٹ آئی ہے اور اسی سے باقیوں کی حیثیت کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ محلہ دار الشکر ہے جو قادیان کی آبادی کا پچاسواں حصہ بھی نہیں۔ لیکن اس کی طرف سے دو لاکھ سے اوپر وقفِ جائیداد کی اطلاع آئی ہے اِس کے علاوہ اور کسی محلہ کی رپورٹ ابھی تک میرے پاس نہیں آئی۔ اِس محلہ والوں نے شاید اس لئے جلدی کی ہو کہ آجکل جو ناظر صاحب بیت المال ہیں وہ اِس محلہ میں رہتے ہیں۔ شاید انہوں نے یہ کوشش کی ہو کہ میرے محلے کی اطلاع وقت پر پہنچ جائے۔ باقی تمام محلے ابھی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض کے متعلق ناقص رپورٹیں آئی ہیں لیکن مکمل رپورٹ محلہ دارالشکر کی طرف سے آئی ہے۔ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں گورداسپور کی زمیندار جماعتوں میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی ابھی تک وعدوں کی اطلاع نہیں آئی۔ ٭ گورداسپور کی شہر کی رپورٹ میرے پاس آ چکی ہے۔ ضلع کی باقی جماعتوںمیں سے کسی کی طرف سے اطلاع نہیں آئی۔ یہ صورتِ حالات اطمینان بخش نہیں۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں انتظار کیا جا سکتا ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں انتظار نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کسی شخص کو ملیریا بخار ہو جائے تو اُس میں کونین کا انتظار کیا جا سکتا ہے کہ اگر صبح کے وقت نہیں دی تو شام کے وقت دے دی جائیگی۔ لیکن اگر کسی شخص کو سانپ نے کاٹا ہو تو اُس کی دوائی کے لئے ایک گھنٹہ بھی انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک گھنٹہ تو کیا آدھا گھنٹہ بلکہ پندرہ منٹ بھی انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ پندرہ منٹ کے اندر اندر ہی اس کی جان نکل جائے۔
پس ہر ایک امر کے لئے موقع ہوتا ہے۔ بعض امور میں انتظار کیا جا سکتا ہے لیکن بعض امور میں بہت تھوڑا انتظار کرنا بھی سخت نقصان دِہ ہوتا ہے۔ جو لوگ امانت بھجوانے کے وعدے کر کے گئے تھے اُن کے وعدوں میں بھی کمزوری نظر آتی ہے۔ میری رپورٹوں کے مطابق اب تک پچیس فیصدی امانت صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں داخل ہوئی ہے۔ اور بیت المال کی رپورٹوں کے مطابق دس فیصدی۔ کیونکہ دفاتر میں ریکارڈ وغیرہ کرنے میںکچھ وقت لگ جاتا ہے۔ یہ رفتار بہت سُست ہے اور اِس رفتار سے کام کرنے سے ہم مطمئن نہیں ہو سکتے۔ یہ تو صرف امانت داخل کرانے کا معاملہ ہے۔ اِس میں دوستوں کو جلدی کرنی چاہیئے کیونکہ اِس کا قریب ترین عرصہ میں جمع ہونا ہی ہمارے لئے مفید ہے۔ اور وہ دوست جو کہ ابھی سوچ اور فکر میں ہیں کہ رقم کب جمع کرائی جائے؟ اُن کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اُن کا سوچنا بے موقع اور بے محل ہے۔ اُن کا سوچ بچار ایسا ہی ہے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ سنا چکا ہوں کہ ایک دفعہ ہم دریا پر گئے۔ وہاں آٹا ختم ٭سوائے گلانوالی کے جس کی رپورٹ خطبہ کے بعد آئی ہے
ہو گیا تو ہم نے ایک دوست کو گندم دی کہ جلدی پسوا کر لے آؤ۔ تین دن کے بعد جب ایک آدمی اُن کی طرف بھجوایا گیا کہ ابھی تک آٹا نہیں پہنچا تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی مَیں غور کر رہا ہوں کہ کس جگہ پسواؤں۔ اِس قسم کا غور و فکر اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتا۔ جس وقت مَیں نے یہ تحریک کی تھی ساتھ ہی مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان قربانیوں کا بوجھ اپنے نفس پر ڈالنا چاہئیے اور دوسرے چندوں پر اِس کا اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ تو ایک وقتی اور ہنگامی چیز ہے۔ اِس کی وجہ سے ہمارے مستقل کاموںمیں رکاوٹ نہیں پڑنی چاہیئے۔ ان مستقل کاموں میں سے ایک تبلیغ ہے جو کہ ہمارے سب کاموں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہم یہ کبھی پسند نہیں کریں گے کہ ہمارا تبلیغ کا کام سُست ہو جائے۔ ہمارے بیسیوں مبلغ اِس وقت غیر ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عظیم الشان کام کر رہے ہیں۔ اگر اِس ہنگامی چندے کا اثر تحریک جدید کے چندوں پر پڑے تو ہمیں بیرونی مشنوں کے چلانے میں بہت دقتیں پیش آئیں گی۔ اِس لئے یہ ہنگامی چندے اپنی جیب سے دو، خدا تعالیٰ کی جیب سے نہ دو۔ مومن کا قول اور عمل برابر ہونا چاہیئے۔ غیر مومن جو کہتا ہے ضروری نہیں کہ اُسے پُورا بھی کرے۔ لیکن مومن جو کچھ وعدہ کرتا ہے اُسے سنجیدگی کے ساتھ سو فیصدی پورا کرتا ہے۔ اور ہمارا یہ تجربہ ہے کہ ہمارے تحریک جدید کے وعدے اکثر سو فیصدی پورے ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ دورانِ سال میں اپنے وعدے بڑھا دیتے ہیں اور ہمارے پچھلے گیارہ سالوں میں وعدوں سے زیادہ وصولی ہوئی ہے۔ یہ مثال دنیا کی دوسری جماعتوں میں نہیں ملتی۔ پس ہماری جماعت کے وعدے تو پکّے ہوتے ہیں صرف توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر مردوں اور عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے مرکز میں بھجوائیں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ وعدے چھ ماہ کے اندر ادا ہو جانے چاہئیں۔ چھ ماہ کے لئے اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال لو اور ایسے طور پر ادائیگی کی کوشش کرو کہ دوسرے چندوں پر اِس چندے کا اثر نہ پڑے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے بچے اور عورتیں بھی مردوں سے اخلاص میں کم نہیں۔ پس میں اِس موقع پر عورتوں اور بچوں کو بھی دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ عورتیں اِن ایّام میں اپنے خاوندوں سے کم سے کم مطالبات کریں اور اُنہیں اس قابل بنائیں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے پورے کر سکیں۔ اور بیویوں کے مطالبات کی وجہ سے اُن کے لئے وعدوں کا پورا کرنا مشکل نہ ہو جائے۔ اسی طرح بچوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے والدین سے کم سے کم مطالبات کریں تا کہ اُن کے والدین آسانی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کر سکیں۔ دنیا میں کونسا ایسا شخص ہے جو کہ ساری کی ساری آمد اپنے اوپر خرچ کرتا ہے۔ ہر آدمی کی آمد کا اکثر حصہ دوسروں پر خرچ ہوتا ہے۔ جو لوگ نیک اور متقی ہوتے ہیں وہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے والدین کی خدمت کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ عیاش ہوتے ہیں وہ بُری جگہوں میں روپیہ کو خرچ کر دیتے ہیں۔بہرحال اپنی ذات پر جو روپیہ خرچ ہوتا ہے وہ بہت کم ہوتا ہے اور اگر مرد اپنے نفس پر بوجھ ڈالے بھی تو کیا بچا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ اس کے بیوی بچے اس معاملہ میں اس کی مدد نہ کریں۔ اگر بیوی بچے تعاون نہ کریں تو پھر مرد کے لئے قربانی کرنا اَور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ پس مَیں اس موقع پر ہر عورت اور ہر بچے سے یہ درخواست کرونگا کہ وہ سلسلہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کو کم کر دے۔ ہماری جماعت کا ہر بچہ اور ہر عورت اِس جذبۂ ایمانی سے سرشار ہے کہ ہم مومن ہیںا ور ہم جان مال ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے لئے ثواب کمانے کا اب موقع پید اہو گیا ہے۔ کئی بچوں نے مجھے لکھا ہے کہ کاش! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم بھی قربانی میں شامل ہوتے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری خواہش کے مطابق تمہارے لئے بھی قربانی میں شریک ہونے کا موقع پیدا کر دیا ہے۔ وہ اس طرح کہ تم اپنے مطالبات کم کر دو تا کہ تمہارے ماں باپ آسانی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لے سکیں۔ اسی طرح ہر عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے مطالبات جتنے کم کر سکتی ہے کرے تا کہ اس کا خاوند بہادری کے ساتھ قربانی پیش کر سکے۔ اگر عورتیں اور بچے اِس طرح اپنے مطالبات کم کر دینگے تو وہ بھی مردوں کے ساتھ ثواب میں شامل ہونگے۔ کیونکہ عورتوں او ر بچوں کی قربانی کی وجہ سے مردوں کو زیادہ قربانی کرنے کی توفیق ملے گی۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا ہم تبلیغ کے کام کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہمارے مبلغ ہزاروں ہزار میل پر بیٹھے ہوئے نہایت جانفشانی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہم اتنی دور بیٹھے ان کی قربانیوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک مبلغ کی قربانی کا معیار یہ نہیں کہ اس نے کتنے آدمی احمدی کئے ہیں۔ اس کی کوششوں کا اندازہ بیعتوں سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ایک ایسے وسیع ملک میں جہاں کروڑوں کی آبادی ہو پانچ چھ مبلغ کیا کر سکتے ہیں۔ ہزاروںہزار میل کے ممالک میںجہاں کروڑوں کی آبادی ہے پانچ سات آدمی کیا شور پیداکرسکتے ہیں۔ پانچ سات آدمی تو ایک شہر میں بھی شور پیدا نہیں کر سکتے کُجا یہ کہ ایک بہت بڑا وسیع ملک ان کے سامنے ہو۔ پس ہم ان کی کوششوں کا اندازہ اس رنگ میں نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے سال بھر میں کتنے احمدی بنائے بلکہ وہ فضا اور وہ اثر جو احمدیت کے لئے اُن ملکوںمیں پیدا ہو رہا ہے وہ اُن کا کام ہے۔ اور ہم لوگ اُس فضا اور اُس اثر کا یہاں بیٹھے ہوئے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ وہ تو وہیں کے لوگ جانتے ہیں۔ مَیں مثال کے طور پر دوستوں کے سامنے ایک انگریز کی رائے بیان کرتا ہوں کہ ہماری تبلیغ کے کیسے شاندار نتائج نکل رہے ہیں۔ بعض انگریزوں نے مغربی افریقہ کا دَورہ کیا کہ ان علاقوں میں عیسائیت کی تبلیغ کیسی ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک انگریز مبصّر اپنے دَورے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’’پورٹ لوکوہ میں انگریزی چرچ کے پیرو بہت کم ہیں۔ حالانکہ یہ چرچ اس علاقہ میں بیسیوں سال سے کام کر رہا ہے۔ اور امریکن مشن نے بھی لوگوں کو عیسائی بنانے کی بے حد کوشش کی ہے مگر جب ہم اس مشن کا معائنہ کرنے کے لئے گئے تو ہم نے دیکھا کہ یہ مشن اپنا کاروبار بند کر رہا تھا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کام کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیںنکلا۔ اے ایم ای مشن کی ایک چھوٹی سی شاخ بھی وہاں موجود ہے۔ اِسی طرح انگریزی مشن اور اس کا ایک متحدہ سکول بھی ہے۔ لیکن عملاً پورٹ لوکوہ کے تمام طالب علم نیٹو ایڈمنسٹریشن سکول واقعہ اولڈ پورٹ لوکوہ میں اس کثرت سے چلے گئے ہیں کہ اُن کا وہاں سمانا مشکل ہو گیا ہے۔ چونکہ لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف ہے اِس لئے لوگ ایسے سکولوں سے نفرت کرتے ہیں جن کے ناموں میں عیسائیت کا نشان پایا جاتا ہو۔ اور نیٹو ایڈمنسٹریشن سکول کو پسند کرتے ہیں جہاں ان کو عربی پڑھائی جاتی ہے۔ جنگل، دلدل اور دریا گویا سب نے سازش کی ہوئی ہے کہ لوگوں کو توہّمات میں مصروف رکھیں کیونکہ ان کا پس منظر ہی قدامت پسندانہ ہے جس کا انحصار بیشمار دیوتاؤں کی پوجا پر ہے۔ جب تک جنگل اور جھاڑیاں صاف نہ ہو جائیں اور دلدلوں میں کھیتی باڑی نہ ہونے لگے اور تعلیم اور تمدن او ر اقتصادی حالت ترقی نہ کر جائے اُس وقت تک صرف توہمات کو بُرا بھلا کہنے سے عیسائیت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اِن حالات میں یہ بہتر ہے کہ لوگوں کو اسلام کی آغوش میں جانے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ جس کی طرف انہیں پہلے ہی دلی رغبت ہے۔ اسلام کی شریعت بہت اعلیٰ اخلاقی اصول پر مبنی ہے۔ اِس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مسیحیت اِس کے مقابلہ پر میدان میں شکست پر شکست کھانے کے باوجود لڑتی رہے۔ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔ اصول کا تصادم دونوں طرف سے سختی سے جاری ہے۔ لیکن حال میں احمدیہ تحریک کی طرف سے جو کُمک اسلام کو پہنچی ہے اور جو روکوپر کے علاقے میں کافی مضبوطی سے قائم ہو چکی ہے وہ اسلام کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ شہر کا مبیہ میں امریکن مشن کا بند ہو جانا بھی اِسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔‘‘
یہ فضا ہے جو ہمارے مبلغین کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور دیکھنے والی چیز بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی جماعت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں کیسے تاثرات پیدا ہو رہے ہیں اور اس جماعت کے لئے کیسی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی کو دیکھ کر وہ شخص جس نے ارد گرد کے علاقہ کی فضا کو نہیں دیکھا تھا یہی قیاس کر سکتا تھا کہ نعوذ باللہ آپؐ کو کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن وہ شخص جو عرب میں پھر کر دیکھتا کہ کس طرح لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے اور کیسی خوشگوار فضا اسلام کے لئے تیار ہو رہی ہے وہ اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ آپؐ کو کامیابی ضرور ہو گی اور ا س کا فیصلہ پہلے شخص سے بالکل مختلف ہوتا۔ ایک شخص ایران یا مصر میں بیٹھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ قیاس کر سکتا تھا کہ ایک معمولی آدمی ہے نوے یا سَو آدمی اس کے ساتھ ہیں اور اس کی کامیابی ناممکن ہے۔ لیکن اگر وہی شخص یمن جاتا یا مدینہ جاتا اور اسلام کے متعلق ان علاقوں میں جو فضا پیدا ہو رہی تھی اُس کو معلوم کرتا تو وہ یقینا یہ کہہ اٹھتا کہ اسلام تو بہت بڑھنے والی طاقت ہے اور پھر وہ سمجھتا کہ اسلام کی کامیابی دو سو آدمیوں کا نام نہیں بلکہ اسلام کی کامیابی اُس رعب، اُس قوت، اُس شوکت، اُس رغبت اور اُس خفیہ محبت کانام ہے جو لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہے۔
پس یاد رکھو کہ پہلے ہمیشہ ایک اچھی رَو چلتی ہے اور ایک اچھی اور سازگار فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ اس فضا کے پیدا ہو جانے کے بعد سرعت کے ساتھ کامیابی شروع ہو جاتی ہے اور پھر لوگ ہزاروں کی تعداد میں حق کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مغربی افریقہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ جیسا کہ ابھی مَیں نے آپ لوگوں کے سامنے ایک عیسائی کی رائے بیان کی ہے۔ وہ کہتا ہے مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم ان علاقوں میں یونہی اپنا روپیہ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ضائع نہ کرو، آخر تمہیں شکست ہی ہو گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ تم جماعت احمدیہ کے لئے یہ میدان چھوڑ دو کیونکہ آخر جیت تو انہی کی ہوگی۔ یہ شہادت کوئی معمولی شہادت نہیں۔ اس شہادت کے سننے کے بعد ہماری آنکھیں اپنے مشنوں کی طرف زیادہ توجہ کے ساتھ مرکوز ہو جانی چاہئیں۔ اور ہمیں اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیئے۔ موجودہ نتائج بے شک ایسے عظیم الشان نظر نہ آتے ہوں لیکن موافق ہوائیں چل پڑی ہیں۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جلد یا بدیر چاہے ایک سال میں، چاہے دس سال میں لیکن ہماری زندگیوں میں ہی اور ہم میں سے بہت زندہ ہوں گے کہ وہ دیکھیں گے کہ ملکوں کے ملک احمدیت میں داخل ہو ں گے۔ اور وہ سب احمدیت کے علمبردار بن کر یہ گواہی دیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جو وعدے آپ سے کئے وہ سب سچے ہیں۔ پس ان دنوں کے لانے کے لئے جلد جلد قدم اٹھاؤ تا کہ یہ نظارے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو۔ جن جماعتوں نے ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے اُن کو بہت جلد اپنے وعدے بھجوا دینے چاہئیں اور جن کے وعدے آ چکے ہیں اُن کوادا کرنے کی فکر کرنی چاہیئے۔ ہمت کرو اور اس بوجھ کو نہایت بہادری کے ساتھ اُٹھاؤ جیسا کہ مومن کے شایان شان ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ وصیت کے متعلق مَیں نے جو تحریک کی تھی اُس کی طرف بھی جماعت نے توجہ کی ہے اور درجنوں خطوط میرے پاس آ چکے ہیں۔ بہت سے افراد نے اپنی وصیتیں بڑھائی ہیں اوربہت سے افراد نے نئی وصیتیں کی ہیں۔ ایک جماعت کی طرف سے آج ہی چٹھی آئی ہے انہوں نے ایک مکمل لسٹ بھجوائی ہے۔ اِس وقت اُس جماعت کا نام یاد نہیں رہا وہاں دس بارہ افراد نے نئی وصیتیں کی ہیںاور دو تین نے اپنی وصیتیں بڑھا دی ہیں۔باقی جماعتوں کو بھی اس تحریک کو اپنے ہاں پورے طور پر چلانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر مومن قربانی کرنے کاارادہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرما دیتا ہے اور اس کے ارادہ کو پورا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل میں لچک پیدا کی ہے۔ جب مومن اپنے ایمان کو بڑھا کر زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا دل بھی کھل جاتا ہے اور جب کمزوریٔ ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے قربانی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا دل بھی سکڑ جاتا ہے۔ اب یہ تمہارے ہاتھوں میں ہے کہ چاہے اپنے ایمانوں کو مضبوط کر کے اپنے دلوں میں وسعت پیدا کر لو اور چاہے اپنے ایمانوں کو کمزور کر کے اپنے دلوں کو سکیڑ لو۔ اِن دونوں حالتوں کے نتائج واضح اور ظاہر ہیں۔ تم نے اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھے ہیں اور تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیوض سے متمع ہوئے ہو۔ اب تم آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہو او ر تم آسانی سے سمجھ سکتے ہو کہ ایمان کو کمزور کر کے دل کو سُکیڑنا اچھا ہے یا ایمان کو مضبوط کر کے دِل کا پھیلانا اچھا ہے۔ یہ دن آئے ہیں اور چلے جائیں گے اور ہمارا خدا اِن کو اچھے رنگ میں گزار دے گا۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے بخل سے اپنے دِلوں کو سُکیڑ لیا وہ کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ لیکن اُن کا اس وقت پچھتانا بے سود، بے کار اور بے نتیجہ ہو گا۔ اور وہ لوگ جو اَب اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے دِلوں کو وسیع کریں گے وہ عظیم الشان ثواب کے مستحق ہو ں گے۔ پس اپنے آپ کو ثواب سے محروم نہ کرو اور دِل کھول کر قربانیاں کرو۔ جو لوگ قربانیاںکریں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے اور جو لوگ پیچھے رہ جائیں گے وہ پچھتائیں گے لیکن اُس وقت کچھ بن نہیں سکے گا۔‘‘
(الفضل 7؍ مئی 1947ئ)

16
سلسلہ کی خدمت میں ہی سب سے بڑی عزت ہے
(فرمودہ 2 مئی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حقیقی اسلام کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنی ساری طاقتوں کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے دین کی خدمت میں لگا دے۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سستی کی وجہ سے عام طور پر دینی خدمات سے بچنے کی کوش کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دین کی بعض قسم کی خدمات تو کر لیتے ہیں لیکن بعض قسم کی خدمات سے انہیں گریز ہوتا ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
گر جاں طلبی مضائقہ نیست
گر زر طلبی سخن دریں است
یعنی اگر جان مانگو تو مجھے اس کے دینے میں کوئی عذر نہیں۔ لیکن اگر روپیہ مانگو تو اس کے دینے میں مجھے تأمّل ہے، لیکن بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ روپیہ سے تو دین کی خدمت کرنے کو تیار ہوتی ہیںلیکن جسمانی خدمت سے گریز کرتی ہیں۔
زندگی وقف کرنے کے معاملہ میں مجھے کئی نوجوانوں کے رشتہ داروں کی طرف سے یہ شکایت آتی رہتی ہے کہ فلاں نوجوان اچھی کمائی کر رہا ہے اگر اُسے کام سے ہٹا کر دین کی خدمت میں لگا دیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ صرف چالیس پچاس یا سو روپیہ ماہوار جو وہ سلسلہ کو دیا کرتا تھا بند ہو جائے گا بلکہ اس کے گزارہ کے لئے مزید خرچ کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس کی بجائے کوئی دوسرا آدمی کام پر لگا دیا جائے۔ یہ چندہ بھی دیتا رہے گا اور دین کی خدمت بھی کرتا رہے گا۔ بظاہر یہ ایک خوشنما اور اچھی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے شدید دنیا داری کی رُوح کام کر رہی ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص اچھی کمائی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک حد تک اپنی قابلیت اغیار سے منوالی ہے اور اس کی قابلیت کے پیش نظر غیر بھی اس کو اچھا عہدہ دینے کے لئے تیار ہیںمگر سلسلہ کی ضروریات کو اگر دیکھا جائے تو اُسے بھی ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے ا ور ہر قسم کی لیاقت رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ آخر ہر انسان ہر کام نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص صرف چپڑاسی کا کام کر سکتا ہے، کوئی اچھا کلرک بن سکتا ہے، کوئی اچھا نگران بن سکتا ہے، کوئی اچھا افسر بن سکتا ہے۔ اِن تمام کاموں کے لئے مختلف لیاقت رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس لیاقت کے آدمی کی ہمیں ضرورت پیش آئے اگر اُس لیاقت کا آدمی ہمیں مل جائے تو ہمارا کام چل سکتا ہے۔ گو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ جب کوئی اچھی لیاقت کا آدمی کسی کام پر لگایا جا ئے گا تو سلسلہ کو اُس آمد سے محروم ہونا پڑے گا جو اُس کی طرف سے آیا کرتی تھی۔ اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی نالائق آدمی کو اعلیٰ کام پر لگا کر نقصان کا دروازہ کھول دیا جائے۔ لیکن یہ غیر معمولی طریق ہے اور کوئی معقول آدمی اس طریق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ بہرحال اصل صورت یہی ہے کہ کسی تجربہ کار اور قابل آدمی کے سپرد کام کیا جائے اور یہی صورت معقول اور قابلِ عمل ہے۔ مگر اس طریق پر عمل کرنے سے لازمی طور پرایسے شخص کی معقول آمد سے سلسلہ کو محروم ہونا پڑے گا کیونکہ عام طور پر لائق آدمی ہی زیادہ کماتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ بعض ناقابل اور نالائق آدمی بھی کسی اچھی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ امر مستثنیات میں سے ہوتا ہے۔ ورنہ عام قاعدہ یہی ہے کہ لائق آدمی ہی اچھی جگہ پر پہنچتے ہیں اور نالائق کا ترقی کرنا ایک اتفاقی امر ہوتاہے۔ اور اسکی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے اتفاقاً کسی کو گرا پڑا پونڈ مل جائے۔ جس شخص کو اتفاقا گراپڑا پونڈ مل جائے وہ اگر تمام کام کاج چھوڑ کر پونڈ ملنے کی امید پربیٹھ جائے کہ فلاں دن جو مجھے پونڈ ملا تھا اب بھی مل جائیگا توا یسے شخص کو کون عقلمند کہے گا۔ پس گو ناقابل اور نالائق بھی بعض دفعہ ترقی کر جاتے ہیں لیکن عام قاعدہ یہی ہے کہ قابل آدمی اپنے فن میں مہارت حاصل کر لینے کی وجہ سے زیادہ آمد پیدا کر سکتا ہے اور اسے جب بھی اپنی جگہ سے ہلایا جائیگا اُس کی وجہ سے جو آمدن ہو رہی ہو گی وہ بند ہو جائیگی۔ لیکن اگر اسے مفید وجو د سمجھ کر نہ ہلایا جائے تو سلسلہ کو ناقابل اور بے کار وجودوں سے کام لینا پڑے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کام خراب ہو جائیگا۔
یہ بات تو زندگی وقف کرنے والوں کے متعلق ہے۔ لیکن اِن کے علاوہ ہزاروں لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جنہوں نے گو اپنی زندگیاں وقف نہیں کیں لیکن وہ ایسی جگہ پر ہیں کہ اگر وہ دینی کاموں میں حصہ لینا چاہیں تو حصہ لے سکتے ہیں۔ مگر ان میںسے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ جب ہم چندہ دے دیتے ہیں تو ہمیں دینی کاموںمیں اپنے اوقات صَرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ایسے لوگ سلسلہ کے کاموں کے لئے اپنے دلوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے ان کا یہ خیال دیانتداری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت وہ سلسلہ کی روحانی عظمت کے قائل ہی نہیںاور وہ سلسلہ کے کام کرنے میں عزت محسوس نہیں کرتے۔ اُن کو یہ علم ہی نہیں کہ سلسلہ کی خدمت ہی سب سے بڑی عزت ہے۔ بلکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سلسلہ کا کام ایسا معمولی ہے کہ یہ کام دوسروں کو کرنا چاہیئے۔ ان کی شان کے مطابق نہیں۔ گویا وہ سلسلہ کے کام کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے دلوں میں ایک حدتک ایمان ہے اس لئے وہ اپنے نفس کے سامنے کچھ نہ کچھ بہانے بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ انسان کے لئے سب سے بڑی ملامت اس کے اپنے ضمیر کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب انسان کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے *** ملامت کرتا ہے۔ اور جب تک ضمیر مر نہ جائے اُس وقت تک انسان ایک عذاب میںمبتلارہتا ہے۔ کیونکہ ہر بُرے فعل کے وقت اسے ضمیر *** ملامت کرتی ہے کہ تُو نے ایک بُرے فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ اور ہر وقت کا یہ احساس انسان کو بے چین کئے رکھتا ہے اور اس کی طبیعت میں دکھ اور غم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہر اُس آرام اور لذت سے محروم ہو جاتا ہے جس کے لئے اس نے بدی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے۔ اس دکھ اور عذاب کو دور کرنے کے لئے اور ضمیر کی تسلی کے لئے انسان نے یہ علاج سوچا ہے کہ وہ جھوٹے عذر بنا کر نفس کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں نہیں آتے تھے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مجھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رعب اتنا زیادہ غالب ہے اور آپ کا ادب میرے دل میں اس قدر پایا جاتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس با ت کا علم ہوا تو آپ نے ایک دفعہ مجلس میں اس بات کے خلاف تقریر کی اور آپ نے فرمایا یہ نفس کا دھوکا ہے۔ چونکہ ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میری مجلس میں نہ آنا ایک گناہ ہے اِس لئے اِس گناہ کے دکھ سے بچنے کے لئے انکے نفس نے یہ بہانا بنا لیا اور مجلس میں نہ آنے کا باعث انہوں نے ادب اور اعزاز اور رعب قرار دے دیا حالانکہ یہ نفس کی سستی اور غفلت کی علامت ہے ۔ کیا دوسروں کے دلوں میں ادب اور اعزاز نہیں؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوری ایک مجلس اسی بات کے متعلق خرچ کی اور آپ نے مجلس میں نہ آنے کو نفس کا بہانہ قرار دیا۔ اسی طرح اِس قسم کے لوگ یہ کہہ کر اپنے نفسوںکو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خدمتِ دین کے کاموں میں حصہ نہ لیا تو کیا ہوا ہم چندے سے سلسلہ کی زیادہ مدد کر رہے ہیں مگر یہ بھی ان کے نفسوں کا دھوکا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکے ہیں اور بیعت کر چکے ہیں۔ اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے لئے دین کا کام کرنا ضروری ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ ان کے اپنے نفس کو اس دکھ اور تکلیف سے بچانے کے لئے (جو ضمیر کی *** و ملامت سے ہوتی ہے) یہ بہانہ تراش کر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم چندے زیادہ دے رہے ہیں اور یہی دین کی خدمت ہے۔ چونکہ اس قسم کے لوگ دوسرے آدمیوں میں اپنی عزت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم جماعت کا صحیح اور کارآمد عضو ہیں اِس لئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم زیادہ روپیہ کما کر زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ حالانکہ دین کی خدمت کے لئے صرف دفتر کا وقت ہی ضروری نہیں۔ وہ دفتر کے اوقات میں بے شک دفتر کا کام کریں لیکن دفتر کے اوقات ہوتے کتنے ہیں؟ کیا چوبیس گھنٹے ہی دفتر کا کام کرتے ہیں؟ دفتر کا وقت تو دس بجے سے چار بجے تک ہوتا ہے۔ اَور تو اَور ڈاکٹروں وکیلوں وغیرہ کی کمائی کا وقت بھی عام طور پر چھ سات گھنٹہ ہی ہوتا ہے۔ اِس کے بعد لوگ گپیں مارتے ہیں اور سیر کے لئے نکلتے ہیں۔سرکاری دفاتر میں کام کرنیوالوں کا وقت بھی جیسا کہ میں نے کہا ہے عام طور پر دس بجے تک ہوتا ہے۔ چار بجے کے بعد لوگ اپنا فارغ وقت سیر و تفریح اور گپوں وغیرہ میں گزارتے ہیں۔ اور سلسلہ بھی اُن سے ایسے اوقات میں اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ وہ کمائی نہیں کر رہے ہوتے۔ اور اِسی طرح وکلاء کا بھی کام کرنے کا وقت عام طور پر دس بجے سے تین چار بجے تک ہوتا ہے۔ تین چار بجے عدالتیں بند ہو جاتی ہیں اور وکلاء فارغ اوقات میں اپنے گھروں میں مقدموں کی تیاری کرتے ہیں۔ اور کچھ وقت وہ بیوی بچوں میں بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ اِسی طرح انکے اوقات کا کچھ حصہ سیر و تفریح میں گزرتا ہے۔ ایسے فارغ اوقات میں ان کو خدمت دین کے کام کرنے چاہئیں۔ اور اگر یہ سمجھا جائے کہ فارغ وقت صرف وہی ہے جس میں انسان کوکوئی کام نہ ہو باقی تمام اوقات مصروفیت کے ہیں اور اِس مسئلہ کو لمبا کیا جائے تو پھر تو نمازوں کو بھی ترک کرنا پڑے گا۔
ہندوستان کے ایک بڑے لیڈر جب بوڑھے ہوئے تو وہ نماز کے تارک ہوئے۔ اور انہوں نے کہا کہ مجھے یہ احساس ہو اہے کہ مَیں جو وقت نماز پڑھنے میں صَرف کرتا ہوں کیوں نہ اس وقت مَیں کوئی قومی خدمت ہی سرانجام دیا کروں۔ مگر وہ تو پھر بھی اپنا وقت قومی خدمت میں صَرف کرتے تھے۔ لیکن دنیا میں اکثر آدمی ایسے ہیں جو اپنے فارغ اوقات سیر و تفریح اور گپوں وغیرہ میں گزار دیتے ہیں۔ لیکن جب دین کی خدمت کرنے کا سوال آ جائے تو ان کا چوبیس گھنٹے کا دن صرف چھ گھنٹے کا بن جاتا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں سے سات آٹھ گھنٹے کام کرنے کے ہوئے باقی دس گھنٹے رہ گئے۔ کوئی شخص سولہ گھنٹے سوتا نہیں۔ نہ ہی کوئی انسان سولہ گھنٹے نہاتا رہتاہے۔ نہ ہی کوئی انسان سولہ گھنٹے کھاتا رہتا ہے۔ نہ ہی کوئی انسان سولہ گھنٹے پاخانہ میں بیٹھا رہتا ہے۔ اِن سب کاموں کے لئے اگر آٹھ گھنٹے رکھ لئے جائیں تو پھر بھی آٹھ گھنٹے بچ جاتے ہیں جن میں انسان نمازیں پڑھ سکتا اور سلسلے کے کام کر سکتا ہے۔ آٹھ نہ سہی سات سہی۔ سات نہ سہی چھ سہی۔ چھ نہ سہی پانچ سہی۔ پانچ نہ سہی چار سہی۔ چار نہ سہی تین سہی۔ کم از کم تین گھنٹے تو ہر انسان کے پاس فارغ ہو سکتے ہیں جن میں سے وہ ڈیڑھ گھنٹہ میں نمازیں ادا کر سکتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ وہ سلسلہ کے کاموں میں صَرف کر سکتا ہے۔ پس جماعت کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اس کے اثررکھنے والے افراد دین کی خدمت کے لئے وقت نکالیں۔ اور ہر احمدی کو یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ دین کی خدمت سے ہی اصل عزت حاصل ہوتی ہے۔ اگر زیادہ کمانے والے لوگ اس طرف متوجہ نہ ہوں تو اس کے دو بڑے نتائج پیدا ہونگے۔ ایک یہ کہ کمزور لوگ دین کی خدمت سے کوتاہی اور سستی اختیار کر لیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ اُن کا اپنا ایمان ضائع ہو جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے چندوں کو اُن کے منہ پر مارے گا۔ اور فرمائے گا کہ ہم نے صرف چندے دینے کے متعلق ہی حکم نہیں دیا تھا بلکہ ہم نے تو کہا تھا 1 کہ ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے اُس سے تم خرچ کرو۔ ہم نے صرف روپے کے متعلق تو نہیں کہا تھا۔ کیا ہم نے تم کو وقت نہیں دیا تھا؟ کیا ہم نے تمہیں ہا تھ پاؤں نہیں دیئے تھے؟ کیا ہم نے تمہیں کان ناک اور آنکھیں نہیں دی تھیں؟ کیا ہم نے تمہیں عقل اور فراست نہیں دی تھی؟ کیا ہم نے تمہیں علم نہیں دیا تھا؟ تمہارا فرض تھا کہ اِن سب چیزوں میں سے ہمارا حصہ ادا کرتے۔ جو شخص صرف چندہ دے کر مطمئن ہو جاتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص نے دوسرے آدمی سے دس روپے قرض لئے ہوں اور وہ ان میں سے ایک روپیہ ادا کر کے یہ سمجھ لے کہ مَیں نے تمام قرضہ ادا کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان میں سے صرف ایک نعمت کا حق ادا کر کے ہم عہدہ برآ نہیں ہو سکتے بلکہ ویسے ہی مجرم ہیں جیسے دس روپیہ میں سے ایک روپیہ ادا کر کے باقی 9 روپے ادا نہ کرنے والا مجرم ہے۔ پس ہر ایک نعمت جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص خدمتِ دین سے جی چُراتا ہے تو وہ لاکھ نہیں کروڑ روپیہ ہی چندہ کیوں نہ دے ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ ایمان کی حقیقی لذت سے محروم ہے۔ اگر روپیہ ہی اصل چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ سب نبیوں کو فرماتا کہ تم تبلیغ کرنا چھوڑ دو صرف چندہ دے دیا کرو۔ جوشخص صرف چندے کو ہی کافی سمجھتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین اور خلفاء تو ادنیٰ کام کرتے ہیں اصل کام وہی کر رہا ہے۔ اگر چندے دینا ہی سب سے بڑا کام ہوتا توا للہ تعالیٰ انبیاء اور خلفاء کوبھی صرف چندے دینے کا ہی حکم دیتا۔ اور اگر صرف چندے دینا ہی ضروری ہوتا تو جماعتِ احمدیہ اس طریقِ کار کو اختیار کرتی کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کو دین کے کاموں پر لگا دیا جاتااور خود احمدی زیادہ روپیہ کمانے والے کاموں میںلگ جاتے۔ پریذیڈنٹ کا کام ایک احمدی کی بجائے ملا وامل کرتا اور سیکرٹری کا کام پگٹ انگریز کرتا اور تعلیم و تربیت کا کام سندر سنگھ کرتا۔ اور جب کوئی پوچھتا کہ جماعت کا پریذیڈنٹ کون ہے؟ تو کہا جاتا لالہ ملا وامل۔ اور جب پوچھا جاتا سیکرٹری کون ہے؟ تو کہا جاتا پگٹ۔ اور جب پوچھا جاتا سیکرٹری تعلیم وتربیت کون ہے ؟تو کہا جاتا سندرسنگھ۔ پوچھنے والا دریافت کرتا کہ یہ کیا بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے عہدیدار غیر مسلم ہیں؟تواس کو یہ جواب دیا جاتا کہ جماعت کے مفید وجود زیادہ کمائی کرنے والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ فضول کام کر کے اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی معقول انسان اس طریق کو پسند کرتا ہے؟ اگر نہیں تو سمجھ لو کہ خواہ کوئی کتنا بڑا مالدار ہے اور خواہ کوئی کتنا بڑا تاجر ہے اور خواہ کوئی کتنا بڑا افسر ہے اگر وہ دین کے کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا تو خواہ اس کے چندے لاکھوں تک ہی کیوں نہ ہوں ہم یہی کہیں گے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ اگر اُس کے دل میں ایمان ہوتا تو وہ سب سے بڑی عزت خدمت دین کو سمجھتا۔ اور جو شخص صرف روپے سے ہی خدمت کرنے کو اصل خدمت سمجھتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور تابعین کی ہتک کرتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ ذلیل کام کرتے تھے اور یہ اصل کام کر رہا ہے۔ اس لئے ایسے شخص کا روپیہ کبھی برکت کا موجب نہیں بن سکتا۔
پس اب جبکہ جماعت ایک نازک دور میں سے گزر رہی ہے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام عطا کردہ نعمتوں کا حصہ ادا کرے اور ہر فرد خدمتِ دین کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نکالے اور ہر فرد مقامی انجمنوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے اور اُن کے کاموں میں پورے طور پر دلچسپی لے اور اپنے وقت کا کچھ نہ کچھ حصہ مقامی جماعت کی اصلاح و تربیت اور مضبوطی میں خرچ کرے۔ مَیں نے خدام الاحمدیہ کو بھی اِسی لئے قائم کیا تھا کہ وہ نوجوانوں سے کچھ نہ کچھ وقت خدمتِ دین کے لئے لیا کریں۔ اور اِس وقت ان سے کوئی مفید کام کرایا جائے۔ اِسی طرح جماعت کے ہر فرد کو اپنے اوقات میں سے کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے دینا چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر ایمان کا امتحان نہیں ہوتا۔ پس جماعت کو اس نازک ترین دَور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے حتی الامکان اپنے اوقات صَرف کرنے چاہئیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص دین کی خدمت کرے وہ روپیہ سے سلسلہ کی خدمت نہ کرے کیونکہ روپیہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ہے۔ جس طرح کان، ناک، آنکھ، دماغ اور وقت اور علم میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح مال میں سے بھی حصہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ دین کی ادنیٰ سے ادنیٰ خدمت بھی بہت بڑی عزت کا باعث ہے۔ اگر تم اس بات پر یقین نہیں رکھتے تو پھر یا تو تمہارے اندر ایمان ہے ہی نہیں اور اگر ایمان ہے تو وہ معلّق ہے۔ اس کو جب بھی ذرا سا جھٹکا لگا وہ ٹوٹ جائے گا اور تم اپنی ساری امیدوں اور آرزوؤں کو خاک میںملتا ہوا دیکھو گے۔‘‘ (الفضل 14؍مئی 1947ئ)
1: البقرۃ:4

17
بعض دوستوں نے اپنی ساری کی ساری جائیدادیں پیش کر دیں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں
(فرمودہ 9مئی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج مَیں جماعت کو ایک دفعہ پھر اُس کے اس فرض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو تازہ چندہ کی تحریک کے متعلق اُس پر عائد ہوتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کے مخلصین کا ایک حصہ تندہی کے ساتھ اِس تحریک میں شرکت کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ابھی تک بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے رپورٹیں موصول نہیں ہوئیں۔ ممکن ہے جماعتوں کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہو کہ اِس تحریک کے متعلق لوگوں نے فرداً فرداً جواب دینے ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ تحریک جدید کے وعدوں اور چندوں کے متعلق ہماری جماعت کا جو دستور ہے اُسی کے مطابق اِس تحریک کے بارہ میں بھی انتظام ہونا چاہیئے۔ یعنی مختلف جماعتوںمیں جو سیکرٹریان مال مقرر ہیں۔ پریذیڈنٹوں اور امیروں یا دوسرے سیکرٹریوں کی مدد سے انہیں اپنی جماعتوں کی مکمل لسٹیں جلد سے جلد بھجوانی چاہئیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا ہے ابھی اکثر جماعتوں کی طرف سے وعدوں کی لسٹیں مکمل ہو کر مجھے نہیں ملیں۔ میرے پہلے خطبات کے بعد کچھ لسٹیں آئی ہیں لیکن وہ زیادہ تر افراد کی ہیں جماعتوںکی نہیں۔ جماعتوں کے لحاظ سے اب تک بمشکل دس فیصدی لسٹیں آئی ہیں باقی جماعتوں کی طرف سے جن میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں ابھی تک مجھے کوئی اطلاعات نہیں پہنچیں۔ مَیں نے اس تحریک کے وعدوں کے لئے ڈیڑھ ماہ کی میعاد مقرر کی تھی جو 20 مئی کو ختم ہو جاتی ہے۔ مگر چونکہ یہ نئی تحریک ہے اور دوستوں کو ایک وقت اس کے سمجھنے میں بھی لگا ہے اِ س لئے مَیں اِس کی مدت 31 مئی تک بڑھا دیتا ہوں۔ مگر اِس کے یہ معنی نہیں کہ دوست ضرور 31 مئی تک ہی انتظار کرتے رہیں۔ بلکہ نیکی کے کام میں جلد سے جلد حصہ لینا بھی انسان کے ثواب کو بڑھانے کا موجب ہوتا ہے۔ اور جس طرح گورنمنٹ سروس میں یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص پہلے سروس میں شامل ہو اُس کو بعد میں شامل ہونے والوںسے سینیئر (SENIOR)سمجھا جاتا ہے اور آئندہ ترقیات میں اس کی سینیارٹی (SENIORITY) کا لحاظ رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ دنوں کا بھی حساب رکھا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر یکم تاریخ کو سرکاری ملازمت میں شامل ہو تو اُس کو اُس شخص سے سینیئر اور بالا سمجھا جاتا ہے جو دوسری تاریخ کو شامل ہو حالانکہ فرق صرف ایک دن کا ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور میں بھی وہ لوگ جو قربانیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ سوائے اسکے کہ انکی راہ میں ایسی مشکلات اور دقتیں ہوں جنکی وجہ سے ان کا بعد میں آنا پہلے آنے والے کے برابر سمجھا جائے۔ مگر یہ چیز تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہ کسی کے متعلق کیا فیصلہ کرے گا انسان اس کے متعلق کچھ جان نہیں سکتا۔ اِس لئے ظاہر پر نظر کرتے ہوئے ہر جماعت کا فرض ہے اور فرض ہونا چاہیئے بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر جماعت کا یہ حق ہے اور اُسے اپنا یہ حق لینے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ دوسری جماعتوں سے پہلے اپنے وعدے لکھائے تا کہ نہ صرف وہ ثواب میں شامل ہو بلکہ بعد میں شامل ہونے والوں سے خدا تعالیٰ کے حضور مقدم سمجھی جائے۔
جہاں تک نظام کا تعلق ہے۔ جس رنگ میں تحریک جدید کا محکمہ کام کر رہا ہے میرے نزدیک بیت المال والے اُس رنگ میں کام نہیں کر رہے۔ تحریک جدید کی رپورٹوں میں نہ صرف یہ اطلاع ہوتی ہے کہ کس حد تک وعدے آئے ہیں بلکہ وہ یہ بھی اطلاع دیتے ہیں کہ انہوں نے اِس بارہ میں کیا کوششیں کی ہیں۔ مگر بیت المال والوں کی طرف سے کوئی ایسی رپورٹ جو حقیقت پر مبنی ہو اور جس سے معلوم ہو سکے کہ معقول طور پر جدوجہد کی جا رہی ہے اب تک میرے پاس نہیں پہنچی۔ اور درحقیقت مَیں ابھی تک اِس بات سے ناواقف ہوں کہ صحیح طور پر ہر جماعت پرحجت پوری کر دی گئی ہے یا نہیں۔
دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس تحریک کے متعلق جو وقفِ آمد یا وقفِ جائیداد کی ہے یا غیرواقفین سے نصف ماہ کی آمد یا ان کی جائیداد کا 1/2 فیصدی لینے پر مشتمل ہے ہم نے یہ قانون بھی پاس کیا ہے کہ جو لوگ اس تحریک میں شامل نہ ہوں یا غیر واقفین کی صورت میں اپنی جائیداد کا 1/2 فیصدی یا ایک ماہ کی نصف آمد بھی دینے کے لئے تیار نہ ہوں اُن کو آئندہ سلسلہ کے ہنگامی کاموں میں شامل نہ کیا جائے۔ پس جماعتوں کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وعدے جلد از جلد بھجوا دیں وہاں اُن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مجھے اِس بارہ میں بھی اطلاع دیں کہ کون کون سے لوگ اس تحریک میں حصہ نہیں لے رہے تا کہ اُن کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ ابھی تک کسی جماعت نے بھی ایسی اطلاعات بہم نہیں پہنچائیں۔ حالانکہ اِس تحریک کے مثبت او ر منفی دو حصے ہیں۔ مثبت حصہ تو یہ ہے کہ کس کس نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے۔ او رمنفی حصہ یہ ہے کہ کس کس نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ اور یہ دونوں حصے اہم ہیں۔ منفی کے متعلق ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو آئندہ سلسلہ کی ہنگامی تحریکوں میں شامل ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ سوائے ایسی صورت کے کہ وہ توبہ کریں اور سلسلہ کے سامنے معقول معذرت پیش کریں۔ اگر ان کا عذر جائز ہونے کی صورت میں قبول کر لیا جائے تو اس کے بعد انہیں ہنگامی تحریکوں میں شامل ہونے کا حق ہو گا لیکن اس کے بغیر نہیں۔ پس جماعتوں کو نہ صرف وعدے کرنے والے دوستوں کے نام بھجوانے چاہئیں بلکہ جو لوگ انکار کریںاُ ن کے نام بھی بھجوانے چاہئیں۔
مَیںنے بار بار اور کھول کر بیان کیا ہے کہ جو لوگ تحریکِ وقف میں حصہ نہیں لیتے ابھی ہم ان کو مجبور نہیں کرتے کہ اپنی آمد یا جائیداد وقف کریں۔ ایسے لوگ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا جائیداد کا 1/2 فیصدی دے کر موجودہ تحریک سے عُہدہ برآ ہو سکتے ہیں اور نادہندگی کے الزام سے بچ سکتے ہیں۔ بعض دوستوں کو اس بارہ میں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ جو لوگ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا اپنی جائیداد کا 1/2 فیصدی دینگے ان کو بھی آئندہ ہنگامی تحریکات میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ چنانچہ اِس قسم کا ایک نوٹ مَیں نے الفضل میں بھی دیکھا ہے جو تحریک جدید کی طرف سے تھا۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ مَیں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ہر شخص اپنی جائیداد یا آمد ضرور وقف کرے۔ مَیں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ مومن کا ایمان اِس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد اور آمد اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے۔ اِس لئے دوستوں کو وقف کرنا چاہیئے۔ اور ظاہر ہے کہ ’’وقف کرنا چاہیئے‘‘ اور ’’وقف کرے‘‘ میں بڑا بھاری فرق ہے۔ ایسے آدمی ہو سکتے ہیں جو وقف میں شامل ہونے کے متعلق اپنے سینوں میں انشراح نہ پاتے ہوں۔ مگر اُن کے لئے بھی ہم نے رستہ کھول دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا اپنی جائیداد کا 1/2 فیصدی دے دیں۔ لیکن چونکہ ایسے آدمی بھی ہو سکتے ہیں جو ایک ماہ کی نصف آمد یا جائیداد کا 1/2 فیصدی بھی نہ دے سکیں۔ یا وہ سمجھتے ہوں کہ وہ نہیں دے سکتے تو ایسے لوگوں کے لئے یہ راستہ ہے کہ وہ اپنی معذرت دفتر بیت المال میں بھیج کر ناظر صاحب بیت المال سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرا لیںتب بھی وہ الزام سے بچ جائیں گے۔ اور اگر ناظر صاحب بیت المال اُن کو مستثنیٰ کر دیں گے تو وہ اس سزا کہ ’’آئندہ سلسلہ کے ہنگامی کاموں میں انہیں شامل نہ کیا جائے‘‘ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ لیکن ایسے لوگوں کا بالکل خاموش رہنا اور جماعت کے ساتھ تعاون نہ کرنا اُس معیارِ ایمان سے بہت ادنیٰ ہے جس کا اسلام کی طرف سے ادنیٰ سے ادنیٰ معیار کے ہر مومن سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مجھے حالات سے اتنی کم واقفیت ہے کہ اب تک مَیں یہ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی دفتر بیت المال والوں نے مجھے اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ قادیان کے ہر محلہ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے یا نہیں۔ دور دور کی جماعتوں کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی طرف سے وعدوں کے پہنچنے میںدیر ہو گئی ہے مگر قادیان کی جماعتوں کے متعلق اِس قسم کے کسی امکان کی گنجائش نہیں۔ اَوروں کو تو جانے دو مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے کارکنوں سے بھی وعدے لئے گئے ہیں یا نہیں۔ ٭ جو رپورٹیں میرے پاس آئی ہیں اُن سے مَیں سمجھتا ہوں کہ قادیان کی جماعت سے بھی پوری طرح وعدہ نہیں لیا گیا۔ کیونکہ اگر سب لوگوں کے وعدے شامل ہوتے تو جتنے وعدوں کی اطلاعیں اِس وقت تک مجھے مل چکی ہیںاُ ن سے بہت زیادہ تعداد ہوتی۔ جب قادیان کے لوگوں سے بھی وعدہ لینے کا انتظام پوری طرح نہیں کیا گیا تو اِسی پر باہر کی جماعتوں کاقیاس کیا جا سکتا ہے۔ پس مَیں دوستوں کو ایک دفعہ پھر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ 31 مئی تک ان کے وعدے آ سکتے ہیں۔ جو لوگ نادہند ہیں اُن کے نام بھی آنے چاہئیں۔ اور جو لوگ چندہ دینے والے ہیں اُن کی ٭مَیں نے لسٹیں منگوا کر بعد خطبہ دیکھی ہیں قادیان کے چندہ کا نصف ابھی آیا ہے اور کارکنان انجمن کا نصف سے بھی کم۔ لیکن اب ناظر صاحب بیت المال نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد وعدوں کی لسٹوں کو پورا کریں گے۔
لسٹیں بھی ہر جماعت کی طرف سے مجھے پہنچنی چاہئیں۔ وعدے زیادہ تر میرے پاس ہی آتے ہیں اور یہی طریق زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس طرح مجھے ایسے لوگوں کا علم بھی ہوتا رہتا ہے اور ان کے لئے دعا کی تحریک بھی ہوتی رہتی ہے۔ تحریک جدید کے وعدے بھی میرے پاس آتے ہیں اور اس طرح مجھے وقت پر ہر بات کا علم ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی نقص دور کرنے کے قابل ہو تو اُس کو دور کر دیا جاتا ہے۔ اسی طریق کے مطابق جو جماعتیں اپنے وعدوں کی لسٹیں مکمل کریں وہ میرے پاس بھجوا دیں۔ چونکہ آجکل ڈاک کا انتظام خراب ہے اس لئے اگر بعض جماعتیں اپنے وعدوں کی لسٹیں بھجوا چکی ہوں۔ لیکن اُن کو وعدوں کے پہنچنے کی اطلاع نہ ملی ہو تو اُنہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اُن کے وعدے نہیں پہنچے۔ ایسی صورت میں دوبارہ انہیں وعدوں کی لسٹیں بھجوانی چاہئیں۔ ہر جماعت کو لسٹ بھجواتے ہوئے اُس کی ایک نقل اپنے پاس رکھنی چاہیئے تا کہ اگر پہلی فہرست ضائع ہو جائے تو دوبارہ بغیر تأخیر کے نقل کی نقل قادیان بھجوائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ جو لوگ اپنی ایک ماہ کی آمد یا جائیداد کا ایک فیصدی دینے والے ہوں اُن کے وعدوں کی لسٹیں الگ اور جو نصف ماہ کی آمد یا اپنی جائیدادوں کا 1/2 فیصدی دینے والے ہوں اُن کی لسٹیں الگ ہوں تا کہ یہ دونوں قسم کی لسٹیں آپس میں مل نہ جائیں اور ایک کا نام دوسرے رجسٹر میں درج نہ ہو جائے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اپنے اخلاص اور ایثار اور قربانی سے اِس عظیم الشان امتحان میں پہلے سے بھی زیادہ کامیاب ثابت ہونگی۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دوستوں نے ایسی عظیم الشان قربانیاں پیش کی ہیں کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ قربانی میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی نے کیا دیا ہے بلکہ دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنی طاقت کے لحاظ سے قربانی میں کس قدر حصہ لیا ہے۔ بعض ایسے لوگ جن پر صرف دس روپے چندہ عائد ہوتا تھا انہوں نے چالیس روپیہ چندہ دیا ہے اور بعض کے وعدے تو اتنے زیادہ تھے کہ مجھے ان کے وعدوں کو ردّ کرنا پڑا اور مَیں نے ان سے کہا کہ جو مطالبہ ساری جماعت سے کیا گیا ہے اُسی مطالبہ کے مطابق آپ لوگ بھی قربانی کریں اُس سے زیادہ نہیں۔ ورنہ بعض نے تو اپنی ساری کی ساری جائیدادیں پیش کر دی تھیں اور کہا تھا کہ جب ہم نے ساری جائیداد دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے تو ہم ساری جائیداد کیوں نہ پیش کر دیں۔ یہ ایک خوشکن بات ہے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مَیں نے ایسے وعدے قبول نہیں کئے بلکہ اُن کے اخلاص اور قابلِ رشک ایثار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُنہیں یہی لکھوایا ہے کہ اِس وقت جائیداد کا ایک فیصدی مانگا گیا ہے آپ لوگ بھی اتنا ہی پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی سب کام ہیں اور اِس وقت تک اللہ تعالیٰ ہی ہمارے سب کام کرتا چلا آیا ہے اور ہمیں آئندہ بھی اُسی کے فضل و کرم کی امید ہے۔ پس ہمیں اِن دنوں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ جو فرض اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کیا ہے اُس کی بجاآوری کی ہمیں توفیق ملے۔ا ور اگر کوئی شخص اپنے فرض کو ادا کر چکا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی اللہ تعالیٰ اس امتحان میں فیل ہونے سے بچائے۔ اور اگر کسی کے اندر کچھ کمزوری پائی جاتی ہے تو وہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوری کو دور کرے اور اسے بھی سابقین میں شامل ہونے کی توفیق بخشے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں اور اُس کے فضل عظیم الشان ہیں۔ اِس وقت ایک نہایت ہی نازک دَور ہندوستان پر آیا ہوا ہے جس کا علاج صرف خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ بظاہر انسان کام کرتے دکھائی دیتے ہیںلیکن درحقیقت خدا کی تقدیر ان کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کو ایسے رنگ میں جاری کرے کہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہو اور آئندہ دنیا میں امن قائم کرنے کا موجب ہو۔ا ور یہ کہ ہمارے ملک کے اندر جو فتنہ اور فساد پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسکو دُور کرے۔ اور ہر قوم کو سمجھ عطاکرے کہ وہ آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صلح اور امن اور آشتی کے طریق کو قبول کرے اور نہ صرف ہمارا ملک صلح اور آشتی کے طریقوں کو اختیار کرے بلکہ خدا کے فضل سے ہمارا ملک ساری دنیا میں ایک اہم اور نیک تغیر پیدا کرنے کا موجب بن جائے۔ اَللّٰھَمَّ اٰمِیْن۔‘‘ (الفضل 15؍ مئی 1947ئ)

18
کوئی جماعت وقفِ جائیداد و آمد کی فہرستیں نامکمل نہ بھیجے
(فرمودہ 16مئی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج مجھے ایک ضروری کام کی وجہ سے یہاں آنے میں دیر ہو گئی ہے اِس لئے مَیں صرف چند منٹ ہی بول سکتا ہوں۔
پچھلے کئی ہفتوں سے مَیں جماعت کو حفاظتِ قادیان کے چندہ کے متعلق تو جہ دلا رہا ہوں۔ پرسوں ناظر صاحب بیت المال اِس بارہ میں مجھے ملے تھے اور انہوں نے گفتگو کے دوران میں مجھے بتایا تھا کہ زمیندارہ جماعتوں میں سے دس فیصدی جماعتوں کے وعدے آ چکے ہیںاور شہری جماعتوں میں سے صرف پانچ فیصدی کے قریب جماعتیں ایسی ہونگی جن کے وعدے آئے ہیں۔ یہ بات نہایت ہی قابل تعجب ہے اس لئے کہ زمیندار آجکل فصل کی کٹائی کی وجہ سے اور گندم نکالنے کی وجہ سے بہت زیادہ مشغول ہوتے ہیں۔ اگر ایسے وقت میں ان کی طرف سے کوئی غلطی یا کوتاہی ہو بھی جائے تو وہ معذور سمجھے جانے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ انکے سارے سال کی محنت کا پھل گندم کی کٹائی سے وابستہ ہے۔ اگر ان کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ ہم فصل کی کٹائی اور گندم سنبھال چکنے کے بعد اپنے وعدے بھجوا دینگے تو یہ ان کی کمزوری تو ضرور ہو گی مگر جائز اور معقول کمزوری ہو گی۔ ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ کوئی زمیندار اپنی فصل کاٹ رہا تھا کہ اسکی ماں مر گئی۔ اسے جب والدہ کی وفات کی اطلاع دی گئی تو اس نے کہا ماں کو دفن کر دو مَیں فصل کی کٹائی چھوڑ کر نہیں آ سکتا۔ درحقیقت فصل کی کٹائی کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ زمیندار کی سارے سال کی کمائی اور سارے سال کی خوراک اس سے وابستہ ہوتی ہے اور اِس سے غفلت اُس کے لئے او ر اُس کے سارے خاندان کے لئے ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ منظم رنگ میں کام کرنے والے ایسے مصروفیت کے زمانہ میں بھی کچھ نہ کچھ وقت ہنگامی کاموں کے لئے نکال لیتے ہیں۔ لیکن ہمارا ملک ایسا منظم کہاں ہے او رہمارے ملک میں وقت کی پابندی کرنے والے کتنے لوگ ہیں۔ ایک تربیت یافتہ قوم یا ایک تعلیم یافتہ قوم کے لوگوں سے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے کاموں کی ایسے رنگ میں تقسیم کریں کہ باوجود شدید مصروفیت کے وہ بعض دوسرے کاموں کے لئے بھی اپنا وقت نکال سکیں۔ لیکن ہمارے ملک کے لوگ اپنے اوقات کی ایسے رنگ میں تقسیم نہیں کرتے کہ وہ عمدگی سے کام بھی کر سکیں او رکچھ وقت اَور کاموں کے لئے بھی بچا لیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ امراُن کے لئے ممکن ہے۔ مگر وہ اپنی سابقہ عادات و رسوم کی وجہ سے ان دنوں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ انکے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسے کسی اَور کام پر خرچ کر سکیں۔ اس لئے اگر زمیندار جماعتیں ایک حد تک کوتاہی کریں تو یقینا وہ اس حد تک کوتاہی کی مرتکب نہیں ہونگی کہ وہ ملامت کی مستحق سمجھی جا سکیں۔ مگر شہری جماعتوں کے لئے ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ سوائے چند شہروں کے کہ جن میں کرفیونافذ ہے باقی تمام شہر اور قصبات آزاد ہیں اور سب لوگ آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پس یہ بات نہایت ہی قابلِ افسوس ہے کہ شہری جماعتوں کی طرف سے ابھی بہت کم وعدے وصول ہوئے ہیں۔ بلکہ ابھی تک دہلی اور لاہور کی جماعتوںکی لسٹیں بھی پوری طرح نہیں پہنچیں۔ مَیں نے پرسوں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان دونوں جماعتوں کی طرف سے نہایت نامکمل فہرستیں آئی ہیں اور شاید نصف سے بھی زیادہ آدمی ابھی ایسے باقی ہیں جن سے تا حال وعدے نہیں لیے گئے۔ اور شاید وہ نصف بلکہ اس سے بھی کم وعدے بھیج کر ہی تسلی پا چکے ہیں کہ ہم نے اپنے وعدوں کی لسٹیں بجھوا دی ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے بار بار اعلان کیا ہے ہماری طرف سے صرف یہی شرط نہیں کہ مثبت وعدے بھجوائے جائیں بلکہ یہ بھی شرط ہے کہ لسٹوں میں اس بات کی بھی تصریح کی جائے کہ فلاں فلاں شخص نے وعدہ نہیں کیا اور اس تحریک میں شامل ہونے سے انکار کرتا ہے تا کہ ہمیں اس بات کا علم ہو سکے کہ کمزوری ان کے افسروں کی ہے جو ان کے پاس پہنچتے نہیں یا کارکنوں کی ہے جنہوں نے ان سے وعدے نہیں لیے۔ یا جماعت کے افرادکی سُستی ہے۔ یوں تو اگر کسی جماعت کے کارکن غفلت سے کام لینے والے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ وہ پانچ کے وعدے بھجوا دیں اور باقی لوگوں کے متعلق بغیر نام کی تصریح کے یہ لکھ دیں کہ وہ چندہ نہیں دیتے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہو گی کہ وہ وعدہ لینے کے لئے ان کے پاس گئے ہی نہیں ہونگے۔ پس چونکہ اِس طرح کارکن اپنی غفلت پر پردہ ڈال سکتے ہیںاِ س لئے ہماری طرف سے یہ ہدایت ہے کہ نہ صرف وعدہ دینے والوں کے نام بھیجے جائیں بلکہ جماعت کی نام بنام لسٹ دیکر یہ بھی تصریح کی جائے کہ کس کس نے اس تحریک میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے؟ اِس طرح کارکنوں کی ہوشیاری اور غفلت کا بھی پتہ لگ جائیگا اور لسٹیں بھی صحیح طور پر مکمل ہوں گی۔ مثلاً جب وہ دیکھیں گے کہ فلاں شخص چندہ نہیں دیتا تو بعد میں تحقیق کر کے معلوم کیا جا سکے گا کہ اصل حقیقت کیا تھی۔ پس صرف یہی کافی نہیں کہ جماعتیں مثبت لسٹیں بھجوائیں بلکہ وہ منفی کے پہلو کا بھی خاص طور پر خیال رکھیں اور جب بھی وہ کوئی لسٹ بھیجیں ان کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ اس میں لکھیں کہ ان ناموں کے سوا ہماری یہاں کی جماعت میں اور کوئی احمدی نہیں۔ یہ کہ فلاں فلاں احمدی اَور ہیں جو حصہ لینے سے انکاری ہیں۔ اور اگر کوئی آدمی رہ جائیگا تو یقینا اس جماعت کے افسر اس بات کے ذمہ دار ہوں گے کہ وہ جواب دیں کہ آیا وہ اُس شخص کے پاس نہیں پہنچے یا پہنچنے کے باوجود اس نے شامل ہونے سے انکار کیا تھا۔ اور اگر انکار کیا تھا تو پھر بھی اُس کا نام انہوں نے لسٹ میںکیوں درج نہ کیا۔ اگر تو کارکن جماعت کے کسی فرد یا افراد کے پاس نہیں پہنچے ہوں گے تو کارکنوں کا جُرم ثابت ہو جائیگا اور وہ لوگ بَری ہو جائیں گے۔ اور اگر کارکن تو ان کے پاس پہنچے ہوں گے لیکن انہوں نے اس تحریک میں حصہ لینے سے انکار کیا ہو گا تو کارکن بری الذمہ سمجھے جائیں گے اور وہ مجرم۔
آج 16 تاریخ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میعاد میں سے اب صرف پندرہ دن باقی ہیں ۔ اور پندرہ دنوں کی میعاد بہت تھوڑی ہے۔ بعض جماعتیں جن میں پچاس پچاس، سو سو، ڈیڑھ ڈیڑھ سو اور دو دو سو افراد ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کے پاس جانا اور اُن سے وعدہ لینا بہت بڑا وقت چاہتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس بارہ میں ابھی ہماری جماعت کے اندر اتنی بیداری پیدا نہیں ہوئی کہ اُسے باربار کی یاددہانیوں کی ضرورت نہ ہو۔ پس مَیں اِس خطبہ کے ذریعہ ایک بار پھر قادیان کی جماعت کو اور گورداسپور کی جماعتوں کو اور بیرون جات کی تمام جماعتوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس عظیم الشان ثواب سے محروم رہ جائیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بھی ہمارے سلسلہ کی اَور تحریکوں کی طرح اپنے اندر خدا تعالیٰ کی بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے۔ اور اِس کی خوبیاں صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایک بنیاد ہے آئندہ بہت بڑے اور عظیم الشان کاموں کو سرانجام دینے کی۔ اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی تحریک نہیں بلکہ اِس تحریک کے ذریعے ہماری جماعت کی ترقی اور سلسلہ کے مفاد کے لئے بعض نہایت ہی عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ گو اَب تک لوگ اِس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھے لیکن دو چار سال تک اس کے کئی عظیم الشان فوائد جماعت کے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔ جیسے تحریک جدید کو جب شروع کیا گیا تھا تو اُس وقت اُس تحریک کی خوبیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں مگر اب نظر آ رہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے دنیا بھر میں تبلیغِ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانہ پر جاری ہے ا ور سینکڑوں لوگ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رہے ہیں۔ یہ تحریک جدید کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک انگریز نَو مسلم جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں۔ پھر یہ تحریک جدید کا ہی نتیجہ ہے کہ اسی ہفتہ غیر ممالک سے دو اَور افراد کے متعلق یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آنا چاہتے ہیں۔ ایک اطلاع تو ایک جرمن نَو مسلم کے متعلق ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ قادیان میں تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے ملک میں تبلیغ کریں۔ دوسرے اسی ہفتہ میں امریکہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ایک امریکن نَو مسلم نے بھی اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ مَیں قادیان جا کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھو! یہ کتنی عظیم الشان تحریک ہے کہ غیر ممالک کے نَو مسلم بھی یہاں آ کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور جب یہ لوگ یہاں سے دینی تعلیم حاصل کر کے واپس اپنے ملک میں جائیں گے تو اُن کے لئے اپنے ملک کے لوگوں کو سمجھانا آسان ہو گا۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیںاُن تمام کاموں کے متعلق مَیں دیکھتا ہوں کہ درحقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی۔ اسی طرح یہ تحریک بنیاد ہو گی آئندہ تعمیر ہونے والی عظیم الشان اسلامی عمارات کی۔ جس طرح مَیں نے وقفِ جائیداد کی تحریک کی تھی جو درحقیقت بنیاد تھی آج کی تحریک کے لئے مگر اُس وقت لوگ اِس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو اپنی جائیدادیں وقف کر دی تھیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تحریک تو کی ہے او ر ہم اس میں شامل بھی ہو گئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں۔ انہیں مَیں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت بھی آ جائیگا جب تم سے جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائیگا۔ چنانچہ دیکھ لو اس تحریک سے خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے۔ اگر عام چندہ کے ذریعہ اِس وقت جماعت میں حفاظتِ مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو مَیں سمجھتا ہوں کہ لاکھ دو لاکھ روپیہ کا اکٹھا ہونا بھی بہت مشکل ہوتا مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہو چکی تھی اِس لئے وہ لوگ جنہوں نے اِس تحریک میں اُس وقت حصہ لیا تھا وہ اِس وقت مینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آ گئے اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتایا کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ تم کیوں نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جب ان کی قربانی پیش کی گئی تو ہزاروں ہزار اَور لوگ ایسے نکل آئے جنہوں نے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں۔ پس جس طرح وہ تحریکِ جدید بنیاد تھی بعض اَور عظیم الشان کاموں کے لئے۔ اُسی طرح حفاظتِ مرکز کے متعلق جو تحریک چندہ کے لئے کی گئی ہے یہ بھی آئندہ بعض عظیم الشان کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔اور جس وقت یہ تحریک اپنی تکمیل کو پہنچے گی اُس وقت مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں اپنے کمال کو پہنچ جائیں گی۔
درحقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقفِ زندگی کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور مالی قربانی کا مطالبہ چندوں کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔ اور اب جائیدادوں اور آمد کے وقف کے ذریعہ تمام جماعت کو مالی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پھر شاید وہ وقت بھی آ جائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اسکی جان کا بھی مطالبہ کرے۔ اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی جائیداد خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اُسی طرح وہ اپنی زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے تا کہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے۔ مال کی قربانی کی ابتدا ہوچکی ہے۔ پھر جان کی قربانی کا مطالبہ کیا جائیگا۔ پھر مالی قربانی کا مطالبہ پہلے سے بھی زیادہ کیا جائیگا۔ اور پھر جان کی قربانی کا مطالبہ بھی زیادہ سے زیادہ کیا جائیگا۔ یہاں تک کہ ہماری قربانیاں ایسے مقام پر پہنچ جائیں جس مقام پر گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کی قربانیاں پہنچی تھیں۔ بلکہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بُہتوں سے بڑھ کر قربانی کی توفیق عطا فرمائے تا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ فضل نازل ہو کر اسلام اور احمدیت کو دنیا میں قائم کر دے۔اَللّٰھَمَّ اٰمِیْن۔‘‘ (الفضل 22؍مئی 1947ئ)

19
(1) اساتذہ بچوں کو اخلاقِ فاضلہ سکھائیں
(2) غلط افواہوں سے پیدا ہونیوالی بے چینی و اضطراب کا صحیح علاج
(3) قادیان کے غیر احمدی و غیر مسلم ہماری امانتیں ہیں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر اُن کی حفاظت کریں گے
(فرمودہ 23مئی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’کوئی سال بھر کا عرصہ ہوا کہ مَیں نے مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے اساتذہ کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ بچوں کو آدابِ اسلامی سکھایا کریں۔ اُس وقت مَیں نے خصوصیت کے ساتھ اِس طرف توجہ دلائی تھی کہ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو مساجد اور نماز کے آداب سکھائیں کیونکہ مَیں نے دیکھا کہ جب مَیں اس رستہ سے جو میرے گزرنے کے لئے بنایا جاتا ہے گزر کر آگے آتا تو بچے پیچھے سے دوڑ کر آگے آنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو دھکّے دیتے اور کُہنیاں مارتے۔ مَیں نے اُس وقت سمجھایا تھا کہ یہ بات نماز کے وقار کے خلاف ہے۔ اور چونکہ نئے نئے لڑکے آتے رہتے ہیں اِس لئے اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ لڑکوں کو بار بار توجہ دلاتے رہیں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اساتذہ ایک سال کے اندر ہی میری اس ہدایت کو بھول گئے۔ اور اب پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ لڑکے ایک دوسرے کو کُہنیاں مارتے اور دھکّے دیتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا اُن کو یہ سمجھایا ہی نہیں گیا کہ نماز کی کیا عظمت اور حقیقت ہوتی ہے۔ وہ مسجد میں آ کر بھی یہی سمجھتے ہیں گویا وہ کبڈی کے میدان میں کھڑے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَ لَوْ کَانَ نَبِیًّا بچہ بچہ ہی ہے خواہ بعد میں وہ نبی ہی کیوں نہ بن جانے والا ہو۔ اُسے بہرحال وعظ و نصیحت کرنی ہی پڑتی ہے۔ اگر ایک زندہ قوم کے اساتذہ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔ اپنے خلیفہ اور امام کی موجودگی میں کَمَاحَقُّہٗ اپنے فرائض ادا نہیں کرتے تو اُن مسلمانوں کا کیا قصور ہے جو تیرہ سو سال سے خلافت کے نور سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ ہماری جماعت کے لوگ زبان سے تو اُن پر طعن کرتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم اُن سے اچھے حال میں ہوتے ہوئے اور ایک خلیفہ اور امام کی موجودگی میں بعض دفعہ ان سے زیادہ غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اگر اساتذہ ہی اِن ہدایات کوبھول جاتے ہیں تو طالب علم تو مجبور ہیں۔
پس اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کا اخلاقِ فاضلہ سکھائیں۔ اُنہیں مساجد کے آداب بتائیں۔ انہیں کھانے پینے، اٹھنے، بیٹھنے اور بڑوں سے ملنے کے آداب سکھائیں۔ مگر جب اساتذہ خود ہی اِن باتوں کو نوٹ نہیں کرتے تو وہ طلباء کو کیسے تکرار کے ساتھ یہ باتیں بتا سکتے ہیں۔ اگر بچوں کے سامنے بار بار اِن باتوں کو بیان کیا جائے تو وہ اُن کے ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ اور وہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب خود اساتذہ ہی ’’کندۂ ناتراش‘‘ 1ہوںتو طلباء کو وہ کیا سکھا سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم صرف یہی ہے کہ ہمالیہ کی چوٹی اتنی اونچی ہے۔ گویا وہ ان کو یہ تو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی کتنی بلند ہے مگر یہ بتانا نہیں چاہتے کہ اُن کی روح کس طرح بلند ہو سکتی ہے اور وہ کس طرح مہذّب بن سکتے ہیں۔وہ علم صرف یہی سمجھتے ہیں کہ ’’اَٹّھو اَٹّھے چونٹھ‘‘ اور’’ نونایاں اِکاسی‘‘ انہیں بتا دیا جائے۔ حالانکہ اصل علم وہ ہے جس سے انسانی روح اور دماغ ترقی کرتا ہے اور یہی علم سب سے افضل ہوتا ہے۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہو ں کہ ملک کے حالات نہایت سرعت کے ساتھ متغیر ہو رہے ہیں۔ گورنمنٹ نے اعلانوں اور خبروں کی اشاعت پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں لیکن لوگ آنکھوں دیکھی باتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اور پھر جھوٹی افواہیں تو ملک کے امن کے لئے اَور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اخباروں پر خبروں کی اشاعت کے متعلق کوئی پابندیاں عائد کرے اُسے چاہیئے کہ وہ ایسے موقع پر عملہ کو زیادہ بڑھا دے اور اخباروں میں جو جھوٹی خبریں شائع ہوں وہ عملہ ان جھوٹی خبروں کی تردید کرتا رہے۔ اب یہ حالت ہے کہ اخباروں میں تو خبریں شائع نہیں ہوتیں لیکن زبانی طور پر مختلف قسم کی خبریں لوگوں میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اور بعض دفعہ تو حیرت آتی ہے کہ لوگ کس طرح ان کو سچا سمجھ لیتے ہیں۔ بعض افواہیں مجھ تک بھی پہنچی ہیں جن کو سنتے ہی مجھے کہنا پڑا کہ یہ کبھی سچی نہیں ہو سکتیں۔ لیکن بہرحال ان افواہوں کا جو بد اثر ہے اُس کو دبایا نہیں جا سکتا۔ حکومت طاقت کے ساتھ اخباروں پر تو پابندیاں عائد کر سکتی ہے لیکن دماغوں میں صفائی پیدا نہیں کر سکتی۔ اس کا آسان طریق یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ خبروں پر کسی قسم کی پابندی عائد کی جاتی اخبارات کو خبریں شائع کرنے کی عام اجازت دے دی جاتی۔ او رپھر جو خبر جھوٹی ہوتی بعد میں اسکی تردید شائع کرا دی جاتی۔ یا اس کا ایک طریق یہ تھا کہ گورنمنٹ خود سچی خبروں کو شائع کر ا دیتی اور کہہ دیتی کہ یہی خبریں ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی خبر نہیں۔ اس طرح گورنمنٹ بھی مجبور ہوتی کہ تمام سچی خبریں شائع کرتی کیونکہ اگر کوئی سچی خبر رہ جاتی تو گورنمنٹ جھوٹی ٹھہرتی ۔ اس طرح بھی جھوٹی افواہوں پر کنٹرول ہوسکتا تھا ۔گورنمنٹ ہر روز یہ اعلان کر دیتی کہ آج فلاں محلہ میں یہ واقعہ ہوا ہے اور فلاں میں یہ اس طرح تمام واقعات بیان کر دیئے جاتے اور کہہ دیا جاتا کہ اس کے سوا سب خبریں جھوٹی ہیں۔ اگر اس طرح کیا جاتا تب بھی لوگ مطمئن ہو جاتے اور سمجھ لیتے کہ اگر کوئی اَور سچی خبر ہوتی تو گورنمنٹ اسے کیوں نہ بیان کرتی۔ اور اگر پہلے کی طرح ہی اخباروں میں واقعات چھپتے رہتے تو پھر بھی نقص واقع نہ ہوتا۔کیونکہ جو بات مسلمانوں کی طرف جھوٹی منسوب کی جاتی مسلمان اس کی تردید کر دیتے اور جو بات ہندوؤں کی طرف جھوٹی منسوب کی جاتی ہندو اُسکی تردید کر دیتے۔ اور یا پھر تیسرا طریق یہ تھا کہ واقعات اور خبریں تو حسبِ سابق اخبارات میں شائع ہوتی رہتیں مگر ہندو اور مسلمان اخبارات کے متضاد بیانات کی صورت میں جوبھی سچا واقعہ ہوتا گورنمنٹ اسکی تصدیق کر دیتی۔ اور اگر دونوں کی باتیںغلط ہوتیں تو گورنمنٹ دونوں کی تردید کر دیتی۔ اِس طریق سے یقینا افواہیں اپنا بداثر نہ پھیلا سکتیں۔ لوگوں تک خبریں نہ پہنچنے دینا ناممکن بات ہے۔ اور کوئی گورنمنٹ خبروں کو روک نہیں سکتی۔ اس میں صرف اخبارات کی ہی شرط نہیں زبانی طور پر ہر لفظ جو کسی واقعہ کے متعلق دوسرے کے سا منے بیان کیا جاتا ہے دوسرا شخص اس سے ایک نتیجہ اخذ کرتا اور اسے آگے بیان کرتا ہے۔ اس سے سننے والا اَور آگے بیان کرتا ہے۔ اور اس طرح نہایت سرعت کے ساتھ خبریں تمام ملک میںپھیل جاتی ہیں۔گورنمنٹ اخباروں پر تو پابندیاں عائد کر سکتی ہے لیکن ان زبانی خبروں کو نہیں روک سکتی۔ اور ان الفاظ کو نہیں روک سکتی جو زبانوں کے ذریعہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ایسی خبروں کو نہیں روکتیں بلکہ جو خبر غلط ہوتی ہے ا سکی تردید کر دیتی ہیں۔ا ور اصل مصلحت بھی اِسی بات میں ہوتی ہے کہ گورنمنٹ اخبار والوں سے کہہ دے کہ جو مرضی ہے شائع کرو لیکن اگر جھوٹی خبر شائع کی تو ہم تمہیں سزا دیں گے۔ چنانچہ جب کسی کے متعلق معلوم ہو کہ اس نے جھوٹی خبر شائع کی ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ اس نے یہ جھوٹی خبر کیوں شائع کی ہے؟ اور جب ثابت ہو جائے کہ واقع میں اس نے جھوٹی خبر شائع کی ہے توا سے سزا دی جائے۔ سزا کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چھ ماہ یا سال یا دو سال کی قید ہی ہو بلکہ قید کی سزا دینے میں یہ نقص ہوتا ہے کہ اس طرح سزا بھگتنے سے ایک شخص قوم کا لیڈر اور سردار بن جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے قوم کی خاطر قید کاٹی۔ میرے نزدیک ایسے اخبار کے لئے صرف یہی سزا کافی ہے کہ اس کے متعلق عدالت یہ فیصلہ کردے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا اور پھر اس اخبار والے کو مجبور کیا جائے کہ تم اپنے اخبار میں یہ شائع کرو کہ مَیں نے فلاں معاملہ میں جھوٹ بولا تھا۔ اصل خبر یہ تھی۔ پس میرے نزدیک اخبارات کو پورا موقع دینا چاہیئے کہ وہ خبروں کو شائع کریں۔ جب لوگوں کے پاس ساری خبریں پہنچ جائیں گی تو جھوٹی افواہیں فساد نہیں پھیلا سکیں گی۔ سننے والے کہہ دیں گے کہ اگر ایسا ہوتا تو اخبارات میں یہ خبر کیوں شائع نہ ہوتی۔ اب چونکہ گورنمنٹ نے خبروں کے شائع کرنے سے روکا ہوا ہے اس لئے جب کوئی افواہ پھیلتی ہے تو لوگ فوراً اس کو قبول کر لیتے ہیں اور جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔ اگر خبریں شائع کرنے کی اجازت ہو تو ہر افواہ جھوٹی ثابت کی جاسکتی ہے۔ فرض کرو ایک افواہ ہندوؤں کے خلاف مشہور کی جاتی ہے او رکہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا ایسا کیا تو سننے والا فوراً کہہ سکتا ہے کہ ہندو اخبارات کے متعلق تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ شائد انہوں نے یہ خبر اِس لئے شائع نہ کی ہو کہ یہ خبر اُن کی قوم کے خلاف تھی لیکن مسلمان اخبارات نے اُسے کیوں شائع نہیں کیا۔ یا اگر مشہور ہوتا کہ فلاں جگہ مسلمانوں نے ایسا کیا ہے تو ایک سننے والا کہہ سکتا ہے کہ مسلمان اخبارات نے تو شاید اپنی قوم کی حمایت کی وجہ سے اس خبر کو شائع نہ کیا ہو۔لیکن اگر یہ خبر درست ہوتی تو ہندو اخبارات کیوں خاموش رہتے۔ ان کا خاموش رہنا بتاتا ہے کہ یہ خبر ہی غلط ہے۔ پس گورنمنٹ کو اخبارات پر پابندی نہیں لگانی چاہیئے۔ اسی طریق کو اختیار کرنے سے افواہوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ معلوم نہیں گورنمنٹ نے کس مصلحت کے ماتحت اخباروں پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ حالانکہ اِن پابندیوں کے نتیجہ میں ملک کی فضا میں بہت گھبراہٹ ہے اور تناؤ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک حالات کو سُدھارنے کے لئے گورنمنٹ کو آئندہ کے لئے اخبارات کو خبریں شائع کرنے کی کھلی اجازت دے دینی چاہیئے ۔ مگر ساتھ ہی یہ تنبیہہ کر دینی چاہیئے کہ اگر کوئی جھوٹی خبر شائع کی تو سزا ملے گی۔ اور جیسا کہ مَیں نے اوپر بیان کیا ہے سزا قید کی صورت میں نہ دی جائے بلکہ مجسٹریٹ یہ فیصلہ دے کہ اس اخبار نے فلاں فلاں جھوٹی خبر شائع کی ہے اِس لیے اِس کو یہ سزا دی جاتی ہے کہ پہلی خبروں کی تردید کرے اور جو اصل خبریں ہیں اُن کو درج کرے اور اخبار والے کو مجبور کیا جائے کہ وہ اِس فیصلہ کو شائع کرے۔ ذرا غور تو کرو کہ اِس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ ایک اخبار میں ہر صفحہ پر یہ لکھا ہوا ہو کہ فلاں مجسٹریٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اِس اخبار والے نے جھوٹ بولا اورپھر فلاں مجسٹریٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اِس اخبار والے نے جھوٹ بولا ہے۔ جو اخبار جھوٹ بولنے کے بعد ایسی تردیدیں شائع کرے گا وہ تو دو ماہ میں ہی لوگوں کی نظروں سے بالکل گر جائے گا اور اُس کی اشاعت بند ہو جائیگی۔ پس اصل طریق افواہوں اور جھوٹی خبروں کو روکنے کا یہی ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے۔ لیکن گورنمنٹ نے غلط طریق اختیار کر کے ملک میں بے چینی کا رستہ کھول دیا ہے۔
اِسی سلسلہ میں مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب ملک میں تناؤ موجود ہے تو ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا فکر کرے اور اپنے دشمنوں سے ہمیشہ ہوشیار رہے۔ اِسی حکمت کے ماتحت قادیان میں امن کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں غیر احمدیوں، ہندوؤں، سکھوںاور احمدیوں کے نمائندے شامل ہیں۔ اِسی قسم کی امن کمیٹیاں بعض دوسرے شہروں میں بھی بنائی گئی ہیں۔ امن کمیٹیاں اگر دیانتداری سے کام کریں تو اُن سے بہت کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن ان امن کمیٹیوں کی وجہ سے ضروری نہیں کہ پورے طور پر امن قائم رہے۔ جب مسٹر جناح اور مسٹر گاندھی کی اپیل سے بھی کھچاؤ اور تناؤ دُور نہیں ہوا اور عوام الناس ہندو اور مسلمان مسٹر گاندھی اور مسٹر جناح کی اپیل سے متاثر نہیں ہوئے تو ان پر ایک چودھری یا لالہ یا مولوی یا پادری کی بات کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک محدود حلقہ میں جہاں کسی بڑے لیڈر کا اثر نہیں ہوتا وہاں ان افراد کا ذاتی تعلقات اور رشتہ داری کی وجہ سے کچھ نہ کچھ اثر پڑ جاتا ہے ۔ لیکن یہ اثر بہت محدود ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ امن کمیٹیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم کے لوگ اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ پس اِس قسم کی کمیٹیوں سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے بشرطیکہ ان کے لئے کچھ اصول مقرر کر لئے جائیں۔ اگر کچھ اصول مقرر کر لئے جائیں تو امن کمیٹیوں سے لوگوں کو ایک حد تک فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ایسے خطرناک مواقع پر پورا کام صرف امن کمیٹیوں کے ذریعہ ہی نہیں ہو سکتا۔ گو جتنا بھی قوموں کا صلح کی طرف قدم اٹھے گا اتنا ہی اچھا ہو گا۔
یہاں قادیان میں جو امن کمیٹی بنی ہے اُس کے متعلق مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ کسی ہندو نے شکایت کی کہ مجھ سے ایک احمدی نے کہا کہ اگر دشمن حملہ کرے گا تو ہم ہندوؤں کو آگے کریں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے ہم سے دیانتداری کے ساتھ صلح کی ہے یا جھوٹی صلح کی ہے۔ ہندوؤں نے اس بات پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ لڑائی کے وقت ہم کو آگے رکھا جائیگا۔ حالانکہ ہم تو لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ مَیں وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتاکہ یہ بات کہی گئی ہے یا نہیں۔ کیونکہ میرے پاس کہنے والے کے متعلق صحیح معلومات نہیں پہنچیں اور نہ ہی مَیں باقاعدہ تحقیقات کر سکا ہوں۔ مَیں نے نظارت امور عامہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسکی تحقیقات کر کے میرے پاس رپورٹ کرے۔ لیکن مَیں فرض کر لیتا ہوں کہ ایسا کسی نے کہا ہے اور اِس بات کو فرض کرتے ہوئے مَیں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قادیان کے امن کی ذمہ داری درحقیقت مجھ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ قادیان کی 85 فیصدی آبادی احمدی ہے۔ یعنی انہوںنے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر حکم میں میری اطاعت کریں گے۔ ان حالات میں قادیان کے امن کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ اور مَیں ایک انسان ہوں غیب کا علم نہیں رکھتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کا کوئی فرد کسی وقت اشتعال میں آ کر کوئی غلطی کر بیٹھے۔ او ر اگر کوئی شخص ایسا کرے تو یہ اُس کا ذاتی فعل ہو گاجماعت اُس کے اِس فعل سے بیزار ہو گی۔ ہماری جماعت کی انتہائی کوشش یہی ہو گی کہ قادیان میں مکمل طور پر امن رہے۔ لیکن اگر کوئی شخص میری ہدایات کے باوجود غلطی کرتا ہے تو یہ اُسکی جزوی اور انفرادی غلطی ہو گی۔ جماعت اُس سے بری الذمہ ہو گی۔ ہاں چونکہ مَیں امن کی تعلیم دیتا ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ جماعت کی اکثریت فساد میں مبتلا ہو جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جو باقی پندرہ فیصدی لوگ ہیں اُن کا بھی فرض ہے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ فساد نہ کریں اور اگر اِن تمام باتوں کے باوجود خدا نخواستہ باہر کے لوگ کوئی فساد کھڑا کر دیں تو اُس فساد کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہو گی۔ جو شخص کسی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے وہ اِس کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر تھپڑ مارا جائے۔ مگر ظالم کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف ظلم بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی وہ یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ میرے منہ پر تھپڑ نہ مارا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا تو کرتے ہیں کہ وہ ہمیں فساد سے محفوظ رکھے۔ لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو گیا تو شرعاً اور اخلاقاً جماعت احمدیہ کا حق ہو گا کہ ظالم کے منہ پر اُسی طرح تھپڑ مارے جیسا کہ اُس نے مارا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مواقع پر ہم نے امن کو قائم رکھنے کے لئے بہت زیادہ نرمی اختیار کی ہے۔احرار کی شورش کے ایام میں ہی مَیں نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس کے باپ یا بھائی کو مارا جا رہاہے تو بھی وہ چپ کر کے گزر جائے لیکن اسلامی قانون یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہر موقع پر تم ایک ہی طریق اختیار کرو اور نہ ہی اسلامی تمدن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر موقع پر خاموشی اختیار کی جائے۔ بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ مناسبِ حال جو موقع ہو ویسا کرو۔ پس میرا فرض ہے کہ مَیں قادیان میں امن قائم رکھوں۔ لیکن اگر دشمن کی طرف سے حملہ ہو اور جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرے تواُس کا ذمہ دار دشمن ہو گا نہ جماعت احمدیہ۔ اور اس فساد کی ذمہ داری اُس پر ہو گی نہ کہ جماعت احمدیہ پر۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلْبَادِیُٔ اَظْلَمُ۔2 اصل ظالم وہ ہوتا ہے جو فساد کی ابتداء کر تا ہے۔ پس گو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے صلح اور امن کو قائم رکھا جائے اور ہم ارد گرد کے علاقہ میں بھی یہی کوشش کر رہے ہیں اور دور و نزدیک کے سب لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کوئی فریق ابتداء نہ کرے۔ لیکن اِس امر کو ہندو سکھ سب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر فساد ہوا تو صرف ہمارے لئے نہیں ہوگا بلکہ سب کے لئے ہوگا اور سب کو مل کر امن قائم رکھنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ لیکن اِن تمام کوششوں کے باوجود ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ فساد نہیں ہو گا اور ہماری کوششیں ضرور کامیاب ہونگی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی جوشیلا فریق اشتعال میں آ کر اخلاق اور روحانیت کا ظلم و استبداد کے استھان3 پر چڑھاوا چڑھا دے۔ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ قادیان فساد کی لپیٹ میں آ جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایسا وقت نہ آئے۔ لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو جائے تو مَیں قادیان کے ہر احمدی سے کہوں گا کہ بہادری اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دواور یہ ثابت کر دو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانی سب سے آسان قربانی ہے۔ ہم کسی سے لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ کبھی اس قسم کا خیال ہمارے دلوں میں آنا چاہیئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ۔4 تم دشمن سے لڑائی کی خواہش ہی نہ کرو۔ اپنے خیالات امن اور صلح والے رکھو۔ کیونکہ جس شخص کے دل میں لڑائی کے خیالات موجزن ہوں گے وہ ذرا سی بات سے بھی بہت جلد مشتعل ہو جائے گا۔ اور جس شخص کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہونگے وہ جلدی مشتعل نہیں ہو گا۔ یہ قدرت کا ایک قانون ہے کہ انسان اپنی حالت کو یکدم نہیں بدل سکتا۔ فرض کرو کوئی شخص قہقہہ مار کر ہنس رہا ہو اور اُسے یہ خبر دی جائے کہ تمہارا بیٹا مر گیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اُسی وقت یکدم رونا شروع کر دے بلکہ اُسکی ہنسی تھوڑی دیر میں رکے گی پھر وہ کچھ دیر کے بعد افسردہ ہو گا اور پھر آنسو بہانا شروع کر دے گا۔ اسی طرح جس شخص کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہوں وہ یکدم مشتعل نہیں ہو سکتا۔ جب ریل اپنا کانٹا بدلتی ہے تو وہ بھی آہستہ ہو جاتی ہے اور سست رفتار ہو کر اُس جگہ سے گزرتی ہے۔ اگر وہ تیزی سے کانٹا بدلے تو اُس کے الٹ جانے کا اندیشہ ہو تا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی کے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ اپنی حالت کو آہستہ آہستہ بدلتی ہے۔ اگر فوراً حالت بدل جاتی تو ہسٹیریا یا جنون ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ پس جو دماغ پہلے سے لڑائی کے خیالات میں منہمک ہوتا ہے وہ فوراً مشتعل ہو جاتا ہے۔ لیکن جس دماغ میں صلح اور امن کے خیالات ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے بعد مشتعل ہوتا ہے اور اتنی دیر میں مجرم کا جرم ثابت ہو جاتا ہے۔ پس مَیںجماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ فساد ہی سے نہ بچو بلکہ جھگڑے والے خیالات بھی اپنے دماغ میں پیدا نہ ہونے دو۔ لیکن ہماری تمام کوششوں کے باوجود جو ہم صلح اور امن کے قیام کے لئے کر رہے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ ہوجائے جو فساد کی بنیاد رکھنے والا ہو تو یاد رکھو کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے۔ ہماری شریعت ہمیںیہی حکم دیتی ہے کہ جہاںتم رہتے ہو وہاں تم ایک دوسرے کے لئے امانت ہو۔ اِس لحاظ سے قادیان کے ہندو، سکھ اور غیر احمدی ہمارے لئے بمنزلہ امانت ہیںاور ہمارا فرض ہے کہ اُن کی حفاظت کریں۔ اور ہندو، سکھ اور احمدی غیر احمدیوں کے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ اُن کی حفاظت کریں۔ اسی طرح جہاں ہندو یا سکھ زیادہ طاقتور ہیں اُن کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کریں کیونکہ مسلمان ان کے پاس بطور امانت ہیں۔ اسلامی شریعت کے لحاظ سے ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ وہ امانت کو دیانتداری سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔ پس اگر خدانخواستہ قادیان خطرے میں پڑے تومَیں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کریں گے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ قادیان کے ہندو اور سکھ کم سے کم یہ تو ضرور جانتے ہیں کہ مَیں جھوٹ نہیں بولتا۔ گو منہ سے وہ ہمارے خلاف کہتے رہیں لیکن اندر سے اُن کے دِل یقینا یہی گواہی دیتے ہوں گے کہ مَیں سچ بولنے والا ہوں کیونکہ میرا اس سے پہلے کا طریقِ عمل ان کے سامنے ہے۔ اس لحاظ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ میرے اس اعلان کو سُن کر وہ ضرور مطمئن ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو بات مَیں کہوں گا اس میں کسی قسم کا دھوکا نہیں ہو گا۔ پس مَیں اُنہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ نہیں کہ صرف کمینگی اورذلت کا سلوک ان سے نہیں کیا جائے گا بلکہ خطرے کی صورت میں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کریںگے۔
لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گھر کا ایک غدّار باہر کے ہزار دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جب ہمارے پڑدادا کی سکھوں سے لڑائی ہوئی تو اُنہوں نے ایک لمبے عرصے تک قادیان کے اردگرد محاصرہ رکھا لیکن اِس کے باوجود وہ قادیان کو فتح نہ کر سکے۔ آخر اُنہوں نے ایک ہندو پروہت کو جسے بدقسمتی سے ہمارے پڑدادا نے قلعہ کی کنجیاں سپرد کی ہوئی تھیں رشوت دے کر قلعہ کھلوا لیا اور اِس طرح اچانک سکھ اندر آ گئے۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ اُس روز ہمارے خاندان کے ستّر نوجوان بستروں کے اندر ہی قتل کر دیئے گئے ۔ پس اندر کا ایک غدّار باہر کے دس ہزار دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لئے ہم قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت باہر سے حملہ آور ہو تو دیانتداری کا تقاضا یہی ہے کہ تم غداری نہ کرو۔ اگر غدّاری کرو گے تو صرف ہماری جماعت کا ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تمہارا بھی ساتھ ہی ہوگا۔ اور یہ جو کسی احمدی نے کہا ہے کہ لڑائی کی صورت میں ہم ہندوؤں کو آگے رکھیں گے یہ اُس کا ذاتی خیال ہے۔ ہندوؤں کے لڑائی میں شریک ہونے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا یہ کہ ہندو لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور یا یہ کہ وہ لڑنے کی طاقت نہیںرکھتے۔ اگر وہ لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تو اُن کو آگے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اُن کو قتل کرانے کے لئے دوسروں کے سامنے پیش کریں۔ اور یہ ظلم کی بات ہے اور احمدیوں سے اِس قسم کے ظالمانہ سلوک کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ پس مَیں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ جس شخص نے ایسا کہا یہ اُس کا ذاتی خیال ہے۔ جماعت اُس کی اِس رائے سے اتفاق نہیں رکھتی۔
باقی رہا اپنے شہر کی حفاظت کرنا۔ سو اِس کے لئے کسی مسلمان یا ہندو یا سکھ کی تخصیص بے معنی بات ہے۔ اپنے شہر کی حفاظت کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو۔ لیکن اِس کے باوجود اگر کوئی شخص قادیان کی حفاظت میں حصہ نہیں لینا چاہتا تو ہماری طرف سے اُسے کھلی اجازت ہو گی کہ وہ بے شک حصہ نہ لے۔ ہم صرف اِس بات کی اُس سے خواہش رکھیں گے کہ وہ بیرونی دشمن کی کسی رنگ میں مدد نہ کرے اور اگرفرض کیا جائے کہ اُن میں لڑنے کی طاقت تو ہے لیکن وہ لڑنا نہیں چاہتے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو گو ہم اُن کے متعلق یہ ضرور کہیں گے کہ انہوں نے شہری حقوق ادا نہیں کئے اور وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر رہے وہ مجرم تو ضرور ہیں لیکن جماعت احمدیہ اپنے اعلیٰ اخلاق کے ماتحت ایسے لوگوں کو بھی مجبور نہ کرے گی۔ غرض اگر کوئی شخص لڑنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا یا کمزور دل ہے تو یہ بات اخلاق کے خلاف ہے کہ اُسے مجبور کر کے ساتھ شامل کیا جائے کیونکہ اُس کو مجبور کرکے ساتھ شامل کرنا اُسے قتل کرانے کے مترادف ہے اورعقل کے خلاف بھی ہے کیونکہ یہ شخص میدان سے بھاگے گا او رتمہاری صفوں میں رخنہ ڈال دے گا۔ اَور اگر اُس میں جرأت اور بہادری تو ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ مَیں تمہارے متعلق کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر تم مارے جاتے ہو تو بے شک مارے جاؤ مجھے تم سے کوئی ہمدردی نہیں تو ایسے شخص کو بھی لڑائی میں شامل کرنا عقل کے خلاف ہے۔ جس شخص کے دل میں تمہارے لئے کوئی ہمدردی نہیں اگر وہ مجبوراً لڑائی کے لئے نکلے گا بھی تو میدان سے بھاگ جائے گااور زیادہ فتنہ کا موجب بنے گا۔ پس دونوں صورتوں میں کسی کو مجبور کرنا عقل کے خلاف ہے۔ جو شخص ایک مَن بوجھ اٹھا سکتا ہے اُسے دو مَن اٹھانے پر مجبور کرنا عقل کے خلاف ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جہاد کیلئے یہ کیسا سخت حکم تھا کہ جو مسلمان جہاد کیلئے نہ نکلیں وہ اسلام سے خارج ہیں لیکن اس حکم کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی دیکھتے تھے کہ کون جہاد کے قابل ہے اور کون نہیں۔ حسّان بن ثابت ؓکا دل کسی بیماری کی وجہ سے سخت کمزور ہوگیا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد کے لئے جاتے تو حسّان بن ثابتؓ کو عورتوں کے پاس چھوڑ جاتے۔ جنگ احزاب کے موقع پر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا اور مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ مدینہ کے یہودی کفار کے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں سے غدّاری کرتے ہوئے کفار کی مدد کرنے لگ گئے۔ یہودیوں میں سے ایک آدمی جاسوس کے طور پر یہ دیکھنے کے لئے آیا کہ مسلمان عورتیں اور بچے کہاں ہیں؟ جس مکان میں مسلمان عورتیں جمع تھیں وہ اُس میں جھانک کر دیکھ رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُس کو دیکھ لیا اور آپ کو معلوم ہو گیا کہ یہ جاسوسی کرنے کے لئے یہاں آیا ہے۔ جب اُس یہودی کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہاں مسلمان عورتیں اور بچے ہیں اور حسّان بن ثابت کے سوا یہاں کوئی مردنہیں تو اُس نے واپس جانے کا ارادہ کیا تا کہ وہ یہود کواطلاع دے اور وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ حضرت صفیہؓ سمجھ گئیں کہ یہ جاسوس ہے کیونکہ اِس سے قبل یہ خبریں آ رہی تھیں کہ یہودی کفار کے ساتھ مل گئے ہیں۔ حضرت صفیہؓ نے حضرت حسّان ؓبن ثابت کو کہا یہ شخص جاسوس ہے۔ تم آگے بڑھو اور اسے قتل کر دوکیونکہ اگر یہ واپس چلا گیا تو سب مسلمان عورتیں اور بچے مار دیئے جائیں گے۔ حضرت حسّانؓ بن ثابت نے کہا اگر مَیں ایسا لڑنے والا ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہاں کیوں چھوڑ جاتے۔ حضرت صفیہؓ نے کہا اچھا تم بیٹھو اور تلوار مجھے دے دو۔ آپ نے تلوار لے کر اس پر حملہ کیا اور اسے زخمی کر کے گرا دیا۔5 جب وہ زخمی ہو کر گرا تو اُس کا کرتہ اُس کے منہ پر آ گیا اور وہ ننگا ہو گیا۔ یہودیوں میں اُس زمانہ میں رواج تھا کہ وہ ایک ہی لمبا سا کرتہ پہنتے تھے۔ بلکہ آجکل بھی گاؤں وغیرہ میں یہودی ایک ہی لمبا سا کُرتہ پہنتے ہیں۔ جب وہ ننگا ہوگیا تو حضرت صفیہؓ نے اپنا منہ ایک طرف کر لیا اور حضرت حسّانؓ سے کہا کہ تم اُس پر چادر ڈال دو پھر مَیں اُس سے ہتھیار چھین لونگی۔ حضرت حسّانؓ نے کہا بی بی! اگر اِس میں کچھ جان ہوئی تو پھر مَیں کیا کرونگا؟ آپ خود ہی کوئی تدبیر کریں۔چنانچہ حضرت صفیہؓ نے ایک طرف منہ کر کے اُس پر کپڑا ڈال دیا اور اُس سے ہتھیار چھین لئے۔ اب دیکھو! حسّانؓ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم حسّان کو آگے کریں گے۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ جس شخص کا دل کمزور ہے وہ پیچھے رہے تو بہتر ہے۔ پس اگر خدانخواستہ ایسا موقع آجائے تو احمدی ہندوؤں کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کریں گے۔ اور یہ فقرہ اگر کسی نے کہا ہے تو یہ اُس کی انفرادی غلطی ہے۔ ہمارا طریق یہی ہو گا کہ ہر وہ ہندو یا سکھ یا غیراحمدی جو حفاظتِ قادیان میں حصّہ نہیں لینا چاہتا ہم اُسے مجبور نہیں کرینگے کہ وہ اُس میں ضرور حصہ لے۔ یہ ہر ایک کی اپنی مرضی پر ہو گا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے شہر کی حفاظت میں حصہ لے یا نہ لے۔ ویسے ہر عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر شہر کو خدانخواستہ جلایا یا تباہ کیا گیا تو اُس میں ہندو ،سکھ اور غیر احمدی بھی اپنی نسبت کے لحاظ سے نقصان میں شریک ہوں گے۔ اگر ان کی آبادی کم ہے تو ان کا نقصان بھی کم ہوگا۔ لیکن بہرحال وہ بھی نقصان میں ضرور حصہ دار ہوں گے۔ بہرحال ہماری طرف سے خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی کے ساتھ شریفانہ معاملہ ہو گا۔ اور اگر کوئی احمدی غلطی سے کسی کو دُکھ دے گا تو ہم اسے سزا دیں گے کیونکہ کسی پر ظلم کرنا احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہے۔ بلکہ اسلام تو دوسری قوموں پرا حسان کرنے کاحکم دیتا ہے۔ ہماری انتہائی کوشش یہی ہو گی کہ ہمارے پاس جو امانتیں ہیں وہ بالکل محفوظ رہیں۔ ہم ہندوؤں، سکھوںاور غیر احمدیوں کی یہ بھی شرافت سمجھیں گے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ فساد نہ کریں۔ اور اگر وہ لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کم از کم روپیہ اور پراپیگنڈا کے ساتھ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔وہ اردگرد کے علاقہ میں یہ پراپیگنڈا کریں کہ ہمیں صلح کے ساتھ رہنے دیا جائے اور ہمارے علاقہ میں فساد برپا نہ کیا جائے اور اگر خدانخواستہ علاقہ میں فساد ہو جائے تو وہ بے شک اہنسا 6پر عمل کریںہم اُنہیں لڑائی کے لئے مجبور نہیں کریں گے۔ صرف جس حد تک وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں اُسی حد تک مدد کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً وہ حفاظت کے لئے چندہ دے سکتے ہیں اور اردگرد کے علاقہ میں پراپیگنڈا کر سکتے ہیں کہ ہم لوگ بالکل بھائیوں کی طرح دن بسر کر رہے ہیں۔ ہمارے شہر کو فساد میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اِسی طرح اور کئی ذرائع امداد کے ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو یقینا اِس سے اُن کی دیانت داری ظاہر ہو جائے گی۔‘‘
(الفضل 29؍ مئی 1947ئ)
1:کُندۂ ناتراش: (1) اَن گھڑی لکڑی (2)مجازاً: نالائق، احمق، بیوقوف، بے تمیز
2:تفسیر فتح القدیر جز ثالث صفحہ 450مطبوعہ مصر 1350ھ میں اسے امثال العرب میں شامل کیا گیا ہے
3:استھان: (1) مزار، مندر، آستانہ (2) جگہ، مقام، مسکن
4:بخاری کتاب التمنی باب کراھیۃ تمنی لقاء العدو (الخ)
5:سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 239مطبوعہ مصر 1936ء
6:اہنسا: ہندی لفظ ۔ تشدد کے مقابلے میں عدم تشدد۔ ظلم کوبرداشت کرنا اور قدرت کے باوجود جواب نہ
دینا۔ (اردو لغت تاریخی اصولوں پر)


20
مظلوم کی مدد کرنا ہر شریف انسان کا فرض ہے
(فرمودہ 30مئی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’پچھلے دنوں بعض دوستوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ پنجاب کے بعض حصوں میں مسلمانوں پر جو سختی ہوئی ہے اور اُن کے گھر اور اُن کی دکانیں جلا دی گئی ہیں۔ اُن کی امداد کے لئے مسلم لیگ کی طرف سے فی مربع زمین ایک من غلہ چندہ لگایا گیا ہے۔ آیا وہ مسلم لیگ کی اِس تحریک میں حصہ لیں یا نہ لیں؟ چونکہ یہ سوال سارے ہی پنجاب میں اٹھے گا اِس لئے مَیں اِس خطبہ کے ذریعہ سے اِس کا جواب دیتا ہوں۔ جہاں تک مظلوم کی امداد کا سوال ہے اسلام تمام مذاہب سے زیادہ اِس پر زور دیتا ہے کہ خود تکلیف اٹھا کر بھی مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مومن وہ ہے جو آپ بھوکا رہ کر دوسرے بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے۔1 حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مختلف جہات سے مسلمان دینِ اسلام سیکھنے کے لئے اور اسلام کے متعلق گہری واقفیت حاصل کرنے کے لئے آتے تھے۔ چونکہ اُس وقت مہمان خانہ نہ ہوتا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز کے بعد لوگوں میں اعلان کر کے مہمان تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مہمان ایسے وقت آیا کہ آسودہ حال لوگوں میں سے کوئی بھی اُس وقت مسجد میں نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اِس مہمان کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے؟ ایک غریب صحابیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مَیں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ وہ صحابی اُس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اُس دن اُن کے گھر کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ اُن کے ہاں صرف دو روٹیاں تھیں جن کے متعلق عورت کی یہ صلاح تھی کہ ایک خاوند کو کھلا دوں گی اور ایک بچوں کو کھلا دوں گی اور خود بھوکی سو رہوں گی۔ جب یہ صحابیؓ اُس مہمان کو ساتھ لے کر گھر پہنچے (اُس وقت تک ابھی پردے کا حکم نازل نہ ہواتھا) تو انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ کھانے کے لئے کچھ ہے یا نہیں؟ بیوی نے بتایاکہ دو روٹیاں ہیں۔ اس صحابیؓ نے بیوی سے کہا کہ بچوں کو کسی طرح سُلا دو۔ جب بچے سو جائیں گے تو ہم کھانا مہمان کے آگے رکھ دیں گے۔ بیوی نے کہا کہ مہمان اکیلا کس طرح کھائے گا؟ وہ ہمیں بھی ساتھ کھانے کو کہے گا۔ میاں نے کہا مَیں تمہیں کہوں گا کہ دیئے کی بتّی اونچی کر دو اور تم بتی اونچی کرنے کے بہانہ سے دِیا بجھا دینا۔ جب اندھیرا ہو جائے گا توہم ساتھ بیٹھ کر خالی مچاکے مارتے جائیں گے اور مہمان یہ سمجھے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ بیوی نے بچوں کو سُلا دیا۔ اور جب کھانا کھانے کا وقت آیا تو میاں نے بیوی سے کہا کہ روشنی ذرا اونچی کر دو۔ اُس وقت گھروں میں دیئے ہوتے تھے جن میں روئی کی بتی ڈالی جاتی ہے اور جن کوبجھانا کوئی مشکل بات نہیں ہوتی۔ بیوی نے روشنی اونچی کرتے ہوئے بتی نیچے گرا دی جس سے دیا بُجھ گیا۔ میاں بیوی کو بناوٹی طور پر خفا ہونے لگا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اب مہمان کو تکلیف ہو گی۔ جاؤ اور کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ اور آگ لا کر دیا روشن کرو۔ مہمان کو اس طرح اندھیرے میں بٹھانا ٹھیک نہیں۔ بیوی نے جواب دیا اب مَیں کیا کروں؟ کس کو جا کر تکلیف دوں؟ سب لوگ سو گئے ہوں گے۔ اب اسی طرح اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیں۔ یہ لازمی بات تھی کہ مہمان نے یہی کہنا تھا ہاں رہنے دیجئے ہم اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے اندھیرے میں ہی مہمان کے سامنے کھانا رکھا۔ مہمان نے کھانا شروع کر دیا اور یہ میاں بیوی ساتھ بیٹھے خالی مچاکے مارتے چلے گئے۔ مہمان یہ سمجھا کہ میاں بیوی میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے مہمان کو کھانا کھلا کر سُلادیا۔ صبح نماز کے لئے وہ صحابی مسجد میں گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے سلام پھیر کر فرمایا اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ مَیں نے ایک بات کہنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائی ہے۔ سب صحابہؓ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہے۔ آپؐ نے فرمایا ایک شخص کے گھر مہمان آیا اور اُس نے اپنے مہمان کو کھانا کھلانے کے لئے اِس اِس طرح کیا۔ وہ سارا واقعہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو الہاماً بتا دیا اور آپؐ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ صحابیؓ بیچارا دل میں ڈرتا تھا کہ پتہ نہیں اب مجھے کیا سرزنش ہو گی ۔ لیکن جب آپؐ سارا واقعہ بیان فرما چکے تو آپؐ ہنس پڑے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بھی اِس شخص کی نیکی کو دیکھ کر عرش پر ہنسا اِس لئے مَیں بھی ہنسا ہوں۔2 تو دیکھو قربانی کر کے کسی کو آرام پہنچانا اللہ تعالیٰ کے حضور کتنا مقبول ہوتا ہے۔
وہ لوگ جن کے گھر بار جل گئے ہیں اُن کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ بعض عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند مارے گئے ہیں۔ بعض بچوں کے ماں باپ مارے گئے ہیں او ر بعض کے نوجوان کمانے والے بیٹے مارے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی امداد کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ا گر مسلم لیگ کوئی چندہ مانگتی ہے توہماری جماعت کے لوگوں کو دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا چاہیئے۔ ہم اپنے طور پر بھی مظلومین کی امداد کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اِس وقت تک پنتالیس ہزار روپیہ بہار ریلیف فنڈ میں بھجواچکے ہیں اور قریباًدس ہزار روپیہ اِس سے پیشترخرچ کر چکے ہیں اور پانچ ہزار روپیہ ہم نے نواکھالی (NOAKHALI) 3کے مظلومین کی امداد کے لئے بھیجا تھا۔ اِسی طرح ہم نے امرتسر کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے بھی ایک رقم مقرر کی ہے جو کہ اِس وقت بھیجی جا چکی ہو گی اور اگر نہیں بھیجی گئی تو بہت جلد بھیج دی جائے گی۔ پس باوجود اِس کے کہ ہم نے اِس سے قبل مظلومین کے لئے چندہ دے دیا ہے۔ اب اگر ہم زیادہ قربانی کر کے دوبارہ چندے میں شامل ہوں تو یہ بات ہمارے ثواب کو بہت بڑھانے کا موجب ہو گی۔ پس ہماری جماعت کو اِس معاملہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے۔
لیکن ایک اَور اصول جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح ہمیں امرتسر کے مصیبت زدہ مسلمانوں کا دکھ درد ہے اِسی طرح ہمیں راولپنڈی اور ملتان کے ہندوؤں کا بھی دکھ درد ہے۔ مومن کسی کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ اِس لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں ہم امرتسر کے مسلمانوں کی امداد کریں گے وہاں ہم راولپنڈی اور ملتان کے ہندوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کریںگے۔ اگر ہم صرف ایک فریق کی امداد کریں تو قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تم نے بہار کے مسلمانوں کی مدد کی، تم نے امرتسر کے مسلمانوں کی مدد کی، تم نے دوسری جگہوں کے مسلمانوں کی مدد کی لیکن کیانواکھالی اور راولپنڈی اور ملتان کے ہندو میرے بندے نہ تھے؟ تم نے اپنی قوم کی جنبہ داری کی وجہ سے مدد کی۔ میری خاطر تم نے مظلومین کی مدد نہیں کی۔ اگر تم میری خاطر یہ کام کرتے تو ہندوؤں کو نظر انداز نہ کرتے۔ کیونکہ میرا حکم تو تمام بندوں سے ہمدردی کا ہے۔ پس میں صرف یہی نہیں کہتا کہ تم امرتسر کے مسلمانوں کی مدد کرو بلکہ اگر راولپنڈی اور ملتان کے ہندوؤں کی امداد کا کوئی سامان موجود ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ جب مَیں نے نواکھالی کے مظلومین کے لئے پانچ ہزار روپیہ بھجوایا تو جماعت میں سے بھی اور باہر سے بھی مجھ پر اعتراضات کئے گئے۔ لیکن مَیں نے ایک کان سے سُنے اور دوسرے سے نکال دیئے۔ کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ کل کو یہی چیز ان اعتراض کرنے والوں کو اچھی نظر آئے گی۔ اور میرا خیال غلط نہ تھا۔ آخر بدی کو کسی طرح روکنا ہی پڑے گا۔ اگر صرف بدلے سے روکنے کی کوشش کی جائے تو اِس طرح تو بدی رُک نہیں سکتی۔ آخر کسی ایک فریق کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ مَیں اپنے دکھ کا بدلہ نہیں لیتا فساد کو ختم کیا جائے۔ جب تک یہ طریق اختیار نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہم اس بات کو نہیں چھپاتے کہ ہم نے بہار کے مسلمانوں کی امداد کی ہے اور اب امرتسر کے مسلمانوں کی امداد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس پر بھی اعتراض کریں بلکہ بعض انگریز حکام اس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اُن کا اعتراض کرنا نادانی سے ہے۔
مظلوم کی مدد کرنا ہر شریف انسان کا فرض ہے۔ لیکن ہم میں اور دوسرے لوگوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ گورنمنٹ بھی امداد کرنے میں رعایت سے کام لیتی ہے اور ہندو بھی اپنی قوم کی رعایتیں کرتے ہیں اور مسلمان بھی اپنی قوم کی رعایتیں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا یہ جُرم ہے کہ ہم رعایت سے کام نہیں لیتے اور ہم ہر مظلوم کی مدد کرتے ہیں۔امرتسر میں جس طرح دو مہینے سے برابر کرفیو چلا آتا ہے اُس کو دیکھ کر انسان یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اُن مزدوروں کی کیا حالت ہو گی جو کہ روزانہ مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ گورنمنٹ کا اُن کو دو گھنٹے کے لئے اجازت دے دینا کہ اپنے لئے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو بڑی مہربانی سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے ساتھ یہ نہیں سوچا جاتا کہ وہ خریدیں گے کہاں سے اور خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ امرتسر میں قریباً پچاس ہزار مزدور پیشہ لوگ ہیں اور وہاں قریباً دو ماہ سے کرفیو لگا ہو اہے۔ اِن حالات میں اُن کے لئے محنت مزدوری کرنا بالکل ناممکن ہے۔ 5مارچ کو امرتسر میں فساد شروع ہوئے۔ اِس لحاظ سے دومہینے سے بھی زائد عرصہ بنتا ہے۔ اِس صورت میں درحقیقت گورنمنٹ کا فرض تھا کہ ایسے لوگوں کے لئے روٹی کا انتظام کرتی قطع نظر اِس کے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ تمام وہ لوگ جو کہ روٹی کے محتاج ہیں ان کو روٹی دی جاتی۔ خواہ گورنمنٹ ان کے لئے غلہ مہیا کرتی یا اَور کوئی صورت پیدا کرتی۔ بہرحال یہ گورنمنٹ کا فرض تھا کہ ان کے کھانے کا انتظام کیا جاتا۔ پرانے زمانے میں حاکم کو مائی باپ کہا جاتا تھا۔ اس کا کوئی مفہوم لے لو۔ لیکن اِس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حاکمِ وقت ماں باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ماں باپ بھی ایسے ہیں جو اپنے بچوں کا ایک دن کا بھی فاقہ دیکھ سکیں؟ کُجا یہ کہ وہ متواتر دو ماہ سے فاقے پر فاقہ کاٹتے آ رہے ہوں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ایسے فاقہ زدہ لوگوں کے لئے روٹی کا انتظام نہیں ہو گا فساد نہیں رُکے گا۔ لوگ اپنے بال بچوں کو کس طرح بھوکا دیکھ سکتے ہیں؟ چنانچہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ جب بھوک سے تنگ آ جاتے ہیں تو دوسروں کے گھروں پر حملہ کر دیتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں تمہارے پاس یہ چیزیں ہیں۔ مثلاً تمہارے پاس کرسیاں ہیں، میزیں ہیں، گھڑیاں ہیں، تعیّش کے سامان ہیں لیکن ہمارے بچے بھوکے مر رہے ہیں ہمیں کچھ پیسے دو نہیں تو ہم تمہارے گھر کو آگ لگا دیں گے۔ یہ فعل بے شک خلافِ شریعت اور خلافِ قانون ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس فعل کا محرک کونسا امر ہے؟ اگر گورنمنٹ ان کے لئے کھانے کا انتظام کر دے تو وہ خود ہی ایسی حرکات سے باز آ جائیں گے۔
گورنمنٹ کا یہ رویہ یقینا قابلِ اعتراض ہے۔ جب گورنمنٹ جیل میں قاتلوں اور مجرموں کو کھانا دیتی ہے جن کا کہ جُرم ثابت ہوتاہے اور اِن لوگوں کا تو جُرم بھی ثابت نہیں تو ان کے کھانے کا کیوں انتظام نہیں کرتی۔ پس گورنمنٹ کو چاہیئے کہ وہ اِن مزدوروں کے لئے کھانے کا انتظام کرے۔ اگر گورنمنٹ ایسا کرے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ فسادات بہت حد تک رُک جائیں۔ تم اس نظارہ کا تصور تو کرو کہ پولیس کے سپاہی روٹیوں کے ٹوکرے اٹھائے ہوئے ہوں اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور دوسرے افسر لوگوں میں روٹیاں تقسیم کروا رہے ہوں۔ اِس احسان کے بعد ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے اکثر لوگوں کو شرم آئے گی۔ کیونکہ ایسے محسنوں کی بات کو ردّ کرتے ہوئے ہر انسان پانی پانی ہو جاتا ہے۔ پس یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ مزدور پیشہ لوگوں کے کھانے کا انتظام کرے۔ اور اگر وہ کسی مصلحت کی بناء پر انتظام نہیں کرنا چاہتی تو اُس کا کوئی حق نہیں کہ وہ امداد کرنے والوں پر اعتراض کرے۔ ہم جنبہ داری کی وجہ سے کسی قوم کی امداد نہیں کرتے بلکہ ہم ہر مظلوم کی امداد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ کسی قوم اور کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو ایک نہایت اہم امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے۔ یہ کوئی سوسائٹی نہیں کہ جو اپنے لئے کچھ اصول طے کر کے کام کو چلا رہی ہواور انہی اصولوں کے اندر اپنے کاموں کو محصور رکھتی ہو ۔بلکہ ہر نیک کام کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور ہر بدی کو دور کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اسلام کی تبلیغ کو اکنافِ عالَم تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ اِن اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہی مَیں نے تحریک جدید جاری کی۔ جس کے ماتحت مختلف سکیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان سکیموں کو چلانے کے لئے جماعت کے لوگوں سے مَیں نے وقفِ زندگی کا مطالبہ کیا تھا۔ میرے مطالبہ پر جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں اُن میں سے بعض کو مبلغ بنایا گیا ہے، بعض کو مدرّس بنایا گیا ہے اور بعض کو دوسرے کاموں پر لگایا گیا ہے۔ ایک واقفِ زندگی چپڑاسی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک واقفِ زندگی کلرک بھی ہو سکتا ہے۔ ایک واقفِ زندگی خزانچی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک واقفِ زندگی صنّاع بھی ہو سکتا ہے اور ایک واقفِ زندگی تاجر بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ مختلف لوگوںکو مختلف کاموں پر لگا دیا گیا ہے اور لگایا جا رہا ہے۔ بعض نوجوانوں کو مبلغ بنا کر ہندوستان سے باہر بھیجا گیا ہے۔ اور کچھ ہندوستان میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے بھائیوں کی جگہ جا کر کام کریں ۔اور کچھ ایسے ہیں جو دفاتر میں بطور انچارج کام کر رہے ہیں اور کچھ اکاؤنٹینسی (ACCOUNTANCY) کا کام کر رہے ہیں اور کچھ زمیندارہ کاموں کی نگرانی پر لگے ہوئے ہیں اور کچھ سلسلہ کے کارخانوں میں نگران کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ایک حصہ ایسا تھا جو کہ وقفِ زندگی کے مطالبہ میں شامل نہ ہو سکتا تھا اور وہ زمینداروں کا طبقہ تھا۔ کئی دفعہ زمینداروں نے مجھے کہا کہ کیا ہمارے لئے بھی کوئی صورت وقفِ زندگی کی ہے؟ ہم لوگ اَنْ پڑھ ہیں۔ زندگی وقف کرنے کی صورت میں ہم سلسلہ کا کوئی کام سرانجام دے سکیں گے یا نہیں؟ مَیں انہیں جواب دیتا تھا کہ میرے ذہن میں ابھی تک کوئی صورت ایسی نہیں آئی اور مَیں برابر غور کرتا چلا آ رہا تھا۔ چنانچہ اب تبدیل شدہ حالات کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے زمینداروں کے لئے بھی موقع پیدا کر دیا ہے اور آج مَیں جماعت کے زمینداروں کو بلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور اُن کو جو گزارے دیئے جائیں اُن کو انعام سمجھ کر کام کرتے چلے جائیں۔ پس آج زمینداروں کے لئے موقع ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ مَیں یہ الفاظ یونہی نہیں بول رہا بلکہ اِن میں ایک حکمت اور مصلحت ہے جس کا ابھی اظہار مفید نہیں۔ بہرحال زمینداروں کو چاہیئے کہ وہ سلسلہ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور جہاں ہم اُن کو بھیجیں وہاں جائیں اور جن حالات میں ہم ان کو رہنے کے لئے کہیں اُن حالات میں وہ رہیں۔ اور جو فیصلے اُن کے گزارہ کے لئے ہم کریں وہ اُس پر اُسی خندہ پیشانی سے کام کریں جس خندہ پیشانی سے ہمارے دوسرے واقفین آجکل کام کر رہے ہیں۔ ہمارے مبلغوں میں بعض بی۔ اے ہیں، بعض ایم۔ اے ہیں، بعض وکیل ہیں اور بعض انٹرنس (ENTRANCE) پاس ہیں۔ ہم نے اُن میں سے ہر ایک کے حالات کے مطابق اُن کے گزارے مقرر کئے ہیں اور وہ گزارے نہایت غریبانہ ہیں۔ اِسی طرح زمینداروں میں سے جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کریں گے ہم اُن کو ایسی جگہوں پر کام کرنے کے لئے لگائیں گے جو سلسلہ کے لئے مفید ہوں گی اور اُن کا کام زمیندارہ ہی ہو گا لیکن یہ کہ اُن کو کس جگہ کام کرنا ہو گا یا کیسے کام کرنا ہو گا یہ باتیں بعد میں بتائی جائیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جگہ ہم اُن کو گزارہ رقم کی صورت میں دے دیں اور کسی جگہ گزارہ غلے اور پیداوار کی صورت میں دے دیں۔ مثلاً نصف پیداوار سلسلہ کی اور نصف اُن کی۔ یا دو تہائی اُن کی اور ایک تہائی سلسلہ کی۔ یا اِ س سے کم و بیش کسی طریق سے۔ یہ تفصیلات اِس وقت بیان نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی اُن کا بیان کرنا مفید ہے۔ مختلف حالات میں مختلف جگہوں پر کام کرنا ہو گا اور اِس میں غلط فہمی کاسوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہاں کوئی ملازمت کا سوال تو درپیش نہیں کہ بعد میں غلط فہمی کا خطرہ ہو۔ جو شخص زندگی وقف کرتا ہے۔ اُسے اِس سے کیا مطلب ہے کہ اُسے زیادہ گزارہ ملتا ہے یا کم گزارہ ملتا ہے۔ اُس نے تو اپنی جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دی۔ اُسے اس بات کا کیا ڈر ہو سکتا ہے کہ میرے ساتھ کیسا سلوک ہو گا اور مجھے میرے کام کا کیا بدلہ ملے گا؟ اُس کے کام کا بدلہ تو اسے اللہ تعالیٰ ہی دے گا اور وہ بھی اِسی نیت سے زندگی پیش کرتا ہے کہ میرے کام کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مجھے بندوں سے بدلہ کی امید نہیں۔ زیادہ گزارے یا کم گزارے کاخیال تو ملازمین کو ہوتا ہے۔ واقفِ زندگی کے لئے اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمارے پاس زیادہ ہو گا تو ہم واقفین کو زیادہ دے دیں گے اور اگر کم ہو گا تو کم دیں گے۔ اور اگر بالکل نہ ہو گا تو ہم ان کو کچھ بھی نہیں دیں گے اوران سے کہہ دیں گے کہ مانگ کر کھاؤ اور سلسلہ کا کام کرو۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔
گوتم بدھ ؑکے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا۔ گوتم بدھؑ نے دیکھا کہ چندوں اور تنخواہوں سے تو کام نہیں بنتا ان کے پاس جو شاگرد آتے تھے آپ اُنہیں ایک جھولی دے دیتے کہ مانگ کر کھاؤ اور بدھ مذہب کی تبلیغ کرو۔ نہ گزارے کی شرط نہ تنخواہ کی شرط، مانگو اور تبلیغ کرو۔ اُن کی زندگی میں ایک عجیب مثال پائی جاتی ہے۔ گوتم بدھ ؑکے گھر جوانی میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ چونکہ وہ دنیاوی کاموں سے بہت دور رہتے تھے۔ والدین نے اُن کی بچپن میں ہی شادی کر دی تھی۔ لڑکے کی پیدائش کے بعد انہوں نے گھر بار چھوڑ دیااور عبادات کرنے کے لئے جنگلوں کی طرف چلے گئے اور جنگلوں میں جا کر ہی آپ کو الہام ہونا شروع ہوا۔ گوتم بدھؑ کا باپ اُس علاقے کا بادشاہ تھاا ور اُن کی حکومت کا یہ قانون تھا کہ حکومت باپ کے بعد بیٹے کو ملتی تھی پوتے کو نہیں۔ اب گوتم بدھؑ تو بادشاہ بننے سے انکار کر چکے تھے اور پوتا تخت کا وارث نہیں ہو سکتا تھا۔گوتم بدھؑ کے باپ نے یہ تجویز کی کہ اپنے پوتے کو فقیروں کا لباس پہنایا اور اس سے کہا کہ تم جا کر گوتم بدھؑ سے راج کی بھیک مانگو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گوتم بدھؑ اسے بادشاہت پر قابض ہونے کی اجازت دے دے گا تو مَیں اپنے پوتے کو تخت پر بٹھا دوں گا۔ چنانچہ گوتم بدھؑ کا بیٹا ان کے پاس گیا اور کہا مَیں آپ سے راج کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ گوتم بدھ ؑکے نزدیک تو اصل راج وہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تم سچے دل سے بھیک مانگنے آئے ہو؟ اس نے کہا ہاں سچے دل سے بھیک مانگنے آیا ہوں۔ انہوں نے نائی کو بلوایا اور اس کے سر کے بال منڈوا کر اسے فقیری کا خرقہ4 پہنا دیا۔ اور کہا یہی راج ہمارے پاس ہے۔ جاؤ اور اس راج کی تبلیغ کرو۔ گوتم بدھؑ کے باپ کو جب معلوم ہوا تواسے غش پر غش آنے لگے کیونکہ اس کے معنی یہ تھے کہ حکومت اُس کے خاندان میں سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔ آخر باپ نے گوتم بدھؑ کو بلایا اور انہیں کہا کہ خاندان کو تو تم نے تباہ کر دیا۔ لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے انصاف کیا ہے کہ ایک نابالغ لڑکے کو اس کے متکفل کی اجازت کے بغیر تم نے اُس کے حق سے محروم کر دیا۔ آئندہ کے لئے عہد کرو کہ تم کسی نابالغ کو بھکشو نہیں بناؤ گے۔ چنانچہ گوتم بدھ ؑنے یہ عہد کیا اور آئندہ کے لئے حکم دے دیا کہ کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنایا جائے۔ چنانچہ اب بدھوں میں نابالغ کو بھکشو نہیں بناتے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا۔ جھولی لو اور مختلف ممالک میں پھیل جاؤ۔ اور صرف آج کی روٹی کا ذکر کرو۔ کل کی روٹی تمہیں کل مل جائے گی۔5 اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم جہاں جاؤ اُس علاقے کے لوگوں پر تین دن تک تمہاری روٹی کاحق ہے۔6 اس لئے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے روٹی کے لئے پریشان نہ ہو۔ جہاں جاؤ اُس علاقہ کے لوگوں سے لے لو۔ پس اشاعتِ مذہب کے لئے صحیح طریق یہی ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے دینی کام کئے جاویں۔
اِس زمانہ کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ہم قدم بقدم چل رہے ہیں۔ پہلے ہمارے پاس کوئی مبلغ نہ تھا۔ پھر ہم نے تنخواہ دار مبلغ رکھے اور پھر وقفِ زندگی کے مطالبہ کے ماتحت تنخواہ کا سوال ہی اُڑا دیا۔ اب آہستہ آہستہ وہ زمانہ بھی آ جائے گا کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ جھولیاں ڈال کر تبلیغِ اسلام کے لئے نکل جائے گا اور خدا کے نام پر اگر کسی نے کچھ کھانے کو دیا تو کھا لیں گے اور خدا تعالیٰ اورا س کے رسول کا نام اکنافِ عالَم میں پھیلاتے چلے جائیں گے۔ہر گروہ اپنے اپنے وقت پر آگے آئے گا اور دین کا کام کرے گا۔ اِسی سلسلہ میں اب زمینداروں کے لئے موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آگے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے رستہ کھول دیا ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو زمیندارہ کام جانتے ہوں اور سخت سے سخت کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ممکن ہے ہمیں ان کو ایسی جگہ بھیجنا پڑے جہاں گھنے جنگل ہوںا ور ان جنگلات میں درندے وغیرہ ہوں اور ممکن ہے کہ سندھ کی زمینوں پر بھی اُن سے کام لیا جائے کیونکہ مَیں چاہتا ہوں کہ سلسلہ کی زمینوں پر جہاں باقی کارندے واقفِ زندگی ہوں وہاں مزارع بھی واقفین ہی ہوں۔ یعنی ہل چلانے والا بھی واقفِ زندگی ہو اور ہل چلوانے والا بھی واقفِ زندگی ہو اور نگرانی کرنے والا بھی واقفِ زندگی ہو۔ اِس کے علاوہ بھی ہمیں بعض جگہ فوری طور پر زمینداروں کی ضرورت ہے جو ہر تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہوںاور ایسا کام سوائے واقفین کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ ہماری جماعت کے لوگوں میں ایڈونچرس(ADVENTUROUS) روح ہونی چاہئیے یعنی ہمت اور خطرہ والے کاموں کی خواہش ہونی چاہیئے کیونکہ جس قوم میں مافوق العادت کام کرنے کی روح پیدا نہیں ہوتی وہ ترقی نہیں کر سکتی۔
انگریزوں پر دوسری اقوام حسد کرتی ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور افریقہ کے ممالک پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن آج سے تین چار سو سال قبل جبکہ نہ ریل تھی او رنہ ڈاک و تار کا کوئی انتظام تھا انگریز نوجوان اپنے گھروں سے نکلے اور انہوں نے غیر ملکوں میں جا کر ان کو آباد کیا، وہاں کے باشندوں کو تہذیب سکھائی۔ جن لوگوں نے یہ تکلیف اٹھائی وہی اِس قابل تھے کہ اُن علاقوں پر حکومت کرتے۔ لیکن وہ لوگ جواپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہے اُن کو دوسری اقوام پر حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ ہماری جماعت بھی اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اُسے مافوق العادت کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ اُس کے افراد میں سفروں کا شوق ہونا چاہیئے۔ غیر جماعت میں جانے کاشوق ہونا چاہیئے اور نئے نئے علوم اور نئے نئے پیشے سیکھنے کا شوق ہونا چاہیئے۔ مَیں جب فلسطین گیا تھا اُس وقت یہودیوں کی آبادی دس فیصدی تھی اور عیسائیوں کی آبادی بھی دس فیصدی تھی اور مسلمانوں کی آبادی اسّی فیصدی تھی۔ لیکن اسٹیشنوں پر مَیں نے دیکھا کہ سفر کرنے والوں میں اسّی فیصدی یہودی تھے اور بیس فیصدی دوسری اقوام ۔ اُس وقت ہی مَیں نے کہہ دیا تھا کہ اِس قوم میں ترقی کی امنگ شدت کے ساتھ پیدا ہو رہی ہے اور اِس کے پھیلنے کے آثار نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہونہار برواکے چکنے چکنے پات‘‘۔ ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے جب اس میں مافوق العادت کام کرنے کی روح پیدا ہو جائے۔ ہم جماعت کے باہر نکلنے کے لئے مختلف ذرائع پیدا کر رہے ہیںاور ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر بعض جگہ زمینوں کا انتظام کر رہے ہیں وہاں زمیندار پیشہ لوگوں کو بسایا جائے گا۔ بعض زمینیں ہم نے قیمتاً خریدی ہیں اور بعض ہمیں مفت ملی ہیں۔ لیکن یہ کام تبھی چل سکتے ہیں جب جماعت کے زمیندار ہمارے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں اور اپنی زندگیاں وقف کر کے سلسلہ کی مضبوطی کا موجب بنیں۔ جو شخص اپنی زندگی پیش کر دیتا ہے وہ محنت کے ساتھ کام کرتا ہے اور وہ خود بھی کامیاب ہوتا ہے اور جماعت کی کامیابی…٭وہ پڑھے ہوئے تھے اِس لئے وہ مبلغین بن گئے۔ ٭ اصل میں اسی طرح ہے۔ یہ اَن پڑھ ہیں تو زمیندارہ کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کون پڑھا ہوا تھا اور کون اَن پڑھ تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ میری خاطر جان کس نے پیش کی؟ اور جان پیش کرنے کے لحاظ سے پڑھا ہوا اور اَن پڑھ دونوں برابر ہیں اور ثواب میں برابر کے شریک ہیں۔ جو کچھ پڑھے ہوئے کے پاس تھا اُسنے پیش کر دیا اور جو کچھ اَن پڑھ کے پاس تھا اُس نے پیش کردیا۔ اِس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ پس یہ زمینداروں کی حسرت کے پورا ہونے کا موقع ہے۔ اُن کو چاہیئے کہ وہ قربانی کر کے پڑھے ہوئے لوگوں کے برابر ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ ‘‘ (الفضل 4؍ جون1947ئ)
1: (الحشر:10)
2:بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الحشر باب قولہ
3:نواکھالی:بنگلہ دیش کا ایک شہر جو چٹا گانگ ڈویژن میں واقع ہے۔
4:خرقہ: گُدڑی، درویشوں کا لباس
4:لوقا باب 22آیت 36
5:بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان


21
حضرت مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب کی وفات سے جماعت کو ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے
(فرمودہ 6 جون 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’جہاں یہ مسلّمہ امر ہے کہ جماعت کا فائدہ ہی اصل اور حقیقی چیز ہوتا ہے اور افراد، جماعت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہاں یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جماعتیں افراد سے بنا کرتی ہیں اور جس قسم کے افراد کسی جماعت میں پائے جاتے ہوں اُس کے مطابق ہی جماعت کی عزت اور مرتبہ ترقی کرتا ہے۔ اِس لئے جہاں جماعت کا شیرازہ بکھرنے سے افراد کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور اُن کا فائدہ اور اُن کی نفع رسانی محدود ہو جاتی ہے وہاں اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افراد کی قیمت کے مطابق جماعت کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ اِس وجہ سے جہاں جماعت کی شیرازہ بندی اور اُس کا اتفاق اور اتحاد قائم رہنا ضروری ہوتا ہے وہاں افراد کا معیارِ اخلاق اور معیارِ تقویٰ بلند رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ بلند مرتبہ انسانوں کے بغیر جماعت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جس طرح پہلے زمانہ میں ہوتا رہا ہے آپؐ کوبھی اللہ تعالیٰ نے چوٹی کا دماغ رکھنے والے آدمی دیئے۔ جہاں یہ سچ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اور اسلام نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ جیسے انسان پیدا کئے وہاں اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ذکی اور فہیم انسان اللہ تعالیٰ نے اِس لئے چُن لئے کہ اسلام کی بہترین خدمت یہی لوگ کر سکتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اسلام نے ان لوگوں کے نام روشن کئے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اِن لوگوں کے ذریعہ اسلام کانام روشن ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کی جگہ اگر کوئی اَور لوگ ہوتے جو اس قسم کا دماغ نہ رکھنے والے ہوتے تو ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ لوگ بھی اُسی قسم کے کارنامے کرتے جیسے ان لوگوں نے کئے۔ یہ الہٰی تدبیر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہترین دماغ رکھنے والے انسان جو کہ مذہب کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں ،مذہب کی بنیادوں کو مضبوط کر سکتے ہیں انبیاء کو عطا کرتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک بہادری کا سوال ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کے مخالفین میں بھی بڑے بڑے تجربہ کار جرنیل تھے۔ لیکن مسلمان بہادروں کے سامنے آ کر وہ رہ جاتے تھے۔اِ س سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہی ضروری ہیں۔ یعنی ذاتی جوہر کے ساتھ جب آسمانی روشنی مل جاتی ہے تو وہ انسان بہت بڑے کام کرنے لگ جاتا ہے۔ وہی ذاتی قابلیت رکھنے والے انسان جب کفار میں تھے تو وہ صرف قبائلی سردار تھے۔ لیکن جب وہ مسلمان ہو گئے تو اُنہوں نے بَیْنَ الْاَقوامی شہرت حاصل کر لی۔ یہ بَیْنَ الْاَقوامی شہرت حاصل کرنے والے انسان مثلاً عمرو بن عاصؓ یا خالد بن ولیدؓ بچپن میں ہی اسلام نہیں لائے تھے بلکہ وہ ایسی عمر میں ایمان لائے جبکہ وہ کفار کی طرف سے کئی لڑائیوں میں شامل ہو چکے تھے۔ ان لڑائیوں کے اوقات میں بھی ان میں اچھے جوہر موجود تھے اور وہ اُس وقت بھی بہادر اور دلیر تھے۔ لیکن ہر دفعہ مسلمانوں کے سامنے پیٹھ پھیر کر بھاگنے پر مجبور ہوتے تھے۔ مگر جب وہ مسلمان لشکر میں آ گئے تو اُنہوں نے ایسے کارہائے نمایاں کئے کہ یورپ اور امریکہ میں انکی سوانح حیات کے متعلق اور اُن کے کارناموں کے متعلق کتابیں لکھی گئیں۔ جب تک وہ قبائلی سرداروں کے ساتھ تھے وہ ایک قبائلی سردار تھے۔ اسلام لانے سے پہلے عمرو بن عاصؓ اورخالد بن ولیدؓ کی حیثیت ایک قبائلی سردار کی سی تھی لیکن جب یہ لوگ اسلامی لشکر میں شامل ہوئے تو اُنہوں نے ایسی شہرت اور عظمت حاصل کی کہ آسمان کے ستاروں سے بھی آگے نکل گئے۔ وہ صرف معلومہ دنیا کے کناروں تک ہی مشہور نہیں ہوئے بلکہ اُن کی شہرت دنیا کی زندگی اور وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی ا ور آج تک اُن کو نہایت عزت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ پس افراد سے قومیں بنتی ہیں اور قوموں سے افراد بنتے ہیں۔ اعلیٰ دماغوں کے مالک ذہین اور نیک انسان قوموں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔اور اعلیٰ اور نیک مقاصد اچھے اور ہوشیار لوگوں کے ہاتھ آ کر بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سلوک کیا کہ آپ کے دعوے کی ابتداء میں ہی بعض ایسے افراد آپؑ پر ایمان لائے جو کہ ذاتی جوہر کے لحاظ سے بہترین خدمات سرانجام دینے والے تھے اور اس کام میں آپؑ کی مدد کرنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سپرد کیا تھا۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ واقع میں وہ لوگ بہترین مددرگار اور معاون ثابت ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہی حضرت خلیفہ اوّل مولوی نور الدین صاحب کی توجہ آپ کی طرف پھری اور آپ نے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کیا تو نبوت کے متعلق بعض مضامین اپنی ابتدائی کتب ’’فتح اسلام‘‘ اور’’ توضیح مرام‘‘ میں بیان فرمائے۔ ایک شخص نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظنی رکھتا تھا ان کتابوں کے پروف کسی طرح دیکھے تو وہ جموں گیا اور اُس نے کہا آج میں نے مولوی نور الدین صاحب کو مرزا صاحب سے ہٹا دینا ہے۔ اُس وقت حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے۔ دعویٰ مسیحیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتح اسلام اور توضیح مرام کی اشاعت کے زمانہ میں کیا جو بیعت سے قریباً دو سال بعد ہوا اور اِنہیں میں مسئلہ اجرائے نبوت کی بنیاد رکھی۔ جب اُس شخص نے آپ کی کتب میں نبوت کے جاری ہونے کے متعلق پڑھا تو اُس نے کہا اب تو یقینا مولوی نور الدین صاحب مرزا صاحب کو چھوڑ دیں گے کیونکہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ جب وہ یہ سنیں گے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے تو وہ مرزا صاحب کے مرید نہیں رہیں گے۔ چنانچہ اُس شخص نے اپنے ساتھ ایک پارٹی لی اور خراماں خراماں حضرت مولوی صاحب کی طرف چلے۔ جب آپ کے پاس پہنچے تو اُس شخص نے حضرت مولوی صاحب سے کہا مَیں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے کہا فرمائیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ اس شخص نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ میں اِس زمانہ کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کے بعد امتِ محمدیہ میں نبوت جاری ہے تو آپ اُس کے متعلق کیا خیال کریں گے؟ اُس شخص نے تو یہ خیال کیا تھا کہ مَیں ایک مولوی کے پاس جا رہا ہوں۔ لیکن اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ مَیں ایک مولوی کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے پاس جا رہا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کا کام لینا چاہتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اِس سوال کا جواب تو دعویٰ کرنے والے کی حالت پر منحصر ہے کہ آیا وہ اس دعویٰ کامستحق ہے یا نہیں۔ اگر یہ دعویٰ کرنے والا انسان راستباز نہ ہوگا تو ہم اُسے جھوٹا کہیں گے اور اگر دعویٰ کرنے والا کوئی راستباز انسان ہے تو مَیں یہ سمجھوں گا کہ غلطی میر ی ہے۔ حقیقت میں نبی آ سکتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے اُس شخص نے جب میرا یہ جواب سُنا تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا چلو جی! ایہہ بالکل خراب ہوگئے ہیں۔ اب اِن سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے۔ اِس پر مَیں نے اُسے کہا مجھے یہ تو بتا دو کہ بات کیا تھی؟ تو اُس نے کہا بات یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوتا ہے اور مَیں ایک نبی کے مشابہ ہوں۔ حضرت خلیفہ اول نے اُسکی یہ بات سن کر فرمایا۔ بے شک مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے۔ مجھے اِس پر ایمان ہے۔ حضرت خلیفہ اول اُس زمانہ میں اچھی شہرت رکھتے تھے اور آپ دلیری اور بہادری کے ساتھ کام کرنے والے تھے۔اِ س کے علاوہ آپ بہت مخیر انسان تھے۔ غریبوں کو تعلیم دلانے کا آپ کو بہت شوق تھا۔ اور آپ غریب بیماروں کا علاج بھی مفت کرتے تھے۔ اِس طرح شروع شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا ہمت والا اور عزت و شہرت رکھنے والا مددگار اور معاون عطا کر دیا جس کا ملنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے مشہور مصنفین اورعلمی طبقہ میں ایک مشہور اور معروف انسان کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی تھے۔ مولوی محمد احسن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سناتے تھے کہ مَیں شروع میں سخت مخالف تھا اور مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی اور مَیں نواب صدیق حسن خاں کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے۔ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت تائید کرتے تھے۔ ایک دن گفتگو کرتے کرتے یہ طے پایا کہ مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق مباحثہ کیا جائے۔ اور پہلے دونوں طرف کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان کے دلائل معلوم کئے جائیں۔ مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ ہم اُلٹ کتابیں پڑھیں ۔ مجھے چونکہ مرزا صاحب سے حُسنِ ظنی ہے اس لئے مَیں آپ کی مخالف کتابیں پڑھوں گا۔ اور آپ مرزا صاحب کے خلاف ہیں اس لئے آپ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھیں۔ اِس طرح ہمیں دونوں طرفوں کے دلائل سے واقفیت ہو جائیگی۔ اِس بحث کی تیاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اور مولوی بشیر صاحب نے آپ کے خلاف جو کتب لکھی گئی تھیں اُن کا مطالعہ شروع کیا۔ چنانچہ جب مباحثہ ہوا تو مَیں نے دیکھا کہ مولوی بشیر صاحب بھوپالوی سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے اور مَیں سختی سے آپ کی تائید کرتا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مَیں نے بیعت کر لی اور مولوی بشیر صاحب بھوپالوی احمدیت سے بہت دور چلے گئے۔
تیسرے وجود اُس زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب تھے۔ جہاں تک ظاہری علوم کا تعلق ہے اُنہوں نے حضرت خلیفہ اول سے کچھ علوم پڑھے تھے لیکن ان کی خداداد ذہانت اور ذکاوت ایسی تیز تھی کہ وہ مضامین اور معارف کو یوں پکڑتے تھے جیسے باز چڑیا کو پکڑتا ہے۔ اور جس بات کو عام آدمی گھنٹہ بھر میں سمجھتا ہے وہ اسے سیکنڈوں میں سمجھ جاتے تھے۔ وہ معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور وہ دعویٰ جو کہ آپؑ نے کچھ عرصہ کے بعد کرنا ہوتا تھا وہ کچھ دن پہلے ہی ان کی زبان پر جاری ہو جاتا تھا۔ اور پھر بولنے میں انہیں ایسی مہارت تھی اور ان کے کلام میں اتنی فصاحت تھی کہ ان کی تقریر سننے والا آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آواز اتنی سریلی تھی کہ جب آپ قرا ء ت کرتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد گا رہے ہیں۔ آپ کو حضر ت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت سے اتنی شدید محبت تھی کہ اُس محبت کا اندازہ اُس شخص کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا جس نے آپ کو دیکھا اور آپ سے باتیں کی ہوں۔ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ذکر کرتے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے ذرّے ذرّے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت داخل ہو گئی ہے۔
لیکھرام کے قتل کے واقعہ کے متعلق ایک دفعہ وہ مسجد کے محراب میں کھڑے تقریر کر رہے تھے۔ مَیں اُس وقت چھوٹا تھا لیکن وہ نظارہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک بڑا سوٹا تھا جسے پنجابی میں کھونڈ کہتے ہیں۔ اُنہوں نے لیکھرام کی شوخیوں اور دیدہ دلیریوں کا ذکر کیا اور پھر کہا لیکھرام کی اِن دیدہ دلیریوں کو دیکھ کر ایک دُبلا پتلا انسان جو کہ ہر وقت بیمار رہتا ہے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے مقابلہ کے لئے نکلا۔ اور اس نے لیکھرام پر ایسے زور کے ساتھ حملہ کیا کہ ’’اس بھڑولے جیہا آدمی نوں چک کے ایں ماریا کہ اس دا نام و نشان وی نہ رہیا۔‘‘ یعنی اسلام کے اس دبلے پتلے سپاہی نے ہندوؤں کے موٹے کُپے جیسے پہلوان کو یوں اٹھا کر زمین پر گرایا کہ اُس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ گویا اُنہوں نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے اِس روحانی مقابلے کو ایک جسمانی مقابلہ سے تشبیہہ دی اور ایسے مزے کے ساتھ بیان کیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ امیر حمزہ کی داستان بیان ہو رہی ہے۔ ان کے کلام کی فصاحت دلوں کو موہ لیتی تھی۔
حضرت مسیح موعود کا لیکچر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ انہوں نے ہی لاہور میں پڑھا تھا ۔ لیکچر سننے والوں نے کہا کہ بے شک لیکچر لکھنے والے کی خوبیوں اور علمی قابلیت کا کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہ شخص جس نے یہ لیکچر پڑھا وہ بھی بہت قابلِ تعریف انسان تھا۔ اس کی آواز ایسی شیریں تھی کہ سامعین مسحور ہوئے جاتے تھے۔ جب مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوگئے تو ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت گھبراہٹ ہوئی کیونکہ آپؑ نے آریہ سماج کے جلسہ کے لئے جو کہ لاہور میں منعقد ہوا تھا ایک لیکچر تیار کیا۔ آپ کو یہ فکر لاحق ہواکہ اب اسے سنائے گا کون؟ پہلے آپؑ نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفہ اول جا کر یہ لیکچر سنائیں۔ جب یہ لیکچر چھپ گیا تو آپ نے مسجد میں حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ آپ یہ مضمون پڑھ کر سنائیں۔ حضرت خلیفہ اول نے مضمون پڑھنا شروع کیا لیکن ابھی آپ نے چار پانچ منٹ ہی مضمون پڑھا ہو گا کہ آپ نے فرمایا مولوی صاحب آپ رہنے دیں۔ اب کوئی دوسرا آدمی پڑھے۔ اس کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھنا شروع کیا مگر ان کو بھی تھوڑی دیر کے بعد روک دیا۔ اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو آپ نے پڑھنے کے لئے فرمایا۔ شیخ صاحب نے ایک آدھ منٹ تو بہت بلند آواز سے پڑھا اور یہ خیال کیا گیا کہ وہ پڑھ لیں گے لیکن تھوڑی دیر میں ہی اُن کا گلا بھرّا گیا اور آواز بیٹھ گئی۔ مجھے یاد ہے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بڑی مشکل ہے۔ مولوی عبد الکریم صاحب خوب پڑھا کرتے تھے۔ اب تو کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا۔ آخر حضرت خلیفہ اول کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ آپ اِس لیکچر کو پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول اور آپ کے بعد غالباً مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے مضمون پڑھا۔ لیکن لیکچر کا وہ اثر نہ ہوا جو مولوی عبد الکریم صاحب کے پڑھنے سے ہوتا تھا۔
اِسی طرح اُس زمانہ میں ہماری جماعت میں کوئی اچھے پائے کا فلسفی اور منطقی دماغ رکھنے والا آدمی نہ تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ہدایت دے دی اور وہ آپؑ پر ایمان لے آئے۔ اس کے بعد آپ پشاور میں پروفیسر مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد قادیان کی محبت نے غلبہ کیا اور آپ قادیان تشریف لے آئے اور دستی بیعت کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب سے فرمایا آپ یہیں رہ جائیں۔ چنانچہ آپ یہیں رہنے لگ گئے۔ بعض لوگوں نے زور دیا کہ مولوی صاحب کالج میں پروفیسر ہیں اور اچھی جگہ کام کر رہے ہیں، ان کی ملازمت سے سلسلہ کو فائدہ ہو گا اور ان کے ذریعہ تبلیغ ہو گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو واپس جانے کی اجازت دے دی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولوی صاحب حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر واپس آ گئے اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی صاحب کا مُد کامباحثہ مشہورچیز ہے۔ اُس زمانہ میں مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے۔آپ نے کالج کی پروفیسری چھوڑ کر سکول کی مُدرِّسی اختیار کی۔ اُس وقت آپ کو پندرہ بیس روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ مَیں بھی اُن دنوں سکول میں پڑھتا تھا اور کچھ عرصہ مَیں نے بھی مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کی ہے۔ گو میرے نزدیک اُن کی تعلیم کا طریقہ سکول کے لڑکوں میں کامیاب نہ تھا۔ اِس لحاظ سے مَیں نے اُن کی سکول کی تعلیم سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔ البتہ قاضی امیر حسین صاحب اچھا پڑھاتے تھے اور لڑکوں پر کنٹرول او رضبط بھی اچھا رکھتے تھے۔ لیکن مولوی صاحب چھوٹے لڑکوں پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے تھے۔ چونکہ مولوی صاحب کی تعلیم کا رنگ فلسفیانہ تھا اِس لئے وہ بچوں کے پڑھانے میں کامیاب نہ تھے۔ جب مدرسہ احمدیہ کالج کی شکل اختیار کر گیا تو آپ کو اس کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ یہ حالت اُن کی قابلیت کے معیار کے کسی حد تک مطابق تھی۔ ظاہری لحاظ سے مدرسی تعلیم میں مولوی صاحب سب سے زیادہ ماہرِ فن تھے۔ مَیں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول درسی کتب کے بعض مشکل مقامات کے متعلق مولوی سید سرور شاہ صاحب سے فرماتے کہ آپ اِس کا مطالعہ کر کے پڑھائیں مجھے اِس کی مشق نہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب وہ مشکل مقامات طالب علموں کو پڑھاتے۔مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے سیبویہ کتاب کے متعلق بھی مولوی صاحب کو فرمایا کہ اِس کے بعض مقامات مجھ پر حل نہیں ہوئے اِس لئے آپ یہ کتاب طالب علموں کو پڑھائیں۔ ایسی ایک دو اور کتابوں کے متعلق بھی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ یہ طالب علموں کو پڑھا دیں۔ اور جب مولوی صاحب طالب علموں کو پڑھاتے تو حضرت خلیفہ اول بھی سنا کرتے۔ غرض مولوی صاحب نے مُدرِّسی تعلیم کو کمال تک پہنچا دیا تھا اور قدرتی طور پر ان کا دماغ بھی فلسفیانہ تھا۔ جس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا جاتا خواہ وہ عام مسئلہ ہی ہوتا مولوی صاحب اُسے فلسفیانہ رنگ میں خوب کھول کر بیان کرتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پوچھنے والے کو ان کے بیان کردہ فلسفہ سے اتفاق ہو یانہ ہو۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا ہو اور انہوں نے اُس کا فلسفیانہ رنگ میں جواب نہ دیا ہو۔ آپ صرف یہی نہیں بیان کرتے تھے کہ فلاں نے اِس کے متعلق یہ لکھا ہے اور فلاں کی اِس کے متعلق یہ رائے ہے بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اِس مسئلہ کی بنیاد کس حکمت پر مبنی ہے ۔ اُس کے چاروں کونے خوب نمایاں کرتے تھے اور پھر اُس کی جزئیات کی بھی تشریح کرتے۔ اِس میں شک نہیں کہ مولوی صاحب کو لمبی بات کرنے کی عادت تھی اور وہ جذبات کو اپیل نہیں کرسکتے تھے۔ اِسی لئے ان کا لیکچر کامیاب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم یافتہ طبقہ اور علم دوست طبقہ تو ان کی تقریر کو نہایت سکون کے ساتھ سنتا تھا لیکن پبلک دماغ ان کی تقریر سے متاثر نہیں ہو سکتا تھا۔ صرف علمی طبقہ کے لوگ ہی جانتے تھے کہ آپ کے علم میں کتنی وسعت ہے اور کتنا تبحّر آپ کو حاصل ہے۔
حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے آخری ایام میں ایک وفد باہر گیا۔ اس وفد نے بعض ایسی باتیں کیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اور آپؑ کے درجہ کے منافی تھیں۔ چنانچہ جب وہ وفد واپس آیا تو یہ سوال مَیں نے اٹھایا کہ وفد کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کے متعلق جو بیانات باہر دیئے گئے ہیں وہ آپؑ کی شان کے منافی ہیںا ور آپؑ کے درجہ میں کمی کی گئی ہے۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے۔ جب انہوں نے اس بات کو سنا تو انہوں نے کہا واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی گئی ہے اور ہم سے چُوک ہوئی ہے لیکن اُس دن سے لے کر وفات تک مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام بیان کرتے تو آپ کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی آخری ملاقات جس کو آٹھ دس دن ہوئے ہیں مجھ سے اسی سلسلہ میں ہوئی۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ مولوی صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں۔ مَیں نے اوپر بلوا لیا تو مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی جاتی ہے اور آپ کو صرف مسیح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حالانکہ مہدی کی شان مسیح کی شان سے کہیں بلند ہے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کئی جگہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ صرف مسیح موعود لکھنے کا کہیں یہ نتیجہ نہ ہو کہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی مقام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ مَیں نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ یہ بات مجھے لکھ کر بھیج دیں۔ مَیں اس پر غور کروں گا۔ چنانچہ اس کے تیسرے یا چوتھے دن مولوی صاحب کی طرف سے ایک تحریر اسی مضمون کی مجھے مل گئی۔گویا مولوی صاحب کو اپنی وفات کے قریب بھی یہی فکر رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کہیں کمی نہ ہو جائے۔
جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے مَیں مولوی صاحب کا شاگرد رہا ہوں۔ عمر کے لحاظ سے مولوی صاحب مجھ سے بہت بڑے تھے اور مَیں ان سے بہت چھوٹا تھا۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ باوجود اِس کے کہ وہ میرے استاد تھے، باوجود اِس کے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے، باوجود اِس کے کہ وہ مُدرِّسی تعلیم میں بہت زیادہ دسترس رکھتے تھے۔ مَیں نے اکثر دیکھا کہ مولوی صاحب کاغذ پنسل لے کر بیٹھتے تھے اور باقاعدہ میرا لیکچر نوٹ کرتے رہتے تھے۔ ان میں محنت کی عادت اتنی تھی کہ مَیں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا تھا تو وہ مولوی صاحب تھے۔ بسا اوقات مَیں بیماری کی وجہ سے باہر نماز کے لئے نہیں آ سکتا تھا اور اندر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا تھا۔ لیکن مسجد سے مولوی صاحب کی قراء ت کی آواز میرے کانوں میں آتی او ر میرا نفس مجھے ملامت کرتا کہ مَیں جو عمر میں اُن سے بہت چھوٹا ہوں مَیں تو گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ اسّی سال کا بڈھا مسجد میں نماز پڑھا رہا ہے۔ میرے زمانہ خلافت میں میر ی جگہ اکثر مولوی صاحب ہی نماز پڑھاتے تھے۔ صرف آخری سال سے مَیں نے اُن کو نماز پڑھانے سے روک دیاتھا کیونکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ بعض دفعہ بے ہوش ہو جاتے تھے اور مقتدیوں کی نماز خراب ہوتی تھی۔ اِس لئے مَیں نے ان کو جبراً ہٹایا۔ ورنہ وہ کام سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا ہو گا کہ وہ روزانہ بلاناغہ مجلس عرفان میں شامل ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ وفات سے صرف دو رات پہلے وہ مجلس میں آئے اور بیٹھے رہے۔ اُن کومجلس میں ہی بیہوشی شروع ہو گئی۔ اور مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب بیٹھے ہوئے بینچ پر جُھکے جا رہے ہیں۔ مَیں نے اُن کے بعض شاگردوں سے کہا مولوی صاحب بیمار معلوم ہوتے ہیں اُن کا خیال رکھنا۔ اُسی دن سے آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور آپ تیسرے دن فوت ہو گئے۔
ایسے عالم کی زندگی نوجوان علماء کے لئے بہت ہی کار آمد تھی۔ نوجوان علماء کی وہ نگرانی کرتے تھے اور نوجوان علماء ان سے اپنی ضرورت کے مطابق مسائل پوچھ لیتے تھے۔مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یکدم جماعت کو مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کاعلمی معیار قائم نہ رہ سکے۔ چنانچہ اس کے لئے مَیں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری کی کوشش شروع کر دی تھی۔ کچھ نوجوان تو مَیں نے مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ نوجوان باہر بھجوا دیئے تا کہ وہ دیوبند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔ جب وہ واپس آ گئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اُن کو اُس وقت تک وفات نہیں دی جب تک کہ علم حاصل کر کے ہمارے نئے علماء واپس نہیں آ گئے۔ اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا تا کہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اِس سلسلے کی تائید و نصرت کرتا ہے اور خود اِس کا قائم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس دن تک ہماری جماعت کے ایک چوٹی کے عالم کو فوت نہیں ہونے دیا جب تک کہ نئے علماء کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نوجوان ابھی اُس مرتبہ کو نہیں پہنچے لیکن وہ جوں جوں علمی میدان میں قدم رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں گے اتنا ہی وہ ان علماء کے قائم مقام ہوتے جائیں گے۔ مولوی صاحب جب کالج سے فارغ ہوکر آئے تھے اُس وقت اُن کی اور حالت تھی۔ اور جب انہوں نے یہاں آ کر لمبی لمبی دعائیں کیں اور روحانیت سے اپنا حصہ لیا تو وہ بالکل بدل گئے اور ایک نیا وجود بن گئے۔ اِسی طرح ہمارے نوجوانوں کو علم تو حاصل ہو گیا ہے مگر اب وہ جتنا جتنا روحانیت کے میدان میں بڑھیں گے اور اپنے تقویٰ اور نیکی کو ترقی دیں گے اتنا ہی وہ بلند مقام کی طرف پرواز کریں گے۔ جہاں تک کام کرنے کا تعلق ہے مولوی صاحب میں کام کرنے کی انتہائی خواہش تھی۔ لیکن تنظیم کے معاملہ میں وہ زیادہ کامیاب نہ تھے۔ ہاں ایک کام ہے جو اُن کے سپرد ہوا اور اُنہوں نے اُس میں کمال کر دیا۔ اور وہ کام اُن کی ہمیشہ یادگار رہے گا ۔جس طرح لنگر خانہ اور دار الشیوخ میر محمد اسحاق صاحب کے ممنونِ احسان ہیں اِسی طرح وصیّت کاانتظام مولوی سید سرور صاحب کا ممنونِ احسان ہے۔ مولوی صاحب نے جس وقت وصیت کا کام سنبھالا ہے اُس وقت بمشکل وصیت کی آمد پچاس ساٹھ ہزار تھی مگر مولوی صاحب نے اِس کام کو ایسے احسن طور پر ترقی دی کہ اب وصیت کی آمد پانچ لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی۔ آپ کووصیت کے کام میں اِس قدر شغف تھا کہ آپ بہت جوش و خروش کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیتے تھے کیونکہ نظامِ وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ ہے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ اِس میں کوئی کمزوری واقع ہو جائے۔ یہ آپ کی ہی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے چندہ عام سے چندہ وصیت زیادہ ہے۔ یہ کام ہمیشہ کے لئے آپ کی یادگار رہے گا۔
مجھے افسوس ہے کہ مولوی صاحب کے بچوں میں سے کسی نے علمِ دین میں وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اُنہیں حاصل تھا۔ اِسی طرح تعلیم میں بھی وہ مولوی صاحب کے مقام کو حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن اگر انسان کو کسی چیز کے حاصل کرنے کا فکر لاحق ہو جائے تو اس کے لئے مواقع ہر وقت میسر آ سکتے ہیں۔ یورپ کے ایک ستّرسالہ بوڑھے نے لاطینی زبان سیکھی اور اُس کے بعد اُس نے کتابیں لکھیں۔ اِسی طرح اگر مولوی صاحب کی اولاد میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو وہ ہر وقت اُن علوم کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ وہ علوم کی طرف توجہ کریں۔ بہرحال مولوی صاحب کی وفات سے جماعت کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور اُن کی اولاد کا تو دوہرا نقصان ہے۔ بلحاظ اولاد ہونے کے بھی اور بلحاظ احمدی ہونے کے بھی اُن کودُہرا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ مولوی صاحب باوجود 84سال عمر پانے کے آخری دم تک کام کرتے رہے۔٭ ورنہ عام طورپر لوگ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں ہی ناکارہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے انسان شاذ و نادر ہی ہوتے ہیںجو اس عمر تک کام کرتے رہتے ہیں ورنہ بالعموم لوگ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں ہی کام کاج چھوڑ بیٹھتے ہیں اور بہت سے لوگ تو مولوی صاحب کی عمر کو پہنچتے ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولوی صاحب کے مدارج بلند کرے اور اُن کے شاگردوں میں سے جو علماء اِس وقت کام کر رہے ہیں اُن کو توفیق دے کہ وہ اُن کی علمی بنیادوں کو اَور زیادہ بلند کرنے والے ہوں۔ ہماری جماعت میں اگر بلند پایہ کے علماء ہوں تبھی ہماری جماعت باقی دنیا پر غالب آ سکتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کسی مجلس میں ہمارا سر نیچا نہ ہونے دے اور ہمارے علماء کے علمی اور عملی پایہ کو بلند کرے اور دنیا پر اُن کو غالب کرے۔ا گر علم کی بنیادیں کمزور ہو جائیںتو عمل کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری ضرورتوں کو پورا فرماتا رہے اور علمی اور عملی میدان میں ہر لمحہ ہمارا قدم آگے کی طرف بڑھائے کیونکہ علم و عمل کے بغیر روحانی اور اقتصادی ترقیات حاصل نہیں ہو سکتیں۔‘‘ (الفضل13؍ جون1947ئ)

22
تمام جماعت کو التزام کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہیے کہ
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ناقابل برداشت فتنوں سے بچائے
(فرمودہ 13 جون 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آجکل ہمارے ملک پر ابتلاء کے بعد ابتلاء آ رہا ہے اور ہر آنے والا معاملہ پہلے کی نسبت زیادہ سنگین اور شدید صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اِس وقت تقسیمِ ملک کا سوال درپیش ہے اور اِس کے متعلق جس جس رنگ میں تجویزیں پیش ہو رہی ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہمارا ملک کہیں ایسی شکل نہ اختیار کر جائے جیسا کہ ہزار پائے 1 کے پاؤں ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ملک کے چھوٹے چھوٹے حصے کر دیئے گئے تو کوئی حصہ بھی آزادی کے ساتھ ترقی نہیں کر سکے گا۔ اگر یہی جو ش و خروش رہا تو ملک کا چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں۔ پھر اگر ملک کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی شرط لگا دی گئی تو اِس کی ایسی ہی شکل بن جائے گی جیسا کہ ننگل کا رہنے والا آدمی بھینی جانے کے لئے پاسپورٹ حاصل کرے۔ یا بھینی کا رہنے والا آدمی ننگل جانے کے لئے پاسپورٹ حاصل کرے۔ اور یہ صورتِ حال قیدیوں سے بھی بدتر ہو گی۔ قیدی تو شہر میں سے کچھ تھوڑے سے افراد ہوتے ہیں تمام کے تمام لوگ جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے لیکن اس صورت میں تو سب لوگ ہی قیدی بن جائیں گے۔ سیر کرنے کے لئے اگر کوئی شخص گھر سے نکلے گا تو ابھی اس کی ٹانگیں بھی نہیں کُھلی ہوں گی اور اُسے پسینہ بھی نہیں آیا ہو گا کہ پولیس اُسے آ گھیرے گی اور کہے گی کہ آپ غیر ملک میں داخل ہو گئے ہیں، پاسپورٹ دکھائیں۔ اِس قسم کے حالات ہر انسان کے لئے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ اور پھر ہمارے لئے تو تبلیغ کے رستے میں بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ درحقیقت یہ تقسیم ایسے رنگ میں ہونی چاہیئے کہ ملک کے باشندوں کے لئے آرام دہ اور نفع مند ثابت ہو۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے اِس سے قبل کئی دفعہ بتایا ہے اِن باتوں میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔ کیونکہ ہم تو ایک اقلیت ہیں اور فیصلہ اکثریت نے کرنا ہے۔ ہم تو نصیحت کے طور پر ایک بات بیان کر دیتے ہیں ورنہ ہم اس بات کو چلانے کے لئے اپنا وقت اور مال استعمال نہیں کرتے۔ ہم جوبات سیاسی مشورہ کے طور پر بیان کرتے ہیں وہ محض لوگوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے بیان کرتے ہیں ورنہ سیاسی طور پر ہم اسے جاری نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر ہماری جماعت سیاسی کاموں میں لگ جائے تو دین کا خانہ خالی رہ جائے اور مذہب کا پہلو کمزور ہو جائے۔ اِن حالات میں ہمارے لئے صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دن رات دعائیں کریں۔ جیسا کہ آج تک ہماری جماعت ایسے نازک موقعوں پر ہمیشہ دعائیں کرتی رہی ہے اور اکثر اوقات اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعاؤں کو قبول فرمایا ہے۔ یہ موقع بھی نہایت ہی نازک مواقع میں سے ہے۔ اِس لئے تمام جماعت کو التزام کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ان ناقابلِ برداشت فتنوں سے بچائے۔
عام طور پر ہمارے ملک کے لوگ جغرافیہ سے ناواقف ہیں اور اِس وجہ سے وہ ایسی باتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اب بھی جو صورتِ حالات پیدا ہونے والی ہے آپ لوگ اُس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نقشے نہیں۔ لیکن میری آنکھوں کے سامنے سب نقشے ہیں اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ کس میدان میں لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ اگر اِس قسم کے خطرناک اقدام کئے گئے تو اِس سے دونوں فریق ہی نقصان اٹھائیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ملک کے بٹوارے سے زیادہ مصیبت اِن حدبندیوں کی وجہ سے پیدا ہو گی۔ اور ملک کی آزادی پہلی غلامی سے بھی بدتر ہو گی۔ اتحاد اور بٹوارے کا عوام الناس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ تو محکوم ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی حاکم کے ماتحت اُن کو رہنا ہی پڑتا ہے۔ اگر ایک انگریز ڈپٹی کمشنر ہوگا تو اُس کے سامنے بھی اُن کو سر جھکا کر چلنا پڑے گا اور اگر کوئی ہندوستانی ڈپٹی کمشنر ہو گا تو اس کے سامنے بھی اُن کو سر جھکا کر چلنا پڑے گا۔ اِس لحاظ سے ان میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہندوستانی حاکم ہے یا انگریز حاکم ہے۔ پس حکومتوں کی تبدیلی عوام الناس پر اُتنی اثر انداز نہیں ہوتی جتنی کہ سرحدوں کی تبدیلی اُن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اِس قسم کے بٹوارے کی مثال ایسی ہی ہے۔ جیسا کہ دو ہاتھوں کی اُنگلیوں کو آپس میں پیوست کر دیا جائے یا دو کنگھیوں کے پنجوں کو آپس میں پیوست کر دیا جائے۔ اور اِس حالت میں ہر میل دو میل کے بعد ایک سفر کرنیوالے سے پاسپورٹ مانگا جائے گا کہ آپ اب غیر علاقہ میں داخل ہوئے ہیں،اِس ملک کے قواعد اِس قسم کے ہیں آپ اِن کی پابندی کریں۔ یہ کیسی خطرناک صورتِ حالات ہے۔ میرے نزدیک تو پہلے تمام سوالوں سے یہ سوال زیادہ خطرناک ہے اور اِس قسم کے حالات سب قوموں کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔ اِس وقت تو جوش میں آ کر سب کہتے ہیں کہ ہم زمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی وصول کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو جو صورت اب پیدا ہونے والی ہے اُس کی نہ سکھ تاب لا سکیں گے، نہ ہندو تاب لا سکیں گے۔ نہ مسلمان تاب لا سکیں گے اور نہ ہی اچھوت تاب لا سکیں گے ہر ایک کے لئے مصیبتوں کا دروازہ کُھل جائے گا۔پس ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔ بلکہ تمام بالغ مرد اور عورتوں کو تہجد کے لئے اٹھنا چاہیئے۔ اور اگر زیادہ نہیں تو دو نفل ہی پڑھ لینے چاہئیں۔اور جو مرد اور عورتیں اس سے پہلے تہجد نہیں پڑھتے اُنہیں باقاعدگی کے ساتھ تہجد پڑھنی شروع کر دینی چاہیئے اور نہایت تضرّع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اِن مشکلات کا حل پیدا کرے اور یہ مصیبت ہمارے ملک کے لئے باعثِ رحمت بن جائے۔ سینکڑوں سالوں کی غلامی کے بعد آزادی کی نعمت ہمارے ملک کو عطا کی جا رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بجائے آزادی سے فائدہ اٹھانے کے ہمارا ملک نئی نئی مصیبتوں میں مبتلا ہو جائے۔
انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ ’’کڑاہی سے گرا اور چولہے میں پڑا۔‘‘ 2 اگر ملک کو اِس قسم کی آزادی ملنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ اِس سے بچائے کہ ایک انسان آزادانہ طورپر سانس بھی نہ لے سکے اور وہ گھبرا کر یہ کہہ اٹھے کہ اِس آزادی سے تو وہ پہلی غلامی ہی ہزار درجہ بہتر تھی۔ اِس نازک موقع پر سیاسی کارفرماؤں کو بھی نہایت ہی عقل اور سمجھ کے ساتھ قدم اٹھانا چاہیئے اور لوگوں کی تکالیف کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ تمام پارٹیوں کے سیاسی منشاء تو پورے ہو گئے۔ یعنی ہندوؤں کی بھی من مانی مرادیں بر آئی ہیں اور مسلمانوں کو بھی علیحدہ حصہ مل گیا اور سکھوں کی بھی یہ خواہش برآئی کہ ہم مسلمان علاقہ کو بٹوا کر چھوڑیں گے۔ اب اِن سب پارٹیوں کو چاہیئے کہ وہ آپس میں آزادانہ طور پر ملک کی بہتری کے لئے ایسا سمجھوتہ کریں جس سے ہر قوم کی الگ حیثیت بھی قائم رہے او رشہریت کے حقوق بھی سب کو حاصل ہو جائیں۔ ماتحت اور مغلوب قوم سے سمجھوتہ کرنے کا اَور طریق ہوتا ہے اور ایک برابر کی اور آزاد قوم سے سمجھوتہ کرنے کا اَور طریق ہوتا ہے۔ پس اب جبکہ دونوں قومیں آزاد ہو گئی ہیں وہ آپس میں معاہدہ کر لیں کہ وہ حکومت کے لحاظ سے بیشک الگ الگ ہونگی لیکن شہریت کے حقوق تمام علاقوں کے افراد کو ایک دوسرے کے ملک میں حاصل ہوں گے۔ اِس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ آہستہ آہستہ پہلے جیسی حالت پیدا ہو جائے گی اور دونوں قومیں آپس میں مل بیٹھیں گی۔
پچھلی جنگ میں جب فرانس کو شکست ہوئی تو حکومتِ برطانیہ نے فرانس کو یہ پیشکش کی کہ برطانیہ اور فرانس کے شہری حقوق ایک ہونگے حالانکہ برطانیہ اور فرانس ایسے ممالک ہیں جن کی زبانیں الگ الگ ہیں اور بعض اوقات وہ آپس میں برسرِ پیکار بھی رہی ہیں۔ لیکن ایک نازک موقع پر برطانیہ نے فرانس کو شہریت کے حقوق کی پیشکش کی۔ اِسی طرح اب ہندوستان میں بھی ہو سکتا ہے کہ حکومتیں آپس میں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہماری حکومتیں بے شک آزاد ہونگی لیکن ایک مشرقی بنگال کے رہنے والے کو مغربی بنگال میں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو وہاں کے باشندوں کو حاصل ہیں۔ اور اُسے مغربی بنگال کا باشندہ ہی تصور کیا جائے گا۔ اِسی طرح مغربی بنگال والے کو مشرقی بنگال میں وہی شہریت کے حقوق حاصل ہونگے جو مشرقی بنگال والے کو حاصل ہیں۔ اور مشرقی پنجاب والے کو مغربی پنجاب میں وہی شہریت کے حقوق حاصل ہوں گے جو مغربی پنجاب میںرہنے والے کو حاصل ہیں۔ اور مغربی پنجاب والے کو پوربی پنجاب میں وہی شہریت کے حقوق حاصل ہوں گے جو پوربی پنجاب میں رہنے والے کو حاصل ہیں اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جانے کے لئے پاسپورٹ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔اور ہر آدمی کو جائیداد اور تجارت کے معاملہ میں آزادی ہو گی۔ اگر یہ طریق اختیار کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک میں اتحادکی رَو چل جائے اور دلوں میں مل بیٹھنے کی خواہش پیدا ہو۔ اور ہمارا ملک ایک نام والا اور ایک کام والا بن جائے۔
پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو۔ اگر آپ لوگوں کو خود اِن باتوں کی اہمیت کا پوری طرح احساس نہیں توایک ایسے شخص کے بتانے پر جو اِن حالات کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہے بیدار اور ہوشیار ہو جاؤ اور وقت پر اپنے مولا کے حضور گر جاؤ۔ اگر ہم اقلیت میں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے پاس تو سب طاقتیں ہیں۔ اگر ہم بے بس اور بے کس ہیں تو اللہ تعالیٰ تو بے بس اور بے کس نہیں۔ وہ چاہے تو ملک کے فیصلے کرنے والوں کو عقل اور سمجھ دے سکتا ہے کہ وہ ملک کا بٹوارہ ایسے طور پر کریں کہ ملک میں بجائے تفرقہ اور شِقاق کے اتفاق اور اتحاد قائم ہو جائے۔‘‘
(الفضل 16؍ جون1947ئ)
1: ہزار پایہ: کن کَھجُورا۔ ایک لمبا کیڑا جس کی بہت سی ٹانگیں ہوتی ہیں۔
‏2:’’ OUT OF THE FRYING PAN INTO THE FIRE.‘‘

23
انگریزی ترجمہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے
جس نے حفاظتِ مرکز کے وعدے ابھی نہیں بھجوائے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجرم ہے
(فرمودہ 20 جون 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے کچھ دنوں سے کان کے بھاری ہونے کی تکلیف ہے۔ چنانچہ اترسوں رات جب مَیں مجلس میں 1 کی آیت کی تشریح کر رہا تھا تو بولنے کے نتیجہ میں میرے کانوں پر شدید اثر ہوا اور اُس دن عشاء کی نماز کے بعد کان میں سخت تکلیف شروع ہوگئی۔ اور اب تک بھی ورم اور بوجھ کا ایک حصہ باقی ہے اور کان کی شنوائی میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ اِس کے علاوہ کچھ دنوں سے مجھے گلے میں بھی تکلیف ہے۔ اور چونکہ آجکل گلے کی مرض عام ہو گئی ہے مَیں نے اِس کی پروا نہ کی اور گلے کے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ سوزش کان میں پھیل گئی۔ اب گو کان میں درد تو ایسی نہیں لیکن کان کے بوجھل ہونے کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسم کا آدھا حصہ کٹ کر ایک طرف جا پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے اعصابی کمزوری اور ضعف زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اب بھی جبکہ مَیں خطبہ کے لئے کھڑا ہوں مجھے چکر آ رہے ہیں۔
آج مَیں جماعت کو اِس اَمر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی پہلی جِلد چھپ کر آ گئی ہے۔ یہ جِلد آج سے کچھ عرصہ پہلے آ جانی چاہیئے تھی مگر لاہور کے فسادات کی وجہ سے پریس بند رہے یا بہت کم کام ہوتا رہا۔ اس لئے بجائے اپریل میں مکمل ہونے کے یہ جِلد جون میں مکمل ہوئی ہے۔ یہ جلد ساڑھے بارہ سو صفحے کی ہے۔ ابتدائی مضامین کا دیباچہ جو کہ مَیں نے لکھا ہے وہ دو سو بہتّرصفحات کا ہے۔ یعنی یہ مضمون اردو کے عام کتابی سائز کے لحاظ سے پانچ چھ سو صفحات میں آئے گا۔ اِس دیباچے کے کچھ حصہ کا ترجمہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب نے کیا ہے اور کچھ حصہ کا ترجمہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے کیا ہے۔ یہ دونوں احباب ہماری جماعت میں انگریزی کی اچھی قابلیت رکھتے ہیں اور نہایت عمدہ طور پر لکھنے والے ہیں جن کی وجہ سے ترجمہ بہت اعلیٰ ہوا ہے۔ گو مَیں اِس دیباچہ کے ترجمہ کی نظر ثانی نہیں کر سکا اور میرا خیال ہے کہ اگر نظر ثانی ہو جاتی تو نظر ثانی میں بعض جگہ ترجمہ زیادہ سادہ ہو سکتا تھا جو کہ اب نسبتاً پیچیدہ ہو گیا ہے۔لیکن پھر بھی یہ ترجمہ نہایت لطیف ہے۔ کتاب کے چھپنے کے بعد مَیں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو وہ مجھے ایسا دلچسپ معلوم ہوا کہ باوجود غیر زبان میں ترجمہ ہونے کے بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ مضمون ہی انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اب جبکہ اِس کتاب کی پہلی جلد مکمل ہو کر آ گئی ہے ہماری جماعت کا فرض شروع ہوتا ہے۔ کتاب کا لکھا جانا اَور بات ہے اور کتاب کا چھپ جانا اَور بات ہے اور کتاب کی اشاعت کرنا اَور بات ہے۔ جنگ کی دقتوں اور اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے بہت تھوڑی جلدیں شائع کرائی گئی ہیں۔ یعنی کُل دو ہزار جلدیں چھپوائی گئی ہیں۔ جس میں سے ایک ہزار تو لائبریریوں، اور سیاسی اقتدار رکھنے والے آدمیوں اور علمی مذاق کے لوگوں میں تقسیم کی جائیں گی اور ایک ہزار جلدیں جماعت کے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہیں۔ جو حصہ جماعت کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ تو فروخت ہو چکا ہے اور اب جن جماعتوں کی طرف سے آرڈر آ رہے ہیں دفتر اُنہیں ردّ کر رہاہے۔ اور ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوا یہ ایک ہزار جِلد پوری ہو چکی ہے۔ اور بیرونی ممالک کی لائبریریوں وغیرہ کے لئے جو ایک ہزار جِلد رکھی گئی ہے اُس میں سے بھی ساڑھے چھ سو جلدیں فروخت ہو چکی ہیں اور ساڑھے تین سو باقی ہیں۔ ہندوستان سے باہر کے لوگ چونکہ اردو نہیں جانتے اِس لئے وہ انگریزی ترجمہ سے ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ غیر ممالک سے جو لوگ آرڈر دے رہے ہیں اُن کو جلدیں مہیا نہیں کی جا سکتیں۔ اِس وجہ سے غیر ممالک والے یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ہم ہی اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے اور ہمیں ہی محروم کیا جا رہا ہے۔و ہ کہتے ہیں ہندوستان کے لوگوں کو چونکہ پہلے اطلاع مل جاتی ہے اِس لئے وہ جلد ہی خرید لیتے ہیں اور ہمیں دیر سے اطلاع پہنچتی ہے اور ہمارا جواب بھی دیر سے پہنچتا ہے اِتنی دیر میں ایسی چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ امریکہ اور افریقہ سے جو آرڈر آئے تھے وہ دفتر نے ردّ کر دیئے کہ اب جِلدیں مہیا نہیں کی جا سکتیں۔ اِس سے اُن کو بہت تکلیف ہوئی۔ مَیں نے اِس کے لئے فِی الْحَال یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر ممالک سے جو لوگ آرڈر دیں اُنہیں اِن ایک ہزار جِلدوں میں سے جو کہ لائبریریوں اور غیر مسلموں میں تقسیم کے لئے رکھی گئی ہیں دے دی جائیں۔ کیونکہ غیر ممالک والے اس کے زیادہ مستحق ہیں اور اُنہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی لجناؤں کی طرف سے بھی جِلدوں کی مانگ آئی ہے اور مغربی افریقہ سے امیر نے لکھا ہے کہ ہم نے غیر احمدیوں سے پانچ پانچ سال سے اِس ترجمہ کے لئے قیمتیں وصول کی ہوئی ہیں اُن کو اَب جواب دینا مشکل ہے۔ اِن حالات کے پیش نظر میں نے یہ تجویز کی ہے کہ ان لوگوں کو بھی باقی ساڑھے تین سو جِلدوں میں سے حصہ دے دیا جائے۔ مگر پھر بھی ممکن ہے کچھ تقسیم کی جانے والی جِلدیں رہ جائیں۔ اِس لئے مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہوئے اِس کتاب کی جتنی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو سکے کی جائے۔ کیونکہ اِس کتاب کی جتنی زیادہ اشاعت ہو گی اُتنا ہی زیادہ فائدہ ہو گا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جلد ہی ہمیں اِس کتاب کا دوسرا ایڈیشن چَھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ ایڈیشن جلد ہی ختم ہو جائے گا اور دوسرے ایڈیشن کے چھپوانے کی بہت جلد ضرورت پیش آئے گی۔ دوسرے یہ کتاب ہندوستان میں چَھپی ہے۔ اور غیر ممالک میں جس قسم کی چَھپائی ہوتی ہے ویسی چَھپوائی ہندوستان میں نہیں ہو سکتی۔ اِس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب غیر ممالک والوں کے لئے اُتنی دلچسپی کا موجب نہ بنے جتنی کہ اُن کے اپنے ملک کی چَھپی ہوئی کتاب میں ہو سکتی ہے۔ بہرحال اِتنی بڑی کتاب آسانی سے دوبارہ نہیں چَھپ سکتی۔
ہندوستان کے بعض دوستوں کی یہ رائے ہے کہ چونکہ یہ کتاب ہندوستان میں چَھپی ہے اِس لئے اسے صرف ہندوستان کے لئے ہی رکھ لیا جائے اور غیر ممالک والے کہتے ہیںکہ ہمارا حق مقدم ہے۔ ہندوستان والے تو فائدہ اٹھاتے ہی رہتے ہیں یہ ساری جلدیں ہمیں دے دی جائیں۔ بہرحال میں اِس کی یہ تقسیم کر چکا ہوں کہ آدھی ہندوستان کے لئے اور آدھی غیر ممالک کے لئے۔ جو دوست یہ کتاب خریدیں اُنہیں چاہیئے کہ خود پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی پڑھوائیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس کتاب کا دیباچہ ایسا شاندار لکھا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے۔ اور میرا ارادہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد میں اِس دیباچہ کو الگ چھپوایا جائے۔ نہ صرف انگریزی بلکہ اردو، ہندی، گورمکھی اور دوسری زبانوں میں اِس کے تراجم شائع کئے جائیں۔ اِس دیباچہ میں اسلام کی صداقت کے ایسے دلائل بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گی اور پھر دیباچہ کے ساتھ جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے نوٹ بھی پڑھے گا تویہ ’’سونے پر سہاگہ اور موتیوں میں دھاگہ‘‘ والی مثال ہو گی۔ پس دوستوں کو جلد سے جلد اپنی کتابیں منگوا لینی چاہئیں تا کہ ہماری لائبریری سے یہ کتابیں نکل جائیں۔ جب ایک جِلد نکل جاتی ہے تودوسری جِلد کی فکر پیدا ہو تی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جب اردو کی تفسیر کی ایک جلد نکل جاتی ہے تومحکمہ والوں کو دوسری جلد کی تیاری کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اِسی طرح اگر یہ جلد ختم ہوگئی تو محکمہ دوسری جلد کی طرف زیادہ توجہ کر سکے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ اِس جلد کے ذریعہ ایک ہیجان پیدا ہو گا۔ اور اس کی دوسری جلدیں شائع کرنے کا بھی ابھی سے تقاضا شروع ہو جائے گا۔
دوسری بات مَیں حفاظتِ قادیان کے سلسلہ میں کہنی چاہتا ہوں۔ مَیں نے اس کے وعدوں کی میعاد تیس جون تک بڑھا دی ہے۔ جن جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اُنہوں نے 31 مئی تک ہی اپنے وعدوں کی مکمل فہرستیں بھجوا دیں۔ لیکن وہ جماعتیں جو رہ گئیں اور اُنہوں نے اپنے وعدے نہیں بجھوائے وہ ابھی ایک تہائی ہیں۔ یعنی آٹھ سو کے قریب جماعتوں میں سے پانچ سو سے اوپر کے وعدے آئے ہیں اور دو سو پچاس کے وعدے نہیں آئے۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک فیصدی جماعتیں بھی حصہ لینے سے باقی رہ جائیں کُجا یہ کہ 33 فیصدی حصہ پیچھے رہ جائے۔ پس مَیں پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی تکمیل کر کے مرکز میں بھجوا دیں۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جب جماعت کے ایک حصے نے وقت پر اپنے وعدے بھجوا دئیے ہیں تو اِس سے وہ حصہ جس نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجرم بن جاتا ہے۔ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عذر پیش نہیں کر سکتے کہ یہ ایسا کام تھا جسے ہم پورا نہیں کر سکتے۔ اگر تو دس فیصدی لوگ اِس میں حصہ لیتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایسا کام تھا جسے صرف طاقتور آدمی ہی کر سکتے تھے۔ لیکن اب جبکہ دو تہائی جماعتوں نے اپنے وعدے بھجوا دیئے ہیں تو حصہ نہ لینے والوں پر سختی کے ساتھ حُجت ہو گئی ہے۔ کیونکہ جب تین میں سے دو آدمی ایک کام کو کر لیتے ہیں توتیسرا آدمی کیوں نہیں کر سکتا۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام جماعت کی طاقت کے اندازہ کے مطابق ہے۔ پس جو لوگ باقی رہ گئے ہیں اُن کو سوچنا چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کیا جواب دیں گے۔ اِس کام کو جلدی سرانجام دینے کے لئے باہر مبلغ بھی بھیجے گئے ہیں۔ مبلغین کا فرض ہے کہ وہ جماعتوں کے وعدے بہت جلد بھجوائیں۔ اور جہاں مبلغ یا انسپکٹر بیت المال نہ پہنچے ہوں اُن جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ خود ہی وعدے بھجوا دیں۔ جماعت کے 1/3 حصہ کے وعدوں کا نہ آنا ایک ناپسندیدہ اور افسوسناک امر ہے۔ ابھی دس دن باقی ہیں۔ اور ایک ہفتہ بعد تک وعدے پہنچتے رہتے ہیں۔ اِس لحاظ سے سترہ دن بنتے ہیں۔ گویا قادیان میں وعدوں کے پہنچنے کے لحاظ سے سترہ دن ہیں اور اپنی اپنی جگہوں سے وعدے بھجوانے کے لحاظ سے دس دن ہیں۔ پس سب جماعتیں چھوٹی یا بڑی، دُور کی یا قریب کی جلد سے جلد اپنے وعدوں کی تکمیل کر کے فہرستیں قادیان میں بھجوا دیں۔ جماعت کو اِس نازک وقت میں ایک دفعہ پھر اپنے ایمان اور اخلاص کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کر دینا چاہیئے۔ اور دنیا پر یہ حُجت قائم کر دینی چاہیئے کہ جماعت احمدیہ اخلاص اور قربانی میں موجودہ تمام قوموں سے برتر اور بالا ہے۔‘‘ (الفضل 24 جون 1947ئ)
1: الزمر: 37

24
(1) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کی صحت اور
بارانِ رحمت کے لئے پُر زور دعائیں کی جائیں
(2) خدائی فیصلہ ہو چکا تھا کہ آگ کی لڑائی لڑی جائے
(فرمودہ 4 جولائی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’سب سے پہلے تو مَیں اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب قریباً ایک ماہ سے سخت بیمار ہیں اور اب وہ بہت ہی کمزور ہو چکے ہیں۔ اور دو دن سے اُن پر قریباً بیہوشی کی سی حالت طاری ہے۔ ہماری جماعت ابھی تک بہت سی تربیت کی محتاج ہے اور تربیت کے لئے صحابہ کا وجود بہت ضروری ہے۔اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بہت تھوڑے صحابہ باقی رہ گئے ہیں۔ خصوصاً ایسے صحابہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے حالات سے واقف ہیں اور جنہوں نے آپ کے ابتدائی ایّام سے ہی آپ کی صحبت سے فیضان حاصل کئے تھے۔ اُن کی تعداد تو بہت ہی کم باقی رہ گئی ہے۔ اِس لئے ایسے لوگوں کا وجود جماعت کی ایک قیمتی دولت ہے اور جتنا جتنا یہ لوگ کم ہوتے چلے جاتے ہیں اُتنا ہی جماعت کی روحانی ترقی بھی خطرہ میں پڑتی چلی جاتی ہے۔ اورچونکہ صحابہ کا وجود ایک قومی دولت اور قومی خزانہ ہوتا ہے اِس لئے جماعت کے افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقع پر خاص طور پر دعائیں کریں تا کہ یہ خزانہ ہمارے ہاتھوں سے جاتا نہ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ صحابہ کے وجود کو ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھے تا کہ جماعت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ وہ روحانی طور پر اپنے پاؤں پر آپ کھڑی ہو سکے۔ اور جماعت کے اندر ایسے نئے وجود پیدا ہو جائیں جو اپنی قربانی، اپنے اخلاص، اور اپنے تقویٰ کے لحاظ سے صحابہ کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہوں۔ جہاںتک مالی اور جانی قربانیوں کا تعلق ہے اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اندر ایسے نوجوان کثرت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں جو جانی اور مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اور اِس کے لئے اُن کے اندر بہت زیادہ جوش بھی پایا جاتا ہے۔ مگر روحانی رنگ ظاہری قربانیوں سے جُدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا، اُس کے کلام پر غور کرنا، اُسکی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دوسروں کے اندر بھی اُن صفات کو پیدا کرنا اِس کا نام روحانیت ہے۔ محض قربانیاں تو غیر اقوام اور غیر مذاہب کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔جو چیز دنیا کی دوسری قوموں کے اندر نہیں پائی جاتی اور صرف الہٰی جماعتوں میں ہی پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور صفاتِ الہٰیہ کو اپنے اندر جذب کرنا اور لوگوں کو ان چیزوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اوریہی اصل روحانیت ہے۔ اس کے بعد دوسری چیزوں کا نمبر آتا ہے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس دفعہ جس قسم کی شدت کی گرمی پڑی ہے اِس نے عام صحتوں کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے مگر جو کمزور اور بیمار لوگ ہیں اُن کی صحتوں کو تو بہت ہی نقصان پہنچایا ہے۔ مَیں خود کئی دنوں سے قریباً صاحبِ فراش ہوں۔ کچھ تو دردِ نقرس کا دَورہ شروع ہے مگر زیادہ تر گرمی کی شدت کی وجہ سے میرے جگر کو بہت نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے قریباً چوبیس گھنٹے میری حالت نیم جان کی سی رہتی ہے۔ اور جگر کی خرابی کی وجہ سے متلی کے دَورے بعض دفعہ ایسے شدید ہوتے ہیں جیسے ہیضہ کی صورت ہوتی ہے۔اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارا معدہ ہی اُلٹ جائے گا۔ اِس لئے سب دوستوں کو دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ گرمی کی اِس ناقابلِ برداشت شدت کو دور کر دے۔ گرمی تو پہلے بھی تھی مگرا ِس وقت اللہ تعالیٰ نے اِس کی طرف توجہ پیدا کر دی ہے۔ چنانچہ آج رات سے مجھے بھی اِس طرف زیادہ توجہ ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ بارانِ رحمت بھیج کر اپنے بندوں کوگرمی کی شدت سے بچالے اور اب جبکہ مَیں (منبر کی طرف آتے ہوئے) گزر رہا تھا تو رستہ میں مجھے بہت سے بچوں کی آوازیں بھی سنائی دیں کہ بارش کے لئے دعا کی جائے اِس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ طبائع کے اندر یہ عام احساس پیدا ہو چکا ہے۔ لیکن یہ چیزیں ہر فرد پر اثر رکھتی ہیں۔ گرمی کسی ایک انسان کے لئے نہیں آتی بلکہ سب پر یکساں آتی ہے۔ اس لئے ہرایک کو ہی اس کے لئے دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے گرمی کی اس شدت کو جو بُہتوں کی جانیں لے چکی ہے اور بُہتوں کو بیمار کر رہی ہے اور کئی لوگ اِسکی برداشت نہ کرتے ہوئے نیم جان ہو رہے ہیں دُور فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت کے افراد کو خصوصاً ایسی امراض اور تکالیف سے بچائے جن کی وجہ سے خدانخواستہ اُن کے اندر کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے کا احتمال ہو اور وہ دین کی خدمت سے محروم رہ جائیں۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا ہے اُن آگ لگانے والوں کے افعال کا جنہوں نے لاہور اور امرتسر کے لوگوں کے گھروں کو آگیں لگائیں۔ خدا تعالیٰ نے اُن کو بتایا ہے کہ تمہاری آگیں تو صرف چند گاؤں اور شہروں تک محدود ہیں لیکن اگر ہم آگ لگانا چاہیں تو ہم سارے ملکوں کو بھسم کر سکتے ہیں۔ گرمی کی اِس شدت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک تو آئندہ فصلوں کے لئے زمیندار کوئی تیاری نہیں کر سکے۔ دوسرے ہر انسان کی صحت کمزور ہو رہی ہے۔ اور وہ طاقت اور قوت جس سے انسان اپنی ذات کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اچھے اور مفید کام کرسکتا ہے زائل ہو رہی ہے۔ اِن دوا مور کے بعد اب میں ایک تیسری بات بیان کرنا چاہتا ہوں۔
الفضل 1 میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جو میری فروری 1947 ء کی ایک خواب کے متعلق ہے۔ مَیں نے 25 یا 26 فروری کو ایک رؤیا دیکھا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے لفظاً لفظاً پورا کر دیاہے۔ پہلے تو مَیں اسکی اَور تعبیر سمجھتا تھا مگر گزشتہ واقعات نے بتلا دیا ہے کہ وہ خواب انہی واقعات کے متعلق تھی۔ا بھی اِس خواب کے اَور حصے بھی ہیں جن کی تعبیر باقی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری وہ خواب لفظاً لفظاً پوری ہو چکی ہے جس میں آگیں لگانے کی طرف اشارہ تھا۔ مَیں نے وہ خواب 28 فروری کو مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں دوستوں کے سامنے بیان کی تھی۔ اور یہ رؤیا اُس دن سے دو تین دن پہلے کی تھی یعنی 25 یا 26 فروری کی۔ اور یہ خواب الفضل 20 مارچ 1947ء میں شائع ہوئی تھی۔ اِس رؤیا میں مَیں نے دوزخ کا ایک نظارہ دیکھا تھا۔
مَیں نے دیکھا کہ دوزخ میں بچھو ہیں جو چھ سا ت گز کے قریب لمبے ہیں۔ پہلے مجھے صرف دو بچھو نظر آئے جوعلاوہ سات آٹھ گز لمبا ہونے کے بہت موٹے بھی تھے جیسے کہ ہوائی جہاز ہوتا ہے ۔ عام طور پر تو بچھو ڈیڑھ یا دو انچ لمبے ہوتے ہیں مگر وہ بچھو چھ ،سات گز لمبے تھے۔ جیسے ایک اچھی بڑی کشتی ہوتی ہے جس میں کہ اٹھارہ یا بیس آدمی سوار ہو سکیں۔ اِن دونوں بڑے بچھوؤں میں سے ایک نے دوسرے بچھو پر حملہ کر دیا۔ مگر اُس نے آگے سے حملہ آور بچھو کو ایسا ڈنگ مارا کہ اُسے پرے پھینک دیا۔ اِس کے بعد وہ دونوں بچھو ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے اور دونوں نے آگ کے شعلوں کے ساتھ جواُن کے منہ سے نکلتے تھے لڑائی شروع کر دی۔ اِس کے بعد کچھ اَور بچھو بھی پیدا ہو گئے۔ اُن کے قد بھی بڑے بڑے تھے گو پہلو ں سے چھوٹے۔ اور اُنہوں نے بھی آگ کے شعلوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ ان شعلوں کا نظارہ نہایت ہیبت ناک تھا۔
اب دیکھو بعینہٖ یہی نقشہ گزشتہ فسادات میں دیکھنے میں آیا۔ پہلے ہندوؤں اور سکھوں نے لاہور میں جلسہ کیا اور اُس جلسے میںانہوں نے بڑے زور کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم مسلمانوں کو تلوار کے زور سے سیدھا کر دیں گے۔ یہاں تک کہ ایک لیڈر کے متعلق مَیں نے ہندو اخباروں میں پڑھا کہ تقریر کرتے ہوئے جوش سے دروازہ کے پاس آ گیا اور اپنی تلوار ہوا میں گُھما کر کہا اِس تلوار کے ساتھ ہم مسلمانوں کو سیدھا کر دیں گے۔ گویا لڑائی کی ذہنیت کو اللہ تعالیٰ نے بچھو سے مشابہت دی۔ بچھو کے متعلق مشہور ہے کہ
نیشِ عقرب نہ از پئے کین است
مقتضائے طبیعتش ایں است
یعنی یہ جانور حملہ کرتے وقت کوئی وجہ نہیں دیکھتے بلکہ بِلاوجہ حملہ کرتے ہیں۔ اور کوئی بھی ان کے آگے آ جائے اُسے ڈنگ ما ر دیتے ہیں۔ پس خواب میں بچھو دکھا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ ملک کے ایک طبقہ کے لوگوںکی ذہنیت ایسی ہو چکی ہے کہ وہ بِلاوجہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور وہ لوگ نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وجہ اور دلیل مدنظر نہیں رکھیں گے بلکہ بِلاوجہ ہی وہ بچھو کی طرح ڈنگ ماریں گے۔ اور ایسے لوگ ہندوؤں میں بھی ہیں اور مسلمانوں میں بھی ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے رؤیا میں اِس طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ جو لوگ حملہ میں ابتدا کریں گے اُنہیں مخالف فریق اُٹھا کر پرے پھینک دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ابتدا کی۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو ئے اور مسلمانوں نے انہیں اٹھا کر پرے پھینک دیا۔ پھر دونوں فریق کی آپس میںلڑائی شروع ہو گئی۔ اور جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا آگ کے شعلوںسے لڑائی ہوئی۔ اور یہ نظارہ لاہور، امرتسر اور کئی دوسری جگہوں میں دیکھنے میں آیا۔ اور آگ کے ساتھ ایک دوسرے کو اِس قدر نقصان پہنچایا گیا کہ اِس کی کوئی مثال ہی نہیں مل سکتی۔
ایک انگریزی اخبار کا ایک انگریز نامہ نگار جس نے لاہور اور امرتسر کے تباہ شدہ علاقوں کا دَورہ کیا تھا اُس نے بیان کیا کہ پانچ سال کی جرمنوں کی وحشیانہ گولہ باری کے نتیجہ میں جتنے مکانات لندن میں تباہ ہوئے تھے اُس سے زیادہ مکانات لاہور اور امرتسر کے دو تین ماہ کے فسادات میں تباہ ہو گئے ہیں۔ گویا پانچ سال کے لمبے عرصہ میں جتنا ظلم جرمنوں نے انگلینڈ کے سب سے بڑے شہر لندن پر کیا تھا اُس سے زیادہ ظلم دو تین ماہ کے قلیل عرصہ میں لاہور اور امرتسر میں ہوا۔ ان فسادات کی ابتدا 31 مارچ سے ہوئی۔ گویا ان فسادات سے چھ یا سات دن پیشتر خدا تعالیٰ نے مجھے بتا دیا تھا کہ اب عنقریب آگ کی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ چنانچہ یہ لڑائی شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے اور کئی جگہوں سے نقصانات اور فسادات کی خبریں آ رہی ہیں۔ پھر یہ آگ کی لڑائی اتنی شدت کے ساتھ ہوئی کہ بعض شہروں میں تومحلوں کے محلے خالی ہو چکے ہیں۔ اور جہاں بڑی بڑی عمارتیں تھیں وہاں اب ملبہ کے ڈھیروں کے سوا کچھ نہیں رہا۔ لاہور کے متعلق ایک خبر ملی ہے کہ شاہ عالمی دروازہ کے اندر دو دوسو گز تک بازار کے دو رَویہ مکانات بالکل بھسم ہو چکے ہیں۔ گویا صرف ایک جگہ ایک بڑے گاؤں یا ایک چھوٹے قصبہ کے برابر مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ پھر ان فسادات میں ایک ایک محلہ میں کروڑوں کروڑ روپیہ کا نقصان ہوا ہے۔ بعض جگہیں تو ان شہروں میں تباہی کا عجیب منظر پیش کرتی ہیں۔ اورکوئی شخص انہیں دیکھ کر پہچان ہی نہیں سکتا کہ یہ وہی جگہیں ہیں جہاں چار چار پانچ پانچ منزلہ مکانات ہوا کرتے تھے۔ پھر ان فسادات کے دوران میں ایسے ایسے دردناک اور جگر پاش واقعات ہوئے ہیں کہ اُن کو سُن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ سنگدل سے سنگدل انسان بھی ان کو سن کر اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکتا۔
مجھے پرسوں ہی کسی دوست نے بتایا کہ جب آگیں لگتی تھیں تو جن کے گھروں کو آگیںلگائی جاتی تھیں اُن کے بچے اور عورتیں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور نہایت عاجزانہ طور پر آگ لگانے والوں سے کہتے تھے ہم تو پانچ چھ سَو سال سے یہاں رہ رہے ہیں ہمیں کیوں بے در اور بے گھر کرتے ہو۔ مگر اُس وقت غصہ کی وجہ سے کسی کو اِن درد بھرے الفاظ کی پروا نہ ہوتی تھی۔ اور یہ صرف اس لئے ہوتا رہا کہ خدائی فیصلہ صادر ہو چکا تھا کہ آگ کی لڑائی لڑی جائے۔ اور یہ ایک اٹل فیصلہ تھا جو بچھوؤں کی سی ذہنیت والوں کے لئے مقدر ہو چکا تھا۔ پس آگ کی لڑائی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اس نے بہت سے شہروں کو بھسم کر کے رکھ دیا۔ محلوں کے محلے اور گاؤں کے گاؤں تباہ و ویران ہو گئے۔ اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی نہایت عظیم الشان طور پر پوری ہوئی اور مومنوں کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوئی۔ مگر جہاں یہ پیشگوئی پوری ہو کر ہمارے لئے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوئی ہے وہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اِن فسادات اور فتنوں کو دور کرنے کا کام بھی ہماری جماعت کے سپرد ہے۔
جیسا کہ خواب میں مجھے ایک بچھو دکھایا گیا جس نے پلٹا کھا کر آدمی کی شکل اختیار کر لی اور اُس نے اُس جگہ کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں میں بیٹھا تھا۔ اس کے بعد مجھے پیچھے سے آواز آئی کہ قرآن پڑھو، قرآن پڑھو۔ اور اِس آواز کے آتے ہی مَیں نے قرآن شریف پڑھنا شروع کر دیا اور ایسی بلند اور سُریلی آواز میں پڑھا کہ مَیںنے خود بھی محسوس کیاکہ میری آواز بہت بلند اور سُریلی ہے اور مَیں جس طرف سے گزرتا ہوں میری آواز پہاڑوں اور میدانوں میں گونج پیدا کر دیتی ہے۔ اِس میں خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ بچھو صفت لوگوں کی اصلاح کا سوائے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے اور کوئی علاج نہیں۔ مَیںنے دیکھا ہے بعض دفعہ ہماری جماعت کے کمزور لوگ فسادات اور تباہی کے ان واقعات کو مزے لے لے کر سنتے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی کی خبروں کے متعلق تو نہیں۔ لیکن جب وہ یہ سنتے ہیں کہ کسی جگہ مسلمانوں نے آگ لگائی ہے تو اِس خبر پر بعض کمزور احمدیوں کے چہروں پر بھی بشاشت پیدا ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ایسی خبروں کو سن کر خوش ہونا درندگی اور وحشت ہے۔ اور یہ خوش ہونے کا مقام نہیں بلکہ رونے کا مقام ہے۔ تم ذرا اپنے ہی گھروں کو دیکھو کہ جب بارش کے ایّام میں تمہارے گھروں کی کمزور چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں تو تم کتنے افسردہ خاطر ہوتے ہو۔ مگر اندازہ تو لگاؤ اُن بے گھر اور بے در لوگوں کے متعلق کہ اِس شدید گرمی کے موسم میں جبکہ خالی دھوپ ہی ناقابلِ برداشت ہے اور گرم لُو چہروں کو جُھلس رہی ہے وہ لوگ کیا کرتے ہوں گے۔ اور پھر تصور تو کرو اُس حالت کا جبکہ شہر میں آگ لگی ہوئی ہو اور لوگ بھاگتے پھر رہے ہوں۔ اُن کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اور اِن حالات کا ایک مومن کے دل پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ لڑائیاں اور فتنے اور فسادات سوائے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے دور نہیں ہو سکتے۔ ’’قرآن پڑھو‘‘ کا صرف یہی مطلب نہیں کہ قرآن کریم کھول کر تلاوت کر لی جائے۔ بلکہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا جائے اور اِس کے حکمت بھرے احکام کی تمام دنیا میں اشاعت کی جائے۔ کیونکہ یہ آگیں اُس وقت تک بجھ نہیں سکتیں جب تک فطرتوں کے اندر تبدیلی پیدا نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کی صحیح معنوں میں اصلاح نہ ہو جائے۔اور ان کی فطرتوں کے اندر نرم دلی اور رحمدلی نہ پیدا ہو جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھو کہ آپ کے اندر کتنا زیادہ رحم پایا جاتا تھا۔ آپ تو کسی جانور کو دکھ دینے کو بھی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ کُجا یہ کہ زندہ انسانوں کو جلا دیا جائے۔ گزشتہ فسادات میں کئی ایسے واقعات سُننے میں آئے ہیں کہ زندہ لوگوں کو اٹھا اٹھا کر آگ میں پھینک کر جلا دیا جاتا رہا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ دیکھا کہ کچھ لوگ لوہے کو تاپ کر ایک گدھے کے منہ پرنشان لگا رہے تھے (لوگ اپنے جانوروں کو لوہا گرم کر کے نشانات لگا دیتے تھے تا کہ چُرائے نہ جا سکیں۔) آپؐ نے دیکھ کر فرمایا تم لوگ گدھے کو یہ نشان کیوں لگا رہے ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کو عذاب کیوں دیتے ہو؟ اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ نشان لگانا اس لئے ضروری ہے کہ اسے کوئی چُرا نہ سکے۔ اِس کے بغیر ہمارے جانور محفوظ نہیں رہ سکتے۔ آپؐ نے فرمایا اگرنشان لگانا اِتنا ہی ضروری ہے تو پیٹھ پر لگانا چاہیئے جہاں کا چمڑا سخت ہوتا ہے۔ چہرے کے اعصاب چونکہ نازک ہوتے ہیں اِس لئے چہرے پر نہیں لگانا چاہیئے۔ 2
اِسی طرح ایک دفعہ آپؐ نے دیکھا کہ چونٹیوں کے سوراخوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ صحابہؓ چونکہ جنگ کے ایام میں زمین پر سوتے تھے اور اُس دن جہاں لشکر اُترا تھا وہاں چیونٹیوں کے سوراخ تھے اِس لئے صحابہؓ نے چیونٹیوں کے سوراخوں میں آگ ڈال دی۔ آپؐ نے دیکھا تو فرمایا آگ کا عذاب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بندوں کا حق نہیں کہ وہ کسی جاندار کو آگ کا عذاب دیں۔ 3 اب دیکھو وہ چیونٹیاں تھیں مگر چیونٹیوں کا جلانا بھی آپ نے پسند نہ فرمایا۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے رحم کی کیفیت کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک جگہ آپ کے ساتھ جا رہے تھے کہ ہم نے ایک فاختہ دیکھی جس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ وہ بچے ہم نے پکڑ لئے اور فاختہ اُڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپؐ تشریف لائے تو آپؐنے دیکھا تو وہ فاختہ شور مچاتی ہوئی ہمارے سروں پر اُڑ رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کس نے اِس فاختہ کے بچے اس سے چھین کر اسے دُکھ دیا ہے؟ یہ سن کر ہم نے فوراًان بچوں کو چھوڑ دیا۔ 4
پس رحم ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ ہم جو خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم کی اُن آیتوں کی وجہ سے کرتے ہیں جن میں عذاب اور دوزخ کا ذکر آتا ہے؟ یا ہماری محبت ان آیات کی وجہ سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات بیان ہوئی ہیں؟ یقینا ہم دوزخ اور عذاب کے بیان والی آیات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت نہیں کرتے۔ بلکہ ہم خدا تعالیٰ کی رحمٰن، رحیم، ستّار، غفّار اور رزّاق وغیرہ صفات کی وجہ سے اُس کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اِسی طرح اگر دنیا میں ہم نے محبت پیدا کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے اندر محبت پیدا کریں۔ یوں تو ہم ہمیشہ ہی کہا کرتے ہیں کہ جماعت کے لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔ مگر اِس کا اثر اُس وقت زیادہ ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ کے قادر اور حیّ و قیّوم ہونے کا ثبوت اُس کے تازہ نشانات سے ملتا ہے اور لوگوں کے ایمان اُن نشانات کو دیکھ کر تازہ ہوتے ہیں اور قلوب کے اندر نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہماری جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اِس وقت ایک ایسا نشان ظاہر کیا ہے جس کی نظیر سارے ہندوستان میں نہیں ملتی۔ بلکہ ہندوستان تو کیا درحقیقت ساری دنیا میں اِسکی نظیر نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے وقوعہ سے چھ یا سات دن پیشتر جبکہ کوئی بھی آثار اِن واقعات کے پائے نہ جاتے تھے اِس کی خبر دی تھی۔ فسادات 3 مارچ کے بعد شروع ہوئے تھے۔ کیونکہ 3 مارچ کو سر خضر حیات خان صاحب نے وزارت سے استعفیٰ دیا اور اس استعفیٰ کی وجہ سے ہندوؤں اور سکھوں نے یہ دیکھ کر کہ وزارت ہمارے ہاتھوں سے جا رہی ہے جلسے شروع کئے اور اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ اِس کے بعد فسادات شروع ہوئے تھے۔ پس خدا تعالیٰ نے مجھے اُس وقت خبر دی تھی جبکہ فسادات کے لئے کوئی وجہ بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔ اور بظاہر اس کے کوئی آثار نظر نہ آتے تھے۔ ایک گھر کو آگ لگنے کی خبر بتائی جاتی تو یہ بھی پوری ہونے پر عظیم الشان ہوتی۔مگر یہاں تو خدا تعالیٰ نے ایسی آگ کی خبر دی تھی جس کی دونوں فریق ایک دوسرے پر بوچھاڑ کرنے والے تھے اور لمبے عرصہ تک کرنے والے تھے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور وہ فسادات جو 3 مارچ کو شروع ہوئے تھے آج تک ختم نہیں ہوئے اور اب بھی بعض جگہوں سے آگیں لگنے کی خبریں آ رہی ہیں۔
اِس نشان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اِن دنوں بہت سے نشانات دکھائے ہیں۔ لیکن چونکہ آج میری طبیعت ناساز ہے اِس لئے مَیں ان کے متعلق کچھ بیان نہیں کر سکتا۔ بہرحال یہ نشان جو پورا ہوا ہے یہ ایک ایسا نشان ہے کہ اگر اِس کو لوگوں میں پھیلایا جائے تو اِس سے احمدیت کی تبلیغ میں بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ لاہور اور امرتسر کے لوگوں کے سامنے وہ خواب والا اخبار رکھا جائے اور اُنہیں کہا جائے کہ آگیں لگنے کی وجہ اور اِس کے لئے کوئی سبب پیدا ہونے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے رؤیا میںمجھے ان واقعات کی خبر دے دی تھی۔ اور یہ وقوعہ کوئی ایسا نہیں جیسا کہ روز مرہ کے واقعات ہوتے ہیں بلکہ یہ اپنے اندر ندرت رکھتا ہے۔
ہندوستان کی گزشتہ تاریخ اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ دنیا کی تاریخ بھی اِس آگ کی کوئی نظیر نہیں پیش کر سکتی۔ دنیا کے کسی انسان کے وہم و گمان اور خیال میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ اِتنی آگ لگے گی کہ وہ شہروں کے شہر اور محلوں کے محلے تباہ کر دے گی۔ مَیں سمجھتا ہوں اِن آگیں لگنے کے واقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ بہت سے لوگ جو فوج کی ملازمت سے واپس آئے تھے اُنہیں آگ لگانے کے طریق معلوم تھے۔ اور پھر دونوں فریق کے لوگوں کے دلوں میں کینہ اور بُغض ایک دوسرے کے خلاف اِس حد تک بھرا ہوا تھا کہ ان میں سے ہر ایک نے یہ سمجھا کہ جب تک مَیں دوسرے کو آگ سے بھسم نہ کر دوں گا میرے دل کی آگ سرد نہیں ہو سکتی۔ غرض یہ اِتنا بڑا نشان ہے کہ اگر جماعت اِسے پورے طور پر پھیلائے تو یہ بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے۔
اِس خواب کے اندر ہمارے لئے بھی ایک سبق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن پڑھو اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ۔ پس مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ قرآن پڑھو اور پھیلاؤ تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں سے بُغض اور کینے کو نکال دے۔ اور پھر دنیا میں ایسی نیک او ر صالح جماعت پیدا ہو جائے جیسے انبیاء کی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ہمیںخدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی محبت دی ہے۔ مگر ہماری محبت لوگوں کے کام نہیں آ سکتی۔ کیونکہ بہت بڑی آگ پر اگر ایک گھونٹ پانی کا ڈال دیا جائے تو اُس پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ ہماری تعداد دنیا کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسی پانی کے ایک گھونٹ کو بہت بڑی آگ سے نسبت ہوتی ہے۔ یہ روحانی چشمہ جب تک ساری دنیا میں پھیل نہ جائے اور اسلام کی تعلیم پر صحیح رنگ میں عمل کرنے والے بُغض اور کینہ رکھنے والوں سے بڑھ نہ جائیں اُس وقت تک ہم امن قائم نہیں کر سکتے۔ پس ہماری جماعت کو نہایت زور کے ساتھ تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو الہامات اِن واقعات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر نازل ہوئے تھے اور اب جو نشانات خدا تعالیٰ ہمیں دکھا رہا ہے اُنہیں کثر ت کے ساتھ اور بار بار لوگوں کے سامنے پیش کر نا چاہیئے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت، بنی نوع انسان کی شفقت اور احمدیت کے متعلق رغبت پیدا ہو، اور لوگ اِس طرح ہدایت پا جائیں کہ اُنہیں دیکھ کر یوںمعلوم ہو کہ یہ انسان نہیںبلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین پر چل پھر رہے ہیں۔ اور جب وہ خدا تعالیٰ کے فرشتے بن جائیں گے تو کبھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی نہیں کریں گے۔ بلکہ دنیا میں کامل امن وامان رونما ہو جائے گا۔ جو لوگ ایک دوسرے پر آگ پھینکتے ہیں وہ دوزخی ہیں۔ کیونکہ آگ کو دوزخ کے ساتھ ہی نسبت ہے۔ مگر جنتی جب دوسرے پر پھینکے گا۔ پھل اور پُھول ہی پھینکے گا کیونکہ جنت کے اندر پھل اور پُھول ہی ہوتے ہیں۔ پس جب دنیا میں جنتیوں کی کثرت ہو گی تو اِس کے لازمی معنی یہ ہوں گے کہ فسادات معدوم ہو جائیں گے۔ پس اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور فتنوں اور فسادات کو دور کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بُغض اورکینہ رکھنے والے لوگوں کی ذہنیتوں کو بدل دیں حتیٰ کہ وہ جنتی ہو جائیں۔ ورنہ اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو خطرہ ہے کہ یہ دنیا لڑتے لڑاتے اِس طرح ویرانہ بن جائے کہ اِسے نئے سرے سے آباد کرنا پڑے۔‘‘ (الفضل 7 جولائی 1947ئ)
1:الفضل 2 جولائی 1947ء
2:مسلم کتاب اللّباس باب النُّھی عن ضرب الْحَیوان فی وَجْھہٖ وَ وَسْمِہٖ فیہ۔
3،4: ابوداؤد کتاب الادب باب فی قتل الذَّرِّ۔

25
قربانیوں کا مطالبہ کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ درجہ کی نعمتوں کی طرف بلایا ہے
(فرمودہ 11 جولائی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’تین ماہ کے قریب ہوئے کہ مَیں نے حفاظت ِقادیان کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی جس میں ہماری جماعت کے بہت سے دوست حصہ لے چکے ہیں۔ لیکن باوجود اِس کے کہ اِس تحریک کی میعاد ختم ہو چکی ہے مَیں نے محکمہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اِس تحریک کو اُس وقت تک جاری رکھے جب تک جماعت کے تمام افراد اِس میں شامل نہ ہو جائیں۔ جن لوگوں نے باوجود علم کے اِس تحریک میں حصہ نہیں لیا اگر وہ بعد میں حصہ لیں گے تو وہ نادہندگی کے الزام سے تو بچ جائیں گے لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا ثواب اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو گا جنہوں نے وقت پر اِس تحریک میں حصہ لیا ہے اور عین ضرورت کے وقت اپنی قربانی پیش کر دی ہے۔ لیکن جن لوگوں تک ابھی یہ آواز نہیں پہنچی یا ملک کے فسادات کی وجہ سے اُن کو اطلاع نہیں ہو سکی یا وہ دُور کے ممالک یا دُور کے علاقوں کے رہنے والے ہیں وہ باوجود دیر ہو جانے کے ثواب میں ان لوگوں کے برابر ہی ہونگے جنہوں نے وقت پر اطلاع مل جانے کی وجہ سے سہولت اور آسانی کے ساتھ اِس تحریک میں حصہ لیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں ابھی تک جماعت کے قریباً چوبیس فیصدی لوگ ایسے ہیں جو اِس تحریک میں شامل ہونے سے محروم ہیں۔ اگر ان میں سے آٹھ یا دس فیصدی بیرونجات کے احمدی نکال دیئے جائیں تب بھی ہندوستان کے اندر رہنے والے احمدیوں میں سے پندرہ یا سولہ فیصدی اِس میں شامل ہونے سے ابھی تک محروم ہیں۔ اور یہ ایک نہایت ہی افسوس ناک امر ہے۔کیونکہ زندہ اور روحانی جماعتوں کے لئے تو ایک فیصدی لوگوں کا محروم رہ جانا بھی نہایت افسوسناک ہوتا ہے کُجا یہ کہ پندرہ یا سولہ فیصدی لوگ کسی تحریک میں حصہ لینے سے محروم رہ جائیں۔
یہ تحریک اپنی ذات میں ایک نئی قسم کی تحریک ہے جس کے ذریعہ جماعت کو اِس امر کی طرف لایا جا رہا ہے کہ ہماری جائیدادیں کُلّی طور پر خدا تعالیٰ کی جائیدادیں ہوں۔ اور ہم بیعت کرتے وقت جو اقرار کیا کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اِس کا ثبوت ہمارے عمل سے ظاہر ہو۔ ابھی تو زبانی طور پر لوگ اپنی جائیدادوں کو وقف کر رہے ہیں اور اُن سے مطالبہ صرف ایک فیصدی کا کیا گیا ہے۔ باقی ننانوے فیصدی اُنہی کے پاس رہتا ہے۔ لیکن جُوں جُوں ہماری جماعت کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جائے گا اور جُوں جُوں سلسلہ کی ضروریات بڑھتی جائیں گی یہ مطالبات بھی زیادہ ہوتے جائیں گے۔ لیکن اِن مطالبات کا ہونا جہاں مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اُس کے فضلوں کے حصول کا ایک ذریعہ بن رہا ہے وہاں یہ کمزوروں اور غیر مخلصوں کے لئے ٹھوکر اور ابتلا کا بھی موجب ہے۔ مَیں تو حیران ہوں کہ ملک کے حالات کودیکھنے کے باوجود ایک مومن کہلانے والا شخص کس طرح زبانی طور پر بھی اپنی جائیداد پیش کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ حالانکہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ کئی صوبوں اور علاقوں میں مسلمانوں کی ساری کی ساری جائیدادیں تباہ ہو چکی ہیں۔ پس بجائے اِس کے کہ کوئی دوسرا ان کی جائیدادوں کو تباہ کرے وہ اپنی مرضی سے اپنی جائیدادوں کو اِس طرح وقف کرد یں کہ ضرورت کے موقع پر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور وقت آنے پر خطرات کے بوجھ کو اٹھایا جا سکے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بھی اِس تحریک میں حصہ نہ لیناا ور اِس سے گریز کرنا دانشمندی کے بالکل خلاف ہے۔ امرتسر اور لاہور میں جن لوگوں کے مکانات جلے ہیں وہ آخر اُن کی جائیدادیں ہی تھیں۔ اور ان مکانوں کے جلنے میں صرف چند گھنٹے لگے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر وہ لوگ وقت کی نزاکت کو سمجھتے اور اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیتے یا اپنی جائیدادوں کا ایک حصہ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے پیش کر دیتے تو شاید یہ بلااُن پر نازل نہ ہوتی۔ اور شاید لوگوں کے دلوں میں اِتنی سختی اور بُغض پیدا نہ ہوتا۔ مگر جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اِس بلاء سے بچایا ہے اُنہیں تو اِن حالات سے سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اُنہیں سوچنا چاہیئے کہ جو کچھ ایک جگہ ہوا ہے وہ دوسری جگہ بھی ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ سیاسی تغیرات کے ماتحت حکومتیں بھی ایسے قانون پاس کر دیا کرتی ہیں کہ جن کی رو سے افراد کی جائیدادیں اُن کی اپنی جائیدادیں نہیں رہتیں بلکہ وہ حکومت کی ملکیت سمجھی جاتی ہیں۔ جیسے روس کے علاقہ میں حکومت نے ساری جائیدادیں ضبط کر لی ہیں اور کسی کی ملکیت اُس کی ذاتی ملکیت نہیں رہی۔ ایسی صورت میں یکدم سو فیصدی دینا پڑتا ہے۔ اور پھر سو فیصدی دینے کے باوجود بھی ثواب نہیں ملتا۔ مگر یہاں کسی کا اپنی جائیداد کا سو فیصدی صرف زبانی پیش کرنا اور اس میں سے صرف ایک فیصدی دے دینا اور اِس طرح ثواب بھی حاصل کرنا اور جماعتی ترقی اور تنظیم میں بھی مُمِد ہو جانا کتنی آسان قربانی ہے۔ اور انسان کا دل اِس سے کتنی تسلّی پاتا ہے کہ بجائے اِس کے کہ وہ اپنے مال کو دوسروں کے ہاتھوں تباہ کرا لیتا اُس نے خدا تعالیٰ اور اُس کے دین کے لئے اپنا مال وقف کر دیا۔ پس جو لوگ اب تک اِس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے مَیں اُن کو توجہ دلاتا ہوں اور اِس کے ساتھ ہی اُن لوگوں کو بھی جنہوں نے اِس تحریک میں وعدہ تو کیا ہے لیکن ابھی تک ادائیگی نہیں کرسکے کہ وہ اِس چندہ کی ادائیگی میں سُستی اور غفلت سے کام نہ لیں۔ اِس وقت تک جو کچھ وصولی ہوئی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ تحریک کرتے وقت کہا تو یہ گیا تھا کہ یہ رقم چھ ماہ کے اندر وصول ہو جائے۔ لیکن جس رنگ میں وصولی ہو رہی ہے اُس سے مَیں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ رقم چھ سال میں بھی وصول نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ اِس چھ ماہ کے عرصہ میں زمینداروں کے لئے صرف فصل ربیع ہی ایک ایسا موقع تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے وعدوں کی ادائیگی کر سکتے تھے۔ لیکن ربیع کی فصل آئی اور جا بھی چکی۔ اگر انہوں نے اب یہ رقم ادا نہ کی تو آئندہ مہینوں میں وہ کسی طرح ادا نہیں کر سکیں گے۔ جب تک گندم ان کے پاس ہے یا جب تک گندم کا روپیہ ان کے پاس ہے وہ توفیق رکھتے ہیں کہ اپنے اپنے وعدوں کی ادائیگی کرتے ہوئے اِس بار سے سبکدوش ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ لیکن جب گندم ان کے پاس نہ رہے گی اور گندم کا روپیہ ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا تو آئندہ صرف ماش یا گنّا یا کپاس یا توریا یا سرسوں کی فصلوں پر ہی ان کے پاس روپیہ آ سکتا ہے۔ اور وہ بھی دسمبر سے پہلے نہیں آ سکتا۔ اگر اعلان کی آخری تاریخ سے (جو 30 جون تھی) مزید چھ ماہ کی میعاد شمار کی جائے تو یہ میعاد دسمبر میں ختم ہو تی ہے۔ لیکن دسمبر تک سوائے چھوٹی چھوٹی فصلوں کے کوئی بڑی فصل نہیں ہوتی۔ کماد ہمارے ملک میں بڑی فصل ہے اِسی طرح توریا بھی بڑی فصل ہے اور کپاس اور سرسوں کی فصلیں بھی بڑی سمجھی جاتی ہیں۔ مگر اِن سب کی آمدن مارچ یا اپریل تک ہوتی ہے دسمبر تک نہیں ہوتی۔ پس جو لوگ اپنے وعدوں کی رقوم اس وقت ادا نہیں کریں گے وہ مجبور ہوں گے کہ اپنے وعدوں کو ٹلا دیں۔ اور پھر وہ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ ہمیں مارچ یا اپریل تک مہلت دی جائے۔ پس جماعت کے دوستوں کو اور بالخصوص زمینداروں کو جلد از جلد اپنے وعدوں کی رقوم کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہیئے ورنہ ایک نادر موقع ان کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اِسی طرح دوسرے دوستوں کو بھی جلد ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ انہیں یہ انتظار نہیں کرنا چاہیئے کہ وہ چھ مہینے گزرنے کے بعد ادا کر دیں گے۔ کیونکہ چھ مہینے کے بعد جو لوگ ادا کریں گے اُنہیں سُستی اور غفلت کا دھبہ لگ جائے گا۔ ہر شخص جو سُستی کرتا ہے اور آج کا کام کل پر چھوڑتا ہے وہ اِسی لئے ایسا کرتا ہے کہ اُسے اُس کام کے ساتھ محبت نہیں ہوتی۔ ورنہ جو شخص اپنے کام کے ساتھ محبت رکھتا ہے وہ جلد از جلد اُسے سرانجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔
منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم اپنا قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اُن سے وعدہ کیا کہ آپؑ کبھی اُن کے پاس کپورتھلہ تشریف لائیں گے۔ اُن دنوں کپورتھلہ تک ریل نہ ہوتی تھی اِس لئے پھگواڑہ سے اُتر کر یکّوں پر کپورتھلہ جانا پڑتا تھا۔ آپ کسی کام کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تو آپ کو خیال آیا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرنا چاہیئے۔ چنانچہ آپؑ بغیر اطلاع دیئے کپورتھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم ایک دوکان پر بیٹھے تھے اور باتیں کر رہے تھے کہ سلسلہ کا ایک شدید ترین دشمن جو ہمیشہ اُن کے ساتھ سلسلہ کے خلاف ہنسی اورتمسخر کیا کرتاتھا اُن کے پاس پہنچا اور کہا تمہارے مرزا صاحب اڈّے پر آئے ہوئے ہیں۔ منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم کہتے تھے جب مَیں نے اُسکی یہ بات سُنی تومجھے اُس کی پرانی ہنسی اور تمسخر کی وجہ سے یہ خیال گزرا کہ یہ میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔ ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام تشریف لاتے تو مجھے پہلے اپنی تشریف آوری کی اطلاع نہ دیتے؟ چنانچہ مَیں نے اُس کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اور کہا تم اِتنے نالائق آدمی ہو کہ اِس قسم کے معاملات میں بھی ہنسی اور مذاق سے باز نہیں آتے جو ہماری محبت کے جذبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اگر اُس نے سچی بات کہی ہو تو مجھے اُس کے ساتھ جھگڑنے میں دیر ہو جائے گی۔ چنانچہ مَیں ننگے سر اور ننگے پاؤں وہاں سے اڈّے کی طرف بھاگا۔ مگر تھوڑی دُور جا کر پھرمجھے خیال آیا کہ اُس نے مذاق ہی نہ کیا ہو۔ چنانچہ مَیں پھر ٹھہر گیا اور پھر اُسے گالیاں دینی شروع کیں کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ مذاق کرنے کے عادی ہو۔ اُس نے کہا میں سچ کہتا ہوں کہ آپ کے مرزا صاحب اڈّے پر پہنچ چکے ہیں۔ مَیں نے کہا ہماری قسمت کہاں کہ آپؑ یہاں تشریف لے آئیں۔ تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ وہ کہنے لگا تم مجھے گالیاں ہی نہ دیتے رہو۔ مرزا صاحب تو وہاں سے چل بھی پڑے ہونگے۔ جلدی جاؤ اور اُن سے ملو۔ یہ سن کر مَیں پھر اڈّے کی طرف دَوڑ پڑا۔ مگر چند قدم چل کر پھر مجھے خیال آیا کہ اُس نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے۔ اِس لئے مَیں نے پھر اُسے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اُس نے کہا تم مانو یا نہ مانو مَیں سچ کہہ رہا ہوں کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے مرزا صاحب کو اڈّے پر دیکھا ہے۔ اِس پر مَیں پھر اڈے کی طرف بھاگا۔ مگر ابھی مَیں راستہ میں ہی تھا کہ مَیں نے دیکھا سامنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام تشریف لا رہے ہیں۔ اور مَیں خدا تعالیٰ کا شکر بجا لایا۔ اب دیکھو جس چیز کے ساتھ کسی کو محبت ہوتی ہے وہ اُس کے حاصل کرنے میں دیر نہیں کیاکرتا۔ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کو یہ یقین نہ تھا کہ آپؑ تشریف لائے ہیں۔ لیکن وہ محبت کی وجہ سے اُدھر اُس اطلاع دینے والے کو بُرا بھلا کہتے تھے اور اِدھر اڈّے کی طرف بھاگتے تھے۔ گویا اُن پر ایک اضطراب کی کیفیت طاری تھی۔
پس جن لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت ہوتی ہے وہ جلد سے جلد دین کے کاموں کو سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی ثبوت ہوتا ہے اِس بات کاکہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول اور اُس کے دین کی سچی محبت موجود ہے۔ اِس لئے جو شخص دین کی خدمت کے لئے چندہ لکھواتا ہے وہ اگر سچا اور حقیقی مومن ہو تو اُس چندے کی ادائیگی کو اپنے لئے فخر کا موجب اور خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ اور یقین رکھتا ہے کہ مَیں جتنی جلدی اِس فرض سے سبکدوش ہو جاؤں گا اُتنا ہی زیادہ مجھ پر خدا تعالیٰ راضی ہو گا۔ پس جماعت کے دوستوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے چھ ماہ کی میعاد تک بھی انتظار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ جلد از جلد یہ رقوم ادا کر دینی چاہئیں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اِس تحریک کے چندہ کی ادائیگی کی موجودہ رفتار اتنی سُست ہے کہ چھ ماہ تو کیا چھ سال میں بھی یہ رقم جمع نہیں ہوسکتی۔ اِس لئے جماعت کو فرض شناسی اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے اور اِس تحریک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جلد از جلد اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کسی قسم کی قربانی سے نہیں ڈرنا چاہیئے۔
جن خطرات میں سے اِس وقت ہمارا ملک گزر رہا ہے اور جن خطرات میں سے اِس وقت ہماری جماعت گزر رہی ہے ان میں سے جو خطرات ظاہر ہیں وہ تو ظاہرہی ہیں اور سب دوستوں کو معلوم ہیں اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو آپ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ اور مَیں اُن باتوں کو اِس لئے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں کمزور لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں۔ ورنہ اِن دنوں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ اُن کے تصور سے مضبوط سے مضبوط انسان کادل بھی بیٹھ جاتا ہے اوراُس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ صرف جماعت کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اور بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے میں وہ باتیں پردۂ اخفاء میں رکھتا ہوں ورنہ اِن دنوں مَیں بعض اوقات اِس طرح محسوس کرتا ہوں جیسے کسی عظیم الشان محل کی دیواریں نکل جائیں اور اُس کی چھت کے سہارے کے لئے ایک سرکنڈا کھڑا کر دیا جائے۔ تاج محل یا ایسی ہی کسی بڑی عمارت کی چھت کے نیچے اگر سرکنڈا کھڑا کر دیا جائے تو جو حال اُس سرکنڈے کا ہو سکتا ہے وہی حال بسا اوقات اِن دنوں مَیں اپنا محسوس کرتا ہوں۔ وہ بوجھ جو اِس وقت مجھ پر پڑ رہا ہے اور وہ خطرات جو جماعت کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آرہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ اُن کا اظہار بھی مشکل ہے او راُن کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں۔ محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اُن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مَیں اُس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں۔ ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کندھے اِتنے مضبو ط ہوں کہ وہ اِس بوجھ کو سہار سکیں اور ان تفکرات کا مقابلہ کر سکیں۔ ہماری جماعت کے حصہ میں تو صرف چندے ہی ہیں۔ تفکرات میں اُس کا کوئی حصہ نہیں۔ بلکہ تفکرات اُن تک پہنچتے بھی نہیں۔ جیسے خطرہ کے وقت ماں اپنے بچہ کو گود میں سُلا لیتی ہے او ر سارا بوجھ خو د اٹھا لیتی ہے یہی حالت اِس وقت میری ہے۔ مَیں بھی اُن خطرات سے جو مجھے اِس وقت نظر آ رہے ہیں جماعت کو آگاہ نہیں کرتا اور سارا بوجھ اپنے دل پر لے لیتا ہوں۔ کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے کام تو بہرحال خدا تعالیٰ نے ہی سرانجام دینے ہیں مَیں جماعت کے لوگوں کو کیوں پریشان کروں۔ اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا اُس کی مشیّت پوری ہو کر رہے گی۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے جس مقام پر مجھے کھڑا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رُتبہ مجھے عطا کیا گیا ہے اُس کے لحاظ سے سب سے پہلا اور آخری ذمہ دار مَیں ہی ہوں۔ اور جماعت کے بوجھ اٹھانے کا اَصل حق میرا ہی ہے۔ باقی جیسے قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اُس نے کہا تھا 1 یعنی لوہے کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ۔ وہی بات مَیں نے بھی جماعت کے سامنے پیش کر دی ہے کہ تم اپنی جائیدادوں کا ایک فیصدی قربانی میں پیش کر دو اور بقیہ کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ وہ خود جماعت کی حفاظت کے سامانے پیدا کر دے گا۔ اِس وقت تمہارا کام صرفپیش کرنا ہے۔ ورنہ اصل اور اہم کام تو خدا تعالیٰ اور اُس کے مقرر کردہ افراد نے ہی کرنا ہے۔ بلکہ افراد نے بھی کیا کرنا ہے خدا تعالیٰ نے خود ہی کرنا ہے ۔جماعت تو ان مصائب اور مشکلات کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں رکھتی۔ کیونکہ ان کو دور کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے۔ پس سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے اَور کوئی ہستی ان کو دور کر ہی نہیں سکتی۔ لیکن جو چھوٹا ساکام ہماری جماعت کے ذمہ ہے اگر جماعت اُس میں بھی سُستی اور غفلت سے کام لے تو یہ نہایت ہی افسوسناک امر ہو گا اور ہماری جماعت کی آئندہ ترقیات میںروک ثابت ہوگا۔
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے بد نتائج سے محفوظ رکھے اور ہمارے دلوں میں اِس قدر دین، ایمان اور اخلاص بھر دے کہ ہماری یہ قربانیاں آئندہ آنے والی قربانیوں کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوں۔ اور ہم میں سے ہر فرد یہ محسوس کرے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان سے ان قربانیوں کا مطالبہ کرکے اسے اعلیٰ درجہ کی نعمت کی طرف بلایا ہے نہ کہ جانی یا مالی قربانی کے لئے۔ اور ہمارا انجام بخیر ہو۔ اور وہ زندگی جو حقیقی زندگی ہے اور جس کے مقابلہ میں دُنیوی زندگی بالکل بے حقیقت اور ناپائیدار ہے۔ یعنی ہماری ابدی زندگی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کی رحمتوں کے نیچے گزرے اور ہماری یہ عارضی اور غیر مستقل زندگی بھی ناکامی اور نامرادی کی زندگی نہ ہو۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ)‘‘ (الفضل 21 جولائی 1947ئ)
1: الکہف:97

26
اِن دنوں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو ہر قسم کے مصائب اور فتنوں سے محفوظ رکھے۔
(فرمودہ 18 جولائی 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت پڑھی:
’’1
اس کے بعد فرمایا:
’’مجھے آج نقرس کے دور ہ کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے میرے پاؤں میں ورم ہے اور گھٹنے میں بھی درد ہے اس لئے میں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت کے دوستوں کو بار بار اِس امر کی طرف توجہ دلائی جائے کہ وہ ان دنوں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو ہر قسم کے مصائب اور فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں ایسی مشکلات پیش نہ آئیں جن کے برداشت کرنے کی جماعت میں طاقت نہ ہو۔
مومن تو الگ رہے کافروں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد کا اعلیٰ پایہ پر کھڑا ہونا پوری قوم کے متعلق کوئی معیار نہیں ہو سکتا۔ قومی معیار یہی ہوتا ہے کہ تمام کے تمام افراد یا اتنی اکثریت افراد کی کہ جن کو دیکھ کر یہی کہا جا سکے کہ ساری قوم ہی اس معیار پر قائم ہے انتہائی درجہ کی جرأت اپنے اندر رکھتی ہو اور انتہائی درجہ کی قربانیوں میں حصہ لینے کو تیار ہو۔ دراصل قوم نام نہیں ہوتا چند مردوں کا بلکہ قوم میں شامل ہوتے ہیں بچے بھی اور قوم میں شامل ہوتی ہیں عورتیں بھی اور قوم میں شامل ہوتے ہیں نوجوان بھی۔ اور قوم میں شامل ہوتے ہیں غریب بھی اور امیر بھی۔ اور جاہل بھی اور عالم بھی۔ جب تک یہ سارے کے سارے قربانی کے انتہائی اوراعلیٰ معیار پر قائم نہ ہوں اُس وقت تک قوم اپنی قربانیوں کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہی دلوں کو جاننے والا ہے اور وہی اِس بات کو جانتا ہے کہ ہمارے دل کس حد تک اُن وعدوں پر قائم ہیں جو ہم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے ہیں۔ اپنے غیر کی بات کو جاننا تو الگ رہا اور اپنے رشتہ داروں کی حالت کو جاننا بھی الگ رہا درحقیقت انسان اپنے دل کی حالت کو بھی صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ایک شخص جو اپنے آپ کو اعلیٰ درجہ کا مومن سمجھتا ہے وقت آنے پر کچّا دھاگا ثابت ہوتا ہے اور اُس کا ایمان بناوٹی اور ملمع معلوم ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو کہ اِس بات کو جانتی ہے کہ ہم میں سے کون اپنے وعدوں میں سچے ہیں اور کون اپنے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور کون اپنے وعدوں میں جھوٹے ہیں۔ جھوٹوں کی اصلاح کرنا اور اُن کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا یہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اور کمزوروں کو طاقت دینا اور اُن کے اندر جرأت اور بہادری اور استقلال پیدا کر دینا یہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اور مضبوط اور وعدوں کے سچے لوگوں کو اپنے ایفائے عہد کے مقام پر قائم رہنے دینا اور اُنہیں نیچے گرنے سے بچانا یہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ پس اِس بارہ میں سارا ہی معاملہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورۂ بقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور غیر قوموں کے اختلافات کو بیان کرنے کے بعد ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ الہٰی! ہو سکتا ہے کہ ہمارے دلوں میں تو ایمان ہو اورہم سچے دل سے تیرے دین میں داخل ہوں لیکن ہماری خطاؤں اور غلطیوں سے ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہوں اور اُنہیں اندر ہی اندر گُھن کھا چکا ہو جبکہ ظاہری شکل کے لحاظ سے تو وہ محفوظ نظر آتے ہوں لیکن اندر سے وہ کھوکھلے ہو چکے ہوں اور وقت پر صحیح ثابت نہ ہوں اِس لئے ہم تیرے ہی حضور میں عرض کرتے ہیں کہ الہٰی! اگر ہمارے گناہوں اور ہماری خطاؤں کی وجہ سے ہمارے نفس میں کوئی کمزوری پیدا ہو چکی ہے تو ہم تجھی سے درخواست کرتے ہیں کہ تُو ہمیں ہماری غلطیوں کی سزا اِس شکل میں نہ دے کہ وہ ہمارے ایمانوں کو کمزور کر دے یا ہمارے وعدوں کو بُھلا دے۔ بلکہ تُو ہمیں معاف فرما دے اور ہماری کمزوریوں کو دورکر دے۔ الہٰی! اِس سے پہلے بھی قوموں کے ساتھ تیرے وعدے ہوئے جیسے ہم سے تُو نے وعدے کئے ہیں لیکن اُن میں سے بعضوں نے اُن وعدوں کو توڑ دیا اور وہ سزا کے مستحق ہو گئے۔ الہٰی! ہمارا عہد ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے عہد کو توڑ کر سزا کے مستحق ہوں بلکہ تُو ہمیں اِس عہد کو پورا کرنے کی توفیق بخش۔ ۔ اور اے ہمارے ربّ! باوجود ایمان کی مضبوطی اور طاقت کے بعض اوقات اتنے بوجھ پڑ جاتے ہیں کہ انسان اُن بوجھوں کو اٹھانے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ اِس لئے الہٰی! ہماری التجاء ہے کہ کوئی تغیر دنیا میں ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے ہم پر اتنا بوجھ پڑجائے کہ ہم باوجود ایمان میں پکّا ہونے کے اُس بوجھ کے نیچے دبنے لگ جائیں اور اُس بوجھ کو سہار نہ سکیں۔ پس اے ہمارے ربّ !یا تو تُو ہمارے بوجھوں کو کم کر دے یا ہمارے ایمانوں کو بڑھا دے تا کہ ہم طاقت اور قوت اور ہمت سے ان مشکلات کا مقابلہ کر سکیں اور ان بوجھوں کو سہار سکیں۔ الہٰی! ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے اور اپنے فضل سے ہماری مدد کر اور اپنے فضل ہم پر برابر نازل کرتا رہ۔ الہٰی! تُو ہی ہمارا مالک اور آقا ہے اور ایک غلام اور ایک خادم تکلیف کے وقت میں سوائے اپنے مالک اور آقا کے کس کے پاس جا سکتا ہے۔ِ الہٰی! تُو ہمیں ان لوگوں پر فتح اور غلبہ عطا فرما جو تیرے دین کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہم کتنے ہی کمزور ایمان والے ہوں ہمارے ماتھے پر ایمان کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اور ہمار اگرنا اور رُسوائیوں میں مبتلا ہونا تیرے ہی نام کو بٹّہ لگاتا ہے اور تیرے ہی دین کی رُسوائی کا موجب بنتا ہے۔ اِس لئے تُو اپنے نام کی نسبت کا خیال رکھتے ہوئے اور اِ س لئے کہ ہم مومن کہلاتے ہیں اُن لوگوں پر جو کافر کہلاتے ہیں غلبہ بخش تا کہ ہم تیرے فضلوں کے وارث ہوں اور تیرا دین بھی بدنام نہ ہو۔
یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے منہ سے سورۂ بقرہ کے آخر میں بیان فرمائی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اِن دنوں خصوصیت کے ساتھ اور متواتر یہ دعا مانگیں تا کہ اللہ تعالیٰ اِن فتنوں کے ایّام میں ہمیں ایسی راہ پر چلنے کی توفیق بخشے جس راہ پر چل کر ہم ٹھوکر سے بچ جائیں۔ اور خدا تعالیٰ کا دین بھی بدنام ہونے سے بچا رہے اور اُس کے دین کا غلبہ ہو۔ اور خدا تعالیٰ کا نام دنیا میں پھیل جائے او راُس کی بادشاہت قائم ہو۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ)‘‘
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1: البقرۃ: 287

27
قوم کی عزت ہزاروں اور لاکھوں جانوں سے بھی زیادہ قیمتی ہے
(فرمودہ یکم اگست 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’انفرادی اور اجتماعی کاموں میں ایک فرق ہوتا ہے۔ اجتماعی کام باہمی مشق اور تنظیم کے محتاج ہوتے ہیں۔ لیکن انفرادی کاموں میں اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ آجکل کے فتنوں کے زمانہ میں اجتماعی کاموں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور اجتماعی کام کرنے کی روح پیدا کرنے کی ضرورت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے پورے طور پر اِس طرف توجہ نہیں کی اور نہ ہی پوری طرح اِس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ خدام الاحمدیہ کی جماعت اِسی غرض کے لئے بنائی گئی تھی اور انصار اللہ کی جماعت بھی اِسی غرض کے لئے بنائی گئی تھی کہ انفرادی اہلیت کے علاوہ اجتماعی کاموں کے کرنے کی اہلیت بھی جماعت کے اندر پیدا ہو جائے۔ مگر مجھے نہایت افسوس اور ندامت کے ساتھ اُس واقعہ کا ذکر کرنا پڑتا ہے جو پچھلے جمعہ کو رونما ہوا اور جس میں جماعت کے درجنوں آدمیوں نے نہایت شرمناک نظارہ دکھایا۔ ایسا شرمناک کہ اگر اُس فعل کو جماعتی فعل سمجھا جائے تو ہر احمدی اُس سے شرمندگی محسوس کرے گا۔ شکر ہے کہ یہ جماعتی فعل نہیں۔ اس کے نتیجہ میں جو اطلاعات ارد گرد کے دیہات سے آرہی ہیںا ور جو باتیں ہم نے سُنی ہیں وہ ایسی تکلیف دِہ ہیں کہ اُنہیں سن کر پسینہ آ جاتا ہے ۔ قادیان کے ارد گرد کے گاؤں میں رہنے والے لوگ ہنستے ہیں اور مذاق اور طعنہ کے رنگ میں کہتے ہیں کہ یہ وہ جماعت ہے جو ساری دنیا کو فتح کرنے کے دعوے کیا کرتی ہے؟ مجھے یہاں کی ایک ہندو عورت کی گفتگو پہنچی ہے۔ اُس نے ہماری عورتوں سے کہا کہ جب چھت گرنے سے دھماکا ہوا اور شور برپا ہو گیا تو پہلے ہم اپنے گھروں میں گُھس گئے اور ہمارے مردوں نے دروازے بند کر کے ہاتھوںمیں سونٹے پکڑ لئے۔ یہ سمجھ کر کہ میرزائیوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ مگر اِس کے بعد جب اُنہوں نے کواڑوں کے سوراخوں میں سے دیکھا تو کہا کہ میرزائی تو آپ بھاگتے جا رہے ہیں، اُنہوں نے کسی پر کیا حملہ کرنا ہے۔ اب بھاگنے والے تو چند آدمی تھے۔ مگر وہ منافق یا بزدل اپنا نام نہیں بتائیں گے۔ اُن کی منافقت یا بزدلی کی وجہ سے بدنام ساری جماعت ہو گئی۔ اور وہ لوگ جو دین کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لئے تیار ہیں اِن بھاگنے والے بزدلوں کی وجہ سے اُن کے ذمہ بھی الزام لگ گیااور اِن لوگوںکی وجہ سے وہ بھی بدنام ہو گئے۔
تمہارا فرض تھا کہ اِس ہفتہ کے اندر اندر ایسے تمام مجرموں کا سراغ لگاتے اور ان کے نام لکھ کر مجھے اطلاع دیتے تا کہ پتہ لگ جاتا کہ جماعت میں سے کون کون بزدل یا منافق ہیں جو وقت آنے پر کچے دھاگے ثابت ہوں گے۔ جن بزدلوں نے ایک چھت کے گرنے کو بم قرار دیا اور جو بم کے گرنے کے خیال سے بھاگ نکلے کیا کوئی جماعت ایسے نالائق آدمیوں پر اعتماد کر سکتی ہے؟ اور کیا اِس قسم کے لوگ ادنیٰ قوموں میں بھی عزت حاصل کر سکتے ہیں؟ مگرمجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تم نے یہ نظارہ دکھایا اور اِس ہفتہ میں ایک بھی خط مجھے اِس قسم کی اطلاع پر مشتمل نہیں پہنچا کہ فلاں فلاں آدمی ہماری موجودگی میں بھاگے تھے۔ اب تمہیں چاہیئے کہ ان بھاگنے والوں میں سے ایک ایک کا پتہ لگاؤ۔ اور جیسے طاعون کے چُوہوں کو پکڑ پکڑ کر باہر نکالا جاتا ہے اِسی طرح تم اِن بزدلوں کا کھوج لگا کر انہیں پکڑو اور ہمارے سامنے پیش کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم بھی اِس بات کے مستحق ہو گے کہ یہ سیاہی کا داغ ان کے ساتھ ہی تمہارے ماتھوں پر بھی لگا رہے۔ پس مَیں تمہیں پھر موقع دیتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے ایک گرنے والی چھت کو بم قرار دیا اُن کو پکڑو۔ یہ لوگ اُن مظلوم عورتوںکی تکلیف کے بھی ذمہ دار ہیں جن کو مسجد کے منتظمین نے ظالمانہ طور پر ایک ایسی چھت پر بٹھا دیا جو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے نہیں بنائی گئی تھی۔ بلکہ صرف عارضی طور پر سامان رکھنے کے لئے اور بارش کے ایّام میں پانی کو روکنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ ان لوگوں کے بھاگنے کی وجہ سے ان کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی اور وہ ضرورت سے زیادہ عرصہ تک ملبہ میںدبی پڑی رہیں۔ اس گرنے والی چھت کو جنہوں نے اپنی بیوقوفی اور کمزوری کی وجہ سے بم قرار دیا اور پھر بم سمجھ کر یہ خیال کیا کہ ہمیں یہاں سے بھاگ جانا چاہیئے اُن میں سے ایک ایک کا نام ہمارے سامنے پیش کرو۔ ان بے وقوفوں کے نزدیک چار ہزار آدمی کو ایک بم فنا کر دیا کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پھر فرض کرو وہ بم ہی تھا تو سوال یہ ہے کہ بم کتنے آدمیوں کو مار سکتا ہے؟ اور کیا ایک دفعہ گر کر پھٹا ہوا بم دوبارہ پھٹا کرتا ہے؟ جو بم گر چکا تھا اُس سے یہ بزدل کس طرح مر سکتے تھے۔ اُس سے تو جن مکانوں نے گرنا تھا وہ گر گئے اور جن لوگوں نے مرنا تھا وہ مر گئے۔ پھر وہ لوگ اس سے ڈر کر کیوں بھاگے؟ ایسے لوگوں کے متعلق ہی سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بجلی کڑکتی ہے تو وہ اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال لیتے ہیں۔ 1 حالانکہ بجلی اُس وقت کڑکتی ہے جب وہ گر چکی ہوتی ہے۔ اُس سے مرنے والے مر چکے ہوتے ہیں اور گرنے والے مکان گر چکے ہوتے ہیں۔ اُس کی کڑک پیچھے آتی ہے اور وہ گرتی پہلے ہے۔ پس قرآن کریم اُن منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے یہ منافق ایسے جاہل ہیں کہ جب بجلی گر چکی ہوتی ہے تو اُس کے بعد وہ اُس کی کڑک سے ڈر کر اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال لیتے ہیں۔ اِسی طرح میں ان بھاگنے والوں سے کہتا ہوں۔ ارے نادانو! اگر اُس وقت بم ہی گرا تھا تو جو بم گرنا تھا وہ تو گر چکا تھا۔ اور جنہوں نے زخمی ہونا تھا وہ تو زخمی ہو گئے تھے۔ پھر تم کیوں بھاگ کھڑے ہوئے؟ سوائے اِس کے کہ تم نے اِس ذلیل حرکت سے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا لیا۔ پس مَیں جماعت کو پھر موقع دیتا ہوں کہ ان بھاگنے والوں کو ایک ایک کر کے پکڑا جائے اور ان کے نام لکھوائے جائیں۔
پھر مَیں افسوس کر تاہوں منتظمین پر کہ اُنہوں نے بھی فرض شناسی سے کام نہ لیا۔ جہاں ہزاروں آدمی جمع ہوں وہاں ان میں بے وقوف بھی ہوتے ہیں، جاہل بھی ہوتے ہیں، بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، بُزدل بھی ہوتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ حفاظت کا خیال رکھا جائے۔ مَیں پوچھتا ہوں کہ حفاظتِ قادیان کا محکمہ کس غرض کے لئے ہے؟ کیا بِلّے لگا کر مسجدوں میں آنے کے لئے ہے یا اس غرض کے لئے ہے کہ کوئی کام بھی کرے؟ اُن کا فرض ہے کہ جب کوئی اجتماع ہو تو اُس کے چاروں طرف اپنے والنٹیئرز (VOLUNTEERS) کھڑے کر دیں۔ رات کے وقت پہرہ دینا اور اجتماعوں کے مواقع پر کناروں پر والنٹیئرز کھڑے کرنا یہی تو کام ہے حفاظتِ قادیان کا۔ اگر وہ قادیان میں رات کے وقت پہرہ نہیں دیتے، اگر وہ جلسوں کے وقت کناروں پر کھڑے ہو کر نگرانی نہیں رکھتے تو انہوں نے کرنا کیا ہے، اور کس وقت انہوں نے کام آنا ہے۔ کیا ہم روس کی حکومت ہیں یا ہم جرمنی کی حکومت ہیں یا فرانس کی حکومت ہیں کہ کوئی غیر قوم ہم پر حملہ کر کے آئے گی اور ہمارے پچاس ساٹھ والنٹیئرز اُس کی فوجوں کا مقابلہ کریں گے؟ دشمن تو اپنے جنون میں ہم پر ایسے الزام لگاتا ہے کہ ہم ایک حکومت قائم کر رہے ہیں ۔ مگر کیا ہم بھی ایسے بے وقوف ہیں کہ اِس قسم کا خیال اپنے متعلق کر لیں؟ پس کہاں گئی تھی اُس وقت حفاظتِ قادیان؟ اگر اُس روز وہ مسجد کے چاروں طرف پہرہ پر متعیّن ہوتے تو بھاگنے والوں کو وہیں روک لیتے اور اُن سے کہتے کہ اے بیوقوفو! کہاں بھاگے جا رہے ہو اور اپنی بزدلی اور کمزوری کا ٹیکہ جماعت پر کیوں لگاتے ہو؟ مگر وہ انہیں روکتے تب جب وہ اپنی ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے۔ وہ تو وہاں موجود ہی نہ تھے۔ بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یا مسجد کے کسی کونے میں شاید صفوں کے اندر بیٹھ کر حفاظت کر رہے تھے۔ یا وہ اُس دن کے امیدوار تھے جب جرمنی یا فرانس کی فوجیں ہندوستان پر حملہ آور ہوں اور وہ مقابلہ کے لئے نکلیں۔ حالانکہ جہاں باقاعدہ حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہاں حفاظت کے اَور معنی ہوتے ہیں۔ اور جہاں باقاعدہ حکومتیں قائم نہ ہوں وہاں حفاظت کے اَور معنی ہوتے ہیں۔ پُرامن شہریوں کے لئے حفاظت کے صرف اِتنے معنی ہوتے ہیں کہ جلسوں یا اجتماعوں کے وقت کسی قسم کی گڑبڑ نہ ہونے پائے۔ یا رات کے وقت پہرہ کھڑا کردیا جائے تا کہ چور چکار ڈاکو اور فوری طور پر حملہ کرنے والوں سے بچا جائے۔ ورنہ جہاں باقاعدہ گورنمنٹیں موجود ہوں وہاں اصل حفاظت حکومت کیا کرتی ہے۔ ہمارا ملک سرحدی نہیں بلکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں باقاعدہ گورنمنٹ موجود ہے اور گورنمنٹ کے پاس پولیس اور فوج وغیرہ سب کچھ ہے۔ پس ہمارے لئے حفاظت کا مفہوم اَور ہے اور سرحدیوں کے لئے حفاظت کا مفہوم اَور ہے۔ ہماری حفاظت کا سب سے بڑا اور سب سے اہم پہلو صرف اِتنا ہی ہے کہ اجتماعوں کے موقعوں پر کناروں پر والنٹیئرز کھڑے رہیں تا کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہو تو اُس کو روکیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ شورش کیوں برپا ہوئی ہے۔ اگر حفاظتِ قادیان نے فِی الْواقع اپنے فرض کو پورا کیا ہوتا تو یہ شرمناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ حفاظتِ قادیان کا محکمہ مہینوں سے قائم ہے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس موقع پر حفاظتِ قادیان کلّی طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے اور اس نے سو میں سے صفر بھی کام نہیں کیا۔ ان لوگوں کا فرض تھا کہ وہ جمعہ یا جلسہ وغیرہ کے مواقع پر اپنے آدمی چاروں طرف کناروں پر کھڑے کر دیتے تا کہ وہ کوئی گڑ بڑ واقع نہ ہونے دیتے۔ ایسی شورش کی حالت میں اگر بچے نیچے آ جاتے یا عورتیں کُچل کر ماری جاتیں تو پھر کیا ہوتا۔ حفاظتِ قادیان کا یہی تو کام تھا کہ وہ لوگوں کو ایسی بھاگڑ 2 سے بچاتے۔ مگر انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے صفر کے برابر بھی کام نہیں کیا۔ یہ واقعہ ایسا شرمناک ہے کہ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِس واقعہ نے ہمارے نظام کی اندرونی کمزوری کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ اور شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ واقعہ بھی برکت کا موجب ہو۔ کیونکہ اِس واقعہ نے ہمیں وقت سے پہلے ہوشیار کر دیا ہے۔ مگر یہ چیز ہمیں اِس غم سے بچا نہیں سکتی کہ ہماری جماعت کے ایک حصہ نے سخت کمزوری دکھائی ہے۔ اور ایسے وقت میں دکھائی ہے جب ان کی کمزوری اور ذلّت ساری جماعت کے شریکِ حال تھی۔ اگر وہ لوگ اپنے گھروں میں ایسا کرتے یا اپنے محلہ میں ایسا کرتے تو اَور بات تھی۔ مگر ایسی جگہ پر جہاں چار ہزار آدمی جمع تھا اُن کا اِس قسم کی شرمناک حرکت کرنا ہر احمدی کو بدنام کر رہا ہے۔ اور انہوں نے اِس موقع پر بزدلی کا مظاہرہ کر کے سب کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اور اپنی روسیاہی کے ساتھ انہوں نے نہ بھاگنے والوں اور مضبوط ایمان والوں کے ماتھوں پر بھی کلنک کا ٹیکہ لگانے کی کوشش کی ۔ اب جب تک بھاگنے والوں کا پتہ نہ لگ جائے کون تمہاری شکل دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ تم ان بھاگنے والوں میں نہیں تھے۔
پھر یہ ایسا احمقانہ فعل ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ فرض کرو وہ بم ہی ہوتا اور تم بم لگنے سے مر جاتے تو کیا ہوتا۔ کیا تمہارے باپ دادے نہیں مرے؟ یا تم نے نہیں مرنا؟ تم میں سے کون ہے جو کھڑا ہو کر کہہ سکے کہ مَیں نے نہیں مرنا۔ اگر بم کی وجہ سے ہی خدا نے تمہاری موت مقدر کی ہوئی ہے تو دنیا کی کونسی طاقت تمہیں اس موت سے بچا سکتی ہے۔ قرآن کریم منافق لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ قلعوں کے اندر بیٹھے ہوئے ہونگے تو وہاں بھی اُن کو موت آ جائیگی۔ 3 اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچانک حادثہ سے انسان ضرور گھبرا جاتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ ایسے موقع پر کسی قدر گھبراہٹ پیداہوجاتی ہے۔ اِس وقت مَیں بات کر رہا ہوں اگر کوئی آ کر میرے کان میں ہُو کر دے تو مَیں بھی ایک لحظہ کے لئے گھبرا جاؤنگا۔ مگر گھبرانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان بھاگ کھڑا ہو۔ اگر تم ڈر کر گز بھر یا دو گز پرے چلے جاتے اور پھر خود ہی اپنی بے وقوفی پر ہنستے ہوئے واپس آ جاتے تو اَور بات تھی۔ مگر تم میں سے بعض نے تو ڈر کر نماز توڑ دی اور بھاگ کر اپنے گھروں تک جا پہنچے اور تم نے باقی جماعت کو بھی شرمندہ کیا۔ مَیں نے سُنا ہے کہ باہر کے اخباروں میں بھی اِس پر ہنسی اُڑائی جا رہی ہے ۔ مَیں اُن اخباروں کو جواب دے سکتا ہوں مگر سوال تویہ ہے کہ مَیں اپنے نفس کو کیا جواب دوں۔ اخباروں اور دوسرے لوگوں کو چُپ کرا دینا میرے بس کی بات ہے مگر اپنے نفس کو چُپ کرانا میرے بس کی بات نہیں۔ اب فِی الْحال اس کا یہی علاج ہے کہ ان لوگوں کو پکڑاؤ جو اُس دن بھاگ گئے تھے تا کہ نہ بھاگنے والوں کے دامن اِس داغ سے پاک ہو سکیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ انسان تہلکہ کی وجہ سے ضرور گھبرا جاتا ہے۔ مگر مسجد کو چھوڑ کر بھاگ جانا تو نہایت ہی شرمناک بزدلی پر دلالت کرتا ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوںکو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر تم اِس ذلت کے داغ کو دور کرنا چاہتے ہو تو ان بھاگنے والوں میں سے ایک ایک آدمی کی اِس طرح تلاش کرو اور اُنہیں اِس طرح نکالو جیسے طاعون کے چُوہوں کو نکالا جاتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نے طاعون کے چُوہوں کو اپنے گھر سے نہ نکالا تو میرے بیوی بچے مر جائیں گے۔ پس جس طرح تم اُن چُوہوں کی تلاش کرتے ہو اُسی طرح تم ایسے لوگوں کو تلاش کر کر کے نکالو۔ بلکہ اِس سے بھی زیادہ تعہد سے یہ کام کرو۔ کیونکہ طاعون کا چُوہا صرف انسان کی جان لیتا ہے مگر اِس قسم کے کمزور اور منافق لوگ قوم کی عزت کو برباد کرنے کا موجب ہوتے ہیں اور قوم کی عزت ہزاروں اور لاکھوں جانوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
پھر مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور خاص طور پر دعائیں کرو کہ وہ تمہیں اِس قسم کی منافقتوں اور کمزوریوں سے بچائے۔ کیونکہ جو حرکت ان کمزوروںاور بزدلوں سے ہوئی ہے وہ تم سے بھی ہو سکتی ہے۔ وہ بھی اپنے دل میں اپنے آپ کو ویسا ہی بہادر سمجھتے تھے جیسے تم سمجھتے ہو۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ایسا ہی مومن سمجھتے تھے جیسے تم سمجھتے ہو۔ بیسیوں دفعہ انسان اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے مگر وہ مومن ہوتا نہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا آتا ہے اور اُسکی کمزوری کے پردہ کو چاک کر کے رکھ دیتا ہے اِس وقت دنیا پر نہایت ہی نازک دن آرہے ہیں۔ تم یقین رکھو کہ تم خود کچھ نہیں کر سکتے۔ جو کچھ کر سکتا ہے خدا ہی کر سکتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ ہی تم کو وہ ایمان بخش سکتا ہے جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور چٹانوں سے زیادہ راسخ ہو۔ اور خدا تعالیٰ ہی تم کو وہ قوتِ اقدام بخش سکتا ہے جو سمندروں کی لہروں سے بھی زیادہ بلند ہو۔ پس خدا ہی کی طرف توجہ کرو اور اُس سے دعائیں کرو کہ اِس نازک موقع پر تم اسلام کی شرمندگی کا موجب نہ بنو۔ بلکہ تمہارے دلوں میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے کہ موت تو کیا چیز ہے بڑے سے بڑے ابتلاء کو بھی تم کھیل سمجھنے لگ جاؤ۔ تا کہ اگر ہم نے مرنا ہے توخدا تعالیٰ کی راہ میں ہنستے ہوئے مریں اوراُس کے نام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مریں۔ اور ہماری موتیں اسلام کی آئندہ ترقی کی بنیادیں نہایت مضبوطی سے گاڑ دینے والی اور اُس کے جھنڈے کو دنیا میں بلند کرنے والی ہوں۔‘‘
(الفضل 8؍ اگست 1947ئ)
1:’’ ْٓ‘‘(البقرۃ:20)
2: بھاگڑ: بھاگ دوڑ۔ شکست۔ بے سرو سامانی سے بھاگنا۔
3: (النسائ: 79)

28
دُعائیں کرو، دُعائیں کرو اور دُعائیں کرو کہ اِس سے زیادہ نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا
(فرمودہ 8؍ اگست 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولوی سید محمدسرور شاہ صاحب کی وفات کے بعد مسجدوں کا انتظام نہایت ہی ناقص ہو گیا ہے ۔ اور مَیں ناظر اعلیٰ اور ناظر تعلیم و تربیت کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تعلیم و تربیت کے محکمہ نے غالباً ایسے آدمی اِس کام کے لئے مقرر کئے ہیں جو خود بھی شاید مسجد میں نہیں آتے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گزشتہ ایّام میں شام کی اذان اپنے وقت سے بہت پیچھے ہوتی رہی ہے۔ لیکن اِس میں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر روزہ وقت سے دس منٹ پیچھے کھول لیا جائے ۔ لیکن ساتھ یہ ہوا کہ ایک دن صبح کی اذان وقت سے بیس منٹ پیچھے دی گئی جبکہ اچھی خاصی روشنی ہو چکی تھی۔ وہ غریب جو یہ سمجھتے ہیں کہ اذان ہوئی تو روزہ کھول لیا اور اذان ہوئی تو روزہ رکھ لیاا ُن سب کے روزے گئے آئے ہو گئے۔ کیونکہ بیس منٹ گزرنے کے بعد روشنی ہو چکی تھی اور جنہوں نے اُس وقت سحری کھائی اُن کا روزہ کیا باقی رہ گیا۔ پہلے ایک اچھا بھلا آدمی تھا۔ صرف اِس لئے کہ ایک موقع پر اُس نے سامنے سے جواب دے دیا اُسے نکال دیا گیا۔ بے شک یہ اُس کی غلطی تھی کہ جب مسجد کے منتظم نے اُسے ایک کام کرنے کے لئے کہا تو اُس نے کہہ دیا کہ مَیں اِس وقت نہیں کر سکتا۔ لیکن محض اِتنی سی بات پر فوراً سکھا شاہی طریق پر عمل کیا گیا اور بغیر نوٹس دیئے اُسے کہہ دیا گیا کہ نکل جاؤ۔ اور اس کی جگہ ایسا آدمی بھرتی کر لیا گیا جو نماز کی عظمت کو ہی نہیں سمجھتا اور اذان کے وقت غائب رہتا ہے۔ تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے دلوں میں نماز اور روزہ کی اُتنی عظمت نہیں جتنی اپنی بات کے پورا کرنے کی ہے۔
آج جمعہ کا دن تھا اور ایک ایسا اہم کام جسے ہم کسی طرح پیچھے نہیں ڈال سکتے تھے اُس میں مَیں مشغول تھا۔ میرا منشاء تھا کہ ڈیڑھ بجے جمعہ پڑھا دیا جائے۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جب مجھے کوئی اہم کام ہو تو مجھے کسی اَور بات کی ہوش نہیں ہوتی۔ ایسے موقع پر ضروری ہوتا ہے کہ بار بار نماز کی یاددہانی کرائی جائے۔ مگر اب جو مَیں جمعہ کے لئے آیا تو معلوم ہوا کہ دو بج کر تیس منٹ ہو چکے ہیں۔ اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ مؤذن نے سوائے پہلی دفعہ اطلاع کرنے کے مجھے دوبارہ اطلاع ہی نہیں کی۔ حالانکہ پہلے مؤذن ہر آدھ گھنٹہ کے بعد شور مچایا کرتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب اوپر نگران نہ رہیں تو ماتحت یہ سمجھتا ہے کہ پوچھنے والا تو کوئی ہے نہیں مجھے تکلیف اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کے دوستوںکو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ موجودہ ایّام میں ہماری جماعت ایسے سخت خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ اگر تمہیں اِن خطرات کا پوری طرح علم ہو اور اگر تمہیں پوری طرح اس کی اہمیت معلوم ہو تو شاید تم میں سے بہت کمزور دل لوگوں کی جان نکل جائے۔ لیکن تم کو وہ باتیں معلوم نہیں۔ اس لئے تم اپنی مجلسوں اور گلیوں میں ہنستے کھیلتے نظر آتے ہو۔ تمہاری مثال بالکل اُس بچے کی سی ہے جس کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور اُس کی ماں رات کے وقت مر گئی۔ جب وہ صبح کو اُٹھا تو وہ اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔ لوگوں نے جب دروازہ کھولا تو اُنہوں نے دیکھا کہ بچہ اپنی ماں کے منہ پر تھپڑ مار کر ہنس رہا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اُس کا نہ بولنا مذاق کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ مری پڑی تھی۔ جس قسم کی حالت میں سے اور جس قسم کی بے وقوفی اور نادانی کی کیفیات میں سے وہ بچہ گزر رہا تھا اُسی قسم کی حالت میں سے تم بھی گزر رہے ہو۔
مَیں نے دو دن ہوئے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور آج پھر اِس طرف توجہ دلاتا ہوں۔ آج بیسویں رمضان کی ہے اور حضرت خلیفہ اول کے عقیدہ کی رو سے اعتکاف صبح سے شروع ہو چکا ہے۔ لیکن عام حنفی عقیدہ کے رو سے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا بھی عمل تھا اعتکاف آج شام کو شروع ہو گا۔جہاں تک نوجوانوں کا تعلق ہے جن کو آجکل کام پر لگایا جانا ضروری ہے اُن کو مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اِس دفعہ اعتکاف نہ بیٹھیں۔ اُن کا اعتکاف نہ بیٹھنا زیادہ ثواب کا موجب ہو گابہ نسبت اعتکاف بیٹھنے کے۔ ایک دفعہ جہاد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا آج روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے ہیں۔ 1 کیونکہ بے روز تو میدانِ جہاد میں پہنچتے ہی کام کرنے لگ گئے اور روزہ دار لیٹ کر ہانپنے لگے۔ آجکل پہرے کے دن اور اِدھر اُدھر گھومنے کے ایّام ہیں۔ اِس لئے اِن دنوں نوجوانوں کا اور نوجوانوں کی طرح کام کر سکنے والوں کا اعتکاف نہ بیٹھنا بہ نسبت اعتکاف بیٹھنے کے زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ پس ایسے لوگوں کو جن کی سلسلہ کو ہنگامی کاموں کے لئے ضرورت ہے اعتکاف نہ بیٹھنا چاہیئے۔ اگر وہ اعتکاف بیٹھیں گے تو یہ اُن کی نیکی نہ ہوگی بلکہ اُن کے نفس کا دھوکا ہو گا۔ لیکن جو لوگ اِس عمر کے نہیں اور نوجوانوں کی طرح پہرہ وغیرہ کا کام نہیں کر سکتے اُن سے مَیں کہتا ہوں کہ وہ جتنے زیادہ اعتکاف میں بیٹھ سکیں اُتنے ہی زیادہ بیٹھ جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اِتنی دعائیں کریں، اِتنی دعائیں کریں کہ جیسے محاورہ میں کہتے ہیں کہ ان کے ناک رگڑے جائیںاور ان کے ماتھے گِھس جائیں۔ تمہیں چاہیئے کہ آج یونسؑ نبی کی قوم کی طرح تمہارے بچے اور تمہاری عورتیں، تمہارے نوجوان اور تمہارے بوڑھے سب کے سب خدا تعالیٰ کے سامنے روئیں تا کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو تباہی سے بچا لے اور اپنے فضل سے ہماری دستگیری کرے۔ دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی سفارش کرنے والا موجود ہے۔ کسی کی تجارتیں اُسکی سفارش کر رہی ہیں۔ کسی کے بنک اس کی سفارش کر رہے ہیں۔ کسی کے اعداد و شمار اُسکی سفارش کر رہے ہیں۔ کسی کے سپاہی اُس کی سفارش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی جماعت دنیا میں زندہ رہنے کی مستحق ہے اور اگر کوئی جماعت دنیا میں پُرامن کام کر رہی ہے تو وہ تمہاری جماعت ہے۔ مگر تمہاری پُشت پر کوئی نہیں جو تمہاری سفارش کرنے والا ہو سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے۔ اِس لئے اگر ہم اپنی دعاؤں اور گریہ وزاری سے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لیں تو یقینا دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہمارے حقوق کو تلف نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل کو نہ کھینچ سکیں تو ہم سے زیادہ بے یار و مددگار دنیامیں اَور کوئی نہیں ہو گا۔ محض عقلی دلائل پر انحصار رکھنا نادانی اور حماقت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقلی طور پر ہماری بات معقول ہے اِس لئے ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ ہماری بات مانی جائے گی۔ لیکن اِس دھینگا مشتی کے زمانہ میں عقل کو کون پوچھتا ہے۔ اگر لوگ عقل کو پوچھتے تو آج خدا اور اُس کا رسول بیکسی کی حالت میں کیوں ہوتے۔ اور اگر لوگ عقل کی بات کو پوچھتے تو آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکومت کی جگہ مشرکوں کی حکومت کیوں ہوتی۔ تمہاری تائید میں جو دلائل ہیں اُن سے بہت زیادہ دلائل قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کی تائید میں ہیں۔ اِسی طرح تمہارے تائیدی دلائل سے بہت زیادہ دلائل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تائید میں ہیں۔ لیکن آج عقل کو کوئی نہیں پوچھتا۔ آج لوگ لَٹھ کو دیکھتے ہیں۔ اور لَٹھ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اِس لئے تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ خدا تعالیٰ اگر آج بھی چاہے تو وہ آسمان سے صرف ایک کُنْ کہہ کر ساری دنیا کے نقشوں کو بدل سکتا ہے۔ اِس لئے ہر شخص دعاؤں میں مشغول ہو جائے۔ خصوصاً پہلے ایک دو دن ایسے ہیں جن میں دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج یا کل یا حد سے حد پرسوں کا دن ایسا ہوگا جس میں یہ فیصلے ہو جائیں گے۔ اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ماضی میں تغیر نہیں کیا کرتا بلکہ مستقبل میں تغیر کرتا ہے۔ ماضی کے متعلق تو وہ کہتا ہے کہ جدوجہد کرو اور پھر ہم سے مدد طلب کرو۔ اور آئی ہوئی چیز کے بدلنے میں خدا تعالیٰ کا قانون جو وقت چاہتا ہے وہ ضرور لگتا ہے۔ پس خدا جانے اِس پر کتنا وقت لگے اور کتنی تکلیفوں میں سے ہمیں گزرنا پڑے۔ لیکن ہمیں اپنی تکلیفوں کا بھی اُتنا احساس نہیں جتنا سلسلہ کی تکلیف کا احساس ہے۔ اگر ہماری زندگیوں کا ہی سوال ہوتا تو ہم میں سے بہت سے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جانیں پیش کر دیتے اور کہتے کہ ہماری جانیں اِس غرض کے لئے حاضرہیں۔ لیکن یہاں جانوں کا سوال نہیں بلکہ سلسلہ کی عزت کا سوا ل ہے۔ مَیں نے اِس دفعہ مصلحتاً عورتوں کو اعتکاف بیٹھنے سے منع کر دیا ہے۔ کیونکہ ہم ہنگامی کاموںمیں بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے اُن کی حفاظت کا صحیح طور پر انتظام نہیں کرسکتے۔ لیکن مردوں میں سے جو بڑی عمر کے ہیں اُنہیں چاہیئے کہ اگر ہو سکے تو وہ ساری ساری رات جاگیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کریں۔ اکیلے بھی اور مشترکہ طور پر بھی۔ا ِسی طرح عورتوں کو چاہیئے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر دعائیں کریں اور اِتنی تضرع اور گریہ و زاری سے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ کا عرش ہِل جائے۔ بلکہ یونسؑ نبی کی قوم کی طرح اگر وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو بُھوکا رکھ کر اُنہیں بھی دعاؤں میں شامل کر لیں تو یہ بھی کوئی بڑی قربانی نہیں ہو گی۔
ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو گا آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہوگا۔ لیکن ’’آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہو گا ‘‘اور ’’اب بہتر ہو جائے ‘‘میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ آخر میں تو ضرور ایسا ہو گا کہ ہمارے سلسلہ کو کامیابی حاصل ہو۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے درمیانی عرصہ میں ہزاروں جانوں کو دکھ برداشت کرنا پڑے۔ اور ہزاروں عزتوں کو برباد کرنا پڑے اور ہزاروں نوجوانوں کو قربان ہونا پڑے۔ پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اِس سے زیادہ دُنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا۔ خدا ہی ہے جو اِس گھڑی کو ٹلا دے اور اپنے فضل سے ایسے راستے پیدا کر دے کہ جن سے جلد سے جلد ہماری کامیابی کی صورتیں پیدا ہونے لگ جائیں۔ ‘‘
(الفضل 11؍ اگست 1947ئ)
1: مسلم کتاب الصِّیَام باب اَجْرُ الْمُفْطِرِ فی السَّفَرِ … (الخ)

29
خدا تعالیٰ نے تو ملک کو آزاد کر دیا لیکن ملک نے اپنے آپ کو آزاد نہیں کیا
(فرمودہ 15؍ اگست 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج کا دن ہندوستان کے لئے ایک یومِ برزخ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ آج رات کے بارہ بجے کے معاً بعد سے ہندوستان انگریزی اقتدار سے آزاد ہو چکا ہے اور اب یہ ملک دو آزاد حکومتوں میں بٹ گیا ہے۔ اِس کا ایک حصہ انڈین ڈومینین (Indian Dominion) کہلاتا ہے اور ایک حصہ پاکستان کہلاتا ہے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد یعنی اگر یہ عرصہ غدر کے زمانہ سے شمار کیا جائے جب تک کہ اسلامی بادشاہت کا کچھ کچھ نشان ابھی ہندوستان میں باقی تھا تو پورے نوّے سال کے بعد آج یہ ملک غیر ملکی حکومت کے اقتدار سے آزاد ہوا ہے۔ اور اگر صرف پنجاب کے علاقہ کو لیا جائے تو پورے سو سال کے بعد آج یہ علاقہ غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہوا ہے۔ حکومتیں ظالم ہوں یا منصف لیکن آج ایک ہندوستانی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اِس ملک میں اُسی کی حکومت ہے۔ خواہ اُس کے نائب حُکام عدل اور انصاف سے کام نہ بھی لیتے ہوں۔ جہاں تک قانون کا سوال ہے اور جہاں تک آئین کا سوال ہے آج ہر ایک ہندوستانی اپنے ملک میں اُس سے زیادہ حقوق کا مستحق ہے جتنا کہ ایک غیر ملکی باشندہ ۔ لیکن آج سے پہلے ایک غیر ملکی باشندہ زیادہ حقوق کا مستحق سمجھا جاتا تھا اور ایک ہندوستان کا باشندہ باوجود اپنے ہی ملک میں رہنے کے کم حقوق کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہ اتنا بڑا تغیر ہے کہ دل اِس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اور اگر یہ تغیر اپنے ساتھ کچھ اَور تلخ باتیں نہ رکھتا تو ہر ہندوستانی کو خواہ وہ انڈیا کا باشندہ ہو یا پاکستان کا خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جانا چاہیئے تھا اور اُس کا دل خوشی سے لبریز ہو جانا چاہیئے تھا۔ لیکن اِس آزادی کے ساتھ ساتھ خونریزی اور ظلم کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ خصوصاً اُن علاقوں میں جن کے ہم باشندے ہیں۔ وسطی پنجاب اِس وقت لڑائی جھگڑے اور فساد کا مرکز بنا ہوا ہے اور اِن فسادات کے متعلق روزانہ جو خبریں آ رہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اُتارے جا رہے ہیں۔ اور ایک بڑی جنگ میں جتنے آدمی روزانہ مارے جاتے تھے اُتنے آجکل اِس چھوٹے سے علاقہ میں قتل ہو رہے ہیں۔ اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ پس اِن حالات کے ماتحت جیسے عید کے دن اُس عورت کے دل میں خوشی نہیں ہو سکتی جس کے اکلوتے بچے کی لاش اُس کے گھر میں پڑی ہوئی ہو، اور جیسے کسی قومی فتح کے دن اُن لوگوں کے دل فتح کی خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے جن کی نسل فتح سے پیشتر اُس لڑائی میں ماری گئی ہو۔ اِسی طرح آج ہندوستان کا سمجھدار طبقہ باوجود خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے اپنے دل میں پوری طرح خوش نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے تو ملک کو آزاد کر دیا لیکن ملک نے اپنے آپ کو آزاد نہیں کیا۔ یہ دو حکومتیں جو آج قائم ہوئی ہیں ہمیں اِن دونوں سے ہی تعلق ہے۔ کیونکہ مذہبی جماعتیں کسی ایک ملک یا حکومت سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ہماری جماعت کے افراد پاکستان میں بھی ہیں اور ہماری جماعت کے افراد انڈیا میں بھی ہیں۔ بلکہ اِس سے بھی پہلے ہماری جماعت کے افراد افغانستان میں بھی پائے جاتے تھے اور ایران میں بھی۔ عراق میں بھی پائے جاتے تھے اور شا م میں بھی ۔مصرمیں پائے جاتے تھے اور سوڈان میں بھی۔ ملایامیں پائے جاتے تھے اور برما میں بھی۔ جاوا میں بھی پائے جاتے تھے اور سماٹرا میں بھی۔ انگلستان میں بھی پائے جاتے تھے اور یونائیٹڈ سٹیٹس میں بھی۔ مشرقی افریقہ میں بھی پائے جاتے تھے اور مغربی افریقہ میں بھی۔ اور یہ تمام ممالک ایسے ہیں جو یا تو ہندوستان سے انتظامی طور پر الگ تھے یا گورنمنٹ برطانیہ سے ہی الگ تھے اور خود مختار اور آزاد تھے۔ پس یہ کوئی نیا تغیّر ہماری جماعت کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے بھی ہماری جماعت کے افراد مختلف ممالک میں موجود تھے۔ صرف فرق اِتنا ہے کہ جیسے کسی خاندان کے تین لڑکے ہوں اور اُن میں سے دو بھائی تو اکٹھے ہوں اور اُنہوں نے ابھی تک اپنی جائیداد تقسیم نہ کی ہوئی ہو اور تیسرا بھائی الگ ہو چکا ہوا ہو۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد حوادثِ زمانہ سے وہ دونوں بھائی جو اکٹھے رہ گئے تھے جائیداد کو تقسیم کر لیں اور الگ الگ رہنے لگ جائیں۔ پہلے بھائی کی جُدائی کا تو کوئی خاص اثر نہ تھا۔ لیکن اب جو دو بھائی ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کے مکانوں کو دیکھ کر، ایک دوسرے کے انتظامات کو دیکھ کر ضرور ایک چُبھن سی اپنے دلوں میں محسوس کریں گے اور ان کی آنکھوں میں پانی بھر آئے گا۔ پس گو ہماری جماعت کے افراد پہلے بھی غیر ملکوں میںرہتے تھے مگر وہ تو پہلے ہی ہم سے الگ رہتے تھے۔ مگر اب جو ہمارے بھائی ہم سے الگ ہو رہے ہیں وہ ایک عرصہ سے اکٹھے رہتے آ رہے تھے۔ اب ہم ایک دوسرے سے اِس طرح ملا کریں گے جیسے غیر ملکی لوگ آپس میں ملا کرتے ہیں۔
پس ہم اِس آزادی اور جُدائی کے موقع پر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اِن دونوں ملکوں ہی کو ترقی بخشے۔ اِن دونوں ملکوں کو عدل اور انصاف پر قائم رہنے کی توفیق بخشے۔ اور اِن دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھر دے۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ لیکن برادرانہ طور پر، ہمدردانہ طور پر، اور مخلصانہ طور پر۔ اور جہاں ان میں روحِ مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی جائے۔ اور یہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریکِ حال ہوں۔ خدا تعالیٰ انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن، صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم پھر اِس ملک کو اکٹھا دیکھ سکیں اور اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ)‘‘
(الفضل 16؍ اگست 1947ئ)

30
اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کر دو
اورمحبت ،صلح ، بہادری اور جوانمردی کو اپنا شعار بناؤ
(فرمودہ 29 ؍اگست 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اِس دفعہ مجھے پاؤں کے درد کی تکلیف ڈیڑھ سال کے بعد ہوئی ہے جو کافی دنوں سے شروع ہے اور ابھی تک ہے۔ اور یہ تکلیف اتنی ہے کہ مَیں اپنے پاؤں پر زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ مگر چونکہ موجودہ حالات کی وجہ سے مَیں اپنے دماغ پر بوجھ سا محسوس کرتا ہوںاِس لئے مجھے تھوڑا بہت چلنا ہی پڑتا ہے۔ اور جب چلتا ہوں تو تکلیف بہت زیاہ بڑھ جاتی ہے۔ پیرسُوج جاتا ہے اور درد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر میرے لئے کھڑا ہونا تو چلنے سے بھی زیادہ مُضِر ہے ۔ کیونکہ خون کے دباؤ کی وجہ سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ آج مَیں اپنے پاؤں پر کسی قدر دباؤ ڈال سکتا تھا اور چونکہ پچھلے جمعہ کو ناغہ ہو گیا تھا اِس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ جمعہ پڑھا دوں اور دوستوں کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلا دوں۔
سب سے پہلے مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ زندگی اور موت کا سلسلہ انسان کے ساتھ لگا ہؤا ہے اور یہ سلسلہ اِسی طر ح چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا۔ بچے دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیںان کی پیدائش کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اور لوگ دنیا میں مرتے رہتے ہیں ان کی موت کو کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر بعض لوگ ایک عرصہ دراز تک امن میں رہنے کی وجہ سے اِن باتوں کو بُھول جاتے ہیں۔ جن قوموں کو لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں اُن کو یہ باتیں یاد ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظروں میں زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ وہ موت کو ایک کھیل سے زیادہ وقعت نہیں دیتیں۔ افغانستان کا ایک باشندہ یا سرحد کا ایک باشندہ بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کا ایک باشندہ۔ لیکن ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ اِدھر رات کو چوکیدار شہروں اور گاؤں میں جاگ جاگ کر پہرہ دے رہے ہوتے ہیں اور اُدھر پولیس پہروں پر متعیّن ہوتی ہے۔ لیکن افغانستان اور سرحد کے علاقوں میں نہ کوئی چوکیدار ہوتاہے اور نہ ہی پولیس ہوتی ہے۔ اگر وہاں کسی شخص کی کوئی چیز چوری ہو جاتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ چیز مَیں نے خود ہی نکلوانی ہے۔ اور دوسرے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اِس کی چوری شدہ چیز کی واپسی میں اسکی مدد نہ کی تو یہ ہماری مدد نہ کرے گا۔ اِسی طرح وہاں جتھے اور پارٹیاں بن جاتی ہیں جو اپنے آپ کو منظم کر لیتی ہیں۔
یورپین قومیں جو حاکم ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ اُن کی نظریں ہر وقت مملکت کی وسعت کی طرف لگی رہتی ہیں۔ اور اِس وسعتِ نگاہ کی وجہ سے اور ساتھ ہی اپنے دماغوں میں یہ نقشہ جماتے ہوئے کہ اگر ہماری مملکت میں بہت زیادہ پھیلاؤ ہو گیا تو ہمیں خوراک اچھی ملے گی اور تنخواہیں بھی زیادہ ملیں گی وہ قومیں اپنی حکومتوں کو مدد دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں اور گورنمنٹ کا ہاتھ بٹانے میں کبھی پَس وپیش نہیں کرتیں۔ اُن قوموں کے افراد اپنی حکومتوں کی بہبودی اور اُن کے مال و متاع کی حفاظت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانیاں کر گزرتے ہیں۔ مثلاً تجارت کا مال جہازوں میں لاتے وقت اگر دشمن حملہ کر دے تو بسااوقات اِس قسم کے واقعات دیکھنے اور سُننے میں آتے ہیں کہ دشمن متواتر توپوں کے گولے برسا رہا ہے، ادھر سے اس جہاز کا توپچی بھی دشمن کے جواب میں گولے پھینک رہا ہے حتیٰ کہ دشمن کی بے پناہ گولہ باری کی وجہ سے ان کا جہاز ڈوبنا شروع ہو گیا ہے۔ اب جہاز ڈوبا جارہا ہے، لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے کشتیوں میں بیٹھتے جا رہے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چند منٹوں کے اندر اندر جہاز تہہِ آب ہو جائے گا۔ لیکن جہاز کا توپچی برابر اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے اپنے دشمن پر گولے برسا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے آخری گولے کے ساتھ ہی جہاز غرق ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی توپچی بھی سمندر کی لہروں میں گُم ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُس توپچی کے اندر اِتنی جرأت او ردلیری کہاں سے آ گئی کہ موت کو سامنے کھڑے دیکھ کر بھی وہ اپنے فرض کی ادائیگی سے نہ رُکا۔ ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ اُس کی یہ جرأت اور بہادری اُس کے ماحول کی وجہ سے تھی۔ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جو لڑائیاں لڑتی رہتی تھی۔ یہ جرأت اور یہ حوصلہ امن میں رہنے والوں کے اندر کہاں آ سکتا ہے۔ امن میں رہنے والا تو ذرا سا کھٹکا دیکھ کر ہی بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ دنیا میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے سے زیادہ بزدلی اور کمزوری اَور کوئی نہیں۔ بھاگتے ہوئے دشمن کی طرف پیٹھ ہوتی ہے اور دیکھنے والی چیز آنکھ ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو سر کی گدی سے دیکھتا ہو۔ ہر شخص آنکھ ہی سے دیکھتا ہے۔ اور دشمن سے مقابلہ کے وقت بھی اُسے آنکھ ہی سے دیکھا جا سکتا ہے نہ کہ پیٹھ پھیر کر سر کی گدی سے۔ اِس لئے اگر کوئی شخص دشمن کے مقابلہ میں پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ جس طرف اُسے منہ کرنا چاہیئے تھا اُدھر وہ پیٹھ پھیر دیتا ہے۔ اور جس طرف اُسے پیٹھ رکھنی چاہیئے تھی اُس طرف وہ منہ کر لیتا ہے۔ حالانکہ دشمن کے مقابلہ کے وقت بھاگنا ہی ہلاکت کا موجب ہوا کرتا ہے اور بھاگنے میں سو فیصدی موت ہوتی ہے۔ مقابلہ کی صورت میں تو زیادہ سے زیادہ پچاس فیصدی موت کا خدشہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اِس صورت میںیہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ اُس کا دشمن غالب آجائے۔ اور یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ یہ دشمن پر غالب آ جائے۔ لیکن بھاگ جانے میں تو دشمن پر غالب آجانے کا ایک فیصدی امکان بھی نہیں ہوتا۔
پس جس طرح ایک مومن کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ دنیا میںصلح اور امن سے زندگی بسر کرے۔ اِسی طرح اُس پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ دشمن سے مقابلہ ہو جانے کی صورت میں کبھی پیٹھ نہ دکھائے۔ مومن کو ہر بات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہیئے۔ پس ہمیں اِس وقت ایسا نمونہ دکھانا چاہیئے کہ دشمن بھی ہمارے اس نیک نمونہ کا معترف ہو جائے۔ قومیں عام طور پر جنگ کے ایام میں دشمنی کی حدود سے گزر کر کمینگی اختیار کر لیا کرتی ہیں۔ مگر مومنوں کے پیش نظر ہر وقت یہ بات ہونی چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم دشمنی کرو تو ایک حد کے اندر کرو۔ اور جب تم دوستی کرو تو بھی ایک حد کے اندر کرو۔ 1 یعنی یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ دشمن کی کمینہ حرکات کے جواب میں تم بھی کمینگی اختیار کر لو۔ بلکہ تمہیں چاہیئے کہ اخلاقِ فاضلہ سے کام لو۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اِس ظلم اور ناانصافی کے موقع پر اپنے جذبات کو پوری طرح قابو میں رکھو۔ اور کسی حالت میں بھی رحم اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ اگر تم دشمن کے ساتھ رحم اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ گے تو اِس صورت میں خدا تعالیٰ بھی تمہیں مل جائے گا اور بندے بھی۔ مگر ظلم اور بے انصافی کی صورت میں نہ تو خدا تمہیں مل سکتا ہے اور نہ ہی بندے۔ اگر دشمن تم پر حملہ کر دے تو تمہارا اپنے بچاؤ اور دفاع کی خاطر اُس کے ساتھ لڑنا ناجائز نہیں کہلا سکتا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ تمہارے بچاؤ کو کوئی اَور معنوں میں لیتا پھرے ۔ جیسے کہتے ہیں ایک بھیڑ یا ندی میں سے پانی پی رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ پانی کے بہاؤ کی طرف بھیڑ کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی پانی پی رہا ہے۔ بھیڑ کے بچے کو دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ اُس کے پاس پہنچا اور کڑک کر کہنے لگا۔ او نالائق! تجھے شرم نہیں آتی کہ مَیں پانی پی رہا تھا اور تُو پانی کو گدلا کر رہا تھا۔ بھیڑ کے بچے نے کہا مَیں تو پانی کے بہاؤ کی طرف پانی پی رہا تھا۔ آپ کے پینے کا پانی کیسے گدلا ہو گیا؟ بھیڑیا یہ سن کر طیش میں آ گیا اور کہنے لگا تجھے شرم نہیں آتی کہ ایک تو تُو نے قصور کیا ہے اور پھر گستاخی کرتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ بھیڑ کے بچے پر جھپٹا اور اُسے چِیر پھاڑ کر کھا گیا۔ پس اگر ہمارے ساتھ بھی یہی حال ہو تو اَور بات ہے۔ ورنہ کوئی انصاف پسند یہ نہیںکہہ سکتا کہ جب دشمن نے تم پر حملہ کیا تھا تو تم نے بچاؤ کیوں کیا۔ اگر کوئی ایسا کہے گا تو وہ خود ذلیل ہو گا۔ ہاں اگر کوئی جھوٹی کہانی ہمارے خلاف بنالی جائے تو اَور بات ہے۔
پس مَیں دوستوں کو خاص طور پر اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ محبت، پیا ر اور صلح کو کسی حالت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دو تا کہ جب ہم خدا تعالیٰ کے حضور جائیں تو پاک اور صاف دل لے کر جائیں۔ اپنے دلوں کو بُغضوں اور کینوں سے پاک کر دو۔ اور محبت، صلح اور ساتھ ہی بہادری اور جوانمردی کو اپنا شعار بناؤ ۔ کیونکہ ایک مومن جہاں امن پسند اور صلح جُو ہوتا ہے وہاں مومن سے بڑھ کر دلیر اور بہادر بھی کوئی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عام مومن دشمن کے دو افراد پر بھاری ہوتا ہے 2۔ اِس سے اعلیٰ ایمان والا دشمن کے دس افراد پر بھاری ہوتا ہے 3 مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیوض حاصل کئے تھے جنگوں کے زمانہ میں اُن میں سے ایک ایک نے دشمن کے سَو سَو افراد کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ اِس وقت قادیان کی آبادی میں تین ہزار کے قریب نوجوان ہیں۔ اگر ان میں سے نصف یعنی پندرہ سو بھی دشمن کے مقابلہ میں نکل کھڑے ہوں تو جس نسبت سے صحابہؓ نے کفار کا مقابلہ کیا تھا اُس نسبت سے یہ پندرہ سوآدمی دشمن کی ڈیڑھ لاکھ فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہاں اِس کے لئے مضبوط ایمان کی ضرورت ہے۔ پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو۔ اگر تم اپنے ایمان مضبوط کر لو گے تو مردانگی اور جرأت تمہارے اند رخود ہی آجائے گی۔ اور ہر میدانِ مقابلہ میں فتح تمہارے قدم چُومے گی۔ لیکن ساتھ ہی اِس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ اگر خدا تعالیٰ تمہیں فتح نصیب کرے اور وہ اپنے وعدوں کے مطابق ضرور تمہیں فتح دے گا تو تمہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ہر ہندو کی عورت تمہاری ماں اور بہن ہے او رہر سِکھ کی عورت تمہاری ماں اور بہن ہے۔ یہی وہ پاکیزگی کا بلند معیار ہے جس پر اسلام تمہیں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل تم پر نازل ہونے شروع ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے بندے باوجود مشتعل ہونے کے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے رحم اور انصاف پر قائم ہیں اور میری تعلیم سے انہوں نے منہ نہیں موڑا۔مَیں کیوں اِن کی طرف سے منہ موڑ لوں۔ لیکن اگر تم رحم اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری نصرت سے ہاتھ کھینچ لے گا اور کہے گا کہ جب اِن کو میری تعلیم اور میرے احکام کی پروا نہیں تو مجھے اِن کی تائید کی کیا ضرورت ہے۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اِن ایّام میں باہر سے بہت سے لوگ قادیان آ رہے ہیں۔ اُن کے پاس نہ کھانے کا سامان ہوتا ہے نہ پینے کا۔ جولوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی تھوڑی بہت چیزیں لے آئے ہیںان کی تعداد بہت ہی قلیل ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سب کے خور و نوش کا انتظام اِس وقت ہمارے ذمہ ہے۔ مگر اِس ذمہ داری کی ادائیگی کوئی آسان کام نہیں۔جب قادیان میں ریل آئی تھی اور گڈّوں اور موٹروں کی آمد و رفت تھی تو باہر سے سامان منگوا لیا جاتا تھا۔ مگر یہ وقت ایسا ہے کہ نہ تو ریل ہی قادیان تک آتی ہے اور نہ ذرائع آمدورفت محفوظ ہیں۔ اِس لئے باہر سے آنے والوں کے لئے بھی او رقادیان کی آبادی کے لئے بھی ہمیں بہرحال قادیان سے ہی خور و نوش کا انتظام کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس انتظام کو نباہنے میں جس قدر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اُس کا اندازہ لگانا ہر شخص کا کام نہیں۔ اِس لئے مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے کم سے کم خوراک پر گزر کی جائے اور کم سے کم لکڑی جلائی جائے۔ اِسی طرح مٹی کا تیل جہاں تک ہو سکے کم از کم استعمال کیا جائے۔ اگر تم مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں کوئی کام کر رہے ہو اور تمہیں تھوڑے بہت وقفہ کے لئے لیمپ کے پاس سے اٹھنا پڑے تو لیمپ کو بُجھا کر اٹھو۔ا ور کوشش کرو کہ پہلے سے چوتھا پانچواں بلکہ چھٹا حصہ تیل جلاؤ۔ اور جس گھر میں پہلے دس لیمپ جلا کرتے تھے اُن کی بجائے ایک لیمپ جلایا جائے۔ غرض ہر احمدی کم سے کم خوراک اور ضروریاتِ زندگی کی چیزیں استعمال کرے تا کہ حالات جو سُرعت کے ساتھ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں ہمیں خور و نوش کی تکالیف میں مبتلا نہ کردیں۔ وقت نازک سے نازک تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر دوست ابھی سے اپنے کھانے پینے پر کنٹرول کر لیں گے تو ان کے پاس کچھ ذخیرہ خوراک کا بچ سکتا ہے جو اُن کے غریب اور تہی دست بھائیوں کے کام آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مجلس میں فرمایا اشعری لوگ بہت اچھے ہیں۔ اشعری لوگ بہت اچھے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اُن کے اندر کیا خوبی ہے؟ آپؐ نے فرمایا جب اِس قوم کو کبھی قحط کا سامنا ہو تو وہ قوم اعلان کر دیتی ہے کہ قحط کا سامنا ہو رہا ہے۔ یہ اعلان سُنتے ہی اِس قوم کے تمام افراد اپنا اپنا غلہ لا کر ایک جگہ جمع کر دیتے ہیں۔ اِس کے بعد اُس جمع شدہ غلہ کو تمام لوگوں میں بالکل برابر برابر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ غریب کیا اور امیر کیا سب کو یکساں حصہ ملتا ہے۔ کسی غریب اور امیر میں امتیاز نہیں کیا جاتا 4۔
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ گُر بتایا ہے کہ ایسے مواقع پر غلہ جمع کر کے سب کو یکساں تقسیم کر دو۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا وقت آنے کا بھی امکان ہے کہ ہم اُس وقت ہر احمدی سے یہ امید رکھ سکیں کہ جس کے پاس بیس من ہو وہ بیس من، جس کے پاس تیس من ہو وہ تیس من، جس کے پاس ساٹھ من ہو وہ ساٹھ من۔ جس کے پاس ایک سیر ہو وہ ایک سیر اور جس کے پاس ایک پاؤ ہو وہ ایک پاؤ غلہ لا کر ایک جگہ جمع کر دے۔ اور پھر ہم اُس غلہ کو برابر برابرتقسیم کر دیں گے۔
تیسری چیز جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مصائب کے ایّام میں عام طور پر لوگ بجائے اپنا شکوہ کرنے کے خدا تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اے خدا! تیرے وعدے کدھر گئے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ بعض اوقات انسان مصائب سے گھبرا اٹھتا ہے۔ مگر اس گھبراہٹ کے یہ معنی تو نہیں ہونے چاہئیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان ہی نہ رہے۔ مصائب اور شدائد میں مومنوں کے اندر بے چینی کا پایا جانا اَور چیز ہے اور خدا تعالیٰ سے گِلہ کرنا اَور بات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے موقع پر جبکہ لشکرِ قریش نے مسلمانوں پر عام دھاوا بول دیا تھا نہایت رقّت کی حالت میں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دُعا کرتے رہے کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلَکَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃُ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ۔ 5 یعنی اے میرے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت آج اِس میدان میں ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تیری پرستش کرنے والا اور کوئی نہیں رہے گا۔ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ کے اندر بے چینی سی پائی جاتی تھی کیونکہ گو آپؐ کو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین تھامگر آپؐ خدا تعالیٰ کی بے نیازی کو دیکھتے ہوئے برابر رقت کے ساتھ دعائیں کرتے رہے۔ اور اس دعا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ کو اپنی شہادت کا بھی خطرہ تھا۔ کیونکہ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ تبھی صحیح ہو سکتا ہے جب آپ بھی اِس شہادت میں شامل ہوں۔ غرض باوجود اِس کے کہ آپؐ کو خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کے وعدوں پر یقین کامل تھا آپؐ بیقرار ہو کر دعائیں کرتے رہے۔
پس خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ ہیں وہ بہرحال سچے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر ضرور پورے ہوں گے۔ مگرکسی کا یہ کہنا کہ وہ وعدے 1947ء میں یا 1948ء میں کیوں پورے نہیں ہو ئے بالکل حماقت ہے۔ خدا تعالیٰ کے غیر معیّن وعدوں کے لئے وقت کی تعیین کرنا ہمارے لئے جائز نہیں۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے وعدوں کی تعیّن کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ پر حاکم بننا چاہتا ہے۔ مومن کا کام تو صرف اِتنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دعائیں کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے وہ چیز مانگتا رہے جو اُس کی اپنی نظر وں میں اچھی ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ تم وہ چیز مانگا کرو جو تمہاری نظروں کو اچھی لگے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب دعا مانگی تو انجیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپؑ نے یہی کہا کہ اے خدا! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے 6۔ ہاں آخر میں آپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر یہ پیالہ ٹل نہیں سکتا تو پھر اے خدا! تیری مرضی پوری ہو7۔ اِسی طرح ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا میں وہی کچھ مانگے جو اُسے اپنی نگاہ میں اچھا نظر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہے کہ اے خدا! جو کچھ میں مانگ رہا ہوں اگر یہ میرے لئے مناسب نہیں تو پھر جو تیرے نزدیک اچھا ہو وہی ہو۔ اگر مومن اِس رنگ میں دعائیں کریں تو خدا تعالیٰ وہی کرے گا جو اُس کے نزدیک اچھا ہوگا۔ ہم جن چیزوں کو بُرا سمجھتے ہیں جب تک اُن کے متعلق ہمیں خدا تعالیٰ سے علم نہ دیا جائے کہ یہ اچھی ہیں تب تک ہمارا فرض ہے کہ ہم دعائیں مانگتے رہیں کہ اے خدا! ہمیں ان سے بچا لے۔ اور جب اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے متعلق علم دے دے کہ یہ اچھی ہیں تو بھی حضرت مسیحؑ کی طرح ہمیں یہ دعا مانگنی چاہیئے کہ اے خدا! ہمارے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے نزدیک اچھا ہے۔ گویا علم ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہمارا کام صرف دعائیں کرنا ہی ہے۔ آگے خدا تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے۔ حضرت مسیح ؑکو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے سب حالات سے آگاہ کردیا تھا مگر پھر بھی وہ دعائیں مانگتے رہے۔ پس مومن کا کام صرف دعائیں کرنا ہے۔ کسی کا غیر ذمہ دارانہ طور پر یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کا فلاں وعدہ فلاں وقت میں پورا کیوں نہیں ہوا بالکل نادانی کی بات ہے۔ ہم یہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا وہ ہمارے لئے بہتر ہوگا۔ مگر ممکن ہے کہ الف یا ب نے اپنے ذہن کے اندر جو نقشہ جمارکھا ہو اُس کے مطابق نہ ہو۔ پس کسی الف یا ب کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے خیالی نقشہ کے مطابق کیوں نہیں کیا سراسر حماقت ہے۔ اور اِس کا یہ مطلب ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر حاکم بننا چاہتے ہیں۔ کیا ہم محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں؟ یا آپؐ سے بالا ہو سکتے ہیںکہ یہ کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ایسانہ کرے جیسا کہ ہمارے خیال میں ہے تو ٹھیک؟ نہیں۔ ایسا کہنا تو کفر ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دفعہ رات کے وقت جب میری آنکھ کُھلی تو مَیں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر نہیں ہیں۔ (یہ بات حضرت عائشہؓ کے اُس زمانے کی ہے جب کہ انہوں نے پوری طرح عرفان حاصل نہ کیا تھا اور ابھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے پوری طرح فیضیاب نہ ہوئیں تھیں۔بعد میں تو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں کافی عرصہ رہنے کی وجہ سے وہ عرفان حاصل کیا جو اُمتِ محمدیہؐ کی عورتوں میں ایک کامل نمونہ تھا) مَیں نے خیال کیا کہ آپؐ اپنی دوسری بیویوں میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ اِس خیال سے میں ہر ایک بیوی کے گھر گئی اور سب کے دروازے کھٹکھٹائے مگر یہی جواب ملا کہ آپؐ یہاں نہیں ہیں۔ آخر مَیں مسجد کے اندر گئی تو مَیںنے دیکھا کہ آپؐ سجدہ میں پڑے ہیں اور اِس طرح نڈھال ہو رہے ہیں جیسے سخت کرب اور اضطراب میں ہیں۔ مَیں نے سُنا تو آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر رہے تھے۔ اَللّٰھمَّ سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَ خَیَالِیْ اٰمَنَ بِکَ فُؤَادِیْ وَ اَقَرَّبِکَ لِسَانِیْ فَھَا اَنَا ذَابَیْنَ یَدَیْکَ یَا عَظِیْمُ یَاغَافِرَ الذَّنْبِ الْعَظِیْمِ۔ جو لوگ عربی تھوڑی جانتے ہیں وہ اِس کا لفظی ترجمہ کیا کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے وہ صحیح معنوں پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس دعا کے اندر بعض چیزیں محذوف ہیں۔ اگر محذوف قصہ نکال دیا جائے تو اس کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔ اس کے صحیح معنی یہ ہیں کہ اے میرے اللہ! سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَ خَیَالِیْ میرا جسم تیرے سامنے حاضر ہے اور میرا سارا خیال تیرے حضور سجدہ میں گرا پڑا ہے۔ وَ اٰمَنَ بِکَ فُؤَادِیْ میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے۔ وَ اَقَرَّبِکَ لِسَانِیْ اور میری زبان تیرے احسانوں کا اقرار کرتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہتا ہے کہ اے خدا! میرا جسم، میرا خیال، میرا دل اور میری زبان تیرے حضور حاضر ہیں تو اِس اقرار کے بعد اُس پر بہت سی ذمہ داریاں خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوجاتی ہیں۔ اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم آگے چل کر فرماتے ہیں فَھَا اَنَا ذَابَیْنَ یَدَیْکَ۔ اے خدا! اب ان اقراروں کے بعد جو ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں ممکن ہے مَیں ان ذمہ داریوں سے پوری طرح عُہدہ برآنہ ہو سکوںاِس لئے میں تیرے دربار میں ایک مجرم کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔ اگر اِس دعا میں سے محذوف نہ نکالے جائیں تو اِس کے کوئی معنی ہی نہ ہونگے۔ اِس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہو گا کہ اے خدا! میں نے تیرے سامنے سجدہ کیا۔ اے خدا !میں تجھ پر ایمان لایا۔ اے خدا! میری زبان تیرا اقرار کرتی ہے۔ اب اے عظیم خدا! مَیں تیرے سامنے حاضر ہوں۔ اِن الفاظ کا تو کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔ پس یہی معنی صحیح ہیں کہ اے میرے خدا! ان تمام اقراروں کے بعد جو ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں اُن کے بارہ میں ایک مجرم کی حیثیت میںتیرے دربار میں حاضر ہوا ہوں۔ اے عالی مرتبت اور باعظمت خدا! میں تیرے سامنے گر گیا ہوں تُو میری مدد فرما کہ مَیں ان ذمہ داریوں سے عُہدہ برآ ہو سکوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح کامل وجود تھے۔ اِسی طرح آپ نے اِس دعا کو بھی کامل بنا دیا ۔ آپؐ نے اِس دعا میں یَاغَافِرَ الذَّنْبِ الْعَظِیْمِکہہ کر خدا تعالیٰ کی عظمت کو جوش دلایا ہے۔ یعنی ایک طرف تو آپ خدا تعالیٰ کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! بے شک مَیں اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ مگر ساتھ ہی یہ عرض کرتے ہیں کہ تُو بھی تو عظیم ہستی ہے۔ میری کوتاہی کتنی بھی بڑی ہو تیری عظمت کے سامنے تو کوئی چیز نہیں۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بشری کمزوری کو عظیم کہتے ہوئے خدا تعالیٰ کی صفتِ عظیم کو پکارا اور اِس طرح اُس کی محبت کو اُبھارا ۔جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب حضرت ہارونؑ کی داڑھی پکڑی تو حضرت ہارونؑ نے کہا 8 یعنی اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑ۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ ؑکے سامنے اپنے بچپن کے حالات اور ماں کی محبت کے نظارے آ گئے اور حضرت موسیٰ ؑکا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی یہی طریق استعمال کیا اور اپنے سامانوں کی کمی کو تسلیم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی صفتِ عظیم کو پکارا۔ اور کہا یَاغَافِرَ الذَّنْبِ الْعَظِیْمِ۔ اے بڑے سے بڑی ہستی! اے عظیم المرتبت خدا! اے بڑے سے بڑا گناہ بخش دینے والے خدا! میں اِن تمام اقراروں کے بعد تیرے دربار میں اپنی کوتاہ دامنی کا اقرار کرتے ہوئے حاضر ہوں۔ کیا لطیف اور کامل دُعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے۔ اِس میں انسان کے جذبات یوں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر پرواز کر رہے ہیں۔ غرض حضرت عائشہؓ نے جب آپ کو سجدہ میںیہ دُعا کرتے ہوئے دیکھا تو شرمندہ ہو کر واپس آگئیں۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ دُعا جو آپ نے ہمیں سکھائی ہے نہایت ہی لطیف اور کامل دعا ہے کہ اَللّٰھمَّ سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَ خَیَالِیْ وَ اٰمَنَ بِکَ فُؤَادِیْ وَ اَقَرَّبِکَ لِسَانِیْ فَھَا اَنَا ذَابَیْنَ یَدَیْکَ یَا عَظِیْمُ یَاغَافِرَ الذَّنْبِ الْعَظِیْمِ۔
پس دعائیں کرو اور کثرت سے دعائیں کرو اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل بھی رکھو کہ وہ جو کچھ کرے گا ہمارے لئے بہتر ہو گا۔ اور حضرت مسیحؑ کی طرح کہو کہ اے ہمارے خدا! ہم سمجھے تو یہی ہیں کہ فلاں چیز ہمارے لئے بہتر ہے لیکن تُو وہی کر جو تیری نظروں میں ہمارے لئے بہتر ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ مومن ہمیشہ عقل و خرد سے کام لیتا ہے اور وہ ہر کام کرتے وقت دیکھتا ہے کہ یہ کام دین کے لئے مفید ہے یا نہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ ہر کام کرتے وقت مومنوں کے مدنظر یہ بات ہونی ضروری ہے کہ دین کس پہلو سے مضبوط ہو سکتا ہے۔ پس اِن پُرخطر ایام میں خدا تعالیٰ کے حضور دن اور رات دعاؤں میں لگے رہو اور اُس کا فضل مانگتے رہو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ آمین۔‘‘ (الفضل 31 مارچ 1948ئ)
1: ترمذی ابواب البرّ و الصّلۃ باب ما جاء فِی الاقتصاد فِی الحُبِّ وَ الْبُغْض۔
2:
(الانفال: 66)
3:

(الانفال: 67)
4: مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب مِنْ فضائل الاشعریین
5: مسلم کتاب الجھاد باب الامداد بالْمَلَائِکَۃِ فِیْ غَزْوَۃِ بدروَ … (الخ)
6: متی باب 26 آیت:39
7: متی باب 26 آیت:42
8: طٰہٰ: 95

31
یہ امتحان کا وقت ہے ایسے موقع پر ہر شخص کو مردِ میدان ثابت ہونا چاہیئے
(فرمودہ 5 ستمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج جبکہ لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے یا موت کے مقام سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے لمبی باتیں اور لمبی کہانیاں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ ایسے خطرناک وقت میں سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ وقت قربانی اور ایثار کا ہوتا ہے نہ کہ باتیں کرنے کا۔ آجکل ہماری جماعت جن مشکلات میں سے گزر رہی ہے شاید باقی جماعتیں ان مشکلات میں سے نہیں گزر رہیں۔ بلکہ شاید کیا یقینا دوسری جماعتوں کو اُس قسم کی مشکلات درپیش نہیں ہیں جو ہماری جماعت کو درپیش ہیں۔ کیونکہ ہمارا مرکز ہاں وہ مرکز جو ہماری امیدوں کی آماجگاہ ہے اور جس کا نام سن کر ہمارے دل دھڑکنے لگتے ہیں وہ ایسے علاقے میں ہے اور ایسے حالات سے دوچار ہو رہا ہے کہ دُنیوی اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پس سب سے زیادہ مشکلات ہمارے لئے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جو مشکلات ہمیں پیش آئی ہیں وہ انسانی تدبیر سے بالا تھیں۔ میرے نزدیک یہ مشکلات ایسی ہیں کہ اگر صحیح تدابیر اختیار کی جاتیں تو یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے۔ اور عام مسلمانوں کو بھی اور احمدیوں کو بھی یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔ لیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے اور نکتہ چینی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ایسے اوقات قربانی اور کام کرنے کے ہوتے ہیں۔ مگر بہرحال ایک دفعہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کی بنیادیں بظاہر ہل گئی ہیں۔ اور اب اللہ تعالیٰ امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ازسرنَو ان بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے ہیں جو ایمان اور اخلاص کے مَیدان میں پُورے اُترتے ہیں او رکتنے ہیں جو قربانی اور ایثار سے کام لے کر اپنے ایمانوں پر مُہر ثبت کرتے ہیں۔ اِنہی مسائل پر روشنی ڈالنے کے لئے مَیں قادیان سے آیا ہوں کہ جماعت کے سامنے اُن امور کو پیش کروں جن کے متعلق میں مشورے کی ضرورت سمجھتا ہوں۔
مَیں آج جماعت سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اُس کے امتحان کا وقت ہے۔ ایسے موقع پر ہر شخص کو مردِ میدان ثابت ہونا چاہیئے اور جو شخص ایسے وقت میں مردِ میدان ثابت نہیں ہوتا اُسے پکڑ کر کھڑا رکھنا بھی جائز نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کو اَب جلدی ہی جماعت سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ اب جماعت کو ایسے امتحانات پیش آنے والے ہیں کہ جن کے بعد وہی لوگ اِس جماعت میں شامل رہ سکیں گے جو قربانیوں میںشامل ہوں گے۔ باقی لوگوں کو اُن کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا جائے گا۔ وہ زمانہ چلا گیا کہ جب ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کچھ ہماری طرف سے خُدا کے لئے پیش ہے۔ اب وہ زمانہ آ گیا ہے جبکہ ہم یہ نہ کہیں گے کہ یہ چیز ہماری طرف سے پیش ہے بلکہ اب اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ منتظم ہم سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے مال میں سے اِتنا ہم تم کو دیتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو ایسی قربانی سے بچنے کی کوشش کرے گا جماعت میں شامل نہیں رہ سکے گا۔ اگر نوّے فیصدی لوگ بھی اِس ابتلا میں گِر جائیں تو بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ بقیہ جماعت سینکڑوں گُنے زیادہ کام کر سکے گی۔ پس تم میں سے ہر شخص کو دعاؤں میں لگ جانا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اُسے احمدیت میں ثابت قدم رکھے اور سچی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک دن رات میں ہم امن میں رہنے والے جنگ و جدال میں مبتلا کر دیئے گئے اور پُرامن ہندوستان میں رہنے والے یاغستان 1 میں پھینک دیئے گئے۔ لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ اِس دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی خُدا ہے او راگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ دین ہے اور اگر یہ درست ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین میں کمزوری پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تا کہ آپ دوبارہ اِس دین کو قائم کریں۔ تو پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سُورج ڈوبے اور پھر نہ چڑھے اور ہم اس کے چڑھنے کا انتظار کرتے رہیں۔ یا سورج چڑھے اور وہ نہ ڈوبے اور ہم اُس کے ڈوبنے کا انتظار کرتے رہیں۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ بڑی سے بڑی آفت بھی اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پرانی کتابوں میں آتا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ہے جس پر وہ گرے گا اُسے چِکنا چُور کر دے گا اور جو اِس پر گرے گا وہ بھی چِکنا چُور ہو گا 2۔ سو یقینا ہم آئندہ ابتلاؤں میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن یہ خُوشی اُنہی کے لئے ہو گی جو اِس وقت ہلاکت کے سمندر میں اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے ڈال دیں گے کہ :
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘
(الفضل 17 ستمبر 1947ئ)
1:یا غستان : یاغستان اُس علاقہ کو کہتے ہیں جو تقسیم سے قبل سرکار انگریزی کی سرحد اور افغانستان کی سرحد
کے پاس واقع ہے۔افغان سرحد کا تعیّن ڈیورنڈ کمیشن نے کیا تھا اور اُس وقت یہ تمام علاقہ
انگریزوں کا حلقہ اثر کہلاتا تھا۔ لیکن درحقیقت وہاں کوئی حکومت نہیں تھی اس لئے اُسے یاغستان کہتے
تھے جس کے لفظی معنی یہ تھے کہ’’ باغیوں کا ملک‘‘( مشاہدات کابل و یاغستان مصنفہ مولوی محمد علی قصوری)
2: متی باب 21 آیت 42 تا 44

32
مومن عقل اور تدبیر کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا
(فرمودہ 12 ستمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’پہلے تو مَیں افسوس کے ساتھ اِس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ لاہور کی جماعت نے اِس موقع پر اپنے فرائض کو کَمَاحَقُّہٗ ادا نہیں کیا۔ چندہ حفاظتِ مرکز کا اعلان اپریل سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جہاں حیدر آباد، سکندر آباد، کلکتہ اور دور دور کی انجمنوں بلکہ افریقہ تک کی انجمنوں نے اپنے وعدے پورے لکھوا دیئے ہیں وہاں لاہور کی انجمنوں نے ابھی تک اپنے وعدے پورے طور پر نہیں لکھوائے۔ ادائیگی تودُور کی چیزہے صرف وعدے کا سوال تھا جو ایک بنیا بھی کر لیتا ہے اور کہتا ہے ’’ہمارا مال سو تمہارا مال‘‘۔مگر ایک بنیا بھی اپنے جوش میں جس قدر اظہار کر دیتا ہے اُتنا بھی لاہور کی جماعت نے نہیں کیا۔ ادائیگی کا جو کچھ حال ہے اُس کی مَیں نے تحقیق نہیں کی۔ لیکن جو شخص وعدہ میں کمزور ہو وہ یقینا ادائیگی میں بھی سُستی دکھاتا ہے۔ پھر مرکز کی تبدیلی کے لئے جو ہمیں کوششیں کرنی پڑی ہیں اُن میں بھی جماعت لاہور کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھا رہی۔ آخر اِس جگہ پر قادیان کے سارے دفاتر اور تمام کارکن نہیں آئے۔ وہ سب کے سب اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے ہوئے خدا تعالیٰ کے شعائر کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ لاہور کے آدمی آرام اور اطمینان سے پاکستان کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے میٹھی نیند سوتے اور مسکراتے ہوئے جاگتے ہیں۔ اور وہاں بالعموم بائیس بائیس گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے۔
خود مجھ پر بہت راتیں ایسی گزری ہیں کہ صبح تک مَیں آنکھ بھی جھپک نہیں سکا۔کیونکہ ماتحت عملہ کی ڈیوٹی تو بدلتی رہتی ہے لیکن اوپر جوعملہ ہوتا ہے اور جس کا فرض دوسروں سے کام لینا ہوتا ہے اُس کی ڈیوٹی بدل نہیں سکتی۔ رات کو کام کرنے والے آتے ہیں تو وہ کام بھی کرتے ہیں اور اپنے افسر کو بھی بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے کیا کام کیا۔ اِسی طرح دن کو کام کرنے والے کام کرتے ہیں تو وہ اپنے افسر کو بھی کام کی رپورٹ دیتے اور اُس کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یہاں مرکز بننے پر کم سے کم ایک چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری جو یہاں کی جماعت کو ادا کرنی چاہیئے تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنے وقتوں میں سے گھنٹہ گھنٹہ، ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ، دو دو گھنٹے دیتے۔ اور اگر یہاں کی جماعت میں کچھ بھی احساس اپنے فرائض کا ہوتا تو وہ یہی کرتی کہ پانچ نمازوں میں سے ایک نماز ہی خلیفۂ وقت کے پیچھے پڑھ لیتی۔ مگر تمہارے اندر تو کچھ بھی احسا س پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جتنا تمہارے محلہ میں ایک مداری کے آنے پر اُس کا تماشہ دیکھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے اُتنا احساس بھی تمہیں خلیفۂ وقت کی ملاقات کا نہیں ہوا۔ اِس کے بعد تم کیا ایمان کا دعویٰ کر سکتے ہو اور تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تمہارے ذریعہ سے پورے ہوں گے۔ اِس قسم کے تمسخر آمیزوعدے کی نہ دنیا میں کوئی قیمت ہو سکتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور اِس کی کوئی قیمت ہے۔ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ہزاروں ہزار آدمی مختلف کیمپوں میں پڑا ہوا ہے۔ جب اُن میں سے کوئی اِس جگہ آتا ہے تو اُسے پوچھنے والا اوراُ س کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پندرہ بیس آدمی جو قادیان سے آئے ہوئے ہیں اُنہیں دفتری کاموں سے ہی فرصت نہیں کیونکہ وہ دفاتر جن میں بیس بیس آدمی کام کرنے والے تھے اُن میںاب ایک ایک آدمی کام کر رہا ہے۔ تمہارا فرض تھا کہ تم اپنی خدمات پیش کرتے اور اُن کا ہاتھ بٹاتے۔ لیکن تم نے کچھ بھی کام نہیں کیا۔ کیا سارے کام کرنا اور سارا وقت خدمتِ دین کے لئے صَرف کرنا یہ صرف قادیان والوں کا کام ہے؟ تمہارا کام نہیں؟ اور اگر قادیان والوں نے ہی کام کیا تو یقینا دنیا ان کا تو نام لے گی لیکن تمہارا نہیں لے گی۔ اور اگر نیک نامی ہوگی تو وہ بھی قادیان والوں ہی کی ہو گی تمہاری نہیں ہوگی۔ اور ثواب ہو گا تووہ بھی ان کو۔ یوں باہر کے لوگ عموماً قادیان والوں پر اعتراض کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ قادیان والے جو کچھ کام کر رہے ہیں وہ باہر کے لوگ نہیں کر رہے۔ باہر کے لوگ کبھی ایک دن چھٹی لے کر قادیان جاتے اور دس گھنٹے مسجد میں بیٹھ رہتے ہیں۔ تو قادیان والوں پر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ مسجد میں نہیں بیٹھتے۔ حالانکہ یہ لوگ سال میں صرف ایک دن مسجد میں بیٹھتے ہیں اور قادیان والے سارا سال وہاں آتے جاتے اور مرکزی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ اب بھی قادیان والے ہی کام کر رہے ہیں اور ایسی قربانی کر رہے ہیں کہ صاف نظر آ تا ہے۔ اب اِس سے زیادہ ان پر بار نہیں ڈالا جا سکتا۔ ڈیڑھ مہینہ ان کو کام کرتے گزر گیا ہے اور اِس ڈیڑھ مہینہ میں بعض آدمی ایسے ہیں جو کسی دن بھی دو تین گھنٹہ سے زیادہ نہیں سو سکے۔ وہ مجھے آرام پہنچانے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں اور ان کی خواہش رہی ہے کہ مجھے نہ جگائیں۔ مگر پھر بھی دو گھنٹے سے زیادہ سونے کا مجھے کبھی موقع نہیں ملا۔ اور بعض دفعہ تو پندرہ منٹ کے بعد ہی ایک دوسرا شخص آ جاتا ہے اور آواز دیتا ۔ ایسی صورت میں نیند کہاں آسکتی ہے۔ ان لوگوں پر تو آپ اعتراض کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں لیکن آپ لوگوں کی خود اپنی یہ حالت ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر یہاں قائم ہوئے اورآپ نے کوئی کام نہ کیا۔ اور میرے آنے کے بعد تو یہاں کی جماعت کے لوگ اِس طرح اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ جیسے کہتے ہیں
عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا
انہوں نے سمجھا کہ چلو چُھٹی ہوئی کام کرنے والا آگیا ہے۔ گویا تم نے بھی وہی کہہ دیا جو موسیٰ ؑکے ساتھیوں نے کہا تھا کہ 1 منہ سے یہ کہنے سے کیا بنتا ہے کہ ہم موسیٰ ؑکے ساتھیوں جیسے نہیں۔ تم یہ تو بتاؤ کہ تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے کوئی خدمت کی ہو۔ پھر تم کس منہ سے کہتے ہو کہ ہم وہ نہیں جنہوں نے موسیٰ ؑ سے یہ کہا تھا کہ ۔ پھر موسیٰ ؑ کی قوم اُس کے ساتھ تو گئی تھی۔ صرف اُس نے لڑائی کرنے سے انکار کیا تھا۔ مگر تم تو ساتھ بھی نہیں چلے۔
پس پہلے تو مَیں افسوس کے ساتھ اِس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اِن دنوں کوئی خدمت کی ہو۔ صرف چند افراد ہیں جو کام کر رہے ہیں باقی ساری جماعت سوتی رہی ہے اور اُس نے سلسلہ کی مصیبت اور سلسلہ کی تکلیف اور سلسلہ کے دکھ اور سلسلہ کے بڑھتے ہوئے کاموں کو اِتنی اہمیت بھی نہیں دی جتنی ہوا کے ایک جھونکے کود ی جاتی ہے۔
خدا تعالیٰ کے کام تو خداتعالیٰ نے ہی کرنے ہیں اور وہ یقینا ہو کر رہیں گے۔ تم اگر اِن کاموں کو سرانجام نہیں دو گے تو اللہ تعالیٰ اَور لوگوں کو کھڑا کر دے گا۔قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تُو اُن لوگوں کو متنبہہ کر دے۔ اگر یہ کام کریں گے تو اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر دیا جائے گا۔ اور اگر کام نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ اَور لوگوں کو اپنے دین کی خدمت کے لئے کھڑا کر دے گا 2۔ مَیں نے بھی اِس خیال سے کہ تم ثواب حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جاؤ تمہیںمتنبہہ کر دیا ہے۔ یاد رکھو نہ تمہاری اور نہ کسی اور کی خدا تعالیٰ کو کوئی ضرورت ہے۔ اِس قسم کی سُستیوں کے باوجود بھی خدا تعالیٰ کا سلسلہ یقینا جیتے گا۔ لیکن وہ لوگ کسی عزت کے مستحق نہیں ہوں گے اور نہ اُنہیں ایمان کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مقام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا حق ہو گا۔ صرف چار پانچ آدمی لاہور کے ایسے ہیں جنہوں نے کام کیا مگر باقیوں نے پوچھا تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ان کی خدمات کی سلسلہ کو ضرورت ہے یا نہیں؟ روزانہ جالندھر، ہوشیار پور اور دوسرے علاقوں کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمیں اُن کے لئے مختلف کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ نظر نہیں آتا کہ کس سے کام لیں۔ کیونکہ یہاں کی جماعت نے اپنے فرائض کو ادا کرنے میں خطرناک غفلت اور کوتاہی سے کام لیا ہے۔
پس یہ دو نمونے ایسے ہیں جو نہایت ہی تاریک پہلو لاہور کی جماعت کا پیش کر رہے ہیں۔ حفاظتِ مرکز کے کام میں اب تک بھی پورے وعدے نہیں لکھوائے گئے اور وصولی تو بہت ہی کم ہوئی ہے۔ حالانکہ ہم نے اُس چیز کو کرنا ہی کیا ہے جو وقت کے بعد میسر آئے۔ اب تک ہم نے امانتوں سے روپیہ لے کر کام چلایا ہے ورنہ اگر آپ لوگوں جیسے نادہند جماعت میں ہوتے اور امانتوں کا سلسلہ جاری نہ ہوتا تو جہاں تک دنیاوی تدابیر کا تعلق ہے اب تک قادیان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی۔ (خدانخواستہ۔ رَفَعَ اللّٰہُ بُنْیَانَہٗ وَ اَعَزَّ شَاْنَہٗ) یہ خدا کا فضل ہے کہ اُس نے اِس وقت تک قادیان کو بچائے رکھا ہے ورنہ آپ لوگوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ننانوے فیصدی آپ لوگوں نے پورا زور لگایا کہ وہ تباہ ہو مگر خدا نے اپنے فضل سے سامان مہیا کیا ہوا تھا۔ امانتیں پڑی تھیں جن سے کام چل گیا۔ یہ تو تمہارا حال ہے ۔مگر ایمان کے دعوے میں تم سب سے پہلے اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتے ہو کہ ہم مومن ہیں۔ پھر جب اِس جگہ مرکز کا ایک حصہ آ چکاتھا آپ لوگوں کو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہیئے تھا۔ لیکن آپ لوگوں نے کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ چاہیئے تھا کہ سینکڑوں آدمی اپنے آپ کو خدمات کے لئے پیش کر دیتے۔ اور اگر اُن کی ملازمتیں بھی جاتیں تو اُس کی پروا نہ کرتے۔ جیسے کراچی کے دوستوں نے نمونہ دکھایا۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قادیان جائیں گے۔ اور چونکہ وہاں سرکاری محکموں میں احمدی زیادہ ہیں دفاتر والوں نے سمجھا کہ اگر سب احمدی چلے گئے تو کام بند ہو جائے گا۔ اِس لئے اُنہوں نے چُھٹی دینے سے انکار کر دیا۔ اِس پر کئی احمدیوں نے اپنے استعفے نکال کر رکھ دیئے کہ اگر یہ بات ہے تو ہم اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ایک اخبار جو احمدیت کا شدید ترین دشمن تھا مَیں نے خود اُس کا ایک تراشہ پڑھا ہے جس میں وہ اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ہوتا ہے ایمان۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاص کا نمونہ دکھایا۔ یہ وہ ہیں جن کا عزت سے نام لیا جائے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا احمدیت کی تاریخ میں نام لکھا جائے گا۔ مگر غافلوں اور بے پرواہوں کا نام نہیں لکھا جائے گا۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں کسی نے کہا نہیں۔ مگر مَیں تم سے پوچھتا ہوں کہ اگر تمہارا بچہ بیمار ہو تو کیا کوئی شخص تم سے کہا کرتا ہے کہ تم اُس کا علاج کرو؟ آخر دین کیا میرا لگتا ہے تمہارا نہیں لگتا؟ اگر احمدیت میری چیز ہوتی تو پھر بھی مَیں سوال کرنے کی ذلّت برداشت کر لیتا اور تمہارے پاس جاتا اور کہتا کہ میری مدد کرو۔ گو خدا نے مجھے ہمیشہ اپنے متعلق دوسرے سے سوال کرنے سے بچا رکھا ہے اور مَیں نے آج تک کبھی کسی سے سوال نہیں کیا۔ مگر یہ چیز تو وہ ہے جو صرف میری نہیں بلکہ تمہاری بھی ہے اور اِس لحاظ سے ہر احمدی کا فرض تھا کہ وہ اپنی خدمات پیش کرتا۔ ہر احمدی کا فرض تھا کہ وہ اپنا سارا وقت یا اپنے وقت کا کچھ حصہ دیتا ۔ ہرا حمدی کا فرض تھا کہ اگر خدا کا خلیفہ اُس کے گھر میں آیا تھا تو زیادہ نہیں کم سے کم ایک نماز تو اُس کے پیچھے پڑھتا۔ مگر تم نے اِن کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا۔ اب تم خود ہی اپنے ایمان کی قیمت کا اندازہ لگا لو۔ اور سوچو کہ تمہارا کیا ایمان ہے؟ اس کی کیا قیمت ہے؟ اور کیا ایک پیسے پر بھی کوئی اِس کو خریدنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے؟
تم میں سے بہت سے اِس وقت وہ بھی بیٹھے ہیں جو باہر سے آئے ہیںاور اُن علاقوں کے ہیں جن پر تباہی آئی ہے۔میں اُن سے بھی کہتا ہوں کہ تمہارے اندر اگر اِس وقت بھی خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں ہوئی توا َور کب پیدا ہو گی۔ تمہارے گھر برباد ہو گئے، تمہارے اموال لُوٹے گئے، تمہاری زمینیں اور جانور چھین لئے گئے اور بعض جگہ تمہاری عورتیں بھی لوگ زبردستی لے گئے اِس سے بڑھ کر اور کونسی قیامت ہے جو تم پر آئے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا
’’یہ مت سمجھو کہ یورپ اورامریکہ وغیرہ میں زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے بلکہ مَیں تو دیکھتا ہوں کہ اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔‘‘ 3
تم اِن الفاظ کو پڑھتے تھے تو بڑے آرام اور اطمینان سے اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے کہہ دیتے تھے کہ یہ جو بخار پھیلا ہوا ہے اِس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے۔ یا فلاں جگہ ہیضہ سے پانچ سو آدمی مر گیا ہے اُس سے ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ حالانکہ اُن بخاروں اور ہیضوں سے اِس پیشگوئی کا کیا تعلق تھا۔ یہ وہ دن تھے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبر دی تھی اور جن میں اِتنی بڑی تباہی ہوئی ہے کہ جنگِ عظیم کے سات سالوں میں اتنا آدمی نہیں مارا گیا جتنا صرف ایک سال میں مارا گیا ہے۔ صرف مشرقی اور مغربی پنجاب میں ہندو، مسلمان اور سکھ کی موت پانچ چھ لاکھ کے قریب ہوئی ہے حالانکہ جنگ عظیم میں صرف دو لاکھ تینتالیس ہزار آدمی مرے تھے اور وہ بھی چھ سات سال میں۔ مگر یہ پانچ چھ لاکھ چھ ماہ کے عرصہ میں ختم ہو گیا۔ صرف دلّی میں چوبیس گھنٹہ کے اندر کہتے ہیں آٹھ دس ہزار آدمی مارے گئے۔ جن میں سے چھ سات ہزار مسلمان تھے اور ڈیڑھ دو ہزار ہندو سکھ۔ اِس قسم کی تباہی اور بربادی کی دنیا کی تاریخ میں تمہیں کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ اور اِتنی آبادیوں کا تبادلہ بھی دنیا میں اَور کسی جگہ نظر نہیں آتا۔ اِتنے بڑے ابتلاء کو دیکھ کر بھی کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ دنیا میں ایک نیک تغیّر پیدا کرنا چاہتا ہے؟ خدا تعالیٰ دنیا میں ایسے آدمی پیدا کرنا چاہتا ہے جو صرف خدا کے ہوں اور دنیا کا عشق اُن کے دلوں میں نہ ہو۔مگر اب بھی تمہارے اندر کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ مَیںسنتا ہوں کہ تم نے اپنی مصیبت اور سفروں کے ایّام میں نمازوں میں کوتاہی کی یا نمازیں ادا کرنا تم بُھول گئے۔ یہ تو مَیں نہیں مان سکتا کہ چھوٹے سے چھوٹا مومن بھی کوئی نماز چھوڑ دے۔ مَیں وہی کہہ سکتا ہوں کہ تم نماز بُھول گئے یا تم نے بے وقت نماز پڑھ لی۔
اِسی طرح تم میں سے بعض نے بزدلی بھی دکھائی اور تم یہ کہہ کر اپنے گھروں سے نکل آئے کہ جب ارد گرد کے لوگ جاتے ہیں تو ہم یہاں کیوں ٹھہریں۔ حالانکہ یہ وہ وقت ہے جب اِس بات کی شدید ضرورت تھی کہ اسلام کی عزت کو قائم کیا جاتا۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمان مشرقی پنجاب میں کہتے ہیں کہ مارا گیا ہے۔ مگر ان میں سے چھیانوے ، ستانوے ہزار بلکہ اِس سے بھی زیادہ بھاگتے ہوئے مارا گیا ہے۔ اگر اِتنا آدمی لڑائی کرتے ہوئے مارا جاتا تو یہ لوگ تو گاؤں میں تھے اور حملہ کرنے والے باہر کے تھے۔ اگر یہ لوگ ڈیڑھ لاکھ مارے گئے تھے تو وہ یقینا سات آٹھ لاکھ کی تعداد میں مارے جاتے۔ کیونکہ گھر میں بیٹھ کر ایک آدمی باہر کے سات آٹھ آدمی آسانی کے ساتھ مار سکتا ہے۔ اور اگر سات آٹھ لاکھ حملہ کرنے والا مارا جاتا تو یقینا اب تک امن ہو چکا ہوتا۔
پھر تم نے عظیم الشان حماقت یہ کی کہ گھروں سے نکلتے وقت سارا مال تم اُن کے سپرد کر آئے۔ حالانکہ اِس سے زیادہ حماقت اور بیوقوفی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ اپنا مکان اور اپنا روپیہ اور اپنی جائیداد دشمن کے حوالے کر دی جائے۔ ہمیں نکلنے سے پہلے اپنے گھر کی ایک ایک چیز کو جلا کر راکھ کر دینا چاہیئے تھا۔ تمہارا فرض تھا کہ اگر سرسوں کا تیل مل جاتا تو سرسوں کا تیل ڈال کر اور اگر مٹی کا تیل مل جاتا تو مٹی کا تیل ڈال کر اپنے گھروں کا آخری تنکا تک جلا دیتے تا کہ اگر دشمن جلے ہوئے اور خالی گھروں میں داخل ہوتا تو پندرہ بیس دنوں میں ہی اُسے فکر پڑ جاتی اور وہ اُن مقامات کوخالی کر دیتا۔ مگر اب تو تم نے لاکھوں من غلّہ، لاکھوں روپیہ نقد، لاکھوں روپیہ کا زیور، اور لاکھوں روپیہ کا کپڑا دشمن کو اپنے ہاتھ سے دے دیا اور اِس طرح اُس کے سال بھر کے گزارہ کا انتظام کر دیا۔ اب اُسے کسی کمائی کی ضرورت نہیںکیونکہ تم نے اُسے ہر قسم کی ضروریات خود بخود مہیا کر دی ہیں۔ گویا تم نے اُن کو سال بھر کی تنخواہیں ادا کی ہیں اِس لئے کہ وہ مسلمانوں کو برباد کریں۔ حالانکہ جب تم اپنے گھروں سے نکلے تھے تو تمہارا کام تھا کہ تم اپنے ہاتھ سے اپنے گھروں کو آگ لگا دیتے اور ایک ایک چیز کو جلا کر راکھ کر دیتے۔ کیا ایسے موقع پر باہر سے آ کر کسی شخص کے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے یا انسانی دماغ خودبخود تدابیر سوچ لیا کرتا ہے؟ اول تو تمہیں اپنے گھروںسے نکلنا نہیں چاہیے تھا۔ اور اگر تم نکلے تھے تو تم ہر چیز کو جلا کر اپنے ہاتھ سے راکھ کر دیتے تا کہ دشمن اگر اندر جاتا تو وہ غلّے کا ایک دانہ نہ پاتا۔ دشمن اگر اندر جاتا تو اُسے کپڑے کی ایک دھجی تک نہ ملتی۔ دشمن اگر اندر جاتا تو اُسے کوئی قیمتی چیز نہ ملتی۔ پھر اگر تم اپنے گھروں کو آگ نہیں لگا سکتے تھے تو جب تم نے دیکھا تھا کہ اب مقابلہ کرنا تمہارے لئے مشکل ہے اُس وقت تم 25،30 فٹ کا گڑھا کھودتے اور برتن اور زیورات وہیں پھینک کر آ جاتے۔ اِس صورت میں امید ہو سکتی تھی کہ اگر اَب نہیں تو دس سال کے بعد ہی شاید تم اُن چیزوں کو حاصل کر لو یا کہیں کھیت میں گڑھا کھود کر دبا دیتے اور اوپر گھانس 4 وغیرہ ڈال دیتے۔ اِس طرح دشمن کو پتہ بھی نہ لگتا کہ تمہارا قیمتی اسباب کہاں پڑا ہے۔ یورپ کے لوگوں میں یہ عقل پائی جاتی ہے کہ وہ مغلوب ہوتے وقت اپنی ہرچیز اپنے ہاتھ سے تباہ کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبردست سے زبردست دشمن بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جہاں جاتا ہے اُسے کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا، پہننے کے لئے کچھ نہیںملتا، استعمال کرنے کے لئے کچھ نہیں ملتا، اور اُن کا بوجھ قوم پر اِس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اُن مقامات میں نہیں رہ سکتے۔ یہی کچھ مسلمانوں کو کرنا چاہیئے تھا۔ مگر افسوس ہے کہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔ سکھوں نے اِس حربہ سے بھی کام لیا ہے۔ چنانچہ بہت سے دیہات اور قصبات کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ جب اُن گاؤں اور قصبوں کو اُنہوں نے خالی کیا تو اُنہوں نے سب کچھ جلا کر رکھ دیا تا کہ مسلمان اُن کی چیزوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
اب پھر مَیں اُن لوگوں کو جو مشرقی پنجاب سے آئے ہیں کہتا ہوں کہ تمہارا اِدھر آنا بے فائدہ ہے تم اپنے اپنے مقامات میں واپس جانے کی کوشش کرو۔ اگر دور دور کے گاؤں میں نہیں جاسکتے تو تم لاہور، سیالکوٹ اور قصور کے پاس پاس چلے جاؤ۔ اِسی طرح فیروز پور کے ارد گرد رہو یا تم اجنالہ میں رہو یا بٹالہ میں رہو یا گورداسپور میں رہو۔ یہ تحصیلیں ایسی ہیں جو پاکستان سے لگتی ہیں دو گھنٹے میں انسان اُدھر جا سکتا ہے اور دو گھنٹے میںانسان اِدھر آ سکتا ہے۔ اگر چوالیس لاکھ مسلمان مشرقی پنجاب سے نکل آیا تو یاد رکھو کہ چار کروڑ مسلمان جویوپی، بمبئی اور مدراس میں رہتا ہے وہ سب کا سب مارا جائے گا اور سارا گناہ اِن مسلمانوں پر ہو گا جو مشرقی پنجاب میں سے بھاگ رہے ہیں۔ تم دس دس میل کے فاصلہ سے بھاگ رہے ہو اور پاکستان میں آ رہے ہو تو اُن کے اور پاکستان کے درمیان تو تین چار سو میل کا فاصلہ ہے وہ کس طرح آئیں گے۔ یقینا وہ اُسی جگہ مارے جائیںگے۔ لیکن اگر اُن کو تسلی ہوئی کہ مسلمان بھگوڑے نہیں تو اُن کے اندر بھی جرأت پیدا ہو جائے گی اور وہ بھی اپنے اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے۔ ورنہ یاد رکھو کہ جتنا ثواب حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت نظام الدین صاحب اولیائؒ اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج ؒ والوں کو ہندوستان کو مسلمان بنانے کا ملا اُس سے کہیں بڑھ کر عذاب تمہیں ہندوستان سے اسلام کے ختم کرنے کی وجہ سے ملے گا۔ پس مشرقی پنجاب میں تم پھر واپس جاؤ۔ بیشک اپنی عورتوں اور بچوں کو اِدھر چھوڑ جاؤ ۔ لیکن اگر تم نے اُس ملک کو خالی کیا تو اسلام کا نام و نشان تک اُس میں سے مٹ جائے گا۔ اور پھر نامعلوم سینکڑوں سال بعد یا کب اسلام کی دوبارہ ترقی کے لئے اللہ کی طرف سے نئی رَو پیدا ہو۔ یہ چیزیں بے شک ابتداء والی ہیں مگر تمہیں یہ بھی تو سوچنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہمیں اِن باتوںکی خبر دی ہوئی ہے۔ اگر اُس کی مُنذر خبریں تمہارے دلوں کو پریشان کرتیں اور مسلمانوں کا تنزّل تم کو غمگین بناتا ہے تو کیا اُس کی بشارتیں تمہارے دلوں میں ایمان پیدا نہیں کرتیں؟ اور کیا تم یقین نہیں رکھتے کہ جس خدا کی وہ باتیں پوری ہو گئیں جو مسلمانوں کے تنزّل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں اُس خدا کی وہ باتیں بھی ضرور پوری ہو کر رہیں گی جو اسلام کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں؟
سرحد کے ایک ایگزیکٹو انجینئر چودھری فقیر محمد صاحب تھے۔ میری لڑکی ناصرہ اور میری مرحومہ بیوی سارہ بیگم نے امتحان دینا تھا۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تم امتحان پاس کر لو تو مَیں تمہیں دہلی، ڈیرہ دون اور منصوری کی سیر کراؤں گا۔ اُنہوں نے محنت کی اور وہ پاس ہو گئیں ۔ مَیں اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے اُنہیں سیر کے لئے لے گیا۔ ہم دلّی میں ٹھہرے ہوئے تھے اور دلّی کے قلعہ کی سیر کر رہے تھے۔ وہاں قلعہ میں ایک چھوٹی سی شاہی مسجد ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اب اِس مسجد میں کون نماز پڑھتا ہو گا۔ چلو ہم ہی نماز پڑھ لیں۔ چنانچہ مَیں نے اور میری بیوی اور لڑکی نے نوافل شروع کردیئے ۔ میری بیوی اور لڑکی نے تو جلدی نمازختم کر لی مگر مَیںنے لمبی نماز پڑھی۔ جب میں نے سلام پھیراتو دیکھا کہ یہ دونوں میرے پیچھے کھڑی تھیں۔ اُنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ پشاور کی بعض عورتیں جن میں ایک ماں اور ایک اُس کی لڑکی ہے یہاں قلعہ کی سیر کے لئے آئی ہوئی ہیں اور وہ ہم سے ملی ہیں۔ لڑکی نے بتایا ہے کہ میرے سسرال احمدی ہیں اور میرے باپ اور چچا بھی یہیں آئے ہوئے ہیں ۔ اگر اُنہیں آپ سے ملاقات کرنے کا موقع مل سکے تو بڑی اچھی بات ہے۔ مَیں نے کہا یہ معمولی بات ہے وہ مجھ سے مل لیں۔ چنانچہ نماز ختم کر کے مَیں باہر آیا اور ہم اکٹھے چل پڑے۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ غالباً وہ مجھ سے ملنے کے لئے نہیں آئیں گے اگر آنا ہوتا تو آ جاتے۔ لیکن ابھی مَیں نے نصف راستہ ہی طے کیا تھا کہ مَیں نے محسوس کیا کہ میری بیوی اور بیٹی جو میرے ساتھ آ رہی تھیں وہ کہیں غائب ہو گئی ہیں۔ مَیں نے مُڑ کر دیکھا تو وہ دونوں بہت پیچھے ایک طرف کھڑی تھیں اور دو مرد میری طرف آ رہے تھے۔ میں نے سمجھ لیا کہ اُن کی عورتوں نے میری بیوی اور بیٹی سے کہا ہو گا کہ ذرا پیچھے ہٹ جائیں ہمارے مرد مل لیں۔ اور اِس پر وہ پیچھے ہٹی ہیں۔ جب وہ قریب پہنچے تو اُن میں سے ایک یعنی چودھری فقیر محمد صاحب نے بتا یا کہ مَیں محمد اکرم خاں صاحب چارسدہ والوں کا بھائی ہوں۔ پھر باتوں باتوں میں وہ مذاقاً کہنے لگے ہم نے پورے انصاف سے کام لیا ہے۔ہماری دو والدہ ہیں ایک ماں کا بیٹا محمد اکرم ہم نے آپ کو دے دیا ہے اور دوسری ماں کا بیٹا غلام سرور آپ کو دے دیا ہے۔ باقی ایک مَیں اور ایک میرا دوسرا بھائی دونوں احمدی نہیں ۔ گویا روپیہ میں سے اٹھنّی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنّی ہم نے دوسرے مسلمانوں کود ے دی ہے۔ مَیں نے بھی اُن سے مذاقاً کہا کہ ہم اٹھنّی پر راضی نہیں ہوتے ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے تو پھر اپنی توجہ سے لے لیجئے۔ مَیں نے کہا ہماری کوشش تو یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا بقیہ اٹھنّی بھی مل جائے گی ۔ وہ اُس وقت معہ اہل و عیال انگلستان کی سیر کرنے جا رہے تھے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ کیا آپ کو احمدیت کی تبلیغ کبھی نہیں ہوئی؟ وہ کہنے لگے کہ تبلیغ تو مجھے کئی دفعہ ہوئی ہے۔ چنانچہ اب بھی محمد اکرم جو میرا بڑا بھائی ہے اُس نے میرے ٹرنک میں سلسلہ احمدیہ کی کتب، احمدیت ٭، دعوۃ الامیر، اور اسلامی اصول کی فلاسفی رکھ دی ہیں۔ مَیں نے اُن سے کہا بھی ہے کہ میں وَلایت سیر کرنے جا رہا ہوں کتابیں پڑھنے کے لئے نہیں جا رہا۔ مگر انہوں نے زبردستی یہ کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں اور کہا ہے کہ تمہارا کیا حرج ہے۔ یہ کتابیں اپنے ٹرنک میں پڑی رہنے دو۔ خیر اِس گفتگو کے بعد وہ چلے گئے اور ملاقات ختم ہو گئی۔ ابھی اِس ملاقات پر ڈیڑھ مہینہ نہیں گزرا تھا کہ ایک دن ولایت سے مجھے ایک خط ملا جس کی ابتداء اِن الفاظ سے ہوتی تھی کہ مَیں وہی شخص ہوں جو دلّی کے قلعہ میں آپ سے ملاتھا۔ اور جس نے آپ سے کہا تھا کہ ہم چار بھائی ہیں۔ دوغیر احمدی ہیںاور دو بھائی احمدی۔ اور یہ کہ ہم نے پورا پورا انصاف سے کام لیا ہے۔ روپیہ میں سے اٹھنّی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنّی ہم نے دوسرے مسلمانوں کو دے دی ہے۔ اور آپ نے کہا تھا کہ ہم اٹھنّی پر راضی نہیں ہوتے ہم توپورا روپیہ لے کر چھوڑاکرتے ہیں۔ آج اُس بقیہ اٹھنّی میں سے ایک اَور چونّی آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں اور آپ کی بیعت میں شامل ہوتا ہوں۔ پھر اُنہوں نے اپنے حالات لکھے اور بتایا کہ گو مَیں پٹھان ہوں اور مذہبی جوش میرے دل میں ہے مگر جب میں نے یورپ کا مطالعہ کیا، مَیں نے اُن کے جنگی سامان دیکھے، اُن کی تیاریوں پر نظر ڈالی، اُن کا نظام دیکھا، اُن کا روپیہ دیکھا، اُن کی تدابیر دیکھیں، اُن کے علوم اور فنون دیکھے تو مَیں نے سمجھا کہ عیسائیت کا مقابلہ اب ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہو۔ میرے دل میں اُس وقت بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اسلام کی فتح کا خیال بالکل ڈھکوسلا ہے۔ اسلام اب زندہ نہیں ہو سکتا۔ کون ہے جو عیسائیت پر غالب آ سکے۔ ایک مایوسی کا عالَم مجھ پر طاری ہو گیا۔ اور اِسی حالت میں مجھے خیال آیا کہ چلو میرے ٹرنک میں جو چند مذہبی کتابیں پڑی ہیں اُنہی کو پڑھ کر دیکھوں کہ اُن میں کیا لکھا ہے۔ اتفاقاً آپ کی کتاب دعوۃ الامیر میرے ہاتھ آ گئی اور مَیں نے اُسے پڑھنا شروع کیا ۔ جب مَیں اُسے پڑھنے لگا تو اُس میں وہی مضمون آ گیا جس نے مجھے سخت پریشان کر رکھا تھا ۔ مَیں نے اُس میں بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے تنزّل اور عیسائیت کی ترقی کے متعلق یہ یہ پیشگوئیاں کی ہیں جو بڑی وضاحت سے پوری ہو چکی ہیں۔ اور پھر اِس کے بعد مَیں نے یہ مضمون لیا ہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پیشگوئیاں بیان فرمائی ہیں کہ اِس تنزّل کے بعد اسلام پھر ترقی کرے گا اور اسلام کا ڈنکا ساری دنیا میں بجنے لگے گا۔ مَیں نے وہاں لکھا ہے کہ تم جب اسلام اور مسلمانوں کے تنزّل کو دیکھتے ہو تو تمہارے دلوں پر مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ اسلام کس طرح دوبارہ ترقی کر سکتا ہے۔ مگر تم اِتنا نہیں سوچتے کہ جیسے اسلام کی ترقی کی پیشگوئیاں اِس زمانہ میں خلافِ عقل معلوم ہوتی ہیں اِسی طرح محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںمسلمانوں کے تنزّل اور عیسائیت کی ترقی کی پیشگوئیاں خلافِ عقل معلوم ہوتی تھیں۔لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہو گئیں جو اسلام اور مسلمانوں کے تنزّل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں حالانکہ اسلام کی ترقی کے زمانہ میں اِس کا تنزّل بالکل خلافِ عقل معلوم ہوتا تھا توہمیں یہ بھی یقین رکھناچاہیئے کہ گو اِس وقت اسلام کی دوبارہ ترقی ایک خلافِ عقل بات معلوم ہوتی ہے مگر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خبر پوری ہو گئی اُسی طرح محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خبر بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔ اُنہوں نے لکھا جب یہ مضمون میں نے پڑھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ میری مایوسی دُور ہو گئی۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا بھی کہ اب سو جاؤ، بہت رات گزر گئی ہے۔ مگر مَیں نے کہا اب مَیں اِس کتاب کو ختم کر کے ہی رہوں گا۔ چنانچہ مَیں رات بھر نہیں سویا، اب مَیں نے آپ کی کتاب ختم کر لی ہے او ر صبح کی نماز کا وقت ہے اور مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ کو بیعت کا خط لکھ دوں۔ چنانچہ اِس خط کے ذریعہ مَیں آپ کی بیعت میں شامل ہوتا ہوں۔
تو دیکھو تباہیاں ہیں، بربادیاں ہیں، مگر اِن چیزوں کی خبریں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے معلوم ہو چکی ہیں۔ اِس لئے یہ تباہیاں اور بربادیاں ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہو سکتیں۔ بعض خبریں ایسی بھی تھیں جن کے معنی ہم پہلے صحیح طور پر نہ سمجھے مگر اب آ کر پتہ لگ گیا کہ اُن کا کیا مفہوم تھا۔ ابھی یہاں آ کر میری ایک خواب ایک شخص نے نکال کر پیش کی ہے۔ اُس وقت ہم اِس کا اَور مفہوم سمجھتے رہے مگر دیکھو وہ خواب کس طرح بول رہی ہے کہ لفظاً لفظاً وہ اِسی زمانہ کے متعلق ہے اور موجودہ فتنہ کی اُس میں تفصیل سے خبر دی گئی ہے۔ قادیان پر دشمن کا حملہ، میرا قادیان سے باہر نکلنا، ہمارا کسی دوسری جگہ مرکز بنانا، یہ سب باتیں اُس خواب میں بیان ہو چکی ہیں۔ یہ 1941 ء کی خواب ہے جو الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں۔
مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک مکان میں ہوںجو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے اور اُس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جوکئی منزلوں میں ہے۔ اُس کئی منزلہ عمارت میں مَیں بھی ہوں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم غنیم حملہ کر کے آ گیا ہے اور اُس غنیم سے حملہ کے مقابلہ کیلئے ہم سب لوگ تیاری کررہے ہیں۔ مَیں اُس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا۔ مگر مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں بھی لڑائی میں شامل ہوں۔ یوں اُس وقت مَیں نے نہ تو پیں دیکھی ہیں نہ کوئی اَور سامانِ جنگ۔ مگر میں سمجھتا یہی ہوں کہ تمام قسم کے آلاتِ حرب استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اِس دوران میں مَیں نے محسوس کیا کہ وہاں پٹرول کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔ اُس وقت مَیں خیال کرتاہوں کہ پٹرول ہمیں موٹروں کے لئے نہیں چاہیئے بلکہ دشمن پر پھینکنے کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مجھے کسی شخص نے بتایا کہ نیچے ایک تہہ خانہ ہے جس میں پٹرول موجود ہے۔ اِس پر ایک شخص تہہ خانہ میں گیا اور چھ گیلن پٹرول کی بیرل لے کر آگیا۔ساتھ ہی اُس کے دوسرے ہاتھ میں ایک سیڑھی ہے تا کہ سیڑھی کی مدد سے وہ اوپر چڑھ کر دشمن پر پٹرول پھینک سکے۔ پھر دونوں چیزیں اُٹھا کر اُس نے اوپر چڑھنا شروع کر دیا اور اِتنی تیزی سے وہ چڑھنے لگا کہ یوں معلوم ہوتاتھا گر جائیگا۔ چنانچہ مَیں اُسے کہتا ہوںسنبھل کر چلو۔ ایسا نہ ہو گر جاؤ۔ اور خواب میں مَیں حیران بھی ہوتا ہوں کہ یہ کیسا بہادر آدمی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھ گیلن یعنی تین سیر پٹرول ہے اور دوسرے ہاتھ میں سیڑھی ہے اور یہ اِس بہادری سے چڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ہم اُس مکان سے نکل آئے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آ گیا ہے اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں۔ اِتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے کہا مَیں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں۔ آ پ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایک پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اُس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے۔ وہاں چلیں۔ وہ مقام سب سے بہتر رہے گا۔ مَیں کہتا ہوں بہت اچھا۔ چنانچہ مَیں گائیڈ (GUIDE) کو لے کر پیدل چل پڑتا ہوں۔ ایک دو دوست اَور بھی میرے ساتھ ہیں۔چلتے چلتے ہم پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں۔ اِس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں۔ بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان سا پیدا ہوگیا ہے۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ ایک پادری کالاسا کوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گرجا ہے۔ اُس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کیلئے مکان چاہئیں۔ وہاں ایک مکان بنا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے۔ اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے۔ وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا۔ ایک دو دوست اَور بھی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ کچّا مکان ہے اور جیسے فوجی بارکیں (BARRACK) سیدھی چلی جاتی ہیں اُسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے۔ مگر کمرے صاف ہیں۔ مَیں ابھی غور ہی کر رہا تھا کہ جو شخص مجھے کمرے دکھا رہا تھا اُس نے خیال کیا کہ کہیں مَیں یہ نہ کہہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اِس میں نہیں رہتے، ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں روک پیدا ہو۔ چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا کہ آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے۔ مَیں نے اُسے کہا اچھا مجھے مسجد دکھاؤ۔ اُس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی۔ مگر چھوٹی سی تھی۔ ہماری مسجد مبارک سے نصف ہو گی۔ لیکن اُس میں چٹایاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں۔ اِسی طرح امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلّٰی بھی بچھا ہوا تھا۔ مجھے اُس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے۔ خواب میں مَیں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے۔ مگر بہرحال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور مَیں نے کہا اچھا ہوا مکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مَیں باہر نکلا۔ مَیں نے دیکھا کہ اِکّا دُکّا احمدی وہاں آرہے ہیں۔ خواب میں مَیں حیران ہوتا ہوں کہ مَیں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا ان کو جو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں چاہتے۔ یہ دوست ہی ہیں لیکن اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہو سکتا ہے تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے محفوظ مقام تو نہ رہا۔ چنانچہ خواب میں مَیں پریشان ہوتا ہوں اور مَیں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اَور زیادہ دُور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہیئے۔ اِتنے میں مَیں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب یہاں آ گئے ہیں۔ مَیں اُس وقت مکان کے دروازہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اُنہوں نے مجھے سلام کیا۔مَیں نے اُن سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے؟ اُنہوں نے کہا دشمن غالب آ گیا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ مسجد مبارک کا کیا حال ہے؟ اُنہوں نے اِس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے۔ مَیں نے کہا اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی اُمید ہے۔ مَیں اُس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے وہاں آئے ہیں اور تنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دیں گے۔ اِس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ کچھ اَور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں۔ اُن کو دیکھ کر مجھے اَور پریشانی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جگہ معلوم ہوتی ہے حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں۔ اُن دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں۔ اَور لوگوں کو مَیں پہچانتا نہیں صرف اِتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں۔ حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے۔ بڑی تباہی ہے۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ مَیں نے تو نیلا گنبد لاہور کا ہی سُنا ہوا ہے۔ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ کوئی اَور بھی ہو۔بہرحال اُس وقت مَیں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اِس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے۔ مگر اب مَیں نے سوچا توا س کی تعبیر سمجھ میں آگئی۔ گنبد نیلی آسمان کو کہتے ہیں۔ اور اس امر کی کہ ہمیں نیلے گنبد میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا تعبیر یہ تھی کہ لوگ اپنے اپنے گاؤں اور شہروں سے نکل کر کُھلے آسمان کے نیچے ڈیرے ڈال دیں گے مگر وہاں بھی دشمن اُن کو اطمینان سے نہیں رہنے دے گا۔ چنانچہ واقعات سے ثابت ہے کہ جب مسلمان کُھلے آسمان کے نیچے پڑے تھے تو سکھوں نے اُن کو لُوٹا اور ان میں سے بہت لوگوں کو مار ڈالا۔ گویا آسمان کے نیچے بھی اُنہوں نے حملہ کیا اور وہاں بھی اُن کو رہنے نہ دیا۔ آسمان کو ہمارے شاعر گنبد نیلی کہتے ہیں۔ اور یہی بات رؤیا میں بیان کی گئی تھی کہ لوگوں کو آسمان کے نیچے بھی پناہ نہیں لینے دی جائے گی۔ اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ وہ اسے بڑی لمبی طرز سے بیان کرتے تھے۔ جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے بلکہ اُسے بِلاوجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں۔ اِسی طرح حافظ صاحب نے پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندھر کا کوئی واقعہ بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے۔ اور ایک منشی کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرد اور ہے بار بار ذکر کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور اُنہوں نے بھی اِسی طرح کہا ہے۔ مَیں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقع توحفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اِس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا؟ وہ کہنے لگے منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے۔ مَیں نے کہا بس اِتنی ہی بات تھی نا کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب اُن کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے۔ یہ کہہ کر مَیں انتظام کرنے کے لئے اُٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کُھل گئی۔
دیکھو یہ کتنی واضح خواب ہے۔ اِس میں صاف طور پر دشمن کا حملہ معلوم ہوتا ہے۔ قادیان کا خطرہ میں گِھر جانامعلوم ہوتا ہے۔ اِس میںیہ بھی ذکر آتاہے کہ مَیں وہاں سے نکل آیا ہوں۔ اِرد گرد کے علاقوں کی تباہی کا بھی ذکر آتا ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جالندھر کا نام آتا ہے۔ اور رؤیا بتاتی ہے کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہو گی۔ اِسی طرح اِس میں یہ بھی ذکر ہے کہ حفاظتِ قادیان کے لئے ہماری جماعت کو دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور حلقہ مسجد مبارک آخر دم تک لڑائی لڑے گا۔ حلقہ مسجد مبارک کے ایک معنی تو صرف مسجد مبارک کے حلقہ کے ہی ہیںلیکن اِس کے ایک اَور معنی بھی ہو سکتے ہیں جو اِتنے خطرناک نہیں۔ اوروہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مسجد مبارک کے متعلق یہ الہام ہے کہ بَارَکْنَا حَوْلَھَا ہم نے مسجد مبارک اور اُس کے ماحول کو برکت دی ہے۔ پس مسجد مبارک سے مراد قادیان کی مسجد مبارک بھی ہوسکتی ہے اور مسجد مبارک اور اس کا ماحول بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ واقعات بتاتے ہیں کہ ارد گرد سے احمدی دیہات پر حملے ہوئے اور وہ جلا دیئے گئے اور اِس طرح دشمن غالب آ گیا۔ لیکن رؤیا بتاتی ہے کہ مسجد مبارک اور اُس کے ماحول میں دشمن کو کامیابی نہیں ہو گی۔ پھر اِس خواب کے عین مطابق مَیں باہر نکلا۔ اور پھر یہی وہ فتنہ ہے جس میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں اور جالندھر تک خطرناک تباہی واقع ہوئی ہے۔ اور پھر میرے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کے لئے کوئی اَور مرکز تلاش کرنے کے لئے باہر نکلوں گا۔ چنانچہ دیکھو مَیں تلاشِ مرکز کے لئے ہی لاہور آیا ہوں۔ اور پھر جیسے رؤیا میں بتایا گیا تھا کہ لوگ کہیں گے اب تو ہماری آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے ویسے ہی واقعات اب رُونما ہو رہے ہیں اور لوگوں کی ہماری جماعت پر نظریں پڑ رہی ہے۔ آج ہی کے ’’زمیندار‘‘ میں ایک شخص نے لکھا ہے کہ ضلع گورداسپور یا یوں کہیے کہ سارے مشرقی پنجاب میں قادیان ہی ایک ایسا شہر ہے جو ابھی تک بدستور قائم ہے اور جس کے باشندوں نے مشرقی پنجاب میں رہنے کا تہیہ کیا ہوا ہے گویا وہی نظارہ نظر آتا ہے جو اِس خواب میں دکھایا گیا تھا کہ منشی جی کہتے تھے اب تو ہماری آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے ۔
درحقیقت خواب کا ایک حصّہ یہاں بیان کرنے سے رہ گیا تھا۔ خواب میں اِس مقام پر مَیں نے یہ دیکھا کہ جالندھر کے سارے گاؤں بھاگے چلے آ رہے ہیں او ر اُن میں سے ایک شخص جو گرد اور یا مُدرِّس ہے بار بار کہتا ہے کہ سب تباہ ہوگئے اور یہ کہ اب تو ہماری جماعت احمدیہ پر ہی نظر ہے۔
پھرخواب یہ بتاتی ہے کہ بیشک قادیان کے کچھ لوگ باہر چلے جائینگے مگر اِس لئے نہیں کہ قادیان کو چھوڑ دیںبلکہ اس لئے کہ نئے سرے سے تنظیم کر کے اسلام اور احمدیت کی عظمت قائم کریں۔
دیکھو! 1941ء میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ خطرناک واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ اُس وقت ہم نے سمجھا کہ اِس میں جاپان کی جنگ کے متعلق خبر دی گئی ہے۔ حالانکہ جاپان کا جالندھر سے کیا تعلق۔ جاپان کا اِس سے کیا تعلق تھا کہ مَیں قادیان سے باہر نکلا ہوں۔ ہم نے اُس وقت اِس خواب کی یوں تعبیر کر لی کہ اگر انگریزوں نے جنگ جاری رکھی تو سنگاپور پر دوبارہ قابض ہو جائینگے۔ حالانکہ کُجا احمدیوں کا دکھایا جانا اور کُجا انگریز۔ کُجا جالندھر اور کُجا جاپان۔ مگر اُس وقت جو کچھ سمجھ میں آیا اِسکے معنی کر لئے گئے۔ درحقیقت اِس میں موجودہ تباہی اور بربادی کا مکمل نقشہ کھینچا گیا تھا۔ چنانچہ دشمن کی طرف سے عملاً حملہ ہوا اور ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے گئے۔ صرف قادیان کے اِرد گرد اِس وقت تک سَوا دو سَو کے قریب احمدی شہید ہو چکے ہیں۔ اور تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ سٹھیالی کا گاؤں جو بڑی جرأت اور بہادری سے دشمن کا مقابلہ کر رہا تھا اور جس نے تین دفعہ سکھوں کے حملہ کو بُری طرح پسپا کیا وہاں اب ملٹری نے آ کر نمبرداروں کو بلایا اور اُنہیں اِتنا مارا کہ بُھس بنا کر رکھ دیا۔ مگر اِس کے باوجود وہ دلیری سے اب تک قائم ہیں۔ اور باوجود اِس کے کہ ملٹری نے اُن کی ہڈیاں توڑ دیں پھر بھی اُنہوں نے پروا نہیں کی اور وہ سب کے سب اپنے گاؤں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ بعد کی خبر ہے کہ اس گاؤں کو ملٹری اور پولیس نے زبردستی خالی کروا لیا ہے۔ بہرحال رؤیا بتاتی ہے کہ حلقہ مسجدمبارک لڑائی کرتا رہے گا اور آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ فاتح اور کامران ہو گا۔ مَیں نے بتایا ہے کہ مسجد مبارک کے حلقہ سے ہو سکتا ہے کہ سارا قادیان مراد ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسجد مبارک اور اُس کے ماحول کو برکت دی ہے۔ لیکن یوں مَیں ہدایت دے چکا ہوں کہ اگر دشمن کا دباؤ خدانخواستہ بڑھ جائے تو پھر حلقہ مسجد مبارک کے اِردگرد اپنی حفاظتی لائن بنا لی جائے کیونکہ یہی وہ مقام ہے جس میں ہمارے شعائر ہیں۔ اگر تمہاری موت آئے تو اس جگہ آئے اور شعائر اللہ کی حفاظت کرتے ہوئے آئے۔
مجھے یہ خواب پڑھ کر اِس لحاظ سے خوشی ہوئی کہ حلقہ مسجد مبارک جس کے متعلق بتا یاگیا ہے کہ وہ آخر تک لڑتا رہے گا اِسی حلقہ میں میرے گیارہ بیٹے قسمیں کھا کر بیٹھے ہیں کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ پھر اِسی حلقہ میں میرے دو بھائی ہیں اور اِسی حلقہ میں میرے بھتیجے ہیں گویا ہمارا سارا خاندان اِسی حلقہ میں ہے۔ پس اگر حلقہ مسجد مبارک سے یہی مراد ہے تو خدا نے خبردی ہے کہ اِس حلقہ کو آخر تک خدمتِ اسلام کی شاندار توفیق ملے گی۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ مسجد مبارک کے حلقہ میں سارا قادیان شامل ہے اور باقی مساجد مسجد مبارک کے تابع ہیں۔ مجلس شوریٰ میں فیصلہ کیا گیا کہ قرعہ کے ذریعہ سے ایک حصہ قادیان میں رہے گا اور ایک حصہ باہر آرام کرنے کے لئے آ جائے گا۔ اِسی طرح یہ کہ باہر کی جماعتیں اپنے مرکز کی حفاظت کے لئے کچھ زائرین کو باری باری بھجواتی رہیں گی۔ خواب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ممکن ہے ہمیں بعض اُن دیہات کو بھی چھوڑنا پڑے جو اَب تک ہم نے نہیں چھوڑے۔ جیسا کہ بعد کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے وہ دیہات بھی چھوڑنے پڑے ہیں۔ بہرحال خواب بتاتی ہے کہ ہم ہی سے ایک حصہ قادیان سے باہر تو نکلے گا مگر اِس لئے نہیں کہ اُس مقام کو ہم چھوڑ دیں بلکہ اِس لئے کہ ایسی تنظیم کریںکہ قادیان احمدیت کے ہاتھ ہی میں رہے۔ پس قریب ہو یا بعید انشاء اللّٰہ ہم ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہو ں گے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں پرکامل یقین رکھتے ہیں۔
مومن دنیا میںکہیں مایوس نہیں ہوتا اور مومن دنیا میں اپنی جان کو قربان کرنے سے کبھی ہچکچاتا نہیں۔ مومن کی جان درحقیقت خدا تعالیٰ کی امانت ہوتی ہے اگر وہ پیچھے ہٹتا ہے تو محض خداکے لئے اور اگر وہ آگے بڑھتا ہے تو محض خدا کے لئے۔ مَیں اگر یہاں آیا ہوں تو اِس لئے کہ جماعت کی تنظیم کروں اور لڑائی کو تاحدِّ امکان لمبا کرنے کی کوشش کروں اور دنیا کو توجہ دلاؤں کہ قادیان پر سخت ظلم ہو رہا ہے۔ اِسی طرح میرے بچے اور میرے بھائی اور میرے بھتیجے اور میرے داماد قادیان میں بیٹھے ہیں تو اِس لئے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر وہ اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کریں اور اس کی رضا پر راضی رہیں۔ درحقیقت مومن ہر رنگ میں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا خواہشمند ہوتا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے ہمیں دوبرکتوں میں سے ایک برکت ضرور مل کر رہے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو ڈر ہی کیا ہو سکتا ہے جب دو برکتوں میں سے ایک برکت اسے ضرور مل کر رہے گی یعنی یا تو اسے فتح حاصل ہو جائے گی اور یا اسے شہادت نصیب ہو جائے گی 6۔ پس مومن کبھی میدان سے بھاگتا نہیں کیونکہ وہ سمجھتاہے کہ ان دونوں چیزوں میں سے جو چیز بھی خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقدّر کی ہے وہ بڑی برکت والی ہے۔ اگر ہمیں شہادت میسر آجاتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کا انعام ہے اور اگر ہمیں فتح مل جاتی ہے تو وہ بھی اُس کا انعام ہے۔ بہرحال ہم یہ ہمیشہ کہتے ہیں، کہتے رہے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ جہاں تک انسانی طاقت کے لحاظ سے ممکن ہے ہم اِس علاقہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا نیچا نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے ارد گرد سو سے زیادہ گاؤں اِس وقت مٹ چکا ہے۔ باقی تمام گورداسپور ختم ہو چکا ہے اور بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ ہم اس علاقہ میں اسلامی جھنڈا اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ گاڑ سکیں۔ کسی طرف سو میل، کسی طرف دو سو میل اور کسی طرف پچاس پچاس میل تک کوئی مسلمان گاؤں نظر نہیں آتا۔ اور بظاہر انسانی تدبیر سے دشمن پر غالب آنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر فتح اور غلبہ ہماری طاقت میں نہیں تو ایک چیز ہے جو خدا نے ہمیں بخش دی ہے اور جس کی ہمارے اندر طاقت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اُس کی راہ میں مر جائیں۔ جوچیز خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ہمیں اُس کی فکر نہیں کرنی چاہیئے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنا کام کریں۔ خدا تعالیٰ کا کام اپنے ہاتھ میں لینا بیوقوفی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اِس شرط پر لڑتا ہے کہ پہلے مجھے فتح کا یقین دلاؤ۔ تو وہ اپنی حماقت کا آپ اعلان کرتا ہے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر دے۔ پھر اگر وہ چاہے تو اس جان کو واپس کر دے تا کہ وہ کچھ مدّت اَور کام کر لے۔ اور اگر چاہے تو اُسے اپنے پاس بُلا لے اور کہے کہ تم نے بہت خدمت کر لی ہے اب ہمارے پاس آ جاؤ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات نزدیک آئی تو فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے کہا کہ آپ کے حبیب نے مجھے ایک پیغام دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے میرے لئے بہت کوفتیں اٹھائی ہیں۔ اب مَیں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ آپ چاہیں تو کچھ مدت اَور کام کر لیں اور چاہیں تو میرے پاس آ جائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے کہا کہ مَیں اگر اِس دنیا میں تھا تو محض خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت۔ اور اگر اب خدا نے مجھے وہاں آنے کی اجازت دی ہے تو میرے لئے اِس سے زیادہ خوشی کی اور کونسی بات ہو سکتی ہے۔ مَیں وہیں آنا چاہتا ہوں مجھے دُنیا میں رہنے کی خواہش نہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور بغیر اپنا نام لئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ تھا جس کے سامنے اللہ تعالیٰ نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر تم چاہو تو دنیا میں رہ کر اَور کام کر لو اور اگر چاہو تو میرے پاس آ جاؤ۔ اُس بندہ نے دنیا میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ یہی چاہا کہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس چلا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے یہ بات سُنی تو وہ رو پڑے اور اِتنا روئے کہ اُن کی ہچکی بندھ گئی۔ بعض صحابہؓ کہتے ہیں ہم نے حضرت ابوبکرؓ کو روتا دیکھا تو ہم نے کہا اسے کیا ہو گیا ہے اور یہ روتا کس لئے ہے؟ خدا کا کوئی بندہ تھا جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو خدا کے پاس چلا جائے اِس میں رونے کی کونسی بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسرے تیسرے دن بیمار ہوئے اور چند دن کے بعد وفات پا گئے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اُس وقت ہماری سمجھ میں آیا کہ ابوبکرؓ کیوں روتے تھے 7۔ اور ہمیں خیال آیا کہ ابوبکرؓ نے تو بات سمجھ لی تھی مگر ہم نے نہ سمجھی ۔تو سچے مومن کو خدا تعالیٰ کے پاس جانے میں کوئی عذر نہیں ہوتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ جہاں تک اُس کی طاقت ہے خدا اور اُس کے رسول اور اُس کے دین کا نام نیچا نہ ہو۔ ورنہ ایک مومن کے لئے شہادت سب سے زیادہ قیمتی چیز ہوتی ہے۔
حضرت خالدؓ بن ولید بیمار ہوئے تو اُن سے ایک دوست ملنے کے لئے آیا۔ اُس نے دیکھا کہ خالدؓ رو رہے ہیں۔ اُس دوست نے کہا خالد! یہ رونے کا کونسا مقام ہے؟تمہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خدمات کا موقع عطا فرمایا ہے، اب تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ تم اپنے محبوب سے ملنے اور اُس سے انعام پانے کے لئے جا رہے ہو۔ اِس پرخالد اَور بھی پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگے اور اُنہوں نے کہا مَیں اِس لئے تو نہیں روتا کہ مَیں کیوں مر رہا ہوں۔ چونکہ بیماری کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو چکے تھے اُنہوں نے اپنے دوست سے کہا میرے قریب آؤ اور میرے بازوؤں پر سے کپڑا اُٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جہاں تلوار کا نشان نہ ہو؟ اُس نے کپڑا اُٹھایا اور کہا کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار کا نشان نہ ہو۔ انہوں نے کہا اب میری ٹانگوں پر سے کپڑا اُٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا میری ٹانگوں پر کوئی ایک انچ جگہ بھی ایسی ہے جہاں تلواروں سے نشان نہ ہو؟ اُس نے کپڑا اٹھایا اور کہا کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلواروں کے نشان نہ ہوں۔ اِس کے بعد انہوں نے پیٹ دکھایا، پیٹھ دکھائی، سر دکھایا اور پھر کہا میرے سر سے پاؤں تک کوئی ایک انچ بھی ایسی جگہ نہیں جہاں تلوار سے نشان نہ ہوں۔ میں نے ہر جنگ میں اپنے آپ کو ایسے مقام پر پھینکا جہاں میرا خیال تھا کہ مجھے شہادت نصیب ہو سکتی ہے اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ کس طرح میرے سر سے پیر تک تلواروں کے نشانات لگے ہوئے ہیں۔ اِتنا کہہ کر اُنہیں پھر جوشِ گریہ پیدا ہوا اور اُن کی ہچکی بندھ گئی۔ اِس دوران میں اُنہوں نے روتے ہوئے کہا میں اِس لئے نہیں روتا کہ مَیں کیوں مر رہا ہوں۔ بلکہ اِس لئے رو رہا ہوں کہ نہ معلوم میرا کونسا گناہ تھا جس کی پاداش میں مَیں آج چارپائی پر جان دے رہا ہوں۔ شہادت کا انعام مجھے میسر نہیں آیا۔ مَیں نے شہادت کا مقام حاصل کرنے کے لئے ہر خطرناک سے خطرناک موقع پر اپنے آپ کو پھینکا مگر مجھے پھر بھی شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ پس مجھے یہ صدمہ ہے کہ شاید میری کسی کمزوری کی وجہ سے یہ انعام مجھے نہیں ملا 8۔
خالدؓ اپنے اخلاص میں یہ سمجھتے تھے کہ وہ شہادت سے محروم رہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اَور لوگ تو ایک ایک دفعہ شہید ہوئے اور خالدؓ سینکڑوں دفعہ شہید ہوئے۔ جس شخص کو خدا زیادہ شہادتوں کا ثواب دینا چاہتا ہے اُسے موت کے منہ میں ڈال کر پھر نکال لیتا ہے۔ پھر ڈالتا اور پھر نکالتا ہے تا کہ اُسے کئی شہادتوں کا ثواب دیا جا سکے۔ پس موت ڈرنے والی چیز نہیں ہاں مومن ایسی طرز پر کام کرتا ہے کہ وہ نہ ظالم بنے اور نہ بے انصاف قرار پائے۔ نہ دین کو نقصان پہنچائے اور نہ دنیوی تدابیر کو ہاتھ سے جانے دے۔ وہ تدبر اورعقل اور ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کام کرتا ہے۔ وہ اِس طرح کام نہیں کرتا کہ سؤر کی طرح سیدھا چلا جائے او رمارا جائے۔ وہ ایک عقلمند اور دُوراندیش انسان کی طرح چاروں طر ف اپنی نگاہ دوڑاتا ہے۔ وہ عقل اور تدبّر کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اور پھر اگر مارا جاتا ہے تو اُس کی قربانی اسلام کے لئے باعثِ فخر ہوتی ہے۔ اور اگر وہ بچ رہتا ہے تواُس کی عقل اور اُس کی خرد اور اُس کی دانائی اسلام کے لئے باعثِ فخر ہوتی اور اس کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اُس کی دونوں حالتیں برکت والی ہوتی ہیں۔ اُس کی موت بھی برکت کا موجب ہوتی ہے اور اُس کی فتح بھی برکت کا موجب ہوتی ہے۔ سو تم حوصلے مت ہارو اور بھگوڑوں میں سے مت بنو۔ ہاں اگر تم اِس لئے ایک مقام چھوڑتے ہو کہ پھر دوبارہ اپنے آپ کو منظم کر کے اُس مقام میں آؤ گے تو تم بھگوڑے قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اُحد کی جنگ میں جب یہ خبر مشہور ہوگئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں تو اِس اچانک صدمہ اور دشمن سے دباؤ کی وجہ سے بعض صحابہؓ میدانِ جنگ سے بھاگ پڑے اور بھاگتے ہوئے مدینہ تک آ پہنچے۔ اِس کے بعد باقی لشکر اکٹھا ہوا اور دشمن میدان چھوڑ گیا۔ جب اسلامی لشکر مدینہ میں واپس آیا تو اُس کے افراد اُن لوگوں کو جو اُحد سے بھاگ آئے تھے فَرَّارُوْنَ کہتے تھے۔ یعنی بھگوڑے جو میدانِ جنگ سے بھاگ آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو چونکہ وہ لوگ مخلص تھے اور اتفاقی حادثہ سے سراسیمہ ہو کر بھاگے تھے آپ نے فرمایا تم انہیں فَرَّار نہ کہو بلکہ کَرَّار کہو۔ یعنی گو یہ واپس آئے ہیں مگر اِس لئے آئے ہیں کہ پھر دشمن پر حملہ کریں گے اور اُسے شکست دیں گے۔ کَرَّار کے معنی ہوتے ہیں پیچھے آکر پھر حملہ کرنے والا۔ اور فَرَّار کے معنی ہوتے ہیں بھگوڑا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں فَرَّارُوْنَ نہ کہو بلکہ کَرَّارُوْنَ کہو 9۔ یعنی یہ لوگ پیچھے تو بیشک ہٹے ہیں مگر اِس لئے کہ دوبارہ دشمن پر حملہ کریں اور اُسے شکست دیں۔
پس اپنی نیّتوں اور ارادوں سے اپنے آپ کو فَرَّار نہ بناؤ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی طرح کَرَّار بنو۔ اتفاقی حادثہ کے ماتحت بے شک بعض دفعہ عارضی طور پر قدم اکھڑ جاتے ہیں مگر وہ قدموں کا اُکھڑنا بالکل اَور چیز ہوتی ہے اور بھاگنا اَور چیز ہوتی ہے۔
حنین کے موقع پر جب دشمن نے تیروں کی بوچھاڑ کی تو چونکہ مکّہ کے نو مسلم آگے آگے تھے۔ وہ بھاگ پڑے اور اُن کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہؓ کی سواریاں بھی بے قابو ہو گئیں اور سوائے چند صحابہؓ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد اور کوئی نہ رہا۔ بلکہ ایک موقع تو ایسا آیا کہ صرف ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گیا۔ اُس وقت مکہ کا ایک نیا مسلمان جو ابھی دل میں کافر تھا اور جو محض اِس لئے مسلمان ہو کر حنین کی جنگ میں شامل ہوا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہیں اکیلے مل گئے تو میں آپ پر حملہ کر دوںگا۔ وہ آپؐ کی طرف بڑھا۔ وہ خود کہتا ہے جب مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں اکیلا پایا تو مَیں نے کہا یہ موقع ہے جس میں مَیں کامیاب طور پر آپ پر وار کر سکتا ہوں۔ آپ چاروں طرف سے دشمن سے گِھرے ہوئے ہیں اور صحابہؓ کے پاؤں اُکھڑ چکے ہیں۔ اِس سے زیادہ بہتر موقع اور کونسا ہو گا۔ مَیں نے تلوار کھینچی اور آپؐ کے قریب ہونا شروع کیا۔ جب مَیں قریب پہنچا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگے آ جاؤ۔ وہ کہتا ہے اِس آوازمیں کچھ ایسا اثر تھا کہ مَیں نے اُس وقت سمجھا۔ اِس وقت مجھے آگے ہی چلنا چاہیئے۔ مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے میرے دل کے مقام پر اپنا ہاتھ پھیرا اور فرمایا خدایا! اِس کے دل سے تمام بُغض اور کینہ نکال دے اور اس کو سچا ایمان بخش۔ وہ کہتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے میرے سینہ پر ہاتھ پھیرا۔ اور یہ دعا کی کہ خدایا! اِس کے دل سے تمام کینہ اور بُغض نکال دے اور اسے سچا ایمان بخش۔ تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ اسلام کی محبت میری رگ رگ اور نس نس میں اثر کر گئی ہے۔ پھر آپ نے ہاتھ اٹھایا اور کہا خدا تمہیں برکت دے ، آگے بڑھو او ر دشمن کا مقابلہ کرو۔ اِس پر میری یہ حالت ہو گئی کہ یا تو میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے آیا تھا اور یا آپؐ کی اِس آواز کا میرے کان میں پڑنا تھا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ ساری دنیا میں صرف میرا ہی کام ہے کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتا ہوا مارا جاؤں۔ میں تلوار لے کر آگے بڑھا اور مَیں نے دشمن کا مقابلہ کیا اور اِتنے جوش کے ساتھ کیا کہ خدا کی قسم! اگر اُس وقت میرا باپ بھی میرے سامنے آجاتا تو بغیر ایک لمحہ کا توقّف کئے مَیں اُسکی گردن اُڑا دیتا 10۔
تو دیکھو حنین کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ مگرآپ کے صحابہؓ فَرَّار نہیں تھے بلکہ کَرَّار تھے۔ کیونکہ وہ پھر واپس آئے اور اُنہوں نے دشمن کو شکست دی۔ چنانچہ جب صحابہؓ کی سواریاں ڈر کر بھاگ نکلیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے کہا۔ عباس! اونچی آواز سے لوگوں کو پکارو اور ان سے کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ چونکہ نو مسلموں کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہؓ کے گھوڑے اور اونٹ سخت ڈرے ہوئے تھے اور وہ میدانِ جنگ سے تیزی کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ اِس لئے صحابہؓ باوجود کوشش کے اپنی سواریوں کو روک نہ سکے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ اِتنے ڈرے ہوئے تھے کہ باوجود اِس کے کہ ہم اُن کی باگیں پورے زور کے ساتھ کھینچتے تھے، اِتنے زور کے ساتھ کہ اُن کے منہ اُن کی پیٹھوں کو لگ جاتے پھر بھی جب ہم اُن کو ایڑی لگا کر واپس لانا چاہتے تو وہ بجائے واپس آنے کے مکہ کی طرف بھاگ پڑتے۔ اُس وقت ہم بالکل بے بس نظر آ رہے تھے کہ اِتنے میں ہمارے کان میں حضرت عباسؓ کی یہ آواز آئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں جب یہ آواز ہمارے کانوں میں پہنچی اُس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہم زندہ ہیں اور دنیا میں چل پھر رہے ہیں۔ بلکہ ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم سب مر چکے ہیں، قیامت کا دن ہے، صُوْر اِسرافیل پُھونکا جا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی آواز ہمیں اپنی طرف بلا رہی ہے۔ اِس آواز کا آنا تھا کہ ہمارے دماغوں پر جو پردہ حائل تھا وہ یکدم دور ہو گیا۔ اور ہم نے اپنی سواریوں کو پورے زور کے ساتھ واپس لَوٹایا۔ بعض تو اپنی سواریوں کو موڑنے میں کامیاب ہو گئے، بعض اپنی سواریوں سے کُود پڑے اور پیدل دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ اور بعض جن کی سواریاں نہ مُڑیں انہوں نے اپنے اونٹ اور گھوڑوں کی گردنیں اپنی تلواروں سے کاٹ دیںاور خود دَوڑتے ہوئے اور لَبَّیْک یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَبَّیْک کہتے ہوئے چند منٹ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے 11۔ تو دیکھو یہ لوگ کَرَّار تھے فَرَّار نہیں تھے۔ یہ بھاگے نہیں تھے بلکہ عارضی طور پر پیچھے ہٹ کر پھر دشمن پر حملہ آور ہوئے۔
پس تم اپنے ملک میں واپس جاؤ اور خدا تعالیٰ کا نام اُن علاقوں میں بلند کرو۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں رکھا ہے توآخر کسی مصلحت اور بھلائی کے لئے رکھا ہے۔ آخر دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے۔ یا تو یہ فیصلہ کر لو کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ ہمارا دشمن ہے اور یا پھر یہ سمجھ لو کہ اسلام کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں ہندوستان میں رکھا ہے۔ ہندوستان میں 25 فیصدی مسلمان ہیں۔ اور مشرقی پنجاب میں گو بہت سے مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت سے بھاگ آئے ہیں مگر اب بھی 34 فیصدی مسلمان مشرقی پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ اور 34 فیصدی مسلمانوں کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ آخر وہ ہندوستان کے شہری ہیں اور وہی حقوق اُنہیں قانوناً حاصل ہیں جو سکھوں یا ہندوؤں کو۔ پھر اگر مسلمان نئی نسلیں پیدا کریں اور برتھ کنٹرول کی لغویت کو ترک کر دیں تو چند سالوں میں ہی وہ مشرقی پنجاب میں بھی پہلی نسبت پر آ سکتے ہیں۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ تعدّدِ ازدواج کا حکم محض عربوں کے لئے تھاموجودہ زمانے میں اِس پر کون عمل کر سکتا ہے۔ مگر اب وقت آ گیا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ایک ایک بات اور اُس کے ایک ایک حکم کی صداقت دنیا پر واضح ہو ۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کی نجات اِسی بات سے وابستہ ہے کہ وہ زیادہ شادیاں کریں اور اپنی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ اگر ایک نسل کے مسلمان اِس بات کو قبول کر لیں کہ ہم اگر تباہ ہوتے ہیں تو بے شک ہو جائیں مگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے ذریعہ اسلام کو پھر اس ملک میں زندہ کر دیں گے تو چند سالوں میں ہی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اگر انہیں بیویاں تلاش کرنے کے لئے اچھوت اور ادنیٰ اقوام کی طرف بھی متوجہ ہونا پڑے تواِس سے دریغ نہ کریں اور اپنے آپ کو تباہ کر کے بھی مسلمانوں کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ اگر اِس طرح مسلمان شادیوں کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھانا چاہیں تو تھوڑے عرصہ میں ہی اِن کی تعداد دوگُنی تین گُنی ہو سکتی ہے۔ اگر پچاس سال کے مسلمان تکلیف اٹھا کر مر بھی جائیں تو کیا ہوا۔ اسلام تواس ملک میں زندہ ہو جائے گا۔ قرآن کریم میں ساری تدبیریں اور سارے علاج موجود ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُن تدابیر پر عمل کیا جائے اور اسلام کی غیرت اپنے دلوں میں پیدا کی جائے۔ جب مذہب کی غیرت انسان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ خود بخود ایسی راہیں نکال لیتا ہے جو اُس کو بامِ عروج تک پہنچانے والی ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ مگر کسی انصاری عورت سے آپ نے شادی نہیں کی۔ انصاری عورتیں جب آپ کے کام کو دیکھتیں تو بسا اوقات محبت کا اِس قدر جوش اُن کے دلوں میں پیدا ہوتا کہ وہ مجلس میں آکر اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتیں۔ ہمارے ملک میں اگر کوئی لڑکی ایسا کہے تو ممکن ہے اُس کا باپ یا بھائی اُسے قتل کر دے۔ مگر انصاری عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جب وہ آپ کی باتیں سنتیں، آپ کی تقریریں سنتیں، آپ کے کام دیکھتیں تو اُن کے دلوں میں عشق کا ایسا جذبہ پیدا ہوتا کہ وہ بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور کہتیں یا رسول اللہ! ہم اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصلحت کے ماتحت انصاری عورتوں میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کی۔ مگر جب کوئی انصاری عورت یہ بات کہتی تو آپ بعض دفعہ اپنی معذوری کا اظہار کر دیتے اور فرماتے جَزَاکِ اللّٰہ۔ تمہاری قربانی خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو گئی ہے 12۔ اور بعض دفعہ فرماتے کہ فلاں صحابی کو رشتہ کی ضرورت ہے تم اُس کے ساتھ شادی کر لو ۔ ایک دفعہ نہیں متعدد دفعہ ایسا ہوا کہ انصاری عورتوں نے اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ اور پیش بھی مجلس میں کیا۔ اِس کی وجہ یہی تھی کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتیں تو وہ یہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں کہ اِس قیمتی چیز سے اُن کا تعلق نہ ہو۔ تو وہ بڑی خوشی سے یہ پسند کر لیتی تھیں کہ وہ آپ کی دسویں یا گیارھویں یا بارھویں یا تیرھویں بیوی بن جائیں۔ چنانچہ مجلس میں جہاں سینکڑوں ہزاروں آدمی بیٹھے ہوتے۔ جب ایک عورت کا باپ اُس مجلس میں موجود ہوتا جب اُس کا بھائی اُس مجلس میں موجود ہوتا، جب اُس کے رشتہ دار اُس مجلس میں موجود ہوتے وہ آتی اور کہتی یا رسول اللہ! مَیں نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا۔ یہ چیز ہے جوایمان کی علامت ہے اور یہی وہ چیز ہے جو غیرت کا ثبوت ہوتی ہے۔
تم بھی ایک دفعہ تکلیف اٹھا کر قربانی قبول کر لو۔ تم دیکھو گے کہ پچاس سال کے اندر اندر مسلمان دو تین گُنا ہو جائیں گے۔ بلکہ 34 فیصدی مسلمان بیس سال میں پچپن چھپن فیصدی ہو سکتے ہیں۔ اِس وقت مسلمانوں پر ایک خطرناک دَور آیا ہوا ہے۔ اور خطرناک مصیبتوں میں خطرناک تدابیر ہی کام آیا کرتی ہیں۔ کسی کو کینسر ہوتا ہے تو اُسے کاٹنے سے ہی صحت حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کی آنکھ میں رسولی ہو جائے تو اُس آنکھ کو نکال کر ہی صحت حاصل ہوسکتی ہے زِنک لوشن (ZINC LOTION) کام نہیں آیا کرتا۔ اِسی طرح وہ عظیم الشان عذاب جو ملک پر آیا ہو اہے اسے معمولی تدابیر سے دور نہیں کر سکتے اس کے لئے عظیم الشان جدوجہد اور عظیم الشان قربانیوں کی ضرورت ہوگی تب تم صحیح طور پر اسلام کے خدمت گزار اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم قرار پاؤ گے۔ اور خدا کے فرشتے آسمان سے یہ کہیں گے کہ اِس قوم کو فتح دینا ضروری ہے اور خدا بھی اپنی قبولیت سے دستخط اس پر ثبت کر دے گا۔ پس ہمت نہ ہارو اور موت سے مت ڈرو۔ موت انسان پر کئی دفعہ نہیں آتی بلکہ صرف ایک دفعہ آتی ہے اور جس چیز نے بہرحال آنا ہے اُس سے ڈرنے کے کیا معنی ہیں۔ تمہیں اگر کوشش کرنی چاہیئے تو یہ کہ اگر تمہاری موت مقدر ہے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں آئے اور ایسی حالت میں آئے کہ تم موت کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھو۔ اور اِس کڑوی قاش کے ملنے پر اپنا منہ مت بناؤ بلکہ یہ کڑوی قاش بھی اُس مزے سے کھاؤ جس مزے سے تم نے ہزاروں ہزار میٹھی قاشیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے کھائی ہیں۔
حضرت لقمان کے متعلق لکھا ہے وہ ابھی چھوٹے بچے ہی تھے کہ ڈاکو اُنہیں قید کر کے لے گئے اور کسی رومی تاجر کے پاس اُنہیں بیچ دیا۔ چونکہ حضرت لقمان خوبصورت اورذہین تھے اُس نے حضرت لقمان کو عام نوکروں میں نہ رکھا بلکہ اپنے پاس بیٹوں کی طرح رکھنا شروع کر دیا اور ان سے اِتنی محبت پیدا ہو گئی کہ جو چیز بھی اچھی سے اچھی اُس کے پاس آتی وہ چُن کر پہلے حضرت لقمان کو دیتا اور پھر خودکھاتا۔ چونکہ وہ تاجر تھا اور دِساور 13 کا مال اُس کے پاس اکثر آتا رہتا تھا اُس کا معمول یہی تھا کہ پہلے وہ اچھی اچھی چیزیں حضرت لقمان کو دیتا اور پھر کسی اَور کو دیتا۔ ایک دفعہ دُور کسی ملک سے بے موسم کا خربوزہ آیا۔ آقا نے خربوزہ کی ایک پھانک کاٹی۔ حضرت لقمان کو بُلایا اور اُنہیں کھانے کے لئے دی۔ حضرت لقمان نے وہ پھانک خوب مچاکے مار مار کر کھائی۔ آقا نے سمجھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ خربوزہ بہت میٹھا ہے اور لقمان کو بہت پسند آیا ہے تبھی اس نے مزے لے لے کر پھانک کھائی ہے۔ چونکہ وہ حضرت لقمان سے محبت رکھتا تھا اُس نے ایک دوسری پھانک کاٹی اور حضرت لقمان کو دی۔ اُنہوں نے پھر اُسے مزے لے لے کر کھایا۔ اِس پر آقا نے اِس خیال سے کہ یہ خربوزہ اِسے بہت ہی پسندیدہ ہے تیسری پھانک کاٹی اور اُنہیں کھانے کے لئے دی۔ حضرت لقمان نے وہ پھانک بھی خوب مزے لے لے کر کھائی۔ تین پھانکوں کے بعد اُسے خیال آیا کہ مَیں بھی چکھوں یہ کیسا خربوزہ ہے اور اس میں کیسا مزہ پایا جاتا ہے۔ جب اُس نے پھانک کاٹ کر اپنے منہ میں ڈالی تو وہ اِتنی بدبودار ، اِتنی تلخ، اِتنی سٹراند اور اِتنی بساندہ 14 اپنے اندر رکھتی تھی کہ اُسے اُلٹی آ گئی اور اُس نے بڑے خشمگین15انداز میں حضرت لقمان سے کہا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتا یا کہ یہ خربوزہ اتنا بدمزہ ہے؟ مَیں نے تو سمجھا کہ تمہیں مزہ آ رہا ہے او راِسی لئے مَیں تمہیں قاشیں کاٹ کاٹ کر دیتا چلا گیا اور اِس طرح بِلاوجہ مَیں نے تمہیں دکھ میں ڈالا۔ تم نے یہ کیا کیا کہ میری محبت کا ایسا اُلٹا جواب دیا اور اس قاش کی تَلخی اور بدمزگی کا مجھ سے ذکر نہ کیا؟ حضرت لقمان نے اپنے بچپن کی سادگی کے لہجہ میں کہا جس ہاتھ سے مَیں نے اِتنی میٹھی قاشیں کھائی تھیں اُس کے متعلق میںیہ بے حیائی کس طرح کر سکتا تھا کہ اگر اُسی ہاتھ سے مجھے ایک کڑوی قاش مل گئی تو اِس پر منہ بنا لیتا اور کڑوی قاش کھا کر تُھوکنے لگتا۔
ہم نے بھی اپنے خدا کے ہاتھ سے کتنی میٹھی قاشیں کھائی ہیں اب اگر کوئی کڑوی قاش اُس کی طرف سے آتی ہے تو ہمیں اُس کے کھانے پر منہ نہیں بنانا چاہیئے ۔ اُس تاجر نے تو بے جانے اپنی محبت کے جوش میں لقمان کو کڑوی قاش کھلا دی تھی۔ لیکن ہمارا خدا وہ ہے جو عالم الغیب ہے۔ تمام حالات کو جاننے والا ہے اور ہم سے محبت اور پیار رکھتا ہے۔ اگر وہ تاجر کڑوی قاش کھلانے کے باوجود لقمان کی بھلائی چاہتا تھا بُرائی نہیں چاہتا تھا۔ تو ہم یہ کس طرح مان سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کڑوی قاش کِھلا کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ یقینا ایسا ہی ہے جیسے پرانے زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کو املتاس 16 کا جلاب دیا کرتے تھے۔ ہمارا خدا بھی ہمیں کمزوریوں سے پاک کرنا چاہتا ہے وہ ہمیں تمام دنیوی علائق 17سے منقطع کر کے خالصۃً اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت سرد کر کے اپنی محبت کے شعلے بھڑکانا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں اپنا محبوب اور اپنا پیارا بنانا چاہتا ہے ۔وہ ہمیں تباہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ترقی دینا چاہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا خدا ہم سے محبت رکھتا ہے۔ اسلام اُس کا سچا دین ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے سچے رسول ہیں، قرآن اُس کی سچی کتاب ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اسلام قیامت تک کے لئے ہے اور قرآن کبھی نہ منسوخ ہونے والی کتاب ہے۔ دُنیا کی نجات اِسی مذہب اور اِسی کتاب کی تعلیم پر عمل کرنے میں ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اِس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور خدانے اپنے ہاتھ سے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے۔ خدا اپنے لگائے ہوئے پودے کو دشمن سے کبھی تباہ نہیں ہونے دے گا۔ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اِس ملک میں کبھی نیچا نہیں ہونے دے گا۔ خدا قرآن کو اِس ملک میں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ وہ ضرور اِن کو پھر عزت بخشے گا اور اِن کو فتح و کامرانی عطا کرے گا۔ہاں اگر ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے یہ ابتلاء لمبا ہو جائے تو اَور بات ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام کی فتح ہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح ہو، قرآن کی فتح ہو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح ہو، احمدیت کی فتح ہو اور پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اُونچا لہرائے ۔ مبارک ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہوتا اور اِس عید اور فتح کا دن لانے میں اپنی قربانی پیش کرتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نام عزت کے ساتھ لئے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے ہمیشہ وارث ہونگے۔‘‘
نماز جمعہ کے بعد حضور نے فرمایا:
’’ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں ملازم ہیں اور جنہیں ٹرک مل سکتے ہیں اُن کو چاہیئے کہ جس طرح بھی ہو سکے ٹرکوں کا انتظام کر کے قادیان پہنچیں اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکالنے کی کوشش کریں۔ فوجیوں کو اپنے اپنے رشتہ دار لانے کے لئے عام طور پر ٹرک مل جایا کرتے ہیں۔ بیس پچیس دوست اِس وقت اپنے اپنے رشتہ داروں کو قادیان سے لا چکے ہیں۔ وہاں آٹھ نو ہزار عورتیں اور بچے ہیں جو نکالنے کے قابل ہیں۔ ورنہ غذا کی حالت اور حفاظت کے انتظامات میںسخت دقتیں پیدا ہو جائیں گی۔ جوفوجی دوست ہوں یہاں لاہور میں یا باہر کسی اَور مقام پر او ر اُن کو ٹرک مل سکتا ہو اُن سب کو چاہیئے کہ وہ فوراً ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں۔ فوجیوں کو ٹرک ملنے میں عام طور پر آسانی ہوتی ہے۔ اور چونکہ اکثر لوگوں کے کوئی نہ کوئی رشتہ دار قادیان میں موجود ہیں اِس لئے ہم ٹرکوں کے ذریعہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو لا سکتے ہیں۔ پس جن دوستوں کو کوئی ٹرک مل سکتا ہے وہ فوراً انتظام کر کے ٹرک قادیان لے جائیں۔ اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکال لائیں۔ اور اگر کوئی شخص خود ٹرک کا انتظام نہ کر سکتا ہو لیکن اُس کے علم میں کوئی ایسے دوست ہوں جو یہ انتظام کرسکتے ہوں تو وہ اطلاع دے دیں۔ ہمیں کم از کم اِس وقت دو سَو ٹرکوں کی ضرورت ہے ۔ تب کہیں قادیان سے عورتوں اور بچوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ چونکہ کچھ عورتیں اور بچے وہاں سے آ گئے ہیں اِس لئے باقی عورتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ کچھ عورتیں تو ایسی دلیر ہیں کہ وہ نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ لیکن اکثر عورتیں اور بچے ان عورتوں اور بچوں کو دیکھ کر گھبرا رہے ہیں۔ اور یوں بھی وہاں کی غذائی حالت خراب ہے۔ نمک مرچ سب ختم ہو چکا ہے۔ گومَیں نے یہاں سے انتظام کر کے یہ چیزیں وہاں کچھ بھجوائی ہیں مگر پھر بھی وہاں کی غذائی حالت تشویشناک ہے۔ آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا، گھی ختم ہے، لکڑی ختم ہے۔اِسی لئے عورتوں اور بچوں کو قادیان سے نکالنا قادیان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ پس جس جس دوست کی طاقت میں ہو اور وہ ٹرک کا انتظام کر سکتے ہوں اُنہیں چاہیئے کہ وہ ٹرکوں کا انتظام کر کے میاں بشیر احمد صاحب کو ملیں تا کہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جاسکے۔ جودوست اِس وقت یہاں موجود ہیں اُن کا اگر کوئی فوجی دوست واقف ہو تو اُسے فوراً یہ اعلان پہنچا دیں۔ اور اگر وہ خود انتظام کر سکتے ہوں تو خود ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں۔ پنجاب اورسندھ میں جہاں جہاں فوجی افسر یا کمیشنڈ افسر ہیں جن کو ٹرکیں مل سکتی ہیں اُن سب کو چاہیئے کہ وہ ٹرکوں کے متعلق پوری کوشش کریں اور جلد سے جلد ہمیں اِس بارہ میں اطلاع دیں تا کہ ہم ٹرک قادیان بھجوا سکیں اور عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جائے۔ ‘‘ (الفضل 30 ستمبر 1947ئ)
1: المائدۃ: 25
2: (محمد: 39)
3: حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269 (مفہوماً)
4: گھانس:خس و خاشاک: سبزی۔ پھونس۔ چارہ
5: بارکیں:فوجیوں کے رہنے کی جگہ یا مکانات
6: (التوبۃ:52)
7: بخاری کتاب فضائل اَصحاب النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔باب قول النبیﷺ
سُدُّوْا الْاَبْوَابَ اِلَّا بَاب اَبِیْ بَکْرٍ۔
8: اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 95 مطبوعہ ریاض 1285ھ
9: بیہقی باب الثامن والعشرون
10: السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ127،128مصر 1935ء
11: سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 87 مطبوعہ مصر 1936ء
12: بخاری کتاب النِّکَاح باب عرض الْمَرْأۃِ لِنَفْسِھَا۔ (الخ)
13: دِساور: غیر ملک یا غیر ممالک۔ غیر ملک کی منڈی۔ سوداگری کا مال جو غیر مُلک سے آئے۔
وہ جگہ جہاں ہر ایک چیز فروخت کے لئے جمع کریں۔
14: بساندہ: بدبودار۔ بدمزہ
15: خشمگین: غضب ناک۔ غصہ سے بھرا ہوا۔
16: املتاس: ایک لمبی پھلی جس کا مغز مسہل کے لئے دیا جاتا ہے۔
17: علائق: تعلقات۔ بکھیڑے


33
اللہ تعالیٰ کے حضور عہد
(فرمودہ 19 ستمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج مَیں کچھ زیادہ بولنے کی ہمت نہیں پاتا۔ کیونکہ کل سے قادیان پر حملہ شروع ہو گیا ہے یعنی قادیان کے مغرب میں ایک بستی اسلام آباد نام کی تھی جو الگ گاؤں نہیں قادیان ہی کا حصہ تھی۔ جس میں غریب لوگوں نے اس لئے مکانات بنا لئے تھے کہ قادیان کی زمینیں مہنگی ہو گئی تھیں اور وہ ان زمینوں کے خریدنے کی استطاعت اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔آریہ سکول کے پاس ایک دوسرے گاؤں کی کچھ زمین تھی اس میں انہوں نے اپنے لئے مکانات بنا لئے تھے۔ اس میں اکثر حصہ غیر احمدیوں کا تھا لیکن آٹھ دس فیصدی احمدی بھی تھے۔ اس بستی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایک احمدی مارا گیا ہے اور ایک غیر احمدی کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی مارا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی غنڈوں نے ان مکانوں کو لُوٹ لیا، چھتیں توڑ دیں اور مکانات کے دروازے بھی اُکھیڑ لئے۔ اِسی طرح قادیان کے پاس بسنے والے گاؤں میں سے ایک ایک دو دو میل کے دیہات کو ڈرا دھمکا کر خالی کرا لیا گیا ہے۔ عملی طور پر قادیان میونسپل (MUNICIPAL) علاقہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے حملہ نہیں ہوا۔ مگر اسلام آباد اس کے محلوں میں سے ہی ایک محلہ تھا۔لیکن تھوڑی دیر ہوئی یعنی دو تین گھنٹے ہی گزرے ہیں کہ مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا فون آیا کہ اس وقت کی جو حالت ہے وہ غالباً بیرونی دنیا سے یہ ہمارا آخری تعلق ہے۔ انسان پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ لیکن بہادری سے لڑکر مرنے کا موقع مل جائے تو یہ اَور چیز ہوتی ہے۔ اور ملٹری اور پولیس کی مدد سے اس موقع سے بھی انسان کو محروم کر دینا یہ ایسا ظلم ہے کہ انسانی دماغ اس سے زیادہ ظلم تصور میں بھی نہیں لا سکتا اور یہ مثالیں کثرت سے گزشتہ فسادات میں ملتی ہیں۔ ایسی باتیں خواہ ہندوستان میں ہوں خواہ پاکستان میں نامناسب ہیں اور مہذب حکومتوں کو سختی سے ان باتوں کو روکنا چاہیے۔ جس قوم پر حملہ ہوا ہو اُس میں حکومت کو ضرور ہتھیار تقسیم کرنے چاہئیں۔ بہرحال قادیان اِس وقت بیرونی اسلامی دنیا سے بالکل کٹ گیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں باتیں کرنے کی بجائے انسان کو اپنا دل ٹٹول کر ایک ایسا عزم کر لینا چاہیے جس پر وہ مرتے دم تک قائم رہے۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں فوت ہوئے اُس وقت میری شادی تو ہو چکی تھی لیکن بچہ کوئی نہیں تھا۔ ایک بچہ ہوا تھا جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اُس وقت مَیں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عزم کیا تھا اور خدا تعالیٰ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اگر جماعت اس ابتلاء کی وجہ سے فتنہ میں پڑ جائے اور ساری ہی جماعت مرتد ہو جائے تب بھی مَیں اس صداقت کو نہیں چھوڑونگا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام لائے اور اُس وقت تک تبلیغ جاری رکھونگا جب تک وہ صداقت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی۔
شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے اب ایک اَور عہد لینا چاہتا ہے۔ وہ وقت میری جوانی کا تھا اور یہ وقت میرے بڑھاپے کا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کام کرنے کے لئے جوانی اور بڑھاپے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جس عمر میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے کھڑا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو برکت مل جائے اُسی عمر میں وہ کامیابی اور کامرانی حاصل کر سکتا ہے۔ لاہور ہی تھا جس میں مَیں نے وہ عہد کیا تھا اور یہاں پاس ہی کیلیاں والی سڑک پر وہ جگہ ہے۔ شاید یہاں سے ایک لکیر کھینچی جائے تو وہ جگہ اُسی کے محاذ میں واقع ہو گی۔ بہرحال اسی لاہور میں اور ویسے ہی تاریک حالات میں مَیں اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ جماعت کو کوئی بھی دھکّا لگے۔ مَیں اُس کے فضل اور اُس کے احسان سے کسی اپنے صدمہ یا اپنے دکھ کو اِس کام میں حائل نہیں ہونے دونگا بِفَضْلِہٖ تَعَالیٰ وَ بِتَوْفِیْقِہٖ وَ بِنَصْرِہٖجو خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے قائم کرنے کا میرے سپرد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے میری تائید فرمائے۔ باوجود اس کے کہ مَیں اب عمر کے لحاظ سے ساٹھ سال کے قریب ہوں اور ابتلاؤں اور مشکلات نے میری ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ پھر بھی میرے حی و قیوم خدا سے بعید نہیں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میرے مرنے سے پہلے مجھے اسلام کی فتح کا دن دکھا دے۔‘‘ (الفضل 21 ستمبر 1947ئ)

34
اگر تم سچے احمدی بن جاؤ تو بارہ مہینے نہیں گزریں گے کہ تمہاری طاقت اور شوکت پہلے سے کئی گُنا بڑھ جائے گی
(فرمودہ 26 ستمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’جس طرح دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت کبھی نہیں بدلا کرتا اسی طرح خدا تعالیٰ کا قانونِ شریعت بھی کبھی نہیں بدلا کرتا۔ تغیرات ہوتے ہیں مگر ایک دائرہ اور حد کے اندر ہوتے ہیں۔ کسی وقت بارشیں بے تحاشا بھی ہو جاتی ہیں اور کبھی بارشیں بالکل خشک بھی ہو جاتی ہیں اور دنیا میں سبزی اور تروتازگی کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ لیکن بارشوں کے بعد پھر خشکی کا زمانہ ضرور آتا ہے اور خشکی کے بعد پھر بارشوں کا زمانہ ضرور آتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے بارشوںکا سلسلہ جاری کیا ہو اور پھر خشکی دنیا سے اٹھ جائے یا خدا تعالیٰ نے خشکی کا زمانہ جاری کیا ہو اور پھر بارشیں دنیا سے اٹھ جائیں۔ رات آتی ہے تو اس کے بعد دن کا آنا ضروری ہوتا ہے اور دن آتا ہے تو اس کے بعد رات کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی انسان ایک ایسے غیر طبعی ماحول میں سے گزرتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کے قانون بھول جاتے ہیں۔ ہندوستان بھی ایک لمبے غیر طبعی امن میں سے گزرا ہے۔ یوں امن کے دَور انگلستان پر بھی آئے ہیں مگر انگلستان اپنے ملک کا آپ حاکم تھا اور اس امن کے زمانہ میں بھی وہ اپنی قوم کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ اپنی قوم کے حوصلوں کو بلند کر رہا تھا اور اس کے لیڈر اسے بار بار کہتے کہ تم پوری طرح تیار رہو ایسا نہ ہو کہ دشمن تم پر حملہ آور ہو جائے۔ اس طرح گو لڑائی نہ ہوتی تھی مگر لڑائی کی آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی رہتی تھیں۔ گو قوم خطرے میں گِھری نہیں ہوتی تھی مگر خطرے میں گِھرنے کا احتمال ہر وقت ان کے پیشِ نظر رہتا تھا۔ اس لئے جنگی روح اس قوم کی زندہ رہتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں ہندوستان ڈیڑھ دوسو سال ایک غیر قوم کے ماتحت بظاہر امن میں رہا لیکن وہ امن ہندوستان کے افراد کی روح کو کچلنے والا تھا۔ یوں انگلستان میں بھی امن تھا اور ہندوستان میں بھی امن تھا مگر انگلستان کے مدبّر ہمیشہ انگلستان والوں کو ہوشیار کرتے رہتے، ان کے اندر جنگی سپرٹ (SPIRIT) پیدا کرتے رہتے اور انہیں بتاتے کہ قومی قربانیوں کے لئے تمہیں تیار رہنا چاہیئے۔ مگر یہاں نہ صرف امن تھا بلکہ حکومت خود لوگوں کو سُلاتی اور کہتی کہ تمہیں فکر کی کیا ضرورت ہے ہم تمہارا پہرہ دے رہے ہیں تم بے شک سو جاؤ۔ اور جنگی خیالات پیدا ہونے کو وہ بداخلاقی اور بغاوت قراردیتی۔ گویا کچھ لوگوں کو قانون سے ڈرا کر اور کچھ لوگوں کو اخلاق سے ڈرا کر غفلت کی نیند سُلا دیا گیا۔ پس ہم لوگوں کی ذہنیت ایک غیر طبعی ذہنیت ہے۔ چنانچہ وہی چیزیں جو غیر ملکوں میں بالکل معمولی سمجھی جاتی ہیں ہمیں بہت زیادہ بھیانک اور ڈراؤنی معلوم ہوتی ہیں۔ ہم میں سے جب کسی کی جائیداد تباہ ہوتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر وہ آفت آئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی۔ حالانکہ ہماری زندگیوں میں دو دفعہ جرمن قوم کی جائیداد بالکل تباہ ہوئی ہے۔ اور آٹھ دس سال میں ہی وہ گزشتہ جنگ کے بعد پھر کروڑ پتی بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بنی ہے۔ وہ مرتے تھے مگر اپنا مرنا تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اور ہم مرنے سے پہلے ہی اپنی موت تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں ہوا ہی کرتی ہیں اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو گیا تو کیا ہوا۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں نہیں ہوا کرتیں۔ اس لئے بغیر اس کے کہ ہم مغلوب ہوں ہم اپنی کمرِ ہمت کو توڑ دیتے اور اپنی موت اور شکست کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ درحقیقت وہ غیر طبعی امن جو ہندوستان کو حاصل رہا نہ کبھی امن قائم کر سکتا ہے اور نہ علم قائم کر سکتا ہے۔ نہ حوصلہ پیدا کر سکتا ہے نہ جرأت اور بہادری پیدا کر سکتا ہے۔ ورنہ ہمت والا انسان جاتا اور موت کے منہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اسے موت سے بچا بھی لیتا ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ قافلے آتے ہیں۔ ان پر گولیاں چلتی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ قافلہ والے تین تین چار چار ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کے سپاہی صرف پندرہ بیس ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ سپاہی لڑائی کے عادی ہوتے ہیں اس لئے پھر بھی ان میں سے اکثر اپنی جان بچا کر لے آتے ہیں۔ آخر یہ تو کوئی قانون نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہو اُسے گولی نہ لگے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں توپ بھی ہو اور اسے گولی آ لگے تو وہ مر جائے گا۔ بات یہ ہے کہ سپاہی کو گولی سے بچنے کا ڈھنگ آتا ہے اس لئے وہ نڈر ہو کر جاتا اور بسا اوقات بچ کر نکل آتا ہے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ گولی چلتی ہے تو لوگ اِدھر اُدھر جھانکتے اور بھاگنے کا راستہ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب مارے جاتے ہیں۔ بیسیوں واقعات گورداسپور اور دوسرے اضلاع میں ایسے ہوئے ہیں کہ سکھوں نے گاؤں پر حملہ کیا تو اندر سے عورتیں اور بچے بے تحاشا بھاگ نکلے اور اس طرح نوّے فیصدی وہی لوگ مارے گئے جو ڈر کر بھاگے تھے۔ اسکی وجہ یہی تھی کہ ان کو لڑائی کی عادت نہیں تھی او رجنگی روح ان میں مفقود ہو چکی تھی۔
پس یہ چیز جہاں مصیبت ہے وہاں اس مصیبت نے ہمارے لئے ایک برکت کا راستہ بھی کھول دیا ہے اور اب ہم آسانی کے ساتھ انسانیت کے اس معیار پر آسکتے ہیں جو ساری دنیا میں جاری ہے۔ جو معیارانگلستان کے انسان کو حاصل ہے، جو معیار امریکہ کے انسان کو حاصل ہے، جو معیار فرانس کے انسان کو حاصل ہے، جو معیار جرمنی کے انسان کو حاصل ہے،جو معیارروس کے انسان کو حاصل ہے۔ وہ اب ہم کو بھی ملنے لگا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اب ہمیشہ امن رہے گا۔ بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ امن کے ساتھ خوف بھی طاری ہو گا اور خوف کے مقابلہ کی تیاری ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو گی۔ جیسے انگلستان پر خوف آتا ہے تو اُس کا علاج اُس کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پہلے ہندوستان پر خوف کا وقت آتا تو انگلستان کہتا کہ اس خوف کا مقابلہ ہم کریں گے مگر اب ہمیں خود سوچنا پڑے گا کہ ہم کس طرح دشمن کے حملہ سے بچ سکتے ہیں۔ یہ دماغی کیفیت جلدی پیدا نہیں ہو سکتی۔ مگر کچھ دنوں کے بعد یہ خوف ہم میں وہ انسانی ذہنیت ضرور پیدا کر دے گا جو آزاد انسان کی ذہنیت ہوا کرتی ہے۔ پہلے ہماری محض زنانہ حیثیت تھی جیسے پردہ دار عورت اپنے سارے کام خاوند کے سپرد کر دیتی ہے ہم نے بھی اپنے سارے کام انگریزوں کے سپرد کر دیئے تھے۔ اور جس طرح وہ عورت ہمارے جیسے ہاتھ، ہمارے جیسے پاؤں، ہمارے جیسا دماغ، ہمارے جیسا ناک، ہمارے جیسے کان اور ہمارے جیسا دل رکھنے کے باوجود بالکل بے کس اور بے بس ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہم بھی انگریزوں جیسے ہاتھ، انگریزوں جیسے پاؤں، انگریزوں جیسے سر، انگریزوں جیسے دماغ، انگریزوں جیسے ناک او رکان رکھنے کے باوجود بالکل بے کس اور بے بس تھے۔کیونکہ ہمارے ہاتھ اور ہمارے پاؤں اور ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہمارے باقی اعضاء کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی گئی تھی اور ہم نے اُن خطرات میں اپنے آپ کو نہیں ڈالاتھا جن خطرات میں اپنے آپ کواب ڈالا ہوا ہے۔ پس یہی مصیبت ہمارے لئے رحمت کا ذریعہ بن سکتی ہے اگر ہم اسے رحمت کا ذریعہ بنا لیں۔ جیسے طالب علم کالج میں جاتا ہے تو اسے نئے نئے علوم پڑھنے پڑتے ہیں۔ اِسی طرح یہ جماعت ایسی ہے جس میں ہندوستانی ابھی داخل نہیں ہوئے تھے۔ خدا نے انہیں اس جماعت میں داخل کر دیا ہے۔ اور داخل بھی ایسے رنگ میں کیا ہے جیسے کہتے ہیں ’’سر منڈواتے ہی اولے پڑے‘‘ لوگوں کو یہ سبق آہستہ آہستہ ملا مگر ہم کو فوراً مل گیا۔ گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قرضہ تھا جو ہمیں فوراً واپس کرنا پڑا۔ ہر غیر طبعی امن والا سال جو ہم پر گزرا ہے ،ہر غیر انسانیت والاسال جو ہم پر گزرا، ہر غیر شعوری سال جو ہم پر گزرااس کے مقابلے میں اتنے ہی فکر اور اتنی ہی بلائیں اور اتنی ہی مصیبتیں خدا تعالیٰ ہمارے کھاتے میں ڈالتا جاتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ ہم تمہیں یہ سب مصیبتیں اکٹھی دیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو وہ تمام حساب ہم کو اکٹھا مل گیا۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر کسی پر قرضہ ہو اور وہ ایک روپیہ آج ادا کرے، دو روپے کل دے، تین روپے پرسوں ادا کرے تو وہ قرضہ آسانی سے اُتار سکتا ہے لیکن اگر کسی پر اکٹھی بیس پچیس ہزار کی ڈگری ہو جائے تو اُسے سخت مشکل نظر آتی ہے۔ ہم پر بھی اکٹھی ڈگری ہو گئی ہے اور اس کی ادائیگی ہمارے لئے مشکل ہو گئی ہے لیکن بہرحال خدا نے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ انگلستان کے لوگ برابر ہر سال اس قسم کے فکر اپنے اوپر لادتے رہے۔ فرانس کے لوگ برابر ہر سال اس قسم کے فکر اپنے اوپر لادتے رہے اور وہ اپنا اپنا حصہ قسط وار ادا کرتے ر ہے مگر ہمیں بجائے قسط وار ادا کرنے کے اکٹھی رقم ادا کرنی پڑی۔
پس ہمیں اپنی پوزیشن اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے۔ روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی۔ روحانی طور پر تمہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص مسیح موعود علیہ السلام کے مقام پر کھڑا ہے یا نہیں۔ تم میں سے بعض لوگ ان مصائب کو دیکھ کر کتنا ڈر رہے ہیں۔ مگر کیا تم نے کبھی سوچا کہ تمہارے یہ مصائب اُن مصائب کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ کے قیام کے وقت برداشت کئے تھے۔ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تھا اُس دن جو کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی ہو گی اگر وہی کیفیت ہم اپنے دل میں پیدا کر لیں اور ہم آپ کے سچے پَیرو بن جائیں تو ہمارے دل کے حوصلے بلند ہونے چاہئیں۔ اور ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ جو کام ہمارے آقا نے کیا تھا وہی کام کرنا ہمارا فرض ہے۔ وہ اکیلے تھے مگر ہم اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں ہیں۔ بے شک ہمارے کچھ حصہ کی جائیدادیں تباہ ہوئی ہیں۔ یعنی ان لوگوں کی جائیداد یں جو مشرقی پنجاب میں تھے۔ مگر ہماری مغربی پنجاب کی جائیدادیں تباہ نہیں ہوئیں اگر قربانی کی ہم میں سچی روح ہے تو جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں تمہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ آئندہ کے لئے تمہارا مال تمہارا نہیں بلکہ خدا کا ہے۔ جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب کچھ خدا کا مال ہو گا۔ تمہیں اس میں سے صرف روٹی ملے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی نہ ملے۔ یا جیسے مَیں نے کہا تھا تمہارا فرض ہے کہ تبلیغ کرو اور بھیک مانگ کر گزارہ کرو۔ تم پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرو اور اس رنگ میں وقف کرو کہ سلسلہ سے ایک پیسہ بھی نہ لو تا کہ اگر خدا تعالیٰ کے لئے تمہیں کسی وقت بھیک مانگنی پڑے تو تم اس کے لئے تیار رہو۔ اور تا خدا نخواستہ ہماری مغربی پنجاب کی جائیدادیں بھی کسی وقت ابتلاء میں آ جائیں تو ہم میں سے ہر شخص مبلغ ہو اور اسے عادت ہو کہ وہ بھیک مانگے اور تبلیغ کرے۔ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کا نمونہ موجود ہے۔ اور انبیاء کے متعلق تو تم کہہ سکتے ہو کہ وہ پرانے انبیاء ہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کے نمونہ کو نہیں دیکھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات تو تمہارے سامنے گزرے ہیں۔ اور اگر تم نے اُن کو نہیں دیکھا تو کم سے کم دیکھنے والوں نے اُن واقعات کو دیکھا اور وہ واقعات اتنے قریب کے ہیں کہ دشمن بھی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ پھر تمہارے لئے کونسی مشکل ہے۔ نمونہ تمہارے سامنے موجود ہے تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نمونہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لو۔ اگر تم حقیقی اور سچے احمدی بن جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ بارہ مہینے انسان کے گِنے ہوئے ٹھیک بارہ مہینے نہیں گزریں گے اور تمہاری طاقت او رشوکت پہلے سے کئی گُنا بڑھ جائے گی۔ انسان کو اپنے اندر صرف ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم اپنے ایمانوں کا جائزہ لو، سچائیوں پر قائم ہو جاؤ، راستی اور صداقت کو اپنا شعار بناؤ، خدا کے ذکر میں مشغول رہو، اس کی معرفت اپنے اندر پیدا کروتا کہ خدا تم کو نظر آ جائے اور اسی دنیا میں وہ تم کو اپنا جلوہ دکھا دے۔ جب تک خدا نظر نہیں آتا دنیا کی مصیبتیں پہاڑ اور اس کے ابتلاء بے کِنار ہ سمندر نظر آتے ہیں۔ مگر جب خدا نظر آ جاتا ہے تو اسکی نگاہ میں یہ ساری چیزیں ہیچ ہو جاتی ہیں۔ تب ایک ہی چیز اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پورا ہو۔ اور خدا تعالیٰ کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں نہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں اور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔ وہ ہنستا ہؤا جاتا اور اپنی قربانی پیش کر کے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے۔
صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے۔ کیا ان کے جسم میں حِس نہیں تھی اور ہمارے اندر ہے؟ کیا ان کے بیوی بچے نہیں تھے اور ہمارے بیوی بچے ہیں؟ یہاں تو صرف عوام الناس کی شرارت ہے۔ اوپر کی گورنمنٹ کم سے کم منہ سے اب تک یہی کہتی چلی آ رہی ہے کہ ہم اقلیتوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ مگر وہاں یہ حالت تھی کہ حکومت تک ان کی مخالف تھی۔ آخر بادشاہ نے ان کو بلا کر کہا دیکھیں مولوی صاحب! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے اور میں آپ کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن اگر یونہی چھوڑ دوں تو مولوی میرے مخالف ہو جائیں گے۔ آپ صرف اتنا کریں کہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ قادیانی ہیں؟ تو آپ خواہ دل میں کچھ عقائد رکھیں زبان سے کہہ دیں کہ مَیں قادیانی نہیںہوں اِس طرح میں آپ کو آسانی سے چھوڑ سکوں گا۔ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف نے کہا بادشاہ! تمہیں جان کی قیمت معلوم ہوتی ہو گی مجھے تو اس کی کوئی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور مَیں تو یہ قربانی پیش کرنے کے لئے ہی تمہارے پاس آیا ہوں۔ مجھے تو پہلے بھی کہا گیا تھا کہ مَیں احمدیت کا اظہار نہ کروں مگر میں نے انکار کر دیا۔ دراصل گورنر جس کے سامنے وہ پہلی دفعہ پیش ہوئے وہ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھا۔ جب آپ اُس سے ملے تو اس نے بھی کہا کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیے ورنہ آپ کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا تمہاری ہتھکڑیاں کہاں ہیں لاؤ اور میرے ہاتھوں میں پہناؤ۔ مجھے تو آج رات خدا نے بتایا ہے کہ مجھے سونے کے کنگن ڈالے جائیں گے ۔ پس مَیں اپنی موت سے نہیں ڈرتا۔ مَیں تو قوم کی نجات کے لئے اپنی جان پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پھر جب اُنہیں پتھراؤ کیا گیا تو اُس وقت بھی ان کے دل میں اپنی قوم کا کوئی کینہ اور بُغض نہیں تھا بلکہ سنگسار کرنے سے پہلے جب انہیں گاڑنے لگے اورگاڑتے اس لئے ہیں کہ پتھروں کے ڈر سے انسان بھاگ نہ جائے تو صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میں بھاگتا تو نہیں مجھے گاڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر جب ان پر پتھر پڑنے لگے تو دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ صاحبزادہ صاحب بلند آواز سے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اے میرے رب! میری قوم پر رحم کر کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کر رہی ہے۔ یہ وہ شاندا ر چیزیں ہیں جو قوموں کو زندہ کیا کرتی ہیں۔ بے شک صاحبزادہ صاحب مر گئے مگر کیا انہوں نے مرنا نہیں تھا۔ اگر وہ عام لوگوں کی طرح بستر پر مر جاتے تو کیا ہم ان کا ذکر کرکے جماعت میں جوش پیدا کر سکتے تھے؟ کیا ہم یہ کہتے کہ دیکھو فلاں مولوی نے بستر پر جان دی؟ اگر ہم ایسا کہتے تو کیا لوگوں پر اس کا کوئی بھی اثر ہوتا۔ وہ کہتے ایک مولوی تھا جو مر گیا۔ دنیامیں بہتیرے مولوی مرتے رہتے ہیں اگر وہ بھی مر گیا تو کیا ہوا۔ درحقیقت اس قسم کی قربانی ہی ہوتی ہے جو قوم کے نوجوانوں کو زندہ کیا کرتی ہے۔ بے شک ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں مگر نوجوان جب اس قسم کے نمونہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں جوش پید اہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کیسا اچھا انجام تھا۔ آؤ ہم بھی ایسی ہی قربانی کریں۔
پس تم اپنے اندر ہمت پیدا کرواور خدا تعالیٰ پر یقین رکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
تیرے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز
کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنیوالی ہے1
پس آگیں ہمارے لئے بھڑکائی جائیں گی۔ مگر ہوا کیا؟ اصل چیز تو وہ صداقت ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں لایا کرتے ہیں۔ کیا خدا تعالیٰ کے نبی مارے نہیں گئے؟ کیا خدا تعالیٰ کے نبیوں کے نشانات مٹائے نہیں گئے؟ حضرت داؤ دؑکے بعد بخت نصر نے ساری عمارتیں تہہ وبالا کر دی تھیںاور مسجد اقصیٰ کا نشان تک بھی اس نے نہ چھوڑا تھا مگر ان باتوں سے ہوا کیا ؟بات تو وہ تھی جو موسیٰ ؑ لایا۔ اور کیا موسیٰ ؑکی لائی ہوئی بات آج تک دنیا مٹا سکی؟ پس جہاں تم خدا تعالیٰ پر یقین رکھو وہاں تم سمجھ لو کہ جن چیزوں کو وہ اسلام کے لئے مفید سمجھے گا انہیں ہر قسم کی تباہی سے بچا لے گا اور جن چیزوں کا تباہ ہونا تمہارے اندر جوش پیدا کرنے کے لئے ضروری ہو گا ان کی حفاظت سے وہ ہاتھ اٹھا لے گا۔ اور کہے گا یہ عارضی چیزیں ہیں اصل چیز یہ ہے کہ تمہارے اندر وہ مغز پیدا ہو جائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا اصل مقصد ہے۔ تم اس مغز کے پیدا کرنے کی کوشش کرو اور اپنے دماغوں کو ان مصیبتوں پر رونے کے لئے مت لگاؤ جو تم پر پڑیں۔ بلکہ تم اس کامیابی اور کامرانی کے حصول کے لئے تیار ہو جاؤ جو خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لئے لے کر کھڑے ہیں۔ تمہارے لئے مشکلات کا آنا ضرور تھا اور میں بار بار تمہیںاِس طرف توجہ دلا چکا تھا۔ کئی لوگ مجھ سے ملتے ہیںتو وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے خطبات میں جب اس قسم کی باتیں پڑھتے ہیں تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اتنا مبالغہ کیوں کیاجاتا ہے۔ مگر آج وہ سب کچھ پورا ہوا جو آپ کہتے چلے آ رہے تھے۔ میں نے تمہیں بتایا اور بار بار بتایا کہ مولویوں کی گالیاں کچھ چیز نہیںجب تک کہ تم تلوار کے نیچے ذبح نہیں ہو گے اُس وقت تک تم نبیوں کی جماعتوں کی مانند نہیں بن سکتے۔ ضروری ہے کہ تمہیں دین کے لئے قید کیا جائے، تمہیں دین کے لئے قتل کیا جائے اور تمہیں دین کے لئے اپنی جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ چنانچہ دیکھ لو اب تلوار چلائی گئی یا نہیں؟ کئی سو آدمی اب تک ہماری جماعت میں سے مارا جا چکا ہے۔ قادیان میں اِس وقت دس ہزار آدمی موجود ہے اور ان میں سے ہر آدمی قربان ہونے کے لئے تیار ہے۔ اور جہاں تک مادی اسباب کا تعلق ہے یہی نظر آتا ہے کہ ان کو مار ڈالا جائے گا۔ ہاں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کو بچا سکتا ہے اور ہم اس سے امیدِ کامل رکھتے ہیں کہ وہ قادیان کو بچائے گا۔ مگر اپنی جانیں بچانے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا جلوہ ظاہر ہو۔ ورنہ ہر مخلص اپنی جان دینے کو تیار ہے۔ اور صرف منافق کا دل اس کے سینہ میں دھڑکتا ہے۔ مخلص اور ایماندار اپنے آپ کو یوں محسوس کرتا ہے جیسے کہ خدا کے فرشتے کے پہرہ میں وہ پھر رہا ہو۔
خلاصہ یہ کہ مَیں نے تم کو ہوشیار کیا اور با ر بار کیا مگر تم کہتے رہے کہ یہ ایک شاعرانہ مبالغہ ہے جو کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب کچھ بتا دیا تھا اور خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ کسی نبی کی جماعت ان قربانیوں کے بغیر ترقی نہیں کیا کرتی۔ تم کو بھی خون سے غسل دے دیا گیا ہے۔ اور یہی غسل ہوتا ہے جو آخری غسل ہوتا ہے۔ اگر اب بھی تم سنبھل جاؤ اور اپنے اندر اصلاح پیدا کر لو تو پھر خدا نئے سرے سے دنیا میں احمدیت کو مضبوطی سے قائم کر دے گا۔ پس تم میں فوری طور پر ایک نئی تبدیلی پیدا ہونی چاہیے۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی تم میں وہ تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ تم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو باوجود سب کچھ دیکھنے کے یوں سمجھتے ہیں کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔ گویا یہ ایک خواب تھا جو انہوں نے دیکھا۔ حالانکہ جو واقعات ظاہر ہوئے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ اب نہ تمہیں مال کی پروا ہونی چاہیے ،نہ جان کی پروا ہونی چاہیے اور نہ کسی اَور چیز کی پروا ہونی چاہیے۔کیا جالندھر، گورداسپور، لدھیانہ اور فیروزپور کے لوگوں کو آج سے ایک سال پہلے دس ہزار مولوی بھی قرآن پر قسم کھا کر کہتا کہ تمہاری جائیدادیں تم سے چھین لی جائیں گی تو وہ اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو سکتے تھے؟ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر آج سے ایک سال پہلے دس ہزار مولوی بھی یہ کہتا کہ ان لوگوں کی جائیدادیں ان سے چھین لی جائینگی تو لوگ پھر بھی اعتبار نہ کرتے اور یہی کہتے کہ جھوٹ بول کر خانہ کعبہ کی ہتک کی گئی ہے۔ مگر جو کچھ ہوا وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بڑے قتلِ عام کی آج تک کوئی مثال نہیںملتی۔ اور ابھی یہ رَو رُکی نہیں۔ میرے پاس کئی غیرا حمدی رؤساء آتے ہیں اور مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو اس کا خاتمہ بھی نظر آتا ہے؟ مَیں اُنہیں کہا کرتا ہوں کہ میں تم کو کیا بتاؤں۔ اگر تم ایک گیند پھینکو تو میں تمہیں بتادوں گا کہ یہ اتنی دور جا کر ٹھہرے گا، اگر تم ایک اینٹ پھینکو تو میں تمہیں بتادوں گا کہ کتنی دور جا کر گرجائے گی۔ مگر یہ انسان کا کام ہے۔ اور انسان کے دماغ میں نئے نئے خیالات اٹھتے رہتے ہیں اگر ایک آدمی دَوڑ رہا ہو تو اس کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے کہ وہ کتنی دو رجا کر رُکے گا۔ بے جان چیز کو دیکھ کر تو ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر جاندار میں چونکہ نئے نئے احساسات پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے اس کے متعلق کوئی صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خدائی سنت ہے اور تمام دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ ایسے دَور لمبے نہیں چلتے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری سنت یہ ہے کہ ایسے ظالم ضرور سزا پاتے ہیں اور خدا ان کی تباہی کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی اندرونی یا بیرونی سامان پیدا کر دیا کرتا ہے۔ مگر یہ دنیا داروں کی باتیں ہیں۔
ہمارے سامنے صرف یہ مقصد ہونا چاہیئے کہ خدا نے ایک پیغام ہمارے سپرد کیا ہے اور مرنے سے پہلے اُس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ جس دن یہ روح تم میں پیدا ہو جائے گی اُس دن خدا تمہیں نظر آ جائے گا ۔ جس دن یہ روح تم میں پیدا ہو جائے گی اُس دن فرشتے تم سے باتیں کریں گے۔ جس دن یہ روح تم میں پیدا ہو جائے گی اُس دن دنیا کی محبت تم پر سرد ہو جائے گی۔ جس دن یہ روح تم میں پیدا ہو جائے گی اُس دن موت تم کو خوشکن چیز نظر آئے گی۔ اسی طرح جس طرح صحابہؓ کو نظر آئی۔ پس اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ خدا نے تم کو ایک بہت بڑے کام کے لئے پیدا کیا ہے اور جب تک وہ کام پورا نہیں ہو جاتا تمہاری زندگی بالکل عبث ہے۔ جب آقا اپنے خادم کو کہتا ہے کہ جاؤ اور فلاں کام کرو تو اُس وقت اگر اس کی بیوی اسے کوئی اَور کام بتاتی ہے تو وہ اس کی بات نہیں مانتا۔ مگر وہ آقا تو ایسا ہوتا ہے کہ پندرہ یا بیس روپے دینے والا ہوتا ہے اور یہاں وہ آقا ہے جس نے ہمیں بھی پیدا کیا اور ہمارے باپ دادا کو بھی پیدا کیا اور ان کے باپ دادا کو بھی پیدا کیا اور جو ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پیدا کرے گا اور جس نے اس دنیا میں بھی ان سب کی پرورش کی اور ان کو اپنی ربوبیت کے فیضان سے حصہ دیا اور جو مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ اَبد الآباد کی زندگی میں اچھا سلوک کرے گا۔ ایسے آقا کو کون چھوڑ سکتا ہے؟ ایسے آقا کی آواز سے کون منہ موڑ سکتا ہے؟ کاش! تم اس نکتہ کو سمجھ لو۔ پھر تمہارے لئے فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر احمدیت کی فتح اور جلد ہی فتح یقینی اور قطعی ہے۔‘‘
(الفضل5 ؍ اکتوبر1947ئ)
1: حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 595

35
اگر سارے احمدی مارے جائیں اور صرف ایک پودا اللہ تعالیٰ رکھ لے تو اس سے احمدیت پھر تروتازہ ہو جائیگی
(فرمودہ 3 ؍اکتوبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے آج رات رؤیا میں حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی نور الدین صاحب کو دیکھا۔ ایک کمرہ ہے چھوٹے سے سائز کا۔ ایسا جیسا 12x12 فٹ کا ہوتا ہے۔ ایک طرف اس کے اندر داخل ہونے کا دروازہ ہے اور تین طرف دروازہ کوئی نہیں۔ تین دیواریں ہیں جن میں سے ہر دیوار کے ساتھ ایک ایک چارپائی لگی ہوئی ہے۔ مَیں اُس چارپائی پر بیٹھا ہوں جو دروازہ کے سامنے ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل میرے دائیں طرف کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور میرے بائیں طرف کی چارپائی پر میری لڑکی امۃ القیوم بیٹھی ہے۔ اور میری چارپائی پر ایک طرف ہو کر ایک اَور لڑکی بیٹھی ہے جو غالباً امۃ العزیز ہے۔ حضرت خلیفہ اول جب گھوڑی پر سے گرے اور آپ کے سر میں زخم آیا تو وہ زخم رفتہ رفتہ ناسور کی شکل اختیار کر گیا تھا اور بہت دیر تک درست ہونے میں نہیں آیا تھا۔ اُن دنوں آپ ایک ٹوپی کنٹوپ کی طرح کی پہنتے تھے تا کہ زخم ڈھکا رہے۔ اسی طرز کی ایک ٹوپی آپ نے پہنی ہوئی ہے۔اُ س وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ مَیں امۃ القیوم کو جو حضرت خلیفہ اول کی نواسی ہے آپ سے ملاؤں۔ مَیں خواب میں اُس وقت یہی سمجھتا ہوں کہ اس کی والدہ امۃ الحی مرحومہ فوت ہو چکی ہیں۔ لیکن حضرت خلیفہ اول کے متعلق سمجھتا ہوں کہ آپ زندہ ہیں۔ مگر یوں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے لڑکی کو دیکھا ہؤا نہیں۔ اُس وقت امۃ الحی مرحومہ کی یاد کی وجہ سے میرے دل میں کچھ رقّت سی آتی ہے اور یہ مضمون میرے دل میں آتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل جو اپنی لاتیں لٹکائے بیٹھے ہیں مَیں اس لڑکی کو ساتھ لے جا کر آپ کی لاتوں کے درمیان پَیروں میں بٹھا دونگا اور کہونگا کہ یہ آپ کی نواسی ہے، اس کو دعا دیں۔ جب مَیں نے لڑکی کی طرف دیکھا تو اس نے چارپائی پر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ ایک رکعت اس نے کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور ایک رکعت اس نے بیٹھ کر پڑھی ہے۔ یہ یاد نہیں رہا کہ پہلی رکعت اس نے کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور دوسری بیٹھ کر پڑھی ہے یا دوسری رکعت کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور پہلی رکعت بیٹھ کر پڑھی ہے۔ اس وجہ سے مَیں نے جو ارادہ کیا تھا وہ مَیں پورا نہ کر سکا۔ پھر مَیں اٹھ کر باہر چلا گیا۔ وہاں کچھ لوگ مجھے ملے ہیں جو ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے فوجی ہوتے ہیں۔ تین آدمی ہیں۔ وہ مریم صدیقہ کے متعلق جو میری بیوی ہیں کہتے ہیں کہ ان سے کہہ دینا اگر روپیہ کی ضرورت ہو تو روپیہ آ گیا ہے۔ اُس وقت خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ میری بیوی نے اپنے پاس امانتیں رکھی ہوئی ہیں جیسے بعض لوگ دوسروں کی امانتیں اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ مَیں اندر گیا تو دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھے ہیں، دری بچھی ہوئی ہے۔ تین عورتیں آپ کے آگے بیٹھی ہیںاور آپ غالباً بخاری کا درس دے رہے ہیں۔ ایک تو مریم صدیقہ ہے اور دوسری دو عورتوں کے متعلق مَیں نہیں کہہ سکتا کہ آیا وہ امۃ العزیز اور امۃ القیوم ہی ہیں یا گھر کی کوئی اَور مستورات ہیں۔ مَیں یہ دیکھ کر ایک طرف ہو گیا۔ کچھ دیر پڑھانے کے بعد ایک چیز سامنے لائی گئی ہے۔ وہ چیز ایسی ہے جیسے گھانس ہوتا ہے زرد رنگ کا۔ اور خشک گھاس ہے۔ اس کی جڑ چھوٹی سی ہے مگر پودے کی جو شاخیں ہیں وہ نو نو دس دس انچ کی ہیں اور نہایت باریک ہیں۔ ایسی باریک جیسے خس 1 کا گھاس ہوتا ہے مگر خس کی نسبت زیادہ سخت ہیں۔ مریم صدیقہ ان کو نکال نکال کر حضرت خلیفہ اوّل کے سامنے رکھتی جاتی ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کے ذکر میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی کسی کتاب کا حوالہ بھی پڑھا گیا ہے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل اپنے شاگردوں کو وہ گھاس دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ اُس وقت حضرت خلیفہ اول نے مریم صدیقہ اور دوسری مستورات سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح استاد اپنے شاگر دکو بتلاتا ہے ایک فقرہ کہا۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ فقرہ مجھے یاد نہیں رہا۔ مگر اتنا یقینی طور پر یاد ہے کہ اس میں مہاراجہ پٹیالہ کا ذکر آتا تھا۔ حدیث کی روایت اور اس حوالہ کی تشریح کرتے ہوئے آپ گھاس دکھا کر فرماتے ہیں کہ اس سے مہاراجہ پٹیالہ کے متعلق یہ بات نکلتی ہے۔ گویا حدیث کی کوئی روایت ہے جس کا تعلق گھاس سے ہے۔ اور اُسی وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ گھاس پیدا کیا جاتا ہے اور حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ اس سے مہاراجہ پٹیالہ کے متعلق یہ بات نکلتی ہے۔ خواب میں تو مجھے یاد تھی مگر اٹھنے پر میں بھول گیا۔
بہرحال نورالدین نام بڑا اچھا ہے۔ یعنی دین کا نور۔ امۃ القیوم، امۃ العزیز اور مریم صدیقہ یہ بھی بڑے اچھے نام ہیں۔ بخاری شریف کا پڑھانا بھی بڑا اچھا ہے۔ گو آخر میں جو نتیجہ نکالا گیا تھا وہ یاد نہیں رہا مگر اتنی تعبیر تو بہرحال واضح ہے کہ دین کا نور پھر زندہ کیا جائے گا۔ حضرت خلیفہ اول تو وفات پا چکے ہیں۔ آپ کی زندگی سے یہی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کا نور دنیا میں پھر زندہ کر دے گا۔
عجیب بات ہے مَیں ابھی خطبہ کے لئے آ رہا تھا کہ ایک عورت میرا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی کہ مَیں نے ایک خواب دیکھی ہے۔ چونکہ آگے ہی دیر ہو گئی تھی مَیں نے کچھ بچنے کی کوشش کی ۔ مگر اس نے مجھے گزرنے نہیں دیا اور مجبور کر کے اپنی خواب سنا دی۔ اس نے بھی جو خواب دیکھا ہے وہ اس خواب سے ایک حد تک مل جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد اقصیٰ میں ایک بہت بڑا آلہ نشر الصوت لگایا جا رہا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ دہلی کا آلہ تو صرف ہندوستان تک سنائی دیتا ہے مگر یہ آلہ بڑی عمدگی کے ساتھ ساری دنیا میں اپنی خبریں سنائے گا۔ پھر وہ کہتی ہیں مَیں نے دیکھا کہ خدام الاحمدیہ اِدھر اُدھر پھر کر انتظامات کر رہے ہیں۔ اور قادیان کا تھانیدار جو سکھ ہے وہ چپڑاسی کے طور پر ان کے احکام اِدھر اُدھر پہنچا رہا ہے۔ چونکہ وہ قادیان سے آئی تھی۔ اس نے کہا وہی جو آج کل بڑی شرارتیں کر رہا ہے۔ مَیں نے تو دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ اسے احکام دیتے ہیں تو وہ ان کی تعمیل کے لئے اِدھر اُدھر دوڑا پھرتا ہے۔ مہاراجہ پٹیالہ بھی سکھ ہیں او راس نے بھی سکھ تھانیدار ہی دیکھا ہے۔ اتنا حصہ تو دونوں خوابوں کا آپس میں مل جاتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ آخری فقرہ مجھے یاد نہیں رہا۔ حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں یہ بخاری کی روایت ہے۔ مولوی محمد احسن صاحب نے بھی اس کے متعلق اپنی کتاب میں کچھ لکھا ہے اور اس کے مطابق یہ گھاس ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مہاراجہ پٹیالہ سے یہ معاملہ ہو گا۔ ہاں مولوی محمد احسن صاحب کی کتاب کا نام مجھے پوری طرح یاد نہیں رہا۔ خیال ہے کہ اس کا نام شمسِ بازغہ لیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ شمسِ بازغہ کوئی ان کی کتاب ہے بھی یا نہیں۔ شمسِ بازغہ کے معنی بھی چمکنے والے سورج کے ہیں۔ اور محمد احسن بھی اچھا نام ہے۔ محمد کے معنی ہیں تعریف والا اور احسن کے معنی ہیں نہایت اچھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سچا پیغام ہے۔ اگر انبیاء کی سنت کے مطابق ہماری جماعت پر بھی کوئی عارضی زوال آ جائے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھر بار سے جدا ہونا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے انہیں فلسطین میں بسنا پڑا۔ حضرت نوحؑ کا مقام تباہ ہو گیا اور انہیں طوفان میں کشتی کے ذریعہ دُور ایک مقام پر جانا پڑا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ اس کے بعد ہمارے نزدیک تو وہ صلیبی موت سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے اور غیر احمدیوں کے نزدیک آسمان پر چلے گئے۔ پھر ان کی جماعت پر مظالم ہوئے اور وہ جزیرہ سائپرس میں چلے گئے۔ پھر مظالم ہوئے تو وہ روما چلے گئے۔ پھر بھاگے تو مصر میں آئے ۔ مصر میں مظالم ہوئے تو پھر روما بھاگ گئے۔ پھر روما میں مظالم ہوئے تو وہ صقلیہ میں آ گئے جسے اب سسلی کہتے ہیں۔ا س طرح متواتر تین سو سال تک اس جماعت کو اپنے مرکز بدلنے پڑے۔ مگروہ جماعت جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان میں کمزور تھی برابر اپنے مذہب کی تبلیغ اور اس کی اشاعت میں لگی رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں کمزور بھی تھے لیکن عام طور پر مسیحی جماعت نے اپنے ایمان کو قائم رکھا اور شاندار قربانیاں کیں۔
مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت نے چھوٹی چھوٹی ترقیات کو دیکھ کر جو درحقیقت ایسی ہی تھیں جیسے طالب علم کو شاباش کہہ دیا جاتا ہے یہ سمجھ لیا تھا کہ انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔ کسی اخبار نے ہمارے سلسلہ کی تعریف کر دی یا کسی کتاب میں احمدیت کا ذکر چھپ گیا یا کہیں چند لوگ احمدی ہو گئے تو اِس کا نام انہوں نے کامیابیاں رکھ لیا اور سمجھ لیا کہ جو مصائب پہلے انبیاء کی جماعتوں کو پہنچے ہیں وہ ہمیں نہیں پہنچیں گے۔ حالانکہ میرے پرانے خطبات موجود ہیں۔ تم ان کو پڑھ کر دیکھ لو مَیں نے متواتر اور بار بار کہا تھا کہ جو تکالیف پرانے انبیاء اور انکی جماعتوں کو پہنچی ہیں جب تک وہ تکالیف تمہیں نہیں پہنچیں گی اُس وقت تک تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ الفضل والوں کو چاہیئے کہ پرانے فائل نکال کر ان میں سے بار بار ایسے حوالے شائع کریں۔ پھر مصلح موعود والی خواب میں صریح ہجرت کا ذکر آتاتھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک فوج آئی ہے اور مَیں جس مقام پر ہوں وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ چلا گیا ہوں۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا بھی الہام ہے کہ ’’داغِ ہجرت‘‘ 2 اور آپ نے اس الہام کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہجرت کرنا انبیاء کی سنت ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ نبی خود ہجرت کرے۔ اس سے مراد اس کا بیٹا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اصل چیز جو دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ پیغام دنیا میں لائے تھے کہ ایک بستی بنائی جائے گی اور اس پر کوئی شخص ظلم نہیں کر سکے گا یا یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ میں بندے اور خدا کے درمیان صلح کرانے کے لئے آیا ہوں۔ مَیں بندے اور خدا کو آپس میں ملانے کے لئے آیا ہوں۔ مَیں قرآن کریم کی اہمیت اور اس کی صداقت دنیا میں روشن کرنے کے لئے آیا ہوں۔میں قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کیلئے آیا ہوں۔ اگر تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں اس لئے آئے ہوتے کہ وہ ایک بستی بسائیں اوراُس بستی کو بغیر اُن ابتلاؤں میں پڑنے کے جو نبیوں کی جماعتوں پر آیا کرتے ہیں پھولوں کی سیج پر سفر کرتے ہوئے انتہائی ترقی پر لے جائیں۔ تو پھر بے شک ہماری جماعت کو یہ امید نہیں کرنی چاہیئے تھی کہ کوئی ابتلاء آئے اور کوئی ٹھوکر اسے لگے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام باقی انبیاء کی سنت پر آئے ہیں تو کیا تم کوئی ایک نبی بھی ایسا پیش کر سکتے ہو جس کی جماعت شدید ترین مصائب میں سے نہ گزری ہو؟ ان کو گرفتار کیا گیا، ان کو قتل کیا گیا، ان کو پھانسی پر لٹکایا گیا، ان کو تلواروں سے شہید کیا گیا۔ گولیاں تو اُس زمانہ میں تھیں ہی نہیں۔ اگر لاکھوں میں سے کوئی ایک نبی بھی ایسا ہوتا جس کی جماعت ان مصائب میں سے نہ گزری ہوتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہمارے ساتھ اُس نبی جیسا سلوک ہونا چاہیئے۔ صرف ایک وجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جن کو غیر معمولی ترقیات حاصل ہوئیں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سالہا سال تک ایسی تکالیف میں سے گزرنا پڑا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ آپ کے صحابہؓ کو یکے بعد دیگرے ہجرت کرنی پڑی۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماریں کھانی پڑیں۔ کئی دفعہ کفار نے آپ کو پکڑکر مارا۔ کئی دفعہ آپ کا گلا گھونٹا گیا۔ یہاں تک کہ حدیثوں میں آتا ہے شدتِ تکلیف کی وجہ سے آپ کی آنکھیں باہر نکل آتی تھیں ۔ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو کر باہر نکل پڑیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے سنا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے ان کفا ر کو ہٹاتے ہوئے کہا خدا کا خوف کرو۔ کیا تم ایک شخص پر اس لئے ظلم کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا ربّ ہے؟3 بے شک ہماری جماعت کو بھی گالیاں ملی ہیں۔ مگر جس شان کی گالیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں ہمیں نہیں ملیں۔
مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ آرام سے بیٹھے تھے کہ ابوجہل آیا اور اس نے آپ کو ایک تو تھپڑ مارا اور پھر تھپڑ مار کر اس نے بے نقط گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کردیں کہ مَیں تم کو تباہ کر دوں گا، برباد کر دوں گا، بڑا لیڈر بنا پھرتا ہے، قوم فروش ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹان پر اپنے ہاتھ پر ٹھوڑی رکھے بیٹھے تھے۔ آپ سنتے رہے، تھپڑ بھی کھا لیااور گالیاں بھی سنتے رہے ۔ جب وہ گالیاں دیتے دیتے تھک کر چلا گیا تو آپ خاموشی سے اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی اپنے گھر میں سے دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ اور سن رہی تھی۔ حمزہؓ اُس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے۔ وہ سپاہی آدمی تھے اور سارادن شکار میں لگے رہتے تھے اور شام کے وقت اپنے گھر آتے تھے۔ اُس روز بھی وہ شام کے وقت نہایت تکبر سے سینہ تان کر زور زور سے پیر مارتے اور ہاتھ میں تیر کمان پکڑے اُپچی 4 بنے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ لونڈی گھر کی پرانی خادمہ تھی۔ اور پرانے نوکر بھی رشتہ داروں کی طرح ہوتے ہیں۔ صبح سے وہ اپنا غصہ دبائے بیٹھی تھی۔ جب اس نے حمزہؓ کو دیکھا تو بڑے جوش سے کہنے لگی تمہیں شرم نہیں آتی تیر کمان لئے جانور مارتے پھرتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے کہ صبح تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا ہؤا؟ حمزہؓ نے کہا کیا ہوا ؟اس نے کہا مَیں دروازہ میں کھڑی تھی تمہارا بھتیجا سامنے پتھر پر آرام سے بیٹھا تھا اور کچھ سوچ رہا تھا۔ اتنے میں ابوجہل آیا اور اس نے پہلے تو اُس کو تھپڑ مارا اور پھر بے تحاشاگالیاں دینی شروع کر دیں ۔پھر اس نے اپنے زنانہ انداز میں کہا اس نے ابوجہل کو کچھ بھی تو نہیں کہا تھا۔ کوئی بات اس نے نہیں کی تھی جس کی وجہ سے ابوجہل کو غصہ آتا مگر وہ پھر بھی گالیاں دیتا گیا اور دیتا گیااور تمہارا بھتیجا چپ کر کے سامنے کی طرف دیکھتا گیا۔ اور اس نے ان کا کوئی جواب نہ دیا۔ ایک عورت اور پھر خادمہ کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہؓ کی غیرت جوش میں آئی اور خانہ کعبہ کی طرف چل پڑے۔ رؤسائِ مکہ کا طریق تھا کہ شام کے وقت وہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنی بڑائیاں بیان کیا کرتے اور لوگ ان کی تعریف کرتے ۔ تمام رؤساء بیٹھے ہوئے تھے اور ابوجہل بھی ان میں موجود تھا کہ حمزہؓ گئے اور انہوں نے وہی کمان جو اُن کے ہاتھ میں تھی ابوجہل کے منہ پر ماری اور کہا مَیں نے سنا ہے تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارا بھی ہے اور گالیاں بھی دی ہیں؟ اور مَیں نے سنا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کوئی لفظ تم کو نہیں کہا تھا جس کے بدلہ میں تم گالیاں دیتے؟ پھر حمزہؓ نے کہا تم بہادر بنے پھرتے ہو اور جو چپ کر جاتا ہے اُس پر ظلم اور تعدی کرتے ہو۔ اب مَیں نے سارے مکہ کے سامنے تمہیں مارا ہے اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے مار دیکھو۔ مکّہ کے نوجوان حمزہؓ کو پکڑنے کے لئے اٹھے۔ مگر ابوجہل پر ان کا ایسا رُعب طاری ہوا کہ اس نے کہا جانے دو، صبح مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔ 5
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ ، وہ مکہ جس میں تیرہ سال تک آپ تبلیغ ہدایت کرتے رہے تھے اور جس کے لوگوں کو آپ نے سب سے پہلے خطاب کیا تھا رات کے وقت چھوڑنا پڑا۔ اور چُھپتے چُھپاتے آپ مدینہ پہنچے مگر دشمن نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور متواتر مدینہ پر حملے ہوتے رہے۔ ایک سو بیس کے قریب وہ لڑائیاں ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو لڑنی پڑیں۔ او ر ان میں سینکڑوں صحابہؓ مارے گئے اور بعض جگہ پر تو ایسی طرز پر مارے گئے کہ اس نظارے کو دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دس آدمی ایک جگہ پر بھیجے۔ مگر اُن لوگوں نے جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے دھوکا دے کر اُن پر حملہ کر دیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اب اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے تو انہوں نے کہا خدا کی قسم! ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم نیچے اُتر آؤ (وہ اُس وقت ایک پہاڑی ٹیلے پر چڑھے ہوئے تھے) جو اُن کا لیڈر تھا اُس نے کہا میں تو ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کر سکتا یہ لوگ جھوٹے اور دھوکا باز ہیں۔ ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ چنانچہ وہیں لڑتے لڑتے مارا گیا۔ باقیوں نے سمجھا کہ جب یہ لوگ قَسمیں کھا کر کہہ رہے ہیںکہ ہم کچھ نہیں کہیں گے تو ہمیں اعتبار کرتے ہوئے نیچے اتر آنا چاہیئے۔ جب وہ نیچے اُترے تو انہوں نے رسیاں باندھ کر ان کو گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس پر پھر ان لوگوں نے مقابلہ کیا۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے۔ باقیوں کو تو انہوں نے مار دیا۔ لیکن دو کو پکڑ کر مکّہ لے گئے۔ اور اُن لوگوں کے ہاتھ میں اُنہیں بیچ دیا جن کے بعض آدمی مسلمانوں سے مارے گئے تھے۔ ان میں سے ایک کو پھانسی دینے سے پہلے مکہ کے لوگوںنے پوچھا کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اِس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہاری جگہ پر یہاں ہوتے اور تم اپنے بیوی بچوں میں آرام سے مدینہ میں بیٹھے ہوتے؟ اُس نے جواب دیا۔ خدا کی قسم! تم تو یہ کہتے ہو کہ مَیں مدینہ میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں میری جگہ ہوں۔ مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوں اور ان کے پاؤں میں کانٹا تک چُبھے6۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک قبیلہ کا رئیس آیا اور اس نے کہا کہ میری قوم اسلام لانے کے لئے تیار ہے۔ آپ میرے ساتھ کچھ آدمی بھجوا دیں۔ وہ تو اپنی اِس بات میں سچا تھا اور بعد میں ایمان بھی لے آیا۔ مگر ا س کی قوم نے غداری کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پر اعتبار کرتے ہوئے 70 حفاظ کا قافلہ اُس کی قوم کی طرف روانہ کر دیا۔ جب وہ اس قبیلہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس رئیس کے بھتیجے کے پاس ایک آدمی کے ذریعہ پیغام بھجوا دیا کہ ہم لوگ آ گئے ہیں۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا کیا کام ہو گا؟ اس نے ان کے سردار کو بلوایااور جب وہ ان سے باتیں کر رہا تھا اُس رئیس کو اشارہ کیا جس نے پیچھے سے اُس صحابیؓ کی گردن میں نیزہ مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب اُسے نیزہ لگا تو تاریخ میں لکھا ہے کہ اس نے نعرہ لگایا اور کہا فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ 7 مجھے کعبہ کے رب کی قسم! میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ پھر وہ اکٹھے ہو کر تمام صحابہؓ پر حملہ آور ہوگئے۔ انہی لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ کے وہ غلام بھی تھے جو ہجرت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جب ہزاروں آدمیوں کے ہجوم نے ان 70 صحابہؓ پر حملہ کر دیا تو یہ لازمی بات تھی کہ انہوں نے مارا جانا تھا۔ چنانچہ وہ سارے کے سارے وہیں قتل ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بھی ہتھیار پھینکنے کی حرکت نہیں کی۔ یکے بعد دیگرے جب وہ لوگ مرتے یا کسی کو خنجر لگتا یا تلوار سے کسی کا سر کٹتا تویہی الفاظ اُس کی زبان پر ہوتے کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ ۔ خدا کی قسم! مَیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ مَیں اسلام سے واقف نہیں تھا۔ مَیں باہر سے آیاتھا اور قبیلہ والوں کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہو گیا۔ مَیں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مرتے وقت بجائے یہ کہنے کے کہ ہائے اماں یا ہائے ابّا! یہ کہتے ہیں کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ کعبہ کے ربّ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا تو مجھے حیرت آئی کہ یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ کیا موت میں کامیابی ہوا کرتی ہے؟ آخر مَیں نے ایک شخص سے اس بارہ میں پوچھا۔ اس نے کہا تم مسلمانوں کو نہیں جانتے۔ یہ لوگ ایسے پاگل ہیں کہ ان کاخیال ہے جو شخص خدا کی راہ میں مارا جاتا ہے وہ سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ چونکہ اس کے دل میں نیکی تھی وہ کہتا ہے میں نے جب یہ بات سنی تو سمجھا کہ اِس میں ضرور کوئی راز ہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ مَیں نے اسلام کی تحقیق کی۔ اور مَیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا 8۔ غرض یکے بعد دیگرے ان لوگوں نے موت کو قبول کیا اور موت میں ہی اپنی ساری کامیابی سمجھے۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے وہ قلیل ترین عرصہ میں ساری دنیا پر غالب آ گئے اور ایسی شان سے غالب آئے کہ اس کی مثال پہلی کسی قوم میں نہیں ملتی۔
پھر دیکھ لو مصائب کا یہ سلسلہ جلدی ختم نہیں ہو گیا بلکہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔ خلافت قائم ہوئی تو حضرت عمرؓ شہید ہوئے، حضرت عثمانؓ شہید ہوئے، حضرت علیؓ شہید ہوئے اور کربلا کے میدان میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریباً سارا خاندان ہی شہید ہو گیا۔ مگر کیا مسلمانوں کے دلوں میں اُس وقت شک پیدا ہوا کہ یہ کیسا سلسلہ ہے جس میں مصائب ہی مصائب آ رہے ہیں؟ پھر کیا مسیحؑ کے صلیب پر لٹکائے جانے کی وجہ سے اُن کے حواریوں کے ایمان متزلزل ہو گئے تھے؟ متزلزل نہیں ہوئے بلکہ اَور بھی مضبوط ہوئے۔ چنانچہ وہی حواری جس نے مسیحؑ کی گرفتاری کے وقت یہ کہا تھا کہ مَیں نہیں جانتا مسیح کون ہے۔ وہی کمزور ایمان والا حواری جب مسیحؑ صلیب پر لٹکا دیا گیا تو وہی شخص جس نے صبح کی اذان سے پہلے تین دفعہ مسیحؑ کا انکار کیا تھا اور اُس پر *** ڈالی تھی مسیحؑ کا خلیفہ بنا او رآخر صلیب پر مسیحؑ کا نعرہ لگاتے ہوئے اُس نے جان دے دی۔
یہ واقعات ہیں جو انبیاء اور ان کی جماعتوں کے ساتھ گزرے اور ان حالات میں سے ہماری جماعت کا گزرنا بھی ضروری تھا۔ مگر ہماری جماعت کے بعض افراد کا یہ خیال تھا کہ ہم خدا تعالیٰ کے خاص لاڈلے ہیں۔ وہ سلوک جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اُس سے بھی اچھا سلوک ہم سے ہو گا۔ وہ سلوک جو موسیٰ ؑسے ہوا، وہ سلوک جو عیسیٰ ؑ سے ہوا یا وہ سلوک جو ان کی جماعتوں سے ہوا اُس سے بھی بہتر سلوک ہم سے ہو گا۔ اس لئے اب جو ابتلاء آیا ہے تو مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگوں کے دل ڈر رہے ہیں اور ان کے ایمان کی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے اور کئی ہیں جو قادیان سے بھاگ رہے ہیں۔ جہاں تک ان کے ایمان کا تعلق ہے ہم جانتے ہیں کہ ایسے ایمان والوں کی ایک رائی کے برابر بھی قیمت نہیں۔ آخر یہ سیدھی بات ہے کہ اپنا خون بہائے بغیر ہم نے قادیان کو نہیں چھوڑنا۔ اور یہ بھی سیدھی با ت ہے کہ جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے تو وہ اِس اقرار کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور جب بھی مجھ سے اس چیز کا مطالبہ کیا جائے گا مَیں فوراً اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دوں گا۔ اگر وہ جان دینے کے لئے تیار نہیں تھے تو اِس جماعت میں داخل ہی کیوں ہوئے تھے۔ کیا اس لئے کہ پلاؤ اور قورمہ ان کو کھانے کے لئے ملے گا؟ وہ اس لئے اس جماعت میں داخل ہوئے تھے کہ خدا کے لئے اپنی جانیں دیں گے اور اس راستہ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ مگر آج جب جانیں دینے کا پہلا موقع آیا تو انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا اور کئی ہیں جو اپنے بیٹوں اور بیویوں کو لے کر وہاں سے بھاگ آئے ہیں اور پھر اخلاص کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں۔ اور کئی ہیں جو اپنی اولادوں کو نکالنے کے لئے بیتاب ہیں۔ جہاں تک ان کے ایمان کا تعلق ہے یہ ایک حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیںکہ ان کے ایمان مٹی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتے۔ پھر کئی ہیں جو اپنے اَور رشتہ داروں کو نکالنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کئی باہر کے ہیں جو وہاں جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ پھر وہاں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو بِلااجازت بھاگ آیا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی لِسٹیں تیار کر رہے ہیں۔ بے شک ہمارے پاس حکومت نہیں کہ ہم ایسے لوگوں کو سزا دے سکیں اور نہ اِس وقت مَیں انہیں سزا دینا چاہتا ہوں۔ لیکن ان کے نام احمدیت کی تاریخ میں شائع کئے جائیں گے اور دنیا کو بتا یا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت پر بھاگ آئے اور جنہوں نے انتہائی غداری اور بے ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ نظام کے ماتحت کسی کام کے لئے باہر آنا اَور بات ہے۔ ہم نے خود انتظام کیا ہے کہ قادیان کے لوگوں کو بھی کچھ آرام ملنا چاہیئے کیونکہ وہ بہت دیر سے کام کر رہے ہیں مگر ان کو بھی قرعہ سے باہر نکالا جائے گا۔ اِس نظام کے بغیر اگر کوئی شخص اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو وہ یقینا اپنے بے ایمان ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
تم میں سے ہر شخص کس طرح یہ کہا کرتا تھا کہ ہم موسیٰ ؑکی قوم نہیں جنہوں نے یہ کہا تھا 9 ہم قربانی کے موقع پر پیٹھ دکھانے والے نہیں بلکہ اپنی جانیں قربان کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ثابت ہوں گے۔ لیکن آج قربانی کا وقت آیا تو تم نے بھی کہہ دیا کہ۔
تم میں سے کئی لوگوں کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پوربیا مر گیا تو اس کے مرنے کے بعد پوربیوں کے دستور کے مطابق قبیلہ کے سب لوگ جمع ہوئے او ر اس کی بیوی نے رونا پیٹنا اور واویلا کرنا شروع کر دیا۔ بیوی روتی اور کہتی ہائے ہائے اس نے اپنے فلاں رشتہ دار سے اتنا روپیہ لینا تھا اب کون لے گا؟ اِس پر ایک پوربیا بول اٹھا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر اس نے شور مچایا اور کہا فلاں فلاں مہینہ کی تنخواہ اس نے کپتان صاحب سے لینی تھی ا ب وہ تنخواہ کون لے گا؟ وہی پوربیا پھر بولا کہ اری ہم ری ہم۔ پھر وہ چِلّائی اور روئی، پیٹی اور اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا ۔ اتنے جانور اُس نے ادھیارے پر دیئے ہوئے تھے اب اُن سے کون فائدہ اٹھائے گا؟ اس پر وہی پوربیا پھر بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر وہ عورت اَور زیادہ زور سے روئی۔اِس نے کہا اس نے فلاں کا اتنے ہزار روپیہ قرض دینا تھا اب وہ کون دے گا؟ اِس پر وہ پوربیا کہنے لگا ارے بھائی! مَیں ہی جواب دیتا جاؤں کہ قبیلہ میں سے کوئی اَور شخص بھی بولے گا؟ تم میں سے بھی کئی ہیں جن کا یہی رنگ ہے۔ جب تک احمدیت پھولوں کی سیج پر چل رہی تھی وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور جب کہا جاتا کہ تم میں سے کون اپنی جان قربان کرے گا تو اِس پر پوربیے کی طرح وہ بھی آگے بڑھتے اور کہتے اری ہم ری ہم۔ مگر اب جب کہ احمدیت کو کانٹوں پر چلنا پڑا ہے، جب انہیں اپنے دائیں اور بائیں مشکلات ہی مشکلات نظر آتی ہیں وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ارے! کوئی اَور بھی آگے چلے گا یا ہم ہی چلتے چلے جائیں۔ دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ 10۔ تیری جماعت کے لوگ یہ خیال کر لیں گے کہ احمدیت یہی ہے کہ بیعت کی، چندہ دیا اور گھر میں آرام سے بیٹھے رہے اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ ان کو کوئی اَور ابتلاء پیش نہیں آئے گا ۔ مگر فرماتا ہے ان کی یہ بات غلط ہے ان کو فتنوں میں ضرور ڈالا جائے گا۔ ایسے ہی فتنوں میں جیسے پہلے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو پیش آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ مَیں موجودہ فتنہ کو اللہ تعالیٰ کا ایک انعام سمجھتا ہوں کیونکہ اسکے ذریعہ سے مومن اور منافق میں فرق ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کتنے ہیں وہ لوگ جو لمبی لمبی نمازیں پڑھنے والے اور ہر وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کرنیوالے تھے اول درجہ کے کافر، مرتد اور خبیث ثابت ہو رہے ہیں۔ اور کتنے ہیں وہ لوگ جن کے متعلق ہم سمجھتے تھے کہ وہ معمولی ایمان والے ہیں اپنے ایمانوں کا نہایت اعلیٰ درجہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، وہ مرنے کے لئے بیتاب ہوتے اور ان میں سے ہر شخص دوسرے سے کہتا کہ پہلے مَیں مرنے کے لئے جاؤنگا تم کون ہو جو مجھے اس ثواب سے محروم کرتے ہو۔ مگر ہوا یہ کہ تم نے اپنی جانیں بچا کر بھاگنا شرو ع کر دیا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ایسے لوگ ہماری جماعت میں نہیں جو قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھا رہے ہیں۔ یقینا ہیں۔ مگر ایسے بھی ہیں جو بہانے بنا بنا کر قادیان سے نکلتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ باہر ہمارے بیوی بچے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کی جا کر خبر لے آئیں۔ یہی قرآن کریم میں منافقین کی حالت بتائی گئی ہے۔ احزاب کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اُس موقع پر منافق آ کر کہتے کہ ہمارے گھروں کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہمیں جانے کی اجازت دی جائے 11۔ پھر وہ بھی ہیں جو کشمیریوں کی طرح بزدل ثابت ہوئے ہیں۔ جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ ہم لڑنے کے لئے تو تیار ہیں مگر ہمارے ساتھ پہرہ ہونا چاہیئے اِسی طرح وہ مرنے کے لئے قادیان جاتے ہیںمگر جب وہاں پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہاں تو بڑا فتنہ ہے ہماری حفاظت کی کوئی صورت ہونی چاہیئے۔ حالانکہ جو شخص قادیان جاتا ہے وہ جان دینے کے لئے جاتا ہے اور یہ سمجھ کر جاتا ہے کہ مَیں نے زندہ واپس نہیں آنا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے واپس لے آئے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ بچے بعض دفعہ جب خط لکھتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں ہماری بیویوں کاکیا حال ہے۔ تو مَیں اُنہیں لکھا کرتا ہوں کہ یہ بھی گناہ کی بات ہے کہ تمہیں اِس وقت اپنی بیویاں یاد آ رہی ہیں۔ تمہیں بھول جانا چاہیئے اِس بات کو کہ تمہاری کوئی بیوی ہے۔ تمہیں صرف یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ تم نے خدا کے لئے اپنی جان قربان کرنی ہے۔ پھر بعض مولوی ہیں جن کے متعلق رپورٹیں آتی ہیں کہ وہ ڈر کے مارے تھرتھر کانپتے ہیں۔ا ور یا تو وہ یہ تقریریں کیا کرتے تھے کہ اسلام ایسا، احمدیت ایسی اور یا آج جب اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی پیش کرنے کا وقت آیا ہے تو وہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی ساری اولادیں لے کر قادیان سے بھاگ آئے ہیں۔ اور بعض یہاں آنے کے بعد اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اُن کی اولادوں کو قادیان سے نکال لیا جائے۔ اور یقینا اگر یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے تو اُن کی اولادیں نکالی جائیں گی۔ مگر قادیان سے نہیں بلکہ اسلام اور احمدیت سے نکالی جائیں گی اور خدا تعالیٰ کی *** اُن کو پیس کر رکھ دے گی۔ وہ منافق اور بے ایمان جو وقت پر غداری کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو نہیں چھوڑے گا جب تک اُن کے جھوٹے وعدوں کے پردے چاک نہ کر دے۔ کیا انکی اولادیں محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادوں سے زیادہ بہتر ہیں؟ کیا مسیح موعودؑ کی اولاد وہاں جان دینے کے لئے نہیں بیٹھی ہوئی؟ اور کیا اَور ہزاروں احمدی وہاں جان دینے کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے؟ پھر کیا اِن کی جان اُن کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے؟ اِن بے شرموں کو چاہیئے تھا کہ جب ان کی اولادیں قادیان سے نکلتیں تو وہ ان سے کہتے کہ اے بے حیاؤ! جاؤ اور ہماری آنکھوں کے سامنے سے دور ہو جاؤ، ہم تمہاری شکل دیکھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ ایمان ہے جس کا تمہیں نمونہ دکھانا چاہیئے تھا نہ کہ بزدل اور بھگوڑے بن کر خدا تعالیٰ کی *** کے مورد بن جاتے۔
میری تو یہ حالت ہے کہ مَیں یہ نہیں کہا کرتا کہ خدایا! میرے بچوں کو بچا کر لے آ بلکہ مَیں یہ دعا کرتا ہوں کہ الہٰی! اگر ان کے لئے زندگی مقدر ہے تو اُنہیں مخلصانہ نمونہ دکھانے کی توفیق دیجیئو او راگر ان کے لئے موت مقدر ہے تو پھر اعلیٰ درجہ کی شہادت ان کے نصیب کیجیئو۔ ان کو بزدل اور بھگوڑا نہ بنائیو۔ باقی ان کو بچانا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جیسے خنسائؓ نے خدا تعالیٰ سے یہ کہا تھا کہ اے خدا! میں نے اپنے بچوں کو یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ یا تو فتح حاصل کرو اور یا پھر زندہ واپس نہ آنا۔ مگر تجھے یہ بھی توفیق ہے کہ اُن کو فتح دے اور خیریت سے واپس لے آئے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کو فتح دی ہے اور وہ اُس کے بچوں کو زندہ بھی واپس لے آیا۔ آخر ہم کب کہتے ہیں کہ قادیان میں قتلِ عام ہو۔ ہم نہیں چاہتے کہ قادیان تباہ ہو۔ ہم جوکچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر قادیان پر ابتلا آئے تو تمام احمدی ثابت قدم رہیں اور قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دیں۔
پھر ایسے بھی کذاب ہیں جو یہ پراپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں امیر آدمی سب آ رہے ہیں۔ جو غریب عورتیں اور بچے اور دوسرے لوگ اِس وقت تک قادیان سے نکل چکے ہیں وہ چار ہزار کے قریب ہیں۔ مگر ایسے بھی منافق لوگ موجود ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں سب امیر آ رہے ہیں۔ حالانکہ قادیان میں اتنا امیر آ کہاں سے گیا۔ کیا یہ چار ہزار کے چار ہزار ایسے ہیں؟ مَیں تو سمجھتا ہوںاگر جائزہ لیا جائے تو قادیان میں صرف چند لوگ ہی بڑی بڑی جائیدادوں والے ہوں گے اور دس بارہ انجمن کے وہ عہدیدار ہوں گے جن کی تنخواہ ڈیڑھ سو سے تین سو تک ہے۔ باقی سب غربا ہیں اور سارے غریب ہی قادیان سے آ رہے ہیں۔ جب لاریاں آئیں تو لوگوں کے پاس جا کر پوچھو تو کہ اُن کی آمدن کیا ہے؟ پھر تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ امیر ہیں یا یہ معترض۔ اگر منافقوں میں ہمت ہے تو وہ لسٹ پیش کریں اور بتائیں کہ اتنا امیر قادیان سے آ گیا ہے۔ سب کے سب غرباء ہی ہیں جن کو لایا جا رہا ہے۔ آجکل چندے بند ہیں مگر ہم پھر بھی اُن کے لئے کرایوں کا انتظام کرتے ہیں، ان کے بسانے کا انتظام کرتے ہیں، ان کی ہر طرح مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور منافق ہیں کہ شور مچاتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہم ان کے شور کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے۔ ہم تو سمجھتے ہیں موجودہ ابتلاء تو کوئی چیز ہی نہیں۔ اگر سارے احمدی مارے جائیں اور صرف ایک پودا اللہ تعالیٰ رکھ لے تو اس سے احمدیت پھر دوبارہ تروتازہ ہو جائے گی اور خدا کی باتیں کبھی پوری ہونے سے رہ نہیں سکیں گی۔ دراصل خدا نے یہ ابتلاء بے دینوں اور بے ایمانوں کو ظاہر کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ آج وقت تھا جبکہ جماعت اپنے ایمان کا ثبوت دیتی مگر مجھے افسوس ہے کہ ایک طبقہ نے کمزوری دکھائی ہے۔ آخر باتیں کرنے سے کیا بنتا ہے۔ تم اپنی جانیں پیش کرو جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں نے اپنی جانیں پیش کیں۔ ہاں قانون کے مطابق قادیان سے کچھ لوگ ضرور نکالے جائیں گے اور اِس میں نہ بڑوں کا لحاظ کیاجائے گا نہ چھوٹوں کی حق تلفی کی جائے گی۔ نہ امیر کی رعایت کی جائے گی نہ غریب کو نظرانداز کیا جائے گا۔ اس طرح بوڑھے بھی قادیان سے نکال لئے جائیں گے۔ کیونکہ لڑنے والے بوڑھے نہیں ہو سکتے جوان ہی ہو سکتے ہیں۔ ہاں جب ایسا وقت آ جائے جب ہر شخص کے لڑنے کی ضرورت ہو تو پھر بوڑھا بھی لڑے گا اور جوان بھی لڑے گا۔ لیکن تم اپنی طرف سے نہ چاہو کہ خدا تعالیٰ قادیان پر کوئی ابتلاء لائے۔ اُس سے یہی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ حکومت کو سمجھ دے کہ وہ وفا دار شہریوں کو دِق نہ کرے اور ان لوگوں سے نہ ٹکرائے جو ہندوستان یونین کے دشمن نہیں بلکہ اُس کے خیر خواہ ہیں ۔اور جنہوں نے اپنی پچاس سالہ تاریخ میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ قانون شکنی کو کسی صورت میں بھی جائز نہیں سمجھتے۔ لیکن باوجود اپنی طرف سے وہ تمام ذرائع استعمال کرنے کے جو آئینی رنگ میں اختیار کئے جا سکتے ہیں اگر پھر مقامی حکام ہمیں مارنے پر تُلے ہوئے ہوں(اور مقامی حکام کا لفظ مَیں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ مَیں اب بھی یقین نہیں کرتا کہ اوپر کی حکومت اُن کے اس فعل کی تائید میں ہے ) تو تمہارا نمونہ وہی ہونا چاہیئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس شعر میں بیان فرمایا کہ
در کوئے تو اگر سرِ عشاق را زنند
اول کسے کہ لافِ تعشّق زندمنم
تمہیں کیا پتہ کہ تمہارے بچے بڑے ہو کر کیسے خبیث ثابت ہوتے۔ اگر وہ مارے جائیں گے تو اپنے لئے اور خود تمہارے لئے عزت کا سامان پیدا کریں گے اوران کا انجام قابلِ فخر ہو گا۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ تم انہیں بچا کر لے آؤ اور وہ چور اور بٹ مار 13 ثابت ہوں اور اس طرح دنیا کی لعنتیں تم پر پڑیں۔ بلکہ ہو سکنے کا بھی سوال نہیں اگر تم ایسا کرو گے تو یقینا تم پر لعنتیں پڑیں گی۔ اگر ہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور یقینا سچا ہے تو اِس موقع پر بزدلی دکھانے والے اِس طرح پیسے جائیں گے کہ ان کی مثال دنیا میں نہیں ملے گی۔ اور دنیا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گی بلکہ ابھی تم میں سے کچھ لوگ زندہ ہونگے کہ اِن دنوں کو یاد کر کے لوگ خواہش کیا کریں گے کہ کاش! اُس وقت ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے اور ابدی زندگی حاصل کرتے۔ جیسے صحابہؓ میں سے بعض مرتے وقت روتے تھے کہ کاش! انہیں شہادت حاصل ہوتی اور بستر پر وہ اپنی جان نہ دیتے۔ پس اپنے ایمانوں کی خبر لواور دوسرے لوگوں کے ایمانوں کی بھی خبر لو۔ پہلی آگ ہے جو تمہارے سامنے ظاہر ہوئی۔ مگر ایک آگ سے قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔ اس کے لئے کئی آگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ چونکہ یہ ابتلاء لمباعرصہ رہا ہے ا گلے ابتلاء چھوٹے ہوں۔ بہرحال تمہیں ہر ملک اور ہر علاقہ میں اپنی جانیں دینی پڑیں گی اور ہر ملک اور ہر علاقہ میں ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی۔ تب احمدیت پھیلے گی اور تب اسلام کا نور دنیا میں ظاہر ہو گا۔ جو شخص اِس کے خلاف سمجھتا ہے وہ احمق ہے اور جتنی جلدی وہ اِس سلسلہ سے نکل جائے اُتنا ہی احمدیت کے لئے بھی اچھا ہے اور اُس کے لئے بھی۔ اِس دھوکا کے ساتھ احمدیت میں داخل ہونے والا قریب ترین عرصہ میں منافقت کی موت مرے گا۔ اور 14 کا مصداق ہو گا۔‘‘ (الفضل 10؍ اکتوبر 1947ئ)
1: خس:سُوکھا گھاس
2: تذکرہ صفحہ 772۔ ایڈیشن چہارم
3: بخاری کتاب مناقب الانصار باب مَا لَقِیَ النَّبِیُّ ﷺ وَ اَصْحَابُہٗ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَکَّۃَ
4: ایچی: ہتھیار بند۔ سر سے لے کر پاؤں تک ہتھیاروں سے لیس۔
5: سیرت ابن ہشام جلدنمبر1صفحہ 311،312۔مطبوعہ مصر 1936ئ
6: اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 230 مطبوعہ بیروت 1965ء
7: بخاری کتاب الجھاد باب من ینکب او یطعن فی سبیل اللّٰہ۔
8: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 196 مطبوعہ مصر 1936ء
9: المائدۃ: 25
10: تذکرۃ صفحہ 85، 240۔ ایڈیشن چہارم
11:
(الاحزاب:14)
12: درثمین فارسی صفحہ 143 شائع کردہ سید عبد الحی صاحب
13: بٹ مار: لٹیرا۔ ڈاکو۔ راہزن
14: النسائ: 146

36
جب تک حکومت ہمیں جبراً نہ نکالے ہم قادیان میں رہیں گے۔ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امانت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس امانت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے
(فرمودہ 10 اکتوبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج ایک عرصہ کے بعد قادیان سے جو خطوط موصول ہوئے ہیں اُن سے اور اُن آنے والوں سے جو پچھلے ایک دو دن میں یہاں آئے ہیں وہ حالات معلوم ہوئے ہیں جو گزشتہ چھ دنوں میں گورنمنٹ کے مقامی نمائندوں نے قادیان میں پیدا کر دیئے تھے اور جن کی مثال شاید پرانے زمانہ کی وحشی اقوام میں بھی نہیںملتی۔ ہمارے دو سوسے زیادہ احمدی مارے گئے ہیں اور ان کی لاشیں بھی ہمارے حوالے نہیں کی گئیں بلکہ گڑھے کھود کر اُن کو خود ہی دفن کر دیا گیا ہے۔ جنرل تھمایا جو ایسٹ پنجاب گورنمنٹ میں جالندھر ڈویژن کے افسر ہیں وہ بعض احمدیوں کے ساتھ ایک سکیم کے ماتحت جب قادیان گئے تو انہوں نے کہا ہماری رپورٹیں تو یہ ہیں کہ تیس کے قریب احمدی مارے گئے ہیں اور جب انہوں نے افسروں سے پوچھا کہ کتنے احمدی مارے گئے ہیں؟ تو انہوں نے بھی کہا ٹھیک ہے تیس احمدی مارے گئے ہیں۔ اُس وقت ہمارے لوکل نمائندوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ تیس احمدی مارے گئے ہیں۔ ہمیں ایک گڑھے کا علم ہے جس میں چالیس احمدیوں کی لاشیں دبائی گئی ہیں۔ چلئے ہم ابھی آپ کو وہ چالیس لاشیں دکھانے کے لئے تیار ہیں۔ اور اس کے علاوہ ہم اَور بھی کئی گڑھے دکھا سکتے ہیں جن میں احمدیوں کو دفن کیا گیا ہے۔ اس پر جنرل تھمایا خاموش ہوگئے۔ مگر تعصب کا بُرا ہوکہ ریڈیو کے اعلان سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے جا کر رپورٹ یہی دی ہے کہ قادیان پر معمولی حملہ ہو ادونوں طرف کے ساٹھ آدمی مارے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
نہایت ذلیل ترین حرکت جو کوئی قوم کر سکتی ہے وہ مُردوں کی ہتک ہے۔ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بعد کیا ہندو اور سکھ قوم یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ مسلمانوں میں جنازہ کے متعلق کیا احکام ہیں؟ وہ کس طرح غسل دیتے ہیں، کفن پہناتے، جنازہ پڑھتے اور پھر اپنے مُردوں کو دفن کرتے ہیں؟ مگر ان اسلامی رسوم کے ادا کرنے سے بھی ہمیں محروم کر دیا گیا۔ اور ہماری لاشوں کو بغیر اِس کے کہ ہم ان کا جنازہ پڑھتے گڑھوں میں دبادیا گیا۔ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریق تو یہ تھا کہ جنگ احزاب کے موقع پر جب کفا ر کا ایک لیڈر خندق میں گرا اور وہیں مارا گیا تو مکہ والوں نے کئی ہزار روپیہ اِس غرض کے لئے پیش کیا کہ اس شخص کی لاش ہمیں دے دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہم نے تمہارا مُردہ رکھ کر کیا کرنا ہے۔ تم اس کو اٹھا کر لے جاؤ اور اپنا روپیہ بھی تم اپنے پاس رکھو1 ۔ لیکن یہ وہ گورنمنٹ ہے جو کہتی ہے کہ ہم ایک بڑے ملک کی گورنمنٹ ہیں۔ جو کہتی ہے کہ رعایا ہماری فرمانبردار رہے۔ کیا یہی طریقے فرمانبرداری کے حصول کے ہوتے ہیں؟ اور کیا یہ طریق حکومت کرنے کے ہوتے ہیں کہ بے گناہ شہریوں کو مارا جائے؟ بے قصور شہریوں کو قتل کیا جائے اورپھر ان کی لاشوں کی تذلیل کی جائے اور گڑھوں میں بغیر گوروکفن کے دفن کر دیا جائے؟ بہرحال وہ مرنے والے مر گئے اور ہر حالت میں انہوںنے مرنا ہی تھا۔ اب وہ ہماری یادگار اور ہماری تاریخ کی امانت ہیں اور ہماری جماعت اُن کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گی۔ اور اگر وہ بے نام ہیں تب بھی وہ احمدیہ تاریخ میں زندہ رہیں گے اور احمدی نوجوان اُن کے واقعہ کو اپنے سامنے رکھ کر ہمیشہ قربانی کی روح اپنے اندر تازہ رکھیں گی۔ پس وہ مرے نہیں زندہ ہیں۔ خدا کرے اُن کی قربانی ضائع نہ جائے بلکہ ہماری جماعت کے افراد ان سے سبق حاصل کریں اور ا س قسم کی قربانی کے لئے ہر احمدی تیار ہے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان حالات اور واقعات کے بعد بھی ہماری جماعت میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ اب بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سُستی پائی جاتی ہے۔ اب بھی قربانی سے گریز کا مادہ اس میں نظر آتا ہے۔ بیسیوں آدمی ہیں جو بہانے بنا بنا کر قربانی سے بچنا چاہتے ہیں۔ آج ہی بیرونی جماعتوں کی طرف سے جو خطوط ملے ہیں اُن میں بعض اِس قسم کے بھی خطوط تھے جن میں حفاظتِ مرکز کی سکیم کا ذکر کرتے ہوئے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ملازم کے لئے یہ حکم نہیں ہو سکتا۔ آخر ملازم تین ماہ کے لئے کس طرح جا سکتا ہے۔ اور اگر وہ ملازمت ترک کر دے تو یہ شریعت کے خلاف ہے۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ اگر ہم جائیں تو ہماری تجارت کو نقصان پہنچے گا۔ مگر جہاں اِس قسم کے بہانہ ساز ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں وہاں ایسے مخلصین بھی ہیں جو بیرونی جماعتوں سے یہاں پہنچ چکے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ قادیان پہنچیں۔ اور کئی ایسے ہیں جو وہاں پہنچ کر اپنے فرض کو ادا کر چکے ہیں۔ گویا ان کی وہی حالت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ 2۔ کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے ارادوں کو پورا کر دیا ہے اور مقصد کو پالیا اور کچھ اس انتظار میں ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بہرحال اِن دنوں کے آنے کے بغیر مومن اور منافق کی تمیز نہیں ہو سکتی تھی۔ آج مومن اور منافق بالکل الگ الگ ہو گئے ہیں۔ا ور عجیب بات یہ ہے کہ منافق ہی سب سے زیادہ اپنے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ہیں جو خود بھی آ گئے ہیں، اپنے بچوں کو بھی لے آئے ہیں اور پھر یہاں آ کر اپنے بچوں کو چھپاتے پھرتے ہیں کہ کوئی اُن کو دیکھ نہ لے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اخلاص کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے چلے جاتے ہیں۔ کاش! انہیں اتنی عقل ہوتی کہ ہم ایسے احمق نہیں کہ اُن کی اِس قسم کی منافقانہ تحریروں سے دھوکا کھا جائیں۔ مَیں تمہیں کہتا ہوں یہ دن باتیں کرنے کے نہیں ۔ تم اپنی مالی اور جانی قربانیاں پیش کرو اور اپنے اخلاص کا عملی ثبوت دو۔ صحابہؓ میں سے جو قربانیاں پیش کیا کرتے تھے وہ اُن قربانیوں کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا کرتے تھے۔ صر ف ایک مالکؓ ہیں جنہوں نے بدر کے حالات سن کر کہا تھا کہ اگر میں ہوتا تو بتاتا کہ کس طرح لڑائی کی جاتی ہے۔ مگر دوسرے صحابہؓ نے اِس بات پر بھی بُرا منایا۔ لیکن وہ منفرد مثال ہے اور پھر وہ ایسی مثال ہے جس میں کہنے والے نے کر کے دکھادیا۔ اور جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کا اپنے عمل سے ثبوت دے دیا۔ حدیثوں میں آتا ہے جب احد کی جنگ میں فتح ہوئی اور مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو چونکہ مالکؓ نے دیر سے کچھ کھایا نہیں تھا اور بھوک لگی ہوئی تھی وہ ایک طرف بیٹھ کر مطمئن ہونے کی حالت میں چندکھجوریں کھا رہے اور اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک مقام پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک چٹان پر بیٹھے رو رہے ہیں۔ وہ عمرؓ کو روتا دیکھ کر حیران ہوئے اور کہا عمر! یہ رونے کا کون سا موقع ہے۔یہ توخوش ہونے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور اسے غلبہ حاصل ہوا۔ حضرت عمرؓ نے کہامالک! شاید تم کو معلوم نہیںکہ فتح کے بعد کیا ہوا۔ دشمن نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور چونکہ میدان میں تھوڑے سے آدمی تھے اُن میں سے کچھ مارے گئے اور کچھ دھکیل کر پیچھے ہٹا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس حملہ میں شہید ہو گئے۔ مالکؓ کے پاس اُس وقت ایک ہی کھجور تھی اور وہ اسے منہ میں ڈالنے ہی والے تھے کہ جب انہوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا عمرؓ! اگر یوں ہوا ہے تو پھر بھی رونے کی کوئی بات نہیں۔ اگر ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو کر اگلے جہان پہنچ چکے ہیں تو پھر ہمارا کام یہاں بیٹھ کر رونا نہیں ہمیں بھی وہیں چلنا چاہیئے جہاں ہمارا آقا ہے۔ پھر انہوں نے کہا میرے اورجنت کے درمیان سوائے اِس کھجور کے اور کیا چیز حائل ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے کھجور پھینکی، تلوار ہاتھی میںلی اور اکیلے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ بعد میں ان کی تلاش کی گئی تو وہ نہ ملے۔ مُردوں کی تلاش کی گئی تو اُن میں بھی نہ ملے۔ جب مُردے اٹھائے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک جسم کے مختلف ٹکڑے میدان میں بکھرے پڑے ہیں وہ ٹکڑے اکٹھے کئے گئے تو معلوم ہوا کہ70 ٹکڑے ہیں۔ اُس وقت مالکؓ کی ہمشیرہ نے ایک انگلی کے نشان سے پہچانا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے 3۔ تو مومن دعویٰ نہیں کرتا بلکہ اپنی قربانی پیش کرتا ہے۔ ہاں وہ صحیح قربانی ہوتی ہے اور نظام کے ماتحت ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کرنا اور یہی ہماری کمزوری کی وجہ ہے۔ اِسی وجہ سے پولیس او رملٹری ہمیں دھکیلتی چلی گئی۔ اس کے علاوہ بعض اَور غلطیاں بھی ہوئی ہیں مگر وہ نا تجربہ کاری کی بناء پر ہوئی ہیں۔ ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اخلاص کا قادیان والوں نے نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ سوائے کچھ منافقین کے جو بھاگ کر یہاں آ گئے ہیں یا سوائے کچھ منافقین کے جو وہاں جاسوسیاں کر رہے ہیں۔ یاسوائے کچھ منافقین کے جو وہاں گھبرا رہے ہیں اور نکلنے کے لئے بے تاب ہیں۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ نظام کے ماتحت پہلے عورتوں اور بچوں کو نکالا جائے گا۔ اس کے بعد بوڑھوں کو نکالا جائے گا۔ سلسلہ کے کارکنوں کو نکالا جائے گا۔ اور باقیوں کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں سے بھی ایک حصہ کو قرعہ کے ذریعہ باہر آ کر آرام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اور ایک حصہ وہاں مرکز کی حفاظت کے لئے اُس وقت تک رہے گا جب تک حکومت اُن کو جبراً وہاں سے نکال نہیں دیتی۔ اگر حکومت ہمیں جبراً نکال دے تو پھر یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو چیز ہمیں خدا نے دی تھی وہ ہم نے پیش کر دی۔ جو چیز اس نے ہمیں نہیں دی ہم اُسے استعمال نہیں کر سکتے۔ حکومت ہمارے اختیار میں نہیں۔ اس لئے حکومت اگر جبراً ہمیں وہاں سے نکال دے گی تو پھر ہم پر کوئی الزام عائد نہیں ہو سکتا۔
بہرحال آج ہر احمدی سمجھ لے کہ اب احمدیت پر ایک نیا دَور آیا ہے۔ اور اب اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک نیا عہد کرنا پڑے گا۔ میرے نزدیک آج سے ہر مخلص کا خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں رہتا ہو یہ فرض ہے کہ وہ فوجی فنون سیکھے۔ اگر عارضی طور پر وہ فوجی ملازمت اختیار کر سکتا ہو تو عارضی طور پر اور اگر مستقل طور پر فوجی ملازمت اختیار کر سکتا ہو تو مستقل طور پر فوجی ملازمت اختیار کرے۔ کیا پتہ کہ کس وقت پاکستان پر حملہ ہو جائے۔ اُس وقت ہمارا پہلا فرض ہو گا کہ ہم پاکستان کی پوری پوری مدد کریں۔ ہندوستان میں جواحمدی ہوں گے اُن کے متعلق تو یہی قانون ہو گا کہ وہ ہندوستان یونین کے فرمانبردار رہیں۔ مگر جو پاکستان میں رہنے والے ہونگے اُن کا فرض ہو گا کہ وہ حکومتِ پاکستان کی مدد کریں او ردوسروں سے زیادہ جوش اور اخلاص اور ہمت سے پاکستان کی حفاظت کریں۔ اور اس ملک کو دشمن کے حملوں سے پوری طرح محفوظ رکھیں تا کہ اس ملک سے اسلام کا نشان مٹ نہ جائے۔ اور ایک ہزار سال کے بعد اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہو جائے۔اگرایسا ہوا تو یہ بڑی بھاری شرم کی بات ہو گی۔ بڑی بھاری ذلت کی بات ہو گی۔ بڑی بھاری رسوائی کی بات ہو گی۔ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اور اس امانت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
اس کے بعد مَیں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ نماز کے بعد مَیں اُن شہداء کا جنازہ پڑھونگا جن میں سے بعض کے نام ہمیں معلوم ہو سکے ہیں اور بعض کے نام ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔ دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مدارج کو بلند کرے۔ انہیں ہمیشہ ہمیش کی کامیاب زندگی بخشے اور انکے پسماندگان پر بڑے بڑے فضل نازل کرے۔ ان کی نسلوں کو اپنے حضور میں باریاب کرے اور ان کو عزت بخشے۔ رتبہ عطا کرے اور ان کی نسل، نسل در نسل ان کے نقشِ قدم پر چلتی ہوئی سلسلہ کے ارکان اور اس کے اکابر میں شامل ہو۔ اور وہ اسلام کی عزت اور اس کے اقتدار کے قائم کرنے میں مُمِد ہو۔ اسی طرح ہمیں دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کے ساتھ ہماری جماعت میںبھی اخلاص اور تقویٰ پیدا کرے، کمزوروں کو طاقتور بنائے اور جو منافق ہیں ان کی اصلاح کرے یا ان کو ہماری جماعت میں سے نکال دے۔ان کا نعم البدل ہمیں عطا کرے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم جلد اپنی کھوئی ہوئی متاع کو واپس لے سکیں اور اپنا کھویا ہوا وقار پھر حاصل کرلیں۔ اور اسلام پھر اپنی پوری شان اور عظمت سے اس ملک میں بڑھے۔ اور پھیلے اور پھلے اور پُھولے اور کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔‘‘ (الفضل 18؍ اکتوبر 1947ئ)
1: سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ265مطبوعہ مصر 1936ئ
2: الاحزاب:24
3: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ئ

37
بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے تبلیغ نہایت ضروری چیز ہے
(فرمودہ 17 اکتوبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’زندہ چیز ہمیشہ بڑھتی ہے اور بے جان چیز اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور مُردہ چیز گھٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ حیوان بڑھتا ہے، درخت بڑھتا ہے، پتھر اورلوہا اپنی شکل پر قائم رہتا ہے۔ اور بے جان حیوان، مُردہ حیوان اور مُردہ نباتات یہ چیزیں گھٹنی شروع ہو جاتی ہیں۔ جانور کا جسم تحلیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آخر اس کی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔ ایک بڑے سے بڑا پہلوان مرنے کے بعد اور تحلیل کا زمانہ آ جانے کے بعد صرف ایک مُشتِ خاک رہ جاتا ہے یا چند سیر ہڈیاں اس کی باقی رہ جاتی ہے۔ بڑے بڑے درختوں کے پتے سوکھ کر چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ اتنے چھوٹے کہ وہ پتے جو سارے درخت کو ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں سوکھ کر ایک چھوٹے سے بکس میں آ جاتے ہیں۔ غرض زندگی کی علامت ہے بڑھنا۔ بے جان ہونے کی علامت ہے اپنی جگہ پر کھڑے ہو جانا۔ اور بیجان سے مراد وہ چیز ہے جس میں جان پڑی ہی نہیں ہوتی اور مرنے والی چیز وہ ہے جس میں پہلے جان ہوتی ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس میں پہلے جان نہیں ہوتی اور اس لحاظ سے وہ بے جان ہوتی ہے اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ اور وہ چیز جس میں پہلے جان ہوتی ہے اور پھر نہیں رہتی وہ گھٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ مگر جس طرح لوگوں کو موت یاد نہیں رہتی اسی طرح انہیں یہ قانون بھی بُھولا رہتا ہے۔ ہر قدم پر کمزور افراد اور کمزور قومیں ٹھہرنا چاہتی ہیں ۔ وہ ذرا سا چل کر سانس لینا چاہتی ہیں اور خواہش رکھتی ہیں کہ انہیں آرام کرنے اور سستانے کا موقع مل جائے۔ حالانکہ اس دنیا میں سانس لینے کا کوئی موقع ہی نہیں جو ٹھہرے گا وہ گرے گا۔ جو شخص زندگی کی حرکات کو روک دے گا وہ مرے گا۔ اور جو مرے گا وہ سڑے گا۔
پس ہماری جماعت کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ انفرادی اعمال ہوں یا قومی اعمال ان میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ یہاں تک کہ ہر انسان کا عمل اس کے پہلے عمل سے بہتر ہو۔ اگر کسی شخص کی نماز میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اسے دوسرے دن اپنی نماز کو بہتر بنانا چاہیئے اور تیسرے دن اس کو اَور زیادہ بہتر بنانا چاہیئے۔ اگر کسی کو دین کی خدمت کا موقع ملے تو اسے کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسرے دن اسے اَور زیادہ خدمت کا موقع ملے۔ اور تیسرے دن اَور زیادہ خدمت کرے۔ اگر کسی شخص کو بنی نوع انسان کی خدمت کا موقع ملا ہے تو اسے کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسرے دن وہ اَور زیادہ خدمت کرے اور تیسرے دن پہلے دو دنوں سے بھی زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے۔ اگروہ اس حرکت کو قائم نہیں رکھے گا تو مرے گا اور جو مرے گا وہ سڑے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنی حالت کو قائم رکھ سکے۔ اِسی طرح قومی زندگی اور اخلاقی زندگی کا حال ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے اخلاق کو بڑھاتا رہے۔ ورنہ اس میں وحشت اور درندگی پیدا ہو جائے گی۔ خدا تعالیٰ کی محبت کا بھی یہی حال ہے ۔ اگر وہ اس محبت کو نہیں بڑھائے گا تو خدا تعالیٰ کے سارے نشانات، خدا تعالیٰ کی ساری مہربانیاں اور خدا تعالیٰ کے سارے سلوک دیکھنے کے باوجود اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہو گی۔ وہ خدا کانام بھی لے گا۔ اور اگر وہ نماز پڑھنے والا ہے تو 1بھی کہے گا جس کے معنی یہ ہیں کہ ساری تعریفیں اُس خدا کے لئے ہیں جس نے مجھ پر بھی احسان کئے، میرے باپ دادا پر بھی احسان کئے، ان کے باپ دادپر بھی احسان کئے۔ اسی طرح میرے رشتہ داروں، میرے عزیزوں اور میرے اہلِ ملک پر احسان کئے۔ بلکہ آدمؑ سے لے کر اب تک دنیا کے ہر انسان پر خواہ وہ کسی حصۂ زمین میں رہنے والا تھا وہ احسانات کرتا چلا آیا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ زبان سے یہی کچھ کہتا ہوگا اُس کے دل میں احسان مندی کا اتنا جذبہ بھی پیدا نہیں ہو گا جتنا ایک پیسہ کی مُولیاں دینے والے کے متعلق انسانی قلب میں پیدا ہوتا ہے۔ آخرتم میں سے کون شخص ایسا ہے جسے کبھی نہ کبھی کوئی تحفہ نہ ملا ہو۔ کبھی تمہارے بھائی بند گھر میں کھچڑی پکاتے ہیں تو تحفہ کے طور پر کچھ کھچڑی تمہیں بھی بھیج دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں آج ماش کی روٹی پکائی تھی جو تحفہ کے طور پر بھجوائی جا رہی ہے۔ آج بیسن کی روٹی پکائی تھی جو بھیجی جا رہی ہے۔ یا ہم باہر گئے تھے وہاں سے کچھ ترکاری لائے ہیں ایک گوبھی کا پھول آپ کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ یا ایک سیر مُولیاں یا گاجریں بھیجی جا رہی ہیں۔ کبھی اَور کچھ نہیں ملتاتو پانچ سات گنڈیریاںہی بھیج دی جاتی ہیں کہ یہ بچوں کے لئے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی تمہیں ملتی ہے تو تم غور کرو تمہارے اندر کوئی تغیر ہوتا ہے یا نہیں؟ جب دوچار سنگترے یا دو چار مالٹے یا پانچ دس گنڈیریاں یا سیر بھر مٹر یا دو سیر آلو یا گوبھی کے ایک دو پھول کوئی شخص تمہیں دیتا ہے تو تمہارے دل میں تحفہ دینے والے کے متعلق محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔ جذبہ ٔ احسان مندی بھی پیدا ہوتا ہے،شکریہ کااحساس بھی پیدا ہوتا ہے، خوشی کی ایک لہر بھی تمہارے اندر دَوڑ جاتی ہے اور تم ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کی قدر بھی اپنے دل میں محسوس کرتے ہو۔ اب تم یہ بھی سوچو کہ جب تم کہتے ہو تو کیا اُس وقت بھی یہی جذبات تمہارے دل میں پیدا ہوتے ہیں؟وہ جذبہ جو دو چار مالٹوں، پانچ دس سنگتروں، تین چار چقندروں، سیر بھر مُولیوں یا دو سیر گاجروں سے تمہارے اندر پیدا ہوتا ہے وہ کہتے وقت تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ تم ان الفاظ کے ذریعہ یہ کہہ رہے ہوتے ہو کہ خدایا! مَیں اقرار کرتا ہوں کہ تیرے مجھ پر بہت بڑے احسانات ہیں۔ اور نہ صرف مجھ پر بلکہ میرے باپ دادا پر، میرے رشتہ داروں اور عزیزوں پر، میرے اہلِ ملک پربلکہ دنیا کے ذرہ ذرہ پر تیرے احسانات ہیں۔ پھر اگر تمہیں کسی جگہ پھوڑا نکلتا ہے اور تمہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر یہ پھوڑا بڑھ گیا تو تم مہینہ بھر کام کے قابل نہیں رہو گے۔ تو اُس وقت تم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو جو تمہارا محبت اور پیار سے علاج کرتا ہے۔ بعض دفعہ اس لئے کہ وہ فرض شناس ہوتا ہے اور بعض دفعہ اِس لئے کہ تمہارے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔ جب پندرہ بیس دن کے علاج کے بعد تمہارا پھوڑا اچھا ہو جاتا ہے تو تمہارے دل میں شکر و امتنان کا کوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں؟ تمہارے دل میں کوئی حرکت پیدا ہوتی ہے یا نہیں؟ تمہارے جذبات میں کوئی ہیجان پیدا ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوتا ہے تو کبھی تم نے سوچا کہ پندرہ دن کے علاج کے ذریعہ تمہارے ہاتھ کو ناکارہ ہونے سے بچانے والے ڈاکٹر کے متعلق تو شکر و امتنان کے جذبات تمہارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر جب تم نماز میں کھڑے ہو کر یہ کہتے ہو کہ ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اقرار کرتے ہو کہ تمہیں ہاتھ بھی خدا نے دیئے، تمہیں پاؤں بھی خدا نے دیئے، تمہیں ناک بھی خدا نے دیا، تمہیں کان بھی خدا نے دیئے، تمہیں آنکھیں بھی خدا نے دیں،تمہیں زبان بھی خدا نے دی تو اُس خدا کے متعلق تمہارے دل میں کیا احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ تم خدا تعالیٰ کی عطا کردہ بیسیوں چیزوں میں سے صرف ایک کو پندرہ دن کے علاج کے ذریعہ بچانے والے ڈاکٹر کے متعلق جو احساس رکھتے ہو کیا وہ احساس یہ ساری چیزیں دینے والے خدا کے متعلق کبھی تمہارے دلوں میں پیدا ہوا؟ اگر نہیں ہوتا تو اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تمہارے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے۔ تم اللہ تعالیٰ کے احسانات کو تسلیم کرتے ہو مگر اُس کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ تم منہ سے کہتے ہو مگر تمہارے دل نہیں کہتے۔ تمہارے دماغ نہیں کہتے۔ او یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ زندہ ایمان ختم ہو گیا۔ اور تم پر یا تو جمود طاری ہو گیا ہے اور یا تم پر موت وارد ہو گئی ہے۔ جمود طاری ہونے کی وجہ سے تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو گے۔اور موت طاری ہونے کی وجہ سے تم میں تحلیل شروع ہو جائے گی۔
اِسی طرح علم کا حال ہے۔ علم پڑھانے والا انسان جو روزانہ اپنے علم کو استعمال کرتا ہے اُس کا اَور حال ہوتا ہے۔ اور جو شخص پانچ سات سال تک دوسروں کو پڑھانے سے محروم رہے اُس کا علم بعض دفعہ اتنا بھی نہیں رہتا جتنا اُس کے شاگردوں کو ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلے اُس کا علم ٹھہرا رہا اور پھر اس پر موت وارد ہو گئی ۔
یہی حال جماعتی نظام کا بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت اپنے نظام میں زیادہ سے زیادہ نہیں بڑھتی تو آخر اُس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر موت واردہو جاتی ہے۔ اس بڑھنے اور ترقی کرنے کے سلسلہ میں تبلیغ ایک ایسی چیز ہے جو بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ سارے مسلمانوں کو تبلیغ کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 2۔ تم سب سے بہتر اُمت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ اور اِس خیرِ امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تم لوگوں کو تبلیغ کرتے ہو، امر بالمعروف کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو۔ گویا مسلمانوں کے سب سے اچھے ہونے کے معنی یہی ہیں کہ وہ سب دنیا کو تبلیغ کرتے ہیں، اچھی باتوں کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اور بری باتوں سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ یعنی ان باتوں کی تعلیم دیتے ہیں جوقرآنی نقطہ نگاہ سے پسندیدہ ہیںاور اُن باتوں سے روکتے ہیں جو قرآنی نقطہ نگاہ سے ناپسندیدہ ہیں۔ یہ تین چیزیں ہیں جو ہمیں خیرِا ُمّت بناتی ہیں۔ مگر ہم شرطی جملہ میں سے صرف ایک بات لے لیتے ہیں اور دوسرے کو نظرا نداز کر دیتے ہیں۔ یا یوں کہو کہ ہم جزا کو لے لیتے ہیں اور شرائط کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہماری حالت بالکل اُس شخص کی سی ہے جسے کہا تو یہ جاتا ہے کہ کام کرو تو تمہیں مزدوری ملے گی۔ مگر وہ کام کرتا نہیں او ر مزدوری کا مطالبہ شروع کر دیتا ہے۔ ہم بھی اپنے آپ کو خیرِ اُمّت کہتے ہیں مگر تین باتیں جو قرآن کریم نے بتائی ہیں اُن پر عمل نہیں کرتے۔ گویا ہماری مثال اُس بے وقوف نوجوان کی سی ہے جس کا باپ مر گیا تو اُسے اور اُس کی ماں کو فاقے آنے شروع ہو گئے۔ ایک دن اُس کی ماں نے اسے کہا کہ بیٹا! باہر جاؤ اور کماؤ یہ حالت آخر کب تک رہے گی۔ جب وہ تیار ہو کر باہر جانے لگا تو ماں نے اسے کہا دیکھنا بیٹا! اپنی ساری تنخواہ مجھے بھیج دینا۔ اس نے کہا اگر مَیں ساری تنخواہ بھیج دوں گا تو خود کیا کروں گا؟ ماں نے کہا ملازمین کو وقتاً فوقتاً انعامات بھی ملا کرتے ہیں تم ان انعاموں کی رقوم سے گزارہ کر لیا کرنا۔ اس نے کہا مجھے کیا معلوم کہ انعام کس طرح ملا کرتا ہے؟ ماں نے کہا اگر اچھی طرح کام کرو گے تو تمہیں ضرور انعام ملے گا۔ اور اگر نہ ملے تو جب تم دیکھو کہ تمہارا آقا خوش ہے تو اُس وقت اُس سے خود بھی انعام مانگ لیا کرنا۔ بیٹے نے کہا مجھے یہ کس طرح پتہ لگے گا کہ اس وقت میرا آقا خوش ہے؟ ماں نے کہا جب آقا کسی بات پر ہنس پڑے تو تم سمجھ لینا کہ وہ خوش ہے۔ یہ تعلیم لے کر وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور کہیں جا کر ملازم ہو گیا۔ ایک دفعہ اس کا آقا کسی سفر کے لئے گیا تو اس لڑکے کو بھی اس نے اپنے ساتھ لے لیا۔ راستہ میں ایک جگہ ٹھہرے تو رات کو کچھ دیر جاگنے کے بعد آقا نے کہا کہ دیا گُل کر دو کیونکہ روشنی میں مجھے نیند نہیں آتی۔ لڑکے نے کہا حضور! آپ کو روشنی میں نیند نہیں آتی اور مجھے اندھیرے میں نیند نہیں آتی۔ آپ اپنے سر پر لحاف ڈال لیں تو دونوں کا کام بن جائے گا۔ آپ کے لئے اندھیرا ہو جائے گا اور میرے لئے روشنی رہے گی۔ ایک لڑکے کی زبان سے یہ جواب سُن کر آقا نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور سر پر لحاف ڈال کر لیٹ رہا۔ تھوڑی دیر گزری تو بارش شروع ہوگئی۔ کچھ وقفہ کے بعد اس نے یہ پتہ لگانا چاہا کہ بارش ابھی تک برس رہی ہے یا تھم چکی ہے۔ کیونکہ صبح اس نے سفر پر جانا تھا۔ چنانچہ اس نے لڑکے سے کہا۔ ذرادیکھنا تو سہی بارش ہو رہی ہے یا رک گئی ہے؟ لڑکے نے کہا حضور! بارش ہو رہی ہے۔ آقا نے کہا تمہیں کس طرح پتہ لگا؟ اس نے کہا ابھی ایک بلی میرے سرہانے کے پاس سے گزری تھی۔ مَیں نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ گیلی تھی جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ بارش ہو رہی ہے۔ پھرآقا نے کچھ دیر کے بعد کہا۔ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے ذرا اٹھ کر دروازہ بند کردو۔ لڑکے نے جواب دیا حضور! دو کام مَیں نے کئے تھے اب ایک کام آپ کر لیں۔ آقا یہ جواب سن کر ہنس پڑا۔ اِس پر وہ جھٹ کھڑ اہو گیا اور آقا سے کہنے لگا حضور! مجھے انعام دیجئے کیونکہ میری ماں نے کہا تھا کہ جب آقا خوش ہو تو اُس سے انعام مانگ لیا کرنا ۔
یہ کہانی کتنی ہی دفعہ ہماری مجلس میں سنائی گئی ہو گی۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے یہ کہانی سنی۔ لیکن ہم بار بار یہ کہانی سننے کے باوجود پھر بھی اس لڑکے کی حماقت پر ہنس پڑتے ہیں۔مگر کیا یہی حال ہمارا نہیں؟ کیا قرآن کریم نے 3 میں یہ صراحت نہیں کی کہ تم خیرِ اُمّت تب ہو جب یہ تین چیزیں تمہارے اندر پائی جائیں؟ مگر ہم تبلیغِ اسلام کرتے نہیں۔ اور ہم لوگوں کو نیک باتوں کی تلقین نہیں کرتے۔ اور ہم انہیں بری باتوں سے روکتے نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمانِ کامل کا ثبوت نہیں دیتے۔ لیکن جب کوئی ہم سے پوچھے تو ہم بڑے جوش سے کہتے ہیں کہ ہم خیرِ اُمّت ہیں۔ حالانکہ جس کام کے صلہ میں ہمیں خیرِ اُمّت کہا گیا تھا وہ کام ہم کرتے نہیں۔ قرآن کریم نے ہم کو صراحتاً بتایا تھا کہ ہماری طرف سے تم کو یہ مزدوری یا یہ انعام اس لئے ملے گا اور تم اس لئے دوسری قوموں سے بہتر قرار دیئے جاؤ گے کہ تم تین کام کرو گے۔ مگر ہم نتیجہ اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں اور شرط کو بھول جاتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کرنی چاہیئے اور تبلیغ ایسی ہونی چاہیئے جو اندرونی بھی ہو اور بیرونی بھی۔ تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو اچھی باتوں کی نصیحت کرے اور بُری باتوں سے روکے۔ تم میں سے ہرشخص کا فرض ہے کہ اگر تمہارا قریبی ہمسایہ یا تمہارا دُور کا ہمسایہ اسلام میں داخل نہیں تو اس کے سامنے اسلام پیش کرے۔ پھر صر ف ہمسایوں پر ہی بس نہیں اپنے تمام دوستوں اور عزیزوں اور رشتہ داروں تک اسلام کا پیغام پہنچاؤ۔ اپنے اہلِ ملک کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرو۔ اور کوشش کرو کہ دنیا کے ہر فرد تک تم اسلام کا پیغام پہنچا دو۔ اگر مسلمان اس نصیحت پر عمل کرتے تو آج نہ کوئی سکھ نظرآتا نہ ہندو۔ نہ فساد ہوتے نہ لڑائیاں۔ نہ ہندوستان کی تقسیم ہوتی اور نہ یہ جھگڑے پیدا ہوتے۔ بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان بنا ہوا ہوتا۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اب تک اس کا خیال نہیں آیا مگر اب جو مسلمانوں پر اتنا وبال آیا ہے کیا اس کے دیکھنے کے بعد بھی ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے خیرِ اُمّت کے لئے تین شرطیں بیان کی ہیں۔ جب یہ تین شرطیں ہم پوری کر لیں گے تب ہی خیرِ اُمّت کہلائیں گے ورنہ نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ4 ۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ اچھی چیزیں چھپا لیتے ہیں اور بُری چیزیں دے دیتے ہیں۔ اُس بخیل آقا کی طرح جس کے پا س پھل آتا ہے تو وہ سڑا ہوا او رردّی پھل چُن کر اپنے نوکر کو بلاتا اور اُسے پچکار کر کہتا ہے کہ تم یہ پھل کھالو۔ اور سمجھتا ہے کہ اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔ حالانکہ اصل بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ پھل اس نے پاخانہ میں نہ پھینکا اپنے نوکر کو دے دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مقام کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک تم خدا تعالیٰ کے لئے وہ چیز خرچ نہ کرو جس سے تم محبت اور پیار رکھتے ہو! دیکھو! یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اچھی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا اور بُری چیز کو پھینک دیتا ہے۔ اگر ہم دنیا کی ساری قوموں سے اچھے ہو جائیںتو کیا ہم خیال بھی کر سکتے ہیں کہ ہم تو اپنی اچھی چیزوں کو بچا لیا کرتے ہیں مگر ہمارا خدا نعوذ باللہ اتنا بے وقوف ہے کہ وہ اپنی اچھی سے اچھی چیز کو فنا کر دے گا؟ اگر ہم خیرِ اُمّت ہو جائیں گے تو یقینا ہمارا خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ کوئی آقا اپنا اچھا مال ضائع نہیں کیا کرتا۔
پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور تبلیغ پر زور دو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت تھوڑوں کو بھی حاصل ہوتی ہے اور بُہتوں کو بھی۔ وہ خود فرماتا ہے 5۔ کتنی ہی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ بھی قانون ہے کہ جب کوئی جماعت چھوٹی ہو تو اسے اپنی تعداد بڑھانے کے لئے ان لوگوں تک پہنچنا چاہیئے جو اس جماعت میں شامل ہونے سے محروم ہوں۔ اگر قرآن ساری دنیا کے لئے آیا ہے تو پھر قرآن ایک امانت ہے جس میں کچھ میرا حصہ ہے، کچھ میرے سکھ ہمسائے کا ہے، کچھ عیسائی ہمسائے کا ہے، کچھ ہندو ہمسائے کا ہے۔ اگر ہم نے قرآن اپنے گھر میں رکھ لیا ہے اور ہم محض اس بات پر خوش ہو گئے ہیں کہ ہمارے گھر میں قرآن آ گیا۔ مگر ہم ایک عیسائی، ایک ہندو اور ایک سکھ کا حصہ اسے نہیں دیتے تو ہم خدا تعالیٰ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے۔ اور کیا ہم ان کا حصہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے غدار اور بددیانت کہلائینگے یا مومن کہلائیں گے؟ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو سچا مومن بناؤ تا جلد سے جلد وہ امانت ادا ہو سکے جس کا ادا کرنا خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ رکھا ہوا ہے۔ اگر ہم اسلام کا وہ حصہ جو ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری تمام غیر اقوام کے لئے آیا ہے اُن تک پہنچا دیں تو پھر ان سے لڑائی کے کوئی معنی ہی نہیں رہ سکتے۔ وہ ہمارے بھائی بن جائیں گے اور نہ صرف ہمارا حق ہم کو دیں گے بلکہ جوشِ محبت اور اخلاص میں اپنا حق بھی ہمیں دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
مَیں نے جماعت کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ ہر شخص پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے۔ اور میں نے کہا تھا کہ جو لوگ اس فرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں وہ بغیر ایک پیسہ لئے اُسی طرح تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہو ں جیسے حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں کو کہا کہ ’’نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے۔ راستہ کے لئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کُرتے نہ جُوتیاں نہ لاٹھی۔ کیونکہ مزدوراپنی خوراک کا حقدار ہے۔ 6‘‘ درحقیقت اس میں تبلیغ کا صحیح راستہ بتایا گیا ہے۔ جو شخص تبلیغ میں بھی امارت کو اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ مبلغ نہیں بلکہ ایک ہلنے والا خزانہ ہے۔ مبلغ وہی ہے جو خالی ہاتھ جائے اور اخوت کے جذبات کے ساتھ جائے۔ اگر اس کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہوگا تو لازماً اسے روٹی کھانے کے لئے دوسروں کے پاس جانا پڑے گا۔ اور جب وہ کسی دوسرے شخص کے پاس اس غرض کے لئے جانے پر مجبور ہو گا کہ روٹی کھائے تو لازماً ہر غریب سے غریب انسان کے پاس وہ ایک بھائی کے طور پر جائے گا۔ اور ایک بھائی کے طور پر اس سے تعلقات رکھے گا۔ وہ غریب کی دلشکنی نہیں کرے گا۔ وہ اس سے تعلقات رکھنے پر ناک بُھوں نہیں چڑھائے گا۔ وہ خود بھی خالی ہاتھ ہو گا اور ان لوگوں سے ملنے میں بھی وہ کوئی عار محسوس نہیں کرے گا جو امارت سے تہی دست ہوں۔ پس مال کوگھر میں چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکلنا ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا تبلیغی ذریعہ ہے۔ جب اس کا مال اُس کے گھر میں ہو گا اور دوسری طرف وہ پندرہ دن کے لئے تبلیغ کے لئے باہر جائے گا تب اُس میں اخوت کے وہ جذبات پیدا ہوں گے جو امیر اور غریب کے تفاوت کو بالکل دور کر دیتے ہیں۔ اور ہر دیکھنے والا ایسے شخص کو دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ ہمارا اپنا بھائی ہے جو ہمارے ساتھ مل جُل کر رہتا ہے۔ کوئی الگ چیز نہیں۔ پس میں ایک دفعہ پھر جماعت میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے افراد سے تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن لیں۔ مگر شرط یہی ہو گی کہ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کہ تیری جیب میں کوئی پیسہ نہ ہو۔ اِسی طرح ان کی جیب میں کوئی پیسہ نہ ہو۔ وہ جس جگہ تبلیغ کے لئے جائیں اُسی جگہ کے رہنے والوں سے کھانا کھائیں اور انہیں تبلیغ کریں۔ اور اگر کسی گاؤں یا شہر والے کھانا نہ پوچھیں تو حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں وہ شہر ناپاک ہے تُو دوسرے گاؤں میں چلا جا۔ اور اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد تک جھاڑ دے۔ 7
یہ ایک نہایت ہی سچا ذریعہ تبلیغ کا ہے اور یہی طریق ہے جس پرعمل کرنے کی وجہ سے آج بھی عیسائیوں میں تبلیغ کا جو جوش پایا جاتا ہے وہ مسلمانوں میں نہیں۔ حالانکہ وہ جھوٹے ہیں اور مسلمانوں کا یہ تفاوت اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے کے حکم کو بُھلا دیا۔ لیکن عیسائیوں نے اِسے یاد رکھا اور منظم طریق پر تبلیغ کی کوشش کرتے رہے۔ بدھوں کا بھی یہی حال تھا۔ سارے ہندوستان میں انہوں نے اپنا جال پھیلا رکھا تھا۔ پھر ہندوؤں نے انہیں اسی طرح مارنا شرو ع کر دیا جس طرح آج مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو مارا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہندوستان سے چین او رجاپان چلے گئے اور ان ممالک میں بدھ مذہب پھیل گیا۔ اگر عیسائی مذہب دنیا میں پھیل سکتا ہے،اگر بدھ مذہب دنیا میں پھیل سکتا ہے تو اسلام جو کہ بہت سی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جو تمام مذاہب سے زیادہ عملی اور حسین ہے وہ کیوں پھیل نہیں سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے صحیح ذرائع سے کام لیا جائے۔ اگر تم اسلام کی اشاعت صرف کالجوں اور مدرسوں کے اندر کرو گے تو یہ ایک مذہب نہیں ایک سوسائٹی ہو گی اور سوسائٹی میں صرف چندآدمی داخل ہوا کرتے ہیں ساری دنیا داخل نہیں ہوا کرتی۔ لیکن اگر تم اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دے دو تو پھر جوق در جوق تمام دنیا کے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگ جائیں گے۔ پس اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دو۔ اور اسلام کی اشاعت کے لئے فقیرانہ رنگ اختیار کرو۔ پھر دیکھو کہ تمہاری تبلیغ کس سرعت اور تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔‘‘
خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا:۔
’’چونکہ مسجد میں جگہ تنگ ہے او رلوگ زیادہ تعداد میں آئے ہوئے ہیںا س لئے منتظمین کو چاہیئے کہ وہ آئندہ خطبہ کا کسی اَور جگہ انتظام کریں جو موجودہ جگہ سے زیادہ فراخ اور وسیع ہو۔ مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی شکایت ہے کہ وہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے خطبہ سننے کے لئے نہیں آ سکتیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ جب تک عورتوں کی اصلاح نہ ہوآئندہ نسل کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کسی وسیع جگہ کا جمعہ کیلئے انتظام کرنا چاہیئے تا کہ تمام عورتیں بھی شامل ہو سکیں اور مرد بھی۔ اس مسجد میں عورتوں کے لئے جو جگہ ہے ا س سے پندرہ بیس گُنا زیادہ جگہ صرف عورتوں کے لئے چاہیے اور مردوں کے لئے بھی موجودہ جگہ سے کم ازکم دُگنی جگہ ہونی چاہیئے۔ پس آئندہ خطبہ جمعہ کا کسی کھلی جگہ انتظام کیا جائے کیونکہ بہت سے لوگ جمعہ سننے سے محروم رہتے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ (الفضل 30 ؍اکتوبر 1947ئ)
1: الفاتحۃ: 2
2،3: آل عمران:111
4: آل عمران: 93
5: البقرۃ: 250
6: متی باب 10 آیت 9
7: متی باب 10 آیت 11تا14(مفہومًا)

38
ہمیں نئے حالات میں نئے جوش اور نئے ولولہ سے کام کرنا چاہیے
(فرمودہ 24 ؍اکتوبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے تمام دنیا سے زیادہ قابلیت بخشی ہے اور اس میں کائنات کے تمام اقسام کے جوہر اس میں بھر دیئے ہیں۔ اس میں نباتات کی خاصیتیں بھی ہیں، اس میں حیوانات کی خاصیتیں بھی ہیں اور اس میں جمادات کی خاصیتیں بھی ہیں، کبھی وہ اپنے استقلال اور عزم میں اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چٹان سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ انجیل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق انہی الفاظ میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ وہ کونے کاپتھر ہو گا۔ جس پر وہ گرے گا وہ بھی چِکنا چُور ہو جائے گااور جو اس پر گھرے گا وہ بھی چِکنا چُور ہو جائے گا 1۔ چونکہ کونے پر بوجھ زیادہ ہوتا ہے اور عمارت کی مضبوطی کونے کی مضبوطی پر منحصر ہوتی ہے اس لئے وہاں چُن کر مضبوط پتھر لگایا جاتا ہے۔ پس کونے کے پتھر کے معنی مضبوط پتھر کے ہیں۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ کونے کا پتھر ہو گا۔ جس پر وہ گرے گا وہ بھی چِکنا چُور ہو جائے گا۔ اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چِکنا چُور ہو جائے گا پھر انسان کے اندر نباتی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ اور نباتی صفات کے سلسلہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 2۔ اچھا درخت وہ ہوتا ہے جس کی جڑیں پاتال تک چلی جاتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیل جاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر یہ قابلیت بھی پائی جاتی ہے۔ خصوصاً ایک مسلمان کے اندر تو یہ قابلیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف وہ بنی نوع انسان سے نہایت اعلیٰ درجہ کے تعلقات رکھتا ہے تو دوسری طرف خدا تعالیٰ سے اس کے نہایت وسیع تعلقات ہوتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی محبت او ر اس سے وابستگی اس کے اندر انتہائی کمال پر پائی جاتی ہے۔ا س کی راتیں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت میں کٹ جاتی ہیںا ور اس کے دن اپنے بھائیوں کی خیر خواہی اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے میں بسر ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی صوفی سے کسی نے پوچھا کہ کون آدمی سب سے بہتر ہوتا ہے؟ اُس نے کہا بہتر آدمی وہ ہے جو ’’دست درکار و دل بایار‘‘ کا مصداق ہو۔ وہ نکمّا بیٹھنے والا نہ ہو، کام کرنے والا ہو، محنتی اور جفاکش ہو۔لیکن باوجود اس انہماک کے اور باوجود اس دنیا میں ایسے رنگ میں مشغول رہنے کے کہ لو گ سمجھتے ہوںیہ ایک لوہار ہے جو لوہارے کے کام میں مصروف ہے۔ یا ایک سنار ہے جو زرگری کے کام میں مصروف ہے۔ یا ایک معمار ہے جو معماری کے کام میں مشغول ہے۔یا ایک ڈاکٹر ہے جو ڈاکٹری کے کام میں مشغول ہے۔ اس کے دل کی آنکھیں آسمان پر اپنے محبوب کی طرف ہوتی ہیںاور خدا تعالیٰ کی یاد کسی لمحہ بھی اس کے دل سے محو نہیں ہوتی۔ یہ وہیکا نمونہ ہے کہ اس کی جڑیں ایک طرف زمین میں گہری چلی جاتی ہیں اور دوسری طرف اس کا دل ہر وقت آسمان پر اپنے محبوب کے پاس ہوتا ہے۔ وہ حیران بھی ہے یعنی وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی نسلیں پیدا کرتا اور بڑھاتا ہے۔ بلکہ یہ صفت اس حد تک اس کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے افکار اور خیالات بھی دوسروں تک پہنچاتا اور ان کو اپنے افکار اور خیالات کا قائل بنا لیتا ہے۔ اس طرح وہ روحانی نسل کے بڑھانے میں ایک ممتاز اور یگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ جسمانی نسل کے بڑھانے میں تو ایک کتّا اور بِلّا اور لومڑ بھی انسان کے شریک ہیں۔ مگر روحانی نسل کے بڑھانے میں انسان کا کوئی شریک نہیں۔ وہ درندہ صفت انسانوں کو لیتا اور انہیں بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے کمالات تک پہنچا دیتا ہے۔ وہ کلب صفت انسانوں کو لیتا اور ان کو ترقی دیتے دیتے نیکی اور پاکیزگی کے بلند ترین مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ غرض درندے، چرندے، حیوانات اور بہائم ایک کامل انسان کے پاس آ کر اپنی شکل بالکل تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کامل انسانوں کے پاس آتے ہیں تو ان کی ایسی کایا پلٹ جاتی ہے کہ وہ انسانوں کے لئے بھی قابلِ رشک بن جاتے ہیں۔ پہلے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں اور پھر وہ انسانوں کے لئے بھی قابلِ رشک ہو جاتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے انسان میں ساری صفات رکھی ہیں۔ یہ انسان کا اپنا قصور ہوتا ہے کہ وہ ان صفات سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اگر فائدہ اٹھائے تو یقینا وہ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ فرشتے بھی اس پر رشک کرنے لگ جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا ایسا محبوب بن جائے کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس کے مقابلہ میں دنیا کی کسی چیز کی پروا نہ کریں۔ مگر ضرورت ہے قربانی کی، ضرورت ہے محنت کی، ضرورت ہے اخلاص اور محبت کی۔ بہت لوگ دنیا میں آتے ہیں اور اپنی عمریں ضائع کر کے چلے جاتے ہیں۔ نہ وہ صحیح محنت کرتے ہیں۔ نہ صحیح جدوجہد سے کام لیتے ہیں، نہ اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ بہت لوگ کام تو کرتے ہیں مگر دن رات میں تین چار گھنٹے سے زیادہ نہیں کرتے۔ ان کا کچھ وقت سونے میں گزر جاتا ہے، کچھ کھانے پینے میں گزر جاتا ہے، کچھ کپڑے بدلنے میں گزر جاتا ہے۔ کچھ قیلولہ کرنے میں گزر جاتا ہے، کچھ پاخانہ پیشاب میں گزر جاتا ہے، کچھ ورزش میں گزر جاتا ہے، کچھ دوستوں کے ساتھ گپّیں ہانکنے میں گزر جاتا ہے۔ اور اصل وقت جو وہ کام پر صَرف کرتے ہیں وہ دو تین گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ دفاتر میں عموماً پانچ گھنٹے کام کیا جاتا ہے۔ مگر ان پانچ گھنٹوں میں سے بھی ملازم پیشہ لوگ اڑھائی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔ دفتر جائیں گے تو بجائے کام کرنے کے کبھی کاغذ اٹھا اٹھا کر پھاڑنے لگ جائیں گے۔ کبھی میز صاف کرنے لگ جائیں گے۔ کبھی سیاہی کو غور سے دیکھنے لگ جائیںگے۔ کبھی گپیں ہانکنے لگ جائیں گے۔ اِس طرح بہت سے لوگ پانچ گھنٹوں میں سے بھی نصف وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ اِسی لئے اُن کا ذہن ترقی نہیں کرتا اور نہ وہ قوم کے لئے کارآمد وجود ثابت ہوتے ہیں۔ کار آمد لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اُن کا دماغ ہر وقت ترقی کرتا رہتا ہے اور وہ قوم کے لئے اعلیٰ درجہ کے خدمت گزار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ کیونکہ دنیا اُن پر حکم نہیں چلاتی بلکہ وہ دنیا پر حکم چلاتے ہیں۔ اور ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول کو بدل کر رکھ دیں۔
درحقیقت دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول کوبدل دیں۔ اور یہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماحول کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ ادنیٰ قسم کے ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اِن دونوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ گویا اگر غور سے کام لیا جائے تو دنیا میں تین قسم کے لوگ نظر آئیں گے۔
(1) کچھ لوگ تو ماحول کے ماتحت ہوتے ہیں۔ انہیں اس ماحول میں سے نکال دو تو ان کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔
(2) کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر ماحول کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ انہیں کسی ماحول میں لے جاؤ وہ اپنی پہلی حالت کو قائم کر لیتے ہیں یا اس سے بہتر حالت اختیار کر لیتے ہیں۔
(3)کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماحول کو بدل کر اسے اپنے مطابق بنا لیتے ہیں۔ انہیں کہیں ڈال دو، دنیا کے کسی خطہ میں پھینک دو انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ ہر ماحول کوبدل کر اسے اپنے منشاء کے مطابق بنانے کی کامل استعداد اور قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جیسے سورج نکلتا ہے تو وہ خود ہی نہیں نکلتا بلکہ دنیا کے گوشے گوشے اور درو دیوار کو منور کر دیتا ہے۔ چاند نکلتا ہے تو وہ آپ ہی نہیں نکلتا بلکہ دنیا کو بھی روشن کر دیتا ہے۔ ہوائیں چلتی ہیں تو وہ آپ ہی نہیں چلتیں بلکہ ساری چیزوں کو ہلانے لگ جاتی ہیں۔ زلزلے آتے ہیں تو ان کے ذریعہ زمین کے اندر صرف ایک رَو ہی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ عمارتیں اور مکان بھی ہلنے لگ جاتے ہیں۔غرض طاقتور چیز میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول کو بھی بدل کر رکھ دیا کرتی ہے۔ درمیانی درجہ کی چیز وہ کہلاتی ہے جو ہر ماحول میں اپنی پہلی حالت کو قائم کر لیتی یا اس سے بہتر حالت اختیار کر لیتی ہے۔ اور ادنیٰ درجہ کی چیز وہ ہوتی ہے جسے اُس کے ماحول سے بدل دو تو وہ سُوکھ کر رہ جاتی ہے۔ مگر اصل کارآمد وجود وہی لوگ ہوتے ہیںجو ہر قسم کے ماحول کو بدل کر اپنے منشاء کے مطابق ماحول بنانے کی قابلیت رکھتے ہوں ۔ اس سے نیچے اتر کر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں کسی ماحول میں ڈال دیا جائے وہ اپنی پہلی حالت قائم کر لیتے ہیں۔ اور ادنیٰ ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے لئے ایک ماحول سے دوسرا ماحول اختیار کرنا سخت متعذّر ہوتا ہے۔ جیسے گول کیک دوسرا ماحول اختیار نہیں کر سکتا۔ اگر ایک گول کیک تم کسی دوسرے برتن میں ڈالو تو وہ اس کے مطابق اپنی شکل اختیار نہیں کرے گا بلکہ اس کے گوشے اِدھر اُدھر سے ٹوٹ جائیں گے اور اس کی شکل ویسی ہی رہے گی جیسے پہلے تھی۔ اس کے مقابلہ میں جو چیز بدلے ہوئے ماحول میں اس سے فائدہ اٹھانے لگتی ہے وہ درمیانی درجہ کی چیز ہوتی ہے او ر اس کی مثال ایک تخمی درخت کی سی ہوتی ہے۔ درخت کی گٹھلی لگائی جاتی ہے تو کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے اُکھیڑ کر اُسے دوسری جگہ لگایا جاتا ہے۔ پھروہاں سے اُکھیڑ کر اُسے تیسری جگہ لگایا جاتا ہے۔ اور یہ بار بار اُکھیڑنا اور دوسری جگہ لگانا مُضِر نہیں ہوتا۔ بلکہ ماہر باغبان جانتے ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ پھل وہی درخت دیتا ہے جسے کم از کم چھ دفعہ ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگایا گیا ہو۔ پہلے وہ گٹھلی لگاتے ہیں اور جب چھ ماہ کا عرصہ اُس پر گزر جاتا ہے تو اُس گٹھلی کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ بو دیا جاتا ہے۔ چھ ماہ کے بعد اس پودے کو وہاں سے بھی اُکھیڑ کر تیسری جگہ لگایاجاتا ہے۔ اور جب پھر چھ ماہ گزر جاتے ہیں تو اسے وہاں سے اُکھیڑ کر چوتھی جگہ لگایا جاتا ہے۔ اور پھر چھ ماہ گزرنے پر اسے پانچویں جگہ لگایا جاتا ہے۔ اور مزید چھ ماہ گزرنے پر اسے چھٹی جگہ لگایا جاتا ہے۔ اِس طرح بار بار اس کی جگہ تبدیل کی جاتی ہے۔ اور جب کم از کم چھ دفعہ کسی درخت کی جگہ کو تبدیل کیا جائے تب اُس کا پھل نہایت میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر باغبان تخمی آم اور تخمی پودوں کی جگہ بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک بار بار درخت کی جگہ کو بدلا نہیں جائے گا کبھی اچھا پھل نہیں آسکے گا۔ بلکہ جب تک پیوند کا طریق نہیں نکلا تھا درخت سے اُسی قسم کا درخت پیدا کرنے کے لئے یہی طریق اختیار کیا جاتا رہا۔ تخمی درخت کبھی اس قسم کا پھل نہیں دیتا جس قسم کی گٹھلی ہوتی ہے۔ مثلاً لنگڑے آم کی گٹھلی یا ثمرِبہشت کی گٹھلی لگاؤ تو ضروری نہیں کہ اس کے نتیجہ میں لنگڑا یا ثمرِ بہشت ہی پیدا ہو۔ حیوانوں میں تو یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ کُتّے کا بیٹا کُتّا ہی ہوتا ہے۔ مگر درختوں میں یہ قاعدہ نہیں۔ درخت بالعموم اَور نسل کا ہوتا ہے اور اُس کی گٹھلی کے ذریعہ جو درخت نکلتا ہے وہ اَور نسل کا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دفعہ اس کی اپنی طاقت کم ہو جاتی ہے اور مٹی کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جو چیز نکلتی ہے وہ اصل سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ جو گٹھلی تم نے بوئی ہے وہ تو میٹھے آم کی ہو اور نکل آئے کھٹّا آم۔ یا گٹھلی کھٹّے آم کی ہو اور نکل آئے میٹھا آم۔ یا جس پھل کی تم نے گٹھلی بوئی ہے وہ تو بہت چھوٹا سا ہو مگر اس کے نتیجہ میں بڑا پھل پیدا ہو۔ یا تمہارے پھل کا قد تو بہت بڑا تھا مگر زمین سے ایسا درخت پیداہوجس کا پھل بہت چھوٹا ہو۔ لیکن اگر جگہ بدل دی جائے تو ایک خاص نسبت ایسے آموں کی ہوتی ہے جو اپنی اصل شکل پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جب تک پیوند کا طریق جاری نہیں ہوا تھا اُس وقت تک آموں کو اصل شکلوں پر لانے کے لئے یہی طریق مروّج تھا کہ چھ چھ سات سات آٹھ آٹھ دس دس جگہ پودے کو بدلتے چلے جاتے تھے۔ مَیں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے ۔ مجھے ایک خاص قسم کے آم کی تلاش تھی۔ مگر جس شخص کے پاس اُس آم کا درخت تھا وہ پیوند نہیں دیتا تھا۔ آخر میں نے ایک دوست کو لکھا کہ مجھے فلاں قسم کا کچھ پھل بھیج دیں۔ انہوں نے 12 آم بھیج دیئے۔ ان میں سے کچھ تو رستہ میں ہی سڑ گئے۔ صرف چھ آم سلامتی کے ساتھ پہنچے۔ میں نے سندھ میں وہ لگوا دیئے اور ہدایت کی کہ پانچ پانچ چھ چھ دفعہ ہر پودے کی جگہ بدلی جائے۔ اب اُس کے پودے نکلے ہیں اور دو تین نے پھل بھی دیئے ہیں۔ ایک نے تو ناقص پھل دیا ہے۔ مگر ایک بالکل اپنے اصلی پھل کے طور پر پھل دینے لگ گیا ہے۔ اور تیسرا بہت حد تک اس کے مشابہہ ہے۔ممکن ہے ایک دو سال تک اس کا پھل بھی اصل پھل کے مشابہہ ہو جائے تو جگہ بدلنا درخت کے لئے نہایت ضروری چیز سمجھا گیا ہے اور اسی سے اس کی اندرونی قابلیتوں کا پتہ چلتا ہے۔
فلسفہ کا مسئلہ ہے کہ SURVIVAL OF THE FITTEST یعنی جتنی قابلیت کسی چیز ہوگی اُتنی ہی وہ محفوظ رہے گی۔ مثلا ً جتنا تندرست بچہ ہو گا اُتنا ہی وہ بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ اور جتنا تندرست پودا ہو گا اُتنا ہی وہ حوادثِ دہر کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ اس کے مقابلہ میں بیمار بچہ اور بیمار درخت وباؤں اور بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے او رجب بیماری کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں ہو گی تو لازماً وہ مریں گے بھی زیادہ۔ غرض SURVIVAL OF THE FITTEST کی رو سے جوچیز جگہ بدلتی اور اپنے آپ کو قائم رکھتی ہے اُس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس میں بڑھنے کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ اور اس میں ہمت اور استقلال کا بھی مادہ ہے۔ اس وقت سارے مسلمانوں پر ایک مصیبت کا دَور آیا ہوا ہے اور ہم بھی اس دور میں سے گزر رہے ہیں۔ مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے درخت اپنی جگہ سے اُکھیڑ ے جاتے اور پھر دوسری جگہ اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ ان کا پھل پہلے سے زیادہ لذیذ اور میٹھا ہو۔ اِس وقت دنیا نے دیکھنا ہے کہ ہماری پہلی ترقی آیا اتفاقی تھی یا محنت اور قربانی کا نتیجہ تھی۔ اگر تو وہ اتفاقی ترقی تھی اور ہماری محنت اور قربانی کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا تو یہ یقینی بات ہے کہ ہم دوبارہ اپنی جڑیں زمین میں قائم نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر پہلی ترقی اتفاقی نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور ہماری کوششوں اور محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ تھی تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ موجودہ مصیبت ہمارے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ بلکہ اس کے ذریعہ سے ہماری جڑیں اَور بھی پاتال میں چلی جائیں گی اور ہماری شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔
یہ امر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے دو قسم کے فضل ہوا کرتے ہیں۔ ایک رحمانیت والا اور ایک رحیمیت والا۔ ایک فضل وہ ہوتا ہے جو بغیر انسانی کوشش اور جدوجہد کے محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے جیسے ابوجہل کیسا گندہ اور ناپاک وجود تھا۔ مگر پھر بھی اسے قوم کی سرداری مل گئی۔ قوم کی سرداری اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ مگر یہ نعمت ابوجہل کو کیوں ملی؟ اس لئے نہیں کہ اس کی کوشش اور محنت کا اس میں دخل تھا۔ بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کا ابوجہل سے بھی سلوک کیا اور اسے اس نعمت سے حصہ دے دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے بعض فضل ایسے ہوتے ہیں جو صفتِ رحیمیت کے ماتحت نازل ہوتے ہیں۔ ان میں یہ شرط ہوتی ہے کہ انسان کوشش کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید رکھے۔ اس طرح ہماری گزشتہ ترقیات اگر ہمارے اعمال سے وابستہ تھیں اور خدا تعالیٰ کی صفتِ رحیمیت نے ہمیں ترقی عطا فرمائی تھی تو یہ لازمی بات ہے کہ جیسے اچھا درخت دوسری جگہ اَور بھی میٹھا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہم احمدیت کا درخت ایسے طور پر لگائیں گے کہ اس کاپھل پہلے سے بھی زیادہ لذیذ اَور میٹھا پیدا ہونے لگے گا۔ لیکن اگر ہم میں یہ قابلیت نہ ہو گی کہ ہم نئے ماحول میں اپنے لئے اعلیٰ مقام بنا سکیں تو جیسے کمزور پودا جب دوسری جگہ لگایا جاتا ہے تو وہ پنپ نہیں سکتا اِسی طرح ہماری حالت ہو گی اور ہم بھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ پس ہماری جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہئیں اور نئے حالات میں نئے جوش اور نئے ولولہ سے کام کرنا چاہیے۔
دیکھو تمہارا یہ دعویٰ تھا کہ تم تمام دنیا کو فتح کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور تمہارا یہ دعویٰ تھا کہ دنیا کی تمام قومیں احمدیت سے برکت حاصل کریں گی۔ تم اس دعویٰ کو اپنے سامنے رکھو اور پھر سوچو اور غور کرو کہ تمہیں اپنے اندر کتنی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کتنے بڑے عزم اور کتنے بڑے حوصلہ کی ضرورت ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرا جانا اور عورتوں کی طرح رونے بیٹھ جانا یہ کسی مومن کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت پر اس وقت ایک مصیبت آئی ہے۔ لیکن یہ مصیبت ایسی نہیں جس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں پہلے سے خبر نہ مل چکی ہو۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا اس طرف صریح طور پر اشارہ کر رہا تھا اور گو اس رؤیا کے اَور معنی ہماری جماعت پہلے کرتی رہی ہے اور وہ معنی بھی اپنی جگہ پر درست تھے مگر اس کے دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنا رہے ہیں۔ 4 ہو سکتا ہے اس رؤیا میں اسی زمانے کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہو جب قادیان کے آسمان اور زمین کو دشمن نے بدل دینا تھا اور بتایا گیا ہو کہ تم اپنے لئے ایک آسمان اور زمین بناؤ گے مگر دشمن اسے تباہ کر دے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ تمہیں پھر توفیق دے گا کہ تم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بناؤ۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب وہی وقت آ گیا ہے جب کہ ہمیں ایک نئے آسمان اور نئی زمین کی ضرورت ہے۔ لیکن فرض کرو یہ پیشگوئی اِس وقت کے لئے نہیں۔ تب بھی ایک بیٹا اپنے باپ کی صفات اپنے اندر ضرور رکھتا ہے، اگر ایک کتورہ اپنے باپ کی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے اگر ایک بکرا اپنے باپ کی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے تو کیا اشرف المخلوق انسان اور پھر ایسا انسان جو کہتا ہے کہ میں دنیا کو فتح کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں، جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خدا اور بندے کی صلح کے لئے مامور ہے اور جس نے اِس زمانہ میں ایک نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ وہ اپنے روحانی باپ کی خصوصیات اپنے اندر نہیں رکھے گا؟ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ آؤ ہم ایک نیا آسمان او ر نئی زمین بنائیں تو مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے کیوں اس قابل نہیں ہوسکتے کہ وہ دنیا کو ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنا کر دکھا دیں۔اور یقینا وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کی جائے اور محنت سے کام لینے کی عادت ڈالی جائے ۔ سُست رہنا، اپنے فرائض سے غافل رہنا اور وقت کو ضائع کر دینا یہ بہت بڑی آفت ہوتی ہے۔ا س آفت سے نکلنے کی کوشش کرو اور اُن بہادروں میں اپنے آپ کو شامل کرو جو دنیا کو تبدیل کر دیا کرتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ تم سے اِس وقت یہ کام لینا چاہتا ہے۔ اور جب خدا کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو وہ اس میں اُس کام کی قابلیت بھی ضرور رکھتا ہے۔ ہاں جب وہ قوم خدا تعالیٰ سے اپنا منہ بالکل موڑ لے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے تباہ کر دیتا اور اس کی جگہ ایک نئی قوم لے آتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کا ساتھ نہیں دو گے تو اللہ تعالیٰ ایک اَور قوم لے آئے گا اور تمہیں اس ثواب سے محروم کرد ے گا۔ 5 لیکن جب تک کوئی قوم تھوڑا بہت بھی کام کرتی ہے خدا تعالیٰ کی مدد اسے حاصل رہتی ہے۔ بشرطیکہ وہ رضا بِالقضا کی عادت ڈال لے اور سمجھ لے کہ وہ ایک آلہ اور ہتھیار ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے اُس سے کام لے۔یہی اصل ایمان کی علامت ہوتی ہے اور اِسی ایمان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں۔
حضرت امام حسنؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ سوال کیا کہ کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔پھر انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کو خدا تعالیٰ سے محبت ہے؟ حضرت علیؓ نے کہا ہاں اللہ تعالیٰ سے بھی محبت ہے۔ حضرت امام حسنؓ نے کہا۔ پھر تو آپ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مشرک ہوئے۔ آپ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرتے ہیں اور مجھ سے بھی۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا۔ مَیں مشرک ہرگز نہیں۔ بے شک مجھے خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہے او ر تم سے بھی۔ لیکن اگر یہ دونوں محبتیں کسی وقت ٹکرا جائیں تو میں تمہاری محبت کی ذرا بھی پروا نہیں کرونگا بلکہ اسے بے کار سمجھ کر الگ پھینک دونگا۔ پس یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ کامل انسان وہ ہوتا ہے جسے کسی سے محبت نہ ہو، پیارنہ ہو، یا وہ کسی دکھ پر غم محسوس نہ کرتا ہو۔
احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک نواسہ ایک دفعہ شدید بیمار ہوا اور اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ آخر ایک دن جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلس میں تشریف فرما تھے آپ کی بیٹی نے آپ کو اطلاع بھجوائی کہ لڑکے کی حالت سخت نازک ہے آپ تھوڑی دیر کے لئے تشریف لائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس وقت کسی سے گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے کلام کو قطع کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیغامبر واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کی لڑکی نے پھر پیغام بھجوایا کہ حالت زیادہ خراب ہے جلدی تشریف لائیں۔مگرآپ نے پھر بھی توجہ نہ فرمائی۔ آخر تیسری دفعہ پھر پیغام آیا۔ جب تیسری دفعہ پیغام آپ کے پاس پہنچا تو آپ لڑکے کی حالت دیکھنے کے لئے اندر تشریف لے گئے۔ جب آپ گئے اُس وقت لڑکے پر نزع کی حالت طاری تھی۔ آپ نے بچے کو ہاتھ میں اٹھا لیا اور آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایک صحابیؓ جو آپ کے ساتھ ہی کھڑے تھے انہوں نے آپ کو روتے دیکھا تو حیران ہو کر کہا یا رسول اللہ! آپ خدا کے رسول ہو کر ایک بچے کی موت پر روتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا نے میرے دل میں شفقت اور رأفت پیدا فرمائی ہے۔ اگر تمہارا دل ان جذبات سے عاری ہے تو مَیں کیا کر سکتا ہوں6 توجہاں تک جذبات کا سوال ہے کوئی نبی اور ولی اور بزرگ جذبات سے عاری نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر نبی، ہر ولی اور ہر بزرگ خوشی سے خوشی اور غم سے غم محسوس کرتا ہے۔ اور جوشخص ایسا کہتا ہے کہ فلاں بزرگ یا فلاں صوفی غم سے غم اور خوشی سے خوشی محسوس نہیں کرتا وہ بزرگ او ر صوفی نہیں بلکہ مکار اور فریبی اور دھوکے باز انسان ہے۔ خدا تعالیٰ کے انبیاء بھی اور صدیق، شہید اور صالح بھی سب تکلیف پر تکلیف اور غم پر غم اور خوشی پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جو چیز انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے کامل طور پر تابع کر دیتے ہیں۔ گویا اکیلا غم ان پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہر غم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا احساس بھی اُن کے دلوں میں تازہ ہو جاتا ہے۔
پس تم اپنے قلوب میں تبدیلی، اپنے ارادوںمیں پختگی اور اپنے کاموں میں استقلال پیدا کرو۔ تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی ہمارے ایمان کا مظاہرہ ہواور دنیا کے سامنے بھی ہم جلد سے جلد اپنی جڑیں زمین کی پاتا ل تک پہنچا کر اسے دکھا سکیں کہ ہمارا درخت پہلے سے بہت زیادہ اونچا ہو گیا ہے اوراس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ مگرا س کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قادیان کا خیال اپنے دل سے نکال دیں گے۔ وہ ہماری چیز ہے اور یقینا ہمیں مل کر رہے گی۔ لیکن ہم ایسے بزدل بھی نہیں کہ اپنی کمرِ ہمت توڑ کر بیٹھ جائیں۔ ہم اپنے یار ِوفا دار کے غدّار نہیں ہیں کہ جب اُس نے ہم پر ایک مصیبت نازل کی ہے تو بجائے خوشی سے اس کو قبول کرنے کے ہم عورتوں کی طرح بیٹھ کر قادیان کو روتے رہیں۔ قادیان کو قادیان والا سنبھالے گا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور اس کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو اس طرح قربان کردیںاور اسلام کی خدمت اور اس کے دوبارہ احیاء کے لئے اپنے آپ کو اس طرح وقف کریں کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے امکانات زیادہ سے زیادہ روشن ہو جائیں۔ اور اسلام کا جھنڈا اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشہ میں لہراتا ہوا نظر آئے۔ آمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔‘‘ (الفضل 31؍ اکتوبر 1947ئ)
1: متی باب 21آیت 42تا44(مفہومًا)
2: ابراہیم: 25
3: الاعراف: 180
4: تذکرۃ صفحہ193ایڈیشن چہارم
5: (التوبۃ:39)
6: بخاری کتاب الْمَرْضیٰ باب عبادَۃ الصِّبْیَان

39
انبیاء کی جماعتیں بغیر عظیم الشان ابتلاؤں کے ترقی نہیں کیا کرتیں
(فرمودہ 31 ؍اکتوبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’انسان کی عقل کا اندازہ بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ خطیب کا رخ اپنے مخاطبوں کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن آج جو لاؤڈ سپیکر لگایا گیا ہے اس میں خطیب سے یہ خواہش کی گئی ہے کہ وہ باہر کی طرف منہ کر کے بولے اور اس کے تمام مخاطب مرد اور عورت اس کے بائیں کندھے کی طرف ہوں۔ لگانے والے کو پتہ تھا کہ لوگ اِس طرف بیٹھے ہیں اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ خطیب کی آنکھیں اُس کے ماتھے میں ہیں کان میں نہیں۔ مگر نہ معلوم کس خیال سے اس نے اس طرح لاؤڈ سپیکر لگا دیا ہے کہ اگر مَیں اُدھر منہ کر کے بولوں اور جو دھامل بلڈنگ کو مخاطب کروں تب تو اُس کی غرض پوری ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ مومن کی شان یہ بھی ہے کہ وہ ہوشیار ہونا چاہیئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نما ز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ فرماتے صَفُّوْا صُفُوْفَکُمْ 1 اپنی صفیں ٹھیک کرو۔ پھر آپ فرماتے کہ اگر تم نے اپنی صفیں ٹھیک نہ کیں تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے2۔ دیکھو نظام کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کتنا خیال رکھا ہے کہ آپ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اگر تم نے نظام کی پابندی نہ کی تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیںگے یعنی تمہاری عقل کمزور ہو جائے گی۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جو غلطی آنکھوں سے نظر آر ہی ہو اُسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو میں بھی ضرب المثل ہے کہ ’’آنکھوں دیکھے مکھی نہیں کھائی جاتی‘‘ جو غلطی صاف طور پر نظرآ تی ہے اگر اسے کوئی شخص برداشت کر لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عقل اور سمجھ کمزور ہے ۔ اور جس کی عقل اور سمجھ کمزور ہو وہ ہدایت کی بھی پروا نہیں کیا کرتا اور یہ نہایت خطرناک بات ہے ۔ پس چھوٹی چھوٹی چیزوں کو یہ کہہ کر نہیں چھوڑ دینا چاہیئے کہ یہ چھوٹی ہیں بلکہ ہر کام میں نظام اور حُسنِ انتظام کا خیال رکھنا چاہیئے۔
اس کے بعدمیں دوستوں کو دو ایسے الہاموں کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو تین چار دن ہوئے مجھ پر نازل ہوئے ہیں۔ تین دن کی بات ہے مجھے الہام ہوا کہ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو تکلّف سے نیکی ظاہر کرتا ہے۔ یعنی وہ نیک تو نہیں لیکن وہ دعویٔ خیر اور دعویٔ تقویٰ کرتا ہے۔ یہ آیت قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے متعلق آتی ہے۔ لوط علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو مخاطب کیااور انہیں پیغام دینا شروع کیا اور خدا تعالیٰ کا پیغام انہیں پہنچا کر ان کو باہر سے آنے والے لوگوں پر ظلم کرنے اور تجارت میں دھوکا بازی کرنے سے منع کیا۔ تو قرآن کریم میں آتا ہے انہوں نے حضرت لوطؑ سے حضرت لوطؑ کے ماننے والوں کے متعلق کہا 3 یہ لوگ بڑے نیک بنتے ہیں۔ مطلب یہ کہ نیک نہیں مگر ہماری باتوں پر اعتراض کرکے اپنی بڑائی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں اس الہام کا ظاہر انطباق ہندوستان یونین کے اُن افسروں پر ہوتا ہے جو بڑے انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں مگر صراحتاً جھوٹ سے کام لیتے ہیں۔ قادیان پر حملہ ہوا، سارے اکابر گرفتار کئے گئے، ہماری مقدس درس گاہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یادگار تھیں اُن پر قبضہ کر لیا گیامکانات لُوٹ لئے گئے جائیدادیں اپنے قبضہ میں لے لی گئیں اور ہندوؤں اور سکھوں کو ہمارے مکانات اور زمینوں پر بسا دیا گیا۔اور احمدی ایک چھوٹی سی جگہ میں محصور ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اِسی طرح دو سو سے زیادہ احمدی شہید کئے گئے۔ مگر ہندوستانی ریڈیو برابر یہ اعلان کرتا رہا کہ ہمارے ذمہ دار افسر قادیان گئے ہیں اور انہوں نے رپورٹ کی ہے کہ یہاںکوئی فساد نہیں۔ پچھلے دنوں قادیان سے دوستوں نے لکھا ہے کہ مِس سارا بائی جو گاندھی جی کی نمائندہ تھیں یہاں آئی تھیں۔ اور انہوں نے حالات کو دیکھ کر تسلیم کر لیا ہے کہ سرکاری رپورٹیں بالکل غلط ہیں اور احمدیوں کی باتیں درست ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ عورت بڑی شریف اور باانصاف معلوم ہوتی ہے مگر کل عزیز مرزا مظفر احمد نے سیالکوٹ سے اطلاع دی ہے کہ لیڈی مؤنٹ بیٹن یہاں تھیں اور ان کے ساتھ مِس سارا بائی بھی تھیں۔ ان سے قادیان کے حالات دریافت کئے گئے تو انہوں نے کہا تم جانتے ہی ہو کہ احمدیوں کی رپورٹیں مبالغہ آمیز ہوتی ہیں۔ پھر جنرل تھمایا وہاں گئے تو انہوں نے بھی احمدیوں کے سامنے کہہ دیا کہ آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں بالکل درست ہے ہمارے افسروں نے غلط رپورٹیں کر کے ہمیں شرمندہ کیا ہے۔ مگر ہندوستانی ریڈیو پر جنرل تھمایا کی رپورٹ کی بناء پر یہ اعلان کیا گیا کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوا۔ تو کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو منہ سے تو کہتی ہے کہ ہم سچ بولتے ہیں مگر ہے بڑی کذاب۔ پس ایک تو اِس الہام کا یہ مفہوم ہے اور شاید ہمیں اس الہام کے ذریعہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایسے افسروں کی باتوں پر تمہیں اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ لیکن اس الہام کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ جماعت کے بعض دوست اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔ وہ منہ سے کچھ کہتے ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ وہ منہ سے تو کہتے ہیں ہماری جان دین کے لئے قربان ہے اور ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے اور قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کمزوری دکھاتے اور کئی قسم کے بہانے بنانے لگتے ہیں۔
دوسرا الہام کل ہی ہوا جو تہجد سے کچھ دیر پہلے مجھ پر نازل ہوا ۔ اس کے الفا ظ یہ تھے کہ ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ قادیان کے متعلق ہی میں دعا کر رہا تھا کہ یکدم یہ الہام میری زبان پر جاری ہوا اور پھر کافی دیر تک جاری رہا۔ قرآن کریم میں یہ آیت تین دفعہ آئی ہے۔ مگر تینوں جگہ العَزِیْزُ الْعَلِیْم کے الفاظ آتے ہیں۔لیکن جو الفاظ مجھ پر الہاماً نازل ہوئے ان میں العَزِیْزُ الْعَلِیْمکی بجائے العَزِیْزِ الرَّحِیْمِ کے الفاظ آتے ہیں۔یعنی ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ اس الہام کے الفاظ تو ظاہری ہی ہیں اور عبارت میں بھی کوئی پیچیدگی نہیں۔ مگر چونکہ آیت کا سیاق و سباق بھی ایک نئے معنی پیدا کر دیا کرتا ہے اس لئے میں نے قرآن کریم میں دیکھا کہ 4 کس سیاق و سباق میں آتا ہے۔ اس کے دیکھنے سے مجھے ایک عجیب بات معلوم ہوئی جس کی طرف پہلے میرا ذہن نہیں گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ ذَالِکَ تَقْدِیْرُ العَزِیْزِ الْعَلِیْم قرآن کریم میں تین دفعہ آیا ہے۔ سورہ انعام میں آیا ہے۔ سورہ حٰم ٓ سجدہ میں آیا ہے اور سورہ یٰسین میں آیا ہے۔ جب مَیں نے ان تینوں جگہوں کو ایک وقت میں دیکھا تو مجھے یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ تینوں جگہ اس آیت سے پہلے نظامِ عالَم کا ذکر آتا ہے۔ اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون کبھی بدلا نہیں کرتا۔ یہ توخیر ایک نیا مضمون ہے جسے کبھی ان آیتوں کی تفسیر کرتے وقت انشاء اللہ بیان کر دیا جائے گا ۔سرِدست مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے میرا ذہن چونکہ اس آیت کے سیاق و سباق کی طرف نہیں گیا تھا اس لئے انفرادی طور پر اس آیت کے جو معنی ذہن میں آ سکتے تھے وہی آتے تھے۔ مگر اب چونکہ مجھے تینوں مقامات ایک ہی وقت میں دیکھنے پڑے اس لئے اس آیت کے ایک نئے معنی سامنے آ گئے جو زنجیر کی کڑیوںکی طرح سیاق و سباق کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے تھے۔ اور ظاہر ہوتا تھا اور تینوں مقامات میں سے پہلے جو ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے اور اس مضمون کے بعد یہ آیت نازل کی گئی ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ درحقیقت یہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کے متعلق لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں ترتیب نہیں۔ حالانکہ قرآن کریم کی ترتیب اتنی واضح ہے کہ بعض دفعہ دو دو، چار چار سال کے وقفہ کے بعد آیات نازل ہوئی ہیں مگر جب بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ سیاق و سباق کے لحاظ سے اُس کا پہلی نازل شدہ آیات کے ساتھ نہایت گہرا ربط تھا۔ ایک ترتیب تو اِس رنگ کی ہوتی ہے کہ مثلاً یہ مضمون بیان کیا جائے کہ موسیٰ ؑ بھاگ کر فلسطین کی طرف آ گئے۔یہ مضمون جب بھی بیان کیا جائے گا ہر شخص کہے گا کہ اس سے پہلے ضرور فرعون کا ذکر ہو گا۔ یہ واقعاتی ترتیب ہوتی ہے جس میں کوئی خاص کمال نہیں ہوتا۔
قرآن کریم کا کمال اِس بات میں ہے کہ بعض دفعہ وہ عام الفاظ استعمال کرتا ہے۔ا یسے الفاظ جن کے لاکھوں معنی لئے جا سکتے ہیں مگر پھر وہ الفاظ جن آیات میں آتے ہیں وہ سیاق و سباق سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک خاص مضمون کی طرف اشارے کر رہے ہوتے ہیں۔ عام معنی اُس جگہ مراد نہیں ہوتے۔ مثلاً میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر زمین کے متعلق بھی ہوسکتی ہے ،آسمان کے متعلق بھی ہو سکتی ہے،....٭ تجارت کے اچھا ہونے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تجارت کے بگڑ جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بیٹے کے اچھا ہو جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بیٹے کے مر جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی شادی ہو جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی شادی رُک جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی بیوی کے مر جانے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور اس کے لمبی دیر تک زندہ رہنے کے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔
غرض دنیا کے اربوں ارب افعال میں سے ہر فعل کے متعلق تقدیر ہو سکتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مقامات میں جہاں بھی تقدیر کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی نظامِ عالَم کا ذکر کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ ہمارا ایک خاص قانون دنیا میں جاری ہے۔ اس قانون کا ذکر کرنے کے بعد ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ کے الفاظ استعمال کرنا بتاتا ہے کہ گو یہاں عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ مگر اس کے معنی عام نہیں بلکہ اس جگہ وہی معنی مراد ہیں جو سیاق و سباق کو ملحوظ رکھنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص ترتیبِ مضامین میں ان الفاظ کا بیان کرنا اور متعدد مقامات پر ایک ہی مضمون کے بعد ان الفاظ کا ذکر کرنا بتاتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے والے خدا نے ہر لفظ کمال حکمت کے ساتھ نازل کیا ہے۔ اور جس مقام پر بھی کوئی آیت رکھی گئی ہے وہ مقام اپنے مضامین کی ترتیب کے لحاظ سے اُسی آیت کا متقاضی تھا۔ اگر اس آیت کو الگ کر دیا جائے تو تمام ترتیب بگڑ جائے اور قرآنی حُسن جاتا رہے۔ قرآن کریم کا کمال یہ ہے کہ باوجود اِس کے کہ کوئی آیت پہلے سال نازل ہوئی، کوئی دوسرے سال نازل ہوئی، کوئی تیسرے سال نازل ہوئی، کوئی چوتھے سال نازل ہوئی۔ پھر بھی ان آیات کو جب اکٹھا دیکھاجاتا ہے تو ہر آیت کا پہلی آیات کے ساتھ او رہر سورۃ کا پہلی سورتوںکے ساتھ ایک گہرا ربط اور تعلق معلوم ہوتا ہے۔ یہ مقدرت یقینا کسی انسان کو حاصل نہیں اور نہ کوئی انسان اپنی قوتِ حافظہ کی مدد سے ایسا کر سکتا ہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں وہ لوگ جن کو سارا قرآن کریم حفظ ہوتا ہے اور جو دن رات قرآن کریم پڑھتے رہتے ہیں اُن کی بھی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے حافظ صاحب! ذرا فلاں آیت توپڑھ کر سنائیں تو وہ ایک دو رکوع پہلے سے تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب انہیں کہا جائے کہ یہ کیا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ مَیں شروع سے پڑھتا ہوں درمیان میں وہ آیت بھی آ جائیگی۔ یوں اکیلے کسی آیت کا پڑھنا مشکل ہے۔ حالانکہ اُن کی ساری عمر قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں گزری ہوتی ہے۔ یہ تو آیات کا حال ہے۔ اگر آیات کا مضمون ان سے دریافت کیا جائے تو بہت ہی کم حفاظ بتانے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اور اگر بتادیں تو پھر انہیں یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ آیات کن مضامین کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
حافظ روشن علی صاحب مرحوم جب تک زندہ رہے۔ میرا طریق یہ تھا کہ جب بھی تقریر کے لئے نوٹ تیار کرتا حافظ صاحب کو پاس بٹھا لیتا اور کہتا کہ حافظ صاحب! فلاں فلاں مضامین کی آیات بتاتے جائیں مَیں نوٹ کرتا جاؤں گا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں ہی میری تقریر تھی۔ میں قریباً دو گھنٹہ تک اُن سے متعدد امور کے متعلق آیات دریافت کرتا رہا۔ جب پوچھ چکا تو 15، 20 آیتیں انہوں نے لکھوا دیں۔ تو حافظ صاحب کہنے لگے آپ نے مجھ سے اتنا کام لیا ہے اب یہ تو بتائیں کہ آپ کا مضمون کیا ہے اور ان آیات سے آپ کیا ثابت کریں گے۔ مَیں نے کہا یہ مَیں وہاں تقریر میں چل کر بتاؤںگا پہلے نہیں۔ تو باوجود آیتیں پوچھنے کے پھر بھی انسان کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا کہ ان آیات سے کیا استدلال کیا جائے گا یا کس غرض کے لئے انہیں استعمال کیا جائے گا۔ جیسے مَیں نے ساری آیتیں حافظ صاحب سے پوچھیں۔ مگر حافظ صاحب نے بعد میں کہہ دیا کہ مجھے تو کچھ بھی پتہ نہیں لگا کہ آپ نے کیا مضمون بیان کرنا ہے۔ حالانکہ انہیں قرآن کریم حفظ تھا اور رات دن حفظ ِقرآن ہی ان کا کام تھا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی بے شک قرآن کریم حفظ تھا مگر یہ علم کہ فلاں آیت کا ٹکڑا فلاں مقام پر رکھا جائے اور فلاں ٹکڑا فلاں مقام پر۔ یہ علم انسانی طاقت سے بالا ہے۔ اور یقیناعالم الغیب ہستی ہی ایسا کر سکتی تھی اور اسی نے قرآن کریم کو یہ ترتیب بخشی ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم تیس پاروں میں پھیلا ہوا ہے اور باوجود اس کے کہ قرآنی آیات مختلف وقتوں میں نازل ہوئیںپھر بھی ایک خاص ترتیب تمام آیات اور تمام سورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اور جب کوئی خاص مضمون ایک جگہ بیان کرنے کے بعد کسی آیت کا ذکر کیا گیا ہے تو دوسری جگہ پر اگر پھر وہی مضمون بیان کرنا پڑا ہے تو اُسی آیت کو دُہرا دیا گیا ہے۔ جیسے یہ آیت ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ یہ ایک خاص مضمون کے بعد ہر مقام پر بیان ہوئی ہے۔ ایک مقام پر خدا تعالیٰ کا قانون جو نظامِ عالَم کے متعلق ہے ا س کا ذکر کرنے اور سورج او ر چاند کا ایک خاص حساب کے ماتحت چلنے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذَالِکَ تَقْدِیْرُ العَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔دوسری جگہ پھر سورج کے ایک خاص مقصد کے لئے چلنے کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر فرمایا گیا ہے۔ ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ تیسری جگہ بھی یہ ذکر ہے کہ آسمان پر ہم نے چاند ستارے خاص خاص کاموں کے لئے بنائے ہیں اور پھرفرمایا ہے ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ گویا آسمانی قانون کے ایک خاص نہج پر جاری ہونے اور ایک خاص طریق پر رونما ہونے اور غیر متغیر طور پر نافذ العمل ہونے کا ذکر کر کے اس آیت کو دُہرایا گیا ہے۔ اس سے مَیں نے سمجھا کہ اس جگہ تقدیر سے وہ تقدیر مراد ہے جو اٹل قانون کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے اٹل قانون جو دنیا کی پیدا ئش اور زمین و آسمان کے خلق سے تعلق رکھتے ہیں۔اب دنیا کی پیدائش کے اٹل قانونوں میں سے یا یوں کہو کہ انسانی پیدائش اور اس کی روحانی ترقی کے ساتھ تعلق رکھنے والے قانونوں میں سے ایک قانون یہ ہے جس کاقرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ 5۔ یقینا خدا تعالیٰ کی جماعتیں ہی غالب آیا کرتی ہیں۔ اِسی طرح اُس کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبیوں کی مخالفت کرنے والے چاہے عارضی طور پر کامیاب ہی کیوں نہ ہوں آخر تباہ اور برباد ہو جاتے ہیں۔چونکہ میں اُس وقت جماعت کے فتنوں اور قادیان کے متعلق دعا کر رہا تھا مَیں نے یہ الہام اُسی کے متعلق سمجھا۔ لیکن چونکہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے۔ اچھی بھی اور بُری بھی اس لئے ضروری تھا کہ الہام میں ایسے الفاظ ہوتے جن سے پتہ چلتا کہ وہ تقدیر جس کا الہام الہٰی میں ذکر کیا گیاہے اچھی ہو گی یا بُری۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِکہہ کر بتا دیا کہ یہ تقدیر جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں رحمت والی ہے۔ خواہ بظاہر یہ تقدیر تمہیں کتنی ہی خلاف نظر آئے، تمہارے دلوں کو خواہ کتنی ہی تکلیف پہنچے، تمہارے دل خواہ تھرتھرا جائیں، متزلزل ہو جائیں اور گھبرا جائیںپھر بھی یاد رکھو جو کچھ ہوا ہے ایک ایسے قانون کے مطابق ہوا ہے جو کبھی ٹلا نہیں کرتا۔ اس لئے میں تمہارے احساسات کی پروا نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اگر میں تمہارے احساسات کی پروا کرتا تو میرا قانون ٹوٹ جاتا۔ جو کچھ میںکر سکتا تھا وہ یہ تھا کہ میرا قانون بھی جاری ہو جائے اور تمہارے لئے بھی رحمت کا ذریعہ بن جائے۔ چنانچہ مَیں نے ایسا کر دیاذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ یہ ایک اٹل قانون تھا اور اس کا جاری ہونا ضروری تھا۔
یہ اٹل قانون یہی ہے کہ انبیاء کی جماعتیں بغیر عظیم الشان ابتلاؤں کے ترقی نہیں کیا کرتیں۔ آج تک کوئی ایک نبی بھی دنیا میں ایسا نہیں گزرا جس کی جماعت نے ہجرت نہ کی ہو۔ جسے ماریں نہ پڑیں ہوں۔ جسے قتل نہ کیا گیا ہو۔ جسے صلیبوں پر نہ لٹکایا گیا ہو۔ اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قول کے مطابق بعض دفعہ آروں سے نہ چِیرا گیا ہو۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کے پاؤں رسیوں کے ساتھ اونٹوں سے باندھ دیئے جاتے۔ اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میںدوڑا کر اُن کو چِیر دیا جاتا۔ اِسی طرح عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر اُن کو ماراجاتا۔ مال و اسباب اور جائیدادوں کا نقصان لو۔ تو یہ بھی انہیں پہنچا۔ ان کے مال لُوٹے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا گیا اور ان کا اسباب ان سے چھین لیا گیا۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جب فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کس گھر میں ٹھہریں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ مَیں کس گھر میں ٹھہروں گا۔ کیا میرے عزیزوں نے میرے لئے کوئی گھر چھوڑا ہے ؟6 تو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی گھر بھی نہ رہا اور خدائی تقدیر پوری ہوئی۔ اِسی طرح ہم پر خدا تعالیٰ کی ایک اٹل تقدیر جاری ہوئی ہے۔
لوگ سمجھتے تھے کہ محض چندے دے کروہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیں گے۔ حالانکہ چندوں کا جو کچھ حال ہے وہ مَیں ابھی بیان کروں گا۔ پھر بھی وہ سمجھتے تھے کہ چند روپے دے کر وہ متقی اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو جائیں گے انہیں کوئی مزید قربانی نہیں کرنی پڑے گی۔ وہ اس سلسلہ کو سلسلہ الہٰیہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک ایسوسی ایشن سمجھتے تھے۔ ویسی ہی ایسوسی ایشن جیسے ریڈ کراس وغیرہ۔ حالانکہ نبیوں کی جماعتیںکبھی پِیسے جانے، مٹائے جانے اور ہرقسم کے دکھ اور عذاب دیئے جانے کے بغیر پنپ نہیں سکتیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں میں جو کیریکٹر اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے وہ بغیر مار کے، ان کا بُھرکس نکال دینے کے اور کسی طرح پیدا ہی نہیںہو سکتا۔ اِس وقت ہی دیکھ لو۔ جماعت پر کتنا بڑا ابتلاء آیا ہے۔ مگر پھر بھی یہ حالت ہے کہ بعض لوگ یہاں آ کر چوریاں کرتے پھرتے ہیں۔ انہیں اِتنا خیال نہیں آتا کہ وہ گھروں سے نکالے گئے، جائیدادوں سے بے دخل کئے گئے مال و املاک چھین لئے گئے، کسی کی ماں، کسی کی بہن، کسی کی لڑکی اور کسی کے اَور رشتہ دار مارے گئے۔ بعض لڑکیوں کو سکھ اغوا کر کے لے گئے اور وہ اب سکھوں کے گھروں میں بیٹھی بدکاری کروا رہی ہیں۔ مگر اس عظیم الشان ابتلاء کے باوجود دلوںمیں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا۔ اور بعض لوگ یہاں آ کر کسی کا سائیکل چُرا لیتے ہیں اور کسی کی کوئی اَور چیز اٹھا لیتے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تمہیں ابھی کتنی اَور لاٹھیاں کھانے کی ضرورت ہے۔ا گر انسان کے اندر ذرا بھی تقویٰ اور ایمان ہو اور وہ پہلے ان گناہوں میں مبتلا رہ چکا ہو تب بھی ان حالات کو سن کر ہی اس کا دل ڈر جاتا ہے۔ کُجا یہ کہ وہ تمام حالات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اصلاح کاخیال نہ کرے اور گناہوں کی طرف قدم بڑھاتا رہے۔ پھر ابھی ایسے گندے لوگ بھی ہماری جماعت میں موجود ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہندو اور سکھ کا مال ہے اسے چُرانایا اپنے استعمال میں لانا کوئی حرج کی بات نہیں۔ انہیں ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ جب ہم اپنے مال کے متعلق یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص اُسے چُرا کر لے جائے۔ بلکہ جب کوئی شخص ہمارا مال چُرا لیتا یا لُوٹ لیتا ہے تو ہم اسے بُرا بھلا کہتے ہیں۔ تو اگر ہم خود دوسرے کا مال لُوٹنے لگیں گے تو یہ کون سی شرافت ہو گی۔ اِس وقت ہم جس کو ٹھی میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ ہندوؤںکی ہے او ر ہمیں عارضی طور پر رہائش کے لئے ملی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نیک بخت کے گھر کی حفاظت کریں جس کے مکان میں ہمیں سر چھپانے کو جگہ ملی ہے۔ اور اس کی چیزوں کی حفاظت کریں۔ نہ یہ کہ اسے ضائع کرنے لگ جائیں۔ مگر بعض احمدیوں کے متعلق رپورٹ ملی ہے کہ وہ ایک ہندو کے مکان میں ٹھہرے تو اس کا مال اٹھا کر لے گئے۔ محض اس لئے کہ وہ ایک ہندو کا مال ہے۔ اگر ہندو کا مال اٹھانا تمہارے لئے جائزہے تو مسلمان کا مال اٹھانا ہندو کے لئے کیوں جائز نہیں۔ آخر تمہارا مذہب اَور ہے اور اس کا مذہب اَور ہے۔ اگر تم اختلافِ مذہب کی وجہ سے دوسرے کا مال اٹھانا جائز سمجھتے ہو تو اِسی اختلافِ مذہب کی وجہ سے وہ تمہارا مال کیوں نہیں اٹھا سکتا۔ تمہیں اس کے مال اٹھانے پر بھی کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہیئے۔ مگر جب وہ تمہارا مال اٹھاتا ہے تو تم اعتراض کرتے ہو۔ اور جب تم خود اُس کا مال اٹھاتے ہو تو تمہیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ تمہیں غور کرنا چاہیئے کہ دنیا میں وہ قانون جاری کرنا جس سے فساد کبھی مٹ نہیں سکتا کیا یہ کسی شریف انسان کا کام ہو سکتا ہے؟ اگر معمولی سے معمولی شرافت بھی کسی انسان کے اندر پائی جاتی ہو تو وہ ایسے افعال کے ارتکاب سے بچتا ہے جو فتنہ و فساد کو ہوا دینے والے ہوں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں ایسے کمزور لوگ ابھی موجود ہیں جو اس مصیبت کے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی خشیت سے کام نہیں لیتے۔ حالانکہ چاہیئے تھا رات کو روتے روتے تمہاری آنکھیں سوج جاتیں، سجدے کرتے کرتے تمہارے ماتھے گِھس جاتے اور دعائیں کرتے کرتے تمہاری زبانیں خشک ہو جاتیں۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اس مصیبت میں بھی ہندو کامال اٹھا لیتے ہو۔ اور جب ایک ہندو کا مال اٹھاتے ہو تو ساتھ ہی کسی احمدی کا بھی اٹھا لیتے ہو۔ اس خیال سے کہ احمدی کا مال برکت والا ہے۔ شاید ہندو کے مال کے ساتھ مل کر وہ اسے پاک کر دے گا۔ جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث کس طرح ہو سکتے ہو۔ اور چوری کی عادت اختیار کرتے ہوئے یہ امیدکس طرح کر سکتے ہو کہ تمہیں خدا تعالیٰ اپنا مقرب بنا لے گا۔ جب کوئی شخص چور بنتا ہے تو پھر وہ چوری سے رُک نہیں سکتا۔ جو شخص چور ہے اس نے اگر آج ایک ہندو کا مال چُرایا ہے تو کل وہ اپنے باپ کا مال چُرائے گا۔ پرسوں وہ اپنی ما ںکا مال چُرائے گا۔ اترسوں وہ اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ہاں ڈاکہ ڈالے گا۔ کیونکہ اسے چوری کی عادت ہو گی اور یہ عادت اسے مجبور کرے گی کہ کسی نہ کسی کے ہاں ضرور چوری کرے۔
مثل مشہور ہے کہ دو چار دن کسی چور کو چوری کا موقع نہ ملے تو وہ اپنی عادت پوری کرنے کے لئے ایک جیب سے چیزیں نکال کر دوسری جیب میں ڈالنی شروع کر دیتا ہے۔ پس یہ ایک خطرناک عیب ہے جو ہماری جماعت کے افراد کو جلدسے جلد دور کرنا چاہیئے۔ اِسی طرح زمینداروں کے متعلق جنہیں مختلف جگہوں میں بسانے کے لئے بھجوایا جاتا ہے یہ شکایت موصول ہو رہی ہے کہ وہ پہلے ایک گاؤں میں جاتے اور وہاں سے غلہ، برتن اور کپڑے وغیرہ اکٹھے کرتے ہیں۔ اور پھر راتوں رات غائب ہو کر کسی دوسرے گاؤں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں سے برتن، کپڑے اور غلہ وغیرہ اکٹھا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور عذر یہ کرتے ہیں کہ فلاں گاؤں کی زمین اچھی نہیں اس لئے ہم وہاں نہیں رہے۔ گویا لوگوں نے تو اُن پر رحم کھا کر انہیں غلہ، کپڑے اور برتن وغیرہ دیئے۔ اور انہوں نے یہ طریق اختیار کر لیا کہ پہلے ایک جگہ سے برتن اور کپڑے وغیرہ لئے پھر دوسری جگہ گئے اور وہاں سے لئے۔ اس کے بعد تیسری جگہ چل دیئے اور وہاں سے برتن، کپڑے اور غلہ اکٹھا کرنا شروع کرد یا۔ گویا ظاہر تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہمیں جگہ پسند نہیں اور اصل میں برتن اور غلہ جمع کرتے پھرتے ہیں۔ مجھے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ایسا بعض جگہ احمدیوں نے بھی کیا۔ یہ حالت نہایت ہی افسوسناک ہے اور بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے بعض افراد نے اپنے قلوب میں ذرا بھی تغیر پیدا نہیں کیا۔ حالانکہ جس شخص کا سارا مال چلا گیا ہواُس کے دل سے تو دنیاکی حرص بالکل مٹ جانی چاہیئے اور اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ جوکچھ ہے اللہ تعالیٰ کا ہے۔ میرا کسی چیز پر حق نہیں۔ اور اس کے اندر عزتِ نفس اور خود داری کا احساس پیدا ہونا چاہیئے۔ یہ احساس اگر تمہارے دلوں میں پیدا ہو چکا ہوتا تو مَیں سمجھتا کہ موجودہ فتنہ سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن جب ابھی تمہارے دلوں میں کوئی احساس ہی پیدا نہیں ہوا تو تم آئندہ ابتلاؤں سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو۔
یہ امر یاد رکھو کہ جب تک یہ باتیں دور نہیں ہو نگی تم خدا تعالیٰ کی سچی جماعت میں شمار نہیں ہو سکو گے۔ جب خدا تعالیٰ نے دنیا میں اپنی ایک جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور تم اس دعویٰ کے ساتھ آگے آئے ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کی جماعت بن کر دکھائیں گے تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنی حقیقی جماعت بنانے کے لئے اسی طرح رگڑے گا اور بار بار رگڑے گا جس طرح نگینہ ساز پتھر کو انگوٹھی میں لگانے کے لئے بار بار گھِستا اور رگڑتا ہے۔ جب کوئی پتھر انگوٹھی کا نگینہ بننے کے لئے لایا جاتا ہے تو ہر شخص جانتا ہے کہ ماہر فن اسے رگڑتا اور بار بار رگڑتا ہے۔ وہ اسے گھستا اور بار بار گھستا ہے۔ا ور اس کا رگڑنا اور گھِسنا اُس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک پتھر انگوٹھی کے مطابق نہیں بن جاتا۔ اگر کوئی شخص اس پتھر کو دیکھ کر کہے کہ اسے رگڑا کیوں جاتا ہے تو یہ اسکی حماقت اور نادانی ہوگی۔ جب وہ پتھر اِسی غرض کے لئے لایا گیاہے کہ وہ انگوٹھی کا نگینہ بنے تو یہ کہنا کہ اسے رگڑا کیوں جاتا ہے حماقت ہے۔ وہ ضرور رگڑا جائے گا اور اس لئے رگڑا جائے گا کہ وہ انگوٹھی میں فٹ آسکے۔ اسی طرح تم نے اپنے آپ کو احمدیت کی انگوٹھی کا نگینہ بننے کے لئے پیش کیا ہے ۔ اگر تم خود انگوٹھی کے مطابق ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں رگڑنا بند کر دے گا بلکہ اس ابتلاء کے بعد ہی تم اپنی درستی کر لیتے تو خدا تعالیٰ تمہیں مزید رگڑنا بند کر دیتا۔ لیکن جبکہ ابھی تک تم نے اپنی اصلاح نہیں کی تو خدا تعالیٰ تم کو رگڑنا کیوں بند کرے۔ جو پتھر کسی انگوٹھی کے نگینہ کے لئے لایا جاتا ہے وہ اُس وقت تک برابر رگڑا جاتا ہے جب تک وہ انگوٹھی کے مطابق شکل اختیار نہیں کر لیتا۔ اور جب وہ اس کے مطابق شکل اختیار کر لیتا ہے تو صنّاع اسے رگڑنا فوراً بند کر دیتا ہے۔ کیونکہ جس طرح کوئی نگینہ ساز یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ پتھر بڑا ہو اور نگینہ کے قابل نہ ہو۔ اسی طرح کوئی نگینہ ساز یہ امر بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ پتھر گِھستے گِھستے بالکل چھوٹا ہو جائے۔ وہ بے شک رگڑتا ہے مگر اُسی وقت تک جب تک وہ انگوٹھی کے قابل نہیں بنتا۔ جب وہ اس کے مطابق ہیئت اختیار کر لیتا ہے تو اس کا رگڑنا بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تک پتھر انگوٹھی کے مطابق نہیں بنتا نگینہ ساز اُسے ضرور رگڑتا ہے۔ اور وہ رگڑتا ضرورت کے مطابق ہے۔ کیونکہ اسے یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر مَیں نے اسے زیادہ رگڑا تو نگینہ ڈھیلاہوجائے گا۔ اور جس مقصد کے لئے اسے رگڑا جاتا ہے وہ پورا نہ ہو گا۔ ماہرِ فن ہمیشہ اتنا ہی رگڑتا ہے جتنا اُسے فٹ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء محض اس لئے آتے ہیں کہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح ہو جائے۔ اگر وہ ابتلاؤں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہیئت اختیار کر لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ نہیں رگڑتا۔ کیونکہ پھر اَور رگڑنا بیوقوفی ہو جاتی ہے۔ اور جس پتھر کو زیادہ گھِسا جاتا ہے وہ انگوٹھی میں فٹ نہیں آتا بلکہ ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ پس ان ابتلاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے قلوب کی اصلاح کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ اگر تم ان ابتلاؤں سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو گو ہم نے تم پر ایک ابتلا نازل کیا ہے۔ لیکن ہمارا منشاء یہ ہے کہ ہم اس کے بعد تم پر اپنی رحمت نازل کریں۔ کیونکہ ہم نے تم کو مارنے کے لئے یہ ابتلاء نازل نہیں کیا، ہم نے تم کو تباہ کرنے کے لئے یہ ابتلا نازل نہیں کیا، ہم نے تم کو دکھ دینے کے لئے یہ ابتلاء نازل نہیں کیا۔ بلکہ ہم نے محض اس لئے یہ ابتلاء نازل کیا ہے کہ ہمارے قانونِ قدرت میں یہ بات موجود تھی کہ تم پر ابتلاء نازل کریں۔ صرف اس کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت کو ملا دیا ہے۔گویا قانونِ قدرت بھی ہم نے پورا کر دیا اور تمہارے ساتھ اپنی رحمت کا سلوک بھی کردیا۔ اوراِس طرح دونوں کو مخلوط کر دیا۔ ایک طرف ہم نے اپنا قانون پورا کر دیا ہے اور دوسری طرف ہم نے تمہاری ترقی کی ایسی بنیادیں رکھ دی ہیں کہ اگر تم خواہ مخواہ ہماری مخالفت نہ کرو تو اس ابتلاء کو ہم تمہارے لئے ابتلائِ رحمت بنا دیں گے اور تمہاری ترقی کے سامان پیدا کر دیں گے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ اپنے اندر ایک نیک اور اعلیٰ درجہ کی تبدیلی پیدا کرے۔
مَیں نے ابھی کہا تھا کہ میں بتاؤں گا کہ جماعت کی مالی قربانی بھی اتنی نہیں۔ بلکہ اس کے قریب بھی نہیں جسے قربانی کہا جا سکے۔ یہ کتنے نازک دن ہیںا ور کتنی مشکلات ہمارے سلسلہ پر آئی ہوئی ہیں۔ لنگر کا خرچ پہلے پانچ چھ سو روپے ماہوار ہو ا کرتا تھا مگر اب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قادیان میں جو لوگ حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں وہ کوئی ایسا کام نہیں کر رہے جو آمد پیدا کرنے والا ہو۔ ایک دکاندار وہاں حفاظتِ مرکز کے لئے بیٹھا ہے مگر اُس کی دکان کوئی نہیں۔ اسی طرح زمیندار وہاں حفاظتِ مرکز کے لئے بیٹھا ہے مگر اُس کی زمین کوئی نہیں۔ وہاں اِس وقت ہمارا دو ہزار آدمی لنگر سے کھانا کھا رہا ہے۔ تم خود ہی سمجھ لو کہ اگر بہت ہی کفایت سے خرچ کیا جائے تب بھی پندرہ بیس ہزار روپیہ ماہوار آجکل قادیان کے لنگر کا خرچ ہو رہا ہے۔ حالانکہ پہلے یہ خرچ صرف پانچ سو تھا۔ گویا چودہ یا ساڑھے چودہ ہزار روپیہ ماہوار زیادہ خرچ ہو رہا ہے۔ یہاں بھی اوسطاً بیس پچیس روپیہ ماہوار کاخرچ ہے۔ کیونکہ باہر سے لوگ کثرت سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ چونتیس پینتیس ہزار روپیہ ماہوار خرچ ایساہے جس میں سے ایک پیسہ بھی پہلے خرچ نہیں ہوا کرتا تھا۔ گویا سال بھر کے لئے پانچ لاکھ روپیہ ہمیں محض اس ایک مدکے لئے چاہیئے۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے جماعتوں کو چاہیئے تھا کہ فوراً جیسے میں نے تحریک کی تھی پچاس فیصدی چندہ دینا شروع کر دیتیں اور سال بھر یا چھ ماہ کے لئے یہ بوجھ اُٹھا تیں۔ اور اگروہ پچاس فیصدی دینے کی توفیق نہیں رکھتی تھیں تو چالیس فیصدی چندہ دے دیتیں۔ چالیس فیصدی دینے کی توفیق نہیں رکھتی تھیں تو تینتیس فیصدی دے دیتیں۔ تینتیس فیصدی دینے کی توفیق نہیں رکھتی تھیں تو پچیس فیصدی دے دیتیں۔ پچیس فیصدی دینے کی توفیق نہیں رکھتی تھیں تو بیس فیصدی دے دیتیں۔ بیس فیصدی دینے کی توفیق نہیں رکھتی تھیں تو پندرہ فیصدی دے دیتیں۔ غرض کوئی تغیر تو اپنے چندوں میں کرتیں مگر انہوں نے کوئی تغیر پیدا نہیں کیا۔
میرے سامنے پھر لاہور کی مثال آ جاتی ہے۔ کل لاہور کی جماعت سے چندہ کی فہرست مَیں نے منگوائی تو معلوم ہوا کہ بجٹ کے رو سے لاہور کی جماعت کا چندہ تین ہزار آٹھ سو روپیہ ماہوار ہونا چاہیئے۔ میں نے لاہور کی جماعت کے چندہ کا حساب لگایا ہے اور پرسوں جب آپ لوگ مجھے ملیں گے تو مَیں آپ کو بتاؤںگا کہ آپ لوگوں کا کتنا چندہ ہونا چاہیئے۔ آپ لوگوں میں سے جو کمانے والے افراد ہیں اُن کی تعداد یہاں چھ سَو سے اوپر ہے۔ اٹھارہ سے پچپن سال تک کی عمر کے لوگ آ پ میں560 ہیں۔ اور اگر اُن لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو پچپن سال سے اوپر کے ہیں تو یہ تعداد 600 سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان سارے افراد کی مکمل لسٹ میرے پاس آنی چاہیئے اور ساتھ ہی ہر شخص کی ماہوار آمدن درج ہونی چاہیئے۔ لاہور میں چپڑاسی کی تنخواہ بھی چالیس روپیہ سے کم نہیں۔ اور لاہور کے بہت سے افراد ایسے ہیں جن کی ماہوار آمدنیں ایک ہزار یا ایک ہزار سے بھی زائد ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد ہے جن کی پانچ سو روپیہ ماہوار آمد ہے۔ اگر چالیس روپیہ تنخواہ لینے والوں کو اور اسی طرح زیادہ تنخواہ لینے والوں کو ملا کر ایک سو روپیہ اوسط رکھی جائے تب بھی لاہور کی جماعت کی کم سے کم آمد ساٹھ ہزار روپیہ ماہوار ہے۔ تحریک جدید، حفاظتِ مرکز اور مرکزِ پاکستان کے متعلق چندوں کی جو تحریکات ہیں۔ اگر ان میں جماعت لاہور کا پانچ ہزار روپیہ ماہوار سمجھ لیا جائے اور دس فیصدی کے لحاظ سے وہ چھ ہزار روپیہ چندہ عام دیں تب بھی گیارہ ہزار روپیہ ماہوار اُن کی طرف سے آنا چاہیئے۔ گویا اگر وہ کوئی خاص تغیر اپنے اندر پیدا نہ کریں صرف دس فیصدی چندہ دیں اور اس طرح تحریک جدید وغیرہ کے چندے ادا کریں تو گیارہ ہزار روپیہ ماہوار ان کا چندہ ہونا چاہیئے۔ لیکن آپ لوگ حیران ہوں گے اور لاہور والے شاید خود اس پر تعجب کریں۔ مگر یہ ہے بالکل درست کہ آپ لوگوں کا اپنا لکھوایا ہوا ماہوار چندہ 3800 روپیہ ہے۔ آپ کی اقلّ ترین قربانی تحریک جدید، حفاظتِ مرکز، اور مرکزِ پاکستان کے چندوں کو ملا کر اور پھر دس فیصدی کے حساب سے ہنگامی چندہ لگا کر گیارہ ہزار روپیہ ماہوار بنتی ہے۔ لیکن آپ لوگوں نے اس مصیبت اور آفت کے زمانہ میں جبکہ سلسلہ پر مالی لحاظ سے سخت تکلیف کا وقت آیا ہوا ہے اس مہینہ میں صرف بائیس سو روپیہ چندہ دیا ہے۔ حالانکہ لاہور کی جماعت کے کئی افراد ایسے ہیں کہ اگر وہ پچاس فیصدی کے لحاظ سے چندہ ادا کریں تو پانچ سو سے زیادہ اُن میں سے ایک ایک شخص چندہ دے سکتا ہے۔ مگر چھ سو کی جماعت نے کُل چندہ بائیس سو روپیہ دیا ہے۔ اور یہ صرف چھ سو کمانے والے افراد ہیں۔ اگر عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں سب کو شامل کرلیا جائے تو فی کس جماعت لاہور نے صرف تین آنے چندہ دیا ہے۔ اور پھر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اتنا چندہ دے کر آپ لوگوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماردی ہے۔ اور اگر عورتوں اور بچوں کو نکال کر صرف کمانے والے افراد رکھے جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے بارہ آنے فی کس چندہ دیا ہے۔ گویا آپ لوگوں کے کمانے والوں کی اوسط آمدن بارہ روپیہ ماہوار ہے اور اسی بارہ روپیہ میں آپ لوگ اپنے پانچ پانچ سات سات افراد کو کھلاتے پلاتے ہیں، مکان کا کرایہ وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں تو یہاں کلرکوں کی ضرورت تھی۔ اگر بارہ روپے ماہوار پر یہاں لوگ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو ہم تو بڑی آسانی کے ساتھ دس بارہ کلرک رکھ لیتے ہیں۔ پھر اِس وقت جب ابھی جماعت پر مصائب اور ابتلاء نہیں آئے تو آپ لوگوں کا اپنا جو اقرار تھا اُس کے لحاظ سے مئی سے اب تک جماعت لاہور کے چندوں میں دس ہزار کی کمی ہے اور اس میں ابھی تحریک جدید شامل نہیں، حفاظتِ مرکز شامل نہیں، مرکزِ پاکستان کا چندہ شامل نہیں۔ اگر اُن کو بھی شامل کر لیا جائے تو بیس ہزار روپے کی کمی ہے جو گزشتہ چھ ماہ میں واقع ہوئی ہے۔ اگر ایک مرکزی جماعت، ایک شہری جماعت جس کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہے اور جہاں کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ اور جہاں کا ہر شخص لیگ وغیرہ کے نعرے سنتا اور اُن کا جوش و خروش دیکھتا رہتا ہے۔ اُس جماعت کے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا 1/100 حصہ ادا کرتے ہیں تو دوسروں کا کیا حال ہو سکتا ہے۔
مجھے گزشتہ دنوں یہاں کے امیر صاحب نے کہا کہ آپ یہ تو دیکھیں کہ جماعت لاہور کے پچاسی فیصدی لوگ ملازم ہیں۔ اگریہ پچاسی فیصدی لوگ ملازمت چھوڑ کر حفاظتِ مرکز کے لئے چلے جائیں تو چندے بند ہو جائیں اور سلسلہ پر مالی لحاظ سے سخت بوجھ پڑ جائے۔ لیکن جب مالی قربانی دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ جماعت لاہور اپنی ذمہ داری کا صرف 1/50 حصہ ادا کر رہی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہاں کی ساری جماعت حفاظتِ مرکز کے لئے چلی جاتی اور صرف چار آدمی صحیح طور پر چندہ دینے والے ہوتے تو جماعت لاہور کے موجودہ چندہ میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔ مثلاً اگر صرف چار شخص یہاں رہ جاتے جن کی بارہ تیرہ سو روپیہ آمد ہوتی اور وہ اخلاص سے پچاس فیصدی چندہ دیتے تو بائیس سو روپیہ صرف چار آدمی کی طرف سے آ سکتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ساری جماعت نے بائیس سو روپیہ چندہ دیا ہے۔ حالانکہ اگر 600 میں سے 596 قادیان کی حفاظت کے لئے چلے جاتے، اُن کی ملازمتیں جاتی رہتیں اور اُن کے چندے بند ہو جاتے تب بھی چار آدمی جن کی بارہ تیرہ سو روپیہ ماہوار آمد ہوتی ۔پچاس فیصدی کے حساب سے چندہ دے کر اس کمی کو پورا کر سکتے تھے۔ بلکہ ہو سکتا تھا کہ وہ کچھ زیادہ قربانی کر کے اس سے بھی زیادہ چندہ دیتے۔ کیونکہ میری تحریک یہ ہے کہ سلسلہ کی موجودہ مشکلات میں ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیئے۔ اگر وہ پچاس فیصدی سے بھی زیادہ دے سکتا ہے تو اُسے زیادہ دے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہیئے اورخدمت دین کے اس اہم موقع کو غفلت میں ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ خیال کہ اگر یہاں کے سارے افراد حفاظتِ مرکز کے لئے چلے جاتے تب بھی وہ بات غلط تھی جو یہاں کے امیر صاحب نے مجھے لکھی کہ آپ یہ تو سوچیں کہ یہاں کے سب لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔ اگر یہ سارے کے سارے چلے جائیں تو چندہ کون دے۔ مَیں کہتا ہوں کہ اگر یہ سارے کے سارے چلے جاتے اور صرف چار پانچ باقی رہ جاتے تو جتنا چندہ لاہور کی جماعت نے اِس وقت دیا ہے اتنا چندہ وہ چند اشخاص دے سکتے تھے اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ بلکہ ہو سکتا تھا کہ چندہ بڑھ جائے کیونکہ اخلاص رکھنے والا انسان قربانی بھی زیادہ کیا کرتا ہے۔
بہرحال یہاں کی جماعت مجھے بتائے کہ اب وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے کام لے کر وہ تیس چالیس ہزار کی کمی نومبر میں پورا کرے گی۔ اور اگر نومبر میں تیس چالیس ہزار روپیہ کی ادائیگی کی روح اس میں پیدا ہو سکتی ہے تو کیوں اس چندہ کو چھ ماہ میں تقسیم کر کے اس نے ادا نہ کیا اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ مَیں نے پچھلے دنوں جب مغرب کے بعد یہاں لاہور کی جماعت کے متعلق تقریر کی تو مَیں نے چندہ کا اندازہ ایک ہزار روپیہ تک کیا تھا۔ مگر حساب دیکھا تو معلوم ہوا کہ جماعت لاہور نے آخری ماہ تک بائیس سو روپیہ چندہ دیا ہے۔ حالانکہ کئی لوگ ایسے ہیں جو پچاس فیصدی کے حساب سے اکیلے اکیلے پانچ پانچ سو روپیہ کی رقم دے سکتے ہیں۔ مگر یہاں کے چھ سو کمانے والے افراد نے کُل بائیس سو روپیہ دیا ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ باہر کی جماعتوں کا کیا حال ہو گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باہر کی جماعتوں کو مشکلات بھی ہیں۔ کچھ ریلوں کی خرابی کی وجہ سے، کچھ ڈاک کے نقص کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ بیرونی جماعتوں سے چیک نہیں آ سکتے۔ چندہ بھجوانے میں اُنہیں بہت سی دقتیں ہیں مگر پھر بھی ہزار ہزار میل دور بیٹھے اُن کے اندر قربانی کا جو جذبہ پایا جاتا ہے وہ یہاں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے۔ کلکتہ، لکھنؤ اور حیدر آباد وغیرہ کی جماعتوں میں بڑے زور شور سے یہ تحریک جاری ہے کہ ہمیں پچاس فیصدی چندہ دینا چاہیے اور بعض نے تو بینکوں میں روپیہ جمع کرانا بھی شروع کر دیا ہے۔ صرف ڈرافٹ کا انتظار ہے۔ مگر یہاں کی جماعتوں نے ابھی اس میں حصہ نہیں لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جن جماعتوں کا چندہ پہنچ رہا ہے وہ بہت کم ہے اور ہماری ماہوار آمدن آٹھ دس اور پندرہ ہزارتک ہے۔ حالانکہ یہ رقم قادیان کے لنگر کا خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ کُجا یہ کہ لاہور کے لنگر کا خرچ اس سے چلایا جائے۔ صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کو تنخواہیں دی جائیں۔ تحریک جدید کے کارکنوں کو وظائف دیئے جائیں۔ باہر کے مبلغین کو اخراجات بھجوائے جائیں۔ ہندوستان کے مبلغوں کے اخراجات برادشت کئے جائیں۔ کالجوں، سکولوں اوراخباروں کا بوجھ اُٹھایا جائے۔ ہمارا خرچ قریباً سَوا یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ماہوار تھا۔ مگر اب اوسط ماہوار آمد پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ حالانکہ خرچ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپیہ ماہوار تک پہنچ گیا ہے۔ پونے دو لاکھ خرچ اور پندرہ ہزار آمد ہوتو خود ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت کی کیا حالت ہوگی۔ دُور کے لوگ تو شاید سمجھتے ہوں کہ کوئی سونے کی کان نکل آئی ہے جس سے جماعت کام چلا رہی ہے۔ مگر کیا لاہور والوں کو نظر نہیں آ رہا کہ سلسلہ پر کیا مشکلات ہیں اور ان کی اپنی حالت کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ گیارہ بارہ ہزار چندہ دیتے ا نہوں نے اپنے لکھوائے ہوئے بجٹ سے بھی کم اور بہت کم چندہ دیاہے۔ حالانکہ اگر وہ دیانتداری سے اپنی آمدنیں لکھوائیں اور پچاس فیصدی کے حساب سے چندہ دیں تو یہاں کی جماعت ہی بیس پچیس ہزار روپیہ ماہوار چندہ دے سکتی ہے۔ بشرطیکہ اُن کو مشکلات کا احساس ہو۔ اور ویسا ہی احساس ہو جیسے کسی کی بیوی یا کسی کا بچہ بیمار ہو جاتا ہے یا کسی کے ہاں شادی کی کوئی تقریب آ جاتی ہے تو اُسے احساس ہوتاہے۔ بسااوقات لوگ بیٹوں کی شادی پر اتنا قرض لے لیتے ہیں کہ بیس بیس سال تک قرض اداکرتے رہتے ہیں۔ کیا دین پر مصیبت آئے تو اُس وقت ایک مومن کو ایسی ہی بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر قربانی نہیں کرنی چاہیئے؟ یقینا ایسی ہی قربانی کرنی چاہیئے۔ مگر ضرورت ہے توجہ کی، ضرورت ہے اخلاص اور ایمان کی، ضرورت ہے جذبۂ ایثار اور قربانی کی، باہر کی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔ بیشک انہیں دقتیں بھی ہیں اور کئی مقامات سے منی آرڈر نہیں آ سکتے اور جماعتیں اپنے آدمیوں کے ذریعہ چندہ بھجواتی ہیں مگر پھر بھی اُن کی سُستی اِس وجہ سے ہے کہ انہیں ابھی صحیح حالات معلوم نہیں ہوئے اور اس لئے وہ قربانی میں پورے طور پر حصہ نہیں لے رہے۔
بہرحال حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک دوسرا الہام بھی اس موقع پر نہایت شاندار طریق پر پورا ہوا ہے۔ اور وہ الہام بَلِیَّۃُ مَالِیَّۃٌ 7 کا ہے یعنی ایک خطرناک مالی مصیبت جماعت کو پیش آنے والی ہے۔ چنانچہ اُدھر یہ ابتلاء آیا اور اِدھر مالی مصیبت بھی ساتھ ہی پیش آگئی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ مصیبت جلد دور ہو جائے گی اور ہماری مشکلات کا دَور ختم ہو جائے گا۔ ہمیں اگر دکھ ہے تو یہ کہ دیر سے ہمارے ساتھ چلنے والے بعض لوگ ان مشکلات میں سلسلہ سے نکالے نہ جائیں۔ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ابتلاء محض اس لئے آیا ہے کہ انہیں جانچا جائے اور ان کا امتحان لیا جائے تو ایسا نہ ہو کہ اُن میں بے ایمانی پیدا ہو جائے اور انہیں سلسلہ سے الگ ہونا پڑے۔ جس طرح بچے کا رونا ماں کے لئے مصیبت ہوتی ہے اِسی طرح پُرانے دوستوں کا بچھڑنا اور اُن کا الگ ہونا بھی ایک دکھ کا موجب ہوتا ہے۔ مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہر شخص جو اپنے اندر ایک تغیر پید انہیں کرتا اِس سلسلہ سے ضرور نکالا جائے گا۔ میری رشتہ داری یا میری دوستی یا میری مجالس میں آگے بڑھ بڑھ کر بیٹھنا اور باتیں کرنا۔ اُنہیں ہرگز فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روزتقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو خدا کی قسم! میں اُس کا ہاتھ کاٹ دوں8۔ اسی طرح کون ہے جو ان دنوں میں سنگ دلی سے کام لے جب خدا تعالیٰ کی جماعت مشکلات میں مبتلا ہو۔ اور پھر یہ سمجھ لے کہ میرے ساتھ اُس کا کوئی واسطہ یا رشتہ اُسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لے گا۔ میری رشتہ داری یا میری دوستی کسی کو الہٰی عذاب سے بچا نہیں سکتی۔ اگر کوئی غلط راستہ پر قدم مارتا ہے تو وہ ضرور ہلاک ہو گا۔ ہاں ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہونگے اور وہ اپنی جماعت کو ان بلاؤں کے طوفان میں ضرور محفوظ رکھے گا۔ ہمارے لئے جو سوال ہے وہ یہ نہیں کہ خدا اپنی جماعت کو بچائے گا یا نہیں؟ ہمارے لئے جو سوال اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دوست اور عزیز اُس کے عذاب سے بچ جائیں۔ ورنہ خدا اپنی جماعت کو بچانے پر قادر ہے۔ اور وہ ضرور اس کی حفاظت کرے گا۔ ہمیں اس کا فکر نہیں۔ ہمیں فکر ہے تو یہ کہ ہمارے دوست اور ہمارے عزیز اور ہمارے واقف اپنی غفلتوں اور سُستیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور ایمان سے بے بہرہ ہوکر کہیں مرتدوں اور بے ایمانوں میں شامل نہ ہو جائیں۔‘‘ (الفضل 11 نومبر 1947ئ)
1،2: مسلم کتاب الصَّلوٰۃ باب تَسْوِیۃ الصفوف میں ’’سَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ ‘‘کے الفاظ ہیں
3: الاعراف:83۔ النمل: 57
4: الانعام: 97۔ حٰمٓ السجدۃ: 13 ۔ یٰسین: 39
5: المائدۃ: 57
6: بخاری کتاب الحج باب تَوْریْث دَوْرِ مَکَّۃَ(الخ)
و بخاری کتاب المغازی باب أین رَکَزَ النَّبِیُّ ﷺ الرَّأیَۃَ یَوْمَ الفَتْح
7: تذکرہ صفحہ 406۔ ایڈیشن چہارم
8: بخاری کتاب المغازی باب مقام النَّبِی صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَکَّۃَ زَمَنَ الْفَتْحِ۔
و بخاری کتاب الحدود باب کَرَاھِیۃ الشَّفَاعَۃِ فِی الحَدِِّّ (الخ)

40
تم میں سے ہر شخص اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ کا نمونہ بن سکتا ہے بشرطیکہ تم دین کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہو
(فرمودہ 7 نومبر 1947ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی چیزیں جن کو قانونِ قدرت پیدا کرتا ہے وہ سب کی سب اپنے منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوا کرتیں۔ کچھ تو اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں اور کچھ ضائع ہوجاتی ہیں ۔درختوں کو مَور آتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارا درخت مَور 1سے بھر گیا ہے ۔اگر وہ تمام کا تمام مَور پھل بن جائے اور وہ سب کا سب پھل پختہ ہوجائے تو یقینًا درخت کے ٹکڑے ٹکڑے اُڑ جائیں ۔مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ ’’دارالحمد ‘‘کوٹھی میں ٹہل رہا تھا اور ایک نیا مالی جو کچھ عرصہ ہندوستان بھی رہا تھا اور باتیں کرنے میں بڑا ہوشیار تھا وہ بھی میرے ساتھ پھر رہا تھا ۔میں نے اُس وقت چکوترا 2 کا ایک درخت دیکھا جس میں نہایت کثرت سے پھل لگ رہا تھا۔ ابھی اس کے پھل کا ابتدائی زمانہ تھا اور وہ بہت چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل میں تھا جیسے ماش کا دانہ ہوتا ہے ۔مَور گر رہا تھا اور نیچے سے پھل نکل رہا تھا اور وہ لاکھوں ہی کی تعداد میں نظر آتا تھا ۔میں نے اس پھل کو دیکھ کر تعجب کیا اور کہا کہ اگر اتنا پھل لگ جائے او ر آخر تک سلامت رہے تو درخت بچ نہیں سکتا۔ جیسے بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات سن کر وقت سے پہلے ہی بول پڑتے ہیں یہی عادت اُس مالی کی بھی تھی۔ میں نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس درخت کو اتنا پھل آیا ہوا ہے کہ اگر سارا پھل لگ جائے تو...اور یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ درخت ٹوٹ جائے ‘‘کہ وہ جلدی سے بول اٹھا حضور !لگے گا سارا لگے گا ۔ میں نے کہا یہ تو بتاؤ ایک چکوترا بازار میں کتنے کو بکتا ہے۔ اُس نے کہا چھ آنے ،سات آنے ، بلکہ آٹھ آنے تک بھی بِک جاتا ہے ۔ میں نے کہا سَستی سے سَستی قیمت کیا ہوگی؟ اُس نے کہا دو آنے۔ میں نے کہا بہت اچھا !دو آنے ایک چکوتراکی قیمت ہوئی اور یہ لاکھوں لاکھ ہے اگر کم سے کم بھی ہم اس کا اندازہ لگائیں تو یہ پچاس ساٹھ ہزار سے کم تو ہو نہیں سکتا ۔اگر پچاس ہزار ہی ہم اس کا اندازہ رکھیں اور یہ خیال کریں کہ بازار میں اگر ایک چکوترا دو آنے میں بِکتا ہے تو آڑھتی ہم سے ایک آنہ میں خریدے گا تو پچاس ہزار آنہ ہمیں مل سکتا ہے جو تین ہزار روپیہ سے اوپر ہوگیا گویا اڑھائی سو روپیہ مہینہ بنتا ہے ۔ میں نے کہا سوچو تو سہی اگر تمہارا یہ خیال درست ہو اور اگر اِسی طرح پھل لگ جایا کرے تو لوگوں کو اتنی کوششوں کی کیا ضرورت ہے۔ وہ جائیدادیں بناتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کے کام آئیں۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے روزگار پیدا کرسکیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہر لڑکے کے لئے دو چکوترے اور ہر لڑکی کے لئے ایک چکوترا لگا دینا چاہیئے۔ لڑکے کو پانچ سو روپیہ مہینہ اور لڑکی کو اڑھائی سو روپیہ مہینہ مل جایا کرے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری چیزیں آخر تک نہیں پہنچتیں ۔ہر پھل بڑا نہیں ہوتا ۔ہر پھل مٹھاس کی حد کو نہیں پہنچتاکچھ تو اتنے چھوٹے چھوٹے گِر جاتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتاہے مکھیوں کے پاخانے گر گئے ہیں اور کچھ ذرا اس سے بڑے ہوکر جن میں نہ گٹھلی بنی ہوتی ہے ، نہ گودا بنا ہوا ہوتا ہے محض ایک تلخ اور بد مزہ سا فضلہ ہوتاہے۔ کچھ آم کیریاں بن کر گرجاتے ہیں کچھ ذرا بڑے ہوتے ہیں لیکن ابھی ان میں کسی قسم کا مزہ پیدا نہیں ہوتا۔ اِسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن وہ پھل مکمل ہوجاتا ہے مگرا بھی ترش ہوتا ہے۔ پھر کچھ اس میں سے گرجاتا ہے اور پھر کچھ پھل وہ ہوتا ہے جو آخر میں کمال کو پہنچتا ہے اور شیرینی حاصل کرلیتا ہے۔یہی پھل ہوتا ہے جو اصلی قیمت پاتا ہے اور جس کی دنیا میں قدر ہوتی ہے ۔مَور کا جو حصہ گر جاتا ہے اگر تم اس کو دس بیس من بھی اکٹھا کرکے بازار میں لے جاؤ تو تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا ۔چھوٹے چھوٹے ماش کے دانہ کے برابر جو پھل ہوتے ہیں اگر ان کو لے لو ، مثلاًآم ہی لے لو یا چنے کے برابر دانے والے مالٹے ہی لے لو اگر تم دو چار من بھی بازار میں لے جاؤ تو تمہیں اس کی کوئی قیمت نہیں ملے گی ۔بلکہ قیمت کا کیا سوال ہے اگر تم اسے فروخت کے لئے لے جاؤ گے تو لوگ تمہیں پاگل سمجھیں گے ۔پھر اگر وہ آم کیری کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔مالٹا یا سنگترہ اپنے اندر قاشیں پید اکرلیتا ہے اور لوگ اس کی چٹنیاں بناسکتے ہیں تو پھر وہ پیسے پیسے دودو پیسے سیر دو سیر بک جائے گا ۔لیکن وہی آم مکمل ہوکر بعض دفعہ پچاس روپے سینکڑہ بلکہ سو روپے سینکڑہ بِکتا ہے اور وہی مالٹا مکمل ہو کر بعض دفعہ دس روپے، پندرہ روپے ، بیس روپے اور پچیس روپے سینکڑہ بِکتا ہے۔ گویا جس وزن کی کسی وقت ایک پیسہ بھی قیمت نہیں مل سکتی تھی یا جس وزن کے لے جانے پر لوگ فروخت کنندہ کو پاگل سمجھنے پر مجبور تھے وہی چیز کارآمد اور مفید بن جاتی ہے اور اسی چیز کے حصول کے لئے لوگ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی حال الہٰی سلسلوں کا بھی ہوتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی آواز دنیا میں بلند ہوتی ہے تو کچھ لوگ ایسے بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں جو حقیقتًا اس سچائی اور اس معرفت کے دلدادہ نہیں ہوتے جو انبیاء کی معرفت دنیا کو مل رہی ہوتی ہے۔ وہ ہر نئی چیز کے قبول کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی فطرت اُس مکھی کی سی ہوتی ہے جو ہر پاخانہ اور ہر قَے اور ہر پھل اور ہر کھانے پر غرض اچھی ہو یا بُری جوچیز بھی کھلی پڑی ہو اُس پر آبیٹھتی ہے اور تھوڑی دیر ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد اٹھتی اور دوسری چیز پر جابیٹھتی ہے۔ وہ شہد کی مکھی نہیں ہوتی جو پھلوں اور پھولوں میں سے وہاں سے بھی مٹھاس نکال لیتی ہے جہاں سے انسان مٹھاس محسوس نہیںکرتا۔نیم جیسے کڑوے درخت سے شہد کی مکھی شہد نکال کر لے جاتی ہے۔ گلاب جیسے کسیلے پتوں میں سے وہ خوشبو اور شہد نکال کر لے جاتی ہے۔ گویا مزے کا مزہ اور خوشبو کی خوشبو ۔وہ کھٹّے کے پھولوں میں سے جس کا پکا ہوا پھل بھی انسان کے لئے کھانابعض دفعہ مشکل ہوجاتا ہے نہایت شیریں شہد نکال کر لے جاتی ہے۔ اور بہت سے نازک مزاج اس شہد کی شیرینی کو برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے اور میٹھی چیز میں سے مٹھاس تو وہ نکالتی ہی ہے۔ اِس طرح ایسے لوگ جو اپنے اندر فطرتِ صحیحہ رکھتے ہیں۔ جو اپنے اندر نیکی کی طاقت رکھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیم جب ابھی ابتدائی حالت میں ہوتی ہے، جب ابھی اس نے مٹھاس پیدا نہیں کی ہوتی ،جب اُس کا پھل بظاہر کڑوا نظر آتا ہے اُس ذاتی جوہر اور ذاتی قابلیت کی وجہ سے جو خدا نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہوئی ہوتی ہے پہچان لیتے ہیں اورجان لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ خدا نے کہاں شہد رکھا ہوا ہے۔ وہ آتے ہیں اور جس چیز کو انسان جیسا مکمل وجود بھی چکھ کر تھوکنے لگ جاتا ہے اُس میں سے شہد اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں، کڑوی کیریوں میں سے،میٹھے پھولوں میں سے، اُن بد ذائقہ کلیوں میں سے جن کے چکھنے کی انسا ن بھی جرأت نہیں کرتاجس طرح شہد کی مکھی شہد نکال کر لے جاتی ہے اُسی طرح وہ ابتدائی تعلیموں میں سے جو ابھی پورے طور پر مکمل نہیںہوئی ہوتیں اور دنیا کی نگاہ میں کڑوی اور بد مزہ اور ترش ہوتی ہیں معرفت اور یقین اور ایمان کا شہد نکال کر لے جاتے ہیں۔ اور دنیا میں ایک ایسا بیج بوجاتے ہیں جو قربانی اور ایثار کا پھل پیدا کرنے والاہوتا ہے اور جس کی وجہ سے ان کا ہی نہیں بلکہ وہ جو ان کے کاموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اُن کا بھی بھلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھول مرجاتے ہیں، کیریاں مرجاتی ہیں، شگوفے مرجھا جاتے ہیں، وہ مکھیاں بھی مرجاتی ہیں جو شہداکٹھا کرتی ہیں مگر ان مکھیوں کا نکالا ہوا شہد مدت دراز تک دنیا کی بیماریوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ ان مکھیوں کے کارنامہ کو خدا بھی اِس طرح یاد کرتا ہے کہ 3یعنی لوگوں کے لئے شہد میں شفا ء رکھی گئی ہے ۔وہ نیک فطرت لوگ جو انبیاء کے ابتدائی زمانہ میں ان کے ساتھ آکر ملتے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کو وہاں خوبیاں نظر آتی ہیں جہاں دنیا کو عیب نظر آتے ہیں ۔ ان کو وہاں نیکیاں نظر آتی ہیں جہاںدنیا کو بدیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کو وہاں جنت نظر آتی ہے جہاں دنیا کو بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی دیتی ہے ۔ مگر وہ جو پاخانہ کی مکھی کی طرح اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے ہیں ۔وہ فطرتیں جو صداقت پہچاننے کی بجائے یونہی کسی چیز کے پاس چلی جاتی ہیں جب وہ انبیاء کی تعلیم کے پاس آتی ہیں تو وہ کوئی چیز لے کر نہیں جاتیں ۔وہ نہ خود فائدہ اٹھاتی ہیں نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہیں ،نہ خود نفع حاصل کرتی ہیں نہ دوسروں کونفع پہنچاتی ہیں ۔ وہ پَیر مارتی ہیں پر ہلاتی ہیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اُڑ جاتی ہیں۔ جیسے مکھی ممکن ہے پہلے شہد پر بیٹھے مگر پھر اس سہولت اور اسی اطمینان اور اسی آرام کے ساتھ وہ پاخانہ پر جابیٹھتی ہے ان کے لئے یہی چیز چاہئے اور یہی ان کے مناسبِ حال ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذٌ کے مقولہ پر عمل پَیرا ہونا اپنا مطمح نظر قرار دیا ہوا ہوتا ہے یہ لوگ کبھی بھی انتہاء کو نہیں پہنچتے۔ان کی مثال اُس مَور کی سی ہوتی ہے جو گر جاتا ہے ۔یا ان چھوٹے چھوٹے بیجوں کی سی ہوتی ہے جو پھل کے ابتدا میں ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔ یا ان پھلوں کی سی ہوتی ہے جو پھل بننے سے پہلے کڑوے فضلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ان کی حیثیت اُس کیری یامالٹا یا سنگترے کی سی ہوتی ہے جو اصل مزہ کے حاصل ہونے سے پہلے ہی گرجاتے ہیں اور لوگ ان کی چٹنیاں بنالیتے ہیں مگر وہ اس غرض کو حاصل نہیں کرسکتے جس کے لئے آم یا مالٹایا سنگترۃ تیار ہوتا ہے ۔ اگر یہ لوگ آخر تک سلامت رہیں تب بھی یہ دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
مَیں نے ابھی کہا ہے کہ سارا مَور ردّی اور اچھا اگر درخت پر رہے تو درخت بچ نہیں سکتا۔ اس کی مجھے ایک اَور مثال بھی یاد آگئی ۔ میں نے باغ میں پھرتے ہوئے ایک دفعہ آڑو کا ایک درخت دیکھا جس میں پھل بہت زیادہ تھا۔ میں نے مالی سے کہا قانونِ قدرت یہ ہے کہ اگر پھل زیادہ ہوگا تو درخت ٹوٹ جائے گا اس لئے اس درخت کا کچھ پھل تم کاٹ ڈالو تاکہ درخت محفوظ رہے ۔ مالی کہنے لگا دیکھئے اس کو کتنا پھل لگا ہوا ہے اِس پھل کو ضائع کرنا تو مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔میں نے کہا یہی تو مُضِر ہے تم اس کا پھل کاٹو اور صرف اُتنا ہی پھل رہنے دوجس کو درخت سہار سکتا ہے۔ اس نے کہا نہیں آپ اِس کی حفاظت مجھ پر رہنے دیں اور مجھے اجازت دیں کہ اِس کا پھل بدستور درخت پر ہی رہنے دیا جائے ۔میں خاموش ہوگیا ۔جب پھل مکمل ہوا تو وہ درخت بیچ میں سے چِر کر اِدھر اُدھر جاپڑا ۔
یہی حال الہٰی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ ان میں سے لوگوں کا جھڑنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ پت جھڑ کے بغیر درخت کبھی پھلتے نہیں۔ مَور اور ابتدائی پھلوں کے جھڑنے کے بغیراچھے پھل پیدا نہیں ہوسکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان آخر انسان ہوتے ہیں۔قوموں کی تربیت اور ان کی اصلاح انسانوں نے ہی کرنی ہوتی ہے۔ سکولوں میں یہ قانون ہے کہ پچاس سے زیادہ لڑکے اگر کسی کلاس میں آجائیں تو دو استاد رکھے جائیں ۔اگر کوئی سکول پچاس سے زیادہ لڑکے کسی کلاس میں داخل کرے تو افسرانِ بالا اس کی امداد میں رخنہ ڈالتے اور اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو نیا مدرّس رکھو اور یا پھر زائد لڑکوں کو نکالو۔ جماعتوں کی نگرانی بھی افراد کی نگرانی کی طرح ہوتی ہے ۔اگر افراد بے انتہاء بڑھتے چلے جائیں اور لائق مربی اور تربیت کرنے والے نہ بڑھیں تو کیا نتیجہ ہوگا ؟یہی ہوگا کہ جن لوگوں کی تربیت نہیں ہوگی وہ خراب ہوں گے اور جو لوگ خود خراب ہوں گے۔ وہ دوسروں کوبھی خراب کریں گے۔ اور اس طرح وہ جماعت جو دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوئی تھی ساری کی ساری خراب ہوجائے گی ۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کیا ہوا ہے کہ کمزور طبع لوگ اگر اپنی اصلاح نہ کریں تو اُسی طرح جس طرح آموں کی کیریاں گرجاتی ہیں ،جس طرح انگور اور سنگترہ اور مالٹا اور آڑو اور آلوچہ اور دوسرے پھل مکمل ہونے سے پہلے کوئی ابتدائی دو چار دنوں میں کوئی دوسرے تیسرے ہفتہ میں گر جاتے ہیں اسی طرح ایسے لوگ بھی گرجاتے ہیں اور ان کا گرنا جماعت کے لئے مفید ہوتا ہے مُضِر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جماعتوں کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو افرادِ جماعت اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو استاد بنالیں یا اتنے استاد ہوں جو اُن کی نگرانی کرسکیں تبھی جماعت درست رہ سکتی ہے ورنہ نہیں۔ اگر جماعت میں اتنی بیداری ہو کہ اُس کا ہر فرد استاد بن جائے تو پھر کسی خطرہ کی پرواہ نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہ فضل دنیا میں صرف ایک ہی ہستی پر نازل ہوا ہے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ وجود ہیں جو نہایت دلیری ، نہایت صداقت ، نہایت یقین،اور نہایت وثوق کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ 4۔ میرے سب صحابہ ؓ ستاروں کی طرح ہیں ۔ جس طرح ہر ستارہ سے تم جہت کا پتہ لگاسکتے ہو، جس طرح ستاروں سے تم راستے معلوم کرتے اور روشنی حاصل کرتے ہو اسی طرح میرے تمام صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ۔میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ابوبکرؓکے پیچھے چلو ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم عمرؓکے پیچھے چلو ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم عثمانؓکے پیچھے چلو،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم علی ؓکے پیچھے چلو ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم طلحہؓکے پیچھے چلو ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم زبیرؓکے پیچھے چلو ۔ تم میرے صحابہ ؓ میں سے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کے پیچھے بھی چل پڑو بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ تم جس کے پیچھے بھی چلوگے آخر خدا تک پہنچ جاؤگے ۔یہ وہ دعویٰ ہے جو دنیا میں ایک ہی شخص نے کیا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے ۔یہ وہ انعام ہے جو دنیا میں ایک ہی جماعت کو ملا ہے جو صحابہؓ کی جماعت ہے۔ رستہ سب کے لئے کھلا تھا ۔ موسیٰ ؑکی قوم کو خداتعالیٰ نے اس انعام سے محروم نہیں کیا تھا ۔ عیسیٰ ؑکی قوم کو خداتعالیٰ نے اس انعام سے محروم نہیں کیا تھا ۔نوح ؑ کی قوم کو خداتعالیٰ نے اس انعام سے محروم نہیں کیا تھا ۔تم کو بھی خداتعالیٰ نے اس انعام سے محروم نہیں کیا مگر جس نے کا م کرلیا وہ انعام لے گیااور جس نے نہ کیا وہ انعام سے محروم ہوگیا جہاں تک خدا کی دین کا سوال ہے تمہارے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ ؓ کے لئے بالکل یکساں ہے۔ تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت ہو اور صحابہ ؓ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تھے۔ بلکہ جہاں تک خدا کی دین کا سوال ہے۔ موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کی اُمتوں کے لئے بھی اس کے حاصل کرنے کا موقع تھا کیونکہ موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ دونوں خداتعالیٰ کے نبی تھے مگر موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کی امتوں نے وہ کوشش نہ کی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت نے کی اِس لئے خداتعالیٰ کا فضل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اِس رنگ میں نازل ہوا کہ آپ کی جماعت کا ہر فرد استاد بن گیا اور جب ہر فرد استاد بن گیا تو باوجود پھلوں کی کثرت کے انہیں گرانے کی ضرورت نہ رہی۔ اس درخت کا ہر شگوفہ پھل بننے کا مستحق تھا اور اس کی ہر کیری ایک شیریں اور مزیدار آم بننے کی قابلیت اپنے اندر رکھتی تھی۔ اور چونکہ ہر شگوفہ پھل بننے کا مستحق تھا اس لئے خداتعالیٰ نے ہر شگوفہ کو پھل بنادیا اور چونکہ ہر کیری آم بننے کی مستحق تھی اس لئے خداتعالیٰ نے ہر کیری کو آم بنادیا۔
اگر تم بھی ایسے بن جاؤ تو خداتعالیٰ تمہارے ساتھ بھی یہ سلوک کرنے کے لئے تیار ہے ۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو لازمی طور پر تم میں سے کچھ لوگ گرائے جائیں گے۔ اس لئے کہ بیکار مَور اگر درخت پر رہے گا تو درخت گرجائے گا ۔ یہ ایک موٹی صداقت ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ لیکن اگر تم میں سے ہر شخص استاد بن جائے تو جیسے میرے مالی نے کہا تھا کہ ان پھلوں کو نہ گرایاجائے اُسی طرح تمہیں بھی خداتعالیٰ گرنے سے محفوظ رکھے گا ۔اس مالی میں تو خداتعالیٰ والی قابلیت نہیں تھی جب اس نے مجھے کہا کہ آخر اتنا پھل کیوں ضائع کیا جائے اسے درخت پر ہی رہنے دیا جائے تو وہ باوجود اِس خواہش کے درخت کی حفاظت نہ کرسکا اور وہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ۔لیکن اگر اس میں قابلیت ہوتی اور وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کی استعداداپنے اندر رکھتا تو وہ درخت کو اتنا مضبوط کردیتا کہ وہ تمام پھل اٹھا سکتا اور اس طرح پھل بھی محفوظ رہتے اور درخت بھی محفوظ رہتا ۔بے شک اس مالی میں یہ قابلیت نہ تھی لیکن ہمارے خدامیں یہ قابلیت ہے۔ جب خدا ایک درخت لگاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ بے انتہا پھل پیدا کردے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ ان پھلوں میں سے کوئی پھل بھی ضائع کرنے کے قابل نہیں تو خدا اُس کا پھل نہیں گراتا بلکہ اُس درخت کو زیادہ موٹا اور مضبوط کردیتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تمام صحابہ ؓ کَالنُّجُوْمِ تھے اور جب ہر صحابی اس قابل تھا کہ اسے قائم رکھا جائے تو خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ اس درخت کا پھل زیادہ ہوگیا ہے اس لئے اس کاکچھ پھل گرا دیا جائے بلکہ خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اَور بڑا کردیا۔ اتنا بڑا کہ سارے پھل آپ کے درخت پر اٹکے رہے مگر پھر بھی وہ درخت ان پھلوں کے بوجھ سے نہ گرا۔ گویا جہاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہؓ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ میرے تمام صحابہ ؓ ستاروں کی مانند ہیں وہاں صحابہؓ جو کَالنُّجُوْمِ تھے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کے ظہور میں ایک نمایاں حصہ لیا اور اِس طرح دونوں ایک دوسرے کو بڑھانے والے بن گئے۔ یہی چیز اِس وقت تمہارے سامنے ہے۔
موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کی امتیں اب واپس نہیں آسکتیں تا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کا نمونہ دیکھ کر اپنے اندر اصلاح پیدا کریں لیکن تم زندہ موجود ہو۔ اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کوئی غیر نہیں تمہارے آقا اورمطاع ہیں۔ اور صحابہؓبھی کوئی غیروجود نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت اور تمہارے بھائی ہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اگر تم صحیح طور پر کوشش کرو تو تم میں سے ہر شخص اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ کا نمونہ نہ بن جائے۔ مگر یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہر شخص دین کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے لئے ہر وقت کمربستہ و تیار رہے۔ جب قربانی اور ایثار کا مادہ نہ ہو۔جب باجماعت نماز کی پابندی بھی مشکل معلوم ہو۔ جب قرآن کا ترجمہ بھی وہ لوگ نہ جانتے ہوں جن کو جاننا چاہئے بلکہ’’ جن کو جاننا چاہیئے‘‘ کا کیا سوال ہے ہر انسان کو قرآن کریم کا ترجمہ جاننا چاہئے تو بتاؤ اس نمونہ کو دیکھتے ہوئے اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ کا مصداق نہ بننے کا الزام کس پر ہوگا ؟ تم پر یا خدا پر؟دیکھو !وقت جاتا ہے، موقع ہاتھ سے چُھٹ رہا ہے ۔ وہ جن کی عقلیں ہیں اور جو سوچنے اور سمجھنے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ چاہیں تو اَب بھی اپنے اندر وہ روح پیدا کرکے جو صحابہؓ نے پید ا کی تھی اس مقام کو حاصل کرسکتے ہیں ۔اور وہ روح جو صحابہؓ نے دکھائی تھی یہی تھی کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔ آج ہم کہتے ہیں کہ دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرو تو کچھ لوگ آگے آتے اور اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم میں سے اتنے نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے کی ساری زندگی ہی خداتعالیٰ کے لئے وقف ہوتی ہے۔اور اس میں کسی استثنیٰ کا سوال نہیں۔
کئی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ جب ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں تو پھر ہم میں سے ہر شخص وقف ہے کسی علیحدہ معاہدہ اور اقرار کی کیا ضرورت ہے۔ مگر منہ کی بات اَور ہوتی ہے اور عمل اَور ہوتا ہے ۔اگر انہوں نے اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کیا ہوا ہے تو وہ بتائیں تو سہی کہ وہ دفتروں میں وقت دینے کے بعد دین کے لئے کتنا وقت خرچ کرتے ہیں ۔ دفتروں کا وقت پانچ گھنٹے ہوتا ہے اور دن رات 24گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اگر 10 گھنٹے بھی کھانے پینے سونے اور دیگر حوائج کے لئے رکھ لئے جائیں تب بھی 9 گھنٹے بچ جاتے ہیں. اگر 9 گھنٹے روزانہ ہر شخص قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے اور تبلیغ کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے پر صَرف کرے تو دنیا کیا سے کیا بن جاتی ہے، ہماری جماعت کتنی ترقی کر جاتی ہے ، ہماری تربیت کی حالت کتنی مضبو ط ہوجاتی ہے۔ لیکن منہ سے کہنا کہ میری ساری زندگی وقف ہے اور عمل کے وقت اپنا قدم پیچھے ہٹا لینا اور بہانے بنانا کون سا ایمان ہے۔ یاد رکھو یہ حالت بڑی خطرناک ہے ۔ ہر شخص جو اس حالت میں ہے اسے کیا معلوم کہ کب ذرا سی آندھی بھی اسے توڑ کر پھینک دے۔ اور اس نے پھل تو کیا بننا ہے چٹنی بننے کے قابل بھی نہ رہے۔ اور زیادہ سے زیادہ یہ ہو کہ گند اور مَیلے کے ڈھیر پر اُس کوڈال دیا جائے ۔ یوں تو پاخانہ بھی کام آتا ہے۔ چنانچہ جتنی کھاد ہوتی ہے سب پاخانہ سے ہی تیار ہوتی ہے ۔لیکن بعض قسم پاخانوں کی کھاد کے بھی قابل نہیں ہوتی۔ بیل کا پاخانہ کھاد کے قابل ہوتا ہے ، گائے کا پاخانہ کھاد کے قابل ہوتا ہے ، گھوڑے کا پاخانہ بھی ایک حد تک کھاد کے قابل ہوتا ہے سب سے کم مگر کسی حد تک مرغی کا پاخانہ بھی کھاد کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن انسان کے پاخانہ کی یہ خصوصیت ہے کہ جس سبزہ پر وہ پاخانہ ڈال دیا جائے جل جاتا ہے ۔شاید اِسی طرح خداتعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر انسان بگڑے تو پھر وہ کسی کام کے قابل نہیں رہتا ۔ بگڑا ہوا بیل ذبح کرکے کھا لیا جاتا ہے،بانجھ گائے اور بانجھ بھینس کم سے کم قربانی کے قابل سمجھی جاتی ہے۔ مگر بیکار انسان کسی کام نہیں آسکتا ۔سو اُس دن سے ڈرو جب خدا کے فرشتوں کا تمہارے متعلق یہ فیصلہ ہو کہ یہ ایک بیکار انسان ہے۔ اُس وقت تمہارا وجود اتنا بھی کام نہیں آئے گا جتنا ایک بِگڑا ہوا بیل کام آتا ہے۔ پس اپنے اندر اصلاح پیدا کرو تا تمہارا دین میں داخل ہونا اور تمہارا سلسلہ کے لئے خدمات بجالانا تمہارے لئے ہی مفید نہ ہو بلکہ ساری دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔‘‘
(الفضل 18نومبر1947ئ)
1:مَور: آم کا پھول ، بُور ، شگوفہ (فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز زسنز لاہور)
2:چکوترا : نارنج کی قسم کا ایک پھل (فیروز اللغات اردو جامع مطبوعہ فیروز زسنز لاہور)
3:النحل: 70
4:مشکوٰۃ باب مناقب الصحابۃ صفحہ 554مطبوعہ دہلی1932ء








41
اگر خدا تعالیٰ کے انعام کے وعدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو تو ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھو اور ا س کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرو
(فرمودہ 14 نومبر 1947ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ساڑھے تین سال کی بات ہے کہ مَیں مئی کے مہینہ میں ڈلہوزی گیا اور وہاں مجھے الہام ہوا کہ اِنَّمَا اُنْزِلَتِ السُّوْرَۃُ الْفَاتِحَۃُ لِتَدْمِیْرِ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔ سورۂ فاتحہ دجا ل کے فتنہ کو بیخ وبُن سے اُکھیڑ دینے کے لئے نازل کی گئی ہے۔ یہ تو ہر مسلمان پر واضح بات ہے کہ سورۂ فاتحہ اپنے اندر بہت سی خوبیاں رکھتی ہے۔ وہ قرآن شریف کا ایک خلاصہ ہے اور قرآن کریم کا وہ حصہ جو اس کے بعد آتا ہے اس کی تفسیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن کریم کے لکھنے والوں نے پہلی سورۃ قرار نہیں دیا بلکہ پہلی سورۃ سورۂ بقرہ کو قرار دیا ہے۔ اِس لئے کہ اِس کو پہلی سورۃ قرار دینے سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ یہ بھی تفصیلی قرآن کاحصہ ہے۔ حالانکہ وہ قرآن کا حصہ تو ہے مگر تفصیلی قرآن کا حصہ نہیں۔ اس نکتہ کے نہ سمجھے کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور بعض نے سورۂ فاتحہ کو قرآن کریم سے الگ سمجھا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم سے سورۂ فاتحہ الگ نہیں۔ قرآن نام ہے دو حصوں کا۔ ایک حصہ اجمالی قرآن ہے اور ایک حصہ تفصیلی قرآن ہے۔ اجمالی قرآن سورۂ فاتحہ ہے اور تفصیلی قرآن سورۂ بقرہ سے سورۂ والناس تک ہے۔ یہ دونوں حصے مجموعی طور پر قرآن کہلاتے ہیں۔ جن لوگوں نے سورۂ بقرہ کو پہلی سورۃ سمجھتے ہوئے سورۂ فاتحہ کو قرآن سے الگ سمجھا ہے وہ غلطی کرتے ہیں۔ درحقیقت ایسے ہی لوگوں کے اعتراضات کو لے کر یورپین مصنف اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے حالانکہ کوئی اختلاف نہیں۔ قرآن نام ہے سورۃ فاتحہ کی بِسْمِ اللّٰہ سے لے کر وَ النَّاس کی س تک۔ مگر جو مکمل قرآن ہے اس کا ایک حصہ سورۂ فاتحہ ہے ا ور ایک حصہ تفصیلی ہے جو سورۂ بقرہ سے وَالنَّاس تک ہے۔ جب خدا نے مجھے فرمایا کہ اِنَّمَا اُنْزِلَتِ السُّوْرَۃُ الْفَاتِحَۃُ لِتَدْمِیْرِ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔ توا س کے یہ معنی تھے کہ سورۂ فاتحہ اپنی ذات میں اور سورۂ فاتحہ کی جو تفصیل ہے وہ بھی۔ کیونکہ وہ بھی انہی مضامین کی حامل ہے جو سورۂ فاتحہ میں پائے جاتے ہیں۔فتنہ دجال کے استیصال کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے۔گویا درحقیقت اس کے مفہوم میں یہ امر شامل ہے کہ سورۂ فاتحہ سے لے کر قرآن کریم کے آخر تک فتنۂ دجال کے توڑ دینے کے سامان بہم پہنچائے گئے ہیں۔
فتنہ دجال کے معنی کرنے میں بھی بعض لوگ غلطی کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دجّال سے مراد صرف وہ قوم ہے جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے اور جس کے متعلق وعدہ تھا کہ وہ ایک خاص زمانہ میں ظاہر ہوگی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک خاص زمانہ میں ظاہر ہونے والی ایک قوم ہے جس کا نام دجّال ہے۔مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دجّال ایک لفظ ہے اور اس کے معنی جس پر بھی چسپاں ہونگے وہ دجال ہی کہلائے گا۔مثلاً رنگترہ 1 ایک لفظ ہے۔ ہم اگر اپنے ملازم سے کہیں کہ میرے بستر پر ایک رنگترہ پڑا ہے اسے اٹھا لاؤ اور دوسرے دن ہم ملازم کو کہیں کہ بازار سے رنگترہ خرید لاؤ تو کیا وہ نوکر عقلمند کہلائے گا اگر وہ یہ کہے کہ کل آپ نے میرے سامنے کہا تھا کہ بستر پر سے رنگترہ اٹھا لاؤ آج بازار سے مَیں کہاں خرید لاؤں۔ ہر شخص جس کے دماغ میں عقل ہو وہ جانتا ہے کہ بامعنی لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے جن پر اس کے معنی صادق آ سکتے ہوں۔ پھر کبھی ایک ہی لفظ سے قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور کبھی بعید کی چیز کی طرف۔ مثلاً کبھی آدمی سے ہم خاص آدمی مراد لیتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ باقی آدمیوں کو ہم نے آدمیّت کے دائرہ سے خارج کر دیا ہے۔ بلکہ اس وقت اس خاص کلام کے لحاظ سے آدمی سے وہ مخصوص آدمی مراد ہوتا ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ا گر ہم کہیں گے کہ آدمی باہر کھڑا ہے اُسے خط دے آؤ۔ تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ زید یا بکر باہر کھڑا ہے اسے خط دے آؤ۔ لیکن اگر دوسرے وقت ہم یہ کہیں کہ بے انتہا آدمی اس مجلس میں جمع ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں ہونگے کہ کل والا آدمی جو دروازہ میںکھڑا تھا اسی قسم کے اور ہزاروں آدمی پیدا ہو گئے ہیں۔ ایک جگہ لفظِ آدمی ایک خاص آدمی کی طرف اشارہ کر رہا ہو گا اور دوسری جگہ لفظِ آدمی ہزاروں آدمیوں کی طرف اشارہ کر رہا ہو گا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ رنگترہ چارپائی پر پڑا ہوا ہے اسے اٹھالاؤ۔ تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ رنگترہ کی جنس میں سے ایک عدد پھل جو چارپائی پر پڑا ہے اسے اٹھا لاؤ۔ لیکن دوسرے وقت اس لفظ کے استعمال کرنے کے معنی ہوں گے کہ اس جنس کے دوسرے افراد۔ کیونکہ لفظ رنگترہ کے بہت سے افراد ہوتے ہیں۔ جس طرح آم کے بہت سے افراد ہیں، آڑو کے بہت سے افراد ہیں، سیب کے بہت سے افراد ہیں، امرود کے بہت سے افراد ہیں۔ اسی طرح لفظِ عورت کے بہت سے افراد ہیں۔ لفظ بچہ کے بہت سے افراد ہیں۔ عورت بیٹی سے کہتی ہے کہ بچہ رو رہا ہے۔ جاؤ اور اسے گودی میں اٹھاؤ۔ اُس وقت اگر وہ گلی سے کسی بچہ کو اٹھا لے اور کہے کہ تم نے صرف بچہ کہا تھااور بچہ سے یہ بچہ بھی مراد ہو سکتا ہے تو وہ بے وقوف ہی ہو گی۔ لیکن دوسرے وقت جب بچے شرارت کر رہے ہوتے ہیں تو عورت کہتی ہے کہ بچے شرارت کر رہے ہیں انہیں منع کرو۔ اُس وقت اگر وہ یہ کہے کہ یہ عجیب امر ہے کہ کل ایک بچہ کہا تھا اور آج بچے کہتی ہو۔ تو یہ اس کی اپنی حماقت ہو گی۔ کیونکہ جب اس نے بچہ کہا تھا تو اس کے معنی تھے کہ وہ بچہ جس کو تم جانتے ہو۔ اور جب اس نے بچے کہا تو اس کے معنی یہ تھے کہ محلہ کے بچے یا دوسرے بچے جو شرارت کر رہے ہیں۔ پہلے موقع پر بچے سے مراد خاص بچہ تھا اور دوسرے وقت اس سے مراد عام بچے تھے۔
دجّال کے معنی ہوتے ہیں ملمع سازی کرنے والا، دھوکا بازی کرنے والا، جھوٹ بولنے والا۔ جو قوم بھی ملمع سازی سے کام لیتی ہے، دھوکا بازی کرتی ہے، فریب کاری کا ارتکاب کرتی ہے وہ دجّال ہے۔ پس لفظِ دجّال سے جہاں ایک خاص گروہ مراد ہو گا جو پادریوں کا ہے وہاں دجّال کے لغوی معنوں کے لحاظ سے وہ تمام افراد مراد ہوں گے جو دھوکا بازی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے اور فریب کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جب خدا نے مجھے فرمایا کہ اِنَّمَا اُنْزِلَتِ السُّوْرَۃُ الْفَاتِحَۃُ لِتَدْمِیْرِ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔ تو ضروری نہیں تھا کہ اس سے صرف عیسائیوں کا فتنہ ہی مراد ہو۔ جب قرآن ساری دنیا کے لئے ہے اور سورۂ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے سارے فتنوں کا علاج سورۂ فاتحہ میںموجود ہے۔ اور اگر دنیا کے سارے فتنوں کا علاج سورۂ فاتحہ میں موجود ہے اور اگر قرآن میں ساری بیماریوںکا علاج موجود ہے کیونکہ وہ تفصیل ہے اور تفصیل میں وہی بات آ سکتی ہے جو خلاصہ میں موجود ہو۔ جیسے آم کے درخت میں وہ خصوصیت نہیں آ سکتی جو اس کی گٹھلی میں نہ ہو۔ اسی طرح قرآن کریم میں وہ بات نہیں آسکتی جو سورۂ فاتحہ میں نہ ہو۔ اور اگر قرآن سب روحانی بیماریوں کا علاج ہے تو ساری روحانی بیماریوں کا علاج سورۂ فاتحہ میں بھی ہے۔ کیونکہ قرآن تفصیل ہے اور سورۂ فاتحہ اس کا خلاصہ ہے۔ پس جب یہ کہا گیا کہ سورۂ فاتحہ میں دجال کے فتنے کا ردّ ہے تو اس کے معنی درحقیقت یہ تھے کہ تمام قسم کی خرابیاں جو قومی درجہ تک پہنچ جاتی ہیں اور جن میں جھوٹ اور فریب سے کام لیا جاتا ہے اُس کا علاج سورہ ٔ فاتحہ میں موجود ہے۔
کچھ دن ہوئے مَیں دُعا کر رہا تھا کہ متواتر یہ آیات میری زبان پر جاری ہوئیں۔ 2۔ اور یہ آیات بھی سورۂ فاتحہ کی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ موجودہ فتنہ کا علاج ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔
ہماری جماعت محتاج ہے اس بات کی کہ وہ اُن لوگوں کے راستہ پر چلے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام نازل کیا۔ ہماری مصیبتوں کا یہ علاج نہیں کہ ہم افسوس اور حسرت بھرے دل کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ ہماری مصیبتوں کا یہ علاج نہیں کہ ہم رونے لگ جائیں۔ ہماری مصیبتوں کا یہ علاج نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور سُستی دکھائیں۔ ہماری مصیبتوں کا یہ علاج نہیں کہ ہم دنیوی تدابیر کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی تدابیر بھی مصائب کو دور کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں اور ایک حد تک دنیوی تدابیر اختیار کرنی لازمی ہوتی ہیں۔ مگر دنیوی تدابیر مصیبتوں کا علاج نہیں ہوتیں۔ جس طرح مکان کی دیواروں پر بیل بُوٹے بنائے جاتے ہیں۔مگر وہ مکان نہیں کہلاتے۔ یہی حال دنیوی تدابیر کا ہوتا ہے۔ یا تم مکان بناتے ہو تو کہتے ہو اس مکان کے دروازے اور کھڑکیاں اور چھتیں دیو دار 3 کی بنائی جائیں یا چیل کی بنائی جائیں یا کیل کی بنائی جائیں یا ٹیک 4 (TEAK) (یعنی ساگوان)کی بنائی جائیں۔ حالانکہ ٹیک کا بنا ہوا دروازہ بھی دروازہ ہی کہلاتا ہے۔ چیل کا بنا ہوا دروازہ بھی دروازہ ہی کہلاتا ہے۔ کیل کا بنا ہوا دروازہ بھی دروازہ ہی کہلاتا ہے۔ دیودار کابنا ہوا دروازہ بھی دروازہ ہی کہلاتا ہے۔ ٹیک یا چیل یا کیل یا دیودار کی وجہ سے وہ کوئی نئی چیز نہیں بن جاتی۔ اسی طرح دنیوی سامان بھی محض زیبائش ہوتے ہیں اور ان سامانوں کو اختیار کرنا ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے لکڑی کے لئے ہم یہ تجویز کریں کہ کیل آ جائے یا دیار یا چیل اور ٹیک وغیرہ آ جائے۔ اصل چیز جس سے دینی سلسلوں کا ارتقاء وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو کسی الہٰی سلسلہ میں داخل ہوں صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں اور صراط مستقیم پر جا کر جو لوگ خدا تعالیٰ کے انعام حاصل کر چکے ہوں اُن کے نقش قدم کی اتباع کرنے والے ہوں۔ اگر یہ نیک تغیر ان میں پیدا ہو جائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اختیار کریں، صراط ِمستقیم پر چلیں اور پہلے نیک لوگوں کی نقل کریں تو یقینا ان کے اندر کامیابی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور جب ان کے اندر کامیابی کے سامان پیدا ہو جائیں تو باہر کی دنیامیں بھی پیدا ہونے لگ جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ انسان کی نجات کا ذریعہ پہلے اس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور پھر بعد میں بیرونی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو پہلے کبھی شائع نہیں ہوا کہ ’’حقِ اولاد در اولاد‘‘۔ یعنی اولاد کا حق اس کے اندر موجود ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس جگہ اولاد سے صرف جسمانی اولاد مراد ہو۔ بلکہ ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کیا وہ آپ کی روحانی اولاد میں شامل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے لئے کامیابی کے سامان باہر سے پیدا ہونگے۔ بلکہ پہلے یہ سامان خود تمہارے اندر پیدا ہوں گے۔ اورہم نے ان سامانوں کے پیدا کرنے کے تمام ذرائع مہیا کر دیئے ہیں۔ ہم نے اپنی تعلمیں تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔ جتنا جتنا تم ان تعلیموں کو اپنی عملی زندگی میں شامل کرتے جاؤگے اتنا ہی تمہارے لئے بیرونی دنیا میں تغیر پیدا ہو تا چلا جائے گا۔ گویا تمہارا حق تمہیں بیرونی دنیا سے نہیں ملے گا بلکہ تمہارے اپنے دل کی طاقت سے تمہارا حق تمہیں ملے گا۔ جتنا جتنا تم اپنے دل میں نیک تغیر پیدا کرو گے، جتنی جتنی تم اپنے اندر اصلاحات کرو گے تمہیں یقین رکھنا چاہیئے کہ اسی تغیر اور اسی اصلاح کے مطابق دنیا چکر کھاتی جائے گی۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیرونی دنیا سے فیض حاصل کرتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جوبیرونی دنیا سے فیض حاصل نہیں کرتے بلکہ بیرونی دنیا ان کے مطابق تبدیل کی جاتی ہے۔ انبیاء کی جماعتیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ دنیا ان کے مطابق بدلی جاتی ہے۔ وہ دنیا کے مطابق نہیں بدلتے۔ اور اگر دنیا کو بدلنے والی بات ان کے اندر نہ ہو تو وہ ایک بیکار وجود ہوتے ہیں اور وہ اتنا بھی فائدہ بخش نہیں ہوتے جتنے وہ لوگ جو دنیا کے مطابق بدلتے ہیں۔ وہ بہرحال دنیا کے اثر کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ خواہ وہ اثر اچھا ہو یا بُرا۔ جیسے ایک کڑوی چیز ہے۔ اسے جو بھی کھائے گا اُس کی کڑواہٹ سے متاثر ہوگا۔ لیکن جو چیز دوسرے پر اثر ڈالنے کے لئے پیداکی گئی ہو جب تک خود اس میں قوتِ متأثرہ نہ ہوگی وہ دوسرے پر اثر نہیں ڈال سکے گی۔ مثلاً انسان کے جسم میں بعض تأثیریں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے جسم میں گرمی ہوتی ہے۔ اگر اسے ٹھنڈے جسم پررگڑا جائے تواُ س میں بھی گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ امر ظاہر ہے کہ اگر کسی کے اپنے ہاتھ میں گرمی نہیں ہو گی تو خواہ اُسے کتنا بھی کسی دوسری چیز کے پاس رکھا جائے دوسری چیز میں گرمی پیدا نہیں ہوگی۔ پس جو فائدہ کسی چیز کے اندرونی تغیر سے پیدا ہونے والا ہو وہ بہرحال اندرونی تغیر کا محتاج ہوتا ہے جب تک اندر تغیر نہ ہو باہر کوئی اثر ظاہر نہیں ہو سکتا۔
انبیاء کی جماعتیں بھی اِسی قسم میں شامل ہیں جو اندرونی تغیرات کی محتاج ہوتی ہیں۔ وہ دنیا سے متاثر نہیں ہوتیں بلکہ دنیا کو متأثر کرتی ہیں۔ جو چیزیں دنیا سے متأثر ہونے کے لئے پیدا ہوتی ہیں وہ تو بہرحال اسی غرض کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔ مگر جو چیزیں متأثر کرنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں جب تک خود ان میں قوتِ مؤثرہ نہ ہو وہ کسی کام نہیں آسکتیں۔
پس میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہماری جماعت کو ہمیشہ کا گروہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ تم میں سے ہر شخص نے تصویر تو نہیں کھینچی ہو گی لیکن دوسروں کو تصویر کھینچتے تم میں سے اکثر نے دیکھا ہو گا۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ ہاتھ میںبرش لئے اور سامنے کاغذ یا کپڑا لٹکائے بعض دفعہ دریا یا نہر یا پہاڑ یا ایسے ہی کسی اَور نظارہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس نظارہ کو دیکھتے جاتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کاغذ یا کپڑے پر برش مارتے جاتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ اُس نظارہ کی تصویر کِھنچ جاتی ہے۔ اِس مثال سے تم سمجھ سکتے ہو کہ تصویر کشی کے لئے دوسرے کے سامنے جانا پڑتا اور اس کو اپنی نظروں کے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ اگراس مثال کا سمجھنا بعض لوگوں کیلئے مشکل ہو تو فوٹو کے کیمرہ کو تو ہر شخص جانتا ہے۔ گاؤں کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ کیمرہ کے اندر فلم بھری ہوئی ہوتی ہے۔ شیشہ ہوتا ہے فوٹو کھینچنے والا۔ دوسرے کو سامنے بیٹھا کر کیمرہ کا منہ کھولتا اور پھر جلدی سے اسے بند کر لیتا ہے او راس طرح اس کا فوٹو آ جاتا ہے۔ تم میں سے اکثر نے اس طرح اپنے فوٹو کھِنچوائے ہونگے بلکہ آجکل شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے کبھی نہ کبھی فوٹو نہ کھِنچوایا ہو۔ اور جسے پتہ نہ ہو کہ فوٹو کھینچنے کا کیا طریق ہوتا ہے۔
مصوّر کا طریق یہ ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کو اپنے سامنے بٹھا لیتا ہے جس کی تصویر کھینچنا اس کا مقصد ہو تا ہے۔ پھر اُس کی طرف غور سے دیکھتا ہے۔ ناک بنانی ہو تو اس کے ناک کو دیکھے گا اور پھر کاغذ پربرش مارے گا۔ چہرہ بنانا ہو تو چہرہ دیکھ دیکھ کر برش مارتا جائے گا۔ جہاں نشیب دیکھتا ہے وہاں اُسی طرح کا نشیب بنا دیتا ہے۔ جہاں اُبھار دیکھتا وہاں اُسی قسم کا ابھار پیدا کر دیتا ہے۔ غرض وہ اس چیز کو اپنے سامنے رکھتا ہے جس کی تصویر کھینچنا چاہتا ہے۔ اور فوٹو گرافر اگر کوئی فوٹو کھینچنا چاہتا ہے تو اُسے بھی دوسرے کو کیمرہ کے سامنے کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ اگروہ سامنے کھڑا ہو گا تو اس کا فوٹو آ جائے گا اور اگر سامنے کھڑا نہیں ہو گا تو اس کا فوٹو نہیں آئے گا۔ میں بھی مومن کو مصوِّر قرار دیا گیا ہے۔ اور پہلوں کو مصوَّر بنایا گیا ہے۔ مومن اپنے دل پر تصویر کھینچتا ہے۔ مگر کن لوگوںکی؟ اُن لوگوں کی جو پہلے گزر چکے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن چکے ہیں۔ وہ دعا کرتا اور روزانہ اللہ تعالیٰ سے التجاء کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُونے انعام کیا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اس جگہ رستہ سے مراد کوئی ظاہری سڑک نہیں جس پر لوگ چل چکے ہوں۔ بلکہ رستہ سے مرا د پہلے لوگوں کا رنگ اور ان کا طور طریق ہے۔ یہ مراد نہیں کہ جیسے لاہور سے امرتسر یا لاہور سے گوجرانوالہ سڑک جاتی ہے اور لوگ اُس پر سفر کرتے ہیں۔ اس طرح کی کوئی سڑک اس آیت میں مراد نہیں۔ بلکہ اِس جگہ رستہ سے مراد پہلے بزرگوں کا طور و طریق اور اُن کا راہِ عمل ہے۔ اور مومن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ روزانہ یہ دعا کیا کرے کہ الہٰی! مجھے سیدھاطور و طریق بتا۔ اُن لوگوں کا طور و طریق جو تیرے منعم علیہ گروہ میں شامل ہوچکے ہیں۔ گویا مومن اپنے دل پر پہلے لوگوں کی تصویر کھینچتا ہے۔ مگر یہ تصویر اُسی وقت کھینچ سکتا ہے جب وہ لوگ ہر وقت اُس کی آنکھوں کے سامنے رہیں۔ جب تک یہ اُن لوگوں کو اپنے سامنے رکھے گا اُن کی تصویر اپنے دل پر کھینچنے میں کامیاب رہے گا۔ اور جب یہ اُن کو اپنے سامنے نہیں رکھے گا اُن کی تصویر کھینچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ پس میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ جن کا انجام بخیر ہو گیا، جو آخر تک صداقت پر قائم رہے، جنہوں نے مرتے دم تک خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑا اور جن کا نیک اور پاک ہونا یقین کے مرتبہ تک پہنچ گیا۔ اُن کے نقشِ قدم پر چلنے اور اُن کی تصویر اپنے دل پر کھینچنے کی تمہیں پوری کوشش کرنی چاہیئے۔ زندگی میں تو انسان کے متعلق ہر وقت خطرہ ہو سکتا ہے کہ اُس کا قدم ڈگمگا جائے اور وہ سیدھے راستہ سے منحرف ہو جائے۔ آج نیک ہے تو کل مرتد ہوجائے مگر جو فوت ہو گیا اور ایمان کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے جا ملا وہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن گیا۔ اور اس کی اتباع یقینا انسان کی نجات اور اُس کی اخروی بہبودی کے لئے ضروری ہو گئی۔ پس میں ہمیں اِسی امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تم کسی نیک جماعت میں داخل ہو تو تم ہمیشہ یہ دعا کیا کرو کہ وہ نیک اور نیک لوگ جو پہلے گزر چکے ہیں اور فوت ہو چکے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مرتد نہیں ہوئے اور اُن کا انجام بخیر ہو گیا ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی عملی توفیق عطا فرما تا ہمارے اندر بھی نیکی اور تقویٰ پیدا ہو اور ہم بھی تیرے قرب سے متمتع ہوں۔ مگر مغضوب علیھم اور ضالّین نہ بنائیو۔ یعنی وہ لوگ جو گمراہ ہو گئے یا مرتد ہو کر مر گئے۔ خواہ کسی وقت انہوں نے تیرا قُرب ہی کیوں نہ حاصل کیا ہوا ہو اُن جیسا بننے سے ہمیں محفوظ رکھیو۔
یہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت انسان ولی اللہ ہو اور دوسرے وقت ارتداد کے گڑھے میں گرجائے۔ کیا بلعم باعور کا واقعہ لوگوں کو معلوم نہیں۔ تورات میں لکھا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے چلے اور فلسطین کی طرف گئے تو راستہ میں ایک بادشاہت آتی تھی۔ حضرت موسیٰ ؑاور آپ کی قوم نے اُس کا مقابلہ کیا اور حضرت موسیٰ ؑ غالب آگئے۔ اُس قوم نے اپنے بادشاہ سے کہا کہ بلعم اللہ تعالیٰ کا نہایت پیارا اور صاحبِ الہام انسان ہے آپ اُس سے دعا کرائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو موسیٰ ؑکے مقابلہ میں فتح بخشے۔ بلعم کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور وہ لوگوں سے بھی کہا کرتا تھا کہ مجھ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں گی۔ بادشاہ نے بلعم سے درخواست کی اور انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکے مقابلہ میں اُس بادشاہ کی کامیابی کے لئے دعا کی۔ دعا کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں الہام ہوا کہ اس بادشاہ کے مقابلہ میں ہمارا نبی ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم تمہاری دعا قبول کر کے اُسے تباہ کر دیں۔ بلعم خاموش ہو گیا اور اس نے بادشاہ سے کہہ دیا کہ مَیں اب دعا نہیں کر سکتا مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جھاڑ پڑتی ہے۔ اُس نے پھر اصرار کیا مگر وہ نہ مانا۔ آخر کسی نے اُس بادشاہ کو ترکیب بتلائی کہ بلعم پر اُس کی بیوی کا بہت اثر ہے اُسے کچھ روپیہ بھجوا دیا جائے تو اس کے کہنے پر ممکن ہے بلعم پھر دعا کے لئے تیار ہو جائے۔ جس طرح آجکل کے لوگ مجسٹریٹوں کی بیویوں کو تحائف بھجوا دیتے ہیں اور وہ زور دے کر اپنے خاوندوں کو اُن کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ اِسی طرح بادشاہ کو یہ ترکیب بتلائی گئی۔ چونکہ بالعموم خدا تعالیٰ کے بندے دنیا کمانے میں کم حصہ لیتے ہیںاور اُن کی مالی حالت کمزور ہوتی ہے ۔ اِسی قسم کی حالت بلعم کی بھی تھی۔ جب بادشاہ نے اُس کی بیوی کو بہت کچھ روپیہ بھجوا دیا تو اُس نے اپنے خاوند سے کہا کہ ہم کتنی مصیبت برداشت کر رہے تھے اور کس طرح ہم پر فاقے آتے تھے اب بادشاہ نے ہمارے ساتھ اتنا حُسنِ سلوک کیا ہے ۔تم ایک دفعہ میری خاطر موسیٰ ؑکے مقابلہ میں دعا کرو۔ خدا کا تمہارے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ تمہاری دعا کو قبول کرے گا۔ تمہاری دعا سے اگر موسیٰ ؑمر گیا تو بہتر ورنہ اِس گناہ کے متعلق بعد میں توبہ کر لینا۔ وہ بیوی کے کہنے پر ایک پہاڑ کی چٹان پر گئے جہاں سے موسیٰ ؑاور اُن کی فوج نظر آتی تھی اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ جب دعا کے لئے انہوں نے ہاتھ اٹھائے تو یکدم اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے سینہ میں سے ایک کبوتر نکلا اور ہوا میں پرواز کر گیا ہے۔ اُس کے بعد انہیں الہام ہوا۔ اے بلعم! تیرے ساتھ ہمارا وعدہ دعاؤں کی قبولیت کا تیرے ایمان کی وجہ سے تھا۔ جب تُو ہمارے ایک برگزیدہ نبی کے مقابلہ میںکھڑا ہو گیا تو ہماری نگاہ میں تیرا ایمان بالکل ذلیل ہو گیا۔ چنانچہ یہ کبوتر جو تیرے سینہ میں سے نکل کر ہوا میں اُڑ گیا ہے یہ تیرا ایمان تھا جو ہمارے پاس آ گیا ہے اور بلعم بے ایمان کی دعا قبول کرنے کا ہم نے وعدہ نہیں کیا تھا۔
تو دیکھو ایک انسان خواہ کتنا بھی برگزیدہ ہو اگر اُس کا انجام خراب ہو جائے تو اُس کی نقل کر کے ہم نے کیا کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہےَ ۔ گو الہام میں کے الفاظ نہیں مگر بہرحال یہ الفاظ پہلی آیت کے ساتھ ہی ہیں۔ اور اس طرح ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایسی حالت میں مر گئے کہ وہ میں شامل نہ تھے وہ بہرحال مغضوب تھے یا ضالّ ۔اور ان کی اتباع انسان کو ذلیل کرنے والی ہے۔
پس مومن کو ہمیشہ اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقِ عمل کو دیکھنا چاہیئے اور غور کرنا چاہیئے کہ انہوں نے ہمارے لئے کیا نمونہ چھوڑا ہے۔ ایک انسان پر مصیبت آتی ہے تو وہ ہر وقت روتا پِھرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے ہائے مَیں تباہ ہو گیا، ہائے مَیں برباد ہو گیا۔ اُسے سوچنا اور غور کرنا چاہیئے کہ کیا موسیٰ ؑپر مصیبت نہیںآئی۔ کیا عیسیٰ ؑ پر مصیبت نہیں آئی؟ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مصیبت نہیں آئی؟ پھر وہ اُن کو کیوں نبی مانتا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک ملک کا وعدہ دیا گیا مگر وہ اُس ملک سے باہر ہی وفات پا گئے۔ کیا موسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے کہ وہ بغیر اُس ملک میں داخل ہونے کے وفات پا گئے اور اُن کی قوم جنگلوںمیں بھٹکتی پھری؟ کیا حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے جن پر شدید مصائب آئے؟ کیا رام چندرؑ جھوٹے تھے جن کو بارہ برس کا بن باس ملا اور دشمن اُن کی بیوی تک چھین کر لے گیا؟ کیا زرتشت ؑ جھوٹے تھے جنہیں ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑی اور جس میں انہیں کئی بار شکستیں ہوئیں؟ کیا حضرت نوحؑ جھوٹے تھے جن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا وہ وطن جس میں اُن کے باپ دادا کی قبریں تھیں۔ حضرت آدمؑ کی قبر بھی وہیں تھی اور اُن کی نشانیاں بھی اسی جگہ تھیں۔ مگر انہیں وطن چھوڑنا پڑا۔ کیا اس مصیبت کی وجہ سے کوئی شخص انہیں جھوٹا کہنے کی جرأت کر سکتا ہے ؟غرض کے گروہ کی طرف جب انسان نظر ڈالے گاتو اُسے کئی چیزیں جو اُس کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتی ہیں ایسی نظر آئیں گی جو اُن میں بھی پائی جائیں گی۔ اور جب وہ دیکھے گا کہ باوجود ان مشکلات کے انبیاء اور اُن کی جماعتوں نے ایمان کا دامن نہ چھوڑا اور وہ کامیابی حاصل کرکے رہے تو اُس کی ہمت بھی بڑھے گی اور وہ مشکلات پر غالب آنے کی کوشش کرے گا۔ پس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم گزشتہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھو اور ہر وقت ان کے واقعات کو دیکھتے رہو۔ تم پر اگر مصائب آتے ہیں تو تم دیکھو کہ کیا ایسی ہی مصیبتیں اُن پر نہیں آئیں۔ پھر انہوں نے کیسا ثباتِ قدم دکھایا اور کس طرح اللہ تعالیٰ سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کی جنگ میں زخمی ہو کر ایک گڑھے میں جا پڑے۔ اور صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ مارے گئے ہیں تو اُس وقت صحابہؓ کی کیا حالت ہو گی۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ مارے نہیں گئے۔ سوال یہ ہے کہ صحابہؓ نے کیا سمجھا تھا ؟صحابہؓ یہی سمجھتے تھے کہ آپ شہید ہو چکے ہیں۔ پھر غور کرو اور سوچو کہ جب صحابہؓ نے اُحد کی جنگ میں یہ دیکھا کہ اسلامی لشکر تِتّر بِتّر ہوچکا ہے۔ جب صحابہؓ سمجھتے تھے کہ ہماری عورتیں اور بچے اب صرف آٹھ میل کے فاصلہ پر رہ گئے ہیںا ور درمیان میں کوئی لشکر نہیں جو دشمن کے حملہ کو روک سکے۔ جب صحابہؓ کے سامنے تین ہزار کا نہایت زبردست اور تجربہ کار لشکر کھڑا تھا جس نے تمام اسلامی لشکر کو تِتّر بِتّر کر دیا تھا۔ اُس وقت صحابہؓ نے کیا سمجھاتھا؟ اُس وقت اُمید کا 1/100 فیصدی پہلو بھی تو اُن کے سامنے نہیں تھا۔امید انسان کرتا ہے جتھے پر۔ مگر اُس وقت مسلمانوں کا کوئی جتھا نہیں تھا۔ تمام لشکر تِتّر بِتّر ہو چکا تھا۔ اُمید انسان کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے کسی نبی یا اُس کے کسی برگزیدہ انسان کی موجودگی پر اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ انسان دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ مصائب کو دور فرما دے گا۔ مگر وہ شخص اُن کے نزدیک شہید ہو چکا تھا اور اُس کا مقدس جسم لاشوں کے نیچے پڑا تھا۔ پھر انسان سمجھتا ہے کہ ابھی ہماری اَور فوجیں تیار کھڑی ہیں۔ اگر ایک فوج کو شکست بھی ہوتی ہے تو کیا ہوا۔ مگر اُحد اور مدینہ کے درمیان کوئی اسلامی فوج نہیں تھی اور تمام راستہ خالی پڑاتھا۔ انسان سمجھتا ہے کہ اُس کے شہر کے قلعے محفوظ ہیں۔ مگر مدینہ میں کوئی قلعہ نہ تھا اور مسلمان عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا۔ پھر کون سی چیز تھی جس نے اُن کو ایمان پر قائم رکھا؟ وہ کون سی بات تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ 5۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ آپ قتل نہیں ہو ں گے۔ مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہمارا یہ رسول فوت ہو جائے یا قتل کر دیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پِھر جاؤ گے؟ خدا تعالیٰ نے یہ بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد نہیں کہی بلکہ آپ کی زندگی اور آپ کی موجودگی میں کہی کیونکہ نبی کی سچائی کا اُس کی زندگی میں ہی ثبوت مل جاتا ہے۔ اگر موت کے بعد اُس کی سچائی کا ثبوت ملے تو زندگی میں اُس پر ایمان لانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اور جب کسی نبی کی سچائی معلوم ہو گئی تو پھر اس کی موت یا اس کا قتل کسی مومن کو ڈگمگا ہی کس طرح سکتا ہے۔ جو چیز ایک دفعہ پرکھ لی گئی، جس کے خالص اور بے عیب ہونے کا مشاہدہ کر لیا گیا، جس کے قیمتی ہونے کا ثبوت مہیا ہو گیا۔ اُسے انسان بہرحال خالص اور بے عیب اور قیمتی ہی قرار دے گا خواہ وہ زندہ ہو یا قید و بند کی مشکلات میں ہو۔ آخر ہم روپیہ کو چاندی کی وجہ سے مانا کرتے ہیں یا اس لئے کہ اُسے چور چُرا نہیں سکتا ؟اگر اُسے چور چُرا کر لے جائے گا تب بھی روپیہ روپیہ ہی رہے گا۔ ڈاکو اُسے چھین کر لے جائے گا تب بھی اُس کے روپیہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔ ہم ایک آم کے درخت کو اس لئے درخت مانتے ہیں کہ کوئی اُسے کاٹ نہیں سکتا یا اس لئے ہم اُسے آم کہتے ہیں کہ ہم نے اُس کا پھل کھایا اور اُس کامزہ اٹھایا؟ جب ہم نے اُس کا پھل چکھ لیا اور ہم نے یقین کی آنکھ سے دیکھ لیا کہ وہ آم کا درخت ہے تو اس کے بعد خواہ لوگ اُسے جلا دیں، کاٹ دیں، تباہ کر دیں، ہم یہی کہیں گے کہ وہ آم تھا۔ کیونکہ ہم نے خود اُس کا پھل کھایا ہے۔ تو ْ میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم پہلے نبیوں اور ان کی جماعتوں کے طریق اپنے سامنے رکھو۔ جن حالات اور مشکلات میں وہ ثابت قدم رہے ہیں اگر انہیں حالات اور مشکلات میں تم بھی ثابت قدم رہتے ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ کا انعام مل جائے گا۔ اور اگر تم یہ چاہو کہ اُن جیسی مشکلات تم پر نہ آئیں تو یہ ایک لغو طریق ہو گا۔ اور ایسا ہی ہو گا جیسے لاہور کے متعلق لطیفہ مشہور ہے کہ ایک ہندو پنڈت شدید سردی کے موسم میں دریائے راوی پر نہانے کے لئے گیا۔ سردی سے وہ کانپ رہا تھا کہ سامنے سے اُسے ایک اَور پنڈت آتا دکھائی دیا۔ پرانے پنڈت علی الصبح دریا پر نہانا ضروری سمجھتے تھے۔ جب اُس نے سامنے سے ایک اَور پنڈت کو آتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا تم نہا آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں نہا آیا ہوں۔ کس طرح؟ آج تو بڑی سردی ہے۔ اُس پنڈت نے جواب دیا کہ مَیں بھی سخت ڈر رہا تھا کہ آج زیادہ سردی ہے غسل کس طرح کروں گا۔ آخر ایک تجویز میرے ذہن میں آئی۔ مَیں نے کنکر اُٹھایا اور اُسے دریا میں یہ کہتے ہوئے پھینک دیا ’’تو راشنان سومور اشنان۔‘‘ یعنی چل بھئی کنکر تیرا نہانا میرا نہانا ہو گیا۔ یہ کہہ کر مَیں واپس آ گیا۔ اِس پر دوسرا پنڈت وہیں سے مُڑ بیٹھا اور کہنے لگا چل بھئی پھر تیرا نہانا میرا نہانا ہو گیا۔ یہ ایمان بھی کوئی ایمان ہے؟ ہمارا خدا سے صرف اُس وقت تک تعلق ہو جب تک وہ ہمیں لیٹے لیٹے حلوے کھلاتا رہے۔ جہاں آزمائش کا وقت آئے ایمان ختم ہو جائے۔ ایسے ایمان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ کیا موسیٰ ؑنے ایسا ہی ایمان دکھایا تھا؟ کیا عیسیٰ ؑ نے ایسا ہی ایمان دکھایا تھا؟ کیا نوح ؑ نے ایسا ہی ایمان دکھایا تھا؟ جب خدا نے نوح ؑ سے یہ کہا کہ کشتی بنا اور یہاں سے نکل۔ تو آخر نوح ؑ کا کوئی گھر تھا یا نہیں؟ اور اُس گھر سے اُنہیں محبت تھی یا نہیں؟ نوحؑ کی کوئی قوم تھی یا نہیں؟ اور اُس قوم سے انہیں محبت تھی یا نہیں؟ نوح ؑکا کوئی شہر تھا یا نہیں اور اُس شہر سے انہیں محبت تھی یا نہیں؟ آخر اُسی شہر میں ایسا خدا رسیدہ انسان تھا کہ تورات میں اُس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا 6۔ ایسے باپ دادا کی قبریں وہاں تھیں۔ مگر خدا نے انہیں یہی حکم دیا کہ اس شہر سے باہر نکل۔ جب خدا نے انہیں کہا کہ اے نوحؑ !کشتی بنا او ریہاں سے نکل۔ تو کیا اُس وقت نوح ؑنے یہ کہا تھا کہ آپ اپنی نبوت اپنے گھر رکھیں مَیں تو وطن چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہیں؟ نوح ؑ نے یہ نہیں کہا بلکہ وہ کشتی بنا کر چل پڑا اور اس نے اپنے وطن کو ترک کر دیا۔ جب موسیٰ ؑکو خدا نے یہ کہا کہ تُو مصر سے نکل تو کیا موسیٰ اُس وقت ناراض ہوا اور اُس نے یہ کہا کہ مَیں تو مصر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ؟تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلسطین میں موسیٰ کے باپ دادا رہتے تھے اور وہ اُس کا وطن ہی تھا۔ کیونکہ اوّل تو اُن کے اصل باپ دادا فلسطین کے نہیں بلکہ عراق کے رہنے والے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فلسطین کا وعدہ دیا گیا تھا۔ مگر آپ فلسطین کے باشندے نہیں تھے بلکہ آپ اُور کے رہنے والے تھے جو عراق میں ہے۔ جہاں عراق کے دونوں دریا چلتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر سختی کی گئی اور آپ کو آگ میں ڈالا گیاتو اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ اور وہ فلسطین چلے گئے ۔جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ یہ ملک آخر تمہاری اولاد کو دیا جائے گا۔ مگر اولاد کے لئے بہرحال یہ ایک نیا ملک تھا۔ خواہ اس کے پرانے باپ دادا اسی ملک میں کیوں نہ رہ چکے ہوں۔ محض باپ دادا کے رہنے کی وجہ سے کسی ملک سے محبت نہیں ہو سکتی۔ اسی مجلس میں بیسیوں سید ہوں گے، بیسیوں پٹھان اور قریشی اور ایرانی النسل ہوں گے۔ ایرانی النسل لوگوں کے باپ دادا ایران میں تھے۔ پٹھانوں کے افغانستان میں تھے۔ مغلوں کے باپ دادا سمرقند و بخارا میں تھے۔ اب کیا مغلوں اور سیدوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند و بخارا اور عرب میں جا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس کو اپنے لئے انعام سمجھیں گے یا سزا سمجھیں گے مَیں تو سمجھتا ہوں اگر کسی کو پاکستان سے زبردستی عراق، شام اور فلسطین میں بھجوا دیا جائے اس لئے کہ اُس کے باپ دادا فلسطین کے رہنے والے تھے یا عراق اور شام کے رہنے والے تھے تو اُس کے بیوی بچے روتے ہوئے جائیں گے۔ یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم پر یہ انعام کیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے باپ دادا کے ملک میں بھجوا دیا گیا ہے۔ وطن وہی ہوتا ہے جہاں انسان پَلتاہے۔ پرانی باتیں بھول جاتی ہیں۔ وطن اُس کوسمجھاجاتا ہے جہاں انسان رہ رہا ہو۔ اگر ضلع گورداسپور اور جالندھر کے پٹھانوں کو ہی افغانستان بھجوا دیا جائے تو وہ کیا سمجھیں گے؟ افغانستان کے لوگ سمجھیں گے کہ ہندی آگئے ہیں ان کی خوب خبر لو۔ اور یہاں کے رہنے والے پٹھانوں کو غیر سمجھیںگے۔ یا ہم مغلوں کو اگر کوئی ہندوستان سے نکال کر سمرقند و بخارا لے جائے تو ہمارا کیا حال ہو۔ نہ ہم اُن کی بولی سمجھیں گے نہ وہ ہماری بولی سمجھیں گے اور ہم محض باپ دادا کے رہنے کی وجہ سے سمرقند و بخارا کو اپنا وطن نہیں سمجھیں گے۔ ہم یہی کہیں گے کہ ہمارا وطن ہندوستان ہے کیونکہ ہم نے ہندوستان میں ہی آنکھیں کھولیں اور ہندوستان میں ہی اپنی عمر گزاری۔ اِسی طرح موسیٰ ؑکا وطن فلسطین نہیں تھا۔ موسیٰ ؑ کا وطن مصر تھا۔ موسیٰ ؑ وہیں بڑھا اور جوان ہوا مگر آخر فرعون کے مظالم سے تنگ آ کر اُسے وہاں سے نکلنا پڑا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موسیٰ ؑ کو جب خدا نے یہ کہا تھا کہ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل تو اُس وقت موسیٰ ؑ نے یہ کہا تھا کہ آپ اپنی نبوت اپنے گھر میں رکھیں مجھے اگر کچھ دینا ہے تو ہمارے وطن میں دیں، فلسطین نہ بھجوائیں؟ موسیٰ ؑ نے یہ نہیں کہا کہ جب خدا نے کہا کہ اے موسیٰ! اپنا وطن تُو چھوڑ تو موسیٰ ؑنے کہا حضور !مَیں تیار ہوں۔ اور جب خدا نے کہا اے موسیٰ! تجھے اپنا وطن آئندہ فلسطین کو سمجھنا پڑے گا۔ تو موسیٰ نے کہا خدایا! مَیں تیار ہوں کہ مَیں فلسطین کو ہی اپنا وطن سمجھوں گا۔
تو میں بتایا گیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے سیدھے راستہ پر چلنے کی دعا کیا کرو اور کہا کرو کہ خدا یا! ہمیں وہی کام کرنے کی توفیق دے جو پہلے نیک اور پاک لوگوں نے کئے۔ اگر ہم اُن تکالیف کو برداشت کرتے ہیں جو پہلے لوگوں نے برداشت کیں تو ہم مومن ہیں۔ اگر ہم وہی قربانیاں کرتے ہیں جو پہلے لوگوں نے کیں تو ہم مومن ہیں۔ اگر ہم نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل پر اُسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح پہلے لوگوں نے عمل کیا تو ہم مومن ہیں۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا دعویٰ ٔایمان بالکل بے حقیقت چیز ہے۔ جس طرح مصوّر بار بار اُس نظارہ کو دیکھتا ہے جس کی وہ تصویر کھینچنا چاہتا ہے اور برش سے کاغذ یا کپڑے پر نشان ڈالتا چلا جاتا ہے اس طرح اگر تم بار بار پہلے لوگوں کو دیکھو گے نہیں تو اُن کی تصویر اپنے دل پر کس طرح کھینچ سکو گے۔ جب تک تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے کارناموں کو بار بار اپنے سامنے نہیں لاتے، جب تک تم موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ اور ابراہیمؑ اور نوحؑ کے کارناموں کو بار بار اپنے سامنے نہیں لاتے اُس وقت تک تم کس طرح اُن کی تصویر اپنے دل پر کھینچ سکتے ہو۔ یہ غلط طریق ہے کہ مشکلات کے آنے پر انبیاء سابقین کا ذکر کر کے یہ کہا جائے کہ دیکھو !خدا نے اُن سے کیا کیا اور انہیں کیسی کامیابیاں بخشیں۔ سوال یہ نہیں کہ خدا نے کیا کیا؟ سوال یہ ہے کہ خدا نے کب کیا؟ تم یہ تو دیکھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کو مارا مگر تم یہ نہیں دیکھتے کہ کتنے عرصہ کے بعد مارا اور کتنی تکالیف کے بعد اُن پر غلبہ حاصل کیا۔ تم یہ تو دیکھتے ہو کہ موسیٰ ؑفلسطین پر قابض ہو گئے مگر تم یہ نہیں دیکھتے کہ کب قابض ہوئے۔ تم یہ تو دیکھتے ہو کہ فرعون کی قوم غرق ہو گئی مگر تم یہ نہیں دیکھتے کہ کب غرق ہوئی۔ تم یہ تو دیکھتے ہو کہ نوح ؑغالب آیا مگر تم یہ نہیں دیکھتے کہ کب غالب آیا۔ نوحؑ ؑگھر سے بے گھر ہو گیا۔ وطن سے بے وطن ہو گیا۔ اپنے باپ دادا کی قبروں کو بھی وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا اور پھر کہیں ایک عرصہ بعد اُسے غلبہ حاصل ہوا۔ ان مثالوں کو اپنے سامنے رکھ کر پر غور کرو اور اپنی کامیابی کے لئے کسی قسم کی شرط نہ لگاؤبلکہ جس طرح پہلوں نے مصائب پر صبر سے کام لیا اِسی طرح تم بھی مصائب پر صبر سے کام لو۔ اور جس طرح پہلوں نے نیکیوں میں حصہ لیا اسی طرح تم بھی نیکیوں میں حصہ لو۔ اس کے بغیر وہ انعام مل ہی نہیں سکتا جو میںبیان کیا گیا ہے ۔ تم پہلوں کو دیکھو کہ انہوں نے کیا کیا اور کن حالات میں کیا۔ اُس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرو۔ جب تم یہ دونوں کام کر لو گے تو پھر خدا تعالیٰ کے انعام کا وعدہ بھی تمہارے ساتھ پورا ہو جائے گا۔‘‘ (الفضل 26 نومبر 1947ئ)
1: رنگترہ: سنگترہ
2: الفاتحۃ:6، 7
3: دیودار: ایک درخت جو عموماً 1000 میٹر سے بلند علاقوں میں اُگتا ہے۔ اس کی لمبائی 40 سے
50 میٹر تک ہوتی ہے۔
4: ٹیک (TEAK): مضبوط درخت جس کی لکڑی تعمیری کاموں،بحری جہازوں اور کشتیوں میں
استعمال کی جاتی ہے۔ ٹیک انڈونیشیا کا قومی درخت ہے۔
5: آل عمران :145
6: پیدائش باب 6 آیت 9 مطبوعہ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور

42
ہماری جماعت میں ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن کریم
نہ آتا ہو
(فرمودہ 21 نومبر 1947ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’کوئی تین دن کی بات ہے کہ مَیں نے ایک رؤیا دیکھا جس میں مَیں نے دیکھا کہ ایک میدان ہے اُسی طرز کا جس طرز کا یہ میدان ہے مگر اس سے بڑا۔ اُس میدان میں کچھ دوست ہیں اور کوئی شخص غیر بھی شاید ہندو ملاقات کے لئے آیا ہوا ہے۔ مَیں نے اُس وقت چاہا کہ قرآن شریف کا درس دوں۔ چنانچہ مَیں نے اُس آنے والے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد جو مجھے یاد نہیں رہیں درس دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ مَیں اب قرآن شریف کا درس دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر مَیں اُٹھا تا کہ مَیں اپنا وہ قرآن لے آؤں جس پر میرے نوٹ لکھے ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹی سی دیوار سے جس میں طاقچہ سا بنا ہوا ہے مَیں نے سمجھا کہ میرا قرآن وہاں پڑ ا ہو گا مگر جب مَیں نے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں نہیں۔ اس کے مقابل میں ایک اَور دیوار ہے اور اس میں بھی طاقچے سے بنے ہوئے ہیں۔ پھر مَیں نے وہاں دیکھنا شروع کیا مگر وہاں بھی کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ میرا قرآن وہاں نہیں۔ اُس وقت مجھے پہلے تو یہ خیال آیا کہ مَیں گھر سے قرآن منگواؤں اور درس دے دوں مگر اس کے ساتھ ہی مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میرے درس کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے اور جہاں پہلے درس دیا تھا اس کے اگلے حصہ سے اب درس شروع کرنا ہے لیکن جس طرح درمیان میں وقفہ پڑ جائے اور ایک دو دن گزر جائیں تو انسان بھول جاتاہے کہ وہ کونسا رکوع تھاجس کا میں درس دے رہا تھا۔ اسی طرح مَیں بھی بھول گیا ہوں کہ مَیں کونسے رکوع کا درس دے رہا تھا۔ اس وجہ سے مَیں کسی اَور قرآن سے درس نہیں دے سکتا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ میرے قرآن پر درس کے مقام پر نشان رکھا ہوا تھا۔ مگر اب چونکہ وہ قرآن مجھے ملا نہیں اس لئے کسی اَور قرآن سے مَیں وہ مقام تلاش نہیں کر سکتا۔ اُس وقت مَیں نے سوچا کہ درس کے اعلان کے بعد یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ مَیں درس نہ دوں۔ اگر اس رکوع کا مَیں درس نہیں دے سکتا تو کسی اَور رکوع کا ہی درس دے دوں۔ اُس وقت کوئی خاص آیت میرے ذہن میں نہیں۔ لیکن جس طرح یقظہ 1 میں میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے اس طرح مَیں سمجھتا ہوں کہ کوئی آیت بھی میرے سامنے آ جائے گی تو مَیں درس دے دوں گا۔یہ خیال آتے ہی میرے دل میں آیا کہ مَیں کیوں نہ اس بات پر درس دوں کہ قرآن کریم کی تفسیر کس طرح کرنی چاہیے اور قرآن کریم کے صحیح مطالب سمجھنے کے لئے ہمارے پاس کونسا ذریعہ ہے۔ یہ خیال آتے ہی مَیں نے کہا کہ مَیں آج حسبِ دستور گو درس نہیں دیتا کیونکہ وہ قرآن کریم جس پر میرے نوٹ ہیں اس وقت میرے پاس نہیں اور مجھے معلوم نہیں کہ پہلا درس کہاں ختم ہوا ہے۔مگر آج مَیں اس بات پر درس دیتا ہوں کہ قرآن کریم کی تفسیر کن اصول پر کی جانی چاہیے۔ اُس وقت جیسے عام سنتُ اللہ میرے ساتھ ہے مَیں یہ فقر ے تو کہہ رہا ہوں مگر نہ مضمون میرے ذہن میں ہے اور نہ کوئی آیت میرے ذہن میں ہے۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ جب مَیں نے اس موضوع پر تقریر شروع کی تو خود بخود مضمون میرے سامنے آ تا جائے گا آیت بھی میرے سامنے آ جائے گی۔ عام طور پر جب مَیں بغیر نوٹوں کے تقریر کیا کرتا ہوں تو بسا اوقات دو چار فقرے کہنے تک مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرا مضمون کیا ہے۔ اُس وقت اچانک مضمون مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے اور مَیں تقریر شروع کر دیتا ہوں۔ اس وقت بھی یہ تو ذہن میں آگیا ہے کہ مَیں قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کروں مگر یہ کہ کن آیتوں سے یہ اصول مستنبط کروں گا یہ بات میرے ذہن میں نہیں۔ جب مَیں نے کہا کہ مَیں قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کرنا چاہتا ہوں تو یکدم میری زبان پر ایک آیت جاری ہوئی۔ آج تک جاگتے ہوئے مَیں نے اس آیت سے کبھی یہ مضمون اخذ نہیں کیا اور نہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی بھر کبھی اس آیت سے وہ استدلال کیا ہو جو مَیں خواب میں کرتا ہوں۔ بہرحال جب مَیں نے قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کرنے چاہے تو یکدم یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ اَمْرٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ اور مَیں نے کہا کہ قرآن کریم کی تفسیر کے بہترین اصول ان الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں۔ دراصل آیت ان الفاظ میںنہیں ہے بلکہ یوں ہے2۔ لیکن خواب میں مَیں اس طرح پڑھتا ہوں جس طرح اوپر بیان ہوا ہے۔ خواب کے الفاظ میں شَیْئٍ کی جگہ اَمْرٍ ہے اور الرَّسُوْلِ کے بعد اُولِی الْاَمْرِ کے لفظ بھی ہیں۔ ان الفاظ کی تبدیلی سے آیت کی تفسیر کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ کیونکہ شَیْئٍ اور اَمْرٍ کے الفاظ کے معنی تو ایک ہیں مگر اَمْرٍ کے لفظ سے اس طرف اشارہ بھی ہے کہ اس آیت میں تفسیرِ قرآنی کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح اُولِی الْاَمْرِکے الفاظ بڑھا کر اشارہ کیا ہے کہ آیت کے پہلے حصہ میں جو اُولِی الْاَمْرِکے الفاظ ہیں وہ دوسرے حصہ میں بھی مراد ہیں۔ صرف اختصا رکے لئے حذف کر دیئے گئے ہیں۔ جب کہ قرآن کریم کے کئی اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِکے معنی گو دنیاوی تنازعہ کے بھی ہیں مگر ایک معنی اس کے اَور بھی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ اَمْرکے معنی اس جگہ کلامِ الہٰی کے ہیں اور درحقیقت وہی اصل امر ہوتا ہے اور اسی کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کن ذرائع سے دنیا میں ترقی حاصل کر سکتا اور کن ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کر سکتا ہے۔ پس تَنَازَعْتُمْ فِیْ الْاَمْرِکے معنی ہیں تَنَازَعْتُمْ فِیْ تَفْسِیْرِ الْاَمْرِیا تَنَازَعْتُمْ فِیْ مَعْنِی الْاَمْرِ یعنی جب تمہیں کسی آیت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے میں شبہ ہو جائے ایک کہے اس کے یہ معنی ہیں اور دوسرا کہے اس کے یہ معنی ہیں تو تم اس اختلاف کے وقت سب سے پہلے یہ کام کیا کرو کہ اس آیت کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جاؤ کہ وہ اس کو حل کرے۔ اور پھر مَیں اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ احادیث میں اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ کَلَامُ اللّٰہِ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا۔ خدا تعالیٰ کے کلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کر دیا کرتا ہے۔ پس جب تم میں کسی آیت کے معنی کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو تمہیں قرآن کریم کی دوسری آیتوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ مختلف معانی میں سے کس کی تائید کرتی ہیں۔ پھر جس کی تائید کریں ہمارا فرض ہے کہ وہ معنی کریں اور جس کی تائید نہ کریں وہ معنی نہ کریں۔
پھر مَیں نے کہا دوسری چیز اِلَی الرَّسُوْلِ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ یعنی اگر قرآن کریم کی آیات سے تم پر حقیقت واضح نہیں ہوتی تو فَرُدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ تم احادیث کو ٹٹولو اور دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے کیا معنی بیان فرمائے ہیں۔ اور وہ معنی تمہارے مفہوم کی تائید میں ہیں یا اس کے مخالف ہیں۔ اگر احادیث نبوی تمہارے معنوں کی تائید میںہیں تو وہ درست ہیں اور اگر وہ غیر کی تائید میں ہیں تو اُس کے معنی درست ہیں۔
پھر مَیں کہتا ہوں کہ تیسرا اصول یہ ہے کہ اگر تمہارا اختلاف دُور نہ ہو تو اُولِی الْاَمْرِ کی طرف اس تنازعہ کو لَوٹاؤ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ کے ایک نئے معنی اِس وقت مَیں کرتا ہوں۔ عام طور پر اس آیت میں ہم اُولِی الْاَمْرِ کے اَور معنی کیا کرتے ہیں اور وہ معنی بھی اس جگہ درست ہیں۔ لیکن اِس وقت مَیں یہ معنی کرتا ہوں کہ اُولِی الْاَمْرِ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ سے معانی سمجھاتا ہے۔ اور مَیں کہتا ہوں کہ خدا اور رسول کے بعد تم اُس شخص کی طرف رجوع کرویا اُس کی کتابیں پڑھو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے کلامِ الہٰی کے معنی سمجھائے ہوں۔ یہ مضمون ہے جو خواب میں مَیں نے بیان کیا۔ اس کے بعد خواب کی حالت بدل گئی۔ اسی دوران ایک معترض بھی اٹھا۔ اس نے بعض اعتراضات کئے مگر اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال مَیں نے تین اصول قرآن کریم کی تفسیر کے بیان کئے ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ کئی دفعہ بیان ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور احادیث میں بھی آتا ہے کَلَامُ اللّٰہِ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًااللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کی تفسیر کر دیا کرتا ہے اور یہ بات بھی کئی دفعہ بیان کی جا چکی ہے اور ہر شخص سمجھتا ہے کہ قرآن کریم کے لانے والے سے زیادہ بہتر اس کے معانی کو اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اور یہ مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں آ چکا ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑے کیا کرتا ہے جو اس کے الہام کے مورد ہوتے ہیں، ان پر کلامِ الہٰی کے معارف کھولے جاتے ہیں اور انہی کی اقتدا اور پیروی ان کو نجات دلاتی ہے۔ مگر اس آیت کی تفسیر کے لحاظ سے یہ معنی مَیں نے پہلے کبھی بیان نہیں کئے کہ جب تم میں کسی آیت کے مفہوم کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو تم قرآن کریم کی دوسری آیتوں پر غور کیا کرو کہ وہ کن معنوں کی تائید کرتی ہیں۔ اگر آیات نہ ملیں تو احادیثِ نبوی میں اس کا مفہوم تلاش کرو۔ اور اگر احادیثِ نبوی سے بھی تمہیں اس کے معنی نہ ملیں تو کسی ملہم کے کلام اور اس کی تشریحات کی طرف دیکھو۔ کیونکہ خدا تعالیٰ سے تازہ روشنی اور الہام پانے کی وجہ سے اس کا ذہن منور ہو جاتا ہے۔ اور گو اس کا الہام قرآنی الہام سے ادنیٰ ہوتا ہے مگر چونکہ وہ قرآنی طرز کا الہام ہوتا ہے اس لئے اس کے دماغ کو قرآن کریم سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے بیان کردہ معنی زیادہ صحیح ہوتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے دماغ کو قرآن کریم سے اس رنگ کی مناسبت نہیں ہوتی۔ جہاں تک اس آیت سے استنباط کئے بغیر ان معانی کا تعلق ہے یہ معنی بیان ہوتے رہتے ہیں۔ مگراس آیت کی طرف منسوب کر کے ان معنوں کو پیش کرنا ایک جدید مضمون ہے۔
درحقیقت ہماری زندگی کا سارا مدار ہی قرآن کریم پر ہے۔ اگر ہماری جماعت قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو سارے مصائب اور ساری مشکلات آپ ہی آپ ختم ہو جائیں۔ درحقیقت خدا تعالیٰ سے بُعد کے نتیجہ میں ہی مشکلات آنے پر خدا تعالیٰ سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے 3۔ اِنَّہٗ کے معنی ہیں یہ قطعی بات ہے، حقیقت یہی ہے، صداقت یہی ہے، سچائی یہی ہے، اور اس کے سوا کوئی حقیقت اور کوئی سچائی اور کوئی صداقت نہیں۔ گویا اِنَّہٗ میں ھُوَ کی ضمیر عام ضمیر نہیں بلکہ ضمیرِ شان ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں حقیقت یہی ہے، صداقت یہی ہے، سچائی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اور اس کی رحمت سے اور اس کے فضل سے کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ سوائے قومِ کافر کے۔ جسے خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان نہیں ہوتا اور اس کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِنَّہٗ کہہ کر اور ضمیر ِشان لا کر بتا دیا ہے کہ یہ اٹل صداقت اور حقیقت ہے اور اس کے سوا کوئی صداقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سوائے کفار کے اور کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ نفیکے بعد جب اِلَّا آتا ہے تو وہ بھی حصر کر دیتا ہے۔ مثلاً جب کہا جائے کہ میرے سوا کوئی اَور شخص یہ کام نہیں کر سکتا توا س میں حصر آ جائے گا۔ اور دوسرے لوگوں کے متعلق نفی ہو جائے گی کہ ان میں اس کام کو سرانجام دینے کی اہلیت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی پہلے تو یہی کہا کہ حقیقت یہی ہے اور اس طرح حصر کر دیا اور پھر کہا کہ سوائے قومِ کافر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ گویا ایک حصر کی بجائے دو حصر آ گئے۔ ایک حصر ہی اپنے اندر بڑی تاکید رکھتا ہے۔دو حصر آ جائیں تو تاکید اپنے انتہاء کو پہنچ جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان کے ہوتے ہوئے انسانی قلب میں مایوسی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی جو حالت مثلاً غار ثور میںہوئی اس کے بعد کون سی امید کی حالت باقی رہ جاتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم رات کی تاریکی میں اپنے گھر کو چھوڑ کر غار ثور میں جا چُھپے۔ ایک ایسی غار میں جس کا منہ بہت بڑا کھلا تھا اور ہر انسان آسانی سے اس کے اندر جھانک سکتا اور کُود سکتاتھا۔ صرف ایک ساتھی آپ کے ہمراہ تھا اور پھر دونوں بغیر ہتھیاروں اور بغیر کسی طاقت کے تھے۔ مکہ کے مسلح لوگ آپ کے تعاقب میں غارِ ثور پر پہنچے اور ان میں سے بعض نے اصرار کیا کہ ہمیں جھک کر اندر بھی ایک دفعہ دیکھ لینا چاہیے تا کہ اگر وہ اندر ہوں تو ہم ان کو پکڑ سکیں۔ دشمن کو اتنا قریب دیکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! دشمن تو سر پر پہنچ گیا ہے۔ آپ نے اُس وقت بڑے جوش سے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا 4۔ ابوبکر ڈرتے کیوں ہو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ دیکھو گھبراہٹ کے لحاظ سے کتنی انتہائی چیز اُس وقت آپ کے سامنے آئی اور اس واقعہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل یا آپ کی گرفتاری میںکون سی کسر باقی رہ گئی تھی۔ مگر باوجود اس کے کہ دشمن طاقتور تھا، سپاہی اس کے ساتھ تھے، ہتھیار اس کے پاس موجود تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بالکل نہتے صرف ایک ساتھی کے ساتھ غار میں بیٹھے تھے۔ نہ ہتھیار آپ کے پاس تھا نہ حکومت آپ کی تائید میں تھی۔ نہ کوئی جتھا آپ کے پاس تھا۔ آپ کثیر التعداد دشمن کو اپنے سامنے کھڑا دیکھنے کے باوجود فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ تم کیوں یہ کہتے ہو کہ دشمن طاقتور ہے۔ کیا وہ خدا سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ جب خدا ہمارے ساتھ ہے تو ہمارے لئے گھبراہٹ کی کون سی وجہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی یہ گھبراہٹ بھی اپنے لئے نہیں تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے تھی۔
بعض شیعہ لوگ اس واقعہ کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ نعوذباللہ بے ایمان تھا۔ وہ اپنی جان دینے سے ڈر گیا۔ حالانکہ تاریخوں میں صاف لکھا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا یا رسول اللہ! مَیں اپنی جان کے لئے تو نہیں ڈرتا۔ مَیں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا۔ مَیںتو آپ کے لئے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مٹ جائے گی ۔
یہ ایمان ہے جو انسان کو ہر مصیبت اور ہر تکلیف کی ساعت میں پُر امید رکھتا ہے اور کسی لمحہ میں بھی مایوسی کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر کچھ کم مصائب نہیں آئے۔ آپ جنگ اُحد میںزخمی ہو کر گر گئے۔ اور صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔ غزوہ حنین میں سارا اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور صرف چند صحابہؓ کے ساتھ آپ میدانِ جنگ میں باقی رہ گئے۔ مگر آپ کا اصل مقصد جو صداقت کو دنیا میں قائم کرنا تھا اس میںکبھی کوئی رخنہ واقع نہیں ہوا۔ اور یہی غرض انبیاء کی بعثت کی ہوتی ہے۔ انبیاء دنیا میںصداقت پھیلانے کے لئے آتے ہیں او راسی مقصد کے لئے ان کی ہر کوشش صَرف ہوتی ہے۔ جہاں تک نبیوں کا وجود ان کی امت کے مقابلہ میں ہوتا ہے وہ بہت بڑی حیثیت رکھتے ہیں۔ اتنی بڑی حیثیت کہ اگر ساری دنیا کی جانیں بھی ایک نبی کی جان بچانے کے لئے قربان کرنی پڑیں تو وہ قربان کی جا سکتی ہیں۔مگر جہاں تک صداقت کا سوال ہے نبی بھی اسی طرح صداقت کا خادم ہوتا ہے جس طرح اس کا ایک عام پیرو صداقت کا خادم ہوتا ہے۔ اگر نبی ماراجاتا ہے،جلاوطن کر دیا جاتا ہے لیکن نتیجہ یہ نہیںنکلتا کہ اس کی صداقت دنیا سے مٹ جائے تو اس کا مارا جانا یا وطن سے بے وطن ہو جانا ہرگز کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ نبی کے مقابلہ میں صداقت حاکم ہوتی ہے اورنبی خادم جس طرح نبی کے مقابلہ میں امت خادم ہوتی ہے اور نبی حاکم۔ جس طرح نبی کے مقابلہ میں اگر ساری امت بھی تباہ کر دی جائے تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جیسے حضرت ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر مَیں مارا گیا تو میری کیاحیثیت ہے۔ صرف ایک ہی آدمی مارا جائے گا۔ لیکن اگر آپ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیاسے مٹ جائے گی۔ یہی حال نبی اور صداقت کا ہوتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا تک پہنچ جائے تو پھر بے شک نبی شہید ہو جائے اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کیونکہ وہ اسی غرض کے لئے آیا تھا کہ صداقت پھیلائے۔ جب خدا دیکھے کہ صداقت پھیل چکی ہے تو اس کے بعد اگر نبی مارا بھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اصل مقصد انبیاء کی بعثت کا یہی ہوتا ہے کہ وہ صداقت کو دنیامیں قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔
جب مَیں نے شروع شروع میں بیرونی ممالک میں مبلغ بھجوانے شروع کئے تو ہماری جماعت کا ایک طبقہ مجھ پر بڑے اعتراض کیا کرتا تھا اور کہا کرتاتھا کہ جب ہندوستان میں ہی ایسے علاقے موجود ہیں جن میں ہم تبلیغ کر سکتے ہیں تو بیرونی ممالک کی تبلیغ پر جماعت کا روپیہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے۔ وہ اس حکمت کو نہیں سمجھتے تھے جس کو مَیں سمجھتا تھا۔ اور وہ خیال کرتے تھے کہ ملّانوں کی طرح مسجد میں درس دیتے ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن مَیں جانتا تھا اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور فہم اور فراست کے ماتحت جانتا تھا کہ ہمیں مارا بھی جائے گا، ہمیں قتل بھی کیا جائے گا، ہمیں ہجرتیں بھی کرنی پڑیں گی، ہمیں لڑنا بھی پڑے گا۔ اور مَیں جانتا تھا کہ ہمارے لئے انتہائی طور پر یہ ضروری امر ہے کہ ہم جلد سے جلد دنیا کے تمام ممالک میں اپنی جماعت کو پھیلا دیںتا کہ اگر ایک مقام کی آبادی خدانخواستہ ساری کی ساری مار دی جائے اور تہہِ تیغ کر دی جائے تو دوسرے مقام کی احمدی آبادی احمدیت کو دنیا میں قائم رکھ سکے۔ چنانچہ باوجود دوستوں کے طعن و تشنیع کے اور باوجود ان کے بار بار کہنے کے کہ ہندوستان میں اچُھوتوں پر یہ روپیہ صَرف کیا جائے بیرونی ممالک میں مشن قائم نہ کئے جائیں مَیںبرابر غیر ممالک میں اپنے مبلغ بھجواتا رہا۔ اس طرح آج سے دس سال پہلے مَیں نے مختلف ملکوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے سیٹ بھجوا دیئے اور مَیں نے کہا دیکھو! اگر کسی وقت دشمن غالب آجائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتابیں جلا دے اور تباہ کر دے تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دنیا کے ہر ملک میں اپنے سلسلہ کا لٹریچر بھجوا دیں تا کہ اگر ایک ملک پر آفت آئے اور دشمن ہمارے لٹریچر کو تباہ کر دے تو دنیا کے اَور کئی ممالک میںہمارا لٹریچر محفوظ ہو اور ہم پھر اس کے ذریعہ سے احمدیت کو غالب کر سکیں۔ لوگ میری ان حرکات کو ایک پاگل کی حرکات سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ گو میرا ادب اور لحاظ کرتے ہوئے وہ یہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے کہ ان کو کچھ وہم سا ہو گیا ہے مگر آج ہم اس قسم کے حالات سے در بدر ہو رہے ہیں اور آج ہر شخص سمجھ رہا ہے کہ میرا وہم حقیقت تھا اور تمہاری حقیقت صرف ایک خیالی امر تھا۔ جب تم سمجھتے تھے کہ تم بالکل مامون اور محفوظ ہو اور تم پر مصائب کے ایام آنے والے نہیں تو تم ایک خطرناک وہم میں مبتلا تھے۔ ایسا وہم جو قوموں کو تباہ کر دیا کرتا ہے۔ اور جب مَیں سمجھتا تھا کہ ہماری جماعت پر خطرناک ابتلاء آنے والے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ابتلاؤں کے آنے سے پہلے اپنے مبلغ بھی دنیا کے تمام ممالک میں پھیلا دیں او ر اپنا لٹریچر بھی دنیا کے تمام ممالک میں بھجوا دیں تو مَیں اس حقیقت پر قائم تھا جو روزِ روشن کی طرح ایک دن ظاہر ہونے والی تھی۔ غرض میرا وہم نظر آنے والا خیال حقیقت تھا اور تمہارا حقیقت نظر آنے والا خیال وہم تھا اور اس حکمت کے ماتحت بیرونی ممالک میں مشن قائم کئے گئے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب طورپرکام کر رہے ہیں۔ اگر ہندوستان سے احمدیت کو مٹادیا جائے تب بھی یہ ایک حقیقت اور سچائی ہے کہ وہ صداقت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے اب دنیا سے مٹ نہیں سکتی اور خدا نے اس کے لئے ظاہری سامان بھی پیدا کر دیئے ہیں۔ آج دنیا کے ہر خطہ اور ہر علاقہ میں احمدی موجود ہیں۔ افغانستان میں بھی موجود ہیں۔ ایران میں بھی موجود ہیں۔ عرب میں بھی موجود ہیں۔ مصرمیں بھی موجود ہیں۔ ایبے سینیا میں بھی موجود ہیں۔ ایسٹ افریقہ میں بھی موجود ہیں۔ ویسٹ افریقہ میں بھی موجود ہے۔ انگلستان میں بھی ہیں۔ یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ میں بھی موجود ہیں۔ ارجنٹائن میں بھی موجود ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی موجود ہیں۔ ملایا میں بھی موجود ہیں۔ سیلون میں بھی موجود ہیں۔ برما میں بھی موجود ہیں۔ چائنا میں بھی کچھ آدمی موجود ہیں۔ اسی طرح ماریشس وغیرہ جزائر میں بھی موجود ہیں۔ غرض دنیا کے ہر خطہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب او ر آپ کے ماننے والے لوگ موجود ہیں۔ یہ تو ہمارا کوئی دشمن بھی خیال نہیں کر سکتا کہ وہ ساری دنیا کو ایک دم فتح کر کے احمدیت کو تباہ کر سکتا ہے۔ اگر دس ملکوں میں سے بھی احمدیت کو مٹا دے گا تو گیارھواں بارھواں اور تیرھواں ملک ایسا ہو گا جس میں احمدیت موجود ہو گی اور سلسلہ کا لٹریچر موجودہو گا اور وہ لوگ پھر نئے سرے سے احمدیت کو پھیلانے کے لئے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کر سکیں گے۔ دراصل خدا تعالیٰ کا وقت پر اِس چیز کی طرف توجہ پھرا دینا یہ بھی خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ ورنہ مَیں بھی ایک ویسا ہی انسان ہوں جیسے اور انسان ہیں۔ مگر جن باتوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے آج سے دس دس، پندرہ پندرہ سال قبل ہوشیار کر دیا اور جن عظیم الشان کاموں کی مجھ سے بنیادیںرکھوا دیں اُن باتوں کی طرف اَور کسی کا ذہن ہی نہیں گیا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا خدائی رہنمائی کے نتیجہ میں ہوا ورنہ میرا بھی ویسا ہی دماغ تھا جیسے اور لوگوں کا دماغ ہے۔ مگر ان کو یہ احتیاطیں نہ سُوجھیں اور مجھے خدا تعالیٰ نے ہر پہلو کے متعلق اپنے فضل سے صحیح راستہ پر قائم رکھا اور مجھ سے وہ کام کرائے جو آئندہ زمانہ میں جماعت کی ترقی اور اس کی اشاعت کے لئے نہایت ضروری تھے۔ اور جن کے بغیر ہماری جماعت کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مجھے خدائی رہنمائی حاصل تھی اور یہ جو کچھ کیا دراصل خدا تعالیٰ نے ہی کیا مَیں نے نہیں کیا۔
تو ایمان اور یقین کے ساتھ جو قرآن سے ہی پیدا ہوتا ہے انسان کو ثبات ملتا ہے۔ استقلال ملتا ہے، ایمان ملتا ہے اس لئے قرآن کے پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ جب تک تمہاری بنیاد دین پر نہیں ہو گی محض کسی عقیدہ کو مان لینا اور جماعت میں شامل ہو جانا یہ ایک دنیوی بات ہوتی ہے اور اس پر انسان کو کسی قسم کا ثواب نہیں مل سکتا۔ تمہارے سامنے دیا سلائی کی ڈبیہ پڑی ہوتی ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ دیا سلائی کی ڈبیہ ہے مگر کیا اس کی وجہ سے تم کسی ثواب کے حقدار ہو سکتے ہو؟ تم ایک درخت کودرخت کہتے ہو تو کیا تمہیں ثواب ملتا ہے؟ عقائد اور صداقت کا اقرار محض اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ خدا نے ہمیں کونسی تعلیم دی ہے یا تمہیں پتہ لگ گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور صادق اور راستباز تھے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تم اپنے سامنے پڑے ہوئے لوٹے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ لوٹاہے۔ یا درخت کے متعلق کہتے ہو وہ درخت ہے۔ یا انار پڑا ہو تو کہتے ہو یہ انار ہے۔ درحقیقت جہاں سے ایمان شروع ہوتا ہے وہ مقام وہ ہوتا ہے جب ایمانی کیفیات انسان کی زندگی کو بدل دیتی اور اس کے اندر ایک غیر معمولی تغیر پیدا کر دیا کرتی ہیں۔ جب ایسا ہو تب بے شک یہ انسانی کمال سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صرف دیکھ کر مان لینا اور زندگی میں کسی قسم کا تغیر پیدا نہ کرنا یہ کوئی کمال نہیں ہوتا۔ ایک شخص مان لیتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب سچے ہیں یا مان لیتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا مان لیتا ہے کہ احمدیت سچی ہے۔ تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے لوٹے کو تم لوٹا کہہ دیا کرتے ہو۔ لوٹے کو لوٹا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک اُس لوٹے سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ یا مثلاً کونین کو کونین کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک اسے بخار میں استعمال نہ کیا جائے۔ کونین کھانے سے بے شک چڑھا ہوا بخار اتر جاتا ہے یا چڑھنے والا بخار نہیں چڑھتا۔ لیکن اگر کوئی کونین تو نہ کھائے اور دن بھر کونین کونین کہتا رہے اور سمجھے کہ جب میں کونین کے وجود کو تسلیم کرتا ہوں تومیرے لئے اتنا ہی کافی ہے اسے استعمال کرنے کی ضرورت نہیںتو یہ اس کی غلطی ہو گی۔ کونین کو مان لینا اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ فائدہ تبھی ہو گا جب وہ کونین کو استعمال کرے گا۔ یا گیہوں کے دانہ کو تم گیہوں کا دانہ کہتے ہو تو اس سے تمہارا پیٹ نہیں بھرے گا۔ پیٹ اُسی وقت بھرے گا جب تم گیہوں کی روٹی پکا کرکھاؤ گے۔ اسی طرح سلسلہ الہٰیہ کو سلسلہ الہٰیہ سمجھنا اوراس کی تعلیم پر عمل نہ کرنا بالکل لغو اور فضول ہوتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات عذابِ الہٰی کو بھڑکانے کا موجب بن جاتا ہے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ قرآن کے پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا رواج دے کہ ہماری جماعت میںکوئی ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک صاحب مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو باتوں باتوں میں مَیں نے انہیں کہا کہ قادیان کی دس فیصدی عورتیں ابھی قرآن کریم کا ترجمہ جانتی ہیں۔ اس نے آگے سے جواب دیا کہ چاہیئے تو یہ کہ سو فیصدی عورتیں قرآن کریم کا ترجمہ جانتی ہوں۔ اب اس کی بات بالکل صحیح تھی۔ میں دوسروں کی نسبت بے شک کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جماعت میں قرآن کریم کا علم زیادہ ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہے اور ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ قرآ ن کریم کو پڑھے اور اس پر عمل کرے۔ پس اس کی بات معقول تھی ۔ لیکن میری مجبوریاں بھی میرے بس میں نہیں۔ لوگوں کو عربی زبان سے کچھ واقفیت نہیں۔ دین سے کوئی مس نہیں۔ دینی علوم سے ان کو کوئی رغبت نہیں اور وہ سمجھتے ہیںکہ جب انگریزی کے بغیر نوکری نہیں مل سکتی توہمیں یہی زبان سیکھنی چاہیئے۔ کسی اَور زبان پر اپنا وقت صَرف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں کو مجبور کر کے قرآن پڑھانا یا عربی زبان سیکھنے کی طرف مائل کرنا یہ بڑا مشکل کام ہے اور اسی لئے ہمیں اب تک سو فیصدی کامیابی نہیں ہوئی۔ مگر بہرحال یہ جواب قائم مقام صداقت کا نہیںہو سکتا۔ مَیںکہہ سکتا ہوں کہ ایک بُھوکے کو کھلانے کے لئے چونکہ میرے پاس صرف دس دانے تھے اس لئے مَیں نے دس دانے ہی دے دئے مگر دس دانوں کے ساتھ کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ ساٹھ ستّر یا سَو دانے اگر اسے کھانے کو ملیں گے تو پھر بھی وہ کمزور حالت میں زندہ رہ سکے گا۔ مگر طاقت اسے پھر بھی حاصل نہیں ہوگی۔ طاقت کے لئے مقررہ غذا کا اس کے معدہ میں جانا ضروری ہوتا ہے۔ میرا جواب بھی اِس قسم کا تھا اور وہ بتا رہا ہوں کہ چونکہ مجھے وسائل میسر نہیں اس لئے مَیں جماعت کو سو فیصدی اس بارہ میں تیار نہیں کر سکا۔ مگر بہرحال اس سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم سو فیصدی قرآن کریم کو جاننے اور سمجھنے والے ہوں۔ پس جماعت کو چاہیئے کہ وہ اپنے اندر اصلاح کا رنگ پیدا کرے۔ ابھی تک جماعت کے بعض لوگ اس کو محض ایک سوسائٹی کی طرح سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد اگر چندہ دے دیا تو اتنا ہی ان کے لئے کافی ہے اور اس سے ان کی ساری ذمہ داریاں ادا ہو جائیں گی۔ حالانکہ جب تک ہم دین کو سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی کوشش نہ کریں گے، جب تک ہم اپنے ساتھیوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کو قرآن کریم کے پڑھانے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش نہ کریں گے اُس وقت تک ہمارا قدم اُس اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس مقام تک پہنچنے کے نتیجہ میں انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوا کرتی ہیں۔‘‘
خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا:
’’جمعہ کے ساتھ ہی مَیں عصر کی نماز بھی جمع کراؤں گا اور اس کے بعد چند جنازے پڑھاؤں گا۔ مرزا محمد اشرف صاحب پنشنر جو قادیان کے رہنے والے تھے جہلم میںوفات پا گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابہ میں سے ایک مرزا جلال الدین صاحب بلانی ضلع گجرات کے ہوتے تھے یہ ان کے لڑکے تھے اور بڑی دیر تک قادیان میں محاسب رہے۔ نہایت مخلص اور نیک انسان تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابی تھے۔ ان کے والد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قرآن کریم کی کلید لکھنے پر مامور فرمایا تھا اور انہوں نے ایک مکمل کلید لکھی بھی جو افسوس ہے کہ اب تک شائع نہیں ہو سکی۔ اِسی طرح میر رفیق علی صاحب ایم اے بنگال میں فوت ہو گئے ہیں۔ نہایت مخلص انسان تھے اور موصی تھے۔ عالم بی بی صاحبہ لکھتی ہیں کہ ان کے خاوند مریدکے اسٹیشن پر گاڑی سے گر کر فوت ہو گئے تھے۔ صرف تین آدمیوں نے جنازہ پڑھا۔ قادیان میں جو دوست شہید ہوئے ہیں ان کا جنازہ گو مَیں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں۔مگر بعض نے درخواست کی ہے کہ ان کے عزیزوں کا پھر جنازہ پڑھ دیا جائے اُن کا جنازہ بھی نماز کے بعد پڑھا دوں گا۔‘‘ (الفضل 9؍ دسمبر 1947ئ)
1: یقظہ: بیداری
2: النسائ: 60
3: یوسف: 88
4: بخاری کتاب فضائل اَصحاب النَّبِیّ صلی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ باب مناقب المہاجرینَ وَ فَضْلِہِمْ

43
خدائی سلسلے انسانوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ انسان
خدائی سلسلوں کے محتاج ہوتے ہیں
(فرمودہ 28 نومبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’دو چار دنوں میں نومبر کا مہینہ ختم ہونے والا ہے اور نومبر کے آخر میں تیرہ سال سے مَیں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتاہوں۔ اب چودہویں سال کی تحریک کے اعلان کا وقت آ گیا ہے اور جس طرح چودہویںرات کا چاند ایک مکمل چاند ہوا کرتا ہے اِسی طرح چودہویں سال کی تحریک بھی ایک ایسے موقع پر ہونے لگی ہے جبکہ تحریکِ جدید کا مقصد اپنے انتہاء کو پہنچ رہا ہے۔ تحریک جدید کی غرض یہ تھی کہ جماعت میں اِسلامی شعار اور سادہ زندگی کی عادت پیدا کی جائے اور تبلیغِ احمدیت اور تبلیغِ اسلام کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کی جائے۔ جماعت کے ایک طبقہ نے اِس کام میں حصہ لیا اور بڑے زور سے حصہ لیا۔اور ایک اَور حصہ نے اِس کام میں سُستی اور غفلت دکھائی اور بعد میں اپنی سُستی اور غفلت کا ازالہ کرتے ہوئے وہ اس تحریک میں شامل ہو گیا۔ اور کچھ حصہ ایسا بھی تھا جو نہ شروع میںشامل ہوا، نہ درمیان میںشامل ہوا اور نہ آج تک اُسے شامل ہونے کی توفیق ملی ہے۔ گیارہویں سال سے تحریکِ جدید کے دفتر دوم کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا تا کہ وہ نوجوان جو پہلے بچے تھے یا وہ بیکار جن کی پہلے کوئی کمائیاں نہ تھیں اب بڑے ہو کر باکار ہو کر اپنے اُس فرض کو ادا کر سکیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر عائدہوتا ہے۔ ہماری جماعت ایک جماعت ہے فرد نہیں۔ فرد مرا کرتے ہیں جماعتیں نہیں مراکرتیں۔ فرد کا کام ایک وقت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ مگر جماعتوں کا کام کسی وقت ختم نہیں ہوتا۔ سوائے اِس کے کہ وہ آپ ہی ختم ہو جانا چاہتی ہوں۔ پس تحریکِ جدید کسی ایک سال کے لئے نہیں، دوسال کے لئے نہیں ،دس سال کے لئے نہیں،بیس سال کے لئے نہیں، سو سال کے لئے نہیں، ہزار سال کے لئے نہیں تحریکِ جدید اُس وقت تک کے لئے ہے جب تک جماعت کی رگوں میں زندگی کا خون دَوڑتا ہے۔ جب تک جماعت احمدیہ دنیا میں کوئی مفید کام کرنا چاہتی ہے اور جب تک جماعت احمدیہ اپنے فرائض اور اپنے مقاصد کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتی ہے۔ تحریک جدید درحقیقت نام ہے اُس جدوجہد کا جو ایک احمدی کو احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے کرنی چاہیئے۔ تحریک جدید نام ہے اُس جدوجہد کا جو اسلام اور احمدیت کے احیاء کے لئے ہر احمدی پر واجب ہے۔ اور تحریک جدید نام ہے اُس کوشش اور سعی کا جو اسلامی شعار اور اسلامی اصول کو دُنیا میں قائم کرنے کے لئے ہماری جماعت کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ روپیہ کا حصہ صرف ایک ظاہری نشانی ہے کیونکہ اس زمانہ میں کچھ نہ کچھ دولت خرچ کئے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ ورنہ درحقیقت تحریک جدید نام ہے اُس عملی کوشش کا جو ہر احمدی اپنی اصلاح او ر دوسروں کی اصلاح کے لئے کرتا ہے۔ ہر وہ احمدی جس کے سامنے تحریک جدید کے مقاصد نہیں رہتے درحقیقت وہ اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے یااپنی زندگی کے لئے کوئی کوشش کرنا پسند نہیں کرتا۔ خدائی سلسلے درحقیقت انسانوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ انسان خدائی سلسلوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ خدا کی طرف سے آنے والی روح اُسی طرح دنیا میں بکھر جاتی ہے جس طرح بارش کا پانی جب آسمان سے برستا ہے تو وہ دنیا میں بکھر جاتا ہے۔ جس طرح اچھا کسان بارش کا پانی جمع کر کے اپنی فصل کے لئے نہایت مفید سامان بہم پہنچاتا ہے۔ اسی طرح ہوشیار مومن اللہ تعالیٰ کے فیضان کی بارش کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور نہ صرف اِس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی اُس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن بیوقوف او ر نادان اور جاہل کسان پانی کی پروا نہیں کرتا۔ وہ ضائع چلا جاتا ہے۔ اور پھر سارا سال وہ چیختا اور چِلّاتا اور روتا ہے۔ مگر اُس کی آواز نہیں سُنی جاتی۔ کیونکہ وہ آواز خدا تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہوتی ہے۔ پس آج مَیں چودہویں سال کی تحریک کا اعلان کرتا ہوں۔ مجھے کہا گیا ہے کہ مشرقی پنجاب کے لُٹے ہوئے احمدی جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ لیا تھا اب کیا کریں؟ اگر وہ مجھ سے پوچھیں تو مَیں اُنہیں یہی کہوں گاکہ مومن خدا تعالیٰ پر بدظنی نہیں کیا کرتا۔ اگر وہ اپنے ایمان اور اپنے حوصلہ کو اُن وعدوں کے مطابق بنائیں گے جو جماعت احمدیہ سے کئے گئے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی اُن کے ایمان اور یقین اور توکّل کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کی حالت آئندہ خراب ہو جائے یا خراب ہی رہے اور سُدھر نہ سکے۔ مگر اِس امر کے بھی سامان ہیں کہ اگر وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیروں اور عقل اور دماغ سے کام لیں تو اُن کی آئندہ حالت اُس سے بہت اچھی ہوجائے جو مشرقی پنجاب میں تھی۔ جہاں تک خدا نے مجھے عقل دی ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لئے ترقی کے راستے پہلے سے بہت زیادہ کھلے ہیں۔ انسان کی عقل ہی ہوتی ہے جو اُسے ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور جہالت ہی ہے جو اُسے تباہ کرتی ہے۔ مُردہ دِل انسان کے ہاتھ اور پاؤں میں بھی مُردنی ہوتی ہے اور وہ اپنی قوتوں سے کام لینے کی بجائے اُن کو ضائع کرد یتا ہے۔ لیکن جس شخص کے اندر زندگی کی رُوح ہوتی ہے اُس کے ہاتھ اور پاؤں میں بھی زندگی کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔ جو شخص خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اُس کے دماغ میں روشنی پیدا کی جاتی ہے اور جس کے دماغ میں روشنی پیدا کی جائے اُسے آپ ہی آپ کامیابی کے راستے نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ درحقیقت انسان اپنی موت آپ مرتا ہے۔ خُدا نے انسان کے لئے زہر نہیں بنایا تریاق پیدا کیا ہے۔ ہر انسان جو مرتا ہے اپنے لئے آپ زہر پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ پر سچا توکل کرے تو اُس کی کامیابی کے کئی رستے نکل آتے ہیں۔
صحابہؓ نے جب مکہ چھوڑا اور اپنی جائیدادوں کو ترک کیا تو بظاہر وہ اپنے تمام مکانات اور تمام مال و متاع کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ مگر اپنے وقت پر مرنے والے مہاجرین ،مکہ کی اُس زندگی سے کہیں بڑھ کر تھے جو اُنہیں مکہ میں حاصل تھی۔ مکہ کے بڑے بڑے مالداروں میں حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ تھے لیکن جس حالت میں یہ لوگ فوت ہوئے ہیںجہاں تک مالی حالت کا سوال ہے اُن کی حالت اُس سے بہت بڑھ کر تھی جس حالت میں وہ مکہ میں سے نکلے تھے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیںکہ جب حضرت عثمانؓ فوت ہونے لگے تو اُن کے پاس روپیہ نہیں تھا۔ مگر روپیہ کا فقدان اِس لئے نہیں تھا کہ وہ کنگال تھے بلکہ اس لئے تھا جیسا کہ انہوں نے خود بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوسرے اسلامی کاموں میں اپنی موت سے پہلے اپنا تمام روپیہ خرچ کر دیا تھا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑ درہم ان کے گھر سے نکلا۔ اِس زمانہ کے لحاظ سے اڑھائی کروڑ درہم کے یہ معنی ہیں کہ وہ اڑھائی ارب درہم کی جائیداد تھی۔ دوسرے لفظوں میں یو ں کہہ لو کہ ساٹھ کروڑ روپیہ ان کے گھر میں سے نکلا۔ حالانکہ آجکل جو بڑے بڑے مِلینرْ (Millionair) ہیں ان کے گھروں سے بھی ساٹھ کروڑ روپیہ نہیں نکل سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں اُن کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ اور اگر بفرضِ محال کسی کی موت اُس وقت سے پہلے ہو جاتی ہے جب خدا کی طرف سے کامیابی کے رستے کھولے جاتے ہیں تو پھر بھی کیا ہے۔ یہ دنیا نہایت محدود چیز ہے۔ اصل زندگی تو وہ ہے جو اگلے جہان سے شروع ہوتی ہے۔ اگر کسی کی اگلی زندگی سُدھر جائے اور دنیا میں اُسے کچھ نقصان بھی پہنچ جائے تو یہ نقصان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
جہاں تک مَیں دیکھتا ہوں عقل سے کام لینے والے کے لئے بہت رستے کھلے ہیں۔محنت سے کام لینے والے کے لئے بہت رستے کھلے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ بہت سے لوگ محنت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ پکّی پکائی روٹی انہیں مل جائے۔ اور منّ اور سلوٰی اُن کے لئے آسمان سے اُترے۔ حالانکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی جو سمجھ دی ہے اُس کے لحاظ سے تو ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے منّ و سلویٰ بھی آسمان سے نہیں اترے بلکہ زمین میں سے نکالے گئے تھے۔ اور آسمان پر گئے ہوئے مسیحؑ کے متعلق بھی ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آسمان پر نہیں گئے بلکہ زمین میںہی مدفون ہیں۔ جب اس قسم کے پہلے غلط خیالات بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے ذریعہ سے دُور کر دئے ہیں تو اب تم اُسی قسم کے اَور غلط خیالات کس طرح اپنے دلوں میں رکھ سکتے ہو ۔ پس اگر وہ لوگ مجھ سے پوچھیں تو مَیں انہیں یہی کہوں گا کہ وہ اپنے وعدوں میں کمی نہ کریں۔ بلکہ خدا تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اپنے اخلاص اور قربانی کی روح کا مظاہرہ کریں۔ اگر خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے تو وہ اپنے وعدہ کو دورانِ سال میں پورا کردیں اور اگر ادا کرنے کی توفیق نہ ملے تو اس رقم کو قرض تصوّر کر کے اگلے سال کے چندہ میں بڑھا دیں۔ پھر اگلے سال ادائیگی کی کوشش کریں اور اگر اس سال بھی ادا کرنے کی انہیںتوفیق نہ ملے تو دونوں سالوں کی رقم اپنے اوپر قرض تصور کرتے ہوئے اس سے اگلے سال میں بڑھا دیں۔ یہاںتک کہ خد ا تعالیٰ کی طرف سے انہیں تمام چندہ ادا کرنے کی توفیق مل جائے۔ اور اگر باوجود اُن کی نیک نیتی اور اخلاص اور دیانتدارانہ کوششوں کے خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں چندہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور وہ اُسی حالت میں مر جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ویسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں تمام چندہ ادا کر دیا۔ ایک شخص اگر دس روپے کا وعدہ کرتا ہے مگر باوجود پوری کوشش اور جدوجہد کے وہ دس روپے ادا نہیں کر سکتا تو اگر یہی کوشش کرتے کرتے وہ مر جائے گا توگو اُس نے دس روپے ادا نہیں کئے ہوں گے مگر خدا تعالیٰ کے حضور یہی لکھا جائے گا کہ اُس نے دس روپے ادا کر دئے ہیں۔ یا ایک اَور شخص دس ہزار روپیہ کاوعدہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے حالات ایسے ہیں کہ اگر وہ دیانتدارانہ رنگ میں کوشش کرے گا تو یہ رقم ادا کر سکے گا۔ مگر کچھ ایسی روکیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ یہ رقم ادا نہیں کر سکتا تو اگر ایسی حالت میں وہ مر جاتا ہے تو چونکہ اُس نے دس ہزار روپیہ کی ادائیگی کے لئے پوری کوشش کی ہو گی اور آخر وقت تک اس کی یہی تمنّا ہو گی کہ مَیں یہ رقم جلد سے جلد ادا کر دوں اس لئے باوجود اِس کے کہ اُس نے دس ہزار میں سے ایک روپیہ بھی ادا نہیںکیا ہو گا خدا تعالیٰ کے حضور یہی سمجھا جائے گا کہ اُس نے دس ہزار روپیہ دے دیا ہے۔ پس تم اگر اپنے وعدوں کو قائم رکھواور ایسی حالت میں مر جاؤ تو اللہ تعالیٰ کے حضور تمہیں وہی ثواب ملے گا جو پورا چندہ ادا کرنے والوں کو ملے گا اور یہ کتنے بڑے فائدہ کی بات ہے۔ اگر تمہیں توفیق مل جاتی ہے تو تم چندہ ادا کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہو اور اگر تمہیں توفیق نہیں ملتی مگر ادائیگی کے لئے تم اپنی کوششیں جاری رکھتے ہو اور اسی حالت میں ایک دن وفات پا جاتے ہوتو باوجود چندہ ادا نہ کرنے کے تمہیں وہی ثواب مل جائے گا جو دس ہزار روپیہ دینے والے کو ملے گا۔ اگر تم دس روپیہ چندہ لکھواتے اور تمہیں اس کی ادائیگی کی توفیق نہ ملتی تب بھی تم نے چندہ ادا نہیں کرنا تھا۔ اور اگر تم دس ہزار روپیہ چندہ لکھواتے اور تمہیں اس کی ادائیگی کی توفیق نہ ملتی تب بھی تم نے چندہ ادا نہیں کرنا تھا۔ مگر چونکہ تم ارادہ رکھتے تھے کہ تم دس روپیہ یا دس ہزار روپیہ سلسلہ کو ادا کرو۔ اس لئے تمہارے مر جانے کی صورت میں تمہارا مخلصانہ ارادہ ہی تمہارے عمل کا قائمقام بن جائے گا اور تمہیں اُسی صف میں لا کر کھڑا کر دے گا جس صف میں چندہ دینے والے کھڑے ہوں گے۔ پس تصوف کے لحاظ سے میرا مشورہ انہیں یہی ہے کہ وہ اپنے وعدوں میں کمی نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے پہلے حالات کے مطابق ہی چندہ لکھوائیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی پنجاب کے رہنے والوں میں سے بھی اگر کوئی شخص صرف دس روپے دینے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ دس ہزار روپیہ چندہ لکھوا دے یہ تو دھوکا اور فریب ہوگا۔ اور ایسا شخص ثواب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا۔ مَیں جو کچھ کہتا ہوں یہ ہے کہ وہ مشرقی پنجاب کا دوست جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس بات کی توفیق عطا فرمائی تھی کہ وہ زیادہ چندہ دے مگر اب اس کی جائیداد کھوئی گئی ہے تو چونکہ کھوئی ہوئی چیز کے ملنے کا بہت امکان ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کے مطابق وعدہ کردے۔ پھر اگر وہ محنت اور کوشش اور عقل سے کام لے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے اس وعدہ کو پورا کرنے کی ضرور توفیق عطا فرما دے گا اور چونکہ اُس نے اپنے وعدہ میں اضافہ بناوٹ سے نہیں کیا ہو گا بلکہ اس بناء پر وعدہ کیا ہو گا جس بناء پر وہ ہمیشہ سے وعدہ کرتا چلا آیا ہے اِس لئے اگر وہ اسی حالت میں مر جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کے پُرانے فعل اور پُرانی کوشش کی وجہ سے اُس کے چندہ ادا نہ کرنے کے باوجود بشرطیکہ اُس نے اپنی طرف سے ادائیگی کے لئے پوری کوشش اور جدوجہد کی ہو اُسے اتنا ہی ثواب دے گا جتنا ثواب اُسے ادا کرنے کی وجہ سے ملنا تھا۔
مغربی پنجاب کے رہنے والے لوگ یا اُن علاقوں کے رہنے والے افراد جن پر وہ تباہیاں نہیں آئیں جو مشرقی پنجاب میں رہنے والوں پر آئی ہیں اُن سے مَیں کہتا ہوں کہ وہ اپنے وعدوں کو حسبِ سابق پہلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں اور نئے سے نئے افراد کو تحریک جدید کا ممبر بنائیں۔ اِس وقت بعض کاموں کی وجہ سے سات لاکھ روپیہ کا قرض تحریک جدید پر ہے جو درحقیقت جماعتی قرضہ ہے۔ بعض بوجھ تو ایسے ہیں جو ہماری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں یعنی بعض کوششیں تحریک جدید کا مال بڑھانے کے لئے کی گئیں مگروہ اُلٹ ثابت ہوئیںاور روپیہ ضائع ہو گیا۔ اور بعض کوششیں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ ہمیں اچھے کارکن میسر نہیں آ رہے۔ مثلاً تحریک جدید کے لئے دس ہزار ایکڑ زمین خریدی گئی ہے اور یہ نہری زمین ہے۔ اگر اس کی صحیح قیمت ڈالی جائے تو اِس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے یہ زمین تیس لاکھ روپیہ کی ہے۔ بلکہ اگر ہمیں وہ قیمت مل جائے جو اِس وقت پنجاب میں زمینوں کی ہے بلکہ اُس سے آدھی بھی مل جائے تو یہ ایک کروڑ روپیہ کی جائیداد ہے۔ مگر ہمیں سمجھدار کارکن نہیں مل رہے اور اس وجہ سے آمد بہت کم ہوتی ہے۔اتنی کم کہ جو رقوم پہلے ادا کرنی ضروری ہیں وہی بمشکل ادا ہوتی ہیں۔ اگر صحیح طور پر کام کرنے والے مل جاتے تو اِس زمانہ کی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکتی تھی بلکہ عام حالات میں بھی ایک لاکھ کی آمد بالکل یقینی ہے۔ مگر ابھی تک اس زمین کی وجہ سے ہمیں کوئی آمدن نہیں ہو رہی بلکہ اتنی بھی نہیںہو رہی کہ ہم اُسے آمدن کہہ سکیں۔ صرف اتنا روپیہ آتا ہے جس سے ہم پُرانے قرضے اور کچھ نئی قِسطیں ادا کر سکتے ہیں۔ اتنی رقم نہیں آتی کہ ہم اُسے خزانہ میں جمع کر سکیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اچھے کارکنوں کی صورت میں اس آمد میں بہت کچھ اضافہ ہو سکتا ہے مگر مشکل یہی ہے کہ تجربہ کار او رمحنتی کارکن جو آمد بڑھائیں وہ ہمیں ابھی تک میسّر نہیں آئے۔
سندھ اور پنجاب کے حالات بھی مختلف ہیں۔ سندھ میں مزارع زیادہ ہیں اور مالک کم ہیں۔ اس وجہ سے مزارع محنت نہیں کرتے اور پیداوار اتنی نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیئے اور ان زمینوں سے اس کا 1/5 بچت بھی نہیں ہوتی جتنی پنجاب میں ہوتی ہے۔ اس مہنگے زمانہ میں بھی وہاں اچھا مربعہ زمین ساڑھے تین سو چار سو روپیہ میں مل جاتا ہے جبکہ یہاں اچھا مربعہ زمین دو اڑھائی ہزار روپیہ میں ملتا ہے۔ گویا یہاں کی نسبت وہاں کی آمد چھ گُنا کم ہے۔ مگر بہرحال وہ ایک جائیداد ہے اور کسی وقت اُس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اِس وقت سلسلہ کا بار اٹھانے میں وہ کوئی مدد نہیں دے رہی۔ اس کے علاوہ سلسلہ کا مال بڑھانے کے لئے بعض اَور کوششیں بھی کی گئی ہیں مگر ابھی تک ان کوششوں میں پوری کامیابی نہیں ہوئی۔
بہرحال اس وقت تبلیغ کا کام اور قرضہ اتارنے کا کام سلسلہ پر اور سلسلہ کے مخلص افراد پر ہی ہے۔ گزشتہ سال جو تحریک کی گئی تھی اُس میں سے بھی ڈیڑھ لاکھ روپیہ سے زیادہ کی وصولی ابھی باقی ہے اور بوجھ اُسی طرح ہے جس طرح پہلے تھا۔ گو ہندوستان سے باہر کی جماعتوں پر ہم زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنا بوجھ آپ اٹھانے کی کوشش کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بعض جماعتیں کسی صورت میں بھی اپنا بوجھ خود اٹھا نہیں سکتیں۔ مگر پھر بھی وہ اس کوشش میں لگی ہوئی ضرور ہیں۔ اور بعض تو ایسی قربانی کر رہی ہیں جو ہندوستان کی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ اپنے فرائض کو یاد رکھتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے تحریکِ جدید کے اس دَور میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرے۔ خصوصاً مغربی پنجاب۔ اور ہندوستان اور پاکستان سے باہر کے لوگوں کو اس تحریک میں نمایاں حصہ لینا چاہیئے۔ اس کے علاوہ اُن کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم کے لئے نئے نوجوان پیدا کریں او ر اس طرح اس سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کریں۔
گزشتہ سال تحریک جدید کے دفتر دوم کا وعدہ پچانوے ہزار کا تھا۔مگر جہاں تک تحریک جدید کے اخراجات کا تعلق ہے وہ چار پانچ لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ چار پانچ لاکھ کے مقابلہ میں پچانوے ہزار کی آمد بہت ہی تشویش پیدا کرنے والی ہے۔ آج سے پانچ سال بعد تحریک جدید کا سارا بوجھ دفتر دوم پر ہی ہوگا۔ اور دفتر اوّل اُس وقت تک فارغ ہو چکا ہو گا۔ اس لئے جب تک ہم دفتر دوم کو بھی چار پانچ لاکھ تک نہیں پہنچا دیتے اُس وقت تک ہمیں پوری کامیابی میسر نہیں آ سکتی۔ ہر احمدی کو چاہیئے کہ وہ اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے واقفوں، اپنے ہم علاقہ او ر اپنے ہم عصر لوگوں کو تحریک کرے کہ ان میں سے جو لوگ اِس وقت تک تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے وہ دفتر دوم میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور جو پہلے سے دفتر اوّل یا دفتر دوم میں شامل ہیں وہ زیادہ سے زیادہ خود بھی وعدہ کریں اور دوسروں کو بھی نمایاں اضافوں کے ساتھ وعدہ کرنے کی تحریک کریں۔ خصوصیت سے دفتر دوم کو مضبوط کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جو لوگ دفتر دوم میں شامل ہیں اُن کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر سوم والوں کے لئے قابلِ رشک ہو۔ اور دفتر سوم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر چہارم والوں کے لئے قابلِ رشک ہو۔ اور دفتر چہارم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر پنجم والوں کے لئے قابلِ رشک ہو۔ اور یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہے یہاں تک کہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مضبوط بنیاد ہمارے ہاتھوں سے قائم ہو جائے۔ اِ س میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر دفتر میں حصہ لینے والے لوگ خدا تعالیٰ کے حضور ثواب کے مستحق ہوں گے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور بعد میں شامل ہونے والے لوگوں کے ثواب میں بھی شریک ہوں گے کیونکہ دفتر اوّل میں شامل ہونے والوں کا نمونہ دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے لئے تحریک کاموجب بنا۔ اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کا نمونہ دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے لئے تحریک کا موجب ہو گا۔ اور چونکہ ہر دفتر اگلے دفتر کے لئے ارہاص اور تحریک کا موجب ہوتا ہے اِس لئے ہر دفتر میں حصہ لینے والا نہ صرف اپنے عمل کا اللہ تعالیٰ سے ثواب پائے گا بلکہ دوسروں کے لئے نیکی کا نمونہ بن جانے کی وجہ سے اُن کے ثواب میں بھی حصہ دار ہو گا۔ اور چونکہ دفتر اول والوں نے اس تمام تسلسل کی بنیاد رکھی ہے اور دفتر اوّل پر بھی آئندہ دفاتر کی عمارت کھڑی ہونیوالی ہے اس لئے وہ لوگ جنہوں نے اِس تحریک کے دفتر اوّل میں حصہ لیا ہے وہ سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا اورا س کی خوشنودی کے وارث ہوںگے۔
بہرحال آج مَیں خدا تعالیٰ کے فضل پر توکّل کرتے ہوئے اور اس کی رحمت اور کرم کی امید رکھتے ہوئے ایسے حالات میں جو بظاہر خراب معلوم ہوتے ہیں لیکن روحانی طور پر وہ بہترین حالات ہیں تحریک جدید کے چودھویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں۔ دنیا کی تباہی اور بربادی درحقیقت مومنوں کو آسمان پر لکھی ہوئی کامیابی کا ایک اُلٹا عکس ہوتا ہے۔ جس طرح خواب میں اگر کسی شخص کو ہنستے دیکھا جائے تو اُس سے مراد اُس کا رونا ہوتا ہے اور اگر کسی کو روتا دیکھا جائے تو اُس سے مراد اُس کا ہنسنا ہوتا ہے۔ اسی طرح خدائی جماعتوں پر بھی جو ابتلاء آتے ہیں وہ خوابوں کی طرح بظاہر ابتلاء ہوتے ہیں لیکن درحقیقت آسمان پر اُن کی کامیابی کا بیج بویا جاتا ہے اور اس کامیابی کا زمین پر جب اُلٹا عکس پڑتا ہے تو وہ ابتلاء کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ کاتب ہمیشہ سیدھی کتابت کرتا ہے لیکن جب کاپی پتھر پر لگائی جاتی ہے تو حروف اُلٹے نظر آنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح فرشتے بھی آسمان پر جب خدائی جماعتوں کی اچھی تقدیر لکھتے ہیں تو اِس اُلٹی عقل کی دنیا میں اُس کا اُلٹا عکس پڑ جاتا ہے۔ بظاہر اُن کی تباہی اور بربادی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن جب اُس پتھر پر کاغذ رکھ کر کاپیاں لگائی جاتی ہیں اور جب یہی تباہیاں اور بربادیاں اپنا بیج پیدا کرتی ہیں تو ہر شخص اُن کاپیوں کو پڑھ کر اور اس بیج سے پیدا شدہ فصل کو دیکھ کر اُس خوش قسمتی کااندازہ لگالیتا ہے جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کی جماعتوں کے لئے مقدر ہوتی ہے۔ سو جو کچھ تم تباہی اور بربادی دیکھتے ہو یہ ایسی ہی ہے جیسے کتابت کے پتھر پر اُلٹے نقش آ جاتے ہیں۔ آج لوگوں کو بیشک ہماری اُلٹی قِسمت نظر آتی ہے۔ مگر جب اس پتھر پر کاپیاں لگائی جائیں گی تو وہ ایک ایسی خوشنما اور خوبصورت چھپی ہوئی کتاب کی صورت میں ظاہر ہوں گی کہ جن لوگوں کو آج بُرا وقت نظر آتا ہے اور جو ہماری تباہی اور بربادی کے خواب دیکھ رہے ہیں اُن کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے نیک وقت کی تحریر تھی جس سے ایسی شاندار کتاب چھپی۔ زمیندار جب زمین میں اپنا بیج پھینک دیتا ہے تو ایک ناواقف اور زراعت کے اصول سے نابَلد شخص اُسے دیکھ کر کہتا ہے یہ کیسا احمق اور بیوقوف کسان ہے جس نے اپنا غلّہ گھر سے اٹھایا اور زمین میں پھینک دیا۔ مگر جب وہی غلّہ ایک ایک دانہ کی بجائے کئی کئی سو دانوں کی صورت میں اُسے واپس ملتاہے تب اُسے احمق اور بیوقوف قرار دینے والا اپنی غلطی کو محسوس کرتا ہے اور اُسے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح طریق وہی تھا جو کسان نے اختیار کیا۔ا س میں کوئی شبہ نہیںکہ دنیا نے ہمیں اٹھا کر زمین میں پھینک دیا ہے مگر ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ ہم کیا ہیں! ہم ایک کامل ہستی کا پیدا کیا ہوا بیج ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے فارم کا بیج ہیں جو دنیا کی کھیتی میں ڈالا گیا۔ اگر لائل پور کا بیج اعلیٰ درجہ کا غلّہ پیدا کرتا ہے، اگر سکرنڈ کے فارم کا بیج اعلیٰ درجہ کا غلّہ پیدا کرتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے فارم کا بیج جب زمین میں پھینکا جائے گا تو وہ کیسی شاندار اور اعلیٰ درجہ کی کھیتی پیدا کرنے کا موجب ہو گا۔
بے شک دنیا کی نگاہوں میں ہم مٹی میں ملائے گئے ہیں۔مگر آسمانی فرشتوں کی نگاہ میںہم ایک کھیت میں ڈالے گئے ہیں۔ اور ہم اس کھیت سے ایک دن ایسی شان اور عظمت سے نکلیں گے کہ دنیا کی نظریں ہمیں دیکھ کر حیران ہوں گی۔ اُس کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی اور دشمنوں کے دل مایوسی سے بھرجائیں گے۔ جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ 1 خدا تعالیٰ کی بوئی ہوئی فصل ایسی شان کے ساتھ نکلتی ہے کہ منکر اور بے دین لوگ تو الگ رہے خود بونے والے جنہوں نے یقین سے بویا تھا اُسے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی فصل کہاں سے نکل آئی۔‘‘ (الفضل 2؍ دسمبر 1947ئ)
1: الفتح: 30

44
آج وہی شخص خدا تعالیٰ کے حضور عزت حاصل کر سکتا ہے جو قربانی کا بکرا بننے کے لئے تیار ہو
(فرمودہ 5 دسمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’گلے کی درد کی وجہ سے مَیں آج کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا۔ صرف چند متفرق باتوں کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں۔ اوّل تو یہ کہ پچھلے ہفتہ جو میری تقریر ہوئی ہے اُس میںلاہور کی جماعت کی طرف سے جو لاؤڈ سپیکر کا انتظام ہوا تھا وہ نہایت ہی گندہ تھا۔ جیسا کہ اِس وقت بھی نہایت ہی گندہ ہے۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیںکہ جب مَیں لاؤڈ سپیکر کے سامنے سے ہٹ جاتا تھاتو آواز آنے لگ جاتی تھی او رجب لاؤڈ سپیکر کے سامنے کھڑاہو جاتا تھا تو آواز خراب ہو جاتی تھی۔ حتیّٰ کہ پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی آواز کو سن نہیں سکتے تھے۔ مگر ایک لمبے تجربہ کے بعد بھی لاہور کی جماعت اِسے چھوڑ نہیں سکتی۔ ہماری جماعت میں سے اگر کوئی شخص واقف ہو اور وہ جانتا ہو کہ لاہور میں لاؤڈ سپیکر فلاں جگہ سے کرایہ پر مل سکتا ہے تو وہ مجھے اطلاع دے دے۔ کیونکہ پرسوں اگر تقریر ہوئی تو پھر لاؤڈ سپیکر کی ضرورت ہو گی۔ مگر مَیں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ پرسوں میری تقریر ہے بھی یا نہیں۔کیونکہ ابھی تک جماعتِ لاہور کی طر ف سے مجھے اطلاع نہیں ملی۔
اگر کوئی شخص ایسے ہوں جو کام کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ اپنا نام لکھوا دیں تا کہ جلسہ گاہ کا انتظام ٹھیک طور پر کیا جا سکے۔ پچھلی دفعہ ہال کا اتنا بُرا حال تھا کہ عورتیں جو بُلائی گئی تھیں وہ وہاں کے گرد و غبار سے سخت پریشان ہوئیں کیونکہ کُرسیوں پر مہینوں سے جو گرد پڑا ہوا تھا اُس کوبھی اُس روز جھاڑا نہیں گیا۔ ہمارے ملک میںیہ مرض ہے کہ عورتیں اگر ماتم کی مجلس میں بھی جائیں تو وہ نئے کپڑے پہن کر جاتی ہیں۔ غیر احمدی عورتیں جو اِس جلسہ میں آئی ہوئی تھیں اور جنہوں نے ساڑھیاں وغیرہ پہن رکھی تھیں جب وہ اُٹھیں تو اُن کی ساڑھیاں گرد و غبار سے اَٹی ہوئی تھیں اور انہو ں نے اُسے بہت بُرا منایا۔ پس جن اشخاص کے دل میں جذبۂ خدمت ہو تو وہ اپنا نام لکھوا دیں تا کہ ہم ان کے سپرد ڈیوٹی کر دیں کہ جلسہ کے وقت سے پہلے وہ کرسیوں کو گرد وغبار سے جھاڑ کر صاف کر دیں۔
اِس کے بعد مَیں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مشتاق احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی اگر یہاں ہوں تو جمعہ کی نماز کے بعد جس کے ساتھ عصر کی نماز بھی مَیں پڑھاؤںگا مجھے مل لیں۔ مشتاق احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی قادیان والے میرقاسم علی صاحب مرحوم کے بچے۔ مجھے ان سے ضروری کام ہے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ تحریک جدید کے چندہ کا اعلان میں پچھلے جمعہ کر چکا ہوں اور کچھ لوگوں کو اِس وقت تک اس میں شامل ہونے کی توفیق بھی مل چکی ہے۔ لیکن بہت سی جماعت ایسی ہے جس کو ابھی توفیق نہیں ملی۔ اِس لئے نہیں کہ وہ سُست ہے بلکہ اس لئے کہ جماعتیں اپنی اکٹھی فہرست مرتب کر کے بھجوایا کرتی ہیں۔ مَیں پھر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جیسا کہ سابق میں قاعدہ رہا ہے اِس چندہ کی تحریک کا آخری وقت 7 فروری ہو گا۔ 7 فروری تک جو وعدے آئیںگے وہ وقت کے اندر سمجھے جائیں گے۔ مگر چونکہ گزشتہ ایّام میں پنجاب پر بڑی بھاری آفت اور مصیبت آئی ہے اور ڈاک کا انتظام نہایت ردّی اور خراب ہے اس لئے مغربی پنجاب، سندھ اور نارتھ ویسٹرن فرنٹیئر پراوِنس کے علاقہ کی میعاد سات اپریل ہو گی۔ جو ہندوستان سے باہر کے ممالک ہیں اُن کی میعاد یکم جون تک ہو گی۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ دوست جلد سے جلد اپنے وعدوں کی فہرست مکمل کر کے بھجوانے کی کوشش کریں گے۔ اِس وقت تک سب سے زیادہ جوش قادیان کے مہاجرین نے ہی دکھایا ہے۔ چنانچہ جتنی موعودہ رقم آئی ہے اُس کا نوے فیصدی قادیان کے وعدوں پر ہی مشتمل ہے۔ اور جہاں تک میرا علم ہے یا میری یاد کام دیتی ہے لاہور کی جماعت کا غالباً اِس وقت تک ایک کے سوا کوئی وعدہ نہیں آیا۔ وہ وعدہ اختر صاحب کا ہے۔ اُنہوں نے اُسی دن اپنا وعدہ لکھ کر مجھے دے دیا تھا۔ اُن کے علاوہ لاہور کی جماعت میں سے اور کسی نے اب تک وعدہ نہیں کیا۔ مَیں لاہور کی جماعت کو بوجہ اِس کے کہ مجھے بچپن سے اِس جگہ رہنے کا بہت موقع ملا ہے بار بار ہوشیار کرنے پر مجبور ہوں۔ میری پہلی شادی بھی لاہور میں ہی ہوئی تھی۔ اور بیوی کا وطن مرد کا اپنا وطن ہی ہوتا ہے۔ اِس لئے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا ہے مَیں بھی لاہور کو اپنا دوسرا وطن ہی سمجھتا ہوں۔ مگر مجھے کچھ عرصہ سے نہایت ہی تلخ تجربہ ہوا ہے کہ یہاں کی جماعت نہ معلوم کس وجہ سے سُست ہوگئی ہے۔ یہ جماعت کسی وقت نہایت ہی بیدار اور ہوشیار ہوا کرتی تھی ۔ مگر اب اس جماعت پر مُردنی چھائی ہو ئی ہے۔ اور اتنے بڑے ابتلاء اور مصائب کے بعد بھی اِس جماعت میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔
قادیان کی حفاظت کے معاملہ میں اِس جماعت نے سو فیصدی بُزدلی دکھائی۔ چھپّن آدمی جماعت نے پیش کئے۔ مگر اُن چھپّن میں سے ایک آدمی بھی قادیان جانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پھر چندے کا سوال آیا تو چندہ کی فہرست بھی ابھی تک مجھے نہیں دی گئی۔ ہر آٹھویں دسویں دن کہہ دیا جاتا ہے کہ ایک دو دن میں تیار کر کے پیش کر دی جائے گی۔٭
تبلیغ کے متعلق جو تحریک تھی کہ ہر احمدی پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے۔ اُس کے متعلق یہاں کے مبلغ کی رپورٹ ہے کہ ڈیڑھ مہینہ کی جدوجہد کے بعد صرف تین چار حلقوں کی طرف سے جواب آیا ہے۔ مگر وہ جواب انہی الفاظ میں ہے کہ 1 جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑتے پھرو ہم میں تبلیغ کی توفیق نہیں۔ ایک آدمی کا نام بھی اِس تبلیغ کی تحریک میں پیش نہیں ہوا۔ حالانکہ یہی جماعت کسی وقت بڑے اخلاص کا نمونہ رکھتی تھی۔ مَیں سمجھتا ہوں اِس کی ذمہ داری افسروں پر ہے۔ خود افسروں کے اندر بزدلی پیدا ہو گئی ہے اور افسروں کی خرابی کی ذمہ داری جماعت پر ہے۔ کسی اَور پر نہیں۔ اگر تم میں سچا ایمان اور اخلاص ہے تو تم اُڑا کر پھینک دو اِن امیروں اور پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو۔ اور اُن کی بجائے ان کو منتخب کرو جو تم میں نیک تغیر اور اخلاص پیدا کر سکتے ہوں۔ میرے نزدیک افسر ذمہ دار ہیںاِس بات کے کہ جماعت مُردہ ہو گئی اور جماعت ذمہ دار ہے اِس امر کی کہ افسر مُردہ ہو گئے۔ مذہبی جماعتوں میں ایم۔ اے یا بی۔ اے یا وکیلوں اور بیرسٹروں کی کوئی شرط نہیں۔ تم اُنہیں چھوڑواور ایک مخلص مزدور کو ہی اپنا امیریا سیکرٹری بنا لو۔ جس کے اندر ایمان ہے وہی تمہارا امام ہے۔ اور اگر افسروں کی غلطی نہیں تمہاری ہے تو پھر افسر ذمہ دار ہیں اِس بات کے کہ وہ کیوں جماعت کے گندے اور ناپاک حصہ کو کاٹ کر اُسے درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ منافقوں کی پناہ بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ وہ منافقوں کو اپنی ڈھال کے پیچھے کیوں چھپاتے ہیں۔ جو ہمارا نہیں وہ ہمارا نہیں رہنا چاہیئے۔ جو شخص دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں وہ ایک دن کے لئے بھی اِس جماعت کو بدنام کرنے کا موجب نہیں ہونا چاہیئے۔ بہرحال دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ اگر اَئمہ بگڑے ہیں اور اِس وجہ سے جماعت بھی بگڑ گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ تم ایسے اَئمہ کو کیوں نکال نہیں دیتے اور کیوں اُن کو اپنا امیر اور پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنائے پھرتے ہو۔ بگڑے ہوئے امام اور بگڑے ہوئے سیکرٹری کی اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی اُس مری ہوئی مکھی کی ہوتی ہے جو دودھ میں پڑی ہوئی ہو۔ کبھی مری ہوئی مکھی کو نکال کر پھینکنے میں تم درد محسوس کرتے ہو؟ اِسی طرح بگڑی ہوئی جماعت کی بھی اتنی حیثیت نہیں جتنی ایک مری ہوئی مکھی کی ہوتی ہے۔ اگر امیر اور پریذیڈنٹ دودھ یا چائے میں پڑی ہوئی مُردہ مکھی کو نکال کر پھینکنے میں کوئی درد محسوس نہیںکرتے تو بگڑی ہوئی جماعت کو الگ کرنے میں اُنہیں کیوں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی اصلاح کی اہمیت افسروں کو مدنظر نہیں۔ صرف جماعت کی تعداد کی اہمیت اُن کے مدِّنظر ہے۔ جماعت سمجھتی ہے کہ اگر اُن کا ڈگری یافتہ امام ہو گا تب وہ معزز ہو گی۔ حالانکہ یہ نہایت ہی حقیر اور ذلیل خیال ہے۔ اور امراء اور سیکرٹری یہ سمجھ رہے ہیں کہ جماعت کے افراد کی جتنی تعداد زیادہ ہو گی اُتنی ہی اُن کی عزت ہو گی۔ یہ بھی نہایت ذلیل اور گرا ہو اخیال ہے۔ اگر لاہور کی جماعت بجائے چھ یا پانچ یا چار ہزار ہونے کے صرف چالیس افراد پر مشتمل ہو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں۔ مگر وہ مخلصین کی جماعت ہو تو وہ ہزار چاند لگا دے گی جماعت کے ماتھے پر۔ اور اگر جماعت کے امیر اور سیکرٹری بجائے بیرسٹر اور وکیل اور ایم۔ اے اور بی۔اے ہونے کے ایسے افراد ہوں جو خواہ دیا سلائی بیچ کر گزارہ کرتے ہوں یا رسّیاں بٹ کر گزارہ کرتے ہوں مگر وہ مخلص اور کام کرنے والے وجود ہوں تو وہ جماعت کے ماتھے پر ہزار چاند لگا دیں گے۔
پس جماعت کو چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور عہدیداروں کو چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ مَیں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس کا قصور ہے، یا ممکن ہے دونوں کا ہی قصور ہو۔ بہرحال ذہنیت گندی ہے۔ افسر سمجھتے ہیں کہ جماعت کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی اُتنی ہی اُن کی عزت ہو گی اور جماعت سمجھتی ہے کہ اگر افسر بڑی بڑی ڈگریوں والے ہوں گے تب اُس کی عزت ہو گی۔ یہ دونوں نظریے نہایت گندے ،ناپاک اور ذلیل ہیں۔نہ جماعت کی تعداد کوئی اہمیت رکھتی ہے اور نہ افسروں کا ڈگری یافتہ ہونا کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ڈگریوں کے ساتھ ہی جماعت کو عزت ملتی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے پاس کون سی ڈگریاں تھیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے پاس کون سی ڈگریاں تھیں؟ یا اب جو تمہاری جماعت کا امام ہے اُس کے پاس کون سی ڈگریاں ہیں؟ تب تو تم پہلے سے ہی ایک ذلیل جماعت ہو۔ لاہور کا امیر یا سیکرٹری تم کو کیا عزت دے سکتے ہیں۔ جب تمہاراامام بھی تمہارے نقطہ نگاہ سے (نعوذ باللہ) ایک ذلیل انسان ہے کیونکہ ڈگریاں اُس کے پاس نہیں اور اگر جماعت کی تعداد ہی عزت کا موجب ہوتی ہے تب بھی تم ذلیل وجود ہو۔ کیونکہ دُنیا کی اَور اقوام کے مقابلہ میں تمہاری کون سی تعداد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی تعداد کی وجہ سے تمہیں دنیا میں کوئی ذلت نہیں پہنچ سکی تو لاہور میںاگرتمہاری تھوڑی سی تعداد ہو گی تو تمہیں کون سی ذلت پہنچ جائے گی۔ پس کاٹ دو جماعت کے ناکارہ طبقہ کو اور اس کے متعلق ہمارے پاس رپورٹ کرو تا کہ انہیں الگ کر دیا جائے۔ اخلاص اور صرف اخلاص ہی آج کام آ سکتا ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آج دنیا میں مخلص ارواح کو تلاش کر رہی ہے اور یہی مخلص ارواح کا جتھا ہے جو اسلام کو پھر اُس کے اصل اور باعزت مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔ انسانوں کی تعداد کے لحاظ سے آج بھی مسلمان چالیس کروڑ ہیں اور دنیا کی کوئی قوم تعداد میں اُن کے برابر نہیں۔ مگر تعداد نے مسلمانوں کو مصائب اور آلام سے نہیں بچایا۔ اسلام کو قربانی اور اخلاص اور روحانیت ہی بچا سکتے ہیں۔ اس کے لئے جدوجہد کرو۔ اپنے لئے بھی اور اپنے حُکّام کے لئے بھی۔ خود بھی چاہو کہ خدا تم کو اخلاص اور روحانیت کے مقام پر کھڑا کرے اور اپنے امیروں، پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کے متعلق بھی چاہو کہ خدا تعالیٰ اُن کو بھی اخلاص اور روحانیت کے مقام پر کھڑا کرے۔ وہ ذرا سی کمزوری کو بھی موت سمجھیں نہ یہ کہ بات سنیں اور ہنس کر آگے چل پڑیں۔
یہ دن کام کے دن ہیں۔یہ دن قربانی کے دن ہیں۔ سارے ہی دن کام کے دن ہوتے ہیں اور سارے ہی دن قربانی کے دن ہوتے ہیں۔ مگر کوئی دن زیادہ اہم ہوتے ہیں اور کوئی دن کم اہم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سارے ہی دن دین کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنے کے ہوتے ہیں۔مگر کوئی دن ایسے ہوتے ہیںکہ اگر انسان ذرا بھی غفلت کرے تو خدا اُس کی پروا نہیں کرتا بلکہ اُسے مٹا دیتا ہے۔ کچھ دنوں میں خدا چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ چشم پوشی سے کام نہیں لیتا۔ یہ وہ دن ہیں جب اسلام کو اُن مسلمانوں کی ضرورت ہے جو قربانی کے بکرے بننے کے لئے تیار ہوں۔ آج وہی شخص اسلام کے لئے عزت کا موجب ہو سکتا ہے۔ آج وہی شخص خدا تعالیٰ کے حضور عزت حاصل کر سکتا ہے جو قربانی کا بکرا بننے کے لئے تیار ہو اور سمجھتا ہو کہ مَیں ہر وقت قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوں۔ صرف آواز آنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ اُسے یہ رنج ہو، یہ الم ہو، یہ دُکھ اوریہ درد ہو کہ کیوں مجھے اب تک قربانی کے لئے نہیں بلایا گیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ صحابہؓ سے موت کی قسم لی تھی جسے بیعت رضوان اور بیعتِ موت اور بیعتِ شجرہ بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ بیعت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس موقع پر لی جس کے بعد صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا۔ آپ عمرہ کرنے کے لئے کچھ ساتھیوں سمیت مکّہ گئے۔ جب مکہ کے قریب پہنچے تو چونکہ کفار کو آپ کی آمد کا علم ہو گیا وہ ایک بڑا لشکر لے کر آپ کو روکنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آدمی بھجوانا چاہا تا کہ وہ کفّار کے عمائد سے گفتگو کر ے او ر اُن سے کہے کہ ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں لڑنے اور فساد کرنے کے لئے نہیں آئے۔ پھر کیوں ہم سے جنگ کی جاتی ہے۔ جب آپ نے اس بارہ میں صحابہؓ سے مشورہ لیا تو سب نے مشورہ دیا کہ اس گفتگو کے لئے حضرت عثمانؓ کو بھجوایا جائے۔ کیونکہ اُن کے رشتہ دار اُس وقت برسرِ حکومت تھے۔ آپ نے اس مشورہ کے مطابق حضرت عثمانؓ کو بھجوا دیا۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ پہنچے تو چونکہ اُن کے رشتہ دار بھی اور دوست بھی اور عزیز بھی سب وہیں تھے۔ آپ نے باتیں کیں تو باتیں لمبی ہو گئیں اور بحث مباحثہ طول پکڑ گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اس دفعہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہاں آئندہ سال اگر وہ آئیں تو انہیں اجازت دے دی جائے گی۔ آپ ہماری طرف سے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اِس دفعہ وہ واپس چلے جائیں۔ پھر اُنہوں نے حضر ت عثمانؓ سے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیںآپ بے شک عمرہ کر لیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا جب تک میرے آقا کو عمرہ کی اجازت نہیںملے گی مَیں بھی عمرہ نہیں کروں گا۔ بہرحال لمبی گفتگو کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کو واپس آنے میں دیر ہو گئی اور کفّار کے لشکر میں سے کسی شخص نے یہ مشہور کر دیا کہ عثمانؓ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ افواہ پہنچی تو آپ نے اعلان فرمایا کہ وہ مسلمان جو آج میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا چاہتے ہوں وہ جمع ہو جائیں۔ اِس آواز کا بلند ہونا تھا کہ صحابہؓ پر وانوں کی طرح آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ نے ایک مختصر سی تقریر کی اور فرمایا کہ کہا گیا ہے کہ عثمانؓ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام میں بھی سفیر کی عزت کی جاتی ہے اور اُسے مارا نہیں جاتا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو مَیں تم سے قسم لینا چاہتا ہوں کہ آج ہم مکہ پر حملہ کریں گے اور یا تو سارے کے سارے مارے جائیں گے اور یا مکہ کو فتح کر کے واپس لَوٹیں گے۔ آپ نے فرمایا وہی شخص آج بیعت کرے جو اپنے دل میں یہ عزم رکھتا ہو کہ یا تو وہ فتح حاصل کرے گا یا اِسی میدان میں مارا جائے گا 2۔ اُس وقت صحابہؓ بھاگے نہیں،صحابہؓ ڈرے نہیں، صحابہؓ کے رنگ زرد نہیں ہوئے۔ ایک صحابی کہتے ہیں خدا کی قسم! ہماری تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں تا کہ وہ شخص جو ہم سے پہلے بیعت کرنا چاہتا ہو اُس کی گردن کاٹ دیں۔ اُنہوں نے یہ نہیں کیا کہ وہ موت کو دیکھ کر بھاگنے لگ گئے ہوں۔ بلکہ اُنہوں نے کہا کہ کسی اَور کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے آگے مرنے کے لئے جائے۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب کسی کے سامنے یہ بات بیان کی تو اُس نے پوچھا کہ آپ تو پہلے بیعت کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک آہ بھری اور کہا خدا کی قسم! میں سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں سے ہوتا۔ مگر میرے والد اُس وقت دُور بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے خیال پیدا ہوا کہ میرا اپنے باپ سے پہلے بیعت کر لینا اور اپنے باپ کو یہ موقع نہ دینا باپ سے بے انصافی ہو گی۔ مَیں دوڑ کر اپنے باپ حضرت عمرؓ کو بلانے چلا گیا اس لئے سب سے پہلے بیعت کرنے والوں سے پیچھے رہ گیا ۔
تو دیکھو سچا مومن موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور وہ موت جو اسلام کی راہ میں اُسے پیش آنے والی ہوتی ہے اُس میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ شخص جو اِس موت کو موت سمجھتا ہے، وہ شخص جو اِس موت سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے اُس کا نام خدا تعالیٰ کے دفتر سے ہمیشہ کے لئے کاٹا جاتا ہے۔‘‘
(الفضل 16 دسمبر 1947ئ)
1: المائدۃ: 25
2: سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ329،330مطبوعہ مصر 1936ئ


45
جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں ضروری ہدایات
(فرمودہ 12 دسمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’کچھ دنوں سے سردی کی وجہ سے مجھے جگر کی خرابی کی شکایت ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مَیں آجکل باہر نمازوں میں نہیں آ سکتا اور طبیعت اکثر خراب رہتی ہے۔ آج مَیں نے جلاب لیا ہوا تھا اس وجہ سے آنے میں دیر ہو گئی۔ اس لئے مَیں نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں کہہ کر خطبہ ختم کر دوں گا۔
کل شام سے میرے دل میں اس بات کا اثر ہے کہ کوئی چیز مجھے اُس پہلی رائے کو بدلنے پرمجبور کر رہی ہے جو اس سے پہلے مَیں قائم کر چکا تھا اور جس کی بناء پر مَیں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس سال دسمبر میں جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا جائے۔ کل سے متواتر میرے اندر سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے کہ خواہ جلسہ سالانہ کتنا ہی مختصر کیا جائے مگر ہونا ضرور چاہیئے۔ اس لئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ انشاء اللہ اس دفعہ بھی جلسہ سالانہ 26، 27، 28 دسمبر کو ہو گا اور بعض شرائط کے ماتحت لاہور میں ہی ہو گا۔ 26، 27، 28 میں سے 26 کو ہم پھر ایک مجلس شوریٰ منعقد کریں گے جس میں صرف مجلس شوریٰ کے ممبر شامل ہوں گے۔ اور 27، 28 دو دن جلسہ سالانہ جیسا کہ ہوا کرتا تھا ہو گا۔ لیکن چونکہ نہ لاہور میں ہمارے پاس مہمانوں کے ٹھہرانے کے لئے جگہ ہے، نہ یہاں کے راشن سسٹم کے ماتحت ہم مہمانوں کی خوراک کا انتظام کر سکتے ہیں اور نہ اِس وقت سلسلہ کی مالی حالت ایسی ہے کہ اُس کی بناء پر کوئی بڑے پیمانہ پر جلسہ کیا جا سکے اس لئے یہ جلسہ بعض شرائط کے ماتحت ہی منعقد ہو گا۔
جیسا کہ مَیں نے بار بار توجہ دلائی ہے ابھی تک ہماری جماعت کے چندوں کا نظام درست نہیں ہوا بلکہ ابھی تک ہماری آمد ،آمد بجٹ سے بھی کم ہے۔ یعنی قریباً 1/4 حصہ آمد کا ہے۔ حالانکہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے اخراجات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ا س لئے ایک شرط تو یہ ہو گی کہ اس جلسہ پرعورتوں کے لئے کُلّی طور پر ہدایت ہو گی کہ وہ جلسہ سالانہ پرنہ آئیں۔ اِس کی تین وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ عورتوں کے ٹھہرانے کے لئے جگہ کا انتظام ہمارے لئے بالکل ناممکن ہے۔ دوسرے سفر کی دقتیں بہت سی ہیں۔ عورتیں آئیں تو ان کے بچوں کا آنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ ان کے لئے ناقابلِ برداشت تکلیف ہو جائے گی۔ تیسرے عورتوں کے لئے الگ جلسہ کا انتظام بھی مشکل ہے۔ پس ایک شرط تو یہ ہے کہ اس جلسہ پر عورتوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔سوائے اُن کے جن کے رشتہ داروں نے اپنے طور پر یہاں رہائش اور خوراک وغیرہ کا انتظام کیا ہوا ہو۔ مثلاً اُن کے رشتہ دار یہاں موجود ہوں یا دوست ہوں جنہوں نے اُن سے وعدہ کر لیا ہو کہ وہ اپنے گھروں میں اُن کو ٹھہرا سکیں گے۔ بہرحال جلسہ کی طرف سے اُن کے لئے کوئی انتظام نہیں ہو گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اس جلسہ پر صرف دو ہزار مہمانوں کا انتظام کیا جائے۔ اِن دو ہزار مہمانوں میں مجلس شوریٰ کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ ہر ضلع کا کوٹا (Quota)مقرر کر دیا جائے گا کہ فلاں فلا ں ضلع سے اتنے اتنے آدمیوں کے آنے کی اجازت ہے اور اتنے ہی آدمیوں کی رہائش اور خوراک وغیرہ کا انتظام کیا جائے گا۔ زائد آنے والوں کے لئے سلسلہ کی طرف سے کوئی انتظام نہیں ہو گا۔ اگر کوئی آئے گا تو اسے اپنی رہائش اور خوراک کا اپنے طور پر انتظام کرنا ہو گا۔ لیکن ان دو ہزار مہمانوں کے ٹھہرانے کا انتظام بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کچھ مسجد میں ٹھہر جائیں گے اور کچھ مکانات جوہماری جماعت نے دفتری انتظامات کے لئے، لئے ہوئے ہیں اُن میں ٹھہر سکیں گے۔ لیکن اُن کی تعداد چھ سات سو سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔ بہرحال دو ہزا ر آدمیوں کا ٹھہرانا بھی ہمارے لئے مشکل ہو گا۔ سوائے اِس کے کہ جس طرح قادیان کے لوگ جلسہ سالانہ پر اپنے مکانات پیش کیا کرتے تھے اُسی طرح لاہور کی جماعت کے دوست بھی اپنے مکانات پیش کریں اور بتائیں کہ کس کس کے مکان میں کتنے آدمی ٹھہر سکتے ہیں۔
تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خیمے لگوا دیئے جائیں اور اُن میں مہمان ٹھہرائے جائیں۔ جس طرح قادیان کے انخلاء کے موقع پر یہاں قناتیں لگا دی گئی تھیں۔ وہ تو اب سردی کی وجہ سے کافی نہیں ہو سکتیں۔ مگر انہیں میدانوں میں خیمے لگا کر جگہ نکالی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے چار پانچ سو کی جگہ نکل آئے۔ تین چار سو مسجد میں ٹھہر جائیں گے۔ تین چار سو مختلف کوٹھیوں میں ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ممکن ہے جماعت کے دوستوں کی امداد سے نوسو یا ہزار مہمانوں کے لئے اُن کے مکانات میں جگہ نکل آئے۔ لیکن اس صورت میں یہ بھی انتظام ضروری ہو گا کہ چونکہ لاہور شہر بہت بڑا ہے اور لوگ دور دور رہتے ہیں کھانا کھانے کے لئے وہ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے جو لوگ گھروں میں ٹھہریں سلسلہ کی طرف سے حساب لگا کراُن کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے۔ اور اُن دوستوں کو جن کے ہاں مہمان ہوں فی خوراک کے حساب سے اتنی رقم دے دی جائے تا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں مہمانوں کو کھانا کھلا سکیں۔ آخر باراتیں بھی لوگوں کے گھروں میں آتی ہیں اور لوگ چالیس چالیس پچاس پچاس آدمیوں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر آٹھ آٹھ دس دس مہمانوں کا گھروں میں انتظام ہو جائے تو اُن کا کھانا بھی تین چار دن گھر کی مستورات محنت اور تکلیف اٹھا کر خود تیار کر لیں۔ سلسلہ کی طرف سے ایک مقررہ رقم مہمانوں کے لئے ان کو دے دی جائے گی۔ اِسی طرح مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے دو دو تین تین میل کا چکر کاٹ کر آنے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
قادیان کے رہنے والے وہاں جلسہ کر لیں گے تا کہ قدیم سے جوہمارا طریق چلا آ رہا ہے اُس میں کوئی وقفہ نہ پڑے۔ اصل جلسہ تو وہی ہو گا جو قادیان میں ہوگا۔ ہمارا جلسہ صرف ایک ظلی جلسہ ہو گا جو اُس کی تائید کے لئے اور اِس احتجاج کے لئے منعقد کیا جائے گا کہ ایک پُرامن اور حکومت کی ہمیشہ وفادار رہنے والی جماعت کو اُس کے مقدس مقام سے محروم کر دیا گیا ہے۔ا س لئے وہ اپنے مقدس مقام سے باہر جلسہ کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ یہاں کے جن دوستوں کو مکانات دینے کی توفیق ہے وہ جلد سے جلد اپنے نام لکھوا دیں گے۔ نام نظارت اعلیٰ یا نظارت ضیافت میں لکھوائے جائیں اور بتایا جائے کہ وہ کتنے آدمیوں کو ٹھہرا سکیں گے اور کتنی گنجائش اپنے مکانوں میںنکال سکیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی اَور تجویز کسی دوست کے ذہن میں آئے تو وہ بھی بتا دیں۔ مثلاً اگر ہمیں کوئی ایسا مکان مل سکے جس میں سو ڈیڑھ سو آدمی اکٹھے رہ سکیں اور کسی دوست کو اُس کا علم ہو تو وہ بھی ہمیں اطلاع دے دیں۔ نظارت دعوۃ و تبلیغ کو چاہیئے کہ وہ جلد سے جلد جلسہ کا پروگرام تیار کرے اور بیرون جات کی جماعتوں کو تاروں کے ذریعے جلسہ کی اطلاع دے دے۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کو تو خط کے ذریعہ بھی اطلاع دی جا سکتی ہے۔ مشرقی پاکستان اور ہندوستان کی جماعتوں مثلاً حیدر آباد، بمبئی، مدراس،بنگلور ، لکھنؤ اور کلکتہ وغیرہ کو تاریں چلی جائیں پھر وہ اپنے طور پر اَور دوستوں کو اطلاع دے سکتے ہیں۔ بہرحال آج ہی ضلع وار مہمانوں کی تقسیم کر کے مجھ سے منظوری لے لی جائے یعنی اس امر کی منظوری کہ مختلف جماعتوں کو کتنے کتنے آدمی بھجوانے کی اجازت ہو گی۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ دوست محنت کر کے آج شام تک اس کام کو مکمل کر لیں گے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ جماعتوں کی لسٹیں موجود ہیں اور چندہ کی بناء پر اُن کے افراد کی لسٹیں بھی تیار کی جا سکتی ہیں۔ ناظر دعوۃ، ناظر ضیافت اور ناظر اعلیٰ تینوں مل کر آج شام تک یہ کام کر سکتے ہیں اور کل تاریں دی جا سکتی ہیں۔ جلسہ کے مقام کے متعلق بھی فیصلہ کر لیا جائے کہ کہاں کیا جائے۔ میرے نزدیک یہاں مختلف کوٹھیوں کے ساتھ اتنے بڑے بڑے میدان ہیں کہ باہر کے دو ہزار اور یہاں کے ڈیڑھ دو ہزار یعنی چار پانچ ہزار افراد کے بیٹھنے کی جگہ ان میں بڑی آسانی سے نکل سکتی ہے۔ لیکن اگر ان میدانوں میں جلسہ نہ ہو سکے تو کوئی اَور جگہ تجویز کر لی جائے۔ اس کوٹھی کے شمال کی طرف بھی بڑا میدان ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں پانچ چھ ہزار آدمی جمع ہو سکتا ہے۔‘‘ (الفضل 16 دسمبر 1947ئ)


46
ہمارے لئے اب عمل کا زمانہ ہے اور عمل ہمیشہ جذبات سے ہوا کرتا ہے نہ کہ عقل سے
(فرمودہ 19 دسمبر 1947ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ہر شخص اور ہر قوم کا کوئی مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ اگر وہ مطمح نظر صرف عقلی نہیں ہوتا بلکہ جذباتی ہوتا ہے تو اُس کی ساری قوتیں اُس مطمح نظر کے لئے وقف ہوجاتی ہیں۔ اور اگر عقلی ہوتا ہے تو جتنا جتنا اُس کے یقین اور اُس کے ارادہ پر اُس عقلی مطمحِ نظر کا اثر پڑتا ہے اُتنی اُتنی توجہ اُس کی طرف پھرتی چلی جاتی ہے۔ دُنیا میں ساری چیزیں جو انسان کے دماغ میں آتی ہیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ یا فکری ہوتی ہیں یا جذباتی ہوتی ہیں۔ یعنی یا تو فکر اور عقل کے ذریعہ سے اُس نے کسی بات کو تسلیم کیا ہوتا ہے اور جتنا جتنا فکر اور عقل کا اثر یا اُس کی تائید اُسے حاصل ہوتی ہے اُتنا اُتنا ہی اُسے اُس چیز کے متعلق شغف ہوتا ہے۔مثلاً ایک انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے اچھی طرح گزارنے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔ اِس خیال کے ماتحت وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ اپنے وقت کو اُس قسم کی تعلیم کے حصول کے لئے جس کو وہ اپنی زندگی کے لئے مفید سمجھتا ہے خرچ کرتا ہے۔ مگر یہ خیال کہ تعلیم میری زندگی کو بہتر بنا دے گی مختلف درجے رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ تو سمجھتا ہے کہ تعلیم اُس کی زندگی کو بہتر بنا دے گی۔ مگر اِس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ ایسی ضروری چیز نہیں جیسے کوئی شخص مثلاً تقدیر کا غلط رنگ میں عقیدہ رکھتا ہو اور سمجھتا ہو کہ بیشک تعلیم ضروری ہے لیکن اگر تعلیم میری قسمت میں ہوئی تو مجھے مل جائے گی۔ اب جس شخص کا یہ عقیدہ ہو گا باوجود اِس کے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہو گا پوری جدوجہد حصولِ تعلیم کے لئے نہیں کرے گا۔ کیونکہ اُس کی عقل اور فکر نے جتنی تعلیم کی ضرورت بتائی تھی اُسے اُس کے دوسرے عقیدہ نے کمزور کر دیا۔ یا مثلاً ایک اَور شخص یہ سمجھتا ہے کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے تعلیم ضروری ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ میرے باپ کی جائیداد کافی ہے۔ اگر مَیں نہ پڑھوں تب بھی مَیں بھوکا نہیں مروں گا۔ ایسے شخص کی جدوجہد بھی یقینا کمزور ہو گی۔ کیونکہ وہ سمجھے گا کہ جو فائدہ تعلیم سے حاصل ہونا ہے وہ بغیر اس کے بھی مجھے حاصل ہو سکتا ہے۔ یا ایک شخص مثلاً ویسے ہی خیالات رکھتا ہے جیسے گزشتہ زمانہ میں کالجوں کے لڑکوں کے خیالات ہوا کرتے تھے۔ اُن کا طریق تھا کہ وہ ملک میں شورش پیدا کرنے کے لئے سٹرائیکیں کیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سٹرائکوں سے اُن کی تعلیم نامکمل رہ جائے گی۔ مگر اِس کے ساتھ ہی اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ چونکہ کالج انگریزی تعلیم دلواتے ہیں اور ہماری جدوجہد سے یہ تعلیم ختم ہو جائے گی۔ اس لئے اس تعلیم کا نہ ملنا ہمارے مستقبل پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔ یا جس آنے والی گورنمنٹ کے لئے ہم قربانیاں کر رہے ہیں جب وہ برسرِ اقتدار آئے گی تو ہماری قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور بغیر ڈگریوں کے ہی ہمارے ساتھ وہ سلوک کرے گی جو ڈگری والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جیسے پچھلے دنوں ہمارے ملک میں طلباء نے مظاہرے کئے اور کہا کہ ہمیں مفت ڈگریاں دی جائیں کیونکہ ہم قومی خدمت کرتے رہے ہیں۔ اب جہاں تک علم کا سوال ہے یہ ایک بیوقوفی کا مطالبہ تھاکیونکہ اگر ڈگری کے معنی محض بی۔اے یا ایم۔ اے کے دو لفظ ہیں۔ تو یہ ڈگری ایک جاہل کو بھی دی جا سکتی ہے۔ ایسے شخص کو بھی جا سکتی ہے جو ایک لفظ بھی پڑھا ہوا نہ ہو۔ اور اگر ڈگری کے معنی یہ ہیں کہ خاص علم حاصل کرنے کے بعد کسی کو ڈگری دی جائے تو چاہے کسی کو قومی خدمت کی وجہ سے وہ معیارِ علم حاصل نہ ہوا ہو چاہے سُستی یا غفلت کی وجہ سے حاصل نہ ہوا ہو۔ بات ایک ہی ہوگی۔ کیا کوئی شخص اس امر کو جائز سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص قوم کے لئے زخمی ہو جائے اُسے ہسپتال والے کہہ دیں کہ تمہیں علاج کی ضرورت نہیں تم آپ ہی اچھے ہو جاؤ گے؟ یا یہ کہیں کہ تم تندرست ہی ہو زخمی کس طرح ہو سکتے ہو ؟تم تو قوم کی خاطر لڑے تھے؟یا اگر کوئی شخص دین کے رستہ میں زخمی ہوا ہو تو اُسے کہا جائے کہ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ کیایہ ہو سکتا ہے کہ تم زخمی ہو؟ تم تو خدا کے لئے لڑے تھے۔ کیا ہماری ان باتوں سے وہ اچھا ہو جائے گا؟ اِسی طرح اگر کسی نے اتنا علم حاصل نہیں کیا جو بی۔ اے کے دو حروف کے لئے ضروری ہے یا ایم۔ اے کے دو حروف کے لئے ضروری ہے تو محض اِس لئے کہ وہ ریفیوجیز(Refugees) کی خدمت کرتا رہا ہے یا کوئی اَور قومی کام کرتا رہا ہے اُسے وہ معیارِ علم کس طرح حاصل ہو سکتا ہے جو بی۔ اے یا ایم۔ اے کو حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر یہ دو حروف بغیر ایک مقررہ معیارِ علم کے حاصل ہو سکتے ہیں تو پھر اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ بجائے اِس کے کہ کسی کو وکٹوریہ کراس یا آئرن کراس دیا جائے۔ جب کوئی سپاہی اچھا لڑے تو اُس کو بی۔ اے کی ڈگری دے جائے۔ یا کوئی شخص ملک کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالے تو اُسے ایم۔ اے کی ڈگری دے دی جائے۔ اور جب یونیورسٹی سے پوچھا جائے کہ اسے بی۔ اے یا ایم۔ اے کا خطاب تم نے کیوں دیا ہے؟ تو وہ جواب دے کہ اس نے اپنی جان ملک کے لئے خطرہ میں ڈالی تھی۔ اگر یہ شخص اس خطاب کا مستحق نہیں تو اور کون ہے۔ کیا یہ جواب درست ہو گا اور کیا کوئی بھی صحیح الدماغ انسان اسے جائز قرار دے گا؟ اگر نہیں تو علوم کی ڈگریاں بھی معیارِ علم کے مطابق حاصل ہوتی ہیں۔ اور اگر اِس کے بغیر ہم اُن ڈگریوں کو حاصل کرتے ہیں تو ہم دُنیا کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارے ملک میں یہی چرچا رہا اور طلباء مُفت ڈگریوں کے لئے مظاہرات کرتے رہے اور انہوں نے سمجھا کہ ملک بغیر مقررہ میعارِ علم حاصل کرنے کے انہیں بی۔ اے یا ایم ۔ اے کا خطاب دے دے گا۔ جیسے یونیورسٹیاں بعض لوگوں کو آنریری ڈگریاں دے دیا کرتی ہیں۔ مثلاً ڈی ڈی1، ایل ایل ڈی2، کی ڈگری دے دیتی ہیں۔ حالانکہ بعض دفعہ جسے اس قسم کی ڈگری دی جاتی ہے وہ ایک حرف بھی ان علوم کا پڑھا ہوا نہیں ہوتا۔ مگر یہ اعزازی ڈگری صرف اس لئے دے دی جاتی ہے کہ اُس نے کوئی سیاسی کام کیا ہوا ہوتا ہے یا ملک کی خدمات سرانجام دیتے ہوئے اُس نے قربانیاں کی ہوئی ہوتی ہیں۔ انگلستان کے قریباً تمام وزراء کو اسی طرح اعزازی ڈگریاں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ابھی لارڈ بالڈون فوت ہوئے ہیں۔ انہیں بھی بڑی ڈگریاں ملی ہوئی تھیں۔ مگر ان کی خدمت کیا تھی؟ خدمت یہ تھی کہ گزشتہ جنگ کے موقع پر اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ملک کو دے دی تھی۔ اِس کے بعد ایسا چانس ہوا کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر جا پہنچے۔ پھر کہیں گلاسگو یونیورسٹی (Glasgow University)نے اُن کو ڈگریاں دے دیں۔ کہیں کیمبرج یونیورسٹی نے ان کو ڈگریاں دے دیں۔ کہیں آکسفورڈ یونیورسٹی نے ان کو ڈگریاں دے دیں۔ مگراِس کے یہ معنی نہیں کہ اِن ڈگریوں کے پاس شُدہ مقام پر اُس شخص کو کھڑا کر دیا جائے جسے بعض اعزازی ڈگریاں ملی ہوئی ہیں۔
غرض بیسیوں وجوہات ہوتی ہیں جو عقلی مطمحِ نظر کو کمزور کرنے کے لئے پیدا ہو جاتی ہیں۔ عقل کہتی ہے کہ فلاں بات اِس طرح ہے۔ مگر دوسری باتیں عقل کے فیصلہ اور اُس کے مقام کو کمزور کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں جذبات جو کچھ فیصلہ کرتے ہیں سوائے اِس کے کہ جہالت سے کسی وقت اصل مقصود ہی انسانی نظر سے اوجھل ہو جائے کوئی چیز ا س میں روک نہیں بن سکتی۔ جذبات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ماں کو اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچہ کی جتنی خدمت کرتی ہے محض محبت اور پیار سے کرتی ہے۔ عقل سے نہیں کرتی۔ بعض دفعہ ایک عورت کی بڑی عمر ہو جاتی ہے۔ مگر پھر بھی اولاد کی خواہش اُس کے دل میںموجزن رہتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اُس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اُس کی خدمت کرے۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ٹوانہ خاندان میں سے (جن میں سے سر خضر حیات خاں ہیں) ایک رئیس تھے جن کی بڑی عمر ہوگئی مگر اُن کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ ستّر سال کے قریب خاوند کی عمر ہوگئی اور ساٹھ سال کے قریب بیوی کی عمر ہو گئی۔ آخر انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم حج کے لئے جاتے ہیں، وہاں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں بچہ دے دے گا۔ اِسی احساس کے ماتحت وہ حج کے لئے چل پڑے۔ کوئی اُن سے پوچھتا کہ آپ کہاں چلے ہیں؟ تو وہ یہی جواب دیتے کہ بچہ لینے چلے ہیں۔ چونکہ اعتقاد پختہ تھا اور انہوں نے دعائیں بھی اور گریہ وزاری بھی ضرور کی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل نازل ہوا کہ اُن کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا۔ حالانکہ اُس وقت بیوی کی عمر ساٹھ سال تھی۔ غرض واپس آئے تو بچہ لے کر آئے اور ہر ایک سے یہی کہتے کہ لو حج کے ذریعہ ہمیں بچہ مل گیا۔ اب دیکھو یہ ایک فطرت تھی۔ا گر اُس عورت سے کوئی کہتا کہ تُو ساٹھ سال کی ہو چکی ہے اور تیرا خاوند ستّر سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے ایسی حالت میں تیرے ہاں بچہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔ تو وہ اُس سے لڑنے لگ جاتی۔ پھر اگر اس عمر میں کوئی بچہ پیدا بھی ہو تو یہ یقینی بات ہے کہ ماں باپ اُس کے جوانی تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو جائیں گے۔ اگر 21سال جوانی کی عمر فرض کر لی جائے تو 60 سال کی عورت اُس وقت 81 سال کی ہو گی۔ اور 70 سالہ باپ اُس وقت 91 سال کا ہوگا ۔ مگر کتنے مرد ہیں جو اس عمر کو پہنچتے ہیں؟ یا کتنی عورتیں ہیں جو اس عمر کو پہنچتی ہیں؟ لاکھوں لاکھ میں سے کوئی ایک ہی اِس عمر کو پاتا ہے ۔ لیکن باوجود اِس حقیقت کے اگر کوئی اُن سے کہتا کہ تم کیوں اپنا وقت فضول ضائع کرتے ہو؟ تمہیں بچے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ تم تو اُس کے جوانی تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاؤ گے تو وہ اُس کے پیچھے پڑ جاتے اور کہتے تم تو ہمارے دشمن ہو جو ایسی بات کہہ رہے ہو۔ غرض بچہ کی پیدا ئش کی خواہش عقل کے ماتحت نہیں ہوتی۔ ایک انسان مکان بناتا ہے تو اس لئے بناتا ہے کہ مَیں اس مکان میں رہوں گا اور سردی گرمی سے محفوظ رہوں گا۔ ایک انسان فصل بوتا ہے تو اس لئے بوتا ہے کہ مَیں فصل کو کاٹوں گا، اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھروں گا۔ لیکن ماں باپ بچے کی خواہش کسی خاص نیت کے ماتحت نہیں کرتے۔ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں بچہ مل جائے۔ یہ اُن کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہوتا کہ بچہ بڑ اہو گا تو ہمیں کما کر کھلائے گا یا ہمارا نام روشن کرنے کا موجب ہو گا۔ کبھی گفتگو میں کوئی ذکر آ جائے تو اَور بات ہے۔ ورنہ ماں باپ بچے کی خواہش محض بچے کے لئے کرتے ہیں اور کسی چیز کے لئے نہیں کرتے۔ اِسی لئے بچہ کی پرورش میں کوئی چیز روک نہیں بنتی۔ کوئی ماں اس لئے اپنے بچہ کی پرورش میں حصہ لینے سے انکار نہیں کر دیتی کہ مَیں بڑھیا ہوں مَیں اس کی کمائی سے حصہ نہیں لے سکوں گی۔ یا کوئی ماں اس لئے اپنے بچہ کی پرورش میں کمی نہیں کرے گی کہ یہ کُند ذہن ہے بڑاہو کر پڑھے گا نہیں اور اس لئے روپیہ کما نہیں سکے گا۔ اسی طرح کوئی ماں اس لئے بھی اپنے بچہ کی پرورش کو نہیں چھوڑ دیتی کہ ممکن ہے پانچ چھ سال کے بعد یہ مر جائے اور میری ساری محنت اکارت چلی جائے۔ ایسے خیالات کسی ماں کے دل میں آئیں بھی تو وہ ان کو غدّاری سمجھے گی اور دیوانہ وار بچہ کی پرورش میںلگ جائے گی۔ تو اِس قسم کی جذباتی چیزیں ہی ہیں جو انسان کی کامیابی کا موجب ہوتی ہیں۔ عقل و فکر محض اس لئے دی گئی ہے کہ ہم بُرے اور بھلے میں تمیز کریں۔مگر جب بُر ے اور بھلے میں ہم تمیز کر لیں تو عقل کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہمارے سامنے ہونی چاہیئے اور جس سے ہمیں کام لینا چاہیئے وہ جذبات ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ جذبات اور عقل دونوں ایک وقت میں کام کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ عقل و فکر صرف ایک وقت کام کرتے ہیں پھر اُن کا دَور ختم ہو جاتا ہے اور جذبات کا دَور شروع ہوتا ہے۔ جیسے انسانی عمر کے مختلف دور ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک دَور بچپن کا ہے۔ پھر اِس بچپن کے دَور کے کئی حصے ہیں۔ ایک پنگھوڑے کا زمانہ ہے۔ ایک دودھ پینے کا زمانہ ہے۔ ایک کھیلنے کُودنے کا زمانہ ہے۔ بچپن کے بعد جوانی اور نشوونما کا زمانہ ہے۔ پھر شادی بیاہ کا زمانہ ہے۔ پھر بچوں کا زمانہ ہے۔ پھر اعلیٰ درجہ کے کام کرنے کا زمانہ ہے۔ پھر کمزوری اور ضعف کا زمانہ ہے جس میں دماغ کا کام تو بڑھ جاتا ہے مگر جسم کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر قویٰ کے اضمحلال کا زمانہ ہے۔ جس طرح یہ دَور مختلف ہیں اِسی طرح کاموں کے بھی مختلف حصے ہیں۔ عقل انسان کو صرف ایک حد تک لے جاتی ہے اِس کے بعد جذبات کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ جو شخص ساری عمر عقل کو اپنے ساتھ لئے چلا جاتا ہے وہ کہیں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح جو شخص ساری عمر جذبات سے کام کئے چلا جاتا ہے وہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اُس وقت جذبات سے کام لے گا جب عقل سے کام لینا چاہیئے تو وہ غلط فیصلہ کرے گا۔ وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ واقع میں یہ کام مفید ہے یانہیں۔ وہ صرف اپنے میلان کو دیکھے گا اور میلان غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح جوشخص اُس وقت عقل سے کام لے گا جب جذبات سے کام لینے کا وقت ہو گا وہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ بے اطمینانی کی حالت میں رہے گا اور کبھی نڈر اور بے خوف ہوکر اپنے لئے کوئی راستہ تجویز نہیں کر سکے گا۔
جب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم عقل سے کام لیں اور غور کریں کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچاہے یا نہیں۔ مگر جب ہم نے اُسے مان لیا تو پھرعقل کا کام ختم ہو گیا۔ پھر جذبات کا زمانہ شروع ہونا چاہیئے اورہمارا فرض ہونا چاہیئے کہ ہم عقل کی بجائے جذبات سے کام لیں۔ اور اس قدر کام لیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ہم اِس سے اِدھر اُدھر نہ ہوں۔ جس طرح ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے اِس طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اُس مدعی کے ساتھ عقلی نہیں بلکہ جذباتی تعلق رکھیں۔ عقل تبھی تک تھی جب تک ہم نے اُسے نہیں مانا تھا۔ جب ہم نے مان لیا تو عقل کا کام ختم ہو گیا۔ اس کے بعد جذبات کا دَور شروع ہو گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ بدر کے لئے تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے گو آپ کو معلوم تھا کہ جنگ ہو گی مگر ساتھ ہی آپ کو یہ ہدایت تھی کہ ابھی یہ صورتِ حالات صحابہؓ کو نہ بتائی جائے۔ صحابہؓ کا خیال تھا کہ وہ قافلہ جو شام سے تجارت کر کے واپس آ رہا ہے ہمارا اُس سے مقابلہ ہو گا۔ اِس لئے صحابہؓ میں سے بہت تھوڑے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے اور اکثر مدینہ میں ہی رہ گئے۔ کیونکہ وہ جنگ کی امید نہیں رکھتے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ جنگ کے قریب پہنچے تو آپ نے صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور فرمایا مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ کفّار سے ہماری جنگ ہو گی۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا صلاح ہے؟ آیا تم اِس خیال سے کہ ہم تیاری کر کے نہیں آئے واپس لَوٹنا چاہتے ہو یا اس خیال سے کہ خدا نے موقع دے دیا ہے کہ ہم دشمن سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کر لیں لڑناچاہتے ہو؟ مہاجرین صحابہؓ یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جنگ ہو تو ہم ڈرتے نہیں۔ اگر تھوڑے ہیں تو کیا ہوا؟ پہلے ایک نے مشورہ دیا پھر دوسرے نے مشورہ دیا پھر تیسرے نے مشور ہ دیا پھر چوتھے نے مشورہ دیا پھر پانچویںنے مشورہ دیا پھر چھٹے نے مشورہ دیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مشورے کے بعد فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ کیاکرنا چاہیئے؟ جب یکے بعد دیگرے پانچ سات مہاجرین کھڑے ہوئے اور ہر ایک کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے چلے گئے کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہو ئے او ر انہو ںنے کہا یا رسول اللہ! آپ کو مشورہ تو مل رہا ہے ۔ یکے بعد دیگرے مہاجرین کھڑے ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں مگر آپ بار بار فرماتے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ شاید آپؐ کی مُراد ہم انصار سے ہے کہ اے ا نصار تم مجھے مشورہ دو کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ٹھیک سمجھے ہو۔میرا یہی منشاء ہے۔ اِس پر اُس نے کہا یا رسول اللہ! غالباً آپ کا اشارہ اُس معاہدہ کی طرف ہے جو ہم نے آپ سے اُس وقت کیا تھا جب ہمارا وفد مکہ میں آپ سے ملا۔ اور ہم نے اس شرط پر آپؐ کی بیعت کی تھی کہ اگر مدینہ پر دشمن نے حملہ کیا تو ہم اپنی جان اور اپنا مال قربان کر کے آپؐ کی اور آپ کے ساتھیوں کی حفاظت کریں گے۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ اگر مدینہ سے باہر لڑائی ہو گی تو ہم اِس معاہدہ کے پابند نہیں ہونگے بلکہ آزاد ہونگے۔ خواہ شامل ہوں یا نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اُس نے کہا یا رسول اللہ! جب ہم نے وہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت ایمان ابھی ہمارے دل میں داخل نہیں ہوا تھا۔ ہمارے دماغوں نے بے شک سمجھا تھا کہ یہ شخص سچا ہے۔ لیکن ہم نے یہ نہیں سمجھا تھا کہ نبی کا رُتبہ کیا ہوتا ہے اور اُس کے ساتھ کس قسم کی محبت کا تعلق ہونا چاہیئے۔ اِس لئے ہم نے ایسی ایسی شرطیں کی تھیں۔ مگر یا رسول اللہ! اِس کے بعد ہمیں پتہ لگ گیا کہ نبی کا کیا رُتبہ ہوتا ہے اور ہمارا عقلی تعلق محبت کے تعلق سے بدل گیا۔ اس لئے اب شرطوں کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یا رسول اللہ! سامنے سمندر ہے ۔ آپ ہمیں حکم دیجیے تو ہم اُس میں بلادریغ کُود جائیں گے 3 اور اگر دشمن سے مقابلہ ہوا تو یا رسول اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ 4
یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ عقل اور جذبات کا کیا تعلق ہے۔ انصار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اُس وقت اُن کا آپ سے صرف عقلی تعلق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم تھوڑے ہیں اور مدینہ بھی ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ اگر دشمن نے کسی وقت مدینہ کا محاصرہ کر لیا تو چونکہ ایک چھوٹی جگہ میں مقابلہ ہو گا ہم دشمن سے لڑیں گے اور مریں گے۔لیکن باہر ہم دشمن کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ اُس وقت عقل یہی کہتی تھی۔ مگر جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہو ں نے مان لیا اور آپ کی شان کو انہوں نے پہچان لیا تو عقل کا دَور ختم ہو گیا۔ اور انہوں نے سمجھ لیا کہ جب یہ سچا ہے تو اب عقل کا کام ختم ہے۔ اب عمل کا زمانہ شروع ہوتا ہے اور عمل ہمیشہ جذبات سے ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی عمل جذبات کے بغیر نہیں ہوتا۔ عملِ کامل ہمیشہ جذبات سے وابستہ ہوتا ہے۔ اور انسانِ کامل وہی ہوتا ہے جو ایک حد تک عقل سے کام لینے کے بعد اُسے کہتا ہے کہ اے عقل! تیرا شکریہ اب تُو میرا پیچھا چھوڑ، جذبات سے کام لینے کا وقت آ گیا ہے۔ اور جب جذبات سے کام لینے کا وقت آ جائے تو اُس وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے، اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے، مفید کیا ہے اور مُضِر کیا ہے، مرنا کیا ہے اور جینا کیا ہے۔ کیونکہ جذبات کے میدان میں ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ تو دیکھو انصار نے کیسے معقول طور پر اس نکتہ کو بیان کیا ہے کہ جب تک ایمان کامل نہیں تھا ہمارا تعلق محض عقلی تھا۔ لیکن اس کے بعد ہمارا عقلی تعلق نہیں رہا۔ عقل سے کام لیا جائے تو انسان یہی کہتا ہے کہ مَیں کیوں مروں؟ یا کس حد تک قربانی کروں؟ مگر جذبات یہ نہیں کہتے۔ بچہ بیمار ہوتا ہے، اُسے ٹائیفائیڈ ہوتا ہے چالیس چالیس دن تک اُس کا بخار چلتا جاتا ہے۔ تو ماں راتوں کو جاگتی ہے، اس کی خبرگیری کرتی ہے، اور ہر وقت بچہ کی نگہداشت اور اس کی تیمارداری میں مصروف رہتی ہے۔ اُس وقت اگر کوئی شخص اُسے یہ کہے کہ تُو اتنی مشقّت کیوں برداشت کرتی ہے؟ تُوکچھ دیر کے لئے رات کو آرام بھی کیا کر۔ تووہ یہ نہیں کہے گی کہ جَزَاکَ اللّٰہُ۔ تُو میرا بڑا ہمدرد ہے۔ بلکہ وہ اُسے گالیاں دے گی او ر کہے گی تُو کہاں سے میرا خیر خواہ نکل آیا۔ اسی طرح اصل مقام ایمان کا جذباتی ایمان ہوتا ہے۔ جب تک عقل سے کوئی چیز تمہاری سمجھ میں نہیں آتی اُس وقت تک تم اُسے کبھی قبول نہ کرو۔ لیکن جب عقل سے کوئی بات تمہاری سمجھ میں آ جاتی ہے اور اُس کے درست ہونے کے تمام دلائل تم پر واضح ہو جاتے ہیں۔ تو اُس کے بعد ایک ہی ذریعہ تمہاری کامیابی کا رہ جاتا ہے کہ تم عقل کو تہہ کر کے رکھ دو اور جذبات کی رَو میں بہہ جاؤ۔ صرف جذبات ہی جذبات تمہارے اندر کام کر رہے ہوں۔ جب تک تم جذبات کی کشتی میں نہیں بیٹھتے اُس وقت تک تم حوادث اور طوفان سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تمام انبیاء کی امتوں نے ایسا ہی کیا اور تمہیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔ اگر احمدیت تم نے عقل سے قبول نہیں کی تو تم نئے سرے سے دلائل پر غور کرو اور نئے سرے سے سوچو کہ مرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے یا نہیں؟ اور اگر تم پہلے سوچ چکے ہو یا دو بارہ سوچ کر نتیجہ نکالتے ہو کہ احمدیت سچی ہے۔ اگر تم کوئی بھی نفع دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہو اگر تم کوئی بھی مفید کام دنیا میں کرنا چاہتے ہو، تو تم عقل کو تہہ کر کے رکھ دو اور اُسے کہو کہ تم نے جس حد تک قربانی کرنی تھی کردی۔ اب تمہارا کام نہیں اب جذبات سے کام لینے کا وقت آ گیا ہے۔ اب موت اور حیات اور نفع اور نقصان کا میرے لئے کوئی سوال نہیں۔ جب تک مَیں نے حقیقت کو نہیں سمجھا تھا مجھے نفع اور نقصان کا احساس تھا۔ لیکن جب مَیں نے حقیقت کو سمجھ لیا تو ہر نیک انجام یا ہر بد انجام میرے لئے ایک بے حقیقت شے ہے۔ میرا راستہ میرے سامنے ہے اور اس سے ہٹنا یا اِدھر اُدھر ہونا میرا کام نہیں۔ یہی اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے پہلے انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوئیں اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے تم دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ ‘‘ (الفضل 27 جنوری 1948ئ)
1: ڈی ڈی: (DOCT. OF DIVINITY )الوہیت مسیح کے بارہ میں عیسائی مذہبی علم کا ماہر۔
2:ایل ایل ڈی: ڈاکٹر آف لائ(DOCT. OF LAW)
3: سیرت ابن ہشام جلد2صفحہ266،267 مطبوعہ مصر 1936ئ
4: بخاری کتاب المغازی باب قِصَّۃ غَزْوَۃِ بَدْرٍ۔
 
Top