• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 29

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 29



نماز خدا تعالیٰ سے باتیں کرنے کا ذریعہ ہے
(فرمودہ2جنوری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"پہلے تو مَیں نظارت تعلیم و تربیت کو اور ساتھ ہی صدر انجمن احمدیہ کو بھی ایک ایسے امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کی طرف اُن کا ذہن جانا چاہیے تھا مگر گیا نہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ہر کام کے متعلق اُس کام کا وقت گزر جانے کے بعد سوچا کرتے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ اِس بات پر ہنسا کرتے ہیں کہ سکھ پہلے کام کرتا ہے اور بعد میں سوچتا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان بالکل سوچتا ہی نہیں۔ پہلے تو وہ بالکل غافل ہو کر سویا رہتا ہے اور جب مصیبت اُس کے سر پر آ کھڑی ہوتی ہے تب وہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حالانکہ سوچنے کا اصل وقت ماضی کی لپیٹ میں آ چکا ہوتا ہے۔ اب دیکھ لو ہر شخص جانتا تھا کہ مشرقی پنجاب اور دوسرے علاقوں سے مہاجرین آئیں گے اور سردی کے ایام میں آئیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ ان مہاجرین کو فوراً ہی ٹھکانوں پر نہیں پہنچایا جاسکے گا اور ان کے لیے کمبلوں اور لحافوں کی فوری طور پر ضرورت ہو گی۔ لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افسرانِ متعلقہ کو کمبلوں اور لحافوں کا خیال 15دسمبر کے بعد پیدا ہوا اور یہ وقت خیال پیدا ہونے کا نہ تھا بلکہ مہاجرین کو کمبل اورلحاف مہیّا کرنے کا تھا۔ اِسی طرح مجھے نظر آ رہا ہے کہ اب نیا سال شروع ہو چکا ہے اور دو یا اڑھائی ماہ کے بعد گرمی کے آثار شروع ہو جائیں گے اور جمعہ کی نماز کے وقت لوگ دھوپ میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ اور چونکہ ہر چیز کی تیاری کے لیے ایک خاص وقت ہوتا ہے اِس لیے صدر انجمن احمدیہ اور تعلیم وتربیت کے افسران کا یہ فرض تھا کہ ابھی سے اس کام کے متعلق سوچتے کہ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی سائبانوں کا کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ مگر ابھی تک انہوں نے اِس امر کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔پس آج مَیں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ ضرورت کے ایام سے پیشتر ہی سائبانوں کا انتظام کر لیں۔ میرے خیال میں سائبان نئے بنوا لینے چاہییں۔ وہ اچھے بھی ہوں گے اور سستے بھی رہیں گے۔ لیکن چونکہ سائبان نئے تیار کرانے میں دو یا تین ماہ لگ جائیں گے اس لیے ابھی سے نئے سائبانوں کے لیے آرڈر دے دینا چاہیے۔ یہ ایک نہایت ضروری کام تھا جس کی طرف اگر آج مَیں توجہ نہ دلاتا تو بظاہر یہی آثار نظر آ رہے تھے کہ اپریل یا مئی کے مہینہ میں ناظر ایک دوسرے کامنہ دیکھ کر سنجیدگی کے ساتھ کہتے کہ اب سائبانوں کے لیے کوئی انتظام کرنا چاہیے اور شاید اگست یا ستمبر تک جا کر سائبان تیار ہوتے۔ مگر مَیں نے آج اُنہیں متنبہ کر دیا ہے کہ سائبان تیار ہونے میں دو یا تین مہینے لگیں گے اور اتنے عرصہ تک گرمی بھی آ جائے گی۔ اس لیے آج ہی اُتنے سائبانوں کے لیے آرڈر دے دیا جائے جتنے سائبانوں سے عورتوں پر بھی سایہ ہوسکے اور مردوں پر بھی ہوسکے۔ اِس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم کرایہ پر سائبان لے لیں گے کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جو ہمیشہ کام آنے والی ہے۔ اور جو چیز ہمیشہ کام آنے والی ہو اُس کے لیے کرایہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جمعہ بھی ہمیشہ آتا رہے گا اور گرمیاں بھی ہر سال آتی رہیں گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا منشا ہمیں دیر کے بعد قادیان واپس لے جانے کا ہے تو ہم جہاں رہیں گے سائبان ہمارے کام آئیں گے۔ اگر ہم نے یہیں رہنا ہے تو یہاں بھی ہر سال گرمی آتی رہے گی۔ اور اگر ہم نے کسی اَور جگہ رہنا ہے تو وہاں بھی گرمی آتی رہے گی۔ اور اگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلدی قادیان واپس چلے گئے تو بھی سائبان ہمارے کام آئیں گے۔ پس ابھی سے سائبان تیار کرانے کا انتظام شروع ہو جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہرضرورت کے لیے اُس کے پیش آنے سے پیشتر سوچ لینا ہی فائدہ دیا کرتا ہے۔ یوں تو ہر شخص گرمی کے ایام میں گرمی محسوس کرتا ہے اور سردی کے ایام میں سردی محسوس کرتا ہے۔ مگر عقلمند وہ ہوتا ہے جو سردی کی ضروریات کے لیے گرمی کے ایام میں ہی تیاری شروع کر دے اور گرمی کے ایام کی ضروریات کے لیے سردی کے ایام میں ہی تیاری شروع کر دے۔
یہ جمعہ جس کے خطبہ کے لیے آج مَیں کھڑا ہوا ہوں یہ 1948ء کا پہلا جمعہ ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے 1944ء میں مجھے ایک رؤیا میں بتایا تھا یہ سال اپنے اندر نئی نئی امیدیں رکھتا ہے۔ اُس رؤیا میں جو وقت بتایا گیا تھا اُس کا آخری زمانہ مارچ 1949ء ہے۔ مارچ 1944ء میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا جبکہ بعض لوگ میرے متعلق ایسی خبریں شائع کر رہے تھے اور کچھ احمدی دوست بھی نہ معلوم کن اثرات کے ماتحت یہ خوابیں دیکھ رہے تھے کہ میری زندگی کے دن ختم ہو رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے جب مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک سمندر ہے اور اس میں کچھ بوائے (Buoy)ہیں۔ بوائے انگریزی کا لفظ ہے اور چونکہ یہ صنعتی شے ہے اس لیے اردو زبان میں اِس کا کوئی ترجمہ نہیں۔یہ بوائے ڈھول سے ہوتے ہیں جنہیں آہنی زنجیروں سے سمندر میں چٹانوں کے ساتھ باندھا ہوتا ہے اور وہ سمندر میں تیرتے پھرتے ہیں۔ اور جو جہاز وہاں سے گزرتے ہیں ان کو دیکھ کر جہاز ران یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس بوائے سے چٹان قریب ہے اور اس سے بچ کر چلنا چاہیے اور اگر سمندر کے اندر چٹانوں کا نشان بتانے کے لیے بوائے نہ لگے ہوئے ہوں اور جہاز آ جائے تو جہاز کے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض جہاز ایسے ہوتے ہیں جو پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ فٹ پانی کے اندر ہوتے ہیں بوجہ اپنے سائز کے یا بوجہ بوجھ کے یا بعض بوجہ اپنی ساخت کے۔ اور اگر چٹان پانی کی سطح سے پندرہ یا بیس فٹ نیچے ہو تو ایسے جہاز چٹان کا نشان نہ ہونے کی وجہ سے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جاتے ہیں۔ پس جہاز کو ہوشیار کرنے کے لیے اور اُسے اطلاع دینے کے لیے کہ اس جگہ چٹان ہے متمدن حکومتیں اپنے اپنے سمندری علاقوں میں لوہے کے بنے ہوئے بوائے زنجیروں کے ذریعہ چٹانوں کے ساتھ باندھ دیتی ہیں۔ اُن کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور وہ ہر وقت پانی کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں اور اُن کو دیکھ کر جہاز والے یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں خطرہ ہے اور وہ اُس جگہ سے جہاز کو بچا کر لے جاتے ہیں۔ تو مَیں نے دیکھا کہ سمندر میں اِسی قسم کے بوائے لگے ہوئے ہیں اور ان کی زنجیریں بہت لمبی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں۔ خواب میں مَیں خیال کرتا ہوں کہ اِس بوائے کا تعلق میری ذات سے ہے اور تمثیلی رنگ میں وہ بوائے مَیں ہی ہوں اورمجھے بتایا گیا ہے کہ یہ نظارہ پانچ سال کے عرصہ سے تعلق رکھتا ہے۔ تب مَیں نے سمجھا کہ آئندہ پانچ سال کے اندر کوئی اہم واقعہ اسلا م کے متعلق پیش آنے والا ہے اور گویا مسلمانوں کو اُس آفت سے بچانے کے لیے مَیں بطور بوائے ہوں۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب تک وہ واقعہ پیش نہ آئے مجھے زندہ رکھا جائے گا۔ اِس رؤیا کے پورا ہونے کا ایک پہلو تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ ہمارا ملک اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آزاد ہو چکا ہے اور ایسے حالات میں آزاد ہوا ہے جن کی موجودگی میں آزادی مل جانا خلافِ توقع تھا اور کسی کو یہ وہم بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ اتنی جلدی ہمارا ملک آزاد ہو جائے گا۔ پھر آزادی ملنے کے ساتھ ہی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو آج سے تھوڑا عرصہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہ تھے۔ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آئی اور بہت بڑی آفت کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ گو یہ تباہی ہندوؤں پر بھی آئی مگر اس زمانہ میں جب مجھے یہ رؤیا دکھایا گیا تھا کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ ہمارے ملک میں اتنا بڑا اور عدیم المثال تغیر آئے گا اور ہمارا ملک چند سالوں کے اندر اندر آزادی حاصل کرلے گا اور وہ آزادی ایسی ہوگی جو اپنے ساتھ بہت سی تاریکیاں اور ظلمتیں بھی رکھتی ہوگی۔
اِس رؤیا کے ساتھ ایک اَور رؤیا بھی تھی جس کے متعلق مجھے تو کچھ یاد نہ تھا لیکن آج کے اخبار الفضل میں مجھے ایک شخص کا مضمون پڑھ کر وہ رؤیا یاد آگئی۔ اس رؤیا میں ایک مضمون بار بار مجھ پر نازل ہوا۔ وہ پورا مضمون تو مجھے یاد نہیں مگر اِتنا یاد ہے کہ اس میں بار بار بیالیس اور اَڑتالیس کا لفظ آتا تھا۔بیالیس کی تعبیر تو میری سمجھ میں نہیں آئی۔ شاید بیالیس سے مراد 1942ء ہی ہو جیسا کہ مَیں نے رؤیا کی تعبیر کرتے وقت خطبہ میں بھی بیان کیا تھا۔ کیونکہ 1942ء میں جمعوں کے متواتر ایسے اجتماع ہوئے جو اسلام کی ترقی کی طرف توجہ دلاتے تھے۔٭ بہرحال اڑتالیس کا لفظ پنج سالہ زمانہ کی طرف توجہ دلاتا تھا۔ یہ رؤیا مَیں نے مارچ 1944ء میں دیکھی تھی اور یہ پنج سالہ زمانہ مارچ 1949ء میں ختم ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے رؤیا کی تعبیر میں اگر پورا سال ہو تو اُس کی کسر بھی ساتھ ہی شامل ہوتی ہے۔ اِس لیے ممکن ہے کہ پانچ سال کی کسر بھی یعنی چھ ماہ اَور ملا کر یہ پانچ سالہ زمانہ اکتوبر 1949ء تک ہو۔ بہرحال زیادہ سے زیادہ مدت 1949ء کے آخر تک ہے۔ اور اگر پورے پانچ سال ہوں تو یہ زمانہ مارچ 1949ء میں ختم ہوتا ہے۔ گویا 25مارچ 1948ء کے بعد پانچواں سال شروع ہو جائے گا۔ پس یہ سال اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اِس لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں یہ دعائیں کرنی چاہیں کہ اِس سال میں جو تغیرات رونما ہوں وہ ہمارے لیے، اسلام کے لیے اور مذہب کی حقیقی روح کے لیے بابرکت ثابت ہوں۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہر نیا سال شروع ہونے پر لوگ نئے ارادے، نئی اُمنگیں اور نئی امیدیں لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کے ارادے، امنگیں اور امیدیں اِس سال کے پہلے مہینے میں ہی ختم ہوجاتے ہیں اور اُنہیں یاد تک نہیں رہتا کہ ان کی اُمنگیں اور امیدیں کیا تھیں۔ ایسے لوگ گھاس کی اُن پتیوں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ہوا کے جھونکے کبھی دائیں سے بائیں اور کبھی بائیں سے دائیں اُڑاتے پھرتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں میں سے جو نیا سال چڑھنے پر نیا نیا جوش اور نئے نئے ولولے اپنے دلوں میں لے کر کھڑے ہوتے ہیں اکثر ایسے ہوتے ہیں جو باوجود ارادوں کے، باوجود اُمنگوں کے اور باوجود امیدوں کے عملی اقدام سے دور رہتے ہیں اور دنیا کے تغیرات میں حصہ نہیں لیتے۔ اُن کے وجود ایسے درختوں اور ایسے چھوٹے چھوٹے پودوں کی مانند ہوتے ہیں جو پہاڑوں پر اُگتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ مگر تُندہوائیں اُنہیں اُکھاڑ کر پھینک دیتی ہیں اور پھر وہ یا تو آندھیوں میں اُڑتے پھرتے ہیں یا پانی انہیں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ گویا ایسے لوگوں کی زندگی اور موت بے حقیقت ثابت ہوتی ہے۔ مگر اِن تھک جانے والوں اور تھوڑا سا چل کر ہمت ہار بیٹھنے والوں کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ارادوں کو پورا کرنے کی توفیق پاتے ہیں اور تھک کر ہار جانے یا ہمت ہار بیٹھنے کے نام سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اولوالعزمی کے ساتھ کامیابی کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو باقی دنیا کے لیے ستون ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی کامرانیوں سے دوسری دنیا سُکھ پاتی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی یہ سال نئی اُمنگوں اور نئی اُمیدوں کا ہوسکتا ہے اور ہوا ہے۔ یعنی ہمارا ملک آزاد ہو گیا ہے۔ مگر جس طرح دوسرے لوگوں کی اُمنگیں ہوں گی ہماری اُس طرح نہیں کیونکہ ہمارے لیے صرف ایک ہی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مقصد کو پورا کرے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ اِس لیے جب تک ہمارا یہ مقصد پورا نہیں ہوجاتا اُس وقت تک ہر نیا سال ہمارے لیے دکھ پیدا کرنے کا موجب ہوگا۔ لیکن اگر ہم ہر سال اِس کام کی کچھ نہ کچھ کوشش کرلیں تو ہر نیا سال ہمارے لیے رحمت اور برکت لانے کا موجب ہوگا۔پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم آنے والے سال کے لیے اپنے آپ کو بابرکت بنائیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ارادہ کو پورا کرنے کے لیے کوئی کام کرنا پڑتا ہے اور ہر کام کے کرنے کے لیے کوئی تدبیر کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے اِس ارادے اور کام کی تکمیل کے لیے بھی کچھ رستے ہیں اور کچھ تدبیریں ہیں۔ جب تک ہم اُن رستوں پر گامزن نہیں ہو جاتے اور جب تک ہم اُن تدابیر پر غور نہیں کرتے ہمیں کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمارے اِس کام سے تعلق رکھنے والی سب سے اہم چیز تعلق باللہ ہے۔ اِس لیے جب تک ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتے اور جب تک ہم اُس کے فضلوں کو جذب کرنے کے قابل نہیں بن جاتے اُس وقت تک یہ عظیم الشان کام سرانجام دینا ہماری طاقت سے بالا ہے۔
پس ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے اندر اکثر لوگ ایسے ہیں جن کو تعلق باللہ مضبوط کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ وہ فکری احمدی تو ہیں قلبی احمدی نہیں۔ اُن کے دماغ توبے شک تسلی پاگئے ہیں مگر اُن کے دلوں کے اندر خدا تعالیٰ کے لیے عشق پیدا نہیں ہوا۔حالانکہ بغیر عشق کے اور بغیر جذبات کی فراوانی کے کوئی چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر عشق پیدا کریں اور اپنے عشق کے جذبات کو اتنا اُبھاریں کہ خدا تعالیٰ کی محبت اُن کی طرف کھنچتی چلی آئے۔
میری عمر اُس وقت چھوٹی تھی جب کہ مَیں نے ایک رؤیا دیکھی۔ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کی بات ہے۔ جب آپؑ فوت ہوئے۔ اُس وقت میری عمر 19 سال تھی اور یہ رؤیا جس کا مَیں ذکر کرنے لگا ہوں غالباً آپؑ کی وفات سے دو سال قبل کی ہے۔ گویا میری عمر اس رؤیا کے دیکھنے کے وقت سترہ سال کی ہوگی)۔ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں امرتسر میں ہوں۔ (امرتسر میں ایک مجسّمہ کوئین وکٹوریہ( Queen Victoria )کا ہے۔ اُس کے گرد سنگِ مرمر کا چبوترا بنا ہوا ہے۔ کٹہرا بھی سنگِ مرمر کا ہے اور سیڑھیاں بھی سنگ مرمر کی ہیں۔ مَیں نہیں جانتا کہ گزشتہ فسادات اور لُوٹ مار کے زمانہ میں اس سنگِ مرمر کے مجسمہ کا کیا بنا۔ مگر جب ہم امن کے دنوں میں امرتسر جایا کرتے تھے تو اس مجسمہ کو دیکھا کرتے تھے) مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایسا ہی سنگِ مرمر کا ایک چبوترا ہے۔ اُسی طرح سنگِ مرمر کا کٹہرا ہے اور اُسی طرح سنگِ مرمر کی سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ سیڑھیوں پر ایک بچہ ہے جو دو یا تین سال کی عمر کا معلوم ہوتا ہے۔ وہ بچہ گُھٹنوں کے بل جُھکا ہوا ہے اور وہ اُن سیڑھیوں کی بالائی سیڑھی پر ہے۔ وہ چبوترے کے آگے اِس طرح سر جھکا کر کھڑا ہے جیسے کسی سے کوئی چیز طلب کر رہا ہے۔ یا جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں آ کر یہ خواہش کرتا ہے کہ ماں اُس سے پیار کرے۔ وہ بچہ نہایت خوبصورت ہے اور خوبصورت لباس میں ملبوس ہے۔ جب مَیں نے اُس بچے کو دیکھا تو خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ مسیحؑ ہے۔ اُس وقت میری نظر اوپر آسمان کی طرف اٹھی اور مَیں نے دیکھا کہ آسمان پھٹا ہے اور اُس پھٹی ہوئی جگہ میں سے ایک نوجوان عورت جس کی عمر بیس یا بائیس سال کی معلوم ہوتی ہے اور اُس کا خوبصورت رنگ آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے نیچے اُترنا شروع ہوئی۔ اُس عورت کے پَر بھی ہیں جیسے عام طور پر قصے کہانیوں میں پریوں کے بیان کیے جاتے ہیں۔ وہ عورت جُوں جُوں نیچے کو اُترتی ہے، اپنے پروں کو ہلاتی ہے گویا وہ اُس بچے کو اپنے پروں میں لے لینا چاہتی ہے۔ اُس وقت مَیں نے سمجھا کہ یہ عورت مریم ہے۔ اور معاً میری زبان پر جاری ہوا کہ’’ لَوْ کری ایٹس لَو ْ ‘‘(Love creates love)محبت محبت پیدا کرتی ہے۔
پس اِس رؤیا کے ذریعہ مجھے بتایا گیا کہ ہر انسان اپنے اندر مسیحی صفت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کے ساتھ مریمی رنگ میں محبت کرتا ہے۔ جب کسی انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجزن ہوتی ہے اور جب انسان اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی سوزش اور جلن محسوس کرتا ہے تو یہ سوزش اور جلن بغیر جواب کے نہیں رہتی۔ بلکہ آسمان پر خدا تعالیٰ کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جیسے ایک محبت کرنے والی ماں اپنے بچے کی آواز پر دوڑتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی محبت کا جواب محبت میں دینے کے لیے دوڑتا ہے اور آکر اُسے پیار کرتا ہے۔ پس اگر ان محبت کے تعلقات میں کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو بندے کی طرف سے ہوتی ہے اور اگر کوئی غفلت یاسُستی ہوتی ہے تو وہ بھی بندے کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ ورنہ خدا تعالیٰ ایک محبت کرنے والی ماں سے بھی بڑھ کر چاہتا ہے کہ اپنے بندوں سے پیار کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں سے محبت کا سلوک کرے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندے کو اپنی محبت بھری گود میں اٹھا کر اُسے تسلی دے۔ لیکن انسان! وہ انسان جو مصائب میں مبتلا ہوتا ہے، وہ انسان جو آلام کے بوجھ کے نیچے ہوتا ہے، وہ انسان جو ہر وقت محتاج ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اُس کی مدد کرے اور اُسے ان مصائب و آلام سے نجات بخشے اور وہ انسان جو ہر وقت محتاج ہوتا ہے اِس بات کا کہ کوئی اُس کا سہارا بنے اور اُسے تسلی دے وہ محتاج اور کمزور انسان مستغنی بنا رہتا ہے۔ مگر وہ مستغنی خدا عرش پر بے تاب رہتا ہے اِس بات کے لیے کہ اُس کا بندہ اُس کی طرف آئے۔ پس اپنے قلوب کے اندر نمایاں تغیر پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرکے اُس سے مدد مانگو اور دکھ درد، رنج و غم اور مصائب و آلام کے وقت اُسے پکارو۔ کیونکہ ہمارا حق ہے کہ اُس کی مدد چاہیں۔ یاد رکھو! خدا تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اُس کے محتاج ہیں۔ اگر مسلمانوں کے اندر وہی جذبات ہوتے اور اگران کے اندر وہی پیار، محبت اور اتحاد ہوتا جو صحابہؓ میں تھا تو جو کچھ گزشتہ ایام میں ہوا اور آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سُنا وہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ہماری کوتاہیوں، ہماری غفلتوں اور ہماری سُستیوں نے یہ بدانجام دکھایا۔ اور اب ہماری اصلاح ہی ہمیں اِس بدانجام سے محفوظ کرسکتی ہے۔ اور ہماری اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک ہم خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنے اندر جذب نہیں کر لیتے۔
اب مَیں وہ طریق بیان کرتا ہوں جن سے خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کیا جاسکتا ہے۔ اِس کا سب سے پہلا طریق تو نماز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز پڑھنے والا خدا تعالیٰ سے باتیں کرتا ہے۔ اور نماز ایک ایسی چیز ہے جیسے کوئی ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہے۔ اور نماز کی کیفیت بھی بتاتی ہے کہ وہ کسی عظیم الشان ہستی کے ساتھ باتیں کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ہم کہتے ہیں اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ ایک ہندوستانی پر شاید یہ امر واضح نہ ہوسکے مگر عربی جاننے والے جانتے ہیں کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کسی عظیم الشان نظارہ کے دیکھنے کے وقت کہا جاتا ہے۔ یعنی جب کبھی عرب کے لوگ کوئی پُررعب اور پُرہیبت نظارہ دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ یا یوں سمجھ لو کہ جب ہم کوئی اِس قسم کا نظارہ دیکھتے ہیں تو بے اختیارــــ’’اُف‘‘ کا لفظ ہمارے منہ سے نکل جاتا ہے اور ہم کہہ ُاٹھتے ہیں اُف! کیسا شاندار نظارہ ہے۔ اِسی طرح جب عرب کے لوگ کوئی عجیب و غریب نظارہ دیکھتے ہیں تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پس جب ایک نمازی نماز کے لیے کھڑا ہوتے وقت اَللّٰہُ اَکْبَرُکہتا ہے تو اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ مَیں جو نظارہ دیکھنے لگا ہوں یعنی خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے لگا ہوں اِس نظارہ کی مجھے امید بھی نہ ہوسکتی تھی کیونکہ خدا تعالیٰ تو وراء الوراء ہستی ہے۔ خدا تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے 1یعنی انسان کی آنکھیں خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں مگر جب وہ اپنے آپ کو انسان پر منکشف کر دیتا ہے تو انسان اُسے دیکھ سکتا ہے۔ پس جب ہم نماز شروع کرتے وقت اَللّٰہُ اَکْبَرُکہتے ہیں تو گویا ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اُفّ! ہم یہ کیا چیز دیکھ رہے ہیں جس کے دیکھنے کی ہمیں امید ہی نہ تھی اور ہمارے اندر اس کے دیکھنے کی طاقت ہی نہ تھی۔ پھر جب ہم اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ چکتے ہیں تو گویا ہم غائب ہو جاتے ہیں اِس دنیا سے، غائب ہو جاتے ہیں دوستوں، رشتہ داروں سے اور غائب ہو جاتے ہیں خویش و اقرباء سے۔ حتّٰی کہ ہم کسی دوست یا رشتہ دار کے سلام کا جواب نہیں دیتے اور کسی چھوٹے یا بڑے کی گفتگو کے جواب میں گفتگو نہیں کرتے۔ اور ہم گویا تمثیلی طور پر اِس دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم نماز کو ختم کرتے ہیں تو جیسے باہر سے آنے والا کوئی شخص کہتا ہے السَّلامُ عَلَیْکُمْ۔ اِسی طرح ہم بھی دائیں کو منہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں السَّلامُ عَلَیْکُماور بائیں کو منہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں السَّلامُ عَلَیْکُمْ۔ گویا ہم کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور اب واپس آئے ہیں۔ پس اَللّٰہُ اَکْبَرُ سے شروع ہونے والے نظارہ کے وقت ایک مسلمان یہ اعتراف کرتا ہے کہ مَیں اب دنیا سے غائب ہو گیا ہوں اور اب مَیں ایسا نظارہ دیکھ رہا ہوں جو مَیں دنیا میں رہ کر نہ دیکھ سکتا تھا اور مَیں اس نظارہ کی وجہ سے محو اور سرشار ہو گیا ہوں اور یہ محویت اس قدر ہے کہ مَیں کسی اَور سے بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔ پھر جب وہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے آپ کو واپس اِس دنیا میں پاکر کہتا ہے السَّلامُ عَلَیْکُمْ۔ یعنی وہ کہتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے دربار میں گیا ہوا تھا اور اب اپنا کام کرکے واپس آ رہا ہوں۔ پس نماز خدا تعالیٰ سے باتیں کرنے کا ذریعہ ہے اور اسلام میں سب ارکان سے مقدم اور اہم ہے۔ اس لیے مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے لیے سب سے مقدم چیز یہ ہے کہ ہم نمازوں کے پابند ہوں کیونکہ تعلق باللہ کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے:۔
سب سے پہلا درجہ جس سے اُتر کر اور حقیر اَور کوئی رنگ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے۔ جو مسلمان پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے۔
دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں۔ جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے۔
پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے۔
پھرچوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر نماز ادا کرے۔جو شخص ترجمہ نہیں جانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو شخص ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے۔ یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ مَیں نے نماز کو کَمَاحَقُّہٗ ادا کیا ہے۔
پھرپانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں اُسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے۔ یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کرلے۔ یا تو یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اِس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اِس مؤخرالذکر حالت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اندھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہو۔اپنی ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو بیناہو اور اپنی ماں کو دیکھ رہا ہو۔ مگر ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو نابینا ہو۔ اِس خیال سے کہ اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔ گو وہ نابینا ہوتا ہے اور اپنی ماں کو نہیں دیکھ سکتا مگر اُس کا دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوتا ہے۔ صرف اِس لیے کہ اُسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت بندے کو ایک مقام ضرور حاصل ہونا چاہیے۔ یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو۔ یا یہ کہ اُس کا دل اِس یقین سے لبریز ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔2 یہ ایمان کا پانچوں مقام ہے اور اِس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں۔ مگر جس بامِ رفعت پر اُسے پہنچنا چاہیے اُس پر نہیں پہنچ سکتا۔
اِس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں۔ یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ مَیں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے کہ اے خدا! مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں۔ جیسے کئی لوگ جب کسی اعلیٰ افسر یا بزرگ کی ملاقات کو جاتے ہیں تو وہ مقررہ وقت گزر جانے پر کہتے ہیں دو منٹ اَور دیجیے۔ اور وہ ان مزید دو منٹوں میں لذت محسوس کرتے ہیں اور وہ ان دو منٹوں کو چٹّی نہیں سمجھتے بلکہ اُن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ایک مومن جب فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب مَیں اپنی طرف سے کچھ مزید وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں۔
ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے۔ یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے اور اِن درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اُترتا ہے اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں اے بندو! خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لیے آیا ہے۔ اُٹھو!اور اُس سے مل لو۔3
پس اِن سات درجوں کوپورا کرنا ہم میں سے ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔ ہماری جماعت چونکہ ایک مامور کی جماعت ہے اِس لیے ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو۔ ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کیا کرے۔ یا ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کرے، ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سیکھ کر ادا کرے، ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرض نمازوں کے رات اور دن کے نوافل بھی پڑھا کرے اور ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویت پیدا کرے اور اِتنی محویت پیدا کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق یا تو وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اسے ضرور دیکھ رہا ہے۔ پھر ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ فرائض اور نوافل دن کو اور رات کو اس التزام اور باقاعدگی سے ادا کرے کہ اُس کی راتیں دن بن جائیں۔ اِسی طرح تہجد کی مناجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ جب تک ہم وہ طریق استعمال نہیں کریں گے جن سے ہم خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرسکیں اُس وقت تک یہ امید کرنا کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے وہم اور عبث خیال ہے کیونکہ وہ عظیم الشان کام جو ہمارے سپرد ہے بہت بڑا ہے۔ لوگ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں پاکر ہی خوش ہو جایا کرتے ہیں۔ کوئی اچھی تجارت کرکے خوش ہو جاتا ہے، کوئی اچھی نوکری مل جانے پر خوشیاں مناتا ہے مگر مومن سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے مل جانے کے اَور کسی چیز میں تسلی نہیں پاتا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بچے بعض اوقات آسمان کی چیزیں مانگتے ہیں۔ خود میرے متعلق ہی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک روایت ہے کہ مَیں جب چھوٹا سا تھا تو ایک دفعہ کسی بات پر چِڑ گیا۔ یہ دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اُٹھا لیا اور بہلانے لگے۔ مَیں جب ذرا چُپ ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس خیال سے کہ اب یہ بالکل چُپ ہو جائے گا آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا محمود! وہ دیکھو چاند۔ مَیں نے چاند کو دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ مَیں نے چاند لینا ہے۔4 بچوں کی اِس قسم کی چِڑ سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بعض اوقات ایسی چیزیں مانگ بیٹھتے ہیں جن کا میسر آنا ناممکن ہوتا ہے۔ مگر ایک مومن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے مَیں نے خدا لینا ہے۔ پس جب تک تم یہ خدا لینے والا جذبہ اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتے تب تک تمہارے ایمان کامل نہیں ہوسکتے اور تمہارے کوئی کام کر دکھانے کے دعوے عبث اور فضول ہیں۔
یاد رکھو! جب مومن کو اُس کا محبوب مل جاتا ہے تو ساری دنیا اُس کے تابع ہو جاتی ہے اور ساری دنیا اُس کے پیچھے پیچھے کھنچی چلی آتی ہے۔ جس کام کو تم نے اختیار کیا ہے وہ تمہاری کوششوں اور تمہاری عقلوں اور تمہاری تدبیروں سے نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود آسمان سے اُترے اور تمہاری مدد کرے۔ مگر اُس کے آسمان سے اُترنے کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو اور رات کی تاریکیوں میں چِلّاؤ اور اُس کے حضور اِتنا گڑگڑاؤ کہ اُس کی محبت جوش میں آ جائے اور وہ آسمان سے اُتر کر تمہیں تسلی دے کہ جب مَیں تمہارے ساتھ ہوں تو تمہیں کس بات کا غم ہے۔
دو تین دن کی بات ہے کہ مجھے الہام ہوا جس کی عبارت کچھ اِس قسم کی تھی اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ۔ اِس سے آگے کی عبارت یاد نہیں رہی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہی کی دعائیں قبول کرتا ہے جو ...مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس سے آگے کی عبارت وہی ہے جو آج مَیں نے اپنے خطبہ میں بیان کی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ اُنہی کی دعائیں قبول کرتا ہے جو اُس کی محبت کو جذب کر لیتے ہیں۔ اِسی طرح آج سورہ الرحمان کی بہت سی آیتیں متواتر میری زبان پر جاری ہوئیں۔ جن میں سے کچھ تو مجھے یاد نہیں رہیں مگر یہ فقرہ جو بار بار جاری تھا مجھے یاد ہے کہ۔5اِس کے علاوہ 6کے لفظ بھی یاد ہیں اور بھی بعض آیتوں کے لفظ یاد تھے مگر وہ جاگنے کی حالت میںبھُول گئے۔ وہ آیتیں یاد نہیں رہیں۔شاید قرآن کریم پڑھنے سے یاد آ جائیں گی مگر بار بار جاری ہوتا رہا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس میں اِسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ تو انسان کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے معمور کرنا چاہتا ہے مگر انسان اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اُس انعام سے محروم رہ جاتا ہے اور اُس کو ضائع کر دیتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ اگر اُنہیں پچھلے سال خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوسکی تو وہ اَب حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے"۔
(الفضل 4فروری 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الانعام:104
2
:
بخاری کِتَاب الایمان بَاب سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْإِیمَانِ وَالْاِسْلامِ وَالاِحْسَانِ
3
:
بخاری کتاب التھجد بَابُ الدُّعَاء وَالصَّلَاۃِ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ
4
:
سیرت مسیح موعود از حضرت مولوی عبدالکریم صاحب صفحہ37۔ ’’چاند لینا ہے‘‘ کی بجائے ’’تارے جانا ہے‘‘ کے الفاظ ہیں۔
5
:
الرحمٰن:14
6
:
الرحمٰن:67


اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا
بہترین طریق نماز ہے
(فرمودہ9جنوری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جیسا کہ مَیں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بھی جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ اسلام کی اصل بنیاد تعلق باللہ ہے۔ یوں تو دوسرے مذاہب کے لوگ دنیا میں بغیر قرآنی تعلیم کے بھی ایک دوسرے کی امداد کرتے ہیں اور خدمت بھی، جدوجہد بھی کرتے ہیں اور محنت بھی، تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور دنیا کے دوسرے کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ بلکہ مذہب ہی نہیں جو لوگ مذہب سے باہر ہیں اور دہریہ کہلاتے ہیں بلکہ دہریہ ہی نہیں وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے اِتنے مخالف ہیں کہ وہ باقی دنیا پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے منحرف ہو جائے وہ بھی ایسے تمام کام کرتے ہیں۔ مجھے اُن لوگوں کے عقائد سے واقفیت ہے اور مَیں نے اُن کی کئی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ یہاں لاہور میں بھی ایک مجلس دہریوں کی ہوا کرتی تھی۔ وہ لوگ اپنے آپ کو دیوسماجی کہا کرتے تھے۔ فیروز پور میں اُن کا ایک کالج تھا اور یہاں ایک سکول تھا۔ سکول کی عمارت میں ہم نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان ٹھہرائے تھے۔ ان دیوسماجیوں کی رفاہِ عامہ کی کوششیں بہت زیادہ تھیں اور وہ ہمیشہ خدا کے ماننے والوں پر اعتراض کیا کرتے تھے کہ تم لوگ مرنے کے بعد ایک نئی زندگی کے بھی قائل ہو اور تم خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہو مگر تمہاری جدوجہد بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے اُتنی نہیں جتنی ہماری ہے۔ یہ دلیل ان کی غلط ہو یا صحیح مگر اِس میں شبہ نہیں کہ وہ رفاہِ عامہ کے کاموں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ اُن کی اس جدوجہد سے یہ نتیجہ تو ضرور نکلتا ہے کہ رفاہِ عامہ کے کاموں کو سرانجام دینے کے لیے خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور ایک شخص بغیر خدا پر ایمان لائے بھی رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لے سکتا ہے۔ لیکن یہ امر کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کو نہ ایمان لانے والوں کی نسبت رفاہِ عامہ کے کاموں میں زیادہ حصہ لینا چاہیے یہ ایک الگ بات ہے۔حصہ نہ لینے اورلے سکنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہر انسان ہر وقت اپنے مخاطب کو گالی بھی دے سکتا ہے اور اُس کی تعریف بھی کرسکتا ہے۔ مگر ہر انسان ہر وقت نہ تو اپنے مخاطب کو گالی دیتا ہے اور نہ ہی تعریف کرتا ہے۔ پس کر سکنا اَور چیز ہے اور کرنا اَور چیز ہے۔ ہر انسان گھر سے سارا دن باہر بھی رہ سکتا ہے اور گھر کے اندر بھی رہ سکتا ہے مگر نہ تو ہر انسان چوبیس گھنٹے گھر سے باہر رہتا ہے اور نہ ہی چوبیس گھنٹے گھر کے اندر رہتا ہے۔ اِسی طرح ہر انسان کپڑے کی دکان کھول سکتاہے، ہر انسان آٹے دال کی دکان کھول سکتا ہے اور ہر انسان مزدوری کر سکتا ہے، ہر انسان قلیوں کا کام کرسکتا ہے، ہر انسان لکڑیاں چِیرنے کا کام کر سکتا ہے اور ہر انسان ہرکارے کا کام کر سکتا ہے۔ مگر ہر انسان یہ کام کیا نہیں کرتا۔ نہ تمام دنیا کے انسان ہرکارے ہیں نہ ساری دنیا کے انسان لکڑیاں چیرنے کا کام کرتے ہیں، نہ ساری دنیا کے انسان قلیوں کا کام کرتے ہیں اور نہ ہی ساری دنیا کے انسان زمیندارہ کرتے ہیں۔ مگر کر سارے ہی سکتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا دعوٰی کرنے والے بھی رفاہِ عامہ کا کام اُسی طرح کر سکتے ہیں جس طرح کہ خدا کے مخالف۔ اگر وہ نہیں کرتے تو اِس کا سبب اَور ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اِس کا سبب یہی ہے کہ ایک دہریہ پر تو ظاہر اور باطن میں دہریت غالب ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ دوسرے لوگ آسانی کے ساتھ اُس کے دام میں نہیں پھنسیں گے۔ اِس لیے وہ اپنے عقائد کو نافذ کرنے اور اُن کو پھیلانے کے لیے کچھ کام ایسے بھی کرتا ہے جن سے وہ دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرسکے۔ لیکن ایک نسلی مسلمان اور خدا تعالیٰ کو ماننے والا مسلمان اپنے عقیدہ کی وجہ سے اور ورثہ میں ملے ہوئے عقیدہ کی وجہ سے سُست اور غافل رہتا ہے۔ اُس کے اندر حقیقی ایمان نہیں ہوتا۔ اُس کی زبان تو اقرار کرتی ہے کہ خدا ہے مگر اُس کا دل اقرار نہیں کرتا۔ اگر اُس کا دل اقرار کرتا تو خدا کی موجودگی سے جو حالات پیدا ہونے چاہییں اُس کے اندر پیدا ہو جاتے۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہیں جو بظاہر خدا پرستی کا دعوٰی کرتے ہیں مگر اُن کا باطن اُسی طرح دہریہ ہوتا ہے جیسے اُس کی ہستی کے منکر دہریہ کا۔ غرض جہاں تک دنیوی اعمال کا سوال ہے اور جہاں تک رفاہِ عامہ کا سوال ہے ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ خدا یا مذہب پر ایمان لایا جائے۔ اور نہ ہی مذہب پر ایمان لانا اِن کاموں کا جزو یا بنیاد ہے۔ انسان مذہب پر ایمان لائے بغیر بھی ایسے کام کر سکتا ہے اور مذہب پر ایمان لا کر بھی کر سکتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ مذہب پر ایمان لا کر یہ کام بہت اچھے ہوسکتے ہیں اور ایمان نہ لانے سے اُتنے اچھے نہیں ہوسکتے۔ مگر یہ بات صرف ممکن ہے ضروری نہیں کہ ایسے کام وہی کر سکے جو مذہب پر ایمان رکھتا ہو اور دوسرا کوئی نہ کر سکے۔
مگر وہ چیز جو سچے مذہب کو دوسرے مذاہب یا عقائد پر فوقیت بخشتی ہے وہ تعلق باللہ ہے۔ ایک انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر محنتی ہوسکتا ہے، وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا تاجر بن سکتا ہے، وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا صنّاع بن سکتا ہے اور وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر صدقہ و خیرات بھی کرسکتا ہے۔ مگر دنیا کا کوئی انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ چیز ہے جو سچے مذہب پر چلنے والے اور نہ چلنے والے میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے اور جس سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص سچے مذہب پر چلتا ہے یا نہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ خدارسیدہ وہی ہو سکتا ہے جو اُس راستے پر چلتا ہے جو خدا تک پہنچتا ہے۔ جو شخص خدا تک جانے والے رستہ پر نہیں چلتا وہ خدا تک کس طرح پہنچ سکے گا۔
اِس میں شبہ نہیں کہ خدا کوئی مادی چیز نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی خاص مکان ہے مگر ساری روحانی اور معنوی چیزوں کے لیے رستے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پڑھنا یا علم حاصل کرنا مادی چیز نہیں، زبان جاننا مادی چیز نہیں۔ اِسی طرح جغرافیہ، تاریخ اور حساب کا علم حاصل کرنا مادی نہیں مگر ان سب کے حصول کے لیے کچھ راستے مقرر ہوتے ہیں۔ جب تک زبان دانی کے لئے زبان نہ سیکھی جائے، جب تک علمِ حساب کے لیے حساب کی کتابیں نہ پڑھی جائیں، جب تک جغرافیہ کے علم کے لیے جغرافیہ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں اور جب تک تاریخ دانی کے لیے تاریخ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں تب تک انسان زبان تک، حساب تک، جغرافیہ تک اور تاریخ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اِسی طرح گو خدا کوئی مادی چیز نہیں مگر اُس تک پہنچنے کے لیے ایک راستہ مقرر ہے۔ اور جس طرح خدا غیر مادی ہے اِسی طرح وہ راستہ بھی غیر مادی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ راستہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کیا جائے اور اُن کو سمجھ کر اپنے اندر جذب کیا جائے۔دنیا کی ہر چیز دوسری چیز کے مشابہ ہو کر ہی اُس تک پہنچ سکتی اور اُس سے پیوست ہوسکتی ہے۔ جو چیز دوسری چیز کے مشابہہ نہ ہو وہ اُس سے پیوست نہیں ہوسکتی۔ تم لکڑی کے ساتھ لوہے اور چمڑے کو تو پیوست کرسکتے ہو کیونکہ ان میں مشابہت پائی جاتی ہے مگر تم لکڑی کے ساتھ ہوا یا پانی کو پیوست نہیں کرسکتے۔ اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی جنس مختلف ہے۔ لوہے، لکڑی اور چمڑے کی بناوٹ تو مختلف ہے مگر یہ چیزیں آپس میں متشارک ہیں اور گو وہ ایک جنس کی نہیں ہیں مگر ان کی حقیقت مشترک ہے۔ پس دو چیزوں کے اتّصال کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُن کی آپس میں مشارکت ہو۔ اور جو چیزیں مادی نہیں بلکہ روحانی ہوتی ہیں اُن کی مشارکت بھی روحانی ہی ہوتی ہے۔ پس خدا سے ملنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے ساتھ روحانی مشارکت ہو اور وہ مشارکت یہی ہے کہ انسان اپنے اندر الٰہی صفات پیدا کرے۔ جب کوئی شخص اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا کر لیتا ہے اور اُس کی محبت کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے تو وہ اپنے اندر الوہیت کا رنگ پیدا کر لیتا ہے۔ اور جب اُس کے اندر الوہیت کا رنگ آ جائے تو اُس کا خدا سے اِتّصال اُسی طرح ممکن ہو جاتا ہے جیسے لکڑی کا لوہے سے۔ اور گو وہ خدا نہیں بن جاتا مگر وہ خدا نما ضرور ہو جاتا ہے۔ لکڑی لوہا نہیں بن سکتی اور لوہا لکڑی نہیں بن سکتا۔ مگر وہ آپس میں جُڑنے کے قابل ہوتے ہیں۔ہوا اور لکڑی یا پانی اور لوہا کبھی ایک نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں مشارکت نہیں پائی جاتی۔ پس خدا کے اِتّصال کے لیے اور اُس کے قرب کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ا نسان اپنے اندر صفات الٰہیہ پیدا کرے اور اُس کی محبت کو اپنے اندر اِتنا جذب کرے کہ وہ خدا کی طرف کھنچنے لگ جائے۔ جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اِسی طرح محبت الٰہی اسے خدا کی طرف کھینچنے لگ جائے گی۔ مگر محبتِ الٰہی اور صفات الٰہیہ کے پیدا کرنے کا بہترین طریق اسلام کے دعوے کے مطابق نماز ہے۔ یہ کوئی منطقی مسئلہ نہیں جس کو ہم منطق سے ثابت کرسکتے ہوں اور نہ ہی یہ کوئی فلسفیانہ مسئلہ ہے کہ ہم اس کو فلسفہ سے ثابت کریں۔ ہم اسلام اور قرآن کو مانتے ہیں اور اسلام اور قرآن ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ خدا کے ملنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ اگر ہمِیں1 کہیں کہ نمازخداتک پہنچنے کا ذریعہ نہیں تو ہمارا اخلاقی فرض ہوگا کہ ہم (نَعُوْذُ بِاللّٰہ)اسلام کو چھوڑ دیں۔
پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ نماز کی پابندی کرے اور زیادہ سے زیادہ پابندی کرے۔ اور ہم میں سے ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی نماز کی پابندی کے لیے مجبور کرے۔ اِسی طرح دوستوں کو بھی نماز کی پابندی کے لیے تلقین کی جائے۔ اور نہ صرف فرض نمازوں کی پابندی کے لیے زور دیا جائے بلکہ نوافل پڑھنے پر بھی زور دیا جائے اور نوافل بھی رات کے نوافل۔ اگر ہماری جماعت پوری طرح اِس پر قائم ہوجائے تو اس کا قدم تیز تیز بڑھے گا اور وہ جلد سے جلد روحانیت کے بلند مقام پر پہنچ جائے گی۔ ہر چیز کے ملنے کا ایک گُر ہوتا ہے اور اسلام نے خدا کے ملنے کا گُر نماز بتایا ہے۔ نماز سے دوسرے درجہ پر اسلام نے زکوٰۃ کو رکھا ہے۔ تیسرے درجہ پر روزہ کورکھا ہے اور چوتھے درجہ پر حج کو رکھا ہے۔ اگر ہم ان درجات پر غور کریں تو ہمیں اِس سے عظیم الشان سبق حاصل ہوتا ہے۔ دیکھ لو! نماز کا درجہ اول رکھا گیا ہے اور اگر اِس کی اہمیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان کی ذاتی اصلاح کے لیے ہے۔ زکوٰۃ کا دوسرا درجہ ہے۔ اگر اس کی اہمیت پر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ قومی اصلاح کے لیے ہے۔ اگر روزہ کی اہمیت پر غور کریں تو یہ ذاتی اصلاح کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر حج کی اہمیت پر غور کریں تو یہ قومی اصلاح کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ اس ترتیب سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قومی اصلاح کبھی کامل نہیں ہوسکتی جب تک ذاتی اصلاح نہ کی جائے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ قومی اصلاح ذاتی اصلاح کے بغیر بھی ہوسکتی ہے وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔ کیونکہ ذاتی اصلاح پہلا قدم ہے اور قومی اصلاح دوسرا قدم۔ اور کوئی شخص دوسرا قدم نہیں اٹھا سکتا جب تک وہ پہلا قدم نہ اٹھا لے۔جو شخص کہتا ہے کہ مَیں نے پہلا قدم اٹھائے بغیر دوسرا قدم اٹھا لیا ہے وہ پاگل ہے۔ جس طرح پہلا قدم اٹھائے بغیر دوسرا نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اِسی طرح قومی اصلاح کا کام مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس کے لیے پہلا قدم نہ اٹھا لیا جائے۔ جو شخص زکوٰۃ تو ادا کرتا ہے مگر نماز نہیں پڑھتا اس کی اصلاح نامکمل ہے۔ اور وہ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ زکوٰۃ سے پہلا قدم نہ اٹھا لے۔ اِسی طرح جو شخص زکوٰۃ اور نماز روزہ میں لگا رہا اور باوجود استطاعت کے اُس نے حج نہ کیا اُس نے بھی اپنی اصلاح کو مکمل نہیں کیا کیونکہ باوجود استطاعت کے اُس نے حج نہ کیا۔ ایسے شخص کی زکوٰۃ بھی بے کار گئی اور نماز روزہ بھی بیکار گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقدم قرار دیا ہے نماز کو زکوٰۃ پر اور روزہ کو حج پر۔ گویا ذاتی اصلاح کو قومی اصلاح پر آپ نے مقدم قرار دیا ہے اور اِس طرح آپ نے یہ حقیقت ذہن نشین کی ہے کہ۔2 پس نماز بھی ضروری ہے اور زکوٰۃ بھی، روزہ بھی ضروری ہے اور حج بھی۔ گویا انفرادی اصلاح بھی ضروری ہے اور قومی بھی۔ لیکن اگر کوئی موقع ایسا آ جائے کہ ذاتی اصلاح کا ٹکراؤ قومی اصلاح سے ہو جائے تو اُس وقت حکم یہ ہے کہ۔ اگر تمہاری ذاتی عبادتوں کا ٹکراؤ قومی عبادتوں سے ہو جائے تو تم قومی عبادت کو چھوڑ دو اور ذاتی عبادت کو مقدم رکھو۔ اگر نماز کے مقابلہ میں کوئی قومی کام آ جائے تو قومی کام چھوڑ کر نماز کو ادا کرو۔ اور اگر روزہ کے مقابلہ میں کوئی قومی کام آ جائے تو روزہ کو رکھو اور قومی کام چھوڑ دو۔ مگر یہاں قومی ذمہ داری سے مراد وہی ذمہ داری ہے جو دین سے تعلق رکھتی ہو۔ اور ذاتی ذمہ داری سے بھی مراد وہی ذمہ داری ہے جو دین سے تعلق رکھتی ہو۔ ہاں بعض مستثنیات بھی اِس میں ہوتی ہیں یعنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تاخّر اور تقدّم شریعت کے حکم کے مطابق ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جائے اور ایسے وقت میں لگے کہ ایک شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اُس کے لیے حکم ہے کہ وہ نماز بعد میں پڑھے اور پہلے آگ کو بجھائے۔ کیونکہ اصل جُزو ایمان کا عبادت ہے جو ایک گھنٹہ بعد بھی ہوسکتی ہے۔ عبادت کا بالکل ترک کر دینا ناجائز ہے مگر اُس کا اشد ضرورت کے موقع پر آگے پیچھے کرنا ناجائز نہیں۔ پس مَیں جماعت کو پھر اِس خطبہ کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نماز کی پوری طرح پابندی کرے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا اصولی مسئلہ ہے کہ اس کی طرف ہمیشہ ہی توجہ دلاتے رہنا چاہیے۔ اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ جماعت کے تمام دوستوں کو اپنے اردگرد والوں کو توجہ دلاتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ اسلام اور قرآن کی تعلیم کے مطابق مومن وہی ہوتا ہے جو 3پر عمل کرے اور جو نماز کو گرنے نہ دے بلکہ اُسے قائم رکھے اور کھڑا رکھے کیونکہ کے معنے کھڑا کرنے والوں کے ہوتے ہیں۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ تم مومن بن جاؤ تو نماز کی پابندی اختیار کرو۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا خاندان ایسا مومن بن جائے تو اپنے خاندان کو نماز کی پابندی کے لیے توجہ دلاتے رہو۔ اِسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ ہماری ساری جماعت مومن بن جائے تو اپنے اردگرد کے لوگوں اور دوستوں کو نماز کی پابندی کی تلقین کرتے رہو"۔
(الفضل 8 فروری 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
ہمِیں: ہم ہی کا مخفف ( فیروز اللغات اردو)
2
:
المائدۃ:106
3
:
البقرۃ:4


یہ زمانہ ہماری جماعت کے لیے
خاص قربانیوں کا زمانہ ہے
(فرمودہ16جنوری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گزشتہ سفر میں شاید ہوا لگ جانے کی وجہ سے میری طبیعت کل سے زیادہ خراب ہے۔ اِسی لیے کل مَیں نمازوں میں بھی نہ آسکا۔ آج صبح طبیعت اچھی تھی لیکن اِس وقت پھر حرارت کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے۔ اِس لیے آج مَیں جمعہ اور عصر کی نمازیں بھی جمع کرکے پڑھاؤں گا اور خطبہ بھی طبعاً مختصر ہی دے سکتا ہوں۔
دنیا میں ایک قانونِ قدرت ہے جو اُس کے ہر شعبہ میں کام کرتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔ وہ قانونِ قدرت یہ ہے کہ ہر چیز کے متعلق ایک زمانہ اُس کے بونے کا ہوتا ہے اور ایک زمانہ اُس کے کاٹنے کا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا قانونِ قدرت ہے جو دنیا کی ہر چیز میں ہمیں کارفرما نظر آتا ہے۔ درخت ہیں تو اُن کے لیے بھی سال میں ایک زمانہ بونے کا ہوتا ہے تو دوسرا کاٹنے کا۔ فصلیں ہیں تو اُن کے لیے بھی سال میں ایک بونے کا زمانہ آتا ہے اور دوسرا کاٹنے کا۔ اِسی طرح انسانوں کی حالت ہے۔ انسان بھی اسی طرح بویا جاتا اور کاٹا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تو انسان پر ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے اندر نسل پیدا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ مگر پھر ایک زمانہ اُس پرایسا بھی آتا ہے کہ یہ قابلیت اُس کے اندر سے مفقود ہو جاتی ہے اور اُس وقت وہ اپنی پہلی پیدا شدہ نسل سے ہی فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے یا نقصانات برداشت کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایک نسل جو اُس نے بوئی تھی اُس کی نیک یا بد تربیت کرنے کی وجہ سے اُسے اجر یا سزا مل رہی ہوتی ہے۔ اگر اُس نے اپنی نسل کی تربیت اچھی کی ہوئی ہو تو اُسے نیک پھل ملتا ہے اور اگر تربیت اچھی نہ کی ہوئی ہو تو وہ اُس کا خمیازہ بھگتتاہے۔ اِسی طرح قوموں کی بھی حالت ہوتی ہے۔ اُن کے لیے بھی ایک زمانہ بونے کا اور ایک زمانہ کاٹنے کا مقدر ہوتا ہے۔ قوموں کے بونے کا زمانہ تو وہ ہوتا ہے جب قومیں اپنی بقا کے لیے قربانیاں کرتی ہیں اور کاٹنے کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب وہ اپنی قربانیوں سے فائدہ اُٹھا رہی ہوتی ہیں۔ انبیاء کی جماعتوں کا ابتدائی زمانہ بونے کا ہوتا ہے اور آخری زمانہ کاٹنے کا ہوتا ہے یعنی انبیاء کی جماعتوں کا ابتدائی زمانہ جماعت کے افراد سے انفرادی اور اجتماعی قربانیوں کا متقاضی ہوتا ہے مگر اس قربانیوں کے زمانہ میں بھی الگ الگ دَور ہوتے ہیں۔ کوئی دَور تو ایسا آ جاتا ہے کہ وہ قربانیوں کی انتہا چاہتا ہے اور کوئی دَور ایسا آ جاتا ہے کہ قربانیوں کی گو ضرورت تو ہوتی ہے مگر کم۔ گویا یہ قربانیوں کے زمانے لہروں کی طرح آتے ہیں۔ کبھی یہ لہریں اونچی اُٹھنے لگتی ہیں اور کبھی نیچی ہو جاتی ہیں۔ ہماری جماعت کے لیے بھی یہ زمانہ دوسروں کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور بہت زیادہ محنت اور توجہ کے ساتھ بونے کا زمانہ ہے۔ اِس لیے یہ زمانہ ہم سے زیادہ سے زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا اس لحاظ سے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب ہونے کی وجہ سے ابتدائی زمانہ میں سے گزر رہے ہیں اور کیا اِس لحاظ سے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اِس ابتدائی زمانہ کو لمبا کرتا چلا جا رہا ہے۔
مصلح موعود کی پیشگوئی کے معنی ہی یہ تھے کہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کو لمبا کر دیا جائے۔ گو اِس زمانہ کے لمبا ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ثو اب بھی ہمیشہ اُنہی زمانوں کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں قربانیاں کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے۔ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ زمانہ بالکل اُسی طرح لمبا کر دیا ہے جیسے حضرت موسٰی علیہ السلام کے لیے کیا تھا۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کے زمانہ کو یوشعؑ نبی تک لمبا کر دیا تھا۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ مصلح موعود کی پیشگوئی کرا کر یہ بتا دیا کہ یہ زمانہ مصلح موعود کے زمانہ تک لمبا ہو جائے گا۔ پس یہ زمانہ ہماری جماعت کے لیے خاص قربانیوں کا زمانہ ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہمارے زمانہ میں قربانیوں کے لحاظ سے لہریں پیدا ہو رہی ہیں اور موجودہ لہر تو بہت زیادہ بلندی تک چلی گئی ہے اور ہماری جماعت کو ایسے ابتلاء اور ایسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے جن کی مثال ہماری گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ بے شک پہلے بھی ہماری جماعت پر ابتلاء آتے رہے مگر وہ ابتلاء محدود ہوتے تھے مگر موجودہ ابتلاء ایسا ہے جس میں جماعت کو علاوہ دیگر نقصانات کے ایک بڑا بھاری نقصان یہ بھی پہنچا ہے کہ جماعت کا بیشتر حصہ مرکزی مقام سے کٹا ہوا ہے۔ پس یہ زمانہ ہم سے زیادہ سے زیادہ قربانیاں چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ زمانہ ہماری انفرادی اور قومی اصلاح کا بھی تقاضا کر رہا ہے کیونکہ ہر قسم کی اقتصادی مشکلات کا ایک سیلاب ہے جو ہم پر اُمڈا چلا آرہا ہے۔ ہم اپنے مرکز سے دُور ہو چکے ہیں۔ نہ ہمارے پاس دفاتر بنانے کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ اپنے کارکنوں کے ٹھہرانے کے لیے کوئی جگہ ہے۔ نہ ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہم سارے اداروں کو اکٹھا رکھ سکیں اور نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہمارے پاس موجود ہے جہاں ہم باہر کی جماعتوں کو بار باربُلا کر ٹھہرا سکیں۔ پھر ہماری جماعت کا معتدبہ حصہ تہی دست ہو چکا ہے اور اِسی لیے ہمارے چندوں میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے۔ گویا اِس وقت ہماری مشینری کی کوئی کل بھی ٹھیک نہیں رہی اور کوئی پُرزہ بھی اپنی چُول میں ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ ہر کل اور ہر چُول ڈھیلی ہو چکی ہے اور ہر سامان بِگڑ ا ہوا ہے۔ اِس وقت دنیا کی کوئی اَور جماعت ہوتی تو اُسے بہت زیادہ پریشانی لاحق ہوتی مگر ہماری جماعت کے لیے یہ وقت پریشانی کے خیالات کو لے کر بیٹھ جانے کا نہیں بلکہ قربانیوں کے مظاہرے کا وقت ہے۔ اِس وقت جماعت کا کچھ حصہ تو ایسا ہے جو اپنی قربانیوں میں اضافہ کرکے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اُس کا قدم آگے کی طرف اُٹھ رہا ہے مگر کچھ حصہ یہ بھی ثابت کر رہا ہے کہ اُس نے اِس عظیم الشان تغیر کو ایک کھیل سے زیادہ وقعت نہیں دی۔ یا تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس حصہ کے اندر احساس کی کمی ہے اور یا یہ سمجھا جائے گا کہ اُس کے اندر ایمان کی کمی ہے اور عقل کے ہوتے ہوئے بھی اُس نے غور نہیں کیا کہ یہ تغیر ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اِس حصہ کو چھوڑ کر باقی جماعت اخلاص اور قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کر رہی ہے اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں اخلاص دکھانے والے موجود ہیں۔ اِسی طرح ایشیا، یورپ اور امریکہ اور انڈونیشیا کی جماعتیں بھی قربانی کا شاندار مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہ اخلاص کا نمونہ دکھانے والے ہمارے لیے اِس خوشخبری کا پیش خیمہ ہیں کہ آہستہ آہستہ جماعت ایک ایسے مقام پرجا پہنچے گی جس پر پہنچنا خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔ بہرحال جماعت کو قربانیوں کی طرف اور اُس کے فرائض کی طرف توجہ دلانا اور اُس کو اُبھارنا میرا اور جماعت کے ہر کارکن کا فرض ہے۔
گزشتہ ایام میں مَیں نے تحریک جدید کے چودھویں سال کا اعلان کیا تھا مگر اُس کے متعلق باربار دفتر کی طرف سے مجھے یہ رپورٹ ملی ہے کہ اِس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدوں میں بہت زیادہ کمی ہے۔ اِس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ جماعت میں سے چالیس فیصدی لوگ غریب ہو چکے ہیں۔ اُن کی جائیدادیں جاتی رہیں۔ اُن کی تجارتیں تباہ ہو گئیں اور اُن کے املاک و اسباب چھِن گئے اور وہ اِس وقت کنگالی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ تھوڑا بہت کماتے بھی ہیں تو بڑی مشکل سے وہ اپنے لیے بستر یا کپڑے یا خورونوش کا انتظام کرتے ہیں۔ لیکن جہاں کمی کی یہ وجہ موجود ہے وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جماعت کا ساٹھ فیصدی حصہ ایسا ہے جس پر کوئی مصیبت نہیں آئی اور خدا تعالیٰ نے اُنہیں تباہی اور بربادی سے بچا لیا ہے۔ اگر یہ ساٹھ فیصدی تباہی سے بچ جانے والا حصہ اِس نکتہ کو سمجھتا اور وہ اپنے تباہ شدہ چالیس فیصدی بھائیوں کا بوجھ اُٹھا لیتا تو اِس کمی کو دور کیا جا سکتا تھا اور وہ حصہ سلسلہ کے لیے مفید ثابت ہوسکتا تھا۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ساٹھ فیصدی حصہ نے جو تباہی سے سو فیصدی بچا رہا اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر تحریک جدید کے چودھویں سال میں وعدے پیش کرنے والوں میں اُن لوگوں کے وعدے بھی شامل ہیں جن کی ساری جائیدادیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اُنہوں نے یہ وعدے اس لیے پیش نہیںکیے کہ اُن کے پاس اِن وعدوں کے پورا کرنے کے سامان موجود ہیں بلکہ اُنہوں نے میرے کہنے پر اپنے وعدے پیش کر دئیے ہیں۔ اِس اُمیدپر کہ شاید خدا تعالیٰ اُنہیں وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق دے دے۔ اور یہ تو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت اِس سال درست ہو گی یا اگلے سال یا چند سالوں میں جا کر ہو گی۔ بہرحال چودھویں سال کے وعدوں میں سے ایسے لوگوں کے وعدے جو شاید بیس یا پچیس فیصدی ہوں گے کم کر دینے پڑیں گے۔ اِس لیے کہ شاید وہ لوگ اپنے وعدوں کو پورا نہ کرسکیں۔ اگر ان وعدوں کو بھی کم کر دیا جائے تو باقی وعدوں کی تعداد بہت تھوڑی رہ جاتی ہے۔ پس مَیں جماعت کے اُن دوستوں کو جن پر وہ آفت نہیں آئی جو مشرقی پنجاب کے احمدیوں پر آئی تھی اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوائیں اور زیادہ سے زیادہ بھجوائیں اور جلد سے جلد اُنہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اِس کے ساتھ ہی پچھلے سال کے وعدوں میں سے جو ایک لاکھ کے وعدے ابھی تک وصول ہونے باقی ہیں۔ اُن کو بھی پورا کریں۔ تحریک جدید کے وعدوں کی کمی کے ساتھ ہی صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ صورت حال نہایت خطرناک ہے۔ کیونکہ سلسلہ گزشتہ مہینوں میں دو تین لاکھ کا مقروض ہو چکا ہے۔ اگر جماعت نے اپنے فرائض کو نہ پہچانا اور اِس کمی کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہ کی تو دو چار مہینوں کے اندر سلسلہ کے دیوالیہ ہو جانے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ یہ تو مجھے یقین ہے اور میری قریباً ساٹھ سالہ عمر کا تجربہ بتا رہا ہے کہ سلسلہ کبھی دیوالیہ نہیں ہو گا۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ قربانیوں اور چندوں میں سستی دکھانے والے دیوالیہ نہ ہو جائیں۔
ایک لمبا تجربہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایک لمبا زمانہ ہماری جماعت کی مخالفت میں مولویوں نے بھی زور لگایا اورحکومت نے بھی، عیسائیوں نے بھی زور لگایا اور آریوں نے بھی۔ہندوؤں نے بھی زور لگایا اور سکھوں نے بھی۔ اور یکے بعد دیگرے مخالفت کے بیسیوں طوفان آئے۔ سینکڑوں گھٹائیں اُٹھیں۔ مگر عین اُس وقت جب کہ جماعت کو کوئی راستہ کامیابی کا نظر نہ آتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ہی مجھے اور جماعت کو کامیاب بنایا اور مخالفین کو نیچا دکھایا اور مخالفت کے وہ خوفناک بادل جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کبھی دُور نہیں ہوں گے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ ہی آپ چھٹ جاتے رہے۔ پس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مایوس نہیں ہوں۔ اور اِس وقت بھی صرف یہی ایک راستہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ وہ خدا جو ہمیشہ میرا اور ہماری جماعت کا ساتھ دیتا رہا وہ اب بھی اپنی ساری قوتوں کے ساتھ موجود ہے اور اُس کی سنت ہمیں بتاتی ہے بلکہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اب بھی وہ ہماری مدد کرے گا۔ پس خدائی سنت کے ماتحت تو ہمیں کامیابی کا پورا پورا یقین ہے مگر اپنے مادی اسباب کے ذریعہ ہمیں کامیابی کی کوئی امید نہیں۔ کیونکہ مادی اسباب کو مہیا کرنے کا کام جماعت کے کندھوں پر ہے اور جماعت نے اُس حد تک اپنے فرض کو نہیں پہچانا جس حد تک پہچاننا چاہیے تھا۔ اِس لیے مَیں ڈر رہا ہوں کہ جماعت کے وہ لوگ جو اِس عظیم الشان تغیر سے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے سُستیوں کو نہیں چھوڑتے وہ کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد نہ بن جائیں۔
میری مثال اِس وقت اُس عورت کی سی ہے جس کی ایک لڑکی کمہاروں کے ہاں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری مالیوں کے ہاں۔ جب کبھی بادل اُسے آسمان پر نظر آتے تھے تو وہ عورت گھبراہٹ کی حالت میں اِدھر ُادھر پھرتی اور کہتی کہ میری دونوں بیٹیوں میں سے ایک کی خیر نہیں۔ یعنی اگر بادل برس گیا تو وہ لڑکی جو کمہاروں کے ہاں بیاہی ہوئی ہے اُس کے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اور اگر بادل نہ برسا تو وہ لڑکی جو مالیوں کے ہاں بیاہی ہوئی ہے اس کے باغ کے پودوں اور سبزیوں کے خشک ہو جانے کا خطرہ ہے۔ مَیں بھی جب اِن حالات پر غور کرتا ہوں تو میری حالت بالکل اُس عورت کی سی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب مَیں سوچتا ہوں کہ سلسلہ کو اِس وقت فلاں فلاں مشکلات کا سامنا ہے تو میرا دل سلسلہ کی وجہ سے گھبرا اُٹھتا ہے مگر جب مَیں گزشتہ لمبے تجربہ کی بناء پر خدا تعالیٰ کی سنت اور اُس کے سلوک کو دیکھتا ہوں تو مجھے اِن سُستی دکھانے والے لوگوں کے انجام کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ سلسلہ کو اِن تمام مصائب اور ابتلاؤں سے نکال لے گا تو اِن سُستی دکھانے والوں کو مصائب میں ڈال دے گا۔ پس کبھی ایک صدمہ میرے دل پر طاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ کیونکہ قدرتی طور پر مجھے اُن لوگوں سے جنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ میں شمولیت اختیار کی ہے محبت اور اُنس ہے۔ یوں تو سلسلہ پر میرا کوئی عزیز سے عزیز بھی قربان ہو جائے تو مجھے ہر گز پروا نہ ہوگی۔ مگر ایک شخص کے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھے جو محبت اور پیار اُس کے ساتھ ہوتا ہے اُس سے مَیں مجبور ہوں کہ مَیں اُسے توجہ دلاؤں کہ وہ اپنے حالات کو درست کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچا لے۔ اور ساتھ ہی وہ مایوس بھی نہ ہو کہ جماعت کا اب کیا بنے گا۔ بلکہ وہ سمجھ لے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے گزشتہ ساٹھ سالوں میں جماعت کو مخالفتوں کے باوجود بڑھایا ہے اُسی طرح اب بھی وہ بڑھائے گا۔ بلکہ یہ تو ممکن ہے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے مگر یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا سلسلہ درہم برہم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کی باتیں ضرور پوری ہو کر رہیں گی۔ اور اِس طرح پوری ہوں گی کہ دشمن حیرت کے ساتھ کہے گا کہ یہ بھی کوئی ابتلاء تھا جو اِس جماعت پر آیا۔ ایسے معمولی ابتلاؤں میں سے تو لوگ بچ کر نکلا ہی کرتے ہیں‘‘۔
(الفضل 12 فروری1948ئ)

انبیاء کی جماعتیں مادی ذرائع سے نہیں
بلکہ تائیدِ الٰہی اور توکّل باللہ سے کامیاب ہوا کرتی ہیں
(فرمودہ23جنوری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے پہلے بھی کئی بار جماعت کو اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ آسمانی جماعتوں اور زمینی جماعتوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔آسمانی جماعتوں کا طریقِ کار اَور ہوتا ہے اور زمینی جماعتوں کا طریقِ کار اَور ہوتا ہے۔ زمینی اور دنیوی جماعتیں آسمانی جماعتوں کے طریقِ کار کو استعمال کر ہی نہیں سکتیں۔ اِس لیے آسمانی جماعتوں کا انحصار اللہ تعالیٰ کی تائید اور توکّل پر ہوتا ہے۔ اور دنیوی جماعتیں اگر توکل پر انحصار رکھنے لگیں تو اُن کی تباہی اور بربادی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اِسی طرح اگر آسمانی جماعتیں اپنے مادی ذرائع پر انحصار رکھیں جنہیں زمینی جماعتیں اختیار کرتی ہیں تو ان کی تباہی اور بربادی میں بھی کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اُن کے ذمہ جو کام لگایا جاتا ہے وہ سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توکّل کے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ِان دونوں جماعتوں کے نظریے بالکل جُداگانہ نظر آتے ہیں۔ جہاں آسمانی جماعتوں نے بعض بڑے بڑے کام کیے ہیں وہاں مادی اور زمینی جماعتوں نے بھی بعض بڑے بڑے کام سرانجام دئیے ہیں۔ لیکن اِن دونوں کا طریقِ کار اتنا متبائن اور اِتنا مختلف ہے کہ اِن میں کسی قسم کی مشابہت پائی نہیں جاتی۔ اگر دنیا میں ایک ہی نبی آیا ہوتا تو اُس کے ساتھ اور اُس کی جماعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سلوک کو دیکھ کر ہم اِس غلط فہمی میں مبتلاہوسکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ اُس کے ساتھ استثنائی تھا لیکن جب دنیا میں بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار نبی آئے۔ بلکہ ایک لاکھ بیس ہزار کا سوال جانے دو اُنہی انبیاء کے حالات کا مطالعہ کرو جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جو ایک یا دو نہیں بلکہ ایک درجن سے بھی زیادہ ہیں اور دو درجن کے قریب ہیں۔ پھر ان کے علاوہ بعض ایسے انبیاء بھی گزرے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیں آتا۔ مگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہم مجبور ہیں کہ ان کے حالات اور کام کو دیکھتے ہوئے اُنہیں نبی سمجھیں۔ جیسے ہندوستان میں رامؑ اور کرشنؑ، ایران میں زرتشتؑ، چین میں کنفیوشسؑ، عرب میں خالد1، یونان میں سقراط۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیوں کے حالات قرآن کریم کے بتائے ہوئے نبیوں کے حالات کے مطابق ہیں۔ اس لیے ہم قرآن کریم کے اصول کے پیش نظر ان کو نبی ماننے کے لیے مجبور ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں دنیا کو خدا کی طرف توجہ دلائی اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچایا۔ دنیا نے ان کے ساتھ دشمنی کی، انہیں ایذائیں پہنچائیں اور انہیں دکھ دئیے مگر انہوں نے خدا کی خاطر یہ سب تکلیفیں برداشت کیں۔ پس ایک یا دو نبیوں کا سوال نہیں بلکہ متعدد انبیاء ایسے گزرے ہیں جن کے واقعات تاریخی طور پر ہم تک پہنچے ہیں۔ ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم مجبور ہیں کہ ان سب کو یکساں نبی مانیں کیونکہ ان سب کی زندگیاں اور ان کے متبعین کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ وہ لوگ مادی ذرائع سے الگ ہو کر کام کرتے رہے۔
مَیں جماعت کو متواتر توجہ دلا رہا ہوں اور آج بھی اِسی امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انبیاء کی جماعتیں مادی ذرائع سے نہیں بلکہ تائید الٰہی اور توکّل بِاللہ سے کامیاب ہوا کرتی ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت جس زمانہ اور جن حالات میں سے گزر رہی ہے اِس سے پیشتر کسی زمانہ میں بھی اِتنا غلبہ مادیت کا نہیں ہوا تھا۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت مادیت سے بچنے کے لیے پورا زور لگائے اور کوشش کرے کہ وہ مادیت کے اثرات سے بچی رہے۔ہم سے پہلی جماعتوں کو بھی مادیت کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر ہمارے زمانہ میںمادیت کو جو غلبہ حاصل ہے اس کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں مل سکتی۔ اِس لیے ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو مادیت کے اثرات سے کلی طور پر محفوظ کر لیا تو خدا تعالیٰ ہمیں اُن جماعتوں کی نسبت ثواب بھی زیادہ دے گا۔ یہ دو باتیں تو مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہمارا کام بہت زیادہ مشکل ہے اور اگر ہم اس کام کو کر لیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے تو بِلاشُبہ ہمیں ثواب بھی پہلی جماعتوں سے زیادہ ملے گا۔ کیونکہ ان کو اتنی قربانیاں نہیں کرنی پڑی تھیں جتنی کہ ہمیں کرنی پڑیں گی۔ لیکن مَیں اِس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ ہم اُن طریقوں کو استعمال نہ کریں جن کو پہلی جماعتوں نے استعمال کیا تھا اور ہم کامیاب ہو جائیں۔
خدا تعالیٰ نے بچہ کی پیدائش کے لیے مرد اور عورت کا باہمی اتحاد مقرر فرمایا ہے۔ اگر ایک مومن جو کھاتا پیتا اور خوشحال ہو اِس نیت کے ساتھ شادی کرے کہ خدا تعالیٰ نے شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کا حکم دے رکھا ہے تو وہ ثواب کا ضرور مستحق ہے۔ لیکن اگر ایک غریب آدمی خدا تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے کے لیے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنی غربت اور افلاس کی وجہ سے اِس ارادہ میں ناکام رہتا ہے مگر پھر وہ بہت زیادہ کوشش کرکے خدا تعالیٰ کے حکم پورا کرتا ہے تو ہم کہیں گے کہ وہ اُس امیر کی نسبت بہت زیادہ ثواب کا مستحق ہے۔ لیکن بچے پیدا کرنے کا جو قانون خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ کبھی نہیں بدل سکتا۔ بچے پیدا ہونے کے لیے عورت اور مرد کا باہمی اتحاد مقرر ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص چونکہ غریب ہے اِس لیے اُس کے لیے درختوں سے بچے پیدا ہونے شروع ہو جائیں تو یہ ناممکن بات ہے۔ یہ دونوں باتیں تو صحیح ہیں کہ اُس امیر نے بھی خدا تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے کے لیے شادی کی اور اِس غریب نے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے شادی کی گو مشیّتِ الٰہی کے ماتحت اِس کی شادی دیر میں ہوئی لیکن چونکہ وہ نیت یہی رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو پورا کرے اِس لیے وہ امیر کی نسبت زیادہ ثواب کا حقدار ہوگا کیونکہ اِسے اِس حکم کے پورا کرنے کے لیے امیر سے بہت زیادہ کوشش اور قربانی کرنی پڑی۔ یہاں تک تو صحیح ہے۔ لیکن بچے پیدا کرنے کا قانون نہیں بدل سکتا۔ اِسی طرح جو قربانی پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑی ہے اُس سے کہیں زیادہ قربانی ہمیں کرنی پڑے گی۔ اور ہم میں سے جو لوگ اپنے آپ کو مادیت سے محفوظ رکھیں گے اُن کو ثواب بھی پہلوں کی نسبت زیادہ ملے گا۔ لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ کسی نہ کسی حد تک ہم مغربیت کی تقلید ضرور کریں گے تو یہ ناممکن ہے کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکیں۔ جس طرح ایک غریب کے گھر میں باوجود اِس کے کہ اُسے خدا کے حکم کو پورا کرنے کے لیے زیادہ کوشش اور قربانی کرنی پڑے گی درختوں سے بچے پیدا نہیں ہوتے اِسی طرح جب تک ہم بھی اُن ذرائع سے کام نہ لیں گے جو خدا تعالیٰ نے آسمانی جماعتوں کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دے رکھے ہیں ہمیں بھی کبھی کامیابی حاصل نہ ہوسکے گی۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت بھی کسی حد تک مغربی تأثرات سے متأثر ہے۔ ساتھ ہی مَیں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا خاندان بھی مغربی تأثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے سے پیشتر یہ ضروری ہوتا ہے کہ اپنوں کو سمجھایا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 2پہلے اپنے اقرباء کو سمجھاؤ۔ آگے ماننا یا نہ ماننا اُن کا کام ہے۔ انگریزی میں بھی مثل مشہور ہے کہ Charity begins at home یعنی صدقہ و خیرات پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ اِسی طرح وعظ و نصیحت بھی گھر سے ہی شروع ہونا چاہیے۔ اگر اقرباء مان جائیں تو بہتر ورنہ اُن کے نہ ماننے کی صورت میں سمجھانے والا بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ آخر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی نہیں مانا تھا اور بہت سے دوسرے انبیاء کی اولادوں یا اُن کے اقرباء میں بھی اِس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔ اب اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے بھی کوئی نہ مانے اور حضرت نوحؑ کی اولاد بننا چاہے تو اُس کی مرضی۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے اپنے خاندان کے بعض نوجوانوں کے اندر بھی دین کی خاطر وہ رغبت اور شوق نہیں پایا جاتا جس کا اُن کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک ایسا پیغام لے کر آئے تھے جسے ہم نے ساری دنیا تک پہنچانا ہے اور ایسے مخالف حالات میں پہنچانا ہے جو پہلے کسی اَور جماعت کو پیش نہیں آئے۔ اِس لیے ظاہر ہے کہ یہ کام بہت سے آدمی بھی آسانی کے ساتھ سرانجام نہیں دے سکیں گے۔ بہت زیادہ آدمیوں کو بھی بہت زیادہ قربانیاں کرنا پڑیں گے۔ یہ ایک چھوٹا سا اور سیدھا سادھا مسئلہ ہے اس میں کوئی مشکل لایَنحَلْعُقدہ نہیں کہ اڑھائی ارب دنیا کی ہدایت کے لیے اور اس اڑھائی ارب کی ہدایت کے لیے جو مادیات سے بالکل مغلوب ہو چکی ہے بہت زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے۔
اِن حالات میں جبکہ اس وقت بہت زیادہ تعداد میں مبلغین کی ضرورت ہے سب سے مقدم فرض قربانی کا خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ پر عائد ہوتا ہے لیکن ہمارے خاندان کی جو نئی پَود نکل رہی ہے اُن میں سے کتنے ہیں جو اپنے آپ کو دین کے لیے پیش کرنے کو تیار ہیں؟ ان میں سے کتنے ہیں جن کی زندگیاں دوسرے کی زندگیوں سے متمیز اور متبائن نظر آتی ہیں؟ اور ان میں سے کتنے ہیں جن کی کیفیت ایک مجنون مبلغ کی سی ہے؟ ان میں سے بعض کو جب مَیں کوئی نصیحت کرتا ہوں تو اُن کے بڑے اُن کی تائید میں ہو کر کہتے ہیں کہ دین کا کام تو کریں مگر کھائیں گے کہاں سے؟ یہ سوال دنیوی انجمنوں اور دنیوی اداروں کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے کیونکہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی دنیوی انجمن قائم نہیں رہ سکتی جب تک وہ دنیاوی قوانین کے مطابق نہ چلے، اور کوئی ادارہ نہیں چل سکتا جب تک وہ دنیوی قوانین کو نہ اپنا لے اور کوئی حکومت نہیں چل سکتی جب تک وہ اپنی رعایا کے خورو نوش کا انتظام نہ کرے۔ اگر کوئی ادارہ رائج الوقت دنیوی قوانین کے خلاف قدم اٹھائے گا تو وہ ناکام رہے گا۔ اگر کوئی انجمن دنیوی ذرائع کو ترک کر دے گی تو وہ قائم نہ رہ سکے گی اور اگر کوئی حکومت اپنی رعایا کا خیال نہ رکھے گی تو وہ دیرپا نہ ہوگی۔ لیکن مذہبی سلسلوں میں اِس قسم کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی سکول یا کالج کے ہیڈماسٹر یا پروفیسر تو نہ تھے کہ آپؑ کے ادارہ یا انجمن کو چلانے کے لیے ہمیں دنیوی قوانین کی اتباع کرنی پڑے۔ بلکہ آپؑ خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام لے کر آئے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کہتے ہیں کہ مَیں نے کسی بزرگ کی اولاد کو سات پُشتوں تک فاقوں مرتے نہیں دیکھا۔ پس اگر سات پُشتوں تک بزرگوں کی اولاد کا خداتعالیٰ پر حق ہوتا ہے کہ وہ اسے فاقوں سے نہ مرنے دے تو کیا سات پُشتوں تک بزرگوں کی اولاد پر خدا تعالیٰ کا کوئی حق نہیں ہوتا؟ اُن پر یقیناً دوسروں کی نسبت زیادہ حق ہوتا ہے اور اُن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کم ازکم سات پُشتوں تک مبلغ بن کر دین کی خدمت کرتے رہیں۔ پھر یہ کہنا کہ اگر وہ دین کی خدمت کریں تو کھائیں گے کہاں سے؟ کیا معنے رکھتا ہے۔ مَیں کہوں گا وہ کھائیں گے اُسی باورچی خانہ سے جس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تھے، وہ کھائیں گے اُسی باورچی خانہ سے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھاتے تھے۔ پھر دُور کیوں جاتے ہو۔ وہ کھائیں گے اُسی باورچی خانہ سے جس سے مَیں کھا رہا ہوں۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی تھی۔ درحقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفۃً بھیجی گئی تھی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ مَیں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا۔ مَیں نے اِس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ آپؑ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسند نہیں مَیں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں۔ مَیں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں۔ آپؑ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا بھی وہ پسند ہے جو بہت مضبوط اور طاقتور ہو۔ اِس سے غالباً آپؑ کا منشا یہ تھا کہ مَیں اچھا سوار بن جاؤں گا۔ آپؑ نے کپور تھلہ والے عبدالمجید خان صاحب کو لکھا کہ ایک اچھا گھوڑا خرید کر بھجوا دیں۔ خان صاحب کو اِس لیے لکھا کہ اُن کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے انچارج تھے اور اُن کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا۔ انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفۃً بھجوادی اور قیمت نہ لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا اِس لیے مَیں نے ارادہ کیا کہ اُس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے تاکہ اُس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے۔ مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جو اَب بھی زندہ ہیں کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں۔ اس وقت میری عمر اُنیس سال کی تھی۔ وہ جگہ جہاں مجھے یہ بات کہی گئی تھی اب تک یاد ہے۔ مَیں اُس وقت ڈھاب کے کنارے تشحیذالاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعودؑ کا تحفہ ہے اس لیے اسے فروخت نہ کرنا چاہیے۔ تو بغیر سوچے سمجھے معاً میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بے شک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے مگر اِس سے بھی بڑا تحفہ حضرت اماں جان ہیں۔ مَیں گھوڑی کی خاطر حضرت اماں جان کو تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ چنانچہ مَیں نے اُس گھوڑی کو فروخت کردیا۔
پھر آپ کی وفات کے بعد ہماری زمینوں وغیرہ کا انتظام ہمارے نانا جان مرحوم کیا کرتے تھے۔ وہ کسی بات پر والدہ صاحبہ سے ناراض ہوگئے۔ مَیں مسجد مبارک والے چوک میں کھڑا تھا کہ میرصاحب مرحوم ہماری زمینوں کے حساب کتاب والا رجسٹر ہاتھ میں لیے ہوئے آئے۔ آتے ہی رجسٹر میرے ہاتھ میں دے کر کہنے لگے لو! یہ زمینوں کا انتظام خود سنبھالو۔ میری اس وقت یہ حالت تھی کہ مَیں نہیں جانتا تھا کہ زمین کیا ہوتی ہے اور اُس کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے۔ اِس لیے اُن کا میرے ہاتھ میں رجسٹر دینا ایسا ہی تھا جیسے مجھ پر بجلی گر پڑی ہو۔ مَیں نے رجسٹر اُن کے ہاتھ سے لے لیا اور چل پڑا۔ مَیں نے خیال کیا کہ مَیں خود اِس رجسٹر کے متعلق کچھ جانتا نہیں اور یہ رجسٹر والدہ صاحبہ کے سپرد کرنا اور کہنا کہ آپ یہ انتظام سنبھالیں یہ بھی نامردی ہے۔ یہی سوچ و بچار کرتا ہوا مَیں تشحیذالاذہان کے دفتر میں چلا گیا۔ قاضی اکمل صاحب وہاں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ مَیں اُن کے پاس بیٹھ گیا۔ رجسٹر میرے ہاتھ میں تھا مگر مجھے اتنا بھی علم نہ تھا کہ ساری جائیداد کی قیمت ایک پیسہ ہے یا ایک لاکھ روپیہ ہے، اس کی آمد ایک آنہ ہے یا ایک ہزار روپیہ ہے یا دس ہزار روپیہ ہے۔ مَیں گھبراہٹ کی حالت میں بیٹھا ہوا اُس انتظام کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے دس یا پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک شخص دفتر میں آیا اور آتے ہی کہنے لگا مَیں نے سنا ہے کہ آپ کو اپنی زمینوں کے انتظام کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہے۔ مَیں نے کہا ضرورت تو ہے۔ مگر یہ کہتے وقت مَیں نے خیال کیا کہ ضرورت تو بے شک ہے مگر اِس کی تنخواہ کہاں سے آئے گی؟چنانچہ مَیں نے پھر اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ضرورت تو ہمیں ایک آدمی کی ضرور ہے مگر اُس کی تنخواہ کا معاملہ ابھی تک زیر غور ہے۔ اِس کے متعلق جب تک سوچ نہ لیا جائے کسی آدمی کو مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ اُس نے کہا آپ جو چاہیں مجھے دے دیں مجھے منظور ہوگا۔ (مجھے جو چاہیں دے دیں، کے الفاظ سے بچپن کے زمانہ سے چِڑ ہے اور اگر سودا خریدتے وقت کوئی دکاندار مجھ سے کہہ دیا کرتا تھا کہ جو چاہیں دے دیں تو مجھے بہت بُرا محسوس ہوا کرتا تھا۔) چنانچہ مَیں نے اُن سے کہا آپ مجھے اپنا مطالبہ بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا دس روپے ماہوار دے دیا کریں۔ مَیں نے خیال کیا کہ اگر ہماری واقعی زمین ہے اور اس کی آمد بھی ہوتی ہے تو دس روپے تو ضرور آ ہی جاتے ہوں گے۔ یہ سوچ کر مَیں نے رجسٹر اُسی وقت اُن کے ہاتھ میں دے دیا۔
حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب قرآن کریم کے ترجمہ کا کام ہم نے شروع کرنا چاہا تو سوال پیدا ہوا کہ اس کے اخراجات کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا۔ مَیں الفضل کے دفتر میں بیٹھا ہوا اِس کے متعلق سوچ رہا تھا میرا دل چاہا کہ اِس کارخیر میں روپیہ اپنے پاس سے لگانا چاہیے تاکہ ہمیں ثواب ملتا رہے۔ مگر اس کے لیے بھی روپیہ کا سوال تھا مگر مَیں نے ارادہ کر لیا کہ کوشش کروں گا۔ اگر روپیہ مل گیا تو ضرور اپنے پاس سے لگاؤں گا۔ مَیں اِسی فکر میں بیٹا تھا اور اندازہ لگا رہا تھا کہ اِس کام کے لیے ایک ہزار اور پندرہ سو کے درمیان روپیہ درکار ہوگا۔ مگر اُس زمانہ میں ایک ہزار یا پندرہ سو ایسا ہی تھا جیسے آجکل بیس یا پچیس لاکھ روپیہ۔ اِس لیے روپیہ کے حصول کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی۔ مَیں ابھی اِس معاملہ کے متعلق غور و فکر کر رہا تھا کہ وہی شخص جو ہماری زمینوں کے منتظم تھے آگئے۔ مَیں نے اُن سے ذکر کیا کہ مجھے اِتنے روپے کی ضرورت ہے۔ کیا ہماری جائیداد فروخت ہو کر اتنا روپیہ مل سکے گا؟ وہ کہنے لگا آپ فکر نہ کیجیے ابھی انتظام ہو سکتا ہے اور تھوڑی سی زمین فروخت کرنے سے ہوسکتا ہے۔ مَیں نے کہا مجھے تو اس کام میں مشکل یہ نظر آ رہی ہے کہ قادیان میں سب غریب لوگ ہیں اتنا روپیہ کون دے گا؟اس نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ کام ہو جائے تو آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ مَیں خود اسے سرانجام دے لوں گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ کی زمین اگر فروخت کر دی جائے تو بعض دوستوں کو مکان بنانے کے لیے زمین کی ضرورت ہے۔ مَیں نے اجازت دی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے۔ ابھی مَیں دفتر میں بیٹھا ہوا مضمون جو اُن کے آنے سے پیشتر مَیں نے شروع کیا تھا لکھ رہا تھا کہ وہ واپس آگئے۔ پندرہ سو روپیہ کی ڈھیری انہوں نے میرے سامنے لگا دی۔ چنانچہ اُس روپیہ سے ہم نے قرآن کریم کے ترجمہ کی ابتدا کی اور پہلا پارہ شائع کرایا گیا۔
اِن واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی چھوٹی سی چیز سے خود میری زندگی شروع ہوئی۔ اسی ضمن میں مجھے ایک اَور واقعہ یاد آگیا ہے۔ وہ یہ کہ جب مَیں خلیفہ ہوا تو وہ لوگ جو پیغام صلح سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے میری خلافت کے خلاف ٹریکٹ اور اشتہارات شائع کیے۔ اُس وقت ہمارے خزانہ میں کم و بیش اٹھارہ روپے تھے۔ گو یا اتنا روپیہ بھی نہ تھا کہ ہم ان کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کا جواب شائع کرسکتے۔اُن دنوں میر ناصر نواب صاحب باہر کے دورہ سے آئے تھے اور دورہ میں اُنہوں نے دارالضعفاء کے لیے چندہ اکٹھا کیا تھا۔ مَیں ایک دن سیر کر کے باہر سے آ رہا تھا انہوں نے پانچ سو کی ایک پوٹلی مجھے دی کہ ِاس وقت اشتہاروں کے لیے روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ اِس سے خرچ چلائیں۔ جب روپیہ آ جائے تو واپس کر دیں۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ ہم نے کتنی چھوٹی ابتدا سے کام شروع کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے 1944ء میں مَیں نے چالیس ہزار چندہ دیا تھا۔ وہ کہاں سے آیا تھا؟ وہ خدا تعالیٰ نے ہی دیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کا کام میرے سپرد کیا تو مَیں نے یہ نہ پوچھا تھا کہ مَیں کھاؤں گا کہاں سے؟ بلکہ پوچھنا تو درکِنار میرے واہمہ میں بھی یہ سوال نہ تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے وہی میرے لیے کھانے کا بھی انتظام کرے گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی عقیدہ رکھتا تھا کہ اگر وہ مجھے نہیں کھلائے گا تو مجھے یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ اے خدا! پہلے میرے لیے کھانے کا انتظام فرما اُس کے بعدمَیں اِس کام کو سنبھالوں گا۔ پھر جب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کر م کی بارش مجھ پر کی تو مَیں نے یہ نتیجہ نہ نکالا کہ یہ میرے کسی کام کا بدلہ مجھے دیا جا رہا ہے بلکہ مَیں نے کہا اے خدا! یہ سب تیرے فضل و کرم سے ہو رہا ہے۔تُو نے ہی مجھے کام کرنے کی توفیق دی ہے اور تُو نے ہی ہر قسم کے رزق سے مالا مال کیا ہے۔ تو نے مجھے سب کچھ دیا ہے اور کسی کا ممنونِ احسان بنا کر نہیں دیا۔ یوں تو اپنی جماعت سے دنیا کے ہر کام کے متعلق مَیں جو جو کہنا چاہوں کہہ سکتا ہوں مگر مالی معاملہ میں مَیں نے اپنے اختیار سے کبھی کام نہیں لیا۔ اور میں اِس میں اِس قدر حسّاس ہوں کہ ہروقت آزاد کمیشن کے سامنے اپنا حساب رکھنے کو تیار ہوں۔
پس یہ سوال کہ اگر ہمارے خاندان کے نوجوان خدمتِ دین کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ میرے نزدیک اِس سے زیادہ مشرکانہ اور اِس سے زیادہ بے ایمانی کا سوال اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ واقعی خدا تعالیٰ کا کام کریں گے تو خدا تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہاتنا غدار نہیں کہ وہ اُنھیں بھُوکا مار دے گا۔ کیا خدا تعالیٰ نے آدمؑ سے لے کر اب تک کسی کے ساتھ دھوکا بازی کی ہے جو وہ اِن کے ساتھ کرے گا؟ پھر یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کے دادے ہمیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیا کرتے تھے اب اُن کے احمدی ہونے پر ہم اُن کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دین کی خدمت کرو اوروہ کرتے ہیں لیکن خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان دکانداریوں اور دوسرے دُنیوی کاموں کے پیچھے پھر رہا ہے۔ مَیں کہتا ہوں جانے دو اِس توکّل کو بھی کہ خدا تعالیٰ خدمتِ دین کرنے سے اُنہیں بھُوکا نہیں مارے گا۔ اور اگر انہوں نے خدا کی راہ میں مرنا ہے تو اِس سے زیادہ سعادت اور خوش بختی اَور کیا ہوسکتی ہے۔ پھر اِس اعلیٰ قسم کے توکّل کو بھی جانے دو۔ اِس سے ذرا ادنیٰ قسم کے توکل کو لے لو۔ ہمارے محکموں میں بعض ایسے کارکنان بھی ہیں جنہیں بیس بیس، تیس تیس اور چالیس چالیس روپے مل رہے ہیں اور وہ خوشی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جس روٹی سے اُن کا پیٹ بھر سکتا ہے اِن کا کیوں نہیں بھر سکتا؟ جس کپڑے سے وہ اپنے تن کو ڈھانک سکتے ہیں اُس کپڑے سے اِن کا تن کیوں نہیں ڈھانکا جاسکتا؟ جن مکانوں میں وہ رہ سکتے ہیں اُن مکانوں میں یہ کیوں نہیں رہ سکتے؟ کیا بیس بیس اور تیس تیس روپیہ میں گزارہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کا حق زیادہ ہے اور اِن پر کم ہے یا اِس کے برعکس اُن پر زیادہ ہے اور اِن پر کم ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی نسبت خداتعالیٰ کا حق اِن پر زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت سے فرماتا ہے اگر تم میرے راستہ پر چلتے ہوئے نیکی اور تقوٰی اختیار کرو گے تو دوسروں کی نسبت تم دُہرے ثواب کے مستحق ہوگے لیکن اگر تم نیکی اور تقوٰی اختیار نہیں کرو گے تو دوسروں کے لیے بدنمونہ پیش کرو گے تو تم دوسروں کی نسبت دُہرے عذاب کے مستحق ہو گے۔3 مَیں سمجھتا تھا کہ قادیان سے نکلنے کے بعد اور جماعت پر یہ عظیم الشان ابتلا دیکھنے اور اپنے آپ کو بعض مشکلات اور مصائب میں پانے کے بعد ایسے نوجوانوں کو ہوش آ جائے گا۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ روح جو ایسے نوجوانوں کے اندر پیدا ہو جانی چاہیے تھی ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس بات کی ذمہ داری جماعت پر بھی ہے کیونکہ جب جماعت کے لوگ ہمارے خاندان کے اِن نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو نہایت ادب کے ساتھ اِن کو صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں۔ بس یہی صاحبزادہ صاحب کہنے والے لوگ ہی ایسی باتوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بُھول سکتا اور مَیں جب کبھی اُس دوست کی اولاد پر کوئی مشکل پڑی دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ٹیس اُٹھتی ہے اور مَیں اُن کی بہبودی کے لیے دعائیں کیاکرتا ہوں۔ اُنہیں کئی ایسے مسائل کا سامنا ہوا جن سے کہ وہ سمجھتے تھے ہم بچ نہیں سکیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کے طفیل اُن پر فضل کرتے ہوئے اُنہیں بچا لیا۔ اُن کا مجھ پر احسان یہ ہے کہ 1903ء کی بات ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی کرم دین والے مقدمہ کی پیروی کے لیے گورداسپور میں مقیم تھے۔ وہ دوست جن کا مَیں ذکر کر رہا ہوں مراد آباد یوپی کے رہنے والے تھے اور فوج میں رسالدار میجر تھے۔ محمد ایوب اُن کا نام تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کے لیے گورداسپور آئے تھے۔ اُنہوں نے دو باتیں ایسی کیں جو میرے لیے ہدایت کا موجب ہوئیں۔ دلّی میں رواج تھا اور شاید اب بھی ہو کہ بچے باپ کو تم کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ اِسی طرح بیوی خاوند کو تم کہتی ہے۔ لکھنؤ وغیرہ میں آپ کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں چونکہ دلّی کی اردو بولی جاتی تھی اور گھر میں ہمیشہ تُم تُم کا لفظ سنتے رہنے سے میری عادت بھی تم کہنے کی ہو گئی تھی۔ یوں تو میری عادت تھی کہ مَیں حتی الوسع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرنے سے ہمیشہ کتراتا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ بھی جائے اور مجبوراً مخاطب کرنا ہی پڑے تو تم کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے اُس دوست کی موجودگی میں آپ سے کوئی بات کرنا پڑی اور مَیں نے تم کا لفظ استعمال کیا۔ یہ لفظ سن کر اُس دوست نے مجھے بازو سے پکڑلیا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں ۔ اور وہ یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرتے وقت کبھی بھی تم کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپ کے لفظ سے مخاطب کیا کریں ورنہ آپ نے پھر یہ لفظ بولا تو مَیں جان لے لوں گا۔ مجھے تو تم کا لفظ استعمال کرتے رہنے کی وجہ سے تم اور آپ میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا بلکہ مَیں آپ کی نسبت تم کے لفظ کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ اور حالت یہ تھی آپ کا لفظ بولتے ہوئے مجھے عادت نہ ہونے کے شرم سے پسینہ آ جاتا تھا کیونکہ مَیں سمجھتا تھا کہ آپ کہنا جُرم ہے۔ مگر اُس دوست کے سمجھانے کے بعد مَیں آپ کا لفظ استعمال کرنے لگا اور اُن کی اِس محبت کا اثر اب تک میرے دل میں موجود ہے
دوسری بات اُنہوں نے یہ کی کہ مَیں نے ایک دفعہ لاہور آنے پر یہاں بعض لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا۔ مَیں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی خرید کر لگائی۔ پھر وہی دوست مرحوم مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ ہم نے تو آپ سے سبق سیکھنا ہے۔ جو قدم آپ اٹھائیں گے ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گے۔ یہ کہہ کر اُنھوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور مَیں نے اُتار کر اُن کو دے دی۔ پس اُن کی یہ دو نصیحتیں مجھے کبھی نہیں بھُول سکتیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متبع کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب، صاحبزادہ صاحب کہہ کر اُس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہیے۔ بلکہ ُاس سے کہنا چاہیے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر معلوم ہو رہے ہیں اِس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں۔ اسلام میں نسلی فوقیت ہرگز نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ جاہلیت کے زمانہ میںجو شرفاء تھے اب اُن کی کیا حیثیت ہے؟ آپ نے فرمایا جو لوگ جاہلیت میں شرفاء تھے وہ اب بھی شرفاء ہیں بشرطیکہ وہ نیک کام کرتے ہوں۔ 4اِسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر اہلِ بیت نیک کام کریں گے اور تقوٰی اختیار کریں گے تو اُنہیں دوسروں کی نسبت دُہرا ثواب ملے گا اور اگر وہ اِس کے برعکس کریں گے تو اُنہیں دوسروں کی نسبت عذاب بھی دُہرا ملے گا۔
پس مَیں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کامیابی کا گُر وہی ہوگا جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے اپنایا تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فقیروں کی طرح گزارہ کیا جائے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ اسلام میں اِفراط و تفریط دونوں ناجائز ہیں۔ مومن کا کام یہ ہونا چاہیے کہ جہاں اُسے خدا تعالیٰ رکھنا چاہے وہاں رہے۔ اِس لیے نہ تو مَیں اِفراط کا قائل ہوں نہ تفریط کا۔ اور نہ ہی انبیاء کی جماعتوں میں ان دونوں حالتوں کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ نہ اسلام نے رہبانیت کی اجازت دی ہے اور نہ ہی تعیّش کی اور خالص دنیا داری کی اجازت دی ہے۔ وہ حد بھی کاٹی گئی ہے اور یہ حد بھی کاٹی گئی ہے۔ اسلام کا رستہ اِن دونوں حدود کے درمیان ہے۔ پس انبیاء کی جماعتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ درمیانی راستہ اختیار کریں اور دین کے کاموں میں لگے رہیں۔ ہاں اپنے فارغ اوقات میں دوسرے دنیوی کام بھی بے شک کریں مگر دین کے کاموں کو مقدم رکھیں۔ اور دین کا کام کرنے کے بعد اگر وہ کوئی دنیا کا کام کرنا چاہیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے نوجوانوں کو روپیہ میسر آ جائے تو وہ خود دین کے کام کریں اور روپیہ کسی دوسرے آدمی کو دے کر اُسے دکان وغیرہ کھُلوا دیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی اصول کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ وہ آمد کو خدا کی سمجھیں اور اُسے خدا کے دین اور اُس کے بندوں کی بہبودی کے لیے خرچ کریں۔ اسلامی اصول کے خلاف جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ وہ محض دنیا دار بن کر رہ جائیں۔یوں تو مَیں خود بھی زمیندار ہوں اور زمینداری کا سارا انتظام بھی کرتا ہوں مگر دین کے کام کرنے کے بعد اپنے فارغ اوقات میں کرتا ہوں۔ ایک انسان چودہ یا پندرہ گھنٹے دین کا کام کرنے کے باوجود پاخانہ پیشاب کے لیے روزانہ اپنا وقت فارغ کر سکتا ہے تو دس منٹ زمینداری کے لیے کیوں فارغ نہیں کر سکتا۔ بہرحال مَیں دین کا کام بھی کرتا ہوں اور زمینداری کے کاموں کے لیے بھی تھوڑا بہت وقت نکال لیتا ہوں۔ مگر اپنی زندگی کو محض دنیا کے کاموں میں لگا دینا ہرگز اُس مقام کے شایانِ شان نہیں ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔
ابھی اِس مضمون کے کچھ حصے باقی ہیں مگر چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اِس لیے سرِدست اِس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور بقیہ حصہ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ میں بیان کروں گا اِنشَاء َ اللّٰہ تَعَالٰی"۔ (الفضل 13فروری 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
خالد بن سنان: عرب کا نبی ۔ خالد بن سنان کی نبوت حضرت محمدرسول اللہ ﷺکے قرب کا شرف رکھتی ہے ۔ خالد بن سنان کو اطلاع دی گئی تھی کہ حضرت محمد ﷺکو اللہ تعالیٰ رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجے گا ۔ آنحضرت ﷺکے پاس ایک موقع پر ان کی بیٹی آئی تو آپ ؐ نے فرمایا ’’ مَرْحَبًا یَا بْنَۃَ نَبِیٍّ اَضَاعَہٗ قَوْمُہٗ‘‘(شرح فصوص الحکم لابن عربی الجزء الثانی صفحہ 451-449مطبوعہ 1416ھ زیرِ عنوان فص حکمۃ صمدیۃ فی کلمۃ خالدیۃ(.....
2
:
الشعرائ:215
3
:
‏O O (الاحزاب:31،32)
4
:
بخاری کتاب ا لمناقب باب المناقب


اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لیے تیار کرو
(فرمودہ30جنوری 1948 بمقام رتن باغ لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’1909ء کی بات ہے کہ مَیں کشمیر گیا۔ سرینگر جو کشمیر کا دارالحکومت ہے اُس میں ایک جھیل ہے جو ڈل کہلاتی ہے۔ کوئی ایک میل کے قریب لمبی اور نصف میل کے قریب چوڑی ہے۔چونکہ سری نگر کی سبزیاں اور ترکاریاں اُس میں بوئی جاتی ہیں اُس کے کناروں پر یا اُس میں گیلیاں ڈال کر اُن پر مٹی ڈال لیتے اوراِس طرح مصنوعی زمین بنا لیتے ہیں۔ اس لیے اُن سبزیوں کو آسانی کے ساتھ شہر میں لے جانے کے لیے جہلم دریا میں سے جو سری نگر کے پاس بلکہ درمیان میںبہہ رہا ہے ایک نہر نکالی گئی ہے جو ڈل کے ساتھ ساتھ گزرتی ہے۔ اور ڈل میں ایک دروازہ بنا دیا گیا ہے جس سے دونوں کے پانیوں کا آپس میں اتّصال ہو جاتا ہے۔ کبھی نہر میں پانی زیادہ ہو تو ڈل کا پانی نیچا ہو جاتا ہے اور نہر کی طرف سے ڈل کا بہاؤ اونچا ہو جاتا ہے اور کبھی نہر کا پانی نیچا ہو تو ڈل کا پانی اونچا ہو جاتا ہے اور پانی کا بہاؤ نہر کی طرف ہو جاتا ہے۔ اِس نہر کے کنارے پر کھڑے ہو کر ایک دفعہ مَیں اس نظارہ کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح کشتیاں ڈل سے نہر میں آتی اور کبھی شہر کی طرف سے آکر ڈل میں چلی جاتی ہیں۔ جس دن کا یہ واقعہ ہے اُس دن نہر کا پانی نیچا تھا اور ڈل کا پانی اونچا تھا۔ اِس وجہ سے ڈل سے آنے والی کشتیاں آسانی سے نہر میں آ جاتی تھیں لیکن نہر سے جانے والی کشتیاں بڑی مشکل سے ڈل کی طرف جاتی تھیں۔ چھوٹی کشتیاں جن کو کشمیری اصطلاح میں شکارا کہتے ہیں وہ تو معمولی سی کوشش سے ڈل میں چلی جاتی ہیں لیکن بھاری کشتیوں کے لیے سخت دقّت ہوتی ہے اور اُن کو بوجھ کی وجہ سے بہاؤ کے مقابل پر لے جانا بڑی مشکل بات ہوتی ہے ۔مَیں نے دیکھا کہ اِس اثناء میں ایک ایسی کشتی آئی جو اپنی سبزی ترکاری بیچ چکی تھی اور واپس گھر کی طرف جا رہی تھی۔ اس کشتی میں تین چار مرد تھے اور تین چار عورتیں اور کچھ بچے تھے۔ اُن سب کو ملا کر گیارہ بارہ آدمی ہوں گے۔ جب یہ کشتی ڈل کی طرف جانے لگی تو پانی کے بہاؤ کی وجہ سے اُس کے راستہ میں سخت روک پیدا ہوگئی اور بانس کا استعمال اور چپو کا استعمال بیکار نظر آنے لگا۔ اِس پر کشتی میں سے ایک دو آدمی پھاند کر نیچے اُتر گئے اور اُنہوں نے رسّہ سے کشتی کو اوپر کھینچنا شروع کیا۔ لیکن اُن آدمیوں کا زور بھی اِس بارہ میں کامیاب ثابت نہ ہوا اور کشتی پھر بھی اوپر نہ چڑھ سکی۔ تب اَور مرد بھی کُود گئے اور انہوں نے زور لگا کر کشتی کو اوپر کھینچنا چاہا لیکن پھر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔ کشمیری لوگوں کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی مشکل وقت آئے اور اُنہیں زور لگانا پڑے تو وہ عام طور پر جیسے ایک دوسرے کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بعض لوگ خاص الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ اکٹھا زور لگ سکے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہکے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اور کشمیری لہجہ کے مطابقلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی بجائے لَا یلٰہَ یلَّ اللّٰہُ کہتے ہیں۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ کشتی اوپر نہیں آتی تو مردوں نے مل کر رسّہ اوپر کی طرف کھینچنا شروع کیا اور ساتھ ہی لَا یلٰہَ یِلَّ اللّٰہُکا نعرہ بھی لگانے لگے۔ اِس آواز سے کشتی میں بیٹھی ہوئی عورتوں اور بچوں نے بھی سمجھ لیا کہ اب مشکل وقت آ گیا ہے۔ چنانچہ جو چپّو خالی پڑے تھے وہ اُنہوں نے پکڑ کر خود چلانے شروع کردیئے اور جن کے پاس بانس تھے وہ بانس چلانے لگے اور اِس کے ساتھ ہی بچوں نے اپنے ہاتھ سے پانی دھکیلنا شروع کر دیا لیکن اُن کی یہ ساری تدبیریں ناکام رہیں۔ تب جو بچوں میں سے لڑکے تھے وہ کُود گئے اور اُنہوں نے بھی مل کر مردوں کے ساتھ زور لگانا شروع کیا مگر جب اُنہوں نے دیکھا کہ یہ کشتی کسی طرح نہیں ہلتی اور لَا یلٰہَ یلَّ اللّٰہُ کے الفاظ نے کوئی کام نہیں کیا تو اُنہوں نے یا شیخ ہمدان کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ شیخ ہمدان ایک بزرگ تھے جنہوں نے اِس علاقہ میں ابتدائی زمانہ میں اسلام کی تبلیغ کی ۔ اب تک اُن کی یادگار اِس علاقہ میں پائی جاتی ہے اور ان کے مقام پر بہت سے پُرانے تبرکات مصنوعی یا سچے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیری لوگوں کی عادت ہے کہ جبلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے نعرے سے کچھ نہ بنے تو وہ سمجھتے ہیں اِس کے بعد زیادہ زور کا نعرہ شیخ ہمدان کا ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے یا شیخ ہمدان کہہ کر زور لگانا شروع کیا مگر جب پھر بھی کام نہ چلا تو ایک عورت اور باقی بچے بھی نیچے اُتر آئے۔ ایک عورت جو بانس سے زور لگا رہی تھی وہ اندر رہی۔ اِس طرح دو اَور عورتیں بھی اندر بیٹھی رہیں مگر پھر بھی کشتی نہ ہلی۔ جب پھر بھی کشتی نہ ہلی تو اُنہوں نے دستور کے مطابق اپنے سب سے بڑے دیوتا کو پکارنا شروع کیا یعنی انہوں نے یا پیر دستگیر کا نعرہ لگایا۔ جب اُنہوں نے پیر دستگیر کا نعرہ لگایا تو مَیں نے دیکھا کہ سوائے اُس عورت کے جو بانس سے زور لگا رہی تھی اور کشتی کا رُخ سیدھا کر رہی تھی باقی سب کے سب نیچے کُود گئے اور دیوانہ وار اُنہوں نے زور لگانا شروع کیا اور وہ کشتی کو نکال کر لے گئے۔
جہاں تک کشمیری اخلاق کا تعلق ہے مَیں نے اِس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اِن کے دلوں میں خداتعالیٰ کی عظمت سب سے کم ہے۔ خدا سے بڑے ان کے نزدیک شیخ ہمدان ہیں۔ اور شیخ ہمدان سے بڑے ان کے نزدیک پیر دستگیر ہیں۔ لیکن جہاں تک اِس امر کا تعلق ہے کہ جس ذات کو وہ عزیز سمجھتے ہیں اُس کی بے عزتی کو برداشت نہیں کر سکتے اور اُس کے نام پر وہ ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اُن کا عمل درحقیقت ایک سبق تھا جو مَیں نے سیکھا اور جس کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا۔ مَیں نے کہا یہ لوگ اسلام سے اچھی طرح واقف نہیں۔ ان لوگوں کے دلوں میں وہ روح نہیں جو قرآن اور اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہیں لیکن خدا سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا شیخ ہمدان کو سمجھتے ہیں اور شیخ ہمدان سے بڑا پیر دستگیر کو سمجھتے ہیں۔ مگر ایک چیز جو تمام انسانوں میں مشترک ہے اُن میں بھی پائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس چیز سے محبت کامل ہو اُس کے نام پر بٹہ لگنے نہیں دینا چاہیے۔ مانا کہ وہ خدا اور رسول سے شیخ ہمدان کو بڑا سمجھتے ہیں اور شیخ ہمدان سے پیر دستگیر کو بڑا سمجھتے ہیں مگر بہرحال جس کو وہ بڑا سمجھتے ہیں اُس کے نام کو بے عزتی سے بچانے کے لیے وہ ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو پانچ چھ سال کے تھے پیر دستگیر کا نام آنے پر مَیں نے دیکھا کہ اُن کے چہرے سُرخ ہو گئے۔ اُن کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی اور اُنہوں نے بھی زور لگانا شروع کر دیا اورسمجھ لیا کہ پیر دستگیر کا نام آنے کے بعد ہماری کوشش بے کار نہیں جانی چاہیے کیونکہ اس سے پیر دستگیر کے نام پر دھبہ آئے گا۔ اُن کا عقیدہ غلط سہی، اُن کا ایمان ناقص سہی لیکن یہ چیز جو انسان کو انسان بناتی ہے بشرطیکہ اِس سے صحیح طور پر کام لیا جائے اُن کے اندر موجود تھی کہ جس سے محبت اور لگاؤ ہو اُس کے نام پر بدنامی کا دھبّہ نہیں لگنا چاہیے۔
آج سے قریباً چالیس سال پہلے کا یہ واقعہ ہے مگر میری نظروں کے سامنے آج بھی یہ واقعہ اُسی طرح ہے جس طرح اُس وقت تھا۔ شاید اس کے نقش کچھ دھندلے ہو گئے ہوں تو ہو گئے ہوں مگر بہرحال اس کے نقش زندہ ہیں۔ اور جب بھی اِس واقعہ کا مجھے خیال آتا ہے یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ ہم اُن کے اِس فعل کو بے شک بُرا کہیں کہ خدا اور رسولؐ سے اُنہوں نے شیخ ہمدان اور پیر دستگیر کو بڑا بنا لیا لیکن جہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم بُری بات کو بُرا کہیں وہاں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اچھی بات کو اچھا کہیں۔ اُن کے اندر بے شک بُرائی تھی لیکن اُن میں یہ خوبی بھی تھی کہ اُن کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ہمیں اپنے محبوب اور پیارے کے نام پر دھبہ نہیں لگنے دینا چاہیے۔ بے شک اُنہوں نے غلطی کی، بے شک ہم یہی کہیں گے کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے لیکن اُن کو ایک غلطی خوردہ انسان قرار دیتے ہوئے بھی اُن کی نادانی میں ایک ایسا سبق پوشیدہ تھا جو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھولنے والا ہے۔ اور وہ سبق یہ ہے کہ جب وہ ایک غلط عقیدہ پر قائم ہوتے ہوئے بھی اپنے محبوب کے نام پر بٹّہ لگنا گوارا نہیں کر سکتے تو وہ شخص جو ایمان کا دعوٰی کرتا ہے اُسے تو بہرحال ایمان میں اُن سے بہت زیادہ ثابت قدم ہونا چاہیے۔ جس طرح کشتی والوں کے نزدیک ایک نازک وقت آگیا تھا اور اُنہوں نے اپنا سارا زور کشتی کے نکالنے میں لگا دیا اُس سے بہت زیادہ نازک وقت اِس وقت اسلام اور احمدیت کے لیے آیا ہوا ہے۔ شاید آپ لوگوں میں سے ہر شخص اگر وہاں موجود ہوتا اور اُن کے اِس طریقِ عمل کو دیکھتا تو استغفار پڑھنے لگ جاتا اور کہتا یہ کیسے مشرک اور ناقصُ الْاِیمان لوگ ہیں، مسلمان کہلاتے ہیں لیکن مشرکانہ عقائد میں مبتلاہیں، اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں لیکن ایسے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں جن کی اسلام سے دور کی بھی نسبت نہیں۔ لیکن اگر وہ سوچتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ وہ اپنے شرک اور بے ایمانی میں بھی ایمانداروں کو سبق دے رہے تھے۔ وہ مشرک سہی، وہ بے ایمان سہی لیکن وہ وفاداری کا جذبہ اپنے اندر رکھتے تھے۔ اور اگر ایک مشرک اور کافر وفادار ہو سکتا ہے تو مومن کو اُس سے بڑھ کر کیوں وفادار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایک مشرک اپنے پیر کا نام آنے پر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُسے ناکامی ہو تو وہ مومن کیسا مومن ہے جو مشکلات اور آفات کے وقت میں یہ چاہے کہ خدا اور رسول کا نام بے شک بدنام ہو جائے یا ناکامی کا داغ (نَعُوْذُ بِاللّٰہ) اُن کے چہرے پر لگ جائے۔
یاد رکھو یہ زمانہ ہماری جماعت کے لیے نہایت ہی نازک ہے۔ نہ صرف ہماری جماعت کے لیے بلکہ سارے اسلام کے لیے نازک ہے۔ دوسرے مسلمان اِس حقیقت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ہماری جماعت اِس بات کی مدعی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ پیغام کی حامل ہے۔ اگر دوسرے لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کرتے ہوں تو اس کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہیے کہ ہم بھی غافل ہو جائیں۔ اگر مسلمان اِس حالت پر غور کریں جو اِس وقت اسلام کی ہے۔ اگر وہ جھوٹے دعووں کو چھوڑ دیں، اگر وہ اس امر کو اپنے دلوں میں سے نکال دیں کہ ہم اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگائیں گے تو یُوں ہو جائے گا اور وہ اس دھوکا سے اِس طرح بچ سکتے ہیں کہ وہ غور اور فکر سے کام لیں۔ اگر وہ اسلام کی موجودہ حالت پر صحیح طور پر تدبر کریں تو اُنہیں نظر آئے گا کہ اسلام کے پاؤں اِس وقت اُکھڑ رہے ہیں، اسلام کی جڑیں اِس وقت ہِل رہی ہیں، اسلام کی سیاسی حالت پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی اب عقائد کی حالت بھی کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے اور اِس وقت اسلام کے نام کو دنیوی اغراض کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس طرح آج سے پہلے دنیا کا ہر وہ کام جس کے لیے قرآن آیا تھا لوگوں نے نظر انداز کر دیا تھا اور قرآن کریم کے صرف دو کام رہ گئے تھے۔ مُردوں پر پڑھنا اور عدالتوں میں قرآن ہاتھ میں لے کر جھوٹی قسمیں کھانا۔ اِسی طرح اِس زمانہ میں اسلام کی غرض صرف اِس قدر رہ گئی ہے کہ اسلام کا نام لے کر عوام الناس میں جوش پیدا کیا جائے اور سیاسی اَغراض میں اِس کی مدد سے اپنے رقیب کو شکست دینے کی کوشش کی جائے۔وہ عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھانا اور قبروں پر قرآن کا پڑھنا بھی ایک لغو کام تھا مگر یہ تو بہت ہی خطرناک اور اسلام کو سخت نقصان پہنچانے والا فعل ہے۔ نام اسلام کا لیا جاتا ہے مگر غرض ایک دوسرے پر سیاسی فوقیت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اسلام اسلام کا نعرہ لگانے والا خود اسلام پر عامل نہیں ہوتا۔ وہ نماز کا تارک ہوتا ہے، وہ اُن تمام آداب اور طریقوں کے خلاف چل رہا ہوتا ہے جن کا اسلام نے بنی نوع انسان سے مطالبہ کیا ہے مگر وہ اسلام کا نعرہ لگانے میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔ اُس کی آواز باقی سب آوازوں سے اونچی ہوتی ہے۔ وہ جتنا زیادہ اسلام کا منکر ہوتا ہے اُتنی ہی بلند آواز سے وہ اسلام اسلام کا نعرہ لگاتا ہے تا اُس کے اسلا م سے انکار اور اسلام پر عمل نہ کرنے کے عیب پر پردہ پڑ سکے۔
پس یہ وقت ہماری جماعت کے لیے نہایت ہی نازک ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی کشتی کو پار لگانا ہمارے ذمہ ہے۔ بے شک ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے یہ فرض اُس پر بھی عائد ہوتا ہے لیکن یہ فرض اُسے بھُولا ہوا ہے اور نئے سرے سے وہ کوئی عہد نہیں کرتا۔ اور اگر عہد کی کوئی حقیقت ہے، اگر عہد جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے مسئول ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے متعلق سوال کیا جائے گا تو پھر اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے حضور تازہ عہد کرنے والے زیادہ ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔ باقی لوگ وہ ہیں جن میں سے کسی نے دس پُشت سے اور کسی نے بیس پُشت سے عہد کیا تھا۔ ماں باپ نے عہد کیا جو اولاد نے بھُلا دیا۔ بے شک اُن کی اولاد کا بھی فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کے عہد کی قدر و قیمت کا احساس کریں اور اپنے اعمال میں تغیر پیدا کریں لیکن اس عہد کی وہ شان نہیں جو اُس عہد کی ہے جو براہ راست کیا جائے۔ پس جب تک جماعت اِس ذمہ داری کو نہیں سمجھتی جو اِس تازہ عہد کی وجہ سے اُس پر عائد ہوتی ہے اُس وقت تک وہ اپنے ایمان کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کرتی اور اُس وقت تک اسلام اور احمدیت کا بھی روشن مستقبل نظر نہیں آسکتا۔ اِس بارہ میں بے شک جماعت کے اَور افراد بھی ذمہ دار ہیں مگرسب سے زیادہ فرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان پر عائد ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا تھا کہ اِن میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے، بہت سے ایسے ہیں جو دُنیوی کاموں میں مشغول ہیں اور ایسے نازک وقت میں خدا اور اُس کے رسولؐکو چھوڑ کر اپنے ذاتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔
مَیں نے بتایا تھا کہ اُن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بِالصراحت اِس کا ذکر آتا ہے کہ اگر وہ نیکی کریں گے تو ان کی نیکیاں اُنہیں دوسروں سے زیادہ ثواب کا مستحق بنائیں گی۔ لیکن اگر وہ غلطیاں کریں گے تو اُن کی غلطیاں اُنہیں دوسروں سے زیادہ سزا کا مستحق بنائیں گی۔ مَیں نے اِس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ جماعت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔ جماعت بھی لفظی صاحبزادگیوں کی طرف جاتی ہے حالانکہ لفظی صاحبزادگیوں کی بجائے ہمیں حقیقی صاحبزادگی اپنے مدنظر رکھنی چاہیے۔ گویا اُن کا طریقِ عمل بھی دوسروں کو سبق دینے والا نہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں جتنی کمزوری ہوگی ہم کو اس سے زیادہ کمزوری دکھانے کا موقع ملے گا۔ اِس لیے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر اِس طریق پر چل کر دونوں میں سے کسی کا بچاؤ نہیں ہو سکتا۔ خدا سے عہد باندھ کر اُسے توڑ دینا ایسی چیز نہیں جو معاف کی جاسکے۔ یہ اِس دنیا میں بھی اُن کو ذلیل کر دے گی اور اگلے جہان میں بھی اُن کو ذلیل کرے گی۔
میرے اُس خطبہ کے جواب میں ہمارے خاندان کے دو نوجوانوں نے مجھے لکھا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں۔ مَیں نے اُس محکمہ کے ذریعہ جو وقف کا ریکارڈ رکھتا ہے اُ نہیں جواب دیا ہے کہ پہلے اپنی شکل تو اسلام اور احمدیت والی بناؤ اور اسلام اور احمدیت پر عمل کرکے دکھاؤ۔ اگر تم اپنی شکل اسلام اور احمدیت والی نہیں بنا سکتے اور نہ اُس کی تعلیم پر عمل کرتے ہو تو تمہارا اپنے آپ کو وقف کرنا محض ایک دھوکا ہوگا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس چیز کے لیے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دفتروں کی کلرکیاں کرنے کے لیے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تجارتیں کرنے کے لیے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کارخانے قائم کرنے کے لیے آئے تھے؟ آخر کس چیز پر ہم اُن کو لگائیں؟ جب وہ قرآن اور حدیث ہی نہیں جانتے اور جب وہ اُن پر عامل ہی نہیں تو ہم اُن کو کس چیز پر لگائیں۔ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے تیار نہیں، جب اُن کا لباس اور طور طریق بھی اسلام کے مطابق نہیں تو ہم نے اُن کے وقف کو لے کر کیا کرنا ہے۔ آخر اُن کو دیکھ کر ایک چمار عیسائی کے لباس اور اُن کے لباس میں کیا فرق نظر آتا ہے۔ ایک چُوڑھا عیسائی ہوتا ہے تو وہ بھی اِسی طرح پینٹ پہن لیتا ہے۔ ایک سانسی عیسائی ہوتا ہے تو وہ بھی اِسی طرح پینٹ پہن لیتا ہے۔جب اُن کے اندر اِتنی بھی غیرت نہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُن کے دلوں میں اِتنی بھی محبت نہیں کہ وہ اپنے لباس اور طریق کو درست کر سکیں۔ اور جب اسلام کی اُن میں اِتنی بھی محبت نہیں کہ وہ قرآن اور حدیث پڑھ کر دین کی واقفیت حاصل کریں تو اُن کے وقف کے معنے ہی کیا ہیں؟ کلرک تو ہم عیسائی بھی نوکر رکھ سکتے ہیں یا تجارت کا کام بھی عیسائیوں سے کروایا جا سکتا ہے۔ جس کام پر غیرمذاہب کے لوگ نہیں رکھے جا سکتے وہ تبلیغ ہے۔ وہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہے۔ اگر واقع میں اُن کے دلوں میں اسلام اور احمدیت کی کوئی محبت ہے تو اُنہیں قرآن پڑھنا چاہیے، حدیث پڑھنی چاہیے، اپنے لباس اور طرزِ بودوباش کو درست کرنا چاہیے۔ جب تک وہ یہ کام نہیں کر سکتے اُس وقت تک اُن کا اپنے آپ کو وقف کرنا دنیا کو بھی دھوکا دینا ہے اور اپنے آپ کو بھی دھوکادینا ہے۔ دنیا کو وہ دھوکا دے سکتے ہیں لیکن اگر اپنے آپ کو بھی وہ دھوکا دیتے رہے تو اُنہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کریں گے۔ جس قسم کے حالات جماعت کو آئندہ پیش آنے والے ہیں وہ نہایت خطرناک ہیں۔
پہلے بھی مَیں نے تفصیل سے حالات نہیں بتائے تھے صرف اِجمالاً آئندہ آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تھا اور تم نے دیکھا کہ جو کچھ مَیں نے کہا تھا وہ لفظاًلفظًا پورا ہوا۔ اب مَیں اُس سے بھی زیادہ خطرناک حالات جماعت کے متعلق دیکھتا ہوں۔مَیں اُس سے بھی زیادہ مشکلات احمدیت کے راستہ میں حائل ہوتی ہوئی دیکھتا ہوں۔ احمدیت تو بہرحال غالب آئے گی لیکن احمدیت کی جنگ پندرہ بیس سال سے زیادہ نہیں چل سکتی۔ پندرہ بیس سال کے عرصہ میں یا تم غالب آ جاؤ گے یا تم تباہ کر دیئے جاؤ گے۔ اِن دونوں میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہے گی۔ مَیں "تم"کا لفظ استعمال کرتاہوں احمدیت کا لفظ استعمال نہیں کرتاکیونکہ احمدیت بہرحال غالب آئے گی۔ صرف پندرہ بیس سال کی مہلت ہے جوتمہیں دی گئی ہے۔ اِن پندرہ بیس سالوں میں سے ہر پہلا سال آئندہ آنے والے سال سے زیادہ قیمتی ہے۔ 1948ئ، 1949ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 1949ئ، 1950ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 1950ئ، 1951ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 1951ئ، 1952ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 1952ئ، 1953ء سے زیادہ قیمتی ہے۔ تم اگر یہ کہو کہ اگر مَیں نے 1948ء میں یہ کام نہیں کیا تو کیا ہوا 1949ء میں کر لیں گے تو تم کچھ نہیں کر سکو گے۔لیکن اگر تم یہ کہو 1949ء کا کام ہم 1948ء میں کر لیں تب بے شک تمہاری کامیابی قریب آسکتی ہے۔ بہرحال اِس زمانہ میں سب سے بڑا فرض اور سب سے اہم فرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولادکاہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ قادیان سے نکلنے اور نظام کے درہم برہم ہو جانے پر بجائے اِس کے کہ جماعت کے نوجوان خدمتِ دین کے لیے آگے آتے چالیس فیصدی انجمن کے کارکن بھاگ کر باہر چلے گئے۔ گویا جس وقت لوگ دنیا میں اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں اُس وقت ہماری جماعت کے نوجوانوں نے غداری اور بے ایمانی کا ثبوت دیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ وہ اپنے کام چھوڑ کر خدمت کے لیے آ جاتے وہ سلسلہ کا کام چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بُہتوں کے منہ پر یہ الفاظ ہیں کہ اگر ہم نہ جائیں تو کھائیں کہاں سے؟ مگر یہ سوال صرف تمہارے سامنے ہی نہیں بلکہ پہلی جماعتوں کے سامنے بھی یہ سوال تھا اور پھر بھی وہ دین کا کام کرتی چلی گئیں۔ پس مَیں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوال غلط اور بے معنٰی ہے تو پھر وہ کون ہے جس کو سب سے زیادہ سزا ملے گی اور وہ خدا کے سامنے ایک ذلیل چور کی حیثیت میں پیش ہوگا؟ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ایسے افراداِس دنیا میں بھی ذلیل کیے جائیں گے اور اگلے جہان میں بھی ذلیل کیے جائیں گے۔ وہ کوئی عزت اپنی تجارتوں اور اپنی نوکریوں سے حاصل نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اُن کو جو خدا نے عزت دی تھی وہ دوسروں کو نہیں دی۔ اور خدا نے اُن پر جو فضل نازل کیے تھے وہ دوسروں پر نہیں کیے۔ اِس لیے اب اللہ تعالیٰ جو قربانی اُن سے چاہتا ہے وہ بھی دوسروں سے نمایاں ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دربار میں آگے بڑھنیکا ہر ایک کو موقع دیتا ہے مگر جونہیں آتے یا آ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں وہ سب سے بڑے مجرم ہو جاتے ہیں۔ پس جن لوگوں میں بھاگنے کی روح پیدا ہو رہی ہے اُن کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں شاید تمام محکمے بند کر نے پڑیں گے اور ہمیں پھر اپنا تمام کام اُسی ابتدائی حالت پر لے جانا پڑے گا جس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تھا۔ اور شاید وہ وقت بھی آ جائے جب کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد پر اگر ان میں ایمان اور دیانت ہوئی یہ تمام بوجھ آ پڑے۔ لیکن وہ اِسی بات کی طرف متوجہ ہیں کہ دوسرے لوگ یہ کام کریں اور ہم اپنے دنیوی کاموں میں مصروف رہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسا وقت آچکا ہے کہ ہم اِس بارہ میں زیادہ سخت قدم اٹھائیں۔ اگر ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی سُست اور کوتاہ بین انسان کو اُس کے اعمال کی وجہ سے سلسلہ سے نکال دیں تویقیناً ہمیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو اختیار کرتے ہوئے جو لوگ خدمتِ دین میں حصہ نہیں لے رہے اُن کو ہم خاندان حضرت مسیح موعود میں سے نکال دیں۔ اگرہمیں عام احمدیوں کے مقاطعہ کا حق حاصل ہے تو یقیناً ہمیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں سے دین کی خدمت سے غافل ہیں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے نکال دیں۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے نکالا جاسکتا ہے تو مسیح موعودؑ کی اولاد سے کیوں نکالا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دوسرے لوگ قربانیاں کر سکتے ہیں تو مسیح موعودؑ کی اولاد کیوں قربانی نہیں کرسکتی؟ ان کی قربانیاں یقیناً دوسروں کے اندر جوش پیدا کریں گی۔ اور اگر نہیں کریں گی تو اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کے ذریعہ ایک نئی جماعت پیدا کر دے گا۔
بہرحال اُن کا یہ کام نہیں کہ وہ دین سے غافل رہیں۔ قرآن اور حدیث سے واقفیت پیدا نہ کریں اورکرنٹے 1بنے ہوئے چُوڑھے عیسائیوں کی طرح پتلونیں پہنتے پھِریں۔ اگر ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کو وقف بھی کرتے ہیں تو اُن کے وقف کے کوئی معنے نہیں ہوسکتے۔ آخر وقف کے بعد ہم اُن سے کیا کام لیں گے؟ یہی کام لیں گے کہ وہ مختلف علاقوں میں جائیں اور تبلیغ کریں۔ مگر اِس کے لیے اُنہیں سب سے پہلے اپنا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ اگر وہ یہ کام نہیں کر سکتے، اگر وہ اِس اہم امر کی طرف توجہ نہیں کر سکتے تو اُنہوں نے کرنا کیا ہے؟ کیا ہم نے اُن کا مربّہ اور اچار ڈالنا ہے یا ہم نے اُن کی چٹنیاں ڈالنی ہیں؟ یہی کام ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں مبعوث ہوئے تھے کہ اسلام اور احمدیت کو پھیلایا جائے۔ اگر اُن کے دلوں میں قرآن اور حدیث پڑھنے کا شوق نہیں، اگر اُن کے دلوں میں قرآن اور حدیث کا درس دینے کا شوق نہیں تو کیا کام ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں؟ اور کس غرض کے لیے وہ اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں؟ جو کام وہ اِس وقت کر رہے ہیں اُس کے لیے تو ایک ہندو اور عیسائی بھی نوکر رکھا جاسکتا ہے۔ پس پہلے اُنہیں اپنے اندر دین پیدا کرنا چاہیے، پہلے اپنی نمازیں درست کرنی چاہییں، پہلے قرآن اور حدیث پڑھنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے اُس کے بعد اُنہیں دین کی تبلیغ کے لیے نکل جانا چاہیے۔ جیسے پرانے زمانہ میں صوفیاء باہر نکلے اورمُلکوں کے ملک انہوں نے اسلام میں داخل کر لیے۔ یہی ملک جس میں سے آج چھپن لاکھ مسلمان اِس طرح بھاگا ہے کہ چند دنوں میں ہی سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ اِس ملک میں حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتیؒ آئے اور سارا ملک اُنہوں نے مسلمان بنا لیا۔ آخر وہ کیا چیز تھی جو خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ کو حاصل تھی؟ وہ کیا چیز تھی جس نے حضرت باوانانکؒ کو حضرت فریدالدین صاحب شکر گنج ؒوالوں کے دروازہ پر لا کر ڈال دیا۔ اگر فریدالدین صاحب شکر گنج ؒ والے اپنے عمل اور طریق سے باوانانکؒ کی آنکھوں کو نیچا کر سکتے تھے تو اگر اِس زمانہ کا مسلمان بھی فریدالدین بن جائے تو کیوں وہ سکھ کی آنکھ کو نیچا نہیں کر سکتا۔ یقیناً وہ ایسا کر سکتا ہے۔ مگر اِس کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کو پڑھا جائے، قرآن اور حدیث پر عمل کیا جائے اورقرآن اور حدیث کی تعلیم کو پھیلایا جائے۔ اگر اِس کام کے لیے ہم تیار ہیں تو یقیناً ابتلاؤں پر ہم غالب آ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم اِس کے لیے تیار نہیں تو ابتلاء ہم پر غالب آ جائیں گے۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے افراد کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنی اصلاح کر لیں تو وہ دُہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اگر اُنہوں نے اصلاح نہ کی تو جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے وہ دُہرے عذاب کے مستحق ہوں گے۔ بہرحال خدا تعالیٰ کی طرف سے جب تک سلسلہ کی یہ حیثیت قائم ہے جب بھی کوئی آواز بلند ہوگی اُس آواز کا پہلا مخاطب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان ہو گا۔ اور اُن کا فرض ہو گا کہ وہ قرآن پڑھیں، حدیث پڑھیں اور مختلف ملکوں میں تبلیغ کے لیے نکل جائیں تا پھر مسلمان ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اسلام کی عظمت کا موجب بنیں۔ جو اِفتراق اورشِقاق اِس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے وہ اِس قدر بڑھا ہوا ہے کہ ہر مسلمان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی فکر میں ہے۔ کہیں مذہبی اختلاف کو آپس کے افتراق کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں سیاسی اختلافات کو آپس کے افتراق کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ اِس تباہی اور بربادی کا سوائے اِس کے اور کوئی علاج نہیں کہ پھر مسلمان احمدیت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں اور پھر کفر پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دیا جائے ۔اور یقیناً ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ خیال کہ ہم تھوڑے ہیں اور دشمن زیادہ ہے بالکل غلط ہے۔ ہندوستان کے نو کروڑ مسلمان جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اگر اُن کا چوتھا حصہ یعنی سَوا دو کروڑ مسلمان بھی ایک ہاتھ پر جمع ہو جائے تو نہ صرف ہندوستان کے تیس کروڑ غیرمسلموں پر بلکہ چین اور جاپان پر بھی جس کی آبادی شامل کر کے ایک ارب تک پہنچ جاتی ہے ہمیں غلبہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ہم اِس سے گھبرانے والے نہیں کہ ہم تھوڑے ہیں اور دشمن زیادہ ہے۔ روحانیت میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہے۔بے شک مادی اور ظاہری سامانوں میں بھی طاقت ہوتی ہے مگر مادی اور ظاہری سامان صرف جسم فتح کرتے ہیں اور روحانی طاقت دشمن کے اُس مقام پر حملہ کرتی ہے جہاں اُس کا بچاؤ بالکل ناممکن ہوتا ہے۔ اگر اسلام کا صحیح نمونہ پیش کیا جائے اور والہانہ طور پر اِس کی تبلیغ اور اشاعت کی جائے تو وہی لوگ جو آج ہمارے دشمن اور ہمارے مقابل میں لڑ رہے ہیں کل ہمارے ساتھ شامل ہو کر اسلام کی طرف سے کفر کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو خانہ کعبہ کے پجاری بھی بظاہر مسلمان ہو گئے۔ اُس وقت کا ایک پجاری کہتا ہے کہ میرے خاندان کے بہت سے آدمی چونکہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اِس لیے گو مَیں بظاہر مسلمان ہو گیا مگر مَیں نے اپنے دل میں قسم کھائی کہ جب بھی مجھے موقع ملا مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اپنے خاندان کے افرادکا بدلہ لوں گا۔ اِس کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اُس کی اِس خواہش کے پورا ہونے کا ذریعہ بھی نکل آیا۔ طائف والوں سے جنگ ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ طائف کا مقابلہ کرنے کے لیے صحابہ کو لے کر چل پڑے۔ اُس وقت یہ شخص بھی جو آپ کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا لشکر میں شامل ہو گیا۔ اُس کا اپنا بیان ہے کہ مَیں نے سمجھا میرے لیے یہ بہت ہی عمدہ موقع پیدا ہو گیا ہے۔ اگر لڑائی میں کوئی ایسا موقع آیا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم اکیلے ہوئے تو مَیں انہیں مار ڈالوں گا۔ اِس لیے مَیں آپ کے قریب قریب رہتا تھا۔ آخر ایسے سامان بھی پیدا ہو گئے کہ اُسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔ اسلامی لشکر جب آگے بڑھا تو دشمن نے کمین گاہوں سے تیر برسانے شروع کر دیئے۔ مکہ کے حدیثُ العہد اور نئے نئے مسلمان جن میں بعض کافر بھی شامل تھے اور جو بڑے تکبر سے آگے آگے چل رہے تھے۔ جب اُن پر تیروں کی بوچھاڑ پڑی تو وہ بے تحاشا پیچھے کی طرف بھاگے۔ اُن کے بھاگنے اور سواریوں کے بدکنے کی وجہ سے باقی لشکر میں بھی بھاگڑ 2مچ گئی اور سب لشکر میدان سے بھاگ نکلا۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے چاہا کہ رسول کریم صلی علیہ وسلم کو واپس لَوٹائیں۔ چنانچہ اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی باگ پکڑ لی اور کہا یارسولَ اللہ! اب ہمیںلَوٹنا چاہیے تاکہ ہم لشکر کو جمع کر کے پھر حملہ کریں۔ اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا چھوڑ دو میری سواری کی باگ کو۔ اور حضرت عباسؓ کو بلا کر کہا عباس! آواز دو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت مہاجرین کا نام نہیں لیا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مہاجرین کی سفارشوں پر ہی کفارِ مکہ کو ساتھ لیا گیا تھا چونکہ وہ مہاجرین کے رشتہ دار تھے۔ اُنہوں نے سفارش کی کہ اُن کو بھی ساتھ لیا جائے اورا نہیں خدمت کا موقع دیا جائے۔ چونکہ اُن کی سفارش کی وجہ سے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچا تھا اِس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خفگی کا اِس نہایت ہی لطیف پیرایہ میں اظہار کیا کہ مہاجرین کا نام نہیںلیا۔ بلکہ صرف یہ فرمایا کہ اے انصار! اللہ کا رسول تم کو بلاتا ہے۔مہاجرین بعض دوسرے الفاظ میں بے شک شریک ہو جاتے تھے مگر علیحدہ طور پر آپ نے اُن کا نام نہیں لیا۔ مثلاً بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ آپ نے فرمایا اے بیعتِ رضوان والے لوگو! اور بیعتِ رضوان میں مہاجرین شامل تھے۔ بہرحال اِس عرصہ میں دشمن نے اَور حملہ کیا اور ایک وقت ایسا بھی آ گیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ جنگ میں اکیلے رہ گئے۔ اُس وقت صرف ایک صحابی ابوسفیانؓ 3 آپ کے پاس تھے یا وہ شخص تھا جو آپ کو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ وہ کہتا ہے جب مَیں نے دیکھا کہ آپ اکیلے ہیں تو مَیں نے سمجھ لیا کہ اب میرے لیے عمدہ موقع آ گیا ہے۔ مَیں آگے بڑھا اِس نیت اور اِس ارادہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مار دوں۔ جب میں آگے بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ آپ نے فرمایا آگے آ جاؤ۔ مَیں اَور آگے چلا گیا۔ جب مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ لمبا کیا۔ میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا! تُو اس کے دل سے سارا کینہ اور بُغض نکال دے۔ وہ کہتا ہے رسول کریم صلی علیہ وسلم کے ہاتھ کا میرے سینہ پر سے ہٹنا تھا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ دنیا کی ساری محبت میرے دل میں سمٹ آئی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اِتنے پیارے معلوم ہونے لگے کہ اُن سے زیادہ پیارا مجھے دنیا میں اَور کوئی وجود نظرنہیں آتا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ وہ کہتا ہے اُس وقت یہ بات میرے واہمہ اور خیال میں بھی نہ رہی کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لیے آیا تھا بلکہ اُس کی بجائے آپ کی محبت کا اِس قدر جوش میرے دل میں پیدا ہوا کہ خدا کی قسم! اگر اُس وقت جو بھی میرے سامنے آتا مَیں فوراً اُس کی گردن کاٹ دیتا۔ 4 اسی واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جب کسی انسان میں تغیر پیدا ہوتا ہے تو اُس کی حالت کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ وہ ایک معمولی آدمی تھا۔ وہ کفر کی حالت میں نکلا اور اِس ارادہ کے ساتھ نکلا کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھِر جانے کی وجہ سے اُس میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا کہ وہ آپؐ کی خاطر ہر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے اندر اِتنا تو تغیر پیدا کریں جتنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھِر جانے کی وجہ سے اُس انسان میں پیدا ہوا۔
غرض مَیں جماعت کو عموماً اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو خصوصاً اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لیے تیار کریں۔ دشمن اپنا سارا زور اسلام کے مٹانے کے لیے لگائے گا۔ بے شک جہاں تک احمدیت کا سوال ہے خدا اِس کا محافظ ہے۔ مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا یہ کام کرنا چاہتا ہے تو ہم اُس کے ہتھیار بن کر زیادہ سے زیادہ برکات اور ثواب حاصل کریں۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ فضل اِسی طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ ہم قرآن ا و رحدیث پڑھیں، ہم قرآن اور حدیث پر عمل کریں اور قرآن اور حدیث پر عمل کرائیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ جس طرح پرانے زمانے میں حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ اور دوسرے اولیاء بغیر ڈر کے دشمن میں گھس گئے اور اُنہوں نے اسلام پھیلا دیا۔ اُسی طرح اب بھی لوگ بغیر کسی ڈر کے اسلام کی تبلیغ کے لیے نکل جائیں اور اِس امر کی پروا تک نہ کریں کہ دشمن اُن سے کیا سلوک کرے گا۔ اور یقیناً جو لوگ اِس نیت اور ارادہ سے نکلیں گے کہ وہ اِس قابل ہوں گے کہ بڑے سے بڑے دشمنوں کے دلوں کو بھی پھِرا دیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اُس کافر کے دل کو بدل دیا۔ آخر خدا کے کام معجزانہ ہی ہوتے ہیں۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کیونکر ہو گا؟ جو کام خدا کے ہوتے ہیں اُن میں "کیونکر"اور"کس طرح"کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا تم کو پتہ ہے کہ دنیا کیونکر پیدا ہوئی؟ کیا تم کو پتہ ہے کہ کائنات کیونکر بنی؟ نہ تم کو یہ پتہ ہے کہ دنیا کیونکر پیدا ہوئی اور نہ تم کو یہ پتہ ہے کہ کائنات کیونکر بنی۔ فلاسفر آج تک بحثیں کرتے رہے مگر وہ اِن امور کو حل نہ کر سکے۔ تمہارے سامنے دنیا موجود ہے۔ تم بتاؤ تو سہی کہ ستارے کہاں ختم ہوتے ہیں؟ پھر اُس کے بعد کیا ہے؟ اگر کہو کہ یہ سلسلہ غیرمحدود ہے تو غیرمحدود ایک ایسی اصطلاح ہے جو کسی انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی؟ جس طرح وہ یہ باور نہیں کرسکتا کہ کوئی چیز محدود ہو اور اُس کے بعد کچھ نہ ہو۔ جس طرح انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ دنیا ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اِسی طرح وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ پہلے کچھ نہ ہو اور پھر دنیا کا سلسلہ قائم ہواہو۔ بیوقوف اور جاہل بے شک اِن باتوں کو مان لیتے ہیں مگر جو لوگ عقلمند ہوتے ہیں وہ صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پھر بعض لوگ اِس سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں۔اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تو ہے مگر اُس کی باتیں انسانی سمجھ سے بالا ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ کے تمام کام "کیوں"اور "کیونکر" "اور "کس طرح"سے بالا ہوتے ہیں۔ اگر تم ہر بات کو "کیوں" اور "کس طرح" سے حل کرنے لگے تو تمہیں پہلے اپنا انکار کرنا پڑے گا۔ تمہیں ستاروں کا انکار کرنا پڑے گا، تمہیں دنیا کا انکار کرنا پڑے گا۔ جب خدا دنیا میںایک نئی جماعت قائم کرنا چاہتا ہے تو باوجود مخالف حالات کے وہ کس طرح غالب آجاتی ہے؟ اسے نہ تم سمجھ سکتے ہو اور نہ کوئی اَور سمجھ سکتا ہے۔ مگر دنیا میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے اس "کیونکر" اور "کس طرح" کے سوال کے ہوتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر غالب آگئے۔ اس "کیونکر"اور "کس طرح"کے سوال کے ہوتے ہوئے حضرت موسٰیؑ اپنے مخالفین پر غالب آ گئے۔ "کیونکر" اور" کس طرح" کے سوال ہوتے ہی رہے اورنوحؑ اپنے مخالفین پر غالب آگئے۔ اب بھی دنیا "کیونکر" اور"کس طرح "ہی کہتی رہے گی اور سچا احمدی پھر دنیا پر اسلام کو غالب کرے گا۔ پھر دنیا کی مایوسی اور ناامیدی کے باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دے گا۔ مگر پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اپنے دلوں پر قائم کرو۔ تمہارے دلوں پر قائم ہونے کے بعد ہی وہ دنیا میں قائم ہو سکتی ہے"۔ (الفضل 7؍اپریل1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
کرنٹے:عیسائی۔
2
:
بھاگڑ:بھگدڑ
3
:
ابو سفیانؓ: ابو سفیانؓ بن الحارث بن عبدالمطلب
4
:
سیرت ابن ہشام جلد 4صفحہ87مطبوعہ مصر 1936ء


ہم پُھولوں کی سیج پر چل کر دلوں کو فتح نہیں کرسکتے
(فرمودہ13فروری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیںنے گزشتہ دو خطبوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی تھی۔ صرف پچھلے خطبہ میں اِس موضوع کے متعلق مَیں کچھ نہیں کہہ سکا کیونکہ میری طبیعت نزلہ اور کھانسی کی وجہ سے خراب تھی۔ اِس کے بعد بھی طبیعت برابر خراب رہی بلکہ پچھلے چند دنوں میں تو میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی لیکن رات کو یکدم افاقہ ہو گیا اَور مَیں اِس قابل ہو گیا کہ آج جمعہ کے خطبہ کے لیے آ سکوں۔ کھانسی تو اب بھی ہے اَور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں بیماری کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ اس لیے کمزوری اَور نقاہت اب تک پائی جاتی ہے لیکن بہرحال پہلے جیسی حالت نہیں۔
مَیں نے گزشتہ دو خطبوں میں جیسا کہ مَیں ذکر کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان تو انسانوں میں سے ہے اور باقی انسان نہیں یا وہ تو احمدی ہیں اور باقی احمدی نہیں۔ بلکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور باقی بھی انسان ہیں، وہ بھی احمدی ہیں اور باقی بھی احمدی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ مَیں نے اُن کو خاص طور پر کیوں مخاطب کیا؟ ہمارے مُلک میں پنجابی کی ایک مثل مشہور ہے جسے عام طور پر عورتیں استعمال کیاکرتی ہیں اَور وہ مثل یہ ہے کہ:
دھی اے نی میں گل کراں۔ نونہہ ایں نی تُو کن دھر
بہو ایک غیر گھر سے آئی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر بہو کو کوئی نصیحت کی جائے تو وہ بُرا مناتی اور یہ خیال کرتی ہے کہ مَیں چونکہ غیر گھر کی تھی اِس لیے مجھے ایسے کہا گیا ہے۔ اِسی لیے جو بے وقوف ساس ہوتی ہے وہ تو بہو کو مخاطب کرتی ہے لیکن جو عقلمند ساس ہوتی ہے وہ بیٹی کو مخاطب کرتی ہے۔ اِس طرح بیٹی تو بُرا نہیں مناتی کیونکہ وہ اپنی ہوتی ہے اور بہو بھی بُرا نہیں مناتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ بات بیٹی کو کہی گئی ہے۔ اگر مَیں نے بھی یہ بات سُن لی تو کیا ہوا۔ اِس طرح فساد اور اختلاف سے بچاؤ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بات بھی کہی جاتی ہے اور فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔
اِس مثل کے ماتحت مَیں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو مخاطب کیا ہے لیکن ساری جماعت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھی میری مخاطب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو اگر مَیں نے مخاطب کیا ہے تو اِس لیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا مجھ پر دُہرا حق ہے۔ ایک رشتہ داری کا اور دوسرا احمدیت کا۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 1یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تُو دنیا کو ڈرا اَور اُسے بیدار اور ہوشیار کر۔ مگر پہلے اپنے رشتہ داروں اور قریبیوں کو ڈرا کیونکہ اُن کا تجھ پر دُہرا حق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رشتے داریاں دنیا میں بڑا اثر رکھتی ہیں اور تاریخ میں اِس کے اثرات کی بعض حیرت انگیز مثالیںہمیں ملتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب تبلیغ شروع کی اور کفار نے انتہائی طور پر ہر رنگ میں اپنا اثر استعمال کر لیا اور کسی طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم اور حق کے اعلان کو نہ چھوڑا تو مکہ کے لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور اُنہیں کہا کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجیے۔ ورنہ ہم مجبور ہو جائیں گے کہ اُس کے ساتھ آپ کا بائیکاٹ کردیں۔ حضرت ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور اُن سے کہا اے میرے بھتیجے! آج تک مَیں نے تیرا ساتھ دیا ہے مگر آج میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور اُنہوں نے کہا ہے کہ ابوطالب ہم تیرا بہت لحاظ کرتے رہے ہیں مگر آج ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر تُومحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو نہیں چھوڑے گا اور اُس کی حمایت بدستور کرتا چلا جائے گا تو ہم تیری سرداری سے بھی انکار کر دیں گے۔ ابوطالب ایک غریب آدمی تھے مگر وہ سارا وقت اپنی قوم کی خدمت میں لگاتے تھے اِس لیے اُن کی ساری جائیداد ہی قوم کی محبت تھی۔ دنیا میں کچھ لوگ کمانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کمانے والے اپنا بدلہ روپیہ کی صورت میں لے لیتے ہیں مگر خدمت کرنے والے اپنا بدلہ قوم کی محبت کی صورت میں لیتے ہیں۔ ابوطالب چونکہ دن رات اپنی قوم کی خدمت میں مصروف رہتے تھے اِس لیے اُن کی ساری کمائی ہی یہی تھی کہ وہ قوم کی خدمت کرتے تھے اور قوم اُنہیں سلام کرتی تھی۔ اس لیے جب قوم کی طرف سے اُنہیں یہ نوٹس ملا توانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے! میری قوم آج کہہ رہی ہے کہ اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نہیں چھوڑ سکتا تو پھر ہم بھی تجھ کو چھوڑ دیں گے۔ اُس وقت یہ خیال کر کے کہ ساری عمر مَیں نے اپنی قوم کی خدمت میں لگا دی تھی مگرآج بڑھاپے میں آ کر وہی قوم مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ حضرت ابوطالب پر رقت طاری ہوئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ دیکھ کر کہ میرے چچا باوجود اِس کے کہ مسلمان نہیں ہمیشہ میری خدمت کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ انہوں نے میری تائید کی ہے اور اب میری خدمت اور میری تائید کی وجہ سے ان کی ایک ہی قیمتی دولت جو اِن کے پاس تھی یعنی قوم میں عزت وہ کھوئی جانے لگی ہے رقّت طاری ہو گئی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اے چچا! جوپیغام مَیں لایا ہوں وہ خدا نے میرے سپرد کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی کے کہنے پر مَیں اُسے چھوڑ دوں۔ اے میرے چچا! مَیں جانتا ہوں کہ خدا ایک ہے لیکن مَیں اپنی قوم کی خاطر یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا ایک نہیں۔ اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دے اور اِتنا بڑا نشان دکھائے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اور پھر کہے کہ اب بھی یہ مان جاؤ کہ دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک نہیں تب بھی مَیں ایسا نہیں کرسکتا۔اے میرے چچا! مَیں آپ سے بھی یہ امید نہیں کرتا کہ آپ میری خاطر اتنی بڑی قربانی کریں۔ آپ نے جو خدمت کی ہے مَیں اُس کا ممنون ہوں لیکن آئندہ کے لیے مَیں یہ بوجھ آپ پر ڈالنا نہیں چاہتا۔ آپ بے شک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم سے کہہ دیں کہ مَیں نے اپنے بھتیجے کو چھوڑ دیا ہے اور اب مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور یقین کے ساتھ یہ حیرت انگیز محبت ایک طرف تھی اور دوسری طرف وہ محبت کھڑی دیکھ رہی تھی جو ابوطالب کو اپنے بھتیجے کے ساتھ تھی۔ ابوطالب اُس وقت اِن دو محبتوں کے درمیان آ گئے۔ ایک طرف اُن کا بیٹا تھا۔ یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کے بھتیجے تھے مگر ابوطالب نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر آپ سے محبت کی اور اپنے بیٹوں سے زیادہ غوروپرداخت کے ساتھ آپ کو پالا۔پس ایک طرف وہ محبت کھڑی تھی جو ابوطالب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور دوسری طرف بھتیجے کا یہ یقین اور ایمان تھا کہ مَیں نے جس صداقت کو قبول کیا ہے مَیں اُسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اُن کی ایک آنکھ کے سامنے بیک وقت یہ دو محبتیں آکر کھڑی ہو گئیں اور دوسری آنکھ کے سامنے اُن کے باپ عبدالمطلب کی روح آکرکھڑی ہو گئی جنہوں نے مرتے وقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ابوطالب کے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے دیا تھا کہ ابوطالب! اِس کا باپ فوت ہو گیا ہے، اِس کی ماں بھی فوت ہو گئی ہے۔ مَیں نے اِس کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھ کر پالا ہے۔ اَب مَیں مرنے لگا ہوں اور مجھ کو تجھ پر اعتبار ہے کہ تو اِس کام میںسُستی اور کوتاہی نہیں کرے گا۔ مَیں اپنی سب سے زیادہ قیمتی امانت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ غرض باپ کی روح ایک طرف کھڑی تھی اور صداقت کے فدائی اور سچائی پر جان دینے والے بیٹے کی روح دوسری طرف کھڑی تھی۔ باوجود اسلام نہ لانے کے ابوطالب ان دو محبتوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور اُنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا اے میرے بیٹے! جاؤ اور جس چیز کو سچا سمجھتے ہو اُس کو پھیلاؤ۔ قوم کا مذہب تو مَیں چھوڑ نہیں سکتا لیکن اگر تیری خاطر قوم مجھے چھوڑ دے تو مَیں تیرے لیے یہ قربانی بھی کروں گا اور ہمیشہ تیرا ساتھ دوں گا۔2 تب قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ بنوہاشم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اِس اعلان پر بنوہاشم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ایک وادی میں جو ابوطالب کی ملکیت میں تھی چلے گئے۔ وادی سے مُراد کوئی سرسبز و شاداب مربع یا وسیع زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ مکہ میں بے پانی اَور بے سبزی کے وادیاں ہوا کرتی ہیں۔ گویا بے آب و گیاہ زمین کے کچھ ٹکڑے ہوتے ہیں لیکن چونکہ اُن میں کوئی کوئی جھاڑی بھی پائی جاتی ہے جس میں اونٹ وغیرہ چر لیتے ہیں اِس لیے اُنہیں وادی کہہ دیا جاتا ہے۔ مکہ کے پاس ایک ایسی ہی وادی ابوطالب کی تھی۔ ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اور اُن چند مسلمانوں کو لے کر جو اُس وقت مکہ میں تھے اُس وادی میں چلے گئے۔ جب وہ اُس وادی میں گئے تو وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر بعض دفعہ گالیاں دیا کرتے تھے، وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے میں خوشی محسوس کرتے تھے، وہ ہاشمی دشمن جو ابوجہل کو اُکسا اُکسا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچایا کرتے تھے۔ وہ بھی قومی عصبیت اور رشتہ داری کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اُس وادی میں محصور ہو گئے۔ یہاں تک کہ وہ شدید ترین دشمن جس کا قرآن کریم میں بھی اُس کے ظلموں اور بداعمال کی وجہ سے ابولہب نام آتا ہے وہ بھی اپنے دوستوں اور ہمنوا لوگوں کو چھوڑ کر اُس جگہ چلا گیا اور اُن سب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ تو رشتہ داری ایک اثر رکھتی ہے اور خونی تعلق کبھی کبھی ایسی قربانیاں بھی کروا لیتا ہے جو دوسرے حالات میں ناممکن نظر آتی ہیں۔ چنانچہ وہی شخص جس کو ابولہب کہتے ہیں (اُس کا نام ابولہب نہیں تھا) اَور جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے 3ابولہب ہلاک ہو گیا اور اُس کی طاقت توڑ دی گئی۔ جب ابوطالب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی ابی طالب میں پناہ گزیں ہوئے تو اِسی ابولہب نے کہا کہ مَیں بھی اب مکہ میں نہیں رہ سکتا۔ جہاں یہ لوگ رہیں گے وہیں مَیں بھی رہوں گا۔ حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھا بلکہ شدید ترین دشمنِ اسلام تھا مگر رشتہ داری کی وجہ سے اُس نے ایسا کیا۔ تو رشتہ داریاں فائدہ بھی دیتی ہیں اور رشتہ داریاں کبھی کبھار کام بھی آجایا کرتی ہیں۔ اِس لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تُو دنیا کے کونے کونے کے لوگوں کو ڈرالیکن پہلے اپنے عزیزوں کو ڈرا۔ اِس لیے کہ اُن کا تجھ پر دُہرا حق ہے۔ ایک حق تو یہ ہے کہ باقی دنیا کی طرح یہ بھی تباہ ہو رہے ہیں اور ایک حق یہ ہے کہ یہ تیرے رشتہ دار ہیں اور ان کے باپ دادوں نے تیرے ساتھ کبھی حُسن سلوک کیا تھا۔ چنانچہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو ڈرایا۔ کچھ لوگ اُن میں سے ہدایت پاگئے اور کچھ گمراہ ہی رہے۔
پس مَیں کے حکم کے ماتحت بھی اَور حقِّ رشتہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اُن کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مامور کیا ہوا کرتے ہیں اور اُن پر ایمان لانے کے بعد انسان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر ایک مامور کے گھر میں پیدا ہونے کے بعد اُن کو اِتنا بھی پتہ نہیں کہ مامور کیا ہوتا ہے یا مامور کی جماعت کیسی ہوتی ہے تو اُن سے زیادہ نابینا اور کورچشم اَور کون ہو سکتا ہے۔ ایک انگلستان کا آدمی اگر یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا آم کیا چیز ہوتی ہے، اگر امریکہ کا ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا کمرخ4(کمرکھ) کیا چیز ہوتی ہے تو ہم اُسے معذور خیال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک ہندوستانی یہ کہے کہ مَیں نہیں جانتا کہ آم کیا چیز ہوتی ہے تو تم اُسے کتنا ذلیل اور کتنا حقیر خیال کر و گے۔ تم اُسے پاگل سمجھو گے یا اُس کے متعلق یہ کہو گے کہ یہ شخص دنیا میں کسی مصرف کا نہیں اور اس نے دنیا میں رہ کر کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اگر کوئی غیر یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا مامور کی کیا ضرورت ہوتی ہے، اگر کوئی غیر یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا مامور کس چیز کی قربانی کا مطالبہ کیا کرتے ہیں، اگر کوئی غیر یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا مامور کی جماعت کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، اگر کوئی غیر یہ کہتا ہے کہ مَیں نہیں جانتا مامور کو قبول کر کے انسان کو کیا قربانی کرنی پڑتی ہے۔ تو اگر ایسا کہنے والا احمدی ہے تب بھی اُس پر افسوس ہے اور اگر ایک شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی طرف منسوب ہے یہ بات کہتا ہے تو وہ ایک نہایت ہی حقیر اور ذلیل انسان ہے کیونکہ اُس نے اپنی ذمہ داری کے سمجھنے میں سخت کوتاہی سے کام لیا ہے۔
یاد رکھو زمانے بدلتے ہیں اور زمانوں کے ماتحت حالات بھی بدلتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آ پ اچھی سے اچھی غذا بھی کھا لیتے تھے۔ مگر یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فاقے بھی کیے اور بعض دفعہ اتنے لمبے فاقے کیے کہ آپ کو اپنا پیٹ باندھنا پڑا۔ جس واقعہ کی وجہ سے غلطی سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے حالانکہ یہ عربی کا محاورہ ہے۔ عربی میں جب کوئی فاقہ زدہ انسان اپنا پیٹ کَس کر باندھ لے مثلاً پٹکا باندھ لے تا کہ پیٹ ہلے نہیں تو کہتے ہیں اُس نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیے ہیں۔ مگر چونکہ ہندوستانی عربی نہیں جانتا اُس نے پتھر کا لفظ دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بُھوک کی شدّت کے وقت واقع میں پتھر اُٹھا کر باندھ لیے تھے۔ حالانکہ عقلاً بھی کمزور انسان بوجھ کم اُٹھا سکتا ہے زیادہ نہیں اُٹھا سکتا۔ بہرحال ہمارے ملک میں جو بعض دفعہ پٹکا باندھ لیتے ہیں عرب اُسے پتھر باندھنا کہتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں مَیں نے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا ہے اور اِس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مَیں نے صبر کیا۔ اِسی طرح کا یہ محاورہ ہے۔ اگر اُردو میں کوئی شخص یہ محاورہ استعمال کرے اور کہے کہ جب مصیبت آئی تو مَیں نے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا اور انگریزی میں اِس کا ترجمہ ِاس طرح کیا جائے کہ جب مجھ پر مصیبت آئی تو مَیں نے دِل پر پتھر رکھ کر پٹی باندھ لی تو کیسی ہنسی کی بات ہو گی۔ اِسی طرح جب ایک عرب پڑھتا ہے کہ فلاں ہندوستانی یہ کہہ رہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے تو وہ ہنستا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پتھر باندھنے کے معنے صرف اِتنے ہیں کہ پٹکا باندھ لیا۔ یہ نہیں کہ پتھر باندھ لیے۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اپنے پیٹ پر پٹکا بھی باندھنا پڑا۔5 اور کبھی اچھی غذائیں بھی آپ نے کھائیں۔
ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ دسترخوان پر گوشت پکا ہوا آیا جس میں کدو پڑا ہوا تھا۔ تو آپ اپنے ہاتھ سے کدو کے قتلے تلاش کر کر کے کھاتے تھے کیونکہ وہ آپ کو بہت مرغوب تھا6 مگر پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ کو کھانا نصیب نہ ہوا۔ وہ شخص احمق ہے جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ گوشت کیوں کھایا۔ وہ شخص احمق ہے جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ شہد کے شربت کیوں پئے۔ وہ شخص احمق ہے جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی غذائیں کیوں کھائیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاقے بھی کیے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر پٹکے بھی باندھے۔ ایسے دن بھی تو آپؐ پر آئے کہ ایک فقیر عورت آپ کے گھر میں مانگنے کے لیے آئی تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ اُس دن ہمارے گھر میں اپنے کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آخر سارے گھر میں تلاش کرنے پر صرف ایک کھجور ملی اور وہ مَیں نے اُس عورت کو دے دی۔ اُس عورت نے وہ کھجور اپنے منہ میں رکھ کر اُس کے دو ٹکڑے کیے۔ اُس کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔اُس نے آدھا ٹکڑا ایک بچی کو اور آدھا ٹکڑا دوسری بچی کو دے دیا۔ حضرت عائشہؓ اِس سے بڑی متأثر ہوئیں اور اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا یارسول اللہ! وہ بڑی بھُوکی تھی مگر ہمارے گھر میں بھی کچھ نہ تھا۔ صرف ایک کھجور ملی جو مَیں نے اُس کو دے دی۔ مگر یارسول اللہ! وہ کھجور بھی اُس نے خود نہیں کھائی بلکہ اُس کے دو ٹکڑے کر کے اُس نے ایک ٹکڑا اپنی ایک بیٹی کو دے دیا اور دوسرا ٹکڑا دوسری بیٹی کو دے دیا۔ آپؐ نے فرمایا عائشہ! اگر کسی کے گھر میں دو لڑکیاں ہوں اَور وہ اُن کی اچھی پرورش کرے تو خدا اُس کے لیے جنت واجب کر دیتا ہے۔7 غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دن بھی تو آئے جب آپ کو فاقے کرنے پڑے۔ مگر کیا جب فاقہ کے دن آئے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خدا سے یہ کہا کہ مجھے فاقے کیوں آ رہے ہیں؟ جو شخص فاقہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے کیوں فاقہ آیا ہے وہ مستحق ہے اِس بات کا کہ دنیا کی ہر نعمت اُس کو دی جائے کیونکہ وہ ہر حالت پر خوش ہے۔وہ اپنے آقا سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگتا۔ جب دینے والا کچھ دے دیتا ہے تو وہ لے لیتا اور استعمال کرتا ہے۔ اور جب نہیں دیتا تو اُس کی زبان پر کوئی شکوہ نہیں آتا۔
لوگ ملازمت تلاش کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دریافت کرتے ہیں کہ بتائیے ہمارا گریڈ کیا ہو گا۔ جب بتایا جاتا ہے کہ فلاں گریڈ ہو گا اور مثلاً دو سو سے تین سو تک تنخواہ ہو گی تو و ہ پوچھتے ہیں کہ کیا اِسی پر ملازمت ختم ہو جائے گی یا اَور بھی ترقی ملے گی؟ اِس پر اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد تمہیں فلاں گریڈ دیا جائے گا جس میں چھ سَو تک تنخواہ جاتی ہے۔ مگر کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کوئی مطالبہ کیا تھا؟ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آئی تھی کہ اُٹھ اور دنیا کی خدمت کے لیے کھڑا ہو تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھا تھا کہ میرا کیا گریڈ ہو گا؟ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھا تھا کہ مجھے کیا ملے گا؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک ہی بات جانتے تھے کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ کھڑا ہو جا اور وہ کھڑے ہو گئے۔ اگر خدا نے اُنہیں کچھ کھلایا تو اُنھوں نے کہا یہ کھانا میرے ربّ کی نعمت ہے۔ اور اگر نہیں کھلایا تب بھی اُنہوں نے کہا کہ یہ فاقہ میرے ربّ کی نعمت ہے۔ ہزاروں ہزار بلکہ لاکھوں لاکھ اشرفیاں لوگوں کے گھروں میں بھری ہوئی ہوتی ہیں مگر اُن کے دلوں میں کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم پر خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اِس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے ساتھ احسان مندی کے جذبات کچھ اِس قسم کے تھے کہ آسمان سے بارش برستی تو وہ زمیندار جس کی کھیتیاں اُس بارش سے تیار ہوتیں خاموشی کے ساتھ گزر جاتا۔ اُسے پانی جمع کرتے ہوئے کبھی خیال بھی نہ آتا کہ یہ کہاں سے آگیا ہے۔ وہ شہر جن میں کنویں نہیں ہوتے اور جہاں کے رہنے والے بارش ہونے پر تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں تاکہ سال بھر اُن کی ضروریات پوری ہوتی رہیں وہ بھی اپنے لیے اور اپنے جانوروں کے لیے پانی جمع کرتے ہیں مگر اُن کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ اُن کے ربّ نے اُن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے نہ تالاب تھے نہ کھیتیاں تھیں نہ جانور تھے بارش آتی تو آپ کمرہ سے نکل کر باہر صحن میں آ جاتے۔ اپنی زبان باہر نکال دیتے اور جب اُس پر پانی کا قطرہ گرتا تو آپ فرماتے میرے ربّ کا تازہ احسان ہے۔8 جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کے احسانات کی یہ عظمت ہو، جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کے احسانات کی یہ قدر ہو اُس کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ اگر اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتیں ملتی ہیں اور وہ اُن نعمتوں کو کھاتا ہے تو اُن نعمتوں کے کھانے پر اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے تو وہ کافر ہے بغیر اِس کے کہ وہ خدا کا انکار کرے۔ کیونکہ وہ خدا کی صفت کا انکار کرتا ہے۔ اور اگر وہ فاقے کرتا ہے اور کوئی دوسرا شخص اُس کے فاقے پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ کیا یہ بھی خدا کا بندہ ہے جو فاقے کر رہا ہے؟ تو وہ بھی کافر ہے۔ اِس لیے کہ اُس کی زندگی اپنی زندگی نہیں۔ نہ اُس کا کھانا اپنا ہے نہ اُس کا پینا اپنا ہے نہ اُسکا جینا اپنا ہے۔ وہ کھاتا ہے تو خدا کے لیے کھاتا ہے، وہ پیتا ہے تو خدا کے لیے پیتا ہے، وہ فاقے کرتا ہے تو خدا کے لیے فاقے کرتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو ایک مومن کی زندگی ہوتی ہے۔ جب تک اِس احساس کے ساتھ کوئی شخص خدا کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کرتا اُس وقت تک وہ ہرگز مومن نہیں کہلا سکتا۔
مَیں اُن کو بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں سے زندگیاں وقف کر چکے ہیں اور کام کر رہے ہیں اور خصوصاً وہ میرے بیٹے ہی ہیں کہتا ہوں کہ تم بھی میرے پچھلے خطبوں پر یہ مت خیال کرو کہ تم کو بَری سمجھا گیا ہے۔ تمہارا اپنے آپ کو وقف کرنا یا کام کرنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ تم خدا کے بندے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تم خدا کے بندے نہ ہوبلکہ میرے بندے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تم نے خدا کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ مجھے خوش کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہو۔ اِس لیے تم بھی اپنے حالات کا جائزہ لو۔ اگر اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد پھر بھی تمہارے اندر دنیا کی لالچ پائی جاتی ہے، اگر پھر بھی تمہارے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ تمہارا باپ یا تمہاری ماں کس حد تک تمہاری خدمت کرتے ہیں، اگر پھر بھی تمہارے قلوب میں بشاشت پیدا نہیں ہوئی بلکہ وقف کے بعد تمہارے اندر مایوسی پیدا ہو جاتی ہے یا اُمنگ پیدا نہیں ہوتی تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ تم نے جبر کے ماتحت اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے۔ جس طرح زبردستی کا کلمہ پڑھانا کسی کو جنت کا مستحق نہیں بنا دیتا اِسی طرح زبردستی کا وقف بھی کسی کو خدا رسیدہ نہیں بنا سکتا۔ اگر تم نے خدا کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں تو تم پر مایوسی کیوں طاری ہو۔ کسی تکلیف کے پہنچنے پر تمہارے اندر احساس کمتری کیوں پایا جائے۔ اگر تمہارا کوئی عزیز دنیا کماتا ہے تو تمہارے دل میں لالچ کیوں پیدا ہوتی ہے۔ کیا کسی کو پاخانہ کھاتے دیکھ کر تمہارے دل میں بھی رغبت پیدا ہوتی ہے؟ اگر تم نے صحیح طریق اختیار کیا ہوا ہوتا تو تم سمجھتے کہ وہ نجاست کھا رہا ہے اور ہمیں اُس نجاست کھانے والے شخص سے گھِن آنی چاہیے تھی، نفرت اور کراہت آنی چاہیے تھی۔ لیکن اگر تمہیں کراہت نہیں آتی تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ظاہر کافر ہے اور تم باطنی کافر ہو اَور کوئی فرق نہیں۔ اور اگر جس لائن کو تم نے اختیار کیا ہے اُس کے فوائد تم پر روشن ہیں، تم اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد اپنے دلوں میں ایک عظیم الشان تغیر محسوس کرتے ہو، تم یقین رکھتے ہو کہ یہ ایک بھاری نعمت ہے جو تمہیں دی گئی ہے، دنیا تمہاری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور خدا ہی خدا تمہیں نظر آنے لگتا ہے، اسی طرح تمہارے کاموں میں وہ اولوالعزمانہ شان پیدا ہو جاتی ہے جو خدا کے بندوں میں پیدا ہونی چاہیے اور تم صرف مفوّضہ کام کا بجا لانا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ تمہیں یہ بھی مدنظر ہوتا ہے کہ جماعت کی ساری ذمہ داریاں تم پر ہیں اور تم اِس راہ میں مرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہو۔ تب بے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم نے وقف کی حقیقت کو سمجھا ہے۔
یاد رکھو !بغیر موت قبول کرنے کے کوئی مذہبی جماعت مذہبی جماعت نہیں بن سکتی۔ تم کو پہلے قربانیاں دینی پڑیں گی اور جماعت کو بعد میں قربانی کے لیے بلایا جائے گا۔ تم اگر یہ امید کرتے ہو کہ پہلے دوسرے لوگ قربانیاں کریں تو تم کافر اور مرتد ہو۔ پہلے تمہیں اپنی قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی۔ اور وہ دن اب کچھ زیادہ دور نہیں بلکہ وہ دن دروازے پر کھڑے ہیں جب تم کو اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی۔ یہ عیاش لوگوں کے خیالات ہوتے ہیں کہ اگر ہم آگے بڑھے تو ہمارے بچے یتیم اور ہماری بیویاں بیوہ ہو جائیں گی۔ مومن اِن چیزوں کو فخر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قبول کرتا ہے۔ اگر خدا کی مرضی یہی ہے تو ہونے دو بیویوں کو بیوہ، ہونے دو بچوں کو یتیم۔ ہمارا مٹ جانا خدا کی راہ میں اگر اسلام کو مضبوط بناتا ہے تو ہم ضرور مٹیں گے اور ہمارا مٹنا ہمارے لیے فخر کا موجب ہو گا۔ ہمارا یہ احساس کہ ہم زندہ رہ کر دین کی خدمت کریں یہ دہریت ہے، یہ کفر ہے، یہ بے ایمانی ہے۔تم کو سب سے پہلے اپنی قربانی پیش کرنی ہو گی۔ اور تمہاری اِس قربانی کے بعد وہ ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ احمدی جو اِس وقت نابینا ہیں اور صرف منہ سے اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی آنکھوں کو بھی بینا کر دے گا اور اُن کے ایمانوں کو بھی مضبوط بنا دے گا۔ ہم پھُولوں کی سیج پر چل کر دلوں کو فتح نہیں کر سکتے۔ دلوں کو فتح کرنے کے لیے بارود کی سُرنگوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اور بارودی سُرنگیں جب پھٹتی ہیں تو ہڈیوں تک کو اُڑا دیتی ہیں اور جسم کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گیا ہے۔ اِن رستوں پر چلے بغیر تم خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم نہیں کر سکتے۔ اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کیے بغیر تم خدا تعالیٰ کو منہ بھی نہیں دکھا سکتے"۔
(الفضل 11مارچ 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الشعراء :215
2
:
سیرت ابن ہشام، جلد1 صفحہ 284،285 مطبوعہ مصر 1936ء
3
:
اللّھب:2
4
:
کمرخ:کمرخ ایک ترش پھل جس کی قدرتی طور پر چار پھانکیں ہوتی ہیں ۔مرادکمرکھ۔
5
:
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خندق و ھی الاحزاب
6
:
بخاری کتاب الاطعمۃ باب الْقَدِیْدِ
7
:
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ ومعانقتہٖ
8
:
سنن النسائی الکبرٰی کتاب الاستسقاء باب کراھیۃ الاستمطار با لانوائِ
جلد 1صفحہ 563حدیث نمبر1837مطبوعہ بیروت لبنان (مفہومًا)


جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے
وہ ہمیشہ زندہ رکھے جاتے ہیں
(فرمودہ20فروری 1948ء بمقام ناصر آبادسندھ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"ہندوستان پر جو مصیبت آئی ہے خصوصاً مسلمانوں پر وہ ایسی نہیں ہے کہ اُس کو کوئی سمجھدار انسان جُھٹلا سکے۔ ہندوؤں کی حالت مسلمانوں سے الگ ہے۔ اول تو ہندو اِتنا مارا نہیں گیا جتنا مسلمان مارا گیا ہے۔ پھرچونکہ ہندوؤں اور سکھوں میں اتنا اغوا نہیں ہوا جتنا مسلمانوں میں ہوا ہے۔ پھر ہندوؤں اور سکھوں کی اِتنی جائیداد تباہ نہیں ہوئی جتنی مسلمانوں کی تباہ ہوئی ہے۔ ہندوؤں کی جائیداد زیادہ ترروپیہ کی شکل میں تھی جسے وہ نکال کر لے گئے۔ سکھوں کی بے شک زمین تھی اور زمینداری کے لحاظ سے اُن کا نقصان بھی ہوا مگر وہ ہندوؤں کا صرف ایک ٹکڑا تھے اور مسلمان بحیثیت مجموعی تباہ ہوئے۔ اس لیے غیرمسلموں کا نقصان کم تھا۔ پھر مالدار ہونے کی وجہ سے اب وہ مغربی پنجاب میں پھر واپس آ رہے ہیں اور اُن کی جائیدادیں اُنہیں مل رہی ہیں۔ مگر مسلمانوں کی جائیدادیں واپس کرنے میں لیت و لعل کیا جارہا ہے اور اُس میں قسم قسم کی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ قادیان ہی کو لو وہاں کے لوگ جانا چاہتے ہیں مگر حکومت اب تک جواب ہی دینے میں نہیں آتی۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے لوگوں کی جبری ہجرت کا آج تک کوئی نمونہ نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ یادو تین لاکھ لوگوں کی ہجرت کا ثبوت ملتا ہے۔ بڑی سے بڑی مثال ٹرکی اور یونان کی ہجرت کی ہے مگر اُس میں بھی ہجرت کرنے والوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ اِس کے مقابلہ میں صرف پنجاب کی ہجرت ایک کروڑ افراد کی ہے اور باقی علاقے اِس کے علاوہ ہیں۔ اگر سارے ہندوستان کی مجموعی تعداد دیکھی جائے تو ڈیڑھ کروڑ افراد تک یہ تعداد پہنچ جاتی ہے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ اِتنی بڑی مصیبت کے باوجود مسلمانوں کی سُستی ابھی دُور نہیں ہوئی۔ وہ اُسی طرح رہ رہے اور اُسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں جس طرح اِس حادثہ سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن میں اب حِسّ ہی نہیں کہ خدا نے اُن کو جو چوٹ لگائی ہے اِس کے بعد اُنہیں اپنی زندگی بدل لینی چاہیے اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تغیر پیدا کرنا چاہیے۔ دنیا کے اَور ممالک بھی ہیں مگر اُن میں سے کسی ملک کے لوگوں میں بھی اتنی سُستی اور غفلت نہیں پائی جاتی جتنی مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ اور اُن میں سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی مفید طور پر بسر کرنی ہے۔ اُن میں سے ہر شخص کو شش کرتا ہے کہ اُس کا وجود لوگوں کے لیے نفع رساں ہو۔ مگر ہم میں سے ہر شخص اُسی طرح زندگی بسر کرتا ہے جس طرح دریا میں ایک کارک یا لکڑی پھینک دی جائے تو وہ ہوا کے زور سے کبھی اِدھر چلی آتی ہے اور کبھی اُدھر چلی جاتی ہے، کبھی دریا کے کنارے پر آ لگتی ہے اور کبھی اُس کی لہروں میں غائب ہو جاتی ہے۔ نہ اُن میں عقل ہے نہ خردہے، نہ محنت سے کام کرنے کی عادت ہے نہ وقت پر کام کرتے ہیں، نہ عمدگی اور نفاست سے کام سرانجام دیتے ہیں نہ کوشش اور جدوجہد سے کام لیتے ہیں۔سُستی اور غفلت اور نحوست اُن کے ہر کام میں نظر آرہی ہے اور وہ اپنی زندگی اِس طرح گزار رہے ہیں جس طرح کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ پھر اِس بے حیائی کو دیکھو کہ مسلمان اپنے گھروں سے نکالے گئے، اپنی جائیدادوں سے بے دخل کیے گئے، اپنے مال و املاک سے محروم کیے گئے مگر یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود وہ اِس تلخ گھونٹ کو پی کر خاموش ہو گئے ہیں اور اب اُن کے دلوں میں یہ غیرت بھی پیدا نہیں ہوتی کہ وہ پھر اپنی جائیدادوں کو حاصل کریں اور پھر اپنے وطنوں کو واپس لوٹیں۔ یورپ میں کسی قوم کا اگر ایک آدمی بھی مارا جائے تو سارے ملک میں اُس وقت تک آگ لگی رہتی ہے جب تک اُس کا بدلہ نہ لے لیا جائے۔ بے شک اسلام ہمیں اِس بات سے روکتا ہے کہ ہم کسی پر ظلم کریں۔ وہ ہدایت دیتا ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ وہ ظالمانہ بدلہ سے بھی منع کرتا ہے۔ مگر وہ حقیقی بدلہ لینے سے نہیں روکتا کیونکہ حقیقی بدلہ نہ لینا بے غیرتی اور بے حیائی ہوتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں سے اُن کو کسی نے نکالا وہاں سے وہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہہ کر اور اپنے کپڑے جھاڑ کر چلے آئے۔ اِس سے زیادہ بے حیائی اور بے شرمی اَور کیا ہو سکتی ہے کہ بجائے اِس کے کہ مسلمانوں کے اندر ایک آگ لگ جاتی اور وہ تہیّہ کر لیتے کہ ہم نے پھر اپنے وطنوں کو واپس جانا ہے، پھر اپنے ملک میں عزت اور آبرو کا مقام حاصل کرنا ہے اور اِس غرض کے لیے وہ اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرتے اور اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کرتے اور اِس طرح پنجاب کا ابتلاء اُن کی بیداری کا موجب ہو جاتا بلکہ سب دنیا کے مسلمانوں کی بیداری کا موجب ہو جاتا۔ ہوا یہ کہ دوسرے ممالک میں تو کیا تغیر ہونا تھا خود پنجاب کے مسلمانوں میں بھی بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ جو کچھ ہم نے پنجاب میں دیکھا ہے وہ تو یہ ہے کہ اپنی جائیدادیں کھونے کے بعد مسلمان بھک منگے اور فقیر بن گئے ہیں۔
کثرت کے ساتھ حکام نے مجھے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کو ایک مقام پر بٹھایا جاتا ہے، اُن کے لیے غلہ کا انتظام کیا جاتا ہے، ہندو جو برتن وغیرہ چھوڑ گئے ہیں اُن میں سے برتن اُن کو دیئے جاتے ہیں، کپڑے اُن کو دئیے جاتے ہیں اور اِس طرح اُن کو ہر طرح آرام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر تیسرے چوتھے دن رات کے وقت وہ اچانک سب سامان لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ زمین ہمیں پسند نہیں۔ پھر پندرہ بیس میل کے فاصلے پر کسی دوسرے مقام پر ڈیرہ لگالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مہاجر ہیں اور مشرقی پنجاب سے لٹے ہوئے آئے ہیں۔ پھر اُنہیں زمین دے دی جاتی ہے۔ جب زمین ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کھائیں کہاں سے؟ پھر ان کو غلہ دیا جاتا ہے۔ غلہ مل جائے تو کہتے ہیں اب ہم پکائیں کس طرح؟ برتن تو ہمارے پاس ہے نہیں۔ اِس پر اُنہیں برتن دیئے جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ہمارے پاس کپڑا کوئی نہیں۔ چنانچہ اُنہیں کپڑے بھی دیئے جاتے ہیں۔ مگر پھر تین چار دن کے بعد وہ تمام چیزیں سمیٹ کر وہاں سے بھی بھاگ جاتے اور کسی اَور مقام پر برتن اور کپڑے لینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ گویا بجائے اِس کے کہ اِس مصیبت کے بعد اُن میں قوتِ عملیہ پیدا ہوتی، بجائے اِس کے کہ اُن میں کوئی نیک تغیر پیدا ہوتا وہ فقیر اور بھک منگے بن گئے ہیں اور تھوڑی بہت غیرت جو اُن میں باقی تھی وہ بھی جاتی رہی ہے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی اور اُن کی تباہی کی کتنی بڑی علامت ہے کہ جب خدا کی طرف سے اُن کو مار پڑی تب بھی اُن کو ہوش نہ آیا اور جب خدا نے اُن پر فضل نازل کیا اور اُن کی مصیبتوں اور بلاؤں کو ہٹایا تب بھی اُن کو ہوش نہ آیا۔
دنیا میں سمجھانے کے دو ہی طریق ہوا کرتے ہیں یا تو کوئی شخص پیار سے سمجھاتا ہے یا سزا اور تعذیب سے سمجھاتا ہے مگر مسلمان نہ پیار سے سمجھے نہ بلا ء سے اور نہ عذاب سے سمجھے۔ ایسے لوگوں کو سوائے تباہی کے اَور حاصل ہی کیا ہو سکتا ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو یا تو مسلمان شدھ ہو کر ہندو بن جائیں گے اور یا پھر قتل کر دیئے جائیں گے۔ شدھ ہونے کی حالت میں اُن کی جانیں بے شک بچ جائیں گی مگر چوڑھوں اور چماروں کا کام اُن کے سپر د ہو جائے گا کیونکہ چُوڑھوں اور چماروں میں اب بیداری پیدا ہو رہی ہے اور وہ اپنی پہلی حالت کو تر ک کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اِس طرح مسلمانوں کے لیے دو ہی صورتیں ہیں۔ جن میں غیرت ہو گی وہ تو مارے جائیں گے اور اُن کی عورتیں اور بچے بھی اغوا کر لیے جائیں گے۔ اور جن میں غیرت نہیں ہو گی اور ایمانی لحاظ سے کمزور ہوں گے وہ چُوڑھوں اور چماروں اور سانسیوں کی جگہ کھڑے کر دیئے جائیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ اب تم یہ کام کرو کیونکہ یہ قومیں اب بیدار ہو چکی ہیں۔ اِس کے سوا مجھے اَور کوئی مستقبل مسلمانوں کا نظر نہیں آتا۔ مگر مسلمان ہے کہ اپنی موجودہ حالت پر بالکل مطمئن بیٹھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ جب کوئی مصیبت کا وقت آیا تو خدا خود سب کام کرے گا۔ ہمیں ہاتھ پاؤں ہلانے یا اپنے لیے کوئی تدبیر سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ خدا نے اگر اِس رنگ میں اُن کی مدد کرنی ہوتی تو پہلے کیوں نہ کر دیتا۔
پچھلے دنوں پانچ چھ لاکھ مسلمان مارا گیا ہے اَور ساٹھ ستّر ہزار مسلمان عورتیں اِس وقت بھی ہندوؤں اور سکھوں کے قبضہ میں ہیں۔ اصل میں تو یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی تھی مگر اب بھی سترّہزار کے قریب مسلمان عورتیں سکھوں کے قبضہ میں ہیں اور وہ ان سے بدکاریاں کر رہے ہیں۔ مگر مسلمان ہیں کہ آرام سے بیٹھے ہیں اور کبھی ایک جگہ بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں اور کبھی دوسری جگہ بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں۔ اُن کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔ کسی کی بیوی سکھوں کے قبضہ میں ہے، کسی کی بہن سکھوں کے قبضہ میں ہے اور کسی کی ماں سکھوں کے قبضہ میں ہے اور وہ دن رات سکھوں سے بدکاریاں کروا رہی ہیں مگر یہ بے شرم آرام سے کبھی اِدھر چلے جاتے ہیں اور کبھی اُدھر چلے جاتے ہیں حالانکہ اگر ان میں ایک ذرہ بھر بھی غیرت ہوتی تو جب تک یہ اپنی اِس ہتک کا ازالہ نہ کر لیتے اُس وقت تک سانس لینا بھی انہیں دوبھر ہوتا۔ ان کا فرض تھا کہ خواہ صلح سے ملتا یا جنگ سے وہ اپنا علاقہ لینے کی کوشش کرتے۔ اور سانس نہ لیتے جب تک اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل نہ کرتے۔ گو ہندو اپنی جگہ واپس لینے کو پاکستان آ رہا ہے مگر مسلمان سو رہا ہے۔ وہ اِدھر ُادھر بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ وہ اپنی اُٹھائی ہوئی بیوی یا بہن یا لڑکی کو بھُول چکا ہے اور اُس کی نظر سکھوں کے چھوڑے ہوئے مربعوں پر ہے یا ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی دکانوں پر۔ اس بے غیرت کا دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ ایسا انسان زندہ رہنے کے قابل نہیں۔
مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ان میں غیرت پیدا نہیں ہو گی، جب تک وہ محنت کی عادت اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے نہ خدا کی مدد اُنہیں حاصل ہو سکتی ہے اور نہ دنیا میں کوئی عزت کا مقام وہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آخر خدا نے ہر چیز کے حصول کے لیے کچھ رستے مقرر کیے ہیں۔ جب تک کوئی شخص اُن رستوں کو اختیار نہیں کرتا اُس وقت تک اُسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔خدا تعالیٰ نے روٹی پکانے کے لیے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ پسے ہوئے آٹے میں پانی ملا کر اُسے گوندھا جائے۔ پھر چولہے میں آگ جلائی جائے۔ چولہے پر توا رکھا جائے اور پھر گُندھے ہوئے آٹے سے روٹی تیار کی جائے۔ اگر کوئی شخص اِس طریق کو اختیار نہیں کرتا اور سارا دن آٹے پر ڈنڈے مارتا رہتا ہے تو وہ کبھی بھی روٹی تیار نہیں کر سکتا۔ جس طرح سارا دن اگر کوئی شخص نکمّا بیٹھا رہے تو روٹی تیار نہیں ہو جائے گی اِسی طرح اگر کوئی شخص سارا دن آٹے پر ڈنڈے مارتا رہے اور غلط قسم کی محنت کرتا رہے تب بھی روٹی تیار نہیں ہو گی۔ کیونکہ روٹی کے لیے خدا تعالیٰ نے جو قانون مقرر کیا ہے اُس کو نہ اِس نے اختیار کیا ہے نہ اُس نے۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ نے کپڑے سینے کے جو اصول مقرر فرمائے ہیں جب تک کوئی شخص اُن اصول کو اختیار نہیں کرے گا اور اُن اصول کے مطابق محنت نہیں کرے گا وہ کبھی کپڑا نہیں سی سکے گا۔ خدا نے کپڑا سینے کے لیے یہ اصول مقرر فرمایا ہے کہ سوئی میں تاگا ڈالا جائے اور پھر سُوئی سے سِلائی کی جائے۔ جو شخص سوئی ہاتھ میں نہیں پکڑتا یا مشین سے کام نہیں لیتا وہ کبھی بھی کپڑا نہیں سی سکتا۔ جس طرح مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے قانون جاری کیے ہیں اِسی طرح دنیا کی حالت اور دین کی حالت سدھارنے کے لیے بھی خدا تعالیٰ نے کچھ قانون مقرر فرمائے ہیں۔ اُن قانونوں کی پابندی کرنے کے بعد ہی انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو شخص اُن قانونوں کی پابندی نہیں کرتا وہ سوائے ندامت اَور ناکامی کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ مَیں نے دیکھا ہے وہ لوگ جن کو مسلمان وحشی کہتے ہیں وہ بھی اِس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ زندگی کس طرح بسر کرنی چاہیے اور کامیابی کِن اصول پر چل کر حاصل ہوتی ہے مگر مسلمان اُس وحشی قوم کے افراد کے برابر بھی اِس نکتہ کو نہیں سمجھتے۔
قادیان میں مَیں جب بھی سیر کے لیے جاتا اور راستہ میں کھیتیاں آتیں تو مَیں فوراً سمجھ جاتا کہ یہ سکھ زمیندار کی کھیتی ہے اور یہ مسلمان زمیندار کی کھیتی ہے۔ اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ سکھ کی فصل تو یہاں یہاں تک ہوتی‘‘۔
حضور نے سینہ کی طرف اشارہ کیا۔
ــ’’اور مسلمان کی فصل یہاں تک ہوتی‘‘۔
حضور نے کمر پر ہاتھ لگایا۔
’’ اِس امتیاز کی وجہ سے بغیر اِس علم کے کہ یہ سکھ کی کھیتی ہے یا مسلمان کی مَیں فوراً سمجھ جاتا تھا کہ دونوں میں سے یہ کس کی کھیتی ہے۔ درجنوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ سکھ کی فصل معلوم ہوتی ہے۔ اور جب آدمی بھجوا کر پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ واقع میں وہ سکھ کی ہے۔ حالانکہ زمین وہی ہوتی ہے، پانی وہی ہوتا ہے، بیج وہی ہوتا ہے مگر ایک کی فصل اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کی ناقص۔مسلمان کہتے ہیں کہ ملیریا نے ہمیں مار لیا مگر سوال یہ ہے کہ ملیریا سکھ کو کیوں نہیں مارتا۔ اِسی لیے کہ وہ خود نہیں مرتا۔ اور جو شخص پہلے ہی مرنے کے لیے تیار ہو اُسے ملیریا بھی مار لیتا ہے۔ ہیضہ بھی مارلیتا ہے ۔ ٹائیفائیڈ بھی مار لیتا ہے مگر جو آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اُسے کوئی بھی مارنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جس شخص کی حالت یہ ہو کہ وہ پہلے ہی اپنے آپ کو نیچا کر دیتا اور زمین پر گرادیتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں ختم ہو گیا اس کی خدا کیوں مدد کرے۔ جو شخص اپنے آپ پر بدظنی کرتا اور اپنی قابلیتوں کو کھو دیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی کبھی مدد نہیں کرتا۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت نے بھی اِس معاملہ میں اچھا نمونہ نہیں دکھایا۔ اُنیس بیس کا فرق ہو تو اَور بات ہے ورنہ جہاں تک محنت کا سوال ہے ، جہاں تک کوشش اور ہمت کا سوال ہے، جہاں تک کام کرنے کی روح کا سوال ہے ہمیں اِن میں اَور اُن میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تم شیشے اپنے سامنے رکھ کر دیکھ لو سارے کے سارے مُردار معلوم ہوتے ہو۔ اِس کے مقابلہ میں سکھوں کی شکلیں دیکھ لو اُن کے قد بلند ہیں، اُن کے جسم مضبوط ہیں، اُن کی شکلوں سے رُعب ٹپکتا ہے، اُن کے اندر طاقت اور قوت زیادہ ہے۔ آخر تم میں اور اُن میں یہ فرق کیوں ہے؟ وہی زمین اُن کے پاس ہے جو تمہارے پاس ہے، وہی خوراک وہ کھاتے ہیں جو تم کھاتے ہو، وہی سامان اُن کے پاس ہے جو تمہارے پاس ہے۔ پھر یہ فرق کیوں ہے؟ یہ فرق اِسی لیے ہے کہ سکھ محنت کے عادی ہیں۔ کام کرتے ہیں تو پوری دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور چونکہ اُن کے جسم محنت اور مشقت کرنے کے عادی ہیں اُن کے پیٹ میں جب روٹی جاتی ہے تو اچھی طرح ہضم ہوتی اور اچھا خون پیدا کرتی ہے۔ اِسی طرح وقت پر اور صحیح طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں اُن کے اَور کاموں میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔پھر جب لڑائی ہوتی ہے تو لڑائی میں بھی وہ مسلمانوں کو مار لیتے ہیں۔ مشرقی پنجاب میں مسلمان چوالیس فیصدی تھے اور سکھ چھبیس فیصدی۔ مگر چوالیس فیصدی مسلمان چھبیس فیصدی سکھ کے مقابلہ میں اِس طرح بھاگاہے کہ جس طرح دُھواں دیکھتے ہی دیکھتے انسانی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔اِسی طرح چند دنوں میں سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ بٹالہ جیسا شہر جس میں ساٹھ ہزار مسلمان تھے ہم نے اُن سے بہتیرا کہا کہ ایک طرف تم ڈٹے رہو اور دوسری طرف ہم قادیان میں ڈٹے رہتے ہیں سکھ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ مگر ساٹھ ہزار کا شہر دو گھنٹہ کے اندر اندر خالی ہو گیا اور سارے مسلمان شہر چھوڑ کر بھاگ گئے حالانکہ بٹالہ میں صرف چند سو سکھ تھے اور اسّی فیصدی مسلمان۔ مگر اسّی فیصدی مسلمان کے چند سو سکھ سے ڈر کر اوسان خطا ہو گئے۔یہ ڈر آخر کیوں پیدا ہوا؟ اِس لیے کہ سکھوں کی شکلیں ہی ہیبت ناک ہوتی ہیں اور وہ ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان کی شکل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوستی اور منحوس ہے اور خدا کی *** اُس پر برس رہی ہے۔ سکھ کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں ہمت ہے، طاقت ہے، ہوشیاری ہے، چالاکی ہے، کام کرنے کی روح ہے، مشکلات پر غلبہ پانے کی اُس میں طاقت ہے۔ لیکن مسلمان جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی ماں مر گئی ہے یا ابھی اپنی بیٹی کو دفن کر کے آیا ہے۔اُس کے چہرے پر نحوست اور افسردگی اور غم کی کیفیات ہوتی ہیں، اُس کی کمر ٹیڑھی ہو رہی ہوتی ہے، مُردنی اُس پر چھائی ہوئی ہوتی ہے، وہ کھانا کھاتا ہے تو اُسے ہضم نہیں ہوتا اور ڈکارتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سوائے اِس کے اَور کیا ہوتی ہے کہ وہ کام نہیں کرتا اور پھر یہ امید رکھتا ہے کہ جب میرا اور دوسری قوموں کا مقابلہ ہو تو مَیں کامیاب ہو جاؤں۔ مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ جو خدا تعالیٰ نے قانون مقرر کیے ہیں اُن کی پابندی کرنے والے لوگ ہی کامیاب ہوں گے خلاف ورزی کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اِس امر کو جانے دو کہ مسلمان ایک نبی کے مخالف ہیں اور چونکہ خدا اُن سے ناراض ہے اِس لیے اُن پرتباہی آ رہی ہے۔ مَیں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ آخر تم کو کیا ہو گیا ہے اور تم نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر کونسی تبدیلی پیدا کی ہے؟ کون سا تغیر ہے جو تم میں پیدا ہوا ہے؟ چندعقائد بے شک تم نے مان لیے ہیں مگر عقائد سے کیا بنتا ہے۔ جب تک تم اپنی زندگیوں میں تغیر پیدا نہیں کرتے، جب تک تم قربانی اور ایثار اور خدا تعالیٰ پر توکّل کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم نے احمدیت کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لی ہے تو تم سے زیادہ غلطی خوردہ اَور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مومن کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ دشمن اُسے مارتا چلا جاتا ہے مگر وہ پھر بھی یہی کہتا ہے کہ مَیں نے نہیں مرنا کیونکہ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ آخر یہ یقین اُسے غالب کر دیتا ہے۔ اور دشمن بھی حیران ہو کر کہتا ہے کہ نہ معلوم یہ ہے کیا بلاء کہ مارنے کے باوجود نہیں مرتا اور پہلے سے بھی زیادہ اُبھرتا چلا جاتا ہے۔
تم لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ِاتنی بڑی مصیبت اور بَلاء کے بعد تمہاری زندگیوں میں کونسا تغیر پیدا ہوا ہے؟ تم اپنے اندر محنت کی عادت پیدا کرو، کام کو وقت پر اور صحیح طور پر سرانجام دو، ایک ایک منٹ بجائے گپّوں میں ضائع کرنے کے مفید کاموں میں صَرف کرو اور رات کو تم اُس وقت تک سوؤ نہیں جب تک تم اِس امر کا جائزہ نہ لے لو کہ تم نے دن بھر میں کیا کیا ہے، تمہیں کیا کیاکام کرنا چاہیے تھا اور تم نے کیا کچھ کیا۔ کام سے ہی انسان ترقی کیا کرتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کام سے دوسروں کا فائدہ ہوتا ہے حالانکہ دوسروں کا ہی نہیں انسان کا اپنا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں ناصر آباد آنے میں گو میری ذاتی غرض بھی ہوتی ہے کیونکہ میری یہاں زمینیں ہیں مگر مَیں دیکھتا ہوں یہاں بھی سُستی سے کام ہو رہا ہے۔ اور چونکہ مسلمانوں کو سُست رہنے کی عادت ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن سے نماز بھی وقت پر نہیں پڑھی جاتی۔ وہ ٹھیک طرح اپنے بیوی بچوں کی خبرگیری بھی نہیں کرتے۔ وہ اپنے کپڑوں کی صفائی کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ آخر اِس میں کونسی مشکل ہے کہ کپڑوں کو صاف رکھا جائے۔ مگر مقابلہ کر کے دیکھ لو ایک سکھ کے کپڑے صاف ہوںگے مگر مسلمان کے کپڑے صاف نہیں ہوں گے۔ اِس کے کپڑے جب تک پھٹ کر دھجیاں نہ ہو جائیں یہ اُن کو دھوناپسند نہیں کرتا حالانکہ زندہ رہنے والی قومیں ظاہری صفائی کا بھی ایک حد تک خیال رکھا کرتی ہیں۔ مکہ میں جو لاکھوں کا شہر ہے اب تک یہ رواج پایا جاتا ہے کہ روزانہ رات کو سوتے وقت بیوی میاں اپنے دن کے کپڑے اُتار دیتے اور صبح دھو کر پہنتے ہیں۔ یہ لازمی بات ہے کہ جس شخص کو یہ فکر ہو گا کہ میں نے صبح دھوئے ہوئے کپڑے پہننے ہیں وہ علی الصبح اُٹھے گا، سُستی اور غفلت میں وہ ساری رات نہیں گزار سکتا۔ صبح اُٹھنے اور کپڑے دھونے کی وجہ سے اُنہیں محنت کی عادت پڑتی ہے۔ اُن کو صفائی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اُن کے ذہنوں میں ایک روشنی اور تازگی پیدا ہوتی ہے اور وہ دن بھر اپنے تمام کام نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص6 گھنٹے سوتا اور 18 گھنٹے کام کرتا ہے وہ نمازوں میں بھی باقاعدہ ہوگا اور اُس کے اَور کاموں میں بھی ایک نفاست اور عمدگی پائی جائے گی۔ مگر جو شخص 10گھنٹے سوتا اور 5 گھنٹے گپّوں میں ضائع کر دتیا ہے وہ باقی گھنٹوں میں بھی کوئی مفید کام نہیں کر سکتا۔وہ نمازوں کو چٹّی سمجھے گا، وہ کام کو ایک مصیبت اور بلاء خیال کرے گا اور یہی چاہے گا کہ مَیں کسی طرح اِس سے بچ جاؤں۔ مگر جو 18 گھنٹے کام میں لگا رہتا ہے اُسے چونکہ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اِس لیے وہ نمازوں کے لیے بھی بڑی آسانی سے وقت نکال لیتا ہے۔ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ جب تک تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرو گے مت سمجھو کہ خدا تمہاری مدد کے لیے آسمان سے نازل ہوگا۔ یہ خدا کی سنت کے قطعاً خلاف ہے۔ خدا تعالیٰ اُنہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اُس کے بنائے ہوئے قانونوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے اور ہر قسم کی سُستی اور غفلت سے دور رہتے ہیں۔
یورپ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض ایسے لوگ جو پہلے بالکل جاہل تھے محنت اور کوشش سے کہیں سے کہیں نکل گئے کیونکہ وہ کام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ وہ ہل چلاتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی کسی کتاب کا بھی مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ بیسیوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ ہل چلاتے چلاتے وہ کتابیں پڑھتے چلے گئے اور آخر اُدھیڑ عمر یا بڑھاپے میں بہت بڑے عالم بن گئے۔ مگر ہمارا پڑھا ہوا آدمی بھی بھُولتا چلا جاتا ہے۔ وہ بجائے کچھ اَور سیکھنے کے جاہل ہوتا چلا جاتاہے۔ بجائے محنت کا عادی بننے کے سُستی اَور ضُعف کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ اور بجائے جوان ہونے کے کُبڑا ہوتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہی ہے کہ اُسے کام میں نہیں بلکہ سارا مزا سُستی اور غفلت میں آتا ہے۔ جب بھی کسی سے پوچھا جائے کہ مزہکیا ہوتا ہے؟ تو ہمیشہ وہ کوئی ایسی بات کہتا ہے جو اُس کی سُستی کو آشکار کرنے والی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بوڑھا تھا۔ اُس سے ہم پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ سب سے زیادہ مزہ تم کس بات میں محسوس کرتے ہو اور تمہاری بڑی سے بڑی خواہش کیا ہے؟ اِس کا وہ ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا کہ مجھے سب سے زیادہ خواہش اِس امر کی ہے کہ مجھے چھوٹا چھوٹا بخار ہو، چارپائی میں لیٹا ہوا ہوں، باہر آہستہ آہستہ بارش ہو رہی ہو، لحاف مَیں نے اوڑھا ہوا ہو اور بھُنے ہوئے چنے ایک ایک کر کے مَیں کھا رہا ہوں۔ آپ فرماتے تھے ہم ہمیشہ اُس کی یہ بات سُن کر ہنسا کرتے تھے۔ مگر جب بھی ہم اُس سے پوچھتے وہ یہی جواب دیا کرتا تھا۔ اب واقع میںاگر غور کر کے دیکھا جائے تو اگر اِس شکل میں نہیں تو ایک دوسری شکل میں ہر مسلمان کا یہی جواب ہوتا ہے۔ جب بھی کسی سے پوچھو کہ مزہ کیا ہوتا ہے۔ تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ مزہ بس یہی ہے کہ ذرا لیٹ جائیں اور کام چھوڑ دیں۔ حالانکہ اصل مزہ کام میں ہے نکمّے پن میں نہیں۔ مگر مسلمان کو نکمے پن میں اِتنا مزہ آیا اِتنا مزہ ا ٓیا کہ اُس نے ہماری جنت بھی خراب کر دی۔ جب بھی جنت کا نقشہ کھینچا جائے مسلمان اِس رنگ میں جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں کہ وہاں بڑا مزہ ہو گا، آرام سے بیٹھے رہیں گے اور پکی پکائی روٹی مل جائے گی۔ نہ نماز ہو گی۔ نہ روزہ اور نہ کوئی اَور کام۔ بس کھائیں گے اور عیش کریں گے۔ حالانکہ یہ جنت نہیں۔ یہ تو بڑا خطرناک دوزخ ہے۔ کیا جیل خانہ کا قیدی اپنے آپ کو جنت میں سمجھتا ہے؟ اِس لیے کہ وہ سارا دن کوٹھڑی میں بیٹھا رہتا ہے اور اُسے کوئی کام نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو جنت میں نہیں بلکہ دوزخ میں سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ ہر قسم کے کام سے فارغ ہوتاہے۔ جنت یہی ہے کہ کام کیا جائے۔ اور ہمیں جو کچھ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ مومن وہاں خوب کام کرے گا اور یہی جنت ہو گی۔
پس اگر تم آنے والی آفات اور بلاؤں سے بچناچاہتے ہو تو اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی شخص اِن بلاؤں سے بچنا نہیں چاہتا بلکہ مرنا چاہتا ہے تو بے شک مرے مگر ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ احمدیت کو بدنام نہ کرے۔ اب حالات اِس قسم کے ہیں کہ جب تک ساری جماعت مرنے کے لیے تیار نہیں ہو گی، جب تک ساری جماعت دیووں کی طرح کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی مجھے اِس کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس غرض کے لیے ہمیں جماعت کو چھانٹنا پڑے اور ایک ایسی جماعت تیار کرنی پڑے جو مرنے کے لیے تیار ہو۔ مگر یاد رکھو جو لوگ مرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے دنیا کی کوئی طاقت اُن کو مار نہیں سکے گی۔ لوگ اُنہی کو مارتے ہیں جو موت سے ڈرتے ہیں۔ جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے وہ ہمیشہ زندہ رکھے جاتے ہیں۔ کفر میں بھی اِس قسم کی مثالیں ملتی ہیں اور ایمان میں بھی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔ کفر میں بھی وہی لوگ جیتے ہیں جو قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہیں اور ایمان میں بھی وہی لوگ جیتے ہیں جو محنت کرتے اور قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہیں۔ جب یہ باتیں کسی قوم میں نہیں رہتیں وہ تباہ اور برباد ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھوڑے سے مسلمان تھے مگر چونکہ اُنہوں نے قربانیاں کیں وہ دنیا کے بادشاہ بن گئے۔ اُس کے بعد جب مسلمانوں میں عیاشیاں آگئیں تو وہ تباہ اور برباد ہوگئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ترقی کے لیے جو قانون بنائے ہیں اُن کے خلاف چل کر کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا"۔
(الفضل 28 فروری1948ئ)
















































































ایسا ایمان جو ایمان کی کیفیتوں سے خالی ہے
تمہارے کسی کام نہیں آسکتا
(فرمودہ5مارچ 1948ء بمقام ناصر آبادسندھ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"ہر چیز کا نام اپنے اندر کئی تفصیلات رکھتا ہے۔ نام کے ماتحت کوئی چیز مفرد نہیں ہوتی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی چیز مفرد نہیں۔ ساری چیزیں مرکب ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ہم درخت کا لفظ بولتے ہیں تو درخت سے کوئی خاص اور معیّن چیز ہمارے ذہن میں نہیں آتی۔ اِس میں انگور کا درخت بھی شامل ہے، اُس کی شکل بالکل اَور ہوتی ہے۔ اِس میں سنگترے کا درخت بھی شامل ہے اُس کی شکل اَور ہوتی ہے۔ اِس میں آم کا درخت بھی شامل ہے اُس کی شکل اَور ہوتی ہے۔ اِس میں لوکاٹ کا درخت بھی شامل ہے اُس کی شکل اَور ہوتی ہے۔ غرض سینکڑوں قسم کے درخت ہیں جن میں سے ہر ایک کی شکل مختلف ہوتی ہے۔ جب ہم لفظ درخت استعمال کرتے ہیں تو درحقیقت اِس کے مفہوم کو قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی معیّن شکل اپنے ذہن میں نہیں لاتے۔ یا جب ہم آم کہتے ہیں تو آم بھی بیسیوں قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی چالیس چالیس، پچاس پچاس فٹ گھیرے والا آم ہوتا ہے، کوئی ایک فٹ گھیرے والا آم ہوتا ہے اور کسی میں صرف ڈنٹھل ہوتے ہیں اور ایک لکڑی کھڑی ہوتی ہے وہ بھی آم ہوتا ہے اور یہ بھی آم ہوتا ہے۔ اگر خالی آم کا لفظ استعمال کیا جائے تو اِس سے کوئی حقیقت ذہن میں نہیں آتی۔ چیز بے شک سامنے آ جائے گی مگر اُس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں گی۔ اِسی طرح پھلوں کو لے لو۔ خربوزہ کہنے سے اُس کی کوئی خاص حقیقت ذہن میں نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایک طرف اگر ہمیں ایسے خربوزے دکھائی دیتے ہیں جو پیسے بٹی بکتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں ایسے خربوزے بھی دکھائی دیتے ہیں جو روپیہ بٹی تک بکتے ہیں۔ اگر خالی خربوزہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اِس میں میٹھے، پھیکے، کھٹے، سیٹھے1، تلخ اور بدمزہ سب کے سب خربوزے شامل ہوں گے۔ اُس وقت اگر کوئی شخص یہ کہے کہ چیز تو ایک ہی ہے مگر ایک خربوزہ پیسے بٹی بک رہا ہے اور لکھنؤ کا خربوزہ ایک روپیہ بٹی بک رہا ہے۔ یہ فرق آخر کیوں ہے؟ تو ہر شخص اُسے کہے گا کہ تُو احمق اور بے وقوف ہے۔ کُجا وہ خربوزہ کُجا یہ خربوزہ۔ دونوں کی آپس میں نسبت ہی کیا ہے۔ اِسی طرح آم کو لے لو۔ ایک چھوٹے تخمی آم ہوتے ہیں جو اِس گرانی کے زمانے میں بھی روپیہ دو روپے سینکڑہ مل جاتے ہیں۔ اور ایک فجری آم ہوتے ہیں جوسَو سَو روپیہ سینکڑہ بِکتے ہیں۔ پہلے عام طور پر وہ چالیس پچاس روپے سینکڑہ بِکا کرتے تھے۔ اِن دونوں آموں کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اِس کا تو روپیہ بھی نہیں دیتے اور اُس کے پچاس بلکہ سَو روپے بھی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہو۔ اگر کوئی ایسا اعتراض کرے تو تم اُسے پاگل کہو گے۔
مَیں ایک دفعہ سیر کر کے واپس آ رہا تھا اور نیک محمد صاحب پٹھان میرے ساتھ تھے کہ ہمیں راستے میں ایک شخص ملا جو حصار سے بیل خرید کر لایا تھا۔ اُن میں چھوٹے بھی تھے اور بڑے بھی، موٹے بھی تھے اور دُبلے بھی، مضبوط بھی تھے اور کمزور بھی، اعلیٰ نسل کے بھی تھے اور معمولی نسل کے بھی۔ مَیں نے نیک محمد صاحب کو بھیجا کہ جاؤ اور اُس سے پوچھو کہ اوسط قیمت بیلوں کی کیا پڑتی ہے؟ نیک محمد صاحب اوسط قیمت تو بھول گئے اور اُسے جا کر کہنے لگے کہ بتاؤ ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اُس نے کہا کیہڑا بیل؟ اِن کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اور وہ بار بار یہی کہتے چلے گئے کہ ایک بیل کی قیمت بتاؤ۔ دوتین دفعہ جو اُس نے کہا کہ کس بیل کی قیمت؟ تو یہ چِڑ گئے اور کہنے لگے مَیں جو کہتا ہوں کہ مجھے ایک بیل کی قیمت بتا دو۔ آخر مَیں نے انہیں آواز دے کر بُلایا اور کہا کہ وہ ٹھیک کہتا ہے۔ جب مَیں نے انہیں تمام بات سمجھائی تب انہیں پتہ لگا اور کہنے لگے پہلے مَیں سمجھا نہیں تھا کہ آپ کا منشاء کیا ہے۔ تو دیکھو لفظ بیل ایک ہے مگر اِس سے کوئی معیّن حقیقت ذہن میں نہیں آتی۔ گائے کو لو تو دو ہزار روپے کو بھی گائے آتی ہے اور بیس تیس روپے کو بھی گائے آ جاتی ہے۔گھوڑے کو لو تو ایسے ایسے گھوڑے بھی ہیں جو تین تین لاکھ روپیہ تک بِکتے ہیں اور ایسے گھوڑے بھی ہیں جو پچیس تیس روپے میں مل جاتے ہیں۔ غرض یہ ایک حقیقت ہے جو دنیا کی ہر چیز میں ہمیں نظر آتی ہے کہ محض نام سے کسی چیز کا معیّن نقشہ سامنے نہیں آتا جب تک اُس کی تفاصیل بھی ساتھ نہ ہوں۔
لیکن تعجب ہے مسلمان ایمان کا لفظ تو استعمال کرتا ہے مگر یہ نہیں دیکھتا کہ ایمان کی حقیقت بھی اُس کے اندر پائی جاتی ہے یا نہیں۔وہ یہ تو کہتا ہے کہ مَیں مومن ہوں، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مَیں احمدی ہوں۔ مگر پوچھو کہ کس قیمت کا احمدی؟ تو خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا کہ وہ دو پیسے بٹی بکنے والا خربوزہ ہے یا ایک روپیہ بٹی بِکنے والا خربوزہ ہے، وہ گندا آم جس کا پیٹ پھُول جاتا ہے اور اُس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں وہ بھی آم کہلاتا ہے اور وہ بھی آم کہلاتا ہے جوسَو سَو روپیہ سینکڑہ فروخت ہوتا ہے۔ کیا کبھی تم نے غور کیا کہ تم کونسا آم ہو؟ تم وہ آم ہو جس کا پیٹ پھُول کر پھٹ جاتا اور اُس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں یا وہ آم ہو جسے لوگ پچاس یا سَو روپیہ سینکڑہ کے حساب سے لے جاتے ہیں اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نفع کمایا۔ ہر چیز کی قیمت اُس کی تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے۔ مثلاً اچھے آم کی تفاصیل یہ ہیں کہ اُس کا حجم معقول ہو، اُس کا مزہ اچھا ہو، اُس کی خوشبو اعلیٰ ہو۔ جو آم اِن تفاصیل کا حامل ہوتا ہے اُسے ہم اچھا آم کہہ دیتے ہیں۔ اور جو آم اِن تفاصیل کا حامل نہیں ہوتا اُسے اچھا آم نہیں کہتے۔ اِسی طرح ایمان کی بھی بعض تفاصیل ہیں۔ مثلاً جو شخص ایمان کا دعوٰی کرے اُس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی نمازوں میں باقاعدگی پائی جاتی ہو، وہ امانت اور دیانت کا حامل ہو، وہ سچ بولنے والا ہو، وہ محنت کرنے والا ہو، وہ ظلم اور دھوکا اور فریب سے بچنے والا ہو، وہ بنی نوع انسان کے حقوق کو ادا کرنے والا ہو۔ اگر کسی شخص میں یہ علامات نہیں پائی جاتیں اور وہ منہ سے ہزار بار بھی مومن ہونے کا دعوٰی کرتا ہے تو اُس کا دعوٰی اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اگر تم سڑا ہوا خربوزہ کسی کو دو تو وہ خوش نہیں ہو گا بلکہ تمہارے منہ پر مارے گا کہ تم نے اُس کی ہتک کی۔ یہی حال آم اور دوسرے پھلوں کا ہے۔ ایسے آم بھی ہوتے ہیں جنہیں اَور لوگ تو الگ رہے بادشاہ بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اور ایسے آم بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ آم تم کسی فقیر کو بھی دو تو وہ نظر بچا کر پھینک دے گا۔ سردہ بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ ایسے اعلیٰ سردے بھی ہوتے ہیں جنہیں کھا کر لذت محسوس ہوتی ہے، جسم میں طراوت پیدا ہوتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے اعضاء میں تازگی آ گئی ہے۔ اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو خشک کھٹّے اور بدبودار ہوتے ہیں۔ اُنہیں چِیرو تو پھُس کر کے اُن میں سے گیس نکلتی ہے اور کھاؤ تو سخت تلخ اور بدمزہ ہوتے ہیں۔ اب اگر ایسا سردہ تم کسی کو دو تو وہ اُسے کھائے گا یا اسے اٹھا کر پھینک دے گا؟ وہ اسے کھائے گا نہیں بلکہ اٹھا کر پرے پھینک دے گا۔اور اگر کوئی کھائے گا تو تم اُسے وحشی اور اُجڈ قرار دو گے۔ لیکن ایسے بھی سردے ہوتے ہیں جنہیں بڑے بڑے اُمراء بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ غرض نام کے لحاظ سے چیز ایک ہی ہوتی ہے مگر ایک کے کھانے والے کو جب تم دیکھتے ہو تو کہتے ہو یہ بڑا امیر آدمی ہے اور دوسرے کے متعلق کہتے ہو یہ بڑا وحشی اور اُجڈ ہے۔ ایک آم کا ذکر آئے تو تم ترستے ہو اور کہتے ہو ہم غریبوں کو وہ کہاں میسر آ سکتا ہے۔ وہ تو سَو سَو روپیہ سینکڑہ بِکتا ہے۔ اور دوسرا شخص ایک آم کھاتا ہے تو تم کہتے ہو وہ تو وحشی اور اُجڈ ہے۔ اِس طرح تمہیں بھی سوچنا چاہیے کہ کونسا ایمان ہے جو تمہارے اندر پایا جاتا ہے۔ اُس بیل والے کو اِتنی تمیز تھی کہ اُس نے پوچھ لیا کہ کیہڑا بیل؟ مگر تمہاری سمجھ میں آتا ہی نہیں کہ جب تم ایمان ایمان کہتے ہو تو کبھی یہ بھی سوچ لیا کرو کہ تمہارے اندر کونسا ایمان پایا جاتا ہے؟
اگرتمہارا ایمان و ہ تفاصیل اپنے ساتھ رکھتا ہے جو اعلیٰ درجہ کے ایمان کے ساتھ ہوا کرتی ہیں۔ اگر تم نمازوں کے پابند ہو، اگر تم روزے رکھنے سے جی نہیں چراتے،اگر تم دوسروں کا مال نہیں کھاتے، اگر تم اپنے کاموں میں سُست اور غافل نہیں، اگر دین کے لیے قربانی کرنے کی روح تم میں پائی جاتی ہے، اگر قربانی کے مواقع پر تم بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے جان قربان کرنے کی تڑپ تمہارے اندر ہر وقت پائی جاتی ہے، اگر صداقت اور راست گفتاری کی عادت تمہارے اندر پائی جاتی ہے، اگر تم میں یہ وصف پایا جاتا ہے کہ تم ہمیشہ سچ بولتے ہو خواہ تمہارے باپ کو نقصان پہنچے یا تمہارے بیٹے کو تکلیف پہنچے، اگر سچ بولنے کی وجہ سے تمہارا بیٹا پھانسی چڑھتا ہے یا تمہارا باپ پھانسی چڑھتا ہے اور تم کہتے ہو مَیں تو سچ ہی بولوں گا، اگر میرا باپ یا میرا بیٹا پھانسی چڑھتا ہے تو بے شک چڑھ جائے، اگر تم میں اتنا اخلاص پایاجاتا ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ دین کے مقابلہ میں مَیں کسی چیز سے محبت نہیں کر سکتا۔ تب بے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمھارے اندر وہ چیز پائی جاتی ہے جس کا نام ایمان ہے کیونکہ یہی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اُس کا نام ایمان رکھا گیا ہے۔ بے شک ایک سڑا گلا آم بھی آم ہی کہلاتا ہے مگر آم کا نام رکھنے والے کے مدنظروہ آم نہیں تھا جس کو ایک فقیر بھی اُٹھا کر پھینک دے بلکہ وہ آم تھا جسے امراء کھاتے ہیں اور جن کو درمیانی طبقہ کے لوگ بھی ترستے ہیں۔ جب کسی نے خربوزہ کو اچھا پھل قرار دیا تھا تو خربوزہ کو اُس نے وہ خربوزہ قرار دیا تھا جو روپیہ ڈیڑھ روپیہ سیربِکتا ہے جس کا مزہ شیریں ہوتا ہے اور جسے درمیانے درجہ کے لوگ بھی ترستے ہیں۔ یا جب کسی نے انگور کو اچھا پھل قرار دیاتھا یا انار کو اچھا پھل قرار دیا تھا تو اِس سے مراد اعلیٰ درجے کاانگور اور اعلیٰ درجے کا انار ہی تھا اور ادنیٰ اور ذلیل قسم کا پھل نہیں تھا۔ ایسے ایسے انار بھی ہوتے ہیں جو روپیہ کے پچاس پچاس مل جاتے ہیں اور اُن کا انار دانہ بھی نہیں بن سکتا۔ بے شک لوگ اُن اناروں کو کھاتے ہیں اِس لیے کہ اُن کا نام انار ہوتا ہے۔ لیکن وہ قیمتی انار جو طائف میں ہوتا ہے یا مسقط وغیرہ میں ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے انار کو اچھا پھل قرار دیا جاتا ہے اُس کا یہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور درحقیقت اُسی انار کا کھانا انسان کے اندر خون صالح پیدا کرتا ہے ورنہ یہ انار جو ہمارے ملک کے پہاڑوں میں خود رَو طور پر پایا جاتا ہے مزہ میں کھٹّا ہوتا ہے، معدہ کو خراب کرتا ہے اور کھانسی وغیرہ پیدا کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب کوئی شخص ایمان کا دعوٰی کرتا ہے تواُسے سوچنا چاہیے کہ ُاس کے اندر کس قسم کا ایمان پایا جاتا ہے؟ کیا وہ ایمان تو نہیں پایا جاتا جس میں جھوٹ بولنا بھی جائز ہے، جس میں ظلم بھی جائز ہے، جس میں پرایا مال کھانا بھی جائز ہے، جس میں قربانی کے مواقع پر بھاگ جانا بھی جائز ہے، جس میں نمازوں کو چھوڑ دینا بھی جائز ہے، جس میں زیادہ چندہ دینے کے خوف سے اپنی اصل آمد کو چھُپانا بھی جائز ہے۔ اگر کسی کے اندر یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں اور پھر وہ کہتا ہے کہ میرے اندر ایمان پایا جاتاہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اِن چیزوں کا نام ایمان نہیں۔ اِسی طرح خربوزہ اُس گندے اور بدمزہ پھل کا نام نہیں رکھا گیا جس کو جانور بھی نہیں کھاتا۔ اِس طرح ایمان بھی اس چیز کا نام نہیں۔ بے شک ایک سڑے ہوئے خربوزے کو بھی ہم خربوزہ ہی کہیں گے لیکن وہ اصل خربوزہ کی ایک بِگڑی ہوئی اور خراب شدہ شکل ہو گی، اُسے کوئی عقل مند انسان کھانے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ یا وہ کھانا جس پرکئی دن گزر جائیں اور سڑ کر بدبودار ہو جائے وہ کہلاتا تو کھانا ہی ہے لیکن جب وہ سڑ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ تم اُسے اٹھا کر کتّے کے آگے پھینک دیتے ہو۔ اِسی طرح اگر تم بھی ناقص اور بدبودار ایمان رکھ کر یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے اندر ایمان پایا جاتا ہے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے تم سڑا ہوا کھانا کھا رہے ہو۔ اگر سڑا ہوا کھانا کوئی شخص تمہارے سامنے کھائے تو تم اُسے پاگل قرار دو گے۔ مگر تم کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ تم بھی سڑا ہوا ایمان رکھتے ہو اور پھر یہ دعوٰی کرتے ہو کہ تم مومن ہو، یہ دعوٰی کرتے ہو کہ تم ایماندار ہو۔
مَیں نے بتایا کہ ہر نام کے اندر کچھ کیفیتیں ہوتی ہیں اور جب کسی چیز کا کوئی نام رکھا جاتا ہے تو ہمیشہ اُس کی اچھی کیفیتوں کی وجہ سے وہ نام رکھا جاتا ہے۔ جب وہ کیفیتیں کسی میں پائی جائیں تب تو بے شک وہ نام اُس کے لیے موزوں ہوتا ہے لیکن اگر وہ کیفیتیں نہ پائی جائیں تو محض نام کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ جب تک تم اِس طرح اپنے ایمان کے متعلق سوچنے اور غور کرنے کی عادت پیدا نہیں کرو گے اُس وقت تک یہ خطرہ ہے کہ تم دھوکا کی حالت میں ہی مر جاؤ۔ تم یہ سمجھتے رہو کہ ہمارے اندر ایمان پایا جاتا ہے لیکن جب تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ تم بے ایمان ہو۔
یاد رکھو محض نام سے کوئی حقیقت ظاہر نہیں ہوتی۔ اگر سڑے ہوئے آم لے کر کوئی شخص بیچنے لگ جائے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ آم بیچنے والا ہے بلکہ لوگ کہیں گے کہ یہ نجاست بیچتا ہے۔ اُسے تویہ آم رُوڑی پر پھینک دینے چاہییں تھے مگریہ ان آموں کو فروخت کر رہا ہے۔ اِسی طرح اگر سڑے ہوئے خربوزے کوئی شخص بیچتا ہے تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خربوزوں کی تجارت کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص گدڑیاں بیچنی شروع کر دے یا میلے کے ڈھیروں پر سے دھجیاں2 اٹھائے اور فروخت کرنے لگے تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ بزاز3ہے یا اگر کوئی شخص سڑا ہوا کھانا اٹھا کر باہرپھینکتا ہے اور دوسرا شخص باہر جا کر اُس کھانے کو اُٹھا کر تھالی میں ڈال لیتا ہے اور اس کے فروخت کرنے کے لیے اُس کی پھیری شروع کر دیتا ہے تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ وہ باورچی ہے۔ مگرجو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے لوگ اُس کے متعلق اِس قسم کی حرکت کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے دعوٰی ایمان میں بالکل سچے ہیں۔
درحقیقت تمہارا خدا سے ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک ملّاں کے پاس ایک دن ایک لڑکا آیا اور کہنے لگا میری اماں نے یہ کھیر آپ کے لیے بھجوائی ہے۔ ملّاں نے کہا یہ بات کیا ہے کہ تمہاری اماں نے آج کھیر بھجوا دی۔ پہلے تو کبھی اِس کا خیال بھی اُسے نہیں آیا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ کھیر میں کتّا منہ ڈال گیا تھا میری ماں نے کہا کہ ملّاں جی کو دے آؤ۔ ملّاں کو غصہ آیا اور اُس نے کھیر کا برتن اُٹھا کر زمین پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گیا۔ اِس پر لڑکا رونے لگا۔ ملّاں نے کہا تُو روتا کیوں ہے؟ کیاتوُ نے یہ کھیر کھانی تھی؟ اُس نے جواب دیا کہ مَیں نے تو نہیں کھانی تھی لیکن اب مَیں گھر گیا تو اماں مجھے مارے گی۔ کیونکہ یہ وہ برتن تھا جس میں اماں بچے کو پاخانہ پھرایا کرتی تھی۔ یہی تمہارے ایمان کا حال ہوتا ہے اور تم بھی ایسی ہی چیز خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہو۔ ملّاں کے قصہ کو سن کر تم سب لوگ ہنس پڑتے ہو مگر تم کبھی یہ غور نہیں کرتے کہ تم بھی خدا تعالیٰ کے سامنے کتّے کی جُوٹھی چیز پیش کرتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہم مومن ہیں، پھر کہتے ہو کہ ہماری نجات ہو جائے اور ہمیں جنت مل جائے۔ تمہیں اس قربانی اور ایمان کے بدلہ میں ایک ایکڑ زمین بھی تو نہیں مل سکتی۔ مگر تم امید یہ رکھتے ہو کہ تمہیں وہ جنت ملے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے۔ 4کہ آسمان اور زمین کے برابر اُس کی لمبائی اور چوڑائی ہو گی۔ یہ جنت ہے جس کا مومنوں کو وعدہ دیا گیا ہے۔ اور یہ وہ جنت ہے جس کے مقابلہ میں ساری دنیا کی بادشاہت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ امریکہ بھی اور یورپ بھی اور ہندوستان بھی اور چین بھی اور جاپان بھی اور دوسرے ممالک بھی اس کا کروڑواں بلکہ اربواں حصہ بھی نہیں۔ مگر تم کام وہ کرتے ہو جن کے بدلہ میں کوئی شخص ایک گز زمین بھی تمہیں دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا ۔بلکہ گز بھر زمین کا بھی سوال نہیں اگر تم کسی کے سامنے ایسی چیز پیش کرو تو وہ تمہارے منہ پر تھپڑ مارے گا کہ تم میرے سامنے کیا چیز پیش کر رہے ہو۔ تم جاؤ کسی چودھری کے پاس اور اُسے میلے کے ڈھیر پر سے اُٹھایا ہوا ایک جُوتا تحفۃً پیش کرو اور پھر دیکھو کہ وہ تم سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ وہ جُوتا تمہارے سر پر مارے گا اور تمہیں ذلیل کر کے اپنے گھر سے باہر نکال دے گا۔ مگر تم ایسا ہی پھٹا ہوا اور ذلیل جُوتا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہمیں جنت مل جائے۔ ایک ذلیل سے ذلیل انسان کو بھی تم یہ چیز نہیں دے سکتے مگر وہ خدا جو ساری دنیا کا مالک ہے، جو ساری دنیا کا خالق اور رازق ہے تم اُس کے سامنے ایسی ہی چیز پیش کرتے ہو اور پھر اِس کا نام ایمان رکھتے ہو۔ حالانکہ یہ ایمان نہیں یہ کفر سے بھی بدتر چیز ہے۔ کافر اپنے کفر کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش نہیں کرتا بلکہ شیطان کے سامنے پیش کرتا ہے اوراُس کے سامنے ہی اُسے پیش کرنا چاہیے۔ مگر تم اُس خدا کے سامنے یہ چیز پیش کرتے ہو جس کے سامنے نہایت طیب اور اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیش کرنی چاہییں۔
پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور مرنے سے پہلے اپنے آپ کو پاک اور بے عیب بناؤ۔ بے ایمانی، بددیانتی، جھوٹ، دھوکا اور فریب یہی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اِسی طرح سُستی اور غفلت بات بات میں پائی جاتی ہے۔ مگر جب گرفت کی جائے تو قسم کھا کر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بے ایمانی نہیں کر رہے۔ اگر بے ایمانی نہیں تو اَور کیا ہے کہ انہوں نے محنت نہ کی اور جماعت کو نقصان پہنچا دیا۔ وہ سمجھتے ہیں بے ایمانی یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کا روپیہ اُڑا کر جیب میں ڈال لیا جائے۔ گویا وہ بے ایمانی بھی کرتے ہیں اور پھر اتنے پاگل ہوتے ہیں کہ بے ایمانی کے معنی بھی نہیں جانتے۔ وہ شخص جو محنت کر کے کماتا اور پھر دوسرے کا حق اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے اور وہ شخص جو محنت سے کام نہیں لیتا اور قوم کے روپیہ کو ضائع کر دیتا ہے دونوں بے ایمان ہیں۔ یہ بے ایمان ہے اِس لیے کہ اِس نے محنت تو کی مگر روپیہ اپنی جیب میں ڈال لیا اور وہ بے ایمان ہے اِس لیے کہ اُس نے محنت نہ کی اوراِس طرح وہ نتیجہ پیدا نہ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ ایک ایسا شخص جو نماز نہیں پڑھتا وہ بھی بے نماز ہے اور ایک ایسا شخص جوصرف دکھاوے کے لیے نماز پڑھتا ہے وہ بھی بے نماز ہے۔ یہ کہنا کہ دوسرے نے خواہ دکھاوے کے لیے نماز پڑھی ہے نماز تو پڑھ لی ہے بے وقوفی کی بات ہے۔ نماز وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے لیے ادا کی جائے۔
غرض جب تک تقوٰی کے ساتھ انسان اپنے تمام اعمال کا جائزہ نہ لیتا رہے اُس وقت تک وہ کبھی ایمان کی موت نہیں مر سکتا۔ اِسی لیے صوفیاء کہتے ہیں کہ حَاسِبُوْا قَبلَ اَنْ تُحَاسَبُوا۔5 مرنے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہا کرو۔ ایسا نہ ہوکہ تمہارا خانہ خالی ہو اور تم صرف ایمان کا لفظ لے کر بیٹھے رہو اور یہ خیال کرو کہ جب ہم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو ایمان کا لفظ اُس کے سامنے رکھ دیں گے اور کہہ دیں گے کہ لیجیے یہ ہمارا ایمان ہے۔ ایسا ایمان تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا"۔
(الفضل25مارچ 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
سیٹھے: بے مزہ ۔ پھیکے
2
:
دھجیاں:کپڑے یا کاغذ کی کترن۔ چیتھڑے۔
3
:
بزاز:کپڑا بیچنے والا۔ پارچہ فروش۔
4
:
آل عمران:134
5
:
کنز العمال جلد 16حدیث نمبر44203 الباب الثالث فی الحکم و جوامع الکلم کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم خطب ابی بکر الصدیق ومواعظہٗ میں ــ’’حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبلَ اَنْ تُحَاسَبُوا‘‘کے الفاظ ہیں۔

خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کو اختیار کرنا ہماراسب سے پہلا اوراہم فرض ہے
(فرمودہ12مارچ 1948ء بمقام کراچی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے رات سے دردِ نقرس کا دورہ شروع ہے جس کی وجہ سے مَیں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہوسکتا۔ پھر اس لیے بھی مجھے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ یہاں اتوار کے دن میرا لیکچر مقرر ہے۔ گو اُس کے متعلق تفصیلی اطلاع مجھے کارکنان کی طرف سے ابھی تک نہیں ملی لیکن بہرحال وہاں بھی کھڑے ہو کر بولنا پڑا تو پاؤں پر بوجھ پڑے گا۔ اِس لیے مَیں خطبہ نہایت اختصار کے ساتھ پڑھاؤں گا۔ نمازمیں بھی اگر خطبہ کی تکلیف کی وجہ سے مجھے ڈر محسوس ہوا کہ مَیں کھڑا نہیں ہو سکتا تو ممکن ہے نماز کا کوئی حصہ مَیں بیٹھ کر پڑھا دوں۔ یہ مَیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ جب مَیں بیٹھ کر نماز پڑھانے لگتا ہوں تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بُھول چوک ہو گئی ہے اور وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِکہنے لگ جاتے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقِ عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ امام بیٹھ کر بھی نماز پڑھا سکتا ہے۔ ابتدا میں جب نماز فرض ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھانے کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ کا ارشاد تھا کہ مقتدی بھی ساتھ ہی بیٹھ جایا کریں لیکن آخر میں آپ نے اِس حکم کو منسوخ فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ امام اگر بیمار ہو اوروہ بیٹھ کر نماز پڑھانا چاہے تو وہ تو بیٹھ جائے لیکن مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھا کریں۔ 1
اِس کے بعد میں ایک امر کی تشریح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ جماعت کے دوستوں نے ہماری رہائش کے لیے یہاں ایک جگہ تجویز کی تھی جس کا نام مندر ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ مندر نہیں تھا بلکہ مذہبی امور کے لیے وہ عمارت بنائی گئی تھی لیکن بہرحال مَیں نے اُس مکان میں رہنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس طرح وہ لوگ جو یہاں کے کارکن ہیں اس سے ایک حد تک غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اِسی غلط فہمی میں وہ مجھ سے مل کر معذرت کرتے رہے ہیں کہ ہمیں معاف کر دیا جائے ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ اِسی طرح ممکن ہے بعض اَور لوگوں کو بھی اس کے متعلق غلط فہمی ہو اِس لیے مَیں یہ بتادیناضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق پہلے سے حقیقت واضح ہوتی اور جس کی بناء پر اُن کے اِس فعل کو کوئی غلطی یا خطا کہا جا سکے اِس لیے اِس فعل کے متعلق معافی کا کوئی سوال ہی پیدانہیںہوتا۔
اصل بات یہ ہے کہ قادیان کے چھوڑنے پر ہم نے انڈین یونین کے ساتھ یہ گفتگو شروع کی ہوئی ہے کہ قادیان ہمارا مقدس مذہبی مقام ہے اُس میں کسی اَور کو رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انڈین یونین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ قادیان کے مکانات کس نقطہ نگاہ سے مقدس ہیں؟ کیایہ مساجد ہیں؟ یا ان جگہوں پر مذہبی امور طے ہوتے رہے ہیں جن کی بناء پر ان کو مذہبی مقام کہا جاتاہے۔ اِس کے جواب میں گورنمنٹ پاکستان کے نمائندوں کے ذریعہ ہم نے یہ بات پیش کی کہ مقدس مقام ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ عبادت گاہ ہی ہو بلکہ اگر کوئی مقام ایسا ہو جس سے دوسرے کے مذہبی احساسات وابستہ ہوں تو پھر بھی کسی دوسرے کا قبضہ کر لینا یقیناً تکلیف کا موجب ہوتا ہے۔ اِس لیے قادیان کا ہر مکان اور قادیان کی ہر دکان جو کسی احمدی نے بنائی وہ ہمارے لیے مقدس ہے اور صرف احمدیوں کے پاس ہی رہنی چاہیے۔ یہ کہنا کہ وہ دکان ہے کافی نہیں۔ کیونکہ گووہ دکان ہے مگر وہ دکان ایک احمدی نے اِس لیے بنائی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر پیشگوئی فرمائی تھی کہ قادیان بڑھے گا اور احمدی ہجرت کر کے یہاں آ بسیں گے۔2 اسی طرح اگر کسی احمدی نے وہاں مکان بنایا تو اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی قادیان کے متعلق خبر دی تھی۔ پس جب کوئی شخص وہاں مکان بناتا ہے تو اُس کے مذہبی احساسات اُس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور وہ ایک پیشگوئی کی صداقت کے لیے وہاں رہائش اختیار کرتا ہے۔ اس کے بعد خواہ وہ دکان ہے یا مکان یا کوئی اَور چیز جب اُس پر کوئی اَور شخص قبضہ کرتا ہے تو اُن جذبات کو ٹھیس لگتی ہے جن جذبات کی وجہ سے قادیان کی آبادی بڑھی تھی اور جن جذبات کی وجہ سے وہاںمکانات بنائے گئے تھے۔
جب مَیں لاہورمیں آیا تو چونکہ ہمیں کالج اور دوسری ضروریات کے لیے جگہ کی تلاش تھی حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں نے یہ تجویز کیا اور بعض لوگ متواتر اِس غرض کے لیے مجھے ملے کہ ہم ننکانہ لے لیں اور اُس پر قبضہ کر لیں۔ جب بھی ہم اپنی ضروریات اُن کے سامنے رکھتے وہ زور دیتے کہ ہم ننکانہ آپ کو دے دیتے ہیں۔ لیکن مَیں نے ہمیشہ اِس سے انکار کیا اور کہا کہ جو قانون ہم اپنے جذبات کے متعلق ضروری سمجھتے ہیں اُس قانون کے ماتحت ہم دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ چونکہ ننکانہ سکھوں کی ایک مذہبی جگہ ہے اِس لیے ہم اُس پر قبضہ کر کے دوسروں پر یہ اثر ڈالنا نہیں چاہتے کہ ہم بھی ضرورت کے موقع پر دوسروں کے مذہبی مقامات پر قبضہ کر لینا جائز سمجھتے ہیں۔ ہمیں کہا گیا کہ یہ مکانات خالی ہیں اور بہرحال کسی نے لینے ہیں آپ ہی لے لیں۔ ہم نے کہا کوئی لے لے۔ سوال تو ہمارے جذبات کا ہے۔ کسی دوسرے شخص کے اگر وہ جذبات نہیں جو ہمارے ہیں یا ایسے مقامات پر قبضہ کر لینا کوئی شخص جائز سمجھتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ فلاں شخص کے جذبات کے لحاظ سے یہ کوئی بُری بات نہیں یا چونکہ ایسے مقامات پر قبضہ کر لینا اَور لوگ جائز سمجھتے ہیں اِس لیے آپ بھی قبضہ کر لیں۔ اُن کا معاملہ اُن کی ذات سے تعلق رکھتا ہے ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ہم بھی اِس معاملہ میں وہی کچھ کریں جو اَور لوگ کرتے ہیں۔
دوسرے ہم یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ عبادت گاہ ہی ہو تو اُس پر قبضہ کر لینے سے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے بلکہ عبادت گاہ کے بغیر بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے چھِینے جانے یا جن پر دوسرے مذاہب کے قبضہ کر لینے سے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے۔ اِس نقطہ نگاہ کے ماتحت قطع نظر اِس سے کہ اُس کا نام صرف مندر تھا چونکہ وہ ایک ہندو کی عمارت ہے اور یہ عمارت مذہبی مجلسوں اور مذہبی انجمنوں کے انعقاد کے لیے استعمال کی جاتی تھی اِس لیے اپنے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ہم اُس عمارت میں ٹھہریں تاکہ ہماری وہ دلیل جو ہم قادیان کے متعلق دے رہے ہیں کمزور نہ ہو جائے اور ہمارا وہ اصول نہ ٹُوٹے جو مذہبی مقامات کی تقدیس اور ان کے احترام کے متعلق ہم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ بعض دوستوں نے کہا ہے کہ وہ اِس عمارت کو خریدنے کا انتظام کر رہے ہیں بلکہ مجھے کہا گیا ہے کہ خود مالکِ مکان اسے فروخت کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ یہ ایک اہم امر ہے اِس لیے اِس معاملہ میں اگر کوئی قدم مقامی جماعت کی طرف سے اٹھایا جائے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پوری طرح تمام حالات کو میرے سامنے رکھے۔ اگر میری تسلی ہو گئی اور مجھے اِس میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہ آئی تب بھی میرے نزدیک مناسب یہی ہو گا کہ ہم یہ عمارت نہ لیں کیونکہ اپنے اصول کی پابندی ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت اُس حادثہ کی وجہ سے جو پیش آیا ہے کراچی میں یکدم بڑھ گئی ہے یا تو جمعہ میںسَو سَوا سو لوگ آیا کرتے تھے اور وہ بھی میرے آنے پر۔ اور یا اب کہتے ہیں کہ پانچ چھ سَوتک جماعت کے مردوں کی تعداد پہنچ چکی ہے اور عورتیں بھی چار پانچ سو کے قریب ہیں۔ اِن حالات میں ضروری ہے کہ جماعت کوئی ایسی جگہ لے جس میں وہ اپنی مسجد بنائے، لائبریری بنائے اور دوسری ضرورتوں کو پورا کرے۔مَیں جب گزشتہ سال یہاں آیا تھا تو مَیں نے مختلف جگہیں دیکھی تھیں اور ایک جگہ مَیں نے پسند بھی کی تھی جو قریباً چھ کنال یا اِس سے کچھ زیادہ تھی اور جس میں تمام ضرورتیں پوری کی جا سکتی تھیں مگر اُس وقت جماعت کا رجحان اِس طرف تھا کہ بندر روڈ کے قریب ملنی چاہیے۔ چنانچہ وہ جگہ رہ گئی اور لوکل انجمن احمدیہ نے بندر روڈ کے قریب 480 گز زمین اکتیس ہزار روپیہ میں خرید لی مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں بھی زیادہ سے زیادہ تین سَوا تین سَو آدمی آ سکتے ہیں حالانکہ ہماری جماعت کے افراد یہاں پانچ چھ سَو ہیں۔ پھر پانچ سَو کے قریب عورتیں ہیں اور اُن کا بھی مسجد میں آنا ضروری ہے۔ اِن حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کوئی نئی جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ موجودہ جگہ ایسی ہے جس میں ایک ہزار آدمی کے سمانے کی کوئی صورت نہیں بلکہ اگر یہاں دو منزلہ عمارت بنائی جائے تب بھی چھ سات سو آدمی آ سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ حالانکہ ہماری جماعت کے افراد اِس وقت کراچی میں ایک ہزار کے قریب ہیں اور پھر آدمی بڑھتے رہتے ہیں۔ اِس کے علاوہ مہمان بھی وقتاًفوقتاً آتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے سال بھر کے بعد ہمیں ڈیڑھ دو ہزار آدمیوں کے لیے جگہ کی ضرورت محسوس ہو۔ اور چونکہ موزوں مقام جلدی میسر نہیں آ سکتا اِس لیے ابھی سے جماعت کو اپنے لیے کوئی اَور جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ اگر وہ جگہ جہاں ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا اُس کے متعلق میری تسلی ہو جائے اور مجھے یہ اطمینان ہو جائے کہ اُس کے متعلق کسی قسم کا اشتباہ پیدا نہیں ہو سکے گا اور یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ ہم نے ناجائز طور پر اُس سے فائدہ اٹھایا ہے توہو سکتا ہے مَیں اُس عمارت کو خریدنے کی اجازت دے دوں۔ گو اس وقت مجھے شرح صدر نہیں اور میری طبیعت کا رُجحان اِس طرف ہے کہ ہمیں کوئی اَور جگہ تلاش کرنی چاہیے جہاں ایک بڑی مسجد بنائی جا سکے۔ مہمان خانہ ہو، لائبریری کی جگہ ہو، اسی طرح دوسری ضروریات کا انتظام ہو۔ صدر مقام ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ کراچی بہت جلد ترقی کر جائے۔ جو حال کلکتہ اور دلّی کا ہے وہی دس سال کے بعد کراچی کا ہو گا۔ اِس لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات سے ہم فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔ اب سَستی جگہیں مل سکتی ہیں۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اِس طرف توجہ کرے تاکہ آئندہ اس کے لیے پریشانی پیدا نہ ہو۔
دوسری چیز جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مَیں نے آج سٹیشن پر دوستوں کو منع کر دیا تھا کہ وہ میرے گلے میں ہار نہ ڈالیں۔ یوں بھی ہار پہننے میں مجھے حیا سی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اِس امر کو اگر نظرانداز کر دیا جائے تب بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ حقیقی ضرورتوں کو سمجھنے والے افراد کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے زمانہ کے مطابق قدم اُٹھانا چاہیے۔ ہمارے لیے اِس وقت ایک ایسا زمانہ آیا ہوا ہے جس میں ہم اپنے مقدس مقام سے محروم ہیں اور دشمن اُس پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ ہار پہننے کے معنے خوشی کی حالت کے ہوتے ہیں۔ مَیں جہاں جماعت کو یہ نصیحت کیا کرتا ہوں کہ اُن کے دلوں میں پژمردگی پیدا نہیں ہونی چاہیے، اُن کے اندر کم ہمتی نہیں ہونی چاہیے، اُن کے اندر پَست ہمتی نہیں ہونی چاہیے وہاں مَیں اِس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جماعت اِس صدمہ کو بھُول جائے اور ایسی غیرطبعی خوشیاں منانے میں محو ہو جائے جن کی وجہ سے وہ ذمہ داری اِس کی آنکھ سے اوجھل ہو جائے جواللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہے۔ نمائشی باتیں تو یوں بھی ناپسندیدہ ہوتی ہیں مگر کم سے کم اُس وقت تک کے لیے ہمارے نوجوانوں میں یہ احساس زندہ رہنا چاہیے جب تک ہمارا مرکز ہمیں واپس نہیں مل جاتا۔ آخر کوئی نہ کوئی چیز ہو گی جس کے ساتھ نوجوانوں کو یہ بات یاد دلائی جا سکے گی۔ اگر ایسے مظاہروں سے نوجوانوں کو روکا جائے تو چونکہ پہلے ہم روکا نہیں کرتے تھے اِس لیے قدرتی طور پر ہر احمدی کے دل میں یہ بات تازہ رہے گی کہ مَیں نے اپنے مرکز کو واپس لینا ہے۔ مجھے غیرطبعی خوشیوں کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ ہم بھی غیرطبعی خوشیوں میں محو ہو گئے اور نوجوانوں کو ہم نے یہ محسوس نہ کرایا کہ کتنا بڑا صدمہ ہمیں پہنچا ہے تو ان کے اندر اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد اور کوشش کی سچی تڑپ زندہ نہیں رہ سکے گی۔ اِس لیے مَیں سمجھتا ہوں میرے لیے یا کسی اَور کے لیے ایسے مظاہروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔
آخر ہار پہنانا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں۔ مذہبی مسائل کی حیثیت بالکل اَور ہوتی ہے مثلاً عید کے دن اگر کوئی شخص نئے کپڑے نہیں پہنتا یا دُھلے ہوئے کپڑے نہیں پہنتا تو مَیں کہوں گا کہ وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عید کے دن غسل کرو،نئے کپڑے پہنو یا اگر نئے کپڑے نہیں تو دُھلے ہوئے کپڑے پہن لو۔3 یا مثلاً جمعہ کے دن نیا دُھلا ہوا جوڑا پہننے کا حکم ہے۔ گو آج مَیں نے کپڑے نہیں بدلے کیونکہ مَیں ابھی سفر سے آیا ہوں مجھے کپڑے بدلنے کا موقع نہیں ملا مگر یہ مجبوری کی بات ہے۔یوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرو، کپڑے بدلو، خوشبو لگاؤ اور اِس طرح جسم اور لباس کی صفائی کر کے مسجد میں جاؤ۔4 پس جس چیز کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے وہ ہم ضرور کریں گے کیونکہ اس کے چھوڑنے سے خدا تعالیٰ ناراض ہوتا ہے مگر جو خوشی خدا تعالیٰ نے مقرر نہیں کی بلکہ ہم اپنے لیے آپ پیدا کرتے ہیں اُس کے متعلق ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس وقت تک اسے نظرانداز کر دیں جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے ہم اپنے فرض کو ادا کر کے سُرخرو نہ ہو جائیں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہمارا مقدس مقام دشمن کے قبضہ میں ہے اور باوجود انڈین یونین کے انکار کرنے کے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا ہم سمجھتے ہیں کہ انڈین یونین کی اجازت اور اُس کی پُشت پناہی سے اُس پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انڈین یونین چاہے نئی گورنمنٹ ہو وہ تیس کروڑ آبادی کی گورنمنٹ ہے اور تیس کروڑ کی آبادی کوئی معمولی چیز نہیں۔ درحقیقت انڈین یونین آبادی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر کی حکومت ہے۔ پہلے درجہ کی حکومت کی آبادی کے نقطہ نظر سے چین کی حکومت ہے اور دوسرے درجہ کی حکومت انڈین یونین ہے۔ بلکہ جس طرح پاکستان کو نکال کر انڈین یونین کی آبادی تیس کروڑ کی بنتی ہے اسی طرح اگر چین کے کمیونسٹ حلقہ کو نکال دیا جائے توغالباً چین کی حکومت بھی آبادی کے لحاظ سے انڈین یونین سے نیچے رہ جاتی ہے۔ دراصل سارے ہندوستان کی آبادی پہلے چالیس کروڑ تھی۔ اس لیے ہم جب انڈین کی آبادی کا اندازہ لگاتے ہیں تو پاکستان کی آبادی کو نکال کر اندازہ لگاتے ہیں۔ اِسی طرح اگر چین کی وہ آبادی نکال دی جائے جو چین کے ماتحت نہیں اَور جو چین کی آبادی کا1/3 حصہ ضرور ہے اور مجموعی طور پر اُس کی تعداد سولہ سترہ کروڑ تک پہنچ جاتی ہے تو چین کی آبادی بھی انڈین سے کم رہ جاتی ہے۔ بعض لوگ تو چین کے کمیونسٹ حلقہ کی آبادی بہت زیادہ بتاتے ہیں۔ آج ہی مَیں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں اس طرح نصف چین نکل جاتا ہے۔ اِس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ انڈین یونین کا مقابلہ کوئی آسان بات نہیں۔ مگر انڈین یونین چاہے صلح سے ہمارا مرکز ہمیں دے چاہے جنگ سے دے ہم نے وہ مقام لینا ہے اور ضرور لینا ہے۔ اگر وہ صلح کے ساتھ دے تب بھی جس جدوجہد کی ضرورت ہے وہ بڑی بھاری سنجیدگی اور بڑی بھاری قربانی چاہتی ہے اور اگر جنگ کے ساتھ ہمارے مرکز کی واپسی مقدر ہے تب بھی ضروری ہے کہ آج سے ہی ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ اگر ایک چھوٹی سی جماعت کے کچھ افراد یہ کہیں کہ ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور باقی لوگ تیار نہ ہوں تو وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری جماعت صلح کی بنیادوں پر قائم ہے اور جہاں تک ہو سکے گا ہم صلح سے ہی اپنے مرکز کو واپس لینے کی کوشش کریں گے۔
دوسرے ہمارے ہاتھ میں حکومت نہیں اور جنگ کا اعلان حکومت ہی کر سکتی ہے افراد نہیں کر سکتے۔ گویا اِس وقت اگر جنگ کا اعلان ہو تو دو ہی حکومتیں کر سکتی ہیں یا انڈین یونین کرسکتی ہے یا پاکستان کر سکتا ہے۔ ہم پاکستان گورنمنٹ نہیں کہ انڈین یونین سے اعلانِ جنگ کرسکیں۔ ہم آزاد علاقہ کے بھی نہیں کہ ہم ایسا اعلان کرنے کے مجاز ہوں۔ اِس لیے اگر جنگ کے ذریعہ ہی ہمارے مرکز کا ملنا ہمارے لیے مقدر ہے تب بھی جنگ کے .. ..سامان خدا ہی پیدا کر سکتا ہے۔ ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں اور نہ شریعت ہمیں جنگ کی اجازت دیتی ہے۔ شریعت جنگ کا اختیار صرف حکومت کو دیتی ہے اور حکومت ہمارے پاس نہیں۔ پس جنگ سے بھی اُسی صورت میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب خدا ایسے سامان پیدا فرمائے اور انڈین یونین سے کسی اَور حکومت کی لڑائی شروع ہو جائے۔ بہرحال خواہ صلح سے ہمارا مرکز ہمیں واپس ملے یا جنگ سے دونوں معاملات میں ظاہری تدابیر کام نہیں دے سکتیں۔ صرف خدا ہی ہے جو ہماری مدد کر سکتا اور ہمارے لیے غیب سے نصرت اور کامیابی کے سامان پیدا فرما سکتا ہے۔ اگر دلائل کو لو تو دلائل کا اثر بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے ورنہ جو نشۂ حکومت میں سرشار ہو اور جسے اپنی طاقت کا گھمنڈ ہو اُس کے سامنے کتنے بھی دلائل پیش کیے جائیں وہ سب کو ٹھکرا دیتا ہے اور کہتا ہے ہم اِن باتوں کو نہیں مانتے۔ اور اگر طاقت کو لو تو اول تو مادی طاقت ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور اگر ہو بھی اور فرض کرو ہماری جماعت موجودہ تعداد سے پچاس یاسَو گُنے بھی بڑھ جاتی ہے اور پانچ دس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے تب بھی گورنمنٹ ہمارے قبضہ میں نہیں اور ہم شرعی نقطہ نگاہ سے جنگ نہیں کر سکتے۔ گویا ہماری حالت صلح کی صورت میں بھی اور جنگ کی صورت میں بھی کُلّی طور پر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی رضا کو اختیار کرنا ہمارا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے۔ اگر ہم اپنے اِس فرض کو ادا کرلیں تو یقیناً وہ کام جو ہم نہیں کر سکتے خدا اُسے خود پورا فرمائے گا۔ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ خدائی طاقت اور قوت کی کوئی حدبندی نہیں۔ بندے کی بڑی سے بڑی جدوجہد اور کوشش بھی خداتعالیٰ کے فضل کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب خدا کرنے پر آتا ہے تو باوجود اِس کے کہ دنیا ایک کام کو ناممکن سمجھ رہی ہوتی ہے وہ ممکن ہو جاتا ہے۔ شام کو وہ اِس حالت میں سوتی ہے جب وہ اُسے ناممکن سمجھ رہی ہوتی ہے مگر جب صبح اٹھتی ہے تو اُسے وہ ناممکن امر ممکن نظر آرہا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ صبح وہ ایک کام کو ممکن سمجھتی ہے مگر جب شام ہوتی ہے تو وہی ممکن امر اُسے ناممکن نظر آنے لگتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ہمارے سب کام کرنے ہیں اور اُسی پر بھروسہ کرنا ہمارا اولین کام ہونا چاہیے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کاموں اور اپنی خوشیوں اور اپنی ہر قسم کی مصروفیتوں میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ راضی کرنے کی کوشش کریں اور اُس سے رات اور دن یہ دعا کرتے رہیں کہ وہ اپنے فضل اور کرم سے ہماری وہ کوتاہیاں اَور غلطیاں جن کی وجہ سے عارضی طور پر ہمیں اپنے مقام سے ہٹنا پڑا ہے معاف کرکے پھر ہمیں وہ مقام دلا دے تا دنیا کی نظروں میں عارضی طور پر جو اعتراض ہم پر عائد ہوتا ہے وہ دُور ہو جائے اور قادیان جسے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا مرکز مقرر کیا ہے وہ دنیا میں پھر اللہ تعالیٰ کے انوار اور اُس کی برکات کی اشاعت کا مرکز بن جائے"۔اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
(الفضل 30اپریل 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
بخاری کِتَاب الْأَذَانِ بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ
2
:
تذکرہ صفحہ 419 طبع چہارم (مفہومًا)
3
:
ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ اَبْوَاب اِقَامَۃِ الصَّلَوَاتِ وَالسُّنّۃِ باب ماجاء فِی الْاِغْتِسَالِ فِی الْعِیْدَیْنِ
4
:
بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الغسل یوم الجمعۃ و باب الطِّیْبِ للجمعۃ


وقت ضائع کرنے سے بچو
اور اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی کاموں میں صَرف کرو
(فرمودہ19مارچ 1948ء بمقام کراچی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہو گا مَیں آج میل (Mail)میں واپس جا رہا ہوں۔ یہاں قیام کے لیے مجھے اِتنا تھوڑا وقت ملا ہے کہ وہ بہت سے مقاصد جن کو مدنظر رکھ کر مَیں یہاں آیا تھا انہیں مَیں پورے طور پر سرانجام نہیں دے سکا۔اِس میں بڑی دقّت مکان کی ہے۔ اب تک یہاں رہنے کے لیے ہمیں کوئی مکان میسر نہیں آسکا۔ اگر دوست اپنے اپنے رنگ میں امیر جماعت کے مشورہ سے کوشش کرتے رہیں اور کسی مکان کا انتظام ہو جائے تو ارادہ ہے کہ موقع ملنے پر مَیں پھر کراچی آؤں۔ کیونکہ بوجہ پاکستان کا مرکز ہونے کے بہت سے اہم اور ضروری مسائل ایسے ہیں جو کراچی میں ہی حل کیے جاسکتے ہیں لاہور یا کسی اَور شہر میں حل نہیں کیے جا سکتے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ طفولیت کا ہوتا ہے جس میں بہت سی باتیں معاف کر دینے کے قابل ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَ لَوْکَانَ نَبِیًّا1۔ بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔نبی تو وہ تب بنے گا جب 2کے مطابق وہ ایسی عمر کو پہنچے گا جب اُس کے قوٰی مضبوط ہو جائیں گے، اُس کی عقل کامل ہو چکی ہو گی اور وہ نبوت کی ذمہ داریوں کو پورے طور پر سرانجام دینے کے قابل ہوجائے گا تبھی اُس پر خدا کا کلام نازل ہو گا۔ لیکن اِس بلوغت سے پہلے جتنی حالتیں انسان پر گزرتی ہیں وہ اس پر بھی گزریں گی۔ وہ کھیلے گا بھی، وہ کسی زمانہ میں ننگا بھی رہے گا، وہ ماں کا دودھ بھی پئے گا، وہ چھوٹی عمر میں غذا بھی نرم نرم استعمال کرے گا، پھر وہ چلنا پھرنا سیکھے گا۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے پڑھائی مقدر کی ہے تو بہرحال اسے پڑھنا بھی پڑے گا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء دنیا کو یہ بتانا ہو (جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا) کہ ہم اگر چاہیں تو ایک اُمّی کو بھی اپنے پاس سے علم دے سکتے ہیں اور علم بھی ایسا کہ دنیا کے بڑے بڑے عالم اُس کے سامنے اپنی گردنیں جھکانے پر مجبور ہوں تو یہ اَور بات ہے۔ بہرحال طفولیت کا زمانہ بہت سے امور میں معافی چاہتا ہے۔ گو وہ تربیت کا زمانہ ضرور ہوتا ہے ہم اس زمانہ میں بچے کو تربیت سے آزاد نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جو بچوں کی غلطی پر یہ کہا کرتے ہیں کہ بچہ ہے جانے دو وہ اول درجہ کے احمق ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ بچپن کا زمانہ ہی سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔ اگر اِس عمر میں وہ نہیں سیکھے گا تو بڑی عمر میں اُس کے لیے سیکھنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ درحقیقت اگر ہم غور کریں تو بچپن کا زمانہ سب سے زیادہ سیکھنے کے لیے موزوں ہوتا ہے اور اِسی عمر میں اس کی تربیت اسلامی اصول پر کرنی چاہیے۔ پس گو بچہ بعض اعمال کے لحاظ سے معذور سمجھا جاتا ہے مگر سیکھنے کا عمدہ زمانہ اُس کی وہی عمر ہے۔
جس طرح انسان پر بچپن کا زمانہ آتا ہے اِسی طرح قوموں پر بھی ایک بچپن کا زمانہ آتا ہے۔ جب خدا کسی جماعت کو دنیا میں قائم کرتا ہے تو کچھ عرصہ اسے سیکھنے کا موقع دیتا ہے مگر پھر اُس پر ایک دوسرا زمانہ آتا ہے جب وہ قوم بالغ ہو جاتی ہے اور اُس پر ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں جیسے بالغوں پر عائد ہوتی ہیں۔ تب بہت سی باتیں جو طفولیت میں معاف ہوتی ہیں اور غلطی ہونے پر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے بلوغت کے زمانہ میں نہ وہ باتیں اُسے معاف ہوتی ہیں اور نہ غلطی واقع ہونے پر اُس سے چشم پوشی کا سلوک کیا جاتا ہے۔
ہماری جماعت پر بھی بلوغت کا زمانہ آ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کے فعل نے بتا دیا ہے کہ ہماری جماعت اب اُن راستوں پر نہیں چل سکتی جن پر وہ پہلے چلا کرتی تھی۔ بلکہ اب اسے وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو قربانی اور ایثار کا راستہ ہے اور جس پر چلے بغیر آج تک کوئی قوم بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ہندوستان میں احمدیوں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ستّر فیصدی حصہ پنجاب میں تھا۔ اب چونکہ مشرقی پنجاب کے مسلمان بھی ادھر آ چکے ہیں۔ اِس لیے اب اسّی فیصدی بلکہ اِس سے بھی زیادہ حصہ ہماری جماعت کے افراد کا پاکستان میں آ چکا ہے اور بوجہ آزاد گورنمنٹ کا ایک حصہ ہونے کے ان پر بھی ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہیں جیسی آزاد قوموں پر عائد ہوتی ہیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ آزاد قوموں کو جنگ بھی کرنی پڑتی ہے۔ یہ تو نہیں کہ جنگ کے اعلان پر وزیر جا کر لڑا کرتے ہیں یاسیکرٹری جا کر لڑا کرتے ہیں۔ بہرحال افراد ہی لڑا کرتے ہیں۔ اور اگر کسی ملک کے افراد اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھیں تو جنگ میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہوتا ہے کہ افراد میں قومیت کا احساس ہو۔ اگر لڑنے والے افراد میں قومیت کا احساس نہیں ہو گا تو لازماً ان میں کمزوری پیدا ہو گی اور یہ کمزوری اُن کی کامیابی میں حائل ہوجائے گی۔ پس بوجہ اِس کے کہ اسّی بلکہ پچاسی فیصدی احمدی آزاد اسلامی حکومت میں آ گئے ہیں ان کا فرض ہے کہ اب وہ پورے طور پر اپنے اندر تغیر پیدا کریں تاکہ اگر ملک اور قوم کے لیے کوئی خطرہ درپیش ہو تو وہ اُس وقت قربانی اور ایثار کا نمونہ دکھا سکیں اور اس طرح ملک کی کامیابی کی صورت پیداکردیں۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی دفاع کے لیے ہر فرد پر ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض بعض انسانوں اور جماعتوں کو لیڈر بننے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ اگر لیڈر آگے آ جاتے ہیں تو ساری قوم اُن کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ اور اگر لیڈر آگے نہیں آتے تو قوم میں سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ لیڈر بعض دفعہ افراد ہوتے ہیں اور بعض دفعہ قومیں ہوتی ہیں۔ وہ قومیں ایسی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں کہ لوگ ہر اہم موقع پر اُن کی طرف دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا کررہی ہیں۔ ہماری جماعت کی بھی خواہ لوگ کتنی مخالفت کریں اِسے ایسی پوزیشن ضرور حاصل ہو گئی ہے کہ لوگ ہماری جماعت کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ اس جستجو میں رہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری جماعت ہر وقت آمادہ رہے گی اور پاکستان کو جب کوئی خطرہ پیش آیا وہ سب سے بڑھ کر اس کے لیے قربانی کرے گی تو لازمی طور پر دوسرے مسلمان بھی ہماری جماعت کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اِس طرح لوگوں کو بتائیں کہ ملک اور قوم کی خدمت کے معاملہ میں ہم جماعت احمدیہ کے افراد سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ملک کو فائدہ پہنچ جائے گا۔ چاہے وہ ایسا طریق ہمارے بُغض کی وجہ سے اختیار کریں یا رشک کی وجہ سے کریں یا معاملہ کی خواہش کی وجہ سے کریں۔ بہرحال جتنے لوگ آگے آئیں گے اُتنا ہی یہ امر ملک کے لیے مفید اور بابرکت ہوگا۔پس جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہییں۔ مگر ذمہ داریوں کا احساس آپ ہی آپ پیدا نہیں ہو جاتا۔ اِس کے لیے پہلے اپنی ذہنیت میں تغیر پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب تک وہ ذہنیت پیدا نہ ہو اُس وقت تک لوگوں کا وجود نفع رساں نہیں ہو سکتا۔ اِس ذہنیت کو پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز جس کو مدنظر رکھنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے وقت کی قیمت کا احساس ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کو وقت ضائع کرنے کی عام عادت ہے۔ بازار میں جاتے ہوئے کوئی شخص مل جائے تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر اُس سے گفتگو شروع کر دیں گے اور پھر دو دوگھنٹے تک کرتے چلے جائیں گے۔
مَیں ایک دفعہ منالی گیا۔ ایک سکھ رئیس جو اِس قسم کی عادت رکھتے تھے ایک انگریز کے ساتھ پھر رہے تھے کہ مجھے دیکھ کر جھٹ میرے پاس آ گئے اور کہنے لگے مرزا صاحب آپ کہاں؟ مَیں نے کہا تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے یہاں آیا ہوں۔ اُن کے دادا اور ہمارے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے زمانہ میں اکٹھے جرنیل رہے تھے۔ اِس لیے وہ میرے پرانے واقف تھے۔ مَیں اُس وقت ابھی منالی میں اُترا ہی تھا اور مجھے مستورات کے آرام اور اُن کی رہائش وغیرہ کا انتظام کرنا تھا۔ قافلہ بھی ساتھ تھا اور ضرورت تھی کہ فوری طور پر ہمیں فارغ کیا جاتا۔ وہ خود بھی کہنے لگے اچھا مَیں کسی دوسرے وقت حاضر ہوں گا۔ مگر اس کے معاً بعد اُنہوں نے ایک سوال کر دیا جس کا مجھے جواب دینا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرا سوال کر دیا۔ دوسرا سوال ختم ہوا تو تیسرا سوال کر دیا۔یہاں تک کہ ڈیڑھ دو گھنٹے صَرف ہو گئے۔ اُن کی گفتگو کو لمبا ہوتے دیکھ کر انگریز بھی چلا گیا اور قافلہ بھی میری آمد سے مایوس ہو گیا۔ مگر انہوں نے مجھے شام کے قریب چھوڑا۔ اور چھوڑا بھی یہ کہہ کر کہ اچھا پھر بات کریں گے۔
اِسی طرح ایک دفعہ مَیں کلّو کے ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شام کے وقت مستورات کے ساتھ باہر سیر کے لیے نکلا کہ خاکسار کے بنگلہ کے برآمدہ میں مجھے وہی سکھ رئیس مل گئے۔ مَیں نے مستورات سے کہا۔ اب تم جاؤ مجھے یہاں سے ہلنا نصیب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا آپ کو کس طرح پتہ لگا؟ مَیں نے کہا مَیں اِس شخص کو جانتا ہوں مجھ میں طاقت ہی نہیں کہ اب ہل سکوں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے آپ کہاں؟ مجھے آپ سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا مگر اب غالباً آپ کو فرصت نہ ہو اِس لیے پھر ملوں گا لیکن اتنا کہہ کر وہ بیٹھ گئے اور رات کے گیارہ بجے تک باتیں کرتے چلے گئے۔ یہ مَیں نے ایک خاص مثال دی ہے اور گو اِس حد تک تو نہیں لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا ہندوستانی بھائی وقت کو ضائع کرنا کچھ بُرا نہیں سمجھتا۔
مَیں اِس کے لیے آپ لوگوں کو ایک موٹا طریق بتاتا ہوں۔ اگر آپ لوگ اِسے اختیار کر لیں تو یقیناً آپ سمجھ سکیں گے کہ آپ اپنے وقت کا بہت بڑا حصہ غیرضروری بلکہ لغو باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ طریق یہ ہے کہ چند دن آپ اپنے روزمرہ کے کام کی ڈائری لکھیں جس میں یہ ذکر ہو کہ مَیں فلاں وقت اٹھا۔ پہلے مَیں نے فلاں کام کیا۔ پھر فلاں کام کیا۔ دن کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں اور ہر حصہ کے ختم ہونے پر پانچ دس منٹ تک نوٹ کریںکہ آپ اس عرصہ میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اِس طرح آٹھ دس دن مسلسل ڈائری لکھنے کے بعد دوبارہ اپنی ڈائری پر نظر ڈالیں اور نوٹ کریں کہ ان میں سے کون کون سے کام غیرضروری تھے۔ اِس کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ روزانہ 24 گھنٹوں میں سے کتنا وقت آپ نے ضروری کاموں میں صَرف کیا اور کتنا غیرضروری کاموں میں صَرف کیا۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ بہت جلد ہی اندازہ لگا سکیں گے کہ آپ کی بہت سی زندگی رائیگاں چلی جا رہی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف آٹھ دس دن ایسا کرنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جن کاموں کو آپ بوجھ محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ بھر یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ مر گئے بہت بڑا بوجھ آ پڑا ہے، ذرا بھی فُرصت نہیں ملتی۔ ان کاموں میں آپ بہت تھوڑا وقت صَرف کرتے ہیں اور اکثر حصہ لغو کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ پس ایک تو یہ تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو کہ وقت ضائع کرنے سے بچو اور اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی کاموں میں صَرف کرنے کی کوشش کرو۔
دوسری چیز جس کی مَیں جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں بلکہ اصل میں تو یہ پہلی نصیحت ہونی چاہیے تھی وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہماری ساری ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہو سکتی ہیں۔ اور یہ ایک ایسی قطعی اور یقینی حقیقت ہے جس میں شبہ کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ آپ لوگ میرے مُرید ہیں اور مُرید کی نگاہ میں اپنے پیر کی ہر بات درست ہوتی ہے۔ بعض دفعہ اُس کی کوئی بات اُسے بُری بھی لگتی ہے تو وہ کہتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ۔ کیا اچھی بات کہی گئی ہے۔ پس آپ لوگوں کا سوال نہیں کہ آپ میرے متعلق کیا کہتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں غیروں کا میرے متعلق کیا تجربہ ہے۔ غیر احمدیوں کی کوئی مجلس ہو خواہ پروفیسروں کی ہو، خواہ سائنس کے ماہرین کی ہو، خواہ علمُ الْاِقتصاد کے ماہرین کی ہو میرے ساتھ مختلف دنیوی علوم سے تعلق رکھنے والے افراد نے جب بھی بات کی ہے اُنہوں نے محسوس کیا ہے کہ میرے ساتھ گفتگو کر کے انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ فائدہ ہی اٹھایا ہے۔ کثرت کے ساتھ ہر طبقہ کے لوگ مجھ سے ملتے رہتے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میری علمی برتری اور فوقیت کو تسلیم نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے ماہر فوجیوں کو بھی مَیں نے دیکھا ہے مجھ سے گفتگو کر کے وہ یہی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یوں میری تعلیم کے متعلق جب وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں مجھے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مَیں نے پرائمری بھی پاس نہیں کی۔ لیکن جب علمی رنگ میں گفتگو شروع ہو تو انہیں میری علمی فوقیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ایم۔اے، ایل ایل بی یا ایک پروفیسر یا ایک ڈاکٹر یا ایک فوج کا ماہر بعض دفعہ وہ کچھ بیان نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ میری زبان سے بیان کروا دیتا ہے؟ اِس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اُن کے علم کا منبع زید اور بکر کی کتابیں ہیں لیکن میرے سارے علم کا منبع خداتعالیٰ کی کتاب ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ قرآن کریم کو دوسرے لوگوں کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں اور چونکہ وہ اُس مفسّر یا اُس مفسّر کی عینک لگا کر قرآن کریم پڑھتے ہیں اِس لیے اُن کی نظر قرآنی معارف کی تہہ تک نہیں پہنچتی۔ وہ وہیں تک دیکھتے ہیں جہاں تک اُس مفسر نے دیکھنا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے شروع سے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو کبھی انسان کی عینک سے نہیں دیکھا۔ جس دن سے مَیں نے قرآن کریم پڑھا ہے مَیں نے یہ سمجھ کر نہیں پڑھا کہ مجھے یہ قرآن رازی کی معرفت ملا ہے، یا علامہ ابوحیّان کی معرفت ملا یا ابن جریر کی معرفت ملا ہے۔ بلکہ مَیں نے یہ سمجھ کر اسے پڑھا ہے کہ مجھے یہ قرآن براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے بے شک واسطہ بنایا ہے لیکن مجھے اُس نے خود مخاطب کیا ہے۔ اور جب اُس نے مجھے خود مخاطب کیا ہے تو معلوم ہوا کہ میرے سمجھنے کے لیے اُس نے تمام سامان اس میں رکھ دیا ہے۔ اگر سامان نہ ہوتا تو مجھے مخاطب ہی نہ کرتا۔ اِس رنگ میں قرآن کریم کو پڑھنے کی وجہ سے جو فائدہ مَیں نے اٹھایا ہے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد اَور کسی نے نہیں اٹھایا۔ مَیں نے اپنے تصور میں خداتعالیٰ کو اپنے سامنے بٹھا کر اُس سے قرآن کریم پڑھا ہے اور دوسرے لوگوں نے انسانوں سے قرآن کریم کو پڑھا ہے۔ اِسی لیے مجھے قرآن کریم سے وہ علوم عطا ہوئے ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے اور اِسی وجہ سے ہر علم والے پر اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی دیتا چلا آیا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوا ہے فریقِ مخالف نے مجھ سے گفتگو کر کے تسلیم کیا ہے کہ وہی بات درست ہے جو مَیں پیش کررہا ہوں۔ اور اگر کوئی ضدی بھی تھا تو بھی وہ میری بات کا انکار نہیں کر سکا۔
غرض قرآن کریم میں وہ علوم موجود ہیں جو دوسری کتب میں نہیں۔پھر یہ کیسی بدقسمتی ہو گی کہ ہمارے گھر میں تو خزانہ پڑا ہو اور ہم دوسروں سے پیسہ پیسہ مانگ رہے ہوں، ہمارے گھر میں سونے کی کان پڑی ہو اور ہم دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کر رہے ہوں۔ قرآن کریم کی موجودگی میں دوسروں سے علم حاصل کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خزانہ رکھنے والا دوسروں سے ایک پیسہ مانگنے لگ جائے۔ پس قرآن کریم پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ اِس کے لیے کسی لمبے غور اورفکر کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایسے علوم عطا فرمائے ہیں جن سے بہت آسانی کے ساتھ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ میری کتابیں پڑھیں ان سے بہت جلد وہ قرآنی علوم سے آگاہ ہو جائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ ِاس موقع پر کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ ابھی تو آپ نے کہا کہ مَیں نے رازی کی معرفت قرآن کریم نہیں پڑھا، مَیں نے ابوحیان اور ابن جریر کی عینک لگا کر قرآن کریم پر غور نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ کے کلام کو خدا تعالیٰ کے کلام کی عینک لگا کر پڑھا ہے اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ دوسروں کو میری کتابیں پڑھنی چاہییں۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ علامہ ابوحیان اور ابن جریر وغیرہ نے ایسی طرز پر قرآن کریم کی تفسیر کو لیا ہے کہ وہ زیادہ تر ظاہری علوم کی طرف چلے گئے ہیں مغز کی طرف نہیں گئے۔ لیکن میری تفسیر ایسی ہے جس میں صرف مغز کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس لیے ہمارے علوم کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی معرفت انسان کو جلد حاصل ہوتی ہے۔ خود ایک مسلمان عالم کا قول ہے کہ کُلُّ شَیْئٍ فِی تَفْسِیْرِ الرَّازِیْ اِلَّا تَفْسِیْر القُرْاٰنِ یعنی تفسیر رازی میں ہر قسم کے علوم پائے جاتے ہیں سوائے قرآن کریم کی تفسیر کے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ کہیں صَرف کی طرف چلے گئے ہیں، کہیں نحو کی طرف چلے گئے ہیں، کہیں دوسرے ظاہری علوم کی طرف چلے گئے ہیں۔ قرآن کریم کا جو اصل مغز تھا اُس کی طرف نہیں گئے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک صَرفی اور نحوی باتیں ہماری تفسیر میں بھی موجود ہیں مگر اُسی حد تک جس حد تک کسی آیت کی تفسیر کے لیے ضروری ہوتی ہیں ورنہ بیشتر حصہ ہماری تفسیر میں وہی ہوتا ہے جو مطلوب اور مقصود ہوتا ہے۔ ضمنی باتیں بہت کم ہوتی ہیں اور اگر اُن کا ذکر کرنا ہی پڑے تو اُسی قدر کیا جاتا ہے جس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک بچہ ہے اگر ہم اُسے اِتنا سکھا دیتے ہیں کہ’’ ماں‘‘ تو اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ماں کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور جب اُسے دودھ کی ضرورت محسوس ہو گی وہ اپنی والدہ کو ماں کہہ کر بُلا سکے گا۔ اِتنا حصہ تو بہرحال ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم یہ بحثیں شروع کر دیں کہ تمہاری ماں کس خاندان سے ہے اور اُس کا رشتہ تمہارے باپ سے کس طرح ہوا، لڑکی کے ماں باپ نے کس طرح مخالفت کی اور پھر بعد میں یہ کس طرح رشتہ دینے پر رضامند ہوئے، مہر کے کیا اصول ہیں، عائلی زندگی کو بہتر بنانے کے کیا طریق ہیں تو ہمارا اپنا وقت بھی ضائع ہو گا اور بچہ کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آئے گا۔ خالی’’ اماں‘‘ کا لفظ سکھانا تو ضروری ہے۔ اگر ہم اسے یہ لفظ نہیں سکھائیں گے تو وہ اپنی ماں کو بُلا نہیں سکے گا لیکن اَور تشریحات کی اُسے ضرورت نہیں ہو گی۔ اِسی طرح وہ دنیوی علوم جو قرآن کریم سمجھنے کے لیے اَقَلّ طور پر ضروری ہیں اُن کو ایک حد تک ہم بھی پیش کرتے ہیں لیکن اصل چیز جو ہماری تفسیر میں نظر آئے گی وہ یہی ہو گی کہ فلاں آیت کا پہلی آیت سے کیاجوڑہے؟ اس آیت کا پچھلی آیت سے کیا تعلق ہے؟سارے رکوع کا آپس میں کیا جوڑ ہے؟ایک سورۃ کا دوسری سورۃ سے کیا تعلق ہے؟ پھر کئی کئی سورتیں مل کر کیا مضمون پیدا کرتی ہیں؟ کونسے امتیازی نشانات قرآن کریم کو حاصل ہیں؟ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوں نازل کیا اور اسے دوسرے مذاہب کی کتب کے مقابلہ میں کیا فوقیت حاصل ہے؟ یہ مضامین ایسے ہیں کہ جب انسان ان پر غور کرتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نور عطا ہوتا ہے جس سے دنیا کے تمام علوم کو سمجھنے کا ملکہ اس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتاکہ قرآن کریم میں فلسفہ کی وہ تمام تشریحات موجود ہیں جو فلسفی بیان کرتے ہیں، مَیں یہ نہیں کہتا کہ قرآن کریم میں سائیکالوجی کے وہ تمام اصول موجود ہیں جو علم ُالنفس کے ماہرین پیش کرتے ہیں، مَیں یہ نہیں کہتا کہ قرآن کریم میں قانون کے وہ تمام اصول بیان ہیں جو علمِ قانون کے ماہرین نے بیان کیے ہیں۔ لیکن مَیں یہ ضرور کہتا ہوں کہ قرآن کریم نے عقلی طور پر ایسے اصول بیان کر دئیے ہیں کہ اگر اُن کو سمجھ لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام علوم ہم نے پڑھے ہوئے ہیں۔ پس قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر غور کرو۔ اِس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لٹریچر بھی موجود ہے اور پھر میری تفسیر اور مضامین بھی ہیں اُن کو بار بار پڑھو اور اِس قدر قرآن کو اپنے اندر داخل کر لو کہ تمہارے سارے علوم قرآنی بن جائیں اور تم دنیوی علوم کے بھی اُستاد بن جاؤ۔
تیسری بات جس کی مَیں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی بھی دقّت نہیں مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک اُنہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے۔ مثلاً داڑھی رکھنا ہے مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے حالانکہ اِس میں کونسی دِقّت ہے۔ آخر ان کے باپ دادا داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی داڑھی رکھ لیں تو اِس میں کیا حرج ہے؟ پھر باپ دادا کو جانے دو ۔سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگر رکھتے تھے تو آپ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں داڑھی نہیں رکھ سکتے۔ مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کر دی کہ داڑھی رکھنے میں فائدہ کیا ہے۔ وہ میرا عزیز تھا اور ہم کھانا کھا کر اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے اور چونکہ فراغت تھی اِس لیے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ جب مَیں نے دیکھا کہ وہ کج بحثی کر رہا ہے تو مَیں نے اُسے کہا مَیں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔آخر تم مجھ سے یہی منوانا چاہتے ہو سو مَیں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ اِس پر وہ خوش ہوا کہ آخر اُس کی بات تسلیم کر لی گئی ہے۔ مَیں نے کہا مَیں تسلیم کر لیتا ہوں کہ اِس میں کوئی بھی خوبی نہیں۔ مگر تم بھی ایک بات مان لو اور وہ یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک داڑھی رکھنے میں کوئی بھی خوبی نہ ہو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو۔3 تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ میں مُضِر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مُضِر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیںکر لیا کرتے اول تو مجھے داڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں آتا لیکن سمجھ لو کہ یہ مُضِر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو تو ہماری خوبی آیا اِس میں ہے کہ ہم داڑھی نہ رکھیں یا اِس میں ہے کہ داڑھی رکھیں؟ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اور سردار تسلیم کیا ہوا ہے۔ جب ہمارا آقا اور سردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کے حکم کے پیچھے چلیں۔ خواہ اُس کے حکم کی ہمیںکوئی بھی حکمت نظر نہ آئے۔
صحابہؓ کو دیکھو اُن کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا۔ داڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اور داڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کر سکتے ہیں لیکن صحابہؓ بعض دفعہ اِس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُن کر اُس پر عمل کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتے کہ بظاہر اُس کی معقولیت کی کوئی دلیل اُن کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرما رہے تھے کہ آپ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اُس وقت گلی میں سے آ رہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ اُن کے کانوں میں بھی پڑ گئے اور وہ وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھِسٹ گھِسٹ کر اُنہوں نے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ ایک دوست اُن کے پاس سے گزرے تو اُنہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود! تم اتنے معقول آدمی ہو کر یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ۔ اِس پر مَیں بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خطاب آپ سے تو نہیں تھا۔ اُنہوں نے تو یہ بات اُن لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعوؓد نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو۔ بے شک آپؐ کا یہی مطلب ہو گا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر مَیں مسجد پہنچنے سے پہلے پہلے مر گیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی۔ اِس لیے مَیں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔4
یہ ایمان ہے جو صحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اور یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے۔ ہمیشہ انسان کو یہ عادت اختیار کرنی چاہیے کہ یا تو وہ کسی بات کو مانے یا نہ مانے دوغلاپن سے کبھی جرأت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جرأت ہمیشہ یکجہتی سے پیدا ہوتی ہے یا تو ہمارے لیے ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ فیصلہ کرنا باقی ہے تو مَیں تمہیں کہوں گا ابھی ٹھہر جاؤ اور سوچو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا نہیں؟ مَیں اِس پر اعتراض نہیں کرتا۔ مَیں خود جبکہ ابھیبچہ تھا ایک دفعہ سوچنے لگا کہ آیا حضرت مرزا صاحب واقع میں سچے ہیں یا نہیں؟ اور مَیں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھ پر یہ ثابت ہو گیا کہ آپ سچے نہیں تو پھر مَیں اِس گھر میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ کہیں باہر نکل جاؤں گا۔ حالانکہ اُس وقت میری عمر صرف گیارہ سال تھی۔ پس مَیں تمہارا حق بھی تسلیم کرتا ہوں۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا نہیں؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے جو دعوٰی کیا ہے اُس میں وہ سچے ہیں یا نہیں؟ بلکہ تمہارا یہ بھی حق ہے کہ تم سوچو جس خلیفہ کے ہاتھ پر تم نے بیعت کی ہے یہ سچا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص بنی نوع انسان کو اِس فیصلہ کا اختیار دینے سے انکار کرتا ہے تو وہ دنیا میں منافقت پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ دنیا میں جہالت پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ دنیا میں بے ایمانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ لوگوں کا یہ بھی حق ہے کہ وہ سوچیں کہ ا ٓیا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ مگر جب فیصلہ ہو جائے کہ خدا ہے، جب فیصلہ ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر کسی کا کوئی حق نہیں رہتا کہ وہ کہے مَیں یُوں کروں گا کیونکہ میرے نزدیک یہ زیادہ مناسب ہے۔ اُسے وہی کچھ کرنا پڑے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ آپ لوگ بھی ایک دفعہ فیصلہ کریں کہ اِس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں یا نہیں؟ اگر ثابت ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو جس طرح بھیڑیں ایک دوسرے کے پیچھے کُودتی چلی جاتی ہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ خواہ کوئی بات تمہیں بُری لگے یا سچی، لوگ ہنسی اور ٹھٹھا کریں یا تعریف، تم وہی کچھ کرو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ مَیں کہتا ہوں داڑھی رکھنا تو کوئی چیز ہی نہیں۔ تم ہندو قوم کو دیکھو! ہولی میں وہ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں اور ہر سال ایسا کرتے ہیں۔ بھلا اِس میں کونسی معقولیت پائی جاتی ہے؟ مگر بڑے بھی اور چھوٹے بھی سب کے سب اس میں حصہ لیتے ہیں یہاں تک کہ اب کی دفعہ تو وائسرائے کے گھر بھی جا پہنچے۔ یہ کتنی لغو حرکت ہے جو ہندو قوم کرتی ہے۔ مگر وہ قوم اس کی پروا نہیں کرتی اور اِس لیے پروا نہیں کرتی بلکہ کہتی ہے یہ ہمارے مذہب کا حکم ہے۔ حالانکہ اُن کا مذہب کیا ہے؟ نہ دینیات کے متعلق اُس میں کوئی تعلیم ہے نہ خواہشات کے متعلق اُس میں کوئی تعلیم ہے، نہ اقتصادیات کے متعلق اُس میں کوئی تعلیم ہے نہ سیاسیات کے متعلق اُس میں کوئی تعلیم ہے۔ مگر باوجود اِس کے کہ وہ صرف رسم و رواج کا مجموعہ ہے پھر بھی وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں۔ کہیں کوئی قمیص پر رنگ پڑا ہواہوتا ہے کہیں پاجامے پر رنگ پڑا ہوا ہوتا ہے، کہیں بُوٹ پر رنگ پڑا ہوا ہوتا ہے۔ مگر وہ ذرا بھیپروا نہیں کرتے اور اپنے مذہب کے حکم پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ لوگ تو اپنی لغویات پر جس میں کوئی بھی معقولیت نہیں، جس میں کوئی بھی نفع نہیں عمل کرتے چلے جاتے ہیں اور ہم لوگ اُس حکم پر عمل کرنے کے تیار نہیں ہوتے جس میں نفع ہی نفع ہے اور فائدہ ہی فائدہ ہے۔داڑھی میں اگر اَور نہیں تو کم از کم قومی شعار تو ہے۔ مگر یہ قومی شعار بھی اختیار نہیں کیا جاتا اور اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہوئے اِس کی بدنامی کا باعث بنا جاتا ہے۔ اِنہی چیزوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمان ہمیشہ ذلّت کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ اب توانگریز چلا گیا مگر جب وہ تھا اُس وقت بھی فوج میں وہ سکھ کو داڑھی رکھنے دیتا تھا مگر مسلمان کو نہیں۔ اور اِس کی وجہ یہی تھی کہ سکھوں میں سے ہر ایک داڑھی رکھتا تھا مگر مسلمانوں میں ہر ایک داڑھی نہیں رکھتا تھا۔ اِس وجہ سے اگر کوئی مسلمان فوج میں داڑھی رکھتا تو اُسے سزا دی جاتی تھی۔ گویا ایک شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا چاہتا تھا اُسے مسلمان اپنے بدعمل کی وجہ سے انگریز کے ہاتھوں سے سزا دِلواتے تھے کہ کیوں اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اور کیوں ہماری طرح اُس نے داڑھی منڈوا کر نہیں رکھی۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے جو سکھوں اور مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ مَیں اس قوم کو وحشی بھی کہتا ہوں، مَیں اس قوم کو جوشیلا بھی کہتا ہوں مگر مَیں کہتا ہوں ان میں ایک چیز ایسی ہے جو مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ اور وہ یہ کہ انگریز آئے اور چلے بھی گئے مگر سکھ اپنے گوروؤں کی رکھوائی ہوئی داڑھی کو انگریز کے ہاتھوں سے سلامت لے گئے۔ سکھ گوروؤں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔ مگر ایک سکھ جس طرح فخر سے اپنی گردن اونچی کر سکتا ہے مسلمان اپنی گردن اونچی نہیں کر سکتا۔ انگریز آئے تو مسلمان بھی اُسی طرح داڑھی رکھتے تھے جس طرح سکھ داڑھی رکھتے تھے مگر جب سَو سال کے بعد انگریز چلے گئے تو سکھ اپنے گوروؤں کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی داڑھیوں کو بچا کر لے گئے مگر مسلمان اپنی داڑھیوں کو نہ بچا سکے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہزاروں اسلامی شعار ایسے ہیں جو ایک ایک کر کے مسلمانوں نے چھوڑ رکھے ہیں۔
کراچی میں مجھ سے قسم قسم کے لوگ ملنے کے لیے آتے رہے ہیں۔ آج ہی ایک آئی سی ایس افسر مجھ سے ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے بتایا کہ مَیں فلاں مجلس میں شریک ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ مسلمان کثرت سے شراب پی رہے ہیں حالانکہ اب تو انگریز جا چکا ہے اور مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت قائم ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک شعائر ِاسلامی کی پابندی نہیں کی جائے گی اُس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی۔ وہ شخص جو آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے اُس کا کیا حق ہے کہ وہ دشمن سے یہ کہے کہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کر۔ جو آپ کسی بزرگ کا ادب کرتا ہے وہ تو دوسرے سے کہہ سکتا ہے کہ تُو بھی فلاں بزرگ کا ادب کر۔ لیکن جو آپ ادب نہیں کرتا وہ دوسرے کو کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ اُس کا ادب اور احترام کرے۔ چونکہ مسلمان خود عمل کرنے میں ہمیشہ غفلت سے کام لیتا ہے اِس لیے اور لوگ بھی اُس کی اِس کمزوری کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو زبردستی شراب پلانے کے واقعات مل جائیں گے مگر سکھوں کو زبردستی گائے کھلانے کے واقعات نظر نہیں آئیں گے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ مسلمان اِس زبردستی پر بُرا نہیں منائے گا۔
پس تیسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ہر قسم کے اسلامی احکام کو قائم کرو اور ایسا نمونہ پیش کر و جو لوگوں کو خودبخود عمل کی تحریک کرنے والا ہو۔ شیعہ ہو، سنّی ہو، کوئی ہو ہر ایک کے پاس جاؤ اور اُسے منت سے، سماجت سے، ادب سے، محبت سے کہو اور بار بار کہو کہ یہ اسلامی حکم ہے میرا نہیں۔ آپ کو اگر حضرت مرزا صاحب سے مخالفت ہے تو کیجیے مخالفت۔ اگر احمدیت کو آپ جھوٹا سمجھتے ہیں تو کہیے جھوٹا۔ مگر یہ حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے میرا یا کسی اَور کا نہیں۔ اِس لیے اِس حکم پر عمل خود آپ کے لیے بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ کسی اَور کے لیے۔
مَیں نے گزشتہ ایام میں جہلم میں ایک تقریر کی جس میں مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اُنہوں نے جو پاکستان مانگا تھا تو اِس لیے مانگا تھا کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کو آزادانہ طور پر قائم کرسکیں۔ اب جبکہ پاکستان قائم ہو چکا ہے کم از کم پانچ وقت کی نماز ہی مسلمان مسجد میں آ کر ادا کرنا شروع کر دیں۔اگر وہ پانچوں وقت نماز بھی نہیں پڑھتے تو پاکستان مانگ کر اُنہوں نے کیا لیا؟ اِس پر ایک شخص نے پریذیڈنٹ کو رقعہ لکھا کہ مَیں والنٹئیرز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ بعد میں مجھے موقع دیا جائے۔ چنانچہ بعد میں اُسے بولنے کا موقع دیا گیا۔ اتفاق سے پریذیڈنٹ ایک ایسے دوست تھے جو احمدیت کے مخالف رہے ہیں۔ وہ شخص کھڑا ہوا اوراُس نے کہا مرزا صاحب نے باتیں تو بڑی اچھی کہی ہیں لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اَور اور دکھانے کے اَور ہوتے ہیں۔ اگر نماز کا اِنہیں اِتنا ہی احساس ہے تواب ہماری نماز ہونے والی ہے مرزا صاحب چلیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھ کر دکھا دیں۔ غرض ایک لمبی تقریر اُس نے صرف اِسی بات پر کی۔اُس وقت میرے دل میں بدظنی پیدا ہوئی کہ شاید پریذیڈنٹ کی مرضی اور ایماء سے یہ تقریر ہو رہی ہے۔ بعد میں پریذیڈنٹ صاحب کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے تورُقعہ میں یہ دکھایا گیا تھا کہ مَیں والنٹیئروں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر تقریر کسی اَور بات پر شروع کر دی گئی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تقریر کرنے والے صاحب کا منشاء کیا ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنی چاہیے۔ نماز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ اور مسجدیں بھی ہماری اپنی ہیں۔ انہوں نے صرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے رسول کی بات مانو اور مسجدوں میں نمازیں پڑھا کرو۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اُن کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اگر تو اُنہوں نے یہ کہا ہوتا کہ مسلمانوں کو میرے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہییں تب بھی کوئی بات تھی۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پیچھے پڑھیں۔ یا اگر کہتے کہ مسلمانوں کو احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہییں تب بھی یہ بات ان کے منہ پر سج سکتی تھی کہ اگر ہمیں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے کہاجاتا ہے تو وہ بھی ہمارے پیچھے پڑھیں۔ لیکن اُنہوں نے تو ہمارے آقا کی ایک بات ہمیں یاد دلائی ہے۔ کیا ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اپنے آقا کی بات پر عمل کریں یا یہ کام ہے کہ ہم کہیں جب تک تم ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو ہم اپنے آقا کے حکم پر بھی عمل کرنے کے لیے تیار نہیں؟ غرض اُنہوں نے اُسے خوب رگیدا اور لتاڑا۔
یہی طریق ہے جو اسلامی احکام کو قائم کرنے کے لیے تمہیں اختیار کرنا چاہیے۔ تم مسلمانوں سے کہو کہ ہمیں بے شک گالیاں دیجیے، ہمیں بُرا بھلا کہیے۔ مگر یہ حکم ہمارا نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اِس لیے ہماری خاطر نہیں بلکہ اپنے آقا اور اپنے مطاع کی خاطر اِس حکم پر عمل کریں۔ مگر ہم دوسروں کو کب ایسی نصیحت کر سکتے ہیں جب خود ہمارے اندر ایسے نوجوان موجود ہوں جو احکامِ اسلامی کے پوری طرح پابند نہ ہوں۔ ہم دوسروں سے کہیں گے تو وہ فوراً ہمیں جواب میں کہیں گے کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ جب فلاں فلاں اشخاص خود تم میں ایسے موجود ہیں جو اسلامی احکام کے پابند نہیں۔ پس پہلے اِس نقص کی اصلاح اپنے گھر سے شروع کرو اور پھر ہر مجلس میں لوگوں کو اِس طرف توجہ دلاؤ۔ بے شک وہ تمہیں پاگل کہیں، تمہیں دیوانہ قرار دیں، تمہیں جاہل اور احمق سمجھیں۔ تم اُن کے پاگل اور دیوانہ اور احمق کہنے پر گھبراؤ نہیں بلکہ اگر تم اپنی نصیحت میں مشغول رہے تو یقیناً اُن کا تمہیں پاگل اور دیوانہ کہنا لوگوں کے قلوب میں تمہاری عظمت پیدا کر دے گا اور آخر ایک دن وہ ضرور اسلامی احکام کی اتباع کی طرف رجوع کریں گے۔ اور جب وہ اسلام کی طرف رجوع کریں گے تو یہ یقینی امر ہے کہ وہ احمدیت کو بھی قبول کرلیں گے۔ جس طرح رات کے وقت سورج کا ہونا ناممکن ہے، جس طرح دوپہر کے وقت تاریک رات کا ہونا ناممکن ہے اِسی طرح یہ ناممکن امر ہے کہ کسی شخص کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت پیدا ہو جائے اور مرزا صاحب کی محبت پیدا نہ ہو۔ یہ ناممکن امر ہے کہ ایک شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کرے اور مرزا صاحب کی اتباع نہ کرے۔ ایک نے دوسرے کی روشنی کو اِس طرح کھولا ہے، ایک نے دوسرے کے نور کو اِس طرح کھولا ہے، ایک نے دوسرے کے معارف کو اِس طرح کھولا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرے اور مرزا صاحب سے محبت نہ کرے۔ جب وہ اسلام کو سمجھ جائیں گے تو یقیناً احمدیت کی طرف بھی توجہ کریں گے اور جب وہ احمدیت کی طرف توجہ کریں گے تب مسلمان ایک ہاتھ پر جمع ہوں گے اور تب مسلمان دنیا کے تمام کناروں تک غالب آ جائیں گے۔ مگر عمل اور پھر عمل اور پھر عمل ۔اور اِس سے پہلے ایمان اور ایمان اور پھر ایمان کی ضرورت ہے"۔
(الفضل 14؍اپریل 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
موسوعۃ امثال العرب جزء رابع زیر حرف ’’ص‘‘میں ’’الصبیّ صبیًّا ولَقِیَ النَّبِیَّ‘‘کے الفاظ ہیں۔
2
:
الاحقاف:16
3
:
بخاری کتاب اللباس باب اعفاء اللّحٰی
4
:
ابوداؤد، کتاب الصلٰوۃ باب الامامُ یُکَلِّمُ الرَّجُلَ فی خطبتہٖ (مفہوماً)

رخصتیں شریعت کو کمزور کرنے کے لیے نہیں
بلکہ اِس لیے دی گئی ہیںکہ مومن بِلا وجہ تکلیف میں نہ پڑیں
(فرمودہ26مارچ 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے زکام نزلہ اور سوزشِ حلق کی تکلیف ہے۔ اِس وجہ سے مجھے طبی طور پر اونچی آواز سے بولنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اِس کے علاوہ آج صبح سے مجھے دردِ نقرس کی بھی تکلیف ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں اب تیسری دفعہ مجھ پر دردِ نقرس کا حملہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مَیں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ آج ہماری شورٰی کا اجلاس ہے اور چونکہ بہت سے دوست باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور اُن کی خواہش تھی کہ مجھ سے ملیں۔ اِس لیے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ آج چند الفاظ کہہ کر مَیں جمعہ کا خطبہ ختم کر دوں اور خود ہی جمعہ کی نماز پڑھانے کی کوشش کروں۔مَیں آج کسی اَور خطبہ کی بجائے صرف اِس امر کو جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے گزشتہ ایام میں اِس بات پر غور کیا ہے کہ ہماری جماعت رخصتوں سے ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھانے لگ گئی ہے۔ شریعت نے رخصتیں اِس لیے نہیں دیں کہ اِن سے شریعت کو کمزور کیا جائے بلکہ اُس نے رخصتیں اِس لیے دی ہیں کہ مومن بِلاوجہ تکلیف میں نہ پڑیں۔ لیکن ہماری جماعت میں اِس مسئلہ پر زور دینے کی وجہ سے رُخصتوں کا استعمال اتنا بڑھ گیا ہے کہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ دین میں آہستہ آہستہ اباحت نہ پیدا ہو جائے۔ اِس لیے مَیں نے سرِدست نماز کے متعلق اِس بات پر زور دینا شروع کیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے نماز وقت پر اور الگ الگ پڑھی جائے۔ حضر میں تو لازمی ہی ہے۔ سفر میں بھی اگر کوئی خاص روک نہ ہو تو علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی جائے۔ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ خواہ فرائض سے آگے پیچھے ادا کی جانے والی رکعات کا نام سنتیں نہ رکھو نوافل رکھ لو۔ بہرحال اِس طرح کئی دفعہ خدا تعالیٰ کو یاد کرنے اور اُس کی عبادت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح سفر میں بعض دفعہ انسان کو کھانا دیر سے کھانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مشکل ہو تو وہ نمازیں جمع کر سکتا ہے۔ اور نمازوں کا جو مقررہ وقت ہے اُس کے اندر رہتے ہوئے وہ نمازوں کو آگے پیچھے بھی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوتا کہ اگر کھانا کسی کو مل رہا ہو تو وہ اِس لیے نہ کھائے کہ چونکہ مجھے سفر درپیش ہے اور سفر میں عام طور پر کھانا وقت پر نہیں ملتا اِس لیے مَیں یہ کھانا بھی نہیں کھاتا۔ یا چونکہ مَیں سفر میں ہوں اور سفر میں بعض دفعہ ناشتہ کا انتظام نہیں ہوتا اِس لیے مَیں ناشتہ نہیں کرتا۔ کوئی مسافر یہ نہیں کہا کرتا کہ چونکہ مجھے بعض دفعہ سفر میں صبح کا کھانا نہیں ملتا اِس لیے صبح کا کھانا ملنے پر بھی مَیں نہیں کھاؤں گا۔یا چونکہ شام کا کھانا بعض دفعہ سفر میں نہیں ملتا اِس لیے شام کا کھانا ملنے کے باوجود مَیں نہیں کھاؤں گا۔ اگر کھانا نہیں ملتا تو وہ نہیں کھاتا اور اگر مل جاتا ہے تو وہ کھا لیتا ہے۔ اِسی طرح نماز کے متعلق بھی اِس سفری تقاضا کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ اگر سفر میں علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے مثلاًفرض کرو گاڑی کے کمرہ میں الگ الگ نمازیں پڑھنے کی گنجائش ہے یا کوئی اسٹیشن ہے جہاں پانچ سات منٹ گاڑی نے ٹھہرنا ہے اور انسان الگ الگ نماز پڑھ سکتا ہے تو اُسے ضرور الگ الگ نماز پڑھنی چاہیے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ شریعت کی طرف سے نمازیں جمع کرنے کی رخصت ہے مگر یہ رخصت ہماری کمزوریوں اور مشکلات کو دیکھ کر ہے۔ جہاں بعض لوگوں کی یہ غلطی ہے کہ وہ باوجود مشکلات کے رُخصتوں پر عمل نہیں کرتے جیسے غیر احمدی کہتے ہیں کہ آجکل کا سفر آرام دِہ ہے اِس لیے آجکل کے سفر میں رُخصتوں سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہیے حالانکہ آجکل کا سفر بعض دفعہ اِتنا تکلیف دِہ ہوتا ہے کہ پرانے سفر بھی اتنے تکلیف دِہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ پس جہاں یہ غلطی ہے کہ آجکل کے سفروں کو آرام دہ قرار دیتے ہوئے رخصتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے وہاں یہ بھی غلطی ہے کہ ان رخصتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور شریعت کے احکام کے وہ حصے جن کے متعلق کوئی حکم نہیں بلکہ صرف رُخصتیں ہیں اُن میں باوجود موقع ملنے کے صرف رخصت کی طرف اپنی طبیعتوں کا میلان رکھا جائے۔ مثلاً نماز قصر کرنے کا حکم قرآن کریم سے ثابت ہے یہ رخصت نہیں بلکہ حکم ہے۔1 اِس لیے خواہ ہمیں کوئی شخص تختِ سلیمان پر بٹھا کر لے جائے جب ہم سفر پر ہوں گے نماز کا قصر کرنا ہمارے لیے واجب ہو گا۔ جس طرح حضر میں چار رکعتیں فرض ہیں اِسی طرح سفر میں دو رکعتیں پڑھنا فرض ہے۔جس طرح حضر میں چار کی بجائے دو رکعتیں پڑھنی ناجائز ہیں اِسی طرح سفر میں دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھنی ناجائز ہیں۔ لیکن نمازوں کو جمع کرنا یہ اجازت اور رخصت ہے۔ اِس کے متعلق ہمیں کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت سے نمازیں جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے مگر یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ اِس کے خلاف عمل کرنا ناجائز سمجھتے ہوں۔ بلکہ اَور تو اَور غزوہ احزاب میں آپ نے ظہر کی نماز الگ پڑھی اور عصر کی نماز الگ پڑھی۔
پس مَیں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب ہمارے لیے چستی کا زمانہ آچکا ہے جس میں رُخصتوں پر عمل کم ہوتا ہے۔ اب ہمارے لیے قربانی کا زمانہ آ گیا ہے جس میں رخصتوں پر عمل کم ہوتا ہے۔ اِس لیے زیادہ سے زیادہ زور اِس بات پر دو کہ شریعت کے احکام اُن شرائط کے مطابق ادا کرو جو شرائط خدا اور اُس کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اجتماعی کاموں اور جلسوں کے لیے اگر نماز جمع کر لی جائے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر آج میں نمازیں جمع نہیں کراؤں گا۔ اِس لیے کہ ہماری شورٰی کا پہلا اجلاس صرف اِس قدر ہو گا کہ کمیٹیاں بنا کر ہم کہہ دیں گے کہ وہ اپنا کام کل پیش کریں اور چونکہ عصر کی نماز کا وقت اجلاس کے بعد ہمیں مل جائے گا اِس لیے مَیں صرف جمعہ کی نماز پڑھاؤں گا۔ عصر کی نماز علیحدہ وقت پر اِنْشَاء َ اللّٰہُپڑھاؤں گا۔ اگر خطبہ دینے کی وجہ سے تکلیف نہ بڑھی تو خود پڑھا دوں گا ورنہ جو امام مقرر ہو گا وہ پڑھا دے گا‘‘۔
(الفضل 21؍اپریل 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
(النساء :102)




علم سیکھنے کی تڑپ، قوتِ عملیہ اور تدبّر وفکر کی عادت
مومن کا خاص شیوہ ہے
(فرمودہ2 ؍اپریل 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"انسانی زندگی کے ہر حصہ کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں اور ہر حصہ میں کچھ کمزوریاں اور کچھ اچھی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بچپن کی زندگی ہے۔ جہاں بچپن کی زندگی میں جسمانی کمزوری پائی جاتی ہے، نسلی کمزوری پائی جاتی ہے، سنجیدگی کی کمی پائی جاتی ہے وہاں بچپن میں سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجود ہوتی ہے۔ شاید انسانی زندگی کے مختلف اَدوار میں سے کسی ایک دَور میں بھی سیکھنے کی خواہش اِتنی شدید نہیں ہوتی جتنی بچپن کی زندگی میں ہوتی ہے۔ وہ بیسیوں باتیں جن کو سن کر بڑے آدمیوں کے دلوں میں کبھی یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ وہ کیوں ہیں؟ کس لیے ہیں؟ اُن کی کیا تشریح ہے ؟اور ان کا کیا مقصد ہے؟ بچہ اُن باتوں کو سن کریا دیکھ کر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے۔ ہر ابتدائی تغیر پر، ہر آسمانی تبدیلی پر، زمینی آواز یا زمینی نظارے کا جو فرق ہوتا ہے اِس پر بچہ فوراً سوال کر دیتا ہے کہ اماں! یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ یہ کس لیے ہے؟ حقیقتاً اگر مائیں تعلیم یافتہ ہوں تو بچے سکول میں جانے سے پہلے ہی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگر مائیں چونکہ خود نہیں جانتیں کہ اصلیت کیا ہے کوئی اُوٹ پٹانگ جواب دے دیتی ہیں۔ کبھی وہ اُسے خاموش کرا دیتی ہیں، کبھی بچہ کو یہ کہہ دیتی ہیں کہ یہ کوئی جادو ہے یا کوئی اَور ایسی ہی چیز ہے۔ اِس طرح بچے کا علم سیکھنے کا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ بہترین معلّم بچہ کی ماں ہو سکتی ہے بشرطیکہ ماں خود تعلیم یافتہ ہو۔ ماں تعلیم یافتہ نہ ہو تو بچہ بجائے علم سیکھنے کے جہالت کی باتیں سیکھتا ہے۔ یا علم سیکھنے کی خواہش بالکل ماری جاتی ہے اور وہ ایک بے خواہش اور بے اُمنگ ہستی ہو کر رہ جاتا ہے۔
اِس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے۔ کہتے ہیں "جوانی دیوانی"لیکن جتنی قربانی کی روح جوانی کے زمانہ میں پائی جاتی ہے اُتنی قربانی کی روح نہ بچپن میں پائی جاتی ہے نہ بڑھاپے میں پائی جاتی ہے۔ بچہ ڈرتا بہت ہے اور بوڑھا سوچتا بہت ہے لیکن جوان کام بہت زیادہ کرتا ہے۔ وہ نہ اِتنا ڈرتا ہے جس سے کام خراب ہو جائے اور نہ اِتنا سوچتا ہے کہ سوچتے سوچتے کام کا وقت نکل جائے۔ قوتِ عمل اُس میں پورے زور اور پورے شباب پر پائی جاتی ہے۔ اِس کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ بڑھاپے میں نہ بچے کی سی سیکھنے کی خواہش ہوتی ہے نہ نوجوانوں جیسی قوتِ عمل پائی جاتی ہے۔ وہ عادی ہو جاتا ہے اُن چیزوں کو دیکھنے کا جن چیزوں کے متعلق اُسے سوچنا چاہیے تھا، جن پر اُسے غور کرنا چاہیے تھا اور جن کے متعلق اُسے فکر سے کام لینا چاہیے تھا اور ایک پرانی عادت کی وجہ سے اور بار بار ان چیزوں کو دیکھنے کی وجہ سے اُس کے سیکھنے اور غور و فکر کرنے کی حِسّ ماری جاتی ہے۔ وہی چیز جو بچہ کے لیے عجوبہ ہوتی ہے اور واقع میں عجوبہ ہوتی ہے وہ ایک بڈھے کے لیے کوئی سوچنے والی بات نہیں ہوتی۔ بچہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ سورج اِدھر سے کیوں نکلتا ہے اور اُدھر کیوں ڈوبتا ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ اِدھر سے نکلنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے اور اُدھر ڈوبنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے۔ مگر بڈھا سمجھتا ہے اِدھر سے سورج نکلا ہی کرتا ہے اور اُدھر سورج ڈوبا ہی کرتا ہے حالانکہ اگر اِدھر سے سورج نکلا ہی کرتا ہے اور اُدھر سورج ڈوبا ہی کرتا ہے تب بھی اس کے نکلنے اور ڈوبنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے۔ مگر چونکہ وہ بار بار یہ دیکھتا رہا کہ سورج اِدھر سے نکلتا ہے اوراُ دھر غروب ہوتا ہے اِس لیے رفتہ رفتہ اُس کے سوچنے اور غوروفکر کرنے کی حِسّ ہی ماری گئی اور وہ سمجھنے لگا کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ حالانکہ یا تو اُسے یہ بتانا چاہیے کہ اُسے پتہ لگ گیا ہے کہ سورج اِدھر سے کیوں نکلتا ہے اور اُدھر کیوں ڈوبتا ہے یا اُسے یہ کہنا چاہیے کہ اِس کی کوئی وجہ نہیں۔ ورنہ اگر دس کروڑ دفعہ بھی سورج ایک طرف سے نکلے اور دس کروڑ دفعہ بھی دوسری طرف غروب ہو تب بھی یہ کوئی جواب نہیں کہ سورج اِدھر سے نکلا ہی کرتا ہے یا سورج اُدھر غروب ہی ہوا کرتا ہے۔ اُسے بتانا پڑے گا کہ ِاس نکلنے اور ڈوبنے کی فلاں وجہ ہے۔ یا یہ کہنا پڑے گا کہ اِس کا نکلنا اور ڈوبنا بِلاوجہ ہے۔ لیکن بچہ اِن باتوں پر غور کرتا اور صحیح حقیقت معلوم کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ برسات کے موسم میں رات کے وقت لیمپوں پر پروانے گرنے شروع ہوتے ہیں۔ ایک بڈھے کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ یہ پروانے کہاں سے آ گئے ہیں۔ لیکن بچہ جب پہلی دفعہ پروانوں کو دیکھتا ہے تو وہ حیران ہو کر کہتا ہے کہ یہ کہاں سے آ گئے ہیں؟ کیوں نکلے ہیں اور چراغ کے گرد کیوں گرتے ہیں؟ یہی سوال ہے جو علمِ طبیعات اور علمِ حیوانات کے ماہر کے دل میں بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ اِس کا جواب دیتا ہے۔ وہ جواب صحیح ہے یا غلط ہے اُس سے بحث نہیں۔ بہرحال وہ اِس کی کوئی نہ کوئی وجہ قرار دیتا ہے۔ لیکن ماں بوجہ اِس کے کہ اُسے خود علم نہیں ہوتا جب بچہ اُس سے سوال کرتا ہے تو وہ کہہ دیتی ہے بچہ! یوں ہی ہوا کرتا ہے۔ اِسی طرح پروانے نکلتے اور اس طرح لیمپوں پر گرا کرتے ہیں۔ بچہ اِس جواب پر حیران ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی تو پوچھنا چاہتا تھا کہ پروانے کیوں نکلتے ہیں، کیوں لیمپ پر گرا کرتے ہیں۔ اگر وہ اِسی طرح نکلتے اور اِسی طرح گرا کرتے ہیں تب تو ان کے نکلنے اور گرنے کی ضرور کوئی وجہ ہونی چاہیے۔ مگرماں کے نزدیک چونکہ وہ اِسی طرح نکلتے اور اِسی طرح لیمپوں پر گرتے ہیں اِس لیے اُن کے نکلنے اور گرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور بچہ کے نزدیک یہی فعل تقاضا کرتا ہے کہ ان کے نکلنے کی کوئی وجہ ضرور ہو۔ اِسی طرح ان کے لیمپ پر گرنے کی بھی کوئی وجہ ضرور ہو۔ یہ فرق اِسی لیے ہے کہ بچے کا دماغ علم کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور ماں کا دماغ جہالت کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ بڈھا کسی چیز کی کُنہہ اور حقیقت معلوم کرنے سے تھک جاتا ہے اور وجوہات دریافت کرنے کی حِسّ اُس کے اندر نہیں رہتی اور جب اُس سے کسی چیز کے متعلق دریافت کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو وہ بِالعموم یہی جواب دیتا ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ لیکن باوجود اِس کے جتنا عرصہ اُس نے سوچا تھا جتنے سوالات اُس کے دل میں پیدا ہوئے تھے، جتنی جوانی کی اُمنگیں اُس کے قلب میں موجزن ہوئی تھیں۔ ان ساری چیزوں نے ایک خلاصہ نکال کر اُس کے دماغ میں رکھا ہوا ہوتا ہے اور سوچ سمجھ کر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی اہلیت اُس میں پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ بہت سی چیزوں کو جہاں عادتاً ترک کر دیتا ہے یا ان کے متعلق سوچتا نہیں وہاںبہت سی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اُس نے ایک مناسب رائے قائم کرنی ہوتی ہے۔
گویا بڑھاپا عقل کا زمانہ ہے ،جوانی عمل کا زمانہ ہے اور بچپن سیکھنے کا زمانہ ہے۔ بچپن کی عمر میں انسان جوانی اور بڑھاپے کی خوبیوں سے محروم ہوتا ہے۔ جوانی میں عام طور پر بچپن اور بڑھاپے کی خوبیوں سے محروم ہوتا ہے اور بڑھاپے میں جوانی اور بچپن کی خوبیوں سے محروم ہوتا ہے۔ لیکن اِس میں ایک استثناء بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا کا بندہ یعنی سچا اور حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ اس کا بڑھاپا اُسے قوتِ عمل سے محروم نہیں کرتا۔ اور اُس کی جوانی اُس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کردیتی۔ بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے سوالات سے اپنی ماں کو دِق کر دیتا ہے۔ اُسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں لگا رہتا ہے۔
اِس کی موٹی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے۔ آپ کو پچپن چھپن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ 1یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچہ کے ساتھ ہوتا ہے۔تُو دیکھتا ہے کہ کس طرح بچہ کُودکُود کر اپنی ماں سے سوال کرتا ہے کہ یہ کیوں ہے وہ کیوں ہے؟ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تُواِس وقت پچاس ساٹھ سال کی عمر میں ہے مگر اِس عمر میں جہاں دوسرے لوگ بے کار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش اُن کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور اُن کو کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ تُو ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا کیجیئو کہ خدایا! میرا علم اَور بڑھا، میرا علم اَور بڑھا۔ چنانچہ دیکھ لو آخر اسلام نے کونسی ایسی نئی بات پیش کی ہے جوفطرت میں موجود نہیں تھی۔ سب چیزیں موجود تھیں سوائے چند مسائل کے جو خدا تعالیٰ کی ہستی یا اُس کی صفات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ باقی سارے مسائل خواہ عبادات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا معاملات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں فطرتی مسائل ہیں۔ نئی ایجادیں نہیں پھر کیوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معاملات میں بنی نوع انسان کی راہنمائی کی اور کس ذریعہ سے وہ پیشوا بن گئے؟اِسی لیے کہ آپ ہر وقت کی دعا مانگتے رہتے تھے۔ آپ نے کسی چیز کو اِس لیے نہیں دیکھا کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے بلکہ اِس لیے دیکھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اور جب آپ نے ہر چیز کے متعلق غور کیا کہ ایسا کیوں ہے یا کیا ہونا چاہیے تو آپ کو ایسی راہنمائی عطا ہوئی جس سے آپ کا علم صبح شام بلکہ ہر گھنٹہ اور ساعت کے بعد بڑھتا چلا گیا۔ مزید بات یہ ہے کہ خود سوچنے اور غور کرنے کے علاوہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے بھی سوالات کرتے گئے (جیسے بچہ اپنی ماں سے سوالات کرتا ہے) کہ خدایا! مجھے اِس کی بھی وجہ بتا اُس کی بھی وجہ بتا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ لو۔ آپ بڑی عمر کے آدمی تھے مگر پھر بھی کہتے ہیں2دنیا کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احیائے مَوْتٰی پر کبھی غور ہی نہیں کرتے۔ نہ جسمانی زندگی اُنہیں عجوبہ معلوم ہوتی ہے نہ حیوانی زندگی اُنہیں عجوبہ معلوم ہوتی ہے۔ہزاروں سال سے زندگی کا دَور چلا آ رہا ہے مگر یہ کبھی غور نہ کیا گیا کہ انسان کی زندگی کس طرح شروع ہوئی ہے۔ اِس زمانہ میں صرف ڈارون(Darwin) کی ایک مثال ہے۔ اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ زندگی کس طرح ظاہر ہوئی ہے اور وہ کیا کیا مدارج ہیں جن میں سے انسان گزرا ہے۔ اس کی تحقیق غلط تھی یا صحیح بہرحال اُس کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا اور اُس کے بعد ساری دنیا میں ایک رَو چل گئی کہ دیکھیں دنیا کس طرح پیدا ہوئی ہے۔ اِسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہگویا وہی خیال جو دُنیوی اور مادی لوگوں کے دلوں میں ڈارون کے زمانہ میں پیدا ہوا آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں بھی پیدا ہوا۔ اور اُنہوں نے کہا اے میرے رب! یہ بے جان مادہ کس طرح زندہ ہو جایا کرتا ہے؟ ڈارون نے تو مادی احیاء کے متعلق سوال کیا تھا لیکن ابراہیم علیہ السلام کو مادی زندگی سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اُسے روح کی زندگی مطلوب تھی۔ جسمانی تغیرات سے تعلق رکھنے والے اُمور اُس نے سائنسدانوں کے لیے چھوڑ دئیے اور سمجھا کہ میرا کام صِرف اتنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ پتہ لگاؤں کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم ؑ تُو پچاس ساٹھ سال کا ہو چکا ہے، اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے۔ بلکہ اُس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں۔ ابراہیم سمجھتا تھا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک بچہ کی سی حیثیت رکھتا ہوں۔ جس طرح بچہ حق رکھتا ہے کہ اپنی ماں سے سوالات کرے اُسی طرح میرا بھی حق ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے سوالات کروں اور جس چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو اُس کی حقیقت دریافت کروں۔ چنانچہ اُس نے کہا اللہ میاں! مجھے یہ بتا دیجیے کہ روحیں کس طرح زندہ ہوتی ہیں؟
غرض مومن کی زندگی میں بچپن بھی ہوتا ہے اور بڑھاپے کی حالت میں بھی علم سیکھنے، علم کی کُرید کرنے اور علم کے حاصل کرنے سے وہ غافل نہیں ہوتا بلکہ اِس سے وہ ایک لذت اور سرور حاصل کرتا ہے۔ اِس کے مقابلہ میں جب انسان پر ایسا دَور آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے جو کچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے۔ اگر مَیں کسی امر کے متعلق کوئی سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے۔ اِسے ابھی تک فلاں بات کا پتہ ہی نہیں تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ جب آپ مہاراجہ کشمیر کے دربار میں طبیب مقرر ہوئے تو جاتے ہی بعض علاج نہایت کامیاب ہوئے جن سے آپ کی شُہرت لوگوں میں خوب پھیل گئی۔ کچھ اِس وجہ سے بھی شہرت تھی کہ آپ ہندوستان سے علمِ طب پڑھ کر گئے تھے۔ آپ کی عمر اس وقت زیادہ نہ تھی مگر پھر بھی ساری ریاست میں آپ کا شہرہ ہو گیا اور مہاراجہ بھی آپ کا بڑا ادب اور لحاظ کرتا۔ آپ فرماتے تھے ایک دن مجھے خیال آیا کہ یونانی طب تو پڑھ ہی لی ہے ویدک طب بھی پڑھ لوں۔اِس سے علم کی زیادتی ہی ہو گی۔ مَیں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ ایک پنڈت نے ویدک طب پڑھی ہوئی ہے مگر وہ پنڈت 15 روپے پردربار میں معمولی ملازم تھا جیسے دفتری ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے تھے مَیں نے اُسے بلایا، اُس کی تنخواہ مقرر کی اور اُس سے ویدک طب پڑھنی شروع کر دی۔ چونکہ ریاست میں آپ کے حاسد بھی پیدا ہو گئے تھے اُنہوں نے جب سنا کہ حضرت مولوی صاحب نے ایک پنڈت سے جو معمولی دفتری کی حیثیت رکھتا ہے طب پڑھنی شروع کی ہوئی ہے تو اُنہوں نے سمجھا کہ یہ مہاراجہ کو آپ کے خلاف بھڑکانے کا اچھا موقع ہے۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ انہوں نے مہاراجہ کے کان بھرنے شروع کر دئیے کہ آپ نورالدین کی بڑی عزت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا طبیب ہے حالانکہ اُس کی حالت یہ ہے کہ اُس نے فلاں دفتری سے طب پڑھنی شروع کی ہے۔ اُسے توطب آتی ہی نہیں۔ مہاراجہ کو اِس پر تعجب ہوا۔ چنانچہ کسی وقت وہ پنڈت کا غذات لے کر دربار میں آیا تو مہاراجہ نے کہا حکیم صاحب! مَیں نے سنا ہے لوگ آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ طب میں آپ کا استاد ہے۔ آپ کہتے تھے مَیں نے اِس پر بڑے ادب سے اُس پنڈت کی طرف اشارہ کر کے کہا حضور واقع میں یہ میرے اُستاد ہیں۔ مَیں اِن سے ویدک طب پڑھتا ہوں۔ اِس صاف گوئی اور حقیقت تسلیم کرلینے کا مہاراجہ پر اِتنا اثر ہوا کہ بجائے اِس کے کہ وہ بدظن ہوتا اُس کی نگاہ میں آپ کی قدرومنزلت اَور بھی بڑھ گئی اور وہ اعتراض کرنے والوں پر خفا ہوا اور اُس نے کہا بڑے آدمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دیکھو! اُن کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ مَیں ایک معمولی آدمی سے طب پڑھتا ہوں بلکہ اُنہوں نے برملا اُس کو اپنا استاد تسلیم کیا ہے۔ تو علم حاصل کرنے کی خواہش مومن کے اندر ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ وہ کبھی یہ خیال نہیں کرتا کہ اگر مَیں نے کوئی بات پوچھی تو لوگ کہیں گے یہ اِتنا بڑا عالم بنا پھِرتا تھا مگر اسے فلاں بات بھی معلوم نہیں۔ وہ پوچھنے اور علم حاصل کرنے کی خواہش کے لحاظ سے باوجود اُستاد بن جانے کے ہمیشہ شاگرد رہتا ہے اور نہ صرف لوگوں سے علم حاصل کرتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی یہی کہتا ہے کہ۔
دوسرے مومن کے اندر ہمیشہ جوانی والی قوتِ عملیہ پائی جانی چاہیے۔ بوڑھا ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ انسان ناکارہ ہو جائے اور کام کرنے سے اُسے چُھٹی مل جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئے تھے مگر اِس عمر میں بھی جہاد اور دوسرے تمام قومی کاموں میں آپ حصہ لیتے تھے اور یہی اللہ تعالیٰ کے تمام مومن بندوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ خدا کے بندے کبھی پنشن نہیں لیتے۔ یہ دنیادار لوگوں کے خیالات ہوتے ہیں کہ اب پنشن کا زمانہ آ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے بندے اِس دنیا میں کبھی آرام نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے لیے آرام کا مقام مرنے کے بعد ہے۔ اگلے جہان میں فرشتے انسان کی خدمت میں لگے رہیں گے اور انسان ذکر الٰہی کرے گا۔ لیکن اِس جہان میں بندے خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ترقی میں حصہ لیں اور ایسے کام کریں جن سے لوگوں کی فلاح و بہبود وابستہ ہو۔ غرض مومن بڑھاپے میں قوتِ عمل کے لحاظ سے جوان ہوتا ہے اور جوانی میں عقل اور تجربہ کے لحاظ سے بڈھا ہوتا ہے۔ اور پھر جوانی اور بڑھاپے کی کسی حالت میں بھی وہ علم سے محرومی برداشت نہیں کر سکتا۔ جس شخص میں یہ تین خوبیاں پائی جائیں یعنی وہ جوانی میں بڈھا بھی ہو اور بچہ بھی اور بڑھاپے میں جوان بھی ہو اور بچہ بھی وہ کبھی ذلت اور رسوائی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔ ہر شخص جو دنیا میں عزت کا کوئی مقام حاصل کرتا ہے اس میں یہ تین خوبیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ علم بڑھانے کی خواہش اُس میں انتہا طور پر پائی جاتی ہے۔ وہ بِلاوجہ کسی بات کو نہیں مانتا بلکہ ہر چیز کی کُنہہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر اُس میں قوتِ عملیہ ہوتی ہے اور وہ ہرقربانی کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ پھر اُس میں تدبّر اور سوچ بچار اور غور و فکر کا مادہ پایا جاتا ہے اور جلد بازی سے وہ کام کو خراب نہیں کر دیتا۔ جب کسی شخص میں یہ تین خوبیاں جمع ہو جائیں وہ اللہ تعالیٰ کا کامل مومن بندہ بن جاتا ہے۔ ایسا بندہ جو دنیا کا سہارا ہوتا ہے اور جو دنیا کو تباہی سے بچانے کا ذریعہ اور اُن کے دکھوں کا علاج اور مداوا ہوتا ہے۔ بچپن میں یہ تینوں باتیں جمع نہیں ہوتیں کیونکہ وہ معذوری کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن جب سے معذوری کا زمانہ جاتا رہتا ہے اور احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کا وہ مکلّف ہوتا ہے اُس وقت سے اِن تینوں باتوں کا اُس میں جمع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ صرف بچپن کا زمانہ ایسا ہے جس کو ہم مستثنٰی کر سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَ لَوْ کَانَ نَبِیًّا3بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جائے۔
ہماری جماعت کو بھی یہ تینوں باتیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہر عمر میں علم سیکھنے کی تڑپ اُس کے اندر ہونی چاہیے۔ جب تک علم سیکھنے کی تڑپ نہ ہو اُس وقت تک انسان کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ مگر علم سیکھنے کے معنے کج بحثی کے نہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ وہ جواب پر غور نہیں کرتے اور کج بحثی شروع کر دیتے ہیں۔ یا ایسی گفتگو کرتے ہیں جو اُن کی پراگندہ دماغی کا ثبوت ہوتی ہے۔ مثلا ً ذکر ہو گا موت کا تو وہ سوال کر دیں گے بچہ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ یا ذکرہو گا بچہ پیدا ہونے کا تو وہ بات سن کر کہہ دیں گے جنت میں حوریں کیسی ہوں گی؟ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کس جِہت کی طرف جا رہے ہیں۔ جیسے چڑیا پھُدکتی ہے یا جیسے بندر ایک شاخ سے پھُدک کر دوسری شاخ پر چلا جاتا ہے یہی حال اُن کے دماغ کا ہوتا ہے حالانکہ ہر چیز میں انسان کو سمویاجانا چاہیے۔ جب وہ کسی چیز کی طرف مائل ہو تو وہ اُس کے سیاق و سباق کو دیکھے، اُس کے بواعث کو دیکھے، اس کے نتائج کو دیکھے اور پھر کوئی گفتگو کرے۔ غرض خیالات پر قبضہ اور تصرّف نہایت ضروری ہے۔ اِس کے بغیر کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو شخص صرف پھُدکنا جانتا ہے وہ اپنے اندر علم جذب نہیں کر سکتا۔ علم جذب کرنے والا ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف انتقال کرنے میں کچھ وقت چاہتا ہے۔ مگر اِس کے یہ معنے بھی نہیں کہ تم ایسے بن جاؤ جیسے افیونی ہوتا ہے اور جسے دوسری جہت کی طرف لے جانے کے لیے بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا انسان بھی کسی کام کے قابل نہیں ہوتا جسے ایک جہت سے دوسری جہت کی طرف جانے کے لیے مدتیں درکار ہوں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ خیالات کی رَو کو اِس طرح توڑ دینا کہ بات کوئی شروع ہے اور سوال کوئی کیا جا رہا ہے بتاتا ہے کہ دماغ میں سنجیدگی نہیں۔
پس ایک طرف علم سیکھنے کی ہماری جماعت کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے اور دوسری طرف اپنی قوتِ عملیہ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں قوتِ عملیہ بہت کم پائی جاتی ہے حالانکہ جب تک قوتِ عملیہ نہ ہو کوئی قوم اپنی کوششوں کے اعلیٰ نتائج نہیں دیکھ سکتی۔ اِسی طرح نوجوانوں میں تدبّر اور فکر کی عادت ہونی چاہیے۔ جوانی جوش کا تقاضا کرتی ہے اور بڑھاپا حکمت اور تدبّر کا متقاضی ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عقل اور تدبر سے جو بات ہوتی ہے وہی کامیابی کا موجب ہوتی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں آجکل کے نوجوان سیاسیات اور دوسرے امور میں فوراً حصہ لینے لگ جاتے ہیں حالانکہ اُن کی سمجھ ابھی پختہ نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے خیالات کی رَو غلط طریق پر چل پڑتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔
پس یہ تین چیزیں اپنے اندر پیدا کرو۔ ایک ہی وقت میں تمہارے جوان بچے بھی ہوں اور بوڑھے بھی۔ اور تمہارے بوڑھے بچے بھی ہوں اور جوان بھی۔ اور اگر ممکن ہو سکے تو تمہارے بچے بھی ایک ہی وقت میں جوان بھی ہوں اور بوڑھے بھی۔ جب یہ تینوں چیزیں تمہارے اندر پیدا ہو جائیں گی تو تمہاری زندگی کے سارے پہلو محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرے اِس کا یہ بھی نتیجہ ہو گا کہ کوئی دو گروہ ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہو سکیں گے۔ یہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ جوانوں کے لیے جگہ خالی کرو یہ عام سیاسی دنیا کے خیالات ہیں۔ ہمارے اندر یہ خیالات پیدا نہیں ہونے چاہییں۔ تم اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرو کہ ہماری قوم میں جس کو دنیا جوان کہتی ہو وہ بچہ اور بوڑھا بھی ہو اور جس کو دنیا بوڑھا کہتی ہو وہ جوان اور بچہ بھی ہو۔ اور جس کو دنیا بچہ کہتی ہو وہ جوان اور بوڑھا بھی ہو۔ جب تمہارا ہر جوان بوڑھا ہو گا اور تمہارا ہر بوڑھا جوان ہو گا اور ہر بچہ جوان اور بوڑھا ہو گا تو جماعت کی زندگی میں ایسی یکجہتی پیدا ہو جائے گی جس سے اِفتراق اور اِنشقاق کی کوئی صورت بھی باقی نہیں رہے گی"۔
(الفضل 23 جون 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
طٰہٰ:115
2
:
البقرۃ:261
3
:
موسوعۃ امثال العرب جزء رابع زیر حرف ’’ص‘‘میں ’’الصبیّ صبیًّا ولَقِیَ النَّبِیَّ‘‘کے الفاظ ہیں۔

ہماری ترقی دنیوی اسباب سے نہیں
بلکہ روحانی اسباب سے ہوگی
(فرمودہ9؍اپریل 1948ء بمقام پشاور)
غیرمطبوعہ
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے آج سے دس سال پہلے رؤیامیں دیکھا تھا کہ مَیں پشاور آیا ہوں اور جس گاڑی میں مَیں سوار ہوں وہ شہر کے اندر آ گئی ہے۔ جب گاڑی سٹیشن پر آ کر ٹھہری اور مَیں گاڑی سے اُترا تو مَیں نے دیکھا کہ ایک گلی اُس جگہ سے ایک طرف کو جاتی ہے۔ وہاں مولوی غلام حسن صاحب مرحوم کھڑے ہیں اور شاید دلاور خاں صاحب یا کوئی اَور دوست بھی آپ کے ساتھ میرے استقبال کے لیے موجود ہیں۔ جس وقت سے مَیں نے یہ رؤیا دیکھا تھا اُس وقت سے ہی میرا ارادہ تھا کہ مَیں پشاور آؤں۔ اِس سے پہلے 1906ء میں مَیں پشاور آیا تھا۔ اُس وقت مَیں بچہ تھا اور اُس وقت کی کوئی بات بھی مجھے یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اُس وقت شہر کی کیا حالت تھی۔ اُس وقت کی یادداشت دھندلی سی ہو گئی ہے اور اُس وقت کی کوئی بھی بات مجھے یاد نہیں سوائے ایک مکان کے کہ جس میں ہم ٹھہرے تھے۔ اُس مکان کا نقشہ میرے سامنے ہے اِس سے زیادہ میں اُس وقت کے کسی نظارہ کو یاد نہیں کر سکتا۔ اِس خواب کی بناء پر جو مَیں نے بیان کی ہے ایک تو مَیں سمجھا کرتا تھا کہ شاید مولوی غلام حسن صاحب کو جو اس وقت غیرمبائعین میں شامل تھے خدا تعالیٰ ہدایت دے دے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اس خواب کے چند سال بعد میری بیعت کر لی اور وہ مبائعین میں شامل ہوگئے اور فوت ہونے کے بعد مقبرہ بہشتی میںمدفون ہوئے۔ دوسرے حصہ کے متعلق میری خواہش تھی کہ مَیں خود پشاور آؤں۔ پشاور آنے کے متعلق خود جماعت کے بعض افراد کسی اَوروقت آنے کا مشورہ دیتے تھے اور بعض کسی اور وقت آنے کا مشورہ دیتے تھے۔ اِس طرح میری پشاور آنے کی خواہش جلد پوری نہ ہو سکی۔اب اتنے سالوں کے بعد یعنی رؤیا کے دس گیارہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیداکیے کہ مَیں یہاں آسکا اور مجھے خوشی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اخلاص کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ سرحد کے چاروں طرف سے جماعت کے اکثر دوست آکر مجھے ملے۔ نوجوانوں اور لڑکوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مجھے ملتے۔ اور ان کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ صورت پیدا کر دی کہ مَیں پشاور آؤں اور یہاں کے حالات دیکھوں اور ایسی سکیم بناؤں جس سے اِس علاقہ میں احمدیت کی ترقی کی صورت جلد پیدا ہو۔ اِس طرح میرے آنے سے یہاں کے لوگوں کو مجھے ملنے کا موقع حاصل ہوگیا۔ پھر اخلاص اور ایمان ہی تھا جس کی وجہ سے بعض دوستوں نے دعوتیں کیں اور مختلف مجالس میں مختلف طبقہ کے لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ جماعت کی کوشش سے دولیکچر بھی ہوگئے اور اِس طرح شہر کے لوگوں تک ہمارے خیالات پہنچ گئے۔میل ملاقات کے ساتھ اختلاف دور ہو جاتا ہے یوں تو اختلاف باپ بیٹے میں، بھائی بھائی میں اور بیوی اور خاوند میں بھی ہوتا ہے مگر اختلافات کو تفرقہ اور افتراق کا موجب بنالینا درست نہیں۔ میل ملاقات نہ ہو تو لوگ خیال کر لیتے ہیں معلوم نہیں احمدی کیسے ہوں گے۔ ایک دوست جو ڈاکٹر ہیں اور اب مخلص احمدی ہیں وہ اختلافِ خلافت کے وقت لاہور والوں کے ساتھ تھے۔ وہ قادیان آئے اور مغرب کی نماز کے بعد مجھے ملے اور کہنے لگے مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ وہ بہت نازک مزاج ہیں۔ مَیں نے اُنہیں کہا آپ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔ اُنہوں نے کہا مَیں نے سب باتیں سوچ سمجھ لی ہیں۔ میں قادیان میں جب نہیں آیاتھا تو یہاں کے لوگوں کے متعلق سنتا تھا کہ وہ چندہ کے نام پر روپیہ جمع کر لیتے ہیں اور پھر آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔یہ دیکھنے کے لیے قادیان آیا کہ یہ بات کہاں تک ٹھیک ہے۔ یہاں آکر دیکھا کہ بالکل اُلٹ بات ہے۔ جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ چندے کھاتے ہیں وہ دوسروں سے زیادہ چندے دیتے ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کا مال لُوٹتے ہیں وہ دوسروں سے زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا مَیں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے اور سمجھ لیا ہے۔ مَیں نے یہ دیکھنا تھا کہ قادیان کے متعلق جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کیا وہ سچ ہے۔ سو اس جھوٹ کے کُھل جانے پر اب کوئی روک نہیں۔ آپ میری بیعت لیں۔ اس کے بعد مَیں نے ان کی بیعت لی۔ تو قادیان کے متعلق بھیانک خیال ان کے ذہن میں تھا وہ ان کے قادیان آنے اور حالات کو خود دیکھنے سے غلط ثابت ہوگیا اور ان کو ہدایت میسر آگئی۔ غرض میل ملاقات سے بیسیوں باتوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ جو باتیں ایک آدمی ہمارے خلاف سنتا رہتا ہے جب وہ حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو خواہ وہ عقائد میں ہم سے کتنا ہی اختلاف کرے ناواجب اختلاف مٹ جاتا ہے۔ درحقیقت دیانتداری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی بات کو بے سوچے سمجھے نہ مانے۔ مجھے سینکڑوں آدمیوں کی طرف سے خطوط موصول ہوتے ہیں کہ ہماری بیعت قبول کی جائے مگر مَیں اُنہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ ابھی نہ کرو، سوچ لو پھر بیعت کرنا تا کل تمہیں دھکّا نہ لگے۔
یہاں پشاور میں اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرما دیئے کہ میرے دو لیکچر ہو گئے۔ لوگوں نے میری باتیں سنیں۔ ہم نے اُن کی ضرورتوں کو دیکھا۔ اُنہوں نے ہمارے متعلق اندازہ لگایا۔ خداتعالیٰ نے اختلاف سے منع نہیں فرمایا بلکہ ناواجب اختلاف سے منع فرمایا ہے۔ وہ اختلاف جو اسلام کے لیے مُضِر ہو، مسلمانوں کے لیے مُضِر ہو ایسے اختلاف سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
مجھ پر ایک یہ بھی اثر ہے کہ آئندہ صوبہ سرحد کو پاکستان میں اہمیت حاصل ہو گی۔ صوبہ سرحد پہلے مغربی حملہ کی حفاظت کا ذریعہ تھا اب مغرب اور مشرق والوں کی حفاظت کا ذریعہ ہو گا۔ میری مدت سے خواہش تھی کہ ہم پشاور میں یا تو مکان کے لیے کوئی زمین خرید لیں یا کوئی بنا بنایا مکان خرید لیا جائے تا آئندہ آنے میں سہولت ہو۔ اگر بنا بنایا مکان مل جائے تو آتی دفعہ تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب چاہا آگئے۔ مکان کا انتظام ہو تو تیاری میں تو وقت زیادہ نہیں لگتا۔ باقی چھوٹی موٹی تیاری کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے وہ تھوڑے سے وقت میں کی جاسکتی ہے۔ جہاں مسلمان کی خوراک سادہ ہوتی ہے وہاں اُس کا لباس بھی سادہ ہوتا ہے۔ ایک جوڑا پہن لیا اور ایک ساتھ لے لیا۔ کھانا مل گیا تب بھی اور نہ ملا تب بھی مومن ہر حال میں خوش ہوتا ہے۔ غرض ایک مدت سے میری یہ تجویز تھی کہ پشاور میںزمین مکان کے لیے خرید لی جائے یا کوئی بنا بنایا مکان خرید لیا جائے۔
1941ء میں کون کہہ سکتا تھا کہ قادیان پر حملہ ہو گا اور اس حملہ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال ہوں گے اور اس حملہ میں احمدی بھی لڑ رہے ہوں گے اور شہر کے باہر کے سب محلے خالی ہو جائیں گے اور ہمیں وہاں سے بھاگنا پڑے گا اور ہم قادیان سے باہر ایسی جگہ جائیں گے جہاں پہاڑیاں بھی ہوں گی۔ پھر آج سے چند سال پہلے کون خیال کر سکتا تھا کہ انگریز چلے جائیں گے اور اِس طرح خونریزی ہوگی اور قادیان پر بندوقوں سے حملہ کیا جائے گا اور مَیں قادیان سے باہر آجاؤں گا۔ اور باہر آکر کسی مرکز کی تلاش کروں گا۔ایک جگہ ہم نے زمین مرکز کے لیے دیکھی ہے۔ اُس کے پاس پہاڑیاں بھی ہیں ۔ مگر مَیں نے اُس زمین پر خواب میں گھاس بھی دیکھا تھا مگر اِس زمین پر گھاس نہیں۔ پشاور آتی دفعہ نوشہرہ اور کیمبل پور کے درمیان جو میدان مَیں نے دیکھا ہے اُس کے پاس پہاڑیاں بھی ہیں اور گھاس بھی ہے۔ اس علاقہ میں اگر پندرہ بیس ایکڑ زمین خرید لی جائے تو یہاں مکان بھی بنائے جا سکتے ہیں، مہمان خانہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور اِس طرح صوبہ سرحد میں جماعت کا ایک مرکز بنایا جاسکتا ہے میری مدت سے یہ سکیم تھی کہ ہر صوبہ میں ایسے مرکز قائم کیے جائیں مگر اِس طرف جماعت نے توجہ نہ کی۔ اگر ہر صوبہ میں مرکز قائم ہو گئے ہوتے تو آج تکلیف کا سامنا نہ ہوتا۔ اِسی طرح اگر صوبہ سرحد میں مرکز قائم ہوجائے تو ہم ایک خالص احمدی ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کی تربیت اچھی طرح کر سکتے ہیں۔
اس کے بعدمیں پشاور کی جماعت کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں اور افسوس کرتا ہوں کہ آج جمعہ کے دن اتنے آدمی جمعہ پڑھنے کے لیے نہیں آئے جتنے اَور نمازوں کی تعداد کے لحاظ سے آنے چاہییں تھے۔ حالانکہ یہاں مردان، نوشہرہ، چارسدہ، پشاور اور پشاور کے گردونواح کے لوگ بھی آئے ہوئے ہیں مگر پھر بھی جمعہ میں آنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اِس کے مقابلہ میں جب مَیں کراچی گیا تووہاں جمعہ میں کراچی شہر کے آدمی اتنے تھے کہ مکان سب کا سب بھر گیا تھا۔
میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری ترقی دنیوی اسباب سے نہیں ہو گی بلکہ روحانی اسباب سے ہوگی۔ علومِ ظاہری سے نہیں ہو گی بلکہ علومِ باطنی سے ہو گی۔ تم میری زندگی کے واقعات کو ہی لے لو۔ میری حیثیت کیا تھی؟ میں ایک پرائمری فیل طالب علم تھا۔ ہر جماعت میں مجھے رعایتی پاس کر دیا جاتا تھا۔ پھر میں مڈل میں بھی فیل ہوا اور انٹرنس(ENTRANCE) میں بھی فیل ہوا۔ بچپن سے ہی میری صحت خراب رہتی تھی۔ چھ چھ ماہ بخار رہتا تھا۔ ڈاکٹر بتاتے تھے کہ سِل کی بیماری کا احتمال ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں میری صحت کے متعلق عرض کیا تو آپ نے فرمایا اِس نے کونسے دنیوی اسباب سے زندگی بسر کرنی ہے۔ پھر آپ نے مجھے فرمایا بخاری اور قرآن شریف کا ترجمہ مولوی صاحب سے پڑھ لو اور تھوڑی سی طب بھی پڑھ لو۔ طب ہمارے والد صاحب نے بھی پڑی ہوئی تھی۔ اِس طرح خدمتِ خلق کا ایک موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے فرمان کے مطابق میں نے حضرت خلیفہ اول سے پڑھنا شروع کیا۔ میری آنکھوں کی بیماری اور گلے کی خرابی کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میاں کتاب لاؤ مَیں خود ہی پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اِس طرح مَیں نے قرآن کریم، بخاری اور تھوڑی سی طب پڑھی۔ مگر اُس علم کے ساتھ مسجد میں کوئی شخص ملّاگیری بھی تو نہیں کر سکتا۔ جب مَیں خلیفہ ہوا تو کئی لوگوں نے میرے متعلق کہا کہ ایک ایسے شخص کو خلیفہ چن لیا گیا ہے جو جاہل ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا لیمپ اپنی ذات میں کوئی حیثیت رکھتا ہے؟ بجلی کے لیمپ کا تعلق جب تک بجلی کی اُس تار سے ہوگا جہاں سے بجلی آتی ہے وہ روشنی دینے کی طاقت رکھے گا۔ اِسی طرح میرا علم کسی انسان کا سکھایا ہوا نہیں بلکہ یہ وہ علم ہے جو قرآن کریم کا علم ہے اور خدا تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہے۔
جن دنوں میں حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتا تھا اُن دنوں میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور میرے سامنے ایک وسیع میدا ن ہے۔ اُس میدان میں اِس طرح کی ایک آواز پیدا ہوئی جیسے برتن کوٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے۔ اُس کے بعد اُس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا اور اُس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر اُس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے۔ آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے۔ اوراُس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ وہ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اُس نے مجھے کہا کیا مَیں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں؟ مَیں نے کہا ہاں۔ پھر اُس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ 1 تک پہنچا۔یہاں پہنچ کر اُس نے کہا اِس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اِس آیت تک ہی ہیں۔ اِس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اُس نے مجھ سے پوچھا کیا مَیں اِس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاؤں؟ مَیں نے کہا ہاں سکھاؤ۔ جس پر فرشتہ نے مجھے 2 اور اِس کے بعدکی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی۔ جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی۔ جب میری آنکھ کُھلی تو اُس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد مَیں سو گیا اور جب دوبارہ اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصہ بھی یاد نہ تھا۔ مَیں نے اس خواب کا حضرت خلیفہ اول سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب تم جاگے تھے تو اُسی وقت تم کو تفسیر لکھ لینی چاہیے تھی تا ہم بھی اُس سے فائدہ اٹھاتے۔ لیکن درحقیقت میری تعلیم اِس خواب سے ہی شروع ہوئی۔ مَیں نے کسی انسان سے علم نہیں پڑھا بلکہ فرشتوں سے پڑھا۔ کوئی مشکل سے مشکل سوال جو دین سے کسی نہ کسی رنگ میں تعلق رکھتا ہو جب بھی میرے سامنے پیش ہوا مَیں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سائل ضد سے میرے جواب کو تسلیم نہ کرے۔ بلکہ بسااوقات لوگوں نے مجھے حیرت سے پوچھا ہے کہ یہ علوم آپ نے کہاں سے پڑھے ہیں؟ مَیں لاہور میں تھا کہ ایک لڑکی جو ایم۔اے فلاسفی میں پڑھتی تھی وہ مجھے ملنے آئی اور اُس نے فلسفہ پر گفتگو شروع کر دی۔ جب مَیں نے اُس کے سوالات کے جوابات دیئے تو وہ مجھے کہنے لگی آپ نے فلسفہ کہاں تک پڑھا ہے؟مَیں نے جواب دیا کہ مَیں نے فلسفہ بالکل نہیں پڑھا۔ تھوڑی دیر باتیں کرکے کہنے لگی آپ پروفیسر ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں پرائمری فیل ہوں۔تھوڑی دیر اَور باتیں کرنے کے بعد بولی کیا آپ بشیراحمد ایڈووکیٹ ہیں؟ اُن دنوں مَیں شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ مَیں نے کہا مَیں تو پرائمری فیل ہوں۔ اِس پر وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی آپ مجھے دھوکا کیوں دے رہے ہیں؟ اُس دن قاضی اسلم صاحب مجھے ملے۔ وہ لڑکی اُن کی شاگرد تھی۔ مَیں نے اُنہیں کہا مَیں نے آج آپ کی تعلیم دیکھ لی۔آپ کی ایک شاگرد آئی تھی۔ پرائمری فیل کو کبھی پروفیسر کہتی تھی، کبھی ایڈووکیٹ کہتی تھی۔
تو قرآن کریم کا علم اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا عطا فرمایا ہے کہ کسی قسم کا اعتراض قرآن کریم پر کیا جائے مَیں اُس کا جواب قرآن سے ہی دے سکتا ہوں۔ اور یہ سب علم اُسی علم کا نتیجہ ہے جو فرشتہ نے مجھے خواب میں سکھایا۔اِس خواب کے بعد بیسیوں مواقع ایسے آئے کہ چند سیکنڈ کے اندر اتنے لمبے مضامین سورتوں کی تفسیر پر مشتمل مجھے سکھائے گئے کہ اگر اُن کو تقریر میں بیان کیا جائے تو کئی گھنٹوں میں بھی ختم نہ ہوں۔ بعض اوقات سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے، بعض دفعہ رکوع جاتے ہوئے، بعض دفعہ رکوع سے اُٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے کئی سورتوں کی تفسیر سکھائی ہے مگر اُن سب علوم کا منبع اللہ تعالیٰ ہے۔
دیکھ لوجب حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ۔3یعنی اے میرے خدا! میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے یہ کام آسان کر دے اور میری زبان کی گِرہ کھول دے۔ تو اس کے بعد آپ کی زبان کی گرہ ایسی کھلی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایسی فصاحت و بلاغت عطا ہوئی جو اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان تھی۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسٰیؑ کی زبان میں لکنت تھی۔چونکہ خداتعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ فرعون کے پاس جائیں اور اُسے تبلیغ کریں۔ اِس لیے آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کی کہ۔4یعنی اے میرے خدا! میرے رشتہ داروں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنا۔ وہ زیادہ اچھی طرح بول سکتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اِس دعا کو قبول کیا اور ہارونؑ کو بھی خداتعالیٰ نے نبی بنادیا۔ مگروالی دعا کے بعد جب آپ فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے گئے تو آپ نے ایک لفظ بھی حضرت ہارون ؑکو نہیں بولنے دیا۔ خداتعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو وہ قوتِ گویائی عطا فرمائی کہ ہارونؑ کے بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے سب علوم ملتے ہیں۔ اِس لیے خداتعالیٰ پر توکل کرو اور اُس سے دعائیں مانگو تاوہ تمہیں اپنے پاس سے قرآن کریم کے علوم عطا کرے۔
کوئی علم ایسا نہیں جس کے اصول قرآن کریم نے بیان نہ کر دیئے ہوں۔ دوسرے مسلمان قرآن کریم سے غافل ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دنیا کے لیے قرآن کریم کو ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہماری جماعت کے سامنے کتنا بڑا کام ہے یعنی قرآن کریم کی حکومت کو سب دنیا میں قائم کرنا ہے۔ساری دنیا کی آبادی دو اَرب ہے اور ہندوستان اور پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ ہے جس میں تیس کروڑ غیرمسلم ہیں۔ میری مدت سے خواہش تھی کہ ایسا ملک مل جائے جہاں ہم اسلامی حکومت اور اسلامی تہذیب جاری کر سکیں۔ پاکستان میرے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اسلام پھیلانے کے لیے ایک بنیاد رکھ دی ہے جو پاکستان ہے۔ ہم نے صرف ہندوستان کو ہی فتح نہیں کرنا بلکہ ساری دنیا کو فتح کرنا ہے۔ پس ہمیں موجودہ انقلاب سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایک نئی جہات، ایک نیا عزم، ایک نیا ارادہ اور ایک نئی قوت ہمیں لے کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ اِس وقت دنیا میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا محسن جس کا احسان آئندہ زمانہ کے لوگوں پر بھی ہے اور گزشتہ زمانہ کے لوگوں پر بھی ہے اور اِس زمانہ کے لوگوں پر بھی ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اُسے آج حقیر سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ زمانہ کے لوگوں پر تو اُس کا احسان اِس طرح سے ہے کہ کئی انبیاء ایسے ہیں جن پر خود اُن کی اُمتیں نہایت گندے اور ناپاک الزامات لگا دیتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن الزامات کو دور کیا اور بتایا کہ وہ الزامات بالکل غلط ہیں۔ مثلاً حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی کتاب بائبل کہہ رہی تھی کہ ہارون نے بچھڑا بنایا اور شرک کیا۔5 یہ کتنا بڑا ظلم تھا جو ہارون کی اولاد آپ کی طرف منسوب کرتی تھی؟ یہ کتنا بڑا جھوٹ تھا جو بنی اسرائیل آپ پر باندھتے تھے؟ یہ ایک کلنک کا ٹیکا تھا جو ہارونؑ کے ماتھے پر لگایا جا رہا تھا۔ مگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی تھی جس نے آکر یہ اعلان کیا کہ ہارونؑ نے کوئی شرک نہیں کیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت اِس بات کو پیش کر رہی تھی کہ عیسٰیؑ خدا کا بیٹا ہے اور اِس طرح وہ آپ کی شدید ترین ہتک کر رہی تھی۔ یہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جنہوں نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا کہ حضرت عیسٰیؑ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ مگر آپ نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے۔ دنیا میں کوئی انسان اِتنا بڑا محسن نہیں ہو سکتا جو اپنی اولاد کا بھی محسن ہو، اپنے بھائیوں کا بھی محسن ہو اور اپنے آباء و اجداد کا بھی محسن ہو۔ یہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جو اپنی اولاد کے لیے بھی محسن ہے، اپنے بھائیوں کے لیے بھی محسن ہے اور اپنے آباء و اجداد کے لیے بھی محسن ہے۔ وہ شخص جو اتنا بڑا محسن ہے آج دنیا کی نگاہ میں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)ذلیل ترین وجود نظر آتا ہے۔ آج یہودی، عیسائی، ہندو اور ہر غیرمسلم آپؐ کی ذات پر اعتراض کر رہا ہے۔ وہ شخص جس نے دنیا کو بچایا دنیا نے کوشش کی کہ اُس کو مار دے۔ ہمارے سوا کوئی بھی اُس کی قدر نہیں جانتا۔ ہمارے سوا کوئی بھی اس کے مقام کو نہیں پہچانتا۔ ہمارے سوا کوئی بھی اس کی بزرگی کو نہیں سمجھتا۔ کاش! وہی آگ دوسروں کے دل میں بھی لگ جائے جو ہمارے دلوں میں لگی ہوئی ہے۔ مگر اِس کا طریق یہی ہے کہ تم میں سے ہر شخص یہ عہد کر کے اُٹھے، یہ عزم لے کر اُٹھے کہ وہ خود مٹ جائے گا، اُس کی آئندہ نسل مٹ جائے گی مگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر کے چھوڑے گا۔ اب ہماری زندگیاں ہمارے لیے نہیں ہوں گی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کے اِحیاء اور قیام کے لیے ہوں گی"۔
(غیرمطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الفاتحۃ:5
2
:
الفاتحۃ:6
3
:
طٰہٰ:26 تا28
4
:
طٰہٰ:30
5
:
خروج باب 32آیت1 ، 9، 35۔


پہلے اونٹ کا گُھٹنا باندھو پھرخدا پر توکّل کرو
(فرمودہ16؍اپریل 1948ء رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"پہلے تو مَیں نظارت تعلیم و تربیت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ سائبان جو آج لگائے گئے ہیں نماز کے لیے کافی نہیں۔ انہوں نے نمازیں متواتر ہوتی دیکھی تھیں اور ان کو معلوم ہونا چاہیے تھاکہ جمعہ کی نمازمیں اِس سے زیادہ لوگ آتے ہیں جتنے لوگوں کے لیے یہ سائبان تیار ہوئے ہیں۔ اِس لیے انہیں فوراً کچھ اَور سائبان تیار کرانے چاہییں جس سے لوگوں کو جمعہ کی نماز کے وقت تکلیف نہ ہو۔ اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں جلد کسی مرکز کے بنانے کی توفیق عطا فرمائی تو وہاں بھی مسجد فوراً تو نہیں بن جائے گی اور نہ وہ مسجد اِتنی کافی ہو گی کہ ہمیں سائبان نہ لگانے پڑیں۔ وہاں بھی موجودہ سائبانوں سے زیادہ سائبانوں کی ضرورت ہو گی۔ ہاں ایک صورت ضرور ملحوظ رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ سائبان چھوٹے چھوٹے ہوں جن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھیلایا جا سکے تاکہ کناروں پر جو چھوٹی چھوٹی جگہیں رہ جاتی ہیں۔ اُن میں بھی سائبان آسانی سے لگ سکیں گے۔
اِس کے بعد مَیں جماعت کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ دن نازک سے نازک تر ہورہے ہیں لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی آپ میں سے بہت سے لوگ آئندہ آنے والے خطرات سے پوری طرح واقف نہیں ہوئے اور شاید وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ واقف نہ ہوں۔ وہ میری باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور اُس کبوتر کی طرح جو بلّی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے سمجھ رہے ہیں کہ محض آنکھیں بند کر لینے سے وہ خطرہ سے محفوظ ہو جائیں گے لیکن یہ درست نہیں۔ خطرے آنکھیں بند کر لینے سے دور نہیں ہوا کرتے۔ خطرے مقابلہ کرنے سے دور ہوتے ہیں۔ بے شک مقابلہ کی مختلف اقسام ہیں۔ کچھ لوگ خالص دنیوی سامانوں کو مقابلہ کی تیاری کہتے ہیں اور کچھ لوگ خالی بیٹھ رہنے اور خدا تعالیٰ پر ایک جھوٹا توکّل کر لینے کو خطرہ سے محفوظ رہنے کا سامان قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دونوںگروہ غلطی پر ہوتے ہیں۔ نہ تو خطرات کے لیے صرف جسمانی کوششیں خصوصاً ان قوموں کی جو کمزور ہوں کافی ہوتی ہیں اور نہ خطرات سے جھوٹے توکّل انسان کو بچایا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دو قانون جاری کیے ہیں۔ ایک مادی اور ایک روحانی۔ مادی قانون کے ماتحت وہ ساری تیاری جو خدا نے کسی چیز کے لیے مقرر کی ہوئی ہے اُس کا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ تمام قسم کے سامان جن سے اُن خطرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اُن کو مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ تمام قسم کی جتھا بازی جس جتھا بازی کا سامان کرنا اُن خطرات کے دور کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اُس جتھا بازی کا مہیا کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پھر خدا تعالیٰ پر توکّل کرنا ۔ جس کے معنی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ وہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل محنت اور قربانی کے بعد ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک وفد آیا۔ اُس وفد کے افراد میں سے ایک شخص جلدی سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کو اس وفد کے آنے کی اطلاع مل گئی تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ اس کے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد اِتنی جلدی کوئی شخص آپ کے پاس نہیں پہنچ سکتا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی سواری کا کیا انتظام کیا ہے؟ اُس نے کہا یارسول اللہ! مَیں نے اپنے اونٹ کو خدا تعالیٰ کے توکّل پر چھوڑ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے اونٹ کاگُھٹنا باندھو اور اونٹ کا گُھٹنا باندھنے کے بعد خدا پر توکل کرو۔ 1
پس وہ لوگ بے وقوف ہوتے ہیں جو دُنیوی سامانوں کے جمع کرنے کے بغیر خداپرتوکّل کرتے ہیں۔ ہم ثنویت کے قائل نہیں جیسے بگڑا ہوا زرتشتی مذہب ثنویت کا قائل ہے۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ خدادوہیں۔ ایک نے نیکی پیدا کی ہے اور دوسرے نے بدی پیدا کی ہے، ایک خدا نے نور پیدا کیا ہے اور دوسرے خدا نے ظلمت پیدا کی ہے، ایک خدا نے آرام دہ چیزیں پیدا کی ہیں اور دوسرے خدا نے تکلیف دہ چیزیں پیدا کی ہیں۔ ہمارا اُن کی طرح یہ عقیدہ نہیں کہ خدا دو ہیں۔ ایک نے روحانیت پیدا کی ہے اور دوسرے نے مادیت پیدا کی ہے۔ اگر دو خدا ہوتے اور ہم روحانی خدا کے ساتھ ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہم اپنے خدا کے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم دوسرے خدا کے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اسلام کے رو سے روح کا پیدا کرنے والا بھی وہی خدا ہے اور مادہ کا پیدا کرنے والا بھی وہی خدا ہے۔ پس جس طرح روحانی سامانوں سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے اِسی طرح جسمانی اور مادی سامانوں سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہے۔ جس طرح وہ اِس بات پر ہم سے ناخوش ہوتا ہے کہ ہم نے کیوں روحانی سامانوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا، کیوں عبادتِ الٰہی سے غفلت برتی؟ کیوں دعاؤں میں کوتاہی کی؟ کیوں اُس پر یقین اور توکّل نہ کیا؟ اِسی طرح وہ اِس بات پر بھی خفا ہوتا ہے کہ کیوں ہم نے اُن مادی سامانوں کو استعمال نہیں کیا جو اس نے ہمارے لیے دنیا میں پیدا کیے تھے۔ وہ قرآن کریم میں بڑے زور سے فرماتا ہے2کیا تم خدائی تعلیم کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو؟ حالانکہ یہ بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہ بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ پس روحانی سامانوں کا جمع کرنا اور مادی سامانوں کا جمع کرنا دونوں ایک وقت میں ضروری ہوتے ہیں خصوصاً اس قوم کے لیے جس کے پاس مادی سامان کم ہوتے ہیں یا اس کے افراد کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اُس کے لیے جہاں روحانی سامان نہایت ضروری ہوتے ہیں وہاں مادی سامانوں کا جمع کرنا بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی تھوڑے تھے مگر آپ نے کام کرنا چھوڑ نہیں دیا۔ بلکہ اِس لیے کہ آدمی کم تھے آپ نے اُن سے زیادہ سے زیادہ کام لینا شروع کیا ہوا تھا۔ مکہ والوں کے دل میں جو مسلمانوں کی دشمنی تھی وہ انتہا تک پہنچی ہوئی تھی۔مگر ہمیں نظر آتا ہے کہ مکہ والے تو حملہ کر کے سو جاتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسونے نہیں دیتے تھے۔ بلکہ حملہ کے بعد حملہ کرواتے تھے اور وفد کے بعد وفد باہر نگرانی اور حفاظت کے لیے بھجواتے تھے۔ اور متواتر صحابہؓ کو فنونِ جنگ سیکھنے پر آمادہ کرتے اور پھر اِس بات کی نگرانی فرماتے کہ وہ فنونِ جنگ سیکھنے میں حصہ لیتے ہیں یا نہیں۔ ہماری جماعت کو بھی اِن امور کی اہمیت سمجھنی چاہیے۔ مت سمجھو کہ خطرہ گزر گیا ہے۔ خطرہ اُس سے بھی زیادہ شدید پیش آنے والا ہے جتنا کہ پیچھے آیا۔ اگر اس کے آنے سے پہلے ہم لوگ تیاری کر لیں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ دو موتیں ہماری جماعت پر وارد نہیں کرے گا۔ لیکن اگر ہم غفلت کریں گے تو اللہ تعالیٰ غنی ہے وہ اُن لوگوں سے جو اُس کے بنائے ہوئے قانونوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے بیزاری ظاہر کرتا ہے اور اُن کی مدد سے دستکش ہو جاتا ہے۔ پس وقت کو سمجھو۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ نمازوں اور عبادتوں میں چُست ہو جاؤ۔ جہاں تک ہو سکے تہجد پڑھنے کی کوشش کرو۔ اپنے بچوں اور بیویوں کو بھی تہجد کا پابند بناؤ۔ ہر قسم کی مالی اور جسمانی قربانی کرنے اور وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے پوری کوشش کرو۔ عادتوں کا چھوڑنا آسان کام نہیں۔ تمہیں سُستی اور غفلت کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ عادتیں موت کے بعد چھُوٹا کرتی ہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر موت وارد نہیں کرتا اور ایک نیا وجود نہیں بن جاتا اُس وقت تک اُس کی عادتیں دور نہیں ہوتیں۔ پس اپنے پہلے وجود کو مارو اور ایک نیا وجود پیدا کرو تاکہ تمہاری سُستی اور غفلت کی عادتیں جاتی رہیں۔ خطرہ کا دن آنے والا ہے۔ اُس سے پہلے پہلے تیار ہو جاؤ تا تمہاری قربانی کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی غیرت بھیبھڑکے اور وہ کہے کہ میرے بندوں سے جو کچھ ممکن تھا وہ اُنہوں نے کر لیا اب جو کسر باقی ہے وہ مجھے پوری کرنی چاہیے"۔
خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا:
"مجھے آج ہی ایک رُقعہ ملا ہے جس میں پونچھ کے احمدی شہداء کے متعلق اطلاع دی گئی ہے۔ سفر پر جانے سے پہلے جموں سے ایک دوست آئے تھے۔ اُنہوں نے بھی بتایا تھا کہ وہاں ہمارے کون کونسے دوست شہید ہوئے ہیں اور آج اس علاقہ کے مبلغ کی طرف سے بھی تفصیلاً رپورٹ آ گئی ہے۔ بابو عبدالکریم صاحب جو پونچھ کے سیکرٹری جماعت تھے اور نہایت جوشیلے احمدی تھے شہید کر دئیے گئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے مصر کے جامعہ ازہر کے پروفیسر سے وفاتِ مسیح کے متعلق فتوٰی لیا اور پھر اخبارات میں شائع کرایا۔ اب اُن کے حالات کی تفصیل آئی ہے۔ وہ وہاں اطمینان سے بیٹھے رہے اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ کچھ دن کسی محلہ میں رہنے کے بعد وہ مسجد احمدیہ میں آئے۔ وہاں سکھ اور ہندو قابض ہو چکے تھے۔ انہوں نے پہلے اُن کو باندھ دیا۔ پھر اُن کی بڑی بیوی کو مارا، پھر اُن کی لڑکیوں کو مارا، پھر اُن کی جوان بیوی سے بدکاری کرنے کی کوشش کی۔ اِس پر عبدالکریم صاحب نے رسیاں توڑنے کی کوشش کی اور شور مچایا تو اُن کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ اس کے بعد اُن کی ایک بیوی اور ایک لڑکی کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئیں۔ مسجد احمدیہ بنانے کے لیے جموں سے کئی مستری گئے ہوئے تھے اور اُن کے پانچ سات خاندان وہاں رہتے تھے وہ بھی سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے ہیں۔ (مَیں ان حالات کے متعلق کچھ نہیں کہتا۔ ان کو پڑھو، غور کرو، غور کرو ،غور کرواور پھر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو)۔ مَیں جمعہ کی نماز کے بعد اِن سب کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اِسی طرح مَیں اِس نماز جنازہ میں اُن تمام احمدی شہداء کو شامل کروں گا جو مشرقی پنجاب یا ریاست جموں میں مارے گئے ہیں خواہ ہم نے پہلے اُن کا جنازہ پڑھا ہے یا نہیں تاکہ ایک دفعہ پھر سب کے لیے دعا ہوجائے"۔ (الفضل 21جولائی 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
ترمذی ابواب صفۃ الجنۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب حدیث اعقلھا و توکّل(مفہوماً)
2
:
البقرۃ:86


ابتلاؤں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا الٰہی خبریں بتاتی ہیں
کہ ابھی اَور مصائب آنے والے ہیں
(فرمودہ23؍اپریل 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گزشتہ جمعہ کے موقع پر مَیں نے نظارت تعلیم و تربیت کو ہدایت کی تھی کہ و ہ اِس بات کا انتظام کرے کہ آئندہ جمعہ سے سائبان کافی لگے ہوئے ہوں تا کہ لوگوں کو دھوپ میں نہ بیٹھنا پڑے۔ اُسی دن شام کے قریب نائب ناظر صاحب کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی کہ آئندہ جمعہ میں ایک احمدی بھی دھوپ میں بیٹھا ہوا نہیں ہو گا لیکن اِس وقت مجھے سینکڑوں آدمی باہر بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ نہ معلوم میری نظر کا قصور ہے یا ناظر صاحب کے نزدیک جو باہر بیٹھے ہیں وہ احمدی نہیں یا کوئی اَور وجہ ہے۔ بہرحال جتنی شان کے ساتھ اور جس قدر جلدی وعدہ کیا گیا تھا اُسی شان کے ساتھ عدمِ ایفاء کا بھی نمونہ دکھایا گیا ہے۔ مومن کو اول تو ہوشیار ہونا چاہیے اور جو فرض اُس کے ذمہ لگایا گیا ہو اُسے اداکرنا چاہیے۔ پھر کم سے کم ایمان کی علامت جس سے اُتر کر پھر نِفاق ہی رہ جاتا ہے یہ ہے کہ جو نہیں کرنا اُس کے متعلق انسان کہہ دے کہ مَیں نے نہیں کرنا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں وہ مجھے اَور خط لکھ دیں گے کہ یہ غلطی ہوئی وہ غلطی ہوئی یا فلاں وجہ سے سائبانوں کا انتظام نہیں ہو سکا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وجوہات تو ہوتی ہی رہتی ہیں مجھے اپنے مُلک کی ذہنیت میں سے سب سے بڑی قابلِ اعتراض بات یہی نظر آتی ہے کہ وہ پہلے سوچتے نہیں کہ کیا مشکلات پیش آئیں گی۔ اور چونکہ وہ سوچتے نہیں اِس لیے مشکلات کو دور کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ اور چونکہ وہ جدوجہد نہیں کرتے اِس لیے جب کام نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں مشکل پیش آ گئی تھی اس لیے کام نہ ہو سکا۔ حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مشکلات آسمان سے اچانک آ گری تھیں؟ اگر وہ ممکن مشکلات تھیں تو پھر ممکن کو شش بھی ان کو کرنی چاہیے تھی یا ممکن مشکلات کے پیش نظر انہیں ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ بہرحال دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہونی چاہیے۔ یا تو جو ممکن مشکلات ہوں اُن کے متعلق ممکن جدوجہد کرنی چاہیے یا ممکن مشکلات کو دیکھتے ہوئے کام کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ انہوں نے بھی جب ایک کام کرنے کا وعدہ کیا تھا تو اُس کام میں جو ممکن مشکلات تھیں اُن کا انہیں پتہ ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کیوں یہ خیال کر لیا کہ جو سو فیصدی آج حالات ہیں وہی کل بھی ہوں گے۔ یہی خیال کر لینا بددیانتی ہوتی ہے۔ خدا نے ہر کام میں مشکلات بھی پیدا کی ہیں اور پھر حالات بھی روز بروز بدلتے رہتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی کام کا اقرار کرے تو اُسے سوچنا چاہیے کہ مَیں اسے کہاں تک پورا کر سکتا ہوں۔ مگر ہمارے ملک کے لوگ وعدہ کر کے اول تو بیٹھے رہیں گے اور اگر کام کے لیے جائیںگے توآخری روز جائیں گے اور آ کر کہہ دیں گے کہ ہم تو گئے تھے مگر دُکان بند تھی۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جب دکان اَور دنوں میں بھی کھُلی ہوتی ہے تو تم جمعرات یا جمعہ کو کیوں گئے؟ تمہارے جھوٹے ہونے کی علامت ہی یہی ہے کہ تم جمعرات کو جاتے ہو اور جب تم دکان بند پاتے ہو تو اس کے بعد تمہارے لیے اَور کوئی صورت نہیں رہتی۔ تمہارا فرض تھا کہ تم ہفتہ کو جاتے اور اگر ہفتہ کے دن دکان کو بند پاتے تو اتوار کو جاتے۔ مَیں اتوار کا اِس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ آجکل بعض دکانیں تو اتوار کو بند ہوتی ہیں مگر بعض پیر یاکسی اَور دن بند ہوتی ہیں۔ اگر اتوار کو بھی دکان کو بند پاتے تو پیر کو جاتے اور اگر پیر کے دن بھی تم اُس دکان کو بند پاتے اور تم میں عقل ہوتی تو تم سمجھتے کہ اب ہمیں کسی اَور دکان پر جانا چاہیے۔ چنانچہ منگل کے دن تم کسی اَور دکان پر جاتے۔ فرض کرو وہ دوسری دکان کھلی تو ہے مگر دکاندار ریٹ زیادہ بتاتا ہے توبدھ اور جمعرات دو دن ابھی تمہارے پاس ہوتے۔ تم بدھ کے دن کسی اَور دکان پر چلے جاتے اور اُس سے ریٹ دریافت کرتے۔ اگر وہ بھی اتنا ہی ریٹ بتاتا تو تم بدھ یا جمعرات کو دونوں میں سے کسی ایک دکان سے سامان خرید لیتے یا کرایہ پر لے لیتے اور اپنے کام میں کامیاب ہو جاتے۔ لیکن اگر تم جمعہ کے دن وعدہ کرکے اگلے جمعہ کو جاتے ہو یا اگلی جمعرات کو جاتے ہو تو تم خوداس بات کا ثبوت بہم پہنچاتے ہو کہ تمہارا نفس نیک نہیں تھا وہ جھوٹا تھا۔ وہ فریب کرنا چاہتا تھا کیونکہ تم نے اس دن کام کیا جس کے بعد اصلاح ناممکن تھی۔ اگر تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ چونکہ پچھلے جمعہ میں لوگ زیادہ نہیں تھے اِس لیے اس جمعہ میں بھی لوگ اتنے ہی ہوں گے۔ اس لیے زیادہ انتظام کی ضرورت نہیں اور تھوڑے سائبانوں سے گزارہ ہو جائے گا۔ تو یہ بھی تمہارے نفس کا ایک دھوکا تھا۔ پچھلے جمعہ میں اگر لوگ زیادہ نہیں تھے تو اس لیے کہ نماز جلدی ہو گئی تھی۔ آج بہت زیادہ لوگ آئے ہوئے ہیں اور اگلے جمعوں میں بھی آئیں گے۔ ان میں سے بہت سے گو اندر برآمدہ میں بیٹھے ہیں مگر اسی لیے کہ باہر دھوپ کی وجہ سے جگہ نہیں اور وہ مجبوراً اندر بیٹھے ہیں ورنہ ان کو باہر بیٹھنا چاہیے تھا۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں پہلے بھی بہت دفعہ مَیں توجہ دلا چکا ہوں لیکن جو بات ضروری ہو اس کو اُس وقت تک دہرانا پڑتا ہے جب تک لوگ عمل نہ شروع کر دیں۔ بلکہ اگر عمل بھی کرنے لگیں تب بھی ضروری باتوں کو دہرانا پڑتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ بعد میںسُست ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ان باتوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
مَیں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو واقعات گزشتہ ایام میں ابتلاؤں اور مصیبتوں کے پیش آئے ہیں اور جن کے متعلق خدائی خبریں بہت دیر سے چلی آ رہی تھیں وہ ختم نہیں ہو گئے بلکہ بعض نئے حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں جن سے فساد اور تفرقہ کی نئی صورتیں پیدا ہونی ممکن ہیں۔ اور اِس حد تک ممکن ہیں کہ گزشتہ فسادات اور گزشتہ تباہیاں ان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو جائیں۔ یہ باتیں آج تمہارے وہم اور قیاس سے اُسی طرح بالا ہیں جس طرح آج سے سال بھر پہلے تم یہ قیاس بھی نہیں کر سکتے تھے کہ چھ مہینہ کے اندراندر کیا ہو جائے گا اور کس طرح 76 لاکھ کے قریب انسان اِدھر اُدھر بھاگ جائے گا۔ بلکہ اگر دونوں طرف کی آبادی کو ملا لیا جائے تو سوا کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ آدمی اِدھر اُدھر چلا جائے گا۔ اگر کوئی شخص تم کو صبح یہ خبر سنائے کہ ایران کا سارا ملک خالی ہو گیا ہے یا تم کو صبح یہ خبر سنائے کہ سکاٹ لینڈ کا سارا ملک خالی ہو گیا ہے یا مثلاً تمہیں یہ خبر سنائے کہ یونان اور البانیہ اور بلغاریہ، یہ سارے کے سارے خالی ہو گئے ہیں اور اُن میں کوئی آبادی نہیں رہی تو تم اسے مانو گے بلکہ فوراً کہو گے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ یا کہو گے کہ یہ اپریل فول ہے اِس میں صداقت کا شمہ بھر بھی نہیں۔ لیکن تمہارے ملک میں یہی بات ہوئی۔ ڈیڑھ کروڑ آدمی چند دنوں کے اندر اندر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آ گیا۔ اور یہ ڈیڑھ کروڑ اپنی جائیدادوں سے بے دخل ہو گیا، اپنے مکانوں سے محروم ہو گیا اور اپنی تمام ملکیتی زمینوں کو کھو بیٹھا۔ کسی کی زمین کا ایک حصہ بلکہ حصہ کیا اگر دو کھیتوں کے درمیان کی ایک لائن جو بتاتی ہے کہ یہ کھیت اُس کا ہے اور وہ کھیت اِس کا یا ایک بٹ جو پانی روکنے کے لیے بنائی جاتی ہے یہ ساری بٹ نہیں یہ ساری لائن نہیں بلکہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی اگر کوئی دوسرا شخص لے لیتا ہے تو مقدمات شروع ہو جاتے ہیں، وکیل کیے جاتے ہیں، عدالتوں میں پیشیاں ہوتی ہیں۔ اور پھر اگر ایک جج خلاف فیصلہ دیتا ہے تو دوسرے جج کے پاس مقدمہ پہنچایا جاتا ہے۔ دوسرا جج بھی خلاف فیصلہ کرے تو تیسرے جج کے پاس مقدمہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہائیکورٹ تک مقدمات پہنچائے جاتے ہیں۔ اور بعض دفعہ جب لوگ ہائیکورٹ کے فیصلہ پربھی مطمئن نہیں ہوتے تو پریوی کونسل تک مقدمات لڑے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایک ایک روپیہ کے مقدمے قانونی نقائص کی وجہ سے پریوی کونسل میں گئے ہیں۔ کیمل پور کے ایک نواب ہیں اُن کا ایک مقدمہ ایک یا دو روپیہ کا تھا مگر چونکہ اُس میں ایک قانونی سوال تھا وہ ہائی کورٹ میں گیا اور ہائی کورٹ کے بعد پریوی کونسل میں گیا اور آخر انہوں نے مقدمہ جیت لیا۔ غرض چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے سالہا سال مقدمات لڑے جاتے ہیں اور معمولی معمولی اختلافات پر دنوں، ہفتوں اور سالوں تک مجالس شکوے شکایتوں سے پُر رہتی ہیں۔ مگر یہاں کسی منڈیر کا سوال نہیں تھا، کسی پرنالے کا سوال نہیں تھا، کسی بٹ کا سوال نہیں تھا، کسی لکیر کا سوال نہیں تھا، کسی معمولی زمین کا سوال نہیں تھا بلکہ لاکھوں لاکھ ایکڑ زمین کا سوال تھا۔ غیر مسلم ہمارے علاقہ میں 72 لاکھ ایکڑ زمین چھوڑ گیا ہے اور مسلمان صرف مشرقی پنجاب میں 45 لاکھ ایکڑ چھوڑ آیا ہے۔ عمارتیں اور کارخانے الگ ہیں، لاکھوں روپے کے کارخانے صرف قادیان میں ہی تھے اور وہاں جو جائیدادیں تھیں وہ کروڑوں روپیہ کی تھیں حالانکہ وہ ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پنجاب میں ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے کتنی جائیداد چھوڑی۔ درحقیقت امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ وغیرہ میں جو جائیداد مسلمانوں نے چھوڑی اور لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لائل پور، ملتان اور راولپنڈی میں ہندوؤں نے چھوڑی اُس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اِدھر والے بھی اربوں کی جائیداد چھوڑ کر اُدھر گئے اور اُدھر والے بھی اربوں کی جائیداد چھوڑ کر اِدھر آئے مگر باوجود اِس کے نہ مقدمہ بازی ہے اور نہ ہو سکتی ہے اور نہ اتنا شور ہے جتنا چند ایکڑ زمین کے کھوئے جانے پر بلکہ ایک زمین کی ایک لائن پر پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اسی لیے کہ
مرگِ انبوہ جشنے دارد
جب سب لوگ مر جائیں گے تو یہ موتوں کی کثرت بھی ایک جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مرنے والے کو روتا ہے تو لوگ اُسے کہتے ہیں تم کیوں روتے ہو؟ کیا فلاں نہیں مر گیا؟ یا فلاں کے رشتہ دار نہیں مر گئے؟ یا جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میرا مکان جاتا رہا اور وہ غم میں رونا شروع کرتا ہے تو لوگ اُسے کہتے ہیں شرم کر کیا ہمارا مکان نہیں جاتا رہا؟ یہ قدرت کا ایک قانون ہے کہ سب کو ایک وقت میں رونا نہیں آتا۔ رونا مختلف اوقات اور مختلف حالات میں آتا ہے۔ اگر کسی کا کوئی عزیز 11 بج کر ایک منٹ پر فوت ہو ا ہو تو اُسے 11 بج کر ایک منٹ پر رونا آئے گا۔ مگر کوئی ایسا ہو گا جس کے ہاں موت 11 بج کر دس منٹ پر ہوئی ہے اُسے اُس وقت رونا آئے گا کیونکہ رونے کے بھی محرکات ہوا کرتے ہیں۔ فرض کرو کسی کا بچہ 11 بج کر ایک منٹ پر فوت ہوا ہے دوسرے دن اُس کی نظر گھڑی پر پڑی اور اُس نے دیکھا کہ 11 بج کر ایک منٹ ہو گیا ہے تو وہ رونے لگ جائے گا کیونکہ اُس وقت کو دیکھ کر اُسے اپنا بچہ یاد آ جائے گا۔ لیکن کوئی دوسرا شخص جس کا لڑکا ٹھیک بارہ بجے گھر آیا کرتا تھا وہ 11 بج کر ایک منٹ پر نہیں روئے گا بلکہ جب بارہ بجیں گے اُسے رونا آ جائے گا کیونکہ وہ کہے گا یہ وہ وقت ہے جب میرا بیٹا گھر آیا کرتا تھا۔ اِسی طرح اگر کوئی اَور ایسا واقعہ ہوا ہو جو جذبات کو برانگیختہ کرنے والا ہو تو وہ واقعہ رونے کا محرک بن جائے گا۔ مثلاً کسی کا لڑکا بیمار تھا اُس نے مرنے سے چار پانچ دن پہلے پانی مانگا۔ طبیب نے کہا تھا کہ بچے کو پانی نہ پلایا جائے۔ اگر پانی دیا گیا تو مرض بڑھ جائے گا۔ چنانچہ اُسے پانی نہ دیا گیا اور وہ اِسی حالت میں فوت ہو گیا۔ فرض کرو وہ دن کے چار بجے فوت ہوا تھا اب اگر تو وہ زندہ رہ جاتا تو لوگ کہتے طبیب بڑا عقلمند ہے مگر چونکہ وہ مر گیا اِس لیے طبیب احمق بن گیا۔ جونہی چار بجیں گے اُسے اپنے لڑکے کا مرنا اور طبیب کا یہ کہنا کہ بچے کو پانی نہ پلایا جائے یاد آ جائے گا۔ وہ رونے لگے گا اور کہے گا حکیم ایسے نالائق ہوا کرتے ہیں کہ میرا بیٹا پیاسا مر گیا۔ یا کسی شخص کا بچہ مر رہا تھا تو باہر ایک عورت یہ آوازیں دے رہی تھی لے لو مُولیاں، لے لو گاجریں۔ وہ یہ آواز سنے گا تو اُسے کوئی اہمیت نہیں دے گا لیکن دوسرے دن جو نہی یہ آواز اُس کے کانوں میں آئے گی اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں گے کیونکہ اس آواز سے اُسے یہ واقعہ یاد آ جائے گا کہ کل جب میرا بچہ مر رہا تھا اُس وقت بھی یہی آواز آئی تھی کہ لے لو مُولیاں، لے لو گاجریں۔ گویا مُولیوں اور گاجروں کی آواز اُسے اپنے بچے کی موت یاد دلا دے گی اور اسے رونا آ جائے گا۔ غرض ایک شخص کو جس وقت رونا آتا ہے دوسرے شخص کو اُس وقت رونا نہیں آتا۔ اور وہ مصیبت زدہ اُس وقت رو لیتا ہے۔ لیکن جب سب کے سب لوگ ایک ہی قسم کی مصیبت میں مبتلا ہوں تو اُس وقت رونا بے معنی معلوم ہوتا ہے اور حواس پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ افسوس کرنا کچھ بے حیائی سی معلوم ہوتی ہے کیونکہ انسان سوچتا ہے کہ اگر مَیں رویا یا مَیں نے افسوس کیا تو دوسرے لوگ جو میری جیسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور رو نہیں رہے، افسوس نہیں کر رہے۔ میری نسبت کیا کہیں گے۔ اور اِسی طرح رونے اور افسوس کرنے کا وقت ٹلتا جاتا ہے۔ اِسی لیے کہتے ہیں
مرگِ انبوہ جشنے دارد
جب اکٹھی مصیبت آتی ہے تو ایک دوسرے کے جذبات اور ایک دوسرے کی کیفیات میں اطمینان اور سہارے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اِس وقت جو ہمارے ملک پر مصیبت آئی ہے اس سے اربوں ارب کم حصہ پر خون بہائے جاتے ہیں، اِس سے اربوں ارب کم حصہ پر تباہیاں واقع ہو جاتی ہیں، اِس سے اربوں ارب کم حصہ پر مقدمات ہوتے اور آپس میں لڑائیاں لڑی جاتی ہیں، اِس سے اربوں ارب کم حصہ پرسرپھٹول ہو جاتا ہے اور اِس سے اربوں ارب کم حصہ پر شہروں اور گاؤں اور قصبوں بلکہ ضلعوں تک کے امن برباد ہو جاتے ہیں۔ قصبہ کی ایک عورت اُدھا ل1 لی جاتی ہے تو سارے آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں اور بیسیوں دنوں تک تمام علاقہ کا امن جاتا رہتا ہے۔ مگر اِس وقت پچاس ہزار مسلمان عورت ہندوؤں اور سکھوں کے قبضہ میں ہے اور چند ہزار یا کم و بیش سکھ اور ہندو عورت مسلمانوں کے قبضہ میں ہے مگر اِس پر وہ شورش نہیں، وہ اضطراب اوروہ دکھ نہیں جو صرف ایک عورت کے اِغوا پر برپا ہوا کرتا تھا۔ اِسی وجہ سے کہ ہر شخص سمجھتا ہے اگر مَیں نے اپنا دکھ بیان کیا تو لوگ مجھے روکیں گے اور کہیں گے کہ کیا صرف اکیلے تم پر مصیبت آئی ہے؟ یہ تو سب پر آئی ہے۔ پس
مرگ انبوہ جشنے دارد
قومیں جب مصیبت میں مبتلا ہوتی ہیں تو اُن کی غم کی کیفیتیں بدل جاتی ہیں اور اُن کے دکھ درد عام حالات سے بالکل مختلف ہو جاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عقل کا پہلو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری عقل کہتی ہے کہ اِس وقت اِتنی بڑی مصیبت آئی ہے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہاں تک کہ نوحؑ کے وقت بھی وہ تباہی نہیں آئی جو آج آئی۔ نوحؑ کے وقت دنیا کی آبادی بہت کم تھی۔ اِس لحاظ سے جہاں طوفان سے بچنے والے قلیل لوگ تھے وہاں جو لوگ طوفان سے تباہ ہوئے اُن کی تعداد بھی غیرمعمولی طور پر زیادہ نہیں تھی۔ نوحؑ کی قوم جو اُن پر ایمان لائی پرانے زمانہ کی لکڑی کی ایک کشتی میں سوار ہوگئی تھی۔ اِس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ لوگ کتنے تھے۔ اور اُنہی پر قیاس کر کے باقی آبادی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بے شک قرآن کریم نے نوحؑ پر ایمان لانے والوں کے متعلق قلیل کا لفظ استعمال کیا ہے مگر قلیل اور کثیر میں کچھ تو نسبت ہوتی ہے۔ اگر نوحؑ پر ایمان لانے والے اور طوفان سے محفوظ رہنے والے افراد ہم ساٹھ ستّر سمجھ لیں تو وہ لوگ جو تباہ ہوئے وہ زیادہ سے زیادہ چھ سات ہزار ہوں گے۔ گویا ایک قصبہ بھی جو آج تباہ ہوا اُس کے مقابلہ میں نوحؑ کے طوفان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ لیکن قرآن کریم کو دیکھو تو وہ نوحؑ کے طوفان کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ اِسی طرح فرعون کا لشکر جو غرق ہوا اُس کی کتنی تعداد ہو گی؟ زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار ہو گی۔ مگر تمہارا تو پانچ لاکھ آدمی مشرقی پنجاب میں مارا گیا ہے اور اِدھر بھی کچھ نہ کچھ سکھ اور ہندو مارا گیا ہے۔ اگر دونوں کو ملا کر چھ سات لاکھ تعداد سمجھ لی جائے اور دو تین لاکھ جموں اور کشمیر کے لوگ سمجھ لیے جائیں تو یہ دس لاکھ تعداد بن جاتی ہے۔اگر اِس میں وہ مسلمان بھی شامل کر لیے جائیں جو ہندوستان میں مارے گئے تو بارہ تیرہ لاکھ تعداد بن جاتی ہے۔ اِس کے مقابلہ میں بھلا نوحؑ کے طوفان کی کیا نسبت ہے۔ اور فرعون کے لشکر میں سے ڈوبنے والوں کی تباہی اِس کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ عظیم میں بھی بہت لوگ تباہ ہوئے۔ دس گیارہ لاکھ جرمن مارا گیا۔ چار پانچ لاکھ جاپانی مارا گیا۔ جاپانی نسبتاً کم مارے گئے کیونکہ اُنہوں نے جلد ہی ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اِسی طرح روسی بھی دس بارہ لاکھ مارے گئے۔ انگریز بھی تین ساڑھے تین لاکھ مارے گئے، امریکن بھی لاکھ ڈیڑھ لاکھ مارے گئے۔ اِن سب کو ملا لیا جائے تو اندازاً 26،27لاکھ آدمی پانچ سال میں مارا گیا ہے۔ یہ 26،27لاکھ آدمی دنیا کے تمام گوشوں اور کناروں پر مارا گیا ہے۔ ایک کے مرنے کی جگہ دوسرے مرنے والے کی جگہ سے بعض دفعہ پندرہ پندرہ، بیس بیس میل دور تھی اور ایک مرنے والے اور دوسرے مرنے والے کے درمیان بعض دفعہ پانچ پانچ سال کا فاصلہ تھا۔ مگر یہاں جو بارہ تیرہ لاکھ آدمی مارا گیا ہے ایسے محدود علاقہ میں مارا گیا ہے اور اِتنی چھوٹی سی جگہ میں مارا گیا ہے کہ جس میں ایک ہی زبان بولی جاتی تھی۔ ایک ہی قسم کی عادات لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ ایک ہی حکومت رائج تھی اور رسم و رواج بھی ایک ہی قسم کے تھے۔ یہ سارے کے سارے ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ کے اندر اندر مارے گئے اور اِس طرح مارے گئے کہ ایک کی موت پر ابھی لوگوں کے آنسو نہیں تھمے تھے کہ دوسرا مر گیا۔ ایک خاندان کی چیخیں ابھی بند نہیں ہوئی تھیں کہ دوسرے خاندان میں سے چیخوں کی آوازیں اُٹھنے لگیں اور یہ سب کچھ اِس سُرعت سے ہوا اور اتنے تھوڑے سے علاقہ میں ہوا کہ جرمنی کی تباہی بھی اِس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ نظر آتی ہے۔ یوں ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہزاروں آدمی ہر روز مرتے ہیں۔ دو ارب کی دنیا اگر ہم سمجھ لیں اور یہ فرض کر لیں کہ 1/4 فی ہزار مرتا ہے تو اِس کے لحاظ سے پچیس آدمی فی لاکھ اور اڑھائی ہزار آدمی فی کروڑ مرتا ہے۔ دنیا کی آبادی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آجکل دو ارب کے قریب ہے۔ اڑھائی ہزار فی کروڑ کے لحاظ سے اڑھائی لاکھ آدمی روزانہ مرتا ہے مگر پتہ بھی نہیں لگتا کہ اتنے آدمی مر گئے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں اگر ایک کشی ڈوب جاتی ہے یا موٹر اُلٹ جاتی ہے اور پانچ سات آدمی مر جاتے ہیں تو ایک آفت آ جاتی ہے اور سب لوگ باتیں کرنے لگتے ہیں کہ فلاں جگہ موٹر گری دس آدمی مر گئے اور پندرہ زخمی ہوئے۔ یاکشتی غرق ہوئی اور اتنے آدمی ڈوب گئے۔ غرض تین چار دن مسلسل ایک کُہرام مچا رہتا ہے۔اِس لیے کہ وہ موت قریب واقع ہوتی ہے لیکن جو اڑھائی لاکھ آدمی روزانہ مرتا ہے یہ فاصلہ فاصلہ پر مرتا ہے۔ اِتنے فاصلہ پر کہ ایک کی خبر دوسرے کو نہیں پہنچتی یا اگر پہنچتی بھی ہے تو بُعدِ مقام اور بُعد ِاحساس اور بُعدِحکومت کی وجہ سے تکلیف نہیں پہنچتی۔ مگر یہاں قُربِ مقام اورقُربِ قومیت اور مطابقتِ رسم و رواج اور ایک حادثہ سے ہلاک ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کا صدمہ بہت سخت ہوا ہے۔ورنہ اڑھائی لاکھ آدمی دنیا میں روزانہ مرتا ہے اور پتہ بھی نہیں لگتا۔ اگر پانچ دس آدمی کسی حادثہ کی وجہ سے مر جائیں توکہرام مچ جاتا ہے مگر یہاں تو پانچ دس نہیں بارہ تیرہ لاکھ آدمی مارا گیا ہے اور اتنا آدمی مارا گیا ہے کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔کہا جاتا ہے کہ تیمور نے اتنے آدمی مارے تھے کہ بعض جگہ مُردوں کے تودے لگ جاتے تھے۔ نہ معلوم تاریخ اِس بارہ میں کتنا مبالغہ کرتی ہے لیکن اگر یہ واقعہ ہے اور سچ ہے تو بھی تیمور نے جو تودے لگائے تھے اُس سے سینکڑوں گُنا بڑے تودے پچھلی تباہی کی وجہ سے لگے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تیمور نے مُردوں کا ایک جگہ ڈھیر لگا دیا تو تودہ بن گیا مگر پنجاب کے مُردوں کا ڈھیر نہیں لگا یا گیا۔ اگر پنجاب کے مُردوں کی لاشیں بھی ایک جگہ اکٹھی کی جائیں تو تیمور کے تودوں سے سینکڑوں گُنا بڑے تو دے بن جاتے۔ مثلاً وہی قافلہ جو قادیان سے پیدل چلا تھا اس کے متعلق ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اس میں سے ہزار سے دو ہزار تک آدمی رستہ میں مار دئیے گئے تھے۔ چنانچہ اس کے سات آٹھ دن بعد جو قافلے قادیان گئے اور جن میں بعض انگریز بھی تھے اُنہوں نے بتایا کہ راستہ میں مُردوں کی بُو کی وجہ سے ناک کو کھولا نہیں جا سکتا تھا۔ نہر میں ریت کے اندر مُردے پڑے ہوئے تھے، کھیتوں میں مُردے پڑے ہوئے تھے اور گدھ اور چِیلیں چاروں طرف منڈلاتی اور لاشوں کو نوچتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ اگر ان تمام مُردوں کا ایک جگہ ڈھیر لگا دیا جاتا تو شاید تیمور کی گردن بھی شرم کے مارے جھک جاتی یا یوں کہو کہ اُس کی گردن اونچی ہوجاتی اور وہ کہتا کہ مَیں نے تو اتنے آدمی نہیں مارے جتنے اِن لوگوں نے مارے ہیں۔
غرض حالات کے فرق کی وجہ سے بعض دفعہ ایک چیز کی اہمیت نظر نہیں آتی مگر جو کچھ پیچھے ہوا اس کے حالات بتا رہے ہیں کہ وہ ایک شدید ترین مصیبت کا دَور تھا جو مسلمانوں پر آیا۔ اگر خدا نخواستہ اب اِس سے بھی بڑی مصیبت آئی تو تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کیا ہوگی۔ جتنی رپورٹیں ملتی ہیں اُن سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بُغض اور کینہ کی آگ کو ہوائیں دی جا رہی ہیں اور آئندہ فساد کے منصوبے کیے جا رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہی آوازیں آ رہی ہیں اور تمہارے نفوس کی حالت بھی یہی بتاتی ہے کہ ابھی اَور مصائب آنے والے ہیں۔ دیکھو! کوئی ماں اپنے بچے کو مارنا نہیں چاہتی۔ اگر وہ کسی غلطی پر اُسے تھپڑ مارتی ہے اور بچہ پھر وہی کام کرتا ہے جس پر اُسے تھپڑ مارا گیا تھا تو صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ ماں اُسے پھر تھپڑ مارے گی کیونکہ وہ پھر وہی کام کرنے لگ گیا ہے جس سے ماں نے اُسے روکا تھا۔ اگر بچہ اُس فعل کے ارتکاب سے رُک جائے تو عقلمند انسان جان لیتا ہے کہ اب ماں اُسے نہیں مارے گی۔ سوائے اِس کے کہ وہ غصہ میں پاگل ہو جائے مگر ہمارا خدا غصہ میں پاگل نہیں ہو سکتا۔ ماں کے متعلق تو یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اسے بعض دفعہ اِتنا غصہ ہو کہ اگر بچہ اس فعل سے رُک جائے تب بھی دیوانگی اور جوش کی حالت میں وہ اُسے مارنے لگ جائے۔ گو عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ماں کی مامتا فوراً روک بن جاتی ہے اور وہ بچے کو بِلاوجہ نہیں مارتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ جب میری غرض پوری ہو گئی ہے تو مجھے مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن اگر کوئی ماں اپنے بچہ کو بِلاوجہ مارنے لگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بِلاوجہ اپنے بندوں کو دکھ میں ڈالتا ہے۔ جب ہمیں نظر آتا ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو تھپڑ مارا اور اِتنا سخت مارا کہ اُس رحیم و کریم ہستی پر نظر کرتے ہوئے اِس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ تو صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ رحیم و کریم ہستی لوگوں کے گناہوں سے تنگ آ گئی تھی۔ وہ ان کے اعمال سے زچ ہو گئی تھی، وہ انہیں سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی تھی۔ اُس نے چاہا کہ بندہ اُس کی طرف آئے اور اُس کی محبت اور پیار کو حاصل کرے مگر انسان نے اُس کی آواز کو نہ سنا، نہ سمجھا اور نہ مانا۔ آخراُس نے انسان کے فائدہ کے لیے ایک تھپڑ مارا اور بڑا سخت مارا۔ چاہیے تھا کہ اِس کے بعد لوگ اپنی اصلاح کر لیتے اور دوسرے تھپڑ کی نوبت نہ آتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اب تک انسان اُنہی کاموں میںمشغول ہے جن میں وہ پہلے مشغول تھا۔ اب تک ایثار اور قربانی کا مادہ اُس نے اپنے اندر پیدا نہیں کیا، اب تک نیکی اور تقوٰی کی روح اُس نے اپنے اندر پیدا نہیں کی۔ وہ پھر اُنہی غفلتوں اور اُسی لُوٹ مار اور دنگا فساد میں مشغول ہے جس میں وہ پہلے مشغول تھا۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اب کے پھر تھپڑ پڑے گا اور وہ پہلے سے زیادہ سخت ہو گا۔
بہرحال یہ ساری چیزیں ایک چیز کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ الٰہی خبریں کہہ رہی ہیں کہ ابھی اَور ابتلا آنے والے ہیں۔ رپورٹیں اور مخبریاں بتا رہی ہیں کہ شرارتوں اور فسادوں کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ تمہارے نفس بتا رہے ہیں کہ جس غرض کے لیے تھپڑ مارا گیا تھا وہ پوری نہیں ہوئی، جس مقصد کے لیے تمہیں پِیٹا گیا تھا وہ ابھی حاصل نہیں ہوا۔ جب پہلے تھپڑ کی غرض یہی تھی کہ تمہاری اصلاح ہو تو اصلاح نہ ہونے کی صورت میں لازمی طور پر دوسرے تھپڑ کی تیاری کی جائے گی سوائے اِس کے کہ تم اُس کے مارنے سے پہلے اپنی اصلاح کر لو۔
پس مَیں تمہیں ایک دفعہ پھر توجہ دلاتا ہوں۔ یہ نہیں کہ آخری دفعہ بلکہ اگر ہر دفعہ بھی مجھے یہی کہنا پڑے تو مَیں کہوں گا یہاں تک کہ تمہارے نفسوں میں اصلاح پیدا ہو جائے۔ یوں تو مَیں سب لوگوں کو یہی کہوں گا مگر مَیں تمہیں خاص طور پر اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کیونکہ مَیں تمہارا ذمہ دار ہوں سب کا نہیں۔ یہ مَیں جانتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے تو تم عذاب میں شریک نہیں کیے جاؤ گے۔ تمہیں خدا نے دنیا کی اصلاح کے لیے پیدا کیا ہے اور اِس وجہ سے وہ اپنا سارا زور اِس بات میں صَرف کرے گا کہ تمہیں اس عذاب سے بچائے۔ جب دنیا میں لوگ غرق ہو رہے ہوں تو اُس وقت تیراکوں کو نہیں مارا جاتا۔ اگر تیراک مار دئیے جائیں تو دنیا کو بچایا نہیں جا سکتا۔
ہماری تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ حضرت سعدؓ کو ایران کی ایک ایسی جنگ میں شامل ہونا پڑا جس جنگ سے پہلے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ چکا تھا۔ یہ نقصان ایک غزوہ میں ہوا جسے غزوہ جسر کہتے ہیں۔ اس میں ہزاروں ہزار کی تعداد میں مسلمان مارے گئے تھے کیونکہ دشمن نے دریا کے پار اُن پر حملہ کیا اور ایسی ہوشیاری کی کہ اُس نے پُل پر قبضہ کر لیا۔ جب مسلمانوں کو دھکیلا گیا تو چونکہ پیچھے زمین نہیں تھی اور پُل پر دشمن قابض تھا اُن کے لیے یہی صورت رہ جاتی تھی کہ وہ دریا کے کناروں پر آجاتے۔ وہاں دشمن نے اَور زیادہ دباؤ ڈالا تو مسلمان پانی میں گر گئے اور چونکہ عرب تیرنا نہیں جانتے تھے سینکڑوں آدمی ڈوب گئے۔ اِس جنگ کا بدلہ لینے کے لیے حضرت عمرؓ نے سعدؓ بن ابی وقاص کو مقرر کیا اور چونکہ بہت سی اسلامی فوج شام میں بھیجی جا چکی تھی اور چونکہ پچھلی جنگ میں بڑا بھاری نقصان ہوا تھا حضرت عمرؓ کوئی بڑا لشکر نہ بھجوا سکے۔ جو لشکر دشمن کے مقابلہ میں لڑنے کے لیے بھجوایا گیا اُس کی تعداد ایرانی لشکر کے مقابلہ میں صرف 1/10 تھی۔ ایرانی لشکر کی کمانڈ ،رستم کر رہا تھا مگر قصوں والا رستم نہیں۔ اگر اُس کا کوئی وجود ہوا ہے تو وہ دو تین سو سال پہلے ہوا تھا۔ یہ اَور رستم تھا اور یہ بھی اپنی قوم میں بہت دلیر اور جری سمجھا جاتا تھا۔ غرض رستم ایرانی لشکر کی کمانڈ کر رہا تھا اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اسلامی لشکر کی تعداد ایرانی لشکر کے مقابلہ میں صرف 1/10 تھی۔ ایرانی لشکر میں ہاتھی بھی تھے جن سے اونٹ بہت ڈرتا ہے اور اِسی طرح اَور بھی بہت سا سامان جنگ تھا۔ اُس وقت عرب کا ایک سردار جو اسلامی تعلیم سے زیادہ واقف نہیں تھا لوگوں کے رغبت دلانے پر شراب پی بیٹھا اور حضرت سعدؓ نے اُس کو قید کر دیا۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو پاس ہی اُس جگہ جہاں خیمے لگے ہوئے تھے ایک عرشہ بنایا گیا تھاتااُس پر بیٹھ کر حضرت سعدؓ لڑائی کا نظارہ دیکھ سکیں اور اپنی فوجوں کو مناسب احکام دے سکیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سعدؓ کی سرین پر ایک پھوڑا نکلا ہوا تھا اور اِس وجہ سے وہ لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ پہلے دن کی لڑائی میں اسلامی لشکر کے قدم پوری طرح جمے نہیں۔ وہ قیدی جو بہت بہادر اور جری انسان تھا جب وہ اِن باتوں کو سنتا تو اُس سے برداشت نہیں ہو سکتاتھا اور وہ قید خانہ میں ٹہلنے لگ جاتا۔ تھوڑی دیر تک اُس نے ٹہل کر وقت گزارا مگر اُس سے پھر بھی برداشت نہ ہوا اور آخر اُس نے دستک دے کر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی بیوی کو بُلوایا ۔وہ آئیں تو اُس نے کہا بی بی! ایک عرب کی زبان جس طرح اپنے وعدہ کو پورا کرتی ہے تم اُس سے خوب واقف ہو کیونکہ تم توخود عرب ہو۔ مَیں ایک عرب کی حیثیت سے تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر لڑائی میں مَیں زندہ رہا تو شام کو خود یہاں آ جاؤں گا۔ تم مجھے ہتھکڑیاں پہنا دینا لیکن مسلمانوں کی یہ کمزوری مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں بھی لڑائی میں حصہ لوں۔حضرت سعدؓ کی بیوی ایک دلیر عورت تھیں اُن پر اِس دلیری اور قربانی کا اِتنا اثر ہوا کہ انہوں نے قانون کو توڑتے ہوئے اُس کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور کہا مَیں تم پر اعتبار کرتی ہوں۔ اگر زندہ رہے تو واپس آ جانا۔ وہ گیا اور اُس نے لڑائی میں حصہ لیا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ جہاں جاتا مسلمانوں کے قدم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے۔ مگر لڑتے وقت اُس نے اپنے منہ پر نقاب ڈالی ہوئی تھی۔ یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کون ہے۔ حضرت سعدؓ اُسے دیکھتے تو کہتے خدا اِس کا بھلا کرے یہ لگتا تو فلاں شخص ہے مگر وہ توقید میں ہے۔ اِسی طرح اُس نے لڑائی کے ایک یا دو دن گزارے۔ آخر حضرت سعدؓ کو پتہ لگ گیا کہ یہ وہی شخص ہے جسے انہوں نے قید کیا ہوا تھا اور یہ کہ اُن کی بیوی نے اُسے چھوڑا ہے۔ سعدؓ اپنی بیوی پر ناراض ہوئے اور کہا کہ تم نے ایک خلافِ قانون فعل کیا ہے جو تمہیں سزا کا مستحق بناتا ہے۔ مَیںنے بتایا ہے کہ حضرت سعدؓ کو پھوڑا نکلا ہوا تھا اور وہ عرشہ پر یا سواری پر بیٹھ کر فوج کی حالت دیکھا کرتے تھے۔ خود لڑائی میں شامل نہ ہو سکتے تھے۔ جب وہ اپنی بیوی پر خفا ہوئے تو اُن کی بیوی نے نہایت غصہ سے جواب دیا کہ تم کو شرم نہیں آتی! خود سواری یا عرشہ پر بیٹھ کر حکم چلاتے ہو اور تم مجھے یہ کہتے ہو کہ مَیں اُس شخص کو لڑائی میں حصہ لینے سے محروم کر دیتی جو جری اور دلیر تھا اور تمہاری طرح بیٹھ کر حکم دینے کا عادی نہیں تھا۔ سعدؓ نے یہ سنا تو خاموش ہو گئے۔2 کیونکہ گویہ بات غیرآئینی تھی مگر اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقت پر جس کام سے تعلق رکھنے والا کوئی آدمی ہوتا ہے اُسے اُس کام سے محروم نہیں رکھاجاتا کیونکہ اُس وقت کا خاص مرد وہی ہوتا ہے۔
سو اگر تم اپنی اصلاح کر لو تو چونکہ دنیا کو بچانے کی ذمہ داری تم پر ہے اِس لیے اگر عالمگیر تباہی دنیا پر آ بھی گئی تو خدا تم کو ضرور بچائے گا اور تمہارے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا۔ اِس لیے نہیں کہ تم اُس کے بندے ہو اور وہ اس کے بندے نہیں بلکہ اِس لیے کہ اگر عالمگیر عذاب میں تم بھی مبتلا ہو گئے تو دنیا کو کون بچائے گا۔ دنیا کا سہارا اِس وقت تم ہو۔ اِس لیے وہ تمہارے نکالنے کے لیے کوئی راہ ضرور پیدا کر دے گا کیونکہ تمہارے بغیر دنیا کی اصلاح اور اِس کی نجات کا اَور کوئی ذریعہ نہیں۔ لیکن اگر تم نے اپنے اندر تغیر پیدا نہ کیا اور عالمگیر مصیبت آ گئی تو خدا کہے گا اِن لوگوں کو بھی مرنے دو کیونکہ یہ بھی ویسے ہی ہیں جیسے اَور لوگ۔ پس اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرو اور اپنے اندر ایسا تغیر رونما کرو کہ خدا کی ذات اِس بات کا اقرار کرے کہ یہ قوم دوسری قوموں سے بالکل الگ ہے۔ اِس کی قربانی اور اِس کی اطاعت اور اِس کی محبت دوسری قوموں کی قربانی اور اطاعت میں زمین و آسمان کا فرق ہے"۔
(الفضل یکم دسمبر 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
اُدھال:اغوا ۔کسی کی عورت کو بھگا کر لے جانا( پنجابی اردو لغت مؤلفہ تنویر بخاری ، صفحہ 302اردو سائنس بورڈ لاہور)
2
:
تاریخ ابن اثیر جلد دوم صفحہ 475،476 مطبوعہ بیروت 1965ء







































آزادی اور حریّت ہی ایسی چیز ہے
149جو سچا ایمان پیدا کر سکتی ہے
(فرمودہ14 مئی1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"انگریزی کی ایک مثل ہے کہ ’’TIT FOR TAT‘‘(ٹٹ فار ٹیٹ) عربی میں اس کے مقابلہ میں کہا جاتا ہیکَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ۔ یعنی جیسا کر وگے ویسا بھرو گے۔ مَیں نے کچھ عرصہ ہوا جماعت لاہور کو اُس کی بعض غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ مجھے کہا گیا ہے کہ افسرانِ جماعت ان امور کی اصلاح کی فکر میں ہیں۔ گو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ غلطیاں جن کی اصلاح کی طرف اُنہیں سات آٹھ ماہ سے توجہ دلائی جار ہی ہے اُن کی اصلاح کا اُنہیں آج کیوں احساس ہوا ہے؟ اُس کی اصلاح کا خیال یقیناً اُنہیں بہت عرصہ پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن کہتے ہیں صبح کا بُھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اُس کو بھُولا نہیں کہتے۔ بہرحال یہ ایک ناپسندیدہ امر تھا کہ الفضل نے اِس قسم کی باتوں کو شائع کر دیا۔ حالانکہ میری ہمیشہ سے اسے یہ ہدایت ہے کہ کسی شخص یا جماعت کے متعلق اگر کسی نقص کا ذکر میری مجلس میں آئے تو اُس کو بغیر مجھے دکھانے کے ہر گز شائع نہ کیا جائے۔ مگر بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے عیب بیان کریں اور انہیں اس میں ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔ اِسی کے ماتحت الفضل کے نمائندہ نے ان باتوں کو نمایاں نہ کیا حالانکہ اترسوں کی تقریر کے بعد جب شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھ سے کہا کہ مناسب ہے کہ اس تقریر کو ابھی شائع نہ کیا جائے اور ہمیں اصلاح کا موقع دیا جائے تو مَیں نے اُسی وقت پرائیویٹ سیکرٹری کو حکم دیا کہ وہ الفضل کو اِس تقریر کے شائع کرنے سے روک دیں۔ لیکن پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اُس امیر کے مقولہ پر عمل کیا جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اُس کے پاس ایک فقیر نے آ کر سوال کیا کہ وہ اس کو کچھ دے۔ اُس امیر نے لوگوں پر رعب جمانے کے لیے اپنے نوکروں کے بڑے بڑے شاندار نام رکھے ہوئے تھے نام تو مجھے یاد نہیں تاہم یوں سمجھ لو کہ اُس نے آواز دی اے پکھراج! تم یاقوت سے کہو اور اے یاقوت! تم لعل سے کہو اور اے لعل! تم زمرد سے کہو اور اے زمرد! تم عقیق سے کہو اور اے عقیق! تم جوہر سے کہو اور اے جوہر! تم اس فقیر سے کہو(جو اُس کے سامنے کھڑا تھا) کہ میرے پاس اُس کے دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ہمارے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بھی اسی کمرہ میں بیٹھے بیٹھے اپنے اسسٹنٹ سیکرٹری کو کہا کہ تم یہ ہدایت آگے پہنچا دو۔ اسسٹنٹ سیکرٹری نے دوسرے اسسٹنٹ سیکرٹری سے کہا۔ اُس نے سپرنٹنڈنٹ سے کہا، سپرنٹنڈنٹ نے ڈسپیچر(Despatcher) سے کہا۔ڈسپیچرنے دفتری سے کہنا چاہا کہ تم یہ ہدایت آگے پہنچا دو۔ مگر وہ دفتری پہلے ہی کہیں پہنچا ہوا تھا۔ اِس طرح کاغذ دفتر میں ہی رہ گیا اور مضمون چھپ گیا۔ بہرحال مَیں نے اس کی تردید کرا دی ہے لیکن اِس پر مردوں کو تو جوش نہ آیا ایک عورت کو جوش آیا ہے اور اُس کا ایک رجسٹری خط مجھے ملا ہے جس میں اُس نے بعض اعتراضات کیے ہیں۔ مجھ پر تو نہیں لیکن اُس نے خاندان کا لفظ استعمال کیا ہے کسی کا نام اُس نے نہیں لکھا۔ اِس لیے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی مراد کس سے ہے۔ البتہ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح میرے اعتراضات کی وجہ بدنیتی نہیںبلکہ اصلاح تھی اِسی طرح اس خاتون کے اعتراضات کی وجہ بھی بدنیتی نہیں بلکہ اصلاح ہی معلوم ہوتی ہے۔ شروع میں تو اس عورت نے اپنے خاوند کی شکایت کی ہے۔ اس نے اپنا نام بھی لکھا ہے۔ ممکن ہے وہ نام اصلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ فرضی ہو۔ اِس لیے مَیں اُس کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ بہرحال اُس نے بیان کیا ہے کہ مَیں نے اپنے خاوند سے یہ شکایت کی تو خاوند نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ خلیفۃ المسیح تو بادشاہ ہیں۔ تم اُن پر کیا اعتراض کرتی ہو! اور ان کی مثال اپنے گھر میں کیوں جاری کرنا چاہتی ہو۔ جہاں تک اتنے حصہ کا تعلق ہے مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ خاوند نے اخلاص کا ثبوت دیا ہے مگر اس نے اپنی بات منوانے کے لیے اور اپنی بیوی کے اعتراض کو ردّ کرنے کے لیے صحیح طریق اختیار نہیںکیا۔ اول تو جیسا کہ ہم کہتے ہیں خاوند اور بیوی میں اِس قسم کا تعلق نہیں ہو سکتا کہ دونوں کے دماغ ایک طرح کام کریں۔ ہو سکتا ہے بیوی کا دماغ اَور طرح کام کر رہا ہو اور خاوند کا دماغ اَور طرح کام کر رہا ہو۔ ہم مجبور نہیں کر سکتے نہ خاوند کو اور نہ بیوی کو کہ وہ ایک طرح کام کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے کی ہمیں طاقت حاصل نہیں۔ ایسا کرنے کی خدا تعالیٰ بھی ہمیں اجازت نہیں دیتا۔ پس گو اخلاص کے ماتحت ہی خاوند نے یہ بات کہی مگر میرے نزدیک ایسا کہنا درست نہیں تھا۔ عورت کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ خاوند سے جزئیات میں اختلاف کرے۔ ایک عورت کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اصولی امور میں اُس سے اختلاف کرے بلکہ اُسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خاوند سے مذہب میں کُلّی طور پر اختلاف کرے۔ پس یہ طریق درست نہیں کہ خاوند اپنی بیوی کو حکومت کے ذریعہ اپنی بات منوانا چاہے۔ عورت کا دماغ اُتنا ہی آزاد ہے جتنا کہ مرد کا دماغ آزاد ہے۔ ہم دلیل کے ماتحت تو عورت کو قائل کر سکتے ہیں جس طرح دلیل کے ساتھ مرد کو قائل کر سکتے ہیں لیکن رعب کے ساتھ ہم نہ کسی مرد کو اپنی بات منوا سکتے ہیں اور نہ عورت کو اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ہاں اُسے چپ ضرور کر ا سکتے ہیں۔ دوسرا حصہ دلیل کا کہ وہ بادشاہ ہیں یہ اُس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اگر بادشاہ سے مراد روحانی بادشاہت کے لیے تو اس اعتراض کے صحیح ہونے کی صورت میں بیوی کا اعتراض اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بہرحال میرے نزدیک یہ دونوں طریق اُس کے خاوند نے غلط اختیار کیے ہیں۔ اُس کو خاموش کرانے کی کوشش کرنا بھی غلط تھا اور اسے یہ دلیل دینا کہ وہ بادشاہ ہیں یہ بھی غلط ہے۔ اگر واقع میں وہ اعتراض غلط تھا تو اُس کو دلیل کے ساتھ غلط ثابت کرنا چاہیے تھا اور اگر اعتراض ضد کی بناء پر تھا تو پھر ڈانٹنے کا کیا مطلب۔ "جواب جاہلاں باشد خموشی"۔ وہ خاموش ہی ہو جاتا۔ اور اگر یہ اعتراض درست تھا تو پھر خاوند کو چاہیے تھا کہ وہ خود یہ اعتراض مجھے پہنچاتا نہ یہ کہ اُس اعتراض پر بیوی کو ڈانٹتا۔ ہمیں تو شکایت ہی یہ ہے کہ آجکل مردوں اور عورتوں کا ایمان بھیڑ چال کا رنگ رکھتا ہے۔ عورت مرتد ہوتی ہے تو ساتھ ہی مرد بھی مرتد ہو جاتا ہے اور مرد اِرتداد اختیار کرتا ہے تو ساتھ ہی عورت بھی مرتد ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی ایمان نہیں۔ صحابہؓ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر کوئی مثال ملتی ہے تو یہ کہ مرد اگر غلط بات کہتا ہے تو بیوی اَڑ جاتی ہے اور اگر بیوی غلط بات کہتی ہے تو خاوند اَڑ جاتا ہے۔
دیکھو یہ کیسی شاندار مثال ہے جو صحابہؓ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے کہ ایک نوجوان کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ پردہ کا حکم اُس وقت نازل ہو چکا تھا۔اُس نوجوان نے چاہا کہ وہ لڑکی کی شکل بھی دیکھ لے مگر چونکہ پردہ کا حکم نازل ہوچکا تھا لڑکی کے باپ نے اُس کو ناپسند کیا اور کہا کہ شادی کرو یا نہ کرو مَیں تمہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اُس نوجوان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یارسول اللہ! مَیں فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور تو سب باتیں مجھے پسند ہیں صرف مَیں لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر لڑکی کا باپ اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے فرمایا ہاں شادی کی غرض سے لڑکی کو دیکھ لینا جائز ہے۔ تم میری طرف سے یہ کہہ دو۔ اُس نوجوان نے لڑکی کے باپ سے جا کر یہ بات کہہ دی مگر اُس نے کہا مجھ سے تو یہ بے غیرتی برداشت نہیں ہو سکتی۔ لڑکی پردے کے اندر بیٹھی ہوئی یہ باتیں سُن رہی تھی۔ جب اُس نے یہ بات سُنی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو شکل دیکھنے کی اجازت دی ہے مگر میرا باپ اِس پر رضامند نہیں تو وہ خود پردہ اُٹھا کر باہر آ گئی اور کہنے لگی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جاؤ اور لڑکی کو دیکھ لو تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ وہ اِس میں روک بنے۔ لو مجھے دیکھ لو۔ مَیں سامنے کھڑی ہوں۔1 دیکھو وہ اُس کا باپ تھا اور وہ اُس کے گھر میں پل رہی تھی۔ مگر پھر بھی اُس نے دین کے معاملے میں اپنے باپ سے اختلاف کر لیا۔ یہ خیال درست نہیں کہ پُرانے زمانہ میں لڑکیاں شادی کے موقع پر بول پڑا کرتی تھیں حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اِس زمانہ میں لڑکیاں شادی کے موقع پر خاموش رہتی ہیں اِسی طرح پرانے زمانے میں بھی خاموش رہا کرتی تھیں۔ اِسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رَضَائُ ھَا سُکُوْتُھَا2 اُس کی خاموشی ہی اُس کی رضا ہے۔ مگر باوجود اِس کے کہ شریعت نے اِس معاملہ میں اپنے حکم کے معنی بدل دئیے ہیں اور لڑکی کی خاموشی کو اُس نے رضا قرار دے دیا ہے۔ پھر بھی جب دین کا معاملہ آیا لڑکی دلیری سے باہر نکل آئی اور اُس نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی ہو تو اَور کون اِس میں روک بن سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور حریت ہی ایسی چیزیں ہیں جو سچا ایمان پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر یہ حریت حاصل ہو تو نہ عورت کے ساتھ خاوند مرتد ہو سکتا ہے اور نہ خاوند کے ساتھ عورت مرتد ہو سکتی ہے۔ یہی ایمان ہے جو لوگوں کو پختہ کار بناتا ہے اور جس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کا ابتلاء نہیں آ سکتا۔ ہر شخص اپنے ایمان پر کھڑا ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ خاوند بیوی کے ایمان پر کھڑا ہو اور بیوی خاوند کے ایمان پر کھڑی ہو۔
اِس خاتون نے جو اعتراضات لکھے ہیں وہ یہ ہیں کہ "خاندان کی عورتیں سادہ زندگی بسر نہیں کرتیں۔ خود کام نہیں کرتیں بلکہ گھروں میں انہوں نے نوکر رکھے ہوئے ہیں۔ گوٹہ کناری سے دوسروں کو منع کیا جاتا ہے مگر خود گوٹہ کناری استعمال کی جاتی ہے، سواری استعمال کرتی ہیں، لجنہ کی کلرک ہیں وہ خود کام نہیں کرتیں۔ جہاں تک سادہ زندگی کا تعلق ہے یہ ایک نسبتی لفظ ہے۔ ہم سادہ زندگی کی کوئی ایک تعریف نہیں کر سکتے۔ مثلاً سادہ زندگی میں پہلے کھانا آتا ہے۔ کھانے کے متعلق ہم نے یہ اصول مقرر کیا ہوا ہے کہ ایک کھانا ہو۔ اس کے متعلق اس خاتون سے بہرحال مَیں زیادہ واقف ہو سکتا ہوں کیونکہ مَیں روزانہ گھر میں کھانا کھاتا ہوں۔ اور یہ بھی لازمی بات ہے کہ اگر گھر میں ایک سے زیادہ کھانے پکے ہوں تو عورت اپنے خاوند کے آگے ہی وہ کھانے رکھتی ہے۔ مگر جہاں تک میرا علم ہے ہمارے گھروں میں ایک ہی کھانا پکتا ہے سوائے بیمار کے۔ مثلاً بیمار کو بے مرچ سالن چاہیے۔ اب سب گھر والوں کو تو بے مرچ سالن نہیں دیا جاسکتا۔اگر کسی بیمار کے لیے بعض دفعہ بے مرچ سالن بھی تیار ہو جائے تو اس کو دو کھانے نہیں کہہ سکتے۔ یا مثلاً کسی کو پیچش ہو اور اُس کے لیے خشکہ پک جائے تو یہ بھی دو کھانے نہیں ہوں گے کیونکہ روٹی اَور نے کھانی ہے اور خشکہ اَور نے کھاناہے۔ پچھلے دنوں مجھے پیچش کی شکایت رہی ہے۔ اِس لیے میرے لیے ساگودانہ الگ پکتا رہا ہے کیونکہ اطباء نے لکھا ہے کہ پیچش میں ساگودانہ وغیرہ چیزیں استعمال کرنی چاہییں تا کہ انتڑیوں میں لزوجت3 پیدا ہو اور زخم جلدی مندمل ہو سکیں۔ ایک بچہ تو ساگودانہ پر گزارہ کر سکتا ہے مگر بڑا ٓدمی گزارہ نہیں کر سکتا۔ اِس لیے علاوہ ساگودانہ کے خشکہ شوربا یا خشکہ دال بھی پکانا پڑتا ہے۔ یا بعض دفعہ اطباء اسبغول تجویز کرتے ہیں مگر اُس کو بھی دوسرا کھانا نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال جہاں تک کھانے کا سوال ہے مَیں گواہی دے سکتا ہوں اور باورچی خانہ والے بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ہمیشہ ایک کھانا تیار ہوتا ہے سوائے اس کے کہ غلطی سے کوئی شخص اَور نتیجہ نکال لے۔ مثلاً ہمارے باورچی خانہ میں سات آٹھ گھروں کے کھانے پکتے ہیں۔ میرے بہنوئی ہیں، بہنیں ہیں، بھائی ہیں، بھتیجے ہیں چونکہ سب کے کھانے ایک ہی جگہ تیار ہوتے ہیںاِس لیے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص غلطی سے یہ سمجھ لے کہ یہ سب کھانے ایک گھر کے لیے ہیں حالانکہ وہ الگ الگ گھروں کے لیے تیار ہوتے ہیں اور الگ الگ افراد اُن کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں۔ بہرحال ہمارے گھر میں صرف ایک کھانا پکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔
باقی رہا لباس کا سوال سو لباس آجکل جس قدر گراں ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ دو دو اڑھائی اڑھائی روپے میں آجکل لٹھے کا ایک گز آتا ہے۔ اِس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ لباس میں تعیّش یا آرائش کا خیال بہت بڑی رقم کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے اور رقم جو مَیں دیتا ہوں اُس کا علم بھی مجھ کو ہی ہو سکتا ہے اور مَیں سمجھ سکتا ہوں کہ اُس رقم میں سے کس حد تک اخراجات کیے جا سکتے ہیں۔ جنگ سے پہلے مَیں اپنی بیویوں کو پندرہ روپے ماہوار دیا کرتا تھا (یہ بھی قریب کی بات ہے ورنہ شروع میں سات روپے ہی ماہوار کپڑے اور دوسرے اخراجات کے لیے دیا کرتا تھا) لیکن جب سے جنگ شروع ہوئی ہے مَیں اپنی بیویوں کو تیس روپے ماہوار دیا کرتا ہوں۔ میری بڑی بیوی جب سے لاہور آئی ہیں وہ ساری کی ساری رقم انجمن میں بھیج دیتی ہیں اور اُن کے پاس صرف صفر رہ جاتا ہے۔ اب وہ خاتون خود ہی سوچیں کہ صفر میں کتنی عیاشی کی جا سکتی ہے۔ میری باقی بیویوں کے اخراجات کا بھی آسانی کے ساتھ پتہ لگ سکتا ہے۔ وصیت سب نے کی ہوئی ہے، تحریک جدید کے دفتر سے پوچھ لیں کہ وہ تحریک میں کتنا چندہ دیتی ہیں۔ پھر لجنہ اماء اللہ کا چندہ بھی دیتی ہیں۔ یہ چندہ کم از کم پندرہ روپے ماہوار جا پڑتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے اُن کے پاس باقی رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ سارے کے سارے کپڑوں پر ہی لگا دئیے جائیں تو سال میں وہ صرف چھ سات جوڑے لٹھے اور ململ کے بنا سکتی ہیں۔ اب وہ خاتون خود ہی سوچیں کہ وہ کون سی عیاشی ہے جو اِس رقم میں ہو سکتی ہے۔یہ تو مَیں نے عقلی دلیل دی ہے باقی اُن کے لباس مجھے نظر آتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ وہ دروازے بند کر لیتی ہیں اور صرف لجنہ کے ممبروں کو کہتی ہیں کہ آؤ اور ہمارے لباس دیکھ لو۔ سب سے زیادہ میری ہی نظر اُن کے لباس پر پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سات آٹھ ماہ میں ان میں سے ہر ایک کے لباس اتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس کوئی جوڑا بھی ایسا نہیں جو کئی جگہ سے سِلا ہوا نہ ہو۔اِسی وجہ سے بعض دفعہ تحفہ کے طور پر جب لٹھا یا ململ بعض دوست مجھے دے جاتے ہیں تو مَیں اُس میں سے کبھی کسی کو پاجامہ یا کوئی اَور کپڑا بنوا دیتا ہوں جس سے گزارہ ہوتا رہتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود یہ اعتراض کیوں پیدا ہوا؟ اصل بات یہ ہے کہ بعض عورتیں انتظام اچھا جانتی ہیں اور بعض اچھا انتظام کرنا نہیں جانتی ہیں۔ اس انتظام کے اچھا یا بُرا ہونے کی وجہ سے بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ اچھا انتظام کرنے والے تھوڑے روپیہ میں اچھا گزارہ کر لیتے ہیں اور ناقص انتظام والے زیادہ روپیہ میں بھی اچھا گزارہ نہیں کر سکتے۔
پرسوں انجمن کی میٹنگ تھی۔ مَیں نے لنگر والوں سے لنگر کا حساب پوچھا۔ لنگر والے پہلے سالن میں نہ بناسپتی گھی ڈالتے تھے نہ حیوانی۔ جب مجھے معلوم ہوا تو مَیں نے اُن سے کہا کہ اِس سے تولوگوں کی صحتیں برباد ہو جائیں گی۔ کم سے کم دو چھٹانک فی سیر گھی ضرور ڈالنا چاہیے۔ پرسوں اُنہوں نے حساب بتایا کہ اِس طرح چودہ روپے مہینہ فی کس خرچ بن گیا ہے۔ مَیں نے کہا اِتنا خرچ کس طرح آ سکتا ہے؟ اِس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ آپ نے جو فرمایا تھا کہ گھی ڈالا کرو۔ اِس وجہ سے یہ خرچ اِتنا نکلا ہے۔ یکدم مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر میں لنگر کی طرف سے جو بل بھیجا گیا ہے وہ اس سے کم ہے۔ قادیان میں جب ہم تھے تو ملازم بازار سے سَودا سلف لے آیا کرتے تھے لیکن جب سے لاہور آئے ہیں لنگر والے ہی سب اشیاء مہیا کرتے ہیں۔ پھر بل بنا کر بھیج دیتے ہیں۔ میری بیویاں رقعہ لکھ کر بھیج دیتی ہیں اور سودا اُنہیں لنگر والے منگوا دیتے ہیں۔ مَیں نے کہا آپ نے ابھی مجھے بل بھجوایا ہے اور اُس بل میں ہمارے گھر کا خرچ اِس سے کم دکھایا گیا ہے۔ ہمارے گھر میں3، 4 چھٹانک کے درمیان گھی پڑتا ہے اور آپ نے جو مجھے بل بھجوایا ہے اُس میں ہمارے گھر کا خرچ پونے دس روپے فی کس لکھا ہے حالانکہ ہمارے گھر کا کھانا آپ سے بہت اچھا ہوتا ہے۔ پھر آپ کا چودہ روپے کس طرح خرچ ہو گیا۔(پکا ہوا کھانا لنگر نہیں بھجواتا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ ہم سے رعایت کرتے ہیں بلکہ ہم اُن کی معرفت جنس منگواتے ہیں جس پر وہ کچھ رقم اور مزدوری وغیرہ کی لگا کر ہم کو بل دیتے ہیں۔ کھانا پکتا ہمارے گھر میں ہے)۔اُنہوں نے کہا خرچ یہی ہے ہم حساب سامنے رکھ دیتے ہیں آپ دیکھ لیں بیان کرنے والا بھی باورچی نہیں تھا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ حساب نہیں سمجھا بلکہ ملک سیف الرحمان صاحب تھے۔ یہ درست ہے کہ اُنہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی کہ صحیح حساب پیش کریں۔ مگر آخر مَیں نے اُن کی غلطی نکال لی۔ مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا خرچ کیا ہے؟انہوں نے بتایا کہ ہم 320 آدمیوں کے لیے 20 سیر گوشت پکاتے ہیں۔ گویا ایک وقت میں ایک چھٹانک فی کس جا پڑتا ہے۔ مَیں نے کہا آپ نے ہمارا خرچ 90 آدمیوں پر ڈالا ہے اور آپ کی پرچیوں سے پتہ لگتا ہے کہ دو سیر گوشت ایک وقت میں آتا ہے۔ گویا جہاں ایک سیر میں آپ 16 آدمیوں کو کھانا کھلاتے ہیں وہاں ہمارے گھر میں سیر میں 45 آدمی کھانا کھاتے ہیں۔ پھر ہمارا کھانا لنگر کی نسبت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ لنگر کا کھانا یقینا ً ہم لوگ زیادہ دیر تک نہیں کھا سکتے۔ اصل میں نوے کا حساب تو غلط تھا۔ دراصل 70 آدمی کھانا کھاتے ہیں اور اِس طرح 45 کی بجائے 35 آدمی کھانا کھانے والے بن جاتے ہیں۔ مگر یہ بھی نصف چھٹانک فی کس سے کم بنتا ہے حالانکہ بہت سے گھر ایسے ہیں جن میں چھٹانک چھٹانک ڈیڑھ ڈیڑھ چھٹانک فی کس گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے گھر کا کھانا دیکھ لیں تو شور مچانے لگ جائیں کہ یہ کھانا زیادہ اچھا ہے۔ اصل میں کھانا پکانے کی بہت سی جُزئیات ہوتی ہیں۔ اگر کھانا صحیح طور پر پکایا جائے، گوشت کو اچھی طرح گلایا جائے تو بہت تھوڑی سی چیز میں نہایت اچھا کھانا تیار ہو سکتا ہے۔
مَیں ایک دفعہ راجپورہ گیا۔ میرے پاس بائیس تئیس آدمی تھے۔ گوشت سبزی وہاں نہیں ملتی بلکہ بعض دفعہ دال تک بھی میسر نہیں آتی۔ مَیں نے کہا چلو مرغی لے کر اُس کا شوربا ہی پکا لو۔ میرا خیال تھا کہ شوربا اِتنا بن جائے گا کہ وہ بائیس تئیس آدمیوں کو کافی ہو گا۔مگر مَیں نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک برات آگئی اور اُنہوں نے کہا کہ ہم نکاح پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس برات میں 35 کے قریب آدمی تھے۔ مَیں نے اُمّ ِطاہرمرحومہ کو اندر رُقعہ لکھا کہ چیز تو یہاں ملتی کوئی نہیں اور 35 مہمان آ گئے ہیں۔ اب اِس کی تدبیر کچھ اِس طرح کرو کہ مجھے اندر بُلا لو۔ ہم سب فاقہ کر لیں گے اور اِن کو کھانا کھلائیں گے۔ انہوں نے کہا مَیں نے باورچی سے بات کر لی ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ مَیں اِسی میں 55 آدمیوں کو بھگتا لوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ مَیں اُن سے باتیں بھی کروں اور دل بھی دھڑکے اب بنے گا کیا؟ پہلے خیال تھا کہ شاید وہ نہ ٹھہریں۔ مگر چونکہ وہ دُور سے آئے تھے اِس لیے مَیں نے اُمّ ِطاہر مرحومہ سے کہا کہ غالباً وہ یہاں ٹھہریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہی صورت ہے کہ اُن کو کھانا کھلا دو ہم سب فاقہ کر لیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد کھانا آ گیا۔ شوربا نہایت مزیدار پکا ہوا تھا۔ ہم سب نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ اس کے بعد مَیں گھر گیا اور پوچھا کہ باہر تو گزر گئی۔ تم نے بھی کچھ کھایا یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب نے کھا لیا ہے۔ اب یہ اُس باورچی کا کمال تھا کہ اس نے بوٹی اور ہڈی کو اِس طرح گلا دیا کہ پانی کے اندر بھی شوربے کا مزہ آنے لگا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم جب زندہ تھے اُن کا میرے ساتھ ہمیشہ یہی جھگڑا رہتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مَیں مان ہی نہیں سکتا کہ اتنے تھوڑے روپیہ میں گزارہ ہو سکتا ہے۔ اُس وقت ہماراسات روپیہ مہینہ فی کس ناشتہ اور کھانے پر خرچ آتا تھا۔ مجھے یاد ہے امۃ الحی مرحومہ جب تک زندہ رہیں مَیں سات روپیہ فی کس کے حساب سے خرچ دیا کرتا تھا۔ اُس وقت اُن کے بطن سے دو بچے تھے۔ تیسرا اُن کی وفات کے قریب پیدا ہوا۔ مَیں تھا، نوکر تھا پھر اوپر کے اخراجات لباس وغیرہ کے متعلق تھے مگر ان سب اخراجات کو ملا کر ہمارا بجٹ ہمیشہ 59 روپے مہینہ ہوتا تھا لیکن اعتراض کرنے والے اُس وقت بھی اعتراض کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ میری بیوی کہتی ہے آپ کی بیویوں کے پاس پانچ پانچ سَو روپے کا ایک ایک جوڑا ہے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ وہ بڑے شوق سے آ جائیں۔ مَیں اپنی بیویوں کے ٹرنک لا کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ وہ پانچ پانچ سو کے جوڑے ہمیں دیتی جائیں اور ہمارے کپڑے خود اُٹھا کر لے جائیں۔ اس طرح ہمارا ہی فائدہ ہو گا اُن کا نہیں۔ بلکہ اگر ہمارے سارے کپڑے اور جُوتیاں وغیرہ ملا کر بھی پانچ سو سے کم کے ہوئے تو اُنہیں کم از کم ایک جوڑا تو پانچ سو کا ہمیں ضرور دینا پڑے گا۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے گھر میں گوٹہ کناری بھی استعمال کرنے والے ہیں مگر ایک بھی نہیں جس نے اِن دنوں گوٹہ کناری خریدا ہو۔ پھر بات کیا ہے؟ بات وہی سلیقہ اور ہُنر والی آ جاتی ہے۔ ہماری والدہ ہندوستانی ہیں اور اِس وجہ سے ہمارے ہاںدلّی کا رواج ہے اور دلّی کی عورتیں گوٹہ کناری کو ایسا سنوار کر رکھنا جانتی ہیں کہ ہماری والدہ کو اُن کی دادی کے لباس جہیز میں ملے تھے اور وہ ہم کو دکھایا کرتی تھیں بلکہ دلّی والے تو سَو سَو سال تک بھی گوٹہ لے جاتے ہیں۔ پس یہ تو ٹھیک ہے کہ ان میں سے بعض گوٹہ کناری استعمال کرتی ہیں مگر یہ گوٹہ وہی ہے جو اُن کی شادیوں پرخریدا گیا تھا۔ اُس کے بعد انہوں نے نہیں لیا یا تحریک جدید کے بعد نہیں لیا۔ گوٹہ کناری والے کپڑے ایسے ہی ہیں جو یا تو بیویوں کو بَری میںدئیے گئے تھے یا جہیز میں آئے تھے۔ ابھی چند دن ہوئے مَیں نے اپنی بڑی لڑکی ناصرہ کے جہیز کے ایک جوڑے کے متعلق پوچھا۔ اُس کی شادی 1933ء میں ہوئی تھی جس پر چودہ سال گزر چکے ہیں۔ اُس وقت مَیں نے اُس کو ایک سُنہری کام والا کپڑا خرید کر دیا تھا جو مجھے بہت پسند آیا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ جوڑا اُس کے پاس ہے؟ اُس نے کہا وہ اب تک محفوظ ہے۔ اب وہ اُس لباس کو کہیں استعمال کر لے تو یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہو گی۔ دیکھنے والے میں اگر عقل کا مادہ ہو تو اُسے پہلے یہ پوچھنا چاہیے کہ یہ کپڑے کب کے بنے ہوئے ہیں؟ اگر جواب میں اُسے یہ بتایا جائے کہ یہ 1934ء کے بعد کے ہیں تب تو قابلِ اعتراض امر ہے لیکن اگر وہ کہے کہ مَیں نے دیر سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں تو یہ قابلِ تعریف بات ہو گی اور اِس بات کی علامت ہو گی کہ وہ بڑے اقتصادی دماغ رکھنے والے آدمی ہیں اور اپنی ہر چیز کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ میرا بُوٹ ہی ہے اِس کو پہنے اڑھائی سال گزر چکے ہیں حالانکہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی دوسرے مہینہ میں ہی ایڑی کُھل جاتی ہے اور وہ سلیپر بنا کر اُسے گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ پس اگر کسی چیز کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ قابلِ اعتراض بات نہیں بلکہ قابلِ تعریف بات ہے۔
پھر اصل سوال جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ مساوات کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا ایک لیول پر ہو؟ یا مساوات کے یہ معنی ہیں کہ نسبتی طور پر ہر شخص قربانی کرے؟ اگر اِس کے معنی یہ لیے جائیں کہ سب لوگ ایک لیول پر ہوں تو یہ بات ایسی ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عمل نہیں کرتے تھے۔ احادیث میں ایک شخص کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھایا کرتا تھا تو ننگا ہو جاتا تھا کیونکہ اُس کا کُرتہ لمبا نہ تھا۔کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بھی ایسا ہی ہوتا تھا؟ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس پورا ہوتا تھا بلکہ احادیث میں یہاں تک ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جُبّہ تھا جو آپؑ خاص طور پر جمعہ کے دن پہن کر جایا کرتے تھے۔ تو مساوات کہاں رہی؟ پھر احادیث میں آتا ہے کہ آپؑ کے پاس گھوڑا، اونٹ اور خچر بھی تھے4مگر صحابہؓ میں وہ بھی تھے جن کے متعلق ذکر آتا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا یارسول اللہ! ہمیں کوئی چپلی ہی دے دیں ہم جہاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر آپ نے فرمایا میرے پاس چپلی بھی نہیں۔5 اگر مساوات کے یہ معنی ہیں کہ سب کے لباس ایک جیسے ہوں تو مَیں اس خاتون سے یہی سوال کرتا ہوں کہ کیا اُس کا اور اُس کی چُوڑھی کا لباس ایک جیسا ہے؟ وہ یہی کہے گی کہ مَیں اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتی ہوں اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتی ہے۔ پھر اگر خدا کسی کو زیادہ دیتا ہے اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اُس پر اعتراض کیسا؟ اب تو ہماری جائیداد کو ایک حدتک نقصان پہنچ گیا ہے۔ پچھلے ایام میں میرا چندہ آمد پر 80 فیصد ی ہوتا تھا اور یہ بھی اُس صورت میں جبکہ مجھ پر اِتنا قرض تھا اَور اتنا قرض ہے کہ دوسرے آدمی کا اُتنے قرض میں دل بیٹھ جائے۔ ایسے لوگ جن پر نسبتی طور پر اس کا دسواں حصہ بھی قرض ہوتا ہے چندہ دینے سے عموماً گریز کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر میں اِتنے قرض کے باوجود اپنی آمد پر 80 فیصدی چندہ دیتا رہا ہوں۔ پس سوال نسبتی بات کا ہوتا ہے۔
بعض چیزوں کے بارہ میں بے شک اصول مقرر ہیں اور اُس میں سب برابر ہیں مثلاً ہم نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ سب لوگ ایک کھانا کھائیں۔ مگر ہم نے یہ نہیں کہا کہ صرف دال کھاؤ۔ جو گوشت کھا سکتا ہے وہ گوشت کھائے، جو بھُنا ہوا گوشت کھا سکتا ہے وہ بھُنا ہوا گوشت کھائے۔ ہزاروں احمدی ایسے ہوں گے جن کے گھر میں بُھنا ہوا گوشت پکتا ہو گا۔ ہم تو پچھلے آٹھ مہینہ سے پتلے اور لمبے شوربا پر ہی گزارہ کرتے ہیں لیکن اِس کے یہ معنی نہیں کہ اگر کوئی بُھنا ہواگوشت کھاتا ہے تو یہ قابلِ اعتراض امر ہے۔ اگر ایک آدمی کے گھر کے افراد کم تھے اور اُسکے گھر کے حالات بھی اچھے تھے اور اُس نے بھنا ہوا گوشت کھایا تو یقیناً اُس نے ایک کھانا کھانے کے حکم کو پورا کر دیا۔ لیکن کئی احمدی ایسے بھی ہیں جن کو شوربا تو کیا دال بھی مشکل سے ملتی ہے۔ ایسے احمدیوں سے ہماری حالت یقیناً اچھی ہے۔ پھر کئی ایسے بھی ہیں جن کو دال بھی نہیں ملتی۔ بلکہ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن کو دو وقت کے فاقے آتے ہیں۔ تم ساروں کے متعلق کوئی ایک قانون نہیں بنا سکتے۔ ہاں اپنی اپنی حالت کے مطابق ہر شخص سادہ زندگی اختیار کرے گا۔ دو وقت کا فاقہ کرنے والا یا وہ جس نے پھٹا پرانا لباس پہنا ہے دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں سیر ہو کر کھانا کھاتا ہے یا کیوں اُس نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں؟۔ ہم کہیں گے کہ ایک کی آمد زیادہ ہے وہ اچھے کھانے کھاتا اور اچھے کپڑے پہنتا ہے اور دوسرے کی آمد کم ہے اس لیے وہ فاقے کرتا ہے۔ یا تن ڈھانکنے کے لیے اُس کے پاس پھٹا پرانا لباس ہے لیکن قانون کی پابندی دونوں نے کی ہے۔ یعنی ہر ایک ہی نے کھانا کھایا ہے اور گوٹے کناری پر اپنا روپیہ تحریک کے بعد ضائع نہیں کیا۔
غرض سادگی ایک نسبتی چیز ہے اور قربانی بھی نسبتی امر ہے۔ پھر ہمارے لیے کیوں ایسا کرنا جائز نہیں؟ اگر ہم چندہ دوسروں کی نسبت زیادہ رکھیں اور ہمارا معیارِ قربانی بھی دوسروں کی نسبت زیادہ بلند ہو اور پھر ہماری حالت ہر شخص سے اچھی ہو اور بعض سے خراب تو ہم پر اعتراض کیسا؟ بہرحال تمہیں دو میں سے ایک بات ضرور ماننی ہو گی۔ شُتر مرغ کی طرح تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اونٹ بھی ہیں اور مرغ بھی۔ یا تو تمہیں اونٹ بننا پڑے گا یا مرغ۔ یہ دونوں چیزیں ایک وقت میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ یاتو یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کے غریب سے غریب آدمی کی حالت کے برابر سب کو رہنا چاہیے۔ اگر ایسا فیصلہ کیا جائے تو ہم اِنْشَاء َ اللّٰہُکسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ اور اگر یہ فیصلہ ہو کہ یہ نسبتی چیز ہے تو جو اپنے لیے قانون بناؤ گے وہی ہمارے لیے ہونا چاہیے۔ بہرحال ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کسی کے لیے کوئی قانون ہو اور کسی کے لیے کوئی قانون۔ اگر جماعت یہ فیصلہ کرے کہ ہر امیر و غریب کو فاقہ سے رہنا چاہیے تو ہمیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔یقیناً اگر جماعت ایسا کرنا چاہے تو گو یہ غیر طبعی بات ہو گی مگر ہو گی مفید۔ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سوائے جنگ کے حالات کے۔ جنگ کے دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر کسی کے پاس ایک من غلہ ہے تو ایک من غلہ لے آئے اور جس کے پاس ایک سیر غلہ ہے تو وہ ایک سیر غلہ لے آئے… اور سب مل کر کھائیں مگر عام حالات میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا، نہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ایسا کیا، نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے ایسا کیا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسا کیا۔ پھر بھی جماعت اگر ایسا فیصلہ کر دے تو اُس کے کئی پہلو نیک بھی ہو سکتے ہیں. لیکن اگر یہ فیصلہ ہو کہ سادگی اور قربانی دونوں نسبتی چیزیں ہیں تو ہمارے خاندان کے افراد سے بھی نسبتی قربانی کا ہی مطالبہ ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اس سے زیادہ کریں یہ اُن کی خوش قسمتی ہو گی۔مثلاً جماعت سے مَیں نے مطالبہ کیا ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ 50 فیصدی چندہ دیں۔ اب اگر کوئی ایسا شخص 50 فیصدی چندہ دے دیتا ہے اور پھر اُس کے پاس اتنا روپیہ بچ جاتا ہے جس سے وہ گوشت کھاتا ہے تو دال کھانے والا آدمی اُس پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ دال کیوں نہیں کھاتا۔ یہ اعتراض اُسی وقت ہو سکتا ہے جب جماعتی طور پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ ہر شخص دال ہی کھائے۔ تب بے شک اگر کوئی شخص دال نہیں کھاتا اور شوربا کھاتا ہے تو وہ غداری کرتا اور دھوکا بازی کا ارتکاب کرتا ہے۔
پھر اُس خاتون نے لکھا ہے کہ خاندان کی عورتیں کام نہیں کرتیں۔ یہ بھی واقعہ کے خلاف ہے۔ اوّل تو ہر چیز کی ایک نسبت ہوتی ہے۔ میری بڑی بیوی کی عمر اِس وقت 57 سال کی ہے۔ پھر اُنہیں بلڈ پریشر(Blood Pressure ) کا مرض ہے۔ دل کی دھڑکن ہے اور استحاضہ کی بھی بیماری ہے جس میں عورت قریبُ المرگ ہو جاتی ہے۔ اب مساوات تو تبھی ہو سکتی ہے جب اُس عورت کو بھی یہی بیماریاں ہو جائیں ورنہ یہ کتنی حماقت کی بات ہو گی کہ ساٹھ سالہ عمر والی عورت کے متعلق ایک 25 سالہ عورت یہ کہنے لگ جائے کہ دیکھو مَیں یہ کام کر لیتی ہوں مگر وہ نہیں کرتی۔ اِس عمر اور اِن بیماریوں کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے پھر مساوات ہوتی۔ ولایت میں دستور ہے کہ گھوڑ دوڑ سے پہلے گھوڑے اور سوار کا وزن کر لیتے ہیں اور جتنی کمی ہو اُتنا بوجھ ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ اِس طرح اعتراض تبھی صحیح ہو سکتا ہے جب اعتراض کرنے والی کی وہی عمر، وہی صحت ہو۔ یہ کیا کہ بڑی عمر اور کمزور صحت والی عورت سے وہ عورت مقابلہ کرنے کے لیے کھڑی ہو جائے جو چھوٹی عمر کی ہو اور جس کی صحت اچھی ہو اور کہے کہ مَیں کام کرتی ہوں اور وہ کام نہیں کرتی۔
پھر یہ بھی غلط ہے کہ ہمارے گھر کی مستورات کام نہیں کرتیں۔ جب ہم قادیان سے آئے ہیں تو ہمارے گھر میں ایک لنگر جاری تھا۔ اڑھائی سَو کے قریب افراد تھے اور اُن اڑھائی سو افراد کے کھانے کا انتظام جن میں میرے بھائی، بہنیں، بھتیجے سب شامل ہیں سات آٹھ ماہ تک میری بڑی بیوی اُمِّ ناصر کے سپرد رہا۔ وہی سب کھانا پکواتی اور تقسیم کرتی تھیں۔ باقی گھر کے لوگ اگر کسی چھوٹی موٹی بات میں مدد کر دیتے تو اَور بات تھی ورنہ پکا پکایا کھانا ہی ہمیشہ اُن کے سامنے جاتا تھا۔ پھر اُنہی دنوں یہاں رتن باغ میں چودہ سَو سے زیادہ مہاجر عورتیں ٹھہری ہوئی تھیں اُن کوکون کھلاتا تھا؟ کیا لاہور کی عورتیں اُن کو آ کر کھلاتی تھیں؟ مہینوں سینکڑوں عورتیںیہاں پڑی رہیں سب عورتوں کی ہر طرح خدمت کی جاتی رہی۔ یہ خدمت ہمارے گھر کی مستورات ہی کرتی تھیں اور یا پھر مہاجرات میں سے بعض عورتیں اُن کی مدد کر دیتی تھیں۔ پس یہ کہنا کہ ہمارے گھر کی عورتیں کام نہیں کرتیں غلط ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ ہماری عورتیں موٹر وغیرہ پر سواری کرتی ہیں اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر سواری گھر میں ہو گی تو ضرور استعمال کی جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سواری استعمال کرتے تھے۔ جس کو سواری نصیب ہو آخر وہ کیوں استعمال نہ کرے۔ اِس طرح وقت بھی بچ جاتا ہے اور کام بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ مجھ پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مَیں موٹر میں سواری کیا کرتا ہوں۔ اگر سواری نہ کروں تو پھر کہیں گے کہ کام تھوڑا کرتا ہے۔ یہ بات تو ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کے پیچھے پڑ گیا کہ جب تُو روٹیاں پکاتی ہے تو تیری کُہنیاں کیوں ہلتی ہیں؟اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک عورت روٹیاں بھی پکائے اور اُس کی کُہنیاں بھی نہ ہِلیں۔ اِسی طرح یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کام بھی زیادہ ہو اور اَسباب بھی مہیا نہ ہوں۔ جماعت یہ تو کہے کہ ہماری چِٹھیوں کا جواب جلدی کیوں نہیں دیا جاتا مگر اعتراض یہ کرے کہ ایک پرائیویٹ سیکرٹری اور سات آٹھ آدمی عملہ میں کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی مطالبہ کرے کہ رُقعوں کا جواب جلدی دیا جائے اور یہ بھی کہے کہ جواب دینے والا عملہ نہ ہو یہ عقل کے خلاف بات ہے۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ لجنہ کی کلرک کیوں ہے؟ اِس کے متعلق یاد رہے کہ لجنہ کی ایک کلرک نہیں بلکہ دو کلرک ہیں۔ اِس طرح مَیں اعتراض کرنے والی کے اعتراض کو اَوربھی پکا کر دیتا ہوں لیکن مجھے دو پر بھی اعتراض ہے۔ مَیں قریباً سال بھر سے اپنی بیوی سے جھگڑا کر رہا ہوں کہ دو کلرک کافی نہیں ایک تنخواہ دار سیکرٹری کا بھی اضافہ کیا جائے۔ مگر اُس خاتون کو اعتراض ہے کہ ایک کلرک بھی کیوں ہے۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان اور امریکہ میں چار سَو لجنات پائی جاتی ہیں۔ اُن سب کا کام ایک کلرک کیسے کر سکتی ہے۔ اُس خاتون نے تو دفتر میں کبھی کام نہیں کیا۔ اُس کے خاوند نے کیا ہو گا وہ اپنے خاوند سے پوچھے کہ چار سَو ڈپٹی کمشنروں سے خط و کتابت کرنے کے لیے کتنے عملہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پنجاب میں سولہ ڈپٹی کمشنر ہیں۔ ان سولہ ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی کے لیے کمشنروں کے دفاتر میں کتنا عملہ رکھا ہوا ہے۔ پھر چار سو لجنات کے لیے کوئی ایک کلرک کس طرح کافی ہو سکتی ہے۔ پھر اُس خاتون نے تو غالباً تعلیم نہیں پائی اِس لیے شاید وہ اِس کی اہمیت نہ سمجھ سکیں لیکن وہ اس بارہ میں اپنے خاوند سے ہی دریافت کر لیں۔ میری بیوی ایم اے کا امتحان دے رہی ہے اور دو سال کی پڑھائی آٹھ مہینے میں کر رہی ہے۔ اُس خاتون نے خود تو کوئی امتحان نہیں دیا ہو گا۔ اُس کے خاوند اور بھائیوں نے تو ایم اے کی تیاری کی ہو گی۔ وہ اُن سے ہی پوچھ سکتی ہیں کہ اس پر کتنا وقت صَرف ہوتا ہے۔ چار گھنٹے اُن کو صرف پروفیسر پڑھاتے ہیں اور پھر پڑھائی کو یاد کرنے کے لیے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ مَیں بھی اُن سے دفتر کا کام لیتا ہوں۔ اِس لیے اُن پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ وہ کام نہیں کرتیں۔
یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آپ کی خاندان کی عورتیں لجنہ میں نہیں جاتیں۔ واقع یہ ہے کہ عورتیں اِس وقت بیٹھی سن رہی ہیں کہ یہاں دو جلسے ہو تے ہیں۔ ایک جلسہ قادیان کی لجنہ کا ہوتا ہے اور دوسرا جلسہ لاہور کی لجنہ کا ہوتا ہے۔ ابھی کچھ دن ہوئے لاہور کی لجنہ کا جلسہ ہوا۔ جب تعداد معلوم کرنے کے لیے پوچھا گیا کہ لاہور کی عورتیں کھڑی ہو جائیں تو اُس میں لاہور کی صرف پچاس عورتیں تھیں اور دو سو قادیان کی عورتیں تھیں۔ یہ لاہور کی لجنہ کا حال ہے۔ لیکن قادیان والی عورتوں کے جلسہ میں شازونادر ہی کوئی لاہور کی عورت آتی ہے۔ پس یہ اعتراض بھی غلط ہے۔
غرض تمام باتیں جو اُس خاتون نے لکھی ہیں غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ لیکن اگر میرے اِس جواب سے بھی اُن کو تسلی نہ ہو تو صحیح طریق یہ ہے کہ وہ خاتون اپنے خاوند کو ساتھ لے کر آ جائیں ہم ٹرنک اُن کے سامنے رکھ دیں گے۔ وہ دیکھ لیں کہ ہمارے گھر میں کتنے گوٹہ کناری والے کپڑے ہیں اور وہ کب سے بنے ہوئے ہیں۔وہ کپڑوں کی قیمت کا بھی اندازہ لگا لیں۔ اگر اُن کی بیان کردہ قیمت سے وہ کم قیمت کے ہوئے تو وہ اِس کمی کو پورا کر دیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ جو چیز آسانی سے طے کی جا سکتی ہے اُس کے لیے کسی جھگڑے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اب بھی جمعہ کی نماز میں میری بیویاں آئی ہوئی ہیں اور وہ وہاں بیٹھی ہیں۔ اُن کا لباس وہ دیکھ لیں۔ دو کو مَیں نے یہ خط بتایا ہی نہیں دو کو مَیں نے بتایا ہے مگر وہ اُسی لباس میں ہی آ گئی ہیں۔ خط سننے کے بعد اُنہوں نے لباس کو بدلا نہیں اور اِس کی مَیں خود گواہی دیتا ہوں۔ اُن کے لباس کو دیکھ لیں کہ کیا یہ اعتراض درست ہے؟
باقی رہا سنگھار کا سوال۔ سو ظاہر ہے کہ وہ سنگھار اُسی رقم میں سے کر سکتی ہیں جو مَیں اُن کو دیتا ہوں اور وہ رقم مَیں بتا چکا ہوں۔ایک کے پاس جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے صفر بچتا ہے اور صفر سے جتنا سنگھار کیا جا سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔باقی بیویوں کے پاس بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے بچتے ہیں اور آجکل گرانی کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِن پندرہ روپوں میں جتنا کپڑا خریدا جا سکتا ہے یا جتنی جُوتیاں خریدی جا سکتی ہیں اُس کے متعلق ہر شخص خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے۔ آجکل تو اتنے روپیہ میں جُوتیاں بھی مشکل سے خریدی جا سکتی ہیں۔ قیمتیں اِتنی بڑھ گئی ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ دس پندرہ روپے میں ایک معمولی جُوتی آتی ہے۔ اگر دیسی جُوتی کا بھی استعمال کیا جائے تو جو جُوتی کبھی سوا روپے میں آتی تھی اب آٹھ آٹھ نو نو روپے میں آتی ہے۔ پھر تیل اور صابن وغیرہ سب چیزیں نکال کر دیکھنا چاہیے کہ ان کے پاس کیا بچتا ہے اور اُس میں سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔
باقی رہا ہُنر۔ سو اگر کوئی ہُنر اور سلیقہ شعاری سے کام لیتا ہے تو اُس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ قابلِ تعریف بات ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے لیے ایک بکرے کی ضرورت تھی۔ آپ نے ایک صحابی کو بلایا اور اُسے ایک دینار دے کر فرمایا کہ اس کا بکرا لے آؤ۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اُس نے کہا یا رسول اللہ! یہ بکرا بھی حاضر ہے اور دینار بھی حاضر ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا؟ کیابغیر قیمت ادا کیے لے آئے ہو؟ اُس نے کہا یارسول اللہ! یہ بات نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بجائے مدینہ سے خریدنے کے میں تین چار میل باہر چلا گیا۔ وہاں ایک دینار کے دو بکرے مل گئے۔ مدینہ آ کر مَیں نے ایک بکرا ایک دینارمیں بیچ دیا۔ اب یہ بکرا بھی حاضر ہے اور دینار بھی حاضر ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر اُس صحابی کو کوئی سزا نہیں دی۔ یہ نہیں فرمایا کہ تُو بہت نالائق ہے، تُو بکرا بھی لے آیا اور دینار بھی واپس کر رہا ہے بلکہ فرمایا خدا تعالیٰ تمہارے کاموں میں برکت دے۔ پھر اُس صحابی کے کاموں میں اِتنی برکت پیدا ہوئی کہ صحابہؓ کہتے ہیں اگر وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تو سونا بن جاتی۔ لوگ آتے اور اُس کے گھر میں روپیہ دے کر کہتے کہ کسی ایک تجارت میں ہی ہمارا حصہ ڈال لو۔ پس عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہوئے اگر کسی کی صفائی زیادہ ہو تو بری بات نہیں اچھی بات ہے۔
میری ایک شادی ہوئی۔ اُس بیوی کی والدہ انتظامی معاملات میں کچھ کچی تھیں۔ اُنہوں نے لڑکی کو بستر دیتے وقت ایک گدیلا بھی ساتھ رکھ دیا اور کہا کہ اگر لڑکی ایک گدیلا کہیں پھینک دے تو دوسرا استعمال کر لینا۔ اُن کی اِس بات پر اب بھی ہمارے خاندان میں ہنسی ہوا کرتی ہے۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ جس طرح مَیں اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادی نہیں اِس طرح یہ بھی ہو گی۔ ایسی حالت میں یہ گدیلا اُس کے کام آ جائے گا۔ پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ مگر وہ بھی ہوتے ہیں جو چیز کو سنبھال کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسی چیز خواہ کتنی ہی پرانی ہو جائے لوگوں کو اچھی نظر آتی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرا لباس اور دوسری چیزیں عام طور پر دیر تک چلتی چلی جاتی ہیں اور پھر اِس قدر اکٹھی ہو جاتی ہیں کہ مَیں اُن کو بانٹ دیتا ہوں۔ پھر دوبارہ یہ سلسلہ اِسی طرح پر چل پڑتا ہے۔لباس کو بار بار بدلنا اور اُس کے متعلق خاص احتیاط سے کام لینا یہ مجھے پسند نہیں۔ جب مَیں ولایت گیا تو مَیں دو کوٹ بنوا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اُن میں سے مَیں نے صرف ایک ہی استعمال کیا۔ دوسرے کو چھُوا بھی نہیں۔ دوستوں نے کہا بھی کہ اِس کا بُرا اثر پڑے گا مگر مَیں اُن سے یہی کہتا کہ یہ اِن لوگوں کے نزدیک معیوب بات ہے ہمارے نزدیک تو معیوب نہیں۔ چنانچہ جس لباس میں مَیں گیا تھا اُسی میں واپس آ گیا۔ وہاں کے لحاظ سے یہ بات معیوب ہو گی مگر یہاں کے لحاظ سے ہمیں تو بُرا لگتا ہے کہ بار بار کپڑے بدلنے پر وقت ضائع کیا جائے۔
بہرحال پُھوہڑ پن6 قابلِ ملامت چیز ہے اور عقل قابلِ تعریف چیز ہے۔ اسراف قابلِ الزام چیز ہے اور عقل اور سمجھ سے کام لے کر چیزوں کو سنبھال کر رکھنا قابلِ تعریف چیز ہے۔ اگر کوئی شخص عقل اور سمجھ کا دروازہ بند کر کے اعتراض کرتا ہے تو اِس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ انسانی دماغ کی قیمت کو گراتا ہے اور چاہتا ہے کہ انسانی تمدن اور تہذیب پہلے سے گر جائے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اُس خاتون کے الفاظ پر پتہ لگتا ہے کہ اُس کے مدنظر صرف اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ اعتراضات کی اصل غرض اصلاح تھی۔ چاہے یہ اعتراضات کیسی ہی غلط فہمی پر مبنی تھے۔ اِس لیے مَیں اُس خاتون کے اس فعل کو اچھا سمجھتا ہوں اور اُس کے خاوند پر ہی الزام لگاتا ہوں کہ وہ کیوں خفا ہوا اور کیوں اُس نے ایسا جواب دیا جو اعتراض کوپکا کرنے والا تھا اسے چاہیے تھا کہ اعتراض کو بجائے پکا کرنے کے اُس کا مدلّل جواب دیتا۔ ہر شخص کو دلیل سے قائل کرنا چاہیے خواہ بیوی ہو یا خاوند۔ کسی کا کوئی حق نہیں کہ وہ دماغی افکار پر حکومت کرنا چاہے۔ دماغی افکار پر سوائے خدا کے اَور کوئی حکومت نہیں کر سکتا۔ اور خدا بھی کہتا ہے کہ مَیں ایسا نہیں کیا کرتا۔ پھر اَور کون ایساکر سکتا ہے"۔
(الفضل 26مئی 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
ابن ماجہ ابواب النکاح باب النظر الی المرأۃ اذا اراد ان یتزوجھامیں ’’اَبَوَیْھَا‘‘کے الفاظ ہیں ۔
2
:
مسند احمد بن حنبل جلد 2مسند المکثرین من الصحابہ۔ مسند ابی ھریرۃؓ میں ’’سُکُوْتُھَا رَضَاھَا‘‘ کے الفاظ ہیں۔
3
:
لَزَوجت:لیس۔ چیپ۔ لُعاب۔
4
:
بخاری کتاب الجھاد باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمارِ وبا ب ناقَۃ النّبیﷺ
5
:
تفسیر بیضاوی۔ سورۃ التوبہ آیت.92
6
:
پُھوہڑ پن: نادانی۔ بیوقوفی۔ بے ہُنری

آج کم سے کم مظاہرہ ایمان یہ ہے
کہ جماعت کا ہر فرد وصیت کر دے
چندے کی حد 25 فیصدی کی بجائے ساڑھے سولہ فیصدی
اور 50 فیصدی کی بجائے 33 فیصدی ہو گی
(فرمودہ28مئی 1948ء رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"ہماری جماعت باقی مسلمانوں کے ساتھ چونکہ ایک بڑے ابتلاء میںسے گزری ہے اِس لیے میرا یہ خیال تھا کہ بوجہ ایمان کی زیادتی کے، بوجہ نشانات اور معجزات دیکھنے کے، بوجہ آسمانی تائیدات دیکھنے کے اور بوجہ مرنے کے بعد کی زندگی پر کامل ایمان اور پورا یقین ہونے کے ہماری جماعت قربانی اور ایثار کے اُس درجہ پر پہنچ چکی ہو گی کہ وہ یکدم کُو د کر ایک بڑی منزل کو تھوڑے سے وقت میں طے کرے۔ لیکن تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم کے متعلق تھی کہ وہ بہت آہستہ آہستہ ترقی کرے گی وہ پیشگوئی ابھی تک جاری ہے اور ابھی جماعت میں وہ طاقت اور قوت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بڑی قربانیوں کے لیے یکدم تیارہوسکے۔ شاید میرا وہ الہام جو1943ء میں ہوا تھا اور اُسی وقت شائع بھی ہو گیا تھا کہ ــ’’روز جزا قریب ہے اور راہ بعید ہے‘‘۔ 1اُس کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ الٰہی نشانات کے ظاہر ہونے کا وقت تو قریب آ چکا ہے مگر جماعت کے لیے اِن حالات سے فائدہ اٹھانے کی راہ ابھی بعید ہے اور ہم آہستہ آہستہ اس درجہ کے مقام تک پہنچیں گے کہ ان عظیم الشان نشانات کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہماری نسبت اچھی طرح پڑھ سکتا ہے۔ ہم اپنے متعلق غلطی کر سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ غلطی نہیں کر سکتا۔ جو وہ کہتا ہے وہی صحیح ہے اور جو اُس کا علم ہے ہمیں بہرحال اُس کے تابع چلنا چاہیے اور تابع چلنا پڑے گا۔
غرض اِس بات پر غور کر کے اور اِس بات کو سمجھ کر اور اِس کے فوائد کی اہمیت کو محسوس کر کے کہ چند افرادِ قوم کا کوئی بڑی قربانی کر دینا اتنا شاندار نہیں ہوتا جتنا اکثر افرادِ قوم کا یا سب قوم کا اس سے کم قربانی کرنا۔ اگر قوم میں سے دو یا چار آدمی سو میں سے اسّی یا نوّے نمبر حاصل کر لیتے ہیں تو یہ جماعت کے لیے اتنا شاندار اور بابرکت نہیں ہو سکتا جتنا سَو میں سے اسّی کا چالیس یا پینتالیس نمبر لے لینا۔ مَیں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قربانی کا مَیں نے جماعت سے مطالبہ کیا تھا اُس کی شکل بدل دوں۔ میرے نزدیک جو بات میں نے کہی تھی وہ چوٹی کی قربانی کے مطابق نہیں تھی۔ چوٹی کی قربانی یقیناً اُس سے زیادہ شاندار ہوتی ہے اور ہونی چاہیے کیونکہ جہاں تک ایمانِ کامل کا سوال ہے اِس میں کسی نسبت اور غیر نسبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مومن کی طرف سے شرطیں نہیں ہوا کرتیں، مومن کی طرف سے حدبندیاں نہیں ہوا کرتیں۔ یہ سب چیزیں ایمان کی کمزور ی تک ہی چلتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوٰی کو سن کر جب مدینہ کے لوگوں نے آپ کے پاس ایک وفد بھیجا تاکہ وہ آپ کی باتیں سن کر کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں کہ آیا آپؐ صادق ہیں یا نہیں۔ اور یہ وفد مکہ میں آیا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باتیں کیں اور وہ اِس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ راستباز اور صادقُ الْقول ہیں۔ اس کے بعد وہ وفد واپس مدینہ چلا گیا اور اپنے ہم قوموں کے سامنے اُس نے اپنی تحقیقات کی رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے پھر ایک وفد آپ کے پاس بھیجا تا وہ باقاعدہ بیعت بھی کریں اور ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دعوت دیں کہ آپ بجائے مکہ میں ٹھہرنے کے مدینہ تشریف لے آئیں کیونکہ اُس وفد کے جانے کے بعد ایسے امکانات پیدا ہو گئے تھے کہ مدینہ والوں کا اکثر حصہ یا تمام لوگ بہت جلد مسلمان ہو جائیں۔ جب یہ وفد آیا تو اُس نے بیعت بھی کی اور اِس بات کا اظہار بھی کیا کہ ہمارا شہر آپ کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور ہمارے رؤسائے شہر نے ہم کو یہ اختیار دیا ہے کہ ہم آپ سے معاہدہ کریں کہ آپ مدینہ تشریف لے چلیں ہم آپ کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ لیکن ہماری شرط یہ ہو گی کہ جب تک مدینہ پر دشمن حملہ آور ہو ہم اِس معاہدہ کے پابند ہوں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے لیکن مدینہ سے باہر نکل کر اگر لڑائی کرنی پڑے تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ہم میں اتنی طاقت ہو کہ ہم باہر نکل کر دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لیے اگر باہر لڑائی ہوئی تو ہم اِس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ اس لڑائی میں ضرور شامل ہوں۔ متفرق امور پر گفتگو کرنے کے بعد حضرت عباسؓ نے اُس وفد سے معاہدہ کیا جس میں اُنہوں نے یہ بات دُہرائی کہ ہم آپ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے ملک میں آئیں گے تو جب تک آپ مدینہ میں ہوں گے ہم آپؐ کی حفاظت کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور آبرو غرض سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن جب آپ مدینہ سے باہر نکل کر لڑے تو ہم اِس عہد کے پابند نہیں ہوں گے۔ 2ان سب نے اقرار کیا کہ یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک تو مدینہ میں جانے کا موقع پیدا نہ ہوا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا اور آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد بھی دشمن نے متواتر ریشہ دوانیاں کیں اور ایک وقت ایسا آ گیا کہ مدینہ اور مکہ والوں کے درمیان لڑائی کے سامان پیدا ہو گئے جو بدر کی جنگ کے نام سے مشہور ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کی طرف سے آ رہا ہے اور وہ رستہ میں تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتا چلا آتا ہے۔ قافلہ کا رستہ بھی مدینہ کے پاس سے گزرتا تھا۔ ایسا قریب تو نہیں تھا مگر مکہ کی نسبت مدینہ سے زیادہ قریب تھا۔ سارے قبائل جو مدینہ کے ارد گرد رہتے تھے وہ شام سے آنے والے قافلہ سے ملتے اور تجارتی چیزوں کا آپس میں تبادلہ کرتے تھے۔ اس لیے شام سے جو قافلہ آتا تھا اُس کے تعلقات مدینہ کے تمام قبائل سے ہو جاتے تھے۔ اور چونکہ اِس قافلہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو اُکساتے اور اشتعال دلاتے تھے اِس لیے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوا کہ ابوسفیان قافلہ کو لے کر مدینہ کے پاس سے گزر رہا ہے اور یہ بھی علم ہوا کہ مکہ والے بھی اِس خیال سے کہ قافلہ پر مدینہ والے حملہ نہ کر دیں کچھ لشکر لے کر نکلے ہیں تو آپ نے اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کہ اگر ہم مدینہ میں بیٹھے رہے تو دشمن دلیر ہو جائے گا۔ ہمیں آگے چلنا چاہیے تا دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم اُس سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہؓ کی ایک جماعت کو لے کر مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور بدر کے مقام پر پہنچے۔ الٰہی کلام سے آپ کو معلوم ہو چکا تھا کہ مکہ سے ایک لشکر آ رہا ہے جس کے ساتھ اسلام کا مقابلہ ہو گا لیکن آپ کو یہ اجازت نہ تھی کہ اس خبر کو ظاہر کریں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ سے بہت کم لوگ آپ کے ساتھ گئے کیونکہ وہ اسے لڑائی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اُسے صرف جرأت کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ بدر کے مقام کے قریب جا کر آپ نے مناسب سمجھا کہ اب یہ بات ظاہر کر دی جائے۔ آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے خدا نے کہا ہے کہ دشمن کا لشکر قریب آ گیا ہے اور بجائے اِس کے کہ قافلہ سے لڑائی ہو شاید اِسی سے لڑائی ہو جائے۔ تمہاری اِس بارہ میں کیا رائے ہے؟ مہاجرین صحابہ یکے بعد دیگرے کھڑے ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن انصار نہ بولے۔ وہ اس لیے نہ بولے کہ جو فوج آ رہی تھی اُس میں مہاجرین کے بھائی، بہنوئی، سالے، چچے اور تائے وغیرہ کے بیٹے اور اِسی طرح اَور قریبی رشتہ دار تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہم نے کہا ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں تو مہاجرین سمجھیں گے کہ ہمیں اُن کے رشتہ داروں سے لڑنے کابڑا شوق ہے۔ اُن کی دلجوئی اور اپنے مہمانوں کی عزت کی وجہ سے سب انصار خاموش رہے۔ مہاجر یکے بعد دیگرے اُٹھے اور اُٹھ اٹھ کر قربانی کی رغبت، ایثار اور فدائیت کے جوش کا اظہار کرتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابی کی تقریر کے بعد فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو ۔جب متواتر آپ نے یہ بات دہرائی تو ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! آپ کو مشورہ تو دیا جا رہا ہے لیکن باوجود مشورہ پیش کیے جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ شاید آپ کی مُراد لوگوں سے ہم انصار ہیں کہ ہم مشورہ دیں۔ ورنہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے میری یہی مراد تھی۔3 پھر اس صحابیؓ نے کہا یا رسول اللہ! ہم نے آپ سے مکہ میں ایک بیعت کی تھی اور اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ میں حملہ آور ہوا تو ہم ہر طرح سے اُس کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن مدینہ کے باہر اگر لڑائی ہوئی تو ہم اس معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے اندر اِتنی طاقت نہیں کہ سارے عرب سے لڑ سکیں۔ شاید آپ جو بار بار ہم سے مشورہ چاہتے ہیں تو آپ کا اشارہ اُس معاہدہ کی طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اُس انصاری نے یہ بات سن کر بڑے جوش سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ! جب آپؐ سے ہم نے مکہ میں وہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت تک ایمان ہم پر پوری طرح روشن نہیں ہوا تھا۔ صرف ایک محدود روشنی ہمیں ملی تھی اور ہم شرطیں باندھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن یارسول اللہ!اس کے بعد حقیقتِ اسلام ہم پر پوری طرح کھل گئی ہے اور آپ کی صداقت کو ہم نے پوری طرح پرکھ لیا ہے۔ اس صداقتِ اسلام کے روشن ہو جانے اور پرکھنے کے بعد کیا اب بھی کوئی شرط باقی رہ سکتی ہے؟ اب توشرطوں کا کوئی سوال ہی نہیں۔یارسول اللہ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ تم اپنے گھوڑوں اور سواریوں کو سمندر میں ڈال دو (اُس جگہ کے قریب چند منزل پر سمندر تھا اور عرب سمندر سے بڑا ڈرا کرتے تھے) تو ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ اور یارسول اللہ! اگر یہاں جنگ ہوئی تو دشمن گو بہت طاقتور ہے اور تعداد میں بہت زیادہ ہے مگر ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ خدا کی قسم! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔4
تو دیکھو جب ایمان کے اعلیٰ مقام پر انسان پہنچ جاتا ہے تو سب شرطیں ختم ہو جاتی ہیں۔ جان، مال یا اَور کسی قسم کی شرط باقی نہیں رہ جاتی۔ اُس وقت کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے جان دینے کا وعدہ کیا تھا مال دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ یا ملک میں رہنے کا وعدہ کیا تھا، ہجرت کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ دن کو کام کرنے کا وعدہ کیا تھا رات کو کام کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ کامل ایمان حاصل ہو جانے کے بعد اور اُخروی زندگی پر پورا یقین ہو جانے کے بعد کوئی شرط نہ صرف پیدا نہیں ہوئی بلکہ شرط کی طرف ایک اشارہ کرنا بھی مومن اپنی بدترین ہتک سمجھتا ہے۔ اگر اُس کے سر پر دو سو جُوتا بھی مار لیا جائے تو وہ اتنا بُرا نہیں سمجھے گا جتنا وہ اس بات کو برا سمجھے گا کہ کوئی اُس کی طرف یہ بات منسوب کرے کہ اُس کا ایمان شرطی ہے۔ کیونکہ ایمان کے ساتھ شرط کے معنی پورے تقویٰ اور آنکھیں کھل جانے کے بعد بے ایمانی کے ہوتے ہیں اَور کچھ نہیں۔ بے شک کمزور ایمان کا آدمی شرطیں بھی لگاتا ہے اور وہ شرطیں اُسے بے ایمان نہیں بناتیں۔ جس طرح مدینہ کے لوگوں نے شرطیں کیں اور وہ ایمان پر قائم رہے۔ مگر اُن کے ایمان پر قائم رہنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ شرط ایمان میں جائز ہے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پر ابھی ایمان کی حقیقت نہیں کھلی تھی۔ جیسے ایک چھوٹا بچہ اگر ماں باپ کی گود میں پیشاب کر دے تو وہ بے ادب نہیں کہلاتا۔ اُس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ادب کی حقیقت اُس پر کھلی نہیں ہوتی۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ مَیں جب چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ کی گود میں پیشاب کر لیا کرتا تھا اس لیے مَیں حق رکھتا ہوں کہ اُن کی گود میں اب بھی پیشاب کر دوں۔ یا بچپن میں ماں باپ بچوں کو سر پر بٹھا لیتے ہیں مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں چونکہ بچپن میں اپنے ماں باپ کے سر پر بیٹھا کرتا تھا اس لیے اب بھی مَیں اُن کے سروں پر بیٹھوں گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بچپن میں ایک فعل کو جائز سمجھتے ہیںلیکن بڑے ہو کر اس فعل کو ناجائز سمجھنے لگ جاتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ بچپن میں اگر تم اپنے ماں باپ کی گود میں پیشاب کر دیتے تھے تودیکھنے والے تم پر کسی قسم کا عیب نہیں لگاتے تھے لیکن اب اگر تم ایسا کرو تو ہر شخص تمہیں بے ادب اور بے حیاء کہے گا؟ اِسی وجہ سے کہ فعل تو ایک ہی ہے مگر پہلا فعل اُس وقت کیا گیا تھا جب بچہ میں ماں باپ کا ادب پہچاننے کی طاقت نہیں تھی لیکن اب تمہارا دماغ اس قابل ہو گیا ہے کہ تم ماں باپ کے ادب کو پہچان سکو۔ اور چونکہ تمہارے دماغ میں اس قدر روشنی پیدا ہو چکی ہے اور حقیقت تم پر واضح ہو چکی ہے اس لیے اب وہی فعل جو پہلے جائز تھا ناجائز ہو گیا ہے۔ غرض مدینہ کے لوگوں نے شرط کی اور معاہدہ کیا کہ ہم مدینہ میں رہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس قسم کی شرط کوئی اَور بھی کر سکتا ہے۔ اب بھی کر سکتا ہے اور آئندہ بھی کر سکے گا۔ مگر ایسے انسان کے منہ سے ہی یہ شرط نکل سکتی ہے جو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرے کہ مَیں ابھی مبتدی ہوں یا ابھی مؤلفۃ القلوب میں شامل ہوں کامل مومن نہیں ہوں۔ لیکن ایک ہی وقت میں اگر کوئی کہے کہ مَیں مومن کامل بھی ہوں اور اپنے ایمان کے ساتھ یہ شرط بھی لگاتا ہوں تو ایسے شخص کے پاگل یا منافق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ جماعت ایک بڑا قدم ترقی کے لیے اٹھا سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ سمجھتے ہوئے کہ جماعت ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچی کہ بِلاشرط قربانی کے لیے تیار ہو جائے یہ تحریک کی تھی کہ اب بڑی مصیبت کے نازل ہونے کے بعد جبکہ ہماری جماعت کی جائیدادیں مکان کی صورت میں بھی اور نقد روپیہ کی صورت میں ضائع ہو چکی ہیں اور باہر اور قادیان میں ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیںجماعت کے افراد 25 فیصدی سے لے کر 50 فیصدی تک چندہ دیں۔ مگر اِس مجلس میں شریک ہونے والوں میں سے چند افراد کے سوا باقی جماعت نے اِس میں کوئی حصہ نہ لیا۔ لیکن اس تحریک کو مَیں نے جاری رکھا اور یہ تحریک مختلف ذرائع سے کی جاتی رہی۔ کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جماعت کے اکثر افراد کے دلوں میں ایمان موجود ہے۔ گو وہ کمزور ہی سہی ایسا ہی سہی۔ جیسے بجلی کے بڑے بڑے قمقموں کے مقابلہ میں مٹی کے تیل کا ایک چھوٹا سا دیا ہوتا ہے، لیکن ہے ضرور۔ مَیں نے سمجھا کہ متواتر تحریک کے نتیجہ میں جماعت کا ایک حصہ ضرور اِس پر عمل کرے گا۔ گو مَیں یہ سمجھتا تھا کہ جماعت ایمان کے اس مقام پر نہیں پہنچی کہ اُس کا سو فیصدی یا ایک معتدبہ حصہ اِس میں حصہ لے۔ چنانچہ متواتر تحریک کے نتیجہ میں بہت سے لوگ جنہوں نے پہلے اِس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھااب انہوں نے بھی حصہ لینا شروع کردیا ہے اور شاید اب سینکڑوں تک ایسے لوگوں کی تعداد پہنچ گئی ہو جنہوں نے 25 سے 50 فیصدی تک چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن جماعت کی تعداد لاکھوں کی ہے ہزاروں کی بھی نہیں۔ اِس لیے سینکڑوں کا لفظ ہمارے لیے کسی قسم کی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہ تحریک بڑھ رہی ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اِسے جاری رکھا جائے تو یہ سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں تک پہنچ جائے گی ۔لیکن جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا ہے میری رائے ہے کہ بعض افراد کا زیادہ سے زیادہ قربانی کرنا اِتنا خوش کُن نہیں ہو سکتا جتنا زیادہ سے زیادہ افراد کا تھوڑی قربانی کرنا۔ گو تجربہ نے بتادیا ہے کہ جماعت متواتر تحریکات کے نتیجہ میں اپنے اخلاص میں ترقی کرتی ہے اور کرتی چلی جائے گی۔ پہلے اگر روکیں پیدا بھی ہوں تو آہستہ آہستہ وہ روکیں دُور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اِس تحریک کے شروع میں بھی روکیں پیدا ہوئیں لیکن وہ روکیں آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہیں اور لوگوں میں بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ لیکن اس رفتار کو دیکھ کر مَیں ڈرتا ہوں کہ اِس کے نتیجہ میں زیادہ تر جماعت ثواب سے محروم رہ جائے گی۔ اِس لیے غور کرنے پر مَیں نے اِس سکیم میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جن کا مَیں آج اعلان کر دیناچاہتا ہوں۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ بجائے 25 فیصدی کے ساڑھے سولہفیصدی اور بجائے 50 فیصدی کے 33 فیصدی رکھی جائے۔ اِس میں وہ تمام چندے شامل ہوں گے جو اس وقت تک سلسلہ کی طرف سے عائد ہیں۔ مثلاً تحریک جدید کا چندہ،جلسہ سالانہ کا چندہ ،نئے مرکز کا چندہ، انجمن کا چندہ۔ لیکن شرط یہ ہو گی کہ اِس تحریک سے ستمبر والی تحریک کے پہلے جو چندہ کوئی شخص دیتا تھا اس سے یہ چندہ کم نہ ہو۔ مثلاً اگر 1946ء یا 1947ء میں کسی نے کوئی وعدہ کیا تھا اور اُس وعدہ کے مطابق سوائے حفاظتِ مرکز کے چندہ کے، تحریک جدید اور دوسرے چندوں کو مِلا کر اُس کا چندہ ساڑھے سولہ فیصدی سے زیادہ ہوجائے تو اُسے زیادہ دینا پڑے گا۔ اور اگر کم ہو تو اُتنا چندہ ہی کافی سمجھا جائے گا۔ حفاظتِ مرکز کے چندہ کے لیے جو تحریک کی گئی تھی چونکہ وہ رقم بڑی بھاری ہے اِس لیے شرط یہی ہو گی کہ اگر کوئی شخص 25 فیصدی چندہ دیتا ہے تو چندہ حفاظتِ مرکز اس میں شامل ہو گا لیکن 25 فیصدی تک اگر چندہ نہیں دیتا تو حفاظتِ مرکز کا چندہ اس میں شامل نہیں ہو گا۔ ساڑھے سولہ فیصدی میں سے تمام چندوں کو نکال کر جو روپیہ باقی بچے گا اُسے علیحدہ ریزور رکھا جائے گا۔ مثلاً ایک شخص کا چندہ 15 فیصدی بنتا ہے تو اُس میں سے ڈیڑھ فیصدی ریزرو فنڈ میں شامل کر دیا جائے گا۔ اور اگر بارہ فیصدی بنتا ہے توساڑھے چار فیصدی ریزرو فنڈ میں شامل کر لیا جائے گا۔ اور اگر دس فیصدی بنتا ہو تو ساڑے چھ فیصدی ریزرو فنڈ میں شامل کر دیا جائے گا۔ حفاظت مرکز کی اِس سال کی تحریک کے ختم ہونے کے بعد آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اُس وقت تک اسے جاری رکھا جائے گا جب تک ہمیں قادیان واپس نہیں مل جاتا بلکہ قادیان کے مل جانے کے بعد بھی اِس تحریک کو چند سالوں تک جاری رکھنا پڑے گا۔ بہرحال اِس سال جو تحریک کی گئی ہے اُس کا ادنیٰ درجہ ساڑھے سولہ فیصدی ہو گا اور اوپر کا درجہ 1/3 تک کا۔ بشرطیکہ کسی کے پچھلے موعودہ چندوں کی مقدار ساڑھے سولہ فیصدی سے زیادہ نہ ہو جاتی ہو۔ ایسی صورت میں وہ اپنے موعودہ چندہ کے مطابق چندہ دے گا۔
اِس کے علاوہ اِس وقت میرے نزدیک کم سے کم تحریک یہ ہونی چاہیے کہ جماعت کا ہر فرد وصیت کر دے۔ دنیا میں ہر چیز کے مظاہرے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاتھ سے قادیان نکل جانے کی وجہ سے دشمن کی نظریں اِس وقت تک اِس طور پر اِس امر کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ بہشتی مقبرہ اِن کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے جس کے لیے یہ لوگ وصیت کیا کرتے تھے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ کیسے وصیت کرتے ہیں۔ اِس اعتراض کو ردّ کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہر احمدی وصیت کر دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر جو ایمان اور یقین حاصل ہے وہ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکلنے یا نہ نکلنے سے وابستہ نہیں بلکہ ہم ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے ہیں۔ یہ کم سے کم مظاہرۂ ایمان ہے جس کی اِس وقت تم سے امید کی جاتی ہے۔ پس جو شخص ساڑھے سولہ فیصدی بھی نہیں دے سکتا مَیں سمجھتا ہوں اُس کے لیے کم از کم اِس قدر ایمان کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے کہ وہ وصیت کر دے اور کوشش کریں کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو۔اگر اِس تحریک کو پورے زور سے جاری رکھا جائے تو دشمن کا منہ خودبخود بندہوجائے گا اور وہ کہے گا کہ اِن لوگوں میں ایمان کی سچی علامت پائی جاتی ہے۔ پس ہر شخص کو چاہیے کہ وہ وصیت کر دے اور اِس طرح دنیا کو بتا دے کہ قادیان کے نکلنے سے ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا بلکہ ہم اپنے ایمان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقبرہ بہشتی کے وعدے دنیا کے ہر گوشہ میں ہم کو ملتے رہیں گے۔
ایک بات مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ اِس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور دفاتر میں عام طور پر رقابت پائی جاتی ہے۔ اِس لیے اِس بارہ میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ صدر انجمن ا حمدیہ میں جماعتوں اور افراد کی طرف سے اِس تحریک کے سلسلہ میں جو روپیہ آ رہا ہے اس میں تحریک جدید کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے مگر صدر انجمن احمدیہ خاموشی سے اِس روپیہ کو اپنے خزانہ میں ڈال لیتی ہے۔ تحریک جدید والوں کو اُن کا چندہ ادا نہیں کرتی۔ پس چونکہ اِس قسم کے خدشات موجود ہیں اِس لیے مَیں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ ہر شخص کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ کو جوچندہ ملتا ہے اُس سے زیادہ کی وہ مالک نہیں ہو گی جتنا کوئی پہلے چندہ دیا کرتا تھااُ سی نسبت سے صدر انجمن احمدیہ کو چندہ ملے گا۔ باقی روپیہ میں اگر تحریک جدید کا چندہ شامل ہو گا تو وہ حصہ تحریک جدید کو ملے گا۔ حفاظتِ مرکز کا چندہ شامل ہو گا تو اُتنا حصہ حفاظت ِمرکز کو ملے گا ۔اور جو کچھ باقی بچے گا اُسے مَیں اپنے اختیار سے سلسلہ کے مختلف محکموں میں تقسیم کروں گا۔ وہ رقم صدر انجمن احمدیہ کی ملکیت نہیں ہو گی۔ صدر انجمن احمدیہ کا حصہ صرف اُتنا ہی ہو گا جتنا اُسے پہلے ملا کرتا تھا لیکن بہرحال صدر انجمن احمدیہ کے پاس عذر ہوتا ہے کہ چندہ آیا، بھیجنے والے نے کوئی خاص وضاحت نہیں کی تھی اِس لیے ہم نے اُسے اپنے خزانہ میں داخل کر لیا۔ اگر چندہ بھیجنے والا واضح کر دیتا تو ایسا نہ ہوتا۔
پس مَیں جماعت پریہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص فتنہ سے بچنا چاہتا ہے اور آئندہ خط و کتابت کی اِس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کا خواہش مند ہے تو تحریک جدید والوں کو بھی لکھ دینا چاہیے کہ اتنا چندہ مَیں دیا کرتا ہوں۔ اِس میں اتنا حصہ تمہارا ہے باقی ریزرو فنڈ میں شامل کر دیا جائے اور اسے خلیفۃ المسیح کے حکم کے ماتحت خرچ کیا جائے۔ جو لوگ ایسا نہیں کریں گے اُنہیں زائد چندوں میں الگ حصہ لینا پڑے گا۔ مثلاً نئے مرکز کی تحریک ہو تو لازمی طور پر اُس کا الگ وعدہ لیا جائے گا۔ لیکن میرا منشا یہ ہے کہ سردست عام چندوں اور تحریک جدید کے چندوں کو کاٹ کر جو کچھ بچے اُسے ریزرو رکھا جائے۔ مگر یہ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے جب چندہ دینے والا صدر انجمن احمدیہ کو اور مقامی سیکرٹری کو اطلاع دے دے کہ پہلے میرا چندہ اِتنا تھا اب مَیں اِتنا دوں گا۔ اِس میں سے اِتنی ریزور فنڈ کی رقم ہو گی جو محفوظ رہنی چاہیے اور اِتنی تحریک جدید کی ہو گی ورنہ وہ ساری رقم صدر انجمن احمدیہ کے عام چندوں میں داخل کر لی جائے گی اور اُسے نئے سِرے سے چندہ دینا ہو گا یا صدر انجمن احمدیہ سے جھگڑا شروع کرنا پڑے گا۔ اب تک یہی ہو رہا ہے کہ جو رقم آتی ہے صدر انجمن احمدیہ اُسے اپنے کھاتہ میں جمع کر لیتی ہے۔ جب تحریک جدید نے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا تو اِن کو مشکل پیش آ گئی۔ اور اِس سے زیادہ مشکل اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے چندہ دیا ہے۔ دفتر والے مانگیں گے وہ کہیں گے کہ ہم نے چندہ دے دیا ہے مگر تحریک والے کہیں گے کہ تمہاری طرف سے کوئی چندہ نہیں آیا۔ پس ہر چندہ دینے والا ان پر یہ واضح کر دے کہ اِتنا چندہ صدر انجمن احمدیہ کا ہے ،اِتنا وصیت میں وضع کر لیا جائے، اِتنا تحریک میں دے دیا جائے اور باقی روپیہ ریزرو فنڈ میں داخل ہو ۔یا لکھ دیں کہ یہ روپیہ ستمبر کی تحریک میں جمع کرلیا جائے۔ کیونکہ یہ تحریک ستمبر 1947ء میں جاری ہوئی تھی۔ اِس لیے ریزور فنڈ کی جگہ اُس کا نام تحریک ستمبر مناسب رہے گا۔ بہرحال عام قاعدہ یہی ہو گا کہ نئے مرکز کا چندہ اُس سے وضع کر لیا جائے گا۔ مگر یہ تبھی ہو سکتا ہے جب سب دوست یہ واضح کر دیں کہ پہلے مَیں اِتنا چندہ دیا کرتا تھا اب اِتنا دوں گا اور اِس میں سے پہلے چندہ کی رقم کاٹ کر باقی روپیہ تحریک ستمبر میں داخل کیا جائے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری کمزوری کو دیکھتے ہوئے تخفیف کر دی ہے۔5 مَیں نے بھی یہ دیکھ کر کہ تم ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچے جو کامل ایمان کا مقام ہوتا ہے اپنے مطالبہ میں تخفیف کر دی ہے۔ قرآن مجید کا مفہوم تو اَور ہے مگر کمزور ایمان والے اِس کے یہی معنے لیتے ہیں اور میں نے بھی اِنہیں معنوں میں تخفیف کی ہے۔ پس اِس تحریک کی آئندہ یہ صورت ہو گی کہ ساڑھے سولہ فیصدی سے 33 فیصدی تک چندہ دینا ہو گا۔ اور جو لوگ اِس مقام پر نہ پہنچ سکیں اُن کے لیے کم سے کم ایمان کا مظاہرہ یہ ہو گا کہ وہ وصیت کر دیں۔ کوئی مرد، کوئی عورت اور کوئی بالغ بچہ ایسا نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو تادنیا کو معلوم ہو جائے کہ تم میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے اور قادیان کے کھوئے جانے کی وجہ سے مقبرہ بہشتی یا اُس کے نظام کے متعلق تمہیں کسی قسم کا شک و شبہ پیدا نہیں ہوا۔
مَیں پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ چندہ دینے والوں کو یہ بتا دینا چاہیے کہ پہلے وہ اِتنا چندہ دیتے تھے اور اب اِتنا چندہ دیں گے۔ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ میری اِس تحریک کے جواب میں چندہ وصیت کو بڑھا دیتے ہیں۔ میری تحریک کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔ مَیں نے چندہ بڑھانے کو کہا ہے وصیت کو بڑھانے کو نہیں کہا۔ میری بات کو پورا کرنے والے آپ تبھی بنیں گے جب آپ اپنے موعودہ چندہ وصیت اور دوسرے موعودہ چندوں سے زائد رقم کو تحریک ستمبر میں جمع کرنے کی ہدایت دیں گے۔ اگر وصیت کو بڑھائیں گے تو وصیت کی زیادتی کا ثواب تو ضرور آپ کو ملے گا مگر میری بات کا ثواب آپ کو نہیں ملے گا ۔مگر میری بات ماننے کی صورت میں آپ کو دو ثواب ملیں گے۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ چاہے توہر شخص کو تحریک کا ممبر بننے کی توفیق بھی مل جائے گی۔آخر تبلیغ کا وہ وسیع سلسلہ جو تحریک جدید کے ذریعہ دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جس کے نہایت اچھے آثار اور خوش کُن نشانات نظر آرہے ہیں اُس کے متعلق کسی مومن کا دل یہ برداشت ہی کس طرح کر سکتا ہے کہ اُس میں اُس کا حصہ نہ ہو۔ ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں بھی حصہ لینے کے لیے انسان تیار ہو جاتا ہے بلکہ اچھی باتیں تو الگ رہیں بُری سے بُری بات میں بھی حصہ لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص نے کچھ بے جا الفاظ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے۔ لوگوں نے اُسے مارنا شروع کر دیا۔وہ شخص ضدی تھا۔ لوگ اُسے مارتے جاتے مگر وہ یہی کہتا جاتا کہ مَیں تو یہی کہوں گا۔ لوگ اُسے پھر مارنا شروع کر دیتے اور یہ جھگڑا بڑھ گیا۔ ہم اُس وقت چھوٹی عمر کے تھے۔ ہمارے لیے یہ ایک تماشہ بن گیا۔ وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا کہ مَیں تو یہی کہوں گا۔ لوگ اُسے مارتے۔ یہاں تک کہ وہ اُسے مار مار کر تھک گئے۔ اُن دنوں ایک غیر احمدی پہلوان حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس علاج کے لیے آیا ہوا تھا۔ (آپ اُس وقت خلیفۃ المسیح نہیں تھے) اُس نے جب یہ شور سُنا تو خیال کیا مَیں کیوں اِس ثواب سے محروم رہوں۔ مجھے بھی اِس میں حصہ لینا چاہیے۔ چنانچہ وہ گیا اور اُسے بھمبیری کی طرح اُٹھا کر زمین پر دے مارا لیکن وہ گر کر یہی کہتا کہ مَیں تو یہی کہوں گا۔ ہمارے لیے یہ ایک تماشہ بن گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب معلوم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا ہماری یہی تعلیم ہے؟ دیکھو! لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن ہمارا اُس سے کیا بگڑ جاتا ہے۔ اگر اُس نے کچھ بے جا الفاظ مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق بھی استعمال کر دئیے تو کیا ہو گیا اَور تو اَور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے جب یہ دیکھا توآپ وہاں گئے اور لوگوں سے کہا یہ کیا لغو بات ہے کہ تم اِس شخص کو مارنے لگ گئے ہو۔ مگر ابھی آپ یہ نصیحت کر ہی رہے تھے کہ اُس شخص نے پھر وہی الفاظ دہرائے جو اُس نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے تھے۔ اِس پر میر صاحب نے خود بھی اُسے دو چار تھپڑ لگا دئیے۔
تو بسا اوقات انسان اِس قسم کے بھی کام کر لیتا ہے جو لغو ہوتے ہیں۔ دراصل رو چلنے کی دیر ہوتی ہے۔ جب رَو چل جائے تو لوگ خودبخود اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اگر ہماری جماعت میں بھی قربانی کی رَو چل جائے گی تو یہ لازمی بات ہے کہ ہر رَو اُنہیں پہلے سے اَور زیادہ آگے لے جائے گی اور یہ سلسلہ اِسی طرح بڑھتا چلا جائے گا۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی رَو پیدا ہو گی اور قربانی میں ترقی کرتے کرتے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی کہ وہی چیز جسے تم آج اپنی موت سمجھتے ہو اگر اس کے چھوڑنے کا تم سے تمہاری بیوی مطالبہ کرے گی تو تم اُس بیوی کو طلاق دینے کے لیے تیار ہو جاؤ گے۔ اگر تمہارا بچہ اِس قربانی کے خلاف مشورہ دے گا تو تم اُس بچہ کو عاق کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ گے اور وہی چیز جو آج تم کو موت سے پیچھے ہٹا دیتی ہے تمہیں سب سے زیادہ پیاری، سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ خدا کے قریب کرنے والی نظر آئے گی"۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا:
"نماز جمعہ کے بعد مَیں کچھ جنازے پڑھاؤں گا۔ پیر اکبر علی صاحب جو ہماری مجلس شورٰی کی مالی سب کمیٹی میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا کرتے تھے اور بڑے نیک اور مخلص انسان تھے فالج کے حملہ سے راولپنڈی میں فوت ہو گئے ہیں۔ آپ فیروز پور کے رہنے والے تھے اور وہاں کی جماعت کے امیر بھی رہ چکے ہیں۔
اِسی طرح قادیان میں حافظ نور الٰہی صاحب وفات پا گئے ہیں۔ یہ بہاول پور کے رہنے والے تھے اور قادیان کی حفاظت کے لیے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد وہیں فوت ہو گئے۔مجھے اُن کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی وفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اَور واقعہ کی وجہ سے رقّت آگئی۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو قربانی سے گریز کرتے اور بھاگتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہیں جوقربانی میں ہی لذت محسوس کرتے ہیں۔ حافظ نور الٰہی صاحب کا ایک ہی بچہ ہے اور وہ بھی ابھی چھوٹا اور نابالغ ہے۔ کوئی جائیداد بھی ایسی نہیں جو گزارہ کے لیے کافی ہو۔ صرف تنخواہ پر انحصار تھا جو اِن کی وفات کی وجہ سے جاتی رہی۔ لڑکیاں بھی بے شادی کے ہیں۔ بڑی لڑکی کی عمر سولہ سترہ سال کی ہے۔ وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئی۔ حافظ صاحب کی بہن بھی ساتھ تھیں۔ اُس نظارے کا مجھ پر اب تک اثر ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اُن کے حالات ایسے نہیں جو گزارہ کے لحاظ سے اچھے سمجھے جا سکتے ہوں۔ اس کا میری طبیعت پر اثر ہوا اور دل میں کچھ سوز پیدا ہوا۔ مَیں نے سمجھا کہ مجھے اُس لڑکی کو اور اُس کے دوسرے رشتہ داروں کو تسلی دینی چاہیے۔ لیکن اُس لڑکی نے کمرہ میں داخل ہوتے ہی کہا۔ دیکھیں جی! ہمارے ابا جی کا کیسا اچھا انجام ہوا کہ وہ خدا کی راہ میں فوت ہو گئے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتا ہے کہ جو انسان کو ایسی موت نصیب ہو۔ یہ ہمارے لیے کتنی خوشی کی بات ہے کہ خدا نے اُن کا کیسا اچھا انجام کیا۔ میری طبیعت پر اُس بچی کی بات کا بڑا ہی گہرا اثر پڑا۔ مَیں نے دیکھا کہ اُس کی آواز میں کسی قسم کا ارتعاش نہیں تھا، کسی قسم کا اضطراب نہیں تھا۔ جتنی دیر وہ میرے پاس رہی اطمینان سے بیٹھی رہی۔ غم کا اُس پر کوئی اثر نہیں تھا۔ اُس کی پھوپھی بھی ساتھ تھی۔ پھوپھی تو شاید غیراحمدی تھی۔ اس پر اپنے بھائی کی وفات کی وجہ سے آثار ِغم تھے لیکن لڑکی برابر اِسی رنگ میں گفتگو کرتی رہی اور گھر جا کر اُس نے جو چِٹھی لکھی اُس میں بھی یہی لکھا کہ ہماری یہ کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو قادیان میں جان دینے کی توفیق دی ہے۔ یہ نمونہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو قادیان جانے سے گھبراتے ہیں۔
دوست محمد صاحب علاقہ جاجی اطلاع دیتے ہیں کہ اسلام جان صاحب کی بیوی فوت ہو گئی ہے۔ شیخ غلام حسین صاحب ریٹائرڈقانونگو اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کی دو بچیاں فوت ہو گئی ہیں۔ قریشی عطاء اللہ صاحب کی بیوی فوت ہو گئی ہے۔ مولوی سید اختر الدین صاحب سونگڑہ والے فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صحابی اور موصی تھے۔ غلام محمد صاحب بھینی بانگر والے اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کی دو بچیاں فوت ہو گئی ہیں۔ جنازہ پڑھانے والا کوئی نہ تھا۔ضیاء الحق صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے والد حاجی نور محمد صاحب فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے۔ گزشتہ فسادات میں شہید ہو گئے۔ آپ صحابی اور موصی تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز صاحب نوشہرہ والے کی بیوی فوت ہو گئی ہیں۔ ماسٹر صاحب مخلص احمدی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالاحد صاحب فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ہمشیرہ زینب بیگم صاحبہ فوت ہو گئی ہیں۔ فضل حسین صاحب کی بیوی فوت ہو گئی ہے۔ جنازہ پڑھنے والا کوئی نہ تھا۔ قاضی عبدالرحیم صاحب ولد قاضی فتح الدین صاحب نواں کوٹ لاہور میں فوت ہو گئے ہیں۔ آپ مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی کے نواسہ تھے اور موصی تھے۔ حاجی محمد عبداللہ خاں صاحب یکدم بیمار ہو کر فوت ہو گئے ہیں۔آپ بڑی عمر کے تھے۔ قادیان جانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ پانچ چھ گھنٹے بیمار رہ کر فوت ہو گئے۔ عبدالخالق صاحب مہتہ اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے بڑے بھتیجے عبدالمالک صاحب ابن شیخ عبدالقادر صاحب ابن بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی موٹر سے ٹکر لگنے کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں۔ مَیں نماز جمعہ کے بعد اِن سب کا جنازہ پڑھاؤں گا"۔ (الفضل 5جون1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الفضل 27؍اپریل 1944ء صفحہ 6 ، 7
2
:…
بخاری کتاب المغازی باب …الخ
3
:
سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 267غزوۃ بدر الکبرٰی۔ مطبع مصر 1936ء
4
:
بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
5
:
(الانفال:67)


ہر احمدی کے امتحان کا یہ موقع ہے کہ
اگر وہ زیادہ قربانی نہیں کر سکتا تو وصیت والی قربانی کر دے
(فرمودہ4جون 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں آ ج خطبہ جمعہ مختصر ہی پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے صبح سے سر درد کا دورہ ہے اور اس آندھی نے اِس کی وجہ بھی بنا دی ہے۔ میرے جسم میں کوئی ایسی مرض ہے کہ آندھی آنے سے مجھے سردرد شروع ہو جاتا ہے بلکہ کبھی سردرد پہلے شروع ہو جاتا ہے اور پھر آندھی آ جاتی ہے۔ شاید بجلی کی رَو کا کوئی اثر ہو۔
مَیں نے گزشتہ ہفتہ جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہیں اور ہماری قربانیاں بھی پہلے سے بہت زیادہ ہونی چاہییں۔ مَیں نے جماعت کو بتایا تھا کہ قادیان سے آنے کے بعد جو تحریک مَیں نے کی تھی کہ جماعت کے لوگ پچیس سے پچاس فیصدی تک اپنی آمدنیاں دیں یہ تحریک آہستہ آہستہ کچھ بڑھی تو سہی مگر اس نے اتنی ترقی نہیں کی کہ یہ جماعتی تحریک کہلا سکے۔ اور جب تک کوئی تحریک جماعتی تحریک نہ بنے اُس وقت تک جماعت کو اس کے نتیجہ میں برکات حاصل نہیں ہوتیں صِرف چند افراد تک وہ برکات محدود رہتی ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے کچھ تبدیلیاں اس پہلی تجویز میں کیں اور مَیں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ہمیں اِس نئی تحریک کے دو معیار مقرر کرنے چاہییں۔ ایک تو یہ کہ جماعت کے احباب ساڑھے سولہ فیصدی اپنی آمد کا چندہ میں دیں اور دوسرا اونچا معیار یہ ہو کہ 33 فیصدی دیں۔ اس کے درمیان جتنی جتنی کسی کو توفیق ہو دے۔ مگر کم سے کم اس تحریک کے علاوہ ہماری جماعت کے ہر بالغ فرد کو خواہ وہ عورت ہو یا مرد اِس بات کا پختہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ جلد سے جلد وصیت کر دے کیونکہ وصیت کا سوال روپیہ کے لیے بھی ہمارے لیے ضروری ہے اور اِس لیے بھی ضروری ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں قادیان کے چُھٹ جانے اور مقبرہ بہشتی کے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے اب اِس جماعت کا تعلقِ اخلاص مقبرہ سے اُس قسم کا نہیں ہو سکتا جس قسم کا پہلے تھا۔ ہم نے اپنے مخالف کو جواب دینا ہے اور اسے بتانا ہے کہ ہمارا ایمان اِن چیزوں سے وابستہ نہیں۔ ہمارا ایمان خدا تعالیٰ کے وعدوں سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی خاص خطّہ سے پورے ہوں۔ یہ چیز اُن وعدوں کے پورا ہونے کی ایک ظاہری علامت تو ہے مگر باوجود اِس کے کہ یہ ظاہری علامت کچھ عرصہ کے لیے مٹ جائے یا کمزور پڑ جائے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ علامت جس چیز کی قائم مقام ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گی اور اُس پر ہمارا ایمان قائم رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود ایک علامت تھا اسلام کے لیے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فوت ہونے کے بعد اور اِس علامت کے غائب ہونے کے بعد اسلام سے ہمارا تعلق کمزور نہیں ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہمارے اندر احمدیت کی ایک علامت تھا مگر آپ کی وفات کے بعد اور اِس علامت کے محو ہونے کے بعد احمدیت پر ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا۔
مجھے یا د ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے میری عمر 19سال کی تھی۔ اُس وقت جماعت کے بعض کمزور لوگ ایسے بھی تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر شُبہ پیدا ہوا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور آپ کی وفات آپ کی صداقت کو مشتبہ کر دیتی ہے۔ ایسے ایک دو آدمی ہی تھے مگر میرے کان میں اُن کی باتیں پڑیں۔ گو وہ بڑی احتیاط سے باتیں کرتے تھے اور صرف اِس رنگ میں گفتگو کرتے تھے کہ لوگ کہیں گے فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اب کیا بنے گا اور دشمن کے اعتراضات کا کیا جواب دیا جائے گا؟ جب میرے کان میں اُن کے یہ الفاظ پڑے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لاش کے پاس گیا اور آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر مَیں نے خدا تعالیٰ سے یہ وعدہ کیا کہ الٰہی! میرا یہ یقین ہے کہ یہ شخص تیری طرف سے ہے اور تُو نے ہی اِس کو مسلمانوں کی ترقی اور اُن کے احیاء کے لیے بھیجا ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ چند لوگوں کے دلوں میں اِس کی صداقت کے متعلق شبہ پیدا ہو رہا ہے۔ مَیں اِس شخص کی لاش کے سامنے کھڑے ہو کر تیرے حضوریہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ایک احمدی بھی باقی نہ رہے اور سارے کے سارے مرتد ہو جائیں تب بھی مَیں اِس تعلیم کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ بے شک ایک 19سالہ نوجوان کے منہ سے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے اور شاید اکثر اوقات انسان ایسا عہد کچھ دنوں کے بعد بھُولنا شروع کر دیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ ایسے حالات پیدا ہوتے رہے جن میں اِس عہد کو بار بار دُہرانے اور اِس عہد کو بار بار پورا کرنے کے سامان پیدا ہوتے رہے۔ اب جبکہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اٹھاون سال میری عمر میں سے گزر چکے ہیں اور اُنسٹھواں سال جا رہا ہے۔ پھر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے احمدیت کو بظاہر اس کی بنیادوں سے ہِلا دیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے پھر مجھے اِس عہد کو پورا کرنے کی توفیق بخشی اور اب بھی مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ اگر ساری جماعت مرتد ہو جائے تب بھی اِس عمر تک پہنچ جانے کے باوجود مَیں یہ امید اور یقین رکھتا ہوں کہ پھر نئے سرے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو قائم کر دوں گا اور مَیں سمجھتا ہوں ہر مومن کے لیے یہی معیار اُس کے ایمان کے پرکھنے کے لیے ہونا چاہیے۔ جب تک ہم میں سے ہر شخص اِس معیار پر پورا نہیں اُترتا، جب تک زید اور بکر کی طرف سے اُس کی نظریں ہٹ نہیں جاتیں اور جب تک وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میرے ذریعہ سے ہی اسلام نے قائم ہونا ہے اُس وقت تک وہ حقیقی خدمت احمدیت کی نہیں کر سکتا۔
سو اِس مصیبت کے وقت میں ہمارا فرض ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں ہر احمدی کے امتحان کا یہ موقع ہے کہ اگر وہ زیادہ قربانی نہیں کر سکتا تو وصیت والی قربانی کر دے اور دشمن کو بتا دے کہ قادیان کے نکلنے کو ہم صرف ایک عارضی مصیبت سمجھتے ہیں ورنہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ مقام ہمارا ہے اور ہماری لاشیں وہیں دفن ہوں گی۔ میری اِس تحریک کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک رَو چلنی شروع ہو گئی ہے اور اب مَیں دیکھتا ہوں کہ روزانہ اچھی خاصی اطلاعیں ایسے لوگوں کی طرف سے آ جاتی ہیں جنہوں نے اپنی آمدنیں ساڑھے سولہ سے 33 فیصدی تک وقف کر دی ہیں یا دس فیصدی تک اُنہوں نے وصیت کر دی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ تحریک جاری رکھی جائے تو جماعت میں جس قسم کا ایمان پایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے شاید ایک سال کے اندر اندر ہر احمدی موصی بن جائے اور اکثر احباب اپنی آمدنیں ساڑھے سولہ سے 33 فیصدی تک وقف کر دیں۔ بعض دوست جنہوں نے اپنی آمد کا اِس سے زیادہ حصہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے مثلاً وہ چالیس فیصدی دیتے ہیں یا پچاس فیصدی دیتے ہیں اُنہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ سو اگر وہ زیادہ چندہ دینا چاہتے ہیں تو بے شک دیں یہ امر اُن کی مرضی پر منحصر ہے مگر قانون کے لحاظ سے اُن کو اِس امر کی اجازت حاصل ہے کہ جب بھی ان میں سے کسی کو تکلیف محسوس ہو وہ اپنے چندہ کو پچاس فیصدی سے 33 فیصدی تک گرا دے یا 33 فیصدی تک وعدہ کرنے والا اس چندہ کی آخری حد یعنی ساڑھے سولہ فیصدی تک اپنے چندہ کو گرا دے۔ حالات کے مطابق دوستوں کا اپنے چندہ دینے کی نسبت کو بدل دینا بالکل جائز ہے۔ اِسی طرح حالات کے بدلنے کی وجہ سے جو بڑھا سکے اُسے بڑھا بھی دینا چاہیے۔ پس اگر کسی کو زیادہ چندہ دینے سے تکلیف پہنچ رہی ہو تو اُسے گھبراہٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ دفتر کو صرف اطلاع دے دے کہ پہلے مَیں 33 فیصدی چندہ دیا کرتا تھا اب 25 فیصدی یا بیس فیصدی یا ساڑھے سولہ فیصدی دوں گا۔ اِسی طرح اگر آج کسی نے ڈرتے ڈرتے ساڑھے سولہ فیصدی آمد دینے کا وعدہ کیا ہے مگر کل اُس کے حالات اچھے ہو جاتے ہیں یا اُس کا ایمان بڑھ جاتا ہے تو ساڑھے سولہ سے 33 فیصدی تک اپنے چندہ کو بڑھا سکتا ہے۔ اِن دو حدوں کے درمیان چکر کھانا ہر شخص کی مرضی پر رکھا گیا ہے اور چونکہ اِسے مرضی پر رکھا گیا ہے اِس لیے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ وہ 33 فیصدی سے 25 فیصدی نہیں کر سکتے یا 25 فیصدی سے بیس فیصدی نہیں کر سکتے یا بیس فیصدی سے ساڑھے سولہ فیصدی نہیں کر سکتے یا ساڑھے سولہ فیصدی سے 33 فیصدی نہیں کر سکتے، حالات کے مطابق وہ اپنے وعدوں کو اوپر نیچے کر سکتے ہیں۔ وعدہ خلافی یا کسی قسم کی بدعہدی کا اِس میں کوئی سوال نہیں۔ اگر وہ اپنے وعدہ کو حالات کی مجبوری کی وجہ سے 33 فیصدی سے ساڑھے سولہ فیصدی تک گرا دیتے ہیں تو نہ یہ بدعہدی ہو گی اور نہ وعدہ خلافی ہو گی۔ قانون ہی ایسا لچکدار رکھا گیا ہے کہ انسان ضرورت کے مطابق اپنے چندہ کو اوپر نیچے کر سکتا ہے۔ ہاں قبل از وقت اطلاع دینا ضروری ہے تا قانون شکنی نہ ہو۔
غرض جماعت کے ایمان کے متعلق جو اظہار مَیں نے پچھلے خطبہ میں کیا تھا اِس ہفتہ نے اُس کو صحیح ثات کر دیا ہے۔ مَیں نے کہا تھا کہ جماعت میں ایمان تو ہے مگر ضرورت اُس کو اُبھارنے کی ہے اور ضرورت تدریجی رنگ میں ترقی کرنے کی ہے۔ مَیں پچھلا خطبہ دے کر گھر گیا تو کئی رُقعے مجھے اُسی وقت پہنچ گئے۔ مردوں کے بھی اور عورتوں کے بھی۔ جن میں یا تو نئی وصیتیں کرنے کی اطلاع تھی یا زائد چندہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ رَو متواتر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کام کرنے والے اگر اچھی طرح کام کریں تو چھ ماہ یا سال کے اندر اندر ساری جماعت اِس معیار پر آجائے گی۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سکیم کامیاب ہو گئی ہے اور آئندہ اَور بھی کامیاب ہو گی۔ اب سوال بظاہر حالات صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ کونسی جماعت اِس تحریک میں آگے بڑھتی ہے۔ جب ہم قادیان میں ہوتے تھے تو باوجود اِس کے کہ قادیان کی جماعت زیادہ تر غرباء پر مشتمل تھی پھر بھی ہر تحریک پر وہاں کے دوست جلد سے جلد لبیک کہتے اور بڑی سرگرمی اور جوش سے اُس میں حصہ لیتے۔ جب بھی کوئی تحریک ہوتی جمعہ کے بعد سے لے کر شام تک قادیان کی جماعت کی طرف سے اِتنی لَبَّیْک آجاتی کہ حیرت آتی تھی۔ اب بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ ہم لاہور میں ہیں زیادہ تر قادیان کے مجاہدین کی طرف سے ہی وعدے آتے ہیں۔ حالانکہ سُننے میں قادیان والے اور باہر والے دونوں برابر ہوتے ہیں۔ بہرحال ساری جماعتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے قبولیت کا جامہ پہن چکی ہے۔ اب جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کچھ دیر اَور انتظار کر لیں وہ صرف اپنے ثواب میں کمی کر رہے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کی تقدیر ظاہر ہو چکی ہے۔ اب اِس تقدیر سے جلد یا بدیر فائدہ اُٹھانے کا سوال ہے۔ پس مَیں تمام جماعتوں کو (کیونکہ مَیں نہیں جانتا کس کے لیے آگے بڑھنا مقدر ہے) تنبیہہ کر دیتا ہوں کہ اِس تحریک کے متعلق ایک رَو چل چکی ہے۔ اب ان کے ثواب کی زیادتی یا کمی کا انحصار اِس تحریک میں جلد یا دیر سے حصہ لینے پر ہے۔ ایک ہی رقم ہے وہ جلدی حصہ لے کر زیادہ ثواب حاصل کر سکتے ہیں اور اِس رقم سے سُستی کر کے وہ کم ثواب لے سکتے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ رقابت اور ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کا وہ جذبہ جو1 میں بیان کیا گیا ہے اُس کے مطابق تمام جماعت اپنے آپ کو صفِ اول میں شامل کرنے کی کوشش کرے گی"۔ (الفضل30جون 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
البقرۃ:149


ہم صرف تبلیغ سے ہی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں
(فرمودہ11جون 1948ء بمقام یارک ہاؤس لٹن روڈ کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے ایک دوست نے کوئی دو مہینے ہوئے لکھا کہ کوئٹہ کی جماعت دو تین سو افراد پر مشتمل ہے لیکن اس جمعہ میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کا اندازہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ کی جماعت سو افراد یا اس سے کچھ کم پر مشتمل ہے کیونکہ چھ صفیں نظر آ رہی ہیں اور فی صف 19 ، 20کے قریب آدمی ہیں اور 20، 22 آدمی ہمارے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ اِس طرح مرد افراد کی تعداد سو سے بھی کم بنتی ہے اور پھر ان میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں۔ اگر بچے نکال دئیے جائیں تو ساٹھ ستّر کی جماعت رہ جاتی ہے۔ نہ معلوم اِس کی یہ وجہ ہے کہ افراد ہی کم ہیں یا وجہ یہ ہے کہ جمعہ کا وقت ایسا معیّن نہیں کیا گیا جس میں تمام دوست شامل ہو سکیں۔ میرے پاس ابھی ایک پیغام گیا تھا کہ دو بج گئے ہیں اور لوگوں نے دفتر جانا ہے۔ لیکن اس سے پہلے مجھے جماعت کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ جمعہ کے لیے کونسا وقت مقرر ہے۔ لاہور کی جماعت تو اس بات پر مُصِرّ ہوا کرتی ہے کہ دو بجے سے پہلے جمعہ نہ پڑھایا جائے۔ وہاں جمعہ کے دن ایک بجے کے قریب چُھٹی ہو جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دفتروں سے فارغ ہو کر لوگ جمعہ میں پہنچ سکیں ۔مگر یہاں یہ کہا گیا ہے کہ دو بجے سے پہلے لوگوں کو فارغ کر دیا جائے تا دو بجے کے بعد وہ دفاتر میں جا سکیں۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پیغام غلط گیا تھا یا صحیح۔اگر صحیح تھا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہاں جمعہ کی چُھٹی نہیں ہوتی مگر یہ عجیب بات ہے۔ لاہور میں جمعہ کے دن ایک بجے کے بعد چھٹی ہو جاتی ہے اور دوسری جگہوں میں بھی جمعہ کے لیے نصف دن کی تعطیل کی جاتی ہے۔ پھر یہاں چھٹی کیوں نہیں ہوتی؟ بہرحال یہ چیز حکومت کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں۔ دراصل طریق یہ ہوتا ہے کہ ایسے اجتماعی کاموں کے لیے پہلے سے وقت مقرر کر لیا جائے اور امام کو بھی اطلاع دے دی جائے کہ لوگوں کے آنے کا یہ وقت ہو اورجانے کا یہ وقت ہو تاکہ ان دونوں باتوں کی پابندی کی جا سکے اور اس طرح لوگوں کا عہد بھی خراب نہ ہو اور بعض کے لیے دفتری مشکلات بھی پیش نہ آئیں۔
پس آئندہ کے لیے (گو اگلا جمعہ غالباً مَیں یہاں نہیں پڑھاؤں گا کیونکہ مَیں کچھ عرصہ کے لیے سندھ جا رہا ہوں) مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ کونسا وقت جماعت کی اکثریت کے لیے موزوں ہے؟ کس وقت جمعہ شروع کیا جائے؟ کس وقت تک یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سب لوگ جمع ہو جائیں گے اور کونسا وقت جمعہ ختم کرنے کے لیے موزوں ہے؟ جس میں یہ امید کی جا سکے کہ لوگ اپنے اپنے دفاتر میں وقت پر پہنچ سکیں گے۔
اس کے بعد مَیں کوئٹہ کی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے متعلق جو اثر مجھ پر ہے یا مثال کے طور پر ہمارے اس سفر کے لیے اور پھر یہاں آنے کے موقع پر جس رنگ میں جماعت نے قربانیاں کی ہیں اور دیواریں وغیرہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہیں اُس سے اِتنا تومعلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں خدمت کا احساس پیدا ہو چکا ہے لیکن کسی کام کا صرف احساس پیدا ہو جانا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس احساس کا صحیح استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔ بسا اوقات خدمت کا احساس انسان کو ایسے غلط طریق پر ہوتا ہے کہ اُس کی ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں اور وہ کسی قسم کا ذاتی یا قومی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ درحقیقت سب سے زیادہ خدمت کا حق ہم پر اپنے نفس کاہوتاہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے1 یعنی تمہاری اپنی ہدایت باقی لوگوں کی عدمِ ہدایت سے بہرحال بہتر ہے۔ اگر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ تم ہدایت پاؤ یا تمہارا غیرہدایت پائے اور ان دونوں میں ٹکراؤ ہو جائے تو تمہیں اپنی ہدایت کو مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ ہدایت کوئی ایسی چیز نہیں جس کو دوسرے کی خاطر قربان کیا جاسکے۔ ہم سے یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ اگر ہم پیاسے ہوں اور ہمارے پاس تھوڑا سا پانی ہو اور ہمارے پاس ہی کوئی دوسرا شخص پیاس کی شدت کی وجہ سے تڑپ رہا ہو تو ہم اپنا پانی اُس کو دے دیں خواہ خود موت کا شکار ہو جائیں۔ یا ہم بھُوکے ہوں اور ہمارے پاس کھانا موجود ہو اور ہمارے پاس کوئی دوسرا شخص بھوک سے بے تاب ہو رہا ہو تو شریعت اِس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے گی کہ ہم خود کھانا نہ کھائیں اور اُس کو کھلا دیں۔ لیکن شریعت اِس کو پسندیدگی کی نظر سے نہیںدیکھے گی کہ ہم خود نماز نہ پڑھیں اور دوسرے کو موقع دیں کہ وہ نماز پڑھ لے یاخود جہاد میں شامل نہ ہوںاوردوسرے کو موقع دیں کہ وہ جہاد کرے۔ یا یہ کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اظہارِایمان نہیں کرتے اور دوسرے کو موقع دے دیتے ہیں کہ وہ اظہارِ ایمان کر لے۔ یہ دین کا معاملہ ہے جو دنیا کے معاملوں سے مختلف ہے۔ دنیوی معاملات میں دوسروں کے لیے قربانی کرنا پسند کیا جاتا ہے۔ لیکن دین کے معاملہ میں کسی کے جذبات کی پروا نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ دنیوی قربانی تو 20،30 یا 50 سال کے لیے ہو گی لیکن دین کی قربانی لاکھوں کروڑوں بلکہ اَن گِنت سالوں تک جائے گی۔اِس لیے کسی سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ خود دائمی دوزخ میں جا پڑے اور دوسرے کے لیے آرام مہیا کرے۔ دنیا میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی خود پیاسا مر جائے اور دوسرے کو پانی دے دے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ خود بھوکا مر جائے اور دوسرے کو کھانا کھلا دے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ خود ننگا رہے اور دوسرے کو لباس دے دے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود تکلیف برداشت کرے اور دوسرے کو آرام پہنچائے۔ لیکن کسی سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ خود بے ایمان ہونے کی حالت میں مر جائے اور دوسرے کو ایماندار بننے کا موقع دے بلکہ مومن سے اس کے خلاف امید کی جائے گی۔
پس سب سے مقدم چیز انسان کے لیے اُس کا اپنا ایمان ہے۔ اِس لیے دنیا کے وقتوں میں سے سب سے زیادہ وقت انسان کو اپنی نماز، عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے نکالنا چاہیے بشرطیکہ یہ کام ایک حد کے اندر ہو۔ نماز فرض ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پھر بعض حصے نماز کے ایسے بھی ہیں جنہیں شریعت نے خصوصیت سے پسند کیا ہے جیسے قرآن مجید میں تہجد کا ذکر آتا ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تعامل اور سنت نے ثابت کیا ہے جیسے اشراق کی نماز ہے یا ضحٰی کی نماز ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی پابندی انسان کر سکتا ہے اور اسے کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی شخص سارا دن نماز میں لگا رہتا ہے اور وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتا یہ چیز ناجائز ہے۔ بہرحال جس حد تک نفس کی صفائی کے لیے اپنے آپ کو عبادت میں لگانا ضروری ہے اُس حد تک نفس کی اصلاح کے لیے جماعت کو اختیار کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔ اگر نفس کی اصلاح ہو گی تو دین کی سچی خدمت کی توفیق ملے گی اور انسان اسلام کا بہادر سپاہی بن سکے گا۔ تمام خرابیاں ہمیشہ نفس کے بگاڑ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو نہ اطاعت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور نہ عقل و فہم کا مادہ پیدا ہوتا ہے لیکن عقل سے سب چیزیں آپ ہی آپ درست ہو جاتی ہیں۔ مگر عقل کبھی مکمل نہیں ہو سکتی جب تک نماز، روزہ، ذکرِ الٰہی، توکّل اور خشیتِ الٰہی کی عادت نہ پیدا کی جائے۔ یہ چیزیں نفس کے جِلا اور اُس کو نور بخشنے کے لیے ضروری ہیں۔پس اُس حد تک عبادت کرنا جس حد تک نفس کے جِلا کے لیے ضروری ہو نہایت اہم ہے اور دوسرے سب کاموں کے لیے مقدم ہے۔
پھر اِس کے بعد دوسرا قدم خدمتِ خلق کا ہے اور اس میں سب سے مقدم چیز تبلیغ ہے۔ اگر تم کسی کو روٹی کھلاتے ہوتو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اُسے شام تک تکلیف سے بچاتے ہو، اگر تم کسی کو کپڑا پہناتے ہو تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ تم تین چار مہینے تک اُس کو ننگا رہنے سے بچاتے ہو، اگر تم کسی کو گرمیوں میں پانی پِلا دیتے ہو تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ تم گھنٹہ دو گھنٹہ تک اُس کی پیاس بجھاتے ہو۔ لیکن اگر تم کسی کو دین دیتے ہو تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ تم اُسے ابدی زندگی بخشتے ہو۔ اور تم اُسے وہ تحفہ دیتے ہو جو دو گھنٹے کے بعد ختم نہیں ہو گا، جو دو مہینوں کے بعد ختم نہیں ہو گا، جو دو سال کے بعد ختم نہیں ہو گا، جو ایک صدی کے بعد بھی ختم نہیں ہو گا، جو دنیا کی عمر کے بعد بھی ختم نہیں ہو گا بلکہ ابدالآباد تک چلتا چلا جائے گا جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے۔
غرض بہترین تحفہ تبلیغ کا تحفہ ہے اور بہترین احسان جو انسان کسی پر کر سکتا ہے وہ تبلیغ کا احسان ہے۔ لیکن مجھے کوئٹہ کی جماعت کی تبلیغ کا کوئی نظارہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا اور نہ ہی خط و کتابت سے کسی بیعت کا پتہ چلا ہے۔ شاید کئی کئی مہینے بلکہ سالہاسال گزر جاتے ہیں مگر یہاں کوئی احمدی نہیں ہوتا۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ایک دفعہ کے سوا جس کے بعد وہ بیعت کرنے والا مرتد ہو گیا کوئٹہ کی تو اصل باشندوں کی کوئی بیعت مجھے یاد نہیں۔ ممکن ہے اس میں میرے حافظہ کی غلطی ہو مگر مجھے یاد ہے کہ اب تک کوئٹہ کی کسی بیعت کی کوئی اطلاع مجھے نہیں ملی۔ صرف آٹھ دس سال ہوئے کوئٹہ میں ایک شخص احمدی ہوا تو یہاں کی جماعت نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا مگر ایک سال کے بعد جب مَیں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ شخص مرتد ہو گیا ہے۔ پس سوائے اس واقعہ کے جس کا انجام اچھا نہیں ہوا اَور کسی بیعت کا مجھے علم نہیں۔ مشرقی پنجاب ہے اگر کوئی یہاں آ بسا ہے یا دوسرے علاقوں سے آ کر یہاں آباد ہو گیا ہے یا ملازمت کی وجہ سے اِس میں آ گیا ہے تو یہ یہاں کی جماعت کی کوشش کا نتیجہ نہیں۔ مَیں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں کے لوگوں کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِاحمدیت سے محروم رہیں گے یا کوئٹہ کی آب و ہوا انسان کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیتی ہے کہ اُس کے دل سے خشیتِ الٰہی بالکل مٹ جاتی ہے۔ اور وہ کسی کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ اگر واقع میں کسی علاقہ کی آب و ہوا ایسی ہوتی تو یقیناً اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت دیتے وقت اُس علاقہ کو مستثنٰی قرار دے دیتا اور کہتا کہ تُو نبی تو ہے مگر اُس حصہ کے لیے نہیں۔ مگر نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی جگہ بتائی جہاں آپ کی تعلیم اثر نہیں کر سکتی تھی یا جہاں کی آب و ہوا میں رہ کر انسان نصیحت سے بالا ہو سکتا تھا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی جگہ بتائی جس کے متعلق کہا جائے کہ یہاں کے لوگ احمدیت کی تعلیم کو قبول نہیں کرسکتے۔ پس مَیں اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مَیں یہ تو ماننے کے لیے تیار ہوں کہ یہاں کے لوگ تبلیغ نہیں کرتے مگر یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہاں کے رہنے والوں پر تبلیغ اثر نہیں کر سکتی۔کیونکہ ان میں سے ایک بات ماننے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آتا ہے اور خدا تعالیٰ پر بھی حرف آتا ہے کہ اُس نے اِس علاقہ کی فضا ایسی بنا دی کہ کوئی شخص مسیح کو مان ہی نہیں سکتا۔اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کے لوگ تبلیغ نہیں کرتے تو اس کا الزام کوئٹہ کی جماعت پر آئے گا۔ اور یہ سیدھی بات ہے کہ اگر کسی بات کی دو تاویلیں ہوں اور سوال یہ پیدا ہو کہ ان میں سے کس کو مانا جائے ایک سے خدا تعالیٰ پر اعتراض پڑے اور دوسری سے جماعت کو مجرم ٹھہرانا پڑے تو کون بیوقوف ہو گا جوخدا تعالیٰ کو مجرم ٹھہرائے گا؟ لازمی بات ہے کہ وہ جماعت کو ہی مجرم ٹھہرائے گا۔
احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ! میرے بھائی کو دست آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور اُس کو شہد پلا دو۔ وہ دوسری دفعہ آیا اور اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!میرے بھائی کے دست بڑھ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اُسے اَور شہد پلا دو۔ تیسری دفعہ وہ پھر آیا اور اس نے کہا یارسول اللہ! میرے بھائی کے دست اَور بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام سچا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ2تو مَیںاسے غلط کس طرح مان سکتا ہوں۔3 اب دیکھو یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو انسان روحانی نگاہ سے ہی مان سکتا ہے جسمانی نگاہ سے نہیں۔ ورنہ دست تو اُسے آ رہے تھے پھر اُس کا پیٹ کیسے جھوٹا ہو گیا۔ روحانی نگاہ سے تو ہم اِس کو ضرور مان لیں گے مگر جسمانی عقل اِس کو نہیں مان سکتی۔ بلکہ اس واقعہ میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نکال دو اور پھر کسی کو یہ قصہ سناؤ تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص کوئی سخت لفظ منہ سے نکال دے اور کہہ دے کہ یہ بات خلافِ عقل ہے۔ لیکن چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساتھ ہوتا ہے اِس لیے لوگ مسلمانوں کے جذبات کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں مگر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اِس کی مادی تعبیر کر سکتا ہوں۔ بے شک ہم روحانیت کی نگاہ سے تو اِس بات کی صداقت کو ثابت کر دیں گے اور یہ بات سچی ہے ہم روحانیت کی نگاہ سے آپ کی بات کی معقولیت کو بھی ثابت کر دیں گے مگر جہاں تک دنیوی مادی دلائل کا سوال ہے دشمن کو جواب دینا ہمارے لیے مشکل ہو گا۔ اب دیکھو یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ ایک شخص کو شہد پلایا جاتا ہے اور اُس کے دست کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں کسی تاویل یا تشریح کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ایک سے زیادہ افراد کا بھی سوال نہیں۔ یہ بھی صاف طور پر نظر آ رہا تھا کہ اسے شہد سے فائدہ نہیںہوا بلکہ بظاہر نقصان ہی ہوا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسے موقع پر جہاں بظاہر انسانی عقل اس شخص کی تائید کرتی تھی جس کے دست بڑھ گئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ جاؤ تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے تو مجھ سے یہ کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ مَیں کوئٹہ کی جماعت کو سچا مان لوں گا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات کو غلط کہہ دوں گا۔ یہاں مثال بھی موجود ہے کہ ایک شخص نے بیعت کی۔ گویا یہاں واقعات نتیجہ کی تائید میں ہیں۔ مگر وہاں واقعات اس نتیجہ کی تائید میں نہیں تھے مگر پھر بھی آپؐ نے خدا تعالیٰ کے کلام کو ہی سچا قرار دیا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ فرمایا وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ درست نہیں تھا ۔ جو کچھ آپ نے فرمایا وہی درست تھا لیکن ظاہری واقعات اور باطنی امور میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ بسااوقات ایک چیز ظاہر میں بُری ہوتی ہے لیکن باطن میں اچھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کو ہی دیکھو ایک شخص کو دست آتے ہیں وہ آ کر ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ مجھے دست آتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اسے کسٹرائل دے دو یا منگنیشیا دے دو۔ اس سے دست اَور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اِس پر وہ پھر شکایت لے کر آتا ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے اسے منگنیشیا کی اَور ڈوز دے دو۔ڈاکٹر جانتا ہے کہ دستوں کا سبب غذا کی سڑانڈ تھی۔ جب تک سڑانڈ نکالی نہ جائے گی دست بند نہیں ہوں گے۔ اس طرح گو دست بڑھ جائیں گے مگر دستوں کے بڑھنے سے ہی دست رُکنے لگیں گے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے تو اِس کے معنے درحقیقت یہی تھے کہ تیرے بھائی کا علاج تو ہو رہا ہے مگر تم یہ سمجھتے ہو کہ علاج نہیں ہو رہا۔ تم یہ شکایت کرتے ہو کہ تمہارے بھائی کے دست بڑھ رہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ دستوں کے بڑھنے سے ہی اس کے دست بند ہوں گے۔
غرض ہماری جماعت کا سب سے پہلا فرض اپنے نفس کی اصلاح ہے اور نفس کی اصلاح کے بعد خدمتِ خلق ہے جس میں سے مقدم چیز تبلیغ ہے۔ بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ دعوٰی کریں کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہو گی اور دوسری طرف دنیا کو فتح کرنے کا جو ایک ہی ذریعہ ہے یعنی اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اُس کی طرف توجہ نہ کریں۔دنیا کی فتح کے یہ معنے تو نہیں کہ دس بیس آدمی ڈنڈے لے کر کھڑے ہو جائیں گے اور دو ارب کی دنیا پر حکومت شروع کر دیں گے۔ دنیا کی فتح کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کی دو ارب آبادی میں سے کم از کم سَوا اَرب احمدی ہو جائیں۔اور یا پھر ان لوگوں کو اگر ہم تبلیغ نہیں کرتے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ احمدیوں کو اِتنی طاقت حاصل ہو جائے گی اور ساتھ ہی وہ اِتنے ظالم بن جائیں گے کہ وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کو تلف کر کے اُن پر جابرانہ اور ظالمانہ حکومت کرنی شروع کر دیں گے ۔ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو مار ڈالے اور صرف احمدی ہی دنیا میں باقی رہ جائیں۔ آخر ہم اگر تبلیغ سے کام نہیں لیتے اور ساتھ ہی یہ امید رکھتے ہیں کہ دنیا پر غالب آجائیں گے تو سوائے اِن دو باتوں کے ہم دنیا پر غالب ہی کس طرح آ سکتے ہیں۔ دنیا پر غالب یا تم تبلیغ کے ذریعے آ سکتے ہو اور یا پھر دنیا پر غالب آنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم ایٹم بم کی ایجاد کر لیں اور لوگوں کو ایسا ڈرائیں کہ ہمارے چند لاکھ آدمیوں کے سامنے سب لوگ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور جو حکم ہم اُنہیں دیں وہ مان لیں۔گویا دوسرے لوگ وحشی اور جانور بن جائیں گے اور ان کی انسانی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور ہم اُن پر ایسے چھا جائیں گے جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر چھا جاتا ہے۔ کیا یہ وہی دنیا ہے جس کا قرآن مجید اپنے مومن بندوں سے وعدہ کرتا ہے؟ اور کیا یہی وہ دنیا ہے جس میں خدا کی بادشاہت قائم ہو گی؟ یہ خدا کی بادشاہت نہیں شیطان کی بادشاہت ہو گی۔ غرض جب ہم کہتے ہیں کہ احمدیت دنیا پر غالب آ جائے گی تو یقیناً اِس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ہمیں ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ سب لوگ چُوہڑوں اور چماروں کی طرح ہمارے ڈنڈے کے ڈر سے ہمارے سامنے ہاتھ جوڑتے پھریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقیناً ظالمانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے۔ ہم یقیناً جابرانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے۔ ایسی حکومت جو نمرود اور شدّاد کی حکومت کو بھی مات کرنے والی ہو گی مگر خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کو اِس غرض کے لیے دنیا میں نہیں بھیجا کرتا۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسی بیماری پڑ جائے جس سے سارے غیراحمدی مرجائیں اور اِسی طرح سارے ہندو، سکھ اور غیر مذاہب والے مر جائیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم تو بلوچستان کو بھی آباد نہیں کر سکتے جس کی آبادی بہت ہی کم ہے۔ ہمارے احمدی دو تین لاکھ ہیں مگر بلوچستان کی آبادی دس بارہ لاکھ کے قریب ہے۔ اگر ساری قومیں مر جائیں اور احمدی ہی زندہ رہ جائیں تو یہ بلوچستان بھی ویران نظر آنے لگ جائے گا۔ اگر ہم کہیں کہ چلو باقی بلوچستان چھوڑ دو ہم صرف پاکستانی بلوچستان کو ہی آباد کر لیں گے تو پاکستانی بلوچستان کی آبادی بھی چار لاکھ ہے۔ اِس میں بھی صرف دوتین لاکھ احمدی آباد ہوں گے باقی سارا بلوچستان خالی پڑا ہو گا۔ اِسی طرح سب کا سب چین، جاپان، انڈونیشیا، انگلستان، فرانس، امریکہ اور دوسرے ممالک بالکل ویران اور اُجاڑ ہو ں گے۔ شیر اور چیتے ہر جگہ پھر رہے ہوں گے اور ہم دنیا کے ایک گوشہ میں بیٹھے اس بات پر خوش ہوں گے کہ ہم نے ساری دنیا فتح کر لی۔مگر کیا یہ مقصد کوئی اعلیٰ درجہ کا مقصد ہے؟
پھر کیا چیز رہ جاتی ہے جس سے ہم دنیا کو فتح کر سکتے ہیں؟ وہ یہی چیز ہے کہ تم لوگوں کو احمدی بناؤ اور احمدیت کی تبلیغ اپنے پورے زور کے ساتھ کرو۔ یہی ایک معقول چیز ہے جوروحانی بھی ہے اور جسمانی فائدہ بھی اس سے حاصل ہوتا ہے اور جس سے دنیا کو حقیقی معنوں میںسُکھ اور آرام میسر آ سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اِس کے لیے کیا کوشش کی ہے؟ بے شک نفس کی اصلاح بھی ایک ضروری چیز ہے مگر دوسرا قدم تبلیغ کا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا میں مومن ہی مومن نظر آئیں اور یہ دنیا مومنوں سے آباد ہو تو اِس کا یہی ایک طریق ہے کہ تبلیغ کرو اور لوگوں کو احمدی بناؤ۔ اگر ہم تبلیغ نہیں کرتے تو پھر اِس دنیا کا فائدہ ہی کیا ہے۔ پھر خدا نے کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا؟ کیوں قرآن مجید نازل کیا؟ اور کیوں لوگوں تک اسلام کی تعلیم پہنچانا ہم پر فرض قرار دیا؟ پھر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت صرف آدم کی سی رہ جاتی ہے جو چند آدمیوں کو ابتدائی انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے لیے آیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا ہے کہ تیری حکومت ساری دنیا پرہے اور تجھے تمام دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت تو اِسی طرح واضح ہو سکتی ہے کہ دنیا کا ایک بڑا طبقہ آپ کو ماننے والا ہو۔ اور یا پھر دوسرے لوگوں کو خدا تعالیٰ ختم کر دے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعدے خدا تعالیٰ نے کیے ہیں اُن کی عظمت اور اہمیت اِسی طرح ظاہر ہو سکتی ہے کہ ہم ایک وسیع دنیا کو احمدی بنا لیں۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو وعدے کیے گئے ہیں اُن کی عظمت اور اہمیت بھی اِسی طرح ظاہر ہوسکتی ہے کہ ہم ایک وسیع دنیا کو احمدی بنا لیں۔ اگر اِس کے علاوہ ہم کوئی اور ذریعہ اختیار کرتے ہیں تو اُس کا سوائے اِس کے کوئی اَور مفہوم نہیں ہو سکتا کہ یا تو اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی ایسا ایٹم بم دے دے جس سے ڈر کر ساری دنیا چُوہڑوں اور چماروں کی طرح ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو جائے اور یا پھر ساری دنیا مر جائے صرف احمدی ہی احمدی باقی رہ جائیں اور ہم رات اور دن اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے اِس ڈر سے اندر بیٹھے رہیں کہ شیر اور چیتے ہم پر حملہ نہ کر دیں اور ہمیں چِیر پھاڑ کر نہ کھا جائیں۔ یہ دونوں دنیائیں ایسی ہیں جنہیں انسانی عقل نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔صرف اور صرف ایک ہی دنیا ہے جس کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میںقائم ہو جائے، قرآن کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے، اسلام کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے، احمدیت کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے۔ اور دنیا کی اکثریت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے۔ اور یہ سلسلہ اِس طرح بڑھتا چلا جائے یہاں تک کہ دنیا کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں خدائے واحد کی عبادت کی جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے لوگ پیدا ہو جائیں"۔
(الفضل 8جولائی 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
المائدۃ:106
2
:
النحل:70
3
:
ترمذی ابواب الطب باب ماجاء فی التداوی بِالْعَسْلِ


اگر موجودہ حالات ہم کو بیدار نہیں کر سکے
تو کونسی چیز ہمیں بیدار کرے گی
(فرمودہ18جون 1948ء بمقام ناصر آباد سندھ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے پچھلے سفر پر بھی جماعت کو اِس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری زمینداریاں ملک کے کنارہ پر واقع ہیں اور ملکی حالات روزبروز زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہمارے کارکنوں کو پوری طرح تیار ہو جانا چاہیے تا ان حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ کم از کم بندوق کا چلانا ہر شخص کو سکھایا جائے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی اور کسی قسم کی تیاری نہیں کی گئی۔ نہ تو بندوق چلانے کی کوئی ٹریننگ دی گئی ہے اور نہ ہی بندوقوں کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔ اگر فی سٹیٹ ایک ایک بندوق بھی ہوتی تو ہفتہ میں دو دفعہ تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے ٹریننگ دی جا سکتی تھی۔ اگر اِس طرف تھوڑی سی بھی توجہ دی جاتی تو اب تک کافی آدمی تیار کیے جا سکتے تھے۔ لیکن اِس وقت ہمارے پاس سَو میں سے دس آدمی بھی ٹرینڈ نہیں۔ اگر ہم سو میں سے دس آدمی کو بھی ٹرینڈ کر لیتے تو وہ دس آدمی دوسرے نوّے آدمیوں کو تیار کر سکتے تھے۔ اوریہ دس آدمی اگر مر جاتے تو دوسرے نوّے آدمیوںکو قدرتی طور پر یہ احساس ہو جاتا کہ ہمارے دس بہادر مر گئے ہیں ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چل کر بہادر بننا چاہیے۔ پھر یہ دس آدمی باقی نوّے آدمیوں کو بزدلی دکھانے سے بھی روک سکتے تھے کیونکہ بزدل آدمی اِسی خیال میں رہتا ہے کہ دوسرے بھاگیں تو وہ بھاگے۔ بھاگنے میں خود پہل نہیں کرتا۔ پھر بزدل بننے میں زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بزدل بننے میں اپنی خودداری کو چھوڑنا پڑتا ہے، عزت و ناموس کو چھوڑنا پڑتا ہے، اپنی قوم کو چھوڑنا پڑتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، زیادہ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل میں جو آدمی سب سے زیادہ بزدل ہو گا وہی سب سے زیادہ بہادر ہو گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ا گر اُس نے بزدلی دکھائی تو وہ اپنے رشتہ داروں کو منہ نہیں دکھا سکے گا، اپنے دوستوں اور واقف کاروں کو منہ نہیں دکھا سکے گا، وہ اپنے گاؤں کے رہنے والوں کو منہ نہیں دکھا سکے گا بلکہ وہ اپنے بچے کو بھی منہ نہیں دکھا سکے گا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر اُس نے بزدلی دکھائی تو یہ اُس کے لیے بدنامی کا موجب ہو گا، اُس کے خاندان کے لیے بدنامی کا موجب ہو گا۔ لیکن باوجود اِس کے وہ اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ ایک رنگ کی بہادری اُس میں بھی پائی جاتی ہے۔ بلکہ اپنے رنگ میں اُس کی بہادری بہت زیادہ ہے۔
پٹھانوں میں ہوا کا خارج ہونا بہت بُرا سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی اِس کی پروا بھی نہیں کرتے۔ لیکن ایک پٹھان کی کسی مجلس میں ہوا خارج ہو جائے تووہ ساری عمر کسی کو منہ نہیں دکھا سکتا۔ کہتے ہیں کہ ایک پٹھان کی کسی مجلس میں ہوا خارج ہو گئی تو شرم کے مارے وہ کہیں چلا گیا اور ایک لمبے عرصہ تک گاؤں میں نہ آیا۔ دس بیس سال کے بعد جب اُسے گھر جانے کا خیال پیدا ہوا تو وہ اپنے گاؤں گیا۔ اُس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے تک گاؤں سے باہر رہا ہے اِس لیے گاؤں والے وہ بات بھُول گئے ہوں گے۔ وہ گاؤں گیا اور اپنے گھر کی دیوار کے ساتھ کان لگا کر کھڑا ہو گیا تا وہ باتیں سُن سکے جو اندر ہو رہی ہیں۔ اِتنے میں اُس کے بچے نے کوئی بات کی جس پر اُس کی اماں نے کہا چل دیّوث کہیں کے۔تُو اُسی کا ہی بچہ ہے جس کی مجلس میں ہوا خارج ہو گئی تھی۔ یہ بات سن کر وہ واپس چلاآیا اور اندر جانے کی جرأت نہ کی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ غرض بزدلی دکھانے کے لیے بھی کافی ہمت کی ضرور ت ہوتی ہے۔ حقیقت میں بزدل دلیر ہوتا ہے اوربزدل بہادری کے ہی غلط استعمال کا نام ہے۔ ایک بزدل آدمی اپنی قوم کے خلاف جرأت کرتا ہے، اپنی عزت و آبرو اور نیک نامی کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اپنی ساری قوم کے ہوتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جب بُزدل بھی بہادر ہوتا ہے توبہادر تو خود بہادر ہوتا ہے۔ اگر اُسے ٹریننگ دی جائے اور اِس طرح ٹریننگ دی جائے کہ وہ دوسرے کو بھی ٹرینڈکر سکے تو یہ قوم کے لیے بہت مفید ہو گا۔ اب توہندوستان میں بھی بندوقیں بننے لگ گئی ہیں اور ایک نالی والی بندوق سَو سَواسَو تک مل جاتی ہے۔ اکثرزمیندار بڑے شوق سے گھوڑیاں رکھتے ہیں۔ اِسی طرح اگر وہ کوشش کریں تو بندوق بھی خرید سکتے ہیں ۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اُنہیں ٹریننگ دی جائے تو اُنہیں بندوق رکھنے کی خواہش بھی پیدا ہوجائے گی۔ افسرانِ متعلقہ سے تعلق پیدا کر کے لائسنس بنوائے جائیں۔ سرحدی علاقوں کے لیے تورائفلوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اِس لیے سٹیٹوں کے افسروں کو چاہیے کہ وہ رائفلیں خریدیں۔ رائفل ہندوستان میں ہزار بارہ سَو کی آ جاتی ہے اور اگر باہر سے منگوائی جائے تو اِس پر چار پانچ سو سے زیادہ خرچ نہیں آتا۔ اِس زمین سے ہمیں پہلے بھی کچھ پلّے نہیں پڑتا۔ ہر سال یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ اب معاف کر دو آئندہ کام اچھا ہو گا۔ اس کے سوا اَور کچھ نہیں ہوتا۔ تحریک کی زمین پر 18 لاکھ سے زیادہ خرچ آ چکا ہے لیکن حرام ہے کہ ایک پیسہ بھی تحریک کو حاصل ہو ا ہو۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ اب اگر رائفلیں اور بندوقیں خریدنے پر کچھ مزید خرچ کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر اسلام کی عظمت قائم ہو جائے ، احمدیت کی عظمت قائم ہو جائے ، تمہاری جانیں بچ جائیں اور تمہاری آبروئیں اور عزتیں بچ جائیں تو یہ خرچ اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر کوشش کی جائے تو یہ کام ہو سکتا ہے مگر جماعت نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور اِس میں بہت سُستی برتی ہے۔ فی سٹیٹ اگر دو یا دو سے زیادہ رائفلیں ہو جائیں تو پندرہ بیس رائفلیں ہو جاتی ہیں اور پھر ایک حد تک دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پندرہ بیس رائفلوں کے ساتھ تین چارسَو کا لشکر بڑی آسانی کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔ پھر مومن اگر حقیقی مومن ہو تو دووسرے کی رائفل بھی چِھین سکتا ہے۔ کشمیریوں کو ہی دیکھ لو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا جو کچھ بھی اُن کے پاس ہے اُنہوں نے دشمن سے ہی چِھین کر لیا ہے۔
مجھے ایک واقعہ یادہے کہ ایک جگہ پر کشمیریوں کی دشمن سے لڑائی ہو گئی۔ دشمن پانچ رائفلیں چھوڑ کر بھاگ گیا اور وہ رائفلیں کشمیریوں کے ہاتھ آئیں۔ اِسی طرح کسی جگہ سے پانچ رائفلیں ہاتھ آئیں اور کسی جگہ سے دس دس، بیس بیس رائفلیں اُن کے ہاتھ آئیں اور کئی جگہوں پر تو اُنہوں نے اِس سے بھی زیادہ ہتھیار دشمن سے چھِین لیے۔ کئی توپیں، مشین گنیں اورسٹین گنیں اُن کے ہاتھ آئیں اور پھر آہستہ آہستہ خاص فوج ان کی تیار ہو گئی۔پس اگر پندرہ بیس رائفلیں مہیا کر لی جائیں تو ضرورت کے وقت اپنی طاقت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر سب لوگ ٹریننگ حاصل کر لیں اور منظم ہو جائیں تو دشمن اِس طرف منہ بھی نہیں کرے گا اور اگر اُس نے حملہ کیا تو وہ منہ کی کھائے گا۔
سکھوں نے جب قتل و غارت شروع کیا اُس وقت بھی ہم شور مچاتے رہے اور لوگوں کو جگاتے رہے لیکن وہ باوجود جگانے کے سوئے رہے۔ مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ اگر سکھوں نے اُن پر حملہ کر دیا تو وہ نعرہ تکبیر بلند کریں گے اور دشمن بھاگ جائے گا یا حکومت اُن کی مدد کرے گی۔ مگر یہ نعرہ ہائے تکبیر اُلٹے اُن پر ہی آ پڑے اور حکومت نے بھی اُن سے آنکھیں پھیر لیں۔ سکھوں کے پاس رائفلیں تھیں اور مسلمانوں کے پاس صرف نعرہ ہائے تکبیر۔ مگر نعرہ ہائے تکبیر بھی اُس وقت تک فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک کوئی عملی صورت اختیار نہ کی جائے۔
حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں یہ افواہ عام مشہور تھی کہ 15 جون کو دونوں ملکوں میں لڑائی ہو جائے گی۔ اصل میں دونوں ملکوں کے حالات بہت زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ کشمیر کا معاملہ جُوں جُوں لمبا ہوتا جاتا ہے لوگوں میں جوش بڑھتا جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا بدلہ ہم ان علاقوں سے لیں گے۔ پس لڑائی جتنی لمبی ہو گی اُتنا ہی لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف جوش پیدا ہو گا۔ ممکن ہے کہ عوام اپنے آپ سے باہر ہو کر کسی جگہ پر ہلّہ بول دیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کونسی جگہ پر ہلّہ بولیں۔ مثلاً جودھپور کو ہی لے لو۔ اگر جودھپور کی حکومت یہ کہہ دے کہ ہم اب کوئی بندوبست نہیں کر سکتے، ہم دشمن کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکتے تو تم کیا کر سکتے ہو۔ دشمن کی فوجیں بھی عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے لگ جائیں گی بڑوں کی کون پروا کرتا ہے۔ وہ بے شک اعلان پر اعلان کرتے رہیں مگر اُن کی سُنتا کون ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو صاحب بے شک کہتے رہیں کہ ایسا مت کرو، دوسرے لیڈر بے شک شور مچاتے رہیں ، گاندھی جی کی سکیم کو بے شک اُن کے سامنے رکھا جائے وہ اِس کی بھی پروا نہیں کریں گے۔ پچھلے فسادات میں عموماً لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ہم گاندھی جی کے ساتھ نہیں ہم تو اپنی قوم کے ساتھ ہیں۔ قوم جو کہے گی وہی ہم کریں گے۔ گاندھی جی کی بات ہم ماننے کے لیے تیار نہیں۔ غرض عوام اور چھوٹے حکام کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو وہ ایسے وقت میں بالکل متحد ہو جائیں گے اور اسے اپنے اوپر ایک قومی فرض سمجھیں گے۔ فوج عوام کے ساتھ مل جائے گی اور اِس بات کی پروا نہیں کرے گی کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو یا دوسرے لیڈر اُنہیںکیا حکم دیتے ہیں۔ لیڈروں کو تو بعد میں بھی منایا جا سکتا ہے۔ مہاراجہ سے بعد میں بھی معافی مانگی جا سکتی ہے۔ مگر قومی فرض کو پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا۔
پس جہاں تک ہو سکے اِس علاقہ کے لوگوں کو بہت جلد تیار ہو جانا چاہیے۔ اِس علاقہ کی توریل بھی ہمارے قبضہ میں نہیں۔ حکومت پاکستان نے ابھی اُسے نہیں خریدا۔ وہ جس وقت چاہیں اُسے روک سکتے ہیں۔ دشمن اگر اپنی فوجیں یہاں بھیجنا چاہے تو اُسے ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں جوپاکستان کو حاصل نہیں۔ دشمن کی فوجیں گاڑی کے ذریعہ یہاں آ سکتی ہیں۔ مگر پاکستانی فوجوں کو حیدر آباد سے آگے پیدل چل کر آنا پڑے گا۔ پھر دشمن گاڑی سے اَور بھی زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دشمن کی فوجیں گاڑی میں بیٹھ کر اردگرد کے علاقہ پر فائر کر سکتی ہیں اور خود محفوظ رہ سکتی ہیں اور اردگرد کے علاقہ کو خالی کراسکتی ہیں۔ پس یہاں کے لوگوں کو بہت جلد بیدار ہو جانا چاہیے اور فوجی ٹریننگ حاصل کرنی چاہیے۔ تمہیں تو بیدار کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی تمہیں تو خود اِس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ تمہاری اپنی بیٹی اگر سکھوں کے ساتھ نہیں گئی تو تمہاری بھتیجی اور بھانجی سکھوں کے ساتھ گئی ہو گی یا تمہارے بھتیجے اور بھانجے کی بیٹی سکھوں کے ساتھ گئی ہو گی۔ اگر تمہارے خاندان کی کوئی لڑکی سکھوں کے ساتھ نہیں گئی تو تمہارے گاؤں کی کوئی لڑکی اُن کے ساتھ گئی ہو گی۔ تمہارے ساتھ والے گاؤں کی لڑکیوں کو سکھ اُٹھا کر لے گئے ہوں گے۔ غرض کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں کی لڑکیاں سکھ اُٹھا کر نہیں لے گئے۔ اِن حالات کو دیکھ کر ہر مسلمان کی غیرت کو جوش میں آ جانا چاہیے تھا۔ اِن حالات کو دیکھ کر ہر مسلمان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے اوپر سپاہی بننا فرض کر لیتا اور اُس وقت تک دم نہ لیتا جب تک آئندہ کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو خطرہ سے محفوظ نہ کر لیتا۔ مسلمانوں میں یہ احساس خودبخود پیدا ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا؟ وہ دوسروں کے سمجھانے سے بھی نہیں سمجھے۔ وہ تین تین ،چار چار ایکڑ زمین پر تسلی پا گئے ہیں اور آپس میں لڑائیاں ہو رہی ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں زمین کیوں مل گئی؟ وہ مجھے ملنی چاہیے تھی۔ اُنہیں تو چاہیے تھا کہ وہ اپنی اور اپنی قوم کی عزت کی طرف زیادہ توجہ کرتے اور اپنا مقصد ِزندگی یہ مقرر کرتے کہ وہ ظالم کو آئندہ ظلم نہیں کرنے دیں گے اور امن و انصاف کو دنیا میں قائم کریں گے۔ نہ یہ کہ تین تین، چار چار ایکڑ زمین پر تسلی پا جاتے یا اِدھر اُدھر سے سامان اکٹھا کرنے کی فکر میں لگے رہتے۔
ہماری جماعت تو کوئی معمولی جماعت نہیں۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ ہماری جماعت زندہ اور بیدار جماعت ہے۔ اِسے ایسے احساسات سے بالا ہونا چاہیے۔ اگر ہم اب تک بیدار نہیں ہوئے تو وہ کونسی اَورچیز ہو گی جو آ کر ہمیں بیدار کرے گی۔ ہم نے دنیا کے دلوں کو فتح کرنا ہے تو بیداری سے فتح کرنا ہے۔ ہم نے دوسرے لوگوں میں عقل سے کام لینے کا احساس پیدا کرنا ہے، محنت اور قربانی کرنے کا احساس پیدا کرنا ہے اور جب ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تبھی ہم خدا کے فضلوں کے وارث ہوں گے اور تبھی ہم اُس کے فضل کو جذب کر سکیں گے"۔ (الفضل 28جولائی 1948ئ)








سب دولت خدا کی طرف سے ہی آتی ہے
پس اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل نہ کرو
رمضان کے مہینے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو
(فرمودہ2جولائی 1948ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے گزشتہ جمعہ میں جو یہاں پڑھایا تھا جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اگرچہ یہاں کی جماعت زیادہ منظم ہے اور یہاں کی جماعت کے کارکن زیادہ ہوشیار ہیں مگر تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں دی گئی۔ اِس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مجھے نماز کے بعد بتایا گیا تھا کہ جماعت نے اِس طرف بھی توجہ دی ہے اور یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ امید ہے کچھ افراد قریب میں بیعت بھی کر لیں۔ لیکن میری اِس سے تسلی نہیں ہوئی کیونکہ جس سُرعت کے ساتھ ہماری جماعت نے آگے بڑھنا ہے اس سُرعت کے ساتھ ہماری موجودہ جدوجہد کو کوئی نسبت نہیں۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جہاں جماعت کے اَور محکموں میں اچھی چُستی پائی جاتی ہے وہاں چندہ میں بھی کافی سرگرمی دکھائی گئی ہے۔ خطبہ کے بعد یہاں کی جماعت کے فنانشل سیکرٹری (قاضی شریف الدین احمد صاحب) مجھے ملے۔ جو فنانشل سیکرٹری مَیں نے اب تک دیکھے ہیں اُن میں سے وہ سب سے زیادہ ہوشیار اور زیادہ مستعد معلوم ہوئے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ صحیح طور پر کام کرنے والے ہیں۔ مَیں نے ان پر جرحیں بھی کیں اور بتایا کہ حسابات کو اِس طرح بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ شروع میں وہ رُکے۔ بعد میں اپنی کاپی نکال کر رکھ دی اور بتایا کہ مَیں نے حسابات کو اِس طرح بھی پرکھا ہے۔ حسابات میں اگرچہ بہت سی خامیاں اب بھی ہیں مگر پھر بھی اُنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا ہے اور نہ صرف محنت سے کام کیا ہے بلکہ عقل سے بھی کام کیا ہے۔ دنیا میں ہزارہا آدمی ایسے ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں، لاکھوں ایسے ہوتے ہیں جو پوری کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں مگر اُن کی سب کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ اُن کی محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ مگر ایک اَور شخص آتا ہے وہ ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن کو روشنی مل جاتی ہے اور وہ اُس کام کو صحیح طور پر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح یہاں کے فنانشل سیکرٹری نے عقل سے کام لے کر کام کو مکمل کر نے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہے۔ بعض احباب نے صحیح تشخیص اپنی آمد کی نہیں بتائی۔ بہرحال انہوں نے کوشش کی ہے۔ اگر وہ مزید کوشش کریں اور احباب جماعت اُن کے ساتھ تعاون کریں تو یقیناً کوئٹہ کا یہ محکمہ اپنے رنگ میں باقی جماعت کے لیے مثال بن جائے گا۔
پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُنہیں اِس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ تمام افرادِجماعت پر واضح کر دیں کہ صرف ظاہری طور پر چندہ کا بڑھا دینا عزت کا موجب نہیں مثلاً ایک شخص کی آمدن سو روپیہ ہے اور وہ چالیس روپے بتاتا ہے اور اپنی آمد کا پچاس فیصدی چندہ دیتا ہے۔ یہ مخلص ترین انسان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہو گی کہ اس نے چالیس میں سے بیس دئیے اور اس کی آمد چالیس نہ تھی بلکہ سَو تھی اور سَو میں سے بیس دینے کے معنے یہ ہوئے کہ اس نے بیس فیصدی چندہ دیا ۔ اسے چاہیے تھا کہ سَو میں سے پچاس چندہ دیتا۔ اور یا پھر کہہ دیتا کہ وہ بیس فیصدی چندہ دے گا اور یہ اُس کے لیے زیادہ مناسب ہوتا۔ ایسا کرنے والا شخص، انسان کو دھوکا دے سکتا ہے مگر خدا جو عالم الغیب ہے اُسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ انسانی معلومات ناقص ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چندہ دینے والا زیادہ چست اور چالاک ہو، زیادہ تیز اور تند ہو۔ وہ چندہ لینے والے سے بِگڑ بیٹھے اور کہے کہ جو مَیں کہتا ہوں وہ صحیح ہے ہم اُس کی بات مان لیں۔ پھر وہ پھسلنے والا بھی ہو سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ہم اُس کے گھر بیس دفعہ جائیں ، دوسَو پھیرے ڈالیں اور وہ ہر پھیرے پر کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دے۔ اِن پھیروں سے بچنے کے لیے اور اس لیے کہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو ہم اُس پر اعتبار کر لیتے ہیں اور وہی آمد سمجھ لیتے ہیں جو وہ بتاتا ہے اور اُسی کے مطابق چندہ لے لیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہو سکتی ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا جو عالم الغیب ہے وہ بھی حقیقت کو نہ جانتا ہو۔ چندہ کا بدلہ فنانشل سیکرٹری صاحب نے نہیں دینا بلکہ وہ تو اس کے ہزارویں حصہ کا بھی بدلہ نہیں دے سکتے۔ فنانشل سیکرٹری صاحب کی آمد زیادہ سے زیادہ دوتین سَو ہو گی اور چندہ بیس تیس ہزار ہے اور دس سال میں یہ چندہ لاکھوں تک جا پہنچتا ہے۔ بلکہ ناظربیت المال میں بھی یہ طاقت نہیں کہ وہ چندہ کا بدلہ ادا کر سکے۔ صدر انجمن احمدیہ بھی اِس کا بدلہ ادا نہیں کر سکتی۔ مَیں بھی اِس کا بدلہ ادا نہیں کر سکتا۔ غرض چندے کا بدلہ خدا نے دینا ہے اور خدا کو یہ پتہ ہے کہ اس شخص کی آمد سو تھی چالیس نہیں تھی۔ اگر تو اِس کا خدا کو بھی پتہ نہیں تب تو ایک حد تک گزارہ ہوسکتا ہے لیکن خدا کو اگر اِس کا پتہ ہے اوروہ ہماری سب باتوں کو جانتا ہے تو وہ یقیناً اِس کا محاسبہ کرے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کام بھی کرو احتساباً کرو اور یہ سمجھ کر کرو کہ اِس کا بدلہ خدانے دینا ہے ۔اور خدا عالم الغیب ہے تو ہماری کیا حالت ہو گی جب رجسٹر پیش ہوں گے تو ہم نے چالیس میں سے بیس چندہ لکھایا ہو گا لیکن ہماری وہ آمدن صحیح نہ تھی۔ ہماری صحیح آمدن سو تھی اور اس میں سے ہم نے بیس چندہ دیا۔ مگر ایک دوسرے شخص نے جس کی آمدن80 تھی اُس نے بھی بیس چندہ دیا اورپچیس فیصدی چندہ دینے کا وعدہ کیا۔ دیکھنے والے تو ہمیں مخلص ترین انسان سمجھیں گے اور واہ واہ کریں گے کیونکہ ہم نے چالیس میں سے بیس چندہ دیا۔ اسے کم ایمان والا کہیں گے۔ اس کا قصور یہی ہے کہ اس نے سچائی سے کام لیا۔ پس اگر سچ بولنا قصور ہے، اگر سچ بولنا جرم ہے، اگر سچ بولنا خطا ہے توواقعی 80 میں سے بیس دینے والے میں اخلاص کی کمی ہے۔ لیکن اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو اُس نے اپنی آمد کو صحیح دکھایا اور 80 میں سے بیس چندہ دیا۔ مگر ہم نے سو میں سے بیس دیئے اور آمدن کو کم دکھایا اور خدا تعالیٰ کا جُرم کیا۔ جھوٹ بولنا بھاری گناہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر فرمایا ہے کہ مومن جھوٹ نہیں بولتا۔ ایک شخص جھوٹ بول کر اپنی ساری کی ساری نیکی کو ضائع کر دیتا ہے۔دنیا میں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے گورنمنٹ ایک آدمی کو مالیہ اکٹھا کرنے کے لیے بھیجتی ہے وہ پچاس ہزار روپیہ اکٹھا کر کے لاتا ہے۔ لوگ نادہند تھے اس نے تحقیقاتیں کیں اور روپیہ وصول کر لیا۔ اِس طرح خزانہ میں روپیہ بڑھ گیا۔ لیکن بعد میں گورنمنٹ کو پتہ چلا کہ وہ ایک ہزار روپیہ کھا گیا ہے اُس نے غلط حساب پیش کیا ہے۔ پچاس ہزار روپے اُس نے اکٹھے کیے تھے جن میں سے ایک ہزار روپیہ وہ کھا گیا۔ اُس نے دیانت اور امانت کی قیمت کو نہ جانا۔انچاس ہزار روپیہ جمع کرائے اور ایک ہزار روپیہ خود کھاگیا۔ اب دیکھو یہ ایک ہزار روپیہ اُس کی تمام کوششوں کو باطل کر دے گا۔ گورنمنٹ اُسے ضرور سزا دے گی اور اُس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گی۔ یہ صحیح ہے کہ اُس نے کوشش کر کے اور محنت کر کے انچاس ہزار روپیہ جمع کر کے گورنمنٹ کے خزانہ میں داخل کرا دیا مگر ایک ہزار جو اس نے کھا لیاوہ باقی انچاس ہزار پر بھی پانی پھیر دے گا۔ اب اگر وہ یہ کہے کہ یہ روپیہ گورنمنٹ کو نہیں مل سکتا تھا مَیں نے کوشش کی اور انچاس ہزار روپیہ اکٹھا کر کے لے آیا۔ اب اس میں سے دو، چار، دس، بیس جتنا تم سمجھتے ہو کہ آ سکتا ہے کاٹ لو اور باقی کو میری پیدا کر دہ آمد سمجھ لو تو کیا کوئی بیوقوف سے بیوقوف مجسٹریٹ بھی اُسے صحیح مانے گا؟ اور کیا کوئی احمق سے احمق افسر بھی اسے درست مانے گا؟ پس اگر ایک دنیاوی گورنمنٹ اِس جھوٹ کو معاف نہیں کر سکتی تو پھر اللہ تعالیٰ جھوٹ کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اُس نے غلط آمد لکھوائی اور اُس نے پچاس فیصدی چندہ دینے کا وعدہ کیا جس سے لوگوں میں تحریک پیدا ہو گئی اور وہ بھی پچاس فیصدی چندہ دینے لگ گئے مگر خدا کو اِس سے کیا فائدہ پہنچا۔ اُس نے جھوٹ بولا اور گناہ کا ارتکاب کیا۔ گورنمنٹ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ اُسے فائدہ کی ضرورت ہے۔ اگر اُسے پچاس ہزار روپیہ نہ آتا تو اُسے نقصان ہوتا مگر خدا تعالیٰ کو فائدہ کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تم چندہ نہ دو تو اُسے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ تو ثواب کے لیے ہم سے نیک کام کرواتا ہے اور جب ثواب کا سوال آئے گا تو اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ تمہارے ساتھ کوئی رعایت کرے۔
اللہ تعالیٰ انسان کو اس طرح غیب سے دیتا ہے کہ اس کا اندازہ لگانا ہی ناممکن ہے اور نہ ہی اُس کا کوئی حساب کر سکتاہے۔ مَیںنے کئی دفعہ سوچا ہے کہ میری آمدن بہت کم ہے اور خرچ بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی خرچ چلتا چلا جاتا ہے۔ حساب سے اس کا ٹھیک پتہ نہیں چلتا۔ بعض دفعہ میں دو دو تین گھنٹہ تک حساب کرتا رہتا ہوں مگر پھر پریشان ہو کر اسے چھوڑ دیتا ہوں۔ بہرحال میرا خرچ چلتا جاتا ہے۔ اگرچہ آمد بہت ہی کم ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میرے پاس کچھ گندم تھی۔ میں اس میں سے کھاتی رہی اور کبھی اس کا حساب نہ کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اب کتنی گندم باقی رہ گئی ہے۔ ایک دن میں نے اس گندم کو نکالا اور اندازہ کیا۔ اس کے بعد وہ گندم دس دن میں ہی ختم ہو گئی1۔
اللہ تعالیٰ کے راہ بے انتہا ہیں۔ سب چیزیں اور مال و دولت اُس کے پاس ہے۔ زمین و آسمان اُس کے پاس ہے، اُس کا اربوں ارب حصہ بھی کسی کے پاس نہیں۔ پھر اُسے ہمارے چندوں کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو اِن ذریعوں سے ہمیں ثواب کا موقع عطا کرتا رہتا ہے ورنہ اُسے اِن کی ضرورت نہیں۔ ہزاروں ایسے امیر ہیں جو غریب ہو گئے اور ہزاروں ایسے غریب ہیں جو امیر ہو گئے۔ پرسوں اخبار میں بلغاریہ کے سابق بادشاہ کے متعلق چھپا تھا کہ ایک شخص جو بلغاریہ میں اُس کا مکان اور گلیاں صاف کیا کرتا تھا بلغاریہ سے امریکہ چلا گیا۔ وہاں اُس نے محنت سے کام کیا اور کوشش کی اور کچھ عرصہ کے بعد وہ لکھ پتی ہو گیا۔ اُس نے بادشاہ کو ایک خط لکھا۔ بعض لوگوں کو خط لکھنے کا شوق ہوتا ہے خواہ اُس سے کوئی فائدہ مدنظر ہو یا نہ ہو۔ ایسے لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ چلو ہمارے خط کا جواب آ جائے گا تو ہمارے پاس نشان کے طور پر رہے گا۔ بلغاریہ کے سابق بادشاہ نے اُس خط کا فوراً جواب لکھا کہ اُسے کھانے پینے کی سخت تکلیف ہے۔ اگر وہ شخص اُسے خوراک کا پارسل بھیج دے تو اُس کی بڑی مہربانی ہو گی۔ اخبار نے یہی سُرخی دی تھی کہ بادشاہ خاکروب سے بھیک مانگتا ہے۔ اب دیکھو وہ خاکروب ایک وقت میں گلیاں صاف کیا کرتا تھا اور یہ بادشاہ تھا۔ اب بادشاہ اُس خاکروب کو لکھتا ہے کہ اگر تم خوراک کا ایک پارسل مجھے بھیجو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔ کیونکہ میں اب بڈھا ہو گیا ہوں اور خوراک کم ملتی ہے۔
غرض بعض دفعہ بڑے سے بڑے آدمی کی حالت بھی گر جاتی ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی ترقی کرکے بڑا بن جاتا ہے۔وہ شخص بیوقوف ہوتا ہے جو اِس پر صدمہ کرتا ہے۔دہلی کے بادشاہوں کے بعض شہزادوں کو مَیں نے خود پانی پلاتے دیکھا ہے۔ ایک دفعہ مَیں دہلی گیا۔ ایک شخص گلیوں میں پانی پلا رہا تھا۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ یہ شہزادہ ہے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ یہ شہزادہ ہے۔ اُس نے کہا کہ مَیں جانتا ہوں اور مَیں اِس کا ثبوت بھی دے سکتا ہوں۔ اُس نے اُس شہزادے کو بلایا اور پانی مانگا۔ ہم نے پانی پیا۔ اُس وقت قاعدہ یہ تھا کہ سقّے پانی پلاتے تھے اور پھر کٹورا آگے کر دیتے تھے۔ قیمت مقرر نہیں ہوتی تھی۔ پانی پینے والا پیسہ دو پیسے اُسے دے دیتا تھا۔ پانی پینے کے بعد اُس دوست نے مجھے اشارہ کر دیا کہ اسے پیسہ نہ دینا۔ وہ شہزادہ تھوڑی دیر گردن اکڑا کے کھڑا رہا اور پھر چلا گیا۔ اُس دوست نے مجھے بتایا کہ احساسِ خودداری کی وجہ سے یہ مانگتا نہیں۔ صرف تھوڑی دیر کے لیے گردن اکڑا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور لَوٹ جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اگر تم نے میرا حق دینا ہے تو دے دو ورنہ مَیں مانگتا نہیں۔
ابھی دیکھ لو مشرقی پنجاب سے بعض لوگ ایسے آئے ہیں جن کا وہاں ہزاروں کا نقصان ہو گیا ہے۔ مگر وہ کسی سے مانگتے نہیں۔ اُن میں ہمت پائی جاتی ہے ،وہ کام کرنا چاہتے ہیں اور کسی سے مانگتے نہیں۔ نقصان جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُس نقصان کی وجہ سے اُن کے دل کی کیا حالت ہے۔ قادیان میں میری لاکھوں کی جائیداد تھی۔ میری کوٹھی دارالحمد کی موجودہ قیمتدس لاکھ تھی۔ اور پھر یہی جائیداد ہی نہیں تھی بلکہ اَور بھی جائیداد تھی۔ قادیان میں جائیدادوں کی قیمتیں یکدم بڑھ گئی تھیں اور اِس طرح ہمارے خاندان کی ایک کروڑ سے بھی زیادہ قیمت کی جائیداد تھی۔ لیکن مجھے ایک لمحہ کے لیے بلکہ ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ کے لیے بھی اس کا کبھی خیال نہیں آیا کہ میرا کوئی نقصان ہو گیا ہے۔ مجھے تو اِس کا احساس ہی نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کے سامنے ذکر کرنے سے شرم آتی ہے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ آخر ہمارا کونسا حق تھا اور ہم نے کونسی خدمت کی تھی کہ جس کے بدلہ میں خدا نے ہمیں یہ جائیداد دی، ہمارے باپ دادوں کی وجہ سے یہ جائیداد ہمارے ہاتھ آئی۔ خدا نے قادیان کو بڑھایا، لوگ ہجرتیں کر کے قادیان آ گئے۔ جائیداد کی قیمت بڑھ گئی اور اِتنی بڑھی کہ ہزار گُنا ہو گئی۔ میری کوٹھی دارالحمد بیس ہزار روپیہ میں تیار ہوئی تھی اور اُس کی زمین پچاس ہزار روپیہ کی تھی۔ اب اُس کی قیمت بیس ہزار سے دس لاکھ ہو گئی تھی۔ قادیان کے بعض ٹکڑوں کی قیمت بیس بیس ہزار روپے فی کنال ہم نے خود دی ہے۔ کیا یہ جائیدادیں ہم نے خود بنائی تھیں یا ہم نے خود خریدی تھیں؟ اُس خدا نے ہم کو یہ جائیدادیں دیں۔ اُسی نے بھاؤ بڑھا دئیے۔ اُسی نے گاہک بھیجے اور اِس طرح ہماری جائیداد کو کئی گُنا زیادہ کر دیا۔ ہمارا اِس میں کوئی دخل نہ تھا ۔دنیوی لحاظ سے تو مَیں اسے کچھ نہیں سمجھتا خواہ وہ جائیداد ہمیں واپس ملے یا نہ ملے۔ لیکن چونکہ قادیان ہمارا دینی مقام ہے، اس کی عظمت کی وجہ سے ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ جگہ ہمیں واپس مل جائے۔ ورنہ اگر نہ بھی ملے تو کوئی افسوس نہیں۔ مَیں تو یہ خیال کر رہا ہوں کہ جماعت میں تحریک کروں کہ اب اگر دوست واپس قادیان جائیں تو اپنی جائیدادیں وقف کر کے جائیں تا قادیان خالص مذہبی مقام ہو جائے۔ دنیا میں دولتیں آتی بھی ہیں اور جاتی بھی ہیں۔ انسانی عقل کا اِس میں چنداں دخل نہیں ہوتا۔ یہ تو خدا کا فضل ہے کہ وہ ہمیں دولت دیتا ہے۔ سب دولت محض خدا کی طرف سے آتی ہے۔ اگر کوئی اِس میں بخل سے کام لیتا ہے تو یہ اُس کی غلطی ہے۔ ہاں اگر کوئی بخیل ہے تو وہ معذور ہے۔ ایک شخص مانتا ہے کہ خدائی تحریکات کوئی چیز نہیں، اگلا جہان کوئی چیز نہیں اور جو خدا کہتا ہے وہ غلط ہے تو وہ معذور ہے۔ مگر جو اِن چیزوں کو مان کر بھی بخل سے کام لیتا ہے وہ غلطی کرتا ہے۔
پس میں یہاں کی جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جماعت کے فنانشل سیکرٹری سے تعاون کریں اور اُنہیں صحیح آمدنیں بتائیں تا ان کا حساب ٹھیک ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی آمد نہیں بتانا چاہتا تو پھر وہ سَو میں سے دس ہی دے۔ بیت المال والوں کو بھی اِس قسم کی ہدایات ملی ہوئی ہیں کہ وہ کسی کی آمدن کو ظاہر نہ کریں اور اُسے راز کے طور پر رکھیں۔ گورنمنٹ بھی اُسے راز کے طور پر رکھتی ہے۔ بنکوں کو لے لو۔ بنک کا حساب کسی دوسرے کو نہیں بتایا جا سکتا۔ ایک دفعہ ایک ذمہ دار افسر سے گفتگو میں یہ ذکر آ گیا کہ ایک شخص باہر سے فساد پیدا کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اُس کے پاس روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں بتاؤں کہ اُس کے پاس روپیہ کہاں سے آیا؟ فلاں شخص کو امریکہ سے روپیہ آتا ہے اور فلاں بنک میں جمع ہوتا ہے۔ وہاں سے وہ روپیہ باہر جاتا ہے اور اُس شخص تک پہنچتا ہے۔ مَیں نے بنک کا نام بھی بتایا۔ اُس نے بتایا کہ یہ سارے امکانات ہو سکتے ہیں۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات نہ تھی کہ دشمن کو ہمارے ملک میں سے ہو کر روپیہ جاتا ہے لیکن قرائن سے آپ کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ پھر بنک میں سے پتہ کر لو صحیح علم حاصل ہو جائے گا۔ اُس نے کہا کہ اکاؤنٹ ایک راز ہوتا ہے اور بنک بھی نہیں بتائے گا۔ پس اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس کی آمد راز میں رہے تو بیت المال والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اُسے راز میں رکھیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی صحیح آمدن نہیں بتاتا تو اس کے لیے کئی گنا بہتر ہوتا کہ وہ سَو میں سے دس چندہ دیتا۔ بجائے اس کے کہ وہ سَو کی بجائے چالیس آمد لکھوا کر اُس کا پچیس فیصدی وعدہ لکھواتا۔ یہ چیز اُس کی موجودہ نیکیوں کو ہی برباد نہیں کرتی بلکہ اُس کی پرانی نیکیوں کو بھی برباد کر دیتی ہے اور اُسے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ اگر وہ سو میں سے دس چندہ دیتا تو اُس کے لیے آگے بڑھنے کا بھی موقع نکل آتا اور وہ قربانی میں اَور ترقی کر سکتا۔ مگر جب وہ اپنے قول کے لحاظ سے آخری حد تک پہنچ گیا تو پھر وہ اس نیکی سے بھی محروم ہو جائے گا۔ کبھی بھی کوئی اُسے مزید قربانی کی تحریک نہیں کرے گا۔ لیکن اگر وہ سو میں سے دس دیتا تو پھر کبھی نہ کبھی اُسے اپنے چندہ میں زیادتی کرنے کا خیال آ جاتا اور وہ چندہ دس فیصدی سے زیادہ کر دیتا۔ لیکن اگر وہ پہلے ہی غلط آمدنی لکھا کر آخری حد تک پہنچ جاتا ہے تو چندے مانگنے والے جب اُس کے پاس پہنچیں گے تو وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ تو پہلے ہی آخری حد تک پہنچا ہوا ہے اِس کو نیک تحریک کی ضرورت ہی نہیں۔ایسا شخص تو یہ چاہتا ہے کہ فرشتے بھی اُس کے پاس نہ آئیں۔ لوگ تو یہ دھوکا کھا جائیں گے کہ جتنی وہ قربانی کر سکتا تھا اُس نے کر دی ہے مگر وہ ایسا کرنے سے خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ وہ 24 گھنٹے مصلّٰی پر ہی بیٹھا رہتا ہے تو اُسے مزیدعبادت کے لیے کیا کوئی تحریک کر سکتا ہے۔ دن میں 25 گھنٹے تو ہو نہیں سکتے اور نہ اِس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ پس جب وہ کہتا ہے کہ مَیں 24 گھنٹے مصلّٰی پر ہی بیٹھا رہتا ہوں تو پھر اُسے مزید عبادت کی تحریک کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر وہ غلط بات بتا دے گا تو اُسی کے ساتھی اور دوست بھی اسے کوئی مزید تحریک نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُس کے خیرخواہ اُسے نیکی کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ وہ یہ سمجھیں گے کہ یہ تو پہلے ہی قربانی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ اِسے اور کیا تحریک کریں۔ غرض اِس طرح وہ نیک تحریک سے بھی محروم ہو جائے گا اور دوستوں کو بھی اُس کے حالات ٹھیک کرنے اور درست کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ رمضان آنے والا ہے اور شاید اگلا جمعہ رمضان میں ہی آئے۔میں کوئٹہ اِس نیت سے آیا تھا کہ تا مَیں روزے رکھنے کے قابل ہو سکوں ۔مگر جب سے مَیں یہاں آیا ہوں میری طبیعت خراب ہے۔ سندھ میں مَیں بالکل اچھا رہا ہوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بیماریاں بھی آتی رہی ہیں مگر طبیعت میں طاقت تھی اور کام کرنے کو جی چاہتا تھا مگر یہاں یہ حالت ہے کہ مَیں بیٹھ کر کام نہیں کر سکتا۔ جی یہی چاہتا ہے کہ چارپائی پر لیٹا رہوں اور لیٹ کر ہی کام کروں۔ چارپائی سے اُٹھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔٭ لیکن تمہیں یہ چیز میسر ہے اور پھر یہاں سردی بھی ہے۔۔ باہر دوسرے علاقوںمیں تو شدت کی گرمی پڑتی ہے۔ اِس لیے تم پورے روزے رکھنے کی کوشش کرو تا اِس مبارک مہینہ سے پوری طرح فائدہ حاصل کر سکو۔
اکثر دفعہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ بہانے بنا کر روزے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں روزے کی عبادت کم ہے ۔ قادیان میں تو اَب یہ عبادت شروع ہو گئی ہے اور اِس کی طرف خاص توجہ دی جاتی ہے۔ مَیں نے قادیان والوں سے کہا تھا کہ اگر تم قادیان میں رہتے ہو اور دین کی خاطر رہتے ہو تو تمہیں اِس عبادت کی طرف خاص توجہ دینی چاہتے۔ کم از کم ہفتہ میں دو روزے تو رکھا کرو۔ ہمارے ایک دوست حافظ نور الٰہی صاحب مرحوم تھے۔ اُنہوں نے تو وہاں ہر روز روزہ رکھنا شروع کر دیا تھا۔ چونکہ بڑی عمر کے آدمی تھے مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے اُن کے دماغ میں نقص آ گیا اور وہ وہیں فوت ہو گئے۔ بہرحال ہماری جماعت میں روزے کی عبادت کی کمی ہے اور مَیں نے جہاں تک دوستوں سے گفتگو کی ہے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ پچھلے چُھوٹے ہوئے روزے بہت ہی کم رکھے جاتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جتنی توفیق تھی اُتنے روزے رکھ لیے۔ اب اگر کوئی روزہ رہ گیا ہے تو کیا ہوا۔ حالانکہ یہ ایک قرض ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی دائم المریض ہو یا اتنا کمزور ہو کہ وہ روزہ نہ رکھ سکے۔ لیکن اگر وہ دائم المریض نہیں اور نہ اتنا کمزور ہے کہ وہ اِس عبادت سے مستثنٰی ہو سکے اور پھر اس سے کچھ روزے چھُٹ گئے ہوں اور اس کے بعد اُس پر جوانی کے دن باقی رہے ہوں اور روزے رکھنے کی طاقت بھی باقی رہی ہو اور پھر روزے اُس نے پورے نہ کیے ہوں تو اُس کے لیے بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پچھلے کیے ہوئے گناہ کو اگلی عمر دُور کر دے۔ بڑھاپا اُس گناہ کو تو دور کر سکتا ہے جس سے پہلے بڑھاپا ہو لیکن اُس گناہ کو دور نہیں کر سکتا جو بڑھاپا آنے سے پہلے کیا گیا ہو اور پھر اُس پر کئی سال جوانی کے گزر چکے ہوں اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت باقی رہی ہو۔ ہاں اب وہ کمزور ہو گیا ہو یا بوڑھا ہو گیا ہو کہ وہ روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ایسے شخص کے گناہ پھر توبہ، کفارہ اور خدا کے سامنے ندامت کے اظہار سے ہی معاف ہوں تو ہوں یا شاید مختلف نیکیوں کی زیادتی اُسے معاف کرا دے لیکن بظاہر اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں۔ پس روزوں کے ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
مَیں نے کچھ عرصہ پہلے اِس بات پر زور دیا تھا کہ بچے روزے نہ رکھا کریں مگر اِس سے غلط مطلب لے لیا گیا ہے اور بچے کی تعریف بہت لمبی کر دی گئی ہے۔ گویا روزے حذف ہی کر دئیے گئے ہیں۔ 17 ،18 سال کی عمر کے بچے کو بھی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ابھی بچہ ہے اِس لیے روزے نہیں رکھ سکتا۔ حالانکہ روزوں کا زمانہ آٹھ نو سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے ایک دو روزے رکھے اور پھر اِسی طرح ترقی کرتا جائے۔ 14 ،15 سال کی عمر میں تو اِتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُسے ضرور روزے رکھنے چاہیں۔ ہاں بعض بچے اِس عمر میں بھی کمزور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اُن کے متعلق سرٹیفکیٹ دے سکتا ہے کہ اُنہیں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ بہرحال 15 ،16 سال کا بچہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اکثر روزے رکھ سکے یا سارے روزے رکھ سکے۔ 18 ،19 سال کی عمر میں تو اُس پر بلوغت کا زمانہ آ جاتا ہے۔ اُس وقت تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ وہ پورے روزے نہ رکھے۔ اگر کوئی اِس میں کوتاہی کرتا ہے یا کمزوری دکھاتا ہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اچھے بھلے آدمی روزے نہیں رکھتے اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ روزے رکھنے سے پیچش لگ جاتی ہے۔ حقیقت میں اُن کی اپنی نیت نیک نہیں ہوتی اور مروڑوں کا بہانہ کر دیا جاتا ہے۔ اصل میں مروڑ اُن کے دل میں اٹھتا ہے اور ایسی کمزوری حائل ہو جاتی ہے کہ وہ اِس عبادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پس کوشش کرو اور اِس مہینہ سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ۔ تہجد پڑھو اور اِس طرح پڑھو کہ یہ مہینہ تمہیں تہجد کی عادت ڈال دے۔ ہماری جماعت میں یہ کمی بھی پائی جاتی ہے کہ تہجد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ صرف نماز پڑھنی ہی کافی نہیں بلکہ ذکر ِالٰہی کی بھی عادت ڈالنی چاہیے۔ قادیان میں تو مَیں نے اکثر کو ذکرِ الٰہی کی عادت ڈال دی تھی۔ دوسرے احباب کو بھی اِس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ مَیں کسی دن مجلس میں پوچھوں گا کہتم میں سے کتنے تہجد گزار ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اِتنوں میں کوئی ایسی تعداد تہجد پڑھنے والی نہیں نکلے گی جو خوشی کا موجب ہو۔ دوسرے ذکر الٰہی سے طبیعت میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ذکر الٰہی کرنا تو گویا سوِچ اون(Switch on) کرنا ہے۔ سوِچ اون(Switch on)کر دیا جائے تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور اگرسوِچ اون(Switch on) نہ کیا جائے تو پھر اندھیرا ہی رہتا ہے۔ اِسی طرح اگر ذکر الٰہی نہ کیا جائے تو طبیعت روشن نہیں ہوتی۔ پس تم اپنے اندر ذکر الٰہی کی عادت پیدا کرو تا خدا سے تمہارا تعلق بڑھ جائے۔ تمہارے اندر ہمت پیدا ہو جائے، تمہاری نظروں میں تاثیر پیدا ہو جائے اور دشمن کے دلوں میں بھی تمہارا رُعب بیٹھ جائے کہ دشمن خود بول اٹھے کہ یہ لوگ واقعی روحانیت کے پُتلے ہیں۔ آخر اِس سلسلہ نے غالب آنا ہے اور تھوڑے رہ کر غالب نہیں آنا۔ ہماری تعداد زیادہ ہو گی تبھی ہم دنیا پر غلبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن جو قدم اِس کے لیے تم اٹھا رہے ہو وہ اِتنا لمبا ہے کہ اس سے کامیابی مشکل ہے۔ خدا ہی ہے کہ کوئی نشان دکھائے تو دکھائے مگر خدا کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ ہر جگہ نشان نہیں دکھاتا ۔ وہ بھی اُس وقت نشان دکھاتا ہے جب قوم ایسی مصیبت میں پڑ جائے کہ اُس مصیبت سے چھُٹکارا حاصل کرنا اُس کے بس کی بات نہ ہو۔ پھر اگر وہ نشان دکھا بھی دے تو ہمیں اُس سے کیا فائدہ؟ لوگوں کا تو گھر بھر جائے گا ہم تو کورے کے کورے ہی رہیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کی مجلس میں ایک دفعہ مولوی برہان الدین صاحب جہلمی مرحوم بیٹھے ہوئے تھے۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ وہ کہنے لگے کہ میری بہن نے خواب میں دیکھا ہے کہ وہ جنت میں ہے اور مَیں (مولوی برہان الدین صاحب مرحوم) بھی وہاں پھر رہا ہوں اور بیر بیچتا پھرتا ہوں۔ اِس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ مولوی برہان الدین صاحب مرحوم پر اِس خواب کا اِتنا گہرا اثر تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعبیر بیان کرنے سے پہلے ہی رو پڑے اور کہنے لگے حضور! مسیح بھی آیا، ہم نے اُس کا انتظار کیا اور پھر اُس پر ایمان بھی لائے مگر مَیں تو پھر بھی جھڈّو کا جھڈّو ہی رہا۔ جنت میں گیا بھی، مگر بیر ہی بیچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خواب میں بیر بیچنا تو مبارک ہے۔ یہ تو نہیں کہ آپ کو اصلی شکل میں ٹوکری پکڑا دی جائے گی۔ تو یہ حقیقت ہے کہ لوگ آتے ہیں، سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور نیکی کے اتنے مواقع اُنہیں ملتے ہیں کہ بادشاہت اس کے مقابل پر ہیچ ہے۔ مگر اتنے مواقع ملنے کے باوجود وہ بقول مولوی برہان الدین صاحب جہلمی مرحوم جھڈّو کے جھڈّو ہی رہتے ہیں۔
پس تمہیں کوشش کرنی چاہیے کہ تم اپنے اندر ذکر الٰہی کی عادت پیدا کرو اور روحانیت میں ترقی کرو۔ رمضان کے مہینہ سے پورا پورا فائدہ حاصل کرو۔ موت کا وقت مقرر نہیں۔ موت آ گئی توپھر تمہیں کونسا موقع ملے گا کہ تم اپنی کھوئی ہوئی چیز کو واپس لا سکو یا تم اپنے کھوئے ہوئے وقت کو لَوٹا سکو"۔ (الفضل 10جولائی 1949ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
بخاری کتاب الرقاق باب فَضْلِ الفقر






(1)حفاظتِ قادیان کے وعدے خود بھی ادا کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ
(2)تبلیغ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ اپنے دوستوں سے صاف صاف کہہ دو کہ یا مجھے سمجھاؤ یا اپنی غلطی مان لو
(فرمودہ16جولائی 1948ء یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جیسا کہ مَیں نے درس کے شروع میں بتایا تھا کہ جمعہ کے دن درس نہیں ہوا کرے گا۔آج درس نہیں ہو گا۔ خطبہ میں مختصر طور پر مَیں دو باتوں کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میری طبیعت آج خراب ہے۔ روزہ تو مَیں نے رکھ لیا ہے شاید مَیں روزہ نہ رکھنے میں معذور سمجھا جا سکتا تھا مگر خواہ میرا روزہ رکھنا صحیح تھا یا غلط تھا بہرحال مَیں نے آج اپنے اجتہاد سے روزہ رکھ لیا ہے کیونکہ مَیںنے اتنا لمبا سفر اسی لیے کیا تھا تا بیماری میں شدتِ گرمی زیادتی پیدا نہ کردے اور اس طرح مَیںروزوںسے محروم نہ رہ جاؤں۔
وہ دو باتیں جن کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ حفاظتِ قادیان کے وعدے جن لوگوں نے کیے تھے اب وہ ان وعدوں کی ادائیگی میں بہت سستی سے کام لے رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا اور قادیان اور مشرقی پنجاب سے ہمیں ہجرت نہ کرنی پڑتی تب تو سستی کی کوئی وجہ ہو سکتی تھی۔ دشمن نے جو کچھ کیا اس کی وجہ سے تو لوگوں میں پہلے کی نسبت زیادہ جوش پیدا ہو جانا چاہیے تھا۔ میرا چندہ حفاظتِ قادیان بیس ہزار روپے بنا تھا جو مَیں نے قادیان میں ہی دے دیا تھا۔ مَیں نے یہ رقم ادا نہ کی ہوئی ہوتی تو اگر تھوڑی سے تھوڑی طاقت بھی اس کی ادائیگی کی ہوتی تو مَیں ضرور سب سے پہلے یہ رقم ادا کرتا اور ہرگز یہ عذر پیش نہ کرتا کہ چونکہ میری جائیداد قادیان میں رہ گئی ہے اس لیے مَیں یہ چندہ ادا نہیں کر سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ اگر کوئی چیز ہمارے پاس باقی رہ گئی ہے تو اس میں خدا تعالیٰ کا حق سب سے مقدم ہے اور ہمارا حق بعد میں ہے۔ مجھ سے قادیان کے بعض دوستوں نے پوچھا تھا کہ ہماری جائیدادیں قادیان میں رہ گئی ہیں ہمارے لیے اس چندہ کے متعلق کیا حکم ہے؟ مَیں نے ان سے کہا ان کی جائیدادیں خواہ کم تھیں یا بالکل ہی نہیں تھیں وہ صرف محنت مزدوری کر کے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ پس اس کا سوال ہی نہیں ہے کہ ان کی جائیدادیں مشرقی پنجاب میں رہ گئی ہیں۔ اگر انہوں نے حفاظتِ قادیان کے چندے کے وعدے کیے ہوئے تھے تو انہیں بھی اپنے وعدے ادا کرنے چاہییں اور یہ چندہ بہرحال دینا چاہیے۔ میری جائیداد بھی تو قادیان میں رہ گئی ہے۔ مَیں نے یہ چندہ قادیان میں ہی ادا کر دیا تھا۔ کیا مجھے سزا اس بات کی ملنی چاہیے کہ مَیں نے چندہ پہلے کیوں ادا کر دیا۔ اگر آپ نے ابھی تک چندہ ادا نہیں کیا تو یہ آپ کی غفلت ہے اور آپ کی غفلت کی سزا آپ کو زیادہ ملنی چاہیے نہ یہ کہ آپ کو چندہ ہی معاف کر دیا جائے۔ قادیان کے دوستوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اگر میری ان کے متعلق یہ رائے ہے تو دوسروں کو مَیں کس طرح معذور سمجھ سکتا ہوں۔ یہ چندہ نہایت ہی اہم ہے لیکن اس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ کل کی رپورٹ جو مجھے ملی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اس مد میں صرف 56 روپے کی رقم وصول ہوئی ہے۔ گویا اس طرح کی وصولی کے یہ معنے ہوئے کہ پندرہ سو روپیہ فی مہینہ آمد ہوئی اور ابھی آٹھ لاکھ کی وصولی باقی ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ 42 سال میں جا کر یہ رقم وصول ہو گی۔ کیا کوئی معقول آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اگر اس طرح آمد رہی تو یہ اتنا ضروری اور اہم کام چل سکتا ہے۔ ہمارا کام پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ پھر قادیان میں جو لوگ جاتے ہیں وہاں ان کی کمائی کی کوئی صورت نہیں۔ان پر بھی بہرحال سلسلہ کا خرچ آتا ہے۔ وہ اپنے کام بند کر کے قادیان چلے جاتے ہیں۔ ان کا بوجھ بھی سلسلہ نے اٹھانا ہے۔ پچھلے لوگوں کو تو ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ جس طرح ہو سکے گزارہ کیے جاؤ لیکن جو لوگ قادیان میں ہیں وہ تو بالکل بے کار ہیں اور وہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔ ان کے کھانے ،نہانے دھونے کے لیے صابن کا خرچ وغیرہ سلسلہ کو برداشت کرنا ہو گا۔ پھر قادیان میں جو مکانات ہمارے قبضہ میں ہیں ان کے ٹیکس بھی ہمیں ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ٹیکس ادا نہ کریں تو حکومت ہمیں وہاں سے نکال دے گی۔ ہم یہ عذر پیش نہیں کر سکتے کہ ان مکانات کے مالک یہاں نہیں ہیں اس لیے ہم ٹیکس ادا نہیں کر سکتے یا وہ ہیں تو یہاں مگر کچھ کما نہیں سکتے۔ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہم ٹیکس نہیں دے سکتے تو حکومت کے ہاتھ میں یہ ایک ہتھیار آ جائے گا کہ اچھا یہ ٹیکس نہیں دیتے ان کے مکان نیلام کروا دو۔
پس اگر ہم ان محلوں کو جو ہمارے قبضہ میں ہیں خالی کرنا نہیں چاہتے تو ہمیں ان مکانات کے ٹیکس ادا کرنے پڑیں گے اور پھر یہ سیدھی بات ہے کہ ایسی خطرناک جگہوں پر اور بہت سے اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ پھر ہمیں ساری دنیا میں پروپیگنڈا بھی کرنا ہے اور پروپیگنڈا کے لیے دوسرے ممالک میں ٹریکٹ وغیرہ بھی بھیجنے پڑتے ہیں اور اس سوال کو زندہ رکھنے کے لیے وزارتوں ، اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں وغیرہ کے ساتھ تعلق تازہ رکھنا پڑتا ہے اور ان جماعتوں میں پروپیگنڈا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری قومیں اگر اس کام کو کرنا چاہیں تو ایک لاکھ روپیہ فی مہینہ سے بھی اس کام کو نہیں چلا سکتیں لیکن ہمارا کام تو بہت تھوڑے پیسوں سے ہو رہا ہے مگر پھر بھی اخراجات اوسطاً پچیس تیس ہزار روپیہ سے کم نہیں۔اگر پندرہ سو روپیہ ماہوار کی ہی آمد رہی تو ہم مجبور ہو کر قادیان کے دوستوں سے کہہ دیں گے کہ وہ قادیان خالی کر کے آ جائیں۔ اس لیے کہ تمہاری قوم تمہاری حفاظت کے لیے تیار نہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ آیا کوئٹہ کی جماعت اپنا حق ادا کر چکی ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سال کے وعدے تھے جس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک جماعت کے دوستوں نے اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اب تو دوسرے سال کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا مگر ابھی تک پچھلے سال کے وعدے بھی ادا نہیں ہوئے۔ یہ خطبہ تو شائع ہو جائے گا اور دوسری جماعتوں میں بھی جائے گا لیکن میرے پہلے مخاطب آپ ہیں۔ مَیں جماعت کے سیکرٹری صاحب مال کو جن کے کام سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی ہے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ حساب کریں کہ جماعت کے کتنے وعدے تھے اور کیا وہ ٹھیک تھے غلط تو نہیں تھے۔ اگر غلط تھے تو وہ انہیں ٹھیک کروائیں اور اگر ٹھیک تھے تووہ دیکھیں کہ کیا ان کی ادائیگی ہو چکی ہے؟ اور اگر ادائیگی نہیں ہوئی تو وہ ادائیگی کروائیں اور دوسری جماعتوں کے لیے نمونہ بنیں تا ان کا نمونہ دیکھ کر دوسری جماعتیں بھی نیکی کی طرف بڑھیں۔٭
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہاں تبلیغ کم ہو رہی ہے اور احباب پوری طرح اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اب بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ حقیقی طور پر یہاں تبلیغ نہیں ہو رہی ۔ اِس وقت مجھے یہ کہا بھی گیا تھا کہ تبلیغ ہو رہی ہے اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ بعض دوست بیعت کے لیے تیار بھی ہیں مگر ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح عام لوگوں میں یہ غلطی پائی جاتی ہے کہ جب کوئی کسی سے سر سری بات کر لیتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتاہے کہ تبلیغ ہو گئی۔ کسی کے سامنے جماعت کی سرگرمیوں کا سرسری طور پر ذکر کر دیا اور اس نے ہاں میں ہاں ملا دی یا کہہ دیا کہ تمہاری جماعت بہت اچھا کام کر رہی ہے تو پھرسمجھ لیا جاتا ہے کہ بس وہ احمدی ہو جائے گا۔ یہاں بھی یہ غلطی پائی جاتی ہے۔ اپنے مطلب کی بات میں تو ہر ایک ہاں میں ہاں ملا دیتا ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ وہ احمدیت کی طرف مائل ہے یا جلد ہی احمدی ہوجائے گا غلط ہے۔ کسی کے گھر میں کوئی پھلوں کی ٹوکری بھیج دے اور وہ جَزَاکَ اللّٰہُ کہہ دے اس سے یہ مطلب نکال لینا کہ وہ احمدیت کی طرف مائل ہے نہایت ہی عقل کے خلاف ہے۔ یہ خیال کر لینا کہ لوگ سرسری ذکر سے تسلی پا جاتے ہیں درست نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مَیں نے یہ سنا تھا کہ ایک لڑکا تھا۔ ماں نے اسے نوکری کے لیے ایک امیر آدمی کے پاس بھیج دیا۔ وہ خود بیوہ تھی اور اس کے اَور بھی بچے تھے۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا جو تنخواہ تمہیں مِلا کرے گی وہ سب مجھے بھیج دیا کرنا۔ بیٹے نے کہاکہ اگر مجھے کوئی ضرورت ہوئی تو وہ مَیں کہاں سے پوری کروں گا؟ ماں نے کہا وہ انعاموں سے پوری کر لینا۔ بیٹے نے کہا کہ انعام کیسے ملتے ہیں؟ تو ماں نے کہا اچھے آقا اپنے نوکروں کو انعام دیا کرتے ہیں۔ بیٹے نے کہا اگر وہ نہ دے؟ ماں نے کہا جب خوش ہو انعام مانگ لیا کرنا۔ بیٹے نے کہا مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ وہ خوش ہوا ہے؟ ماں نے کہا مَیں تمہیں بتاتی ہوں۔ جب وہ ہنسے گا تو سمجھ لینا وہ خوش ہو گیا ہے۔ پھر اس سے انعام مانگ لینا۔کچھ عرصہ کے بعد وہ امیر آدمی سفر پر گیا۔ راستے میں وہ ایک سرائے میں ٹھہرا۔ رات کو بارش شروع ہو گئی۔ اس امیر آدمی نے نوکر سے کہا کہ لیمپ بجھا دو۔ مجھے روشنی میں نیند نہیں آتی۔ نوکر نے جواب دیا منہ پر لحاف لے لو خود بخود اندھیرا ہو جائے گا کیونکہ مجھے بھی اندھیرے میں نیند نہیں آتی۔ وہ امیر آدمی اسے بچہ سمجھ کر چپ ہو رہا ۔ پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا کہ جاؤ دیکھو کہ کیا بارش ہو رہی ہے؟ نوکر نے چارپائی پر لیٹے ہوئے ہی جواب دے دیا ہاں بارش ہو رہی ہے۔ مالک نے پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ بارش ہو رہی ہے؟ نوکر نے جواب دیا میرے پاس سے ایک بلی گزری ہے۔ میں نے اس پر ہاتھ مار کر دیکھا ہے وہ بھیگی ہوئی تھی۔ پھر مالک نے کہا کہ ہوا ٹھنڈی آ رہی ہے کواڑ بند کر دو۔ نوکر نے جواب دیا۔ دو کام مَیں نے کیے ہیں یہ کام آپ کر لیں۔ مالک اپنے نوکر کی بیوقوفی پر ہنس پڑا۔ اس پر وہ لڑکا فوراً کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ حضور ا!انعام دیجیے۔ یہی حال سرسری تبلیغ کا ہے۔ مطلب کی بات پر تو ہر ایک خوش ہو جاتا ہے۔ مطلب کی باتیں کسی کے سامنے پیش کر دینے سے تبلیغ کا فرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ایسی تبلیغ سے کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ بلکہ ایسے مسائل پیش کرنے چاہییں جس سے وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ پھر ایسی صورت سے پیش نہیں کرنے چاہییں جس سے وہ چِڑ جائیں بلکہ اس طرح پیش کرنے چاہییں کہ ان کے اندر صداقت کو قبول کرنے کا میلان پیدا ہو جائے۔ اگر تمہارا کوئی دوست ہے تو اس سے پوچھو کہ دیکھو بھائی مَیں تم سے اتنی دیر سے ملتا جلتا رہا ہوں یا تو مَیں بے ایمان ہوں یا تم بے ایمان ہو۔ دونوں میں سے ایک بات ضرور ہے۔ مَیں تو تمہیں سمجھاتا رہا ہوں۔ اگر میری باتیں ٹھیک ہیں، اگر میری باتوں کا تم پر اثر ہے اور تم سمجھتے ہو کہ مَیں صحیح راستہ پر ہوں تو پھر تم کیوں سزا کو قبول کرتے ہو اور جہنم میں پڑتے ہو۔ لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ میں غلط راستہ پر ہوں تو پھر تمہیں چاہیے کہ مجھے سمجھاؤ تا مَیں غلط راستہ کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ ہو جاؤں گا۔ اس طرح وہ اپنا اندرونہ آپ پر کھول دے گا۔ اگر اسے آپ کی کچھ باتیں سمجھ نہیں آئیں تو وہ باتیں تمہیں بتائے گا کہ دیکھو بھئی یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں اور اس طرح آپ کو دوبارہ سمجھانے کا موقع مل جائے گا۔ بغیر اس کے کام نہیں چلے گا۔ محض باتیں سننے سے کسی کے چہرے پر بشاشت کا ظاہر ہو جانا اس بات کی علامت نہیں کہ وہ احمدی ہو گیا ہے یا یہ کہ وہ احمدیت کے قریب ہے اور جلد بیعت کر لے گا۔ اگر کسی نے آپ کے گھر آ کر کھانا کھا لیا اور اس نے خوش ہو کر کہہ دیا کہ آپ کی جماعت بڑی اچھی ہے، آپ لوگ تبلیغ کرتے ہیں، قربانی اور ایثار کا جذبہ آپ لوگوں میں پایا جاتا ہے اس سے آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ احمدیت کے قریب ہے اور وہ جلدی بیعت کر لے گا۔ اگر آپ ایسا سمجھ لیتے ہیں تو یہ آپ کا غلط اندازہ ہے۔ پچھلے دنوں جب ہم قادیان میں دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئے تھے اُس وقت ہر طرف یہ شور تھا کہ جماعت احمدیہ قربانی کا بہت اچھا نمونہ پیش کر رہی ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ دوسرے مسلمانوں پر احمدیت کا اثر تھا یا انہوں نے احمدیت کو سچا جان لیا تھا بلکہ اُس وقت ان کے سامنے اپنی غیرت اور عزت کا سوال تھا۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ دیکھو مسلمانوں کا ایک حصہ تو اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اس طرح اس نیک نامی اور شہرت میں ہمارے ساتھ شریک ہو جائیں اور اس کام میں ہمارے ساتھ برابر کے حصہ دار ہو جائیں جو ان کے اپنے مطلب کی بات تھی جس کی وجہ سے وہ ہمارے اس کام پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ جب کام نکل گیا تو اب انہی لوگوں میں سے بہت سے مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ لیکن کامل دوست تو وہ ہے جو اچھے اور بُرے ، آرام اورتکلیف، سکھ اور دکھ سب میں شریک ہو اور یہ اس طرح ہی ہو سکتا ہے کہ وہ جماعت میں داخل ہو جائے۔ آپ کو ایسے افراد سے تصفیہ کر لینا چاہیے۔ یونہی لٹکائے نہیں جانا چاہیے۔ تبلیغ کرو اور دیکھو تمہاری تبلیغ کا ان پر کیا اثر ہے۔ اگر آپ کی باتوں کا ان پر اثر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ آپ ٹھیک راستہ پر جا رہے ہیں تو پھر ان سے کہہ دو کہ اگر تمہارے نزدیک میری باتیں صحیح ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ مَیں ٹھیک راستہ پر جا رہا ہوں تو پھر تمہیں ماننے میں کیا انکار ہے۔ مَیں نے جو درست سمجھا تھا وہ تمہیں بھی سمجھا دیا ہے۔ اب اگر تم کو کوئی اعتراض ہے تو وہ پیش کرو ورنہ تم مجھے سمجھاؤ اوراس راستہ پر مجھے بھی لگا لو جس کو تم صحیح خیال کرتے ہو۔ اس طرح اگر تمہارا دوست تمہاری باتوں کو ہی درست سمجھتا ہے تو وہ تمہارے ساتھ آ جائے گا اور اگر اسے ابھی کچھ اعتراضات ہیں تو پھر تمہیں ان کے جوابات دینے کا موقع مل جائے گا۔ جب تمہاری تبلیغ سے اس کی تسلی ہو جائے اور تم اس پر حجت تمام کر لو تو اسے کہو کہ مرد بنو بزدل نہ بنو۔ آؤ ان اکھلیوں میں تم بھی سر دو جن میں مَیں نے اپنا سر دیا ہوا ہے۔ اگر تم اسے ٹھیک کام سمجھتے ہو تو پیچھے کیوں ہٹتے ہو۔ حق یہی ہے کہ کسی نہ کسی جگہ پر بات پہنچے۔ یونہی غلط طور پر کسی کی نسبت خیال کر لینا کہ اب یہ احمدیت کے قریب ہے اور ضرور بیعت کر لے گا درست نہیں۔ اس طرح بات تو لٹکتی جائے گی۔ وہ پانچ سال بعد بھی وہی بات کہہ دے گا جو بات اس نے اب آپ کے سامنے کہی ہے یا پانچ سال قبل آپ کے سامنے کہی تھی۔ دوست وہی ہے جو تمہارے ہر کام میں شریک ہو ورنہ دوستی کا فائدہ ہی کیا۔
پس رسمی اور سرسری باتیں کرنا کافی نہیں۔ تبلیغ کرو اور ایسی تبلیغ کرو جس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے۔ یا تو وہ سچے طور پر تمہاری باتوں پر غور کرے اور یا وہ کہہ دے کہ وہ صرف ظاہرداروں کی باتیں کرتا تھا اور قطع تعلق کر لے۔ اس طرح تمہیں جو اس پر اعتماد تھا اس کی حقیقت کھل جائے گی۔ پس حقیقت یہی ہے کہ یہاں سچے طور پر تبلیغ نہیں کی گئی۔ وہ تبلیغ جس سے کہ کسی پر حجت تمام ہو۔ جب تک کسی سے کھول کر باتیں نہ کی جائیں تب تک کوئی تبدیلی مذہب پر تیار نہیں ہوتا۔اپنے مذہب اور عقیدے کو چھوڑنے پر کوئی اس وقت ہی تیار ہو سکتا ہے جب اس کے سامنے ایسی دلیلیں پیش کی جائیں جن سے اس پر حجت تمام ہو جائے اور وہ سمجھ لے کہ جس مذہب کی طرف تم اسے بلا رہے ہو وہی سچا ہے ورنہ سرسری باتوں سے یہ سمجھ لینا کہ وہ تمہارا ہم خیال ہو جائے غلط ہے۔ پس اس طرح تبلیغ کرو کہ یا تو وہ سلسلے میں داخل ہو جائے اور یا وہ اپنا عندیہ کھول کر رکھ دے اور تمہارا یہ خیال باطل ہو جائے کہ وہ قریب زمانہ میں احمدیت میں شامل ہو جائے گا۔ دوست وہی ہے جو اِس جہان میں بھی ساتھ ہو اور اگلے جہان میں بھی ساتھ ہو۔ اگر کوئی دوست دونوں جہان میں ساتھ نہیں تو وہ دوست کس کام کا۔ اگر تمہارا دوست جہنم میں جاتا ہے اور تمہیں خدا تعالیٰ جنت میں بھیج دیتا ہے تو پھر وہ دوستی دوستی نہیں۔ حقیقی دوستی تب ہی ہے جب تم اپنے دوست کو بھی جنت میں لے جاؤ۔ جب تک تمہارا دوست بھی تمہارے ساتھ جنت میں نہ ہو تو تمہیں جنت میں رہ کر بھی حقیقی سکھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارا دوست جہنم میں ہے تو تمہیں جنت میں کیسے سکھ نصیب ہو سکتا ہے۔
پس وہ دو باتیں جن کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں:۔
اوّل اگر حفاظتِ قادیان کے وعدے کیے ہوئے ہیں اور ان کی ابھی تک ادائیگی نہیں ہوئی تو انہیں ادا کروائیں یا اگر غلط وعدے لکھوائے ہوئے ہیں تو انہیں صحیح کروائیں۔ یہاں کی جماعت کا تو مجھے علم نہیں دوسری جماعتوں کے بعض دوستوں کا مجھے علم ہے جن کی جائیداد مجھ سے کسی صورت میں بھی کم نہیں لیکن میرے چندے کا پانچواں یا چھٹا حصہ انہوں نے چندہ لکھوایا ہے حالانکہ ان کی جائیدادیں بہت زیادہ ہیں۔ ایسی غلطی کرنے والوں کی اصلاح کریں اور ان سے صحیح وعدے لے کر ادائیگی کروائیں۔ کئی دوست چھوٹی چھوٹی آمدوں کو آمد ہی خیال نہیں کرتے۔ ایک بڑی آمد کو آمد سمجھ کر اس کا چندہ دے دیتے ہیں اور بڑی آمد پر بھی پہلے ہی ڈسکاؤنٹ (Discount) لگا لیتے ہیں۔ تاجر خیال کرتے ہیں کہ وہ دکان سے جو گھر کا خرچ نکالتے ہیں وہی ان کی آمد ہے۔ بعض لوگ آپ ہی اپنی تنخواہ مقرر کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری آمد یہ ہے اور باقی نفع کہتے ہیں کہ دکان میں لگا دیا گیا حالانکہ جو آمد ہے وہی آمد ہے خواہ وہ دکان میں ڈال دی جائے یا بنک میں جمع کرا دی جائے۔ ایک ہی بات ہے۔ یہ کہہ دینا کہ دکان والی رقم کا مجھے کیا فائدہ، غلط ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے والے ہیں تو مومن ،لیکن غلط فہمی کی بناء پر ایسا کرتے ہیں۔ اگر انہیں سمجھایا جائے تو اصلاح ہو سکتی ہے۔ اگر ان کے اندر ایمان نہیں ہے تو وہ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں گے اور اس طرح جماعت ان کے بوجھ سے بچ جائے گی لیکن اگر ان میں ایمان ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے تو وہ ضرور اپنی اصلاح کر لیں گے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو وضاحت کر دینے کے بعد بھی پیچھے رہنے والے ہوں۔ ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد اور اس کے نقش قدم پر چلنے والوں کی طرح مجھے جماعت میں عیب ہی عیب نظر نہیں آتے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ جب بات کھل جاتی ہے تو جماعت کا اکثر حصہ قربانی میں پیچھے نہیں رہتا۔ نیک کام کے لیے عادت کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کام کی عادت پڑنے میں کچھ دیر لگتی ہے۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی کوئی نیا حکم دیا تو کچھ دیر تک اس میں رکاوٹ پڑ جاتی تھی مگر کچھ عرصہ بعد وہ صحیح ہو جاتی تھی۔ چندے کی عادت پڑنے میں بھی دیر لگتی ہے۔ جب سلسلہ کا کام خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد ہوا اُس وقت دو پیسہ فی روپیہ چندہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں دھیلا فی روپیہ چندہ تھا۔ پھر پیسہ ہوا، پھر دو پیسے ہوا اور پھر ایک آنہ فی روپیہ چندہ ہوا۔ اب جماعت کے ایک حصہ نے وصیت بھی کی ہوئی ہے جو کم از کم اپنی آمد کا 1/10 چندہ دیتے ہیں اور اب سینکڑوں کی تعداد بلکہ جیسا کہ مجھے پچھلی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے یہ تعداد ہزار تک پہنچ گئی ہے جوساڑھے سولہ فیصدی سے پچاس فیصدی تک چندے دے رہے ہیں۔ بعض دوستوں نے میری پہلی تحریک پر عمل کرتے ہوئے 50 فیصدی چندہ دینا شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ مَیں نے اسے بعد میں 33 فیصدی کر دیا ہے مگر وہ ابھی تک 50 فیصدی ہی دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جائے گی بلکہ جماعت کا اکثر حصہ ایسا ہو گا جوساڑھے سولہفیصدی سے 33 فیصدی تک چندہ دیتا ہو گا۔ اب دیکھو کہ کس طرح ترقی کرتے کرتے جماعت چندہ میں ترقی کر گئی اور ابھی اِنْشَاء َ اللّٰہُاَور کرے گی۔
اسی طرح جان کی قربانی کے سوال ہی کو لے لوجب مَیں نے یہ چیز جماعت کے سامنے پیش کی تو جماعت کی یہ حالت تھی1گویا وہ موت کی طرف ہنکائے جاتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد جماعت میں جان کی قربانی کی بھی عادت پڑ جائے گی۔ موت تو سب سے ہلکی چیز ہے خدا اور اس کے کام کی خاطر اگر کسی کو موت آ جاتی ہے تو کیا ہوا یہ خدائی تقدیر ہے جس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دنیاکے کاموں میں کیا کسی نے گارنٹی دی ہوئی ہے کہ کام کرتے ہوئے اسے موت نہیں آئے گی۔ اگر دنیاوی کام کرتے ہوئے وہ مر جائے تو پھر اس کے بچوں کی کون پرورش کرے گا۔ لیکن اگر خدا کا کام کرتا ہوا مر جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کے لیے کچھ تو غیرت دکھائے گا اور وہ اس کی خاطر کچھ تو کرے گا۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ وہ مر جائے بسااوقات انسان زندہ رہتا ہے۔ غرض جماعت میںاب بیداری پیدا ہو رہی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد جماعت کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے گی کہ وہ جہاد کرنے لگ جائے گی۔ پس ہر کام عادت ڈالنے سے ترقی کرتا جاتا ہے۔
تبلیغ کی طرف جماعت کو توجہ دلانا بھی ایک وقت اور محنت چاہتا ہے۔ باقاعدہ اس طرف توجہ کی جائے تو ہر شخص اس کام کا عادی ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کہیں کی کہیں جا پہنچے گی۔ اس سلسلہ میں جماعت کے مقرر کردہ تبلیغ کے عہدہ داروں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ محنت سے کام کریں۔ سونے سے کام نہیں بنے گا۔مجھے یہ علم نہیں کہ یہاں کے سیکرٹری تبلیغ کون ہیں۔ ابھی تک وہ مجھ سے نہیں ملے۔ اگر وہ مجھ سے ملتے اور اپنے حالات بتاتے تو مَیں ان کو تبلیغ کے کئی ایک طریقے بتا سکتا تھا جن پر عمل کر کے وہ اس میدان میں کامیاب ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کی طرف توجہ دیں۔ جماعت کے لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیکرٹری تبلیغ مقرر کر دیا ہوا ہے جس کا کام ہے کہ وہ تبلیغی کام کرے۔ جب وہ سیکرٹری ان سے کہتا ہی نہیں تو وہ تبلیغ کیا کریں۔ سیکرٹری تبلیغ کو چاہیے کہ وہ کام کرنا سیکھے۔ اور کوئی مشکل پیش آتی ہو تو وہ مجھ سے پوچھے مَیں اسے بتاؤ ں گا کہ وہ مشکل کیسے آسان ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس چیز کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے ایک نئے احمدی دوست ہیںجو بلوچستان میں ملازم ہیں ویسے یوپی کے رہنے والے ہیں۔ وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہو سکتی ہے؟ مَیں نے سمجھ لیا کہ ان میں اس چیز کا احساس پایا جاتا ہے اور مَیں نے ان کو کئی ایک طریقے بتائے جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہو سکتی ہے۔ قادیان کے اردگرد کی جماعتوں کو مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت کی تعداد دس بارہ ہزار سے ترقی کر کے ساٹھ ستّر ہزار ہو گئی تھی۔ پس اگر اس طرف ذرا بھی توجہ کی جاتی تو یہ مشکل کام نہ تھا ۔ جو طریقہ یہاں کی جماعت کے دوستوں نے اختیار کیا ہوا ہے یا عام طور پر احمدی جماعتیں اختیار کرتی ہیں وہ غلط ہے۔ دوستوں کو اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ تم اپنے دوستوں سے صاف صاف کہہ دو کہ یا تم غلطی پر ہو یا مَیں غلطی پر ہوں۔ اگر تم مجھے غلطی پر سمجھتے ہو تو دوستی کا حق یہ ہے کہ تم مجھے سمجھاؤ تا مَیں صحیح راستہ پر آجاؤں اور اگر مَیں حق پر ہوں توتمہیں بھی میرے ساتھ ہو جانا چاہیے اور اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ انہیں اس طرف توجہ نہ دلائی جاسکے"۔
(الفضل 4؍اگست 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الانفال:7


















رمضان کے بابرکت مہینہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اوقات کو خدمتِ دین میں صَرف کرو۔
(فرمودہ6؍اگست 1948ء یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مسلمانوں کے عام رسم و رواج کے مطابق آج جمعۃ الوداع ہے جو لوگوں کی بدعملیوں اور گناہوں کے دھونے کے لیے آتا ہے۔ انہوں نے اپنی کمزوریٔ ایمان کی وجہ سے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ سارا سال کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یہ جمعہ پڑھ لے تو اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر جمعہ ہی ہمارے لیے برکتیں لے کر آتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہ اُسے مل جاتا ہے1 لیکن یہ ساعت بڑی لمبی ہوتی ہے۔ جمعہ کا وقت اشراق سے شروع ہوتا ہے اور عصر تک چلا جاتا ہے اس لیے اس گھڑی کا پکڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ہر وقت دعا میں لگا رہے اور اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ ہو اور اس کے خیالات بھی پراگندہ نہ ہوں۔ لیکن اتنی محنت کون کرتا ہے اور کون اتنی دیر دعا میں مشغول رہ سکتا ہے۔ سوائے اس کے جسے خدا تعالیٰ خاص طور پر توفیق دے۔ رمضان کے بعد کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن سے اگر کچھ روزے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں پورا کریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جنہیں رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق ملی ہے اور وہ نفلی روزے رکھیں گے جو حدیثوں سے ثابت ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی بدقسمت ہوں گے جنہیں رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق نہیں ملی اور وہ انہیں پورا کرنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے لیکن یہ وہی لوگ ہوں گے جو رمضان کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے اور جو اسلام کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جن میں رمضان کی زیادہ قدر نہیں۔ اگر وہ ایسی جگہ ہوں جہاں روزے رکھے جاتے ہیں تو وہ بھی شرم کے مارے روزے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ روزے رہ جائیں تو ان کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ بعض ایسے نوجوان بھی ہیں جو بہانہ کر دیتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے انہیں پیچش لگ جاتی ہے۔ بیماری کے نتیجے میں اگر کوئی روزہ نہ رکھ سکے تو قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے لیکن اُس وقت جب اس کا نفس بھی سمجھتا ہو کہ وہ بیمار ہے اور پھر اس کا فرض ہے کہ یہ روزے رمضان کے بعد رکھے۔ محض اِس خیال سے کہ اسے پیچش لگ جائے گی اس لیے وہ روزے نہیں رکھتا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے اور محض نفس کا بہانہ ہے۔ پھر بعض بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کر لیتا ہے۔ مثلاً پرانی بیماریاں ہیں ان میں انسان سب کام کرتا رہتا ہے۔ ایسا بیمار بیمار نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک دفعہ یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کیا اس ملازم کا سفر شمار کیا جائے گا جو ملازم ہونے کی وجہ سے سفر کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس کا سفر سفر نہیں گِنا جا سکتا۔ اس کا سفر تو اس کی ملازمت کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کرتا رہتا ہے۔ فوجیوں میں بھی ایسے ہوتے ہیں جو اِن بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر وہ سارے کام کرتے رہتے ہیں۔ چند دن پیچش ہو جاتی ہے لیکن اِس وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے کام کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔ پس اگردوسرے کاموں کے لیے وقت نکل آتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسا مریض روزے نہ رکھ سکے۔اس قسم کے بہانے محض اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل روزہ رکھنے کے ہی خلاف ہوتے ہیں۔ بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہییں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو۔ مگر اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو بِلاعذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لیے ہر احمدی کو چاہیے کہ جتنے روزے اس نے کسی غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے۔ یا اگر اس کے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے پانچ چھ سال سے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں بھی پورا کرے تاعذاب سے بچ جائے۔ یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ بلوغت کے زمانہ کے بعد کے جتنے روزے رہ گئے ہوں وہ بڑھاپے سے پہلے پہلے پورے کرنے چاہییں۔ محض اس قرضہ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ پچھلے روزے معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ بعض لوگ دو دو، تین تین سال تک چندہ نہیں دیتے اور جب ان سے مانگا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اچھا پچھلے سالوں کا چندہ معاف کر دو پھر چندہ دیں گے۔ اس طرح پچھلے سالوں کے جو روزے رہ گئے ہیں وہ معاف نہیں ہو سکتے۔ خدا بھی وہ چیز معاف کرتا ہے جو ناممکن ہو اور انسان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کسی شخص نے ایسا کیا ہے تو اس نے قرآن کریم کے حکم کے خلاف کیا ہے۔ اس نے اگر بیماری کی سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا تو اسے چاہیے کہ اپنے چھُوٹے ہوئے روزے پورے کرے۔ سارا سال ہی اس کی یہ حالت نہیں رہتی کہ وہ روزے نہ رکھ سکے۔ کوئی نہ کوئی زمانہ ایسا آتا ہے جب وہ روزے رکھ سکتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب انسان روزے رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں رکھ لے۔ مگر ایک بڑھاپا ایسا بھی ہوتا ہے جس میں نہ گرمیوں میں روزے رکھے جاسکتے ہیں اور نہ سردیوں میں روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن مختلف انسانوں کی مختلف طاقتیں ہوتی ہیں۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب 84 سال کی عمر کے تھے مگر برابر روزے رکھتے تھے۔ گرمیوں میں ڈلہوزی میں وہ میرے پاس آ جاتے تھے۔ وہاں گرمی سے تو بچاؤ ہو جاتا تھا مگر دن تو اتنا ہی لمبا ہوتا تھا مگر باوجوداس کے شاذ ہی کوئی روزہ اُن سے چھُوٹتا تھا۔ پس اگر انسان ہمت کرے تو وہ کمزوریوں پر غالب آ جاتا ہے۔
پس ایک تو مَیں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے رمضان کے سارے روزے نہیں رکھے وہ بعد میں روزے رکھیں اور اُن کو پورا کریں۔ خواہ وہ روزے غفلت کی وجہ سے رہ گئے ہوں یا وہ روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ اسی طرح اگر گزشتہ سالوں میں ان سے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں تو ان کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے وہ صاف ہو جائیں۔ بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھُوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔ لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضا نہیں۔ جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں۔ لیکن اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھے۔ ہاں اگر وہ روزہ رکھ سکتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ وہ جب توبہ کرے گا اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے یا کسی اجتہادی غلطی یا بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک خواہ وہ روزے کتنی ہی دُور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ رمضان کے مہینہ سے بھی انسان کو نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔اِس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ رمضان میں ایک مدت تک مسلسل انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے۔ دوسرے دنوں میں اگر وہ چاہے تو متواتر ایک ماہ تک روزے نہیں رکھ سکتا۔ ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں اتنے روزے رکھ سکتے ہوں کیونکہ کبھی نہ کبھی انسان کو خواہش پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ چلو آج فلاں کے گھر دعوت ہے آج روزہ نہیں رکھتے یا آج فلاں کام ہے آج ناغہ کر لیتے ہیں لیکن رمضان میں اگر کوئی روزہ رکھتا جائے تو وہ ایک ماہ تک لگاتار روزے رکھ سکتا ہے۔ اسلام رمضان میں روزے چھوڑنے یا توڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس حکم کی وجہ سے انسان پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے اسے وہ طاقت مل جاتی ہے جو اُسے دوسرے دنوں میں نہیں ملتی۔ مثلاً اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہم پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں اور ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ چار ہوتیں، پانچ نہ ہوتیں تو پانچویں نماز اکثر کے لیے دوبھر ہوتی۔ اسی طرح ہم پانچ نمازیں تو پڑھ لیتے ہیں لیکن چھٹی نماز اکثر لوگوں کے لیے دوبھر معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ نمازیںچھ ہوتیں پانچ نہ ہوتیں تو ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہوتے جو انہیں پوری طرح ادا کرتے۔ توکیاچیزہے جوانسان کو اس طرف مائل کرتی ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ حکم بھی ایک طرح جبر کا حکم رکھتا ہے اور جبر انسان کو عمل کرنے کی طاقت دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان ارادہ کر لیتاہے تو کسی نہ کسی طرح وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کر لیتا ہے۔ دوسرے دنوں میں اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پس احباب کو چاہیے کہ وہ اس مہینہ سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور اپنے اندر ایک خاص قسم کی تبدیلی پیدا کریں۔
ہماری جماعت کے سپرد ایک بہت بڑا کام ہے اور یہ سیدھی بات ہے کہ جتنا بڑا کام ہو گا اتنا ہی اس کے لیے کوشش کی جائے گی۔ ایک چھوٹے کام کے لیے بڑی کوشش کرنا حماقت ہے اور بڑے کام کے لیے چھوٹی کوشش کرنا حماقت ہے۔ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے زمانہ کی بات ہے ڈلہوزی میں ایک پادری آیا وہ پادری اکثر سیالکوٹ میں رہا کرتا تھا۔ بعد میں وہ تبدیل ہو کر پونا چلا گیا تھا اور وہاں سے تبدیلیٔ آب و ہوا کی غرض سے وہ ڈلہوزی آیا تھا۔ پچھتر یا اسّی سال اس کی عمر تھی اور پھر بھی وہ ٹریکٹ تقسیم کرتا پھرتا تھا۔ لوگوں میں بہت چرچا ہوا کہ فلاں پادری ٹریکٹ تقسیم کر رہا ہے ۔اسے اس کا جواب دینا چاہیے۔ انہوں نے تلاش کی کہ کوئی عالم مل جائے جو اس پادری سے گفتگو کرے مگر جب انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو وہ میرے پاس آئے۔ ہم اُس وقت بچے ہی تھے اور سیر کے لیے ڈلہوزی گئے ہوئے تھے۔ بیس بائیس سال کی میری عمر ہو گی۔ وہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ فلاں پادری صاحب آئے ہیں اور وہ ٹریکٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں تا آپ اس کے پاس چلیں۔ اُس کے ساتھ وقت مقرر کر لیا جائے ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔ ہم وہاں گئے اور اُس پادری سے ملاقات کی۔ مَیں نے اُسے کہا آپ یہاں تبلیغ کرنے آئے ہیں مجھے بھی تلاشِ حق کا شوق ہے اس لیے میں خود آپ کے پاس چل کر آیا ہوں۔ سچ کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے۔ لیکن میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ پادری صاحب نے کہا کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ مَیں نے کہا آپ کے نزدیک مسیح خدا کا بیٹا ہے اور روح القدس بھی خدا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ تینوں خدا ہیں؟اس پادری نے کہا ہاںہمارے نزدیک یہ تینوں خدا ہیں۔ مَیں نے کہا پھر میں سنتا ہوں کہ خدا ایک ہے۔ کیا یہ ممکن ہے قطع نظر اِس سے کہ ایک تین ہیں اور تین ایک ہے۔ مَیں مان لیتا ہوں کہ یہ خدائی راز ہیں اور الٰہیات کو انسان پورے طور پر نہیں سمجھ سکتا لیکن ایک بات جہاں تک میں نے عیسائی لٹریچر کو پڑھا ہے یہ ہے کہ دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ تو کیا دنیا کا پیدا کرنا اور چلانا ایک کے ہی سپرد ہے یا اس کے الگ الگ حصے تینو ں کے سپرد ہیں یا تینوں ہی یہ کام کر سکتے ہیں؟ دنیا میں جس قدر قوانینِ قدرت چل رہے ہیں اور جو تغیر و تبدّل ہو رہا ہے کیا کچھ طاقتیں خدا کے سپر د ہیں اور کچھ طاقتیں روح القدس کے سپرد ہیں اور کچھ طاقتیں مسیح کے سپرد ہیں یا ساری طاقتیں خدا ہی کو حاصل ہیں یا پھر یہ ساری طاقتیں ساروں کو ہی حاصل ہیں؟ یعنی خدا اکیلا بھی دنیا کو چلا سکتا ہے اور روح القدس بھی اکیلا دنیا کو چلا سکتا ہے۔ اور مسیح خدا کا بیٹا بھی اکیلا دنیا کو چلا سکتا ہے۔ آپ کے نزدیک ان میں سے کیا صورت ہے؟ پادری صاحب نے جواب دیا کہ یہ طاقتیں ساروں کو حاصل ہیں۔ مَیں نے کہا اچھا مَیں مان لیتا ہوں یہ طاقتیں ساروں کو حاصل ہیں لیکن ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جب باپ بوڑھا ہو جاتا ہے تواس کے جوان بیٹے اسے کہتے ہیں تم گھر بیٹھو کام ہم کریں گے۔ توکیا اس طرح خدا کے بیٹے اور روح القدس نے بھی خدا کو کرسی پر بٹھا رکھا ہے اور آپ کام کر رہے ہیںیا خداسارے کام خود کر رہا ہے یا سب مل کرکر رہے ہیں؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ سارے مل کر کام کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے تسلیم کیا ہے تو یہ نظر آتا ہے کہ خدا کو بھی طاقت حاصل ہے کہ وہ دنیا کو چلا سکے، روح القدس کو بھی طاقت حاصل ہے کہ وہ دنیا کو چلاسکے اور مسیح خدا کے بیٹے کو بھی یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ دنیا کو چلا سکے۔ یعنی وہ الگ الگ بھی کام کرسکتے ہیں اور اکٹھے مل کر بھی کر سکتے ہیں۔ اب دیکھیے میز پر ایک پنسل پڑی ہے اور آپ اسے اٹھا کر اپنے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ مَیں یہاں بیٹھا ہواہوں۔ آپ مجھے کہیں کہ یہ پنسل اٹھا کر میرے سامنے رکھ دو۔ پھر آپ اپنے بیرہ کو بھی بلا لیں، باورچی کو بھی بلا لیں اور اپنے دوسرے خدام کو بھی بلا لیں اور وہ سب دوڑتے ہوئے آئیں۔ جب وہ آجائیں تو ہم سب کو آپ کہیں کہ یہ پنسل اٹھا کر میرے سامنے رکھ دو تو دیکھنے والا آپ کے متعلق کیا رائے قائم کرے گا؟ پادری صاحب نے کہا یہی کہ مَیں پاگل ہوں۔ مَیں نے کہا اچھا آپ کو دیکھنے والے آپ کو اس لیے پاگل کہیں گے کہ آپ میں پنسل اٹھانے کی طاقت تھی پھر آپ نے دوسروں کو کیوں بلایا۔ اب آپ فرمائیے کہ جب خدا تعالیٰ میں یہ طاقت تھی کہ وہ دنیا کو چلا سکے، مسیح خدا کے بیٹے میں یہ طاقت تھی کہ وہ دنیا کو چلا سکے، روح القدس کو یہ طاقت حاصل تھی کہ وہ دنیا کو چلا سکے تو پھر اس کام میں تینوں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ آپ کواگر پنسل اٹھانے پر پاگل کہا جائے گا تو پھر وہ بھی پاگل ہیں۔ اس پادری نے کہا کہ یہ سب خدائی باتیں ہیں۔ ان کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔تو یہ سیدھی بات ہے کہ جب ایک کام کو آسانی کے ساتھ ایک آدمی کر سکتا ہو اور پھر اس میں سارے لگے ہوئے ہوں تو دیکھنے والا یقیناً انہیں پاگل کہے گا۔ ہاں اتفاقی طور پر ایسا ہو تو اَور بات ہے۔ بعض دفعہ ماں بچے کی گاڑی کو دھکیلتی ہے تو باپ بھی اس کے اوپر ہاتھ رکھ دیتا ہے تو یہ ایک اتفاقی چیز ہے لیکن اگر ایک کام کو تھوڑے آدمی آسانی کے ساتھ چلا رہے ہوں اور اس میں سب لگ جائیں اور یہ اتفاقی امر بھی نہ ہو تو یہ جنون کی علامت ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی جنون کی علامت ہے کہ بڑے کام میں جس میں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہو تھوڑے آدمی لگے ہوئے ہوں۔ یا زیادہ وقت کی ضرورت ہو اور وہ اسے تھوڑے وقت میں ختم کرنے کی کوشش کریں۔
دنیا میں اسلام قریباً مٹ چکا ہے صرف نام باقی ہے۔ حقیقت مفقود ہو چکی ہے۔ اس پر عمل کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی صفات پر صحیح صحیح عمل کرنے اور ان کے مطابق کام کرنے کی روح بہت کم ہو گئی ہے۔ یہ کہ اسلام کی اطاعت کر کے کوئی اس قابل ہو جائے کہ اس کو دنیا میں قائم کر سکے، یہ جذبہ بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ ساری دنیا جو اسلام کی دشمن بن گئی ہے اُس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی۔ خداتعالیٰ نے یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا ہے۔ اور ہم لوگ جو احمدی کہلاتے ہیں یہ اقرار کر کے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں کہ ہم یہ کام کریں گے۔ لیکن کتنے ہیں جو اپنے اوقات کو اس طرز پر لگاتے ہیں کہ دن میں سے اکثر حصہ خدمت دین کے لیے نکل آئے۔ اکثر کو بھی جانے دو وہ لوگ کتنے ہیں جودن میںاڑھائی گھنٹے ہی دین پر لگاتے ہوں۔ اگر سب لوگ اڑھائی گھنٹے روزانہ ہی اِس کام پر لگاتے تواِس وقت تک جماعت بہت ترقی کر جاتی مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے افراد اتنی قربانی بھی نہیں کر رہے۔
پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت خدمتِ دین کے لیے دیں اور احمدیت کوپھیلانے کی کوشش کریں۔ اگر ہماری جماعت پہلے یہ کام کرتی تو اب تک جماعت کافی ترقی کر چکی ہوتی۔ اسلام اس وقت ایسی خطرناک حالت سے گزر رہا ہے کہ گویا اسلام کے لیے اب کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔ اب ہمارے سوا اور کوئی نہیں جو دشمن کی تلواروں کو اپنے سینوں پر برداشت کرے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ قطع نظر اس کے کہ ہمیں کوئی برا کہتا ہے یا اچھا تبلیغِ اسلام کے لیے ہم اپنا پورا زور لگا دیں مگر اس کے ساتھ ہی اپنے نفس کی اصلاح بھی کرنی چاہیے تاکہ ہمارے کاموں میں برکت ہو اور ہماری کوششیں کامیاب ہوں"۔
(الفضل 8مارچ 1961ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ


پورے جوش اور عزم و ہمّت کے ساتھ دین کی خدمت کرنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرو
(فرمودہ13؍اگست 1948ء بمقام کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے آج کچھ حرارت اور سر درد کی شکایت ہے جس کی وجہ سے مَیں زیادہ دیر بول نہیں سکتا۔ مگر مَیں جماعت کو مختصر الفاظ میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گو یہ عام قاعدہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے حقیر اور ذلیل خیال کرتے ہیں۔ مگر اس زمانہ میں جس مامور نے مبعوث ہونا تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی اصلاح کے لیے دنیا میں آنا تھا اس کے متعلق خصوصیت سے احادیث میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اس سے اور اس کی جماعت سے نفرت کی جائے گی اور لوگ ان کی شدید مخالفت کریں گے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر بعض لوگ جماعت احمدیہ کی تعریف کر دیتے ہیں یا کسی ایسی بات پر جو ان کے عقائد کے موافق ہو پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں تو ہماری جماعت کے دوست خوش ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں کامیابی حاصل ہو گئی ہے حالانکہ یہ کامیابی نہیں ہوتی بلکہ ایک ابتلاہوتا ہے، آزمائش اور امتحان کا وقت ہوتا ہے۔ سچی بات جب بھی کہی جائے گی سننے والے کو وہ کڑوی لگے گی۔ اگر وہ ہماری کسی بات کی تعریف کر دیتے ہیں یا اس پرپسندیدگی کا اظہار کر دیتے ہیں تواس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ ہمارے عقائد کو صحیح ماننے لگ گئے ہیں۔ بلکہ وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کسی بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔
احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے جو میرے نزدیک یہ کفار کی ایک سازش کا نتیجہ تھا مگر اس میں اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب صحابہؓ کا ایک حصہ کفار کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا تو کفار نے انہیں واپس بلانے کے لیے ایک فریب کیا۔ اور وہ اس طرح کہ ایک دن جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سورہ نجم کی تلاوت فرما رہے تھے کسی کافر نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ آپ کی پیٹھ کے پیچھے جاکر یہ فقرات پڑھ دئیے کہ
تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلٰی
وَإِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجٰی1
یعنی یہ بت بھی بڑا بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور قیامت کے دن ان بتوں کی شفاعت بھی سنی جائے گی۔
یہ فقرات پڑھنے والے نے اس طرح پڑھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ آیاتِ قرآنیہ ہیں جو آپ نے تلاوت کی ہیں اور مشہور کر دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات بھی قرآن کریم میں بڑھا دی ہیں۔ یہ ایک منصوبہ تھا جو ایسے وقت پر کیا گیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سجدہ کی آیت تلاوت فرما رہے تھے۔ اس کے بعد جب آپ نے سجدہ کیا تومشرکین بھی آپ کے ساتھ سجدہ میں چلے گئے اور بعد میں انہوں نے مشہور کر دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نَعُوْذُبِاللّٰہِدین ِ توحید سے توبہ کر لی ہے اور اقرار کر لیا ہے کہ ان بتوں کی شفاعت بھی قبول ہو گی۔ اِس پر سارے خوش ہو گئے۔ اس لیے کہ اس واقعہ سے ان کی ایک بات کی تصدیق ہو گئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پرانا طریق چلا آ رہا ہے۔ آجکل ہی ایجاد نہیں ہوا۔ دراصل انسانی فطرت کمزور ہوتی ہے اس لیے انسان تھوڑی سی تعریف پر خوش ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ خدمتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ چلو میری ایک بات کی تصدیق ہو گئی۔ پس جن باتوں میں اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے ان پر ہر ایک خوش ہو جایا کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اب رستہ کھل گیا ہے کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں بلکہ دوسرا شخص صرف اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کی ایک بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔
ہر انسان میں خواہ وہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو کچھ اچھی باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ بلکہ ایک دہریہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس میں بھی بعض اچھی باتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ محنت کرتاہے، خدمتِ خلق کرتا ہے مصیبت زدوں کی امداد کرتا ہے، بیواؤں کی خبر گیری کرتا ہے اور یتیموں کی نگہداشت کرتا ہے مگر ہوتا دہریہ ہی ہے۔ اس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہوتا۔ غرض دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں پایا جاتا جس میں کوئی نیکی بھی نہ ہو بلکہ کوئی دہریہ بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں کوئی نیکی نہ پائی جاتی ہو۔ دنیا کے بد سے بد تر انسان میںبھی کوئی نہ کوئی نیکی ضرور پائی جائے گی حتّٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین دشمنوں میں بھی بعض اچھی باتیں پائی جاتی تھیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب طائف میں تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو طائف والوں نے آپ کو طرح طرح کی ایذائیں دیں، دکھ دئیے، پتھراؤ کیا اور آپ کے پیچھے کُتّے چھوڑدئیے۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو مکہ والوں کے دستور کے مطابق آپ دوبارہ شہر میں داخل ہونے کے مجاز نہیں تھے کیونکہ آپ ایک دفعہ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور مکہ والوں کے اصول کے مطابق آپ وہاں کے شہری نہیں رہے تھے۔ اب آپ کے سامنے یہ سوال تھا کہ آپ مکہ میں دوبارہ کس طرح داخل ہوں۔ آپ نے شہر کے ایک رئیس کے پاس جو آپ کا شدید ترین دشمن تھا پیغام بھجوایا کہ مَیں شہر میں داخل ہونا چاہتا ہوںکیا تم میرے لیے اعلان کرو گے کہ مجھے شہر میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔؟اُس وقت مکہ میں کوئی خاص قانون رائج نہیں تھا، کوئی پارلیمنٹ وغیرہ نہیں تھی۔ کوئی رئیس اگر اعلان کر دیتا کہ فلاں شخص کو میری طرف سے شہر میں داخل ہونے کی اجازت ہے تو عرب کے دوسرے سردار اسے مان لیتے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس رئیس کو ملا تو اس نے اپنے پانچوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اگرچہ ہمارے دشمن ہیں مگر وہ ہماری امان میں مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہم امان نہیں دیتے تو اس میں ہماری ہتک ہوگی۔ لیکن اگر ہم ان کو امان دے دیں تو شہر میں ان کی بہت مخالفت ہے اور اس مخالفت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ تم پر بھی کوئی حملہ کر دے۔ اس لیے تم سب ہتھیار پہن لو اور آپ کے آگے آگے چلو تاکہ کوئی دشمن آپ کو ایذا نہ پہنچا سکے۔2 دیکھو یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی خوبی تھی جو آپ کے شدید ترین دشمن میں پائی جاتی تھی۔ اس رئیس کے پانچوں بیٹے اپنی ننگی تلواریں لے کر آپ کے آگے آگے چلے اور آپ کو اپنے گھر چھوڑ آئے۔3
اس قسم کے کئی اَور واقعات بھی پائے جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو آپ کی ایک بیٹی پیچھے مکہ میں رہ گئی تھی۔ آپ نے اپنی بیٹی کو مدینہ بلایا اور اسے لینے کے لیے کچھ آدمی بھیجے۔ جب وہ آدمی آپ کی بیٹی کو لے کرمدینہ جانے لگے تو وہ حاملہ تھیں۔ کسی خبیث نے آپ کے اونٹ کی ہودج کی رسیاں کاٹ دیں جس کے نتیجہ میں وہ اونٹ سے نیچے گرپڑیں اور انہیں چوٹیں آئیں جن کی وجہ سے مدینہ جا کر آپ کا حمل بھی گر گیا اور ایک مہینہ کے بعد انہی چوٹوں کی وجہ سے آپ وفات پا گئیں۔ وہ شخص بھاگتا ہوا خانہ کعبہ میں گیا ۔ مکہ کے تمام سردار اور رؤساء وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے وہاں جا کر ان کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ مَیں نے کیا ہی اچھا کام کیا ہے۔ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی زینب مدینہ جا رہی تھیں کہ مَیں نے اس کے ہودج کی رسیاں کاٹ دیں جس کی وجہ سے وہ اونٹ سے نیچے گر گئیں اور انہیں بہت سے چوٹیں آئیں۔ اس مجلس میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ ہندہ جس نے حضرت حمزہؓ کے ناک اور کان کٹوائے تھے اور آپ کا پیٹ چاک کروایا تھا ۔ جب اس نے یہ بات سنی تو وہ غصہ میں آ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی کہ تُو نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ عرب ہمیشہ طاقتور پر ہی ہاتھ اٹھایا کرتے تھے عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے دشمن ہی سہی مگر تُو نے ان کی بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی کیسے جرأت کی۔ تُو نے تو ہماری ناک کاٹ دی ہے۔ تمہیں اپنے فعل پر شرم کرنی چاہیے اور بجائے اس کے کہ تم اپنے اس کارنامہ کو فخریہ طور پر بیان کرو تمہیں تو کسی کو اپنا منہ بھی نہیں دکھانا چاہیے۔ یہ کتنی اعلیٰ درجہ کی خوبی تھی جس کا ہندہ جیسی شدید دشمن نے اظہار کیا۔ پس کسی کافر اور بے ایمان یا شدید سے شدید ترین دشمن کے متعلق بھی یہ خیال کر لینا کہ اس کے اندر کوئی خوبی نہیں پائی جاتی غلط ہے۔
مشرقی پنجاب میں ایک ڈاکو تھا جو اپنے علاقہ میں ڈکیتی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ لوگ اُس سے بہت خوف کھاتے تھے۔ عورتیں اُس کا نام سن کر بے ہوش ہو جایا کرتی تھیں۔ ہم نے اس کے متعلق اس کے گاؤں والوں سے خود سنا ہے کہ وہ غریبوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا بلکہ ہمیشہ ان کی خبرگیری کیاکرتاتھا۔ ایک دفعہ ایک عورت جا رہی تھی۔ اس نے اُس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے نکال دو۔ اس عورت کو پتہ نہیں تھا کہ وہ فلاں مشہور ڈاکو ہے ورنہ وہ اسے دیکھ کر ہی بے ہوش ہو جاتی۔ جب اس ڈاکو نے اس عورت سے کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے نکال دو۔تو اس عورت نے کہا بیٹا! تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنی ماں پر ہاتھ اٹھاتے ہو۔ مَیں تمہاری ماں کے برابر ہوں اور پھر تم مجھ پر اپنا ہاتھ اٹھاتے ہو۔ اس ڈاکو نے کہا اچھااب تُونے مجھے اپنا بیٹا کہا ہے مَیں بھی اب تمہارا بیٹا ہی بن کر رہوں گا۔ اس کے بعد وہ جب بھی کوئی چوری کرتا تھا تو اس سے اس عورت کو کچھ نہ کچھ نذرانہ دے کر آتا تھا اور اس کی بہت خدمت کیا کرتا تھا۔ غرباء کو اُس سے اِس قدر محبت تھی کہ جب وہ گرفتار ہوا اور پولیس اُسے اسٹیشن پر لے گئی تو غرباء وہاں کثرت سے جمع ہو گئے اور انہوں نے اُس کی گرفتاری پر رونا شروع کردیا۔ اس لیے کہ وہ غرباء کی خدمت کیا کرتا تھا اور وہ اس دن اپنے محسن کی گرفتاری پر آنسو بہا رہے تھے۔ وہ ڈاکو تھا ، ظالم تھا مگر یہ نہیں کہ اس کے اندر کوئی بھی خوبی نہیں تھی۔ گندے سے گندا فرد ہی کیوں نہ ہو، گندی سے گندی قوم ہی کیوں نہ ہو اُس کے اندر کچھ نہ کچھ نیکی ضرور پائی جاتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ہماری کسی بات کی تعریف کر دے اور ہم سمجھ لیں کہ وہ برائی کو چھوڑ بیٹھا ہے اوراس بات پر ہم خوش ہو جائیں تو یہ ہماری نادانی ہو گی۔
ہماری جماعت کو ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جب تک وہ اُس صداقت کو پھیلا نہیں لیتی جو دنیا سے مٹ چکی ہے اُس وقت تک اسے صبر سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کسی معمولی سی اتحاد و اتفاق کی بات پر اگر کوئی پسندیدگی کا اظہار کر دے اور ہم اس پر خوش ہو کر اپنے فرض کی ادائیگی میں سست ہوجائیں اور یہ سمجھ لیں کہ بس ہم کامیاب ہو گئے ہیں تو یہ حماقت کی بات ہو گی۔ یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ دوسرا آدمی اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ اس نے ہماری بات مان لی ہے اور احمدیت کو سچا جان لیا ہے بلکہ وہ اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کی بات مان لی گئی ہے۔ پس جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اشاعتِ دین میں صَرف کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے جسے ہم نے سرانجام دینا ہے۔ دنیا کی اڑھائی ارب آبادی ہے جس کی ہم نے اصلاح کرنی ہے۔ پھر ہم نے ان کے جسموں پر حکومت نہیں کرنی بلکہ ہمارے سامنے ان کے دلوں کی اصلاح کا سوال ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سالہا سال کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ دوسرے سے اپنی بات نہیں منوا سکتے۔ باپ بیٹے کو اپنی بات نہیں منوا سکتا، بیوی خاوند کو اپنی بات نہیں منوا سکتی، خاوند بیوی کو اپنی بات نہیں منوا سکتا، بھائی بھائی کو اپنی بات نہیں منوا سکتا حالانکہ ان کے درمیان قریب ترین رشتہ ہوتا ہے۔ پاس پاس رہتے ہیں جب چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اپنے قریبی رشتہ دار سے نہیں منوائی جا سکتی تو وہ ساری دنیا سے کیسے منوائی جاسکتی ہے۔ وہ دنیا جو ہمارے ساتھ نہیں رہتی ہماری رشتہ دار بھی نہیں۔ ہم اس کی ساری زبانوں کے واقف بھی نہیں۔ اعتقادی، عملی، جذباتی اور فکری ہر لحاظ سے وہ ہم سے مختلف ہے۔ پھر اس میں ہر قسم کی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ کیا اقتصادی، کیا سیاسی اور کیا مذہبی ہم نے ان سب خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ پھر وہ ہماری مخالف ہے۔ ہمارے پاس نہیں بیٹھتی بلکہ ہم سے دور بھاگتی ہے۔ ہم نے اس دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کتنی محنت کی ضرورت ہے۔ کتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ پس مخالفت کے کم ہو جانے پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ لوگوں کو سمجھانے اور ا ن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس دنیا میں اگر کسی سے آپ کی چالیس پینتالیس سال تک دوستی رہتی ہے اور اگلے جہان میں وہ جہنم میں چلا جاتا ہے تو یہ کوئی دوستی نہیں کہلا سکتی۔ حقیقی دوستی یہی ہے کہ وہ بھی تمہارے ساتھ جنت میں ہو۔ پس سنجیدگی اور پختہ عزم کے ساتھ کام کرو۔ جب تک اس اہم کام کے متعلق آپ کے اپنے نفسوں میں سنجیدگی پیدا نہیں ہوتی دوسروں پر آپ کا کوئی نیک اثر نہیں پڑ سکتا۔
اِس وقت زمانہ کی حالت نازک سے نازک تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے روحانی بچاؤ کی اب یہی صورت رہ گئی ہے کہ وہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں اور سوائے احمدیت کے اَور کسی ذریعہ سے مسلمان ایک ہاتھ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ آخر دنیا کے تمام ممالک کسی ایک آدمی کے ہاتھ پر کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ یہ تغیر اسی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جب کوئی کہے کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے۔ پھر جس کی سمجھ میں اس کی بات آ جائے گی وہ اس کے ہاتھ پر اکٹھا ہو جائے گا ورنہ تمام ملکوں اور حکومتوں کے اپنے اپنے پروگرام ہوتے ہیں اور وہ کسی دوسرے کی غلامی اختیار نہیں کر سکتے۔ پس جب تک مختلف قومیتیں ایک آواز کے تابع نہیں ہو جاتیں۔ اُس وقت تک تمام مسلمانوں کا ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونا مشکل ہے۔ یہ اختلاف اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب کوئی کہے کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں اور تمام لوگ قطع نظر اس سے کہ وہ مصری ہوں یا ایرانی، عربی ہوں یا افغانی اس کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں۔ تب باوجود مختلف ممالک میں رہنے اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے کے ان میں اتحاد ہو گا اور وہ اسلام کی ترقی کے لیے کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور احمدیت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ آپ لوگ سلسلہ کی اشاعت میں کوتاہی کر کے اپنی کامیابی کو پیچھے ڈال رہے ہیں اور ان برکات سے جن کے آپ مستحق ہو سکتے ہیں اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں۔ سو کوشش کرو کہ اسلام دنیا پر جلد غالب آ جائے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے4کا نظارہ نظر آنے لگے"۔
(الفضل 22دسمبر 1961ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
تفسیر البغوی (معالم التنزیل)جلد 4 صفحہ125۔ سورۃ الحج آیت 52 … مطبع دارالفکر بیروت 1985ء
2
:
سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ20۔ مطبع مصر 1936ء
3
:
طبقات ابن سعد جلد 1صفحہ 212مطبوعہ بیروت 1985ء
4
:
النصر:3



ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی شہادت پر جماعت کو
کیا ردّعمل دکھانا چاہئے۔
(فرمودہ 20؍ اگست 1948ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
(غیرمطبوعہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"پرسوں رات جوو اقعہ ہوا ہے ٭ وہ ایسا نہیں ہے جسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا جائے۔ دنیا میں ہر بڑے کام کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہوتا ہے اور وہ نتیجہ ہر شخص اپنے اپنے رنگ میں نکالتا ہے۔ گندے لوگ گندے پہلو سے اُس کا نتیجہ نکالتے ہیں اور شریف آدمی شریف پہلو سے اُس کا نتیجہ نکالتے ہیں۔ مگر بہرحال عقلمند آدمی کسی اہم کا م کو نظر انداز نہیں کیا کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اُسے احمق تو ثابت کر دے گا مگر اُس کام کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جیسے کہتے ہیں جب کبوتر پر بلی حملہ آور ہوتی ہے تو وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اب وہ بلّیسے محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ اُسے بلّی نظر نہیں آرہی اِس لیے وہ بھی اِس بلّی کو نظر نہیں آرہا۔ حالانکہ کسی اہم کام کو نظرانداز کر دینے سے اُس کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جو واقعہ پرسوں رات ہوا ہے اُس کا کیا ردِّعمل ہو گا؟ یہ ایک سوال ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ دنیا میں سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔ کوئی رذیل ہوتا ہے اور کوئی شریف ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں ردِّعمل اختیار کر لیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک انصاری نوجوان سے غلطی ہوئی اور اُس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال مکہ والوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ آپؐ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو اکٹھا کیا اور فرمایا اے انصار! مَیں نے سنا ہے تم میں سے ایک نوجوان نے یہ کہا ہے کہ خون توہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مالِ غنیمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطنوں اور رشتہ داروں کو دے دیا ہے۔ انصار نے روتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہم میں سے ایک بیوقوف نوجوان نے یہ بات کہہ دی ہے ورنہ ہم اُس سے بیزار ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آپ کے ہم وطن تھے اور رشتہ دار تھے اپنے شہر سے نکال دیا تو ہم نے آپؐ کو پناہ دی۔حالانکہ آپؐ ہماری قوم کے نہیں تھے،آپ ہمارے وطن کے نہیں تھے۔ پھرمکہ والوں نے یہیں تک بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے آپؐ کا مدینہ میں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور آپ پر حملہ کر دیا۔ اِس پر ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے آپ کی حفاظت کی لیکن جب ہماری قربانیوں اور فدائیت کی وجہ سے آپؐ نے فتح پائی تو آپ نے غنیمت کے تمام اموال اپنے ہم وطنوں اور رشتہ داروں کو دے دیئے اور مدینہ والوں کو نظرانداز کر دیا۔ انصار نے عرض کیا یَارسولَ اللہ! ہم ایسا نہیں کہتے۔ یہ الفاظ ہمارے ایک بیوقوف نوجوان کے منہ سے نکلے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے انصار! اگر تم چاہو تو یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مبعوث ہوئے۔ وہ مکہ جس کے لیے یہ عزت اور رتبہ مقدّر تھا اُس کے رہنے والوں نے اِس نعمت کی ناقدری کی اور خدا کے رسول کو باہر نکال دیا اور خدا نے یہ نعمت مدینہ والوں کے سپرد کردی۔ آخر خدا نے اپنے نشانوں اور معجزات کے ذریعے اُسے فتح دی، اپنے فرشتوں کی مدد سے اُسے دشمنوں پر غلبہ بخشا اور یہ چھوٹی سی قوم فاتح بن گئی۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو مکہ والے یہ اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ہماری امانت ہمیں واپس مل جائے گی اور اللہ تعالیٰ کا رسول مکہ میںپھر واپس آجائے گا۔ مگر بجائے اللہ کے رسول کو مکہ میں لے جانے کے مکہ والے تو اونٹ اوربکریاں ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور مدینہ والے اللہ تعالیٰ کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے۔ 1 پس ہر ایک چیز کو مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔
پرسوں رات جو واقعہ ہوا ہے اُس کا یہ ردِّعمل بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ ایک جان ضائع ہو گئی ہے اِس لیے ہمیں احمدیت کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ بے ایمانی کا ردِّعمل ہو گا۔ اِس کا یہ بھی ردِّعمل ہو سکتا ہے کہ اب کمزوری اور بزدلی دکھائی جائے ورنہ ہم بھی مارے جائیں گے۔ یہ غیراسلامی ردِّعمل ہوگا۔ پھر ایک یہ بھی ردِّعمل ہو سکتا ہے کہ ہم بھی دوسروں کو مارنے لگ جائیں۔ مگر یہ بھی غیراسلامی ردِّعمل ہو گا۔ کیونکہ مارنے سے دل درست نہیں ہوتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر تلوار اٹھائی تھی تو کفار کے انتہائی ظلم کے بعد اٹھائی تھی اور پھر اُن ظلموں کو ایک لمبے عرصہ تک برداشت کرنے کے بعد اٹھائی تھی۔ پہلے ہی دن آپ نے ایسا نہیں کیا کہ اگر کسی کافر نے کسی مسلمان کو مارا ہو تو آپ نے بھی اُسے مارنا شروع کر دیا ہو۔ بلکہ جب انتہائی مظالم کی وجہ سے آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور پھر بھی کفار نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تب خدا تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو اجازت دی کہ وہ بھی دشمن کے مقابلے میں تلوار اٹھا سکتے ہیں۔ 2 پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اور اُس وقت اُٹھائی جب آپ نے دیکھ لیا کہ دشمن اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتا۔ پھر ایک ردِّعمل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم یہ جگہ چھوڑ کر بھاگ جائیں جیسے بزدل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں مگر اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا۔
مَیں جماعت کے دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ فعل صرف اس لیے ہوا ہے کہ ان لوگوں میں ایمان نہیں تھا، انہیں صداقت کا کوئی علم نہیں تھا۔ اُنہوں نے یہ کام بیوقوفی سے کیا اور اِس میں صرف آپ لوگوں کا ہی قصور ہے۔ اگر آپ نے انہیں احمدیت سے واقف کیا ہوتا تو وہ اِتنے جاہل کیوں بنتے؟ پس پرسوں رات جو واقعہ ہوا ہے اس کا ایک ردِّعمل یہ بھی ہے کہ آپ لوگ تبلیغ کو زیادہ کر دیں۔
غرض اِس کے کئی ردِّعمل ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم ڈر جائیں اور خاموش ہوجائیں یہ منافقت اور بے دینی کا ردِّعمل ہوگا ۔یا ہم لڑنے لگ جائیں یہ اسلام سے ناواقفیت کا ردِّعمل ہوگا۔ یا ہم بھاگ جائیں یہ کمزوروں اور بزدلوں کا ردِّعمل ہوگا۔ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف اِسی وجہ سے ہوا ہے کہ وہ لوگ احمدیت سے ناواقف تھے ۔ یہ حملہ ہمارے اپنے فرض کی ادائیگی میں کمزوری دکھانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ پس ہمیں اب پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کریں اور اِس کام کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانی کا نمونہ دکھائیں۔ یہی ایک صحیح ردِّعمل ہے اور یہی فطرتِ صحیحہ کے مطابق ہے اور اِسی میں حقیقی جرأت اور دلیری پائی جاتی ہے۔
اِس واقعہ کے بعد آپ کو چاہیے کہ اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کریں اور وہ اِس رنگ میں کہ آپ سمجھ لیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ اِسی لیے کیا گیا ہے کہ آپ کے غیر بہت زیادہ تعداد میں تھے اور آپ بہت کم تھے۔ اگر آپ بھی دس بیس ہزار ہوتے تو اُنہیں ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ تبلیغ میں سُست نہ ہوتے اور یہ لوگ جان لیتے کہ احمدیت کیا ہے، اگر یہ لوگ جان لیتے کہ احمدیت کے ذریعہ ہی اسلام نے غالب آنا ہے تو احمدیت کے خلاف ان میں اتنا جوش کبھی نہ پایا جاتا۔ اور پھر اگر جماعت صحیح رنگ میں تبلیغ کرتی تو اِس کی تعداد بھی بڑھ جاتی۔ بزدل ایسے لوگوں پر کبھی حملہ آور نہیں ہوتے جن کی تعداد زیادہ ہو۔بزدل ہمیشہ اُن لوگوں پر ہی حملہ کرتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ وہ کمزور ہیں ۔اور جب کسی جماعت کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر بزدل ڈر جاتا ہے۔ پس اگر صحیح طور پر تبلیغ ہوتی تو جماعت اب سے کئی گُنازیادہ ہوتی اور دشمن اِس وقت تک مرعوب ہوچکاہوتا۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا یہاں پورے طور پر تبلیغ نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ اب نظر آگیا ہے۔ جماعت کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ میاں خود ہی تبلیغ کریں گے۔ یا اگر اُس نے چندہ دے دیا ہے تو گویا اُس نے اللہ تعالیٰ پر احسان کر دیا ہے۔ مگر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ اتنا ہی وقت تبلیغ پر صَرف کیا کرتے تھے جتنا تم کرتے ہو۔ جب دشمن اعتراض کرتا ہے کہ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے تو آپ لوگ یہی جواب دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کی وجہ سے نہیں بلکہ تبلیغ کی وجہ سے پھیلا ہے۔ تو کیا صحابہ تلوار کے علاوہ تبلیغ پر اِتنا ہی وقت خرچ کرتے تھے جتنا آپ لوگ کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو اِس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم اپنے فرض کو نہیں پہچانتے۔ سو اِس واقعہ کا صحیح ردِّعمل یہی ہے کہ آپ تبلیغ کو اَور زیادہ تیز کر دیں۔ مومن ڈرا نہیں کرتا۔ آپ خداتعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر آپ خداتعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے تو وہ احمدیت کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اُن کے دلوں سے خودبخود کینہ نکلتا جائے گا۔ اور جب احمدیت کی اشاعت ہو جائے گی تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جہالت جاتی رہے گی اور ان لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ احمدیت اسلام کی دشمن نہیں بلکہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ اور جو شخص انہیں احمدیت کے خلاف مائل کرے گا وہ اُس کی بات نہیں مانیں گے بلکہ سمجھ لیں گے کہ وہ انہیں اسلام کے خدمت گاروں کے خلاف لڑانا چاہتا ہے۔
پس اس کی کُلّی ذمہ داری جماعت پر ہے۔ جماعت نے تبلیغ میں سُستی کی اور سچائی کو لوگوں تک نہیں پہنچایا۔ یہ لوگ جاہل ہیں اور احمدیت سے ناواقف ہیں۔ مذہبی جوش میں آکر وہ ایسا کر جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کو ناراض کر رہے ہیں اور اُس کی تعلیم کے خلاف حرکات کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں اِس لیے دیوانگی کے ساتھ اُنہوں نے ایسا کیا۔ اوراپنے خیال میں اُنہوں نے سمجھ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر رہے ہیں اور اُس کے رسول کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ احمدیت کی عدمِ اشاعت کا نتیجہ ہے۔ یہ انہیں احمدیت سے ناواقف رکھنے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ لوگ احمدیت سے واقف ہوتے تو یہ نتیجہ کبھی نہ نکلتا۔ چنانچہ جہاں جہاں بھی احمدیت سے لوگوں کو واقفیت ہوگئی ہے اگرچہ وہاں کے تمام لوگ احمدیت میں داخل نہیں ہوئے مگر وہ اتنے جوش میں بھی نہیں آتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علماء انہیں غلط راستے پر لے جاتے ہیں۔ بہرحال ایسے افعال احمدیت سے عدمِ واقفیت کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان کی تمام ذمہ داری جماعت پر ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ غیراحمدی مولوی لوگوں کو احمدیت کی باتیں سنائیں۔ بہرحال وہ تو احمدیت کو غلط طور پر ہی پیش کریں گے۔ یہ احمدیوں کا اپنا فرض ہے کہ وہ دلیری اور بہادری سے احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ جماعت پوری طرح تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ تبلیغ یہ نہیں کہ کوئی آپ کے پاس آئے اور وہ آپ کی باتیں سن کر کہہ دے سُبْحَانَ اللّٰہِ! احمدیہ جماعت نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ اور آپ کہیں بس تبلیغ ہو گئی۔ یہ کوئی تبلیغ نہیں ۔تبلیغ کے معنے یہ ہیں کہ اُن باتوں کو پیش کیا جائے جنہیں دوسرے لوگ نہیں مانتے، اُن کے سامنے وہ چیزیں پیش کی جائیں جن کے متعلق دشمن اُنہیں اشتعال دلاتا ہے۔ اُنہیں بتایا جائے کہ دراصل آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ توسچائیاں ہیں اور آپ کو چاہیے کہ انہیں قبول کریں۔ ویسے کسی کو گھر لے جاکر اور چائے پلا کر یہ بتا دینا کہ ہم اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں یہ تبلیغ نہیں۔ تبلیغ یہ ہے کہ اُن کے سامنے وہ تلخ باتیں پیش کی جائیں جن کو وہ تلخ سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے وہ ہماری مخالفت کرتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوٰی نبوت فرمایا اور مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک اُتھی تو ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ قریش کی طرف سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے کہا کہ مَیں تم سے صرف یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ آخر تم نے جو اپنی قوم میں اِتنا بڑا فتنہ برپا کر رکھا ہے تو اِس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم سب مل کر تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم ہم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ۔ اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اگر شادی کی خواہش ہے تو ہم سب سے زیادہ حسین اور اعلیٰ گھرانے کی لڑکی تمہیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ غرض جو بھی تمہاری خواہش ہے کُھل کر بتادو ہم اُسے پورا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ جب وہ اپنی تقریر ختم کر چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میرا جواب بھی سن لو۔ اور یہ کہہ کر آپ نے سورۃ حٰمٓ سجدۃ کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں خداتعالیٰ کی توحید کا ذکر آتا ہے۔ جب آپ اِس آیت پر پہنچے کہ 3یعنی اگر یہ لوگ اِعراض کریں تو تُو انہیں کہہ دے کہ مَیں تمہیں اُسی قسم کے عذاب سے ڈراتاہوں جس قسم کا عذاب عاد اور ثمود پر آیا۔ تو عتبہ کارنگ فق ہو گیا اور اُس نے بے اختیار اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر رکھ دیا اور کہادیکھو! محمد ایسا نہ کہو۔آخر یہ آپ ہی کی قوم ہے۔4 اب دیکھو مکہ والے آپؐ پر ظلم کرتے تھے مگر وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ دعا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے گی وہ عرش کو ہِلا دے گی اور ہمیں تباہ کر دے گی۔ پس یہ غلط ہے کہ دشمن ظلم کو نہیں سمجھتا۔ ظلم کبھی لمبا نہیں چلا کرتا بلکہ ایک حد تک ہی چلتا ہے اور پھر بند ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح آجکل لوگ بیشک ہماری مخالفت کریں مگر آخر اِنہی میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صداقت کو قبول کریں گے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ قادیان میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے تقریر کی۔لوگوں میں ہمارے خلاف بڑا جوش تھا۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں میرے متعلق کہا کہ اگر یہ سچے ہیں تو میرے ساتھ مقابلہ کریں۔ہم اکٹھے کلکتہ تک کا سفر کرتے ہیں۔پھر ہم دیکھیں گے کہ کس پر پتھر پڑتے ہیں اور کس پر پُھول برستے ہیں؟ مَیں نے شام کو اپنے جلسہ میں جواب دیا کہ مولوی صاحب نے تو خود ہی صداقت کا فیصلہ کر دیا ہے۔ وہ سوچیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پڑا کرتے تھے یا پُھول برسا کرتے تھے؟ اورابوجہل پر پتھر پڑا کرتے تھے یا پُھول برسا کرتے تھے؟ پس جو پتھر مارتا ہے یا پتھر مارنے پر اُکساتاہے وہ دونوں یہ جانتے ہیں کہ صداقت کارگر ہوگی۔ اِس لیے اُن کے لیے سوائے ظلم کے اَور کوئی چارہ نہیں۔
پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مظالم دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں۔ پرسوں ہی ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ایک نوجوان آیا اور اُس نے کہا مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ پھر اُس نے خود ہی بتایا کہ آج صبح مَیں دکان پر گیا تو ابھی مَیں دکان کھول ہی رہا تھا کہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ہم نے رات ایک قادیانی مار دیا ہے اور اب اُن کا ایک نمبر کم ہو گیا ہے۔ مَیں نے کہا اچھا! اگر اُن کا ایک نمبر کم ہوگیا تومَیں اُسے پورا کرتا ہوں۔ چنانچہ مَیں نے پھر دکان کو قفل لگا دیا اور سیدھا یہاں چلا آیا تاکہ بیعت کرلوں۔ اب دیکھو وہ پہلے ہماری جماعت میں شامل نہیں تھا مگر جب اُس نے دیکھا کہ شرافت اور انسانیت دنیا سے اِتنی مٹ چکی ہے کہ محض صداقت اور سچائی کے لیے ایک انسان کو قتل کر دیا جاتا ہے تو وہ اسے برداشت نہ کرسکا اور اُس نے جرأت کرکے احمدیت کو قبول کرلیا۔
دنیا میں سارے لوگ گندے نہیں ہوتے۔ دنیا میں بہادر بھی ہوتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو مظالم کو دیکھ کر سچائی اور صداقت کو قبول کر لیتے ہیں۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ جو اسلام سے پہلے عرب میں بڑے بہادروں میں شمار ہوتے تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی انہوں نے بہادری کے کارہائے نمایاں دکھائے ہیں ایسے ہی واقعات کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت حمزہؓ آپؐ کے چچا تھے لیکن اُن کی زندگی سپاہیانہ تھی اور ہر وقت تیراندازی وغیرہ میں مشغول رہتے تھے اورسمجھتے تھے کہ وہ بڑا کام کر رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوٰی نبوت کیا تو آپ نے بھی سنا۔ آخر آپ قریبی رشتہ دار تھے اور پاس ہی رہتے تھے لیکن آپ نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ آپ سمجھتے تھے کہ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔ زندگی ہے تو ہماری ہے۔ ہر وقت شکار کھیلتے اورتیراندازی میں مشغول رہتے ہیں۔ اِس سے بڑھ کر اَور کیا کام ہو گا۔ایک دن مکہ کے نزدیک صفا پہاڑی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوجہل آیا۔ وہ جوش میں بھرا ہوا تھا۔اُس نے آتے ہی آپؐ کو بے تحاشا گالیاں دینی شروع کردیں۔ اور پھر اُس نے یہیں تک بس نہ کی بلکہ آپ کو ایک تھپڑ بھی دے مارا۔ مگر آپؐ نے اُس کے جواب میں صرف اِتنا کہا کہ مَیں نے آپ کا کیا قصور کیا ہے کہ آپ لوگ مجھے دکھ دیتے ہیں؟صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام ہی مَیں آپ لوگوں کو پہنچاتا ہوں اَور تو کچھ نہیں کہتا۔ مگر اُس کا جوش پھر بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور وہ گالیاں دیتا ہوا واپس چلا گیا۔حضرت حمزہؓ کا گھر قریب ہی تھا۔ آپ کی ایک لونڈی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی۔ گھر کی لَونڈیاں اگرچہ لَونڈیاں ہی ہوتی ہیں مگر زیادہ دیر گھر میں رہنے کی وجہ سے اپنے آپ کو رشتہ دار ہی سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ جب آپ کی لَونڈی نے وہ نظارہ دیکھا تو اُس کے اندر دردپیدا ہوا۔ مگر عورت تھی وہ کر ہی کیا سکتی تھی؟ شام کو جب آپ شکار سے واپس آئے تو وہ چیل کی طرح جھپٹ کر آپ کی طرف آئی اور کہنے لگی تم سپاہی بنے پھرتے ہو۔ صبح مَیں نے دیکھا ہے کہ تمہارا بھتیجا صفا پہاڑی پر بیٹھا ہوا تھا کہ ابوجہل آیا اوراُس نے بے نقط گالیاں دینی شروع کردیں۔ پھر عورتوں کی طرح اُس نے قسم کھا کر کہا خدا کی قسم! اُس نے اُسے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ابوجہل گالیاں دیتا گیا،دیتا گیا مگر وہ خاموش رہا۔ اِس پر اُسے اَور غصہ آیا اور اُس نے اُسے ایک تھپڑ مار دیا۔ مگر اِس پر بھی اُس نے صرف یہی کہا کہ میرا کیا قصور ہے جس کی وجہ سے تم مجھے مارتے ہو؟ مَیں تو آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی باتیں ہی سناتا ہوں۔ حضرت حمزہؓ بہادر آدمی تو تھے ہی صرف عقل کو دین کی روشنی نہیں ملی تھی۔ اُن کی غیرت نے جوش مارا اور وہ اُسی وقت باہر چلے گئے اور خانہ کعبہ میں آئے۔ ابوجہل وہاں بیٹھا ہوا تھا اور دوسرے رؤسائے مکہ بھی اُس کے اردگرد بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف باتیں ہو رہی تھیں۔ آپ بھی ایک رئیس آدمی تھے۔ جب اُنہوں نے آپ کو آتے دیکھا تو آپ کے لیے جگہ خالی کر دی۔ مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور آگے گزر کر ابوجہل کے منہ پر کمان ماری اور کہا تم میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اِس لیے گالیاں دیتے اور مارتے ہو کہ وہ تمہاری باتوں کا جواب نہیں دیتا؟ اب سُن لے کہ مَیں بھی اُس کے دین پر ہوں۔ اگر تم میں طاقت ہے تو مجھ سے لڑ لو۔ سارے رؤسائے مکہ کھڑے ہوگئے تاکہ وہ اِس ہتک کا بدلہ لیں۔ لیکن ابوجہل نے سمجھ لیا کہ اگر انہوں نے حمزہ کو مارا تو یہ مسلمان تو ہے نہیں مکہ میں لڑائی شروع ہو جائے گی اور بنوہاشم اور اُن کے حلیف ایک طرف ہوجائیں گے۔ چنانچہ ابوجہل نے اُن سے کہا جانے دو۔ آج صبح مجھ سے ہی غلطی ہوگئی تھی۔ پھر حضرت حمزہؓ وہاں سے اُٹھے اور سیدھے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اسلام قبول کرلیا۔ 5
حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ آپ نے انعام مقرر کیا ہوا تھا کہ جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر کاٹ کر لائے گا مَیں اُسے اتنے اونٹ انعام دوں گا۔ مگر کسی نے آپؐ کو نہ مارا۔آخر حضرت عمرؓ کو کسی نے طعنہ دیا کہ تم اتنے بہادربنے پھرتے ہو تو خود ہی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیوں نہیں مار ڈالتے؟ آپ نے سمجھا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ آپ فوراً گھر سے نکل پڑے۔ آپ کی طبیعت چونکہ جوشیلی تھی اِس لیے گھر سے نکلتے ہی تلوار سونت لی ۔ آپ ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جا ہی رہے تھے کہ کسی نے آپ سے پوچھاعمر! کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا محمد(رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جا رہا ہوں۔ اُس شخص نے کہا تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی تو مسلمان ہوچکے ہیں اور تم محمد رسول اللہ ؐکو قتل کرنے چلے ہو! حضرت عمرؓ نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ اُس نے کہا نہیں۔ تم خود جا کر دیکھ لو۔ حضرت عمرؓ واپس لوٹے اوراپنی بہن کے گھر کی طرف گئے۔ آپ کی بہن اور بہنوئی نے قرآن سیکھنے کے لیے ایک صحابی کو گھر پر بلایا ہوا تھا۔ پردہ ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔ پردہ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا ہے۔ اُنہوں نے احتیاطاً دروازہ بند کیا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ دروازہ پر گئے اور اپنی بہن کو آواز دی۔ وہ حضرت عمرؓ کی طبیعت کو جانتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اس صحابی کو چُھپا دیا اور آگے ایک پردہ ڈال دیا اور پھر دروازہ کھولا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا تم نے دروازہ کھولنے میں اِتنی دیر کیوں لگائی ہے؟ انہوں نے کہا کچھ کام کر رہے تھے جس کی وجہ سے دیر لگ گئی ہے۔ آپ نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہارے ساتھ کوئی اَور آدمی بھی تھا۔ اور مَیں نے سنا ہے کہ تم صابی ہوگئے ہو۔ مسلمانوں کو اُس وقت صابی کہا جاتا تھا جیسے آجکل ہمیں قادیانی کہا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے بہن اور بہنوئی چونکہ ابھی ایمان چُھپانا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے ٹلاواں جواب دے دیا۔ حضرت عمرؓ کو جوش آگیا اور زور سے ہاتھ اُٹھا کر اپنے بہنوئی کو مارنا چاہا۔ چونکہ آپ اپنے بہنوئی کو محض اسلام لانے کی وجہ سے مارنا چاہتے تھے اِس لیے آپ کی بہن کو جوش آگیا اور اُس نے یہ پسند نہ کیا کہ اسلام کی وجہ سے اُس کے خاوند کو مار پڑے۔وہ کُود کر آگے آگئی اور حضرت عمرؓ اور اپنے خاوند کے درمیان حائل ہوگئی اور کہا مَیں تمہیں مارنے نہیں دوں گی۔ اگر مارنا ہے تو مجھے مارو۔ ہم ایمان لاچکے ہیں۔ تمہاری جو مرضی ہو کرلو۔ حضرت عمرؓ بہادر تھے اور شرافتِ نفس آپ کے اندر پائی جاتی تھی مگرچونکہ آپ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اِس لیے اپنے ہاتھ کو روک نہ سکے اور مُکّا آپ کی بہن کے ناک پر لگا جس سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ چونکہ آپ نے عربوں کے دستور کے خلاف ایک عورت پر ہاتھ اُٹھایا تھا اورپھر غیرمجرم پر ہاتھ اٹھایا تھا، اپنی بہن کا خون نکلتے دیکھ کر اُنہیں ندامت محسوس ہوئی اور اُنہوں نے کہا بہن! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم کیا پڑھ رہی تھیں؟ لیکن آپ کی بہن کو بھی غصہ تھا۔ وہ بھی آخر حضرت عمرؓ کی ہی بہن تھی۔ انہوں نے کہا تم ناپاک ہو اور مشرک ہو ہم تمہیں قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ اگر قرآن کریم سننا ہے تو پہلے نہا کر آؤ۔حضرت عمرؓ جیسا بہادر آدمی بھیگی بلّی کی طرح نہانے کے لیے چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نہا کر واپس آئے اور فرمایا بہن! میں اب نہا آیا ہوں۔ اب مجھے قرآن سناؤ۔ بہن نے قرآن کریم کا ورق آپ کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہی عمرؓ تھا جس نے سارا قرآن کریم سنا تھا مگر پھر بھی مخالفت پر ہی کمربستہ رہا۔ مگر اب ظلم کی وجہ سے اُس کے دل میں نرمی پیدا ہو چکی تھی اور خدا کاخوف پیدا ہو گیا تھا اور دل کی کھڑکیاں جو پہلے بند تھیں اب کھل چکی تھیں۔ آپ نے ابھی تین چار آیات ہی پڑھی تھیں کہ کھڑے ہوگئے اور کہا بہن! مجھے بتاؤکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں رہتے ہیں؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں خطرے کی وجہ سے ایک مکان میں نہیں ٹھہرتے تھے بلکہ کبھی کسی گھر میں ہوتے تھے اور کبھی کسی گھر میں۔ آپ کی بہن نے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتا دیا اور آ پ فوراًاُس طرف چل دیئے۔ مگر بعد میں خیال آیا کہ کہیں بھائی کی نیت خراب نہ ہو اِس لیے انہوں نے آگے بڑھ کر آپ کی گردن پکڑ لی اور کہا خدا کی قسم! مَیں تمہیں اُس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم یہ اقرار نہیں کر وگے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی نہیں کرو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا مَیں اقرار کرتا ہوں کہ مَیں آپؐ کی بے ادبی نہیں کروں گا۔پھر انہوں نے آپ کو چھوڑ دیا اور آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں دارِارقم میں مُقیم تھے۔ دروازہ بند تھا اور آپ قرآن کریم کا درس دے رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ صحابہؓ نے پوچھا کون ہے؟ آپ نے جواب دیا عمر بن خطاب۔ صحابہ نے کہا کہ یہ تو بڑا ظالم آدمی ہے۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے انعام مقرر کیا ہوا ہے کہیں یہ شرارت نہ کرنے آیا ہو اِس لیے دروازہ نہیں کھولنا چاہیے۔ حضرت حمزہؓ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے لڑنا صرف عمر کو ہی نہیں آتا ہمیں بھی آتا ہے۔ دروازہ کھول دو۔ مَیںدیکھوں گا کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تب تو خیر ورنہ اُسی کی تلوار سے مَیں اُس کی گردن کاٹ دوں گا۔ صحابہؓ نے دروازہ کھولا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! تم شرارتوں سے باز بھی آؤ گے یا نہیں؟ مگر عمرؓ اب وہ عمرنہیں تھے جو پہلے تھے۔آپ نے گردن جُھکا لی اورفرمایایارسول اللہ! مَیں تو اسلام قبول کرنے کے لیے آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے انعام مقرر کیا ہوا تھا آپ کا ایمان لانا صحابہؓ کے لیے ایک عجیب چیز تھی۔ صحابہؓ نے جوش میں آکر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ مارا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمیں کبھی نعرہ تکبیر بُلند کرنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ ہم ڈرتے تھے کہ کہیں کفار ہم پر حملہ نہ کردیں۔حمزہؓ پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے اور اب حضرت عمرؓ بھی مسلمان ہو گئے توہم نے خیال کیا کہ اب ہمیں چُھپ کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔6
تو دیکھو یہ دونوں پہلوان مظالم کی وجہ سے ہی اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ دلیلیں تو انہوں نے پہلے بھی سُنی ہوئی تھیں۔ قرآن کریم پہلے بھی سنا ہوا تھا مگر پہلے اُن پر اثر نہیں ہوتا تھا۔ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے تھے۔ مگر جب دیکھا کہ اسلام باوجود مخالفت کے بڑھ رہا ہے اور ہم بِلاوجہ مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں۔
حضرت عمرؓکے ساتھ پہلے بھی ایک واقعہ اِسی رنگ کا ہو چکا تھا۔ ایک صحابیہؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو ہم رات کو نکلتے تھے تاکہ کفار کو ہمارا علم نہ ہو سکے اوروہ ہمیں لُوٹ نہ لیں۔ ہم سحری کے وقت سامان باندھ رہے تھے کہ اتفاقاً حضرت عمرؓ بھی پھرتے پھراتے وہاں آگئے۔ حضرت عمرؓ شاید اُس صحابیہؓ کے رشتہ دار تھے یا ویسے ہی واقف تھے۔ احادیث میں تعلقات کا ذکر نہیں آتا۔ وہ صحابیہ کہتی ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا بی بی! تم کہاں جا رہی ہو؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم وطن چھوڑ کر کہیں باہر جا رہی ہو۔ انہوں نے کہا وطن کیوں نہ چھوڑیں وطن کس کو عزیز نہیں ہوتا پھر مکہ جیسا وطن۔ مگر تم ہمیں یہاں آزادی سے عبادت نہیں کرنے دیتے۔ اِس لیے باوجود اِس کے کہ مکہ ہمیں بہت عزیز ہے ہم مجبور ہیں کہ یہاں سے نکل جائیں۔ حضرت عمرؓ اس وقت کافر ہی تھے مگر وہ صحابیہ بیان کرتی ہیں کہ جب مَیں نے حضرت عمرؓ سے یہ کہا کہ ہم وطن اِس لیے چھوڑ رہے ہیں کہ تم یہاں ہمیں آزادی سے عبادت نہیں کرنے دیتے تو میری آواز میرے خاوند نے بھی سن لی اور اُس نے بعد میں پوچھا کہ یہ کون شخص تھا جس سے تم باتیں کر رہی تھیں؟ مَیں نے کہا یہ عمرؓ تھا۔ اور پھر مَیں نے بتایا کہ مَیں نے اُسے کیا کہا ہے۔ میرے خاوند نے کہا عمر بڑا سنگدل آدمی ہے، اُس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ مَیں نے کہا آج تو اُس پر اثر تھا۔ جب مَیں نے اُسے کہا کہ تم ہمیں آزادی سے یہاں عبادت کرنے نہیں دیتے اِس لیے ہم مکہ جیسے عزیز وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہیں تو اُسے اُس وقت یقینا صدمہ پہنچا تھا۔ اُس نے فوراًدوسری طرف اپنا منہ کر لیا۔ شاید اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے جو وہ مجھ سے چھپانا چاہتا تھا اور پھر منہ پھیر کر اُس نے کہا اچھا جاؤ خدا حافظ۔7 غرض مظالم کو دیکھ کر سنگدل سے سنگدل انسان کے اندر بھی نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو آپ کی ایک صاحبزادی یعنی حضرت زینب پیچھے رہ گئی تھی۔ آپؐ نے وہاں سے چند آدمی بھیجے تا اُنہیں مدینہ لے آئیں۔ آپ اُن دنوں حاملہ تھیں۔ راستہ میں کسی بدبخت نے آپ کے ہودج کی رسیاں کاٹ دیں جس کی وجہ سے ہودج نیچے گر پڑا اور آپ کو چوٹیں آئیں جن کے نتیجہ میں آپ کا حمل بھی گر گیا اورایک مہینہ کے بعد اُسی تکلیف کی وجہ سے آپ فوت ہوگئیں۔ وہ شخص فوراً دوڑتا ہوا خانہ کعبہ میں آیا۔وہاں رؤسائے مکہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی وہاں تھی۔ وہ ہندہ جس نے حضرت حمزہؓ کے ناک اور کان کٹوائے تھے اور آپ کا پیٹ چاک کروایا تھا۔ وہ شخص بڑے جوش سے اُن کے پاس جا کر کہنے لگا کہ مَیں نے آج خوب ہی اچھا کام کیا ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کی بیٹی زینب مدینہ جارہی تھی کہ مَیں نے اُس کے ہودج کی رسیاں کاٹ دیں اور وہ نیچے گر پڑی اور اُسے بُری طرح چوٹیں آئیں۔ اب دیکھو یہ ایک ظلم کی بات تھی۔ ہندہ آپؐ کی شدید ترین دشمن تھی لیکن جب اُس نے یہ بات سُنی تو فوراً کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی اے مکہ والو! کیا تم میں اب کوئی شرافت باقی نہیں رہی کہ پہلے تو تم عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتے تھے اور اب تم نے عورتوں پر بھی ہاتھ اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔8
غرض مظالم صداقت کو دبایا نہیں کرتے بلکہ اُسے بالا کیا کرتے ہیں۔ دنیا کے سارے لوگ گندے نہیں ہوتے۔ اُن میں شریف بھی ہوتے ہیں۔ بہادر اور دلیر بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ آگے آجاتے ہیں اور اُنہی کی الٰہی سلسلوں کو ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یہی دلیر لوگ قوم کو بڑھانے اور مذہب کو ترقی دینے کا موجب بنتے ہیں کیونکہ جو شخص دین کی راہ میں جرأت دکھاتا ہے اور جان تک کی بھی پروا نہیں کرتا خدا خود اُس کا رعب پیدا کردیتا ہے اور شریف اور بہادر آدمی مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایاہے آج تک کوئی قوم پھولوں کی سیج پر چل کر کامیاب نہیں ہوئی۔ ہمیشہ اُسے کانٹوں پر سے گزرنا پڑا ہے۔ سو آپ لوگ اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کریں اور تبلیغ کو وسیع کریں۔آپ نے بیعت کرتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔دین کو دنیا پر مقدم آپ اِسی صورت میں رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ زیادہ وقت تبلیغ میں صَرف کریں۔ اگر تم پر ظلم ہوتے ہیں، لوگ تم پر سختیاں کرتے ہیں، تمہاری تجارتیں اور نوکریاں چُھٹ جاتی ہیں تو تم مت پرواکرو۔ صحابہؓ کا جب آپ لوگ نام لیتے ہیں تو آخر میں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا لفظ بڑھا دیتے ہیں۔یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے الفاظ صحابہؓ کے ناموں کے ساتھ کیوں چل رہے ہیں؟ اِس لیے کہ انہوں نے ابتدائی وقت میں قربانیاں کیں اور اِس درخت کے بیج بوئے جس کا پھل آج ہم کھا رہے ہیں۔ اگر وہ اس درخت کا بیج نہ بوتے اور اس کو اپنے خونوں سے نہ سینچتے تو آج ہم اسلام کے نور سے منور نہ ہوتے۔ چونکہ صحابہؓ نے ایک ایسے زمانے میں جب اسلام لانے کی وجہ سے ہر شخص واجبُ الْقتل قرار دیا جاتا تھا نڈر ہو کر تبلیغ کی۔ اِس لیے جب ہم اُن کا نام لیتے ہیں تو ساتھ ہی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہتے ہیں۔ آپ لوگوں کا بھی یہ دعوٰی ہے کہ آپ کو بھی وہی مقام حاصل ہے جو صحابہؓ کو حاصل تھا۔آپ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ کے ناموں کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے الفاظ لگیں اور اگر آپ امید نہیں بھی کرتے تب بھی خداتعالیٰ نے آپ کے لیے یہ انعام مقدر کر دیا ہے کہ آپ کے ناموں کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے الفاظ کہے جائیں اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب آپ صحابہؓ کی طرح دیوانہ وار تبلیغ کے لیے کھڑے ہوجائیں اور اپنی کسی چیز کی بھی پروا نہ کریں۔رات دن آپ تبلیغ میں لگا دیں۔ آپ کے اندر ہمدردی اور درد اِس قدر پایا جائے کہ آپ کا مخاطب بھی یہ محسوس کرنے لگ جائے کہ آپ اُس کی خاطر مرے جارہے ہیں۔ اگر آپ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر لیں تو پھر احمدیت یقینا پھیلے گی۔ اور وہی لوگ جو آج آپ کو پتھر مارتے ہیں کل آپ کے سامنے دو زانوہوکر بیٹھیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کو پتھر نہیں مارا کرتے تھے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب مسلمانوں کا کوئی لشکر مدینہ سے باہر جاتا تو منافق کہتے تھے کہ یہ بیوقوف ہیں۔ یونہی اپنی جانیں ضائع کرنے جارہے ہیں۔ مگر وہی لشکر جب فاتح ہو کر واپس آتا تو وہ منافق باہر نکل کر اُس کے ساتھ ہوجاتے اور کہتے ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ مالِ غنیمت میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہیے۔یہ لوگ بالکل مُردہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر کسی کی کوئی حقیقت ہے تو اُن لوگوں کی جو قربانیوں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے اپنے فرض کو ادا کرتے جاتے ہیں۔ اگر وہ اِس راہ میں مارے جاتے ہیں تو اُن پر اور اُن کی تُربت پر خداتعالیٰ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔ اور اگر زندہ رہتے ہیں تو اُن پر اوراُن کی اولادوں پر خداتعالیٰ کی رحمتیں ہوتی ہیں"۔
(غیرمطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار رضی اللہ عنھم
2
:
(الحج:40)
3
:
حٰمٓ السجدۃ:14
4
:
مستدرک حاکم جلد 2صفحہ 278حدیث نمبر3002۔ مطبع بیروت 1990ء
5
:
سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 311،312۔ اسلام حمزۃ رحمہُ اللّٰہ ۔ مطبع مصر 1936ء
6
:
سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 367تا371۔اسلام عمر بن الخطّابؓ۔ مطبع مصر 1936ء
7
:
السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 361۔ مطبوعہ مصر 1932ء
8
:
سیرت ابن ہشام جلد دوم309تا311۔ خروج زینب الی المدینۃ ۔ مطبع مصر 1936ء



خدا تعالیٰ کے وعدے تبھی پورے ہوں گے
جبکہ تم بھی انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو
(فرمودہ27؍اگست 1948ء بمقام کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے 1کہ اے مسلمانو! تم جہاں سے بھی نکلو تم اپنے منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔ اس آیت کے مفسرین یہ معنے کرتے ہیں کہ اس میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواہ اِس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے اور خواہ مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے۔ جب یہ آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہو گی تب بھی اس کے معنی قبلہ کی طرف منہ کرنے کے نہیں ہوں گے اور اگر مسلمانوں کے متعلق یہ آیت ہو گی تب بھی اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کیونکہ اِس آیت کے لفظی معنے یہ بنتے ہیں کہ جہاں سے بھی تم نکلو، تم اپنے منہ مسجد حرام کی طرف کر لو یا جہاں سے بھی تُو نکلے تُو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لے۔ اب یہ تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ چلتے وقت نماز نہیں پڑھی جا سکتی بلکہ نماز ٹھہر کر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر اس آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ حَیْثُمَا کُنْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِتم جہاں کہیں بھی ہو تم اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لو یا تُو جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لے تب تو یہ معنے صحیح ہو سکتے تھے۔ لیکن یہ تو فرمایا گیا ہےیامِنْ حَیْثُ خَرَجْتُمْیعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اے مسلمانو! جہاں سے بھی تم نکلو تم اپنے منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔ یہاں ’’خروج‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنے نکلنے کے ہیں۔ اب یہ صاف بات ہے کہ نماز نکلتے وقت نہیں پڑھی جاتی بلکہ کسی جگہ ہوتے ہوئے نماز پڑھی جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں نماز پڑھنے کے معنے کرنا درست نہیں۔ چونکہ چلتے وقت نماز نہیں پڑھی جاتی اس لیے اس آیت کا یہ مفہوم نہیں کہ جب تم نماز پڑھو تو قبلہ کی طرف منہ کر لو بلکہ اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے مستحق اور مورِد ہیں۔ جب آپ کو مکہ سے نکالا گیا اُس وقت دشمنانِ اسلام کو یہ اعتراض کرنے کا موقع ملا کہ جب آپ دعائے ابراہیمی کے موعود تھے اور خانہ کعبہ کے ساتھ آپ کا تعلق تھا تو آپ کو مکہ سے کیوں نکال دیا گیا؟ جب آپ کو مکہ سے نکال دیا گیا ہے تو آپ دعائے ابراہیم علیہ السلام کے کس طرح مستحق ہو سکتے ہیں؟ اس اعتراض کے جواب میں فرمایا یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تمہارا مکہ سے یہ نکلنا عارضی ہے۔ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم دوبارہ تمہیں موقع دیں گے اور تم مکہ پر قابض ہو جاؤ گے۔ لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کے اپنے مومن بندوں سے وعدے ہوتے ہیں وہاں وہ اُن سے یہ اُمید کرتا ہے کہ وہ بھی اس وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نہیں کہ خداتعالیٰ اُن سے وعدہ کر لے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں اور اس وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش نہ کریں اور یہ سمجھ لیں کہ جب خدا تعالیٰ نے خود وعدہ کیا ہے تو وہ اسے پورا کرے ہمیں اس کے پورا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اسے کنعان کا ملک دیا جائے گا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ جب وہ ملک سامنے آ گیا تو آپ نے اپنی قوم سے کہا جاؤ اور لڑائی کر کے اس ملک پر قبضہ کر لو۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیا ہے اس لیے وہ خود ہی اس وعدہ کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دے گا۔ ہم نے اگر اس ملک کو فتح کیا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ؟ وعدہ تو خدا نے کیا ہے وہ اسے خود پورا کرے گا۔ ہمیں اس کے لیے کسی قسم کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہہ دیا 2کہ اے موسٰی! تُو ہم سے کہا کرتا تھا کہ یہ ملک خدا تعالیٰ تمہیں دے دے گا۔ اب تمام ذمہ داری تجھ پر ہے یا تیرے خدا پر ہے۔ ہم نے اگر ملک فتح کیا تو پھر تیرے اور تیرے خدا کے وعدوں کا کیا فائدہ؟ چونکہ تُو ہمیں بتایا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ ملک ہمیں ضرور ملے گا۔ اس لیے اب تُو جا اور تیرا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ جب تم ملک فتح کر کے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے۔ بظاہر ان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے۔ اگرکوئی کسی سے کہے کہ مَیں تمہیں فلاں چیز دوں گا اور وہ اس سے آ کر وہ چیز مانگے اور وہ اسے کہہ دے کہ جاؤ بازار سے خرید لو تو سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اگر اُس نے وہ چیز بازار سے ہی خریدنی تھی توپھر اُس کے وعدہ کی کیا ضرورت تھی۔ پس بظاہر یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے لیکن الٰہی سلسلوں میں یہ اول درجہ کی غیر معقول بات ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن بنی اسرائیل کی تعریف نہیں کی۔ یہ نہیں کہا کہ تمہیں لڑنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم یہ ملک تمہیں لے کر دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے ہماری ہتک کی ہے اس لیے تمہیں اس ملک سے محروم کیا جاتا ہے۔ جاؤ چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھرو۔ تم اس ملک کے وارث نہیں بن سکتے۔ تمہاری نئی نسل اس ملک کی وارث ہو گی کیونکہ تم نے ہماری ہتک کی ہے۔ تو دیکھو یہ چیز انسانی لحاظ سے تو درست اور معقول کہلا سکتی ہے لیکن الٰہی سلسلہ کے لحاظ سے نہایت ہی غیر معقول ہے اور انسان کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان وعدہ کرتا ہے تو اسے تغیراتِ سماوی اور تغیراتِ ارضی پر اختیار نہیں ہوتا۔ اس لیے جب بھی وہ وعدہ کرتا ہے تو ایسی چیز کا کرتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو وعدہ ہو گا اُس کا یہ مطلب ہو گا کہ اگر چہ اس چیز کا حصول تمہارے لیے ناممکن ہے مگر یہ تمہیں ہماری مددسے مل جائے گی۔ وہ قوم فرعون کی سینکڑوں سال تک غلام رہی۔ اس کے لیے اینٹیں بناتی رہی، لکڑیاں کاٹتی رہی اور ذلیل سے ذلیل کام کرتی رہی۔ وہ اتنے بڑے اور عظیم الشان ملک پر جس پر عاد قوم حکمران تھی قبضہ کیسے کر سکتی تھی۔ اسے یہ ملک مل جانا آسان نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہگو یہ ملک حاصل کرنا تمہیں ناممکن نظر آتا ہے لیکن ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم یہ ملک تمہیں دیں گے اور تم یہ ملک ہماری مدد سے حاصل کر لو گے۔ پس خدا تعالیٰ کے وعدے کے یہ معنی نہیں ہوا کرتے کہ اس نے وعدہ کر دیا اس لیے بندے کو کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے تدبیر اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے وعدے اَور رنگ کے ہوتے ہیں اور بندے کے وعدے اَور رنگ کے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جن میں تدبیر شامل ہوتی ہے بندے کو اس میں دخل دینا پڑتا ہے اور اس کو پورا کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اگر بندہ اس میں دخل نہیں دے گا اور اس کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ لیکن بندے کے وعدے میں یہ نہیں ہوتا۔ بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں تمہارے لیے خدا تعالیٰ کی تقدیر بدل دوں گا کیونکہ وہ اس کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ تم تقدیر کو بدلنے والے کون ہو لیکن خدا تعالیٰ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو مَیں تمہاری مدد کروں گا اور اپنی تقدیر بدل دوں گا کیونکہ تقدیر ایک ایسی چیز ہے جو اس کے قبضہ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بدل سکتا ہے۔ خداتعالیٰ عمل کو رد نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ کے وعدے میں جس میں تدبیر شامل ہو یہ پایا جاتا ہے کہ تم اگر کوشش کرو تو اگرچہ یہ بظاہر ناممکن ہے لیکن مَیں تمہاری مدد کروں گا اور تم اسے حاصل کر لو گے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کا وعدہ دیا گیا تو ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ کہا گیا کہ اے مسلمانو! تم موسٰی کی قوم کی طرح یہ نہ سمجھ لینا کہ خدا تعالیٰ نے مکہ کے دینے کا وعدہ کیا ہے وہ خود اسے پورا کرے گا۔ ہمیں اس کے لیے تدبیر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ تمہیں بھی اس کے پورا کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ خدائی وعدے کے یہ معنی ہیں کہ تم کمزور ہو۔ اگر تم کمزور نہ ہوتے تو تم مکہ کو چھوڑ کر کیوں آتے۔ مکہ کو چھوڑنے کے معنی ہی یہ تھے کہ تم کمزور ہو اور تمہارا دشمن مضبوط اور طاقتور ہے۔ لیکن خداتعالیٰ تمہیں طاقت دے گا اور تم دشمن سے مکہ چھین لو گے۔
پسکے یہ معنے ہوئے کہ تم جہاں سے بھی نکلو یا جس جگہ سے بھی نکلو۔ تمہارا مقصد یہ ہو کہ ہم نے مکہ فتح کرنا ہے۔
پھر خروج کے معنی لشکر کشی کے بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ تم جہاں بھی لشکر کشی کرو۔ کسی جگہ بھی لڑائی کے لیے جاؤ ۔چاہے تم مشرق کی طرف نکلو یا جنوب کی طرف نکلو، مغرب کی طرف نکلو یا شمال کی طرف نکلو تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا یہ خروج فتح مکہ کی بنیاد قائم کرنے والا ہو۔ مثلاً تم اگر جنوب کی طرف دشمن پر حملہ کرنا چاہو لیکن تمہیں معلوم ہو جائے کہ اُس ملک کے مغرب کی طرف بھی دشمن موجود ہیں اور اُن کے متعلق یہ شبہ ہے کہ وہ کہیں پیچھے سے حملہ نہ کر دیں اور تم پہلے مغرب کی طرف حملہ کر کے اُن کو صاف کر لو تو اس کے معنے ہوں گے کہ یہ مغرب کی طرف حملہ اصل میں جنوب کے حملہ کا پیش خیمہ ہے۔اِسی طرح اگر اس قوم کے ساتھی شمال میں بستے ہوں اور پہلے تم ان پر حملہ کروتو .......تمہارا حملہ اصل میں جنوب پر ہی ہو گا کیونکہ اصل مقصد تمہارا جنوب کے دشمن پر حملہ کرنا ہی ہو گا۔ اسی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم کسی قوم، کسی ملک اورکسی علاقے پر چڑھائی کروتو اس کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بڑے کام پر قوم کی توجہ کا مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے اور اسی طرح افراد کو بھی بڑے کاموں کے کرتے ہوئے اپنی پوری توجہ ان کی طرف لگا دینا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم یا فرد ایسا نہ کرے تو وہ کبھی بڑے مقصد پورے نہیں کر سکتے۔
خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک خاص مقصد کے لیے قائم کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے3کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانیہ اس لیے فرمائی ہے تا اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے۔ یہ غلبہ ہزاروں ہزار اقسام کا ہے۔ اِس زمانہ میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس میں اسلام غالب نظر آتا ہو۔ دین کو لے لو۔ اگرچہ عیسائیت جھوٹی ہے اور اسلام ہی سچا مذہب ہے مگر پھر بھی عیسائیوں میں کئی لاکھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں کا چھ لاکھ باقاعدہ مبلغ ہے اور یہ صرف پروٹسٹنٹ اورپرولیٹیرین(PROLETARIAN) چرچوں کا ہے۔ رومن کیتھولک ان کے علاوہ ہیں۔ سارے ملا کر قریباً بیس پچیس لاکھ پادری بن جاتے ہیں۔ اب دیکھو! انہیں صرف جھوٹا کہنے سے کیا بنے گا۔ جھوٹے کے معنے تو یہ ہیں کہ آپ کے اندر اس سے زیادہ قربانی پائی جائے لیکن حال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہے وہ تو ایک انسان کی خدائی منوانے کے لیے لاکھوں مبلغ دیتا ہے لیکن سچا، خدا کی خدائی منوانے کے لیے سینکڑوں مبلغ بھی نہیں دیتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں ایسے پچاس آدمی بھی نہیں پائے جاتے۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیت کے پاس لاکھوں مبلغ ہیں جو بڑے جوش کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
افریقہ کے ایک علاقہ میں ایک دفعہ عیسائیوں کے چھ سات مشنری گئے۔ وہاں کے مردم خور آدمیوں نے انہیں کھا لیا۔ جب یورپ میں یہ خبر پہنچی تو تین چار دن میں کئی ہزار مردوں اور عورتوں نے اپنے نام پیش کر دئیے کہ ہم وہاں جانے کے لیے تیار ہیں۔ مسلمان اول تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن اگر چلے بھی جاتے اور مردم خور انسان انہیں کھا لیتے تو جب وہاں سے خبر آتی ہماری عورتیں کہتیں شکر ہے ہمارا بچہ نہیں گیا تھا۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں کتنا جوش ہے۔ صرف یہ کہنے سے کہ ہمارا مذہب سچا ہے اور وہ جھوٹے ہیں کیا بن جاتا ہے۔ سچا مذہب کیا کوئی جادو اور ٹونہ ہے کہ اگر اس کا نام لے لیا تو اللہ تعالیٰ ہمیں آسمان پر جگہ دے دے گا؟ سچے کی کوئی علامت ہونی چاہیے۔
پھر عیسائیت کے مقابلہ میں ہم اگر لاکھوں مبلغ بھی دیں تو وہ کون ہوں گے؟ وہ ایسے ہوں گے جن کی 25 سے 50 تک ماہوار آمدن ہو گی، جو دال روٹی کھانے والے ہوں گے۔ ان کو اگر ایک آدھ وقت کا فاقہ بھی آ گیا تو آخر کونسا فرق پڑے گا لیکن عیسائیت میں جن لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اُنہیں ہر قسم کی دولت میسر تھی۔ اگر مسلمان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تو گویا 50 روپے ماہوار خرچ کرتے ہیں لیکن اِس کے مقابلہ میں عیسائی لوگ ہزار، دو ہزار، تین ہزار روپیہ ماہوار خرچ کرتے ہیں۔ ان میں طاقت تھی کہ وہ اتنی کمائی کر سکیں لیکن اس آمدن کو چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ ایسے ایسے ڈاکٹر جو سارے علاقے میں مشہور تھے، جو شہر میں پریکٹس کے ذریعہ چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار روپیہ ماہوار کما سکتے تھے گرجے میں تنگی سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ انہیں وہاں معمولی کھانے پینے کو مل جاتا ہے۔د و تین جوڑے کپڑے پہننے کو مل جاتے ہیں اور پھر وہ اپنی ساری عمر گرجے میں لگا دیتے ہیں۔
پنجاب میں ایک ڈاکٹر ٹیلر تھا۔ وہ آنکھوں کے علاج میں سارے پنجاب میں مشہور تھا۔ گزشتہ جنگ کے دنوں میں وہ چند دن سرکاری ہسپتال میں بھی لگا تھا۔ مَیں نے خود اُس سے علاج کروایا ہے۔ ہزاروں ہزار مریض اس کے پاس آتے تھے اور ان میں سے ہر ایک کم از کم پندرہ روپیہ اسے دیتا تھا اور جو آپریشن کرواتے تھے وہ تو سو سودو دو سو بھی دیتے تھے لیکن وہ اپنی ساری آمدن گرجے میں دے دیتا تھا اور کہتا تھا مَیں تو پادری ہوں اور مَیں نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے۔ پس اگر ہم تعداد میں بھی ان کے برابر ہوتے تب بھی ہماری قربانی ان کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتی تھی۔ امریکہ کے بعض پروفیسر سوسو ڈیڑھ ڈیڑھ سو میں کام کر رہے ہیں۔ اگر انہیں گورنمنٹ منگواتی تو ہزار ہزار، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار ماہوار دیتی۔ پس اُن کے افراد کے مقابلہ میں بھی ہم نے کوئی قربانی نہیں کی اور لیاقت کے مقابلہ میں بھی ہم نے کوئی قربانی نہیں کی۔ اور پھر یہ تو مَیں نے ہزاروں شاخوں میں سے ایک شاخ گنوائی ہے۔ اب اگر ہم کہیںکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا کے باقی ادیان پر غالب کرنا ہے۔ تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کوئی ایسی جماعت پیدا ہو جائے جس کے افراد دوسرے مذاہب سے زیادہ دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔ وہ دوسرے مذاہب سے زیادہ لیاقت کی قربانی کریں۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اسلام دوسرے مذاہب پر غالب کیسے ہو گا۔ یامثلاً تعلیم کو لے لو۔ تعلیم میں جتنی انہوں نے ترقی کی ہے ہمارا ان سے مقابلہ ہی کہاں ہے؟ اُن کا ادنیٰ سے ادنیٰ عالم ہمارے بڑے سے بڑے عالم کے مقابلہ میں زیادہ علم رکھتا ہے۔ گویا علم کے میدان میں بھی ہم انہیں اُس وقت تک شکست نہیں دے سکتے جب تک ایسے علماء پیدا نہ کیے جائیں جن کے سامنے یورپ کے علماء ہیچ رہ جائیں۔
پھر خدمت خلق کا کام ہے وہ ہزاروں ہزار اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ کہیں ریڈکراس سوسائٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، کہیں ہسپتال کھولے جا رہے ہیں اور کہیں سکول کھولے جا رہے ہیں۔ اس میدان میں بھی اگر ہم انہیں شکست نہ دیں تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہماری خدمت خلق ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی اَور مذہب ہمارا مقابلہ نہ کر سکے۔ پس اگر قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہو سکتی ہے تو اُسی وقت جب ہم ہر میدان میں اور ہر کام میں انہیں شکست دیں۔
پھر عیسائیوں کو جانے دو ہندوستان میں ہندوؤں کے کتنے سادھو پائے جاتے ہیں خواہ وہ مذہب جھوٹا ہی ہے مگر ان کے سادھوؤں کا کم از کم سولہ لاکھ کا اندازہ ہے۔ اس کے معنے یہ ہوئے کہ ہندوستان میں سولہ لاکھ ہندو ایسے ہیں جو شادی بیاہ کا خیال ترک کر کے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر ننگ دھڑنگ بھوت بنے پھر رہے ہیں۔ کانگرس کو جو کامیابی ہوئی ہے اس میں بڑی مدد ان سادھوؤں کی تھی اور مجھے یاد ہے کہ جب گاندھی جی نے رولٹ ایکٹ پر شورش کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ہم نان کو آپریشن(Non-co-operation) کریں گے۔ اُس وقت تین چار دن کے اندر اندر سارے ہندوستان میں ایسی آ گ لگ گئی تھی کہ حیرت آتی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ قادیان ایک طرف ہے اِس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ انہوں نے صرف پندرہ دن پہلے اعلان کیا تھا۔ اس لیے خیال تھا کہ سب ملک میں خبر نہ پہنچی ہو گی۔ مَیں نے چاہا کہ مَیں اپنے گرد کے لوگوں کو سمجھاؤں تا فساد نہ ہو۔ میرا خیال تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اس تحریک کی خبر تک نہ ہو گی۔ جب مَیں نے رؤساء کو اکٹھا کرنے کے لیے آدمی بھیجے تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آ کر یہ بتایاکہ فلاں گاؤں کے زمینداروں کو مَیں نے بڑی مشکل سے یہاں آنے پر راضی کیا ہے۔ وہ بات سننے سے پہلے ہی کہنے لگے کہ آخر مرزا صاحب کے آباء و اجداد بھی اِس علاقہ کے حاکم تھے اور اگر وہ دوبارہ حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم اُن کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ تھا کہ ہم نے انگریزوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ قادیان کے پاس ہی تین میل کے فاصلہ پر ٹھیکری والا ایک گاؤں ہے۔ وہاں اُن دنوں کافی تعداد میں پستول پہنچ گئے تھے اور وہاں ان کی پریکٹس بھی ہوا کرتی تھی۔ مَیں نے جب اس کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب کام سادھوؤں کا تھا جنہوں نے تمام علاقہ میں پھر کر اور چکر لگا کر یہ خبر پہنچا دی تھی۔ ہندوستان میں آٹھ لاکھ گاؤں ہیں۔ اس طرح 16 لاکھ سادھوؤں کے یہ معنے ہوئے کہ دو دوسادھو ایک وقت میں ایک ایک گاؤں میں جا سکتے ہیں اور اس طرح ایک چیز سارے علاقہ میں ایک دن میں پھیلائی جا سکتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے اے مسلمانو! تمہارا جو مقصد ہے تمہاری ہر وقت اس کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ گزشتہ ایام میں جو کچھ ہندوؤں نے کوشش کی اُسے دیکھ لو اُن کا مقصد یہ تھا کہ ہندو قوم کی تنظیم کی جائے اور ان کو ترقی دی جائے۔ اگر کوئی ہندو ایکسائز ڈیپارٹمنٹ(EXCISE DEPARTMENT) میں ہوتا اور اس کے محکمہ میں کوئی معاملہ جاتا تو انسپکٹر سے لے کر حکومت ہند کے سیکرٹریوں اور وزیروں تک اس کی مدد کرتے۔ صرف اس لیے کہ وہ ہندو ہے وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ اس کا نام رلیا رام لکھا ہے اور سمجھ لیتے کہ اس کے مدمقابل عبدالرحمان نے ضرور غلطی کی ہے۔ مگر اس مقابلہ میں مسلمان ڈرتے تھے اور وہ خیال کر لیتے تھے کہ عبدالرحمان نے ضرور غلطی کی ہے اسے ضرور سزا ملنی چاہیے ورنہ ہندو کہیں گے کہ یہ متعصب ہے۔ ہندوؤں کے مدنظر اپنی قوم کی ترقی تھی اس لیے وہ ہر رستہ سے طاقت حاصل کر لیتے تھے اور اس لیے بڑھتے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کے مدنظر اُن کا ذاتی مفاد تھا قوم کی ترقی نہیں تھی اس لیے وہ پراگندہ ہو گئے۔ خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ قوم کو پراگندہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم جس طرف بھی نکلو تمہارا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے دین کو کامیاب کرنا ہے۔ جب تک تم اس رنگ میں کام نہیں کرو گے تمہیں کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
صحابہؓ میں یہ چیز پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ ہر رنگ میں اس کے لیے کوشش کرتے تھے اور آخر انہیں کامیابی ہو جاتی تھی...........فتح مکہ کی جن لوگوں نے بنیاد رکھی وہ چند صحابی تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ پر تشریف لے گئے۔ آپ نے مشرکینِ مکہ سے معاہدہ کیا۔ آپ یہی خدائی منشا سمجھتے تھے کہ حملہ کر کے مکہ میں داخل نہ ہوں۔ اس لیے آپ نے مشرکینِ مکہ سے معاہدہ کر لیا اور اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکہ سے جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے اسے مسلمان واپس کر دیں مگر جو مسلمان مرتد ہو کر مکہ آ جائے اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ صحابہؓ پر یہ بہت گراں گزرا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ تو بڑی بھاری شکست ہو گی۔ کفار میں سے جو مسلمان ہو کر آئیں گے اسے تو ہمیں واپس کرنا ہو گا لیکن ہم میں سے جو مرتد ہو کر مکہ چلا جائے گا اُسے مشرکین مکہ واپس نہیں کریں گے۔ بعض صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت بھی کی۔ آپ نے انہیں یہ جواب دیا کہ ہمارا آدمی جہاں کہیں بھی ہو گا اسلام کی خدمت کرے گا لیکن ہم میں سے جو مرتد ہو جائے گا اور مشرکین کے پاس چلا جائے گا وہ ہمارے کس کام کا؟ ہم نے اسے کیا کرنا ہے؟ معاہدے پر ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ وہ رئیسِ مکہ جومعاہدہ کر رہا تھا اُسی کا بیٹا جسے رسیاں بندھی ہوئی تھیں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں کسی نہ کسی طرح لڑھکتا لڑھکتا وہاں پہنچا اور عرض کیا یارسول اللہ! مَیں مسلمان ہوں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے میرا یہ حال ہے۔ ان لوگوں نے مجھے قید کر رکھا ہے اور مجھے باہر نہیں نکلنے دیتے اور طرح طرح کی ایذائیں اور دکھ دیتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر آیا تھا، صحابہؓ اس کی مدد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن وہ رئیس جو معاہدہ کر رہا تھا اُس نے کہا معاہدہ میں یہ شرط ہے کہ مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس جائے گا اُسے واپس کیا جائے گا۔ اگرچہ معاہدے پر ابھی دستخط نہیں ہوئے مگر فریقین کے درمیان طے تو ہو چکا ہے اس لیے یہ آدمی آپ کو واپس کرنا پڑے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہم معاہدہ کر چکے ہیں اور اس کے مطابق یہ واپس کیا جائے گا۔ آپ نے صحابہؓ سے فرمایا اسے واپس کر دو۔ اور آپ کے حکم کے مطابق وہ واپس کر دیا گیا۔ مسلمانوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا مگر آپ نے فرمایا ہم معاہدہ کر چکے ہیں ہمیں ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ واپس پہنچ گئے تو ایک مسلمان آپ کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا یارسول اللہ!مَیں مسلمان ہوں۔ کفار مجھے اس اس قسم کی ایذائیں دیتے تھے۔ مَیں بھاگ کر آیا ہوں۔ اس کے پیچھے پیچھے دوسرے لوگ بھی آ گئے اور انہوں نے کہا معاہدہ کے مطابق یہ شخص مدینہ میں نہیں رہ سکتا اسے واپس کریں۔ ہمارا یہ معاہدہ تھا کہ ہم میں سے جو بھی مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے اسے واپس کر دیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاںیہ ٹھیک ہے اور اس شخص کو واپس کر دیا۔ راستہ سے بھاگ کر وہ پھر آگیا۔ پھر اس کے متعاقب حاضر ہوئے اور اس کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا کہ آپ تو حوالہ کر چکے ہیں۔ اب تو مَیں ان سے بھاگ کر آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں تمہیں معاہدہ کی پابندی کرنی ہو گی اس لیے تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا۔ وہ مدینہ سے واپس لَوٹا تو پھر ان سے چھُپ کر ایک جگہ پر جو شام کے قافلوں کے راستہ پر تھی جگہ بنا لی اور جو قافلہ اُس رستہ سے گزرتا تھا وہ اُس پر حملہ کرتا تھا اور جتنا نقصان اسے پہنچا سکتا تھا پہنچاتا تھا۔ جب مکہ کے دوسرے مسلمانوں کو اس کی خبر ملی تو وہ بھی اس کے اردگرد جمع ہو گئے۔ تھوڑے دنوں میں مکہ کی تجارت بالکل تباہ ہو گئی۔ وہ چند آدمی تھے مگر کے ماتحت انہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہیں کی۔ اور یہ نہیں کیا کہ حبشہ کی طرف بھاگ جائیں وہاں انہیں پناہ مل سکتی تھی۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ ایران بھاگ جائیں وہاں انہیں پناہ مل سکتی تھی۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ روم بھاگ جائیں وہاں وہ امن پاسکتے تھے اور ملازمتیں وغیرہ کر سکتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اس پہاڑی پر ڈیرا لگا لیا۔ کفار کے قافلوں پر حملے کیے اور ان کی طاقت کو کمزور کیا اور فتح مکہ کی بنیاد رکھ دی۔ تو دیکھو چند افراد نے مکہ کی طاقت کو توڑ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار سے رعایت کر جاتے تھے مگر وہاں تو آپ موجود نہیں تھے۔ مسلمان پوری طرح حملہ کرتے تھے اور کفار کو تباہ کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ کفارِمکہ نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان مسلمانوں کو واپس بلا لیجیے۔ یہ لوگ تھوڑے سے تھے مگر انہوں نے مسلمانوں کا وہ رعب بٹھا دیا کہ مکہ والوں کی غیرت بالکل مٹ گئی۔ انہوں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ان کو واپس بلا لیجیے۔ سارے مکہ والے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس طرح فتح مکہ کی بنیاد قائم ہو گئی۔اس کے بعد قبائل میں خودبخود جوش پیدا ہو گیا۔ جن کے مکہ والوں سے معاہدات تھے جب انہوں نے دیکھا کہ مکہ والے دس بارہ آدمیوں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے تو وہ ان سے الگ ہونے لگے اور مسلمانوں کے ساتھ ملنے لگے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ کوئی قوم اُس وقت تک جیت ہی نہیں سکتی جب تک کہ وہ ہر وقت اور ہر لمحہ اپنے مقصد کی طرف متوجہ نہ رہے۔جس طرح اُس زمانہ میں مسلمانوں کا یہ مقصد تھا کہ ہم نے مکہ فتح کرنا ہے اسی طرح ہر زمانہ میں، ہر ملک اور ہر قوم کے لیے ایک مقصد ہوتا ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں صَرف نہ کر دے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اُس وقت تک کسی کامیابی کی امید رکھنا ہی غلط ہے۔
مَیں نے تمام مذاہب کی تاریخوں میں جو بھی محفوظ ہیں کہیں بھی نہیں دیکھا کہ ایک آدمی اگر تجارت کر رہا ہے تو وہ تجارت ہی کر رہا ہے اور اگر اس نے تھوڑا بہت چندہ دے دیا تو سمجھ لیا کہ اس نے دین کی بہت بڑی خدمت کر دی ہے۔ مَیں نے ایسی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ نہ موسٰی علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا، نہ عیسٰی علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا ،نہ رام اور کرشن علیہما السلام کی قوموں نے ایسا کیا اور نہ زرتشت علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا۔ غرض کسی بھی نبی کی قوم نے ایسا نہیں کیا۔ سارے ہی موت کو قبول کرتے تھے۔ تجارت اور پیشے کرنا ان میں حق نہیں تھا مگر وہ جو بھی کرتے تھے اپنے مقصد کی تائید کے لیے کرتے تھے۔ وہ نوکریاں اس لیے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لیے موقع مل سکے۔ وہ زراعت اور صنعت و حرفت اس لیے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لیے کوئی موقع مل سکے۔ وہ پیشے اس لیے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لیے کوئی موقع مل سکے اور وہ تجارتیں اس لیے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لیے کوئی موقع مل سکے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں کہ اگر وہ پانچ وقت نمازیں پڑھ لیتے ہیں یا چندہ دے دیتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے خدائی سپاہی کا کام پورا کر دیا ہے۔ اگر کسی ملک کے ایسے سپاہی ہوں تو وہ ایک ہی سال میں تباہ ہو جائے۔
جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اُس کے ماننے والے روحانی سپاہی ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں صَرف کریں کہ وہ اپنے مقصد کو پورا کر لیں۔ اگر وہ اپنی زندگیوں کو ایسے رنگ میں صَرف نہیں کرتے کہ ان کا مقصد پورا ہو تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیاب وہی قوم ہو گی جو اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں لگا دے کہ وہ جب دفتر جا رہے ہوں تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے، جب دفتر سے واپس آ رہے ہوں تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے۔ وہ جب تجارت کر رہے ہوں اور ترازو اُن کے ہاتھ میں ہو تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے۔ وہ اگر ہل چلا رہے ہوں اُن کا ہاتھ ہل پر ہو مگر اُن کا دماغ اِس طرف جا رہا ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے۔ جب تک آپ لوگوں میں یہ روح پیدا نہیں ہو جاتی اُس وقت تک کامیابی کی امید رکھنا غلط ہے۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ سلسلہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قائم کیا ہوا ہے کامیاب نہیں ہو گا۔ یہ سلسلہ ضرور کامیاب ہو گا خواہ آپ سب مرتد ہو جائیں۔ مگر بے شرمی یہ ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مَیں اس کامیابی میں حصہ دار ہوں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مسلمانوں کے افراد مدینہ سے باہر نکلتے تھے تو منافق کہتے تھے کہ یہ اپنی جانوں کو ضائع کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ مگر جب وہی لشکر فاتح ہو کر واپس آتے تو وہ مدینہ سے باہر نکل آتے اور لشکر کے ساتھ مل جاتے اور کہتے ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ایسی بیہودگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ پس یہ سوال نہیں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا یا نہیں؟ یہ سلسلہ یقیناً کامیاب ہو گا۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ کمزور ایمان اور منافق لوگ بھی ان نعمتوں میں اپنے آپ کو شریک سمجھتے ہیں۔ وہ نوکریاں کرتے ہیں، تجارتیں کرتے ہیں، پیشے کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر کاروبار کرتے ہیں مگر اسلام کو ان پر حاوی اور غالب نہیں سمجھتے۔ پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس مقصدِ عالی میں شریک ہو گئے ہیں جس کے لیے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔
مَیں کوئٹہ کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور اس جماعت کے ذریعہ دوسری جماعتوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے مگر وہ ہر کام نہیں کیا کرتا۔ کیا اُس میں یہ طاقت نہیںکہ وہ کوئٹہ کو اُٹھا کر اُلٹ دے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ کیا اُس میں یہ طاقت نہیں کہ تمام عیسائی مر جائیں؟ کیا اُس میں یہ طاقت نہیں کہ تمام عیسائی ایک دن اپنے خزانے کھولیں اور وہ سب خزانے احمدیوں کے گھروں میں پڑے ہوں اور وہ خود قلاش ہو جائیں۔ مگر کیا خدا تعالیٰ ایسا کرتا ہے؟ یہ کہہ دینا کہ وہ ایسا کر دے گا حماقت کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کس رنگ میں استعمال کرتا ہے۔ اُس میں یہ طاقت ہے کہ وہ دس بیس سال میں تمہیں دس کروڑ کر دے۔ یہ اس کے لیے ناممکن نہیں مگر کیا وہ ایسا کرتا ہے؟ وہ ایسا کر سکتا ہے کہ مُردوں کو پھر زندہ کر دے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میںواپس لے آئے، حضرت موسٰی و عیسٰی علیہما السلام کو دوبارہ لے آئے۔ مگر کیا وہ ایسا کرتا ہے ؟اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو محض یہ کہہ دینا کہ وہ ایسا کر دے گا درست نہیں۔ وہ اپنے قانون کو تمہارے لیے کیوں توڑے گا۔ اس کا یہ قانون ہے کہ اگر اس کا کسی سے وعدہ ہے تو وہ قربانی کرے اور اس کے لیے جدوجہد کرے تو وہ اس کی مدد کرے گا اور وہ کامیاب ہو جائے گا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں یا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسا کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جوایسا نہیں کرتے۔ جو ایسا کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے اُن کو وہ مرتد اور بے ایمان بنا دیتا ہے۔ اُن کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔
پس ہماری جماعت کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کر لینا چاہیے کہ ہم اس چیز کی امید نہیں رکھ سکتے جو پہلے نبیوں کے ساتھ نہیں ہوئی۔ پہلے انبیاء کی جماعتوں کو قربانیاں کرنی پڑیں۔ پہلے انبیاء کے ماننے والے اپنے ملک اور قوم میں مجنون کہلاتے تھے۔ قرآن کریم اِس قسم کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ پس جب تک ہم پہلی جماعتوں کی طرح قربانیاں نہیں کرتے، پہلی جماعتوں کی طرح جب تک ہم مجنون نہیں کہلاتے ہم کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر جاتے ہوئے اپنی حفاظت کے لیے اِدھر اُدھر نظر مارتے جاتے ہیں اور ڈر کی وجہ سے تبلیغ نہیں کرتے، دین کی خدمت کی طرف توجہ نہیں کرتے تو تم مجنون نہیں کہلا سکتے۔ مجنون کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ وہ اپنی عاقبت کی پروا نہیں کرتا۔ پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اِس طرح نوکریاں جاتی رہیں گی، تجارتیں ضائع ہو جائیں گی اور پھر جماعت کے پاس روپیہ کم ہو جائے گا، جماعت کے اخراجات کیسے چلیں گے؟ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مال کے ذریعہ دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے۔ امریکہ کا ایک مالدار ہماری جماعت کی تمام جائیدادیں خرید سکتا ہے اور پھر بھی اُس کے خزانے میں روپیہ رہتا ہے۔ امریکہ کے بعض مالداروں کے پاس ہماری ساری جماعت سے زیادہ روپیہ ہے۔ بعض کے پاس تو بیس بیس ارب روپیہ ہے اور اتنا روپیہ ہماری ساری جماعت کے پاس نہیں۔ ان میں ایسے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے پاس اربوں روپیہ ہے ۔وہ لوگ ڈالروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس ہزار ملین ہیں، فلاں کے پاس دو ہزار ، فلاں کے پاس تین ،چار یا پانچ ہزار ملین ڈالر ہے اور یہ تین ارب روپیہ سے لے کر پندرہ ارب روپیہ تک ہو جاتا ہے۔ ایسی قوم کا مقابلہ تم دولت سے کس طرح کر سکتے ہو۔ پھر ہمارے پاس دنیاوی طاقت بھی نہیں۔ پیشوں کو لے لو ، تجارت کو لے لو، تعلیم کو لے لو، صنعت و حرفت کو لے لو، کسی چیز میں بھی تو ہم غالب نہیں آ سکتے۔ پس اگر ہم دنیوی لحاظ سے دیکھیں توسیدھی بات ہے کہ ہم دوسری قوموں پر غالب نہیں آ سکتے۔ اگر ہم غالب آ سکتے ہیں تو محض اِس طرح سے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کر کے اپنے آپ کو پاگل بنا دیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو پاگل بنادیں تو ایک سال میں ہم وہ کام کر لیں جس سے دنیا کی کایا ہی پلٹ جائے۔ مَیں نے جماعت کو کئی بار توجہ دلائی ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے اور مَیں نے حساب لگا کر بھی بتایا تھا کہ اس طرح ہم دس پندرہ سال میں کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے۔ اگر ہر احمدی سال میں ایک ایک احمدی بنائے تو اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اِس وقت ہندوستان میں تین لاکھ ہیں۔ ایک سال کے بعد ہم چھ لاکھ ہوجائیں گے۔ دوسال کے بعد بارہ لاکھ ہو جائیں گے، تین سال کے بعد چوبیس لاکھ ہو جائیں گے، چار سال کے بعد اڑتالیس لاکھ ہو جائیں گے، پانچ سال کے بعد چھیانوے لاکھ ہو جائیں گے،چھ سال کے بعد ایک کروڑ بانویں لاکھ ہو جائیں گے، سات سال کے بعد تین کروڑ چوراسی لاکھ ہو جائیں گے،آٹھ سال کے بعدسات کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہو جائیں گے، نو سال کے بعد پندرہ کروڑچھتیس لاکھ ہوجائیں گے، دس سال کے بعد تیس کروڑ بہتّر لاکھ ہو جائیں گے ۔ تو دیکھو اگر ہر ایک احمدی سال میں ایک ایک احمدی بنائے تو دس سال میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں یا نہیں؟ سال میں ایک احمدی بنانا کوئی مشکل چیز نہیں۔ بشرطیکہ کوئی عقل سے کام لے اور اپنے اوپر جنون وارد کرے۔ لیکن اصل میں یہ رسمی طور پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی دوست پسند آ گیا اور اُس سے کوئی بات کہہ دی تو سمجھ لیا کہ اس نے سلسلہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ درحقیقت دوست بنانا مقصود ہوتا ہے تبلیغ کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ تعیّش کے لیے کوئی بامذاق آدمی مل جائے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ پر وہ احسان کر رہا ہے حالانکہ وہ شخص بعض اوقات اِس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اُسے تبلیغ کی جائے اور بسااوقات تبلیغ کی بھی نہیں جاتی۔ کسی وقت وہ اگر اِتنی سی بات کہہ دیتا ہے کہ فلاں ملک میں ہمارے فلاں مبلغ نے تبلیغ کی تو وہ دوست کہہ دیتا ہے واہ واہ سُبْحَانَ اللّٰہِ۔ یہ تو بہت ہی اچھا کام ہے اور وہ احمدی سمجھ لیتا ہے کہ آ ج وہ آدھا احمدی ہو گیا ہے۔پھر کسی دن یہ کہہ دیا کہ ہم نے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کی ہے تو وہ دوست کہہ دیتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِبہت اچھا کام ہے۔ وہ احمدی اِس سے یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ وہ آج تین چوتھائی احمدی ہوگیا ہے۔ غرض اگر کوئی اِتنی تعریف بھی کر دے جتنی کوئی ایک گاجر کے ٹکڑے پر تعریف کر دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ آخر آپ کو دنیا کے کاموں سے اتنی محبت کیوں ہے؟دین کی خاطر تو اِتنا وقت بھی خرچ نہیں کیا جاتا جتنا وقت کسی کی بیوی یا خادمہ روٹی پکانے میں خرچ کر دیتی ہے ۔پھر یہ کیا بیہودگی اور مداہنت ہے کہ آپ تبلیغ پر اُتنا وقت بھی نہیں لگاتے جتنا وقت روٹی پکانے پر لگ جاتا ہے اور پھر سمجھتے ہیں کہ ہم قربانی کرتے ہیں۔
میں آپ لوگوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہو ں کہ خدائی بادشاہت کا وقت قریب آ رہا ہے اور جب خدائی بادشاہت کا وقت آتا ہے تو کمزور ایمان اور منافق لوگ کفار سے زیادہ مرتے ہیں ۔ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیاتو لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہلاکو خان سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اُس بزرگ نے کہا میں کیا دعا کروں میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر سب فرشتے یہ دعا کر رہے ہیں اَیُّھَاالْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ اَیُّھَاالْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَیعنی اے کافرو! فاجروں کو قتل کرو،اے کافرو! فاجروں کو قتل کروجہاں اِتنا فرشتہ یہ دعا کر رہا ہے وہاں میری دعائیں کیا کریں گی۔ پس جب خدائی بادشاہت کا وقت آتا ہے تو اس قسم کے لوگ مجرموں کی صف میں کھڑ ے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے انعام کے مستحق نہیں ہوتے۔جب خدائی بادشاہت قائم ہو جائے پھر اِس قسم کے لوگ بھی کامیاب ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اس کے بعد تنزل کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جب تنزل کا وقت آتا ہے تو منافق بھی دولت سے حصہ لے لیتے ہیں۔ جب مسلمانوں کی بادشاہت آئی تو جعفر بر مکی جیسے تو وزیر بن گئے لیکن سید عبدالقادرصاحب جیلانی جیسے بزرگ توگوشہ نشین ہی تھے ۔ پس دنیوی اقتدار کے وقت میں تو منافق کامیاب ہو جاتے ہیں مگر ابتدائی زمانہ میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بلکہ بادشاہتوں کے بعد تو اکثر دولت منافق لے جاتے ہیں۔ بنوامیہ کے بادشاہوں کو لے لو وہ منافق ہی تھے جو دنیا کو لُوٹتے تھے، فسق و فجور میں مبتلا تھے، رشوتیں لیتے تھے، خیانتیں کرتے تھے مگر جو نیک تھے وہ گوشہ نشین ہی تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اُبی بن سلول کو تو خلافت نہیں ملی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ کا سلوک ابتدائی زمانہ میں اَور ہوتا ہے اور ترقی کے زمانہ میں اَور ہوتا ہے۔ اُس وقت دین غالب ہو جاتا ہے اور اُس کے غلبہ کے لیے دنیاوی اقتدار کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اِس لیے اگر اُس وقت منافق دولت میں سے حصہ لے لیتے ہیں تو خداتعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا۔ لیکن جب ابتدائی زمانہ ہوتاہے جب دین کے غلبہ کے لیے دنیوی اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت دنیوی اقتدار میں سے حصہ اُس کو ملتا ہے جو مخلص اور مومن ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ ہم بناتے ہیں کیونکہ ابتدائی زمانہ میں خلیفہ وہی ہونا چاہیے جو خداتعالیٰ کے منشا کو جاری کرے ۔لیکن جب خداتعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے تو پھر یزید جیسے بھی بادشاہ بن جاتے ہیں۔ ہزاروں ہزار ایسے فاسق ہوتے ہیں جو بادشاہ بن جاتے ہیں مگر اولیاء اللہ کو بعض اوقات روٹی بھی نہیں ملتی۔ دہلی کے تخت پر جب مسلمان بادشاہ متمکن تھے سید ولی اللہ شاہ صاحب جیسے بزرگ کپڑے کو بھی ترستے تھے۔ آپ کو صفائی کا بہت شوق تھا اور روز کپڑے دھلوا کر بدلتے تھے۔ آپ کی دنیوی حالت بادشاہوں کے نوکروں جیسی بھی نہیں تھی۔ پس جب دنیوی اقتدار حاصل ہوتا ہے اُس وقت یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اُس میں نیکوں کو ہی حصہ ملے۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اُس وقت ختم ہو جاتا ہے۔
پس جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی تبدیلی پیدا کرے۔ جب بھی دنیا میں کوئی مامور آتا ہے تو ابتدائی زمانہ میں اُس کے ماننے والوں میں سے ہر ایک دین کا سپاہی ہوتا ہے جو اپنی جان دین کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ اس کا بدلہ کیا ملتا ہے؟ حضرت ابوہریرہؓ ایک غریب آدمی تھے۔ اُن کے بھائی میں بھی اِتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بھائی کو جو دین کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر بیٹھ گیا تھا کھانا دے سکے لیکن ابوہریرہؓ کو صرف ابوہریرہ ہی نہیں کہتے بلکہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی جب آپ کا نام لے گا تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہے گا۔ ایک مزدور چکی پیسنے والے، گدھے چلانے والے اور اونٹ لادنے والے صحابی کا بھی آج جب نام لیا جاتا ہے توساتھ رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔ لیکن بڑے سے بڑے بادشاہ کا جب نام لیا جاتا ہے تو کوئی اُسے رضی اللہ عنہ نہیں کہتا۔اکبر جو بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے اُس کے نام کے ساتھ کوئی رضی اللہ عنہ نہیں کہتا مگر حضرت ابوہریرہ کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔ وہ ابو ہریرہ جس کو سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا، جس کی بعض دفعہ بھوک کی وجہ سے ایسی حالت ہو جاتی تھی کہ مرگی کا دَورہ سمجھ کر آپ کو لوگ جُوتیاں مارا کرتے تھے۔4 وہ تو رضی اللہ عنہ کہلاتا ہے مگر اکبر، بابر، ہمایوں، شاہجہان، عالمگیر، تیمور وغیرہ بادشاہوں کا نام جب لیا جاتا ہے تو اُن کے ساتھ کوئی بھی رضی اللہ عنہ نہیں کہتا۔ یہ ان صحابہ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا جو انہوں نے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں کی تھیں۔ انہوں نے دنیا کو اپنے اوپر حرام کر دیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں بادشاہ کر دیا۔ اب بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُن کی برتری کا اقرار کرتا ہے۔ ہر زمانہ کے لیے الگ الگ انعام اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہم اِس وقت کی ابتدائی جماعت ہیں ہماری حالت بالکل الگ ہے۔ بعد میں زمانہ اَور تقاضا کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں اگر کوئی نمازیں پڑھ لے یا چندہ دے دے تو خدا تعالیٰ اُسے بڑا بزرگ سمجھ لے لیکن جب تک ہم تلوار کی دھار کے نیچے اپنی گردنوں کو نہیں رکھتے، جب تک آروں کے نیچے آ کر ہم نہیں چِیرے جاتے ہم اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ جماعت کے ہر آدمی پر ایک جنون سا ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ جو بوجھ خدا تعالیٰ نے اس کے کندھوں پر ڈالا ہے وہ اسے پورا کرے"۔ (الفضل 18ستمبر 1948ئ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
البقرہ:151
2
:
المائدہ:25
3
:
الصف:10
4
:
بخاری کتاب الاعتصام باب ذکر النبی وحضَّ علی اتفاق (مفہوماً)

کوشش کرو کہ اسلام کی وہ فتوحات جو احمدیت کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والی ہیں اُن میں تمہارا بھی حصہ ہو
(فرمودہ3ستمبر 1948ء یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"چونکہ کل اِنْشَائَ اللّٰہُ دس بجے صبح کی گاڑی سے میرا یہاں سے چلے جانے کا ارادہ ہے اس لیے یہ جمعہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت یہی ہوئی تو ہمارے سفر کا آخری جمعہ ہو گا۔ ہر کام جو شروع ہوتا ہے اس کا کوئی انجام بھی ہوتا ہے۔ کئی کام ایسے ہوتے ہیں جو ظاہری طور پر نہایت اہم معلوم ہوتے ہیں لیکن انجام کے لحاظ سے نہایت حقیر ثابت ہوتے ہیں اور کئی ایسے کام ہوتے ہیں جو بظاہر نہایت حقیر نظر آتے ہیں لیکن انجام کے لحاظ سے وہ بہت اہم ہوتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے رؤیا میں دیکھا کہ چاند اور ستارے آپ کو سجدہ کر رہے ہیں لیکن ستاروں سے مراد محض ان کے بھائی تھے جو دینی لحاظ سے بھی کوئی بڑا درجہ نہیں رکھتے تھے اور دنیوی لحاظ سے بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ آپ نے رؤیا میں ستارے دیکھے لیکن نکلے بھائی۔ اس کے مقابلہ میں فرعون نے خواب میں چندسِٹّے دیکھے لیکن نکلا اُس سے ملک کا قحط۔ یہ نظارہ بہت چھوٹا تھا لیکن اس کی تعبیر بہت بڑی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا نظارہ بہت بڑا تھا لیکن تعبیر بہت چھوٹی تھی۔ اسی طرح ظاہری اعمال کا بھی حال ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایک چھوٹا سا بیج بویا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ نشوونما پاتے پاتے اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ دنیا حیران ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ ایک چیز ابتدا میں نہایت اہم نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنی اہمیت اور عظمت کیوں دی گئی تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل قریباً ہم عمر تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایسی حالت میں ہوئی کہ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو پھر بھی وہ کوئی مالدار آدمی نہیں تھے۔ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب امیر لوگوں میں سے نہیں تھے۔ آپ آسودہ حال تو ضرور تھے چنانچہ آپ کا دو اڑھائی سو اونٹ ثابت ہوتا ہے لیکن چونکہ آپ ایک سخی آدمی تھے اس لیے آخری عمر میں آپ کی دولت بہت کم ہو گئی تھی۔ پس اول تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہی کوئی امیر خاندان نہیں تھا۔ دوسرے آپ خصوصیت سے غریبانہ حالت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ نے کیا خوشی کی ہو گی۔ آپ کی والدہ کے پاس کچھ تھا ہی نہیں۔ لوگ تو دنیا کو دیکھتے ہیں، مال اور دولت کو دیکھتے ہیں۔ جہاں روپیہ ہوتا ہے وہاں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور جہاں روپیہ نہیں ہوتا وہاں سے وہ بھاگ جاتے ہیں۔ آپ کی والدہ کے پاس روپیہ نہیں تھا۔شاید آپ کے قریبی رشتہ دار مبارکباد کے لیے آ گئے ہوں مگر دوسرے لوگوں نے آپ کی پیدائش کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ لیکن ابوجہل کا باپ مالدار تھا۔ جب وہ پیدا ہوا ہو گا اس کے ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی۔ ابوجہل کا نام ابوالحکم تھا یعنی حکمتوں کا باپ،عقلمند، دانا اور مدبّر۔ لیکن بعد میں اُس نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی اور حماقت کا اظہار کیا تو مسلمانوں نے اُس کا نام ابوجہل رکھ دیا۔ ابوجہل کے ماں باپ چونکہ مالدار تھے اس لیے جب وہ پیدا ہوا ہو گا تو ہر وہ شخص جس کی ضروریات ان سے وابستہ ہوں گی ان کے گھر پہنچا ہو گا اور اس کی پیدائش پر مبارک باد دی ہو گی اور کہا ہو گا ہمارا ملک کتنا ہی خوش قسمت ہے جس میں اس جیسا بچہ پیدا ہوا۔ اس کے چہرہ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اقبال کا ستارہ کتنا بلند ہے۔ غرض اس کی تعریف میں لوگوں نے ہزاروں ہزار مبالغے کیے ہوں گے۔معلوم نہیں اس کی پیدائش پر کتنے اونٹ ذبح کر کے دعوتیں کی گئی ہوں گی، خوشی میں دَفیں بجائی گئی ہوں گی، عورتوں نے گیت گائے ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر آپ کے گھر کے پاس سے گزرنے والے یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ایک غریب کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے جو خود بخود ختم ہو جائے گا۔ لیکن ابوجہل کی پیدائش پر اس کے گھر کے پاس سے گزرنے والے یہ سمجھتے ہوں گے کہ آج ایک رئیس پیدا ہوا ہے، نہ معلوم بڑا ہو کر یہ کیا کچھ کرے گا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدا بظاہر ایک ادنیٰ رنگ میں ہوئی لیکن انتہا کیا ہوئی؟ وہی بچہ جس کو دائیاں لینے کے لیے تیار نہیں تھیں، جس کی پیدائش پر مکہ والوں نے کوئی خوشی نہیں منائی تھی، جس کی پیدائش پر مکہ والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا جب فوت ہوا تو وہ عرب کی تاریخ میں ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی حیثیت رکھتا تھا۔ سارے عرب قبائل اس کے زیر سایہ تھے جو آپ سے پہلے کسی بادشاہ کے مطیع نہیں ہوئے تھے۔
پھر بادشاہوں کو جو ظاہری عظمت حاصل ہوتی ہے اس کی وجہ سے ڈر کے مارے لوگ ان کی بزرگیاں بیان کرتے ہیں لیکن دل میں انہیں ہزاروں ہزار گالیاں دیتے ہیں۔ بادشاہ جب مر جاتے ہیں تو بے شک ان کی موت سے ملک کو صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن لوگ یہی کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اگر مر گیا ہے تو کوئی دوسرا شخص بادشاہ بن جائے گا اور وہ وہی کام شروع کر دے گا جو پہلا بادشاہ کرتا تھا۔انگریزی میں ایک مثل ہے ’’King never dies‘‘یعنی بادشاہ کبھی نہیں مرتے۔ ایک بادشاہ مرجاتا ہے تو دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے اور پہلے بادشاہ اور دوسرے بادشاہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا۔ اگر قوم بیدار ہوتی ہے تو دوسرے بادشاہ کے وقت میں بھی وہ ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کی وفات کو تمام عرب نے جو اُس وقت آپ کی خوبیوں، اہمیت اور عظمت کا قائل ہو چکا تھا ایک انسان کی موت خیال نہیں کیا،ملک کی موت خیال نہیں کیا بلکہ دنیا کی موت خیال کیا۔ چنانچہ حسان بن ثابتؓ نے آپ کی وفات پر جو شعر کہے وہ یہ ہیں
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَاء َ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلیْکَ کُنْتُ أُحَاذِرٗ1
یارسول اللہ! کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْآپ میری آنکھوں کی پتلی تھے۔ آپ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں۔اب کوئی بادشاہ مرتا پھرے مجھے اُس سے کیا۔ مَیں تو آپ کے متعلق ہی ڈرتا تھا۔ یہ وہ جذبۂ عقیدت تھا جو آپؐ کے متعلق صحابہؓ میں پایا جاتا تھا۔
حسان ؓبن ثابت نے ایک شاعرانہ کلام ہی نہیں کہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ تمام عرب نے حسانؓ بن ثابت کے ان شعروں کو اپنے ہی جذبات کا اظہارِ خیال کہا۔ گویا عرب کی آواز حسان ؓبن ثابت کی زبان پر جاری ہو گئی۔ تاریخ کہتی ہے کہ ہفتوں تک مدینہ، مکہ اور دوسرے مسلمان شہروں والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے، بازاروں میں چلتے ہوئے اور اپنے کاروبار کرتے ہوئے یہی شعر پڑھتے تھے
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَاء َ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ أُحَاذِرٗ
لیکن ابوجہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کر کے لوگوں میں گوشت تقسیم کیا گیا تھا، جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضا گونج اُٹھی تھی بدر کی لڑائی میں جب مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کی عمر کے دو انصاری چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جنگ کے بعد لوگ جب واپس جا رہے تھے تو مَیں میدانِ جنگ میں زخمیوں کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ آپ بھی مکہ کے ہی تھے اس لیے ابوجہل آپ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں میدانِ جنگ میں پھر ہی رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ابوجہل زخمی پڑا کراہ رہا ہے۔ جب مَیں اس کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اب بچتا نظر نہیں آتا۔تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے (اُس کا بیٹا عکرمہؓ بھی اسے چھوڑ کر بھاگ گیا تھا)۔ تم بھی مکہ والے ہو مَیں یہ خواہش کرتا ہوں کہ تم مجھے مار دو تا میری تکلیف دور ہو جائے۔ لیکن تم جانتے ہو کہ مَیں عرب کا سردار ہوں اور عرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کر کے کاٹی جاتی ہیں اور یہ مقتول کی سرداری کی علامت ہوتی ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کر کے کاٹنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹ دی اور کہا کہ تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔2خواہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق یہ بات نہ ہو کیونکہ آپ کی یہ تعلیم تھی کہ دشمن پر بھی رحم کیا جائے لیکن انجام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی۔ جس کی گردن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہا کرتی تھی وفات کے وقت اُس کی گردن نیچے سے کاٹی گئی اور اس کی یہ آخری حسرت بھی پوری نہ ہوئی۔ پھر چونکہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں گڑھے کھودا کرتے تھے اور آپ کی یہ پیشگوئی تھی کہ جن گڑھوں میں یہ لوگ آپ کو گرانا چاہتے ہیں ان میں یہ خود گرائے جائیں گے۔ اس لیے بدر کی جنگ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ ان کفار کی لاشوں کو کنویں میں گرا دیا جائے۔ آپ کے اس حکم کے مطابق صحابہؓ نے کفار کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا۔3 غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل دونوں کی پیدائش اور وفات کو دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے وقت جو بظاہر ذلیل نظر آتا تھا وفات کے وقت سیّدِ عرب بنا۔ لیکن جو سیدِ عرب نظر آتا تھا وہ وفات کے وقت نہایت ہی ذلیل وجود ثابت ہوا۔ غرض بعض دفعہ ایک چیز کی ابتدا اَور ہوتی ہے اور انتہا اَور ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب پیدا ہوئے تو آپؑ کے ماں باپ نے آپؑ کی پیدائش پر خوشی کی ہو گی مگر جب آپؑ کی عمر بڑی ہو گئی اور آپ کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو گئی توآپ کے ماں باپ آپ کی اس حالت کو دیکھ کر آہیں بھرا کرتے تھے کہ ہمارا یہ بیٹا کسی کام کے قابل نہیں۔مجھے ایک سکھ نے بتایا کہ ہم دو بھائی تھے۔ ہمارے والد صاحب مرزا صاحب (مرزا غلام مرتضٰی صاحب) کے پاس آیا کرتے تھے۔ ہم بھی بسااوقات ان کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مرزاصاحب نے ہمارے والد سے کہہ دیا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے پاس آتے جاتے ہیں تم اُن سے کہو کہ اسے جا کر سمجھائیں۔ ہم دونوں جب آپ کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گئے تو مرزا صاحب نے کہا کہ غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو جا کر کہنا کہ تمہارے والد کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس کا چھوٹا لڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا۔اسے کہو کہ وہ میری زندگی میں ہی کوئی کام کرے۔ مَیں کوشش کر رہا ہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے۔ مَیںمرگیا تو پھر سارے ذرائع بند ہو جائیں گے۔ مجھے اُس سِکھ نے بتایا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ انہیں یہ دیکھ کر کہ آپ کچھ کام نہیں کرتے بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر مَیں مر گیا تو غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا کیا بنے گا؟آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے؟ آپ کے والد صاحب اُس وقت کپورتھلہ میں کوشش کر رہے تھے۔ کپورتھلہ کی ریاست نے آپ کو ریاست کا افسر تعلیم مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور سکھ کہنے لگا کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد کی بات کیوں نہیں مان لیتے، آپ کچھ کام کر لیں۔ تو آپ فرمانے لگے والد صاحب تو یونہی غم کرتے رہتے ہیں۔ انہیں میرے مستقبل کا فکر ہے۔ مَیں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ہے۔ ہم واپس آ گئے اورمرزا صاحب (مرزا غلام مرتضٰی صاحب) سے آ کر ساری بات کہہ دی۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا۔
یہ آپ کی ابتدا تھی اور پھر ابھی تو انتہا نہیں ہوئی لیکن جو عارضی انتہا نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپؑ پر قربان ہونے والا موجود تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں:۔
لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاََھَالِیْ4
ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیے جاتے تھے اور آج میرا یہ حال ہے کہ مَیں سینکڑوں خاندانوں کو پال رہا ہوں۔ آپ کی ابتدا کتنی چھوٹی تھی مگر آپ کی انتہا ایسی ہوتی ہے کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تھے لنگر میں روزانہ دو اڑھائی سو آدمی کھانا کھاتے تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھائی کے برابر کے شریک تھے لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام کرے وہ تو جائیداد میں شریک سمجھا جاتا ہے اور جوکام نہیں کرتا وہ جائیداد میں شریک نہیں سمجھا جاتا اور یہ دستور ابھی تک چلا آتا ہے۔ لوگ عموما کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اُس کا جائیداد میں کیا حصہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتا اور آپ اپنی بھاوجہ کو کھانے کے لیے کہلا بھیجتے تو وہ آگے سے کہہ دیتی کہ وہ یونہی کھا پی رہا ہے کام کاج تو کوئی کرتا نہیں۔ اس پر آپ اپنا کھانا اس مہمان کو کھلا دیتے اور خود فاقہ کر لیتے۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اُس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھی بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئی۔
غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اس کی ابتدا بڑی نظر نہیں آیا کرتی لیکن اس کی انتہا پر دنیا حیران ہو جاتی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب آپ کو گاؤں کے لوگ بھی نہیں پہچان سکتے تھے کیونکہ آپ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہا کرتے تھے لیکن اب وہ وقت ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں آپ کے ماننے والے تھوڑے بہت لوگ موجود ہیں۔ پھر آپ کی جماعت ایک جگہ پر ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ روزبروز بڑھ رہی ہے۔ جب مَیں خلیفہ ہوا تو ہمارے خزانہ میں صرف چند آنے کے پیسے تھے اور وہ لوگ جو سلسلہ کے کرتا دھرتا تھے، جو لوگ خزانہ پر قابض تھے، سارے نظام پر قابض تھے سارے کے سارے قریباً مخالف ہو گئے تھے۔ اُس وقت جماعت کا اکثر حصہ مخالف تھا۔یہاں تک کہ "پیغام صلح"میں یہ شائع ہوا تھا کہ صرف جماعت کا پانچ فیصدی حصہ میاں محمود کے ساتھ ہے۔ اُس وقت مجھے الہام ہوا’’ کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے‘‘۔ چنانچہ مَیں نے اسے شائع کرا دیا اور لکھا کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ کہا ہے۔ ابھی اس الہام پر دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ میرے ساتھ شامل ہو چکا تھا اور صرف پانچ فیصدی حصہ باہر تھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے جماعت کو ترقی دینی شروع کی اور ہندوستان سے باہر بھی ہمارے مشن قائم ہو گئے۔ سارے کے سارے مشن میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے ہمارا ایک بھی مشنری باہر نہیں تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب جو لندن گئے اُن کے متعلق ہر ایک جانتا ہے کہ وہ دراصل رضوی صاحب کا جو نظام حیدرآباد کی پھوپھی زاد بہن کے خاوند تھے مقدمہ لڑنے لندن گئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی ہماراکوئی باقاعدہ مبلغ نہیں تھا۔ صرف شیخ غلام احمد صاحب واعظ کو انجمن سفر خرچ دیا کرتی تھی اور وہ دورہ کیا کرتے تھے۔ لیکن میرے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے جو جماعت کو دن بدن ترقی دی تو مبلغ بھی بن گئے، مشن بھی بن گئے اور جماعت کہیں کی کہیں جا پہنچی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اُس میں صرف 700 آدمی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں جوآخری جلسہ سالانہ ہوا اُس میں دو اڑھائی ہزار آدمی جمع ہوئے تھے مگر قادیان میں میرے ہر خطبہ جمعہ میں چار پانچ ہزار آدمی جمع ہو جاتے تھے اور جلسہ سالانہ پر تو چالیس ہزار سے بھی تعداد بڑھ جاتی تھی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ انسان کی نظر پہلے بیج پر پڑتی ہے۔ واقف آدمی جب دیکھتا ہے کہ بیج اچھا ہے تو وہ فوراً سمجھ لیتا ہے کہ فصل بھی اچھی ہو گی مگر ناواقف آدمی اس انتظار میں رہتا ہے کہ جب فصل بڑی ہو جائے گی تو دیکھیں گے۔ میرا یہاں آنا بھی ایسا ہی تھا۔ ہر ایک کام جو کیا جاتا ہے اس کی ایک ابتدا ہوتی ہے اور ایک انتہا ہوتی ہے۔ میرے اس سفر کی ابتدا تو یہ تھی کہ مَیں عموماً اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے رمضان میں کسی ٹھنڈی جگہ پر چلا جاتا ہوں۔ اس دفعہ مَیں نے یہاں کے دوستوں کو لکھا کہ آیا کوئٹہ میں رہائش کا بندوبست ہو جائے گا؟ تو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ انتظام ہو جائے گا۔ پہلے انتظام ناقص تھا۔ دوست کچھ اَور سمجھتے تھے مگر جب وہ سمجھ گئے توانہوں نے جگہ کا بندوبست کر دیا اور نہایت قربانی کے ساتھ اس عمارت کی چار دیواری بھی بنا دی۔ گویاایک نئی بلڈنگ تیار کر کے رکھ دی اور مَیں سمجھتا ہوں انہوں نے ایک نہایت عمدہ قربانی کا اظہار کیا ہے۔ یہ تو ہماری غرض تھی مگر خدا تعالیٰ یہ سمجھتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
میرے یہاں آنے پر مخالفت شروع ہو گئی۔ ہمارے خلاف باتیں کی جانے لگیں۔ جماعت احمدیہ پر اتہام لگانے شروع کر دئیے گئے اور مخالفین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم قرآن کو منسوخ سمجھتے ہیں، اسلام کو منسوخ سمجھتے ہیں، شریعت کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا جتنے منہ تھے اتنی باتیں شروع ہو گئیں۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایسی باتیں کر کے ہمارا ہی شکار ہو رہے ہیں۔ درحقیقت مخالفت کے ذریعہ ہی لوگوں میں خدائی سلسلہ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم یہاں آتے اور ہماری مخالفت نہ ہوتی تو کوئی ہماری طرف توجہ بھی نہ کرتا بلکہ کسی کو ہمارے یہاں آنے کا پتہ بھی نہ لگ سکتا۔ اگر ہمارے آدمی دوسروں کے پاس جاتے تو وہ کہہ دیتے ـ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘۔ لوگ کہتے کوئی ہو گا جو یہاں آ گیا ہے لیکن مولویوں نے ہمارے خلاف تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی بڑی چیز ہے معمولی چیز نہیں۔ تبھی تو یہ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بلّی کے آنے پر تو شور نہیں مچایا جاتا شیر کے آنے پرشور مچایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ لوگ خود ہی ہمارے شکار ہونے لگے۔ جب مَیں نے دیکھا کہ احمدیت کے لیے یہاں رستہ کھل گیا ہے تو مَیں نے درس دینا شروع کر دیا تا احمدیت اور اسلام کی عظمت ظاہر ہو۔ میرے اندر ایک بے کلی سی تھی جس کی وجہ سے مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو تفسیر مَیں نے لکھوانی ہے اُس کا درس یہاں دے دوں۔ لکھنے والے لکھتے جائیں گے اور سننے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ چونکہ لوگوں میں پہلے ہی رغبت پیدا ہو چکی تھی اس لیے لوگوں نے یہاں آنا شروع کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مہینہ کے آخر تک پانچ چھ سو آدمیوں نے ہمارے خیالات سنے اور پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی نے ہماری تائید میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کسی نے ہماری مخالفت میں۔ اور پھر خداتعالیٰ نے ایک اَور ذریعہ بنا دیا کہ لوگوں نے جوش میں آ کر ایک احمدی نوجوان کو شہید کر دیا۔ مَیں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہم ہی کامیاب ہوں گے اور فتح ہماری ہی ہو گی۔ زمین میں جب کوئی بیج ڈالا جاتا ہے تو اس سے وہی چیز اُگتی ہے جس کا وہ بیج ہوتا ہے۔ جب زمین میں ہم گندم کا بیج ڈالتے ہیں تو اس سے گندم پیدا ہوتی ہے اور جب انسان کا بیج ڈالتے ہیں تو اس سے انسان پیدا ہوتے ہیں۔
جب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا تو بادشاہ نے اپنے افسروں کو بلایا اور کہا کہ تم ان کا کیا مقابلہ کرتے ہو؟ یہ تو ذلیل ترین وجود ہیں انہیں یونہی غلطی لگ گئی ہے۔ تم ان کو میرے پاس بلا لاؤ مَیں انہیں کچھ روپے دے دیتا ہوں اور وہ واپس چلے جائیں گے۔ بادشاہ نے اپنے کمانڈر کو حکم دیا کہ وہ مسلمان لشکر کے کمانڈر کو کہلا بھیجے کہ وہ ہمارے پاس اپنا ایک وفد بھیجے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور مسلمانوں کا ایک وفد آ گیا جس کے لیڈر ایک صحابیؓ تھے۔ وہ ہاتھوں میں نیزے پکڑے ہوئے شاہی قالینوں پر سے بغیر جوتی اتارے گزر گئے۔ اِس پر بادشاہ کو اَور بھی یقین ہو گیا کہ یہ وحشی لوگ ہیں۔ بادشاہ نے اس وفد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم جاہل لوگ ہو۔ تمہیں سلطنت سے کیا غرض؟ تمہیں بادشاہت سے کیا واسطہ؟ تم لوگوں میں وہ گناہ اور عیب پائے جاتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ایک شریف انسان اپنی گردن نیچے کر لیتا ہے۔ تم ڈاکے مارتے ہو، گوہیں کھاتے ہو، مُردار کھاتے ہو۔ مَیں تمہیں کچھ روپیہ دے دیتا ہوں وہ لے لو اور واپس چلے جاؤ۔وفد کے سردار نے جو ایک صحابی تھے جواب دیاکہ جو کچھ تم کہتے ہو وہ ٹھیک ہے۔ ہم ایسے ہی تھے بلکہ اِس سے بھی بدتر۔ مگر خداتعالیٰ نے ایک رسول بھیجا۔ اس نے ہماری کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اب ہم دنیا کو پڑھانے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ دنیا میں انصاف اور عدل کو قائم کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں روپیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ روپیہ تو ایک حقیر چیز ہے۔ بادشاہ کو اس جواب پر غصہ آ گیا۔ اس نے اپنے ایک نوکر کو حکم دیا کہ وہ مٹی کی ایک بوری بھر لائے۔ وہ نوکر مٹی کی ایک بوری بھر لایا۔ بادشاہ نے وفد کے سردار صحابیؓ کو آگے بلایا اور کہا جھک جاؤ۔ وہ اگر چاہتے تو انکار بھی کر سکتے تھے مگر وہ نہایت ادب سے آگے آ گئے اور جھک گئے۔ بادشاہ نے مٹی کی بوری ان کے سر پر رکھوا دی اور کہا جاؤ اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ جیسے پنجابی میں کہتے ہیں’’ کھِہ کھاؤ‘‘۔ اس بادشاہ نے بھی کہا جاؤ مَیں تمہیں ذلیل کرتا ہوں۔ وہ صحابی اگر چاہتے تو مٹی کی بوری سر پر نہ رکھواتے مگر وہ جان بوجھ کر آگے آئے اور جھک گئے اور اس طرح بوری کو اپنے سرپر رکھوا لیا۔ مشرک کا دل کمزور ہوتا ہے۔ موحّدہی ہوتا ہے جس کا دل دلیر ہوتا ہے۔ مشرک تو چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی ڈر جاتا ہے۔ وہ ہوا کو بھی خدا سمجھتا ہے، پہاڑ کو بھی خدا سمجھتا ہے، پتھر کو بھی خدا سمجھتا ہے ۔ وہ ہر ایک چیز سے ڈرتا ہے۔ اس صحابی نے جب مٹی کی بوری سر پر رکھوا لی تو اپنے ساتھیوںسے کہا آ جاؤ بادشاہ نے اپنی ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کر دی ہے۔ اس فقرہ کا اس صحابی کے منہ سے نکلنا ہی تھا کہ بادشاہ گھبرا گیا۔ اس نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ جلدی سے بوری واپس لے آؤ۔ مگر مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر دور نکل چکے تھے۔5 بظاہر تو بادشاہ نے اس صحابیؓ کے سر پر مٹی رکھی تھی اور ذلیل کیا تھا لیکن واقعہ یہی ہوا کہ بادشاہ نے خود ہی اپنے ملک کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔
اسلام انسانی قربانی کو جائز نہیں سمجھتا۔ پرانے زمانہ میں لوگ اپنی اولاد کو قربان کر دیتے تھے، اسے ذبح کر دیتے تھے مگر اسلام نے یہ نہیں کہا۔ اسلام اپنے ہاتھ سے انسانی قربانی دینے کو جائز نہیں سمجھتا۔خدا تعالیٰ دشمنوں کے ہاتھوں سے وہ قربانی کرواتا ہے۔ اس کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ جب چاہے قربانی لے اور جس کی چاہے لے لیکن جب وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں کوئی تغیر پیدا ہو تو وہ لوگوں میں تحریک کر دیتا ہے اور وہ اس کی تدبیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پس یہاں کے لوگوں نے ایک احمدی کو شہید کر کے بلوچستان میں احمدیت کا بیج بو دیا ہے۔ اب اس کا مٹانا ان کے اختیار میں نہیں رہا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔یہ بیج بڑھے گا اور ترقی کرے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ ایک تناور درخت بن جائے گا اور تمام علاقہ پر چھا جائے گا۔ اب سارے مولوی بھی زور لگا لیں وہ اسے مٹا نہیں سکتے۔ خدا کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا کس کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ کی تدبیریں جداگانہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کاموں میں نرالا ہے، وہ اپنی حکمتوں میں عجیب ہے۔ اس کی کُنہ کو پہنچناانسانی عقل کے اختیار میں نہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے میرے اس سفر کو جس کی غرض یہاں رمضان کا گزارنا تھا۔ اگرچہ یہاں کوئی زیادہ سردی نہیں۔ اگر ہم مر ی چلے جاتے توشایداس سے بہتر رہتا، ایک دینی سفر بنا دیا اور اس کو ایک خاص اہمیت بخش دی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی بادشاہت کے دن اب قریب ہیں۔ مَیں خدا تعالیٰ کی انگلی کو اٹھا ہوا دیکھتا ہوں۔ مَیں اس کے اشارے کو نمایاں ہوتا ہوا پاتا ہوں۔ مَیں خدا تعالیٰ کے منشا کو اس کے فضل سے پڑھ رہا ہوں اور سن رہا ہوں اور مَیں یہ جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہمارا ہی شکار ہو گا۔ دنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے اب یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔ یہی صوبہ نہیں بلکہ ہمیں سارے ملک ہی ملنے والے ہیں۔ دنیا ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتی ہے مگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان کی جماعتوں کو کب عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے۔ مگر وہ پتھر جسے حقیر سمجھ کر معماروں نے پھینک دیا تھا خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ وہی کونے کا پتھر ہو اور اس عمارت کے لیے سہارے اور روشنی کا موجب ہو۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی یہی ہو گا۔
جب بھی خدا تعالیٰ کے مامور دنیا میں کوئی نئی تحریک لے کر آئے لوگ انہیں ذلیل اور حقیر ہی سمجھتے تھے۔ لیکن جب بھی کوئی ایسی تحریک آئی مخالفین اُس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے۔ اگر کوئی خطرہ ہوسکتاہے تو محض ماننے والوں سے ہو سکتا ہے۔ اتباع کے لیے اپنے دلوں میں بے ایمانی بڑھ جاتی ہے جو اس تحریک کے پھیلنے میں روک بنتی ہے۔دشمن خواہ کتنی مخالفت کرے وہ اس کے پھیلنے میں روک نہیں بن سکتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے آپ کے خلاف کتنی کوشش کی مگر کیا وہ کامیاب ہوئے؟ وہ انصار پر بھی حملہ آور ہوئے۔ اس لیے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں پناہ دی ہے۔ لیکن وہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے ۔ ہاں ان کی اپنی ایک غلطی نے انہیں بڑے بڑے انعامات سے محروم کر دیا۔ مکہ فتح ہوا، طائف والوں نے ایک لشکر جمع کیا اور مسلمانوں سے لڑائی کی تیاریاں کیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ خود مقابلہ کے لیے باہر نکلیں۔آپؐ لڑائی کے لیے تشریف لے گئے۔ نئے مسلمانوں اور کچھ کافروں نے بھی آپ سے عرض کیا یارسول اللہ! پہلے لوگوں نے بہت سی قربانیاں کر لی ہیں۔ ہمیں بھی اب موقع دیا جائے کہ ہم اسلام کی خاطر لڑیں۔ آپؐ نے اجازت دے دی اور دو ہزار کے قریب نئے مسلمان آپ کے ساتھ چل پڑے۔ یہ لوگ آگے آگے تھے۔ چونکہ یہ کمزور تھے اس لیے دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔ ان کے قدم اُکھڑ گئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اسلام میں اگر کوئی جنگ خالص طور پر انصار نے لڑی ہے تو وہ حنین یا ثقیف کی جنگ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر میں جب تشتّت اور افتراق دیکھا تو حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ وہ آواز دیں اے انصار! تمہیں خدا کا رسول بلاتاہے۔ آپ نے آواز دی اور انصار منٹوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ ایک انصاری کہتے ہیں کہ ہمارے اونٹ اتنے ڈر گئے تھے کہ باوجود نکیلیں کھینچنے کے وہ پیچھے نہیں مڑتے تھے۔ جو اونٹ مڑ گئے سو مڑ گئے باقی کی گردنوں کو ہم نے خود اپنی تلواروں سے کاٹ دیا اور پیدل چل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ ان کی جوش کی حالت تھی جب اسلامی لشکر کو فتح ہوئی اورمالِ غنیمت ساتھ آیا تو مکہ والے چونکہ حدیثُ الْعہد تھے۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کا مال اُن میں تقسیم کر دیا۔اِس پر ایک انصاری نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور اموال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطنوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دئیے ہیں۔6 آپ کو بھی کسی نے اطلاع دے دی۔ آپؐ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار! مَیں نے ایسی بات سنی ہے۔ انصار نے کہا یارسول اللہ! ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کہی۔یہ ایک احمق نوجوان نے کہی ہے۔ ہم خود اس سے متنفر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے انصار! اس بات کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم کہو کہ جب مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر نکال دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، ہم اس کے لیے لڑے، ہم نے ہی لڑ لڑ کر اسے فتح دلائی اور جب فتح ہو گئی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال اپنی قوم میں تقسیم کر دیا اور ہم کو محروم کر دیا۔ انصار کی حالت گریہ و زاری اور چیخ و پکار کی وجہ سے ایسی تھی جیسے قیامت کا شور ہوتا ہے۔ ان کے سینوں سے گونجیں اٹھ رہی تھیں اور وہ بار بار کہتے تھے یارسول اللہ! ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں۔صرف ایک نوجوان نے ایسی بات کہہ دی ہے۔ ہم اس سے متنفر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے انصار! ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی دعا یہی تھی مگر مکہ والوں نے آپ کی قدر نہ کی اور آپ کو باہر نکال دیا۔ خدا تعالیٰ اپنے رسول کو مدینہ میں لے گیا اور خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیج کر اپنے رسول کو فتح دلائی۔ چنانچہ جو کام مدینہ والوں سے نہیں ہو سکتا تھا وہ خدا نے کیا۔ جب فتح مکہ ہوئی تو مکہ والے سمجھتے تھے کہ ہماری پرانی بیوقوفیوں کا ازالہ ہو جائے گا، ہمارا مال ہمیں واپس مل جائے گا، خدا تعالیٰ کا رسول مکہ میں واپس آ جائے گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ پسند نہ کیا کہ مدینہ والوں کو اس نعمت سے محروم کر دے۔ آخر لڑائی کے بعد مکہ والے تو اونٹ ہانک کر اپنے گھروں کو لے گئے اور مدینہ والے خدا تعالیٰ کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے۔7 فرمایا اے انصار! تم یوں بھی کہہ سکتے تھے۔ انصار نے پھر کہا یارسول اللہ! ہم نے ایسا نہیں کہا۔ کسی نوجوان نے ایسا کہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا مَیں تمہاری قربانیوں کی قدر کرتا ہوں مگر جو بات منہ سے نکل جاتی ہے وہ واپس نہیں لی جا سکتی۔ تمہیں اس دنیا میں اب بادشاہت نہیں ملے گی۔ تم کوثر پر ہی آ کر اپنا انعام مجھ سے لینا۔8
آج اس بات پر 1300 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر انصار میں سے کوئی بھی بادشاہ نہیںہوا۔ مغل بادشاہ ہوئے، پٹھان بادشاہ ہوئے مگر جن لوگوں کے خون سے اسلام کو قائم کیا گیا تھا اُنہیں دنیا میں بادشاہت نہیں ملی۔ پس حقیقت یہی ہے کہ اپنوں کی غلطی کی وجہ سے کوئی روک آتی ہے توآتی ہے دشمن کے ہاتھوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کریں اورسچے احمدی بننے کی کوشش کریں۔ دشمن کے دل میں جو کینہ بیٹھا ہوا ہے وہ تو کھاد کا کام دیتا ہے اور احمدیت کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔ تمہیں جب بھی کوئی تکلیف پہنچے گی تمہارے اپنے نفس کی کمزوری کی وجہ سے پہنچے گی۔
پس تم اپنے آپ کو تیار کر لو اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگو کہ وہ تمہیں ایسی غفلتوں سے بچائے تا تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جو تمہارے لیے مقدر ہو چکے ہیں وارث بن جاؤ۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل نہیں ٹل سکتے۔ تم کوشش کرو تا تم ان فضلوں کے وارث بن جاؤ اور اسلام کی فتوحات جو احمدیت کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والی ہیں اُن میں تمہارا بھی حصہ ہو اورعزت والا حصہ ہو"۔ (الفضل 22؍اکتوبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
دیوان حسانؓ بن ثابت صفحہ308
2
:
3
:
السیرۃ الحلبیۃ (اردو) جلد دوم نصف آخر ، صفحہ 35دارالاشاعت کراچی 1999ء
4
:
آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ596
5
:
تاریخ طبری جلد 4صفحہ 322تا 325۔ بیروت 1987ء
6
:
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف
7
:
بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار
8
:
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف


مسلمانوں کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہرحال بہتر ہے
(فرمودہ10ستمبر 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"دنیا کے حالات اتنی جلدی جلدی بدل رہے ہیں کہ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہو جائے گا۔ بہت سی قومیں ایسی ہوتی ہیں جن کی مثال گیہوں میں گھُن کی سی ہوتی ہے۔ جب گیہوں پیسا جاتا ہے تو گھُن بھی ساتھ ہی پس جاتا ہے۔بعض زبردست قومیں جن کی ضرورتیں دوسروں سے ٹکرانے پر انہیں مجبور کر رہی ہیں، جن کی طاقت حد سے بڑھ گئی ہے وہ دنیا کے امن پر اس قدر چھائی ہوئی ہیں کہ باقی دنیا بھی ان کے ساتھ بھنور میں چکر لگائے چلی جاتی ہے۔ جس طرح دریا میں بھنور آتا ہے اور تنکے اور لکڑیاں بغیر تعلق کے اس میں چکر کھاتی چلی جاتی ہیں، جس طرح بگولا آتا ہے تو ہوا بعض فوائدِ طبعیہ کی وجہ سے چکر کھاتی ہے لیکن گردوغبار اور کمزور اشیاء بھی ساتھ چکر کھاتی چلی جاتی ہیں۔ وہی حال اِس وقت دنیا کا ہو رہا ہے۔ ایک بگولا اٹھا ہے جس میں ہوا چکر کھاتی چلی جاتی ہے لیکن گرد بھی ساتھ ہی پریشان ہو رہی ہے جس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کے تیز دھارے میں ایک بھنور آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پانی تو قاعدے کے مطابق چکر کھا رہا ہے لیکن ہزاروں تنکے اور لکڑیوں کے ٹکڑے جن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مجبور ہیں کہ اس کے ساتھ وہ بھی چکر کھائیں۔ ان میں طاقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس بھنور سے نکال سکیں۔ یہ بھنور اور بگولے آتے ہیں تو محدود جگہوں میں آتے ہیں۔ دریاؤں میں بھنور پڑتے ہیں تو محدود جگہوں میں پڑتے ہیں اور باقی علاقے راہ گزروں کے لیے محفوظ رہتے ہیں۔ بگولے آتے ہیں تو زمین کے محدود حصے پر آتے ہیں لیکن یہ بھنور ایسا آیا ہے، یہ بگولا ایسا اٹھا ہے جس کے اثر اور زد سے دنیا کا کوئی کونہ بھی محفوظ نہیں، پہاڑوں پر بسر کرنے والے بھی اس سے محفوظ نہیںاور دریاؤں میں بسر کرنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ سب کو اس میں داخل ہونا ہو گا اورسب کو اس کے ساتھ چکر کھانے پڑیں گے۔بگولا اڑانے والے اور بھنور بنانے والے تسلی پا جائیں گے۔ اس لیے کہ انہوں نے بہت بڑا کام کیا۔ اگر وہ جیتیں گے تو وہ کہیں گے ہم نے کامیابی حاصل کر لی اور اگر ہاریں گے تو کہیں گے کہ ہم ہار گئے تو کیا ہوا؟ ہم نے اپنی تسلی تو کر لی ہے۔ ہم نے اپنا پورا زور تولگا لیا ہے جیسے شاعر کہتا ہے
شکست وفتح نصیبوں پہ ہے ولے1 اے میر
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
ہارنے والا تو کہے گا کہ اس نے خوب مقابلہ کیا اور جیتنے والا کہے گا کہ اس نے اپنے مقصد کو پالیا مگر جو بیچارے ساتھ یونہی چکر کھا رہے ہوں گے ان کے دل رو رہے ہوں گے اور باقی دنیا ان پر ہنس رہی ہو گی۔ نہ جیتنے والوں کو ان سے دلچسپی ہو گی اور نہ ہارنے والوں کو ان سے کوئی ہمدردی۔ ان کے اس بگولے اور بھنور میں پھنس جانے کی کیا وجہ تھی؟ اسے کون جانتا ہو گا؟ آئندہ آنے والے مؤرخ یہ لکھ دیں گے کہ یہ لوگ بالکل ناکردہ گناہ تھے۔ یونہی اس مصیبت میں پھنسا دئیے گئے تھے اور خواہ نخواہ اس مشکل میں ڈال دئیے گئے تھے۔ لیکن جہاں یہ ٹھیک ہے کہ بگولوں کے پیدا کرنے اور بھنور کو بنانے میں بہت سی مخلوق کا دخل ہے اور اس میں پھنس جانے والوں کے پاس طاقت کم ہے وہاں اس چیز میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انسان سمجھ دار اور باعقل پیدا کیا گیا ہے۔ وہ بے شک مصیبت میں پھنس جاتا ہے مگر مصیبت کے وقت اس کا مقابلہ کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔ جب ایک انسان شہد حاصل کرنے کے لیے مکھیوں کے چھتے کے پاس جاتا ہے اور اس سے شہد لینے کی کوشش کرتا ہے تو ساری دنیا جانتی ہے کہ مکھیاں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ اس کے مقابلہ سے پیچھے بھی نہیں ہٹتیں۔ مکھی ڈنک مارتی ہے،چیونٹی اپنے منہ سے ڈسنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ مقابلہ وہی چیز کرتی ہے جسے معلوم ہو تا ہے کہ وہ مقابلہ میں کامیاب ہو جائے گی۔ مکھیاں اور چیونٹیاں دونوں جانتی ہیں کہ وہ مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتیں مگر اس کے باوجود وہ مقابلہ کو چھوڑتی نہیں۔ پھر انسان اگر اس کے حواس ٹھیک ہیں اس بات کی کب برداشت کر سکتا ہے کہ ایک طاقتور ہجوم اس پر حملہ کر دے، بگولے اسے اڑا کر لے جائیں۔ بھنور اسے چکر میں ڈال دیں اور وہ بِلاجدوجہد اپنے آپ کو اڑنے دے اور بھنور کو چکر دینے دے۔
حقیقت یہ ہے کہ بگولے میں اڑ جانے اور بھنور میں چکر دینے کے ہزاروں موجب ہو سکتے ہیں۔ اس بگولے میں اڑ جانے اور بھنور میں چکر کھانے کا موجب ہماری کم ہمتی ہے، ہمارا مقابلے کو چھوڑ دینا ہے ۔اور مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے کامیابی کا جو امکان موجود تھا وہ بھی جاتا رہاہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم پوری کوشش سے اس کا مقابلہ کریں اور بے ہمتی، سستی، غفلت اور بزدلی کو پاس نہ آنے دیں یہاں تک کہ دشمن ہتھیار ڈال دے۔ اول تو مقابلہ میں جیتنے کا امکان بھی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی ہار بھی جائے تب بھی وہ عزت کے ساتھ اس دنیا سے نکل جائے گا۔
اِس وقت دنیا میں جو بھنور پیدا ہوا ہے، جو بگولا اڑ رہا ہے اس کی ساری زد مسلمانوں پر آتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اب فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان حالات میں کیا مزید انتظار کرنا مسلمانوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی ایسے امکانات پائے جاتے ہیں کہ ہم آئندہ قوت پکڑ لیں؟ میرے نزدیک یہ بات نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں میں اب بیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ آہستہ آہستہ آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ بیداری جس رنگ میں ہو رہی ہے اس کی قریب کے عرصہ میں تکمیل کی امید نہیں کی جاتی۔ امید اُسی وقت کی جا سکتی ہے جب ہم حقیقی طور پر بہادر بنیں، ہمارے اخلاق درست ہوں۔ اِس وقت نہ مسلمانوں کے انفرادی اخلاق ہی اعلیٰ ہیں اور نہ قومی اخلاق اعلیٰ ہیں۔ انفرادی اخلاق کے بغیر روحانی فتح نہیں ہو سکتی اور قومی اخلاق کے بغیر جسمانی اور مادی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور اخلاق کی درستی کے لیے وقت چاہیے۔
سب سے پہلے لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریں مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی۔ ہر ایک شخص یہ تو چاہتا ہے کہ وہ حاکم ہو جائے۔ وہ یہ تو چاہتا ہے کہ یورپ کی غلامی سے آزاد ہو جائے مگر ایک بھی ایسا نہیں جو شیطان کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتا ہو۔ ایک طرف اگر وہ جھوٹ بولتا جائے، روحانیت کی ہتک کرتا جائے، بے ایمانیاں کرتا جائے، ظلم کرتا جائے، غریب کی مدد نہ کرے، یتیموں کی طرف کوئی توجہ نہ دے اور اپنے فرائض کو محنت سے پورا نہ کرے اور باوجود اس کے وہ دوسری طرف شان و شوکت حاصل کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ نہ کبھی یہ پہلے ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو گا۔ اگر وہ شان و شوکت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے انفرادی اخلاق کو بدلنا پڑے گا۔ سچ، محنت،حُسنِ سلوک، حُسنِ معاملہ، دیانت، امانت وغیرہ ان سب اخلاق کو پیدا کرنا ہو گا۔
دوسری چیز قومی اخلاق ہیں۔ مسلمانوں کی اس طرف توجہ ہے مگر اتنی نہیں کہ انہیں پورے طور پر کامیابی حاصل ہو سکے۔ مثلاً یہ ہوا ہے کہ انہوں نے آگے قدم رکھنا چاہا ہے اور یہ ایک حد تک نظر آ رہا ہے مگر ساتھ ہی ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو اگر دوسرے سے ٹکرا جائے تو وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھتا۔ دوسرے انفرادی اغراض کو قوم کے لیے قربان نہیں کیا جاتا۔ یہ دونوں عیب دور ہو جائیں تب ہم دشمن پر فتح حاصل کر سکتے ہیں اور تب ہم امید کر سکیں گے کہ ہم خدا کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ جس طرح ایک پہلو ان کو جیل خانہ میں بند کر دیا جائے، اُس کے گلے میں طوق ڈال دئیے جائیں، پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں تو اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس میں طاقت اور قوت نہیں۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت و قوت کو استعمال نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح ایک مسلمان میں خواہ کتنی دلیری اور جرأت ہو اگر اُس کے انفرادی اور قومی اخلاق کمزور ہیں یا ہے تو وہ بہادر لیکن اسے اپنے نفس پر قابو حاصل نہیں تو ہم کہیں گے کہ وہ نفس کے جیل خانے میں ہے۔ وہ شیطان کے قبضہ میں ہے۔ جہاں تک قومی اخلاق کا سوال ہے مسلمان ترقی کی طرف جا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی جلدی ترقی حاصل کر لیں گے جتنی جلدی لڑائی شروع ہو رہی ہے؟ یہ بظاہر ممکن نہیں۔
اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ مسلمان متحد ہو جائیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے وہی لے کر دنیا کا مقابلہ کریں۔ جب بعد میں بھی یہی ہونا ہے تو کیوں نہ ابھی سے اس پر عمل کیا جائے۔ ہندوستان کے مسلمان مصیبت میں گرفتار ہیں، انڈونیشیا کے مسلمان محفوظ نہیں، مصر کے مسلمان محفوظ نہیں، شام کے مسلمان محفوظ نہیں، ٹرانس جورڈن2 کے مسلمان محفوظ نہیں، سعودی عرب میں مسلمان امن میں نہیں اور لبنان میں بھی مسلمان خطرہ سے خالی نہیں۔ غرض کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کو خطرہ لاحق نہ ہو رہا ہو۔ صرف فلسطین کا ہی مسئلہ درپیش نہیں بلکہ سب مسلمان ممالک خطرہ کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ عراق فلسطین کی جنگ میں اس لیے دخل نہیں دے رہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کے عرب آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔ شام اس لیے اس میں دخل نہیں دے رہا کہ فلسطین کے باشندے آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح لبنان اس میں اس لیے شامل نہیں ہو رہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا کیونکہ لبنان میں تو ایک بڑی تعداد عیسائیوں کی بھی پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب اس لیے اس میں دخل نہیں دے رہا کہ فلسطین میں یہودیوں کے غلبہ سے فلسطین کے مسلمانوں کی عزت میں فرق آ جائے گا۔ مصر اس میں اس لیے دخل نہیں دے رہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کی لمبی تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہودیوں کے عربوں کے خلاف منصوبے بہت خطرناک ہیں۔ یہود فلسطین کے صرف اس حصہ کو نہیں لینا چاہتے جس پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اگر صرف یہی سوال ہوتا تو عرب کبھی کے اس پر راضی ہوجاتے۔ وہ صرف اس حصہ کو ہی نہیں لینا چاہتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ حصہ لے لیا تو پھر وہ آسانی کے ساتھ باقی حصہ کو فتح کر لیں گے اور اس کے بعد سارے عرب کو فتح کر لیں گے۔ یہودیوں کی دولت اور تعداد ایسی نہیں کہ وہ دس ہزار مربع میل میں سما سکیں۔ یہودیوں کی تعداد دو کروڑ کی ہے اور دولت کے لحاظ سے وہ ہر قوم کے دو کروڑ سے زیادہ مالدار ہیں۔ یہودیوں کے دو کروڑ آدمی یورپین لوگوں کے دو کروڑ سے زیادہ مالدار ہیں۔ دو کروڑ یہودیوں کی دولت دو کروڑ امریکنوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہودی اپنے دو کروڑ باشندوں کو دس ہزار مربع میل میں ترقی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ سینکڑوں سال سے اُن پر جو ظلم ہوتے آ رہے ہیں اور دشمن اُن کو ذبح کرتا آ رہا ہے اس کے لیے جب تک وہ ایک زبردست حکومت نہ قائم کر لیں وہ عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اور اپنے اُن باشندوں کے جان اور مال کی حفاظت نہیں کر سکتے جو سلطنت کے قائم ہو جانے کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بس رہے ہوں گے۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک زبردست یہودی سلطنت قائم کی جائے جہاں ان کی آبادی کا بیشتر حصہ بس سکے، جہاں وہ مزید دولت کما سکیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ یہ باتیں اس تنگ علاقہ میں نہیں ہو سکتیںاس لیے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ پہلے فلسطین کے ایک حصہ پر قبضہ کر لو۔ پھر آہستہ آہستہ باقی فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ پھر ٹرانس جورڈن پر قبضہ کر لیا جائے گا کیونکہ وہ بھی فلسطین کا ایک حصہ ہے۔ پھر شام اور لبنان پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ اس لیے کہ اسرائیلی اپنے لمبے دَور میں ان پر قابض رہے۔ پھر عرب پر قبضہ کر لیا جائے گا اس لیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت یمن کے کناروں تک تھی۔ پھر مصر پر قبضہ کر لیا جائے گا اس لیے کہ وہاں وہ آباد تھے اور انہیں جبراً وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کی اس تجویز کے مطابق حکومتِ اسرائیل آئندہ، شام، لبنان، ٹرانس جورڈن، عرب، یمن اور عراق پر مشتمل ہو گی۔ پھر ان سب ملکوں میں بھی وہ ڈیڑھ کروڑ کے قریب یہودیوں کو اُس وقت ہی بسا سکتے ہیں جبکہ وہ وہاں کے رہنے والے عربوں کو مار دیں ورنہ وہ ان کی زمینوں پر قبضہ نہیں کرسکتے،ان کے مکانوں پر قبضہ نہیں کر سکتے، ان کی صنعتوں پر قبضہ نہیں کر سکتے، شہر اور تجارتیں نہیں لے سکتے اور نہ ہی اپنی دولت کو بڑھا سکتے ہیں۔ جس طرح مشرقی پنجاب کے متعلق یہ خیال کیا گیا تھا کہ سکھ اور ہندو پناہ گزین جو مغربی پنجاب سے آئے ہیں وہ کہاں بسیں گے؟ اُن کو یہاں بسانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مسلمانوں کو نکال دیا جائے۔ پہلے سکھوں اور ہندوؤں کو بہکایا گیا کہ وہ مشرقی پنجاب آ جائیں اور جب وہ آ گئے تو پھر یہ سوال تھا کہ انہیں بسایا کس جگہ جائے؟ اس کی ایک ہی تجویز تھی کہ مسلمانوں کو مار ڈالو اور ان کی تجارتیں اور زمینیں اپنے قبضہ میں لو۔ یہی سکیم بعینہٖ فلسطین میں بھی چل رہی ہے۔ پس عراق لڑ رہا ہے اس لیے کہ فلسطین کے بعد وہ بھی زندہ نہیں رہے گا۔شام لڑ رہا ہے اس لیے کہ اس کی زندگی بھی فلسطین کے بعد خطرے میں پڑ جائے گی۔ لبنان لڑ رہا ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں عیسائیت کا سوال نہیں۔ ان یہودیوں کو تو زمین اور ملک چاہیے۔ مصر جانتا ہے کہ اگر فلسطین میں یہودی سلطنت قائم ہو گئی تو اُن کی آئندہ تجویز سارے عرب ممالک کو فتح کرنا ہے۔ کیونکہ یہود قوم اتنے کم رقبہ میں نشوونما نہیں پا سکتی۔ غرض فلسطین کا جھگڑا شام، لبنان، عراق، مصر اور سعودی اور یمنی عرب کا جھگڑا ہے اور یہ سب اسلامی ممالک خطرہ میں ہیں۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں کا یہی حال ہے۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ افغانستان کے باشندے بہادر ہیں مگر ان کے پاس بھی کوئی طاقت نہیں۔ وہ صرف رقابت کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ روس یہ نہیں چاہتا تھا کہ ان کے بارہ میں کوئی دوسری حکومت دخل اندازی کرے۔ لیکن اب روس سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کی وجہ سے اس کے لیے موقع ہے۔ اس لیے روس کی طرف سے کوشش کی جا رہی ہے اوریہ روسی ایجنٹ ہی ہیں جو افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے خلاف بھڑکا رہے ہیں کیونکہ اگر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہو جائیں تو جب وہ افغانستان میں داخل ہو گا تو افغانستان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اب روسیوں نے افغانستان کے شمالی علاقوں کے متعلق دعوے کرنے شروع کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایک گھبراہٹ سی پیدا ہو گئی ہے اور پاکستان کی مخالفت اب دب رہی ہے کیونکہ انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ انہیں ہڑپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان غور کریں کہ کیا مزید انتظار ان کے لیے مفیدہو سکتا ہے؟ اور اگر مزید انتظار مفید نہیں ہو سکتا اور پھر بھی یہی صورت باقی رہنی ہے کہ موت یا فتح۔ توپھر انتظار کرنے کے معنے ہی کیا ہوئے۔ اگر ڈاکٹر کسی مریض کے متعلق یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ بغیر آپریشن کے ٹھیک نہیں ہو سکتا اور اُسے جلد یا بدیر آپریشن کرانا ہی ہو گا تو پھر آپریشن میں دیر کرنا مریض کے لیے کسی صورت میں بھی مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دیر کرنا اس کے لیے اَور مُضِر ثابت ہو گا اور اُسے زیادہ کمزور کر دے گا۔ اگر بعد میں بھی آپریشن ہی کرانا ہے تو پھر مزید انتظار کے معنے ہی کچھ نہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ اِس وقت تمام مسلمانوں کو مل کر غور کرنا چاہیے اور فیصلہ کر لینا چاہیے کہ یا تو وہ ان خطرات کو جو ان کے لیے پیدا ہو گئے ہیں دور کر دیں اور یا پھر ختم ہو جائیں اور عزت کی موت مر جائیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اب بھی بیدار ہو جائیں تو ایسا امکان ہے کہ حالات سازگار ہو جائیں۔ پس مسلمان لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریں اور ان خطرات کا اکٹھے ہو کر مقابلہ کریں۔ اس صورت میں یا تو وہ ان خطرات پر فتح پا لیں گے اور یا عزت کی موت مر جائیں گے جو ذلّت کی زندگی سے بہرحال بہتر ہے۔ مَیں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے اور پہلے بھی اشارتاً توجہ دلائی ہے کہ اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں۔ مسلمان لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور موجودہ حالات کا مقابلہ کریں ورنہ دوسروں کے لیے جگہ چھوڑ دیں تاوہ کشتیٔ اسلام کو اس بھنور سے نکالنے کی کوشش کریں۔
دوسری بات جس کے متعلق مَیں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم سات آٹھ مہینے سے کوشش کر رہے تھے کہ ایک جگہ لی جائے جہاں قادیان کی اُجڑی ہوئی آبادی کو بسایا جائے۔ یہ تجویز ستمبر 1947ء میں ہی کر لی گئی تھی اور اُس خواب کی بناء پر جو مَیں نے 1942ء میں دیکھی تھی کہ مَیں ایک جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں جماعت کو پھر جمع کیا جائے اور منظم کیا جائے۔ ہم نے یہاں پہنچتے ہی ضلع شیخوپورہ میں کوشش کی۔ پہلے ہماری یہ تجویز تھی کہ ننکانہ صاحب کے پاس کوئی جگہ لے لی جائے تا سکھوں کو یہ احساس رہے کہ اگر انہوں نے قادیان پر جو احمدیوں کا مرکز ہے حملہ کیا تو احمدی بھی ننکانہ صاحب پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اس خیال کے ماتحت میں نے قادیان سے آتے ہی آٹھ نو دن کے بعد بعض دوستوں کو ہدایات دے کر ضلع شیخوپورہ بھجوا دیا تھا۔ وہاں ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمینوں کے متعلق ان کے ایجنٹوں سے بات چیت بھی کر لی گئی تھی اور بعض لوگ زمین دینے پر رضامند بھی ہو گئے تھے۔ لیکن جب اس کا گورنمنٹ کے افسران سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیرمسلموں کی چھوڑی ہوئی جائیداد فروخت نہ کی جائے۔ ہم نے انہیں کہا کہ ہم بھی ریفیوجی(Refugee) ہیں اس لیے کسی غیر کے پاس زمین فروخت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ ایسا کرنے میں غلط فہمی ہو سکتی ہے اس لیے یہ زمین قیمتاً نہیں دی جا سکتی۔ اسی دوران میں بعض احمدیوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سکھوں میں ایک طبقہ حد سے زیادہ جوش والا ہے اس لیے بجائے اِس کے کہ اِس تجویز سے فائدہ ہو ایسے لوگ زیادہ شرارت پر آمادہ ہو جائیں۔ ایک دوست نے یہ بھی کہا کہ آپ نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی وہ جگہ تو پہاڑیوں کے بیچ میں تھی اور یہ جگہ پہاڑیوں کے بیچ میں نہیں ہے۔مَیں نے ایک جگہ دیکھی ہے کہ جو آپ کے خواب کے زیادہ مطابق ہے۔ چنانچہ ایک پارٹی تیار کی گئی اور مَیں بھی اُس کے ساتھ موٹر میں سوار ہوکر گیا۔ وہ جگہ دیکھی, واقع میں وہ جگہ ایسی ہی تھی۔ صرف فرق یہ تھا کہ مَیں نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی اس میں سبزہ تھا اور یہاں سبزہ کی ایک پتی بھی نہ تھی۔ یہ جگہ اونچی ہے اور نہر کا پانی اُس تک نہیں پہنچ سکتا۔ مَیں نے ایک گاؤں کے زمیندار سے پوچھا کہ آیا کسی وقت سیلاب کا پانی اس جگہ تک پہنچ جاتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اور ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کے نیچے ہم کھڑے تھے کہا اگر پانی اس درخت کی چوٹی تک پہنچ جائے تب اس جگہ تک پانی پہنچ سکتا ہے۔ اب حال میں جو سیلاب آیا ہے اس کا پانی بھی اس جگہ سے نیچے ہی رہا ہے اور اُس تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن ہم نے سمجھا کہ اگر کوشش کی جائے تو شاید یہاں بھی سبزہ ہو سکتا ہو۔ چنانچہ ہم نے گورنمنٹ سے اس کے خریدنے کی درخواست کی اور اس سے کہا کہ آخر آپ نے ہمیں کوئی جگہ دینی ہی ہے اور کہیں بسانا ہی ہے اگر یہ جگہ ہمیں مل جائے تو جتنے احمدی یہاں بس جائیں گے اُن کا بوجھ گورنمنٹ پر نہیں پڑے گا۔ قادیان کے باشندوں کو اگر کسی اَور جگہ آباد کیا جائے تو انہیں بنی بنائی جگہیں دی جائیں گی لیکن اگر وہ یہاں بس جائیں تو کروڑوں کی جائیداد بچ جائے گی جو دوسرے مہاجرین کو دی جا سکتی ہے۔
قادیان میں دو ہزار سے زائد مکانات تھے جن میں بعض پچاس پچاس ہزار کے تھے اور بعض لاکھ دو لاکھ کے تھے لیکن اگر پانچ ہزار روپے فی مکان بھی قیمت لگائی جائے تو ایک کروڑ کے مکانات قادیان میں تھے اور یہ قیمت صرف مکانوں کی ہے زمین اس سے الگ ہے۔ زمین کی قیمت اُس وقت دس ہزار روپے فی کنال تک پہنچ گئی تھی اور پانچ سو ایکڑ کے قریب زمین مکانوں کے نیچے تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس ہزار کنال زمین پر مکانات بنے ہوئے تھے۔ اگر پانچ ہزار روپیہ فی کنال بھی قیمت لگا دی جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ دو کروڑ کی زمین تھی جس پر مکانات بنے ہوئے تھے۔ گویا تین کروڑ کے قریب مالیت کے مکانات قادیان والے چھوڑ کر آئے ہیں۔ اگر لاہور، لائلپور، سرگودھا وغیرہ اضلاع میں قادیان کے لوگوں کو بسایا جائے تو پھر وہاں زمین اور مکانات کی قیمتیں قادیان کی زمین اور مکانات کی قیمتوں سے بڑھ کر ہوں گی۔ اگر احمدیوں کو یہ جگہ دے دی جائے اور وہ وہاں بس جائیں تو قریباً چار کروڑ کی جائیداد بچ جاتی ہے جو دوسرے لوگوں کو دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور کہا کہ قاعدہ کے مطابق اسے پہلے گزٹ میں شائع کرنا ہو گا اور وعدہ کیا کہ وہ نومبر یا دسمبر میں اسے شائع کر دیں گے مگر جب جنوری میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم بھُول گئے ہیں۔ ہم نے کہا یہ آپ کا قصور ہے۔ ہمارے آدمی آوارہ پھر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا خواہ کچھ بھی ہو بہرحال اسے شائع کرنا ضروری ہے تا معلوم کیا جائے کہ اس زمین کا کوئی دعویدار ہے یا نہیں۔ اس کے بعد کہہ دیا گیا کہ جب تک کاغذات کمشنر کی معرفت نہ آئیں کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ ایک مہینہ میں کاغذ کمشنر کے پاس سے ہو کر پہنچے اور اس طرح مارچ کا مہینہ آ گیا۔ پھر کہا گیا کہ ان کاغذات پر قیمت کا اندازہ نہیں لکھا گیا اس لیے ہم کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ پھر دوبارہ کاغذات مکمل کر کے بھیجے گئے۔ پھر افسر مقررہ نے ایک مہینہ بعد تعمیل کی۔ پھر اپریل میں قیمت لگائی گئی۔ پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ کاغذات منسٹری کے پاس جائیں۔ ہم نے کہا کہ یہ کام تو فنانشل کمشنر صاحب خود کرسکتے ہیں۔ مگر کہا گیا کہ یہ کام چونکہ اہم ہے اس لیے کاغذات کا منسٹری کے پاس جانا ضروری ہے۔ کاغذات منسٹری کے پاس بھیجے گئے۔ منسٹری نے کہا ابھی ان پر غور کرنے کے لیے فرصت نہیں۔ آخر ایک لمبے انتظار کے بعد جون میں فیصلہ ہوا اور زیادہ سے زیادہ جو قیمت ڈالی گئی وہ وصول کی گئی۔ یہ واقعات مَیں نے اس لیے بتائے ہیں کہ گورنمنٹ کے افسران نے ہمارے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی بلکہ ان میں سے بعض کی غفلت کی وجہ سے ہم سال بھر تک اُجڑے رہے۔ اب جگہ ملی ہے۔ صرف ایک کسر باقی ہے اگر وہ دور ہو گئی تو جلد آبادی کی کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ تلخ تجربوں کے بعد اِس نئی اراضی پر مکانات بنانے کے متعلق چند فیصلے کیے گئے ہیں۔
(1)
مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ قادیان میں لوگوں نے زمینیں خرید کر کے اسے خالی ہی پڑا رہنے دیا تھا اور مکانات وغیرہ نہیں بنائے تھے جس کی وجہ سے ہم پوری طرح حفاظت کا بندوبست نہ کر سکے۔ ہمیں جو نقصان پہنچا اُس کی تمام ذمہ داری انہی لوگوں پر تھی۔ یہ نقصان ان جگہوں کے پُر ہو جانے کی صورت میں نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم نے آبادی کے اردگرد دیواریں بنانے کی کوشش کی مگر گورنمنٹ نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ تم سڑکوں کو روکتے ہو۔ چونکہ اس کی مرضی تھی کہ مسلمان یہاں سے نکل جائیں اس لیے اس نے چاہا کہ کسی قسم کی کوئی حفاظتی تدبیر نہ کی جائے۔ اس تلخ تجربے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی بھی زمین خریدے اور مکان بنائے مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہو گا۔ اور جو مقررہ مدّت میں مکان نہیں بنا سکے گا اس کی زمین کسی اَور کو دے دی جائے گی جو جلدی مکان بنا سکے۔ اس طرح بستی قلعہ کی صورت میں بدلتی جائے گی۔ ہاں جس کی زمین ہو گی اُسے دوسری جگہ پر زمین دے دی جائے گی۔
(2)
زمین فروخت نہیں کی جائے گی بلکہ ٹھیکہ پر دی جائے گی اور اس کی اصل مالک صدر انجمن احمدیہ پاکستان ہی رہے گی۔
(3)
اس وقت زمین سو روپے فی کنال کے حساب سے دی جائے گی۔ پچاس روپے بطور ہدیہ مالکانہ اور پچاس روپے شہر کی ضروریات کے لیے۔
(4)
زمین نوے سال کے لیے ٹھیکہ پر دی جائے گی لیکن شرح کرایہ ہر تیس سال کے بعد بدلتی رہے گی جو کبھی پچاس فیصدی سے زیادہ نہ ہو گی۔
(5)
زمین پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے ہر خریدار سے ایک چھوٹی سی رقم بطور کرایہ وصول کی جائے گی مثلاً ایک روپیہ فی کنال سالانہ اور دس مرلہ پر آٹھ آنے سالانہ۔ اور یہ کرایہ تین پیسے فی مرلہ ماہوار بنتا ہے۔ یہ گورنمنٹ کی نقل کی گئی ہے۔ گورنمنٹ بھی پہاڑوں پر زمین ٹھیکہ پر ہی دیتی ہے۔ میں نے بھی ڈلہوزی میںٹھیکہ پر زمین لے کر کوٹھیاں بنائی تھیں۔
(6)
کسی واحد شخص کو دکان بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دکانیں سلسلہ کی ملکیت ہوں گی۔ ٹھیکہ پر لی ہوئی زمین میں صرف رہائشی مکان بنانے کی اجازت ہو گی کیونکہ بہت سی آوارگی دکانوں کے ذریعہ ہی پھیلتی ہے۔ قادیان میں ہم دیکھتے تھے کہ آوارہ مزاج لوگ عموماً دکانوں پر بیٹھا کرتے تھے اور جب دکانداروں کو اُن کے منع کرنے کے لیے کہا جاتا تھا تو وہ مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کی وجہ سے اُن کی بِکری زیادہ ہوتی تھی اور اِس طرح دکانیں آوارگی کا ایک اڈہ بن کر رہ جاتی تھیں۔ بہرحال اس نئے قصبہ میں دکانیں کسی شخصِ واحد کی ملکیت نہیں ہو گی۔
(7)
الفضل میں اعلان شائع ہونے کی تاریخ سے لے کر ایک مہینہ تک ہدیہ مالکانہ ایک سو روپیہ فی کنال لیا جائے گا۔ اس کے بعد ہر سال یہ رقم بڑھتی جائے گی۔( یہ میعاد پندرہ اکتوبر کو ختم ہوجائے گی۔اِس وقت تین سو تیس کنال اراضی کی درخواست آ چکی ہے)۔ روشنی، پانی، سڑکوں اور دیگر انتظامات کے لیے پانچ لاکھ روپے کے اخراجات کا اندازہ ہے۔ سکولوں، کالجوں پر بھی پانچ لاکھ کا اندازہ ہے۔ تو دس لاکھ کے قریب مزید خرچ ہو گا اور وہاں رہنے والوں نے ہی اُن سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ اس لیے یہ اخراجات زمین کی قیمت سے ہی نکالے جائیں گے۔ صرف چار پانچ سو ایکڑ زمین شہر میں لگ سکے گی۔ باقی زمین ایسی نہیں کہ اس پر مکان بن سکیں۔ پس اس زمین میں سے یہ اخراجات نکالے جانے ضروری ہیں۔
(8)
دکانوں کی عام اجازت نہ ہو گی بلکہ ضرورت کے مطابق نائیوں، دھوبیوں، موچیوں وغیرہ کی دکانیں ہوں گی اور گنجائش کے مطابق دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔
(9)
بڑے کارخانے کھولنے کی کسی شخصِ واحد کو اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ جو بھی کارخانے کھولے جائیں گے اُن میں سب شہریوں کا حصہ ہو گا۔
(10)
یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچھ زمین ان لوگوں کو دی جائے گی جو غرباء تھے اور قادیان میں اُن کے مکانات تھے یہ جگہ مفت دی جائے گی۔
(11)
دکانات بنانے میں ایسا کام جس میں فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو باہمی تعاون سے کیا جائے گا اور اپنے ہاتھوں سے کیا جائے گا۔
(12)
جو قواعد اس بارہ میں حکومت یا سلسلہ کی طرف سے جاری ہوں اُن کی پابندی زمین لینے والوں کے لیے ضروری ہو گی۔
پس ایسے دوست جو اِس میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اس لیے مرکز میں مکانات بنانا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر سو روپیہ فی کنال کے حساب سے ہدیہ مالکانہ پچاس روپے اور ابتدائی انتظامات کے لیے پچاس روپے قیمت خزانہ میں جمع کرا دیں تا پہلے گروپ میں وہ شامل کر لیے جائیں۔ احمدیت نے بہرحال بڑھنا ہے۔ یہاں کی زمینوں کا بھی وہی حال ہو گا جو قادیان کی زمینوں کا ہوا۔ یہ جگہ پاکستان کا مرکز رہے گی اور قریب کے مرکزوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ پس جو شخص زمین لینا چاہے انہیں جلدی کرنی چاہیے۔ اور یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ زمین ٹھیکہ پر دی جائے گی، دکانیں بنانے کا یا دکان مکان میں کھولنے کا کسی کو اختیار نہ ہو گا بلکہ دکانیں سب سلسلہ کی ملکیت ہوں گی۔ اور پھر جو زمین لے وہ قواعد کو اچھی طرح سے سمجھ کر لے تابعد میں اُسے کسی قسم کی شکایت نہ ہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مرکز سلسلہ کی آبادی اِنْشَاء َ اللّٰہ جلد ترقی کر جائے گی۔ اگر دوست چھوٹے چھوٹے مکان تعمیر کر لیں تووہ خاصے کرایوں پر چڑھ سکیں گے"۔
(الفضل 28ستمبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
ولے: (حرفِ استثنائ)مگر ، لیکن(اردو لغت تاریخی اصول پرجلد21صفحہ382 کراچی2007ئ)
2
ٹرانس جورڈن: (TRANS-JORDAN)امارۃ شرق الاردن(1921ء تا1946ئ) 1921ء میں یہ ریاست برطانوی انتظام میں رہی اور1946ء میں ایک آزاد خود مختار مملکت کے طور پر سامنے آئی ۔1951ء میں یہ ریاست باقاعدہ طور پر ’’ بادشاہت اردن‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔

بڑائی وہی ہے جو خدمتِ دین کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے کوئی دنیوی بڑائی ہماری جماعت میں بڑائی نہیں
(فرمودہ17ستمبر 1948ء رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جس طرح انسانی جسم میں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد زائد فُضلے جمع ہو جاتے ہیں جو کبھی قبض کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی اسہال کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یا مکانوں اور چھتوں پر پانی کے نکاس کے راستے خراب ہو کر پانی جمع ہو جاتا اور چھتوں میں موریاں ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح جماعتوں پر بھی مختلف اوقات میں ایسے حالات وارد ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس طرح ایک زندہ انسان جسم کی کسی ایک کل کے درست ہونے سے اپنے تمام کام آپ ہی آپ نہیں چلا سکتا بلکہ صبح و شام اس کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح قوموں کے اخلاق بھی آپ ہی آپ درست نہیں ہو جاتے بلکہ صبح و شام ان کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ فرد جس کی حیثیت قوم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اس کی زندگی کے لیے تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ صبح و شام نگرانی ہو، روزانہ اِس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ آج صبح کیا پکائیں اور شام کو کیا پکائیں، گرمی ہے تو باہر سوئیں یا سردی ہے تواندرسوئیں، ہوا ٹھنڈی چل رہی ہے تو سر ڈھانک کر رکھیں یا خشکی کا دَوردَورہ ہے تو سر کو کھُلا رکھیں، دھوپ نکلی ہوئی ہے تو سایہ میں چلیں یا بارش برس رہی ہے تو چھت کے نیچے ٹھہریں یا حبس ہے تو باہر نکل آئیں۔ صبح و شام ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ مَیں سمجھتا ہوں دن بھر میں انسان اپنے جسم کے متعلق پندرہ بیس دفعہ ضرور سوچتا ہے کہ اسے اب کس چیز کی ضرورت ہے۔ کبھی خیال کرتا ہے کہ پینے کی ضرورت ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ سونے کی ضرورت ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ لیٹنے کی ضرورت ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ ورزش کی ضرورت ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ سیر کی ضرورت ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ نہانے کی ضرورت ہے۔ غرض ایک دو درجن دفعہ ضرور وہ اپنے افعال کے متعلق غور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ مجھے اپنے جسم کی درستی کے متعلق کیا کرنا چاہیے۔ لیکن قوم کی درستی کے متعلق وہ کبھی نہیں سوچتا بلکہ سمجھتا ہے کہ وہ آپ ہی آپ درست ہو جائے گی۔ اور اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے آپ پر الزام لگائے کہ مَیں نے قومی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قوم پر مَیں غصے کا اظہار کر دوں اور عملی طور پر اس کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کروں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ قومی درستی فردی درستی سے زیادہ توجہ چاہتی ہے اور ہر فرد کی توجہ چاہتی ہے۔ اگر ہر فرد اس مسئلہ کی طرف توجہ نہیں کرے گا تو بعض حصوں میں نقائص پیدا ہوجائیں گے اور پھر وہ اتنے بڑھ جائیں گے کہ ان کا دور کرنا فرد کے اختیار میں نہیں رہے گا بلکہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کا دور کرنا قوم کے اختیار میں بھی نہیں رہے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نظام چلانے کے لیے اسلام نے خلافت کا سلسلہ قائم کیا ہے۔ لیکن غلطی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں یہ خلافت ہی کا ذمہ ہے کہ وہ تمام کام کرے۔ حالانکہ خلافت ہی کا یہ ذمہ نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایک شخص ساری قوم کی اس رنگ میں اصلاح کر سکتا ہے۔ جب تک تمام افرادمیں یہ روح نہ ہو کہ وہ قوم کی اصلاح کا خیال رکھیں۔ اور جب تک تمام افراد اس کی درستی کی طرف توجہ نہ کریں اُس وقت تک اصلاح کا کام کبھی بھی کامیاب طور پر نہیں ہو سکتا۔ قومی تعاون ان کاموں کے پورا کرنے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جب تک قومی تعاون نہ ہو اُس وقت تک اس فرض کو سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ ایک فرد تو بات ہی کر سکتا ہے۔
پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو فرد کر ہی نہیں سکتا مثلاً مَیں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ جماعت کی تنظیم اور اس کے اثر کے نتیجہ میں بعض لوگ جماعت کا غلط استعمال کرنے لگ گئے ہیں اور ہر بات کو لے کر دوڑ پڑتے ہیں کہ اس کے متعلق فلاں کو کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر دے، فلاں کو کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر دے۔ مَیں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ ایسا مت کرو۔ مگر توجہ دلانے کے سوا مَیں اَور کرہی کیا سکتا ہوں۔ آخر یہ کوئی عمارت بنوانے کا تو سوال نہیں کہ مَیں جماعت سے دس ہزار روپیہ چندہ لے کر عمارت بنوا دوں۔ یہ تو ایسا معاملہ ہے جو ہر فرد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور فرد کی زبان کو روکنا میرے اختیار میں نہیں نہ اس کے دل کو کسی بات پر آمادہ کرنا میرے اختیار میں ہے۔ اگر کسی شخص کے اپنے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس قسم کی سفارشیں کرانا ایک ذلیل ترین ذہنیت کا مظاہرہ کرنا ہے تومَیں اس کے متعلق کیا کر سکتا ہوں۔ مَیں لوگوں کے ذہنوں میںتو گھس نہیں سکتا۔ یہ کام تو اگر کوئی کرسکتا ہے تو خودوہی کر سکتا ہے۔ یا اسی طرح مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ مَیں اُس کی زبان پر بیٹھ جاؤں اور کہوں کہ تُو یہ لفظ نہیں بول سکتا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے توکّل علی اللہ پیدا ہونے کے جماعت کی ذہنیت پَست ہوتی چلی جاتی ہے اور بجائے خدا پر نظر پڑنے کے انسانوں پر نظر پڑنی شروع ہو گئی ہے۔ اور ان کے معاملات اتنی اہمیت پکڑ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں اس کے لیے اگر جماعت کے بڑے سے بڑے شخص کو بھی سفارش کے لیے جانا پڑے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہماری مجلس شورٰی پر کھڑے ہو کر ایک شخص نے اپنے کسی ذاتی معاملہ کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں اس کے لیے خلیفۂ وقت کو خود گورنر کے دروازہ پر جا کر بیٹھ جانا چاہیے حالانکہ خلیفۂ وقت چھوڑ ایک احمدی چوڑھے کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن دنیا کو اتنی اہمیت دے دی گئی ہے اور دین کو اتنا ذلیل سمجھ لیا گیا ہے کہ تمام کاموں کے لیے دنیاوی کوششوں پر ہی انحصار رکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر توکل اور اُس پر سچا ایمان دلوں میں سے اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ مَیںنے جماعت کو باربار توجہ دلائی ہے کہ اِس مشرکانہ طریق کو ترک کرو اور خالص اللہ تعالیٰ پر اپنی نگاہ رکھو لیکن باربار توجہ دلانے کے باوجود ابھی تک جماعت کی توجہ اس طرف سے ہٹی نہیں اور اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہفتوں اور مہینوں میں بیسیوں دفعہ لوگوں کی چِٹھیاں آ جاتی ہیں کہ فلاں کام ایسا ہے جس کے لیے سفارش کی ضرورت ہے، فلاں شخص ایسا ہے جو ہمارا کام کر سکتا ہے اس کے پاس ہماری سفارش کر دی جائے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور دنیا کی محبت بہت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔جو انسان یہ سمجھتا ہو کہ زید سے مَیں نے سفارش کرا لی توکام بن جائے گا اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔ جہاں تک عمل کا سوال ہے اس کے نتیجہ میں تو انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے پر مجبور ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ عمل خداتعالیٰ کے پیدا کردہ راستوں میں سے ایک راستہ ہے جس پر مَیں چل رہا ہوں۔ لیکن سفارشیں ایسی چیز ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کا دل خدا تعالیٰ سے ہٹ جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ فلاں شخص ہی میراکام کر سکتا ہے۔ اور جب کسی کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی کیوں کرے گا۔ دوسرے جن لوگوں کی طرف سفارش کا خیال ہوتا ہے اُن پر بھی اِس کا برا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی اس کے نتیجہ میں کئی قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کتنا ہی ذلیل سے ذلیل انسان ہو وہ روز روز کی گداگری برداشت نہیں کر سکتا۔
سفارشیں آخر کیا چیز ہیں؟ سفارش تو دوسرے سے بھیک مانگنا ہے اور کون انسان ایسا ہے جو اس گداگری کو روزانہ برداشت کرتا چلا جائے؟اگر دنیاوی طور پر ایک شخص اعزاز رکھتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ تمہارے کام کے لیے اگر وہ سفارش کر دے تو تم کامیاب ہو سکتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اُسے رات اور دن گداگری پر مجبور کرتے ہو۔ تم خیال کرتے ہو کہ صرف مَیں نے ہی سفارش کے لیے کہا ہے۔ اگر میرا کام کر دیا گیا تو کونسی بڑی بات ہے۔ حالانکہ جس طرح تم حاجت مند ہوتے ہو۔ اِسی طرح اَور ہزاروں لوگ حاجت مند ہوتے ہیں۔ اِس وقت ہماری جماعت لاکھوں تک پہنچی ہوئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمیوں کے دلوں میں وہی خواہش پیدا ہو رہی ہوتی ہے جو کسی ایک آدمی کے دل میں اپنے کام کے متعلق پیدا ہوتی ہے۔ مگر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ انہیں ہمیشہ اپنا ہی خیال رہتا ہے۔ دوسروں کا خیال اُن کے ذہن میں کبھی آتا ہی نہیں۔ مثلاً "الف "اگر بااثر آدمی ہے تو"باء "کہتا ہے کہ وہ میری سفارش کر دے۔ مگر "باء "کو کبھی خیال نہیں آتا کہ"ج"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "د"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "ہ"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے،"و"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "ز"ــ کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "حا"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "ن"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے، "یائ"کو بھی سفارش کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس کی سفارش کرتا ہے تو باقیوں کی کیوں سفارش نہ کرے۔ اور اگر وہ سب کی سفارش کرنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے تو جو شخص رات اور دن دوسروں کے دروازوں پر پھرتا رہے گا اُس کی اُن کے دلوں میں کیا عزت باقی رہ جائے گی۔ جب وہ دیکھیں گے کہ اِس کا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کے لیے مختلف افسروں کے دروازوں پر پھرتا رہے تو وہ سمجھیں گے کہ یہ بیہودہ آدمی ہے اور ان کی نگاہ میں وہ ذلیل ہو جائے گا۔ گویا دو ہی کام ہیں جووہ کر سکتا ہے اور دونوں کا نتیجہ اچھا نہیں۔ یا تو سفارش کرے گا نہیں، اگر وہ سفارش نہیں کرے گا اوراُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ مَیں جماعت کے افراد کا کیوں کام کروں؟ تو اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعتی محبت کے احساس سے اُس کا دل خالی ہو جائے گا۔ اور اگر وہ سفارش کرے گا تب بھی اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ جماعت کی وجہ سے مَیں ذلیل ہو رہا ہوں۔ اِس صورت میں بھی اس کا ایمان کمزور ہو جائے گا۔ یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو خطرناک ہیں اور سفارش کرنے والے کو بھی بے ایمان بنانے والی ہیں۔ ایک طرف سفارش کرانے والا خدا تعالیٰ پر توکل کو ترک کرتا ہے اور اُس کی محبت اُس کے دل سے اُڑ جاتی ہے۔ دوسری طرف جس کے پاس سفارش لے جاتا ہے وہ بھی اِس کے نتیجہ میں بدعمل ہو جاتا ہے۔ گویا دونوں ہی بے دین بن جاتے ہیں۔ پھر تیسرا خطرناک نتیجہ ِاس کا یہ نکلتا ہے کہ وہ سفارش کرے یا نہ کرے۔ اُس کے دل میں کِبر پیدا ہونے لگتا ہے۔ جس آدمی کے پاس تم سفارش کے لیے جاتے ہو اور کہتے ہو کہ میرا کام تم کرو، تمہارے بغیر اَور کوئی شخص میرا یہ کام نہیں کر سکتا۔ اِس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوتا ہے کہ تم ہی خدا کے قائم مقام ہو۔ اور یہ چیز ایسی ہے جو اُس کے دل میں کِبر پیدا کر کے اُس کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے۔ وہ دل میں پھُولتا چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مَیں اتنا بڑا ہو گیا ہوں کہ میرے بغیر لوگوں کا کام ہی نہیں چل سکتا اور آہستہ آہستہ وہ اپنا مقام ایسا سمجھنے لگتا ہے جو شاید نبی کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔ غرض یہ ایک نہایت ہی گندی چیز ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وجہ سے جماعت کے لوگوں کی خدا تعالیٰ کی طرف سے توجہ ہٹ رہی ہے اور جماعت میں جوبڑے آدمی ہوتے ہیں اُن کی بھی دین کی طرف رغبت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں میں اپنی حیثیت کے مطابق حصہ نہیں لیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک بڑے مدبّر ہو کر یا ایک بڑے افسر ہو کر یا ایک بڑے جرنیل ہو کر یا گورنمنٹ کے ایک سیکرٹری ہو کر ہر قسم کی جماعتی پابندیوں سے آزاد ہو گئے ہیں اور اب ہم کو دین کے لیے کسی قسم کی قربانی کی ضرورت نہیں۔ سَو میں سے نوے بڑے آدمی ایسے ہیں جوچندہ ادا نہیں کرتے اور دس فیصدی جو چندہ دیتے ہیں وہ بھی پورا چندہ نہیں دیتے۔ اس کے مقابلہ میں غریب آدمی بھوکا مرے گا مگر چندہ باقاعدہ دے گا۔ یہ فرق آخر کیوں ہے؟ اور کیوں غریب اور کمزور چندوں میں باقاعدہ ہوتا ہے اور امیر آدمی چندوں میں سست بلکہ بعض دفعہ چندوں کا تارک ہوتا ہے؟ یہ فرق اسی لیے ہے کہ تم نے اس بڑے کہلانے والے کو خدا بنا لیا ہے۔ تم نے اس کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی ہے حالانکہ جماعت میں اس کی ایسی ہی حیثیت ہے جیسے ایک احمدی چوڑھے اور چمار کی ہوتی ہے مگر تم نے سفارشوں کے ذریعہ سے اُس کے دماغ کو پراگندہ کر کے بے ایمان کر دیا جس کی وجہ سے جماعتی ترقی رُک گئی ہے اور اب جماعت اس سے اوپر ترقی نہیں کر رہی۔
انبیاء کی جماعتیں جہاں روحانیت میں ترقی کرتی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ دنیوی لحاظ سے بھی اُن کو زیادہ سے زیادہ عروج حاصل ہوتا چلا جاتا ہے مگر جب اوپر کی چھت ہی ناکارہ ہو تونیچے والا اوپر نہیں اٹھ سکتا کیونکہ ناکارہ چھت اس کے راستہ میں روک بن جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں کوئی تحصیلدار بھی احمدی ہو جاتا تو سمجھا جاتا کہ بڑا کمال ہو گیا ہے۔ پھر جماعت نے روحانیت میں ترقی کی اور اوپر کے عہدے دار ہماری جماعت میں شامل ہونے شروع ہوئے۔ پھر ایسا زمانہ آیا کہ تحصیلداروں کے شامل ہونے کی کوئی اہمیت ہی نہ رہی۔ پھر جماعت کے لوگ روحانیت میں اَور اوپر نکلے اور پھر اَور اوپر نکلے پھر اَور اوپر نکلے۔ اگر ایمان اسی طرح قائم رہتا اور روحانیت میں جماعت ترقی کرتی چلی جاتی تو بادشاہوں تک بھی یہ سلسلہ چلا جاتا۔ اگر بادشاہ بھی اس سلسلہ میں داخل ہوتے تو وہ سمجھتے کہ جماعت کے مقابلہ میں ہم ایک حقیر فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔مگر جب جماعت نے بادشاہوں سے بہت نچلے درجہ والوں کو ہی خدا بنا لیا تو خدا نے کہا تمہاری ترقی کا اتنا ہی میدان تھا۔ اس سے آگے اب تم ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ جب تم نے ان کو ہی خدابنا لیا ہے تو جب اس سے بھی اوپر کے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے تو پھر تم ان کو کیا بناؤ گے؟
پس یہ ایک غلط طریق ہے جو اختیار کیا گیا ہے اور جماعت کی آئندہ ترقیات کے راستہ میں ایسے لوگوں نے سخت روکیں پیدا کر دی ہیں۔ مَیں ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ مَیں نہیں جانتا کہ باقی لوگ اُن کو خدا بناتے ہیں یا خدا کے قریب قریب سمجھتے ہیں مگر مَیں تو ان کو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ احمدی سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو خدا تعالیٰ کی توفیق اور اسی کی مدد سے میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں سے اُسی طرح نکال دوں گا جس طرح دودھ کے پیالہ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔ ہر احمدی خواہ وہ کتنے بڑے عہدہ پر فائز ہو جماعت کا ایک فرد ہے اور اس کو جماعتی تنظیم کے ایک پرزہ کے طور پر کام کرنا پڑے گا۔ اگر وہ اس طرح کام کرنے کے لیے تیار نہیں تو ہمیں اس کی ہر گز ضرورت نہیں۔ اگر جماعت کے منافق اسے خدا بناتے ہیں تو صرف منافق ہی اسے خدا بناتے ہیں مومن اسے خدا نہیں سمجھتے۔ اور عزت وہی ہوتی ہے جو خدا اور اس کے رسول اور اس کے مومن بندوں کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔
بہرحال مَیں ایسے منافقوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنی اصلاح کرو۔تم نے خدا کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ تم نے انسانوں کو خدا بنا لیا ہے۔ مثلاً تمہاری زبانوں سے بار بار یہ نکلتا ہے کہ چودھری ظفراللہ خان ہی فلاں کام کر سکتے ہیں حالانکہ سلسلہ کے کام خدا تعالیٰ کرتا ہے۔ چودھری ظفراللہ خان یا اَور کسی نے کیا کرنے ہیں۔ اور اگر وہ تمہارا ذاتی کام ہے تو سلسلہ کے پاس کیوں آتے ہو؟ تم اپنی نفسانی خواہشات کو اپنے پاس رکھو۔ تم سلسلہ کو کیوں تقوٰی کے درجہ سے گرانے کی کوشش کرتے ہو۔سلسلہ کے افراد کی بڑائی ان کے تقوٰی اور ان کے اخلاص سے ہے۔ جو سلسلہ کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم سمجھتا ہو وہ بڑا ہے۔ جو نہیں وہ ہماری نگاہوں میں چھوٹا ہے۔ مگر تم اپنی امیدوں کا آماجگاہ بنا کر اسے ابتلا میں ڈالنا چاہتے ہو اور اس کے دل کو تکبر سے بھرنا چاہتے ہو اور اس کو بے ایمان بنانا چاہتے ہو۔
خوب سمجھ لو! کہ سلسلہ کو اِن لوگوں کی تو کیا بڑے بڑے بادشاہوں کی بھی پروا نہیں ہو سکتی۔ آخر یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو کیا ان سے بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں موجود نہیں؟پھر ہم نے ان کی کیوں پروا نہیں کی اور کیوں ہم نے ان سے بعض مواقع پر اختلاف کیا؟ اسی لیے کہ ہم سمجھتے تھے کہ سچائی کو کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔اگر وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں تو بے شک سمجھیں ہمیں سچائی اور صداقت کے مقابلہ میں ان کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی۔ جب ہماری یہ حالت ہے تو یہ کتنی متضاد بات ہے کہ ایک طرف تو ہم بادشاہوں سے لڑنے کے تیار ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ سچائی پر قائم نہیں تو ہمیں ان کی کوئی پروا نہیں۔ دوسری طرف نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہماری جماعت کے بعض افراد مشرکانہ افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان آدمیوں کی طرف ان کی نظر اٹھنی شروع ہو جاتی ہے جو دنیوی بادشاہوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ انہی لوگوں کے ساتھ سلسلہ کی ترقی ہے۔ نہ ان لوگوں کیساتھ سلسلہ کی ترقی ہے اور نہ سلسلہ کو ان کی کوئی پروا ہے۔ اگر دنیوی طور پر بڑا کہلانے والے آدمی سلسلہ کے خادم ہیں اور جماعت کی ادنیٰ ادنیٰ ضرورتوں میں حصہ لیتے ہیں اور وہ خلافت کی غلامی اور اس کی اطاعت میں فخر محسوس کرتے ہیں تو وہ اَور بھی بڑے ہوجائیں گے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس جماعت نے تو بہرحال بڑھنا اور ترقی کرنا ہے لیکن وہ لوگ گریں گے اور ان کے گرنے میں تم میں سے بہت سے منافقوں کا حصہ ہو گا جنہوں نے ان کے دماغ خراب کر دئیے ہوں گے۔ بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ اس نقص کی اصلاح کی جائے۔
مَیں اِس وقت منافقوں کو مخاطب نہیں کرتا۔ منافق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی آخر تک قائم رہے ہیں۔ مَیں مومنوں کو کہتا ہوں کہ بڑا ئی وہی ہے جو جماعت کی خدمت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ کوئی دنیوی بڑائی ہماری جماعت میں بڑائی نہیں، کوئی دنیوی ترقی ہماری جماعت میں ترقی نہیں۔ ہماری جماعت میں بڑائی اور ترقی صرف خدمت دین کے ساتھ وابستہ سمجھی جانی چاہیے اور خدمت دین کا ہی رنگ اپنے ہر کام کو دینا چاہیے۔ خدمت دین کے لحاظ سے ایک مالدار آدمی بھی بڑا آدمی ہو سکتا ہے لیکن جب وہ خدمت دین کی وجہ سے بڑا بنتا ہے تو اس کی وجاہت اور اس کی عزت اوراس کے مال و دولت سے ناجائز فائدہ اٹھانا درست نہیں ہو سکتا۔ یہ تو نہیں کہ اگر ظفراللہ خان حکومتِ پاکستان کے منسٹر ہیں یا پچھلی گورنمنٹ میں جج رہ چکے ہیں تو ان دنیوی عہدوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کے قُرب کا حصول ان کے لیے ممنوع ہو گیا ہے یا ا ن کے علاوہ اگر کوئی اَور بڑا افسر ہماری جماعت میں شامل ہے تو کیا خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے دروازے اس کے لیے بند کر دئیے ہیں؟ اگراس کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہیں تو الٰہی دروازوں میں سے مالدار اور دنیوی لحاظ سے معزز آدمی گزر کر بھی بڑے سے بڑے ولی اور بزرگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم روحانی نقطہ نگاہ سے ان کو بڑا نہ سمجھیں اور ان کی دنیوی وجاہت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم خود بھی بے ایمان بنتے ہیں اور اُن کے ایمان کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ہم اگر ان کو بڑائی دیتے ہیں تو محض دینی لحاظ سے۔ چنانچہ جماعت میں جو بڑے آدمی ہیں ہم اُن کو صرف اُسی قدر بڑا سمجھے ہیں جس قدر وہ دین کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم اُن کو اس لیے بڑا نہیں سمجھتے کہ دنیوی طور پر جماعت ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہے بلکہ اس لیے بڑا سمجھتے ہیں کہ دینی طور پر خدا نے ان کو ایک درجہ دے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے اپنے وقت میں ہر ایک سے دین کا کام لے لیتا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ اور اس میں کسی کے لیے جائے اعتراض نہیں ہو سکتی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے غرباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! امراء ہر قسم کی خدمتِ دین میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالدار بنا دیا ہے۔ ہمیں بھی کوئی ایسا طریق بتائیے جس سے ہم ترقی کر سکیں اور اپنے امیر بھائیوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی سے حصہ لے سکیں۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ تسبیح و تحمید اور چونتیس دفعہ تکبیر کہہ لیا کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے امیر بھائیوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں چلے جاؤ گے۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوںنے کہا یارسول اللہ!ہمارے امیر بھائیوں کو منع کیجیے کیونکہ انہیں بھی پتہ لگ گیا ہے اور و ہ بھی ایسا کرنے لگے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازہ کو بند کرنے والا کون ہوں۔ اگر وہ بھی تسبیح و تحمید اور تکبیر کرنے لگے ہیں اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے دولت کے اعتبار سے اُن کو ایک زائد فضیلت بھی عطا فرما دی ہے اور وہ خدمتِ دین میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیتے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کا اُن پر فضل ہے۔ اِس کو کون شخص روک سکتا ہے۔1پس اگر وہ احمدی جس کو خداتعالیٰ نے دولت اور عزت اور رتبہ عطا فرمایا ہے اپنی دولت اور عزت اور رتبہ کے ساتھ نمازوں کی بھی پابندی کرتا ہے، تبلیغ میں بھی حصہ لیتا ہے، چندوں میں بھی باقاعدگی اختیار کرتا ہے تو وہ یقیناً باقی جماعت کا سردار ہے۔ مگر اس لیے نہیں کہ وہ وزیر ہے، اس لیے نہیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر ہے، اس لیے نہیں کہ وہ نواب ہے، اس لیے نہیں کہ وہ جرنیل ہے، اس لیے نہیں کہ وہ کسی اَور اعلیٰ عہدے پر متمکن ہے بلکہ اس لیے کہ وہ دین میں بھی بڑھ گیا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یارسول اللہ! اسلام میں اچھے لوگ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا وہی اچھے ہیں جو عرب قوم میں اچھے ہوا کرتے تھے بشرطیکہ وہ دین میں بھی حصہ لیں۔2 اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا بھی اچھی چیز ہے مگر الٰہی سلسلوں میں دنیوی وجہ سے کوئی شخص بڑا نہیں سمجھا جاتا بلکہ دینی خدمات کی وجہ سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔ یہ چیز جب تک جماعت اپنے اندر پیدا نہیں کرے گی اُس وقت تک موجودہ معیار سے اس کا قدم اونچا نہیں اٹھ سکتا۔ تم لاکھ شور مچاؤ، ہزارتدبیریں کرو اوپر کی ترقیات تم کو نہیں مل سکتیں کیونکہ نچلی ترقیات تک پہنچنے والوں کو ہی تم نے خدا بنا لیا ہے۔ جب تک ان ترقیات کو تم اپنی نظروں سے گرا نہیں لوگے، جب تک تم اس یقین پر قائم نہیں ہو گے کہ تمہاری کامیابی کے راستے صرف خدا نے کھولنے ہیں کسی انسان نے نہیں۔ اور جب تک تم ان بڑے لوگوں کو خدائی کے درجہ سے نیچے نہیں گراؤ گے اُس وقت تک تم کبھی اوپر نہیں جا سکو گے کیونکہ تم نے خود اپنے لیے ترقی کا ایک آخری معیار مقرر کر لیا ہے۔ دنیا میں ہر شخص اپنے لیے ایک درجہ مقررکیاکرتا ہے اور جتنا درجہ وہ اپنے لیے مقرر کر لیتا ہے اُس درجہ پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ اُسے چھوڑ دیتاہے۔اِسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ 3تم نیکیوں میں بڑھو اور نیکیوں کے درجوں کو اَور بھی بلند کرتے چلے جاؤ۔ دنیا کے شہنشاہ بھی اگر احمدیت میں داخل ہوتے ہیں تو تم یہ سمجھو کہ ان بادشاہوں کو اُتنی ہی عزت حاصل ہے جتنی وہ دین میں ترقی کرتے ہیں۔ اگر وہ ادنیٰ درجہ کی ترقی کرتے ہیں تو وہ ادنیٰ درجہ کے آدمی ہیں، اگر وہ درمیانی درجہ تک پہنچتے ہیں تو وہ درمیانی درجہ کے آدمی ہیں اور اگر وہ اعلیٰ درجہ کی قربانیاں کرتے ہیں تو وہ اعلیٰ درجہ کے مومن ہیں۔ جب تک تم اس نقطہ نگاہ سے دنیا کے بڑے آدمیوں کو دیکھتے رہو گے دنیا کی کوئی ترقی تمہارا آخری مقصد اور منتہیٰ نہیں ہو گی اور تمہارے لیے اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بڑائی اور ترقی اور عزت کے دروازے کھولتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کسی موقع پر تم دنیا داری کی وجہ سے لوگوں کو فضیلت دو گے یا تمہاری نظریں اُن کی طرف اٹھنی شروع ہو جائیں گی اور تم یہ سمجھو گے کہ ان کے ذریعہ سے ہی ہمیں اپنا قدم اونچا اٹھانے کی توفیق ملی ہے تب وہی خدا تعالیٰ کی نظروں میں تمہارا آخری مقصد ہو گا اور تم اس سے اوپر ترقی نہیں کر سکو گے۔
پس اپنی غلطیوں کی وجہ سے سلسلہ کی ترقی میں روک مت بنو۔ سلسلہ کی ترقی ان افراد کی وجہ سے نہیں جن کو تم بڑا سمجھتے ہو۔ الٰہی سلسلہ کو ترقیات اور خدائی تائیدات کسی فرد کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کی وجہ سے حاصل ہوا کرتی ہیں۔ اور تمہارے لیے جو ترقی کے راستے اللہ تعالیٰ نے کھول رکھے ہیں اُن پر چلنے اور ان اعلیٰ مقامات کو حاصل کرنے کا مادہ اس نے خود تمہارے اندر پیدا کیا ہواہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ "حق اولاد در اولاد4"یعنی اے مسیح موعود! ہم نے تمہاری اولادکا حق خود اولاد کے اندر رکھ دیا ہے۔ اگر وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے توترقی کر جائیں گے۔ اوراگروہ اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ سمجھیں گے کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم مسیح موعودؑ کی اولاد میں شامل ہیں اور خدمتِ دین کے بجا لانے میں کوتاہی کریں گے تو انہیں انعام نہیں بلکہ عذاب ملے گا اور وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد ہوں گے۔
اسی طرح جماعت کا حق خدا نے جماعت کو دے دیا ہے اور اس کی ترقی کی تمام قابلیتیں اس نے خود جماعت کے اندر پیدا کر دی ہیں۔ پس بجائے دوسروں پر سہارا لینے کے تم اپنے اِس وقت کو استعمال کرو اور تمام اعزاز اور تمام بڑائی اور تمام ترقی محض دین کے ساتھ وابستہ سمجھو۔ دنیا تمہاری نگاہ میں اتنی گری ہوئی ہونی چاہیے کہ اگر کسی شخص میں دین نہ ہو اورصرف دنیوی لحاظ سے وہ بڑا سمجھا جاتا ہو تو اُس کی تمہاری نگاہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں ہونی چاہیے جتنی ایک مرے ہوئے چُوہے کی ہوتی ہے۔
پس مت سمجھو کہ سلسلہ کی ترقی یا تمہاری ترقی دوسروں کی امداد اور سفارشوں پر منحصر ہے۔ تمہاری ترقی محض خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر تم اپنے اندر یہ تغیر پیدا کر لو تو امراء بھی محسوس کریں گے کہ صرف امارت کی وجہ سے ان کا اس جماعت میں کوئی ٹھکانا نہیں۔ اس کے بعد دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور پیدا ہو گی۔ یا تو وہ اس سلسلہ کو چھوڑ دیں گے اور اگر وہ اس سلسلہ کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں گے تو اس میں بھی ہمارے لیے خوشی ہے۔ ہم کہیں گے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ! اِن وجودوں سے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو نجات دی۔ اور یا پھر وہ اپنی امارت کو بھول کر دین کی سچی غلامی اختیار کر لیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اس درگاہ میں بندگی کے بغیر چارہ نہیں۔ اور اس صورت میں بھی ہمارے لیے خوشی ہے کیونکہ اس کے بعد وہ سچے مومن بن جائیں گے اور جماعت کا ایک مفید جزو اور ہمارے بھائی اور معاون ہو جائیں گے۔ لیکن اگر تم ان کو خدا بناتے چلے گئے تو تم اپنے ایمان کو بھی ضائع کرو گے اور ان کے ایمان کو بھی ضائع کرو گے۔ وہ بھی تباہ ہوں گے اور تم بھی تباہ ہو گے۔ نہ ان سے دین کو کوئی فائدہ ہو گا اور نہ تم سے دین کو کوئی فائدہ ہو گا۔ خدا نے اپنے دین اور سلسلہ کو تو بہرحال ترقی دینی ہے اور اس کے فضل سے یہ جماعت بڑھے گی اور ترقی کرے گی مگر پھر تم لوگ وہ نہیں ہو گے جن کے ہاتھ سے خداتعالیٰ کی بادشاہت کا دروازہ کھلنے والا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا دروازہ کھولنے والے کوئی اَور لوگ ہوں گے"۔
(الفضل 26نومبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃِ
2
:
بخاری کتاب المناقب باب المناقب
3
:
البقرۃ:149
4
:
تذکرہ صفحہ 794۔ ایڈیشن چہارم


یہ زمانہ ایسا ہے جس میں مالی قربانیاں
بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں
(فرمودہ24ستمبر 1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"چند ماہ ہوئے مَیں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ ایسا زمانہ نہیں جس میں مالی قربانی کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مَیں نے پچھلے دنوں جماعت میں تحریک کی تھی اور اس امر پر زور دیا تھا کہ جماعت جانی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں حصہ لے۔جانی قربانی ہی ہے جس سے گزشتہ خدائی سلسلے مضبوط ہوتے آئے ہیں اور جانی قربانی ہی ہے جس کی وجہ سے ان کی جڑیں پاتال تک پہنچ گئی تھیں۔ مگر ساتھ ہی مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں دشمن کا مقابلہ صرف جانی قربانی سے ہی نہیں کیا جا سکتا ۔جب تک ہمارے پاس مال نہ ہو اور جب تک ہم انہی ہتھیاروں سے کام نہ لیں جن سے دشمن کام لے رہا ہے اُس وقت تک ہم اس کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
تبلیغ کو ہی لے لو۔فرض کرو ایک جگہ پر کوئی فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں کی جماعت کو مرکز سے امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے وہاں ایک مبلغ بھجوانا ہے یا دو چار مبلغ بھجوانے ہیں۔ ہم ان مبلغوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ سلسلہ پر بار نہ بنیں بلکہ فتنہ کی جگہ پر مفت پہنچیں لیکن مبلغ کا ایمان اور اخلاص روپیہ پیدا نہیں کر سکتا۔ ایک مبلغ یہی کر سکتا ہے کہ وہ کہے بہت اچھا مَیں ہوائی جہاز میں نہیں جاتا ریل میں چلا جاتا ہوں۔ یا کہے مَیں سیکنڈ کلاس میں نہیں جاتا انٹر میں چلا جاتا ہوں یا تھرڈ میں چلا جاتا ہوں۔ یا کہے مَیںریل میں نہیں جاتا لاری میں چلا جاتا ہوں۔ یا کہے مَیں لاری میں نہیں جاتا تانگے میں چلا جاتا ہوں ۔یا کہے مَیں تانگے میں نہیں جاتا گھوڑے یا گدھے پر چلا جاتا ہوں۔ یا کہے مَیں گھوڑے یا گدھے پر نہیں جاتا پیدل ہی چلا جاتا ہوں۔ مبلغ تو صرف یہی قربانی کر سکتا ہے مگر وہ روپیہ پیدا نہیں کر سکتا۔
فرض کرو ہم یہاں بیٹھے ہیں اور بمبئی میں کوئی فتنہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہاں کی جماعت ہمیں ایک تار بھیج دیتی ہے کہ یہاں دشمن علماء کی یلغار ہو گئی ہے آپ ہماری مدد کریں اور مرکز سے مبلغ روانہ کریں۔ ہمارے پاس وہاں بھیجنے کے لیے مبلغ موجود ہیں، ہمارے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں پیش کردیں لیکن بمبئی یہاں سے ہزاروں میل دور ہے اور راستہ کے لیے کرایہ اور دیگر اخراجات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے مبلغوں کے لیے کسی سواری کا بندوبست نہ کر سکیں اور وہ وہاں پیدل جائیں تو لازماً وہ وہاں پانچ چھ مہینے میں پہنچیں گے۔ وہ لوگ قربانی تو کریں گے، اپنی جان پیش تو کر دیں گے مگر کیا وہ مقصد جو اُن کے سامنے ہو گا پورا ہو جائے گا؟ کیا وہ بمبئی کے احمدیوں کی امداد کے قابل ہو سکیں گے؟ یہ تو یقینی بات ہے کہ اگر وہ پیدل جائیں تو و ہ بمبئی میں اتنے عرصہ کے بعد پہنچیں گے کہ وہاں کے لوگوں کو اس فتنہ کی یاد بھی بھول چکی ہو گی۔ وہ یہ جانتے بھی نہیں ہوں گے کہ یہ احمق یہاں کیوں آئے ہیں۔ یہاں ان کا کیا کام ہے۔ مولوی وہاں آئے اور چلے گئے۔ اگر جماعت کو خداتعالیٰ نے فتح دی ہو گی تو کچھ نئے لوگ جماعت میں شامل ہو چکے ہوں گے اور اگر فتح نہیں دی تو کچھ لوگ مرتد ہو چکے ہوں گے۔ اُس وقت ہمارے مبلغ وہاں پہنچیں گے اور کہیں گے ہم غیراحمدی علماء سے بحث کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ کیا ان کا وہاں ایسے وقت میں جانا جبکہ فتنہ کی یاد بھی بھول چکی ہو گی جماعت کے لیے کسی فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے؟ غرض ہماری جماعت کے لیے صرف جانی قربانی ہی کافی نہیں بلکہ ہمارے لیے روپیہ کی بھی ضرورت ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں ایسا کیوں نہیں تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں دشمن بھی کسی جگہ اتنی جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ جتنی دیر ہمیں کسی جگہ پر پہنچنے میں لگ جاتی تھی اتنی دیر دشمن کو بھی لگ جاتی تھی۔اِس زمانہ میں تو دشمن ہوائی جہاز،ریل یا لاری وغیرہ سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور ان چیزوں کی مدد سے جس جگہ چاہے جلد پہنچ سکتا ہے۔ اگر ہمارا مبلغ پیدل جائے تو دشمن وہاں بہت عرصہ پہلے پہنچ چکا ہو گا۔ پچھلے زمانہ میں اگر دشمن گھوڑے یا گدھے پر سوار ہو کر کسی جگہ پر پہنچتا تھا تو اس کے مقابلہ کے لیے دوسرے لوگ بھی گھوڑے یا گدھے پر سوار ہو کر اُس جگہ پہنچ جاتے تھے۔ پس پہلا زمانہ ایسا تھا کہ اس میں تبلیغ کرنے کے لیے زیادہ روپیہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اُس زمانہ کے حالات ایسے تھے کہ سفر بغیر روپیہ کے ہوسکتا تھا۔مگر اِس زمانہ میں سفر بغیر روپیہ کے نہیں ہو سکتا۔ فرض کرو ہمارے کسی مبلغ نے افریقہ یا امریکہ جانا ہے تو اس کے لیے جہاز کے کرائے اور دوسرے اخراجات کی ضرورت ہو گی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا پہلے زمانہ میں ایسا نہیں ہوتا تھا؟ ہم کہتے ہیں پہلے تو امریکہ معلوم بھی نہیں تھا۔ جتنی دنیا اُس وقت معلوم تھی وہ بغیر سمندر کے تھی اور سفر کے لیے جہاز یا کشتی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ خشکی کا سفر پیدل یا گھوڑوں اور گدھوں وغیرہ پر ہوتا تھا۔ لیکن اِس زمانہ میں سفر کرنے والا بعض اوقات سمندر میں سفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے لیے اسے کرایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس زمانہ میں آبادی اور دنیا کا تمدن ایسا تھا کہ معلوم دنیا کے ہر گوشہ میں بغیر جہاز یا کشتی پہنچا جا سکتا تھا اور اس کے لیے روپیہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ مگر اب پہلے زمانہ کے تمدن اور اِس زمانہ کے تمدن میں بہت فرق پیدا ہو چکا ہے۔ پھر اُس زمانہ میں مہمان نوازی انسانیت اور شرافت کا جزو سمجھی جاتی تھی۔ اُس زمانہ میں اگر کوئی شخص کسی گاؤں میں چلا جاتا تھا تو خواہ وہ کسی کا واقف ہو یا نہ ہو سارے گاؤں کے لوگ اُس پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اُسے کہتے تھے کہ تم ہمارے ہاں مہمان ٹھہرو۔ جگہ جگہ سرائیں بنی ہوئی ہوتی تھیں جن میں مسافروں کی رہائش کا مفت انتظام ہوتا تھا۔ کسی قسم کا خرچ نہیں آتا تھا۔ اگر کوئی ایسا قصبہ ہوتا جس کے رہنے والوں میں مہمان نوازی کا جذبہ نسبتاً کم ہوتا تو پھر بھی مسافر کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ قصبہ میں ایسی سرائیں بنی ہوئی ہوتی تھیں جہاں چند آدمی بٹھائے ہوئے ہوتے تھے جو مسافر کی خدمت دو چار آنہ کے بدلے میں کر دیتے تھے۔ باقی سرائے کا کوئی خرچ نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی ہندوستان میں سڑک کے کناروں پر جگہ جگہ سرائیں بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گو اَب ویران ہیں۔ ان میں سے بعض سرائیں امراء نے بنائی تھیں اور کچھ سرائیں خود حکومت نے بنائی تھیں۔ لیکن اب تو ایسا رواج ہو گیا ہے کہ جو کوئی دوسرے شہر میں جاتا ہے وہ ہوٹل میں ٹھہرتا ہے اور اِس زمانہ میں معمولی سے معمولی اور ذلیل سے ذلیل ہوٹل بھی ایک روپیہ فی کس کرایہ کا ان سے لیتا ہے اور کھانے وغیرہ کے اخراجات اِس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ پھر خوراکیں بھی بدل گئی ہیں۔ پہلے زمانہ میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب آدمی کی خوراک میں بہت کم فرق ہوتا تھا لیکن اب بہت زیادہ فرق ہے۔ اُس زمانہ میں ایک امیر سے امیر آدمی اور ایک غریب سے غریب آدمی بڑی آسانی کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر کھا سکتے تھے کیونکہ اُن کی خوراکوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب تو ایک امیر آدمی معمولی آدمی کے ساتھ تو کیا ایک درمیانے درجے کے آدمی کے ساتھ بھی اکٹھا بیٹھ کر کھانا کھانے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کی خوراک اس کے موافق نہیں۔غرض تمدن کے فرق کی وجہ سے، ذرائع نقل و حرکت کے فرق کی وجہ سے اور اِس فرق کی وجہ سے کہ اُس زمانہ میں آبادیاں اِس طور پر تھیں کہ اُن میں بغیر سواری کے سفر کیا جا سکتا تھا، تبلیغ بغیر پیسہ لیے ہو جاتی تھی مگر اب تبلیغ بغیر پیسہ کے نہیں ہو سکتی۔ قربانی کرنے والے تو آگے آ جائیں گے، جانیں پیش کرنے والے بھی مل جائیں گے لیکن یہ چیز اُس وقت تک مفید نہیں ہو سکتی جب تک جانی قربانی کے ساتھ مالی قربانی بھی پیش نہ کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فتح نوجوانوں سے ہی ہوتی ہے مگر جب تک پیسہ نہ ہو اُن کی قربانیوں سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔
الفضل میں دوستوں نے پڑھا ہو گا کہ مجھے ایک غیر احمدی فوجی افسر نے ایک چِٹھی لکھی تھی جس میں اُس نے لکھا تھا کہ آپ جن ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں وہ بے فائدہ ہے۔ آپ مبلغ تو باہر بھیج دیتے ہیں مگر انہیں کافی سامان نہیں دیتے جس کی وجہ سے اُن کی صحتیں برباد ہو جاتی ہیں اور وہ صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے۔ مَیں نے اِس چیز کا خود تجربہ کیا ہے۔ مَیں دو تین سال ملایا میں رہا ہوں اور آپ کے مبلغین کی حالت کو دیکھا ہے۔ مَیں باوجود سلسلہ احمدیہ کی عظمت کو تسلیم کرنے کے اور اُس کی تبلیغی مساعی سے متأثر ہونے کے یہ عرض کروں گا کہ آپ مبلغین کو اتنا کھانا ضرور دیں جس سے وہ اپنی صحتوں کو قائم رکھ سکیں۔ یہ چِٹھی ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جس کا احمدیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا ایک غیراحمدی بھی اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہم مبلغین کو اتنا خرچ نہیں دے رہے جو اُن کی صحتوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ غرض تبلیغ کے لیے روپیہ کی بھی ضرورت ہے۔
پھر تعلیم کا کام ہے وہ بھی بغیر روپیہ کے نہیں ہو سکتا۔ پہلے زمانہ میں روپیہ کی بہت کم قیمت تھی۔ اُس زمانہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ایک جگہ پر بیٹھ جاتا تھا اور وہ دوسروں کو پڑھا دیا کرتا تھا۔ وہ یہ کام مفت ہی کر دیا کرتا تھا۔ ہاں تعلیم حاصل کرنے والے اُس کی تھوڑی بہت خدمت کر دیتے تھے۔ لیکن اُس زمانہ میں اور اِس زمانہ میں بہت فرق ہے۔ اُس زمانے میں اگر ایسے آدمی کی بیوی کسی مجلس میں چلی جاتی تھی اور اُس کے پاس کپڑے اچھے نہیں ہوتے تھے تو اُسے اُس کا احساس نہیں ہوتا تھا کیونکہ اُس کے اور دوسری عورتوں کے کپڑوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امیر آدمی روپیہ سے اچھے لباس خرید سکتا ہے لیکن اُس وقت کپڑے ہوتے ہی نہیں تھے۔ اُس زمانہ میں جوبھی کپڑے ہوتے تھے نہایت معمولی ہوتے تھے۔ بہرحال جب وہ عورت اپنے ہمسایوں سے ملتی تھی تو اُس میں احساسِ ذلت پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کے گلوگیر نہیں ہوتی تھی کہ اُس نے اپنے علم کوضائع کر دیا۔ مگر اب اتنا فرق پیدا ہو چکا ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرے تو اُس کے بیوی بچے اُس کے گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ اُس نے انہیں ذلیل کروا دیا ہے۔ وہ دوسروں میں ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ خدا نے اسے علم دیا ہے اگر وہ آمدن پیدا کرتا تو وہ بھی دوسروں کے شانہ بشانہ بیٹھ سکتا تھا اور ہمیں بھی بٹھا سکتا تھا۔ یہی حال باقی کاموں کا ہے۔
مَیں نے جماعت کے دوستوں سے خصوصیت سے کہا تھا کہ ہم قادیان میں سلسلہ کی ساری جائیدادیں چھوڑ آئے ہیں۔ اس لیے اِن دنوں سلسلہ کو زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ پھر ہم صرف سامان اور جائیدادیں ہی نہیں چھوڑ آئے بلکہ جماعت کے لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو گزشتہ فسادات کی وجہ سے سلسلہ کی اتنی مدد نہیں کر سکتے جتنی وہ پہلے کر سکتے تھے۔ پس یہ زمانہ ایسا ہے جس میں ہمیں زیادہ قربانیاں کرنی ہوں گی۔ اس لیے مَیں نے جماعت میں تحریک کی تھی کہ آئندہ چندہ کا معیار ساڑھے سولہ فیصدی سے تینتیسفیصدی تک کا ہو۔ اور جو شخص ایسا کرنے کی مقدرت نہیں رکھتا اُس کے لیے چندہ کا کم سے کم معیار یہ ہو کہ وہ وصیت کر دے۔ یا اگر وہ خیال کرتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک یہ قربانی نہیں کر سکتا کیونکہ وصیت کرنے کی صورت میں تو اُسے ساری عمر یہ چندہ دینا پڑے گا تو اُسے چاہیے کہ وہ وصیت کے معیار کے مطابق اتنے عرصے تک زیادہ چندہ ادا کرے۔
مقبرہ بہشتی کے ہمارے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے یہ وقت ہمارے اخلاص کے امتحان کا ہے۔ ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ وصیت کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ ان پیشگوئیوں پر پورا یقین رکھتا ہے جواحمدیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ظاہر کیں۔ میرے خطبہ پر جماعت میں ایک حرکت پیدا ہوئی تھی اور جماعت کے سینکڑوں افراد نے چندے بڑھا دئیے تھے لیکن اب مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ حرکت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ تعداد بڑھتی چلی جاتی یہاں تک کہ جماعت کا ہر فرد ساڑھے سولہ سے تینتیس فیصدی تک کے معیار پر آ جاتا یا وہ کم از کم دس فیصدی چندہ دیتا، چاہیے تو یہ تھا کہ جماعت کے ہزاروں ہزار افراد وصیتیں کر کے اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت بہم پہنچاتے مگر دفتر وصیت کی طرف سے مجھے آج اطلاع ملی ہے کہ اِس عرصہ میں صرف ایک سَو وصیت ہوئی ہے اور یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ لاکھوں کی جماعت میں سے صرف ایک سَوافراد نے میری اِس تحریک کی طرف توجہ دی ہے(اس کے بعد مجھے رُقعہ ملا کہ ایک سَو نہیں چار سو سے اوپر نئی وصیت ہوئی ہے مگر یہ بھی کافی نہیں)۔ اس تحریک سے پہلے پانچ چھ ہزار کے قریب موصی تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ میری تحریک کے بعد وصیت کی پہلی تعداد پر 1/50حصہ کی زیادتی ہوئی اور یہ کوئی خوش کن بات نہیں ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری کا بہت بڑا حصّہ کارکنوں پر ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے کارکن اُس بیداری سے کام نہیں لے رہے جس بیداری سے انہیں کام لینا چاہیے تھا۔ صدر انجمن احمدیہ یہ سمجھتی ہے کہ لوکل انجمنیں قائم ہیں اور وہ یہ کام کر رہی ہیں۔ لوکل انجمنیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کام صدر انجمن احمدیہ خود کرے گی۔ یاپھرصدر انجمن احمدیہ یہ قیاس کر لیتی ہے کہ لوکل انجمنیں یہ کام کر لیتی ہیں۔ حالانکہ جماعت کے ہر فرد کو اِس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہے۔ جماعت کے ہر چھوٹے بڑے اور ہر امیر و غریب کو اِس کا احساس ہونا چاہیے۔ جب تک جماعت کے عورتوں، مردوں، بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں میں اس ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک ہماری جماعت اعلی درجہ کی بیدار جماعت نہیں کہلا سکتی۔ جُوںکی چال چلنا بیداری نہیں کہلا سکتا۔ ہر قوم کچھ نہ کچھ ترقی کی طرف بڑھتی ہے۔ بہت ہی بدبخت کوئی قوم ہو گی جو ترقی کی منزل طے نہیں کر رہی۔ آج سے چالیس سال پہلے چوڑھوں کی جو حالت تھی ہم میں سے ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ اب انہوں نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے اور وہ اپنی پہلی حالت سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ میرے ہوش کی یہ بات ہے کہ ایک خاکروبہ چھ آنے ماہوار لیتی تھی لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے چھ آنے سے ایک روپیہ ماہوار فی گھر ہو گیا۔ ہاں اگر کوئی غریب آدمی ہو اور اُس کے گھر میں خاکروبہ نے چار پانچ منٹ ہی لگانے ہوں تو وہ چار آنے یا آٹھ آنے بھی لے لیتی ہے۔ ورنہ آجکل وہ ایک روپیہ ماہوار سے کم نہیں لیتی۔ بڑے بڑے گھروں سے تو وہ دس دس روپیہ ماہوار لے لیتی ہے اور وہ پوری ملازم بھی نہیں ہوتی۔ دن میں آٹھ دس گھروں کا کام کرتی ہے۔ اگر پوری ملازم ہو تو تیس تیس چالیس چالیس روپیہ لیتی ہے۔ گویا چوڑھے بھی ترقی کرتے جا رہے ہیں اور چالیس سال کے اندر اندر انہوں نے اِس قدر ترقی کر لی۔ اِسی طرح دوسری قوموں کو بھی دیکھ لو۔ وہ بھی کچھ نہ کچھ ترقی کر رہی ہیں۔ دھوبی کو لے لو۔ دھوبی کے کام میں فن کی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی زمانہ میں ایک دھوبی ایک روپیہ فی سینکڑہ کے حساب سے بڑی آسانی سے کپڑے دھو دیتا تھا لیکن اب تو آٹھ دس روپیہ فی سینکڑہ بھی بڑی مشکل سے لیتا ہے۔ غرض دنیا میں کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس نے ترقی نہ کی ہو۔ ہر قوم اور ہر چیز میں ترقی ہوئی ہے۔ جو قومیں طبعی رفتار سے ترقی کرتی ہیں یہ اُن کا کمال نہیں گِنا جاسکتا۔ کسی قوم کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اُس کی ترقی اُسے گردوپیش کے حالات سے ممتاز کر دے۔ویسے تو ہر قوم نے ترقی کی ہے اور ہر قوم بڑھی ہے لیکن ہم اگر کسی شخص کی تعریف کرتے ہیں تواُس شخص کی تعریف کرتے ہیں جو ہزاروں سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہو۔ سکول میں جو طالب علم جاتا ہے وہ کوئی نہ کوئی لفظ ضرور سیکھ لیتا ہے مگر ہم ہر طالب علم کی تعریف نہیں کرتے۔ تعریف ہم اُسی طالب علم کی کرتے ہیں جو ہزاروں لڑکوں سے آگے بڑھ گیا ہو۔ غرض ہر قوم ہی کچھ نہ کچھ ترقی کرتی ہے اس لیے ہم موجودہ ترقی پر خوش نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اِس ترقی پر تسلی پا جانے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارا یہ بڑھنا اور ترقی کرنا ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز جس میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے وہ بڑھ رہی ہے۔ ہماری یہ ترقی ہمارے لیے اطمینان اور ترقی کا موجب اُس وقت ہو سکتی ہے جب ہم میں دو چیزیں پائی جاتی ہوں۔
اوّل گردوپیش کی قوموں کی نسبت سے ہم سرعت سے بڑھ رہے ہوں۔
دوم ہماری جماعت کے کھڑا کرنے والے کا جو منشا تھا ہم اس منشا کے مطابق بڑھ رہے ہوں۔ اگر ہم میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں تو پھر ہم قابلِ تعریف بھی ہیں اور ہماری ترقی ہمارے لیے اطمینان اور تسلی کا موجب بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے منشا کو پورا کر دیتے ہیں جس کی خاطر ہماری جماعت بنائی گئی ہے، اگر ہم اتنی ترقی کر لیتے ہیں جو اُس کے منشا کے مطابق ہے اور اگر ہم اتنی ترقی کر لیتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے گردوپیش سے ممتاز کر دیتی ہے تو اس صورت میں ہماری یہ ترقی ہماری خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ اور اگر ہماری ترقی ہمیں گردوپیش سے ممتاز نہیں کرتی تو یہ ہماری خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ یہ تو ذلت کا موجب ہے۔تب تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے نے تو چالیس نمبر لیے اور انسانی مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے نے اسّی نمبر حاصل کیے۔ یہ نتیجہ تو خدا تعالیٰ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہ ذلیل کرنے والا نتیجہ ہے کیونکہ اِس صورت میں خداتعالیٰ کے شاگرد انسان کے شاگردوں سے کم نمبر لینے والے ہوئے۔ جب تک ہم انسانی مدرسوں کے طالبعلموں سے اچھے نمبر حاصل نہ کریں اُس وقت تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا نتیجہ کوئی اچھا نتیجہ ہے۔ دوسرے ہمارے لیے یہ خوشی کا مقام اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اتنی ترقی کر لیں جتنی ترقی ہمارے کھڑا کرنے والے کے منشا کے مطابق ہو۔
اِن دنوں میں چندہ کی مقدار اتنی کم ہو چکی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے جو بظاہر معلوم نہیں ہوتا۔ ستمبر کے مہینہ میں صرف قائداعظم کی وفات کی وجہ سے تین دن کی چھُٹیاں ہوئی ہیں لیکن چندہ میں اتنا بڑا نقص واقع ہو گیا ہے کہ اگر اِسی رفتار سے چندہ آتا رہا تو بارہ مہینے کی آمد سے صرف دو مہینہ کا خرچ بمشکل چل سکتا ہے۔اگست کے مہینے تک چندوں میں زیادتی ہوتی جا رہی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ جماعت اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اپنی ترقی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ لیکن اِس غیرمعلوم حادثہ نے جماعت کو ترقی سے تنزل کی طرف منتقل کر دیا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ یہ کسی اتفاقی وجہ سے ہے اور جلدی ہی اِس کی اصلاح ہو جائے گی لیکن آج ستمبر کی چوبیس تاریخ آ چکی ہے اور ابھی تک چندوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ مثلاً بجٹ کے لحاظ سے ہماری روزانہ اوسط آمدن ساڑھے تین ہزار ہونی چاہیے۔ اگر میری تحریک کا جو مَیں نے چندوں میں زیادتی کے لیے کی تھی لحاظ رکھا جائے تو روزانہ اوسط آمدن چھ سات ہزار ہونی چاہیے تھی لیکن کل جو آمدن ہوئی وہ صرف چھ سو روپیہ تھی۔ اس سے پہلے بعض دنوں میں اڑھائی سو تین سو اور چار سو آمد بھی ہوتی رہی ہے۔ بعض دن ایسے بھی ہیں جن میں ہزار ڈیڑھ ہزار، دو ہزار تک بھی آمدن رہی ہے لیکن اگر روزانہ آمد کی اوسط نکالی جائے تو یہ چھ سات سو ہی رہ جاتی ہے۔ گویا بجٹ کے لحاظ سے پانچویں حصہ سے بھی کم آمدن ہو رہی ہے۔٭ حالانکہ جماعت کے اخراجات اب بڑھ رہے ہیں اور آئندہ اَور بڑھیں گے۔ نئے مرکز کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، دفاتر وغیرہ کے لیے نئی عمارات بنائی جائیں گی، دفاتر کے سامان وہاں پہنچائے جائیں گے، ڈاک، تار اور ریل کے لیے کوشش کی جا رہی ہے، پانی کا انتظام کرنا ہے، سڑکوں کا انتظام کرنا ہے، مہمان خانہ اور سکول بھی بنائے جانے ہیں۔ اگر خرچ قلیل سے قلیل حد تک بھی رکھا جائے تب بھی یہ لاکھوں سے کم نہیں ہو گا۔ کچی اور نیم کچی عمارات بھی بنائی جائیں تب بھی ان پر دس پندرہ لاکھ سے کم خرچ نہیں آئے گا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ جماعت قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھاتی اور اگست کے مہینہ تک جماعت اعلیٰ قربانی کا نمونہ دکھا بھی رہی تھی مگر ستمبر کے مہینہ میں کوئی ایسی بات ہو گئی ہے جس کی وجہ سے چندہ کی روزانہ اوسط آمدن کم ہو گئی ہے۔ مَیں سمجھتا تھا کہ قائداعظم کی وفات کی وجہ سے چونکہ تین چھُٹیاں ہو گئی تھیں اس لیے چندے رُک گئے ہیں اور تھوڑے عرصہ کے بعد یہ پھر شروع ہو جائیں گے۔ لیکن اس پر بھی دو ہفتے گزر گئے ہیں لیکن تا حال چندوں میں کمی جاری ہے۔
مَیں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اُن پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں اٹھائیں۔ اور چاہیے کہ ہمارے چندے کم از کم وصیت کے معیار تک پہنچ جائیں۔ اگر کم از کم وصیت کے معیار تک ہمارے چندے پہنچ جائیں تو یہ یقینی بات ہے کوئی شبہ کی بات نہیں کہ ہماری جماعت کا بجٹ تیس لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے نئے مرکز کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں، سلسلہ کی جائیدادوں کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں اور آئندہ سلسلہ کی اشاعت کا بوجھ بھی اٹھانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے اندر ایسے امراء موجود ہیں جن کی جائیدادیں بڑی ہیں لیکن وہ اپنی ٹھیک آمدن بتانے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ مَیں نے جماعت کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ ہماری جماعت میں ایسے تاجر موجود ہیں جن کی جائیدادیں بہت بڑی ہیںمگر وہ ایک رقم بطور گزارہ مقرر کرلیتے ہیں اور چندہ بھی اُسی رقم پر دیتے ہیں۔ مثلاً ایک تاجر کی آمدن دس ہزار ہوتی ہے مگر وہ دو ہزار کی رقم بطور گزارہ مقرر کر لیتا ہے۔ یا اُس کی آمدن دو ہزار کی ہوتی ہے مگر وہ اپنا گزارہ تین سو روپیہ مقرر کر لیتا ہے اوراُسی پر چندہ دیتا ہے۔ بعض اوقات وہ اسی رقم میں سے تینتیس فیصدی چندہ دے کر دوسروں پر رعب بھی جما لیتا ہے لیکن درحقیقت تین سو روپیہ میں سے ننانوے روپے دینے کے معنے قریباً پونے پانچ فیصدی چندہ دینے کے ہوتے ہیں کیونکہ اس کی اصل آمد تو دو ہزار روپیہ تھی اور چندہ لکھواتے وقت اُس نے اپنی آمد تین سَو روپیہ بتائی۔ گویا چندہ تو وہ ایک آنہ فی روپیہ بھی نہیں دیتا لیکن ظاہر یہ کرتا ہے کہ وہ تینتیس فیصدی چندہ دیتا ہے۔ یہ طریقہ تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ملّاں تھا احادیث میں اُس نے یہ مسئلہ پڑھا کہ اگر کسی کی کوئی ایسی چیز ضائع ہو جائے جو اپنی حفاظت خود نہ کر سکتی ہو تو جس شخص کو وہ چیز مل جائے وہ اُسے لے لے اور تین بار لوگوں میں اعلان کرے۔ اگر پھر بھی اُس چیز کا مالک نہ مل سکے تو وہ چیز اُسی کی ہو جاتی ہے۔ وہ ملّاں روزانہ سیر کے لیے نکل جاتا۔ جنگل میں بھیڑ بکریوں کے گلے چر رہے ہوتے تھے اور عموماً کچھ بھیڑ بکریاں گلّے سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ وہ ملّاں تاک میں رہتا اور پیچھے رہ جانے والی بکری کو پکڑلیتا اور کہتا کہ "کسی کی بکری " ۔ "کسی کی"کے الفاظ وہ زور سے کہتا اور "بکری " کے لفظ کو وہ آہستہ سے کہہ دیتا۔ بکریوں والے کو یہ خیال بھی نہیں آتا تھا کہ یہ اُس کی بکری کے متعلق اعلان ہو رہا ہے۔ تین دفعہ اعلان کرنے کے بعد وہ ملّاں بکری گھر لے آتا اور بِسْمِ اللّٰہِ، اللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کر لیتا اور سمجھ لیتا کہ اس طرح تین بار اعلان کرنے سے حدیث پر عمل ہو گیا۔ اگر اُس ملّاں کا یہ فعل جائز ہے تو تمہارا بھی یہ فعل جائز ہے ۔لیکن اُس ملّاں کا یہ فعل اگر تمہیں غلط دکھائی دیتا ہے توتمہارا بھی یہ فعل غلط ہے۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ اگر ایسا آدمی تین سَو روپیہ میں تینتیس فیصدی چندہ دینے کی بجائے اصل آمدن میں سے چار فیصدی چندہ دیتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایماندار تو ہوتا خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ دھوکاباز تونہ ہوتا۔کیونکہ وہ اس کے سامنے اپنے عیب کو ظاہر کر دیتا کہ وہ اتنی بڑی قربانی نہیں کر سکتا۔ مگر وہ اپنی آمد کو دو ہزار کی بجائے تین سو روپیہ لکھوا کر پھر اس میں سے تینتیس فیصدی چندہ دیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دیتا ہے، وہ جھوٹا ہے اور تکبر کرنے والاہے۔ اُس نے بِلاوجہ یہ دو گناہ اپنے اندر پیدا کر لیے۔ اگر وہ سچائی سے کام لیتا تویقینًا وہ دوسروں سے ثواب میں تو کم ہوتا لیکن خدا تعالیٰ کے عذاب سے تو بچ جاتا۔ اگر وہ تینتیس فیصدی کی بجائے چار فیصدی چندہ دیتا لیکن آمدن ٹھیک بتاتا تو کم سے کم اسے چار فیصدی چندے کا ثواب مل جاتا۔ لیکن اِس طرح اُس نے تینتیس فیصدی کی بجائے چار فیصدی چندہ دیا۔ جھوٹ کی وجہ سے وہ چار فیصدی چندہ کے ثواب سے بھی محروم رہا اوراُنتیس فیصدی کا گناہ بھی الگ رہا۔ اس نے اُنتیس فیصدی کا جھوٹ بولا جس نے اس کے چار فیصدی چندہ کے ثواب کو بھی ضائع کر دیا اور اُنتیس فیصدی کا گناہ بھی باقی رہا۔ مَیں تو کہتا ہوں اگر وہ بالکل ہی چندہ نہ دیتا تو وہ چار فیصدی چندہ نہ دینے کا ہی مجرم ہوتا اُنتیس فیصدی جھوٹ کا نہ ہوتا۔
قوموں کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے۔ سچائی کی وجہ سے وہ جیتتی اور دوسری قوموں پر غالب آتی ہیں۔ جن قوموں کا کیریکٹر اچھا نہیں ہوتا، جن قوموں کا چلن مشتبہ، متردّد اور مخدوش ہوتا ہے، وہ اپنی مدمقابل کی قوموں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لیکن جن قوموں کو چلن کے اچھا ہونے کے لحاظ سے دوسری قوموں پر برتری حاصل ہوتی ہے وہ ان کے مقابلہ میں غالب حیثیت میں کھڑی ہوتی ہیں۔ جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کتّا، بِلّی وغیرہ جانوروں کو دیکھ لو۔ جب ان میں سے دوجانور آپس میں لڑ رہے ہوں اُن میں ایک جب دوسرے کے چلن کی برتری کو دیکھتا ہے تو اس کے سامنے اپنی دم جھکا لیتا ہے۔ جب وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ مدمقابل جانور کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تو فوراً اپنی دم جھکا لیتا ہے۔ انسان کو تو خداتعالیٰ نے جانوروں سے زیادہ مقدرت عطا فرمائی ہے۔ اگر وہ سچائی کے ساتھ کام لے، اگر اس کا چلن اچھا ہو تو ا سے زائد توفیق بھی مل جاتی ہے۔ چلن کے بد ہونے کی وجہ سے اس کی ہمت اور جرأت ماری جاتی ہے۔
تحریک جدید کے متعلق بھی مَیں نے دیکھا ہے سال میں سے نو مہینے گزر چکے ہیں بلکہ ساڑھے نو مہینے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک دو تہائی چندہ بھی نہیں آیا۔ سال میں سے ساڑھے نو مہینے گزرنے کے بعد بھی تحریک کا چندہ سات ماہ کے چندہ سے کم رہا ہے۔ یہ بھی نہایت افسوسناک امر ہے بلکہ دورِ دوم جو کہ نوجوانوں کا دَور ہے جن کے متعلق ہم یقین رکھتے تھے کہ وہ دَور اول میں حصہ لینے والے بوڑھوں سے زیادہ تیز چلنے والے ہوں گے اُس کا یہ حال ہے کہ لاکھوں روپے کے وعدے وصولی کے قابل پڑے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کام بہرحال پورا ہو گا مگر یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ قوم کی آئندہ نسل اور پَود بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے جا رہی ہے اور یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے۔ ہر قوم کی نسل کو آگے بڑھنا چاہیے۔ جس قوم کی نسل ایمان، ایثار اور قربانی میں پہلوں سے آگے نہیں بڑھتی وہ قوم جیتا نہیں کرتی۔ قوموں کی جنگ دو تین سو سال تک رہتی ہے اور جب تک کسی قوم کی پندرہ بیس نسلیں اپنے پہلوں سے آگے نہ بڑھتی جائیں اس جنگ کا کامیاب فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ فرد ِواحد کی جنگ پچیس تیس سال تک ہوتی ہے مگر قوموں کی جنگ لمبی ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ قربانی اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ جماعت ایک سے لاکھوں ہو گئی ہے، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہمارا دس روپے سے لاکھوں روپیہ کا بجٹ ہو گیا ہے، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہماری جماعت کے افراد ادنیٰ عہدوں سے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان تعلیم میں پہلے سے زیادہ ترقی کر گئے ہیں، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہمارے مشن اب ساری دنیا میں قائم ہو گئے ہیں یہ تو ایک نسبتی فتح ہے حقیقی فتح نہیں۔ درحقیقت نہ ہم نے افراد میں ترقی کی ہے، نہ اموال میں ترقی کی ہے اور نہ ہی تبلیغ میں ترقی کی ہے کیونکہ ہماری ترقی نسبتی ترقی ہے۔ اس لیے ہماری خوشی اور اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتی۔ہمارے لئے خوشی اور اطمینان کا موجب نہیں ہوسکتی ہماری آخری جنگ کے دن قریب ہیں اور اس میں ہم اُس وقت تک فتح کی امید نہیں کر سکتے جب تک ہمارے نوجوان ہم سے زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائیں بلکہ ہم تب بھی فتح کی اُمید نہیں کر سکتے جب تک ان سے اگلی نسل بھی زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائے۔ اگر کسی قوم کی کم از کم بارہ نسلیں حقیقی ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتیں، حقیقی اخلاق کا نمونہ نہیں دکھاتیں تو اُس قوم کو حقیقی فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہماری جماعت کے تو ابھی بچپن کے دن ہیں بڑھاپے کے دن تو ابھی دور ہیں۔ ہمارے بعد نوجوانوں نے ہی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اخلاص اور ایثار میں ہم سے زیادہ ہوں، علمِ دین میں ہم سے زیادہ ہوں، عبادت کی رغبت میں ہم سے زیادہ ہوں۔ جماعت کی آئندہ ترقی کی ذمہ داری ہم پر نہیں آپ نوجوانوں پر ہے۔ اِس جنگ میں فتح حاصل کرنا آپ کے ذمہ ہے۔ جب تک آپ ہم سے زیادہ قربانی اور ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتے احمدیت کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ یا یوں کہو کہ احمدیت کو تو فتح حاصل ہو گی مگر آپ اس سے محروم رہ جائیں گے۔
پس آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور قربانی اور ایثار کا وہ معیار پیش کریں جسے دیکھ کر پہلے لوگ شرمندہ ہوں بجائے اس کے کہ وہ کہیں افسوس تم ہماری اچھی نسل نہیں ہو وہ یہ کہیں کہ کاش! ہم کو بھی ایسی قربانی کی توفیق ملتی۔ یہ وہ معیار ہے جس کو پورا کرنے سے احمدیت غالب آسکتی ہے"۔
خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:۔
"سید محمود احمد صاحب سعید حیدر آبادی کی والدہ فوت ہو گئی ہیں، مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ فوت ہو گئے ہیں، ان کے علاوہ عبدالرشید صاحب میرٹھ والے کی پوتی کہتی ہیں کہ ان کے دادا فوت ہو گئے ہیں اور آپ پرانے صحابی تھے نماز جمعہ کے بعد مَیں ان سب کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ مرزا منور احمد صاحب جو امریکہ کے مبلغ تھے میری ایک بیوی اُم متین کے ماموں، میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کے سالے اور نہایت مخلص نوجوان تھے۔ ان کے معدہ میں رسولی ہوئی اور وہ فوت ہو گئے۔ ویسے تو ہر ایک کو موت آتی ہے لیکن اس طرح کی موت گو ایک طرف قوم کے لیے فخر کا موجب ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس کا افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو پندرہ بیس سال میں تیار کیا جائے اور وہ جوانی کی حالت میں فوت ہو جائے۔ مرزا منور احمد صاحب کا کام نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور امریکہ کی جماعتوں میں انہی کی جماعت کو ان سے زیادہ محبت تھی۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ کی جماعتوں کی جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی یہ تسلیم کیا گیا کہ وہ علاقہ جس میں مرزا منور احمد صاحب مبلغ تھے دوسرے علاقہ کی جماعتوں سے دینی کاموں میں بڑھ گیا ہے۔ پھر ان لوگوں نے اپنی محبت کا بھی ثبوت دیا۔ جب ڈاکٹروں نے جسم میں خون داخل کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے علاقہ کے نو مسلموں میں سے عورتوں اور مردوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا خون پیش کر دیا اور چونکہ ان کی ٹائپ کا خون ملتا نہیں تھا اس لیے جس نومسلم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ میرا خون مرزا منور احمد کے خون کے مشابہ ہے تو وہ بے انتہا خوش ہوتا اور فخر کرتا کہ میرا خون ان کے خون سے ملتا ہے۔ جب مرحوم کے جسم میں خون کے داخل کرنے کی زیادہ ضرورت پیش آ گئی اور ان کے خون کی ٹائپ کا اَور خون نہ ملا تو ڈاکٹروں نے کہا آپ لوگ اپنا خون دے دیں۔ ہم اپنے پاس سے ان کے ٹائپ کا خون استعمال کر لیں گے اور آپ کا خون آئندہ کے لیے رکھ لیں گے۔ اس پر ان سب نے اپنا خون پیش کر دیا۔ یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کی جماعت اخلاص میں ترقی کر رہی ہے اور یہ مرحوم کے نیک نمونہ کا ایک زبردست ثبوت ہے"۔
(الفضل 6؍اکتوبر 1948ء )

اب خدا تعالیٰ نے اپنے دین کو پھیلانے اور اس کی
شان و شوکت کو قائم رکھنے کا کام ہمارے سپرد کیا ہے
(فرمودہ یکم اکتوبر1948ء بمقام رتن باغ لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعددرج ذیل آیات کی تلاوت کی:
"1
اور فرمایا
"سب سے پہلے مَیں اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اب چونکہ ہمارے دفاتر آہستہ آہستہ ربوہ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک دو ہفتہ میں دفاتر کا بہت سا حصہ ربوہ میں منتقل کر دیا جائے۔ اس لیے مجبوری کی وجہ سے جمعہ کی نماز جو ہم نے یہاں پڑھنی شروع کر دی تھی اِنْشَائَ اللّٰہ اگلے جمعہ سے پھر مسجد احمدیہ میں پڑھنی شروع کر دیں گے تا ہمارے ربوہ جانے سے پہلے پہلے لوگ مسجد کی طرف جانے کے عادی ہو جائیں۔ اب موسم کسی قدر اپنی سختی کھو چکا ہے اور اگر دوست نماز کے وقت باہر دھوپ میں بھی کھڑے ہو جائیں، قریب کی گلیوں یا اردگرد کی جگہوںمیں کھڑے ہو جائیں تو نماز کی خاطر ان کا یہ چند منٹ دھوپ میں کھڑا ہونا زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو گا۔ خطبہ کے وقت احباب سمٹ سمٹا کر مسجد کے اندر بھی آ سکتے ہیں اور خطبہ کے بعد جہاں بھی جگہ مل سکے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال مناسب یہی ہے کہ آئندہ نماز جمعہ مسجد احمدیہ میں ہی ہوا کرے تا لوگوں کو مسجد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے لیکن جہاں یہ مناسب ہے کہ لوگ مسجد کی طرف توجہ کریں اور وہاں جا کر نماز باجماعت ادا کریں وہاں یہ بھی مناسب ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے کوئی بڑی جگہ مسجد کے لیے تجویز کرے۔
لاہور کی زیادہ جائیداد ہندوؤں کے پاس تھی، لاہور کی زیادہ تجارت ہندوؤں کے پاس تھی، لاہور کے مال کا زیادہ حصہ ہندوؤں کے پاس تھا اور اس کے بڑے بڑے گاہک بھی ہندو تھے۔ اب ان کے چلے جانے کے بعد قیمتیں گر گئی ہیں۔ یہی وقت تھا جب جماعت اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے مسجد کے لیے اتنی زمین خرید سکتی تھی جس میں کافی لوگ جمع ہو سکتے۔ پچھلے دنوں مجھے اپنی ایک جائیداد کے سلسلہ میں چند ایجنٹوں سے ملنے کا موقع ملا اور انہوں نے بتایا کہ اب لاہور میں اچھی اچھی جگہوں پر دو ہزار روپیہ فی کنال جگہ مل جاتی ہے۔ گویا جماعت لاہور اگر چار کنال کا ٹکڑا خرید لے تو اس پر آٹھ دس ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ جماعت لاہور میں چھ سو کے قریب افراد ہیں یا اس سے بھی زیادہ ہیں۔ اگر ان میں اخلاص اور جوش پایا جاتا ہو تو ان کے لیے اس رقم کا اکٹھا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ درحقیقت اتنی رقم تو ایک دن میں ہی اکٹھی ہو جانی چاہیے۔ جب مَیں کہتا ہوں کہ جماعت لاہور کی تعداد چھ سو افراد کے قریب ہے تو اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے مردوں کی تعداد چھ سو ہے۔ یوں تو جماعت کی تعداد تین چار ہزار کے درمیان ہے۔ قادیان کے لوگ غریب تھے۔ اب کچھ آبادی بڑھ گئی تھی ورنہ آٹھ نو سال پہلے قادیان کی جو احمدی آبادی تھی وہ سات آٹھ ہزار کے قریب تھی اور مرد صرف ڈیڑھ ہزار کے قریب تھے لیکن باوجود اس کے کہ جماعت غریب تھی اور ان کی آمدنیں بہت کم تھیں مَیں نے دیکھا ہے کہ معمولی سے معمولی تحریک پر دس دس پندرہ پندرہ ہزار روپیہ جمع ہوجاتاتھا۔ لاہور کی جماعت کی حیثیت تو اس کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اگر جماعت واقع میں اپنی ذمہ داریوں کوسمجھے تو اتنی رقم دو چار گھنٹے میں اکٹھی ہو جانی چاہیے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے افراد کو جتنا کمزور سمجھا جاتا ہے اتنے ہی وہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر انہیں کمزور نہ سمجھا جائے بلکہ مضبوط سمجھا جائے اور مضبوط آدمیوں والا ان سے کام لیا جائے تو وہ طاقتور بن سکتے ہیں۔ فسادات سے پہلے لاہور میں جو زمین دس دس، پندرہ پندرہ، بیس بیس ہزار روپیہ فی کنال بمشکل ملتی تھی اب وہی زمین دو دو تین تین ہزار روپیہ فی کنال بآسانی مل جاتی ہے۔ وہی جگہ جس کا مَیں سودا کرنا چاہتا تھا اس کے متعلق مجھے ایک ایجنٹ نے دو تین سال پہلے بتایا تھا کہ اس جگہ کی قیمت چودہ پندرہ ہزار روپیہ کنال ہے مگر اب مَیں نے اس کا سودا کرنا چاہا تو ایجنٹوں نے بتایا کہ شاید وہ زمین دو ہزار روپیہ سے زیادہ قیمت نہ حاصل کر سکے بلکہ انہوں نے بتایا کہ اس سے بہتر جگہوں پر بھی دو دو تین تین ہزار روپیہ فی کنال زمین مل جاتی ہے۔ پس یہ موقع تھا جس سے اگر جماعت فائدہ اٹھاتی تو وہ بآسانی ایک وسیع مسجد کے لیے زمین خرید سکتی تھی۔ موجودہ جماعت کے لحاظ سے یہ مسجد کافی نہیں۔ اگر جماعت ہمت سے کام لے اور تبلیغ پر زور دے تو اتنی بڑی مسجدیں تو محلوں کی مسجدیں ہونی چاہییں۔ قادیان میں کئی مسجدیں لاہور کی موجودہ مسجد سے بڑی تھیں۔ دو تین مسجدیں تو یقیناً بڑی تھیں۔مسجد اقصٰی کے علاوہ محلہ دارالفضل کی مسجد اس سے بڑی تھی۔ مسجد نور بھی اس سے بڑی تھی اور مسجد دارالفتوح بھی غالباً اس سے بڑی تھی۔ ہماری جماعت بہرحال پھیلے گی اور اس کے لیے ہمیں ہر محلہ میں مسجدیں بنانی پڑیں گی اور پھر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر محلہ میں مسجد ہو تو مسجد کی طرف لوگوں کو توجہ دلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ خودبخود مسجد کی طرف آئیں گے۔ جماعت اسی لیے سست ہے کہ ہر محلہ میں مسجد نہیں پائی جاتی اور لوگ اپنے گھروں میں نمازیں پڑھ لیتے ہیں۔ دوسرے گھروں میں نماز پڑھنے پر لوگ کہہ دیتے ہیں جیسا اُس کا گھر ہے ویسا ہمارا گھر ہے۔ چلو اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہاں بھی نماز پڑھنی ہے اور یہاں بھی نماز ہی پڑھنی ہے۔ لیکن جب ایک گھر کو خدا کی طرف منسوب کر دیا جائے تو پھر ہر ایک یہی محسوس کرتا ہے کہ اپنے گھر میں نمازپڑھنے سے یہ بہتر ہے کہ خداتعالیٰ کے گھر میں نماز پڑھی جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کوشش کر کے ہر محلہ میں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنا لے تو مسجد کی طرف لوگوں کو توجہ بھی ہو گی اور پھر ان پر سختی بھی کی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ خود بخود احساس ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا گھر ویران پڑا ہے۔ اسے آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بہرحال جہاں مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگلے جمعہ سے ہم اِنْشَائَ اللّٰہ نماز مسجد میں ادا کیا کریں گے تا لوگوں کو مسجد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے وہاں مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ موجودہ مسجد جماعت کی ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ اگر جماعت سے سات آٹھ ہزار روپیہ اکٹھا کر لیا جائے اور اس سے چار کنال کا ٹکڑا خرید لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین اٹھارہ ہزار فٹ ہو گی اور اٹھارہ ہزار فٹ جگہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں تین ہزار آدمی بآسانی نماز پڑھ سکیں گے۔ پھر اگر برآمدے کو ملا لیا جائے اور لوگ ذرا تنگی کر کے نماز پڑھ لیں تو اتنی جگہ پر پانچ ہزار آدمی بھی آ سکیں گے۔ لاہور کے لیے یہ بھی کوئی بڑی جگہ نہیں۔ ایک دن ایسا آئے گا جب جماعت کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ یہ جگہ بھی ناکافی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا وَسِّعْ مَکَانَک2 تُواپنے گھر کو وسیع کر۔ لیکن مکین وہ بعد میں لایا۔ اُس وقت یہی ہوتا تھا کہ ہم اپنے مکانوں کو وسیع کرتے تھے اور مہمان آنے شروع ہو جاتے تھے اور وہ مکان ان کے لیے ناکافی ہو جاتے تھے۔ جب تک باہر محلے نہیں بنے تھے سارے مہمان حلقہ مسجد مبارک کے چھوٹے سے حلقے میں ہی آ جاتے تھے۔ باہر محلے بنانے کا ہمیں خیال بھی نہیں آتا تھا۔ مَیں تو سمجھتا تھا کہ ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے کون زمینیں خرید کر مکان بنا سکتا ہے لیکن ایک دن مجھے خیال آیا کہ قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا جو پہلا پارہ چھپے وہ ہمارے خاندان کے ہی خرچ سے چھپے تاسارا ثواب ہمارے خاندان کے لیے مخصوص ہو جائے۔ مَیں نے خاندان میں تحریک کر کے کچھ وعدے لیے لیکن اس مقصد کے لیے ضرورت تین چار ہزار روپیہ کی تھی اور میری تحریک پر جو چندہ جمع ہوا وہ صرف پانچ چھ سو روپیہ تھا۔ باقی روپیہ کے متعلق مَیں نے یہ سوچا کہ اس کے متعلق کیا کیا جائے۔ مَیں نے اپنی زمینوں کے مختار سے اس کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا ہماری ایسی کوئی جائیداد ہے جو بِک جائے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ مَیں نے کہا میری یہ نیت ہے کہ اگر کوئی قطعہ زمین بِک جائے تو اس کی قیمت سے قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا کام شروع کیا جائے تا سارا ثواب ہمارے خاندان کو ملے۔ انہوں نے کہا یہ کام تو چند گھنٹوں میں ہو جائے گا؟ مجھے اس کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مَیں تو اسے ناممکن سمجھتا تھا۔ مَیں نے پوچھا یہ کیسے ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ فلاںجگہ پر جو آپ کی زمین ہے آپ اسے بیچ دیجیے۔ لوگ مکانوں کے لیے خرید لیں گے۔ مَیں نے کہا ہماری جماعت کے لوگ غریب ہیں یہ کہاں خریدیں گے۔انہوں نے کہا آپ مجھے اختیار دے دیجیے مَیں ابھی اسے فروخت کروا دیتا ہوں۔ غالباً اُس وقت نوّے روپیہ فی کنال زمین تجویز کی گئی تھی اور مَیں نے آٹھ ایکڑ زمین بیچنے کی اجازت دی مگر مَیں نے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے امید نہیں کہ یہ زمین بِک جائے۔ وہ کہنے لگے یہ تو ابھی بِک جائے گی۔ مَیں اُس وقت گول کمرہ میں الفضل کے لیے ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ مَیں نے دس بجے صبح کے قریب اپنے مختار کو بھیجا اور عصر کے قریب وہ ہاتھ میں روپوں کی تھیلیاں لے کر آ گئے اور کہنے لگے زمین بِک گئی ہے۔ اگر آپ اَور جائیداد بیچنا چاہیں تو مجھے اجازت دے دیجیے مَیں اسے بھی بیچ دوں گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے محلہ دارالفضل کی بنیادیں قائم کی گئیں۔
ہم نے یہ کام غالباً نوّے روپے فی کنال پر شروع کیا تھا مگر بعد میں قادیان کی زمینیں بیس بیس ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے فروخت ہوئی ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ نے ایک دفتر بنانے کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا چالیس ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے خریدا تھا تو دیکھو کہاں سے کہاں نوبت پہنچ گئی۔ اگر یہ مسجد وسیع کر لی جائے تو اللہ تعالیٰ بھی کہے گا یہ لوگ ہم پر حُسنِ ظنی کرتے ہیں۔ چلوہم بھی آدمی لاتے ہیں۔ پھر ہم اَور مسجد وسیع کریں گے تو خدا تعالیٰ اَور آدمی لائے گا ہم پھر مسجد وسیع کریں گے تو خداتعالیٰ اَور آدمی لائے گا۔ مَیں سمجھتاہوں کہ جماعت اِس وقت چار کنال زمین خریدلے۔ پھر چار دیواری کر کے خواہ اس میں خیمے نصب کر لے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ زیادہ شاندار مسجد بنانے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جماعت دو ہزار روپے اَور اکٹھے کرے تو وہ زمین نماز کے قابل ہو سکتی ہے۔ مسجد کے وسیع کر لینے سے یہی فائدہ نہیں ہو گا کہ نماز آرام سے ادا ہو جایا کرے گی بلکہ اس کا مزید فائدہ یہ ہو گا کہ جماعت میں خودبخود برکت پڑتی جائے گی۔ اگر آپ لوگ سچے دل سے مسجد کو بڑھائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی کہے گا میرے بندوں نے مجھ پر حُسنِ ظنی کر کے مسجد کو بڑھایا ہے مگرابھی جگہ خالی ہے۔ میرے بندوں کو شرمندگی نہ ہو مَیں اَور آدمی لاتا ہوں تا مسجد میں کوئی جگہ خالی نہ رہے۔
اس کے بعد مَیں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سلسلہ کو کھڑا کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اُسے پھیلایا جائے۔ اس لیے قائم نہیں کرتا کہ لوگ اسے مان کر گھروں میں بیٹھ جائیں۔ مومنوں کو ثواب اسی چیز کا ملتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کو پھیلانے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ جب تک یہ جذبہ کسی جماعت کے افراد میں قائم رہتا ہے وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور جب یہ جذبہ ان کے دلوں سے نکل جاتا ہے تو اس قوم کی ترقی رک جاتی ہے۔ جب مسلمان ہندوستان میں آئے تھے تو وہ چند افراد تھے۔ انہوں نے تبلیغ کی اور ان کی تبلیغ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی تعداد دو تین کروڑ ہو گئی۔ پھر انگریزی حکومت کے زمانہ میں یہ تعداد آٹھ نو کروڑ تک جا پہنچی مگر جس ذریعہ سے ان کی تعداد ابتدا میں دو تین کروڑ تک پہنچی تھی انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے غافل ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس کے بعد جو آٹھ نو کروڑ تک بڑھے ہیں نسلاً بڑھے ہیں۔ نئے لوگ ان میں شامل نہیں ہوئے اِلَّا مَا شَاء َ اللّٰہکوئی شامل ہو گیا ہو تو ہو گیا ہو ورنہ مسلمانوں کی یہ ترقی نسلاً ہی ہوئی ہے۔ اس لیے نہیں ہوئی کہ انہوں نے غیرمسلموں کو تبلیغ کے ذریعہ اسلام میں داخل کر لیا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے تقسیمِ ہند کا سوال اٹھا۔یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے مسلمان اس دورِ ابتلاء میں سے گزرے جس کی مثال تاریخ میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ اگر مسلمان اسلام کو اس طریق سے پھیلاتے جس طریق سے پہلے لوگوں نے پھیلایا، اگر وہ اپنے آباء و اجداد کی طرح تبلیغ کرتے رہتے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو جاتی کہ انہیں وہاں سے نکالنا مشکل ہو جاتا ۔اور مسلمان ہندوؤں پر اتنا غلبہ پا جاتے کہ انہیں مسلمانوں کو نکالنے کی جرأت نہ ہوتی بلکہ پارٹیشن(Partition) کا سوال ہی نہ اٹھتا۔ اگر مسلمان تبلیغ کرتے رہتے تو جب انگریز آئے تھے ان کی تعداد دو تین کروڑ ہی نہ ہوتی سات آٹھ کروڑ ہوتی اور آج وہ نو دس کروڑ نہ ہوتے بلکہ اکیس کروڑ کے قریب ہوتے اور ان کا ہندوستان سے بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا بلکہ ہندو اپنی جانیں بچانے کے لیے ان سے الگ ہونے کا سوال کھڑا کرتے۔ پھر اگر مسلمان تبلیغ کرتے تو انہیں وہ طاقت حاصل ہوتی کہ ہندو ان کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہ رکھتے۔ تبلیغ کے ذریعہ ان پر وہ برکات اور افضال نازل ہوتے جن سے اب یہ محروم ہو چکے ہیں۔
اب خداتعالیٰ نے اپنے دین کو پھیلانے اور اس کی شان و شوکت کو قائم رکھنے کا کام ہمارے سپرد کیا ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعت کے افراد بھی اپنے فرائض کو سمجھ نہیں رہے۔ابھی تک ہماری جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو چند عقائد کا نام جن کو اس نے مان لیا ہے احمدیت رکھ لیتا ہے اور وہی مرض جو پہلے مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھی اب احمدیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی زبان سے کہہ دیا کہ خدا تعالیٰ بخشنے والا ہے اور کام کچھ نہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ کو قائم کر کے جس سے وہ روحانیت کا انتشار چاہتا ہے، جس سے وہ صداقت کا انتشار چاہتا ہے، جس سے وہ اپنے دین کا غلبہ چاہتا ہے یونہی نہیں چھوڑ دیتا۔ اگر اس سلسلہ کے ماننے والے خدا تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں تو وہ برکت پاتے ہیں اور اگر وہ خدا تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے تو پھروہ سزا پاتے ہیں۔ یہ آیات جو مَیں نے پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے تُو دنیا کو خدا تعالیٰ کے رستہ کی طرف بلا۔ اس آیت میں کہا تو ہے لیکن دراصل یہ مسلمانوں کی غیرت کو بھڑکانے کے لیے کہا گیا ہے۔اگر کوئی ایسا شخص جو قوم کا سردار ہو یا کوئی اَور بڑا آدمی کوئی کام کرتا ہے تو اُسے کام کرتا دیکھ کر دوسروں کو بھی غیرت اور شرم آ جاتی ہے۔ آخر لوگ تبلیغ کیوں نہیں کرتے؟ اِسی لیے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا وقت زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن اگر ان کا سردار اور ان کا آقا تبلیغ کرے تو کون بے شرم ہو گا جو اپنے آقا کو کام کرتا ہوا دیکھے اور پھر بھی وہ کام نہ کرے۔ جو اپنے آقا کو تبلیغ کرتا دیکھے گا وہ خودبخود یہ سمجھ لے گا کہ اس کے آقا کا وقت اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر اس کا آقا تبلیغ کرتا ہے تو وہ کیوں نہ کرے؟
مجھے یاد ہے ہم ابھی بچے ہی تھے۔تھوڑی آبادی کے گاؤں میں عموماً مزدور وغیرہ نہیں ملتے شہروں میں مل جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں نے اپنے اپنے کاموں کے لیے’’ کامے‘‘ رکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ کسی وقت مزدور کی ضرورت ہو اور وہ مل جائے۔ ابتدائی زمانہ میں چونکہ قادیان کی آبادی بہت کم تھی اس لیے قادیان میں بھی اُس وقت یہی طریق رائج تھا۔ جب کوئی ایسا کام پڑ جاتا تھا جو گھر والوں سے نہیں ہو سکتا تھا تو اَور لوگ آ جاتے اور وہ کام کر دیتے۔ کسی گھر میں اگر دو تین مہمان آ جائیں تو ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے مگر وہاں تو ساٹھ ستّر کے قریب مہمان رہتے تھے۔ ان کی خدمت کے لیے مختلف سامانوں کی ضرورت ہوتی تھی، کھانا پکوانے کی ضرورت ہوتی تھی، سودا وغیرہ لانے کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ہمارے خاندان کے افراد نہیں کرسکتے تھے۔ اکثر یہی ہوا کرتا تھا کہ جماعت کے افراد مل ملا کر وہ کام کر دیا کرتے تھے۔ اُس وقت طریق یہ تھا کہ اگر ایندھن آ جاتا اور وہ اندر ڈالنا ہوتا تو گھر کی خادمہ آواز دے دیتی کہ ایندھن آیا ہے کوئی آدمی ہے تو وہ آجائے اور ایندھن اندر ڈال دے۔ پانچ سات آدمی جو حاضر ہوتے وہ آ جاتے اور ایندھن اندر ڈال دیتے۔ دوتین دفعہ ایسا ہوا کہ کام کے لیے باہر خادمہ نے آواز دی مگر کوئی آدمی نہ آیا۔ ایک دفعہ لنگر خانہ کے لیے اُپلوں کا ایک گڈا آیا، بادل بھی آیا ہوا تھا۔ خادمہ نے آواز دی تا کوئی آدمی مل جائے تو وہ اُپلوں کو اندر رکھوا دے مگر اس کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول اُس وقت مسجداقصٰی سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس تشریف لا رہے تھے۔ آپ اُس وقت خلیفہ نہیں تھے مگرعلمِ دینیات، تقوٰی اور طب کی وجہ سے آپ کو جماعت میں ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اور لوگوں پر آپ کا بہت اثر تھا۔ آپ درس سے فارغ ہو کر گھر جا رہے تھے کہ خادمہ نے آواز دی اور کہا کہ کوئی آدمی ہے تو وہ آ جائے بارش ہونے والی ہے، ذرا اُپلے اٹھا کر اندر ڈال دے۔ لیکن کسی نے توجہ نہ کی۔ آپ نے جب دیکھا کہ خادمہ کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی تو آپ نے فرمایا اچھا! آج ہم ہی آدمی بن جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے اُپلے اٹھائے اور اندر ڈالنے شروع کر دئیے۔ ظاہر ہے کہ جب شاگرد استاد کو اُپلے ڈالتے دیکھے گا تو وہ بھی اُس کے ساتھ وہی کام شروع کر دے گا چنانچہ اَور لوگ بھی آپ کے ساتھ کام کرنے لگ گئے اور اُپلے اندر ڈال دئیے۔ مجھے یاد ہے مَیں نے دو تین مختلف مواقع پر آپ کو ایساکرتے دیکھا اور جب بھی آپ اُپلے اٹھانے لگتے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ مل جاتے۔
اِسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کفار سے صلح کر لی تو صحابہؓ بہت رنجیدہ ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ یہیں قربانیاں کر دو مگر کسی نے قربانی نہ کی۔ آپؐ گھر تشریف لے گئے اور اپنی ایک بیوی سے جو آپؐ کے ساتھ تھی فرمایا مَیں نے اپنی قوم کا جو نمونہ آج دیکھا ہے وہ اِس سے پہلے نہیں دیکھا۔پہلے جب بھی میںانہیں کسی قربانی کے لیے کہتا تھا تو وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے تھے مگر آج جب مَیں نے قربانی کے لیے کہا تو وہ اٹھے نہیں۔ آپؐ کی اہلیہ مبارکہ نے جو اُس وقت ساتھ تھیں فرمایا یارسول اللہ!یہ تو آپ کے عاشق ہیں۔ صدمہ کی وجہ سے ان کی عقلیں ماری گئی ہیں۔ آپ اس کی پروا نہ کریں اور سیدھے جا کر اپنی قربانی ذبح کر دیں اور کسی سے بات نہ کریں۔ آپ نے فرمایا یہ تجویز ٹھیک ہے۔ آپ نے نیزہ پکڑا اورجہاں آپ کا اونٹ کھڑا تھا تشریف لے گئے اور اپنی قربانی کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ آپؐ نے ابھی نیزہ مارا ہی تھا کہ لوگ بے تحاشا اپنے چھُرے، تلواریں اور نیزے لے کر وہاں پہنچے۔ کچھ آپ کی مدد کو چلے گئے اور باقی اپنی قربانیاں کرنے لگے۔
غرض بڑے آدمی یا سردارِ قوم کو کام کرتے دیکھ کر اس کے اتباع خودبخودوہ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ! تیری قوم کو تجھ سے محبت ہے اور وہ آئندہ بھی تجھ سے محبت کا دعوٰی کرے گی۔ اگر اسلام کے سلسلہ کو جاری کرنے کی غرض دنیا میں صداقت کو قائم کرنا ہے اور صداقت، تبلیغ کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی اور تبلیغ اُس وقت ہی ہو سکتی ہے جب لوگ کُلّی طور پر اس طرف لگ جائیں۔ پس اے میرے رسول! ہم تجھے ایک ترکیب بتاتے ہیں۔ تُو اٹھ اور تبلیغ میں لگ جا۔ تیرے اتباع جب تجھے تبلیغ کرتا دیکھیں گے تو وہ بھی تبلیغ میں لگ جائیں گے۔ سے یہ مراد نہیں کہ یہ حکم صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی ہے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کے اتباع جنہیں آپؐ سے محبت ہے آپ کو تبلیغ کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی اس کام میں لگ جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دفعہ کسی نے کہا آپ کی جماعت کے لوگ ابھی تک مغربی طریقے پرچل رہے ہیں، مغربی طرز پر بال کٹاتے ہیں، ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہم تو اصول کو لیتے ہیں جزئیات کی طرف توجہ دینے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ فرمایا جب ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے گا اور یہ اُن انوار اور برکات پر جو نازل ہوتی ہیں غور کریں گے تو لازماً محسوس کریں گے کہ ہمیں اس سے محبت کرنی چاہیے اور جب انہیں محبت ہو جائے گی تو پھر وہ آپ ہی آپ یہ کام شروع کر دیں گے3۔ اگر ہم ایک ایک مسئلہ کے پیچھے لگ جائیں تو یہ بہت مشکل ہے۔ آخر مسلمانوں کی کونسی کل سیدھی ہے۔ اگر ہم ہاتھ باندھنے اور رکوع، سجود اور آمین وغیرہ کے جھگڑوں میں پڑجائیں تو پھر بنیادی کاموں کے لیے کہاں سے وقت لائیں۔ ہم نے تو بنیادی اصولوں کو قائم کرنا ہے۔ جب وہ قائم ہو جائیں گے تو یہ چیزیں آپ ہی آپ ہو جائیں گی۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست قادیان آئے۔ انہوں نے بیعت بھی کر لی تھی۔ بعد میں انہیں ٹھوکر لگی اور پھر انہوں نے اپنی اصلاح بھی کر لی۔ مَیں نے سنا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ اُن کا طریقِ لباس کچھ ہندوانہ تھا کیونکہ وہ ایک ہندو ریاست میں جج تھے اور کچھ انگریزیت غالب تھی۔ دو سال کے بعد مَیں نے انہیں دیکھا تو اُن کا وہی لباس تھا جو مَیں پہنتا تھا۔ مَیں نے کسی سے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ جب سے وہ آپ کے پاس سے گئے ہیں وہ آپ کی طرز کا ہی لباس پہنتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے اس لیے میں وہی کام کروں گا جو آپ کرتے ہیںاور وہی کپڑے پہنوں گا جو آپ پہنتے ہیں۔
غرض اگر ایک شخص کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو وہ اُس کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تُو ہی یہ کام کر، یہ کام تیرا ہی ہے دوسروں کا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تُو یہ کام کر اور تیری امت میں سے جو تجھ سے محبت کرنے والا ہو گا وہ بھی تمہیں دیکھ کر یہ کام کرنے لگ جائے گا۔ گویا یہ کہہ کر آپؐ کی امّت کا امتحان لیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی امت کو محبت ہے یا نہیں؟ اورکیاوہ آپ کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھ کر وہی کام کرنے لگ جاتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کام کیا تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کام داعی الی اللہ کا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرماتاہے ۔4 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کام منادی کا تھا اور یہی معنے رسول کے ہیں۔ منادی اور داعی ایک ہی بات ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ منادی کے لفظ میں زور پایا جاتا ہے۔ منادی کرنے والا خوب چلّاتا ہے۔ گویا نداء ،دعا کا انتہائی درجہ ہوتا ہے۔ فرمایا ۔اے رسول! تُواپنے رب کے رستہ کی طرف دنیا کو بُلا اور یہی تیرا اس بعثت میں کام ہے۔اب کسی کو رب کے رستہ کی طرف بلانے کے دو ہی معنے ہوا کرتے ہیں۔ ایک معنے یہ ہوا کرتے ہیں کہ تُو اس رستہ کی طرف بُلا جواس کی طرف جاتا ہے اور ایک معنے یہ ہوا کرتے ہیں کہ جس رستہ پر خدا تعالیٰ چل رہا ہے اُس رستہ پر تُوباقی لوگوں کو بھی چلا۔ پس کے یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ یعنی اے محمد رسول اللہ! تُو لوگوں کواس رستہ کی طرف بلا جو خدا کی طرف جاتا ہے اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تُو اس رستہ کی طرف بُلا جس پر خدا چل رہا ہے۔ یہ دونوں ہی اس آیت کے معنے ہیں۔ ایک ادنیٰ درجہ کے معنے ہیں اور ایک اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ سب سے پہلے محبت پیدا کرائی جاتی ہے اور جب محبت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ ان صداقتوں کو قبول کر لیتے ہیں تو پھر وہ دوسروں کو اس کی طرف بلاتے ہیں۔ یعنی مومن کا یہ کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے رستہ کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اور جب وہ اُس مقام پر پہنچ جائے تو اعلیٰ مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اُس رستہ پر چلنا شروع کر دے جس پر خدا تعالیٰ چل رہا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی مادی سڑک تو نہیں ہو سکتی جس پر اللہ تعالیٰ چل رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ہی وہ رستہ ہیں جن کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ ربّ ہے اُس کا ایک رستہ ربوبیت کے اظہار کا رستہ ہے۔ وہ رحمان ہے اُس کا ایک رستہ رحمانیت کے اظہار کا رستہ ہے۔ وہ رحیم ہے اُس کا ایک رستہ رحیمیت کے اظہار کا رستہ ہے۔ وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِہے اُس کا ایک رستہ مالکیت کے اظہار کا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے رستہ پر چلنے کے یہ معنے ہیں کہ انسان بھی ربّ بن جائے، رحمٰن بن جائے، رحیم بن جائے، جَبّار بن جائے، حافظ بن جائے، قَھَّاربن جائے، رافع بن جائے۔ غرضکا یہ مطلب ہے کہ پہلے تُوان لوگوں کو جو خدا تعالیٰ کے رستہ کی طرف نہیں آتے اُس طرف بلا اور جب وہ آ جائیں تو پھر انہیں اس راستہ پر چلا جس پر خدا تعالیٰ چل رہا ہے۔
رسول کا جو اصل کام ہے اس کی طرف قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے5 رسول پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات سنا کر اُس کے قائم کردہ سلسلہ کی طرف بلاتا ہے اور پھر ان کو کتاب سکھاتا ہے، حکمت سکھاتا ہے اور تزکیہ کرتا ہے۔ یعنی غیرمومن کو مومن بناتا ہے اور مومن کو خدارسیدہ مومن بناتا ہے۔ مذکورہ بالا آیات جن پر مَیں خطبہ دے رہا ہوں ان میں بھی کہا ہے۔ ہدایۃ، دین اور رشد وغیرہ کے لفظ استعمال نہیں کیے بلکہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کے دو معنی ہیں۔ یعنی غیر مومن کو پہلے مومن بناؤ اور پھر مومن کو خدا رسیدہ مومن بناؤ۔
جب کوئی شخص اپنے ایمان کو مشاہدہ کی شکل میں لے آتا ہے تو پھر وہ ظلّی طور پر ربّ بن جاتا ہے، رحمان بن جاتا ہے، رحیم بن جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس رستہ پر خدا تعالیٰ چل رہا ہے اُسی پر مجھے بھی چلنا چاہیے۔ اسی طرح ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، عزیزیت، غفّاریت وغیرہ خداتعالیٰ کی جتنی بھی صفات ہیں وہ اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ وہ اسی پر کفایت نہیں کر جاتا کہ وہ چند عقائد مان کر ایک سلسلہ میں داخل ہو گیا ہے بلکہ وہ مومن سے خدارسیدہ مومن بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف رسول بلاتا ہے اور اس سے محبت کرنے والے اس پر خودبخود قائم ہو جاتے ہیں۔ مَیں تم سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو پر عمل کرتے ہیں؟ آپ میں سے کتنے ہیں جو اپنے وقت کا معتدبہ حصہ تبلیغ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنے باقی وقت کو اس طرح پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ مومن سے خدا رسیدہ مومن بن جائیں؟ اگر آپ پر عمل کرتے تو کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جاتا۔ دنیا میں ایک زلزلہ آ جاتا اور قدم قدم پر خداتعالیٰ کی حکومت قائم ہو جاتی"۔
(الفضل 9دسمبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
النحل:126تا129
2
:
تذکرہ صفحہ53ایڈیشن چہارم
3
:
سیرت المہدی روایت نمبر257
4
:
آل عمران:194
5
:
البقرہ:130



دین کی خدمت کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپناروپیہ خرچ کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا
جماعت احمدیہ لاہور کو دوسری بیت الذکر بنانے کی طرف فوری توجہ کرنی چاہیئے۔
(فرمودہ15؍اکتوبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں ا ٓیا تو اس ارادہ کے ساتھ تھا کہ اس مضمون کو بیان کروں جسے مَیں نے ایک گزشتہ جمعہ میں شروع کیا تھا اور جس کے لیے مَیں نے قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی استدلال کیا تھا لیکن یہاں آنے کے بعد میری رائے بدل گئی اور مَیں نے سمجھا کہ مَیں سرِدست جماعت احمدیہ لاہور کو پھر اِس امر کی طرف توجہ دلا دوں جس کی طرف مَیں ایک دفعہ پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ جماعت کو ایک دوسری مسجد بنانے کی طرف فوراً توجہ کرنی چاہیے۔
پچھلے جمعہ مَیں تو بوجہ بیماری کے نہیں آسکا اس لیے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس جمعہ میں کتنے لوگ آئے ہوئے تھے لیکن اِس جمعہ میں مجھے نظر آ تا ہے کہ جتنا آدمی وہاں )رتن باغ( میں ہوا کرتا تھا اُتنا آدمی یہاں نہیں۔ اِس وقت سب لوگ صفوں ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں سمٹ کر قریب قریب بیٹھے ہوئے نہیں۔ جب مَیں منبر پر بیٹھا ہوا تھا تو میرا خیال تھا کہ لوگ سمٹ کر قریب قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کے وقت اِدھر اُدھر پھیل جائیں گے لیکن کھڑے ہونے پر معلوم ہوا کہ یہ خیال درست نہیں تھا۔ پھرجہاں تک اِس مقام کے عرض کا سوال ہے اِس کا عرض بھی اُتنا نہیں جتنا رتن باغ کے میدان کا۔ اور جہاں تک طُول کا سوال ہے وہ قطعی طور پر اُس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا۔ یہ جو صف ہے وہاں کی صف کا چوتھا پانچواں بلکہ چھٹا حصہ ہے۔ یہی چیز ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ درحقیقت جماعت کی طرف سے مسجد کے بنانے میں بہت دیر ہو گئی ہے۔ انسانی فطرت بھیکچھ ایسی ہے کہ وہ ہمیشہ قیاس کیا کرتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ ان حالات میں وہاں یہ یہ کچھ ہو گا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ کئی آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے یہ خیال کر لیا ہو گا کہ چونکہ مسجد میں جگہ تھوڑی ہے اس لیے اگر ہم گئے بھی تو وہاں ہمیں جگہ نہیں ملے گی حالانکہ بسااوقات ایسا خیال غلط ہوتا ہے۔ مثلاً اگر سو آدمی کی گنجائش ہے اور ایک سو دس آدمی آنے والا ہے تو پچاس ساٹھ اپنی اپنی جگہ یہ خیال کر لیں گے کہ وہاں جگہ نہیں ہو گی اور اس طرح وہ پچاس ساٹھ بھی نہیں آئیں گے اور جگہ خالی رہے گی مگر وہ جگہ صرف اِسی لیے خالی رہے گی کہ کچھ لوگوں نے خیال کر لیا ہوگا کہ وہاں جگہ نہیں۔
مجھے یاد ہے میرے بچپن کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار ہو گئے اور آپ جمعہ کی نماز کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ میری عمر اُس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی۔ مَیںجمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ ابھی مَیں جا ہی رہا تھا کہ راستہ میں مجھے کوئی شخص آتا ہوا ملا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا خطبہ شروع ہو گیا ہے؟ اُس نے کہا وہاں تو جگہ ہی نہیں ساری مسجد بھری ہوئی ہے اس لیے مَیں واپس آ گیا ہوں۔ اُس کی یہ بات سن کر مَیں بھی واپس آ گیا۔ بچپن کی عمر تھی مَیں نے سمجھا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہو گا حالانکہ میرا فرض تھا کہ مَیں پہلے تحقیق کرتا کہ آیا یہ بات درست ہے یا نہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ مجھے یہ سبق دینا چاہتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تجسس کرنے کی نہیں تھی مگر اُس روز جب مَیں واپس آیا تو آپ نے خلافِ معمول مجھ سے فرمایا کہ محمود! تم جمعہ میں نہیں گئے؟ مَیں نے کہاوہاں تو اتنے آدمی ہیں کہ مسجد میں کوئی جگہ ہی نہیں۔ اس لیے مَیں واپس آ گیا ہوں۔اُس وقت تو آپ خاموش رہے۔ مگر جمعہ کے بعد جب آپ کی عیادت کے لیے کچھ دوست آئے جن میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی تھے جو خطبہ پڑھایا کرتے تھے تو آپ نے خلافِ عادت اُن کے آتے ہی یہ سوال کیا کہ کیا آج جمعہ میں کچھ زیادہ لوگ تھے؟ مَیںدوسرے دالان میں تھا کہ میرے کان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ آواز پڑی اور چونکہ مَیں خود مسجد میں نہیں گیا تھا اس لیے میرا دل بیٹھنے لگا کہ اُس شخص نے جھوٹ نہ بولا ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے میری پردہ پوشی فرمائی اور مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا کہ حضور! آج تو بہت ہی آدمی تھے۔ مسجد کناروں تک بھری ہوئی تھی۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ جو کچھ مَیںنے کیا محض قیاس کی وجہ سے کیا۔اِسی طرح کئی لوگ قیاس کر لیتے ہیں اور اس سے زیادہ قیاس کر لیتے ہیں جتنی لوگوں کے لیے واقع میں گنجائش نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سی جگہ خالی رہتی ہے۔
مجھے کہا گیا ہے کہ اگر باہر جگہ لی گئی تو یہ مسجد ویران ہو جائے گی۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اگردوسری مسجد کے لیے باہر زمین نہ لی گئی تو اِس مسجد کی حقیقی آبادی کی طرف جماعت کو کبھی توجہ ہی پیدا نہیں ہو گی۔ اب اس مسجد کو جس کے اردگرد صرف چند احمدی دوست رہتے ہیں اس لیے آباد سمجھا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن سارے شہر کے احمدی دوست یہاں آ کر ایک دفعہ نماز پڑھ لیتے ہیں اور کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا۔ مگر یہ محلہ جس میں ابتدائی ایام سے احمدیت چلی آ رہی ہے اس محلہ میں اب احمدیت ترقی کرنے کی بجائے گر گئی ہے اور انہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ انہوں نے اس محلہ کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔ ہم بچے تھے اور لاہور میں آیا کرتے تھے تو اِسی محلہ میں میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہاں تشریف لائے توآپ بھی اِسی محلہ میں ٹھہرے۔ غرض اُس وقت احمدیوں کے ٹھہرنے کی یہی جگہ تھی، مسجد کوئی نہیں تھی۔ ہم نماز بھی میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک بڑا دالان تھا جس میں نماز ہوتی تھی لیکن اِس مسجد کے بن جانے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل گئی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس محلہ میں افراد کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے اور وہ پرانے لوگ جو فوت ہو چکے ہیں اُن کی نسلیں بھی کثیر ہیں لیکن شہر کی ترقی کے مقابلہ میں افراد کی ترقی کوئی نسبت نہیں رکھتی۔ پہلے یہ محلہ بالکل غیرآباد تھا، درمیان میں بڑے بڑے فاصلے تھے اور اس کے پچھواڑے میں بھی بہت بڑا خلا تھا۔ جب ہم ان عمارتوں کے پیچھے چلے جاتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہم جنگل میں نکل گئے ہیں مگر اب تو ہر جگہ ہی آبادی ہی آبادی ہے۔ اِس لحاظ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت سے لے کر اب تک اِس محلہ کی آبادی تیس چالیس گُنے بڑھ گئی ہے۔یعنی اس محلہ میں ہماری جماعت نہیں بڑھی اور اگر بڑھی ہے تو اُس نسبت سے نہیں بڑھی جس نسبت سے محلہ کی آبادی بڑھی ہے۔ پھر خداتعالیٰ کی طرف سے جو مامور آتے ہیں وہ صرف نسلی مومن بڑھانے کے نہیں آتے۔ نسلیں تو بڑھا ہی کرتی ہیں۔ جب مسلمانوں نے تبلیغ کو بالکل چھوڑ دیا تھا اُس زمانہ میں بھی ان کی اولادوں کا سلسلہ جاری تھا۔ درحقیقت اسلام پر تنزل اس لیے نہیں آیا کہ مسلمانوں کے ہاں اولاد پیدا ہونی بند ہوگئی تھی بلکہ ان پر تنزل اس لیے آیا کہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی تھی۔ اب بھی اگر دوسری جگہ مسجد بن جائے گی تو احمدیوں کو یہاں آ کر یہ دیکھنے کا موقع مل سکے گا کہ اس محلہ میں احمدیت کی ترقی کی کیا حالت ہے اور انہوں نے اس کے متعلق کتنی بڑی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب تو جمعہ کے دن آ کر وہ غافل ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ مسجد خوب آباد ہے احمدی اس میں بڑی کثرت سے نمازیں پڑھتے ہیں۔ انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اس محلہ میں احمدیت کمزور ہو چکی ہے لیکن دوسری مسجد بننے کے نتیجہ میں جب جمعہ کے دن بھی یہ مسجد ویران نظر آئے گی تو خودبخود یہ چیز ان کے اندر احساسِ خودداری پیدا کرنے کا موجب ہو گی اور وہ تبلیغ کی طرف توجہ شروع کر دیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس ایک مسجد کی وجہ سے اس سارے شہر لاہور کے لیے صرف ایک ہی مبلغ ہے۔ میرا اپنا اندازہ یا یوں کہو کہ وہ سکیم جس کے ماتحت تبلیغ کرنا مَیں مفید سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ پانچ سو افراد پر ایک مبلغ ہونا چاہیے۔ مَیں پانچ سو مرد نہیں کہتا، مَیں پانچ سو جوان نہیں کہتا، مَیں پانچ سو افراد کہتا ہوں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، بچے بھی شامل ہیں اور مرد بھی شامل ہیں۔ اس سے زیادہ افراد کی کوئی شخص صحیح طور پر تعلیم و تربیت نہیں کر سکتا۔ اگر پانچ کس کی ایک فیملی سمجھی جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر سو فیملی کے پیچھے ایک مبلغ ہونا چاہیے۔ مگر خیر یہ تو بڑی بات ہے۔ اس سے نیچے اُتر کر جو کچھ ہم کریں اس میں بھی کوئی نسبت تو ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے۔ ایک آدمی اگر روزانہ ایک گھنٹہ تبلیغ کرے تووہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کو تبلیغ کرے گا۔ آدھ گھنٹہ سے کم بھلا کیا تبلیغ ہو گی۔ تبلیغ کے معنے دوسرے کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کے تو نہیں کہ سلام کیا اور بات ختم ہو گئی۔ بلکہ تبلیغ پر وقت صَرف ہوتا ہے اور یہ وقت ایک آدمی کے لیے کم از کم آدھ گھنٹہ تو ضرور ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی شخص دن بھر میں پانچ گھنٹے تبلیغ کے لیے صَرف کرے تو ایک آدمی دن میں صرف دس آدمی کو تبلیغ کر سکے گا۔ اور سال بھر میں تین ہزار آدمیوں کو صرف ایک دفعہ تبلیغ کر سکتا ہے۔ اور سال میں ایک دفعہ کی تبلیغ کتنی تھوڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم پانچ سو خاندانوں پر ایک مبلغ رکھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ سال بھر میں اپنے علاقہ کے لوگوں کو صرف ایک دفعہ تبلیغ کر سکے گا۔اگر عورتوں اور بچوں کو نکال دوتب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ سال میں ہر شخص کو چھ دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ تبلیغ کر سکے گا اور اتنا وقت تو ماننے والے کی تربیت کے لیے بھی کافی نہیں ہوتا کُجا یہ کہ غیر کو منوانے کے لیے اسے کافی سمجھا جائے۔ لاہور کی سترہ لاکھ آبادی ہے۔ اِس آبادی میں اگر پانچ کس کی ایک فیملی سمجھی جائے تو تین لاکھ چالیس ہزار خاندان یہاں بستے ہیں۔ اگر پانچ سو افراد پر ایک مبلغ رکھا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ صرف لاہور شہر میں چونتیس سو مبلغ چاہیے۔ اگر چونتیس سو مبلغ یہاں رکھا جائے تو سال بھر میں فی جوان مرد کو وہ صرف تین گھنٹے تبلیغ کر سکے گا اور فی آدمی سال میں وہ صرف چالیس منٹ وقت دے سکے گا۔ مگر آپ لوگ تو اِسی بات پر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے سارے لاہور شہر میں ایک مبلغ رکھا ہوا ہے۔ اگر دوسری مسجد بنے گی تو قدرتی طور پر آپ لوگوں کو خیال پیدا ہو گا کہ ہمارا ایک مبلغ اِس مسجد میں رہے اور ایک اُس مسجد میں۔ اور اگر کسی وقت تین مسجدیں بن جائیں گی تو آپ لو گوں کو خیال پیدا ہو گا کہ ہم ایک تیسرا مبلغ بھی رکھیں۔ غرض مسجدوں کے بڑھنے سے لازمی طور پر مبلغین کے بڑھانے کا احساس پیدا ہو گا اور مبلغوںکے بڑھنے سے تبلیغ میں زیادتی ہو گی۔ پس میرے نزدیک دوسری مسجد کا بننا اس مسجد کی ویرانی کا موجب نہیں بلکہ اس کی آبادی کا موجب ہو گا۔ حقیقتاً مسجد کی آبادی اُسی وقت ہوتی ہے جب پانچوں وقت لوگ اُس میں باقاعدگی سے نمازیں پڑھتے ہوں۔ جب یہاں ساتویں دن جمعہ کے دن بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا تولازمی طور پر لوگوں کو خیال پیدا ہو گا کہ ہم نے ایک مسجد بنائی تھی جو ویران ہو نے لگی ہے۔آؤ ہم تبلیغ کر کے اپنی جماعت کو بڑھائیں اور اس مسجد کی ا ٓبادی کی کوشش کریں۔پھر اگر دو مبلغ ہوجائیں گے تو اس مسجدکا مبلغ شہر کی طرف سے سبکدوش سمجھا جائے گا اور شہر کا انچارج جامع مسجد کا امام ہو گا۔ اِس طرح اِس جگہ کا مبلغ محلہ کی تبلیغ کے لیے وقف ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ تبلیغ کے متعلق ہم کبھی بھی حسابی طور پر غور نہیں کرتے۔ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اگرکسی گاؤں میں ایک مبلغ ہے تو وہ کافی ہییا کسی شہر میں ایک مبلغ ہے تو وہ کافی ہے۔ہماری مثال بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے جو چائے کی ایک پیالی کے متعلق میٹھے کا اندازہ لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دوتین چمچے کھانڈ کے اُس کے لیے کافی ہوں گے۔ اور پھر زردہ کی ایک دیگ پکاتا ہے تو اس میں بھی دوچمچے میٹھے کے ملا دیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ ان دو چمچوں سے زردہ تیار ہو جائے گا۔ یا پچاس ساٹھ دیگیں شربت کی تیار کرتا ہے تو ان میں بھی ایک ایک دو دو چمچے کھانڈ کے ملا دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح شربت تیار ہو جائے گا۔حالانکہ ایک دیگ میں ایک چمچہ چائے میٹھا ملانے سے تو اس کا میٹھا ہونا تو الگ رہا جو لوگ پھیکی چائے پیتے ہیں وہ بھی ایک پیالی چائے میں اس سے زیادہ میٹھا ملاتے ہیں۔ اور جو اچھا میٹھا پیتے ہیں وہ تو دو دو تین تین چمچے میٹھا ڈالتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح ہم بھی خیال کر لیتے ہیں کہ فلاںشہر میں ہمارا ایک مبلغ جو کام کر رہا ہے وہ اس شہر کے لیے کافی ہے۔ہم کبھی نہیں سوچتے کہ وہ کتنے آدمیوں کو تبلیغ کر سکتا ہے، ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارے مبلغ کا دن چوبیس گھنٹے کا ہے یا چار ہزار گھنٹے کا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں اِس بات کو کہ ہمارے مبلغ کے لیے بھی خدا تعالیٰ کا سورج اُسی طرح چڑھتا اور غروب ہوتا ہے جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے چڑھتا اور غروب ہوتا ہے اور اِس حساب نہ لگانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسااوقات تبلیغ کے متعلق ہماری حالت اُسی قسم کی ہو جاتی ہے جیسے مَیں ایک دفعہ سندھ گیا تو وہاں کے ایک رئیس جو پرانے شاہی خاندان کی نسل میں سے ہیں اور جن کی زمین دس بارہ ہزار ایکڑ ہے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اس زمین میں سے پانچ ہزار ایکڑ مَیں نے اور تحریک جدید نے مقاطعہ پر لی تھی اور جیسے امراء کا دستور ہے کہ وہ روپیہ عیاشیوں میں اُڑا دیتے ہیں اور باوجود بہت بڑی جائیدادوں کے مقروض رہتے ہیں یہی حالت ان کی تھی۔ اُن کی کچھ نہیں تو پچاس ہزار روپیہ آمدن تھی مگر پھر بھی وہ مقروض رہتے تھے۔ مَیں ایک دفعہ سندھ گیا اور انہوں نے سنا کہ مَیں آیا ہوا ہوں تو وہ میرے پاس آئے۔ میری جگہ سے وہ پچاس ساٹھ میل دو رہتے تھے۔ موٹر میں وہ میرے پاس پہنچے اورانہوں نے درخواست کی کہ اگلے سال کے مقاطعہ میں سے کچھ رقم بطور پیشگی مجھے دے دی جائے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو مَیں نے سمجھا کہ خدا نے مجھے تبلیغ کا ایک موقع عطا کر دیا ہے آؤ اس سے فائدہ اٹھائیں اور انہیں کچھ نصیحت کریں۔ چنانچہ مَیں نے اُن سے کہا میر صاحب!(وہ میر خاندان میں سے تھے) اللہ تعالیٰ نے آپ کو روپیہ بھی دیا ہے، جائیداد بھی دی ہے، عزت اور شُہرت بھی دی ہے، آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی قوم کے سدھار اور اس کی اصلاح کے لیے اپنی اولاد کو تعلیم دلائیں اور جو کچھ روپیہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ ان کی تعلیم پر خرچ کریں۔ جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں گے توآپ کے رسوخ کی وجہ سے قوم کے اَور ہزاروں لڑکوں کے اندر بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوجائے گا اور اِس طرح قوم کا معیار بہت بلند ہو جائے گا۔میر صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے۔ مَیںوعظ کرتا چلا گیا مگر وہ بالکل خاموش رہے اور کوئی حرکت ان کے جسم میں پیدا نہ ہوئی۔ آخر دس پندرہ منٹ وعظ کر کے مَیں خاموش ہو گیا اور مَیں حیران ہوا کہ میر صاحب کو ہو کیا گیا ہے کہ ایک لفظ بھی اُن کے منہ سے نہیں نکلا۔ ہاں نہ ہوں کچھ بھی نہیں کرتے اور خاموش بیٹھے ہیں۔
غرض پہلی دفعہ مَیں جتنا بولنے کا ارادہ رکھتا تھا اُتنا بول چکا تو مَیں نے مناسب سمجھا کہ دوسری دفعہ پھر اُن کو اِس بات کی طرف توجہ دلا دوں۔ چنانچہ مَیں نے نیاپہلو بدلا اور پھر مَیں نے انہیں تعلیم کی طرف توجہ دلائی، اس کی ضرورت ان کے ذہن نشین کرائی، اس کے فوائد بتلائے اور اس کی اہمیت واضح کی اور پھر مَیں خاموش ہوا یہ دیکھنے کے لیے کہ اب میر صاحب پر کیا اثر ہوا ہے۔ مگر مَیں نے دیکھا کہ وہ برابر اُسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔ تب مَیں نے تیسری دفعہ انہیں اِس طرف توجہ دلائی اور دس بارہ منٹ تک بولتا چلا گیا مگر جب مَیں بات کو ختم کر چکا تو وہ پھر بھی خاموش رہے۔ اِس پر مَیں سخت حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے؟ ان کے ساتھ اُن کا ایک سیکرٹری بھی تھا جو ہندو تھا۔ جب مَیں تین دفعہ وعظ کر چکا تو اُس سیکرٹری نے سمجھا کہ اب خاموشی مناسب نہیں چنانچہ وہ کہنے لگا جناب! آپ کو ہمارے میر صاحب کے حالات کاعلم نہیں۔ آپ نے دوسرے امراء پر قیاس کرتے ہوئے یہ سمجھ لیا ہے کہ جس طرح وہ تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے اُسی طرح میر صاحب کو بھی توجہ نہیں۔ مگر یہ درست نہیں۔ ان کو تعلیم کا خاص شوق ہے اور یہ اپنے بچوں کو پڑھانے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کا ایک لڑکا چوتھی جماعت تک پڑھا ہوا ہے اور دوسرا لڑکا تیسری جماعت تک پڑھا ہوا ہے۔ تب مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ
ایں خانہ تمام آفتاب است
جیسے میر صاحب ہیں ویسے ہی ان کے سیکرٹری صاحب ہیں۔ تم سب اِس واقعہ پر ہنس پڑے ہو لیکن تم نے کبھی سوچا کہ جیسے اُس سیکرٹری کا جواب تھا ویسا ہی جواب تم تبلیغ کے متعلق دیتے ہو۔ تم سے بھی پوچھا جائے کہ لاہور شہر میں تمہارے کتنے مبلغ ہیں؟ تو تم کہتے ہو اِس سترہ لاکھ کی آبادی والے شہر میں خداتعالیٰ کے فضل سے ہمارا ایک مبلغ کام کر رہا ہے۔ حالانکہ خدا کے فضل سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ خداکے قہر سے ایسا بے شک ہو سکتا ہے۔ خدا کے فضل سے تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہسترہ لاکھ کی آبادی کے لیے صرف ایک مبلغ کافی ہو۔سترہ لاکھ کی آبادی کے لیے کم سے کم چونتیس سو مبلغ چاہییں۔ اگر ہم اس سے کم مبلغ رکھتے ہیں تو ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔
پس اگر دوسری مسجد بنے گی تو خودبخود تم میں تبلیغ کو بڑھانے کا احساس پیدا ہو گا۔ تم خود کہو گے کہ ایک مبلغ اِس مسجد کی آبادی کے لیے چاہیے اور ایک مبلغ اُس مسجد کے لیے چاہیے۔ پھر ہر چیز کی ایک چاٹ ہوتی ہے۔ کسی کو پان کی چاٹ ہوتی ہے، کسی کوسگار کی چاٹ ہوتی ہے، کسی کو شراب کی چاٹ ہوتی ہے، کسی کو افیون کی چاٹ ہوتی ہے۔ جب تمہیں مسجدیں بنانے کی چاٹ پڑ جائے گی تو تم کوشش کرو گے کہ پھر تیسری اور پھر چوتھی مسجد بناؤ اور بناتے ہی چلے جاؤ۔ اب تو تم اِس ایک مسجد پر اِس طرح تسلی پا کر بیٹھ گئے ہو جیسے کہتے ہیں کہ گاؤں کا کوئی شخص ایک دفعہ شہر میں آیا اور وہ متنجن کھا کر واپس گیا تو اس نے اپنے گاؤں کے لوگوں سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تم ہمارے گاؤں کے کنویں میں تھوک دو ہم ایک ایک گھونٹ پانی پی کر دیکھ لیں گے کہ متنجن کا مزہ کیسا ہوتا ہے۔ اِس طرح یہ مسجد بھاٹی دروازہ والوں کی ہے۔مگر بھاٹی دروازہ والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے، لوہاری دروازہ والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے، انارکلی والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے،مزنگ والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے،مال روڈ والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے،میکلوڈ روڈ والے کہتے ہیں یہ ہماری مسجد ہے۔ غرض ہر محلہ کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری مسجد ہے۔ جب اَور مسجد بن جائے گی تو طبعی طور پر تمہارے دلوں میں خیال پیدا ہو گا کہ دلّی دروازہ والوں کی تو مسجد ہے مگر ہماری مسجد نہیں۔ اب تو تم دلّی دروازہ کی مسجد کو ہی اپنی مسجد کہہ کر اپنا لیتے ہو حالانکہ تمہاری مسجد وہ ہے جس میں تم پانچ وقت نماز پڑھ سکتے ہو۔ جس مسجد میں تم پانچ وقت نماز کے لیے نہیں جا سکتے وہ تمہاری مسجد نہیں۔بہرحال جب تم پانچ وقت نماز کے لیے دوسری مسجد میں بھی نہیں جا سکو گے تو تمہیں خیال آئے گا کہ دلّی دروازہ والوں کے پاس تو مسجد ہے مگرہمارے پاس مسجد نہیں اور قدرتی طور پر تمہیں احساس پیدا ہو گا کہ ہم محلہ وار مسجدیں بنائیں۔پھر جب تم محلہ وار مسجدیں بناؤ گے تو چونکہ تم کام کاج میں مشغول ہو گے کوئی تم میں سے ملازمت کر رہا ہو گا، کوئی تجارت کر رہا ہو گا، کوئی اَور کام کر رہا ہو گا اور تم اپنا اکثر وقت مسجد میں نہیں دے سکو گے۔ اس لیے تم خود بخود یہ سوال اٹھاؤ گے کہ اس مسجد کو آباد رکھنے کے لیے ہمیں مبلغ دیا جائے۔ اس طرح مسجدوں کے پیچھے مبلغ بڑھتے چلے جائیں گے۔ اور جب مبلغ بڑھیں گے تو تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہو گا۔ دوسروں کو جانے دو ایک مبلغ تو جماعت احمدیہ کے تمام بچوں کی صرف نماز کے متعلق بھی صحیح طور پر نگرانی نہیں کر سکتا دوسرے کام تو الگ رہے۔ پس ایک مبلغ تمام شہر کی تبلیغ کے لحاظ سے قطعی طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ محض خوش فہمی ہے کہ ہم ایک مبلغ رکھ کر یہ سمجھ لیں کہ شہر کی تبلیغی ضروریات کو ہم نے پورا کر دیا ہے۔
غرض نئی مسجد بننے کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر دوسرے محلوں میں بھی مسجدوں کی تحریکیں شروع ہو جائیں گی اور اس طرح تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہت بڑی ترقی ہو گی۔ یہ تو تمہارے نقطہ نگاہ سے ہے اور میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ مَیں تو ایک شکاری ہوں۔ جس طرح ایک شکاری اپنی کنڈی میں آٹا یا گوشت لگاتا ہے اسی طرح مَیں بھی تمہیں دوسری مسجد بنانے کی اس لیے تحریک کر رہا ہوں تا کہ تم تیسری مسجد بناؤ اور تیسری کے بعد چوتھی مسجد بناؤ۔ میری نیت بھی یہی ہے کہ تم کو پھنساؤں اور تمہاری نیت بھی گو اِس وقت صرف اتنی ہے کہ تم ایک اَور مسجد بناؤ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں تم میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جائے گا کہ ہمارے محلوں میں کیوں مسجد نہیں۔ اور پھر قدرتی طور پر مساجدکے ساتھ محلہ وار مبلغین کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمیں آدمیوں کی تعداد کو بہرحال مدنظر رکھنا پڑے گا۔ سترہ لاکھ کی آبادی میں اگر ایک مبلغ رکھاجائے تو سال بھر میں تو اُسے یہ بھی ہوش نہیں آئے گا کہ مَیں کس آدمی سے بات کروں۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے سمندر میں ہم کسی شخص کو ڈال دیں اور اُسے کہیں کہ وہ جا کر امریکہ فتح کرے۔ اس نے امریکہ کیا فتح کرنا ہے۔ وہ تو دو تین میل ہی جا کر ڈوب جائے گا اور مر جائے گا۔ پس تبلیغ کی وسعت کے لیے بھی اس وقت نئی مسجد کی شدید ضرورت ہے۔
مَیں نے مسجد کی زمین کے متعلق جو تحریک کی تھی مجھے خوشی ہے کہ جماعت نے اس تحریک کا نہایت اخلاص کے ساتھ جواب دیا ہے اور جو اِن پر امید کی گئی تھی اُسے انہوں نے پورا کر دیا ہے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے اب تک دس ہزار روپیہ کے وعدے آ چکے ہیں۔ مگر اس کے بعد اب دوسرا قدم یہ ہے کہ تم اپنے وعدے کا ایفاء کرو۔ مَیں ایسے چندے کا قائل نہیں کہ وعدہ تو لکھا دیا جائے اور پھر خط وکتابت ہو رہی ہو، یاددہانیاں کرائی جا رہی ہوں، اخباروں میں اعلانات ہو رہے ہوں اور لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوں۔ جب تک نئی مسجد نہیں بنے گی اور جب تک یہ مسجدچِلّا چِلّا کر یہ نہیں کہے گی کہ میرے لیے نمازی لاؤ تب تک تمہارے اندر بھی غیرت پیدا نہیں ہو گی اور تم تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں کرو گے۔ اسی طرح جب تم خداتعالیٰ کی راہ میں روپیہ دو گے اور تمہاری جیبیں خالی ہو جائیں گی تو تمہاری جیبیں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور پکار اٹھیں گی کہ خدایا! تری راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہم خالی ہو گئی ہیں اب تُو پھر اپنے فضل سے ہمیں بھر دے۔ گویا تمہارا چندہ ادا کرنا تمہارے اندر ایک نئی انابت، ایک نیا خلوص اور ایک نیا ایمان پیدا کر دے گا اور تمہاری جیبیں بھی خدا تعالیٰ کے حضور فریاد کریں گی اور پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے تمہارے روپیہ کو بھی بڑھا دے گا۔خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا اُس زمیندار سے بدبخت نہیں ہو سکتا جو چند سیر دانے زمین میں ڈال کر کئی ہزار من غلہ حاصل کر لیتا ہے۔ اگر وہ دنیا کی خاطر دانے ڈال کر زیادہ کما لیتا ہے تو دین کی خاطر خرچ کرنے والا کب گھاٹے میں رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی گھاٹے میں رہتا ہے تو اس میں ضرور اُس کا اپنا قصور ہوتا ہے ورنہ ہم نے تو دیکھا ہے کہ دین کی خدمت کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا روپیہ خرچ کرنے والے کبھی گھاٹے میں نہیں رہتے۔پس تم نے جو وعدہ کیا ہے اسے جلد پورا کرو تا کہ مسجد کے لیے زمین لی جا سکے۔ اگر چھ مہینے یا سال کے بعد تم نے وعدہ پورا کیا تو نہ معلوم اُس وقت تک زمینوں کی کیا قیمت ہو جائے۔ پس اپنے وعدے فوراً پورے کرو تا کہ جلد سے جلد زمین خریدی جا سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مقامی جماعت کے دوست فوری طور پر میٹنگ کر کے آج شام تک مجھے یہ اطلاع دیں کہ وہ کون کونسی سڑکوں پر اس مسجد کے لیے زمین کا خریدا جانا پسند کرتے ہیں۔ سڑک ایسی ہونی چاہیے جہاں شہر کے لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہوں۔ مگر آسانی سے یہ مراد نہیں کہ انہیں کہیں دورجانا نہ پڑے۔ یہاں بھی لوگ آخر سائیکلوں اور ٹانگوں وغیرہ پر آتے ہیں۔ اگر وہاں بھی سائیکلوں وغیرہ پر پہنچا جاسکے تو اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہو گی۔ جامع مسجد کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ گھر کے قریب ہو غلطی ہے۔ پس جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ چار پانچ جگہیں تلاش کر لیں۔ پھر زمینوں کے کسی ایجنٹ سے مشورہ کر کے فوراً زمین خریدی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک تین چار ہفتوں میں تمام کام ہو سکتے ہیں۔ اگر دوست سچے دل سے اس کام میں لگ جائیں۔ زمین خریدی جائے تو اس کے بعد جس طرح رتن باغ میں خیمے لگا کر جمعہ کی نماز ادا کی جاتی تھی۔ اُس جگہ بھی خیمے لگا کر نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ بہرحال جب جگہ لو گے تو تمہیں خیال پیدا ہو گا کہ ہم مسجد بنائیں اور جب مسجد بناؤ گے تو تمہارے دلوں میں یہ تحریک شروع ہو گی کہ ہم محلہ و ار مسجدیں بنائیں اور جب محلہ وار مسجدیں بناؤ گے تو تمہیں خیال آئے گا کہ ہم ہر مسجد کے لیے الگ الگ مبلغ رکھیں۔ اور جب مبلغ رکھو گے تو یہ قدرتی بات ہے کہ پھر تبلیغ بھی وسیع ہو گی۔ پس آپ لوگ آج جمعہ کے بعد میٹنگ کریں جس میں یہ طے کریں کہ کون کونسی سڑکیں ایسی ہیں کہ اگر وہاں زمین مل سکے تو ہمیں زمین خرید لینی چاہیے۔ وہ جگہیں ایسی ہونی چاہییں جہاں آسانی کے ساتھ شہر کے لوگ جمعہ کے لیے جمع ہو سکیں مگر آسانی سے میری مراد نسبتی آسانی ہے۔ اگر کسی قدر تکلیف برداشت کر کے بھی وہاں جانا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ گو مَیں اس بات کا قائل نہیں کہ جمعہ ہمیشہ ایک جگہ ہونا چاہیے۔ جب سے بڑے شہروں کا طریق نکلا ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ ان میں ایک جامع مسجد کافی نہیں ہو سکتی بلکہ ضروری ہے کہ مختلف حلقوں میں الگ الگ جامع مساجد ہوں تا کہ تمام شہر کے لوگ آسانی کے ساتھ جمعہ پڑھ سکیں۔ بغداد میںآٹھ لاکھ آدمی تھا اور جامع مسجد صرف ایک تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ دو چار لاکھ آدمی تو جامع مسجد میں آ جاتا اور باقی جمعہ سے محروم رہتا۔ آہستہ آہستہ جمعہ ہی کی عادت جاتی رہی۔ پس میرے نزدیک جو بڑے شہر ہوں اُن میں دو دو تین تین جگہ پر جمعہ ہونا چاہیے اور اسی لحاظ سے لاہور میں بھی مختلف مساجد میں جمعہ کی نماز ادا ہو سکتی ہے۔ مگر یہ ابھی دور کی بات ہے۔فِی الْحال جو مسجد بنے گی وہ ہمارے لیے جمعہ کی نماز کے لیے کافی ہوگی۔ گو میری رائے ہے کہ دو دو تین تین میل کا حلقہ ہونا چاہیے جس میں رہنے والے لوگ ایک جگہ جمعہ کے لیے اکٹھے ہو جایا کریں اور اگر ضرورت ہو تو اس میں کمی بیشی بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً لندن کے تمام لوگ اگرمسلمان ہو جائیں تو وہاں ہمیں پندرہ بیس حلقے مقرر کرنے پڑیں گے۔ وہاں کی آبادی اسّی لاکھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو نکال کر وہاں تیس لاکھ نمازی ہو گا اور اُن کے لیے بہرحال پندرہ بیس جگہیں چاہییں جہاں وہ جمعہ کی نماز ادا کر سکیں۔
درحقیقت کسی ناممکن چیز کی امید کرنا یہ بھی قوم کے اخلاق کو بگاڑ دیتا ہے۔ جس طرح بِلاوجہ سہولتیں دیتے جانا بھی قوم کے اخلاق کو بگاڑنے والا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ان دونوں باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ ناممکن باتوں پر زور دیا جائے کیونکہ اگر ناممکن باتوں پر زور دیا جائے گا تو گناہ کا رعب انسان کے دل سے مٹ جائے گا۔ اسی طرح لوگوں کو بلاوجہ سہولتیں دیتے چلے جانا بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ معمولی معمولی بات پر گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دینا بھی خطرناک ہوتا ہے۔ اور یہ امر بھی خطرناک ہوتا ہے کہ ناممکن بات پر زور دیا جائے اور سارے شہر کے لوگوں سے توقع کی جائے کہ وہ ایک جامع مسجد میں اکٹھے ہو جائیں۔ مثلاً لاہور شہر ہی کئی میل کے حلقے میں پھیلا ہوا ہے اور سارے مرد و عورت ایک جگہ نماز کے لیے قطعی طور پر جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر تم ان کو جمع کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ناممکن ہو گا اور نماز کے لیے نہ آنے والوں کا گناہ تم پر ہو گا کیونکہ وہ سینکڑوں لوگ جو نماز کے لیے نہیں آئیں گے وہ یقیناً آتے اگر ان کے لیے انتظام ہوتا۔
پس میری رائے تو یہی ہے کہ لاہور شہر میں بھی مختلف مقامات پر جمعہ کی نماز ادا ہونی چاہیے مگر لاہور کے احمدی ہونے میں ابھی کافی دیر ہے۔اِس لیے ا بھی اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن مسئلہ کی صورت میرے نزدیک یہی ہے کہ بڑے شہروں میں دو دو تین تین جگہ جمعہ ہونا چاہیے تاکہ سب لوگ نماز میں شریک ہو سکیں۔البتہ شریعت نے فتنوں کو روکنے کے لیے بعض پابندیاں ضرور عائد کر دی ہیں۔ مثلاً شریعت کہتی ہے کہ اُسی مسجد میں نماز پڑھی جائے جو اپنے حلقہ کی ہو۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بعض فتنہ پرداز لوگ امام کے خلاف فتنہ انگیزی کر کے بجائے اپنی مسجد کے دوسرے محلہ میں جا کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور چونکہ اِس طرح فتنہ پرداز لوگ فتنہ پھیلا سکتے ہیں اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس محلہ میں تم رہتے ہو اُسی محلہ کی مسجد میں نمازیں پڑھا کرو۔ بہرحال اسلام میں سب چیزیں موجود ہیں اور اس قسم کے خطرات دور کیے جا سکتے ہیں مگر یہ ابھی دور کی باتیں ہیں۔ ابھی تو ہمیں ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں نسبتاً آسانی سے ہماری جماعت کے لوگ جمعہ کے لیے اکٹھے ہوسکیں۔ میرے نزدیک اس غرض کے لیے فلیمنگ روڈ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ مَیں ایک دفعہ خاص طور پر اِسی غرض کے لیے وہاں گیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ اُس وقت وہاںچھ ہزار روپیہ پر کنال زمین ملتی تھی۔ اسی طرح اَور کئی سڑکیں ہیں جہاں لوگ نماز کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال کسی سڑک پر زمین خرید کر اور خیمے لگا کر نماز شروع کر دی جائے۔ پھر مبلغ کی رہائش کا بھی وہاں انتظام ہو جائے اور ایک لائبریری بھی بنا دی جائے۔ شہروں میں لائبریریوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے مگر لائبریری اُسی جگہ بن سکتی ہے جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہوں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں لٹریچر کی اشاعت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔ لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ بڑی آسانی سے ہر جگہ پہنچ سکتی ہے۔ مبلغ کے ذریعہ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتی۔ پس اب لٹریچر کی اشاعت پر بھی ہمیں خاص طور پر زور دینا پڑے گا۔ جس کا ایک طریق یہ ہے کہ مختلف شہروں میں لائبریریاں قائم کی جائیں۔ مگر لائبریری بھی اُسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب مبلغ ہو۔ ایک دکاندار یاتاجر یا ملازم کس طرح ہر وقت لائبریری میں بیٹھ سکتا ہے۔ اُسے تو اپنے کام ہوتے ہیں لیکن مبلغ بیٹھ سکتا ہے۔ اور جو لوگ اخبار پڑھنے کے لیے آئیں یا کتابوں وغیرہ کا مطالعہ کرنے کے لیے آئیں وہ انہیں تبلیغ بھی کر سکتا ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ باقی جگہوں کی نسبت لاہور شہر میں اِس کی زیادہ ضرورت ہے"۔
(الفضل 26جنوری 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------



درحقیقت زندہ وہی ہے جو روحانی طور پر زندہ ہے
اور بینا وہی ہے جو روحانی طور پر بینا ہے
ربوہ آباد کرنے کے سلسلہ میں ہدایات
(فرمودہ22؍اکتوبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج پھر حرارت کی وجہ سے زیادہ دیر نہیں بول سکتا اور ایک وقتی امر کے متعلق جو ایک لحاظ سے وقتی ہے اور ایک لحاظ سے ایک اہم اور دائمی حیثیت رکھتا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہمیںکچھ عرصہ کے لیے قادیان چھوڑنا پڑا اور لازماً ہمیں ایک اَور مرکز کی تلاش ہوئی۔ اس کے لیے ہم نے ضلع جھنگ میں ایک جگہ خرید لی ہے جس کا نام ربوہ رکھ دیا گیا ہے ۔ اس جگہ میں مکانات بنانے کے لیے مَیں نے دوستوں کو تحریک کی تھی۔ سب سے پہلے تو مَیں اِس غلطی کا اعتراف کرتا ہوں کہ ربوہ میں سب سے پہلا موقع قادیان کے اُجڑے ہوئے باشندوں کو جن کے وہاں مکانات یا زمینیں تھیں اور اب ایک مرکز پر جمع ہونا چاہتے تھے دیا جانا چاہیے تھا۔اس کے بعد دوسرے دوستوں کو موقع دیا جاتا۔لیکن اُس وقت ہم سے بُھول ہو گئی اور ہم نے عام اعلان کر دیا۔
بہرحال قادیان کے بعض رہنے والوں نے بھی زمین کے لیے درخواستیں دی ہیں اور بعض دوسرے باہر کے رہنے والوں نے بھی درخواستیں دی ہیں۔ زمین کی فروخت کے لیے جو اعلان کیا گیا تھا اُس میں دوشرطیں تھیں۔ ایک یہ کہ پانچ سو کنال تک زمین اب فروخت کی جائے گی۔ اور دوسری یہ کہ ایک ماہ کے اندر اندر جو لوگ قیمت جمع کرا دیں گے اُنہیں یہ زمین مل سکے گی۔ یہ ایک عام دستور ہے کہ وقت اور چیز دونوں کی حدبندی کر دی جاتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے جو بھی چیز پہلے پوری ہو جائے گی وہ اس اعلان کو ختم کر دے گی۔ مثلاً گورنمنٹیں اعلان کرتی ہیں کہ ہمیں پچاس کروڑ روپیہ کے قرضہ کی ضرورت ہے اور فلاں وقت تک لوگ درخواست دے سکتے ہیں۔ فرض کرو یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پندرہ اکتوبر تک لوگ درخواستیں دے سکتے ہیں۔ اب اگر پچاس کروڑ کی رقم پوری ہوجائے خواہ مدت مقررہ میں ابھی کچھ دن باقی ہی ہوں۔ فرض کروپچاس کروڑ کی رقم یکم اکتوبر کو پوری ہوجاتی ہے اورپندرہ اکتوبر تک ایک ارب روپیہ کی درخواستیں آ جاتی ہیں تو گورنمنٹ صرف پچاس کروڑ کی رقم تک کی درخواستیں منظور کرے گی اور باقی کو ردّ کر دے گی۔ اس لیے کہ اُسے پچاس کروڑ روپیہ چاہیے تھا اور وہ پورا ہو گیا۔ گورنمنٹ اِس وجہ سے ایک ارب کی درخواستیں منظور نہیں کرے گی کہ ابھی مقررہ تاریخ میں کچھ دن باقی ہیں۔ اِسی طرح اگر مقررہ تاریخ گزر جاتی ہے تو خواہ وہ رقم پوری ہو یا نہ ہو اعلان ختم سمجھا جائے گا۔ اِن دو شرطوں کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ اگر روپے یا چیز کی حد ختم ہو گئی تب بھی اعلان کو ختم سمجھا جائے گا اور اگر تاریخ گزر جائے خواہ وہ رقم یا چیز پوری ہو یا نہ ہو تب بھی اس اعلان کو ختم سمجھا جائے گا۔ مثلاً جب ہم نے اعلان کیا تھا کہ اب 500 کنال تک زمین فروخت کی جائے گی(گو بعد میں وہ ایک غلطی کی وجہ سے ایک ہزار کنال بن گئی) تو اس کے ساتھ ہی یہ تجویز کی گئی تھی کہ اُن غرباء کو جو قادیان میں مکان یا زمین رکھتے تھے انہیں مفت زمین دی جائے۔ اور خیال تھا کہ 200 کنال تک زمین غرباء میں تقسیم کی جائے گی۔ اعلان کے بعد ایک وقتی ضرورت کے وقت میرے منہ سے ایک ہزار نکل گیا اور چونکہ یہ لفظ میرے منہ سے نکل چکا تھا اس لیے جو ہو چکا سو ہو چکا۔ غرباء والی دو سو کنال زمین اگر اس سے نکال لی جائے تو باقی 800 کنال رہ جاتی ہے۔ گویا اعلان کا یہ مفہوم ہوا کہ اگر 800 کنال زمین یا غرباء والی زمین ملا کر ایک ہزار کنال زمین پوری ہو جائے تو یہ اعلان بندسمجھا جائے گا۔ اور اگر تاریخ ختم ہو جائے خواہ مقدار پوری ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو تو بھی اعلان کو بند سمجھا جائے گا اور جتنی درخواستیں تاریخ مقررہ کے بعد آئیں گی اُن کے لیے نئی قیمت کے مقرر کرنے کا اختیارحاصل ہو جائے گا۔ اِن دونوں چیزوں میں سے جو چیز بھی پہلے ختم ہو جائے گی وہ اس اعلان کو بندکر دے گی۔ اگر 800 کنال پوری ہو جائے اور تاریخ مقررہ میں کچھ دن باقی ہوں تو اعلان بند سمجھا جائے گا۔ اور اگر تاریخ مقررہ آ جائے اور 800 کنال پوری نہ ہوئی ہو مثلاً اگر 500 کنال کی درخواستیں آئی ہوں اورپندرہ تاریخ آ جائے تو پندرہ تاریخ اس اعلان کو بند کر دے گی۔ یہ عرف ِعام کاایک طریق ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ جونہی وقت ختم ہوا ہے درخواستیں زیادہ آنی شروع ہو گئی ہیں۔ بعض دفعہ لوگ رات کو بھی آ کر میرا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور کہتے ہیں حضور! وقت ختم ہو گیا ہے، ہم پہلے قیمت ادا نہیں کر سکے، ہمیں یہ یہ مشکل پیش آ گئی تھی۔ آپ ہماری سفارش کر دیں کہ ہمارا نام بھی ایک سَو روپے کنال والی شرح میں شامل کر دیا جائے۔ اور بعض لوگوں نے تو یہاں تک شکایت کی ہے کہ پندرہ اکتوبر کیوں کہا گیا تھا؟ میں نے اُنہیں جواب دیا ہے کہ صرف پندرہ اکتوبر ہی نہیں کہا گیا تھا بلکہ اعلان میں دو شرطیں بیان کی گئی تھیں۔ اور اگر دو شرطیں بیان کی گئی ہیں تو وہ کچھ معنے رکھتی ہیں۔ یہ عرفِ عام کا طریقہ ہے اور یہ ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے۔ گورنمنٹیں ہمیشہ ہی یہ کرتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ ہی وہ ایسا کرتی ہیں۔ اگر روپیہ یا چیز ختم ہو جاتی ہے اور تاریخ باقی رہتی ہے تب بھی وہ اعلان ختم ہو جاتا ہے اور اگر تاریخ ختم ہو جاتی ہے تو چاہے وہ رقم آئی ہو یا نہ آئی ہو تب بھی وہ اعلان ختم ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ گورنمنٹ پچاس کروڑ کے لیے اعلان کرے اور مقررہ تاریخ تک ہر درخواست منظور کرتی جائے خواہ رقم پچاس کروڑ سے بڑھ ہی جائے۔ گورنمنٹ پچاس کروڑ کی رقم سے زیادہ جو درخواستیں ہوں گی اُنہیں ردّ کردے گی۔ اور پھر اگر تاریخ ختم ہو جائے تو یہ نہیں ہو گا کہ جب تک رقم پوری نہ ہو جائے اعلان کو بڑھا دیا جائے بلکہ جب تاریخ ختم ہو جائے گی اعلان بھی ختم ہو جائے گا خواہ رقم پوری ہو یا نہ ہو۔ اِسی طرح ہماری طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 800 کنال تک زمین فروخت کی جائے گی اور پندرہ اکتوبر تک جن کی درخواستیں آجائیں گی وہ یہ زمین خرید سکیں گے۔ اب اگر زمین کی مقرر کردہ مقدار پوری ہو جائے تب بھی یہ اعلان ختم ہو جائے گا اور اگر مقررہ تاریخ گزر جائے مقدار خواہ پوری ہو یا نہ ہو تب بھی یہ اعلان ختم ہو جائے گا۔ پس جن دوستوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی ہے وہ ان کی ناتجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے ہے۔ جب دو شرطیں بیان کی گئی ہوں تو ایک بے وقوف سے بے وقوف انسان کی سمجھ میں بھی یہ چیز آجائے گی کہ اس کے کچھ معنی ہیں۔ ورنہ ایک شرط کیوں نہ رکھی گئی دو شرطیں کیوں رکھی گئی ہیں؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ساری زمین کے خریدار آجائیں تب بھی اعلان ختم ہو جائے گا اور اگر تاریخ مقررہ گزر جائے گی خواہ ساری زمین کے خریدار آئیں یا نہ آئیں تب بھی وہ اعلان ختم ہو جائے گا۔ اب قانون کے مطابق نئی قیمت مقرر ہے جو اِس قیمت پر زمین لینا چاہے وہ لے سکتا ہے۔ ورنہ پرانی قیمت پر یہ زمین اب نہیں مل سکتی۔ یہ تو حسابی لحاظ سے مَیں نے کہا ہے۔ اب عقلی لحاظ سے کچھ کہتا ہوں۔
یہ قیمت تو ایسی تھی جیسے کوئی مچھلی پکڑنے والا یونہی بہت سا آٹا ڈال دیتا ہے یا بوٹی پھینک دیتا ہے کنڈی نہیں لگاتا۔ اِس طرح مچھلیاں آتی ہیں اور وہ اُس آٹے کو کھاتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں، مفت میں آٹا گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ اس طرح وہ انہیں پہلے عادت ڈال لیتا ہے۔ دوسری دفعہ وہ کنڈی بھی ساتھ لگا دیتا ہے۔ مچھلی اپنی عادت کے مطابق آتی ہے اور اُس میں پھنس جاتی ہے۔ اِسی طرح نیا شہر بسانے کے لیے لوگ خواہ کتنے ہی ایماندار ہوں فوراً تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ ایسے مومنوں کو آگے نکالا جائے جو ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہوں اور اپنے مال کے ہرضیاع کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے ہم نے بھی پہلے اِس قسم کا اعلان کر دیا۔ یہ آزمائش تھی تا معلوم ہو جائے کہ کو ن یہ یقین رکھتا ہے کہ اُس کا ایسا کرنا موجب ِبرکت ہے اور کون تردّد کرتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ مَیں جاؤں یا نہ جاؤں۔ بلاشُبہ جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ کام میرے لیے موجبِ برکت ہے وہ مستحق ہے رعایت کا، وہ مستحق ہے السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کا۔اور جو شخص تردّد کرتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ میرا مال ضائع نہ ہو جائے۔ یا فرض کرو اُس کا مال ضائع ہی ہو جائے اور اُسے اس کے ضائع ہو جانے پر افسوس ہو۔ یا وہ خیال کرے کہ اب وہ اتنی رقم کہاں سے لائے گا وہ نہ حقدار ہے رعایت کا اور نہ حقدار ہے السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کا۔
غرض درجہ بدرجہ قربانیوں کے ساتھ رعایت آتی ہے۔ یہ تو سیدھی سادھی بات ہے کہ جو شہر بھی بسایا جاتا ہے اُس سے فائدہ اٹھانے والے ہی اُس کے اخراجات کو برداشت کرتے ہیں۔ مثلاً لاہور کے قریب ماڈل ٹاؤن آباد ہوا ہے کیا آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے اخراجات کے لیے لاہور پر کوئی ٹیکس پڑا تھا؟ نہیں۔ بلکہ شہر والوں نے اس کے تمام اخراجات کو برداشت کیا اور یہ ایک شہر بن گیا۔ امریکہ میں سینکڑوں اور ہزاروں شہر ایسے آباد ہوئے ہیں۔ سوسائٹیاں قصبات بنا دیتی ہیں اور ان کے سارے انتظامات شہر کے باشندے کرتے ہیں اور اس پر وہی خرچ کرتے ہیں۔
ربوہ کی آبادی پر کم از کم خرچ کا ابتدائی اندازہ ساڑھے تیرہ لاکھ ہے (بعد میں شہر کی تکمیل پر غالباً پندرہ بیس لاکھ اَور خرچ ہو گا) اور جو زمین فروخت ہو گی وہ ساری نہیں جو لوگ یونہی ہزار ایکڑ کے متعلق قیاس لگا لیتے ہیں اور اسے آٹھ یا نو کے ساتھ ضرب دے دیتے ہیں اُن کا قیاس صحیح نہیں۔ شہر ساری جگہ پر آباد نہیں ہو گا۔ اس میں کھیلنے کے لیے بھی جگہ خالی رکھنی ہو گی، ہوا کے لیے بھی جگہ خالی رکھنی ہو گی، سڑکیں بھی بنانی ہوں گے۔ اب جو نقشہ تیار کیا گیا ہے اُس میں محض سڑکوں کے لییتیس فیصدی زمین مخصوص کر دی گئی ہے۔ ایک ہزار ایکڑ زمین میں سے اگر تین سو ایکڑ زمین سڑکوں کے لیے نکل جائے تو باقی سات سو ایکڑ زمین رہ جاتی ہے۔ پھر اڑھائی سو ایکڑ سفید زمین چھوڑ دی جائے گی۔ کیونکہ یہ گورنمنٹ کا قانون ہے۔ یہ کُل ساڑھے پانچ سو ایکڑ ہوئی۔ پھر سکولوں اور ہسپتالوں کے بغیر بھی شہر نہیں چل سکتا۔ اگر ہسپتال نہ ہوں تو بیمار تڑپ تڑپ کر ہی مر جائیں۔ سکول نہ ہوں تو بچوں کی عمریں ضائع ہو جائیں۔ ان سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کے لیے بھی ڈیڑھ دو سو ایکڑ کی ضرورت ہو گی۔ ساڑھے پانچ سو ایکڑ پہلے تھی اور ڈیڑھ سو ایکڑ یہ ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار ایکڑ میں سے سات سو ایکڑ نکل گیا اور صرف تین سو ایکڑ باقی رہ گیا۔ بلکہ حقیقتاً اڑھائی سو ایکڑ کے قریب زمین باقی رہ جاتی ہے اور اگر اسے سَو روپے فی کنال کی شرح سے فروخت کیا جائے تو اڑھائی لاکھ کی آمد ہو سکتی ہے۔ باقی گیارہ لاکھ کے اخراجات کو ن برداشت کرے گا۔ کیا جو شہر میں نہیں رہیں گے اُن سے یہ اخراجات لیے جائیںگے اور اُن سے کہا جائے گا کہ یہ اخراجات تم برداشت کرو؟ بے شک بعض مصلحتوں کی وجہ سے ہم ایسا کہہ بھی سکتے ہیں مگر اخراجات کا زیادہ بوجھ بہرحال شہر والوں پر ہی پڑناچاہیے نہ کہ باہر والے لوگوں پر۔ کُل اخراجات کا کم از کم ساڑھے تیرہ لاکھ کا اندازہ ہے۔ اس میں سے اڑھائی لاکھ شہر والے دیں اور گیارہ لاکھ باہر والے دیں۔ تو یہ بے انصافی کی تقسیم ہو گی۔ لازماً اخراجات کا بوجھ شہر والوں پر پڑے گا۔ جب اوسط قیمت پانچ سو روپے فی کنال ہو تب جا کر یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ اگرپانچ سو روپیہ فی کنال کی شرح سے یہ زمین بیچی جائے تو پھر جا کر یہ ساڑھے تیرہ لاکھ بنتا ہے۔ لیکن چونکہ سوا سو ایکڑ یا سو روپیہ کنال پر فروخت ہوئی ہے یا غرباء کو مفت دی گئی ہے مزید قابلِ فروخت زمین سترہ سو کنال رہ جاتی ہے جس میں سے چار سو کنال اَور سستے داموں دی گئی ہے۔ اس لیے تیرہ سو کنال باقی زمین رہ جاتی ہے۔ اگر اسے پانچ سو روپیہ کنال پر بھی فروخت کیا جائے تو کُل قیمت ساڑھے چھ لاکھ بنتی ہے۔ مگر کالجوں، سکولوں، سڑکوں، ہسپتالوں اور دوسرے قومی اداروں پر کم سے کم ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ یہ رقم کون دے گا؟ کیا لائل پور اور سرگودھا کے غیر احمدی چندہ کر کے یہ رقم دیں گے یا پنجاب اور سندھ کے احمدی؟ بہرحال اِس رقم کا بیشتر حصہ ربوہ میں بسنے والوں کو ہی دینا پڑے گا۔
پس یہ سیدھی سادھی بات ہے رعایت کا سوال ہی نہیں۔ یہ کم از کم اخراجات ہیں جن سے شہر بن سکتا ہے۔ یا تو شہر کو ویران چھوڑ دیا جائے اور یا اُس کے اخراجات کے لیے روپیہ مہیا کیا جائے۔ اب دوسرا اعلان کیا گیا ہے کہ300 کنال کا ایک ٹکڑا دو سو روپیہ فی کنال کے حساب سے فروخت کیا جائے گا۔ وہ لوگ جو مجھے کہتے ہیں کہ ہمیںایک سَو روپیہ فی کنال کی شرح سے ہی زمین لے کر دے دی جائے وہ یہی کہتے رہیں گے اور زمین ختم ہو جائے گی۔ اور پھر جب یہ زمین ختم ہو جائے گی اور زمین کی قیمت بڑھا دی جائے گی تو وہ میرے پاس آ جائیں گے اور کہیں گے حضور! ہماری سفارش کر دی جائے تاہمیں دوسَو روپے فی کنال کی شرح سے ہی زمین دے دی جائے۔ وہ ایسا ہی کہتے رہیں گے اور زمین کی قیمت اَور زیادہ ہو جائے گی اور قیمت تین سَو روپیہ فی کنال کی بجائے پانچ سو روپیہ فی کنال ہوجائے گی کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ پانچ سَو روپیہ فی کنال کی اوسط لائی جائے۔ اُس وقت یہ لوگ کہیں گے ہمیں تین سو پر ہی زمین دے دیجیے۔ آپ ہماری سفارش کریں۔ پھر اگلا اعلان نکلے گا اور وہ پھر آئیں گے حضور! زمین اب سات سو روپے فی کنال ہو گئی ہے آپ ہماری سفارش کیجیے تا ہمیں پانچ سو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین مل جائے۔ پھر اگلا اعلان ہو جائے گا۔ مثلاً ہزار روپیہ فی کنال کا اعلان کیا جائے گا تب یہ لوگ آئیں گے اور پچھلی قیمت پر زمین مانگیں گے۔ زمین کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ وہ خریدیں گے نہیں بلکہ ہر دفعہ یہی مطالبہ کرتے رہیں گے ہمیں پچھلی قیمت پر زمین دلائی جائے۔ زمین مہنگی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ جب ڈاکخانہ بن جائے گا، ریلوے اسٹیشن بن جائے گا، بجلی آ جائے گی اور شہر کی صورت بن جائے گی تو لازماً زمین مہنگی ہو گی۔ قادیان میں کئی لوگوں نے پانچ پانچ ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے بھی زمین خریدی ہے اور بیچی ہے۔ یہاں لاہور کے ایک غیراحمدی ایم۔ایل۔ اے نے مجھے کہا تھا کہ آپ مجھے زمین دلا دیں۔ دہلی کی ایک غیراحمدی عورت نے مجھے کہا تھا کہ ہمیں زمین دی جائے کیونکہ فسادات میں اگر ہمیں گھروں سے نکلنا پڑے تو ہم وہاںآجائیں۔ مَیں نے اُسے یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس جو آ جائے گا ہم اُسے ٹھہرا لیں گے۔ پہلے اگرہم قادیان میں ساٹھ ہزار افراد کو کھانا کھِلاتے رہے ہیں تو اُن کو بھی کھلا لیں گے۔ جگہ کے لیے مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ انجمن کا کام ہے۔ اِسی طرح ربوہ سے اطلاع آئی ہے کہ چکوال کے بعض تاجروں نے کہا ہے کہ ہمیں ربوہ میں زمین دی جائے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ وہاں زمین کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ جگہ کسی دن بڑی عظیم الشان منڈی بن جائے گی۔ اس لیے ہم بھی یہاں زمین خریدنا چاہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی نظر میں اِس زمین کی کتنی قیمت ہے مگرربوہ والے اورمتردّد احمدی سوچ ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر قیمت فرض کرو ڈیڑھ ہزار روپیہ فی کنال ہو جائے تب بھی یہ لوگ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمیں ایک ہزار میں ہی جگہ دلوائی جائے۔
پس یہاں قیمت کا سوال نہیں تردّد کا سوال ہے۔ ایسے لوگ ہر قدم پر تردّد اورتذبذب میںپڑتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اگر انہیں کہا جائے کہ مسجد میں نماز پڑھو تو وہ کہہ دیں گے مسجد دور ہے اس لیے ہم وہاں نہیں جا سکتے۔ پھر مسجد اُن کے گھر کے قریب ہی بنا دی جائے تو وہ کہیں گے کہ یہ بھی دور ہے۔ پھر اُن کے گھر ہی میں نماز کا انتظام کر دیا جائے تو وہ یہ بہانہ بنا دیں گے کہ ہمارے گھر میں جگہ نہیں نکل سکتی۔ پھر اُنہیں کہا جائے اچھاتم اکیلے ہی نماز پڑھ لیا کرو تو وہ کہہ دیں گے ہم سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔ اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کو کہا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم بیٹھ کر نماز پڑھنے میں بھی تھک جاتے ہیں۔ اور اگر کہا جائے اچھا لیٹ کر ہی نماز پڑھ لیا کرو تو وہ کہہ دیں گے کہ لیٹ کر نماز پڑھنے سے ہمیں شرم آتی ہے۔ غرض ایسے لوگ کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں میں تذبذب اور تردّد پایا جاتا ہے۔ جتنا گُڑ ڈالو گے اُتنا ہی میٹھا ہو گا۔ اگر ہم نے نیا مرکز بنا کر تبلیغ کرنی ہے تو اس کے لیے سامان بھی مہیا کرنے ہوں گے جن سے اُس کے متمدن شہروں سے تعلقات ہوں۔ اگر ہم یونہی جھونپڑیاں بنا لیں، وہاں نہ ریل ہو نہ ڈاک کا انتظام ہو، نہ ہسپتال اور نہ سکول کالج تو پھر جو شہر بنانے کی غرض تھی وہ پوری نہیں ہوتی۔ اگر ہم نیا مرکز بنائیں گے تو بہرحال ہمیں اُسے ایسا بنانا پڑے گا کہ اُس کے تعلقات دوسرے شہروں سے وسیع سے وسیع ترہوتے چلے جائیں ورنہ رہائش کا انتظام تو دوسرے شہروں میں بھی ہو سکتا ہے۔
قادیان میں جب مَیں نے ٹیلیفون کا انتظام کیا تھا اُس وقت کئی لوگوں نے کہا تھا کہ بھلا اِس کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے اُنہیں یہی کہا تھا کہ یہ انتظام اِس لیے کیا گیا ہے تا ہمارے تعلقات دوسرے شہروں سے زیادہ ہوں۔جب تار کا بندوبست کیا گیا اور گورنمنٹ نے کہا کہ ہمیں گارنٹی دو کہ یہاں کافی آمد ہو گی اُس وقت بھی کئی لوگ یہ کہتے تھے بھلا اِس کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے انہیں بھی یہی جواب دیا تھا کہ یہ انتظام اِس لیے کیا جا رہا ہے تا دوسرے شہروں سے ہمارے تعلقات زیادہ ہوں۔ مَیں نے وہ گارنٹی جبراً دلوائی تھی لیکن پہلی ششماہی میں ہی گورنمنٹ نے کہہ دیا تھا کہ آمدن زیادہ ہو رہی ہے اس لیے گارنٹی واپس لے لو۔
بہرحال ہمیں اِس جگہ کو بھی شہر کی صورت میں بدلنا ہو گا تا کہ لوگ اِس میں رہ سکیں۔ آخرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کو وَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ میں ہی بسایا تھا اوریہ آپ کی بڑی قربانی کی تھی۔ اُس وقت آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اَے خدا! یہاں گندم نہیں ہوتی تُو انہیں گندم دے، یہاں جانوروں کے لیے چارہ نہیں پیدا ہوتا تُو انہیں چارہ دے۔ بلکہ آپ نے کہا اے خدا! تُوانہیں پھل کھِلا، ایسا انتظام کر کہ یہاں کیلا، انار، انگور اور دوسرے پھل پہنچیں۔ آپ نے یہ نہیں کہا اے خدا! اُرْزُقْھُمْ بِالْحِنْطَۃِ تُو انہیں گندم کھِلااُرْزُقْھُمْ بِالشَّعِیْرِتُوانہیں جَو کھلا۔ بلکہ آپ نے کہا کہ اے خدا! تُو انہیں کھانے کو پھل دیجیٔو۔ آپ میں چونکہ اس کی طاقت نہیں تھی اس لیے آپ نے خدا تعالیٰ سے کہا اے اللہ! مجھ میں تو طاقت نہیں تُو یہ چیزیں مکہ میں لا۔ مَیں نے جو پھل مکہ میں کھائے ہیں وہ کسی اَور جگہ نہیں کھائے۔ گنّا دیکھو کتنا وزنی ہوتا ہے اور اِس کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا مشکل ہوتا ہے مگر مَیں نے وہاں گنّا کھایا ہے اور وہ نہایت لذیذ تھا۔ مَیں نومبر میں حج کے لیے گیا تھااور شاید دسمبر میں یا نومبر کے آخر میں حج ہوا تھا۔ پھر مَیں نے وہاں انار کھائے ہیں جو کسی اَور جگہ نہیں کھائے، انگور کھائے ہیں جو کسی اَور جگہ نہیں کھائے۔ وہ نہایت ہی شیریں تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی اے خدا! مَیں اپنی اولاد کو یہاں بسا رہا ہوں تُو اس جگہ کو اتنا آرام دہ بنا دے کہ وہ انار اور انگور وغیرہ پھل کھایا کریں۔
غرض جب بھی کوئی شہر بسایا جائے گا، جب بھی کوئی مرکز بنایا جائے گا تو اُس کے لیے ایسے سامان مہیا کیے جائیں گے جو اس سے وابستگی کا موجب ہوں اور اس کے دوسری دنیا سے تعلقات ہوں۔ وہاں رہنے والوں کے لیے دلجمعی کے سامان بہم پہنچائے جائیں گے۔ فرض کرو ملیریا ہو جائے اور وہاں ہسپتال نہ ہو تو لوگ وہاں کیسے رہیں گے؟ سکول اور کالج نہ ہوں تو وہاں رہنے والوں کو دلجمعی کہاں ہوگی؟ اور پھر قوم کے لڑکے علم حاصل کیسے کریں گے؟ ڈاکخانہ نہ ہو تو تبلیغ کیسے ہو گی؟ تاریں بندہوں تو ملک کے حالات جلدی جلدی کیسے معلوم کیے جا سکتے ہیں؟ ریل نہ ہو تو لوگ وہاں کیسے پہنچیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بے شک یہ الہام تھا کہ لوگ تیرے پاس اتنی کثرت سے آئیں گے کہ زمین گھِس جائے گی۔1 لوگ کثرت سے آئے اور وہ گھِس بھی گئی۔ لیکن وہاں کتنے آدمی چل کر آئے تھے؟آخری جلسہ سالانہ پر صرف سات سو آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لیے گئے تو ہجوم کی ٹھوکروں سے پاؤں سے جُوتی نکل جاتی اور سوٹی گر گر جاتی تھی۔ آپ ریتی چھلّے تک گئے اور پھر واپس آ گئے۔ آپ نے فرمایا نبی اُس وقت تک دنیا میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے سلسلہ کی بنیاد قائم نہیں کر لیتا۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ اور آپ اگلے سال فوت ہو گئے۔ بہرحال آخری جلسہ پر صرف سات سو آدمی تھے لیکن ریل کے بعد وہاں آنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ پچھلے سے پچھلے سال جو ہمارا جلسہ ہوا ہے اُس میں باہر سے آنے والوں کی تعداد تیس ہزار سے اوپر تھی۔ اور یہ وہ تعداد ہے جو ریل والوں نے بتائی تھی کہ اتنے آدمی ریل کے ذریعہ سے یہاں پہنچے ہیں۔ اردگرد کے علاقہ سے دوسرے ذرائع سے وہاں پہنچنے والوں کی تعداد الگ تھی۔ ان سہولتوں کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن ضروریات کو مہیا کیا جائے۔ اور ضروریات کا مہیا کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو اُس شہر میں رہیں گے۔
متذبذب اور متردّد لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید قادیان کل ہی مل جائے۔ اگر ہمیں قادیان مل جائے تو نئے مرکز کی کیا ضرورت ہے۔ قادیان کل تو کیا مَیں کہتا ہوں آج ہی مل جائے۔ لیکن ’’ملے گا‘‘ اور’’ مل جائے گا‘‘ میں بہت بڑا فرق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد آٹھ سال تک انتظار کرنا پڑا۔ آٹھویں سال جا کر مکہ فتح ہوا۔ فرض کرو ہمیں بھی آٹھ سال لگ جائیں تو پھر کیاہوا ہمیں ابھی ایک ہی سال ہوا ہے اور ہمارے سینکڑوں طالبعلم آوارہ ہو گئے ہیں۔ ان کے والدین تلاشِ مکان میں نکل گئے اور وہ آوارہ ہو گئے۔ اب اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے بھی آٹھ ہی سال مقرر کیے ہوں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم اگلی ایک نسل کو آوارہ اور تباہ کر دیں؟پھر آٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد نئے سرے سے جماعت کو بنانا نہایت مشکل ہے۔ مرکز رکھنے والی جماعتیں ایک دن بھی مرکز کے بغیر ترقی نہیں کر سکتیں۔
پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عارضی چیزوں کے لیے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہیے اُنہیں خود اگر کراچی جانا ہوتا ہے تو اِس چوبیس گھنٹے کے سفر کے لیے وہ بجائے تھرڈ کے انٹر یا سیکنڈ کا ٹکٹ لیتے ہیں بلکہ وہ اپنے نفس کے آرام کے لیے دو گھنٹے کے سفر کے لیے بھی تھرڈ کا ٹکٹ نہیں لیتے تا کام بھی جلد ہوجائے اور نفس کو آرام بھی رہے۔ لیکن جب خدا تعالیٰ کا سوال آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں آٹھ سال آوارہ پھرو۔ اگر عارضی چیز کوئی چیز نہیں تو تم انٹر اور سیکنڈ کلاس میں سفر کیوں کرتے ہو؟ اگر تم اس طرح سفر کرنے کو نفس کے آرام کے لیے ضروری سمجھتے ہو تو سلسلہ کے آرام کے لیے ان اخراجات کے کرنے کی کیوں ضرورت نہیں؟یہ تو ایک واقعہ ہے جو شخص اس کی اہمیت اور عظمت کو جانتا ہے اور اس کی برکتوں کو جانتا ہے اسے اگر دس مرتبہ بھی مرکز چھوڑنا پڑے تو وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ فرض کرو ہم ربوہ میں جائیں اور وہاں شہر بنا لیں۔ پھر ہمیں کہا جائے کہ یہ جگہ چھوڑ دو اور یہاں سے چلے جاؤ تو پھر بھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ ہم دو دفعہ اُجڑ چکے ہیں اِس لیے ہم کوئی اَور جگہ نہیں بنائیں گے بلکہ ہم تیسرا شہربسالیں گے۔ اور اگر وہاں سے بھی نکال دئیے جائیں گے تو ہم چوتھا شہر بسا لیں گے۔ اور اگر وہاں سے بھی نکال دئیے جائیں اور ہمیں جنگل میں جانا پڑے تو ہم وہاں بھی شہر ہی بسائیں گے آوارہ نہیں پھریں گے۔
ہمارے اندر تو دین ہے۔ بابر دنیا دار اور شراب خور تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ’’ تزک‘‘ 2میں اس نے اپنی شراب خوری کا بھی ذکر کیا ہے۔ گو مَیں نے نہیں پڑھا۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ جب اُس کی قبائل سے لڑائی ہوئی تو اسے بار بار شکست ہوئی۔ گیارہ بار شکستیں کھا جانے کے بعد اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا اب کیا کرنا ہے۔ اب تم اپنے اپنے گھر چلے جاؤ۔ اس نے اُن سب کو بھیج دیا۔ ایک دن وہ پاخانہ میں گیا۔ وہاں ایک چیونٹی آ گئی جو گندم کا ایک دانہ لے کر دیوار پر چڑھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں وہ گر گئی۔ وہ دوبارہ چڑھنے لگی لیکن پھر گر گئی۔ اس طرح وہ چالیس سے زیادہ دفعہ گری۔ آخر غالب آئی اور اپنے منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ بابر کو یہ واقعہ پسند آیا۔ وہ پاخانہ سے باہر نکلا اوراُس نے اپنے ساتھیوں کو پھر جمع کیا اور کہا پہلے غلطی ہو گئی تھی آؤ پھر کوشش کریں۔ ہم ضرور فتح پائیں گے۔ چنانچہ بارھویں دفعہ اُس نے پھر حملہ کیا اور وہ سارے ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔
پھر مکھیوں کو دیکھو! وہ شہد بناتی ہیں اور بناتی چلی جاتی ہیں لیکن انسان انہیں کھانے نہیں دیتا۔ وہ ان کے نیچے دھواں رکھ کر گرم پانی پھینک کر یا کوئی اَور ذریعہ اختیار کر کے اُن کا چھ ماہ کا بنایا ہوا شہد اُڑاکر لے جاتا ہے۔ وہ مکھیاں دو منٹ کا بھی انتظار نہیں کرتیں۔ وہ اُس جگہ کے چھوڑ دینے کے بعد دوسری جگہ تلاش کر لیتی ہیں اور دوبارہ شہد بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک گھنٹے کے بعد اگر انہیں آ کر دیکھو تو وہ قریب ہی کسی جگہ شہد بنانے میں مشغول ہوں گی۔ بعض دفعہ اُن سے سالہا سال تک ایسا کیا جاتا ہے مثلاً پالتو مکھیاں ہوتی ہیں۔ وہ جب بھی شہد بنا لیتی ہیں شہد اُڑا لیا جاتا ہے اور انہیں اپنا بنایا ہوا شہد کھانے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ شہد بناتی ہیں اور لوگ شہد لے جاتے ہیں۔ اگر ایک مکھی شہد بناتی ہے اس لیے کہ اُسے لوگ لے جائیں اور اُس سے بیماریاں دور ہوں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یا پھر اگر ایک مکھی شہد بناتی ہے اور بناتی چلی جاتی ہے اور لوگ اُس کے پاس شہد نہیں رہنے دیتے وہ ہمیشہ اُڑا لے جاتے ہیں اور وہ مکھی پھر بھی شہد بنانا نہیں چھوڑتی۔ تو کیا انسان ہی ایسا ضعیف ہے کہ وہ اس طرح مایوس ہو جائے؟ جو شخص اپنی کوشش میں ناکام ہو جانے کے بعد ہمت چھوڑ بیٹھتا ہے وہ آدمی نہیں۔ وہ چیونٹیوں اور مکھیوں سے بھی بدتر ہے۔
دنیا کی فتح کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک لوگوں کے اخلاق درست نہیں ہوئے اور وہ اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے۔ اگر وہ اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے تو خواہ ان سے ہزار دفعہ مال بھی چھین لیا جاتا تو وہ اس کی پرواہ نہ کرتے۔ کم از کم مکھی جتنی تو ان میں ہمت ہوتی۔ مگر کیا ایسا ہوا ہے؟ اگر مَیں کہوں کہ کل سورج نہیں چڑھے گا تو خواہ آپ مجھے خلیفہ مانتے ہیں، آپ نے میری بیعت کی ہوئی ہے مگر آپ کہیں گے کہ شاید ہم نے آپ کی بات نہیں سمجھی۔ یا کئی ایسے ہوں گے جو کہہ دیں گے کہ یہ دیوانے ہو گئے ہیں۔ایسا کیوں ہو گا؟ اس لیے کہ سورج روز چڑھتا ہے۔ یا گرمی چھٹے مہینے آتی ہے، سردی چھٹے مہینے آتی ہے۔ وہ ضرور آئے گی۔ پھر پھل اور غلّہ ہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ضرور ہو گا خواہ کم ہو یا زیادہ وہ ہو گا ضرور۔ اِسی طرح نبی بھی تو ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے ہیں4مگر کیا کوئی ایسی روایت بھی آئی ہے کہ کوئی نبی ہارا ہو؟ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا۔ پھر تم نے یہ کیسے خیال کر لیا کہ تمہارے لیے ہمیشہ تباہی ہی چلتی جائے گی۔ ایک دفعہ کیا خواہ دس دفعہ ایسا ہو بِالآخر جیت ہماری ہی ہوگی۔ یہی خدا تعالیٰ کا قانون ہے جو بدل نہیں سکتا۔یہی خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور خدا تعالیٰ کی سنت کو بدلنے والا کوئی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جب بھی اُس کا کوئی رسول آتا ہے وہ بِالآخر غالب ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے 5مجھے اپنی ذات کی قسم مَیں اور میرے مامور ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہ تو صرف خدا تعالیٰ ہماری آزمائش کرتا ہے کہ یہ کتنے عرصہ تک ایمان پر قائم رہتے ہیں۔ انبیاء آتے ہیں اور ان کے ماننے والوں پر مصائب پر مصائب آتے ہیں۔ لوگ حیران ہو جاتے ہیں اور کہہ اُٹھتے ہیں َمتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی نصرت کب آئے گی؟ اور اُسی وقت ہی خدا تعالیٰ کی نصرت آ جاتی ہے۔
عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان پر اتنے ظلم ہوئے اور اتنے مصائب نازل ہوئے کہ اُن کا لاکھواں حصہ بھی ہمیں برداشت نہیں کرنا پڑا۔ ہم جب مثال دیتے ہیں کہ ہمارے اتنے آدمی قتل ہوئے ہیں تو ہم پانچ سات سے زیادہ نہیں گن سکتے۔ وہاں مشرقی پنجاب کے فساد میں چند سو احمدی مارے گئے ہیں مگر عیسائی لاکھوں لاکھ قتل ہوئے۔ ایک ایک دو دو ہزار تو ایک ایک بستی میں مارے جاتے تھے لیکن پھر بھی وہ بڑھتے چلے گئے۔ مکھیوں کی طرح اُنہیں یقین تھا کہ ہمارا فرض ہے کہ ایک عمارت گرے تو دوسری تعمیر کریں۔ تم بے شک مارتے چلے جاؤ اِس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔ آخریہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ انہیں غاروں میں چھپنا پڑا۔ مَیں نے وہ غاریں خود دیکھی ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے انہیں سات سات آٹھ آٹھ سال تک ان غاروں میں رہنا پڑا۔ ہم اگر پانچ منٹ وہاں ٹھہریں تو ایک وحشت سی ہوتی ہے۔ آخری جگہ اسّی فٹ نیچے یعنی پانی سے بھی نیچے تھی جس جگہ تک ہم گئے تھے وہ کوئی چالیس پچاس فٹ نیچے ہو گی۔ وہاں تک پہنچ کر ہی ہمارے ساتھیوں نے شور مچا دیا تھا کہ جلد باہر چلو لیکن وہ لوگ وہاں سالہا سال تک رہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں ہم نے کتبے لگے ہوئے دیکھے۔ کسی پر لکھا ہوا تھا میری پیاری بیوی اور ساتوں بچے جو اس مکان میں رہتے تھے یہاں قتل کر دئیے گئے اب اُن کی یا د گار کے طور پر مَیں یہاں کتبہ لگاتا ہوں۔ کہیں لکھا تھا ہمارے گرجے کے پادری یہاں دعا کر رہے تھے کہ پولیس نے چھاپہ مارا اور انہیں قتل کر دیا۔ اِس جگہ ہمارے قبیلے کے چالیس آدمی چھُپے ہوئے تھے کہ پولیس کو پتہ لگ گیا اور انہیں مار دیا گیا۔ اِس طرح کئی کتبے لگے ہوئے تھے۔ وہ لوگ وہاں چھُپے رہے یہاں تک کہ تین سو سال گزر گئے۔ وہ اکثر غاروں میں ہی چھپے رہتے تھے۔ ہر طرف دنیا انہیں مار رہی تھی، ملک کے سارے حصوں میں اُن کے آدمی قتل کیے جا رہے تھے۔ اُن کا سَوسَو دو دو سو آدمی ہر روز قتل کیا جاتا تھا۔ ایک دن وہ نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ آدمی آئے اور انہوں نے کہا تم شہر چلو۔ بادشاہ عیسائی ہو گیا ہے اور اس نے اعلان کر دیا ہے کہ ملک کا مذہب عیسائیت ہو گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پہنچے ۔مکہ والے یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ اُن پر حملہ آور ہوں گے۔ ابوسفیان ابھی خود آپ سے مدینہ میں مل کر آ رہا تھا۔ جب لوگوں نے آپ کا لشکر دیکھا تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ ابوسفیان نے کہا تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟ مَیں ابھی خود دیکھ کر آیا ہوں وہاں کوئی لشکر تیار نہیں ہوا تھا۔ اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان اُس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا۔
غرض خدا تعالیٰ کی نصرت اچانک آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تو خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً6 خدا تعالیٰ کی مدد اچانک آئے گی۔تم آج قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی۔ تم کل قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی۔ تم شام کو یہ خیال نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی۔ تم تہجد کے لیے اٹھو گے تو تم خیال کر رہے ہو گے کہ ابھی منزل باقی ہے۔ صبح کی نماز پڑھ رہے ہو گے تو مصائب پر مصائب تمہیں نظر آ رہے ہوں گے مگر جونہی سورج نظر آیا خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے پاس پہنچ جائے گی اور تمہارے دشمن کے لیے ہر طرف مصائب ہی مصائب ہوں گے۔ ایک ربوہ کیا، ایک قادیان کیا قادیان کا ہمیں بے شک احترام ہے مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کی خاطر ہمیں دس ہزار قادیان بھی قربان کرنا پڑے تو ہم قربان کر دیں گے۔ اُس کے سامنے اِس کی کوئی حیثیت نہیں۔
مثنوی والوں نے کہا ہے کہ ایاز کے خلاف لوگوں نے محمود کے پاس شکایتیں کیں کہ وہ اس کا دشمن اور بدخواہ ہے۔ بادشاہ نے کہا کیا یہ ٹھیک ہے کہ وہ میرا بدخواہ ہے؟ وزیروں نے کہا ہاں! اگر آپ چاہیں تو اس کا امتحان کر لیں۔بادشاہ کے پاس ایک قیمتی موتی تھا۔ وہ اُسے بے انتہا پسندکرتا تھا اور وہ دوسرے ممالک کے سفیروں کو بھی دکھایا کرتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ایسا موتی ہمارے بادشاہوں کے پاس نہیں ہے اور اس موتی کی وجہ سے اس کی بہت عزت تھی۔ بادشاہ نے خزانچی کو حکم دیا کہ وہ موتی لے آؤ اور ایک ہتھوڑا بھی ساتھ لاؤ۔ اُن دنوں سات وزیر ہوتے تھے۔ اُس نے اپنے ساتوں وزیروں سے کہا کہ اِس موتی کو توڑ ڈالو۔ وزیروں نے کہا ہم حضور کے خیرخواہ ہیں، نمک خوار ہیں،ساری عمر ہم آپ کے احسانات کے نیچے رہے ہیں۔ اب ہم آپ کے بدخواہ کیسے بن جائیں۔ اِس موتی کی وجہ سے آپ کی دوسرے بادشاہوں میں شہرت ہے اور ہم اسے توڑ دیں؟ بادشاہ نے کہا آپ نے بہت اچھا کیا۔ پہلے یہ وزیراعظم نے کہا اور پھر سب وزیروں نے یہ بات دہرانی شروع کر دی۔ جب ساتوں وزیر یہ بات کہہ چکے تو بادشاہ نے ایاز کو بلایا اور کہا اسے توڑ دو۔ ایاز نے جیسے کرکٹ کے بلّے کے ساتھ گیند کو مارا جاتا ہے ہتھوڑا مار کر موتی چِکناچُور کر دیا۔ وزیروں نے کہا کیا ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ آپ کے بدخواہ ہیں؟ بادشاہ نے ایاز سے کہا کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ موتی لاکھوں لاکھ کا ہے؟ اس نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے۔ پھر بادشاہ نے پوچھا کیا تُو نے سنا ہے کہ اِس موتی کی وجہ سے میری دوسرے بادشاہوں میں بہت عزت تھی؟ ایاز نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے۔ بادشاہ نے کہا پھر تم نے اِس موتی کو کیوں توڑ دیا؟ ایازنے کہا بادشاہ کی اطاعت کے مقابلہ میں ایک موتی تو کیا ہزار موتی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ بادشاہ کا تین چار لاکھ کا قیمتی موتی تو ٹوٹ گیا مگر ایاز جیسا قیمتی موتی ظاہر ہو گیا اور اس کی قیمت ظاہر ہو گئی۔ وزراء کو ماننا پڑا کہ ایاز قابلِ قدر تھا۔ ہمارا اس طرف ذہن نہیں گیا۔
پس قادیان ہمیں پیارا ہے۔ حقیقت میں ہماری محبتیں اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عزت اس سے بہت زیادہ قیمتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جمع ہوکر اپنا کام کرنا شروع کر دیں اور اگر سَو دفعہ بھی ہمیں مرکز چھوڑنا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے لامرکزیت کے توڑنے کے لیے بھیجا ہے۔ آپ کا کام مرکز کو قائم کرنا ہے۔ اس لیے یہ ایک اہم چیز ہے۔ ہمارا دائمی مرکز اگرچہ قادیان ہے مگر جب وہ فتح ہو گا تو کون ہو گا جو ہمیں وہاں جانے سے روک سکے اور ہم نہ جا سکیں؟
پھر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اس شہر کا کیا بنے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں خود مختلف مراکز کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر علاقہ میں مرکز کی ضرورت ہے۔ اور پھر دوسرے لوگ دگنی تگنی قیمت دے کر بھی یہ جگہ لینے کو تیار ہو جائیں گے۔ لیکن مَیں کہتا ہوں اگر کوئی یہ قیمتیں نہ بھی دے تو کیا ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے مکان بھی اس کی خاطر پیش کر دیں؟ فرض کرو ہمیں قادیان مل جائے اور ہمیں یہ جگہ چھوڑنی پڑے تو کیا وہ شخص جو اس کے چُھوٹ جانے کا اتنا صدمہ محسوس کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ نئے مرکز کی ضرورت نہیں، عارضی مرکز کی ضرورت نہیں کیا اُس کے دل میں قادیان کی اتنی بھی محبت نہیں ہو گی کہ وہ اس کی خاطر اپنا مکان قربان کر دے؟ پس اگر قادیان واپس مل جائے تو ہمیں ان مکانات کی زیادہ قیمتیں مل سکیں گی۔
پھر روحانی نظریہ سے لو، اگر ہمیں یہ مکان چھوڑنے پڑیں تو ہزار دفعہ چھوڑنے پڑیں جہاںانسان کی محبت کی چیز ہوتی ہے وہاں انسان والہانہ طور پر جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں جب مَیں قادیان سے باہر جاتا تھا اُس وقت ریل وغیرہ نہیں ہوتی تھی۔ میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا واقعہ ہوا ہے بچپن کی وجہ سے مَیں پہلا واقعہ بھول جاتا تھا۔ اُس وقت بٹالہ قادیان میں اِکّے چلتے تھے۔ جب کبھی مَیں بٹالہ سے قادیان جاتا اور قادیان قریب آ جاتا تھا تو مجھے محبت کی وجہ سے جوش آ جاتا۔ مَیں خیال کرتاتھا کہ اِکّا والا گھوڑے کو تیز نہیں چلاتا۔ یہ شرارت کرتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مَیں اِکّا چھوڑ کر پیدل دوڑ پڑا۔ مگر جب گھوڑا آگے بڑھا تو مَیں پھر اِکّا پر بیٹھ گیا اور اپنی غلطی محسوس کی اور ایسا متواتر ہوا۔ ایسا ہی اَور دوسرے دوست محبت میں کرتے تھے۔ جب قادیان ملے گا تو ہم مکانوں کی پروا نہیں کریں گے۔ ہم مکانوں کو خدا پر چھوڑ دیں گے اور وہاں دوڑ کر پہنچیں گے۔ جو شخص اپنی چیز کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے وہ کبھی گھاٹا نہیں کھاتا۔ اِس تذبذب اور تردّد کا باعث بے ایمانی ہے۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں جانے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ظاہر میں اگرچہ نقصان نظر آتا ہے مگر اصل میں نقصان نہیں ہوتا۔
تم لوگ تو بیعت میں داخل ہو۔ جو لوگ بیعت میں شامل نہیں تھے وہ بھی ایسے خیال دل میں نہ لاتے تھے۔ چاچڑاں شریف والے بزرگ جو بہاولپور کے نوابوں کے پیر تھے وہ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نواب صاحب بھی وہاں تھے۔ اُس وقت آتھم کی پیشگوئی کا وقت گزر گیا تھا۔ اُس مجلس میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ پیشگوئی کا وقت گزر گیا ہے آتھم نہیں مرا، مرزا ذلیل ہوا ہے۔ پیرصاحب جیسا کہ اُن کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ مگر بیعت نہیں کی تھی۔ تھوڑی دیر تو آپ خاموش رہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا، آپ کی آنکھوں میں ایک اضطراب کی حالت تھی۔ آپ نے فرمایا کون کہتا ہے کہ آتھم نہیں مرا۔مجھے تواُس کی لاش نظر آ رہی ہے۔ پھر انہوں نے نواب صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال ہے۔ مرزا صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی عزت کا سوال نہیں۔ مرزا صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے مقابلہ کیا ہے تو اسلام کی خاطر کیا ہے۔ مرزا صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی دشمنی میں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھُول گئے ہو۔ نواب صاحب چونکہ آپ کے مرید تھے اس لیے وہ مرعوب ہو گئے۔ اگرچہ آپ کو بیعت کی توفیق نہیں ملی تھی۔ مگر انہیں نظر آ رہا تھا کہ آتھم روحانی طور پر مر چکا ہے۔
تم تو مومن ہو۔ قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں۔ ہاں وہ اپنی شکل بدل سکتی ہیں۔ لوہا جب مارا جاتا ہے تو وہ کشتہ بن جاتا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ لوہا ضائع ہو گیا۔ بلکہ اس نے اپنی شکل بدل لی ہے اور پہلے سے زیادہ قیمتی ہو گیا ہے۔ اِسی طرح اگر تمہاری قربانیاں ضائع بھی ہوجائیں تو وہ کشتہ کی صورت اختیار کر لیں گی۔ اور اگر وہ کشتہ کی صورت اختیار کر لیں گی تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضائع ہو گئی ہیں۔ سونے کی قیمت پہلے کیا تھی؟ یہی بیس پچیس روپے فی تولہ تھی مگر ان دنوں میں بھی سونے کا کشتہ سواسو روپیہ فی تولہ بِکتا تھا۔ کون کہتا تھا کہ سونا ضائع ہوگیا ہے بلکہ اس کی قیمت پہلے سے دگنی تگنی ہو جاتی تھی۔ اِسی طرح ظاہر میں تو انسان کو نقصان نظر آتا ہے لیکن اگر روحانی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے۔ درحقیقت زندہ وہی ہے جو روحانی طور پر زندہ ہے اور بینا وہی ہے جو روحانی طور پر بینا ہے"۔
(الفضل 30جنوری 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم
2
:
تزک : ہندوستان کے پہلے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کی تصنیف ’’ تزک بابری‘‘ جس میں اس نے ترکی زبان میں اپنے بچپن سے لے کر آخری دنوں تک کے حالات درج کئے ہیں (اسلامی انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ تزک ۔ لاہور 2000ئ)
3
:
النحل:70
4
:
مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 265، 266 ۔
5
:
المجادلۃ:22
6
:
تذکرہ صفحہ 307 ایڈیشن چہارم

ربوہ میں خرید اراضی کے متعلق بعض غلط فہمیوں کا ازالہ
(فرمودہ29؍اکتوبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جیسا کہ مَیں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ میری طبیعت کئی دنوں سے خراب چلی آرہی ہے اور جو حالت پچھلے دو تین دن میں رہی ہے اس وجہ سے تو دن کا اکثر حصہ مجھے چارپائی پر ہی لیٹ کر گزارنا پڑتا رہا۔ سر چکراتا رہتا ہے اور بعض دفعہ نبض بہت کمزور ہو جاتی ہے۔ ابھی تک بیماری کی پوری طرح حقیقت نہیں کُھلی۔ زیادہ تر خیال اِس طرف جاتا ہے کہ یہ بواسیر کی تکلیف ہے اور ساتھ ہی جگر اور معدے میں بھی تکلیف معلوم ہوتی ہے مگر ایک تو جمعہ سات دن میں ایک دفعہ آتا ہے اور دوسرے مَیں نے یہ سمجھا کہ چونکہ روزانہ نمازوں میں دوستوں سے ملنے کا موقع نہیں ملتا رہا اس لیے جمعہ کی نماز مجھے مسجد میں ضرور ادا کرنی چاہیے۔ اس لیے مَیں اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر جمعہ کے لیے آگیاہوں۔
سب سے پہلے تو مَیں اس محلہ کے رہنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں کے نئے مبلغ نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ اس محلہ میں چھیانوے خاندان ہیں۔ ان میں سے نماز باجماعت کے لیے مسجد میں صرف ایک یا دو آدمی آتے ہیں۔ یہ حالت نہایت افسوسناک ہے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ اس محلہ کے رہنے والے احمدیوں میں سے بعض ایسے ہیں جو بہت ہی پرانے احمدی ہیں۔ مجھے میاں چراغ دین صاحب مرحوم کی بات یاد ہے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ ان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اتنے پرانے تعلقات تھے کہ وہ میری پیدائش کے موقع پر جو آپ کے دعوٰی مسیحیت سے دوسال قبل ہوئی میرے عقیقے پر قادیان گئے تھے۔ آپ سنایا کرتے تھے کہ اُس دن اتنی سخت بارش ہورہی تھی کہ اس کی وجہ سے ہم راستہ میں رک گئے۔ پانی بہت زیادہ چڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے راستہ بند ہو گیا تھا۔ ہم میں سے بعض کوشش کر کے قادیان پہنچ گئے اور بعض کو واپس لَوٹنا پڑا۔ گویا اس خاندان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تعلق ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصہ کا ہے۔ ایسے خاندان کو تو روز بروز اپنے روحانی تعلقات میں بڑھنا چاہیے تھا نہ یہ کہ بجائے ترقی کرنے کے وہ آگے سے بھی گر جاتے۔ نماز تو ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر انسان کے اندر دین پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جو شخص سوائے معذوریوں کے نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتا یا جو بالکل نماز نہیں پڑھتا وہ کسی صورت میں بھی مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز دراصل انسان کی ہمت پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ہمت کر لیتا ہے اور فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس نے فلاں کام کرنا ہے تو وہ کر لیتا ہے۔ پس پہلے تو مَیں اس محلہ کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کریں اور مسجد کو آباد کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کام اپنے ذمہ لے لے کہ وہ لوگوں کو ترغیب دلا کر مسجد میں لایاکرے گا۔ اور خواہ اسے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ہی لانا پڑے وہ انہیں لا لا کر نماز باجماعت ادا کروائے یہاں تک کہ انہیں نماز کی چاٹ پڑ جائے۔چاٹ پڑنے کے بعد اگر کوئی ان سے یہ کام چھُڑوانا بھی چاہے گا تو وہ نہیں چھوڑیں گے۔
اس کے بعد مَیں دوسرے محلے کے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض محلوں میں نماز باجماعت کا کوئی انتظام نہیں۔ محلے کی جماعت نے کوئی ایسا کمرہ مقرر نہیں کیا جس میں روزانہ نماز باجماعت ادا کی جائے۔ اور جن محلوں میں مسجدیں ہیں ان میں بھی دس فیصدی کے قریب لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں باقی نہیں آتے۔ مَیں بھی حیران تھا کہ جماعت لاہور کی بعض معاملات میں کمزوری کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ خدائی تعلق کی طرف سے غفلت برتی جاتی ہے اور جب خدائی تعلق ہی نہ رہے تو محبت آپ ہی آپ ختم ہو جاتی ہے۔ اصل منبع تو خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ ساری طاقت اور قوت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے۔ جب خدا تعالیٰ کی محبت کمزور ہو جاتی ہے تو باقی کاموں میں بھی کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ سو مَیں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ احمدیت سے واقع میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں بلکہ کہتا ہوں اگر وہ واقع میں موت کے بعد نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں نمازوں کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔ یہ حُسنِ ظنی رکھ لینا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آئے ہیں یا کچھ چندے دے دیتے ہیں اور وہ بھی کانے چندے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہم جنت کو حاصل کر لیں گے یہ بے وقوفی اور حماقت ہے۔ جنت میں چلے جانا معمولی بات نہیں۔ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان موت قبول کرلے۔ اور یہ تو ایک چھوٹی سے چھوٹی موت ہے جو اِس موت کو قبول کر لیتا ہے اور پانچ وقت سوائے معذوری کے نماز باجماعت ادا کرتا ہے اور اپنی اولاد اور خاندان کے دوسرے ممبروں کو بھی نماز کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے تو وہ پہلی قربانی پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد اُسے مزید قربانی کی توفیق مل جاتی ہے۔
اس کے بعد مَیں اس مضمون کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں جو مَیں نے گزشتہ جمعہ میں بیان کیا تھا یعنی ربوہ کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میرا توخیال تھا کہ میرا خطبہ اتنا واضح ہے کہ اس سے لوگوں کے شکوک دور ہو گئے ہوں گے اور ان کی اصلاح ہو گئی ہو گی مگر معلوم ہوا ہے کہ اس سے لوگوں کے اندر اَور بھی وہم پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تو وہی بات ہے1وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ مثلاً اس خطبہ میں مَیں نے یہ بیان کیا تھا کہ قادیان کے لوگوں نے اس طرف اتنی توجہ نہیں کی جتنی توجہ انہیں کرنی چاہیے تھی۔ میرا اِس سے یہ منشا تھا کہ مَیں قادیان والوں کی رگِ حمیّت کو بھڑکاؤں لیکن صدر انجمن احمدیہ کے وہ کارکن جن کے پاس ریکارڈ ہمیشہ رہتا ہے صرف عارضی طور پر دیکھنے کے لیے مَیں اُن سے منگواتا ہوں پھر وہ واپس انہی کے پاس چلا جاتا ہے۔ ان میں بھی بعض شبہات پیدا ہوگئے ہیں اور انہوں نے بعض اعتراضات کیے ہیں۔ نظارت کے ارکان جن کے سامنے سارا ریکارڈ رہتا ہے اگر ان میں سے بعض اپنے کاغذات بھی نہیں پڑھ سکتے تو پھر اِس سے زیادہ افسوس کی بات اَور کیا ہو گی؟ صدر انجمن احمدیہ کے ایک افسر نے مجھے لکھا ہے کہ قادیان والوں کی بہت زیادہ حق تلفی ہوئی ہے اور اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ قادیان والوں کی کوئی حق تلفی نہیں ہوئی۔ مَیں نے توانہیںاس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اَور چُست ہو جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اب تک جو زمین تقسیم ہوئی ہے اس میں سے اسّی فیصدی زمین قادیان والوں کے پاس گئی ہے۔ مثلاً صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں یہ قادیان میں ہی تھے یا لاہور میں تھے؟ پھر تحریک جدید کے دفاتر ہیں۔ تحریک جدید کے دفاتر قادیان میں ہی تھے یا لاہور میں تھے۔ پھر صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے کارکنوں کے مکانات ہیں۔ یہ لوگ بھی قادیان میں ہی تھے۔ ان تمام پر جو زمین لگے گی وہ قادیان کے لوگوں کے پاس ہی جائے گی اور وہاں سے آئے ہوئے آدمیوں کو ہی ملے گی۔ پھر دو سو کنال زمین اس لیے الگ کر دی گئی ہے تا وہ زمین قادیان کے غرباء کو جن کے وہاں مکانات تھے یا زمین تھی دی جائے اور اُن کو وہاںبسایا جائے۔ اگر دس دس مرلہ کے ہی مکانات سمجھ لیے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ دو سو کنال زمین میں چار سو مکان بن جائیں گے اور چار سو مکانات کا یہ مطلب ہے کہ یہ قادیان کے مکانات کے بیس فیصدی ہیں یعنی دو ہزار میںسے چار سو کو زمین مفت ملے گی۔ یہ زمین بھی قادیان والوں کو ہی ملے گی۔ پھر جو زمین اب تک فروخت ہوئی ہے اس میں سے نصف سے زیادہ قادیان والوں نے لی ہے۔ جو شخص واقف نہیں یا جس نے کاغذات نہیں دیکھے وہ تو غلط فہمی میں پڑ سکتا ہے لیکن دوسرا نہیں پڑ سکتا۔ ہر ایک چیز کا یہ منشا نہیں ہوا کرتا کہ اس سے انتہائی درجہ کا نتیجہ نکال لیا جائے۔ میرا منشا تو یہ تھا کہ قادیان والوں کی رگِ حمیت کو جوش میں لایا جائے۔ جھٹ پٹ اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ قادیان والوں کو زمین ملی ہی نہیں اور اُن کی حق تلفی ہوئی ہے درست نہیں۔ پھر ایسے شخص کا کہنا جس کے پاس ریکارڈ رہتے ہیں اور مَیں اگر منگواتا ہوں تو عارضی طور پر منگواتا ہوں اور پھر واپس کر دیتا ہوں۔اَور بھی زیادہ افسوس کی بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کاغذات دیکھے ہی نہیں ورنہ فروخت شدہ زمین میں سے بھی زیادہ تر قادیان والوں کے پاس ہی گئی ہے۔ چونکہ میرے خاندان کے افراد زیادہ ہیں سوکنا ل تو ہمارے گھر نے ہی خریدی ہے۔ ہم بھی تو قادیان والوں میں سے ہی ہیں۔باقی زمین بھی پچاس فیصدی کے قریب قادیان والوں کے پاس ہی گئی ہے۔ اس کے معنے یہ بنیں گے کہ دو ہزار کنال میں سے صرف تین سو کنال کے قریب باہر والوں کے پاس گئی ہے 1700کنال کے قریب قادیان والوں کے پاس گئی ہے۔ پس یونہی شور مچا دینا کہ قادیان والوں کی حق تلفی ہو گئی ہے ہمیں زمین نہیں ملی بیوقوفی کی بات ہے۔ باقی لوگ کچھ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہاںمکان بنا لیں۔ انہوں نے زمین خرید لی ہے۔ اصل چیزیں ہماری انسٹی ٹیوشنز ہیں اور یہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں الگ جگہ دی جائے کیونکہ ہمارے کالج وغیرہ جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جب تک وہ اکٹھی نہ ہو یہ نہیں چل سکتے۔ ان سے فائدہ اٹھانے والے بھی قادیان والے ہی ہیں۔ کالج ہے اس میں باہر کے طالب علم بھی داخل ہوتے ہیں مگر اکثریت قادیان والوں کی ہی ہوتی ہے۔ سکولوں سے تو خصوصیت کے ساتھ قادیان والے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھر عورتوں کا ہوسٹل ہے وہ بھی پہلے نہیں بن سکا تھا اب وہ بھی بنانا ہے۔قادیان میں سکول آبادی میں گھر گیا تھا اب جو جگہ ملی ہے اس میں لڑکیوں کا ہوسٹل بھی بنایا جائے گا تاباہر کی لڑکیاں وہاں رہ سکیں اور تعلیم حاصل کر سکیں۔ پس یہ غلط ہے کہ قادیان والوں کی حق تلفی ہوئی ہے اور انہیں اس سے حصہ نہیں ملا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے دو ہزار کنال میں سے1700 کنال قادیان کے دفاتر یا اُن افراد کو ملی ہے جو قادیان میں رہتے تھے۔ باقی تین سو کنال کے قریب باہر والوں نے خریدی ہے۔ پھراگر مشرقی پنجاب والے مہاجرین کا خیال رکھا جائے تو یہ نسبت اَور بھی کم ہو جاتی ہے کیونکہ ان لوگوں کے پاس کوئی جگہ نہیں جہاں وہ رہ سکیں۔ ان لوگوں نے بھی ایسی ہی جگہوں پر مکان بنانے ہیں تا سب بھائی اکٹھے رہ سکیں۔ غرض اگر صحیح پڑتال کی جائے تو خیال ہے کہ وہ زمین جو مغربی پنجاب والوں نے خریدی ہے وہ بیس فیصدی سے بھی کم ہو جاتی ہے۔
باقی جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے شہر آپ ہی آپ نہیں بن جایا کرتا اُس میں سڑکیں بھی بنانی پڑیں گی۔ اور جب سڑکیں بنیں گی تو اس کے لیے زمین بھی چاہیے۔ پھر اسکول بنیں گے۔ سکولوں کے بغیر بھی شہر نہیں بس سکتا۔ کوئی شخص ایسی جگہ پر نہیں بسنا چاہتا جہاں اُس کے لڑکے تعلیم حاصل نہ کر سکیں اور سکول بغیر روپیہ کے نہیں بن سکتے۔ اگر سکول بنائے جائیں گے تو خرچ بڑھ جائے گا اور وہ اسی زمین سے ہی نکالا جائے گا۔ پھر آجکل کے زمانہ میں جب طب نے خوب ترقی کر لی ہے لوگ بغیر ہسپتالوں کے گزارہ نہیں کر سکتے اور ہسپتال بغیر روپیہ کے نہیں بن سکتے۔ اگر ہسپتال بنیں گے تو خرچ بڑھ جائے گا اور وہ خرچ اِسی زمین سے نکالا جائے گا۔ پھر ریل، بجلی اور ڈاکخانہ کے بغیر بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ ان کے انتظامات کے لیے بھی روپیہ کی ضرورت ہے۔ پھر گندے نالے نکالنے ہیں۔ ان سب انتظامات کے لیے دوڑ دھوپ پر بھی خرچ ہو رہا ہے۔ جب یہ انتظامات کیے جائیں گے تو لازماً زمین کی قیمت بڑھ جائے گی۔ پھر قادیان کی آبادی ایسی تھی کہ وہاں پانی کا کوئی خاص انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا، وہاں بجلی بھی تھی اس جگہ پانی کا انتظام بھی کرنا ہے۔ جتنے کنویں اب تک نکلے ہیں اُن سے نمکین پانی ہی نکلا ہے۔ کافی کوشش کے بعد ایک کنویں سے میٹھا پانی نکلا تھا مگر جیسا کہ الفضل کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ وہاں چند افسر آئے اور اگرچہ پانی نمکین تھا مگر انہوں نے پیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رپورٹ جو مجھے دی گئی تھی کہ میٹھا پانی نکل آیا ہے غلط تھی۔ ایک ماہ سے لوگ اِس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ پانی کے لیے کھدائی کر رہے ہیں، جدوجہد جاری ہے۔ کبھی ایک جگہ پر زمین کھودی جاتی ہے پانی نمکین نکلتا ہے تو پھر دوسری زمین کھودی جاتی ہے پانی نمکین نکلتا ہے پھر اُس سے سَوسَو، دو دو سَو، تین تین سو اور چار چار سو فٹ پر جگہ کھودتے ہیں۔ یہ کام ہر ایک فرد تو نہیں کر سکتا۔ آخر اس پر بھی جماعت کو خرچ کرنا ہو گا اور وہ اپنی جیبوں سے تو نہیں کرے گی۔ یہ خرچ بھی سُکّان کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ اگر جماعت خرچ کرے گی،کھدائیاں کرائے گی ایک جگہ پر نمکین پانی نکلے گا تو اَور نیچے کھدائی کرائے گی۔ پھر پانی خراب نکلے گا تو اَور نیچے کھدائی کرائے گی۔ پھر بھی اگر پانی خراب نکلے گا تو وہ جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ کھدائی کرائے گی، تیسری جگہ کھدائی کرائے گی، چوتھی جگہ کھدائی کرائے گی یہ خرچ بھی سُکّان کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ چارجگہ پر تو اَب تک کھدائی ہو چکی ہے ممکن ہے کہ بیس پچیس یا پچاس جگہ پر کھدائی ہو۔ پھر ان کنوؤں سے پانی نکالنا بھی کوئی معمولی کام نہیں۔ اس پر بھی روپیہ خرچ آئے گا اور کافی روپیہ خرچ آئے گا اور روپیہ ساکنین کو ہی دینا ہو گا۔ اور یہ دو طرح ہی ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ سب زمین خریدنے والوں سے کہا جائے کہ وہ ہزار ہزار ،دو دو ہزار روپیہ بطور ٹیکس دے دیں اور یا پھر یہ زمین کی قیمت سے وصول کیا جائے۔ یہ ساری چیزیں روپیہ خرچ کرنے سے ہی بنیں گی۔ نہیں تو نہیں بنیں گی۔ اس لیے زمین کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور یہ ساکنین کے نفع اور فائدہ کے لیے ہی ہے۔ اگر ساری زمین بھی فروخت ہو جائے پھر بھی چھ سات لاکھ روپیہ کے قریب انجمن کو اَور خرچ کرنا ہو گا۔ قادیان پچاس سال میں بنا تھا۔ پھر اس کا قائمقام چند دنوں میں بغیر مالی بوجھ کے کیسے بن سکتا ہے؟ آہستہ آہستہ خرچ اگرچہ زیادہ ہو جاتا ہے مگر وہ محسوس نہیں ہوتا۔ مثلاً شادی پر جتنا روپیہ لگ جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ بچوں کی پرورش پر لگ جاتا ہے۔ مگر اس کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اُس وقت جب آٹا گوندھا جاتا ہے تو مُٹھی بھر ایک بچہ کی طرف سے ڈال لیا جاتا ہے اور مٹھی بھر ایک بچہ کی طرف سے ڈال لیا جاتا ہے۔ پھرپاؤبھرلکڑی ایک کی طرف سے جل رہی ہوتی ہے تو پاؤ بھر ایک کی طرف سے جل رہی ہوتی ہے۔ پھر پتیلی ہے اُس میں بھی ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر دو سیر کی پتیلی ہے تو ضروری ہے کہ دو سیر کھانے والے بھی موجود ہوں۔ پتیلی تو ایک ہی لائی جاتی ہے مگر اُس میں ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے مگر اس خرچ کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ شادی بیاہ میں اس سے بہت کم خرچ ہوتا ہے مگر دیوالیے نکل جاتے ہیں۔ اِس کی یہی وجہ ہے کہ اس پر اکٹھا خرچ کیا جاتا ہے۔پہلا خرچ پھیل گیا تھا۔ مثلاً ایک لڑکی ہے وہ اٹھارہ سال کی تھی جب اُس کی شادی ہوئی وہ اٹھارہ سال تک اپنے ماں باپ کے گھر میں پلتی رہی۔ اگر چھ روپے ماہوار بھی خرچ کا اندازہ لگایا جائے تو ایک سال کا خرچ بہتّر روپے ہو جاتا ہے۔ گویا اٹھارہ سال میں اس لڑکی پر ساڑھے بارہ سو خرچ ہوا۔ اب ایک غریب گھرانہ جو معمولی خرچ پر چل رہا ہے اس کی شادی پر ساڑھے بارہ سو خرچ نہیں آتا۔ ان کی شادی پر دو اڑھائی سو خرچ آئے گا مگر باوجود اس کے وہ خاندان مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور مقروض ہو جاتا ہے جس کی ادائیگی اُس کے لیے مشکل ہو جاتی ہے اس لڑکی کے پالنے پر جو خرچ آیا وہ اس کی شادی کے خرچ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے مگر اس کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ لیکن اب یہ خرچ اس لیے زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔
قادیان پچاس سال میں بنا تھا کسی نے آج مکان بنا لیا تو کسی نے کل بنا لیا۔ اس کا پتہ بھی نہیں لگتا تھا۔ اب وہ مکانات اکٹھے بنیں گے۔ قادیان میں جو دفاتر ہم نے آہستہ آہستہ چندے جمع کر کے تیار کیے تھے وہ اب اکٹھے بنیں گے اور ان پر اکٹھا خرچ آئے گا۔کچی عمارتوں کے بنوانے پر جو خرچ آئے گا اُس کا جو ہم نے اندازہ کیا ہے وہ کم از کم ساڑھے تیرہ لاکھ کا ہے اور اگر ساری ضرورتوں کو پورا کیا جائے تو پھر پچیس لاکھ روپے خرچ کا اندازہ ہے۔ ان سب چیزوں سے تو سب نے یکساں فائدہ اٹھانا ہے۔ اگر زمین اعلیٰ سے اعلیٰ قیمت پر بھی بِک جائے تو ساڑھے تیرہ لاکھ کی آمد ہوتی ہے اور چونکہ ان سے زیادہ فائدہ گاؤں والے اٹھائیں گے بہرحال وہاں کے رہنے والوں کو ہی اکثر رقم ادا کرنی ہوگی۔ باہر والوں کو بھی اس میں کچھ حصہ دینا پڑے گا کیونکہ دفاتر جو وہاں بنیں گے وہ ان کی بھی خدمت کریں گے، کالج جو وہاں بنیں گے ان میں ان کے لڑکے بھی تعلیم حاصل کریں گے۔پس زیادہ خرچ وہاں کے رہنے والوں کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ پھر ہسپتال بنیں گے۔ ان ہسپتالوں سے بھی فائدہ وہاں کے رہنے والے ہی اٹھائیں گے۔ بیمار سندھ سے تو نہیں آئیں گے، صوبہ سرحد سے نہیں آئیں گے۔ پھرلڑکیوں کا سکول ہے اس میں دس فیصدی باہر کی لڑکیاں ہوں گی باقی وہاں کی ہی ہوں گی۔ اسی طرح لڑکوں کے سکول سے بھی وہاں کے ہی لوگ زیادہ فائدہ حاصل کریں گے۔ وہاں پانی کا بھی انتظام کرنا ہو گا،سڑکیں بھی بنانی ہوں گی۔ ہمارا اندازہ ہے کہ چالیس فیصدی زمین سڑکوں پر ہی لگ جائے گی۔ اس طرح جو بھی بوجھ پڑے گا وہ سُکّان کو ہی اٹھانا ہو گا۔ یہ کوئی تجارتی کام نہیں باوجود اس کے لاکھوں لاکھ روپیہ انجمن کو چندوں سے دینا ہو گا۔ پس یہ وسوسہ کہ یہ جماعت پر بوجھ بن گیا ہے یا قادیان والوں کی حق تلفی ہوئی ہے ،اُن کو حصہ نہیں دیا گیا بالکل غلط ہے۔ اگر ان کے پاس اسّی فیصدی زمین چلی گئی ہے تو اُن کی کونسی حق تلفی ہوئی ہے؟آئندہ بھی اُن کا خیال رکھا جائے گا اور اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع اُنہی کو ملے گا۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ اخراجات میں اکثر حصہ وہیں کے لوگوں کو ادا کرنا ہوگا۔ اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو الگ ٹیکسیشن(TAXATION) کی صورت میں یہ اخراجات پورے کیے جائیں۔ یا زمین کی قیمت سے یہ اخراجات پورے کیے جائیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی نسبت اِن ڈائریکٹ ٹیکسیشن زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ مثلاً چونگی ہوتی ہے۔ آلو جو تم کھاتے ہو اس پر تھوڑی بہت چونگی تم ادا کرتے ہو۔گو بھی جو تم کھاتے ہو اس پر تھوڑی بہت چونگی تم اداکرتے ہو مگر تمہیں پتہ بھی نہیں لگتا۔ لیکن اگر وہی چونگی ایک دو روپیہ کر کے تم پر ماہوار لگا دی جائے تو تم شور مچا دو۔ لیکن چونگی کی صورت میں تم وہ ٹیکس ادا بھی کرتے رہتے ہو اور پھر اس کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ ساٹھ روپے ماہوارلینے والے پر اگر دو روپے ماہوار یا پچیس روپے سالانہ ٹیکس لگا دیا جائے یا ایک چپڑاسی پر ایک یا دو روپیہ ماہوار ٹیکس لگایا جائے تو وہ اسے برداشت نہ کر سکے گا۔ بعض دفعہ بڑے بڑے تاجروں پر بھی پچیس پچاس روپے سالانہ ٹیکس لگایا جائے تو وہ شور مچا دیتے ہیں مگر چونگی سے ایک بھاری رقم ٹیکس کی مل جاتی ہے اور لوگ محسوس بھی نہیں کرتے۔ بہرحال بِلاواسطہ ٹیکس بِالواسطہ ٹیکس سے سہل ہوتا ہے۔ اگر ہر ایک زمین لینے والے سے کہا جائے کہ ایک ہزار یا دو ہزار روپیہ بطور ٹیکس جمع کرا دو تواکثر لوگ فوراً پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن اگر انہیں یہ کہا جائے کہ ایک کنال کے لیے پانچ سو روپے جمع کرا دو تو فوراً جمع کرا دیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ آ خر زمین تو لینی ہی تھی اور کسی قسم کا خیال کیے بغیر وہ رقم داخل کرا دیں گے۔ یہ طریقہ سہل ترین ہے اور اس طرح بغیر احساس کے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو ادا کر جاتا ہے اور اس کے دل پر بوجھ بھی نہیں پڑتا۔
غرض یہ طریقہ سہل تھا جو اختیار کیا گیا اور یہ آپ لوگوں کے فائدے کے لیے ہی تھا۔ اس میں سے کوئی ایک پیسہ بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا اور صدر انجمن احمدیہ بھی ایک پیسہ کا فائدہ نہیں اٹھا رہی بلکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے صدر انجمن احمدیہ کو اپنے پاس سے زائد روپیہ خرچ کرنا پڑ ے گا"۔
(الفضل 4فروری 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
فاطر:9



خدا تعالیٰ نے احمدیت کا جو بیج بویا ہے وہ بڑھے گا
اور پھلے گا دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی
ایک منافق کے اعتراضات کا جواب
(فرمودہ5نومبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مَیں نے گزشتہ جمعہ دوستوں کو نماز کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن الٰہی سنت کے ماتحت مسلمانوں کے دو گروہ ہیں ایک آدم اور دوسراابلیس۔ ابلیس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے فرشتوں کے ساتھ سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اس زمانہ میں وہ دونوں گروہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہیں۔ جماعت کا کوئی حصہ ایسا ہوتا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کا نمائندہ ہوتا ہے اور کوئی حصہ ایسا ہوتا ہے جو ابلیس کا نمائندہ ہوتا ہے۔ آدم کے نمائندے تو جب ذکرِ الٰہی کی تحریک سنتے ہیں وہ فوراً فرشتوں کی اقتدا کرتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ اگر وہ پہلے سے ہی سجدہ کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں اَور بھی ترقی کر جاتے ہیں اور اگر وہ پہلے کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس تحریک کے بعد اپنی اصلاح کر لیتے ہیں اور اس کوتاہی اور غفلت کا ازالہ کر دیتے ہیں۔ لیکن ابلیس کی اولاد بجائے اِس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرے وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے ہم بھی تمہارے ہی جیسے ہیں ہم تمہاری بات کیوں مانیں۔ ایسے لوگ ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں میں سے بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو نماز کی پابندی سے گھبراتے تھے اور تلقین سے بُرا مناتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں صبح کی نماز میں یا عشاء کی نماز میں اپنی جگہ کسی اَور کو کھڑا کر دوں اور کچھ لوگوں کے سروں پر لکڑیاں رکھ کر ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور دروازوں کے سامنے لکڑیوں کو رکھ کر مکانوں کو مکینوں سمیت جلا دوں۔1 اس میں جہاں نماز کے لیے تاکید ہے وہاں اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو نماز پڑھنے سے گریز کرتے تھے۔ قرآن کریم میں بھی اِس کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ 2ہیں۔3دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں اور جب کوئی انہیں نہیں دیکھتا تو وہ نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ پس جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے تو ضروری تھا کہ اِس جماعت میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے۔
مَیں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں نصیحت کی تھی کہ جماعت لاہور کو نماز میں باقاعدگی کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ مَیں نے کوئی بُری بات نہیں کہی تھی اور نہ یہ بات شریعت کے خلاف پڑتی تھی کہ یہ کہا جاتا کہ تم تو کہتے ہو نمازیں پڑھنی چاہییںمگر اسلام کہتا ہے کہ نمازیں نہیں پڑھنی چاہییں۔ یا کہا جاتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو نمازیں چھوڑنے کو بابرکت قرار دیتے تھے آپ خواہ مخواہ اس میں دخل دیتے ہیں۔ لیکن کسی شخص نے جو بدقسمتی سے اپنے آپ کو لاہور کا رہنے والا قرار دیتا ہے مجھے خط لکھا ہے اور یہ تیسرا خط ہے جو مجھے لاہور میں کسی گمنام شخص کی طرف سے آیا ہے۔ ایک خط پہلے آیا تھا جس کا ذکر مَیں نے کسی مجلس میں کر دیا تھا یا کسی خطبہ میں کر دیا تھا۔ اور ایک کسی عورت کی طرف سے آیا تھا اور ایک اب کسی شخص کی طرف سے موصول ہوا ہے۔ اُس شخص نے اِس خط میں لکھا ہے کہ آپ ہمیں تو کہتے ہیں نمازیں پڑھو مگر آپ کی بیویاں سڑکوں پر بے پردہ پھرتی ہیں۔ یہ تو وہی بات ہو گئی جیسے کسی نے کہا تھا کہ ’’جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ‘‘۔ یہ کسی شخص نے دوسرے سے مذاقیہ طور پر کہا تھا اور یونہی قافیہ ملا دیا تھا۔ اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں تھی۔ اُس نے کہا ’’جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ‘‘۔ جاٹ زبان دان نہیں تھا۔ کہنے والا پٹھان تھا۔ اُس نے کہا ’’پٹھان رے پٹھان تیرے سر پر کولھو‘‘۔ اس پٹھان نے کہا مَیں نے تو مذاقیہ طور پر تمہیں کہا تھا اور ایک قافیہ ملایا تھا تمہارا تو قافیہ نہیں ملا۔ اس نے جواب دیا قافیہ نہیں ملا تو کیا ہوا بوجھ سے تو مرو گے۔ یہی حال معترض کا ہے۔ فرض کرو میری بیویاں پردہ نہیں کرتیں اگرچہ یہ بات غلط ہے تو کیا تمہارے لیے نمازیں چھوڑنی جائز ہو جاتی ہیں؟ کیا لوط علیہ السلام کی بیوی کے نشوز کی وجہ سے، اُس کے شرک کی وجہ سے اور اُس کی اپنے خاوند نبی سے بغاوت کی وجہ سے تمہیں نمازیں چھوڑنی جائز ہیں؟ اس لیے کہ وہ ایک نبی کی بیوی تھی؟ مَیں ان منافقوں سے نہیں کہتا دوسرے لوگوں سے کہتا ہوں کہ کیا لوط علیہ السلام کی بیوی کے نشوز اور بغاوت کی وجہ سے تمہیں نمازیں چھوڑنی جائز ہو گئی ہیں ؟مَیں اپنی بیویوں کا دفاع نہیں کرتا۔ مَیں ان کے ساتھ باہر نہیں جاتا اور سڑکوں پر پھرتے ہوئے اُنہیں دیکھا نہیں کرتا کہ آیا وہ نقاب ڈالے ہوتی ہیں یا بے پردہ پھرتی ہیں۔میرے علم میں یہ بات نہیں کہ وہ باہر بے پردہ پھرتی ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تب بھی مَیں اس کی گارنٹی نہیں دیتا کہ مَیں کہوں کہ میری بیویاں جب باہر جاتی ہیں تو ضرور پردہ کرتی ہیں۔ میرے غیب میں جوبات ہو اُس کو مَیں نہیں جانتا۔ اُس کا تو خدا تعالیٰ کو پتہ ہے۔ لیکن اگر وہ پردہ نہیں بھی کرتیں تو کیا جماعت لاہور کو اِس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ نمازیں چھوڑ دے؟ پردہ تو الگ رہا فرض کرو وہ مرتد ہو جائیں، وہ اسلام کو ہی چھوڑ بیٹھیں تو کیا ان کے اسلام چھوڑ دینے کی وجہ سے تمہیں نمازیں چھوڑنی جائز ہو جائیں گی؟ نوح علیہ السلام کا بیٹا دین کے خلاف چلا تھا۔ اس نے اپنے باپ کی مخالفت کی تھی اور اُس نے کشتی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا تو کیا اُس وقت کے مومنوں نے یہ کہا تھا کہ تمہارا بیٹا تو ایسا کرتا ہے ہم کیوں ایسا کریں؟ یہ تو ایک عجیب قسم کا استدلال ہے قطع نظر اس کے کہ میری بیویاں پردہ کرتی ہیں یا نہیں کرتیں اِس سے یہ استدلال کرنا کہ تمہیں نمازیں چھوڑنی جائز ہو گئیں عقل کے بالکل خلاف ہے۔
پھر اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمہاری بیویاں جب موٹر میں بیٹھتی ہیں تو نقاب کے بغیر بیٹھتی ہیں۔ پھر لکھا ہے وہ موٹی بہت ہو گئی ہیں۔ اُس نے اِس فقرہ سے اپنے آپ کو ہی نالائق ثابت کیا ہے۔ بھلا اس سے کوئی پوچھے کسی کی بیویوں کو جھانکنے کی اسے اجازت کس نے دی ہے؟ قرآن کریم مردوں کو بھی کہتا ہے کہ تم غضِّ بصر کرو ۔صرف عورتوں کو ہی اس نے پردہ کے لیے نہیں کہا بلکہ مردوں کو بھی کہا ہے کہ جب تم سڑکوں پر پھرتے ہو تو غضِّ بصر کرو۔ گویا قرآن کریم اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ جب عورتیں سڑکوں پر پھرتی ہیں تو بعض دفعہ وہ اپنے چہروں کو ننگا کر دیتی ہیں۔ بخاری میں ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم حج کے لیے جاتی تھیں تو ہم نقاب اٹھا دیتی تھیں۔ جب کوئی مرد نظر آتا تو نقاب ڈال لیتیں۔4 اِس سے بھی یہ بات نکل آئی کہ عورتیں جب باہر نکلتی ہیں اور وہ دیکھتی ہیں کہ اردگرد کوئی مرد نہیں تو وہ نقاب اٹھا دیتی ہیں۔ پردہ کوئی طبعی چیز تو نہیں غیر طبعی چیز ہے۔ اِس کا نظر پر بُرا اثر پڑتا ہے، سانس رکتا ہے اس لیے جب عورتیں دیکھتی ہیں کہ اردگرد کوئی مرد نہیں یا وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے اردگرد شریف آدمی ہیں غنڈے نہیں ہیں تو وہ پردہ اٹھا دیتی ہیں۔ پھر اگر کوئی مرد نظر آ جائے یا وہ سمجھتی ہوں کہ اردگرد جو آدمی ہیں وہ اوباش ہیں اپنی نظریں نیچی نہیں کریں گے تو وہ اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں گی۔ غرض ایسے مواقع ہو سکتے ہیں جہاں عورتیں جائز طور پر نقاب اٹھا سکتی ہیں اور گو مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن اگر ہجوم زیادہ ہو اور آدمی ایک دوسرے پر پڑ رہے ہوں تو پھر کوئی عورت پردہ اٹھا دے اور بے احتیاطی سے کام لے تو یہ گناہ کا فعل ہو گا۔ لیکن ایسی جگہ پر جہاں مرد نہیں ہیں یا ہیں تو وہ کسی گوشہ میں ہیں اُسے نظر نہیں آ رہے وہ اس کے سامنے نہیں ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں یونہی تکلیف کیوں اٹھاؤں نقاب اٹھا دیتی ہے۔ پھر اگر کوئی سڑک پر مرد نظر آ جائے تو نقاب چہرے پر ڈال لیتی ہے۔ یا جب عورتیں موٹروں میں جاتی ہیں تو موٹروں سے یونہی تو نظر نہیں آتیں جب تک کہ کوئی انہیں بِالارادہ نہ جھانکے۔ اور جب کوئی بِالارادہ جھانکے تو پھر دیکھنے والا اوباش ہو گا نہ کہ وہ عورتیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اردگرد جو آدمی ہیں وہ شریف ہیں اور شریف آدمی دوسری عورتوں کی طرف جھانکا نہیں کرتے اس لیے وہ نقاب اٹھا دیتی ہیں۔ اگر وہ نقاب اٹھا دیں تو اُن پر کوئی الزام نہیں آئے گا دیکھنے والے پر الزام آئے گا۔ لیکن پھر بھی اگر میری بیویاں موٹر میں بیٹھے ہوئے نقاب اٹھا دیتی ہیں تو کیا تمہارے لیے نمازیں نہ پڑھنا جائز ہو جائے گا؟
پھر وہ لکھتا ہے کہ آپ کو غصہ یہ ہے کہ آپ جب قادیان سے لاہور آئے تو آپ کی خاطر نہیں ہوئی۔ مَیں اُس شخص سے یہ کہتا ہوں کہ بعض سال ایسے بھی آئے ہیں کہ جب مَیںنے تمہاری ساری جماعت کے چندہ سے بڑھ کر چندہ دیا ہے (بشرطیکہ یہ شخص لاہور کی جماعت کاہو۔ مجھے غالب خیال ہے کہ یہ کوئی باہر کا منافق ہے یا کم سے کم جماعت لاہور سے تعلق نہیںرکھتا) اور ویسے بھی میرا چندہ تمہاری ساری جماعت کے چندوں کا پچاس فیصدی ہوتا ہے۔ اب بھی جب کہ ہم قادیان سے لُٹ کر آئے ہیں میرا چندہ جماعت لاہور کے چندہ کا پچیس فیصدی ہے۔ وہ خاطر تو مَیں آپ ہی اس چندہ کو کم کر کے کر سکتا ہوں۔ تمہارا یہ کہنا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تم نے حقیقت پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ہاں اگر کسی سے رشتہ محبت ہو تو انسان خود بھی خاطر کرتا ہے اور وہ شخص بھی بعض دفعہ یہ امید کرتا ہے کہ اُس کی خاطر ہو۔ میری بیویاں ہیں اگرچہ وہ خرچ مجھ سے ہی لیتی ہیں مگر پھر بھی بعض دفعہ عید کے موقع پر رومال، جرابیں یا عطر کی شیشی خرید کر مجھے بطور تحفہ دے دیتی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ مَیں محتاج ہوتا ہوں بلکہ اس لیے کہ اُنہیں مجھ سے محبت ہوتی ہے۔ وہ اپنی محبت کے اظہار کا اسے ذریعہ بنا لیتی ہیں۔ پھر کھانا ہے بعض بیویاں اپنے خاوند کے لیے خاص طور پر کھانا تیار کرتی ہیں اور بعض نہیں کرتیں۔ روپیہ تو خاوند کا ہی ہوتا ہے مگر یہ محبت کی علامتیں ہیں ۔جو محبت کرنے والا ہوتا ہے اس کا تو اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ چاہے دوسرے کو ضرورت ہو یا نہ ہو بلکہ بعض دفعہ بِلاضرورت بھی ایسا کر دیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مَیں ایک دفعہ شملہ گیا۔ آپ نے مجھے خرچ دیا اور آپ کا بہت سا روپیہ خرچ ہوا۔ حضرت نانا جان بھی ساتھ تھے۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے آپ سے کہا تھا کہ اسے سِل کا ڈر ہے شملے بھجوا دیا جائے۔ مَیں وہاں گیا وہاں کی جماعت نے مجھے چھ سات پونڈ تحفے کے طور پر دئیے۔ مَیں نے اُس کے خرچ کے متعلق اپنے ذہن میں سوچا اور تجویز کی کہ مَیں یہ رقم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں۔ چنانچہ مَیں نے اُس میں سے کچھ والدہ کے لیے تحفہ خرید لیا اور چار پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیے۔ اب دیکھو سارا خرچ آپ کا ہوا تھا، جاتے بھی آپ نے ہی ٹرین کا خرچ دیا تھا اور آتے بھی آپ نے ہی دیا تھا اور پھر وہاں کا خرچ بھی آپ نے ہی دیا تھا۔ یہ تو مَیں سمجھتا تھا کہ آپ محتاج نہیں ہیں مگر میری محبت نے تقاضا کیا کہ مَیں ایسا کروں۔ یہ محبت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بعض دوست اس قسم کے بھی ہیں کہ جب انہیں ہفتہ کا راشن ملتا ہو وہ اس میں سے کچھ بچا بچا کر میرے پاس لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہم آپ کو دیتے ہیں۔
غرض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو محبت کی وجہ سے خود قربانی کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دوسرے کو اُس کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ کی ایک بیوی نے گلاس میں پانی پیا۔ آپ نے وہ گلاس اٹھا کر اُسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیا جہاں منہ رکھ کر بیوی نے پانی پیا تھا۔5 کیا ایسا کرنے سے کوئی رتبہ مل جاتا ہے یا کسی قسم کا کوئی دنیاوی انعام مل جاتا ہے؟ یہ صرف محبت کا اظہار ہوتا ہے جو آپ نے اس لیے کیا تا اُس کا دل خوش ہو جائے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔
پھر اُس شخص نے لکھا ہے کہ تم اپنی باتوں سے باز آ جاؤ۔ ورنہ ہم تمہارا مقابلہ کریں گے اور ایسا مقابلہ کریں گے کہ تم جان لو گے کہ مقابلہ کیا ہوتا ہے۔ مَیں اُس احمق سے کہتا ہوں کہ یہ تو ایک چھوٹا سا شہر ہے ہم نے تو ساری دنیا کا مقابلہ کر کے اُسے شکست دینی ہے۔ اور پھر یہاں کی جماعت بھی تو شہر کی آبادی کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں۔ یہاں کی ساری جماعت عورتوں اور بچوں کو ملا کر تین چار ہزار ہے اور لاہور کی آبادی آجکل سترہ لاکھ ہے۔ پھر لاہور تو الگ رہا ہم نے ساری دنیا کا مقابلہ کر کے اسے شکست دینی ہے صرف لاہور سے ہی ہم نے مقابلہ نہیں کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لاہور میں اچھے بھی ہوں گے اوربُرے بھی ہوں گے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی فرمایا کہ وسوسہ نہیں رہے گا نظیف مٹی رہ جائے گی۔6 اگر کچھ آدمی اس شخص کے ساتھ ہیں تو میرے کہنے کی بات نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ہی بتایا ہوا ہے کہ ایسے لوگ مٹ جائیں گے۔ پھر اگر اس شخص میں شرافت ہوتی تو وہ چِٹھی پر نام لکھتا کہ مَیں فلاں ہوں۔ آخر ہم اپنے آپ کو ظاہرکرتے ہیں۔ ہم غیراحمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، اُن کے جنازے نہیں پڑھتے، اُنہیں لڑکیاں نہیں دیتے۔ وہ چِڑتے ہیں مگر ہم نے اپنے آپ کو اُن سے چھپایا تو نہیں۔ ہم ایسا تو نہیں کرتے کہ اشتہار دے دیں کہ بعض لوگ غیر احمدیوں کو لڑکیاں دیتے ہیں اور بعض نہیں دیتے۔ بعض احمدی غیراحمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں اور بعض نہیں پڑھتے۔ ہم تو دھڑلّے سے لکھتے ہیں۔ اگر وہ شخص شرافت کی ابتدائی منزل پر بھی ہوتا تو وہ دلیری سے لکھتا کہ مَیں فلاں ہوں اور تمہیں خلیفہ نہیں سمجھتا۔ پھر جس شخص کے متعلق وہ کہتا ہے کہ ہم اسے شکست دے دیں گے ایسے آدمی کے سامنے اُسے اپنا نام ظاہر کر دینے میں کیا حرج تھا؟ دراصل یہ علامت ہے منافق کی۔ ہمارے پاس بادشاہت تو نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے لاہور کی جماعت میرے ساتھ ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ انہیں کامیابی ہو جائے گی تو پھر اتنی بہادرجماعت کے ہوتے ہوئے اُسے ڈر کس بات کا ہے؟
جہاں مجھے اِس بات سے افسوس ہوا ہے وہاں مجھے خوشی بھی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کا ایک مرید تھا۔ آپ اُس سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ وہ شخص پہلے بہت عیاش تھا، شراب کی بھی اُسے عادت تھی۔ اس نے آپ کی بیعت کر لی اور اس میں اخلاص بھی پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے آپ سے شکایت کی کہ آپ کے فلاں مرید کو شراب کی عادت ہے۔ آپ نے فرمایا مَیں تو نہیں مانتا کہ وہ شراب پیتا ہے۔ اِس پر انہوں نے کہا آپ خود کسی دن دیکھ لیں۔ ایک دن وہ شراب پی رہا تھا لوگ خواجہ صاحب کے پاس آئے اور کہا آپ آئیے اور دیکھ لیجیے۔ مجلس لگی ہوئی تھی، دَور چل رہا تھا۔ خواجہ صاحب نے دیکھا اور جوش میں آ کر اُس کے پاس چلے گئے اور اس سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔ ہیں! یہ کیا؟ تم شراب پیتے ہو؟اُس مرید نے جب یہ دیکھا کہ مجھے میرے پیر نے شراب پیتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو اُس نے کہا
زہد تایاں فسق ما یاں کم نکرد
فسق ما یاں بہتر از زہد شماست
یعنی کیا ہونا تھا۔مَیں آپ کے پاس آیا تھا تا مَیں ان بُری عادتوں سے آپ کی دعاؤں کے ذریعہ نجات پا جاؤں مگر مَیں نے ان بری عادتوں سے نجات نہیں پائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا زُہد میری بدکاری سے چھوٹا ہے اس لیے وہ میری بدکاری کو مٹا نہیں سکا۔ خواجہ صاحب نے یہ سنا اور فرمایا بہت اچھا۔ دیدہ باید۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اور اُسے توبہ نصیب ہوئی۔
مَیں نے سمجھا کہ جب شیطان کی ذریت نماز نہیں پڑھتی تو تم میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جوغصہ میں آ کر نمازیں پڑھنی شروع کر دیں گے۔ بہرحال ہر ایک چیز اپنی جگہ پر آ جائے گی جوچیزبے دینی کے مقام پر کھڑی ہے وہ بھی اپنی جگہ پر آ جائے گی اور جو چیز دین کے مقام پر کھڑی ہے وہ بھی اپنی جگہ پر ا ٓ جائے گی۔ یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ بیج بو یا ہے۔ اس نے بڑھنا ہے، پھلناہے اور پھولنا ہے۔ اِس میں زید یا بکر کا خیال رخنہ اندازی نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے بعض لوگ آئے اور ایمان لے آئے مگر وہ اپنے اقرار پر قائم نہ رہے۔ طریقہ یہ ہے کہ اُن کی نگرانی کی جائے، انہیں سمجھایا جائے۔ اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں تو انہیں جماعت سے نکال دیا جائے۔ ہماری جماعت سے یہ کوتاہی ہوئی ہے کہ جب کوئی کمزور آدمی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے تو لوگ اُس کے نکال دینے سے گھبراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اِس طرح ہماری تعداد کم ہو جائے گی۔ یہ بات غلط ہے۔ ہمیں کمی کی پروا نہیں کرنی چاہیے خواہ جماعت نصف حصہ رہ جائے، چوتھا حصہ رہ جائے یا دسواں حصہ رہ جائے۔ اِس میں گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں۔ یہ خیال کر لینا کہ کسی کے نکل جانے سے جماعت کم ہو جائے گی اور جماعت کے کم ہو جانے سے چندے کم ہو جائیں گے غلط ہے۔ کوئی جماعت چندے کے ساتھ کام نہیں کیا کرتی۔ وہ قربانی اور ایثار کے ساتھ کام کیا کرتی ہے۔ ہزاروںہزار ایسے لوگ ہوتے ہیں جودبے ہوئے ہوتے ہیں اور فتنے انہیں ظاہر کر دیتے ہیں۔ جس کا ایک خطبہ میں یہ ذکر آیا تھا کہ کوئٹہ میں میرے پاس ایک دوست آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں نے سلسلہ کی ایک کتاب اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔( وہ میری کتاب دعوۃالامیر تھی) اور مَیں نے اس لیے رکھی ہے کہ میری بیوی شیعہ ہے۔ وہ ایرانن ہے۔ مَیں اُسے سنایا کرتا ہوں۔ تو دیکھو کتاب بھی اُن کے پاس تھی۔ وہ پڑھتے بھی تھے مگر اس لیے نہیں کہ وہ غیراحمدی سے احمدی بن جائیں بلکہ اس لیے کہ اُس کی بیوی شیعہ سے سنّی ہو جائے۔ اِس سے زیادہ انہوں نے تکلیف گوارا نہیں کی۔ وہ اُس کتاب کی خوبی کے قائل تھے ورنہ وہ کتاب اپنی بیوی کو نہ سناتے کوئی اور کتاب سناتے لیکن باوجود اس کتاب کی خوبی کے قائل ہونے کے انہوں نے اِس بات کی ضرورت نہ سمجھی کہ وہ احمدی ہو جائیں اور یہ خیال نہ کیا کہ انہیں احمدیت پر غور کرنا چاہیے۔ جس دن ،رات کے وقت میجر محمود احمد صاحب شہید ہوئے صبح کو نو بجے کے قریب وہ میرے پاس آئے۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ کوئی صاحب آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک احمدی دوست بھی تھے۔ مَیں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کس لیے آئے ہیں؟ تو وہ کہنے لگے کہ مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ آپ نے نتائج پر غور کر لیا یا نہیں؟ اِس پر وہ کہنے لگے مَیں کل کے جلسہ میں نہیں تھا اور نہ ہی اس کے متعلق مجھے کچھ علم تھا۔ جب صبح مَیں دکان پر گیا اور دکان کھولنے لگا تو مَیں نے کنجی لگائی۔ ابھی مَیں کنجی پھیرنے لگا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی مرزا صاحب (وہ دوست مغل تھے) ہم نے رات کو ایک مرزائی مار ڈالا ہے۔ میرے ہاتھ میں کنجی تھی، ابھی تالا کھولا نہیں تھا۔ یہ بات سنتے ہی میرے دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ مَیں نے کنجی باہر نکالی اور وہاں سے چل پڑا اور خیال کیا کہ وہ نمبر مَیں پورا کر آؤں جو میجر محمود احمد صاحب کی شہادت سے کم ہوا ہے۔ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں سلسلہ کی کتب کا مطالعہ تھا اور ان پر احمدیت کا اثر تھا مگر ان کے دل میں کبھی احمدی ہونے کا خیال پیدا نہیں ہوا تھا۔ جب فتنہ پیدا ہوا اور جان دینے کا سوال آیا تو فوراً وہ احمدیت میں شامل ہو گئے۔
سو تعداد کم ہو جانا خطرہ کی بات نہیں۔ جب جماعت میں ہر قسم کے آدمی آنے شروع ہو جاتے ہیں توساری خرابیاں اور فتنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ تعداد کچھ چیز نہیں تعداد کا بڑھ جانا کوئی خوبی نہیں۔ اخلاص اور ایمان اصل چیز ہے۔ اگر کسی میں اخلاص اور ایمان پیدا ہو جائے تو یقیناً اس کے نتیجہ میں وہ زیادہ کام کرے گا۔ حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ ہندوستان میں اکیلے تشریف لائے تھے اور اب یہاں کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں۔ چین میں چند مہاجرین گئے تھے اور انہوں نے وہاں تبلیغ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کثرت سے مسلمان ہو گئے۔
غرض قربانی اور ایثار سے نتائج پیدا ہوتے ہیں تعداد سے نہیں۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ تم تعداد بڑھانے کی کوشش نہ کرو۔ تم تعداد بڑھانے کی کوشش کرو مگر مخلص لوگوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرو۔ یہاں کچھ دنوں سے تبلیغ شروع ہوئی ہے میرے پاس کچھ لوگ بیعت کے لیے لائے گئے۔ مَیں نے دعوۃ و تبلیغ کو لکھا کہ یہ سب بیعتیں دکھاوے کی ہیں۔ ہمارے مبلغ نے چاہا ہے کہ مَیں بھی کوئی کارنامہ دکھاؤں۔ میرے دل پر یہی اثر ہے۔ اس کے بعد ایک صاحب آئے اور انہوں نے بیعت کی۔ مَیں نے بھی اُن کی بیعت منظور کر لی۔ مجھے وہ جھوٹے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ نو دن کے بعد وہ کپڑے اور دوسری چیزیں اٹھا کر بھاگ گئے۔ صبح میرے پاس شکایت آئی کہ یہ نقصان ہو گیا ہے۔ خیر اُس دن کے بعد بیعت بند ہو گئی۔ مَیں نے کہا شکر ہے کہ اب ایسے لوگ جماعت میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ گھر کا نقصان ہی کرتے ہیں۔ پس تم تعداد بڑھاؤ مگر مخلصوں کو لو، ایمان والوں کو لو۔ اگر کوئی کمزور آ جائے تو اُس پر بوجھ ڈال دو ،اُس کی اصلاح کرو۔ اگر اس کی اصلاح ہو جاتی ہے، اس کی درستی ہو جاتی ہے تو اچھی بات ہے ورنہ اُس سے کہہ دو کہ تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے تم ہم سے الگ ہو جاؤ۔
جماعت کی ترقی تعداد سے نہیں ہوتی۔ ترقی قربانی اور ایثار سے ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے بندے اِس دنیا میں دو ارب ہیں مگر باوجود اِس کے خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو بھیجا اور اُس نے کہا
"دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اوربڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا"۔7
آخر خدا تعالیٰ کو حملے کی کیا ضرورت تھی؟ جن پر حملے کیے جانے تھے وہ تو خداتعالیٰ کے بندے تھے۔ لیکن چونکہ وہ مخلص نہیں تھے اس لیے خدا تعالیٰ خود حملہ آور ہونے کی خبر دیتا ہے۔ اگر اخلاص اور ایمان کا سوال نہ ہوتا تو پھر ان حملوں کی کیا ضرورت تھی۔ پس وہ لوگ جو نہیں سمجھتے اُنہیں سمجھاؤ۔ اوراگر وہ نہیں سمجھ سکتے تو اُن کی رپورٹ کرو کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔ ہمارے پاس اِتنا وقت نہیں کہ ہم اپنے لوگوں کے پیچھے لگے رہیں۔ ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے جو ہم نے کرنا ہے۔ اگر یہ حالت رہے اور ہم اپنے لوگوں کے ہی پیچھے پڑے رہیں کہ تم نمازیں پڑھو، روزے رکھو تو ہمارا کام بہت بڑھ جائے گا اور ہم اسی کام کو جو ہمارے سپرد ہے پوری طرح پورا نہیں کر سکیں گے۔ اگر جماعت میں کوئی ایسا گروہ پایا جاتا ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتا تو اسے فوراً کاٹ دیا جائے تا ہماری باہر کی طرف توجہ رہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری بدنامی کا موجب نہیں ہو گا، تم پر کوئی حرف گیری نہیں کر سکے گا، تم پرکوئی الزام نہیں لگائے گا۔ اگر تم صرف دس ہی رہ جاتے ہو تو تمہیں کوئی یہ نہیں کہے گا کہ تم دس کیوں ہو؟ وہ یہی کہے گا یہ دس آدمی مخلص ہیں۔ لوگ کہیں گے لاہور کی جماعت بڑی مخلص ہے، پشاور کی جماعت بڑی مخلص ہے، لائل پور کی جماعت بڑی مخلص ہے۔ لیکن اگر جماعت میں ایسے لوگوں کی ترقی کر لی جائے جن میں اخلاص اور ایمان نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہاں مجھے یاد آ گیا معلوم ہوتا ہے اس شخص کی تنخواہ یا اس کے باپ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپیہ ہے کیونکہ اس نے لکھا ہے جس کی ڈیڑھ سو آمدن ہو وہ بھلا آپ کو کیا چندہ دے؟ مگر اُس کو کیا معلوم کہ اخلاص والے کے اندر کیا حِسّ ہوا کرتی ہے۔ اُس نے اپنی بے ایمانی پر ہی قیاس کر لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ڈیڑھ سو ماہوار آمد والا چندہ نہیں دے سکتا۔ حالانکہ اِس سے قبل مَیں کسی خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ جالندھر کی ایک احمدی عورت میرے پاس آئی اور اُس نے بتایا کہ اُن کے ساتھ کیا ہواہے اور یہ کہ وہ بالکل برباد ہو گئے ہیں۔ پھر اُس نے دو زیور نکال کر بطور چندہ دے دئیے۔ مَیں نے اُسے کہا تم تو لُٹ کرآئی ہو یہ چندہ تو اُن لوگوں پر ہے جو یہاں تھے اور جو لُوٹ مار سے محفوظ رہے۔ وہ عورت یہ بھی کہہ چکی تھی کہ اس نے حفاظتِ مرکز کا چندہ ادا کر دیا ہوا ہے۔ اُس نے کہا مَیں یہی دو زیور نکال کر لائی ہوں۔ جب مَیں نے دیکھا کہ جماعت نازک دور سے گزر رہی ہے تو مَیں نے خیال کیا کہ میرا سارا زیور اور دوسری جائیداد تو کفار نے لُوٹ لی ہے کیا اِس میں خدا تعالیٰ کا کوئی حصہ نہیں۔ میرے پاس یہی دو زیور ہیں جو مَیں بطور چندہ دیتی ہیں۔ اب بے ایمان تو یہی خیال کرے گا کہ وہ ڈیڑھ سو کی آمدنی سے چندہ نہیں دے سکتا لیکن مومن بھوکا مرتا ہوا بھی چندہ دیتا ہے۔ چندوں کی لسٹیں دیکھ لو غرباء کی تعدادزیادہ ہو گی امراء کی تعداد نسبتی طور پر کم ہو گی۔ اگر امیر دس پندرہ فیصدی چندہ دے کر سمجھتا ہے کہ اُس نے بڑا چندہ دیا ہے تو آپ لوگوں کو بیسیوں غرباء ایسے مل جائیں گے جو اپنی آمدن کا بیس پچیس یاپچاس فیصدی چندہ دے دیتے ہیں۔ وہ شخص تو کہتا ہے کہ ڈیڑھ سو ماہوار آمدن والا چندہ نہیں دے سکتا اور مَیں کہتا ہوں کہ زیادہ اخلاص والے اُنہی میں ہوتے ہیں جن کی آمدنیں ڈیڑھ سو سے کم ہوتی ہیں۔دوسروں میں مَیں نے اتنا جوش نہیں دیکھا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ امراء اخلاص والے نہیں ہوتے۔ امراء میں بھی اخلاص ہوتا ہے لیکن ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے ایسے مخلصوں کی تعداد کم ہے۔ مَیںنے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب سلسلہ کے کاموں میں اتنی فراخ دلی اور فراخ حوصلہ سے حصہ لیتے ہیں کہ اُن پر رشک آتا ہے۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد میں بدامنی تھی۔ جونہی ڈاک کھلی وہاں سے چندے آنے شروع ہو گئے۔ پس مخلص لوگ امراء میں بھی ہوتے ہیں اور غرباء میں بھی ہوتے ہیں۔ مگر نسبت کے لحاظ سے غرباء میں یہ تعداد زیادہ ہوتی ہے۔غرباء قربانی میں زیادہ حصہ لیتے ہیں کہتے ہیں ’’مایا کو مایا ملے کر کے لمبے ہاتھ‘‘۔ جب روپیہ مل جاتا ہے تو انسان خواہش کرتا ہے کہ اَور روپیہ مل جائے۔ ہمارے ملک میں لوگ کہتے ہیںکہ فلاں ننانوے کے پھیر میں آ گیا۔یہ اس لیے مشہورہے کہ امارت لالچ کو بڑھاتی ہے اور غربت حرص کو کم کرتی ہے۔
کہتے ہیں کوئی مالدار شخص تھا۔ اس کے گھر میں عموماً دال ہی پکتی تھی اور بے بھگار کے پکتی تھی۔ ان کے ہمسایہ میں ایک غریب سپاہی رہتا تھا اُس کے ہاں روزانہ گوشت پکتا تھا اور بگھار8 والا سالن پکتا تھا۔ اس مالدار شخص کی بیوی نے کہا ہمارے مال کا کیا فائدہ، ہم غربت سے گزارہ کرتے ہیں اور یہ غریب کھاتے ہیں۔ اس شخص نے جواب دیا کہ مَیں تجھے اِس کا جواب آٹھ دس دن کے بعد دوں گا۔ اس نے ایک تھیلی میں ننانوے روپے رکھے اوراس شخص (سپاہی )کی ڈیوڑھی میں چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ سپاہی آیا اور تھیلی جھولی میں ڈال کر اندر چلا گیا اور اپنی بیوی کو حال بتایا کہ اِس طرح آج ننانوے روپے ملے ہیں۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ننانوے روپے ہمارے پاس ہیں۔ کل اگر ہم خشک روٹی پر گزارہ کر لیں اور سالن بے بھگار کے ہی پکا لیں اور ایک روپیہ بچا لیں تو یہ پورا سو ہو جائے گا۔ اُس کی بیوی نے کہا بہت اچھی بات ہے۔ دوسرے دن انہوں نے خشک روٹی کھائی اور اِس طرح ایک روپیہ بچا لیا جس سے وہ پورا سو ہو گیا۔ اس نے پھر بیوی سے کہا ہمیں سو روپے بغیر محنت کے مل گئے ہیں اگر ہم کچھ اَور تکلیف کریں تو یہ دو سو ہو جائیں۔ بیوی نے کہا اچھی بات ہے۔ انہوں نے گوشت کھانا بند کر دیا اوردال پکنی شروع ہو گئی اور روز حساب ہونے لگا کہ اب ایک سو ایک ہو گئے ہیں، اب ایک سو دو ہو گئے ہیں، اب ایک سو تین ہو گئے ہیں۔ سات آٹھ دن کے بعد وہ بنیا آیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ شخص دیانت دار ہے۔ وہ اس کے پاس گیا اور کہا مجھے کوئی شخص بلانے آیا تھا۔ مَیں اس کے ساتھ چلا گیا اور جلدی میں ننانوے روپے کی تھیلی آپ کی ڈیوڑھی میں چھوڑ گیا۔ اُس نے کہا ہاں ننانوے کی تھیلی وہاں پڑی ہوئی تھی وہ میرے پاس ہے۔ اس نے تھیلی لا کر بنیے کو دے دی۔ تھیلی واپس دینے کے بعد اُس نے اپنی بیوی سے کہا جتنا تم پہلے کم خرچ کرتی رہی ہو اب اُس سے دگنا خرچ کرو تا جو روپیہ جمع ہوا ہے اُس سے مزے اڑائیں کیونکہ اب زیادہ روپیہ جمع ہونے کا امکان نہیں۔ چنانچہ پھر وہی گوشت پکنا شروع ہو گیا اور بھگار لگنے لگ گئے۔
غرض جمع کرنے کی عادت حرص کو بڑھا دیتی ہے۔ جب مال آ جاتا ہے تو انسان خیال کرتا ہے کہ اگر اس قدر رقم جمع ہو جائے تو بچوں کی شادیاں اچھی طرح ہو سکیں گی، بچوں کے لیے جائیداد بن جائے گی۔ غرض جمع کرنے کی عادت سے حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غریب جو کم آمدن میں قربانی کرتا ہے وہ امراء لاکھوں کے ہوتے ہوئے نہیں کر سکتے۔ بسااوقات مَیں شرمندہ ہو جاتا ہوں جب مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ کوئی کہتا ہے مَیں بہت زیادہ چندے دیتا ہوں حالانکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ اُس سے دسویں حصہ آمدن والے نے اُس سے زیادہ چندہ دیا ہوتا ہے۔ اِس وقت ہی مَیں نے دیکھا ہے کہ قادیان سے آنے کے بعد بعض غرباء نے اتنی اتنی رقم بطور چندہ کے دی ہے کہ اگر اس کا اندازہ لگایا جائے تو اس کا سینکڑواں حصہ بھی امراء نے نہیں دیا۔ جو کچھ بھی انہوں نے اپنی ضرورتوں کے لیے پس انداز کیا ہوا تھا وہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا۔ پتہ نہیں کہ وہ روپیہ انہوں نے کتنے سالوں میں جمع کیا تھا۔ کسی امیر نے ایسا نہیں کیا۔ کسی ڈیڑھ سو سے اوپر کی آمدن والے نے ایسا نہیں کیا بلکہ سو سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے،پچھتّر سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے بلکہ پچاس سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے۔
مَیں جب قادیان سے آیا ہوں تو مَیں نے خیال کیا کہ جو لوگ وہاں بیٹھے ہیں ان کے لیے صدقہ دیتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ جب تک آخری قافلہ نہیں آیا مَیں پچیس روپیہ روزانہ نکال کر صدقہ دیتا تھا اور یہ ساڑھے سات سو روپیہ ماہوار بنتا ہے۔ جب قافلے آ گئے تو اب سَو روپیہ ماہوار صدقہ دیتا ہوں تاخداتعالیٰ وہاں کے رہنے والوں کو محفوظ رکھے۔ ایک شخص اَور تھا جس کو یہ خیال آیا خواہ وہ دوسرے نقطہ نگاہ سے ہی تھا۔ اُس کی تنخواہ بے شک ڈیڑھ سو سے زیادہ ہے۔ وہ دوست افریقہ کے ہیں اُن کی طرف سے مجھے دو سو یا اڑھائی سو روپیہ کا چیک آ گیا۔ انہوں نے لکھا کہ قادیان سے نکلے ہوئے کسی خاندان کو میری طرف سے یہ رقم دی جائے اور مَیں ماہوار چالیس روپے بھجواؤں گا وہ کسی خاندان کو ماہوار دئیے جائیں۔ یہ دو ہی مثالیں ہیں ایک میری اور ایک اُس دوست کی۔ اِن کے علاوہ مجھے کوئی مثال معلوم نہیں۔ سوائے غرباء کے جن کی آمدنیں سو سے کم ہیں بلکہ یقیناً پچھتّر سے کم ہیں۔انہوں نے بالمقطع پانچ پانچ سو یا ہزار ہزار دیا ہے بغیر کسی تحریک کے۔ انہوں نے خود ہی یہ رقم ادا کی جو کئی سالوں میں محنت کر کے اکٹھی کی ہو گی۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ جب لوگ لُٹ لٹا کر آ گئے ہیں اور جماعت نازک دور میں سے گزر رہی ہے تو یہ رقم ہمارے پاس نہیں رہنی چاہیے۔ یہ لوگ غرباء ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں غریب ہوں اور مَیں پسند کروں گا کہ مَیں غریبوں میں ہی اٹھایا جاؤں۔9 آخر یہ آپؐ نے بلاوجہ نہیں فرمایا۔ آپ نے اسی لیے فرمایا ہے کہ غربت لالچ کو کم کردیتی ہے اور امارت حرص کو بڑھا دیتی ہے۔ اگر امارت کے باوجود حرص مٹی رہے تو یہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہو جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غرباء آئے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! جو وظیفہ آپ نے ہم غرباء کو بتایا تھاتا کہ ہم امراء کے صدقہ و خیرات کے مقابل پر ثواب حاصل کر سکیں وہ امراء بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا مَیں کسی کو نیکی سے نہیں روک سکتا۔10
حضرت عثمانؓ اُس زمانے کے بڑے امیر تھے۔ اس زمانہ میں جو سب سے بھاری رقم چندے میں دی گئی تھی وہ آپؓ نے ہی دی تھی۔ وہ رقم بارہ سے پندرہ ہزار تک بنتی ہے اور وہ ان کی کل دولت کا نصف تھی۔ اِس طرح ان کی ساری جائیداد چوبیس پچیس ہزار تھی۔ آجکل اُتنی دولت والے کو مالدار نہیںکہا جاتا۔ اُس زمانہ میں امراء میں سے یہی ایک مثال ملتی ہے۔ غزوہ تبوک کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ اکٹھا کیا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس سے ستّو وغیرہ خرید لیے جائیں۔ انہیں پلاؤ زردے تو نہیں کھلانے تھے۔ دس ہزار کا لشکر جا رہا تھا اُس میں سے بیشتر حصہ اپنے ساتھ اپنا کھانا لے جارہا تھا۔ دو تین ہزار آدمیوں کے پاس کھانا نہیں تھا۔ آپؐ نے مناسب سمجھا کہ چندہ وغیرہ کر کے اُن کے لیے خوراک مہیا کر لی جائے مگر وہ چندے سے پوری نہ ہو سکی۔ حضرت عثمانؓ نے جب دیکھا کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی ہے اور آپ کو گھبراہٹ ہو رہی ہے تو آپ نے اپنی آدھی دولت لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دی۔11
مَیں یہ نہیں کہتا کہ امراء میں قربانی اور ایثار نہیں پایا جاتا۔ امراء میں بھی قربانی اور ایثار پایا جاتا ہے جیسا کہ مَیں نے سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کی مثال پیش کی ہے۔ وہ مالدار ہیں اور مالدار ہوتے ہوئے بھی ان میں قربانی کی روح پائی جاتی ہے۔ سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراس والے تھے۔ مجھے یادہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب آپ کا ایک خط پڑھ رہے تھے آپ پر رقت طاری ہوگئی۔ اُس میں تین چار سو روپیہ کابیمہ تھا۔ آپ غریب ہو گئے تھے۔ آپ کا دیوالہ نکل گیا تھا۔ اس سے پہلے آپ کا ہی چندہ سب سے زیادہ تھا۔ وہ ماہوار دو سو دیتے تھے۔ اُس وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ملک کی جو اقتصادی حالت تھی اُس کے لحاظ سے وہ دو سو دو ہزار کے برابر تھے۔ سیٹھ صاحب نے اُس خط میں لکھا تھا مَیں کوشش کر رہا تھا کہ قرضے اُتار کر ایک چھوٹی سی دکان اپنے بھتیجے یا داماد کو ڈال دوں (آپ کی نرینہ اولاد نہیں تھی) تا گھر کا گزارہ ہو سکے۔ ایک دوست نے دو تین ہزار روپیہ بھیج دیا ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ مَیں نے دیر سے حضور کو کچھ ارسال نہیں کیا اس لیے اس رقم سے خدا تعالیٰ کا حصہ نکال دوں۔ ان کا دل امارت کی وجہ سے خراب نہیں تھا۔ وہ آسودہ حال تھے۔ ہاں اُس وقت تنگی میں تھے۔ اُس زمانے کے لحاظ سے وہ بڑے تاجر تھے کیونکہ آپ کی ہزار پندرہ سو کی ماہوار آمدن تھی اور آپ دوتین سو ماہوار چندہ بھیجا کرتے تھے۔ پس امراء میں بھی ایسے آدمی ہوتے ہیں مگر غرباء میں ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
مَیں حیران ہوں کہ اِس خط لکھنے والے کو یہ خیال کیوں گزرا۔ اصل چندہ دینے والے اورقربانی کرنے والے تو غرباء ہی ہوتے ہیں۔ وہ شخص تو غرباء کی تائید کے لیے ایسا کہتا ہے مگر اس نادان نے غرباء کی یہ کہہ کر بہت ہتک کی ہے اور ان کے ایمانوں پر اس نے حملہ کیا ہے۔ مال و دولت سے تو وہ پہلے ہی محروم تھے یہ اخلاص اور ایمان ہی کی دولت انہیں نصیب تھی اور اس نے ان سے وہ دولت بھی چھیننے کی کوشش کی۔ لیکن شیطان یہ دولت نہیں چھین سکتا اِس قسم کے خواہ ہزاروں آدمی پیدا ہو جائیں۔ یہی لوگ جن سے اس نے چندہ نہ لینے کی تحریک کی ہے چندہ دیں گے اور انہی کے ذریعہ اسلام زندہ اور قائم ہے اور اب بھی انہی کے ذریعہ یہ قائم رہے گا کُتّے بھونکتے رہیں گے اور قافلہ قدم بڑھاتا چلا جائے گا"۔
(الفضل 26فروری 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
بخاری کتاب الاذان باب فضل صلٰوۃ العشاء فی الجماعۃ
2
:
الماعون:6
3
:
الماعون:7
4
:
بخاری کتاب الحج باب طواف النساء مع الرجال
5
:
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب مؤاکلۃ الحائض و مجامعتہا
6
:
تذکرہ صفحہ 402۔ ایڈیشن چہارم میں الفاظ بدیں طور پر ہیں ’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں۔ ان کو اطلاع دی جاوے۔ نظیف مٹی کے ہیں۔ وسوسہ نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گی‘‘۔
7
:
تذکرہ صفحہ 104۔ ایڈیشن چہارم میں ’’ ...سچائی ظاہر کردے گا ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔
8
:
بگھار: وہ گھی یا تیل جس میں پیاز ، بڑی الائچی یا زیرہ لہسن وغیرہ داغ کیا جائے( اردو لغت تاریخی اصولو ں پر جلد 2صفحہ 1222ترقی اردو بورڈ کراچی)
9
:
ترمذی ابواب الزھد باب ما جاء ان فقراء المھاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیائھم
10
:
صحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ
11
:
سیرت ابن ہشام جلد4صفحہ 161مطبوعہ مصر1936ء میں ’’ اَنْفَقَ عثمان فی ذٰلک نَفَقَۃً عَظِیْمَۃًلَمْ یُنْفِقْ اَحَدٌ مِثْلھَا‘‘ کے الفاظ ہیں۔


اگر ہم خدائی جماعت ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت
ہمیں تباہ نہیں کر سکتی
(فرمودہ19نومبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"گزشتہ جمعہ میں مَیں نہیں آسکا کیونکہ اُس سے پہلے جمعہ کے بعد ہفتہ کے دن سے مجھے شدیدکھانسی شروع ہو گئی۔ ایسی شدید کہ میرے لیے چند الفاظ بھی بلند آواز سے بولنا مشکل ہو گیا۔اب بھی مجھے کھانسی کی تکلیف ہے۔ صبح اور شام بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور ظہر کے وقت سے مجھے حرارت شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مَیں مغرب اور عشا کی نمازوں میں نہیں آ سکتا۔ ظہر اور عصر کی نمازوںمیں مَیں آ جاتا ہوں کیونکہ ان میں بالجہر قراء ت نہیں ہوتی۔ بہرحال چونکہ اب کچھ کمی کے آثار شروع ہیں اس لیے مَیں جمعہ پڑھانے کے لیے آ گیا ہوں۔
مَیں نے گزشتہ جمعہ سے پہلے جمعہ میں ایک خط کا ذکر کیا تھا جو مجھے ایک شخص کی طرف سے ملا۔ میری غرض اُس خط کا ذکر کرنے سے یہ تھی کہ مَیں اس شخص پر یہ ظاہر کروں کہ اگر وہ لاہور کا ہے (گومجھے شبہ ہے کہ وہ لاہور کا نہیں) تو اُس کو بھی معلوم ہو جائے کہ مَیں نے اُس کے خط کو چُھپایا نہیں بلکہ اس جماعت کے سامنے اُسے ظاہر کر دیا ہے جس سے وہ اپنا تعلق بتاتا اور جس پر وہ اپنا بھروسہ ظاہر کرتا ہے اور تا اُس کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اُس نے جو کچھ لکھا ہے خود اِس جماعت کے افراد اُس سے اختلاف رکھتے اور اُس کے اِس رویہ پر سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ مَیں نے یہ بات ایسے رنگ میں بیان نہیں کی تھی کہ مَیں اُس کے اِس فعل کو لاہور کی جماعت کی طرف منسوب کروں یا اس بارہ میں جماعت کو کسی قسم کی تنبیہہ کروں بلکہ صرف اُس کے خیالات کو بیان کرنے پر مَیں نے اکتفا کیا تھا اور اس نقطہ نگاہ کو واضح کیا تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے مقابل پر کھڑا ہونے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا۔ میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ اُس شخص کو معلوم ہو جائے کہ اُس کی بات اپنے اندر کتنا وزن رکھتی ہے اور جماعت میں اس کے متعلق کیا جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد لاہور کی جماعت کی طرف سے مجموعی طور پر بھی اور بعض لوگوں کی طرف سے انفرادی رنگ میں بھی خطوط ملے ہیں کہ وہ اس شخص کے خیالات کے متعلق سخت اظہارِ نفرت کرتے ہیں لیکن مَیں سمجھتا ہوں اس کی بھی چندا ں ضرورت نہیں تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک جماعتیں ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھائے چلی جاتی ہیں اُس وقت تک فتنہ انگیز لوگ اپنی کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بڑے ہوں یاچھوٹے۔ ہماری جماعت میں ایسے ایسے افراد اور جتھوں نے بھی فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو جماعت میں اثر رکھتے تھے لیکن ان کے فتنے اور ان کی شورشیں اکثر اُنہی پر پڑیں اور وہ ہمیشہ ہی ناکام رہے۔ یہ جو مَیں نے کہا ہے کہ ان کی شورشیں اکثر اُنہی پر پڑیں اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض لوگ کامیاب بھی ہوئے۔ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ بعض کو ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا نہیں ملی آئندہ مل جائے گی۔ لیکن جہاں تک کسی فتنے کا تعلق ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا قطع نظر اُن وعدوں کے جوخداتعالیٰ نے میری ذات کے متعلق کیے ہوئے ہیں یا قطع نظر اُن وعدوں کے جو خدا تعالیٰ نے براہ راست مجھ سے کیے ہیں۔ اگر یہ وعدے نہ ہوتے تب بھی جماعت ابھی اس مشن کو پورا نہیں کر سکی جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا اور جب تک کوئی جماعت اپنے مقصد کو پورا نہیں کر لیتی اس وقت تک وہ گِرا نہیں کرتی۔ یہ ایک اصول ہے جو ہمیشہ قائم رہا اور اب بھی قائم ہے۔ ہاں جب وہ اپنے مقصد کو پورا کر لیتی ہے تو اس کے بعد اُس میں تنزل کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے انفرادی تنزل آسکتا ہے، شخصی تنزل آسکتا ہے لیکن جماعتی خرابی اُس میں پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ جماعت کے لحاظ سے بھی اگر اُس میں بعض کمزوریاں ہوں تو وہ جماعتی خرابی نہیں کہلا سکتی۔ جماعتی خرابی کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جماعت بحیثیت جماعت گر جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت کو کھو بیٹے اور آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اب تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی جماعت اپنے مقصد کو پورا کرنے سے پہلے بحیثیت جماعت بگڑ جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کو کھو بیٹے۔ یہ زمانہ ابھی وہی چل رہا ہے جس میں وہ پیشگوئیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے متعلق کی ہیں ابھی پوری نہیں ہوئیں۔ اور جب تک وہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوتیں یہ جماعت بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کا آلہ کار ہے اور کبھی کوئی فن کار اپنے آلہ میں خرابی پیدا ہونے پر اُسے توڑا نہیں کرتا بلکہ اُس کی خرابی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ ہاں جب وہ اپنے مقصد کو پورا کر لے تو پھر بے شک وہ اُسے توڑ پھوڑ بھی دیتا ہے۔ ایک درزی اپنے استعمال کے لیے قینچی مول لیتا ہے تو جب تک وہ اسے استعمال کرنا چاہے وہ اسے خراب نہیں ہونے دیتا۔ بلکہ اگر کوئی خرابی اُس میں پیدا ہو تو وہ اُس کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہاں جب وہ قینچی اُس کے لیے آلہ کار نہیں رہتی تو پھر بے شک وہ اسے پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح ایک قصاب اپنی ضروریات کے لیے چُھری مول لیتا ہے جب تک چُھری اُس کا آلہ کار رہتی ہے، جب تک وہ اس چُھری سے بکرے ذبح کرنا چاہتا ہے اُس وقت تک وہ اسے خراب نہیں ہونے دیتا۔ ہاں جب اس کا اپنا ارادہ یہ ہو کہ اب مَیں بکرے ذبح نہیں کروں گا تو پھر بے شک وہ اُسے پھینک دیتا ہے۔ بہرحال جس مقصد کے لیے کوئی چیز لی جاتی ہے اُس مقصد کے پورا ہونے سے پہلے اُس چیز کو ضائع نہیں کیا جاتا۔ خدا تعالیٰ بھی جب کسی جماعت کو ایک خاص مقصد کے قیام کے لیے منتخب فرماتا ہے تو وہ اُس جماعت کو بحیثیت جماعت اس وقت تک خراب نہیں ہونے دیتا جب تک وہ اپنے مقصد کو پورا نہیں کر لیتی۔ جب وہ اپنے مقصد کو پورا کر لیتی ہے تو اس کے بعد اُس میں تنزل کے آثار بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اُس سے پہلے نہیں۔
پس یہ مجنونانہ بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ جبکہ ابھی اس نے اپنے مقصد کو پورا ہی نہیں کیا اس میں نَعُوْذُ بِاللّٰہ تنزل اور خرابی کے آثار پیدا ہو گئے ہیں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی عقل کی وجہ سے یا کسی خفیہ سازش اور تدبیر کی وجہ سے یا کسی منصوبہ کی وجہ سے یاکسی اَور طاقت کی وجہ سے ایک مامور کی جماعت کو بگاڑ سکتا ہے یا اُس میں ایسافتنہ پیدا کر سکتا ہے جوخدائی نظام کو درہم برہم کر دے وہ دوسرے لفظوں میں یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ مامور جھوٹا تھا اور وہ جماعت خدائی جماعت نہیں تھی۔ اور اگر وہ مامور خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اگر وہ جماعت واقع میں خداتعالیٰ کی جماعت تھی تو اس مقصد کے پورا ہونے سے پہلے جس کے لیے وہ مامور بھیجا گیا تھا اُس میں تباہ کر دینے والا تفرقہ پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا تفرقہ پیدا ہو جائے تو جماعت اپنے مقصد میں ناکام رہے گی اور اگر ناکام رہے گی تو مامور یقیناً جھوٹا ہو گا۔ پس یہ تو کوئی سوال ہی نہیں کہ اس کے یا کسی اَور کے فتنہ پیدا کرنے سے کیا ہو جائے گا۔ یہ تو ہم پہلے دن سے جانتے ہیں۔ اُن فتنوں کے متعلق بھی جو کھڑے کیے گئے اور اُن فتنوں کے متعلق بھی جو موجود ہیں اور اُن فتنوں کے متعلق بھی جوآئندہ ہو سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور کوئی شخص بھی اپنے مقصد کو نہیں پاسکتا۔ کیونکہ اگر فتنہ کامیاب ہو جائے اور شیطان اپنے مقصد کو پا لے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسیح نہیں رہتے اور ان کی جماعت خدا ئی جماعت نہیں رہتی۔ کیونکہ ابھی تک اُس نے اُس مقصد کو حاصل نہیں کیا جس کے لیے وہ قائم کی گئی تھی۔اورا بھی تک وہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جو اسلام اوراحمدیت کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھیں۔
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو انسان روزِروشن کی طرح جانتا ہے اوروہ سونے سے پہلے بھی جانتا ہے اور سونے کے وقت بھی جانتا ہے۔ دن کے اوقات میں بھی جانتا ہے اور رات کی گھڑیوں میں بھی جانتا ہے اور انہی صداقتوں میں سے ایک یہ بھی ہے جو نہ پہلے بدلی اور نہ آئندہ بدلے گی۔ پس میرا منشا اس خط کے اظہار سے یہ تھا کہ مَیں لکھنے والے کو خود اُس کی اپنی نظروں میں ذلیل کر دوں اور وہ سمجھے کہ مَیں نے جھوٹ بولا تھا۔ اگر مَیں اُس خط کے مضمون کو بیان نہ کرتا تو وہ دل میں خیال کر لیتا کہ دیکھا آخر ڈر گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اس فتنہ انگیزی میں یہ شخص کامیاب ہو جائے گا۔ تب مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس خط کا ذکر کر دوں تا کہ وہ لوگ جن پر اُس نے حُسنِ ظنی کی یا صحیح لفظوں میںیوں کہو کہ بدظنی کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ وہ اس فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے وہ بھی اس کے لیے ایسا جواب مہیا کردیں کہ جس کے بعد اس کے لیے اپنے جھوٹ سے آگاہ ہونا کوئی مشکل نہ رہے۔ ورنہ جیسا کہ میں نے بارہا بتایا ہے خدائی ارادوں میں کوئی شخص حائل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی شخص حائل ہونے کی کوشش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بن جاتا ہے۔ لیکن دل چاہتا ہے کہ ہمارا کوئی عزیز تباہ نہ ہو۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جن مقاصد کے لیے خدا تعالیٰ نے اِس جماعت کو قائم کیا ہے اُس میں جماعتیں توالگ رہیں، ملک تو الگ رہے ساری دنیا مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ اس لیے جہاں تک خدائی تائید اور نصرت کا سوال ہے لاہور کی جماعت یا پاکستان کی ساری جماعتیں یا ساری دنیا کی جماعتیں بھی اِس میں روک پیدا نہیں کر سکتیں اور کسی فتنہ کے پیدا ہونے سے کوئی چیز ہمیں ڈرا نہیں سکتی۔ کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ خدا نے ہم سے ایک کام لینا ہے تو دنیا کی طاقتوں کے متعلق یہ سمجھ لینا کہ وہ اس میں روک بن سکتی ہیں اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اِس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارا خدا نَعُوْذُ بِاللّٰہناقص اور کمزور ہے اور وہ دنیا کے لوگوں سے ڈر جائے گا۔
پس مَیں ان دوستوں کی خاطر جنہوں نے گھبراہٹ میں مجھے خطوط لکھے ہیں اور یہ سمجھا ہے کہ مَیں ان کے متعلق کسی بدظنی میں مبتلا ہوں یہ ظاہر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو نتیجہ نکالا وہ غلط ہے۔ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر تھی کہ لاہور فتنوں کا گھر بننے والا ہے چنانچہ جتنے فتنے اٹھے ان میں سے اکثر یہیں سے اٹھے۔ یہیں ہماری مخالف جماعت کا مرکز ہے۔ اورپھر وہ لوگ جو قادیان سے نکلے انہوں نے بھی لاہور میں ہی جتھے پیدا کیے۔ مگر جہاں وہ پیشگوئیاں تھیں وہاں یہ بھی پیشگوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو متروک نہیں کیا بلکہ اس میں نیک اور پاک لوگ بھی موجود ہیں1 اور کسی جماعت میں سب کے سب مخلص لوگوں کا ہونا کوئی شرط نہیں ہوتا اور نہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شہر ایسا ہو جس میں کوئی غیر مخلص نہ ہو۔ ہر جماعت میں مخلص بھی ہوتے ہیں اور غیرمخلص بھی ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اس شہر کے متعلق یہ کہہ سکیں کہ اس میں کوئی غیرمخلص نہیں۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس میں کوئی مخلص نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں کئی شہر ایسے ہوں بلکہ ہیں جن میں نام کا بھی کوئی احمدی نہیں مخلص ہونا تو الگ رہا۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کئی شہر ایسے ہوں جن میں احمدی تو ہوں لیکن مخلص نہ ہوں۔ لیکن لاہور کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی اُس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں مخلص ہیں۔ پس جہاں یہ ناممکن بات ہے کہ ہم کسی شہر کے متعلق یہ خیال کر لیں کہ وہاں غیرمخلص کا ہونا ناممکن ہے وہاں لاہور کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ یہاں سلسلہ احمدیہ کی زندگی کے دوران میں کسی وقت سب غیر مخلص ہو سکتے ہیں قطعی طور پر غلط ہے۔ اَور شہروں میں ہو سکتا ہے کہ مخلص لوگ نہ ہوں لیکن لاہور کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ یہاں مخلص لوگ ضرور ہوں گے۔ پس جب تک وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس جماعت کو قائم فرمایا ہے اُس وقت تک لاہور کی جماعت میں کچھ نہ کچھ مخلص ضرور رہیں گے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز بھی لاہور کی جماعت کے لیے فخر کا موجب ہو سکتی ہے۔ کم سے کم ایسے لوگ جن کے دلوں میں ایمان کی تڑپ ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ گوہم کمزور ہیں مگر طاقتور بننا چاہیے، جن کے دلوں میں یہ خواہش ہو کہ گو ہم کم علم ہیں مگر دین کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے یہ چیز بھی ایک رنگ میں محرّک ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے شہر میں ہوتے جس کے متعلق اِس قسم کی کوئی خبر نہ ہوتی کہ وہاں مخلصوں کا ہونا ضروری ہے۔ مگراب وہ ایسے شہر میں ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر ہے کہ یہاں مخلصوں کا ہونا ضروری ہے۔ پس ایسا شخص جس کے دل میں نیکی اور تقوٰی میں ترقی کرنے کی خواہش موجود ہو اُس کے لیے ایک سہارا موجود ہے، ایک امید دلانے والی شعاع موجود ہے۔ وہ سمجھے گا کہ جب کچھ نہ کچھ مخلص افراد اِس میں ضرور ہونے چاہییں تو کیوں نہ کوشش کر کے مَیںخود ہی اس مقام کو حاصل کر لوں۔ جب خدا کہتا ہے کہ اِس شہر میں نیک افراد بھی ہوں گے تو کیوں نہ مَیں بھی ان نیک افراد میں اپنے آپ کو شامل کرنے کی کوشش کروں۔
مَیں جانتا ہوں کہ لاہور کی جماعت کے متعلق مجھے بہت کچھ کہنا پڑا ہے اور بار بار مَیں نے اس جماعت کو اس کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے مگر اِس کی وجہ اخلاص کی کمی نہیں بلکہ تنظیم کی کمزوری ہے۔ یہ شہر اب اتنا بڑا ہو گیا ہے اور اس کی آبادی اِتنی بڑھ چکی ہے کہ معمولی شہروں والا نظام اب یہاں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں لازماً اب ہمیں اَور انتظام کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جس طرح چھوٹے شہروں میں ہر جگہ آسانی کے ساتھ پہنچا جا سکتا ہے اُس طرح یہاں ایک دوسرے کے پاس نہیں پہنچا جا سکتا۔ اِسی لیے مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ مختلف حلقوں میں مساجد کے لیے کوئی نہ کوئی جگہ مخصوص کر لینی چاہیے۔ چاہے وہ کتنی چھوٹی ہو۔ میری غر ض اس سے یہ تھی کہ جب مسجدیں بنیں گی تو لازماً مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے۔ بڑے مبلغ نہ سہی دیہاتی مبلغ بھی رکھ دئیے گئے تب بھی اس کے نتیجہ میں شہر کے مختلف مرکز بن جائیں گے اور نگرانی میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ شہر دس بارہ میل لمبا اور سات آٹھ میل چوڑا ہے اور اتنے بڑے شہر میں کوئی معمولی انجمن کام نہیں کر سکتی۔ دنیا کے باقی بڑے شہروں میں بھی یہی دستور ہے کہ وہاں شہر کا انتظام بالکل الگ ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً ہر ضلع کاایک سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوتا ہے مگر بڑے شہروں کا پولیس افسر الگ ہوتا ہے جو کمشنر کہلاتا ہے۔ بمبئی میں ضلع کا سپرنٹنڈنٹ الگ ہے اور شہر کا کمشنر پولیس الگ ہے۔ اِسی طرح کلکتہ کے ضلع کا سپرنٹنڈنٹ پولیس اَورہے اور کلکتہ شہر کا کمشنر پولیس اَور ہے کیونکہ اتنے بڑے شہر میں زائد انتظامات کرنے ضروری ہوتے ہیں۔ لاہور پہلا شہر ہے جہاں ہماری اتنی بڑی جماعت موجود ہے۔ یوں تو کلکتہ اور بمبئی میں بھی جماعتیں ہیں مگر بمبئی میں کوئی سو ڈیڑھ سو آدمی ہیں اور کلکتہ میں دو اڑھائی سو۔ یہاں چار پانچ ہزار احمدی ہیں اور پھر یہ احمدی قریباً ہر محلہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہاں صرف ایک دو محلوں میں ہی احمدی آبادی ہے۔ اِس وجہ سے اگر اَور شہروں میں کوئی کمزوری اور نقص ہو تو وہ نمایاں نہیں ہوتا لیکن ہزاروں کا نقص نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ سب کو نظر آنے لگ جاتا ہے۔ کچھ تو اِس وجہ سے کہ نقص اپنی ذات میں ایک عیب ہے اور کچھ اُس نقص کے نمایاں ہونے کی وجہ سے نظر آجاتا ہے۔ انسان کے جسم پر اگر اُس کی گردن کے نیچے اورگُھٹنوں کے اوپر کوئی بدنما داغ ہو تو ساری عمر پاس رہنے والے دوست کو بھی شبہ تک نہیں ہو گا کہ اُس میں کوئی نقص پایا جاتا ہے لیکن اگر اُس کے منہ پر اُس داغ سے دسواں حصہ چھوٹا ایک تل پایا جاتا ہو تو وہ سب کو نظر آ جائے گا۔ پس کسی نقص کا نمایاں ہونا یہ بھی انسان کو نَکُّو 2بنا دیتا ہے۔ لاہور کی جماعت چونکہ مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ہے اس لیے اگر کوئی نقص ہوتا ہے تو لازماً اس کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی ہے لیکن جہاں جماعت تھوڑی ہو وہاں نقص کا پتہ بھی نہیں لگتا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے نقطہ نگاہ سے یہاں کی جماعت ابھی بہت تھوڑی ہے اور ضروری ہے کہ اسے ترقی دی جائے لیکن اَور جماعتوں کے مقابلہ میں یہ جماعت اب بڑھ چکی ہے اور ضروری ہے کہ اس کی ایسے رنگ میں تنظیم کی جائے کہ ایک طرف تو سارے شہر کے مشترکہ نظام کی صورت رہے اور دوسری طرف حلقے اپنے اپنے علاقوں میں مفید کام کر سکیں۔ تمام دنیا میں یہی دستور ہے کہ بڑے شہروں کا نظام اَور طرح چلایا جاتا ہے۔ مثلاً لندن میں سارے شہر کے لیے کارپوریشن بھی ہے اور پھر الگ الگ وارڈوں میں الگ الگ میونسپل کمیٹیاں بھی ہیں جو اپنے علاقہ کی مخصوص ضروریات کا فکر رکھتی اور اُن کے بارہ میں تدابیر اختیار کرتی ہیں۔ مثلاً وہاں تعلیم کارپوریشن کے سپرد نہیں بلکہ وارڈ کے سپرد ہے۔ کارپوریشن کے سپرد بڑے بڑے کام ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں مقامی میونسپل کمیٹیوں کے سپرد ہوتی ہیں۔ جیسے تعلیم ہے یا لوگوں کے لیے ہواخوری کا انتظام کرنا ہے یاان کی صحت کا خیال رکھنا ہے۔ اس کے لیے چھوٹی چھوٹی میونسپل کمیٹیاں بن جاتی ہیں جو تمام کام کرتی ہیں۔ اِسی طرح لاہور میں بھی مقامی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ گو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کا نظام ایسا اچھا نہیں۔
مجھے یاد ہے جب مَیں لندن گیا تو جس علاقہ میں ہماری مسجد ہے اُس علاقہ کے وارڈ میں دوستوں نے میری تقریر کرانی چاہی جسے مَیں نے تسلیم کر لیا۔ وہ تقریر ہندوستان کے حالات پر تھی۔ میری تقریر کے وقت جلسہ کا جو پریذیڈنٹ تھا وہ اس وارڈ کی طرف سے پارلیمنٹ کا ممبر تھا اور اتنا بڑا اثر اور رسوخ رکھنے والا تھا کہ وزیراعظم کی تقاریر کے وقت اکثر وہی شخص پریذیڈنٹ ہوا کرتا تھا۔ جب میری تقریرختم ہوئی تو انہوں نے چائے پلائی اور پھر وہ مشایعت3 کے لیے میرے ساتھ چل پڑے۔ مَیںنے سمجھاکہ یہ مجھے خوش کرنے کے لیے رسماًساتھ چل پڑے ہیں ۔کچھ دور جا کر مَیں نے ان سے کہا کہ اب آپ تشریف لے جائیے ہم چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا مَیں نے ابھی کچھ دور آپ کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے پھر کہا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔ انہوں نے کہا میری غرض آپ کے ساتھ آنے سے یہ ہے کہ مَیں آپ کو ایک جگہ دکھانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ کچھ دور جانے کے بعد ایک چوک آ گیا جس میں ایک فوّارہ لگا ہوا تھا اور اس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی منڈیر تھی تا کہ بچے جب وہاں سیر کے لیے آئیں تو بیٹھ سکیں۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کہا بس یہ جگہ آپ کو دکھانے کے لیے مَیں آیا تھا۔ پھر انہوں نے کہا ہم کہا کرتے ہیں کہ ہم بڑے تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری پبلک ساری سیاسیات کو سمجھتی ہے بلکہ ہم یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ بعض ممالک کی سیاست ناقص ہے اور وہ صحیح جمہوری اصولوں پر حکومت نہیں کر رہے مگر دراصل یہ بات غلط ہے۔ ہماری پبلک بھی اُسی طرح جاہل ہے جس طرح اَور دنیا کے لوگ جاہل ہیں۔ چنانچہ مَیں آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں۔ مَیں نے جنگ کے موقع پر اپنی قوم کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ لاکھوں کی تجارت مَیں نے ملک کی خدمت کے لیے تباہ کر دی۔ اس کے بعد بعض اہم کاموں کے لیے مَیں سالہاسال بیرونی ممالک میں رہا۔ اِتنی بڑی خدمات کے بعد جب مَیں واپس آیا تو مجھے بعض دوستوں نے کہا کہ آپ اِس وارڈ کی طرف سے پارلیمنٹ کی ممبری کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ مَیں نے اُن کی اِس بات کو مان لیا اور کھڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا آپ کو پروپیگنڈا کرنا چاہیے۔ مَیں نے کہا مجھے پروپیگنڈا کی کیا ضرورت ہے، میری خدمات ملک پر ظاہر ہیں اور جو شخص میرا مدِّمقابل ہے اُس کی کمزوریاں بھی سب پر عیاں ہیں۔ ان حالات میں مجھے پروپیگنڈا کی کیا ضرورت ہے۔ جب انہیں پتہ ہے کہ ملک کیلئے میں نے اپنی تجارتیں بربادکیںاور دور دراز ممالک کے سفر کئے اور سالہا سال باہر رہا تو اب اپنے لئے کسی پروپیگنڈا کی کیا ضرورت ہے غرض میں نے اُن کی بات کو ردّ کر دیا مگر جب الیکشن کا نتیجہ نکلا مجھے معلوم ہوا کہ سَو میں سے دس ووٹ میرے تھے اور باقی سب میرے مَدِّمقابل کے تھے اس پر مجھے سخت صدمہ ہوا اور مَیں نے ارادہ کیا کہ ان کاموں سے ہی ہٹ جاؤں۔ مگر آخر بعض دوستوں نے کہا کہ بیوقوفی تمہاری ہے جو کام تم پیش کرتے ہو وہ تو بڑے بڑے لوگوں کے علم میں ہے۔ محلہ والوں کو کیا معلوم ہے کہ تم نے کیا کیا؟ انہیں تو اُسی کام کا علم ہو سکتا ہے جو محلہ والوں کے لیے کیا جائے۔ اِس لیے تم ہمت نہ ہارو اور جب دوبارہ الیکشن ہو تو اُس وقت پھر کھڑے ہو جاؤ اور کوشش کرو کہ تمہیں ووٹ ملیں۔ چنانچہ جب دوبارہ الیکشن کا موقع آیا تو دوستوں نے مجھے مجبور کیا کہ چلیے اور ایک جلسہ میں اپنے متعلق تقریر کیجیے۔ جب مَیں وہاں گیا تو ایک شخص جو میرے دوستوں میں سے ہی تھا جلسہ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ ہوشیار تھا اور لوگوں کی نبض کو خوب پہچانتا تھا۔ اُس نے کہا جناب! آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اگر آپ کو ووٹ دئیے جائیں تو آپ ہمارے فائدے کے لیے کیا کریں گے؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر الیکشن کے موقع پر امیدوار کھڑے ہو کر تقریریں کر دیتے ہیں اور محلہ والوں کے فائدہ کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اگر آپ ہم لوگوں کے فائدہ کے لیے کوئی کام کرنے کا وعدہ کریں تو ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُس نے پہلے سے طے شدہ سکیم کے مطابق جس کا آپس کے مشورہ سے فیصلہ ہو چکا تھا کہا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے محلہ کے فائدے کے لیے کچھ کیا جائے۔ مثلاً ہمارے محلہ کے لڑکوں کے بیٹھنے اور سیر و تفریح کرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر کسی چوک میں کوئی ایسی جگہ بنا دی جائے جہاں فرصت کے اوقات میں و ہ بیٹھیں اور اچھے نظاروں سے لُطف اندوز ہوں تو ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فرمائیے کیا آپ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں چوک میں آپ ایک ایسی جگہ بنا دیں جس میں فوارہ لگا ہوا ہو اس کے اردگرد بچوں کے بیٹھنے کی جگہ ہو تا کہ بچے وہاں کھیلیں کُودیں اور سیرو تفریح کریں؟ مَیں نے کہا مجھے منظور ہے اور مَیں ممنون ہوں کہ محلہ والوں نے مجھے اپنی ضرورت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے بعد میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ اب آپ آرام کیجیے اور گھر بیٹھیے ووٹ آپ کو ہی ملیں گے۔ چنانچہ مَیں نے یہ فوّارہ اور بچوں کے بیٹھنے کی جگہ بنوائی اورنتیجہ یہ ہوا کہ دوسری دفعہ90 فیصدی ووٹ مجھے ملے اور دس فیصدی ووٹ میرے مدمقابل کو ملے۔ انہوں نے کہا بس یہی فوارہ مَیں آپ کو دکھانے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے یہاں آیا تھا کہ میری وہ ساری قربانیاں جن کے مقابلہ میں یہ فوّارہ کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا اور جو اُن کے 1/1000حصہ کے برابر بھی نہیں۔ اُن سے تو مَیں ووٹ حاصل نہ کر سکا لیکن جب مَیں نے یہ فوّارہ بنا دیا تو مجھے ووٹ مل گئے۔ اِس لیے کہ یہ کام ایسا تھا جو محلہ والوں کو نظر آتا تھا۔
تو اگر اس قسم کے حلقے بنا دئیے جائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ اپنے اپنے حلقہ کی ترقی اور دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ شہر کا نظام بھی قائم رہے۔ مثلاً شہر کے بڑے تبلیغی جلسے کسی محلہ کی جماعت کی وجہ سے نہیں ہو سکتے۔ اِسی طرح اگراللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ اور توفیق دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا مڈل سکول قائم کرلے۔ پھر اسے ہائی سکول بنائے۔ پھر ضروری ہے کہ ہمارا اپنا کالج ہو۔ لڑکوں کے لیے الگ ہو اور لڑکیوں کے لیے الگ ہو۔ اور یہ کام ایسے ہیں جنہیں محلہ کی انجمنیں نہیں کر سکتیں۔ لازماً شہر کا نظام ہی ان کاموں کو سرانجام دے گا۔ پس یہ دونوں چیزیں ایک وقت میں ضروری ہیں اور اس بارہ میںمقامی جماعت کو اپنے فرائض کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت میں اگرکوئی نقص ہے تو اِس کی وجہ نظام کی خرابی ہے ورنہ اگر انہیں سمجھایا جائے تو وہ سمجھ جاتے ہیں اور قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ اگر اسے براہ راست مخاطب نہ کیا جائے تو اس کے اندرسُستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سُستی کو دور کرنے کے لیے نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر نظام ایساہونا چاہیے جس میں مختلف حلقہ جات افراد کے فائدہ کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہوں۔ افسر بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انسان کچھ کام لے اور کچھ کام دے۔ جب تک کسی نہ کسی رنگ میں نظام کا وجود لوگوں کے لیے مفید نہ ہو اُس وقت تک اُن کی سستی دور نہیں ہو سکتی۔ فطرتاً ہر انسان چاہتا ہے کہ میرا بھی کوئی کام ہو اور اس لیے وہ دوسروں کی طرف جھکتا ہے۔ دینی نظام لے لو یا دنیوی دونوں میں یہی روح کام کرتی نظر آئے گی۔ روحانی نظام میں جب لوگ حصہ لیتے ہیں تو اسی لیے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بزرگ کی دعائیں سنتا ہے۔ اُس کی زبان میں اُس نے برکت رکھی ہوئی ہے۔ اگر ہم اس سے تعلق پیدا کریں گے اور اس سے دعائیں کرائیں گے تو ہماری مشکلات دور ہوں گی۔ اِسی طرح مادی نظام میں لوگ اُسی وقت حصہ لیتے ہیں جب خود ان کو اپنا فائدہ بھی نظر آتا ہو۔ پس تنظیم ایسی ہونی چاہیے جس میں صرف لینے کا سوال نہ ہو بلکہ دینے کا بھی ہو۔ اور محلہ کی تنظیم افراد کے فائدہ کے لیے کچھ نہ کچھ کام کرتی ہو تا کہ ان کے دلوں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ کو لوگوں کے لیے مفید بنا سکیں۔ مثلاً دیہاتی مبلغ اگر بچوں کو قاعدہ پڑھانے لگ جائیں یا جن کو قرآن کریم نہ آتا ہو اُن کو قرآن کریم پڑھانا شروع کریں اور یہ تحریک سارے محلہ میں پھیل جائے تو محلہ والوں میں خودبخود بیداری کا احساس پیدا ہو جائے گا اور وہ بھی کام کرنے لگ جائیں گے۔ بہرحال محلہ کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی فائدہ کی صورت ہونی چاہیے۔ یا مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی اتفاقی حادثہ کی وجہ سے کوئی شخص غریب ہو جائے تو اس کے لیے بطور امداد یا بطور قرض کچھ رقم جمع کی جائے مگر اس کی بھی محلہ والے ہی نگرانی کر سکتے ہیں شہر کی انجمن سے تعلق رکھنے والے نہیں۔ بہرحال مقامی انجمنوں کو لوگوں کے فائدہ کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔ اب محلہ کی انجمنیں صرف نام کی ہیں اور شہر کی انجمن کو ہی اصل انجمن سمجھا جاتا ہے۔ بے شک لاہور میں مختلف حلقے بنے ہوئے ہیں مگر انجمنوں والے مفید کام ابھی تک انہوں نے نہیں کیے۔ ان باتوں پر غور کر کے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا جماعت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد جماعت کو ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ وہ زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف اپنا قدم اٹھا سکے گی۔
اِس وقت جماعت کی حالت یہ ہے کہ وہ یکدم 1/2 فیصدی آبادی سے گر کر 1/4فیصدی تک آگئی ہے۔ بے شک یہاں کی جماعت میں کسی قدر اضافہ بھی ہوا ہے مگر اس کے مقابلہ میں دوسری آبادی بہت زیادہ بڑھی ہے۔ پہلے ہم ہندو آبادی کو چھوڑ کر صرف مسلمان آبادی کے مقابلہ میں اپنا اندازہ لگاتے تھے مگر اب جتنے ہندو گئے ہیں اُن سے زیادہ مسلمان یہاں آ گئے ہیں۔ ہندوؤں نے اس شہر کو چھوڑا ہے۔ اُس وقت لاہورکی آبادی نو لاکھ کی تھی مگر اب سترہ لاکھ ہے۔ پہلے نو لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ ہندو اور پانچ لاکھ مسلمان تھے مگر اب سترہ لاکھ سب کے سب مسلمان ہیں۔ اگر شہر لاہور نے ترقی کی، مسلمانوں نے ترقی کی، مسلمانوں کے دوسرے فرقوں نے ترقی کی لیکن احمدیت نے افراد میں ترقی کرنے کی بجائے تنزل اختیار کیاتو یہ چیز ایسی ہے جس کو دور کرنے کے لیے معمولی جدوجہد کام نہیں آسکتی بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تبلیغ اور تنظیم اور تمام محلوں میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر کا نقشہ اپنے سامنے لٹکا لیا جائے اور کوئی گلی ایسی نہ رہنے دی جائے جس میں تبلیغ کا کوئی نہ کوئی ذریعہ موجود نہ ہو۔مگر گلی کے یہ معنے نہیں کہ دو تین میل کے حلقہ میں ایک مبلغ بٹھا دیا جائے بلکہ گلی سے مراد صرف دو تین سو گز کا علاقہ ہے۔ اِس طرح شہر کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں رہنا چاہیے جس میں اُس حلقہ کی ضروریات کے مطابق کوئی مبلغ کام نہ کر رہا ہو۔ اگر اس طرح کام کیا جائے تو جماعت یکدم کئی گنا بڑھ جائے گی۔ عام طریق یہی نظر آتا ہے کہ جہاں کثرت سے احمدی رہتے ہوں وہاں وہ تبلیغ میں سُست ہو جاتے ہیں۔ لیکن جہاں اکیلا احمدی ہوتا ہے وہ اَور لوگوں کو بھی احمدی بنانے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو احمدیت میں شامل کر لیتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر پورے طور پر کام کیا جائے تو یہاں کے پانچ ہزار افراد تین سال میں ہی پندرہ بیس ہزار بن سکتے ہیں اور اس طرح یقیناً وہ اخراجات بھی پورے ہو سکتے ہیں جو جماعت کی تنظیم کی وجہ سے بڑھانے ہوں گے۔ شروع میں بے شک بوجھ زیادہ برداشت کرنا پڑے گا لیکن جب جماعت بڑھ گئی تو جو اخراجات پانچ ہزار کے لیے بوجھ کا موجب ہوں گے وہ تیس ہزار کے لیے بوجھ کا موجب نہیں ہوں گے۔
پس جماعت کو اس بارہ میں غور کرنا چاہیے اور جلد کوئی سکیم طے کرنی چاہیے۔ بلکہ افرادِ جماعت کو چاہیے کہ اگر ان کے ذہن میں کوئی بات آئے تو وہ مجھے بھی لکھیں کہ ہمارے خیال میں جماعت کو ان باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ بہرحال اِس مشکل کا حل اب ہمیں سوچنا پڑے گا اور جب اِس کا حل سوچا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ ایک فرد کے ذہن میں وہ بات آجائے جو جماعتی عہدیداروں کے ذہن میں نہ آئے یا جماعتی عہدیداروں کے ذہن میں وہ بات آجائے جو میرے ذہن میں نہ ہو۔ اگر جماعت میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہمیں اپنی موجودہ مشکل کا حل تلاش کرنا چاہیے تو مَیں سمجھتا ہوں اِسی سوچنے کے نتیجہ میں جماعت میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔
آخر یہ کتنے بڑے فکر کی بات ہے کہ جماعت جو پہلے یہاں 1/2فیصدی تھی اب 1/4فیصدی رہ گئی ہے۔ کیا یہ مرض اِس قابل نہیں کہ اس کے علاج کی جستجو کی جائے؟ لوکل انجمنوں کو چاہیے کہ وہ اس بارہ میں جلسے کریں، تقریریں کریں اور افرادِ جماعت کو اپنے خیالات پیش کرنے کاموقع دیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو محض انہی جلسوں اور غوروفکر کے نتیجہ میں ہی وہ اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی محسوس کریں گے۔ بسااوقات مرض کی ترقی اِس وجہ سے ہوتی ہے کہ لوگ اُس کے متعلق غور کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ اگر انہیں سوچنے کا موقع دیا جائے تو قدرتی طور پر اُن میں بیماری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور پھر اس احساس سے ان کی توجہ علاج کی طرف پھر جاتی ہے۔ بے شک ان کی تقاریر میں بعض باتیں لغو بھی ہوں گی، بعض ناتجربہ کاری پر دلالت کرتی ہوں گی، بعض مجنونانہ بڑسے زیادہ وقعت نہیں رکھیں گی، بعض یونہی بلند آہنگی کے خیالات سے لبریز ہوں گی مگر کم سے کم اس کے نتیجہ میں اُن کے دل کی بھڑاس نکل جائے گی، ان کے دلوں کے شبہات دور ہو جائیں گے، ان کے قلوب کے وساوس جاتے رہیں گے۔ اور وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہمیں اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ وہ سمجھیں گے کہ ہم نے باتیں کیں اور جماعت نے ہماری باتیں سنیں لیکن ان کو قابلِ عمل نہ سمجھا یا ان پر عمل کرنا اپنی طاقت سے بالا خیال کیا یا کسی تجویز کو موقع کے مناسب نہ سمجھا۔ یہ نہیں کہ ناواقفیت کی وجہ سے انہوں نے ہماری باتوں کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس ذریعہ سے جماعت کے اندر بیداری کا قدرتی طور پر احساس پیدا ہو جائے گا۔ بلکہ اس خطبہ کے ذریعہ مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے جس شخص کے ذہن میں بھی ایسی تجاویز آئیں وہ مجھے بھی لکھے کہ جماعتی ترقی کے لیے میرے نزدیک اِن اِن تجاویز پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اِس طرح انہیں صرف دوسروں کی بیماری کا ہی نہیں اپنی بیماری کا بھی احساس ہو جائے گا۔ کیونکہ جب انسان دوسروں کے متعلق کوئی بات بیان کرتا ہے اور خود اس میں خامی موجود ہو تو دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ پہلے اپنی تو اصلاح کرو اور اِس طرح اُس کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہماری مجلس شورٰی میں ایک شخص نے دھواں دار تقریر کی جس میں کہا کہ اصل چیز یہ نہیں کہ چندے کی نسبت کو بڑھایا جائے بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ ہر شخص سے چندہ وصول کیا جائے۔ اگر چندہ کی وصولی کی باقاعدہ کوشش کی جائے اور تمام افراد سے مقررہ چندہ وصول کیا جائے تو یہ ضرورت ہی پیش نہیں آ سکتی کہ اس کی نسبت کو بڑھایا جائے۔ غرض بڑی لطیف اور مؤثر اور دلنشیں تقریر اس نے کی جس کا جماعت پر بڑا اثر ہوا ۔جب وہ تقریر کرکے بیٹھا تو ایک نہایت مسکین صورت انسان جو اُسی جماعت کا فنانشل سیکرٹری تھاکھڑا ہوا۔ اس نے اپنی جیب سے کاپی نکال لی اور کہا مَیں ان تقریر کرنے والے دوست کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں سب سے پہلے اِس وعظ پر آپ عمل کرنا چاہیے۔ میرے پاس چندہ کی کاپی موجود ہے اور مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان صاحب کے ذمہ اتنے مہینوں کا چندہ بقایا ہے جو ابھی تک انہوں نے ادا نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ ہنس پڑے اور وہ اثر جو اُس کی تقریر سے ہوا تھا جاتا رہا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں اس کے بعد اُس شخص نے اپنی اصلاح کی طرف ضرور توجہ کی ہو گی۔ پس اِس رنگ میں بہت سی اصلاح کے مواقع نکل سکتے ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس بارہ میں دلچسپی لیں اور اپنی بیماری پر غور کریں۔ جب وہ اپنی بیماری پر غور کریں گے تو خودبخود انہیں علاج کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی اور جب انہیںدوسروں کی بیماری کا احساس پیدا ہو گا تو اس کے نتیجہ میں اُنہیں اپنی بیماری کا بھی احساس پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ پہلے وہ کہیں گے زید میں یہ نقص ہے، بکر میں یہ نقص ہے، عمرو خالد میں یہ نقص ہے مگر زید اور بکر اور عمراور خالد بھی اپنے منہ میں زبان رکھتے ہوں گے۔ وہ کہیں گے تجھے دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو دکھائی دیا مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اگر تجھے اصلاح کا احساس ہے تو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دیکھ۔ اس طرح سب لوگوں کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر شخص اپنے نقائص اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ بہرحال اب کچھ نہ کچھ کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ دراصل ہماری خاموشی ہی ہماری بیماری ہے ورنہ درحقیقت ہمارے اندر ذاتی طور پر کوئی بیماری نہیں کیونکہ خدائی تقدیر یہی ہے کہ ہماری جماعت آگے بڑھے اور دنیا میں ترقی کرے۔ اس تقدیر کے مطابق جو شخص کام کرے گا اُس کے ضرور اعلیٰ نتائج پیدا ہوں گے۔ اور جو شخص اس تقدیر کے خلاف اٹھے گا وہ اپنے مقصد کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکے گا"۔
(الفضل یکم مارچ 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
تذکرہ صفحہ 402 ایڈیشن چہارم میں الفاظ بدیں طور ہیں ــ’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجودہیں‘‘۔
2
:
نَکُّو: رسوا ، بدنام ،بُرا( اردو لغت تاریخی اصول پر،جلد 20صفحہ337، اردو لغت بورڈ کراچی)
3
:
مُشایعت:رخصت کرنے کے لیے چند قدم ساتھ جانا۔


تحریکِ جدید کے دَورِ اوّل کے پندرھویں
اور دَورِ دوم کے پانچویں سال کا آغاز
(فرمودہ26نومبر 1948ء لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"تحریکِ جدید کے چودھویں سال کی تحریک پر ایک سال گزر چکا ہے اور اب نیا سال آ گیا ہے جس میں کہ تحریکِ جدید میں حصہ لینے والوں کے لیے پندرھویں سال کا وعدہ کرنا ہے۔ اس لیے آج مَیں دورِاوّل کے دوستوں کو پندرھویں سال کے وعدوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تحریکِ جدید کے ذمہ ہندوستان سے باہر کی تبلیغ کے سارے کام ہیں اور مبلغین کی تیاری اور واقفین کی تیاری کا کام بھی اس کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض اَور کام جوصدر انجمن احمدیہ کو کرنے چاہییں تھے لیکن اس نے نہیں کیے یا وہ ان کی طرف توجہ نہیں کر سکی وہ بھی اسی کے ماتحت آ گئے ہیں۔ مثلاً سائنٹیفک ریسرچ، صنعت وحرفت کا محکمہ ہے، تجارت کا محکمہ ہے اور ان کے ذریعہ گو بہت آہستہ آہستہ مگر کچھ نہ کچھ ترقی کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ اسی طرح تحریک جدید کے ذریعہ بیرونجات کے مشن خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کر چکے ہیں، بہت سی نئی جگہوں میں تبلیغ کا کام شروع ہو چکا ہے اور بہت سی پہلی جگہوں میں کام پہلے سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے ایران میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں تھا لیکن اس وقت وہاں ہمارے دو مبلغ کام کر رہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایران میں جہاں ہمارے خاندان یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا درمیانہ قدم پڑا تھا(ہمارا خاندان بخارا سے نکل کر پہلے ایران میں بسا اور وہاں سے پھر ہندوستان آیا تھا) مشن قائم ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن اس وقت تک وہاں ایک بھی احمدی نہیں ہوا۔ تحریک ضرور ہے اور کچھ لوگوں سے آہستہ آہستہ تعلقات بھی پیدا ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک وہاں احمدیت پھیل نہیں سکی۔ اور یہی ایک ایساملک ہے جہاں باوجود اِس کے کہ ہمارے مبلغ پانچ سال سے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی وہاں کوئی مقامی احمدی نہیں ہوا۔
تحریک جدید کے ماتحت دوسرا مشن جو قائم ہوا یا یوں کہو کہ دوسرا مشن جسے تقویت حاصل ہوئی مشن وہاں پہلے سے ہی قائم تھا مگر اب وہاں مبلغ زیادہ ہو گئے ہیں اور کام زیادہ ہو رہا ہے وہ فلسطین کا علاقہ ہے۔ وہاں پہلے بھی کام کافی ہو رہا تھا مگر تحریک جدیدکے ذریعہ کام اَور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پہلے وہاں حیفا میں جماعت تھی یا اس کے پاس کی پہاڑی پر جماعت رہتی تھی لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اردگرد کے علاقوں میں پھیلی۔یہ حالت اُس تباہی سے پہلے تھی جو اَب وہاں آئی ہے۔ مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے اور خطرناک جگہ وہی تھی جہاں ہماری جماعت تھی۔ حیفا کی جماعت کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی د مشق چلا گیا تھا باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی۔ چودھری محمد شریف صاحب نے جو وہاں کے مشنری انچارج تھے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرقِ اردن بھجوا دیا اور اُسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کرو۔ گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی اور اپنا ایک ساتھی شرقِ اردن میں بھجوا دیا۔ اسے گئے ہوئے سات آٹھ ماہ ہو گئے ہیں یا سال بھر کے قریب ہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہاں جماعت قائم نہیں ہوئی۔ جماعت کا اثرورسوخ پیدا ہو رہا ہے۔
شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا۔ تحریک جدید کے ماتحت شیخ نور احمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا۔ ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ وہاں کے دوست منیرالحصنی صاحب مقامی احمدی ہیں جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں ان کے چھوٹے بھائی دمشق کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور ان کے ایک بھائی کی قاہرہ (مصر) میں ایک بڑی دکان ہے۔ان کے خاندان کے سب افراد احمدی ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادر منیرالحصنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے خلاف یہاں تعلیم یافتہ اور بااثر لوگوں میں تبلیغ کا زور بڑھ رہا ہے۔یہ شام وہی ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے الہاماً فرمایا تھا کہ یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّام1 شام کے ابدال تیرے لیے دعا کرتے ہیں۔اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی جماعت اُس وقت قائم ہو گی جبکہ جماعت احمدیہ پر ایک ابتلا آنے والا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اور قریب کے ہی عرصہ میںپنجاب اور فلسطین میں جس میں سب سے پہلے بڑی جماعت قائم ہوئی تھی تباہی آئی۔ تحریک جدید کے ماتحت دو واقفِ زندگی وہاں گئے۔ گو وہاں پہلے جماعت موجود تھی لیکن ان کے ذریعہ اس کا سلسلہ کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہو گیا۔
پھر ایبے سینیا کا علاقہ ہے یہ وہ ملک ہے جہاں مسلمان شروع میں ہجرت کر کے گئے۔ اس ملک میں بھی تحریک کے ماتحت ایک واقف زندگی گئے اور انہوں نے وہاں جماعت قائم کی۔ اس جگہ جماعت میں نئے احمدی بھی داخل ہو رہے ہیں اور بعض افراد نے کہا ہے کہ وہ قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے جائیں گے۔
اس طرح تحریک جدید کے ماتحت مشرقی افریقہ میں کئی مشن قائم کیے گئے ہیں اور اس وقت وہاں غالباً دس مبلغ کام کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب حبشی لوگوں میں تبلیغ شروع ہو گئی ہے اور ان لوگوں کو جو پہلے عیسائی ہو گئے تھے واپس لایا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یوگنڈا، کینیا اور ٹانگانیکا تینوں جگہوں پر بڑے زور کے ساتھ تبلیغ جاری ہے۔ آگے سے زیادہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں۔ جماعت پھیل گئی ہے۔ نئی مساجد بنائی گئی ہیں اور حکومت بھی تعاون کر رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی اچھی بنیاد قائم ہو گئی ہے۔
پھر تحریک جدید کی کوشش سے مغربی افریقہ میں مشن بہت زیادہ پھیل چکے ہیں۔ وہاں پہلے ہمارے دو ہی مبلغ ہوا کرتے تھے لیکن اب وہاں مرکز سے بھیجے ہوئے اور مقامی دو درجن کے قریب مبلغ ہیں اور جماعت کے بہت سے سکول چل رہے ہیں، تجارتی محکمہ بھی قائم کیا گیا ہے اگرچہ وہ ابتدائی حالت میں ہی ہے لیکن جو رپورٹ وہاں سے آئی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کامیابی ہو رہی ہے۔ وہاں کے حالات کو دیکھ کر جو کمی ء تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں تحریک جدید نے اپنا ایک آدمی کئی سالوں سے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا ہوا ہے تا وہ وہاں سے تعلیمی ڈگری بھی حاصل کر لے اورPh.D.کی بھی۔ پھر وہاں ایک کالج کھولا جائے گا ۔دو گریجوایٹ یہاں سے بھیجے جا رہے ہیں اِس طرح اس ملک میںاپنا احمدیہ کالج کھول کر تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے دین کا راستہ کھول دیا جائے گا۔ اِسی طرح وہاں زمیندارہ اسٹیٹس کے لیے بھی کوشش کی جا رہی ہے اوررؤساکے ذریعے جو احمدی ہوگئے ہیں ایگریکلچرل اسٹیٹس بنا کر ان کی آمدن سے کام چلایا جائے گا۔
انگلستان میں دیر سے مشن قائم ہے لیکن تحریک جدید کے ماتحت اب وہاں بجائے ایک مبلغ کے ایک وقت میں پانچ چھ مبلغ رہتے ہیں۔ اِس وقت بھی وہاں چھ مبلغ ہیں جن میں سے ایک انگریز ہے جس نے دین کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے اور نہایت مخلص اور نیک ہے۔ اسی طرح ہمارے مشن ہسپانیہ میں، فرانس میں، سوئٹزر لینڈ میں، ہالینڈ اور جرمنی میں قائم ہیں۔ اٹلی میں ہمارا مشن تھا مگر فی الحال اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا ہے کیونکہ جس قابلیت کے آدمی وہاں چاہییں تھے ایسے آدمی وہاں نہیں بھیجے گئے لیکن آہستہ آہستہ جیسے جیسے اس قابلیت کے لوگ تیار ہوں گے وہاں بھجوائے جائیں گے۔
ہسپانیہ نے اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ جب سلسلہ کی مشکلات بڑھیں اور ان نقصانات کے بعد جو مشرقی پنجاب میں ہوئے ہم مجبور ہو گئے کہ وہاں سے مشن ہٹا لیں اور اُسے بتایا گیا تو اس نے لکھا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے بلکہ مجھے اجازت دی جائے کہ مَیں اپنے گزارہ سے یہاں کام کروں۔ چنانچہ اُس نے پھیری کا کام کر کے گزارہ کیا اور نہ صرف گزارہ کیا بلکہ اس نے ایک کافی رقم جمع کر کے میرے لیکچر "اسلام کا اقتصادی نظام"کا ترجمہ کر کے شائع کیا۔ دو اڑھائی ہزار روپیہ کے قریب اس پر خرچ آیا اور اب وہ اس فکر میں ہے کہ وہ اس کام کو وسیع کرے۔
فرانس میں بھی مبلغ بھیجے گئے مگر کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی۔وہاں کے بھی مبلغ کو جو لاہور کے ہی ہیں کہا گیا کہ تم واپس آ جاؤ تو انہوں نے بھی کہا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے مَیں یہاں اپنی کمائی سے کام کروں گا۔ انہیں وہاں چھوڑ دیا گیا اور انہیں اپنے خرچ پر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اب وہاں بھی کام شروع ہو گیا ہے۔ ان کی تار آئی ہے کہ اب وہاں بھی جلسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پریس اور دوسرے لوگ بھی توجہ کر رہے ہیں۔ آج ہی اطلاع ملی ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اقرار کیا ہے کہ اگر الہام کے متعلق مضامین لکھے جائیں تو وہ خود بھی ان کی اشاعت میں مدد کرے گی۔
سوئٹزر لینڈ کا علاقہ پرانا پروٹسٹنٹ علاقہ ہے اور مذہبی تعصب کی خاص جگہ ہے۔ جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو انہیں چیلنج دیا گیا تھا کہ دنیا کے ہر طبقہ میں اسلام پھیل سکتا ہے مگر اس جگہ نہیں پھیل سکتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی ایک دو احمدی ہو چکے ہیں اور لوگوں کی توجہ بڑھتی جا رہی ہے۔
ہالینڈ میں سب سے زیادہ کامیابی ہوئی ہے۔ وہاں جو احمدی ہوئے ہیں وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ سلسلہ کی تبلیغ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد جرمنی کا علاقہ ہے۔ وہاں ہیمبرگ میں دس احمدی ہوئے ہیں اور ایک برلن میں۔ وہ اکثر تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ان میں سے ایک نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے اور ان کی جدوجہد کے بعد وہ وہاں سے چل کر دینی تعلیم کے لیے لندن پہنچ گیا ہے اور امید ہے کہ دسمبر کے مہینہ میں وہ پاکستان پہنچ جائے گا۔ وہ فوجی افسر ہیں ان کا منشا ہے کہ دینی تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک میں یا جہاں انہیں مقرر کیا جائے تبلیغ کریں۔ اِسی طرح دو اَور افراد کی طرف سے بھی ہالینڈ اور جرمنی سے وقف زندگی کے لیے درخواستیں آئی ہیں اور ہم ان پر غور کر رہے ہیں۔ اگر فیصلہ ہو گیا تو وہ بھی اپنا نام خدمت دین کے لیے پیش کر دیں گے۔
یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں پہلے ہمارا ایک مبلغ ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے وہاں تین مبلغ تھے جن میں سے ایک فوت ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ہم ایک اَور مبلغ بھجوا رہے ہیں۔ وہاں کی جماعت بہت منظم ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہاں کی جماعت کا سب قسم کا چندہ اب تیس چالیس ہزار تک پہنچتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ کوئی بڑی چیز نہیں لیکن وہاں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا اور اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنا بوجھ خود ہی اٹھائیں اور اگر یہ سکیم جاری ہو گئی تو قلیل عرصہ میں وہاں کا مشن مضبوط ہو سکے گا اور وہاں کے مقامی آدمی بھی تیار ہو سکیں گے۔
پھر تحریک جدید کے ماتحت ارجنٹائن میں مشن قائم کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہاں کوئی مقامی احمدی نہیں ہوا لیکن عربوں میں سے بعض احمدی ہوئے ہیں۔ اب وہاں ہمارا ایک اَور مبلغ جا رہا ہے۔ ہم نے پہلے ایک مبلغ بھیجا تھا لیکن وہ انگلینڈ میں ہی بیمار ہو گیا اور اب تک وہ وہاں ہی ہے۔ اب نیا مبلغ بھجوایا جا رہا ہے اور اس کے لیے پاسپورٹ کی کوشش ہو رہی ہے۔
تحریک جدید کے ماتحت سابق میں ہنگری میں، یونان میں، یوگوسلاویہ میں، پولینڈ میں اور زیکوسلواکیہ میں مشن قائم کیے گئے تھے مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہ مشن بند کر دئیے گئے اور اس کے بعد جنگ کی وجہ سے دوبارہ مبلغ نہ بھجوائے جا سکے مگر بہرحال وہاں احمدیت کا بیج بویا جا چکا ہے۔ اب بعض لوگوں کی وہاں سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمارے تعلقات مرکز سے منقطع ہو گئے تھے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس لٹریچر آئے تو ہم تبلیغ کے کام کو وسیع کریں۔
اس کے بعد انڈونیشا کے علاقے ہیں جاوا اورسماٹرا وغیرہ جو آجکل عام مرجع توجہ بنے ہوئے ہیںاور دیر سے وہاں جنگ جاری ہے۔ وہاں ہمارے صرف ایک ہی مبلغ مولوی رحمت علی صاحب تھے۔ تحریک جدید کے ماتحت جاوا میں اَور مبلغ بھیجے گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہزاروں ہزار لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں جن میں سے بعض بہت ہی بارسوخ ہیں جن کا حکومت کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے استقلال سے کام لیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بہت ترقی کر جائے گی۔ ہمارے تعلقات جاوا سے ہیں۔ سماٹرا سے خط و کتابت بند ہے کیونکہ وہاں کمیونسٹ فتنہ بہت بڑھا ہوا ہے۔ ملایا ایک اَور جگہ ہے جہاں ہمارا مشن قائم ہے۔ سنگاپور میں بھی جماعت قائم ہے اور اس کے اردگرد بھی۔ مگر افسوس کہ یہاں کے مبلغوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا ہے۔ اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو یہ ایک اہم جگہ ہے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان رستہ پر یہ ایک اہم مقام ہے۔ اگر کوشش کی جائے تو مشرق اور مغرب میں ترقی کے لیے بہت سی سہولتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
پھر بورنیوکا علاقہ ہے جو قریباً نصف ہندوستان کے برابر ہے۔ مگر آبادی بہت کم ہے۔ اس میں بھی ہمارے مبلغ گئے ہیں اوربعض علاقہ میں لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگ گئے ہیں ۔ اور اچھا اثر پڑ رہا ہے۔ مجھے ایک کارڈ ملا ہے جس پر ایک جنگل کی خوبصورت تصویر ہے۔ اس میں صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ کے زمانہ میں جس میں اسلام کی تعلیم ہر طرف پھیل رہی ہے کیا بالی جزیرہ اس سے محروم رہے گا۔ لکھنے والا کوئی غیراحمدی ہے۔ اس نے اردگرد تبلیغ دیکھ کر مجھے خط لکھ دیا ہے۔ بالی جزیرہ کے لوگ فوجی اور بہادر ہیں۔ وہاں ابھی تک تبلیغ نہیں ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اردگرد تبلیغ ہوتی دیکھ کر اس نے مجھے لکھ دیا مگر معلوم نہیں کہ اُسے میرا پتہ کہاں سے ملا۔ بہرحال احمدیت خودبخود پھیل رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ کے جزائر ہیں جنہیں ویسٹ انڈیزبھی کہا جاتا ہے۔ ان جزائر میں بھی تبلیغ شروع ہے۔ وہاں سے بھی خطوط آ رہے ہیں اور وہ مبلغ مانگ رہے ہیں اور وہاں مبلغ بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف کابل کا علاقہ ہے جو بند پڑا ہوا ہے مگر اب احمدیت کی تبلیغ اس طرح ہو رہی ہے کہ وہاں بھی اس کا اثر پڑے گا۔
غرض سارے پردہ زمین پر تحریک کے ماتحت تبلیغ کو پھیلانے کی سکیمیں بن رہی ہیں اور اس کے لیے اربوں ارب روپے بھی تھوڑے ہیں۔ درحقیقت ہمارے مبلغ بہت کم گزارے پر کام کر رہے ہیں بلکہ خشک روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ الفضل میں ایک غیراحمدی کیپٹن کا خط شائع ہوا تھا جنہوں نے لکھا تھا مَیں جہاں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں اور باہر نکل گئے وہاں مجھے جماعت پر افسوس ہے جس نے اس بات پر کبھی بھی غور نہیں کیا کہ اس کے مبلغ باہر کھا کیا رہے ہیں؟ باوجود غیراحمدی ہونے کے جس دکھ میں مَیں نے انہیں دیکھا ہے اُس سے مجھے خیال ہوا کہ مَیں جماعت کی توجہ اِس طرف پھراؤں کہ وہ کم از کم انہیں کھانے کو اتنا تو دے جس سے اُن کا پیٹ بھر سکے۔ اور پہننے کو اتنا تو دے جس سے وہ اپنا تن ڈھانپ سکیں اور تبلیغ کا کام صحیح طور پر کر سکیں۔ بہرحال ہم ادنی ٰ سے ادنیٰ طور پر بھی خرچ کریں تو ہمارا خرچ کروڑوں تک جا پہنچتا ہے۔ مثلاً اِس وقت ہمارے پچاس کے قریب مبلغ باہر ہیں۔پچاس تو میرے ہی ذہن میں ہیں اور یہ وہ ہیں جو یہاں سے گئے ہیں اِس سے کم نہیں زیادہ ہی نکلیں گے اور مقامی مبلغ جوکام کر رہے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ ان ممالک کی رہائش کا اگر اندازہ رکھا جائے تو ان کے کھانے پینے اور مکان کا خرچ بیس پونڈ ہے اور یہ کم از کم ہے۔ اس کے بعد تبلیغ کے اخراجات ہیں، لٹریچر ہے، خط و کتابت ہے۔ بیس پونڈ کے قریب اس پر خرچ آ جاتا ہے اور یہ چالیس پونڈ فی کس بنتا ہے۔ اورچالیس کے یہ معنے ہوئے کہ کُل مبلغ پچاس ہیں۔ گو وہ مبلغ ان کے علاوہ ہیں جو مقامی طور پر اپنے علاقوں میں بطور مبلغ کام کر رہے ہیں۔ اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ سو سے زیادہ بن جاتے ہیں۔ اگر چالیس پونڈ فی کس خرچ کیا جائے تو یہ دو ہزار پونڈ بنتا ہے اور اگر روپے کے حساب سے لیا جائے تویہ چھبیس ہزار روپے بنتے ہیں اور اگر اسے بارہ سے ضرب دیں تو یہ تین لاکھ سے اوپر بنتا ہے۔ یہ ادنیٰ سے ادنیٰ خرچ ہے جو ان پر ہونا چاہیے۔ پھر اگر جلسے کیے جائیں یہاں لاہور میں ہی اگر جلسہ کیاجائے تو اس کے اعلان اور دوسرے انتظام پر سو ڈیڑھ سو روپیہ سے زیادہ خرچ ہو جائیں گے۔ اگردوسرے ممالک میں فی جلسہ کا خرچ تین چار سو رکھا جائے اور سال میں بارہ جلسے کیے جائیں تو سال میں ہر مشن کا جلسوں کا خرچ چار ہزار ساڑھے چار ہزار ہو جاتا ہے۔ پچاس مشنوںمیں یہ خرچ دو لاکھ کاہو جاتا ہے۔ پھر اگر صحیح طور پر لٹریچر اور اشاعت کا کام کیا جائے تو کسی مشن کا خرچ بیس پونڈ ماہوار سے کم نہیں ہو سکتا۔یہ رقم ایک لاکھ بیس ہزار روپے سالانہ کی ہوتی ہے لیکن درحقیقت چار پانچ روپیہ سالانہ اشاعت لٹریچر کا خرچ ہونا چاہیے۔ پس اگر صحیح طور پر تبلیغ کی جائے تو صرف موجودہ مشنوں کا خرچ نو لاکھ کے قریب سالانہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح بیرونجات کے لیے مبلغ بھی تیار کرائے جاتے ہیں اور انہیں بھی تحریک ہی خرچ دیتی ہے۔ یہ بھی کوئی ڈیڑھ لاکھ کے قریب بنتا ہے۔ بیسیوں لڑکے ہیں جنہیں تعلیم دی جا رہی ہے کیونکہ بنے بنائے مبلغ نہیں مل سکتے۔ ان لڑکوں میں سے کوئی ایف۔اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی بی۔اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی ایم۔اے میں پڑھ رہا ہے۔بہت سے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں۔ بہت سوں کو دین کی تعلیم پرائیویٹ دلوائی جا رہی ہے۔ بعض کو غیر ملکوں میں تعلیم دلوائی جا رہی ہے۔ بہت سے غرباء کے لڑکے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہوا ہے۔ لڑکا نویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ اس کے ماں باپ غریب ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ انٹرنس(ENTRANCE) پاس کروا سکتے ہیں۔ یا لڑکا آٹھویں میں پڑھتا ہے والدین کہتے ہیں کہ ہم میں اسے آگے پڑھانے کی ہمت نہیں۔ لڑکے ذہین ہیں تو ہم انہیں اپنے خرچ پر پڑھوانا شروع کردیتے ہیں۔ غرض درجنوں ایسے لڑکے ہیں جو تحریک کے خرچ پرتعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان پر بڑی بھاری رقمیں خرچ ہو رہی ہیں۔ پھر مرکز کے اخراجات ہیں، بیت المال اور دیگر محکمے ہیں ان تمام پر ڈیڑھ دو لاکھ کے قریب خرچ ہو رہا ہے۔ ہمارا سارا بجٹ چار لاکھ کے قریب ہے اور یہ بھی اس طرح کا ہے کہ مبلغوں کو روکھی سوکھی روٹی مل سکتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دَورِ اول میں پچھلے سال کا دو لاکھ اسّی ہزار کا وعدہ تھا لیکن وصولی ساری دو لاکھ ہوئی ہے۔ اتنی بڑی رقم کے علاوہ گزشتہ سالوں میں جو قرضے ہوتے چلے گئے ہیں وہ بھی گیارہ لاکھ کے قریب تھے۔ قادیان میں کچھ جائیدادیں تھیں جو بِک کر کام آسکتی تھیں لیکن وہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ پچھلے سال ہم نے کچھ قرضے اتارے بھی تھے لیکن اب بھی نو لاکھ کے قریب قرضہ باقی ہے۔ ادھر آمد سے خرچ زیادہ ہے اور پچھلا قرضہ بھی ہے۔ کچھ خرچ توہم اس طرح نکال لیتے ہیں کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں پر زور ڈال کر کچھ وصول کر لیتے ہیں لیکن وہ ابتدائی جماعتیں ہیں اور وہ اِتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں اور کچھ ہم دوسرے سالوں کے بقایوں کی وصولی سے کام چلا لیتے ہیں۔ لیکن اب زمانہ آ گیا ہے کہ قرضے جلدی سے جلدی اُتار دیئے جائیں کیونکہ اگر ہم قرضے جلدی نہیں اُتاریں گے تو مشکلات بڑھ جائیں گی۔ دَورِ اول پانچ سال کے بعد ختم ہونے والاہے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو تمام بوجھ دور ثانی پر پڑ جائے گا۔ دفتر دوم کے وعدے پچھلے سال ایک لاکھ کے قریب تھے جس میں سے صرف چوّن ہزار روپے کی رقم وصول ہوئی تھی۔ یہ حال رہا تو ہم چار لاکھ سالانہ کا خرچ کہاں سے نکالیں گے۔ پس اس نئے دور سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے قرضوں کو اتار دیں ورنہ بعد میں کام کو بڑھانا تو ایک طرف رہا۔ ہم موجودہ کام کو بھی نہیں چلا سکیں گے۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اپنے وعدے لکھوائیں۔ میرے مخاطب اس وقت دور اوّل کے لوگ ہیں جنہیں السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے اور جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے وہ پہلے سے بڑھ کر وعدے لکھوائیں۔ مَیں نے تحریک ستمبر کے متعلق کہا تھا کہ جن دوستوں کا چندہ تینتیس سے پچاس فیصدی کے حساب سے عام چندوں سے بڑھ جاتا ہے اُن کا تحریک کا چندہ اس میں شامل ہو گا۔ اور پھر مَیں نے اعلان کروایا تھا کہ لوگ باقاعدہ طور پربتائیں کہ اُن کے اس چندے میں کون کونسے چندے شامل ہیں۔ فرض کرو ایک آدمی کا بیس فیصدی چندہ بنتا تھا۔ اب وہ پچیس فیصدی دے تو اُس میں تحریک کا چندہ شامل ہو گا۔ لیکن بیت المال والوں نے بتایا ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے ایسا کیا ہے۔ اب اگر ان لوگوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ تحریک جدید کے وعدے پورے کریں تو اس کی ذمہ داری خود انہی پر ہو گی۔ کسی کو کیا پتہ ہے کہ وہ کیا کیا چندے ادا کرتے ہیں۔ اس کا پتہ تو دفتر کو بھی نہیں ہو سکتا۔ پس اگر کسی دوست نے اس طرح کا وعدہ کیاہے اور اس کا چندہ اتنا ہو چکا ہے کہ اس سے سب چندے ادا کر کے کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں تحریک جدید کا وعدہ شامل ہو گا۔ دوستوں کو چاہیے کہ وہ واضح کر دیں اور لکھوا دیں کہ اس چندہ میں میرا چندہ عام اتنا ہے، چندہ جلسہ سالانہ اتنا ہے، تحریک جدید کا چندہ اتنا ہے اور ان کے علاوہ اس میں فلاں فلاں چندہ شامل ہے! اور چونکہ میرا وعدہ عام چندہ سے بڑھ جاتا ہے اس لیے مجھے زیادہ چندہ دینے سے بری سمجھا جائے۔ اگر کوئی ایسا کر دے گا تو ٹھیک ہو گا اور ہم تمام چندے اس رقم سے منہا کریں گے اور اگر وہ اس طرح نہیں کرتا تو تمام چندہ جو وہ بھیجتا ہے اس میں تحریک جدید کا چندہ شامل نہیں ہو گا۔ تحریک کا وعدہ اسی طرح قائم رہے گا۔ جب کوئی رقم صدر انجمن احمدیہ کے پاس آتی ہے تو اسے اپنے خزانہ میں داخل کرلیتی ہے اور جب تک کوئی ہدایت نہ آئے وہ اسے اپنا ہی حق سمجھتی ہے۔ پھر بعض دفعہ اس سے دھوکا بھی لگ سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ صدر انجمن احمدیہ کہتی ہے کہ ابھی تو میرا ہی حق پورا نہیں ہوا یا کہتی ہے کہ ابھی تو میرا ہی چندہ پورا ہوا ہے اور تحریک وعدہ کنندوں کو یاد نہیں کرائے گی کہ شاید ان کا چندہ تحریک ستمبر میں آ رہا ہے۔ چنانچہ ایسے جھگڑے بعض دوستوں سے ہوئے بھی ہیں۔
پس دوستوں کو واضح طور پر لکھ دینا چاہیے کہ اُن کا ماہوار چندہ جو واجبُ الْادا تھا وہ اتنا بنتا ہے اور تحریک کا چندہ اس قدر ہے یاکوئی اَور چندہ ہو تو وہ اس قدر ہے اور چونکہ تحریک ستمبر کے ماتحت جو چندے مَیں دیتا ہوں اُس سے میرے مقررہ اور موعودہ سب چندے پورے ہو جاتے ہیں اس لیے مَیں الگ چندہ نہیں لکھواؤں گا۔ ہاں جو رقم مقررہ اور موعودہ چندوں سے بڑھ جائے اُسے تحریک ستمبر میں داخل کیا جائے۔ مَیں اس امر پر افسوس کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ دوستوں نے تحریک ستمبر کی طرف پوری توجہ نہیں دی۔ ایک سال میں تحریک ستمبر میں صرف سینتیس ہزار روپے چندہ جمع ہوا ہے حالانکہ اس عرصہ میں یہ چندہ پانچ سات لاکھ ہونا چاہیے تھا۔ یا تو دوستوں نے اس تحریک میں بہت کم حصہ لیا ہے یا اگر حصہ لیا ہے تو انہوں نے بتایا نہیں کہ اس رقم میں اُن کا فلاں فلاں چندہ اس اس مقدار میں شامل ہے اور باقی جو بچے وہ تحریک ستمبر میں چلا جائے۔
بہرحال تحریک کے کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دورِاوّل کے سپاہی جن کو خداتعالیٰ توفیق دے وہ جلد از جلد وعدے لکھوائیں اور جیسا کہ ہمیشہ قاعدہ ہے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ دس فروری ان وعدوں کی آخری میعاد ہے لیکن پسندیدہ یہی ہو گا کہ دسمبر کے خاتمہ سے پہلے پہلے وعدے آ جائیں کیونکہ پھر دوسرے سال کا بجٹ بنانا ضروری ہوتا ہے اور اگر وعدے دیر سے آئیں تو اُن سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ پس مناسب یہی ہے کہ دسمبر کے خاتمہ تک دوست اپنے وعدے لکھوا دیں لیکن کسی مشکل کی وجہ سے کوئی فرد یا جماعت رہ جائے تو وہ اپنا وعدہ دس فروری تک بھیج دے۔ جس خط پر دس فروری کی مہر ہو گی وہ قبول کر لیا جائے گا۔
گزشتہ سال مشرقی پنجاب کے فسادات اور تباہی کی وجہ سے دوست اس میں اچھی طرح حصہ نہیں لے سکتے تھے لیکن اب اُن میں سے ایک حصہ آباد ہو چکا ہے بلکہ ان میں سے اکثر آباد ہو چکے ہیں اور اُن کی مالی حالت آگے سے بہت اچھی ہے کیونکہ ہندوؤں کی بچی ہوئی تجارتیں اور کارخانے انہیں مل گئے ہیں اور ان میں سے بعض آگے سے دس دس بیس بیس گنے زیادہ کما رہے ہیں۔ مجھے بعض لوگوں کا حال معلوم ہے۔ مشرقی پنجاب میں وہ اگر سات آٹھ ہزار کا مال لُٹا کر آئے تھے تو آج وہ آٹھ دس لاکھ کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ عجیب قسم کی تقسیم ہوئی ہے مگر یہ خدا کا دین ہے۔ ایک شخص کے متعلق مَیں نے سنا ہے وہ قادیان کا ایک تاجر تھا چھابڑی پر چیزیں رکھ کر بیچا کرتا تھا اس کی ماہوار آمدن تیس چالیس روپے ہو گی۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہ رستہ میں جا رہا تھا کہ ایک موٹر پاس سے گزرتی ہوئی آئی اور میرے پاس ٹھہر گئی۔ وہی شخص موٹر سے اُترا اور کہا مَیں نے تمہیں دیکھا تو سلام کرنے کے لیے ٹھہر گیا۔ چونکہ میرا کام زیادہ ہو گیا ہے اس لیے مَیں نے بائیس ہزار کی موٹر خرید لی ہے تا چلنے پھرنے میں آسانی رہے۔ تو دیکھو حالات کہاں سے کہاں بدل گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوست ایسے بھی ہیں جو اَب تک پراگندہ پھر رہے ہیں۔ ابھی رپورٹ آئی ہے کہ ایک احمدی کہیں جا رہے تھے کہ تحصیلدار نے اُن کا مال چھین لیا۔ یہ ایک ایسے ضلع کا واقعہ ہے جہاں کا ڈی۔سی (D.C)احمدی ہے جس سے ہم زیادہ دیانت داری اور محنت کی امید کرتے ہیں۔ اس خرابی سے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ دوسری جگہوں پر کیا ہو رہا ہو گا۔ بہرحال جماعت کا اکثر حصہ وہ ہے جو اپنے اپنے کاموں میں لگ گیا ہے اور اگر اُدھر اُن کی زمینیں بارانی تھیں تو ادھر انہیں نہری زمینیں مل گئی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ جو اُس طرف آسودہ تھے اور اُن کی پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ گھماؤں زمین تھی وہ اب غریب ہو گئے ہیں۔ اب انہیں آٹھ دس گھماؤں زمین ملی ہے مگر اکثر ایسے ہیں جن کی اِدھر دو دو کنال زمین تھی اور اب انہیں دس دس ایکڑ زمین مل گئی ہے کیونکہ ان کے گھر کے افراد دس تھے۔
ہمارے ایک مخلص دوست ہیں جو پھیروچیچی کے رہنے والے ہیں۔ مَیں ایک دفعہ پھیروچیچی گیا۔ میری بھی اس کے قریب زمین تھی اور مَیں تبدیلی آب و ہوا کے لیے وہاں جاتا تھا۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا حضور! دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ میری تکلیف کم کر دے۔ انہیں لوگ مولوی صاحب کہاکرتے تھے اگرچہ وہ مولوی نہیں تھے وہ بڑے دیندار تھے اور ابھی تک زندہ ہیں۔ مَیں نے کہا کیوں مولوی صاحب کیا زمین کم ہے یا کوئی اَور بات ہے؟ وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے چار کنال زمین میرے باپ کی تھی اور دو کنال اور گِرو لے لی ہے زمین کافی ہے کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی گرفت ہے۔ دیکھو! وہ چھ کنال کو ہی کافی زمین سمجھا کرتے تھے۔ اب ایسے لوگوں کو دس ایکڑ مل گئے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن کی وہاں کنووں والی زمین تھی اب انہیں نہری زمین مل گئی ہے۔ بس اُن کی حالت اچھی ہو گئی ہے۔ اب انہیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کی اُدھر آسودہ حالت تھی اب وہ لُٹ گئے ہیں۔ وہاں وہ دس بیس لاکھ چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہاں اُن کی پیسے کی آمد بھی نہیں۔ انہیں جانے دو۔ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اکثر حصہ غرباء کا ہے جو ہزاروں سے لکھ پتی بن گئے ہیں۔ جن کی وہاں دس کنال زمین تھی اب انہیں دس ایکڑ زمین مل گئی ہے۔ پہلے اُن کی بارانی زمین تھی اب انہیں نہری زمین مل گئی ہے یا پہلے اُن کی چاہی زمین تھی اب اُنہیں نہری زمین مل گئی ہے۔ اُن کو بھی اپنے حصہ سے جو اس بوجھ میں اُن کا ہے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
پھرمیں مغربی پاکستان والوں کو لیتا ہوں۔ خداتعالیٰ نے اُن پر بڑا فضل کیا ہے کہ اُس نے انہیں اس تباہی سے بچایا ہے۔ انہوں نے اُس طرف اپنی جائیداد کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا لیکن اس طرف انہوں نے دوسروں کے ساتھ برابر کا حصہ لیا ہے۔ سینکڑوں ایسے آدمی ملتے ہیں جن کی پہلے کوئی جائیداد نہیں تھی۔اب وہ کارخانوں کے مالک بن گئے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ہندوستان سے باہر گئے ہوئے تھے۔ فسادات میں وہ یہاں آ گئے تا لوٹ مار میں اُن کو بھی حصہ مل جائے۔ بہت شہروں میں ایسا ہوا ہے۔ بہرحال اکثر کی اقتصادی حالت پہلے سے بہت اچھی ہے۔ جن کی حالت پہلے سے خراب ہے وہ چند ہی ہیں۔ اُن کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایسے لوگ سو میں سے دو یا چار ہوں گے۔ پہلے تومَیں ان لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نئے سال کے لیے وعدے لکھوائیں اور پھر جو ستّر اسّی ہزار کے وعدے گزشتہ سال کے پورا ہونے سے رہ گئے ہیں انہیں بھی جلد پورا کریں۔اسی طرح ساٹھ ستّر ہزار کے وعدے جو گزشتہ سال سے پہلے کے سالوں کے پورا ہونے سے رہ گئے ہیں انہیں بھی پورا کریں۔ اگریہ وعدے پورے ہو جائیں تو قرضے میں ڈیڑھ لاکھ کی کمی ہو جائے گی۔
اِس کے بعد مَیں دفتر دوم والوں کولیتا ہوں۔ مَیں ان نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں ان پر بہت زیادہ اُمید تھی مگر افسوس ہے کہ وہ قربانی میں بہت پیچھے ہیں۔ دورِاوّل کے پہلے سال کے وعدے ایک لاکھ سات ہزار کے تھے اور دفتر دوم کے چوتھے سال ایک لاکھ چھ ہزار کے وعدے تھے۔ دوراوّل کے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدوں میں سے ایک لاکھ دس ہزار کی وصولی تھی یعنی وعدہ سے زیادہ رقم وصول ہوئی تھی لیکن دفتر دوم کے نوجوانوں کی ہمتوں پر افسوس ہے کہ ایک لاکھ چھ ہزار کے وعدوں میں سے صرف باون ہزار کی وصولی ہوئی ہے اور سال ختم ہو گیا ہے۔ وہ وعدوں میں بھی پیچھے رہے اور ادائیگی میں بھی پیچھے رہے اور یہی حالت پچھلے سال کی تھی۔ پچھلے سال بھی پچاس ہزار کے قریب وصول ہوا تھا اور اِس سال بھی۔اگر یہ لوگ بھی اپنے وعدوں کو پورا کر دیں تو تین لاکھ کی وصولی گزشتہ سالوں کے وعدوں سے ہو سکتی ہے اور قرضہ نو لاکھ سے چھ لاکھ پر آ جاتا ہے۔ اگر نئے نوجوان اپنے فرض کو سمجھیں تو نئی پود کے وعدے ساڑھے تین لاکھ سے کم نہیں ہونے چاہییں۔ اور اگر ان کے وعدے اس حد تک پہنچ جائیں تو امید ہے کہ دورِاوّل کے ختم ہونے پر ہم اس بوجھ کو بوڑھوں کے کندھوں سے اتار کر نئی پود کی قربانی سے جاری رکھ سکیں گے۔ آخر پانچ سال کے بعد دورِاوّل ختم ہو جائے گا اور اگر وہ ختم نہ بھی ہو اور پرانے لوگ بھی چندے دیتے رہیں تو بھی یہ نوجوانوں کے لیے کوئی عزت کی بات نہیں بلکہ یہ ذلت کی بات ہو گی کہ وہ اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کر سکے۔ یہ تو ایسا ہے کہ نوجوان گھر بیٹھا کھائے اور بوڑھا کمائے۔ نوجوان خود تو اس بوجھ کو نہ اٹھائیں بلکہ اسّی نوّے سالہ بوڑھوں سے کہیں کہ و ہ اس بوجھ کو اٹھائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے وعدوں کو بڑھائیں بلکہ اپنے وعدوں کو اس پیمانہ پر لے جائیں کہ وقت آنے پر تبلیغ کا سارا بوجھ ان کے چندوں سے پورا ہو سکے۔ دورِاوّل تین لاکھ اسّی ہزار تک پہنچا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اسے پانچ لاکھ تک پہنچا دیںتو پھر تیسرے دور والوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اسے آٹھ لاکھ تک پہنچا دیں گے اور اس سے اگلے دور والے اسے دس بارہ لاکھ تک پہنچا دیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ہم بیرونی ممالک میں تبلیغ کا جال پھیلا دیں گے اور اس کے ذریعہ اسلام کا قلعہ ہر ملک میں قائم کر دیں گے۔ اس کے لیے ارادہ کی ضرورت ہے، نیت کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے ضرورت ہے ایسے باپوں کی جو اپنی اولاد سے کہیں کہ وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ اس کے لئے ضرورت ہے ایسی ماؤں کی جو اپنی اولاد سے کہیں کہ وہ اس جہاد سے پیچھے نہ رہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایسی بیویوں کی جو اپنے خاوندوں سے کہیں کہ اس جہاد میں ان کی گردنیں کسی سے نیچی نہ ہوں۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کے حوصلہ کی جو یہ کہیں کہ ہم اپنے زمانہ کے بوجھ کو دوسروں پر کیوں ڈالیں۔ اگر قوم کے اندر ایسی ہمت اور امنگ پیدا ہو جائے تو ان کے سامنے کوئی چیز روک نہیں بنا کرتی۔
روپیہ سے ہی صرف کام نہیں چلا کرتا جانوں سے بھی تو تم اپنے دین کی خدمت کر سکتے ہو۔ تمہارے لیے دو مثالیں موجود ہیں۔ ایک ہسپانیہ کے ملک کی جو بہت گراں ہے اور تمام دوسری طاقتوں نے اس کا محاصرہ اور بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ وہاں کا مبلغ خود پیسے کما کر لٹریچر شائع کرتا ہے۔ اب فرانس میں بھی ہمارے مبلغ نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے اور آہستہ آہستہ وہاں بھی کام شروع ہو جائے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس میں روپیہ کی قربانی کی ہمت نہیں تو وہ اپنی جان پیش کر دے اور خود کمائے اور خدمتِ دین کرے ۔اور جس کے پاس روپیہ ہے وہ روپیہ پیش کر دے۔ جس طرح دو بیل ایک گاڑی کو چلاتے ہیں اسی طرح پر دو چیزیں ایسی ہیں جن سے قومی گاڑی چلتی ہے۔ قرآن کریم میں متواتر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا مال اور ان کی جانیں لے لی ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن سے جنت کا وعدہ کیا ہے2 اور یہی چیز تحریک نے پیش کی ہے۔ ایک طرف وہ نوجوانوں سے کہتی ہے کہ آؤ اور خدمت دین کے لیے اپنی جانوں کو پیش کر دو اور دوسری طرف کہتی ہے کہ آؤ اور اپنے مالوں کو پیش کر دو۔ یہ وہی چیز ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے تمہاری جانیں اور تمہارے مال خرید لیے ہیں۔ تحریک جدید اس پیشگوئی کے ماتحت جنت کو پیش کر کے تم سے مطالبہ کرتی ہے کہ تم اپنے مال اور اپنی جانیں پیش کر دو کیونکہ قوم کی گاڑی دو ہی بیلوں سے چلا کرتی ہے اور وہ جان اور مال ہیں۔ کوئی شخص اگر مال کی قربانی کی توفیق نہیں پاتا تو وہ اپنی جان پیش کر دیتا ہے۔ خود فاقے کرتا ہے اور خدمت دین کرتا ہے۔ جس کے پاس مال ہوتا ہے اور عام حالات میں جانی قربانی کی توفیق نہیں پاتا وہ اپنا مال پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے لویہ روپیہ لو اِس سے لٹریچر شائع کرو۔ریلوں اور ہوائی جہازوں میں جاؤ اورباہر تبلیغ کرو۔ یہ دونوں مطالبے ہوتے ہیں جو تحریک میں شامل ہیں۔ اس کے لیے انیس اور بیس سال کی شرط نہیں، انیس اور بیس سال کا سوال تو افراد کے لیے ہے جنہوں نے مر جانا ہے۔ خدا تعالیٰ کے کام تو قیامت تک چلے جاتے ہیں۔ میرے لیے انیس اور بیس ہو سکتے ہیں، تمہارے لیے انیس اور بیس ہو سکتے ہیں تحریک جدید کے لیے نہیں۔ تبلیغ کے لیے سال نہیں ہوتے۔ اگر آخری انسان بھی زندہ ہے اور وہ خداتعالیٰ اور اسلام سے محبت کرتا ہے تو وہ اسلام کے پھیلانے کی کوشش کرتا رہے گا اور کرتا چلا جائے گا"۔ (الفضل 5دسمبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
تذکرہ صفحہ 126طبع چہارم
2
:
(التوبۃ:111)


اپنے مقامِ قربانی کو بڑھانے کی کوشش کرو
(فرمودہ3دسمبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"اس ہفتہ میں بھی مجھے کھانسی اور حرارت کی تکلیف رہی ہے جس کی وجہ سے مَیں زیادہ نہیں بول سکتا۔ اس لیے بجائے کسی نئے مضمون کو بیان کرنے کے مَیں آج پھر تحریک جدید کے وعدوں کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں۔ اس طرح ایک مالی ذمہ داری کے متعلق جس کے متعلق افسوس ہے کہ جماعت اس کی اہمیت کے مطابق اس کی طرف توجہ نہیں کر رہی آج کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ جس کا چاہتا ہے دل کھول دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے دل بند کر دیتا ہے لیکن بجائے اس کے کہ اگر کسی کا دل بند ہو جائے تو اس کے اندر گھبراہٹ پیدا ہو اور اسے صدمہ ہو کہ وہ بیمار ہو گیا ہے وہ دل کے بند ہونے کی حالت کو اپنی طبعی حالت سمجھ لیتا ہے۔ جسم میں بیماری پیدا ہوتی ہے تو آپ میں سے اکثر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ وہ اپنے جسم کو تندرست رکھنے کے لیے اور اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے دوائیوں اور معالجوں پر روپیہ خرچ کرتے ہیں لیکن وہی لوگ جب انہیں اپنی روحانی طاقت خراب اور کم ہوتی نظر آتی ہے تو اپنی حالت پر خوش ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی وہ حالت طبعی حالت ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میںبیماری اور خرابی بڑھ رہی ہے۔ ورنہ یہ صاف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے بندے سے محبت کرنے والا اَور کوئی وجود نہیں۔ جو محبت اس کو اپنے بندے سے ہے اور جو محبت اُسے ہونی چاہیے اس کے مقابلہ پر اَور کسی تعلق کی خواہ وہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو کوئی نسبت نہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ اسے دیکھنے والے تو دیکھتے ہیں مگر اکثر نہیں دیکھتے۔ بسااوقات بچے اپنی ماں سے جدا ہو کر کہیں سیر کر رہے ہوتے ہیں، اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی شہر میں یا کسی باغ میں سیر کے لیے گئے ہوئے ہوتے ہیں یا کسی سینما میں جا کر کسی اچھے شو کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کا دل خوشی سے لبریز ہوتا ہے اور ان کے جسم پر آسودگی کے آثار پائے جاتے ہیں، ان کی آنکھیں چمک رہی ہوتی ہیں اور ان کا دماغ مختلف قسم کے افکار سے پُر ہوتا ہے۔ وہ شخص جواِن حالات سے گزر رہا ہوتا ہے سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی اچھی ہے، اسے کتنی راحت اور آرام حاصل ہے لیکن بسااوقات اس کی ماں جب کھانا کھاتی ہے تو اس سے کھانا نہیں کھایا جاتا۔ وہ اپنے منہ میں لقمہ ڈالتی ہے تو وہ اسے نگل نہیں سکتی۔ وہ اپنے آنسوؤں کو روکنا چاہتی ہے لیکن وہ نہیں رُکتے۔ وہ یہ خیال کر رہی ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اس سے دور ہے، وہ کتنی تکلیفوں سے گزر رہا ہو گا، اس کو کس نے وقت پر سُلایا ہو گا؟اسے کس نے سردی کے موقع پر ڈھانپا ہو گا؟ اس کے دل میں بیسیوں قسم کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور وہ یہ خیال کر کے تکلیف اٹھا رہی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں اس کے بچے کی کیا حالت ہے۔ اور بچے کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے لیے غمگین ہو رہا ہے۔ اِسی طرح تم میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے لیے اور ان کے حالات کی درستی کے لیے اور انہیں اچھا بنانے کے لیے کتنا فکرمند ہے۔ وہ کس طرح( اگر اس کے لیے یہ لفظ بولنا جائز ہو) ان کے فائدہ کے لیے اور ان کی راحت کے لیے تڑپ رہا ہے۔ کیونکہ جس طرح وہ بچہ دور ہوتا ہے، اپنی ماں کی محبت کا اندازہ نہیں لگا سکتااُسی طرح یہ بھی روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کی اُس محبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جو اسے ان سے ہے۔ مَیں نے ماں کی مثال اس لیے دی ہے کہ تم میں سے اکثر ایسے ہوں گے جنہوں نے بچے کی جدائی کے وقت ماں کی حالت کو دیکھا ہو گا۔ تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو گھر میں ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ کئی بہن بھائی ہیں۔ اور کئی دفعہ انہوں نے دیکھا ہو گا کہ ان کی ماں اپنے کسی بچے کی جدائی کے وقت اس کے متعلق کتنا فکرمند ہوتی رہی ہے۔وہ اپنی جدائی کی حالت میں تو اپنی ماں کی حالت کو نہیں دیکھ سکتے لیکن اکثر ایسے ہوں گے جنہوں نے یہ دیکھا ہو گا کہ جب ان کا کوئی بھائی یا بہن جدا ہوتا ہے تو ان کی ماں کی کیا حالت ہوتی ہے حالانکہ وہ اس کے پاس ہوتے ہیں۔ مثلاً تم سات بھائی ہو تو تم میں سے چھ بھائی اس کے گُھٹنوں کے پاس بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اُسے ایک بچے کی یاد تڑپا رہی ہوتی ہے۔ اس پر تم اپنا قیاس کر سکتے ہو کہ تمہاری جدائی پر تمہاری ماں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ تم کتنی دفعہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں سیر کرنے گئے ہو گے۔ تمہاری ماں تمہاری جدائی کی وجہ سے تمہارے پیچھے تڑپ رہی ہو گی مگر تم پر اپنی ماں کے رنج کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پس مَیں نے وہ مثال دی ہے جو ہر ایک کے ساتھ گزرتی ہے۔ تم میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں جس نے یہ بات نہ دیکھی ہو۔ اگر اس نے اپنی ماں کو غم کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو اس نے اپنی بیوی کو اپنی اولاد کی جدائی پر غم کرتے دیکھا ہو گا۔ اگر اس نے اپنی ماں اور بیوی کو غم کرتے نہیں دیکھا تو اس نے اپنی چچی، ممانی،خالہ یا دادی کو غم کرتے دیکھا ہو گا۔ تم میں سے کوئی بھی تو ایسا نہیں جس کی ماں، بیوی، خالہ، ممانی، چچی یا دادی وغیرہ نہ ہو۔ بیسیوں ایسے رشتے ہیں جن کا اس سے کوئی پردہ نہیں ہوتا اور جن سے وہ ملتا جلتا رہتا ہے۔ ایک کو اس نے نہیں دیکھا ہو گا تو دوسرے کو دیکھا ہو گا اور اگر دوسرے کو نہیں دیکھا ہو گا تو تیسرے کو دیکھا ہو گا۔ غرض تم میں سے کوئی بھی تو ایسا نہیں جس نے یہ نظارہ نہ دیکھا ہو لیکن فرق کیا ہے؟ فرق یہی ہے کہ تم اس نظارہ کو دنیا میں دیکھ لیتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کو جو تم سے محبت ہے وہ تم کم دیکھتے ہو یا بہت کم لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ بندے اسے دیکھ نہیں سکتے وہ یقیناً اسے دیکھ سکتے ہیں مگر وہ ایسی آنکھیں حاصل نہیں کرتے جو اس کے دیکھنے کے لیے چاہییں۔ ان کے دل میں وہ تڑپ نہیں جو اس کے لیے دیکھنے کا موجب بن جاتی ہے۔ پس ماں کی محبت کی مثال مَیں نے اس لیے دی ہے کہ تم سب اسے محسوس کر سکتے ہو۔
ماں کی محبت کے متعلق مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب روس اور ٹرکی میں لڑائی ہوئی یہ 1870ء کی بات ہے۔ مگر ایک لڑائی 1850ء میں بھی ہوئی تھی۔ شاید یہ واقعہ اُس وقت کا ہو۔ آپ کی عمر کے لحاظ سے غالباً یہ اسی لڑائی کا واقعہ ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اُس وقت مَیں نے اپنی اماں سے کہا اماں! یہ موقع اسلام کے لیے بہت نازک ہے آپ مجھے اجازت دیں کہ مَیں جاؤں اور مسلمانوں کی طرف سے اِس لڑائی میں شامل ہو جاؤں۔ امّاں نیغصے کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا بھلا کوئی ماں اپنے بیٹے کو ایسی اجازت دے سکتی ہے؟ آپ فرمانے لگے امّاں! آپ کے پانچ بیٹے ہیں اگر مَیں چلا جاؤں تو آپ کے پاس چار بیٹے تو ہوں گے۔اگر آپ اپنے ایک بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کر دیں تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے؟ امّاں نے مجھے خفا ہو کر ڈانٹا اور کہا آئندہ ایسی بات نہ کرنا۔ آپ فرمایا کرتے تھے مَیں نے اُس وقت سمجھ لیا کہ اب اِس بات کی وجہ سے امّاں کو ضرور سزاملے گی اور یہ بیٹے جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے ایک بیٹے کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان نہیں کر سکیں یہ نہیں رہیں گے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے ایک ایک کر کے مرنا شروع کیا۔ مَیں نے پھر یاد کرایا کہ امّاں! اگر آپ ایک بیٹے کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کے لیے پیش کر دیتیں تو آپ کے یہ چار بیٹے بچ جاتے۔ یہ چاروں اِسی لیے مرے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کے لیے ایک بچہ نہیں دیا۔ اِس پر آپ نے پھر خفگی کا اظہار کیا۔ آپ فرماتے تھے مَیں نے کہا امّاں! مَیں اس قربانی کے لیے تیار تھا اِس لیے مجھ پر تو کوئی گرفت نہیں ہو گی لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ کی وفات کے وقت مَیں بھی آپ کے پاس نہیں ہوں گا۔ چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ امّاں جب فوت ہوئیں تو مَیں کہیں باہر تھا۔ یہ ماں کی محبت ہے جس کا اِس دنیا میں نظارہ نظر آتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر ایک عورت کو دیکھا جو میدانِ جنگ میں دیوانہ وار پھر رہی تھی۔ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن ختم ہونے کے قریب تھی۔ لوگ پکڑے جا رہے تھے، جوان زخمی ہو رہے تھے مگر وہ عورت اس طرف دھیان دئیے بغیر میدانِ جنگ میں دوڑی پھر رہی تھی۔ آخر دوڑتے دوڑتے اُسے ایک بچہ نظر آیا۔ اُس کا بچہ جنگ کے دوران میں کہیں گُم ہو گیا تھا جواُسے مل گیا۔ اُس نے اُسے اٹھا لیا۔ خون ریزی ہو رہی تھی مگر اس نے پاس ہی ایک پتھر پر بیٹھ کر اور اپنا پستان نکال کر اسے دودھ پلانا شروع کر دیا۔ اُس کے چہرے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی کو دکھ ہی کوئی نہیں۔ جوان مر رہے تھے، اس کی قوم کے پہلوان زخمی ہو رہے تھے، اس کے ملک کے بہادر قیدہورہے تھے لیکن وہ عورت اپنے گم شدہ بچے کے مل جانے پر محسوس کرتی تھی جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا اس عورت کو دیکھو! وہ میدانِ جنگ میں کس طرح گھبرائی ہوئی پھر رہی تھی۔ اس کا بچہ گم ہو گیا تھا جس کو وہ تلاش کر رہی تھی۔ جب اسے مل گیا تو وہ کس طرح اطمینان سے بیٹھ گئی اور اسے دودھ پلانے لگ گئی۔ (اسے کٹتے ہوئے سر اور بندھی ہوئی رسیاں نظرنہیںآرہی تھیں۔ اس لیے کہ اسے اپنا کھویا ہوا بچہ مل گیا)پھر آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ اپنے بندے سے اس سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے جتنا یہ ماں اپنے بچہ سے پیار کرتی ہے۔1 جب کوئی نادم بندہ اس کے پاس آتا ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا بھُولا ہوا بندہ واپس آ گیا۔ مگرمائیں تو کئی ہیں جو سب کو نظر آ جاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ ایک ہے اور وہ ہر ایک کو نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے دیکھنے کے لیے وہ آنکھیں نہیں چاہییں جو جسم میں لگی ہوئی ہیں۔ اُس کے دیکھنے کے لیے وہ آنکھیں چاہییں جو روحانی ہوتی ہیں۔ اور وہ آنکھیں ہر ایک کے پاس نہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کسی کو مل ہی نہیں سکتیں۔۔ وہ ہر ایک کو مل سکتی ہیں مگر ہر ایک ان کی تلاش میں نہیں۔ ہر ایک انہیں لینا نہیں چاہتا۔
پس خدا تعالیٰ کی طرف سے تو ہر ایک کی ہدایت کے لیے دروازہ کھلا ہے اور وہ یقیناً اپنے بندے کے روحانی علاج کے لیے تیار ہے مگر اس آدمی کو کیا کریں جو بیمار ہوتا ہے اور اس بیماری کی حالت کو اپنی اصلی اور طبعی حالت سمجھ لیتا ہے۔ وہ دس سال سے پچیس یا تیس فیصدی چندہ دے رہا ہوتا ہے لیکن کسی سستی غفلت یا ٹھوکر کی وجہ سے اُس کا جوش کم ہو جاتا ہے اور وہ پچیس یا تیس فیصدی کی بجائے دس فیصدی دینے لگ جاتا ہے۔ اِس پر بجائے اس کے کہ وہ سمجھے کہ اسے حرارت ہو گئی ہے جودور ہونی چاہیے، بجائے اِس کے کہ وہ سمجھے کہ اُسے بیماری ہو رہی ہے جس کا اُسے علاج کرنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے اب میری طبیعت درست ہے اب میری صحت بہت اچھی ہے۔ وہ کتنا بیوقوف تھا کہ پہلے زیادہ قربانی کرتا رہا اور یہ چیز اُسے نیکیوں سے محروم کرتی چلی جاتی ہے، اسے نیکی سے دور پھینکتی چلی جاتی ہے۔ اگر اسے اس چیز کا احساس ہوتا تو وہ رات کو تہجد کے وقت اٹھ کر سجدہ میں گر جاتا اور کہتا اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! ایمان میرے ہاتھ سے جا رہا ہے، میری قربانی کم ہو رہی ہے، میری روحانی صحت بگڑ رہی ہے، مَیں موت کے قریب جا رہا ہوں تُو مجھے نجات دے کیونکہ تیرے سوا نجات دینے والا اَور کوئی نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کی حِس مُردہ نہ ہوتی۔ اُس کی جان نکلتی نہ چلی جاتی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا، وہ اُس کی مُردنی کو دور کر دیتا، اُس کے اندر ایک نئی طاقت پیدا کر دی جاتی اور وہ سمجھنے لگ جاتا۔ اُسے یہ محسوس ہو جاتا کہ وہ زور کے ساتھ بدی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ جب وہ ایک طرف سے زور لگاتا اور دوسری طرف سے خدا تعالیٰ زور لگاتا تو و ہ گڑھے میں سے نکل آتا۔ لیکن جب کسی کو خود ہی اس طرف توجہ نہ ہو اور جب آپ ہی انسان خدا تعالیٰ کو کہے اے زشت رُو! 2میرے پاس سے ہٹ جا اور بدرُو شیطان کو کہے اے میرے محبوب! میرے قریب آ جا تُواُس کا کیا علاج؟
پس مَیں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے مقام قربانی کو بڑھانے کی کوشش کرے۔ زندگی ایک کشمکش کا نام ہے۔ اگر یہ کشمکش ختم ہو جائے تو زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک مُردہ کو زندہ کے ساتھ باندھ دیا جائے تو کیا یہ پسندیدہ امرہو گا؟ کیا تم دودھ میں پیشاب کا قطرہ ملانا پسند کرو گے؟ کیا تم آٹے میں گوبر ملانا پسند کرو گے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری پندرہ سولہ سالہ قربانی کے ساتھ تمہاری مُردہ قربانی بھی شامل کر دی جائے اور خداتعالیٰ اسے قبول کر لے؟ موت تک جو حیات رہتی ہے، موت تک جو قربانی رہتی ہے موت تک جو سعی جاری رہتی ہے وہی خدا تعالیٰ کو منظور ہوتی ہے اور وہی انسان کے لیے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کسی فرد کی زندگی کا نام نہیں انسانی زندگی قومی زندگی کا نام ہے۔ انسانی زندگی تمہارے بیٹوں، پوتوں، پڑپوتوں اور پھر آئندہ نسلوں تک کی ایک متواتر زندگی کا نام ہے۔ تمہاری یہ نیت نہیں ہونی چاہیے کہ تم صرف اپنے آپ کو سلامت رکھو بلکہ یہ نیت ہونی چاہیے کہ اپنے مرنے کے بعد اپنی اولاد میں بھی یہ روح پیدا کر جاؤ کہ وہ ہمیشہ خدمت دین میں لگی رہے۔ اگر تم اس کام میں کامیاب ہو جاتے ہو تو تمہارے لیے اس سے زیادہ برکت والی اَور کوئی چیز نہیں۔ تم اپنے ماحول کی طرف مت دیکھو۔ جو اِس وقت تمہارا ماحول ہے صحابہؓ کا ماحول اس سے بہت زیادہ ادنیٰ تھا۔ تم میں سے غریبوں کے تن پر جو کپڑے ہیں وہ اُس وقت کے امیروں کے پاس بھی نہیں تھے، جو کھانا تم اِس وقت کھاتے ہو وہ اُس وقت کے امیر بھی نہیں کھاتے تھے۔ اوّل تو اُس وقت اتنے کھانے ہی نہیں ہوتے تھے، دوم اُس زمانے میں خوراک کم ہوتی تھی۔ سوم اُن کو اکٹھا کھانے کی عادت ہوتی تھی۔ ہر ایک کے پاس الگ الگ تھالی نہیں ہوتی تھی۔ آجکل الگ الگ تھالی کا رواج ہو گیا ہے لیکن اُس زمانہ کے لوگ یہ پسند کرتے تھے کہ وہ ایک ہی تھالی سے کھائیں اور جب ایک ہی تھالی میں ہاتھ ڈالا جائے تو یہ نہیں ہوتا کہ کسی کے ہاتھ میں پلاؤ چلا جائے اور کسی کے ہاتھ میں دال۔ پلاؤ آئے گا تو سبھی کے ہاتھ میں آئے گا اور اگر دال آئے گی تو سبھی کے ہاتھ میں آئے گی۔ لیکن اس کے باوجود جو قربانی انہوں نے اُس وقت کی اُس کے مقابلہ میں اِس زمانہ کے ایک بڑے سے بڑے آدمی کی قربانی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
ہٹلر کا نام سن کر تم کتنا مرعوب ہوتے تھے۔ جرمنی والے کہتے تھے کہ وہ دوسرا مسیح ہے مگر پہلے مسیح سے بڑھ کر ۔وہ کسی غیر ملک میں نہیں، کسی غیر شہر میں نہیں بلکہ اپنے ہی ملک اور اپنے ہی شہر میں اکیلا مارا گیا۔ اُس کے اپنے مددگار اُسے چھوڑ گئے۔ انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور وہ اپنے ہی گھر کے سامنے مارا گیا۔ اِس کے مقابلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو! ہٹلر کے محلوں، آرام گاہوں اور آسائش گاہوں کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھونپڑے کی کیا حیثیت تھی۔ ہٹلر کے کنّاس یعنی گھر کی صفائی کرنے والے کی غذا صحابہ کی غذا سے یقیناً دس گنے سے بھی زیادہ اچھی تھی۔ ہٹلر کے گھر کی صفائی کرنے والے ، اُس کے بہرے اور اُس کے باورچیوں کے بستر صحابہؓ کے بستروں سے یقیناً دس گنے اچھے تھے۔ لیکن وہ مرتا ہے تو اِس طرح کہ اُس کی موت کے وقت اُس سے محبت کرنے والا اور اُس پر آنسو بہانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے کہ آپ کا ایک صحابیؓ پکڑا جاتا ہے، کفار اُس کو پھانسی دینا چاہتے ہیں، وہ اُسے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ مرتے وقت جب کہ لکڑی رکھ دی جاتی ہے، اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جس پر سر رکھ کرکسی کو قتل کیا جاتا تھا، تو ایک آدمی اُس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم آرام سے مدینے میں بیٹھے ہوئے ہو اور تمہاری جگہ اِس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں؟ تو وہ جواب دیتا ہے تم تو یہ کہتے ہو کہ مَیں مدینے میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں میری جگہ ہوں بیوقوف! مَیں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ مَیں گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں مدینے میں کوئی کانٹا چبھ جائے۔3
ایک عورت محبت کے کتنے جذبات خاوند کے ساتھ رکھتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے لیے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ آپ کے چلے جانے کے بعد ایک صحابیؓ اپنے گھر آتا ہے اُس کا کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد کے لیے باہر تشریف لے گئے تو وہ گھر نہیں تھا کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ وہ اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور ایک عرصے کی جدائی کے بعد جب اُس نے اپنی بیوی کو دیکھا وہ تپاک کے ساتھ آگے بڑھا۔ آج کتنی بیویاں ہیں جو منہ پُھلائے رہتی ہیں۔ اِس لیے کہ اُن کے خاوندوں نے اُن سے پیار نہیں کیا، کتنی بیویاں ہیں جو روتے ہوئے رات گزار دیتی ہیں اِس لیے کہ اُن کے خاوندوں نے اُن کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔ لیکن وہ صحابیؓ جب گھرمیں آتا ہے تو اپنی بیوی کی طرف بڑھتا ہے اور اُس سے محبت کا اظہار کرتا ہے، وہ اپنے عشق کو ظاہر کرنا چاہتا ہے، وہ اُس سے لپٹ کر پیار کرنا چاہتا ہے لیکن وہ عورت اسے دھکّا دے کر کہتی ہے تمہیں شرم نہیں آتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جہاد کے لیے باہر تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں مجھ سے پیار کرنے کی سُوجھ رہی ہے؟ اس صحابیؓ نے مڑ کر دوسری دفعہ اپنی بیوی کو نہیں دیکھا۔ وہ باہر نکلا، اس نے اپنے گھوڑے پر زین کَسی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہو گیا۔
یہ کیا چیز تھی جس نے اُن کو اس قربانی پر آمادہ کیا؟ یہ نمونہ صرف خدا تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے سے ظاہر ہوا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ظاہری حالت میں ویسے ہی تھے جیسے دوسرے ہیں، صحابہ کرامؓ کے جذبات ویسے ہی تھے جیسے ہمارے ہیں، اُن کی آنکھیں ویسی ہی تھیں جیسے ہماری ہیں، ان کا قدوقامت ویسا ہی تھا جیسے ہمارا ہے۔ بلکہ سینکڑوں ایسے ہوں گے جو قدوقامت میں اُن سے بڑھے ہوئے ہوں گے، سینکڑوں ایسے ہوں گے جن کی نظریں اُن کی نظروں سے زیادہ تیز ہوں گی، کروڑوں ایسے ہوں گے جن کا لباس اُن سے اچھا ہوگا۔ پھر وہ کیا چیز تھی جس نے اُن کے اندر یہ روح پیدا کر دی تھی؟ وہ چیز صرف خدا تعالیٰ سے اُن کا تعلق تھا۔ جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں وہ اُن کا ہو جاتا ہے۔ مخلوق اُن سے محبت کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ جو شخص اب بھی ایسی ہی قربانی کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ایسا ہی بدلہ پائے گا اور جو قربانی نہیں کرے گا اُس کی حالت کو درست کرنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس کی اصلاح کرے اور اسے بدانجام سے بچائے۔
کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے مَیں اپنے مضمون کو یہاں ہی چھوڑتا ہوں اور اِسی پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں"۔ (الفضل 18دسمبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقتہ
2
:
زشت رُو: بد شکل۔ بد صورت
3
:
اسد الغابۃ جلد نمبر2صفحہ 230مطبوعہ بیروت 1965ء

ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہم سامان مہیا نہ کریں
اور کام آپ ہی آپ ہوتا جائے
(فرمودہ10دسمبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"آج بجلی کے خراب ہونے کی وجہ سے لاؤڈ سپیکر بھی بند ہے اور میرا گلا بھی خراب ہے۔پچھلے ہفتہ سے مجھے کھانسی کی بہت زیادہ تکلیف ہو رہی ہے اور بعض اوقات تو دمہ کی سی تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس لیے مَیں آج بلند آواز سے نہیں بول سکتا مگر خدا تعالیٰ نے انسان کے ثواب کے لیے کئی ذرائع پیدا کر دئیے ہیں۔ جہاں انسان کے ثواب کے لیے ایک یہ ذریعہ ہے کہ ایسی جگہوں پر آ کر باتیں کہی جائیں اور لوگ انہیں آ کر سنیں وہاں ایک یہ بھی ذریعہ ہے کہ انسان ایسی جگہوں پر آئے اور بیٹھ جائے۔ خواہ آواز آتی ہو یا نہ آتی ہو۔ کیونکہ ثواب بہرحال قربانیوں پر ہی ملتا ہے۔ اصل چیز تو نیت ہے جو شخص اس نیت سے ایسی جگہ پر گیا کہ وہاں جا کر دینی باتیں سنے تو خواہ وہ باتیں نہ سن سکے وہ ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے اس نے سن لیا۔ اور جب ثواب قربانی پر ہی ملتا ہے تو ایک شخص جس نے سن لیا اس کو تو اس کے سننے کاثواب ملے گا اور وہ شخص جس نے نہیں سنا اس نے چونکہ اپنے جذبات بھی قربان کر دئیے اس لیے وہ دُہرے ثواب کا مستحق ہو گا۔
اس کے بعد مَیں مختصراً جماعت کو اورجماعت احمدیہ لاہور کو مقدم طور پر اور پھر دوسری جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے مختلف جماعتوں کو حفاظتِ مرکز کے چندے کی طرف توجہ نہیں رہی حالانکہ گومعنوی رنگ میں اسلام اور وہ صداقتیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اُن کا پھیلانا ہی ہمارا مقصود اور اصل کام ہے لیکن ہر چیز معنوی نہیں ہوا کرتی۔ بعض ظاہری چیزیں بھی ہوا کرتی ہیں جن کا ادب اور احترام بعض اوقات معنوی چیزوں سے بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ عدمِ احترام دنیا کے لیے ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ، قادیان ہو یا کوئی اَور شہر یہ سب آخر مٹی کی چیزیں ہیں اور جن کے لیے خدا تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں وہ اَور امور ہیں یعنی معنوی توحید کا اقرار کروانا، ملائکہ کا اقرار کروانا، تقدیر کا اقرار کروانا، قبولیتِ دعا کا اقرار کروانا، خدا تعالیٰ کی دوسری صفات اور الہام پر ایمان اور یقین پیدا کرنا اور پھر ان کی اتباع کروانا، پھر مرنے کے بعد کی زندگی اور خدا تعالیٰ سے وصال کا اقرار کروانا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لیے خداتعالیٰ کے رسول آتے ہیں۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اگر صحیح طور پر مانی جائیں اور ان پر پورے طور پر عمل کیا جائے تو یہ انسان کے روحانی مقام کو بلند کرتے کرتے اتنا بلند کر دیتی ہیں کہ ایک وقت میں اسے دوسرے انسان یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ انسان نہیں رہا خدا بن گیا ہے۔ اصل چیز تو وہ ہے لیکن جہاں تک ظاہر کا سوال ہے دوسری ظاہری چیزوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ توحید ہے وہ اب بے شک مٹ گئی ہے لیکن اس کے مٹ جانے سے اسلام پر اتنا سخت اعتراض نہیں پڑتا، مسلمانوں سے نمازیں جاتی رہی ہیں لیکن عیسائی اور ہندو اس پر زیادہ اعتراض نہیں کرتے، حج اور زکوٰۃ ہے ان میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے مگر اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ لیکن کچھ ظاہری علامتیں ایسی ہیں جن میں اگرچھوٹا سا بھی رخنہ پڑ جائے تو دشمن شور مچانے لگ جاتا ہے۔ مثلاً خدانخواستہ اگر کوئی مکہ کی بے حرمتی کربیٹھے یا مدینہ کی بے حرمتی کر بیٹھے تو باوجود اس کے کہ توحید کے ساتھ اِن کا کوئی تعلق نہیں ہر مسلمان کا دل بیٹھ جائے گا اور دشمن شور مچانے لگ جائے گا کہ اب اسلام کہاں رہ گیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کی قدر تو اُسے نظر نہیں آتی، رسالت کی قدر تو اُسے نظر نہیں آتی، کلامِ الٰہی کی خوبیاں تو اُسے نظر نہیں آتیں۔ ظاہر ہی ہے جو اُسے نظر آتا ہے اور وہ اس پر فوراً اعتراض کر دیتا ہے۔
اِسی طرح احمدیت کے متعلق معنوی پیشگوئیاں پوری بھی ہو رہی ہوں تو وہ نظر نہیں آتیں۔ قادیان کی باتیں نظر آ جاتی ہیں اس کے متعلق وہ فوراً اعتراض کر دے گا۔ دشمن تو ہر وقت اِسی کُرید میں رہتا ہے کہ مادی چیزوں میں سے اسے کوئی اعتراض کی چیز مل جائے تو وہ اس پر فوراً حملہ کر دے۔ پس ہمیں اپنے ایمان کے علاوہ دشمن کے ایمان کے لحاظ سے بھی اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہم نے جو قادیان میں مقابلہ کیا اور ہم نے قادیان کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی جو کوشش کی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اپنے مرکز کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اسے ہمیں کسی وقت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ظاہر اور صاف بات ہے کہ جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ خواہ کتنی قربانی بھی کریں اُن کی کمائی کی وہاں کوئی صورت نہیں، اُن کی آمدن کی کوئی صورت نہیں۔ اُن کی حالت ایسی ہی ہے جیسے وہ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لازمی طور پر ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اُنہیں کھانا دیں، ہم اُنہیں کپڑے دیں، وہ اگر بیمار ہو جائیں تو اُن کا علاج کریں اور ضروریاتِ انسانی کی جو دوسری چیزیں ہوں خواہ وہ کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہوں اُنہیں مہیا کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کالجوں میں لڑکے پڑھتے ہیں تو ہم اُن پر سَواسَو روپیہ ماہوار سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں۔ بورڈنگوں میں آجکل بغیر ناشتہ کے پچاس ساٹھ روپے لے لیتے ہیں کم از کم چالیس پینتالیس روپیہ تو لے لیتے ہیں۔ تم اس سے آدھا خرچ ہی لے لو، اس سے تیسرا حصہ ہی لے، لو قادیان میں اِس وقت سوا تین سو آدمی ہیں۔ پھر ان کے پاس مہمان بھی آتے رہتے ہیں۔ چار سو افراد کے لیے ہم ادنیٰ سے ادنیٰ کھانا بھی لے لیں حالانکہ ان کے لیے تو اچھا کھانا چاہیے کیونکہ انہیں آزادی نہیں ہے۔ وہ ایک قسم کے قیدی ہیں۔ اِدھر اُدھر آزادی سے نہیں پھر سکتے۔اُن کی صحتوں کو قائم رکھنے کے لیے انہیں اچھا کھانا چاہیے لیکن اگر ادنیٰ سے ادنیٰ کھانا بھی ان کے لیے رکھیں تب بھی اُن کے لیے چھ ہزار روپیہ تو کھانے کے لیے چاہیے۔ پھر اگر دوسرے اخراجات بھی شامل کیے جائیں تو انہیں دس بارہ ہزار روپیہ ماہوار چاہیے۔تب صحیح طور پر خرچ چل سکتا ہے۔ وہ لوگ توبہت بڑی تنگی سے گزارہ کر رہے ہیں۔
پھر ہندوستان کی تنظیم کا سوال ہے۔ اِس وقت ہندوستان کی جماعتیں بکھری ہوئی ہیں۔ اِس پر بھی خرچ ہو گا۔ وہاں کی تبلیغ پر بھی خرچ ہو گا۔ پھر اَور کئی کام ہیں جن پر بڑی بڑی رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ مختلف بیرونی ملکوں میں پروپیگنڈا کرنے اور دوسری قوموں کو اس طرف توجہ دلانے میں جو خرچ ہوتاہے اُس کا اندازہ جماعت کر بھی نہیں سکتی۔ درحقیقت ان کاموں پر تین لاکھ سالانہ کا خرچ آ جاتا ہے۔ یعنی پچیس ہزار روپے ماہوار خرچ ہے۔ اگر ہم اس بوجھ کو نہیں اٹھائیں گے تو جہاں تک معنوی بات ہے خدا تعالیٰ کے خزانے میں کمی نہیں۔ لیکن جہاں تک مادی بات ہے مَیں سمجھتا ہوں جماعت کے لیے دنیا میں منہ دکھانے کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ جائے گی۔ جہاں تم اپنی بیماری پر خرچ کرتے ہو وہاں پر یہ بھی سمجھ لو کہ یہ ایک بیماری ہے، ایک ابتلا ہے، مرکز ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور اب اُس کی حفاظت کے لیے وہاں کچھ مخلص بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر تم بیمار ہوتے ہو تو اپنی بیماری پر خرچ کر تے ہو۔ اِسی طرح سمجھ لو کہ احمدیت کے جسم میں بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔ اگر بیماری کا ہی خرچ نکالا جائے تو ایک بڑی رقم اکٹھی ہو سکتی ہے۔ ہمارا تمام حساب بجٹ کو ملا کر اٹھارہ بیس لاکھ کا ہوتاہے۔ اتنا چندہ دینے والی جماعت کے لیے دو تین لاکھ سالانہ کا اَور بوجھ اُٹھا لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو ہر سال اتنی رقم مقرر کی جا سکتی ہے۔ مگر یہاں تو پہلے سال کے وعدے بھی جن پر دو سال گزر گئے ہیں ادا نہیں ہوئے۔تیرہ لاکھ کا وعدہ تھا اگر یہ رقم پہلے جمع ہو جاتی تواِس میں اَور بھی بہت سے کام کیے جا سکتے تھے۔ اور اب اگر دوست اپنے پچھلے وعدے پورے کر دیں اور بقیہ آٹھ لاکھ کی رقم پوری ہو جائے تو دو سال اَور اس چندہ کے لیے کسی نئی تحریک کی ضرورت نہیںرہتی۔ اگر مشرقی پنجاب کے لوگوں کو جو صدمہ پہنچا ہے اُس کی وجہ سے بقیہ وعدوں کا ایک حصہ ناقابلِ وصول بھی قرار دیا جائے تو پھر بھی ڈیڑھ سال کا گزارہ پہلے وعدوں کی رقم پر چلایا جا سکتا ہے اور1950ء تک نئی تحریک کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے بعد ضرورت قائم بھی رہے تو پھر نئی تحریک کے ذریعہ چندہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور نئی تحریک کی صورت میں اگر حفاظتِ مرکز کے لیے جو معمولی بات نہیں ایک ماہ کی آمد کا پچیس فیصدی دے دیا جائے۔ جس کے معنے دو فیصدی ماہوار کے ہیں تب بھی تین لاکھ آسانی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے آپ لوگ اپنے ذہنوں میں سوچ کر دیکھ لیں کہ یہ کتنی اہم چیز ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان کی زیادہ تشریح کی جائے تو وہ گھناؤنی بن جاتی ہیں۔ یہ چیز بھی ان میں سے ہی ہے۔ اگر اس کی تشریح کی جائے تو یہ بھی گھناؤنی بن جائے۔ اس کام میں اگر ہم غفلت سے کام لیں اور قادیان میں جو لوگ رہتے ہیں وہ مثلاً پولیس کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم فاقے مر رہے ہیں تم ہمیں پاکستان پہنچا دو۔ تو تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو جو کم از کم اپنے وطنوں میں رہنا پسند کرے۔ اور اگر خودکشی جائز ہوتی اور تم میں سے کسی کے سامنے ایسا واقعہ پیش آ جاتا تو وہ خودکشی کر لیتا۔ ابھی بھی لاہور کے ذمہ بہت سی رقم باقی ہے۔ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دو ماہ کے اندر اندر یہ رقم ادا کر دی جائے گی مگر ابھی تک یہ ادا نہیں ہوئی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پچھتر فیصدی وعدے ادا ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک مجھے حساب نہیں ملا۔ اگر پچھتر فیصدی وعدے ادا ہو چکے ہیں اور صرف پچیس فیصدی باقی ہیں تب بھی ان وعدوں کو بہت جلد پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اِسی طرح بیرونی جماعتوں کے ذمہ سات آٹھ لاکھ روپیہ واجبُ الادا ہے۔ مَیںدوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندے کی طرف توجہ کریں اور اپنی غفلتوں کو دور کرتے ہوئے بار بار اِس سوال کو اٹھانے کا موقع نہ دیں۔یہ چیز ایسی ہے کہ مجھے تو اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے۔ اپنے لیے نہیں کیونکہ مَیں تو پہلے ہی اپنا وعدہ ادا کر چکا ہوں بلکہ تمہارے لیے۔ اگر مجھے جماعت کی کمزوری کا خطرہ نہ ہوتا اور یہ ڈر نہ ہوتا کہ ان کے دلوں پر زنگ لگ جائے گا تو مَیں دوبارہ تحریک کرتا اور پھر اس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو جاتا۔ لیکن مَیں ڈرتا ہوں کہ مَیں اگر ان وعدوں کو چھوڑ دوں تو لوگوں کے دلوں پر زنگ لگ جائے گااور وہ نیکیوں سے محروم ہو جائیں گے۔ اس لیے مجبوراً مجھے یہ تحریک کرنی پڑتی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے۔ اور جب میں اس بارہ میں تحریک کرتا ہوں تو مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کسی کو اپنی عورت کے ننگ کا ذکر کرنا شرمندہ کر دیتا ہے اسی طرح مجھے اس چندہ کی بار بار تحریک کرنا شرمندہ کر دیتا ہے۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مَیں جماعت کے عیوب کو کھول رہا ہوں۔ کوئی اپنی عزیز چیز کے عیوب نہیں کھولنا چاہتا لیکن مَیں مجبور ہوں کیونکہ مجھے کام چلانا ہے۔ اس لیے مجھے تحریک کرنی پڑتی ہے۔ پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
میرے خیال میں جماعت کا اکثر حصہ وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ چونکہ ہم قادیان سے نکل آئے ہیں اس لیے اب حفاظتِ مرکز کا سوال ہی نہیں رہا۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے اس بارہ میں سستی سے کام لیا ہے اور اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ حالانکہ حفاظتِ مرکز کا سوال اب اَور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے اور یہ اُس وقت تک رہے گا جب تک قادیان ہمارے قبضہ میں نہیں آجاتا اورجب تک ہم اسے آزادی سے مرکز بنا کر ساری دنیا میں تبلیغ نہیں کرتے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کی وجہ سے جماعت کے دوستوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ حالانکہ جب مَیں تحریک جدید کی تحریک کرتا ہوں تو لوگ چندے دیتے ہیں۔ اگر حفاظتِ مرکز کا چندہ نہ دینا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے تو وہ تحریک جدید میں چندہ کیوں دیتے ہیں۔ پھر تحریک ستمبر میں جماعت کے سینکڑوں افراد نے اپنے اوپر آمد کا ساڑھے سولہ فیصدی، پچیس فیصدی، تینتیس فیصدی بلکہ پچاس فیصدی بھی واجب کر لیا ہے۔ اگر جماعت ایمان میں کمزور ہوتی تو وہ اس میں حصہ کیوں لیتی۔پھر جماعت کے ہزاروں ہزار افراد ایسے ہیں جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے اور وہ اپنی آمد کا دسواں، نواں، ساتواں حصہ دیتے ہیں۔ اگر ان میں ایمان نہ ہوتا تو وہ ایسا کیوں کرتے۔ پھر بیشتر حصہ جماعت کا جسے ساٹھ ستّر فیصدی کہنا چاہیے ایسا ہے جو ایک آنہ فی روپیہ کی شرح سے چندہ دیتا ہے۔ ایک آنہ فی روپیہ کے معنے ہیں سَوا چھ فیصدی۔ اگر ان میں ایمان نہ ہوتا تو وہ سَوا چھ فیصدی کی شرح سے چندہ کیوں دیتے۔ پس یہ تو یقینی اور قطعی بات ہے کہ یہاں ایمان کا سوال نہیں۔ اگر ایمان کا سوال ہوتا تو لوگ دوسرے چندے کیوں دیتے۔ لوگ ایک آنہ دو آنہ تین آنہ اور بعض تو آٹھ آنے فی روپیہ جو پچاس فیصدی ہوتا ہے کیوں دیتے۔ یہ بتاتا ہے کہ لوگوں میں ایمان موجود ہے۔ پس حفاظتِ مرکز کے جو وعدے پورے نہیں کیے گئے اُس کی وجہ یہ ہے کہ دوستوں کو یہ وہم ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ایسے مقام پر ہیں کہ اگر ہم سُستی کریں تو ہماری ناک کٹ جائے گی اور ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آخر ہم یہ امید تو نہیں کر سکتے کہ ہم سامان بھی مہیا نہ کریں اور کام بھی آپ ہی آپ ہوتا جائے۔
قادیان میں جب گولیاں چل رہی تھیں اور اردگرد کے علاقے کے بھی ساٹھ ہزار آدمی وہاں آگئے تھے۔ گورنمنٹ نے تو انہیں ایک دن بھی کھانا نہیں کھلایا تھا۔ انہیں بھی ہم نے ہی کھانا کھلایا تھا۔ اب ان چار سو آدمیوں کو کیا وہ کھانا کھلائے گی؟ ہندوستان کے بعض لوگوں کو قادیان کا اجاڑنا پسند ہے آباد رکھنا پسند نہیں۔ انہیں تو وہی کھانا کھلائیں گے جو اپنے مرکز سے محبت رکھتے ہیں اور جن کا یہ ایمان ہے کہ چاہے قادیان آج بہت سے احمدیوں سے کٹ گیا ہے لیکن ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی اصلاح اور انصاف کے کام کا مرکز قادیان ہو گا۔ وہی لوگ ہیں جو اس کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کریں گے، وہی ہیں جو اس کے لیے اپنے اموال کو قربان کریں گے، وہی ہیں جو اپنی جانوں کو وقف کر کے قربانی کے لیے پیش کریں گے۔ پس گو مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سستی اور غفلت ناواقفیت کی وجہ سے ہے لیکن میرے لیے یہ مشکل امر ہے کہ جماعت کو اس کام کی طرف بار بار توجہ دلاؤں کیونکہ بار بار توجہ دلانے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت کو مرکز سے کوئی محبت نہیں۔ امام اسے بار بار توجہ دلا رہا ہے لیکن وہ پھر بھی توجہ نہیں کرتی اور یہ بڑی شرم کی بات ہے۔ میری مثال تو ایسی ہے کہ بولوں تو ماں ماری جائے اور نہ بولوں تو باپ کُتّا کھائے۔ اگر مَیں نہیں بولتا تو مادی نظریہ کے مطابق قادیان کی تباہی میرے سامنے آجاتی ہے۔ خدا تعالیٰ تو اُسے ضرور بچائے گا لیکن ظاہری حالت سے یہی نظر آتا ہے۔ اور اگر بولتا ہوں تو دشمن کی نظروں میں جماعت ذلیل ہو جاتی ہے۔ ایسے اہم کام میں بار بار تحریک کرنے اور توجہ دلانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنا جماعت کی ذلت کا موجب ہے۔ مَیں نے جو کچھ کہا ہے بڑی مشکل سے، شرمندہ ہوتے ہوئے اور ندامت کو محسوس کرتے ہوئے کہا ہے اور ڈرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی سی بات سے بھی جو مَیں نے کہی ہے دشمن فائدہ نہ اٹھا لے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت اِس چیز کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف پوری توجہ دے گی۔ اگر دوست پچھلے وعدے پورے کر دیں تو پھر دو سال تک کسی نئی تحریک کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دوسرے یاتیسرے سال اگر ضرورت پیش آئی تو نئی تحریک کر دی جائے گی۔
مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ساری جماعت ساڑھے سولہ فیصدی سے تینتیس فیصدی چندہ دینے لگ جائے تو اس سے اتنی آمد ہو سکتی ہے کہ بغیر نئی تحریک کے یہ کام چل سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اِس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اگر اس طرف جماعت کی پوری توجہ ہو گئی تو خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی آمد ہو جائے گی جس سے یہ کام سہولت سے آ پ ہی آپ ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن جو وعدے پہلے ہو چکے ہیں اُن پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے وہ بہرحال پورے کرنے پڑیں گے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ابھی چھ سات لاکھ کے وعدے باقی ہیں۔ اگر یہ پورے ہو جائیں تو اس رقم سے دو سال کام چل سکتا ہے اور دو سال کے عرصہ میں پتہ نہیں کیا کیا تغیرات ہو جائیں۔ آئندہ اس کی شاید ضرورت بھی نہ پڑے۔ اگر ضرورت پڑی تو نئے سرے سے ایک مہینہ کی آمد کے 1/4 یا 1/8 حصہ کی تحریک کر دی جائے گی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی آمد ہو جائے گی کہ اس سے یہ کام چلتاچلاجائے گا۔ یا پھر ایک خاص مقدار چندے کی مقرر کر دی جائے گی اور وہ عام چندوں کے ساتھ زائد کر دی جائے گی۔ مثلاً یہ کہہ دیا جائے گا کہ دوست سوا چھ فیصدی کی بجائے آٹھ فیصدی یا دس فیصدی چندہ دیا کریں اور پھر آہستہ آہستہ یہ چندہ جاری رہے گا اور ماہوار چندوں کے ساتھ ادا ہوتا رہے گا۔لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ 1947ء کے شروع میں جو وعدے کیے گئے تھے اُنہیں جلد از جلد پوراکیاجائے تا کہ لوگ وعدہ خلافی کے جُرم میں عذاب کے مورد نہ بنیں"۔
(الفضل 16مارچ1949ء )

جب تک ہم دعا کی اہمیت کو نہ سمجھیں گے
ہم کامیاب نہ ہو سکیں گے
(فرمودہ17دسمبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"مجھے ابھی چونکہ کھانسی کی تکلیف ہے اس لیے مَیں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ترکوں کے سابق بادشاہ عبدالمجید1 کا ذکر کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے مجھے عبدالمجیدکی ایک بات بہت اچھی لگتی ہے اور وہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب یونان سے ترکی کی جنگ شروع ہونے لگی تو ترکی کے وزراء اُس وقت کے حالات کے مطابق زیادہ دیانتدار نہیں تھے۔ وہ یورپین قوموں سے اپنے ذاتی فوائد حاصل کرتے رہتے تھے اور اپنی قومی ضرورتوں کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ اِس امر کے متعلق جب اُن سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے بہت سی مشکلات پیش کیں۔ بعض امور کے متعلق انہوں نے کہا کہ ان میں ہماری کافی تیاری ہے اور ہمارے پاس کافی سامان موجود ہیں اور بعض امور کے متعلق انہوں نے کہا کہ ان میں ہمیں پوری تیاری حاصل نہیں اور ہمارے پاس کافی سامان موجود نہیں۔ اور اس طرح انہوں نے بادشاہ پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی کہ ہمیں اس جنگ میں نہیںکُودنا چاہیے بلکہ دب کر صلح کر لینی چاہیے۔ بادشاہ عبدالمجید نے جب ان کے بیانات کو سنا جو انہوں نے دئیے تو اُس نے کہا دیکھو! دنیا میں کچھ کام بندہ کرتا ہے اور کچھ کام خدا تعالیٰ خود کرتا ہے۔ آپ نے بعض امور کے متعلق کہا ہے کہ ان میں ہماری کافی تیاری ہے اور ہمارے پاس کافی سامان موجود ہیں اور بعض امور کے متعلق کہا ہے کہ ان میں ہماری تیاری کافی نہیں اور مکمل سامان موجود نہیں۔ وہ کام جو ہم کر چکے ہیں اور وہ سامان جو ہم مہیا کر چکے ہیں وہ تو بندہ کی کوشش کا نتیجہ ہیں اور یہ ہم پر ایک فرض تھا جو ہم نے ادا کر دیا اور جن امور میں آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں اور ہمارے پاس کافی سامان موجود نہیں وہ خدا تعالیٰ کا حصہ ہیں۔ آخر خداتعالیٰ کا خانہ بھی تو خالی چھوڑنا ہے۔ ہر کام انسان نہیں کر سکتا۔ ایک حد تک وہ کوشش کرتا ہے مگر جو کام اُس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ خود کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا خانہ اگر خالی رہے تو کوئی حرج نہیں۔ جس قدر ہم محنت اور کوشش کر سکتے ہیں اُس حد تک ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے بادشاہ عبدالمجید نے خدا تعالیٰ پر توکّل کیا اور کہا کہ ہر کام میں خدا تعالیٰ کا بھی حصہ ہوتا ہے اُس کو پورا کرنے کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گویا یہ اُس کے توکّل کا اچھا نمونہ ہے اس لیے مجھے اُس سے محبت ہے۔ غرض دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں اُن کا کچھ حصہ تو بندے کے سپرد ہوتا ہے اور وہ اُس کو کرتا ہے اور کچھ حصہ اُن کا ایسا ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خود کرتا ہے۔
مَیں نے جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے پاس سامان تھوڑے ہیں اور اُن کے ساتھ ہم اُس کام کو پورا نہیں کر سکتے جو ہمارے سپرد ہیں اور جو خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ ڈالے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کی جماعتوں کے سپرد جو کام ہوتے ہیں ان میں جہاں تک بندے کی کوشش اور جدوجہد کا سوال ہوتا ہے اور جہاں تک ہمارے لیے ممکن ہوتا ہے ہمارا فرض ہوتا ہے کہ ہم اُسے اُس حد تک پورا کریں اور جتنی کمی رہ جائے اُس کو پورا کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اس سے درخواست کریں کہ وہ اسے پورا کر دے۔ پس جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق سامان جمع کریں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جو کام ہماری طاقتوں سے باہر ہوں ان کے لیے خداتعالیٰ سے بھی مدد مانگتے رہیں کہ وہ ان کمیوں اور خامیوں کو جو اِن میں رہ گئی ہیں اور جن کو پورا کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے انہیں وہ خود پورا کر دے۔ 2میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
عبادت کے محض یہ معنے نہیں کہ وہ نمازیں جو ہم پڑھتے ہیں یا وہ روزے جو ہم رکھتے ہیں عبادت ہیں بلکہ جتنے احکام بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر نازل ہوئے ہیں اور وہ تمام ذمہ داریاں جوہم پر عائد ہوتی ہیں وہ سب عبادت میں شامل ہیں۔ ہماری نمازیں ہی صرف عبادت نہیں،ہمارے روزے ہی صرف عبادت نہیں، ہماری زکوٰۃ ہی صرف عبادت نہیں،ہمارا حج ہی صرف عبادت نہیں بلکہ ہمارے چندے بھی عبادت ہیں، ہماری تبلیغ بھی عبادت ہے، ہماری تنظیم بھی عبادت ہے، پھر جماعتی کاموں میں جو ہمارا وقت صَرف ہوتا ہے وہ بھی عبادت ہے، غرباء اور مساکین کی ترقی کے لیے جو ہم کوشش کرتے ہیں وہ بھی عبادت ہے۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ پر نظر رکھتے ہوئے اور ثواب کے حصول کے لیے ہم جو خدمت اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہیں اسے بھی عبادت قرار دیا ہے۔ غرض مومن کا ہر کام ہی عبادت ہے مگر اس کا سو فیصدی پورا کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں۔
خدا تعالیٰ کی جماعتیں جب نئی قائم ہوتی ہیں ان کے ذرائع محدود اور کم ہوتے ہیں اور دشمن کے ذرائع ان کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور اس کے سامان بہت زیادہ مکمل ہوتے ہیں۔ پس پر پورا عمل کرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا خانہ خالی رہ جاتا ہے اور اس کو پورا کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے اگلا جملہ بیان فرمایا ہےکہ ہم تو اس کام کے لیے جتنی کوشش اور جدوجہد کرسکتے تھے کر رہے ہیں لیکن اے ہمارے خدا! باوجود ہماری کوشش اور سعی کے پھر بھی وہ کام پورا نہیں ہوتا جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے۔ اے خدا! ہم باوجود کوشش کے وہ کام نہیں کر سکتے۔ جہاں تک ہماری کوشش اور جدوجہد کا سوال ہے ہم کریں گے لیکن پھر بھی جو خامیاں اور کمزوریاں اس میں رہ جائیں اے خدا! تُو خود انہیں پورا کر دے۔
غرض انبیاء کے کاموں کی تکمیل کے لیے دعا نہایت اہم اور ضروری چیز ہے اور جب تک اس پر زور نہ دیا جائے وہ کام پورے نہیں ہوتے۔ انبیاء کے کام بے شک خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر بندے میں یہ احساس تو ہونا چاہیے اور اسے یہ اقرار تو کرنا چاہیے کہ اس کام کو خدا تعالیٰ ہی کرے گا۔ اگر بندہ اس کا اقرار نہیں کرتا اور اسے اس چیز کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کام کو خدا تعالیٰ ہی پورا کرے گا اور وہ اس کی استمداد اور استعانت سے مستغنی رہتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو بھی اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی خواہ وہ اپنی کوششوں کو انتہا تک ہی کیوں نہ پہنچا دے۔ لیکن اگر وہ اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے خانہ کو بھی خالی تصور کرتا ہے اور مانتا ہے کہ یہ کام پورا نہیں ہو گا جب تک خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت شاملِ حال نہ ہو۔ پھر اس اقرار اور احساس کے بعد وہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے تو اس کی مدد آ کر اس کے کام کو مکمل کر دیتی ہے اور اس کی ناکامی کو کامیابی کے ساتھ بدل ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دعا پر زور دیا کرتے تھے۔ جب بدر کی جنگ شروع ہوئی مسلمانوں نے تمام وہ سامان جو مہیا ہو سکتے تھے مہیا کر لیے تھے، صحابہؓ اپنی جانیں پیش کرنے کے لیے تیار کھڑے تھے، اسلامی جرنیل اپنے مورچوں کو پورے طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گوشہ میں بیٹھ کر برابر دعا فرما رہے تھے کہ خدایا! تُو ہی اسلامی لشکر کو کامیاب کر۔ آپ اِس قدر گریہ و زاری کے ساتھ خداتعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گرے اور اِس طرح گڑگڑائے کہ حضرت ابوبکرؓ جیسے آدمی نے بھی آپ سے عرض کیا یارسول اللہ! کیا خدا تعالیٰ کے ہم سے یہ وعدے نہیں کہ وہ دشمن کے مقابلہ میں ہمیں کامیاب کرے گا؟ اگر اُس کے ہم سے وعدے ہیں تو پھر اتنی گریہ و زاری کیوں؟3 آپ نے فرمایا ابوبکر اللہ تعالیٰ کے ہم سے وعدے تو ہیں لیکن اللہ تعالیٰ غنی ہے ممکن ہے کہ اپنی کسی غفلت کی وجہ سے ہم اُس کی مدد سے محروم رہیں اس لیے مَیں دعا کرتا ہوں تا خداتعالیٰ کے وعدے پورے ہوں۔
پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت مادی نہیںہماری جماعت میں کئی ایسے افراد ہیں جو دعاؤں کی تحریک کو معمولی سمجھتے ہیں اور بعض لوگوں میں تو اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ عام طور پر تمام مسلمان اِس غلطی میں مبتلا ہیں اوروہ غلطی ہماری جماعت میں بھی پیدا ہو گئی ہے۔ زبان پر تو لفظ دعا آتا ہے مگر اس سے مراد دعا نہیں ہوتی۔ مجھے قریباً ہر روز ہی ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ میرے پاس کئی غیر احمدی دوست آتے ہیں مَیں اُن کو جانتا بھی نہیں ہوتا مگر وہ آ کر کہتے ہیں آپ کی دعا سے ہمارا فلاں کام ہو گیا حالانکہ مَیں نے انہیں پہلے دیکھا بھی نہیں ہوتا۔ میری اُن سے جان پہچان بھی نہیں ہوتی اور انہوں نے مجھ سے دعا کے لیے کہا بھی نہیں ہوتا۔ پھر وہ کام میری دعا سے کیسے ہو گیا؟ یہ صرف عادت ہے کیونکہ وہ سنتے چلے آتے ہیں کہ اُن کے ماں باپ کسی زمانہ میں ایسا کیا کرتے تھے۔ انہیں دعا پر یقین ہوا کرتا تھا، وہ بزرگوں کے پاس جاتے تھے اور اُن سے دعا کے لیے کہا کرتے تھے، وہ انفرادی اور جماعتی طور پر دعا کیا کرتے تھے۔ پھر جب وہ دوبارہ اُن کے پاس آتے اور وہ اُن سے اُن کے کام کے متعلق پوچھتے تو وہ کہتے وہ کام آپ کی دعا کی وجہ سے پورا ہو گیا۔ وہ خودبھی اور وہ دعائیں اور وہ ایمان جو انہیں دعاؤں کی قبولیت پر تھا ختم ہو گیا ہے۔ اب صرف فقرہ رہ گیا ہے۔ جان نکل گئی ہے اور صرف جسم باقی رہ گیا ہے۔ نہ کوئی دعا کرتا ہے اور نہ اُس میں دعا پر یقین اور ایمان باقی رہا ہے، نہ اُس کے اندر یہ احساس باقی ہے کہ اُس کا کام رُکتا چلا جاتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو اُس کا کام پورا ہو جائے گا اور نہ ہی وہ ایسی حالت پیدا کر سکتا ہے کہ اُس کی دعا قبول ہوجائے۔ وہ رسم کے طور پر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہتا ہے اور ساتھ ہی کہہ دیتا ہے دعاؤں میں یاد رکھنا۔یہ صرف عادت ہے۔ ہمارا کام خواہ وہ انفرادی ہو یا قومی اُسی وقت ہو سکتا ہے جب اُس کے پیچھے روح کام کر رہی ہو خالی لاش اس کام کو نہیں کر سکتی۔ زبانی باتیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔ پس چاہیے کہ ہماری جماعت دعا کی طرف توجہ کرے اور اس کی اہمیت کو سمجھے۔ جب تک جماعت اس کی اہمیت کو نہ سمجھے گی اُس کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ جتنی کمزوری یا کمی ہمارے کام میں ہے اُس کی آخر دو ہی صورتیں ہیں یا تو یہ عدمِ توجہ کی وجہ سے ہے یا پھر یہ دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے ہے جسے وہ خود بھی نہیں جانتا کہ یہ کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہی اسے دور کرے توکرے۔ اور یہ اُس وقت ہی ہو سکتا ہے جب وہ عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر اس کے سامنے سجدے میں گرے اور اُس سے دعا کرے۔
پس جماعت کے دوستوں کو نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ مثلاًنمازیں ہیں۔ نمازمیں فرض ہیں، سنتیں ہیں اور نوافل ہیں۔ پہلے فرض کی عادت ڈالو۔ فرض جب ساری جماعت پڑھ رہی ہو تو اُنہیں نسبتاًجلد ادا کرنا چاہیے لیکن ایسے بھی نہیں جیسا کہ پرانے زمانہ میں بعض لوگ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اُن کے سجدے ایسے ہوتے ہیں جیسے مرغ دانے چُنتاہے 4 جس طرح مرغ دانے چُننے کے لیے زمین پر چونچ مارتاہے اور اُٹھا لیتا ہے خواہ اُس کی چونچ میں دانہ آئے یا نہ آئے۔ اِسی طرح یہ لوگ بھی زمین پر اپنا سرمارتے ہیں اور پھر اُٹھا لیتے ہیں۔ یا تو وہ کوئی الفاظ منہ سے نہیں کہتے اور اگر کہتے ہیں تو انہیں سمجھتے نہیں اور اگر سمجھتے ہیں تو اُن کے معنے نہیں جانتے۔ یہ چونچوں والی نماز مراد نہیں لیکن پھر بھی حکم یہی ہے کہ نماز باجماعت کو مختصر کیا جائے۔ نماز باجماعت میں بچے، بڑے، بیمار سب شامل ہوتے ہیں اور بعض دفعہ حاجت مند لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے اُسے لمبا کرنا درست نہیں۔ لیکن پھر بھی نماز باجماعت میں ایسا موقع مل جاتا ہے جس میں نماز پڑھنے والا دعا کر سکتا ہے۔ پہلے تو اس کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز باجماعت کے متعلق اِس قدر اہتمام تھا کہ آپ نے فرمایا اُسے لمبا نہ کیا جائے اور بعض دفعہ لمبا کرنے پر آپ ناراض بھی ہوتے تھے۔ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے نماز پڑھائی اُس میں مَیں نے ایک رکعت میں مثلاً سورۃ بقرۃ پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۃ نساء پڑھی (اصل سورتیں مجھے اِس وقت یاد نہیں)۔ایک شخص آیا اور نماز میں شریک ہو گیا لیکن بعد میں نماز توڑ کر اُس نے علیحدہ نماز پڑھنی شروع کر دی اور علیحدہ نماز پڑھ کے چلا گیا۔ وہ صحابی فرماتے ہیں کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا یارسول اللہ! مسلمانوں میں بعض منافق بھی پیدا ہو گئے ہیں اُن کا علاج کرنا چاہیے۔ مجھے ایک عجیب بات معلوم ہوئی ہے مَیں نماز پڑھا رہا تھا کہ ایک شخص آیا وہ نماز میں شامل ہو گیا مگر بعد میں اُس نے نماز توڑ دی اور علیحدہ پڑھ کر چلا گیا۔ اتنے میں وہ شخص بھی آ گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا تم نے کیا کیا؟ اُس نے عرض کیا یارسول اللہ!ہم لوگ کام کرنے والے ہیں۔ ہم نے جانوروں کے لیے چارہ بھی لانا ہوتا ہے اور انہیں پانی بھی پلانا ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ بقرہ اور دوسری رکعت میں سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی۔ اگر مَیں الگ نماز نہ پڑھتا تو وہ جانور بھُوکے مر جاتے۔ اس لیے مَیں نے نماز توڑ دی اور جس طرح مجھے آتی تھی الگ پڑھ لی۔ وہ صحابیؓ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت جوش میں آ گئے۔ آپ کے چہرے پر غضب کے آثار نمایاں ہو گئے۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں کو منافق بناتے ہو؟ تم کو کس نے کہا ہے کہ اتنی لمبی لمبی سورتیں پڑھا کرو؟ سورۃ غاشیہ اور اس جیسی اَور سورتیں ہیں وہ پڑھا کرو تا یہ مقتدیوں کے لیے تکلیف مَالَایُطَاق کا سبب نہ بن جائے۔5 غرض نماز باجماعت کو چھوٹا کرنے کا ہی حکم ہے اور اسے لمبا کرنا منع ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ موقع ایسا مل جاتا ہے کہ اس میں دعا کی جا سکتی ہے مثلاً سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعلٰیہے کوئی اسے آہستہ آہستہ کہہ لیتا ہے اور کوئی تیز تیز کہہ لیتا ہے۔ امام پانچ بار پڑھتا ہے تو مقتدی بھی انہیں پورا کر لیتا ہے اور اس کے بعد پھر بھی کچھ نہ کچھ موقع مل جاتا ہے جس میں دوسری دعا بھی ہو سکتی ہے۔
پھر فرائض کے علاوہ سنتیں ہیں جو ہر ایک کو پڑھنی چاہیں۔ ان میں دعا کی جا سکتی ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان کے اندر انکسار اور یقین پایا جائے۔ جب وہ ان کو پورا کرے گا اور اُسے دعا کاچسکا پڑ جائے گا تو پھر قدرتی طور پر اسے نوافل پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو جائے گا۔ پھر رات کو اٹھ کر خدا تعالیٰ اُسے تہجد پڑھنے کی توفیق بھی دے دے گا۔ پھر بعض وقت ایسے ہوتے ہیں جو خالی ہوتے ہیں اُن میں بھی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ جب انسان سونے لگتا ہے تو کچھ وقت ایسا ہوتا ہے جو خالی ہوتاہے۔ آخرلیٹتے ہی تو نیند نہیں آ جاتی۔ بے شک ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں لیٹتے ہی نیند آ جاتی ہے مگر عام طور پر پندرہ بیس منٹ ایسے ہوتے ہیں جو خالی ہوتے ہیں اور بعض تو آدھا آدھا گھنٹہ،گھنٹہ گھنٹہ لیٹے رہتے ہیں اور کروٹیں بدلتے رہتے ہیں لیکن انہیں نیند نہیں آتی۔ بہرحال اُس وقت دس پندرہ منٹ کا موقع مل جاتا ہے۔ اُسی کو اگر کوئی دعا کے لیے وقف کر دے تو اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ ساری رات اُس کے دل سے دعائیں نکلتی رہیں گے۔ اگر کسی کو جلدی نیند آ جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی اُسے جلد نیند آ جاتی ہو۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں لیٹتے ہی نیند آ جاتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی۔
مجھے یاد ہے کہ مَیں ایک دفعہ شملہ گیا وہاں مجھے لیکچر دینے کے لیے کہا گیا اور مَیں نے مان لیا۔ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے۔ وہاں سے مَیں نے انصاراللہ کے نوٹس شائع کرنے کے لیے ایک دستی پریس خریدا تھا۔ میرے پاس لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ سارے پریس والے اشتہار شائع کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس لیے لیکچر چھوڑنا پڑے گا۔ پہلے تو مَیں نے لوگوں کے اصرار پر لیکچر دینا منظور کیا تھا مگر جب انہوں نے آکر یہ کہا کہ پریس والے انکار کرتے ہیں تو مَیں نے کہا تب توضرور لیکچر دینا چاہیے۔ اس پریس پر ہی پہلا تجربہ کریں گے۔چنانچہ مَیں نے ہی اُس وقت اشتہار لکھا اور مَیں نے ہی پنسل سٹنسل(PENCIL STENCIL) کے ساتھ لکھا۔ حافظ روشن علی صاحب بھی ساتھ بیٹھ گئے اور اشتہار چھاپتے گئے۔ ہم دونوںدو تین بجے رات فارغ ہوئے اور رات ہی رات وہ اشتہار چھاپ دیا۔ جب ہم اشتہار چھاپ چکے تو حافظ روشن علی صاحب کہنے لگے مَیں تو اَب سوتا ہوں۔ انہوں نے زمین پر سر رکھا اور پانچ سیکنڈ کے اندر مجھے اُن کے خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ انہیںمجھ سے مذاق کی عادت تھی۔مَیں نے سمجھا شاید مذاق کر رہے ہیں۔ اشتہار میں شاید کوئی بات رہ گئی تھی۔ مَیں نے حافظ صاحب کو آواز دی اور جھنجھوڑا مگر وہ نہ بولے اور ان کے خراٹوں کی آواز برابر آرہی تھی۔ مجھ پر یہی اثر تھا کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ آخر مَیں بھی سو گیا۔ صبح اٹھ کر مَیں نے ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔ مَیں تو سو گیا تھا۔ پس بے شک بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ منٹ تک لیٹے رہتے ہیں پھر کہیں جا کر نیند آتی ہے۔ پہلے غنودگی سی آتی ہے پھر حرکت میں سستی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور پھر جیسے پانی میں کوئی چیز غائب ہو جاتی ہے نیند آ جاتی ہے۔ اگر فارغ وقت کو دعاؤں میں لگا دیا جائے تو قومی ترقی اور اپنے کاموں کی اصلاح کے لیے دعا کی عادت پیدا ہو جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔6 اس میں یہی حکمت تھی کہ آخر یہ وقت کہیں تو صَرف کیا جائے گا۔ اگر اُس وقت میں ذکر الٰہی کیا جائے تو یہی وقت انسان کی روحانی ترقیات کا موجب بن جائے گا۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو کام ہمارے سپرد کیے گئے ہیں وہ اتنے وسیع ہیں کہ بظاہر وہ ناممکن نظر آتے ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ناممکن ہیں۔ اگر ہم اپنی انتہائی کوشش اور جدوجہد بھی کر لیں، اگر ہم ہر قسم کی قربانیاں بھی کر لیں تب بھی ہمارے کام ادھورے اور نامکمل رہ جاتے ہیں اور جب تک ہمارے کام مکمل نہیں ہو جاتے ہم فتح نہیں پا سکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد آئے اور خدا تعالیٰ کی مدد کو لانے کے پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی پوری جدوجہد خرچ کریں اور ساری کی ساری قوت لگا دیں پھر بھی وہ کام نہیں چلے گا۔ اگر کام چل جاتا تو خدا تعالیٰ کے ساتھنہ فرماتا۔اِس میں یہی نصیحت ہے کہ تم پوری پوری جدوجہدکرو لیکن اس پر توکّل نہ کر بیٹھو۔ بے شک تم کوشش اور جدوجہد کرتے ہو تو پوری کرتے ہو، تم جو قربانی کر سکتے ہو پورے زور کے ساتھ کرتے ہو، تم چندوں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہو، تم روزوں کے پابند ہو، تم زکوٰۃ پوری دیتے ہو، تم حاجتمندوں کی مدد کرتے ہو، تم خدمت خلق کرتے ہو لیکن پھر بھی اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔اگر پر تم پوری طرح عمل نہیں کرتے تو یہ کامل عبودیت نہیں کامل عبودیت اُس وقت ہی حاصل ہوتی ہے جب پر بھی عمل کیا جائے۔
پس جماعت کے دوستوں کو رسمی دعاؤں کے لیے کہنا چھوڑ دینا چاہیے۔ جب کوئی شخص کسی سے کہتا ہے کہ وہ اس کے لیے دعا کرے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی دعا کرے۔ اگر وہ مجھ کو دعا کے لیے کہتا ہے یا اَور کسی کو دعا کے لیے کہتا ہے اور آپ دعا کے لیے کافی وقت نہیں نکالتا تو اللہ تعالیٰ دوسرے کے دل میں بھی دعا کے لیے تحریک نہیں کرتا۔ یہ روحانی چیز ہے۔ بعض لوگ مجھے دس دس رُقعے لکھ دیتے ہیں۔ رُقعے سنبھال کر تو نہیں رکھے جاتے۔ میری عادت ہے کہ رقعہ پڑھتے وقت دعا کرتا جاتا ہوں۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کی طرف سے ایک ہی خط آتا ہے تو اس کے لیے دعا اِس زور سے نکلتی ہے کہ وہ قبولیت کا موجب ہو جاتی ہے حالانکہ مجھے اس کا علم بھی نہیں ہوتا اور نہ وہ میرا جانا بوجھا ہوتا ہے۔ وہ رقعہ مختصر اور سادہ ہوتا ہے مگر اُسے پڑھ کر ایک بجلی سی پیدا ہو جاتی ہے اور اتنے زور کے ساتھ دعا نکلتی ہے کہ مَیں سمجھ لیتا ہوں کہ اُس کا کام ہو گیا۔ لیکن بعض کے بیس بیس رقعے آتے ہیں۔ بے شک اُن کے لیے بھی دعا نکلتی ہے اور ان کے لیے بھی مَیں دعا کرتا ہوں لیکن اُس کے پیچھے وہ بجلی نہیں ہوتی کیونکہ اس کے لکھنے والا دعا کا قائل نہیں ہوتا یونہی رسمی طور پر دعا کے لیے لکھ دیتا ہے۔ اس کے ماں باپ احمدی ہوتے ہیں یا دوست احمدی ہوتے ہیں وہ دعا کے قائل ہوتے ہیں وہ اُسے کہتے ہیں تم ان سے بھی دعا کے لیے کہنا تو وہ لکھ دیتا ہے لیکن بوجہ اخلاص اور جوش کے نہ ہونے کے دعا کرنے والے کے اندر بھی ویسی تحریک پیدا نہیں ہوتی۔اگر دعا کرانے والے کے اندر بھی اخلاص اور جوش پایا جاتا ہو، وہ دعا کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور پھر وہ کسی کے پاس جاتا ہے اور اُسے دعا کے لیے کہتا ہے توقدرتی طور پر اس کے اندر دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کے اندر خود جوش اور اخلاص نہیں تواسے دعا کی قبولیت پر یقین نہیں۔وہ اپنی جدوجہد اور کوشش پر توکل کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ کیونکہ دعا جوشِ اخلاص اور یقین کے بغیر قبول نہیں ہوا کرتی۔
غرض اپنے کاموں کے علاوہ ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اے خدا! جس حد تک ہماری طاقت تھی ہم نے کوشش کی اب تُو ہی اس کام کو پورا کر دے کیونکہ یہ کام اب ہماری طاقت سے باہر ہے۔ تم پہلے فرائض کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرو۔ اگر تم دعا کرتے رہو تو مجھے کسی خطبہ کی ضرورت ہی نہیں۔اگر تمہارے اندر کمزوریاں اور خامیاں ہیں اور تم دعا کرتے ہو کہ خدایا! تُو ان کمزوریوں اورخامیوں کو دور کر دے تو تمہاری دعا ہی اُن کو دور کر دے گی۔ اگر تم نمازوں میں کمزور ہو اور تم دعا کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری اس کمزوری کو دور کر دے اور تمہارے اندر اس کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو دور کر دے گا اور تم خود بھی نمازوں میں پابندی اختیار کرو گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد اُس وقت ہی آئے گی جب تم خود بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرو۔ اگر تمہارے اندر جوش اور اخلاص ہے اور پھر تم دعا کرتے ہو تو تم کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ کامیابی تمہیں حاصل نہیں ہو سکتی۔پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر جوشِ اخلاص اور دعا پر یقین پیدا کرو۔
مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں خصوصاً نوجوانوں کو کہ وہ اپنے اندر دعا کرنے کی عادت پیدا کریں۔ پرانے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ دیکھا ہے اور اُن کے اندر دعا کرنے کی عادت پائی جاتی ہے۔ اب نوجوانوں کو بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خدا تعالیٰ کے سامنے رونے، گریہ و زاری کرنے اور فریاد کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر وہ پورے اخلاص، یقین اور جوش کے ساتھ ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی جو اُن کی حالت کو بھی درست کر دے گی اور کامیابی کے رستے بھی اُن کے لیے کھول دے گی"۔
(الفضل 24دسمبر 1948ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
عبدالمجید: عثمانی بادشاہ ۔ سلطان محمود ثانی کا بیٹا۔ پیدائش 25؍ اپریل1823ء ۔وفات 25جون 1861ء ۔یکم جولائی 1839ء کو اپنے والد کی مسند پر بیٹھا۔
2
:
الفاتحۃ:5
3
:
سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 297مطبع مصر 1936ئ(مفہومًا)
4
:
الحکم 24 دسمبر 1900ء زیر عنوان ’’حضرت اقدسؑ کی باتیں‘‘
5
:
صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب القراء ۃ فی العشاء

بخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب ما یکرہ من السمر بعد العشاء


حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلائل سے
اسلام کو غالب کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں
(فرمودہ24دسمبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"پچھلے چند دنوں سے بعض دوستوں کی طرف سے ایک سوال ہوتا رہا ہے اور مَیں ایک حد تک اُس سوال کو ٹلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں مگر اب چونکہ وہ سوال مختلف لوگوں کی طرف سے اور مختلف جگہوں سے لکھا گیا ہے اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق مجھے چند باتیں کہہ دینی چاہییں۔ جہاں تک میرے گلے کا سوال ہے مجھے ابھی تک کھانسی کی تکلیف جاری ہے۔ اگرچہ پہلے کی نسبت اس ہفتہ آرام رہا ہے لیکن ابھی تک ایسا آرام نہیں آیا کہ گلے پر زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے لیکن یہ بات ایسی نہیں کہ اس تکلیف کی وجہ سے مَیں اسے بیان نہ کروں۔ مصلحتاً مَیں اس کی زیادہ تشریح بھی نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف اُس حد تک بیان کروں گا کہ جو جانتے ہیں وہ جان جائیں اور جو لوگ نہیں جانتے اُن کے لیے یہ بات زیادہ پریشانی کا موجب نہ ہو۔
کچھ عرصہ سے شہر کراچی جماعت کے لیے فتنہ کا موجب بنا ہوا ہے۔ بعض لوگ کراچی میں اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ جو جماعت کے شیرازہ کو پراگندہ کرنے کا موجب ہو سکتی ہیں اور زیادہ تر اُن کے اعتراضات احمدیت کو چھوڑ کر خلافت اور خصوصاً خلیفہ پر ہوتے ہیں اور ایک عرصہ سے ایک ایک کر کے جماعت کے دوستوں نے مجھے اِس طرف توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈا کو کسی نہ کسی طرح روکنا چاہے اور ایسے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دینا چاہیے۔ مَیں اس بات کو دیر سے ٹلاتا رہا ہوں اور اس کی بعض وجوہ ہیں لیکن اب چونکہ یہ سوال مختلف لوگوں کی طرف سے اور مختلف جگہوں سے آ رہا ہے اس لیے مَیں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق اپنے خیالات لوگوں کو بتا دوں۔
پہلی چیز جو مجھے اس بات پر آمادہ کرتی رہی ہے کہ مَیں اس امر پر کسی قسم کا نوٹس نہ لوں وہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات سے چونکہ فتنہ کا اندیشہ ہے اس لیے ایسے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دینا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض وقت اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے فتنے پیدا کیے اور ہم نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا۔ بلکہ درحقیقت انہیں خارج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جو لوگ اِس قسم کا کام کرتے ہیں وہ آپ ہی آپ جماعت سے نکل جاتے ہیں۔ ہمارا کام صرف اتنا ہی تھا کہ ہم بتا دیتے کہ فلاں آدمی جماعت سے نکل گیا ہے لیکن بہرحال ایسے الفاظ محکموں کی طرف سے بولے جاتے رہے ہیں کہ فلاں آدمی کو جماعت سے خارج کر دیا گیا ہے۔ گو حقیقتاً وہ اپنے ہی عمل سے جماعت سے خارج ہو جاتا ہے۔ احمدیہ جماعت کے پاس کوئی حکومت نہیں کہ اس میں خیالات کا اختلاف اس حد تک جائز ہو جو تضاد کی صورت اختیار کر جائے بلکہ یہ ایک مذہب ہے اس میں اختلاف صرف ایک حد تک جائز ہے اور جب اختلاف اس حد سے بڑھ جائے تو وہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ جب کوئی آدمی اس حد سے گزر جاتا ہے تو وہ اپنے عمل سے آپ ہی جماعت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیتا ہے۔ پس درحقیقت اس اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی مگر بعض دفعہ ایسے اعلان کیے گئے اور ان لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ دوسرے لوگوں کو ہم سے متنفر کرنے اور ہمارے اثر سے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بات تو جھوٹی ہے لیکن پھر بھی بعض کمزور لوگ خیال کرتے تھے کہ اگر ایسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جاتا تو ان کے لیے زیادہ سہولت پیدا ہو جاتی اور وہ اپنے خیالات کو زیادہ آسانی کے ساتھ لوگوں میں پھیلا سکتے۔ پس اس خیال کے ماتحت مَیں نے سوچا کہ اس دفعہ ایسے لوگوں کے خلاف مَیں کسی قسم کا قدم نہ اٹھاؤں بلکہ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور جو کچھ وہ کررہے ہیں کرتے چلے جائیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے منشا کے ماتحت وہ کام کر رہے ہیں اور خداتعالیٰ نے ان کے لیے اس کام میں کامیابی مقدر کی ہوئی ہے تو وہ میرے روکنے سے بھی نہیں رک سکتے۔ لیکن اگر انہیں اس کام میں کامیابی حاصل ہونا ممکن نہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کیا ہوا ہے کہ وہ اس کام میں ناکام ہوں گے تو پھر اس اعلان سے یہ خدائی فعل مشتبہ ہو جائے گا اور وہ لوگ کہہ سکیں گے کہ اگر ہم کامیاب نہیں ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ہم سے ملنے جلنے نہیں دیا گیا اور انہیں ہماری باتیں سننے سے منع کر دیا گیا ہے۔ لیکن اگر ایسا اعلان نہ کیا جائے تو یہ بات مشتبہ نہ ہو گی اور بغیر اس کے کہ مَیں انہیں روکوں وہ آپ ہی آپ ناکام ہو جائیں گے اور مجھے ان کے خلاف کوئی کوشش اور جدوجہد کرنے کی ضرور ت نہیں ہو گی۔ اس لیے مَیں نے پہلے طریقِ عمل کے خلاف اِس دفعہ دوسری شق کو لے لیا ہے۔ یعنی بجائے اِس کے کہ مَیں جماعت کو اُن سے ملنے جلنے سے روکوں یا ان کے جماعت سے الگ ہو جانے کا اعلان کروں مَیں نے اُنہیں کُھلا چھوڑ دیا ہے تا وہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں کریں۔ اگر ان کے لیے کامیابی حاصل کرنا مقدر نہیں تو وہ آپ ہی آپ ناکام ہو جائیں گے اور ساتھ ہی کسی قسم کا اشتباہ باقی نہیں رہے گا۔
خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو نبی اُس کی طرف سے شریعت لے کر آتے ہیں اُنہیں لڑائی بھی کرنی پڑتی ہے جیسے حضرت موسٰی علیہ السلام کو لڑائی کرنی پڑی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی کرنی پڑی۔ مگر ان کی کامیابی پر مختلف لوگوں نے اعتراضات کیے کہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے کامیابی حاصل کی ہے دلائل کے ذریعہ سے انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ جب ان پر ایسے اعتراضات کیے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اُن کے آخری زمانہ میں اپنے مامور کو بغیر تلوار کے بھیج دیتا ہے جسے لڑائی نہیں کرنی پڑتی تا وہ بغیر تلوار کے اور دلائل کے ساتھ اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کرے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 1 یعنی مسیح موعود اسلام کو دلائل سے دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ تب لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس مذہب کے پہلے بانی نے اگر تلوار کے ذریعہ سے غلبہ حاصل کر لیا تھا تو یہ تو تلوار نہیں لایا۔اگر پہلا نبی تلوار کے ذریعہ غالب ہوا تھا تو چاہیے تھا یہ بھی تلوار لاتا لیکن یہ تلوار نہیں لایا۔ اور اگر یہ بغیر تلوار کے غالب آ سکتا ہے تو پہلا کیوں بغیر تلوار کے غالب نہیں آ سکتا تھا؟ اس طرح وہ شبہ جو پہلے نبی پر لڑائی کی وجہ سے پیدا ہو جاتا تھا دور ہو جاتا ہے۔ پس مَیں سمجھتا ہوں کہ پہلے جو شبہ پیدا ہو گیا تھا یعنی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے جماعت سے اخراج کے اعلان اور اس سے دوسرے لوگوں کو ملنے جلنے سے منع کر دینے کی وجہ سے وہ اپنے خیالات کو پھیلا نہیں سکے اس شبہ کا ازالہ اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ اب ایسے شخص کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا جو جی چاہے کرے اور جس طرح چاہے کوشش کرے۔ میٹنگیں کرے اور مجلسیں کرے۔ لوگ اُس کی مجلسوں میں جائیں اور اُس کی باتیں سنیں۔اور وہ اپنے خیالات کو لوگوں میں پھیلائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ کامیاب ہوتا ہے یا مَیں کامیاب ہوتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر سب سے زیادہ جو سوال اٹھا تھا وہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت مجھے ایک دلیل سمجھائی اور اُسی کی وجہ سے ہم غالب رہے اورجو دشمن تھے اُن کے دانت کھٹّے ہو گئے۔ اور وہ دلیل یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ پر مختلف لوگ آئے اور انہوں نے کہا آپ جھوٹے ہیں اور ہم سچے ہیں اور چونکہ جھوٹے سچے کے مقابلے میں اُس کی زندگی میں مر جاتے ہیں اس لیے آپ ہماری زندگی میں ہی مر جائیں گے۔ اور ہم چونکہ سچے ہیں اس لیے لمبی عمر پائیں گے۔ اس کے بعد ایسے واقعات پیش آئے کہ وہ مر گئے اور آپ زندہ رہے۔ اب کہنے والوں کے دلوں میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ یہ اتفاق کی بات ہے کہ آپ زندہ رہے اور آپ کے مخالف مر گئے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے ایک مخالف شخص کے منہ سے یہ بات نکلوا دی کہ سچا مرا کرتا ہے اور جھوٹا اُس کے مقابلہ میں زندہ رہا کرتا ہے۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے اور وہ زندہ رہا۔ اب اس تقابل نے ظاہر کر دیا کہ یہ خدائی فعل تھا اتفاقی امر نہیں تھا۔ اِس طرح ایک وقت میں تدبیر اختیار کر کے ہم نے دشمن کے مقابلہ میں فتح حاصل کی لیکن جب دشمن نے یہ اعتراض کیا کہ تدبیر اور جتھا کی وجہ سے تم غالب آئے ہو تو ہم نے دوسرا طریق اختیار کیا کہ اچھا تم تدبیر اختیار کر لو اور پھر اس کا نتیجہ دیکھ لو۔
اصل بات یہ ہے کہ وہ شخص جو اس منصوبہ کا بانی ہے اُس کے متعلق چار سال ہوئے جبکہ وہ دہلی میں تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا تھا کہ وہ مرتد ہو جائے گا۔مَیں نے اس رؤیا کو بعض لوگوں پر ظاہر بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ اس کا ایک سالا دہلی سے میرے پاس آیا تو مَیں نے اُس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہارے بہنوئی کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا وہی حالت ہے جو عام طور پر ہوتی ہے یعنی کسی سے کبھی لڑائی ہو گئی یا جھگڑا ہو گیا اور تو کوئی بات نہیں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ مَیں نے اس کے متعلق یہ رؤیا دیکھا ہے اور اس کے متعلق ڈر رہا ہوں کہ کہیں اُس کے لیے کوئی ٹھوکر والی بات پیدا نہ ہو جائے۔ اس چار سال کے عرصہ میں اُسے کئی مواقع اپنے اخلاص کو ظاہر کرنے کے ملے اور بظاہر یہ نظر آتا تھا کہ وہ اخلاص میں بڑھتا چلا جائے گا اور دین میں ترقی کر جائے گا۔ اگر اُسے ٹھوکر نہ لگتی تو میرے لیے یہ امر پریشانی کا موجب ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے متعلق مجھے کہا تھا کہ وہ مرتد ہو جائے گا۔ پس اُس کا مرتد ہو جانا میرے لیے تعجب کی بات نہیں۔ میرے لیے تعجب کی بات اُس وقت ہوتی جب وہ مرتد نہ ہوتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ نادم اور ذلیل ہو گا۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس پیشگوئی میں بھی خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور اسے مشتبہ نہیں کرنا چاہیے۔
مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آیا ہے اور معافی مانگ رہا ہے اور اس نے صرف معانی ہی نہیں مانگی بلکہ وہ میرے پیچھے پڑ گیا ہے جیسے وہ زبردستی معافی لینا چاہتا ہے۔ آخر مَیں نے اُسے کہہ دیا کہ جاؤ مَیں نے معافی دے دی۔ پھر اُس نے کہا کہ میرے گھر بھی چلو تا میری بیوی کی بھی دلجوئی ہو جائے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے اس کا کیا جواب دیا۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ اُسے ایک دن ندامت ہو گی۔ وہ کب ہو گی اور کس وقت ہو گی یہ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اسے ندامت ہوئی ہے خواہ وہ موت کے وقت کی ہی ندامت کیوں نہ ہو جیسے فرعون کی ندامت۔
بہرحال مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ندامت کب ہو گی مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ وہ شکست کھائے گا کیونکہ اگر وہ جیت جائے تو پھر ندامت نہیں ہو سکتی۔یہ خواب ظاہر کرتی ہے کہ وہ موت کے وقت یا زندگی میں ہی ضرور نادم ہو گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ موت کے وقت کی ندامت کا پتہ کیسے لگ سکتا ہے جیسے مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق کہا گیا کہ مرتے ہوئے ندامت کے اظہار کا دعوٰی تو ہر شخص کرسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ندامت کا اظہار وہی کر سکتا ہے جسے شکست ہو۔ پس جب کسی کے موت کے وقت توبہ کرنے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ضمنی دعوٰی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنی مخالفت میں ناکام رہے گا۔ اگر وہ فی الواقع ناکام رہے تو موت کے وقت تو یہ ایک طبعی امر ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ ناکام نہ ہو تو توبہ کا دعوٰی کرنے والا ایک غیرمعقول دعوٰی کرتا ہے جسے ردّ کیا جائے گا۔ پس اس پیشگوئی میں اس شخص کے ہارنے کی پیشگوئی شامل ہوتی ہے اور ہارنا دل کی بات نہیں بلکہ ظاہرامرہے اور بظاہر پورا ہو کر باطنی دعوٰی کی بھی تصدیق کر دیتا ہے۔ پس اس پیشگوئی کو مبہم نہیں کہا جاسکتا۔ میری اس خواب میں بھی ایسی ہی خبر ہے۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خواب ایک بے ثبوت بات کو پیش کرتی ہے کیونکہ اس میں اس معترض کے ہارنے کی بہرحال خبر موجود ہے اور اگر یہ بات پوری ہوئی اور ضرور پوری ہو گی تو اگر اسے توبہ کی زندگی ہی میسر نہ ہوئی تو ضرور موت کے وقت اُسے شرمندگی اور ندامت ہو گی جس طرح فرعون کو ہوئی اور زندگی کی شکست موت کی توبہ کی دلیل ہوگی۔غرض توبہ تو ایک ضمنی چیز ہے مگر یہ یقینی اور قطعی ہے کہ وہ ناکام رہے گا اور شکست کھائے گا اور اپنی اس شکست کو اپنی زندگی میں دیکھ لے گا۔ پس اِس وجہ سے بھی مَیں نے سمجھا کہ مَیں اس میں دخل دے کر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کو مشتبہ نہ کر دوں۔
یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مَیں خاموش رہا ہوں اور مَیں مجبور ہوں۔ مَیں نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ مَیں اِس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وہ جس طرح چاہے کرے اور جو چاہے کرے خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ذلیل ہو گا اور مَیں اِس پیشگوئی کو اپنی تدبیر سے مشتبہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اگر وہ شخص اور اُس کے ساتھی کوئی ایسا دعوٰی کریں جس کی وجہ سے میری خاموشی لوگوں کے لیے ٹھوکر کا موجب بننے لگے تو پھر حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس شخص اور اس کے ساتھیوں کے جماعت سے خارج ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا۔
اس کے بعد مَیں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے اختر صاحب کی لڑکی فوت ہو گئی ہے نماز جمعہ کے بعد مَیں اُس کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اختر صاحب کے لیے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اُن کی ایک لڑکی پہلے بھی بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے فوت ہو گئی ہے اوراب یہ لڑکی بھی بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے فوت ہوئی ہے۔ اس کی جسمانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور یونانی اطباء اسے بیماری تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی روحانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ بسااوقات صرف جسمانی وجوہ ہی ہوتی ہیں لیکن مومن کو چاہیے کہ وہ ہر حالت میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ رکھے۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ کوئی بزرگ کہیں جا رہے تھے کہ اُن کا گھوڑا ایک جگہ پر رُک گیا۔اِس پر وہ استغفار کرنے لگے۔ اُن سے کسی نے پوچھا آپ گھوڑے کے رُک جانے پر استغفار کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا گھوڑا میری ملکیت ہے اگر وہ چیز جومیری ملکیت ہے میرے سامنے رُکتی ہے اور میری اطاعت نہیں کرتی تو مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں نے بھی اپنے مالک کے سامنے اُس کی اطاعت سے انکار کیا ہو گا۔ اس لیے مَیں استغفار کر رہا ہوں پس بسااوقات ایسی تکالیف کسی روحانی کمزوری کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے مومن کو استغفار اور توبہ کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ اُس کی کمزوریاں اس کے لیے کسی تکلیف کا موجب نہ بن جائیں۔
میرا یہ مطلب نہیں کہ ایسا ہمیشہ روحانی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ جسمانی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکے فوت ہو گئے تھے اور لڑکیاں زندہ رہی تھیں اور پھر لڑکیوں کی قریبی اولاد بھی تھوڑی ہی تھی۔ ایک لڑکی کی اولاد کے متعلق تو شبہ ہے کہ ُاس کی اولاد تھی بھی یانہیں۔ یعنی حضرت عثمانؓ کی نسل حضرت زینبؓ سے چلی ہے یا نہیں۔تواریخ میں اِس امر کے متعلق شبہ ہے۔قرینِ قیاس یہی ہے کہ اُن کی اولاد زندہ رہی لیکن وہ ایسی حالت سے گزری جس کے متعلق شبہات پیدا ہو گئے۔ ہاں حضرت فاطمہؓ کی اولاد چلی اور کچھ عرصہ بعد کثرت سے چلی اور اب تو وہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا انکار نہ کوئی کر سکتا ہے اور نہ کسی نے کیا ہے۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ایسا صرف روحانی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ حوادث کی وجہ سے بھی ایسا ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی مومن کو تو بہ اور انابت الی اللہ سے کام لینا چاہیے، خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اگر یہ کسی کوتاہی اور کمزوری کی وجہ سے ہو رہا ہے تو خداتعالیٰ اسے دور کرے تا ساتھ ہی ساتھ اس کی کمزوریوں کا ازالہ بھی ہوتا چلا جائے"۔
(الفضل 25مارچ 1949ء )
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الصفّ:10


قرآن کریم کا ہر لفظ بندے کے لیے سلامتی کا پیغام ہے
(فرمودہ31دسمبر 1948ء بمقام لاہور)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
"جلسہ کی تقریر کی وجہ سے مجھے کھانسی کی تکلیف پھر زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مَیں اب بھی زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا۔ لیکن مَیں جماعت کو ایک رؤیا کے مضمون کی وجہ سے جو میرے لیے یہاں آنے کا محرّک بنا ہے ایک امر کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آج آدھی رات کے قریب اچانک میری آنکھ کھل گئی اور مَیں جاگ اٹھا اور کچھ دعائیں وغیرہ کرتا رہا۔ اِسی حالت میں جبکہ مَیں جاگ رہا تھا اور غنودگی وغیرہ کی حالت نہیں تھی مجھے ایک آواز آئی جو کافی بلند تھی۔ کسی نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یہ آواز اس قدر واضح تھی اور اتنی بلند تھی کہ واہمہ کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ یہ کوئی کشفی یا الہامی آواز ہے بلکہ وہ بالکل ایسی ہی آواز تھی جیسے کوئی سمجھتا ہے کہ اسے کوئی آواز دے رہا ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ غالباً میری آنکھ کھل گئی ہے نماز کا وقت ہے اور کوئی شخص مجھے نماز کی اطلاع دینے کے لیے آیا ہے۔ مَیں نے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہا اور پوچھا کون ہے؟ مگر ’’کون ہے‘‘ کا کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر مَیں نے دوبارہ کہا کون ہے؟ مگر پھر بھی کوئی شخص نہ بولا۔ تب مَیں نے سمجھا کہ درحقیقت یہ ا لہامی آواز ہے اور مَیں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ اس وقت آدھی رات کا وقت ہے اور اُس وقت کسی کے آنے کا امکان ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اِسی قسم کے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کا معاملہ میرے ساتھ پہلے بھی بعض دفعہ ہوا ہے مگر نیم خوابی اور غنودگی کی حالت میں۔ لیکن اس قسم کا نظارہ مَیں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے۔ اُس وقت مَیں اتنا جاگ رہا تھا کہ میرے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ غیرمعمولی نظارہ ہے۔ ایک اَور موقع پر بھی مجھے یاد ہے کہ مَیں نیم غنودگی کی حالت میں تھا۔ یہ مصری صاحب کے فتنہ کے وقت کی بات ہے اور مَیں سوچ رہا تھا کہ لوگ کس قسم کے فتنے پیدا کر دیتے ہیں۔ ان دوستانہ تعلقات کی وجہ سے جو مجھے مصری صاحب کے ساتھ تھے میری طبیعت پر ایک بوجھ تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ میرے پاس دوڑتا ہوا آیا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہہ کے کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے ہیں۔ غرض میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا تو ہوا ہے اور بظاہر جاگنے کی حالت میں ہوا ہے لیکن اِس دفعہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ایسا واضح تھا کہ یہ شبہ ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ کسی قسم کی نیند یا غنودگی کی حالت ہو۔ اس رات بھی مَیں بہت دعا کر کے سویا تھا اور اس نظارہ سے خدا تعالیٰ نے اِس امر کے لیے جس کے لیے مَیں نے دعا کی تھی (یا کسی اَور امر کے لیے) حفاظت اور سلامتی کا اشارہ فرمایا ہے۔ پھر مَیں نے اِس امر پر غور کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے اطمینان کے لیے کس طرح اپنے رحم کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر دنیا کو دیکھا جائے تو وہ ہستی جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتی ہے اور جو اس سے پہلی کتب سے معلوم ہوتی ہے اُس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی نسبت ہی نظر نہیں آتی۔ اور پھر جب ہم عالَمِ وجود کا سائنٹیفک مطالعہ کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اس عالم سے زیادہ ہے جو ہمیں عام حالات میں نظر آتا ہے۔ ایک زمیندار جو اپنے گھر سے کہیں باہر نہیں نکلا اور اس نے کوئی سفر نہیں کیا وہ دنیا کے معنے اَور سمجھتا ہے اور ایسا شخص جوسیّاح ہے اور وہ مختلف ممالک کو اپنی سیروسیاحت کے دوران میں دیکھ آیا ہے وہ دنیا کے اَور معنے سمجھتا ہے۔ ایک جغرافیہ دان دنیا کے معنے کچھ اَور سمجھتا ہے، ایک علمِ ہیئت کا جاننے والا دنیا کے کچھ اَور معنے سمجھتا ہے۔ اور ایک علمِ ہیئت عالیہ کا جاننے والا دنیا کے بالکل اَور معنے سمجھتا ہے۔ اور ایک علمِ ہیئت ِ عالیہ کے ساتھ سائنس اور جیالوجی کا جاننے والا دنیا کے معنے بالکل اَور سمجھتا ہے۔ دونوں کے علم میں اتنی بھی تو نسبت نہیں جتنی ایک کنویں کے مینڈک اور ایک سمندر کے مینڈک کی ذہنیتوں کے درمیان نسبت ہوتی ہے۔
کہتے ہیں ایک سمندر کا مینڈک کسی کنویں کے مینڈک سے ملا۔ دونوں ہم قوم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے حالات پوچھنے لگے۔ کنویں کے مینڈک نے سمندر کے مینڈک سے پوچھا کہ کیا سمندر زیادہ وسیع ہوتا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا ہاں سمندر بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ یہ سن کر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ ماری۔ مینڈک چھلانگ اچھی مارتا ہے اور کُود کر بہت زیادہ فاصلہ پر جا پڑتا ہے۔ وہ مینڈک زور سے چھلانگ مار کر جیسے حد ہی کر دی جاتی ہے کہنے لگا کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں۔ کنویں کے مینڈک نے دو چھلانگیں لگائیں اور پوچھا تو کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تب کنویں کے مینڈک نے تین چھلانگیں لگائیں اور پوچھا تو کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اور سمجھا کہ اس سے بڑا تو سمندر ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر سمندر کے مینڈک نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اس پر کنویں کے مینڈک نے منہ پھیر کر کہا چل جھوٹا کہیں کا۔ مَیں نہیں مانتا کہ سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے۔ کنویں کے مینڈک کی ذہنیت میں سمندر کی لمبائی چوڑائی نہیں آسکتی تھی کیونکہ اُس نے سمندر دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ اُس کا اندازہ ہی کیا لگا سکتا تھا۔ کنویں کے مینڈک اور سمندر کے مینڈک کی ذہنیت میں جتنا فرق ہوتا ہے اُس سے سینکڑوں ہزاروں درجے زیادہ فرق ایک گنوار اور اُس آدمی کی ذہنیت میں ہوتا ہے جو علمِ ہیئت، سائنس اور جیالوجی کو جانتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے سامنے ایسا نظریہ پیش کرتا ہے جو باوجود وسعت کے اس کے ساتھ یہ قید بھی لگا دیتا ہے کہ اِس دنیا کا اندازہ انسانی مقدرت سے باہر ہے خواہ وہ اندازہ حسابی اعداد کے لحاظ سے ہو یا روشنی کے سالوں کی صورت میں ہو۔ بہرحال انسان اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ وہ آدمی جو گاؤں میں رہنے کی وجہ سے دنیاوی علوم سے نابلدہے اور دنیا کے حالات سے ناواقف ہے وہ اس دنیا کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے۔
سو ایسی دنیا جس کا اندازہ باوجود ہزاروں سال کی کوشش کے اور باوجود مختلف ذرائع مہیا ہونے کے جن سے فاصلے اور وقتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے انسان نہ کر سکا۔ وہ دنیا جس کو انسان ابھی تک نہیں سمجھ سکا، مذہب کہتا ہے کہ اس وسیع دنیا کو خدائے قادر نے کے لفظ سے پیدا کیا ہے۔ اس وسیع دنیا کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی بھی تو نسبت نہیں۔ وہ دنیا جس کی پیدائش کاعلم تو الگ رہا، اس کے اسرار کو جاننے کی بات تو الگ رہی اس کی لمبائی اور چوڑائی کو اور اس کے پھیلاؤ کو دریافت کرنے کے لیے متواتر کوششوں کے بعد بھی انسان دریافت نہ کر سکا بلکہ بجائے معلوم کرنے کے وہ حیرت میں بڑھتا گیا۔ اس دنیا کے متعلق جس کی لمبائی اور چوڑائی کو سینکڑوں اور ہزاروں سال کی کوششوں کے بعد بھی انسان معلوم نہ کر سکا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا اوروہ پیدا ہو گئی۔ اور یہ صرف ایک دفعہ ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ ہمیشہکہتا ہے ""1اور نئی دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہ ""کی جو حالت ہے اس کو بھی سائنس نے ثابت کیا ہے۔ جنگ کے بعد دنیا کے پھیلاؤ کے اندازے لگائے گئے لیکن وہ غلط ثابت ہوئے اور یہ خیال کیا گیا کہ یہ اندازے ہی غلط لگائے گئے تھے۔ پھر دوبارہ اندازے لگائے گئے مگر وہ بھی غلط ثابت ہوئے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ اندازے غلط نہیں لگائے تھے بلکہ دنیا برابر پھیل رہی ہے اور جب بھی اس کے پھیلاؤ کا اندازہ لگایا جاتا ہے پہلے سے اس کا پھیلاؤ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
قریب کے زمانہ کی بات ہے کہ یہ بات معلوم ہوئی کہ نہ صرف دنیا پھیل رہی ہے بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار تیز ہورہی ہے گویا ساری کوششیں جو ماضی میں اس کے پھیلاؤ کو معلوم کرنے کے لیے کی گئی تھیں رائیگاں گئیں۔ اس ساری دنیا کے مقابلہ میں زمین کی حیثیت اتنی بھی نہیں جتنی حیثیت ایک چیونٹی یا جُوں کو زمین کے مقابلہ میں ہوتی ہے۔ ایک چیونٹی یا جُوں کو زمین کے مقابلہ میں جو نسبت ہوتی ہے اس سے بھی کم اس دنیا کو عالَمِ وجود سے نسبت ہے۔ اس کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت تو ظاہر ہے۔ انسان اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اور اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے کتنا مجبور ہے۔ جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے اور دماغی کیفیات کے لحاظ سے جب ہم انسان کو دیکھتے ہیں اور پھر اس بات کو دیکھتے ہیں کہ انسان کی دنیا کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے اورہماری دنیا کی سارے عالَم کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے۔ اور پھر اِس عالَم کی اگلے اور پچھلے عالَموں کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے۔ اور جب ہم ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ ان سب عالَموں کو خدا تعالیٰ نے ایک لفظسے پیدا کر دیا تو پھر خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا بالکل مضحکہ خیز ہو جاتا ہے۔
جتنا ہم علم میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر دنیا کا اندازہ لگاتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا مادی نہیں روحانی ہے۔ جب انسان اپنی پوری طاقتوں اور قوتوں کا اندازہ لگا کر یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ دنیا کتنی بڑی ہے؟ تو دنیا اَور پھیل جاتی ہے۔ یا یوں کہو کہ ایک طاقتور ہستی اِس کا ہر وقت مقابلہ کرتی ہے۔ جب وہ دیکھتی ہے کہ انسان اپنے ایجاد کردہ علوم کی وجہ سے دنیا کا اندازہ لگانا چاہتا ہے تو وہ کہتی ہے ٹھہرو۔ اب اندازہ لگاؤ اور پھر انسان حیرت زدہ ہو کر کھڑا رہ جاتا ہے۔ یہ انسان ہے اور وہ خدا ہے۔ یہ انسان جس کی حیثیت خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اس سے بھی ادنیٰ ہوتی ہے جتنی حیثیت کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ خوردبینی کیڑے کی انسان کے مقابلہ میں ہوتی ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کہتا ہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ کبھی وہ براہ راست کہتا ہے اور کبھی کسی فرشتے کے ذریعے سے کہتا ہے۔ یہ کتنی حیرت انگیز بات معلوم ہوتی ہے بلکہ اگر مذہب کے اصولوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔ تم ذرا قیاس تو کرو کہ اگر مال روڈ پر چلتے چلتے کوئی کیلے کے پتے کو جھک کر سلام کرے، تم ذرا اندازہ تو کرو کہ ایک قوم کا لیڈر، ایک بڑا جرنیل اور ایک بڑا کمانڈر سڑک پر چلتے ہوئے ایک چیونٹی کو جھک کر سلام کرے تو تم اسے کیا سمجھو گے؟ تم یہی سمجھو گے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، لیکن خدا تعالیٰ کا ایک بندے کو سلام کرنا تو اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ وہاں کچھ تو نسبت ہے مگر یہاں تو کچھ بھی نسبت نہیں۔ اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ سمجھا جائے کہنَعُوْذُ بِاللّٰہ خدا تعالیٰ کا دماغ چل گیا ہے اور یا یہ سمجھ لیا جائے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی خلقت کا اندازہ لگانا مشکل ہے اُسی طرح خدا تعالیٰ کی ملاطفت اور رحم کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ جس طرح انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ دنیا کہاں سے پیدا ہوئی اسی طرح انسان یہ بھی نہیں سمجھ سکتاکہ یہ رحم اور تکریم خدا تعالیٰ لایا کہاں سے ہے۔
اس کے علاوہ ایک اَور بات بھی سوچنے والی ہے کہ خدا تعالیٰ تو انسان کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے مگر کیا بندہ بھی خدا کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے؟ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنا تو الگ رہا کیا بندہ خداتعالیٰ کے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے جواب میں وَعَلَیْکُمْ اَلسَّلَامُ کہتا ہے؟ہزاروں ہزار ایسے لوگ ہیں جن کا صبح سے شام تک سارا دن بیوی کی طرف منہ کر کے باتیں کرتے ہوئے گزر جاتا ہے، جن کا صبح سے شام تک سارا دن بچوں کی طرف منہ کر کے باتیں کرتے ہوئے گزر جاتا ہے، جن کا صبح سے شام تک سارا دن دوستوں اور دفتری اور کاروباری لوگوں سے جن سے ان کے تعلقات ہوتے ہیں باتیں کرتے ہوئے گزر جاتا ہے لیکن صبح سے شام تک ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہ اُس ہستی کی طرف منہ کر کے بات نہیں کرتے جس کا ان سے بات کر لینا اگر مذہب اس کی حقیقت بیان نہ کرے تو مضحکہ خیز نظر آتا۔ انسان کی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی تو حیثیت نہیں جتنی حیثیت ایک چیونٹی یا مکھی کو انسان کے مقابلہ میں حاصل ہوتی ہے۔ مکھی انسان کے مقابلہ میں حیثیت رکھتی ہے مگر انسان کی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کچھ بھی تو حیثیت نہیں ۔ وہ تو اس دنیا کے مقابلہ میں بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا جس کو خدا تعالیٰ نےکے لفظ سے پیدا کیا ہے۔ پھروہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے مگر بندہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ تو الگ رہا اُس کے جواب میں وَعَلَیْکُمْ اَلسَّلَامُ بھی نہیں کہتا ۔بلکہ بسااوقات وہ خدا تعالیٰ کا سلام سن کر تنفّر سے منہ پھیر لیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ 2رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہو کر قیامت کے دن کہیں گے کہ اے میرے خدا! افسوس ہے میری قوم پر جن کو مَیں نے تیرا سلام دیا، تیرا پیام دیا مگر بجائے اِس کے کہ وہ تیرے سلام اور پیام کو سن کر شادیِٔ مرگ ہو جاتے، بجائے اس کے کہ وہ اسے سن کر مرعوب ہو جاتے، بجائے اس کے کہ وہ اسے سن کر ممنون ہوتے، بجائے اس کے کہ اسے سن کر ان کے جسم کا ہر ذرہ اور ان کے دل کی ہر ہر تار کانپنے لگ جاتی، بجائے اس کے کہ انسان اس سلام کے جواب میں شکریہ کا پیام دیتا اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتا اس نے کیا کیا؟ ۔انہوں نے تیرے سلام اور تیرے پیام کو اپنی پیٹھوں کی طرف پھینک دیا اور کہا دُور ہو جا ہم تیری پروا نہیں کرتے۔
ہمیشہ سے دنیا یہی کرتی چلی آئی ہے مگر وہ دنیا جو یہ جانتی نہیں کہ خدا تعالیٰ کیا ہے اُس کا رسول کیا ہے۔ وہ جو کرتی ہے اسے کرنے دو۔ مَیں مومن سے پوچھتا ہوں جو کہتا ہے کہ خدا ہے، جو جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی کیا حیثیت ہوتی ہے، جو سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندے کو مخاطب کرنا خواہ وہ بِالواسطہ ہو یا بِلاواسطہ ایک عظیم الشان انعام ہے۔ مَیں اُس سے پوچھتا ہوں کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سنتا ہے اور پھر اس کا جواب نہیں دیتا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ قرآن فرشتوں کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترا کرتا تھا تو کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے اس کی نَعُوْذُ بِاللّٰہبے ادبی کرتے تھے کہ یہ فرشتوں کے ذریعہ سے کیوں نازل ہوا ہے؟ خدا تعالیٰ نے بِلاواسطہ قرآن کریم کیوں نازل نہیں کیا؟ اگر قرآن کریم کو بِالواسطہ نازل کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتا تو آپؐ کو بھی قرآن کریم پھینک دینا چاہیے تھا۔ لیکن جب تم سنتے ہو یا پڑھتے ہو کہ خداتعالیٰ نے آپؐ پر قرآن کریم فرشتوں کے ذریعہ سے نازل کیا ہے تو تمہارے نزدیک قرآن کریم کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ تم جب سنتے ہو کہ آپؐ پر قرآن کریم فرشتوں کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے تو تم کہتے ہو سُبْحَانَ اللّٰہ! اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کے ذریعہ قرآن کریم ملنے پر اس کی عظمت کم نہیں ہوجاتی تو پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن کریم ملنے سے تمہارے نزدیک اس کی عظمت کیوں گر جائے گی۔ تم اگر کہہ سکتے تو یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک فرشتے قرآن کریم لائے جو ادنیٰ حیثیت رکھتے تھے اور ہم تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم لائے جو فرشتوں سے افضل تھے۔ اگر تم ایسا کہو تو تمہارے نزدیک قرآن کریم کی عظمت کتنی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن افسوس جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے وہ ہستی جسے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ نہیں کہنا چاہیے تھا بوجہ اس کے کہ وہ بڑا ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے وہ تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہتا ہے لیکن وہ بندہ جسے یہ سلام سن کر شادی ٔمرگ ہو جانا چاہیے تھا وہ جواب نہیں دیتا۔ بِسْمِ اللّٰہ کی ب سے لے کر سورۃ وَالنَّاس تک قرآن کریم کا ہر ہر کلمہ، اس کا ہر ہر لفظ اور ہر ہر حرف خداتعالیٰ کی طرف سے بندے کے لیے سلام کا پیغام لے کر آیا ہے لیکن بندہ اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔ کسی وقت کسی بندے نے خدا تعالیٰ کے سلام کا جواب دیا تھا اور نہایت شاندار دیا تھا مگر اب انسان اسے جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔ اب بھی مسلمان اگر خدا تعالیٰ کے سلام کے جواب کے لیے تیار ہو جائیں اوراس کی قدر کے لیے تیار ہوجائیں تو یقیناً ان کی دنیا بدل سکتی ہے، ان کی ناکامی، فلاح اور کامیابی میں بدل سکتی ہے"۔
(الفضل 6؍اپریل 1949ء )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1
:
الانعام:74
2
:
الفرقان:31
 
Top