• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 3

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 3


ہمارا دل رحمن کی حمد سے معمور ہے
ختم ہونے والا جلسہ بہت بابرکت جلسہ تھا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ہمارا دل اپنے ربّ رحمن کی حمد سے اور شکر سے معمور ہے۔ اس نے وقت سے بھی پہلے یہ بشارت دی تھی اور بہت سے دوستوں کو خوابوں کے ذریعہ یہ بتایا تھا کہ یہ ہمارا جلسہ سالانہ جو ابھی چند دِن ہوئے ختم ہوا ہے وہ بہت بابرکت جلسہ ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں ا ور اس کی رحمتوں کو خاص طور پر احمدی بھائیوں نے آسمان سے نازل ہوتے دیکھا یا محسوس کیا۔
ہمارے زمیندار بھائی اپنے احساسات کا اظہار علماء کی طرح تو نہیں کر سکتے اور نہ وہ کرتے ہیں لیکن اپنے بیان میں وہ بڑے زندہ محاورے استعمال کر جاتے ہیں۔ بیسیوں احمدی زمینداروں نے اس تأثر کا اظہار کیا کہ جلسہ پر جو دیکھا جو سُنا وہ تو ٹھیک تھا دیکھا بھی اور سُنا بھی لیکن احساس یہ تھا کہ جیسے آسمان سے اللہ تعالیٰ کی برکت نازل ہو رہی ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ کی برکتوں کے متعلق احمدی بھائیوں اور بہنوں کو بہت سی خوابیں دکھائیں اور یہ بتایا کہ یہ جلسہ بڑی رحمتوں اور برکتوں والا جلسہ ہو گا۔ ان میں سے ایک خواب جو ہماری ایک بہن کی ہے وہ دوستوں کو میں سُنا دیتا ہوں چٹا گانگ سے ہمارے بھائی عبدالرحیم صاحب یونس مع اہلیہ کے آئے ہوئے ہیں ان کی اہلیہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھی جو انہوں نے مجھے لکھ کر بھجوائی اس کا پہلا حصّہ زیادہ تر ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اسے میں نے چھوڑ دیا ہے اللہ تعالیٰ ہر شکل میں ان کے لئے اس حصّہ کو بھی بابرکت کر ے جس حصّہ کا جماعت سے اور اس جلسہ سے تعلق ہے اس حصّہ کو میں سُنا دیتا ہوں وہ لکھتی ہیں:۔
’’اتنے میں میری نظر اُٹھی تو دیکھا کہ مُجھ سے کچھ فاصلے پر ایک بزرگ ہستی تشریف فرما ہیں۔ میرے قریب کھڑی ایک بہن نے مجھے بتایا کہ حضرت اماں جانؓ ہیں یہ سُنکر میں خوشی خوشی آگے بڑھی اور قریب گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ ہستی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں۔‘‘یعنی پہلے نُصرت جہاں پھر مبارکہ بیگم ناموں کی تعبیر ہوتی ہے۔
’’میں قریب بیٹھ گئی تو وہ کہنے لگیںکہ آج میری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوئی تھی آپ نے فرمایا کہ میں امسال جلسہ پر آنے والوں سے بہت خوش ہوں اور میں نے ان سب کے لئے بہت دعائیں کی ہیں اور بہت دُعائیں کر رہا ہوں۔‘‘دوستوں نے اس قسم کی بہت سی خوابیں دیکھی تھیں۔
یہ تقریر کے متعلق بھی بعض دوستوں نے خواب دیکھی کہ اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرے گا اور اپنی رحمت سے اس مضمون کو تیار کر دے گا اور ساتھ یہ بھی دیکھا کہ جو منافق الٰہی سلسلوں کے بیچ میں ہوتے ہیں ان میں سے ایک آدھ یہ اعتراض بھی کریں گے کہ یہ بھی کوئی تقریر ہے۔ پس یہ چیزیں بعض چھوٹی چھوٹی خوابوں میں اس لئے آ جاتی ہیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ نفس کی خواب نہیں۔ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو نفس سوچتا ہی نہیں مثلاً جو پیار کرنے والا دل ہے وہ پیار والا حصّہ دیکھ لے گا اگر اس کے نفس کا اثر ہو اورجو معترض ہے وہ صرف اعتراض والا حصہ دیکھ لے گا پس جب پیار کرنے والے کو ایسی خواب آتی ہے تو اس میں اعتراض والا حصّہ بھی دکھایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حصّہ اس کے نفس کا نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔
جیسا کہ دوست جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا میں عید کے بعد انفلوائنزا کی وجہ سے بیمار ہو گیاتین چار دِن بخار میں لیٹا رہا میری طبیعت میں بڑی گھبراہٹ بھی تھی کیونکہ امامِوقت پر بولنے کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے بعض لوگ تو یوں ہی بولتے رہتے ہیں مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ یہ کیسے بڑی جرأت کے ساتھ بولتے چلے جاتے ہیں میں نے تو اپنے نفس میں یہ محسوس کیا ہے کہ بولنے سے پہلے بے شمار استغفار کرنی پڑتی ہے دعائیں کرنی پڑتی ہیں۔خیر امام کا مقام اور ہے لیکن یہ درست ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر انسان کی زبان پر پابندی بھی عائد کی ہے۔ غرض دعاؤں اور استغفار اور توبہ کے بعد پھر میں خطبہ جمعہ دیتا ہوں یا اور کوئی تقریر کرتا ہوں یا کوئی بات کرتا ہوں اس کے بغیر تو میں بات نہیںکر سکتا یعنی میرے اندر یہ جرأت نہیں ہے کہ میں استغفار کئے بغیر اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے بے حد دعاؤں کے بغیر کوئی بات منہ سے نکالوں اور اللہ تعالیٰ بڑی مدد کرتا ہے بڑا پیار کرنے والا ہے بعض دفعہ مثلاً بعد میں بھی کسی کے تسلی نہیں ہوتی یا کوئی معترض اعتراض سنانا شروع کرتا ہے طبیعت میں ایک حجاب پیدا ہوتا ہے بہر حال میں ایک انسان ہوں اور بشری کمزوری میرے ساتھ لگی ہوئی ہے کوئی غلطی نہ ہو گئی ہو۔
ایک دفعہ میں نے ایک مضمون بیان کیا اور جب قریب تھا کہ میں اُسے بھیج دیتا میں نے سُنا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں یہ خامی ہے یہ کمزوری ہے چنانچہ میں دعاؤں میں لگ گیا اور اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ مضمون بالکل ٹھیک ہے اور اس کو شائع کرو چنانچہ پھر میں نے اسے شائع کرنے کے لئے بھی بھیج دیا پس اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیاایک ایسا مضمون جس میں بڑی وسعت تھی وہ خود ہی سکھا دیا اور چونکہ وہ بالائے وقت ہستی ہے عام لوگ تو بعض دفعہ یہ فقرہ نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے بالا ہے۔ یہ وقت اور مکان جو ہیں یہ انسان کا احساس ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو ہے اس کا اِس سے کوئی تعلق نہیں وہ ان چیزوں سے بالا ہے اس کے قدرت کے جلووں میں بعض دفعہ یہ چیز کہ وہ مکان اور وقت سے بالا ہے بڑی نمایاں ہوتی ہے۔اتنا بڑا مضمون جس کے تیس جزو تھے جن میں سے میں نے اس وقت صرف اٹھارہ dictate(یعنی لکھوا) دئیے تھے یعنی اس خیال سے کہ سنبھالے جائیں میں نے سمجھا کہ یہ مضمون لمبا ہو جانے کی وجہ سے شاید میں تمام مضمون بیان نہیں کر سکوں گا چنانچہ ان میں سے صرف تین بیان کر سکا اور سکھانے والے معلم یعنی اللہ تعالیٰ رب العالمین نے یہ سارا مضمون سکھانے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لیا۔ وقت سے بالا قدرت کا جلوہ دماغ کے اوپر آتا ہے اور وہ دماغ کے کونے کونے کو روشن کر جاتا ہے اور ایک مضمون ذہن میں آجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کو ہمارے پہلے جلسوں سے بھی بہت بابرکت کیا اور پہلے جلسوں سے زیادہ بابرکت ہی ہونا چاہئے تھا ورنہ تو ہمارے دل ڈر جاتے اور ہم بڑے پریشان ہو جاتے کہ ہمارا قدم اب آگے کی طرف نہیں ہے، ٹھہر گیا ہے یا پیچھے کی طرف ہے۔ یہ فکر بھی دماغ کو لگی رہتی ہے جس پر ذمہ داری ڈالی جائے کہ جماعت کا قدم ہمیشہ آگے ہی ہو۔
اگرچہ جلسہ سالانہ کے لنگروں سے کھانے والوں کی تعدادمیں تو صرف ڈیڑھ ہزار نفوس کی زیادتی ہوئی ہے لیکن جس نگاہ نے جلسہ گاہ اور جمعہ والے دن اور دوسری نمازوں کے وقت ہجوم دیکھا اور ان کمزوروں کو بھی دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ میں نہیں تھے راستے میں مجھے ملے وہ وقت پر نہیں پہنچ سکے وہ یقینا پچھلے سال سے بہت زیادہ تھے۔
پھر وہ دوست جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے بڑی کثرت سے آئے تھے عام اندازہ یہ ہے کہ جلسہ میں کم از کم آٹھ دس ہزار آدمی ایسے ہوں گے جن کا ہماری جماعت کے ساتھ تعلق نہیں پھر ان میں اس دفعہ نمایاں چیز یہ تھی کہ جو لوگ اپنے اپنے علاقے میں مولوی کہلاتے ہیں وہ بھی اپنی پوری ہیئت اور پوری ذہنیت کے ساتھ بڑی کثرت سے آئے اور ان میں سے بہتوں نے جلسہ پر ہی بیعت کر لی اور بیعت کے وقت بعض کو میں نے کہا بھی کہ اگر دُنیوی آرام کے لئے جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہو تو وہ یہاں نہیں ملے گا یہاں تو گالیاں کھانی پڑتی ہیں ماریں کھانی پڑتی ہیںدُکھ اُٹھانے پڑتے ہیں خدا کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔یہ باتیں پہلے سوچ کر جماعت میں داخل ہوں۔ ایک مولوی صاحب جن کے ساتھ میں نے بڑے نمایاں طور پر اورکھل کر یہ بات کی تھی وہ کہنے لگے کہ ’’ہُن دیکھیا جائے گا جو ہوئے گا‘‘ بڑا پختہ تھا بہت سوں نے بیعت نہیں بھی کی لیکن اُن پر اثر یہ تھا بات تو چھوٹی سی ہے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھ کر اتنا لُطف آیا اس چھوٹی سی بات میں کہ میں اس کو بیان کر دیتا ہوں۔
چار غیر احمدی مولوی اکٹھے ایک دوست کے ساتھ آئے تھے غالباً ایک دوسرے کا سہارا لے رہے ہوں گے کہ ہم میں سے کوئی پھسل نہ جائے بہر حال و ہ عام ملاقاتوں میں آئے اور دوستوں نے بتایا کہ یہ ہمارے ساتھ آئے ہیں ہمارے علاقے کے مولوی ہیں میں نے ان سے ایک دو منٹ باتیں کیں مصافحہ کیا چلے گئے دوسری جماعت آ گئی اور پھر میں کیا دیکھتا ہوںکہ ان میںسے پہلے ایک واپس آیا جو رضا کار وہاں کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا لیکن یہ کہے کہ نہیں مجھے جانا ہے میری نظر پڑ گئی میں نے کہا کہ آنے دو اسے۔ چنانچہ اس نے پھر مصافحہ کیا اور چلا گیا پھر دوسرا آ گیا پھر تیسرا آگیا اور پھر چوتھے کو میں نے روکا اور کہا کہ تم ابھی مصافحہ کر کے گئے ہو پھر دوبارہ آ رہے ہو کہنے لگے ابھی سیری نہیں ہوئی۔
پس اگرچہ انہوں نے بیعت تو نہیں کی لیکن بہر حال کوئی اثر قبول کیا جس کا اس رنگ میں انہوں نے اظہار کیا اب میری یا آپ کی کوشش سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ دل پر ایسا اثر ہویہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا پس اللہ تعالیٰ نے بڑے فضل کئے ہیں۔
پھر انتظام کے لحاظ سے بڑے فضل ہوئے ایک تھوڑی سی خرابی یہ ہوئی تھی کہ ایک جگہ پر ہماری بس پر چھوٹے بچوں کو آلہ کار بنا کر بعض فتنہ پردازوں نے پتھراؤ کروایا تھا چنانچہ میں نے وہاں کے افسروں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ یا تم انتظام کر دو یا ہم انتظام کر دیں گے کیونکہ عورتوں اور بچوں پر پتھر نہیں مارے جائیں گے جومرد ہیں بڑے وہ تو ماریں کھانے کے بھی عادی ہیں اور پتھر کھانے کے بھی عادی ہیں اور گالیاں سُننے کے بھی عادی ہیں لیکن اگر کسی احمق کو یہ خیال پیدا ہو کہ وہ ہماری عزت پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے اور عورتوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تو یہ نہیں ہو گا پس یا تم انتظام کر دو اگر نہیں کر سکتے تو ہمیں بتا دو ہم خود اپنا انتظام کر لیں گے لیکن انہوں نے کہا نہیں آپ فکر نہ کریں اب یہ بات نہیں ہو گی چنانچہ پھر نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے فضل کیا۔
کھانے کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاصا اچھا رہا گو اتنا اچھا ہو گیا ہے اس جلسہ کی وسعت اور عظمت کے لحاظ سے کہ اگر پندرہ منٹ بھی کسی کو دیر سے کھانا ملے تو وہ شکایت لکھ کر بھجوا دیتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا پھر جوان تھا قادیان میں کام کیا کرتے تھے تو مجھے یاد ہے کہ قادیان میں کوئی ایسا جلسہ نہیں گذرا ہوگا یعنی وہاں آخری جلسے تک کہ ہم بارہ ساڑھے بارہ بجے سے پہلے کھانا کھلانے سے فارغ ہوئے ہوں لیکن اب یہ حال ہے کہ جب میں افسر جلسہ سالانہ ہوتا تھا تو ایک سال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پاس ساڑھے آٹھ بجے یہ شکایت چلی گئی کہ ساڑھے آٹھ بج چکے ہیں اور ہماری جماعت کو ابھی تک کھانا نہیں ملا۔
پس یہ انتظام کی دن بدن جو اس میں Efficiency(افیشنسی) اور عمدگی اور خوبی پیدا ہو رہی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے اور ہماری یہ کوشش ہے کہ پہلے ساڑھے بارہ بجے بھی کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو شکایت نہیں پیدا ہوئی تھی لوگ سمجھتے تھے کہ ہجوم زیادہ ہے (اس کے مقابلے میں تو شاید چوتھائی ہوتا ہو گا ان جلسوں میں) بہر حال ہجوم بڑا ہے رضا کار تھوڑے ہیں اتنا بڑا انتظام نہیں یہ باتیں ہو جایا کرتی ہیں پھر لوگوں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی فضل کرتا ہے کہ اتنے بڑے وسیع اجتماع کے انتظام بغیر خرچ کے ہو جائیں پھر آہستہ آہستہ انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اتنا فضل کرنے والا ہے اور یہ ان کی سُستی ہے کہ ساڑھے آٹھ بج گئے ہیں اور ہمیں کھانا وقت پرنہیں ملا اور ممکن ہے کہ آئندہ سال یا اس سے آئندہ سال آٹھ بجے یہ شکایت آجائے کہ آٹھ بج گئے ہیں اور ہمیں ابھی تک کھانا نہیں ملا انتظام دن بدن بہتر ہوتا جا رہا ہے اس وقت میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا ہے یعنی یہ نہیں کہ مجھے کچھ بتایا گیا ہو یا میں نے خواب دیکھی ہو۔ بس احساس ہے کہ آئندہ کھانا کھانے والوں کی تعداد میں دس ہزار کی زیادتی ہو گی اور ہمارے انتظام میں سب سے مشکل حصّہ روٹی ہے سالن آسانی سے پک جاتا ہے کوئی دقت نہیں ہوتی ہمارے بھائی اتنے اچھے ہیں کہ جب گوشت کی دیگ ختم ہو جائے تو آدھ گھنٹہ میں دال پک جاتی ہے اور وہ لے لیتے ہیں اور کسی کو کوئی شکوہ نہیں پیدا ہوتا لیکن بہر حال روٹی تو ہونی چاہئے اور وسعت اتنی ہو چکی ہے کہ میرے خیال میں پونے دو سو کے قریب بلکہ اس سے زیادہ شاید سوادو سو کے قریب تنور لگتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ چار پانچ سو نانبائی اپنے اڈوں سے اُٹھ کر تین چار دن کے لئے اپنا کرایہ خرچ کر کے یہاں آجائیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آتا کیوں ہے یہاں نانبائی کرایہ وہ اپنا خرچ کرتا ہے مثلاً جو ملتان سے آیا ہے اس نے آنے جانے کا کرایہ اپنا خرچ کیا ہے اور تین یا چار دن اس نے یہاں کام کیا اور بمشکل تیس چالیس روپے اس نے کمائے لیکن اب وسعت اتنی ہو گئی ہے کہ شاید ہمارے ملک میں اس طرح اُٹھنے والے نانبائی اتنے میسر ہی نہ آ سکیں۔
کئی سالوں سے فکر تھی ہمارے بعض احمدی انجینئرز نے بڑے ہی اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے۔ دوست ان کے لئے دعا کریں ایک مشین تو کراچی میں تیار ہو گئی تھی دوسری مشین جس پر یہاں انجینئرز لگے رہے ہیںکئی روز متواتر جوبیس گھنٹے انہوں نے کام کیا ہے آخر ایک وہ وقت آیا کہ انسانی جسم تو بہرحال محدود طاقت رکھتا ہے وہ Collapse(کلیپس) کر گیا اور ان کی طبیعت پر بڑا اثر ہوا ہمیں بڑی فکر پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے اللہ تعالیٰ انہیں صحت تو آہستہ آہستہ دے رہا ہے انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے دوست ان کے لئے بھی اور جو دوسرے اخلاص سے کام کرنے والے ہمارے رضا کار ہیں ان کے لئے بھی بہت دعائیں کیا کریں۔
دُعا کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ کے دل میں بھی رضا کارانہ خدمت کا احساس پیدا ہوگا مثلاً جب گھر کا ایک باپ یہ دُعا کرے گا کہ اے خدا! اس طرح بے نفس چوبیس گھنٹے تیری رضا کی خاطر یہ کام کرنے والے رضاکار ہیں تو ان پر اپنے بڑے فضل اور بڑی برکتیں نازل کر تو اس متضرعانہ دُعا کے عین درمیان اسے یہ خیال پیدا ہو گا کہ اس دُعا سے میرے وہ بچے محروم ہیں جن کو میں نے گھر میں بٹھا لیا تھا اور رضاکارانہ خدمت کے لئے نہیں بھیجا تھا۔ پس اس دُعا کے نتیجہ میں ہمیں زیادہ تربیت یافتہ اور زیادہ اخلاص سے کام کرنے والے اور رضاکار بھی مل جائیں گے اور پھر جن کا حق ہے کہ انہوں نے ہماری طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی خدمت کی ہم اللہ کے حضور کہیں کہ اے خدا! تو ان پر زیادہ سے زیادہ فضل اور رحم کر اور بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُونَ۔(النَّحل:۹۸)
مجموعی طور پر جو سب سے اچھے کام کرنے والے رضا کار اس جلسے میں تھے سارے رضا کاروں کو اسی کے مطابق جزا دے دے ایک جان ہو کر سارے کام کر رہے تھے۔
یہ بھی بڑا فضل ہے اتنے بڑے مجمع کے لئے سوائے ان مزدوروں کے یا ان غیر احمدی نانبائیوں وغیرہ کے بعض ایسے کام ہوتے ہیں جن کے لئے احمدی ملتے نہیں یا بعض ایسے کام ہیں کہ احمدی ہیں اور بڑے تھوڑے کام ہیں جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو پیسے ملنے چاہئیں ان سے رضاکارانہ خدمت نہیں لینی چاہئے ان کے علاوہ ہزاروں آدمی دن رات لگے ہوئے ہوئے ہیں نہ اپنی ہوش ہے نہ اپنے کھانے کی، نہ اپنے آرام کی، نہ اپنے لباس کی ہر وقت کام میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل اور رحم ہے کہ دل کے اندر اس نے خدمت کا یہ جذبہ پیدا کیا ہے اور توفیق دی ہے اپنی اس جماعت کے بالکل نوعمر افراد کو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح خدمت کریں اب بھی یہی ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں ہم اُنکی عمر کے لحاظ سے ان کو یہ کام دے دیتے ہیں کہ جاؤ تنوروں سے روٹیاں اُٹھاؤ اور جہاں ہم نے اکٹھی کرنی ہیں یا جہاں سے تقسیم کرنی ہیں وہاں لے جاؤ اس میں بڑی عمر کے آدمیوں کی ضرورت نہیں چنانچہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے بھمبیری کی طرح چکر لگا رہے ہوتے ہیں نہ دن کو دن سمجھتے ہیں نہ رات کو رات اور کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہماری جماعت کی کوئی خُوبی یا کسی فرد کی خوبی نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس کی رحمت ہے جو جلسہ کے ایام میں مختلف شکلوں میں نازل ہوتی ہے کہ دلوں کے اندر ایک سکون ایک اطمینان ایک خوشی ایک احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں سے ہمیں نواز رہا ہے اور آسمان سے برکتیں نازل ہو رہی ہیں یہ میرا یا آپ کا کام نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اور وہ کرتا ہے اور بڑے فضل کرتا ہے زبانیں کھولتا ہے دماغ روشن کرتا ہے کانوں کی کھڑکیوں کو فراخ کرتا ہے دلوں کے راستوں کو صاف کرتا ہے پھر دلوں پر اثر ہوتا ہے یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں غرض اللہ تعالیٰ کے فرشتے کام کر رہے ہوتے ہیں اور جب اتنا بڑا کارخانہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا ہمارے لئے کام کر رہا ہو اور ہمیں بھی گھسیٹ کر اپنے ساتھ کام پر لگالے تو اس کے بعد ہمارے دل اس کی حمد سے معمور کیوں نہ ہوں گے اور اس کے بعد ہمارے دل میں اس کے شکر کے جذبات سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں کیوں نہ ماریں گے۔
الحمدللہ پڑھیں بہت الحمد للہ پڑھیں کہ حمد اور شکر کے نتیجہ میں انسان بہتر اور بڑے فضل کا وارث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حمد کی بھی توفیق دے دُعا کی بھی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارا ہر قدم نہ صرف یہ کہ پہلے سالوں سے آگے بڑھنے والا ہو بلکہ دو پیروں کا فاصلہ بھی زیادہ لمبا ہو یعنی صرف پہلے سال کی نسبت سے اللہ کے فضلوں میں زیادتی نہ ہو بلکہ دُگنی تگنی چوگنی زیادتی کے ساتھ ہر سال آئے۔ یہ سال جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں، ہے بڑا اہم یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے بعض ایسے سامان پیدا کرے گا جن کو ہم اس وقت سونگھ تو رہے ہیں لیکن پہچان نہیں رہے۔نیا سال آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
’’وَقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ‘‘ (یونس :۶(
بہت سا مضمون یہاں بیان ہوا ہے لیکن ایک یہ ہے ’’مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلاَّ بِالْحَقِّ‘‘
(یونس:۶)
کہ تمام کارخانہ عالم وقت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ عَدَدَالسِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ ہے نا کہ یہ کائنات یہ دُنیا یہ عالمین جو وقت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں کا یہ جلوہ دکھایا ہے۔ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ۔ (یونس:۶)
میں نے بتایا ہے یہ مضمون بڑا وسیع ہے میں اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے رہا ہوں کہ انسان کی بدلی ہوئی حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک ہوتا ہے۔ حق کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں یعنی موافقت کے۔ انسان جب ایک سال ترقی کرتا ہوا سال کو ختم کرتا ہے تو نئے سال میں داخل ہونے والا زید وہ زید نہیں ہوتا جو پچھلے سال میں داخل ہوا تھا بدل چکا ہوتا ہے اپنی تربیت میں اپنے اخلاص میں اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک اور ہی انسان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ اگر تم اورنیک انسان بنو گے اور زیادہ اخلاص رکھنے والے انسان بنو گے اور زیادہ مجھ سے محبت کرنے والے انسان بنو گے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ فدائی بنو گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اور زیادہ پیار کرنے والے بنو گے تو میں اِلَّا بِالْحَقِّ یعنی میں ایک نئی شان کے ساتھ تم پر جلوہ گر ہوں گا اور تمہاری بدلی ہوئی نیک حالت کے مطابق بدلے ہوئے سامان پہلے سے بہتر محبت کا اظہار میں تم سے کرنے والا ہوں گا ایک نئے دور میں تم داخل ہو گے وہ دور تمہارے لئے بہتر ہو گا خدا کرے کہ جس طرح پچھلے سال ہم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ دیکھا کہ فساد کے ایام میں ڈرتے ہوئے دلوں کے ساتھ ہم پچھلے سال ہی داخل ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہم پر نازل ہو رہی تھی جب تیاری کر رہے تھے جلسہ کے دنوں میں سال رواں میں داخل ہونے کی۔
پس خدا کرے کہ جس طرح وہ فرق ہماری طبیعتوں اور ذہنوں نے محسوس کیا کہ جو فرق پچھلے سال کی ابتداء اور انتہاء میں تھا خدا کرے کہ سال رواں کی انتہاء اپنی رحمتوں میں اس قدر عظیم ہو کہ جس وقت ہم وہاں پہنچیں تو یہ ابتداء جو اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی رحمتوں پر مشتمل ہے یہ جو ہم نے پایا ہمیں اس طرح نظر آئے کہ جس طرح وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کتنا فضل کیاکہ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اس نے عطا دی وہ بڑی قدرتوں والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے خدا کرے کہ ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری روح اس سے محبت کریں اور اس کے پیار کے متلاشی ہوں اور اس کی محبت میں ایک دیوانہ اور مست بن جائیں اور خدا کرے کہ وہ ہمیں پہلے سے زیادہ رحمتوں کا اہل پائے ا ور پھر اپنی بے شمار رحمتیں ہمیں عطا کرے کہ وہ سب قدرتوں والا ہے۔
جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ نے فرمایا:-
میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے لڑکے عزیزم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد کو اللہ تعالیٰ نے وقف زندگی کی توفیق دی تھی انہوں نے ڈاکٹری کی، کچھ عرصہ یہاں ہسپتال میں کام کیا اب اللہ کے فضل سے وہ مزید تعلیم کے لئے رخصت پر اپنے خرچ پر انگلستان جا رہے ہیں یہاں سے اُن کی آج روانگی ہوگی اور غالباً کل لاہور سے ہوائی جہاز کے ذریعہ روانہ ہو جائیں گے۔
میری یہ خواہش ہے اور درخواست ہے کہ آپ بہت دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں اور ان کی عقل میں برکت ڈالے اور ان کے جذبہ خدمت کو بہت بڑھائے اور اللہ تعالیٰ انہیں وہاں اپنی امان میں رکھے اور امان میں رکھے ہم سب کو جہاں بھی ہم ہوں اور خیریت سے ان کو واپس لائے اور ایک پیار کرنے والے ہمدرد اور غم خوار طبیب حاذق کی طرح انہیں اپنوں اورغیروں کی خدمت کی توفیق ملے۔
اب میں دُعا کروں گا آپ بھی دُعا کریں اللہ تعالیٰ ہر طرح ان کے سفر کو بابرکت کرے۔آمین
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز

ہمارے پاس ایک عمدہ پریس
اور ریڈیو سٹیشن ہونا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:-
ِ
اس کے بعد فرمایا:-
ایّام جلسہ مہمان نوازی کے ایّام ہیں اکرام ضیف کے ایّام ہیں پھر مہمان بھی وہ جو صرف ہم خدّام کے ہی مہمان نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس رسو ل کے عظیم روحانی فرزند کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل سے بڑی رحمت سے اہل ربوہ کو یہ توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ ان مہمانوں کی جیسا کہ چاہئے خدمت کریں اور جیسا کہ چاہئے اِکرامِ ضیف کریں۔ مہمان نوازی اور اِکرامِ ضیف کے سلسلہ میں جو کچھ ایامِ جلسہ میں ہوتا ہے اس کی مثال دُنیا میں ہمیں کہیں نہیں ملتی۔ اتنا بڑا اجتماع جو شہر کی آبادی سے بھی چھ سات گنا زیادہ ہوتاہے اور اس لحاظ سے قریباً اوسط یہ بنتی ہے کہ جس گھر کے شیر خوار بچوں سمیت سات افراد ہیں بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جن میں ان سات افرادِ خانہ کے مقابلہ میں چالیس، پچاس اور بعض دفعہ ساٹھ مہمان آجاتے ہیں۔ ایک دفعہ جب مَیں افسر جلسہ سالانہ تھا ایک رپورٹ میرے پاس آئی کہ ایک چھوٹا سا گھر ہے گھر والوں نے صرف ایک کمرہ مہمانوں کے لئے دیا ہے اور پچاس ساٹھ مہمانوں کا کھانا لینے آگئے ہیں حالانکہ اتنے مہمان تو اس کمرہ میں سما ہی نہیں سکتے جب رات کو معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جتنے مہمانوں کا کھانا انہوں نے لیا ہے اس سے زیادہ مہمان اس کمرہ میں سمائے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہی ان مہمانوں کے لئے جگہ بناتے ہیں اور ان کے لئے سیری کا سامان پیدا کرتے ہیں اور ان کے آرام کا خیال بھی رکھتے ہیں اور ان کے اعزاز کا ماحول بھی پیدا کرتے ہیں۔اہلِ ربوہ تو مُفت میں سارا ثواب مہمان نوازی کا لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ رحمتوں کا انہیں وارث بنائے اور اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ خدمت ضیف اور اِکرامِ ضیف کی انہیں توفیق عطا کرے۔
ربوہ کا ماحول جس طرح جلسہ سالانہ کے ایّام میں ظاہری اور باطنی طور پر پاکیزہ اور مطہّر رہنا چاہئے اسی طرح سال کے دوسرے ایّام میں بھی ہمارے ماحول میں کسی قسم کی گندگی اور ناپاکی داخل نہیں ہونی چاہئیے۔ اس میںشک نہیں کہ ربوہ کے مکینوں کی بڑی بھاری اکثریت اس کوشش میں ضرور لگی رہتی ہے کہ ان کا ماحول پاک رہے اور وہ یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ جس فضا میں وہ سانس لے رہے ہوں اور جس زمین پر ان کے قدم پڑ رہے ہوں وہ طہارت اور پاکیزگی رکھنے والی اور طہارت اور پاکیزگی اور برکت پہنچانے والی ہو لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ربوہ میں رہنے والوں میں سے بعض ان ذمّہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر ڈالی ہیں اور جنہیں انہوں نے برضا و رغبت قبول کیا ہے کسی کے لئے یہ ضروری نہ تھا اور نہ اب ضروری ہے کہ وہ ربوہ میں ہی رہائش رکھے لیکن سارے ہی بظاہر اور ان میں سے بڑی بھاری اکثریت حقیقتاًبھی برضا و رغبت اور اس ذمّہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہو کر ربوہ میں رہائش پذیر ہے۔ اہلِ ربوہ نے جو ذمّہ داری برضا و رغبت اپنے اُوپر لی ہے اگر ان میں سے ایک فیصد یا نصف فیصد یا چوتھائی فیصد ایسے گھرانے ہوں جنہیں اپنی ذمّہ داریوں کا یا تو علم نہ ہو یا اپنی ذمّہ داریاں نباہنے کی طرف انہیں توجہ نہ ہو تو اس کے نتیجہ میں انہیں یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہم اس کو برداشت کر لیں گے۔
جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض عذاب اور ابتلاء اور مصائب اور آفتیں دُنیا پر ایسی بھی نازل کی جاتی ہیں کہ ان کی لپیٹ میںصرف ظالم ہی نہیں آتا بلکہ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جن کا بظاہر اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں یعنی صرف ظالم کو وہ آفت یا بلاء یا عذاب نہیں پہنچتا بلکہ دوسرے بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اصول تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ
لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (الانعام:۱۶۵)
کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی لیکن چونکہ یہ دُنیا دار الابتلاء ہے دارالجزاء نہیں۔ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اس ابتلاء اور عذاب میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے۔ یہ ابتلاء اور عذاب ان لوگوں کو بھی پہنچے گا جو ظالم نہیں ہیں اور قرآن کریم کے متعلق یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی آیات باہم تضاد نہیں رکھتیں۔ لہٰذا ہمیں اس آیت کے ایسے معنی کرنے پڑیں گے جو کسی دوسری آیت سے ٹکراتے نہ ہوں ان کے متضاد نہ ہوں پس یہاں ایک معنی یہ ہوں گے کہ گو ظاہری طور پر وہ لوگ ظلم میںشامل نہیں لیکن باطنی طور پر وہ ظلم میں شامل ہیں اور وہ اس طرح کہ بعض ذمہ داریاں افراد سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ انفردی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور بعض ذمہ داریوں کے بہت سے پہلو یا وہ ساری کی ساری اجتماعی رنگ رکھتی ہیں اور جو اجتماعی ذمّہ داریاں ہیں اگر وہ گروہ یا وہ خاندان جن کی وہ ذمہ داریاں ہیں بحیثیت مجموعی ان کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اِس کے نتیجہ میں اس گروہ یا خاندان کے بعض افراد ظالم بن جائیں تو سزا اور عذاب میں سارا خاندان ہی ملوّث ہو جائے گا۔ دُنیا کی نگاہ تو یہ دیکھے گی کہ ایک پندرہ سالہ بچے نے چوری کی مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ بہن اور بھائیوں اور خاندان کے دوسرے بڑے رشتہ داروں پر جو یہ فرض تھا کہ وہ اس پندرہ سالہ معصوم بچے کی صحیح تربیت کریں وہ تربیت انہوں نے نہیں کی جس کے نتیجہ میں وہ چور بن گیا۔پس دُنیا کا قانون تو صرف اس بچے کو سزا دے گا مگر اللہ کا قانون اُس دُنیا میں بھی اور اِس دُنیا میں بھی صرف اس بچے پر گرفت نہیں کرے گا جس نے چوری کی بلکہ ان پر بھی گرفت کرے گا جن پر اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کی اگر وہ لوگ اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری کی طرف کماحقہ، متوجہ رہتے تو ان کا بچہ چور نہ بنتا اسی طرح اگر بعض خاندانوں کے بچوں کو گندی گالیاں دینے کی عادت ہے تو صرف ان بچوں پر گرفت نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے ماں باپ اور دوسرے ذمہ دار رشتہ داروں پر بھی گرفت کی جائے گی جن پر یہ فرض تھا کہ اپنے قول، فعل اور نمونہ کے ساتھ اُن کی صحیح تربیت کرتے اگر اہل ربوہ میں سے ایک آدھ ایسا نوجوان ہو جو نظامِ سلسلہ کا وہ احترام نہیں کرتا جو ہر احمدی کو کرنا چاہئے (اور احمدیوں کی بہت بھاری اکثریت یہ احترام کرتی ہے) تو اس صورت میں اگر اصلاح کی خاطر ربوہ سے باہر بھجوانے کا فیصلہ ہوا تو صرف بچہ کو ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی ربوہ سے باہر جانا ہوگا۔
دو تین سال ہوئے دو ایک نوجوانوں کو ان کی اصلاح کی غرض سے ربوہ سے باہر بھجوایا گیا تو وہ باہر یہ شور مچاتے رہے کہ ہمیں خواہ مخواہ ربوہ سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے ماں باپ یہاں شور مچاتے رہے کہ ہمارے بچوں کو خواہ مخواہ ربوہ سے نکال دیا گیا ہے پس ہم ایسے کمزور ایمان والوں اور بُزدلوں سے دو جگہ کیوں شور مچوائیں وہ ایک ہی جگہ شور مچائیں بہتر تو یہ ہے کہ وہ یہاں رہیں اور اخلاص سے رہیں اور اگر یہاں سے جانا ہو تو سارا خاندان یہاں سے جائے صرف بچوں کو ہی باہر کیوں بھیجا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ بچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے بچے ہیںجو ماں باپ ان کی صحیح تربیت نہیں کرتے وہ بڑے ہی ظالم ہیں۔ ظاہری آنکھ ان کے ظلم کو نہیں دیکھتی وہ صرف بچہ کی حرکت کو دیکھتی ہے وہ ایک بچہ کو کوئی چیز اُٹھاتے دیکھتی ہے وہ اسے آوارہ پھرتے دیکھتی ہے یا کان کسی بچہ کی زبان سے گندی گالیاں سُن رہے ہیں لیکن ایک مومن کی فراست اور خدائے علّام الغیوب کا علم ان ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے اندر بھی ظلم اور گند دیکھ رہا ہے جن پر اس کی تربیت میں حصہ لینا فرض تھا اور جن پر اللہ تعالیٰ کی غصہ کی نگاہ ہو جنہیں اللہ تعالیٰ گندہ اور ظالم پائے ان کو ہم عاجز بندے اصلاحی تدبیر کے بغیر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے زیادہ تو کوئی بندہ کسی پر رحم نہیں کر سکتا ایک ہی ہستی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکتاہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب سے زیادہ ہے اس کی رحمت نے مخلوق میں سے ہر شئے کا احاطہ کیا ہوا ہے اسے گھیرے میں لیا ہوا ہے کسی اور ہستی کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا پھر جب وہ ہستی جو رحمت محض ہے اور جس نے اپنی رحمت اور پیار کے لئے ہی اپنے بندوں ( انسانوں) کو پیدا کیا ہے کسی میں ظلم دیکھتی ہے جب وہ ہستی کسی میں ناپاکی اور گندگی پاتی ہے تو کسی انسان کا یہ حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ چونکہ ہماری آنکھ نے صرف اولاد میں گند کو دیکھا تھا اور ان کے ماں باپ کی عدم توجہ کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی ہماری ناقص عقل میں وہ نہیں آسکا تھا۔ ہمارے کمزور علم میں وہ بات نہیں آئی تھی اِس لئے ہم ان پر گرفت نہیں کر سکتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض ایسے ابتلاء ہوتے ہیں کہ صرف ظالم ہی ان کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ تمہاری نگاہ جن کو ظالم نہیں سمجھتی وہ بھی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور آنے چاہئیں اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ (بخاری:کتاب النکاح)اِس حدیث میں مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ کے محض یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان پرگرفت کرے گا اور ان سے جواب طلب کرے گا کہ تم کیا کرتے ہو بلکہ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتہٖ کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار قرار دئیے گئے ہیں(مثلاً نظامِ جماعت اور خلیفۂ وقت) وہ بھی اللہ تعالیٰ کی سُنت پر عمل کرتے ہوئے اور اس کے اس خُلق کو اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے جواب طلبی کریں گے ان کے سامنے بھی تم مسئول ہو اور تم سے جواب طلبی کی جائے گی۔
پہلے ایک آدھ خاندان میں بُرائی ہوتی ہے یا ایک آدھ بُرائی ہوتی ہے اگر ساری قوم یا قصبہ اور شہر کے سارے مکین اس کو دیکھ کر اس سے بیزاری کا اعلان نہ کریں اور نفرت کا مظاہرہ نہ کریں تو آہستہ آہستہ اس بُرائی کی بھیانک اور مکروہ شکل اور اس کی ناپاکی نگاہ سے مخفی ہو جاتی ہے اور پھر اور لوگ بھی اس میں ملوّث ہو جاتے ہیں۔ پس ربوہ میں کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جس میں اس قسم کی ناپاکیاں اور بدیاں اور گند پائے جاتے ہوں اور اگر کوئی ایسا گھرانہ ہوا تو صرف ان معصوم بچوں کو ہی جن پر آپ نے ظلم کیا ہے ربوہ سے باہر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ آپ ظالموں یعنی ماں باپ کو بھی ساتھ ہی یہاں سے روانہ کیا جائے گا۔ اس لئے تم اپنی اور اپنے گھر کی فکر کرو۔ ہم بہرحال ربوہ کی پاکیزگی اور اس کے اچھے نام پر کوئی داغ نہیں لگنے دیں گے۔ انشاء اللہ۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ربوہ میں رہنے والوں کی بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اُن کی قیمت نہیں ٹھہر سکتی اگر دُنیا کے سارے ہیرے اور جواہر بھی اکٹھے کئے جائیں تو ہمارے ایک آدمی کی ان سے زیادہ قیمت ہے لیکن ایک بد صورت اور بے قیمت پتھر کو ہم ان جواہرات میں شامل نہیں رکھ سکتے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی وقت ضرورت پڑی تو سارا ربوہ ( ظاہری طاقت کا استعمال مراد نہیں) نفرت کا اس رنگ میں اظہار کرے گا کہ پھر ایسے خاندان کو یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
احمدی مسلمان ایک عجیب قوم ہے جو اللہ تعالیٰ نے غلبۂ اسلام کے لئے پیدا کی ہے لیکن جیسا کہ سُنّتِ الٰہی ہے۔ الٰہی سلسلوں کے ساتھ نفاق لگا رہتا ہے اسی طرح کمزوریٔ ایمان بھی ساتھ لگی ہوئی ہے جہاں تک کمزوری ایمان کا سوال ہے یہ نہ تو بھیانک ہے اور نہ ہمیں اس کی اس لحاظ سے کوئی فکر ہے کہ جماعت میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے گی گو ہمیں اس لحاظ سے فکر ہے کہ کمزور ایمان والوں کی تربیت ہونی چاہئے کمزوریٔ ایمان اعتقادی ہو یا عملی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ ہم نے ایک شخص کی صحیح تربیت نہیں کی۔ نئے نئے لوگ جو باہر سے آکر جماعت میں شامل ہوتے ہیں یا جو جماعت میں پیدا ہوتے ہیں وہ تربیت کے محتاج ہوتے ہیں اگر ان کی تربیت ہو جائے( اور ضرور ہونی چاہئیے)تو جو حالت زید کی مثلاً احمدیت میں داخل ہونے سے دس سال کے بعد ہوئی ہے وہی حالت آج آنے والوں کی دس سال کے بعد ہو جائے گی۔ نئے آنے والے جو ہمیں کمزور ایمان نظر آتے ہیں دس سال کے بعد ان کے ایمان پختہ ہو جائیں گے کیونکہ ہر چیز کی پختگی وقت کا مطالبہ کرتی ہے مثلاً اگرہم نے صحن میں مٹی ڈال کر اس پر اینٹیں لگانی ہوں تو مٹی ڈالنے کے بعد’’کوٹائی‘‘ کرنی پڑتی ہے یہ نہیں کہ ایک مزدور مٹی ڈالتا جائے اور ساتھ ساتھ ایک معمار فرش لگاتا جائے بعض دفعہ لوگ اس قسم کی غلطی کر جاتے ہیں اس لئے ان کو بعد میں تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے کیونکہ اینٹیں بیٹھ جاتی ہیں۔ اس فرش کو پختہ شکل کرنے کے لئے اور اسے اس بوجھ کو سنبھالنے کے قابل بنانے کے لئے جو اس پر اینٹوں کا اور چلنے والوں کا پڑنا ہے وقت کی ضرورت ہوتی ہے اگر فوری طور پر آپ نے مُگدر سے ’’کوٹائی‘‘ کر دی تو شاید وہ فرش ایک دن میں پختہ ہو جائے لیکن اگر آپ نے اسے اپنے قدموں یا اپنے خاندان کے لوگوں، مہمانوں اور دوستوں کے قدموں کی ’’کوٹائی‘‘ پر چھوڑا تو پندرہ بیس دن یا ایک مہینہ لگ جائے گا۔ قدموں کے دباؤ کی وجہ سے آہستہ آہستہ مٹی بیٹھ جائے گی یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے لیکن ہر چیز اس دُنیا میں اپنی پختگی کے لئے وقت کی محتاج ہے اور وہ وقت کا مطالبہ کرتی ہے آم کے درخت کو لے لو وہ ایک وقت کے بعد پھل لاتا ہے۔
ایک احمدی بچہ ایک وقت کے بعد اطفال الاحمدیہ سے نکل کر خدام الاحمدیہ میں داخل ہوتا ہے ایک حافظ قرآن جب قرآن کریم حفظ کرنے لگتا ہے تو اسے پہلے چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرائی جاتی ہیں( پتہ نہیں اب بھی یہی طریق ہے یا نہیں) اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تا چھوٹی چھوٹی سورتیں جلدی یاد ہونی شروع ہو جائیں اور پھر بڑی سورتوں کی طرف اسے لایا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر پختگی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے حافظہ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے اور خود اعتمادی کے ساتھ قرآن کریم یاد کرتا چلا جاتا ہے۔ غرض کمزوریٔ ایمان جو احمدیت میں نئے نئے داخل ہونے یا احمدیت میں پیدائش کے نتیجہ میں ہمیں نظر آتی ہے وہ ہم سے تربیت کا مطالبہ کرتی ہے لیکن نفاق ہم سے بیدار اور چوکس رہنے کا مطالبہ کرتا ہے اور چونکہ دُنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے، زبردست کمزور پر حملہ آور ہوتا ہے اس لئے نفاق کو یا منافق کو اگر موقع مل جائے تو وہ وہاں حملہ کرے گا جہاں اسے کمزوری نظر آئے گی ایک منافق مثلاً امیر جماعت احمدیہ سرگودھا کے پاس جا کر ان کے ایمان پر حملہ نہیں کرے گا بلکہ چک نمبر ۳۵ میں جو ایک نیا نیا احمدی ہوا ہے وہ اس کے پاس جائے گا اور اس پر حملہ آور ہو گا۔
وہ کمزوریٔ ایمان جو احمدیت میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا احمدیت میں پیدائش کے نتیجہ میں نظر آتی ہے ہم نے اس کی دو طرح حفاظت کرنی ہے ایک تو ہم ایسے کمزور ایمان والے کو نفاق کے حملہ سے بچا کر اس کی حفاظت کریں گے اور دوسرے آہستہ آہستہ اس کی تربیت کر کے اس کی حفاظت کریں گے ایسے کمزور ایمان والے ربوہ میں بھی ہوتے ہیں باہر سے بعض کمزور لوگ آجاتے ہیں اور ربوہ میں آکر آباد ہو جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو نظارت امور عامہ کو بھی پتہ نہیںلگتا۔ بعض دفعہ بعض نئے احمدی اپنے علاقہ سے گھبرا جاتے ہیں یا انہیں یہاں سہولت ہوتی ہے اس لئے وہ یہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہئے لیکن اگر یہاں آنے سے قبل ان کی تربیت کچھ اِس قسم کی ہو کہ ہمیں یہ خطرہ پیدا ہو کہ ربوہ کے مکینوں کے بچوں پر ان کے بچوں کا بُرا اثر پڑے گا تو پھر صرف ان کے بچے ہی اپنی جگہ پر واپس نہیں بھیجے جائیںگے بلکہ ہم سارے خاندان کو ہی واپس بھیج دیں گے اور ہمارا یہ فعل بغیر کسی غصہ کے ہو گا کیونکہ ابھی ان کی تربیت نہیں ہوئی لیکن اگر کہیں نفاق اس قِسم کا گند پیدا کرے گا تو پھر ہماری طبیعتوں میں غصہ پیدا ہونا تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں جو میں نے شروع میں پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ (الانفال:۲۶)اِس آیتِ کریمہ میںہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ گو میرے بندے بھی تم پر گرفت کریں گے لیکن میرے بندوں کی گرفت میری گرفت کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہوگی خواہ وہ کتنی ہی سخت گرفت کیوں نہ کریں میری گرفت بہرحال ان سے زیادہ ہے کیونکہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور میرا عِقاب بندوں کے عِقاب سے بہرحال شدید ہے۔ پس یہاں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے تمہیں بھی اصلاحی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اس کو دُنیا سزا کہتی ہے لیکن ہم اسے اصلاحی تدابیر کہتے ہیں کیونکہ کسی انسان یا کسی مخلوق سے ہماری دُشمنی نہیں سزا کا لفظ بھی ہمیں بُرا لگتا ہے بہرحال الہٰی سنّت کے مطابق ہمیں بھی اصلاحی تدابیر کرنی پڑیں گی۔ اور لفظِ عِقابؔ میں بھی یہی بات ہے کہ تم نے جو کام کیا اس کا بدلہ تمہیں مل رہا ہے لیکن اس کی ذمہ داری نہ اللہ کے بندہ پر ہوتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو رحمت کے لئے پیدا کیا ہے اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو پیدا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ہوا تھا لیکن حاصل کی ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضگی اور غصہ اور عقاب اور عذاب اور سزا۔
اس آیت سے آگے دوسری آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں اور پھر فرمایا ہے کہ اگر تم اس فتنہ سے بچ جاؤ گے تو جو اجر مَیں تمہیں دوں گا وہ بہت بڑا اجر ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اس دُنیا میں بھی میرے بندوں کے ذریعہ تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اس اجر پر تم خوش ہو گے لیکن یہ اجر میرے اجر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ گویا دونوں چیزیں جزا اور سزا ان آیات میں بیان ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مرکز میں رہنے والوں کو بھی ان آیات میں مخاطب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ الٰہی سلسلہ جاری ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی۔ لوگوں نے تمہاری بڑی مخالفت کی اور اس مخالفت سے بچنے کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ ایک مرکز قائم کر دیا(فَاٰ وٰ کُمْ) اور اس مرکز کے قیام کے ساتھ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ ہم نے اپنی آسمانی تائیدات سے تمہاری مدد کی اور وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ (النحل۔۷۳) تمہارے لئے دُنیوی فوائد کا سامان کیا۔
الٰہی سلسلے (اسلام کے اندر بھی) جب بھی قائم ہوتے ہوئے اور اسلام بحیثیت مجموعی بھی پناہ کی جگہ بھی ہوتے ہیں اور پناہ کا سبب اور ذریعہ بھی ہوتے ہیں اب ہمارے پاس یہاں ہر طرف سے اطلاع آتی ہے اگر یہاں سے سات سَو میل دُور کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو اپنے حالات کے مطابق یہ مطالبہ کرے کہ ان لوگوں کو پناہ ملے تو فوراً ہمارا آدمی یہاں سے روانہ ہو جاتا ہے۔ پس مرکز پناہ کی جگہ بھی ہے اور پناہ کا موجب بھی ہے اور پھر مرکز الٰہی تائیدات اور آسمانی نشانوں کو جذب کرنے کا ایک مرکزی نقطہ بھی ہے کیونکہ یہاں خلیفۂ وقت ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس آدمی کی دعائیں پہنچیں گی جس پر اُس نے ذمہ واری ڈالی ہے وہ خدا سے کہے گا کہ میں ایک عاجز انسان ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے مجھ میں کوئی ہنر نہیں ہے مجھ میں کوئی علم نہیں ہے میرے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں ہے اور ساری جماعت کی ذمہ واری اے میرے رب! تو نے مجھ پر ڈال دی ہے اگر تیری مدد میرے شاملِ حال نہ ہو تو مَیں توکچھ نہیں کر سکتا جب اس رنگ کی دُعا دوسرے سب دوستوں کی دُعاؤں کے ساتھ مل کر آسمان پر پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے اور جماعت کے لئے حفاظت اور امن اور بہتری اور خوشحالی کے سامان پیدا کرتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے طیّبات کا سامان پیدا کیا ہے اب اس کے لئے بھی مرکز ہی مرکزی نقطہ ہے کیونکہ مثلاً اگرسرگودھا میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، گجرات میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، سندھ میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، کراچی میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، پشاور میں ہمارا ایک ذہین طالب علم یا مشرقی پاکستان میں ہمارا ایک ذہین طالب علم اپنے گھر کے حالات کے لحاظ سے باوجود انتہائی طور پرذہین ہونے کے ترقی نہیں کر سکتا تو وہ مرکز کی طرف رجوع کرتا ہے اور مرکز کی طرف سے اس کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے اور اس طرح سارے خاندان کی خوشحالی کا انتظام ہو جاتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مرکز میں رہنے والو! تمہیںاللہ تعالیٰ نے کتنا نوازا ہے کہ اس نے تمہیں امن عطا کیا اور دوسروں کے امن کا ذریعہ تمہیں بنایا اور وہ تمہیں آسمانی نشانات دکھاتا ہے مرکز میں رہنے والے (اگر ان کی آنکھیں ہوں) تو سب سے زیادہ نشانات دیکھتے ہیں اور اِلّا ماشاء اللّٰہ ان کی آنکھیں ہیں۔ ہاں ایک منافق کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا بہرحال مرکز میں رہنے والے بہت سی تائیداتِ سماویہ ملاحظہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسروں کو نشاناتِ سماویہ دکھانے کا بھی ذریعہ بنایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے تمہارے لئے چاروں طرف رزق کے سامان پیدا کر دئیے ہیں میں نے تمہاری دُنیوی اور اخروی خوشحالی کے سامان پیدا کر دئیے ہیںاور تمہاری وجہ سے اور تمہاری قربانیوں اور ایثار کے نتیجہ میں ہم دوسروں کے لئے بھی خوشحالی کا سامان پیدا کرتے ہیں غرض تم پر مرکز میں رہنے کی وجہ سے بہت زیادہ فضل ہوتے ہیں اور اس نسبت سے تمہاری ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اس بات کا خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور نفرت اور بیزاری کی صفات کے بعض جلووں میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو بظاہر ظالم نہیں ہوتے لیکن اس ظلم کی جسے دُنیا کی آنکھ نہیں دیکھتی آخری ذمہ داری ان لوگوں پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو علّام الغیوب ہے بظاہر ظالم نظر آنے والے کی نسبت حقیقتاً ظالم بنانے والے سے زیادہ نفرت کرتا ہے۔ غرض تم دوسروں کو ظالم نہ بناؤ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور راعی کی حیثیت سے اپنے ماحول میں ایسے حالات پیدا کرو کہ وہ جو تمہاری رعیت ہیں وہ پختگی ایمان اور اعمال صالحہ پر اچھی طرح قائم رہیں اور وہ جماعت کی ذمہ داری اور مرکزِ سلسلہ کی ذمہ داری کو نباہنے والے ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے غصہ کی لپیٹ میں صرف وہی نہیں آئیں گے بلکہ اُن کے ساتھ تم جو حقیقتاً ظالم ہو(گو تم بظاہر ظالم نظرنہیں آتے)زیادہ اس عذاب اور اس سزا کی لپیٹ میں آؤ گے اور اللہ تعالیٰ کا غصہ تم پر زیادہ بھڑکے گا۔
پس اہل ربوہ کو اپنی اونگھ اور نیند سے بیدار ہو جانا چاہئے۔ کوئی ایسی ماں اور کوئی ایسا باپ یہاں نہیں رہ سکتا جو اپنے بچوں کو صحیح تربیت کی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہم اس ماحول کو گندہ اور ناپاک نہیں دیکھنا چاہتے۔ ظاہری صفائی کے متعلق تو ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلّی دے لیا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دُنیوی اموال نہیں اس لئے ظاہری صفائی اس قدر نہیں ہو سکتی جتنی ہونی چاہئے گو یہ خیال بھی بہت حد تک خام ہے لیکن بہرحال ہم اپنے دلوں کو یہ کہہ کر تسلّی دے لیا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ظاہری اموال نہیں ہیں اس لئے ہم ظاہری صفائی کو اس حد تک نہیں رکھ سکتے گو ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے لیکن باطنی صفائی کے متعلق نہ تو کوئی بہانہ ہمارے پاس ہے اور نہ کوئی سمجھدار شخص اس بہانہ کو قبول کرے گا اور مَیں تو یہی کہوں گا کہ تم ظاہری صفائی کا بھی اتنا خیال رکھو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خواہش اور ہمارے رب کریم کا کوئی ارشاد ہمیں کبھی نہ بھولے اور جس قدر ممکن ہو ہم ظاہری صفائی سے تعلق رکھنے والے تمام احکام کو بجالانے والے ہوں اور وہ بیسیوں احکام ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم باطنی صفائی کی طرف توجہ کرو۔
اللہ تعالیٰ نے ایک نظام کو قائم کیا ہے اور اس لئے قائم کیا ہے کہ ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرے اس لئے قائم کیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم اور پختہ کرے اور اس نے ہم پر ذمہ داری عائد کی ہے کہ اگر ہمارے اس ماحول میں یعنی مرکزی ماحول میں کسی منافق کا فتنہ اِس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اُس پر گرفت ہونی چاہئے۔ تو ہم اس کو پکڑیں گے اگر کوئی کمزورایمان والا یا کوئی منافق طبیعت والا یہ سمجھتا ہو کہ مَیں آسانی سے نظامِ سلسلہ کی بغاوت بھی کر سکتا ہوں اور مَیں کسی کی گرفت میں بھی نہیں آؤں گا تو وہ بڑا بیوقوف ہے کیونکہ سب سے بڑی گرفت تو اللہ تعالیٰ کی ہے اس سے وہ بچ نہیں سکتا جو مرضی ہے وہ کرے خواہ وہ دُنیا اور شیطان کی ساری طاقتیں اپنے لئے جمع کرے وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کیسے بچ سکتا ہے پھر اس کے بندے جنہیں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں مخاطب کرتا ہے کہ مجھ سے ڈرو اور دُنیا کی کسی اور چیز سے نہ ڈرو وہ کسی اور سے کیسے ڈریں گے اور ان کی گرفت سے اس قسم کا آدمی کیسے بچ جائے گا لیکن جو شخص شیطان کا مرید ہوتا ہے وہ احمق بھی بڑا ہوتا ہے اس لئے اپنی حماقت اور اپنی سفاہت کے نتیجہ میں بعض منافق طبع لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو مرضی ہے کرتے رہیں انہیں کوئی پوچھے گا نہیں۔ فرض کر لو اگر کوئی آدمی نہ بھی پوچھ سکے تو خدا تو پوچھنے والاہے اس کے غصہ اور اس کی گرفت اور اس کے قہر سے ایسا آدمی کس طرح بچ جائے گا لیکن یہ بھی شیطانی سفاہت ہے اور قرآن کریم نے اس کو حماقت اور سفاہت کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندے اس کو نہیں پوچھیں گے دُنیا میں کسی کے گھر میں کوئی ایسا انسان نہیں پیدا ہوا کہ جو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے بالا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں کوئی بچہ ایسا نہیں پیدا ہوا جو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے بالا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی نسل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی تھی کہ وہ سلسلہ کے انتہائی خادم ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی عملی خدمت اور ان کے خدمت کے جذبات کو دیکھ کر انہیں قوم کا سردار بنا دے گا اور گو اللہ تعالیٰ انہیں قوم کا سردار بنائے گا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بھولیں گے کہ سردار کہتے ہی اُسے ہیں جو قوم کا خادم ہو آپ دوست جانتے ہیں کہ ہمارے بزرگ بھائی مکرم مولوی محمد یعقوب خان صاحب جنہوں نے تھوڑا ہی عرصہ پہلے بیعت کی ہے جلسہ سالانہ پر آئے تھے۔ اُن کے ساتھ ان کا ایک بچہ (کیپٹن عبدالسلام خان صاحب) بھی تھا اس وقت تک اُنہوں نے بیعت نہیں کی تھی جلسہ سالانہ کے بعد اُنہوں نے بھی بیعت کر لی ہے اور اب اطلاع آئی ہے کہ مولوی صاحب موصوف کی بیوی نے بھی بیعت کر لی ہے۔ اس وقت تک مکرم مولوی یعقوب خان صاحب، ان کی بیوی اور ان کے دو بچوں نے بیعت کر لی ہے ایک بچے نے ابھی تک بیعت نہیں کی عبدالسلام خان صاحب کا خط آیا ہے کہ مَیں نے ان سے بڑی لمبی باتیں کی ہیں وہ ساری باتیں مانتا ہے لیکن اس کے دُنیوی تعلقات کچھ اِس قسم کے ہیں کہ وہ ابھی بیعت کرنے سے گھبراتا ہے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی بیعت کرنے کی توفیق عطا کرے تا سارا خاندان اکٹھا ہو جائے۔
محترم مولوی محمد یعقوب خان صاحب اور ان کے دو صاحبزادوں نے پہلی دفعہ ہمارا جلسہ سالانہ دیکھا تھا پہلی دفعہ انہوں نے اس فضا میں سانس لیا لوگوں کے چہروں پر ایمان کی شادابی دیکھی مجھ سے ملے احباب جماعت کے لئے جو میرے جذبات ہیں اُن کو محسوس کیا تو جلسہ کے بعد عبدالسلام خان صاحب مجھے ملے ان سے رہا نہ گیا وہ کہنے لگے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ گدّی بنا لی ہے(یہ الفاظ تو میرے ہیں لیکن ان کے دماغ میں یہی تھا کہ غیر مبائع اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے گدّی بنا لی ہے۔ چنانچہ انہوںنے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ گدّی بنا لی ہے۔ گدّی بنا لی ہے)لیکن میں نے یہاں آ کر جو دیکھا ہے اور خلافت کی ذمہ داریاں جو مَیںنے محسوس کی ہیں مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بڑا ہی احمق ہو گا وہ شخص جو خلافت کی خواہش کرے اور یہ ایک حقیقت ہے کون اپنے آپ کو چوبیس گھنٹے کی ذمہ داریوں میں جکڑا ہوا دیکھنا چاہتا ہے لیکن معترض تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں سمجھدار لوگ یا جب کسی کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے دیتا ہے تو وہ حقیقت کو پا لیتے ہیں۔
پس یہ سمجھنا کہ خلیفۂ وقت اللہ کے سوا کسی اور کے خوف سے دب جائے گا اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے جسم کے اعضاء بھی سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتے وہ اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ سکتا ہے یا سوچ سکتا ہے کہ کبھی وہ کوئی کمزوری اس سلسلہ میں دکھا سکتا ہے جس نے غیر اللہ سے ایک دمڑی کے ہزارویں حصہ کی بھی کوئی چیز نہ لی ہو اور جس نے ہر چیز صرف اپنے مولیٰ سے حاصل کی ہو اور مولیٰ کی عنایتیں اس پر اتنی ہوں کہ انسانی دماغ ان کا احاطہ نہ کر سکے وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ ہی کس طرح ہو سکتا ہے جو ایسا خیال کرتا ہے اس سے زیادہ بیوقوف اورنادان اور جاہل اور کم علم کوئی ہو ہی نہیں سکتا یہ مختلف صفات جو میں نے بیان کی ہیں یہ مختلف گروہوں کی وجہ سے ہیں کہ بعض لوگ نفاق کی وجہ سے، بعض عدم علم کی وجہ سے اور بعض جہالت کی وجہ سے اس قسم کا خیال کرتے ہیں۔
اب ہمارے اُوپر بڑی ذمہ داریاں پڑ رہی ہیں میرے ذہن میں پہلے بھی خیال آیا تھا لیکن اب جو مجھے نظر آرہا ہے، دُنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ ہم پر بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اس لئے ہمیں اپنی کمر کس لینی چاہئے یعنی ہر لحاظ سے ہمیں اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہئے اور چوکس ہو جانا چاہئے پہلے ہم بعض چیزوں کو نظر انداز کر جاتے تھے اور دُعائیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس گند کو دُور کر دے لیکن اب شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اس گندکے دور ہونے کے لئے دُعائیں تو کرتے رہیں اور یہ تو ہماری ذمہ داری ہے اس سے تو کوئی شخص یا کوئی خاندان محروم نہیں ہو گا لیکن پہلے وہ ربوہ میں رہتے ہوئے ہماری دُعائیں لیتا تھا اور اب وہ ربوہ سے باہر رہائش اختیار کر کے ہماری دُعائیں لے گا وہ ربوہ میں نہیں رہ سکے گا۔ ربوہ میں وہی رہے گا جو ہر لحاظ سے کوشش کر رہا ہو گا کہ مَیں اپنے خاندان کو اور اپنے ماحول کو ظاہر و باطن میں صاف ستھرا اور پاک اور مطہّر رکھوں گا۔ جس کا اس طرف خیال نہیں ہو گا، جو اپنی یہ ذمہ داری نہیں سمجھے گا۔ ( اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور اس کے ایمان کو پختہ کرے) وہ جہاں بھی رہے،رہے، ربوہ میں وہ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا کرے۔
دو باتیں اور ہیں جن کے متعلق مَیں دُعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں۔ جلسہ سالانہ سے کچھ روز پہلے(کوئی القاء اور خواب کی صورت نہیں ویسے) بڑے زور سے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں۔ ایک تو ہمارے پاس ایک بہت اچھا پریس ہو اور اللہ تعالیٰ جب کوئی خیال پیدا کرتا ہے تو اس کی ساری چیز روشن ہو کر سامنے آجاتی ہے اس لئے جب میرے دل میں خیال آیا تو اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں آیا کہ اس اچھے پریس کے لئے ہمیں پانچ دس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی ساتھ ہی میری طبیعت مطمئن ہو گئی کہ ٹھیک ہے گو پانچ یا دس لاکھ روپیہ ایک غریب جماعت کے لئے بڑا خرچ ہے لیکن اس طریق پر اس کا انتظام ہو جائے گا اس وقت پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہماری توجہ ہی بہت سے کاموں کی طرف نہیں جاتی کیونکہ روکیں سامنے ہوتی ہیں اور جن کے سپرد یہ کام ہیں وہ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکتے دوسرے جن کاموں کی طرف توجہ ہوتی ہے ان میں سے بھی بہت سے کام چھوڑنے پڑتے ہیں یا ان میں تاخیر کرنی پڑتی ہے مثلاً اس وقت قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ تیار ہے ہمارا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تفصیلی نوٹوں کے ساتھ ایک نئی جلد میں جیسا کہ جلسہ سالانہ پر اعلان ہوا تھا تیار ہو گیا ہے اور دوستوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اس وقت فرانسیسی ترجمہ بھی تیار ہے لیکن دفتر سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے رپورٹ دی کہ بات یہ ہے کہ ہمارا خیال تھا ہم نے لاہور کے جس پریس سے انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا طبع کروایا ہے اس پریس سے یا کسی اور اچھے پریس سے فرانسیسی ترجمہ بھی طبع کروا لیں گے چنانچہ اُن سے خط و کتابت یا گفت شنید ہو رہی تھی لیکن اب انہوں نے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ ترجمہ طبع نہیں کر سکتے مجھے خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کسی متعصب گروہ کا ان پر دباؤ ہو اور اس سے مجھے بڑا دُکھ ہوا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت میں بھی تعصب آجاتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم کرے لیکن بعد میں میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی بلکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی زبان کے بہت سے حروف کی شکل انگریزی حروف کی شکل سے مختلف ہے اور یہ حروف تیار کر کے نہیں دے سکتے۔ اِس لئے انہوں نے انکار کر دیا۔
پھر ہمارے پاس بعض اوقات مثلاً افریقہ کے کسی ملک سے مانگ آجاتی ہے کہ ہمیں سادہ قرآن کریم(بغیر ترجمہ کے) کے بیس ہزار نسخے اگلے تین ماہ کے اندر دے دو اور کچھ عرصہ پہلے ہمیں ایک ملک سے بارہ یا پندرہ ہزار سادہ قرآن کریم کے نسخوں کا آرڈر ملا اور تحریک جدید کو انکار کرنا پڑا کہ ہمارے پاس موجود نہیں اگر ہمارا اپنا پریس ہو تو اگر اور جب کوئی آرڈر آئے وہ آرڈر تو شاید پندرہ یا بیس یا پچیس ہزار کا ہو گا مگر ایک لاکھ نسخے ہمارے پاس تیار موجود ہوں گے یا ہم اس قابل ہوں گے کہ چند دنوں کے اندر اتنے نسخے شائع کر دیں۔ غرض ہم بہت سارے کام کر سکتے ہیں اور پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہم اِس طرف خیال نہیں کرتے ہمارے نزدیک ترجیح مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو ہے کیونکہ صحیح ترجمہ اور صحیح تفسیری نوٹ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر مسلم دُنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم سے باہر نہیں مل سکتے اِس لئے ہم ان کو ترجیح دیتے ہیں۔
پس اگر اپنا پریس ہو گا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اور جنون ہے یہ بات کرتے ہوئے بھی مَیں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں اللہ تعالیٰ آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم یہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ سیکھیں پھر اَور بھی بہت سارے کام ہیں جو ہم صرف اِس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس پریس نہیں لیکن میرے دل میں جو شوق پیدا کیا گیا ہے اور جو خواہش پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سارے پاکستان میں اس جیسا اچھا پریس کوئی نہ ہو اور پھر اس پریس کو اپنی عمارت کے لحاظ سے اور دوسری چیزوں کا خیال رکھ کر اچھا رکھا جائے۔ عمارت کو ڈسٹ پروف (DUST PROOF) بنایا جائے تاہم ایک دفعہ دُنیا میں اپنی کتب کی اشاعت کر جائیں۔
دوسرے پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کتابیں مہنگی پڑتی ہیں اگر اپنا پریس ہو گا اور اس کو بہرحال نفع کے اصول پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ اسے ضرورت پورا کرنے کے اصول پر چلایا جائے گا تو جو کتاب مثلاً قرآن کریم کی ایک جلد اس وقت ہمیں اگر تیس روپے میں پڑتی ہے تو ممکن ہے کہ پھر وہ بیس روپے میں یا پچیس روپے میں پڑ جائے اور جتنی اس کی قیمت کم ہو گی اتنی اس کی اشاعت زیادہ ہو گی یہ اقتصادیات کا ایک اصول ہے پس دُعا کریں کہ جس ربّ نے جو علّام الغیوب ہے دُنیا کی ضرورتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اور ان کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا کی ہے وہی اپنے فضل سے اس خواہش کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کرے۔
دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن (TRANSMITTING STATION) دُنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہاء کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتور رُوس کا شارٹ ویو اسٹیشن (SHART WAVE STATION) ہے جو ساری دُنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کر رہا ہے اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دُنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو اس کے متعلق میںنے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے جس طرح آپ ریڈیو ریسیونگ سیٹ (RADIO RECEIVING SET) کا لائسنس لیتے ہیں اسی طرح آپ براڈ کاسٹ(BROAD CAST) کرنے کا لائسنس لے لیں وہ آپ کو ایک فری کوئنسی (FREQUENCY) دے دیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اتنامہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہئے اور اس پر روز مرّہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہو گا اور اِس وقت ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی اِس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں یعنی میدان توکھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے۔
دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے غانا والوں سے تو مَیں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے مَیں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہئے اور وہاں اجازت مل جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پتہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی اور چونکہ ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں اِس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر اناؤنس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں پہلے مرحلے میں چاہئے کہ یورپ اور مشرقِ وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جا سکے اِسی طرح عرب ممالک اور پھر ٹرکی، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے، انشاء اللہ۔
جہاں تک پیسے کا سوال ہے میرے دماغ نے اس کے متعلق اِس لئے نہیں سوچا کہ مجھے پتہ ہی نہیں کہ اس کے لئے کتنے پیسے چاہئیں لیکن جہاں تک اِس بات کا سوال ہے کہ’’کتنے پیسے چاہئیں‘‘ کے متعلق دریافت کیا جائے تو اس کے متعلق مَیں نے انتظام کر دیا ہے۔ جلسہ پر بعض دوست بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میں سے ایک دوست کینیڈا سے آئے ہوئے تھے وہ وہاں ٹیلی ویژن میں کام کرتے ہیں مَیں نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہاں جا کر فوری طور پر اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں۔
پاکستان میں اس اسٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کو ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں جن میں گویا قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا،گیمبیا، غانا یا سیرالیون ہیں اُمید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
اِس وقت دُنیا کے دلوں کا کیا حال ہے اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے ا ور نہ آپ کو ہے لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے مَیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دُنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سُنیں گے اور غور کریں گے ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی۔ دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندر اندر یہ کام ہو جائے لیکن ہر چیز ایک وقت چاہتی ہے بہرحال جب بھی خدا چاہے یہ کام جلد سے جلد ہو جائے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ یہ کام ہو گیاہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اُردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سُننے والے ہوں گانا وغیرہ بدمزگی پیدا نہ کر رہا ہو اور اسی طرح کی اور فضولیات بھی بیچ میں نہ ہوں ’’علم‘‘ اسلام کا ورثہ ہے کِسی اور کا نہیں اس لئے علمی باتیں تو وہاں ہوں گی مثلاً (ایگری کلچر AGRICULTURE)زراعت کے متعلق ہم بولیں گے اسی طرح دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق بھی ہم بولیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تمام علوم سے خادمانہ کام لے سکے سارے علوم ہی ہمارے خادم ہیں۔آج کا فلسفہ بھی ہمارا خادم ہے آج کی سائنس بھی ہماری خادم ہے آج کی تاریخ کے اصول بھی ہمارے خادم ہیں۔ جب یہ غلطی کریں گے تو ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور خادم سے یہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس وقت وہ غلطی کر رہے ہیں اور ہمارا ہاتھ ان کی طرف نہیں بڑھ رہا حالانکہ ہمارا فرض تھا اور ہمارا حق بھی ہے کہ ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور کہیں کہ اے ہمارے خادم یہ تو کیا کر رہا ہے (یعنی اس کی تصحیح کریں) بہرحال سب علوم ہمارے خادم ہیں اور ہم ان خادموں سے بھی خدمت لیں گے اور اس طرح سب علوم کی باتیں آجائیں گی فلسفہ کی غلطیاں بھی ہم نکالیں گے( ایگریکلچر AGRICULTURE) زراعت کے متعلق بھی ہم لوگوں کو کہیں گے کہ یہ یہ کام کرو تادُنیا میں بھی خوشحالی تمہیں نصیب ہو۔
انشاء اللہ یہ کام تو ہم کریں گے لیکن گانے اور ڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک ریڈیو دُنیا میں ایسا ہو گا جہاں اس قسم کی کوئی لغو بات نہیں ہو گی اور شاید بعض لوگ اس ریڈیو اسٹیشن کو ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون:۴)کہنا شروع کر دیں۔
غرض میرے دِل میں یہ دو خواہشیں پیدا ہوئی ہیں ان کے لئے آپ بھی دُعا کریں اور مَیں بھی دُعا کررہا ہوں۔ انسان بڑا ہی عاجز اور کمزور ہے اور ہر نئی بات جو دل میں ڈالی جاتی ہے وہ ہمارے ضعف اور عاجزی کو اَور بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے آتی ہے اور پہلے سے بھی زیادہ انسان اپنے رب کے حضور جُھک جاتا ہے اور اپنی کم مائیگی کا اقرار کرتا ہے اور ہر قسم کی طاقتوں کا اُسے سرچشمہ اور منبع قرار دے کر اور اُس کی حمد وثناء کرتے ہوئے اس سے یہ بھیک مانگتا ہے کہ اے میرے رب تُو نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اس کے کرنے کی تُو مجھے توفیق دے اور اس کے لئے اسباب مہیا کر دے۔ آپ بھی دُعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ دونوں چیزیں ہمیں عطا کر دے اور ان دونوں میں ساری دُنیا کے لئے بہت سی برکتوں کا سامان پیدا کر دے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۸)
ززز














انسان کے اندر اجرِ عظیم یعنی لامتناہی ترقیات
کی خواہش ودیعت کی گئی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔

اِس کے بعد فرمایا :-
گزشتہ چند روز میری طبیعت خراب رہی ہے اچانک دورانِ سر کا حملہ ہوا اور وہ اتنا شدید تھا کہ احساس یہ تھا کہ یہ دُنیا اس شدّت اور تیزی کے ساتھ چکر کاٹ رہی ہے کہ جیسے میرے وجود کو باہر پھینکنا چاہتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے کافی تکلیف اُٹھانی پڑی۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا یہ تکلیف تو چند دن میں دُور ہو گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اور پھر اس کے بعد تک خون کے دباؤ میں قرار اور ٹھہراؤ نہ رہا یکدم ۱۲۰ سے ۱۴۵ تک چلا جاتا اور پھر یکدم گر کر ۱۱۰۔۱۱۵ تک آجاتا میرے خون کے معمول کا دباؤ ۱۲۰۔۸۰ ہے اس اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے طبیعت میں بڑی بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ضعفِ دماغ ہو جاتا ہے کیونکہ دماغ کو باقاعدگی سے ایک جیسا خون نہیں ملتا اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک آرام ہے۔ ضُعف کچھ باقی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے آپ دوست دُعا کریں یہ تکلیف بھی جاتی رہے۔
بیماری میں ایک اور تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور وہ یہ احساس ہوتا ہے کہ کام پیچھے پڑ رہے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ اگر کام نہ کروں تو چوبیس گھنٹے کے بعد بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال کام تو اتنا ہی ہو سکتا ہے جتنے کی اللہ تعالیٰ توفیق دے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی اور آپ کو بھی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق بخشے تاکہ ہم سب اس کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے انسان کا نفس کسی ایک جگہ ٹھہرنا پسند نہیں کرتا بلکہ ہر ترقی کے بعد مزید ترقیات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ہر بلندی کے حصول کے بعد مزید رفعتوں تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہ خواہش اگر صحیح راستے پر گامزن رہے تو اس سے بہتر اور کوئی خواہش نہیں ہو سکتی لیکن اگر یہ خواہش صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو پھر اس سے بدتر اور گندی خواہش اورکوئی نہیں ہو سکتی۔
آپ دیکھتے ہیں کہ اس دُنیا میں بہت سے لوگوں کے دل میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے ماحول میں ہر طریقے سے ظلم کی سب راہوں کو اختیار کر کے اپنا اقتدار اور تسلط جمانا چاہتے ہیں جب انہیں کچھ اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو انہیں مزید اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح ظلم میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اس طرح دنیا دار لوگوں کے دلوں میں جب دولت کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ان کی یہ بھٹکی ہوئی خواہش ہر بُری اورناپاک راہ کو تلاش کرتی ہے اور ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے دُور سے دُور تر لے جاتی ہے۔ یہ سب گندگی کے دروازے ہیں جنہیں ہم رشوت کا دروازہ، چوری کا دروازہ، دھوکہ بازی کا دروازہ، جعل سازی کا دروازہ،اور احتکار(مال کو ناجائز طور پر روکے رکھنے) وغیرہ وغیرہ کا دروازہ کہتے ہیں یہ سب دروازے اسی گندی خواہش کے نتیجہ میں کھلتے ہیں۔
غیر متناہی ترقیات کی خواہش ایک بڑی پاک چیز تھی لیکن جب شیطان نفس کو ورغلاتا اور اسے صراطِ مستقیم سے دُور لے جاتا ہے تو وہی عظیم خواہش جو انسان کی عظمت کے لئے اسے دی گئی تھی وہ اس کی ذلّت اور رسوائی کا سبب بن جاتی ہے بہرحال انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی ہے کہ وہ ان رفعتوں کے حصول میں جو اس نے اپنے بندے کے لئے پیدا کی ہیں کسی جگہ پر بھی پہنچ کے مطمئن نہ ہو جائے بلکہ چونکہ قُرب کے غیر متناہی راستے اس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ ایک رفعت کے حصول کے بعد اس سے بلند تر مقام پر پہنچنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے بعض جلووں کے مشاہدہ کے بعد اس کی محبت کے اور بھی روشن تر اور حسین جلوے دیکھنے کی اپنے اندر خواہش پیدا کرے اور ترقیات کے ان غیرمتناہی راستوں پر چلتے ہوئے وہ اپنے رب کے قُرب کو زیادہ سے زیادہ پائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔
یہ خواہش جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں پیدا کی ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنے نفس کا محاسبہ کرو تو تم میں سے ہر ایک شخص یہ جان لے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش عطا کی ہے کہ وہ اس کی زیادہ سے زیادہ رضا کو حاصل کر سکے۔
پس سوال پیدا ہو گا کہ اللہ کی رضا کو اور حقیقی مسرتوں کو اور خوشیوں کو اور کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا طریق کیا ہے اور وہ کونسی ہستی ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ عطا دے سکتی ہے؟ چنانچہ ان آیات میں جو مَیں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (التوبہ : ۲۲)
یعنی تمہاری اس خواہش کی تکمیل اس ہستی سے وابستہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری قوّتوں اور ضرورتوں کا علم رکھتا ہے اور وہ ہر قسم کی قوّت اور قدرت اور تصرّف کا مالک ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے آگے انہونی ہو یا جو اس کی قدرت میں نہ ہو یا جو اس کے تصرف سے باہر ہو وہ اللہ ہے تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر قسم کی کمزوری اور ضعف سے پاک اور مطہر۔ پس تمہاری اس خواہش کی تکمیل کہ تم ترقیات میں، تم رفعتوں کے حصول میں، تم حقیقی عزّتوں کے پانے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ سوائے اللہ کے اور کہیں سے نہیں ہوسکتی۔ وہی ہے جو اس خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے۔ وہی ہے جس کے قُرب کی راہیں جس کے وصال کی منازل غیر متناہی ہیں۔ ہر منزل کے بعد ایک دوسری منزل، ہر قرب کے بعد ایک ارفع، زیادہ حسین، زیادہ لذّت اور سرور والا قرب کہ جس کی کیفیت ہماری زبان بیان نہیں کر سکتی لیکن بہرحال ہم نے اپنی زبان ہی میں بیان کرنے کی خواہش کرنی ہے تم اس کی توفیق سے یہ ساری چیزیں حاصل کر سکتے ہو۔
پس وہ جو خود محدود ہے وہ تمہاری اس غیر محدود خواہش کی تکمیل کیسے کر سکتا ہے خود تمہاری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کیونکہ یہ دُنیا ایک لامحدود دُنیا ہے دُنیا کے اموال محدود، دُنیا کی عزتیں محدود، دُنیا کے اقتدار محدود، غرض محدود اشیاء ایک غیر محدود خواہش کی تکمیل کر ہی نہیں سکتیں بڑی غیر معقول بات ہو گی اگر ہم یہ کہیں کہ ایک محدود غیر محدود کی تکمیل کا اہل ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اندر غیر محدود اور لامتناہی ترقیات کی خواہش پیدا کی گئی ہے اگر تم اپنی اس فطری خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اُس پاک ذات سے تعلق قائم کرنا پڑے گا جو ہر لحاظ اور ہر جہت سے غیر محدود ہے اُس کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور وہ اللہ ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (التوبہ :۲۲)
وہ اجر جس سے بڑھ کر کوئی اجر متصوّر نہیں ہو سکتا۔ (یہ عظیم کے معنے ہیں) جس کی عظمت اتنی بڑی ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ پر نہیں آسکتا۔ وہ جزا وہ کامیابی ۔ کامیابی کی وہ لذّتیں اور سرور کہ جن سے بڑھ کر اور کسی چیز کا امکان نہیں جو ہماری عقلوں میں بھی نہیں آسکتے۔ وہ اجرِ عظیم سوائے اللہ تعالیٰ کے جس کی قدرتوں کی حد بست نہیں کی جا سکتی اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
پس اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (التوبہ : ۲۲) اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ جس سے ہم غیر متناہی رفعتوں کو حاصل کر سکتے ہیں جو اگر ہم پر رحم کرے، اپنی رضا کی نگاہ ہم پر ڈالے، اپنی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کی ہمیں توفیق دے۔ تو پھر ہمیں اجرِ عظیم مل سکتا ہے۔
پس اگر انسان نے اجرِ عظیم پانے کی جو خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے اِس خواہش کی تکمیل کرنی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب یعنی اللہ سے ایک حقیقی اور زندہ تعلق قائم کر لے۔ اپنے رب سے یہ زندہ تعلق کیسے قائم کیا جا سکتا ہے اس کا ذکر بھی ان آیات میں کیا گیا ہے لیکن اس وقت میںاس مختصر خطاب پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو انشاء اللہ اگلے جمعے میں اس مضمون کے دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالوں گا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍فروری ۱۹۷۰ء صفحہ ۳، ۴)
ززز














محض زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کافی نہیں
ایمان لانے کے تقاضوں کو پورا کریں
(خطبہ جمعہفرمودہ۶؍ فروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورانورنے قرآنِ مجید کی یہ آیات پڑھیں:-

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ انسانی فطرت میں یہ جوش و دیعت کیا گیا ہے کہ وہ لامتناہی ترقیات کی متلاشی رہے۔ کسی ایک جگہ پر ٹھہر جانا اُسے پسند نہیں ہے جب فطرت کا یہ رجحان اور یہ جوش غلط راستہ پر گامزن ہو جاتا ہے مثلاً دُنیوی مال اور دولت کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے تو اس قسم کا حریص انسان کسی مقام پر بھی ٹھہرنا پسند نہیں کرتا اگر اس کے پاس لاکھ روپیہ ہو جائے تو وہ کروڑ جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر سو انسانوں کا خون ُچوس کر اس نے روپیہ جمع کیا ہو تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مَیں ہزار انسانوں کا خون چوسوں اور اپنی دولت میں زیادتی کروں۔ بہرحال یہ حرص بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اِس دُنیا کی یا اُس دُنیا کی ہلاکت تک اس شخص کو پہنچا دیتی ہے۔
اگر اقتدار کا جنون سوار ہو تو ایسا انسان تمام حقوق پا مال کرتا چلا جاتا ہے اور کہیں اسے قرار نہیں آتا لیکن جب فطرت صحیحہ ہو اور حقیقی خوشی اور لذت اللہ تعالیٰ کے قرب میں پائی جائے توانسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قُرب حاصل کرتا چلا جائے۔ دُنیا کی دولتیں اور دُنیا کی جاہ و حشمت تو محدود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قُرب اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے غیر محدود ہیں کسی جہت سے بھی اُن کا احاطہ اور ان کی حد بست نہیں کی جاسکتی۔ پس جس وقت انسان روحانی میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتے ہوئے اس کے قُرب کے حصول کے لئے بڑھ رہا ہوتا ہے تو یہی کوشش ایسی ہوتی ہے کہ جو فطرت کے اس تقاضا کو پوری کر سکے کہ اُسے غیر متناہی ترقیات چاہئیں اور اُسی کی جستجو میں وہ ہمہ وقت مشغول رہے اِس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر میں یہ فرمایا ’’اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(التوبۃ:۲۲) کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ جب وہ اجر دینے لگے نیکیوں کا، جب قبو ل کرنے لگے تمہارے مجاہدات کو تو وہ اجر اتنا عظیم ہو گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی اجر تصور میں نہیں آسکتا۔غرض اِن آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم اپنی فطرت کی اِس خواہش کو، اِس Urge(ارج) کو پورا کرنا چاہتے ہو کہ غیر متناہی خوشیاں، غیر متناہی لذتیں، اللہ تعالیٰ کی غیرمتناہی (نہ ختم ہونے والی) رضا تمہیں حاصل ہو تو یہ چیزتمہیں صرف اللہ سے مل سکتی ہے، اس کی طرف تم رجوع کرو اگر تم بھٹک گئے، اگر تم نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا، اگر تم اس خواہش کو نہ سمجھے اور اس کی سیری کے لئے صحیح کوشش نہ کی تو دُنیا کی حرام کمائی بہت حد تک تمہیں مل جائے گی مگر وہ عظیم نہیں ہو گی۔ دُنیا کا اقتدار بھی شاید تم پا لو ایک وقت تک لیکن ہمیشہ کے لئے اور دُنیوی لحاظ سے بھی ایسی عزت تمہیں نہیں ملے گی کہ جو اتنی بڑی ہو کہ اس سے بڑھ کر تصور میں نہ آسکے وہ عزت، پیار کا وہ مقام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں محبت کے جلوے جو نہ ختم ہونے والے ہیں یہ ابدی اور لامتناہی اجر تم اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں محبت کے جلووں ہی میں دیکھ سکتے ہو کہیں اور تمہیں نہیں مل سکتا۔
پس اجرِ عظیم کی خواہش انسان کے دل میں ہے اجرِ عظیم کا حصول انسان کے لئے ممکن قرار دیا گیا ہے اور اجر عظیم اللہ کے در کے سوا کہیں اَور سے مل نہیں سکتا اس لئے اس در پر دُھونی رما کر بیٹھ جانا چاہئے وہیں سے ہمیں یہ اجر مل سکتا ہے۔ اس اجر کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ان آیات میں بیان کی ہیں ایک ایمان، ایک ہجرت اور ایک مجاہدہ اور ان کے مقابلہ میں تین فضل اور تین قِسم کے انعام کا ذکر کیا ہے رحمت، رضوان اور جناتِ نعیم کا۔ ایمان ایک عام لفظ ہے یعنی بڑا وسیع ہے اتنا وسیع کہ اسلام کے ہر حکم پر اس نے احاطہ کیا ہوا ہے ایمان کس پر لانا ہے اور ایمان کے تقاضے کیا ہیں اس کا تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر پایا جاتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں جو انعام رکھا گیا ہے وہ رحمت ہے۔ رحمت بھی اپنی وسعتوں میں بہت شان رکھتی ہے کیونکہ عربی لغت میں ہر قسم کے فضل اور انعام پر رحمت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ پس یہ فرمایا کہ تم ایمان لاؤ تمہیں میری رحمت نصیب ہو جائے گی پھر بتایا کہ ایمان جو ہے وہ دو شاخوں میں آگے تقسیم ہوتا ہے ایک کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے جس ایمان کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے وہ تقاضا اگر پورا کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں جو انعام ملتا ہے وہ رضوانِ الٰہی ہے اور جس ایمان کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے اگر اس تقاضا کو پورا کیا جائے تو اس کے بدلے میں جو انعام ملتا ہے وہ جنّاتِ نعیم ہے۔میں نے بتایا ہے کہ ایمان ایک ایسا لفظ ہے جو تمام اسلامی تعلیم پر حاوی ہے اور اس کے ہمیں دو حصے کرنے پڑتے ہیں ایک وہ اعتقادات اور وہ احکام و اوامر جن پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں یہ بیان کیا ہے کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ کی کونسی رحمت کے جلوے انسان دیکھتا ہے؟ اسی طرح ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہجرت کا صحیح مفہوم اور اس کے وسیع معنی جن معنی میں کہ اس کو قرآن کریم اور اسلام نے استعمال کیا ہے وہ کیا ہے؟
اور تیسرے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ مجاہدہ کسے کہتے ہیں؟ پھر ہمیں سمجھ آئے گا کہ ایمان کے مقابلے میں رحمت کو اور ہجرت کے مقابلے میں رضوان کو اور مجاہدہ کے مقابلے میں جنّاتِ نعیم کو کیوں رکھا گیا ہے۔
یہ مضمون تو اتنا وسیع ہے کہ اسلام کے سارے احکام سے اس کا تعلق ہے لیکن مَیں اس کا جو پہلا حصہ ہے اُسے ایک خاص مقصد کے پیشِ نظر تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ایمان کا یہ حصہ ہے کہ کِن پر اور کس پر ایمان لانے کا حکم ہے جب خالی ایمان اٰمَنُوا یا اٰمِنُوا یا یُؤْمِنُون استعمال ہو تو اس میں ہر اُس چیز پر ایمان لانے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی کسی دوسری جگہ فرمایا ہے۔ قرآن کریم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایمان کے لفظ کو(یعنی جن چیزوں پر ایمان لانا ہے) مختلف آیات میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں۔سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓـئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّنَ‘‘
(البقرۃ :۱۷۸)
فرمایا کہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانا چاہئے، یومِ آخر پر ایمان لانا چاہئے، ملائکہ پر ایمان لانا چاہئے، الکتاب پر ایمان لانا چاہئے اور انبیاء پر ایمان لانا چاہئے۔ پانچ چیزوں کا یہاں ذکر ہے سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
قُلْ یٰٓـاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا انِ لَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج لَآاِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ یُحْيٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِيْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ۔‘‘ (الاعراف: ۱۵۹)
اس آیت میں ایمان باللہ اور ایمان بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔ ایمان تو اَلنَّبِِیّٖٖن پر بھی لانا ہے دوسری جگہ رُسل پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہے لیکن ان انبیاء اوررُسل میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کر کے نمایاں طور پر ہمارے سامنے پیش کیا اور کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے۔سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
’’ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ (البقرۃ:۴)
کہ اَلْغَیْب پر ایمان لانا ضروری ہے۔سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰـتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۔‘‘ (الاعراف: ۱۵۷)
بِاٰیٰاتِ اللّٰہِ ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے اور سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ لِلَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِا لْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْئِ۔‘‘ (النحل: ۶۱)
یہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے یہ مَیں آگے جا کر بتاؤں گا کہ یومِ آخر اور آخرت میں کوئی فرق ہے یا نہیںاور اگر ہے تو کیا ہے اگر نہیں پھر توکیوں دو مختلف طریقوں پر ان کو استعمال کیا گیا ہے؟ غرض جب اللہ تعالیٰ نے اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہا تو پہلا مطالبہ یہ کیا کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو یومِ آخر پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ لوگ جو الکتاب پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ لوگ جو انبیاء پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو کتب سماوی پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اسی طرح غیب پر ایمان لانا اور اسی طرح آخرت پر ایمان لانا اسی طرح بِآیات اللّٰہ ایمان لانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے۔ پس اٰمَنُوْا میں یہ ساری چیزیں آ جائیں گی۔
اب جو چیزمیرے نزدیک سمجھنی اور یاد رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محض زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے یہ کافی نہیں ہے یا محض یہ کہہ دینا کہ ہم یومِ آخر پر ایمان لاتے ہیں یا آخرت پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ ہم تمام رُسل پر ایمان لاتے ہیں کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ ہم اُن تمام رُسل پر جو اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم ایمان لاتے ہیں(یعنی صرف زبان کا اقرار) یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ قرآن عظیم پر ہم ایمان رکھتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ غیب پر ہم ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ آیات اللہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں کافی نہیں ہے تو پھر کیا تقاضا ہم سے کیا گیا ہے؟مطالبہ ہم سے کیا ہے؟ یہ سوال ہوتا ہے مَیں نے بتایا ہے کہ محض زبان کا اقرار کافی نہیں اللہ پر ایمان تب مقبول ہوتا ہے جب اللہ پر ہم وہ ایمان لائیں جس کا قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ وہ ہے۔ اللہ وہ ہے ۔ اگر ہم اللہ کو ایک ایسی ہستی سمجھیں کہ ساری احتیاجیں اور ضرورتیں صرف اس تک لے کر جانی چاہئیں جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے تو یہ کافی ہو جائے گا، ایک حصہ اس کا، لیکن اگر ہم کہیں تو یہ کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ضرورت کے وقت ہم قبر کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی صاحبِ اقتدار کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی مالدار کی طرف دوڑیں۔ ضرورت کے وقت ہم کسی ہوشیار سازشی آدمی کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی سفارش کی طرف دوڑیں۔ ضرورت کے وقت ہم رشوت کی طرف دوڑیں اور اس کے ساتھ یہ کہیں کہ ہم اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جسے قرآن کریم نے غنی کہا کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور سارے اس کے محتاج ہیں اور جس کو صَمَدْ کہا ہے تو یہ دعویٰ غلط ہو گا پس ایمان باللہ کا کیا مفہوم ہے؟ قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہمیں پتہ لگنا چاہئے ورنہ محض یہ کہنا کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں محض یہ کہنا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ یہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جس شخص نے یہ کہا کہ اللہ ایک ہے وہ جنت میں چلا گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ اگر مار گولیتھ یا کسی اور مستشرق معاندِ اسلام نے کتاب پڑھتے ہوئے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہکہہ دیا تو وہ جنت میں چلا گیا بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو شخص یہ گواہی دیتا ہے اپنے دل سے بھی اوراپنی زبان سے بھی اور جوارح سے بھی کہ میَں اس اللہ کو اس طور پر مانتا ہوں جس طور پر اور جس طریقے پر اللہ کو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے تو جنت میں چلا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر وہ جنت ہی میں گیا کیونکہ پھر تو اس کی اپنی زندگی کوئی نہ رہی پھر تو اللہ کے دَر پر بیٹھا اور اپنا سب کچھ دُنیوی اموال بھی اور اپنا نفس بھی اس کے حضور پیش کر دیا اور وہ خالی ہاتھ ہو گیا اور اس نے اپنے رب کو کہا کہ اے خدا! تیری رضا کے لئے مَیں اپنا سب کچھ چھوڑتا ہوں اور تُومیری رُوح کو اپنی محبت اور پیار سے بھر دے۔ پھر وہ اللہ کو ماننے والا بھی ہوا اور اُسی کے لئے’’اَعْظَمُ دَرَجَۃً‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
محض یہ کہنا کہ ہم آخرت پر ایمان لائے ہیں کافی نہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آخرت کا کیا مفہوم قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری ہے محض یہ کہہ دینا کہ ہم رُسل پر ایمان لائے ہیں یہ کافی نہیں ہے کیونکہ بے چارے معصوم رُسل تو ایسے بھی تھے جن پر ہر قسم کی تہمت ان کے اپنے ماننے والوں نے لگا دی پس ان اشیاء پر، ان تہمتوں پر، ان الزاموں پر، اس افتراء پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ رُسل پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن نے ہمارے سامنے رکھا ہے ان کی وحی پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اس معنے میں ضروری ہے اور اس مقامِ ارفع پر ایمان لانا ضروری ہے جو مقام کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بتایا ہے۔ خود قرآن عظیم پر وہ ایمان لانا ضروری ہے جو خود قرآن کہتا ہے کہ مجھ پر اس طرح ایمان لاؤ محض یہ کہہ دینا کہ ہم قرآن کریم پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے ہم امریکہ جائیں گے تو یہ قرآن کریم پر ایمان کوئی نہیں کیونکہ اگر قرآن کریم پر وہ ایمان ہو جو قرآن کریم کہتا ہے مجھ پر رکھو، جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن کریم پر رکھو تو پھر یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور وہی حقیقی ایمان ہے۔
قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے۔ اگر ہماری زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کو سُلجھانے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی بجائے امریکہ یا رُوس کے پاس جانا پڑے تو ہمیں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے یوں زبان سے نہیں کہیں گے لیکن عملاً ہم یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ (نعوذ باللہ) قرآنِ کریم کامل نہیں، ناقص ہے اور اس نقص کو دُور کرنے کے لئے قرآن عظیم کو چھوڑ کر ہمیں امریکہ جانا پڑا یا روس جانا پڑا۔
پس قرآنِ عظیم پر محض زبانی ایمان کافی نہیں اس رنگ میں اور اس طور پر ایمان لانا ضروری ہے جو خود قرآنِ عظیم نے کہا ہے کہ اس طرح مجھ پر ایمان لاؤ یہی حال ایمان بالآیات اور ایمان بالغیب کا ہے پس جہاں جہاں بھی ایمان ’’بِالْ‘‘ کا سوال ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فلاںپر ایمان لاؤ وہ ہمیں خود قرآن کریم سے تلاش کرنا پڑے گا کہ کس معنے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایمان لاؤ۔
آج میں مختصر ہی خطبہ کرنا چاہتا ہوں اسی تمہید پر ختم کروں گا میرا ارداہ ہے کہ ایمان کی جو تفاصیل ہیں کہ اللہ پر ایمان لاؤ، رُسل پر ایمان لاؤ،غیب پر ایمان لائو اور پھر ان پر جو وحی ہوئی ہے اس پر ایمان لائو، حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ، قرآنِ عظیم پر ایمان لاؤ، انہیں واضح کروں۔
لفظ ’’ایمان‘‘ جب عام ہو بغیر صلے کے وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ قرآنِ کریم سے نکال کر دیکھا جائے کہ ان سارے ایمانوں کے کیا معنے ہیں تاکہ ہمارے ایمان میں تازگی اور ہماری رُوح میں بشاشت پیدا ہو۔
پس انشاء اللہ میں ایمان باللہ سے شروع کروں گا کیونکہ وہی مرکزی نقطہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ کے لفظ کے اس مفہوم کو سمجھنے کی (جس مفہوم اور معنے میں قرآنِ کریم نے اللہ کے لفظ کو استعمال کیاہے) ایک کنجی اور مفتاح بھی ہمیں دے دی ہے اور یہ ایسی ُکنجی ہے جس سے اَور بہت سے مضامین بھی کُھل جاتے ہیں۔
میرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ جب قرآن کریم کوئی اصطلاح یا کوئی لفظ استعمال کرے تو خود قرآن کریم میں دیکھو کہ وہ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے پس اللہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو شروع سے آخر تک دیکھنا پڑتا ہے کہ اللہ جو اسم ذات باری ہے قرآن کریم کس مفہوم میں اس لفظ کو، اس اصطلاح کو استعمال کرتا ہے یعنی کون سی صفات ہیں جن سے قرآن کریم اللہ کو متّصف کرتا ہے (غرض مختصر ہی مجھے کہنا پڑے گا) یہ مضمون بڑا لمبا ہے لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ ایمان کے سارے حصوں کو لے کریہ بتاؤں کہ قرآن کریم نے ان کو کن معنوں میں استعمال کیا ہے اور ہم سے قرآن کریم کیا مطالبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے جب وہ یہ کہے کہ ایمان باللہ ہونا چاہئے تو کیا مراد ہے؟ جب وہ یہ کہے کہ ایمان بمحمد صلے اللہ علیہ وسلم ہونا چاہئے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ کہے کہ ایمان بالقرآن ہونا چاہئے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ فرماتا ہے کہ ایمان بالآخرہ ہونا چاہئے تو کیا مراد ہے۔ خود قرآن کریم ہمیں بتائے گا کہ کیا مراد ہے جب وہ ایمان بیوم آخرہو تو اس سے کیا مراد ہے؟ ایمان بآیات اللّٰہ سے کیا مراد ہے؟ جہاں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد مَیں بتاؤں گا کہ ایمان آگے دو شاخوں میں کس طرح تقسیم ہوتا ہے۔ ایک ہجرت جس کے انعام کا ذکر یہاں قرآن کریم نے رضوان سے کیا ہے اور دوسری شاخ مجاہدہ ہے جس کاانعام’’جنّتِ نعیم‘‘میں بیان کیا گیا ہے یہ دونوں دراصل خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے ہیں اور دونوں کا تعلق جزا کے لحاظ سے رحمت کے ساتھ اور مطالباتِ الہٰیہ کے پورا کرنے کے لحاظ سے ایمان کے ساتھ ہے۔
پس ایمان ہو اس کے تقاضے پورے کئے جائیں جب اس کے تقاضے پورے کرنے کا سوال پیدا ہو تو وہ اصولی طور پر دو قسم کے تقاضے ہیں ایک کو ہم ہجرت کہتے ہیں ایک کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں اور جب ایمان ہو گا اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول دو شکلوں میں ہو گا ایک رضوان کی شکل میں اور ایک جنّتِ نعیم کی شکل میں۔ پس یہ مفہوم ان مختصر سی آیات میں بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ سے اس کے اس مضمون کو انشاء اللّٰہ تفصیل سے بیان کروں گا۔ وَمَا تَوفِیقِی اِلَّا ِباللّٰہِ۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ ہمارا ملک اِس وقت ایک نازک دَور میں سے گزر رہا ہے مارشل لاء لگا ہوا ہے اور مارشل لاء نے عوام کو یہ کہا ہے کہ اپنی مرضی سے انتخاب کرو جس میں کوئی دباؤ نہ ہو یا کوئی لالچ نہ ہو اور منتخب نمائندے پھر اس ملک کا دستور بنائیں پھر اس کے مطابق یہاں کی حکومت قائم ہو۔ غرض بہت ہی اچھا کام ہے جو اس مارشل لاء نے کیا لیکن بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے پاکستانی شہری پر اور پاکستانی شہریوں کی اکثریت چونکہ باوجود عقل اور ذہانت رکھنے کے زیادہ پڑھی لکھی نہیں اور مظلوم ہونے کی وجہ سے بیچاروں کے پاس بہت سے ایسے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ صحیح حالات کا پتہ لے سکیں اس لئے جو مختلف نعرے لگائے جاتے ہیں اُن سے کوئی دماغ کسی نعرہ سے مرعوب ہو جاتا ہے کوئی دوسرا دماغ کسی دوسرے نعرہ سے مرعوب ہو جاتا ہے اور حکومت جو آگے قائم ہونے والی ہے اور پاکستان ہمارا ملک جو ہے اور پاکستانی ہمارے شہری جو ہیں ان کے متعلق کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کس جہت کی طرف ان کی سیاسی حرکت ہو گی۔چونکہ ہر حرکت اور ہر سکون اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء سے ہی ہوتا ہے اس لئے ہم سب احمدیوں کو اپنے رب کے حضور عاجزانہ جُھک کر اس سے یہ دُعا کرنی چاہئے کہ اے ہمارے رب! ہمارے ملک اور ہماری قوم پر رحم کر اور ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر اور ان کو وہ راہ دکھا جو ایک شاند ار اور پُر امن اور تیرا اطاعت گزار ملک بننے کی راہ ہو۔ تیری رضا کو بھی وہ حاصل کریں اور اس دُنیا میں جو نعمتیں اپنے فضل سے تُو نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں اُن نعمتوں سے سارے کے سارے مِل جُل کر زیادہ سے زیادہ فائدے اُٹھانے والے ہوں اور تیری حمد کرنے والے ہوں پس یہ دُعائیں آجکل بڑی کثرت سے کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے۔آمین (روزنامہ الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۶)











ہمیں چوکس اور بیدار رہ کر اپنے وعدوں کو پورا کرنا
اور بجٹ کے مطابق مالی جہاد میں حصہ لینا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۷؍ فروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گو پہلے سے تو افاقہ ہے لیکن ابھی تک میری طبیعت خراب چلی جا رہی ہے۔ ضعف کی شکایت دُور نہیں ہو چکتی دوست دُعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور کامل صحت عطا کرے تا پوری توجہ سے کام کئے جا سکیں۔
اس وقت مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت کا مالی سال ختم ہونے والا ہے۔ چند مہینے باقی رہ گئے ہیں اس لئے جماعتیں اس طرف پُوری اور فوری توجہ دیں اور آمد و خرچ کا جو بجٹ سالِ رواں کے لئے جماعت کے مشورہ سے شوریٰ میں پاس ہوا تھا اس کے مطابق آمد ہو تاکہ اسی کے مطابق پھر خرچ بھی کیا جا سکے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی اس کی راہ میں اموال خرچ کرنے کی توفیق پاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مالی جہاد میں جو ہم حصہ لیتے ہیں تو اس میں کوئی نفسانی غرض شامل نہیں ہے صرف اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اموال کا ایک حصّہ کاٹ کر رکھتے ہیں تااس کی توحید دُنیا میں قائم ہو، تا حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گڑ جائے اور اپنے محسنِ اعظم کو یہ دُنیا پہچاننے لگے اور یہ فریضہ آج صرف جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے جیسا کہ آج کی دُنیا اس پر شاہد ہے۔
پس اس عظیم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اس لئے کہ تاہم اس کے بدلہ میں اُن عظیم الشان بشارتوں کے بھی وارث بنیں جو بشارتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی گئی ہیں۔ ہمیں ہر آن چوکس اور بیدار رہ کر باقاعدگی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے اور اپنے بجٹ کے مطابق مالی جہاد کے نتائج نکالنے چاہئیں جہاں ہم اپنے اوقات کو اور اپنی عزتوں کو اور اپنے دماغوں کو اور اپنے آراموں کو اور اپنی اولادوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے اموال کو بھی اس کی راہ میں پیش کریں۔
خدا کرے کہ ہماری یہ پیشکش اس کے حضور قبول ہو اور اس کی مقررہ جزا کے ہم وارث ٹھہریں اور اس کے پیار کو ہم پائیں۔(آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶؍ مارچ ۱۹۷۰ء صفحہ۳)
ززز






ہماری جماعت کے تعلیمی اداروں کا تعلیمی، تربیتی
اور اخلاقی معیار بہت بلند ہونا چاہئیے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کے فضل سے طبیعت پہلے سے بہت اچھی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ لیکن ابھی پورا افاقہ نہیں ہوا اور کل سے نزلے کی بھی شکایت ہو گئی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے دوست دُعا سے مدد فرماویں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعتِ احمدیہ سے بنی نوع انسان کی خدمت کے جو مختلف کام لئے ہیں ان میں تعلیمی خدمت بھی شامل ہے ہماری جماعت کے تعلیمی ادارے تین قسموں میں منقسم ہوتے ہیں ایک تو وہ تعلیمی ادارے ہیں جو پاکستان سے باہر کام کر رہے ہیں دوسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں جو ربوہ سے باہر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور تیسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں جو ربوہ میں کام کر رہے ہیں۔ بیرونِ پاکستان تعلیمی ادارے جو باقاعدہ ادارے کی شکل میں کام کر رہے ہیں وہ زیادہ تر افریقہ کے ممالک میں ہیں یہ ممالک کئی صدیوں سے سیاسی حالات اور بعض دیگر وجوہ کی بناء پر تعلیم میں بڑے پیچھے تھے خصوصاً ان ممالک کی مسلمان آبادیاں تو تعلیم میں بہت ہی پیچھے تھیں اُس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن کو اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ کیا کہ ان ممالک کی تعلیمی خدمت بھی کرنی چاہئے چنانچہ مختلف ممالک میں مختلف معیار کے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ چھوٹے سکول بھی ہیں بڑے بھی ہیں کئی سیکنڈری سکول بھی ہیں۔ ایک ایک ملک میں ہمارے بیسیوں سکول بھی کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے اس خدمت کو قبول کر کے اس کے بڑے اچھے نتائج پیدا کئے ہیں اور بعض جگہ اگرچہ حکومت تو عیسائیوں کی ہے لیکن وہ عیسائی حکومتیں بھی جماعتِ احمدیہ کی تعلیمی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور بڑی ممنون ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کو تو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچاہے وہاں جو اساتذہ کام کر رہے ہیں اُن میں پاکستانی بھی ہیں اور مقامی بھی ہیں پاکستان سے جو اساتذہ کام کے لئے وہاں گئے ہیں (اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ) بڑے اخلاص سے کام کرنے والے، بڑی محبت سے کام کرنے والے اور اپنی اس ذمّہ داری کو سمجھنے والے ہیں کہ ہم استاد ہیں اور اسلام نے استاد کا ایک مقام قائم کیا ہے اُسے ایک عزت عطا کی ہے اور اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں یہ سب ان کے سامنے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نباہتے اور اپنے رب اور اس کی مخلوق کی نگاہ میں عزت کو حاصل کرتے ہیں بعض استثناء ہیں لیکن استثناء پر حکم نہیں لگایا جاتا۔ بڑی بھاری اکثریت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی اور ان کو ادا کر رہی ہے وہاں جو مقامی اساتذہ ہیں وہ بھی اچھا کام کرنے والے ہیں ان کے دل میں بھی احساس بیدار ہے کہ ہماری قومیں دُنیا کے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دی گئی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو تعلیم کے میدان میںتو دوسروں کے پہلو بہ پہلو لے جا کر کھڑا کر دیں۔
کچھ ہمارے تعلیمی ادارے پاکستان میں ہیں اور ربوہ سے باہر ہیں۔ ان کے متعلق مختلف اوقات میں مختلف رپورٹیں آتی رہتی ہیں بعض اچھا کام کر رہے ہیں بعض ایک وقت تک اچھا کام کرتے رہتے ہیں پھر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے بعض ایسے بھی ہیں جو مستقل طور پر بڑا اچھا کام کر رہے ہیں ان تعلیمی اداروں کو صحیح طور پر چلانے کی آخری ذمہ داری تو مرکز پر ہے۔
باہر کے جو تعلیمی ادارے ہیں ان کی ذمہ داری بھی مرکز پر ہے تحریک جدید سے ان کا تعلق ہے۔
تحریک جدید کا نظام کبھی غلطی بھی کر جاتا ہے لیکن عام طور پر وہ محنت اور توجہ اور ہوش کے ساتھ اور بیداری کے ساتھ اس عام نگرانی اور اساتذہ کے انتخاب وغیرہ کے متعلق جو ذمہ داری ہے اس کو نباہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔
جو پاکستان کے تعلیمی ادارے ہیں ربوہ سے باہر یا ربوہ میں قائم ہیں ان کی ذمہ داری نظارت تعلیم پر ہے۔ ربوہ سے باہر کے جو سکول ہیں یا تعلیمی ادارے ہیں میرے نزدیک ان کی عام نگرانی اس طرح پر نہیں ہو رہی جس طرح ہونی چاہئے ہم نے اگر سکول کھولنا ہو تو وہ ہمارے معیار کے مطابق ہونا چاہئے ورنہ وہ ہماری بدنامی کا موجب ہے۔ دُنیا کے معیار کے مطابق نہیں۔ہمارے سکول ہمارے معیار کے مطابق ہونے چاہئیں ہمارا ہر کام ہمارے (یعنی اسلام اور احمدیت) کے معیار کے مطابق ہونا چاہئے یہ بھی ہمارا ایک کام ہے ان ہزاروں کاموں میں سے جن کے کرنے کی ہم اپنے رب سے توفیق پاتے ہیں لیکن ربوہ سے باہر بہت سے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہیں اور یہ قابل شرم بھی ہے اور قابل فکر بھی ہے جو ہمارا سکول ہے وہ ہمارے معیار کے مطابق ہونا چاہئے اور اس میں اور غیر میں نمایاں فرق ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ اگر ہم اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے تو وہ ہم میں اور غیروں میں ایک فرقان اور ایک امتیاز کو قائم کرے گا۔ یہ امتیاز (ایک فدائی، عبدِرحمن اور ایک ایسے شخص کے درمیان جس کے اندر ایثار اور فدائیت کا جذبہ اور اسلام کی روح نہیں) یہ فرق جو ہے یہ قد کے لحاظ سے یا رنگ کے لحاظ سے یا ناک نقشے کے لحاظ سے نہیں یہ تو اس نور کے لحاظ سے ہے جو ایک باعمل حقیقی اور سچا مسلمان حاصل کرتا ہے اور جو دوسرے کو نہیں ملتا۔ وہ نور مَابِہِ الْاِمْتِیَازْ بنتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق، ایک انہماک ، ایک فدائیت کہ جو کام بھی ہم نے کرنا ہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کرنا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نماز تو پڑھیں گے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اور روٹی کھائیں گے کسی اور کو راضی کرنے کے لئے اگر کسی اور کو راضی کرنا ہو تو کمانے پر جتنی اسلامی پابندیاں ہیں پھر تو انسان انہیں چھوڑ دے کیونکہ اسی کے نتیجہ میں روٹی ملتی ہے۔
ایک احمدی مسلمان نے نماز بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قائم کرنی ہے اور ایک احمدی مسلمان نے اپنے یا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ڈالنا ہے اگر ایسا نہیں تو اس شخص نے احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح نہیں حاصل کی اور نہ اسلام کو پہچانا ہے نہ ان مطالبات اور ذمہ داریوں کا احساس اس کے دماغ میں بیدار ہوا ہے جو اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔
پس ہمارا کام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہے خواہ وہ تہجد کی نماز ہو خواہ وہ گھٹیالیاں کا انٹر میڈیٹ کالج ہو یا کہیں پرائمری سکول ہو خواہ وہ بچوں کی قاعدہ پڑھانے والی کلاس ہو یا خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا تربیتی کورس ہو یا یہاں جو قرآن کریم کی کلاس ہوتی ہے وہ ہو چاہے دھوبی کو کپڑے دینے کا کام ہو یا درزی سے کپڑے سلوانے کا کام ہو سب کام ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنے ہیں اگر ہم درزی کو کپڑے سینے کے لئے اس لئے دیتے ہیں کہ اپنے لباس کی نمائش مطلوب ہے تو خداتعالیٰ کا غضب تو ہمیں مل سکتا ہے اس کی رضا نہیں مل سکتی لیکن اگر ہم درزی سے کپڑے اس نیت سے سلواتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے اے مومنو! تمہارے لئے ان چیزوں کو پیدا کیا۔ اسراف سے بچتے ہوئے افراط و تفریط ہر دو پہلوؤں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ان چیزوں کو استعمال کرو میں تمہیں جہاں باطنی حسن دینا چاہتا ہوں وہاں میں تمہیں ظاہری حسن بھی دینا چاہتا ہوں اپنے لباس کو اس نیت سے بنوائو اور پہنو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عطا ہے ہم اس کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ لباس بنواتے ہیں۔ ایک شخص دھوبی کو کپڑے عادتاً دیتا ہے ایک دوسرا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے رب کو نجاست اور گندگی اور میل کچیل پسند نہیں ہے میں اپنے کپڑوں کو صاف رکھوں گا۔ اس نیت کے ساتھ دھوبی کو کپڑے دیتا ہے چنانچہ وہ صاف کپڑے بھی پہن لیتا ہے اور فرشتوں کی دعائیں بھی اسے حاصل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اسے مل جاتی ہے۔
غرض ایک احمدی کا ہر کام اسلام کے معیار پر پورا اترنا چاہئے ورنہ اس کام کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں مل سکتی۔ پس جو تعلیمی ادارے ربوہ سے باہر ہیں ان کی بھی بڑی سختی سے نگرانی ہونی چاہئے۔ تعلیم کے لحاظ سے بھی اور تربیت کے لحاظ سے بھی ہمارے تعلیمی ادارے اور کسی اور کے تعلیمی ادارے میں نمایاں فرق ہونا چاہئے ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوں گے۔ پھر سب سے زیادہ توجہ ہمیں ان تعلیمی اداروں کی طرف کرنی چاہئے جو ربوہ میں قائم ہیں۔ ان کی مرکزی حیثیت ہے بہت سے دوست کافی مالی بوجھ برداشت کر کے اور تکالیف اُٹھا کر اپنے بچوں کو ربوہ میں تعلیم کے لئے بھجواتے ہیں۔ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول اور اس مرکز کے لئے جو غلبہ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے محبت اور پیار ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اس دینی ماحول میں پرورش اور تعلیم دلوائیں یہاں وہ اپنے بچے بھیج دیتے ہیں اور خود تکالیف اُٹھاتے ہیں ایسے بیسیوں خاندان ہیں جو بیوی بچوں کو یہاں بھجوا دیتے ہیں اور خود تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔ گھر کا ماحول انہیں میسر نہیں ہوتا یعنی نہ بیوی پاس ہے نہ بچے پاس ہیں لیکن وہ ان تکالیف کو اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے صحیح ماحول میں تربیت اور تعلیم حاصل کریں لیکن مجھے افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ یہاں بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جو ہمارے تعلیمی اداروں کو ایک کلب سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے وہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً کالج میں گئے، بیٹھے باتیں کیں اور ایک دوسرے کو ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنایا اور اس طرح اپنا وقت ضائع کیا اور گھروں کو آگئے اور ہر مہینے کے شروع میں پچھلے مہینے کی تنخواہ وصول کی۔ کوئی احساس ہی نہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ یہاں بعض ایسے داغ ہیں کہ احمدیت کا معیار تو کیا انسانیت کا معیار بھی انہیں حاصل نہیں ہے اور نظارت تعلیم کو اس بات کی کوئی فکر نہیں اگر کوئی شخص وہ ذمہ داری اُٹھانا نہیں چاہتا جو اسلام اس کے کندھوں پر ڈالتا ہے تو کس نے اسے مجبور کیا ہے کہ وہ ہمارے پاس رہے اور ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ہم اسے اپنے پاس رکھیں یا تو ایسے اساتذہ تعلیم اور تربیت کی طرف پوری توجہ دیں اور یا وہ کہیں اور چلے جائیں۔ کون ان کو یہاں روکتا ہے لیکن اگر انہوں نے مرکز میں رہ کر اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے خود کو پیش کیا ہے تو انہیں یہ ذمہ داری نباہنی پڑے گی اگر وہ نہیں نباہیں گے تو ہم ان کو باہر بھیج دیں گے۔ کہیں اور جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو پیدا کیا ہے اس کے رزق کا تو وہ ذمہ وار ہے میں یا آپ اس کے ذمہ وار نہیں ہیں لیکن جو ذمہ واری مجھ پر اور آپ(اہلِ ربوہ) پر ہے یہ ہے کہ ہم اپنے ماحول کو علمی لحاظ سے بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی اور تربیتی لحاظ سے بھی اس طرح صاف اور پاک رکھیں کہ ہماری آئندہ نسل اس میں اس رنگ کی تربیت حاصل کرے اور وہ رنگ ان کے اوپر چڑھ جائے کہ جو اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔
پس یہاں کے جو ادارے ہیں انہیں آج میں تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں مثلاً تعلیم الاسلام کالج ہے اس کا تعلیمی معیار بھی گِر گیا ہے اور اخلاقی معیار بھی وہ نہیں رہا جو ہونا چاہئے۔دیر کی بات ہے کالج کے ایک طالب علم کے متعلق ایک محلہ میں شکایت پیدا ہوئی سارا محلہ اکٹھا ہو کر اس کو میرے پاس پکڑ لایا۔ مَیں اس زمانے میں پرنسپل تھا مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بیدار جماعت ہے محلے میں ذرا سی غلط بات جو ہوئی ہے تو انہوں نے اس کو برداشت نہیں کیا چنانچہ میں نے سب کے سامنے اس بچے کو بہت سخت سزا دی اس طرح محلے والوں کو بھی یہ تسلی ہو گئی کہ ہماری فضا کو پاک رکھا جائے گا اور سارے ربوہ میں بھی پتہ لگ گیا کہ ایسی حرکت برداشت نہیں کی جاتی۔
نوجوانی کی عمر میںبچے حماقت کرتے ہیں ان کو یہ پتہ لگ گیا کہ یہاں حماقت سے نہیں عقل اور ہوشمندی سے زندگی گزاری جا سکتی ہے حماقتیں جو ہیں ان کا محاسبہ ہو گا جب تک اس قسم کی فضا نہ پیدا کی جائے کہ ہم گندگی کو اور بداخلاقی کو خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو برداشت نہیں کریں گے(اور بد اخلاقی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے بغیر کوئی اور خُلق اپنانا یا پسند کرنا یا اپنے ماحول میں پیدا کرنا یا برداشت کرنا) اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے اس کی اس مخلوق میں ظاہر ہو رہے ہیں وہی جلوے اس کے بندوں میں اور ان بندوں کے ذریعہ دوسرں میں ظاہر ہونے چاہئیں۔ پس اگر ہر ایک کو یہ پتہ ہو کہ یہاں وہ خُلق پسندیدہ نہیں سمجھا جائے گا اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے خُلق سے مختلف اور اس کی ضد ہے تو کتنا بیوقوف کوئی نوجوان ہو اس کا دماغ بڑی جلدی اس چیز کو سمجھ لے گا اور پھر کوئی شکایت نہیں پیدا ہو گی۔
ایک دفعہ کالج کی بات ہے باہر کسی کالج میں(یعنی ہمارا احمدیوں کا کالج نہیں)لڑائی ہوئی پستول چلے کچھ مارے گئے لڑکے گھبرائے کہ جو دشمن ہیں جب ان کو موقع ملا تو وہ ہمارے اوپر اسی طرح وار کریں گے اس قسم کا ایک طالب علم آگیاکہ میںنے Migration (مائیگریشن) کروانی ہے مَیں آپ کے کالج میں آنا چاہتا ہوں مجھے چونکہ اس سارے واقعہ کا پہلے سے علم ہو چکا تھا۔ مَیں نے اس کو بٹھا کر سمجھایا میں نے کہا دیکھو اگر تم نے ہمارے پاس فائدہ اُٹھانے کے لئے آنا ہے تو بڑی خوشی سے آؤ۔ ہم تمہارا خیال بھی رکھیں گے پڑھانے کی بھی کوشش کریں گے تربیت کرنے کی بھی کوشش کریں گے لیکن اگر تم نے ہم سے سزا لینے کے لئے یہاں آنا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ کسی اور جگہ چلے جاؤ کیونکہ دوسرے کالجوں کی طرح یہ کالج نہیں کیونکہ جب تم غلطی کرو گے بڑی سخت گرفت ہو گی اور کسی ایک لڑکے پر جھوٹا رحم کر کے بیسیوں لڑکوں کے اخلاق کو تباہ نہیں کیا جائے گا وہ کہنے لگا مجھے علم ہے کہ اس کالج کا یہی ماحول ہے آپ تسلی رکھیں میں جب تک یہاں ہوں کوئی شکایت پیدا نہیں ہونے دوں گا چنانچہ وہ سال ڈیڑھ سال تک رہا اور کبھی اس نے ذرا سا بھی موقع نہیں دیا سر اُٹھا کر بات نہیں کرتا تھا اس کو پتہ تھا کہ یہ ماحول ایسا ہے کہ اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے اس کا فائدہ مجھے یا آپ کو اس طرح نہیں (ہمیں فائدہ تو ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کام کرتے ہیں اس کا فائدہ ہمیں ملتا ہے وہ فائدہ تو ہے) لیکن صحیح تربیت اور صحیح تعلیم اورپوری طرح ذہنی نشوونما کا پہلا اور اصل فائدہ تو اس کا ہے جس نے تعلیم حاصل کی اور تربیت پائی ہمیں اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اگر ہماری نیت ٹھیک ہو اور ہم اس کی رضا کے متلاشی اور اسی پر توکل کرتے ہوں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کام کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ جو نوجوان ہیں وہ اپنی تعلیم میں اچھے نکلیں ان کے اچھے اخلاق ہوں وہ دُنیا میں نام پیدا کریں وہ دُنیا بھی کمائیں اور اپنے خاندان کا اور اپنے ملک کا نام بھی روشن کریں۔
پچھلے سال ہمارے کالج کا (جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے) نتیجہ بہت خراب نکلا تھا اس سال خراب نہیں نکلنا چاہئے اس لئے جو منتظم ہیں یا اُستاد ہیں اُن کو چاہئے کہ (امتحان قریب آرہے ہیں) ابھی سے ایسا انتظام کریں کہ کیفیت اور کمیت ہر دو لحاظ سے ہمارے نتیجے ویسے نکلیں جیسے نکلنے چاہئیں۔ کسی وقت تو تیس چالیس کالجوں میں سے اُوپر کے دس پندرہ لڑکوں میں سے پانچ سات ہمارے کالج کے بھی ہو جایا کرتے تھے یہ صحیح ہے کہ کبھی نسبتاً اچھے لڑکے داخل ہوتے ہیں کسی سال نسبتاً کمزور داخل ہوتے ہیں یہ چکر تو ساتھ لگا ہوا ہے لیکن کبھی پری انجینئرنگ میں، کبھی پری میڈیکل میں، کبھی ایف اے میں، کبھی بی ایس سی میں کوئی نہ کوئی گروہ یا ایک سے زیادہ گر وہ اتنے نمایاں طور پر اچھا نتیجہ نکالتے تھے کہ دُنیا حیران ہو جاتی تھی۔
غالباً ۱۹۶۱ء۔۱۹۶۰ء کی بات ہے مارشل لاء کی طرف سے اس وقت بھی میڈیکل کالج میں ایڈمنسٹریٹر مقرر تھے۔ چنانچہ داخلے کے وقت ایک ایسے شخص ایڈمنسٹریٹر تھے جن کو ہمارے کالج کا زیادہ پتہ نہیں تھا وہ نمبروں کے لحاظ سے انٹرویو لے رہے تھے۔ پہلا لڑکا جو آیا تو انہوں نے دیکھا کہ تعلیم الاسلام کالج کا ہے جانتے نہیں تھے خیال نہیں کیا، کہ ہو گا کوئی کالج، فرسٹ آگیا ہے لڑکا جب تیسرا لڑکا آیا تو وہ بھی تعلیم الاسلام کالج کا پھر زیادہ توجہ ہوئی لیکن کہاکچھ نہیں پھر غالباً چوتھا لڑکا آیا وہ بھی تعلیم الاسلام کالج کا پھر ان سے رہا نہیں گیا اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے یہ کونسا کالج ہے جس کے اتنے اچھے نتیجے نکلے ہیں مجھے نہیں پتہ؟ خیر انہوں نے بتایا کہ یہ کونسا کالج ہے غرض پہلے پندرہ میں سے چھ یا سات لڑکے ہمارے کالج کے تھے اسی طرح کبھی انجینئرنگ کے ساتھ ہو جاتا کبھی بی ایس سی کے ساتھ ہو جاتا تھا اور یونیورسٹی کی فیصد سے کہیں زیادہ فیصد نتیجے نکلا کرتے تھے لیکن پچھلے سال تو یونیورسٹی کی فیصد( جو خود بڑی کم ہے اور گندے کالجوں کی وجہ سے ہی اس کی فیصد گر جاتی ہے) اس سے بھی کم۔
پس یہ بڑی شرم کی بات ہے اب ایک دفعہ تو ہو گیا کیونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہاں ہمارے اساتذہ اتنے بھی گر جائیں گے لیکن اب تو پتہ لگ گیا ہے اس لئے اپنے آپ کو درست کریں اپنے کام کی طرف توجہ دیں اور دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت اور خدمت کو قبول کرے اور نتائج اچھے نکالے۔اگر آپ نہ محنت کریں نہ توجہ دیں نہ ذمہ داریوں کو نباہیں نہ مقبول دُعائیں آپ کی قسمت میں ہوں تو پھر تو ہمیں پتہ لگے گا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ آپ پر گرفت کی جائے( خدا تعالیٰ اپنی گرفت سے ہر ایک کو محفوظ رکھے) لیکن جو میری ذمہ داری ہے وہ میں آج نباہ رہا ہوں اور میں ساری جماعت کے سامنے اساتذہ کو اور استانیوں کو اگرچہ استانیاں تو نسبتاً اچھی ہیں پچھلے سال انہوں نے بہت اچھے نتائج نکالے۔ مردوں کے لئے شرم کی بات تھی کہ لڑکیاں اتنی آگے نکل گئیں لڑکوں سے اور اُستانیاں اتنی آگے نکل گئیں اساتذہ سے لیکن بہرحال ان (اُستانیوں) کو بھی اپنا معیار جو اگرچہ خوشکن ہے اس سے بھی بلند کرنا چاہئے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ سوائے حادثہ کے سو فیصدی نتیجہ نکلنا چاہئے۔ حادثات اس زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ حادثے کے علاوہ اگر سو فیصد نتیجہ نہیں تو پھر وہ صحیح محنت نہیں ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی طالب علم فیل ہو اگر کوئی ایسا طالب علم ہے جو پڑھنے کے قابل ہی نہیں تو آپ اس کے ماں باپ کا روپیہ کیوں ضائع کروا رہے ہیں؟ اس کو یہاں سے فارغ کر دیں اس مشورہ کے ساتھ کہ پڑھنے کی بجائے کوئی اور کام کرو لیکن جس کے متعلق آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ اس قابل ہے کہ پڑھے اور پاس ہو وہ اگر پاس نہ ہو تو آپ کا فعل آپ کے قول کے خلاف ہوگا اور جماعت آپ سے گرفت کرے گی۔
تعلیم الاسلام ہائی سکول اور زنانہ سکول اور کالج تعلیم اور نتائج کے لحاظ سے شاید اتنے بُرے نہیں لیکن تربیت کے لحاظ سے انہیں بھی اور توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ صحیح ہے کہ ربوہ کا ماحول خداتعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہم اس ماحول میں یا اس ماحول کے روشن اور منور چہرہ پر سیاہی کا ایک باریک نقطہ بھی برداشت نہیں کر سکتے اگر ایک آدمی یا ایک بچہ بھی ایسا ہے جس کی صحیح تربیت نہیں تو ہمیں غصہ بھی آئے گا ہمیں فکر بھی پیدا ہوگی ہم اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اصلاح کے لئے کارروائی بھی کریں گے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ یہاں ایک اور ایسی دم بھی لگ گئی ہے کہ بعض دفعہ وہ بھی فکر پیدا کرتی ہے اور وہ وہ پرائیویٹ طلباء ہیں جو تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوتے لیکن یہاں وہ یا تو اساتذہ کی ٹیوشن لیتے ہیں یا ان کو کوئی اور سہولت ہوتی ہے اور کالج کے ڈسپلن اور ضبط سے بھی وہ باہر ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ خدام الاحمدیہ سے بھی چھپے رہتے ہیں اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی۔
ابھی چند دن ہوئے ایک شخص کا دعا کے لئے میرے پاس خط آیا اور اس نے اپنا جو پتہ درج کیا تھا (یہیں ربوہ کا رہنے والا ہے) وہ غلط تھا اور اس میں چالاکی کی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھ دی ہے پھر اللہ تعالیٰ تو اس طرح بھی فضل کرتا ہے کہ اسی دن مغرب کے بعد اس شخص کے متعلق مجھے رپورٹ ملی کہ یہ فلاں جگہ رہتا ہے اور یہ اس کے حالات ہیں اور عشاء کے بعد جب میں اپنی ڈاک دیکھ رہا تھا تو اس میں اسی کا خط اور پتہ کوئی اور لکھا ہوا تھا اور اس شخص نے اپنی طرف سے بڑی چالاکی کی ہوئی تھی کہ میں پتہ غلط لکھ رہا ہوں۔ جب میں نے پتہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایف۔اے کا پرائیویٹ امتحان دے رہا ہے پھر میں سمجھا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی تربیت کی طرف کوئی ادارہ توجہ نہیں کر رہا کالج کا یہ طالب علم نہیں ان کے ضبط و نظم سے باہر ہے اور خدام الاحمدیہ سے بھی اسی طرح چھپا پھرتا ہے کیونکہ بعض باتیں اور بھی پتہ لگ گئیں لیکن یہ تو ایک مثال تھی جس نے یہ توجہ دلائی کہ ایک سلسلہ، ایک نظیر ایسے طالب علموں کی ہے جو پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں اور اس وجہ سے کالج کے ڈسپلن اور ضبط سے بھی باہر ہیں اور دوسری تنظیموں سے بھی چھپتے رہتے ہیں۔
اس واسطے نظارت تعلیم کو یہ آرڈر دینا چاہئے کہ تعلیم الاسلام کالج کسی ایسے لڑکے کے داخلے کے فارم پر جو پرائیویٹ امتحان دے رہا ہے دستخط نہیں کرے گا جب تک یہ تسلی نہ کر لے کہ اخلاقی لحاظ سے اور تعلیمی لحاظ سے وہ لڑکا ایک خاص معیار سے نیچے نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیمی لحاظ سے شاید وہ اتنا اچھا نہ ہو بعض اچھے بھی ہوتے ہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے تو وہ بہرحال گرا ہوا نہیں ہونا چاہئے اس کے بغیر ان کو اجازت نہیں دینی چاہئے ورنہ اب میرے خیال میں اس وقت کوئی تیس چالیس لڑکے ایسے ہوں گے یا اس سے بھی زیادہ اگر لڑکے لڑکیاں ملا لی جائیں تو ساٹھ ستّر ہوں گے جو پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں کیوں دیتے ہیں؟ پس کوئی تو اُن کے اوپر نگرانی ہونی چاہئے کہ اگر انہوں نے یہاں امتحان دینا ہے یہاں کی فضا سے فائدہ اٹھانا ہے یہاں کے سنٹر کے بھی جو امتحان کے لئے بنتا ہے بڑے فائدے ہیں یہاں نہ شور ہے اور نہ ہنگامہ ہے ایک طالب علم آرام سے یہاں امتحان دے دیتا ہے۔ باہر کے سنٹرز میں ایسی پرسکون فضا نہیں ہوتی پس ہمارے کالج کو چاہئے کہ اپنا معیار اس لحاظ سے بھی قائم رکھے وہاں کی فضا، وہاں کا دیانتداری کا ماحول کہ ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے اور امتحان کے ہال میں کسی دوسری مدد کی طرف اس کا ذہن ہی نہ جائے ایسا ماحول ہونا چاہئے۔
پس یہ ساری چیزیں فوری طور پر گرفت کے اندر آنی چاہئیں نظارت تعلیم اگر اس طرف توجہ نہیں دے گی تو پھر مجھے توجہ دینی پڑے گی وہ تو طالب علموں کو اساتذہ کو سمجھائیں گے لیکن جب میں سمجھائوں گا تو مجھے ناظر تعلیم کو بھی سمجھانا پڑے گا جو میرے استاذ بھی ہیں لیکن فرض فرض ہے استاد کی عزت اپنی جگہ ہے وہ بھی ہم کریں گے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت اللہ تعالیٰ کو پیاری نہیں ہم اپنی طرف سے یہی کوشش کریں گے کہ ہمارا رب ناراض نہ ہو۔
بہرحال آج کے بعد توجہ پوری ہوجانی چاہئے نتیجہ تو جب نکلے گا اس وقت پتہ لگ جائے گا کہ کتنی توجہ دی گئی ہے لیکن اخلاقی لحاظ سے تو میرے پاس ہر روز رپورٹ آجاتی ہے چاہے یہ رپورٹ ہو کہ سب ٹھیک ہے اور چاہے یہ رپورٹ ہو کہ کسی جگہ کوئی غلطی ہے۔ رپورٹ دینے والے محکمے بھی ہیں اور افراد بھی ہیں ہم سب ایک جسم کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ میں شروع خلافت سے کہہ رہا ہوں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی کئی نادان ایسا نہیں سمجھتے اب مثلاً ڈاک ہے میں ساری ڈاک خود دیکھتا ہوں اور کئی دفعہ جن کو کسی محکمے سے کوئی شکایت پیدا ہو جائے وہ کسی کے ذریعہ خط بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خط آپ تک پہنچنے نہیں دیئے جاتے حالانکہ سارے خط میرے پاس پہنچے ہوتے ہیں اور میں نے ان کو دیکھا ہوتا ہے۔
پس یہ چیزیں جماعت پہنچانے والی ہے دوست ذرا ذرا سی بات پہنچا دیتے ہیں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی نہ رہنی چاہئے ورنہ خلیفہ اور نائب اُذْنٌ خَیْرٌ نہیں رہتا۔
غرض نیابت نبوت میں خلافت بھی کان ہے اور اس تک آوازیں پہنچتی رہتی ہیں کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی اور آخری ذمہ داری اس پر ہے اور اپنے رب سے ہر وقت سب سے زیادہ خوف کھانے والا میں سمجھتا ہوں وہی ہے کیونکہ ساری ذمہ داری جو اس پر ڈال دی بڑے استغفار اور توبہ اور دعائوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے پڑتے ہیں اور سوائے خداتعالیٰ کے خوف کے کسی کا خوف نہیں ہوتا اور سوائے خدا کی خوشنودی کے کسی اور جہت سے رضا کے حصول کی کوئی تمنا نہیں ہوتی اس واسطے اگر گرفت ہوگی تو بڑی سخت گرفت ہوگی صرف خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہوگی لیکن خدا کرے کہ ہماری آئندہ نسلوں کی جو ذمہ داری بعض احباب پر ڈالی گئی ہے وہ اس ذمہ داری کو سمجھیں اور تعلیمی اور تربیتی اور اخلاقی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور وہ سرخرو ہوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو وہ حاصل کریں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍ مارچ ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۶)
ززز









رسول اکرمؐ صفاتِ باری تعالیٰ کے مظہرِ اتم،نورِمجسّم، مُجدّدِاعظم،معلّم اعظم اورانسانیت کے محسنِ اعظم ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍ مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اس وعدہ کے مطابق کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوکوثرعطاہوگا امّتِ محمدیہ میں کروڑوں اربوں ایسے فدائی اورجاں نثار اورکامل متّبع پیدا ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق حقیقتِ محمدیہ کی معرفت عطا کی گئی تھی۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے طفیل ہم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم تجلّیاتِ روحانی مشاہدہ کیں اورہماری جماعت بھی ان خادموں اور غلاموں میں سے ہے جن پر حقیقتِ محمدیہ منکشف ہوئی اورجنہیں مقامِ محمدؐ کی معرفت عطاکی گئی اور وہ علیٰ وجہ البصیرت ان باتوں پرقائم ہیں اوّل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفاتِ باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں۔ ہربنی جو دنیا کی طرف مبعوث ہوا اورہروہ بزرگ متبع جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اورجلال کو قائم کیاوہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق مظہر صفات باری بنا لیکن وہ ایک ہی تھے یعنی حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کہ جنہوں نے پورے طور پراپنے وجود میںان صفاتِ باری کوجذب کیا اورپھر اپنے وجود سے انہیں ظاہر کیایعنی جن صفات کاتعلق اس عالمین سے ہے آپ ان کا مظہر بنے۔ ہمارے نزدیک یہی ایک وجود ہے جسے حقیقی اورکامل عرفان شیون باری عطاہوا جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ٹھہرے اورپھر اس مقامِ محمدیت سے فیوض کی جومختلف نہریں نکلتی ہیں۔ اس نورِ مجسم سے نور کے جومختلف ستون روحانی آسمانوں کی بلندیوں کی طرف اٹھتے ہیں ان کے ہی مختلف جلوے ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کی ذات میں نظر آتے ہیں اورچونکہ آپ صفاتِ باری کے مظہرِ اتم تھے اس لئے ایک طرف اللہ تعالیٰ سے آپ کا پختہ تعلق تھا اوردوسری طرف آپ کا جوتعلق اس کے بندوں سے، بنی نوع انسان سے تھا وہ بھی اتنا پختہ اوراتنا وسیع تھا اوراتنا عمیق تھا کہ ہمیں کوئی انسان اس میں آپ کا مقابلہ کرتا نظر نہیں آتا۔ بنی نوع انسان کی ہمدردی اورغم خواری ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہمیں آپ کی ذات میںنظر آتی ہے آپ نے صرف ان پر ہی نگاہ نہیں رکھی جو آپ کے گردآپ کے زمانہ میں رہتے تھے، جو پروانوں کی طرح آپ کے نور کے ساتھ لپٹے رہتے اورآپ کی محبت میں آپ کے وجود کی چمک دیکھ کر آپ کے اس روحانی وجود کے گرد طواف کرتے رہتے تھے صرف ان پر ہی نگاہ نہیں رکھی اوران کی ضرورتوںہی کو نہیں سمجھا اورصرف ان کوہی پورا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کواللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کامظہر اتم اس وقت سے بنا دیا تھا کہ ابھی آدم اس دنیا میں وجود پذیر نہیں ہواتھا اور اس وقت سے لے کر قیامت تک جتنے بھی انسان پیداہوئے ان سب پر آپ کی نگاہِ کرم تھی اوران کی ضرورت کے مطابق آپ کا احسان ان لوگوں پر تھا۔حضرت آدمؑ کے زمانہ میں اس وقت کی انسانی صلاحیت کے مطابق قرآنِ عظیم کا ایک حصہ انہیں عطا ہوا اورجب انسان نے روحانی ترقی کے مزید مدارج طے کرلئے توحضرت نوحؑ کے زمانہ میں ان کے زمانے کے مطابق اور حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں ان کی ضرورت کے مطابق اور حضرت موسٰیؑکے زمانے میں ان کی قوم کی اس زمانے کی صلاحیت کے مطابق انہیں قرآنِ کریم کے حصے ملے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوحانی آنکھ نے ان کے لئے جس چیز کی ضرورت محسوس کی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے حکم سے وہی چیز ان کو عطا کردی۔ آپ کی یہ مظہریت اتنی اتم اوراکمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میںآپ کے وجود کوظلّی طورپر اپناوجود ہی قرار دیا اورفرمایا:-قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل:۸۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ میں اَلْحَقُّ سے مراد خدا تعالیٰ کی ذات بھی ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود بھی ہے اور قرآن کریم کی شریعت وہدایت بھی ہے۔
پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفاتِ باری کے مظہر اتم ہونے کے نتیجہ میں ہر پہلے اورپچھلے پر نظر رکھتے ہیں اوران کی جسمانی اورروحانی ضرورتوں کوپورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورقرآن کے وہ حصے ان کوباذنِ الٰہی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملتے رہے جوان کے مناسب حال تھے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس عظیم شان کے تھے ہمارے محمد خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم۔
وہ لوگ جنہیں حقیقتِ محمدیہ کاعرفان عطاہوا جانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے انسان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاودانی حیات ملی ہے۔ ایک زندہ نبی، خدا کا پیارانبی صرف ہمارا یہ نبیوں کا سردار اوررسولوں کا فخرہی ہے جسے دنیا محمدمصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جاودانی زندگی کا ہمیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس پاک ختم المرسلین کا افاضۂ روحانی قیامت تک جاری ہے اورآپ کی پیروی ہمیشہ ہی ہرزمانے میں اور ہر نسل کیلئے روحانی طورپر زندگی بخش ثابت رہی ہے اورہوتی رہے گی اگرکسی کوکچھ شبہ ہوتو آج ہم (جماعت احمدیہ) اس کی تسلی کرانے کے لئے تیار ہیں کہ حقیقی روحانی حیات کے مالک حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ حقیقی زندگی اور سچی زندگی اورہمیشہ رہنے والی کامل زندگی وہ ہے جس سے ہمیشہ کے لئے فیوض کے سرچشمے پھوٹتے رہیں اوروہ تمام انسانی ضرورتوں کوپورا کرنے والی ہو۔
پھر ہم جنہیں مقامِ محمدیہ کی معرفت ملی ہے ہم جانتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء :۱۷۵) اورجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۃ النور کی آیت نمبر۳۶ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ (النور: ۳۶) میں حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی مثال دی گئی ہے یعنی ایک تفسیر اس کی یہ ہے کہ ’’اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ کا تو اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور ’’مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ‘‘ سے جس کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ہے یعنی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک طرف تواپنی پیدائش اورخلق کے لحاظ سے ان قوتوں اوراستعدادوں کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کوعطا ہوئی تھیں آپ نورِ مجسم تھے اوراس نور مجسم پر جب آسمانوں سے اللہ تعالیٰ (جو سرچشمہ ہے تمام انوار کا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار بھی اسی سرچشمہ سے نکلتے ہیں) کی وحی نازل ہوئی تو آپ نُوْرٌ عَلٰی نُورٌ ہوگئے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوخداداد نورتھے جو روحانی قوتوں اوراستعدادوں کی شکل میں آپ کوعطا ہوئے تھے ان پر جب اللہ تعالیٰ کی وحی کانور نازل ہوا تو کامل نور کی صورت آپ بنی آدم کی طرف مبعوث ہوئے اورآدمؑ سے لے کر ہرنبی نے آپ ہی کے نورِ نبوت سے اپنی شمعِ نبوت روشن کی۔
پھر ہم لوگ جو حقیقتِ محمدیہ کو پہچانتے ہیں جانتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اخلاقِ فاضلہ کواپنے وجود اوراسوہ میں جمع کرنے والے تھے جس کی جھلک ہمیں گزشتہ تمام انبیاء میں مختلف طورپرنظر آتی ہے۔ پس انبیائے ماسبق اورخدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو بعد میں پیداہونے والے تھے ان سب کے اندر ہمیں اخلاقِ فاضلہ کی جو جھلک نظر آتی ہے جو متفرق طورپر آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک بنی نوع انسان میں پھیلی ہوئی ہے وہ تمام اخلاق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع نظر آتے ہیں۔ اسی لئے قرآنِ کریم نے یہ فرمایا: ’’اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ (القلم :۵) پھر ہم جو اس علم پر علیٰ وجہ البصیرت قائم کئے گئے ہیں کہ حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور ختم المرسلین ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں اور دنیا میں اس کی منادی کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجددِ اعظم ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ اظہار صداقت کے لئے آپ جیسا کوئی اورمجدد پیدا نہیں ہوا۔ سچائی کے اظہار کے لئے گم گشتہ سچائی کودوبارہ دنیا میں لانے کے لئے آپؐ ہی سب سے بڑے مجدد ہیں۔روحانیت کے قیام کے لئے حقیقتاً آپ ہی آدم ہیں کیونکہ آدمِ اول نے آپ ہی سے سچائی کو حاصل کیا اور آپ ہی کے طفیل اس سچائی اور صداقت کو وقت کے تقاضے اورپہلی نسل کی صلاحیت کے مطابق دنیا پر ظاہر کیا لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مجدد اعظم ہیں آپ کے طفیل تمام انسانی فضائل اپنے کمال کوپہنچے۔ پہلے کسی وجود میں یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس میں شک نہیں کہ انسان نے بعض پہلوئوں سے ترقی کی اورایک حدتک کمال کو حاصل کیا لیکن یہ کہ ہرانسان اپنے تمام فضائل کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچانے کے قابل ہوسکے یہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا۔ آپ دنیا میں آئے اوراپنا کامل نمونہ دنیا میں پیش کیا اور ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دی جس کے نتیجہ میں انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچ سکنے کے قابل ہوئے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی تقاضے رکھے ہیں یا انسانی وجود کی جس قدر بھی شاخیں ہیں ان تمام کے لئے یہ سامان پیداہوگیا کہ وہ اپنے کمال کوپہنچ سکے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معلّمِ اعظم بھی حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘ (النسآء : ۱۱۴) وہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے جو تم بحیثیت ایک بشر کے اپنے زور سے خودبخود حاصل نہیں کرسکتے تھے اورفضل الٰہی سے فیضان الٰہی سب سے زیادہ آپ پرہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت جس کو ہم معارفِ الٰہیہ بھی کہتے ہیں اوراسرار اورعلومِ ربّانی جوہیں ان کے جاننے میں آپ اعلم تھے یعنی آپ سے زیادہ ان کا عرفان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہوا اورجوزیادہ جانتاہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ سکھا بھی سکتا ہے اگر آپ علم کی سواکائیاں فرض کریں تو جس شخص کوپچاس اکائی کاعلم ہے وہ ساٹھ اکائی نہیں سکھا سکتا۔ سو کی سَواکائی وہی سکھا سکتا ہے جو خودسو اکائی کاعلم رکھتا ہو۔ پس عَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (النساء : ۱۱۴)میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کے میدان میں(علم روحانی لیکن علم جسمانی کے اصول بھی اسی علم روحانی کے نیچے آتے ہیں) جتنا فضل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرہوا اتنا کسی اورپر نہیں ہوا۔ جس قدر انسان کو علم روحانی کی ضرورت تھی وہ سب آپ کو سکھایا گیا اورآپ کے طفیل نوعِ انسانی اس قابل ہوئی کہ اگر وہ کوشش اورہمت سے کام لے تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی علمی استعدادوں کوکمال تک پہنچا سکتی ہے۔
پس حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں وہی معلم اعظم ہیں اورکوئی نہیں ہوسکتا اور خاتم الانبیاء کے یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا جوعلم آپ کوملا کسی اورنبی کو نہیں ملا اوربنی نوع انسان کوعلوم سکھانے کی جوقدرت آپ نے پائی وہ قدرت بھی کسی اور نہیں ملی۔ پس آپ ہی خاتم الانبیاء ٹھہرے۔
پھر ہم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے مربی اعظم ہیں آپ کے ہاتھ سے دنیا کا وہ فسادِ عظیم اصلاح پذیرہوا جو آہستہ آہستہ مدارج تنزل میں سے گزرکرانتہائی طورپر بھیانک اور مفسدانہ ظلمات کی شکل میں انسان کے سامنے اس وقت آیا جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اس فساد اعظم کی اصلاح کاکام آپ کے سپرد ہوا اورآپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ دنیا کی اصلاح کی اورانسان کواس قابل بنایا کہ اگروہ چاہے تواس فسادِ عظیم سے جودنیا میںرونما ہوچکا ہوا تھا ان وسائل کے طفیل جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ میں دئیے ہیں بچ سکے اوراللہ تعالیٰ کی رحمت اور اسکی مغفرت کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ لے۔
انسان توحید کوبھول چکا تھا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کوزمین پر قائم کیا۔ آپ نے تمام مذاہبِ باطلہ کو حجت اوردلیل سے مغلوب کیا۔ وہ جو گمراہ ہوچکے تھے ان کے شبہات مٹائے عقلی طورپر بھی اورمشاہدہ کے رنگ میں بھی اورہر ملحد کے وساوس دور کئے اورنجات کاسچا سامان اس طرح پر انسان کے ہاتھ میں دیا کہ اصولِ ّحقہ ( جوحقیقی اصول تھے روحانی اورجسمانی ان) کی اسے تعلیم دے دی اور اس طرح انسان کے لئے نجات کے سامان ممکن اورمقدر کردئیے۔
ہم جوحقیقتِ محمدیہ کو جانتے اورپہنچانتے ہیں اور اس بات پر علیٰ وجہ البصیرت قائم ہیں کہ آپ ہی ختم المرسلین اورخاتم الانبیاء ہیں۔ ہم اپنے نفوس میں بھی یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ دنیا بھی اس بات کو سمجھنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنادیتا ہے۔
نقشِ قدم پر چلنے میںتین باتیں آتی ہیں۔ اولؔ یہ کہ آپ کے حسن کو جاننا جس کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ پس نقشِ قدم پرچلنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے حسن کا علم حاصل کر کے بے اختیار ہوکر آپ کی محبت میں کھو جانا ۔دوئمؔ یہ کہ آپ کی عظمت کو پہچاننا۔ ’’قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل‘‘ایک عظیم نعرہ تھا جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں آپ کے مظہر الوہیت ہونے کا لگایاگیا۔جوعظمت اورجلال ہمیں اللہ تعالیٰ میں(جوکہ تمام صفات حسنہ سے متصف اورہر عیب سے پاک ہے) نظرآتا ہے۔ وہ عظمت اورجلال ظلّی طور پر ہمیں حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتا ہے کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہراتم ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے ظلّیت میں حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوعظمت اورجلال حاصل ہوا اس کی قدر کرنا اور اس کو پہچاننا آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کیلئے ضروری ہے تاکہ ہرانسان اپنے ظرف کے مطابق روحانی ترقیات کرتا ہوا اپنے رب کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرے اور اس کی صفات کا زیادہ سے زیادہ مظہر بن سکے۔
نقشِ قدم پر چلنے کے لئے تیسری ضروری بات یہ ہے کہ آپ کی کامل اطاعت کی جائے پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور آپ کی عظمت اورجلال اورآپ کے مقام کو پہچانتا ہے اور اس عشق کے نتیجہ میں اور اس عظمت کے رعب کے سایہ میں آپ کی کامل اطاعت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور اسے ہروہ چیز مل جاتی ہے جوایک محبوب کو محبت کرنے والے پیارے سے ملا کرتی ہے چونکہ ہرچیز خدا تعالیٰ کی ہے اس لئے جو خدا تعالیٰ کا محبوب بن گیا اسے تو سب کچھ مل گیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک
پھر ہم جو حقیقت محمدیہ کا عرفان رکھتے ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت میں کہ آپ انسانیت کے محسنِ اعظم ہیں یکتا اور بے نظیر ہیں۔ آپ کی محسنانہ ہمدردی اورمشفقانہ غم خواری کا کسی ایک فردیا ایک قبیلہ یا ایک خاندان سے تعلق نہیں بلکہ ساری دنیا سے اس کا تعلق ہے پھر کسی ایک زمانہ سے اس کا تعلق نہیں قیامت تک کے زمانوں سے اس کا تعلق ہے۔ ایسی سچی کامل اورہمہ گیر ہمدردی کسی اوروجود میں توہمیں نظر نہیں آتی ویسی ہمدردی توکجا، میں تو سمجھتا ہوں اس کا ہزارواں حصہ بھی اس کا کروڑواں حصہ بھی ہمیں کہیں اورنظر نہیں آتا اوراگرکسی شخص کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ہوسکتی ہے جن سے بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ثابت ہوتوہم گواہی دیتے ہیںاوراس حقیقت کی دنیا میں منادی کرتے ہیں کہ اس صفت میں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں اورتمام انسانوں سے بڑھ کر بے نظیر انسان ہیں اوربھی بہت سی باتیں ہیں مگر اس وقت میں نے صرف بعض کولیا ہے اورجماعت کویہ بتانے کی کوشش کی ہے(میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے) کہ مقام محمدیہ کی جو معرفت ہمیں حاصل ہے آج وہ ہمارے غیر کو حاصل نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک کروڑوں اربوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہیں اپنے اپنے ظرف کے مطابق یہ معرفت ملی۔ ہم نے اس عرفان کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ حاصل کیا ہے اورپہلوں کی طرح جنہیں یہ عرفان اورمعرفت عطا ہوئی تھی حقیقی معنی اور عارفانہ رنگ میں آج اگرکوئی’’خاتم الانبیاء زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاسکتا ہے تووہ ہم ہیں۔ ہم جب
خاتم الانبیاء زندہ باد
ختم المرسلین زندہ باد
کا نعرہ لگاتے ہیں توہمارا یہ نعرۂ عارفانہ نعرہ ہے۔ ہم اس حقیقت کو پہچانتے ہیں اور ہمارے دل کی گہرائی ہماری روح کی وسعتوں اورہمارے جسم کے ذرّہ ذرّہ سے یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ
خاتم الانبیاء زندہ باد
ختم المرسلین زندہ باد
لیکن بعض وہ بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی دوریوں اورماضی کے دھندلکوں میں افق انسانی پردور سے ایک چمک تودیکھی اور اس چمک سے وہ ایک حد تک گھائل بھی ہوئے لیکن ابرِرحمت ان پر نہیں برسا۔ ماضی کے دھندلکوں میں وہ جو ایک چمک انہیں نظر آئی۔ اس پر فریفتہ ہوکر اور اس کے عاشق ہوکروہ بھی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا لیتے ہیں لیکن ان کانعرہ عارفانہ نعرہ نہیں ہے بلکہ محجوبانہ نعرہ ہے وہ اس مقام کو پہچانتے تونہیں صرف ایک جھلک کے وہ گھائل ہوچکے ہیں اور ہم خوش ہیں کہ وہ پاک وجود جوہمارے دل اورہمارے دماغ اورہماری روح اورہمارے جسم پر حکومت کرتا ہے۔ اس کے حق میں محجوبانہ نعرے بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جب
ختم نبوت زندہ باد
کا نعرہ بلند ہوتوایک احمدی کی روح گہرائیوں سے نکلنے والا عارفانہ نعرہ ہی سب سے زیادہ بلند ہونا چاہئے۔
پس آج میں آپ کو اس طرف متوجہ کررہا ہوں کہ ’’خاتم الانبیاء زندہ باد‘‘ بحیثیت ایک عارفانہ نعرہ کے ہمارا نعرہ ہے اورعلم وعرفان نہ رکھنے والوں کے منہ سے نکلے تووہ محجوبانہ نعرہ ہے البتہ یہ محجوبانہ نعرہ سن کر بھی ہمارے دل خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے محبوب کے نور کی ایک جھلک کوتوانہوں نے دیکھ لیاخواہ ماضی کے دھندلکوں ہی میں کیوں نہ دیکھاہو۔ پس اگرکہیں یہ نعرہ بلند ہوتوآپ زیادہ شوق سے زیادہ پیار سے اس کے اندر شامل ہواکریں۔ دوسروں کی آواز اگرپہلے آسمان تک پہنچتی ہو تو آپ کی آواز ساتویں آسمان سے بھی بلند ہو کر خدائے عزّوجل کے عرش تک پہنچے تاہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں کہ میرے کامل متبعین میرے عشق میں مستانہ وار یہ نعرہ لگارہے ہیں۔
خاتم الانبیاء زندہ باد
دوسرا نعرہ جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہم نے پایا ہے وہ بھی ہم نے ہی پایا ہے۔ کوئی اوروہ نعرہ بھی عارفانہ نعرہ کے طورپر نہیں لگا سکتا۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’خاتم الانبیاء‘‘ کی حیثیت سے دنیا کے محسن اعظم ہیں اوراس میں کوئی شک اورکلام نہیں۔میں اسکی وضاحت میں اختصار سے صرف چار باتوں کولونگا۔ اوّل۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسان پر جو احسان عظیم ہوا وہ شرفِ انسانی کاقیام ہے پہلے بزرگ انبیاء نے شرفِ انسانی کوقائم نہیں کیا انہوں نے اپنی قوم کی ضرورتیں پوری کیں۔ ان کی تربیت کی طرف بڑی توجہ دی دعائوں کے ساتھ جس حد تک ممکن تھا انہوں نے اپنی قوم کی تربیت کی اور ان کو نیک اوراپنے اپنے ظرف کے مطابق مطہّر بنانے کی کوشش کی اس میں تو شک نہیں لیکن شرف انسانی کاقیام ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔ وہ تومبعوث ہی ہوئے تھے ایک خاص زمانہ اور ایک خاص قوم کی طرف۔ شرفِ انسانی کاقیام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاانسانیت پر خاص احسان ہے اورصرف آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ معلوم دنیا اورغیر معلوم خطوں میں بسنے والے ہرفرد کی عزت اورشرف کو آپ نے قائم کیا۔دنیامیں اس وقت بعض ایسے خطے بھی تھے جن کے متعلق عرب میں بسنے والوں کوکوئی علم نہیں تھا۔ مثلاً Red Indians(ریڈانڈین) جو دنیا کے اس خطے میں جو اب امریکہ کہلاتا ہے بستے تھے مگر بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت آپ کے پہلے مخاطب عرب میں بسنے والوں کوان کاعلم نہ تھا۔ حضرت نبی کریم ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نامعلوم خطۂ زمین میں بسنے والے انسان کی عزت اور احترام اور اس کاشرف بھی قائم کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ کسی ایسے انسان کے جذبات کوٹھیس نہیں پہنچانی جوعرب میں بستا ہو یا حبشہ میں بستا ہو یا افریقہ میں بستا ہو بلکہ یہ فرمایا کہ انسان جہاں بھی بستا ہو تمہیں اس کا علم ہو یا نہ ہو اس کے جذبات کو ٹھیس نہیں لگانی۔
جس وقت ہمارا تعلق ان قوموں سے قائم ہوا جن کا علم اس زمانہ کو نہیں تھا تو ہم ایک مسلمان احمدی کی حیثیت سے (اورہم سے پہلے بزرگ جو تھے وہ بھی ایک کامل متبع کی حیثیت سے اورہم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبع کی حیثیت سے) ان کو جاکر یہ کہتے ہیں اور ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تمہارا خیال کسی اور نے نہیں رکھا لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا خیال رکھا اور باوجود اس کے کہ اس وقت دنیا تمہارے وجود کو بھی نہیں جانتی تھی تمہارے متعلق یہ حکم چھوڑ گئے کہ جب تم بحیثیت انسان ہمارے ساتھ ملاپ کرو تو تمہاری بھی وہی عزت اور احترام کیا جائے۔ جو ہم آپس میں اپنے ملک کے رہنے والوں یا اپنے برّاعظم کے رہنے والوں سے کرتے ہیں۔ وہی عزت اور احترام ہم تمہارا بھی قائم کریں گے۔
میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ’’اِنَّمَآ اَناَبَشَرٌمِّثْلُکُمْ‘‘ (حٰمٓ السجدۃ :۷) کا ایک عظیم نعرہ تھا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن عظیم میں لگایا گیا۔جس نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک مقام پرلاکھڑا کردیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تو کوئی اوروجود نہ پہلوں میں پیدا ہوا اور نہ آئندہ پیدا ہوگا۔ آپ کے منہ سے یہ کہلوایا کہ میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو۔ اس سے انسان کی اتنی عزت اور احترام قائم ہوگیا کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے، سب انسانوں کو اس مقام پرکھڑا کرکے پھرآپ نے کہا دیکھو! میں تمہارے جیسا انسان ہوں، میرے اندربھی تمہارے جیسی قوتیں اور استعدادیں ہیں آئو اب دیکھو میں اخلاقی دنیا میں، روحانی دنیا میں کس طرح بلندیاں اور رفعتیں حاصل کرتا ہوں میں تواپنے ظرف کے مطابق اونچا جائوں گا تم بھی اپنے ظرف کے مطابق بلندیوں کوحاصل کرسکتے ہو۔ اس لکیر پر جہاں سب برابر کردئیے گئے ٹھہرنا نہیں بلکہ بلندیوں کی طرف پرواز کرنی ہے لیکن اس مقام پر اس سطح پر سب کویہ کہہ کراکٹھا کردیا ۔ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ (حٰمٓ السجدۃ :۷) پس انسانیت پر سب سے بڑا جو احسان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی بحیثیت انسان عزت قائم کی اور اسکا احترام قائم کیا اور اس کا شرف اورمرتبہ قائم کیا۔
دوسرا عظیم احسان جو انسان پر بحیثیت انسان ہمارے محبوب خاتم الانبیاء نے کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے حقوق قائم کئے اور ایسے سامان پیدا کئے اور ایسی تعلیم دی کہ اگر ہم اس تعلیم پر چلیں توسارے انسانوں کے حقوق انہیں مل جاتے ہیں (اس تفصیل میںتو میں اس وقت نہیں جائونگا۔ اقتصادی اصول پر میرے خطبات چھپ گئے ہیں ان میں مَیں وضاحت سے بیان کرچکاہوں کہ) حقوق انسانی کی جو تعریف قرآن عظیم نے کی ہے وہ انسانی عقل کرہی نہیں سکتی وہ صرف ربّانی الہام ہی کرسکتا ہے۔
اس وقت وہ جوانسان کے سب سے بڑے ہمدردبنتے ہیں وہ اشتراکی ہیں لیکن ان سے بھی جب پوچھا جائے کہ تم کہتے تو یہ ہو کہ اقتصادی میدا ن میں انسان کواس کی ضرورتیں ملنی چاہئیں۔ پھر تم نے ضرورتوں کی تعریف کیوں نہیں کی؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چین میں ضرورت سے کچھ اورمراد لی جاتی ہے اوریوگوسلاویہ میں ضرورت سے کچھ اور مراد لی جاتی ہے۔ اورروسیوں کے نزدیک روس میں انسانی Needs(نیڈز) ضروریات کچھ اور ہیں اوران علاقوں میں جہاں روسیوں کا اثر و رسوخ ہے یعنی جو ان کے Satellites(سٹیلائٹس) کہلاتے ہیں۔ ان میں انسانی Needs(نیڈز) ضروریات کچھ اور بن گئی ہیں۔
غرض یہ کہہ دینا تو کافی نہیں تھا کہ "To each according to his needs" یعنی یہ کہ ہرایک کی ضرورت پوری ہونی چاہئے اورپھر انسان خاموشی اختیار کرلے۔ گویا کہ پتہ ہی نہیں کہ ضرورت ہے کیا چیز۔
قرآن کریم نے حقوق انسانی کی اتنی حسین تعریف کی ہے کہ اس کے حسن سے انسانی عقل خیرہ ہوجاتی ہے اورآدمی یہ سمجھتا ہے کہ کہاں جاکر انسانی عقل ٹھہر جاتی ہے اورآگے بڑھنے کے لئے الہامی روشنی کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ رب العالمین ہے اللہ نے ہر فردِ واحد کو پیدا کیااور اس میں تمہیں جتنی قوتیں اور قابلیتیں اور استعدادیں نظر آتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں اور اس نے بحیثیت رب ہونے کے ان تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے سامان پیدا کئے ہیں۔ کم سے کم نشوونما نہیں بلکہ نشوونما کے کمال تک پہنچانے کے سامان پیدا کئے ہیں اورہر شخص جو قوت اور استعداد رکھتا ہے۔ اس قوت اور استعداد کونشوونما کے کمال تک پہنچانے کے لئے جس چیز کی بھی اسے ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور وہ اسے ملنا چاہئے۔ اگر وہ حق اسے نہیں ملتا تو وہ مظلوم ہے اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے اس کاحق دلوائے مثلاً ایک ہونہار اور ذہین بچہ جو آج آئن سٹائن(جوایک مشہورغیر ملکی سائنسدان ہے) جیسا دماغ رکھتا ہے یا ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام جیسا دماغ رکھتا ہے مگر ایک غریب گھرانہ میں پیدا ہوجاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ بعض غریب گھرانوں میں بڑے ذہین بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔ کالج کے زمانہ میں بھی ایسے طالب علموں کی جہاں تک ہم سے ہوسکا جہاں تک ہمارے بس میں تھا ہم مدد کیا کرتے تھے اوراب بھی خداتعالیٰ کے فضل سے اگرکوئی ایسا ہونہار طالب علم میرے عِلم میں آجائے تو میں اسے کہہ دیا کرتا ہوں کہ تم علم میں ترقی کرتے چلے جائو۔ غیرملک میں بھی تمہیں بھجوائیں گے۔ تمہارا ذہن زیادہ سے زیادہ جو تعلیم حاصل کرسکتا ہے وہ تمہیں دلوائیں گے یہ حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قائم کردیا ہے۔
ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی جسمانی قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ ان قوتوں کی صحیح نشوونما کے بعد گاماں پہلوان(مشہور پہلوان ہے) کو بھی گرادے مگروہ ایک ایسے غریب گھرانہ میں پیدا ہوا جہاں نہ تو اسے وہ دودھ ملے نہ وہ مکھن نہ وہ بادام ملیں نہ وہ دیگر چیزیں جو پہلوان کھاتے ہیں وہ اس کو میسر ہوں، نہ مالش کے لئے تیل ملے نہ مالش کرنے والے اس کو ملیں تو اس کا جسم نشوونما نہیں کرے گا۔
قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے اس کوجوجسمانی قوت عطا کی ہے۔ اس کی جسمانی قوتوں کوکمال تک پہنچائو دیکھو ایسا آدمی جو یہ سمجھ رہا ہو کہ میرا رب کتنا پیار کرنے والا ہے اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا مجھ پر کتنا احسان ہے کہ میرے جسم کی ہر ضرورت جوتھی اس کو بطور حق کے قائم کیا اور دلوایا۔ غرض وہ گاماں پہلوان بھی بنے گا اور خدا رسیدہ انسان بھی ہوگا یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے لئے شکر کے جذبات ہونگے تو وہ خدا رسیدہ انسان بھی ہوگا وہ محض ایک پہلوان نہیں ہوگا۔
پس اسلام نے صرف یہ نہیں کہا کہ تمہاری ضرورتیں پوری کریں گے اورپھر وہ خاموش ہوگیا۔ اسلام نے یہ کہا ہے کہ جو بھی تمہاری طاقتیں ہیں۔ ان کونشوونما کے کمال تک پہنچانے کے لئے ہم تمہارے حقوق قائم کرتے ہیں۔ فقیر اور بھیک منگا نہیں بنایا بلکہ فرمایا کہ تمہارے حقوق قائم کرتے ہیں اورتمہیں یہ حقوق دلوائیں گے اور حقوق کی تعریف یہ کی کہ جہاں ہمیں واقعی کوئی قوت اور استعداد نظر آتی ہے (بعض دفعہ توماں ایک بدصورت بچے کوبھی خوبصورت سمجھتی ہے اس کی میں بات نہیں کررہا) ایک خوش قسمت انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے واقعی اچھاذہن عطا کیا ہے یاجسمانی طاقتیں دی ہیں یا اخلاقی طاقتیں دی ہیں۔ وہ ساری طاقتیں کمال نشوونما تک پہنچنی چاہئیں۔ ان کی حقیقی اورکامل نشوونما ہونی چاہئے۔
غرض یہ احسانِ عظیم انسانیت پر بحیثیت انسان کے ہے یہ نہیں کہا کہ اگرہندو ہوتو اس کی طاقتوں کو ضائع کرنے کی کوشش کرو یہ نہیں کہا کہ اگرایک عیسائی ہوتو اس کی طاقتوں پر تبرچلائو یہ نہیں کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والا دہریہ ہوتو اس کی کچھ پرواہ نہ کرو بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ فرمایا کہ دیکھو اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے تواللہ تعالیٰ خود گرفت کرے گا۔ اگروہ مجھ پر ایمان نہیں لاتا تمہیں اس کی کیا فکرہے۔ تم نے بحیثیت انسان وہ سارے حقوق قائم کرنے اور ادا کرنے ہیں جو اسلام نے ایک انسان کے بحیثیت انسان قائم کئے ہیں اورجن کے ادا کرنے کی اس نے تعلیم دی ہے۔
پس انسان کے حقوق کوقائم کیا ہے(مسلمان کے حقوق کی میں بات نہیں کررہا) انسانی حقوق کوقائم کیا اور ایسی تعلیم دی کہ وہ حقوق ادا ہوسکیں اور ایسا نظام بنایا کہ اس نظام میں وہ حقوق ادا ہوجاتے ہیں۔ غرض عظیم احسان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان پر بحیثیت انسان۔
تیسرے انسانی جذبات کا بحیثیت انسان احترام رکھا ہے اس کی میں پہلے مثال بیان کرچکا ہوں۔ انسانی جذبات کے احترام کا یہ پہلو بھی تفصیلی ہے اس میں میں نہیں جائوں گا مختصراً بیان کردیتا ہوں۔ اگر کسی پر جھوٹ باندھا جائے توعلاوہ اورنقصانات کے اس کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے چنانچہ فرمایا کہ کسی پرجھوٹ نہیںباندھنا خواہ وہ دہریہ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندوہو، پارسی ہو، بدھ مذہب کاہو، کوئی ہو، لامذہب ہو یا بد مذہب ہو ، غر ض کوئی ہوتم نے اس پر جھوٹ نہیں باندھنا، افتراء نہیں کرنا، تہمت نہیں لگانی یہ ساری چیزیں علاوہ اور خرابیوں کے جذبات کو ٹھیس لگانے والی ہیں کوئی بھی ہواس کے جذبات کا احترام کرنا ہے یہاں تک کہ اس کے اموال جو ہیں ان کی حرمت کوقائم کرنا ہے اس کی عزت کوقائم کرنا ہے۔ اس کی جان کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ بحیثیت انسان ہونے کے ضروری ہے یہ نہیں کہا کہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت توہردوسرے مسلمان پر فرض ہے لیکن غیر مسلم کی جان کی حفاظت فرض نہیں ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ہم جان کی حرمت قائم کرتے ہیں اور اسکی حفاظت کی ذمہ داری امت مسلمہ پرڈالدی اور اس میں عربی پر عجمی کو فضیلت نہیں اورعجمی کو عربی پر فضیلت نہیں اورمسلمان پر غیرمسلم کو فضیلت نہیں اورغیر مسلم پر مسلمان کوکوئی فضیلت نہیں سب کو جذبات کے لحاظ سے ایک ہی مقام پر کھڑا کردیا ہے اوریہ بڑی چیز ہے۔ اس واسطے بات کرتے وقت بڑی ہدایتیں دی گئی ہیں ہم بعض دفعہ بڑی لاپرواہی کرجاتے ہیں اوراپنے بھائی سے ایسا مذاق کردیتے ہیں جو اسکو چبھنے والا ہوتا ہے ایسا کرنامنع ہے یہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہے پس انسان کے اوپر اس کے جذبات کا اتنا خیال رکھنے کی وجہ سے کتنا بڑا احسان کیا گیا ہے۔
اورچوتھی بات جو اس وقت میں مختصراً بیان کرنا چاہتا ہوںوہ یہ ہے کہ ایک توانسانی جذبات کاخیال رکھا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جوجذبات شنیعہ بعض لوگوں میں پیدا ہوجاتے ہیں ان کی یلغار سے انسان کو محفوظ رکھا۔ یہ ایک بات ہے جو اپنی جگہ پر ہے (اور بہت ساری باتیں ہیں لیکن میں اختصار کے پیش نظر بہت سی باتوں کو چھوڑتا ہوں کافی دیر ہوگئی ہے) اورہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ بھی عارفانہ طورپرہمارے سوا اورکوئی نہیں لگا سکتا۔ جو شخص حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محسنانہ شان کی معرفت رکھتا ہو وہی کھڑے ہوکر دوسرے انسان کو مخاطب کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ انسانیت زندہ باد۔ پس ان دونعروں کی طرف میں جماعت احمدیہ کو متوجہ کرتا ہوں اشتراکیت کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ لگائے اور نہ کسی اور ازم کا یہ حق ہے صرف اسلام کا یہ حق ہے صرف مسلمان کا یہ حق ہے۔ مسلمانوں میں دوگروہ ہوسکتے ہیں یہ ممکن ہے۔ یعنی ایک وہ جن کے منہ سے عارفانہ طورپر یہ نعرہ نکلے اور ایک وہ جن کے منہ سے محجوبانہ طورپر یہ نعرہ نکلے لیکن یہ نعرہ لگانے کا وہی حق دار ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا اور آپ کی محبت میں فنا ہوگیا چونکہ آپ انسانیت کے محسنِ اعظم ہیں۔ اس واسطے اس شخص کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے انسان کو مخاطب ہوکر یہ کہے کہ اے انسان!تیری انسانیت ہمیشہ زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں غیر انسانی یلغاروں سے وہ محفوظ رہے۔
پس یہ دو نعرے ہمارے نعرے ہیں۔ ختم المرسلین زندہ باد کا نعرہ یا خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ یا ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ احمدیت کا نعرہ ہے اورہم ہی اسے عارفانہ طورپر بلند کرسکتے ہیں اور اسی طرح انسانیت زندہ باد کا نعرہ ہمارا نعرہ ہے اورہم جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ غلام اورآپ کے مقام کے پہچاننے والے اور اس مقام کے نتیجہ میں اور انسانیت پرآپ نے جو احسان کیا ہے اس کے عرفان کی وجہ سے ہم اس بات کے سزاوار ہیں کہ انسان کو مخاطب کرکے یہ نعرہ لگائیں کہ
انسانیت زندہ باد
دوسرے بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں ۔ ہم اسے سن کر خوش ہوں گے لیکن ہمارے نزدیک ان کے نعرے محجوبانہ نعرے ہوں گے۔ ان کے نعرے عارفانہ نعرے نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عرفان پر ہمیشہ قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ یہ توفیق دے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کرتے رہیں کہ ہم اس بات کے حقدار ہیں کہ
خاتم الانبیاء زندہ باد
کانعرہ لگائیں اور ہم ہی اس بات کے حق دارہیں کہ
انسانیت زندہ باد
کا نعرہ لگائیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹ مارچ ۱۹۷۰ء صفحہ۱ تا۶)
ززز




شَاوِرْھُمْ میںبتایا کہ شہد کی مکھی کی طرح
مومنین کی جماعت کی آراء سے استخراج کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۷؍مارچ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ۔ غیر مطبوعہ )
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے ان آیات کی تلاوت فرمائی:-

(اٰل عمران :۱۶۰،۱۶۱)
اسکے بعد حضور انور نے فرمایا:-
’’اس وقت میں نے تین نکاحوں کا اعلان کرنا تھا لیکن اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان نکاحوں کا اعلان مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد کروں گاایک نکاح جس کا میں نے اعلان کرنا تھاوہ ہمارے مکرم محترم محمد یعقوب خاں صاحب کے صاحبزادہ کیپٹن عبدالسلام صاحب کاتھا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان پر رحم کرتے ہوئے اپنے فضل کے دروازے کھولے ہیں اور اس خاندان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منصب اور خلافت کی اہمیت کو پہچاننے کی توفیق عطا کی ہے اور جہاں ایک دروازہ اس نے اپنی رحمت کا ان پر کھولا ہے وہاں ہزاروں لاکھوں دروازے اسکی رحمت کے ان پرکھلیں۔
ایک آیت کا کچھ حصہ اور ایک پوری آیت میں نے اس وقت تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاعْفُ عَنْھُمْ تو ان سے درگذر کر۔ عفو کے معنی یہ ہیں کہ ایسا برتائو کرنا ایسا سامان پیدا کرنا کہ جو کمزوریوںاور غفلتوںکے بد نتائج ہوں ان سے وہ شخص جس سے درگذر کیا جائے محفوظ رہے محض یہ معنے نہیں ہیں کہ معاف کردیا بلکہ اس کے اندر یہ معنی بھی آجاتے ہیں کہ اس رنگ میں معاف کیا کہ اگلے کی اصلاح ہوگئی۔ محض معافی جو ہماری زبان میں معافی کہلاتی ہے عربی زبان میں عفو کے محض یہ معنے نہیں ہیں بلکہ عفو کے معنوں کے اندر یہ بات بھی آتی ہے کہ ایسے رنگ میں درگزر کیا جائے کہ اس شخص کی اصلاح ہوجائے اور توبہ کی اسے توفیق ملے کیونکہ توبہ ہی ایک ایسا دروازہ ہے جس سے انسان پچھلے گناہوں کے عذاب اورمضرتوں سے بچتا ہے۔
پس عفو کے یہ معنی ہوئے کہ ایسے رنگ میں معاف کیا جائے کہ اصلاح ہو اور توبہ کی توفیق ملے اور جوغلطیاں ہوچکی ہیں ان کے بدنتائج سے وہ شخص محفوظ ہوجائے۔ اسی مصدر سے عَافَاہ ُبھی نکلا ہے جسکے معنے ہیں ’’رَفَعَ عَنْہُ کُلَّ سُوْئٍ‘ ‘ یعنی ہر قسم کی تکلیف اور دکھ کو اس سے دور کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے غلام نائبین کو یہ حکم دیا ہے کہ مومنوں کی جماعت سے اس طرح کا سلوک کیا جائے کہ درگذر بھی ہواور اصلاح بھی ہو اور بدنتائج سے ان کی حفاظت بھی ہو۔
دوسرے فرمایا وَاسْتَغْفِرْ لَھُم ْ اسکے معنی لغت کے لحاظ سے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور غفلتوں اور گناہوں کے بد نتائج اور عذاب سے ان کی حفاظت کرے یعنی خود بھی یہ کوشش کرو کہ جو غفلتیں ہوگئی ہیں ان کے بد نتائج سے وہ محفوظ ہوجائیں اور اپنی کوشش پر ہی بھروسہ نہیں کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے یہ بھی استدعا کرنی ہے کہ مومنوں کی جماعت اگر بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں باوجود مخلص اور فدائی ہونے کے غفلتیں کر جائیں تو اے خدا!تو ان کی مدد کو آ اور ان کی کمزوریوں گناہوں اور غفلتوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ایسے سامان پیدا کردے کہ ان کی اصلاحِ احوال ہوجائے۔
پس صرف یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زبان سے توبہ کی توفیق دے کیونکہ مغفرت کے معنی میں قول اور فعل سے مغفرت طلب کرنا ہے غرض یہاں یہ دعا ہے کہ اے خدا! تو ان لوگوں کو یہ توفیق دے کہ اپنی زبان سے بھی تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے عاجزانہ طورپر گرجائیں اور اپنے افعال کی بھی اس طرح اصلاح کریں کہ دنیا بھی یہ مشاہدہ کرے کہ ان لوگوں کی زندگیوںمیں ایک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔
اقرب میں ہے’’اَصْلَحَہٗ بِمَا یَنْبَغِیْ اَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ‘‘۔ یہ بھی استغفار کے معنوں کے اندر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کردے یا انسان کو ایسے ذرائع میسر آجائیں کہ جو اصلاح احوال کاسامان پیدا کردیںپھر چونکہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ابدی زندگی عطا کی گئی ہے اور یہ ابدی زندگی دو رنگوں میں ہمارے سامنے آتی ہے ایک تو آپ کا افاضہ روحانی قیامت تک جاری ہے اور دوسرے آپ سے اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ میں اور بعض دوسری جگہ بھی یہ وعدہ ہے کہ قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام او ربندے پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ کے دین کی مدد کرنے والے ہونگے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہونگے اور قرآن کریم کے ظاہر وباطن کی حفاظت کی فرشتوں کی طرح وہ بھی توفیق پائیں گے۔
پس فرمایا کہ ایک توکوشش کروکہ جماعت مومنین کی اصلاح ہوجائے دوسرے ان کے لئے بڑی دعائیں کرو کہ وہ اپنی غلطیوں کے بد نتائج اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں اور اپنی زبان سے بھی توبہ کرنے والے ہوں اور ان کے اعمال بھی دُھلے ہوئے صاف شفاف کپڑے کی طرح ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کرنیں ان کے وجود میں سے باہر آرہی ہوں یہ کرنے کے بعد شَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ (اٰلِ عمران :۱۶۰) پھر یہ جماعت اس بات کی مستحق ہوگی کہ ان سے مشورہ کیا جائے۔
آج جب میرے ذہن کو اس طرف متوجہ کیاگیا کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں تو میں نے پھر اقرب اور لغت کی بعض دوسری کتابیں دیکھیں چنانچہ ایک بڑی اور حسین چیز میرے سامنے آئی اوروہ یہ کہ مشاورت جو ہے اس کا روٹ یعنی اس کا مخرج شَارَ الْعَسْلَہے یعنی شہد نکالنا۔ اور اس شَارَالْعَسْلَکے معنے ہوتے ہیں اِسْتَخْرَجَہٗ وَاجْتَنَاہُ جس طرح مکھی کا جوکام ہے نا پھول سے اپنی مرضی کے مطابق وہ چیز حاصل کرنا جس سے مکھی نے شہد بنانا ہے یعنی Nectar(نیکٹر) جو پھول سے لیتی ہے۔ شہد کی مکھی کے بارے میں اب جو نئی تحقیق ہوئی ہے اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک پھول کا انتخاب کرتی ہے اور پھر اس پھول سے وہ شہد بناتی رہتی ہے یعنی پھول کا ایک حصہ لیتی ہے اور اپنے جسم کا ایک حصہ اس میں داخل کرتی ہے اس طرح پر شہد بنتا ہے۔بہت سے دوستوں کو اس کا علم نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شہد صرف پھولوں کے رس سے بنتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے شہد میں قریباً پچاس فیصد پھول کے رس کا حصہ ہے اورقریباً پچاس فیصد مکھی کے اپنے غدود میں سے ایک چیز نکلتی ہے مختلف قسم کے Enzymes (انزائمز( اور مختلف قسم کی دوسری چیزیں وہ شہد میں ملاتی ہے یعنی وہ جو پھول کا حصہ ہے اس کے اندر ملاتی ہے تب جاکر شہد بنتا ہے۔
پس دونوں برابر کے حصے جارہے ہیں جہاں تک اسکے معنے کا سوال ہے لیکن جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے حقیقت یہی ہے کہ پھول نے شہد بنانے کے لئے کوشش نہیں کی کبھی پھول نے بھی جاکر اپنے شہد کو مکھیوں کے چھتے تک پہنچایا ہے شہد کی مکھی جو ہے اس کی ساری کوشش شہد بنانے کی ہے اور اسطرح اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق وہ اپنے اس کام میں لگی ہوتی ہے۔
جن لوگوں نے شہد کی مکھیوں اور ان کے چَھتّوں پر تحقیق کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے چھتے کے نیچے کبھی کوئی مردہ مکھی نہیں ملے گی اور وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کام کرتے ہوئے کبھی پھول کے قریب ،کبھی پھول اوراپنے چھتے کے درمیان مرکرگر جاتی ہے یعنی وہ اپنے کام کے لحاظ سے ایک قسم کی شہید ہی ہے کام کے اندر اسکی جان نکلتی ہے وہ آخری سانس تک کام کرتی رہتی ہے۔
مکھی پھول کے اندر سے اپنی مرضی سے انتخاب کرکے وہ حصہ جسے انگریزی میں Nectar (نیکٹر) کہتے ہیںتھوڑا سا پتلا مایہ ہوتا ہے جو شہد کی طرح کا قوّام نہیں رکھتا بلکہ شہد کی نسبت پھول میں اس چیز کی حالت پانی کے زیادہ قریب ہے لیکن مکھی پھر اسے وہاں سے لے کر آتی ہے پھر اسکو اپنی زبان پر رکھ کر خشک کرتی ہے اورہزاروں لاکھوں دفعہ زبان باہر نکال کر اندر منہ میں لے جاتی ہے اور اس حرکت سے وہ اسے قوّام کی شکل دیتی ہے پھر اپنے Enzymes (انزائمز) بیچ میں ملاتی ہے تب جاکر وہ شہد بنتا ہے تب ہمیں وہ شہد ملتا ہے اورہم اللہ تعالیٰ کا ہزارہزار شکر کرکے شہد کے چھوٹے سے حصہ کو چاٹتے ہیں پورے احساس کے ساتھ کہ اگر یہ کام شہد کی مکھی کی بجائے انسان کے سپرد ہوتا تو شاید لاکھ دولاکھ روپے کاایک سیر شہد ملاکرتا اور یہ بات ایک عام انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہاں شیطان انسان جو ہے اسکی طاقت کے اندر ہوتی۔
پس اصل مشاورت کا مخرج شَارَالْعَسْلَکا جو عربی میں محاورہ ہے اس میں شوریٰ کا جولفظ ہے وہ ہے اور اس سے پھر آگے مشاورت نکالی اور مشورہ اور شوریٰ کا مضمون اس مثال سے بہت واضح ہوجاتا ہے یعنی جو مضمون یہاں بیان ہوا اگر یہ مضمون سامنے نہ ہو تو بہت سے پہلو مخفی رہ جائیں۔
اس میں ایک تویہ آگیا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کن پھولوں کا شہد یاکن انسانوں کی آراء طلب کرنی ہیں یہ حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے نائبین کا کام ہے پھول کایہ کام نہیں ہے کہ وہ مکھی کو یہ کہے کہ تم گلاب کے پھول پرکیوں جارہی ہو جب کہ تم سے زیادہ قریب شیشم کا پھول موجود ہے یہ پھول کاکام ہی نہیں اور نہ اسکو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے یہ مشاورت کرنے والے مشورہ لینے والے کا کام ہے کہ وہ کن لوگوں سے مشورہ لے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مختلف شکلیں ہمیں حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ آپ کے بعض ایسے مشیر بھی تھے کہ مجھے یہ شبہ ہے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ شاید تاریخ نے بھی ان سب کے نام محفوظ نہیں رکھے کیونکہ آپ ان کو خفیہ طور پر بلا لیتے تھے اور جس معاملے کے متعلق مشورہ لینا ہوتا آپ ان سے مشورہ لے لیا کرتے تھے بعض کے نام آئے ہیں اس سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس طرح بھی آپ مشورہ لیتے تھے اور بعض دفعہ آپ سب کو جمع کرلیتے تھے بعض دفعہ نمائندے آ جاتے تھے اور آپ کی یہ سنت تھی اور خلفائے راشدین کی بھی یہ سنت تھی اس وقت بھی یہ سنت تھی جس زمانے میں بھی یہ رہی ہے کہ نمائندگی کے طور پر ساری جماعت تو یہاں اکٹھی نہیں ہوسکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ مشورہ کے لئے ربوہ کے مکینوں کو اکٹھا کر لیا جائے چونکہ جماعت پھیل گئی اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ایک آواز جو ایک منہ سے نکلا کرتی تھی اب وہی آواز لاکھوں کروڑوں کے منہ سے نکل رہی ہے سارے اکٹھے ہو کر کس طرح رائے دے سکتے ہیں یا ان سے رائے لی جاسکتی ہے نمائندگی کا اصول ہمیں چلانا پڑے گا مگر جب ضرورت ہوتو دوسری طرح بھی مشورہ ہوجائے گا۔
پس شَاوِرْھُمْ میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی پھول سے شہد کا استخراج اور اجتنا کرتی ہے اسی طرح تم مومنین کی جماعت کی آراء کا استخراج کرو کیونکہ شَاوِرْ کے معنے استخراج الرائے اورشَارَالْعَسْلَ کے معنے استخراج العسل یعنی شہد کا نکالنا مثال بالکل واضح ہوگئی ہے ایک فرمایا کہ جس طرح اورجن سے چاہو آراء لو۔
وہ جو دوسرا حصہ تھا کہ اپنی بیچ میں ملاکر اپنے جسم کی اپنی روح کی اور اپنے ذہن کی جب تک(اگر انسانی مثال ہو) ساتھ نہ ملائی جائے شہد نہیں بنتا وہ مشورہ درست نہیں رہتااس واسطے فَاِذَاعَزَمْتَ۔ وہ عزم جو ہے و ہ مکھی والےEnzymes(انزائمز)کی آمیزش ہے کہ جب آراء لے لیں وہ سامنے آگئیں پھر اپنے عزم اسکے اندر ملائو اور پھر وہ فیصلہ بنے گا ورنہ جب تک رسول یا نائب رسول کی اپنی رائے اپنا عزم اپنا فیصلہ اپنے Enzymes(انزائمز)(اس مثال کے لحاظ سے جو پھول سے حاصل کیا گیا اورمومنین کی جماعت سے یاان کے نمائندوں سے آراء کی شکل میں حاصل کیا گیا)اسکے اندر شامل نہ ہوں۔ اس وقت تک نہ شہد بنے گااور نہ وہ جو آراء دیں وہ پختہ بنیں گے اور مفید ہونگی اور نہ ایسی بنیں گی کہ جن کے اندر شفاء ہو اور شفاء میںبھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر کردیا ۔ شہد کے اندربھی کہہ دیا کہ اسکے اندر شفاء ہے اور جس رنگ میں احکام الٰہی کا اجراء کرنا ہے اسکے متعلق یہ کہا کہ اسکے اندر شفاء ہے۔
پس تیسری چیز یہ بتائی کہ شَاوِرْھُمْ خالی آراء کافی نہیں بلکہ خود دعا کرکے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرکے اور اپنی خداداد فراست کو استعمال کرکے(یہ کتنی قسم کی Enzymes (انزائمز) ہیں اگر ان کو بطور مثال Enzymesہی کہا جائے)وہ ان آراء میں شامل کر و تب جاکر وہ چیز ایسا قواّم اختیار کرے گی کہ بنی نوع انسان کے لئے وہ شفاء بن جائے گی تدبیر اپنی انتہاء کو پہنچ گئی۔ یہاں تو فرمایا کہ تدبیر کرو جو اہم امور ہیں امت مسلمہ کے استحکام کے لئے اور تمکینِ دین کے لئے اور اصلاحِ انسانیت کے لئے اور تبلیغ واشاعت کے لئے بڑے امور ہیں تم پہلے تو ایک ایسی قوم تیار کرو کہ جوNectar(نیکٹر)پیدا کرسکے یعنی بعض دفعہ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے ہر پھول میں Nectar(نیکٹر) یعنی وہ چیز پیدا کی ہے جو شہد کا ایک حصہ بن جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ایسا حادثہ ہوتا ہے کہ پھول نظر آتاہے لیکن وہ حصہ غائب ہوتا ہے کوئی بیماری ایسی بھی آجاتی ہے پس اگرچہ وہ پھول ہے اور عام پھول میں Nectar(نیکٹر) بھی ہے جو شہد کا جزو بھی ہے لیکن اس حادثہ کی وجہ سے شہد نہیں بن سکتا اسلئے فرمایا کہ امتِ مسلمہ کو یا جماعت مومنین کو ایسا بنائو کہ وہ صاحب الرائے ہوں اور ایسے ہوں کہ جن سے شہد کا ایک جزو Nectar (نیکٹر) جو ہے یا رائے کی اصابت جو ہے وہ ان سے حاصل کی جاسکے اور ان کا نفس بیچ میں نہ آئے۔اب جو پھول ہے اس کا نفس بیچ میں نہیں آتا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ بیچارے پھول نے اپنا نچوڑ شہد کی مکھی کے حضور پیش کردیا اورآپ وہاں کھڑا ہے تو اس کا نفس تو بیچ میں نہیں آیا اس نے تو اپنے نفس کی بہترین چیز تھی اسکو اسکے حضور پیش کردیا جسکی طرف اللہ تعالیٰ کی وحی تھی یعنی شہد کی مکھی کہ تم نے شفا کے سامان پیدا کرنے ہیں ایک ایسی جماعت بنے جو تقویٰ اور طہارت کی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو گزارنے والی ہو اللہ تعالیٰ سے جن کا تعلق پیدا ہو جن کا دعائوں پر زور ہو جو واقعہ میں امتِ مسلمہ ہو یعنی ان کا اپنا کچھ بھی باقی نہ رہے اپنا سب کچھ اپنا وجود بھی اپنا ذہن بھی اپنی فکر بھی اپنی ساری قوتیں اورطاقتیں اور زندگی اور موت سب خدا کے حضور پیش کردیں۔ یہی اسلام ہے اسکے بغیرتو کوئی اسلام نہیں ہے۔
غرض فرمایا عفو اور استغفار کے ذریعہ ایک ایسی جماعت بنائو جو صاحب الرائے ہو مغلوب الغضب نہ ہو دھیمی ہو فدائی ہو مشورہ دیتے وقت یہ نہ سوچے کہ پھر اسکے بعد ہم پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہوجائیں گی مشورہ دیتے وقت صرف یہ سوچے کہ آج اسلام کی زندگی کی بقاء اور احیاء اور اشاعت اور اسکے استحکام کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہمیں پیش کر دینی چاہئیں خواہ ہم بھوکے رہیں یا ہمارے بچے بھوکے رہیں یا ان کو کھانے کے لئے کچھ ملے۔ خواہ ہم زندہ رہیں یا ہمیں اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑے ہمیں اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کردینا ہے۔ یہ جماعت جب پیدا ہوجائے پھر ان کا یہ حق بن جاتا ہے کہ وہ صاحب الرائے ہیں کیونکہ ان سے مشورہ لیا جاتا ہے شہد کاایک جزو تیار ہوگیا۔ دوسرا جزو عزم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عزم انہوں نے نہیں کرنا۔ انہوں نے توجو کچھ تھا پیش کردیا تھا جس طرح چاہیں آپ اسکو استعمال کرسکتے ہیں۔ پھول زبان حال سے مکھی کو یہی کہتا ہے کہ میرا نچوڑ تیرے حضور پیش، ُتو اب جس طرح چاہے اسکو استعمال کرلے اورجس طرح چاہے وہ استعمال بھی کرتی ہے کیونکہ اس میں اپنےEnzymes(انزائمز)ملاتی ہے اسکو خشک کرتی ہے قوّام بناتی ہے اپنے Enzymes(انزائمز) ملاتی ہے اور پھر وہ فیصلہ کرتی ہے (اس میں انسان کا بھی تھوڑا سا دخل ہے) لیکن اصل اسی کا فیصلہ ہے کہ میں نے کچھ انسان کو دینا ہے اور بیچ میںسے بہت کچھ خود کھا لینا ہے اور اس طرح انسا ن کے ہاتھ میں شفاء کی ایک چیز آجاتی ہے چنانچہ پھر یہ کہنا کہ صرف آراء کے اوپر نہیں چھوڑنی بات۔ اگر صرف رائے پر چھوڑنی ہوبات، تو کثرت رائے کی پابندی ضروری ہوجائے مگر ابھی تو شہد ہی نہیں بنا ابھی تو اس میں شفاء ہی نہیں پیدا ہوئی کثرت رائے پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ پھر کہا کہ عزم اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ ہر قسم کی Enzymes (انزائمز)مثال کے طور پراسNectar(نیکٹر) میں، اُس پھول کے جزو میں تم شامل کرو اور پھر عزم جو ہے اسکے اندر دعاکا حصہ بھی آجاتا ہے کیونکہ عزم کے دومعنے ہیں ایک تویہ عزم کرنا کہ یہ کام ہم نے ضرور کرنا ہے یہ بھی لغوی طور پرعزم کے معنے میں ہے کہ پھر اس کام کی سرانجام دہی کے لئے انتہائی کوشش کرنا۔ اور’’جَدَّ فِی الْاَمْرِ‘‘جو عربی میں اسکو کہا گیا ہے اسکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ تدبیر دعا ہے اور دعا تدبیر ہے تو دعا کا پہلو بھی اسکے اندر آجاتا ہے۔ پس کہا کہ تم اپنا عزم اس رائے کے بیچ میں شامل کرو اور انتہائی دعائوں کے ساتھ ایک ایسی چیز ایک ایسا شہد بنائو ایک ایسا فیصلہ کرو جو اسلام کے استحکام کے لئے ضروری ہے اور جو کمزورایمان والوں کے لئے شفا ہے اور جو Prophylactic (پرافیلیکٹک)کے طور پر بیماریوں سے محفوظ رکھنے والا ہے تربیت،علاج اوراصلاح دونوں چیزیں اسکے اندر آجاتی ہیں۔ پس تربیت تو Prophylactic(پرافیلیکٹک) یعنی بیماریوں سے بچانے کا کام ہے اور یہ ساری چیزیں اسکے اندر آجاتی ہیں۔
غرض فرمایا کہ جماعت تیار کرو اور پھر ان سے مشورہ لو اور یہ آگے جو مشورہ کا ہے اس کی مثال دے دی کہ اسکی مثال ایسی ہے جیسے شہد کی مکھی شہد بنارہی ہو۔ آراء لو پھر اپنے عزم کو اپنی ہمت کو اپنی کوشش کو اپنی دعائوں کو اسکے اندرشامل کرواس مقام پر انسانی تدبیر اپنی انتہاکوپہنچ جائے گی لوگ اکٹھے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا رسول یا نائب رسول نے اپنے عزم کی Enzymes(انزائمز)اس میں شامل کیں دعائیں بیچ میں شامل کیں اورتدبیر کو انتہاء تک پہنچا دیا اور جس وقت تدبیر انتہاء کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق تم نے اپنی تدبیر کو اسکی انتہاء تک پہنچا دیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ محض تدبیر پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جتنی بے وفائیاں دنیا کی تدابیر نے انسان سے کی ہیں ان کا کوئی شمارنہیں تدبیر پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے حکم دیا تھا تدبیر کو انتہاء تک پہنچائو تم نے تدبیر کو انتہاء تک پہنچادیا اب ہم تمہیں کہتے ہیں کہ اپنی تدبیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد بھی تم نے تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے۔
پھر ایک اوردعا بھروسہ کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ پر توکل جو ہے اس کے ساتھ دوسری دعا جو ہے و ہ شروع ہوجاتی ہے اور جو آراء لی تھیں اور کثرت رائے کے حق میں یا خلاف جو بھی شکل شہد کی بنی وہ بن گئی۔ پس یہاں محض یہ نہیں کہا کہ اے رسول! تمہارا عزم شامل ہوگیا۔تم نے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کو انتہاء تک پہنچا دینے کے بعد تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا اللہ پر توکل کرنا ہے۔ مومنوں کو یہ کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا تمہاری آراء کے ساتھ نائب نبوّت کا عزم اور ہمت اور کوشش اوردعا مل جانے سے تم کامیاب ہوجائو گے۔ تم بھی یہ یاد رکھو اسکے باوجود تم بھی کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ تم کو اللہ پر بھروسہ رکھنا پڑے گا اور دوسری آیت میں فرمایا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُوْمِنُوْنَ(اٰل عمران:۱۶۱) ایک حکم دیا تھا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی وساطت سے آپ کے نائبین کو اور دوسرا حکم دیا جماعتِ مسلمین کو وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُوْمِنُوْنَ میں اسی طرف اشارہ ہے اور اس میں جماعتِ مؤمنین کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ یہ بات نہ بھولنا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں ناکام نہیں کرسکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کی نصرّت تمہیں سہارا نہ دے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں کامیاب نہیں کرسکتی۔اس واسطے جیسا کہ یہ حکم حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ تدبیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد اپنے اوپر اوراپنی تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا بلکہ محض اللہ تعالیٰ پر تو ّکل رکھنا ہے اسی طرح جماعتِ مؤمنین کو کہا کہ یہ نہ سمجھنا مثلاً اس زمانے میں فدائی جانثار پوری عظمت اور جلال محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی فراست رکھنے والے اور عرفان رکھنے والے مگر شیطان ان کا دماغ اس طرح بھی بہکا سکتا تھا کہتا کہ اتنا عظیم وجود تمہارے اندر موجود ہے اس کی فراست، اس کا عزم، اس کی ہمت، اس کی دعائیں اب اس تدبیر میں شامل ہوگئی ہیں۔ اب تو تم کامیاب ہو جائو گے شیطان ان کے کان میں یہ پھونک سکتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جماعتِ مؤمنین! اگر شیطان تمہارے کان کے پاس منہ لاکر یہ کہے کہ جو تم نے کرناتھا کرلیا اب تم کامیاب ہوجائو گے تو اس کی آواز پر کان نہ دھرنا بلکہ یہ اصولی حقیقت یاد رکھنا کہ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائبین کو تدبیر کے انتہاء تک پہنچا دینے کے بعد بھی تو ّکل کا حکم ہے اسی طرح تمہیں بھی تو ّکل کا حکم ہے اور تمہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر تم نے اپنی تدبیر پر بھروسہ کیاتو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مدد نہ دے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تم کامیاب اور کامران نہیں ہوسکتے اور اگر تم نے تدبیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد رسول کے قدم بقدم تو ّکل کے میدان میں چلتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ محض اللہ تعالیٰ پر تو ّکل کیا اور اپنی کوشش اور تدبیر اور فراست اور سمجھ اور بوجھ کوکوئی حقیقت نہ سمجھا اور کوئی اہمیت نہ دی تو پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں ملے گی اور جب اللہ تعالیٰ کی نصرت کسی شخص یا کسی قوم یا کسی جماعت یا کسی نسل کو مل جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کی کامیابی کے راستے میں روک نہیں بن سکتی یہ ہدایت اور تعلیم ہے جو مشورہ کے متعلق ہمیں دی گئی ہے۔
آج شوریٰ کے اجلاس شروع ہورہے ہیں کم وبیش تین دن تک شوریٰ رہتی ہے۔ آپ اس ہدایت کے مطابق پوری توجہ اور انہماک سے اور اونگھنے کے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھائیں یعنی جب آپ سے مشورہ مانگا جائے تو بے نفس مشورہ دیں جس طرح پھول اپنے جزو شہد کو مکھی کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔پھول کا اپنا نفس اس میں شامل نہیں ہوتا وہ تو کہتا ہے جو میرا نچوڑ تھاوہ لے جائو میں یہاں بغیر اپنی زندگی اور روح اور Essence(ایسنس) کے ہوں۔ پس اس یقین کے ساتھ ، اس پاک فطرت کے ساتھ اور اس فیصلے کے ساتھ کہ ہم نے اپنی ذات یا اپنے محلے کے متعلق نہیں سوچنا ہے نہ اپنے شہر اوراپنے علاقے کے متعلق سوچنا ہے بلکہ جو معاملہ سامنے آیا ہے صرف اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارے نزدیک ہماری سمجھوں کے مطابق اسلام کے غلبہ کے لئے کیا رائے دینی چاہئے اوروہ رائے آپ دیں۔
غرض جو تفصیل میں نے بیان کی ہے اسکے مطابق اپنے ذہنوں کو بنائیں اور دعائیں کریں کیونکہ دعا بھی تدبیر کا ایک حصہ ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم محض اسی پر تو ّکل کریں اورہمارے فیصلوں میں اسکی رحمت اور اسکی برکت اور اسکا فضل شامل رہے تا اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے کہ تمام دنیا پر اسلام غالب آجائے۔
(از رجسٹر خطبات ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز








اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اُسی پر بھروسہ کرتے
ہوئے مغربی افریقہ کے دورہ پر جا رہا ہوں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍اپریل ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا۔ ربوہ اورآپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے طبیعت میں اداسی بھی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطاکررہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جاکر جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور صدیوں سے حضرت نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود کی انتظار میں رہی ہیںاور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپؐ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ان کو ہدایت کی طرف اور ان کو ر شد کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بلائے اور وہ خَلِیْفَۃً مِنْ خُلَفَائِہٖ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور ان کی طبیعتیں ایک حد تک سیری محسوس کریں۔ چنانچہ صدیوں کے انتظار کے بعدا للہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقعہ نصیب ہوگادعا ہے کہ یہاں میری موجودگی میں بھی آپ ہمیشہ ثبات قدم پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اورمیری غیر حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے صدق وثبات اور وفا کے سامان اورصدق وثبات اور وفا اور محبت کی فضا پیدا کرتا رہے اورہمارا ان ممالک کی طرف جانا ان کے ثبات قدم کا موجب بنے اور جذبہ وفا میں شدت کا موجب ثابت ہو اور وہ قومیںمحبت الٰہی میں اور بھی آگے بڑھیں اور وہ جو ابھی تک اندھیروں میں بھٹکتے پھررہے ہیں انہیں بھی روشنی کی وہ کرن نظر آجائے جو اسلام کی شاہراہ کو منور کررہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس طرف بلار ہی ہے ظلم کے پھندوں سے وہ آزاد ہوجائیں اوراللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ گرفتار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ شیطانی ظلمات سے انہیں نجات دے اور وہ جو نُورُالسَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ہے اس کے نو رسے ان کے دل و سینہ منور ہوجائیں اور خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارا جو قدم ہرروز اپنی فتح اوراپنے مقصود کے حصول میں ہماری جو جدوجہد ہے اس کے کامیاب اختتام اور غلبۂ اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے وہ قدم اور بھی تیزی کے ساتھ اپنے مقصود اور مطلوب کی طرف اللہ تعالیٰ کے سہارے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بڑھنے لگے اور ان ممالک میں بھی(ساری دنیا میں ہی) آخری فتح اور غلبہ کے دن جلد آجائیں تاکہ بنی نوع انسان اس بھیانک عذاب سے محفوظ ہوجائیں جس کی طرف وہ خود اپنی جہالت کے نتیجہ میں بڑھ رہے ہیںمیری غیر حاضری میں بھی آپ محبت اور پیار سے رہیں۔ میری موجودگی میں بہت سے غریبوں اور مسکینوں کو یہ سہارا ہوتا ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ فوراً میرے پاس پہنچیں گے اور ان کے دکھ کا مداوا ہوجائے گا بعض نادان اپنی نادانیوں سے رعب خلافت کے قرب کی وجہ سے بچے رہتے ہیں اورجب خلافت کا قرب عارضی طورپر اس طرح نہ رہے اوران کی اپنی جہالت کی وجہ سے وہ احساس کند ہوجائے جو خلافت کے رعب کا احساس ہے تو پھر شیطان ان سے جہالت کے کام بھی کروادیتا ہے اس قسم کے نادان دماغ کو میں یہ کہوں گا کہ خلیفہ وقت کے لئے نہیں خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنے بھائیوں سے محبت کرو اوراپنی نادانیوں کے نتائج سے اپنے نفس اوراپنے خاندان اور اپنی نسلوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہو ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اورجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تاکید اً وصیت کی ہے۔ ہم ہرایک کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی سے پیش آئیں۔ اپنے نفس کو جس پر بعض دفعہ شیطان سوار ہوجاتا ہے اس گھوڑے کی طرح نہ چھوڑدیں کہ جو شیطان بھی آئے اس پر سوار ہوجائے بلکہ یہ نفس ہمیشہ (اگر اس کی گھوڑے کی مثال ہوتو یہ ایک)ایسا گھوڑا رہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیشہ سوار رہے اور جس کی لگام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ہاتھ میں رہے ورنہ توگرپڑنا اور ہلاک ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے۔
پس محبت اور پیار سے اپنے دن گزاریں اور صدقہ اور دعائوں کے ساتھ میری مدد کریںجو کام میرے سپرد ہے اور جس کی آخری ذمہ داری ان کمزور کندھوں پر رکھی گئی ہے وہ صرف میراکام نہیں بلکہ ساری جماعت کاکام ہے خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہی بڑی سخت ہے غرض خلافت کے قیام کے ساتھ جماعت کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ اور بھی بڑھ جاتی ہیں کیونکہ جب خلافت نہ رہی عوام کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب! اگر ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے کوئی ہدایت کی طرف بلانے والاہوتا اوراگر ہمیں پیاراور غصہ کے ساتھ ان حدود کے اندر رکھنے والا کوئی ہوتا جن حدود کوتونے قائم کیا تو نہ ہم بھٹکتے اورنہ شیطان کی یلغار ہم پر کامیاب ہوتی لیکن جب خلافت قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور اس کی بے شمار رحمتیں جماعت پر نازل ہورہی ہوں ، راہیں روشن ہوں اور اندھیرے بھاگ رہے ہوں اس وقت نور سے نفرت اور ظلمت سے وہی پیار کرے گا جس کا دل شیطان کے قبضہ میں ہو پھر وہ اس گروہ میں سے نہیں ہوگا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ’’عِبَادِیْ‘‘ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ شیطان ان پر غالب نہیں آسکتا،پس اللہ تعالیٰ اپنے ایک سچے اور مخلص اور حقیقی بندے کو جس شکل اور روپ میں دیکھنا چاہتاہے وہی شکل اور روپ اور اسی نورکی جھلک دعائوں کے ساتھ اور تدبیروں کے ساتھ مجاہدہ کے ساتھ اور قربانیوں کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرکے اپنے رب سے طلب کریں اور پائیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
پھر میں کہتا ہوں کہ صدقہ اور دعا سے میر ی مدد کریں اللہ تعالیٰ جس غرض کے لئے اس سفر کے سامان پیدا کررہا ہے وہ غرض پوری ہو۔ میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا میرا پچھلے سال جانے کا پروگرام تھا پھر بعض وجوہات کی بناء پر چھوڑنا پڑا چنانچہ مغربی افریقہ سے ایک پرانے بوڑھے احمدی کا مجھے خط آیا کہ ساری عمر یہ حسرت رہی کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے توحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوجائے غالباًانہوں نے اس غرض کے لئے رقم بھی جمع کی لیکن ان کو اس کی توفیق نہ ملی پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور انہوں نے لکھا کہ میں آپ کی شکل نہیں دیکھ سکا آپ سے مل کر برکت نہیں حاصل کرسکا میں زندہ ہوں آپ کا وصال ہوچکا ہے اب آپ کی خلافت ثالثہ کے وجود میں امید بندھی تھی کہ یہ موقعہ مل جائے گا آپ سے ملاقات ہوجائے گی لیکن میں اتنا بوڑھا ہوں کہ اب میرے دل میں یہ وسوسہ رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جو ایک سال کا التوا ہے اس میں میں اس دنیا سے چلا جائوں اوریہ حسرت میرے دل ہی میں رہے کہ جماعت احمدیہ کے امام کی زیارت کرسکوں۔
پس اس قسم کی تڑپ ان بھائیوں کے دل میں ہے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ محبت سے اور فراست اور پیار سے اور ان کی ضرورتوں کے سمجھنے اور ان کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرنے سے ان کی پیاس کو بجھا سکوں اور خداتعالیٰ ان کے لئے سیری کے سامان پیدا کردے۔ تاکہ وہ بشاشت کے ساتھ ہمارے کندھے سے کندھا ملائے۔اسلام کی فتح کے دن کی طرف ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں مگراللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا ہم اسی کے در کے بھکاری ہیں اور ہم اسی کے حضور جھکتے ہیں اسی پرہمارا تو ّکل ہے دنیا کا کوئی سہارا نہ ہمارے پاس ہے نہ دنیا کے کسی سہارے کی ہمیں خواہش ہے اگر وہی ایک ہمارا پیارا سہارا بن جائے تو ہمیں سب کچھ مل گیا سارے سہارے ہم نے پالئے پس اسی کے سہارے اور اسی پر تو ّکل کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ میں اس سفر پر جارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ اسلام کے غلبہ کے دن جلد سے جلد آجائیں اور عاجزانہ طور پر جن صحیح اور سچی اور سیدھی راہوں کا میں متلاشی ہوں اللہ تعالیٰ ان راہوں کو میرے لئے بھی اور خدا کرے آپ کے لئے بھی منور کر دے اور کامیابی عطا کرے اور خیریت کے ساتھ آپ یہاں رہیں اور خیریت کے ساتھ ہم وہاں سے واپس آئیں اور ان لوگوں کے پیار اور ان کے اخلاص سے اپنے خزانے بھر کر واپس لوٹیں اور وہ واقعات آپ کے ایمان میں زیادتی کا باعث بنیں جس طرح کہ یہاں کی قربانیاں ان کے ازدیادِ ایمان کا باعث بنتی ہے۔تَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّوَ التَّقْویٰ(المائدہ:۳) کا ایک مفہوم ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی اس طرح بنائو کہ دوسرا اس سے سہارا لینے لگے اگر عملی زندگی میں اس قسم کا تعاون ہوا ور ہرایک دوسرے بھائی کواللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نظرآئے تو اس سے بشاشت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے قربانی اور ایثار کی امنگ اور خواہش بھی پیدا ہوتی ہے اور انسان دنیوی تکالیف کو اور ان دنیوی مخالفتوں کوکوئی چیز نہیں سمجھتا ایک موج ہوتی ہے جو ٹھاٹھیں مارتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں رکھتا اور آخری غلبہ کے دن تک اس نسل کو جس کے لئے وہ مقدر ہوپہنچا دیتا ہے ہر نسل کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے وہ نسل وہی ہو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش ہے اور ہم بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگلی نسل کیوں؟ یا ا سکے بعد کی نسل کیوں؟ تو اپنے فضل سے ہماری زندگیوں میںاسی نسل کو وہ دن دکھا دے جو اسلام کے لئے عید کا دن ہوگا اور جس کا تونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ کیا ہے۔ اٰمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۹؍اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ۳،۴)
ززز








احمدیت انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم نہیں ہے
اس کی بنیاد خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۷؍اپریل۱۹۷۰ء بمقام مسلم ٹیچرزٹریننگ کالج لیگوس ۔نائیجریا)
نوٹ:-حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبہ انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا تھا جس کا اردو ترجمہ افادئہ احباب کے لئے درج ذیل ہے۔
ّتشہد و ّتعوذاورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
انسانوں کی خود اپنے ہی ہاتھوں قائم کی ہوئی تنظیم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اراکین نے آپس میں یہ عہد کیا ہے کہ وہ مل جل کر کام کریں گے اور ایک مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے اس کی حیثیت ایک کلب کی سی نہیں ہوتی یہ ایک جماعت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ سے قائم کرتا ہے اور جس پر اسکی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
درحقیقت ان دونوں میں فرق کویوں بیان کیاجاسکتا ہیکہ جب لوگ باہم مل کر کوئی تنظیم قائم کرتے ہیں تووہ اس بات کے بھی مجاز ہوتے ہیں کہ اس تنظیم کو توڑڈالیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی جماعت کو قائم کرتا ہے تو دنیا میں کوئی فرد یا کوئی ادارہ نہ اس بات کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی اسے یہ قدرت حاصل ہوتی ہے کہ اس جماعت کو توڑدے۔ انسانوں کی قائم کردہ تنظیمیں ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ سکتی ہیں اور اکثر بٹ بھی جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک حصہ کو اتنے ہی حقوق اور مراعات حاصل ہوتی ہیں جتنی کہ اپنی اپنی جگہ دوسرے حصوں کو، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت بھی متعدد حصّوں میں تقسیم ہوسکتی ہے لیکن ان میں سے جماعت کا صرف ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی برکات کا مورد رہ سکتا ہے باقی سب ان فیوض سے محروم کر دیئے جاتے ہیں انسانوں کی قائم کردہ تنظیم زیادہ سے زیادہ اپنے اراکین کی دنیوی اور مادی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے یہ تنظیم سکول قائم کرسکتی ہے ہسپتال جاری کرسکتی ہے لائبریریاں اور دیگر ایسے ہی ادارے قائم کرسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اپنے اراکین کے لئے اس سے بہت کچھ زیادہ کرنے کی اہل ہوتی ہے اور یقینا ان کیلئے وہ مادی ضروریات سے بہت کچھ بڑھ کر دکھاتی ہے در حقیقت الٰہی جماعت کے قیام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اراکین کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں مدد دے اور یہ ایسی بات ہے جسے انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم کسی صورت میں بھی سرانجام نہیں دے سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی برکات یا ان کا وعدہ اس تنظیم کے شامل حال نہیں ہوتا برخلاف اس کے الٰہی جماعت تو شروع ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اورنصرت اور کامیابیوں کے ہزاروں وعدوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
’’بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا یہی تائید دین کے لئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری انتہائی ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیونکر اور کن راہوںسے وہ اغراض حاصل ہوسکتے ہیں۔ سو انہیں جانناکہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھوڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے۔ سو اس یقین کامل کی راہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہرگز نہیں کھل سکتیں...........
جوآسمان سے اترا وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے۔ سو اے وے لوگو! جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک وشبہات کے پنجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو.........اپنی سچی رفاہیّت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی انہی تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں اور مدارس کے ذریعہ سے کی جاتی ہیں اور یہ اشغال بنیادی طورپر فائدہ بخش توہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصوّر ہوسکتے ہیں مگر اصل مدّعا سے بہت دور ہیں.........امیدوں کا تمام مدار و انحصار ان رسمی علوم کی تحصیل پر ہر گز نہیں ہوسکتا اور اس آسمانی نور کے اترنے کی ضرورت ہے جو شکوک وشبہات کی آلائشوں کو دور کرتا اور ہوا وہوس کی آگ کو بجھاتا اورخداتعالیٰ کی سچی محبت اور سچے عشق او رسچی اطاعت کی طرف کھینچتا ہے۔........
اگرچہ تم اپنی دنیوی فکروں اور سوچوں میں بڑے زور سے اپنی دانش مندی اور متانت رائے کے مدعی ہو۔مگر تمہاری لیاقت تمہاری نکتہ رسی تمہاری دور اندیشی صرف دنیا کے کناروں تک ختم ہوجاتی ہے اور تم اپنی اس عقل کے ذریعہ سے اس دوسرے عالم کاایک ذرہ ساگوشہ بھی نہیں دیکھ سکتے جس کی سکونت ابدی کے لئے تمہاری روحیں پیدا کی گئی ہیں۔‘‘ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر۳ صفحہ ۴۱ تا ۴۳)
سویہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان آسمانی روشنی یعنی الٰہی نور کے بغیر نابینا اور اندھا ہے اللہ تعالیٰ نے جو رحمن اور رحیم ہے انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ انسانی خیالات کے جنگلوں میں بھٹکتا پھرے اس نے تمام زمانوں میں انبیاء کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ حقیقی اوراصل مقصد کی طرف انسانوں کی راہنمائی کریں اس سلسلہ میں آخری راہنما حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے نوعِ انسان کی راہنمائی کے لئے جو احکام آپ کو عطاکئے گئے وہ قرآن مجید میں درج ہیں اور ان کا بہترین عملی نمونہ یا اُسوۂ حسنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حیات طیبہ ہے حضورؐ کے بعد خلفاء راشدین کا دور آیا جو کہ آپ کے سچے جانشین تھے اور جن کے وجودوں میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشنی پوری طرح منعکس تھی۔ خلافت راشدہ کے دور ختم ہوجانے کے بعد مجدد دین انسانوں کی اس وقت تک راہنمائی کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت میرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود اور مہدی معہود بن کر دنیا میں تشریف لے آئے آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور آپ کے عظیم روحانی فرزند تھے اور آپ کی بعثت ان متعدد پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی جو قرآن مجید اور اس سے پہلی کتب مقدسہ میں درج ہیں اور جن کا احادیث نبوی میں بھی ذکر ہے آپ کی بعثت سے شکوک و شبہات اور بے یقینی کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور انسان ایک دفعہ پھر اپنے خالق کے قریب آگیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ انسان نے نئی زندگی حاصل کرلی اور اس کی زندگی بامقصد ہوگئی اور اس نے جان لیا کہ اس کی زندگی کا حقیقی مقصد کیا ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے اس روشنی نے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی چمکنا بند نہیں کر دیا حضورکا تو وصال ہوگیا لیکن وہ روشنی اپنی جگہ پر قائم ہے اور روحوں کو باقاعدہ اور مسلسل منور کررہی ہے اور مَردوں اور عورتوں کی ان کی حقیقی منزل کی طرف راہنمائی کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوروشنی اور بصارت کے بغیر نہیں چھوڑدیاروشنی چمک رہی ہے اور اس کی شعاعیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کے ذریعہ اکنافِ عالم میں پہنچ رہی ہیں ان خلفاء کو چھوڑ کرنہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی راہنمائی۔
درحقیقت خلیفہ کسی دنیاوی انجمن کا سربراہ نہیں ہوتا اس کا انتخاب خدا خود کرتا ہے اور وہ خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ کی طرح ہوتا ہے اسکے ذریعہ آسمانی مقصد اورآسمانی سکیم کی دنیا میں نمائندگی ہوتی ہے یادرکھو کہ احمدیت کوئی انسانوں کی ازخود بنائی ہوئی کلب نہیں ہے یہ ایک جماعت ہے اور جماعت بھی ایسی جس کی اللہ تعالیٰ نے خود بنیاد رکھی ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی راہنمائی کرتا رہے گااور اللہ تعالیٰ ہی حقیقتاً تمام روشنی کا منبع ہے۔ اس جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی عظمت اور شان کو دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ فرمایاہے یہی جماعت انسانیت کی امیدوں کا مرجع اور اس کے درخشندہ مستقبل کی ضامن خلافت قدرت ثانیہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی دوسری تجلی اگر چہ خلیفۃ المہدی المعہود تو نہیں ہوتا لیکن وہ المہدی المعہود کا جانشین ضرورہوتا ہے اس کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب المسیح الموعود والمہدی المعہود کا وصال ہوجائے یہ بات تو واضح ہے کہ مہدی علیہ السلام جسمانی طور پر ہمیشہ تو اس دنیا میں نہیں رہ سکتے تھے لیکن خلافت رہ سکتی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی درحقیقت خلافت اسلام کی ان برکات کے تسلسل کا نام ہے جو مہدی موعود دوبارہ دنیا میں لائے تھے۔
اب اللہ کی ٔمشیت نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جانشینی کی بھاری ذمہ داریاں میرے کمزور کندھوں پر ڈالی جائیںجن لوگوں نے میری اطاعت کا عہد کیا ہے اور اسلام کی خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے جلال اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وعظمت کے اظہار کے لئے کوشاں ہیں انہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ کامیابی اور خدمت کرنے کی توفیق کے لئے ہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں اگر انسانی امداد باہم نہ پہنچائی جائے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر ہونی چاہئے کہ اس نے محض اپنے فضل سے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ مدد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے وصول کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز بھی نہ کسی کام آسکتی ہے اور نہ کسی حقیقی مدد کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اورہمت عطاکرے کہ ہم ثابت قدمی سے اسی کے ہورہیں اور غیر اللہ سے ہمارا کوئی تعلق نہ ہو ہم اس کے دین کی خاطر اور اس کی رضا کی حصول کی خاطر ہمیشہ ہرقربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور ہر قسم کے بتوں کو،دولت کے بت، طاقت کے بت لوگوں کی خوشنودی یا ان کی ناراضی کے بت، تعداد کی کثرت کے بت اور نسلی امتیاز کے بت پاش پاش کردیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہواور ہماری مدد اور نصرت فرمائے خدا کرے کہ اس کی رضا اور اس کی خوشنودی بتمام وکمال ظاہرہو۔اٰمین یا ربّ العالمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍مئی ۱۹۷۰ء صفحہ۳ ،۴)
ززز







جماعت احمدیہ غانا کو خلافت کی برکات
سے بالمشافہ حصہ پانے کا موقع
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍اپریل ۱۹۷۰ء بمقام سالٹ پانڈ غانا)
(خلاصہ)
حضورانور نے خطبہ جمعہ میں جو گیارہ بج کر پچپن منٹ پر شروع ہوا اور انگریزی زبان میں تھا اور جس کا ترجمہ ساتھ ساتھ مکرم عبدالوہاب صاحب آدم کر رہے تھے فرمایا:-
یہ دن آپ کے لئے ایک عظیم دن ہے اللہ تعالیٰ نے اس فعّال اور زندہ تحریک میں شامل ہونے کی آپ کو نہ صرف توفیق دی بلکہ آج آپ کو موقع دیا ہے کہ آپ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ایک خلیفہ سے ملاقات کر سکیں۔ پہلی بار آپ میں سے اکثر کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ مجھ سے دعائیں لیں اور خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پائیں۔ اگرچہ میں تو آپ کے لئے ہر روز دعا کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے بھی یہ ایک عظیم دن ہے جب مَیں یہاں آیا اور میں نے تقدس کا نور آپ کی پیشانیوں پر چمکتا ہوا دیکھا تو میرے جذبات نے ایسا جوش مارا جسے بیان کرنا ممکن نہیں بڑی مشکل سے میں نے اپنے جذبات پر قابو پایا۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ایک تنہا اکیلی آواز تھی جو آج سے اسّی سال پہلے قادیان سے بلند ہوئی وہ آواز اپنے نفس کو بلند کرنے کے لئے نہیں اٹھائی گئی تھی۔ وہ آواز اللہ کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے اٹھائی گئی تھی جو بڑی طاقتوں والا ہے۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام کو ظاہر کرنے کے لئے بلند کی گئی تھی۔ (اس پر آمین آمین کی آوازیں بلند ہوئیں) بنی نوع انسان اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول چکی تھی لیکن بنی نوع انسان کو آپ کی رحمت اور مدد کی ضرورت تھی جس کے بغیر وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے سے نہیں بچ سکتی تھی۔ جب وہ آواز بلند ہوئی تو ساری دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے کھڑی ہوگئی لیکن انسان کی متحدہ سازش اور طاقت اس آواز کو خاموش نہ کر سکی۔ اللہ کے فرشتے آسمان سے اُترے کہ اس کی حفاظت کریں اور اس کی تائید کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچائیں۔ جب میں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کے ترانے گاتے دیکھا اور سنا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ وہی آواز ہے جو آپ کے مونہوں سے صدائے بازگشت کی طرح ٹکرا کر بلند ہو رہی ہے۔ آپ احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہیں یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت مسلمان جاگنے کی کوشش کر رہے تھے وہ تنظیمیں اور ایسوسی ایشنیں بنا کر اپنے رنگ میں مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے اور ان کی دنیاوی مشکلات کو حل کرنے میں کوشاں تھے لیکن آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی نئی ایسوسی ایشن یا کلب قائم کرنے کے لئے تشریف نہیںلائے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اپنی جماعت کے قیام کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی پوری قدرت اور طاقت آپ کی پشت پر تھی۔ پس آپ کی خوشی اور اس کا اظہار بالکل حق بجانب ہے آپ مجھ سے ملے اور مجھے دیکھا اور میری دعائیں لیں اس لئے آپ کو پورا حق ہے کہ آپ خوش ہوں جیسا کہ میں نے کہا ہے میں ہر احمدی کو احمدیت کی سچائی کاثبوت سمجھتا ہوں اور آپ کا اسلام کے مقاصد کے حصول میں شغف آپ کے اخلاص اور ایمان کا آئینہ دار ہے۔ آپ ثبوت ہیں اس بات کا کہ ہر وہ چیز صحیح اور خیر ہے جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے اس لئے ہمیں ان ذمہ داریوں کو جاننا اور سمجھنا چاہئے جو ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔ ہمارے سامنے ایک اس سے بھی شاندار مستقبل ہے اور اسی کے مطابق بہت بڑی قربانیوں کی بھی ضرورت ہے اگر ہم اپنی ذمہ داریاں صحیح معنوں میں ادا کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کے ایسے فضلوں کے وارث ہوں گے جن کا آج ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اسلام اور احمدیت کی فتح کا دن بہت قریب ہے اس لئے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ اس کے فرشتے آسمان سے آپ کی مدد کے لئے اُتریں گے اور آپ ہی صرف آپ ہی ہر مذہب، ہر قسم کے فلسفے اور ہر قسم کے نظریے پر غالب آئیں گے۔ مستقبل آپ کا ہے مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ آگے بڑھیں اور اس سے ملیں۔ ‘‘
اس کے بعد حضور نے اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں تفصیل سے واضح فرمایا کہ یقین یقین کو کاٹتا ہے۔ شکار جنگل کی طرف بلاتا ہے تو سانپ اور شیروں کا خوف اس سے دور بھگاتا ہے کہ جس طرح ایک شکاری کا جنگل میں جانا اور وہاں شکار کی بجائے سانپوں اور بھیڑیوں اور چیتوں کو پاکر واپس لوٹ آنا ایک صحتمند عمل ہے اسی طرح اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور غصے کا ڈر ہو تو وہ کبھی گناہ نہ کرے وہ پوری کوشش کرے گا کہ اس کے غصے اور غضب کے جہنم سے اپنے آپ کو بچائے۔
پھر فرمایا اس لئے اے میرے روحانی بچو! جس چیزکی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے جلال پر یقین ہے۔ ایسا یقین جس سے جسم کانپ جائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور رضا ہی میں نجات نظر آئے۔ پس قرب کی راہوں کی تلاش ضروری ہے اس لئے میں مہدی اور مسیح علیہ السلام کے جانشین کے طور پر آپ کو جو یہاں موجود ہیں یا دنیا میںکہیں اور موجود ہیں ان سب کے نوٹس میں یہ حقیقت لانا چاہتا ہوں کہ جو کتاب ان ساری ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ صرف قرآن مجید ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳ ؍مئی ۱۹۷۰ء صفحہ۴،۵)
ززز







حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد
اللہ تعالیٰ کی صفات کے عرفان کاحصول ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مئی ۱۹۷۰ء بمقام سیرالیون)
(خلاصہ)
’’حضور کا خطبہ ایک بجکر ۳۷ منٹ پر شروع ہوا۔ خطبے کا ترجمہ امام عبداللہ نے کری اول (Creol) یعنی Broken English اور الحاج بونگے نے ٹمنی زبان میں کیا۔ کری اول زبان امریکہ اوربرازیل سے واپس آنے والے ان آزاد غلاموں کے ذریعہ آئی ہے جو غلامی کے خاتمے پر افریقہ کے مختلف ممالک میں واپس آکر آباد ہوئے ان لوگوں کی اکثریت عیسائی ہے اور یہ لوگ افریقہ کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ٹمنی یہاں کامشہورمقامی قبیلہ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔ حضور کے انگریزی زبان میں ارشاد فرمودہ خطبے کا ملخص درج کرتا ہوں۔‘‘ چوھدری محمد علی ایم اے۔ حضور نے فرمایا:-
میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں میں خوش ہوں کیونکہ میں آپ میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان سمجھتا ہوں آپ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا۔
I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY OF ISLAM
میں تجھے مسلمانوں کا بہت بڑا گروہ عطا کروں گا آپ کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جماعت احمدیہ کوئی کلب نہیں ہے ایک کلب یا ایسوسی ایشن اور ایک الٰہی جماعت میں بہت فرق ہوتا ہے کسی کلب یا ایسوسی ایشن کی بنیاد باہمی خیرسگالی اور افہام و تفہیم پر ہوتی ہے اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتی ہے ہمارے قادر و توانا خدا نے یہ جماعت ایک خاص مقصد کے لئے قائم فرمائی ہے اور سیدنا حضرت مہدی علیہ السلام کو ایک خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل ہو یہ عرفانِ الٰہی ہی ہے جس سے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور یقین مستحکم ہوتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ اس کی فلاحِ دارین اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے اس کی تمام اُمیدیں اسی کی رضا پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ ایسا صاحبِ عرفان و یقین انسان خود اعتمادی اور وثوق کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے روشن نشانات اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں اس کا ارادہ مضبوط اور عزم راسخ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور الٰہی انعامات کا ذاتی تجربہ حاصل کرتا ہے جس سے اس کا اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین اور بھی قوی ہو جاتا ہے اس کا اپنا ارادہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کا تسلّط اس پر قائم ہو جاتاہے اس کی معرفتِ الٰہی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کے دل کو تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیتا ہے اس کی پاک روح اس کے اندر رہائش پزیر ہوجاتی ہے اور اسے حرکت اور طاقت بخشتی ہے یہ روح اس کے ہر کام میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اس کا نگران اور محافظ بن جاتا ہے اور وہ جبروت و عظمت والے خدا کے جلال کے تصرف میں آجاتا ہے اور ایمان و عرفان کا پانی اس کے دل سے اس طرح بہہ نکلتا ہے جس طرح میٹھے چشمے سے پانی۔ وہ اس تجربے میں لذت پاتا ہے اور یہ لذت اس پر حاوی ہو جاتی ہے اور ا سکی آنکھوں اور چہرے سے نظر آنے لگ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا نور اس پر بارش کی طرح برستا ہے اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا لباس پہن لیتی ہے۔ اور اس کے وجود میں نئی زندگی کے آثار کچھ اس طرح نمودار ہو جاتے ہیں جس طرح درختوں کی شاخیں موسمِ بہار کے آنے پر پتوں اور پھولوں سے لد جاتی ہیں اور حسن و جمال کا مرقع بن جاتی ہیں۔
اس کے بعد حضور نے مساجد کے فلسفہ و حکمت پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ خود ہے یہ خدائے واحد کا گھر ہے جو شخص خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضۂ عبادت ادا کر سکے اس لحاظ سے مسجد تمام عبادت گاہوں، گرجوں اور صومعوں کی پناہ گاہ اور محافظ بن جاتی ہے۔ مسجد اعلان ہے اس امر کا کہ تمام عبادت گاہیں جو خدائے واحد کی طرف منسوب ہوتی ہیں اسی کے لئے ہیں اور وہی ان کی حفاظت کا ضامن ہے۔
اس کے بعد حضور نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے تفصیل سے استدلال فرمایا اور فرمایا کہ حضرت مہدی علیہ السلام ہمیں نور دینے کے لئے آئے تھے۔ تاکہ ہم سچے ایمان کا نور اپنی ذات میں مشاہدہ کر سکیں آپ کا یہ فرضِ اوّلین ہے اور آپ کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور سچائی کی توفیق آپ کو حاصل ہو اور ایسی حسین روح آپ کو دی جائے جو اس دنیامیں بھی اورآخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو دنیا آج اپنے خالق کو بھول چکی ہے اور مکمل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا کو اپنا نور اور محبت اور عرفان بخشے اور اسے اس خوفناک انجام سے بچا لے۔
اس کے بعد حضور نے بلند آواز سے لمبی دعا فرمائی اور فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں اور آپ اس میں خاموشی سے شامل ہوں۔ اور اپنے دل میں اٰمین کہتے جائیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍ مئی ۱۹۷۰ء صفحہ۳)
ززز







میں اسلام کا محبت واخوت اور مساوات کا
پیغام لے کر مغربی افریقہ روانہ ہوا
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۲؍جون۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گزشتہ ۴؍ اپریل کومیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کا محبت اور پیار، اخوت اور مساوات کا پیغام لے کرمغربی افریقہ کے ممالک کے دورہ پر روانہ ہواتھا اور چند ہفتوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منادی بن کر آپ میں پھر واپس آیا ہوں میں نے وہا ں جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور مشاہدہ کیا الفاظ میں اس کا بیان ممکن نہیں کچھ جھلکیاں ہیں جو دکھا دی گئیں کچھ جھلکیاں ہیں جو دکھائوں گا وہ حالات دیکھنے اورمحسوس کرنے سے تعلق رکھتے تھے بیان کرنا قریباً ناممکن ہے۔
میں نے ان سب اقوام کو جن میںمَیں نے دورہ کیانیز ان کے ذریعہ افریقہ کی دوسری اقوام کو اسلام نے پیار کا جو پیغام بنی نوع انسان کو دیا ہے وہ سنا یا محبت واخوت، ہمدردی وغم خواری کی ان سے باتیں کیں اور مساوات کی آواز کو ان کے درمیان بلند کیا صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خودعمل سے انہیں بتایاکہ ہم میں اور آپ میںکسی انسان اور دوسرے انسان میں بحیثیت بشر کوئی فرق نہیں ہے ہزاروں بچوں کو پیار کیا ہزاروں بڑوں سے معانقہ کیا اور پتہ نہیں کتنوں سے مصافحے کئے،وقت پر بھی کئے اور بے وقت بھی کئے ایسے وقت میں بھی کئے جب احساس یہ تھا کہ اس وقت یہاں گرمی میں زیادہ ٹھہرنا ٹھیک نہ ہو اور مَیں بیہوش ہوجائوں لیکن جومَیں انہیں بتانا چاہتا تھا قول اور فعل سے، وہ مَیں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی کہ بتادوں۔ اَکرا (گھانا) میں پہلی بار ہماری بڑی مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ بنیاد کے رکھے جانے کے موقع پر ہزاروں آدمیوں کے سامنے میں نے اسلام کی یہ تعلیم پیش کی ان میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی لیکن میری آواز ریڈیو اور اخبار کے ذریعہ قریباً ہرفرد تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ اخباروں نے بہت تعاون کیا اور ریڈیو اور ٹیلیویژن نے بھی بہت تعاون کیا۔
مسجد کے متعلق میں نے انہیں بتایا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ کی مسجد کے دروازے جس کے ہم نگران ہیں ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جوخدائے واحد ویگانہ کی پرستش کرنا چاہے خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اور قرآن کریم نے ساری دنیا میں یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ مسجد علامت اور نشان ہے اس بات کا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوںکی حفاظت کی جائے گی اور انہیں مسمار نہیں کیا جائے گا۔ مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور دنیا میں ایک نہایت حسین مثال قائم کی۔
ضمناً میں یہ بتا دوں کہ سپین میں ہمارا ڈرائیور انگلستان کا رہنے والا تھا اور وہ کیتھو لک نہیں تھاچنانچہ ایک موقع پر اس نے یہ کہا کہ ان کیتھولکس نے سپین کی سب مساجد مسمار کردیں جو دو۲ ایک نمونہ کے طور پر رکھیں وہ آثار قدیمہ کے طور پر ہیں مسجد کے طور پر نہیںاس نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا آپ کے ملک میں کیتھولک چرچ ہیں؟ جب اس کو بتایا گیا تو وہ کہنے لگا کیا یہ بھی ہوسکتاہے کہ آپ نے ان کیتھولکس کو اجازت دی ہوکہ وہ آپ کے ملک میں اور دوسرے اسلامی ممالک میں چرچ بنائیں اور وہاں وہ اپنی عبادت کریں؟ ہم نے اسے سمجھایا کہ اسلام مذہبی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے درمیان ایک نہایت حسین معاشرہ قائم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مسجد کی حفاظت کی جائے اور مسجد کے طفیل اور مسجد کو علامت اور نشان بنا کر دوسری تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی۔ مسجدیں محض خود آباد ہی نہیں ہوںگی بلکہ غیروں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا موجب بھی ہوںگی۔ان میں صرف اللہ کا ذکر ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ امید رکھی جائے گی کہ جو لوگ مسلمان نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی اپنی عبادت گاہوں کو آباد رکھیں۔
مساوات کا جو نمونہ ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے اس کی ایک ہی مثال مَیں وہاں مختلف موقعوں پر دیتا رہا ہوںاور وہ فتح مکہ کے دن کا واقع تھا میں نے انہیں بتایا کہ تمہارے میں سے ایک حبشی غلام، مکہ کے جو پیرا مائونٹ چیف تھے ان کا غلام تھا اور وہ اس کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم کیا اور اس کو اسلام کے نور کی شناخت میسر آئی اور وہ مسلمان ہوگیا۔پہلے نفرت اور حقارت تھی اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم اور تشدد بھی شروع ہوگیا ان لوگوں نے اس پر انتہائی ظلم کیا کہ آج بھی اس کی یاد میں ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ایک مسلمان نے اسے خریدا اور آزاد کردیا پھر وہ مسلمان معاشرہ کا ایک محترم اور معزز فرد بن گیا۔
فتح مکہ کے روز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کیا اور آپ نے اس جھنڈے کا نام بلالؓ کا جھنڈا رکھا اور اس کو ایک مقام پر گاڑ دیا اور سردارانِ مکہ سے کہا کہ اگر تم امان چاہتے ہوتو اس شخص کے جھنڈے تلے جمع ہو جائو جس کو تم نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے۔اس طرح پر اس مظلوم بلالؓ کا انتقام لیا ایک حسین انتقام جسے مَیں انگریزی میںSweet revenge(سویٹ ریوینج)کہہ دیا کرتا تھا۔ یہ میری اپنی اصطلاح ہے لیکن مجھے پسند ہے اب بھی میں دہرا دیتا ہوں یہ حسین اور پیارا اور میٹھا انتقام کہ ہم تمہیں ہلاک نہیں کرنا چاہتے لیکن بدلہ ضرور لیں گے۔ بلالؓ کے جھنڈے تلے آجائو تاکہ اس بلالؓ کی وجہ سے جس پر ظلم کرکے تم انسان انسان میں فرق کرنا چاہتے تھے اس بلالؓ کو ہم مثال بنا دیں فرد اورفرد، انسان اور انسان کی تفریق کو دور کرنے کی۔
جس وقت میں نے یہ واقعہ پہلی دفعہ سنایا تو اتنی خوشی کی لہراس مجمع میں پھیل گئی کہ میرے کانوں نے وہ بھنبھناہٹ سنی جو خوشی کی وجہ سے فضا میں پیداہوئی تھی لوگوں نے بڑے جوش کے ساتھ والہانہ طریق پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ان میں غیر بھی تھے، پادری بھی تھے۔ ایک موقع پر علاقے کے کیتھولک مشن کے سب سے بڑے پادری بھی موجود تھے(اللہ تعالیٰ نے وہاں جماعت احمدیہ کو اتنا رعب دیا ہے کہ پادریوں کو ہمارے جلسوں میں آنا پڑتا ہے وہ پیچھے رہ ہی نہیں سکتے)لیکن کوئی توجہ نہیں تھی وہ بے تعلقی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں نے اپنے افریقن بھائیوں سے کہا کہ وہ سب نبیوں کا سردار تھا اور تمام بنی نوع انسان کا فخر اور سب سے اعلیٰ اور ارفع تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ جب اس نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (الکھف:۱۱۱) کہ انسان ہونے کی حیثیت میں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیںمیں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان۔پس وہ جو اس کے ماتحت تھے اور اس سے کم درجہ رکھتے تھے Those who were junior to him like moses and christ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو اور ان کے پیرئوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم پر برتری کا اعلان کریں وہ پادری جو پہلے بے تعلقی سے بیٹھا ہوا تھا اچھل کر بیٹھ گیا اور اس نے کہا کہ ہمارے اوپر یہ کیا بم گرا دیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کرکے یہ فرمایا کہ اِنَّمَآ اَناَ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (الکھف:۱۱۱) اور جب ہم اس میٹھی آواز کو خود اپنے کانوں سے سنتے ہیں تو فرشتے ہمیں آکر کہتے ہیں دیکھو تمہارا محبوب اور پیارا بنی نوع انسان کا کس قدرخیر خواہ اور مساوات کو کس رنگ میں قائم کرنے والاتھا کہ اس نے فرمایا’’اِنَّمَآ اَناَ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ‘‘۔پس اس کے بعدحضرت موسیٰ ہویا حضرت عیسیٰ علیہماالسلام ان کو یا ان کے ماننے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے بعد بھی وہ یہ کہیں کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام دوسرے انسانوں سے بحیثیت انسان ارفع اور اعلیٰ تھے۔
میں انہیں ہمدردی وغم خواری اور پیار ومحبت کی بہت سی مثالیں دیتا تھا جماعت احمدیہ کا عمل ان کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اپنی پچاس سالہ تاریخ ان کے روبرو دہراتا تھااور میں انہیں بتاتا تھا کہ یہ تو درست ہے کہ آج سے چندصدیاں قبل مسیحیت تمہارے ملک میں یہی نعرے لگاتے داخل ہوئی تھی کہ ہم پیار کا، Love(لَو) کا پیغام لے کرآرہے ہیں لیکن محبت کے اس پیغام کے جھنڈے ان توپوں پر گاڑے گئے تھے جو یورپ کی مختلف اقوام کی فوجوں کے پاس تھیں اور ان توپوں کے مونہوں سے گولے برسے پھول نہیں برسے اور وہ محبت کا پیغام کامیاب نہیں ہوا نہ اسے ہونا چاہئے تھا نہ وہ ہو سکتا تھاکیونکہ اس سے بہتر، اس سے زیادہ پیارا پیغام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کی طرف نازل ہوچکا تھا۔ اب ہم تمہارے پاس محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور قریباً پچاس سال سے مختلف ملکوں میں تمہاری خدمت کررہے ہیں اور تم میں سے ہر شخص بڑا بھی اور چھوٹا بھی، حاکم بھی اور محکوم بھی رعایا بھی اور ان کے افسر بھی جانتے ہیں کہ اس پچاس سالہ تاریخ میںنہ ہم نے تمہاری سیاست میں کبھی دلچسپی لی اور نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، نہ تمہارے مالوں کی طرف ہم نے حرص کی نگاہ اٹھائی تم جانتے ہو ہم نے جو کچھ کمایا وہ تمہارے ملکوں ہی میں لگا دیا اور تم نے جو کچھ نہیں کمایابلکہ کسی اور نے کسی اور ملک میں کمایا وہ بھی یہاں لائے اور اسے بھی تمہاری خدمت پر لگا دیا اس کا اس قوم پر اثر ہوتا تھا۔ مثالیں تو بہت ہیں صرف ایک مثال میں دہراتا ہوں۔کانوؔمیں ہمارا میڈیکل سنٹر ہے جو چند سال سے وہاں کام کررہا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام اخراجات نکالنے کے بعد۱۵؍ہزار پائونڈ سے زیادہ یعنی ۳لاکھ سے زیادہ کی رقم بچی ہوئی تھی چنانچہ گزشتہ دوایک سال میں یہ ساری کی ساری رقم اس ہسپتال (یعنی جو پہلے کلینک تھا) کی عمارت پر لگا دی گئی بلکہ کچھ قرض لے کر لگا دیا گیا کہ جو اس سے آمد ہوگی اس میںسے ایک دو سال کے اندر واپس کردیا جائے گا، انشاء اللہ شاید ۲۰یا۲۵، ہزار پائونڈ کی رقم لگا کر ایک خوبصورت ہسپتال بنا دیا گیا۔ غرض ان ممالک میں سے ایک دھیلا نہیں نکالا وہ جو ہم سے پہلے محبت کا پیغام لے کر ان ممالک میں گئے تھے انہوں نے وہاں کچھ چھوڑا ہی نہیں۔پہلا ملک نائیجیریا تھا جہاں میں داخل ہوا۔ ایک روزمیں سوچ میں تھا ان کے حالات پر غور کررہا تھا میں نے ایک افریقن دوست سے کہا کہ یہ دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ تمہارے پاس سب کچھ تھا لیکن تمہیں ہر چیز سے ہی محروم کردیا گیا چنانچہ اس سے اگلے روز جب میں ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹ سے ملا تو ان سے میں نے کہا کہ کل میں نے ایک دوست سے کہا تھا کہ صدیوں کی حکومت کے بعد ایک فقیر اور دیوالیہ ملک چھوڑ کر یہ اقوام پیچھے ہٹ گئیں اور ان کا سب کچھ وہاں سے لے گئیں لیکن جماعت احمدیہ اپنے پیسوں پر،اپنے پیسے لے کر وہاں پہنچی اور کام شروع کیا اور وہاں جو کمایا وہیں ان کی بہبودی کے لئے لگا دیا۔محبت کا یہ عملی پیغام دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہا۔ ان کے دل احمدی مسلمان ہوں یا عیسائی یا بد مذہب ہوں احمدیت کے روپ میں اسلام کے حسن کو دیکھ کر اس کے گرویدہ ہیں اور وہ احمدیت سے پیار کرتے ہیں بد مذہب والے بھی اور لامذہب دہریہ یا پرانے مذاہب کے نشانات وآثار رکھنے والے بھی احمدیت سے پیار کرتے ہیںاور اس چیز کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔
میں نے نائیجیریا میں ہی ایک روز دیکھا کہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ (جن میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی) مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگے وہ مجھے دیکھتے اور خوشی سے ناچنے لگ جاتے تھے کئی کئی میل تک دور دور سے آئے ہوئے دوست مردوزن قطار اندر قطارکھڑے تھے۔ ایک ایک احمدی قطار میں تھا اور اس کے پیچھے چھ چھ سات سات غیر مسلم ہوتے تھے۔ غیر احمدی بھی تھے غیر مسلم بھی تھے۔ غیر مسلم تو میں صرف ان کے ناچ کی وجہ سے پہنچانتا ہوں کیونکہ خوشی کے اظہار کے لئے ان کا یہ طریق ہے۔ وہ مردوزن ایک چیخ مارتے تھے اور پھر ناچنا شروع کردیتے تھے جس سے میں سمجھ لیتا تھا کہ یہ یا عیسائی ہیں یا بد مذہب ہیں۔
کس چیز نے انہیں اس بات پر مجبور کیا تھا کہ وہ ایک غیر معروف اورانجانے انسان کو دیکھیں اور خوشی سے ناچنا شروع کر دیں ان کے دلوں میں جو احمدیت کے حسن سلوک اور احمدیت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حسین چہرہ انہوں نے دیکھا اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ احمدیت کے فریم میں انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس دیکھا اور اس پر فریفتہ تھے اس لئے احمدیت کا جو نمائندہ تھا اسے دیکھ کر وہ خوش ہوجاتے تھے ( یہ میں غیروں کی بات کر رہاہوں ابھی اپنوں کی بات میں نہیں کررہا) اور میں نے لاکھوں آدمی ایسے دیکھے۔
جب میںنے گوونؔکوکہا کہ میں بڑا خوش ہوں تمہارے ملک میںہر شخص ہنستا اور مطمئن نظر آتا ہے۔ میں نے خود پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں ایک دن میں وصول کیں جب بھی میں نے کسی کی طرف مسکرا کر دیکھا اس نے بھی میری طرف مسکرا کر دیکھا اور خوش ہوا ایک دن میں پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں وصول کرنا معمولی بات نہیں ہے مسکرا مسکرا کر میرے تو جبڑے بھی تھک جاتے تھے لیکن یہ ان کا حق تھااور میں ان کا یہ حق دیتا تھا چنانچہ گوون بڑا خوش ہوا وہ خود بڑا پکا عیسائی ہے( میں اس خطبہ میں صرف اصولی باتیں بیان کررہاہوں تفصیل میں نہیں جارہا سوائے اس کے کہ کسی تفصیل کو اصول کے بیان کرنے کے لئے بتائوں)بہرحال وہ عیسائی ہونے کے باوجودجماعت کا گرویدہ بھی ہے یعنی مذہب کا نور تو اس پر نہیں چمکا لیکن پیارکا جو پیغام تھا اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتامیں جب اس سے ملنے کے لئے گیا تو یہ ۳۵ سالہ نوجوان(اس عمر میں ویسے ہی انسان کا سر پُر غرور ہوتا ہے) جس نے سِول وار (خانہ جنگی) ابھی ابھی جیتی تھی اور اس ملاقات سے کچھ عر صہ پہلے بیافرانے Surrender (سرنڈر) کیا تھا۔ وہ Civel War(خانہ جنگی)جیتی تھی جس میں غیر ممالک اور غیر ملکی مشنریز نے اس کے خلاف کام کیا تھا اور اس نے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملادیئے تھے اس حالت میں میں اس سے ملا۔ وہاں کی کیفیت یہ تھی کہ میری ملاقات سے کم وبیش تین ہفتے پہلے سارے ویسٹ افریقہ کا آرچ بشپ اسے ملنے آیا اس نے اسے ٹھیک طرح منہ نہیں لگایا اور اسے دعا تک کے لئے نہیں کہا حالانکہ وہ بھی عیسائی اور ان کا سردار۔ بلکہ اس آرچ بشپ نے اپنی خِفّت مٹانے کے لئے خود ہی چلتے ہوئے کہا اچھا اب میں آپ کے لئے دعا کر دیتاہوں لیکن جس وقت میں اس سے ملنے کے لئے گیا تو جماعت کی اتنی قدر Appreciation(اپری سی ایشن) اس کے دل میں تھی کہ بیٹھتے ہی اس نے کہا ہمارے لئے دعا کریں۔ میں سمجھا نہیں بات میں نے کہا یہ عیسائی ہے اس نے دیکھا کہ ایک مذہبی لیڈر آیا ہے اس لئے اس نے رسماً کہہ دیا کہ ہمارے لئے دعاکریںمیں نے جواباً کہا میں تو دعا کرتا ہوں اور میں آپ کے لئے بھی دعا کروں گا لیکن جب میں نے نظر اٹھا کر اس کے چہرے کے آثار دیکھے تو میں نے سمجھا کہ میں اس کی بات نہیں سمجھ سکا میں نے پھر اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اسی وقت فارمل طریقے پر ہاتھ اٹھاکر دعاکروںکہنے لگا ہاں میرا یہی مطلب ہے چنانچہ میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور وہ بھی اپنے رنگ میںاس میں شامل ہوا۔ غالباً تصویر بھی چھپ گئی ہے(دعا کریں کہ جو ہاتھ یوں بندھے ہوئے نظر آتے ہیں کسی دن یوں کھل جائیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے) وہ دل کا بڑا اچھا ہے پھر اس نے مسلمان مذہبی امام سے کھل کر یہ بات بھی کی کہ ان غیر ممالک نے اور غیر ممالک کے مشنریز نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ ہمارے ملک کو تباہ کردیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ان کے برے منصوبوں سے محفوظ رکھا اور ہمارے ملک میں وہ تباہی نہیں آئی جو یہ چاہتے تھے کہ یہاں تباہی برپا ہوجماعت کی تعریف کے علاوہ اس نے مجھے یہ کہا کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ یہاں بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیںمیںنے دل میں سوچا کہ یہ ہمارے ممالک سے اچھے ہیں انہیں یہ علم حاصل ہوچکا ہے اور یہ اس حقیقت کی شناخت حاصل کرچکے ہیں کہ مذہب کا تعلق دل سے ہے طاقت کے زور سے زبان سے تو کچھ کہلوایا جا سکتا ہے لیکن دل نہیں بدلے جا سکتے۔ ساری دنیا کے ہائیڈروجن بم مل کر بھی کسی ایک آدمی کے دل میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں پیدا کرسکتے یہ ناممکن بات ہے البتہ یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ ہے جس نے اربوں ارب انسانوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کردی۔ اللہ تعالیٰ نے کوثر کا جو وعدہ دیا تھا وہ پو را کیا اس وقت بھی اور پھر اس وقت سے لے کر اب تک اور پھر قیامت تک ایسے لاکھوں کروڑوں اربوں انسان پیدا ہوتے رہیں گے جو اس مذہبی حسن کے گرویدہ ہوکر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہوں گے پس ان قوموں کی زندگی کی یہ حقیقت معلوم ہوچکی ہے اور اس لحاظ سے و ہ بڑے خوش قسمت ہیں اور سچ کہا تھا گوون نے کہ ان کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ملک میں تمام مذاہب ،تمام فرقے امن سے رہ رہے ہیں کوئی کسی کے خلاف زبان درازی نہیں کرتا الاّماشاء اللّٰہ شاید کوئی استثناء ہو جسے وہ قوم بہر حال پسند نہیں کرتی۔
ایک اور مثال دے دیتا ہوں گھانا میں اَکرا کے مقام پر ہمارا ایک سکول ہے اور پھر ۱۷۰ میل کے فاصلے پر کماسی میں ہمارا ایک سکول ہے۔
کماسی سے ستّر میل پر ٹیچی مان ایک جگہ ہے جہاں ہمارے افریقن بھائی عبدالوہاب بن آدم صاحب بطور مبلغ رہتے ہیں وہ بڑا ہی اچھا کام کررہے ہیں وہ بھی اور ان کی بیوی بھی۔ بچوں میں قرآن کریم اور مذہبی تعلیم، احمدیت اورحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق پیدا کردیا ہے ان بچوں کو جب آپ دیکھیں تو آپ کے بچوں کورشک آجائے اور آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد میں وہ ایسے قصیدے پڑھتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور نڈر ہوکر لائوڈسپیکر لگا کر لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گاتے پھرتے ہیں کہ جس مسیح کی انتظار تھی وہ آگیا مثلاًہم جب ابادان گئے یہ شہر قریباً لیگوس کے برابر ہے پہلے بڑا تھا اب کم ہے اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے سارے شہر میں یہ منادی کی کہ جس مہدی کی انتظار تھی وہ آگیااور اس کا نائب اور تیسرا خلیفہ تمہارے اندر موجود ہے اس سے برکتیں حاصل کرو انہوں نے نڈر ہوکر سارے شہر میں اونچی منادی کی پھر بچے یہی گاتے ہیں کہ مہدی آگیا انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا۔
پس انہوں نے اس بنیادی حقیقت کو جان لیا ہے کہ مذہب کا معاملہ دل سے ہے طاقت اور زور کے ساتھ دل نہیں بدلا جاسکتا اور چونکہ وہ اس کو شناخت کر چکے ہیں اس لئے ہمیں بڑی امید ہے کیونکہ ہمارے پاس پیغام ہی پیار کا ہے اخوت کا ہے اور ہمدردی کا ہے اور غم خواری کا ہے اور مساوات انسانی کا ہے۔ میں نے عیسائیوں میں سے کسی سے بات نہیں کی جس نے آگے سے یہ نہ کہا ہو کہ جو آپ کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔
میں نے لائبیریا میں ایک بارہ تیرہ سال کے بچے سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے اس نے غالباً جانسن کہا میں نے کہا نہیں اس وقت کے بعد تمہارا نام جمیل ناصر ہے اورتم مسلمان ہو وہ کہنے لگا Yes Sir۔وہ بچہ ہمارے امین اللہ خاں سالک کے ہاں کام کرتا تھا انہوں نے اگلے روز بتایا کہ اس نے گھر جا کر کہا کہ میرا نام اب جانسن نہیں میرا نام اب جمیل ناصر ہے اورمیں مسلمان ہوںان کے دل ہم نے جیت لئے ہیں لیکن ان کے مونہوں سے کہلوانا ہمارا کام ہے ہم بہتوں تک پہنچے ہی نہیں ایک جگہ ایرو ڈروم پر ایک دکان دار لڑکی سے ہمیں پتہ لگا کہ ہم بہت سی جگہ غفلت کرجاتے ہیں، تبلیغ نہیں کرتے یا اتنی قربانی نہیں دیتے جتنی ہمیں قربانی دینی اس لڑکی کو دلچسپی پیدا ہوئی اس نے چوہدری محمد علی صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہیںاور میں ان سے ملنا چاہتی ہوں(بعد میں وہ منصورہ بیگم سے بڑے پیار سے ملیں بھی) چوہدری صاحب نے کہا کہ امام مہدی آگئے ہیں اور یہ ان کے تیسرے خلیفہ ہیں اس نے آگے سے جواب دیا وہ دل میں بڑا درد اور دکھ پیدا کرنے والا ہے وہ کہنے لگی کہ امام مہدی آگئے ہیں تو مجھے کیوں علم نہیں؟ بات اس کی ٹھیک ہے ہماری غفلت ہے اُنہوں نے اسے یہی جواب دیا کہ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے تمہیں بتایا نہیں۔اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر امام مہدی آگئے ہیں تو مجھے اس کا کیوں علم نہیں ہوا، میرے پاس کوئی بتانے والا کیوں نہیں آیا کہ امام مہدی آگئے ہیں۔
پس دنیا یہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اگر مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آگئے ہیںتو ہمیں علم کیوں نہیں ہوا دنیا کو بتانا ایک احمدی کا فرض ہے آسمان سے فرشتوں نے آکر نہیں بتانا اور اسی کی طرف میں انشاء اللہ اس خطبہ میں آپ کو لے کر آئوں گا۔ یہ محبت کا پیغام روز روشن کی طرح ان ممالک میں بھی اور جہاں میں نہیں جاسکا وہاں بھی ان پر عیاں ہوچکا ہے وہ اب ماننے لگ گئے ہیں کہ احمدی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور مساوات کا پیغام لے کر ہمارے ملکوں میںآئے ہیں۔ مجھے بہت سے دوسرے ممالک کے سفراء ملے اور مجھ سے یہ کہنے لگے کہ ہم نے کیا قصور کیا تھا کہ آپ نے اپنے دورہ میں ہمارے ملکوں کو شامل نہیں کیا؟ میں ان کو کیا کہتا کہ تمہارا قصور ہے یا نہیں بہر حال اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں احمدیت کی طرف توجہ ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بہت ساری تبدیلیاں کر رہے ہیںان تبدیلیوںکے آخری نتائج کو سنبھالنا انسان کاکام ہوتا ہے اور یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے۔
ان لوگوں میں ایک اور خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ وہ صفائی کا بڑا خیال رکھتے ہیںیہاںتو یہ مشہور ہے کہ بڑی گندی اور بدبودار قومیں ہیں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف گھانا کے ملک میں منصورہ بیگم کے عورتوں کے مصافحے اور میرے مردوں کے جو مصافحے ہوئے ان کا ۲۵ہزار سے زائد کا اندازہ ہے۔ لیکن مختلف جلسوں میں شمولیت اگر۲۵-۳۰ ہزارمردوزن کریں تو اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت وہاں کی ہماری بالغ آبادی دو اور تین لاکھ کے درمیان ہے، بچے اور بچیوں کو چھوڑکر،یقینا اتنی آبادی ہوگی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی آبادی ہے اور سارے ممالک میں توہم نے بہت زیادہ مصافحے کئے ہیں اور میں نے ہزاروں معانقے کئے ہیں اور میرے خیال میں ہزاروں ہی کی تعداد میں بچوں سے پیار کیا ہے اور سارے دورے کے اندر سوائے ایک یا دو کے کسی سے بدبو نہیں آئی ہزاروں میں سے ایک دو کا ہونا محض استثناء ہے۔ غرض ان میں بدبو نہیںہے وہ اتنے صاف لوگ ہیں اور صفائی کے اتنے شوقین ہیں کہ ان چھ ملکوں میں سے کسی جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے پانی نظر آیا ہو اور وہاں افریقن کپڑے نہ دھو رہے ہوںمیں نے بڑا غور کیا جہاں کہیں بھی مجھے پانی نظر آیا میں نے اس پر افریقنیوں کو کپڑے دھوتے ہوئے پایا وہ د ن میںتین دفعہ نہاتے ہیںیہاں بھی اگر میں پوچھوں(لیکن میں پوچھوں گا نہیں) تو شاید صرف سینکڑوں ہی ایسے نکلیں جو دن میںدو۲ دفعہ نہاتے ہوں گے مگر وہ دن میںتین دفعہ نہاتے ہیںاور ان میںسے بعض ایسے ہیں جو دن میں پانچ دفعہ کپڑے بدلتے ہیں۔وہ جُبّوں کے بڑے شوقین ہیں(مجھے بھی انہوں نے پیار سے ان جُبّوں کے تحفے دیئے ہیں) بس دن میں کئی دفعہ جُبّے بدلتے رہتے ہیں اور ان جُبّوں کے ساتھ ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں پہچاننا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پس بہت صاف ملک ہیں لو گ بڑے صاف رہتے ہیں دل سے دعا نکلتی تھی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ظاہری صفائی کی توفیق عطا کی ہے اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردے کہ ان کی باطنی صفائی کے بھی سامان ہوجائیں یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم نے جاکر ان کی باطنی صفائی کے انتظام کرنے ہیںاللہ تعالیٰ نے ان کی باطنی صفائی کے جمعدار ہمیں بنایا ہے ہمارے سوا دوسرا کوئی باطنی صفائی کر ہی نہیں سکتا جب اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ کو چُنا ہے اور سوائے آپ کے کسی کو نہیں چنا پھر یہ ناشکری ہوگی کہ ہم اپنے کام سے گھبرائیں۔
میں نے ان کو وہاں یہ بھی کہا کہ میں یہاں آیا ہوں اور تم خوش ہو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی میں اس کو بیان نہیں کرسکتا۔ میری نظریں شرم سے جھک جاتی تھیں اور مجھ میںخدا تعالیٰ کی حمد کی طاقت نہیں ہے وہ مصافحہ کرتے تھے اور خاموشی سے چہرہ دیکھنے لگ جاتے تھے پیچھے سے دوسرا آدمی ٹہو کا دیتا تھا کہ چل آگے لیکن یہ نہیں کہ کوئی بات کرنی ہے اس لئے ٹھہر گئے ہیں بس چہرہ دیکھے جارہے ہیں کئی ایک سے میں نے پوچھا بھی کیا سیری نہیں ہوتی دیکھتے ہی چلے جاتے ہو اور اتنا پیار دیکھا کہ بیان نہیں کرسکتا وہ احمدیت سے پیار ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پیا رہے، وہ حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارہے، اللہ تعالیٰ سے پیار ہے کہ ان کے ذریعہ سے (اصل تو توحید کا قیام ہے) خداتعالیٰ کے پیار کو دنیا میں قائم کیا گیا ہے وہی ایک واحد ویگانہ ہے باقی توسارا فسانہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقت اور وہی باقی رہنے والی ہستی ہے۔
مثلاً ایک بڑھیا جسے پوری طرح نظر بھی نہیں آتا تھا سفر بھی نہیں کرسکتی تھی اس نے دو مہینے خرچ کرکے ایک ٹوکرا بنایا اور اپنی بیٹی کو بھیجا اور تاکید کی کہ اپنے ہاتھ سے دینا اور دعا کے لئے کہنا وہ بچی کہنے لگی کہ میری ماں سفر نہیں کرسکتی تھی مجھے اس نے یہ ٹوکرا دے کر بھیجا ہے اس کے بنانے پر اس نے دو ماہ خرچ کئے ہیں ہمارے ساتھیوںسے غلطی ہوئی وہ سیرالیون میں رہ گیا میں نے کہا یہ ٹوکرا پیچھے نہیں رہے گا چنانچہ وہاں تاردی اور اسے ہوائی جہاز کے ذریعہ لندن منگوایا اور اب اسے میں یہاں لے آیا ہوں میں نے ان سے کہا کہ تم یہ دیکھتے ہوکہ بازار میں اس کی قیمت دس۱۰ روپے ہے اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس پیار نے اس کو بنایا ہے دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے، یہ تو میں چھوڑ کر نہیں جائوں گا بعض نے کہا کہ یہ کپڑا چھ ماہ سے تیار کرنا شروع کیا تھااور اب ہم اس کو تیار کرکے آپ کے لئے لائیں ہیں دھاگہ بھی ہم نے بنایا پھرکپڑا بھی ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر اسے آخری شکل جو دینی تھی وہ بھی اپنے ہاتھ سے دی یہ کھدر کے بڑے موٹے وزنی کپڑے ہیں آپ انہیں دیکھیں گے تو کہیں گے کہ بازارمیں شاید سات ساڑھے سات روپے میں مل جائیں لیکن میں نے کہا میںان کو نہیں چھوڑوں گا چاہے ان کے کرایہ پر ہزاروں روپے ہی کیوں نہ خرچ کرنے پڑیںکچھ ہمارے ساتھ آگئے ہیں کچھ کے یہاں لانے کا ہم انتظام کرکے آئے ہیں وہ سارے انشاء اللہ یہاں پہنچ جائیں گے۔
پس احمدیت کے ساتھ ان کا اس قسم کا پیار ہے اور و ہ احمدیت کے فدائی ہیں بالکل نڈر ہیں۔ لیگوس میں ہم پہنچے تو ہوٹل کے باہر سینکڑوں بچے تھے جو احمدیت زندہ باد، اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ ’’زندہ باد‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ اسے سارے سمجھتے ہیں نیز اَھْـلًا وَّ سَھْـلًا کہہ رہے تھے پس وہ نعرے لگا رہے تھے جب میں آگے بڑھا تو ہمارے احمدی بھائی نعرے لگاتے ہوئے اس کے ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہوگئے۔ چوتھی منزل پر ہمارے کمرے تھے جب ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے تو یہ بھی نعرے لگاتے ہوئے ساتھ جارہے تھے یہاں تک کہ دروازہ آگیا اور یہ بھی ساتھ تھے صرف اس وقت ہی نہیں بلکہ اگر دن میں مجھے تین دفعہ نیچے اترنا ہوتا تو وہی نعرے لگتے جب بھی میں کمرے سے باہر آتا وہ نعرے لگاتے غیر ملکی یہ دیکھ کر حیران ہوتے اوردلچسپی لیتے اور شاید دل میں غصہ بھی آتا ہو مگر ان کو کسی سے کوئی غرض نہیں تھی وہ تو دل میں ایک جوش تھا کہ احمدیت نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روشن اور حسین چہرہ دکھایا اور اللہ قادرو توانا سے زندہ تعلق پیدا کیا۔
بو ؔ(Bo)میں ہم گئے تووہاں گورنمنٹ کی لاج میں اتنا چراغاں تھاکہ جس طرح ربوہ نے چراغاں کیا وہاں بھی چراغاں تھا ہمارے ایک دوست نے کہا کہ آپ نے تکلف کیا ہے آپ نے یہاں اتنا خرچ کر دیا ہے اس نے آگے سے جواب دیا کہ ہمارے دلوں میں چراغاں ہورہا ہے ہم اپنے درودیوار کو اس سے محروم کیسے رکھ سکتے ہیں یہ ان کی قلبی کیفیت ہے اور یہ وہ محبت کا پیغام ہے جسے وہ آگے پہنچا رہے ہیں پس یہ وہ چیز ہے جو غیروں کے دل بھی جیت رہی ہے۔
کماسیؔ میںReception(ری سیپشن)پر ایک بڑے اثرورسوخ والا افریقن آیا (وہاں کے جو پیرامائونٹ چیف ہیں وہ خود گفتگو نہیںکرتے انہوں نے اپنی طرف سے بیچ میں واسطے رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کےSpokesman(سپوکس مین) کہلاتے ہیں) چنانچہ ایک پیرامائونٹ چیف کاSpokesman(سپوکس مین)آیا وہ مسلمان نہیں تھا مجھ سے کہنے لگا کہ میں ڈیڑھ سومیل سے اس لئے آیا ہوں کہ میں بیمار ہوں اور آپ سے میں نے درخواست کرنی تھی کہ میرے لئے دعا کریں۔
ایک اور پیرا مائونٹ چیف آئے ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ ایک ممبرلیجسلیٹواسمبلی بھی لائے ہوئے تھے وہ مجھ سے کہنے لگے کہ میں اتنی دور سے آیا ہوں ہمارے علاقہ میں ڈاکٹر کی ضرورت ہے آپ وہاں میڈیکل سنٹر کھولیں اور یہ ایم۔پی(ممبرپارلیمنٹ) جو ہیں یہ اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ حکومت کے قواعد کے مطابق(جسے Red tapism (ریڈ ٹیپ ازم ) کہتے ہیں) مختلف دفاتر سے جوکام کروانا ہوگا وہ یہ کروا کر دیں گے میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے آپ یہ کام کروادیں ہم آدمی بھیج دیں گے۔
میں نے بتایا کہ گوون نے میرے ساتھ اس طرح گفتگو کی جس طرح کہ وہ بڑا پرانا واقف ہو اس نے جماعت کی تعریف کی جماعتی خدمات کا وہ بہت ہی ممنون تھا اس کے دل میں بھی اور اسی طرح جو دیگرHeads Of State (ہیڈز آف سٹیٹ)ہیں جن سے مَیں ملا ہوں ان کے دلوں میں بھی جماعت کی بڑی قدر اور وقعت ہے جب تفصیل میں جائوں گا تو بتائوں گا کہ سب کی یہی حالت ہے۔
پھر وہاں اللہ تعالیٰ کے جو فضل دیکھے تھوڑے سے ان کے نمونے بتا دیتا ہوں نائیجیریا سے میں نے کام شروع کیا نائیجیریا کے ایک احمدی گروہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے بغاوت کر کے اور دنیا کی حرص میں وہاں کے سارے سکولوںپر جو آپ نے کھلوائے تھے ناجائز طور پر قبضہ کر لیا غالباً یہ کُل گیارہ سکول تھے اورچونکہ اس وقت جماعت کا کوئی’’دستور‘‘ نہیں تھاConstitutionنہیں تھی اس واسطے قانونی طور پر کوئی چارہ جوئی نہ ہو سکتی تھی۔ ’’دین ‘‘ میں داخل ہوئے تھے اور’’دنیا‘‘ کے چھلکے پر ان کے پائوں پھسل گئے اور سکولوں پر قبضہ کر لیا جو ابھی تک جاری ہے لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ خود ان میں بد اخلاقیاں پیدا ہوگئی ہیں دین سے کوئی رغبت نہیں رہی سکولوں کو انہوں نے آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے اور کچھ سکول شاید عنقریب بند بھی ہوجائیں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی چکر دیتا ہے میں وہاں یہی سوچ رہاتھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا جو میری غیرت کا تقاضا تھاکہ ہم فوری طور پر ۱۶ سکول کھولیں چنانچہ میں نے سمجھدار احباب کی ایک کمیٹی بنائی اور ان سے میں نے کہا کہ اس ملک میں مَیں نے۱۶ ہائی سکول کھولنے ہیں اس لئے سلسلہ میں پانچ سالہ منصوبہ تیارکرو۔ مجھے یہ غیر ت تھی کہ ان کے چھوٹے بڑے ملا کر گیارہ سکول ہیں پس ہم یہاں انشاء اللہ سولہ ہائی سکول کھولیں گے میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میرے افریقہ چھوڑنے سے پہلے پہلے اس کمیٹی کی پہلی رپورٹ مجھے ملنی چاہئے اور انہیں میں نے یہ ہدایت کی کہ نقشے سامنے رکھو۔مشورے کرو اور دیکھو کہ کہاں کہاں سکول کھولنے چاہیںبہرحال ان کی پہلی رپورٹ مجھے وہیں مل گئی تھی لیکن جب میں نے یہ کمیٹی بنائی تو ہوا یہ کہ اگلے روز ویسے ہی بے خیالی میں ریڈیو کو میں نے چلایا خبروں کا وقت تھا۔ اس وقت شمال مغربی سٹیٹ کے گورنر کے انٹرویو کا خبروں میں اعلان ہورہا تھا(یہ شمال مغربی سٹیٹ مسلمانوں کا علاقہ ہے)کہ میری سٹیٹ میں تعلیم بڑی کم ہے اور میں نے ایمر جنسی کا اعلان کر دیا ہے میں اپنے ذرائع اکٹھے کررہا ہوں اور مجھے امید ہے عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے میں نے ایک دن پہلے کمیٹی بنائی تھی چنانچہ جب میں نے یہ خبر سنی تو میں نے اس نو احمدی دوست جس کے متعلق آپ نے اخبار میں پڑھا ہوگاکہ میں نے کہا تھا Before the sun sets یعنی سورج غروب ہونے سے قبل تم احمدیت میں داخل ہوگے اور وہ ہوگیا تھا۔ یہ ڈپٹی سیکر ٹری ہے اور کھاتا پیتا آدمی ہے اس نے مرسیڈیز کار رکھی ہوئی ہے میں نے اسے کہا کہ تم جائواور اس گورنر سے کہو کہ ہم تمہاری سٹیٹ میں فوری طور پر چار سکول کھولتے ہیں دو۲لڑکیوں کے اور دو۲ لڑکوں کے ہمیں تمہارے تعاون کی ضرورت ہے اور یہ صرف دو۲ قسم کے تعاون ہیںایک یہ کہ سکول کھولنے کے لئے ہمیں زمین دو کیونکہ یہ ہم باہر سے نہیں لاسکتے اور دوسرے یہ کہ ٹیچرزکیلئے Entry permit (انٹری پرمٹ) دو کیونکہ اس کے بغیر وہ تمہاری سٹیٹ میں آنہیں سکتے چنانچہ وہ اس پیشکش کو سنکر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کروںگا سکولوں کے اجراء میں آپ ہماری مدد کریں۔ ویسے اس نے یہ بھی کہا کہ ایک فارمَل خط لکھ دیں کہ یہ ہم نے پیشکش کی ہے چنانچہ اس پر اس نے اپنےLand department(لینڈ ڈیپارٹمنٹ) کو کہا کہ جہاں بھی یہ زمین پسند کریں وہاں ان کو زمین دی جائے اورمحکمہ تعلیم کو کہا کہ ان کی طرف سے محکمہ میں مزید کسی درخواست کے آنے کا انتظار نہ کرو بلکہ جو فارمل کاروائی ہے یعنی فارم وغیرہ بھرنے ہوتے ہیں وہ فارم ان کو بھجوادو تاکہ یہ کاروائی جلدی ختم ہوجائے سکول ٹیچرز نے آنا ہے اوربہت ساری حکومت سے اجازتیں لینی پڑتی ہیں۔ وہ ہمارے’’وزیری‘‘ سے کہنے لگا(حالانکہ وہ غیر احمدی ہے) کہ میں بہت خوش ہوں آپ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لینے کی پیشکش کی ہے میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اگر آپ لوگ نارتھ ویسٹرن سٹیٹ یعنی سکوتو(جودراصل عثمان بن فودی کا گھر ہے یہ ایک مجدد تھے جواس علاقے میں پیدا ہوئے تھے میں ان کا ذکر وہاں جانے سے پہلے بھی کر چکا ہوں) کے علاقے کے لوگوں کے دل احمدیت کے لئے جیت لیں تو تمام شمالی مسلم علاقہ احمدی ہوجائے گا اس واسطے آپ کوشش کریں اور یہاں سکول کھولیں۔
پھر اس کے بعد ہم گھاناؔمیں آئے وہاں غور کیا پھر آئیوری کوسٹ میں مشورے کئے پھر لائبیریا میں گئے وہاں غور کیا اور دوستوں سے مشورے کئے اورمنصوبے بنائے وہاں کے صدر مسٹرٹب مین بڑے اچھے آدمی ہیں انہوںنے سَوایکڑزمین کی منظوری دے دی ہے اور اپنے محکمے کو ہدایت کی ہے کہ یہ زمین جلد جماعت احمدیہ کو دی جائے یہ سَوایکڑ کا اکٹھا قطعہ ہے بڑی زمین ہے انشاء اللہ بہت کچھ بن جائے گا۔
پھر سیرا لیون کو ہم نے اپنے واپسی کے پروگرام کی وجہ سے چھوڑا تھا کیونکہ ہیگ آنے کے لئے ہم نے یہیں سے جہاز لینا تھا اگر پہلے سیرالیون جاتے پھر گیمبیا جاتے اور پھر سیرا لیون جاتے تو یہ امر جماعت کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی کوفت کا باعث ہوتا اس لئے پروگرام بنایا تھا کہ پہلےOverfly(اوور فلائی) کرکے گیمبیا چلے جائیں یعنی اس ملک(سیرالیون) کے اوپر سے اڑ کر گیمبیا جائیں اور پھر وہاں سے واپس سیرالیون آئیں اور پھر یہاں سے یورپ کو آئیں۔گیمبیاؔمیں ایک دن اللہ تعالیٰ نے(میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ) بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پائونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے خیر میں بڑا خوش ہوا پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا ۔گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کردی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں سے تم ہم نے بہر حال گزرنا ہے ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جوالہام ہے ناکہ آگ سے ہمیںمت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔اس میں دو۲ پیشگوئیاںہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کرسکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہوگی،تمہاری خدمت کرنے والی ہوگی پس جب اس پیشگوئی کاپہلا حصہ پورا ہوتا ہے یعنی آگ جلائی جاتی ہے ہم اس سے ڈرتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق پہلی بات پوری کردی اور وہ قادروتوانا اپنے دوسرے وعدہ کو بھی ضرور پورا کرے گا اس لئے آگ ہمیں راکھ نہیں کرے گی بلکہ خدمت کرنے والی ہوگی بہرحال وہاں ہماری مخالفت شروع ہے اور میں خوش ہوں اللہ تعالیٰ سے آپ بھی دعائیں کریں میں بھی دعائیں کرتارہتا ہوں مخالفت کی یہ آگ ہمیں جلانے کے بجائے ہماری کامیابیوں پر فتح کے ہار گوندھے اوریہ آگ خوشیاں منانے والی ہواور اس آگ میں سے ہمارے اوپر آگ کے شعلوں کے بجائے پھولوں کی پتیاں برسیں یہی ہم سے وعدہ ہے اگروہ پورا ہوا ہے تو یہ بھی پورا ہوتا چلاجائے گا۔
پھر جب ہم سیرالیون میںآئے تو اور زیادہ جرأت تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیاتھا کہ کرو خرچ، میں اچھے نتائج نکالوں گا چنانچہ وہاں پروگرام بنائے پھرمیں لندن آیا تو میں نے جماعت کے دوستوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم ازکم ایک لاکھ پائونڈ خرچ کرو(ویسے یہ پوری سکیم میرے ذہن میں ہے کہ کس کس رنگ میں کام چلانا ہے) پس یہ ایک لاکھ پائونڈ کی رقم کم سے کم ہے اور اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دوسو ایسے مخلص آدمی چاہئیںجودوسو پائونڈ فی کس کے حساب سے دیں اور دوسو ایسے مخلصین جو ایک سوپائونڈ فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ ۳۶ پائونڈ دیں ان میں سے بارہ پاؤنڈ(ایک پائونڈ ایک مہینے کے لحاظ سے)فوری طور پر دے دیں میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں اس مَد میں دس ہزار پائونڈ جمع ہونے چاہئیںاور اس وقت انگلستان سے روانگی میں بارہ دن باقی تھے چنانچہ دوستوں کے درمیان میں صرف دو۲ گھنٹے بیٹھا ایک جمعہ کے بعد اور دوسرے اتوار کے روز جس میں اور نئے آدمی بھی آئے ہوئے تھے اور ان دو۲ گھنٹوں میں ۲۸ ہزار پائونڈ کے وعدے ہوگئے تھے اور ۳ اور ۴ ہزار پائونڈ کے درمیان نقد جمع ہوگئے تھے میں نے پھر اپنے سامنے نیا اکائونٹ کھلوایا اور اس کا نام’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ رکھا ہے یہ اکائونٹ وہیں رہے گا وہیں اس میں رقم جمع ہوگی غرض’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ اکائونٹ کھلوایااور اس میں رقم جمع کروائی کیونکہ اس سے پہلے جو رقمیں آرہی تھیں وہ مسجد فنڈ کے اکائونٹ میں جارہی تھیں۔
میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اورہسپتالوں اور سکولوں کیلئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو۔ خدا کہتا ہے تویہ اس کاکام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کرلے۔ لاکھوں لاکھ قربانیاں حضرت آدمؑ کے زمانے سے اس وقت تک روکی گئیں جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے پس مجھے یہ فکر ہے اور آپ کو بھی یہ فکر کرنی چاہئے اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا! ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور یہ حقیر قربانیاں پیش کررہے ہیں تو اپنے فضل ا ور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فرما سعی مشکورہو ہماری، وہ سعی نہ ہو جو ہمارے منہ پر ماردی جائے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہم اسی کے حضور پیش کرتے ہیں اس کا احسان ہے کہ وہ ہماری طرف سے قبول کر لیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اور آپ کا فرمودہ درّثمین میں مندرجہ آمین میں یہ چھوٹا سا مصرعہ بڑاہی پیارا ہے۔’’گھر سے تو کچھ نہ لائے‘‘۔ (درثمین صفحہ ۳۶) پس یہ ایک حقیقت ہے کسی بات پر ناز کیا؟ اور قربانی کیا؟ اور ایثار کیسا؟ اور تم پیش کیا کررہے ہو یہ تو اس کا احسان ہے کہ وہ کہتا ہے اے میرے بندے! میں نے جو تمہیں مال دیاتھا وہ تو اب میرے سامنے اخلاص اور پیار سے اور میری محبت میں میرے حضور پیش کررہا ہے میں اس کو اس طرح قبول کر لیتا ہوں جس طرح واقعی تیرا ہے یہ تو اس کا احسان ہے۔ وہاں افریقہ میں بچوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمودہ ایک حدیث کوگا کربطور نظم پیش کر رہے تھے ایک نظم پڑھی تھی پوری تو مجھے یاد نہیں عربی میں ہے اور بہت ہی اچھی ہے۔ بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے بڑی پیاری لگتی تھی ؎
یَا ابْنَ اٰدَمَ اَلْمَالُ مَالِیْ
وَالْجَنَّۃُ جَنَّتِیْ وَ اَنْتُمْ عِبَادِیْ
یَا عِبَادِیْ اشْتَرُوْا جَنَّتِیْ بِمَالِیْ
یعنی اے آدم کے بیٹو! مال بھی میرا ہے اور جنت بھی میری ہے اور تم بھی میرے بندے ہو۔ اے میرے بندو! میں تم پر یہ احسان کرتا ہوں کہ جومیری جنت ہے وہ میرے اس مال سے خرید لو جومیں نے تمہیں دیا ہے بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ نظم بہت ہی پیاری لگتی تھی۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی ہوش مند انسان انکار نہیں کرسکتا کہ مال بھی اللہ کا اور جنت بھی اللہ کی اور بندہ بھی اللہ کا اور اللہ تعالیٰ بطور احسان یہ فرماتا ہے کہ میرے مال سے میری جنت خرید لو پس میں نے اپنے بھائیوں سے یہ کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ مال کیسے آئے گا؟ مال تو انشاء اللہ ضرور آئے گا کیونکہ خدا کہتا ہے خرچ کرو اب ایک شخص کو خدا کہے کہ خرچ کرو اور جیبیں اس کی رکھے خالی پھر تو وہ ہندوئوں کا خدا ہوگا یا عیسائیوں کا خدا ہوگا یاان مسلمانوں کا خدا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کو سچی خواب بھی نہیں آسکتی ہمارا وہ خدا نہیں ہمارا خدا توقادر و توانا خدا ہے وہی اللہ جو ہمارے محبوب محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پر اپنی تمام طاقتوں اور صفات کے ساتھ جلوہ گر ہوا وہ ہم سے بولتا بھی ہے اور ہم دن رات اس کی قوت اور طاقت کے معجزانہ سلوک اپنے ساتھ دیکھتے بھی ہیں۔فکر یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو سعئی مشکور بناوے یہ نہ ہوکہ خدانخواستہ کہیں ہماری کسی غلطی یا غفلت یا گناہ یا برائی یاکسی وقت کے تکبر کے نتیجہ میں وہ دھتکاردی جائے۔ امام رفیق صاحب نے مجھے کہا وقت تھوڑا ہے اور آپ نے اتنی بڑی رقم جماعت کے ذمہ لگا دی ہے جو فضل عمر فائونڈیشن کی ٹوٹل رقم سے دگنی سے بھی زیادہ ہے اور جسے انہوں نے تین سال کی کوششوں کے بعد اکٹھا کیا ہے چنانچہ اس سلسلہ میں چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے بڑے دورے کئے ہمارے شیخ مبارک احمد صاحب بھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ وہاں رہ کر آئے اور دورے کئے تب جاکر تین سال میں ۲۱ ہزار پائونڈ جمع ہوئے اور میں نے دو۲ گھنٹے میں جو خطاب کیا تھا ان دو۲ گھنٹوںکے اندر اسی وقت۲۷-۲۸ ہزار پائونڈ کے وعدے اور نقد رقم جمع ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا میری طرف سے نہیں تھا لیکن اس کرسی اور مقام کی اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے جس مقام پر اس نے مجھے بٹھادیا ہے۔ امام صاحب مجھے کہتے تھے کہ یہ رقم جمع نہیں ہونی آپ مجھے مہلت دیں میںدورے کروں گا اور یہ دس ہزار پائونڈکی رقم جمع کروں گا۔ میں یہ سن کر ہنس پڑا میں نے انہیں کہا کہ میں ایک دن کی بھی مہلت نہیں دوں گا اور رقم جمع ہوجائے گی۔ خدا تعالیٰ مجھے کہے اور میں وہ بات آپ تک پہنچائوں اور وہ کام نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جس دن میںوہاں سے چلا ہوں اس دن ان رقوم کو نکال کر جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی کہ وہ مختلف شہروں سے چل پڑی ہیں دس ہزارچارسو پچاس کے لگ بھگ نقد اس مد میں جمع ہوچکے تھے اور اگر ان رقوم کو بھی ملا یا جائے جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی تو پھر گیارہ ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ کی رقم عملاً جمع ہوچکی تھی اور میرا اندازہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر وہ پندرہ ہزار سے اوپر نکل جائیںگے اورادھرفضل عمر فائونڈیشن میں ۲۱ ہزار ٹوٹل اور وہ بھی تین سال کی بڑی کوششوں کے بعد اور ادھر چالیس ہزار اس وقت تک ہوگیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ پچا س ہزار تک پہنچ جائو میں بڑا خوش ہوں گا ممکن ہے پچاس ہزار سے بھی اوپر نکل جائیں مَیں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کام کرو اور میں اس کے مطابق کام کروں گا اب جماعت کو میں نے یہ نہیں کرنے دینا کہ وہ(افریقہ والے تو) کہیں کہ کام تیار ہے پیسے بھیجو اور میں کہوں کہ ہوں تو میں بڑا امیر لیکن میری دولت کا انحصار صرف وعدوں پر ہے میرے پاس وعدوں کے گٹھڑ جمع ہیں اور جب وہ پورے ہوجائیں گے تو میں تمہیں بھجوا دوں گا یہ تو نہیں ہوسکتا کام تو بہر حال ہونا ہے اور تم سے لینا ہے مثلاً انگلستان میں ہمارے بعض ڈاکٹر ہیں وہیں پریکٹس کررہے ہیں ان سے میں نے کہا دیکھو مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے تم اخلاص سے اور محبت سے اور ہمدردی سے میری آواز پر لیبک کہو ڈاکٹر تو ویسے انشاء اللہ مجھے ضرور ملنے ہیں لیکن تم رضا کارانہ طورپر اپنی خدمات پیش کرواگر خود نہیںکرو گے تو میں تمہیں حکم دوں گا اور میرا حکم بہرحال ماننا پڑے گا کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا جو احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو گا اور جو احمدیت سے نکل جائے اس کی نہ مجھے ضرورت ہے نہ میرے اللہ کو ضرورت ہے چنانچہ انہیں بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ امام رفیق کے پاس بنک کا مینیجر آیا ہوا تھا اسی اکائونٹ کے کھولنے کے سلسلہ میں بعض فارم پر کروانے ہوتے ہیں وہ مجھ سے بھی ملنے آیا تو میں نے اسے یہ واقعہ سنایا تو وہ بڑا خوش ہوا اور خوب ہنسا کہنے لگا یہ خوب ہے۔رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرو یا پھر میں تمہیں حکم دوں گا جو تمہیں بہرحال ماننا پڑے گا پھر وہ کہنے لگا کہ کیا ان میں سے کسی نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں؟ میں نے کہا ہاں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں انہیں ثواب بہرحال زیادہ ملے گا اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر ہم ۳۰ میڈیکل سنٹر کھول دیں تو اس کا وہاں اچھا اثر پیدا ہوگا کہ ہم ایک ایک ملک میں ہر سال ایک ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیں گے اس دورہ سے جماعت کو اور مجھے جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے سارے حالات دیکھے اوراب میں علیٰ وجہ البصیرت کوئی کام کرسکتا ہوں پہلے تو میں رپورٹوں پر فیصلے کیا کرتا تھا ا ب میں ہر آدمی کو جانتا ہو۔
ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ حال ہے کہ پچھلے جماعتی الیکشن پر ہمارے غانا کے پریذیڈنٹ صاحب کے دماغ میں یہ کیڑا پیدا ہوا اور انہوں نے یہ کہا کہ اگر مجھے دوبارہ منتخب نہ کیا گیا تو میں فساد پیدا کروں گا مجھے یہ اطلاع ملی تو میں نے ان کو تار دی کہ تم انتخاب نہ کروائو میں خود انتظام کروں گا یہ دو مہینے پہلے کی بات تھی اب جب میں وہاں گیا توایک مجلس عاملہ اور دوسرے کرتا دھرتا افریقن بیٹھے ہوئے تھے میں نے باتوں باتوں میں ان کی طرف دیکھ کر یہ فقرہ کہا کہ میں نےEx-president(سابق پریذیڈنٹ) کے لئے ایک تحفہ رکھا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے کان میں یہ بات پڑجائے اور وہ ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔ سب نے یہ سنا اور سمجھ گئے پھر میں نے ایک دن مجلس عاملہ کی میٹنگ بلاکرکہا کہ دیکھو دنیا کی کوئی قوم اور کوئی جماعت ترقی نہیں کیا کرتی جب تک وہ اپنے سابق عہدیداروں کی عزت اور تعظیم نہ کرے مثلاً اگر ایک ملک ایسا ہو کہ وہ سیاسی طور پر سابق پریذیڈنٹ کو کتا کہنے لگ جائے تو جب چارپانچ کتے بن جائیں یعنی جب بھی وہ پریذیڈنسی سے ہٹیں گے وہ کتے کہلائیںگے اور جب وہ ہٹ جائیں گے وہ غیر ملک والے یہی سمجھیں گے کہ کتوں کی قوم ہے کتوں کو پریذیڈنٹ بناتی ہے۔ پس دنیامیں ترقی کرنے اور دنیا کے وقار اور عزت کو حاصل کرنے والی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اہل ہو اس کو عہدیدار بنائیں اورجب یہ عہدیدار بدلے تو اسی طرح عزت وتکریم کریں جس طرح اس کی عہدیدار ہونے کی حیثیت میں کرتے تھے کسی عربی شاعر نے کہا کہ ہم سرداروں کی قوم ہیں اور میرے پیچھے سرداروں کا ایکQueue(کیو) لگا ہو اہے جب ہماری قوم کا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے توپچھلا ایک قدم آگے بڑھکر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ سردار بن جاتا ہے کیونکہوہ سرداروں کی قوم ہے۔ جماعت احمدیہ بھی سرداروں کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری کے لئے قیادت کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے نظام احمدیت میں ہرایکس (یعنی سابق) اچھا ہے اگر اچھا نہیں توتم جنہیں خدا نے کہا تھا کہ امانتیں اہل لوگوں کو سپرد کیا کرو تم نے کیوں نہ ایسا کیا اور اگر یہ امانت اہل کے سپرد کی تو پھر اس کی عزت اورتعظیم ضروری ہے۔ اس طرح جب میں ان کو سمجھا چکا تو پھر میں نے انہیں کہا کہ دو ماہ پہلے تمہارا انتخاب ہونا تھا مگر نہیں ہوا کیونکہ میں نے منع کر دیاتھا قانونی طور پر اس وقت جو عہدیدار ہیں وہ میرے ہی مقرر کردہ ہیں کیونکہ الیکشن تو نہیں ہوا اور اب میں ان کوبدلنا چاہتا ہوں اور میں مشورہ کے بعد سارے بدل دوں گا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ تمہارے سابق پریذیڈنٹ ہیں ان کی عزت کرنی ہے پھر جس طرح بچوں کوپیار کرتے ہیں اسی طرح ان کوپیار دیا ایک تحفہ بھی دیا اور اس طرح ان کو خوشی خوشی علیحدہ کردیا لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو ان کے خلاف ایک مقدمہ چل رہا تھا۔ انہوں نے یہ نالائقی کی کہ مجھ سے دعا بھی نہیں کر وائی شاید اللہ تعالیٰ انہیں کوئی دوسرا نشان دکھا دیتا۔ میں اس ملک سے دوسرے ملک چلا گیا اور ابھی پانچ دن نہیں گزرے تھے کہ مجھے اطلاع آئی کہ ان کو ایک سال کی قید ہوگئی ہے اور وہ جیل میں چلے گئے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کے فیصلے سے پانچ دن پہلے مجھ سے فیصلہ کروادیا اور اس فیصلے کو روکے رکھا کہ دنیا یہ نہ کہے کہ جماعت احمدیہ کا پریذیڈیٹ قید میں گیا ہے اب وہ پریذیڈنٹ نہیں پریذیڈنٹ کے عہدے سے ہٹ گیا ہوا ہے اور وہاں کی جماعت نے اس کو محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کی شان ظاہر ہوئی ہے اور بڑے خوش ہوئے کہ دیکھوحضرت صاحب نے فیصلہ کیا اور پانچ دن کے بعد وہ فیصلہ ہو گیا جو جماعت کی بدنامی کا باعث بن سکتا تھا پس یہ چھوٹی چیزیں اور بڑی چیزیں سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور میں نے وہاں اللہ تعالیٰ کے اتنے فضلوں کو دیکھا ہے کہ’’تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے‘‘اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شعر کے مطابق ’’ہوا میں تیرے فضلو ں کا منادی‘‘ (درثمین صفحہ۵۲) کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کوئی گھڑی ایسی نہیں پائی جس میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہ ہوا اورکوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں انسان پر یہ ذمہ داری نہ آتی ہو کہ وہ اس کے فضلوں کا منادی بنے اتنے فضل ہیں اتنے فضل ہیں کہ شمار نہیں کئے جا سکتے۔ آپ یہ سوچیں کہ سات ہزار میل کے فاصلے پر مغربی افریقہ کے ممالک ہیں جب انہوں نے محبت اور خوشی کے اظہار کئے تو میں نے بڑی استغفار کی، بڑی دعا کی ان لوگوں کے لئے، بڑا فکر اور غور کیا پھر مجھے مسئلہ سمجھ میں آگیا وہاں پہنچنے کے چند دن بعد ایک دن کھڑا ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ بے حد خوش نظر آتے ہیں اورآپ خوشی کے مستحق ہیں اس لئے آپ کو خوش ہونا چاہئے آپ اس لئے خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ کی قریباً اسی سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے اورآپ لوگوں کی زندگیوں میں بھی یہ پہلا موقع ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ محبوب مہدی جو امت محمدیہ میں واحدویکتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر عطاہونے کا وعدہ دیاگیا تھا کہ بے شمار فدائی تجھے دئے جائیں گے۔ اس وعدہ کے پورا ہونے پر اس امت مسلمہ میں سے جو اتنی بڑی ہے کہ اس کا شمار نہیں صرف ایک کوچُنا اور اس کے متعلق فرمایااِنَّ لِمَھْدِیْنَا۔اپنا مہدی کہا اور صرف نہ اس ایک کے متعلق فرمایا کہ جب بھی وہ آئے تو جو بھی امت محمدیہ کے افراد اس زمانہ میں ہوں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ میری طرف سے اسے سلام پہنچائیں۔ بڑی قدردانی اورپیار کا اظہار ہے یہ اتنی قدر دانی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیںوہ محبوب اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب کا ایک خلیفہ تمہارے درمیان موجود ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ توفیق عطا کی ہے کہ تم اسے دیکھو تم اس سے باتیں کرو اور تم اس کی باتیں سنو تم اس کے وجود اور اس کے کلمات سے برکت حاصل کرو۔
خوش ہو اورخوشی سے اچھلو کہ آج کا دن تمہارے خوش ہونے کا دن ہے میں نے انہیں کہا کہ تم بھی خوش اور میں بھی خوش۔ تم تو اس لئے خوش ہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب روحانی فرزند کا ایک خلیفہ تم میں موجود ہے اور میں اس لئے خوش ہوں کہ آج سے اسّی سال قبل ایک یکا و تنہا آواز ایکUnknown(اَن نون) یعنی غیر معروف گائوں سے اٹھی تھی جس کا مقصد اللہ کے حکم اللہ کی توحید کو قائم کرنا اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیاپر ظاہر کرنا تھا لیکن تھی وہ اکیلی آواز، مگر دنیا نے اسے نہیں پہچانا اور ساری دنیا اپنی تما م طاقتوں کے ساتھ اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے اکٹھی ہوگئی مگر ساری دنیا کی ساری طاقتیں اس آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ تمہارے منہ سے جو درود نکل رہاہے تمہارے چہروں پر جو محبت کی بشاشت ہے تم میں سے ہر ایک فرد دلیل ہے اس بات کی کہ وہ اکیلی آواز ایک سچے اور صادق کی آواز تھی جھوٹے کی آواز نہیں تھی اور جب میں یہ دیکھتا ہوں تو میں بھی خوش ہوں تم اپنی جگہ پر خوش ہوکہ تم نے مجھے دیکھا اور میں اپنی جگہ پر خوش کہ میں نے تمہیں دیکھا۔ سات ہزار میل دور نہ کبھی تم وہاں گئے نہ دیکھا مگر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تمہارے دلوں کو بدل دیا اور تمہارے دلوںمیں اس محبوب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کر دیا وہ آواز جس کو خاموش کرنے کے لئے ساری دنیا کی طاقتیں مسلمان بھی عیسائی بھی، ہندو بھی ، یہودی بھی اور بدھ بھی غرض ساری طاقتیں اکٹھی ہوگئی تھیں اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اس آواز کو خاموش کردیں گے مگر خدا نے کہا کہ یہ دنیا تو کیا اس قسم کی ہزاروں دنیا اور ہزاروں دنیا کی سب طاقتیں آجائیں تب بھی یہ آواز خاموش نہیں کی جا سکے گی کیونکہ یہ میری آواز ہے یہ اس بندے کی آواز نہیں اور تم دلیل ہواس بات کی کہ وہ سچا تھا ورنہ یہاں نہ وہ جماعتیں پیدا ہو سکتیںجو ہو گئیں نہ ہی ان دلوں میں وہ محبت پیدا ہوسکتی جو پیدا ہوئی نہ میں اس پیار کو دیکھ سکتا جوتمہارے چہروں پر مجھے نظر آرہا ہے پس وہ بھی خوش تھے اور میں بھی خوش تھا آپ بھی خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا۔ میں نے شروع میں یہ فقرہ کہا تھا کہ میں ان کے لئے محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور اسلامی مساوات کا پیغام لے کر گیا تھا اورآپ کے پاس جب آیا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے منادی کی حیثیت سے واپس آیا ہوں اتنے فضل اتنے فضل کہ آپ ان کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
گرمی بھی بڑی ہے مجھے بھی لگ رہی ہے آپ کو بھی لگ رہی ہے اورشاید آپ میں سے چند میرے ساتھی ہونگے جیسا کہ میری عادت ہے کہ میں جمعہ کی نماز سے پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا اسلئے میں بغیر کھانا کھائے آیا ہوں پس بھوکا بھی ہوں اورگرمی کا بیمار بھی ہوں لیکن کہنے کو جتنامیرا دل کرتا ہے کہوں گا اور میںدس منٹ اور بولوں گا انشاء اللہ۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل ہررنگ میں ظاہر ہوئے ایک مثال دیتا ہوں ہم سیرالیون میں اترے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کا یہ جلوہ نظر آیا کہ جماعت کے علم کے بغیر ریڈیو والوں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ لاج تک پہنچنے تک آنکھوں دیکھا حال براڈ کاسٹ کریں گے(ہمیں لاج تک جہاں ہم نے رہائش رکھنی تھی پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا)اس وقت ریڈیو پر رننگ کمینٹری جسے آنکھوں دیکھا حال کہتے ہیں شروع ہوئی اور وہ لگاتار ڈیڑھ گھنٹے تک یہ آنکھوں دیکھاحال براڈ کاسٹ کرتا رہا اب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہر آدمی نے یہ پروگرام سنا سارے لوگ پہچاننے لگ گئے تھے مگر اب وہ عزت اور عظمت کے جلوے کے ساتھ پہچانتے تھے فوجی افسر جب گزرتے تھے تو وہ باقاعدہ سلوٹ کرتے تھے میں نے سوچا کہ اس میںمیری ذاتی کیاعزت ہے اور نہ مجھے اس کی خواہش اور نہ ضرورت۔ میجر جنرل یا کمانڈر انچیف مجھے سلام کرے تو اس میں ذاتی طور پر کیا عزت یہ اس خدا کی عزت کا اظہار ہے جس نے اس اکیلے(مہدی معہود علیہ السلام) کوکہا تھا میں تیرے ساتھ ہوں تو دنیا کی پروانہ کراور پھر اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی مسیح موعود اور مہدی مہود کے ساتھ تھا، دنیا کی قطعاً پرواہ نہیں کی بے خوف ہوکر بولے بھی تقریریں بھی کیں باتیں بھی کیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ان عزتوں کو قبول کیا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزتیں چاہئیں،دنیا کی عزتیں ہیں کیا چیز؟ایک عارف انسان کی نظر میں دنیا کی عزتوں کی تو ایک ذرہ کے برابر بھی حیثیت نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی شان کا مظاہرہ تھا اس کی قدرت اور پیار کے جلوے نظر کے سامنے تھے عیسائی ہمیں دیکھ کر ناچ رہے ہیں مسلمان جوہیں(میں نام نہیں لوں گا)ان کی اور ہی کیفیت تھی وہ اپنی مشکلات بیان کرکے دعا کی درخواست کرتے وقت اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود زارو قطار رو بھی رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی درخواست بھی پیش کر رہے ہیں یہ بھی نظارے ہم نے دیکھے بہتوں کے لئے دعائیں کیں اور بعض وہیں پوری بھی ہوگئیں وہاں ایک بہن ملیں اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا غالباً بو(Bo) میں تھیں منصورہ بیگم سے جب ملاقات کے لئے آتی تھی چمٹی رہتی تھی اس کا قصہ یہ تھا کہ پورے ۳۹ سال ان کی شادی کو ہوگئے تھے اور کوئی بچہ نہیں تھا(اس وقت صحیح یاد نہیں منصورہ بیگم کہتی ہیں کوئی بچہ نہیں تھا میرا خیال ہے کہ کوئی لڑکا نہیں تھا) بہر حال جوبھی تھا ۳۹ سال ہوئے تھے شادی ہوئے مگر لڑکا کوئی نہ تھا یا اس کا بچہ ہی کوئی نہ تھا اور پھر اس نے خلافت ثالثہ کے شروع زمانہ میں(پہلے وہ سستی کرتی تھی ورنہ یہ نعمت شاید اسے بہت پہلے مل جاتی )لکھنا شروع کیا اور شادی کے ۴۰ سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے لڑکا عطا کیا چنانچہ وہ کوئی ۳ سال کے قریب کا بچہ تھا وہ اسے لے کر آتی تھی اور مزید دعا کے لئے کہتی تھی شادی کے چالیس سال کے بعد جبکہ اس کی عمر ۵۰،۶۰ سال کے قریب تھی بچہ پیدا ہوا اگر پندرہ سال کی عمر میں بیاہی گئی تو تب بھی اسکی عمر ۵۵ سال کی ہوگی اور اگر۱۲ سال میں بیاہی گئی تو ۵۲ سال کی عمر ہوگی پورے ۴۰ سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اولادعطا فرمائی اس قسم کے معجزے پہلوں نے بھی دیکھے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی بے حد شان دکھا رہا ہے مسلمان ممالک میںبھی عیسائیت قابض ہے کیونکہ مسلمان پڑھے لکھے نہیں نوے فیصد عیسائی کام کرنے والے ہیں اور عیسائیت کے خلاف ہماری مہم اور عیسائیت کے خلاف میرے نعرے لیکن تعاون کا یہ حال کہ صبح سات بجے کی خبروں میں (یہاں بھی قریباً سات بجے صبح خبریں آتی ہیں) اس میں رات دس بجے اور صبح سات بجے کی خبر کے درمیان جو میرا پروگرام تھا اس کے متعلق خبر پھر سات کے بعد ایک بجے کے درمیان کے جو پروگرام تھے ان کی خبر پھر ایک بجے اور پانچ بجے کے درمیان جو واقعات ہوئے پانچ بجے کی خبروں میں ان کے متعلق خبراور پھر پانچ اور رات کے نوبجے کے درمیان واقعات ہوئے رات کے نوبجے کی خبروں میںان کے متعلق خبر نشر ہوئی تھی یوں کہنا چاہئے کہ ایک نمائندہ قریباً۲۴ گھنٹے ساتھ لگا رہتا تھا پھر آپس میں جو بایتںکررہے ہیں ان کے ریکارڈ کرنے کے لئے مائیک سامنے آجاتا تھا ۔ بو(Bo) میں جو فری ٹائون سے۱۷۰ میل ہے ریڈیو کی ایک نمائندہ ہر وقت باہر بیٹھی رہتی تھی جوں ہی میں باہر نکلا اس نے ٹیپ ریکارڈر آن کیا اور پاس آگئی اور پھر وہ نیوز بلیٹن سے پہلے خبریں بجھواتی تھی ایک دوفقرے نہیں بلکہ بعض دفعہ پندرہ منٹ کی خبروں میں پانچ پانچ منٹ تک ہمارے متعلق خبریں ہوتی تھیں کہ فلاں جگہ گئے یہ ہوا فلاں سے باتیں کیں مسجد کا بنیادی پتھر رکھا یا لڑکوں کو مخاطب کیا اور اس میں یہ یہ ان کو کہا علاوہ اس امید کے پیغام کے جس کامیں ذکر کر چکاہوں میں ان کو مایوسی کے دور کرنیوالا پیغام بھی دیا کرتا تھا۔کیونکہ بڑا ظلم ہوا ہے ان پر ایک طبقہ میں مایوسی بھی پائی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی توفیق دی کہ میں ان کی مایوسیوں کی دور کروں اور امیدوں کو ابھاروں تاکہ آئندہ نسلیں مسرت کی زندگی گزار سکیں ہماری دعاہے کہ وہ دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے بہتر زندگی گزارسکیں۔ جس نمائندہ عورت کا میں ذکر کررہا ہوں اس نے دیکھا کہ میں نے سکول میں ایک لڑکے کو اپنی جیب سے دوپائونڈ نکال کردیئے علاوہ اس انعام کے جواسے سکول کی طرف سے ملنے والا تھا بعد میں وہ ہمارے پرنسپل سے کہنے لگی کہ یہ بچہ ہے اس نے یہ پائونڈ خرچ کردینے ہیں اور یہ بڑا ظلم ہوگا اس لئے تم اسے کہو کہ ایک پائونڈ میرے پاس بیچ دے کیونکہ میں اسے خرید کر تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں پرنسپل نے مجھے بتایا میں نے کہا اس بچے کو محروم نہ کریں میں اسے ایک پائونڈ دے دیتا ہوں چنانچہ میں نے دستخط کر کے ایک پائونڈ اسے دے دیا پھر اس نے منصورہ بیگم سے کہا کہ ہمارا آدھا خاندان مسلمان ہے آدھا عیسائی ہے انہوں نے مجھ سے ذکر کیا میں نے اسے تبلیغ کی اور اسے بتایا کہ عیسائیت یہاں یہ دعویٰ لے کر آئی تھی کہ مسیحیت کے پاس محبت کا پیغام ہے مگر وہ ناکام ہوئی اور عیسائی اقوام نے تم پر ظلم ڈھائے اب ہم آئے ہیں قریباً پچاس سال سے تمہارے ملک میں کام کررہے ہیں اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو کہ سوائے ہمدردی اور مساوات اور اخوت کے اور کوئی جذبہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے یہ لو بیعت فارم تم اسے پڑھو اور اللہ کے حضور دعا کرو میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ ابھی احمدی ہوجائو کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے جب تک دل نہیں مانے گاتمہارے احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے حضور تم دعا کرو اگر احمدیت یعنی اسلام سچا ہے توا للہ تعالیٰ تمہیںاس کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اگر تمہارے اوپر روشنی ظاہر ہوجائے تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ پھر کسی سے نہ ڈرنا اپنے باپ سے بھی نہ ڈرنا اور سچائی کو قبول کر لینا اس کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ چلتے وقت اس نے منصورہ بیگم سے کم ازکم آٹھ دس دفعہ کہا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے دعا کی درخواست کرتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صداقت کو قبول کرنے کی توفیق دے آپ بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل جس قوم پر نازل ہورہے ہوں اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے چلے جاتے ہیں میری طبیعت پر اثر ہے اور میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ۲۳-۲۵ سال احمدیت کے لئے بڑے اہم ہیں کل کا اخبار آپ نے دیکھا ہوگا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے۴۵ ۱۹ء میں کہا تھا کہ اگلے بیس سال احمدیت کی پیدائش کے ہیں اس واسطے چوکس اور بیداررہو بعض دفعہ غفلتوں کے نتیجہ میں پیدائش کے وقت بچہ وفات پا جاتا ہے میں خوش ہوں اور آپ کو بھی یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ وہ بچہ ۱۹۶۵ء میں بخیر وعافیت زندہ پیدا ہوگیا جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ میرے دل میں یہ ڈالاگیا ہے کہ وہ بچہ خیریت کے ساتھ ،پوری صحت کے ساتھ اور پوری توانائی کے ساتھ۱۹۶۵ء میں پیدا ہوچکا ہے۔ اب ۱۹۶۵ء سے ایک دوسرا دور شروع ہوگیا اوریہ دور خوشیوں کے ساتھ قربانیاں دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا ہے۔ اگلے ۲۳ سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے یا دنیا ہلاک ہوجائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے میرا کام دنیا کو انذار کرنا ہے اوروہ میں کرتا چلا آرہا ہوں آپ کا کام انذار کرنا اور میرے ساتھ مل کر دعائیں کرنا ہے تاکہ دنیا اپنے رب کو پہچان لے اور تباہی سے محفوظ ہوجائے۔
اب جیسا کہ میں نے انگلستان میں اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے پیسہ کہاں سے آئے گاکیونکہ خدا تعالیٰ نے شروع خلافت میں مجھے یہ بتایا تھا ’’تینوں اینا دیاں گا کہ تورج جاویں گا‘‘ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ دوگھنٹے میں۲۷-۲۸ہزار پائونڈ کے وعدے ہوگئے اور یہ بغیر کوشش کے ہوئے میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میرے جانے سے پہلے پہلے دس ہزار پائونڈ کی رقم اس مد میں ضرور ہونی چاہئے۔ عہدیدار مایوس تھے لیکن میں ایک سیکنڈ کے لئے مایوس نہیں ہوا مجھے پتہ تھا کہ میرے خدا نے کہا ہے کام کرو اگر میرے پاس ایک لاکھ پائونڈ ہوتا اور میرا رب مجھ سے کہتا کہ کم ازکم ایک لاکھ پائونڈ خرچ کردوتومیں اپنا لاکھ پائونڈ خرچ کرکے آپ کے پاس آتا کہ میرے پاس جو تھا وہ میں نے خرچ کردیا اور یہ کم سے کم لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اس کا پہلا مخاطب ہوں مجھے کام کردینا چاہئے۔اب جب مجھے اس نے کہا کہ کم سے کم اتنا خرچ کرو تو مجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پیاری جماعت کی انگلی میرے ہاتھ میں دی ہے میں اس سے یہ کہوں گا اور وہ یہ کام کریں گے اللہ تعالیٰ جتنی مجھے توفیق دے گا میں بھی اس میں حصہ دونگا لیکن میں آپ کی بات کررہا ہوں۔
پاکستان کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ایک سکیم بنائی ہے لیکن اس سے پہلے میں اس کی تمہید بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں فارن ایکسچینج کی تنگی رہتی ہے اورہمیں باہر بھیجنے کے لئے روپیہ نہیں ملتا۔ ہم قانون کی پابندی کرنے والے ہیں۔ کوپن ہیگن کی مسجد کے لئے ہماری بہنوں نے جوچندہ دیا تھا وہ رقم ابھی تک یہاں پڑی ہے اس کا فارن ایکسچینج نہیں ملا پس باوجود اس کے کہ ہمیں اس وقت باہر روپیہ بھجوانے کی اجازت نہیں ملے گی پھر بھی میں اپیل کروں گا اور آپ قربانی دیں گے انشاء اللہ اور یہ اسلئے کہ وہ خدا جو ہمیں قربانیاں پیش کرنے کے لئے کہتا ہے وہ ہمیں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے جس خدا نے میرے دل میں بڑی شدّت کے ساتھ یہ ڈالا ہے اور فرمایا ہے کہ تومیرے لئے میری عظمت کے قیام کے لئے، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دلوں میں قائم کرنے کے لئے اس جماعت سے قربانیاں مانگ وہ دے گی۔ ہمیں یہاں قربانیاں دینی پڑیں گی وہ خدا یسے سامان پیدا کردے گا روپیہ باہر بجھوانے کے لئے انشاء اللہ سہولتیں پیداہوجائیں گی۔ یہی حکومت جوآج فارن ایکسچینج نہیں دے رہی کل کودینے لگ جائے گی حالات بدل جاتے ہیں ایک رات میں بدل جاتے ہیں لیکن جس صبح میں یہ دیکھوں کہ حالات بدل گئے اور آج میں رقم باہر بھیج سکتا ہوں وہ صبح ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ میرے پاس رقم موجود نہ ہو(یہ نہیں کہ میں اعلان کروں اور رقموں کی وصولی کا انتظار کروں)میرے پاس خزانے میں رقم موجود ہونی چاہئے اور جس صبح کو میں یہ پائوں کہ آج سورج ایسے حالات میں طلوع ہوا ہے کہ ہمارے لئے روپیہ باہر بھجوانے کی سہولت ہے تو قبل اس کے دفاتر بند ہوں روپیہ باہر چلا جائے جیسا کہ میں نے وہاں انگلستان میں کیاکیونکہ اس وقت چلنے کا نہیں دوڑنے کا وقت آگیا ہے پھر یہ کہ ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں مثلاً افریقہ کے لئے کتابیںشائع کرنا ہے کتابوں کے سلسلہ میں تو بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کامیں آپ کے سامنے ذکر نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مسلم ہوشیار ہوجائیں اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کریں غیر مسلم کا فقرہ میں نے جان کر کہا ہے میں غیر احمدی نہیں کہہ رہا وہ ایسا نہیں کرینگے۔ لیکن وہ چیز جو غیر مسلم کے خلاف بہت سخت جاتی ہے وہ کتابوں کے ذریعہ ہوسکتی ہے اور کتابیں ہم نے یہاں شائع کرنی ہیں اور اس پر خرچ ہوگا اور دوسرے کام ہیں جب اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرے گا ہم فوراً رقم باہر بھجوا دیں گے۔
پاکستان کے (احباب جماعت کے) لئے میں نے یہاں مسجد میں مغرب کے بعد بات کی تھی۔ اس وقت مجھے ایک بات کے متعلق شبہ تھا اب میں وہ پوری سکیم بیان کردیتا ہوں الفضل والے ابھی نوٹ کریں اور دکھا کر کل صبح کے اخبار میں آجائے مجھے پاکستان کے دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ ہزار روپیہ فی کس دیں جس میں سے ہر وعدہ کنندہ دوہزار روپے فوری طورپر(جس کے معنے ہیں اگلے نومبر تک)ادا کردے۔ اسکو میں فوری کہتا ہوں کیونکہ میری آواز ہر ایک کے کانوں تک پہنچنے میں وقت لگے گا پھر تیاری کرنا ہے کسی کے پاس رقم نہیں ہوتی، کسی نے روپے وصول کرنے ہوتے ہیں بہرحال فوری سے میری مراد نومبر ہے اور اس طرف بھی بعض دوستوں نے توجہ دلائی تھی کہ زمینداروں کو نومبر میں ادا کرنے کی سہولت ہوگی اسلئے دوایک ماہ بڑھا کر فوری کی یہ مہلت نومبر تک بڑھا دی ہے پس پانچ ہزارمیں سے دوہزار روپے نومبر تک مل جانے چاہئیں اور بقیہ تین ہزار اپنی سہولت کے ساتھ تین سال میں ادا کریں لیکن یہ دو ہزار روپے نومبر سے پہلے ملنا چاہئے ان دو سو مخلصین کے علاوہ مجھے دو سو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو دوہزار فی وعدہ کریں۔ اس میںسے ایک ہزار فوری(اس معنے میں)اور بقیہ ایک ہزار تین سال میں بسہولت ادا کریں اس کے علاوہ مجھے کم ازکم ایک ہزار ایسے مخلصین کی ضرورت ہے(خدا کرے کہ ان کی تعداد دوہزار سے بھی بڑھ جائے) جو/-۵۰۰روپے اس مد میں دینے کا وعدہ کریں جس میں سے/-۲۰۰روپے فوری دیں اور بقیہ /-۳۰۰روپے جب چاہیں اپنی سہولت کے ساتھ اگلے تین سال کے اندر ادا کردیں۔اور ان چودہ سو مخلصین کے علاوہ جو دوست/-۵۰۰سے کم رقم دینا چاہتے ہیں ہم نے ان کے وعدے نہیں لینے بلکہ وہ اس مد میں(جوکھل چکی ہے) خزانہ میں جمع کروائیں اور رسید لے لیں اورمجھے اطلاع کردیں میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرمائے لیکن اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں مثلاً اگر وہ اپنی رقم غلط جگہ بھیج دیں گے تو اس دفتر کا وقت ضائع ہوگا’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ کی مد ربوہ کے خزانہ میں قائم ہوچکی ہے وہاں رقم جمع کروائیں اور ان سے رسید لے لیں اور مجھے اطلاع کردیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا لیکن /-۵۰۰سے کم رقم دینے والوں سے وعدہ نہیں لیا جائے گا دوست جتنا دینا چاہتے ہیں و ہ نقد خزانہ میں جمع کروا دیں پھر اللہ تعالیٰ اور توفیق دے تو اور رقم بھی جمع کروادیں البتہ ہم وعدہ کے رجسٹر میں ان کا نام نہیں لکھیں گے۔ رجسٹر صرف ان کا بنے گا جو/-۵۰۰یااس سے زائد رقم کا وعدہ کریں گے۔
اب ایک صف تو ’’نصرت جہاں ریز روفنڈ‘‘ میں پانچ ہزار روپے یا اس سے زائد دینے والوں کی ہوگی کیونکہ اس میں یہ شرط تو نہیںکہ پانچ ہزار سے زائد نہیں دینے اگر کسی کو اللہ تعالیٰ پانچ لاکھ کی توفیق دیتا ہے تو اسے پانچ لاکھ کی رقم پیش کردینی چاہئے۔ غرض پانچ ہزار یااس سے زائد دینے والوں کی صف اوّل، دوہزار یا دوہزار سے زائد پانچ ہزار تک یا۴۹۹۹ روپے تک دینا چاہتے ہیں ان کی صف نمبر۲ اور جو پانچ سو سے زائد یعنی۱۹۹۹ روپے تک دینا چاہتے ہیں ان کی صف نمبر۳ ہوگی جو زائد رقم ہوگی اس کابھی ۳/۲حصہ نقد دینا پڑے گا۔’’پنج دوونجی‘‘زمیندار دوست سمجھ جاتے ہیں کہ پنج دووَنجی میں سے دودونجی فوری طور پر اور تین بعد میں لیکن صف چہارم وہ ہوگی جو وعدہ کے کاغذوں میںExist(اگزسٹ) نہیں کرے گی لیکن خزانہ کے اموال میں وہ موجود ہوگی یعنی جس کو پانچ روپے کی یا،دس روپے کی، یا چار سوروپے کی،یاساڑھے چار سو روپے کی توفیق ہے وہ اسے خزانہ میں داخل کروائے وہاں سے رسید لے اور دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ مجھے بھی ضرور اطلاع دے میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتاہوںبعض لوگوں کا یہ بڑا اچھا جذبہ ہے کہ وہ قربانی دیتے ہیں مگر’’کسی‘‘کو خبر نہیں ہونے دیتے۔خلیفہ وقت’’کسی‘‘ نہیں ہوا کرتا کیونکہ اس سے آپ نے دعائیں لینی ہیں اس سے برکتیں حاصل کرنی ہیں جن کی فطرتیں ایسی ہیں جو بڑی پیاری فطرتیں ہیں وہ کسی کو نہ بتائیں خزانہ میں جمع کروائیں لیکن مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں ان کا نام لیکر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طورپرجھکوں اور ان کے لئے دعائیں کروں۔ میں تو’’کسی‘‘ہوں ہی نہیں۔میں تو آپ کے وجود کا حصہ ہوںپس مجھے ضرور اطلاع دیں۔وہ دوست جو زیادہ رقم دینے والے ہیں یعنی پانچ سو سے دوہزار تک، دوہزار سے پانچ ہزارتک اورپانچ ہزار سے اوپرجہاں تک مرضی ہو ان کے نام ہمیں بہرحال لکھنے پڑیں گے اوران کو یاد دہانیاں بھی کروائی جائیں گی انگلستان سے میں ان سب دوستوں کے نام اور پتے لے آیا ہوں جنہوں نے اس فنڈ کے لئے وعدے کئے ہیں میرے ذہن میں یہ ہے کہ آج سے چھ ماہ کے بعد بطور reminder (ریمائنڈر) ہرایک کو ایک عام خط لکھوں گا اور پھر چھ ماہ کے بعد دوسرا خط لکھوں گاکہ یا تو فوری ادا کرو یا اگلا سال آرہا ہے نصف دوسرے سال میں جو باقی رہ گیا یہ وہ ادا کرو۔ پس انشاء اللہ وہ ضرور دیں گے میں نے شروع میںبتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا ہے کہ میرے نام پر قربانیاں لیتاجا اور جماعت وہ قربانیاں دیتی چلی جائے گی میرا کام ہے کہ میں سوچوںاوراللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنا ہر منصوبہ بنائوں۔
جیسا کہ میں نے بتا یا ہے سپین کے متعلق میں نے ابھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا کیونکہ اگر میں صحیح سمجھا ہوں اللہ تعالیٰ کا منشاء بھی یہی ہے میں بہت پریشان تھا سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمدی مسلمان ہوئے وہاں جاکر شدید ذہنی تکلیف ہوئی۔ غرناطہ جو بڑے لمبے عرصہ تک دارلخلافہ رہا جہاں کئی لائبریریاں تھیں، یونیورسٹی تھی جس میں بڑے بڑے پادری اور بشپ مسلمان استادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے، مسلمان وہاں سے مٹا دئیے گئے غرض اسلام کی ساری شان وشوکت مادی بھی اورروحانی بھی اور اخلاقی بھی مٹادی گئی ہے طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے درودیوار سے درود کی آوازیں اٹھتی تھیں آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں طبیعت میں بڑا تکدّر پیدا ہوا چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تاکہ کچھ توکفارہ ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے گھنٹے دوگھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اَنْتَ اور لَااِ لٰـہَ اِلاَّ ھُوَ پڑھ رہا تھا یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے تب میں نے سوچا کہ اصل تو توحید ہی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی قیام توحید کے لئے تھی میں نے فیصلہ تو درست کیا تھا یعنی یہ کہ مجھے کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں لیکن الفاظ خود منتخب کرلئے تھے۔ درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے زیادہ مقدّم ہے چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا۔ ہم غرناطہ میں دوراتیں رہے دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر کھل جاتی اور میں دعا میں مشغول ہوجاتا ساری رات میں سونہیں سکا ساری رات اسی سوچ میں گزر گئی کہ ہمارے پاس مال نہیں یہ بڑی طاقتور قومیں ہیں مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں وسائل نہیں ہیں ہم انہیں کس طرح مسلمان کریں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوامِ عالم حلقہ بگوشِ اسلام ہوکر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادم بن جائیں گی یہ بھی اقوامِ عالم میں سے ہیں یہ کس طرح اسلام لائیں گی اور یہ کیسے ہوگا؟ غرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی حال رہا چند منٹ کے لئے سوتا تھا پھر جاگتا تھا پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا۔ایک کرب کی حالت میں میں نے رات گزاری وہاں دن بڑی جلدی چڑھ جاتا ہے میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو یکدم میرے پرغنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہوگئی:-
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ۔اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَيْئٍ قَدْرًاo (الطّلاق:۴)
اس بات کا بھی جواب آگیا کہ ذرائع نہیں کام کیسے ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھو اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر تو ّکل رکھتا ہے اسے دوسرے ذرائع کی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ اس کے لئے کافی ہے۔اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بناتا ہے اسے ضرور پورا کرکے چھوڑتا ہے اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہئے، یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ یہ نہیں ہوسکتا یہ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوامِ عالم کو وحدتِ اسلامی کے اندر جکڑدیا جائے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں میں لاکر کھڑا کردیا جائے۔
دوسرایہ خیال تھا کہ اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدایا یہ ہوگا کب؟ اِس کا جواب بھی مجھے مل گیا’’قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَيْئٍ قَدْرًا‘‘ (الطّلاق:۴)اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کاایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے جس وقت وہ وقت آئے گا ہوجائے گا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں مادی ذرائع اگر نہیں ہیں توفکر نہ کرو اللہ کافی ہے وہ ہو کر رہے گا چنانچہ میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہوگئی اس کے متعلق میں نے آپ کے سامنے کوئی سکیم نہیں رکھی کیونکہ ابھی وہاں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم نہیں ہوا البتہ سپین کے متعلق میں ایک کوشش کر رہا ہوں جس کوظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں لیکن جس کے لئے دعا کرنا آج ہی ضروری ہے اسلئے بڑی کثرت سے یہ دعاکریں کہ جس مقصد کے لئے میں سپین گیا تھا اور جس کے پورا ہونے کے بظاہر آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کردے کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ہیں پھروہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے بڑی خوشی کا دن ہوگا بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے بعض نہیں پہچانیںگے اور خوش نہیں ہوں گے یہ ان کی بدقسمتی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری امتِ مسلمہ کے لئے خوشی کادن ہوگا۔
میں نے مغربی افریقہ کے ممالک جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے ان میں سے بعض کے سفراء سے یہ کہہ دیا تھا کہ میرا ایک مشن ہے جس کے لئے میں سپین جارہاہوں اور تم دعا کرو اور اس سے اصل مقصد میرا یہ تھا کہ میں دعا کے لئے کہوں گا ان کے دل بھی احمدیت کی کوششوں کے بارے میں ایک دلچسپی اور پیار پیدا ہوگا چنانچہ وہ اتنے خوش ہوئے کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے اور انہوں نے بڑی دعائیں دیں بلکہ ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ مسٹر گرنیکو کو کہہ دینا کہ میرے چچا نے سپین کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ انہیں مدد کی ضرورت تھی۔ اگر وہ آپ کا یہ کام کردیںتو میرا چچا بھی بہت خوش ہوگا غرض انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا لیکن میں نے نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ پر میرا توکل ہے اوروہ پورا کرے گا انشاء اللہ خداکرے کہ وہ وقت مقدر جلد آجائے اور ہمارے لئے آج ہی وہ خوشیوں کے دن کی ابتداء بن جائے۔
بو(Bo)ؔمیں بھی گرمی میں مجھے سفر کے بعد بڑی کوفت کے باوجود کوئی اڑھائی ہزار احباب سے مصافحے کرنے پڑے تھے مجھے شبہ تھا کہ میں بے ہوش ہوکر نہ گر جائوں جب یہ کیفیت پیدا ہوئی تو میں نے پانی مانگا اور پھر میں نے ان سے کہا مجھے پانی پلاتے جائو یا شاید ڈاکٹر صاحب تھے ان کو خیال آیا غرض تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دوست مجھے پانی پلا دیتے تھے اور میں پھر وہ سلسلہ شروع کردیتا یہاں بھی میں یہی کررہا ہوں۔
آج کے خطبہ میں مَیں نے بعض اصولی اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے افریقہ میں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے وقت مجھے ان کی یہ کیفیت بڑی پیاری لگی کہ مذہب دل کا معاملہ ہے۔ مذہب کے معاملہ میں لڑائی بالکل احمقانہ بات ہے چنانچہ وہ آپس میں بالکل نہیں لڑتے نہ عیسائی مسلمانوں سے اور نہ مسلمان عیسائیوں سے بلکہ امن سے وہ رہ رہے ہیں وہ آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں دلائل دیتے ہیں، ایسے دلائل کہ ان کو سن کر یہاں شاید لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہوجائیں مگر وہ بشاشت سے ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ جس کے دل کی کھڑکیاں کھول دے وہ اسلام لے آئے وہ اور بات ہے لیکن ان کو یہ پتہ ہے کہ مذہب بہرحال دل کا معاملہ ہے اسے سر پھوڑ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ آپ یہ بھی دعا کریں کہ جن ملکوں میں یہ ذہنیت نہیں اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں بھی یہ ذہنیت پیدا کردے اور ان کو بھی سمجھ آجائے میں تو بڑی تحدّی کے ساتھ یہ بات کیا کرتا ہوں اور مخالفِ اسلام کو شرمندہ کردیتا ہوں۔ ہوائی جہاز میں دوامریکن بیٹھے ہوئے تھے ہم۳۵ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑرہے تھے کہ کسی چھوٹی سی بات پر ان سے واقفیت ہوگئی وہ میرے پیچھے ہی بیٹھے ہوئے تھے مجھے موقعہ مل گیا میں نے ان سے کہا کہ میںتو حیران ہوتا ہوں کہ فرد فرد سے نفرت اور حقارت کا اظہار کررہا ہے، قومیں قوموں کو نفرت اور حقارت سے دیکھ رہی ہیں۔پیار سے کوئی ایک دوسرے سے معاملہ نہیں کرتا میں نے ان سے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ انسان انسا ن سے پیار کرنا سیکھے چونکہ ہیں تو یہ پڑھی لکھی ہوشیار قومیں نہ میں نے امریکہ کا نام لیا تھا اورنہ روس کا وہ آگے سے مجھے کہنے لگے کہ اب ہماری روس کے ساتھ Under Standing(انڈرسٹینڈنگ) ہوگئی ہے یعنی کچھ معاملہ فہمی ہوگئی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں وہ سمجھ گئے کہ یہ ہمیں کو سمجھا رہا ہے میں نے ان سے کہا یہ ٹھیک ہے تمہاری روس سےUnder Standing(انڈر سٹینڈنگ) ہوگئی ہےBut out of fear__Not out of loveتم نے یہ سمجھوتہ اس خوف سے کیا ہے کہ ایک دوسرے کو ہلاک نہ کردیں۔ محبت کے نتیجہ میں یہ سمجھوتہ نہیں ہوا چنانچہ وہ گھسیانے سے ہوکر کہنے لگے بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن بہرحال ایک قدم صحیح راستے کی طرف اٹھ کھڑا ہوا ہے میں نے کہا یہ ٹھیک ہے یہ میں مان لیتا ہوں لیکن یہ ظلم ہے کہ ہم محبت کرنا بھول گئے ایک مسلمان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جس کو وہ اپنا آقا ومطاع کہتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم جس کے متعلق وہ اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کامحبوب اور اللہ کی محبت اس کی محبت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی اس کے مسلک کو چھوڑتے ہیںکس سے نفرت کی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ہمیں بتائے جب سختی کی اصلاح کے لئے کی آپ کی زندگی میں انسان کے لئے نفرت اور حقارت کاکوئی ایک واقعہ بھی نہیں دکھا سکتا انسان کی بداعمالیوں سے نفرت بھی کی، انہیں حقارت سے بھی دیکھا بد اعمالیوں سے ہمارا بھی حق ہے کہ ہم نفرت کریں ورنہ ہمارے اندر وہ اثر کریں گی جس سے ممکن ہے ہمارے بچے ہلاک ہوجائیں لیکن بد عمل یعنی برا عمل کرنے والے سے آپ نے نفرت نہیں کی اس یہودی سے آپ نے نفرت نہیں کی جس نے اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کے بستر کو گندا کردیا تھا اس قوم سے نفرت نہیں کی جس نے سالہا سال تک آپ کو آپ کے صحابہؓ کو انتہائی تکالیف پہنچائیں، جنہوں نے اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں قید رکھ کر آپ کو بھوکے رکھ کر مارنا چاہا جب ان کی بھوک کا وقت آیا تو خدا کے اس بندے نے ان کے لئے روزی اور ان کے پیٹ بھرنے کا سامان پیدا کیا انہیں یہ نہیں کہا کہ تم حقیر اور قابل نفرت لوگ ہو۔ جائو مرجائو بھوکے مجھے اس سے کیا بلکہ انسانی ہمدردی جوش میں آئی اور انسانی بھائی کا پیار جوہے اس کی موجیں دل سے اٹھیں اور ان کی خدمت کے لئے(بہتوں کے پیٹ کاٹ کرشاید) پہنچ گئے کس انسان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت کی تھی کہ کوئی آج ہم سے کہے کہ تم دوسرے انسان سے نفرت کرو اس سفر میں کئی جگہ جاہل اور کم علم لوگ مجھ سے یہی توقع کرتے رہے کہ میں نفرت کے بیان دوں۔ ان سے میں نے یہی کہا اور اپنے جلسوں میں بھی یہی کہا کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو۔ میں کسی قوم یا فرد سے نفرت نہیں کرسکتا اور نہ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ظلّی طور پر انہیں جس طرح وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے تھے میرے بھی پیارے بنا دیا ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے کہ پیار میں مَیں نے جو طاقت دیکھی ہے وہ دنیا کی تمام مادی طاقتوں سے بڑھ کر ہے اور پیار جو چیزیں جیت سکتا ہے وہ دنیا کی مادی طاقتیں نہیں جیت سکتیں۔ پس اے میرے پیارے احمدی بھائیوں اور بہنوں اور بڑوںاور بچوں! اس سبق کو یادرکھو۔ دنیا اپنی طاقت کے زعم میںدوسروں کوہلاک کرسکتی ہے اور ان کے سر پھوڑ سکتی ہے مگر میں اور تم اس غرض کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ہم صرف ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ہم محبت اور پیار کے ساتھ دنیا کے دلوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں اور وہ توحید قائم ہو جس توحید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے پس کسی سے نفرت نہ کرو۔ ہمارے اس ملک میں بھی ایک بے ہودہ اور گندی آگ سلگ رہی ہے خود کو اس کے اندر نہ پھینکو خود کو اس گند میں ملوث نہ کرو، کسی سے نفرت نہ کرو،گند کو دور کرنے کی کوشش کرو ظلم کو مٹانے کی کوشش کرو حق دار کو حق دلانے کی کوشش کرو تم ہر ایک سے محبت اورپیار سے پیش آئو انشاء اللہ۔ ایک دن آئے گا جب یہی لوگ شرمندگی کی وجہ سے آپ کے سامنے آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ انہوں نے آپ کو ہرقسم کے دکھ پہنچائے اور آپ کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے آپکی طرف ذرا بھی دکھ نہیں پایا اور نہ انہوں نے اپنے لئے آپ کی نگاہ میں سوائے پیار کے کوئی اور جذبہ موجزن پایا۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ہمارا یہی ایک ہتھیار ہے اور بڑا پیارا ہتھیاراور اسی ہتھیار کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق دنیا کے دل جیتنے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اللّٰھمّ اٰمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ۱ تا ۱۵)
ززز









مغربی افریقہ میںکام کرنے والیہمارے
اکثر مبشرین کو مقامِ نعیم حاصل ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹ جون۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہکی تلاوت کے بعد حضور انورنے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھیں:-

اور پھر فرمایا:-
ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جونیکیوں میں آگے بڑھ جاتے اور سبقت لے جاتے ہیں انہیں مقامِ نعیم میں رکھا جاتا ہے ان کا مقام وہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہروقت نعمتوں کا نزول ان پر ہوتا رہتا ہے اور اس مقامِ نعیم کی وجہ سے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے وہ وافر حصہ پاتے ہیں ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شادابی دنیا دیکھتی ہے محبت الٰہی میں ہروقت وہ مست رہتے ہیں اور یہ محبتِ الٰہی ان کے رگ وریشہ میں کچھ اس طرح سرایت کرجاتی ہے کہ ان کے وجود مُشک کی طرح مہک اٹھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشبو لوگ بھی ان کے وجود سے سونگھتے ہیں فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے کہ ایک خواہش کرنے والے، ایک آرزو کرنے والے کو چاہئے کہ اس مقام کی خواہش کرے اس سے نیچے کی خواہش توکوئی خواہش نہیں۔ انسان کواس مقام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی آرزو ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مقامِ نعیم عطا کرے اور یہ وہ مقام ہے کہ حقیقی عزت اور حقیقی شان انسان کی اسی مقام میں ہے۔ ایک دنیا دار انسان کو ساری دنیا کی بادشاہتیں بھی حقیقی عزت عطا نہیں کرسکتیں اگر ساری دنیا کی بادشاہتیں اکٹھی ہوکر یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص دنیامیں معزز ترین انسان ہے اوراسی کے مطابق(ظاہری طور پر) اس سے سلوک کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے لئے پیار نہ ہو بلکہ غضب کی جھلکیاں نظرآرہی ہوں تو نہ کوئی عزت ہے اس شخص کی نہ کوئی شان ہے اس شخص کی۔ یہ مقامِ نعیم کی شان اورعزت اور احترام ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا اور اس کے حصول کی تمہیں کوشش کرنی چاہئے۔
افریقہ کے دورہ میںواقفین مبشرین کے حالات میں نے دیکھے ان سے ملا جوعزت اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مقامِ نعیم کی وجہ سے قائم کی ہے وہ میرے مشاہدہ میں آئی لیکن کچھ وہ بھی تھے کہ جو مقامِ نعیم کو حاصل نہیں کرسکے تھے ان کو بھی میں نے دیکھا اور ان کی زندگیوںکامطالعہ کیااور ان کے کاموں پر تنقیدی نگاہ ڈالی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چھ۶ ممالک کے تمام مبشر انچارج جو ہیں وہ ظاہری طورپر جو مجھے نظر آیا(دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مستقبل اور غیب کی خبرصرف اسی کو ہے لیکن جو میں نے محسوس کیا)اور جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل ہے میں سمجھتاہوں کہ وہ بھی اس مقامِ نعیم میں رہنے والے ہیں بے نفس ،اللہ کی محبت میں مست، اس کی مخلوق کی خدمت کرنے والے اوراللہ تعالیٰ کے حکم سے اس دنیا میں بھی عزت کو پانے والے ہیں۔ نائیجیریا میں فضل الٰہی صاحب انوری ہیں۔ غانا میں کلیمؔصاحب ہیں آئیوری کوسٹ میں قریشی(محمد افضل) صاحب ہیںجن کو پنجابی میں’’بیبا مبشر‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے بہت سادہ اور پیار ی ان کی طبیعت ہے بڑی پیار کرنے والی اور آرام سے سمجھانے والی اوراپنے آرام کو اوراپنی بہت سی ضرورتوں کودوسروں کے لئے قربان کردینے والی طبیعت ان کی۔ لائبیریا میں نئے مبلغ گئے ہیں امین اللہ سالکؔ۔ ابھی ان کے متعلق پوری طرح توکوئی فیصلہ نہیںکیا جاسکتا لیکن اس وقت تک جو کام انہوں نے کیا اس سے یہی پتہ لگا وہاں کے پریذیڈنٹ ٹب مینؔ بھی ان کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سیرالیون میں ہمارے صدیق صاحب ہیں گیمبیا میں مولوی محمد شریف صاحب ہیںمیںنے محسوس کیا کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مقامِ نعیم عطاکیا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہ میںمیں نے ان کے لئے عزت کا مقام دیکھا اسی طرح دنیا کی نگاہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت اور احترام کا مقام عطا کیا ہے۔ ہمارے سفراء ان کی تعریف کرتے تھکتے نہیں دوسرے ملکوں کے سفراء ان سے بڑے پیار سے ملتے ہیں اور پیار کے تعلقات ان کے ساتھ قائم ہیں حکومت ان سے راضی ہے عوام ان پر خوش ہیں غرض ہر لحاظ سے ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شادابی ہمیںنظر آتی ہے اور ہماری جماعت کو ان کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں ابرار ہی میں رکھے اور ہمیشہ اپنی نعمتوں کا وارث انہیں بناتا رہے وہ ابرار کے گروہ میںہی اس دنیا سے رخصت ہوں اور ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا میں وہ اٹھائے جائیںلیکن بعض نہایت افسوسناک مثالیں بھی نظر آئیں۔ ایک نئے ناتجربہ کا ر مبلغ گئے ہوئے ہیں(ہم مختلف مقامات پرجاتے تھے تو وہاں کے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے)ایک سفر میں ملک کی ساری جماعت کے پریذیڈنٹ اور ایک نوجوان مبلّغ ایک ہی کار میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے قافلے کے بھی ایک دوست اسی کار میں تھے۔ انہوںنے بتایا کہ اتنی بدتمیزی سے ہمارے مبلّغ نے اس بوڑھے مومن فدائی سے بات کی کہ میں بڑا پریشان ہوا لیکن انہوں نے اس مبلّغ سے کہا۔ دیکھو!میں پرانا احمدی ہوں، احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے تمہاری اس بے ہودہ بات کا مجھ پر کوئی اثر نہیں، نہ ہوسکتا ہے لیکن میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ اگرتم نے نوجوانوں کے سامنے اس قسم کی بات کی تو تم اس بات کے ذمہ دار ہوگے کہ تم انہیں احمدیت سے دور لے گئے ہو ایک اور کے متعلق پتہ لگا کہ ہمارے ایک سکول کے معائنہ کے لئے اس ملک کے محکمہ تعلیم کا انسپکٹر ہمارا افریقن بھائی آیا تو ہمارے مبلّغ صاحب کہنے لگے کہ اس کے ساتھ میرا بیٹھنا میری ہتک اور بے عزتی ہے میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتانتیجہ یہ ہوا کہ اس نے رپورٹ کی کہ یہ سکول احمدیوں سے چھین لیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے پھر ہمارے مبلّغ انچارج ان کے پاس گئے اور ان سے پیار کی باتیں کرکے سمجھایا اور معاملہ کو رفع دفع کیا اس مبلّغ کو میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تمہیں یہاں فرعون بناکر نہیں بھجوایا ایک خادم بنا کر بھجوایا ہے اگر تم خدمت نہیں کرسکتے تو واپس چلے جائو لیکن یہ استثناء ہیں گو تکلیف دہ استثناء ہیں اور فکر پیداکرنے والے استثناء ہیں چنانچہ میں نے دعا کی اور میں نے بہت استغفار کیا کیونکہ آخری ذمہ داری بہرحال خلیفہ وقت پر آتی ہے کہ اس قسم کے مبلغوں کو میں نے وہاں بھجوایا جو خود تربیت کے محتاج تھے پھر دعائوں کے بعد اور بہت استغفار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمیں اپنا نظام بدلنا چاہئے اس وقت جامعہ احمدیہ سے جو نوجوان شاہد فارغ ہوتے ہیں سارے کے سارے تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ ایک تو جامعہ احمدیہ کو سدھارنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے ان میں سے بعض وقف کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیںاور اس وجہ سے ان کو اخراج ازجماعت بھی کرنا پڑتاہے بعض ایسے بھی ہیں جو باہر کام کرتے رہے اور ان کو جماعت سے فارغ کرنا پڑا کیونکہ ان کی کوئی تربیت نہیں تھی اخراج کے بعد جن کے اندرنیکی اور سعادت ہوتی ہے وہ توبہ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں بہتوں کواللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے بعض ایسے بھی ہیں جو ٹوٹ جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کو ایک انسان کیا سارے انسان بھی اس سے پھر جائیں تو کیا پرواہ ہے وہ سب انسانوں کو ہلاک کرکے ان کی جگہ ایک مخلص اور جاں نثار جماعت پیدا کرتا ہے۔ قرآنِ عظیم یہی اعلان کرتا ہے کہ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْقُوَّۃُ وَالْعِزَّۃُ کوئی چیز اس کے لئے غیرممکن نہیں اور عملاً بھی دنیا میں یہ نظارے اللہ تعالیٰ کے قہر کے انسانوں نے دیکھے ہیں پس جامعہ احمدیہ میں کتابی تدریس کے علاوہ محبتِ الٰہی کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔
جن کومیں نے مقامِ نعیم پر اپنے مشاہدہ کے لحاظ سے پایا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے نفس کو کلیتاً اپنے رب کے لئے قربان کردیا تھا اور وہ اپنی عاجزی کا ہروقت اقرار کرتے رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہر عزت اور ہر طاقت اور ہر اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس طرح سپین کے ہمارے ایک بادشاہ نے اپنے محل میں رہائش اختیار کرنے سے پہلے ہزاروں جگہ یہ لکھوایا اور زیادہ تو اس کے دماغ میں یہی فقرہ آیا وہی لکھا ہوا ہے’’لَا غَالِبَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو غلبہ حاصل نہیں لیکن اس کے علاوہ’’اَلْمُلْکُ لِلّٰہِ‘‘۔’’اَلْقُدْرَۃُ لِلّٰہِ‘‘ ’’اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ‘‘ کو اس نے کثرت سے لکھوایا یہ بڑی لمبی تفصیل ہے اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جائوں گا اور جب یہ محل اللہ تعالیٰ کی حمد کے کلمات سے اس طرح حسین بن گیا تب اس نے وہاں رہائش رکھی چنانچہ ہمارے یہ ابرار مبشر (اللہ تعالیٰ انہیں جزادے او راستقامت عطاکرے)یہ وہ لوگ ہیں جنہیں علم ہے کہ غلبہ اور اقتدار اور قدرت اور عزت سب اللہ کی ہے اور حقیقی معنی میں اسی سے ملتی ہے۔ بے نفس ہوکر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور انتہائی پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے پھر وہ غریب جنہیں پیٹ بھر کر شاید کھانا بھی نہ ملتا ہو، خدا کی خاطر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سات ہزار میل اپنے رشتہ داروں سے دور لیکن ایسی زندگی کہ’’مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد‘‘ سے بھی جو زیادہ قریب ہے اس کا احساس رکھتے ہیں اور جو دوریاں ہیں وہ سب بھول چکے ہیں رشتہ داروں سے دوری، ملک سے دوری، اپنے معاشرہ کے حالات سے دوری، ہزار قسم کی دوریاں ہیں جن کا انہیں سامنا ہے انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی جب انہوں نے خدا کے لئے ’’ بُعد‘‘کی قربانی بھی دی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قرب سے نوازا یہ اس کی شان ہے لیکن اگر ایک شخص بھی ایساہو جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں تو جماعت کی بدنامی کا موجب،ہماری رسوائی کا باعث اوربڑی قابل شرم بات ہے۔
جامعہ احمدیہ میں بے نفس زندگی گزارنے کا سبق دینا ضروری ہے یہی اسلام کی روح ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنے وجود کو بکرے کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور رکھ دے کہ چھری پھیرے جس طرح چاہے جب تک یہ روح نہیں پیدا ہوتی ہمارا مبشر’’مبشر‘‘نہیں اگر محض چند دلائل سکھا کر ہم نے وہاں تبلیغ کرنی ہو تو بہت سے عیسائی بھی تیار ہوجائیںگے کہ چند دلائل سکھا دوہم تمہاری تبلیغ کرتے ہیں جو بھوکا مرتا ہے وہ تنخواہ کے ساتھ یہ کام کرنا شروع کردے گا لیکن ہمیں ایسے مبلّغ کی ضرورت نہیں ہمیں تو اس مبلّغ کی ضرورت ہے جس کا نفس باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے قدرت کوپانے والااور عزت کو پانے والا اوراثر ورسوخ کو پانے والا ہو غلبہ ہو اس کا لیکن وہ غلبہ وہ احترام اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ ہو۔ غلبہ تو یہ ہے کہ جو Head of the states (ہیڈ آف دی سٹیٹس)ہیں وہ بھی بڑی قدر کی نگاہ سے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ ان بے نفس، اللہ کے پیارے بندوںکے کاموں کا نتیجہ تھا کہ نائیجیریاکے ہیڈآف دی سٹیٹ کو جب میں ملنے گیا تو نوجوان جرنیل جس نے امریکہ کے مقابلہ میں سول وار(Civil war)جیتی تھی ابھی ابھی میرے جانے سے کچھ عرصہ پہلے جیتی تھی بظاہر دنیوی لحاظ سے اس کو بڑا مغرور ہونا چاہئے تھالیکن میں جو اس کیلئے بالکل انجان تھا میں مسلمان تھا اور وہ عیسائی ، اس کے باوجود اسکے ذہن پرہمارے کام کا اتنااثر تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا کہ اس ملک کی ترقی کے جو منصوبے ہیں اور جو کوششیں ہیں ان میں ہم اور آپ برابر کے شریک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے کاموں کی اس سے بڑھکر اورکوئی تعریف نہیں ہوسکتی ایک غیر ملک کے سربراہ کو ان حالات میں کہ امریکہ کو اس نے شکست دی تھی اور اسے جائز فخر تھا مجھے کہنے لگا کہ ان غیر ملکی حکومتوں اور غیر ملکی عیسائی مشنزنے اپنا پورا زور لگا یا کہ ہمارے ملک کو تباہ کردیںاللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں بچالیا۔ یہ اس کافقرہ تھا اس نے عیسائی مشن پر تنقید کی اور ہمارے متعلق یہ کہا کہ ہم اور آپ ملک کی Progress (پروگریس) میں، ملک کی ترقی کی جدوجہد اور کوشش میں Partner (پارٹنر) ہیں برابر کے شریک ہیں۔ یہ تأثر اس قسم کے دماغوں پر محض اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مبلّغوں کی بڑی بھاری اکثریت کا اور Missions (مشنز) کے انچارج جو ہیں ان کا نفس باقی نہیں رہا انہوں نے سب کچھ اللہ کے حضور پیش کردیااور پھر سب کچھ اس سے وصول بھی کرلیا غیر ملکی حاکم جب دوسرے ملک میں داخل ہوتا ہے تو سب کچھ لے جاتا ہے دیتا کچھ نہیں اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا(النمل:۳۵)لیکن ہمارا پیارا رب ہمارا ربِّ کریم جب سب کچھ لے لیتا ہے تو جتنا لیتا ہے اس کے مقابلہ میں(دینے والے نے گو سب کچھ دیا مگراتنی سی چیزتھی اللہ تعالیٰ کی عطا کے مقابلہ میںاور اس اتنی سی چیز کو لے کر)اس نے اپنا سب کچھ اسے دے دیا اور اس نے کہا جو میرا ہے وہ سب کچھ تمہارا ہے اور پھراپنی قدرت کے مظاہرے ان کی زندگی میں ان کودکھاتا ہے۔ ایک احمدی کی زبان تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھکنی نہیں چاہئے ہر وقت زبان پر حمد رہنی چاہئے ہر احمدی کو بحیثیت احمدی اجتماعی طورپر بھی اور جماعتی رنگ میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنی چاہئے کہ جماعت پر اس نے کتنے فضل کئے ہیں۔ اب اتنے بے نفس لوگوں میں چند نفس پرست بھی ہوں تو بڑی نمایاں ہوجاتی ہے ان کی بدی کہ ایک طرف وہ ہے کہ جس کا نفس باقی نہیں اورایک طرف وہ ہے کہ جس نے نفس کا کوئی حصہ بھی اللہ کی راہ میں قربان نہیںکیا اورایک انسان جس کے کان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی تھی کہ’’اِنَّمَآ اَنَابَشَرٌمِّثْلُکُمْ‘‘ (الکہف:۱۱۱) کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔اس کے کان میں ہمارے مبلغ کی یہ آواز پہنچی کہ تم اتنے ذلیل ہو کہ اگر میں تمہارے ساتھ بیٹھوں تومیری بے عزتی ہوجائے پس حقیقتاً ایسا ذہن جو ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہے کہ آپ کی آواز توایک افریقن کے کان میں یہ پہنچتی ہے کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوںاور تم میرے جیسے انسان ہو لیکن ایک مبلغ منسوب تو ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور کہتا یہ ہے کہ تمہارے ساتھ میرا بیٹھنا بھی میری بے عزتی ہے یہ خالص شیطانی فقرہ ہے جو فرعون کے منہ سے تو نکل سکتا ہے لیکن ایک شریف انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتا کجایہ کہ احمدی مبلغ کے منہ سے نکلے!
پس جامعہ احمدیہ کواپنی فکر کرنی چاہئے جامعہ احمدیہ میں(مجھے رپورٹ ملی ہے میں نے تحقیق ابھی نہیں کی کہ) بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی کلاس میںیہ کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تفسیر کی ہے وہ غلط ہے اور میں تمہیں صحیح تفسیر بتاتاہوں ایسا استاد جامعہ احمدیہ کی کیسے تربیت کر سکتا ہے؟ پھر تو وہ اس شخص کے خلاف بھی بغاوت کریں گے، خدا کے خلاف بھی بغاوت کریں گے کیونکہ بغاوت کا سبق ان کو جامعہ احمدیہ میں دیا گیا ہے خدا کو نہ ایسے استاد کی ضرورت ہے اور نہ ایسے شاگرد کی ضرورت ہے پس جامعہ احمدیہ کواپنی فکر کرنی چاہئے اور جماعت کو جامعہ احمدیہ کی فکر کرنی چاہئے پھر جب فارغ ہوجاتے ہیں تو بعض توہماری غلطیاں ہیں اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہئے۔ایک نیا نیا نوجوان فارغ ہوتا ہے ہم اسے باہر بھیج دیتے ہیں اس کی نہ کوئی تربیت کی نہ ہم نے اس کے ذہن کو Polish (پالش) کیا وہ باہرجاکر غلطیاں کرے گا ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ اس وقت تک دستور یہ رہا ہے کہ اگر جامعہ احمدیہ سے آٹھ شاہد کامیاب ہوئے چار تحریک جدید میں چلے گئے اور چار چلے گئے صدر انجمن احمدیہ میں جو صدر انجمن احمدیہ کے حصے میں آئے ان کو یہیں خدمت کاموقع ملتا ہے اور جوتحریک میں گئے تحریک ان کو یہاں تو نہیں رکھ سکتی وہ انہیں باہر بھیج دیتی ہے۔ ابھی تک ہم نے اس کو پوری طرحPolish(پالش) نہیں کیا اس کی پوری تربیت نہیںکی اس کے پورے حالات نہیں معلوم کہ وہ کیسا کام کر سکتا ہے؟ اس کو ہم ایک ابتلا میں ڈال دیتے ہیں اس حد تک ہماری ذمہ داری ہے جس حد تک کہ اسنے اپنے مقام کو نہیں پہچانا یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ انسان کا مقام تو دراصل عاجزی کامقام ہے سر کامقام زمین ہے بلندی نہیں جسم کے اوپر لگا ہوا ہے لیکن ہے اس کا مقام پائوں پر۔لائبیریاکے پریذیڈنٹ ٹب مینؔ نے ہماری دعوت کی۔ ان کے محل میںجوکھانے کاکمرہ ہے اس کی چھت شیشوں کی ہے جس میں آدمی نظر آتا ہے لیکن چھت پر اگر شیشہ ہوتو دیکھنے سے سر نیچے نظر آئے گا اور پائوں اوپر نظر آئیںگے وہاں جاکر بیٹھتے ہی میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے اس کمرے میں آکر بہت خوش ہوا ہوں کیونکہ یہاں جو انسان آتا ہے اس کو پتہ لگ جا تا ہے کہ اس کے سر کا اصل مقام کونسا ہے وہ اس سے بہت محظوظ ہوئے اگرچہ اس کی عمر تراسی سال ہے مگر وہ بڑا بیدار مغز انسان ہے اور وہ اپنی قوم کے لئے باپ کی طرح ہے۔ میں نے اس میں یہ بڑی خوبی دیکھی ہے کسی سے بھی آپ بات کریں وہ اسے باپ سمجھے گا اور باپ ہی کہے گا۔ اس نے اپنے ملک کی ۱۹۴۴ء سے اس وقت تک بڑی خدمت کی ہے۔
ان کا دستو ر ہے کہ کھانے کے بعدکھڑے ہو کر چھوٹی سی تقریر کرتے ہیں میں نے بھی کی۔ وہ کھڑے ہوکر کہنے لگے کہ ہوں تومیںعیسائی لیکن میں خدائے واحد ویگانہ پر ایمان رکھتاہوں اور سارے مذاہب میرے لئے برابر ہیں۔ میں بحیثیت پریذیڈنٹ مذہب مذہب میں تفریق نہیں کرسکتا اور پھر میں نے کہا کہ میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت روحانیت کا ایک بادشاہ ہمارے درمیان موجود ہے۔یہ تواللہ تعالیٰ نے ان سے کہلوایا میں تو ایک عاجز اور ناکارہ انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ جب فضل کرنا چاہتا ہے تو ایک ناکارہ ذرہ کوبھی ایک مقام دے دیتا ہے عزت کا اور وہ(ٹب مین)بہت خوش تھے اور لوگوں کو کہا کہ یہ بابرکت وجود ہے ان کے وجود سے امید ہے ہمارے ملک کو برکت ملے گی۔ یہ کلمات اس کے منہ سے نکلے یہ تواللہ تعالیٰ کی دین ہے ہمارے دل میں کبھی ایسی خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی۔ ہمیں دنیا نے کیا دینا ہے دنیا کے سب سربراہ مل کر بھی مہدی معہود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کو وہ عزت نہیں دے سکتے جو اسے پہلے سے ہی خداتعالیٰ کی نگاہ میں حاصل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھ کر کہ ایک عیسائی ہے غیر ملکی ہے اس سے زیادہ لمبی چوڑی واقفیت بھی نہیں ہے اور جوکلمات اس کے منہ سے نکلے وہ کسی کتاب میں تو اس نے نہیں پڑھے وہ توفرشتوں نے اس کے دل میں القا کئے اور اسکی زبان نے ان کو ظاہر کردیا۔ اس قسم کی عزت تو ہمارے بے نفس مبلّغ جووہاں ہیں ان کوبھی مل رہی ہے لیکن جس نوجوان کو یہ سبق ملے گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر میں غلطیاں کیں اور آئو اب ہم ان کو درست کریں اس نے کیا خدمت کرنی ہے جاکر۔ وہ تو قطع ہو گیا ٹوٹ گیا۔ یہ فقرہ سننے کے بعد تو اس کے پرخچے اڑگئے۔ اب میں ایک نئی تنظیم کا اعلان کرنے لگاہوں میں نے بہت سوچا بہت دعائیں کیں میں اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزانہ جھکا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمیں اپنا پرانا طریق بدل دینا چاہئے اوریہ چیز پہلے مبلّغین پر بھی حاوی ہوجائے گی اورنئے آنے والوں پر بھی کہ نہ کوئی تحریک کا ہوگا نہ کوئی انجمن کا ہوگا تمام واقفین کا ایک خاص گروہ بن جائے گا ایک جماعت ایک Pool (پُول) ہوگا۔ ایک Reservior(ریزروائیر) ہوگا ایک تالاب ہوگا جس میں یہ روحانی مچھلیاں اجتماعی زندگی گزاریں گی اور تربیت حاصل کریں گی اورنشوونما پائیں گی نئے اور پرانے اس پول میں چلے جائیںگے جو پرانے ہیں ایک سال کے اندر ہم ان کی Screen(سکرین) کریں گے یعنی بصیغہ راز ان کے تمام حالات، ان کی ذہنیت وغیرہ وغیرہ معلوم کریں گے یہ ضروری نہیں کہ کسی میں کوئی نقص ہو اس کی وجہ سے اس کو باہر نہ بھیجا جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے حالات یااس کی ذہنیت ایسی ہو کہ وہ یہاں بہت اچھا کام کرسکتا ہو باہر نہ کرسکتا ہو۔ یہ سارے کوائف ہم اکٹھے کریں گے اور اسی طرح مثلاًآٹھ جومیں نے پہلے مثال دی تھی کہ جامعہ سے جو نئے فارغ ہوئے ہیں ان نئے فارغ ہونے والوں کو اس پول میں بھیج دیا جائے گا نہ کوئی تحریک کے پاس جائے گا نہ انجمن کے پاس لیکن تعداد دونوں کی مقرر ہوجائے گی مثلاً پہلے ساٹھ مبلّغ ہیںاس سال آٹھ نئے مبلّغ پیدا ہوئے ہیں تو چار ان کے حصہ میں آئیںگے تو یہ ہوجائے گا کہ پہلے تحریک جدید کے ساٹھ تھے اب چونسٹھ ہوگئے اور اگرپہلے اسی مبلّغ ہیں صدر انجمن احمدیہ کے اب ان کو چارملے تو چوراسی۸۴ ہوگئے لیکن وہ کون کون ہوں گے اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا وہ پُول کے ہوں گے اور وہیں سے وہ باہر جائیں گے اور کوئی شخص باہر نہیں جائے گا جب تک کم ازکم تین سال تک اس نے پاکستان میں کام نہ کیا ہوا ور اس کے حالات اور اس کی ذہنیت کا ہمیں علم نہ ہو۔ اورپہلوں کی Screening(سکریننگ) تو اسی سال ہوگی اور نئے آنے والوں کی سکریننگ تین سال کے بعد ہوگی اور پھر ان میںسے Ear mark (ایرمارک) معین کردیئے جائیں گے یعنی نشان دہی ہوجائے گی کہ یہ یہ مبلّغ ایسے ہیں جو بیرونی ممالک میں کام کرنے کے قابل ہیں پھر جتنے ان کے حصے کے ہیں اتنے ان میں سے باہر بھیج دئیے جائیں گے۔ ایک اور خرابی یہاں پیدا ہوتی تھی کہ جب وہ واپس آتے تھے تو ان کاکوئی کام نہ ہوتا باہر وہ مبلّغ انچارج ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مقام دیا ہے اور عزت دی ہے لیکن یہاں اسے کوئی کام نہیں ہوتا دفتر میںکلرک لگادئیے جاتے ہیں وہ بے نفس تھے پرواہ نہیں کرتے تھے کلرکی کرتے تھے لیکن اس لحاظ سے ان کی طبیعت پر بہر حال اثر پڑتا تھاان کو کسی علمی کام میں لگایا جاتا، تبلیغ کے میدان میں رکھاجاتا، نئی کتابیں پڑھائی جاتیں، تحقیق کروائی جاتی یہ ان کاکام تھا لیکن چونکہ اس قسم کا تحریک کے پاس کام نہیں ہوتا اس واسطے ان سے وہ ایسے کام کروانے پر مجبور ہوتے تھے اس میں ان کاکوئی قصور نہیں پھر سوال یہ ہے کہ ان کو تین سال یہاں کیوں رکھا جائے۔پہلے بھی کچھ باتیں میں نے محسوس کی تھیں اب میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو تین سال سے زیادہ باہر نہیں رکھنا وہ یہاں آئے جو ہمارے پرانے مبلّغ تھے دس دس پندرہ پندرہ سال باہر رہے ان کے لئے عملاً بعض الجھنیں پیدا ہوگئیں مثلاًایک جرمنی کا مبلّغ ہے وہ پانچ سال کا بچہ وہاں لیکرگیا اگر وہ بارہ سال سے وہاںہے تو سترہ سال کی عمر کا وہ بچہ ہوگیا ساری ابتدائی تعلیم اس نے جرمن زبان میں حاصل کی اب وہ یہاں آئے تو اس کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے وہاں رہے تو اس کے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے عجیب کشمکش پیدا ہوگئی ۔ میں نے تو ان کو یہی کہا ہے اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں پرفضل کرے گالیکن ان کے خاندانی حالات میں ایک پیچیدگی ضرور پیدا ہوئی۔
اگر ہم تین سال کے لئے باہر بھیجیں تو میں اپنی بہنوں کو یہ سنانا چاہتا ہوں کہ اگر ایک عیسائی لڑکی نوجوان اپنے بال کٹوا کر ساری عمر کے لئے Catholic nun(کیتھولک نن) بنتی ہے اور تثلیث کے ساتھ یہ عہد کرتی ہے کہ میں تثلیث کی خدمت کے لئے کنواری رہوں گی تو کیا آپ بہنیںتوحید کی خدمت کے لئے تین سال تک کے لئے اپنے خاوندوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتیں؟ اگرآپ اتنا بھی نمونہ قربانی کا پیش نہیں کرسکتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی جائز وجہ ہوگی کہ آپ اپنے خاوندوں سے خلع لے لیں یہ آپ کیلئے بھی بہتر ہے اور ان کے لئے بھی بہتر ہے اورہمارے لئے بھی بہتر ہے لیکن اگر آپ کے دل میں اللہ کی محبت اور پیار ہے تو اس قربانی کے لئے جو عیسائی ننوں(nuns) کی قربانی کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے تیار ہوجائیں۔
پس ہمیں اپنے مبلّغوں کو تین سال سے زیادہ عرصہ تک باہر نہیں رکھنا چاہئے چاہے ہم انہیں چھ مہینہ کے لئے بلائیں پہلے چونکہ آمدورفت کے لئے پیسے کم تھے جب خاندان بچوں سمیت باہر چلے جاتے تھے خرچ زیادہ ہوتا تھا تو تحریک کے لئے مجبوری تھی یعنی پہلا جو قانون تھا وہ مجبوراً جاری کیاگیا تھاکہ مبلّغ کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی بھیج دو۔ دس دس پندرہ پندرہ سال وہاں رہیں گے اب تجربہ کے بعد ہمیں پتہ لگا کہ یہ درست نہیںہے سوائے اس مبشر کے کہ جس کے ساتھ بیوی کا جانا جماعتی کام کیلئے ضروری ہے باقیوں کو قربانی دینی چاہئے۔ دوتین سال کے بعد واپس آجائیںگے۔ بہت سے معصوم احمدی ناجائز طور پر پانچ پانچ سال کی قید کی سزا بھی بھگتے ہیں کئی ایک کا مجھے بھی علم ہے بالکل بے گناہ لیکن جھوٹی گواہیوں پر پانچ پانچ سال کی قید کی سزا ان کو مل گئی کیا اس قیدی کی بیوی اپنے خاوند سے پانچ سال علیحدہ نہیں رہتی؟ تو کیا تم اپنے رب کے عاشق کی جدائی تین سال برداشت نہیں کرسکتیں؟ اوروہ علیحدہ رہتی ہے تواسے کوئی ثواب نہیں ملتا اور اگر تم علیحدہ رہو گی تو تمہیں ثواب ملے گا وہ علیحدہ رہتی ہے تو اکثر اسکی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور تمہاری دیکھ بھال کرنے والے موجود ہیں اللہ تعالیٰ کا تم پرفضل ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آپ بہنیں بعض دفعہ اپنے حقوق سے زیادہ کا مطالبہ کرنے لگ جاتی ہیں دنیاکی حرص میں اور آپکی وہ بات نہیں مانی جاتی تو پھر آپ کے دل میں شکوہ پیدا ہوتا ہے لیکن اگر دنیا کی حرص نہ ہو اور صرف جائز حقوق ہوں تو جائز حقوق کی حفاظت کی ذمّہ داری جماعت اورمہدی معہود کے خلیفہ کی ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا بہرحال نظام کا کام ہے اور خلیفہ وقت کا کام ہے آپ کو اس دنیا میں بھی بہت سی سہولتیں مل جاتی ہیں کئی ہماری بہنیں وہاں جاکر اپنے خاوندوں کو پریشان کرتی ہیں کیونکہ دنیاکی حرص ان میں ہوتی ہے ان کی پوری تربیت نہیں ہوئی ہوتی اور عجیب کشمکش پیدا ہوجاتی ہے ایک مبلّغ اور اسکی بیوی کے درمیان وہ بے نفس زندگی گزارنا چاہتا ہے اور یہ ایسی کہ اسکانفس موٹا اور دنیا کی لالچ اور حرص۔ اس پر گھر میں جھگڑا رہتا ہے اسلئے وہ اپنا کام پورا نہیں کرسکتا لیکن بہت سی بیویاں اللہ تعالیٰ کی فدائی ، بے نفس ایسی دیکھی ہیں کہ ہروقت ان کیلئے دعائیں کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کلیمؔصاحب کی اَن پڑھ بیوی ان کے ساتھ گئی تھی ان کو باہر گئے ہوئے بڑا لمبا عرصہ ہوگیا ہے انشاء اللہ اب وہ جلد واپس آرہے ہیں۔ ان کی بیوی نے منصورہ بیگم کوبتایا وہ کہنے لگی کہ جب میں یہاں آئی تو میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ نہ مجھے انگریزی آئے نہ کوئی اورزبان آئے، اردو تھوڑی بہت آتی ہے وہ بھی زیادہ نہیں آتی اور میں ایک مبلغ انچارج کی بیوی بن کر یہاں آئی ہوں مگر کوئی خدمت نہیں کرسکتی دعاکرتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم انگریزی سیکھنے کی بجائے ان کی مقامی زبا ن سیکھ لو پھر انہوں نے بڑی محنت سے وہاں سالٹ پانڈ کی مقامی زبان سیکھ لی اوربڑی اچھی زبان بولتی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش اور آرزو کو پورا کیا۔ ایسی خواہشیں مقامِ نعیم کی طرف لے جانے والی ہیں ان کو توفیق ملی کہ انہوں نے سینکڑوں افریقن احمدی بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور اس کا ترجمہ سکھایا کیونکہ ان کی زبان میں بڑی روانی سے بات کرتی تھیں پس ایسی بھی ہیں لیکن بعض دوسری قسم کی بھی ہیں جیسے بعض استثناء مبلّغوں کے ہیں یہ استثناء ہیں اکثریت ایسی نہیں۔ جوگندی مثالیں ہیں وہ بالکل استثنائی ہیں لیکن ہم ایک زندہ جماعت ہیں اور ایک زندہ جماعت میں ایک مثال بھی ایسی ہوتو اسکو برداشت نہیں کرسکتی حالانکہ برداشت کرنا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ زنگ بڑھتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے بجائے موت کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں مثلاًچھ ملکوں میں ہمارے درجنوں مبلّغ ماشاء اللہ صرف دو کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس قسم کے ہیں، وہ ہیں بھی نوجوان اورپھر غیر تربیت یافتہ۔ غلطی کی کہ فوراً ان کو باہر بھجوا دیا اسی طرح ہماری مستورات ہیں وہاں ان کا بے حد اثر ورسوخ ہے، وہ بڑی خدمت کررہی ہیں، وہ ایک قسم کی مبلّغ اور مبشرہ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے اور اپنے خاوندوں کے ساتھ ان کو بھی مقامِ نعیم میں رکھے لیکن عورتوں میں بھی استثناء ہیں۔ ہماری جوبہن ایسی ہوگی یعنی مبلّغ کی بیوی جسے ہم سمجھیںگے کہ اس کو ساتھ جانا چاہئے اس کے لئے شرط لگائیں گے کہ چھ مہینے وہاں کی زبان سیکھے کیونکہ انگریزی کی نسبت وہاں کی مقامی زبان کا جاننا بہت ضروری ہے متعدد مقامات پر یہ ہوا کہ مبلّغ نے کہا کہ آپ کے سامنے بارہ ہزار آدمی بیٹھا ہوا ہے( ان کا محتاط اندازہغلط تھا میں نے حساب لگایا تو بیس ہزار سے زیادہ سالڈپانڈ میں ہمارے احمدی مردوزن جمع تھے) وہ کہتے تھے کہ ان میں سے صرف دس فیصدی انگریزی جانتے ہیں اسلئے ترجمہ ہوگا یہ نہیں کہ کھڑا ہوکر میں انگریزی میں بات کروں اور صرف ایک زبان میں خطبہ ہوجائے۔ لیسٹر کی مسجد کے افتتاح اور خطبہ جمعہ کے موقعہ پر دومترجم رکھنے پڑے، ایک کریول زبان میں ترجمہ کرتے تھے(یہ عیسائیوں کی زبا ن ہے جس میں کچھ انگریزی کے لفظ صحیح شکل میں اور کچھ بگڑے ہوئے، کچھ دوسری زبانوں کے ملے جلے ہیں وہ زبان ایک عجیب مرغوبہ ساہے) ایک اور زبان تھی ان کی جو باہر سے آئے ہوئے تھے مجھے کہا کہ نصف لوگ یہ زبان سمجھیں گے اور نصف وہ زبان سمجھیں گے اس لئے دو متر جم کھڑے تھے ۔ مجھے بڑی مشکل پڑ گئی میں ایک فقرہ کہتاتھااس کا پہلے ایک زبان میں ترجمہ ہوتا پھر دوسری زبا ن میں ترجمہ ہوتا پھر میری با ری آتی تھی ۔ میں تو ذہن پر بڑا بوجھ ڈال کر تسلسل قا ئم رکھنے کی کو شش کرتا تھاایک اور جگہ وہ کہنے لگے کہ صر ف پانچ چھ فیصدی انگر یزی سمجھیںگے باقی جوہیں قریباً نصف نصف، ایک نصف حصہ ٹمنی زبان جانتا ہے اور دوسرا نصف حصہ مینڈے زبان جانتا ہے میرے ساتھ دومترجم کھڑے کردئیے یہ کام اسی طرح ہوا:-
پس یہاں سے جو ہماری بہن خدمت کے جذبہ سے جانا چاہے اور ہم بھی اس کو بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے پانچ چھ مہینے زبان سیکھنے کا انتظام کریں گے ایک اور سکیم ہے میں کسی اور وقت جماعت کو بتائوںگایہاں ان کو مقامی زبان کے کئی سَو فقرے ہم یادکروادیں گے اوروہ وہاں جاکر دوچارمہینے میں بڑی جلدی روانی کیساتھ بولنے لگ جائیں گی پس بعض مقامات پر بعض حالات میں ہمیں مبلّغوں کی بیویاں بھی بھیجنی پڑیں گی لیکن جماعتی مفا دجہاں ہوگا وہاں انہیں بھیجیں گے جہاں جماعتی مفاد نہیں ہوگا وہاں ہماری احمدی بہن کو اور ایک مبشر کی بیوی کو اور اس کے بچوں کو یہ قربانی دینی پڑے گی کہ تین سال تک اس سے جدا رہیں۔ اب تو میں بڑی سختی کے ساتھ تین سالہ پابندی کروارہا ہوں پھر یہاں جو آتے ہیں ضروری نہیں کہ ہم تین سال تک ان کو یہاں رکھیں چھ مہینے یا سال یا تین سال ہم یہاں رکھیںگے یا ممکن ہے وہ دوبارہ جائیں ہی نہ کیونکہ وہ توPool(پُول) کے ہوں گے پو ل میں سے اگر ساٹھ مبلّغ تحریک کے ہیں تو تحریک پو ل میں سے چنیدہ اور سکریننگ کے بعد، تربیت کرنے کے بعد، ریفریشر کورس کے بعد ان کو باہر بھیجے گی اور جو باقی ہیں ان کی بھی یہاں سکریننگ کے بعد نظارت اصلاح وارشاد کو دیں گے اور باقیوں میں سے ممکن ہے پانچ دس ایسے ہوں کہ ہم ان کو کہیں تم ربوہ میں رہو اور ریفریشر کورس کرو یا تو اپنی تربیت کرلو کوشش اور دعا کے ساتھ اور یا پھر ہم تمہیں فارغ کردیں گے غرض ہم نے خانہ پری نہیں کرنی کیاخانہ پری سے اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مخلصین اس کی راہ میں قربان کریں اللہ تعالیٰ اس بات سے خوش نہیں ہوسکتا کہ چند سو غیر مخلص بدنیت اس کے حضور پیش کردو جس طرح بعض لوگ قربانی کرتے وقت جوسب سے لاغر بکرا ہوتا ہے اسکی قربانی کر دیتے ہیں یا بعض لوگ انسانوں کا جسم جو تمام اجسام سے زیادہ اچھا ہے خدا کی نگاہ میں اور فائن بھی زیادہ ہے اس کے گوشت کی بناوٹ جا نور جیسی نہیں جانور کے گوشت کو انسانی جسم تحلیل کرتا ہے اور اپنے مطلب کی چیز لے لیتا ہے اور جو اسکے جسم سے مناسبت نہیں رکھتا اسے باہر نکال دیتا ہے فُضلے کے ذریعہ سے۔
ایک دفعہ میں لاہور جا رہا تھا کہ لاہور سے دس بارہ میل ورے مجھے بیل اور گائیں لاہور کی طرف جاتی ہوئی نظر آئیں۔ میں موٹر میں تھا اور ان کی ہڈیا ں نکلی ہو ئیں اورگوشت غائب، صرف چمڑا اور ہڈیاں نظر آرہی تھیں ان کی شکل میں نے دیکھی میں نے کہا کہ یہ جارہے ہیں مذبحہ خانے، انسانوں کی غذابنیںگے۔ ہماری کار نے جب ہارن بجایا تو ان میں سے ایک اسی طرح کا نیم مردہ بیل ہارن کی آواز سن کر اور ڈرکر دوڑپڑا اور وہ تیس گزہی دوڑا ہوگا کہ اس کی حرکت قلب بند ہوگی اور مر گیا۔ یہ توانسان کی مناسب غذا نہیں۔
پس انسان کو بہترین، اشرف المخلوقات بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے اور اشرف ہی اس کو بننا چاہئے۔ جسمانی قویٰ کے لحاظ سے بھی اورروحانی تربیت کے لحاظ سے بھی پس بااخلاق اور روحانی انسان بناکر مبلغوں کو باہر بھیجنا چاہئے وہاں مبلغوں میں سے اس کا اثر ہے جو دعاکرنے والا اور بے نفس ہے اور اس کا اثر ہونا چاہئے۔ جب ہم نے خدا کی طرف بلانا ہے توجو خدا سے دور ہوگا وہ خدا کی طرف کیسے بلائے گا؟ خدا کی طرف تو وہی بلا سکتا ہے جو خداتعالیٰ کا مقر ب ہوگا، جس کو اس کا قرب حاصل ہوگا جس کو خود اس کا قرب حاصل نہیں وہ دوسرے کو قرب کی راہیں کیسے دکھا سکتا ہے تو مبلغ کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ بے نفس ہو، غرور اور تکبر اس میں نہ ہواوراللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق ہو اور یہ قومیں خصوصاً افریقہ کی پیارکی اتنی بھوکی ہیں اور اتنی پیاسی ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیںکرسکتے۔ زمبیا کے ایک وزیر لندن کے ایروڈرام پر اتفاقاً مل گئے تھے جب ہم واپس آرہے تھے ان کا ہائی کمشنر بھی ان کے ساتھ تھا اور ایک دس بارہ سال کا بچہ بھی ساتھ تھا۔ میں نے اس کو گلے لگالیا اور پیار کیا اس کا اتنا اثر ہوا زمبیا کے وزیر اورہائی کمشنر پر کہ وہ میرا شکریہ ادا کررہے تھے اور ہونٹ ان کے پھڑپھڑا رہے تھے، اتنے جذباتی ہوگئے تھے چنانچہ میں نے شیخ صاحب سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ بات تو ان کے تصوّر میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی ان کے بچے کو پیار کر سکتا ہے اتنی مظلوم ہیں وہ قومیں اتنی پیار کی وہ پیاسی ہیں اور ہم وہاں اسلام کی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات اور جذبۂ خدمت (یہ ہمارے ہتھیار ہیں) دے کر اپنے مبلّغوں کو بھیجتے ہیں بجائے اس کے وہ ان کے بچوں کو گود میں اٹھائے یہ کہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے میں میری بے عزتی ہے توکام کیسے کرے گا وہ محبت کا پیغام کامیاب کیسے ہوگا؟
وہاں میں نے دھڑلے کے ساتھ عیسائیوں کو یہ کہا کہ میں مانتاہوں کہ جب تم صدیوں پہلے ان ملکوں میں داخل ہوئے تو تمہارا بھی یہی دعویٰ تھا کہ تم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہو لیکن تمہارے پیچھے یورپی ممالک کی فوجیں اپنی توپوں سمیت داخل ہوئیں اور ان توپوں کے دہانوں سے محبت کے پھول نہیں برسے بلکہ گولے باہر نکلے اور جو انہوں نے تباہی مچائی تم جانتے ہو اس پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت محبت کے پیغام کا دعویٰ کرنے کے باوجود ناکام ہوئی اور اسے ناکام ہونا چاہئے تھاکیونکہ اس سے زیادہ پیارا اور حسین محبت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آسمان سے نازل ہوچکا تھا۔ اب ہم یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لیکر آئے ہیں اور پچاس سالہ خدمت اور محبت اور ہمدردی اورغمخواری اور مساوات کا سلوک اس بات پر شاہد ہے اور تم اس کا انکار نہیں کرسکتے کہ نہ تمہاری سیاست میں ہمارا کوئی دخل نہ اس سے کوئی دلچسپی، نہ تمہارے مال میںکوئی دلچسپی ایک دھیلہ تمہارے ملکوں سے باہر نہیں نکالا بلکہ لاکھوں روپے باہر سے لاکر تمہارے ملکوں میں خرچ کئے ہیں۔اس لئے ہم جو پیغامِ محبت، ہمدردی اور غمخواری اور مساوات لیکر تمہارے پاس آئے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ وہ ضرور کامیاب ہوگا، ناکام نہیں ہوسکتاکیونکہ حقیقی معنی میں محبت کا جو بھی پیغام دنیا کی طرف آیا انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کبھی بھی وہ ناکام نہیںہوا اس لئے ہم جیتیں گے، دنیا جتنا چاہے زور لگا لے۔ اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اور بڑی تحدی سے میں یہ اعلان کرتا تھا۔ امریکہ سے Peace Core (پیس کور) کے کچھ استاد جو ہمارے سکولوں کے ساتھ بھی حکومت نے لگائے ہوئے ہیں ایک موقعہ پر احمدی سکولوں کے ساتھ بو(Bo) میں جب پندرہ سو طالب علم جمع تھے تو ان کے ساتھ ان کو بھی آنا پڑا۔ سارے اساتذہ ان کے ساتھ تھے میری تقریر کے بعد وہ آپس میں باتیں کررہے تھے جو ہمارے دوستوں نے سنیں وہ کہنے لگے کہ حضرت صاحب نے اتنی تحدی سے یہ بات کہی کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اس لیے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے اور یہ بات بھی ان کے نقطئہ نگاہ سے فکر کی بات ہے اور ہمارے نقطۂ نگا ہ سے دنیا کے لئے خوش قسمتی کے دن ہیں کہ یہ خدا سے دوری میں دن گزار رہے تھے اب خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر کھولی جارہی ہیں بہرحال اپنے نقطۂ نگاہ سے ان کو یہی کہنا پڑا کہ ہمیں اب اپنی فکر کرنی چاہئے پس ہمارا جو مبلّغ حقیقی معنی میںمحبت اور ہمدردی اورغمخواری اورمساوات اور جذبہ خدمت لے کر وہاں نہیں جاتا اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ محبت بھرا پیغام ان کونہیں پہنچاتا وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آپ کی توکیفیت تھی لَعَلََّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:۴) یہ جذبہ اگر اس کے دل میں نہیں ہے تو وہ ناکام مبلّغ ہے اس کا کوئی اثر نہیں ہے لیکن اگر یہ ان سے محبت نہ کرے میںتوسات سات آٹھ آٹھ دن مختلف ملکوں میں رہاہوں مگر جتنے بچوں سے میں نے پیار کئے ہیں اتنے ہمارے سارے مبلّغوں نے تین سال میں بھی نہیں کئے ہونگے ان کے بچوں سے پیار، پھر میں ان کے بڑوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔
جب ہم بو(Bo)پہنچے ۔ ایک سوسترمیل سفر تھا گرمی، حبس، کھانا بھی وقت سے بے وقت اور میراجسم کوفت کی وجہ سے کام کے قابل نہیں تھا میں اپنے کمرہ میںچلا گیا جسم انکار کر رہا تھا کام کرنے سے وہاں بے وقت پہنچے اس وقت مجھے اطلاع ملی کہ دوہزار سے زیادہ احمدی یہاںپہنچ گیا ہے لاج میں اور وہ کہتے ہیں ہمیںمعلوم ہے کہ حضرت صاحب تھکے ہوئے ہیں لیکن ہمیں صرف اپنی شکل دکھا دیں اور ہم سلام کریں گے اور چلے جائیں گے میںنے سوچا اگروہ میری شکل دیکھنے کے بھوکے ہیں تو مجھے بہر حال تکلیف اٹھانی چاہئے میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں شکل ہی نہیں دکھائوںگا میں تم سے مصافحے بھی کروںگا پھر میں نے ان سے مصافحے کئے ان کو گلے لگایا دوگھنٹے کے قریب میں نے ان سے مصافحے کئے۔ میرا حال یہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا مصافحوں کے دوران کہ مجھے یقین تھا کہ میں بیہوش ہوکر گر جائوں گا لیکن یہ ان کا حق تھا جسے میںنے بہرحال اداکرنا تھا۔ ایک ڈاکٹر صاحب جو ڈیوٹی پر تھے بطور ڈاکٹر کے تو ان کی ضرورت نہیں پڑی لیکن وہ پانی وغیر ہ کا خیال رکھتے تھے۔ ان کو میںنے کہا کہ میری یہ حالت ہے دس دس منٹ کے بعد مجھے پانی دیتے چلے جائو چنانچہ وہ دودوچارچار گھونٹ پانی کے مجھے پکڑاتے تھے تو میں پی لیتا تھا اور مجھے سہارا مل جاتا تھا اور سارا وقت میں نے ایسا کیا۔ جتنے پیار میں نے ان کے بچوں سے ایک ایک ملک میں کئے اور جس قدر محبت اور شفقت کا سلوک ان کے بڑوں سے کیا وہ بے ثمر نہیں رہا اکرہ سے کماسی۱۷۰ میل ہے اور اس کماسی ٹچی من ۷۰میل کے قریب۔ وہاں سے کئی سو میل شمال مغرب کی طرف ہماری وا(Wa)کی جماعتیں ہیں وہ علاقہ وا کہلاتا ہے وہاں بھی ہماری بیسیوں جماعتیں ہیں میں کماسی سے جس روز جارہاتھا سترمیل دوسری طرف ٹیچی من کی مسجد کے افتتاح کے لئے مجھے بتایا گیا کہ واکے دو سو احمدی بسیں لیکر آج رات پہنچ رہے ہیں یعنی جس صبح کوہم نے ٹیچی کیلئے چلناتھا اس سے پہلی رات کو انہوں نے مجھے یہ کہا۔ میں نے انہیں کہا کہ اب تو ٹیچی من کاپروگرام ہے اور یہ قریب تھا وہاں کیوں نہیںآئے تو وہ کہنے لگے کہ وہ رستے ٹھیک نہیں یہ اچھا راستہ ہے چنانچہ وہ کماسی پہنچ گئے میں نے ان سے کہا کہ ان سے کہو پھر انتظار کرو میں سترمیل وہاںگیا وہاںسارے دن کا پرگرام تھا پھرسترمیل واپس آیامغرب سے ذرا پہلے پہنچے نماز پڑھانے چلا گیا۔ سکول میں کئی ہزار آدمی آجاتا تھا پھرمغرب وعشاء میں ۔ کماسی میں انہیںکہا کہ نماز کے بعد صبح مجھ سے ملیں میں نے یہ خیال نہیںکیا کہ میں تھکا ہوا ہوں مجھے آرام چاہئے میں تو وہاں بمشکل ڈیڑھ دو گھنٹے سوتا تھا وہاں تومجھے نیند نہ آتی تھی اب آنی شروع ہوئی ہے۔ بہرحال وہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی یہ اللہ تعالیٰ کابڑا فضل ہے اور میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں نے تکلیف اٹھائی کیونکہ میں نے کوئی تکلیف نہیں اٹھائی اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیاکہ اسکے باوجود میری صحت اچھی ہوگئی ڈاکٹر کی مجھے ضرورت نہیں پڑی۔ بشاش ہنستا کھیلتا میں ان میں رہا ہوں سارا وقت نماز کے بعد میں مردوں سے ملااورمنصورہ بیگم مستورات سے (منصورہ بیگم کو اللہ تعالیٰ جزا دے انہوں نے بڑا کام کیا میرے ساتھ) اور ان مستورات کی بڑی خدمت کی ہے مثلاً مستورات سے ملنا ملانا ورنہ ان کی سیری نہیں ہوتی بہرحال مجھے خیال آیا کہ کئی سومیل سے آئے ہیں زیادہ وقت میرے ساتھ رہ نہیں سکے صبح ہی انہوںنے واپس چلے جانا ہے یہی گھنٹہ دوگھنٹہ ہیں جو بیٹھ سکتے ہیں میرے ساتھ۔ دوسروں کی نسبت جن کو زیادہ وقت ملا ہے یہ زیادہ مستحق ہیں۔میں ان کے لئے کیا کروں کہ ان کا حق ادا ہوجائے پھر مجھے خیال آیا کہ ان میں سے ہرایک کے ساتھ میں معانقہ کروں گا چنانچہ سوا سو آدمیوں کے ساتھ میں نے معانقہ کیااور پھر تقریر کی۔ اس موقعہ پر ان کی زبان بولنے والا کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ میری انگریزی زبان کا ترجمہ کردیتا بڑی مشکل پیش آئی۔ میں تو بہرحال انگریزی بولتا تھا اور ہمارے مبلّغ کوبھی وہ زبان نہیںآتی تھی پھر پتہ لگا کہ عربی سمجھنے والے چند ایک ان میں ہیں۔ میں نے کہا پھر میں عربی بولوں گا۔ پھر تقریر جو کرنی تھی عربی میں کی میں نے ۔ پھر ترجمہ ہوا اس کا پھر میںنے معانقہ کیااور معانقہ سے ان کو جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ آپ نہیں کرسکتے ان میںسے ایک کی تصویر سلائیڈ مولوی عبد الکریم صاحب نے لی وہ میں اپنے ساتھ لے آیا ہوں کسی وقت دکھائونگا۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ ان کے چہرہ سے اطمینان اور محبت اور پیار اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ایسے ملے جلے جذبات کا اتنا خوبصورت مظاہر ہ ہے کہ دِل حمد باری سے بھر جاتا ہے پس اللہ کے فضل سے ہزاروں سے معانقہ کیا، ہر ملک میں اور سینکڑوں ہزاروں کوپیارکیا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مبلّغوں نے تین تین سالوں میں بھی اتنا پیار نہیں کیا ہوگا، یہ قومیں پیار کی بھوکی ہیں، بڑے مخلص ہیں لیکن ہمارے بعض مبلّغوں کو اس کا خیال نہیں، وہ وہاں مستقل بیٹھے ہوئے ہیں ہر وقت کا ملناجلنا ہے۔ اگر وہ بھی اس طرح بچوں سے پیار کریں بڑوں کو سینے لگائیں ان سے ہمدردی کریں اور پیار اور محبت کا مظاہر کریں ان کی بیویاں وہاں کی احمدی مستورات سے پیارکریں تو ساری قوم احمدیت قبول کرلے۔
ایک دن میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ عیسائی اور بدھ مذہب والوں کو میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگتے ہیںان پر کیا چیز اثر کررہی تھی(ویسے تو اللہ کافضل تھا اسی کا فضل ہے) انہوںنے دیکھا کہ ایسا آدمی آیا ہے جو ہم سے پیارکرتا ہے اورہمارے بچوں کوسینہ سے لگالیتا ہے ہمارے مردوں سے معانقہ کرتا ہے اوراسے اپنے آرام کا کوئی خیال نہیں ہمارے پیار میں محو ہے ان کے پیار سے میںنے جسمانی قوت بھی بڑی حاصل کی میں کم خورہوں میں نیند ویسے بھی نہیں لے سکا لیکن اس محبت اورپیار سے میری روح غذا لے رہی تھی اور میرا جسم پوری طرح مطمئن تھا۔ غرض یہ اثر عیسائیوں پر تھا۔ آپ کہیں گے کہ یہ کیسے پتہ لگا کہ یہ یا عیسائی ہیں عیسائیوں کا پتہ اس طرح لگتا تھا کہ مسلمان سڑکوں پرناچتے نہیں عیسائی اور غیر مذہب والے ناچتے ہیں چنانچہ مجھے دیکھ کر جو ناچنے لگ جاتے تھے میں سمجھتا تھا کہ یہ عیسائی ہے یا مشرک ہے بہر حال مسلمان نہیںہے۔ احمدی یا غیر احمدی اُن کی عورتیں اورمرد اس طرح سڑکوں پر نہیں ناچتے۔رقص اورناچ عیسائی معاشرے کا حصہ ہے اسلامی معاشرہ کا حصہ نہیں ہے چنانچہ ایک دن میں پچاس ہزار سے زائد غیر مسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے ویسے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی حمدکی نہ جان نہ پہچان غیرمذہب کا ایک آدمی ان کے اندر آیا ہے یہ اسے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں(وہاں مذہبی لڑائیاں نہیں لیکن ایک مخالفت تو ہے ناوہاں ہم نے اعلان کیا کہ ہم شکست دیں گے عیسائیت کو پیار کے ساتھ شکست دیں گے دلائل کے ساتھ، آسمانی نشانوں کے ساتھ شکست دیں گے بہرحال ہمارا اوران کا مقابلہ ہے)لیکن اس کے باوجود مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوتے تھے اسلئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو باہر سے آیا ہے ہمیں نہیں جانتا لیکن اس کے دل میں ہمارا پیا ر ہے اس کاجواب مجھے مل رہا تھا۔ میں وہاں پر اپنے مبلّغوں کو کہتا رہا تھا کہ دیکھو! نہ جان نہ پہچان نہ ہم مذہب نہ ہم خیال نہ کوئی واسطہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو میں مسکراتاہوں تو وہ بھی مسکراتے ہیں۔ بڑے افسردہ چہروں کو بھی میں نے دیکھا گو اتنے زیادہ افسردہ چہرے تو مجھے نظر نہیں آئے لیکن ایک سنجیدہ آدمی کو جب بھی میں نے مسکرا کرسلام کیا تو بشاش ہوکر اس کے دانت نکل آتے تھے اور سلام کاجواب مسکرا کر دیتا تھا میں نے اعلان کیا کہ’’آج کا دن مسکراہٹوں کا دن ہے‘‘ تبسم کرنے کا دن‘‘ کا اعلان کردیا۔ میں نے کہا آج کے دن اتنی مسکراہٹیں چہروں پرکھلی ہیں کہ آج کے دن کو میں مسکراہٹوں کا دن قرار دیتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں اور جب ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹس سے میں نے ملاقات کی توان کومیں نے کہا کہ میں نے کل کے دن کو مسکراہٹوں کا دن قراردیا ہے کیونکہ مسلم بھی غیر مسلم بھی عیسائی بھی مشرک بھی پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں میں نے تمہاری قوم سے وصول کی ہیں اس پر وہ بڑا خوش تھا۔ میں نے کہا کہ یہاں مجھے کوئی بدامنی کوئی غصہ کوئی رنجش کوئی لڑائی اس قوم میں نظر نہیں آئی چنانچہ وہ بڑاخوش ہوا اسے خوش ہونا چاہئے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوبڑا اچھا لیڈر دیا ہے اور اس لیڈر کو دنیوی لحاظ سے بڑی اچھی قوم دی ہے ابھی ہم نے ان کو دین سکھا نا ہے اوراللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں قائم کرنی ہے وہ علیٰحدہ بات ہے لیکن دنیوی لحاظ سے وہ قوم بڑی اچھی اور ان کالیڈر بڑا اچھا پیار کرنے والاہے۔ پریس کا نفرنس میں پوچھا گیا کہ آپ کا ہمارے لیڈر کے متعلق کیا خیال ہے؟ میںنے جواب میں کہا کہ تمہیں اپنے لیڈر پرفخر کرنا چاہئے۔
You should be proud of him.
اور اسے تم پر فخر کرنا چاہئے۔
He should be proud of you.
اسے تم پر فخر کرنا چاہئے ایسی اچھی قوم اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بات یہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وہ پیار کے بھوکے اور پیاسے ہیں اور میں غیر ملک سے گیا نہ جان نہ پہچان میں نے ان کو پیاردیا اورپیار ان سے وصول کیا اور ان کے لئے یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی کہ ایک مسلم رہنما ،اپنی جماعت کا ہیڈ، خلیفہ اورامام اوروہ آکر بے تکلف ایک غریب آدمی کے بچہ کو اٹھا تا اور اس سے پیار کرتا ہے وہ حیرا ن ہو کر دیکھتے تھے اور خوشی سے اچھل پڑتے تھے۔ جہاں رکنا پڑتا تھا وہاں دوسرے بچوں کو بھی اسی طرح پیار دیتا تھا ہر ایک کو پتہ تھا کہ ہمارے ساتھ ایک پیار کرنے والا آگیا ہے پس ہمارے ایسے مبلغ وہاں جانے چاہئیں کہ جو ایک طرف ا پنے رب کریم سے انتہائی ذاتی محبت اور پیار کرنے والے ہوں اور دوسری طرف اس رب کریم کی مخلوق سے پیار کرنے اور پیار سے ان کی خدمت کرنے والے ہوں تب ہماری جیت ہوگی وہ جو بدتمیزی سے اپنے بڑوں سے بات کرتے ہیں یا جویہ سمجھتے ہیں کہ کالے افریقن کے ساتھ بیٹھنے سے ان کی بے عزتی ہوجاتی ہے وہ نہ مخلوق کی خدمت کرسکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کا پیار دلوں میں قائم کر سکتے ہیں کچھ ان کا قصور ہے کچھ ہمارا قصور ہے اب میں نے نظام بدل کر اس کا اعلان کردیا ہے اس کیلئے میں ایک کمیٹی بنائوں گا کیونکہ اس کے لئے بہت سی دفتری باتیں ہیں ان کا فیصلہ کرنا ہے ان کے پراویڈنٹ فنڈ اور ان کے حقوق وغیرہ کے متعلق ان سب پر غور کرکے اس پول کے اندر لے کر آنا ہے خدا کے فضل سے مالی معاملات کے احمدی ماہر اسوقت گورنمنٹ میں کام کرتے ہیں ان میں سے ایک کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ ایک ہفتہ کی چھٹی لیکر یہاں آجائو تب وہ پول بن جائیگا انشاء اللہ۔ لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ جو بنیادی بات ہے وہ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کی تدبیر تبھی اچھے نتائج نکالتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا فضل اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے ساتھ شامل ہو اس لئے آپ سب دعائیںکریں اور میں بھی دعاکررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جوایک نئی تدبیر ذہن میں ڈالی ہے اس کو ٹھیک طورپرعملی جامہ پہنانے کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اور اس کے بہترین نتائج نکالے تاکہ جو ہم محسوس کررہے ہیں کہ اگر ہم انتہائی کوشش کریں تو جلد ساری کی ساری قومیں احمدیت کی آغوش میں آجائیںگی یہ نظارہ ہم اپنی زندگیوں میںآٹھ دس سال کے اندر اندر دیکھ لیں اور اس سے زیادہ خوشی اس دنیا میں اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھے وہ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاحسن نہ دیکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے بھی نہیں دیکھے، وہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین امتی حضرت مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دور ہیں۔ یہ سارے حسن اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مختلف جلوے جو اس دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں وہ بھی ان کو پہچاننے لگیں اور اس حسن کے گرویدہ ہوں اور ان حسنوں سے برکتیں حاصل کریں اور دین ودنیا کی ترقیات ان کو ملیں اور وہ بھی اس مقامِ نعیم میں آجائیں کہ دنیا جب ان کے چہروں پر نگاہ ڈالے تو انہیںکالے رنگ نہ نظر آئیں بلکہ انہیں منوردل نظر آئیں اورساری دنیا ایک برادری اورایک خاندان بن کر امن اورسکون کی اوراطمینان کی اورمحبت وپیار کی زندگی گزارنے لگے۔(اللّٰھم اٰمین)۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ۲ تا۱۰)
ززز



مومنوں کو نفاق کے محاذ پر بڑی بیداری،چوکسی اور فراست کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍جون۱۹۷۰ء۔ بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گرمی اور دھوپ کی وجہ سے میری طبیعت دوتین دن سے ٹھیک نہیں ہے آنکھوں پر بھی اثر ہے دورانِ سر اوردردِسر بھی ہے اگر چہ آج ہمت نہیں تھی لیکن میں نے آپ سے چند ضروری باتیں کہنی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ پر تو ّکل رکھتے ہوئے یہاں آگیا ہوں۔ چند باتیں مختصراً کہوں گا آپ سوچیں اوراس اختصار ہی کو بہت سمجھیں۔
پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ قرآنِ عظیم کو حرزِ جان بنائیں اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر شعبۂ زندگی کے متعلق ہدایت دی ہے ہمارے لئے اس ہدایت کو سمجھنا اور اس پر چلنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی وضاحت سے تنبیہہ کی ہے کہ جب وہ کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے تو شیطان کو اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ نفاق کی حدود سے اس سلسلہ پر حملہ آور ہو۔ شیطان کے چیلے ایک منافق کی حیثیت سے الٰہی سلسلہ میں داخل نہیںہوتے بلکہ وہ ایک ’’مصلح‘‘ کا جُبّہ پہن کر آتے ہیں ان کا بزرگی اورتقدس اوراصلاحِ نفس کا نعرہ ہوتاہے۔ ان کے ریاء اور نفاق اور تکبّر کے جُبّہ پر ہرطرف’’اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ‘‘ (البقرۃ: ۱۲) لکھا ہوتا ہے لیکن ان کے اس ’’اصلاح‘‘ کے نعرہ کے پیچھے جو شیطنت اورنفاق جھلک رہا ہوتا ہے ایک مومن کی فراست اسے بھانپ لیتی ہے اور اس سے کسی صورت میں بھی جماعت مؤمنہ کو نقصان نہیں پہنچتا۔
یہ نفاق ترقیات کے دَور میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں توآپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو استحکام بخشا اور مسلمانوں کے پائوںکو مضبوطی سے قائم کیا وہیں شیطان نے نفاق کے جال کو زیادہ ہوشیاری کے ساتھ بچھایا اور جب بھی اُمِّت مسلمہ کے ان افراد نے بیداری اور چوکسی اور ہمت اور فراست کے ساتھ نفاق کا مقابلہ نہیں کیا اسلام کی عظمت اور اس کی شان باقی نہ رہی(مسلمان کی کہنا چاہئے کیونکہ اسلام کی عظمت اورشان تو قائم ہے آسمان پر بھی اور زمین پر بھی) مسلمان کی شان باقی نہ رہی۔
پس ہم نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ، نہایت فراست کے ساتھ اس محاذ پر شیطان کا مقابلہ کرنا ہے اعلان اور دعویٰ تویہی ہوگا کہ ’’اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنْ ‘‘(البقرۃ: :۱۲) لیکن ہمارا جواب (اللہ تعالیٰ کی زبان میں) یہی ہوگا۔’’اَ لَا اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ‘‘ ((البقرۃ: ۱۳)کہ تم ہی فسادی ہو۔ تم بزرگی اور تقدس اور صالحیّت کے جامہ میں اپنے نفاق کو چھپا نہیں سکتے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے ’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ کا اعلان کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس پر اس وقت تک بہترین رنگ میں لبّیک کہا ہے۔ کل شام کی جو رپورٹ ہے اس کے مطابق ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے قریب وعدے ہوگئے ہیں اور قریباً سوالاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے نقد آگئے ہیں(اب جبکہ یہ خطبہ شائع ہورہاہے وعدے بیس لاکھ تک پہنچ چکے ہیں اور قریباً اڑھائی لاکھ روپیہ نقد وصول ہوچکا ہے۔ الحمداللہ۔(ادارہ) نقد اس لئے کم جمع ہوئے ہیں کہ میں نے نومبر تک مہلت دے رکھی ہے لیکن جو دوست اس وقت ادا کرسکتے ہوں انہیں ادا کر دینا چاہئے۔ نومبر کا انتظار نہیں کرناچاہئیے۔ نومبر تک کی مہلت توزیادہ تر زمیندار بھائیوں کی سہولت کے لئے دی گئی ہے تاکہ انہیں قرضے لے کر اس مد میں رقم ادا نہ کرنی پڑے کیونکہ جب خریف کی فصلیں آئیں گی تو اس وقت ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ وہ سہولت کیساتھ یہ قربانی دیسکیں گے۔ غرض ان (زمینداروں) کو مدِّنظر رکھتے ہوئے نومبرتک کی مہلت دی گئی ہے۔ بعض اور دوست بھی ایسے ہوسکتے ہیں جواپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس مہلت سے فائدہ اٹھالیں لیکن جو دوست آج ادا کرسکتے ہیں انہیں کل کا انتظار نہیںکرناچاہئے۔
اسی سلسلہ میں ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انگلستان کی جماعت اس مَد میںفضل عمر فائونڈیشن سے دواڑھائی گنا زیادہ رقم دے سکتی ہے تو میری غیرت اورآپ کی غیرت یہ نہیں پسند کرے گی کہ ہم لوگ انگلستان کی جماعت سے پیچھے رہ جائیں۔ اس لئے اس مدّمیں پاکستان کا چندہ فضلِ عمر فائونڈیشن کے چندہ سے دواڑھائی گنازیادہ ہونا چاہئے اگر دوست توجہ کریں اوراللہ تعالیٰ ہم پر فضل اور رحم فرمائے توہم یہ حقیر سی قربانی اس کے حضور پیش کردیں گے اور اپنے رب سے یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پیارے محبوب ربّ کریم!ہم نے تیری رضا کے حصول کے لئے یہ حقیر سی قربانیاں دیں اور تو نے جو یہ اظہار کیاہے کہ مومن کاہرقدم پہلے سے آگے ہی پڑتا ہے اس کے مطابق ہم نے کوشش کی، تُوجو تمام خزانوں کا مالک ہے تو ان نہایت حقیر قربانیوں کو قبول کراور ہمیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کر۔
تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علاوہ مال کے(جو ضرورت کے لحاظ سے بہت تھوڑا ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں جتنی توفیق دیتا ہے ہم وہی اس کے حضور پیش کرسکتے ہیں)ہمیں آدمیوں کی بھی ضرورت ہے اور اس کے متعلق میںآج یہاں غالباً پہلی دفعہ یہ اپیل کررہا ہوں۔ انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تووہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کیلئے رضاکارانہ طورپر اپنی خدمات پیش کردیں۔ بہرحال ہمیں کم سے کم۳۰ ڈاکٹروں اور۷۰،۸۰ ٹیچرز کی ضرورت ہے ہمارا ایم۔بی۔ بی۔ایس ڈاکٹر بھی وہاں کام کرسکتا ہے ایسے ڈاکٹروہاں اس وقت کام کررہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب ہیں۔ٹیچنگ لائن میں ایک بی۔اے جس نے ٹریننگ حاصل کی اور جو بی۔ایڈ کہلاتا ہے اسے وہ لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں اور ایک ایم۔ ایس۔ سی اور ایم ۔اے کی نسبت اس کے لئے جلدی اور سہولت سے پرمٹ مل جاتا ہے۔غرض بی۔اے، بی۔ایس سی جس نے ٹریننگ بھی حاصل کی ہو اسے وہاں کی حکومتیں ترجیح دیتی ہیں۔ اس کے مقابلے میںاگر کوئی محض ایم۔ اے یا ایم۔ ایس۔ سی ہو اور ٹریننگ حاصل نہ کی ہو اسے وہ اقوام ٹیچنگ لائن میں وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں۔ البتہ جس نے ایم۔ اے، ایم ۔ایس۔ سی کے ساتھ ٹریننگ بھی کی ہو وہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔
یہاں پاکستان میںاللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال سینکڑوں ہزاروں احمدی نوجوان بی۔اے، بی۔ایس۔ سی اور ایم۔ اے، ایم۔ایس۔سی کا امتحان پاس کر تے ہیں۔ ان سینکڑوں ہزاروں میں سے اس وقت ہمیں۷۰،۸۰ نوجوانوں کی ضرورت ہے جواللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کریں۔ جو دوست وہاں جاتے ہیں وہ اکثر جگہ(ہر جگہ تونہیں کیونکہ جہاں نئے سکول کھولیں گے وہاںہم اتنا گزارہ نہیں دیں گے) لیکن وہ سیرالیون میں مثلاً یہاں کے یونیورسٹی کے پروفیسروں جتنی تنخواہ بھی لے رہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کا ثواب بہرحال اس پر زائد ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان ملکوں کا دَورہ کرتے وقت میرا احساس یہ رہا ہے کہ ہمارے مبلغوں سے ہمارے ٹیچرز کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہیں۔ وہ بڑے پیار اور بڑی تندہی سے کام کرنے والے ہیں۔ مجھے شرم سے یہ اظہار کرناپڑتا ہے کہ ان لوگوں کا کام اپنی سنجیدگی اور متانت کے لحاظ سے، اپنی ذمہ داری کے احساس کے لحاظ سے اور جو وقت وہ خرچ کررہے ہیں اس کے لحاظ سے اور جو اثر وہ اپنے طلبہ پر پیدا کررہے ہیں اس کے لحاظ سے غرض بہت سی باتوں میں وہ تعلیم الاسلام کالج سے بھی زیادہ اچھے ہیں اوریہ شرم کی بات ہے ہمارے مرکز کے سارے تو نہیں لیکن بعض اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ گپیں ہانکنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اوراگرسٹاف روم میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہیں توگویا انہوں نے اپنا فریضہ ادا کردیا۔ انہیں بھی شرم آنی چاہئے ہمیں بھی شرم آرہی ہے۔ جو سات ہزار میل دور جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی دی(اس کا دماغ خراب ہوسکتاتھا جیسا کہ دنیا داروں کا ہوجاتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے ان کے ذہنوں کو سنبھالا۔ وہ بالکل بے نفس ہیں یعنی پیسہ ان کو مل رہا ہے لیکن آپ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ انہیں زیادہ پیسہ مل رہاہے وہ بڑی محنت واخلاص سے وہاں کام کررہے ہیں۔ طلباء میں اتنا ڈسپلن ہے کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے مقابلے میں وہاں کے طلباء میںزیادہ ڈسپلن ہے حالانکہ ان میںسے بہت بڑی تعداد غیر احمدیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کے بچوں کی ہوتی ہے۔ عیسائیوں اورمشرکوں میں سے بہت سے ماں باپ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے سکولوں میں اپنے بچوں کو اس لئے داخل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ہمارے سکولوں میں ان کے بچے خراب نہیں ہوں گے لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بچہ تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوکر خراب نہیں ہوگا؟ سوال مَیںکردیتا ہوں جواب آپ خود سوچ لیں۔
پھروہاں بڑی خوبی کی بات یہ ہے(کہ یہاں عام طورپرسٹاف کے ممبر آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر) وہاںسٹاف کے ممبروں میں غیر احمدی بھی ہیں عیسائی بھی ہیں اوربعض غیر ملکی بھی ہیں لیکن ان میں آپس میں بڑا پیار ہے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، بڑی امن کی فضا ہے اور اس پُرامن فضا کے پیدا کرنے میں ہمارے یہاں کے پاکستانی اساتذہ کا بڑا حصہ ہے جن میں سے (ساری جگہوں پر تونہیں لیکن) بہت سے پرنسپل ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے اچھے دل اور دماغ اور جذبات اور احساسات دئیے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور اپنی برکات سے نوازے۔ جو ڈاکٹر وہاں اس وقت کام کررہے ہیں وہ بھی بہت اخلاص سے کام کررہے ہیں ہمارے ہیلتھ سنٹر ابھی چند ہی ہیں مثلاًنائیجیریا میں ہمارے تین ہیلتھ سنٹر ز ہیں ایک گیمبیا میں ہے اور یہاں بہت سارے کھولنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جومنشاء مجھے معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہیلتھ سنٹرز کھولنے کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ بڑا غریب ملک ہے اوربیماری میں تو انسان ویسے ہی قابلِ رحم بن جاتا ہے وہ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں وہاں کوئی معمولی طبّی امداد دینے والا بھی نہیں ہوتامیں نے بتایا تھا کہ سارے گیمبیا میں ایک بھی Eye Specialist (آئی سپیشلسٹ) نہیں۔ وہاں جس بیچارے کی آنکھیں خراب ہوجائیں وہ اپنی آنکھیں دکھانے کے لئے پاسپورٹ دکھا کر کئی سَومیل دور سینیگال کے دارالخلافہ ڈاکار(Dakar) جاتا ہے پھر اگر اسے عینک لگنی ہو تو وہ واپس آکر جس نمبر کی اسے عینک لگنی ہوتی ہے اسے لندن خط لکھ کر وہاںسے منگوانی پڑتی ہے اورجوعینک یہاںآٹھ دس روپے میں بن جاتی ہے وہاں اس کے اوپر ۱۰۰روپے سے بھی زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔پس وہاں ایسے علاقوں کے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں کماسی میں ایک پیرا ماؤنٹ چیف کئی سو میل سے مجھے ملنے آیا اور ایک M-P(ایم۔ پی) کو اپنے ساتھ سفارشی بنا کر لایا وہ کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں طبّی امداد کا کوئی انتظام نہیں آپ ہمارے ساتھ محبت کا سلوک کریں ہمارے علاقہ میں طبّی مرکز کھولیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے کھولیں گے انشاء اللہ۔ ان کے ساتھ جو ایم۔ پی تھا وہ کہنے لگا کہ جو دفتری کارروائی ہے جسے ہم سرخ فیتہ کہتے ہیں اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ ہم وہ قوم نہیں ہیں جسے اپنی کامیابی کے لئے ملکی قانون توڑنے کی ضرورت پڑے ہم ملکی قانون کے پابند رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقیات کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کوئی دُنیوی طاقت اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتی۔
پس نوجوانوں کوبھی آگے آنا چاہئے وہ نیک نیتی سے اپنے نام پیش کردیں۔ پھر ان میں سے ہم انتخاب کریں گے اور مختلف ملکوں میں ان کے کاغذ بھیجیں گے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ کام اس سال کے اندر اندر ہوجائے اس طرح وہاں انشاء اللہ بہت سے طبّی مراکز کھل جائیں گے۔ ویسے ایک طبّی امداد کے مرکز کے لئے شروع میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہاں ہم اپنا کلینک بنائیںیا اپنی عمارت ہو۔ کوئی مکان کرایہ پرلے کر ہم اپنا کام شروع کرسکتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا اور دے رہا ہے، دلوں کے جوبٹوے ہیں ان کو اس نے کھول دیا ہے کیونکہ جب تک دل کا منہ نہ کھلے اس وقت تک کسی کی جیب کے بٹوے کا منہ نہیں کھلاکرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانی کے لئے دلوں کے بٹووں کے منہ کھول دئیے ہیں۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور آئے گا بھی یانہیں۔ پیسہ یقینا آئے گاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو جماعت سے قربانیاں مانگ وہ قربانیاں دے گی۔ انگلستان میں بھی مَیں نے یہی کہا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوایا ہے کہ دس ہزار پائونڈ میرے جانے سے پہلے جمع ہوجائیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جمع نہ ہوں؟ میرے منہ سے جو بات نکلی ہے خدا تعالیٰ خلافت کی غیرت کی وجہ سے اسے پورا کرے گا اور اس نے اپنے فضل سے پورا کردیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے۔ ۱۹۶۷ء کی بات ہے میں غالباً پہلے بھی بتا چکا ہوں ایک موقع پر جب مجھ سے بارہ(یہ پادریوںکی ایک ایسوسی ایشن تھی اس کے) نمائندے اکٹھے ملنے آئے تھے۔ تو ایک شخص کے متعلق بے خیالی میں ہی میرے منہ سے نکل گیا کہ تمہیں مذہبی قانون آتا ہے (وہ پادری جو کج بحثی کررہا ہے) تم اسے جواب دو مَیں جواب نہیں دوں گا جس وقت میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا تو فوراً مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ اسے مذہبی قانون آتا ہے یا نہیں۔ اگر اس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مجھے مذہبی قانون نہیںآتا تو یہ میرے لئے شرمندگی کا باعث ہوگا لیکن ہوایہ کہ اسے مذہبی قانون آتا تھا۔ بعد میں وہ کمال یوسف صاحب سے کہنے لگا کہ میں حیرا ن ہوں حضرت صاحب کو کیسے پتہ لگ گیا کہ مجھے مذہبی قانون آتا ہے کیونکہ میں اس وفد میں ایک اور آدمی کے بیمار ہوجانے کی وجہ سے عین آخری وقت میں شامل کیا گیا ہوں اورمَیں یہ نہیں سوچ سکتا کہ میرے متعلق علم حاصل کرلیا ہو کیونکہ مَیں وفد آنے سے ایک دوگھنٹے پہلے شامل ہوا ہوں پس وہ حیران تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو اس طرح بھی دکھاتا ہے اس نے جب یہ کہا میں نے خلافت کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کے نزول کے لئے قائم کیا ہے تو دنیا جو مرضی سمجھتی رہے۔ اپنے یاغیر جو مرضی کہتے رہیںاللہ تعالیٰ کی برکات اوررحمتیں توخلافت کیساتھ وابستہ ہیں وہ اپنے بے شمار فضل جماعت پر نازل کررہاہے۔ منافق ان فضلوں کودیکھ کر کُڑھتا اور جلتا اوراندر ہی اندر بھنتا ہے۔ دوسرے مخالفین کو بھی یہی کہاگیا ہے اور منافقین کو بھی یہی کہا گیا ہے۔’’مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ‘‘ (اٰل عمران :۱۲۰)اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ تم اپنے غصّہ میں جلومرو۔اللہ تعالیٰ اوراللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلوں کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ یہ عظیم نشان جس کے ہزاروں کروڑوں پہلو ہیں یہ عظیم نشان جماعت کے اندر نظر آرہا ہے۔ خداتعالیٰ اپنی پوری شان کے ساتھ اوراپنی تمام صفات کے جلووں کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہے اس واسطے بُغض وعناد کے جو دھوئیں ہمارے سامنے آتے ہیں ان کی حقیقت ایک مردہ مچھر کی بھی نہیں ہے اور ہر احمدی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مچھر بھی تو ہمیںآکر کاٹتا ہے اوربخارچڑھا دیتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہزاروں مچھر کاٹتے ہیں مگر جسے اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہتا ہے اسے زندہ رکھتا ہے۔پس جو الٰہی سلسلہ کا وجود ہے کیا وہ مچھروں کے کاٹنے سے نقصان اٹھائے گا؟ یہ بات توعقل میں نہیں آتی۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہیںان کے حاصل کرنے کا دروازہ آپ کے لئے کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع آپ کودے دیا ہے آپ اس کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کوحاصل کریں اور اس کے پیار اور اس کی رضا کے وارث بنیں۔ یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور اس کی عزتیں ہیں کیا شے؟ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ایک سیکنڈ کے لئے اس کی محبت کا جلوہ دیکھ لینا اتنی عظیم چیز ہے کہ ساری دنیا اور اسکی ساری دولتیں اور عزتیں اس پر قربان کی جاسکتی ہیں۔ ہم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں دوست ہیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکات اور فیوض کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیاراور محبت اوررضا کا جلوہ دیکھ رہے ہیں۔
پس جو دوست اپنا نام پیش کریں گے(مجھے یقین ہے کثرت سے نام پیش کریں گے) وہ اپنے کوائف وغیرہ سے متعلق مجلس نصرت جہاں وکالتِ تبشیر تحریک جدید کو مطلع کریں (ایک دوسری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جومالی کمیٹی کہلاتی ہے مگر یہ انتظامی کمیٹی ہے) یہاںسے جو پہلے ڈاکٹر گئے ہیں ان کے متعلق خط وکتابت ہوتی رہی ہے اسے دیکھ کر(اس انتظامی کمیٹی کے ممبر) اخبار میں شائع کردیں گے کہ اس قسم کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں فوری طور پر کوائف چاہئیں وہ آپ جلدبھجوادیں تاکہ ہم حسبِ ضرورت اجازتیں لیتے چلے جائیں ممکن ہے بہت زیادہ آدمیوں کی طرف سے درخواستیں آجائیں۔ اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت ہوگی انہیں بھیج دیںگے پھر باقیوں کو بھی اگر اگلے سال ضرورت ہوئی تو اس وقت بھیج دیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو دعائوں کے ساتھ اورتدبیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگنی چاہئے کہ ہم کم از کم تیس۳۰ ہیلتھ سنٹرز (یعنی طبی امداد کے مراکز)اسی سال کے اندر کھول دیں یہ کام بڑا ہی ضروری ہے ۔ بعض تفاصیل ہیں وہ تو میں اس وقت نہیں بتائوں گا لیکن یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے نوجوانوں کے دل بھی اور ہمارے بزرگ ڈاکٹروں کے دل بھی اس خدمت کے لئے کھول دے اورتیار کردے اوران کے دل میں خدمت کا جذبہ پیدا کردے۔جودوست وہاں جائیں وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کمانے کے لئے وہاں نہیں جارہے(اگرچہ دنیا ان کو پھربھی مل جاتی ہے) ان کی نیّت یہ ہونی چاہئے کہ وہ دنیا کمانے کے لئے نہیں جارہے بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے جارہے ہیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے جارہے ہیں۔ پس ان لوگوں سے پیار کریںان سے ہمدردی رکھیں جب کوئی بیمار آپ کے پاس آئے یا آپ کسی بیمار کے پاس جائیں تو آپ اس سے نہایت محبت اورخندہ پیشانی سے اورہمدردانہ طریق سے پیش آئیں ایک اچھے اورنیک ڈاکٹر کی توباتیں بھی آدھی مرض کودُور کردیتی ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان کے لئے بہت دعائیں کریں اوریہ ایک عظیم فرق ہے ایک احمدی ڈاکٹر اوراس ڈاکٹر میں جو ابھی احمدی نہیں۔ ایک احمدی ڈاکٹر اپنے مریض کی صرف تشخیص ہی نہیں کرتا یا اسے دواہی نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے دعائیں بھی کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسکے کاموں میں برکت ڈالتاہے جس کے نتیجہ میں ان مریضوں کے دلوں میں محبت پیدا کر تا ہے۔ ہم نے دنیا کے دل خدا اوراس کے رسول کے لئے اپنی محبت اور پیار اور خدمت اورہمدردی اور غم خواری اور مساوات کے جذبہ سے جیتنے ہیں یہ ہمارا فرض ہے پس ہر ڈاکٹر کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ کس غرض کے لئے وہاں گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفا بخشے گا۔
اس وقت جو ڈاکٹر وہاں گئے ہیںمَیں عام طورپر ان کے لئے دعائیں کرتاہوں۔ مثلاًڈاکٹر سعید ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے وہاںگئے ہیں ۔مَیں نے انہیں بھجوایا تھا۔ ان دنوں میں میرے دل میں خاص طورپر یہ جذبہ تھا میں نے بڑی دعا کی کہ اے اللہ! تیری راہ میں یہ شخص سات ہزار میل دُور جارہاہے تُواپنے فضل سے اس کے ہاتھ میں شفا بخش دے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا بخش دی اور وہاں وہ بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں۔
پس کم از کم۳۰ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے(اور مجھے امید ہے اس سے زیادہ ہوجائیںگے) کچھ توانگلستان میں پڑھنے والے ڈاکٹروں میں سے بھی بعض نے اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس سب کے نام آجانے چاہئیں پھر ہم ان میں سے انتخاب کریںگے ان کیQualification(کوالیفیکیشن)دیکھیں گے اور اسی طرح دوسرے کوائف مثلاً عمر اور عادات وغیر ہ وغیرہ ہزاروں باتیںہیںیہ سب دیکھ کر پھر ان کو وہاں بھجوائیں گے۔ ویسے وہاں بڑا ہی مخلص دل انسان جانا چاہئے جس کے اُوپر ہم پورے طورپر اعتماد کرسکیں مثلاً نائیجیریا میں ہمارے ایک ہسپتال کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ انہوں نے پندرہ ہزارپائونڈ سے زیادہ کی سیونگ کی۔ وہاں ان پر کسی قسم کاکوئی دبائو نہیں ہوتا بس اخلاص سے وہ ہرمہینے آپ ہی رقم بھیج دیتے ہیں سارے میڈیکل سنٹرز کا یہی حال ہے وہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے سارے اخراجات کے بعد یہ رقم بچی ہے اسے ہم بھجوارہے ہیں۔
پس ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ جورقم بچتی ہے وہ کسی کی ذات پر تو خرچ نہیں ہونی ان ملکوں پر خرچ ہونی چاہئے۔ اور میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر گیمبیا میں مثلاً چارہیلتھ سنٹرز کھل جائیں تو ہم وہاں ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھول سکتے ہیں ہم نے ان دونوں میدانوںمیں متوازی طورپر بڑی سُرعت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے لیکن وہاں پہلے طبّی امداد کے مراکز کھلنے چاہئیں۔دوست اپنے نام پیش کریں اورمحمد اسمٰعیل صاحب منیرؔ جو متعلقہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں وہ مطلوبہ کوائف کے متعلق اخبار میں اعلان کرائیں اور باربار اعلان کرائیں۔ میرے خیال میں ہمارے احمدی ڈاکٹروں کی ایک مجلس بھی ہے اس کی میٹنگ بھی بلائیں پھر انہی کے سپرد کریں گے کہ سب کے کوائف کو مدِّ نظر رکھ کر منتخب کریں کہ کون زیادہ موزوں ہے؟ ویسے تو بعض دفعہ بظاہر ایک ناموزوں انسان بھی جب وہاں چلا جاتا ہے تو اگر وہ دعا کرنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قابلیت بھی بڑھا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سرچشمہ ہے علوم کا او رقابلیت کا۔ شفا بھی اس کی ہے باقی تو اس دنیا میں سب پردے ہیں جن کے پیچھے ہمیں اس کی صفات کے جلوے نظر آرہے ہیں۔آج میں نے تین باتیں کہی ہیں ایک یہ کہ آپ کی فراست اور آپ کی بیداری سے منافق کو پتہ لگ جانا چاہئے کہ نفاق اس سلسلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ میں نے جو’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ قائم کیا ہے اس میں اس وقت تک انگلستان کی جماعتیں دوسرے ہرملک کی جماعتوں سے آگے نکلی ہوئی ہیں۔ اس وقت تک کا مَیں نے اس لیے کہا ہے کہ اس فنڈ کے متعلق میں نے پہلے ان سے اپیل کی تھی لیکن خدا کرے کہ صرف یہی وجہ ہو اس کے علاوہ اورکوئی وجہ نہ ہو اور آپ جلد ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور تیسری بات میں نے یہ کہی ہے کہ احمدی ڈاکٹر اور ٹرینڈٹیچرز رضاکا رانہ طورپر اپنی خدمات پیش کریں اور دین ودُنیا کی حسنات کے وارث ہوں۔ جیسا کہ میں نے لندن میں بھی کہا تھا آپ کو بھی وہی بات کہہ دیتا ہوں۔آپ رضا کارانہ طورپر اپنی خدمات پیش کریں ورنہ اگر رضا کارانہ طورپر جو خدمات پیش کی گئیں اگر ضرورت کے مطابق نہ ہوئیں تو پھر میں حکم دوں گا اور اس صورت میں آپ کے لئے دو۲ راستے کھلے ہوں گے یا جماعت کوچھوڑ کر علیٰحدہ ہوجائیں یا پھر خلافت کی اطاعت کریں اورآپ خلافت کی ضرور اطاعت کریں گے، انشاء اللہ۔ لیکن ایک رضاکارانہ خدمت اور ایک وہ خدمت جس میں کچھ مجبوری کا اثر بھی ہو اس خدمت میں ہماری عقل (اللہ تعالیٰ کو توپتہ نہیں کیا منظورہوتا ہے) ضرور فرق کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق بخشے جن سے وہ راضی ہوجائے اور جس کے نتیجہ میں اس کا وہ وعدہ پورا ہوجو اس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور جس کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں مہدی معہود کے زمانہ میں تمام اقوامِ عالم کو اخوت اور برادری کے سلسلہ میں پرودیا جائے گا۔یہ وہ عظیم وعدہ ہے جو ہمیں دیا گیا ہے اوریہ وہ عظیم وعدہ ہے جس کے پوراہونے کے آثار اسلام کے افق پر آج ہمیں نظر آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ سوال صرف یہ ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے لئے وہ ہم سے جو قربانیاں مانگتا ہے کیاہم اس کی منشاء کے مطابق اس کی رضا کے حصول کیلئے اس قدر قربانی پیش کردیں گے؟ جتنی وہ چاہتا ہے کہ ہم پیش کریںاگرہم ایسا کریں گے تو آپ یہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ ہم پر بھی ہمارارب کریم اسی طرح فضل اور رحم فرمائے گا جس طرح اس نے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برسائی تھی۔ اس سے بڑھ کر ہمیں کوئی بشارت مل نہیں سکتی اور اس سے بڑھ کر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بن نہیں سکتا۔ پس آج وقت ہے دنیا، دنیا کے کاموں میں محو اورغافل ہے آپ خدا کے لئے اپنی غفلتوں کو چھوڑ کر اس کی اس عظیم بشارت کے وارث بننے کی سعی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۷۵ء صفحہ۳ تا ۶)
ززز






احمدیت اسلام کی روحانی جنگ لڑ رہی ہے
عیسائیت کے خلاف جنگ کا فیصلہ افریقہ کی سر زمین میں ہوگا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍ جولائی۱۹۷۰ء بمقام سعید ہائوس ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہے کہ تما م اقوامِ عالم کو اسلام کی حسین تعلیم کا گرویدہ بناکر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مضبوط رشتہ روحانی کوجوڑدیں۔ اس نقطہ نگاہ سے ہراحمدی بوڑھے، جوان،بچے اور عورت کو دنیا پرنگاہ ڈالنی چاہئے کہ ہم نے انشاء اللہ بنی نوع انسان کے دلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا ہے۔
جب ہم مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ دہریت اور الحاد کا شکار ہوچکا ہے مثلاً روس ہے یہ ایک بہت بڑا ملک ہے روسی نہ صرف یہ کہ خدا کو بھلا بیٹھے ہیں بلکہ ایک وقت میں انہوںنے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ زمین سے(نعوذباللہ)اللہ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹادیںگے۔
ضمناً مَیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشہور"Iron Curtain"(آئرن کرٹن) میں ہماری خاطر شگاف ڈال دیا ہے اور کمیونسٹ ممالک میں لوگ احمدی ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ ایک یوگوسلاوین ڈاکٹرآصف جب مَیں دورہ پر گیاہوں مجھے زیورک میںملے۔ چنددن تک وہ وہیں رہے۔ نہایت شریف اورذہین آدمی ہیں میڈیسن کے ڈاکٹر ہیں لیکن اٹامک ریسرچ میں بھی انہیں مہارت ہے لیکن اس کے تشخیص والے حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پہلے میراخیال تھا کہ چونکہ اٹامک انرجی کے ذریعہ علاج ہونے لگ گیا ہے شاید وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوں گے اس لئے دس پندرہ منٹ مَیں نے ان سے گفتگو کی اوربتایاکہ یہ تو ایک غیر فطری علاج ہے جس کی طرف اب دنیا جارہی ہے چنانچہ اس کے متعلق جو دلائل اس وقت میرے ذہن میں آئے وہ میں نے انہیں بتائے وہ چپ کر کے خاموشی سے میری باتیں سنتے رہے پھر جب میں خاموش ہوا تو وہ کہنے لگے مجھے اس علاج والے حصہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے صرف تشخیص والے حصہ سے مجھے دلچسپی ہے۔ چند سال ہوئے وہ احمدی ہوئے تھے پھر وہ واپس اپنے ملک یوگوسلاویہ گئے وہاں انہوں نے تبلیغ شروع کردی اور اب وہاں ان کے ذریعہ ایک جماعت قائم ہوگئی ہے۔ اسی طرح پولینڈ میں بھی چند آدمی احمدی ہوچکے ہیں۔ چیکو سلاویکیہ ہماری جماعت کے ساتھ بڑی دلچسپی لے رہا ہے میں بڑا حیرا ن ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام دنیا سے مٹانا چاہتے تھے مگر اکرہ(گھانا) میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر اور سفراء جو مسلمان تھے وہ توآئے ہی تھے لیکن چیکو سلاویکیہ کا سفیر وہاں موجودتھا وہ ہمارے کاموں میں بڑی دلچسپی لے رہاتھا۔ اکرہ میں ہمارے قیام کے دوران میںجوبھیFunction(فنکشن)ہوا اس میں چیکوسلاویکین سفیر شامل ہوتارہا۔ ایک ایسی جماعت میں دلچسپی لینا جس کے متعلق اسلام کہتا ہے کہ انسان کی ملکیت ہی نہیں’’اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ‘‘ (الجنّ :۱۹) یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ایک ایسی عمارت میں دلچسپی لینا جس میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہوتا اور اس کی عظمت وکبریائی کا اقرار کیا جاتا ہے اس کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں ایک ایسے ملک کے سفیر کا شامل ہونا جودنیا سے اللہ تعالیٰ کا نام مٹانا چاہتے تھے معنی رکھتا ہے۔ مَیں اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاسکتا۔
بہرحال دنیاکاایک بڑاعلاقہ ایسا ہے جہاں دہریت اور الحاد کی حکومت ہے اگرچہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالی نے اس"Iron Curtain"(آئرن کرٹن) میں ہمارے لیے شگاف پیدا کردیاہے اورہم ان علاقوں میں داخل ہوچکے ہیں مگر یہ ابھی ابتداء ہے اس کی انتہاء یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ’’میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۶۹۱) یہ آپ کی کشف ہے لیکن اس انتہا کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے متعلق میں اس وقت بات کررہاہوں۔ اسی طرح چین ہے وہاں سے بھی مذہب کونکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ دہریت اور الحاد آگیا ہے۔(یورپ کے بعض ممالک میں بھی یہی حالات ہیں) مگر یہ تو وہ علاقے ہیں جہاں حکومت اور عوام نے اعلان کردیا کہ مذہب سے ان کاکوئی تعلق واسطہ نہیں۔
علاوہ ازیں دنیا کے بہت بڑے علاقے ایسے ہیں جن پرعیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے۔ مثلاً عام گفتگو میں آپ کہیں کہ سارایورپ عیسائی ہے عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ انگلستان ایک عیسائی ملک ہے عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ عیسائی ممالک ہیں۔ عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ کینیڈا اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ عیسائی ممالک ہیں عام گفتگو میںآپ کہیں گے کہ جنوبی امریکہ(جس میں بہت سے ممالک ہیں) عیسائی ملک ہے اسی طرح افریقہ کے بعض حصوں کے متعلق آپ کہیں گے کہ یہ عیسائی ممالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عیسائی ممالک نہیں ہیں البتہ کسی وقت یہ عیسائی ممالک ہوا کرتے تھے۔ اب مثلاًیورپ ہے یورپ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تثلیث کو ختم کردیا ہے یعنی گرجا کے ساتھ انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی البتہ ان قوموں پر عیسائیت کا لیبل لگا ہواہے ۔ آپ نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھاہوگا آپ اپنے تصور میں بھی نہیں لاسکتے کہ کسی مسجد کے سامنے For Sale (فار سیل) کا بورڈ لگا ہواہو یعنی یہ مسجد قابلِ فروخت ہے۔ لیکن خود میری ان آنکھوں نے لندن کے بعض گرجوں کے سامنے For Sale(فارسیل) کا بورڈ لگا ہوا دیکھا ہے دوسری مصروفیات کی وجہ سے مجھے اکثر باہر نکلنے کاکم ہی موقعہ ملتا تھا لیکن جب کبھی میں موٹر میں باہرنکلتا اور کہیں گرجا نظر آتا خصوصاً اتوار کے روز تومَیں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ مجھے اندر جانے والے یاباہر نکلنے والے نظرآجائیں اور مَیں یہ معلوم کرسکوں کہ وہ کس عمر یا کس ٹائپ کے لوگ ہیں۔
جب مَیں۱۹۶۷ء میں وہاں گیا تھا تو اس وقت ایک موقعہ پر ہماری کارایک گرجے کے سامنے سے ایسے وقت گزری جب کہ پرستش کرنے کے بعد عیسائی گرجا سے باہر نکل رہے تھے چنانچہ میںیہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ اگر مَیں بہت ہی محتاط اندازہ لگائوں تو یہ ہو گاکہ ان میں ۹۰فیصد لوگ ساٹھ سال سے بڑی عمر کے تھے اور بمشکل ۵فیصد لوگ ساٹھ سال سے کم عمر کے تھے۔ اس طرح نوجوانوں کی گویا تین نسلیں سمجھنی چاہئیں یعنی اگر ہر ایک نسل ۲۰ سال کی ہو توپچھلی تین نسلیں ایسی ہیں جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھریہ بھی دیکھیں کہ انگلستان ایک عیسائی مملکت کہلاتی ہے مگر عجیب عیسائی مملکت ہے کہ وہاں کی ملکہ کو سوڈومی (Sodomy) بِل پر مجبوراًدستخط کرنے پڑے۔ ۱۹۶۷ء میں ایک دفعہ ایک پادری نے تھوڑی سی شوخی دکھائی تھی اگرچہ وہ بڑے ادب سے بات کرتا تھا لیکن مجھے اس کی باتوں میںہلکی سی شوخی کی بُو آئی۔ اس کا جواب مَیں نے یوںدیا کہ مجھے تم لوگوں پر رحم آتاہے۔ اس کے سوال اور میرے جواب میں بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا لیکن مَیں تو اسے جھنجھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگ گیا کہ مجھے اُن پرکیوں رحم آتا ہے؟ مَیں نے اسے کہا کہ مجھے تم پر اس لئے رحم آتا ہے کہ جسے تم نے "Defender of Faith" (ڈیفنڈر آف فیتھ) قراردے رکھا ہے(عیسائیت نے انگلستان کے بادشاہ یا ملکہ کو ’’محافظ عیسائیت‘‘ کا لقب دے رکھا ہے) وہ مجبور ہوئی۔ سوڈومی (Sodomy) بِل پر دستخط کرنے کے لئے۔ اس سے زیادہ تمہاری قابلِ رحم حالت اور کیا ہوسکتی ہے؟
بہرحال یہ عیسائی ممالک تو کہلاتے ہیں مگر ان میں عیسائیت نہیں ہے کسی وقت تھی مگر اب انہیں پتہ ہی نہیں کہ عیسائیت کسے کہتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہاں بہت سے پادری ہیں یہ اور بعض دوسرے لوگ عیسائیت پر دیانتداری سے ایمان رکھتے ہوںگے ہم بدظنّی نہیں کرتے اور کسی کو تثلیث جیسے نامعقول عقیدے پر دیانتداری سے ایمان نہیں۔ ٹھیک ہے ہزاروں ہوںگے اور کروڑوں کی آبادیوں میں شاید لاکھوں بھی ہوں جو دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ تثلیث عیسائیت اور کفارہ کا مسئلہ صحیح ہے لیکن بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں صرف نام کے عیسائی ہیں اور بس۔کبھی گرجاچلے گئے کبھی نہ گئے۔ مذہب کی جو غرض ہے وہ بالکل مفقود ہے۔
اس وقت جہاں عیسائیت کا کچھ Hold(ہولڈ) مجھے نظر آتا ہے(ہوسکتا ہے میرا اندازہ غلط ہو) لیکن جہاں تک مَیں نے سوچا ہے مجھے اس زمین پر عیسائیت کی تین Pockets (پاکٹس) نظرآتی ہے۔ ایک سپین ہے وہاں ابھی تکCatholicism(کیتھو لک ازم) کا Hold(ہولڈ) ہے اور کسی وقت تواتنی سخت گرفت تھی کہ وہ دوسرے عیسائی فرقوں کو گرجے اوردوسری عبادت گاہیں بنانے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ابھی چند سال ہوئے انہوںنے کچھ نرمی کی ہے۔ ہمارا ڈرائیور پروٹسٹنٹ تھا وہ بڑے غصّے سے کہتا تھا کہ ایسے باربیرین دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوئے کیونکہ ان پر انہوں نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
بہر حال کیتھو لکس عیسائیت کا ایک فرقہ ہے اور سپین میں اس کا قوم پر کچھ نہ کچھ Hold (ہولڈ) ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی امریکہ ہے وہاں بھی سپین اورپُرتگال کے لوگ گئے ہوئے ہیں اور وہاں یہی سپینش زبان بولتے ہیں اور غالباً اسی وجہ سے ان کے دماغ پر بھی اور ان کی زندگیوں پر بھی عیسائی مذہب کا ایک حدتک Hold(ہولڈ) ہے لیکن آج دنیا میں عیسائیت کی دوسرے مذاہب سے جوجنگ ہورہی ہے اس میںسپین کا اگر کوئی حصہ ہے توبہت معمولی اور جنوبی امریکہ کا غالباً کوئی حصہ نہیں ہے۔ شاید کچھ پیسے وغیرہ ان سے لے لیتے ہوںگے۔ اس جنگ میں وہ اس طرح شریک نہیں کہ وہ فرنٹیئر یعنی محاذ پر آکر اسلام کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔پادری ابھی یورپ سے ہی جارہے ہیں مثلاً بلجیم، ہالینڈ، اٹلی اور فرانس ہیں۔ یہ عیسائیت کی پاکٹس رہ گئی ہیں۔ ان ملکوں کی اکثریت تو میرے نزدیک عیسائی نہیں رہی لیکن بہرحال ان ممالک میں عیسائیت کی سٹرانگ پاکٹس ہیں۔ وہاں افریقہ میںان ملکوں کے پادری جارہے ہیں ممکن ہے کچھ سپین کے بھی ہوں۔
فکر اور تدبّر کرنے والے عیسائی پادری میرے نزدیک اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اسلام کے ساتھ آخری معرکہ افریقہ میں ہے اور اب وہاں بڑا زور دے رہے ہیں۔ انگلستان میں گرجے برائے فروخت اور افریقہ میں نئے گرجے بنوارہے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز اس وقت انگلستان یا یورپی ممالک نہیں بلکہ افریقہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت مختلف عیسائی پادریوں کی جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں ان میں وہ بیان دیا کرتے تھے(اور وہ چھَپے ہوئے ہیں ہمارے پاس ان کے حوالے موجود ہیں) کہ افریقہ ان کی جیب میںہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت افریقہ عیسائیوں کے خیال میں ان کی جیب میں تھا پھر اس کے بعد حالات بدلے اللہ تعالیٰ نے فضل اور رحم کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور وہ افریقہ جو عیسائیت کی جیب میں تھا (ذمہ دار پادریوں اوربشپس کے حوالے موجود ہیں کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے) اس کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ بات مشتبہ ہے پتہ نہیں یہ برِّاعظم عیسائیت کی جیب میں آتا ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عَلم کے نیچے جمع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ ففٹی۔ففٹی چانس کی باتیں کرنے لگے۔ پھر جب ہماری تبلیغی مہم اور تیز ہوئی توانہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہ بیان دئیے ہیں کہ اگر وہ ایک افریقن کوعیسائی بناتے ہیں تو احمدی دس افریقنوں کو مسلمان بنالیتے ہیں چنانچہ انہوںنے ایک اوردس کی نسبت سے اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست تسلیم کرلی۔
پھر جنہیں وہ عیسائی بناتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ بلجیم کے ایک پادری افریقہ کے ایک ملک میں۵۲ سالہ تبلیغ کرنے کے بعد بوڑھے ہو کر واپس جارہے تھے ہمارے ایک مبلّغ بھیCourtesy call(کرٹسی کال) کے طور پر اس سے ملنے گئے اور اتفاق کی بات تھی کہ وہاں اس وقت اور کوئی نہیں تھا۔صرف وہ تھا یا ہمارا مبلّغ تھا۔ بے تکلّفانہ باتیں شروع ہوگئیں۔ وہ عیسائی پادری کہنے لگا کہ سچی بات یہ ہے کہ میرے۵۲ سالہ تجربہ اور کوشش کا نچوڑ یہ ہے کہ اس عرصہ میں مَیں نے صرف ایک آدمی کو عیسائی بنایا ہے ویسے ہزاروں پر مَیں نے عیسائیت کے لیبل لگائے ہیںلیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں کوئی ہم سے دُودھ لینے کی خاطرعیسائی ہوا ہے کوئی ہم سے تعلیم حاصل کرنے لئے عیسائی بنا ہے کوئی نوکری کی خاطر عیسائی ہوگیا ہے کوئی گندم اوردوسری غذائی ضرورتوں کی خاطر عیسائی بنا ہے مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں ہمارے مال اور دولت میں انہیں دلچسپی ہے عیسائیت میں انہیں دلچسپی نہیں ہے لیکن ایک آدمی کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ دل سے عیسائی ہوا ہے۔ ہمارے مبلّغ نے اس سے کہا کہ ہم توہزاروں تم میں سے کھینچ کر مسلمان بنا چکے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہے اور ان کے متعلق ہم علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ وہ پختہ مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کا ذاتی مشاہدہ کرکے آپ سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم نے بھی وہاں اس قسم کے بہت نظارے دیکھے ہیں۔
بہرحال مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا کا جو نقشہ ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں تو ان اقوام نے اعلان کردیا کہ وہ عیسائی نہیں وہاںتودہریت اور الحاد کا زور ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک علیحدہ محاذہے۔ اس کے متعلق میں کسی اور خطبہ میں بیان کروںگا دنیا کا ایک علاقہ اور یہ بہت بڑا علاقہ ہے اس میں ہمیں یا تونام کے عیسائی نظرآتے ہیں یا دہریہ ہیں اوروہ کہتے ہیںکہ ہم عیسائی نہیں ہیں لیکن عیسائیت کا نام ان ملکوں میں ہے اورجہاں عیسائیت کا کافی Hold(ہولڈ) ہے وہ سپین اور جنوبی امریکہ کے علاوہ افریقہ کا برِّاعظم ہے جہاں اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ لڑی جارہی ہے۔
اگر دنیا کا یہ نقشہ صحیح ہو اورمیرے نزدیک صحیح ہے تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ پر یہ زبردست ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ اس محاذ پر عیسائیوں کو شکست دے۔ وہاں افریقہ میںبھی عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ پہلے شہروں اورقصبوں میں پڑھے لکھے لوگوں میںان کی تبلیغ کابڑازور تھا لیکن جب سے ہم آئے ہیں یہ ابBush(بُش) میں چلے گئے ہیں وہ دوست اپنی طرف سے تو یہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم کیاکریں؟ میں نے انہیں فوراً کہا Follow them to the Bushتم بھیBushمیں جاکر ان کا پیچھا کرو انہیں یہاں بھی ٹکنے نہیں دینا۔
عیسائیت اسلام کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ یہ صحیح ہے لیکن یہ افریقہ کے معاشرہ پر اثر انداز نہیں ہوئی۔ مَیں پہلے بھی بتا چکاہوں ۔ ابھی آٹھ دس دن ہوئے رپورٹ آئی ہے کہ ہمارے چلے آنے کے بعد کماسی میں ایک بہت بڑا عیسائی پیرامائونٹ چیف مرگیا وہ خود عیسائی اور اس کے حلقہ اثر میں ہزاروں کی تعداد میں عیسائی لیکن اس پیرامائونٹ چیف کے مرنے پر جس طرح بدمذہب والے یعنی مشرک دفن کیا کرتے تھے وہی رسوم شروع ہوگئیں۔ مرنے والا بھی عیسائی اس کے علاقے میں اس کے ماتحت جو تھے ان میں سے بڑی بھاری اکثریت عیسائیوں کی لیکن رسوم جاہلیت کی اور ا نکے مطابق اسے دفنایا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیت نے لیبل لگا دیا ہے لیکن معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔ اس کے مقابلے میں(دنیا ویسے آگے نکل گئی ہے ہمیں وہی آواز پیاری ہے جو حضرت بلالؓ کی تھی) ہزاروں کی تعداد میں ہم نے عیسائیوں میں سے بھی اور مشرکوں میں سے بھی مسلمان بنائے ہیںاور ان کے سینے اللہ کے نور سے منور ہیں۔ وہ’’اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ‘‘ کہنے والے نہیں بلکہ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰـہَ‘‘ کہنے والے ہیں یعنی ان کا عربی کا تلفظ بھی صحیح ہے۔وہ عربی کے ساتھ تعلق رکھنے میں بھی جنونی ہیں۔ احمدیت اور اسلام سے انہیں جو پیا رہے وہ تو ہے ہی لیکن عربی زبان سے بھی وہ عشق رکھتے ہیں۔ انہیںعربی بولنے کا بڑا شوق ہے چنانچہ وہاں کئی علاقوںمیں عربی بولی جاتی ہے۔ کماسی سے قریباً دواڑہائی سومیل دُور گھانا کے بارڈر پر واقع ہماری و ا ؔ (Wa)کی جماعتیں ہیں۔ کچھ وقت کم تھا کچھ وہاں کے حالات مثلاً سڑکوں اور سفر کی دوسری سہولتوں کا علم نہیں تھا اور پھر Briefing(بریفنگ) ناقص تھی چنانچہ ہمارا پروگرام یہ طے پایا کہ کماسی سے صبح ٹیچی مان جو ستّر میل کے فاصلے پرتھا وہاں جائینگے اور پھر واپس آجائیں گے۔کماسی میں وا ؔکے دو سو نمائندے آگئے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہاں ہماری کتنی جماعتیں ہوں گی یعنی مختلف جماعتوں کے دوسو نمائندے اکٹھے ہوکر آگئے اور مشکل یہ پیدا ہوگئی کہ ان کی اپنی لوکل زبان تھی جو کماسی کی زبان سے بالکل مختلف تھی اگرمیری تقریر کا کماسی کی زبان میں ترجمہ ہوتا تووہ بالکل سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ میں نے دوستوںسے مشورہ کیا۔ کہنے لگے کہ اگر آپ انگریزی میں بولیں گے تو ان میںسے۵۔۱۰ فیصد سمجھ جائیں گے لیکن۹۰ فیصد بالکل نہیں سمجھیں گے اور پھر انگریزی تقریر کی صورت میں ان کی لوکل زبان میں ترجمہ کرنے والا بھی کوئی نہیں لیکن اگر آپ عربی میں بولیں تو یہ انگریزی سے زیادہ عربی سمجھ جائینگے۔ ہماری وہاں کی جماعتوں کے ایک پریذیڈنٹ بھی اس وفد میں شامل تھے وہ عربی اچھی جانتے تھے وہ کہنے لگے کہ میں آپ کی عربی تقریر کااپنی لوکل زبان میں ترجمہ کردوں گا چنانچہ وہاں مجھے مختصراً عربی میں تقریر کرنی پڑی۔ میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ انہیں عربی سے بڑا پیا ر ہے اس علاقے کے لوگ ہماری طرح کی پگڑیا ں باندھتے ہیں ہماری نقل میں نہیں بلکہ ویسے ہی ان کا پرانا رواج ہے۔ کُلّاہ غالباً نہیںہوتا۔ اپنی ٹوپی پر پگڑی باندھتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی طرح طُرّہ نکلا ہوا اور بالکل یہی شکل ہوتی ہے۔ وہ بڑے اچھے اور سادہ لوگ تھے۔ ہمارے جو دوست احمدی ہوتے ہیں یہ صحیح ہے کہ شروع میں بعض میں کمزوری ہوتی ہوگی کیونکہ ولی بن کر تو اس نے احمدی نہیںہونا بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احمدی ہوکر ولی بنے گا۔ اس کے لئے لمبے عرصہ تک تربیت کرنے کی ضرورت ہے بہرحال وہ لوگ بڑے مخلص احمدی ہیں۔ ہمارے ایک نوجوان ناتجربہ کا رمبلّغ نے ہمارے نائیجیریا کے پریذیڈنٹ جن کا نام بکری ہے ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھے ہوئے کوئی بدتمیزی کردی۔ بکری صاحب کا ایک بٹیا وہاں کی ہائیکورٹ کا جج بھی ہے اور مخلص احمدی (نائیجیریا کے دومسلمان جج ہیں اور دونوں احمدی ہیں۔ ایک ہمارا احمدی ہے اورایک باغیوں میں سے احمدی ہے بہرحال وہ بھی اپنے آپ کو احمدی ہی کہتے ہیں) بکری صاحب نے جو اس مبلغ کو جواب دیا اس سے پتہ لگتا ہے کہ بدتمیزی کی ہے۔ میں ایک پرانا احمدی ہوں او ر احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے۔ مجھ پر تمہاری اس بات کاکوئی اثر نہیں لیکن میں تمہیں یہ بتادیتا ہوں اگر تم نے نوجوانوں کے سامنے ایسی بات کی تو ان کو احمدیت سے دور لے جانے کے تم ذمہ دار ہوگے۔ وہ لوگ احمدیت کے عاشق اور بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں ان کا جوکیریکٹر ہے اور ان کی جوعادتیں ہیں وہ اتنی اچھی اور خوبصورت ہیں کہ مجھے بعض دفعہ فکر پیداہوتی ہے کہ وہ کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ کاہمارے ساتھ کوئی رشتہ تونہیں کہ جو مرضی ہم کریں اور وہ ہمارے اوپر مہربان رہے اوردوسرے اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دینے والے، اس کے زیادہ عاشق اور اس سے زیادہ محبت کرنے والے ہوں اور وہ انہیں بھلا دے یہ تو نہیں ہوسکتا۔ وہاں جونسل اس وقت پرورش پارہی ہے وہ بڑی سنجیدہ ہے حالانکہ تعلیمی لحاظ سے بڑے پیچھے ہیںلیکن اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قوم سعید فطرت لیکر پیدا ہو رہی ہے (دنیوی لحاظ سے بھی) مثلاً کوئی بچہ سڑک پر نہیں آئے گا۔ وہاں ڈرائیور کوکوئی خدشہ نہیںہوتا کہ وہ کسی انسان کو Knock downکردے گا اور اسے مصیبت پڑجائے گی اور اسی واسطے وہ بالعموم ستّراسّی میل کی رفتار سے کار چلاتے ہیںچنانچہ ہم نے بو ؔ (Bo) سے سیرالیون تک۱۷۰ میل کی مسافت سواتین گھنٹے میں طے کی۔ کوئی آدمی سڑک پر نہیں آتا۔ سڑک کے کنارے سے سات آٹھ سال کے بچے’ ُکداڑے‘ لگا رہے ہوتے ہیں مگر کیا مجال ان میں سے کوئی سڑک پر آجائے وہ سڑک کے کنارے یا دکانوں کے پاس رہتے ہیںمگر جہاں سے ٹریفک گزر رہی ہوتی ہے وہاں بالکل نہیں جاتے۔ ان کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ ایک چھوٹی افریقن بچی جسے ہم نے اپنی بیٹی بنایا ہے( اس کا باپ راضی ہوگیا تھا۔ اسے ہم ساتھ تو لا نہیں سکتے تھے۔ تیاری مکمل نہیں ہوسکتی تھی مثلاً پاسپورٹ وغیرہ بنوانا تھا) وہ بچی منصورہ بیگم کو اس لئے پسند آئی کہ تین گھنٹے کا جلسہ اور پانچ سال کی وہ لڑکی۔ منصورہ بیگم کہتی ہیں کہ وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی اور تین گھنٹے تک خاموشی سے بیٹھی رہی۔ یہاںتک کہ اس نے اپنی ٹانگ بھی نہیں ہلائی اور جلسہ کی کاروائی کو بڑی توجہ سے سنتی رہی حالانکہ اسے کچھ سمجھ نہ آرہا تھا۔ بچپن آخر اس کا بھی ہے صرف ہمارے بچوں کا بچپن تو نہیں ہوتا چنانچہ بچپن کی عمر نے بھی کوئی جوش نہیں دکھایا وہ ہلی تک نہیں بلکہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت نے اسے کہابھی کہ تم تھک گئی ہوگی اپنی ٹانگوں کو ہلائو جلائو مگر اس نے سُنی اَن سُنی کردی اور اسی طرح بیٹھی رہی۔
پس اس قسم کے بچّے وہاں پیدا ہورہے ہیں وہاں ہمارے سکولوں میں عجیب ڈسپلن ہے انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ زیادہ ڈسپلن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سکولوں میں پیدا ہوا ہے لیکن اس ڈسپلن کو قبول کرنے والے تو وہی افریقن ہی ہیں۔ وہ تعلیم میں بڑے اچھے جارہے ہیں۔ مجھے بھی بعض موقعوں پر(یہ نہیں کہ میں نے ان میں کوئی نقص دیکھا) یہ بات کہنی پڑتی تھی کہ پیچھے نہ دیکھو۔ یہ درست ہے تم مظلوم ہو کئی سَوسال تمہیں یورپی اقوام نے لُوٹا تمہیں تعلیم نہیں دی۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں اسلئے کہ اگر تعلیم کے اور مادی ترقیات کے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پربند ہوتے اور تمہیں اپنے مستقبل کی طرف پیٹھ کرنی پڑتی توتم پیچھے دیکھتے اور کُڑھتے، گالیاں دیتے اور بدلہ لینے کی سوچتے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے علم کے میدان میں بھی اور مادی ترقیات کے میدان میں بھی اور روحانی ترقیات کے میدان میں بھی ہمارے لئے بزرگ شاہراہیں کھول دی ہیں تو اب آگے بڑھو سامنے کی طرف دیکھو پیچھے کیوں دیکھتے ہو؟ ویسے ان کے اندر آگے بڑھنے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔وہ بڑی سمجھدارقوم ہے وہ توجہ سے پڑھتے ہیں اور وقت کو ضائع نہیں کرتے۔ اس لئے وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی ہے پتہ ہی نہیں ہوتا ایک صبح کو دنیا اُٹھ کر دیکھتی ہے کہ جس قوم کو لوگ پیچھے سمجھتے تھے وہ ان سے آگے نکل گئی ہے۔ جاپان کی تاریخ میں ایسا ہی ہوا یورپ سمجھتا تھا کہ کوئی ایشیائی ملک ان سے آگے نہیں نکل سکتا مگر ایک صبح کو انہیں یہ اقرار کرنا پڑا کہ جاپان ان سے آگے نکل گیا یا کم ازکم ان کے برابر آگیا ہے (اعلان تو شاید برابر آنے کاکیا تھا کیونکہ اپنے سے آگے نکل جانے کا تو وہ مان نہیں سکتے تھے) اور یہ اسلئے کہ جو ایک اندورنی تبدیلی رونماہوتی ہے، ایک نسل کے بعد دوسری نسل وہ مقام حاصل کررہی ہوتی ہے توکسی کو پتہ ہی نہیں لگتا۔ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
یہ جو افریقہ میں اگلی نسل پرورش پارہی ہے جسے میں دیکھ کرآیاہوں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور صداقت ان پر کھولے اور دین ودنیا کی حسنات سے ان کو نوازے ۔ وہ ایسے سعید فطرت ہیں کہ اگر ان کی صحیح تربیت کی جاسکے تو وہ دوسری قوموں سے آگے نکل جائینگے۔ روحانی لحاظ سے بھی وہ ہم سے آگے جاسکتے ہیں ہم نے کوئیMonopoly(اجارہ داری) تو نہیں کی ہوئی اللہ تعالیٰ سے۔ جو آدمی اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دے گا، جو اس سے زیادہ پیار کرے گا، جودنیا کو چھوڑ کر اس کی طرف زیادہ توجہ کررہا ہوگا اس سے وہ زیادہ پیار کریگا کیونکہ قرآن کریم میں جو اصول بیان ہوئے ہیں اس کے خلاف تو نہیں ہوسکتا۔
بہت سارےDigression(ڈائی گریشن) یعنی ادھر ادھر بھی میں گیا ہوں۔ حالات بھی بتائے تھے۔ جو بات میں نے آپ سے اس وقت کہی ہے وہ خلاصتہً یہ ہے کہ اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی اور جو اسلام کی جنگ لڑی جانی ہے اس کے بڑے محاذ ہیں(اور چھوٹے چھوٹے محاذ بھی ہیں کسی وقت ان پر بھی روشی ڈالوں گا) ایک دہریت اور لادینیت کا محاذ اور دوسرا نام نہاد عیسائیت کا محاذ۔ نام نہاد میں نے اسلئے کہا ہے کہ عیسائیت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے لیکن مادی لحاظ سے اور دنیوی طاقت کے لحاظ سے اس کا دنیا میں بڑا اثرورسوخ ہے۔ ایک خلافِ فطرت کام کرنیوالا افسر اورلیڈر جو ہے جہاں عیسائیت کا مقابلہ ہوگا وہ عیسائیت کی مدد کرجائیگا حالانکہ اس کے سارے اعمال اور زندگی عیسائی نقطہ نگاہ سے بھی گند میں ملوث ہے۔ یہ جنگ جو ہم نے عیسائیت سے لڑنی ہے اس کا فیصلہ افریقہ میں ہوگا کیونکہ اگر آج ہم افریقہ سے عیسائیت کو نکال دیں تو پھر ان کے لئے یہ بڑا ہی مشکل ہے سپین یا جنوبی امریکہ میںاس طرح اکٹھے ہوجانا اور Counter attack(کائونٹراٹیک) کے لئے جمع ہوجانا کہ جس میں انہیں کا میابی کی کوئی امید ہو۔
عیسائیت کے دلائل کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتنا زبردست لٹریچر جمع کردیا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ایک چیز کو لیکر اس کے پرخچے اڑا دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ نوجوانوں کے لئے ان کا ایک خلاصہ شائع کردیا جائے گا جس میں صرف حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ دلائل ہوںگے۔ عیسائیت کے ایک مسئلہ کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا تھا اس کے متعلق اب مختصراً ہی کچھ کہوں گا کیونکہ دیرہوگئی ہے اور یہ مسئلہ نجات ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک نجات کا مفہوم یہ ہے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بیان کیا ہے میں اسے اپنے الفاظ میں مختصراً بیان کررہاہوں) کہ انسان گناہ اور نسیان کے مواخذہ سے بچ جائے اور بس، یعنی گناہ تووہ کرتا رہے لیکن اسے سزا نہ ملاکرے یہ ان کے مسئلہ کفارہ سے استدلال ہوتا ہے۔میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا بہرحال عیسائی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان کے نزدیک نجات کے معنے یہ ہیں کہ ایک گناہگار بیشک گناہ کرتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میںبے شمار ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ خواہ ان کاکوئی مذہب ہویانہ ہو وہ اس قسم کے موٹے موٹے گناہ کرتے ہی نہیں۔ کیا مجال ہے کہ وہ زنا کریں، چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں یاکسی کوقتل کریں مگر پھر بھی کوئی عقلمند شخص انہیں نجات یافتہ نہیںکہہ سکتا۔ صرف اسلئے کہ وہ چوری نہیں کرتے، صرف اسلئے کہ وہ زنا نہیں کرتے ، صرف اسلئے کہ وہ ڈاکہ نہیں ڈالتے، صرف اس لئے کہ وہ قتل نہیں کرتے، صرف اسلئے کہ وہ لڑکیوں کو اغوا نہیں کرتے وہ نجات یافتہ نہیں کہلاسکتے۔ آپ نے فرمایا کہ نجات کا صحیح مفہوم ابدی خوشحالی اور دائمی مسرت ہے۔ یہ ابدی خوشحالی صرف اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب انسان کا اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پید اہوجائے اوریہ زندہ تعلق پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی معرفت اورشناخت حاصل نہ ہو کیونکہ جس شخص نے خدا تعالیٰ کی صفات کی شناخت ہی حاصل نہیں کی روحانیت میںاس کا اگلا قدم اٹھ ہی نہیں سکتا اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی شناخت کرلی، وہ شناخت جو انسان کو سنکھیا کے زہر کی ہوتی ہے اگرکوئی شخص اس کے سامنے اسکی قاتل ڈوز لاکر رکھ دے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ اگر میں اسے کھائوں گا تو مرجائوں گا گویا سنکھیا کی اسے شناخت ہوگئی او روہ اسے نہیں کھائے گا سوائے اس مجنون کے جسکی بات ہم نہیں کررہے یا جوخودکشی کررہا ہے۔
پس آپ نے فرمایا کہ جتنی شناخت ایک شخص کو زہر یعنی سمِّ قاتل کی ہوتی ہے اتنی شناخت بلکہ اس سے بڑھ کر شناخت اللہ تعالیٰ کی صفات کی ہونی چاہئے۔ جتنی شناخت ایک نہتے انسان کو شیر کی طاقت کی ہے اگراسے پتہ لگے کہ اس راستے پر شیر دیکھا گیا ہے اور وہ ایک دو آدمیوں کو پہلے مار چکا ہے توکوئی نہتا شخص وہاں سے کبھی نہیں گزرے گا۔ پس یہ شناخت ہی کا نتیجہ ہے کہ اسے ایک معرفت عطاہوئی کہ یہ راستہ خطرناک ہے۔ جتنی شناخت کسی کوایک زہریلے سانپ کے زہر کی ہے اگر اسے پتہ ہوکہ اس جگہ سانپ ہے تو وہ اس کے سوراخ میں کبھی اُنگلی نہیں ڈالے گا اگر اس قسم کی شناخت یا اس سے بڑھ کر شناخت اللہ تعالیٰ کی صفات کی ہے تو یہ ایک صحیح اور حقیقی اور کامل معرفت ہے لیکن اگر ایسی نہیں تو پھر ایک وہم ہے ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔ پس سچی خوشحالی اور دائمی مسرت کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت ضروری ہے۔ جب ہرایک کو اپنی بساط اوراپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی اس معرفت کے دو نتیجے نکلتے ہیں ایک تو چونکہ وہ نہایت عظمت اورجلال والی ذات ہے اس کی عظمت اورجلال کو دیکھ کر اور اس کے ساتھ ہی وہ بڑی حسین ذات ہے کیونکہ وہ سارے حسنوں کا منبع ہے اور سرچشمہ ہے ساری دنیا میں جہاں بھی حسن نظر آتا ہے وہ اسی کے حسن کا پر توہے اس کے حسن کا مشاہدہ کرکے اس کی شناخت پاکریہ خوف پیدا ہوتا ہے یہ عظیم ہستی جس نے مجھے پیدا کیا اور قویٰ دئیے وہ کہیں مجھ سے خفا نہ ہوجائے۔ جس خوف کا ہم نام لیتے ہیں وہ یہی خوف ہے(سانپ والا خوف نہیں) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہے۔
معرفت کے نتیجہ میں جودوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ محبت ہے کیونکہ حُسن بھی نظر آیا اور احسان بھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! مَیں تم پر بے شمار نعمتیں نازل کرتا ہوں۔ موسلا دھار بارش کے قطرے گنے جاسکتے ہیں لیکن میری نعمتیں نہیں گنی جا سکتیں پس جب انسان کواللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے جلوے نظر آجاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صحیح اور کامل اورحقیقی شناخت پالیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے پھر وہ اس چیز سے دوربھاگتا ہے جو اللہ تعالیٰ کوناراض کرنے والی ہوتی ہے اور ہر اس چیز سے پیار کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح معنوںمیں مائل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرتا ہے اس طرح اس کا اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہوجاتاہے اوریہ نجات ہے اسی میںدائمی خوشحالی اور مسرت ہے۔
پس افریقہ میں لڑی جانے والی جنگ کو جیتنے کے لئے ہم پر بہت ذمّہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں مَیں پہلے بیان کرچکاہوں مثلاًنصرت جہاں ریزروفنڈ قائم کیا گیا ہے ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے ہمیں ٹیچرز کی ضرورت ہے ڈاکٹروں اورٹیچروں کورضا کارانہ طورپرخدمات پیش کرنے کی جو میں نے تحریک کی تھی اس سلسلہ میں شاید ایک بات رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی ڈاکٹر ہوںاور ایسے ٹیچرز کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی وہاں کام کرسکیں یعنی وہ بھی بی۔اے، بی ایڈ یا بی۔ ایس سی، بی ایڈ ہوں کیونکہ وہاں بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمان لڑکی تعلیم میں بہت پیچھے ہے اور پردے میںغلو کررہی ہے۔ اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ وہاں بے پردگی نہیں اور بے پردگی سے پردہ میں غلو اچھا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کی مستورات علم سے (اورعلم دراصل خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں اور ان سے وہ) محروم ہیں۔ ہماری طرف سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ ایسے علاقوں میں باپردہ پڑھائی کا انتظام کیا جائے تاکہ اگلی نسل کی بچیوں کو ہم علم کے نور سے منور کرسکیں۔ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا۔ جب اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے پیار کا جلوہ دکھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ میں وہاں پانچ ہیڈزآف دی سٹیٹس سے ملاہوں۔ مَیں ایک غیرملکی نہ میری ان سے جان نہ پہچان مگر انہوں نے مجھ سے بے حد پیار کیا۔ ان پانچ میں سے تین توعیسائی تھے باقی دو غیر احمدی مسلمان تھے لیکن مجھ سے اس طرح ملتے تھے جیسے ان کا کوئی بزرگ ہو۔ مَیں دل میں حیران بھی ہوتا تھا اور الحمد للہ بھی پڑھتا تھا کہ میں تو بالکل عاجز اور ناکارہ انسان ہوں یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے۔ ایک جگہ ایک آرچ بشپ نے شروع میں تھوڑی سی شوخی کی تھی(اس کی تفصیل بڑی لطیف ہے بعد میں کسی وقت بتائوں گا) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ پر ایسا رُعب ڈالا کہ واپسی پر مصافحہ کرتے وقت اس طرح جھک گیا جس طرح اپنے بشپ کے سامنے جھُک رہاہو۔ اس وقت بھی میرے دماغ میں یہی آیا کہ تثلیث توحیدکے سامنے جھکی ہے یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ یہ شخص میرے سامنے جھکا ہے۔ میں تو ایک عاجز انسان ہوں میں نے اس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے موضوع پرباتیں کی تھیں جس سے وہ اتنا مرعوب ہوا کہ چلتے وقت اُسے جھکنا پڑا پس اللہ تعالیٰ تو بے حد فضل کرنے والا ہے۔ ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ معرفت یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتیںکیا ہیں؟ احمدیت کی زندگی کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حد رحم کرنے والا ہے وہ بڑا پیار کرنے والا اوراپنی بے شمار نعمتوں سے نوازنے والا ہے اگرہم پھر بھی الحمدللہ نہ کہیں تو ہم بڑے ہی بدقسمت ہوں گے۔ پھر تو وہ آگے جائیں گے جو الحمدللہ کہنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کی ہمیں توفیق دے اور ہمیں یہ بھی توفیق دے کہ ہم ہمیشہ سابقون میں رہیں کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔(آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۰؍اگست ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۷)
ززز








غلبۂ اسلام کے دن مجھے
افق پر نظرآرہے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء بمقام اسلام آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
آپ دوستوں کی یہ خواہش ہوگی کہ میں اپنے دورہ کے متعلق کچھ باتیں کہوں اورآپ میرے منہ سے وہ باتیں سنیں۔ بہت کچھ تو آپ رپورٹوں میں پڑھ چکے ہیں واقعات اور حالات کا یہ قریباً بیسواں حصہ ہوگا،کچھ تھوڑا بہت میں نے اپنے گذشتہ تین خطبات میںبیان کیا ہے۔ یہ خطبات انشاء اللہ چھپ جائیں گے اورآپ انہیں بھی پڑھیں گے۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جو دیکھنے سے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی تھیں ان کا بیان ممکن نہیں لیکن حِس اور جذبہ کی جن تاروں کو ان واقعات نے جنبش دی وہ حرکت احساس میں اورجذبات میں سالوں سال قائم رہے گی۔ اس وقت میں مختصراً چند عمومی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ میںنے ان اقوام کو کیساپایا؟ جہاںتک میں نے غور کیا اورجہاںتک میرے مشاہدہ میںآیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقوام بڑی شریف النفس سعید الفطرت اور سادہ مزاج ہیں ان کے معاشرہ کے بعض پہلو ہم پاکستانیوںکے لئے بھی قابلِ رشک ہیں مثلاً وہاں افسر اورماتحت میں اتنی دُوری نہیں جتنی کہ ہمیں یہاں نظر آتی ہے بعض دفعہ جب ہم بڑے بڑے افسروں سے ملنے جاتے ہیں تو نسبتاً جونیئر افسر ہمارے وفد میں شامل ہوتے وہ بے دھڑک وہاں پہنچتے اور ذرا ذرا سی بات کا اس طرح خیال رکھتے جس طرح اس دفتر میں انہی کی حکومت ہو اور ہیڈ آف دی سٹیٹ سے بھی بڑے دھڑلے سے ملتے۔ وزراء کا یہ حال ہے کہ مجھے ایک پرنسپل نے بتایا کہ جب سکول میںداخلے کے دن ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک دن میں چھ چھ وزیر میرے پاس بعض بچوں کی سفارش لے کر آتے ہیں۔ نائیجیریا میں مَیں نے سکوتو کے گورنر (سکوتو،نارتھ ویسٹ سٹیٹ ہے یعنی شمال مغربی صوبہ اسے انہوں نے سٹیٹ کہا ہے نئے Constitution(آئین) کے مطابق انہوںنے اپنے ملک کو بارہ صوبوںمیں تقسیم کردیا ہے۔ یہ سکوتو مسلمانوں کاعلاقہ ہے) کے پاس جس دوست کو بھیجا تھا وہ کیبنٹ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ چنانچہ وہ بڑے دھڑلے سے گئے اور گورنر سے گفتگو کی اور میری تجویز کو ان کے سامنے ایسے انداز میں پیش کیا کہ وہ گورنر صاحب بڑے خوش ہوئے اور انہوںنے ہماری پیش کش کوجو دراصل انہی کے فائدے کے لئے تھی قبول کرلیا اور اب جو رپورٹ مجھے موصول ہوچکی ہیں ان کے مطابق انہوں نے ہمارے سکولوں کے لئے ۴۰۔۴۰ ایکڑ زمین بھی دے دی ہے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔
غرض یہ بُعد جو افسر اور ماتحت کا ہمیں یہاں نظرآتا ہے وہ مغربی افریقہ کی ان اقوام میں مجھے نظر نہیں آیا۔ ہم جبReception(ری سیپشن) میں جاتے تھے تو وزراء اور کمشنرزیاڈی سی (وہ مختلف نام استعمال کرتے ہیں) آپس میںاس طرح گھلے ملے ہوتے تھے کہ آپ پتہ نہیں کرسکتے تھے کہ کون منسٹر ہے اور کون چھوٹا افسر ہے۔ وزراء کے علاوہ ہر دفعہ وہاں کے Ambassador(سفیر) بھی ہوتے تھے۔ بڑے بڑے امیر بھی ہوتے تھے،بڑے اثرورسوخ والے سیاسی لیڈر بھی ہوتے تھے اور سب وہاں اس طرح گھوم رہے ہوتے تھے کہ کسی آدمی کو جوباہر سے گیا ہوذاتی طورپر ان سے واقف نہ ہو یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ وزیر صاحب ہیں اور یہ حکومت کا ایک معمولی افسرہے یا یہ ملک کا ایک معمولی دکاندار ہے۔
دوسری چیز جو مجھے وہاں نمایاں طورپرنظر آئی وہ یہ ہے کہ جوبُعد امیر اورغریب میںہمیں یہاں نظر آتا ہے وہاں نظر نہیں آتا۔ ایک تو بظاہر لباس کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ جہاں تک صفائی کا تعلق ہے ایک چپڑاسی بھی اتنے ہی صاف کپڑوں میں آپ کو نظر آئے گا جتنے صاف کپڑوں میں ایک وزیر نظر آئے گا اور ویسے بھی کپڑوں میں بہت سادگی ہے ہمارے ملک میں توہزاروں لوگ ایسے ہیں جو چارپانچ سوروپے گز سے کم والے سوٹ کو پہننے کیلئے ذہنی طورپر تیار نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرہ میں بہت سا گند آکر شامل ہوگیا ہے البتہ مغربی افریقہ کے لوگوں کو جُبّے پہننے کا بہت شوق ہے اور رنگدار کپڑوں کے استعمال کامردوں کو بہت شوق ہے میںنے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں عورتیں اتنے رنگ برنگے کپڑے نہیں پہنتیں جتنے کہ وہاں مرد پہنتے ہیں اور پھر نئے سے نئے ڈیزائن رنگ کے لحاظ سے پھولوں کے لحاظ سے ان کے جُبّوں پر نظرآتے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا اور میں نے اس بارہ میں غور کیا۔ ہم موٹر پر جارہے تھے۔ مجھے میل دومیل کے اندر سینکڑوں جُبّے نظرآئے مگر ان میں سے کوئی دوجُبّے ایک رنگ کے نہیں تھے۔ پتہ نہیں وہ کس طرح اتنے مختلف ڈیزائن بنا لیتے ہیں۔ وہ بہرحال بناتے ہیں کیونکہ یہ وہاں کی مانگ ہے۔ ویسے جب وہ جُبّہ بدلتے ہیں تو ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں۔ ہم پہچان نہیں سکتے تھے کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو کچھ دیر پہلے تھا جس نے کپڑے بدل لئے اور اب کچھ اور لگتا ہے میں اس سلسلہ میں آپ کو ایک لطیفہ بھی سنا دیتا ہوں۔
ہم نے جس روز اجے بواُوڈے جانا تھا اس سے پہلی رات ہمارے ایمبیسیڈرکے ہاں ہمارا کھانا تھا۔ ان کی بیوی نے پتہ نہیں کیوں منصورہ بیگم سے کہا کہ یہ علاقہ بڑا خطرناک ہے آپ کو دیر ہوجائے گی۔ آپ کوشش یہ کریں کہ سورج غروب ہونے سے قبل واپس لیگوس پہنچ جائیں۔ غرض اس نے وہاں کے حالات کا اچھا خاصا بھیانک نقشہ کھینچا جو میرے نزدیک غلط تھا۔ بہر حال جب انہوںنے یہ کہا اور مجھے اس کا پتہ لگا تو میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ ہمارے احمدی پولیس افسر بھی ہوںگے اور فوجی افسر بھی ہونگے، کسی کو کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ چلے۔ چنانچہ انہوںنے ایک میجر کی ڈیوٹی لگائی۔اس نے کہا کہ میں اپنے دفتر کاکام ختم کرکے دوپہر کے بعد اپنی آرمڈیونٹ لے کر پہنچ جائوں گااورواپسی پر آپ کے ساتھ آئوں گا۔ کوئی۷۰۔۸۰ میل کے فاصلے پر وہ جگہ تھی۔ چنانچہ وہ وہاں پہنچے اور جب مجھ سے ملے تو وہ یونیفارم میں تھے جب ہم واپس لیگوس اپنے ہوٹل میں پہنچے تو وہ مجھے نظر نہ آئے۔ میں نے سمجھا شاید انہوں نے جلد اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہو اور وہ راستے سے ہی اپنی بیرک میں چلے گئے ہوں۔ میں نے دوستوں سے پوچھا کہ ہمارے میجر صاحب ہمارے ساتھ تھے کیا وہ راستے ہی سے چلے گئے ہیں کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے کہ یہ پانچ قدم پر آپ کے سامنے کھڑے ہیں ہوا یہ تھا کہ موٹر ہی میں انہوںنے اپنی یونیفارم اُتار کر اپنا جُبّہ پہن لیا تھا اور اس سے ان کی شکل بھی بدل گئی تھی ممکن ہے کہ اس طرح ایک غیر ملکی کیلئے انہیں پہچاننا آسان نہ ہو لیکن میرا تو خیال ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں کیونکہ انسان کی شکل صرف اسکے چہرے کے فیچرز یعنی نقوش ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا لباس ہے اور اسکی طرز ہے ان ساری چیزوں کے ملنے سے دماغ میں کسی شخص کی شکل کا ایک تصور قائم ہوتا ہے۔
بہر حال امیر اور غریب میں جو بُعد یہاں پایا جاتا ہے، اور جوتفریق یہاں پائی جاتی ہے وہ ان ملکوں میں نہیں پائی جاتی۔ میںنے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہماری جس احمدی بہن نے اکیلے پندرہ ہزار پائونڈ سے زیادہ خرچ کرکے اجے بواوڈےؔ میں مسجد تعمیر کروائی ہے جس کا میں نے افتتاح کیا تھا وہ ہماری بہت بڑی جامع مسجد ہے۔ میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کیلئے اور عام مزدور یا جو ان کی وہاں نوکرانیاں تھیں؛ ان کے لئے جو کھانا پک رہاتھا وہ مختلف نہیں تھا بلکہ ایک ہی کھانا تھا جس میں وہ بھی شامل ہوئی ہوں گی۔ انہوں نے میرے سامنے تو نہیں کھایا البتہ میرا اندازہ تھا کہ کوئی الگ کھانا نہیں پک رہا چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیاتو میراخیال درست تھا معلوم ہوا کہ ایک ساتھ اکٹھے کھانے پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بعض دفعہDiscontentment(بے اطمینانی) اور بددلی ہمیں یہاں نظرآتی ہے وہاں یہ نظر نہیں آتی۔
بڑا عجیب نظارہ ہے میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک دن بہت مصروف پروگرام تھا۔ہم نے ایک جگہ سے دوسری جگہ موٹروں پر جانا تھا میں نے دوستوں سے کہا کہ ایک تو پیار ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے دوسرے مسکراہٹ کا جواب ہمیشہ مسکراہٹ سے ملتا ہے اور میںآج یہ کرتا رہا ہوں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ میں نے لیگوس کے باشندوں سے کم ازکم پچاس ہزار مسکراہٹیں وصول کیں اور کسی جگہ میں نے مایوسی افسردگی اور بے زاری یاDiscontentment(بے اطمینانی) نہیں پائی۔ وہ سب بڑے خوش اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے حالانکہ وہ ابھی سول وار جیت کر ہٹے تھے اس کے سکارز(Scars) کہیں تو نظر آنے چاہئے تھے مگر کہیں بھی نظر نہیں آئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب امیر اور غریب ایسے ہوں کہ ان کے رہن سہن میں زیادہ فرق نہ ہوایک دوسرے سے نفرت کا اظہار نہ ہو تکبّر اور غرور نہ ہوتو وہ قوم خوشی اور بشاشت کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس چیز پر بھی استقامت بخشے اور باہر کے غیر ملکی گندے اثرات ان کے معاشرہ کوگنداکرنے میںکامیاب نہ ہوں جیسا کہ نائیجیریا کو تباہ کرنے کے لئے کوششیں کی گئی تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں مُفسد دنیا کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔
جب میں یعقوبوگوون سے ملا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر کچھ ایسا تصرف کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ نصف گھنٹے تک اس طرح بیٹھا رہا کہ جس طرح اس کے گھر کاایک فرد ہو وہ بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتا رہا امریکن اور یورپین اقوام جو وہاں فساد پیدا کرنا چاہتی تھیں وہ ان پرجو تنقید کررہا تھا وہ توکرہی رہا تھا مجھے اس نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی عیسائی مشنز (خودوہ عیسائی ہے) نے پورا زور لگایا کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، ہمارا ملک تباہ ہونے سے بچ گیا میںنے اس سے کہا کہ تمہاری قدر میرے دل میں اس لئے بھی ہے (ویسے میں نے اسکے متعلق اور بھی بہت سی معلومات حاصل کی تھیں وہ بڑے ہی اچھے دل کا مالک ہے) کہ میں پورے غور سے عوام کو سڑکوں اوردکانوں کے سامنے دیکھتا رہاہوں مگر میں نے کسی جگہ بھی یہ محسوس نہیںکیا کہ تمہاری خانہ جنگی کا قوم پر کوئی اثر ہو۔ ویسے تو وہ ہرایک کا خیال رکھتا ہے اس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اسے یہ کہا کہ دیکھو! تم نے سول وار جیتی ہے اور یورپین اقوام کی مخالفت اورمداخلت کے باوجود جیتی ہے یہ تمہارا بڑا کارنامہ ہے تمہارے کندھوں پر بڑا بوجھ آپڑا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری اور مشکل کام اب تمہیں کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم نے بیافرا کو ویسے توجنگ کے ذریعہ جیت لیا ہے لیکن ان کے دلوں کو جیتنا ابھی باقی ہے اس لئے کوئیHeat generate(ہیٹ جنریٹ) نہیں ہونی چاہئے اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو اور ان کے ساتھ پیار کا معاملہ کرو۔ چنانچہ اس نے میری اس نصیحت کوبڑی بشاشت سے سنا اور مجھے کہنے لگا کہ مجھے اس وقت کا خود بھی خیال ہے میں ان سے یہی سلوک کروںگا۔ وہ میرا بڑاممنون تھا۔
چونکہ ان کامعاشرہ بہت سے گندوں سے محفوظ ہے اس لئے آپ کو ہنستے کھیلتے چہرے نظر آئیںگے ،بڑے ہشاش بشاش، کوئی شکایت نہیں، کوئیDiscontentment (بے اطمینانی) نہیں، کوئی بددلی نہیں، کوئی اداسی نہیں، کوئی یہ خیال نہیں کہ انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے آپس میں ایک دوسرے کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور یہی پیغام میں لیکر گیا تھا۔ اس واسطے ان کو اس نے اپیل کیا۔
میں نے ایک دن انہیں یہ بھی کہا کہ میں آج تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہاری عزت اور احترام کا دن طلوع ہوچکاہے اب دنیا تمہیں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔ میرے ذہن میں تویہ تھا کہ ان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث کیا۔ اس لحاظ سے ہم اُن کے محافظ ہیں اُن کی عزت واحترام کے، اورہم محافظ ہیں ان کی جانوں اور مالوں کے، اورہم محافظ ہیں شیطانی یلغاروں سے انہیں بچانے کے یعنی شیطان سے بچانے کا جو کام ہے وہ ہمارے سُپرد ہے اورجو ان کی ضرورتیں ہیں وہ حتی الوسع ہم نے پوری کرنی ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے میں سمجھتا ہوں اس وقت کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے علم سے یہ اعلان کیاتھا کہ افریقہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے اور یہ اب نظر آرہا ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہیں تو وہ لوگ بہت جلد اسلام کو، احمدیت کو قبول کرلیں گے اورپھر اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا Sweet revenge(سویٹ ریوینج)کی۔ میں آپ کو کہتا تھا ہم نے ایک حسین انتقام ظالموں سے لینا ہے۔ وہاں ہمارے عبدالوہاب ہیں جامعہ سے پڑھ کرگئے ہیں بڑے مخلص اور بڑے مستعداور ہمت والے مبلّغ ہیں۔ وہ نہایت اچھا کام کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بیوی بھی بڑی اچھی دی ہے، اس کے دل میں بھی اسلام کا درد اور احمدیت کا پیار ہے۔وہ سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے میں مشغول رہتی ہیں۔ ان کے علاقے میں جاکر اوریہ حالات دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ۔ میں نے عبدالوہاب سے کہا کہ تیارہوجائو، ہمارے حسین انتقام کے دن قریب آرہے ہیں اور میں نے وہاں اعلان کردیا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میںزندہ رہا تومیں یامیرے بعد جو بھی ہوگا وہ تمہیں گلاسکومشن کا انچارج بناکر بھیجے گا۔ وہ قومیں جو صدیوں تک تم پر ظلم کرتی رہی ہیں انہیں یہ پتہ لگنا چاہئے کہ تم لوگ اس قابل ہو کہ دین کے میدان میں پیار کے میدان میں اور محبت کے میدان میں اور ہمدردی اور غم خواری کے میدان میں،خدمت کے جذبہ کے میدان میں اورمساوات کا پیغام دینے کے میدان میں تم ان کے استاد بنوگے انشاء اللہ۔ ان سے میں نے کہہ دیا کہ تم چار سا ل کے بعد ربوہ آئو گے اور یہاں اپنی انگریزی (ویسے تواچھی خاصی جانتے ہیں) اور زیادہ improve(بہتر) کروگے اور پھریہاں سے تمہیں گلاسکو بھیج دیں گے ان کے ملک کوبھی میں نے کہہ دیا ہے کہ ہمارا تو یہ پروگرام ہے۔
ہمارے ایک بڑے مخلص افریقن کماسیؔ میں جوغانا کا ایک مشہور شہر ہے۔ ہمارے ایک سکول کے ہیڈماسٹر ہیں وہاں کے ملک کی یہ پالیسی ہے اور یہ درست ہے کہ جو استاد یا پرنسپل انہیں افریقی ملے گا اس کی جگہ وہ غیر ملکی کونہیں رکھیں گے چنانچہ شروع میں ہمیں یہ خیال تھا کہ کہیں اس کا ہمارے سکولوں پربُرا ثر نہ پڑے لیکن چونکہ وہاں کا معاشرہ کچھ اوررنگ رکھتا ہے عملاً یہ ثابت ہوا کہ کوئی بُرا اثر نہیں پڑا لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمارے کماسی کے اس نہایت اعلیٰ اور مقبول اور بہت ہی کامیاب سکول (جوہمارے انٹر میڈیٹ کالج کے برابر ہے) کا جو افریقی پرنسپل مقرر کیا گیا وہ ایک احمدی تھا اس سے بھی میں نے کہا کہ تم بھی تیار ہوجاؤ ممکن ہے کسی دن میں تمہیں پاکستان میں بلا کر یہاںکے کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر بنادوںکیونکہ جہاںتک احمدیت کا تعلق ہے کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہے۔’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ‘‘(الحجرات:۱۴) میں ’’کُمْ‘‘کے مخاطب پاکستا نی نہیں یا صرف پہلے عرب نہیں تھے۔ بلکہ ہر انسان اس کا مخاطب ہے جو بھی تقویٰ میں آگے نکل جائے گاخواہ وہ فرد ہو یا قوم اللہ تعالیٰ کو وہ دوسرے فردیا قوم سے زیادہ پیارا ہو گا اور جو آگے نکل گئے ہیں اپنے خلوص اور قربانیوںمیں،بہرحال ہمارا یہ کام ہے جماعت احمدیہ کے خلفاء کا یہ کا م ہے کہ ان کو دوسروں کی نسبت زیادہ عزت اور احترام دیں، پس وہ بھی یہاں آئیںگے جس طرح ہم یہاں سے مبلّغ اور پرنسپل وہاں بھجوارہے ہیں وہاں کے لوگ یہاں آئیں گے اورپھر دوسرے ملکوں میں جائیںگے۔ ساری دنیا کو پتہ لگے گا کہ وہ حسین معاشرہ پھر دنیا میں قائم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں اور پھر جب اسلام غالب آیا توساری دنیا میں قائم کیا تھا۔ ہماری اسلامی تاریخ میںمیرے خیال میں درجنوں ایسے بادشاہوں کے خاندان ہوں گے جو حبشی غلاموں سے تعلق رکھتے تھے۔ مثال تو اس وقت میں(وقت کی رعایت سے) جوبہت ہی حسین اور نمایاںہے وہ دیتا رہا ہوں۔ تین چار موقعوں پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی مثال میں نے بیان کی ویسے حضرت بلالؓ کے ساتھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوربھی پیار کے سلوک کئے ہیں۔ وہ بھی بڑی حسین مثالیں ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے پھر کبھی توفیق دی اور وہاں جانے کا موقعہ ملا تو اور بہت ساری مثالیں دے دیں گے اس دنیا میں اور اس وقت بھی میرے خیال میں پاکستان کے بہت سے سمجھتے ہوں گے کہ انسان، انسان میں فرق ہے۔ اسلام تو انسان انسان میں فرق مٹانے کے لئے آیا تھا۔ قائم کرنے یا قائم رہنے دینے کیلئے نہیں آیا تھا ایک حبشی اپنے تصور میں لے آئو جس قسم کا وہ ہوتا ہے(ویسے عملاً وہ ویسا ہی ہوتا ہے) یہاں انگریزنے ہمارے بچپن میںجو تصور دیا تھا وہ یہ تھا کہ حبشیوں کے ہونٹ لٹکے ہوئے اور نچلا ہونٹ ٹھوڑی کے کنارے تک پہنچا ہوا اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں جس طرح کی شکل وہ شیطان کی بناتے تھے اسی طرح کی شکل حبشی کی بھی بنا دیتے تھے مگروہاں ایسا نہیں۔ الَّا مَاشَائَ اللّٰہ بعض اس سے ملتی جلتی شکلیں تو ہیں لیکن اتنی بھیانک نہیں ہیں ان کے بڑے تیکھے نقوش(اور اسوقت جودوست میرے سامنے بیٹھے ہیں عام طور پر ان سے ملتے جلتے چہرے) ہم نے وہاں دیکھے ہیں خصوصاً احمدیوں میں اور پھر دوسرے مسلمانوں میںاس قسم کے بھدّے اور ڈرائونے نقوش نہیں ہیں البتہ عیسائیوں میں مجھے کہیںکہیں نظر آئے ہیں۔ پتہ نہیں اس میں کیا حکمت ہے؟
بہرحال ایک حبشی جو مکہ کے پیرامائونٹ چیفس کا غلام تھا۔ اور وہ اسکے ساتھ نفرت اور حقارت کے ساتھ پیش آتے تھے ان کے دلوں میں اس کی کوئی عزت نہیںتھی کسی قسم کی عزت کا اظہار ان سے نہیں ہواکرتا تھا۔پھر خدا کاکرنا کیا ہوا کہ یہی حبشی غلام جوان کی نگاہوں میں بڑا ذلیل تھا اللہ تعالیٰ نے اسے نور دکھایا اور وہ اسلام لے آیا۔ پہلے صرف نفرت اور حقارت تھی اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم بھی ہوگیا اُنہوں نے اس کو اس طرح اذیت پہنچائی کہ آج بھی ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک مسلمان کو خیال آیا اس نے اسے خرید کر آزاد کردیا اور وہ مسلمان معاشرہ کاایک فردبن گیا۔ مسلمان معاشرہ کا فرد تو ویسے اسلام لانے کے بعد ہی بن گیا تھا مگر غلامی کی زنجیروں کی وجہ سے عملاً مسلمان معاشرہ کا فرد نہیں بن سکا تھا۔ پھر وہ بڑے سے بڑے مسلمان گو اس وقت چند ایک ہی سہی کیونکہ اس وقت رؤسائے مکہ میں سے چند ایک مسلمان ہوچکے تھے، ان کے برابر ہوگیا اوروہ عملاً ان کی زندگیوں کے برابر تھا کوئی فرق نہیں تھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے فتح مکہّ کے موقع پر انسانیت کو وہ عظیم نظّارہ دکھایا کہ دنیا کی تاریخ جس کی مثال نہیں لاسکتی۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کروایا(میںنے تصور کی نگاہ سے وہاں کا نقشہ اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے) لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ ایک نیا جھنڈا کیوں تیار کروایاجارہاہے۔ بہرحال ایک جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا یہ بلال کا جھنڈا ہے۔ آپ نے اس جھنڈے کو بلال کا نام دیا اور ایک جگہ اسے نصب کروادیا اورپھر انہی رؤسائے مکہّ کو فرمایا کہ جس شخص کو تم نفرت اورحقارت سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم ظلم ڈھایا کرتے تھے آج اگر پناہ چاہتے ہوتو اس کے جھنڈے کے نیچے آجائو یہ ایک مثال ہے جو درجنوں مثالوں میں سے نظر آتی ہے۔ ہمارا یہ دعویٰ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں تبھی کسی حقیقت اور صداقت کا حامل بن سکتا ہے اگرہم اس کے مطابق عمل کریں تاہم اس حصہ کو میں بعدمیں لوں گا۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ حسنہ میرے سامنے تھا چنانچہ ان کے سامنے جب میں یہ بات بیان کرتاتھا مختلف موقعوں پر مختلف لوگوں کے سامنے کیونکہ ملک بھی دوسرا ہوتا تھا اور جگہ بدلنے سے۹۹فیصد جو اس جلسے میں ہوتے تھے وہ بھی مختلف ہوتے تھے بلامبالغہScientific Explanation(سائنٹیفک ایکس پلے نیشن) تو میرے ذہن میں نہیںآیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کی خوشی صوتی لہروں میں بھی ایک ارتعاش پیداکرتی تھی بغیر آواز کے اور میرے کانوںنے ان کی خوشی کی لہروں کو محسوس کیا اور اس کا اثر صرف مسلمانوں پرہی نہیں ہوتا تھا ان کو توتھوڑا بہت پہلے سے علم ہے عیسائی بھی متاثر ہوتے تھے اور وہ مشرک اور بدھ مذہب جن میں ابھی تک بڑی ظالمانہ رسوم رائج ہیں وہ بھی سنتے تھے کہ اسلام کا پیش کردہ صداقت اورمحبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور خدمت اور سلام مساوات کا یہ اعلان ہے اور یہ سلوک ہے تو اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے غرض کیا عیسائی اور کیا مشرک اور بدھ مذہب جب ہماری ان باتوں کو سنتے تھے تووہ اتنا اثر قبول کرتے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ٹیچی مان میں عبدالوہاب بن آدم ہمارے مبلّغ ہیں جو انشاء اللہ گلاسکو میں جا کر وہاں کے انچارج مشن بنیںگے وہ بڑا اچھا کام کررہے ہیں۔وہاں ہم گئے تھے انہوں نے وہاں بہت بڑی مسجد بنوائی ہے جو آپ کا نقشہ ہے اس مسجد کا اس سے چار گنا بڑی ہے۔ میں نے اس کا افتتاح کرنا تھا دوستوں سے ملنا تھا وہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت کا اتنارعب ہے کہ بڑے بڑے پادریوں کو بھی مجبوراً ہمارے جلسوں میں شامل ہونا پڑتا ہے کچھ تو انہوں نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کام کیا کررہے ہیں؟ اور کس طرف ان کا رُخ ہورہا ہے؟ غرض اس جلسہ میں جو پادری آئے ہوئے تھے ان میں اس سارے علاقے کے کیتھو لک مشنز کا انچارج بشپ بھی موجودتھا۔ لیکن بیٹھا شروع میں اس طرح تھا کہ جیسے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے مجبوری تھی شامل ہوگیا ایک موقعہ پر تقریر کے دوران میں مَیں نے کہاOne who was paramount prophet.
(پیرامائونٹ چیف ان کا محاورہ ہے میں نے ان سے عاریتہ لے لیا) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمہارے کان میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ (حٰم السجدہ:۷) میں تمہارے جیسا انسان ہوں،تم میرے جیسے انسان ہو۔ بشرہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو پھر
"Those who were junior to him like moses and christ."
وہ بھی انسان ہی تھے ۔ اس لحاظ سے وہ تم پر کیسے برتری کادعویٰ کرسکتے ہیں؟ وہ پادری صاحب اُچھل کر بیٹھ گئے کیونکہ انہیںپتہ تھا کہ لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔پس میں نے ان کو بڑا شریف النفس، سعید الفطرت اورسادہ مزاج پایا اورمیں نے ان کو جو دیا وہ اسلام کا یہ پیغام تھا کہ اِنسان انسان میںکوئی فرق نہیںہے ہر ایک سے محبت کرنی چاہئے۔ اُردو میں جس معنی میں محبت کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس معنے میں مَیں اس کواستعمال کررہا ہوں کیوںکہ میں اردو میں بات کررہا ہوں(عربی میںایک اور معنے میں استعمال ہوتا ہے وہ یہاں استعمال نہیں ہوسکتا) جس کو ہم پیار اور محبت کہتے ہیں۔ اسلام کا وہ پیغام ہے ہمدردی اور خیرخواہی اور مساوات کا کہ کوئی فرق نہیں کرنا۔ اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان سے بڑا نہیں سمجھنا۔ یہ پیار مَیں ان کے پاس لے کر گیا تھا، یہ محبت میں ان کے پاس لے کر گیا تھا۔ ہمدردی اور غم خواری اور خدمت کا یہ جذبہ اور مساوات کا یہ اعلان میں ان کے پاس لے کر گیا تھا اوراس کے وہ حق دار تھے۔
ابھی چند دن ہوئے مجھے عبدالواہاب ہی کا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ آپ نے احمدی غیر احمدی، بڑے چھوٹے، عیسائی اور مشرک ہرایک سے جس قسم کی شفقت کاسلوک کیا ہے اس کی یاد ہماری قوم کے دل سے نہیں مٹے گی۔ میں نے ان کو جوجواب دیاوہ یہ ہے کہ جو میں نے دیا وہ ان کاحق تھا ان کا جو حق تھا وہ میں نے انہیں دے دیا اس واسطے میں نے کیااحسان کیا میں سوچا کرتا تھا کہ میں بچوں کو جو پیار کرتا تھایہ ان کا حق تھا میںان کو دے رہاہوتا تھا اب پیار پر نہ دھیلہ خرچ ہونہ وقت خرچ ہو لیکن اتنا اثر ہوتا تھا کہ اگرآپ لاکھ روپیہ خرچ کردیں تو اس کا شاید اتنا اثر نہیں ہوگا وہ پیار کے بھوکے ہیں کیونکہ وہ صدیوں پیار کی آواز میں گم ہوکر غیر ملکوں کی توپوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ میں نے بہت سے عیسائیوں کو کہا کہ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں(ضمناً میں یہ بتادوں کہ جو سچ ہے اسے بہرحال تسلیم کرنا چاہئے جوامرِ واقعہ ہے اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں۔ غرض میںنے اُن سے کہا) کہ جب تمہارے ملکوں میں عیسائی پادری داخل ہوئے تو انہوں نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ ہم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ لیکن ان کے پیچھے پیچھے ان ممالک کی جہاں سے وہ آئے تھے۔ فوجیں تمہارے ملکوں میں داخل ہوئیں توپ خانے بھی ساتھ آئے، گو ان توپوں کے مونہوں سے پھول نہیں جھڑ تے تھے بلکہ گولے نکلے تھے اور پھر جس طر ح ان ملکوں نے تمہیںExpliot(ایکسپلائٹ) کیا اور پھر جس طرح تمہیں تباہ کیا اس کے متعلق مجھے کہنے کی ضرورت نہیں تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو کیونکہ تم صدیوں سے اس ظلم کا شکار بنے رہے ہو۔اب میںمحبت کا پیغام لے کر آیا ہوں لیکن میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم قریباً پچاس سال سے تمہارے ویسٹ افریقہ میں کام کررہے ہیں اوراس عرصہ میں ہم نے کبھی تمہاری سیاست میں دلچسپی نہیں لی اور کبھی تمہاری دولت پر حریصانہ نگاہ نہیں ڈالی۔ ہم نے یہاں بہت کچھ کمایا جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہمارے کلینک وہاںبہت کماتے ہیں۔ کانو ؔمیں ہمارے کلینک کے پاس پندرہ ہزار پائونڈ زیادہ جمع ہوگیا تھا۔ ڈیڑھ دوسال ہوئے انہیں یہاں مرکز سے ہدایت کی گئی کہ اس رقم کو اسی ہسپتال کی عمارت پر خرچ کردو پہلے وہ کلینک تھا اب ایک نہایت شاندار ہسپتال بن گیا ہے چنانچہ اسی طرح کی بیسیوں مثالیں ہیں ہم نے ایک دھیلہ ان ملکوں سے باہر نہیں نکالا۔ میرے خیال میںاس وقت تک لاکھوں پائونڈ باہر سے لے جاکر ان ملکوں میں خرچ کرچکے ہیں وہاں کی حکومتوں کوبھی اس کا علم ہے اور وہاں کے عوام کو بھی اس کا علم ہے۔پس میں نے کہا کہ ہم پچاس سال سے تمہارے پاس ہیں اور جوبھی یہاں کمایا وہ تم پرخرچ کردیا باہر سے جوکچھ لائے وہ بھی تم پر خرچ کردیا۔ ہم نے تمہیں سچااور حقیقی پیار دیا اور اس کے متعلق تم سب کچھ جانتے ہو اور یہ چیز ان پراثر کئے بغیر نہیں رہتی تھی میں ان سب ملکوں میںاپنی طرف سے بعض چیزیں امتحاناًکیا کرتا تھا۔ ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ میں انہیں کہتا تھا تم سوچو اورمسلمان ہوجائو مگر کسی ایک نے مجھے یہ نہیں کہا کہ نہیں ہم مسلمان نہیںہوسکتے یا احمدی مسلمان نہیں ہوتے ہرایک نے یہی کہا ٹھیک ہے ہم سوچیں گے اور غور کریں گے اورپھر احمدیت اوراسلام کو قبول کرلیں ہم نے ان کے اوپر پیارکاہاتھ رکھا ہے اورپیار کی لَم￿س لَم￿س جو ہے اس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ دوسروں کو وہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا پیارکرتے ہیں ہماے مبلّغوں کی رپورٹ کے مطابق افریقن یہ سوچ ہی نہیںسکتے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم بھی پیدا ہوسکتی ہے جو ان کے بچوں کو پیارکرے اورمیں نے وہاں ہزاروں بچوں کو اٹھایا ان سے پیار کیا۔ویسے پانچ ،سات سال کے جوتھے انہیں بغیر اٹھائے جھک کر پیار کیا۔ یہ دیکھ کر ان کی عجیب حالت ہوتی تھی ایک قسم کے مست ہوجاتے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ خیر وہاں جوہوا وہ توہوا مشرقی افریقہ کے ایک ملک زمبیا کے ایک وزیر انگلستان میں کسی کامن ویلتھ کانفرنسAttend(اٹنڈ) کرنے آئے ہوئے تھے۔ جس روز ہم وہاں سے پاکستان کے لئے روانہ ہورہے تھے اسی روز انہوںنے بھی روانہ ہوناتھا اور اتفاق کی بات ہے کہ اسی کمرہ میں وہ بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں ہم نے بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھنا تھا۔ ان کے ساتھ زمبیا کے ہائی کمشنر اور ان کا آٹھ دس سال کا ایک بچہ بھی تھا۔ چنانچہ انہوںنے کہا ہم ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان سے مِلا اور پانچ سات منٹ تک ان کے ساتھ باتیں کیں۔ پھروہ اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گئے میں اپنے دوستوں کے ساتھ آکر بیٹھ گیا ایک احمدی دوست کو خیال آیا وہ ایک پائونڈ کا نوٹ لے کر میرے پاس آگیا کہ اس پر دستخط کردیںمیں اسے اپنے پاس یادگار کے طور پررکھوںگا۔پھر اسے دیکھ کر ایک دوسرا آگیا اسی طرح آٹھویں، دسویں نوٹ پر دستخط کرکے جب میں نے سراٹھایا تووہ آٹھ دس سال کا حبشی بچہ ہاتھ میں نوٹ لے کر دستخط کروانے کے لئے کھڑا تھا۔ اس کو خیال آیایا وزیر کو خیال آیا بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا ان کو ایک نشان دکھانا تھا اور ایسے سامان پیدا کر دیئے مجھے خیال آیا کہ یہ غیر ملکی یہاں میرا مہمان ہی ہے ہماری تو ساری دنیا مہمان ہے نا اس لئے میں اس کے نوٹ کی بجائے اپنے نوٹ پر دستخط کردیتاہوں چنانچہ میںنے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا اور اس پر دستخط کرکے اسے پکڑا دیا یہ تو بالکل معمولی بات تھی پھر کھڑا ہوا اور میں نے اس بچے کو گلے لیا اور اس کو پیار کیا ان کے جہاز نے پہلے جانا تھا اورجب اعلان ہوا کہ اس ہوائی جہاز کے مسافر آکر ہوائی جہاز میں بیٹھ جائیں تو وہ کھڑے ہوئے اور میرے پاس آگئے۔ میں بھی کھڑے ہوکر ان سے ملا۔ اس وزیر کا یہ حال تھا کہ میراشکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ اتنا جذباتی ہوا تھا۔ اس نے کہا ہم آپ کے زیراحسان اور بہت زیادہ ممنون ہیں پتہ نہیں اورکیا کچھ کہہ رہاتھا اور میری آنکھیں مارے شرم کے جھک رہی تھیں۔میں دل میں کہتا تھا میں نے تمہیں کیا دیا ہے اسلام کا ایک چھوٹا سا تحفہ ہی ہے نا! جو میں نے تمہیں دیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ایسا شخص بھی دنیا میںہے جو ہمارے بچوں کو اس طرح پیارکرسکتاہے مگراللہ تعالیٰ نے ایک شخص نہیں ایک قوم پیدا کر دی ہے۔ جو ان کے بچوں، بڑوں، بوڑھوںاور جوانوں سے پیارکر رہی ہے اور یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی ہمیں توفیق عطا کرے۔ ویسے میںیہ فقرہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہوںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کی پیاری جماعت (اللہ تعالیٰ کا آپ پر سلام ہو) بے حد قربانی کرنے والی ہے۔ جب میں افریقہ سے واپس انگلستان آیا تو میری طبیعت میں بڑی بے چینی اور گھبراہٹ تھی اور یہ بے چینی اس وجہ سے تھی کہ کوئی حصہ جماعت کا کہیں کمزوری نہ دکھا جائے۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ پانچواں ملک گیمبیا تھا۔ جب میں اس ملک کا دورہ کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ کامجھے یہ منشا معلوم ہوا کہ کم ازکم ایک لاکھ پائونڈفوری طور پر ان ملکوں میں غلبۂ اسلام کے لئے خرچ کرو۔ ویسے تو جب اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے تو وہ چیز مل جاتی ہے بعض دفعہ منہ سے کوئی فقرہ نکل جائے تو اس کوبھی اللہ تعالیٰ اپنے عاجز اور حقیر بندے کی عزت رکھنے کے لئے اس کی بات پوری کردیتا ہے لیکن پھر بھی خطرہ تورہتا ہے کہ کوئی حصّہ جماعت کا کمزوری نہ دکھاجائے مگر میں بڑا خوش ہوا۔ انگلستان میںہماری چھوٹی سی جماعت ہے۔ بچوںسمیت ان کی تعداد شاید پانچ دس ہزار ہی ہوگی۔ پہلے جمعہ کے دن اورپھر اتوار کو میں مجموعی طورپرقریباً پونے دوگھنٹے یا دوگھنٹے ان کے پاس بیٹھاہوں۔ اس دوران ۲۸۔۳۰ ہزار پائونڈ کے وعدے اور۴۔۵ ہزار پائونڈ نقد رقم جمع ہوگئی جس کو وہیں میں نے’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ کا نام دے کر عام جو ہماری مد ہے اس سے علیحدہ مد کھلوا کر جمع کروا دیا اور جو بات میرے منہ سے نکلی تھی وہ یہ تھی کہ قبل اسکے کہ میں انگلستان چھوڑوں دس ہزارسے زائد رقم اس میں جمع ہونی چاہئے ہمارے وہاں کے جوعہدیدار ہیں امام رفیق سمیت ان کو یہ یقین تھا کہ یہ ہوہی نہیںسکتااور اسی لئے انہوںنے مجھ سے کہاکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے دس بارہ دن کے بعد آپ جارہے ہیں۔ یہ رقم بڑی ہے جو دوست آپ کے سامنے آکر بیٹھے اور جنہوںنے آپ کی باتیں سنی ہیں وہ تو انگلستان کی جماعت کا مشکل سے پانچواں یا چھٹا حصہ ہوںگے بڑی چھوٹی جماعت ہے آپ مجھے ایک ماہ کی مہلت دیں۔ میں انگلستان کی ساری جماعتوں کا دورہ کروں گااور پھر امید ہے ایک مہینے میںیہ دس ہزار پائونڈ جمع ہوجائیں گے میں نے مسکرا کر انہیں کہا کہ میں آپ کو ایک دن کی مہلت بھی نہیں دوں گااور جب میں یہاں سے جائوںگا تو انشاء اللہ دس ہزار پائونڈسے زیادہ کی رقم اس مد میں جمع ہوچکی ہوگی آپ فکر نہ کریں میںنے ان سے یہی کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ نکلوایا ہے تو وہ آپ ہی اس کا انتظام بھی کرے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک چھوٹا سا فقرہ نظم میں کہا ہوا ہے کہ
؎ گھر سے تو کچھ نہ لائے
(درثمین صفحہ۳۶)
اللہ تعالیٰ کا کام ہے اسی نے توجہ اس طرف پھیری ہے اس کا منشاء مجھے معلوم ہواہے اس لئے اس کاانتظام تو ہوجائے گا جب میں نے انگلستان کی جماعت کویہ تحریک کی جس کا ردّعمل بڑا اچھاہواتو میں نے ان سے یہ بھی کہاکہ مجھے یہ فکر نہیں کہ میںتم سے جو مطالبہ کررہا ہوں وہ پورا ہوگا یا نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ پورا ہوجائے گا میںنے آدمی بھی بھیجنے ہیں ڈاکٹر بھی اور سکول ٹیچرز بھی۔ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ آدمی کہاں سے آئیںگے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہاں آدمی بھیج، میںنے تو انسان کوپیدا نہیں کیا، اسی نے انسان پیدا کئے ہیں، وہ آپ ہی اس کا بھی انتظام کریگا لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور تمہیں بھی فکر کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض قربانی دے دینا کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کرلے سعی مشکورہونی چاہئے خالی قربانی پیش کردینا توکسی کا م کا نہیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بڑی تفصیل سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ سینکڑوں آدمیوں کی قربانی( جووہ دے چکتے ہیں) پر جب ثواب دینے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قربانی کو اٹھا کر ان کے منہ پر مارتا ہے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری تھی، ریاء تھا تکبر تھا، توحید پر پورے طور پرقائم نہیں تھے۔ میں نے تمہارے مال کو کیا کرنا ہے۔ کوئی چیز تمہاری قبول نہیں۔
پس میں نے وہاں اپنے دوستوں سے کہا تم اس کی فکر کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے۔ میں دعا کروں گا اپنے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی تم بھی دعائیں کرو پھر مجھے اور فکر پڑگئی گوایک لحاظ سے تسلی بھی تھی بہرحال امام جماعت کو فکر تو رہتی ہے کہ جماعت کے کسی حصے میں بھی کمزوری نہ واقع ہوجائے۔ اب میں پاکستان میںآیا ہوں اور یہاں میں یہ تحریک کرناچاہتا ہوں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے کسی حصے میںکوئی کمزوری نظر آئے چنانچہ آپ کے پاس اخبار الفضل پہنچا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا ہے کہ سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دو لاکھ سے اوپر نقد جمع ہوگیا ہے۔ ان وعدہ جات میں سے پنجابی میں جسے پنج دونجی کہتے ہیں یعنی۵/۲کی فوری ادائیگی کرنی ہے اور فوری سے میری مراد نومبر تک ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکاہوں اور مجھے یقین ہے ۵/۲سے کہیں زیادہ نقد نومبرسے پہلے پہلے انشاء اللہ جمع ہوجائے گا۔لیکن اس کے باوجود جماعت کا یہ نہایت شاندار رویہ ہے یعنی جب آپ اس چیز کو غیر کے سامنے بیان کریں تو پہلے تو وہ اس کا اعتبار ہی نہیں کرے گا اوروہ کہہ دے گا کہ آپ یونہی گپ مارہے ہیں اور جب اعتبار کرے گا تو حیران ہوگا اس کی سمجھ میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ کیاہوگیا ہے کیا دنیا میںایسا بھی ہوا کرتا ہے اسلام کے نام پر ایسا ہونے لگ گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو مسلمانوں میں سے آپ کے ساتھ وہ لوگ شامل ہورہے تھے جنہوں نے اس کی خاطر کبھی ایک دھیلہ بھی نہیں دیا تھا۔ پھر جب وہ احمدی ہوگئے انہوںنے شروع میں آنہ ماہوار دینا شروع کیا، کسی نے چار آنے ماہوار دینے شروع کئے۔ کہنے کوتو ایک آنہ یا چارآنے کوئی چیز نہیںلیکن اگریہ دیکھا جائے کہ اس سے دلوں میں ایک عظیم انقلاب بپا ہوگیا کہ ساری عمر میںکبھی ایک آنہ نہیں د یا تھالیکن اب ایک آنہ ماہوار دینا شروع کردیا۔ ساری عمر میں کبھی چو ّنی نہیں دی تھی اور اب ہر مہینے چو ّنی دینی شروع کردی۔ تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عظیم انقلاب کو نمایاں کرنے کے لئے اور ان کے لئے دعائوں کے دروازے کھولنے کی خاطر اپنے ان صحابہ کا نام اپنی کتابوں میں لکھدیا آپ کتابیںپڑھیںتو آپ کو پتہ لگے گا کسی نے آنہ دیا کسی نے چو ّنی د ی او رکسی نے اٹھنّی دی اورکتابوں میں ان کا نام درج ہے قیامت تک جب احمدی اُن کتب کو پڑھیں گے توان کے لئے دعائیںکریں گے مگر پھر یہی لوگ تھے کہ جب ایک وقت آیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے اور انہوںنے آپ سے روحانی تربیت حاصل کی تو انہوں نے بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد آپ کے قدموں پر لاکر ڈال دی کہ یہ لیں۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو آپ اسے قبول کریں یہاں ایبٹ آباد میں ایک دوست نے بتایا کہ ان کے حلقہ میں ایک صاحب ہیں انہوں نے ساری کتابیں پڑھ لی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہربات مانتا ہوں پر میں نے بیعت نہیں کرنی کیونکہ اگر میں نے بیعت کرلی تو تم مجھ سے چندہ لینے لگ جائو گے۔ میں نے ان سے کہا کہ یا وہ یہ بات سچ کہتے ہیں کہ ان کے دل میں احمدیت کی صداقت گھر کر گئی ہے مگر وہ پیسے دینے سے گھبراتے ہیں اور یاوہ آپ سے مذاق کررہے ہیں۔دونوں میںسے ایک بات ضرورہے میں آپ کو اجازت دیتا ہوں آپ ان سے کہیں کہ یہ بیعت فارم ہے اوراس کے اوپر دستخط کردیں خواہ ایک پیسہ مہینہ مقرر کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگروہ مذاق کررہے ہیں تو پتہ لگ جائے گا اور غلط فہمی دور ہوجائے گی اور اگر وہ مذاق نہیں کررہے اوریہ کہنے میں سنجیدہ ہیںتو پھر وہ ایک پیسہ یا ایک آنہ لکھوا دیںگے وہ اچھے پیسے کمارہے ہیں یعنی درمیانہ درجے کے۔ بہت زیادہ امیر تو نہیں بہرحال درمیانہ درجے کے ہیں ہمارے جو یہاں سیکریٹریٹ میں بڑے کلرک وغیرہ ہیں اتنی تنخواہ وہ لے رہے ہیں۔ میں نے کہا آج پیسہ یا آنہ مہینہ دینگے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جب وہ احمدیت میں روحانی طورپر تربیت پالیں گے اوراحمدیت کے رنگ میں رنگے جائیں گے تو پھر کسی وقت ایسا وقت ان پربھی آسکتا ہے جیسا کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آیا تھا کہ وہ آکر کہیں یہ لیں سارا مال اسے خدا کی راہ میں خرچ کردیں۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے آپ یہ دعا کریں کہ بجائے اس کے کہ وہ پیچھے ہٹیں وہ پیسہ لکھوا کر بیعت فارم پر دستخط کردیں۔
پس ہمیں یہاں پاکستا ن میں ویسے جائزہ لیتے رہنا چاہئے یہ امیر جماعت کا فرض ہے کہ وہ دیکھے ہماری جماعت کی کوئی پاکٹ کمزوری دکھانے والی تو نہیں۔ ویسے تو بحیثیت مجموعی سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دولاکھ کے اوپر نقد رقم کا جمع ہوجانا تسلی بخش ہے جب کہ یہ آواز ابھی تک دیہاتی جماعتوں تک پوری طرح نہیں پہنچی جن میں احمدیت کی اکثریت ہے اور ان کے لئے ابھی موقعہ بھی نہیں کیونکہ وہ گندم تو بیج باج کر ختم کر چکے ہیں اور خریف کی فصلوں کا وقت ابھی آیا نہیں۔ فوری ادائیگی کے لئے نومبر تک کی حد مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض دوستوں نے کہا کہ زمینداروں کو اسوقت ادا کرنے میں سہولت رہے گی۔بہرحال دل تو یہ کرتا ہے کہ آپ خلافت احمدیہ کو اسطرح منائیں کہ جو ۶۲ سال احمدیت کی خلافت پرگزرے ہیں ۶۲لاکھ روپے جمع ہوجائیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو جائے۔
جس طرح یہاںکی رپورٹیں بڑی خوشکن ہیں اسی طرح وہاں کی رپورٹیں بھی بڑی خوشکن ہیں میں نے بتایا ہے کہ سکوتو کے گورنر نے حکم دے کر ۴۰۔۴۰ایکڑ زمین ہمارے سکولوں کے لئے دی ہے اسکے علاوہ ہسپتال کھولنے کے لئے(جس کو وہاں ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں) بھی لوگ تعاون کررہے ہیں غانا کے ایک پیرامائونٹ چیف نے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ دیا ہے جس میں ایک کافی بڑی عمارت بھی بنی ہوئی ہے جو ہسپتال کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ لے لو اور یہاں ڈاکٹر بھیجو۔ اسی طرح اس دورہ کے بعدپڑھے لکھے لوگوں کو احمدیت میں بڑی توجہ ہوگئی ہے۔ نائیجیریا میں آبادان جو کہ بہت بڑا مسلم ٹائون ہے اسکی آبادی دس یا بارہ لاکھ ہے اور ۹۵فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اس کے قریب اس عرصہ میں ۱۳نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں انہوں نے آبادان میں ہماری جماعت کے صدر کو جو افریقن ہیں خود بلایا کہ اس علاقے کے مختلف قصبوں کے لوگ فلاں وقت اکٹھے ہوںگے وہ آپ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں چنانچہ وہاں دو تین گھنٹے کے تبادلہ خیالات کے بعد ان تیرہ قصبوں کے ۴۰ سے زیادہ آدمیوں نے بیعت کرلی۔ وہاں احمدیت کی طرف بڑارجحان پیدا ہوگیا ہے اور بھی کئی جگہ سے رپورٹیں آئی ہیں مثلاً سیرالیون میں بھی پانچ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں یہ بھی رپورٹ آئی ہے کہ نارتھ کے علاقے میں بہت توجہ پیدا ہو گئی ہے۔
امید ہے وہاں بھی بہت سی نئی جماعتیں قائم ہوجائیںگی۔ وہاں وہی کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہاں شروع میںکیا تھا۔ اب تو ہم اسلام آباد میں بھی ماشاء اللہ بہت سے احمدی بیٹھے ہیں بدرؔ کے وقت مسلمانوں کی جوتعداد تھی کام کرنے والوں کی اس سے زیادہ ماشاء اللہ صرف اسلام آباد کی تعداد ہے لیکن شروع میں پہلے ابتداء اس طرح کی اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کہیں ایک گھر احمدی ہوگیا کہیں دوگھر احمدی ہوگئے۔ پھر انہوں نے ماریں کھائیں، انہیں جوتیاں پڑیں ، گالیاں دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہرقسم کی آگ میں سے گزارا اور ہر آگ جو ان کے لیے جلائی جاتی تھی۔ ان کے کان میں اللہ تعالیٰ کی یہ پیاری آواز آتی تھی کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ غر ض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کے غلاموں کو سینکڑوں بلکہ لاکھوں دفعہ آگ میں سے گزرنا پڑا اور وہ آگ ان کے لئے پھول بن گئی۔ ان کے جلانے کا باعث نہیں بنی۔
وہاں مجھے ایک دن خیال آیا میں نے سیرالیون کا نقشہ سامنے رکھا اور وہاں ہمارے جو دوتین مبلّغ ہیں ان سے میں نے کہا کہ جہاںجہاں احمدی ہیں وہ جگہیں مجھے بتائو تاکہ میں نقشے پر نشان کروں چنانچہ انہوںنے سر جوڑا۔ کوئی آدھے پونے گھنٹے کے بعد انہوںنے مجھے مختلف جگہوں کے نام بتائے۔ میں نے ان پرنشان لگا دئیے اور اس کے گھنٹے دو گھنٹے بعد جماعت سے ملاقات تھی۔ میں ان سے پوچھتا تھا آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟اگرچہ سارے نام تو حافظے میں یاد نہیں رہ سکتے تھے پھر نام بھی غیر ملکی تھے لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بیسیوں ایسی جماعتوں کے نام بتارہے ہیں جو مبلّغوں نے مجھے نقشے پر نہیں بتائے تھے اور پھر یہ جماعتیں یوں بکھری ہوئی ہیں جس طرح ۲۰ہزار فٹ کی بلندی سے گندم کے دانے ہوائی جہاز سے پھینکے جائیں تو وہ مختلف جگہوں میں بکھر جاتے ہیں۔ اسی طرح وہاں ہماری جماعت بھی بکھری ہوئی ہے بالکل بارڈر تک یوں ہر جگہ ایک چکر لگا ہوا ہے جماعتوں کا کہیں کم ہیں اور کہیں زیادہ ہیں لیکن ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں۔ اب غانا میں وا ؔکی ہماری بڑی مخلص پگڑیاں پہننے والی جماعت ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے پگڑیاں نہیں پہنتے بلکہ اس علاقہ میں پہلے سے پگڑیاںپہننے کا رواج ہے۔ بلکہ ہماری طرح وہ طُرّہ دار پگڑیاں پہنتے ہیں۔ وہاںہمارا عربی کا ایک ٹریننگ سکول بھی ہے اوراس جماعت نے سکول کیلئے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ بھی دیا ہے۔ میں نے ان کو لکھا ہے کہ میں کلینک بھی بنوائوں گا اس کے لئے مجھے رپورٹ کرو۔
اب یہ حالات ہیں۔ بعض دفعہ میں اس وجہ سے پریشان ہوجاتا ہوں یہ پریشانی میرے لئے ہے اسکے بغیر چارہ نہیںہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کے وہاں بھی فضل دیکھے یہاں بھی فضل دیکھے۔ آپ کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یوں اپنے قبضہ میں لیا اوراپنی ضرورت کو پورا کرنے کے سامان پیدا کردئیے۔ پریشانی اس طرح ہوتی ہے کہ ہماری بات، ہمارے حالات وہاں پہنچنے میں بعض دفعہ مہینہ لگ جاتا ہے اور وہاں بہت ساری جگہوں میں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مثلاً پاکستان اورانگلستان میں کیا ہو رہا ہے وہ مجھے ڈر ڈر کر لکھتے ہیں کہ یہاں فلاں جگہ بھی ہسپتال کھل سکتا ہے۔ فلاں جگہ بھی سکول کھل سکتا ہے آدمیوں کا انتظام اور یہ اور وہ۔ انہیں یہ خیال ہے کہ شاید پیسے نہ ہوں انتظام نہ ہوسکے۔ شاید آدمی میسر نہ آئیں۔ میں انہیںخط لکھ رہا ہوں پتہ نہیں کتنے دنوں کے بعد انہیں پہنچتا ہے؟ (ہمارے اپنے بعض خطوط۲۰،۲۵دن تک بھی وہاں نہیں پہنچے تھے بعد میں چکر لگا کر ہمارے پاس یہاں پہنچے ہیں۔ ان کومیں نے لکھ بھیجا ہے کہ میرے پاس سب کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روپیہ بھی دیدیا ہے آدمی بھی دے دئیے ہیں تم دوڑنے کی کوشش کرو، اب چلنا ہمارے لئے کافی نہیں اب دوڑنے کا وقت آگیا ہے پس میں یہ چاہتا ہوںاورآپ سے بھی یہ توقع رکھتاہوں کہ آپ بھی میری اس دعامیں اپنی دعائوں کو شامل کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان پیدا کردے کہ سال ڈیڑھ سال کے اندر کم ازکم ۳۰میڈیکل کلینک وہاں ان ملکوں میںکھول دئیے جائیں اسلئے کہ میڈیکل سنٹر یا ہیلتھ سنٹر جو ہے وہ ہمارے کام کرنے کی دراصل بنیاد بنتا ہے ہر ایک کلینک اوسطاً اڑہائی ہزار پائونڈ سالانہ کمارہا ہے یعنی سارے اخراجات کے بعد اتنی سیونگ ہورہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں ہمارے چارسنٹرہیں وہاں دس ہزار پائونڈ کی سیونگ ہوتی ہے۔پھر ہمیں یہ فکر نہیں رہتی کہ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں بہت سارے ملکوں میں آزادی تھی کہ اس ملک کی کرنسی جہاں اور جتنی مرضی ہو باہر بھیج دو مگر اب وہ پابندیاں لگارہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ایک اور عالمگیر جنگ جو اس وقت Horizon(ہوریزن) پرنظرآرہی ہے اس کی وجہ سے کوئی ایسا وقت آ جائے کہ ہم باہرسے ایک پیسہ بھی وہاں بھجوانہ سکیں اس لئے ان ملکوں میں ہماری آمد کے ذرائع پیدا ہونے چاہئیں اور یہ تو’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ والی بات ہے۔ ہم ان کی خدمت بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے بھی دیتا ہے اور ان کو بھی پتہ ہے اورہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم نے یہ پیسے باہرلے کر نہیں جانے ان کے ملکوں ہی میں خرچ کردیں گے۔ پس وہاں کے مبلّغوں کی تنخواہیں ہیںاوروہاں کے سکولوں کے ابتدائی اخراجات ہیںکیونکہ وہاں کے سکول پہلے دو سال میں خرچ مانگتے ہیں پھر وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوجا تے ہیں۔
ہاںایک چیز رہ گئی ہے اور وہ بھی بڑی ضروری ہے اوربڑی عجیب ہے میں نے ان کے معاشرہ کی جو خصوصیات دیکھیں ان میں میں نے یہ بھی دیکھا اور میں یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا کہ ان ملکوں کی حکومتوں کو اپنے سکولوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی طرف بے انتہا توجہ ہے میں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی توجہ وہ اپنے سکولوں کی طرف دیتے ہیں اس کا سواں حصہ بھی ہمارے ملک میںسکولوں کی طرف نہیں دیا جارہا ۔وہاں ہمارے اپنے سکول ہیں۔ میراخیال ہے کہ۹۹ فیصد پاکستان کے گورنمنٹ کالجز کی لیبارٹریز اتنی اچھی Equipped(سامان سے آراستہ) نہیں جتنی اچھی وہاں ہمارے ہائرسیکنڈری سکولز کی لیباریٹریز ہیں۔ سارا خرچ حکومت دیتی ہے اورپھر ہمیں اپنی پالیسی چلانے کی بھی اجازت ہے۔ سکولوں کے سٹاف کی ساری تنخواہیں حکومت دے رہی ہے مثلاً سیرالیون میں ہمارے چار سکول ہیں (اور جگہوں پر بھی ہیں) ان چاروں سکولوں کے سارے سٹاف کی تنخواہیں حکومت دیتی ہے اور اب وہ بعض دفعہ عیسائی ٹیچر بھی مقرر کردیتے ہیں لیکن تربیت کے لحاظ سے، دینیات پڑھانے کے لحاظ سے ہماری پالیسی چل رہی ہے مثلاً فری ٹائون کے سکول کے اساتذہ میںمیرے خیال میں پانچ چھ غیر احمدی ہیں یہ میں نے پتہ نہیںلیا ان میں کوئی عیسائی بھی ہے یا نہیں البتہ کماسی میں تین چار عیسائی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے فری ٹائون کے سکول کی آخری کلاس جو۲۷ لڑکوں پر مشتمل تھی جب امتحان پاس کرکے نکلی تو ساروں کے ساروں نے بلا استثنا بیعت فارم پر دستخط کئے اور اپنے سرٹیفکیٹ لے کر گھروں کو چلے گئے پس پیسے وہ خرچ کررہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کام ہمارے کئے جارہا ہے لیکن یہ تو علیحدہ معاملہ ہے اس پرشاید یہاں سمجھ آنے میں کچھ دیر لگے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے لیکن یہ کہ سکول اچھا ہو سٹاف اچھا ہو اس طرف ان کو توجہ ہے اس وجہ سے ایک وزیر ہمارے پرنسپل کوکہنے لگے کہ لو گ ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں کہ اس سکول کو کہوکہ زیادہ لڑکوں کو داخل کرے کیونکہ وہ اپنے لڑکوں کو کسی اورسکول کی بجائے وہاں داخل کروانا چاہتے ہیں ہوایہ تھا کہ حکومت نے یہ قانون بنایاکہ کسی ہائی سکول میں جو کہ پانچ سالہ کورس کا ہے یعنی ہائرسیکنڈری سکول میں ۳۵۰یا۳۶۰ سے زیادہ لڑکے داخل نہیں کئے جائیں گے چنانچہ اس کا اعلان کردیا گیا لوگوں نے شور مچا دیا کہ حکومت کا یہ قانون احمدیہ سکولوں پر لاگو نہ کیا جائے چنانچہ حکومت کویہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمارا یہ قانون احمدیہ سکولوں پر نہیں لگے گا اور حد مقرر ہوئی ہے تقریباً ساڑھے تین سو کی اور فری ٹائون کے ہیڈ ماسٹر پر زور دے رہے ہیں کہ اس Admission(داخلہ) کے وقت جو غالباً یہاں کی طرح ستمبر اکتوبر میں ہوتی ہے ساڑھے چھ سو لڑکا داخل کروورنہ لوگ ہمیں تنگ کریں گے اور اس کے لئے انتظام کرو۔ سٹاف جنتا چاہئے وہ لو اور کمرے بنوانے کی ضرورت ہوتو کمرے بنوائو۔ پیسے تووہاں کی حکومت ہی دیتی ہے یا جوہمSave(بچت) کرتے ہیں وہ وہاں لگا دیتے ہیں لیکن اس کا بہت بڑا بار جو ہے وہ حکومت خود اٹھالیتی ہے یعنی ہمارا اپناسکول ہے ہم وہاںتبلیغ کررہے ہیں اوروہاں اسلام کے غلبہ کے لئے نوجوان نسل کو تیاری کروا رہے ہیں خرچ حکومت دے رہی ہے اور پھر ساتھ ممنون بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارے ماڈل سکول ہیں ایک پیرا مائونٹ چیف(یعنی علاقے کا رئیس آپ سمجھ لیں) کا بچہ پڑھتا نہیں ہوگا اسے کہا کہ اگرتم مڈل میں اچھے نمبر لے کر پاس ہوگئے تو تمہیں ہائر سیکنڈری سکول میں داخل کروا دونگا اسی سال کی بات ہے کہ اس نے امتحان دیاہواہے پتہ نہیں نتیجہ نکلا ہے یا نہیں ایک دن وہ اپنے باپ سے کہنے لگا کہ اباآپ کو یا د ہے آپ کا مجھ سے وعدہ ہے کہ اگر میںا چھے نمبر لے کرپاس ہوگیا تو آپ مجھے ہائر سکینڈری سکول میں تعلیم دلوائیں گے انہوںنے کہا ہاں مجھے یاد ہے کہنے لگا کہ پھر یاد رکھیں میں احمدیہ میں داخل ہوںگا اور کسی سکول میں داخل نہیں ہوں گا وہاں ہمارے سکول احمدیہ سکول نہیں کہلاتے بلکہ عام محاورے کے لحاظ سے صرف ’’احمدیہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس کا یہ کہنا کہ میں احمدیہ میں داخل ہوں گا کسی اور سکول میں داخل نہیں ہونگااس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے سکولوں کی بڑی مقبولیت ہے اگلی نسل کے دلوں میں بھی اور بڑوں کے دلوں میں بھی میںنے بتایا ہے کہ وزراء سفارشیں لیکر جاتے ہیں اور یہ ان کے معاشرہ کے حسین ہونے کی دلیل ہے یعنی ایک وزیر اور سکول کے ایک پرنسپل میںکوئی فرق نہیں یہاں تو میرے خیال میں کسی وزیر صاحب کے پاس جانا آسان نہیں اب تو مارشل لاء ہے سول حکومت آئے گی تو دیکھیں گے وہ کیا کرتی ہے؟ پہلی سول حکومتیں تو یہی کیا کرتی تھیں کہ وہ سکول کے ہیڈ ماسٹر کو ملاقات کا وقت توکیا بڑے اچھے اچھے کالجوں کے پرنسپل کو بھی ملنے کیلئے کئی دن دھکے کھانے پڑتے تھے۔ یہ ہماری تصویر ہے اور ان کی تصویر یہ ہے کہ وزیر سکول میں آرہا ہے اور سفارش لیکر آرہا ہے کہ لڑکے کو ضرور داخل کرنا ہے اور ایک دونہیں بلکہ ایک ایک دن میں چھ چھ وزیر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی جھجک نہیں۔ بڑے سادہ معاشرہ میں زندگی کے دن گزاررہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مبارک کرے اور بھی زیادہ سادگی پیدا کرے۔ وہاں کبھی بھی بڑے اور چھوٹے کا فرق پیدا نہ ہو۔ غرض ان ملکوں میں حکومت کو سکولوں کی طرف بڑی توجہ رہتی ہے میں نے گیمبیا میں ان کے معاشرہ کے لحاظ سے اپنے ایک دوست سے کہا کہ یہاں کے وزیر تعلیم جو وزیرصحت بھی ہیں انہیںمیرے پاس لے کرآئو، میں نے ان سے باتیں کرنی ہیں خیر وہ آگئے میں ان سے کہوں کہ میں نے پہلے یہاں میڈیکل سنٹرز کھولنے ہیں کیونکہ میرے ذہن میں تویہ تھا کہ یہاں مجھے آمد کا ذریعہ بنادینا چاہئے لیکن وہ یہ کہیں کہ ہمارا ملک تعلیم میں بہت پیچھے ہے آپ یہاں پہلے ہائی سکول کھولیں اور ہائی سکول کھولنے پر پہلے سال چارپانچ ہزار پائونڈ اپنے پاس سے خرچ کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد حکومت مدد دینا شروع کردیتی ہے میں نے انہیںکہا دیکھیں! آپ میرے ساتھ تعاون کریں اور جیسا کہ میں نے پروگرام بنایاہے چار نئے میڈیکل سنٹرز یہاں کھلنے دیں اور اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ پورا تعاون کریں اور میںآپ سے یہ وعدہ کرتاہوں کہ اگر آپ نے ہمیں یہ سہولتیں دے دیں یعنی زمین اور ڈاکٹروں کے لئے انٹری پرمٹ تو ہم انشاء اللہ ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیںگے۔ گیمبیا تعلیم میںاتنا پیچھے ہے کہ جب میں وہاں گیا تو مجھے خیال آیا کہ میں ان سے کہوں کہ وہاں یونیورسٹی نہیں تم یونیورسٹی بنائو نصف نصف بارہم تقسیم کرلیں گے وزیر تعلیم ہنس پڑے کہنے لگے کہ ہمارے ملک کی ٹوٹل پاپولیشن میں سے دسویں جماعت کے طلباء کی تعداد صرف ایک ہزارہے سارے ملک میں سے ایک ہزار لڑکا دسویں جماعت کے امتحان میں بیٹھتا ہے ہم یونیورسٹی کس برتے پر بنا سکتے ہیں اسلئے پہلے آپ ہائی سکول کھول دیں میں نے ان سے کہا کہ وہ توانشاء اللہ کھل جائیں گے خدا کرے کہ۸۔۱۰ سال کے بعد وہ ملک اس قابل ہوجائے کہ وہاں ایک یونیورسٹی اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکتی ہو اور ہمیں ۵۰فیصد کا بوجھ حکومت کے کندھوں پر ڈالنے کی ضرورت پیش نہ آئے یہ بوجھ بھی ہم خود ہی برداشت کرلیں اور وہاں ایک یونیورسٹی کھول دیں اللہ تعالیٰ سے کوئی بعید نہیں آپ الحمدللہ بہت پڑھیںکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حسین اور عظیم رنگ میں ایک چھوٹے سے منصوبہ کے لئے قربانی کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرمائے اورپھر یہ بھی دعا کریں کہ جو خوبصورت اور حسین شکل مجموعی طورپر پاکستان میں بنی ہے ہر شہر اورہرقصبے کی وہی خوبصورتی قائم رہے ۔ ہمیں کسی جگہ بھی کوئی کمزوری نظر نہ آئے۔
بعض دفعہ راولپنڈی اور اسلام آباد مالی قربانی میں کمزوری دکھا جاتے ہیں میں نے بڑا غور کیا ہے اوربڑی دعائیں بھی کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مجھے اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی بڑی مخلص جماعت ہے ہر طرح قربانیاں دیتی ہے کہیں کوئی خرابی ہے کہاں ہے؟ وہ میں Pin Point (پن پوائنٹ) نہیں کرسکا یعنی اس کے اوپر انگلی نہیں رکھ سکا خدا کرے وہ کمزوری جہاں بھی ہے وہ دورہوجائے ایک چیز تو یہ ہے ممکن ہے اسی کااثر ہو کہ یہاں کے عہدیدار جماعت کو اپنے اعتماد میں نہیں لیتے یہ بڑی سخت غلطی ہے یہ ایک آدمی یا آدمیوں کا کام نہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم انسان تونہ کبھی پیدا ہوا اورنہ پیدا ہوسکتا ہے انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے دل میں بشاشت پیداکرنے کے لئے یہ حکم دیا ’’شَآوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ(آل عمران :۱۶۰) کہ مشورہ میں ان کو شریک کرو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فراست اپنے مقام اور اس زندہ تعلق کی وجہ سے جو آپ کوہروقت اپنے رب کے ساتھ تھاکسی اورکے مشورہ کی آپ کو ضرورت نہیں تھی وہ علّام الغیوب اور ہادیٔ برحق ہر وقت آپ کو مشورہ اور ہدایت دیتا تھا۔ سارا قرآن کریم یہی ہے یہ ہمارا ہدایت نامہ ہے لیکن حکم یہی دیا شَآوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (آل عمران :۱۶۰) اورایک اوربات میں آپ کو بتادوںمجھے اس کا بڑی شدت سے احساس ہے میں نے وہاں جب کمیٹی بنائی’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘کے اکائونٹ کو اوپر یٹ کرنے کے لئے توان سے میں نے کہا کہ اس کمیٹی میں ایک نوجوان ضرور رکھوں گا۔ اگلی نسل کو یہ پتہ لگنا چاہئے کہ ہماری بھی ذمہ داری ہے اور ہماری بھیContributions(کنٹری بیوشنز) ہیں صرف بڑوں کا یہ کام نہیں ہے نوجوان نسل ساتھ شامل ہونی چاہئے۔ چنانچہ اس سہ رکنی کمیٹی میں ایک نوجوان کو نامزد کرکے اس کا اعلان کردیا تاہم یہ مستقل نہیں ہے ہرسال میں بدل دیا کروںگا تاکہ دوسرے نوجوان آگے آئیں پھر ان کی عزت افزائی ہوگی اور کام کرنے اور ثواب کمانے کاموقع ملے گا۔
پس جہاں جہاں بھی ہمارے نظام قائم ہیںان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوںمیںسے ۳۰ فیصدی کواپنے مشوروں میں اوردوسرے جماعتی کاموں میں شامل کریں ورنہ اگلی نسل کویہ پتہ ہی نہیں لگے گا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں کس طرح نباہنا ہے؟ اور ذمہ داریوں کو نباہ کر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسکے انعامات کس رنگ میں اور کن شکلوں میں نازل ہوتے ہیں ہم نے نسلاً بعد نسلٍ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے نوجوانوں کو متعارف کرواتے چلے جانا ہے انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے تبھی متعارف ہوتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ بڑا ہی پیار کرنے والا ہے۔ وہ جو خلوص نیت کے ساتھ اس کی راہ میں اپنے نفس کوپیش کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں پاتے ہیں کہ انسانی دماغ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بیسیوں چیزیں ہیں کہ جنہیں ان نعمتوں کو حاصل کرنے والا بیان نہیں کرسکتا یعنی اس کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ بیان کرے اس رنگ میں اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے ضرورت کے وقت بعض چیزوں کو بتانا بھی پڑتا ہے لیکن ایسی بے شمار چیزیں ہیںکہ جن کے بتانے کی نہ ضرورت ہے اورنہ اجازت ہے بہت ساروں کی اجازت نہیں ہوتی پس یہ جو ہماری نوجوان نسل ہے اس کو اپنے جماعتی کاموں میں شامل کروتاکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں شامل ہوں ان کو پتہ لگے کہ قربانیاں ہیں کیا چیز؟ دنیاہے کیا چیز؟ دنیا ہمیں ڈرا نہیں سکتی۔ کب اور کس نے یہ توفیق پائی کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف جماعت احمدیہ کوہلاک کردے؟ کسی نے بھی یہ توفیق نہیں پائی اسّی سال سے دنیا اکٹھی ہوکر ہمیں مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ میں نے افریقہ والوں سے بھی یہ کہا اور وہ یہ سُن کر بڑے خوش ہوئے کہ اسّی۸۰سال سے ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہوکر اس ایک آواز کو خاموش کرنے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں جو یکہ وتنہا تھی جب وہ آواز اُٹھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لیکن دنیا اسے خاموش نہیںکرسکی تمہاری آوازیں اسی آواز کی بازگشت ہیںجو میں سن رہا ہوں۔اس لئے میں خوش ہوں پس ایسا کبھی نہیںہوگا اور نہ ہوسکتا ہے کہ وہ آواز خاموش کرادی جائے لیکن جو فرداً فرداً اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں وہ ہماریYoung Generation(ینگ جنریشن) یعنی نوجوانوں کو معلوم ہونے چاہئیں کہ اس میں کیا لذت اور کیا سرور اور کیا مزہ ہے! تاکہ وہ ساری دنیا سے بے پرواہ ہو کر اور بے خوف ہو کر قربانیوں اور ایثار کے میدان میں آگے آئیں اور وہ کام انجام پائے جو مشروط طور پرہوتا ہے کہ تم قربانی دوگے تو انعام ملے گا ورنہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایک اور قوم کولائے گا جوان نعمتوں کی وارث بنے گی۔ پس جو نعمتیں ایک عام اندازہ کے مطابق اس رنگ میں اور اس شان کے ساتھ آج سے۲۰ سال بعد ہمیں ملنی ہیں وہ نوجوانوں کی جوانی کے جوش اور قربانی اور ایثار کے نتیجہ میں ۲۰ سال کی بجائے دس سال کے بعد مل جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اورعقل اور ذمہ داری کا احسا س دے اور دعا کی توفیق دے اوربے نفس اپنی جانوں کو اس کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے اور جو چھوٹی سی قربانیاں تھوڑی تھوڑی سی ہم پیش کررہے ہیں ان کو وہ قبول کرے اور اپنی بشارتوں کے مطابق ان کے نتائج نکالے۔ ان قربانیوں کے نتائج ان قربانیوں کے حجم کے مطابق نہ ہوں بلکہ ان بشارتوں کے مطابق ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ خدائے قادروتوانا سے ہم نے پائی ہیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہومیری طبیعت پر یہ اثر ہے۔ لندن میں بھی میں نے کہا تھا اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا، میں سوچتا ہوں تو میرے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے۔ ع
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار
(درثمین صفحہ ۱۳۰)
غلبۂ اسلام کے دن مجھےHorizon(افق) پر نظرآرہے ہیں۔ یہ سورج انشاء اللہ طلوع ہوگا اور نصف النہار پر پہنچے گا اور بہت جلدی پہنچے گا لیکن اس سورج کی تپش کے ذریعہ سے گناہ کی خنکی سے بچنے کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کرے تبھی ہمیں فائدہ ہے اور جو توانائی اس مادی دنیا کو سورج کی شعاعیں دے رہی ہیں۔ روحانی سورج کی شعاعیں ہماری روحانی دنیا میں ہمیں ان فیوض کا اہل پائیں اور ہمیں وہ اتنی ملیں اتنی ملیں کہ ہم حقیقتاً اور واقعہ میں صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوجائیں جیسا کہ ہمیں وعدہ دیا گیا ہے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:-
ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں(جمعہ اور عصر کی )نمازیں جمع کرائوں گا اور عصر کی نماز دو رکعتیں پڑھائوں گا جوباہر سے دوست آئے ہوئے ہوں وہ بھی قصر کریں مقامی دوست جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں شامل ہیں۔ وہ اپنی چار رکعتیں پوری کریں۔ دوسرے یہ کہ خدا معلوم کس وجہ سے تین دن سے مجھےLow blood presure(لو بلڈ پریشر) کی پھر سے تکلیف ہوگئی ہے۔ ۱۰۸۔۱۱۰ تک خون کا دبائو رہا ہے جس سے کافی تکلیف اور گھبراہٹ رہتی تھی۔ کل شام سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے افاقہ ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے رکھے اور کام کرنے کی توفیق دے اسی کی توفیق سے کام کیاجاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور مجھ پر بھی اپنے فضل نازل فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۲ تا ۱۱)
حضرت نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ محمد اور
احمد کے دو جلوے تیرے روحانی وجود سے دنیا دیکھے گی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء سعید ہاؤس ایبٹ آباد۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے
(القصص: ۷۱)
قرآن کریم کی آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس حمد کی طرف یہ آیۂ کریمہ اشارہ کر رہی ہے وہ سورۂ فاتحہ میں بیان ہونے والی حمد ہے۔سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

کہ اللہ تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ اپنی ان چار بنیادی صفات کا مظاہرہ کرنے والا ہے اور جب ساری دُنیا ان صفات کے جلوے مشاہدہ کرے گی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گی کہ تمام صفات کی مستحق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفتِ رحمان کا مظہر بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام محمدؐ رکھا اور جب آپ صفت رحیم کے مظہر بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام احمدؐ رکھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ دو زمانوں میں آپ کی شریعت کو تمام دُنیا پر غالب کرے گا۔
شروع زمانہ اسلام میں آپ کے وجود میں محمدیت کے جلووں کا ظہورہوا یعنی اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کا قہر دُنیا پر نازل ہوا۔ اصل تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جب اس کا قہر اور جلال نازل ہوتا ہے تو وہ بھی رحمت ہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اورجلالت کا یہ جلوہ ہے کہ اس نے انسان کو اجازت دی کہ وہ اپنے جسم کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بکرے یا دُنبے یا مرغی یا دوسرے حلال اور طیّب جانوروں کو ذبح کرے اور اُن کی جان لے۔پس ایک طرف ایک پہلو سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا جلوہ ہے کہ ایک جان اس کے حکم اور اجازت سے لی گئی اور دوسری طرف اس کی رحمت کا جلوہ ہے کہ وہ جسے اس نے اشرف المخلوقات بنایا تھا اس کی جان کی حفاظت کے لئے اور اس پر رحم کرتے ہوئے دوسری مخلوقات میں سے جانیں تلف کروائیں جو کیڑے مثلاً بھیڑکے معدے میں پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں ان کیڑوں کو مارنے کی اجازت دی اور اس کے لئے سامان پیدا کئے اور دُنیا میں ایسی دوائیں بنائیں جس کے نتیجہ میں وہ کیڑے مر سکتے ہیں تاکہ اس طرح کیڑے کے مقابلہ میں بھیڑ جو کہ اشرف المخلوق ہے اس کی زندگی کو محفوظ رکھا جائے ویسے اشرف المخلوقات تو صرف انسان ہے اور اسی نسبت سے جانداروں کے شرف کو قائم کیا جاتا ہے کیڑے انسانی جسم کے لئے مفید نہیں لیکن بھیڑ کا گوشت انسانی جسم سے زیادہ مناسبت رکھتا اور اس کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک مفید چیز ہے۔ بھیڑ کی جان کو بچانے کے لئے کیڑوں کو تلف کر دیا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور اس کے جلال اور قہر کا جلوہ ہے اور بھیڑ کی حفاظت کی اور انسان کے لئے ایک طیّب گوشت کی حفاظت کی یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جلال اور رحمانیت کا جلوہ ہے۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ محمد اور احمد کے دو جلوے تیرے روحانی وجود سے دُنیا دیکھے گی وہ عظیم جلوے کہ جن کے نور سے ساری دُنیا منوّر ہو گی اور جس کے روحانی فیوض سے ساری دُنیا مستفیض ہو گی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اسلام کے ابتدائی دور میں محمدؐ کے جلوے دُنیا نے دیکھے آپ کے نفس میں بھی دیکھے اور آپ کے متبعین کے نفوس میں بھی دُنیا نے یہ جلوے دیکھے۔ دُنیا نے اس وقت اللہ تعالیٰ کے قہر اور جلال کے مقابلے میں اپنے قہر اور جلال کو دکھانا چاہا تب وہ اللہ تعالیٰ کے قہر اور جلال سے تباہ ہو گئے یہ خدائی قہر کا جلوہ ان کے خلاف تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو مٹانا چاہا اور خدائی محبت کا جلوہ ان لوگوں کے حق میں تھا جنہوں نے خداتعالیٰ کے مقابلے پر آنے والی شیطانی طاقتوں کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کو اس کی راہ میں قربان کیا اور اس طرح ابدی حیات کے وارث بنے اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پایا اور اس کی جنتوں میں اپنا ٹھکانا بنایا۔ پس ایک پہلو سے یہ قہر کا جلوہ ہے اور دوسرے پہلو سے یہ انتہائی فضل اور رحمت اور پیار اور رضا کا جلوہ ہمیں نظر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وعدہ بھی دیا کہ اسلام ایک وقت کے بعد کمزور ہو جائے گا اور دُنیا کی سب طاقتیں اکٹھی ہو کر اس پر آخری ضرب لگانے کا منصوبہ بنائیں گی اور سمجھیں گی کہ اب اسلام دُنیا سے مٹا دیا جائے گا۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی(ضمناً حضور نے ایک بچے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے پیارے بچو!حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام حضرت مرزا غلام احمد تھا۔ دوست اپنے گھروں میں بچوں کو یہ نام بتایا کریں۔ ابھی پچھلے دنوں راولپنڈی سے ایک خادم آئے جب اس سے پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کیا تھا؟ تو کہا مجھے پتہ نہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نام کیا تھا؟ کہا مجھے تو علم نہیں۔ گھروں میں آپ اپنے بچوں سے باتیں نہیں کریں گے تو اس قسم کے جاہل بچے آپ کے گھروں سے تربیت پا کر نکلیں گے غرض اس تنزّل کے زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند تھے وہ مبعوث ہوئے۔ وہ زمانہ آج کی دُنیا بھول گئی ہے ان کی یاداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی یہ وہ زمانہ ہے جب ’’حضرت‘‘ عماد الدین صاحب نے جو اجمیرکی شاہی مسجد کے امام تھے۔ یہ ’’حضرت‘‘ میں نے اس لئے کہا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے نزدیک حضرت ہی تھے کیونکہ یہ شخص بڑے پایہ کا عالم تھا اس نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور ایک مضمون لکھا عیسائیوں کی ایک کانفرنس کے لئے جو امریکہ میں منعقد ہو رہی تھی اس مضمون میں اس نے ویسے تو بہت کچھ لکھا مگر میں اس وقت صرف دو باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک تو اس نے پتے دے کر ایک سو سے زائد علماء اور قرآن کریم کے حفاظ اور سید زادے اور مغل خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اور پٹھانوں وغیرہ کے نام لکھے اور کہا کہ ہندوستان کے شمالی حصوں کے یہ لوگ جو بڑے بڑے عالم اور قرآن کریم کے حُفاظ ہیں عیسائی ہو چکے ہیں اور جہاں پہلے عیسائیت آئی تھی یعنی کلکتہ اور بمبئی وغیرہ وہاں کا جو حال ہو گا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں دوسرے اس نے یہ لکھا کہ وہ دن عنقریب ہندوستان پر چڑھنے والا ہے کہ جب کوئی شخص اگر کسی مسلمان کو دیکھنے کی خواہش کرے گا تو اُسے کوئی مسلمان نظر نہیں آئے گا اور اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی۔ اس حد تک اسلام گر چکا تھا اور اس حد تک منصوبے بنائے گئے تھے اسلام کو مٹانے کے لئے۔ بعض پادریوں نے لکھا کہ وہ وقت قریب ہے(اللہ تعالیٰ کی اُن پر *** ہو) کہ خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا بعض نے کہا یہ وقت ہے کہ سارے براعظم افریقہ کو ہم خداوند یسوع مسیح کے لئے جیت لیں گے اور مسلمانوں کا یہاں سے نام ونشان مٹا دیا جائے گا۔
اس قسم کی بڑیں تھیں جو یہ ہانک رہے تھے اور یہ خالی بیان نہیں تھے بلکہ اس کے پیچھے بڑا زبردست منصوبہ تھا اسلام کو مٹانے کے لئے اربوں روپے اسلام کو مٹانے کے لئے جمع کر لئے گئے تھے لاکھوں واقفین اس وقت عیسائیت کے پاس موجود تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں عیسائیت کو پھیلانے کے لئے وقف کر رکھی تھیں اور اس طرح اُنہوں نے ساری دُنیا میں دجل کا ایک جال پھیلا رکھا تھا۔ غلط دلائل۔ افتراء۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے خلاف باتیں۔ پیسہ۔ اپنی لڑکیاں دوسروں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے یعنی ہر قسم کا گند اُنہوں نے استعمال کیا تھا۔ اسی طرح تعلیم کے سامان۔ کالج۔ ہسپتال۔ بیماروں کے ساتھ ہمدردی اور اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں تھا اور ادھر ساری دُنیا کی طاقتیں جیسا کہ میں نے کہا اسلام پر آخری اور کاری ضرب لگانے کے لئے اکٹھی ہو گئی تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا کمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے زوال کا وقت آگیا چنانچہ جس وقت اسلام کے خلاف شیطانی منصوبے اپنے کمال کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی تاکہ آپ کے ذریعہ عیسائیت کو شکست دے کر اسلام کو غالب کیا جائے اور آپ احمد شان میں(یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو دوسرا نام احمد ہے۔ پہلا نام محمد اور دوسرا نام احمد) یعنی جمالی رنگ میں عشق ومحبت کی آگ میں سلگنے والا دل لے کر مبعوث ہوئے تھے اور یہی عشق ومحبت احمدیوں کے دلوں میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے۔
آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ ایک وقت عیسائی کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں کہاں معجزات کا ذکر ہے؟ اسلام نے کونسا معجزہ دکھایا ہے؟ مگر اب وقت آگیا ہے کہ میں خدا کے نام پر اور اس کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے مخالفوں کے مقابلہ میں آسمانی نشانوں کو ظاہر کروں لیکن یہ میرا مقابلہ نہیں کر سکیں گے بلکہ یہ تو میرے ماننے والوں کے دلائل کے سامنے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے۔ آپ نے اُس زمانے میں یہ اعلان فرمایا جس وقت عیسائی دُنیا یہ سمجھتی تھی کہ یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں۔ ہم تیار ہیں اسلام کو مارنے کے لئے اور اسلام بالکل تیار ہے مرنے کے لئے۔ کیونکہ زندگی اور جان اس کے اندر نہیں ہے نہ علمی میدان میں نہ تائیدات سماویہ کے لحاظ سے واقعی اسلام میں اس وقت کوئی جان باقی نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی احمدیت کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں ظاہر ہوئے اور آپ کی بعثت کی یہ غرض ٹھہری کہ جس طرح پہلوں نے اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کے جلوے دیکھے تھے۔اسی طرح آپ بھی دُنیا کو ان صفات کے جلووں کا مشاہدہ کروائیں۔ علمی لحاظ سے اس قدر دلائل آپ کو دئیے گئے ہیں کہ ان کا شمار ہی کوئی نہیں پھر محض اپنے فضل سے بے سروسامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے والوں اور آپ کے طفیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کرنے والوں کی تربیت کا ایسا انتظام کیا کہ ہزاروں لاکھوں فدائی پیدا کر دئیے۔ دین کے جانثار پیدا کر دئیے اسلام کی روحانی فوج کے سپاہی پیدا کر دئیے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کی روحانی تربیت کا نتیجہ تھا جس کا وعدہ ’’رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا گیا تھا اور اپنے فضل سے بہت سارے سامان پیدا کئے۔ پھر حقیر کوششوں کے جو نتیجے نکلتے ہیں رحیمیت کے جلووں کی وجہ سے اس کا تو ایک سمجھدار احمدی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ اتنی سی ہماری کوشش ہوتی ہے ایسی کوشش کہ جو اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ ایسی قربانی(اگر اسے قربانی کہا جا سکتا ہو) کہ جس کا نام لیتے ہوئے ہمیں شرم آنی چاہئے مگر اس کا نتیجہ ایسا نکلتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ متصرف بالارادہ اور تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے۔
افریقہ میں جہاں کا میں اب دورہ کر کے آیا ہوں جو روپیہ عیسائیت خرچ کر رہی ہے اس کے مقابلہ میں ہم شاید ہزارواں بلکہ لاکھواں حصہ بھی خرچ نہیں کر رہے لیکن ان کے لاکھوں گنا زیادہ خرچ کا نتیجہ اور ہمارے لاکھویں حصہ خرچ کا نتیجہ اگر ہمارے سامنے ہو اور ہم مقابلہ کریں تو ان کے اپنے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اگر وہ ایک آدمی کو عیسائی بناتے ہیں تو احمدیت دس کو حلقہ بگوش اسلام بنا لیتی ہے یعنی کوشش لاکھواں حصہ اور نتیجہ دس گنا زیادہ یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں ہو سکتا نہ ہماری قربانی ایثار اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ نتیجہ پیدا کرے یہ محض اس کا فضل اور رحمت ہے جس کے نتیجہ میں یہ تبدیلیاں اور یہ انقلاب دُنیا میں پیدا ہو رہے ہیں۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام احمد کے روپ میں، احمد کے مظہر ہو کر، احمد کے ظل بن کر اس دُنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور جمالی طور پر (تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ) اخلاق کے ساتھ، دلائل کے ساتھ، تائیدات سماویہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دُنیا پر غالب ہونے کی ذمہ واری آپ کی جماعت پر ڈالی گئی ہے یہ بہت بڑا کام ہے سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بس کا تو یہ روگ ہی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت خلوص نیت کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق قربانی دے گی تو انہیں یہ بشارت دی جاتی ہے کہ ساری دُنیا میں اسلام غالب آجائے گا۔ اگر یہ وعدہ نہ ہوتا تو کوئی عقل مند کھڑے ہو کر یہ نہ کہتا کہ مال کی قربانی دو یا جان کی قربانی دو بلکہ اللہ تعالیٰ جو اپنے قول کا صادق اور اپنے وعدوں کا سچا ہے اس نے یہ کہا ہے کہ جو تمہاری طاقت میں ہے وہ میرے حضور پیش کر دو پھر جو میری طاقت کے جلوے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرو اور میرے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھو۔ چونکہ یہ بشارتیں ہمیں حاصل ہیں اس لئے ہم کھڑے ہو کر جماعت سے یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنو ان فضلوں کا کہ تمہاری کوششیں اگر کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتیں تب بھی وہ اس فضل کا تمہیں مستحق نہ بناتیں۔ چھوٹی سی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے بے حد اور بے شمار فضلوں کا وعدہ کیا ہے اور اسی وعدہ کے پیش نظر ہم کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو۔
مالی قربانی کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اخلاص کا نمونہ پیش کیا ہے۔ جانی قربانی کے متعلق جہاں اساتذہ کا سوال تھا ہماری ضرورت سے زیادہ آگئے ہیں لیکن جہاں تک ڈاکٹروں کا سوال ہے(’’ابھی تک‘‘ یہ کہہ رہا ہوں یوں مجھے اُمید ہے کہ بعد میں آجائیں گے لیکن توجہ دلانا اور یاد دہانی کرانا میرا فرض ہے) پس ابھی تک جتنے ڈاکٹروں کی ہمیں ضرورت ہے وہ پورے نہیں ہوئے۔ ایک تو میرا خطبہ بھی ابھی نہیں چھپا بہت سارے لوگوں کو اس کی اہمیت کا بھی پتہ نہیں ہو گا۔ بہرحال میرے اس پہلے خطبہ کے چھپنے اور اس خطبہ کے چھپنے کے درمیان غالباً ۳۔۴ ہفتوں کا فرق پڑ جائے گا ایک اور یاد دہانی ہو جائے گی۔
اس وقت جتنے بھی آدمیوں کی احمدیت اور اسلام کو ضرورت ہے وہ ہمیں دینے چاہئیں یعنی جو ہماری طاقت میں ہو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ ہم جب یہ قربانی دے دیں گے پھر بھی عیسائیت کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کے مقابلہ میں ہماری تعداد غالباً ہزارواں حصہ ہو گی کیونکہ وہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں دُنیا میں کام کر رہے ہیں۔ پھر اُن کی عورتیں ہیںوہ بھی لاکھوں کی تعداد میں ننّیں (Nuns) بن کر جو ایک غیر فطری چیز ہے سر منڈا لیتی ہیں اور ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کرتی ہیں اور ان کے مقابلہ میں توتم اپنی بہنوں سے یہ قربانی لے ہی نہیں سکتے کیونکہ اسلام نے اسے جائز قرار نہیں دیا۔ جو قربانی ہم لے سکتے ہیں اور لینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے:-
اوّل:- ہماری ہوشیار، دیندار، ذہین اور صاحب فراست بچیاں اپنی خوشی سے واقفین کے ساتھ شادیاں کریں اور دُنیا کی طرف نہ دیکھیں۔ دین کی نعمتوں کو ترجیح دیں۔
دوم:- اپنے خاوندوں کے ساتھ جب باہر جائیں تو ان کی ممدومعاون بنیں اگر غیر ممالک میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں پیش آئیں تو ان سے گھبرا کر اپنے خاوندوں کا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہ کریں اور انہیں صراط مستقیم سے ہٹانے کا موجب نہ بنیں۔
سوم:- وہ ایسے علوم حاصل کریں کہ وہ بھی جب اپنے خاوندوں کے ساتھ باہر جائیں تو دین کا کام بھی کرنے والی ہوں۔صرف گھر کو سنبھالنے والیاں نہ ہوں اور یہ بہت سے طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا۔
میں نے بتایا تھا کہ غانا میں ہمارے انچارج مبلغ کلیم صاحب کی بیوی بالکل ان پڑھ تھیں جب وہ ان کے ساتھ باہر گئیں لیکن چونکہ مخلص اور اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والی تھیں اُنہوں نے منصورہ بیگم کو خود بتایا کہ میں نے سوچا میں ایک اَن پڑھ عورت ایک مبلغ انچارج کی بیوی کی حیثیت میں یہاں آئی ہوں اردو بھی ٹھیک طرح مجھے نہیں آتی انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی میں اپنے مبلغ خاوند کے ساتھ کیسے تعاون کروں گی اور ان کا کس طرح ہاتھ بٹاؤں گی وہ کہنے لگیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ تم انگریزی اور اس قسم کی جو دُنیا میں اور مشہور زبانیں ہیں وہ نہ سیکھو بلکہ وہاں کی مقامی زبان( لوکل ڈائیلیکٹ) جو ہے وہ سیکھ لو۔ چنانچہ اُنہوں نے مقامی زبان سیکھنی شروع کر دی اور اس میں بڑی اچھی مہارت حاصل کی اور پھر سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھاتی رہتی تھیں۔ان کے میاں باہر دوسری نوعیت کا تبلیغی کام کرتے تھے اور یہ گھر میں بیٹھ کر گھر بھی سنبھالتیں اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتی تھیں۔ پس اگر اس قسم کا دل ایک احمدی بچی میں ہو اور ایسا ہی دل ہر احمدی بچی میں ہونا چاہئے تو پھر اسے خود سوچ کر دعائیں کرنے کے بعد اس قدر علم حاصل کر لینا چاہئے کہ جو باہر کے ممالک میں اسلام کے غلبہ کی اللہ تعالیٰ نے جو مہم چلائی ہے اس میں ممدومعاون ثابت ہو۔
ہمارے احمدی ڈاکٹر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہیں۔ پہلے تو شاید کم ہوتے ہوں گے لیکن اس سال کا میرا جو اندازہ ہے وہ یہ ہے کہ سارے مغربی پاکستان میں ہمارے ۲۰۔۳۰ احمدی بچے انشاء اللہ ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بنیں گے اور موجودہ صورت میں بہت سارے تو باہر بھی چلے گئے ہیں کچھ مزید پڑھنے کے لئے اور کچھ نوکریاں کرنے کے لئے لیکن پھر بھی پاکستان میں ہمارا کئی سو ڈاکٹر ہونا چاہئے ان میں سے ہمیں سردست ۳۰ کی ضرورت ہے۔ بعض تو جو میرے علم میں ہیں یعنی میری یاداشت میں ہیں ان کو تو میں خط بھی لکھوا رہا ہوں کہ آگے آؤلیکن جو ڈاکٹر بالکل نیا ہو گا یعنی جس نے اس سال یا پچھلے سال ڈاکٹری کی ہے وہ فی الحال وہاں اتنا اچھا کام نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا تجربہ زیادہ نہیں سوائے اس کے کہ کسی اچھے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ جو پہلے وہاں کام کر رہے ہوں ان کے ساتھ اسے لگا دیں اور ان کے ساتھ مل کر دو چار سال کام کرے۔اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں بھی شفا دے دے علم میں بھی زیادتی دے دے اس لئے فی الحال بہتر یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر زندگی وقف کریں جو یا تو ریٹائر ہو چکے ہوں اور ان کی صحت بھی اچھی ہو اور یا دو چار سال کے اندر ریٹائر ہونے والے ہوں اور وہ اپنے محکمہ سے چھٹی لے لیں یا فراغت حاصل کر لیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۳۔۴ سال کی چھٹی لیں اور پھر ایک سال یہاں آکر کام کریں اور پھر محکمہ سے پوری طرح فراغت پا کر وہاں چلے جائیں۔ بہرحال جس تیزی کے ساتھ اس سکیم کے بعض شعبوں میں ہمیں یہاں کام کرنا چاہئے اسی تیزی سے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ وہاں راہیں کھول رہا ہے شمالی نائجیریا میں حکومت نے ہمارے دو سکولوںکے لئے ہمیں ۴۰۔ ۴۰ ایکٹر مفت زمین دینے کا فیصلہ کر دیا ہے دوسرے دو سکول بھی وہاں کھلنے چاہئیں کیونکہ میں نے اُن سے چار کا وعدہ کیا ہے ان کے لئے بھی وہ عنقریب جب بھی ہم ان سے کہیں گے زمین دے دیں گے۔ ہمارے آدمی وہاں سست تھے میں نے اُنہیں تیز کیا ہے ایک پیراماؤنٹ چیف نے ایک خاصا بڑا زمین کا قطعہ جس میں کچھ عمارتیں بنی ہوئی ہیں دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے سنبھالو اور یہاں سکول کھولو ۔ اس طرح وا(Wa) جو کہ غانا کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ وہاں ہماری بڑی جماعتیں ہیں وہاں ہمارا ایک عربی کا سکول بھی ہے۔ وہاں کی جماعت نے زمین کا ایک وسیع قطعہ سکول اور میڈیکل سنٹر کھولنے کے لئے وقف کیا ہے۔
پس اگر وہ لوگ تو قربانی پیش کر دیں، اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ وہاں کی حکومتیں ، غیر از جماعت امراء اور پیراماؤنٹ چیفس یا اس قسم کے دوسرے لوگ ہمیں زمینیں بھی دیں اور مکان بھی دیں گے اور آپ کہیں ہم آدمی نہیں دیتے تو اس سے بڑھ کر سُبکی اور شرم کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن اس یقین کے باوجود چونکہ مجھے ذَکّر یعنی یاد دہانی کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے اس لئے میں آپ کو یاد دہانی کراتا رہوں گا جب تک میرے اس ابتدائی منصوبہ کے لئے جتنے آدمی چاہئیں وہ مجھے مل نہ جائیں۔ جتنا مال چاہئے وہ مجھے مل جائے۔ مجھے اپنی ذات کے لئے تو ایک دھیلہ بھی نہیں چاہئے نہ کسی اور کے لئے چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کو فروغ دینے کے لئے ضرورت ہے اس سکیم کے ماتحت تو ساری رقم افریقہ پر یا افریقہ کے لئے خرچ ہوگی۔ پس دوست وقف کی طرف توجہ دیں۔
تین تحریکیں میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں ایک یہ کہ ڈاکٹر واقف زندگی بن کر آگے آئیں دوسرے یہ کہ اچھے ٹیچرز واقف زندگی بنکر آگے آئیں تیسرے یہ کہ جو ہمارا مستقل نظامِ وقف ہے اور واقفین بچے جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں اس میں بھی اب دس یا پندرہ یا بیس سے ہمارا کام نہیں چلے گا کیونکہ ضرورت اسلام کے غلبہ کی مہم کو اس سے بہت زیادہ کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم ۵۰ میٹرک پاس طلبہ اس سال جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے چاہئیں اور۱۰۰اگلے سال، پھر شاید ہم اپنی ضرورت کو پورا کر سکیں یہ جو پچاس ہوں گے یا جو سو اگلے سال داخل ہوں گے سات سال کے بعد ان کا نتیجہ نکلے گا اور یہ مبلغ بنیں گے میں نے سوچا ہے کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے اس کے لئے پھر ریٹائرڈ احمدی بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا اچھا خاصا مطالعہ کیا ہوا ہے اور انگریزی بھی جانتے ہیں انہیں باہر بھجوادیں گے کہ جاکر مبلغ کے طور پر کام کرو اور پھر آٹھ دس سال کے بعد پیچھے سے زیادہ تعداد میں ہمارے نوجوان مبلغین آنے شروع ہو جائیں گے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ (میں ان کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن) ایسا کرتے ہیں اور بڑی شرم آتی ہے کہ ایسے لوگ خدا کو کیا منہ دکھائیں گے اور ہم بھی اگر ہم نے ان کی بات مان لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے۔ بڑے آرام سے آکر کہہ دیتے ہیں کہ میرا بچہ نہایت نَخِدْ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا آوارگی اس کے اندر ہے میٹرک میں اس نے لوئر ٹھرڈ ڈویژن کے نمبر لئے ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور تم وہ بھیڑ پیش کر رہے ہو جس کے اوپر گوشت ہی نہیں اور ہڈیاں بھی اس کی گلی ہوئی ہیں اور آدھ مُوأ چمڑا اس کے اوپر ہے یعنی اس کے اندر کوئی قابلیت نہیں اور آکر کہتے ہیں کہ چونکہ دنیا میں اس کے لئے کہیں اور راستہ نہیں اس لئے آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیں۔ ایسا بچہ مبلغ کیسے بن سکتا ہے؟ اس extreme (ایکسٹریم) یا مثال کے بچے کو تو ہم بہرحال داخل نہیں کرتے لیکن اور بہت ساری مثالیں ہیں کہ اس قسم کے لڑکے آکر داخل ہو جاتے ہیں لیکن دراصل نہ اُن کا حق ہوتا ہے نہ اہلیت ہوتی ہے۔
پھر میرے نزدیک جو اوسط درجہ کا طالب علم آتا ہے یہ بھی درست نہیں دین کے لئے ٹاپ کا،نہایت اعلیٰ درجہ کا ذہن وقف ہونا چاہئے یعنی ایسا ذہن کہ اس سے بہتر کوئی اور ذہن نہ ہو، بہت سارے ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں بعض سادگی میں بھی بات کر دیتے ہیں۔ پچھلے سال ایک صاحب جنہوں نے اپنے بچہ دین کے لئے وقف کیا ہوا تھا اُن سے میری ذاتی واقفیت بھی ہے پھر اُن کا کام بھی ایسا ہے کہ وہ مجھے بڑی کثرت سے ملتے رہتے ہیں ان کا بچہ بھی ملتا رہتا تھا اس نے میٹرک میں نہایت اعلیٰ درجہ کی فسٹ ڈویژن لی وہ میرے پاس آگئے کہ یہ بچہ کہتا ہے کہ میرے اتنے اچھے نمبر ہیں مجھے شاید وظیفہ مل جائے مجھے اجازت دیں کہ میں کسی کالج میں داخل ہو جائوں اور سائنس پڑھوں یا کسی اور مضمون میں آگے ترقی کروں مجھے پتہ تھا کہ یہ وسوسہ ہے جو بڑی جلدی دُور ہو جائے گا میں نے مسکرا کر اُن سے کہا کہ نہیں! میں اس کی اجازت نہیں دیتا جیسا کہ تم وقف ہو جاکر جامعہ احمدیہ میں داخل ہو جائو اس قسم کے بعض دوسرے لوگ بھی میرے پاس آتے ہیں۔
پس ایک تو دین کے لئے ہمیں اچھے ذہن چاہئیں دوسرے معاشرہ کے لحاظ سے جامعہ احمدیہ میں ایک سمویا ہوا گروہ ہونا چاہئے یعنی غریبوں کے بچے بھی ہوں، متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہوں اور اچھے امیروں کے بچے بھی وہاں آئیں اگر یہ نہیں ہوگا تو ان کی صحیح تربیت نہیں ہو سکے گی صحیح تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ غریب اور متوسط اور امیر گھرانوں کا بڑا اچھا تعلق ہو ورنہ تو معاشرہ خراب ہو جاتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ جو بُعد ہمیں یہاں ایک وزیر اور ایک عام آدمی کے درمیان نظر آتا ہے وہ بُعد افریقہ میں نظر نہیں آتا، ایک عام معمولی آدمی وزیر سے بڑے دھڑلے کے ساتھ جاکر بات کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کیونکہ اُن کا آپس میں کوئی بُعد نہیں مگر یہاں بڑا بُعد ہے یہاں پر وزیر تو الگ رہا وزیر کا چپڑاسی بھی اچھے بھلے شریف آدمیوں کو بعض دفعہ دھکے دے کر باہر نکال دیتاہے لیکن وہاں تو ایک وزیر بھی ایسا نہیں کر سکتا اُن کا معاشرہ ہی ایسا ہے اسے میں اسلام کا معاشرہ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسلام کا معاشرہ اس سے بھی زیادہ حسین ہے لیکن ہمارے ملک کے معاشرہ کے مقابلہ میں وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ کے زیادہ قریب ہے۔
پس ہمارا یہ معاشرہ یعنی انسانی مساوات کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں یہ پوری طرح قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہم ہر شعبہ میں یہ ثابت نہ کریں کہ انسان انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں اور ایک شعبہ ہمارا جامعہ احمدیہ کا ہے وہاں جو ہمارے Millionaire (میلن اَیر) اگر کوئی ہوں ہماری جماعت میں تو ان کے بچے بھی آنے چاہئیں اور ایک جیسے ماحول میں انہیں تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور پھر ایک جیسی پابندیوں کے ساتھ انہیں باہر جاکر تبلیغ کرنی چاہئے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حقیقی معنی میں مساوات قائم ہے۔ اگر دنیا آج ہمیں یہ کہے کہ مساوات قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہو لیکن تمہارا جامعہ احمدیہ جہاں سے تمہارے مبلغ بن کر نکلتے ہیں وہاں غریبوں کے بچے بھی ہیں متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہیں لیکن امیر گھرانے کا کوئی بچہ نہیں کیا جواب دیں گے آپ یا کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟
یہ حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ جامعہ احمدیہ میں صحیح اسلامی معاشرہ کا امکان امراء کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہو سکا۔ پس امیروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ذہین بچوں کو جامعہ احمدیہ میں بھجوائیں اور اس کے مطابق ان کی تربیت کریں۔ بعض نے کی ہے مثلاً ہمارے مرزا عبدالحق صاحب بڑے اچھے اور کامیاب وکیل ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیسہ بھی دیا ہے ان کا ایک بچہ یہاں جامعہ احدیہ میں پڑھتا رہا ہے آجکل بیچارا جرمنی میں ہے بیچارا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ مصیبت میں ہے اس کا آگے پڑھائی کا کام نہیں ہو رہا بہرحال وہ جامعہ احمدیہ میں اپنے خرچ پر پڑھا اور پھر جرمنی چلا گیا اب تو اس کا وظیفہ بھی مصر سے آگیا تھا لیکن میں نے اسے ہدایت کی تھی کہ نہیں! اب تم جن تکالیف سے گذرے ہو شاید اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہو کہ تم جرمن زبان اچھی طرح سے سیکھ لو اس لئے اب جرمنی میں ہی رہو اور جرمن زبان سیکھو۔ خدا کرے اس میں وہ کامیاب ہو جائے زبان سیکھنے کا ملکہ بھی کسی کسی کو ہوتا ہے ہر ایک کو نہیں ہوتا۔
بہرحال ہمارے جامعہ احمدیہ میں امیروں کے بچے بھی آنے چاہئیں، متوسط طبقہ کے بھی آنے چاہئیں اور غریبوں کے بچے بھی آنے چاہئیں لیکن سارے کے سارے ذہین ہونے چاہئیں اور بڑے مخلص ہونے چاہئیں اور سعیدالفطرت ہونے چاہئیں ویسے تو کسی نے یہ ٹھیکہ نہیں لیا کہ فطرتی سعادت پر انسان ہمیشہ قائم رہے، ٹھوکریں بھی لگ جاتی ہیں۔ بلعم باعور کے قصے بھی ہم نے پڑھے ہیں۔ اچھے اچھے مخلص خاندانوں کے بچے بھی خراب ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ نہایت ذلیل اور کمینے اور دہریہ اور اللہ تعالیٰ کی ہستی سے بیزار اورمذہب سے نفرت کرنے والے گھروں میں متقی اور پرہیزگار اور خدا کا خوف رکھنے والے اور خشیۃ اللہ سے جن کے سینے معمور ہوں وہ پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ یہ اللہ ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے یہ چکر تو اپنی جگہ چل رہا ہے لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ظاہر پر اپنا حکم جاری کرو اور اسی کے مطابق فیصلہ کرو۔ پس ظاہری طور پر مخلص، دیندار اور ایثار پیشہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت رکھنے والے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی محبت سے جن کے سینے پُر اور دل منورہوں ایسے بچے ہمیں چاہئیں اور ہر طبقے سے چاہئیں تاکہ ہم صحیح ذہنی اور اخلاقی نشوونما کر سکیں۔ پس اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک Representative (ری پری زینٹیٹو) یعنی نمائندہ گروہ جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہا ہو۔ سب طبقوں کی نمائندگی کر رہا ہو اور صحیح معاشرہ اور صحیح معاشرہ کے اسباق کی نشاندہی کر رہا ہو۔ آخر انہوں نے باہر جاکر دنیاکا معلم بننا ہے ان میں سے ہر ایک کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ امیر کی تھنکنگ کیا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ہماری تھنکنگ یعنی ہماری سوچ اور فکر کا اسلوب دوسروں سے مختلف ہوگا لیکن ایک امیر کے لڑکے کا اسلوب متوسط اور غریب طبقہ سے بھی مختلف ہوگا وہاں آکر وہ آپس میں سموئے جائیں گے ان کی ذہنی تربیت ہوگی ان کی اخلاقی تربیت ہوگی پھر وہ جو امیر کا بچہ ہے وہ یہ دیکھے گا کہ میں غریب کے بچے کو علم اور شرافت اور اخلاق کے مظاہرے میں آگے نہ نکلنے دوں اس قسم کی مسابقت اور بڑے صحتمند مقابلے کی روح پیدا ہوگی اور غریب کا بچہ کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے تو کیا ہوا مجھے اللہ تعالیٰ نے جو دوسری قوتیں اور استعدادیں دی ہیں ان میں میں اس سے آگے نکلوں گا۔
پس ایسے ماحول میں ہر فرد خوش ہوتا ہے اس لئے اس قسم کے بچے جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں اور بڑی کثرت سے آنے چاہئیں کیونکہ ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ہماری ضرورت پہلے دن سے بڑھی ہوتی پاتا ہے لیکن سورج کی آنکھ تو ہماری ضرورت میں وسعتوں کا مشاہدہ کرے اور ہماری آنکھ جو ہے وہ بند رہے اور نابینا بن جائے تو یہ تو کوئی خیر اور خوبی کی بات نہیں ہے۔ ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل بڑی وسعت اور شدت کے ساتھ موسلادھار بارش کی طرح ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جو یہ عظیم اور کثیر انعامات ہم پر ذمہ داریاں عاید کرتے ہیں ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہمیں ہوش بھی ہونی چاہئے اور ہمارا ارادہ بھی ہونا چاہئے اور ہماری مخلص نیت بھی ہونی چاہئے اور ایثار کا جذبہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو ابتدائی چیزیں ہونی چائیں وہ ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں پھر ان کے نتائج جو ہیں وہ نکلنے چاہئیں تب جاکر ہم اس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کی نشاۃ اُولیٰ میں تمام دُنیا پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا تھا اپنی جلالی صفات کے اظہار کے ساتھ اسی طرح آج کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات ہمارے وجود میں کچھ اس طرح چمکیں کہ دُنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوں اور تمام دنیا کی اقوام کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اکٹھی کر دینے والی ہوں۔ یہ کام ہے ہمارا اور اس سے کم پر نہ ہم اپنے آپ سے خوش رہ سکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے انسان اس کی رضا کو حاصل کرتا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے ایسے اعمال کے بجا لانے کی کہ وہ ہم سے راضی اور خوش ہوجائے اور وہ وعدے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ غلبۂ اسلام کے ہم سے کئے ہیں وہ ہماری زندگیوں میں پورے ہونے لگیں۔
(از رجسٹر خطبات ناصر ۔ غیر مطبوعہ)
حقیقی عزت کا سرچشمہ اور منبع
اللہ تعالیٰ کی ذات ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍جولائی ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد نور راولپنڈی)
حضور انور کے اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن تاحال دستیاب نہیں ہو سکا الفضل میں شائع شدہ خلاصہ درج ذیل ہے۔
حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو وحدتِ اسلامی میں منسلک کرکے ان کی عزت اور وقار کو قائم کرنے اور خدائے حیّی و قیوم سے ان کا رشتہ استوار کرانے کا عظیم الشان کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہوا ہے۔ آپ نے اس الٰہی منشاء اور اہم دینی فریضہ کے پیش نظر احبابِ جماعت کو پیہم جانی اور مالی قربانی کی تحریک کے ساتھ ساتھ ہر وقت دعائیں کرتے رہنے کی بھی ہدایت فرمائی۔
حضور نے پہلے قرآن کریم کی چند آیات سے اس امر پر بھی بصیرت افروز پیرایہ میں روشنی ڈالی کہ جماعت مومنین کے خلاف منافقین کی ریشہ دوانیوں کی اصل غرض دُنیوی عزت اور وقار کا حصول ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقی عزت کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے حقیقی عزت اسی سے لو لگانے اور اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے سے ملتی ہے۔
فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے خدائی ہدایت سے محروم اقوامِ عالم کو حلقہ بگوشِ اسلام کر کے ان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کا عظیم الشان کام جماعت احمدیہ کے سپرد فرمایا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم دلیل اور نمونہ اور دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ نہایت حسین پیرایہ میں دُنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ حقیقی عزت اور احترام اور اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق ومحبت اور آپ کی غلامی میں ملتی ہے۔
فرمایا۔ اس لحاظ سے ہم پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔
جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جہاں پیہم جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہے وہاں جماعتی ترقی اور غلبۂ اسلام کے لئے نہایت دردوالحاح سے دُعائیں بھی کرنی چاہئیں۔
مالی قربانی کے ضمن میں حضور نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح خلافت احمدیہ پر اس وقت تک ۶۲ سال گزر چکے ہیں اسی طرح’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘ میں پاکستان کی جماعت کی مالی قربانیاں بڑھ کر ۶۲ لاکھ روپے تک پہنچ جائیں۔
حضور کا یہ روح پرور خطبہ پون گھنٹے تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور پھر ازراہِ شفقت تمام احباب کو باری باری شرفِ مصافحہ بخشا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍جولائی۱۹۷۰ء صفحہ۳)
ززز


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم ﷺ کو بشارت دی کہ تیرے ذریعہ اقوامِ عالم وحدتِ انسانی میں منسلک کی جائیں گی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍جولائی ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ غیر مطبوعہ)
تشہد وتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:-

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فنافی الرسول کا جو مقام حاصل تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو قرب میسر تھا وہ امت محمدیہ میں کسی اور کے نصیب میں نہ ہوا، نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ وعدہ دیا اور یہ بشارت دی کہ تیرے ذریعہ سے تمام اقوامِ عالم وحدتِ انسانی میں منسلک کی جائیں گی۔ وہ سب تیرے گرد پیار اور محبت سے گھومیں گی اور تیری اطاعت اور اتّباع میں اپنے محبوب اور مقصود اللہ کی رضا کو حاصل کریں گی۔ اقوامِ عالم کا وحدتِ انسانی میں منسلک ہونے کا کام جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا، کامل دین آگیا اور شریعت مکمل ہو گئی۔ تمام دنیا کو قرآن عظیم میں عظیم بشارتیں دیں۔ لیکن اس وحدت کی طرف دنیا کی اقوام نے صدیوں مزید سفر کرنا تھا اس وقت تک کے لئے جب مہدی معہود دنیا کی طرف معبوث ہوں اور اللہ تعالیٰ کی یہ روشنی ساری اقوامِ عالم کو منور کرنے والی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا حقیقی اور بنیادی فرض ہے ہی یہ کہ تمام اقوامِ عالم کو اسلام کے نور سے منّور کرکے اور اسلام کے حُسن کا گرویدہ بنا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پائوں پہ لا ڈالیں باقی تو سب فروعات ہیں وہ راستے ہیں جو مختلف جہات سے ہو کر اس کے ایک مرکز کی طرف رواں دواں ہیں اس وحدتِ اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو ہتھیار یا ذرائع اور اسباب لا سکتے تھے وہ لائے اس وحدتِ اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تین باتوں کی ضرورت ہے۔ ایک کا تعلق آپ سے نہیں کیونکہ وہ دنیوی بات ہے اس کا تعلق عام انسان کی ترقی اور سائنس کے زیادہ سے زیادہ حقائق کو حاصل کرنے سے ہے۔ مثلاً ہوائی جہازوں کی ایجاد اور سمندری جہازوں کی ایجاد اور ریلیں، موٹریں ہیں۔ ہفتوں میں انسان یہاں سے موٹر میں یورپ وغیرہ میں پہنچ جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے نتیجہ میں سالوں کا فاصلہ ایک دن میں طے ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہم جب افریقہ گئے جو یہاں سے سات ہزار میل دور ہے تو اڑان کا وقت ہمارا چھ اور نو قریباً پندرہ سولہ گھنٹے تھا۔ پندرہ سولہ گھنٹے میں جہاز سات ہزار میل دور کے ممالک میں پہنچا دیتا ہے۔ کوئی وقت تھا کہ یہاں سے افریقہ جانے کا خیال بھی انسان نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کوئی بہادر اور جری اور علم کے حصول کا جنون رکھنے والا روانہ ہوتا تھا ابن بطوطہ کی طرح تو سالہا سال کے سفروں کے بعد اس کے لئے ممکن ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر کو واپس لوٹ سکے۔ تو وحدت اقوامی کے قیام کے لئے ضروری تھا کہmeans of communication (مینز آف کمیونی کیشن) جسے کہتے ہیں رسل و رسائل اور آپس کے تعلقات کو قائم کرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے۔ وہ اس حد تک ترقی یافتہ ہو جائیں کہ قوم قوم کے درمیان فاصلہ، مکان کا فاصلہ اور زمان کا فاصلہ جو ہے وہ بہت کم ہو جائے۔ ایسا ہی کم ہو جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ سے مکہ تک پہنچنا یا اس سے بھی کم عرصہ میں دنیا کے بہترین حصہ میں انسان پہنچ سکتا ہے۔ تو ایک اس کے بغیر وحدتِ اقوامی کا قیام ممکن نہیں کہ تمام بنی نوع انسان ایک برادری بن جائیں اور ان کا باپ اس دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ بقیہ دو باتوں کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایک تو ایسا زمانہ چاہئے۔ ایک تو یہ ہو کہ رسل و رسائل means of communication (مینز آف کمیونی کیشن) اتنے ہوں کہ تمام دنیا ایک ملک کی طرح بن جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ حالات ایسے ہوں اور طبائع میں جوش اس قدر ہو کہ تمام مذاہب اپنے اپنے مذہب کی صداقت کے فیصلہ کے لئے تیار ہوں۔ حالات بھی ایسے ہوں کہ ان کا آپس میں مقابلہ ہو سکے مذاہب کی کُشتی کا امکان پیدا ہو جائے جو اس زمانہ میں ہو گیا۔ ایک تو یہ کہ مذہبی آزادی سوائے ایک تنگ ذہن کے ہر جگہ ہمیں نظر آتی ہے۔ مذہب کی بناء پر آج تلوار نہیں نکالی جا رہی نہ کسی کو قتل و غارت کے میدان میں دھکیلا جا رہا ہے۔ الا ماشاء اللّٰہ ۔ ساری دنیا جو ہے وہ باتوں کو سنتی ہے ہمارے ملک میں تعصب ہے مگر ایک چھوٹے سے حصہ میں ہزار میں سے ایک شخص ہوگا جو اس تعصب کی بیماری میں مبتلا ہوگا۔ ہمارے پاکستان والے بھی تحمل سے بات سنتے ہیں اس زمانہ میں ہم ہی بعض دفعہ سستی دکھاتے ہیں انہیں بات نہیں سناتے، وہ سننے کے لئے تیار ہیں اور کسی پر زبردستی نہیں میرے سامنے جب بھی بعض دفعہ جوش میں آکر احمدی کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ پڑھا ہے لیکن یہ صاحب جو ہیں وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو میںنے انہیں کبھی یہ نہیں کہا کہ تم فارم پر دستخط کرو اور تم بیعت کر لو۔ میں نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو! یہ جو مرضی ہے کہتے رہیں جب تک انشراح صدر نہ ہو تم احمدیت میں داخل نہ ہونا کیونکہ گنتی سے تو کوئی فائدہ نہیں نہ گنتی میں کوئی دلچسپی ہے جیسا کہ ان آیات میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہیں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے تو بات سنتے ہیں اور ہمیں سنانی چاہئے تو جس وقت مذاہب کی کُشتی ہو اس وقت غالب آنے والے مذہب کے پاس اس قدر زبردست دلائل ہونے چاہئیں کہ ان دلائل کے سامنے دوسرے مذاہب ٹھہر نہ سکیں۔ یہ زبردست دلائل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام تھا لانا اور آپ لے آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب اور سب سے بڑا بدمذہب یعنی دہریت جو ہے اس کے خلاف بڑے بڑے دلائل دے دیئے ہیں لیکن محض دلائل دینا بھی غالب آنے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتے۔ دنیا کی تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے اس کی تفصیل میں ہمیں جانے کی ضرورت نہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ دوسری چیز جو وحدتِ اقوامی کے لئے ضروری تھی ایسی فضا تھی جس میں مذاہب کی کُشتی امن کی فضا میں ممکن ہو اور جو دلیل اور حجت میں زبردست اور طاقتور ہو اس کی جیت ہو اور وہ دلائل تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیئے اور تیسری چیز جو اس وحدتِ اقوام کے لئے ضروری تھی وہ یہ تھی کہ جس طرح نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے اس گروہ کو آسمانی نشانات اور تائیدات سے نوازا گیا جو آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد دو تین نسلوں میں پیدا ہوں اس طرح ایک قوم صحابہ سے ملتی جلتی پیدا کی جائے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آسمانی نشانات اور تائیدات کی وارث بنے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اس طرح فانی ہے کہ علیحدہ کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آتی اس وجود کی جھلک اس وجود کا حسن اس وجود کا احسان جو ہے وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں نظر آتا ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی کہا کہ دیکھنا! فرق نہ کرنا ورنہ پائوں پھسل جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ صرف خود بڑی کثرت سے بے حدو حساب آسمانی نشانات دنیا کو دکھائے بلکہ آپ نے دنیا میں یہ اعلان بھی کیا کہ میرے سچے اور کامل متبعین بھی آسمانی نشانوں کے وراث بنیں گے۔ یہاں تک فرمایا کہ میرے کامل متبعین کو اللہ تعالیٰ اس قدر برکت دے گا کہ اگر وہ کسی چیز کو چھوئیں گے تو وہ چیز بابرکت ہو جائے گی قبولیتِ دعا کا نشان ہے۔ یہ ساری ہماری جماعت جو مخلصین کا حصہ ہے (منافقین اور کمزوروں کو نکال کر) ان کو اللہ تعالیٰ یہ نشان دکھاتا ہے ان کے وجود میں برکت رکھی ہے۔ ان کے وجود میں جاذبیت رکھی ہے اثر رکھا ہے جو بے نفس، آپ کو ربوہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور آپ کے دل میں ان کی قدرو شناخت نہیں ہوتی۔ جب وہ باہر جاتے ہیں تو وہاں کے سربراہ مملکت جو ہیں وہ بھی ان کی عزت کرتے ہیں ہم نے خود مشاہدہ کیا وہاں پھر آدمی سوچ میں پڑتا ہے کہ بظاہر تو یہ شخص اس قابل نہیں تھا۔ ہر انسان کی توجہ اس طرف جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا تھا اور وہ اپنے و عدوں کا سچا ہے اور اس نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے بے نفس متبعین اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مست رہنے والے جو ہیں ان کو یہ اپنا نشان دکھایا ہے اور یہ برکتیں ان کو دی ہیں تو وحدتِ اقوامی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ تیسری چیز جو نہایت ضروری بھی ہے وہ الٰہی تائید اور نصرت اور آسمانی نشانات ہیں۔ اور وہ آپ لے کر آئے اور ایک ایسی جماعت آپ نے پیدا کی کہ جو سچا ایمان اور حقیقی اخلاص رکھنے والی بے نفس جماعت تھی اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو نشان دکھا رہا ہے اور وحدتِ اقوامی کے لئے حالات سازگار کر رہا ہے اس کثرت سے اور اس طرح پھیلے ہوئے ہیں یہ نشانات کہ انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ افریقہ میں ہماری ایک بہن تھیں جن پر مجھے اس خیال سے رحم آیا کہ اگر وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو دعا کے لئے اسی طرح لکھتی رہتی تو اس وقت ان کی مراد پوری ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نشان بھی دکھانا تھا کہ اس کی شادی کو چالیس ۴۰ سال گذر چکے تھے اورکوئی لڑکا نہیں تھا غالباً کوئی بچہ ہی نہیں تھا اور میری خلافت کے شروع میں انہوں نے دعا کے لئے لکھنا شروع کیا اور شادی کے چالیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو لڑکا دیا۔ سات ہزار میل دور چالیس سال شادی کو ہو چکے۔ انگریز ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ عام عورت پندرہ بیس سال کے بعد بچہ جننے کے قابل ہی نہیں رہتی اور پھر اس عمر میں اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ نشان قبولیتِ دعا کا دکھایا۔ وہاں بھی لوگ دعائوں کے نشان دیکھتے ہیں بڑی کثرت سے یہ نشان اللہ تعالیٰ ظاہر کر رہا ہے اس لئے ہمیں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو ایک خاندان بنانے کا وقت آپہنچا۔ یہ بڑا اہم کام ہے یہ بنیادی کام ہے دراصل یہی کام ہے باقی جیسا کہ میں نے کہا شاخیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو دوسرے کام ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف شاہراہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تیار کی ہیں۔ مختلف دروازے ہیں جو اس کے اندر ہمیں لے کر جا رہے ہیں اصل چیز یہ ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو الا ماشاء اللہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے بندھن میں باندھ دینا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ جو اسلام سے باہر رہ جائے گا ان کی حالت چوہڑوں چماروں کی طرح ہوگی۔ اگر لاہور کی آبادی کا مقابلہ چوہڑوں چماروں سے کریں تو شاید ایک فیصدی ہوں یا دو فیصدی ہوں یہ نہ ہونے کے برابر ہے جو ان کی حیثیت ہوگی اس کام کو کرنے کے لئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ایک جنون کی ضرورت ہے ایسا جنون جو دنیاکے تمام اصولوں کوتوڑ کر پرے پھینک دے اور یہ کہے کہ میں ان کا پابند نہیں ہوں میں اللہ کا عاشق ہوں اور میں اپنے اس عشق کے مطابق دنیا میں کام کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مضمون بیان کیا ہے وہ لمبا ہے میں اس کے بعض پہلو لوں گا۔ اس میں یہ فرمایا ہے کہ جو قوم اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے اسے بھی یاددہانی کرانی پڑتی ہے اور اس میں کمزور بھی ہوتے ہیں ان کو جھنجوڑنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے لیکن جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اپنے گھروں اور اپنے وطنوں سے نکلو ’’ اِثَّا قَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ‘‘ تمہاری طبیعت یا تم میں سے بعض جو ہیں وہ ’’الارض‘‘ کی طرف جس کے معنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ’’وطن‘‘ بھی کئے ہیں۔ یعنی وطن کی محبت آڑے آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم اپنے وطن کو کیسے چھوڑیں اور وطن کی محبت میں ہی گھر کی خاندان کی بیوی بچے کی محبت شامل ہے۔ کیونکہ انہیں محبتوں کا مجموعہ وطن کہلاتا ہے۔ وطن کی محبت کوئی علیحدہ چیز تو نہیں ہے کسی کو بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے کسی کو مال و دولت کی فکر ہوتی ہے۔ کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ۔ ان کے اندر فکر پید اہو جاتا ہے اور وہ کیفیت نہیں رہتی جس کے نتیجہ میں انسان کے لئے روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرنا ممکن ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے ہم نے جو وعدہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ دین اور دنیا کی حسنات تمہیں ملیں گی۔ اگر تم ہمارے قول کے مطابق، ہماری ہدایت کے مطابق، ہمارے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذارو گے وہ حسنات دارین کا وارث کرے گا اور تم صرف ایک بہتری کے پیچھے پڑ جاتے ہو اس دنیا کی جو مجموعی طور پر جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا کروڑواں اربواں کھربواں حصہ بھی نہیں کیونکہ اخروی زندگی جو ہے وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور اس کی نعمتیں اگر دنیا کی فرض کر لو نعمتوں کا ۴؍۱ بھی ہوں تو اسیّ (۸۰) سال کی زندگی میں جو نعمتیں اس دنیا کی ملیں ۲۴۰ سال میں اُس دنیا میں وہ نعمتیں مل جائیں گی اور پھر بعد میں بے شمار زمانہ پڑا ہے نعمتوں کے حصول کا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اخروی نعماء کے مقابلہ میں اس دنیا کی نعمتیں اور آرام اور آسائش اور عیش و عشرت جو ہے وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تم اس حقیقت کو بھول جاتے ہو اور خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان قربانیوں کے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہو جن کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور مدد کے لئے آگے نہیں بڑھو گے تو اس دنیا کی خاطر تم ایسا کر رہے ہوگے اور ہم اس دنیا میں تمہیں عذاب دیں گے۔ جس چیز کی تمہیں تلاش ہے وہ تمہیں اس دنیا میں نہیں ملے گی۔ اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا تمہیں اللہ تعالیٰ ایک درد ناک عذاب پہنچائے گا۔ اور دوسری متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ تم اگر بے وفائی کرو گے اور نفاق کی راہوں کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا منشاء پورا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر جو ہے اس کے راستے میں روک پیدا ہو جائے گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ اللہ تعالیٰ تو قادر ہے کہ وہ تمہیں مٹا دے گا اور ایک اور قوم لے آئے گا۔ وہ قوم تمہاری طرح ایمان کی کمزور اور دل کی منافق نہیں ہوگی۔ وہ عاشق ہوگی اپنے رب کی اور پیار کرنے والی ہوگی اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ وہ قربانیاں دے گی بشاشت کے ساتھ جن کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا۔ اور پھر وہ اس دنیا کی حسنات کے بھی وارث ہوں گے اور اس کی بھی حسنات کے وارث ہوں گے۔ لَاتَضُرُّوْہُ شَیْئًا تم نے کیسے سوچ لیا کہ اللہ تعالیٰ ایک تقدیر اس دنیا میں جاری کرنا چاہے اور تم اس کے رستے میں روک بنو۔ تم روک نہیں بن سکتے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتا ہے کر گذرتا ہے ہر چیز پر قادر ہے وہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ مدد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خلفاء کو حاصل ہوتی رہے گی یہاں پر ’’دو‘‘ کا ذکر ہے (نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے خلفاء کا) ظاہری طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن معنوی طور پر آپ کا خلیفہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس غار میں اور اس سفر میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھی کسی دوسرے مخلص کو نہیں بنایا بلکہ اس کو بنایا جس نے پہلی خلافت کی کرسی کے اوپر متمکن ہوناتھا۔ اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کو پہنچتی ہے اور خلیفۂ وقت کو کہا کہ تم جماعت کی طرف نہ دیکھنا کہ اگر تم اکیلے رہ گئے۔ جس طرح حضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ خلافت راشدہ میں ہر خلیفہ کے ساتھ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ہیں۔ ثانی اثنین کیونکہ آپ کے بغیر آپ سے بُعد میں، آپ سے دوری میں، آپ سے قطع تعلق کرکے خلافت راشدہ نہیں رہی۔
ثانی اثنین میں جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال ہے خلافت راشدہ میں آپ ساتھ ہیں اور جو دوسرے ہیں وہ معنوی لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اسی واسطے قرآن کریم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کہا نام نہیں لیا۔ بلکہ کہا ایک ساتھی کے ساتھ۔ دو میں دوسرا تھا۔ ظاہری جسم کے لحاظ سے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور مقام کے لحاظ سے پہلے خلیفہ تھے امت مسلمہ کے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مدد کرو یا نہ کرو۔ میری مدد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلیفہ کے ساتھ رہے گی اور اگر تم مدد نہیں کرو گے تو آسمان سے ایسی فوجیں اُتریں گی جو کمزوریٔ ایمان کے نتیجہ میں تمہیں نظر نہیں آئیں گی اور وہ مدد کر رہی ہوں گی۔ جب ایسی فوجیں بہت سے موقعوں پر اُتریں تو جن کے ایمان مضبوط تھے ان کو نظر آرہی تھیں وہ فوجیں، بڑی کثرت سے صحابہ نے ا ن فوجوں کے متعلق باتیں کیں کہ ہم نے یوں دیکھا ہم نے یوں دیکھا۔ ڈرانے کے لئے استثنائی طور پر کافروں کو بھی بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے دکھا دیں۔ لیکن مومنوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور ان کو اور بھی ہشاش بشاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نظارے دکھائے۔ ایمان کی پختگی کے نتیجہ میں لیکن جو کمزورایمان والا یا منافق ہے اور وہ جس کے دل کے اندر ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا۔ اس کو یہ آسمانی فوج نظر نہیں آتی۔ لیکن وعدہ ہے اور یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ اب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں جو کارنامہ کیا اپنی خلافت میں اور ہم نے وہاں دیکھا۔ اگر ہم ان مبلغین کی طرف دیکھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہاں خلوص کے ساتھ ایثار اور قربانی کی توفیق عطا کی تو وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا جو ہمیں نظر آیا۔ اس سے ہزارواں حصہ شاید کم نکلتا۔ اگر عمل اور اس کے نتیجہ پر نگاہ کی جائے لیکن عمل ایک اور نتیجہ ایک ہزار۔ اسی کا مطلب یہ ہوا کہ نو سو ننانوے نتیجہ پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فوجوں کو نازل کیا اور وہ نتائج ہمیں بتاتے ہیں کہ آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوا اور اُنہوں نے اس وعدہ کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا گیا تھا۔ غلبۂ اسلام کے سامان پیدا کئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ خلافت ثالثہ کے ذریعہ دلائل کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ غلبۂ اسلام کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرتا جاتا ہے اور کرتا چلا جائے گا۔ جب تک کہ وہ آخری غلبہ اسلام کو حاصل نہیں ہو جائے گا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں اور تمام بنی نوع انسان جب تک اسلام میں داخل ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فدائی نہ بن جائیں۔ اس غلبہ کے حصول کے لئے جس جہاد کی ضرورت ہے وہ تلوار کا جہاد نہیں کیونکہ اسلام کے خلاف تلوار میان سے نہیں نکالی گئی۔ نہ مذہب کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم تو استعمال کیا جاتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ اس کی ہلاکت کا جسموں پر اثر ہے۔ لیکن مذہب کے مقابلہ میں ایٹم بم نہ استعمال کیا جاتا ہے نہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے یورپ کو کہا آپ بھی بتایا کہ ساری دُنیا کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم مل کر بھی ایک دل میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ لاکھوں کروڑوں کو تباہ کر سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایک دل میں وہ تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ دل میں تبدیلی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا کرتا ہے۔ وہ فضل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ شامل کر دیا ہے ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور ہم حمد کر نہیں کر سکتے ۔ ہم عاجز بندے ہیں اتنا انعام ہم پر وہ کر رہا ہے۔
بہرحال جو غلبۂ اسلام کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور جس طرح ایک وقت میں جب مضبوط ہو گئی عرب کی قوم۔ عرب میں جو مسلمان تھے ان کو طاقت ہوئی۔ ارتداد کا فتنہ اُٹھا وہ فتنہ دبا دیا گیا اور پھر عرب اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہو گیا۔تب اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ اس وقت کی جو معلوم دُنیا تھی اس پر غالب آیا۔ چھیڑ چھاڑ شروع کی ایرانیوں نے بھی اور رومیوں نے بھی اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان حالات کے لحاظ سے جو نہایت اعلیٰ تلواریں یعنی ایرانیوں اور رومیوں کے پاس ، وہ کند تلواریں اور گندے لوہے کی تلواریں اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کہا نکالو! کیونکہ تلوار کے لوہے نے فیصلہ نہیں کرنا۔ میرے حکم نے فیصلہ کرنا ہے۔ آدمی تاریخ پڑھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔ خالد بن ولید تھے بڑے مخلص، بڑے سمجھدار اور قرآن کریم کے رموزو اسرار سے واقف، کیونکہ اگر ان کی تقریریں پڑھیں تو آدمی ان سے یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ نڈر فدائی تھے اور بعض دفعہ ایک ایک جنگ میں نو نو تلواریں ان کے ہاتھ سے ٹوٹ جاتی تھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ سپاہی لڑ رہا ہو اس کے سامنے دشمن ہو اور تلوار ٹوٹ جائے اور پھر بھی اس کی جان کی حفاظت ہو تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کرتا تھا لیکن اس سے پتہ لگتا تھاکہ ان کی تلواریں ان کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ نو نو تلواریں ایک دن میں ایک معرکہ میں شاید ایک گھنٹہ کے اندراندر ٹوٹ جاتی تھیں کیا کرتے بیچارے جو ان کے پاس تھا وہ اپنے رب کے حضور پیش کر دیتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا تھا۔ آسمان سے ان پر فرشتے نازل ہوتے تھے۔ پھر رومیوں کے ساتھ ان کمزور فدائیوں کو لڑنا پڑا۔ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ اور دو دو لاکھ فوج کے مقابلہ میں بیس تیس پینتیس ہزار بعض دفعہ پانچ ہزار بعض دفعہ دس ہزار کی فوج جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ان کو فتح دیتا تھا اور کثرت کا خیال نہیں رکھتا تھا کیونکہ جو سبق دیا گیا تھا ان آیات میں جس کا ذکر ہے وہ تو یہ ہے کہ اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلیفہ جیسی حیثیت رکھیںگے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ساری دُنیا پر غالب ہوں گے وہ مقابلہ تو دو کا تھا ساری مخالف دُنیا کے ساتھ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا۔ اس وقت کچھ مراکز بنے۔ ساری دُنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے۔ ایک تو ایران کا ملک تھا جس کے ماتحت عراق بھی تھا۔ عراق کے ورلے حصے جو عرب سے ملتے تھے وہ Base(بیس) بنی وہ ایک Camp(کیمپ) بنا۔ ان حصوں کی طرف فاتحانہ یلغار کا اور دوسری طرف شام بنا۔ میں سوچتا ہوں اور طبیعت پر یہ اثر ہے اورحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر بھی یہی اثر تھا کہ ایک Base(بیس) ہماری افریقہ ہے اور اس وقت ہماری حالت دُنیوی مماثلت کے لحاظ سے وہ ہے جو عراق کے ورلے علاقہ میں مسلمان فوجوں کی تھی۔ جس وقت وہ عرب سے باہر نکلے اور اُنہوں نے آزادیٔ ضمیر کی خاطر ایران جیسی زبردست سلطنت سے ٹکر لی۔ وہاں حالت ابھی نہیں آئی کچھ بدل گئے ہیں روم کی حالت ہے کیونکہ روم میں کسریٰ سے لڑائی ہوئی۔ ہماری پہلی لڑائی ایسا معلوم ہوتا ہے عیسائی مذہب سے ہو گی جس طرح رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی۔ویسے تاریخ کے لحاظ سے وہ دوسری لڑائی ہے مسلمانوں سے۔ اس زمانہ میں اور ہماری دوسری لڑائی دھریوں سے ہو گی جیسا کہ ایران میں مسلمانوں کی لڑائیاں ہوئیں کیونکہ وہاں آتش پرست تھے۔ خدائے واحد ویگانہ کو ماننے والے نہ تھے۔ رومی جو تھے وہ تثلیث کے بھی قائل تھے۔ بیچ میں یونیٹیرین بھی تھے۔ بہرحال وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نازل شدہ شریعت اور ہدایت کے ماننے والے تھے۔ یعنی شریعت ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اور ہدایت ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ اس وقت جو ابتدائی ہماری جنگ غلبۂ اسلام کے سلسلہ میں ہے وہ ہم نے افریقہ میں لڑنی ہے اور افریقہ میں مغربی افریقہ ہمارے لئے Camp(کیمپ) اور Base(بیس) بنے گا اور بن رہا ہے۔ اس جنگ کے لئے میں نے مالی اور جانی جہاد کی ندا دی ہے۔ آپ کو اس کی طرف بلایا ہے اور میں خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل دیکھتا ہوں کہ جماعت کی بڑی بھاری اکثریت نے انتہائی فدائیت اور جان نثاری کا ثبوت دیا ہے۔ جانی میدان میں بھی اور مالی میدان میں بھی۔ ایک مہینہ نہیں گزرا ابھی پہلے سترہ دن میں تو سترہ لاکھ روپیہ (نصرت جہاں ریزرو فنڈ)میں ہو گیا تھا اورجتنے ٹیچر چاہئے تھے ان سے زیادہ ہمارے پاس آگئے ہیں۔ اور ڈاکٹروں کی کچھ کمی تھی وہ پوری ہو گئی اور مالی لحاظ سے ٹیچر بھی اور دوسرے بھی۔ لیکن جس قسم کی مذہبی جنگ جو دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ لڑنی اور جیتنی ہے اللہ کے فضل سے اس کی توفیق سے، اس کے لئے۔ پتہ نہیں کل کو کتنے آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی۔ ٹیچر اور مبلغین کی بھی۔او ر یہ تو یقینی بات ہے جس قسم کے اس وقت ہمارے پاس نہیں۔ ان سے زیادہ مخلص فدائی اور جنونی آدمی ہمیں چاہئیں۔ ہمارا نظام ’’رٹ‘‘ کے اندر جس کو کہتے ہیں رستہ بنایا ہوا ہے پہیہ اس میں پڑ گیا ہے۔ حالانکہ ہمارا ماحول اور ہماری ضرورت اور ہمارے مخالف کا جو طریق جنگ ہے ہمیں اس رٹ سے پہیہ اس نشان سے باہر نکالنا ہے اور ہم نے دفاع نہیں کرنا کیونکہ دفاع کا وقت گزر گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود تیس ہزار سے زیادہ اعتراض عیسائیوں کے اکٹھے کئے اور ان کا جواب دیا۔ اب عیسائی جو ہے وہ اپنا دفاع کر رہا ہے اور ہم اس کے اوپر حملہ آور ہیںاور اس حملہ میں ہماری وہ فراست ہونی چاہئے جو دوسری جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں دکھایا کرتے تھے۔ اس قسم کی فدائیت چاہئے۔آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ ایسی جھڑپیں ہوئیں کہ مسلمان چار ہزار اور دشمن سولہ ہزار اور بہرحال ان کو زیادہ قربانی اس لحاظ سے بھی دینی پڑتی تھی کہ ان کی تو باہیں شل ہو جاتی تھیں۔ وہ دشمن چار ہزار پیچھے ہٹا لیتے تھے اور تازہ دم چار ہزار لڑنے کے لئے آگے بھیج دیتے تھے۔ تو چاروں ٹکڑیوںکے ساتھ ایک ٹکڑی کو لڑنا پڑتا تھا کیونکہ وہ ان سے چار گنے زیادہ تھے اس کے باوجود تاریخ لکھتی ہے کہ قریباً ساری رات وہ قرآن کریم کی تلاوت اور نوافل میں گزارتے تھے اور صبح کے وقت میدان جنگ میں چلے جاتے تھے تو ان کی قوت اور طاقت کا منبع اور سرچشمہ نیند اور آرام یا کھانا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش تھی۔ اس طرف ہمارے بہت سے مبلغ ہیں جو توجہ دے رہے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو توجہ نہیں دے رہے اگر تم نے اپنے جسم اور روح کی طاقت اللہ تعالیٰ سے حاصل نہ کی تو تمام ادیان کے مقابلہ میں جو جنگ تم لڑ رہے ہو۔ اس کی طاقت تم کیسے پاؤ گے تم لڑ ہی نہیں سکتے تمہارے جسم تمہارے ذہن تمہارے حافظے اور تمہاری ذہنی اور روحانی قوتیں جو ہیں وہ اتنی کمزور ہوں گی(اس منبع سے کٹ کر) کہ تم غالب نہیں آسکتے اپنے مخالف پر۔ تم ناکارہ سپاہی تو کہلا سکتے ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فوج کا جو آج ساری دُنیا سے برسرِ پیکار ہے۔ روحانی اور علمی لحاظ سے لیکن تمہیں کار آمد وجود اس فوج کا نہیں کہہ سکتے ۔تمہیں اپنا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب سے مضبوط کرنا پڑے گا۔ اور اپنی ساری طاقت اس سے حاصل کرنی پڑے گی۔ اور اپنے نفس کو مارنا پڑے گا۔ اور ایک نئی زندگی اس سے پانی پڑے گی۔ تب تم جا کر اس میدان میں فتح حاصل کر سکتے ہو۔ ورنہ نہیں کر سکتے تو ہمارے جو مبلغ ہیں اور رضا کار ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ورنہ ان کا وجود ایک ناکارہ وجود ہے بے ثمروجود ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور نہ ہی نکل رہا ہے۔ ایسے جو ہیں۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارا پختہ تعلق ہو اور اگر ساری طاقتوں کا منبع اور سرچشمہ ہم اس ذات کو سمجھیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھک کر اور اپنے پر ایک موت وارد کر کے اس کو کہیں کہ اے خدا ہمارا کچھ نہیں ہماری زندگی بھی نہیں ہم ایک مردہ لاشہ کی طرح ہیں ہم تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرتے ہیں۔ تو ہمیں نئی زندگی اور نئی طاقت اور نئی فراست کے نور سے ہمارے سینوں کو بھر دے اور ہم میں وہ برکت ڈال۔ جس برکت کا تو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی قوت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ کیا۔ اگر اس طرح ہم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق کو پیدا کر سکیں اور ساری طاقتیں اس کے قدموں میں پھینک کر اس سے طاقت حاصل کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو جو نئے آنے والے ہیں ان کو بھی میری یہ نصیحت ہے اور جو پرانے آئے ہوئے ہیں ان کو بھی میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ تم عظیم جہاد میں کامیاب جرنیل ثابت ہو سکو۔ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور دُنیا میں اپنے مقصود کو پانا ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ واقع میں اسلام دُنیا میں غالب آجائے تو اپنے اوپر ایک موت وارد کر کے اپنے رب سے ایک نئی زندگی پاؤ۔ تب تم واقع میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنت کو بھی پاؤ گے اور دُنیا میں آنے والی نسلیں تمہیں عزت اور احترام کے ساتھ یاد کریں گی۔ ورنہ جس طرح دُنیا ابی ابن سلول کو نہیں بھولی تم میں سے بعض کو نہیں بھولے گی۔ خواہ وہ اپنے زعم میں خود کو کتنا ہی قابل عزت اور قابل احترام بھی نہ سمجھتا ہو اس طرح تمہیں بھی یاد رکھے گی۔ لیکن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرح تمہیں یاد نہیں رکھے گی۔اس سے بڑھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح جس طرح ان بزرگ فدائیوں کو جو ثانی اثنین تھا ہر ایک کو اُنہوں نے یاد رکھا۔ اس طرح تمہیں یاد نہ رکھے گی لیکن اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہو کر اپنا سب کچھ خداتعالیٰ کے قدموں میں ڈال دو تو خداتعالیٰ کی رحمت آسمانوں سے تم پر نازل ہو گی اور وہ فوجیں اُتریں گی جنہیں تم تو دیکھو گے لیکن دُنیا نہیں دیکھ رہی ہو گی نہ کمزور ایمان اور منافق انہیں دیکھ رہا ہو گا۔ نتائج ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ایک انقلابِ عظیم آیا ہے اس کے پیچھے کوئی ہاتھ ہونا چاہئے لیکن وہ ہاتھ نظر نہیں آرہا ہو گا کیونکہ وہ غیر مرئی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا ہو گا جسے یہ انسان اور اس کی آنکھ نہیں دیکھا کرتی۔اور جو مالی مطالبہ ہے میں سمجھتا ہوںاور میری خواہش ہے کہ اسے اتنے لاکھ ہو جانا چاہئے جو خلافت احمدیہ کے سال ہیں۔ یعنی اس وقت تک دو خلافتیں اور کچھ سال پتہ نہیں کب تک میں نے زندہ رہنا ہے لیکن اس وقت تک جو زندگی اللہ تعالیٰ مجھے دے چکا ہے۔ اس کو پہلی دو خلافتوں کے سالوں میں شامل کر کے جتنے سال بنتے ہیں تقریباً ۶۲ سال۔ اتنے لاکھ (چندہ نصرت جہاں ریزرو فنڈکا) ہونا چاہئے اور جانی قربانی اتنی کثرت سے اور اسقدر ایثار سے ہونی چاہئے کہ اگلے پانچ سال، پچھلے ساٹھ سالہ ظاہری ترقی کے مقابلہ میں زیادہ ہوں یعنی اگلے پانچ سال میں اتنی Base(بیس) کو اپنے حملہ کے لئے جو تیاری ہو یعنی آخری کامیاب حملہ کی جو تیاری ہو اس کے لئے اس قدر تیار کر لیں کہ آہستہ آہستہ بتدریج اللہ تعالیٰ نے جو ترقی دی تھی۔ اگلے پانچ یا دس سال میں ہم اس سے آگے نکل جائیں۔ یہ ضروری ہے کامیابی آئے محض ترقی ضروری نہیں۔ محض اپنی رفتار کو قائم رکھنا یہ کافی نہیں بلکہ ہر دوسرا قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہئے اور اس کو انگریزی میں Momentumکہتے ہیں۔یعنی ہر سال کوشش اور اس کا نیتجہ پہلے سال سے دُگنا ہونا چاہئے تب ہم جا کر اگلے دس سال میں اسی چیز کو حاصل کر سکتے ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں او ر جس کے حصول کو اللہ تعالیٰ نے بالکل ممکن بنا دیا ہے۔ جو میں وہاں دیکھ کر آیا ہوں آدمی کثرت سے آئیں مخلص آئیں ایسے آئیں کہ جو فدائی ہوں۔ بے نفس ہوں مردہ ہوں دُنیا کی نگاہ میں اور اللہ تعالیٰ سے زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں۔
خدا کرے ایسا ہو۔ خدا کرے کہ ہماری آج کی جو ذمہ داری ہے اس کو ہم نبھا سکیں۔ آج ہم انتہائی طور پر نازک دور میں سے اس معنی میں گذر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عظیم کامیابیوں کے لئے دُنیا کی فضا کو ہمارے لئے بہتر بنا دیا ہے۔ اور اس تبدیلی کا جو امکان ہے اس تبدیلی کو عملی شکل دینا یہ ہمارے سپرد کر دیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے قریباً پھل تیار کر کے اس طرح جس طرح دس فٹ کے اوپر اس درخت کا پھل پک جائے جو خود بخود نہیں گرا کرتا۔ یعنی ٹپکا نہیں ہوتا۔ بعض ایسے درخت ہوتے ہیں جس کا پھل ٹپکا نہیں ہوتا۔ آم تو ٹپک پڑتا ہے۔ بعض پھل پکنے کے بعد بھی درخت کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ تو جو دس فٹ اوپر پھل ہے اور پک جاتا ہے اس کو توڑنا انسان کا کام ہے۔ پھل پک چکا ہے لیکن گرے گا نہیں۔ جس طرح میں نے افریقنوں کو کہا تھا ایک مضمون کے سلسلہ میں آپ کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی کامیابی کے جو مختلف دور ہیں اور جن مدارج میں سے ہم نے گذرنا ہے۔ سیڑھی بہ سیڑھی چڑھ کر بہت عظیم انقلاب ہمارے سامنے ہے۔ مقدر ہو چکا ہے لیکن اس Destiny(ڈسٹنی) اس تقدیر کا پھل ہم نے توڑنا ہے۔ ہماری گود میں نہیں گرے گا۔ پھل تیار ہے۔ رفعتوں کو آپ حاصل کریں اور پھل کو پالیں۔اِثَّا قَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ خدا نخواستہ ہماری ذہنیت ہو تو جو بلندیوں میں پھل تمہارا انتظار کر رہا ہے زمین پر گر جانا یا زمین کے ہو جانے سے وہ پھل تمہیں نہیں مل سکتا۔ ایسا نہ کبھی ہوا نہ ہو سکتا ہے اور نہ کبھی ہو گا تو جو چیز تمہارے لئے مقدر ہو چکی ہے اس کے حصول کے لئے انتہائی کوششیں کرو اور اللہ کے انتہائی فضلوں کو حاصل کرو۔ خدا آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا کرے۔ (اللّٰھم اٰمین)
(از رجسٹر خطبات ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز







ایمان کی پختگی کے بغیر ہم اپنی
ذمہ داری کو نباہ نہیں سکتے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۷؍اگست۱۹۷۰ء بمقام سعید ہائوس ایبٹ آباد۔ غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
’’صحت کے ساتھ بیماری بھی لگی ہوئی ہے اور بعض بیماریاں توایسی ہیں کہ ایک دفعہ حملہ کریں تو پھر ان کا عمر کا ساتھ ہوجاتا ہے اسی قسم کی بیماریوں میںسے پیچش ہے خصوصاً وہ قسم جسے’’ایم بی بک ڈیسنٹری‘‘ کہتے ہیں بڑی دیر سے مجھے بھی تکلیف ہے۔ کبھی یہ بیماری سوئی رہتی ہے اور کبھی بیدارہوکر تنگ کرتی ہے۔ ربوہ میںہی پیچش کا بڑا سخت حملہ ہوا لیکن وہاں ایک دو روز چلنے سے قبل حملہ ہوا تھا۔ میں نے اس کی دوائی اس لئے استعمال نہیں کی کہ دوائی پیچش کو تو خداتعالیٰ کے فضل سے فائدہ پہنچاتی ہے لیکن کمزوری بہت کر دیتی ہے اور وہاں اس قسم کے کام تھے اور اس نوعیت کے کام تھے کہ جنہیں ختم کرنا ضروری تھا اس لئے میں نے خیال کیا کہ کام کئے جائیںاورپیچش کو کھیلنے دیا جائے یہاں آکر دوائی کا استعمال کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کچھ افاقہ ہے لیکن کمزوری اتنی ہوگئی ہے کہ آج صبح توخیال تھا کہ میں شایدجمعہ میں شامل نہ ہوسکوں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شامل ہوگیا ہوں اور کوشش کروں گا کہ بالکل مختصر بیان میں آپ کی توجہ ایک نہایت اہم بات کی طرف مبذول کرادوں اوریہ ایک بنیادی بات ہے یعنی ایمان پر پختگی سے قائم ہونا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ ایمان کے لفظ کو استعمال کیاہے اور اس کے بیسیوں شعبے اور بیسیوں شاخیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض کے متعلق شاید میں بعد میں انشاء اللہ خطبات دوں گا آج میں صرف اصولی بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایمان پر پختگی ضروری ہے ورنہ ایمان کا کوئی فائدہ نہیں مثلاً ہمیں بعض مومن ایسے بھی نظر آتے ہیں کہ جو بظاہر دیانتداری کے ساتھ اور اخلاص سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اپنی اس دیانت داری اوراخلاص کے باوجود وہ قبروں پرجاکر سجدہ بھی کردیتے ہیں یعنی بہت سے اَن پڑھ ناسمجھ پورا علم نہ رکھنے والے عوام مسلمان قبروں پرجاکر سجدہ بھی کردیتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان باللہ پر پُختہ ہیں حالانکہ اللہ پر ایمان اور کسی قبر یا قبروالے کا خیال یہ تو اکٹھے نہیں ہوسکتے لیکن عدم علم اور جہالت کے نتیجہ میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں(وہ اپنے خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے ہوتے البتہ اپنے نفس کو ضرور دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں) کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانے کے راستے میں قبرکا سجدہ روک نہیں ہے۔
ایک بڑی موٹی مثال ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے کہ ہم اپنے ایمانوں پر پختگی سے قائم ہوں چنانچہ جب ہم صحابہؓ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم حیران ہوجاتے ہیں کہ کس قدر پختہ ایمان تھا ان کا، ہر اس شعبہ اور شاخ کے متعلق کہ جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ قریباً۳۸یا۴۰ سالہ دور ہے ہجرت کے بعد کا خلافت راشدہ کے اختتام تک اس زمانہ پر اگرآپ اس نقطہ نگاہ سے نظر ڈالیں کہ صحابہؓ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جن لوگوں نے صحیح اور کامل اور پوری تربیت حاصل کی انہوں نے کیا کردار ادا کیا تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ اسلام کی روح رواں تھے وہ امت مسلمہ کی جان اور ریڑھ کی ہڈی تھے ان کے بغیر امت مسلمہ کا جسم بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اوپر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اسلام کی روح رواں بنیں کیونکہ انہوںنے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ تربیت حاصل کی ہوئی تھی وہ لوگ جو صحابہؓ کہلائے گوبعد میں توامت مسلمہ کے علماء اور فقہاء نے صحابی کی تعریف بہت نرم کردی تاکہ صحابیوں کے نام کا تقدس اور برکت امت میں جاری رہے لیکن صحابہؓ میں سے دو گروہ ہیں ایک وہ جو دن رات آپ کے قُرب میں رہنے والے تھے اورہر بات کے متعلق اوراپنی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق آپ سے تربیت حاصل کرنے والے تھے اور دوسرے وہ تھے جو تین سو میل سے آئے ایک دفعہ ملے اور پھر واپس چلے گئے۔ صحابی کی تعریف کے مطابق وہ بھی صحابی بن گئے یامثلاً حج کرنے آئے اور دور سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اورمقدس اور نورانی وجود پرنظرڈالی اور برکت لی(برکت انہوںنے یقینا لی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا) اور حج کے دنوں میں آپ کے کلمات سنے اور اس سے استفادہ کیا یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ان دوبرکتوں یعنی ایک وہ شخص ہے جو دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برکتیں حاصل کر رہا ہے اور ایک وہ شخص ہے جس نے برکت تو حاصل کی لیکن اپنی ساری زندگی میں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں دس منٹ یا آدھ گھنٹہ یا گھنٹے تک برکت حاصل کی پس عملی زندگی اور اس زمانہ کے حقائق کے لحاظ سے ان دوبرکتوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔
مثلاً ایک اور واقعہ میں یہاں بیان کردیتا ہوںیرموک کی جنگ ہوئی قیصر روم کے ساتھ مسلمانوں کی جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں سے یہ جنگ سب سے زیادہ خطرناک تھی ایک اور اس سے ملتی جلتی جنگ تھی لیکن یہ یقینا بہت خطرناک جنگ تھی مسلمان ان کی تعداد کے لحاظ سے جو ان کی تعداد کم کرکے اور اپنی تعداد زیادہ کرکے دیکھ رہے تھے مورخین میں بڑا اختلاف ہے جو زیادہ سے زیادہ تعداد ثقہ مؤرخین نے مسلمانوں کی لکھی ہے وہ لی جائے اور جو کم سے کم تعداد مسلمان مؤرخین نے رومیوں یعنی عیسائیوں کی لکھی ہے وہ لی جائے تو مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد میں ۱ اور ۴،۱ اور ۵کا فرق ہے۔ غرض یہ بڑی زبردست جنگ تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے مسلمانوں کو فتح دی لیکن اس جنگ میں ایک دن میں(باقی تو چھوٹی چھوٹی جھڑپیں تھیں) ایک ہزار ایسے صحابہ رضوان اللہ علیھم شہید ہوئے جو صحیح طورپر ایک لمبے عرصہ تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کرچکے تھے اور جو اپنی ذمہ داری کو کما حقہ، سمجھتے تھے اور اس ایک ہزار میں ایک سو ایسے صحابہؓ تھے جو بدر میں شامل ہوئے تھے حالانکہ بدر پہلی جنگ ہے پس معلوم ہوا یہ بہت پرانے صحابہؓ میں سے تھے کیونکہ بدر میں کُل۳۱۳ صحابہؓ شامل ہوئے تھے اور یرموک کی جنگ تک بہت سے ویسے ہی وفات پاگئے ہونگے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس دن بدری صحابہؓ میں سے باقی کتنے موجود ہونگے لیکن اگر فرض کرلیں کہ سارے موجود تھے تب بھی۳۱۳کی اس ابتدائی جماعت میں سے جو شروع سے ایمان لائے اور ساری جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے ان۳۱۳ میں سے ایک سو صحابی یعنی ایک تہائی یہاں شہید ہوگئے یہ چوٹی کے صحابہؓ تھے اور امت مسلمہ کی جان تھے اس وقت اگر یہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ شاید کسی اور رنگ میں فضل کرتا اسکے فضل کے جو دروازے ہیں ان کاتو کوئی شمار نہیں لیکن ظاہری حالات میں یہ لوگ جو تھے ان کے ساتھ جب دوسروں پر نگاہ ڈالتے ہیںتو ان میں ان جیسی ہمت نظر نہیں آتی کہ یرموک کی جنگ یا ایران کی دوسری جنگیں یا قیصر روم کے ساتھ دوسری جنگیں جیت سکتے۔ ان پرانے صحابہؓ میں سے بسا اوقات ایک ایک آدمی جنگ جیت جاتا تھا۔
ایک دفعہ مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا۔ وہSurrender(سرنڈر) نہیں کررہے تھے حالانکہ ایسی صورت میں دشمن کے ساتھ اسلام نے بڑی نرمی دکھائی ہے کہا ہے یا اسلام لے آئو تمہیں ہر قسم کی برکتیں ملیںگی دین کی بھی اور دنیا کی بھی اور اگر تمہارے دل میں اسلام کی صداقت پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو پھر جزیہ دے دو ہماری امان میں آجائو۔تم ہماری حفاظت میں ہو گے اور اس کا کرایہ سمجھ لو جس طرح کرایہ پر آدمی ٹیکسی لیتا ہے اسی طرح ہماری تلواریں تمہاری حفاظت کریں گی تم ہمیں تھوڑا سا جزیہ دے دو یعنی ہرآدمی کو جزیہ کے طور پر سال میں چند روپے دینے پڑتے تھے۔ اسلام نے جزیہ کی بہت نرم شرائط رکھی ہیں مگریہ جزیہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں تھے اور لڑتے بھی نہیں تھے قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئے تھے مسلمان تنگ آگئے چونکہ وہ عملی زندگی کے عاشق تھے اگر چارپانچ دن بھی کوئی معرکہ نہ ہوتا تھا تو وہ بے چین ہوجاتے تھے کیونکہ دوسرے روحانی معرکوں سے تو وہ دور آئے ہوئے تھے اور اب میدان جنگ میں پڑے ہوئے تھے۔
چنانچہ ایک دن ان پرانے صحابہؓ میں سے ایک بزرگ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم یہاں محاصرہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں دشمن باہر نکلتا نہیں قلعہ اتنا مضبوط ہے کہ ہمارے لئے ویسے اندر جانا مشکل ہے تم مجھے اُٹھا کر قلعے کی دیوار کے پرے دروازے کے پاس پھینک دو میںوہاں جو سپاہی ہوں گے ان کو مار دوں گا اور قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا وہ چونکہ بڑے بزرگ صحابیؓ تھے اس لئے ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم آپ کو کس طرح موت کے منہ میں پھینک دیں ہماری شامت آئی ہے؟ انہوںنے کہا نہیں میںجو کہتا ہوں کہ مجھے قلعہ کے اندر پھینک دو میں اکیلاکافی ہوں آگے روایتوں میں اختلاف ہوگیا ہے بعض نے کہا ہے کہ ان کے ساتھی مان گئے اور انہوںنے کندھوں پر اٹھا کر ان کے پرلی طرف کودنے کا سامان کردیا ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا اچھا میں خود ہی دیوارپرچڑھ جاتاہوں بہرحال وہ اکیلے دشمن کے قلعے کے اندر گھُس گئے۔ قلعہ مضبوط اور اس کے اندر ان کی ایسی فوج جسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتھا کیونکہ جنگ ہی کوئی نہیںہوئی تھی مگر انہوںنے اکیلے خدا کی راہ میں دلیری دکھائی کہ دیوار پھاندی،اندر گئے پانچ دس آدمی جو دروازے پر محافظ تھے ان کو خدا کے فضل سے قتل کردیا جس وقت دروازہ کھولنے لگے تو پیچھے سے ان کے اورآدمی آگئے یعنی سینکڑوںکی بات تھی۔ اب دروازہ کھلتا یا ان کو پکڑ کرماردیتے لیکن اس وقت(یہ خدا کی شان تھی کہ) قلعہ کے دروازہ پر تالہ نہیں لگا ہوا تھا بلکہ بولٹ ٹائپ کی کوئی چیز تھی اس واسطے جلدی سے دروازہ کھل گیا۔ مسلمان فوج اندر آگئی اور قلعے پر قابض ہوگئی گو انہوںنے اندر آکر بھی دشمن سے لڑائی لڑی لیکن اصل میں تو اس جنگ کو جیتنے والے وہی ایک صحابیؓ تھے۔
امت مسلمہ کی تاریخ میں یہ ساری چیزیں ہمیں کیوں نظر آتی ہیں؟ اسلئے ہمیں نظر آتی ہیں کہ وہ ایمان کی پختگی پر قائم تھے۔ ایسے قائم تھے کہ حضرت خالدؓ بن ولید نے بسا اوقات دشمن کو اپنے خط میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے لئے بہتریہ ہے کہ جزیہ پرصلح کرلوکیونکہ میرے ساتھ وہ فوج ہے جو موت سے اس سے زیادہ پیارکرتی ہے جتنا تم لوگوں کو زندگی سے پیا رہے اوران کے عمل بھی یہی ثابت کررہے تھے۔
یہی ایمان کی پختگی آج بھی چاہئے آج بھی اسلام کو اسی کی ضرورت ہے۔ غلبہ اسلام کا وہ کام جوہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ اسکے بغیر نہیں ہوسکتا جنون ہی ہے نا جس طرح وہ جنون تھا کہ اکیلے اندر جاکر قلعے کا دروازہ کھول دے گا۔ ایک دنیا دار کی نگاہ میں وہ ایک جنون کی بات تھی اور یہ بھی ایک جنون کی بات ہے جب وہ ہم سے یہ سنتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی غریب جماعت جسے مٹانے کے لئے ساری دنیا اکٹھی ہوگئی ہے اور جس کے پاس طاقت نہیں، روپیہ نہیں اور دولت نہیں دنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی بڑے اچھے سکالر نہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے جس طرح وہ(یعنی صحابہؓ) کہتے تھے کہ ساری دنیا میں اسلام اب فاتح اور غالب کی حیثیت سے رہے گا صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کو غالب کرکے چھوڑیںگے یہ تو بالکل بے معنی بات ہے جب تک اس قسم کا ایمان اور ایمان میں اس قسم کی پختگی نہ ہو جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں تھی۔ اس پختگی کے بغیر توہم کام ہی نہیں کرسکتے یہ تومذاق ہے دنیا کے ساتھ اور اپنے نفسوں کے ساتھ یہ تو شیطان کے ہاتھ میں کھیلنا ہے غرض ایمان کی پختگی کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں سکتے میں نے بتایا ہے کہ ایمان کی پختگی مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہے اسکی مختلف شاخیں ہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھر بتائوں گا آج تو الحمد اللہ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے چند منٹ ہی بنیادی طورپر یہ بات میںنے بتادی ہے اس کی تفصیل میں انشاء اللہ پھر جائیں گے۔
(از رجسٹر خطبات ِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز



ایمان کی روح اور اسلام کی جان
ایمان باللہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ اگست۱۹۷۰ء بمقام سعید ہائوس ایبٹ آباد ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
مجھے سارا ہفتہ ہی خون کے دبائو میںکمی کی تکلیف ہو جاتی رہی ہے۔ آج صبح بھی ۱۱۲۔۷۶ تھا اور اس وقت دوائی کھانے کے باوجود۱۱۴ ہوا ہے ۔دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ اس کی وجہ سے ضعف دماغ بھی ہوجاتا ہے۔ آدمی ٹھیک طرح کام نہیں کرسکتا۔
میںنے گزشتہ جمعہ مختصراً ایمان کی پختگی کے متعلق احباب کو توجہ دلائی تھی قرآنِ کریم میں ایمان کا لفظ دوطریق پر استعمال ہو اہے۔ ایک تو مخصوص بنیادی چیزوں پر ایمان کے متعلق جیساکہ اللہ تعالیٰ کہیں فرماتا ہے ایمان بالغیب لانا چاہئے کہیں فرماتا ہے آخرت پرایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے انبیاء اور رُسل پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین انسان اوررسول تھے ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ پہلی ہدایتوں پر جو دراصل قرآن کریم ہی کے حصے اور ٹکڑے اور ’’نصیب‘‘ تھے۔ ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ تمہیں جو پیشگوئیاں اور بشارتیں دی گئی ہیں اُن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ غرض اس طرح ایمان کے ساتھ وضاحت ہوجاتی ہے کہ اس بات(یعنی جو مضمون بیان ہورہا ہو) پر ایمان لاناضروری ہے۔
دوسرے ایمان کا لفظ جو عام طور پر اور بڑی کثرت کے ساتھ استعمال ہو اہے اس کے ساتھ آگے تفصیل نہیں ہوتی یہ فرمایا ہے کہ ایما ن لائو ایمان کا یہ فائدہ ہے ایمان کا یہ ثواب ہے ایمان سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا غیب پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا رُسل پرایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا قرآن کریم پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے وغیرہ۔ غرض ایسی صورت میں تفصیل نہیں دی ہوتی اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے کہ ایمان لائو۔
دراصل جہاں کہیں بھی ایمان کے لفظ کو اس طریق پر استعمال کیا گیا ہے وہاں ایمان کے تمام تقاضے مراد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایمان کے جو بھی تقاضے مقرر فرمائے ہیںاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح کی ہے ان تقاضوں کو پوراکرنا مراد ہے مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ایمان لانے والے ہوگے تو کوئی غیر تم پرغالب نہیں آئے گا۔
اَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْ مِنِیْنَ (آل عمران :۱۴۰)
اب یہاں مومن کے لفظ کے ساتھ مؤمن باللّٰہ یا مؤمن بالغیب یا مؤمن بالآخرۃ وغیرہ نہیں ہے بلکہ محض مومن کا لفظ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان کے سب تقاضوں کو پوراکرنے والے ہوگے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اوراسکی نصرت تمہارے شاملِ حال ہوگی اور تم ہی غالب آئو گے غیر تم پر غالب نہیں آئے گا۔
پس جب اللہ تعالیٰ کی ساری محبت اورساری نُصرت اور ساری رحمت اور ساری برکت کو جذب کرنے اوراسکی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ٹھہراتو پھر ہمیں ایمان کے سب تقاضوں کا علم بھی ہونا چاہئے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان کے جو مختلف تقاضے بیان فرمائے ہیں ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ وار کچھ بیان کروںگا۔
ایمان کا پہلا تقاضا اور وہی دراصل ایمان کی روح اور اسلام کی جان ہے وہ ایمان باللّٰہ ہے پس جب میں نے کہا تھا کہ ایمان میں پختگی پیدا کرو تو میرا یہی مطلب تھا کہ ایمان کے جتنے پہلو اور جتنی شاخیں ہیں ہر پہلو اور شاخ کے متعلق اپنے ایمانوں میں پختگی پیداکرو ایمان کے مضمون کے اندر جو بنیادی چیز ہے وہ ایمان باللہ ہے یعنی اللہ پر ایمان لانا۔ اللہ پر ایمان لانا اور لانے میں بڑافرق ہے ایک شخص اللہ تعالیٰ کو جانتا ہی نہیں لیکن زبان سے کہتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لاتاہوں اللہ پر حقیقی ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کی معرفت حاصل ہو اور جب پوری معرفت حاصل ہوجائے تو پھر سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ معرفت کے بغیر وہ چیز ہمیں مل نہیں سکتی جو اسلام ہمیں دینا چاہتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا۔
پس صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے خدا اور رسول کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان لانا چاہئے جس طرح قرآن کریم کہتا ہے کہ ایمان لائو مثلاً اللہ تعالیٰ کو ہر حالت اور زندگی کے ہر موڑ پر قادر مطلق سمجھنا دنیا میں کسی قوم یا کسی انسان کی زندگی میں کوئی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ جس وقت یہ کہا جائے کہ اب خدا بھی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا یہ بھی ایک پہلو ہے۔
میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرے دوتین عزیز ہیں۔ معصوم تھے لیکن قتل کے ایک کیس میں ملوث ہوگئے ہیں جج جو فیصلہ کرتا ہے وہ خدا کی طرح علّام الغیوب تونہیں ہوتا۔ بعض دفعہ شرارت بھی کرتا ہے یہ بھی ایک پہلو ہے لیکن بہت دفعہ اپنی جہالت کی وجہ سے فیصلہ کردیتا ہے گواہیوں پر اس نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے خود پتہ بھی ہوتا ہے کہ وہ غلط فیصلہ کررہا ہے لیکن اسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ جن گواہوں کے بیان اس نے ریکارڈ کئے ہیں ان سے جو شکل بنتی ہے اسی کے مطابق اسے قدم لینا پڑتا ہے جو وہ لیتا ہے بہرحال ہمیں بھی اور ان کے عزیزوں کو بھی پتہ تھا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ خیر سیشن جج نے انہیں پھانسی کی سزا دی پھر ہائیکورٹ میں اپیل کی مگر یہاں بھی پھانسی کی سزا Confirm (کنفرم) ہوئی پھر اپیل ہوئی سپریم کورٹ میں یہاں بھی سز ا بحال رہی پھرانہوںنے گورنر صاحب کے پاس Mercy(مرسی یعنی رحم کی)اپیل کی اور انہوں نے بھی اس سزا کو بحال رکھا پھر انہوں نے مجھے دعا کے لئے لکھا ( ویسے پہلے بھی وہ دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے) لیکن قبولیت دعا یاانکار کے اوقات بھی اسی نے مقرر کئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ مالک ہے جب انہوںنے پریذیڈنٹ کے پا س اپیل کی تو ان کے ایک عزیز نے سارے حالات بتاتے ہوئے لکھا کہ اس طرح کا یہ مقدمہ ہے۔ لو گ کہتے ہیں کہ آج تک ایسا کبھی نہیںہوا کہ ایسے حالات میں صدر رحم کی اپیل منظور کرلے لیکن بہرحال یہ آخری موقعہ تھا ہم نے اپیل کی ہے آپ دعا کریں ۔ اب جس چیز کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اسے میں آگے بیان کرنے والا ہوں چنانچہ میںنے خط پڑھا اس وقت ایک رائے میرے دماغ میں یہ آئی اور میں نے اپنے دماغ میں یہ فقرہ بنالیا کہ جب ایسے حالات ہوںتو مصیبت میں صبر کرنا چاہئے اور کوئی گھبرانے کی بات نہیں ابھی میرے قلم نے یہ فقرہ لکھا نہیں تھا کہ میرے ربّ نے مجھے پکڑا اور جھنجھوڑا اور مجھے یہ کہا کہ تم ایک احمدی کو یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا موقع بھی آسکتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیںکرسکتا خیر قلم نے تو ابھی کچھ لکھا نہیں تھا میں نے استغفار پڑھی اور انہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی چیز اَن ہونی نہیں آپ گھبرائیں نہیں میں دعا کروں گا ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ ان کا خط آیا کہ رحم کی اپیل منظور ہوگئی ہے اور وہ سب رہا ہوکر گھروں میں آگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس قسم کی قدرت رکھنے والاہے۔ اس سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے’’لَا تَقْنَطُوْا‘‘ (الزّمر:۵۴) کیونکہ مایوسی شرک ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک ضعف کا احتمال ہوتا ہے یہ ایمان باللہ نہیں ہے ہم اس قادر مطلق پر ایمان لاتے ہیں جو ایک ذرہ حقیر کے ذریعہ دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیتا ہے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اسلام کے پہلے تیس سالہ دو رمیں مسلمانوں کی کامیابیوں کے نتیجہ میں جو ایک عظیم انقلاب بپا ہوگیا تھا مسلمانوںنے قیصروکسریٰ کی زبردست باشاہتوں کے تختے الٹ دئیے تھے ان کامیابیوں کی جان درحقیقت دس پندرہ ہزار صحابہ کرام تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پائی تھی بعد میں آنے والے غیر تربیت یافتہ لوگ یہ کام کرہی نہیں سکتے تھے کیونکہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اس پر پختگی سے قائم تھے۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول مانتے تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بات آپ کو بتائی ہے وہ واقعہ ہی بتائی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی طاقت والا ہے وہ بات غلط نہیں ہوسکتی۔
میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بھی بتایا تھا کہ ایک قلعہ جو فتح نہیں ہورہا تھا اسے ایک صحابی نے فتح کرلیا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ مجھے دیوار کے پرے پھنیک دو۔ پہلے تو ان کے ساتھی مانتے نہیں تھے یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اندر گئے۔ گیٹ پر موجود سپاہیوں کو قتل کرکے گیٹ کھول دیا فوج اندر آگئی اور اسطرح ایک آدمی کی جرأت سے قلعہ فتح ہوگیا۔ کیاوہ صحابی پاگل تھے؟ نہیں وہ پاگل نہیں تھے ان سے زیادہ عقلمند انسان دنیا میںپیدا ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے اس سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں ہوسکتا قرآن کریم نے صرف یہ نہیں کہا کہ اللہ پرایمان لائو اور اس کی صفات جس رنگ میں قران کریم میں بیان ہوئی ہیں یا جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفسیر بیان فرمائی ہے اس رنگ میں ان کی معرفت حاصل کرو۔
مثلاً اللہ تعالیٰ پر رب ہونے کے لحاظ سے ایمان لائو کیونکہ ساری ربوبیتِ عالمین کا منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ آپ دنیا کے ماحول پر نگاہ ڈالیںتو پتہ لگتا ہے کہ سارا کارخانہ ٔ عالم اس کی اس صفت پر چل رہا ہے یعنی ایک تدریجی ارتقاء ہے جو ربوبیت کا تقاضا کرتا ہے یہ میرے سامنے درخت ہے ایک وقت میں اس کی چھوٹی سی گٹھلی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اسے غذا ملتی رہے۔ بڑا ہو اورپتے نکالے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ایک گٹھلی میں آگے ہزاروں لاکھوں درختوں کے پیدا ہونے کے لئے Cells(سیلز) یعنی نقطے مخفی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہرجگہ نظر آتی ہے اپنے گھروں میں اپنے بچوں پر نگا ڈالیں اپنے اوپر نگاہ ڈالیںاپنے کپڑوں پر نگاہ ڈالیں اپنے جوتوں پر نگاہ ڈالیں آپ کو نظر آئے گا کہ ہر چیز نے ترقی کے مختلف ادوار یا Changes (چینجز) میں سے گزر کر یہ آخری شکل اختیار کی ہے کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جو انسان نے اپنے ہاتھ سے کی ہیں اس عقل کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے اللہ تعالیٰ سے ہمارا چھٹکارا نہیں ہے اگرہم معرفت رکھتے ہوں اور کچھ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون قدرت ایسا بنادیا ہے مگر کہیں کہیںہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ قانون قدر ت کچھ بنایا تھا اور اپنے قانون قدرت کو قانونِ خاص سے بدل دیا اس پر بھی اللہ تعالیٰ قادر ہے یعنی خود اپنے قانون کے اندر بندھا ہوا نہیں ہے وہ متصرف بالارادہ ہستی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتاہے موٹر کے اس کارخانے کی طرح نہیں ہے کہ جس موٹر کووہ پٹرول پر چلنے کے لئے بنائے وہ ڈیزل سے نہیں چل سکتی اور جس کو ڈیزل پر بنایا ہے وہ پٹرول سے نہیں چل سکتی غرض ہر حرکت، ہرسکون، ہرتبدیلی ہر انقلاب چھوٹا یا بڑا اس کے بالارادہ تصرف کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اس خدا کو قرآن کریم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور کوئی عیب یا کمزوری یا لاعلمی اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی۔ دنیا میںکوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی منشاء کے بغیر ہو مثلاً یہ اسکا منشاء تھا کہ وہ انسان کو آزادی دے۔ بعض احمق یہ اعتراض کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود گناہ کرواناچاہا گندگی پھیلانی چاہی(معاذاللہ) یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اجازت دے دی کہ اگرتم چاہو تو نیکیوں کی طرف آجائومحبت کو دوسری مخلوق سے زیادہ حاصل کرو چاہو توتم گندمیں پھنس جائو اور اس کے قہر اور غضب کودوسروں سے زیادہ حاصل کرو پس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ بھی نہیں ہوسکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اور ایک ایسی مخلوق پیدا کرنی چاہی جس کی جان اور روح اور مرکزی نقطہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی اور اس انسان کوپیدا کیا جس کو ایک محدود ماحول کے اندر آزادی دی۔ محدود ماحول کے اندر آزادی کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے پھیپھڑوں کو یہ آزادی نہیںہے کہ وہ ہوا کی بجائے پانی سے آکسیجن لے لیں۔ ہمارا جسم ہی کچھ ایسا بنا ہوا ہے اب تو ڈاکٹروں نے ہزار قسم کے Matalism (میٹالزم) بنا لئے ہیں کوئی میٹھے کا کوئی ہواکا یہ سارے میٹالزم چل رہے ہیں اس عالمین کا یہ سلسلہ ایک کارخانہ کی طرح چل رہا ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متوازن غذا کھائو تو صحت مند رہو گے۔ ’’وَضَعَ الْمِیْزَانْ‘‘ کی رو سے اس نے اس دنیا کی ہر چیز میں ایک توازن قائم کردیا ہے۔ انسان کے جسم کے لئے بھی اس کی غذا کے لئے بھی توازن قائم کیا ہے اس میں اسے کوئی آزادی نہیں ہے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ چونکہ میں آزاد مخلوق کا ایک فرد ہوں اس لئے میں صرف میٹھا کھا یا کروں گا اورمجھے ذیابیطس نہیں ہوگی۔ جوصرف میٹھا ہی کھائے گا وہ بَنْیُوں کی طرح موٹا بھی ہوجائے گا اور اسے بہت ساری بیماریاں بھی لگ جائیںگی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میں آزاد ہوں اسلئے میں صرف گوشت کھایا کرونگا۔ اوّل تو اگروہ شیر کی طرح خالی گوشت کھانا شروع کردے تو اس کے جسم میں سے بدبو آنی شروع ہوجائے گی دوسرے اس کا جسم،اسکے اخلاق پھر اس کی روحانیت اور ذہن جو ہے وہ متوازن ارتقاء نہیں کرسکے گا۔ اگر کسی بچے کو بچپن سے سوائے گوشت کے کچھ نہ دیا جائے تو وہ انسانی معاشرہ کاایک نارمل فرد نہیں بن سکے گا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا ہے۔
پس ہر جگہ توہم آزاد نہیں البتہ ایک چھوٹے سے دائرے میں آزاد ہیں ہم اس بات میں آزاد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور شریعت نازل کی ہے اگر چاہیں تو اس کے آگے اپنی گردنیں رکھیں اور اگر چاہیں توشیطان کے بچے بن جائیں مگر یہ وارننگ دے دی کہ اگر تم میری بات مانوگے تومیری رضا کی جنتوں میں اپنا ٹھکانا بنائو گے اوراگر تم میری بات نہیں مانو گے شیطان کی گود میں بیٹھنا چاہو گے تو اس دنیا میں تو ممکن ہے ظاہری طور پر تمہیں اس کا کوئی فائدہ پہنچ جائے لیکن ابدی طور پر پھر تمہیں جہنم کی آگ کے اندر شیطان کی گود میںبیٹھنا پڑے گا کیونکہ وہاں تمہیں بٹھا دیا جائے گا اور بچوں کوکہا جائے گا کہ آئو اس کے گرد کھیلتے رہو۔
غرض یہ آزادی دی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی منشاء سے دی ہے اس دنیا میں کوئی چیز اس کی منشاء اور اجازت کے بغیر ٹھہر ہی نہیں سکتی۔
اب ہمارے مشرقی پاکستان میں طوفان آئے ہیںحالات پڑھ کر دل بڑا دکھتا ہے ہمارے بھائی تکلیف میں ہیں ہمیں بھی تکلیف ہورہی ہے۔ جماعت احمدیہ پر ان لوگوں کی مدد کرنے کا ایک ایسا فرض عاید ہوتا ہے جس کی طرف دوسروں کو خیال ہی نہیں اور وہ ہے ان کے لئے دعائیں کرنا۔ دوسرے لوگ تو دعا پر کامل ایمان ہی نہیں رکھتے قرآن کریم ایک ایسے خدا کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس نے اپنی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ وہ دعائوں کو قبول کرتا ہے اور وہ تقدیر معلق کو بدل بھی دیتا ہے اور ایسی تقدیر جو مبرم سے ملتی جلتی ہو اور یہ ساری نسبتیں دراصل انسان کے فیصلہ پر منحصرہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے تو ہر چیز واضح ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرََّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ۔ (النمل:۶۳)
یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ جب انسان تضرع اور ابتہال کے ساتھ اس کے حضور جھکتا اور اپنے یا اپنوں کی تکلیفیں دور ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہے تواللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اس بات کا اعلان کیا اور ہم نے ساری دنیا میں اس کی مثالیں پیش کیں(ہم نے کیا کرنی تھیں ہم تو عاجز انسان ہیں) اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ احمدیت کے ذریعہ ان اقوام کے سامنے اس بات کا کہ
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرََّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ۔ (النمل:۶۳)
کے مطابق یہ معجزہ بھی دکھایا کہ سات سات ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ دور سے دعائوں کے خط آتے ہیں لوگ تکلیف میں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے نہ کسی بندے کی خوبی کے نتیجہ میںدعا کو قبول فرماتا اورانکی تکلیف کو دور کردیتا ہے اسلئے نہیں دور کرتا کہ ناصرؔ یا زید میں کوئی خوبی تھی اور اس کااظہار رکرنا چاہتا تھا بلکہ وہ دعا کے ذریعہ اس لئے تکلیف کو دورکرتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا ہے۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرََّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ۔ (النمل:۶۳)
اپنے اس قول کو اس نے ڈیمانسٹریٹ(Demonstrate) کرنا تھا اس کی مثالیں قائم کرنی تھیں۔
ہمارے مشرقی افریقہ میں ایک سکھ بیماری کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھا احمدیوں سے اس کی واقفیت تھی ہمارے مبلغ نے اسے کہا کہ حضرت صاحب کو دعا کے لئے خط لکھا کرو خیر اس نے دعا کے لئے مجھے لکھنا شروع کیا۔ ۵۔۶ مہینوں کے بعد مجھے اس کا خط ملاجس میں اس نے لکھا کہ اب مجھے بالکل آرام ہے اسلئے آپ بے شک میرے خط کا جوا ب بھی نہ دیں اسکو خیال آیا کہ ان کے پیسے خرچ ہورہے ہیں میں نے کہا کہ تم اصل چیز کوتو سمجھے ہی نہیں تم نے ابھی تک اس خدا کو پہنچانا ہی نہیں جسے ہم پہنچانتے ہیں اور جو خدا کو پہچانتا ہے اس کے ساتھ اپنے تعلق کو زندہ اور قائم رکھنا نہیں چاہتے کل کوپھر مصیبت پڑے گی تو پھر آئو گے اس واسطے میں اسے جواب ضرور بھجواتا رہا اس نے دوتین خط لکھے کہ مجھے میرے خط کا جواب دینے کی ضرورت نہیں میں خود ہی لکھ دیا کرونگا لیکن میں نے اپنے دفتر والوںسے کہا کہ نہیں یہ سمجھتا نہیں میں سمجھتا ہوں اس کے خطوں کا جواب ضروردینا ہے چنانچہ دوسرے تیسرے مہینے اس کا خط آتا ہے اور لکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل ٹھیک ہے۔
اب وہ شخص غیر مسلم کئی ہزار میل دور مشرقی افریقہ میں بیماری کی تکلیف میں مبتلا تھا اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں یہ جواعلان فرمایا ہے اس کی رو سے وہ یہ معجزہ دکھانا چاہتا تھا اور بتانا چاہتا تھا کہ یہ محض لفّاظی نہیں ہے اور محض کاغذی اعلان نہیں ہے بلکہ فرماتا ہے کہ میں اس بات کی قدرت اور طاقت رکھتا ہوں کہ دنیا کو اس اعلان کے مطابق اپنی قدرتوں کے نظارے دکھائوںاور وہ دکھا رہا ہے۔
پس مشرقی پاکستا ن میں جو کچھ ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلا ف تو نہیں ہوسکتاتھا ہمارے بھائی بڑی تکلیف میں ہیں گھر سے بے گھر ہوگئے سامان ضائع ہوگیا مکان گر گئے کھانے پینے کی تکلیف سے دوچار ہیں۔ دوسری جگہ جاکرانسان کے لئے اگرچہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن مہمان ہوتا ہے اوراپنی عادات کی وجہ سے اسے ہزاروں قسم کی تکلیفیں پہنچتی ہیں عزتِ نفس کا خیال ہوتا ہے چاہے حکومت ہی سر پر ہاتھ رکھ رہی ہو دوسرے لوگ بھی مدد کررہے ہونگے لیکن اس کے باوجود کئی لوگ ایسے بھی ہونگے جنہیں اس پریشانی میں کھانے کے لئے مجبوراً لینا پڑتا ہوگا ان کا دل نہیں کرتا ہوگا۔
ایک مہاجر کے متعلق یاد ہے و ہ احمدی نہیں تھا وہ گورداسپور سے آیا تھا اس نے ہمارے خزانہ میں اپنا حساب کھلوایاہواتھایہاں اُجڑ کر آیاتھا مجھے پتہ تھا کہ ایک دھیلہ ساتھ نہیں لایا اور اس کا بہت بڑا خاندان تھاخیر چونکہ میں اسے ذاتی طورپر جانتا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ تم تکلیف میں تھے مگر یہاں نہیں آئے وہ کہنے لگا اب بھی میں پیسے جمع کروانے کے لئے آیا ہوں لینے کے لئے نہیں آیا کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلا جمع شدہ سرمایہ خرچ نہیںکرناکیونکہ پہلی پونجی اگر ہم نے ختم کردی تو ہمیں سستی کی عادت پڑجائے گی اس واسطے خاندان کے کمانے والے افراد سے کہہ دیا ہے کہ کماؤ اور کھائو۔
پس ایسے حال میں بعض طبیعتیں اپنا سرمایہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیںہوتیں تکلیف محسوس کرتی ہیں اور دوسروں سے لینا عار محسوس کرتی ہیںلیکن ہزاروںلوگ لینے پر بھی مجبور ہوں گے مجبوری ہے جب بچے بلکتے ہیںتو یہ جذباتی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے اور ایسے کئی لوگ ہونگے مجھے اس کا بڑا احساس ہے اسی واسطے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کی بغیر بتائے مددکرتا ہے وہ بڑا ہی ثواب حاصل کرتا ہے۔ صحابہ کرام رات کے اندھیروں میں جاکر دے دیتے تھے ہم بھی کبھی سنت پرعمل کرتے ہیں جسکو کوئی چیز دینی ہو وہ چیز لفافے میں بند کرکے ایسے رنگ میںاسکے پاس پہنچا دیتے ہیں کہ اسکو پتہ ہی نہ لگے یا اگر کوئی دوسرا تکلیف دے تو اسے ایسے رنگ میں معاف کردیتے ہیں کہ اسکو پتہ ہی نہ لگے۔
مثلاً میں بچہ تھا مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتا تھا مغرب کی نماز مسجد اقصیٰ میں پڑھا کرتاتھا کیونکہ مسجد مبارک میں دیر ہوجاتی تھی حضرت امّ المومنین رضی اللہ عنھا فرمایا کرتی تھیں کہ تم نے پڑھنا بھی ہے اور پھر سونا بھی ہے اس لئے وہاں چلے جایا کرو ہم تنگ گلی سے گزر کر مسجد اقصیٰ جایا کرتے تھے جس میں رات کو سخت اندھیرا ہواکرتا تھا ایک دن میں نیچے اترا تو مدرسہ احمدیہ کے طلباء قطار میں نماز پڑھنے کے لئے جارہے تھے میں بھی ان میں شامل ہوگیا اندھیرا تھا میرا پائوں اگلے لڑکے کے سلیپر پر پڑا اور اسے ٹھوکر لگ گئی خیر وہ چُپ کرگیا دوسری دفعہ جب پھر ایسا ہوا تو اس نے پیچھے ہٹ کر مجھے کھینچ کر چپیڑ لگائی میں فوراً پیچھے ہٹ گیا میں نے سوچاآگے روشنی میں جائیں گے تو میری شکل دیکھ کر شاید شرمندگی کی وجہ سے اسے تکلیف ہوگی اسلئے میں اسے یہ تکلیف کیوں دوں چنانچہ میںدس پندرہ قدم پیچھے ہٹ کر ساتھ ہولیا۔ مگر اسے آج تک پتہ نہیں کہ کس کے منہ پر چپیڑ پڑی تھی۔ گو اس نے اندھیرے میں سہی یاغیر ارادی طور پرسہی لیکن میرا پائوں غلطی کررہا تھا میرے پائوں کو یہ حق تو نہیںتھا کہ وہ دوسروں کو تکلیف دے۔
بہرحال کبھی چھپ کر دینا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض ایسی طبیعتیں ہیں جن کا جائز حق ہوتا ہے لیکن وہ دوسرے کے ہاتھ سے لینا پسند نہیںکرتے یا اس کی شہرت نہیں چاہتے ایسے کئی واقعات میرے علم میںہیں میں سمجھتا ہوںکہ یہ ایسی طبیعت ہے جو یہ ظاہر ہونا پسند نہیں کرے گی کہ حضرت صاحب نے میری کچھ مدد کی ہے تو دفتر والوںکوبھی پتہ نہیں ہوتا لفافہ وہاں چلا جاتاہے بیسیوں بلکہ سینکڑوں دفعہ ایسا کرنا پڑتا ہے۔
اصل بات میںیہ کہنی چاہتا ہوں کہ وہاں اس قسم کے بھی لوگ ہونگے جو جذباتی تکلیف میں مبتلا ہونگے کیونکہ میں اس لحاظ سے خود بڑا جذباتی ہوں مجھے یہ سوچ کربڑی تکلیف ہوتی ہے ایسے دل بھی ہونگے جو ایک دھیلہ بھی کسی سے لینا پسند نہیں کرتے ہونگے مگر سیلاب کی وجہ سے مجبوری ہے بڑی تکلیف میں ہیں اور ایک مدد ایسی ہے جو ہمارے سوا کوئی نہیں کرسکتا وہ دعا کے ذریعہ مدد کرنا ہے اس الٰہی ارشاد کے مطابق کہ
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرََّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ۔ (النمل:۶۳)
انکے اضطرار اور تکلیف میں ہم بھی شامل ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی تکالیف کو دور فرمائے اور پھرانکی خوشی اورمسرت کے سامان پیدا کرے۔
دوسرے یہ کہ جیسا کہ حکومت کی طرف سے اعلان بھی ہوا ہے ہمیں دوسرے طریق پر بھی ان کی مدد کرنی چاہئے یعنی مادی امداد بھی دینی چاہئے اور رضاکارانہ خدمت بھی پیش کرنی چاہئے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کچھ روپیہ گیا ہے لیکن مختلف جگہ رقمیں اکٹھی ہوتی ہیں ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ حسب توفیق بشاشت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے مالی امداد بھی کرے یعنی آپ روپوں پر بھی دعاکرکے دیں تااللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان روپوں کے ذریعہ ان کی تکلیف کو دور فرمائے۔
جہاںتک رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کا سوال ہے میں ذاتی طور رپر اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ رضاکار ایسوسی ایشن ایسے موقع پر وہاںآزادانہ طورپر کام کریں کیونکہ اس طرح بہت سے فتنے پیدا ہوجاتے ہیں۔ نائیجیریا میں جب بیافرا نے سرنڈر کیا تو میں نے وہاں کی حکومت کو اطلاع دی تھی اور اپنی جماعت کو ہدایت کی تھی کہ تم نے آزادانہ کام نہیں کرنا اپنی سروسز حکومت کو پیش کردو چنانچہ ہمارے سینکڑوںرضاکار حکومت کے عام نظام کے ماتحت بیا فرا والے حصوں میں جہاں ری ہیبلی ٹیشن ہونی ہے وہاں کام کررہے ہیں اور کرچکے ہیں میرے یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن بہر حال حکومت جس رنگ میں چاہے کام کرے اگرکوئی ایسی صورت ہوتو احمدی نوجوانوں کو حسب توفیق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوہفتے یا چار ہفتے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کرنی چاہئیں۔خصوصاً ایسے دوست جو ہنریافتہ ہیں اور ان کے ہنر وہاں کام آسکتے ہیں مثلاً ڈاکٹر ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ایسی دوائیوں کا پتہ لگا تو علاوہ روپوں کے انشاء اللہ ایسی دوائیاں بھی وہاں بھجوائیں گے کیونکہ ہم خدا کے فضل سے ایسی دوائیوں کا انتظام کرسکتے ہیں جو یہاں سے نہیںملتیں یہ صحیح ہے کہ حکومت کے بڑے وسائل ہیں لیکن حکومت کے وسائل پر فارن ایکسچینج خرچ ہوتا ہے ہمارے وسائل بھی ہیں اور حکومت کو فارن ایکسچینج خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ انگلستان کے احمدی وہاں پیسے جمع کر کے وہ دوائی بھجواسکتے ہیں جو یہاں سہولت سے دستیاب نہیں۔
پس ایک توان کے لئے بہت دعائیں کریں صرف آپ ہی ان کے لئے حقیقی معنوں میں دعا کرسکتے ہیں، دوسرے مالی امداد دیں اور تیسرے رضاکارانہ طورپر اپنی خدمات بھی حکومت کو پیش کریں یہ تومیرے اصل مضمون کی ایک شاخ ہوئی یعنی ڈائی گریشن۔ میں بتایہ رہا تھا کہ جس اللہ پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ اللہ ہے جسے اس کی تمام صفات حسنہ کے ساتھ قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور جس میںکوئی کمی یا نقص یا کمزوری نہیں پائی جاتی وہ متصرف بالارادہ اور غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ ہے۔ وہ ایک فیصلہ کرتا ہے جس کا باریک فلسفہ ہے لیکن عقلمند کوہم تسلی دلا سکتے ہیں اور آپ نے تسلی پائی ہوئی ہے زندگی کے موڑ اور یونیورس کی ڈیویلپمنٹ میں ایک اس کے ظاہری قانونِ قدرت کے مطابق نتیجہ نکلتا ہے اور ایک وہ نتیجہ ہے جو اللہ چاہتا ہے کہ نکلے۔ کبھی وہ اپنے قانونِ قدرت کے مطابق نتیجہ نکال دیتا ہے اور کبھی معجزانہ طورپر ایک اور حکم نازل کرتا ہے۔ پس دعا جو ہے وہ تقدیر کے خلاف نہیںاسکے متعلق تو نوجوانوں کو پھر میں کہوں گا کہ آجکل کے پُر فتن ایام میں اور اندھے فلسفہ کے بد اثرات کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تحریریں دعا کے متعلق ہیں وہ ضرور پڑھ لیں۔ میر دائود احمد صاحب نے اقتباسات کی کتاب شائع کی ہے اس میں۲۰۔۲۵صفحات میں دعا پر اقتباسات ہیں جن میں ۳۔۴ بنیادی باتیں آچکی ہیں۔
بہر حال دعا اورتقدیر میںآپس میںکوئی تضاد اور تصادم نہیں ہے اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ اپنی مرضی چلاتا ہے دنیا میں کوئی ایسی مخلوق نہیں جویہ کہہ سکتی ہو کہ نہیں میں نے اپنی مرضی چلانی ہے مرضی اللہ ہی کی چلے گی کیونکہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے وہ رزّاق ہے۔ وہی کھیتیوں کو اُگا تا ہے اور پھل عطاکرتا ہے ایک زمیندار رات دن زمین میں ہل چلاتا ہے گر می میں وہ کھیتوں کی نگرانی کرتا ہے اس کے بیوی بچے بھی اس کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیںاور وہ مثلاً صرف گندم کی فصل اگانے کے لئے اتنی تکلیف برداشت کررہا ہوتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں تاکہ وہ بھوکا نہ مرے لیکن جب یہ ساری تکلیفیں اٹھا چکتا ہے تو پھر اس کے کان میں اللہ تعالیٰ کی جوآواز پہنچتی ہے وہ یہ ہوتی ہے۔
ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَـہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (الواقعہ:۶۵)
کیا کھیتیاں تم اُگاتے ہو شایدتم سمجھتے ہو کہ راتوں کوہم جاگے تکلیفیں ہم نے اٹھائیں، دن کی گرمی ہم نے برداشت کی، پانی کے لئے وقت بے وقت کھالوں پر پہرے ہم نے دئیے پھر بھی یہ نہ سمجھنا کہ سب کچھ تمہاری محنت کا نتیجہ ہے کھیتی وہی اُگے گی جسے اللہ تعالیٰ اُگانا چاہتا ہے۔
میںنے ایک دفعہ پہلے بھی بتا یا تھا۔ احمد نگر میں ہماری اپنی گندم کی فصل تھی سِٹے پڑ چکے تھے زردی پر آرہے تھے کچھ دنوں کے بعد ہم نے انہیں کاٹنا تھا کاٹنے کی مشین بھی منگوائی گئی اتفاقاً شام کوپہنچی۔ وقت بھی تھا میں باہر نکلا اس کو دیکھ رہا تھا عام اندازہ تھا کہ۴۰۔۵۰من فی ایکڑ گندم نکلے گی بڑی اچھی فصل تھی کاٹنے کی مشین نیچے اتاری ابھی میں گھر نہیں پہنچا تھا راستے ہی میں تھا پہلے توآہستہ آہستہ بوندا باندی ہوتی پھر تیز ژالہ باری (یعنی اولے) پڑنے لگے کوئی دس پندرہ منٹ تک ژالہ باری ہوتی رہی میں اندر چلا گیا قریباً ایک گھنٹے کے بعد ہمارے وہ کارکن جو وہاں کام کرتے ہیں وہ آئے وہ بلا مبالغہ رورہے تھے کہ فصل تباہ ہوگئی روپیہ میں سے چھ آنے باقی رہ گئی۔ مجھے بڑاغصہ آیا نالائق آدمی جوباقی چھ آنے رہ گئے ہیں وہ بھی اللہ کا فضل ہے تم اس پر الحمدللہ نہیں پڑھتے اور جو اس نے اپنی چیز واپس لے لی ہے اس پر ٹسوے بہار ہے ہو یہ تو ٹھیک نہیں میںنے کہا ابھی واپس جائو اور ان کھیتوں کے کنارے اللہ اکبر کے نعرے لگائو اور الحمدللہ پڑھو اور پھر واپس آئو یہ تو اللہ تعالیٰ کی چیز ہے ایسے واقعات آتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ بتائے کہ یہ تمہاری محنت کا پھل نہیں یہ میرے فضل کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان کی محنت کا پھل ہے تو جہاںبھی محنت ہے اس کا پھل نظر آنا چاہئے اگر علت ہے تو اس کا معلول نظر آنا چاہئے اگر آگ جلائی ہے تو جہاں بھی آگ کے اندر کوئی پڑے گا اسکو جل جانا چاہئے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا خدا تعالیٰ یہ بتا نا چاہتا تھا کہ آگ نہیں جلاتی میں نے اسکوکہا ہے جلائو۔ جب میںاسے کہوں گا جلاتو یہ جلائے گی اور جب میں کہوںگا کہ نہ جلائو تونہیں جلائے گی اسی طرح یہ درخت کے پتے خود نہیں گرتے درختوں پر پھل خود نہیںآتا فصلیں آپ کی محنت کا نتیجہ نہیں کوئی چیز بھی انسان کی محنت کا نتیجہ نہیںبلکہ ہر چیزاللہ کے حکم کا نتیجہ ہے ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتی ہے اللہ تعالیٰ ویسے بڑا پیار کرنے والا ہے آدھا حصہ میں نے سنایا ہے اگلا بھی سنا دیتا ہوں تاکہ دوسری طرف کسی کووہم نہ جائے وہاں الحمدللہ کہلوایا مجھ سے بھی اور میرے ساتھیوں سے بھی(چاہے انہوںنے میرے سمجھانے پر کہا) اگلی فصل تھی منجی کی ہماری یہ زمین جوکہ پہلے ایک ٹھیکیدار کے پاس تھی اور اس کی آخری منجی کی فصل ساڑھے تین من فی ایکڑ نکلی اور جب ہم نے لی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام طورپر کم وبیش۱۵۔۲۰من فی ایکڑ نکلاکرتی تھی گندم واپس لے لی اور چاول ہمیں زیادہ دے دیا یعنی۲۹من اوسط نکال دی باسمتی(چاول موٹے نہیں اچھے خوشبودار) چاولوں کی اس وقت بھی ہم نے الحمدللہ پڑھی اور جس وقت اس نے اپنی چیز ہم سے واپس لی تھی اس وقت بھی ہم نے الحمد للہ پڑھی تھی ۔
پس خدا تعالیٰ جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ وہ ہستی ہے جسکے قبضۂ قدرت میں ہرچیز ہے اور ہر تبدیلی اور ہر واقعہ جو رونما ہوتا ہے وہ اس کے ارادہ سے ہوتا ہے کیونکہ وہ متصرف بالارادہ ہستی ہے اور وہ لوگوں کو اپنی قدرت کے نمونے دکھاتا رہتا ہے کبھی ژالہ باری کر کے اور کبھی کسی زمیندار کواسکی سمجھ میںہی یہ بات نہیںآتی کہ کیا وجہ ہے ساتھ کاکِلّہ(ایکڑ) ہے مگر ان کی فصلیں بڑی اچھی ہوتی ہیں اسے کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری کون سی چیز پسندآگئی اوراللہ تعالیٰ اپنی یہ شان ظاہر کرتا ہے کہ جسکو میںدیتا ہوں اسی کو ملتا ہے اور جسکو نہ دینا چاہوں نہیںملتا۔ اسی واسطے ایمان کے تقاضوں کی وہاں شرط لگادی تھی اتنا بڑا وعدہ کیا تھا لیکن مسلمانوں پر پچھلی تین چارصدیوں میں جو کچھ گزرا اسے دیکھ کر رونا آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے۔
اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران:۱۴۰)
اس سے بڑھ کر وعدہ اور بشارت اورکیا مل سکتی ہے فرماتا ہے سوائے تمہارے غالب کوئی نہیں آسکتا تمہارا مخالف غالب نہیں آئے گا غالب تم ہی آئو گے لیکن اس وعدہ کے باوجود پچھلی۳۔۴ صدیوں میں دنیا نے مسلمانوں کو ذلیل کیا۔ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور لُوٹا اور ڈاکے مارے اورعورتیں اغوا کیں(۱۹۴۷ء میں نہ جانے کتنی عورتیں اغوا ہوئیں) کوئی بھی انسان جسے اللہ تعالیٰ نے ذرا بھی عقل دی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ انہوںنے اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ کی شرط پوری نہیں کی جب شرط پوری نہیں کی تو وعدہ رہا ہی کوئی نہیں۔ مشروط وعدہ تو شرط کے ساتھ چلتاہے شرط پوری نہیں ہوئی تو وعدہ پورا نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پھر یہ وعدہ دیا ہے کہ تم غالب آئو گے اس لحاظ سے بڑی فکر رہتی ہے جماعت کے بچوں اوربڑوں سب کے اوپر ایمان کی شرائط کو پورا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اسی وجہ سے میں نے یہ سلسلہ خطبات شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ختم ہوگا۔
پس ایمان باللہ محض یہ نہیں ہے جسے عام طورپرلوگ سمجھتے ہیں بلکہ اللہ پر وہ ایمان لانا چاہئے جس کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے مثلاً وہ رب العالمین ہے اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے وہ رحمان ہے اس کے علاوہ کوئی بغیر استحقاق کے دینے والا نہیں اور وہ رحیم ہے وہ رحیمیت کی صفت کے نتیجہ میں بدلے کا حق پیدا کردیتا ہے دراصل رحیمیت حق دلواتی نہیں بلکہ حق پیدا کرتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی لطیف تفسیر بیان فرمائی ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ صفت رحیمیّت انسان کی محنت کا حق پیدا کرتی ہے یعنی بدلہ ملناچاہئیے لیکن بدلہ ملتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت کے ماتحت اورمالک نیکی کا بدلہ دینے پر مجبور نہیں مثلاً جس نے کسی امیر کے کمرے میں اس کے دوہزار بکھرے ہوئے روپے اکٹھے کئے اس نے کوئی محنت کی نا! لیکن مالک یہ ہے اُجرت کوئی ہے نہیں مقرر، دوستی کے طورپر کام کیا یا مثلاً کئی لوگ ایسے موقعوں پرکسی کا بٹوا ڈھونڈ کر لادیتے ہیں یااسی طرح کا کوئی اور کام کردیتے ہیں اورلوگ انہیں انعام دیتے ہیں لیکن انعام دینے پر وہ مجبور نہیں ہیں۔دنیاکا کوئی قانون یا اخلاقی قانون یا شریعت کا قانون یہ نہیں کہتا کہ اس کا بدلہ دو اللہ تعالیٰ تو مالکِ کل ہے۔ المُلْکُ لِلّٰہِ کی روسے ہر چیز اسی کی ملکیت ہے جب ہر چیز اسی کی ملکیت ہے توپھر کسی کو کچھ دینے یا نہ دینے کے متعلق اس کے اوپر کسی کابھی حق نہیں ہے ہر شخص بھی اسی کا ہے اور جو اسے استعدادیں دی گئی ہیں وہ بھی اسی نے دی ہیں اس کا جسم بھی اللہ کاہے اور جن قویٰ سے وہ محنت کرتا ہے وہ قویٰ بھی اللہ تعالیٰ ہی نے اسے دئیے ہیںورنہ وہ کام ہی نہ کرسکتا۔ ایک شخص قرآن کریم کی بڑی کثرت سے تلاوت کرتا ہے اور سوچتا اورغور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آنکھیں دیں وہ پڑھنے لگ گیا ورنہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کئی ایسے جاندار کیڑے بھی پیدا کئے ہیں جنکی آنکھیں نہیں ہوتیں صرف اپنے ناک سے سونگھنے کی قوت پر یا کوئی اور طاقت دی ہوگی جس سے وہ چلتے پھرتے ہیں لیکن انسان نے جسمانی اور روحانی غذا کی طرف جاناہوتا ہے اور وہ بڑیComplicated(کمپلیکیٹڈ)ہے انسان کی غذابھی عام غذا نہیں عام کیڑے مثلاً سانپ مٹی چاٹ کر گزارہ کر لیتا ہے۔ بچہ مٹی چاٹے تو ماں اس کے منہ پر چپیڑ مار دیتی ہے کہ کیا گندی حرکت کررہے ہو حالانکہ اکثر سانپ چھ چھ ماہ تک سوراخوں میں مٹی چاٹ کر گزارہ کررہے ہوتے ہیں بعض جانور اور بدبودار کیڑے مکوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں سانپ بڑے مزے سے کھارہا ہوتا ہے مگر بعض حساس طبیعت انسانوںکو دیکھ کر الٹی آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سانپ کے لئے قسم کی غذا مہیا کردی مگر انسان کی غذا میں بھی بڑے تنوع کی ضرورت ہے روحانی غذا میںبھی بڑا کچھ چاہئے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ وہ مالک ہے۔ کسی کا اللہ تعالیٰ پر حق بن ہی نہیں سکتا ۔ دنیا تو اس کی ہے اور اس کی غلام اور مملوک ہے اور اس کی مخلوق ہے وہ اس پر کیاحق جتائے گی؟ عقل بھی یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ تم اللہ پر حق جتاسکو۔
پس رحیمیت جزا کا حق قائم کرتی ہے اور صفت مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ حق دیتی یا انکار کردیتی ہے جب انکار کرنا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا مجھ پر کیا حق ہے؟ جائو دوڑ جائو مگر جب دینا ہوتا ہے تو کہتا ہے میرے پیارے بندو! ادھر آئو میں تمہیں اپنی گود میں بٹھائوں اوراپنی رضا کی جنتوں میں لے جائوں وہ مالک ہے چاہے تو ساری دنیا کو بخش دے اور چاہے تو ساری دنیا کو نہ بخشے کوئی اسے کچھ کہنے والا نہیں اس خدا کو ہم مانتے ہیں محض اللہ کے لفظ کو نہیں بلکہ اس کی تمام صفات کے ساتھ مانتے ہیں جن میں سے بنیادی صفات جو ہیں وہ یہ چار صفات ہیں جو سورۂ فاتحہ میںبیان ہوئی ہیں یعنی ربّ، رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین۔
پس ایمان باللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہہ دیاکہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں ایمان باللہ کے بعد تودوسری کوئی چیز ہی نہیں رہتی۔ ایمان باللہ کے بعد رشوت پر انحصار، ایمان باللہ کے بعد یہ غبن اور دوسری بدعنوانیوں کا سہارا لینا یہ باتیں ایمان کے ساتھ کیسے اکٹھی ہوسکتی ہیں۔ ایمان باللہ کے ساتھ کوئی چیز نہیں رہتی صرف اللہ ہی اللہ رہتا ہے یا وہ شخص ہوتاہے جس نے اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرنا ہوتا ہے اورکچھ نہیں رہتا پس اس اللہ پر ایمان لانا ہے اوریہ بنیادی چیز ہے اس کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ دراصل اگر اس سارے کارخانہ پر تقریر کی جائے تو سارا اللہ ہی اللہ آجا تاہے۔ چند باتیں میں نے بیان کردی ہیں اوراللہ پر اس رنگ میں ایمان لانے کے نتیجہ ہی میں پھر ایمان بالآخرۃ،ایمان بالغیب اور ایمان بالرسل اور ایمان بالکتب وغیرہ جسکی قرآن کریم نے تفصیل بیان کی ہے جو دراصل ایمان کے مختلف شعبے اور شکلیں ہیں ان پر ایمان پختہ ہوتاہے اس لئے اگر ایمان باللہ صحیح نہیں تو آگے کچھ نہیں۔
آپ بھی دعاکریں میں بھی دعا کرتا ہوں کہ یہ جو ہمارا رب، مالک، پیداکرنے والا، رزّاق اور متصرف بالارادہ ہستی ہے جس سے دوری اور بُعد ہی ہرقسم کا نقصان اور ضیاع ہے اور جس کے قرب میں ہرقسم کی بھلائی ہے اس پر ہم سب کو حقیقی ایمان نصیب ہو۔ ہمارے دل اس ایمان میں منور ہوجائیں اور جس طرح آدمی چٹان پر پختگی کے ساتھ قائم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی معرفت سے زیادہ کوئی پختہ چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس میں یہ پختگی ہمیں حاصل ہو تاکہ جو کام اللہ تعالیٰ ہم سے لینا چاہتا ہے وہ ہم سے لے اور ہم اس کے ہاتھ میںجاکر کمزور ہتھیار کی طرح ٹوٹ نہ جائیں اس کاتوکوئی نقصان نہیں اس کے پاس اتنے ہتھیار ہیںکہ اگر آپ ٹوٹے تو آپکو پھینک دے گا دوسرے ہتھیار کوپکڑ لے گا۔اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے مگر ہمیں اس کا نقصان ہے۔ ہم مارے گئے اگرہم اس سے دور ہوگئے اگر ہم اس کی ناراضگی کا مورد بن گئے تو پھر ہمارا کہیں بھی ٹھکانا نہیں ہے دنیا ہمیں پہلے ہی اسّی سال سے گالیاں دیتی چلی آرہی ہے لوگ ہمیں کافر کہتے چلے آرہے ہیں اور جو اُن کے منہ میں آتا ہے وہ ہمارے خلاف بک دیتے ہیں اور ہمیشہ ہمیں تنگ کرنے اور گالیاں دینے کی نئی سے نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں ہم میں سے جولوگ ایمان پرپختگی سے قائم ہیں وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے کیونکہ اصل ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ہے کسی گروہ کی ناراضگی کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی کسی کے پاس ہے ہی کچھ نہیں وہ ہمارا نقصان کیا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے اتنی طاقت ہی نہیں دی نہ وہ متصرف بالآرادہ ہے پس کوئی منافق کی شکل میں آکر ہمیںدکھ پہنچاتا ہے کوئی مخالف اور معاند کی شکل میں آکر ہمیں دکھ پہنچاتا ہے۔ مگر اسّی سال میں اس نے کیا کرلیا حالانکہ اس اسّی سال کے عرصہ میں جماعت بشاشت کے ساتھ چھلانگیںلگاتی ہوئی اپنی ترقیات کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اگر ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیںتو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کے پرکھنے کی ایک ہی کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے وہ خود اپنے نفس کو اور ہر دوسری چیز کو مردہ کیڑے سے بھی کم اہمیت دیتاہے اس صورت میں نہ نفس باقی رہتا ہے اور نہ کوئی اور چیزباقی رہتی ہے اللہ ہی اللہ عیاں ہوکررہ جاتاہے اور اگر اللہ ہی اللہ میرے اور آپ کے سامنے ہوتوپھر اور کیا چاہئے اگر اللہ پر ایمان اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہوتو کچھ بھی نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز


اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو اور ایمان کے تقاضوںکو
پورا کرو تب تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائو گے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍ا گست۱۹۷۰ء بمقام مسجد نور راولپنڈی ۔غیر مطبوعہ)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیاتِ کریمہ کی تلاوت فرمائی:-

(الاحزاب:۱۸)

(آل عمران:۱۱۲)
اسکے بعد حضور انور نے فرمایا:-
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے لئے ایک مجسم شفقت اور عالمین کے لئے ایک کامل رحمت کے طورپر دنیا میں مبعوث ہوئے۔ آپ کی شفقت اور محبت آپ کی دعائوں اور روحانی فیوض سے پہلوں اور پچھلوں سبھی نے حصہ پایا۔ آپ کی یہ رحمت، رحمت عام تھی لیکن آپ کی اس رحمت نے دنیا کو ایک خاص ہی نہیں اخص جلوہ بھی دکھایا۔ آپ کے فیوض کے نتیجہ اور الٰہی بشارتوں کے ماتحت آپ کی امت میں سے لاکھوں کروڑوں اولیاء اللہ پیدا ہوئے جواللہ تعالیٰ کے مقرب بندے تھے مگر ان لاکھوں کروڑوں اولیاء اللہ میں سے آپ نے صرف ایک کا انتخاب کیا اور امت کو یہ تاکید فرمائی کہ جب ہمارا وہ مہدی مبعوث ہوتو میرا اسے سلام کہنا۔ سلام کے پہنچانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ایک تو یہ کہ امت محمدیہ کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ میرا محبوب ہے تم بھی اسے محبوب رکھنا دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو یا یوں کہنا چاہئے کہ امت محمدیہ کے اس حصہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت دنیامیں موجود ہوگا اس طرف متوجہ کیا کہ مہدی معہود اوراس کی جماعت میری سلامتی کی دعائوںکے حصار کے اندر ہونگے اور میری دعائوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرنے والااور ان کو امان دینے والا اور ان کے لئے سلامتی کے سامان پیدا کرنے والاہے۔ اگرتم(امت کے دوسرے افراد) بھی اللہ کی حفاظت اور امان میںآنا چاہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہو گا کہ تم ہند کے اس قلعہ یعنی جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعائوں کا حصار ہے اس کے اندر داخل ہوجاناتم اللہ کی حفاظت اور امان میںرہو گے۔
ہم جو جماعت احمدیہ میں شامل ہیں یا جوہمارے پہلے بزرگ گزرے ہیں یا آنے والی نسلیں ان تمام کا جو ایمان کے اوپر پختگی سے قائم ہیں یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عظیم روحانی فرزند ہیں جس پر آپ نے اپناتاکیدی سلام بھجوایا تھا۔ حضرت مسیح اور مہدی معہود علیہ السلام نے جب دنیا کو اس طرف دعوت دی کہ خدا کے وعدہ کے مطابق ان تمام سلامتیوں کو سمیٹو جن کی بشارت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی میں تمہاری طرف اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ تمہارے لئے پناہ اور سلامتی کا انتظام کروں۔
غرض اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے ہیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معقول دعائوں کی یہ بشارتیں ہیں کہ وہ سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا تو دراصل یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلامتی پہنچانے والے ارشاد مبارک کاایک اور رنگ میں معنی یا تفسیر تھی۔ہماری زبان میں سلامتی کا شہزادہ وہ ہے جسکی سلامتی کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دعائوں کو قبول فرمایا۔
پس ہم نے اس سلامتی کے شہزادہ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے اور اس بات پر پختگی سے قائم ہیں اور پورا یقین حاصل ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کے طفیل حضرت مسیح موعودؑ کی طرف حقیقی معنوں میں منسوب ہونے والے شیطان کے ہر قسم کے حملوں اور مخالفین کے ہرقسم کے منصوبوں سے محفوظ رہیں گے۔ دنیا اپنی طرف سے پورا زور لگا چکی ہے لگارہی ہے اور لگاتی رہے گی اورہمیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہے۔ اسّی۸۰ سال سے دنیا نے مخالفت کا کوئی منصوبہ نہیں چھوڑا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا بدزبانی بھی کی، ایذا رسانی بھی کی اوراپنی طرف سے ہماری ہلاکت اور تباہی کے سامان بھی کئے حکومت سے چغلیاں بھی کیں جھوٹے مقدمات بھی بنائے۔ غرض اپنی طرف سے پورا زور لگایا لیکن وہ وجود جسے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا سہارا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعائیں حاصل تھیں دنیا کی کون سی طاقت تھی جو اسے ہلاک یا تباہ کرسکتی یا اس کے لئے ناکامیوں کے سامان پیدا کرسکتی؟ اسّی سال سے مخالفت ہرقسم کے منصوبے بناتی رہی ہرقسم کی سازشیں کرتی رہی مگر ان اسّی سالوں میں دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے پہنچ کر دنیا کے دلوں میں ایک انقلاب پیدا کیا اور جس شخص کو ظاہری اقتدار رکھنے والوں نے(سیاسی اقتدار ہو مذہبی کچھ ہو) دھتکار دیا اور نفرت اور حقارت کی نگاہ اس پر ڈالی ان کے لئے خدا تعالیٰ نے۷۔۸ ہزارمیل دور بسنے والوںکے دلوں میں چاہت کا ایسا سمندر پیدا کیا کہ جو انسانی عقل کو حیران کرنے والا ہے دنیا اپنا کام کرتی چلی گئی مخالفین اپنے منصوبے بناتے چلے گئے کفر کے فتوے دینے والوںنے آسمان سرپر اٹھا لیا شور مچا مچا کر کہ یہ کافر ہے لیکن اس شور وغل میںاس شخص کو اور اس کے ماننے والوں کے کانوں میں اللہ تعالیٰ کے پیارکی یہ آواز گونجی کہ دنیا تمہیں کافر کہتی ہے لیکن میںتمہیں مسلمان سمجھتاہوں اورتمہارے ساتھ ہوں دنیا کے کافر کہنے سے کیا بنایا کیا بن سکتاہے؟ کفر تو وہ ہے جس کا فتویٰ خدا دے *** تووہ ہے جو آسمان سے نازل ہو۔ کبھی کوئی دنیا دار بھی آسمانی لعنتوں کے سامان پیدا کرسکتاہے؟ ایک ذرہ بھر عزت دینے کے توتم قابل نہیںہو ذلیل کرنے کی طاقت تمہیں کس نے دی ہے؟ذلیل تووہی ہے جو خدا کی نگاہ میں اپنے لئے ذلت دیکھتا ہے اور اپنے کام میں اپنے لئے ذلت کے سامان محسوس کررہا ہے اورعزت وہ ہے جو خدا سے ملتی اور خدا کے سرچشمہ سے نکلتی ہے۔ اَلْعِزَّۃُلِلّٰہِ۔اَلْعِزَّۃُلِلّٰہ۔اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ۔ عزت کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جسے وہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ساری دنیا بھی اگر مل کر اسے ذلت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائے توکیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ساری دنیا اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے جیسا وہ چاہتا ہے ویساہوتا ہے کوئی طاقت اس کے ارادہ میں تبدیلی نہیںپیدا کرسکتی اور نہ اسکا مقابلہ کرسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے مہدی معہود کے لئے سلامتی کی دعائیں کروائیں اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود کو خود وحی کے ذریعے فرمایا کہ تم سلامتی کے شہزادے ہو صرف تم ہی محفوظ نہیں بلکہ جو رعایا(یعنی جماعت) ہے وہ بھی محفوظ رہے گی سلامتی کے شہزادے کے معنے ہی یہ ہیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے یہ کہا کہ جب میرا محبوب ترین روحانی فرزند آئے تو دیکھنا وہ سلامتی کا شہزادہ ہوگا تم اسے میری طرف سے سلام پہنچانا اورسلامتی حاصل کرنے کے لئے اور خدا کی امان میں آنے کے لئے اس کے متّبعین اور اس کے ساتھیوں میں شامل ہوجانا۔غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو یہ فرمایا کہ سلامتی چاہتے ہو دنیا میں عزت چاہتے ہو،دنیا میںبڑائی چاہتے ہو، دُنیا میں غلبہ چاہتے ہو، دُنیا میں ایک ارفع مقام چاہتے ہو تو اس کے ساتھ شامل ہونا پڑے گااور اس کے کان میںیہ کہا اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلٰی اللہ تعالیٰ ہمیں ارفع اور بلندکرے گا اور کوئی دوسری طاقت ہمارے اوپر غالب نہیں آسکتی چنانچہ ہم اس مہدی معہودپر ایمان لائے۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو عصمت کا ایک عام وعدہ بھی دیا تھا جو قرآن کریم کی مختلف جگہوں میںآیا ہے میں نے اس وقت چارمختلف آیتیں یا ان کے ٹکڑے لے کر ان کی تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ احزاب میں فرماتا ہے کہ دیکھو اس اصول کو کبھی بھولنا نہیں ہے کہ ذلت اور عذاب کا حکم آسمانوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسی طرح رحمت کا حکم بھی آسمانوں ہی سے آتا ہے اوراگر اللہ تعالیٰ کسی کو ذلیل کرنے کے لئے یاکسی کو عذاب پہنچانے کے لئے یا کسی پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے آسمانوں پر فیصلہ کرے تو دنیا کی کوئی طاقت نہ ایسے انسان کو عزت دے سکتی ہے اورنہ الٰہی عذاب سے اسے بچا سکتی ہے اورنہ عذاب الٰہی کی گرفت سے اسے چھڑوا سکتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں اگر کسی شخص یاکسی قوم یا کسی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے توساری دنیا اگر اس کے خلاف مخالفانہ کاروائی شروع کردے تب بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوش میں کمی نہیں آسکتی کیونکہ وہ رحمت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس کے بندوں کے لئے جوش میںآتی ہے کوئی شخص اس کی رحمت کوروک نہیںسکتا۔
اس میں ہمیں صرف اصولی طور پر یہ بتایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر پختہ ایمان لانا ضروری ہے(ایمان کے متعلق میں نے پیچھے دو خطبے دئیے ہیں ابھی چھپے نہیں۔ میں نے ان خطبات میں بتایاہے کہ) اللہ پر پختہ ایمان کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل ہواور ہم ان پر پختگی کیساتھ ایمان لانے والے ہوں۔ معرفت کے بغیر ایمان پختہ نہیں ہوتا کوئی یہ نہ سمجھے کہ معرفت کے بعد پختگی ایمان ضروری ہے یہ درست نہیں ہے مثلاً شیطان کواللہ تعالیٰ کی صفات کی پوری معرفت تھی لیکن پھر بھی اس نے شیطنت کی، بغاوت کی اور اباء اور استکبار اختیار کیا۔ پس معرفت بھی ہو اورپھر پختگی ایمان بھی ہو تب اللہ تعالیٰ کا یہ جو مطالبہ ہے کہ میرے اوپر اور میری صفات پر پختہ ایمان لائو وہ پورا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اس پر ہمارا پختہ ایمان ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ عذاب کی گرفت میں لانا چاہے تو نہ کوئی قضا اسے بچا سکتی ہے نہ کوئی سیاست اسے محفوظ رکھ سکتی ہے نہ کوئی دنیا کا منصوبہ اس کی حفاظت کاسامان پیدا کرسکتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے تو بڑے بڑے دنیا دار لوگ جو مرضی کرتے رہیں کچھ نہیں ہوتا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
جب حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو اس وقت کے علمائے ظاہر میںسے جو چوٹی کے علماء تھے وہ اکٹھے ہوئے انہوں نے سرجوڑا، مشورے کئے منصوبہ بنایا اور پھر سارے ہندوستان کے دو سوبڑے بڑے علماء کے دستخطوں سے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع کردیا۔ لوگ بڑے خوش ہوئے کہ چوٹی کے دو سو عالِموں نے اس مدّعی مہدویت کے خلاف کفر کا فتویٰ لگا دیاہے وہ سمجھتے تھے کہ چوٹی کے دوسو علماء اگر کسی پر کفر کا فتویٰ لگائیں تو وہ ذلیل اور ناکام ہوجاتا ہے اُن کا یہ خیال تھا تبھی انہوں نے یہ فتویٰ دیا نا! مگر خدا تعالیٰ آسمانوں پر مسکرارہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہ میرا بندہ ہے اور میں اسے عزت دوں گا میں نے اسے اپنے کام کیلئے کھڑا کیا ہے یہ کامیاب ہوگا۔ دوسو کیا اگر ساری دنیا کے دولاکھ چوٹی کے علماء بھی فتویٰ دیںتو وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت ان سب نے میرے خلاف یہ منصوبہ بنایا چند غیر معروف آدمی میرے ساتھ تھے چنانچہ مخالفین بڑے خوش ہوئے کہ وہ مارا وہ گرایا مگر اس خدا نے فرمایا میرے ہاتھ پر یہ بیٹھا ہے تمہیں طاقت ہے اسکو مارنے اور گرانے کی؟ ہر گز نہیں چنانچہ جو خدا نے فرمایا وہی پورا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہی وعدہ دیا ہے انہی الفاظ میں کہ تو اورتیرے ماننے والے میری حفاظت میں ہیں اور یہ لوگ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
پس دنیا کی قضا یا دنیا کی سیاست یا دنیا کا انتظام یا دنیا کے منصوبے یا دنیا کے علماء یادنیا کے فلاسفر احمدیت کو نہیں مٹا سکتے اسلئے کہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ احمدیت کونہیں مٹا سکتے اسلئے نہیں کہ ہمارے اندر کوئی خوبی ہے آپ سے تو میں یہ کہوں گا کہ آپ عاجزانہ راہوں کواختیار کریں کبرو غرور کو اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دیں اور اس دل کو کبروغرور کی بجائے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پختہ یقین کے ساتھ بھردیں اوراپنے ایمانوںکے تقاضوں کو پورا کریں آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وعدے انشاء اللہ پورے ہوتے جائیںگے۔
پس سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ(اپنی مشیت کے تحت) ذلیل کرنا چاہے یا عذاب دینا چاہے تو تم اس سے بچ نہیں سکتے۔ ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی تمہیں الٰہی عذاب سے بچا نہیں سکتیں ابوجہل کو کس نے بچایا؟حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف جنہوں نے آگ جلائی تھی وہ کہاں ہیں؟ انبیاء کے مخالفین یاان کی اولاد کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹا دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام پر تمسخر کرنے والے اور انہیں کافر کہنے والے کدھر گئے؟ طوفان کے اندر بہہ کرسمندر کی تہوں میں شاید ان کے ذرّے بکھرے ہوئے ہوں مگر ان کا نام ونشان مٹ گیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی مخلوق تو اسے پیاری ہے نا! ان ظالموںکے جسموں کے ذروں کو شاید ان گھوڑوں میں بھی تبدیل کردیا ہو جن پر سوار ہوکر مسلمان ایک طرف ایران میں اور دوسری طرف روم کی سلطنت میں گھُس گئے۔ کون کہہ سکتا ہے ہم نے تونہ ذروں کا پیچھا کیا اور نہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کدھر گئے لیکن اس مادی دنیا کے ذرے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ اپنی شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔
بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو اگر میری ذلت سے بچنا چاہتے ہو توتمہیں میرے پاس آنا پڑے گا کوئی اور تمہیں بچانہیں سکتا اور اگر میری رحمت کے تم وارث ہوجائو تو دنیا کی طرف تمہیں نگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا تو ایک مرے ہوئے مچھر کے کیڑے سے بھی کم حقیقت رکھتی ہے پھر تمہیں ان کی کیا پرواہ ہے؟
یہ مضمون مختلف آیات میں اپنےContext(کنٹیکسٹ)میں بھی ہے اور جومیں نے ان آیات کی ترتیب دی ہے اس سے ایک اور مضمون ابھرتا ہے پہلی آیت میں یہ بتایا تھا کہ عذاب یا رحمت کا پہنچانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے ا س واسطے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اگر تم اس کے عذاب سے بچنا اور اس کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو۔ سورۃ النساء کی اس دوسری آیات میں(جس کی میں نے تلاوت کی ہے) یہ کھول کر بتایا گیا ہے کہ اِعْتَصَمُوْا بِہٖ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے شیطانی یلغار، نفس کی یلغار، دل کے بد خیالات ہیں ان کی یلغار، نفاق کی یلغار، مخالفت کی یلغار،انکار کی یلغار اور مخالفانہ منصوبوں کی یلغار اور سب لوگوں کے اکٹھے ہوکر مغلوب کردینے کی یلغار سے اپنے بچائو کا انتظام کرو۔ جتنی بھی کوئی تصور میں لاسکتا ہے یا حقیقت میں پیدا ہوسکتی ہیں ان سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کو اپنا ذریعہ بنائو اس کی طرف آئو اور اس کا ذریعہ یہ ہے فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ(النساء:۱۷۶) اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تب تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائو گے اور جب تم اللہ کی پناہ میں آجائو گے تو پھر دنیا تمہیں ذّلت کے گڑھے میں پھینک نہیں سکے گی پھر دنیا تمہیں عذاب کے تندور کے اندر دھکیل نہیں سکے گی پھر دنیا تمہارے ناک میں نکیل ڈال کر ذلیل کرنے کے لئے گلیوں میں پھرا نہیں سکے گی بلکہ پھر یہ ہوگا۔ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ( النساء:۱۷۶) اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں تمہیں داخل کردے گا اپنے فضل کے محلوں کے اندر تمہیں لے جائے گا اپنے سلامتی کے حصار میں تمہیں رکھے گا وَیَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْمًا(النساء:۱۷۶)اور جو اس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایک سیدھا راستہ اپنی طرف پہنچانے کے لئے مہیا کیا ہے اس پر تمہاری انگلی پکڑے گا اور اس راستے پر تمہیں لے جائے گا اورتم کامیاب ہوجائو گے کیونکہ جو شخص صراط مستقیم پر اللہ تعالیٰ کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہواسکے ناکام ہونے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری جگہ یہ فرمایا کہ جب ہم نے یہ کہا ہے کہ ایمان لائے(وہاںوہ ماضی کا صیغہ ہے مفہوم وہی ہے) کہ جولوگ ایمان لائے یا اگر تم ایمان لائوتو اللہ تعالیٰ کواپنی پناہ کا ذریعہ بنالو اوراسکے نتیجہ میں رحمت اور فضل تمہیں ملے گا۔ ذّلت اور رسوائی اور ناکامی اور دشمنوں کا غلبہ تمہارے نصیب میں نہیں ہوگا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس ایمان کے جو تقاضے ہیں وہ تمہیں پورے کرنے چاہئیں پھر فرمایا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُْوْا یہاں تقویٰ ایک اور وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرتم میرے ان احکام کا جو میں نے قران کریم میںدئیے ہیں بجا آوری میں ثابت قدمی دکھائو اوراگر تم دنیا کی تمامTemptations(ٹیمپٹیشنز) یعنی وہ باتیں جوغیراللہ کی طرف کھینچنے والی ہیں ان سے تم بچو تو لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا تو جو تمہارا دشمن ہے ان کاکوئی منصوبہ تمہیں ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاسکتا غرض اللہ تعالیٰ نے جو احکام جاری کئے ہیں جسے ہم اسلام کہتے ہیں اور سارے احکام سے مل کر اسلام بنتا ہے۔کسی ایک حکم کے مطابق بھی اگر شیطان کی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے مقابلے میںکھڑا ہوجائے تو اس کی ناراضگی کو مول لینے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا چاہتے ہوتو چھ سو سے زائد حکم جو قرآن کریم میں ہیں تم ہر ایک کی تعمیل کرو اور قرآن کریم کی پوری تعلیم کا جوأ اپنی گردن پر رکھو تب تم ان فضلوں کے وارث ہوگے۔
آل عمران کی اس آیت میں یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم ثباتِ قدم دکھائو جو تعلیم دی ہے جو سیدھا راستہ ہے اس سے اِدھر اُدھر نہیں ہونا خواہ کچھ ہو جائے اس پر تم نے قائم رہنا اور یہ کامل معرفت اوراللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر کامل ایمان کا نتیجہ ہے۔ پہلے لوگ جن کے ساتھ آپ اپنے آپکو فخر کے ساتھ بلایا کرتے ہیں کہ ہم ان سے مل گئے یعنی ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کے ماتحت تو ان کا نمونہ یہ ہے کہ چارچار پانچ پانچ گنا زیادہ فوج سامنے ہوتی تھی ہتھیاروں میں بھی کئی کئی گنا زیادہ اور تعداد میں بھی زیادہ۔ بڑی اچھی تلواریں بڑے اچھے نیزے بسااوقات ایک ایک کے پاس چھ چھ تلواریں ہوتی ہیں مگر ہمارے مسلمانو ں کی ایسی بیسیوں مثالیں ہیں کہ تلوارہاتھ سے چھوٹ گئی تو دوسری تلوار نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ مدد کوآتا۔ مدّمقابل یعنی دشمن کو کسی نے نیزہ مارا اس کی تلوار اس نے پکڑلی ورنہ وہ موت کے منہ میں اپنے آپکو دیکھتا تھا اللہ تعالیٰ آسمان سے آکر اس کی مدد کرتا تھا اور حفاظت کرتا تھا اور اس کی جان بچ جاتی تھی انہوں نے موت کی کوئی پرواہ نہیںکی۔ الٰہی سلسلے جو ہیں ان کی جدوجہد اور کشمکش میں جانی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور مالی قربانی بھی دینی پڑتی ہے چونکہ اسلام کی مخالف قوتوں کے ساتھ ہماری دلائل کی جنگ ہے اس واسطے اس قسم کی شہادت کا میدان ہمارے سامنے نہیں آتا لیکن ہم اس سے محفوظ نہیں ہیں ہمارے عبداللطیف صاحب شہید دلائل کی تلوار لے کر گئے تھے اورپتھروں کی نوکوں سے انہیں شہید کردیا گیا یہ دروازہ کلی طور پر بند نہیں شکل کچھ بدلی ہوئی ہے جب مخالف دلائل سے عاجز آجاتا ہے تو وہ کہتا ہے اور تو کچھ نہیں بنتا چلو اسکو ماردو۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ایک کو تم نے جنّت میں بھیج دیا اور دس ہزار اس کے مقابلے میں اور پیدا ہوگئے جن میں پہلے اتنی پختگی نہیں تھی جتنی اس شہادت کے بعد پیدا ہوگئی ایک ہزار صحابیؓ یرموک کے میدان میں شہید ہوا ہے اور یہ وہ صحابی نہیںتھے جنہوں نے ایک دفعہ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا اورواپس چلے گئے سارے تربیت یافتہ تھے جو شہید ہوئے اور ان میں ایک سو بدری صحابیؓ تھے جب کہ بدری صحابہؓ کی کل تعداد ۳۱۳ہے جن میں سے کچھ اس سے پہلے فوت بھی ہوچکے ہونگے بہرحال یرموک کی جنگ میں ایک سوبدری صحابیؓ شہید ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اُخروی زندگی پر انہیں اس قدر پختہ ایمان تھا کہ میں نے کئی دفعہ سوچا ہے کہ وہ لوگ اِس دنیا سے اُس دنیا کی طرف اس قدر خوشی اورآسانی کے ساتھ انتقال کرجاتے تھے کہ شاید ہمیں اس سے زیادہ بوجھ محسوس ہوتا ہو اپنے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک پہنچنے میں۔ کوئی فرق ہی نہیں تھا جس طرح نائیلون کا پردہ بیچ میں پڑا ہودوزندگیوں میں توکہتے کچھ نہیں اس پردے کے سامنے سب کچھ نظر آرہا ہے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی یہ ایمان چاہئے اور وعدہ بڑا زبردست ہے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے کیونکہ بعض نے شہید ہونا تھا۔لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذًی (اٰل عمران:۱۱۲) تمہیں تھوڑی سی تکلیف اجتماعی زندگی کے لحاظ سے پہنچے گی یعنی یرموک کے شہداء جن میں ایک ہزار صحابی اور۴۔۵ ہزار دوسرے مسلمان شہید ہوئے اور ان کے مقابلے میں دشمن اپنی وہاں ستر ہزار لاشیں چھوڑ کر بھاگا تھاکوئی مقابلہ ہی نہیں جو ایذاء ان کو اس میدان میں پہنچی اس کے مقابلے میں جو مسلمانوں کوقربانی دینی پڑی اس کے متعلق بغیر کسی حاشیہ آرائی یا مبالغے کے یہ کہا جا سکتا ہے لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذًی (اٰل عمران:۱۱۲)تمہیں تکلیف پہنچے گی لیکن اس کے بدلے میں تمہیں اتنی زبردست فتح ملے گی کہ تمہاری تکلیف یا تمہاری قربانی یاتمہارے آدمیوںکی تعداد جو شہید ہوئے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھے گی اور یہ وہ جنگ تھی جس نے روم جیسی بڑی سلطنت کی جڑکاٹ کررکھدی تھی اس سے پہلے بھی معمولی جنگیں ہوئیں، بعد میں بھی ہوئیں لیکن یہاںتو بعض کے کہنے کے مطابق اڑھائی لاکھ رومی اکٹھا ہوا ہوا تھاا نہوں نے یہاں اپنی آخری بازی لگائی تھی یا ہاریں گے یا ہماری سلطنت تباہ ہوگی اورکوئی بچ کرگیاہے؟ آدمی تاریخ پڑھکر حیران رہ جاتا ہے عقل تیز، فراست تیز، تلوار کی دھار تیز، گھوڑوں کی جہت تیز، نیزوں کی انیّ تیزہر چیز میں تیزی آئی ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں ان کی عقلیں ماری ہوئیں دلوں کے اندھیرے،سمجھ نہیں آتا تھا خود بھاگ کر ایسی جگہ پہنچ گئے کہ جہاں ڈھلوان کوئی نہیں تھی اور جب پیچھے سے مسلمانوں کا دبائو پڑا تو ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے پہاڑی سے نیچے گرتے گئے اور مرتے چلے گئے ورنہ چندہزار کا سترہزارآدمیوں کوقتل کرنے کے لئے تلواریں چلانے سے بھی شاید بہتوں کے پٹھے ہمیشہ کے لئے بیمار ہوجاتے لیکن آپ ہی اپنی موت کا سامان بن گئے بھاگے توادھر بھاگے ، یہ ٹھیک ہے کہ حضرت خالدؓ کی فراست تھی انہوںنے خاص جہات سے ان پر دبائو ڈالا تھا لیکن ان کی توعقل ماری ہوئی تھی ورنہ وہ حضرت خالدؓکی فراست سمجھ کر دوسری جگہ کا رُخ کرسکتے تھے۔
بہر حال اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایذاء تو تمہیں پہنچے گی لیکن معمولی سی ایذاء ہوگی ان بشارتوں کے مقابلے میں، ان فتوحات کے مقابلے، میں ان قربانیوں کے مقابلہ میں، اس پیار کے مقابلہ میں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں نظر آئے گا اس کی رضا کے مقابلہ میں جسے تم حاصل کرو گے کتنے ہیں جو چارپائی پر جان دیتے ہیں میںسوچا کرتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک چارپائی ہے کیونکہ سب سے زیادہ اموات چارپائی پر ہوتی ہے۔ جنگوں میں خصوصاً پچھلی دو عالمگیر جنگوں میں بڑی قتل وغارت ہوئی لیکن میںسمجھتا ہوں کہ چھ ماہ میں چار پائی پر مرنے والوں کی تعداد ان مرنے والوں کی تعداد سے زیاد ہ ہے جوان جنگوں میں مارے گئے۔
پس مرنا تو ہرایک نے ہے سوال یہ ہے کہ کیا تم نے چارپائی پر مرنا ہے؟ موت کاکوئی وقت مقررنہیں ایک آدمی باہر سے بڑاہنستا کھیلتا آتا ہے بیوی سے کہتا ہے میرے کھیت بڑے لہرارہے ہیں۔ بڑی آمد ہوگی بیوی پانی لے کرآتی ہے وہ پانی پیتا ہے قو لنج ہوتی ہے اور وہیں اسکا دم نکل جاتا ہے۔ چارپائی پر آرام کرنے کے لئے بیٹھے تھے اوروہاں سے جنازہ اٹھ گیا پس اگر توزندگی اور موت میرے یاآپ کے ہاتھ میں ہوتو پھر آپکو یہ اختیار بھی ہے کہ آپ یہ کہیں کہ ہم موت پر زندگی کوترجیح دیتے ہیں لیکن اگر آپ کے ہاتھ میں زندگی اور موت نہیں اوریقینا آپ کے ہاتھ میں زندگی اورموت نہیں تو پھر کس پر کس چیز کو ترجیح دینے کااپنے آپ کو حق دار یا اہل سمجھتے ہو۔ حماقت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں منافقوں نے کہا تھا کہ و ہ موت سے بچکر واپس جارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ موت توتمہیں آکر پکڑ ے گی جہاں مرضی چلے جائو ان میں سے کون بچا؟ ایک طرف ذلّت کی موت ہے ایک طرف عزت کی زندگی ہے اورعزت کی موت ہے۔ عزت کی موت مرنے کے بعد کی زندگی ہے اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اللہ تعالیٰ کی بشارتیں ہیں اور ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں گود میں بٹھاتا اورماتھے کو پیارکرتا ہے ہزاروں آدمیوں کا یہ اپنا ذاتی مشاہدہ ہے اس کو چھوڑ کر کسی ٹٹ پونجئیے جاہل نوجوان کی ہنسی اور تمسخر یا فتوے سے ہم گھبرا جائیںگے؟ مولوی محمد حسین بٹالوی کے فتوے سے ہم نہیں گھبرائے جو ظاہری لحاظ سے بہت بڑے عالم تھے اس وقت کے عالموں کی بھی عجیب حالت تھی بڑے علماء کے دوحصے ہوگئے ایک عیسائیت کی گودمیں جاپڑا اور دوسراحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پرکفر بازی کے کام میں مشغول ہوگیا اور جو اُن کے کام تھے وہ انہیں بھول گئے انہوں نے نہیں کئے۔ خدا کرے کہ آج کی نسل ان سے سبق سیکھے اور عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے ہمارے دل میں تو کسی کے خلاف نہ غصہ ہے نہ نفرت ہے ہم تو سب کے لئے دعاکرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں اور سب سے پیار کرتے ہیں(اردو میں جو اس معنی میںیہ لفظ استعمال ہوتا ہے) شدید سے شدید معاند کے خلاف بھی ایک لمحہ کے لئے بھی میرے دل میں تو کبھی نفرت اور غصہ پیدا نہیں ہوا میں سمجھتا ہوں کہ کسی سچے احمدی کے دل میں بھی پیدا نہیں ہوتاہوگا ہمارے دل میں تو رحم پیدا ہوتا ہے ہمارے دل میں تو’’بخع‘‘کی حالت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک لمبا مضمون ہے میں اس وقت اسے بیان نہیں کروں گا اگراللہ تعالیٰ نے زندگی اورتوفیق دی تو انشاء اللہ کسی اور وقت اسے بیان کرونگا۔
بہرحال ہمیں کسی سے نفرت نہیں ایک نوجوان بڑے جوش میں آئے کہ ہمارے گائوں کا مولوی ہمیں بہت گالیاں دیتا ہے میں مسکرایا اور اس سے کہا کہ تم جاکر اس کی تسلی کرادو کہ جتنا چاہو زور لگا لو ہمارے دل میں تم اپنی نفرت پیدا نہیں کرسکتے۔ ہمیں خدا نے نفرت کرنے کے لئے پیدا ہی نہیں کیا ہمیں پیار سے ساری دنیا کے دل جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے ہم عیسائیوں کے دل جیت رہے ہیں تووہ جو کاخِر کُنند دعوٰیِٔ حُبِّ پَیَمْبَرَم (درثمین فارسی صفحہ۱۰۷) ان کے دل بھی تو ہم نے ہی جیتنے ہیں وہ تو پھر بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں غلطی خوردہ ہیں، لاعلم ہیں سب کچھ ہیں لیکن منسوب تو ہمارے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتے ہیں ان سے ہم نے زیادہ پیار کرنا ہے لیکن کسی کے کہنے سے اگر کوئی کچھ فکر کرتا ہے تو اسے اپنی تاریخ کا پتہ نہیں۔
میں نے بتا یا ہے کہ چوٹی کے دوسو علماء نے اس وقت کفر کا فتویٰ دیا جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ چند آدمی تھے چنانچہ چوٹی کے ان دوسو علماء کے کفر کے فتووں نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ یہ میرے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین روحانی فرزند ہے اسے میں اپنی گود میں بٹھائوں گا اور یہ میری پناہ میںرہے گا دنیا جو مرضی کرلے لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بے شمار وعدے ہیں آپ کو دیکھنے چاہئیں مجھے بتانے چاہئیںمیں انشاء اللہ بتائوں گا ہمارا انہوںنے کیا بگاڑا؟ جو آج ایک یا دویا زیادہ جو اُن مولویوں کے مقابلے میںظاہری علمیت بھی کچھ نہیں رکھتے ان کے کفر کے فتوے ہمارا کیا بگاڑ لیںگے؟ جو مرضی کرتے رہیں۔ ہمیں جو کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے ان کے اندھیروں کو دُور کرے اور ان کے سینوں کو نور سے بھردے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح ہم سے پیار کررہا ہے اورہمیں اس کا اہل سمجھتا ہے(خدا کرے کہ ہم اس کے پیار کے ہمیشہ ہی اہل رہیں اور)ا سی طرح یہ لوگ بھی اس کے پیار کے اہل بن جائیں پھروہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر پیار کرنے والاہے اور جو لذت انسان خدا سے تعلق رکھ کر حاصل کرتا ہے وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں مل سکتی نہ رشتہ داریوں کے تعلقات میں وہ لذت ہے نہ پھلوں میں وہ لذت ہے نہ اجناس میں وہ لذت ہے نہ پانی میں وہ لذت ہے اور نہ شدید سردی کے موسم میں گرم لحاف میں وہ لذت ہے نہ انتہائی گرمی کے وقت ریفریجریٹر اور ایرکنڈیشنڈ میں وہ لذت ہے غرض دنیا کی کسی چیز میںوہ لذت نہیں جو اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے سے انسان حاصل کرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے والے بن جائیں اور اس مہدی معہود کو پہچاننے لگیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (جب کہ میں نے ابھی بتایا ہے) محبوب ترین روحانی فرزند تھا ویسا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو اسے اپنا سلام بھی بھجواتے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ انہیں یہ بات سمجھ آجائے۔ ہمارے لئے ابتلاء مقدر ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان لیناہے لیکن ہم میں سے جو پاس ہوجائے جنہیں اللہ تعالیٰ یہ سمجھے کہ یہ امتحان میں پورے اترے ہیں اور خدا کرے کہ ہم سارے ہی اس امتحان میں پورے اتریں ان کے لئے جو بشارتیں دی گئی ہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں جو محبت کا پیغام دیا گیا ہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جوسلوک ہے اس اجتماعی حیاتِ احمدیت سے اللہ تعالیٰ جو پیارکررہا ہے جو اجتماعی معجزے دکھا رہا ہے جو دنیا کے دلوں میں ایک انقلاب عظیم پیدا کررہا ہے دنیا کے دل میں جو یہ ایک احساس پیدا کررہا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہمیں احمدیت کی وجہ سے پتہ لگا ہے اس واسطے ایک طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا سمندر ان کے دلوںمیں موجزن ہوا تو دوسری طرف وہ ہمارے ساتھ پیارکرنے لگ گئے کیونکہ انہوںنے یہ سمجھا کہ کتنا بڑا احسان ہے اس چھوٹی سی غریب جماعت کا کہ وطنوں سے بے وطن ہوکر اوراپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر انہوںنے ہماری خاطر یہ قربانی دی کہ ہمیں آج وہ حسین چہرہ جس سے بڑھکر کوئی حُسن نہیں وہ حسین چہرہ جو خود منبع اورسرچشمہ ہے تمام حسنوں کا اس کے ساتھ متعارف کروایا اس کی معرفت ہمیں حاصل ہوگئی اسلئے وہ ہم سے پیار کرتے ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں کیونکہ ہم دونوں ایک ہی کشتی میں ہیں یعنی نوح کی کشتی جسکے متعلق سلامتی کا وعدہ ہے۔
پس ابتلاء تو آئیں گے لوگ کافر کہنے سے باز نہیں آئیں گے جب تک کہ وہ آخری وعدہ پورا نہ ہوجائے جو ہمیں افق پر نظر آرہا ہے اور عنقریب پورا ہونے والا ہے۔بیس۔ تیس یا پچاس سال دنیا کی زندگی میںیہ کوئی زمانہ نہیں لیکن یہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے۔ اب میری تو رائے یہ ہے کہ شاید اس کے آثار بیس اورتیس سال کے اندر شروع ہوجائیں گے گو اس کا کلائمیکس ممکن ہے صدی کے اندر کسی وقت ہو لیکن نمایاں طورپر ایک بات سامنے آجائے گی کہ احمدیت جیت چکی ہے اور اس کی مخالفت ناکام ہوچکی ہے۔بہرحال غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ہم تو جو سمجھتے ہیں وہ نیک نیتی سے بیان کردیتے ہیں تاکہ آپ بھی دعا کریں اور سارے مل کر یہ دعا کریں کہ جو ہمارے اندازے ہیں وہی صحیح نکلیں جلد تر ساری دنیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آکر جمع ہوجائے اور اپنے رب کے حضور اسلام(لفظ اسلام اور معنی اسلام) جو قربانی چاہتا ہے اسکو ہمیں پیش کرنا چاہئے ہماری یہ دعا اوریہ تمنا ہے۔
غرض کسی سے بگاڑ نہیںنہ کسی سے نفرت اوردشمنی ہے اپنے آپ کو ہم کچھ سمجھتے نہیں نہ کبر نہ غرور نہ بڑائی اور نہ فخر ہے لاشے محض خود کو سمجھتے ہیں اورسوائے اللہ کے ہر دوسری ہستی کو لاشے محض سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں پر پورا یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمیں تسلی اور تسکین دلاتے ہیںکہ آخر اسلام اور احمدیت کا غلبہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سلامتی کا سامان پیداکیا ہے آگیں ہمارے لئے جلائی جائیں گی مگر ہمیں بھسم کرنے اور راکھ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے معجزانہ ہاتھ دکھا کر دنیا پر یہ ثابت کرے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو ناکام نہیں کرسکتی دنیا کی کوئی آگ انہیں جلا نہیں سکتی۔ دنیا کا کوئی منصوبہ انہیں منتشر نہیں کرسکتا۔
جونئی پریشانی پیدا ہوئی ہے نوجوانوں کے دماغوں میں ہے پریشانی ہمارے لئے تو وہ کوئی پریشانی نہیں اسی کے سلسلہ میں دراصل میرا یہ خطبہ ہے اس سے پہلی رات مجھے ابھی پتہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیاکہ ساری رات مخالفین کی ناکامیوں اور جماعت کی کامیابیوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ کبھی قرآن کریم کی آیات، کبھی اپنے فقرے اور بس نیم بیداری اور نیم غنودگی کی حالت میں قریباً ساری رات یہی کیفیت رہی میں صبح اٹھکر بڑا خوش ہوا لیکن مجھے کچھ فکر بھی تھی کہ جب بہت تسلی دی جاتی ہے تو کہیں سے کوئی وار بھی ہونے والا ہوتا ہے چنانچہ بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ ایک وار ہوا ہے۔
ایک چیز میں بھول گیا اس کا مجھے افسوس ہے خواب میں میں انگریزی میں تین فقرے کہتا ہوں تین مختلف انبیاء کی قوموں کے متعلق غالباً شرعی نبی جو پہلے گزرے ہیں۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوشاخیں ہیں پہلی زندگی میں آپؐ دنیا پر محمدؐ کی شان میں جلوہ گر ہوئے تھے اور اس زمانہ میں آپ اپنی احمد کی شان میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے بلکہ میرا خیال بھی یہی ہے کہ یہ دوشاخیں اور ایک پہلے کے کسی نبی کی شان اور فقرے وہ ایسے ہیں کہ سوچ کر مجھے بڑا ہی افسوس ہوا وہ بڑے عجیب یعنی وہ فقرے ایسے نہیں کہ انسان بناسکے بلکہ ایسے تھے کہ جس طرح آسمان سے نازل ہوئے ہیں اوران سے میں نے بڑی لذت محسوس کی لیکن وہ میری زبان پر جاری ہوتے ہیں اور آخری فقرے کا صرف ایک لفظ یادرہ گیا اوراس میں یہ فقرہ کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیات اور جماعت احمدیہ کی کامیابیوں کا راز اس بات میں ہے پھروہPhrese(فریز) لمبی تھی مگر اس میں صرفDecepline(ڈسپلن) کالفظ یاد رہ گیا یعنی نظم واطاعت اور یہ حقیقت ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ یہ خوشخبری ملی ہے کہ دامن خلافت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرتا چلا جائے گا اور اپنے فضل تم پر نازل کرتا چلا جائے گا مثلاً خلافت کی جو قدر پہلے صحابہؓ نے کی وہی قدر جماعت کو کرنی چاہئے۔ جب حضرت خالدؓ بن ولید کو معزول کیا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں وہی کوڑا تھا جو خلافت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی کو زیادہ استعمال کی ضرورت پڑجاتی ہے کسی کو کم پڑتی ہے۔ کسی کا وہ کوڑا نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے کسی کا کبھی کبھی سامنے آتا ہے اسلئے لوگ اسے بھول جاتے ہیںخلافت خلافت میںتوکوئی فرق نہیں۔ہر خلیفہ کے فرائض واختیارات ایک جیسے ہیں۔ کوڑا بھی ایک جیسا ہے کیونکہ اگر وہ کوڑا خلافت عمر کا حصہ نہیں تھا تو وہ ناجائز تھااور ان کی طرف ہم کوئی ناجائز بات منسوب نہیں کرتے اگر وہ جائز تھا تو خلافت کاحصہ تھا اور ہرخلافت کاوہ حصہ ہے چنانچہ وہ کوڑا حضرت خالدؓ بن ولید پر چلا۔ یہ تو ایک ضمنی بات ہے لیکن جو لوگ بعد میں آئے اور جن کی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدھ ملاقات ہوئی تھی یعنی اگر صحابی بھی تھے تو اس قسم کے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایمان لائے تھے مگر بڑے مخلص اور فدائی بن گئے انہوںنے جب حضرت خالد ؓ کی معزولی کا سنا تو بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اتنا بڑا جرنیل جس نے اتنی بڑی قربانیاں دیں اوراللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر اتنی فتوحات بخشیں اور ایک فقرہ لکھا ہوا نکلا کہ ان کو معزول کردو۔ انہوںنے اسے قبول نہیں کیا اگرچہ بغاوت نہیںکی لیکن طبیعتوں میں بشاشت نہیں پیدا ہوئی چنانچہ اکابر صحابہؓ کے پاس ان لوگوں کا ایک وفد گیا کہ ہمیں خلافت کی یہ بات پسند نہیںآئی اورہم کچھ کہہ نہیں سکتے اورآپ صحابہ میں سے بزرگ ہیں آپ حضرت عمرؓ کو توجہ دلائیں کہ یہ کیا کردیا ہے؟ انہوںنے آگے سے جواب دیا کہ سمجھ آنے یا نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری ریت یہ ہے کہ سَمْعاً وَّ طَاعَۃً۔ ہم صرف سنیںگے اور اطاعت کریں گے بشاشت تو تمہارے دل کے اندر پیدا ہونی چاہئے ان نا سمجھوں کے دل میں بشاشت پیدا نہیںہوئی لیکن خود حضرت خالدؓ بن ولید نے اپنی وفات سے پہلے کئی باراس بات کا اظہار کیا کہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ میرے معزول کرنے میں کیا حکمت تھی؟ وہ حکمت یہی تھی کہ یہ جونئے آنے والے تھے ان کے دلوں میں احساس پیدا ہوگیا تھا کہ یہ فتوحات حضرت خالدؓ کی مرہون منت ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو یہ بتلانا چاہتے تھے کہ یہ فتوحات صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی مرہون منت ہیں خالد کوئی چیز نہیں بلکہ ہر انسان کی عمر کی بھی اور خالد کی بھی اور ناصر کی بھی۔ غرض جو بھی مخلوق ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک مرے ہوئے کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ ان کو یہ سبق سکھانا چاہتے تھے اورخوب سکھایا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالدؓ کو ایران کی جنگوں پر مامور کر رکھا تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہاں سے ہٹالیا اورپھر انہیں وہاں واپس نہیں بھیجا اور آپکی جگہ ایک بوڑھے متقی اورپرہیز گار یعنی حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جن سے بعض دفعہ لڑائی میں چلا بھی نہیں جاتاتھا مگر یہ بڑے پایہ کے صحابی تھے بڑے مخلص اور دعاگو تھے بنی نوع انسان سے بڑا پیار کرنے والے تھے انہیں جرنیل بنادیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید کی لڑائیوں کے متعلق تویہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تھوڑا Bleeding(بلیڈنگ) کیا یعنی ایرانی حکومت کو تھوڑا سا زخمی کیا۔ اس میں ذرا سا ضعف آگیا لیکن حضرت سعدؓ بن وقاص نے اپنے کمزور ہاتھ کی تلوارسے ایران کی گردن اُڑا دی کیونکہ ان کا ہاتھ ظاہری طورپر کمزور تھا یا طاقتور تھا اس کا کوئی سوال ہی نہیں تھا اصل ہاتھ تواللہ تعالیٰ کا تھا جس نے وہ تلوار پکڑی ہوئی تھی اورجب اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تلوار اُٹھا ئے تو اس سے کون سی گردن محفوظ رہ سکتی ہے؟ کوئی نہیں رہ سکتی اگر یہ صحیح ہے کہ اِنَّ الَََّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنََّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔(الفتح:۱۱)یعنی جنہوں نے تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیکر بیعت کی تیرے ہاتھ میں اُنہوں نے ہاتھ نہیں دیا خداکے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام کی تلوار حضرت خالدؓ بن ولید کے ہاتھ میںنہیں تھی نہ حضرت سعدؓ بن وقاص کے ہاتھ میںتھی بلکہ وہ تلوار خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں تھی اور خدا کے ہاتھ میں جو تلوار ہوتی ہے اگر وہ چمکے اور کسی کی گردن اُڑانا چاہے تو کس کی گردن محفوظ رہ سکتی ہے؟
ضمناً مجھے ایک اور بات یاد آگئی ہے ۔ ایک صحابی لڑرہے تھے دشمن بڑاطاقتور اور زِرہ پوش تھا یہ اس پر وارکرتے تھے مگر وار کامیاب نہیں ہوتا تھا۔ اس عرصہ میںایک اور دشمن نے ان پرپیچھے سے حملہ کیااور جو ان کے سامنے سے لڑرہا تھا اسے نظر آرہا تھا کہ پیچھے سے اور حملہ ہوگیا ہے اسلئے میری جان بچ جائے گی۔ ہمارے اس صحابیؓ کو تو نظر نہیں آرہا تھا ان کی تو اس طرف پیٹھ تھی لیکن انہوں نے سامنے دشمن پرتلوار چلانے کے لئے جب تلوار گھمائی اور اس کی نوک پیچھے آنے والے آدمی کی گردن پرلگی وہ دور جاپڑا اس سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کی تلواریں خدا کے ہاتھ میں تھیںاس کی آنکھ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں غرض وہ صحابیؓ دم بخود ہوگئے حیران کہ یہ کیا واقعہ ہوگیا ان کوتو پتہ ہی نہیں تھا کہ پیچھے کون آرہا ہے اور وہ اس کا بچائو نہیں کرسکتے تھے ان کو علم ہی نہیںتھا کہ پیچھے سے بھی نیزے اور تلوار کا وارہوگا چنانچہ ہوا یہ کہ جوچیز ان کو نظر نہیں آرہی تھی یا جوانسان ان کے پیچھے سے حملہ کرنے والا تھا اس کی گردن اڑگئی اور پھر وہ بھی ماراگیا۔بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیںلیکن یہ ہمیں بتارہی ہیں کہ وہ تلوار مسلمان کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ مسلمان کے ربّ کریم کے ہاتھ میں تھی اس ربّ کے ہاتھ میں تھی جسکے متعلق ہم ایمان لاتے ہیں کہ اَلْمُلْکُ لِلّٰہِ، اَلْقُدْرَۃُ لِلّٰہِ اور اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ جو متصرف بالارادہ ہے دنیا میں کوئی کام نہیں ہوسکتا جب تک آسمان سے حکم نازل نہ ہو۔
پس یہ کمزوریاں تھنکنگ(Thinking) کی، فکر وتدبر کی یہ بھی چھوڑو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے صرف وہی ہوتا ہے اورآج اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ اسلام اور احمدیت غالب آئے اورانشاء اللہ اسلام اور احمدیت غالب آئے گی۔ میں جب بھی سوچتا ہوں مجھے مخالفین کے منصوبوں سے کبھی فکر پیدا نہیں ہوئی۔ میں ایک لحظہ کے لئے بھی پریشان نہیںہوا لیکن جوچیز مجھے پریشان کردیتی ہے اوربعض دفعہ میری راتوں کی نیند حرام کردیتی ہے وہ جماعت کی اپنی کمزوری ہے۔آپ یاد رکھیں کہ آپ کا بیرونی دشمن آپ کو کبھی کوئی نقصان نہیںپہنچا سکے گا البتہ آپ کے دل کا چورآپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کے دل کا نفاق آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے آپ میں دلی طور پر کمزور ایمان والا آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن بیرونی مخالفت آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی اس کی فکر کرنی چاہئے۔
پس آپ اپنی تربیت کی فکر کریں اور ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں کسی پرغصہ نہ کریں، کسی سے تمسخر نہ کریں اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں اپنے دل میں ان لوگوں کے لئے ’’بخع‘‘کی کیفیت پیدا کریں۔ ان سے نفرت کی بجائے پیار پیدا کریں، بددعا کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دُعائیں دیں اللہ تعالیٰ ایک دن یہ دعائیں قبول کرے گایہ اس کا وعدہ ہے پھر ہمارے مونہوں سے بھی انشاء اللہ وہ یہ کہلوائے گا۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ تمہیں نورنظر آگیا اسلئے آج تمہارے ساتھ سارے جھگڑے ختم ہوگئے۔ ہم کسی انسان کے دشمن نہیںلیکن اس دنیا میں ظلمت کو ہم برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ اس دنیا میںرہے گی اسی کے لئے ہماری زندگی اور اسی کے لئے ہماری موت ہے۔ بالآخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اقتباس کو پڑھ کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں
’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کاایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اورہر ایک طرف سے اس کی شاخیںنکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا(اس کاایک نظارہ تو ہم دیکھ کر آئے ہیں۔ دنیا کے ملک ملک میںاس درخت کی شاخیں ہیں جن کے اوپر احمدیت کے پرندے اور اللہ تعالیٰ کی جنت کے پرندے بسیرا کررہے ہیں) پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے۔ تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جوکسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگروہ پیدانہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبرکریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔وہ آخر فتحیاب ہونگے اوربرکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیںگے۔انشاء اللہ تعالیٰ‘‘
( الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۳۰۹)
پس تم یہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس گروہ میں شامل کرے جن کے پائوں میں کبھی لغزش نہیں آتی جو پختگی کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ اس بزرگ شاہراہ پر قدم بقدم اپنی منزل مقصود کی طرف چل رہے ہیں اور ہر قدم پہلے سے زیادہ تیز اورہرصبح پہلے سے زیادہ شاندار اور ہر طلوع آفتاب احمدی قوم کو پہلے دن کے طلوع کے وقت ان پر جو نظر اس کی پڑی تھی اس سے زیادہ طاقتور اور اس سے زیادہ باعزت اور اس سے زیادہ بارعب اور اس سے زیادہ پیار کرنے والے دیکھتا ہے۔ خدا کرے کہ ہرسورج پہلے سے زیادہ طاقتور اور زیادہ معززاور اللہ کی نگاہ میں زیادہ کامیابی کے قریب احمدیت کو دیکھتا چلا جائے یہاںتک کہ تمام دنیا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوجائے اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ الہام پورا ہو کہ اقوام عالم ایک برادری بن جائیںگی اور ان تمام کا ایک ہی مذہب ہو گا اسلام اور ایک ہی کتاب قرآن اور ایک ہی پیشوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز




احمدیت کو غالب کرنے کا فیصلہ
آسمانوں پر ہو چکا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍اگست ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ ۔غیر مطبوعہ)
تشہّد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور انور نے فرمایا:-
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرہ:۴) اپنے ایمانوں کو پختہ کرو ایمانوں کو پختہ کروکہ اس کے بغیر تم اورمیں ان بشارتوں کے وارث نہیں بن سکتے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی ہیں۔
اس موضوع پر میں پہلے بھی ۲یا۳خطبات میں ایمان کے مختلف پہلو بیان کرچکا ہوں میں نے بتایا تھا کہ ایمان کالفظ قران کریم میں دومعنوں میں استعمال ہو تاہے ایک تو اس معنے میں کہ لفظ ایمان استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نہیںبتایا جاتا کہ کس چیز پر ایمان؟ اوراس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایمان کے جس قدر تقاضے قرآن کریم میںاور ان کی جس قدر تفاسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یاآپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان کی ہیں ان تمام تقاضوں کو پورا کرو۔ کبھی قرآن کریم نے ایمان کے ساتھ ان تقاضوں کا بھی ذکر فرمایا ہے مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو، قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ کے رُسل پرایمان لائو قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو پہلی کتب بھجوائی جاچکی ہیں ان پر ایمان لائو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کامل کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی ہے اس پرایمان لائو۔ بعض جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یوم آخرت پر ایمان لائو، آخرت پر ایمان لائو، غیب پر ایمان لائو۔ غرض بہت سی جگہوں پر ایمان کے تقاضوں کوساتھ ہی بیان کردیا گیا ہے اور بعض جگہ صرف ایمان یا اس کے مشتقات میں سے کوئی مشتق استعمال ہوتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام تقاضوں کو پورا کرو مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ (اٰل عمران:۱۴۰)کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی تم ہی دنیا کی سب طاقتوں پر غالب آئو گے۔ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔(اٰل عمران:۱۴۰) اگرتم حقیقی معنے میںمومن ہوگے۔ایمان کے تمام تقاضوں کوپورا کرنے والے ہوگے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ مومن باللہ یا مؤمن بالغیب یا مؤمن بالرُسل وغیرہ وغیرہ مختلف تقاضے ہیں محض مؤمن کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ایمان باللہ کے متعلق قرآن کریم نے بڑ ی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی معرفت پالیتا ہے وہی حقیقی معنے میں مسلم کہلاسکتاہے اور وہی تمام بشارتوں کا وارث بنتا ہے۔
اس ایمان باللہ کی دراصل آگے مختلف شاخیںہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے وجود کو اللہ کی شکل میں جن صفات کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اپنے آپ کو جن کمیوں اور عیبوں اور نقائص اور عیوب سے منّزہ ہونے کی صورت میں پیش کیاہے اسکو سمجھنا اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو دنیا کا پیدا کرنے والا اور دنیا کو زندگی دینے والا اوردنیا کو زندہ رکھنے والا اور دنیا کو سنبھالنے والا اوردنیا کے دکھ دورکرنے والا وغیرہ وغیرہ نہ سمجھنا، یہ ایمان باللہ کی ساری تفاصیل ہیں۔ اس شکل میں ایمان لانا یہی دراصل اسلام کی جان اور ہماری زندگیوں کی روح ہے اس معرفت کے بغیر دراصل زندگی زندگی نہیں۔
بہرحال کچھ مختصرروشنی میں نے پچھلے خطبے میں ڈالی تھی آج میں ایمان بالغیب کے متعلق یا یوں کہو کہ میں ایمان بالغیب کے ایک پہلو کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں قرآن کریم میں بڑی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ غیب پر ایمان لائو۔ غیب اپنے معنی کی وسعت کے لحاظ سے اسکیapplication(ایپلیکیشن) یعنی جہاں جہاں اس کا استعمال کیاجاسکتا ہے اس کے لحاظ سے بڑا وسیع ہے اور نسبتی بھی ہے فرد فرد کے لئے اور ایک عام انسان کے لئے بھی ہے ہر انسان کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ مستقبل کا علم نہیں رکھتا۔ پس وہ مستقبل بنی نوع انسان کے لئے غیب ہے یعنی جو بھی مستقبل ہے وہ غیب ہے ماضی کے دھندلکے بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اس قسم کا اندھیرا پیدا کردیتے ہیں کہ وہ چیز غیب بن جاتی ہے مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے حالات، اُن کا زمانہ، ان کی مشکلات، ان کی تکالیف، ان کی کوششیں اور جدوجہد اور ان کی کوششوں پر جو ثواب مترتب ہوئے ان کی تفصیل ہے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہیکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلۃ:۲۲)میرے رسول ہمیشہ غالب آتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو خواہ کسی قسم کی مشکلات سے واسطہ پڑا ہو آپ غالب ضرورآئے لیکن کیسے غالب آئے یہ ہمارے لئے غیب ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب کرنے کے لئے کیاسامان پیدا کئے؟ انہیں کس طرح اپنی بعض نعمتوں اور اپنے پیار سے نوازا اس کے متعلق تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام غالب آئے۔کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں اور ان میںسے چند ایک کے علاوہ باقی کے تو ہمیں نام کابھی پتہ نہیں البتہ ہمیں اتنا پتہ ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ(فاطر:۲۵)مگر اس کا بڑاحصہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے آئندہ کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے یعنی دنیا میں اورجگہ بھی آبادیاں ہیں وہاں کیا ہورہا ہے اورکیا ہونے والا ہے؟ اس کا کسی کوپتہ نہیں ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ہرامّت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ڈرانے والا مبعوث ہوا اور اس پر ہم ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہی غالب ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو وعدہ ان کے لئے غیب تھا یعنی جو بشارتیں ان کو ملی تھیں اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں یا کامل طور پر ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں اس کے اوپر ایمان رکھتے تھے اور جو ایمان رکھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوئے۔
غیب حال کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے مثلاً امریکہ کی کیا حالت ہے؟ اس وقت روس کی کیا حالت ہے؟ آج ان کے مفکرین دنیا میںتباہی مچانے اوردنیا کی آپس کی حقارتوں کواور بھی زیادہ شدید بنانے کیلئے کیا سوچ رہے ہیں اورکیا کررہے ہیں؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے بعض کے متعلق ان کو بھی پتہ نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یعنی انسان کی اپنی کوشش کا جو نتیجہ ہے وہ اس کے لئے غیب ہے اور ان اقوام کی جو کوششیں ہیں وہ ہمارے لئے غیب اور ان کوششوں کا نتیجہ ان کے لئے غیب ہے روس سوچ رہا ہے (اگر وہ اپنے دعویٰ میںسچاہے جیسا کہ اس نے اعلان کیا تھا) کہ میں زمین سے اللہ کے نام اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹادوںگا لیکن جو غیب کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے وہ یہ ہے کہ ’’میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں‘‘۔(تذکرہ ایڈیشن چہارم ۶۹۱) وہ سوچ کچھ رہے ہونگے اگروہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میںکوئی اور چیز ہے وہ سمجھتے ہونگے کہ ہماری اتنی بڑی طاقت ہے کہ دنیا کی دوبڑی طاقتوں میں ہم شمار ہوتے ہیں۔ سارے منصوبے ضرور کامیاب ہونگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو مرضی سوچتے رہو۔ اپنی جتنی طاقت سمجھو میرے مقابلے میں تمہاری کوئی طاقت نہیں۔ ہوگا وہی جس کا میں ارادہ کرونگا اور جو میں تمہیں غیب کے متعلق بتاتاہوں وہ پوارا ہوگا تمہاری تمام کوششیں ناکام ہوجائیںگی نہ تم آسمان سے خدا کے وجود کو مٹا سکو گے نہ اللہ کے نیک بندوں کے دل سے اس کے نام اور پیار اورمحبت اور عشق کو مٹا سکو گے اوراحمدیت کے ذریعے تمہاری قوم کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیںگے اور ایک دو کے نہیں جیسا کہ کمیونسٹ ملکوں میں واقع ہوچکا ہے وہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہورہی ہیں غرض اتنی کثرت سے جیتے جائیں گے کہ اگر تمہارے ملک کے ریت کے ذروں کوشمارنہیں کیا جاسکتا تواسی طرح احمدی مسلمانوں کو بھی شمار نہیں کیا جاسکے گا جس کامطلب یہ ہے کہ تمہاری بڑی بھاری اکثریت تمہارے دعووں کے ہوتے ہوئے اور تمہاری کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کو پہچانے گی اس کی معرفت حاصل کرے گی اور اس کے فضلوں کی وارث بنے گی ہمارے لئے یہ آئندہ کے متعلق غیب ہے اور جس طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ اس وقت سورج چمک رہا ہے اور دن ہے جس طرح ماں اور باپ کویہ یقین ہے کہ ان کے ایک دوتین چار یا جتنے بھی خدا نے بچے دئیے ہیں اور زندہ ہیں مرے ہوئے نہیں ہیں جس طرح خاوند کویہ یقین ہے کہ اس کی ایک بیوی بھی ہے اور جس طرح بیوی اس یقین پر قائم ہوتی ہے کہ اس کا ایک خاوند بھی ہے ہرایک احمدی کو اس سے بھی زیادہ یقین پر قائم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو غیب کے متعلق وعدے کئے ہیں وہ انشاء اللہ ضرور پورے ہونگے ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے میں روک نہیں بن سکتیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں صرف یہ نہیں فرمایا کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو الٰہی بشارتوں کے متعلق یہ یقین رکھو کہ وہ پوری ہونگی کیونکہ آسمان اور زمین کے خدا نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا ہے بلکہ آپ کے دل میں الٰہی وعدوں پر بھی نہایت پختہ یقین تھا اور آپ اپنی جماعت میں بھی اسی یقین کو پختہ کرنا چاہتے تھے صرف یہ نہیں کہا کہ دشمن ایذا دہی کرتا ہے گندہ دہنی سے کام لیتا ہے کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے ہلاکت کے منصوبے بناتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہو گا بلکہ مخالف کو مخاطب کرکے یہ بھی کہا کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ مرے خلاف زور لگائو اور اتنا زور لگائو کہ اس سے زیادہ تمہاری طاقت میںنہ ہواورپھر دیکھو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نتیجہ وہی نکلے گاجو میرے خدانے مجھے بتایا ہے وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جو تمہارے منصوبے تمہارے دل میں خواہش پیدا کریںگے۔
پس غیب کا تعلق مستقبل سے بھی ہے اور اس وقت اسی کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں مستقبل کے متعلق جو غیب ہے وہ پھر ہزاروں شاخوں میں آگے بٹاہوا اور تقسیم ہے لیکن مستقبل کے جس غیب کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے وہ وہ غیب ہے جو بشارتوں کے رنگ میںہمیں دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وعدہ کو دہرایا ہے نئے وعدے نہیں اصل وعدے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہم تک پہنچائے گئے ہیں لیکن نئے حالات میں جن نئی شکلوں میں انہوں نے ظاہر ہونا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں بتائے گئے ہیں۔
قرآن کریم میں یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمران:۱۴۰) ایمان کے تقاضوںکو پورا کروگے غالب آئو گے۔ ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کروگے ملعونی قومیں بھی تم پر غالب آجایا کریں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرآن کریم کا یہی وعدہ دیا گیا ہے لیکن اس بشارت کے ساتھ کہ وہاں جو شرط لگائی تھی یعنی ’’اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ کی۔ جماعت احمدیہ کا بڑا حصہ اس شرط کو پورا کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرمایا گیا کہ شرط نہیںمیںتمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہاری جماعت ایمان کے تقاضوں کو پورا رکرے گی اورمیری بشارتوں کی وارث ہوگی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلٰی اللہ ہم کو غالب کرے گااور ہم پر کوئی غالب نہیں آئے گا قرآن کریم کی شرط تو نہیں مٹائی جاسکتی۔ اسی کی طرف اشارہ ہے ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ کی شرط پوری ہورہی تھی مگرپھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں نے اس شرط کو پورا نہیں کیا اور وہ بشارتوں کے وارث نہیں بنے۔
اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو بتایا کہ تمہیں جو جماعت دی جارہی ہے وہ اس شرط کو پورا کرنے والی ہے اس واسطے یہ اعلان کردو کہ اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا ولا نُعْلٰی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ہم پر غالب نہیںآسکے گی۔ خد اکے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ یعنی جماعت احمدیہ کی اکثریت ویسے الٰہی سلسلوں میں کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی ہوتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی اکثریت اس شرط کوپورا کرنے والی ہوگی اوردنیا میں یہ اعلان کرنے والی ہوگی۔’’اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلٰی‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور ہم پرکوئی غالب نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کواس قدر بشارتیں دی ہیں آپ نے جماعت کی ترقیات کا اس دھڑلے کے ساتھ اعلان کیا ہے آپ نے ان منافقوں اور کمزور ایمان والوں کو بھی ڈرایا ہے لیکن بحیثیت جماعت کے آپ نے جماعت کویہ تسلی بھی دی ہے کہ عاجزانہ راہوں کو تم اختیار کرتے جانا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث ہوتے چلے جائو گے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ آپ اور آپ کے نائبین اور خلفاء جماعت کی اس رنگ میں تربیت کرنے کے قابل ہونگے کہ جماعت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ شرط کوپورا کریں گے اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑے ابتدائی زمانہ میں سے بشارتیں ملی تھیں آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اکیلا تھا اور کوئی شخص میرے سلسلہ بیعت میں ابھی داخل نہیں ہوا تھا گو یہ صحیح ہے کہ میرے ساتھ چنددوست تھے لیکن بیعت ابھی کسی نے نہیں کی تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے کہا تھا میں تجھے کامیاب کروں گا اور دشمن تیرے اوپرغالب نہیں آسکے گا اور اس وقت جب میرے ساتھ کوئی نہیں تھا اور بڑے بڑے علماء ظاہرنے اکٹھے ہوکر سر جوڑا اور ہلاکت کا ایک یہ منصوبہ بھی تیار کیا کہ دوسو چوٹی کے علماء ظاہر کے دستخطوں سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایااور اس تکفیر بازی کے نعروں میںپہلے احمدی نے بیعت کی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ جب میرے خلاف یہ شور بلند ہوا اس وقت تک بیعت کسی نے نہیں کی ہوئی تھی پس کفر کا فتویٰ اور تکفیر کا نعرہ پہلے لگا اور وہ پہلا شخص بعد میںہوا جس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اوراللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے لمس کومحسوس کرتے ہوئے اس کی رحمتوں کے چشموں سے جسمانی اور روحانی سیری حاصل کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے مجھے ہلاک کرنے کی سکیمیں تیار کی گئیں عوام کومیرے خلاف بھڑکایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ جو شخص مجھے قتل کرے گا وہ بڑے ثواب کا مستحق ہوگا وغیرہ غرض سارے جتن کئے ہرقسم کی تدبیر کرنی اورنتیجہ یہ ہوا کہ ان نعروں کے درمیان وہ اکیلا اِک سے ہزار نہیں بلکہ اِک سے کروڑ ہونے تک پہنچ گیا۔
یہ ہمارا پس منظر ہے نئے نعرے، نئے فتوے، نئے بازارِ تکفیرسجانے سے ہمیں کون ڈراسکتاہے؟ ہم نے اپنے بزرگوں کی زندگیو ں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلووں کو مشاہدہ کیا اور ہم نے اپنی عاجزانہ زندگیوں میںبھی اس کی قدرت کے جلووں کا نظارہ کیا دنیا کی کوئی دھمکی دنیا کا کوئی شور، دنیا کا کوئی منصوبہ،دنیا کی کوئی چالاکی ہمیں مرعوب نہیں کرسکتی۔ اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور اسکے اظہار میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ جہاں تک دنیوی سہاروں کا تعلق ہے ہم بے سہارا ہیں اور ہمارے پاس کوئی سہارا نہیںہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑے ہوئے ہیںاوروہی ہمارا سہارا ہے اور اس سے بہتر نہ کوئی سہارا ہے نہ کسی سہارے کی ہمیں ضرورت ہے۔ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل اللہ تعالیٰ ہی ہمارا واحدسہارا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے ایک سیاست دان میرے پاس ایبٹ آباد میںآئے ان کے لیڈر نے اعلان کیا تھا کہ احمدی تو کافر ہیں(گوانہوںنے لفظ کافر تو استعمال نہیںکیا تھا مگر کہا کہ یہ ہماری طرح کے مسلمان نہیں ہیں) یہ نہ کبھی ہماری پارٹی میںداخل ہوئے نہ اس وقت شامل ہیں اور نہ آئندہ ہوسکتے ہیں نہ کبھی شامل ہوئے اور نہ اس وقت ہیں۔ یہ توایک جھوٹ تھا جو اسی وقت ان پھر کھل گیا کیونکہ بعض احمدی دوست جو سیاسی لحاظ سے ان کے ساتھی تھے وہ کھڑے ہوگئے اور اس سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہم تو۱۹۵۱ء سے آپ کے ساتھ کام کررہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے ہم قادیانی ہیں(یہی لفظ اس نے استعمال کیا تھا) چنانچہ وہ بڑاشرمندہ ہوا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا لیکن وہ علیحدہ بات ہے یہ دوست جو مجھ سے ملنے آئے تھے ان سے میں نے کہا کہ تمہارے لیڈر نے کہا ہے کہ کوئی احمدی میری پارٹی کا ممبر نہیں ہے اور تم آگئے ہو میرے پاس ووٹ لینے میں وہ بے غیرت احمدی کہاںسے تلاش کروں گا جو تمہارے اس لیڈر کے اعلان کرنے کے بعد تمہیں آکر ووٹ دے دیںگے اور میں نے اسے بتایا کہ مجھے کسی احمدی کو کہنے کی ضرورت نہیں البتہ اسے یہ پتہ لگنا چاہئے کہ تمہارے لیڈر نے یہ کہا ہے پھر وہ آپ ہی فیصلہ کرلے گا اور اس کا فیصلہ یہی ہو گا کیونکہ کوئی احمدی بے غیرت نہیں ہوتا۔
میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کے کافر ہونے کا اعلان کردیا پتہ نہیں احمدیوں کو کیا ہو جائے گا کیونکہ احمدی بے سہارا ہیں ان کے ساتھ جیسا مرضی سلو ک کر لو میں نے کہا یہ درست ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی دنیوی سہارا ہمارے پاس نہیں ہے ہم نے زید یا بکر کا دامن نہیں پکڑا ہوا، ہم نے دولت کو بت نہیں بنایا، نہ کثرت کی ہم پرستش کرتے ہیں، نہ طاقت ہمارے سامنے کسی دیویا شیطان کی شکل میںآتی ہے، ہمارے پاس طاقت نہیں ہے، ہمارے پاس دولت نہیں ہے، ہمارے پاس سیاسی اقتدار نہیں ہے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ دنیا دار دنیا کے جن سہاروں کو سہارا سمجھتا ہے ہمارے پاس کوئی بھی ایسا سہارا نہیں یہ ایک حقیقت ہے اس کاہم انکار نہیں کریںگے علی الاعلان اس کا اظہار کریں گے لیکن یہ یادرکھو کہ وہ جو سب سہاروں سے زیادہ افضل اور زیادہ قابل بھروسہ اور جس پر زیادہ تو ّکل کیا جا سکتاہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کا سہارا ہمیں حاصل ہے اس واسطے کسی اورسہارے کی ہمیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
چونکہ انسانی زندگی(فرد کی زندگی نہیں میںکہہ رہا) میں بڑوں کے بعد چھوٹے ابھر رہے ہوتے ہیں ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنی پہلی تاریخ کا علم نہیں ہوتا اس واسطے اگر کوئی ذرا سی بھی آواز بلند ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محمد حسین بٹالوی اور نذیر حسین دہلوی سے بھی زیادہ بلند آواز ہے حالانکہ اگر آج بھی آپ ان لوگوں کے علماء ظاہر سے جاکر پوچھیں کہ آپ نے ان جیسے عالم پیدا کئے تو اغلباًوہ بھی جن میں تھوڑی بہت دیانتداری ہے وہ کہیںگے کہ نہیں وہ ہم سے زیادہ بڑے عالم تھے۔ پس جو اس زمانے کے تمہارے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے ان کے کفر کے فتویٰ نے سوائے اس کے جو عورت کپڑا سی رہی ہواسکے ہاتھ میںکبھی سوئی چبھ جاتی ہے یا مرد اپنے کاغذ کو پِن لگائے تو ذرا چبھ جاتا ہے جسے انگریزی میںپن پرکنگ کہتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں کوئی تکلیف یا نقصان نہیں دیا۔
سُوئی بھی چبھی، پن بھی چُبھا تمہارے شورسے ہمارے دل دکھے ضرور کیونکہ یہ ایک طبعی چیز تھی یہ ایک اورمسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اسلئے وہ میں بیان کررہا ہوں جب اس قسم کی کوئی گندی گالی دی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتاہے توہمارے جذبات ہیں یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہیں بڑاسخت دکھ ہوتا ہے بعض دفعہ وہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے لیکن ہم اسے برداشت کرتے ہیں۔
پس جہاںتک فطرت کا تقاضا ہے فطرت کا تقاضا پورا ہوتا ہے ہمیں بڑا سخت دکھ پہنچتا ہے لیکن جہاںتک اس دکھ اور ایذا دہی کے ردعمل کا تقاضا ہے اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چلنا پڑتا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ حکم دیا ہے کہ ’’گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو‘‘ اس واسطے جو کوئی کفر کا فتویٰ لگاتا ہے ہم اس کے لئے اور بھی زیادہ دعائیں شروع کردیتے ہیں، ہمیں جس سے تکلیف پہنچتی ہے ہم اس کے لئے راحت اور مسرت کے لئے دعائیں کرنی شروع کردیتے ہیں مثلاً ایک شخص آج یاآج سے اسّی سال پہلے یا آنے والی کل(یہ توچلے گاسلسلہ) کفرکا فتویٰ دیتا ہے تو اگر آپ سوچیں اور میں نے سوچا ہے اور جو میں بیان کروں گا اسی کو حقیقت پایا۔ آپ بھی سوچیں توآپ کو بھی یہی حقیقت سمجھ آئے گی کہ سب سے سخت سزا جو ہم ایسے کافر کہنے والوں کو دے سکتے ہیں وہ وہ سزا ہے جو ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کو ملی تھی۔ آپ ان کے لئے دعاکریں کہ وہ احمدی ہوجائیں جب وہ احمدی ہوجائیںگے تو ان میں سے ہر ایک کا دل ساری عمر کڑھتا رہے گا کہ میں کتنا احمق تھا کہ ایک وقت میں اس قسم کا فتویٰ دے دیا یا کوئی فیصلہ کردیا یا اعلان کردیا۔
پس وہ آپ کو کافر کہیں آپ دعا کریں کہ اُن میں سے ہرایک مومن ہوجائے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے یرموک کے موقعہ پر عکرمہ اور ان کے ایسے ہی ساتھیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ جنگ کرتے رہے تھے یہ مشورہ دیا تھاکہ تمہارے چہروں پر ایسے داغ ہیں جو انتہائی قربانی کے بغیر دُھل نہیں سکتے آج موقعہ ہے اپنے خونوں سے اپنے چہروں کے داغ دھو ڈالو۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور کی جنگوں میںآپ کے خلاف لڑتے رہے تھے اس وقت دوسو کے قریب تھے وہ سارے کے سارے دشمن کی فوج میں گھس گئے کیونکہ حضرت خالدؓ بن ولید نے ان سے کہا تھا کہ میں اپنی فوج کو حکم نہیں دونگاتم نمایاںہوجاؤ اور دشمن کی فوج پر حملہ کردو حالانکہ دشمن کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک اڑھائی لاکھ تھی یہ دوسو اپنے چہروں کے داغ دھونے کے لئے اس فوج کے اندر گھس گئے اور اپنے وعدے کو سچا ثابت کردکھایا سارے کے سارے شہید ہوگئے ان میں سے صرف ایک زخمی ہونے کی حالت میں واپس آئے اور بعد میں انہی زخموں سے وہ بھی فوت ہوگئے ایسے لوگوں کو جو آج اس قسم کی حرکتیں کررہے ہیںمیں یہ کہوں گا کہ اگر تمہاری قسمت میں نیکی لکھی ہوئی ہے تو تمہیں خدا کی رضا کی جنت کے حصول کے لئے عکرمہ اور اس کے ساتھیوں جیسی قربانی دینی پڑے گی اورہم تمہارے لئے دعا کرتے ہیں ہمارے دل میں کسی کی دشمنی، کسی کی حقارت اور کسی سے نفرت نہیں ہے او رہمیں گالیاں دینے والی دنیا، ہمیں کافر کہنے والی دنیا، ہمیں راندہ درگاہ سمجھنے والی دنیاہماری ہلاکت کے منصوبے بنانے والی دُنیا،ہر قسم کی ایذا پہنچانے کی تیاریاں کرنے والی دنیا کان کھول کر یہ سن لے کہ وہ جو مرضی ہو کر لیں ہمارے دل میں اپنی نفرت اور حقارت پیدا کرنے میں کبھی کامیاب نہیںہونگے اسلئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے اور ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ ہم اپنی اس مہم کو اور اس کوشش اور اس منصوبے میں اسی کے فضل سے نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں کامیاب ہونگے اوردنیا کی کوئی طاقت ہمارے راستے میںروک نہیں بن سکتی یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملیں اور یہ وہ پیش خبریاں اور بشارتیں اور مسرتیں اور خوش خبریاں ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں انہیںسنبھال کر رکھو اوراپنے صندوقوں میں بندکرلو کہ خدا کی بات ایک دن پوری ہوکررہے گی اللہ تعالیٰ ہم سے جواپنی محبت اورپیار کا سلوک کرتاہے(میں ان کو کہتا ہوں جو ہمیں کافر سمجھتے ہیں کہ) تم اس کااندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
جس دن یہ ایک نیا واقعہ ہوا او راسکے بعد میرے پاس بیسیوں خطوط آئے اور اسی کے متعلق میں اپنے نوجوانوں کو سمجھانے کے لئے آج میں اس موضوع پر بول رہاہوں اور اس سے پہلے بھی بولتا رہا ہوںکہ تمہیں کس بات کی فکر ہے؟ تم خدا کی گود میں بیٹھے ہوئے ہو۔ جس دن یہ واقعہ ہوا ہے(یعنی اخبار میں آیا ہے واقعہ توپہلے ہوا ہوگا)مجھے کچھ پتہ نہیں تھا اس سے دوراتیں پہلے ساری رات بلامبالغہ اللہ تعالیٰ مجھے دشمنوں کی ناکامی اور نامرادی کی خبریں دیتا رہا اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے متعلق بتاتارہا اورصبح جب میں اٹھا تو میری طبیعت میں جہاںبشاشت تھی وہاں میں کسی ایسے واقعہ کا انتظار بھی کررہا تھاکیونکہ دودن پہلے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تسلی دے دی ہوئی تھی۔ غرض قرآن کریم کی آیات دوسرے الفاظ عربی میںاردو میں انگریزی میں اور ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس خواب میںیا خواب تو نہیں کہنا چاہئے میری زندگی کا تویہ پہلا تجربہ تھا لیکن ساری رات اسی طرح ہوتا رہا کچھ دیر کے لئے دماغ غائب ہوجا تا پھر وہ سلسلہ شروع ہوجاتا تھا اور پورا بیدار ہوجاتاتھا۔ میں کسی سے باتیںکررہا ہوں اورانگریزی میں بول رہا ہوں اور میں تین سلسلوں کے متعلق بات کررہا ہوں اور وہ فقرے ایسے ہیں کہ انسان خودنہیں بنا سکتا یعنی اس حالت میںبھی میرے اوپر وجد کی کیفیت طاری ہے اور سوائے ایک لفظ کے باقی الفاظ یاد نہیں رہے مجھے اس کا دکھ ہے۔ قرآن کریم کی جوآیات ہیں ان کا توتلاوت کے وقت مجھے پتہ لگ جائے گا اگرچہ میں اس وقت بھولا ہو اہوں اور وہ آخری پانچ پاروں ہی سے ہیں۔
بہرحال میں ان کوکہہ رہاہوں کہ فلاں سلسلہ جوتھا اس کی خصوصیت اور کامیابی کاراز اس چیز میں تھا یہ مجھے یاد نہیںرہا مفہوم اس کا یاد ہے کہ یہ بات میں نے کہی ہے اور اس کے بعد دوسرے سلسلہ کے متعلق میںنے یہ کہا جو فلاںسلسلہ تھا اس کی خصوصیت اور کامیابی کاراز اس چیز میں تھا(یہ پہلے سے مختلف تھی) اور پھر میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور اس کی کامیابی کا راز ڈسپلن میںہے یعنی نظم وضبط اوراطاعت۔
جماعت احمدیہ کی بنیاد ہی خلافت پر ہے اور خلافت جو ہے اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ کسی نے بہت ہی شاندار عمارت بنانی تھی اس نے اس کی بنیادوں کے نیچے چھ چھ انچ ریت ڈالی۔ ریت کے ذرے بڑے کمزور ہوتے ہیں لیکن اس ریت کو کچھ اسطرح باندھا کہ وہ پتھر سے زیادہ مضبوط بنی اور اس ساری تعمیر کا بوجھ اس نے اپنے اوپر اٹھا لیا اسی طرح خلافت جو ہے اسے ریت کے ذرے سمجھ لو کیونکہ حقیقی طور پر خلفائے راشدین کی خلافتوں میں سے ہر خلافت کی نمایاں خصوصیت عاجزی ہے انہوںنے اپنے آپ کوکچھ نہیں سمجھا لیکن اللہ تعالیٰ نے الٰہی ریت کے ذروں کو اپنی قدرت کی انگلیوں میں کچھ اس طرح پکڑا کہ وہ ساتویںآسمان تک جانے والی اتنی بلند عمارت کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہوگئے۔
میں خواب میں اسکو کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور کامیابی کا رازڈسپلن میں ہے۔ میں انگریزی میںا س سے بات کررہا ہوں اور پتہ نہیں بعض دفعہ یاد ہی آجا تاہے(اگر یا آجائے تو میں اپنے رب کا بڑاہی ممنون ہونگا) میں نے بتایا ہے کہ انگریزی کے یہ فقرے اس قسم کے تھے یہ میری اس کیفیت میں بھی ایک اور کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔
بہرحال ہمارے ساتھ تو ہمارا رب اسطرح کا پیارکرتا ہے اس کے بعد اگر ساری دنیا کی طاقتیں مثلاً صدر نکسن بھی ہو یا رشیا کا صدر بھی ہو یورپین اقوام کے سربراہ بھی ہوں یا افریقی اقوام کے سربراہ بھی ہوں۔ جزائر کے رہنے والوں کے پرائم منسٹر بھی ہوں سارے مل کربھی مجھے آکریہ کہیں کہ ہم نے سرجوڑا اورفیصلہ کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو ہلاک کردیں گے اور اسے مٹادیںگے توکسی ہچکچاہٹ کے بغیر میرا جواب انہیں یہ ہوگا کہ تم افرادکے قتل پر توقدرت رکھتے ہو چونکہ پہلے الٰہی سلسلوں میں بھی یہی نظرآتا رہا ہے اس لئے تم مجھے مار سکتے ہو لیکن تم احمدیت کو مٹانے کے قابل کبھی نہیں ہوسکتے کیونکہ احمدیت خدا تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امان میں ہے اور احمدیت کو غالب کرنے کا حکم اور فیصلہ آسمانوں پر ہوچکا ہے اور یہ بھی فیصلہ ہوچکا ہے کہ بتدریج (یعنی تدریج کے مختلف دوروں میں سے گزرتی ہوئی) احمدیت تمام دنیاپر خدمت کے طور پر غالب آئے گی یعنی وہ دنیا کی خادم بن جائے گی۔ غالب آنے کا ہمارا یہ مطلب نہیںکہ ہم دنیا کو ایکسپلائٹ (exploit)کریں گے جب ہم دنیا پر غالب آنا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہمیں ایکسپلائٹ(exploit) کرے گی یعنی ہم سے خدمت لے گی۔پس ہم خادم کی حیثیت سے دنیا پرغالب آئیںگے حاکم کی حیثیت سے نہیں۔ جس طرح ماں اپنے بیٹے پر حاوی ہوتی ہے اسی طرح یہ جماعت بنی نوع انسان سے ماں سے زیادہ پیار کرنے کے لحاظ سے اس پر حاوی ہوگی وہ اس پیارکو Resist (ریذیسٹ) نہیں کرسکیں گے۔ وہ اس پیار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے وہ اس پیار کے گھائل ہوجائیںگے وہ اس پیار کے نتیجہ میں جماعت سے چمٹ کر اس میں غائب ہو جائیںگے اور پھر سب کے سب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہوجائیںگے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہے گا اس کی حیثیت چوہڑے اور چماروں کی طرح ہوگی۔
یہ وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں اور ا ن وعدوں پر پختہ یقین رکھنا میرا اور آپ کا فرض ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز








جتنی عظیم بشارت ہو اتنی ہی عظیم ذمہ داری
اور انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍ستمبر۱۹۷۰ء بمقام ایبٹ آباد۔ غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
’’میرے یہ خطبات اس نصیحت کے سلسلہ میں اور اس وضاحت کے بیان میں ہیں کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو۔ میں نے ربوہ میں گذشتہ خطبہ جمعہ میں ایمان بالغیب کے اس حصے پر روشنی ڈالی تھی کہ اس سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلسلہ قائم کرتا ہے اسے بشارتیں ملتی ہیں اور جو بشارتیں اسے ملتی ہیں ان پر پختہ یقین ہوناچاہئے جب تک ان بشارتوں پر پختہ یقین نہ ہو ہم بشاشت کے ساتھ وہ قربانیاں نہیں دے سکتے جن قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔
گذشتہ جمعہ میں نے قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو بذریعہ الہام اور وحی بشارتیں دی گئی ہیں ان کی روشنی میں اس مضمون کو بیان کیاتھا۔ میں نے متعلقہ اقتباسات پڑھ کر نہیں سنائے تھے۔ آج اسی خطبہ کے تسلسل میں تتمّہکے طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں سے بعض کو میں اس وقت پڑھ کر سنائوں گا تاکہ آپ میں سے اللہ تعالیٰ جنہیں سوچنے اور فکروتدبّر کرنے کی توفیق عطاکرے اور طاقت بخشے وہ غور کریں، سوچیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وعدے ہیں؟ کس قدر عظیم بشارتیں ہیں اور ان کے لئے ہمیں کس قدر قربانیاں دینی پڑیں گی؟
جب اللہ تعالیٰ کسی کو بشارت دیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی قوم پر یا اپنے سلسلہ پر عظیم ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔تاریخ نبوت میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بشارت دی ہواس کو پورا کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں اور انسانی تدبیر کے بغیر وہ اپنا کام کررہے ہوںیہ تو صحیح ہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اوروہ اپنا کام کرتے ہیں لیکن انسان کوبھی تدبیر کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی تھی کہ کسریٰ اورقیصر کی سلطنتیں مغلوب ہوں گی اور وہاں اسلام غالب آئے گا۔ اس وقت قریباً دس ہزار تربیت یافتہ صحابہؓ تھے جنہوں نے انتہائی قربانیاں دے کر ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی تدبیر کی انہوںنے یہ نہیں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے اور اللہ تعالیٰ قادروتوانا اور متصرف بالارادہ ہے وہ آسمان سے صرف حکم دے کر ان سلطنتوں کو پاش پاش اور ٹکڑے ٹکڑے کردینے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ حکم دے گا اور یہ سلطنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اور اسلام غالب آجائے گا۔ ہم آرام سے گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ بشارت کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے اور جتنی عظیم بشارت ہواتنی ہی عظیم ذمہ داری اور اتنی ہی انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے اور ایثار پیشہ اورفدائی بن کر زندگی گزارنی پڑتی ہے۔
چنانچہ انسان یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے کیسی عظیم الشان قربانیاں دیں۔ یہ ایک ایسی تربیت یافتہ قوم تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لمبی تربیت حاصل کی تھی ان کی تعداد بمشکل آٹھ دس ہزار تھی اوریہی وہ لوگ تھے جنکی قربانیوں کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں سے کام لیا کیونکہ یہ تدبیر کی دنیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے ارادے باکل ظاہر ہوکر سامنے نہیں آیا کرتے ورنہ تو پھردوسری زندگی یعنی جنت اور دوزخ کا جوثواب ہے وہ رہے ہی نہ ۔ جب اللہ تعالیٰ ’’ کُن ‘‘ کہہ کر بارش برسادیتا ہے اگر اسی طرح اس نے ’’ کُن ‘‘کہہ کر انسان کے دل میں اپنی محبت پیداکر دینی ہوتی اور انسان کوکچھ نہ کرناپڑتا تو پھر جو بارش برسنے کی جزا بادل کو مل سکتی ہے وہی انسان کو ملتی۔ اس سے زیادہ کا تو وہ حق دا رنہ بنتا لیکن بادل کو توکوئی جزا نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا ہے کہ جو میں کہوں گا وہ تم کرو گے اور بس۔ اس کے بعد اس کی نہ کوئی اورزندگی اور نہ کسی اور شکل میں جزا ہے۔ انسان کوکہا جو میں کہتا ہوں تم کوکرنا پڑے گا اور اگر تم کروگے تو جو تھوڑی سی آزادی میں نے تمہیں ایک خاص ماحول میں دے رکھی ہے اس میںتم میری جزا کو حاصل کروگے۔ اس جزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے، اس کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے لئے ایک عقلمند معرفت رکھنے والا انسان اس کی راہ میں اس دنیا کی محبتوں اور حقیر، بے معنی اور بے وزن چیزوں کو یوں قربان کردیتا ہے کہ واقعہ میں دنیا سمجھتی ہے کہ یہ لوگ پاگل ہیں۔ اسی لئے لوگ مجنون کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ پاگل ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا کی چیزوں کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں؟ انسانی جان کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں؟ انسان کو بچوں سے پیار بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ان کا عمل بھی یہی ثابت کرتا ہے۔ جولوگ مدینہ سے سب کچھ چھوڑ کرچلے گئے، مہاجر بھی جنہوں نے مدینہ کو اپنا دوسرا گھر بنایا تھا اور انصار بھی جووہاں کے رہنے والے تھے سالوں دور رہتے تھے۔ انہوںنے تو کبھی اپنے بچوں کا خیال نہیں کیا، نہ انہوںنے اپنے خاندانی حالات کی پرواہ کی۔ انہیں ایک ہی خیال تھا اور ایک ہی دُھن تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول تھا۔
ہماری جماعت میں ان بشارتوں پر یہ انتہائی یقین پیدا ہونا چاہئے بہتوں کو ہے جو سست ہیں انہیں اپنی سستیاں دورکرنی چاہئیں۔ کتنے عظیم وعدے ہیں ہمارے ساتھ اور پھر وعدے دینے والا عظیم قدرتوں کا مالک ہے، عزت کا سرچشمہ بھی وہی ہے اسی کے ہاتھ میں اقتدار اور دنیوی وجاہت اور طاقت ہے جواسی سے حاصل ہوسکتی ہے باقی تو اس دنیا میں عارضی چیزیں ہیں۔ آج جو پریذیڈنٹ بن جاتا ہے کل وہی شخص قوم سے گالیاں کھارہا ہوتا ہے اس دنیا کی عزت کی پائیداری ہمیں توکہیں نظر نہیںآتی۔ ساری انسانی تاریخ میں دیکھ لیں کہیں بھی دنیوی عزت ہمیں پائیدار نظر نہیںآتی۔ بڑے بڑے لوگ ہوئے مثلاًہٹلر جیسا آدمی جس کے نام سے دنیا کانپ اٹھتی تھی وہ کہاں گیا؟ اب بھی میں وہاں گیا ہوں اس زمانے میں بھی جایا کرتا تھا اس کے ساتھ لوگوں کی محبت کے نظارے بھی میں نے دیکھے ہیں۔ ایک دفعہ ہم ایک پرانے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اتفاقاً ہٹلر بھی اپنی پارٹی کے بعض لوگوں کے ساتھ وہیں ایک کونے میں بیٹھا تھا وہاں عموماً یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی میز کے اردگرد کوئی کرسی خالی پڑی ہوتو جان پہچان نہ ہونے کے باوجود اس پر کوئی اورآدمی آکر بیٹھ جاتا ہے۔ ہماری میز پر ایک عورت آکر بیٹھی جسے ہٹلر سے اس طرح کا پیار تھا جس طرح واقعی ابناء سے پیا ر ہوتا ہے وہ کہنے لگی ہمارا تو دل کرتا ہے کہ دشمن ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر لے جائے مگر ہٹلر کو کچھ نہ ہو۔ پس اس کے لئے قوم کا وہ پیار بھی دیکھا اوراب جب ہم گئے ہیں تو اسی قوم کا ہٹلر کو گالیاں دیتے بھی سنا۔ غرض دنیا کی عزتیں تو آنی جانی چیزیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو حقیقی عزت کا سرچشمہ ہے جب اس کی نگاہ میں انسان اس کا پیار دیکھ لیتا ہے اورپھر اگر یہ ٹھیک رہے تواسے ہمیشہ پیار ملتا رہتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور ابدالآباد تک یعنی آخری دنیا میں بھی۔ اس دنیا میں ڈھکے چھپے پیار کے نظارے ہوتے ہیں کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ یہ مادی دنیا ہے میں نے یہاں پردہ ڈالا ہوا ہے لیکن انسان کو اس زندگی کے بعد جو پیار نظر آئے گا وہ تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو بھی سمجھے گاکہ مجھے وہاں تھوڑا سا ملاتھا اور میں بہت کچھ سمجھا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کے اصل نظارے توا ب دیکھ رہاہوں۔
پس ہمیں جو وعدے دیئے گئے ہیںوہ ہمارے سامنے آتے رہنے چاہئیں اور جو ان وعدوں اور بشارتوں کے تقاضے ہیں وہ ہمیں پورے کرنے چاہئیں۔ اس واسطے آج میں یہ نئی طرز کا خطبہ دینے لگا ہوں کہ چند حوالے پڑھ دوں گا اور ان پر کوئی رائے نہیں دوں گا۔ آپ غورسے سنیں اور سوچیں کہ ایک ایک عبارت میں بیس بیس ایسے وعدے ہیں جوبڑے عظیم ہیں ہر وعدہ جو ہے ہر بشارت جوہے وہ ہم پر ایک عظیم ذمہ واری ڈالتی چلی جاتی ہے۔ آپ ہی کے کچھ تو بچے ہیں ان کوتو کسی اور وقت تفصیل سے سمجھانا پڑھے گا لیکن جو پرانے احمدی ہیں انہیں اس سے پہلے سوچنا چاہئے تھا اور اگر نہیں سوچا تو انہیںاتنی سمجھ اور عقل ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز قربان کرکے ان بشارتوں کا اپنے آپ کو وارث بنائیں۔ پس وہ تو سمجھ سکتے ہیں اور میں ان کو یا ان کے ذہنوں کو اس طرف لانا چاہتا ہوں کہ میں عبارت پڑھوں اور احباب سوچتے رہیں۔ چند ایک حوالے میں نے لئے ہیں۔
۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں دنیا کو بھی بتایا اور اپنی جماعت کو بھی مخاطب کیا۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:-
’’اے تمام لوگو! سُن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین وآسمان بنایا(اس واسطے کہ یہ پوری نہیں ہوگی اسکا توکوئی سوال ہی نہیں۔ ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے ادا کرنے کا سوال ہے) وہ اپنی اس جماعت کوتمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اوربُرہان کی رُو سے سب پران کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیںبلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا۔(یہاں میں تھوڑی سی وضاحت کردوں۔ خدا اس مذہب یعنی اسلام اور اس سلسلہ یعنی احمدیت میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا) اور ہرایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اوریہ غلبہ ہمیشہ رہے گا۔(ایک صدی کے لئے نہیں) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۶ )
یہ۱۹۰۳ء کا اقتباس ہے۔ پھر آپ کو۱۹۰۴ء میں اوپر نیچے یہ دوالہام ہوئے جن میں دوبشارتیں تھیں۔ ایک ۸ ؍دسمبر ۱۹۰۴ء کو اوردوسری۱۲ ؍دسمبر۱۹۰۴ء کو۔ پہلی بشارت یہ ملی کہ:-
رسید مژدہ کہ ایّامِ نوبہار آمد(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۴۳۹)یعنی اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ نئے سرے سے بہارآرہی ہے اور نوبہارسے مراد یہ ہے کہ ایک بہار پہلے اسلام پر آچکی ہے یعنی نشأۃاُولیٰ میں اور اب نشأۃ ثانیہ میں ایک اور بہار کا وعدہ ہے اور یہ بہار بالکل ویسی ہے جیسی کہ نشأۃ اُولیٰ کی بہار ہے جواگلے الہام سے ثابت ہے کیونکہ قرآن کریم نے نشأۃ اُولیٰ کی بہار کا ذکر ’’کوثر‘‘ کے لفظ میں بیان فرمایا ہے یعنی اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ یہ بہار تھی اور اب بھی اس کے ساتھ وہی وعدہ ہے یعنی نو بہار میں بھی کوثر کا وعد ہ ہے۔ اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیںجاسکتا۔ بہرحال اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ ایک بڑی عظیم بشارت تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تھی۔ تفسیر کبیر میں اسے بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے جو دوست اسے پڑھ سکتے ہیں وہ ضرور پڑھیں۔غرض یہ ایک عظیم اور All round (آل رائونڈ) یعنی باقی بشارتوں پر محیط ہے۔ پس یہ اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ اس قسم کی بشارت تھی۔ اب پہلے یہ فرمایا کہ’’رسید مژدہ کہ ایامِ نوبہار آمد‘‘ یعنی ایک بہار پہلے آچکی ہے اور نئی بہار آرہی ہے۔ یہ خوشخبری ہمیں ۸ کو ملی اور بارہ ۱۲ تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کوالہاماً فرمایا لَا تَیْئَسُوْا مِنْ خَزَآئِنِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۴۴۰) ابھی تک جو مسلمان احمدی نہیں ہوئے ان پر تنزلی کا زمانہ ہے وہ بڑے مایوس ہیں۔مایو س ہونابھی چاہئے کیونکہ ہر طرف الٰہی وعدوں کے خلاف تنزلی اور بے عزتی کے حالات میں سے وہ گزر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور انہیں ہدایت دے۔لَا تَیْئَسُوْا مِنْ خَزَآئِنِ رَحْمَۃِرَبِّیْ۔ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مخاطب کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے یہ فرمایا کہ اس کی رحمت کے خزانے جو کوثر کی شکل میں اس سے پہلے آئے تھے وہ اب پھر آنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزائن سے تم مایوس نہ ہو۔ اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ یہ اسی الہام کا ایک حصہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہیں۔ اسلئے ہم اس کا ترجمہ یوں کریں گے کہ وہ کوثر جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھااس کا تمہیں پھر سے مہتمم بناکر مبعوث کیا ہے۔ اسی کوثر کا اہتمام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے زور سے فرمایا ہے ’’سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے توکچھ نہ لائے(درثمین صفحہ ۳۶)‘‘ پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوخزانے دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کی نشأۃ اُولیٰ میں حاصل کئے اور آسمان سے نازل ہوتے دیکھے۔دنیا اب وہی جماعت احمدیہ کی شکل میں دوبارہ دیکھے گی کیونکہ کوثر کا مہتمم حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام کو بنا دیاگیا ہے۔
پھر اپریل۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی یہ خبردی کہ جب اس قسم کا الٰہی سلسلہ امت محمدیہ کے اندر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے طور پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے قائم ہوگا۔دنیا اس کی مخالفت کرے گی اوروہ اس میں ناکام ہوگی۔ یہ ایک واقعہ ہے ایک بشارت ہے۔ پس دنیا کی مخالفت ضروری تھی اور ساری دنیا نے دیکھی۔ دنیا کی ساری طاقتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے متحد ہوگئیں اور دنیا کی سب طاقتیں متحد ہونے کے باوجود ناکام ہوئیں اور وہ آواز خاموش نہیں کی جاسکی۔ وہ آواز گونج رہی ہے اور انشاء اللہ گونجتی چلی جائے گی یہاںتک کہ قیامت آجائے جیسا کہ پہلے حوالہ گزرچکا ہے اوریہ ایک بڑی زبردست دلیل ہے۔ افریقہ والے اسے بڑی آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ بہرحال یہ بشارت دی کہ دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ہوگا جماعت کو آسمانی تائیدات اور آسمانی نشانات حاصل رہیں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں:-
’’یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد بھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہوکر کہے گا کہ کیا ہوا چاہتا ہے ۔ ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بدتر آئے گا۔ خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلائوں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۵۱)
پھراس کے بعد بشارت دی کہ تمام مسلمان حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کے جھنڈے تلے جمع کردیئے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کویہ الہاماً فرمایا۔ ’’اِنِّیْ مَعَکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۹۰)اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند میں تیرے ساتھ ہوں جس طرح میں تیرے باپ کے ساتھ تھا۔ ورنہ ابن کہنے کی ضرورت نہیں اس وجہ سے میں یہ ترجمہ کرہا ہوں۔ پھر فرمایا’’سب مسلمانوں کو جوروئے زمین پر ہیں، جمع کرو۔ عَلٰی دِینٍ وَاحِدٍ‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۹۰)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اس الہام پرایک لطیف علمی نوٹ تحریر فرمایا ہے کہ احکام الٰہی دوقسموں کے ہوتے ہیں ایک کا تعلق شریعت سے ہوتا ہے مثلاً نماز پڑھو، خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لائو، زکوٰۃ دو، روزے رکھو وغیرہ یہ سارے احکام شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس حکم کے باوجود سب لوگ اس پر عمل بھی کریں گے بلکہ شریعت سے تعلق رکھنے والے بعض احکام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ ایسا بھی ہوگا جوان پر عمل نہیں کرے گا اس واسطے انہیں پہلے ہی جھنجھوڑا ہے کہ تمہیں عمل کرناچاہئے اور ایک اشارہ یہ آگیا کہ بہرحال وہ شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور انسان کو یہ آزادی ہے کہ چاہے تو ان پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے لیکن ان کے علاوہ ایک کُونی اوامر ہوتے ہیں جن کا ’’ کُن‘‘کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یعنی تقدیر کے ساتھ اور وہ ضرور ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فرماتے ہیں:-
’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کوجو روئے زمین میں ہیں جمع کرو۔ عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔ احکام او رامردوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ۔ اس قسم کے اوامر میںایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہونگے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا، یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریںگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں:-
’’دوسرا امر کونی ہوتا ہے اوریہ احکام اور امر قضا وقدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا یَا نَارُ کُونِیْ بَرْدًا وَّ سَـلَامًا ( برد اورسلام ہوتو یہ شرعی حکم نہیں تھا آگ ٹھنڈی ہوگئی اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا)اوروہ پورے طور پر وقوع میں آگیا اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین عَلٰی دِینٍ وَّاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہوکر رہیں گے۔ ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہوگا جو قابلِ ذکر اور قابلِ لحاظ نہیں۔‘‘
(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۹۰)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ایک عظیم بشارت ہے اور یہ پوری ہوکر رہے گی۔ اب یہ جو تفرقہ ہے اور اس تفرقہ کے نتیجہ میں ہمیں جو سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ توہمارا کوئی نقصان نہیں کرسکتے۔ بہرحال جو سوئیاں چبھوئی جارہی ہیں وہ تو ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے اورمستقبل اس حقیقت کو اپنی گود میں لئے دنیا کا مستقبل نہیں بن سکتا کہ یہ تمام فرقے جو مختلف راہوں پر چل رہے ہیں وہ تمام اسلام کے صحیح حُسن کے گرویدہ ہوکر مہدی معہود کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیںگے اور واقعہ بھی ہوگا او راسکی ذمہ واری اس امر میں ہے کہ ’’جمع کرو‘‘۔ پس ہمیں ہرقسم کی قربانی دے کر اس پیشگوئی کوپورا کرنا ہے۔
اس واسطے میں اپنی ینگر جنریشن یعنی نئی پود کو یہ باربار کہہ رہا ہوں کہ کسی کے خلاف تمہارے دل میں غصہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔ لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ برابھلا کہتے ہیں۔ جولوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مجدّد جانتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اس قسم کی بے ہودہ بات لکھ دیتے ہیں کہ اسے پڑھکر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مثلاً پیغام صلح میں خاندان خلافت کی عورتوں پر ایسی خبیثانہ چوٹ کی ہے جو محض بکواس ہے جسے انسان برداشت نہیں کرسکتا لیکن ہمیں غصہ نہیں آنا چاہئے ہم نے انہیں بھی کھینچ کراپنی طرف لانا ہے اور کھینچ کر لارہے ہیں جو غیر احمدی ہیں انہیں بھی ہم نے کھینچ کر لا نا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیار کے لئے پیدا کیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام مسلمان فرقوں کو حضرت مہدی معہودؑکے جھنڈے تلے جمع کرکے ’’عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ‘‘ لائو۔ سارے تفرقے مٹ جائیں گے۔ باقی انسان انسان کی طبیعت اور مزاج اور قوتوں میں فرق ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن ایسا اختلاف قابل اعتناء نہیں ہوتا بلکہ اگر عقلمندی سے ایسے اختلافات سے فائدہ اٹھایا جائے تویہ ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِی رَحْمَۃٌ‘‘کا مصداق بن جاتے ہیں لیکن یہ سارے فرقے مٹ جائیں گے اور یہ بریلوی دیوبندی اوردوسرے جھگڑے مٹ جائیں گے اور یہ جو انہوں نے آپس میں کفر بازی شروع کی ہوئی ہے جسے یہاں دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ویسے ہم نے ضرورت کے لئے ان کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ کفر کو اکٹھا کروایا ہے اور میں نے ان کی ایک کاپی بنوائی ہے ہر فرقے نے دوسرے کوکافر ہی نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کی ہے کہ اسے پڑھ کر انسان بڑا حیران اور پریشان ہوجاتا ہے۔ میں نے ان کے اس قسم کے فتووں کو ایک جگہ اکٹھا کروادیا ہے تاکہ اگرکوئی آئے اور کہے کہ جی احمدیوں پر کفرکا فتویٰ لگا ہوا ہے تو اسکو کہا جائے کہ پڑھ لو پھر ہمارے ساتھ بات کرنا۔ لیکن یہ کفر بازی بے ہودگی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں فرمایا بلکہ کچھ اور بھی فرمایا ہے یہ ہمارے لاہور والے بھائی اگلا حصہ بھول جاتے ہیں آپ نے یہ توفرمایا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ کسی کلمہ گو کوکافر نہیں کہا جاسکتا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے لیکن اس کے بعد جو فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو کسی کلمہ گو کو کافر کہے گا وہ کفر اُلٹا اس پر پڑے گا اور وہ کافر بن جائے گا۔ ہم نے کسی کوکافر کیا کہنااور کیوں کہنا۔اوّل تو یہی سوچنا چاہئے میرا جیسا عاجزانسان تو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ میں کسی کو کافر کہوں اور وہ کافر بن جائے گا انسان کاکام کافر بنانا نہیں نہ دیندار بنانا ہے قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہے تم اسے جاکر کیسے ہدایت دے دو گے قران کریم کہتا ہے ہدایت بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور کفر کا فتویٰ بھی اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ پس اس دوسرے حصے کے متعلق خاموش ہوجانا یہ تودرست نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قریباًتین سال تک (یہ میرا اندازہ ہے پوری طرح اس زمانے کا جو امتداد ہے اسے چیک نہیں کیا گیا لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے ۳ سال تک) ان دو سو چوٹی کے مولویوں کو جنہوں نے آپؑ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا انہیں سمجھا تے رہے کہ تم اس کھیل میں نہ پڑو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے اگر تم اصرار کروگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق اپنے آپ کو بھی کافر بنالو گے یہاں تک کہ جب انہوںنے اصرار سے مباہلے کا چیلنج دیا تو آپؑ نے فرمایا کہ میں تمہارا چیلنج قبول کرنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ میں کسی کلمہ گو کوکافر نہیں کہتا اور جوکلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے اس کے مباہلہ کو جائز نہیں سمجھتا لیکن آگے سے آپ کو جواب یہ ملا کہ آپ ہمیں کافرنہ سمجھتے ہوں ہم توآپؑ کو کافر سمجھتے ہیں ہم سے مباہلہ کریں۔ غرض بڑے لمبے عرصہ تک آپ انہیں سمجھاتے رہے۔ یہاں ہمارے ایک ڈین (Deen)آئے تھے انہیں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آرہا تھا میں نے انہیںبتایا کہ ہم تو عاجز بندے ہیں ہماری کیا مجال کہ کسی کلمہ گو کو کافر کہیں لیکن ہماری یہ بھی مجال نہیں کہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر کہیں ہم اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں۔ میں نے اسے جب یہ مسئلہ سمجھایا تو وہ کہنے لگے کہ اب مجھے سمجھ آگئی ہے۔ اس وقت تو اس نے بیعت نہیں کی تھی مگر بعد میں اس نے بیعت کرلی۔
پس سچی بات یہی ہے۔ اسلئے آپ بھی تیزی نہ دکھایا کریں کسی کلمہ گو کو کافر کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے لیکن جو کلمہ گو کو کافر کہتا ہے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافر کہہ چکے ہیں ہمیں کہنے کی ضرورت ہی نہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق خود ہی کافر بن گیا۔ آپ میں نہ اتنی طاقت ہے اور نہ اتنی بزرگی ہے کہ کسی کو کافر کہہ سکیں۔ لیکن آپ میں اتنی جرأت بھی نہیں ہونی چاہئے کہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافر کہیںآپ اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں۔ یہ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شوخی ہے۔
بہرحال یہ کفر بازیاں سب ختم ہوجائیں گی ہم اس بات سے خوش ہیں ہمیں اس بات پر رونا نہیں کہ آج ایک دنیا جو ہے اس گند میں پھنسی ہوئی ہے ایک دوسرے کو کافر کہہ رہی ہے ہمیں اس کی پرواہ ہی کوئی نہیں کیونکہ ہمارے لئے جو راہ مقرر ہے ہم اس پر گامزن ہیں اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ یہ تمام فرقے جو ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں وہ ہدایت کو پالیںگے اور وہ ایک روشنی اورصداقت اور اسلام کے حسین چہرہ کو دیکھ لیں گے اور اسلام کے جھنڈے تلے آکر جمع ہوجائیںگے ہم اس بات سے خوش ہیں کہ کفر بازیاں ختم ہوجائیںگی اس دن تک پتہ نہیں کون زندہ رہتا ہے اور کون نہیں جس دن جماعت احمدیہ کو یہ حکم دینا پڑے گا کہ اس گند کے نقش مٹا دویعنی اس قسم کی کتابیں لائبریریوں سے نکال کر جلادی جائیں گی جن میں بریلویوں نے دیوبندیوں اور دیو بندیوں نے بریلویوں پر اور اسی طرح جتنے فرقے ہیں انہوںنے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے ہیں۔ اب توسیاسی فتوے بھی ان میں شامل ہوگئے ہیں وہ بھی جلا دئیے جائیںگے۔ دنیا ان کو بھول جائے گی اس واسطے بھول جائے گی کہ ان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی پیار کو یاد رکھنے کی ضرورت ہوگی ہم ایک دوسرے کے ساتھ پیار کریں گے۔ دشمنی اور حقارت اور غصہ اورغلط طعنے اور کفر کے فتوے یہ سب کے سب قصہ پارینہ بن جائیں گے۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کویہ بشارت ملی اور یہ قوی بشارت ہے یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو دین واحد پر جمع کریں۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ ہوکر رہے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو۔ ساری دنیا کی طاقتیں مل کربھی اس بشارت کے پورا ہونے کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:-
’’خدا تعالیٰ نے مجھے باربار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدرعلم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنے سچائی کے نور اوراپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۵۱۷)
یہ بڑی زبردست بشارتیں ہیں جو احمدیت کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کے کام سے تعلق رکھتی ہیں یعنی پختگی ایمان اور آسمانی نشانوں کے ساتھ تمام دنیا پر غالب آنا۔ انسانی حقیقت کیا ہے بڑائی کی ضرورت نہیں۔اتنا کہہ دیتا ہوں کہ جماعت نے میری قبولیت دعا کے ہزاروں نشان دیکھے ہیں۔ بعض کو میں بیان کر دیتاہوں اور بعض کے متعلق اعلان نہیں کرتا لیکن اگرہم نہیں کرتے تو ان کو کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نشان جماعت کے ساتھ رہے گا۔ اگر ہمارے پاس انہیں آسمانی نشان نظر نہیں آتا توان کے پاس ہوناچاہئے ورنہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان کے پاس نشان ہے یا نہیں۔ لیکن ان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کے پاس نشان ہے ہم سچائی کے نور اورا پنے دلائل اور نشانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل میں پیش کریں گے۔ البتہ سچائی کے نور کی وضاحت مجھے کرنی پڑے گی کیونکہ ممکن ہے کوئی اسکو نہ سمجھ سکا ہو۔
سچائی کے نور کا مطلب یہ ہے کہ نورانی زندگی حاصل ہوگی یہ بڑی زبردست دلیل ہے اس واسطے اپنی تربیت کی فکر کرنی چاہئے۔ ایک تربیت یافتہ وجود سچائی کے نور کو اپنے وجود سے ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ بتارہا ہوتا ہے اس نے خدا کے لئے اس کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزارے ہیںاور گزار رہا ہے۔ یہ سچائی کا نور انسان کے جسم سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے۔ اب وہاں افریقہ میں یا دوسری جگہوں پر جو ہمارے مبلغین گئے ہوئے ہیںاللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی عزت اس وجہ سے غیرو ں کے دل میں ڈالی ہے کہ ان کے وجود سے غیروں نے نو ر کی کرنیں نکلتی دیکھیں۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت اپنے بلند مقام پر قائم رہے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ چند لوگوں کے علاوہ باقی جماعت بڑے بلند مقام پر قائم ہے اور دوسرے دلائل میں بھی ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے دلائل ایک بڑا سمندر ہے جو قیامت تک ختم نہیں ہوگا لیکن یہ سمندر بڑی بلندی پر ہے۔ ہماری دنیا کا جو سمندر ہے وہ بلندی پر نہیں ہوتا اس واسطے اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو بلندی پر واقعہ پانی کا نکلا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل کا سمندر حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت اور شہادت کے نتیجہ میں ساتویں آسمان پر ہے۔ آپ نے اپنے مہدی(اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا) اور مسیح کو ساتویںآسمان پر دیکھا۔ یہ عجیب بات ہے اس میں بھی آپ غور کریں کہ ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیکھا جو آپ سے پہلے نسبتاً مکمل شریعت لے کر دنیا کی طرف آئے تھے۔ ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اورمسیح موعود کو دیکھا اور یہ ہر دو غیر تشریعی نبی ہیں پس روحانی بلندی کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً کامل شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی کیونکہ یہ قریب قریب زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل اور دوسری برکات کا جو سمندر ہے وہ ساتویں آسمان پر ہے سات ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر جو Lakes(لیکس) ہوتی ہیں ان کے نتیجہ میں پہاڑوں پر چشمے پید اہوجاتے ہیں مگر سمندرکا جو پانی ہے اس کے نتیجہ میں چشمے پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ سب سے زیادہ نشیب میں ہوتا ہے۔ اسی سے ہم اپنی بلندی کو ناپتے ہیں جیسے مثلاً یہ محاورہ ہے (جو سائنس میں مستعمل ہوتا ہے) کہ سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی۔ اگر چہ سمندر کا پانی عظیم ہے لیکن بے فیض ہے اس میں رطب ویابس آکر مل گیاہے لیکن جو چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں میں Lakes(لیکس) ہوتی ہیں یعنی بہت بڑی بڑی اور میل ہا میل چوڑی جھیلیں ہوتی ہیں۔ان کے نتیجہ میں کسی پہاڑی ٹکڑی سے آپ کو چھوٹا بڑا چشمہ نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سمندر نور کا بھی اور دلائل کا بھی اور نشانات کا بھی ساتویںآسمان پر ہے(جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا) دنیا میں سب سے زیادہ چشمے اس پانی کے پھوٹنے ہیں اور وہ پھوٹ رہے ہیں۔ ہمارے ہزاروں خاموش مجاہد پیدا ہوئے جس طرح فوجیوں نےUnknown Soldiersکا تہوار بنا لیا ہے ہم تو ایسے تہواروں کے قائل نہیں ورنہ وہ بھی بن جاتا۔ ہمارے اندر سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھتے ہیں لیکن اس نور کے جو ان کے جسموں سے پھوٹ رہا ہوتا ہے کسی اور کوان کاعلم ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی جس طرح مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی ہزاروں باتیں بتائی گئیں جو بالکل تفصیلی ہیں اور ان میں سے کچھ احادیث نے، کچھ تاریخ نے محفوظ رکھیں۔چند ایک ایسی ہیں جو آپ نے اپنے صحابہ کو بتادیں مثلاً صحابی تھے جنہیں آپ نے ایسے منافقین کے نام تک بتا دئیے تھے جنہوں نے امت میں فتنہ پید اکرنا تھا۔ اس میں یہ بھی کمال ہے کہ ایک بات تھی جسے عام نہیں کیا دوسرے یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیاتھا کہ یہ فتنہ کے وقت زندہ رہے گا ورنہ اسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیںتھی اور پھر وہ زندہ رہا پھروہ اپنے اپنے وقت کے اوپر اشارے کرجاتے تھے۔ پس ایک شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ یہ زندہ رہے گا اسے یہ باتیں بتا دو تاکہ اپنے وقت پر امت محمدیہ ان سے فائدہ اٹھائے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں وحیاں ایسی بھی ہوئیں تھی ۔ بعض ایسی تھیں جس کا احادیث میں ذکر آگیا بعض ایسی تھیں جو بعض لوگوں کو بتا دی گئیں۔ مگر قرآن کریم جو کامل اور مکمل شریعت کی وحی تھی وہ محفوظ رہی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعد ہ تھا کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ رہے گا۔ کتنی زبردست ضمانت ہے۔(میں نے تو شروع میں کہا تھا کہ تفصیل میں نہیں جائوں گا لیکن چلاگیا) اسی الہام کے تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:-
’’اورہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی۔(چشمے سے پانی پیئے گی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ چشمہ نکل آئے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے محمدیؐ پانی کا کوئی گھانا میں ، کوئی نائیجیریا میں، کوئی گیمبیا میں کوئی سپین میں کوئی جرمنی میں کوئی یورپ کے دوسرے ممالک میں کوئی کمیونسٹ ممالک میں وہی پانی جوآبِ محمدؐ ہے یعنی آبِ زلال محمدؐ اس پانی کے چشمے آب کیLake(لیک) ہی سے نکلیں گے اور وہ سیراب کریں گے) اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گااور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہوجاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیںگے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔‘‘
آپ نے بڑی تحدّی سے پھرآگے فرمایا:-
’’سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘
(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۵۱۷)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس تحدّی کے ساتھ اور جس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ ہر احمدی کے دل میں ان بشارتوں کے متعلق یہ وثوق اور یہ یقین پیدا ہونا چاہئے اور قائم ہوناچاہئے۔ یہ ہماری ذمہ واری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ان ذمہ واریوں کر نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(از رجسٹر خطبات ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز









اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو
غلبۂ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ستمبر۱۹۷۰ء بمقام سعید ہائوس ایبٹ آباد۔غیرمطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے چند دنوں سے کئی تکلیفیں اکٹھی ہوگئی ہیں ایک تو پیچش نے بڑا شدید حملہ کیا دوتین دن سے بخار بھی آرہا ہے اور خون کا دبائو بھی کافی کم رہا ہے اسلئے میں اس وقت مختصراً ایک ضروری امر کی طرف پورے زور کے ساتھ دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے یا اپنی کسی جماعت سے پیارکرتا ہے اور اپنی نعمتوں سے اور اپنے فضلوں سے اوراپنی رحمتوں سے انہیں نوازتا ہے تو جَعَلَ لَہٗ الْحَاسِدِیْنَ فِیْ الْاَرْضِ زمینی لوگ حسد کرنے لگ جاتے ہیں یعنی آسمانی تائید کے نتیجہ میں زمینی حسدپیدا ہوتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ مگر یہ سب کی سب حسد کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
ا س وقت اللہ تعالیٰ نے بڑافضل کرتے ہوئے غلبہ اسلام کے یہ سامان پیدا کئے ہیں کہ افریقن اقوام کا دل اسلام اوراحمدیت کی طرف پھیرا اور جو منصوبہ وہاں غلبہ اسلام اور خدمت اقوام افریقہ کے لئے تیار کیا گیا تھا اس میں وہ لوگ بڑی محبت اور بڑے شوق سے حصہ لے رہے ہیں میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ آٹھ دس سے زیادہ مقامات سے ہمیں یہ درخواست پہنچی ہے کہ زمین بھی ہم دیں گے اور عمارت بھی ہم بنائیںگے آپ یہاں میڈیکل سنٹرز کھولیں اور ڈاکٹرز بھجوائیںیعنی جوہمارا ابتدائی سرمایہ ہے وہ ان کی جیبوں سے خرچ ہوگا اور جو ہمارا کام ہے یعنی تبلیغ اسلام کا وہ ہمارا ہی ہوگا اور ہم وہاں کام کریں گے۔ وہاں شکل یہ بنتی ہے کہ ایسے اداروں کووہ جماعت کے نام پر رجسٹرڈ کروا دیتے ہیںچنانچہ اس طرح یہ جماعت کی ملکیت بن جاتی ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس کے نتیجہ میں حسد پیدا ہونا چاہئے تھا جیسے کہ ہمیں پہلے بتایا جاچکا ہے چنانچہ حسد پیدا ہوامثلاً ایک بڑی منظم جماعت ہے اس کے متعلق ایک ذریعہ سے یہ خبر ملی ہے واللّٰہ اعلم کہاں تک درست ہے یہ بات مضمون کے لحاظ سے تودرست معلوم ہوتی ہے لیکن Source of information یعنی ذریعہ خبر ابھی تک ایک ہے پہلے تو بہت سارے ذرائع سے علم ہوتا رہتا ہے انشاء اللہ پتہ لگ جائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ بہرحال بظاہر درست معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ افریقہ میں جماعت احمدیہ اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اسلئے پاکستان میں ان کو کچلو تاکہ ان کے جو وہاں پرگرام ہیں ان کے اوپر اثر پڑے۔ جماعت احمدیہ کو کچلنے کی طاقت تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی لیکن اس نے حسد کرنے کا اختیار سب کو دیا ہے۔
ویسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور فرمایا کہ یہ تمہاری اپنی مرضی ہے کہ رشک کرو یا حسد کرو یعنی جب اللہ تعالیٰ کے فضل کسی پر نازل ہوں تو ایک ذہنیت یہ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میرے بھائی نے خلوص نیت کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنا سب کچھ دے دیا اور اس کے فضلوں کو حاصل کیا اور ان فضلوں کے حصول کا یہ دروازہ میرے لئے بھی کھلا ہے تو جس طرح میرے بھائی نے ایثار اور قربانی اور اخلاص کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت کو حاصل کیا میں بھی حاصل کروں گا اورکوشش یہ کروں گا میں اس سے بھی زیادہ الٰہی فضلوں کاوارث بنوں۔ اس کو رشک کہتے ہیں۔
لیکن ایک اور آدمی اگراس کا ذہن صحیح راستے سے بھٹک جائے تو وہ یوں سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اس بھائی پر فضل کیا اورمجھے یہ برداشت نہیں۔ میں یہ کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے جس حد تک اس سے چھین سکوں وہ میں چھین لوں اوراسکو نقصان پہنچائوں۔
اب ظاہر ہے کہ کسی انسان یا کسی مخلوق کویہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے کوئی فضل چھین لے۔ دینے والا جب اللہ تعالیٰ ہو اور وصول کرنے والا اس کا ایک بے نفس بندہ ہوتوپھر اس کے فضل تو نہیں چھینے جاسکتے لیکن ایسا شخص یا ایسا گروہ یا ایسی جماعت یا ایسا فرقہ یا ایسی تنظیم اپنی گمراہی اور اپنی تباہی کا سامان پیدا کرلیتی ہے۔اسی طرح ایک اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی جماعت ہے۔ جس کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ یہ منصوبہ بنارہے تھے کہ ساری جماعت سے ہم نے کہاں لڑنا ہے جواس وقت اس کا امام ہے اسے (معاذاللہ) قتل کردیا جائے تو اس طرح ہم اپنے مقصد کو حاصل کرلیں گے۔یہ بھی ایک نادانی ہے۔ اس دنیا کی کسی تنظیم کے امام سے جو مرضی کہہ لو۔ ہمارے لئے یہ خلافت کا سلسلہ ہے اور جماعت احمدیہ کا امام اس کا خلیفۂ وقت ہے لیکن جو بھی کہہ لو اس نے قیامت تک توزندہ نہیں رہنا اور جب تک اس شخص کی جان لینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا منشاء نہ ہودنیا کی کوئی طاقت اس کی جان نہیں لے سکتی جب خدا تعالیٰ اسے اس دنیا سے اٹھانا چاہے تو ساری دنیا مل کربھی اگر اسے زندہ رکھنا چاہے تواسے زندہ نہیں رکھ سکتی۔ اس واسطے کسی شخص کا اس قسم کے منصوبے بنانا اس کی اپنی نالائقی یا ہلاکت کے سامان تو پیدا کرسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی منشاء کے بغیر کسی کی جان نہیں لی جاسکتی۔
سیدالانبیاء حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے کمزور تھے، غریب تھے، بے کس تھے اور سرداران مکہ اپنے آپ کو دنیا کے معیار کے مطابق بہت بڑا بلکہ فراعنہ مصر سمجھتے تھے ان میں سے ہر ایک سمجھتا تھا کہ میں فرعون ہوں اورسال ہاسال تک انہوں نے اپنی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت کوششیں کیں مگر آپؐ کا کچھ بگاڑ نہیں سکے البتہ اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کرلئے۔ جس شخص کو ّمکہ میں فنا کرنا چاہتے تھے اس شخص کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکہ فتح ہوا ور اس فتح ّمکہ کی شان یہ تھی کہ ان سرداروں نے حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر پناہ نہیں لی کیونکہ آپ کا اعلان یہ تھا کہ بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائو۔ آپ نے انہیں ایک افریقن کے جھنڈے کے نیچے پناہ دلوائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ان سرداروں سے ایک حسین انتقام لیا۔پس اس قسم کے منصوبے تو ایسے وقت میں ضرور بنا کرتے ہیں دنیا کی تاریخ دیکھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی جو ترقیات ہیں بعض لوگوں کو ان کے خلاف حسد پیدا ہوتا ہے اور بعض کو ان کے خلاف حسد نہیں پیدا ہوتا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل نازل ہوتے ہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حسد پیدا نہ ہو۔ آپ دنیا کی تاریخ پڑھکر دیکھ لیں حسد ضرور پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی اطلاع تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوالہاماً بھی دی گئی ہے۔
اب جو مخالف اسلا م ہے(میں احمدیت اسلئے نہیں کہہ رہا کہ ہمارے نزدیک احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے)وہ اپنے ان منصوبوں سے اسلام کونقصان نہیں پہنچا سکتا یہ واضح بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کے ازسر نو غلبہ کے دن آگئے ہیں اور اسلام غالب آئے گاہمیں کمزور کرنے کا ہر منصوبہ حقیقتاً اسلام کو کمزور کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ ہمیں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی قادرانہ انگلیوں کے درمیان پکڑا اورفرمایا کہ میں اس عاجز کمزور اور بے کس جماعت سے کام لوں گا اور ان کے ذریعہ سے میری قدرت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوگی۔
پس جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے تو حاسد ضرور پیدا ہوجاتے ہیں جب حاسد پیدا ہوتے ہیں تو وہ معقول ذرائع سے اپنے حسد کا اظہار نہیں کرتے بلکہ غیر معقول اور اپنی ہی تباہی کے سامان پید اکرنے والے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ اب ہم توعاجز اور کمزور ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ ہم برملا کہتے ہیں ہم بے سہارا ہیں، کوئی سیاسی اقتدار نہیں(اور نہ اس کی خواہش ہے) ہمارے پاس اتنا مال ودولت نہیں کہ امریکہ کے روپے کی طرح لوگوں کوخاموش کرنے یا اپنے حق میں زبانیں کھلوانے کے لئے تقسیم کردیں۔
لیکن اگر یہ حقیقت ہے اور ہمارے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ ہم سے یہی کام لینا چاہتا ہے تو جو بھی جماعت کے خلاف منصوبہ بنائے گا اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو غلبہ اسلام کی جو عظیم مہم جاری ہے اس میں کمزوری پید اہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کمی مشیّت کے خلاف ہے کہ شیطانی طاقتیں کا میابی کا منہ دیکھیں۔ پس حسد کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی Activities یعنی اس کی سرگرمیوں اور منصوبوں میں انشاء اللہ تعالیٰ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہوسکتی لیکن حسد اپنی جگہ پر صحیح ہے اور اس کے مقابلے میں تدبیرکرنا ضروری ہے اور ہمارے ہاتھ میں ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے دعا کی تدبیر۔ اس واسطے میں جماعت کو یہ یاددہانی کرانا چاہتا ہوںکہ اپنی عاجزی کااپنے اندر پورا احساس پیدا کرتے ہوئے نہایت انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکیں اور اپنے مولا سے یہ عرض کریں کہ تو نے ہمیں غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا اور تونے ہمیں یہ توفیق دی کہ ہم تیری راہ میں تیرے ہی دیئے ہوئے مال میں سے کچھ پیش کرسکیں تاکہ تیرا جو ارادہ ہے وہ اس دنیا میں پورا ہو۔ اسلام غالب ہو اور خدا کرے جلد غالب ہو لیکن تیرے اپنے بنائے ہوئے قانون اور تیری اپنی دی ہوئی بشارت اور پیشگوئی کے مطابق حاسد پیدا ہورہے ہیں وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں مادی سامانوں کے لحاظ سے، وہ ہم سے امیر ہیں دنیوی دولت کے لحاظ سے، وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں اپنے جتھے کی کثرت کے لحاظ سے لیکن دنیا کی ساری دولتیں اور دنیا کے سارے اقتدار اوردنیا کی ساری طاقتیں تیرے ارادہ کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے ہم تیرے عاجز بندے ہیں ہم خطائیں بھی کرتے ہیںمگر تیری طرف ہی آتے ہیں، تیر ی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور توبہ واستغفار بھی کرتے ہیں تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری کمزوریوں کو دور کردے اور ان حاسدوں کو ان کے ارادوں میں ناکام کر۔
پس دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے انفرادی طورپر قربانیاں دینے والے موجود ہونے چاہئیں۔ اجتماعی طورپر جماعت اس مقام پر کھڑی ہونی چاہئے کہ حاسدوں کا حسد کچھ نہ کرسکے اور طاقتور کی طاقت ہمارے خلاف کامیاب نہ ہوسکے۔ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَکی شرط تودور نہیں کی جاسکتی کیونکہ قران کریم کی کوئی آیت یا اس کا کوئی ٹکڑا منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ اس قسم کی شرائط تو بہر حال قائم رہیں گی ایمان کی پختگی ضروری ہے اگروہ ایمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیںملا ہے یعنی صفات باری اور معرفت صفات باری کے متعلق اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان اور ان کے جلووں کا مشاہدہ کرنے کے سلسلہ میںاگرہم اس قسم کے ایمان پر قائم رہیں گے تو انشاء اللہ غلبہ ہمیں ہی نصیب ہوگا۔قربانیاں ہمیں ہی دینی پڑیںگی حاسد ناکام ہی رہیں گے۔ خدا تعالیٰ کی مدد کی اور اس کے فضل کی اور اس کی رحمتوں کی ہمیں ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دعا کی تدبیر سے جذب کرنا یہ ہمارا فرض ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز





یوم آخرت پر اپنے ایمان کو
پختہ کرو اور اسے مستحکم بنائو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍ستمبر۱۹۷۰ء بمقام سعید ہائوس ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:-
(القصص :۷۸)

اس کے بعد حضور انور فرمایا:-
میں اس مضمون پر خطبہ دے رہا ہوں کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو اور مستحکم بنائو۔ میں اس سے قبل چند باتیں بتا چکا ہوں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان بشارتوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی سلسلوں کو دی جاتی ہیں میں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جماعتِ احمدیہ کو غلبۂ اسلام کی عظیم بشارتیں ملی ہیں اور میں نے اس طرف بھی جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ جب کسی الٰہی سلسلہ کو عظیم بشارتیں ملیں تو اس سلسلہ یا جماعت پر عظیم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔
اصولی طور پرجماعت الٰہیہ کو آخری اور کامل غلبہ کی بشارت دی جاتی ہے اس دنیا میں بھی کوئی الٰہی سلسلہ دنیوی مخالفتوں اوردنیوی منصوبوں کے نتیجہ میں کبھی ناکام نہیں ہوا ہمیشہ ہی کامیاب رہا ہے اور دشمن ہمیشہ اپنے منصوبوں میں ناکام رہے ہیں لیکن کیونکہ بشارتوں کے ساتھ ذمہ داریاں بھی عائد کی جاتی ہیں اور قربانیوں کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے اور ان قربانیوں میں جان کی قربانی،اموال کی قربانی، اوقات کی قربانی، جذبات کی قربانی، غرض ہرقسم کی قربانیاں شامل ہوتی ہیںاور بہت سے ایسے مخلص جاں نثار افراد الٰہی سلسلوں میں ہوتے ہیں جن کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑتی ہے انہیں اس دنیا میں ان انعامات سے حصہ نہیں مل سکتا جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر بہت سے ایسے جاں نثار مخلصین ہوتے ہیں جو اموال کی انتہائی قربانی دے دیتے ہیں لیکن اس دنیا میں دس گنا یا سوگنا یا ہزار گنا دولت ابھی بطور انعام نہیں ملی ہوتی کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے قربانیوں کا پھل اور ثمرہ اسی دنیا میں بھی پالیتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو عرب پر آخری فتح تھی وہ زمانہ نبوت کے بالکل آخری زمانہ میں تھی اس عرصہ میں صحابہؓ نے جانیں بھی دیں، اس عرصہ میں صحابہؓ نے اپنے اموال بھی قربان کئے، اس عرصہ میں انہوںنے گویا کہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیا لیکن ان میں سے بہت سے ایسے تھے جواس عرصہ میں فوت ہوگئے غرض کسی کوکچھ علم نہیں کہ اس کی زندگی کتنی ہے؟ موت ہروقت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسے اگلے سانس کا بھی علم نہیں ہوتا اگر انسان یہ سمجھے کہ یہی زندگی ہے اور بس۔ مریں گے اور ابدی فنا کی گود میں چلے جائیں گے تو دلیری کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں دے دینا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ انسان سوچتا ہے کہ اگر بس یہی زندگی ہے تو کیوں ہم اس دنیا میں تکالیف برداشت کریں اور اگر بس یہی زندگی ہے تو اس زندگی کو چھوڑ کر موت کے دَر کوکیوں کھٹکھٹائیں اگر یہی زندگی ہے تو کیوں نہ جودولت ہمیں ملی ہے اس سے ہم عیش کریں اور مزے اڑائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی تاکید سے فرمایا ہے کہ آخرت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اس کے بغیر ایمان ایمان نہیں ہوتا یعنی اس دنیوی زندگی کے بعد انسان کو ایک اور زندگی ملے گی اور اس زندگی کا تعلق انسانوں کے ایک حصے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قہر کا سلوک اور انسانوں کے ایک دوسرے حصے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا سلوک ہوتا ہے اگر آخر ت پر ایمان نہ ہو یا اگر دار آخرت پر ایمان پختہ اور مستحکم نہ ہو توشیطان وسوسہ ڈالے گا اور کہے گا کہ کیوں تم اپنی جان اور اوقات اموال اور آرام ایک ایسی بشارت کے لئے قربان کررہے ہوکہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ جب اس کا نتیجہ نکلے گا تو تم اس دنیا میں موجود بھی ہوگے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سب سے خطرناک وسوسہ جو شیطان ایک انسان کے دل میں پید اکرسکتا ہے وہ آخرت کے متعلق وسوسہ ہے۔ قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور آخرت کے حالات بیان کرتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ اس دنیا میں جاکر جب ایسے لوگوں کا واہمہ یا انکار کی کیفیت حقیقت کو دیکھے گی تو ان کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ ہماری جتنی کمزوریاں تھیں اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کے لئے غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی(اسی سے آج ہمارا تعلق ہے وہ کمزوریاں صرف اس وجہ سے تھیں یا اس وجہ سے بھی تھیں اور بھی بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں)لیکن ایک سبب یہ تھا کہ ہم آخرت پر ایمان نہیں لاتے تھے اور اس دنیوی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ ہم نے کہا ہم آج قربانی دیں۲۰ سال کے بعد نتیجہ نکلے یا ۵۰ سال کے بعد نتیجہ نکلے اس نتیجہ سے تو ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے مثلاً مال کی قربانی اورنفس کی اور زندگی کی قربانی۔ ایک تومال کی قربانی ہے اور اس کے علاوہ زندگی کی بھی قربانی ہوتی ہے بہت سے لوگ اپنی زندگی کی قربانی دے رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک مخلص احمدی پانچ روپے ماہوار پر لنگر میں کام کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں خدمت کرتے تھے اور انہیں پانچ روپے ماہوار گزارہ ملتا تھا۔ ان کے بہت سے بیٹے تھے۔ میرا خیال ہے شاید کوئی استثناء ہو ان کے بیٹے جب بڑے ہوئے تو ان میں سے ہر ایک قریباً ۴۔۵ ہزار روپے سے زیادہ ماہانہ کما رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتااللہ تعالیٰ نے ان کا قرض اس طرح ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بدلہ دے دیتا ہے بشارت ہی یہی ہے کہ دنیا میں بھی دل جیتو گے تو بھی غالب آئوگے تلوار سے نہیں بلکہ دل جیتو گے تو غالب آئو گے اور اسی دنیا میں بھی بڑی نعمتیں ملیں گی لیکن جہاں تک اس دنیا کی نعمتوں کا تعلق ہے بعض لوگ قربانیاں دیتے دیتے فوت ہوگئے مگر ان کی اولاد نے اللہ تعالیٰ سے اس دنیا میں بھی اجر پایا لیکن شیطان آکر یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم نے قربانی دی اگر یہ زندگی یہیںختم ہوجاتی ہے اگر کوئی اخروی زندگی نہیں ہے پھر تو تمہیں قربانی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا سرچشمہ ایمان بالآخرۃ ہے اور شیطان کا بڑا حملہ یا بڑا وسوسہ انسا ن کے خلاف یہ ہے کہ وہ اس کے دل میں آخرت کے متعلق یہ شبہ ڈال دیتا ہے کہ جب اس دنیا میں قربانی دینے کا بعد میں کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو پھر قربانی دینا بے سود ہے اور یہ وسوسہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب آخرت کے متعلق یقین پختہ نہ ہو یا پختہ نہ رہے تو پھر انسا ن شبہ میں پڑجاتا ہے اور قربانی نہیں دے سکتا کیونکہ اس طرح وہ اپنی عقل سے کام لے رہا ہو تا ہے کہ جب اس دنیا میں سب کچھ ختم ہوجاناہے تو پھر قربانی دینے کا کیا فائدہ ہے؟دنیا کے انعامات کے وعدہ کے متعلق یہ وعدہ نہیں ہے کہ زید اور بکر کی زندگی میں وہ پورے ہوں گے۔ یہ وعدہ تو ہے کہ الٰہی سلسلہ یقینا کامیاب ہوگا لیکن یہ وعدہ نہیں ہے کہ زید یا بکر کی زندگی میں کامیاب ہوجائے گا اور زید یا بکر سوچنے لگ جائیں کہ ہماری زندگی میں اس دنیا کی جو خوشخبریاں ہیں پتہ نہیں وہ پوری ہوتی ہیں یا نہیں اس واسطے ہم کیوں قربانی دیں؟ شیطان آکر اس طرح دلوں میںوسوسہ پیدا کرتا ہے۔
غرض تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا سرچشمہ ایمان بالآخرۃ ہے یعنی بہت سے وسائل جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان میں ایک یہ وسیلہ بھی ہے جب اس بات پر ایمان پختہ ہوکہ اس د نیوی زندگی کے ساتھ ہماری حیات ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ توایک تسلسل ہے شکلیں بدلتی ہیں تفصیل میں جائے بغیرمیں اشارہ کردیتا ہوں کہ اس کے بعد دوقسم کی زندگیوں کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے اور ان کی بھلائیوں کے حصوں کے لئے ہمیں کہا گیا ہے ایک مرنے کے معاً بعد کی زندگی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ روح کو اس جسم کے علاوہ ایک اور جسم دیا جائے گا اس کی جوتفاصیل ہیں انسانی ذہن ان کا احاطہ نہیں کرسکتا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی روسے انسان کے اعمال اپنے اچھے یا برے جسم کی شکل اختیار کریں گے چنانچہ آپ تجربۃً فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ اولیاء کے مقبروں پرجائیں اوردعا کریں تو کشفی طورپر ان کے اس پر برزخ کے زمانے کے جسموں میں دکھایا جاتا ہے ایک وہ جسم ہوتے ہیں جو دھوئیں سے بنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی جن کے اعمال بدتھے اور ایک وہ جسم جو نور سے بنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی جن کے اعمال اچھے تھے۔ انسان کا جیسا بھی عمل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ویسا جسم دے دیتا ہے یعنی انسان کا اچھا یا برا عمل ایک جسم میں تبدیل کردیا جاتا ہے مثلاً جس طرح ہمارا یہ مادی جسم ہے یہ بھی انرجی اور طاقت کی ایک شکل ہے کیونکہ اب مادے کے متعلق سائنس کی جو نئی تعریف ہے وہ یہی ہے کہ Matter is nothing but another form of energy. سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ جو اٹامک انرجی وغیرہ ہے جسے ہم طاقت کہہ سکتے ہیں جس میں مادے کا کوئی حصہ نہیں ہوتا وہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادے کی شکل اختیارکر لیتے ہیں۔
پس ہمارے عمل بھی انرجی ہیں ہم کوشش کرتے ہیں جدوجہد کرتے ہیں چاہے ہم برے عمل کررہے ہوں یا اچھے اعمال بجا لا رہے ہوں جس طرح دوسری قسم کی انرجی اور طاقت کو اللہ تعالیٰ کا حکم مادے میں تبدیل کردیتا ہے۔ اسی طرح اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ جو ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے نور کی شکل کے جسم میں یا دھوئیں کی شکل کے جسم میں بن جاتے ہیں البتہ یہ وہ جسم ہیں جوحشر اجساد سے پہلے انسان کودیئے جاتے ہیں اگرچہ اس جسم کو جنت کی لذّات یادوزخ کی گرماہٹ ملنے لگ جاتی ہے لیکن پوری طرح جنت یا دوزخ والی کیفیت حاصل نہیں ہوتی ویسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ارفع واعلیٰ وجود جو ہے آپ کو تو جنت کی لذّات قریباً پوری ملنے لگ جاتی ہیں یعنی ہم کہہ سکتے ہیں اپنی زبان کے محاورے ہیں۲۰/۱۹کا فرق ہوتا ہوگا مگر دوسروں میں زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال یہ جسم اس جسم سے مختلف ہے جو حشر کے دن انسان کوملے گا۔ ایک توہم نے یہ جسم چھوڑنا ہے پھر اس جسم کو بھی چھوڑنا ہے جو برزخ کے زمانہ میں ملے گا اور پھر ان دوجسموں کے بعد ہمیں وہ جسم ملے گا جو جنت کا جسم ہے۔ ہمیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہئے۔ مرنے کے ساتھ ہی دوسرا جسم مل جاتا ہے اور جزا سزا ملنے لگ جاتی ہے اگر ہم دارآخرت پر اور زندگی کے اس تسلسل پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو(یہ ایک حقیقت ہے کہ) پھر قربانیاں قربانیاں نہیں رہتیں کیونکہ بہرحال ہمیں انعام ملنا ہے ہماری قربانیاں مقبول ہوجائیں تو مرنے کیساتھ ہی اس کا انعام مل جانا ہے وہ لوگ بھی محروم نہیں جنہوں نے اس دنیا میں بظاہرشہادت پائی یا جنہوں نے قربانیاں دیں اور نتیجہ نکلنے سے پہلے ان کی طبعی طورپر وفات ہوگئی کیونکہ جو پندرہ سال تک قربانیاں دینے کے بعد زندہ رہا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی نعمتوں سے نوازا گیا ہے اس سے پہلے اس شخص نے اپنا بدلہ پالیا جو شہید ہوگیا یا خلوص نیت سے قربانیاں دیتے ہوئے طبعی موت مرگیا کیونکہ اس کے انعامات اس کی موت کے ساتھ ہی شروع ہوگئے اور وہ جو دوسرا ہے اسے پندرہ سال تک اور انتظار کرنا پڑا پس یہ بات نہیں کہ جوزندہ رہاوہ فائدہ میں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو فوت ہوگیا وہ فائدہ میں رہا اگر اس کی سعی مشکور ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کرلیا ہے تووہ فائدہ میں ہے۔
پس ایمان بالآخرۃ نہایت ضروری حکم ہے اور اس کے بغیر الٰہی سلسلے یا جماعتیں یا ان کے افراد بشاشت کے ساتھ قربانیاں نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا:-
وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ(القصص:۷۸)یہ میں نے آیت کاایک ٹکڑا لیا ہے اس سے آگے ویسے یہ بھی ہے۔وَلَاتَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ الخ۔ لیکن میں نے پہلا ٹکڑا لیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاہے کہ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے(فَیْمَا اٰتٰـکَ) اس کے ذریعہ آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو(وَابْتَغِ)
اس دنیا کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ہماری یہ زندگی ہمارا جسم اور اس کی طاقتیں، ہمارا ذہن اور اس کی طاقتیں ہماری روح اور اس کی طاقتیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے گھر سے تو کچھ نہیں لائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مادی اسباب جو تمہیں دیئے گئے ہیں اور قوتیں اور استعدادیں جوتمہیں عطا ہوئی ہیں ان کے ذریعہ سے تم دار آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننا ضروری ہے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے اس کے بغیر الٰہی سلسلے نہ قربانیاں دے سکتے ہیںاور نہ وہ نتائج پیدا ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے پیدا کرنا چاہتا ہے۔
صحابہ کرامؓ کی زندگی پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیںتو انہیں ایمان بالآخرت میں بھی یکتا پاتے ہیں میں نے کئی باربتایا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لئے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک جانا شاید دل میں کچھ کوفت کا احساس پیدا کرے مگر ان لوگوں کے لئے اس دنیا سے نکل کراس دنیا میں چلے جانا کوئی کوفت نہیں پیدا کرتا تھا وہ ہنستے کھیلتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کردیتے حتٰی کہ اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے تھے ان کے نزدیک زندگی اور موت کے درمیان جو ایک باریک سی لکیر ہے وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ عجیب شان تھی ان لوگوں کی (رضوان اللہ علیہم) اور عجیب شان ہے مخلصین جماعت احمدیہ کی بھی:-
لیکن اگلی نسل یعنی ینگ جنریشن جو ہے مثلاً یہ جو نوجوان میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں ان کی فکر رہتی ہے کیونکہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کی براہ راست تربیت نہیںملی۔ پھر بعض دفعہ جماعتیں سستی کرتی ہیں لوگ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف کماحقہ متوجہ نہیںہوتے اور جب ایسے بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو جسمانی طورپر گھریلو حالات کے لحاظ سے ان کو بھی تنگ کرتے ہیں اور روحانی طورپر بھی ان کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں جب ہم صحابہ کرامؓ کی زندگی کے حالات پڑھتے ہیں تو میں نے بتایا ہے کہ ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے ایک سرور کی بھی اور عقل بھی حیران ہوتی ہے۔ کیا تھے وہ لوگ؟ حضرت سعدؓ بن وقاص ایران میں لڑرہے تھے انہوں نے ایک جگہ حملہ آور ہونا تھا راستے میں ایک دریا تھا جس کے اوپر ایک پُل بناہواتھا پُل پر سے انہوں نے اپنی فوج کے ساتھ گزرنا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا ایک ہراول دستہ بھیجا کہ اس پُل کوجاکر سنبھال لو تاکہ دشمن اسے اڑا نہ دے لیکن اس دستہ کے سردار ایک نوجوان تھے۔ انہیں حکم تو یہ تھا کہ راستے میں لڑنا نہیں مگرانہوں نے غلطی کی ایرانیوں کا ایک دستہ نظر آیا اور اس سے یہ الجھ گئے اور اس پل تک نہ پہنچ سکے اتنے میں دشمن کو پتہ لگ گیا اس نے پل کو اڑا دیا۔ اب یہ بزرگ صحابیؓ اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج کے آگے آگے جارہے تھے کوئی بیس۲۰ ہزار کے قریب فوج تھی جس وقت یہ اس جگہ پہنچے جہاںپل تھا تو سامنے ایرانی اپنے آپ کو بڑے محفوظ سمجھتے ہوئے قلعہ بند ہونے کی بجائے دریا کے کنارے تماشہ دیکھنے کے لئے جمع تھے کہ وہ دیکھیں کہ اب مسلمان کیا کریں گے ہم نے پُل اڑا دیا ہے لیکن حضرت سعدؓ بن وقاص نے ایک لمحہ کی ہچکچاہٹ کے بغیر اسی طرف چلتے چلتے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور ان کے پیچھے کئی ہزار کی جوگھوڑا سوار فوج تھی انہوں نے بھی گھوڑے دریا میں ڈال دیئے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا بغیر کسی جانی نقصان کے گھوڑے دوسرے کنارے جا لگے اور آپ نے دشمن کو قلعہ بند ہونے کا موقعہ نہیں دیا اور اس پرفتح پالی حالانکہ ان کے مقابلے میں اس شہر میں ایرانیوں کی بہت بڑی فوج تھی حضرت سعدؓ بن وقاص کی یہ کتنی بڑی قربانی تھی آپ نے اپنے گھوڑے کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں ڈال دِیا گویا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا تھا اور پھر ایسے حال میں کہ پرلی طرف ایرانی گھوڑے ہیں ہزار قسم کے خطرے ہیں لیکن انہوںنے اپنے عمل سے ثابت کردکھایا کہ گویا انہیں احساس بھی نہیں تھا کہ کوئی خطرہ بھی ہے اپنی طرف سے وہ زندگی سے موت کی دنیا میں جانے کے لئے تیار ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا اور کامیابی بھی عطا فرمائی ا نہیں اس بات کا کامل یقین اور پختہ احساس تھا کہ جتنی یقینی یہ زندگی ہے اس سے کم یقینی اگلی زندگی نہیں ہے اوراگر ہم نے اس کے بعد دوسری زندگی کو پانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے تو پھر جو بشارتیں اس نے دی ہیں اور ان بشارتوں کے مقابلے میں ہم سے جن قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے ہمیں وہ قربانیاں دینی چاہئیں تاکہ وہ بشارتیں ہمیں مل جائیں اس دنیا کی بشارتیں بھی اور اُس دنیا کی بشارتیں بھی۔
غرض اللہ تعالیٰ نے وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ۔(القصص:۷۸) تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے مادی سامان یا جسمانی اور روحانی قوتیں اور طاقتیں ان سب کے ذریعہ دارآخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو۔ دوسری آیت میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَاالخ(بنی اسرائیل :۲۰)جو اس حکم کے نتیجہ میں اور آخرت کی نعماء کی خواہش رکھے وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا اور محض خواہش ہی نہ ہو بلکہ دارآخرت کی نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی کوشش اور مجا ہدہ کی ضرورت ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے وہ کوشش اور مجاہدہ بجالائے ایسے حال میں کہ وہ مومن ہویعنی آخرت پر بھی اس کا ایمان پختہ ہو۔ یہاں ھُوَمُؤْمِنٌ کے ایک معنے ہم یہ بھی کریں گے کہ آخرت پر اس کا ایمان پختہ ہو دل میں شیطانی وسوسہ نہ ہوکہ پتہ نہیں مرنے کے بعد دوسری زندگی ملے گی یا نہیں ملے گی الٰہی سلسلوں میں کئی ایسے کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں جوقربانیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کمزوریٔ ایمان کی وجہ سے انہیں ضائع بھی کررہے ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں پتہ نہیںآخرت کی زندگی ہے بھی یانہیں؟ پتہ نہیں وہاںہمیں کس قسم کے انعاموں کا وعدہ دیا گیا ہے چونکہ ان کا ایمان پختہ نہیں ہوتا اس لئے نقصان اٹھاتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اس حکم کے مطابق انسان کی خواہش آخرت کی نعماء کے حصول کی ہواور پھر صرف خواہش ہی نہ ہو بلکہ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا آخرت کے نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے وہ اس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کررہا ہو اور پھر فرمایا وَھُوَ مُؤْمِنٌ آخرت پر اس کا ایمان بھی پختہ ہوتو پھر اس کی کوشش پر اللہ تعالیٰ اس کا شکر گزار ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اس کے مطابق انعام ملے گا۔
میں نے ابھی بتایا تھا کہ جب تک انسان کا دارآخرت اور اُخروی زندگی پر ایمان پختہ نہ ہو وہ قربانی نہیںدے سکتا جس کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمیں ایمان ہے تو دارآخرت پر بھی ہمیں ایمان لانا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی ایک تویہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایک درمیانی زندگی ہے اورپھر آخرت میں جنت کی زندگی ہے جس میں انسان کو ایسی نعمتیں عطا ہوں گی جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے اس دنیا کے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ز بان سے یہ بھی کہلوا دیا ہے کہ جنت میں جو نعماء تمہیںملیں گی وہ اس قدر اعلیٰ درجہ کی ہوں گی کہ نہ اس سے پہلے تمہاری آنکھوں نے دیکھی ہوںگی نہ ان کے متعلق تمہارے کانوں نے سنا ہوگا اورنہ ہی تمہارے ذہن میں ان کا تصور ہوگا۔ یہ پردے کی دنیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل پردوں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہاںپردے نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فضل بالکل ظاہر ہوکرسامنے آرہے ہوں گے اور شیطانی وسوسہ نہیں ہوگا۔
پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری عطا کے ذریعہ سے تم دارِ آخرت کی نعماء حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تم کوشش کروگے اور اس کے مطابق ایمان رکھو گے اگر تم خواہش کروگے اورپھر کوشش کروگے اور آخرت پر پختہ ایمان رکھوگے تو تمہاری سعی اورتمہارا مجاہدہ قبول ہوگا اوراللہ تعالیٰ بھی بندوں کی طرح شکر گزار ہوگا ویسے اللہ تعالیٰ کی ذات توارفع اور اعلیٰ ہے وہ ہمیں سمجھانے کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ اے لوگو! اگرتم دارِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے اُخروی نعماء کے حصول کے لئے کوشش اور مجاہدہ کرو گے تو تمہاری سعی عنداللہ مشکور ہوگی اور مشکور ہیں دراصل یہ اشارہ بھی ہے جو تمہیں وعدے دئیے گئے ہیں اس سے بھی زیادہ دیدیں گے۔
ہماری جماعت کو اس وقت غلبۂ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے اور ہمیںبڑی عظیم بشارتیں دی گئی ہیں۔ اس دنیا کی بشارتیں بھی ہیں اور اُخروی زندگی کی بشارتیں بھی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اُخروی زندگی کی سب سے بڑی بشارت تو یہ دی گئی ہے
’’صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘
(درثمین صفحہ۵۶)
جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آئے تھے ان کے انعامات بہرحال دوسروں سے زیادہ ہیں۔ یہ جوایک جان اور دوقالب والا قصہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہدی معہود علیہ السلام کا یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح آپ کی تربیت پانے والے گروہ نے انتہائی تربیت حاصل کرکے انتہائی قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی فضلوں کوحاصل کیا یہی دروازہ تمہارے لئے بھی کھلا ہے اس میں بڑی عظیم بشارت ہے اس دنیا کے لئے بھی اور اصل تو اس دنیا کے لئے بشارت ہے وہاں اگر اللہ تعالیٰ اپنی جنتوںکے ان حسین حصوں میں(یعنی وہاں کی جنتوںمیں بھی عمل عمل کے لحاظ سے فرق ہے) اعلیٰ اور ارفع اور حسین ترباغات میں رکھے جن میں صحابہؓ رکھے جاتے ہیںتو اس سے بڑھ کر اُخروی انعام اور کیا ہوسکتا ہے۔پس غلبۂ اسلام کا منصوبہ اللہ تعالیٰ نے تیار کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اور ہمیں اس دنیا کے لئے بھی اور اس دنیا کیلئے بھی بشارتیں دے کر ذمہ واریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ہم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے فضل سے یہ گُربتادیا ہے کہ جس قسم کی قربانیوں کا میں مطالبہ کررہا ہوں تم وہ قربانیاں دے نہیں سکتے جب تک کہ دارِ آخرت پر تمہارا ایمان پختہ نہ ہو۔
پس نوجوان نسل کوبھی اور بڑوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے اس (دارِآخرت پر) ایمان کو بھی پختہ کرو میرا اس سلسلۂ خطبات کا عنوان یہی ہے کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو اور مستحکم بنائو دارِ آخرت پر ایمان کوبھی پختہ کرو اور جب دارِ آخرت پر ایمان پختہ ہوجائے تو یہ دنیا جو عارضی دنیا ہے اوراسکی جو لذتیں ہیں اور اس کی جوعزتیں ہیں وہ عارضی اور بے وفائی کا جامہ پہنے ہوئے ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے پھر جو اس دنیا کی چھوٹی سی زندگی ہے اس کے آخرتک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کرتا رہتا ہے لیکن یہ دنیا وفا نہیں کرتی۔ عام طور پر ۳۰سال،۵۰سال،۷۰سال،۸۰سال،۹۰سال یا شاید کوئی۱۰۰ سال تک بھی پہنچتاہو پھر دنیا اس کو چھوڑ دیتی ہے اور انسان کے مادی جسم کوپھر اپنے پیٹ میں واپس بلا لیتی ہے پس دنیا تو وفا نہیں کرتی لیکن جس وقت یہ دنیا انسان کے جسم کو پھر مٹی بناتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایک اور جسم دے دیتا ہے اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے زیادہ سے زیادہ اور ظاہر سے ظاہر نعمتوں کے حصول کی تو اللہ تعالیٰ ایک تیسرا جسم دے دیتا ہے۔ غرض یہ دنیا ہے کیا؟ ۷۰سالہ آدمی سے آپ پوچھیں تو وہ بھی یہی کہے گا کہ پتہ نہیں لگا دوچار دن میں عمر ختم ہوگئی ہر ایک نوجوان اپنی سادگی میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کے سامنے ۵۰۔۶۰ سال طبعی عمر کے پڑے ہیں ویسے تو انسان ہر عمر میں فوت ہوسکتا ہے لیکن ایک طبعی عمر بھی ہے لیکن جو اپنی طبعی عمر گزار چکا ہے جب وہ اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے گویا وہ ابھی پرسوں ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اس کی زندگی پر ایک زمانہ گزر چکا ہوتا ہے مگر اسے پتہ ہی نہیں لگتا اس دنیوی زندگی کے مقابلے میں جو دارِ آخرت کی زندگی ہے وہ تو ابدی زندگی ہے جس نے کبھی ختم ہی نہیں ہونا اور جو اُخروی انعامات ہیں ان میں کوئیMonotony(منوٹونی) نہیں ہے یعنی وہاں ایک ہی چیز نہیں ہوگی جس سے طبیعت اکتا جائے۔ حدیثوں میں اس کے متعلق بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت دور سے سامنے آجائے گی اور پھر جنتی کہیں گے اے خدا! یہ نعمت ہمیں عطا کر۔ چنانچہ انہیں درجہ بدرجہ پہلے سے زیادہ لذیذ اور مسرت پہنچانے والی نعمتیں ملتی چلی جائے گی کیونکہ ان کا تعلق نور سے ہے۔(اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) یعنی اس کے فضلوں اور اس کے پیار اور اس کی رضا کے جلووں کے ساتھ ہے قرآن کریم نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اس کی یہی تفسیر کی ہے جس کامیں نے ابھی ذکر کیا ہے ایک دوسری طرف اشارہ کرکے کہ’’اَتْمِمْ لَنَانُوْرَنَا‘‘ یعنی جس وقت ایک روحانی لذتroutine(روٹین) کا ایک حصہ بننے لگے گی تو سامنے ایک اور نور آجائے گا، اللہ تعالیٰ کے نور کاایک زیادہ حسین جلوہ نظر آنے لگے گا توانسان کہے گا اے ہمارے خدا! اَتْمِمْ لَنَانُوْرَنَا ہمیں اس سے بھی بڑھ کر نور اور اپنا پیار عطا کر، اپنی رضا کے جلووں سے ہمیں سروربخش۔اسی طرح دوزخیوں کاحال ہے کہ جب وہ عادی ہونے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ان کی جلدیں بدل دوںگا۔ جلد حِسّ کا ذریعہ ہے یہ محاورہ ہے جو بھی جلد وہاں ہوگی یعنی جو بھی حِسّ کا ذریعہ ہو گا جب عادت پڑنے لگے گی تو جلد بدل دی جائے گی مثلاً یہ جوتنور پر روٹیاں لگانے والے ہوتے ہیں ان کے چہروں کے چمڑے کوعادت پڑجاتی ہے دوسرا اگر وہ روٹیاں لگانے کے لئے تنور میں جھکے تو اس کا منہ جل جائے لیکن نانبائی ایک وقت میں روٹیاں لگانے کے لئے ہزار دفعہ تنور کی آگ میں جھکتا ہے۔
یہی حال باورچی کا ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن کے زمانے میں مَیں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ وہ آرام سے سرخ کوئلے ہاتھ سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی جلد سخت ہوچکی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوزخیوں کی جلد سخت نہیں ہونے دی جائے گی جب ان کو اس سزا کے جھیلنے کی عادت پڑنے لگے گی تو ان کی جلد نرم کردی جائے گی تاکہ ان کاعلاج ہوسکے لیکن جنتیوں کے متعلق ایسا نہیں ہوگا مثلاً نیند ہے۔ آدمی ہرروز سوتا ہے اور نیند تو دراصل انسان کو بڑی سکون پہنچانے والی الٰہی نعمت ہے نیند کا ہونا ایک بڑی عجیب نعمت ہے لیکن ہمیں احساس بھی نہیں ہوتانہ نیند کا نہ اس کی لذت کا ہم روز سوتے ہیں اِلَّاماشاء اللہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نیند سے بہت پیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے وہ سمجھتے ہیں اگر آٹھ دس گھنٹے روزانہ سوئیں تو تب انہیں اس دنیا کی زیادہ لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے البتہ ایسے لوگ ہزار میں سے ایک دوہوتے ہیں۔ بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جنہیں ہر روز سونے کے نتیجہ میں نیند کی لذت کا احساس نہیں رہتا یامثلاً انسان سانس لیتا ہے اوریہ اس کے لئے لذت کا باعث ہے کیونکہ یہ زندگی کا باعث ہے لیکن آدمی کو سانس کی لذت کااسی وقت پتہ لگتا ہے جب اسے نمونیہ ہوجائے یا موت کے وقت سانس اکھڑ جائے۔ پھر اس کو پتہ لگتا ہے کہ سانس کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرے خیال میں اس وقت جو احباب میرے سامنے بیٹھے ہیں کسی کو بھی آج صبح سے یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ وہ سانس لیتے ہیں اور اس طرح انہیںبڑی لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔
پس جنت میں لذت کی یہ کیفیت نہیں ہوگی کیونکہ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی رُو سے جب بھی لذت کی عادت پڑے گی اور لذت حقیقی لذّت نہیں رہے گی تو اس سے بھی بڑی لذت مل جائے گی۔
پس ہمیں کتنی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں اور ان کے مقابلے میں کتنی تھوڑی قربانیاں ہیں جن کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے لیکن ہم بعض دفعہ اپنی جہالت کے نتیجہ میں سمجھتے ہیں کہ یہ چند روزہ زندگی کی لذات اُخروی زندگی کی لذّات سے زیادہ قیمتی ہیں اور زیادہ ضروری ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھالیں اگلی دنیا پتہ نہیں آتی ہے یا نہیں۔ یہ کمزوریٔ ایمان کی علامت ہے۔ غرض جہاںتک یومِ آخرت پر ایمان لانے کا تعلق ہے آپ اپنے ایمان کے اس حصہ کو بھی پوری طرح مستحکم اور مضبوط بنالیں اس کے بغیر آپ قربانیاں نہیںدے سکیں گے اس کے بغیر آپ اُن نعمتوں اور فضلوں اور بشارتوں کے وارث نہیں بن سکیں گے جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور اس کی رضا کے لئے اس کی راہ میں ایسی قربانیاں دینے کی توفیق عطا کرے جنہیں وہ قبول کرلے اور ہماری سعی سعیِء مشکور بن جائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۷)
ززز







اصلاح کی ذمّہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے
اور اصلاح ایک خاص جذبہ کا تقاضا کرتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ۔غیرمطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
الیکشن کے سلسلہ میں جو مختلف سیاسی پارٹیا ں جلسے جلوس وغیرہ کررہی ہیں اس کے نتیجہ میں ہمارے ملک کی فضا میں کافی تلخی پیداہوگئی ہے اس تلخی کو دور کرنے کی (میں سمجھتا ہوں) بڑی بھاری ذمّہ داری جماعت احمدیہ پرہے۔ا س لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صحیح تعلیم(جو اس زمانہ کی اور پھر آئندہ آنے والے زمانے کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے والی اور مسائل کو سلجھانے والی ہے وہ) ہمیں ملی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزندکی حیثیت میں اس لئے ظاہر ہوئے تھے کہ دنیا کے مسائل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر حل ہوسکیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ کسی سے دشمنی نہیں رکھنی اگر ہمارے دشمن بھی اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں یا جہالت کی وجہ سے ہماری پاکستان کی پاک فضامیں (جو پاک ہی ہونی چاہئے اللہ کرے ہوجائے) فتنہ اور فساد پیدا کریں تب بھی ہمارے دلوںمیں ان کے لئے دشمنی نہیں ہم فتنہ کے تو دشمن ہیں ہم فساد کے تو دشمن ہیں لیکن مفسد کے دشمن نہیں کیونکہ اصلاح کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اور اصلاح بھی ایک خاص جذبہ کا تقاضا کرتی ہے اس کے بغیر انسان دوسروں کی اصلاح نہیں کرسکتا اور اس جذبہ کو قرآن کریم کی اصطلاح میں’’بخع‘‘ کا نام دیا گیا ہے تو دشمنی نہیں بلکہ’’بخع‘‘ کی کیفیت پیدا ہونی چاہئے جس میں دوسرے کی عزت کا بھی خیال رکھنا ہے اس کی اصلاح کا بھی خیال رکھنا ہے کہ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(النّحل:۱۲۶) کا خیال بھی رکھنا ہے اگر ہم اپنے مقام کو پہچانیں تو صرف ہم ہیں جن کے کندھوں پر اصلاح کی ذمہ واری ڈالی گئی ہے اگر نہ پہچانیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے مقام کوپہچانیں تو صرف ہم ہیں جو اس فتنہ کو دور کرنے اور اس تلخی کو مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں ایک تو ہماری زبان پر تلخی نہیں آنی چاہئے ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہئے کہ فساد مٹ جائے اور تلخی زائل ہوجائے اور پھر جو تدبیر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہئے اور اگر ہم یہ ظاہر کردیں اور عملاً ثابت کردیں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں تو جس کے ہم دشمن نہیں ہماری بات سننے کیلئے تیار ہوجائے گا انسانی فطرت کے اندر یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے دوست کا خیال رکھتا ہے اس کی بات سننے کیلئے تیار ہوجاتا ہے لیکن سب سے زیادہ زبردست ہتھیار اور بہت ہی اہم چیز جو ہمیں دی گئی ہے وہ دعا ہے او ر دعا کا ہتھیار ہے ہم جس رنگ میں دعا پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں وہ رنگ اِلَّامَاشَاء اللّٰہ افراد میں بعض جگہ ہوگا لیکن بحیثیت جماعت کسی اور جماعت میں نظر نہیں آتا۔ ہم اس یقین پر قائم کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوںکا مالک ہے اور کوئی چیز بھی اس کے آگے انہونی نہیں ہے اور اس طرح پر ہمیں یہ امید دلائی گئی ہے کہ ہم اپنے کام میں کامیاب ہونگے خواہ فتنہ کتنا ہی بڑھا ہوا کیوں نہ ہو اگر ہم دعا کے ذریعہ عرش الٰہی تک پہنچنے کی کو شش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں دعائیں کرنے کی توفیق دے گا کہ وہ اس کے حضور قبول ہوجائیں پھر ہم اس فتنہ کو دور کرنے کے قابل ہوجائیں گے کیونکہ ہم تو لا شئیمحض ہیں لیکن جس ہستی سے ہمارا تعلق ہے وہ تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک اور سرچشمہ ہے۔ ہم دعاکے ذریعہ اپنے ملک کی تلخی کو دورکرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ہمیں اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ جس چیز کا علاج صرف ہمارے پاس ہے اگر وہ علاج ہم نہ کریں تو پھر مریض جو ہے اسکو شفانہیں ہوسکتی۔ پس دعائوں کے ساتھ اس مرض کا علاج کرناچاہئے۔ بہت دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی کو سمجھ عطاکرے اس کو پتہ لگ جائے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے فساد خداتعالیٰ کو پیارانہیں ہے اور جو چیز خداتعالیٰ کو پیاری نہ ہو وہ اس کے بندے کو پیاری ہوجائے تو اس بندے کی بدقسمتی ہے اگر اس کو سمجھ آجائے تو اسے بچنا چاہئے اس چیز سے اور اگر اس سے ہمدردی رکھنے والے اور غمخواری رکھنے والے کو سمجھ آجائے تو اس کا فرض ہے کہ اس کومحفوظ رکھے اس فساد سے عذاب اور ہلاکت سے تو دعائوں کے ذریعہ اپنے ملک کی فضا کو پاک فضا بنانے کی ذمّہ داری کو سمجھو اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اس کی توفیق عطاکرے۔
میں نے بتایا ہے کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں۔ بعض ناسمجھ افراد ،بعض ناسمجھ پارٹیاں کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہم کوجب بھی طاقت ملی احمدیوں کو قتل کردیں گے اس پر بھی ہمیں غصہ نہیں آتا ہمیں واجب القتل قرار دیں اور اس کا اعلان کردیں تو ہمیں غصہ نہیں آتا اس لئے کہ ہمارے رب نے ہمیں کہا ہے اور بڑے پیار کے ساتھ کہاہے کہ کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو احمدیت کو ہلاک کردے اور نیست ونابود کردے ا س واسطے جو چیز ہونی نہیںجب دعویٰ ایسی چیز کا ہو تو نہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ ہمیں غصہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دل میں رحم کاجذبہ پیداہونا چاہئے کہ ان کا تخیل اور ان کا منصوبہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور اللہ تعالیٰ کے منصوبہ کے خلاف ہے اور ہر اس شخص پر ہر احمدی کو رحم آنا چاہئے اور اس رحم کے نتیجہ میں پیار کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اُس کو سمجھانا چاہئے کہ جدھر خدا کامنشا ہے ادھر چلنے کی کوشش کرو خدا کے حکم اور فیصلہ کے خلاف اپنے اوقات اور اموال، منصوبوں اور عقل اور ذہن کو ضائع نہ کرو ہمارے بعض مخالف گالیاں دیتے ہیں (اکثریت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریف ہے اور سمجھدار ہے اس واسطے وہ اپنی شرافت کے نتیجہ میں اور اپنی فراست کے نتیجہ میں اس قسم کی گندہ دہنی سے کام نہیں لیتے لیکن بعض حصّہ لیتے ہیں اس کا توانکارنہیں کیا جاسکتا ) ہمارے قومی اخباروں کے پچھلے سال کے فائلوں میں بہت سارے آدمیوں کی طرف سے بعض غلط بیان منسوب ہوئے ہیں جن کی ان اخباروں نے کوئی تردید نہیں کی تو جو ایسی باتیں کرتے ہیںان کے خلاف بھی ہمیں کوئی غصّہ نہیں وہ قابلِ رحم ہیں ۔ جو خداکی مرضی کے خلاف چل رہا ہے یقیناوہ قابلِ رحم ہے یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ میری مرضی اور ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جو ہو، ہوتی رہے یہ جنون کی کیفیت تو کہلاسکتی ہیں شرافت کا تقاضا نہیں کہلاسکتا ہمیں نہ گھبرانے کی ضرورت ہے نہ فکر کی ضرورت ہے بعض نوجوان جن کو پورا یقین نہیں ہوتا وہ گھبرا بھی جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ کئی نسلیں گذر گئی ہیں اور ہر نسل میں سے ایسے آدمی پیدا ہوتے رہے ہیں (احمدیت کے اندر) کہ جو کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا’’ تو اب کیا ہوگا‘‘ کا نتیجہ وہی ہوگا جو خدا چاہے گا اور خدا نے یہی چاہا ہے کہ احمدیت ترقی کرتی چلی جائے۔ سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کفر کے فتوے اور سارے اسی ٹائپ کے دوسرے فتوے اس وقت لگے تھے جب ایک آدمی بھی آپ کی بیعت میں داخل نہ تھادو سو علماء نے کفر کا فتوی لگادیا اور اس وقت ایک شخص نے بھی بیعت نہ کی تھی اب دوسو کفر کے فتوے اگر سمجھ لئے جائیں وہ جو دوسو فتوے کفر کے اس وقت لگائے گئے تھے اورکہاگیا تھا کہ اسے مارو۔ اس وقت ان کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ مارو کس کو ایک ہی تو آدمی ہے تمہارے سامنے ہمت ہے تو اسے مارلو شور مچانے کی بھی ضرورت نہیں لیکن بہر حال دوسو فتووں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتنا کچھ اور کتنے دے دئیے۔ ہمارے ویسٹ افریقہ میں دوسو کفرکے فتوئوں کے مقابلہ میں کئی لاکھ احمدی ہیں۔ ویسٹ افریقہ سات ہزار میل دور ہے۔ بڑی دیر کے بعد ہم ان کے پاس پہنچے ہیںیہاں تو جو پچاس فیصدی کی حد تک احمدی ہے وہ (میرا خیال ہے) پاکستان میں دوکڑور سے کم نہیںہوگا۔ اور جو پچھتر فیصد کی حد تک احمدی ہے وہ بھی ایک کڑور سے کم نہیںہے باقی جو سوفیصدی احمدی ہیں وہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں ان کے دعویٰ کے مطابق خدا کرے ان کی زندگیاں ہوں تعداد کے لحاظ سے وہ بھی کم نہیں ہیں ۔ جب ساری دنیا کہہ رہی تھی(اس ایک شخص کو جب اس کا ایک ہی سہارا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات) کہ تجھے ہم نیست ونابود کردیں گے اُس وقت اس کیساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایاکہ ابھی میں نے بیعت لینی شروع نہ کی تھی کہ دوسومولویوںکا مجھ پر فتویٰ لگ گیاتھا۔اس لحاظ سے ’’اک سے ہزار ہوویں‘‘ تو آپ بعد میں آنے والوں کے لیے دعا کرگئے تھے لیکن ہوا یہ کہ وہ(یعنی بعد میں آنے والے) اک سے کڑور ہوگئے، ہزار کا سوال ہی نہ رہا۔ تو ساری دنیا کی مخالفتوں اور مخالفانہ منصوبوں اورکفر کے فتوئوں اور واجب القتل ہونے کے نعروں کے درمیان اس شخص کا کون سہارا بنا واضح ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ تھا اور توکوئی ہونہیں سکتا اس کی طاقت میں ہے ہرچیز اور وہ خداجو ہمارا محبوب اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب خدا تھا وہ ہمارا محبوب آج بھی اسی طرح طاقتور اور زندہ اور تمام قدرتوں کا مالک ہے خدا تونہیں مرگیا نہ اس کے اندر بے وفائی ہے اورنہ اس کے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے اورنہ ہوسکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طاقتیں اپنی جگہ پر ہیں، مخالف کے منصوبے اپنی جگہ پر ہیں، جماعت کا اخلاص اپنی جگہ پر ہے۔ پس ہمیں اپنے اخلاص کی فکر کرنی چاہئے۔دُنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ہمارے خلاف کامیاب ہوسکے لیکن ہم اپنی مٹی آپ خراب کرسکتے ہیں اگر ہمارے اندر اخلاص نہ رہے اگر ہم خداتعالیٰ کے بندے نہ رہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذارنے والے نہ ہوں ، تو اپنی ہلاکت کے سامان ہم خود پیدا کردیںگے لیکن جو اخلاص پر قائم رہیں گے اور جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے رہیں گے اور وہ جو اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے ’’اَسْلَمْنَا لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کا نعرہ لگاتے رہیں گے طاقتور خدا ان کے ساتھ رہے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت اور عزّت کے نظارے دیکھتے رہیںگے ان نظاروں کو ہم سے پہلے اسّی سال سے جماعت دیکھ رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کوئی عقلمند ا سکا انکار نہیں کرسکتا۔ تو یہ جو منصوبے یا نعرے یا سکیمیں یا اعلان کہ ہم احمدیوں کو قتل کردیں گے ہمیں اس سے ہرگز کوئی غصہ نہیں پیدا ہونا چاہئے یہ کھوکھلے نعرے ہیں جو پورے نہیں ہوسکتے اسّی(۸۰) سالہ احمدیت کی زندگی اور تاریخ شاہد ہے اس بات پر کہ ایسے نعرے احمدیت کے خلاف کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ ہاں افراد کو قربانی دینی پڑتی رہی ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اس وقت تک۔سوجماعت کے افراد کوبھی قربانی دینی پڑے گی اس کے لئے ہر فرد کوتیار رہنا چاہئے ا ور بشاشت کے ساتھ تیارہناچاہئے لیکن اگر کہاجائے کہ احمدیت کو تباہ کردیا جائے گا یہ ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے وہ جو چاہتا ہے (عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ ) وہ کرکے چھوڑتاہے تو کسی پر غصہ نہیں کرنا کوئی وجہ نہیں کہ تم غصہ کرو بلکہ تم رحم کرو جس کے وہ مستحق ہیں ہمدردی کرو جس کے وہ مستحق ہیں ان کی اصلاح کی کوشش کرو جس کے وہ مستحق ہیں پاکستان کی فضا کو پاک کرنے کی کوشش کرو ہمارے ملک کی فضا اس بات کی مستحق ہے کیونکہ ہم اس میں رہ رہے ہیں جس فضا میں ایک احمدی سانس لے رہا ہو وہ پاک ہونی چاہئے۔ اس واسطے پاکستان کی فضا پاک ہونی چاہئے کیونکہ احمدی اس میں سانس لے رہے ہیں اور پاک کرنے کا آپ ’’آلہ‘‘ ہیں۔ کوشش کریں کہ کوئی تلخی باقی نہ رہے سب کے سب ایک دوسرے سے پیار کرناسیکھیں اختلاف اپنی جگہ پر ہے سیاسی اختلاف اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے جائیں۔ دعائیں کریںکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سمجھ عطاکرے امن اور محبت اور پیا ر اور آشتی کی فضا میں ہمارے انتخابات لڑے جائیں پھر عوام کی اکثریت جدھر ہو ان کی خواہشات کے مطابق اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہمارا دستور بھی بنے اور ہمارے قوانین بھی بنیں اور اس روح کے ساتھ اور اس محبت کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ ان قوانین کا اجراء ہو اور ایک پاک اور نہایت ہی حسین اور پیارا معاشرہ ہمارے ملک میں قائم ہوجائے۔ یہ ہم چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے یہ تو ہمارا کام ہے لیکن اس سے بہت اہم ذمہ داریاں ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی نصرت جہاں ریز رو فنڈ ہے۔ آج میں اسی سلسلہ میں دو۲ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
ایک یہ ہے کہ جس نے دوسری منزل بنانی ہو وہ پہلی منزل کوکمزور نہیں کیا کرتا جو کام ہمارے جاری ہیں ان میں کمزوری نہیں آنی چاہئے پختگی نہ صرف قائم رہنی چاہئے بلکہ اور زیادہ اس کو پختہ کرنا چاہئے جو کام ہمارے جاری ہیں جیسے صدر انجمن احمدیہ کے وہ کام جو مجلس شوریٰ کے موقع پر پاس ہوئے ہیں پھر تحریکِ جدید کے کام ہیں پھر وقف جدید کے کام ہیں پھر فضلِ عمر فائونڈیشن کا کام ہے(اگرچہ اس نے مزید عطا یا وصول نہیںکرنے لیکن وہ کام ابھی جاری ہے) الغرض جوکام جاری ہیںان کے اندر کمزوری نہیں آنی چاہئے پہلے سے زیادہ ان میں تیزی پیدا ہونی چاہئے پہلے سے زیادہ پختگی ان میںپیدا ہونی چاہئے۔ یہ کام جو ہیں ان کا بہت بڑا حصہ اموال کا مطالبہ کرتاہے اس کیلئے ہمارے لازمی چندے ہیں یادوسرے چندے ہیں وہ بجٹ کے مطابق پورے ہونے چاہئیں ورنہ شوریٰ کے فیصلے کے مطابق کام نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ یہ اسی طرح ہے جس طرح ہم سانس لیتے ہیں اس کا ہمیں کوئی احساس بھی نہیں ہوتا یعنی جس کے لئے ہمیںکوئی کوفت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہم سانس لے رہے ہیں اور تازہ دم ہورہے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس نہیںہوتا پھر دل کی حرکت ہے یہ دوسری مثال ہے دل کی حرکت مسلسل جاری ہے لیکن اس کا بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ دل دھڑک رہا ہے اور اس کے دھڑکنے کے نتیجہ میں ہم زندہ رہ رہے ہیں۔ یہ جو ROUTINE(روٹین) کے کام ہیںیہ صحت مند طریقے سے پختگی کے ساتھ جاری رہنے چاہئیں ان چندوں کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے فضلِ عمر فائونڈیشن کے عطایاکی وصولی کا کام تو اب نہیں ہورہا جو انہوں نے کام اپنے ذمہ لئے ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دینی چاہئے اور جماعت کو بھی یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے یہ بھی بڑی قربانی جماعت کی طرف سے تھی۔
اب یہ نصرت جہاں ریزرو فنڈ ہے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافتِ احمدیہ پر ۶۲باسٹھ سال کے قریب گزر چکے ہیں جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کرکے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں جمع ہوجانا چاہئے۔ اس وقت تک جو وعدے ہوئے ہیں وہ پچیس لاکھ سے اوپر پاکستان کے ہیں اور کوئی بارہ لاکھ کے قریب بیرون پاکستان کے ہیں۔ بیرون پاکستان کے لحاظ سے یہ نسبت بہت اچھی ہے باسٹھ لاکھ کی حد میں سے باقی رہ جاتے ہیںچوبیس پچیس لاکھ لیکن باہر کی جماعتوں میں بعض کا ابھی مجھے علم نہیں مثلاََ میں نے کہاتھا امریکہ کی جماعت سے کہ تیس ہزار ڈالر دو اس فنڈ میں۔
اسی طرح غاناہے لیگوس ہے۔لیگوس کے تو غالباََ بیس ہزار پائونڈ کے قریب یعنی ایک لاکھ ستّر ہزار یا دو لاکھ کے قریب وعدے ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح غانا کو میں نے کہا تھا کہ دو لاکھ دو۔ ان کے انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ ہوجائیں گے پھر افریقہ کے دوسرے ممالک ہیں یا دنیا کے دوسرے ممالک ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بیس لاکھ سے زائد یہ رقم بن جائے گی گو اس وقت تک چودہ لاکھ کے وعدے باہر سے آئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بیالیس لاکھ کے وعدے اور رقوم اپنے وقت تک پاکستان سے وصول ہونی چاہئیں اس وقت جو مجھے دوسو دوست چاہئے تھے جو پانچ پانچ ہزار روپیہ کے وعدے کرنے والے ہوں ان میں سے ابھی صرف ایک سو اکتالیس دوست آگے آئے ہیں دوسو جنہوں نے دو دو ہزار کا وعدہ کرناتھا وہ قریباََ پورے ہوچکے ہیں ان کے ایک سو چھیانوے وعدے ہوچکے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اس مہینہ میںوہ وعدے پورے ہوجائیں گے لیکن میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور آپ کے لئے بھی خوشی کی بات ہونی چاہئے کہ میرا اندازہ تھا کہ جماعت میں سے صرف ایک ہزار آدمی شاید ایسا نکلے جو پانچ سو روپیہ فی کس کا وعدہ کرے اورادا کرے اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے تئیس سو کو یعنی اس سے اڑھائی گنا زیادہ کو توفیق دی ہے کہ وہ پانچ پانچ سو کا وعدہ کریں اور وہ وعدے پورے کررہے ہیں انہوں نے اخلاص سے وعدے کیے ہیں ان اڑھائی ہزارمیں سے( میرا خیال ہے) کئی سو ایسے ہیں جو پانچ پانچ سو روپے سے بڑھ کر ’’ دو ہزار‘‘ تک آجائیں گے یعنی وہ (دوہزار فی کس تک) آسکتے ہیں جس دن بھی میں نے ان کو توجہ دلائی وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس صف میں آجائیںگے اور پندرہ بیس آدمی (جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہوئی ہے) تیس چالیس پچاس ہزار دینے کی وہ بھی پانچ ہزار پر آکر ٹھہر گئے ہیں۔پتہ نہیں کیوں؟ شاید ان کو ذَکِّرْکے حکم کے مطابق یاددھانی نہیں کرائی گئی لیکن میں ان کو چھوڑتاہوں چندہ دینے والے کی نسبت یہ فکر تو ہوتی ہے کہ وہ پیچھے نہ رہ جائے لیکن یہ مجھے فکر نہیں ہے کہ اگر پیسے یہی ہیں تو زیادہ کہاں سے آئیں گے ۔ مجھے پیسے آپ نے نہیں دینے کیونکہ آپ نے مجھے خلیفہ نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور وہ مجھے پیسے دیتا ہے اپنے کاموں کیلئے اوروہ دے گا اس لئے اس کی تو مجھے کوئی فکرنہیں ہے۔ لیکن اس شخص کے متعلق فکر ہوجاتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیادہ دینے کی توفیق دی تھی وہ پیچھے کیوں رہ رہا ہے۔ اور تئیس سو ایسے ہیں جنہوں نے پانچ سو کا وعدہ کیا ہے اور وہ روزانہ بہت بڑھ رہے ہیں۔ آج کی رپورٹ میںبھی شاید دس پندرہ ہیں جو پانچ پانچ سو کا وعدہ کرنے والے ہیں۔
ابھی تو بعض پہلو ایسے ہیں جن کا میںنے اظہار نہیں کیا بعض جماعتیں اور بعض علاقے ایسے ہیں جن کو میںنے ابھی توجہ نہیںدلائی مثلاََ زمیندار ہیں جب ان کی خریف کی فصل ان کے گھروں میں آجائے گی پھر ربیع کی فصل بھی آجائے گی تو ان میں سے بہت سارے (اس تحریک میں شامل ہونے کے لئے) تیار ہوجائیں گے ویسے بھی زمیندار میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ فصل جب تک گھر نہ آجائے اس کا اعتبار نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ ہزارہا آزمائشیں رکھتا ہے میں بھی خاموش ہوں اور وہ بھی خاموش ہیں۔میں خاموش بھی ہوں اور دعا بھی کررہا ہوں۔ کاش! میرے زمیندار بھائی جو ہیں وہ خاموش بھی رہیں اور دعا بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی فصلوں میں برکت ڈالے پھر ان کو توفیق بھی دے کہ اس کی راہ میں پھر قربانیاں دیں اور انشاء اللہ اب مجھے امید ہے کہ یہ تعداد بھی پانچ ہزار تک پہنچ جائے گی اسوقت تک کوئی ستائیس اٹھائیس سوتک ہے کوشش تو زیادہ کی ہے جو پانچ سو سے کم چندہ دینے والے ہیں وہ تو کسی شمار میں نہیں آتے ہمارے شمار میں نہیں آتے اللہ تعالیٰ کے شمار میں تو ہیں وہ بھی اگر ملائے جائیں تو چندہ دینے والے بھی شاید پانچ ہزار تک پہنچ جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے ایک الہام کو سامنے رکھکر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ باسٹھ لاکھ (کم ازکم) روپیہ دینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تعداد کو بابرکت تعداد بنادے ۔ دراصل تعداد بھی کوئی چیز نہیں پیسہ بھی کوئی چیز نہیں اللہ کی برکت چاہئے پھر کام ہوتے ہیں۔ اسی طرح باہر کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں مثلاََ ( حالیہ سفر افریقہ ویورپ میں) میں لنڈن میں ٹھہرا تو انگلستان کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں وہاں ڈنمارک کے ایک دوست آئے ہوئے تھے۔ ڈنمارک بعد کا مشن ہے۔ یہ نوجوان مشن ہے میرا خیال ہے کہ یہ مشن اس چندہ میں یورپ میں سب سے آگے نکل گیاہے۔ دوہزار پائونڈ تک ان کا چندہ پہنچ گیاہے۔ ان کی ( تعداد کے لحاظ سے) تربیت کے لئے زمانہ لازم ہے تربیت زمانہ کا مطالبہ کرتی ہے زمانہ گذرنے پر آہستہ آہستہ تربیت پختہ ہوتی ہے یہی خدا کا اصول ہے ڈنمارک ایک نیا اور نوجوان مشن ہے وہ دوسروں سے آگے نکل گیاہے اب انشاء اللہ تعالیٰ اُمیدہے کہ دوسرے ملکوں کو بھی غیرت آئے گی آج بھی مجھے خط ملاہے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ تحریک ( نصرت جہاں ریزروفنڈ کی) ہمارے ملک کے لئے بھی ہے یانہیں خود تو ہم فیصلہ کرنہیں سکتے اس کے متعلق ہمیں بتایا جائے اب تو یہ تحریک عالمگیر بن گئی ہے۔
ایسے ممالک سے مجھے امید ہے کہ باہر والے بیس لاکھ روپیہ اداکر دیں گے ان کے متعلق تو مجھے امید ہے لیکن پاکستان کے متعلق مجھے یقین ہے کہ یہ پینتالیس لاکھ سے زیادہ رقم دے سکتے ہیں اگر نہ دیں تو ان کی سستی ہوگی اللہ تعالیٰ کے فضل کی کمی اس کا نتیجہ نہ سمجھی جائے گی تو سُستیاں دور کرو باسٹھ لاکھ(کم ازکم) دے دینا چاہئے باقی ہمارا قدم تو آگے ہے اور اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ جو کچھ اس نے قبول کرلیاہے اگر ہم زندگی بھر الحمدللہ پڑھتے رہیں تو اس کی قبولیت کاشکر ادا نہیں کرسکتے ایبٹ آبادمیں ہمارے بچوں کو پتہ لگا کہ ایک دوست کے پاس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ۱۹۵۵ء کی تقریر ریکارڈ کی ہوئی ہے وہ اسے لے آئے میں نے بھی سُنی ساری رات سوچتا رہا اور الحمدللہ بھی پڑھتا رہا خدا کی شان دیکھو کہ ۱۹۵۵ء میں ایک غیر ملکی مہم کے لئے (باہرکسی ملک میں کوئی کام تھا) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساری جماعت سے پینتیس ہزار روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی اور یہ کہا کہ اگر جماعت پینتیس ہزار روپیہ مجھے دے دیگی تو یہ کام ہوجائے گا اب پاکستان میں بھی بہت سارے دوست ہیں انگلستان کے دو دوستوں کے چندے اتنے ہیںکہ جن کی مقدار پینتالیس ہزار بنتی ہے اور وہ دو دوست ایسے ہیں جو دے چکے ہیں میں ایسے دو کے متعلق بتارہا ہوں ان کا نام نہیںلے رہا کہ جنہوں نے نقد دے دیا ایک نے پورے کا پورا اور ایک نے اپنے وعدہ کا پانچواں حصہ دے دیا اور یہ رقم بنتی ہے( ایک کا پانچواں حصہ اور دوسرے کا پورا ادا کردینے کے بعد) پینتالیس ہزار حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت ساری جماعت سے اپیل کی تھی کہ پینتیس ہزار دو تو یہ کام ہوجائے گا۔یہ ۱۹۵۵ء کی بات ہے بڑی دور کی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے پندرہ سال کے اندر اندر ساری جماعت پر اتنا فضل کیاہے کہ ان کی دولت کو کہیں سے کہیں تک بڑھا دیاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے یہ وعدہ بھی کیا گیاتھا کہ ان کے اموال میں برکت دوںگا ان کے اموال میں بڑی نمایاں برکت ہمیں نظر آئی مثال کے طور پریہ جو نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا چندہ ہے اس میں ایک آدمی تین ُگنے کا وعدہ کرکے بیس ہزار میں سے نقد بھی ادا کردیتا ہے اور اخلاص میں بھی برکت پیدا ہوئی۔ ہمارے ملک کے لحاظ سے ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے قریباََ تین ہزارکا پانچ پانچ سو روپیہ کا وعدہ کرنا اور اڑھائی ہزار کا دو دو سو روپیہ نقد دے دینا بڑی چیز ہے دُنیا تو خدا کے نام پر ایک دھیلہ بھی نہیں دیتی۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جو اسلام کی خدمت ہورہی ہے وہ صرف احمدی کررہے ہیں لیکن جماعت کے اندر ایک انقلاب عظیم (میں اس کے نتائج نہیں بتا رہا) پیدا ہوگیا ہے ان کے اخلاص میں برکت اور مال میں برکت اس کے نتائج میں برکت پیدا کردی گئی ۔ کس کس نعمت کا تم شکر ادا کرو گے ایک ہی فضل ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان سچے طور پر سوچے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ خدا کے ایک فضل کے بعد اگر میں ساری عمر الحمدللہ پڑھتا رہوں تو شکر ادا نہیں کرسکتا۔ یہاں تو فضل اتنے ہیں کہ گنے نہیں جاسکتے جو خدا کو نہیں پہچانتے ان پر جو اللہ تعالیٰ فضل نازل کرتا ہے وہ بھی گنے نہیں جاسکتے تو جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی ہے ان پر جو فضل ہیںوہ اللہ تعالیٰ کے نہ پہچاننے والوں کے مقابلہ میں اتنے ہیں کہ وہ گنے نہیں جاسکتے ہمارا تو دماغ چکرا جاتا ہے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہیں انسانی ذہن کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ کرسکے۔ یہ سچائی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتاتو جتنا زیادہ سے زیادہ طاقت میں ہے خداکی حمد کرنا اس کا شکر کرنا، اتنی حمد اور شکر کرو پھر عاجزی کے ساتھ اپنے رب کریم سے کہو کہ تُونے جتنی طاقت ہمیں دی اس کے مطابق جتنا ہم شکر کرچکے وہ ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں تو نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں اور دوں گا اگر ہم میں کمیاں رہ گئیں ہیں کیونکہ ہم تیرے عاجز بندے ہیں تو تو ہمیں معاف کر اورتو ہمارے تھوڑے شکر کو بہت سمجھ اور ہمارے دماغ کو صحتمند کر کیونکہ دماغی بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور ہمارے اخلاص کی کمی کو نظر انداز کردے اے ہمارے خدا! ایسا سمجھ لے اپنے فضل سے کہ واقعہ میں اپنی طاقتوں کو مدنظر رکھ کر جتنا تیرا شکر ادا کرنا چاہئے تھا اتنا ہم نے شکر ادا کردیااور اس کے مطابق ہم سے سلوک کراور اپنے پیار میںاس کے مطابق زیادتی کرتا چلا جا تو یہ دعائیں کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔ نومبر تک چالیس فیصدی کے لحاظ سے موجودہ شکل میں دس لاکھ روپیہ نقد ہونا چاہئے اس وقت پانچ لاکھ سے اوپر ہے لیکن چونکہ کئی دوستوں نے اکٹھی رقم دے دی ہے چالیسواں حصہ نہیں دیا اس واسطے عملاً بارہ لاکھ ہونا چاہئے۔ بعض زمینداروں نے تو اپنے وعدے لکھوا دئیے ہیں اور بعض مجھے یقین ہے کہ ہچکچائے اور اچھا کیا کہ انہوں نے ابھی وعدے نہیں لکھوائے ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ سو نقد ادا کردیں پھر اگلی فصل کا انتظار کریں پھر اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے تو پانچ صد ادا کردیں۔ بہر حال نومبر سے پہلے بارہ لاکھ کے قریب رقم آنی چاہئے وہ آپ یاد رکھیں خدا سے آپ نے وعدہ کیاہے اس کو پورا کریں اور جو یہ منصوبہ ہے نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا یہ تو بنیاد ہے نا اس کے اوپر عمارت بننی ہے وہ اور چیز ہے۔ اس کے اوپر عمارت بننی ہے تیس چالیس ہسپتالوں کی اور اس کے اوپر عمارت بننی ہے ستر،اسی، نوے، سونئے ہائی سکولوں کی اور باہرکے ملکوں کی رقوم کو ابھی میں نے شامل نہیں کیا۔ بہت سے عیسائی پیرامائونٹ چیف ایسے ہیں جنہوںنے لکھا ہے کہ زمین بھی ہم مفت دیں گے اور تعمیر بھی ہم مفت کرکے دیں گے(اور وہ ہمارے نام رجسٹری بھی کروا دیتے ہیں)۔ آپ یہا ں ڈاکٹر بھیجیں کیونکہ یہا ں ڈاکٹروں کی بڑی ضرورت ہے ۔ ان کی قیمتوں کا تو اندازہ نہیں ہمارے ملک کے لحاظ سے لاکھ لاکھ روپے کی وہ زمین اور عمارت ہے وہ ہم نے شمارنہیں کی ایسے ایسے وعدے ہیں جوانہوں نے کئے ہیں۔اللہ تعالیٰ جب قبول کرتا ہے اپنے بندہ کی عاجزانہ پیش کش کو تو اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس میں برکت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ حاسد بھی پیدا ہورہے ہیں اور عیسائی بدمذہب مشرک جوہیں وہ مائل بھی ہورہے ہیں تو قبولیت کے دونوں نتیجے جو نکلنے چاہئیں وہ نکل رہے ہیں۔ لیکن ’’لافخر‘‘ ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں کوئی فخر نہیں ہے اپنی کوئی ذاتی خوبی نہیں ہے نہ مجھ میں ہے نہ آپ میں ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تمام حسن واحسان کا وہی سرچشمہ ہے اس کا انعکاس کہیں زیادہ چمک کے ساتھ ظاہر ہوجاتاہے کہیں ذرا مدہم شکل میں انعکاس ہوجاتا ہے سب اسی کے سائے ہیں سبھی اس کے انعکاس ہیں اسی کی روشنی کی چمکار ہے تو تکبر اور غرور اور فخراور ریا جیسے شیطانی وسوسے دل میں نہیں پیدا ہونے چاہئیں۔اللہ فضل کررہا ہے ہم اس کے عاجز بندے ہیں وہ فضل کرتا چلا جائے گا کیونکہ اس نے خود یہ کہا ہے کہ میں اس وقت تک جماعت احمدیہ پر فضل کرتا چلاجائوں گا جب تک کہ تمام دنیا کے عیسائی تمام دنیا کے دھریہ اور تمام دنیا کے بد مذہب جو ہیں وہ اسلام اور احمدیت میں داخل نہیں ہو جائیں گے اور جو باہر رہیں گے ان کی حیثیت چوہڑوں چماروں کی طرح بن جائے گی یہ تو ایسا فیصلہ ہے جو ہوکر رہے گا دنیا دنیوی لحاظ سے اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھتی ہے لیکن ان ساری طاقتوں کو اور ان طاقتوں کو جو ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک حکم ’’کن‘‘ کے ساتھ پیدا کردیا۔ اسی ایک حکم کے ساتھ جب وہ چاہے گا اسے مٹا دے گا تو دنیا پتہ نہیں کس چیز پر فخر کرنے لگ جاتی ہے پس آپ کو کہیں شیطان ورغلانہ دے۔ آپ کے دل میں وسوسہ نہ پیدا ہو جماعت بڑی قربانی کررہی ہے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جماعت قربانی دے۔ اگر اس کا فضل شامل حال نہ رہے تو آپ ایک دھیلے کی قربانی نہیں کرسکتے اور فضل کے بغیر جس دھیلے کی آپ قربانی کریں گے اللہ تعالیٰ اسے ہاتھ سے پکڑ کر تمارے منہ پر مارے گا کہ لے جائو اسے مجھے غیر مخلص پیسہ نہیں چاہئے اپنی فکر کرتے رہو اور خدا کے دامن سے چمٹے رہو دنیاکی کوئی طاقت آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور شیطان کے سب حملے خواہ کسی شکل میں کسی طاقت کے ساتھ ہوں وہ ناکام ہوکر واپس چلے جائیں گے کیونکہ آپ کو شیطان اپنے پیدا کرنے والے رب کی گود میں پائے گا اور وہ اس سے خوف کھائے گا پس دعائیں کرو اللہ کے دامن کو نہ چھوڑو۔ اہل دنیا سے پیار کرو ان سے نفرت نہ کرو کسی سے دشمنی نہ کرو کسی کودکھ نہ پہنچائو اور وہ جو تمہیں دکھ پہچانے والے ہیں اور تمہارے ساتھ دشمنی کرنے والے ہیں ان سے فکر مند بھی نہ ہو ۔ جو جائز تدبیرہے وہ بہر حال ہم نے کرنی ہے کیونکہ خدا کا یہی حکم ہے لیکن اس جائز تدبیر کے بعد آپ کے لئے خائف ہونے کی کوئی وجہ نہیںکیونکہ خدا کہتا ہے کہ یہ ناکام ہونگے۔ جس کے کانوں میں خداتعالیٰ کے میٹھے بول پڑ رہے ہوں اسے دنیا کی کِس طاقت سے ڈر ہے خدا کرے کہ آپ کو سننے کی بھی توفیق عطاکرے۔ (اللّٰھم اٰمین)
(از رجسٹر خطبات ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز







بعثتِ مسیح موعودؑ کا مقصد حقیقی توحید اور رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا قیام ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۹؍ اکتوبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرابندہ عاجز اور ناکارہ پُرخطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہواور میری خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ توغفورورحیم ہے۔ مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دُوری ڈال اور میری زندگی اورمیری موت اور میری ہر ایک قوت جومجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کام محبّین میں مجھے اُٹھا۔ اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور عاجز کے ہاتھ سے حجتِ اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس کے مخلصوں اور ہم مشربوں کومغفرت اور مہربانی کی نظر سے ظِل حمایت میں رکھ کر دین ودنیا میں آپ ان کا متکفّل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضاء میںپہنچا اور اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود وسلام وبرکات نازل کر۔ آمین یا ربّ العالمین۔ (الحکم۱۳/۶،اگست۱۸۹۸ء صفحہ۱۳،۱۴)
پھرآپ فرماتے ہیں:
’’اے میرے قادرخدا! میری عاجزانہ دعائیں سن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوںکی پرستش دنیا سے اٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راست بازاور موحّد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندرپانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے۔ آمین اے میرے قادر خدا! مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے۔ اے قادرخدا! ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۶۰۳)
ان اقتباسات میں جو ابھی میں نے پڑھ کر سنائے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی حجت تمام مخالفینِ اسلام پر پوری ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ اسلام کے حسن اور خوبیوں کو جاننے اور پہچاننے لگیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید انسانوں کے دل میں پیداہوجائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کے حسن واحسان کے جلوے بنی نوع کے دل منّور کریں اور پھر آپ نے اپنے متبعین کے لئے دعا فرمائی ہے جو اس کام میںآپ مدد گار اور معاون بنیں۔
حُجتِّ اسلام بنی نوع انسان پرپوری کرنا آسان کام نہیں ہے۔ دنیااسلام کے حسن اور اسلام کے احسان سے واقف نہیں۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پہچانتے ہی نہیں یا اس کی معرفت ہی نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں یا اس کو بے بس اورکمزور سمجھتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی سے انہیں پیا رنہیں۔ دنیا اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہے ہزار بدظنّیاں ہیں، ہزار جہالتیں ہیں، جو غلط خیالات اور غلط تصورات دل میں جماتی ہیں تعصبات ہیں، یہ احساس ہے کہ انہیں سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اسلام کو کمزور کرنے اور اس کے حسن کو چھپانے کے لئے بے شمار منصوبے بنائے جاتے ہیں تمام دنیا کی طاقتیں اسلام کے مقابلہ پر اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ہمارے دل میں بنی نوع کی محبت ہے اسلئے ان کو جہنم کی آگ سے بچانا بڑا اہم اور بڑاضروری ہے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ ہم عاجز اورکمزور ہیں۔ ہمیں اپنی ذات پر یا اپنی طاقتوں پر یا اپنے علم پر یا اپنی فراست پر یااپنے جتھے پر بھروسہ نہیں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ ظاہری لحاظ سے دنیاکی دولت کے مقابلہ میںہمارے پاس دولت تو یوں کہنا چاہئے ہے ہی نہیں اور دنیا کی طاقتوںکے مقابلہ میں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیںہے اور دنیا کی تدبیروں کے مقابلہ میں ہماری تدبیر نہایت ہی عاجز اور کمزور ہے اور جہاںتک ہماری ذات اور ہمارے نفس کا تعلق ہے ہمیں اس احساس کو اپنے دلوں میں زندہ اور قائم رکھنا چاہئے کہ ہم لاشئے محض ہیں اور انتہائی طورپرعاجز ہیں۔ اگروہ ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی ہم پر ذمّہ واری ہوتی تب بھی ممکن نہیں تھا کہ ہم اس ذمہ داری کو اپنی طاقت سے نبھا سکتے لیکن یہاں تواس سے کہیں زیادہ ہم پر ذمّہ داری ڈالی گئی ہے یہ کوئی سہل اور آسان کام نہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول کی محبت سے بھردیا جائے اور اس طرح پر اسلام کی حُجّت کو ان پر پورا کردیا جائے۔
دوسری بات جو یہاںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائی ہے یہ ہے کہ جہاں ہمارے دلوں میں عاجزی اور بے کسی اور بے مائیگی کا احساس ہو اور شدت کے ساتھ زندہ احساس ہو وہاں ہمیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک اور سرچشمہ ہے اورکوئی چیز اس کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رکھی جاسکتی اور نہ اس کی مدد اور نصرت کے بغیر حاصل کی جاسکتی ہے کمزور تو ہیں ہم لیکن اگر ہمارا زندہ تعلق اپنے رب کریم سے پیدا ہوجائے تو ہم محض اس کی مدد اور نصرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یہاںایک اور بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حصول کے لئے حقیقی دعا کی ضرورت ہے۔ ہم دعا کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اورنصرت کو حاصل نہیں کرسکتے۔ اسلئے جودعا نہیں کرتا وہ اپنے بے نیاز اور غنی خدا سے دوررہتا ہے جو اس کی پرواہ نہیںکرتا اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا دعاحقیقی ہونی چاہئے۔ دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ ہونی چاہئے لیکن دعاہونی چاہئے اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اورنصرت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کے مضمون پر بڑی تفصیلی اور گہری بحث کی ہے۔ ایک فلسفی دماغ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ایک عام انسان کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآئُ کُمْ۔ (سورۃ فرقان :۷۸) کہ جب تک تم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو پختہ نہیں کروگے اور اس کی قدرت اور طاقت کو جذب نہیں کروگے اس وقت تک اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا اور جب اللہ تمہاری مدد نہیں کریگا توتم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مختصر سی دعا میں ہم پریہ واضح کیا ہے کہ اگر ہم اپنے مقصد کو پہچانتے ہیں جو یہ ہے کہ حجتِ اسلام ساری دنیا پر پوری ہوجائے۔ اگر ہم اپنے نفس کی عاجزی اور بے کسی کا احساس رکھتے ہیں، اگرہم اپنے ربّ کی کامل طورپر معرفت رکھتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ جوتی کا تسمہ ہو یا تمام دنیا میں حجتِ اسلام کو پورا کرنا ہو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسلئے ہر دم اور ہرآن اپنی بقا اور اپنی جدّوجہد میں کامیابی اور مثمر ثمرات ہونے کیلئے اللہ تعالیٰ کی قوّت اور اس کی طاقت اور اس کی مددو نصرت کی ضرورت ہے اسلئے آج میں پھر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دعائوں کی طرف بہت متوجہ ہوں اور عاجزانہ طورپر اور عاجزی کے اس احساس کو شدّت کے ساتھ اپنے دل میں پیدا کرکے اور سوزو گداز کے ساتھ اور ایک تڑپ کے ساتھ محبّتِ ذاتیہ الٰہیہ کی آگ کے شعلوں میں داخل ہوکر وہ اپنے ربّ کے حضور پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے پانی سے اس تپشِ محبت کو ٹھنڈا کردے اور سرورِ محبّت عطا فرمادے۔ ہمارے دلوں، دماغوں اور روح میں سرور پیداکرے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ مقصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا ہے اور جس کی ذمّہ داری آج ہمارے کندھوںپرہے ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجائیں۔ دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ ہم سے مخالفت سے پیش آتی ہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں جس چیز کی ہمیں پرواہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کوپائیں۔ دنیا ہمیں پہچانتی نہیں اور چونکہ وہ ہمیں پہچانتی نہیں اسلئے ہزار قسم کے جھوٹ ہمارے خلاف بولے جارہے ہیں ہر شخص اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ہمارے خلاف زبان دراز کرے اور ہمارے خلاف جتنا چاہے جھوٹ بولے اور دنیا کی سب طاقتیں ہمارے خلاف مجتمع ہوگئی ہیں اوراکٹھی ہوگئی ہیں۔وہ چاہتی ہیں کہ اسلام غالب نہ ہو۔ لیکن خداچاہتا ہے کہ اسلام غالب ہو یہ عیسائی اور یہ مشرک اور یہ دہریہ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے کہ اسلام کو مغلوب کردیں اور مغلوب رکھیں۔ اسلام ان پر ضرور غالب آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے لیکن زمین پر اس نے ہم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم دعا اور تدبیر کو کمال تک پہنچا کر خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کواپنے نفسوں میں اوراپنی زندگیوں میں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم تو صرف اس حدتک کرسکتے ہیں جس حد تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذرائع اور اسباب عطا کئے ہیں ہم اس سے زیادہ نہیں کرسکتے لیکن دعا بھی ایک تدبیر ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کو اس کے کمال تک پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک شخص کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس کے حضور جب عاجزانہ جھکے توگِریہ وزاری اور سوز وگداز کو انتہا تک پہنچا کر ایک ایسی آگ اپنے گرد جلادے اور اس آگ کو اتنا تیز کردے کہ اس کانفس باقی نہ رہے اور اپنے اوپر ایک موت وارد کردے تاکہ اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو اور اس نئی زندگی پانے کے بعد اسے اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ملے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہوجائے پس دعائوں کی طرف بہت ہی توجہ دیںاور ہماری حقیقی دعا یہی ہے کہ اے خدا! جیسا کہ تونے چاہا ہے ہمیںتوفیق دے کہ ہم تیری مدد اور نصرت کے ساتھ حجتِ اسلام ساری دنیا پر پوری کرنے والے ہوں اور اسلام کا حسین چہرہ ہمارے وجودوں ،ہمارے افعال واقوال سے نظر آجائے وہ حقیقی توحید کی معرفت حاصل کریںاور سچاعشق اور محبّت تیرے ساتھ پیدا ہوجائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو،آپ کے جلال کو اورآپ کی صداقت کو اور آپ کے حسن واحسان کو پہچاننے لگیں اور اس پہچان اور معرفت کے نتیجہ میں ان کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے معمور ہوجائیں۔
دعاہماری زندگی کا، ہماری جدوجہد کا اور ہماری کوشش کا سہارا ہے۔ دعا کو اپنے کمال تک پہنچائو اپنے رب پرپورا بھروسہ رکھو کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں ہے۔ اگراس کی رضا کو پالوگے، اگر اس کی خوشنودی اور محبت کو حاصل کرلو گے تو دنیا جو چاہے کرلے دنیا کی آج کی طاقت اور کل کی طاقت مل کر بھی تمہیں غلبۂ اسلام سے روک نہیں سکتی اور تمہیں ناکام نہیں رکھ سکتی اپنی انتہائی قربانیاں اپنی انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے ربِّ کریم کے حضور پیش کرو اوردعائیں کرو کہ وہ انہیں قبول کرے اوراپنی مدد ونصرت کا وارث بنائے تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو ۔(اللّٰھم اٰمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ۳ تا۵)
ززز



حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر
ایمان لانے کے چاربنیادی تقاضے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍ اکتوبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
تشہّدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ پڑھی۔

(النّسآ ء:۱۷۱)
اورپھرفرمایا:-
’’ایک سلسلہ خطبات کا میں ’’اپنے ایمانوں کو مضبوط اور مستحکم کرو‘‘ کے مضمون پر دے رہا ہوں۔ قبل اس کے کہ میں آج کے خطبہ کا مضمون بیان کروں میں دوستوں سے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔پچھلی گرمیوں میںکچھ بے احتیاطی ہوگئی اور میرے خون میں شکر معمول سے زیادہ ہوگئی۔ پہلے قریباً دوسال ہوئے اس سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بغیر کسی علاج کے اس وقت صحت دے دی اور خون کی شکر معمول پر آگئی۔ دوست دعا کریں کہ اب بھی اللہ تعالیٰ اس عاجز بندے پر رحم فرمائے اور صحت عطاکرے حقیقی شافی وہی ہے۔
ایمان کے مختلف تقاضے ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے کیا ہے بعض تقاضوں کے متعلق میں اپنے پچھلے خطبات میں مختصراً بتا چکاہوں آج ایمان کے جس تقاضے کے متعلق میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے۔قرآن کریم کا اگر آپ غوراور تدبر سے مطالعہ کریںتو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ مضمون بڑی وسعت اوربڑی وضاحت اور بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تواس سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہوتی ہے؟
محض یہ کافی نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں یا محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم آخرت پر ایمان لائے محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور یہ سمجھ لینا کہ ہم اس طرح اپنی ذمہ داری کوپورا کرچکے ہیں درست نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانا اللہ کے نزدیک کب صحیح اور درست ہوتا ہے ابھی میں نے بتا یا ہے میں اس تفصیل میں تونہیں جاسکتا جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان بھی اس کی کامل تفصیل میںنہیں جاسکتا کیونکہ ہر صدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن و احسان کے نئے جلوے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتی ہے بہت کچھ ہمارے بزرگوں نے کہا،مختصر سا میں جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی دوسری تقاریر میں بھی اور خطبات میں بھی کہہ چکا ہوں۔ اس وقت میں چارباتیں یا یوں کہو کہ ایمان بمحمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے چارتقاضوں کے متعلق بیان کروں گا۔
قرآن کریم نے اصولی طورپر توہمیںیہ کہا ہے کہ کامل حق کے ساتھ ہمارے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری طرف مبعوث ہوچکے فَاٰ مِنُوْا پس آپ پر ایمان لائو خَیْرًا لَّکُمْ دین اور دنیا کی بھلائی تم اس میں پائو گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو اس مضمون کی یاددھانی کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے الہام کیا:
’’کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمََّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۵) یعنی ہر خیر اور برکت کا سرچشمۂ حقیقی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ آپ کے علاوہ کہیں بھی دین یا دنیا کی حقیقی بھلائی انسان حاصل نہیں کرسکتا توجہاں بہت سی آیات میں آپ پر ایمان لانے کا ذکر ہے میں نے ان میں سے یہ آیت اس لئے منتخب کی ہے کہ اس میں یہ اصول بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو تاتم ہر قسم کی خیر اور بھلائی پائو۔ پس قرآن کریم اور احادیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ آپ کو ’’خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ سمجھا جائے اور تمام روحانی برکتوں کا سرچشمہ آپ کے وجود کو سمجھا جائے۔ اسی لئے احادیث میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ حضرت آدم یا حضرت نوح یا حضرت ابراہیم یا حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے آسمانی برکات کو محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ روحانی کے بغیر حاصل کیا اور یہ کہ دیگر انبیاء جو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے ان کا رشتہ محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم سے نہیں تھا آپ نے فرمایا کہ میں آدمؑ سے بھی پہلے نبی اور خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ تھااور اس طرح ہمیں یہ سمجھایا کہ حضرت آدمؑ کو بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاج تھی حضرت نوحؑ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور وہ جوکہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا کی طرف مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں میں مبعوث ہوئے ان تمام انبیاء کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض روحانی کی احتیاج تھی۔ آپ کے بغیروہ روحانی درجات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اور آپ کی جسمانی بعثت کے بعد امت محمدیہ میں اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب جو اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ جس کثرت سے ہم سمندر کا پانی بھی نہیں دیکھتے، وہ بھی ہر برکت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کرنے والے تھے اور ان کے وجود کا ہر ذرّہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا تھا نہ آپ سے پہلے اللہ کے ایسے محبوب گزرے نہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب ہوئے جنہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افاضۂ روحانی کی احتیاج نہ ہو، ہر ایک محتاج تھا آپ سے برکات کے حصول، کا ہر ایک نے اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندرجتنا اس کا ظرف تھا ، جتنا اس کا پیالہ تھا اتنا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات سے بھر لیا اور خدا کا پیارا ہوگیا پس اس معنیٰ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے ہر شخص کے دل میں یہ یقین ہونا چاہئے کہ کوئی روحانی برکت یا حقیقی جسمانی فیض حاصل نہیں ہوسکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو باقی ظاہر میں دنیوی لحاظ سے بعض کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن یہ عارضی خوشیاں ان مسرتوں کے مقابلہ میں نہیں رکھی جاسکتیںجوایک عاجز انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضۂ روحانی سے اپنے رب سے حاصل کرتا ہے ۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ایک تقاضایہ ہے کہ آپ کو اس معنی میں خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ مانا جائے کہ کوئی روحانی برکت اور آسمانی فیض آپ کی وساطت اور آپ کے طفیل کے بغیر انسان حاصل نہیں کرسکتا۔
دوسری بنیادی چیز اور اہم تقاضا جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا کی حقیقی زندگی آپ کے بغیر انسان حاصل نہیں کرسکتا۔ قران کریم نے بڑی وضاحت سے یہ دعویٰ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے۔یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(الانفال:۲۵)کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حیات بخش ہے ، اس آیت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرنا آپ کی بات کو ماننا، آپ کے کہنے پر چلنا حیات بخش ہے یعنی اس سے زندگی حاصل ہوتی ہے جس کے معنے یہ ہیںکہ جو شخص آپ کی بات قبول نہیں کرتا اور آپ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہیں وہ حقیقی حیات اور سچی زندگی سے محروم ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانتے نہیں ان میں جو زندگی ہمیں نظر آرہی ہے وہ اس زندگی کے مانند اور مشابہ ہے جوچھپکلی کی دم میں ہوتی ہے جب دُم اپنے جسم سے کٹ جاتی ہے تو کئی منٹ تک وہ ہلتی رہتی ہے اس میں حرکت ہے اوراس میں بظاہر زندگی کے آثار ہیں لیکن حقیقی زندگی نہیں ہے اس کو ایک بچہ بھی سمجھتا ہے کہ جب دُم کٹ گئی تواس دم کی کیا زندگی ہے؟ بعض دفعہ پندرہ منٹ تک چھپکلی کی دم اپنے جسم سے کٹنے کے بعد زندگی کے مشابہ ایک چیز ظاہر کرتی ہے اور انسان اسے بخوبی سمجھتا ہے جو زندگی ابوجہل کی ہمیں نظر آتی ہے یا جوزندگی فرعون کی ہمیں نظر آتی ہے یا جو زندگی دوسرے ان لوگوں کی ہمیں نظر آتی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کی آواز کوٹھکراتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے مقابلہ میں گزاری ہے وہ چھپکلی کی دُم کی زندگی ہے اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اس لئے کہ زندگی جن چیزوں کا مجموعہ ہے وہ اس زندگی میںہمیں نظر نہیںآتی لیکن یہ خود ایک مستقل اور لمبا مضمون ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا۔ اصولاً میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حقیقی زندگی پانے کے لئے اور ابدی حیات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوں۔
تیسرا تقاضا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا۔(الاحزاب:۲۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ انسان کو صحیح الفطرت پیدا کیا گیا ہے بہت سے انسان جن کی جسمانی فطرت مسخ ہوچکی ہوان کے دل میں فطری اور طبعی طورپر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے تعلق پیدا ہوجائے اور اس زندگی کے بعد جو دوسری زندگی انسان کو ملنے والی ہے یعنی اخروی زندگی اس کی خوشحال زندگی بنے اور اس کی طبیعت اندر سے یہ بتارہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے اور آخرت کی نعماء کا وارث بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا ایسے لوگوں کی فطرتی آواز کو قبول کرنے کے لئے اور ان کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے ہم دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیںکہ اگر خدا کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو جو تمہاری فطرت کی آواز ہے، اگر تم اخروی زندگی کی نعماء پانا چاہتے ہو، اگر تم خداتعالیٰ کی صفات حسنہ کا مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف ایک راستہ کھلا ہے اور وہ راستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے پس تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو ، آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائو۔جس راستہ پر آپ چلے اس راستہ پر قدم رکھو۔ جن راہوں کو آپ نے چھوڑا انہیں ترک کردو۔ آپ کارنگ اپنے نفسوں پر چڑھائو۔ آپ کی محبت میں اپنی طبیعتوں کو فنا کردو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اسلئے جب تم اس رنگ میں رنگین ہو جائوگے تواپنی قوت اپنی فطرت اور استعداد اور اپنے مجاھدہ اور کوشش کے مطابق تمہارے اوپر بھی وہ رنگ چڑھ جائے گا اور اس طرح تم خدا تعالیٰ کی رضا کو بھی حاصل کرلوگے اور اخروی زندگی کو بھی حاصل کرلوگے۔ اس آیت میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے خصوصاً اس مضمون میں جو میں بیان کررہا ہوں اس ورلی زندگی کی نسبت اخروی زندگی کی نعماء پر زیادہ زوردیا گیا ہے چونکہ یہ عارضی زندگی ہے اوربڑی چھوٹی زندگی ہے اور اسی پر بناء ہے جنت کی نعماء کے حصول کیاگر انسان اس دنیا میں اندھا ہے تو اس دنیا میں اسے آنکھ نہیں مل سکتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اخروی زندگی کے نعماء کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تم صفات باری کے مظہر بنو اور اپنی استعدادکے دائرہ میں صفات باری کا مظہر بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات پرغور کرو۔ یہاں دراصل دوباتوں پر غور کرنے کی بنیادی تعلیم دی گئی ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غورکرو ۔
دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حسنہ پرغورکرو۔ پھر تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اور یہ کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا آپ کی پیروی اور اتباع اور آپ کا رنگ اپنی طبیعت پر چڑھانے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ تو جو شخص اُخروی زندگی کے لئے جس کو ہم نہ ختم ہونے والی زندگی کہتے ہیں کوشش کرے گا اس کی یہ دنیاوی زندگی خودبخود سدھر جائے گی وہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرلے گا لیکن اس آیت کریمہ میں زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ اپنی اُخروی زندگی کی فلاح اور بہبود کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور اس کا یہی راستہ ہے جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ کامل حق کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوچکے تو اگر تم بھلائی اور خیر چاہتے ہوتو تمہیںآپ کے دعویٰ کوبھی اورآپ کی ہدایت کو بھی قبول کرنا پڑے گا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا پڑے گا۔ سواس کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ضروری ہے تم اس کے بغیر نہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہو اور نہ اُخروی زندگی کی نعماء کو حاصل کرسکتے ہو۔
چوتھی بنیادی بات جو اِیمَانٌ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا تقاضا ہے یہ ہے کہ انسان کی پیدا ئش کی غرض یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔
( اٰل عمران:۳۲)
میرے نزدیک وہاں اسوۂ حسنہ پر زیادہ زور دیا گیا تھا اور اُخروی زندگی پر اور یہاں زیادہ زور بنیادی طورپر ورلی زندگی پر دیاگیا ہے زمانہ کی تخصیص کے لحاظ سے یہ حصہ پہلے لے لینا چاہئے تھا لیکن اہمیت کے لحاظ سے ابدی حیات بہت زیادہ اہم ہے اس لئے میں نے اسے پہلے سے لے لیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اس دنیا میں محبوب الٰہی بننے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگرتم محبوب الٰہی نہ بنو گے توجو چیز تمہیں حیات ابدی کی خوشیوں کی وارث بناتی ہے وہ حاصل کرنے کے لئے جہنم کے ہسپتال میں سے گزرناپڑے گا۔ اسلئے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اسی دنیا میں تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو اور جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ان کی علامات جو قرآن کریم نے بتائی ہیں وہ بڑی وسیع ہیںاورمختلف پہلوئوں سے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے جب تک انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے محبوب نہیں اسے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ و ہ اُخروی زندگی میں خدا کا محبوب ہوگا اور یہ کہ اس کی نعماء کوپالے گا اور اس کی محبت اور رضا کو حاصل کرے گا یا اس کی رضا کی جنتوں کے مختلف جلوے اس پرظاہر کئے جائیں گے یہ اس کا خیال خام ہے اس واسطے فرمایااس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا تمہارے لئے ضروری ہے ورنہ جس مقصد اور غرض کیلئے تمہاری پیدائش ہوئی ہے وہ مقصد اور غرض پوری نہ ہوگی اور طریق یہ بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کروخدا کے محبوب بن جائو گے۔
پھر یہ بتایا کہ محبوب محبوب میں فرق ہوتا ہے ایک محبوب تومحمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب ہم کہتے ہیں کہ آپ صفات باری کے مظہراتم تھے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے اور یقین کرناپڑتا ہے کہ آپ سے زیادہ کسی اور انسان سے اللہ تعالیٰ نے پیار اور محبت نہیں کی۔ کیونکہ دوسرے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم نہیں انہوںنے وہ قرب حاصل نہیں کیا جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کیا انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ مثال ہمارے سامنے رکھ دی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مظہراتم ہونے کی وجہ سے محبوبیت کا ملہ کے وارث ہیں اس سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہوسکتااورہم عاجز انسان بندے ہیں اس اتباع کے باوجود ہم تیری محبت کیسے حاصل کریں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تسلی رکھو اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنے اوپر چڑھاکر اپنی استعداد کے مطابق میری صفات کے مظہر بننے کی کوشش کروگے تو میں تمہای غلطیاں دور کر دوں گا۔ پس اس آیت میںبڑی امید دلائی گئی ہے یَغْفِرْلَکُمْ یہ نہ سمجھنا کہ اتنا بلند اور ارفع وجود ہے انسان وہاں کیسے پہنچے گا اورپھر مایوس ہوجانا اور کفر اور الحاد کے اندر ملوث ہوجانا۔
توایک طرف یہ کہا کہ یہ نمونہ ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرو اسی وقت شیطان دل میں وسوسہ پیدا کرسکتا تھا کہ یہ نمونہ اتنا بڑا ہے کہ تم وہاں تک نہیںپہنچ سکتے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا نہیں تمہاری فطری کمزوریاں ہیں ان کی وجہ سے جوتم سے غلطیاں، کوتاہیاں اور غفلتیں ہوں گی ان سے گھبرانا نہیں کیونکہ’’ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے آپ کا مظہر بننے کی کو شش کرو تمہاری خطائیں،گناہ، غفلتیں، کمزوریاں معاف کردی جائیںگی۔ یہ ہمیں امید دلائی ہے اور ہمارے دل اور ہماری روح کو امید سے بھر دیا ہے اوریہاں ہمیں یہ حکم دیا کہ خالی یہ کہنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے کافی نہیں محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو مظہر اتم صفات باری سمجھتے ہوئے آپ سے انتہائی محبت کی جائے اور محبت کے نتیجہ میں آپ کی اتباع کی جائے یہاں اتباع کا لفظ ہے جو نتیجہ ہے محبت کا، اس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو اور جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کی اتباع کررہا ہوتا ہے اور اس کے قدم چومتا ہے، اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگاتا ہے، اس کے پائوں کی خاک کو اپنا سرمہ سمجھتا ہے ، وہ اپنی جان اس پر فدا کررہا ہوتا ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق وہ کامل اتباع کررہا ہوتا ہے، تو تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرووہ میرا محبوب ہے اس کی اتباع کرو تومیری محبت مل جائے گی اور شیطان تمہارے دل میں یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ تم کمزور اور عاجز بندے ہوہزارغلطیاں کرتے ہو، ہزار کوتاہیاں تم سے سرزد ہوجاتی ہیں اس کی فکر نہ کرو ہمارا تم سے وعدہ ہے کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہوکر آپ کی اتباع کروگے توتمہاری کمزوریوں کے باوجود میں تمہیں اپنامحبوب بنالوں گا۔
اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کواپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانک دے اور ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رنگ میں محبت کرنے والا پائے جس رنگ میں وہ انسان سے خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا ہو۔اللّٰھم اٰمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ۳ تا۶)
عاجزانہ دعائوںکے ساتھ تحریک جدید کے
سینتیسویں سال کا اعلان
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۳؍اکتوبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔

(الجمعۃ :۱۲)
اور پھر فرمایا:-
پچھلے جمعہ مَیں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ میرے خون کی شکر معمول سے کافی بڑھ گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے بغیر دوائی کے استعمال کے گزشتہ اتوار کو خون کاجودوسراامتحان ہوااس میں خون کی شکر۲۶۲ سے گر کر۲۲۱پر آگئی تھی یہ بھی زیادہ ہے بہرحال دوست دعا کرتے رہیں اس عرصہ میں پیچش کا مجھے تیسرا حملہ ہوا ہے یہ مرض پیچھا نہیں چھوڑتی دوائی کھاتا ہوں آرام آجاتا ہے دوائی چھوڑ دیتا ہوںتو پھر حملہ کردیتی ہے۔ اسی طرح چل رہا ہے پھر صبح سے گلے کی خراش اور نزلے کی تکلیف شروع ہوگئی ہے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ساری زندگی کام کی زندگی بنائے۔ان تین دنوں میں انصاراللہ کا اجتماع ہے انصاراللہ کے دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بھی کافی بڑا پروگرام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور عاجزانہ دعائوں کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں جو یکم نبوت(یکم نومبر) سے شروع ہوگا یہ نیا سال تحریک جدید کے دفتر اوّل کا سینتیسواں۳۷ سال ہے اور دفتر دوم کا ستائیسواں۲۷ سال ہے اور دفتر سوم کا چھٹا سال ہے۔
دو۲سال قبل میں نے جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے کام کی طرف پہلے سے زیادہ متوجہ ہوں اور زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار دکھائیں اور اپنی نئی نسل کو زیادہ بیدارکریں اور انہیں قربانیوں کے لئے تیارکریں دفتر سوم کی ذمہ داری تو انصار اللہ پر ڈالی گئی تھی ا س میں بھی ابھی کافی سستی ہے۔
اس دو۲ سال میں وہ ٹارگٹ جو میں نے تحریک جدید کے سامنے رکھا تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ تحریک کے تعلق میں جماعت کے سامنے رکھا تھا وہ یہ تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کی یہ مالی قربانی سات لاکھ نوے ہزار روپے ہونی چاہئے مگر جماعت اس ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکی کچھ جائز وجوہات بھی ہیں۔ پہلے فضلِ عمر فائونڈیشن کے چندوں کا زائد بار تھا اب بار تونہیں کہنا چاہئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے جو دروازے کھولے تھے ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے یا اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکے جتنا کہ ہمیں اٹھانا چاہئے تھا یا جتنا ہمارا پیارا رب ہم سے توقع رکھتا تھا کہ ہم اٹھائیں گے۔ باوجود فضل عمر فائونڈیشن کی زائد قربانیوں کے جو جماعت دے رہی تھی پھر بھی پہلے کی نسبت تحریک نے ترقی کی ہے پینتیسویں ۳۵ سال میں چھ لاکھ تیس ہزار تک پہنچے اور چھتیسویں سال میں چھ لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچے اور سات لاکھ نوے ہزار تک جو میں نے ٹارگٹ مقرر کیا تھا اس میں ابھی ایک لاکھ پچیس ہزار کی کمی ہے کیونکہ اس عرصہ میں’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘کابھی مطالبہ ہوا ہے یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے۔ مغربی افریقہ کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ ہوا ہے۔ اس لئے میں نے سات لاکھ نوّے ہزار کا جوٹارگٹ رکھا تھا کہ یہاں تک جماعت کوپہنچنا چاہئے اس میں کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا لیکن میں امیدرکھتاہوںکہ جماعت اس سال انشاء اللہ وہاںتک پہنچ جائے گی۔
بعض جماعتوں نے اس طرف توجہ دی ہے بعض نے بڑی غفلت برتی ہے اگرہم جماعتوں کا سرسری جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ کراچی کی جماعت اپنے ٹارگٹ کوپہنچ گئی ہے جب میں نے یہ اعلان کیاتھا یعنی سات لاکھ نوے ہزار کاٹارگٹ مقرر کیا تھا تو دفتر تحریک نے ہربڑی جماعت اور ضلع کا نسبتی طورپر ٹارگٹ مقررکردیایعنی چونتیسویں پینتسویں سال کا چندہ تھا اس کے ٹوٹل اور سات لاکھ نوے ہزار کی جونسبت بنتی تھی اس نسبت سے تحریک نے کہا کہ ہر جماعت اور ضلع اتنا زیادہ دے دے تو جو ٹارگٹ ہے وہ پورا ہو جاتا ہے۔ اس نسبت سے یعنی سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے لحاظ سے کراچی کو جتنا دینا چاہئے تھا اتنا اس نے دے دیا ہے۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔ اسی طرح اسلام آباد ہے پھر ضلع ہزارہ ہے پھر جہلم شہر ہے اسی طرح بنوں شہر وضلع ہے پھر ساہیوال شہر ہے، پھرڈیرہ غازیخاں شہر وضلع ہے پھر بہاولپور شہر وضلع ہے اور اسی طرح ڈھاکہ شہر، ان سب نے اپنے تحریک جدید کے چندے اس نسبت سے بڑھا دئیے کہ جس نسبت سے سات لاکھ نوے ہزار کی رقم پو ری کرنے کے لئے ان پر ذمہ داری آتی تھی اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے۔
لیکن بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو کچھ سست ہیں اور بعض ایسی جماعتیں ہیں جن سے ہم توقع رکھتے تھے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں گی مگر انہوں نے توجہ نہیں دی مثلاًربوہ ہے۔ ربوہ اپنے اس ٹارگٹ کو نہیں پہنچا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے ربوہ کوتو باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ بننا چاہئے مگریہ نمونہ نہیں بنے نہ صرف یہ کہ ربوہ کے دوست باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے کراچی اوردوسرے شہر واضلاع کے نمونے سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا ٹارگٹ کے لحاظ سے ربوہ کو نوے ہزار کی رقم دینی چاہئے تھی جس میں سے صرف ستاون۵۷ ہزار کے وعدے ہیں۔ اسی طرح لاہور شہر کاحا ل ہے یہ امیر احمدیو ں کا شہر ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کامل روح موجودنہیں یا اس روح کو بیدارنہیں کیا گیا دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روح تو ہے لیکن نظامِ جماعت لاہور نے اس روح کو کماحقہ بیدار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا بھی چورانوے ہزارٹارگٹ بنتا تھالیکن صرف بہتر ہزار کے وعدے ہیں پھرسیالکوٹ شہر ہے۔ انہیں پندرہ ہزارکا ٹارگٹ دیا گیا تھا ان کے دس ہزار کے وعدے ہیں(ویسے میں نے سینکڑے چھوڑدئیے ہیں ہزاروں میں بات کررہاہوں) اسی طرح راولپنڈی شہر ہے جس کے پہلو میں اسلام آبادشہر ہے جس نے اپنا ٹارگٹ پورا کردیا ہے لیکن راولپنڈی شہر کا چوّن ہزار روپے ٹارگٹ بنتا تھا اور انہوں نے وعدے صرف تیس۳۰ ہزار کے کئے ہیں لیکن قریباً پچپن فیصد ہیں یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں پھر ملتان شہر ہے اس کا ٹارگٹ سترہ ۱۷ ہزارتھااور انہوںنے وعدے کیے ہیں گیارہ ہزار کے۔دفتر نے یہ رپورٹ دی ہے کہ جوشہر یعنی ضلع کا صدر مقام پیچھے ہے وہاں کی ضلعی جماعتیں بھی پیچھے ہیں۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے جب کسی جماعت نے توجہ نہیں کی اور سستی دکھائی نظامِ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو نہیں نباہا تواگر شہر پیچھے ہے تو ضلع یقینا پیچھے ہوگا بلکہ غالباً کچھ زیادہ پیچھے ہوگا بہرحال ہمارے سامنے یہ بڑی افسوسناک تصویر آتی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داری نباہنے کی توفیق عطاکرے۔
میںنے آپ کو کچھ معیار بھی بتائے تھے یعنی دفتر اول اس حساب سے اوسطاً رقم دے رہا ہے دفتر دوم کی اوسط کیا ہے اور دفتر سوم کی اوسط کیا ہے اور چونکہ دفتر اول کی اوسط بہت اچھی تھی اور اب بھی ہے اسلئے میں نے اس میں زیادتی نہیں کی تھی دفتر اول میں جو حصہ لینے والے ہیں ان کی اوسط فی کس۔؍۶۴روپے ہے اور یہ اوسط بڑی اچھی ہے کیونکہ آپ جانتے ہیںکہ دفتر اوّل میں بہت سے احباب کافی بڑی عمر کے ہیں اور میرا یہ خیال ہے(اگرچہ اس حصہ کی میرے پاس رپورٹ تو نہیں لیکن ان کی میرے پاس جوروزانہ رپورٹیں آتی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے) کہ دفتر اول کی مجموعی رقم کم ہوگئی ہے اورہونی چاہئے تھی کیونکہ بڑی عمر کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ وفات بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے بعض دفعہ توروزانہ یا دوسرے دن یہاں جنازہ آجا تا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ زندگی توفانی ہے ہمیشہ کے لئے دنیا میں تو کسی نے نہیں رہنا ہم یہاں آئے ہیں پھر گزر جائیں گے۔
تاہم دفتر اول والوں نے اپنی ۔؍۶۴ کی اوسط برقرار رکھی ہے اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے۔؍۶۴ کے مقابلے میں دفتر دوم کی اوسط فی کس غالباً۔؍۲۰ یا۔؍۲۱ تھی لیکن میں نے کہا اسے۔؍۳۰تک لیکر جائو یہ اوسط بڑھی تو ہے لیکن ۔؍۳۰ تک ابھی نہیں پہنچی صرف ۔؍۲۴ تک پہنچی ہے۔
دفتر دوم وہ دفتر ہے جس نے دفتر اوّل کی جگہ لینی ہے اور عملاً خاموشی کے ساتھ لے رہا ہے۔ دفتر اوّل میں حصہ لینے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ نئے تو اس میں شامل نہیں ہورہے۔ دفتر دوم کی تعداد زیادہ ہے اور انہوں نے ان کی جگہ لینی ہے اورپھر دفتر سوم نے دفتر دوم کی جگہ لینی ہے اورپھر دفتر چہارم آجائے گا اپنے وقت پر جس نے دفتر سوم کی جگہ لینی ہے۔ دفتراوّل کی اوسط فی کس اور دفتر دوم کی اوسط فی کس میں بڑا فرق ہے۔ ایک طرف ۶۴ روپے فی کس اوردوسری طرف۔؍ ۲۴روپے فی کس جس کا مطلب یہ ہے کہ۔؍۴۰ روپے فی کس کا فرق ہے اور یہ فرق ہمیں فکر میں ڈالتا ہے اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دفتر دوم میں قربانی کی وہ روح نہیں جو دفتر اوّل میں پائی جاتی ہے یہ صحیح ہے کہ دفتر دوم والوں کی آمد شروع تھوڑی ہوتی ہے مگر انسا ن ترقی کرتا ہے مثلاً جودوست گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان کی ہر سال ترقی ہوتی ہے جتنی بڑی عمر کے ہوں گے وہ زیادہ تنخواہ لے رہے ہوں گے پھر انسان تجربے میں بھی ترقی کرتا ہے ایک شخص نوکر نہیں لیکن تجارت کررہا ہے شروع میں اسے تجربہ نہیں یا شروع میں اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا پھرآہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے مالوں میں برکت ڈالتا ہے وہ اپنے تجربے میں بھی ترقی کرتے ہیں اور ان کے سرمائے میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کی آمد بھی زیادہ ہونے لگ جاتی ہے یہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ۔؍۶۴ اور۔؍۲۴ کی نسبت ہمارے دل میں بڑا فکر پیدا کرتی ہے۔ اس لئے ہمیں دفتر دوم کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور ان کے معیار کو بلند کرنا چاہئے۔ دفتر سوم میں بہت سے طالب علم بھی ہیں دفتر دوم میں بھی کچھ ہوں گے لیکن دفتر سوم کی نسبت بہت کم ہیں۔ دفتر سوم کا معیار۔؍۱۳ فیصد تھا۔ پھر میں نے کہا اسے بڑھا کر۲۰ تک لے جائو۔ یہ بڑھا تو ہے یعنی۔؍۱۳ سے۔؍۱۵ تک آگئے ہیں لیکن ابھی۔؍۲۰ تک نہیں پہنچے دفتر سوم کی دوذمّہ داریاں انصار اللہ پر عاید ہوتی ہیں ایک یہ کہ دفتر سوم میں زیادہ کم عمر بچے ہیںیا وہ ہیں جن کی احمدیت میں کم عمر ہے یہ ہر دوتربیت کے محتاج ہیں اور ان ہر دوکی تربیت کاکام خدام الاحمدیہ کا نہیں بلکہ انصاراللہ کا کام ہے مجموعی حیثیت میں وہ زیادہ تربیت یا فتہ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انصاراللہ میں بعض نئے احمدیت میں داخل ہونیوالے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔انہیں ہم خدا م الاحمدیہ یا اطفال میں تو نہیں بھیجتے مثلاً جو۴۵ یا۵۰ سال کی عمر میں آج احمدی ہوا ہے اور ہرمہینے بیسیوں اورسینکڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بہرحال اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ میں جائیںگے اور ان کی تربیت کمزور ہوگی لیکن زیادہ رَو اس وقت نوجوانوں میں ہے اور میں بڑا خوش ہوں ہماری اگلی نسل میں بڑوں کی نسبت دین کی طرف بھی اور اسلام کے حقیقی نور کی طرف بھی اور احمدیت کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے اور بعض جگہ تو اس وجہ سے فکر پید اہوتی ہے دوتین جگہ سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے ایک فتویٰ دے دیا تھا کہ احمدی کافرہیں اس کے مقابلے میں اس وقت تک دو چیزیں آگئی ہیں۔
میں ضمناًیہ بھی بتا دوں کہ دنیا جو مرضی کہتی رہے اگر ہمارا رب ہمیں کافر نہیں کہتا تو ہمیں کوئی فکر نہیں لیکن چونکہ بہت سے احمدیت سے باہر ہیں وہ غلط راستے پر چل سکتے ہیں غلط نتائج لے سکتے ہیں اسلئے ہمیں بعض دفعہ کفر کے فتوئوں کا جواب دینا پڑتا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی یہ فیصلہ کیا اور قوم کے محبوب سیاسی رہنما قائد اعظم نے بھی یہ کہا وغیرہ وغیرہ۔ یہ جونئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں یا جو احمدی نہیں ہیںان کے لئے ہمیں یہ چیزیں چھپوانی پڑی ہیں ورنہ ہمیں کیا ضرورت ہے؟جس کے کان میں اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہو کہ میں تجھے مسلمان سمجھتا ہوں اسے کسی اور کے فتوے کی ضرورت تو باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان کافی ہے اور الحمدلِلّٰہ وہ ہمیں یہی کہہ رہا ہے میں تمہیں مسلمان سمجھتا ہوں لیکن جب ہم دوسروں کے لئے چھپواتے ہیں۔ جماعت احمدیہ لاہور کے ایک دوست نے کچھ پوسٹر شائع کئے تو دوتین جگہ سے یہ رپورٹ آئی کہ جب یہ پوسٹر لگائے جارہے تھے تو چونکہ ہمارے خلاف تعصّب بھی ہے(اور یہ تعصّب جہالت کے نتیجہ میں ہے یا عدمِ علم کے نتیجہ میں ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں صحیح واقفیت بہم پہنچائیںاس لئے ایسے موقع پر ہمیں ان کے اوپر رحم ہی آتا ہے اپنے اوپر غصہ آتا ہے کہ ہم نے صداقت صحیح رنگ میں ان تک کیوں نہیں پہنچائی بہرحال تعصّب ہے) چنانچہ کئی لوگ کھڑے ہوگئے کہ ہم یہ پوسٹر نہیں لگانے دیں گے اس پر کئی غیر احمدی دوست ان کے مقابلے پر کھڑے ہوگئے کہ ہم دیکھیں گے تم کس طرح پھاڑتے ہو پس ایسی لڑائی میں ہم شامل تونہیںہونگے لیکن ملوث سمجھے جائیں گے حالانکہ وہاں کوئی احمدی نہیں لڑے گاکیونکہ لڑنے کا تو نہ ہمیں حکم ہے اور نہ ہمیں ایسی تربیت دی گئی ہے لیکن جن کی توجہ غلبۂ اسلام کی اس مہم کی طرف ہوتی ہے ان کو جوش آجاتا ہے اورہمیں وہاں خاموش ہی رہنا پڑتا ہے۔
۱۹۵۳ء میں جب کالج پر کئی طرف سے انہوں نے یورش کی تو ایک ایسا گروہ آیا جس نے پتھرائو کیا۔تعلیم الاسلام کالج اس وقت لاہور میں ڈی۔ اے۔ وی کالج کی بلڈنگ میں تھا چنانچہ جب کالج پر پتھرائو کیا گیا تو ان کے مقابلے میں ہمارے طالبعلموں نے بھی پتھرائو کیا۔ مجھے جب پتہ لگا تو میں بڑا پریشان ہوا کہ انہوں نے احمدیت کی تربیت کے خلاف ایسا کیسے کر دیا؟ دراصل ہمارے کالج کے ہوسٹل میں ۶۰ فیصدطالب علم ایسے تھے جو احمدی نہیںتھے۔ جب میں نے تحقیق کی تو مجھے پتہ لگا کہ جن لڑکوں نے جواباً پتھرائو کیا ہے۔ ان میں ایک بھی احمدی نہیں تھا لیکن چونکہ وہ ہمارے درمیان رہتے تھے ہمارے طالب علموں کو دیکھتے تھے ہمارے ساتھ ان کا تعلق تھا انہیں یہ پتہ تھا کہ یہ مظلوم جماعت ہے اس لئے ان کو غصہ آگیا اور جوابی پتھرائو کیا مگر اس میں احمدی طلبہ ملوّث نہیں تھے۔ انکوائری کمیشن میں آئی جی انورعلی صاحب نے اس بات کو پیش کرایا کہ دیکھیں جی یہ دونوں طرف سے ہوجاتا ہے اس سے زیادہ طیش آجاتا ہے تعلیم الاسلام کالج پر جب حملہ ہوا تو اندر سے بھی پتھرائو ہوگیا میرے ساتھی میرے پاس پہنچے اورکہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس پتھرائو میںاحمدی طلباء شامل نہیں تھے اس لئے ہماری طرف سے یہ مؤقف لینا چاہئے کہ یہ غیر احمدی طلباء کا کام ہے میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا جنہوںنے پیار کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا ہے ہم ان کے خلاف انکوائری کمیشن میں کچھ نہیں کہیں گے ہمیں وہ بدنام کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ طالب علم جو احمدی نہیں تھے ان کو اپنے کالج کے لئے جوش اور غیرت آئی اور انہوںنے ہماری خاطر ایک قدم اٹھایا بے شک وہ ہمارے نزدیک غلط قدم تھا لیکن ان کے نزدیک تو درست تھا اگر ان کا قدم غلط ہے تو باہر سے بھی پتھرائو اندر نہیں آنا چاہئے تھا اور اندر سے بھی باہر پتھر نہیں جانا چاہئے تھالیکن جنہوں نے ہماری خاطر یہ قدم اٹھایا ہے ہم ان کے خلاف یہ قدم نہیں اٹھائیںگے وہ احمدی نہیں تھے غیر احمدی تھے وہ تو ہمارے ہیں چاہے احمدی ہیں یانہیں ہماری خاطر انہیں غیرت آئی ہماری خاطر انہیں جوش آیا پس ہمیں فکر یہ رہتا ہے کہ کام کوئی کرے گا اور نام ہمارا بدنام ہوگا ہمارا موقف پیار کا موقف ہے ہم ان کو بدنام نہیں کریںگے جو ہماری خاطر غلطی کررہے ہوں گے اپنے سر لے لیں گے۔
غرض یہ نوجوان طبقہ اس وقت احمدیت کی طرف زیادہ توجہ کررہا ہے اور ہم پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے پڑھے لکھے طالب علم ہیں لیکن اکثر مظلوم ہیں ان سے بھی کوئی پیار نہیں کرتا ایک دفعہ بہت سے غیر احمدی طالب علم مجھ سے ملنے آئے ان میں کئی ایک لیڈرٹائپ کے تھے جب میں اٹھا تو ایک لیڈر طالب علم کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلاجسے سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن مجھے دکھ بھی بہت ہوا جب ہم ڈیڑھ دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد فارغ ہوئے اس کے بعد مصافحہ کرناتھا وہ میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا تھاپہلے اسی سے میں نے مصافحہ کرنا تھا۔ وہ آہستہ سے مجھے کہنے لگا کہ آج پہلی دفعہ کسی شریف آدمی نے ہم سے شرافت سے باتیں کی ہیں۔ مجھے یہ سن کر خوشی تو ہوئی کہ اس طرح جماعت کا اس پر اثرہوا لیکن مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ وہ نسل جس کے اوپر قوم کی ساری ذمہ داری پڑنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں جذبہ دیاہے وہ آگے نکلنے والی نسل ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے کبھی کسی نے شرافت سے بات کی ہے یا نہیں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کے دل میں یہ احساس ہے کہ ہم سے کسی نے کبھی شرافت سے بات نہیں کی اور اصل تو احساس ہوتا ہے پس جہاںمجھے تھوڑی بہت خوشی ہوئی وہاں مجھے بڑی تکلیف بھی ہوئی پس یہ پیارے بچے اب آرہے ہیں اور آئیں گے ان کی تربیت انصاراللہ کاکام ہے یہ کام میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد نہیں کیا اس طرف توجہ دینی چاہئے دفتر سوم کے چندے کی فی کس اوسط۔؍۱۳سے۔؍۱۵ تک پہنچ گئی ہے یہ خوشکن ہے لیکن۔؍۲۰ تک ان کو پہنچنا چاہئے اور اس سال پہنچنا چاہئے انصاراللہ ہر جگہ جائزہ لیں اوراپنی تھوڑی سی سستیاں ترک کردیں تو زیادہ اچھا ہے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔
مثلاً افریقہ ہے یہ بات بھی ضمناً ہے خوشخبری ہے۔ اسلئے آپ کو سنا دیتا ہوں جو ہماری ’’آگے بڑھو‘‘ کی سکیم نصرت جہاں ریزروفنڈ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس کے ماتحت ہمارے پہلے ڈاکٹر نے غانا میں جاکر کام شروع کردیا ہے۔ الحمدللہ۔
اور زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس جگہ انہوں نے کام شروع کیا ہے وہاں ان کو رہائش کے لئے مکان اور کلینک کے لئے اتنا بڑامکان جسے حکومت نے بھی مان لیا ہے کہ یہ ٹھیک ہے وہ ایک ایسے پیرا مائونٹ چیف نے عطا کیا ہے۔(ہم اس کے بڑے ممنون ہیں)جو ابھی احمدی نہیں ہے۔ اس قسم کے حالات ہیں وہ قومیں ہم سے تعاون کررہی ہیں کئی اور قومیں ہیں جو ہم سے حسد کررہی ہیں ہمیں حسد کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو قومیں ہم سے تعاون کررہی ہیں وہ اس بات کی اہل ہیں ان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کی خدمت کے لئے وہ سب کچھ کریں جو ہمارے بس میں ہے اس طرح وہاں بہت سارے وعدہ کئے گئے ہیںعمل بھی شروع ہوگیا ہے پیرا مائونٹ چیف نے بہت بڑا ہال کلینک کھولنے کے لئے دیدیا ہے دراصل غانا کی حکومت کچھ نخرے دکھا رہی ہے کہ پہلے ان سے کلینک کے لئے مکان کیApproval(اپروول) لو اور یہ کرو اور وہ کرو۔ مگر یہ ہال اتنا بڑا تھا کہ حکومت غانا کوکوئی اعتراض پیدا نہیں ہوا اورڈاکٹر بھی جارہے ہیں۔
غرض یہ بات ضمناً بھی ہے اوراس کا تعلق بھی ہے یہ جو اگلی نسل ہمارے اندر شامل ہورہی ہے اور بڑی تعداد میں شامل ہورہی ہے اس کی تربیت کی رفتارپہلے کی نسبت زیادہ ہونی چاہئے تاکہ یہ اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے زیادہ قابل ہوجائیں کیونکہ جب کام بڑھ گیا تو بہرحال ہمیں ادھر ادھر سے اور زیادہ آدمی لینے پڑیں گے اور اس وقت کام بڑھنے کا یہ حال ہے ۔ نائیجیریا نے ہمیں(مجھے صحیح یاد نہیں) ۸یا۱۰ آدمیوں کا کوٹادے رکھاتھا ۔ اس سے زیادہ وہا ں ہمارے آدمی نہیں جاسکے کیونکہ حکومت نے تعداد مقرر کی ہوئی ہے اب جب میں وہاں گیا ان سے باتیں کیں تووہاں کی جماعت کو بھی جوش آیا اور ان کاایک وفد وہاںکے وزیر سے ملا اور مطالبہ کیا کہ جس طرح حکومت نے کیتھولکس کو۱۵۰ڈاکٹروں اورپادریوں کو اجازت دے رکھی ہے اسی طرح ہمیں بھی اجازت دو چنانچہ انہیں بھی ۱۵۰ کی اجازت ملنے کی امید ہے، دوست دعاکریں۱۵۰ آدمیوں کی اجازت مل جائے اس وقت وہاں دس آدمی ہیں۱۴۰ آدمی جن کی اجازت ملے گی وہ وہاں موجود نہیں اور اگرآپ نے وہاں آدمی نہ بھیجے تو بڑی سُبکی ہوگی وہ کہیں گے کہ تم بڑے طمطراق کیساتھ آگئے تھے کہ ہمیں دس کی بجائے ۱۵۰ کی اجازت دو اور تم آدمی کوئی نہیں بھیج رہے اور اگر ہم آدمی بھیج دیں تو بڑی ذمہ داری ہے مالی لحاظ سے بھی اور کئی دوسرے لحاظ سے بھی مثلاًرضاکاربھی آنے چاہئیں پیسہ بھی وہاں خرچ ہوگا۔ پس آپ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پیسے بھی دے گا اور رضاکار بھی دے گالیکن اپنے تعلق کو اپنے رب سے قطع نہ کریں کیونکہ جب تک یہ تعلق قائم ہے ہمیں فکر نہیںہم میں بعض کمزور ہیں جو چست ہیں وہ ان کو تیز کردیں گے۔
اس وقت توضرورت کچھ اس قسم کی ہے کہ جس طرح روم اور ایران کے فتنے کو اور جو ان کے منصوبے تھے اسلام کو مٹانے کے ان میں ان کو ناکام کرنے کیلئے بیشمار جرنیلوں کی ضرورت پڑی تھی(بیشمار تو ہمارا محاورہ ہے) ہمیں وہ کہیں نظر ہی نہیںآرہے تھے ضرورت سے پہلے نمایاں طورپرانکا نام ہی نہیں لکھا گیا لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اس طرح ابھرے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ رومیوں اور ایرانیوں کو سینکڑوں سال سے فنون جنگ کی مہارت حاصل تھی اور پھر یہ قومیں بزدل بھی نہیں تھیں کہ مسلمان اٹھے اور ان کو شکست دیدی۔ یہ بڑے بہادر تھے اتنے بہادر تھے کہ ایران میں یہ دستور تھا کہ کئی سپاہی زنجیروں سے اپنے آپکو جکڑلیتے تھے اور یہ زنجیریں غالباًچار قسم کی ہوتی تھیں تین آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی، پانچ آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی ، سات آدمیوں کوآپس میں باندھنے کی اور دس آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی۔ اب دس سپاہی کھڑے ہوتے ہیں تلواریں اور نیزے لے لے کر اور ان کے پائوں ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں اگر وہاں ان میں سے ایک مر جائے تو وہ بوجھ ہے باقی دو پر یا نو پر۔اور دو ایک نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں زنجیروں میں بندھ کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے اور بڑے مالدار بھی تھے اور پوری طرح مسلح ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں ہندی فولاد بڑا مشہور تھا اس کی انہوںنے زرہیں پہنی ہوئی تھیں خودپہنی ہوئی تھیں۔ ان کی تلواریں اچھی، زرہ اور خوداچھے، نیزے اچھے ، جرنیل اچھے، کئی سالوں کی ان کی ٹریننگ ہوتی تھی ان کی خود کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ان کا ایک جرنیل نکلا، ان کا یہ دستور تھا کہ انفرادی جنگ کے لئے وہ اپنے مدمقابل سے دست بدست جنگ کے لئے آدمی بلاتے تھے چنانچہ ان کا ایک جرنیل نکلا اور اس نے حضرت خالدؓ بن ولید کو للکارا کہ میرے مقابلے پر آئو جب یہ گئے تو انہوں نے اپنی تلوار پورے زور کے ساتھ اس کے سر پر ماری مگر ان کے ہاتھ میں صرف دستہ رہ گیا اور تلوار ٹوٹ کر دور جاپڑی اوردستہ ہاتھ میں، مگر اس جرنیل کو کچھ نہ ہوا خیر اللہ تعالیٰ نے حضرت خالدؓ کو بچا لیا میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا میں یہ بتا رہا ہوں کہ وہ ہرلحاظ سے مسلح اور تربیت یافتہ ہوتے تھے اسلام سے پہلے عرب کی لڑائیاں قبیلے قبیلے کی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ نہ ان کو اس قسم کے فنون جنگ آتے تھے جس قسم کے رومیوں اورایرانیوں کے تھے گوان کے طریقوں میں آپس میں کچھ اختلاف بھی تھا مگر مسلمانوںکو یہ طریقے نہیں آتے تھے لیکن ایک صبح کو جب ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین فوجی دماغ عطا کردئیے اس کے خزانے تو خالی نہیں وہ تو بھرے ہوئے ہیں۔
پس آپ یہ دعا کریں کہ جس صبح کوہمیں ضرورت پڑے تو ہمیں نہایت ذہین اور صاحب فراست اور تحمل والے اور غیروں کے ساتھ پیار کرنے والے اور ان کی خاطر قربانیاں دینے والے اور ان کی خدمت کرنے والے اور ان کو اپنے سینے سے لگانے والے روحانی جرنیل مل جائیں وہاں جاکر یہ بھی جرنیل ہیں مگر تلوار کے بغیرجس کے ہاتھ میں قرآن کریم ہے وہ زیادہ اچھا جرنیل ہے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی قرآن کریم تھالیکن دشمن نے مجبور کردیاتھا تلوار نکالنے پر، ورنہ وہ بھی صرف قرآن کریم لے کر باہر نکلتے تھے۔
غرض جتنے بھی جرنیلوں کی ہمیں ضرورت پڑے و ہ ہمیں ملتے چلے جائیں آخر پہلے زمانہ میںمسلمانوں نے جرنیل بنانے کے لئے سٹاف کالج تو نہیں کھولے تھے اللہ تعالیٰ جومعلم حقیقی ہے اس نے ضرورت پڑنے پر اپنے پیار کا جلوہ دکھایا، بڑا ہی حسین جلوہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے میں نے بتایا ہے کہ تاریخ میں ان لوگوں کے نام کسی شمار میں نہ تھے۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آگیا پتہ لگا یہ مدینہ سے آگیا ہے اورمدینہ کی گلیوں میں وہ بے چارا اس طرح پھررہا ہو گا جس طرح ہمارا نائیجیریا کا مبلّغ انچارج ربوہ میں آکر ربوہ کی گلیوں میں پھرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا اور اس کی مدد کو جذب کرنے کے لئے ایک توہمیں حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت چاہئے اور دوسرے عاجزانہ دعائیں چاہئیں۔ آپ کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی محبت آجاتی ہے۔ آپ نے اپنے پیدا کرنے والے رب سے جو محبت کی ہے وہ کسی اور فرد بشرنے نہیںکی۔
دفتر سوم کو جس میں روزبروز ترقی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ نوجوانوں کو اس طرف بڑی توجہ پیدا ہورہی ہے۔ وہ آئیں گے تو دفتر سوم میں داخل ہوجائیںگے دفتر سوم میں جب داخل ہونگے غیر تربیت یافتہ ہوں گے آج احمدی ہوئے کل کو اس نے تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیااس پر ذمہ داری پڑگئی جو ہر احمدی نوجوان پرپڑتی ہے اس کو اپنا نفس مارنا پڑے گا اس کو گالیاں سن کربجائے چپیڑ لگانے کے دعا دینی پڑیگی اسے بڑے زبردست ضبط اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو توبڑا آرام ہے، غصہ آیا چپیڑ لگادی۔ ایک چپیڑ کھالی ایک چپیڑ لگادی، پر ایک احمدی کی نہ یہ تربیت ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے اسے تو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ چپیڑ کھائو اور دعا دو اوردل جیتو ہم نے لوگوں کے سرپھاڑ کر ترقی نہیںکرنی بلکہ غلبۂ اسلام کی یہ مہم لوگوں کے دل جیت کر سر ہوگی۔ جس طرح یورپ سے میں نے جاکر کہا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کوپھیلائیںگے اسی طرح میں یہاں بھی کہتا ہوں۔ کسی سے ہماری دشمنی اور لڑائی نہیں ہم دل جیتیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو پھیلائیں گے۔ اس لئے جب تم چپیڑ کھائو گے تو چپیڑ کا جواب چپیڑ سے نہیں دینا۔ اسلئے بڑی زبردست تربیت کی ضرورت ہے نفس کی مثال گھوڑے کی ہے نفس یا تو منہ زور گھوڑا بن سکتا ہے یا مطیع گھوڑا بن سکتا ہے گھوڑے میں بڑی طاقت ہے اگر چاہے اور مطیع نہ ہوتو دس آدمیوں کو کھینچ کر لے جائے، لگام آپ جتنی مرضی کھینچتے رہیں وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح نفسِ امارہ اور اس کی بدیاں بڑی زور دار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کی اور عاجزانہ دعائوں کی لگام اس کے منہ میں پڑنی چاہئے اور اس کو ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہوناچاہئے گھوڑے کو جو سکھایا جاتا ہے صرف اشارہ سکھایا جاتا ہے۔ اسے یہ نہیںبتایا جاتا کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں ، یہ بتایا جاتا ہے کہ میں تم سے زیادہ ہوشیار ہوں تمہیں میرے اشارے پر چلنا پڑے گا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور یہی گھوڑے کو سمجھایا جاتا ہے ویسے لگام کا اشارہ ہوتا ہے لیکن اگر اچھا گھوڑا ہو تو سوار اگربغیر لگام کے اشارے کے ٹھہرانا چاہے تو وہ کھڑا ہوجاتا ہے پس نفس کو بھی اسی طرح مطیع ہونا چاہئے یہ نہیں کہ جو مرضی کرے آپ کا شعور یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھے کھانے نہ کھائو اس وقت مجھے تمہارے پیسوں کی اسلئے ضرورت ہے۔ تم اپنے جسموں کو کھانے سے اسلئے محروم کرو کہ کسی اور روح کو تمہارے پیسے کی ضرورت ہے تو بہرحال یہ روح جسم پر مقدّم ہے پس اپنے جسم کی آسائش اور اچھے کھانے کی لذت کی قربانی دوتاکہ کوئی اور روح جہنم سے بچائی جاسکے اور یہ تربیت نفس کو آپ نے دینی ہے وہ جوباہر سے آئیں گے وہ تو اور بھی فکر مندکردیں گے کہ پہلوں کی جوتربیت ہے اس میں رخنہ نہ پڑجائے۔ ان کو آتے ہی سنبھالناچاہئے اور پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ صحیح راستہ پر ان کو لگا دینا چاہئے یہ ذمہ داری انصاراللہ پر ہے۔
باقی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جومال خرچ کرتے ہیں وہ اسلئے خرچ نہیں کرتے کہ ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کوہم کامیاب کرنا چاہتے ہیں بلکہ میں بھی اورآپ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی اپنی استعداد اور اخلاص کے مطابق جو مالی قربانی پیش کرتے ہیں وہ اس لئے پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اورہمیں یہ فرمایا کہ اس کو کامیاب کرنے کے لئے قربانیاں دو۔ غرض یہ منصوبہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور ہم سے اس کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے چلے جائو منصوبہ میں نے کامیاب کرنا ہے تمہارے سرپر سہرا باندھ دوں گا خدا تعالیٰ کو تو سہرے کی ضرورت نہیں سہرے کی احتیاج تو اس کے بندے کو ہوا کرتی ہے اس سہرے کی جواللہ تعالیٰ باندھے۔
پس ہمارا رب بڑا پیارکرنے والا ہے غلبۂ اسلام کا خودایک منصوبہ بنایا اورفرمایا کہ دنیا جو مرضی کرے ساری اقوامِ عالم حلقہ بگوشِ اسلام ہوکرحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار اور مست ہوکر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میںجمع ہوجائیں گی اور ہمارا رب فرماتا ہے میں یہ کرکے چھوڑوںگا اور ہمیں فرمایا کہ تمہارے سر پرمیں سہرا باندھنا چاہتا ہوں اس واسطے میرے کہنے کے مطابق تم قربانیاں دو۔ غلبۂ اسلام کا جو نتیجہ نکلے گا وہ تمہاری قربانیوں کے مقابلے میںبہت عظیم ہوگا اس کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوگی لیکن چونکہ میں تم سے پیار کا ایک مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں،اپنی محبت کا تمہیں ایک جلوہ دکھانا چاہتا ہوں اسلئے کامیابی تو میری قدرت کا ملہ سے ہوگی لیکن میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سروں پر سہرا باندھ دوںگا۔
پس دوست دعا کریں اعمال صالحہ سے عاجزانہ مجاہدہ کریں کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمارے دلوں کو اور ہماری روح کو اس طرح پاک اور مطہر کردے کہ وہ اپنے پیارے ہاتھوں سے غلبۂ اسلام کایہ سہرا ہمارے ہی سروں پر باندھے۔(اٰمین) (اخبار الفضل ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ۲ تا ۷)






دعا حصول فضل الٰہی کا ایک
بڑا ہی مفید ذریعہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳۰؍ اکتوبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی مندجہ ذیل آیات تلاوت کیں۔

( الفرقان :۷۸)
پھر فرمایا:-
اللہ کے فضل سے طبیعت پہلے سے تو بہتر ہے لیکن ابھی پوری طرح آرام نہیں آیا اس وقت میں مختصراً اس اہم اور ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک مومن کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس سے عاجزانہ دعائوں میں گزرنا چاہئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حقیقی زندگی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور ہر زندگی اور بقا اس سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان درجہ بدرجہ ترقی کرکے اپنی رفعتوں کو پہنچتا ہے یہ ارتقاء تدریجی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل جہاں اور بہت سی چیزوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے وضاحت سے اس پر روشنی ڈالی ہے ،وہاں دُعا بھی اس کا بڑا ہی مفید ذریعہ ہے اور اسے انسا ن چھوڑ نہیں سکتا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنا انسان کے لئے ممکن نہ ہوتا اگر خود وہ ہمیں اپنے فضل سے اور اپنے مقرب بالارادہ ہونے سے اپنے وجود کا پتہ نہ دیتا وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے اپنے قول سے،اپنے فعل سے ایک خوابیدہ روح کو بیدار کردیتا ہے اور ایک عقلمند کو مجنون بنا دیتا اور مست کردیتا ہے قُرب اور حُسن کا یہ جلوہ پیار کے یہ الفاظ کیسے انسان حاصل کرے؟ کیونکہ اس کے بغیر تو زندگی زندگی نہیں فرمایا مجھ سے مانگو میں تمہاری دعائوں کو قبول کروںگا اور اس طرح میں تمہیں عمل صالح کی توفیق عطا کروں گا۔
ابھی جو میں نے آیت پڑھی ہے اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ استجابتِ دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت اور اس کے جلال کا مشاہدہ کرکے انسان اعمال صالحہ بشاشت سے ادا کرتا ہے اور اس کی وہ توفیق اپنے رب سے پاتا ہے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کوحاصل نہ ہو،اگر کچھ وہ اللہ کا اور کچھ دنیا کا ہو، تو پھر وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کوکیسے پاسکتا ہے؟ نہ اعمال صالحہ ہوں گے جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ ہوں اور نہ ایمان میں وہ تازگی اور بشاشت ہو گی جو خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ پیدا ہو فرمایا میں تمہاری دعائوں کو اس لئے قبول کرتا ہوں کہ تم بشاشت سے اعمال صالحہ بجالائو تاکہ تمہارے ایمان اور بھی مضبوط ہوں اور معرفت میں اور بھی ترقی کرو اور یہ کہ وہ رشد وہدایت جس کے حصول کے لئے وہ راستہ جس کی انتہا میرا قرب ہے اس پر چلنے کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے تم اس رشد و ہدایت کو پائو اور تم اس راہ پر چلتے ہوئے مجھ سے قریب سے قریب ترہوتے چلے جائو تو استجابتِ دعا کے نتیجہ میں اعمال صالحہ کی توفیق انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اور بھی راستے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا لیکن یہ بھی ایک حسین اور روشن راستہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے انسا ن کو بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے۔ انسان کو یہ خیال نہیںکرنا چاہئے کہ میں خدا سے دور ی کی راہوں کواختیارکرتے ہوئے بھی اس کے قرب کو حاصل کرلوںگا اس تصور اور اس خواہش کے درمیان تضاد ہے انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اللہ کی مدد کے بغیر خود اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہے اللہ کی مدد کے بغیر اور اس کی نصرت کے بغیرکچھ نہیں ہوسکتا اس کی ہمیں مدد لینی چاہئے اس سے دعا کرنی چاہئے اس سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ دعا کو قبول کرے اور ہمیں قبولیت دعا کا ایک نشان اور معجزہ دکھائے۔اس طرح اس کے فضل سے بشاشت کے ساتھ ہمیں عمل کرنے کی توفیق مل جائے اور ہمارے ایمان اس کی رحمت سے مضبوط ہوجائیں خود انسان کچھ نہیں کرسکتا انسان کو بہکنانہیں چاہئے انسان کو یہ نہیں زیب دیتا کہ وہ اپنے نفس کو فربہ کرے۔انسان کویہ نہیں چاہئے کہ وہ خودنمائی کرے وہ اپنے کوکچھ سمجھے اور اس کا اظہار کرے عاجزی اس کی حقیقت اور عاجزانہ راہیں اس کا طریق ہونا چاہئے۔ فرمایا قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآئُ کُمْ۔(الفرقان:۷۸) اللہ تعالیٰ کی ذات تو غنی ہے اسے تو تمہاری احتیاج نہیں ہے تمہیں اس کی احتیاج ہے اگر تم اس احتیاج کا احساس نہ رکھتے ہو اگر تم دنیا میں عزت کے لئے اس سے عزت حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھتے ہو، اگر تم اپنے بوٹ کے تسمہ کے حصول کے لئے خود کو طاقت ور اور اپنی طاقت اور مال کی طاقت کو کافی سمجھتے ہو، توتم مارے گئے تم ہلاک ہوگئے قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآئُ کُمْ اگر تم دعا کے ذریعہ سے اس غنی کے دروازے کونہیں کھٹکھٹائو گے(جسے تمہاری احتیاج نہیں جس کی تمہیں ہر آن احتیاج ہے) تو مارے جائو گے پس بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے غافل نہیں ہوناچاہئے جس طرح اسے جو ہمارا محبوب اورپیارا آقا ہے نیند نہیں آتی اوراونگھ نہیں آتی،اسی طرح تم بھی جس حد تک تمہیں خدا نے طاقت اور توفیق دی ہے بیدار رہنے کی کوشش کروتاکہ تم خواہ چھوٹے سے پیمانہ پر ہی سہی، اس کی اس صفت کے (جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ نہ اسے نیندآتی ہے نہ اونگھ آتی ہے) اپنی استعداد کے مطابق اپنی طاقت کے لحاظ سے مظہر بنو۔ یہ درست ہے، لیکن تمہارے دل میں یہ بڑی شدید خواہش ہونی چاہئے کہ اس کی ہر صفت کا ہم نے مظہربننا ہے اور اس صفت کا بھی ہم نے مظہر بننا ہے جب یہ ہوجائے گا ، جب تمہیں اپنا پتہ لگ جائے گا کہ تم کچھ بھی نہیں، جب تم کو اس کا علم اور اس کی معرفت حاصل ہوجائے گی کہ وہی سب کچھ ہے وہی سب طاقتوںو الا ہے جب تم یہ پہچا ن لو گے کہ اسے تمہاری ضرورت اور احتیاج نہیں، جب تم اس کی یہ معرفت حاصل کرلوگے کہ تمہیں ہر چیز میں اس کی احتیاج ہے تو پھر وہ تمہیں مل جائے گا، پھر وہ تمہاری دعائوں کو قبول کرے گا اور اپنی قدرت کے نشان تمہارے لئے ظاہر کرے گا لیکن اگریہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اللہ کرے کہ ہمیں ہرآن یہ احساس رہے اور ہمارا یہ احسا س ہر وقت رہے کہ ہروقت ہرچیز میں اور ہر کام کے لئے ہمیں اس کی احتیاج ہے اور دعا یہ ہے کہ اس کے فضل کو حاصل کرنے کی جدوجہد ہماری زندگیوں میں جاری رہے تاکہ ہم ہمیشہ ہی اس کے فضل اور اس کی رحمت کے وارث بنتے رہیں۔ اَللّٰھُمَّ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ۳ تا ۴)
ززز




الٰہی جماعتیںیقین رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور
بشارتوں کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍نومبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور انور نے سورۂ انعام کی یہ آیت تلاوت فرمائی:-

اس کے بعد حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے فرمایا:-
پچھلے د نوں مجھے نزلے اور کھانسی کی بہت تکلیف رہی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب بہت حد تک بیماری دورہوگئی ہے لیکن بیماری اور ضعف پیدا کرنیوالی دوائیں جو اس بیماری میں استعمال کی گئی ہیں ان کی وجہ سے ابھی تک کمزوری ہے دعاہے اورآپ کی دعا بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کامل صحت عطا فرمائے اس وقت سورۃ انعام کی جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میںہمیں بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم شدہ سلسلے اور جماعتیں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی بشارتوں اور وعدوں کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔
غافل انسان کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب تک وہ اپنی غفلت کی چادریں پھاڑ کر بیداری اور ہوشیاری اور نور کے سایہ تلے نہیں آجاتا اس وقت تک وہ اس معنے میں بھی شرک کرتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اوراپنی خواہشات اور اپنے احکام اوراپنے کلمات دُنیا میں پھیلاناچاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر کبھی اس کا اور اس کے پیدا کرنے والے رب کا مقابلہ ہوا تو وہ اپنے رب کو شکست دے گا اورخودکامیاب ہوگا لیکن انسان کی ہدایت کے لئے جب اللہ تعالیٰ اپنے منصوبے بناتا اورانکو جاری فرماتا ہے تو ایک ایسی جماعت پیدا کرتا ہے جو اس کے ساتھ زندہ تعلق رکھنے والی اور اس کے وعدوں پر پورا یقین رکھنے والی ہوتی ہے اور پھر اس طرح پر یہ ایک چھوٹی سی جماعت، یہ ایک بے سہارا جماعت،یہ ایک کم مایہ جماعت جب دُنیا کے اموال اور دُنیا کے اثرورسوخ اور دنیا کے جتھوں کے مقابلے پرآتی ہے تو وہ دنیوی دولت اور وہ دنیوی اثر ورسوخ اوروہ دنیوی کثرت جو یہ سمجھتی ہے کہ ان کی مرضی چلے گی اور ان کے ربّ کی مرضی نہیں چلے گی ناکام ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا یہ نظارہ اپنے بندوں کو دکھاتا ہے کہ لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ (الانعام:۳۵) دنیا کی کوئی ایک طاقت تو کیا سب طاقتیں مل کر بھی اس کے کلمات یعنی اس کے وعدوں اوربشارتوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ ہوگا وہی جو خدا چاہے گا وہ نہیں ہوگا جو دنیا چاہے گی کیونکہ دُنیاکے غرور اوردنیا کے اموال اور طاقت میں مست لوگ جب اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کے مقابلے پر آتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے انہیں کم مایہ اور کمزور پاتے ہیں تو وہ مختلف قسم کے حربے ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ انہیں کہتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ انہیں کہتے ہیں کہ تم کافر ہو۔ انہیں کہتے ہیں کہ تم دین میں فتنہ پیدا کرنے والے ہو اور خود ساری جہالتوں اور جہالت کے سبب اندھیروں کے باوجود یہ دعویٰ کرتے کہ وہ حق پر ہیں اور وہ صداقت پر ہیں اور سچائی ا ن کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا۔ وہ لوگ جو مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں جن کے دل میں خدا اور اس کے رسول کے لئے ایک نامعلوم سی محبت ہوتی ہے ان کو اس طرح دھوکے میں ڈال کرحقیقت سے دور اور صداقت سے پرے لے جانے کی کو شش کرتے رہتے ہیں اورالٰہی جماعت کی تکذیب ہوتی ہے تکفیر ہوتی ہے۔ ساری دنیا اکٹھی ہوکر انہیں کافر کہنے لگ جاتی ہے۔
اسی طرح جب وہ دیکھتے ہیں کہ تھوڑے ہونے کے باوجود ،کم مایہ ہونے کے باوجود بے سہارا ہوتے ہوئے بھی یہ جماعت ان سے خوف نہیں کھاتی یہ جماعت اس طرح نڈر ہے کہ جب یہ لوگ اس کے لئے آگ جلاتے ہیں تو وہ کہتے ہیںلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ (الانعام:۳۵) ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ آگ ہماری غلا م بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ آگیں جتنی چاہو جلالو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتاکیونکہ لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی پورا ہوتا ہے۔
پس دنیا میں الٰہی جماعت کے خلاف بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں بڑی تدبیریں کی جاتی ہیںکہ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ہمیں طاقت ملی تو تین دن کے اندر اندر تمام احمدیوں کوتختۂ دار پرلٹکا دیں گے مگر تختۂ دار تو اسے ملتا ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ملے لیکن خدا تعالیٰ جس کی حفاظت کرنی چاہے تو وہ جلتی ہوئی آگ میں سے بھی بچا کر لے آتا ہے اسے تو وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح تختہ دار سے بھی زندہ اتار لیتا ہے۔ الٰہی طاقتوں کے مقابلے میں مادی ذرائع کوئی حقیقت نہیںرکھتے نہ کبھی کامیاب ہوئے ہیں لیکن جب تکفیر ہورہی ہوتی ہے۔ جب ایذا رسانی کے تمام منصوبے اور تمام تدابیر اختیار کی جارہی ہوتی ہیں تو یہ چھوٹی سی جماعت جو اپنے رب سے تعلق رکھتی ہے جو اپنے رب کے دامن سے چمٹی ہوتی ہے اور اس سے پرے ہٹنا نہیں چاہتی وہ پورے ثباتِ قدم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو ثابت کرتی ہے وہ دنیا کے سارے خوف دل سے مٹاکر اور دنیا کی ہرخشیت سے بیزاری کا اظہار کرکے اپنے رب کو یہ کہتی ہے کہ اے ہمارے رب! اگرتجھے ہماری جان چاہئے تو ہم بخیل نہیں ہیں جان دینے میں کیونکہ ہم توتیری رضا کے طالب ہیں اوردنیا جو مرضی کرلے ہوگا وہی جو تو چاہے گا اور تویہ چاہ کہ ہم ثابت قدم رہیں۔ دعا کے ساتھ اوردعائوں کے نتیجہ میں صبر کی طاقت پاکر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اوراسکی طاقتوں کے معجز ے دکھانے کا حزب اللہ ایک آلہ بن جا تا ہے جیسے ایک بلب ہے جس کے اندر ایک تار ہوتی ہے جو ذریعہ بن جاتی ہے نہ نظرآنے والی بجلی کی روشنی کو ظاہرکرنے کا، اسی طرح یہ جماعت ذریعہ بن جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے جلوے دکھانے کا۔ اللہ تعالیٰ تو بندے کو نظر نہیں آسکتا نہ یہ مادی آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے اور نہ یہ مادی دماغ اس حد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے یہ تو خدا تعالیٰ ہی ہے جو اپنے محبوب بندے کے پاس پہنچتا ہے اور اس کو بھی اپنی قدرتوں کا جلوہ دکھا کراپنے زندہ تعلق کا اظہار کرتا ہے اور اسے ذریعہ بھی بنا لیتا ہے اس بات کا کہ جس طرح دھات کی ایک باریک تار بجلی کی روشنی ظاہر کرتی ہے اسی طرح یہ ایک چھوٹی سی جماعت(اس تار سے بھی شاید کم حیثیت رکھنے والی) اس نور کے اظہار کاذریعہ بنتی ہے جو نور کہ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ہے۔ پس جب ان کے خلاف زبانیں چلائی جاتی ہیں تو یہ ثباتِ قدم دکھاتے ہیںاور جب انہیں دکھ دینے کے لئے تدبیریں کی جاتی ہیں اور منصوبے باندھے جاتے ہیں اور سامان اکٹھے کئے جاتے ہیں اور ایک شور مچایا جاتا ہے اور دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہم ان کو قتل کردیں گے اورماردیں گے تو ان کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں آتی اور وہ جن کے اوپر رعایا کی حفاظت کی ذمہ داری ہے وہ بھی خاموش رہ جاتے ہیں لیکن خدائے قادر و توانا جس نے ان کی زندگی کی ضمانت لی ہے اور جس کے اوپر نیند اور اونگھ نہیں آتی اور جس کے قادرانہ تصّرف سے کوئی چیز باہر نہیں وہ ان کے پاس آتا ہے اور انہیں بڑے پیار سے کہتا ہے تم گھبرائو نہیں دنیا تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ تم میری حفاظت اور میری پناہ اور میری سلامتی کے نیچے ہو۔ میرے مقابلہ میں دنیا کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پس لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ جو خدا نے فرمایا ہے وہی ہوگا۔ ہمارا اس پرپختہ یقین اور کامل ایمان رکھناضروری ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا کہ آگ تمہیں نہیں جلائے گی۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں بڑے پیار سے یہ فرمایا کہ ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہوکر بھی تمہیں ہلاک نہیں کرسکتیں اورنہ صرف یہ فرمایا ہے بلکہ اپنے فعل سے یہ ثابت بھی کیا ہے۔
میں افریقہ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ اکیلا ایک شخص تھا جس نے خدا کے حکم اور اس کی توحید کے قیام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اورجلال کودنیا کے دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک آوازبلند کی تھی مگر ساری دنیا اکٹھی ہوکر اس ایک آواز کو خاموش کرنے کے پیچھے پڑگئی لیکن ساری دنیااکٹھی ہوکر بھی اس ایک آواز کو خاموش نہیں کرسکی اور اب افریقہ کے ایک ایک ملک میں ایسی لاکھوں آوازیں میرے کان میں پڑرہی ہیںکہ جن میں سے ہرایک آواز اس اکیلے آدمی کی آواز کی صدائے بازگشت ہے۔
غرض صرف یہ دعویٰ نہیں یہ ایک ایسی آواز نہیں کہ جس کے متعلق ہم ذرا سا شبہ بھی کرسکیں کہ پتہ نہیں یہ وعدہ پورا بھی ہوتا ہے یانہیں۔ نہیں! یہ خدا کی بات ہے اور خدا کی باتیں اٹل ہوتی ہیں اور اس کاعمل، اس کی طاقت، اس کے قادرانہ تصرف(وہ بھی ہمیں اطمینان قلب بخشنے کے لئے ہے کہ لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو تو کوئی بدل نہیں سکتا) اس حق کے وعدہ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے یہ ایمان اور یقین پختہ ہونا چاہئے پھر دعا کے ساتھ صبر کی طاقت اور صبر اوردعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہئے۔ دنیا کافر کہے کوئی فرق نہیں پڑتا اللہ تعالیٰ کافر نہ کہے۔ دنیا جھوٹا کہے ۔ ہمارا کیا نقصان ہے وہ بیشک کہتی رہے ہمیں تو اس قسم کی باتیں سنکر بھی غصہ نہیںآتا۔ ہم توایسے شخص کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کیونکہ جس راستے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہے اس راستے کو وہ لوگ اختیار نہیں کر رہے۔ بہرحال اگر وہ جھوٹا کہیں توہمیں نہ اس کی کوئی پرواہ ہے نہ ہمیں اس پر کوئی غصہ آتا ہے کیونکہ ہمارا رب بڑے پیار سے ہمارے کان میں کہتا ہے کہ میں تمہیں سچا سمجھتا ہوں۔ کوئی آدمی اگر ہمیں یہ کہے کہ تم اپنے ربّ سے دور اور ملعون ہوتو اس سے کیا فرق پڑتا ہے جب کہ وہی رب جس سے دُوری کے متعلق وہ فتویٰ دیتے ہیں وہ ہمیںکہتا ہے کہ تم میری گود میں بیٹھے ہو تم کیوںفکر کرتے ہو۔
پس لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ پر ہمارا پختہ یقین ہونا چاہئے اور صبر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کو حاصل کرنا چاہئے اور جس وقت وہ مدد حاصل ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو وہ مدد حاصل ہے۔ پاکستان میں بھی ، ہندوستان میں بھی، یورپ میں بھی، انگلستان میں بھی، امریکہ میں بھی ، افریقہ میں جزائر میں بھی، آسٹریلیا میں بھی، اور نیوزی لینڈ میں بھی۔ کہاں ہے وہ خطہء زمین جہاں احمدی بستے ہیں اور ان کے اوپر سورج غروب ہوتا ہے اب تو وہ پہلی سی حالت نہیںرہی اور اطمینان قلب پیدا کرنے کے لئے ہر جگہ اللہ تعالیٰ کا یہ فعل جاری ہے۔ اطمینانِ قلب حاصل کرنے کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے ربّ کو ایک سوال کا جواب یہی دیا تھا کہ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ (البقرۃ :۲۶۱)اس لئے وضاحت چاہتا ہوں کہ مجھے اور زیادہ اطمینان ہو۔ چنانچہ ہمارے دل کو مطمئن کرنے کے لئے اور ہمارے ایمان اور یقین کو پختہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہرروز ہمیں بتارہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے اور اس کے وعدے اور بشارتیں ہمیں حاصل ہیں اور اس کی باتیں بدلا نہیں کرتیں اسلئے دنیا جو کہے اور جوکرے اس کی آپ کوکوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے۔ وہ کمزورانسان جو اپنے رب کی گود میں بیٹھا ہے وہ کسی اور سے کیسے ڈرے گا؟ جب کہ وہ بچہ بھی نہیں ڈرتا جو اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کی ماں کو تو کوئی طاقت حاصل نہیں ہے ہمارے رب کے پاس تو ساری طاقتیں ہیں۔ اس لئے اگر ان پاک فضائوں میں شور بپا ہو۔ اگر کفر کے فتوے اور زیادہ گونجنے لگیں، اگر ہمارے ساتھ اور استہزاء کیا جائے اور ہمیں دکھ دینے یا مارنے یا مٹانے کے دعوے جتھوں اور جلوسوں میں کئے جائیںتو ؎
عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں
(درثمین اردو صفحہ ۵۰)
اس وقت اپنی تدبیر پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ اس وقت اپنے رب کی پناہ میںپناہ لینا اور اسی کو اپنا سہارا بنانا پھر دنیا جماعت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور نہ ہی انشاء اللہ اسکا کچھ بگاڑ سکے گی کیونکہ لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍ نومبر۱۹۷۰ء صفحہ۲ تا ۴)
ززز



اسلام دینِ فطرت ہے اس کی ُپر حکمت تعلیم
فطرت کے ہر تقاضے کو پورا کرتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
(خلاصہ)
حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کی تکالیف دور ہونے نیز ملک میں انتخابات کے ُپر امن فضا میں منعقد ہونے اور جذباتِ محبت و اخوت کے باہم زیادہ سے زیادہ فروغ پانے کے لئے دعائوں کی پر زور تحریک فرمائی۔
حضور انور نے فرمایا:-
اسلام دینِ فطرت ہے اس کی پُر حکمت تعلیم فطرتِ صحیحہ کے ہر تقاضے کو پورا کرتی ہے فطرتِ انسانی کا ایک خاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی نوع کی خاطر قربانی کرتا ہے یعنی خود تکلیف اٹھاتا ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کو حتّی المقدور آرام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
جب ہم فطرتِ انسانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جذبۂ قربانی اور جذبۂ ایثار کا ظہور دو رنگ میں ہوتا ہے بعض قربانیاں اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسی ہوتی ہیں کہ انسان جتنی قربانی کرنا چاہتا ہے اتنی کر نہیں سکتا برخلاف اس کے دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی غم خواری کی ایک نوع ایسی بھی ہے کہ انسان جتنی چاہے ہمدردی کر سکتا ہے اس ہمدردی اور اس ایثار کی راہ میں سرے سے کوئی روک ہوتی ہی نہیں۔ ان میں سے پہلے نوع کی ہمدردی مالی امداد سے تعلق رکھتی ہے انسان چاہتا تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کی امداد کی خاطر دنیا کے خزانے لٹا دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا وہ قربانی کا شدید جذبہ رکھنے کے باوجود صرف اتنی ہی قربانی کر سکتا ہے جتنی اس کی مالی استطاعت اجازت دیتی ہے۔ دوسرے نوع کی ہمدردی کا تعلق دعا سے ہے۔یہ ایک ایسی ہمدردی ہے کہ انسان جتنی بھی چاہے دعا کر سکتا ہے اور درد و سوز اور دلی تڑپ سے مسلسل دعائیں کر کرکے وہ اپنے بھائیوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش میں لا سکتا ہے۔
حضور انور نے مشرقی پاکستان میں ہولناک طوفان کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہم اپنے مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کی مالی امداد ایثار کا شدید جذبہ رکھنے کے باوجود ایک حد تک ہی کر سکتے ہیں لیکن دعا کے ذریعہ ان کی مدد ایک ایسی مدد ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ اِس لئے دوست اپنے مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کی تکالیف کے ازالہ اور ان کی بحالی و خوشحالی کے لئے جہاں حسبِ توفیق مالی امداد دیں وہاں ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اِن مصیبت زدہ بھائیوں کے لئے بے انتہا دعا کریں اور اس طرح دعائوں سے ان کی مدد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔ آخر میں حضور نے ملک کے موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے احباب کو توجہ دلائی کہ وہ پورے تعہّد اور التزام کے ساتھ یہ دعائیں بھی کریں اور کرتے چلے جائیں کہ اللہ تعالیٰ ملک کے حالات درست کرے اور درست رکھے۔ عام انتخابات نہایت پُر امن ماحول میں ہوں اور باہمی محبت و پیار اور اخوت و مساوات کا جذبہ ترقی کرتا چلا جائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ۱ ،۲)
ززز

آئیں اپنے پیارے مطاع اور اللہ کے
محبوب محمد ﷺ کی باتیں کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔

(الطارق:۱۶تا۱۸)
اس کے بعد فرمایا:-
آئیں آج اپنے پیارے اور محبوب اور مطاع اوراللہ کے محبوب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے لگے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق یعنی بنی نوع انسان کے حقوق بھی ادا کرنے لگے کیونکہ اسلام کا خلاصہ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوبنیادی پہلویہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے جو حقوق ہیں وہ بھی ادا کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا وہ حق ادا کیا جائے جو قرآن کریم میں بتایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے اوربندوں کے وہ حقوق ادا کئے جائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قائم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حق تو یہ ہے کہ انسان توحیدِ خالص پر قائم ہو وہ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں اور اس رنگ میں واحد ویگانہ تسلیم کرے اور یقین جانے جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کی وحدانیت قرآن عظیم میں بیان ہوئی ہے اور اس رنگ کو جو اس کی صفات اور ذات میں ہمیں نظر آتا ہے اپنے اوپر چڑھا کر اس کے بندوں کے حقوق کو جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ قائم کرے اورادا کرے۔
خدائے واحد ویگانہ کی ذات اورصفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اپنی مخلوق کے لئے اکیلا ہی کافی ہے مگر دنیا اس حقیقت کو سمجھتی نہیں ہے اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ(الزمر:۳۷)کی بجائے وہ یہ اعلان کرنے لگ جاتی ہے کہ یُخَوِّفُوْنَکَ بِا لََّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۔(الزمر: ۳۷)یعنی اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کا خوف دل میں پیدا کرتی ہے اور تنبیہہ کرتی ہے کہ فلاں عقاب سے ڈرو اور فلاں عقاب سے ڈرو مثلاًکفارِ ّمکہ نے یہی اعلان کیا کہ ہمارے عقاب سے ڈرو۔ پھر کفارِ ّمکہ کے ساتھ یہود بھی مل گئے۔ ّمکہ سے باہر کے عرب قبائل بھی ساتھ مل گئے انہوں نے بھی کہا کہ یہ کیا نیا دین آگیا ہے؟ ہم اسے ملیامیٹ کردیں گے مگر کفارِ ّمکہ ہوں یا اس وقت کے یہودی اور نصرانی ہوں یا عرب کے دوسرے بُت پرست قبائل ہوں وہ سب کے سب اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اپنے مخالفین کے مقابلہ میں یہی آواز ہوتی تھی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کیا اللہ تعالیٰ کافی نہیںہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی احتیاج پیدا ہوسکتی ہے؟ نہیں لیکن مخالفین چونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے تھے اس لئے وہ مسلمانوں کوڈراتے تھے کہ تم تعداد میں تھوڑے ہو مگر وہ یہ نہیںجانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ توجب مٹی کے ایک ذرہ کو اپنی انگلی میں پکڑ کرآسمان کی بلندیوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو وہ لے جاتا ہے اور دنیا کے سارے انسان مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منشاء میں روک نہیں بن سکتے۔
مخالفین سمجھتے تھے مسلمانوں کے پاس جتھا نہیں ہے، مال ودولت نہیں ہے، سامان نہیں ہے، وسائل نہیں ہیں، کوئی ان کا سہارا نہیں ہے۔ وہ چونکہ دنیا کے بندے تھے اس لئے دنیوی سہاروں سے آگے ان کی نظر نہیں جاتی تھی اور جو اس دنیا کا حقیقی سہارا ہے وہاں تک ان کی نگاہ اور عقل کی رسائی نہیں تھی اس لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو دوسری طاقتوں سے ڈراتے تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍذِی انْتِقَامٍ (الزمر :۳۸) یعنی کیا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اس کے کرنے پر وہ غالب نہیں ہے؟ اس میں مسلمانوں کویہ سبق دیا کہ جومیں چاہتا ہوں وہی ہوگا۔ تمہیں ان مخالفین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اس دنیا پر اس رنگ میں غالب آئے کہ دنیا کے اندھیروں کو وہ دورکردے اور اس دنیا کے سینوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کردے اور اللہ تعالیٰ اس پرقادر ہے اس واسطے ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور مخالفین جو تدبیریں کرتے ہیں میں انہیں ان کی سزا دوںگا کیونکہ میں انتقام لینے والا بھی ہوں مجھے انتقام لینے کی طاقت ہے اس لئے ان کی ساری مخالفانہ تدبیریں خاک میں مل جائیں گی۔
پس اس آیۂ کریمہ میں پہلے مسلمانوں کو یہ کہا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗاور پھر ان کے منہ سے غیروں میںا س کی تبلیغ کروائی۔دوسری طرف کافروں سے کہا کہ اللہ عزیز بھی ہے اور انتقام کی بھی طاقت رکھنے والا ہے وہ جو چاہتا ہے وہ کرے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کافر جو چاہتے ہیں اور جو ان کے منصوبے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ملیامیٹ کردے گااور خاک میں ملادے گا۔ البتہ منصوبے بنانے کی ان کو اجازت ہوگی۔ چنانچہ قریشِ مکّہ نے بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبے کئے۔ عرب کے دوسرے قبائل جن کی لاکھوں کی تعداد تھی انہوں نے بھی بعض چھوٹے چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف منصوبے باندھے۔پھر یہود کی سازش ساتھ مل گئی۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ اس وقت کی دنیا کا Spear head(سپیئر ہیڈ) یعنی نیزہ کی اَ ّنی جو تھی وہ اسلام کے خلاف نظر آتی تھی پھر پیچھے تونیزے کا پھل یا دو پھلہ کہناچاہئے یعنی کسریٰ اور قیصر کی شوکت اور دنیوی طاقت اسلام کے مقابلے پرآئی لیکن نیزے کی اَ ّنی جوتھی وہ کفارِ ّمکہ یا عرب کے دوسرے قبائل کے حملہ آور ہونے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے منصوبے کئے اورہرقسم کے منصوبے کئے۔ قرآن کریم میں سورۂ طارق میں اسی طرف اشارہ ہے فرمایا’’اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا‘‘ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں گے۔ دائو بیچ سے کام لیںگے۔ ان سے ہم انہیں نہیں روکیں گے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کو تو یہ بھی طاقت ہے کہ کسی کو منصوبہ ہی نہ کرنے دے لیکن اگراللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کو ظاہر کرے تو پیار کے وہ جلوے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا ہے یعنی اس کی حفاظت کے جلوے، اس کی قدرتوں کے جلوے، اس کے حسن واحسان کے جلوے دنیا کس طرح دیکھے؟ مخالفین تودیکھ لیں گے لیکن دنیا کو نظر نہیںآئیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالفین اسلام جو بھی مکر اور سازش کرنی چاہیں وہ کریں میں انہیں اس سے نہیں روکوں گا بلکہ اس میں انہیں مہلت بھی دوںگا لیکن جب ان کی سازشیں زور پکڑیں گی تو میں ابھی کچھ عرصہ اپنی قدرت نہیں دکھائوں گا اور اپنے کمزور بندوں سے کہوں گا کہ تم صبر اور دعا سے کام لو چنانچہ خدا کے بندوں کے خلاف جب بھی منصوبے کئے گئے وہ صبرسے کام لے رہے ہوں گے وہ گالیاں سن کر دعا دے رہے ہوں گے۔ انہیں زہر دیا جائے گا اور وہ میٹھا شربت پلا رہے ہوں گے۔ ان کے لئے قحط کے سامان پید اکئے جارہے ہوں گے اور جب وقت آئے گا تویہ قحط دورکرنے کے سامان پیدا کریں گے۔ مسلمانوں کو اغوا کیا جائے گا اور اسلام اغوا کے سارے راستوں کو بند کر رہاہوگا۔مسلمان مخالفین کے ہر مکرکا جواب صبر اور تقویٰ کی راہوں پر چل کر اور دعا کے ساتھ دے رہے ہوں گے ۔ مگر اندھی دنیا سمجھے گی کہ اس بے کس قوم کاکوئی سہارا نہیںہے لیکن بینا آنکھ اور وہ جس کی آنکھ ہمیشہ ہی کھلی رہتی ہے اور جو علّام الغیوب ہے وہ کہے گا کہ تم صبر کرو۔ وقت آنے پر تم دیکھ لو گے میں کیا کرتا ہوں۔ فرماتا ہے اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَّ اَکِیْدُ کَیْدًا یعنی میں اپنی منشاء اورمرضی کے مطابق اپنی تدبیر کروںگا جو اپنے وقت پر ظاہر ہوگی۔غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عرصہ ایسا آئے گا کہ میرے ماننے والے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فدائی دنیا کی نگاہ میں بے سہارا ہوں گے لیکن میں ان کا سہارا ہوں گا اور میں ان سے کہوں گا کہ میں تمہارا سہارا ہوں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے متبعین کے خلاف یہ منصوبے اس لئے کئے جائیںگے کہ وہ خدا کے بندوں کو توحیدِ خالص کی طرف بلا رہے ہوں گے اور انہیں ان کے انسانی حقوق دلوارہے ہوں گے اور اِنََّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کا عظیم نعرہ بلند کرکے وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان کسی ماں نے نہ اب تک جنا اور نہ آئندہ جن سکتی ہے ایسا عظیم الشّان وجود جو اللہ تعالیٰ کا حقیقی محبوب ہے او رباقی ہر ایک نے اسی کے طفیل خدا کی محبت کوپایا ہے اس کی زبان سے یہ عظیم کلمہ نکلوا دیا کہ میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو۔ جب یہ مساوات اور برابری کا عظیم الشان اعلان ہوا تو مکہ کے سرداروں نے کہا کہ یہ کہاںکی آواز اٹھی؟کیا ہم اور ہمارے غلام برا بر ہیں؟کیا ہمارا قبیلہ جو خانہ کعبہ کا محافظ ہے یہ اور عرب کے دوسرے قبائل برابر ہو گئے؟ کیا عرب کے رہنے والے اور حبشہ اوردوسرے افریقی ممالک کے رہنے والے برابر ہوگئے؟ یہ کیسی آواز ہے؟ ہم تو اسے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ اسے برداشت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس پاک اور بلند اورعظیم آواز کے خلاف منصوبے بنانے شروع کردئیے جن کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کے زور سے اپنی برتری کو قائم رکھیں گے اور مساوات کو قائم نہیں ہونے دیں گے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب کا یہ فرمان ہے کہ اس نے ہر انسان کو پیدا کیا اور اس کے اندر تمہیں جو بھی قوت اور استعداد نظر آتی ہے وہ اس کی پیدا اور عطا کردہ ہے اور فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہر فردِ واحد کی تمام قوتوںکی نشوونما کو کما ل تک پہنچایا جائے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کی حیثیت سے ہر فردِواحد کی تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کوکمال تک پہنچانے کے لئے جس مادی اور غیر مادی چیز کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کردی ہے۔ انسان کی قوتیں اور استعدادیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور اخلاقی اور روحانی بھی ہوتی ہیں۔ ان قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے کمال تک پہنچنے کے وسائل اورذرائع مادی اور غیر مادی دوحصوں میں منقسم ہوتے ہیں۔
جسمانی لحاظ سے مثلاً طیّب غذا کی ضرورت ہے اور خالی حلال ہی نہیں کیونکہ حلال میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح کی شان نظر نہیں آئے گی اس لئے نہ صرف حلال بلکہ حلال اور طیّب غذا کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کے جسم کا تقاضا مختلف ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے ہزار قسم کی حلال چیزیں پید اکی ہیں اور ہزار قسم کی نعمتیں مہیا فرمائی ہیں اور فرمایا کہ میری ان ہزار قسم کی اشیاء اورنعماء میں سے طیّب اور اپنے مناسب حال چیزوں کو استعمال کرو گے تو تمہاری جسمانی طاقتیں نشوونما کرتی ہوئیں اپنے کمال کو پہنچ جائیں گی اب مثلاً ایک بچہ ہے اس کی جسمانی ضرورت الگ ہے۔ بعض دفعہ وہ چنے کھانا چاہتا ہے اور ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیںہم تمہیں دودھ پلائیں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے قانون اور ماں باپ کی خواہش کے درمیان لڑائی ہوجاتی ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ غلط اندازہ لگاتے ہیں اور غلط بات جاری کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک واقعاتی چیز ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ میں ایسے واقعات کا شاہد ہوںکہ بچے کو دست آرہے ہیں اور وہ کہتا ہے میں نے چنے کھانے ہیں۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ یہ بچہ پاگل ہے۔ ہم نے اس کو چنے نہیں دینے مگر وہ چنے کھانے پر بضد ہے۔ کوئی سمجھدار کہتا ہے کہ یہ دوسال کا ناسمجھ بچہ ہے یہ چنے کھانے کی آواز اس کے اندر کی آواز ہے اسے چنے کھانے دو چنانچہ اسے چنے کھانے کی اجازت دی گئی اور بچے کے اسہال بندہوگئے۔
پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر فرد واحد اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے اور اس طرح جوتنوع پیدا ہوتا ہے یہ خدا کی واحدانیّت کی ایک دلیل ہے۔ ہر جگہ آپ کو تنوع نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اپنی ذات میں اوریکتا ہے اپنی صفات میں۔ ویسے ہمارا علم اور عقل چونکہ محدود ہے ہم بعض اصول بنا لیتے ہیں اور چیزوں کی گُروپنگ کردیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے ہر فردِ واحد کے جسم کی بناوٹ اپنی انفرادیت کی وجہ سے غذائوں کے ایک خاص قسم کے مجموعہ کو چاہتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک اور قانون کے مطابق غذائوں کا جو balance (بیلنس یعنی توازن) ہے اسے قائم رکھنے ہی سے انسان کی جسمانی قوتوںکی بہترین نشوونما ہوسکتی ہے ورنہ توازن قائم رکھنے کے بغیر نشوونما کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ ویسے بہترین نشوونما اور واقعاتی نشوونما میں انیس بیس کا فرق بھی رہ سکتا ہے اور د س بیس کا فرق بھی رہ سکتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر فردِ واحد کی جسمانی قوتوں کی نشوونما کے لئے متوازن غذابننے کے لئے غذا کی جن اقسام کی ضرورت تھی وہ میں نے پیدا کردی ہیں ۔ انسان اگر ان ہزاروں چیزوں کی باریکیوں میں جائے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسان کا تخیل وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ انسانی تصور ان چیزوں کا احاطہ کرہی نہیں سکتا کیونکہ ان چیزوں میںبہت وسعت ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو جو قوتیں اور استعدادیں دی ہیں ان قوتوں او راستعدادوں کی نشوونمااپنے کمال تک پہنچنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب پیدا کردئیے ہیں اگر کسی کو اس کی ضرورتوں کے مطابق یا قوتوں کی نشوونما کے لئے پوری چیزیں نہیں ملتیں تو اس میں یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے مثلاً قحط پڑجاتا ہے چیزیں نہیںملتیں لیکن اس کا کسی پر کوئی الزام نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ پس یا تو یہ شکل ہوتی ہے اور یا یہ شکل ہوتی ہے کہ ظلم کے نتیجہ میں چیزیں نہیں ملتیں۔ ایک اور آدمی کے پاس تو ہیں لیکن وہ ضرورتمند کونہیں دے رہا۔ جب خدا کے ان بندوں کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے(اور اٹھائی گئی کہنا چاہئے کیونکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کے زمانے کی باتیں کر رہا ہوں) تو اس وقت کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور امیر لوگوں نے کہا کہ ہمارے مالوں میں ان غریبوں کا کہاں سے حق پید اہوگیا؟ چنانچہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ تم ہمیں اس چیز سے منع کرتے ہو کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصّرف نہ کریں اور جس طرح خدا کا منشاء ہے اسی طرح خرچ کریں اور یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے اموال کے مالک ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہ کریں؟
چنانچہ یہ آواز اٹھائی گئی ایک مساوات کی اوردوسری غربت کے دور کرنے کی(یہ تومجھے نہیں کہناچاہئے بلکہ مجھے توکہنا چاہئے کہ ) ہرقسم کے حقوق کی ادائیگی کی اورقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور دار الفاظ میںفرمایا کہ اگر تم میرے غریب بندوں کا خیال نہیں رکھوگے توجہنم میں جائو گے اور اللہ تعالیٰ نے جہنم اسی لئے پیدا کی ہے۔ چنانچہ قران کریم میں ایک جگہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم دو وجہ سے بنائی ہے ایک توحید پر قائم نہ رہنے کے نتیجہ میں جہنم ملتی ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے بندوں کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے جہنم ملتی ہے۔ گویا بنیادی طورپر حقوق اللہ اور حقوق العباد بیان کردئیے گئے ہیں۔ ان کی تفصیل نہیں بیان کی گئی۔غرض جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز اٹھائی کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے تو دشمنانِ اسلام نے سمجھا کہ ہم تومارے گئے ہم بڑی طاقت رکھتے ہیں اور اپنی اس طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں برتری کے خیالات رچے ہوئے ہیں اگرہم سب برابر ہوگئے تو ہم تومارے گئے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حبشی بلالؓ اور ابوجہل برابر ہوگئے؟ یہ تونہیں ہوسکتا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مساوات انسانی کی اس عظیم آواز کے اٹھانے پر دنیا مخالف ہوگئی۔جب آپ نے عزتِ انسانی کی آواز اٹھائی(جو دراصل مساوات ہی کا ایک پہلو ہے) اور فرمایا سب لوگوں کی عزت کرنی پڑے گی۔ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی آدمی حقیر نہیں ہے ورنہ خدا تعالیٰ پر یہ اعتراض آتا ہے کہ اس نے حقیر انسان بھی پیدا کیا ہے حالانکہ اسلام کہتا ہے کہ جس کو خدا نے پیدا کیا ہے وہ خدا کی نگاہ میں حقیر نہیں ہوسکتا اورجو خدا کی نگاہ میں حقیر نہیں ہوسکتا وہ خدا کے بندوں کی نگاہ میں بھی حقیر نہیں ہونا چاہئے چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزت انسانی کی یہ آواز اٹھائی تو مخالفین نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تم ہمیں اس بات سے روکتے اور منع کرتے ہو کہ ہم دوسرے لوگوں کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں یہ نہیں ہوسکتا۔ ہم طاقت رکھتے ہیں اور تمہیں کچل کر رکھ دیں گے اورپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے متبعین کے خلاف منصوبے بنانے شروع کردئیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جب یہ فرمایا کہ ہرفرد کی برابری اور اس کی عزت کے قیام کے بعد جہاں تک ممکن ہو (یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض دفعہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں) انسانی قوتوں او راستعدادوں کو نشوونما کے کمال تک پہنچنا چاہئے تو مخالفینِ اسلام نے کہا کہ یہ بات تو ہمارے اموال لوٹنے کے مترادف ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں جو مال ودولت ملی ہے یہ اللہ کی عطا کردہ نہیں بلکہ اسے انہوں نے اپنی محنت، کوشش اورعقل کے استعمال کے علاوہ دوسروں کی مدد سے اکٹھا کیا ہے۔ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں سے خدا کے بندوں پر خرچ کرو۔ یہ تونہیں ہوسکتا۔
پس مساوات کی یہ آواز عزتِ انسانی کی یہ آواز دراصل حقوقِ انسانی کے قیام کا ایک عظیم اعلان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ کوئی فلسفہ نہیںہے بلکہ قرآن کریم کی یہ تعلیم عملاً انسانی زندگیوں کوبدل دینے والی اور قوموں کی زندگی میں ایک انقلابِ عظیم بپا کرنے والی ہے۔ یہ تعلیم محض خیالی یا عقلی نہیں ہے۔ دنیا نے اس کے عملی مظاہرے دیکھے ہیں چنانچہ اسلام کی اس تعلیم کے نتیجہ میں ہرجگہ برابری اور مساوات آگئی۔ عرب اور عجم کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔ گورے اورکالے کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔ امیر اورغریب کا امتیاز مٹ گیا۔ انسان اب بھی جب مسلمان کہلانے والوں کے اندر یہ تفریق دیکھتا ہے۔ تو حیران رہ جاتا ہے۔ یو ں تو سارے خدائے واحد ویگانہ پر ایمان لانے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں مگر ان میں سے ایک باعزت بن گیا اور دوسرا ذلیل ہوگیا جو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دامن سے چمٹاہوا ہے وہ ذلیل کیسے ہوگیا؟
پس یہ دوعظیم نعرے تھے۔ ایک توحید کے قیام کا نعرہ اوردوسرا حقوقِ انسانی کے قیام کا نعرہ ۔ حقوقِ انسانی کے قیام کے نعرہ میں بنیادی طورپر دوچیزیں تھیں ایک مساواتِ انسانی اورشرفِ انسانی کا نعرہ اور اعلان اور دوسرے انسانی قویٰ اور استعداد کی کامل نشوونما کا نعرہ اوراسلام نے مسلمانوں کو حقوقِ انسانی کے قیام کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔خدا تعالیٰ نے ہمیں قیادت بخشی ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھ عطا کی ہے اور ہمارے لئے ایک کامل اور مکمل تعلیم اتاری ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس تعلیم کے ذریعے ساری دنیا میں ایک Revolution (ریوولوشن) یعنی ایک انقلاب بپا کردو۔ قوموں کی زندگی ان کے خیالات اور فکر وتدبر کی کایاپلٹ کر رکھ دو اور اس طرح ثابت کردو کہ انسان انسان برابر ہیں۔ یہی پیغام میں افریقہ کے دورے میں لوگوں کو دے کرآیا ہوں کہ اب وہ دن چڑھ گیا ہے کہ آئندہ کوئی انسان تمہارے ساتھ نفرت اور حقارت کا سلوک نہیں کرے گا اسلام کی یہ اتنی عظیم تعلیم تھی اور اس کے خلاف اتنے عظیم منصوبے باندھے گئے چنانچہ جب ہم ان منصوبوں کی تفصیل میں جاتے ہیں تو ہمیں ان کی عجیب شکلیں نظر آتی ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا کہ یہ جو اسلام نے مساواتِ انسانی اور شرفِ انسانی کے عظیم اعلان کئے ہیں جن لوگوں نے ان کو پسند نہیں کیا اور ا س تعلیم کو ماننے سے انکار کردیا ہے انہوں نے اس کے خلاف جو مختلف منصوبے کئے ان میں سے ایک منصوبہ اغوا کا تھا۔ اغوا کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں لیکن اغوا کے اصل معنے یہ ہیںکہ کسی انسان کو اس ماحول میںجو اس کا اپنا ماحول ہے پرورش پانے اور تربیت حاصل کرنے سے محروم کردیا جائے۔ یہ اغوا کا اصل نتیجہ ہے اور اصولی طورپر میں سمجھتا ہوں کہ اغوا کے معنے ہی یہ ہیںکہ بعض لوگ بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور دوسری جگہ لے جاکر بیچ دیتے ہیں۔ اب مثلاً ایک نہایت شریف خاندان کا دینی ماحول میں پرورش پانے والابچہ ہے ظالم انسان اسے اٹھاتا ہے اور کسی دوسری جگہ جاکر غلام بناکر بیچ دیتا ہے یا مثلاًلڑکی ہے تو اسے نہایت گندی جگہوں پہنچا دیاجاتا ہے حالانکہ اس بچے یا بچی کے ماحول میںجس میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اس ماحول میں تویہ فضا نہیں تھی۔ اس ماحول میں تونیکی تھی اس ماحول میںتو قرآن کریم کی تعلیم تھی اس ماحول میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو پیدا کرنے کا چرچا تھا اس ماحول میںتو اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرنے کے سبق دئے جاتے تھے۔ غرض اغوا کرنے والے اس دینی ماحول سے نکال کر بچوں کو ایک اورگندے ماحول میں لے جاتے اس لئے میرے نزدیک اغوا کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان کو ایسے ماحول سے محروم کر دیا جائے جس ماحول میں وہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تربیت حاصل کرنا یا تربیت دینا چاہتے ہیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ماننے والوں کے خلاف بھی اسی قسم کا منصوبہ بنایا گیا چنانچہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط رکھدی گئی کہ مکہ میں جو آدمی مسلمان ہوگا وہ مدینے میں نہیں جا سکے گا یعنی ایسے مسلمان کو اس تربیت سے محروم کردیا گیاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر وہ حاصل کرسکتا تھا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا۔ یہ واقعی ایسا عجیب فریب تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے صاحبِ فراست بھی ڈگمگا گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دیا تھاکہ مخالفین مختلف قسم کی ’’کید‘‘ کرتے ہیں انہیں ایسا کرنے دو تم اس کی فکر نہ کرو اس سے تمہیں انجام کار فائدہ پہنچے گا یعنی ان کی اس ’’کید‘‘ یعنی سازش کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ جو’’کید‘‘ یعنی تدبیر کرے گا وہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گی۔
غرض کفارِ مکہ نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اس طرح بیسیوں مسلمانوں کو اس تربیت سے محروم کیا جسے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے یا اس تربیت سے محروم کیا جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کو اپنے پَروں کے نیچے رکھ کر دینا چاہتے تھے اور یہی اغواہے۔ غرض مسلمانوں کے خلاف ایک اس قسم کے اغوا کا منصوبہ بنایا گیالیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اغوا کا یہ منصوبہ بنائو ہم اسے ناکام بنادیں گے البتہ جس طرح اغوا کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جو قادروتوانا ہے اس کا کوئی جلوہ Repeat(ری پیٹ) نہیں ہوتا (یعنی دہرایا نہیں جاتا) یعنی اس میںMonotony(مونوٹنی اکتادینے والی یکسانیت) نہیں پیدا ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرّحمٰن:۳۰) کی رو سے کبھی ایک شکل میں اورکبھی دوسری شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں چنانچہ کفار کے اس اغوا کے منصوبہ کے خلاف اللہ تعالیٰ تدبیر کرتا رہا اور ا ن کو اس منصوبے میں ناکام بناتارہا اور جب تک ایک مومن یا مسلمان کو اسلام پر قائم رہنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق ملتی رہتی ہے یا جن کو ملتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسا کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ سے کیا تھا۔
کفار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف دوسری ’’کید‘‘(یعنی تدبیر یا سازش )یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو دھو کے سے قتل کردیتے تھے۔ اب دھوکے سے قتل کر دینا کئی شکلوں کا ہوتا ہے مثلاً ایک یہ کہ پیٹھ کی طرف سے آکر پیچھے سے چھُرا گھونپ دینا، یہ بھی دھوکے کا قتل ہے اور دین سیکھنے کابہانہ بناکر ستّر حفّاظ کو لے جانا اور وہاں انکو شہید کردینا یہ بھی دھوکے کا قتل ہے یامثلاً۱۹۴۷ء میں ہندو اور سکھ مسلمانوں کی ریل گاڑیوں کو پٹڑیوں سے نیچے اتار دیتے تھے یہ بھی دھوکے کا قتل ہے۔
غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خلاف دھوکے سے قتل کرنے کی بھی سازش ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اگر ایک مسلمان دھوکے سے قتل ہوا تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس جیسے ہزاروں مسلمان دے دئیے مثلاً یہ حُفّاظ کا قتل ہے یہ ستر آدمیوں کا قتل نہیں بلکہ ستّر حفّاظ کا قتل ہے۔ ان کے بدلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے آدمی ملنے چاہئے تھے جنہیں قرآن کریم حفظ ہوتا تبھی تو ان کی سازش ناکام ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق بخشی۔چھوٹی چھوٹی فوجیں باہر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں حفّاظ ہوتے تھے۔(اب مشکل پڑگئی ہے کیونکہ لوگوں نے قرآن کریم سے وہ پیار نہیں کیا۔ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک رَو شروع ہوئی ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کثرت سے لوگ قرآن کریم حفظ کرتے تھے اور اگر کسی کو پورا قرآن کریم حفظ نہیں تھا تو بڑی بڑی سورتیں اور کئی کئی سپارے یادہوتے تھے حتیٰ کہ چھوٹے بچوں کو بھی بہت سی سورتیں یاد ہوتی تھیں(ہمارے گھروں میں بھی اس کا شوق پیداکرنا چاہئے۔ دس پندرہ سال کے بچوںکو آخری سیپارے کی چھوٹی چھوٹی سورتیں ضرور یا د کروادینی چاہئیں)
پس کفّارنے دھوکہ دہی سے قرآن کریم کے حفّاظ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس طرح اسلام کو ستّر حفّاظ سے محروم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے یہ زندگی تو ہے ہی عارضی کوئی آدمی بستر پرمَرجاتا ہے اور کوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوجاتا ہے تم نے اسلام کو ایسے ستر مخلصین سے محروم کیا تھا جنہیں قرآن کریم زبانی یاد تھا اور اس وقت تو مسلمانوں کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ حفاظ کے قتل کا یہ واقعہ سن چارہجری کا تھا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان مردوں کی تعداد دس ہزارتھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھے۔ توچارہجری میں تو بہت ہی کم ہوں گے اور اس وقت حافظ قرآن بہت تھوڑے تھے۔ ان میں سے کفار نے اپنی طرف سے بہت سارے شہید کردئیے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاکھوں کی تعداد میں حفّاظ دئیے اوراب تک دیتا چلا آیا ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اور فیض رساں زندگی چندسالوں میں ختم نہیں ہوئی۔ آپ کو ابدی زندگی عطاہوئی ہے۔ آپ کے روحانی فیوض کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس واسطے جب میں آپ کی زندگی کا ذکر کرتا ہوں تواس سے دونوں طرف اشارہ ہوسکتا ہے یعنی آپ کے اپنے زمانہ میں بھی اور بعد میں اب تک آپ کے روحانی فیوض جاری وساری ہیں۔ چنانچہ اس عرصہ میں کروڑوں مسلمانوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت ملی جس سے مخالفین کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ انہوں نے تو یہ سوچاہو گا کہ اس طرح بھی اسلام کو ضرب لگے گی یعنی اگر کوئی سارے مذہبی علماء کو قتل کرنا چاہے تو اس کی خواہش تو یہی ہوگی کہ علمِ دینِ اسلام جاننے والے باقی نہ رہیں۔ توحفّاظ کے اس قتل میں بھی ایک خیال یہی کارفرما تھا کہ قرآن کریم کو زبانی یاد رکھنے والے باقی نہ رہیں اور اس طرح اسلام کے اندر کمزوری پیدا ہوجائے۔ بعد میں کئی اورخرابیاں بھی پیدا ہوسکتی تھیں لیکن قرآن کریم کو نازل کرنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے قادروتوانا خدا نے فرمایا کہ نہیں! میں تمہارا یہ منصوبہ خاک میں ملا دوں گا۔
جیسا کہ میں نے بتا یا ہے کہ اس میں ہر قسم کا دھوکہ ہوسکتا ہے۔ پیچھے سے چھُرا بھی گھونپا جاسکتا ہے۔ جس طرح دھوکے سے لے جاکر حفّاظ کو قتل کیا تھا۔ اس طرح بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جس طرح سکھوں اور ہندوئوں نے ریلوں کوپٹڑیوں سے اتار دیا تھا جن میں مسلمان آرہے تھے وہ بھی ایک دھوکے کا قتل ہے لیکن دھوکے سے قتل کرنا اصولی طورپر یہ ایک عنوان ہے جس کے نیچے کفار کے بہت سارے اعمال آجاتے ہیں۔ کبھی وہ ایک قسم کا دھوکہ کرتے تھے کبھی دوسری قسم کا دھوکہ کرتے تھے مگر جب بھی وہ دھوکہ کرتے تھے خداتعالیٰ اپنی ایک نئی اور نرالی شان کے ساتھ ظاہرہوتا تھا اور ان کے ناپاک منصوبے کوناکام بنا دیتا تھا۔
عجیب تھا وہ انسان(صلی اللہ علیہ وسلم) اور عجب تھے وہ لوگ(رضوان اللہ عنہم) جواس سے پیار کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر آپ کے صحابہ پربے شمار رحمتیں اور برکات نازل فرمائے خدا فرماتاتھا کہ مخالفین تمہارے خلاف سازشیں کریں گے مگر تم نے صبر کرنا ہے وہ کہتے تھے کہ اے خدا! کوئی ہمارے خلاف جو مرضی ہے۔ سازش کرتارہے ہم تیری راہ میں ثباتِ قدم دکھائیں گے اور صبر سے کام لیں گے۔ اے ہمارے رب! ہم جانتے ہیں کہ توہمارے لئے کافی ہے۔ تیرے سوا ہمیں کسی اور کی احتیاج نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ یہ بیوقوف ہیں۔ یہ سمجھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے۔
ایک اور مکر اورسازش جو مسلمانوں کے خلاف کی گئی۔ جو دین کے نام پر جمع ہوکر بقول خود ان بے دینوں کوہلاک کرنے کی سازش تھی۔ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں کوپہلے سے یہ بتا دیا تھا کہ کفار یہ ساز ش کریں گے لیکن ناکام ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (القمر:۴۶)الٰہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الٰہی سلسلہ جو پہلے تمام الٰہی سلسلوں سے مختلف بھی ہے اور وسیع بھی ہے اور بہت ارفع اور اعلیٰ بھی ہے کیونکہ انسانیت اپنے ارتقائی ادوار میں سے گزرتی ہوئی اپنی بلندیوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس سلسلہ میں خدا کی طرف بلانے والے صابی کہلانے لگے یعنی بے دین سمجھے جانے لگے اوریہ کفار مکہ جو بُت پرست تھے اور یہودی جو تورات کے حامل تھے بزعم خویش دیندار بن گئے اور پھر یہ سارے نام نہاد و دیندار___بے دینوں کو نعوذ باللہ ہلاک کرنے کے لئے اکٹھے ہوگئے یعنی یہ بھی انہوںنے ایک منصوبہ بنایا تھا کہ دین کے نام پر اکٹھے ہوکر سب نے اسلام کے خلاف منصوبہ بنا لیا اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا۔اَلْـکُـفْرُ مِلَّـۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ یہ سارے بے دین___دین کے نام پر اکٹھے ہوگئے اوروہ جو خدا کے عاجز بندے تھے ان کو بے دین قرار دے کرانہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ ٹھیک ہے تم کوشش کرو یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیںاس بات سے نہیں روکا کہ وہ اکٹھے نہ ہوں بلکہ انہیں اکٹھا ہونے دیا اور مہلت بھی دی کہ تم اکٹھے ہوکر سوچو اورمنصوبہ بنائو اور پھرحملہ کرواور مدینے کو گھیرے میں لے لو مگروہ خدائے قادر وتوانا جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کے ہرپہلو سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جب میری گرفت آگئی توتم اس سے کیسے بچ کر جائو گے؟ چنانچہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منصوبہ بنایا اورآپ کی مخالفت میں وہ سب اکٹھے ہوگئے۔ یہود بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ باہر کے بہت سے قبائل بھی ساتھ مل گئے۔ سردرانِ مکہ جواپنے آپ کو سارے عرب کا سردار سمجھتے تھے وہ اب مسلمانوں کے خلاف اس متحدہ کمان کے سردار بن گئے اور انہوں نے مدینے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ مسلمانوں کی بظاہر بڑی نازک حالت ہے(اگر تمثیلی زبان میں یہ الفاظ بول دئیے جائیںتو میں کہوں گاکہ)اللہ تعالیٰ آسمانوں پر مسکرا رہا تھا کہ میرے بندوں کو تم ہلاک کروگے؟ میں نے تمہیں نام نہاددین پر جمع ہونے کی اجازت تودے دی ہے لیکن وہ جو میرے حقیقی بندے ہیں اورجنہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل اور مکمل دین عطا کیا گیا ہے تم ان کی آواز کو نہیں مٹا سکو گے چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو سزا دلوانے اور عذاب کا مزہ چکھانے کی بجائے ایک رات ان پر اللہ تعالیٰ کے غضب کا ایک ہی کوڑا پڑاور وہ سارامجمع منتشر ہوگیا۔
غرض الٰہی سلسلوں کے خلاف ایک منصوبہ یہ بنایا جاتا ہے کہ دین کے نام پر سب بے دین اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے مگر دنیا سمجھتی ہے کہ وہ خاموش ہے حالانکہ وہ خاموش نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے میں ان کو ڈھیل دیتا چلا جاتا ہوں تاکہ ان کا منصوبہ تیار ہوجائے۔ یہ مشورے کرلیں۔ ان کا اکٹھ ہوجائے اور پھر سامان اکٹھا کرلیں اوراپنی تدبیروں کوعملی جامہ پہنانے کے لئے سردار مقرر کردیں۔ پھر کوچ کریں اور بالآخر مدینے کو گھیرے میں لے لیں اور سمجھیں کہ وہ کامیاب ہوگئے ہیں چنانچہ اپنی اس تدبیر یا منصوبے کی بناء پر کفار نے مدینے کو آکر گھیر لیا۔ خدانے فرمایا یہاں تک تو تمہیں اجازت ہے لیکن اس سے آگے میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا کیونکہ میں غالب اور انتقام لینے والا ہوں۔تمہیںیہ کہا گیا تھا کہ خدا کے نام پر خدا کی طرف بلانے والے کی آواز سنو اور اس کے پیچھے چلو۔ مگر تم نے ایسانہیںکیا۔اب جس خدا کی طرف تمہیں بلایا جارہا تھا وہ غالب اور انتقام لینے والا ہے۔ اب وہ اس صفت یا ان صفات کے جلوے دکھا کر تمہیں یہ بتائے گا کہ میرے اس منادی کی آواز حق وصداقت پر مبنی تھی۔ یہ آواز اس کے اپنے دل کی آواز نہیں تھی۔ یہ آواز کسی منصوبہ کے نتیجہ میں بلند نہیں ہوئی تھی۔ یہ شیطان کی آواز نہیں تھی بلکہ یہ آواز خدائے واحد ویگانہ کی آواز تھی جو خدا کے محبوب کی زبان سے نکلی تھی اور یہی آواز غالب آئے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ماننے والوں کو کہا کہ انہوں نے منصوبے بنائے، بناتے رہیں اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ صبر کرواور تقویٰ اختیار کرو ان کا’’کید‘‘(وہاں بھی کید کا لفظ استعمال فرمایاہے) یعنی ان کامکر اور ان کی سازش کامیاب نہیں ہوگی چنانچہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور تقویٰ کی جو ہدایت دی گئی تھی انہوں نے اس ذریعہ سے خدا کی محبت کو پایا اور خدا کے انتقام کو جوش دلایا۔ اگر مسلمان خود آگے سے جواب دیتے تو خدا تعالیٰ کہتا۔ تم سمجھتے ہو کہ ان کا مقابلہ کرنے کی تمہارے اندر طاقت ہے تو پھر جائو ان سے لڑو مگر مسلمانوں نے کہا۔ اے ہمارے خدا!ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں ہے۔ یہ ہمیں ہلاک کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہم تیری اجازت کے بغیر ان کے خلاف ایک تنکا بھی نہیں اٹھائیں گے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلواراٹھائی اس سے پہلے تو مسلمانوں نے تلوار نہیں پکڑی۔ جب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میری طرف سے اجازت ہے تومسلمان اپنی ٹوٹی ہوئی تلواروں کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوئے بعض دفعہ تو ان کی لکڑی کی تلواریں ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ تلواروں کے مقابلے میں سوٹیاں حتیٰ کہ خیموں کے ڈنڈے استعمال کرنے پڑے۔ یرموک کی جنگ میں مسلمانوں نے ایک موقعہ پر خیموں کے ڈنڈے استعمال کئے اور مدینہ میں بھی کئے۔ غرض دشمن کی تلواروں کے مقابلے میں یہ چیزیں استعمال ہوتی تھیں۔ اب جو شخص ایک تنکا لے کرایک پہاڑ کا مقابلہ کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ وہی جیتے گا اس شخص پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ اس نے اپنے تنکے پر بھروسہ کیا اوراپنے خدا پر بھروسہ نہیں کیا کیونکہ تنکے اورپہاڑ کاآپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
پس تدبیر کی دنیا میں مخالفین کو تھوڑی سی تدبیر کرنے کی اجازت دے دی۔ ادھر مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری یہ تلواریں کسی کام کی نہیں ہیں۔ میری طاقت آئے گی آسمان سے میرے فرشتے نازل ہوں گے اور وہ تمہارے مخالفین کو ہلاک اور تمہاری حفاظت کریں گے۔
پس مخالفین کا ایک منصوبہ بقول ان کے دین کے نام پر جمع ہوکر جو حقیقی دیندا ر ہے اسے بے دین کہہ کر ہلاک کرنے کا ہے اور چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ابدی زندگی عطا کی ہے اس لئے قیامت تک اس قسم کے منصوبے ہوتے رہیں گے لیکن میں اس وقت انکا ذکر نہیں کررہا۔ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی کے واقعات بتارہاہوں چنانچہ آپ کے زمانہ میںسارے بے دین آپ کے خلاف اکٹھے ہوگئے یعنی حیرت ہوتی ہے کہ مکہ کے بُت پرست اور تورات کے حا مل یہودیوں کا دین توٹھیک ہوگیا اور انہوںنے اپنے آپ کو صداقت پر سمجھ لیا لیکن وہ جو خدائے واحد ویگانہ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا۔ وہ جس کے حق میں خانہ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور تورات کے حامل حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی پیشگوئی کی تھی وہ بے دین ہوگیا اور یہ بُت پرست اور یہودی اکٹھے ہوکر دیندار بن بیٹھے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا میں ان کو مہلت دوں گا کہ یہ اپنے منصوبوں کو کمال تک پہنچائیں او رمسلمانوں سے فرمایا میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم جتنی میں کہوں اتنی تدبیر کرو تم دعا کرو، تم صبر سے کام لو، تم اشتعال نہ دلائو تم گالی کے مقابلے میں گالی نہ دو بلکہ دعائیں دوکیونکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی نمونہ تھا۔تم معاف کرو البتہ انتقام لینے اور معاف کرنے کی جوصفت ہے اصل میں یہ دونوں حقیقی طورپر اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ان صفات کے جلوے جس حد تک اپنے بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس حد تک ان صفات کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہی فرق ہے اللہ تعالیٰ کی تشبیہی صفات اور بندوں کی صفات میں مثلاً اللہ تعالیٰ غالب ہے اور مسلمانوں کو بھی اس نے غلبہ بخشا ہے لیکن اس صفت عزیز میں پھر بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ بندے میں اس جھلک کا اور خدا تعالیٰ کی اصل صفات کا۔ مثلاً جو سورج کی روشنی ہے اس کا ایک چھوٹے سے آئینہ میں جو عکس پڑرہا ہے اس عکس کا اصل روشنی کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔
اس واسطے ہمارے لئے یہ از حد ضروری ہے کہ توحید خالص کے قیام کے لئے(میں پھر اپنے پہلے پوائنٹ کی طرف عودکرتاہوں)ہم نہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں کسی کو شریک قراردیں البتہ اس نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائو لیکن اس کے ساتھ اس نے ہمیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا مرضی چاہو رنگ چڑھا لو تم میرے شریک نہیں بن سکتے۔ حدبندی مقرر ہے مثلاً اس نے فرمایا ہے کہ ہر چیز میری نظر میں ہے۔ میں ہرچیز کو دیکھتا ہوں لیکن اللہ کی نظر اور بندے کی نظر میں بڑا فرق ہے۔ انسان کی نظر محدود ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کی محتاج ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قوتِ دید کسی روشنی کی محتاج نہیں ہے۔ خداتعالیٰ خود روشنی ہے وہ تو تمام جہانوں کا نور ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتقام کی صفت کا جب وقت آئے گا میں اس کا جلوہ دکھائوں گا۔ تم بھی اس کا رنگ اپنے اندر پیدا کرو لیکن ابتدائی زمانہ میں تو بالکل اور بعد میں بہت حد تک تمہارے اندر عفو کی صفت کے جلوے نظر آنے چاہئیں۔ انتقام لینے کا جب موقع پیدا ہوگا اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی اجازت دے دے گا۔ مسلمان بھی عجیب قوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دے دی شاید نو۹ درخت کاٹے گئے تھے اور یہ کوئی بات نہیں۔ یہاں ایک جانگلی جاکر نونو،دس دس درخت کاٹ دیتا ہے اور اسے اسکا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے عجیب دل اور دماغ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ میرے بندے مجھ میں فنا ہیں یہ میری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ میں نے کہا ہوا ہے کہ درختوں کو نہیں کاٹنا چاہئے کیونکہ اگر اس کارسم ورواج پڑجائے تو اس سے بنی نوع انسان کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس واسطے جہاں ضرورت پڑی وہاں یہ کہہ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے چنانچہ حدیثوں کی بجائے خود قرآن کریم میں اس کا ذکر فرما کراسے بنیادی اصول بنا دیا۔ غرض فرمایا کہ تم نے انتقام نہیں لینا میں خود انتقام لوں گا چنانچہ جب یہ سارے اپنی ناسمجھی اور جہالت کے نتیجہ میں ’’بے دینوں‘‘(جو کہ حقیقی دین کے حامل تھے) کے خلاف جمع ہوئے توخدانے فرمایا تم نے انتقام نہیں لینا۔ میں نے قران عظیم میںیہ کہا تھا اَکِیْدُ کَیْدًاآ ج میں دنیا کے سامنے تمہارے ذریعہ سے اپنی اس تدبیر کا مظاہرہ کرنے لگا ہوں جس میں تمہارے ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اجتماع جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا وہ کسی انسانی دخل کے بغیر راتوں رات غائب ہوگیا۔ مسلمانوں کوپتہ ہی نہیں لگا۔ صبح اٹھے تووہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ خدا تعالیٰ نے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِيْ شَاْنٍ کی رو سے اپنی ایسی تقدیر چلائی کہ وہ خود ہی بھاگ گئے۔
آپ اس پر بھی غو رکریں۔ ایک ہی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ انسان دعا کرتا ہے ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کی ایک شان نظر آتی ہے۔ دوسرے وقت میں اسکی ایک اور شان نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا مخالف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کرآج تک کروڑوں دفعہ شکست کھا چکا اور پتہ نہیں او ربھی کتنی دفعہ اس کوشکست ملے گی لیکن ان کروڑوں موقعوں پر بنی نوع انسان نے اللہ تعالیٰ کے کروڑوں نئے جلوے دیکھے کوئی جلوہ Repeat(ری پیٹ) نہیںہوا۔ اسی واسطے قرآن کریم میں گزشتہ انبیاء کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک نبی کے مخالفین کے متعلق ہم نے یہ عذاب نازل کیا۔ دوسرے نبی کے نہ ماننے والوں پر یہ عذاب نازل کیا اور تیسرے نبی کے مخالفین کسی اور قسم کے عذاب کے مورد بنے اور اس طرح اصولی طورپربتا دیا کہ ہم منکرین انبیاء کو مختلف عذابوں کے ذریعہ پکڑتے ہیں۔ پس ایک یہ تدبیر کی جاتی ہے کہ سارے اکٹھے ہوکر الٰہی سلسلے کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں مگر ہلاک نہیں کرسکتے۔
ایک اور تدبیر اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا کی روسے تاریخی لحاظ سے ہمیں جو نظر آتی ہے وہ کھانے میں زہر دے کر مارنا ہے۔ ایک تودھوکے سے مارنا ہے اسے اس کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں اور اسے ایک مستقل حیثیت بھی دے سکتے ہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں زہر ملا کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ یہ ۶۲۸ء کا واقعہ ہے۔ یہودیوں نے بھُنا ہوا گوشت پیش کیا تھا اور اس میں زہر ملا ہوا تھا۔ اس کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جائوں گا۔
بہرحال کفار کا ایک قسم کا منصوبہ یہ تھا کہ کھانے میں زہر ملائو اور اس طرح مسلمانوں کو قتل کرو یہ بھی ویسے دھوکے دہی کی ایک شکل بن جاتی ہے لیکن چونکہ یہ بڑی اہم چیز ہے اس واسطے میں نے اس کو علیحدہ رکھا ہے۔ توگویا زہر دے کرمارنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ قوم جو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتی ہے اور آنحضرت ـصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح اس کی ذات اور صفات کی معرفت رکھنے والی ہے وہ اس ناپاک سازش سے محفوظ رہتی ہے۔ اس وقت صحابہ رضوان اللہ علیہم کے خلاف کتنی سازشیں کی گئی ہوں گی۔ بعض تو ظاہر ہوگئی تھیں بعض اندر ہی اندر ناکام ہوگئیں۔ وہ ظاہر بھی نہیں ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو اس قسم کی زہریلی سازشوں سے محفوظ رکھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی زندگی کے طفیل اللہ تعالیٰ قیامت تک آپ کے سچے متبعین کو اس قسم کی سازشوں سے محفوظ رکھے گا۔
پس ایک سچے مسلمان سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ تمہارے خلاف سازشیں تو کی جائیںگی اور میں ان سازشوں کو تکمیل تک پہنچانے کی اجازت بھی دے دوں گا لیکن ان سازشوں کا وہ نتیجہ نہیں نکلنے دوںگا جو مخالفین چاہتے ہیں کہ نکلے۔فرمایا’’اَکِیْدُ کَیْدًا‘‘ اس وقت میں اپنا منصوبہ جاری کروں گا۔ اس وقت میری صفات حسنہ کاملہ تمہارے حق میں کبھی رعب کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ کبھی تمہارے وجود میں دنیا میرے حسن کا جلوہ دیکھے گی۔ تمہارے وجود میں میرا حسن چمکے گا اور اس طرح تم دنیا کے ایک حصے کو اپنی طرف کھینچ لوگے اور انکے دلوں میں اپنا پیارپیدا کرلوگے۔ ابھی وہ تم میں شامل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن وہ تمہارے ممدومعاون بن جائیںگے اور کبھی تمہارے نفسوں میں احسان کے جلوے دکھائوں گا۔اب کسی کو اللہ تعالیٰ کے حسن اور احسان کے جلوے دکھانا یہ انسان کی طاقت میں نہیں ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت نہ دے وہ دوسرے سے حسن واحسان کا سلوک کر ہی نہیں سکتا۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلا ف کتنے ہی منصوبے کئے گئے۔ میں نے ان کی چند مثالیں دی ہیں چھوٹے چھوٹے عنوان باندھ کر ایک آدھ مثال بھی دے دی ہے۔ غرض آپ کے خلاف منکرین اسلام نے بے شمار منصوبے کئے لیکن آپ کو بتایاگیا تھا کہ منصوبے ہوں گے اور نتیجہ نکلنے تک کامیاب ہوں گے یعنی نتیجہ نکلنے تک کا جو حصہ ہے اس میں کامیاب ہوںگے۔ جب اس حد تک منصوبہ کامیاب ہوجائے گا تو دنیا کی عقل یہ کہے گی کہ اس منصوبے کا یہ نتیجہ نکلنا چاہئے۔ اس وقت خدا تعالیٰ کی شہادت یہ ہوگی کہ میرے بندوں کے خلاف ایک کامل منصوبے کا بھی وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جو دنیا کے معیار کے مطابق نکلا کرتا ہے اورمیں اپنے بندوں کی حفاظت کروںگا۔ اللہ تعالیٰ کااپنے بندوں سے اس سلوک کا یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے البتہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کے خلاف بے حد منصوبے ہوئے۔ پہلے دنیائے عرب اور پھر کسریٰ او رقیصر مسلمانوں کے مخالف ہوگئے۔ ان کی ہزاروں لاکھوں کی فوج تھی ان کی فوج کے جرنیل کہتے تھے کہ شام سے پہلے اسلامی فوج کا صفایا کرکے رکھ دیں گے۔ مسلمان ہماری طرف پھر نگاہ اٹھا کردیکھنے کے قابل نہیں ہوںگے۔ یہ ارادے تھے ان کے اور یہ منصوبے تھے ان کے۔
یہ تدبیرتھی ان کی اور یہ سازش تھی ان کی کہ مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ٹھیک ہے تم نے بڑے منصوبے بنارکھے ہیں۔ سامان تمہارے پاس ہیں۔ ذرا ان سامانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے تودیکھو۔ بہر حال ان تمام تر تکلیف دہ منصوبوں اور ان تمام سازشوں نے مسلمانوں کے چہروں سے نہ مسکراہٹیں چھینیں اور نہ ان کی قوت عمل سے قوتِ احسان کو چھینا مثلاً حضرت خالدؓ بن ولیداٹھارہ ہزار کی فوج لے کر کسریٰ کی لاکھوں کی فوج کے مقابلے میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے کسرٰی کو اپنے پہلے خط میں لکھا کہ میںتمہیں اس بات سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جاں نثار سپاہی جو تمہارے مقابلے پرآئے ہیں وہ موتوں سے اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں جتنا تم اپنی زندگیوں سے پیارکرتے ہو چنانچہ ان کے چہرے مسکرا رہے تھے۔ موت ان کے سامنے کھڑی تھی لیکن موت کا یہ احساس ان کی مسکراہٹ نہیں چھین سکا۔ مگر مخالفینِ اسلام کی زندگی کی محبت اور پیار ان کو موت سے بچا نہیں سکا غرض ساری دنیا اکٹھی ہوکر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں سے مسکراہٹیں نہیں چھین سکی کیونکہ ساری دنیا نے ظلم ڈھانے کی کوشش کی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سے قوتِ احسان نہیں چھینی گئی۔
ہم اب تھوڑے سے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے فیضان کے جلوے ہماری زندگیوں میں بھی نظر آرہے ہیں۔ کئی لوگ حیران ہوکر پوچھتے ہیں کہ بات کیا ہے؟ میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ بات یہی ہے کہ اسی۸۰ سالہ تکفیر اور اسی۸۰ سالہ مخالفت نے نہ ہمارے چہروںسے مسکراہٹ چھینی ہے اور نہ ہم سے قوتِ احسان چھینی ہے۔ ہم ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ بغیر کسی ایک شخص کی بھی دشمنی دل میںلئے ہمیشہ ہر شخص پر احسان کرتے یا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی طاقت دے رکھی ہے اس کے مطابق ہم ہر شخص سے احسان کرنے کی کوشش کرتے ہیںا ور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو قوتِ احسان عطا کرتا ہے اسے وہ ایک ایسی عظیم تلوار دیتا ہے۔(اگر مادی رنگ میں مثال دینی ہو) جس کے ٹوٹنے کاکوئی خطرہ نہیں اور جس کی دھار کے کند ہونے کاکوئی ڈر نہیں۔
بس مسکراتے اور ہنستے ہوئے دنیا کے سارے منصوبوں کی خار دار جھاڑیوں کے درمیان سے اپنے نرم راستے کے اوپر آگے بڑھتے چلے جائو اور قوتِ احسان ایک عجیب نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ قوت عطا کی ہے اس قوت کے استعمال میں اپنے اوربیگانے میںفرق نہ کرو۔ خدا کے ہربندے سے وہ پیار کرو جس پیار کا اس نے اپنے بندے کو مستحق قراردیا ہے اور اپنے آپ کو کسی سے اونچا اور برتر نہ سمجھو خواہ وہ صبح سے شام تک تمہیں گالیاں دینے والا ہو۔ تم نہیں جانتے کہ کل کو اللہ تعالیٰ اسے نہ صرف ایمان کی توفیق دے بلکہ تم سے زیادہ مقبولِ عمل کرنے کی بھی توفیق دے کل کا تمہیں علم نہیںاور آج پر اترانے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔
پس مخالف کے ساتھ بھی پیار کا برتائو اور احسان کا معاملہ کرو۔اسے بھی اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کے حسن کے نظارے دکھائو۔ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلبۂ اسلام کے خلاف سارے منصوبے ناکام ہوئے اور فتح مکہ کے موقع پر یہ عظیم نعرہ لگایا گیا (اور پھر بعد میں ہمیشہ ہی آج تک لگایا جاتا رہا ہے) اوروہ یہ کہ جب مخالفین کو اصلاح کا موقع ملا تو فرمایا’’ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ آج تمہارے ہرقسم کے پچھلے گناہ معاف۔ خدا تمہیں آئندہ نیکیوں پر قائم رکھے پس تم دنیا کے محسن کی حیثیت سے دنیا کے خادم بنائے گئے ہو اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار کرنے کا دعویٰ بھی رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیارکرنے کی توفیق بھی عطاکی ہے اکثر کو اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہ ۔کمزور اور منافق بھی ہوتے ہیں لیکن وہ تو کسی لحاظ سے بھی کسی شمار میں نہیں ہوتے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس عظیم عطا سے نوازا ہے۔ اس کی قدر کرو اور دنیا کے دل اس عظیم عطا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اورآپ کو بھی اس کی توفیق عطافرمائے(اللّٰھم اٰمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ۔ ۴؍جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ۱ تا ۷)
ززز


جلسہ سالانہ معجزات کا ایک حسین گلدستہ ہے جس میں
قسم قسم اور رنگارنگ کے پھول اکٹھے ہوتے ہیں
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍دسمبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
’’آج میں جماعت کو دوخصوصی دعائوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تویہ کہ قریباً دو سال ہوئے ہماری قوم ایک شدید بحران اور انتشار اور فتنہ وفساد میں مبتلا ہو گئی تھی۔ نوجوانوں کے جذبات کو ابھار تو دیا گیا تھالیکن ان کو قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے اس ملک کی حفاظت کی اور ایک مارشل لاء نئے سرے سے لگ گیا اور امن ہوگیا مارشل لاء جنہوں نے لگایا ان کے عمل ہمارے شکریے اور ہماری دعائوں کے مستحق ہیں۔ایک تو مارشل لاء لگنے کے باوجود صدر یحییٰ خان صاحب اور ا ن کی REGIME (رجیم) نے کسی پر کوئی سختی نہیں کی بلکہ پورے تحمل سے کام لیا۔ امن قائم کرنا چاہئے تھا اور امن قائم کردیا۔ دوسرے انہوں نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے پر اصرا رنہیں کیا بلکہ شروع میںہی وعدہ کیا کہ جس قدر جلد ممکن ہوگا میں انتخابات کروا دونگا۔ انہوں نے اپنے وعدہ کوپورا کیا اور اس مہینہ میں دو انتخا ب ہوچکے ہیں ایک قومی اسمبلی کااور ایک مختلف صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کا۔
اس انتشار کے زمانہ میں اور پھرانتخاب کے قریب کچھ وہ فریب خوردہ لوگ بھی تھے کہ جو سمجھتے تھے کہ انسانی جان کی کوئی قیمت اور قدر اور عظمت نہیں ہے اور مارشل لاء سے قبل وہ یہ سمجھتے تھے کہ قانون کوئی نہیں، افراتفری ہے جو مرضی ہے ہم کرتے رہیں۔ اب انتخاب کے قریب ان کویہ وہم تھا کہ حکومت ان کے ہاتھ میں آنے والی ہے اس لئے وہ دھمکیاں بھی دینے لگ گئے تھے اور منصوبے بھی بنار ہے تھے۔
مادی آنکھ غیر مادی سہارے کو نہیں دیکھ رہی تھی اس لئے سمجھتی تھی کہ جو چاہیں گے، کردیں گے لیکن وہ جن کا مادی سہارا نہیں ہوتا صرف اپنے رب کی طرف جھکتے اوررجوع کرتے اور متوجہ ہوتے ہیں اور خود کو کچھ نہیں سمجھتے۔ روحانی آنکھ تواس سہارے کی عظمت اور شان کو پہچانتی ہے۔ پہچاننے والوں نے پہچانا اور جو پہچانا اسی کے مطابق پیار کرنے والے رب نے حالات کو بدل دیا۔ بہت سی باتیں کانوں میں پڑتی رہیں مناسب نہیں تھا کہ آپ بھائیوں کے سامنے بیان کی جائیں۔ دعا تھی، دعا کرتارہا دعاقبول کرنے والا قادر و توانا تھا اس نے آپ کی بھی اور میری بھی دعائوں کو قبول کیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
اس وقت جو دو انتخاب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہوچکے ہیں۔اس کے نتیجہ میں وہ لوگ جن پر تھوڑایا بہت قوم نے اعتماد کیا ہے اور خصوصاً قوم کے اس حصہ نے جن کوہمارے نزدیک بھی وہ حقوق نہیں مل رہے جو حقوق کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کے قائم کئے ہیں ان کے متعلق اب ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! تو ان لوگوں کو جنہوں نے اب قانون بنانے اور قانون کا اجراء کرنا ہے اخلاص اور سمجھ اور فراست دے اور ان کے دل میں انسان کا پیار پیدا کر اور انسانی حقوق کی ادائیگی کے لئے جوہدایت اور تعلیم تونے دی ہے اسے سمجھنے کی توفیق دے اور اس پر عمل کرنے اور کروانے کی ان میں جرأت پیدا کر۔ ایک توخاص طورپر یہ دعا کریں۔ پریذیڈنٹ یحییٰ خان صاحب اور ان کیREGIME (رجیم) کے لئے بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔ انہوں نے قوم کی بہتری کے لئے یہ سب کچھ کیا ایک ظاہر بین نگاہ بھی دیکھتی ہے اورجیسا کہ ہر ایک شخص پر یہ ظاہر ہے کہ ان کی کوئی ذاتی غرض نہیں تھی اللہ تعالیٰ انہیں ایسے رنگ میں جزادے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو مزید حاصل کرنے لگیں۔
دوسری خصوصی دعا جس کی طرف آج میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے متعلق ہے۔ جلسہ سالانہ تو ایک معجزہ ہے جو ہر سال اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ معجزات کا ایک نہایت حسین گلدستہ ہے جس میں قسم قسم اور رنگا رنگ کے پھول اکٹھے کئے ہوئے ہیں۔ اناسی۷۹ جلسے ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے اجتماع میں کبھی اللہ کے فضل سے وبا نہیں پھیلی چاروں طرف سے دوست آرہے ہوتے ہیںاور بے احتیاطی سے وبائی امراض کے علاقوں سے بھی آجاتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو نظر آجاتا ہے کہ یہاں اللہ کے فرشتوں کا پہرہ ہے پھر اتنا بڑا کھانے کا انتظام اتنی سہولت اور اتنے آرام سے ہوجاتا ہے اور کھانے والوں اورکھلانے والوں کے باہمی تعاون اوردعائوں کے نتیجہ میں ہردو جو اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرتے ہیں اس کی وجہ سے باہر سے آنے والے حیران ہوجاتے ہیں۔
آٹھ دس سال ہوئے ایک انگریز عورت انگلستان سے آئی تھیں وہ کہنے لگیں کہ میں واپس جاکے جب اپنے خاندان کو یہ انتظام بتائوں گی کہ وہاں یہ ہوتا ہے اور پچاس ساٹھ ہزار مہمانوں کے کھانے کا جماعت انتظام کرتی ہے تو میرے رشتہ دار اوردوست سمجھیںگے کہ میں وہاں گرم ملک میںگئی تھی اور میرا دماغ خراب ہوگیا اور پاگلوں والی باتیں شروع کردیں حقیقت یہ ہے کہ دور بیٹھے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ دیکھنے کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اتنا بڑا انتظام ہوتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے ہر دوطرف سے تعاون ہوتا ہے اور کسی کوکوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ تکلیف کا احساس ہی ہوتا ہے بعض استثناء پیدا ہوجاتے ہیں جو دور ہوجاتے ہیں اورپھر بشاشت پیدا ہو جاتی ہے۔ انہیں استثنائی تشویش کے نقطے کہنا چاہئے اور اتنے بڑے مجمع میں کہیں ایک ، دو، چار نقطے ہمیں نظر آہی جاتے ہیںپھر کوئی جھگڑا نہیں،کوئی تلخی نہیں، محبت اور پیار کی فضا ہے اور ان دنوں میں دوست فرشتوں کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جو نا سمجھ ہے اس کو غصہ آتا ہے اور غصہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں دیکھتابلکہ اپنی تدبیر کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور تدبیر وہ سوچتا ہے جو انسان کو زیبا نہیںمثلاً ہمیں رپورٹیں ملتی رہیں کہ اپنے آپ کو بڑے ’’متقی مسلمان‘‘ سمجھنے والوں کے نزدیک کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے جس سے یہ احمدی بچوں کا اغوا کرسکیں۔
اس واسطے جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت محتاط رہنا چاہئے اور بچوںکی حفاظت خاص طورپر کرنی چاہئے گوہمیشہ ہی یہ اعلان ہوتارہتا ہے لیکن اس دفعہ خاص طورپر حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ جوسیاسی منصوبے بنائے گئے تھے وہ اللہ تعالیٰ نے ناکام کردئیے ہیں اور جو دوسرے منصوبے اگر کوئی بنائے (خدا نہ کرے کہ وہ اتنے گرجائیں) تو ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ناکام کردے۔
اسی طرح مثلاً ایک یہ خبر پہنچی گو اسے افواہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ ہم کوئی عدالت تونہیں ہیں کہ گواہیاں لے کر ثابت کریں لیکن اچھے معتبر ذرائع سے یہ خبر پہنچی کہ ایک منصوبہ جماعت کے خلاف جلسہ کے دنوں میں یہ بنایا گیا ہے کہ جو سپیشل گاڑیاں آتی ہیں ان میں اپنے ’’ایماندار‘‘ لوگوں کو بغیر ٹکٹ کے چڑھادو اور پھر اطلاع دے کر لیٹ کروائو اس طرح جماعت کوبدنام کرو کہ بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے ہیں۔
ان منصوبوں میں سے مثلاًایک اطلاع یہ بھی پہنچی کہ چنیوٹ اور سلانوالی کے درمیان ریل کے اوپر اور بسوں پرپہلے سے طے شدہ انتظام کے مطابق بڑے ’’نیک مسلمانوں‘‘ سے ڈاکے ڈلوائو اور مشہور یہ کرو کہ دیکھا احمدیوں کے جلسے میں بڑے ڈاکو آتے ہیں جنہوں نے آتے ہی کام شروع کردیا۔
پتہ نہیں اور کیا کیا سوچا اور کیا کیا منصوبہ بنایا۔ بہرحال ہمیں ہرقسم کی احتیاط کرنی چاہئے جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا مادی آنکھ جس مادی سہارے کوتلاش کرتی ہے وہ تو ہمارے پاس نہیں ۔ ہمارے پاس جو سہاراہے وہ اللہ ہے اور اس کی قدرتیں اور اس کی حسین صفات ہیں اورپھر ہمارا سہارا یہ حقیقت ہے کہ جو جماعت یا فرد اس سے پیار کرنے والا اور اس سے محبت ذاتیہ رکھنے والا ہے اللہ تعالیٰ بھی جواب میں اپنے عاجز بندے سے کئی گناہ زیادہ محبت اور پیار کرتا ہے اور اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے، اس کے لئے امان بن جاتا ہے، اس کے لئے ڈھال بن جاتا ہے اور اس کے خلاف جو منصوبے کئے جاتے ہیں ان کو پاش پاش کردیتا ہے۔
اگرچہ مادی سہارا تو ہمارے پاس نہیں لیکن ہمارے جیسے بیوقوفوں کومادی سہارے کی ضرورت بھی نظر نہیں آتی۔ ہم نے ان مادی سہاروں پر تکیہ کیسے اور کیوں کرنا ہے جبکہ وہ جو سہاروں کا سہا را ہے اس کا سہارا ہمیں حاصل ہے یاہم اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے میں دعا کی تحریک کرناچاہتا ہوں کہ ساری جماعت ملکر یہ دعا کرے کہ وہی جو سہاروں کا بھی سہارا ہے اور بے کسوں کا محافظ اور ان کوامان دینے والا ہے اور دنیا جن کے پیچھے بے عزت کرنے کے لئے پڑجاتی ہے ان کے لئے عزت کا سامان کرنے والا ہے۔ اس کی محبت ذاتیہ کوہم پا لیں اور وہ اپنے منصوبے ہماری حفاظت اور امان کے لئے چلائے اور ہمیں کہے کہ تم بے فکر ہو کراپنے جلسے کے کام کرو اور کسی چیز سے نہ ڈرو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘
(از رجسٹر خطباتِ ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز











اختلاف کی وجہ سے کسی مسلمان کو اس کے
حقوق سے محروم نہ رکھا جائے
(خطبہ جمعہ ۲۵؍ دسمبر۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے آلِ عمران کی آیت
(اٰل عمران: ۱۰۴)
کی تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا:-
اُمت محمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ تاکیدی حکم فرمایا کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اورپراگندہ مت ہو۔ حَبْلُ اللّٰہِ کے ایک معنے توان چیزوں کے یا ہدایت کے ان اصول کے ہیں جن پر کاربند ہوکر انسان کو وصالِ الٰہی اور قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اس لئے حبل اللہ سے مراد مفسرین کے نزدیک قرآنِ عظیم بھی ہے اور اس سے عقل سلیم کے اصول جو دراصل فطرت صحیحہ انسانیہ کے اصول ہیں وہ بھی مراد لئے گئے ہیں۔ اس معنے کے لحاظ سے یہ ارشاد ہے کہ قرآن کریم میں جواصول ہدایت اور اصول شریعت بیان ہوئے ہیں۔(یعنی جو اصول راہ راست پرچلنے اور صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ودیعت کئے ہیں) وہ عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے مطابق بھی ہیں۔ اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگروہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونا چاہتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے تو وہ شریعت اسلامیہ جو فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا(الروم: ۳۱) کے مطابق ہے۔ ان اصول شریعت یا اصولِ ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارے۔ حبل اللّٰہ کے دوسرے معنے اللہ کے عہد کے لئے کئے گئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو عہد اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے یا جو عہد اللہ تعالیٰ نے باندھا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کون سے عہدباندھے ہیں یا اس کے لئے کون سے میثاق قراردئیے ہیں؟ قرآن کریم میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس وقت مَیں صرف ایک بات لے کر اس پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:-
’’مَنْ صَلَّی صَلٰو تَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَذِ مَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَـلَا تُخْفِرُواللّٰہَ فِی ذِمَّتِہٖ‘‘(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ)میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
جوشخص ہماری نماز جیسی نماز پڑھے یعنی جس طرح ہم نمازپڑھتے ہیں ویسے ہی وہ نماز پڑھ رہا ہو اور قبلہ رُخ ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہو اور ہمارے ذبیحہ کو کھا رہا ہواور جو چیزیں کھانے کے لحاظ سے حرام ہیں ان سے بچنے والا ہو توذٰلِکَ الْمُسْلِمُ۔ یہ وہ مسلمان ہے (آگے یہ نہیں فرمایا کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے کیونکہ اور بہت ساری شرائط ہیں مثلاً نیت کا تعلق۔ احسان فی العمل کا تعلق ہے انسان پوری شرائط اور انتہائی جدوجہد کے ساتھ اعمالِ صالحہ کوخوش اسلوبی سے انجام دینے والا ہو، وہ اورچیزیں ہیں یہاں یہ فرمایایہ وہ مسلمان ہے) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی امان اور حفاظت میں ہے پس اے مسلمانوں! جوعہد اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان باندھا ہے کہ تم ہر ایسے شخص کو(محولہ بالاحدیث کی روسے) مسلمان سمجھتے ہوئے اس کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کو ادا کروگے، اس عہد کو نہیںتوڑنا۔ غرض ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا‘‘(آل عمران:۱۰۴)میں ایک اصولی بات بتائی تھی اس کی بہت سی تفسیریں کی گئی ہیں ایک تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جو شخص ہماری طرح کی نمازپڑھتا ہے اور قبلہ رخ ہو کرنماز ادا کرتا ہے۔ ویسے ہم ہر دعا کے وقت قبلہ رخ نہیں ہوتے مثلاًعید کی نماز ہے یا خطبہ جمعہ میں بھی امام دعائیں کررہا ہوتا ہے حالانکہ اس وقت قبلہ کی طرف اس کی پشت ہوتی ہے۔ اس کی روح تو قبلۂ حاجات کی طرف ہی متوجہ ہوتی ہے لیکن اس کا چہرہ دوسری طرف ہوتا ہے اور پشت قبلہ کی طرف ہوتی ہے لیکن نماز ادا کرتے وقت ہم قبلہ رُخ ہوتے ہیں۔
اس میں میرے نزدیک ایک بڑا ہی لطیف اشارہ بھی ہے مسلمانوں میںکئی فرقے پیدا ہوگئے ہم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیںلیکن بعض لوگ مثلاً مالکی اور غالباً شافعی بھی نماز کے وقت ہاتھ چھوڑدیتے ہیں البتہ ایک مسلمان ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہا ہے یا ہاتھ چھوڑ کر پڑھ رہا ہے اس کا رُخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔
پس اِسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَامیں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ادائیگی نماز میں بھی اُمت میں اختلاف ہوسکتا ہے اور بعض دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں میںبھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ادائیگی نماز میں بنیادی چیز یہ ہے کہ قبلہ کی طرف رُخ ہو جس کا قبلہ کی طرف رُخ ہے اسے تم یہ کہہ کر مسلمان کے حقوق سے محروم نہیں کرسکتے کہ تم نے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی یا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی۔ جہاں جس کا زور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ تم ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہو یا چونکہ (دوسری جگہ کوئی کہے) تم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہو اس لئے تمہیں مسلمانوں کے حقوق سے محروم کیا جائے گا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ جس نے قبلہ رُخ ہوکر نماز ادا کی، ہاتھ باندھا یا چھوڑا، اس کے حقوق ایک مسلمان کے حقوق ہیں، یہ ادا ہونے چاہئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد باندھا ہے اور اسی کی طرف حدیث کے شارحین کی توجہ گئی ہے کہ یہ ایک عہد ہے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر ڈالی ہے شارحین نے یہ لکھا ہے کہ (جوشخص محولہ بالا حدیث کی روسے مسلمان کہلاتا ہے) وہ خدائی حفاظت اور امان میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں! تم نے اس کی جان کی بھی حفاظت کرنی ہے تم نے اس کے مال کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ تم نے اس کی عزت کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ یہ نہیں کہ ایک شخص نمازمسلمانوں والی ادا کرتا ہے اور قبلہ رُخ ہوکر نماز ادا کرتا ہے اور ذبیحہ کھاتا ہے اورغیر ذبیحہ سے پرہیز کرتا ہے، تم اپنی طرف سے کچھ اصول بنا کر اسے گالیاںدینے لگ جاتے ہو۔ خدا معلوم گندہ دہانی مسلمانوں کے ایک گروہ میں کہاں سے آگھسی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ گندی زبان اور فحش کلامی سے ثواب حاصل ہوتا ہے حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے جس کی شارحین نے بڑی وضاحت سے یہ تشریح کی ہے کہ ہر وہ شخص جو نماز مسلمانوںکی قبلہ رُخ ہو کر پڑھنے والا اورہماری طرح ذبیحہ کھانے والا ہے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے یہ عہد لیا ہے کہ اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت کی جائیگی اورجو شخص اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت نہیں کرتا۔ وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اورآپ کے اسوہ اورقرآن کریم کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے آپ نے بڑی تاکید سے فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا عہد ہے اس کو نہ توڑنا ورنہ کیا ہوگا؟ آگے کچھ نہیںفرمایا کیونکہ ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے جو معاملہ کرتا ہے وہ مالک ہے۔ انسان کوتولرزاں اور ترساں اپنی زندگی کے دن گزارنے چاہئیں۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ میں ذِمَّۃُ اللّٰہِ اور ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ کے معنی یہ ہیں کہ’’اَمَانُھُمَا وَعَھْدُھُمَا‘‘ یعنی ایسا انسان اللہ تعالیٰ اور رسول کی حفاظت اور امان میں اور اللہ تعالیٰ اور رسول نے جو عہد کیا ہے اس عہد کے اندر آجاتا ہے۔پھر فَـلَا تُخْفِرُوا اللّٰہَ فِيْ ذِمَّتِہٖ کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ لَاتَخُوْنُوا اللّٰہَ فِيْ عَھْدہٖ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد باندھ دیا ہے اس میں خیانت نہیں کرنی اور فَـلَا تَتَعَرَّضُوْا فِیْ حَقِّہٖ ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ۷۴ جلد ۱)جو حق اس کا قائم کیا گیا ہے۔ اس میںتعرض نہیں کرنا اور اس کو ضائع کرکے فساد کے حالات نہیں پیدا کرنے۔ علاوہ ازیں اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ’’مِنْ مَالِہٖ وَدَمِہٖ وَعِرْضِہٖ‘‘ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ۷۴ جلد ۱) یعنی اس کے مال کی حفاظت بھی اور اس کی جان کی حفاظت بھی اور اس کی عزت کی حفاظت بھی تمہارے ذمہ ہے۔
پس وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا(آل عمران:۱۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی ہی حسین اوروسیع تعلیم دی ہے اور اگر امتِ مسلمہ اس پر عمل کرے اور یہی خدا اور اس کا رسول چاہتے ہیں توپھر ایک ایسی حسین فضا اور معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے’’اِخْتِـلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘بھائی بھائی میں اختلاف ہوتا ہے میاں بیوی میں اختلا ف ہوتا ہے ماں بیٹی میں اختلاف ہوتا ہے باپ بیٹے میں اختلاف ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اپنی ہر َخلق میں اپنی ایک شان ظاہر کی ہے کثرتِ مزاجِ انسانی وحدتِ خالقِ انسانی ثابت کرتی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمہاری طبیعتوں،مزاج اور عادات کے اندر اختلاف تو ہوتا ہے مثلاً کھانے میں ہزار اختلاف ہوتا ہے جس خاندان میں کھانے والے افراد زیادہ ہوں وہاںبڑی مشکل پڑجاتی ہے اور کئی دفعہ بعض ناسمجھوں کو اعتراض کا موقعہ بھی مل جاتا ہے مثلاًایک زمانے میں(خدا کرے اب بھی جماعت اس طرف متوجہ ہو)ایک کھانے کا حکم تھا اب جہاں دس بچے ہوں وہاں بعض کی پسند اور ہوتی ہے اوربعض کی اورچنانچہ اس حکم کی روسے ہرشخص کھائے گا تو ایک ہی کھانا لیکن گھر میں کھانے ایک سے زائد پکیں گے مثلاً میں بینگن نہیں کھاتا، اب یہ جو پچپن کی عادت ہے(اس وقت تو جوانی کی عمر تھی جب یہ ایک کھانے کا حکم ہوا تھا) اس کی وجہ سے گھر میں صرف بینگن نہیں پک سکتا یعنی اگر مجھے بھی گھر والوں نے کھانا دینا ہے تو وہ صرف بینگن نہیں پکاسکتے انہیں کچھ اور بھی پکانا پڑے گا میرا ایک بیٹا ہے وہ گوشت نہیں کھاتا اور اس کے لئے ہمیں آلو اور اس قسم کی کوئی دوسری چیز تیار کرنی پڑتی ہے بعض دفعہ تین تین چیزیں ایسی ہو جاتی ہیں کیونکہ خاندان کاکچھ حصہ ایک چیز نہیں کھاتا، دوسرا ایک اور چیز نہیںکھاتا، اور تیسراکوئی اور چیز نہیں کھاتا البتہ ہر ایک آدمی ایک چیز کھارہا ہوتا ہے لیکن جو آدمی باہر سے آئے وہ یہی کہے گا کہ تمہارے دسترخوان پر تین قسم کے کھانے رکھے ہوئے ہیں تفصیل کا اسے علم نہیں ہوگا۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بدظنی میں نہ پڑو۔
پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عادتوں کے لحاظ سے بھی اختلاف پیدا ہوگا اور بعض لوگوں کو میرے بعض احکام اور حدیثیں ملیں گی اور بعض کو دوسری ملیں گی یہ جوفقہی اختلافات ہیں یہ زیادہ تراسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اس اختلاف کے نتیجہ میںا مت میں زحمت نہیں ظاہر ہونی چاہئے بلکہ رحمت ظاہر ہونی چاہئے اور وہ رحمت تبھی ظاہر ہوسکتی ہے کہ سارے مسلمان متحدا ور ایک جان ہوجائیں اور خدا اور اس کے رسول کے عاشق، فدائی اور جان نثاربن جائیں یہ ایک بڑا عجیب سبق ہے جو امتِ محمدیہ کو اختلافات کے بد نتائج سے بچنے کے لئے دیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا نہ شروع کردینا، ایک دوسرے کے اموال کواپنے اوپر جائز نہ قرار دے دینا، خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ تم ایک فتویٰ دے کر ناجائز کو جائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اور میرا رسول ان کی عزتوں کے محافظ ہیں۔ تم اپنے ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی بے عزتی نہ کرنا۔
اب پچھلے الیکشن کے دنوں میں بدزبانی نے کسی کو نہیں چھوڑا ان لوگوں پر بھی حملے کئے گئے جو بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے اور ان کی بیویوں اور بچوں کو بھی بدزبانی کا نشانہ بنایا گیا ہم دکھ میں پڑے رہتے تھے اور دعائیں کرتے رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرفِ انسانی کا حسین پیغام لائے تھے۔ آپ نے عزتِ نفس انسانی کو قائم کیا تھا لیکن لوگ اس کو بھول گئے اور ایک دوسرے کوگالیاں دینی شروع کردیں اتہام لگانے شروع کردئیے وہ باتیں کہنی شروع کیں کہ ایک مسلمان کے منہ سے تو کیا ایک شریف غیر مسلم انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتیں۔ ہمارے پاس سوائے دعا کے اورکوئی چارہ نہ تھا اللہ تعالیٰ سے جتنی توفیق ملی دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے۔
اس وقت انتخابات کا جو نتیجہ نکلا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ قوم ایک حد تک سیاست کے آخری مقصد کے حصول کے لئے قدم اٹھا چکی ہے ۔ الیکشن ہوئے، پھر مارشل لاء کے قانونی فریم ورک کے مطابق کانسٹی ٹیوشن یعنی دستور بنے گا۔ پھرہمارے صدر صاحب اگردیکھیں گے کہ قوم میں فساد نہیںپیدا ہوتا یا قوم کی یک جہتی اور اتحاد کے خلاف نہیں تو وہ اس کو منظور کریں گے پھر سیاسی حقوق کا انتقال ہوگا۔ پھر اسمبلیاں بنیں گی جنہیں لیجسلیچر(Legislature) کہتے ہیں اور پھر یہ اسمبلیاں قوانین وضع کریں گی اور مختلف پارٹیاں جو حکومت بنائیں گی وہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق سکیمیں سوچیں گی اورقوانین بنائیں گی۔ بہرحال یہ تو ایک لمبا عمل ہے البتہ ایک قدم عوام کے سیاسی حقوق کو قائم کرنے کی طرف اٹھایا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جوچیز پرانے تجربہ کار سیاستدانوں کی نظر سے اوجھل تھی اور جس کے نتیجہ میں انہیں شکست اٹھانی پڑی وہ یہ تھی کہ پچھلے ۲۳ سال میں(جو پارٹیشن یعنی تقسیم ملک کے بعد ہماری قوم نے گزارے ہیں) ہرسال ووٹروں کاایک نیا گروہ ووٹروں کی لسٹ میں شامل ہوتاتھا۔ ہر سال ۲۰ سال سے ۲۱ سال کی عمرکو پانے والا ووٹروں کی لسٹ میں آجا تاتھا، اس قسم کے ۲۳نئے گروہ ووٹروں کی فہرست میں شامل ہوئے لیکن اس ۲۳ سال کے عرصہ میں ایک دفعہ بھی ان کو اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا موقعہ نہیں ملاکیونکہ عام رائے دہی کے اصول پر اس سے پہلے انتخاب نہیں ہوئے اب یہ ۲۳ سال کا جو مجموعی گروہ ووٹروں کے حقوق حاصل کرنے والا اور ووٹروں کی فہرست میںد اخل ہونے والا ہے یہ تھوڑا نہیں ہے میرے عام اندازے کے مطابق ووٹروں کا ۴۰ فیصد ایسا ہے جوا س۲۳ سال میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ کر ووٹر بنا اور جس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایک بڑی طاقت ہے جیسا کہ پہلے سیاستدانوں نے ان کو حقوق کی ادائیگی میں چھوڑ دیاتھا اور ان کی طر ف توجہ نہیں کی گئی تھی اسی طرح اب بھی انہوں نے ان کی نبض پر اپنی انگلیاں نہیں رکھیں۔ ان کو پتہ نہیں تھا یہ اس بات کوبھولے ہوئے تھے کہ اس ۲۳ سال کے عرصہ میں سیاست کے اندر ایک ایسا گروہ آگیا ہے(جومیرے اندازے کے مطابق ۴۰ فیصد ہے) جسے ووٹ دینے کا پہلی دفعہ موقعہ ملا۔
چنانچہ سیاستدان پرانی ڈگر پر چل رہے تھے مگر اس نئے گروہ نے جسے میرے نزدیک YOUNG PAKISTAN(ینگ پاکستان) یعنی نوجوان پاکستان کہنا چاہئے، اس نوجوان پاکستان نے یہ فیصلہ دیا وہ مذہبی اختلافات کے نتیجہ میں کسی کو لڑنے نہیں دیںگے، یہ ایک ہی عظیم فیصلہ ہے جو نوجوان پاکستان نے دیا ہے کوئی پندرہ بیس قومی اسمبلی کے امید واروں کو احمدی کہہ کر ان کی مخالفت کی گئی مگر ان میں سے ایک نے بھی شکست نہیں کھائی۔
یہ فیصلہ تھا اس نوجوان پاکستان کا کہ تم مذہب میں الجھا کرہمارے جائز حقوق سے ہمیںمحروم کرنا چاہتے ہو ہم یہ نہیں ہونے دیںگے۔ اسلام نے ہمارے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ہمیں ملنے چاہئیں اور اب پہلے کی طرح کوئی مذہبی اختلاف اس راستے میں حائل نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پانچ احمدی کامیاب ہوئے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ جو ہمارے سب سے زیادہ مخالف تھے۔ میں ان کا نام نہیں لیتا۔ انہوںنے ہماری مخالفت میں بڑا زور لگایا تھا۔ انہوںنے مذہب کے نام پر اسلام کے نام پر فتنہ وفساد کی ایک آگ بھڑکا دی تھی انہوںنے دکان بڑی سجائی تھی۔ بہت سارے لوگ اس دُکان کو، اس Show Window(شوونڈو)کو دیکھ کر سمجھتے تھے کہ اب پتہ نہیں کیا ہوجائے گا۔ کئی احمدی دوست میرے پاس بڑے گھبرائے ہوئے آتے تھے مگر میں ان کو سمجھاتا تھا کہ کیا ہو جائے گا؟ ہوگا وہی جو خدا چاہے گا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو۔ پنجاب میں ان سارے لوگوں میں سے ہارے ہوئے اور ایک جیتے ہوئے کے ووٹ ملا کر چورانوے ہزاربنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے پانچ جیتنے والے دوستوں میں سے تین نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ لئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کیونکہ جماعت احمدیہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ تو تعلق اتحاد نہیںرکھتی کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہمارا الحاق نہیں ہوسکتا تھا ہمارے خلاف جھوٹ بھی بولے گئے یہ سب کچھ کہا گیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بعض جگہ احمدیوں نے کہا کہ ہمارا کنونشن لیگ کے ساتھ تعلق ہے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے تم ان کو ووٹ دو۔ خواہ یہ ہاریں یا جیتیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض قیوم لیگ سے تعلق رکھنے والے آئے۔ وہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتے تھے ہماری جماعت کا خیال رکھتے تھے شریف آدمیوں سے یہ دنیا بسی ہوئی ہے وہاں مقامی جماعت احمدیہ نے کہا کہ ہم ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں ہم نے کہا ٹھیک ہے سیاست میں توکوئی حکم نہیں چلے گا۔ تمہارے ساتھ تعلق رکھتے تھے، تم اگر ان کو ووٹ دینا چاہتے ہوتو ان کو ووٹ دے دو اسی طرح بہت سارے آزاد ممبر آئے، ان کا ہمارے ساتھ تعلق تھا نہ پیپلز پارٹی نے ان کوٹکٹ دیا تھا، اور نہ کسی اور پارٹی نے ان کوٹکٹ دیاتھا۔ چنانچہ وہ بھی آئے ہم نے کہا ٹھیک ہے مقامی جماعتیں اگرتمہارے ساتھ ہیںتو وہ تمہیں ووٹ دے دیں گے۔
پس احمدیوں کے ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو پارٹی زیادہ صاحب فراست نکلی۔ اس نے اپنے تدبر سے احمدیوں سے زیادہ خدمت لے لی۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارا کسی ایک پارٹی کیساتھ الحاق ہے۔
غرض جو پارٹی اس وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوئی ہے اور جس نے ہم سے سب سے زیادہ خدمت لی ہے اورووٹ لئے ہیں اس کے متعلق دوسروں کا خیال ہے(میرا جو خیال ہے وہ اس سے زیادہ ہے ۔ مجھے بعض رپورٹیں لاہورسے آئی ہیں کہ اب) وہ کہتے ہیں کہ یہ (پیپلزپارٹی والے) اس واسطے جیت گئے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر اُن کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ ہم نے کہیں مردم شماری نہیں کروائی اس واسطے کہہ نہیں سکتے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر تھے لیکن احمدی اور احمدیوں کے دوست اور تعلق رکھنے والے ووٹر جو اس پارٹی کو ملے وہ میرے اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں۔
ان مہینوںمیں جو پیچھے گزرے ہیں، لوگوں میں جوش بھی تھا غلط باتیں بھی ہورہی تھیں اور اس عہد کوتوڑا بھی جارہا تھا جو خدا نے اپنے بندوں یا امت مسلمہ سے لیا تھا۔ کہ دیکھو! معمولی معمولی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے سیاسی،معاشرتی اوراقتصادی حقوق سے محروم نہ کرنا۔ ورنہ اس کے نتیجہ میںر حمت نہیں پیدا ہوگی۔ میرے پاس جولوگ آتے تھے۔ میں ان کو سمجھاتا تھا کہ دیکھو!ہم ایک غریب جماعت ہیں دنیوی لحاظ سے ایک بے سہارا جماعت، ایک ایسی جماعت کہ جو ہزار کے مقابلے میں اگر ایک پتھر پھینکنے کی طاقت رکھتی ہے تووہ بھی نہیں پھینک سکتی، کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دینا۔ اگر کروڑگالیاں بھی ہمیں دی جاتی ہیںتو اگر کوئی نوجوان جو ش میں آکر ایک گالی اس کروڑ کے مقابلہ میںدینا چاہتا ہے تو اس کے دماغ میں یہ بات مسلّط ہوجاتی ہے کہ ہمارے امام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا تھا کہ گالیاں سُن کر دعا دو اس کی زبان پرایک بات آتی ہے، وہیں رُک جاتی ہے وہ اپنے مونہہ سے نہیں نکالتا۔
ان تمام حالات کے باوجود۸۰سالہ گالیوں اور۸۰ سالہ کفر کے فتووں نے نہ ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں چھینیں اور نہ ہم سے قوتِ احسان کوچھینا۔ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔کوئی شخص خواہ وہ ساری عمر گالیاں دیتا رہا۔ جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پرآیاتو خالی ہاتھ واپس نہیں گیا۔ یہ قوتِ احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیںدی ہے۔ یہ اس کا بڑا فضل ہے انسان خود اس قوت کو پیدا نہیں کرسکتا۔ میں سمجھتاہوں کہ بڑی نعمتوں میںسے ایک نعمت یہ ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے قوتِ احسان کوپیدا کیا ہے غرض جو آدمی آتا ہے اگر اس کاکام جائز ہوتو وہ کردیا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دودن پہلے اس نے ہمیں نہایت گندی گالیاں دی تھیں اور اسی طرح اس نے ساری عمر گالیاں دینے میں گزار دی اورہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ناجائز طورپر احمدیوں کو نقصان پہنچانے میں اگر کامیاب بھی ہوگیا تو کوئی بات نہیں۔ دنیوی لحاظ سے ابتلاء بھی آتا ہے ہم یہ نہیں دیکھتے صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں۔ اگر جائز ہے تو وہ ہم سے تعلق رکھنے والا ہے یا ہماری مخالفت کرنے والا ہے اس کو ہم خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ ہم اس کی مدد کرتے ہیں۔
پس اس قسم کی ۸۰ سالہ مخالفت جو اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوپیاری نہیں تھی، اس کے نتیجہ میں بھی نہ ہماری مسکراہٹیںچھینی گئیں اورنہ ہم سے قوت احسان چھینی گئی۔ اب جس آدمی کے ساتھ آپ پیار کا اور محبت کا تعلق رکھتے ہیںیاجس کے ساتھ آپ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں۔ وقت پر اس کے کام آتے ہیں۔مصیبت کے وقت اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو وہ سمجھتا ہے کہ اعتقاداً ہم ایک نہیں لیکن ہمارے دل ایک ہی قسم کی حرکت کررہے ہیں اس طرح وہ دو نہیں، ایک ہوجاتے ہیں جس وقت ایسے وقت آتے ہیں تو اگروہ دلیر ہیں اور اگر ان کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تووہ کہتے ہیں جدھر تم جائو گے ادھرہم جائیں گے لیکن اگران کے حالات اجازت نہ دیں تووہ ہمارے کان میں آکر کہتے ہیں تم فکر نہ کروہم جائیں گے تو اس راستے سے مگر ووٹ تمہیں دیں گے پس ہماری قوتِ احسان اور ہمارے پیار اور ہماری محبت کے نتیجہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہمارا ساتھ دیتے ہیں اس لئے صرف احمدی ووٹ نہیں بلکہ جس حلقے میں بھی جدھر احمدی گیا وہ اپنے ساتھ دُگنے تگنے ووٹ لے کر گیا۔
بعض عقلمندوں کو الیکشن سے پہلے یہ نکتہ سمجھ آگیا تھا چنانچہ گجرات سے ہمارے ایک دوست آئے وہ احمدی نہیں تھے کہنے لگے کہ آپ میری مدد کریں وہ خودہی کہنے لگے کہ میرے حلقہ انتخاب میںسات ہزار احمدی ووٹ ہے اور میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ۲۵۔۳۰ ہزار ووٹ آپ کے ہیں جدھر یہ سات ہزار جائے گا ادھر ہی یہ ۲۵۔۳۰ ہزار ووٹ بھی ساتھ جائے گا اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میری مدد کریں۔میں بڑا خوش ہوا۔ میں نے اس سے کہا میں اس لئے خوش ہوں کہ جوچیز بہت سے لوگوں کے سامنے نہیں آئی اور وہ سوچتے نہیں وہ تمہارے دماغ میں آگئی ہے خیراللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کو اس کے لئے کام کرنے کی توفیق دی اور وہ انتخاب میں کامیاب ہوگیا حالانکہ اس کا بڑا سخت مقابلہ تھا ایک بڑا ہی ظالم قسم کا آدمی اس کے خلاف کھڑاتھا جو لوگوں کے حقوق مارنے والا تھا اور اس نے بڑی دھمکیاں دیں (احمدیوں کونہیں، احمدی تو دھمکی کی پرواہ نہیں کرتے) اور دوسرے ووٹروں کو اس نے بہت ستایا، بہت کچھ کیا، لیکن کامیاب نہیںہوسکا غرض احمدیوں کے شامل ہونے سے اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہوجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جوطبیب اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا وہ بڑا ظالم ہے تو جو ووٹر احمدی ہے جس کے حق میں اس نے ووٹ ڈالنا ہے اگر وہ اس کے حق میں دعا نہیں کررہا تو وہ بھی ظالم ہے کیونکہ اصل چیز تودعا ہے اس کے فضل کے بغیر توکچھ نہیں ہوسکتا۔
کئی ناسمجھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دعا کا فلسفہ ہی نہیں آتا ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ میری مدد کریں میرے آپ کے ساتھ بہت تعلقات ہیں میں نے کہابحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ٹھیک ہے تم نے جماعت سے تعلقات بھی رکھے ہونگے لیکن اب ہم وعدہ کرچکے ہیں تم دیر بعدآئے ہو ورنہ اگرتم پہلے آجاتے تو تمہاری مدد کردیتے وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر اس سے مدد کا وعدہ کردیا ہے تو میرے لئے دعا کریں میں نے کہا دعا اور عمل اکٹھے چلیںگے آپس میں ان کا تصادم کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ دعا کی حقیقت سے واقف نہیںہوتے اسلام کی روح سے واقف نہیںہوتے اسلئے اس قسم کے خیالات دماغ میں آتے ہیں اور ان کا اظہار کرجاتے ہیں۔
پس جہاں احمدی ووٹ جائے گا وہاں احمدی کی دعائیں بھی اسی راستے پر چل رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں گی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسی ناممکن باتیں ممکن بنا دی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جو لوگ ہماری مخالفت کرتے رہے ناجائز طورپر ہمیں تنگ کرتے رہے ڈراتے دھمکاتے رہے ان کے متعلق میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان کو شکست ہو اور میں ان کی شکست کے لئے دعائیں بھی کرتا تھا چنانچہ جب ان کے خلاف کھڑے ہونے والوں سے جماعتوں نے وعدہ بھی کرلیا لیکن جب میں کہوں تم زور لگائو کہ اس قسم کے کسی شخص کوکامیاب نہیںہوناچاہئے تو دوست کہیں کہ یہ توہوہی نہیں سکتا یہ توبڑا مضبوط ہے یہ تو بڑے اثر ورسوخ والا ہے اس نے تو بڑے بڑے قاتل اور خونخوار قسم کے ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں انہوں نے فلاں جگہ تواعلان کردیا ہے کہ جو انہیں ووٹ نہیں دے گا۔ اسے وہ شُوٹ کردیں گے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ باتیں صحیح تھیں یا غلط بہرحال لوگ مجھے آکر ایسی باتیں سناتے رہتے تھے لیکن ان کا پتہ ہی نہیں لگاکہاں گئے؟ اس واسطے کہ اصل کامیابی کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کسی کو ابتلا اور امتحان میںڈالتا ہے اور اسے دنیوی کامیابی دے دیتا ہے یعنی دنیا کی ہرکامیابی اللہ تعالیٰ کا فضل اور برکت اور رحمت شمار نہیں ہوسکتی قران کریم نے اس کا ذکر فرمایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس کا ذکر موجود ہے یعنی کبھی انعام اور اصطفاء کے طورپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے کبھی ابتلاء کے طورپراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ آزماتا ہے لیکن اس میں بھی ہمارے لئے رحمت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ جو انعام اصطفٰی کے طورپر یعنی اپنی محبت اور قرب کے اظہار کے طورپر وہ جماعت احمدیہ پر نازل کرتا اور ان سے پیار کرتا ہے اس کا تو شمار ہی کوئی نہیں! اس لیے بہت الحمدللہ پڑھو اور اپنے رب کے حضورگرو اور اس سے کہو کہ ہم تیرے ناچیز بندے ہیں تیرے فضلوں کا شمار نہیں ہے ہماری زبانیں،ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ شکر ادا کرنا چاہے تو شکر ادا نہیں کرسکتا اور یہ دعا بھی کرو کہ اے اللہ! تو نے اپنے بندوں کے لئے بہتری کے کچھ سامان پیدا کرنے شروع کئے ہیں وہ مظلوم اور محروم جو ہرطرف سے دھتکارے ہوئے اور ذلیل سمجھے جانے والے اور حقیر کہلانے والے جنہیں لو گ عوام کہتے ہیں یہ تیرے بندے اب اپنی عزت کے راستے پر قدم اٹھانے لگ گئے ہیں تو ایسی تدبیر کر آسمانوں سے اور ایسا حکم نازل کر کہ یہ اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جائیں اور وہ حسین معاشرہ جو اسلام کا معاشرہ ہے ، جو دنیا کی کسی اور قوم کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا تھا وہ معاشرہ قائم ہوجائے اور ہر مظلوم ظلم سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرے اور ہر محروم کو خواہ وہ مانگے یا مانگنے سے بھی محروم ہواس کے حقوق اسے مل جائیں، اقتصادی بھی اور عزتِ نفس کے لحاظ سے بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرما یا ہے کہ آپ میں سے جو امیر ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہے وہ اس چیزکو نہ بھولیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جوشخص تمہارے پا س آتا ہے تم اس کی عزت اور احترام کرو، خواہ وہ بہترین لباس میں ملبوس ہوکر تمہارے پا س آئے یا چیتھڑوں میں لپٹاہوا تمہارے پاس آئے کیونکہ وہ ایک انسا ن ہے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میںا سکی عزت ہے۔ تمہاری نگاہ میںوہ چیز نہیں ہونی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے تمہاری نگاہ میں بھی وہی چیز ہونی چاہئے جو تمہارے پیدا کرنے والے رب کی نگاہ میں ہے۔ اس لئے ہرایک کے ساتھ پیار اور محبت اورعزت اور احترام کیساتھ ملو اور کوئی جتنا کسی کا بھلا کرسکتا ہے اتنا بھلا کرے۔’’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّاوُسْعَھَا‘‘ اس کے بعد پھر گرفت نہیں ہے لیکن اگرآپ ایک دھیلے کی بھلائی کرسکتے ہیں اور وہ نہیں کرتے(اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے)تو خدا تعالیٰ کا شدید غضب صرف ایک دھیلے کی بھلائی نہ کرنے کی وجہ سے نازل ہوسکتا ہے۔ پس لرزاں وترساں اورخوف کے ساتھ اس جذبہ کے ساتھ اور محبت ذاتیہ کے ساتھ(کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں مل جائے) جماعت اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرے۔اب اسلام کی نوبہار کا زمانہ آگیا ہے (اس پر تو میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ کی کسی تقریر میں زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالوں گا)اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اسلام کی نوبہار دیکھے اور جس طرح بنی نوع انسان نے اس رحمتہ اللعالمین کی رحمت سے پہلے زمانے میں، اسلا م کی نشأۃ اُولیٰ میںفائدہ اٹھایا اور حصہ لیا تھا اسی طرح اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کے وقت جو احمدیت کے روپ میں دنیا دیکھ رہی ہے،ساری دنیا ایک ہوکر اسلام کے حسن واحسان کے جلوے دیکھنے والی ہو۔ پس آپ دعائوں میں وقت گزاریں جلسہ سالانہ کے لئے دعائیں کریں مخالف تواپنی تدبیریں سوچتا اور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت کے ہر فرد کو اور جماعت کو بحیثیت مجموعی محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے حفاظت کے لئے آسمانوں سے اتنی تعداد میں اتاردے جتنی تعداد میں اس وقت مجموعی طورپر جماعت کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ اللّٰھم اٰمین۔
(روزمانہ الفضل ربوہ ۲۲؍ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۳ تا۸)
ززز






جو سال گذر چکا ہے وہ بڑی برکتوں کا موجب تھا
نیا سال آپ کو مبارک ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
آج سال کا پہلا دن ہے۔ نیاسال آپ سب کو مبارک ہو۔
نیا سال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سارے غلاموں کو مبارک ہو، نیا سال انسانیت کو مبارک ہو جو سال گذر چکا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے اندرونِ پاکستان بھی اور بیرونِ پاکستان بھی بڑی ہی برکتوں کا موجب تھا۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اور پیارکے بڑے حسین نظارے ہم نے گذشتہ سال دیکھے ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں۔
سالِ نو ایک عید سے شروع ہو رہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ بھی تمہارے لئے ایک عید ہے۔ جمعہ کا ایک پہلو اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اجتماعی برکات اور رحمتوں کے حصول کا موجب بن جاتا ہے۔
حسن واحسان کے جو جلوے ہم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے دیکھتے ہیں اس کے نتیجہ میں حسدوعناد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور حسدوعناد کا بڑا ہتھیار دروغ گوئی اور کذب بیانی ہے۔ اس کا دفاع جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور ماسوا اللہ کسی چیز پر بھروسہ نہ رکھنا اور سب کچھ اور سب خیروبرکت اپنے ربِّ کریم سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
اسلام کے عظیم دور کے ساتھ ہی حسد کا دور، عناد کا دور، مخالفت کا دور اور ظلم کا دور شروع ہوا تھا۔ قرآنِ کریم نے ابتداء ہی سے ہمیں تعلیم دی تھی کہ حاسد کے حسد کے شر سے بچنے کے لئے تم اپنے رب کی طرف رجوع کرنا اور اپنی حفاظت اسی سے چاہنا۔
انعام جب بے شمار ہوں، انعام جب معمول سے زیادہ ہوں، پیار جب ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جائے تو حسد اور مخالفت اور عناد میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے لیکن مظلوم ہونے کے باوجود اور حسد کا نشانہ بننے اور ظلم کا ہدف ہونے کے باوجود ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کو دُکھ نہیں پہنچانا، کسی کی جان پر حملہ نہیں کرنا، کسی کا مال غصب نہیں کرنا، کسی کو بے عزت نہیں کرنا اور کسی پرحقارت کی نگاہ نہیں ڈالنا بلکہ جب انسان اللہ کی گود میں اس کے فضل سے بیٹھ جائے تو اس کے دستِ قدرت نے جو پیدا کیا اس سے وہ محبت کرنے لگتا ہے، اس سے پیار کرنے لگتا ہے، اس کا بہی خواہ بن جاتا ہے اور اس سے ہمدردی و غمخواری کرتا ہے۔
دُنیا اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کرے، ہمیں غصہ نہیں آنا چاہئے۔ ہمیں بدلہ لینے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ایسوں کے لئے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ہر اس شخص کے لئے دعائیں کرتا رہے جو اس احمدی کے لئے دشمنی کے جذبات رکھتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو حقیقی مسلمان کی ایک صفت سے محروم ہو جاتا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ایک دروازہ اپنے پر کھول لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور محبت و اخوت اور ہمدردی و غمخواری کے جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بٹھایا ہے، اس مقام پر ہی وہ ہمیں قائم رکھے اور اسی پر استقامت بخشے تاکہ اس کے فضلوں کے ہم زیادہ سے زیادہ وارث بنتے چلے جائیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۲،۳)
ززز
یہ عزم کر لینا چاہئے کہ ہم نے بقایوں کو ادا کرنا
اور سال رواں کا بجٹ پورا کرنا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ جنوری ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-

(الانفال:۲۹)
حضور انور نے فرمایا۔ گذشتہ جمعہ کے روز سے ہی مجھے انفلوئنزا کے آثار شروع ہو گئے تھے بعد میں یہ شدت اختیار کر گیا تین دن تک تو ناک اور آنکھوں سے ہر وقت ہی پانی بہتا رہا اور اس سے بہت ہی تکلیف رہی اب بھی گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے آرام ہے لیکن بیماری اور بیماری کی وجہ سے ضعف کے کچھ آثار باقی ہیں۔
احبابِ جماعت کو ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا اس لئے یہاں آگیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جس حد تک مجھے توفیق دی اپنی ذمہ داری کو نباہوں گا۔ سورۂ انفال کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے مال و دولت کی نعمت بھی ہے اور بچے بچیوں کی نعمت بھی ہے۔ یہ اس لئے عطا کی ہے کہ اُس سے وہ ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے۔
اس دُنیا کے امتحانات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے (یعنی جو انسان کی عقل اور فطرت نے سمجھا اور سمجھایا ہے وہ یہ ہے) کہ انسانی زندگی میں امتحان ایک نہیں ہوتا بلکہ درجہ بدرجہ مختلف امتحانات میں سے انسان کو گذرنا پڑتا ہے مثلاً ایک بچہ ہے وہ پہلے کچی پہلی کا اور پھر پکی پہلی کا امتحان دے کر دوسری، تیسری، چوتھی اور اسی طرح دسویں جماعت تک پہنچتا ہے۔ پھر دسویں جماعت کے امتحان کے بعد ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان دیتا ہے۔ پھر علوم کے راستے مختلف ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ طلباء بی اے تک پھر ایم اے تک اور پھر ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی تک جاتے ہیں کچھ انجینئرنگ میں جاتے ہیں اور مختلف امتحانات میں گذرتے ہیں۔ کچھ طب کی طرف جاتے ہیں اور ڈاکٹر بننے کی کوشش کرتے ہیں انہیں مختلف قسم کے امتحانوں میں سے گذرنا پڑتا ہے۔ کچھ کو بعد میں نوکریاں مل جاتی ہیں پھر وہ ڈیپارٹمنٹل امتحانات میں سے گذرتے ہیں۔
جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر امتحان کے بعد ایک تو انعام مقرر کیا جاتا ہے یعنی کامیابی ملتی ہے اور دوسرے ایک نئے اور بڑے امتحان کا دروازہ کھلتا ہے۔ پہلی کے بعد دوسری کا امتحان ایک نیا امتحان ہے اور یہ پہلی کے امتحان سے بڑا ہے اسی طرح دسویں کے بعد ایف۔ اے اور بی اے اور اس کے بعد ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کے جو امتحانات ہیں، پہلے امتحان میں کامیابی کی شکل میں انعام بھی ملا اور ایک نئے امتحان کا دروازہ بھی کھلا اور نئے امتحان کا دروازہ ناکامی کی صورت میں نہیں کھلتا۔ کوئی شخص دسویں جماعت میں فیل ہو کر انٹر میڈیٹ یا ایف اے، ایف ایس سی میں شامل نہیں ہو سکتا۔ یہ دروازہ اس کے اوپر بند ہو گیا اسی طرح جو بی اے میں فیل ہوتا ہے اس پر ایم اے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور جو بی ایس سی میں فیل ہو جا ہے اس پر اگلا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
یہی حال(کچھ اس سے ملتا جلتا) روحانی دُنیا کا ہے۔ اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھتا ہے مومن کی زندگی کا ہر سال اگر وہ کامیاب ہوتا رہے اور اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے تو پہلے سال سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور زیادہ قربانیوں اور زیادہ امتحانات میں سے گزرنے اور ان انعامات سے زیادہ انعامات کا وارث بننے کا سال ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں جو دولت دی ہے یا میں نے تمہیں جو اولاد دی ہے، یہ تمہارے آخری امتحان کا نتیجہ نہیں ہے کہ انعام مل گیا اور اب تم نے تسلی پکڑ لی۔ آخری امتحان کا نتیجہ تو خاتمہ بالخیر ہونے کے بعد انسان کو ملتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے بڑی وضاحت کے ساتھ مشاہدہ کرتا اور جو محبت اور عشق کا سرور ہے وہ صحیح اور حقیقی معنے میں اسی وقت اس کو ملتا ہے۔
اس دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو سہارا دینے کے لئے اور اس کی مدد کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک قربانی دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اپنے پیار کا بھی اظہار کرتا ہے اور اپنے حُسن و احسان کے جلوے بھی اسے دکھاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک، انسانی فطرت اور اس کی جدوجہد کے نتیجہ میں اسے جو کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ وہاں کھڑا نہیں رہتا یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ اگرچہ میں نے تمہیں روحانی ترقیات کی طاقتیں تو دی تھیں لیکن تم نے ایک امتحان پاس کر لیا اب تمہیں مزید کچھ نہیں ملے گا۔ مزید امتحان کا دروازہ کھولا جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس کے بغیر تو زندگی کا کوئی لطف نہیں اس ورلی زندگی کے متعلق بھی ہمارے سامنے یہی تصویر رکھی گئی ہے اور اُخروی زندگی کے متعلق بھی یہی تصویر رکھی گئی ہے۔
بعض نا سمجھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو گویا اس کو سب کچھ مل گیا۔ ابھی سب کچھ نہیں ملا کیونکہ سب کچھ ملنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے اوپر مزید ترقیات کے دروازے بند ہو گئے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے کہ اُخروی زندگی میں ارتقاء کا غیر متناہی دور ہو گا۔ البتہ وہاں دُنیوی رنگ کے امتحان نہیں ہوں گے۔ وہ تو دُنیا ہی اور رنگ کی ہے جس کے متعلق بتانے والے(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے بتایا ہے کہ نہ تمہاری آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے، نہ تمہارے کان اسے سُن سکتے ہیں اور نہ تمہاری عقل اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ مثالوں میں ہمیں سمجھایا گیا ہے اور وہ یہی ہے کہ وہ دار ابتلاء نہیں ہے۔ ہماری یہ زندگی جو ابتلاء اور امتحانوں کی زندگی ہے اس سے تو وہ مختلف ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہاں ترقیات کے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بھی زیادہ حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے البتہ کسی طریق پر انسان زیادہ سے زیادہ انعامات حاصل کرتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا رہے گا، اس کا ہمیں پتہ نہیں لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی یہی طریق رکھا ہے کہ آج(گذری ہوئی) کل سے بہتر، اور آنے والی کل آج سے بہتر ہو گی۔ ویسے حالات اور مخلوق کے لحاظ سے زمانہ کی شکل بھی بدل جاتی ہے۔ اس دُنیا میں بھی انسان کا زمانے کے متعلق تصور اور اُس کیڑے کا تصور جس کی زندگی چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہوتی مختلف ہوتا ہے۔ کیڑے کا تصور کیا ہے؟ اس کا تو ہمیں پتہ نہیں۔ لیکن ہماری عقل کہتی ہے کہ وہ بہرحال مختلف ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی جو ہر وقت اپنے کام میں لگی رہتی ہے ، اس کی ساری زندگی ۴۵ اور۶۰ دنوں کے درمیان ہوتی ہے اس سے زیادہ اس کی عمر نہیں ہوتی۔ غرض ہر شہد کی مکھی اپنی پیدائش سے ۴۵ اور ۶۰ دن کے درمیان کام کرتے ہوئے مر جاتی ہے اور یہ ہمیں بہت سارے سبق دیتی ہے جو اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں۔ اسی طرح شہد کی مکھیوں کی ماں، جو ان کی ’’ملکہ‘‘ کہلاتی ہے، اس کی عمر ۴ اور۵ سال کے درمیان ہوتی ہے۔ اب یہ وقت کا تصور دونوں کے لئے بڑا مختلف ہو گا۔
اگر ہم شہد کی مکھیوں پر غور کریں اور اپنی عقل سے کام لیں تو پتہ لگتا ہے کہ ایک کو تو بڑی جلدی پڑی ہوتی ہے کہ وہ ۴۵ دن میں زیادہ سے زیادہ کمالے مثلاًایک شہد کی مکھی جب ایک خاص عمر میں شہد اکٹھا کرنے کے لئے جاتی ہے تو وہ صبح سے شام تک اپنے کام میں لگی رہتی ہے۔ اُس پر ایک جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ ایک دن میں شاید ہزار ہا میل کا سفر کرتی ہے۔ جاتی ہے آتی ہے پھولوں کا رس چھتے میں رکھتی ہے۔ پھر جاتی ہے اور اس طرح وہ چکر لگا رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ میری چھوٹی سی زندگی ہے میں اس میں زیادہ کماؤں۔ یہ کیفیت انسان میں بھی پیدا ہونی چاہئے بہتوں میں ہوتی ہے اور بہتوں میں نہیں ہوتی۔
دوسری طرف شہد کی مکھیوں کی جو ملکہ ہے اسے یہ دھڑکا لگا ہوا ہوتا ہے کہ کہیں ۴۵ دن کے بعد میرا چھتہ مکھیوں سے خالی نہ ہو جائے۔ اس واسطے وہ ایک ایک دن میں دو دو ہزار انڈے دے دیتی ہے اور یہ اس کے اپنے وزن سے اڑھائی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی زندگی کے لحاظ سے ایک لگن لگائی ہوتی ہے۔
بہرحال ہماری عقل کہتی ہے کہ مکھیوں میں وقت کا ایک احساس پایا جاتا ہے گو مکھی کا جو احساس ہے وہ تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا لیکن جب ہم اس کی زندگی پر غور کرتے اور اس کا مطالعہ کرتے رہیں تو ہماری عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ اسے وقت کا احساس اور قسم کا ہے اور ہمیں وقت کا احساس اور قسم کا ہے اُخروی زندگی میں وقت کا احساس اور قسم کا ہو گا ہمیں نہیں پتہ کہ وہ احساس کیا ہے؟ لیکن جو بھی احساس ہو گا، اس میں ایک وقت کے بعد جو دوسرا وقت آئے گا، وہ پہلے سے بہتر ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے درجات غیر محدود ہیں اس لئے انسان کی ترقیات کے درجات بھی غیر محدود ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ اور انسان میں اتنا بُعدہے کہ وہ بُعد تو پاٹا نہیں جا سکتا لیکن انسان اللہ تعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
میں یہاں کی اس مادی دُنیا کا ذکر کر رہا ہوں۔ ہر سال خداتعالیٰ کے بندے ایک نئے امتحان میں سے گذرتے ہیں اور ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے ایم اے کی کلاسز کی طرح قریباً سارے ہی پاس ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی خداتعالیٰ کا فضل ہے۔ اس امتحان کی کامیابی پر اگرچہ ایک انعام بھی ملتا ہے لیکن یہ کامیابی ایک نئے امتحان اور ایک بڑے انعام کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔ جس نئے امتحان کا دروازہ کھولا جاتا ہے وہ پہلے سے بڑھ کر سخت اور مشکل ہوتا ہے۔وہ زیادہ محنت طلب ہوتا ہے یا مذہبی اصطلاح میں کہیں گے کہ اس کے لئے انسان کو زیادہ مجاھدہ اور زیادہ جہاد کرنا پڑتا ہے اسی واسطے آپ اپنی(مراد جماعت احمدیہ کی یعنی میری اور آپ کی جو زندگی ہے بحیثیت جماعت) اس زندگی پر غور کریں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فضل نظر آتا ہے کہ جماعت احمدیہ ہر سال پہلے سال سے ہر لحاظ میں زیادہ ترقی کرتی ہے لیکن میں اس وقت ہر لحاظ کی بات نہیں کروں گا۔ صرف مالی قربانی کی بات کروں گا۔
میں نے پہلے بھی ایک موقعہ پر بتایا تھا کہ ۱۹۴۴ء تک بیرون پاکستان کی جماعتوں کے چندے یعنی مالی قربانی قریباً صفر تھی۔ استثنائی طور پر شاید آپ کو کہیں نظر آجائے تو آجائے ورنہ صفر تھی چنانچہ بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں نے پہلی بار۱۹۴۵ء میں مالی قربانی دینی شروع کی یعنی پہلی بار ان کی مالی قربانی ۱۹۴۵ء میں ہمارے سامنے آئی اس وقت ان کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ بہرحال جو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی جماعتوں سے ان کی مالی قربانی اگر زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہو گی وہ ہم سے بہت پیچھے (یعنی ۱۹۴۵ء میں) آئے اور اب وہ ہم سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے پہلو بہ پہلو تو وہ اس وقت تک پہنچ چکے ہیں۔
اس سال ( مجھے فکر تو نہیں لیکن میرا فرض تھا کہ میں جماعت کو توجہ دلاتا البتہ) نظارت بیت المال کو فکر تھی کہ بجٹ کے مطابق چندے اتنے نہیں آرہے جتنے اس وقت تک آنے چاہئے تھے۔ میں نے ان کو ایک دن سمجھایا تھا کہ فکر نہ کرو ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار انتخابات ہو رہے ہیں ایک ہنگامہ بپا ہے۔ ذہنوں میں ایک ہیجان ہے۔ گو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ چندوں کی ادائیگی میں کمی لوگوں کی سستی کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن بہرحال کچھ توجہ انتخابات کی طرف بھی ہو گئی ہے۔ اب جب ہم ان سے فارغ ہوں گے تو پھر ایک رد عمل پہلے سے زیادہ شدید ہو گا اور وہ ردعمل پیدا ہونا چاہئے ورنہ جماعت پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے۔
اس وقت بجٹ کے لحاظ سے جتنی آمد ہونی چاہئے اس سے قریباً پانچ، ساڑھے پانچ لاکھ روپے کم آمد ہوتی ہے اور دو لاکھ سے زیادہ موصیوں کا حصہ آمد کم ہے۔ اب جس دل نے انتہائی پیار کے ساتھ اپنی آمد کا دسواں حصہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے، اُس پر ہم بدظنی تو نہیں کر سکتے البتہ کئی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی مجبوری بھی ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے۔ بعض دفعہ ایک بالکل معمولی رسی سے گھوڑے کا پاؤں باندھ دیا جائے جسے وہ ایک ذرا سی حرکت سے توڑ سکتا ہے لیکن گھوڑا اپنے آپ کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ بعض دفعہ انسانوں کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے لیکن یہ کیفیت بہرحال دور ہونی چاہئے اور انشاء اللہ دور ہو گی۔
۳۰؍۳۱جنوری اور پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں فروری کے یہ سات دن مَیں اِس وقت مقرر کرتا ہوں۔ یہ دن عملاً بیدار ہو کر اس بات کے ثابت کر دینے کے لئے ہیں کہ عارضی طور پر اونگھ آگئی تھی۔ نہ سوئے اور نہ موت وارد ہوئی۔ موت کا تو یہاںسوال ہی نہیں لیکن سوئے بھی نہیں تھے البتہ اونگھ تو اچھے ہوشیار آدمی کو بھی آجاتی ہے۔ بعض دفعہ رات کو تہجد پڑھنے والا بھی اگر تھکا ہوا ہو تو اُسے بھی اُونگھ آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا دماغ ہی کچھ ایسا بنایا ہے۔
موصیوں کے حصہ آمد میں جو کمی ہے اس کے لئے تو میں موصیوں کی تنظیم کو ذمہ وار قرار دیتا ہوں جن کے سپرد یہ کام ہے انہیں پتہ کرنا چاہئے کہ یہ کمی کیوں واقع ہوئی ہے پس موصیوں کا بقایا بھی نہیں رہنا چاہئے۔ باقی دو تین لاکھ روپے کی رقم ہے اس وقت خداتعالیٰ کا فضل ہے۔ یہ کوئی ایسی رقم نہیں اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔
میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے حضور کوئی عملی قربانی پیش کی جاتی ہے اس وقت سے اس پر ثواب شروع ہوتا ہے۔ آپ دو مہینے ثواب سے محروم رہے اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل اور رحم فرمائے۔ بہرحال غلطی ہوئی ہے اب ہمیں زیادہ دیر تک محروم نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ عزم کر لینا چاہئے کہ ہم نے ان بقایا جات کو پورا کرنا ہے۔
آپ نے سال رواں کے لئے کام کے جو منصوبے مشا ورت کے موقع پر باہمی مشورے سے منظور کئے تھے اور ان کاموں کے کرنے کے لئے جس رقم کی آپ نے ضرورت محسوس کی تھی اور جس کے مطابق آپ نے بجٹ بنایا تھا، وہ بجٹ پورا ہونا چاہئے ورنہ وہ کام نہیں ہو سکیں گے۔ پھر اگلی مشاورت کے موقع پر عہدیدار آکر یہ نہیں کہیں گے کہ اُن سے سستی ہو گئی۔ انہوں نے احباب جماعت کو یاد دہانی نہیں کرائی بلکہ وہ یہ کہیں گے کہ یہ کام کیوں نہیں ہوا؟ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ اس کام کے لئے اتنے روپے کی ضرورت تھی جب تک وہ روپیہ مہیا نہ ہو وہ کام کیسے ہو سکتا ہے؟
بہرحال میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے اس تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔(طبیعت سے مراد بیماری نہیں بلکہ فطرت ہے بیماری میں تو مجھے جتنی توفیق ملے گی بولوں گا) اس واسطے کہ مجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بشارت بھی دی اور آپ سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ میں تجھے مخلصین کی ایک جماعت دوں گا، جو ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی اس مہم کو کامیابی سے چلائے گی۔ یہ تو انشاء اللہ ہو کر رہے گا لیکن کبھی دوسرے لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کبھی ہمارے دلوں میں ایک وہم سا پیدا ہو جاتا ہے کیوں آپ وہم پیدا کر کے مجھے پریشان کرتے ہیں! تھوڑی سی رقم ہے سُستی دُور کریں اور رقم ادا کریں تاکہ ہم اپنے کام کریں اور آگے بڑھیں۔ انشاء اللہ۔
خداتعالیٰ آپ کو اتنا مال دے رہا ہے کہ آپ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے اور پھر وہ آپ کو مالی قربانی کی توفیق بھی دے رہا ہے اور آپ سے اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ کو اجرِ عظیم دے گا اور وہ اپنا وعدہ پورا بھی کر رہا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اولاد اور اموال تو امتحان ہیں۔ دُنیا کے امتحان کے نتیجہ میں تو ذرا ذراسا انعام ملتا ہے مثلاً ایک آدمی ایم۔اے پاس کر لیتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا انعام ہے کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو انعام صرف اتنا ملتا ہے کہ ایم اے کی ڈگری مِل جاتی ہے لیکن حکومت ان کے لئے نوکری کا سامان نہیں کرتی۔ وہ چھوٹا سا انعام یعنی ڈگری لے کر پھر بھی پریشان پھر رہے ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کا اپنے بندوں سے تو یہ سلوک نہیں ہوتا وہ تو صرف پاس ہی نہیں کرتا، وہ صرف رحیم ہی نہیں ہے، صرف استحقاق ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ مَالِکِ یُوْمِ الدِّیْنَ بھی ہے۔ ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب استحقاق پیدا کرتا ہے تو ساتھ یہ بھی کہتا ہے، یہ لو اور دُنیا حیران ہے اور ہم اپنے پیارے رب کے پیارے جلوئوں کو دیکھ کر خوشی سے اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ میں تمہیں دُنیا کی طرح اجر نہیں دوں گا بلکہ میرا اجر تو اجرِ عظیم ہے۔(عظیم عربی لغت کے لحاظ سے اس عظمت کو کہتے ہیں جس سے بڑھ کر کوئی عظمت نہ ہو) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اجر میں نے دینا ہے، اس سے بڑھ کر اجر تمہیں کہیں اَور نہیں مل سکتا پس یہ عظیم اجر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور یہ عظیم اجر ہے جِسے ہم عملاً اللہ تعالیٰ سے وصول کر رہے ہیں اور جس پر ہم خوش ہیں۔
پس اس اجرِ عظیم کے حصول میں اپنی سُستیوں کے نتیجہ میں وقتی طور پر کمی کیوں پیدا ہونے دیں۔ جس طرح ایک اونگھنے والے آدمی کو جھٹکا لگتا ہے اور وہ ایک جھٹکے کے ساتھ بیدار ہو جاتا ہے میں بھی ویسا ہی ایک ہلکا سا جھٹکا آج لگانا چاہتا ہوں تاکہ آپ بیدار ہو جائیں اور کمی کو پورا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ہر روز زیادہ سے زیادہ بڑی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق دے اور مجھے بھی اس کی توفیق دے۔ اس کے فضل کے بغیر یہ توفیق بھی نہیں ملتی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵ نومبر۱۹۷۱ء صفحہ ۳ تا۵ )
الٰہی سلسلوں کا ہر فرد عبدِ مسلم
اور عبدِ محسن ہوتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت کی:-

حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں تو اس کی ساری ہی مخلوق پر نازل ہوتی ہیں لیکن جب یہ رحمتیں اور برکتیں رب اور رحمان کی صفت کے جلوؤں کے ماتحت نازل ہوتی ہیں تو انسان کے علاوہ جن پر وہ نازل ہوتی ہیں اُن پر یہ ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس کی طرف اور بھی زیادہ جھکیں وہ تو مجبور ہیں لیکن انسان جب اللہ تعالیٰ کی رحیمیّت کے جلوے دیکھتا ہے اور اسے اپنی حقیر اور بے مایہ کوششوں کے ثمرات ملتے ہیں تو اس وقت اس کے لئے رحیمیت کے دامن کو پکڑنا اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے لیکن ان انسانوں میں سے بھی جو خدا کے لئے اپنی زندگی کے دن گذارنے والے ہوتے ہیں ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رحیمیت کے دستِ قدرت نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے یہ کامیابیاں عطا نہیں کیں بلکہ میں نے جو حاصل کیا ہے وہ اپنی تدبیر اور اپنی عقل اور اپنے ذرائع اور اپنی کوشش اور اپنی طاقت سے حاصل کیا ہے۔(اللہ تعالیٰ ایسے خیال سے محفوظ رکھے) مگر جو لوگ خداتعالیٰ کے سچے عاشق ہوتے ہیں اُن پر جب رحیمیت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اور اس دُنیا کی نعمتیں اور عزتیں بھی انہیں دی جاتی ہیں تو اُن کے دلوں میں اور ان کی روح کے گوشے گوشے میں بے مائیگی اور نیستی کا احساس اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ احساسِ بے مائیگی اور نیستی ایک مومن کی جان اور اللہ کے عاشق کی روح ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اس کے فضلوں اور رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔
ہمارا رب صمد اور غنی ہے۔ اُسے کسی شخص کی اور کسی شئے کی احتیاج نہیں لیکن ہم ہرآن اورہر لحظہ اس کے محتاج ہیں۔ کوئی چیز بھی تو اس دُنیا میں ایسی نہیں جو اس کے فضل کے بغیر حاصل کی جا سکتی ہو جب تک آسمانوں سے اس کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک نہ کوئی عزت مل سکتی ہے، نہ کوئی رتبہ پایا جا سکتا ہے، نہ مال ملتا ہے، نہ خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ حقیقی عزتیں اور وہ اموال جو بھلائی اور خیر کا موجب بنتے ہیں اور وہ جتھہ اور خاندان جس سے انسان حقیقی مسرتیں حاصل کرتا ہے۔یہ حقیقی عزتیں اور مسرتیں اسی کو ملتی ہیں جو خود کو بے مایہ اور نیست سمجھے اور ہر چیز کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا احساس پیدا کرے اور ہر نعمت میں اس کے پیار کا جلوہ اسے نظر آئے۔
اللہ تعالیٰ نے گذشتہ برس اندرون پاکستان بھی اور بیرونی ممالک میں بھی جماعت احمدیہ پر بڑے ہی فضل نازل کئے۔ اُس نے بشارتیں بھی دیں اور بشارتوں کو پورا بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتیں جماعت احمدیہ اور اس کے افراد پر نازل ہوتی ہیں کہ اُن کا گننا ممکن ہی نہیں وہ تو شمار میں آہی نہیں سکتیں۔
جب میں ان فضلوں کو دیکھتا ہوں تو میرے دل میں یہ خوف بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں جماعت کا کوئی حصہ کبر و غرور کی بیماری میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب کا وارث نہ بن جائے اس لئے میں آج بڑوں اور چھوٹوں، مردوں اور عورتوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل تم پر اسی وقت تک نازل ہوتے رہیں گے جب تک کہ تم اپنے دلوں میں بے مائیگی اور نیستی کا احساس پوری شدت کے ساتھ قائم رکھو گے۔
الہٰی سلسلوں کے دو امتیازی نشان ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ الہٰی سلسلوں میں داخل ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کا فرد عبدِ مسلم ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ عبدِ محسن ہوتا ہے۔
میںنے جو آیت ابھی تلاوت کی ہے اس میں ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ اسلام نام ہے اس بات کا کہ انسان کا اپنا کوئی ارادہ باقی نہ رہے اور اس پر ایک موت وارد ہو جائے۔ انسان اپنی تمام خواہشات کے ساتھ اور اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اپنے رب کے پاؤں پر گر جائے اور اس سے یہ کہے کہ اے میرے پیدا کرنے والے محبوب! جو کچھ مجھے ملا وہ تیرے فضل سے ملا۔ جو کچھ مجھے مل رہا ہے وہ تیرے فضل سے مل رہا ہے اور جو کچھ مجھے ملے گا وہ بھی تیرے فضل سے ہی ملے گاکیونکہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری آنکھ صرف اس وقت دیکھ سکتی ہے جب تیرا فضل اسے کہے کہ وہ دیکھے۔ میری زبان صرف اس وقت بول یا چکھ سکتی ہے، جب زبان پر تیرا حکم نازل ہو کہ وہ بولے اور لذت اور سرور حاصل کرے۔ اسی طرح میرے کانوں کی شنوائی بھی تیری رحمت کی محتاج اور میرے حواس کی حِس بھی تیرے فضل کے بغیر زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی۔ اے خُدا! تو نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ تو قادر و توانا ہے اور بہت کچھ دے سکتا ہے۔ ہماری امیدوں سے بھی زیادہ، ہماری توقعات سے بھی زیادہ، ہمارے تخیل اور تصور سے بھی زیادہ دے سکتا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی مل سکتا ہے، وہ تیری رحمت کے طفیل ہی مل سکتا ہے۔ ہم تیرے حضور جھکتے اور تیری رضا کی خاطر اور تیرے وصال کے لئے تیری محبت پانے کے لئے ہم اپنے اوپر ایک موت وارد کرتے ہیں۔ اے زندہ اور زندگی بخش! تو ہماری اس موت کو اپنی راہ میں قبول کر اور ہمیں وہ زندگی دے جس پر فرشتے بھی رشک کریں۔
ہر احمدی جب تک عبدِ مسلم نہیں بنتا، اس معنی میں کہ ہر وقت اور ہر آن اُسے یہ احساس رہے کہ اس نے جو کچھ بھی پایا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پایا اور ہم جو کچھ بھی پائیں گے وہ اسی کے فضل سے پائیں گے ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہمارے پاس تو نہ عزت ہے، نہ دولت ہے اور نہ اقتدار ہے لیکن عزتیں اللہ تعالیٰ بانٹتا ہے اور اموال بھی وہی تقسیم کرتا ہے پھر اموال جب وصول ہو جاتے ہیں تو ان کے اچھے نتائج بھی وہی نکالتا ہے جس سے ایک خوشی اور بشاشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
پس تم ہمیشہ عبدِ مسلم بنے رہو کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنے مقصود کو پا نہیںسکتے۔ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ جو ہم سے چاہتا ہے، وہ ہم اسے دے نہیں سکتے۔اس کے بغیر وہ موت ہمیں مل نہیں سکتی جس کے بعد ایک ابدی اور خوشحال زندگی آسمانوں سے عطا کی جاتی ہے۔
دوسرا امتیازی نشان الٰہی جماعتوں اور ان جماعتوں کے افراد میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ عبدِ محسن ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر شخص خداتعالیٰ کی راہ میں تمام شرائط کے ساتھ اعمالِ صالحہ کو بجا لانے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان کرنے والا ہوتا ہے۔
احسان کے لفظ کو جب دوسروں پر احسان کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو حقوق دئیے تھے، وہ اپنے یہ حقوق بھی اپنے بھائیوں کو دے دیتا ہے اور اسی طرح اپنے حق سے کم لینے پر اس لئے تیار رہتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا مل جائے اور پھر احسان کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے ہر فرد واحد کے جو حقوق قائم کئے ہیں، انسان ان حقوق سے زیادہ دینے کے لئے تیار ہو جائے۔ ایسا شخص محسن ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ محسنوں سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے۔ یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
پس جب ہم عبدِ مسلم بننے کے بعد عبدِ محسن بھی بن جائیں(یا مجھے شاید یوں کہنا چاہئے کہ) عبدِ مسلم بنے بغیر کوئی شخص حقیقی معنے میں محسن نہیں بن سکتا، اس لئے عبدِ مسلم بھی بنے اور عبدِ محسن بھی بنے اور خداتعالیٰ کے بندوں سے پیار کرنے لگے اور ان کے لئے اپنے حقوق کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور اُن کے اللہ تعالیٰ نے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن سے زائد دینے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (العنکبوت:۷۰)
غرض جسے اللہ تعالیٰ کی معیّت حاصل ہو جائے اُسے کسی غیر کی احتیاج کہاں باقی رہتی ہے مگر جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہ ہو، وہ ساری دُنیا پر غرور کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
پس اے میرے بھائیو اور بہنو! اپنے ان دو امتیازی نشانوں کو قائم رکھو ہمیشہ عبد مسلم بنے رہو۔ ہمیشہ اپنے دل اور اپنی روح میں اللہ تعالیٰ کی احتیاج کا احساس زندہ رکھو۔اُسے غنی اور صمد سمجھو اور خود کو بے مایہ اور نیست جانو۔ خدا کے بندوں پر احسان کرو۔ اگر کبھی تمہارا حق مارا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس حق کو برضا و رغبت چھوڑ دو۔ اگر کبھی تمہیں دوسرے کی خوشی کے لئے اپنے حقوق چھوڑنے پڑیں تو اسی میں اپنی خوشی اور اسی میں اپنی زندگی سمجھو اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے قائم کئے ہیں اُن سے زائد دو اُن سے کم نہ دو کیونکہ اس کے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کئے بغیر یہ زندگی اس قابل نہیں کہ آدمی اس سے چمٹا رہے۔
خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک عبد مسلم اور عبد محسن بنا رہے اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اُوپر ایک نیستی اور موت وارد کر کے اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو۔ وہ نئی زندگی، جسے اللہ تعالیٰ دیکھے اور خوش ہو اور جس کے نتیجہ میں اس کا وصال اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍ نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ۳،۴)
ززز








دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو کامیابی عطا
کرے اور دُشمن ناکام و نامراد ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اَلْحَمْدُ لِلّٰہطبیعت پہلے سے بہت اچھی ہے۔۲۱؍جنوری کو مَیںگھوڑے سے گِرا تھا اور اس کے بعد بارہ ہفتے ڈاکٹروں کے مشورہ سے لیٹنا پڑا۔ جہاں تک ریڑھ کی دو ہڈیوں کے صحت یاب ہونے کا تعلق تھا، وہ تو ڈاکٹرکہتے تھے کہ جس طرح نوجوانی کی حالت میں جُڑ جانا چاہئے اُسی طرح ۲۱ دن کے بعد وہ ٹھیک ہو گئیں۔ پہلے ذرا نرم، پھر اس کے بعد ان کے اندر سختی بھی آگئی لیکن ایک تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمر کے اعصاب میں بھی چوٹ آئی تھی دوسرے لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے جگر پر اثر پڑا پھر لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے کان کے پیچھے ایک مائع سا ہوتا ہے جو انسان کے BALANCE(بیلنس) یعنی توازن کو قائم رکھتا ہے۔ اس کے اُوپر بھی اثر پڑا نیز لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے ورزش نہیں ہوئی اس واسطے خون میں شکر کی زیادتی ہو گئی اور لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے گھٹنوں میں سختی آگئی۔
یہ عوارض دراصل گرنے کی وجہ سے چوٹ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ لیٹنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گئے۔ چکّر ایک وقت میں اتنے شدید تھے کہ بڑی سخت تشویش اور گھبراہٹ پیدا ہوتی تھی، ساری دُنیا ہی گھومتی رہتی تھی۔ اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ زمین بڑی تیزی سے گھوم بھی رہی ہے اور ایسے سامان بھی پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ انسان کو اس کا احساس نہ ہو۔ ہمارا رب بڑا فضل کرنے والا ہے۔
پس جب بیماری کی وجہ سے دورانِ سر کی تکلیف شدت اختیار کرتی تو اس سے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔شکر جو خون میں زیادہ ہوئی وہ بھی فکر کی بات تھی کیونکہ اس کے نتیجہ میں پھر دوسرے عوارض پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً آنکھوں پر اثر پڑتا ہے، دل پر اثر پڑتا ہے اور مختلف جوارح پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اس قسم کے بد اثرات پیدا نہیں ہوئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
میں نے اسلام آباد میں ایک ماہر ڈاکٹر کو دکھایا تو وہ کہنے لگے کہ خون میں شکر کی زیادتی بیماری کی وجہ سے نہیںبلکہ اس وجہ سے ہے کہ آپ بیمار تو نہیں لیکن بیماری کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں۔(یہی کمانڈر شوکت نے کراچی میں بتایا تھا) اور جب بھی آپ کی ورزش چُھٹ جائے گی آپ کے خون میں شکر آجائے گی کیونکہ ورزش کے نتیجہ میںشکر جل جاتی ہے۔ اس واسطے ورزش کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہ شکر خود بخود غائب ہو جائے گی۔
چنانچہ اُس کے مشورہ سے کراچی سے ایک ایسا سائیکل منگوایا گیا، جو ایک انچ چلتا بھی نہیں اور کئی میل کی ورزش بھی کروا دیتا ہے یعنی یہ ورزش کرنے والا سائیکل ہے اس کے پہئیے زمین سے اُٹھائے ہوئے ہیں، آدمی چلاتا ہے تو ورزش ہو جاتی ہے۔ میں نے تھوڑے دن ہی یہ ورزش کی ہے اس سے ایک تو یہ اچھا اثر ہوا کہ جو (لمبا عرصہ) لیٹے رہنے کی وجہ سے جسم کا گوشت بالکل ڈھیلا اور نرم پڑ گیا تھا اس میں پھر سختی آگئی اور جان پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے میرا احساس یہ ہے(ابھی ٹیسٹ تو غالباً کل صبح ہو گا) کہ خون میں شکر کی جو زیادتی تھی وہ زیادتی نہیں رہی بلکہ(یہ نظام) اپنی اصلی حالت پر آگیا ہے کیونکہ اس بیماری کی بعض علامتیں ہیں مثلاً سر کے پچھلے حصہ میں اگر شکر زیادہ ہو تو ہلکی سی درد اور گھبراہٹ کا ایک احساس ہوتا ہے یا پیشاب کی کثرت ہے اور پیشاب اپنے پیچھے جلن چھوڑ جاتا ہے مگر اب تو بالکل زمانۂ صحت والا احساس پیدا ہو چکا ہے۔ کل یا پیر کی صبح کو پھر خُون کا ٹیسٹ ہو گا۔ خدا کرے ٹھیک ہی نکلے۔ ویسے احساس کے لحاظ سے تو وہ ٹھیک ہے۔
گھٹنوں کی سختی نے میرے اور آپ کے درمیان بُعد پیدا کر دیا کیونکہ شروع میں ۱۲ ہفتے لیٹنے کے بعد اُن میں اتنی سختی آگئی تھی کہ ایک وقت میں میرا ہاتھ پاؤں تک نہیں پہنچتا تھا یہ شکر ہے کہ سختی لات بند ہونے کی طرف پیدا ہوئی تھی لات کھلنے کی طرف نہیں پیدا ہوئی تھی۔ اب تو آہستہ آہستہ فرق پڑ رہا ہے۔ تھوڑا سا فرق جو رہ گیا ہے اس فرق کے دور ہونے میں دیر لگ رہی ہے۔ قعدہ کی حالت میں بیٹھ نہیں سکتا۔ پہلے تو کوئی ایک دو فٹ کا فرق تھا۔ اب میری ایڑی لگ جاتی ہے لیکن شدید درد کے ساتھ۔ اس درد میں فرق پڑ رہا ہے اب مَیں سہارا لے کر بیٹھ جاتا ہوں۔ پہلے تو یہ بھی میرے لئے مشکل تھا بہرحال اس وجہ سے دُوری پیدا ہوئی اور بڑی لمبی دُوری۔ مجھے بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔۲۱؍جنوری کے بعد اب میں پہلی دفعہ خُطبہ جُمعہ کے لئے یہاں آیا ہوں۔
یہ ہمارا جمعہ جو ہے یہ اُمّت محمدیّہ کے لئے بہت ہی مفید اور حسین بنایا گیا ہے اس دن ہم سارے آپس میں ملتے ہیں اور خطیب یا دیگر ذمہ دار آدمی جو ہیں ان کو اُمت محمدیہ کی ضروریات لوگوں کے سامنے رکھنے اور دعائیں کروانے کا، حالات بتانے کا، ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کا موقع ملتا ہے اور یہ سلسلہ بڑا ضروری ہے اب تو خُطبہ چھپ جاتا ہے کیونکہ طباعت کا کام بڑی ترقی کر گیا ہے۔ اخبار بھی ہر ایک آدمی تک پہنچ جاتے ہیں یعنی ہر اُس آدمی تک جو پڑھنا چاہے تاہم بڑا افسوس ہے کہ جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو الفضل کو پڑھتے نہیںایک نظر تو ڈالا کریں شاید اس میں آپ کی دلچسپی کی کوئی چیز مل جائے اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہو رہے ہیں اُن کو پڑھا کریں، اس کے بغیر آپ شکر نہیں ادا کر سکتے کیونکہ جس شخص کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمتیں اور برکتیں اُس پر نازل کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کرے گا اور احساس کیسے پیدا ہو گا جب تک آپ اپنے علم کو UP TO DATE (اپ ٹو ڈیٹ) نہ کریں یعنی آج تک جو فضل نازل ہوئے ہیں اس کا پورا علم نہ ہو۔
پچھلے دنوں ایک افسوسناک واقعہ ہو گیا۔ ہمارے مخالفوں نے بعض دوستوں کو ظلم کا نشانہ بنایا۔ چار پانچ دن کے بعد کچھ دوست میرے پاس آئے کہنے لگے یہ لوگ اس طرح ہمارے ساتھ کر رہے ہیں میں ہنس پڑا۔ میں نے کہا چار دن پہلے کی بات کر رہے ہو اب تو جماعت احمدیہ اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے اب تو گردن تھک جائے گی اگر ہم نے اس واقعہ کی طرف دیکھنے کے لئے گردن موڑی۔ ہمیں خداتعالیٰ آگے ہی آگے لے جا رہا ہے اس واسطے فکر کی کوئی بات نہیں خداتعالیٰ جماعت پر اتنے فضل کر رہا ہے کہ مثلاً(میں نے ان کو واقعہ بتایا میں نے کہا) ان چار دنوں میںجو ڈاک میرے پاس آئی ہے یہ ٹھیک ہے وہ اس واقعہ سے پہلے کی ہے لیکن ان چار دنوں کی ڈاک بعد میں آجائے گی لیکن یہ پتہ لگتا ہے کہ چاروں دنوں میں (چاہے کہ وہ پہلے کے دن ہو) جماعت کتنی ترقی کر گئی ہے فلاں ملک میں پانچ نئی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں فلاں جگہ نئے ہیلتھ سنٹر کھل گئے ہیں اور فلاں جگہ سکول کھل گئے ہیں چنانچہ ان کو میں نے واقعات بتا کر کہا کہ خدا کافضل جس قوم پر، جس جماعت پر اتنا ہو کہ چار دن پہلے کا جماعتی واقعہ دیکھنے کے لئے اسے گردن کے پٹھوں کو تکلیف دینی پڑے اس کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ ناسمجھی ہے، اللہ تعالیٰ وہ بھی دور کر رہا ہے دور ہو جائے گی۔ خداتعالیٰ نے یہ تو فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام تمام دُنیا پر دوبارہ اسی شان سے غالب آئے گا جیسا کہ اپنی نشأۃ اولیٰ کے زمانے میں بڑی شان سے غالب آیا۔ آپ سوچا کریں کیونکہ جب تک ہم مثال کو نہ سمجھیں آج کے حالات کو نہیں سمجھ سکتے۔
ایران نے اُس زمانہ میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی کیونکہ ان کی سرحدوں پر عرب آباد تھے اور ایرانی سمجھتے تھے کہ مسلمانوں میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے، ہمارے لئے مشکل پیدا ہو گی اِس لئے انہوں نے کہا کہ ان(عربوں) کو تنگ کرو چونکہ ایرانیوں نے پہل کی تھی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا اور فرمایا اس کا طریق یہ ہے کہ چونکہ ایرانی ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ہمیں موء ثر جوابی حملہ کرنا چاہئے چنانچہ آپ نے حضرت خالدؓ بن ولید سے فرمایا کہ جو تمہارے پاس فوج ہے (وہ ارتداد کو رفع کرنے کے لئے سرحدوں ہی پر پھر رہے تھے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران ملوث ہو گیا تھا وہ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو شہ دے رہا تھا) اس کوساتھ لے کر تم چلے جاؤ اور ایرانیوں کو خاموش کرو۔ حضرت خالدؓ بن ولید کے پاس اُس وقت جو فوج تھی انہوں نے اسے جمع کیا۔(حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعض سرداروں کو فرمایا کہ خالدؓ بن ولید کے پاس چلے جاؤ۔ یہ مل ملا کر کل قریباً چودہ ہزار مسلمان تھے۔ ان چودہ ہزار کو لے کر حضرت خالدؓ نے سلطنت کسریٰ جیسی عظیم سلطنت کے خلاف چڑھائی کر دی اگرچہ جنگ دفاعی تھی جوابی حملہ تھا مگر پھر بھی شام کی طرف جانے سے قبل حضرت خالدؓ بن ولید نے غالباً آٹھ دس جنگیں تو یقینا ایرانیوں کے ساتھ لڑی ہیں اور ہر جنگ جو انہوں نے لڑی ہے کوئی دو دن کے وقفہ کے بعد اور کوئی سات دن کے وقفہ کے بعد لڑی گئی ہے۔ہر جنگ میں ایران کی نئی فوج نئے سردار یعنی کمانڈر انچیف کے ماتحت ان کے مقابلے پر آئی جن کی تعداد ساٹھ ستر ہزار ہوتی تھی اور پھر بالکل تازہ دم گویا مسلمانوں نے اپنے سے ۵۔۶ گنا زیادہ تازہ دم فوج کا مقابلہ کیا۔ مسلمانوں کی تعداد چودہ ہزار بھی نہیں رہی ان میں کچھ شہید ہو رہے تھے کچھ زخمی ہو رہے تھے اور پھر نسبتاً اتنے طاقتور بھی نہ رہے تھے کیونکہ جو زخمی ہوتے تھے وہ صحت مند آدمی کی طرح تو بہرحال نہیں لڑ سکتے تھے۔ ویسے ایثار کے جذبہ کے ماتحت آجاتے تھے مثلاً ذرا فرق پڑا تو جنگ میں شامل ہو گئے ۔ تلوار ہاتھ میں پکڑی۔ کہا جس طرح ہو سکا ہم جنگ کریں گے۔ بچ جائیں گے یا خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گے۔
غرض اس عرصہ میں حضرت خالدؓ بن ولید کے ماتحت جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں چودہ ہزار مسلمان لڑتے رہے یعنی چودہ ہزار اور کچھ کم کیونکہ ہر جنگ میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی وجہ سے تعداد کم ہو رہی تھی اور ہر مقابلے میں ایرانیوںکی تازہ دم فوج نئے کمانڈر انچیف کے ماتحت مقابلے پر آتی تھی جن کی تعداد میں نے بتایا ہے ساٹھ ستر ہزار کے درمیان ہوتی تھی۔ آپ غور کریں اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اسلام کی ظاہری حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ چودہ ہزار سرفروشوں نے ایران جیسی سلطنت کے پرخچے اُڑا دئیے کیا ان کی ہمت اور طاقت تھی کہ وہ ایسا کر سکتے؟ نہیں! ان میں اتنی طاقت اور ہمت نہیں تھی پھر کون لڑتا تھا؟ نہ نظر آنے والی طاقتیں لڑتی تھیں جو مسلمانوں کے دل کو سہارا دیتیں اور ایرانیوں کے دل میں بزدلی اور خوف پیدا کرتی تھیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ایک جنگ میں (صبح سے شام تک ہی جنگ لڑی گئی) ایرانی اپنے پیچھے چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان لاشیں چھوڑ کر دوڑے ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ چودہ ہزار کے مقابلے پر آئے تھے۔
آپ ان واقعات پر جتنا زیادہ غور کریں اور ان کا علم حاصل کریں اتنا ہی زیادہ آپ کو پتہ لگے گا کہ ایک عظیم احسان تھا جو اللہ تعالیٰ اس وقت امتِ مسلمہ پر کر رہا تھا اور یہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور احترام کے قیام کے لئے تھا۔ آپ کی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں چودہ ہزار مسلمانوں کی یہ جمیعت جو ایرانیوں سے نبرد آزما تھی(یا جو دوسری جگہوں پر برسر پیکار تھے وہ بھی مستثنیٰ نہیں) یہ ہمیں انسان نہیں نظر آتے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اَور مخلوق تھی جو اس دُنیا میں پیدا کی گئی تھی۔
خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ آج میں ویسا ہی فضل تم پر کرنا چاہتا ہوںلیکن اگر اُن فضلوں کو حاصل کرنا ہے تو تمہیں بھی ویسی مخلوق بننا پڑے گا۔
محض وہی جنگ جس کا مقصد تلوار کے زور سے کسی کے عقائد بدلنے کی کوشش ناکام بنانا ہو اسلامی جنگ اور ثواب کا موجب نہیں ہے بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:۔
مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا جاتا ہے خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ بھی شہید کا درجہ رکھتا ہے۔
مَنْ قُتِلَ دُوْنَ عِزِّہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ جو اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر جان دیتا ہے خداتعالیٰ اس کو بھی شہید کا ثواب دے گا اور
مَنْ قُتِلَ دُوْنَ نَفْسِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ جو ا پنے نفس کی حفاظت کے لئے جان دیتا ہے خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ بھی شہید ہے۔
جیسا کہ ہمارے پریذیڈنٹ جنرل محمد یحییٰ خان صاحب نے اپنی ۱۲ (اکتوبر ۱۹۷۱ء) کی تقریر میں کہا ہے بھارتی فوجیں ہماری سرحدوں پر جمع ہیں اور کسی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں انہوں نے قوم کو نصیحت کی انہوں نے قوم سے کچھ امیدیں وابستہ کی ہیں اس نصیحت پر ہم نے عمل کرنا ہے اس لئے کہ وہ عین اسلام کے مطابق ہے اور انہوں نے جو اُمیدیں وابستہ کی ہیں امتِ محمدیہ سے وہی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔
یہ جنگ اگرچہ بظاہر اسلام کو مٹانے کے لئے تو نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے ہے اور اگر خدا نخواستہ ساری دُنیا کے مسلمان مٹ جائیں تواس سے اسلام پر بہرحال ضرب آتی ہے پس گویہ جنگ عقیدہ بدلنے کے لئے نہیں ہے لیکن اسلام دُشمنی کے نتیجہ میں مسلمان سے جو بغض اور حسد ان کے دل میں ہے اس کے نتیجہ میں یہ سارے غصے ہیں ورنہ بھارت ہمسایہ ملک تھا۔ ہمسایوں کی طرح اسے رہنا چاہئے تھا۔
پس اس وقت آپ نے اپنے مال سے بھی، وقت سے بھی اور اپنی ہر قسم کی مادی قربانیوں سے بھی اور اپنی دعاؤں سے بھی اپنے ملک کی خدمت، اپنی حکومت کی خدمت اور اپنے بھائیوں کی خدمت کرنی ہے اور اسی کی طرف مَیں اس وقت آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
دوست میری صحت کے لئے بھی دُعا کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے اور مرتے دم تک پورے کام کی توفیق بخشے۔ بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پاکستان کو ہر قسم کے نقصان اور ہر قسم کی بے عزتی سے محفوظ رکھے اور پاکستان کو ہر قسم کی کامیابی عطا کرے اور پاکستان کے دشمنوں کے مقدر میں ساری ہی ناکامیاں ہوں۔ عارضی طور پر بھی اور ہمیشہ کے لئے بھی۔ بعض دفعہ عارضی طور پر بھی کچھ نقصان اُٹھانا پڑتا ہے خداتعالیٰ پاکستان کو اس عارضی نقصان سے بھی محفوظ رکھے۔ خدا کرے عارضی نقصان بھی ہمارے دشمن کے حصہ میں آئے اور پھر آخری فتح بھی پاکستان کو ملے اور آخری شکست بھی پاکستان کے دشمن کو نصیب ہو۔
پس دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں۔ حقیقت یہی ہے۔
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآ ؤُکُمْ۔ (الفرقان:۷۸)
ساری خیر اور برکت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس سے ایسا تعلق ہو جس سے مجبور ہو کر انسان پورا سہارا اور توکّل اس کی ذات پر کرتا اور دُعا کے ذریعہ اس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیز ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو رحمت ملتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں انسان کو فضل ملتا ہے، جس کے نتیجہ میں انسان کو خوش حالی ملتی ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ دن ملے گا جس دن ہر انسان اس لئے خوش ہو گا کہ اس کا دل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے نور سے منوّر ہو گیا اور اپنے پیدا کرنے والے رب سے اس کا تعلق قائم ہو گیا۔ خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو جیسا کہ وہ ہم سے چاہتا ہے نباہنے والے ہوں۔آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ۲تا ۴)






ماہ رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ
مستفید ہونے کی کوشش کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی:-

اس کے بعدحضور انور نے فرمایا:۔
ماہِ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ ایک فرض عبادت ہے اور اسلام نے جو فرائض مقرر کئے ہیں، ان سب کے متعلق عموماً اور رمضان کے متعلق خصوصاً خود مسلمانوں میں مختلف قسم کے خیالات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
لوگوں کا ایک گروہ تو ایسا بھی پیدا ہوتا رہا ہے جو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ فرض عبادت اور نوافل جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوتے ہیں وہ انسان کی روحانی ترقی کے لئے کافی نہیں ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے نفس سے تجویز کر کے بہت سی ریاضتیں بنائیں اور خود کو اپنے تجویز کردہ مجاہدہ شدیدہ میں ڈالا حالانکہ حقیقی اسلام کی روح اسے تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اگر ہم اسے تسلیم کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو علم(نعوذ باللّٰہ) ہمارے رب کو نہیں تھا وہ ان لوگوں کو حاصل تھا۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے اپنے نفس سے مجاہدات اور ریاضتوں کو تجویز کرنا درست نہیں ہے۔ ہماری روحانی ترقی کے لئے ہمارے روحانی قویٰ کی صحت کے قیام اور ان کی نشوونما کے لئے جو بھی ضروری تھا وہ سب قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زیادہ کسی چیز کی ہمیں ضرورت نہیں اس لئے ایسے سب خیالات جو ایسی ریاضتوں پر منتج ہوتے ہیں اور انسان کو ایسے مجاہدہ شدیدہ میں ڈالتے ہیں جن کا علم ہمیں قرآن کریم سے نہیں ملتا، باطل اور فاسدہیں۔
انہی لوگوں میں سے ملتا جلتا(یااسی گروہ کا حصہ کہنا چاہئے)ایک گروہ وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے زور سے اپنے رب کو راضی کرنے پر قادر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو سہولتیں اور رعائتیں دی ہیں اُن سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے مثلاً ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں، وہ ایسی بیماری میں بھی روزہ رکھ لیتے ہیں یا ایسی عمر جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں، وہ ایسی عمر میں بھی اپنے بچوں کو روزہ رکھوا دیتے ہیں۔ ہر عبادت کے لئے ایک بلوغت کا وقت ہے،جب تک انسان اس بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے، اس پر وہ عبادت فرض نہیں ہوتی لیکن یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ اس عمر میں روزے نہ رکھو اور نہ رکھواؤ لیکن ہم خداتعالیٰ کی مرضی کے خلاف خود یا اپنے بچوں سے ایسی عبادتیں کروائیں گے کہ جن سے ہم نعوذ باللّٰہ اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش کریں گے یہ فاسد خیال ہے۔ ایسا بیمار جس کے لئے روزہ رکھنا دوائی چھوڑنے یا بھوکا رہنے کے نتیجہ میں مضر ہو اور ہلاکت کا باعث ہو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار فرمایا ہے کہ دین العجائز اختیار کرو۔ ہمارا رب انکسار اور تواضع سے خوش ہوتا ہے۔ ہم اسے اپنے عمل سے خوش نہیں کر سکتے۔ احادیث میں بڑی وضاحت سے یہ کہا گیا ہے کہ ہر نماز قبول نہیں ہوتی۔ ہر روزہ قبول نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو اس وقت تک یہ عبادتیں قبول نہیں ہوا کرتیں۔
پس ہم عبادت سے اپنے رب کو راضی نہیں کر سکتے۔ ہم اس عبادت سے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں جو مقبول ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندے کا تحفہ سمجھ کر قبول فرما لے۔
غرض ایک تو یہ گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ عبادات جس رنگ میں اور جس طور پر اور جس قدر اور جس مقدار میں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں یا جن کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت قرار دیا ہے وہ ہمارے لئے کافی نہیں۔ اگر ہم صرف ان عبادتوں پر اکتفا کریں گے تو ہماری روحانی ترقی، ہماری روحانی پرورش اور نشوونما اپنے ارتقاء کو نہیں پہنچے گی حالانکہ یہ غلط خیالات ہیں۔
اور ایک وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے اپنے رب کو خوش کر سکتا ہے مثلاً بیماری ایسی نہیں کہ جس میں روزہ چھوڑنا جائز ہو لیکن ایک ایسا آدمی جو بہانہ جُو ہے وہ اس قسم کی بیماری میں روزہ چھوڑ دیتا ہے وہ بھی ایک مسئلہ خود تراشتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اتنی بیماری روزہ چھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ یہ طریق غلط ہے۔ طبیعت میں بہانے کی جستجو نہیں ہونی چاہئے بلکہ نیت یہ ہونی چاہئے، خواہش یہ ہونی چاہئے کہ خداتعالیٰ نے جس رنگ میں اور جس قدر عبادت ہمارے لئے فرض قرار دی ہے یا جو ہمارے لئے سُنّت بنائی گئی ہے ہم اتنی ہی عبادت کریں گے مگر بشاشت اور خوشی سے کریں گے اور اس نیت سے کریں گے کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے لیکن اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بہانے جس طرح انسان کے سامنے چلتے ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی چل سکتے ہیں تو وہ احمق بھی ہے اور ظالم بھی ہے وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہے اور وہ خداتعالیٰ کو پہچانتا نہیں وہ اس کے عرفان سے دور ہے۔
پس بہانہ جُو طبیعت نہیں ہونی چاہئے۔ جہاں روزہ چھوڑنا جائز نہ ہو وہاں روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کسی آدمی کا یہ سمجھنا کہ جسمانی لذّت یا یہ سمجھنا کہ جسمانی صحت کو( اور وہ بھی ایک غلط نظرئیے کے ماتحت) ہم روحانی لذّتوں اور روحانی صحت پر قربان کر دیں گے اور اس میں ہماری بہتری ہے تو یہ غلط بات ہے۔ یہ سراسر حماقت ہے اور یہ سمجھ لینا کہ خداتعالیٰ کے سامنے بہانے چلتے ہیں۔ اس سے زیادہ حماقت کی بات تو کوئی اَور ہو ہی نہیں سکتی۔
پس وہ لوگ جو روزہ چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، انہیں اپنی اس عادت کو دور کرنا چاہئے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو مجاہدہ شدیدہ میں ڈالتے ہیں اور ایسی ریاضتیں کرتے ہیںجو اسلام نے ہمیں نہیں بتائیں، انہیں بھی اپنی یہ عادت چھوڑنی چاہئے۔
ایک تیسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو موجودہ زمانہ کے فلسفہ سے متاثر ہے اور یہ گروہ بڑے دھڑلے سے یہ کہنے لگ گیا ہے کہ جو عبادتیں قائم کی گئی ہیں اُن میں ترمیم ہونی چاہئے۔ یعنی خداتعالیٰ کو نعوذ باللہ اس زمانے کے حالات کا علم نہیں تھا، اس واسطے اس نے یہ قانون بنا دیا ہے اب زمانہ بدل گیا ہے حالات بدل گئے ہیں اب ان عبادتوں میں ترمیم ہونی چاہئے لیکن ایسا خیال(ایسے خیال کے لو گ فی الواقعہ پائے جاتے ہیں) اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ روحانی بینائی سے محروم ہیں اور جس کوچہ کی انہیں خبر ہی نہیں، یہ اس کے متعلق اصلاحی تجاویز کے نام سے تجاویز پیش کر دیتے ہیں۔ یہ بھی غلط بات ہے۔جب عَلَّامُ الْغُیُوْبِ خدا نے ہماری جسمانی اور روحانی صحت اور جسمانی اور روحانی نشوؤنما کے لئے کچھ عبادتیں ہم پر فرض قرار دی ہیں، تو وہی ہمارے جسموں کے لئے بھی اور ہماری روح کے لئے بھی بہتر ہیں۔ نہ سالوں روزے رکھنا جائز اور نہ رمضان کے مہینے میں جائز عذر کے بغیر روزہ چھوڑنا درست اور پسندیدہ اور نہ کسی ترمیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں دین العجائز اختیار کرنا چاہئے جو خدا نے فرمایا ہے وہ ہم کریں گے جس کو وہ پسند فرماتا ہے اسی میں ہماری رضا ہے روزہ چھوڑنے کے لئے بہانے تلاش نہیں کریں گے اور جب روزہ چھوڑنے کا حکم ہو تو اس وہم میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ ہم اپنی عبادت یا کوشش یا مجاہدے کے زور سے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں۔ ہم اس طرح راضی نہیں کر سکتے جو عبادت قبول ہو گی، جو تحفہ لے لیا جائے گا اس کا نتیجہ نکلے گا۔ اس کے نتیجہ میں ہمیں رضائے الٰہی حاصل ہو گی۔ اس کے بغیر تو(یعنی عبادت کے زور سے) رضائے الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی۔
رمضان کی عبادت محض بھوکا رہنے کا نام نہیں۔ حدیثوں میں اس کے متعلق بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے میں نے بھی پچھلے سالوں میں اپنے بعض خطبات میں تفصیل سے بتایا تھا کہ روزہ کا مطلب محض بھوکا رہنا نہیں بلکہ ماہ رمضان کی عبادت دراصل بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک نمایاں چیز جو ہمیں نظر آتی ہے وہ جسمانی ضرورتوں سے انقطاع کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور اس میں محو ہونے کی کوشش کرنا ہے۔ہمارے کھانے پینے کے اوقات بھی ۲۴ گھنٹے کا کچھ حصہ لے جاتے ہیں لیکن اگر صحیح طور پر روزے کا استعمال ہو اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ تو رمضان میں شاید موٹے ہو جاتے ہیں۔ صبح و شام خوب پراٹھے کھاتے ہیں اور اس وہم میں کہ کہیں کمزور نہ ہو جائیں عام غذا کی نسبت رمضان میں زیادہ کھانے لگ جاتے ہیں۔ ان کی یہ بات بھی غلط ہے لیکن وہ لوگ جو روحِ رمضان کو سمجھتے اور اس کے مطابق اپنی جسمانی ضرورتوں کو پیچھے ڈال کر روحانی ضرورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنے روحانی قوٰی کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے نتیجہ میں (ایک اصطلاح ہے کہ) تنویرِ قلب ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ روحانی قوٰی تیز ہو جاتے ہیں چنانچہ یہ آیت جو میں نے شروع میں رمضان کے تعلق میں پڑھی ہے۔اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس میں فرماتا ہے کہ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ۔ یعنی روحانی قویٰ کی تیزی کے بعد پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کا یہ دعوٰی ہے کہ مذہبی احکام پر چل کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک پختہ اور زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو رمضان کی عبادتوں کے نتیجہ میں انسانی ذہن یہ کہے گا کہ رب کو کیسے پایا جاسکتا ہے تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہارے روحانی قوٰی تیز ہوں گے تو تمہیں نظر آجائے گا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں مگر جو شخص خداتعالیٰ کو پہچانتا نہیں اور اس کے روحانی قویٰ میں نشوو نما نہیں ہوئی۔ اسے بیماری ہے یا وہ صحت مند نہیں ہے اس کی روح کسی دوسری طرف متوجہ ہے ایسے شخص کو تو نظر نہیں آتا لیکن جس کو نظر آئے یا جسے اللہ تعالیٰ کا عرفان اور معرفت حاصل ہو جائے، وہ تو اپنے رب کو اتنا قریب پاتا ہے کہ واقع میں اس سے زیادہ قریب وہ کسی اَور چیز کو محسوس نہیں کرتا۔ اسے یہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ ربوبیت باری کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتا، صحت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا، اپنے قویٰ کو نشوونما نہیں دے سکتا۔ اسے رب کی ربوبیت کی ضرورت ہے اور ربوبیت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں مثلاً وہ حیّ بھی ہے اور قیّوم بھی ہے کوئی وجود ظہور پذیر نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے اور کسی زندگی کو بقاء نہیں حاصل ہو سکتی جب تک کہ خداتعالیٰ کی مرضی نہ ہو پس اسے نظر آتا ہے کہ حیات کا سرچشمہ اور قائم رہنے کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ میرا سانس میری زندگی کا سانس ہے بلکہ اسے نظر آرہا ہے کہ میرا وہ سانس میری زندگی کا سانس ہے جس کے متعلق خدا چاہے کہ وہ میری زندگی کا سانس بنے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ غذا جو ہے وہ خداتعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم کے بغیر ہمارے جسموں کو صحت اور تروتازگی نہیں بخشتی اور طاقت نہیں دیتی جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو اس کے سامنے روزمرہ یہ نظارے آتے ہیں کہ کھانا کسی آدمی کی موت کا موجب بن گیا یا پانی جس کو آب حیات کہا جاتا ہے یعنی وہ ہمارے لئے زندگی کا پانی ہے اور روٹی سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ کسی انسان کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ ڈاکٹر جانتے ہیں،اطباء جانتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان کو پانی پی کر اس قسم کا قولنج پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ (رمضان کی) عبادت خاص طور پر ایسی ہے کہ اس سے روحانی قوٰی میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔ تنویر قلب پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے کیسے مل سکتا ہے یعنی یہ خیال تبھی پیدا ہو گا جب اس نے صحیح سمت کو قدم اُٹھا لیا۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارے قریب ہوں۔ کیا تم میری قدرتوں کو نہیں دیکھتے؟ میں تمہاری ہر احتیاج پوری کرتا ہوں۔تمہارا سانس لینا، تمہاری بینائی، تمہاری شنوائی یہ سب میرے حکم اور میری اجازت سے قائم ہیں۔ میری تمہیں ضرورت ہے تمہاری آنکھ، ناک، کان، دل اور دل کی صحیح حرکت سب میرے حکم میں بندھے ہوئے ہیں۔ ویسے ہمارا دل بھی حرکت کر رہا ہوتا ہے مگر ایسے بیمار لوگوں سے ڈاکٹر کہتے ہیں تیز دوڑے تو مر جاؤ گے۔ ہمارے ملک میں بعض قصاب اس قسم کے ’’مرے ہوئے زندہ‘‘جانور جن کے اندر کوئی جان نہیں ہوتی ذبح کر کے انسانوں کو کھلا دیتے ہیں۔
دیر کی بات ہے ایک دفعہ میں لاہور جا رہا تھا راستے میں ایک بہت سارا اِجّڑ کوئی پچاس، سو گائے بھینسوں کا مذبح خانے کی طرف لے جایا جا رہاتھا۔ مذبح خانے کا اندازہ اس بات سے ہوتا تھا کہ ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں اور دیکھنے میں وہ نیم مردہ نظر آرہے تھے میں خود موٹر چلا رہا تھا۔ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ جب میں نے ہارن دیا تو ایک بیل جو دل کا زیادہ ہی کمزور تھاوہ ہارن سن کر دوڑ پڑا اور اس نے کوئی ۴۰؍۳۰ قدم لئے ہوں گے کہ اس کے دل کی حرکت بند ہو گئی اور وہ وہیں مر گیا اگر اس وقت میری موٹر کا ہارن نہ بجتا اور وہ نہ دوڑتا تو اگلے دن صبح کئی لوگوں کے دسترخوان پر اس کا گوشت کھایا جا رہا ہوتا۔
بہرحال دل حرکت کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ صحت مند نہیں ہوتا۔ ہمارے اطباء کے پاس بعض دفعہ ایسے بیمار بھی آتے ہیں جن کو وہم ہوتا ہے کہ بخارات سر کو چڑھتے ہیں حالانکہ دماغ کی طرف بخارات جانے کا تو جسم کے اندر کوئی رستہ ہی نہیں بنا ہوا لیکن ایک معنی سے یہ درست بھی ہے اور یہ محاورہ اس معنے میں صحیح بھی ہے کہ جس وقت معدہ خراب ہو اور دل کمزور ہو تو دل کے اوپر اثر پڑتا ہے۔ اس کو پوری طرح کھلنے کی جگہ نہیں ملتی۔ پھر اعصاب پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور پریشانی بھی ہوتی ہے اور آدمی کو احساس یہ ہوتا ہے کہ میرے دماغ پر اس کا اثر ہے۔
پس ماہ رمضان اور اس کی عبادتوں کا انسان کو ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس کے روحانی قوٰی تیز ہوتے ہیں اور اپنے رب کے متعلق ایک جُستجو پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کے لئے بڑی ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی صفات کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے یہاں تک کہ اُسے معلوم ہو جائے کہ اس کا رب اس کے کتنا قریب ہے۔ وہ دُور نہیں کہ جس سے ہم بھاگ سکتے ہوں۔ وہ دور نہیں کہ جس کے بغیر ہم زندگی گذار سکتے ہوں۔وہ دور نہیں کہ جس کی توجہ کے بغیر ہم اپنی ضرورتیں اور احتیاجیں پوری کر سکتے ہوں پس انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ میرے بالکل قریب ہے۔ ہر کام کے لئے حتیٰ کہ ایک انگلی ہلانے کے لئے مجھے اس کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے اکثر مجھے ہلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کسی کا سر ہل رہا ہے۔ کسی کی آنکھ ہل رہی ہے۔ کسی کا طرّہ ہل رہا ہے۔ اس حرکت کے لئے بھی رب کی ضرورت ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو یہ ساری حرکتِ زندگی اور زندگی کے آثار ختم ہو جاتے ہیں۔ فرمایا جس وقت تم مجھے پہچاننے لگو تو تمہیں چاہئے کہ دُعا کی طرف مائل ہو جاؤ۔ دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے بغیر حقیقی دُعا ممکن ہی نہیں۔ وہ دُعا تو ہوتی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
از دُعا کن چارہ آزار انکارِ دُعا
ایک دُعا تو یہ ہے مگر یہ تکلف کی دُعا ہے یہ ابتدا ہے لیکن ایک وہ دُعا ہے کہ جس میں آدمی بے تاب ہو کر خداتعالیٰ کے قدموں پر گر جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے یہ عطا فرما۔وہ تو الہٰی صفات کی معرفت کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔یعنی وہ اسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو یہ پتہ لگے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ سے زیادہ قریب ہے جہاں تک موسم کی حفاظت کا تعلق ہے اپنے گھر سے زیادہ قریب ہے۔ جہاں تک بعض دوسری ضرورتوں کا اور زینت کا سوال ہے۔ ہمارے لباس سے زیادہ قریب ہے۔ جہاں تک دورانِ خون(جس پر زندگی کا انحصار ہے) کا تعلق ہے وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ہر پہلو اور ہر جہت سے، ہر غیر کی نسبت وہ ہم سے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ’’اِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ بعض جہات سے اللہ تعالیٰ قریب ہو اور بعض جہات سے دُوربلکہ جو لوگ اس کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی صفات کو پہچانتے ہیں وہ علیٰ وجہ البصیرت یہ کہہ سکتے اور اسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہر جہت اور ہر پہلو سے ہر غیر کی نسبت اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ نزدیک ہے پس فرمایا کہ صفات کا پتہ لگے تو تم دُعا کی طرف مائل ہو جاؤ گے۔ پھر فرمایا۔
’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ‘‘
جو مجھے پہچانتا ہے اس کی دُعا اجابت کا درجہ پاتی ہے۔ فرماتا ہے اُجِیْبُ یعنی مجھے اس نے قریب دیکھا تو میں اس کی دُعا کو قبول کرتا ہوں لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہر شخص کی دُعا قبول نہ ہو گی۔ وہی معرفت جس کے متعلق شروع میں اشارے کئے گئے تھے۔ وہ اس آیت کے آخر میں بھی ہے فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا۔ میرے حکم کی تعمیل کرو۔ نہ اپنی طرف سے عبادت میں شدت پیدا کرو اور نہ میری فرض کردہ عبادت سے بچنے کے لئے بہانے ڈھونڈو۔ جو رعایت میں دیتا ہوں شکر کرو اور اسے قبول کرو۔ جو حکم میں دیتا ہوں شکر کرو اور اسے قبول کرو۔ جس عبادت کے کرنے کو میں کہتا ہوں وہ بھی کرو اور جس کے نہ کرنے کا کہتا ہوں وہ بھی نہ کرو۔ فرمایا۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا۔جب تم میرے حکم کے مطابق اپنی زندگی گزارو گے اور شریعت کی پابندی کرو گے تو تمہاری جسمانی اور روحانی نشوونما اپنے کمال کو پہنچ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہدایت بھی پا جاؤ گے اور تمہارا انجام بھی بخیر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیر کرے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللّٰھم اٰمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحہ۳ تا۵)
ززز
تحریکِ جدید کے اڑتیسویں، اٹھائیسویں
اور ساتویں سال کا اعلان
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو اپنی رحمتوں سے بے حد نوازنے والا ہے، میں تحریک جدید کے دفتر اوّل کے اڑتیسویں، دفتر دوم کے اٹھائیسویں اور دفتر سوم کے ساتویں سال کا اعلان کرتا ہوں۔
آج سے تین سال قبل جب تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھا میں نے جماعت کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ جہاں تک میرا خیال ہے جماعتِ پاکستان اس سے زیادہ چندہ دے سکتی ہے اور اسے زیادہ دینا چاہئے اور میرے اندازہ کے مطابق یہ رقم سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانی چاہئے تھی لیکن اُس سے اگلے سال(یعنی ۹۶۹۔۱۹۶۸ء میں) پانچ لاکھ پچاس ہزار سے بڑھ کر صرف چھ لاکھ تیس ہزار اور پھر ایک سال کے بعدچھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچی اور جو سال ابھی ہم ختم کر رہے ہیں اس میں چندہ گِر کر پھر چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے پر آگیا ہے۔
اس کے متعلق ایک موٹی وجہ جو تحریک جدید نے مجھے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ چالیس ایسے احمدی دوست تھے جن کا چندہ ایک ہزار روپے فی کس تھا اور اب گذشتہ سال میں(جسے ہم ختم کر رہے ہیں) انہوں نے ایک ہزار چندہ نہیں دیا۔ ان میں سے چار نے تو اس لئے نہیں دیا کہ ان کی وفات ہو گئی تھی اور باقی چھتیس نے مالی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اپنے معیار کو قائم نہیں رکھا اور نہ وہ قائم رکھ سکتے تھے۔ ہم اُن کے اوپر الزام نہیں دھرتے لیکن جماعت پر یہ الزام آتا ہے کہ اگر ایک سال چالیس دوستوں کے مالی حالات ایسے نہ رہیں کہ وہ ایک ہزار چندہ تحریک جدید کو دے سکیں، تو ان کی جگہ اَور کھڑے ہونے چاہئیں اور ہر سال چندے میں زیادتی ہونی چاہئے کیونکہ جماعت کے مال میں تو بہرحال ترقی ہو رہی ہے۔ اس لئے جماعت کو چالیس سے زیادہ ایسے دوست کھڑے کرنے چاہئے تھے جو ایک ہزار یا اس سے زائد رقم تحریک جدید میں چندہ دیتے اور یہ کمی نہ آتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سال جو گذرا ہے اس میں جماعت نے ایک اَور مالی بوجھ(اور وہ بھی معمولی نہیں ہے) اُٹھایا اور وہ نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی تحریک ہے جو ’’نصرت جہاں آگے بڑھو‘‘ کے منصوبہ کو مالی سہارا دینے والی ہے۔ اس میں پاکستان کی جماعت نے گذشتہ سال قریباً بارہ تیرہ لاکھ دیا اس لئے عذر معقول بھی ہے لیکن کسی نئے کام میں ہاتھ ڈالنے کے یہ معنے نہیں ہوا کرتے کہ جو کام ہو رہا ہے اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔
تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور کرتے رہنا، یہ جماعت کا فرض ہے اور جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور اللہ تعالیٰ جس حد تک توفیق دے اپنے مالوں کو(جو دراصل اپنے نہیں) اس کے حضور پیش کر دینا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۴) کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ’’یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے‘‘ غرض مال جب ہمارا ہے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے تو پھر یہ تو اُس کا احسان ہوا کہ اس نے ہمیں فرمایا کہ یہ مال میں تمہیں دیتا ہوں۔ تم اس میں سے میری راہ میں خرچ کرو اور میں تمہیں ثواب دوں گا مثلاً جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو ابھی کما نہیں رہا، پانچویں یا چھٹی یا ساتویں میں پڑھ رہا ہے اس کے والدین اُسے ایک روپیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جا کر وقف جدید کے چندے میں دے دو۔ اب وہ روپیہ اُس نے کما کر نہیں دیا لیکن اس طرح ایک عادت پڑی اور ثواب کا ایک ذریعہ بن گیا پس یہ سمجھنا کہ باپ تو بچے کے لئے ثواب کے سامان پیدا کرنے کا اہل ہے اور اس کی توفیق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا۔
یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ایسا کرتا ہے باپ نے تو وہ اٹھنّی یا روپیہ بھی جو دیا اُس کا اپنا نہیں تھا کیونکہ گھر سے تو کچھ نہ لائے۔جو اللہ تعالیٰ نے مال اُسے دیا تھا اس میں سے ایک تو اس نے اس رنگ میں دیا کہ اس خدمت کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور کہا کہ میں نے دیا اور دوسرے اس رنگ میں دیا کہ اپنے بچے کو کہا کہ تم خرچ کرو، میرے ثواب میں تم بھی شریک ہو جاؤ۔
غرض خداتعالیٰ پر ہمارا احسان نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہمیں مال دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میری راہ میں خرچ کرو اور ثواب حاصل کر لو۔ مال تو اللہ کا تھا اس پر ثواب نہیں ملنا چاہئے تھا مگر اپنے فضل سے وہ ثواب عطا کرتا ہے جب آپ کسی کو اس کی امانت واپس کرتے ہیں تو کوئی احسان تو اس پر نہیں کرتے کہ اتنی رقم اس کو ادا کی پس جو اللہ تعالیٰ کا مال ہے وہی آپ اللہ تعالیٰ کو واپس کر رہے ہیں۔ اس میں نیّت اور اخلاص کا سوال ہے احسان تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر فرمایا تمہارے لئے میں نے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچایا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ’’بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ دُنیا کے سارے اموال دُنیا کی سب دولتیں جو ہیں، ان کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ہمیں تو اس نے مال دیا اور فرمایا یہ تمہارا حصہ ہے، میں تمہیں دیتا ہوں۔ تمہارا حصہ اس معنے میں کہ تمہارے اَور بھی بھائی انسان ہیں اَور بھی بہنیں انسان ہیں۔ ان کو بھی دیا، تمہیں بھی دیا۔ یہ مال و دولت جو میں نے پیدا کیا ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس میں سے اپنے اپنے حق(وہ حق جو میں نے مقرر کئے ہیں) وہ لے لو اور پھر فرمایا کہ اس میں سے اتنا میری راہ میں خرچ کرو اور خود ہی راہ اور ضرورت کی تعیین کر دیتا ہے۔ یہ ضرورت بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے مثلاً تحریک جدید کی جب ابتدا ہوئی، تو اس سے پہلے تو تحریک جدید کے کاموں کے لئے مال کی ضرورت نہیں تھی۔پہلے عام چندہ دیتے تھے یا وصیت کے چندے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک اَور ضرورت پیدا کر دی اور فرمایا اتنا مال اور میری راہ میں خرچ کرو یعنی تحریک جدید کا بھی چندہ دو۔ پھر جماعت نے تحریک جدید کے چندے دینے بھی شروع کئے۔ پھر وقف جدید کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور ضرورت پیدا کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں بھی چندے دو۔ پھر اس کے بعد علاوہ اَور بہت سارے چھوٹے چھوٹے چندوں کے جن میںجماعت بشاشت سے حصہ لیتی ہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک نیا منصوبہ بنا اور اس طرح ایک اَور ضرورت پیدا کر دی گئی۔ پھر اس کے بعد’’نصرت جہاں آگے بڑھو‘‘ کا ایک منصوبہ بنا اور اللہ تعالیٰ نے ایک اَور ضرورت پیدا کر دی اور قربانی کی ایک اور راہ کھول دی۔
پس اللہ تعالیٰ جتنی ضرورت پیدا کرتا ہے، اتنی ہم سے امید رکھتا ہے کہ اسی کی عطا میں سے اپنے اموال کا ایک حصہ اس کے کہنے کے مطابق اور اس کی پیدا کردہ ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے حضور پیش کر دیا جائے گا، اس امید پر اور اس توکل اور بھروسہ پر کہ اللہ تعالیٰ جہاں ہمارے اندر اخلاص پیدا کرے گا۔ وہاں ہمارے اخلاص کو شیطانی یلغار سے محفوظ بھی رکھے گا اور جب ہم اس کے حضور اسی کے مال کا ایک حصہ پیش کر یں گے تو وہ اسے قبول کرے گا اور اس طرح پر ہمیں ثواب مل جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:-
پس چاہئے کہ خداتعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گذاری کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں۔اس لئے کہ اخلاص خواہ بظاہر انسان کے اندازہ کے مطابق کامل ہی کیوں نہ ہو اور جوش بھی ایسا کہ دُنیا واہ واہ کرنے لگے اور ہمت بھی ایسی کہ انسان، انسان کی نگاہ میں اولوالعزم بن جائے، تب بھی انسان خداتعالیٰ کی نگاہ میں ثواب کا مستحق نہیں بنتا، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو اور اس کے لئے انسان کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو جب اپنی کمزوری اور اپنے نفس کا احساس ہو اور انسان کو جب یہ معرفت اور یقین حاصل ہو کہ اس کا خدا کے حضور کسی چیز کا محض پیش کر دینا کافی نہیں ہے جب تک کہ وہ مقبول نہ ہو جائے یہ احساس جو ہے اس کے نتیجہ میں یا تو شیطان آئے گا اور کہے گا کہ جب پتہ ہی نہیں کہ ثواب ملنا ہے یا نہیں، تو نہ دو یا فرشتے آئیں گے اور کہیں گے جس نے تمہیں پیدا کیا، جس نے ان ساری چیزوں کو پیدا کیا اس نے تمہیں مال دیا اور اس نے تمہارے لئے ثواب کے یہ سارے مواقع بہم پہنچائے ہیں۔ اس پر توکل رکھو۔ دراصل خدا کے سہارے کے بغیر خدا کا سہارا بھی نہیں ملتا اور خدا کے سہارے کے بغیر خدا پر توکل کئے بغیر انسان نہیں کہہ سکتا کہ جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے وہ مقبول ہو گیا اور اس کا اُسے ثواب مل گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی چیز تھی، تم اس کی راہ میں دے رہے ہو۔تمہارا خیال ہے کہ اخلاص میں کوئی کمی نہیں۔ دُنیا سمجھتی ہے کہ تمہارے اندر بڑا جوش پایا جاتا ہے اور دُنیا کی نگاہ تمہیں اولوالعزم اور صاحب ہمت بھی سمجھتی ہے لیکن دُنیا کی نگاہ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فرق ہے۔ جب تک دُنیا کی نگاہ میں وہی کچھ ہو جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے اس وقت انسان کی کوشش بے نتیجہ ہوتی ہے۔
پس یہ دُعا بھی کرو اور اللہ پر توکل بھی رکھو کہ وہ تمہاری اس دعا کو قبول کرے گااور جو اس نے تم سے مطالبہ کیا اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو کچھ تم نے اس کے حضور پیش کیا اگر اس کے اندر کوئی خامی یا کمزوری یا کوئی شیطانی کیڑا بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کیڑوں کو مار دے گا اور ان کمزوریوں کو دور کر دے گا اور تمہاری پیشکش کو قبول کر لے گا اس رنگ میں کہ تمہیں زیادہ سے زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔
پھر محض چندے لکھوا دینا بھی کافی نہیں۔ جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جو کمزوری دکھاتا ہے۔ بعض دوستوں کے تو حالات بدل جاتے ہیں مثلاً یہ چالیس آدمی جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، انہوں نے ایک وقت میں ہزار روپے فی کس دئیے تھے مگر اب نہیں دے سکے۔ اُن کا عذر معقول بھی ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں حسن ظنی ہی سے کام لینا چاہئے لیکن بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو وعدے لکھوا دیتے ہیں مگر پھر پورا نہیں کرتے اور ان کی وجہ سے وعدے اور اصل آمد میں فرق پڑ جاتا ہے جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً آپ نے اپنے کاموں کا منصوبہ تو شروع سال میں ان وعدوں کے مطابق بنایا مثلاً پانچ لاکھ روپے کی یا دس لاکھ روپے کی یا بیس لاکھ روپے کی آمد ہو گی اور اس کے مطابق ہم فلاں فلاں کاموں پر خرچ کریں گے لیکن اگر دوران سال اتنے پیسے نہیں آتے تو آپ کے کاموں پر اثر پڑے گا۔ کام کی رفتار میں کمی آجائے گی اور کسی قوم کا بحیثیت قوم عزم کر لینا اور پھر اسے پورا نہ کرنا بڑی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے جب تک ایسے لوگ تعداد میں تھوڑے سے ہیں اس وقت تک تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر خدا نخواستہ یہ ایک رو جاری ہو جائے تو اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔
پس محض دعوٰی بے معنی ہے جب تک کہ مخلصانہ عمل شامل حال نہ ہو۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایسا شخص جس کی نیت نہیں ہے دینے کی، وہ وعدہ ہی نہ کرے لیکن جس کی نیت ہے دینے کی اگر بعد میں اس کے حالات بدل جاتے ہیں، جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں، وہ زیر الزام نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے بھائیوں اور بہنوں کے حالات درست کرے اور اُن کے مالوں میں اَور بھی زیادہ برکت ڈالے لیکن جس شخص کی پہلے دن سے دینے کی نیت نہیں۔صرف دعوٰی ہے، وہ اپنے آپ کو دوہری مصیبت میں ڈال رہا ہے اور استغفارکے علاوہ اس کے بچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے پس ایسے لوگوں کو استغفار کرنا چاہئے اور وعدہ نہیں لکھوانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا مال ہے وہ تو دیتا چلا جا رہا ہے آگے سے بڑھ کر دیتا چلا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے پانچ سال میں جماعت کی آمد مجموعی طور پر تین گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔ اس میں نہ میری کوئی خوبی ہے اور نہ آپ کی کوئی خُوبی ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔
پس دینے والا تو بڑا دیالو ہے لیکن اپنے دلوں میں فتور پیدا کر کے ہم میں سے بعض خداتعالیٰ کے ثواب اور اس کے پیار سے محروم ہو جاتے ہیں اس لئے وہ راہیں جو اللہ تعالیٰ کو غصہ دلانے والی ہیں تم ان راہوں پر نہ چلو اور جن راہوں کو تم اس کی رضا کے لئے اختیار کرتے ہو، اُن راہوں پر جوش اور ہمت اور اخلاص کے ساتھچلو تاکہ اپنے توکل اور اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ سے اُس کے اُس پیار کو حاصل کر لو جس پیار کو دینے کے لئے اُس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امت محمدیہ میں مبعوث فرمایا ہے کیونکہ یہی پیار درحقیقت دُنیا کے لئے نمونہ بنتا ہے۔
آج غلبۂ اسلام کی جو خوشبو ہم سونگھ رہے ہیں، وہ ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کا نتیجہ ہے جو جماعت سے وہ کرتا ہے اور وہ خوشبو اللہ تعالیٰ کی محبت کے عطر کی خوشبو ہے۔ دُنیاجب اسے سونگھتی ہے تو اس طرف متوجہ ہوتی ہے، دُنیا کی آنکھ جب معجزانہ پیار کو مشاہدہ کرتی ہے تو لوگوں کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ واقع میں اللہ تعالیٰ ہے اور واقع میں اسلام خداتعالیٰ کی طرف سے قائم رہنے والی شریعت ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی۔
پس ہمیں چاہئے کہ ہم شریعت محمدیہ کی برکتوں سے حصہ لینے کے لئے وہ سب کچھ کریں جو خداتعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اللہ تعالی پر اس کی تمام صفات کے ساتھ ایمان لائیں۔ اس کو ہر قسم کے عیب سے اور تمام کمزوریوں سے اور سب نقائص سے مبّرا سمجھیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کریں۔قرآن کریم کی شریعت کو ابدی اور دائمی شریعت مانیں کہ جس میں ہر قسم کا روحانی اور جسمانی حُسن پایا جاتا ہے اور جس کے اندر ہر قسم کے احسان کی طاقت پائی جاتی ہے پس اس کتاب کو مہجور کی طرح چھوڑتے ہوئے اس پر ایمان نہ لائیں بلکہ اس کتاب پر اس کی تمام صفات کو سمجھتے ہوئے اور اس سے برکتیں حاصل کرنے کی نیت سے ایمان لائیں۔ دُنیا خداتعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر خداتعالیٰ کی طرف مائل ہوتی رہی ہے اور آج بھی دُنیا خداتعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مائل اور متوجہ ہو رہی ہے۔ ہم مختلف ذرائع سے اور مختلف راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہے ہیں پس چاہئے کہ میں اور آپ سب اللہ تعالیٰ کے پیار کی تمام راہوں پر چل کر سارے ہی پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو تحریک جدید کی ذمہ واریوں کو سمجھنے اور انہیں نباہنے کی توفیق بخشے اور پھر آپ نے اللہ تعالیٰ پر جو توکّل کیا اور اللہ تعالیٰ سے جواُمیدیں باندھیں، خداکرے کہ ہماری کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت باری ان امیدوں کو پورا کرے اور میں اور آپ ہم سب اس کے پیار کو پانے والے ہوں۔اللّٰھُمَّ آمین۔
(رونامہ الفضل ربوہ ۹ نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ۳ تا۵)






اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے کے لئے اسی
کی عطا میں سے اُس کے حضور پیش کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:-

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
یہاں مسجد میں آنے کے بعد دل کی دھڑکن شروع ہو گئی ہے اور ضعف بھی ہو گیا ہے۔ مختصراً کچھ کہہ دیتا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں اتنی سخاوت کرتے تھے کہ جیسے تیز ہوائیں چل رہی ہوں پس اس سنت کی اتّباع کی طرف بھی ہمیں متوجہ رہنا چاہئے۔
قرآن کریم نے ہمیں مخفی اور ظاہری صدقات کے متعلق حکماً فرمایا ہے۔ ظاہری اس لئے کہ ایک تو اس سے لوگوں کو ترغیب ہوتی ہے اور دوسرے منافقوں کا بھانڈا پھوٹتا ہے اور مخفی اس لئے کہ انسان کا جو حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے، وہ پسند نہیں کرتا کہ دوسروں پر وہ ظاہر ہو۔دُنیا کی تجارتیں کبھی فائدہ بھی دیتی ہیں اور کبھی نقصان بھی پہنچاتی ہیں۔ ہم نے بڑے بڑے سیٹھ دیوالیہ ہوتے دیکھے ہیں اور غریب مزدور لکھ پتی بنتے پائے ہیں لیکن ایک تجارت ایسی ہے جس میں گھاٹے کا امکان ہی نہیں۔ ہلاکت کی ہوائیں اس پر نہیں چلتیں اور یہ وہ تجارت ہے جو انسان اپنے اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے۔
جیسا کہ اس آیت میں جو مَیں نے پڑھی ہے، بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ غور اور تدبّر سے اور خلوصِ نیت سے اس کامل اور مکمل کتاب کامطالعہ کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، دو بنیادی صفات ان میں پیدا ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ اس حقیقت پر کھڑے ہوتے ہیں کہ دُعا کے بغیر انسان کی زندگی نہیں اور اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ نتیجہ ہے اس کتاب پر غور کرنے کا اور اس کے مطابق عملی زندگی گزارنے کی نیت اور عزم کرنے کا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اس کی راہ میں ہر اُس چیز میں سے جو اسی کی عطا ہے، اُس کے حضور پیش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے بشارت یہ دی کہ میری ہی چیز میری طرف لوٹاؤ گے میں اسے تجارت سمجھوں گا جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو اور جو میرے ساتھ تجارت کرتا ہے وہ گھاٹے میں نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اپنے راز کو راز رکھنے کے لئے میری عطا کا ایک حصّہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر میری راہ میں خرچ کرو اور اپنے بھائیوں کو توجہ دلانے اور ترغیب دینے کے لئے اور دُنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ خداتعالیٰ سے تجارت کرنے والا شخص گھاٹے میں نہیں رہتا میری عطا کا کچھ حصہ ظاہری طور پر میری راہ میں خرچ کرو۔
اس حکم پر عمل کرتا تھا پہلے زمانے کا مسلمان، اور اس پر عمل کرنا چاہیئے۔ آج کے مسلمان کو بھی۔ا میر لوگ بہت خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کافی مال اور دولت دی تھی وہ خداتعالیٰ کی راہ میں اموال قربان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور جو غریب آدمی تھا، جو چونیّ دے سکتا تھا، جو دونیّ دے سکتا تھا، جو پیسہ دے سکتا تھا، وہ ظاہراً پیسہ دے دیتا تھا اور اس میں اُسے کوئی حجاب اور شرم نہیں ہوتی تھی۔ اس کو جو فائدہ تھا وہ تو تھا لیکن منافق امیر پر طنز کرتا تھا اور غریب پر تمسخر کرتا تھا۔ امیر کو کہتا تھا تم دکھاوے کے لئے یہ اموال دے رہے ہو اور غریب کو کہتا تھا تمہارے دھیلے سے خداتعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچے گا جہاں تک فائدے کا سوال ہے، نہ امیر کی دولت سے خداتعالیٰ کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ غریب کے پیسہ سے فائدہ پہنچتا ہے۔ وہ تو خود مالک ہے تمام دولتوں اورسب اموال کا لیکن جو آدمی خلوصِ نیت کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں بہت دیتا ہے اور یہ سمجھ کر دیتا ہے کہ منافق مجھ پر اعتراض کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدلہ دیتا ہے اور جو آدمی ایک دھیلہ لے آتا ہے یا چونیّ دے دیتا ہے، اسے بھی وہ پیارا احسنِ جزاء دے دیتا ہے۔(خدا کے مسیح نے ایسے لوگوں کا اپنی کتابوں میں ذکر کر کے کہ فلاں شخص نے خداتعالیٰ کی راہ میں چونیّ دی، فلاں نے اٹھنی دی، ان کے لئے قیامت تک کے لئے دعاؤں کے سامان پیدا کر دئیے)
پس جہاں تک خداتعالیٰ کے فائدے کا سوال ہے نہ امیر کی دولت اور نہ غریب کا دھیلہ اُسے کوئی فائدہ پہنچاتا ہے کیونکہ وہی اصل مالک ہے اورسارے خزانے اُسی کے ہیں اور اسی کے حکم اور اُسی کی مرضی اور اسی کے حکم سے انسان کو بہت ملتا ہے یا تھوڑا، یہ تو اپنے اخلاص کی بات ہے۔ جس کو اس نے بہت دیا اس کا دل یہی کہتا تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ اور کسی کو پتہ لگے بغیر اس کی راہ میں خرچ کرتا تو اچھا تھا مگر قرآن نے اسے کہا کہ علانیۃً یعنی ظاہری طور پر خرچ کرو۔ منافق اعتراض کرے گا اور اس کی منافقت کا بھانڈا پھوٹے گا۔ شیطان تمہارے اوپر وار کرے گا۔ وہ تمہارے اندر کبر اور ریاء پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ایک اَور میدان میں تمہیں خداتعالیٰ کی راہ میں شیطان کے ساتھ جنگ کرنی پڑے گی۔
خلوصِ نیت ہے تو شیطان کامیاب نہیں ہو گا اور تمہارے لئے برکتوں کا سامان پیدا ہو جائے گا۔ غریب سے کہا کہ دھیلہ یا چونیّ دیتے ہوئے نہ گھبراؤ۔ خدا کے خزانے جو ہیں اُن کے مقابلے میں چونیّ اور چار ارب روپیہ برابر ہے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دُنیا پریہ ظاہر کرو کہ جہاں دُنیا دار غریب فساد کا موجب بنتا ہے وہاں مسلمان غریب دُنیا میں نیکی کے قائم کرنے کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے اگر اس کے پاس چونیّ ہے تو اسے فساد کے دُور کرنے پر خرچ کر دیتا ہے اگر اس کے پاس ایک پیسہ ہے نیکیوں پر خرچ کرنے کے لئے تو وہی خرچ کر دیتا ہے۔ نہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھ پر ہنسی ہو گی اور نہ اُسے یہ خوف ہے کہ میں ایک پیسہ دے رہا ہوں میرے پیسے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے تو میرے ساتھ تجارت کر رہا ہے یہ نہ دیکھ کہ تو نے ایک دھیلہ یا چونیّ دی ہے بلکہ یہ دیکھ کہ میں تجھے اس کے مقابلے میں کیا دیتا ہوں۔
پس جس طرح سِرّاً خرچ کرنا ضروری ہے اسی طرح علانیۃً خرچ کرنا بھی ضروری ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یہ مومن کی نشانی بتائی گئی ہے۔جب ہم جماعت کی طرف سے(کئی ایسی شکلیں بھی بن جاتی ہیںکہ جو ایک ہی وقت میں سرّاً بھی ہوتی ہیں اور علانیہ بھی ہوتی ہیں) کارکنوں کو جو مستحق ہوں ان کی گندم کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اور موسم سرما میں(بہرحال زائد اخراجات ہوتے ہیں، اس میں) ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے ہمارے جماعتی ادارے قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کرتے ہیں یعنی علاوہ تنخواہ کے،جسے تنخواہ تو نہیں کہنا چاہئے۔اکثر اخلاص سے کام کر رہے ہیں اور انہیں گذارہ مل رہا ہے لیکن بہرحال اُن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی نیت سے جماعت کم وبیش ڈیڑھ لاکھ روپیہ اپنے کارکنوں پر خرچ کرتی ہے اور یہ زیادہ تر ربوہ ہی میں رہنے والوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اب یہ رقم سرّاً بھی ہے اور علانیۃً بھی ہے۔ جہاں تک جماعت کے خرچ کرنے کا تعلق ہے یہ علانیۃً ہے مثلاً اب میں نے اس خطبہ میں بیان کر دیا ہے ویسے بھی لوگوں کو پتہ ہے لیکن یہ رقم جماعت بناتی تو نہیں نا یہ تو زید اور بکر کے چندے کے پیسے آتے ہیں، ان میں سے جماعت نکالتی ہے غرض جہاں تک اُن افراد کا سوال ہے(جنہوں نے چندہ دیا) یہ سرّاً ہے، ان کو بھی پتہ نہیں اور یہ سِرّاً بھی بڑا زبردست ہے یعنی ایسا خفیہ خرچ ہے اُس فرد کا کہ اس کو بھی پتہ نہیں کہ جو خداتعالیٰ کی راہ میں جماعتی نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی خواہشات پر لبیک کہتے ہوئے اور ان کی آواز سُن کر اس پر عمل کرتے ہوئے جو پیسہ دیا تھا اس کا کتنا حصّہ کس طرح خرچ ہو گیا ان کو اس کا پتہ ہی نہیں۔ غرض ان کے لحاظ سے یہ سِرّاً ہے۔ خفیہ طور پر خرچ ہوا ہے لیکن جماعتی لحاظ سے یہ علانیۃً خرچ ہوا۔
اس کے علاوہ جماعت غیر کارکنوں پر(جس کا پھر۹۹ فیصد ربوہ ہی پر خرچ ہوتا ہے) قریباً ۶۰،۷۰ ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرتی ہے(یہ اس ڈیڑھ لاکھ کے علاوہ ہوتا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے)لیکن منافق کے متعلق قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اُس کی اپنی خواہش کے مطابق اُس قدر روپیہ جتنا وہ چاہتا ہے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتا ہے اور راضی ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کی خواہش کے مطابق نہ ملے تو وہ اعتراض شروع کر دیتا ہے۔ منافقوں نے صدقات کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود پر اعتراض کر دیا تھا اور قرآن کریم نے اس کو ریکارڈ کیا ہے۔ اس میں تو شرم کی بات نہیں کیونکہ وہ تو ایک ایسا وجود(صلی اللہ علیہ وسلم) ہے جس کے متعلق وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی قسم کی کمزوری دکھائے گا منافقوں نے اس کو بھی نہیں چھوڑا۔ خلفاء کو بھی نہیں چھوڑتے، نظام سلسلہ کو بھی نہیں چھوڑتے، منافق کا یہ کام ہے تم اسے کرنے دو تمہارا جو کام ہے تم وہ کرو خداتعالیٰ سے تجارت کرو اس یقین کے ساتھ کہ تم گھاٹے میں نہیں رہو گے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جو میرے ساتھ تجارت کرے گا وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا خداتعالیٰ اپنے ہی دئیے ہوئے مال میں سے چونیّ لے گا تو چار ہزار دے دے گا۔ بعض آدمیوں کو (چوّنی کے بدلے) چار لاکھ دے دیا۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں سلسلے کی خدمت کیا کرتے تھے اور غالباً تین روپے ماہانہ ملتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اُن کے بیٹوں میں سے ایک ایک کو خداتعالیٰ ۵ ہزار، ۸ ہزار، ۱۰ ہزار روپے ماہانہ دیتا رہا۔
پس ایثار جو ہے وہ ضائع نہیں جاتا۔ اس دُنیا میں اللہ تعالیٰ اُس کا بدلہ دیتا ہے اور اگر اس کی مصلحت اسے پسند کرے تو اس دُنیا میں نہ دے لیکن اگلے جہان میں اس کے مقابلے میں بہت زیادہ دے دیتا ہے۔ ایک عاقل مومن صاحب فراست آدمی کی تو یہی خواہش ہو گی کہ جو جہنم کے حصے ہیں وہ یہیں مل جائیں۔ جس طرح جنت اسی دُنیا میں ہے اسی طرح جہنم بھی اسی دُنیا میں ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کو بخار کی گرمی میں جو جلنا پڑتا ہے یعنی۱۰۴،۱۰۵ یا ۱۰۶ کا بخار ہو جاتا ہے اس کو جہنم کا حصہ یہیں مل جاتا ہے اور اگلی زندگی کی دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
غرض ایک صاحب فراست مومن آدمی تو یہی خواہش کرے گا کہ اگر میری اپنی سُستیوں اور غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جہنم کی آگ کے جھونکے میرے مقدر میں ہوں تو اے خدا! وہ یہیں مجھے مل جائیں وہاں جا کر نہ ملیں لیکن یہاں یہ تو نہیں ہوتا کہ کسی آدمی کو ساری عمر ہی بخار چڑھا رہے۔ بعض امراض ایسے ہوتے ہیں مثلاً سل ہے اس کا بخار بڑے لمبے عرصے تک رہتا ہے لیکن اتنا تیز نہیں ہوتا ۹۹،۱۰۰ (سینٹی گریڈ) تک ہو جاتا ہے۔ ایک حرارت سی رہتی ہے البتہ جو میعادی بخار ہے وہ عام طور پر ۵، ۱۰ دن تک رہتا ہے گیارھویں دن ٹوٹ جاتا ہے یا بعض دفعہ اکیس، بائیس دن تک چلتا ہے۔ اس کے بعد پھر گو یا وہ اس جہنم میں سے نکل گیا پھر جنت کی وہ ٹھنڈی ہوا اور جنت کی خوشبوئیں اور جنت کے آرام اور جنت کی لذّتیں اور جنت کے سرور اُسے اُس دُنیا میں بھی ملتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ جھونکا جہنم کا بھی مل جاتا ہے۔
پس خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک ایسی تجارت ہے جس میں کوئی گھاٹا نہیں۔ انسان کی اپنی کوئی غلطی ہو گی تو اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیکیوں کی توفیق دے دے گا کہ وہ گناہ جو ہیں وہ آپ ہی دُھل جائیں۔ جب انسان کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں تو پھر وہ مغفرت کے ساتھ ڈھانپا جائے گا یا پھر اُسے خداتعالیٰ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں دے گا تاکہ اس کو چوکس اور بیدار رکھے۔ بعض دفعہ ابتلاء آجائیں گے یا قضا و قدر بعض دفعہ جھنجوڑتی ہے یا انسان انسان کو جھنجوڑتا ہے۔ جھنجوڑنے والا آدمی بعض دفعہ گناہ کر رہا ہوتا ہے اور مظلوم جو ہے وہ ثواب حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں تو ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ تجارت ایسی ہے جس میں گھاٹا کوئی نہیں۔ اگر ایک شخص کو اس دُنیوی تجارت کے کِسی حصہ میں پانچ روپے گھاٹا ہو اور دوسرے حصہ میں اسی روز پانچ ہزار روپے نفع ہو جائے اُس ایک دن میں تو اُسے گھاٹا پانے والا کوئی نہیں کہے گا حالانکہ ایک حصہ میں اُسے پانچ روپے گھاٹا ہوا ہے اب یہ کہ پانچ دن بخار چڑھ گیا اور باقی سال اُس کا آرام سے اور سرور سے گزرا اور دعاؤں میں گزرا اور خداتعالیٰ کے نشان دیکھنے میں گزارا، خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے میں گزارا تو اس کو کیا گھاٹا رہا اور جو اُخروی زندگی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف سے بھی بچا لیا یہ اُس پر بڑی رحمت فرمائی ہے۔
پس سِرّاً بھی خرچ کرنا چاہئے اور علانیۃً بھی خرچ کرنا چاہئے۔ میں نے بتایا ہے کہ جو جماعت کا خرچ ہے وہ سِرّاً بھی ہے اور علانیۃً بھی ہے اور اپنی استعداد کے مطابق بڑا خرچ ہے یہ معمولی خرچ نہیں ہے۔ جماعت اسی طرح قریباً سوا دو یا اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کرتی ہے جو مقامی فنڈز ہیں اُن میں سے جماعت اس سِلسلہ میں بھی خرچ کرتی ہے وہ رقم اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن مجموعی طور پر یہ بھی بڑی رقم بن جاتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں اس علم کی بِناء پر جو مجھے حاصل ہوتا رہتا ہے کہ افراد جماعت ایک بڑی رقم سِرّاً بھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ بتانا نہیں چاہتے مثلاً کئی ایسے خرچ ہوتے ہیں کہ خاوند بیوی کو نہیں بتاتا یا بیوی خاوند کو نہیں بتاتی۔ اس واسطے کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سِرّاً خرچ کرو اور بیوی یا خاوند خداتعالیٰ کے مقابلے میں کیا چیز ہے اصل تو اللہ ہی اللہ ہے۔
غرض دونوں طرح بے حد خرچ ہو رہا ہے لیکن میرا کام ہے کہ میں یاد دہانی کراتا رہوں۔ اس لئے اس علم کے باوجود مَیںیہی کہوں گا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت یہ ہے کہ آپ رمضان میں تیز ہواؤں کی طرح سخاوت کیا کرتے تھے۔ آپ اس سنّت کو نہ بھولیں اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
خطبہ ثانیہ سے پہلے حضور نے فرمایا:-
الحمد للہ ضعف کافی حد تک دُور ہو گیا ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۸ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ۳ تا۵)
ززز








سورۂ جِنّ کی ایک آیت کی نہایت لطیف
اور پُر معارف تفسیر
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی:-

اس کے بعد فرمایا:-
سورۂ جن کی اِس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ(جس گروہ کے لوگوں کا وہاںذکر ہے انہوں نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کہ) ہم نے ایک کامل ہدایت اور شریعت کو سُنا اور ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں۔
ایمان کا لفظ عربی زبان میںمختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس حصہ آیت میں ایمان کے لفظ کا تعلق صرف زبان کے اقرار سے ہے۔ مفردات راغب میں ہے کہ:-
’’الایمان یستعمل تارۃً اسمًا للشریعۃ التی جاء بِہٖ مُحَمَّدٌ عَلَیہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَام… و یوصف بہٖ کل من دخل فی شریعتہٖ مُقِرًّا باللّٰہ وبنبوَّتِہٖ‘‘
ایمان کا لفظ کبھی عربی زبان میں اقرار باللسان کے معنوں میں بھی آتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسلامی محاورہ میں، کیونکہ عربی زبان پر قرآن کریم کی زبان کا بڑا اثر ہوا ہے گو وہ پہلے بھی بڑی اچھی اور بہترین زبان تھی لیکن قرآن کریم کی وحی کی عربی نے عربی زبان پر بڑا اثر کیا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ جب ہم مصر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ایک نوجوان ہم سفر ہر بات میں قرآن کریم کی آیات کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا استعمال کرتا تھا چنانچہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ نوجوان قرآن کریم سے بڑی محبت رکھتا ہے اِس لئے اسے قرآن کریم ازبر ہے۔ خیر ہم باتیں کرتے رہے۔ کوئی گھنٹے دو گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ عیسائی ہے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تم عیسائی ہو مگر قرآنِ کریم کی آیات کے فقرے کے فقرے استعمال کرتے ہو۔ وہ کہنے لگا۔ مَیں عیسائی تو ہوں لیکن قرآنِ کریم کی عربی سے ہم بچ نہیں سکتے۔ یہ ہمارے ذہنوں اور زبان پر بڑا اثر کرتی ہے۔
پس قرآن کریم کی عربی یا قرآنِ کریم کی اصطلاح میں امام راغب کے نزدیک ایمان کے کبھی یہ معنے ہوتے ہیں کہ زبان سے اس بات کا اقرار کیا جائے یعنی آدمی یہ کہے کہ میں شریعتِ محمدیہ کو قبول کرتا ہوں اور اُس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جسے قرآن کریم اور اسلام نے پیش کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زبان سے اقرار کرتا ہوں۔ ایسا آدمی مومن ہو جاتا ہے۔ اس آیت کے پہلے فقرے میں ایمان کا لفظ اسی معنے میں استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اس شریعت اور ہدایت کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہے اس کو سُنا اور اُس پر ایمان لے آئے۔
اس آیت کے دوسرے ٹکڑے میں ایمان کا لفظ ایک اَور معنے میں استعمال ہوا ہے اور وہ اس معنے میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندے کی مدح کرتا ہے یعنی اس کی صفت بیان کرتا ہے اور کبھی اس کو اس بات پر جوش دلاتا ہے کہ تمہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے اور اس معنے میں ایمان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زبان سے اقرار کرنا اوردل سے(اپنے اقرار کے مطابق) شریعتِ محمدیہّ یعنی اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقتاً وہی سمجھنا جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کا زبان سے اقرار کیا گیا ہے اور یہ دل سے سمجھنا یعنی یہ نہ ہو کہ زبان پر کچھ ہو اور دل میں کچھ اَور ہو اور پھر بے عمل نہیں رہنا کیونکہ انسان کے سارے اعضاء پر اسلامی شریعت حاوی ہے۔ شریعت کے کسی حکم کا تعلق اس کی آنکھ سے ہے اور کسی کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ بول رہی ہوتی ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ چکھ رہی ہوتی ہے مثلاً فرمایا سُؤر نہیں کھانا یا فرمایا کہ خون نہیں کھانا۔ اب یہ اُس زبان سے تعلق نہیں رکھتا جو بول رہی ہوتی ہے بلکہ اس کا اُس زبان سے تعلق ہے جو چکھ رہی ہوتی ہے۔ کسی حکم کا تعلق انسان کے کان سے ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کے دماغ سے ہے یعنی کسی کے متعلق برائی سوچنی بھی نہیں۔ یہ امر اس کے دماغ سے تعلق رکھتا ہے۔ دماغ بھی جسم کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کے مختلف حصوں مثلاً اس کی ٹانگوں پر، اس کے ہاتھوں پر یا اس کی انگلیوں پر شرعی احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ انگلیوں کے متعلق مثلاً یہ حکم ہے کہ کوئی چیز تولتے وقت انگلی کو تھوڑا سا خم دے کر کچھ واپس نہیں لے لینا اور یہ حکم دکانداروں کے لئے ہے۔ کئی دکاندار ایسا گناہ بھی کر جاتے ہیں پھر انگلی کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک حکم یہ بھی ہے کہ کسی کے دل دُکھانے والی بات اپنی قلم سے نہیں لکھنی۔
پس شریعت محمدیہ کے سارے احکام کامل اور مکمل طور پر انسان کے تمام اجزاء اور اس کے اعمال پر حاوی ہیں۔ انسان کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا۔
غرض انسان کے جو اعمال ہیں، جن کے بجا لانے کی اللہ تعالیٰ نے اُسے طاقت دی ہے وہ بھی گواہی دیں کہ دل نے واقعی تصدیق کی ہے اور زبان نے جو اقرار کیا ہے وہ منافقانہ اقرار نہیں ہے۔ وہ احمقانہ اقرار نہیں ہے۔ وہ مصلحت بینی کے نتیجہ میں اقرار نہیں ہے بلکہ انسان نے ایک حقیقت کو دیکھا، پرکھا، سچا پایا اور اس کا اقرار کیا اور دل نے اس کی تصدیق کی اور پھر انسان سر سے لے کر پاؤںتک اُس پر قربان ہو گیا۔ یہ ایمان ہے۔ اس آیت کے دوسرے حصے میں اسی معنے میں ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلاً یہ ایمان ہے کہ روزے رکھو۔ روزوں کا مہینہ اب ختم ہورہا ہے لوگوں نے روزے رکھے، سوائے بیمار اور معذوروں کے جو لوگ بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے، محسوس تو وہ بھی کرتے ہیں دُکھ وہ بھی اُٹھاتے ہیں۔ جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ بھوک کا دُکھ اُٹھاتے ہیں اور جو روزہ نہیں رکھتے بوجہ معذوری، وہ روزہ نہ رکھنے کا جو طبیعت میں ایک دُکھ پیدا ہوتا ہے، وہ اُسے برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ غرض دونوں تکلیف میں سے گذر رہے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جس نے روزہ نہیں رکھا (در آنحالیکہ وہ مومن ہے اور اس کی نیت بھی ہے) اُس نے روزے کا جسمانی اور ظاہری دُکھ نہیں اُٹھایا۔ ایک ظاہری تکلیف تو ہے جو روزے دار خدا کی خاطر اُٹھاتے ہیں لیکن جو بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا شاید اُس نے زیادہ دُکھ اُٹھایا اور اگر زیادہ اُٹھایا تو شاید وہ ثواب کا بھی زیادہ مستحق ہو گیا۔ واللّٰہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ ثواب دیتا ہے ہم تو اس کے اُوپر کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔
پس فرمایا کہ جو شخص دوسرے حصہ آیت میں بیان کردہ ایمان کے مطابق اپنے رب پر ایمان لایا اور رب پر ایمان لانے کے مفہوم کے اندر حقیقتاً شریعت محمدیہ پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان آجاتا ہے کیونکہ ربّ کے معنے ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ اور تدریجاً ترقی دینے والا یعنی وہ ہستی جو نشوو نما دے کر انسان کو ترقی کے مدارج طے کرواتی ہے۔
جیسا کہ بڑی وضاحت اور تشریح کے ساتھ دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ انسان کو روحانی طور پر ترقیات کی منازل میں سے گذار کر آدمؑ، پھر نوحؑ، پھر موسی ؑ اور پھر سینکٹروں اور جو شارع نبی ہوئے ہیں، علیہم السّلام۔ اُن کے زمانے میں انسان کی روحانیت درجہ بدرجہ ترقی کر رہی تھی۔
بالآخر اللہ تعالیٰ انسان کو اس ترقی کے مقام پر لے آیا کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کا حامل بن سکتا تھا۔ ربوبیت کے معنی میں یہ بات آتی ہے کہ اگر انسان ترقی کرے ( اور عقل اور تاریخ کہتی ہے کہ انسانیت نے ترقی کی) اور کسی ایک منزل پر جا کر آگے راہنمائی کے لئے اگر کوئی نُور آسمان سے نازل نہ ہو، کوئی نئی شریعت نہ آئے کہ اس کے نئے تقاضوں کو اور بڑھی ہوئی طاقتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو تو گویا اس کو رب پر ایمان نہیں ہے۔ وہ تو سمجھے گا کہ رب ہے ہی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
غرض رب پر ایمان دراصل وہی ہے جس کا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ میں ذکر کیا گیا ہے کہ ساری تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اسی سے ہر تعریف کا منبع پھوٹتا ہے۔ انسان کی جب درست تعریف ہو تو اُسے سمجھنا چاہئے کہ اسے حمد کا جو مقام ملا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص مغضوب اور ملعون اور دھتکارا ہوا ہو تو دُنیا کی طاقتیں اُسے حقیقی عزت نہیں پہنچا سکتیں یہ تو ایک دھوکا ہے، سراب ہے۔ کئی لوگ بہک جاتے ہیں کئی بچ جاتے ہیں لیکن بہرحال حقیقی عزت اور تعریف کا استحقاق خداتعالیٰ کی محبت اور پیار اور رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ورنہ حمد کا اور تعریف کا استحقاق پیدا ہی نہیں ہوتا۔ سب دھوکا اور سراب ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے۔ ’’فَــلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّ لَا رَھَقًا‘‘ (الجّن :۱۴)اس کو نہ بخس کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ رہق کا کوئی خوف رہتا ہے۔
بخس کے معنے ہیں ظلم کر کے کسی کو نقصان پہنچانا مگر جو شخص مومن ہوتا ہے اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس طرح دوسرے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ ایک دفعہ جنّت میں لے جائے جانے کے بعد پھر جنّت سے نکال دیا جائے گا۔شریعت محمدیہ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وہ جنّت نہیں ملتی جس سے انسان نکالا جاتا اور دھتکار دیا جاتا ہے اور اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھر از سر نو کوشش کرو اگر تم مستحق ٹھہرے تو تمہیں جنت مل جائے گی۔
پس اگر عارضی جنت کا عقیدہ درست ہو تو پھر یہ بَخْسًا ہے۔ انسانی فطرت یہ کہتی ہے کہ اُس پر ظلم ہو گیا کیونکہ انسان کی طاقتیں محدود تھیں اور اُسے محدود زمانہ دیا گیا اگر تو غیر محدود زمانہ دیا جاتا تو پھر غیر محدود عمل ممکن ہوتے اور غیر محدود جنت ہو جاتی اور آپس میں CLASH(کلیش) ہو جاتا کیونکہ دو غیر محدود تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکرا دینے تھے۔جو عقلاً درست نہیں ہے مضمون دقیق ہے مگر جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے دو غیر محدود ایک دوسرے کا نتیجہ نہیں ہو سکتے کیونکہ نتیجہ انتہاء ہوتا ہے۔ غیر محدود ابتلاء اور امتحان کا زمانہ اور غیر محدود جزاء اور جنت۔ یہ بات عقل میں نہیں آتی۔
پس اگر غیر محدود جنتیں ہیں جن کی انتہاء کوئی نہیں تو عمل محدود ہی ہونے تھے اور جنت غیر محدود ہو گی، رحمتِ الٰہی غیر محدود ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘ (الاعراف: ۱۵۷)
خداتعالیٰ کی رحمت کے مقابلے میں زمانہ کیا چیز ہے۔ یہ تو اس کی ایک پیداوار ہے لیکن اس کی رحمت کی موجیں تو اس کی ہر پیداوار کے اُوپر سے گذر رہی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز اور ہر مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
لیکن ہماری فطرت اور ہماری شریعت ہر دو ہمیں یہی کہتی ہیں کہ خداتعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے اوپر حاوی ہے۔ اس واسطے کہ اگر ہماری فطرت یہ نہ کہتی تو محدود عمل کی غیر محدود جزاء کی توقع اور اُمید ہم کیسے رکھتے۔ خداتعالیٰ نے ہماری فطرت کے اندر یہ ڈالا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے تمہیں تھوڑی عمر دی گئی ہے، تمہیں تھوڑے وسائل دئیے گئے ہیں لیکن تمہیں ایک بشارت دے دیتے ہیں کہ اگر تم اپنی اس تھوڑی زندگی میں، اس چھوٹی زندگی میں، خلوصِ نیت کے ساتھ اور کامل توحید پر قائم ہو کر اور شرک کے ہر پہلو سے بچتے ہوئے محدود عمل کرو گے تو تمہیں غیر محدود جزاء مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بھی یہی رکھا ہے اور شریعت سے بھی یہی کہلوایا ہے۔
پس یہ اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس پر ظلم ہو گا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا۔
قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا:-
’’وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔‘‘ (ق:۳۰)
اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔ تو اس سے انسان کی تسلی ہو گئی۔
پھر فرمایا:-
’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج وَاِنَّا لَہٗ کَاتِبُوْنَ‘‘ (الانبیاء: ۹۵)
کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجا لائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو ’’فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ‘‘
اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی ردّ نہیں کئے جائیں گے۔ فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابلِ قبول ہو گی ردّ نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمال صالحہ بجا لائے گا اور وہ مومن ہو گا اور ایمان کے جُملہ تقاضوں کو پورا کرے گا تو’’فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ‘‘ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال ردّ نہیں کئے جائیں گے۔ وہ قبول کر لئے جائیں گے۔ اب یہ کتنا بڑا وعدہ ہے جو فَـلَا یَخَافُ بَخْسًا میں انسان کو دیا گیا ہے۔
پھر فرمایا:-
’’وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہٗ جَزَآئَ نِ الْحُسْنٰی‘‘ (الکھف: ۸۹)
یعنی جو ایمان لایا اور مناسب حال اعمال بجا لایا اُسے بہترین جزا دی جائے گی۔ کسی جگہ فرمایا عَشْرُ اَمْثَالِھَا دس گناہ زیادہ دی جائے گی۔ اس طرح پھر ظلم کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ رحمت ہی رحمت ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہی ہے۔ انسان کا تھوڑا سا عمل ہوتا ہے اور اُسے بہت بڑی جزا مل جاتی ہے۔
آپ اجتماعی طور پر دیکھیں کہ جماعت احمدیہ خداتعالیٰ کی راہ کے مالی میدان میں مجموعی لحاظ سے کیا خرچ کر رہی ہے۔وہیں سے مالی لحاظ سے ہمارا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس کے لئے ذرائع اور وسائل اکٹھے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اتنے زبردست نتائج نکل رہے ہیں کہ مَیں تو جب سوچتا ہوںتو میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ جماعت احمدیہ اور غلبۂ اسلام کے حق میں اس وقت جو ایک انقلاب بپا ہو رہا ہے، اُسے مَیں کس طرح اپنی کوششوں کی طرف منسوب کر دوں۔ ہر دو میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ ہماری کوشش بہت تھوڑی سی ہوتی ہے لیکن نتائج بڑے زبردست نکل رہے ہیں اسی لئے میں آپ کو بار بار توجہ دلا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کریں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے وہی اس کی مزید رحمتوں کا مستحق بنتا ہے۔
پس لَا یَخَافُ بَخْسًا کی رو سے بہترین جزا ملے گی۔ عمل رد نہیں کئے جائیں گے ذرا ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اسلامی شریعت پر ایمان لانے کے نتیجہ میں جو آدمی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، نہ اس کو نقصان کا کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ظلم کا کوئی خطرہ ہوتا ہے بلکہ ایک نیک عمل کے بدلے میں دس، ایک کے بدلے میں شاید دو سو، ایک کے بدلے میں شاید دو ہزار، ایک کے بدلے میں شاید دو کروڑ یا دو ارب گنا زیادہ بلکہ شاید اَن گنت جزا ملے گی کیونکہ اگر جزا اَن گِنت نہ ہو گی تو جنتیں ہمیشہ کے لئے کیسے بن جائیں گی۔ تو فرمایا لَا یَخَافُ بَخْسًا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لایا اور قرآن کریم نے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کو پیش کیا ہے اس رنگ میں اس کی ہستی پر اور اس کی صفات پر ایمان لایا اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا اور جس نے محبت اور عشق میں ایک نئی زندگی حاصل کر کے خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ کیا اور اگر بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں وہ عمل ناقص تھا تب بھی ناقص جزا نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں بھی اتنی بڑی جزا ہے کہ وہ ہمارے ذہن میں سما نہیں سکتی۔
پھر فرمایا وَلَا رَھَقًا اس کو رَہَق کا بھی خوف نہیں ہو گا۔(مَیں نے آج منجد دیکھی تھی۔ اس میں) رَھَق کے چار معنے بتائے گئے ہیں اور وہ چاروں معنے تفسیری لحاظ سے یہاں لگتے ہیں۔
رَھَق کے ایک معنے اَلْاِثْمُ یعنی گناہ کے ہیں۔اگر شریعت کامل نہ ہو۔ وہ بعض حصوں کو لے اور بعض حصوں کو نہ لے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض حصوں کے متعلق ہدایت دے اور بعض حصوں کو انسان پر چھوڑ دے تب بھی گناہ کا خطرہ رہتا ہے کہ جو اس نے فیصلہ کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔
مگر یہاں فرمایا کہ شریعت محمدیہ پر ایمان لانے والے کو( اگر وہ اس پر کار بند ہوتا ہے) اثم کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اس لئے کہ یہ شریعت کامل اور مکمل ہے۔ اس لئے کہ یہ شریعت خیر محض ہے۔ قرآن کریم کے ایک لفظ ’’خَیْرًا‘‘ میں شریعت محمدیہ کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے:-
’’مَآذَا اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا‘‘ (النحل:۳۱)
شریعت محمدیہ بھلائی ہی بھلائی ہے اس واسطے اثم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر انسان کی فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسانی فطرت کو نیک اور بد میں تمیز کرنے کی توفیق بھی اُسی نے عطا فرمائی ہے۔ انسانی فطرت (اور اس سے میری مراد وہ فطرت ہے جو مسخ نہ ہو چکی ہو) کسی چیز کو بد قرار نہیں دے گی جسے شریعت محمدیہ نے بدقرار نہ دیا ہو اور انسانی فطرت کسی چیز کو نیکی اور بھلائی اور ثواب کا موجب قرار نہیں دے گی کہ جس کا حکم شریعت محمدیہ میں نہ ہو کیونکہ خود قرآن کریم فرماتا ہے:-
’’فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا‘‘ (الرّوم:۳۱)
خداتعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا ہے یہ اس کا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک کامل شریعت کے رنگ میں اپنی وحی کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور یہ اس کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں تضاد نہیں ہوا کرتا۔
پس فطرت جن چیزوں کو نیکی کی باتیں قرار دیتی ہے، انہیں باتوں کا قرآن کریم حکم دیتا ہے۔ اس واسطے ’’اثم‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں فطرت کا وحی کے ساتھ تصادم نہ ہو جائے۔ اس قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ جس خدا نے فطرت کو پیدا کیا ہے اُسی نے وحی کو نازل فرمایا ہے اسی واسطے مومنوں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ:-
’’یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۵)
رَھَق کے دوسرے معنے خِفَّۃُ الْعَقْلِ کے ہیں جس کا مطلب یہ ہے ان کو کم عقلی کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔
یعنی قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے تو علاوہ اَور بہت سے روحانی فوائد کے، تمہیں ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ تمہاری عقلوں کو جلا ملے گی نَیَّرِالہام کے بغیر عقل کو جلا نہیں مل سکتی اور پھر الہام اور وحی بھی وہ جو کامل شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل وجود پر نازل ہوئی اور جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔
غرض فَلَا یَخَافُ رَھَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
کہ انسان کو کم عقلی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اگر وہ قرآن کریم پر غور کرے گا، فکر کرے گا اور تدبر کرے گا(جس کی طرف قرآن کریم میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے) تو اس کی عقل اس نہج پر نشوونما پائے گی کہ دنیوی میدان میں بھی، دُنیا کے مسائل میں بھی اگر انسان فکر اور تدبر کرے گا تو صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے گا۔ ویسے یہ عقل جو ہے اس کا تو یہ حال ہے کہ بڑے بڑے عقلمند کہلانے والے سوچتے اور غور تو کرتے ہیں مگر بسا اوقات غلط نتائج پر پہنچ جاتے ہیں بڑے بڑے چوٹی کے ماہرین آج ایک بات کہتے ہیں ا ور دس سال کے بعد ان سے بھی بڑا عقل کا ایک اَور دعویدار کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بالکل بیوقوفی کی بات کر گئے ہیں اور یہ بات ہر سائنس میں ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے لیکن قرآن کریم کے اصول پر جس عقل کو جس دماغ کو سوچنے اور قرآن کریم کی بتائی ہوئی نہج پر غور کرنے کی عادت پڑ جائے اس کے لئے دُنیا میں بھی ٹھوکر کھانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ویسے انسان انسان ہے وہ ٹھوکر تو کھائے گا لیکن دوسروں کی نسبت خطرہ کم ہو جائے گا۔
بہرحال قرآن کریم کی شریعت عقل کو جلا دینے والی ہے۔ اگر کسی نے ٹھوکر کھائی ہے تو اس کا ذمہ وار وہ خود ہے قرآن کریم ذمہ وار نہیں ہے۔ اُس نے خود کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے طریق کو چھوڑا اور اس کے نتیجہ میں ٹھوکر کھائی ہے۔
رھق کے تیسرے معنے جہالت اور کم علمی کے ہیں۔لَا یَخَافُ رَھَقًا میں قرآن کریم کے متعلق یہ اعلان ہو گیا کہ یہ علم کا نہ ختم ہونے والا سمندر ہے اور جب یہ انسان کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو پھر اس کو جہالت اور کم علمی کا خوف کیسے ہو گا۔ ہر زمانہ اور ہر ملک کو اس طرف توجہ دلائی کہ زمان و مکاں کے بدلے ہوئے اور مختلف حالات میں یہ قرآن عظیم تمہاری کامل رہبری کے لئے کافی ہے آب وہوا کے لحاظ سے غذائیں مختلف ہو گئیں۔ پھر مختلف غذاؤں کے نتیجہ میں انسان پر ان کے اثرات مختلف ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں بعض جگہ بعض اخلاق کی نگرانی کی زیادہ ضرورت پڑ گئی اور بعض اخلاق کی طرف( بعض دوسرے اخلاق کی نسبت) زیادہ توجہ دے کران کی نشو ونما کی ضرورت پڑ گئی اور اس طرح ملک ملک میں فرق آجائے گا پھر زمانہ ہے، وہ تو واضح ہے کہ جو آج کے مسائل ہیں وہ سو سال پہلے کے مسائل نہیں اور جو آج کے مسائل ہیں وہ ہزار سال بعد کے مسائل نہیں ہوں گے۔
پس وَلَا رَھَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خواہ تم کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہو یا کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوئے ہو قرآن کریم کی شریعت پر عمل کر کے کم علمی کے نتیجہ میں تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قرآن کریم تو تمہارے سامنے علم کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ تم مطہر بنو قرآن کریم کے علمی خزانوں کی چابیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی جائیں گی پھر تم اس سے فائدہ اُٹھانا۔ تمہیں جہالت کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔
ویسے انسان تو بڑا عاجز ہے اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔میں نے اپنے اس مختصر سے زمانۂ خلافت میں دو دفعہ باہر کے دورے کئے ہیں۔ ان دونوں موقعوں پر عیسائی پادری اور دوسرے صحافی ملاقاتوں اور پریس کانفرنسوں میں سوال کرتے تھے جن میں بعض سوال ایسے بھی ہوتے تھے کہ نہ آپ نے پہلے کبھی سُنے اور نہ میں نے سُنے ہوتے اور میرے ساتھی بھی گھبرا جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہی ایسا جواب سِکھا دیتا تھا کہ جسے سُن کر وہ خاموش ہو جاتے تھے۔ بعض دفعہ بول بھی نہیں سکتے تھے مثلاً پہلی دفعہ ۱۹۶۷ء میں جب میں نے یورپ کا دورہ کیا اُس وقت عرب اسرائیل جنگ ابھی تازہ تازہ ہو کر ختم ہوئی تھی اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف بڑا تعصب پایا جاتا تھا۔ یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑا پروپیگنڈہ کیا تھا چنانچہ ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک کیتھولک نوجوان صحافی سوال کرنے لگا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ وہ میرے ساتھ بات بڑے احترام سے کرتے تھے ویسے تو وہ آزاد ہیں وہ اپنے بڑے بڑے لوگوں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ میں تو الحمد للہ پڑھتا تھا کیونکہ ایک عاجز انسان ہوں بہرحال وہ بڑے ادب سے بات کرتے تھے۔ اس صحافی نے بھی بات تو بڑے ادب سے کی لیکن اس کی آنکھوں میں شوخی تھی۔ اُس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ہمارے ملک یعنی ہالینڈ میں آپ اس وقت تک کتنے لوگوں کو مسلمان بنا چکے ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ میں یہ جواب دوں گا کہ چند درجن۔ تو اس سے ان سارے صحافیوں پر جو یہاں بیٹھے ہیں یہ اثر پڑے گا کہ یہ تو کوئی کامیابی نہیں ہے اتنے بڑے ملک میں جہاں ملینز(millions) کی آبادی ہے اس میں چند درجن لوگ احمدی مسلمان بن گئے ہیں تو کیا ہے۔ اب یہ پہلی دفعہ سوال سُنا ۔ اللہ تعالیٰ ہی ایسے سوالوں کا جواب دل میں ڈالتا ہے چنانچہ اسی وقت خداتعالیٰ نے مجھے اس سوال کا جواب سکھایا۔ میںنے اس سے کہا کہ جتنا عرصہ حضرت مسیح علیہ السلام اس دُنیا میں رہے اور اس عرصہ کی تعیین میں میرا اور تمہارا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جتنا عرصہ بھی وہ اس دُنیا میں رہے ساری عمر میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے اس سے زیادہ ہم تمہارے ملک میں مسلمان بنا چکے ہیں۔ اس پر وہ ایسا خاموش ہوا کہ پھر اس نے مجھ سے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا حالانکہ میں نے کہا بھی کہ اَور سوال کرو میری دلچسپی قائم ہے۔ اب یہ کہ اچانک سوال ہو اور پھر یہ جواب آجائے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ بعض دفعہ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا جواب دے رہا ہوں، دماغ جواب دے رہا ہوتا تھا اور انسان الْحَمْدُ لِلّٰہِ پڑھ رہا ہوتا تھا۔
پس دراصل حقیقی علم کا منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس منبع سے یہ کتاب(یعنی قرآن کریم) اس دعوے کے ساتھ نازل کی گئی ہے کہ یہ قیامت تک کے مسائل کو حل کرے گی۔ اس نے قیامت تک کے مسائل کو حل کر دیا ہے۔ ہمیں اس پر بھی ایمان لانا چاہئے۔ اب لوگ اس حقیقت کے بھی قائل ہو رہے ہیںالبتہ جو بھٹکتے ہیں وہ کہاں مانتے ہیں دراصل آج کل کے عقلمند نے اس دُنیا کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے جتنا آج کا عقلمند خود کو دُنیا کی نگاہ میں ملعون بنا چکا ہے کسی زمانہ میں بھی’’عقلمند‘‘ پر خود انسان نے اتنی *** کبھی نہیں بھیجی۔ یہ عجیب عقلمندی ہے اور تہذیب میں ترقی ہے کہ جس کی وجہ سے انسانیت کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس سے پہلے تو پانچ انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ ہزار انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ لاکھ انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ ملین انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی مگر اب تہذیب میں کیا آگے بڑھے کہ تمام بنی نوع انسان کی جان خطرے میں ہے اتنی عقل تیز ہوئی اس عقل پر *** ہے جس کی تیزی نے اس دُنیا میں انسانیت کو مٹانے کی سکیمیں بنا لی ہیں لیکن جہالت، سفاہت اور حُمق کے مقابلے کے لئے جو علم اور فراست اور ظلمات کو دور کرنے کے لئے نور قرآن کریم سے حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ حقیقی بھی ہے اور نہ ختم ہونے والا بھی ہے۔ کسی وقت بھی یہ خطرہ نہیں کہ عقل آگے بڑھ گئی اور اب انسان کو وحی و الہام کی ضرورت نہیں رہی۔ کئی فلسفی لوگ ہیں جن میں سے بعض نے مسلمانوں کو بھی بڑا متاثر کیا ہے لیکن ہم ایسی ہزارہا مثالیں دے سکتے ہیں کہ جہاں عقل نے مذہب کے رشتے توڑ کر اندھیری کھائی میں چھلانگ لگائی ہے اور وہ انسان کو روشنیوں کی طرف لے کر نہیں گئی۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- وَلَا رَھَقًا اپنے رب پر ایمان لانے والا اور ایمانی تقاضوں کو پورا کر کے اپنی زندگی کو اسوۂ محمدی میں ڈھالنے والا اور شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا انسان وَلَا رَھَقًاکا مصداق ہے۔اُسے کسی جہالت یا سفاہت یا حماقت کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ روشنی کا ایک مینار اس کے پاس لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ نور کے ایک سر چشمے سے اس کا تعلق قائم کر دیا گیا ہے۔ جس شخص کا تعلق حقیقی طور پر اور سچے معنوں میں نور کے سر چشمے سے قائم کر دیا جاتا ہے، اس کو اندھیرے سے کیا خوف ہو سکتا ہے۔
رَھَقًا کے چوتھے معنے یہ ہیں کہ اسلامی شریعت اتنی حسین ہے کہ تم کسی حالت میں بھی کیوں نہ ہو، وہ تمہارے لئے تکلیف مالایطاق پیدا نہیں کرتی کیونکہ رَھَق کے چوتھے معنے منجد میں یہ لکھے ہیں:-
’’حَمْلُ الْمَرْئِ عَلٰی مَالَا یُطِیْقُہٗ‘‘
یعنی کسی شخص پر ایسا بوجھ ڈالنا کہ جسے وہ برداشت نہ کر سکے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہر انسان مخاطب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے انسان کو بھی مخاطب کیا ہے۔ ہمیں بھی مخاطب کیا ہے اور ہم سے ایک ہزار سال بعد اگر دُنیا رہی تو اس وقت کے انسان کو بھی قرآن کریم مخاطب کر کے یہی کہے گا۔
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ: ۲۸۷)
کہ تمہاری وسعت کے مطابق تم پر بار ڈالا جائے گا اس میں کِسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہے۔ شریعت میں اتنی لچک ضرور ہونی چاہئے کہ ہر فرد کی طاقت کے مطابق اس کی ہدایتیں بدلتی چلی جائیں۔قرآن کریم کے بہت سے احکام میں سے مثلاً روزہ کو لے لو۔ ایک صحت مند بچہ ہے اور نظر آرہا ہے کہ وہ پہلوان بننے والا ہے لیکن دس سال کی عمر میں خداتعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ روزہ نہیں رکھنا کیونکہ ابھی تم میں روزے کی طاقت پیدا نہیں ہوئی۔ اب امریکہ میں جو نئے تجربے کئے گئے ہیں وَاللّٰہٗ اَعْلَم ُکب تک ان کو صحیح سمجھا جائے گا۔ ان تجربات کی رُو سے اٹھارہ سال کی عمر تک انسان کھانے کے اعتبار سے بچہ متصور ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے غذا کا ایک فارمولا بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک کا بچہ (کھانے کے لحاظ سے وہ بچہ ہے) جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش کرے وہ اسے ملنی چاہئے۔ تب اس کی (جسمانی) صحیح نشوو نما ہو سکتی ہے اسی واسطے اٹھارہ سال کی عمر سے کم کے بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے تو کچھ روزے رکھوانے چاہئیں لیکن ایک مہینہ کے لگا تار روزے نہیں رکھوانے چاہئیں کیونکہ رمضان کے لئے وہ عمر بلوغت نہیں ہے رمضان کا تعلق انسان کی روح سے بھی ہے مثلاً تنویرِقلب ہوتی ہے۔ رُوح میں روشنی اور بشاشت پیدا ہوتی ہے۔ انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو وہ روحانی طور پر ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔
غرض روزوں کا انسانی جسم پر بھی اثر ہے۔ اخلاق پر بھی اثر ہے۔ مختلف چیزوں پر اثر ہے لیکن جسم پر بھی اثر ہے مگر اٹھارہ سال کے بعد انسانی جسم پر روزے کا اچھا اثر پڑے گا یعنی صحت قائم رہے گی۔ اٹھارہ سال سے کم عمر والا بچہ خواہ اپنی عمر کے لحاظ سے بہترین صحت میں ہو۔ مثلاً دس سال کا بچہ ہے یا آٹھ سال کا بچہ ہے اور پورا صحت مند ہے۔ اس کی آنکھوں میں چمک ہے اور فراست ہے اور طاقت کے آثار ہیں لیکن خداتعالیٰ اُسے فرماتا ہے کہ تو روزہ نہ رکھ کیونکہ تیری نشو ونما کا زمانہ ہے۔ روزے کی بلوغت کے دائرہ میں تو داخل نہیں ہوا۔ جب داخل ہو جائے گا تو ٹھیک ہے پھر اللہ تعالیٰ اسی طرح صحت قائم رکھے تو وہ ساری عمر روزے رکھتا چلا جاتا ہے مگر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پچاس سال کی عمر میں روزے کی طاقت نہیں رہتی۔ ڈاکٹر کہتا ہے روزے نہ رکھو کیونکہ کسی کے دل میں تکلیف ہو جاتی ہے، کسی کے جگر میں تکلیف ہو جاتی ہے کسی کی ہڈیوں میں تکلیف ہو جاتی ہے کسی کے سینے میں تکلیف ہو جاتی ہے، کسی کے اعصاب میں تکلیف ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہزار ہا بیماریاں ہیں جو ہزاروں انسانی خطاؤں کے نتیجہ میں انسانی جسم میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن ایک ایسا بچہ بھی ہے جس کو اٹھارہ سال کی عمر تک پوری صحت کے باوجود سارے روزے رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ ستر سال کی عمر میں بھی آرام سے روزے رکھتا ہے اور اسے کچھ پتہ ہی نہیں لگتا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَایَخَافُ رَھَقًا کہ اے انسان! خواہ تیری صحت کیسی ہو! خواہ تیری عمر کتنی ہو! خواہ تیرا ماحول کیا ہو! تیری طاقت کے خلاف یا تیری طاقت سے بڑھ کر بوجھ تمہارے اوپر نہیں ڈالا جائے گا۔
پھر مثلاً نماز ہے۔ بڑا زور دیا ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھو لیکن یہ نہیں کہا کہ ہر فرد کے لئے مسجد میں آکر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ وہ کافر ہو جائے گا۔ یہ اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام نے کہا ہے کہ جو آدمی بیمار ہے وہ اپنے گھر پر نماز پڑھ لے۔ نماز کی ایک ظاہری شکل بنائی ہے مثلاً ہم کھڑے ہوتے ہیں پھر رکوع کرتے ہیں پھر کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر سجدہ میں جاتے ہیں۔ پھر دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔ پھر ہم التحیات یعنی قعدہ میں بیٹھتے ہیں لیکن ایک بیمار شخص ان ساری اشکال کے مطابق یا بعض شکلوں کے مطابق نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس کو کہا کہ لَاتَخَفْ رَھَقًا کہ تجھ پر ایسا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جو تیری طاقت سے بالا ہو۔ چنانچہ بیمار، معذور یا مجبور ہونے کی صورت میں ایک کو کہا کہ تُو بیٹھ کر نماز پڑھ لے، دوسرے کو کہا کہ تو لیٹ کر نماز پڑھ لے، تیسرے کو کہا کہ تو اشاروں سے نماز پڑھ لے۔ چوتھے سے کہا کہ تو ہتھیار باندھ کر نماز پڑھ اور اپنا کام کرتا جا۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اتنا خیال رکھا ہے کہ اگر سوچیں تو ہم خود اتنا خیال نہ رکھ سکتے۔ لَا یَخَافُ رَھَقًا کے اعلان کے بعد کسی کو یہ خوف نہیں ہو گا کہ وہ کسی وقت ایسی منزل میں ہو گا یا ایسی حالت میں ہو گا کہ اسلام کے کسی حکم کی پابندی نہ کر سکے تو گناہ گار بن جائے گا۔ اس شکل میں تو پابندی نہیں کرے گا لیکن گناہگار نہیں بنے گا۔ مثلاً جو آدمی بے ہوش ہے اور بعض دفعہ چار چار دن تک آدمی بے ہوش رہتا ہے کیا ایسا شخص نمازیں چھوڑ کر گناہگار بن گیا؟ نہیں لَا یَخَافُ رَھَقًا کی رو سے جو اس کی طاقت نہیں ہے اس سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر اپنی غلطی کی وجہ سے بھی تم بیدار نہ رہو اور سُکران کی حالت میں ہو تب بھی نماز پڑھنے کے لئے انتظار کرو۔ وہ دوسرا جرم ہے لیکن نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا یہ بہت بڑا جرم ہے مگر اس کا بھی خیال رکھا۔ ماں نے کیا خیال رکھنا ہے اور باپ نے کیا توجہ دینی ہے اور دوست نے اخوّت کا کیا مظاہرہ کرنا ہے۔ تمہارے رب نے تو کہیں زیادہ ہم سے پیار کیا اور پیار کی شکلیں بناد یں پس بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنے خدا کو چھوڑتا ہے اور ایمان بالرّب نہیں لاتا۔ پھر تو اس کو’’بخس‘‘ کا بھی ڈر ہے اس پر ظلم بھی ہوں گے اور اسے نقصان بھی پہنچیں گے اور ان کا کوئی مداوا نہیں ہو گا۔ اپنے رب کو چھوڑ کر وہ کہاں جائے گا اور پھر یہ بھی ہو گا کہ گناہ کرے گا کیونکہ اپنی طرف سے جو شرعی حکم بنائے گا اور سمجھے گا کہ شریعت اسلامیہ حقہ نے جو احکام( اوامر و نواہی) دئیے، اس سے زیادہ مجھے چاہئے وہ بھی گناہگار بن جاتا ہے۔ تکمیل شریعت میں اسی طرف اشارہ ہے۔
پس اپنے رب سے پختہ تعلق قائم کرو۔ رمضان کا ایک موقع تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا۔ جو سبق آپ کو اور مجھے سیکھنا چاہئے تھا خدا کرے کہ وہ سبق ہم سیکھیں اور پھر بھولیں نہ۔ کیونکہ اپنے رب سے تو ہمیشہ کا ساتھ ہے۔ وہ کون سی گھڑیاں ہیں جو آپ اپنے رب سے چھپ کر گزار سکتے ہیں۔ جب اس سے ہمیشہ کا ساتھ، ہمیشہ کا واسطہ ہے اور ہمیشہ کے پیار کی ضرورت ہے اور اس نے اپنے آپ کو بار بار رحم کرنے والا کہا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ تمہیں میرے رحم کی بار بار ضرورت پڑے گی۔ یہ نہ سمجھنا کہ ایک کروڑ دفعہ میں نے تم پر رحم کیا ایک دفعہ اَور رحم نہیں کر سکتا یا ایک ارب دفعہ رحم کیا ہے تو اَور دس ارب دفعہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بار بار رحم کرنے والا ہوں۔ یہ میری صفات میں سے ہے۔
پس اپنے اس پیارے رب سے اپنا تعلق پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھاؤ اور اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے اُن مخلصین کو بھی یاد رکھو جو اخلاص کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں پیسے خرچ کرتے ہیں۔ تحریک جدید کی طرف سے کل رپورٹ آئی تھی مجھے تو آج ہی ملی ہے سال رواں میں نو سو پندرہ مخلصین نے اپنے وعدے کی پوری رقوم ادا کر دی ہیں گو میں نے ایک سر سری نظر ڈالی تھی پھر بھی مجھے تعجب ہوا کہ بعض دوستوں نے اپنی حیثیت سے بہت کم چندہ لکھوایا ہوا ہے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے۔ ان میں سے اکاون مخلصین نے ایک ایک ہزار روپے کاو عدہ کیا تھا اور وہ پورے کا پورا ادا کرد یا ہے۔ ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں اور جنہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے مالی لحاظ سے بھی اور اخلاص کے لحاظ سے بھی کہ وہ بھی جلدی اپنے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے تعلق کی پختگی صرف نوجوانی کی عمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ شاید کوئی شرمائے کہ وہ دھیلے سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ انصار اللہ کا چندہ ایک دھیلہ فی روپیہ ہے۔ اُس وقت بھی دھیلہ تھا جب روپے کے چونسٹھ پیسے تھے اور اس وقت بھی دھیلہ ہے جبکہ روپے کے یک صد پیسے ہو گئے ہیں۔ بہرحال خلیفۂ وقت کا کام سہارا دینا بھی ہے اس لئے میں نے سہارا دے دیا اور انصاراللہ کے چندے کی جو شرح ہے وہ میں نے دھیلے سے بڑھا کر پیسہ کر دی ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی جن کی عمر زیادہ ہے اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اس عمر میں تو ہمیں زیادہ فکر ہونی چاہئے۔ یا تو یہ ہو کہ انصار اللہ کے جو کام ہیں اُن کی ضرورت نہیں رہی۔ خدام جن کے پاس کبھی پیسہ اکٹھا ہی نہیں ہوتا تھا اور انصار سے مانگ مانگ کر ہم اپنی ضرورتیں پورا کیا کرتے تھے مگر اب یہ ہے کہ اُن کا چندہ انصار سے کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے اس کی ایک وجہ تو میں نے پہلے بتائی تھی کہ پچھلی پود کثرت سے جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اگر جماعت کی تعداد وہی رہتی تو پھر تو یہ شکل نہ بنتی لیکن آج سے تیس سال پہلے جو نسبت انصار اور خدّام کی تعداد میں تھی آج وہ نسبت نہیں ہے۔ صحیح طور پر تو مجھے علم نہیں اور نہ کبھی اس قِسم کی مردم شماری ہوئی ہے لیکن اگر فرض کر لو تیس سال پہلے پچاس فی صد احمدی نوجوان یعنی پندرہ سال سے اوپر کی عمر کے خدام میں شامل تھے تو پچاس فیصد انصار میں شامل تھے مگر آج تیس سال کے بعد یہ شکل نہیں رہی۔ آج یہ شکل ہے کہ تیس فیصد انصار میں شامل ہیں اور ستر فیصد خدام میں شامل ہیں کیونکہ پیچھے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک بڑا ریلا آرہا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے بڑھ رہے ہیں۔ نئے نوجوان احمدی ہو رہے ہیں اور ہماری احمدی بہنیں بہت بچے پیدا کر رہی ہیں۔ وہ بیچاری تکلیف اُٹھا کر یہ قربانی دے رہی ہیں خدا کرے وہ بھی اَور زیادہ قربانی دیں۔ اب بھی بہت سی بہنیں قربانی دے رہی ہیں۔ یعنی اپنے بچے احمدیت کے نام پر خدا کے لئے وقف کرنے کی شکل میں وہ پیدا کر رہی ہیں یعنی وقف کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ تحریک جدید کا واقف ہو۔ نیت وقف کی ہونی چاہئے ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بھی توفیق بخشے۔ (آمین)
بہرحال انصار اور خدام کی تعداد میں بڑا فرق پڑ گیا اور پھر اس وجہ سے چندوں میں بھی فرق پڑ گیا پھر خدام الاحمدیہ، جن کی عمر سولہ سے چالیس تک ہے ان کی مجموعی آمدنی جتنی تیس سال پہلے تھی اِس وقت یقینا اس سے سو گنا زیادہ ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ انصار اللہ والے کیوں مایوس ہو جائیں کہ اُن پر اللہ تعالیٰ فضل نہیں کرے گا پس وہ دھیلے سے پیسہ شرح چندہ مقرر کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مال میں بھی برکت دے گا بہرحال یہ ذیلی چیزیں ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلادی ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ اس چھوٹی سی آیت میں بڑا ہی لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اپنے رب سے سچا اور پختہ تعلق پیدا کر لیتا ہے، اس کو نہ ظلم اور نقصان کا کوئی خطرہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ شریعت کے نقص کی وجہ سے وہ گناہگار ہو جائے گا یا بدلے ہوئے حالات میں شریعت اگر اس کے مسائل حل نہ کرے تو اس لحاظ سے بھی یہ نہیں کہ وہ گناہگار ہو جائے گا پھر نہ اس کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ عقل پر ہی بھروسہ کرنا ہے۔ عقل کبھی صحیح راستہ پر چلتی اور کبھی بھٹک جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری عقلوں کو شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں روشنی عطا کروں گا اور ان عقلوں میں ایک جلا پیدا کروں گا پھر تم دُنیا کے معلّم بن جاؤ گے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کر لو اور پھر قرآن کریم جو علموں کا خزانہ اور معرفت کا ایک سمندر ہے وہ تمہیں دیا گیا ہے اس لئے کم علمی اور سفاہت اور حُمق کا تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس سمندر میں غوطہ لگانا ضروری ہے پھر یہ بھی ہے کہ بدلے ہوئے زمانوں میں، بدلے ہوئے حالات میں(وقتی طور پر اجتماعی یا انفرادی حالات بدلتے ہیں یا بیماریوں اور بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر حالات بدل جاتے ہیں مثلاً چندے کے لحاظ سے بعض تاجر ایسے بھی ہیں جو دس دس، بیس بیس ہزار روپے چندہ ایک وقت میں دے دیتے ہیں پھر ان کے حالات بدل جاتے ہیں۔انہیں نقصان ہو جاتا ہے تو بیس روپے تک دینے کے قابل نہیں رہتے) خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب تمہیں بیس ہزار روپے دینے کی طاقت تھی تم نے دیا اور میں نے قبول کر لیا اور میں تمہیں اس کی جزا دوں گا لیکن جب تمہیں بیس روپے دینے کی طاقت ہو گی تو میں قبول نہیں کروں گا۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ اُس نے یہ فرمایا ہے جتنی تمہاری طاقت ہے اتنا چندہ تم دے دو پھر جتنی میری رحمت ہے اس سے تم حصہ لیتے چلے جاؤ گے پس بندے کی اس قربانی اور خدا کی اس رحمت کا آپس میں کیا مقابلہ ہے۔
خدا کرے کہ وہ ہمیشہ ہمیں بے حساب اجر عطا فرمائے۔ اس کی رحمت کے دروازے رمضان میں خصوصیت سے کھلتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی اس کی رحمتوں کے دروازے کھلے رہیں۔
خطبہ ثانیہ سے پہلے حضور نے فرمایا:-
نماز عصر سے قبل درس دینے والے دوست مولوی ظہور حسین صاحب سوائے آخری ایک سورۃ کے باقی کا درس مکمل کر دیں۔ عصر کی نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے میں انشاء اللہ آخری سورۃ کی تفسیر کے ایک چھوٹے سے حصہ کو بیان کر کے دعا کرا دوں گا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ تا ۶)
ززز










موجودہ نازک حالات میں اپنی ذمہ داریوں
کو نبھاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(الاحزاب۔۱۰ تا۱۲)

(الاحزاب:۱۶ تا ۱۸)

(آل عمران:۱۴۰)

(القمر:۴۵،۴۶)
اِس کے بعدحضور انور نے فرمایا:-
یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اور میری صحت پوری طرح ٹھیک نہیں ہے لیکن اس مضمون کو جلد بیان کرنا بھی حالات کا تقاضا تھا،اِس لئے آج مَیں اس کی ابتداء کر دیتا ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور جیسا بھی اللہ تعالیٰ نے سمجھایا اس کی تفصیل اگلے خطبہ یا خطبوں میں بیان کر دوں گا۔
ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے بنیادی طور پر جو بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی اور آپ کے بعد اُمت مسلمہ پر بھی ایسے حالات بعض دفعہ آتے رہے ہیں اور آجاتے ہیں کہ جب دُنیا کے سب حیلے جاتے رہتے ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی مادّی سامان نظر نہیں آتا اور دشمن ہر طرف سے جمع ہو کر حملہ آور ہو جاتا ہے چنانچہ وہ مسلمانوں کے ایک گروہ یا ایک ملک کو گھیر لیتا ہے اور ظاہری اسباب کے فقدان کے نتیجہ میں دو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں۔پہلی چیز منافق کا نفاق اور دوسری چیز ایک مومن کا حُسن اور حُسنِ ایمان۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن حالات میں بھی ہم نے تمہارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک نمونہ بنا دیا ہے۔
جب عرب قبائل روساء مکہ کے ساتھ شامل ہو کر اسلام کو مٹانے اور(بزعمِ خود) مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے مدینہ کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ احزاب سے پہلے جو جنگ ہوئی تھی، اس میں کم و بیش پندرہ سو مسلمان شامل ہوئے تھے۔ دو سال کے بعد جب کفار مکہ نے مدینہ کو گھیر لیا۔ اُس وقت منافقین کو شامل کر کے قریباً تین ہزار مسلمان تھے۔ اُحد کی جنگ کے موقعہ پر تین سو سے کچھ زیادہ ہی منافقین واپس آگئے تھے۔ سارے منافق تو شامل نہیں ہوئے تھے۔ اِس واسطے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ تین ہزار مسلمانوں میں جو احزاب کے موقع پر اسلام کی حفاظت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے اپنے دفاع کے لئے باہر میدان میں جمع ہوئے تھے اُن میں پانچ چھ سو منافقین ہوں گے۔ اس لئے اڑھائی ہزار کے قریب مخلص مومن سمجھنے چاہئیں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے اور لشکر کفار دس ہزار کی تعداد میں تھا جو قریباً تمام عرب کے بڑے بڑے قبائل کی نمائندگی کر رہا تھا اور تمام روساء مکہ کی قیادت میں مسلمانوں کو کریش(CRASH)کرنے کے لئے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی نیت سے وہاں جمع ہوا تھا۔
مسلمانوں کے لئے علاوہ اس ابتلاء کے بعض اور ابتلاء بھی تھے مثلاً راشن یعنی غذا کی کمی تھی۔ سردی غیر معمولی طور پر شدید تھی۔ اُن کا لباس اس سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ غرض اُس وقت حالات ایسے تھے کہ دُنیا کی نگاہ یہی دیکھتی تھی کہ آج اسلام ختم اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔ آج (نعوذ باللہ) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان پہنچا کر یہ سارا سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔ لوگ باتیں بھی کرتے تھے۔ فتنہ بھی پیدا کرتے تھے۔ بددلی پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ جو ان کے بس میں تھا وہ کرتے تھے لیکن وہ مسلمان جس نے اپنے ربّ کی قدرتوں کے زندہ نظارے دیکھے تھے اور علیٰ وجہ البصیرت اس کی صفات پر ایمان لاتا تھا اور اس کی صفات کی معرفت اور ان کا عرفان رکھتا تھا۔ وہ ان باتوں میں نہیں آتا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ ایسے حالات میں بھی قدرتوں والا خُدا جس کے اندر کوئی کمزوری اور نقص نہیں ہے اور جسے اس کے وعدوں کو پورا کرنے سے عاجز نہیں بنایا جا سکتا ، اُس نے جو وعدے کر رکھے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے اور اس نے وعدہ یہ کیا ہے کہ جب احزاب جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور دل ایسا معلوم ہو گا کہ چھلانگ لگا کر شاید منہ کے راستے جسم سے باہر نکلنے لگا ہے۔ اُس وقت اور اِن حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اور بشارت کو پورا کرے گا اور مومن کامیاب ہو گا کیونکہ خداتعالیٰ کا یہی وعدہ ہے (مگر شرط یہ ہے کہ آدمی حقیقی مومن ہو)کہ پھر کوئی غیر طاقت اُس کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جنگ احزاب کے ذکر کے قریباً وسط میں قرآن کریم نے اس آیۂ کریمہ کو رکھا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:۲۲)
دراصل ظاہری سامانوں کی کمی اور دُنیوی لحاظ سے کمزوری کی انتہا کا نقشہ جنگ احزاب نے ہمارے سامنے کھینچ دیا ہے اور ایک مومن کے ایمان کے حسن کا نظارہ اس موقعہ پر بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کی تفصیل میں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے بعد میں جاؤں گا۔
ہمیں یہاں بنیادی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ جب اور جس وقت اس قسم کے حالات پیدا ہوں گے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اور جس وقت اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی غیر پر بھروسہ نہ کرنا اُس وقت دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُس وقت سامنے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے جو خداتعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والا ہے اُس وقت یہ خیال نہیں کرنا کہ ہمارے پاس بندوقیں نہیں یا ہمارے پاس توپیں نہیں یا ہمارے پاس بحری بیڑہ نہیں ہے یا ہمارے پاس ہوائی جہاز نہیں(اور ’’نہیں‘‘ سے مراد یہ نہیں کہ بالکل نہیں ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں کم ہیں) اُس وقت یہ یاد رکھو کہ اگر ساری دُنیا کے ہوائی جہازوں کو جمع کر دیا جائے اور دُنیا کے بحری بیڑے سمندر میں اکٹھے ہو جائیں اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم نشانہ بنانے کے لئے تیار ہو جائیں اور ساری دُنیا کے دوسرے ہتھیاروں کو بھی ایک محاذ پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا لیا جائے تب بھی وہ سارے کے سارے خدائے قادر و توانا کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ فتح تعداد کی وجہ سے یا سامانوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتی وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے۔
دوسری جنگ ِ عظیم کے شروع میں ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کے پاس بے حد سامان تھا۔ اتحادی اس سے لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن خداتعالیٰ پر تو انہوں نے بھروسہ نہیں کیا۔ کوئی اَور خوبی ہوگی جو ہمیں نظر نہیں آئی اللہ تعالیٰ کو نظر آئی۔ ہٹلر سے شاید انسانیت کو اس سے زیادہ دکھ پہنچتا جو اس کے مخالفین کی فوجوں سے پہنچا ہے اس واسطے جو تھوڑا دُکھ پہنچانے والا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے کامیاب کر دیا اور جو لوگ زیادہ دُکھ پہچانے والے بن سکتے تھے، اُن کو ناکام کر دیا۔
غرض یہ باتیں خدا کے علم میں ہیں۔ ہم تو صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم غیب کا علم نہیں رکھتے لیکن خداتعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے۔ ہم کچھ اندازے لگا لیتے ہیں۔ اصل علم تو خداتعالیٰ کو ہے۔ یہاں امت مسلمہ کا ذکر ہے اور اصل سوال یہاں اللہ کی ذات اور اُسے یاد رکھنا ہے اُس کی صفات پر ایمان لانا اور اس بات پر ایمان لانا کہ اُسے دھوکہ نہ دیا جائے کیونکہ وہ علیم دھوکہ میں نہیں آسکتا۔ یہاں یہی کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے مدد کی کیونکہ وہ بصیر ہے وہ جانتا ہے کہ تمہارے عمل کیسے ہیں۔ اگر تمہارے عمل ٹھیک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت یعنی شریعت اسلامیہ کے مطابق ہوئے تو اس کے وعدے پورے ہوں گے۔ پھر دُنیا کی کوئی طاقت ان وعدوں کے پورا ہونے میں روک نہیں بن سکتی لیکن اگر انسان خود مرنا چاہے اور اس وقت کے منافقوں کی طرح خداتعالیٰ کو چھوڑنا چاہے تو پھر خداتعالیٰ پر شکوہ بے جا ہے قصور اپنا ہے۔ اُس پر کیا الزام دھرا جا سکتا ہے۔
پس آج ہمارے ملک کے حالات جنگ احزاب کے حالات سے ملتے جُلتے ہیں۔ گو اُن میں زیادہ شدت تھی اِن میں ابھی اتنی شدت نہیں پیدا ہوئی لیکن یہ حالات اُن سے بہت ملتے جُلتے ہیں چنانچہ پاکستان کے ایک حصے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور دوسرے حصے کو بھی قریباً قریباً ایک حصے میں عملاً جنگ شروع ہو گئی ہے اور دوسرے کے متعلق آج ہی کی خبر ہے کہ بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی مظلومیت سے باز آجائے ورنہ ہم اپنے ظلم میں اَور بھی زیادتی کریں گے۔ اب جو مظلوم ہے وہ اپنی مظلومیت سے کیسے باز آجائے؟ اس کو تو تم باز رکھ سکتے ہو۔ تم اس پر ظلم کرنا چھوڑ دو تو وہ مظلوم نہیں رہے گا۔ پاکستان تو اپنا دفاع کر رہا ہے۔ پاکستان نے تو حملہ نہیں کیا۔ پاکستان نے تمہارے ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تم نے پاکستان میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تم نے فسادیوں کا ساتھ دے کر ایک وقت تک دُنیا کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی کہ باغی ہیں اور حق پر ہیں اور پاکستان نے ان بعض پاکستانیوں کے حقوق نہیں دئیے اس لئے وہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ فسادی کی عقل میں فتور آجاتا ہے۔ یہ جو غیر ملکوں کے اخبار اور بی بی سی اور دوسرے براڈ کاسٹنگ کرنے والے ذرائع ہیں وہ ان کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے شور مچا دیا کہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں پر ظلم کر رہی ہے۔ کہاں ظلم کر رہی ہے حکومت؟ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ اُن پر ہم ظلم کیسے کر سکتے ہیں مگر تم نے جو فتنہ پیدا کیا ہے اور فساد پیدا کیا ہے اور تم نے ایک مختصر سے گروہ میں بغاوت کی ایک رَو پیدا کی ہے اس کا ہم مقابلہ کریں گے کیونکہ دُنیا کی کوئی عقل یا دُنیا کا کوئی اخلاق یا دُنیاکا کوئی قانون یا دُنیا کی کوئی شریعت یہ نہیں کہتی کہ باغی جو مرضی کرتا رہے اس کے خلاف کچھ نہیں کرنا۔ جو TREASON(ٹریزن) کرنے والا ہے اس کو TREASON(ٹریزن) کی سزا ملنی چاہئے۔ جو بھلا مانس ہے اسے حقوق دینے چاہئیں مگر باغی کا صرف یہ حق ہے کہ اس کو پکڑ کر فساد سے روک دیا جائے۔
بہرحال دُنیا میں انہوں نے بڑا شور مچایا اور بہت پروپیگنڈا کیا۔ باہر کے اخبار ہمارے مخالف ہو گئے۔ غیر ملکی حکومتوں کو بھی یہی سمجھ آرہا تھا کہ شاید پاکستان ہی اس مسئلے کا ذمہ دار ہے۔ مگر ابھی پچھلے چند دنوں سے دُنیا کی آنکھیں کھلنی شروع ہوئی ہیں۔ ہماری حکومت نے بڑا اچھا کیا ہے غیر ملکی صحافیوں کو محاذ جنگ پر لے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں یہ دیکھ لو وردیوں کے اندر پاکستان پر حملہ آور بھارتی جو لاشیں چھوڑ گئے ہیں وہ مکتی فوج کی ہیں یا فلاں بھارتی برگیڈ یا فلاں فلاں بھارتی ڈویژن کی ہیں۔ یہ ان کے ہتھیار ہیں ان کو بھی دیکھ لو۔اب انہوں نے رپورٹیں کرنی شروع کی ہیں چنانچہ بی بی سی جو اس سے پہلے ایک لفظ بھی معقولیت کا نہیں کہا کرتا تھا(مَیں تو اس کی خبریں نہیں سُنتا کسی نے مجھے بتایا ہے کہ) کل اس نے کہا ہے کہ یہ جو مکتی فوج ہے ان کے پاس ہوائی جہاز کیسے آگئے؟ ان کے پاس ٹینک کیسے آگئے؟ اب انہوں نے (یعنی بی بی سی والوں نے) کہا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں(ابھی وہ ہزاروں تک آئے ہیں ڈویژن پر آجائیں گے دو چار دن میں) بھارتی فوج پاکستان کے اندر گھس کر حملہ کر رہی ہے۔ اسی طرح ان کے اخباروں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ظالم اور حملہ آور بھارت ہے۔ لیکن یہ آپ یاد رکھیں کہ اگر سارا بھارت (خدا نہ کرے) دو منٹ کے لئے بھی پاکستان کی سرحدوں کے اندر داخل ہو جائے اور بھارت کے اندر کوئی شخص بھی نہ رہے (میں نے یہ فرض کیا ہے عملاً تو ہو نہیں سکتا) پھر بھی اندرا گاندھی نے یہی کہنا ہے کہ ہمارا کوئی آدمی پاکستان کی حدود کے اندر نہیں گیا۔
اندرا گاندھی اور اس جیسے دماغوں کے لئے بھی ہم دُعا کرتے ہیں کیونکہ اسلام نے ہمیں کسی سے دشمنی نہیں سکھائی۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ جو غلط راہیں وہ اختیار کر رہے ہیں جو غلط بول وہ بول رہے ہیں کہ جو غلط خیالات اُن کے دماغوں میں ہیں۔ جن غلط اعمال کا مظاہرہ وہ ہماری سرحدوں پر کر رہے ہیں، ان غلطیوں سے بچنے کی اور اپنی اصلاح کرنے کی اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے غضب کے نیچے آئے اور جہنم میں دھکیل دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کا عبدِ مومن اور عبدِ محسن بنے اور خداتعالیٰ کے پیار کو اس دُنیا میں بھی پائے اور اُس دُنیا میں بھی پائے۔ اس لئے ہماری یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور اللہ تعالیٰ ان کے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کر کے انہیں اپنے پیار کا مستحق بنائے تاکہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ کسی دوسرے ہمسایہ ملک پر بھی ظلم کرنے والے نہ بنیں۔ ان کے اپنے ملک میں بھی بعض لوگ اچھوت نہ رہیں بلکہ سارے ’’انسان‘‘ بن جائیں جن کی عزت اور احترام ہر دوسرے انسان پر فرض کیا گیا ہے۔
ہماری یہ دُعائیں ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری یہ دعائیں قبول ہوں اور ہماری یہ ذمہ داریاں ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے کہ جس وقت دُنیا کا کوئی وسیلہ ہمیں نظر نہ آئے اس وقت بھی ہم مایوس نہ ہوں کیونکہ ہمارا وسیلہ اور سہارا ہمارا معاون اور مددگار اور ہمارا دوست اور ولی اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو طاقت ہے دُنیا کے سارے مادی سامان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ سارے مادی سامان تو اس کے غلام ہیں۔
پس ہماری جو ذمہ داریاں ہیں وہ ہمیں نبا ہنی چاہئیں۔ ہمارے دلوں میں شیطان جو مایوسی پیدا کرنا چاہتا ہے ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔ اگر سرحدوں پر موت ہمارے سامنے کھڑی ہو تو دلیری کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم اس کی طرف آگے بڑھ جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قتل اور موت سے تمہارا فرار تمہیں نفع نہیں دے سکتا۔ اس لئے جو چیز ہمیں نفع ہی نہیں دے سکتی وہ ہم کیوں اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم شہادت کے لئے تیار ہو جاؤ گے تو تمہیں دُنیا کی کوئی طاقت نہیں مار سکتی، تم کامیاب ہوئے تب بھی زندہ اور شہید ہوئے تب بھی زندہ۔ پاگل ہے وہ شخص جو شہید کو مُردہ سمجھتا ہے اور وہ اس لئے پاگل ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی یہیں اس دُنیا میں ختم ہو گئی۔ نہیں! یہ زندگی اس دُنیا میں ختم نہیں ہوئی۔ کیا وہ شخص مظلوم ہے؟ کیا وہ شخص گھاٹے اور نقصان میں ہے جسے ایک نہایت بوسیدہ اور متعفّن اور بدبو دار جگہ سے اُٹھا کر ایک شاندار محل کے اندر بھیج دیا جائے۔ جن میں نہریں بہتیں ہوں اگر نہیں تو وہ شہید کیسے مظلوم بن گیا یا گھاٹے میں پڑنے والا بن گیا جو اس دارِ ابتلاء میں سے نکالا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے پیار کی جنتوں کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ نیکیاں، بدیوں کو دھو ڈالتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار پر انسان کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ ہم تو ظاہر پر پابندی لگاتے ہیں۔ باطن پر نہ ہم پابندی لگا سکتے ہیں اور نہ یہ ہمارا حق ہے یعنی ہمیں اس کی طاقت ہے نہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حق دیا ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہہ وسلم نے فرمایا ہے بعض کنچنیاں بھی بعض نیکیوں کی وجہ سے جنت میں چلی جائیں گی۔ اسی طرح آپ نے دوسرے گناہ گاروں کے نام لئے ہیں کیونکہ جنت کے دروازے اللہ تعالیٰ کی رحمت کھولتی ہے انسان کا عمل نہیں کھولتا یہ بات نہیں بھولنی چاہئے۔
اس لئے اگرچہ بظاہر دنیوی لحاظ سے، مادی اصول کے مطابق حالات پریشان کن ہیں۔ جب ہم مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے لیکن جب ہم ان مادی اشیاء سے اپنی نظریں اُٹھا کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو آسمان کے اوپر ہمیں خداتعالیٰ کے پیار کا جلوہ نظر آتا ہے۔ جب ہم دُنیا کی ڈرانے والی آوازوں سے اپنے کانوں کو بند کر لیتے ہیں تو ہمارے کانوں میں خداتعالیٰ کی پیاری آواز آتی ہے۔’’گھبراتے کیوں ہو؟ اِنِّی قَرِیْبٌ میں تو تمہارے پاس کھڑا ہوں۔‘‘ پھر تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے کہ ہمارے لئے اسی کی رحمت اور فضل نہ کہ ہمارا کوئی عمل اس کی جنتوں کے، اس کے پیار کے اور اس کی رضا کے دروازوں کو کھولنے والا ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ۲ تا۴)
ززز

ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور
استحکام کے لئے اپنا سب کچھ وقف کر دے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:-

اس کے بعد فرمایا:-
پہلے تو میں ضمناً یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کے باہر بھی اور پاکستان کے اندر ایک حصّہ میں قرآن کریم اور اس کے انگریزی ترجمے کی بڑی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اس لئے ہم نے دو سائزوں میں قرآن کریم انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک تو بالکل چھوٹا سائز ہے جو نوجوانوں اور طالب علموں کے لئے ہے، انگریزی ترجمے والا قرآن کریم زیادہ تر مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ اور یورپ وغیرہ میں بھیجا جائے گا۔ یہاں بھی یونیورسٹی کے طلبہ وغیرہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس کو پسند کرتا ہے چنانچہ ان کے لئے متن اور انگریزی ترجمہ چھوٹی حمائل کی شکل میں تیار کیا گیا تھا۔ وہ اب چھپ چکا ہے۔ الحمد للہ اور اس کی قیمت بھی یہاں صرف چار روپے رکھی گئی ہے پس چار روپے میں قرآن کریم کا متن اور ترجمہ مل جائے گا اور باہر کے ممالک میں اس کی قیمت صرف پانچ شلنگ رکھی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں قریباً اڑھائی یا پونے تین روپے قیمت ہو گی۔ جب ہم نے نمونے نکالے تو باہر کے ملکوں سے بھی مشورہ کیا تھا چنانچہ ایک ملک نے کہا کہ دس ہزار کے قریب وہاں کھپت ہو جائے گی۔
دوسرا حمائل کے سائز کا ہے اور یہ پہلے سائز سے دُگنا ہے۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ وہ کل سے چھپنا شروع ہو جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سب خیر رکھے تو پندرہ بیس دن کے اندر اندر وہ بھی انشاء اللہ چھپ جائے گا۔ ہم قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کے یہ دونوں سائز بیس بیس ہزار کی تعداد میں چھپوا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ قرآن کریم کا متن بچوں کے لئے بھی اور بڑوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ یہ بھی اس وقت قریباً نایاب تھا اور انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا اور جماعت اس سے فائدہ اُٹھا سکے گی۔
اس وقت کے ہنگامی حالات میں بھی ہم قرآن کریم کی برکت سے اُمید رکھتے ہیں۔ یعنی اس خواہش کے نتیجہ میں کہ قرآن کریم کثرت سے شائع ہو اور اُسے دُنیا میں پھیلایا جائے اور لوگ اس کی طرف توجہ کریں اور اس کو غور سے پڑھیں۔ اس کا ترجمہ جانیں قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کوئی شخص کسی غیر کا محتاج نہ رہے اور یہ بڑا ضروری امر ہے کیونکہ اگر ہر شخص ترجمہ سمجھنے کے لئے کسی دوسرے کا محتاج ہو جائے تو اس سے بڑا فتنہ پیدا ہو جاتا ہے۔
پس ہر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہونا چاہئے۔ اُردو میں تو تفسیر صغیر کی شکل میں بڑا اچھا ترجمہ موجود ہے۔ دوست اس کی خرید کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنی دینی چاہئے۔ لیکن یہ اُردو ترجمہ اتنا عجیب ہے کہ ہم نے جماعت سے باہر اپنے دوستوں کو جب یہ دیا تو کئی ایک نے کہا ہے کہ ہم تو اس کو رات کو بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ غرض یہ ترجمہ بڑا مفید ہے۔ جماعت کو بھی اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے بلکہ زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہئے پس اس نیت کے ساتھ قرآن کریم کی برکات کو عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان ہنگامی حالات میں بھی اپنی برکتوں سے ہمیں نوازے گا۔
اس وقت حالات نے انتہائی شدّت تو اختیار نہیں کی لیکن یہ ایسے بھی نہیں کہ ہم لاپرواہ ہو جائیں۔ اس لئے ہر پاکستانی خصوصاً ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اپنی دُعاؤں اور اپنی محنت کے ساتھ اور اپنی جدوجہد کے ذریعہ اور اپنے کام میں زیادہ مہارت کا مظاہرہ کر کے استحکام پاکستان کے لئے کوشاں رہے اور وہ ملک کی سلامتی اور ملک کے استحکام اور ملک کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنی زندگی کی ہر گھڑی خرچ کر رہا ہو۔ اگر حکومت کو کاروں اور موٹر گاڑیوں کی ضرورت پڑے تو خوشی سے دے دینی چاہئیں۔ ابھی کاریں تو شاید لینی نہیں شروع کیں۔ سُنا ہے خاص قِسم کی گاڑیاں لے رہے ہیں پس قوم اور ملک کو جن کی ضرورت ہے۔ وہ گاڑیاں وہ لے جائیں گے اور ہمیں بشاشت کے ساتھ دے دینی چاہئیں۔ ہمیں جو گاڑیاں ملیں جو کپڑے ملے یا جو مال و دولت ملا، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے جس خدا نے پہلے دیا وہ آج بھی دے گا اور کل بھی دے گا۔ پھر ہمیں خوف کس بات کا ہے اور گھبراہٹ کس بات کی ہے۔
چونکہ یہ ہنگامی حالات ہیں۔ ہر فرد واحد کو قوم کے استحکام اور قوم کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنا سب کچھ اپنی استعدادوں اور دعاؤں سمیت قوم کو پیش کر دینا چاہئے اور حکومت سے پورا تعاون کرنا چاہئے۔
اس لئے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا جائے پھر جیسا کہ ہماری دُعا ہے جب یہ ہنگامی حالات ختم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے لئے غیرمعمولی خوشیوں کے سامان پیدا کر دے تو پھر ہم خوشی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ چھلانگیں لگاتے ہوئے اپنے جلسہ میں شامل ہو جائیں گے۔
ہمیں بنیادی طور پر عمل صالح کا حکم دیا گیا ہے اور عمل صالح اس نیک کام کو کہتے ہیں جو موقع اور محل کے مطابق ہو۔ حالات بدلتے ہیں بعض دفعہ صبح سے شام تک حالات بدل جاتے ہیں۔ دیکھو دن کے حالات میں تہجد کو مستحب قرار دے کر اس کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی یہ رات کے حالات میں ہے پھر دن کے حالات میں کہا کہ کام کرو۔ رات کے حالات میں کہا کہ اس کو ہم نے تمہارے لئے آرام اور سکون اپنی طاقت کے بحال کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ جہاں تک ہمارے جسم اور ہمارے جسم کی ضرورتوں کا سوال ہے اگر آپ قرآن کریم پر گہرا غور کریں تو آپ کو ہزاروں مثالیں ملیں گی پس بدلے ہوئے حالات میں دن رات کے حالات بدل جاتے ہیں اور دن اور رات کے بدلے ہوئے حالات میں اسلام نے بدلے ہوئے حکم دئیے ہیں اور اس طرح بڑی مہربانی کی اور بڑا پیار کیا ہے۔ اسلام کی ساری تعلیم پڑھیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ فکر پیدا ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا کس زبان سے شکر اد ا کریں گے جس نے ہم پر بہت سارے اکٹھے فضل نازل کئے ہیں اور ہمیں اپنے احسانوں کے نیچے دبا کر ایک بڑی پیاری زندگی دے دی ہے۔
پس ان بدلے ہوئے حالات میں جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا گیا ہے اور انشاء اللہ جب یہ حالات بدل جائیں گے تو جیسا کہ میں نے کہا ہے ہنگامی حالات کے بعد غیر معمولی خوشیوں اور کامیابیوں کے حالات پیدا ہوں گے پھر ہم اپنے ان حالات کے مطابق کام کریں گے۔ لیکن اس وقت ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کو اپنا سب کچھ وقف کر دینا چاہئے اور میں ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے اور جماعت کا امام ہونے کی حیثیت سے جب یہ کہتا ہوں کہ اپنا سب کچھ وقف کر دو تو میرا مطلب ہے کہ تمہاری دُعائیں بھی اسی کے لئے وقف ہوں اور تمہارا حسنِ سلوک بھی اسی کے لئے وقف ہو۔
پس ایسا ماحول پیدا کر دو کہ دشمن جو ہمیں مٹانا چاہتا ہے وہ مایوس ہو جائے اور فرشتے جو ہماری طرف بڑھنے کے لئے تیار ہیں وہ کہیں کہ یہی وہ قوم ہے جس کی ہمیں مدد کرنی چاہئے۔ اور ان کی نصرت کے لئے آنا چاہئے۔
پچھلے خطبہ کے تسلسل میں میں یہ خطبہ دے رہا ہوں۔ میں نے پچھلے خطبہ میں مضمون کا ایک خاکہ پیش کیا تھا اور میںنے بتایا تھا کہ ان آیات میں جن میں سے ایک آج میں نے پڑھی ہے۔(باقی میں نے اکٹھی کر کے اپنے انتخاب کے ساتھ پچھلے خطبہ کے موقع پر پڑھی تھیں) یہ بتایا گیا ہے اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کوئی قصہ اور کہانی نہیں ہے بلکہ اس کی ہر چیز پُر از حکمت اور سبق آموز ہے اور اس میں پیشگوئیاں ہیں مثلاً جنگ احزاب کا جب ذکر کیا تو اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ پر ایسے حالات بھی آئیں گے اور اُس وقت اگر اسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے گی تو اسی قسم کی رحمتوں اور فضلوں کے سامان پیدا کئے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں( میں نے شروع کا ایک حصہ لیا ہے اُن آیات میں سے جو میں نے پہلے پڑھی تھیں)ایک مضمون تو وہ بیان کیا ہے جو اس موقع کا تھا اور دوسرے ایک بڑا عجیب فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔
موقع کا مضمون تو یہ ہے کہ سارے کفار اکٹھے ہو گئے اور اکثریت تھوڑوں کو مٹانے کے لئے جمع ہو گئی اور وہ بڑے سازو سامان کے ساتھ آئے۔ یہودیوں کے دو قبیلے اور چار پانچ بڑے بڑے طاقتور قبائل کفار مکہ کی قیادت میں وہاں جمع ہوئے اور مسلمانوں کو گھیر لیا اور مجبور کیا۔ یہودیوں میں سے ایک قبیلے نے جو پہلے غداری کر چکا تھا اور اپنے عہد کو توڑ چکا تھا اس قبیلے کو جس نے ابھی تک عہد نہیں توڑا تھا، مجبور کیا کہ وہ اس نازک وقت میں اپنے عہد کو توڑ کر اسلام کے ساتھ غداری کرے اور اس طرح وہ طرف اور جانب جو محفوظ سمجھی گئی تھی ننگی ہو گئی اور اس سے ایک اَور ابتلاء پیدا ہو گیا۔
غرض ابتلاء پر ابتلاء آرہا تھا یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آیا کہ صحابہ کہتے ہیں کہ انہیں تین دن تک کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر پتھر باندھ لیا۔ چنانچہ ظلم جب اپنی انتہاء کو پہنچا اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک بڑا ہی حسین جلوہ نظر آیا، ایک نہیں بلکہ دو بڑے حسین جلوے دیکھنے میں آئے۔ (جلوے تو بہت تھے مگر یہاں دو کا اصولی طور پر ذکر کیا گیا ہے)۔
ایک یہ کہ سخت سردی کی رات میں خداتعالیٰ نے اس رات سے بھی زیادہ سخت ٹھنڈی اور تیز ہوا چلا دی۔ اس ہوا کی سردی کی شدت کفار کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی اور اس کی تیزی نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا یہاں تک کہ ان کے خیموں کی ’’کِلّیاں‘‘ اُکھڑ گئیں۔ طنابیں ٹوٹ گئیں۔ خیمے نیچے آپڑے۔ آگیں بجھ گئیں، ہانڈیاں لڑھک گئیں، ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ ایک قیامت تھی جس نے کفار کے دل ہلا دئے اور اپنی توہّم پرستی کے نتیجہ میں انہوں نے کہا مارے گئے! مارے گئے!! چنانچہ ہر قبیلے کے سردار نے اپنے اپنے قبیلے کے آدمیوں کو بلایا اور کہا دوڑو بھاگنے کی کرو۔ بچنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں رعب ڈالا گیا۔ اُن کے دلوں میں آپس میں لڑائی کے سامان پیدا کر دئے گئے۔ میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ میں اصولی چیز کی طرف اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
بنیادی طور پر اس واقعہ میں دو اصول بیان ہوئے ہیں اور امت مسلمہ کو وہ بھولنے نہیں چاہیں۔ ورنہ ہمارے لئے خیرو برکت کے سامان پیدا نہیں ہو سکتے۔
ایک یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ انسانوں میں سے اکثر اپنی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً ہوا کو خداتعالیٰ نے انسان کے لئے تو مسخر کیا ہے لیکن ہوا اس کے حکم سے باہر ہے۔ مثلاً یہ ہوا ہی ہے جس کے استعمال سے ہم ہوائی جہاز چلا رہے ہیں۔
پس خداتعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں نے ہوا کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے کیونکہ اگر وہ انسان کے لئے مسخر نہ کی جاتی اور انسان کو یہ عقل نہ دی جاتی کہ وہ اپنے فائدہ کے لئے اسے استعمال کرے تو آج ہوائی جہاز نہ بنتے۔
اب بعض انسان یہ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ میں یہ تو طاقت تھی کہ انسان کے لئے اس نے ہوا کو مسخر کر دیا لیکن اس میں یہ طاقت نہیں کہ خود اس کا حکم ہوا پر جاری ہو۔ گو ایسا سمجھنا بڑی حماقت ہے وہ ہوا جس سے کفار سانس لے رہے تھے اور زندگی اور طاقت حاصل کر رہے تھے اور اس وجہ سے طبیعتوں میں قوت اور بشاشت کا احساس تھا اور سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کو مٹا دیں گے۔ اسی ہوا کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جس طرح میں تجھ سے زندگی کے سامان پیدا کرتا ہوں اسی طرح میں تجھ سے آج ہلاکت کے سامان پیدا کروں گا اور پھر خدائے قادر وتوانا نے اس ہوا کے ذریعہ کفار کے کیمپ میں ایسی گڑ بڑ مچا دی جس کی وجہ سے ان کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہو گیا۔
پس یہاں ایک تو یہ اصول بتایا گیا ہے کہ تمہارے لئے ان چیزوں کو مسخر تو کیا گیا ہے لیکن تمہاری طاقت سے بے شمار گنا زیادہ وسعت کے ساتھ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں۔ مادی اشیاء پر انسان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی حکومت زیادہ چلتی ہے۔ انسان کی حکومت تو کبھی چلتی ہے اور کبھی نہیں چلتی۔ جس ہوا سے سانس لے کر ابو سفیان اپنی زندگی کا سامان پیدا کر رہا تھا اس ہوا سے وہ اس رات کو اپنی خوش حالی کا سامان نہیں پیدا کر سکا۔ غرض مادی اشیاء پر اصل حکم اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے۔
دوسرے اس میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ مادی سامانوں کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے مگر تم ان کا ادراک نہیں رکھتے اور جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا میں یہی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی ایسی بے شمار مخلوق ہے جنہیں ہم اس کی قدرت کی لہریں بھی کہہ سکتے ہیں اور جب وہ ایک جماعت کے فائدے کے لئے حرکت میں آتی ہیں تو انسان کی وہ متحد قوتیں جو اللہ کے غضب کے نیچے ہیں ان کی ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتی ہیں۔
پس یہاں بتایا کہ مادی سامان بھی خداتعالیٰ کے منشاء کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور دوسرے اصولی طور پر یہ بتایا کہ محض مادی سامان نہیں بلکہ غیر مادی سامان بھی ایسے ہیں کہ تمہاری مادی حِسیّں ان کو محسوس نہیں کر سکتیں۔ ان کا علم نہیں پا سکتیں اللہ تعالیٰ ان سے بھی کام لیتا ہے چنانچہ مادی اور غیر مادی سامانوں کے ساتھ اس ایک رات میں ان چند ہزار مظلوموں کی حفاظت کی گئی اور وہ ظالم دشمن جو اپنے زعم میں بڑا طاقتور تھا اور ایسی نیت کے ساتھ آیا تھا کہ ان مظلوم مسلمانوں کو مٹا دے گا۔ ان ظالموں کو جن کی تعداد کہیں زیادہ، جن کے سامان کہیں زیادہ، جن کی جسمانی طاقت فردًا فردًا کہیں زیادہ تھی کیونکہ وہ بڑے تیار ہو کر اور ڈنڈ پیلتے ہوئے آئے تھے فرشتوں نے انہیں پکڑا اور ان کی کلائی مروڑ کر رکھ دی۔ خداتعالیٰ نے ان کو مادی اور غیر مادی سامان سے ہلاک کر دیا اور مسلمان کے لئے مادی اور غیر مادی سامانوں سے خوش حالی اور کامیابی اور عزت اور استحکام کے سامان پیدا کر دئیے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو شروع یہاں سے کیا ہے کہ دیکھو میں نے تمہارے اوپر بڑی نعمت، بڑے فضل اور رحمت کو نازل کیا ہے۔ اس وقت جب کہ چاروں طرف سے کفار کے لشکروں نے تمہیں آگھیرا تھا اور ظاہری طور پر تمہارے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ تمہارے پیچھے وہ یہود قبیلہ تھا جس نے تمہارے ساتھ عہد کیا ہوا تھا انہوں نے اپنے عہد کو توڑا اور تم چاروں طرف سے گِھر گئے۔ ان حالات میں( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں نے تمہاری امداد کی اور کی بھی مادی سامانوں کے ساتھ بھی اور غیر مادی سامانوں کے ساتھ بھی۔مادی سامان بھی وہ جن پر تمہاری حکومت نہیں چلی۔ خداتعالیٰ کا حکم آیا اور اس نے ہوا کا مزاج بدل دیا۔ سردی اور ہوا کے چلنے کی تیزی میں شدت پیدا کر دی اور پھر ایسے سامان تھے جن کا تم کو پتہ نہیں لگا۔ مثلاً دلوں میں رُعب ڈال دیا۔ صرف کفار کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھوڑوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا اور اونٹنیوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا تھا اور یہ غیر مرئی طاقتیں تھیں۔ غیر مرئی لشکر تھے جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے تھے۔ ایک طرف وہ مومن( منافق کا یہاں ذکر نہیں ہے) کے دل کو مضبوط کر رہے تھے اور دوسری طرف کافروں کے دل میں رعب ڈال رہے تھے اور بزدلی پیدا کر رہے تھے۔ ان کے گھوڑے بے قابو ہو رہے تھے۔اونٹنیاں بھاگنے کو تیار تھیں۔ وہ لاؤ لشکر اور وہ سامان اور وہ دولت اور وہ گھوڑے اور وہ اونٹنیاں اور وہ ہتھیار جن کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں گے اور اسلام کو مٹا دیں گے۔وہی چیزیں ان کے خلاف ہو گئی تھیں۔ وہ بڑے دل گردے کے ساتھ آئے تھے لیکن خود ان کے دلوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا چنانچہ وہ جو اپنے آپ کو سردار سمجھ کر آیا تھا۔ بھاگ نکلنے میں سب سے آگے تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسے حالات پیدا ہوں تو امت مسلمہ کو خواہ وہ کسی زمانے یا قوم سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مادی سامان پر بھی حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہے اور وہ غیر مادی سامانوں کے ساتھ بھی اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور اپنے پیاروں کے دشمنوں کی ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے۔ اس لئے جہاں مادی طاقت میں فرق نظر آئے جیسا کہ مثلاً اب ہمیں نظر آرہا ہے۔ اگر بھارت اسی طرح اپنے فتنہ و فساد میں بڑھتا رہا تو جس طرح اس نے وہاں حملہ کر دیا ہے وہ یہاں بھی حملہ کر دے گا۔ کئی لوگ جو اندر سے ہمارے مخالف ہیں اور ظاہری طور پر وہ ہمارے دوست اور اپنی طرف سے ہماری خیر خواہی کی باتیں کر رہے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ تمہارے دائیں ہاتھ پر حملہ ہوا ہے تمہارا بایاں ہاتھ کیوں ہلتا ہے اس احمق کو ہم کیا کہیں۔جب کسی کے اوپر حملہ ہو تو دشمن یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو تمہاری دائیں کلائی پکڑ کر اس کو توڑ دینے کی کوشش کی ہے تم اپنے بائیں ہاتھ سے مکّا کیوں مار رہے ہو۔ تمہارے بائیں ہاتھ کو تو میں نے کچھ نہیں کہا یا میں نے تمہاری لات کی ہڈی توڑنے کے لئے ضرب لگائی ہے تم اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا گلا کیوں پکڑ رہے ہویا میں نے تمہارے سر پر مارا ہے۔ تمہاری لاتوں نے اپنا زاویہ بدل کراپنی حفاظت کا سامان کیوں کیا ہے۔ اس سے زیادہ احمقانہ باتیں آج ہمارا دشمن کر رہا ہے اور کر اس لئے رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مادی سامان اس کے پاس زیادہ ہیں۔ جن میں تعداد بھی ہے اور شاید وہ یہ بھی سمجھ رہا ہے کہ غیر مادی سامان بھی ان کے ساتھ ہے یعنی ایسی طاقت جو ظاہر میں ان کے ساتھ نہیں لیکن اندر سے ان کے ساتھ ہے ان کی شہ پر وہ کہہ رہے ہیں کہ بس آج موقع ہے پاکستان کو ختم کر دو۔
مسلمان کو خداتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو وہ خدا جس نے اپنی طاقتوں کے جلوے احزاب کی جنگ کی اُس آخری رات میں دکھائے تھے جس نے کافروں کو وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اُس قادر و توانا کی طاقت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ اگر تم اس کی رحمت اور فضل کو پا نہ سکے تو یہ تمہاری کمزوری ہو گی۔ تمہارے ایمان کی کمزوری ہو گی تم اس کے شکر گزار بندے نہیں بنے ہو گے۔ تم نے اس کی صفات کی معرفت نہیں حاصل کی ہوگی۔ تمہارا ایمان پختہ نہیں ہو گا۔ تمہیں یہ یقین نہیں ہو گا کہ خداتعالیٰ نے امت مسلمہ سے جو وعدے کئے ہیں وہ پورا کرے گا لیکن اگر تمہارے دل میں یہ پختہ یقین ہو کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا اور وہ پورا کرنے پر قادر ہے اور جو بشارتیں اس نے دی ہیں، ان بشارتوں کے ہم بھی وارث ہیں اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتے ہو گے اگر تم اس پر توکّل رکھو گے اگر تم شرک نہیں کرو گے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف تمہاری نگاہ نہیں جائے گی۔ تو آج بھی وہ قادروتوانا خدا اپنی قدرتوں کے وہی جلوے دکھائے گا جو اس نے احزاب کی اس فیصلہ کن رات میں دکھائے تھے جس نے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کے سامان اور کافروں کے لئے ہلاکت کے سامان پیدا کر دئے تھے۔
پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شیطانی وساوس سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو اور ہمارے یقینوں کو پختہ کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا کرتا رہے اور ان اعمال میں اگر کوئی بشری کمزوری رہ جائے تو اس کی مغفرت کی چادر اُسے ڈھانپ لے اور ہمیں حقیقی معنی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بنا دے اور اس روحانی ورثے کا وارث بنا دے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا۔ (اللّٰھُمَّ آمین) (روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ۲ تا۴)
ززز






ابتلاء ، تشویش اور پریشانی کے اوقات میں
بھی مومن یقین پر قائم رہتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات پڑھیں:-

(الاحزاب:۱۱،۱۲)

(الاحزاب:۱۶تا ۱۸)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اس وقت میں مختصرًا دو بنیادی باتوں کے متعلق کچھ کہوں گا۔
ایک یہ کہ اُس قسم کے ابتلاء اور تشویش اور پریشانی کے حالات میں جیسا کہ جنگ احزاب کے موقع پر پیدا ہوئے تھے یا اُس سے ملتے جُلتے حالات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعد میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اُس وقت ایک کامل مومن اور ایک کمزور ایمان والے اور منافق کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے جو ظاہر ہو جاتا ہے کہ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا اور اللہ تعالیٰ پر اُن کا گمان دو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ان کا یقین دو مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے۔ منافق کا جو ایمان یا ایمان کی NEGATION(نیگیشن یعنی) نفی اور مومن کے ایمان کی پختگی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جس کی طرف تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا میں اشارہ کیا گیا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ منافق کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے(معاذ اللہ) جھوٹے وعدے کئے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا میں جو بنیادی بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ منافق کا خداتعالیٰ پر یقین یا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا خیال یا اس کے وعدوں کے متعلق یا اس کی قدرتوں کے متعلق یا اس کی صفات کے متعلق اس کا ایمان ایک مومن کے ایمان سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ جو منافق ہے وہ ابتلاء کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے(نعوذ باللہ) جھوٹا وعدہ کیا ہے۔ وہ یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ کوئی پیشگوئی کی گئی تھی یا کوئی وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ دُنیوی لحاظ سے بظاہر کامیابی اور بقاء اور استحکام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تو منافق کہہ دیتا ہے کہ خداتعالیٰ کا وعدہ جھوٹا ہے۔ تمہیں اس نے وعدے تو کچھ اور دئیے مگر آج کچھ اَور نظر آرہا ہے لیکن مومن ایسا نہیں ہوتا۔
اُس کے اظہار ایمان کے گو مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ تاہم ایسے حالات میں مومن تو یہ کہتا ہے(جیسا کہ بعد کی آیات میں ذکر کیا گیا ہے) کہ جو خداتعالیٰ نے وعدہ دیا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ مومن ابتلاء کا احساس رکھتے ہوئے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اور اس کے باوجود کہ شکنجے میں وہ اپنے آپ کو جکڑا ہوا پاتا ہے کہتا ہے کہ جس خدا نے ہمیں یہ فرمایا تھا کہ اس قسم کے پریشان کن حالات پیدا ہوں گے اسی نے یہ کہا تھا کہ میں ان پریشان کن حالات میں تمہیں کامیاب کروں گا اور تمہیں نجات دوں گا۔ اس واسطے پہلی بات جب پوری ہوئی تو دوسری بھی پوری ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ دشمن میرے باغ میں داخل ہوئے(بڑی وحشت کا اظہار ہے۔ اس کی تفصیل میں تو مَیں اس وقت نہیں جاسکتا۔ مختصر خطبہ دینا چاہتا ہوں۔ اگر حالات نے اجازت دی تو اسی تسلسل میں اس اختصار کی تفصیل بھی بیان کروں گا) اور میں گھبرایا۔ یہ رؤیا آپ نے عربی میں بیان فرمایا ہے۔ اس کا ترجمہ تذکرہ کے مختلف ایڈیشنوں کے صفحہ۱۸۱، ۲۲۳ اور ۲۲۶ پر چھپا ہوا ہے۔ آپ نے اس رؤیا کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ایسے حالات مَیں کہ میں خود کو اکیلادیکھتا ہوں اور کوئی مددگار اور کوئی دوست مجھے نظر نہیں آرہا۔ ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور میرے دشمن کے سر اور اس کے جوارح کاٹ کر پھینک دئیے گئے۔
اِس وقت میں ضمناً قادیان میں بسنے والے بھائیوں کے متعلق دُعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ ابھی اس جنگ کے آثار ہی تھے۔میرے خیال میں ۲۲نومبر سے بھی پہلے کی بات ہے یعنی مشرقی پاکستان پر ابھی حملہ نہیں کیا گیا تھا کہ ہمیں علم ہوا کہ قادیان میں بسنے والے عاجز درویش بھائی یہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ جنگ ہوئی تو انہیں تنگ کیا جائے گا۔ اب حالاتِ جنگ پیدا ہو گئے ہیں اب ہمارا تو ان کے ساتھ ملاپ نہیں رہا، نہ وہاں تار جاتی ہے نہ وہاں خط جاتا ہے لیکن وہ اس خدشے کا اظہار کہیں پہلے سے کر چکے ہوئے ہیں۔ اس واسطے بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری غفلتوں کو اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لے اور جو تھوڑی بہت اس نے ہمیں توفیق دی ہے اس کے حضور کچھ پیش کرنے کی اور اُسے خوش کرنے کے لئے جدوجہد کرنے کی وہ اسے قبول کرے اور جو وعدے اس نے کئے ہیں وہ تو پورے ہوں گے ہی لیکن اس نے جو وعدے کئے ہیں خدا کرے وہ ہماری زندگی میں پورے ہو جائیں۔ اس لئے دوست بہت دعائیں کریں۔
میں بھارت کو بھی ایک تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں دیکھو آج کی فوج کے پاس چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار رائفل ہے لیکن میرے اور میری جماعت کے پاس رائفل بھی نہیں ہے۔ اس واسطے میں دُنیوی طاقت کے گھمنڈمیں نہیں کہہ رہا نیز یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں کیونکہ میں سیاستدان نہیں ہوں اور نہ سیاست سے مجھے کچھ سروکار ہے بلکہ ایک عاجز درویش اور خدا کے ایک ادنیٰ بندے کی حیثیت سے انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارے ملک میں جو مسلمان بستے ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے اور ان پر ظلم کرنے کی کوشش کی تو بندوق اور سیاسی اقتدار نہ رکھتے ہوئے بھی یہ عاجز بندہ تمہیں یہ کہتا ہے کہ جس خدا پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ایمان لائے ہیں اور جس کی صفات کے شاندار مظاہرے ہم نے دیکھے ہیں۔ اسی خدا پر توکّل رکھتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے اور ان بشارتوں کو جو اس نے ہمیں دی ہیں سچا سمجھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم نے ظلم کیا اور ایذاء رسانی کی راہیں تم نے اختیار کیں تو تمہاری گردن کاٹ دی جائے گی اور تم کبھی کامیاب نہیں ہو گے۔ اس لئے تم اپنے اور اپنے بچوں اور بیویوں اور اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر اپنی رعایا میں سے جومسلمان ہیں اور بھارت میں جہاں بھی وہ آباد ہیں، ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو ورنہ اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور یہ قہر الہٰی اس قہر الہٰی کے علاوہ ہو گا جس کے تم پاکستان پر سفّاکانہ اور وحشیانہ حملہ کر کے مستحق ٹھہرے ہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ میرے ہاتھ میں تو چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار بھی نہیں۔ تم کوشش کرو کہ اس خدائے قادرو توانا کو دیکھنے کی تمہیں آنکھیں ملیں۔ جس کی قدرت کے جلوؤں نے تمہیں زندگی دی اور اس زندگی کو قائم رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر اس خدائے قادر و توانا کے غضب کی لہریں تمہارے ملک پر آگئیں تو پھر اگر ساری دُنیا کے ہتھیار بھی تمہاری حفاظت کے لئے آگئے تو وہ بھی تمہیں بچا نہیں سکیں گے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ۳،۴)
ززز


ہمیں عہد کر لینا چاہئے کہ جب تک جنگ نہیں
جیت لیتے ہتھیار نہیں ڈالیں گے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
جنگ کے دوران بعض محاذوں پر پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔ لوگ گِھر بھی جاتے ہیں، علیٰحدہ بھی ہو جاتے ہیں اور فوجیں پوری طرح احاطے اور نرغے میں بھی آجاتی ہیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اڑھائی تین سال تک محصور بھی رہے اور بعض دفعہ وقتی طور پر بالکل اکیلے بھی رہ گئے۔
(۱)’’بعض اوقات تو ایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپ کے ساتھ صرف دو آدمی ہی رہ گئے۔ (سیرۃ خاتم النبیین صفحہ۴۹۶)
(۲)’’مقدمۃ الجیش ابتری کے ساتھ بے قابو ہو کر پیچھے ہٹا اور پھر تمام فوج کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ صحیح بخاری میں ہے فَاَدْبَرُوْا حَتّٰی بَقِیَ وَحْدَہٗ یعنی سب لوگ ٹل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔(سیرۃ النبی حصہ اوّل جلد اوّل صفحہ ۳۹۱ مطبوعہ کانپور)
اور اکیلے سے یہی مراد ہے کہ آپ کے ساتھ چند ساتھی رہ گئے تھے اور پھر وہ وقت بھی گذر گیا۔ بعض جگہ غیر کی نظر میں بظاہر بڑا نقصان اُٹھایا اور دشمن کی نظر میں ایک قسم کی وقتی طور پر پسپائی ہی سمجھی گئی۔
مگر اُس وقت ہمارا محاذ زمانہ پر پھیلا ہوا تھا اور اِس وقت ہمارا پاکستان کا محاذ مکان پر پھیلا ہوا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی دشمنی شروع ہو گئی تھی اور دشمنی بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی سخت مخالفت اور دشمنی شروع ہو گئی تھی۔ شروع میں تو سمجھا یہ گیا تھا کہ جنگ کی ضرورت نہیں، ہم جنگ سے ورے ورے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور اسلام کو نیست ونابود کر دیں گے لیکن جب جنگ سے ورے ورے یہ ناکامی اسلام کو نہ ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی مہم میں کمزوری پیدا ہونے کی بجائے طاقت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو پھر ایک وقت آیا کہ دشمنوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اُنہیں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے کیونکہ اِس کے بغیر تو یہ مٹتے نہیں چنانچہ پھر جنگوں کا ایک سِلسلہ شروع ہو گیا۔ مٹھی بھر مسلمان تھے۔ ہم اگر تخیّل کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں ایک وہ زمانی محاذ نظر آتا ہے جو پہلی جنگ سے لے کر فتح مکہ کے زمانے تک پھیلا ہوا ہے اور پھر خلافت راشدہ میں دوسرے محاذ ہیں۔ زمانے کے لحاظ سے’’ایک محاذ‘‘ میں اِس لئے کہتا ہوں کہ ایک ہی چھوٹی سی فوج تھی مگر وہ فدائی تھے، وہ مجاہد تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے ہر لحظہ تیار تھے۔ تاہم اُن کا ایک مختصر سا گروہ تھا، وہی لڑتا رہا، کچھ بعد میں آنے والے اس کے ساتھ ملے لیکن وہی بنیادی گروہ تھا جنہوں نے پہلی جنگ میں بھی حصہ لیا، پھر دوسری میں بھی حصہ لیا اور پھر تیسری میں بھی حصہ لیا۔
بعد میں بھی ہمیں زمانے پر پھیلا ہوا یہی محاذ نظر آتا ہے مثلاً حضرت خالدؓ بن ولید نے کسرٰی کے خلاف ایرانؔ میں جو آٹھ دس جنگیں لڑیں ہیں اُن کے ساتھ کم وبیش اٹھارہ ہزار مسلمان سپاہی تھے۔ اُن میں سے بھی کچھ زخمی ہو گئے اور کچھ شہید ہو گئے۔ غرض یہ ایک چھوٹی سی فوج تھی، ایک چھوٹا سا گروہ تھا۔ جو آج لڑا وہی تین دن کے بعد لڑا اور پھر پانچ دن کے بعد بھی وہی لڑا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اُن کو دشمن کی نئی فوج کے ساتھ جنگ لڑنی پڑی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دو دفعہ بتایا ہے ہر دفعہ ایرانیوں کی فوج جو مسلمانوں کے مقابلے پر آئی اس کی تعداد چالیس ہزار پھر ساٹھ ،ستّر ہزار اور بعض دفعہ اسّی ہزار اور بعض دفعہ ساٹھ ہزار سے کچھ کم ہوتی تھی۔
اب یہ بھی ایک فوج کا زمانے پر پھیلا ہوا محاذ ہے۔ ہمارا مکان کے لحاظ سے پھیلا ہوا محاذ ہے۔ ہمارا محاذ کراچیؔ سے لے کر کارؔگل سے ہوتا ہوا دیناجؔ پور سے سارے مشرقی پاکستان پر پھیلا ہوا ہے۔ہر محاذ پر ہماری مختلف ٹولیاں موجود ہیں۔ پہلے ایک ہی ٹولی تھی جو زمانے میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اب ایک فوج کی مختلف ٹولیاں ہیں یاگروہ ہیں یا ڈویژن ہیں۔ یعنی فوج تقسیم ہو کر اس کی مختلف ٹولیاں ہمیں مختلف محاذوں پر نظر آتی ہیں۔ جس طرح زمانے پر پھیلے ہوئے محاذ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ دُکھ اُٹھانا پڑتا تھا اور پریشانی اُٹھانی پڑتی تھی، آج ہمیں بعض محاذوں پر مکانی لحاظ سے وہ دُکھ اور پریشانی اُٹھانی پڑی ہے۔
پس یہ خطرہ تو جنگ کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ جنگ کبھی ایک شکل اختیار کرتی ہے، کبھی دوسری شکل اختیار کرتی ہے لیکن یہ جو جھڑپیں ہیں ان سے قسمتوں کا فیصلہ نہیں ہوا کرتاجو جنگ ہے اس کے جیتنے یا ہارنے سے قسمت کا فیصلہ ہوا کرتا ہے اور جنگ جیتنے کے لئے بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اِس کے باوجود جس انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے، اِس میں ایک ذرہ بھر کمی نہیں آنی چاہئے اور نہ دِلوں میں اُداسی اورمایوسی پیدا ہونی چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکّل اور بھی زیادہ بڑھناچاہئے۔ پہلے زمانے میں تو زمانے کے لحاظ سے جو پریشانی تھی وہ زیادہ خطرناک تھی کیونکہ ساری کی ساری فوج کے لئے پریشانی تھی۔ اب ہماری ساری کی ساری فوج کے لئے پریشانی نہیں پیدا ہوئی۔ ایک حصہ ملک کے لئے پریشانی پیدا ہوئی ہے۔
اگر ہمارے اندر غیرتِ ایمانی ہے تو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ جب تک ہم جنگ نہیں جیت لیتے ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اِس کے بغیر تو پھر مسلمان کہلانے میں کوئی مزہ نہیں ہے۔ یہ یاد رکھیں(احمدی بھی! اور میرے دوسرے بھائی بھی) کہ اگر ایمان اور تقوٰی اور طہارت اور اسلام کے حق میں جو بشارتیں ہیں اُن کا ذکر ہم نے اپنی زبانوں پر اپنی مجالس میں، اپنی گفتگو میں، اپنے ریڈیو پر اور اپنے اخباروں میں کرنا ہے، تو پھر مسلمان بننا پڑے گا ورنہ ہم ان بشارتوں کے حامل نہیں ہو سکتے جو اسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ اُن وعدوں کو وراثت میں ہم تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم حقیقی طور پر ان کے وارث بنیں اگر ہم ایثار، قربانی, توکّل اور فدائیت کے ورثہ کو ٹھکرا دیں تو ورثہ میں آئے ہوئے وعدوں کو ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
یاد رکھیں کہ ہمارے پاس پہلے ورثہ پہنچا قربانی کا، ایثار کا، پہلے ہمارے پاس ورثہ پہنچا شجاعت کا، پہلے ہمارے پاس ورثہ پہنچا نڈر ہو جانے کا، اور وہ اِس وجہ سے کہ ہمارے پاس پہلے ورثہ پہنچا خداتعالیٰ پر توکّل کرنے کا اور خداتعالیٰ کے علاوہ اور کسی سے نہ ڈرنے کا۔ جب ہم نے یہ ورثے حاصل کر لئے تو اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے۔ اب بھی ہم اگر اِس ورثہ کو ٹھکرائیں نہ بلکہ قیمتی متاع سمجھ کر اپنے سینہ سے لگائے رکھیں تو خدائی وعدوں کا ورثہ ہم تک پہنچتا ہے اور اس کی بشارتیں ہمارے حق میں پوری ہوتی ہیں ورنہ نہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان بنیادی ورثوں کو ہم دھتکار دیں(نعوذ باللہ) پھر تو بشارتوں کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ بنیادی ورثہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد کو اپنے آباؤ اجداد سے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد چکر لگا کر ہر چیز قربان کر کے اسلام کے غلبہ کے لئے قربانیاں دی تھیں یعنی وہ قربانی،وہ جذبہ، وہ ایثار، وہ جہاد کا ولولہ اور شوق اور وہ جان کو کچھ نہ سمجھنے کا عزم اور وہ خداتعالیٰ ہی پر توکّل کرنا اور کسی غیر کی طرف توجہ نہ کرنا ہے۔ جب یہ ورثے ہمیں مل جائیں گے اور ہم خود کو اِس کا اہل بنائیں گے تو خداتعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کر لیں اور پھر خدائی وعدے پورے نہ ہوں لیکن اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہ نباہیں تو رحیم خدا سے ہم یہ کیسے اُمید رکھ سکتے ہیں کہ جو قربانیوں سے تعلق رکھنے والے وعدے ہیں وہ پورے ہو جائیں گے۔
ہمارا خدا رحیم ہے وہ ہمیں عمل صالح کی جزا دیتا ہے اگر انسان کا عمل صالح نہ ہو تو رحیم خدا کے وعدے پورے نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بنیادی صفت رحمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوا تو بنا دی اور سُورج کی شعاعیں بنا دیں اور سورج کی شعاعوں میں وٹامنز بنا دیں۔ بہت سارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں وہ شیشی کھول کر وٹامن کی گولی کھا لیتے ہیں یعنی وٹامن اے،بی، سی مختلف نام ہیں مگر یہ جو سورج کی کرنیں ہیں خداتعالیٰ نے ان کے اندر وٹامن رکھے ہوئے ہیں۔ جو شخص سورج کی شعاعوں میں بیٹھتا ہے وہ شاید ایک کی بجائے دو گولیاں وٹامن کی کھا لیتا ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے جلوے ہیں لیکن اُس کی صفتِ رحیمیت کا جلوہ، کچھ کر کے حق دار بننے پر منحصر ہے یعنی صفتِ رَحِیْمِیِّتْ اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونے کا جو جلوہ ہے یہ تب ہی ملے گا جب عمل صالح ہو گااور یہ جو جہاد ہے اور یہ جو ایک ابدی جنگ اسلام کی شوکت کو قائم رکھنے کی ہمارے سامنے رکھی گئی ہے اس کا تعلق عمل صالح سے ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے دیکھتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحیمیت کا جلوہ عمل صالح کے بغیر ظاہر ہو ہی نہیں سکتا۔
پس ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا چاہئے اور یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اور ہماری نسلیں اُس وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی چَین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک کہ ہماری چھنی ہوئی دولت ہمیںواپس نہ مل جائے اور یہ مشرقی پاکستان تو ایک چھوٹی سی دولت ہے جو ہم سے چِھن گئی ہے۔ ہماری دولت ساری دُنیا ہے۔ ہم نے ساری دُنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیر سے چھیننا اور شیطان کے قبضہ سے نکالنا ہے۔ ہم نے ساری دُنیا کے دلوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر اور اس کی محبت کے لئے جیتنا ہے۔ ہم ہار نہیں سکتے اور نہ ہارنے کا کوئی خیال دل میں لانا چاہئے۔
جنگوں میں وقتی طور پر پریشانیاں آتی ہیں یہ نظارے تو ہمیں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نظر آتے ہیں اور اس وجود سے زیادہ پیار خداتعالیٰ کس سے کرتا ہے۔ پس یہ وقتی طور پر جو پریشانیاں آتی ہیں یہ خداتعالیٰ کے پیار کی نفی نہیں کرتیں بلکہ خداتعالیٰ کے حسین تر پیار کے جلوؤں کے سامان پیدا کر رہی ہوتی ہیں اگر کوئی خود کو ان کا مستحق بنائے۔
یہ جلوے ہمیں قرون اولیٰ میں نظر آئے اگر کوئی آج بھی خود کو اہل بنائے تو وہ جلوے آج بھی اسے نظر آئیں گے۔ اس لئے گھبرانے کی بات نہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ہماری جماعت کا وہ حصہ جو وہاں سے ہجرت کر کے آیا تھا وہ اسی قسم کے خطرناک دَور سے گزرا ہے۔ سب کچھ وہاں چھوڑ دیا تھا اور خداتعالیٰ نے یہاں اُس سے بہت زیادہ دے دیا جو چھوڑ کر آئے تھے۔ میرے کئی زمیندار دوست جو میرے ساتھی یا شریک کار ہیں، کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے (اپنے زمانہ خلافت سے بھی پہلے کی بات ہے کہ) بعض سے میں پوچھتا تھا کہ جتنا زمین سے وہاں کما رہے تھے اس سے کم کما رہے ہو یا زیادہ وہ کہتے تھے زیادہ کما رہے ہیں حالانکہ انہیں جو زمینیں الاٹ ہوئی تھیں وہ پہلے سے کم تھیں۔ میں پوچھتا تھا واپس جاؤ گے تو وہ کہتے تھے واپس جانے کو دل تو کرتا ہے لیکن وہاں جا کر اتنی آمد نہیں ہو گی جتنی یہاں ہو رہی ہے۔
پس خداتعالیٰ نے فضل کیا اگرچہ ۱۹۴۷ء میں ہماری ساری زمین وغیرہ چھن گئی اور یہاں بظاہر کم زمین دی گئی لیکن اس میں برکت ڈال دی گئی جس سے آمد زیادہ ہونے لگی۔ جماعت کو دیکھ لیں۔ جماعت احمدیہ کی مجموعی آمد ۱۹۴۷ء سے اب تک کم از کم دس گنا بڑھ چکی ہے اور یہ میں مغربی پاکستان میں رہنے والوں کا ذکر کر رہا ہوں کوئی یہ نہ سمجھے کہ باہر کے ملکوں میں لوگ احمدی ہو گئے ہیں اس لئے آمد بڑھ گئی ہے۔ غرض مغربی پاکستان میں بسنے والی جماعت کی آمد ۱۹۴۷ء سے دس گنا زیادہ ہو گئی ہے جن میں سے ایک دوست جن پر ابھی میری نظر پڑ گئی ہے ان کی وہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن کی قیمت؍۵۰۰ یا ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر یہاں خداتعالیٰ نے انہیں لاکھوں کی جائیداد دے دی ہے۔
پس سارے اموال کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس کے پیار میں محو ہو کر اپنا سب کچھ قربان کر دے اور انسانوں میں سے ہر ایک فرد کا سب کچھ کیا ہوتا ہے یہی پانچ روپے، پانچ سو روپے، ہزار روپے، لاکھ روپے،دس لاکھ روپے یا ایک کروڑ روپے۔ تو جب ہم فرد واحد کے متعلق کہتے ہیں کہ سب کچھ قربان کر دو تو اس کا یہی مطلب ہے کہ دُنیا کی یہ دولت جو محدود ہے اور گنتی اورشمار میں آنے والی ہے اس کو قربان کر دو لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں اپنا سب کچھ دوں گا جس کا کوئی شمار نہیں اور جو غیر محدود ہے پس یہ گھاٹے والا سودا نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے خوشی اور بشاشت سے تکلیفیں برداشت کرنی ہیں اور خداتعالیٰ پر پورا توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے پہلے سے زیادہ قربانیاں دینی ہیں اور پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کو حاصل کرنا ہے۔ انشاء اللہ۔
غرض جنگ میں تو اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن ایسے حالات میں بھی جو ہمارا ردّعمل ہے خداتعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے کا اور اپنی جگہ پر اس یقین پر قائم رہنے کا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے اور یہ عزم کہ ہم اپنا سب کچھ اسلام کی شوکت اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے قربان کر دیں گے وہ تو اپنی جگہ پر ہے۔ ویسے ہمارے دل اس لئے دُکھیا نہیں کہ ایک محاذ کے اوپر ہمیں کچھ پریشانی اُٹھانی پڑی ہے۔ ہمارے دل اس لئے دُکھیا ہیں اور اس وقت بڑا ہی دُکھ محسوس کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے قریباً ۶ کروڑ مسلمانوں کو مصیبت پڑ گئی ہے اس لئے ہمارا دل دُکھتا ہے اور اگر ہمارا دل واقع میں دُکھتا ہے تو ہمیں ان کی خاطر اور بھی زیادہ قربانی دینی چاہئے۔
آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کس خطرناک مصیبت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آج صبح بی بی سی کی ایک چھوٹی سی خبر یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں دشمنوں نے قتل عام شروع کر دیا ہے۔ وہ غلط فہمیوں میں مبتلا بنگالی مسلمان جو یہ سمجھتا تھا کہ اسے آزادنہ حکومت کرنے کے لئے موقع دیا جائے وہ ہندو کی تلوار کے نیچے آگیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں تو ہم نے چند لاکھ کی قربانی دی تھی اب کہیں چند ملین(MILLION)کی یعنی ستّر اسّی لاکھ یا ایک کروڑ کی قربانی نہ دینی پڑے۔
پس وہاں اس قسم کے حالات ہیں اس لئے ہمارا دل دکھ محسوس کر رہا ہے اور ہمارا ذہن پریشان ہے اور اس پریشانی کو دور کرنا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اَور کی طاقت نہیں ہے اور خداتعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے سوا اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ پس ہم خداتعالیٰ کی نازل ہونے والی ہر خیر کو پسند کرتے اور مانگتے ہیں لیکن خداتعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ
کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (تذکرہ۔ ایڈیشن چہارم:۳۵)
اس لئے ان دنوں میں دوست خصوصی طور پر بہت زیادہ درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔پہلے تو میں نے سینکڑوں میں کہا تھا کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھا کریں۔ اب عدد کی حدود سے پھلانگ کر آگے نکل جائیں اور ہر وقت یہ تسبیح و تحمید اور درود پڑھیں تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کے نتیجہ میں ہمیں وہ مل جائے جس کے لینے کے ہم خواہش مند ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ۱ تا۳)
ززز






کثرت سے استغفار کرو اس کے بغیر کسی
پریشانی اور دُکھ سے نجات نہیں مل سکتی
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد انور حضور نے یہ سورۂ کریمہ تلاوت فرمائی:-

(النصر:۲تا۴)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اِس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کی فتوحات کے متعلق بشارتیں دی گئی ہیں کیونکہ اس سورۃ کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا تھا۔ روایتوں میں اختلاف ہے تاہم اس سورۃ کے نزول کے بعد آپ ۷۰ یا ۸۰ دن اِس دُنیا میں زندہ رہے۔ اِس کے بعد آپ کا وصال ہوا۔
اِس سورۃ میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اور پریشانی کے وقت جو دراصل انسان کے اپنے گناہ اور اپنی کوتاہی اور اپنی بدعملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کئے بغیر اس پریشانی اور تکلیف اور دُکھ سے نجات نہیں حاصل کر سکتا۔
استغفار کے معنے یہ ہیں(کیونکہ یہ لفظ غَفَرَ سے ہے) کہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنا کہ جو فساد اور رخنہ کسی رنگ میں پیدا ہو گیا ہے، وہ اُسے دُور کرے اور اصلاحِ امر کرے۔
خلافتِ اُولیٰ کے زمانے میں اور پھر اس کے بعد صدیوں تک اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب تک اسلام پر کمزوری کا زمانہ بھی آیا۔ تکلیف کا زمانہ بھی آیا اور پریشانیوں کا زمانہ بھی آیا لیکن اِس ارشاد باری تعالیٰ کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو دُعائیں کی تھیں، وہ آڑے آئیں اور اُن دُعاؤں اور اُن دُعاؤں کے بعد جو طفیلی دُعائیں ہم مانگتے ہیں ان کے نتیجہ میں رخنہ دُور ہو گیا، فساد جاتا رہا، اصلاحِ امر ہو گیا اور پریشانیوں کی بجائے مسرتوں کے دن آگئے۔
مگر شاید جگانے کے لئے یا جھنجوڑنے کے لئے ابتلاء بھی آتے ہیں لیکن اُمت محمدیہ کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور اس کے حکم سے استغفار کرتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اُسے بار بار رحمت کرنے والا اور مغفرت کرنے والا پاتا ہے۔ کب ایسا ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو اور اُس نے اپنی رحمت سے اُسے نہ نوازا ہو۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور دُنیا کا ہر ملک اور ہر قوم اِس پر شاہد ہے۔
آج بھی ہمارے لئے پریشانیوں اور اُداسیوں کے دن ہیں مگر یہ وقتی اور عارضی پریشانیاں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رب سے قوت حاصل کریں اور اُس سے عاجزانہ دُعائیں کریں کہ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں اور ہمارے گناہوں کی پاداش میں اِس وقت جو پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں معاف فرمائے اور ہماری اصلاح فرمائے اور ہماری آنکھیں کھولے اور ہمیں پھر صحیح راہ کی طرف لے آئے تاکہ یہ پریشانیاں دُور ہو جائیں اور انشاء اللہ یہ دُور ہو جائیں گی۔
مسلمان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کے لباس تقوٰی اور اُس کی فطرت کے جامہ اور پاکیزگی کی رداء پر جب گُناہ کے گندے دھبے پڑ جاتے ہیں تو وہ صرف آنسوؤں سے ہی اُن کو نہیں دُھویا کرتا۔ ویسے وہ آنسوؤں سے بھی دھوتا ہے لیکن وہ آنسو نہیں جو کمزوری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ آنسو بھی نہیں جو کسی غیر اللہ سے مدد مانگنے کے لئے بہائے جاتے ہیں اور وہ آنسو بھی نہیں جو بے صبری پر دلالت کرتے ہیں بلکہ وہ آنسو جو رات کے اندھیروں میں اپنے مالک و خالق اور پیار کرنے والے خدا کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ ان آنسوؤں سے بھی اپنی تقوٰی کی چادر کے اور فطرت کے جامہ کے اور پاکیزگی کے لباس کے دھبے دھوئے جاتے ہیں اور ایک مسلمان اپنے آنسوؤں سے یہ دھبے دھوتا ہے۔ وہ رات کے اندھیروں میں سب سے چھپ کر خداتعالیٰ کے حضور آنسو بہاتا اور پاک ہونے اور خداتعالیٰ کی رحمت کا اہل بننے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم ایک مسلمان اپنی زندگی میں اپنے گناہوں کے اور اپنی کوتاہیوں کے اور غفلتوں کے دھبے صرف آنسوؤں ہی سے نہیں دھوتا بلکہ اِس کے علاوہ وہ یہ دھبّے اپنے خون سے بھی دھوتا ہے۔ وہ اپنے خون سے اپنی پاکیزگی کی رداء پر گُلکاری کرتا ہے اور یہ خوبصورت پھول ان دھبوں کو چھپا لیتے ہیں اور اس کی باطنی خوبصورتی اور اندرونی حُسن کو ظاہر کرتے ہیں۔
خون، موت!! یہ تو ’’اسلام‘‘ کے معنی کے اندر ہی موجود ہے۔ اسلام کے معنے ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ میں گم ہو کر اپنے اُوپر ایک موت وارد کرنا اور خداتعالیٰ کی رحمت سے ایک نئی زندگی پانا۔میدانِ جنگ میں شرفِ شہادت پانے والا اگر وہ نیک نیتی سے اور خداتعالیٰ کے لئے جان دے رہا ہو تو شہادت حاصل کر کے اُسی وقت زندوں کے زمرہ میں دوبارہ آجاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے تم ان شہیدوں کو مرا ہوا نہ کہو لیکن صرف شہید ہی نہیں بلکہ ایک کامل ایمان والا مسلمان جب خداتعالیٰ کے لئے اپنے اُوپر ایک موت وارد کرتا ہے، تو وہ بھی خداتعالیٰ سے اپنے لئے ایک ابدی زندگی حاصل کرتا ہے۔
اگر آج ہم اپنے اُوپر اِس قسم کی موت وارد کر لیں اگر ہم خداتعالیٰ کے پیار میں کھوئے جائیں اگر ہم اپنے وجود پر فنا کی آندھیاں چلا کر خداتعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے لگیں تو دُنیا کی کون سی طاقت ہے جو ہمیں مار سکے۔ دُنیا کی کوئی طاقت خداتعالیٰ کے پیاروں کو نیست ونابود اور ہلاک نہیں کر سکتی۔ اِس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
گو آج دُنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے اور ہمیں تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہے مگر ہم ان چیزوں کی اِس لئے پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ غلبۂ اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ کالی دیوی کی کالی بدلیاں اگر سامنے آجائیں تو وقتی اور عارضی طور پر روشنی تو دُور ہو سکتی ہے لیکن وہ غلبۂ اسلام کی راہ میں ہمیشہ کے لئے روک نہیں بن سکتیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ مسلم بنگال واپس کیسے آئے گا؟ مَیں کہتا ہوں تم مسلم بنگال کی بات کر رہے ہو ہم تو غیر مسلم دُنیا کو بھی اسلام کی طرف لانے والے ہیں اور یہ وعدۂ الہٰی ایک دن پورا ہو کر رہے گا اور اِس کے آثار آج اُفقِ غلبۂ اسلام پر ہمیں نظر آرہے ہیں۔ مجنون کا یہ خواب نہیں کہ مسلم بنگال واپس آجائے گا، مجنون کا خواب یہ ہے کہ اسلام مغلوب ہو جائے گا۔ اسلام مغلوب نہیں ہوگا۔مسلم بنگال کیا ہندوبنگال بھی، مسلم بنگال کیا ہندو بھارتؔ بھی، مسلم بنگال کیا عیسائی دُنیا بھی، مسلم بنگال کیا کمیونسٹ ممالک بھی، مسلم بنگال کیا دہریہ اور بُت پرست بھی، یہ سارے کے سارے اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جو کبھی ٹلا نہیں کرتی یہ تو انشاء اللہ ہو کر رہے گا مگر تم خدا سے قوت حاصل کرو اور کثرت سے استغفار کرو کیونکہ خداتعالیٰ کی رحمت اور اُس کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے اپنے اُوپر اس کی محبت میں گُم ہو کر ایک موت وارد کرو گے تو پھر تمہیں ایک ایسی زندگی ملے گی کہ تمہارے لئے بھی نہایت برکت، خوشی اور مسرت کا موجب ہو گی اور دُنیا کے لئے بھی رحمت اور برکت کا موجب بنے گی۔
خُدا کرے کہ جلد ایسا ہو جائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ۱، ۲)
ززز

پاکستان انتہائی نازک دَور سے گزر رہا ہے اور
انتہائی قُربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیۂ کریمہ پڑھی:-

(یونس :۶۶)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
مجھے یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ بعض مقامات پر پوسٹرز کے ذریعہ بعض جگہ تقاریر اور گفتگو کے ذریعہ پھر سے جماعت احمدیہ کو تکلیف پہنچانے کے لئے سخت کلامی اور افتراء پردازی سے کام لیا جانے لگا ہے۔ جہاں تک جماعتِ احمدیہ کی فطرت (جماعتیں بھی اپنی ایک فطرت رکھا کرتی ہیں) کا تعلق ہے، انسانی آنکھ نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ ہم نے کسی کی گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دی اور اُس وقت بھی جب کہ ہم کو دُکھ دیا گیا کبھی کسی کو دُکھ پہنچانے کے متعلق سوچا تک نہیں۔ اس لئے کہ ہم تو خود کو ’’خیر اُمّت‘‘ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، جس کا قیام اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عمل میں آیا ہے اور جس کی بقاء اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ دُنیا میں بھلائی کا وہ سمندر جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پیدا کیا گیا ہے، اس سے نکلنے والی نہریں اِدھر اُدھر ساری دُنیا میں پھیلیں اور بنی نوعِ انسان کی بھلائی کا انتظام ہو۔
موجودہ حالات میں جب کہ پاکستان انتہائی نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور ہماری بقاء ہم سے انتہائی قُربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے وقت میں بعض لوگوں کا اِس طرح گند کو اُچھالنا اور اِس رنگ میں اپنے اندرونہ کو ظاہر کرنا( ہم سمجھتے ہیں کہ) یہ ہمارے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اپنے ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ذہن کو فراست کا کچھ نور عطا فرمائے اور وہ حقائق کو دیکھنے لگے اور وہ اپنے اور اپنی قوم کے نقصان کے درپے نہ ہو۔
دراصل یہ ہماری راہ کے کانٹے ہیں اور ہم نے یہ کب کہا ہے کہ ہمارا راستہ کانٹوں کے بغیر ہے ہمیں تو یہی بتایا گیا ہے کہ تمہاری راہ میں کانٹے ہوں گے لیکن تم ان کی پرواہ نہ کرنا۔ تمہارے راستے میں روکیں کھڑی کی جائیں گی۔ تم اُن کو پھلانگتے ہوئے چلے جانا۔ اس طرف توجہ نہ دینا۔ اپنی ساری توجہ اُس کام کی طرف لگانا جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے چنانچہ ہماری آنکھ نے دیکھا اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ اسّی سال میں ہمارے خلاف جب بھی اس قسم کی مہمّیں جاری کی گئیں ( اور ہمیشہ ہی جاری کی گئیں) تو اِس قسم کی مہمّوں کے نتیجہ میں ہمیں نقصان نہیں پہنچا۔ تم میں سے( جو یہاں بیٹھے ہو) ہر ایک آدمی اِس بات کا گواہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم رُوحانی فرزند کا مشن ناکام نہیں ہوا۔ دُنیا نے تو کیا گھر والوں اور اپنے ملک کے لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اُسے تو اپنی عزت نہیں چاہئے تھی۔ اُسے تو اُس ایک وجود کی عزت چاہئے تھی جس کی عزت کے نتیجہ میں ساری دُنیا کو عزتیں ملتی ہیں۔ اگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو بنی نوع انسان میں سے کسی کو عزت کا کوئی مقام بھی حاصل نہ ہوتا۔ اس عزت والے، اس صاحبِ عزت کی خاطر اسی کے محبوب روحانی فرزند نے ہر قسم کی ذلّت اُٹھانے کاتہیہ کر لیا اور یہ کام اُس نے اپنی خاطر نہیں کیا بلکہ اُس نے یہ کام بنی نوع انسان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور کرنے اور اُن کے دلوں میں آپ کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے کیا کیونکہ آپ کو اسی کام کے لئے کھڑا کیا گیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم رُوحانی فرزند کے خلاف باتیں کہی گئیں اور وہ اتنی سخت باتیں تھیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس سے زیادہ باتیں کسی کان نے نہیں سُنیں لیکن خدا کا وہ بہادر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم رُوحانی فرزندان باتوں کو سُنتا اور کوئی غم نہیں کرتا تھا۔ اس لئے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے آنے والی یہ آواز اُس کے کان میں پڑی تھی:
وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ ان کی باتیں تجھے غمگین نہ کریں چنانچہ وہ شخص کیسے غمگین ہو سکتا ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور آپ کے حکم سے کچھ تو انسانوں نے سلام پہنچایا اور فرشتے تو ہروقت اُسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچا رہے تھے پس وہ کیسے غمگین ہو سکتا تھا یا گھبراسکتا تھا یا پریشان ہو سکتا تھا۔ وہ تو خوش تھا۔ اُسے تو راہ کے یہ کانٹے تکلیف نہیں دے رہے تھے بلکہ پھول معلوم ہوتے تھے۔ ہر دُکھ جو اُسے پہنچایا گیا اُس کے لئے خوشیاں لے کر آیا اور اُس کے دِل میں بنی نوع انسان کی محبت اور خدمت کے جذبہ کو اُس نے اَور بھی تیز کیا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ دُنیا ناواقف ہے، پہچانتی نہیں کہ میرا رب دُنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت کے قیام کے لئے کیسا عظیم انقلاب لانا چاہتا ہے۔
وہ خود بھی دُعائیں کرتا تھا۔ اُس نے ہمیں بھی فرمایا کہ تم اپنے ایمان میں پختہ نہیں ہو گے اور خداتعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکو گے جب تک تم اپنے دشمنوں کے لئے بھی اسی طرح دُعائیں نہ کرو گے جس طرح اپنے دوستوں کے لئے دُعائیں کرتے ہو۔ غرض وہ کسی کا دشمن نہیں تھا۔ نہ اُس نے ہم سے یہ کہا ہے کہ کسی سے دشمنی کرو۔ اُس نے ہمیں یہ فرمایا کہ تم ہر ایک کی خدمت کرو۔ ہر ایک کے خادم بنو۔ ہر ایک کی خیر چاہو۔ ہر ایک کے خیر خواہ بنو، ہر ایک کے دکھ دُور کرنے کی کوشش کرو اور ہر ایک کے دُکھوں کا مداوا بنو۔ اُس نے یہ تعلیم ہمیں یہ کہہ کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ اِس راہ سے نہ اِدھرہٹیں اور نہ اُدھر جائیں اور نہ بھٹکیں۔
پس جس چیز نے اسّی سال میں ہمیں پریشان نہیں کیا اور ہمیں غمگین نہیں بنایا، وہ چیز ہمیں آج بھی غمگین نہیں بنا سکتی کیونکہ ہم جانتے ہیں۔’’اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا‘‘
ہر قسم کا غلبہ اور قدرت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور جو اعمال اور منصوبے اُس کی مرضی اور منشاء کے خلاف کئے جاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوا کرتے اس لئے کہ وہ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے منصوبوں کو دُنیا میں چلانے اور کامیاب کرنے کے لئے اِس مادّی دُنیا میں انسانوں میں سے بعض کو کھڑا کرتا ہے اور پھر اُنہیں دُعا کی توفیق دیتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک آخری شریعت لے کر آئے اور یہ آخری ہی نہیں بلکہ ایک ایسی عظیم، ایسی حسین، ایسی اعلیٰ اور ارفع شریعت بھی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے شارع انبیاء ہوئے ہیں اُن میں سے کسی نے بھی اس قسم کی تعلیم دُنیا میں پیش نہیں کی اور نہ اُسے پیش کرنی چاہئے تھی کیونکہ دُنیا اس قسم کی کامل اور مکمل شریعت کو قبول کرنے کے لئے ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہوئی تھی۔
قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار آپ کو تاکید کرتا تھا کہ اپنی امت اور بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ دُعاؤں میں مشغول رہو۔ اگر ہم اذّیت کو برداشت کرنے اور گالی کا جواب دُعا سے دینے اور دُکھ پانے کے بعد سُکھ پہنچانے کے انتظام کے منصوبے بنانے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ ٔ حسنہ پر قائم رہیں تو ہمیں وہ دُعائیں ملیں گی جو آپؐ نے کی ہیں۔ اب جس قوم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائیں مل جائیں وہ کیسے غمگین ہو سکتی ہے۔ اس کے چہرے پر تو ہمیشہ بشاشت کھیلتی رہے گی اور جماعت احمدیہ کے چہروں پر ہمیشہ بشاشت کھیلتی رہتی ہے۔
وہ اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب، ہمارا محبوب اور ہم سے بہت پیار کرنے والا ہے اُس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعاؤں کو سُنا اور اُس کے اذن سے ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اگلا اور پچھلا سب عِلم اُسے حاصل ہے۔ دُعائیں پوشیدہ تو نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ علیم ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اور سب چیزوں کا احاطہ کیا ہؤا ہے اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے جو دعائیں تھیں اور آپ کی نوعِ انسان کے لئے جو دُعائیں تھیں، اُن کا بھی اُس نے احاطہ کیا ہؤا ہے کیونکہ خداتعالیٰ علیم ہے وہ جانتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس نور کے ساتھ، محبت کے جس جذب کے ساتھ اور بنی نوع انسان کی جس ہمدردی کے ساتھ اُس نے مبعوث کیا تھا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال عین اُس تعلیم کے مطابق تھے۔ اسی وجہ سے کہنے والے نے یہ کہا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق جاننا چاہتے ہو تو قران کریم پڑھ لو۔ جو کہا گیا وہ کیا گیا۔
پس وہ خُدا جو اپنے اس پیارے محبوب کی دُعاؤں کو سُننے والا اور یاد رکھنے والا ہے اور اپنے اس محبوب کے اعمال کے اخلاص اور نیت کی پاکیزگی اور ہمدردی کے جذبہ کا علم رکھنے والا ہے، وہ کیوں آپ کی دُعائیں قبول نہیں کرے گا اور اُمت محمدیہ کو پریشانیوں سے کیوں نہ بچائے گا۔ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پھر وہ خُدا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہماری دُعاؤں کو بھی سُنتا ہے وہ کیوں ہماری مشکلیں آسان نہیں کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں خلوص ہو۔ ہماری نیتیں پاک ہوں۔ ہمارے جسم کا رُواں رُواں اس بات کے لئے تڑپ رہا ہو کہ دُنیا سے دُکھ دور ہو جائیں اور ہم دُکھ دُور کرنے والے بنیں اور ہمارے دِل گالیاں سُن کر غُصے سے نہیں بلکہ دُعاؤں سے اِس طرح لبریز ہو جائیں گے جس طرح سمندر کی زمین پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔
وہ خُدا جو سمیع ہے وہ ہماری ان مخلصانہ دُعاؤں کو سُننے والا اور ہماری نیتوں اور اعمال کو جاننے والا اور استغفار کے نتیجہ میں ہماری بشری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لینے والا ہے۔ اس سمیع اور علیم خدا پر ایمان لانے کے بعد مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ خدا وہ ہے جس کے متعلق ہم جانتے ہیں:-’’اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا‘‘
کہ سب قدرت خداتعالیٰ ہی کی ہے اور ہر چیز پر غلبہ اسی کو حاصل ہے۔ کسی اَور کا اگر کوئی غلبہ ہمیں نظر آتا ہے تو یہ امتحاناً یہ ابتلائً یا انعاماً اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اصل عزت اور غلبہ اور قدرت اور طاقت اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔
ہم اس خدائے قادر و توانا پر ایمان لائے ہیں۔ وہ تمام قدرتوں کا مالک اور تمام غلبہ اور طاقت کا سرچشمہ ہے۔ وہ ہمیں فرماتا ہے:-’’ وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ‘‘اس قسم کے پوسٹر لگیں یا تقریریں ہوں تو تم نے غم نہیں کرنا۔ اس لئے ہم کیسے غم کر سکتے ہیں۔
پس آپ نے اشتعال میں نہیں آنا کیونکہ اس وقت ہمارا ملک بڑے ہی نازک دَور میں سے گذر رہا ہے۔ ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لئے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مہر لگائی ہے۔
حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ
(موضوعات کبیر امام ملا علی قاریؒ صفحہ۴۰ مطبوعہ محمدی پریس لاہور۱۳۰۲ھ)
یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے ۔یہ وہ صادق محبت ہے۔ یہ وہ گنا ہوں سے پاک محبت ہے، یہ وہ دُکھ دینے کے خیالات سے مطہّر محبت ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اقتدا اور آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ خواہ ہمیں ہر طرف سے بُرا بھلا ہی کیوں نہ کہا جائے اور صرف اپنے اس ملک کا ہی سوال نہیں ہمارے سپرد جو مہم ہوئی ہے اس کا یہ ایک چھوٹا سا حصّہ ہے اور ہمارے سپرد تو یہ مہم ہوئی ہے کہ ہم ساری دُنیا میں اسلام کے غلبہ کا انتظام کریں اور اس سلسلہ میں جانی اور مالی قربانیاں دیں۔
اس میں شک نہیں کہ یہ حقیر سی قُربانیاں ہیں مگر انتہائی قربانی جو ہماری طاقت اور استعداد میں ہے وہ ہم نے پیش کرنی ہے مثلاً جس شخص کی طاقت اور استعداد میں ایک اٹھنّی دینا ہے اب اس کے متعلق دُنیا داروں کی آنکھ تو یہ دیکھتی ہے کہ آٹھ آنے کی ایک حقیر سی قربانی اس نے پیش کر دی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی آنکھ اسے ایک اور زاویہ سے دیکھتی ہے۔ خداتعالیٰ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس نے اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنی طرف سے انتہائی قربانی دے دی چنانچہ جب خداتعالیٰ کے حضور پورے خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ اور عاجزانہ دُعاؤں کے ساتھ انتہائی قربانی پیش کر دی جاتی ہے تو پھر خداتعالیٰ کی رحمت اپنے جلوے دکھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن قربانیوں کو قبول فرما لیتا ہے۔
آج ہمارا ملک ہم سے یہ مطالبہ کر تا ہے کہ اے میرے بچو! اے کرۂ ارض کے اس حصے میں رہنے والو! میری مضبوطی اور استحکام اور بقاء کے لئے اپنی انتہائی قربانیاں پیش کرو۔ دُنیا ہمیں جو مرضی کہتی رہے۔’’حُبُّ الْوَطْنِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ کے ارشاد کے مطابق ہمیں آج اپنے ملک کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دے دینی چاہئیں مگر یہ وہ انتہائی قربانیاں ہونی چاہئیں جو خداتعالیٰ کو پیاری اور محبوب بھی ہوں اور جن کے بعد اُس قدرتوں کے مالک اور صاحبِ عزت خدا کے قادرانہ ہاتھ سے نتائج بھی نکلا کرتے ہیں۔
لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ تو ہمارے کام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہم نے تو اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرنا ہے اور ہم نے تو ساری دُنیا کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے دُعائیں کرنی ہیں اور ساری دُنیا کے دلوں میں سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو گاڑنے کے لئے خُداتعالیٰ کے حضور انتہائی قربانیاں پیش کر دینی ہیں۔ اگر خدانخواستہ راہ کے یہ کانٹے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیں، تو ہم ناکام ہو گئے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اِن تکلیفوں کی طرف توجہ نہ کریں۔ ہم ناکام ہونے کے لئے پیدا ہی نہیں کئے گئے کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اور ایک لمبا عرصہ پہلے یہ اعلان فرمایا تھا کہ ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے گو اُس وقت تو حالات بڑے مختلف تھے۔ اب تودُنیا بدل گئی ہے۔ پاکستان تو کیا ساری دُنیا میں جماعت کو جو وقار حاصل ہوا ہے اور لوگوں کے دلوں میں جماعت کے لئے جو محبت اور پیار پیدا کیا گیا ہے آپ اس کو تخیّل میں بھی نہیں لا سکتے۔
غرض زمین وآسمان بدل گئے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس مادی اور گنہگار اور گندی دُنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ زمین یہ زمین نہیں رہے گی اور آسمان یہ آسمان نہیں رہے گا۔ یہ تبدیلی، یہ انقلاب تو پیدا ہو رہا ہے اور انشاء اللہ اپنے ارتقاء کی انتہاء کو پہنچے گا، اس لئے ہم نے ایسی باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کرنی جو بظاہر تکلیف دِہ معلوم ہوتی ہیں اور نہ جوش میں آنا ہے اور نہ کسی سے کوئی مطالبہ کرنا ہے اور نہ کسی سے جا کر شکائتیں کرنی ہیں۔
پس ان چیزوں سے بے نیاز ہو کر تمہارے سپرد جو کام ہے اُسے تم پوری توجہ اور پورے انہماک کے ساتھ اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو ان کی انتہاء تک پہنچاتے ہوئے کرتے چلے جاؤ۔ پھر دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کس طرح آپ پر اور ان لوگوں پر بھی جو آج آپ کے دشمن ہیں، لیکن جن کے لئے آپ دُعائیں کر رہے ہیں، آپ کی دعائیں قبول کرنے کے بعد اپنی رحمت کے جلوے نازل کرتا ہے کیونکہ وہ بڑا پیار کرنے والا خدا ہے۔ وہ لوگوں کو بخش بھی دیتا ہے۔ ہمارے جیسے گنہگار جب لوگوں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو وہ خدا جو کامل اختیارات کا مالک ہے وہ لوگوں کو بخش دینے کے لئے تیار کیوں نہیں ہو گا۔
غرض وہ لوگ جو تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تم ان کو بخش دو اور ان کو معاف کر دو اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کر دے اور اُن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اور اس کے نور کا اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کا ایک نیا، روشن، منور، نور محض اور بڑا حسین آسمان پیدا ہو جائے جس کی روشنی میں اور جس کے سایہ میں یہ زمین وہ زمین نہ رہے جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہماری یہ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دن جلد لائے۔ اس لئے تم بڑی سمجھ بُوجھ کے ساتھ اور اپنے جذبات پر قابو پا کر قربانیاں دو۔ جو قربانیاں تمہارا ملک چاہتا ہے وہ بھی دو اور جن قربانیوں کا نوعِ انسان آج مطالبہ کر رہی ہے وہ بھی دو۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی رحمتیں نازل کرے گا اور بڑی خوشیوں کے سامان پیدا کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
(رونامہ الفضل ربوہ ۹ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا ۳)
 
Top