• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 4

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 4


وقفِ جدید کے قیام کی غرض بنی نوع انسان
کی خدمت میں وسعت ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۷؍جنوری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:-

(ابراھیم:۱۳)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اِس آیۂ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اصولی باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ کہ عقلاً صرف ایسی ہستی پر توکّل کیا جا سکتا ہے(کہ اس کے بغیر کوئی سہارا نہیں اور اس کی مدد سے کامیابی اور فلاح حاصل ہو گی اور عمل کے نتائج اچھے نکلیں گے) جو ہمیں عمل کی راہیں بھی بتائے یعنی وہ شروع سے ہماری انگلی پکڑے۔فرمایا اللہ تعالیٰ جس نے ہماری انگلی پکڑی اور ہمیں ہدایت کی راہ یعنی صراط مستقیم پر چلایا اُس پر ہم کیسے توکّل نہ کریں۔
دوسری بات اِس آیت میں یہ بتائی کہ مخالف اور دشمن کی ایذا رسانی پر صبر اُسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان نے کسی قادر ہستی کی انگلی پکڑی ہوئی ہو۔ اگر کوئی ایسا قابلِ اعتماد بھروسہ ہی نہ ہو تو انسان بے صبرا ہو جائے گا کیونکہ انتہائی دُکھوں میں ڈالے جانے کے بعد انتہائی توکّل وہی انسان کر سکتا ہے۔(اور پھر توکّل ہی کے نتیجہ میں صبر پیدا ہوتا ہے) جسے یہ معلوم ہو اور جس کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہستی ہے جس نے شروع ہی سے ہماری راہنمائی اور کامیابی کے سامان پیدا کر رکھے ہیں۔ ہماری استطاعت کے مطابق اور ہمارے ماحول کے لحاظ سے اور جو وقت کا تقاضا تھا اُسے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہدایت کے سامان پیدا کر دئیے ہیں۔ اگر ہم اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں گے، اُس کی ہدایتوں پر عمل کریں گے، تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم ناکام ہوں۔
غرض جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنی کمزوری اور اپنے گناہ اور اپنی بے مائیگی کا احساس انتہاء تک پہنچتے ہوئے بھی ایک انتہائی قادر مطلق خدا پر اُس کا ایمان ہوتا ہے۔ اس کی صفات کی معرفت اُسے حاصل ہوتی ہے پھر جب وہ خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتا ہے تو غیر کی قائم کردہ روکیں اُسے ڈراتی نہیں۔ میں مومنوں کی یہی صفت بتائی گئی ہے۔
اِس آیت میں تیسری بات ہے۔ اِس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ عقلاً نہ فطرتاً، نہ شرعاً اور نہ مشاہدہ کے لحاظ سے کسی اور پر توکّل ہو سکتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایک یہی صداقت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ توکّل اُسی پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہی حقیقی سہارا ہے۔
پس کی رو سے جس آدمی نے توکّل کرنا ہو خواہ وہ ایک فرد ہو یا قوم، جس کو بھی یہ احساس ہو کہ مَیں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ تو اس کی عقل بھی اُسے یہی مشورہ دے گی، اُس کی فطرت کا بھی یہی تقاضا ہو گا اور بنی نوع انسان کی تاریخ کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ ایک ہی ہستی ہے جس پر توکّل کیا جا سکتا ہے اوروہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھنے والے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ جس طرح بحیثیت فرد اُس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اُسی طرح بحیثیت جماعت اُس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن اغراض کے لئے اُس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن راہوں پر وہ ہمیں چلانا چاہتا تھا وہ کی رو سے واضح ہیں۔ اُس نے ہمیں اپنے راستے دِکھائے ہیں۔
انسانی فطرت کے نئے تقاضے ہوتے ہیں۔ البتہ فطرت کے نئے تقاضے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسانی فطرت ہی بدل گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جو کچھ رکھا گیا تھا، اس کا استعمال بدل گیا کیونکہ انسان کی فطرت میں تھا دوسرے آدمی سے ہمدردی کرنا اور اس کے دُکھوں کا مداوا کرنا۔ اگر دُنیا کے دُکھ بدل جائیں تو گویا فطرت کے تقاضے بھی بدل گئے۔ پھر ایک نئے طریقے پر، نئے دُکھوں کا نیا علاج سوچنا پڑے گا۔
پھر وقت کا تقاضا ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں۔ تواللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کو نئی راہیں بتاتا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے۔ نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک طریقہ یا ایک سبیل یا ایک راہ یا ایک صراط مستقیم ’’وقف جدید‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے رکھی ہے اور وقف جدید کی روح یہ ہے کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت پیدا کی جائے چنانچہ حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دراصل یہی منشاء تھا کیونکہ اس سے پہلے جماعتی نظام تو موجود تھا۔ تحریک جدید بھی قائم تھی اور وہ اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ جماعت کی ہرایک تنظیم کا اپنا انتظام تھا اور وہ اپنے کام میں لگی ہوئی تھی لیکن میں نے جہاں تک غور کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا تجزیہ اور استدلال ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طرف تو یہ بات تھی کہ تحریک جدید کا اپنا ایک طریق متعین ہو گیا ہے اور تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں(خدا کرے کہ ہمیں ایسے عالم ملیں اور ہمیشہ ملتے رہیں) کیونکہ انہیں باہر بھی جانا پڑتا ہے۔ جہاں انہیں بڑے بڑے پادریوں سے جو اپنے آپ کو دُنیا کا معلم سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ معلم ہوں یا نہ ہوں بہرحال وہ اپنے آپ کو دُنیا کا معلم سمجھتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اس غرض کے لئے جامعہ احمدیہ قائم ہے۔ جامعہ احمدیہ کو بھی اپنی ترقی کے لئے سوچنا چاہئے اور بہتری کے لئے سامان کرنا چاہئے۔ جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد پھر ہم ان کو ریفریشر کورسز کرواتے ہیں۔ پھر بعض کو زبانیں سکھاتے ہیں۔ اس کے اوپر بڑا خرچ آتا ہے۔ ہمیں اس وقت جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق ہمارے پاس وسائل نہیں۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں حالانکہ کام بڑھ گیا ہے۔
مبلغین کے علاوہ ہمارے پاس پاکستان میں جو شاہد اور معلّم ہیں جو پرانے اصلاح کرنے والے ہیں وہ بھی اسی طرح بڑے پایہ کے ہونے چاہئیں۔ یہ سارے اس پایہ کے نہیں جس پایہ کے ان کو ہونا چاہئے۔ اس لئے انہیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اعلیٰ پایہ کے مربیان و معلمین بن جائیں اور وہ بن سکتے ہیں اگرچہ جامعہ احمدیہ کی پڑھائی کے نتیجہ میں تو نہیں بنتے لیکن وہ اپنی دُعاؤں کے نتیجہ میں پایہ کے مبلغ ضرور بن سکتے ہیں کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں اگر چیز حسبِ منشاء بن سکتی ہے تو اس لحاظ سے ہر شخص پایہ کا مبلغ بھی بن سکتا ہے۔ جوشخص خداتعالیٰ سے پیار کا تعلق پیدا کرے گا اور دعائیں کرے گا تو خداتعالیٰ خود اسے سکھائے گا اور اس کا معلم بنے گا۔
پس جہاں انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ وہاں ہر شاہد کو بھی اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے ورنہ اگر دوسرے عریبک ٹیچرز کی طرح زندگی گذارنی ہے(میں شاہدین سے کہہ رہا ہوں) تو پھر آپ نے کیا زندگی گذاری؟ اگر آپ نے سکولوں کے عام عربی معلم اور مدرس کی طرح زندگی گزاری تو پھر آپ نے یہ تو بڑا ظلم کیا۔اس معلم کو تو علم ہی نہیں کہ وہ خدا کا پیار کس طرح حاصل کر سکتا ہے اور کتنا حاصل کر سکتا ہے۔
پس شاہدین کو یہ علم ہوتے ہوئے اور دوسروں کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے اور یہ کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہیں پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم رہیں تو میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی اَور کوئی نہیں ہو سکتی۔
بہرحال جامعہ احمدیہ پر بھی بڑے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ میٹرک پاس طلباء لیتے ہیں اور پھر ان کو آگے پڑھاتے ہیں۔ پھر جس طرح ہر زندہ اور ہرے بھرے درخت کی ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں۔ اسی طرح شاہدین میں سے بھی کچھ کاٹنے پڑتے ہیں۔ ہر سال کچھ چھانٹی کرنی پڑتی ہے۔ نتیجہ بہت تھوڑا نکلتا ہے۔ خرچ بڑا ہوتا ہے۔
ہمارے وسائل محدود تھے اور جو مبلغین ہم تیار کر رہے تھے، ان پر فی کس خرچ بہت زیادہ تھا لیکن یہ کام اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑا اہم ہے۔ اس لئے اسے جاری رکھنا ضروری تھا۔
پس ایک طرف یہ چیز تھی اور دوسری طرف وسعت پیدا کرنی تھی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میرے دماغ میںآیا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دماغ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کام میں وسعت پیدا کریں اور وسعت پیدا کریں۔ ان لوگوں کے ذریعہ جو تھوڑا گزارہ لیں اور وقف کی روح کے ساتھ آئیں چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں ہزاروں کی سکیم بنا دی۔ آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ اب وہ بیس سال کے بعد پوری ہوتی ہے یا پچاس سال کے بعد پوری ہوتی ہے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن آپ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا۔ ۷۲ لاکھ روپے آمد ہو سکتی ہے اور اس کے مطابق ساٹھ روپے ماہوار پر کئی ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے اب تو حالات بدل گئے ہیں۔ میرے خیال میں اب ساٹھ روپے کی بجائے نوّے روپے دئیے جا رہے ہیں۔ بایں ہمہ آدمی کم آرہے ہیں۔
انسان سوچتا ہے تو اور فکر و تدبّر کرنے والا انسان بالعموم ایک منصوبہ بناتا ہے کہ اگر وہ اس طرح کام کرے تواپنے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مگر وقفِ جدید کے کام کے لحاظ سے جماعت کو اس طرف توجہ نہیں۔ کچھ تو توجہ ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل توجہ نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جتنی اس حصے کی طرف توجہ کرنی چاہئے تھی اس کا دسواں حصہ توجہ ہے، نوّے فی صد توجہ نہیں ہے۔
معلمین اصلاح و ارشا د جماعتی تنظیم کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ ان سے زیادہ پڑھے لکھے شاہدین بھی کام کر رہے ہیں مگر پچاس، ساٹھ شاہدین کے علاوہ صرف ساٹھ، ستّر نیم پڑھے معلمین وقف جدید رکھنے سے کیا فائدہ ہے کیونکہ جو اصل غرض تھی وہ تو ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی۔ اصل تخیل تو یہ تھا کہ کام میں یک دم وسعت پیدا کرو۔ آپ جو معلم لیتے ہیں وہ آٹھویں جماعت تک پڑھے ہوتے ہیں۔انہیں ایک سال کا یہاں کورس کراتے ہیں۔ ان کی حالت تو پتلی سی شاخ کے مانند ہے جس طرح آم کی ٹہنی جب نکلتی ہے تو بڑی کمزور ہوتی ہے۔ تاہم یہ بیج لگانا ہمارا مقصد ہے تنا تو بعد میں بنے گا، پھل تو بعد میں آئیں گے لیکن آپ نے تو وہ بیج بھی نہیں لگایا۔ ستّر، اسّی کے اُوپر آکر ٹھہر گئے۔ ستر، اسّی معلمین وقف جدید کی تعداد میں وسیع منصوبے کے لحاظ سے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا۔ ایک ضلع کے لئے بھی کافی نہیں ہے، ایک تحصیل کے لئے شاید کافی ہو۔ وہ بھی شاید ہی ایسا ہوتا ہم سمجھتے ہیں کہ ایک تحصیل کے لئے کافی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ کوشش اور جدوجہد اور منصوبہ ہے اس میںاگر ہم مغربی پاکستان ہی کو لے لیں کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہم نہیں جاسکتے۔(ہم نے مسلم بنگال کو نہ ذہنی لحاظ سے چھوڑا ہے اور نہ عملی لحاظ سے) لیکن موجودہ حالات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ ہم وہاں جا نہیں سکتے اس لئے اگر ہم وقتی طور پر مغربی پاکستان ہی کو لے لیں تب بھی اس سے ۵۲ ۱گنا زیادہ ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی کیونکہ پاکستان کے اس مغربی حصے کی کم وبیش ۱۵۲ تحصیلیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے کام کا ایک فی صد بھی نہیں کیا بلکہ ہم نے اپنا کام ۶ فی صد کیا ہے یہ تو کوئی کام نہ ہوا۔
جماعت کو اس وقت میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس اعلان کے بعد کہ یکم جنوری سے وقف جدید کا نیا سال شروع ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہمارے عمل میں برکت ڈالے۔
جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اس اعلان کے بعد میں جماعت کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ وقف جدید کے لئے جماعت زیادہ آدمی دے اور اسے جماعت محض وعظ تصّور نہ کرے بلکہ وہ ایک سکیم بنائے کہ ہر سال موجودہ معلمین کا دس یا بیس فیصد دے گی مثلاً اگر فرض کرو اس وقت اسّی معلمینِ وقف جدید ہوں تو جماعت ہر سال آٹھ مزید دے گی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا کہ جماعت دس فی صد دے یہ تو جو منصوبہ بندی کمیٹی ہے وہ سوچے گی لیکن میں مثال دے رہا ہوں۔ شاید اس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے چلیں بیس فی صد کر دیتے ہیں چنانچہ اس لحاظ سے موجودہ اسّی معلمین کی تعداد پر بیس فیصد کے حساب سے سولہ مزید دینے پڑیں گے پھر اگلے سال ۹۶ کا بیس فیصد ہو گا اور پھر اس سے اگلے سال ۱۱۰ کا بیس فیصد ہو گا اور پھر اسی طرح تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ تب آپ کام کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ کھڑے رہیں تو پھر کام نہیں کر سکتے۔ اس نسبت سے آپ آگے بڑھیں تب بھی کم ہے لیکن اگر آپ بیس کی بجائے تیس یا چالیس فی صد کر دیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر آپ دُگنا کرتے جائیں تو پھر یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔ اس طرح تو پھر ہم دس سال میں اپنا مقصد حاصل کر لیں گے یعنی ۸۰ سے ۱۶۰ اور اس سے اگلے سال ۳۲۰ اور پھر اس سے اگلے سال ۶۴۰ اور پھر اس سے اگلے سال ۱۲۸۰ علیٰ ہذا القیاس اس طرح ہم بڑی جلدی آگے نکل جائیں گے۔ یہ تو(یعنی وہ پہلی بات) ہے جو میں جماعت سے کہنا چاہتا ہوں۔
(ب) یہ ہے کہ آپ جو آدمی دیں اُن میں کچھ تو صلاحیت ہونی چاہئے۔ اس وقت معلمین کا ایک حصہ ایسا ہے(سب کے متعلق تو میں یہ نہیں کہتا لیکن ایک حصہ ضرورا یسا ہے) جو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری کہیں اور جگہ کھپت نہیں ہو سکتی، اس واسطے یہاں آجاؤ۔ اگر اس طرح کے آدمی آئیں تو ہمارا کام کیسے ہو گا۔ ہم نے اُن سے کام تو یہ لینا ہے کہ جب کسی کو کہیں سے بھی کامیابی نصیب نہ ہو تو وہ ان سے حاصل کرے لیکن وہ آدمی جو اس ذہنیت سے آیا ہے کہ اس کی کہیں کھپت نہیں ہو سکتی اس لئے وہ یہاں آجائے اُس نے کام کیا کرنا ہے۔ وہ آدمی جو ساری دُنیا کی ناکامیاں دیکھ کر آتا ہے وہ دُنیا کی ہدایت کا سامان کیسے پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ایک سرے پر ہے اور جس کی اس نے ہدایت کرنی ہے وہ دوسرے سرے پر ہے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ یہ بائیں سرے پر ہے اور دوسرے آدمی کی ضرورت دائیں سرے پر ہے یعنی دو چیزوں میں جو زیادہ سے زیادہ بُعد ہو سکتا ہے وہ ان میں پایا جاتا ہے۔
پس جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ جو آدمی وقفِ جدید کے لئے دیں وہ قابل اور اہل ہونا چاہئے اور پھر جب آدمی دیں تو اُن کو خرچ بھی دیں۔ جتنے زیادہ آدمی دیں گے اُن پر اتنا زیادہ خرچ بھی آئے گا۔ اس کے مطابق آپ کو چندہ دینا چاہئے۔
اب پچھلے سال وقف جدید کا دو لاکھ چالیس ہزار روپے کا بجٹ تھا اور دسمبر کے آخر تک ایک لاکھ بہتّر ہزار روپے آمد ہوئی ہے اور اب نیا سال شروع ہو گیا ہے گذشتہ جو کام آپ نے اپنے لئے تجویز کئے تھے آپ اُن کو پورا نہیں کر سکتے۔ وقف جدید کے متعلق منصوبہ بنانے والے دماغ میں جو کام تھا وہ تو یہ نہیں تھا۔ وہ تو اس سے کہیں زیادہ کام تھا۔
پس وہ پیارا وجود جس کے ساتھ آپ کو پیار اور عشق کا دعوٰی ہے اُس نے آپ کو جو کام دیا تھا، اُس سے کہیں تھوڑے کام کا آپ نے منصوبہ بنایا اور وہ بھی پورا نہیں کیا۔ یہ تو بڑے شرم کی بات ہے۔ اس لئے جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جو ہمارا وقف جدید کا دفتر ہے اس کو اپنا حساب درست کرنا چاہئے۔ گذشتہ دو چار دن میں ہی میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ جو رقمیں وصول ہو چکی ہیں اُن کا بھی ٹھیک طرح حساب نہیں رکھا گیا۔ (پیسوں کا ضیاع تو نہیں ہوا) لیکن اگر ایک شخص تین مہینے کے بعد اپنا چندہ دے دیتا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیتا ہے اور آپ چھ مہینے کے بعد اُسے کہیں کہ تم نے کوئی چندہ نہیں دیا تو آپ نے اس کا وقت ضائع کیا۔ آپ کو یہ کس نے حق دیا ہے؟ پس میں دفتر سے کہتا ہوں کہ آپ مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع نہ کریں یہ سننے کے بعد اور اس بات کو تقریروں میں دُہرانے کے بعد کہ آپ کے متعلق یہ کہا گیا ہے۔
اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۱۸ )
کہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ آپ خود اس مسیحؑ کی طرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں اور اُن کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں اس لئے اپنے گھر کو درست کریں اور اس کی صفائی کریں اور اہلیت کو بڑھائیں۔ مرکزی دفتر کو کسی ایک آدمی کے لئے بھی پریشانی کا موجب نہیں ہونا چاہئے۔
وقف جدید والوں نے رسالے اور کچھ کتب اور پمفلٹ وغیرہ شائع کرنے کی بھی ایک سکیم بنائی ہوئی ہے اور غالباً وہ اس سلسلہ میں کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن وہ تسلی بخش نہیں ہے۔ دراصل کسی کا کام بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ اس وقت مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہم کتب وغیرہ شائع تو کر دیتے ہیں مگر ان کی تقسیم کا کوئی معقول اور مناسب اور حسبِ ضرورت انتظام نہیں ہے۔
تاہم اس کام کے لئے تو میں شاید ایک کمیٹی بنائوں۔ ہماری اس وقت جو مختلف انجمنیں ہیں، وہ کمیٹی ان کے متعلق غور کر ے گی لیکن اس کی طرف فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور فوری سے میری مراد یہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر اندر ہماری آبادی کے ایک فیصد کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو جائے۔ شاید آپ حیران ہوں کہ اتنی معمولی سی سکیم کیوں بنا دی۔
دراصل میں یہ چاہتا ہوں کہ چھ لاکھ ایسے بھائیوں کے ساتھ ہمارا تعلق پیدا ہو جائے کہ جب اور جو چیز ہم ان تک پہنچانا چاہیں وہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ان تک پہنچ جائے۔ آپ یہ سُن کر حیران ہوں گے کہ ہم اس وقت چھ لاکھ تو کجا چھ ہزار تک بھی اپنی بات ایک ہفتہ کے اندر اندر نہیں پہنچا سکتے اور یہ بڑی خامی ہے۔ اس طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی۔
ہمارے جو مبلغ ہیں اُن کا یہ حال ہے کہ دیر کی بات ہے خلافت سے پہلے میں ایک دفعہ مری گیا۔ حضرت صاحب کے نام خیبرلاج الاٹ ہُوئی ہوئی ہے۔ اس کا جھگڑا چل رہا ہے۔ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ جو فیصلہ ہوگا ٹھیک ہوگا۔ وہ ہمیں ملے یا نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بہرحال وہ اس وقت بھی ہمارے پاس تھی اور وہاں ہمارے مربی صاحب رہ رہے تھے کیونکہ وہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ ہم یعنی حضرت صاحب کے بچوں میں سے بہت سارے وہاں جانا چاہتے تھے یا شاید حضرت صاحب خود تشریف لے جانے والے تھے۔ یہ تفصیل مجھے یاد نہیں رہی چنانچہ اس کو خالی کروانے کے لئے جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک کمرہ قریباً چھت تک بھرا ہوا تھا اُن کتب اور رسائل سے جو پہلے چار پانچ سال سے اصلاح و ارشاد والے اس مبلغ کو تقسیم کرنے کے لئے بھجواتے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرے ہوش گم ہو گئے کہ اتنا ظلم! ہماری ایک غریب جماعت ہے۔ پھر اس پر ظلم یہ کہ ہم سے سُستیاں، غفلتیں اور گناہ ہو جاتے ہیں۔ جتنا ہم شائع کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہیں شائع ہوا اور جو شائع ہوا ہے اس کا یہ حشر کہ کئی سالوں کا اکٹھا کیا ہوا لٹریچر جس کو اٹھانا مشکل ہو گیا پس ہمیں اس طرف فوری توجہ کرنی چاہئے۔
اب مثلاً ہم ایک رسالہ شائع کرنا چاہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور عشق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ چنانچہ قاضی محمد نذیر صاحب یا عبدالمالک خان صاحب میرے پاس بڑے فخر سے یہ رپورٹ کر دیں گے کہ انہوں نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر دیا ہے اوّل تو یہ ہے کہ ۱۲ کروڑ آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میںشائع کر دینا تو ویسے ہی بڑے شرم کی بات ہے اور دوم اس سے بھی بڑے شرم کی بات یہ ہے کہ پانچ ہزار جو شائع کیا اس میں سے پانچ صد تقسیم ہوا اور باقی چار ہزار پانچ صد اصلاح و ارشاد کے گودام میں یا مبلغین کے چولہوں کے پاس پڑا ہوا ہے۔ ہمارا اس طرح تو کام نہیں چلے گا۔ یہ تو کوئی کام نہیں کہ ۱۲کروڑ کی آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی کتاب صرف پانچ صد کی تعداد میں تقسیم ہو۔ کیا ہم اپنی عزت کے لئے زندہ ہیں؟ کیا ہم اس لئے زندہ ہیں کہ ساری دُنیا کی دولتیں ہمارے قدموں میں آکر جمع ہو جائیں۔ اگر یہ نہیں اور یقینا نہیں کیونکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پائی پائی دُنیا کے قدموں میں جاکر پڑ جائے اور لوگوں کے فائدے کا موجب بنے تو پھر دُنیا کی بھلائی کے لئے تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ تم کرو ورنہ تم اپنے رب کو کیا منہ دکھائو گے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶؍ فروری ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۴)


پاکستان کے احمدی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار
لائیں تو ملک کی کایا پلٹ جائے گی
( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍جنوری۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے فرمایا:-
ایک انسان کی اصل دولت اس کی خداداد صلاحیتیں ہیں اور ایک قوم کی اصل دولت اس قوم کے افراد کی صلاحیتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق میں اپنی صفات کے جلوے رکھے ہیں اور اسکی صفات کے جلوے سب سے زیادہ ہمیں انسانی وجود ہی میں نظر آتے ہیں۔ اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتاہے۔ ہمیں مختلف قوتیں مختلف اندازوں کے مطابق انسان میں نظر آتی ہیں۔ اصولی طور پر یہ قوّتیں اور استعدادیں چار قسموں کی ہوتی ہیں۔ (۱)جسمانی(۲)ذہنی(۳)اخلاقی اور(۴)روحانی۔ میں آج کی اس گفتگو میں ان سب قوتوں اور استعدادوں کوصلاحیتوں کانام دوں گا۔
پس فردِواحد کی دولت اُسکی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور ہمیں صلاحیتوں کے متعلق یہ نظرآتا ہے کہ وہ بالغ شکل میں انسان میں نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ درجہ بدرجہ بڑھتی ہیں اور اِس تدریجی نشوونما میں بہت سے عوامل اُن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہر حال اصول یہ ہے کہ انسان کو جو صلاحیّت ملتی ہے ،وہ تدریجی طور پر نشوونما پاتی ہے۔ مثلاََانسان اپنی کچھ نشوونما ماں کی گود میں اور کچھ نشوونما باپ کی تربیت سے حاصل کرتا ہے اور اُسکی کچھ نشوونما اچھے ماحول کے اچھے اثرات سے ہوتی ہے اور اُس کی بہت کچھ نشوونما اُس کی اپنی کوشش اور جدوجہد پر منحصر ہوتی ہے۔
بہرحال صلاحیّت ایک بیج ہوتاہے جسکی شکلیں اور اُسکے مختلف پہلو آہستہ آہستہ Unfold (ان فولڈ) ہوتے ہیں یعنی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ گویا پہلے وہ چُھپی ہوئی چیزیں تھیں جو بعد میں سامنے آگئیں ۔
اصولی طور پر صلاحیت ایک دولت ہے اس زندگی کی بھی اور اُس زندگی کی بھی۔ مثلاََ دو ڈاکٹرہیں۔ اب اُن کی فطرت اور طبیعت کا میلان اور ذہنی رُحجان طِبّ کی طرف تھا۔ اُنہوں نے ایک دُوسرے کے مقابلے پر آکر محنت کی پھر وہ پاس ہوگئے۔ پھر انہوں نے پریکٹس شروع کردی چنانچہ وہ مالدار بن گئے ۔ دیکھو ایک ڈاکٹر کی دولت اُسکی طبی صلاحیت کا نتیجہ ہے لیکن اس میں ہمیں ایک اور چیز بھی نظرآتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہرشخص محدود صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہ چیز حد باندھنے والی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والی ہے۔ ہر شخص کی صلاحیتوں کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ ہر شخص کی صلاحیتوں کا دائرہ مختلف ہوتاہے۔ مثلاً طبّی میدان میں ہی دیکھو ۔ ایک ڈاکٹر ہے، وہ دس ہزار روپے ماہوار کمارہا ہے اوراسی کی کلاس میں پڑھاہوااس کا ایک دوسرا ساتھی اور دوست ڈاکٹر ہے جوہمیشہ روتا رہتا ہے کہتا ہے میں تو بھوکا مررہا ہوں میری آمدنی کافی نہیںمیں اپنی پوری کوشش کے باوجود ہزار روپے کمارہا ہوں۔
پس یہ تفاوت دراصل اِس واسطے ہے کہ حد باندھنے والا اللہ تعالیٰ تھا اور اُس نے ہر ایک ڈاکٹر کی صلاحیّت کا ایک دائرہ بنادیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم آگے نہیں جائو گے۔ اِس سے آگے جانا تمہارے لئے ممکن ہی نہیں۔ اس کو ہم دائرۂ استعداد بھی کہتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں ساری قوتوں اوراستعدادوں کو صلاحیت کے نام سے ذکر کروں گا۔پس ہر ایک آدمی کا ایک دائرہ صلاحیت ہوتا ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن دائرہ صلاحیّت سے ورے ورے رہ سکتا ہے اور یہیں انسان اپنے اوپر ظلم کرتا ہے جس سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنی صلاحیتوںکی نشوونما کواپنے دائرہ استعداد کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے تو وہ اپنی نجات کی معراج تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچاتا تو وہ بڑا بدقسمت ہے۔اُسے تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی میں یہ صلاحیّت رکھی ہوکہ وہ رات کے اندھیروں میں چھ گھنٹے اپنے ربّ کے حضور دُعائیں کرنے کے باوجود اپنی دن کی ذمہ داریوں میں کوتاہی نہیں ہونے دیتا۔ تو ایسا انسان اگرچھ گھنٹے کی بجائے چار گھنٹے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارتا ہے تو وہ اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو نہیں پہنچا۔ اُس نے اپنے اوپر ظلم کیاکیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے جو ایک تہائی زائدانعام لے سکتا تھااس سے اُس نے خود کومحروم کردیا۔ اگر کوئی قوم ایسی ہو کہ اس کے سارے شہری،اس میں بسنے والے سب افراد اپنی صلاحیتوں کی اپنے اپنے دائرہ استعداد کی آخری حدود تک پہنچا دیں تو اِس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ شاندار نتائج دکھانے والی دُنیامیں اَور کوئی قوم نہیں ہوسکتی۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر جب ہماری نگاہ پڑتی ہے تو(یہ تو درست ہے کہ اُس وقت بھی منافق تھے اورکمزور ایمان والے بھی تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت بڑی بھاری اکثریت ایسی تھی جنہوں نے آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت میں اپنی صلاحیتوں کی نشوونماکو اپنی استعدادوں کے دائرہ کی جو آخری حدتھی،وہاں تک پہنچادیا تھا چنانچہ وہ قوم جو شروع میں مٹھی بھر تھی اور جس کا دُنیا کی آبادی کے لحاظ سے کوئی شمار تھا اور نہ اُن کی کوئی حقیقت تھی، اُنہوں نے جب کسرٰی سے ٹکرلی۔ اُس وقت حضرت خالدؓبن ولید کے پاس اٹھارہ ہزار فوج تھی۔تھے تووہ اٹھارہ ہزار مگر وہ ایسے تربیت یافتہ افراد تھے جنہوں نے اپنے دائرہ استعداد کی انتہاکو پالیاتھا(جس کومیں نجات کی معراج کہتا ہوں) اس لئے اُنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں اور دُنیوی اموال کی کثرت رکھنے والوں کے مقابلہ میں اپنی برتری کو ثابت کیاجس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایران کے باشندوں کی مجموعی صلاحیّت تھی باوجود اسکے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر اُنکی مجموعی صلاحیت مسلمانوں کی صلاحیت کے مجموعہ سے کم تھی ورنہ مسلمان کبھی کامیاب نہ ہوتے پس جو قوم ایسی ہو کہ اسکے افراد خداداد صلاحیتوں کی نشوونما اپنے دائرہ کے اندر انتہاکو پہنچا دیں تو اس سے زیادہ کامیاب اور زیادہ خوبصورت اور حسین اَور کوئی قوم نہیں ہوسکتی۔ غرض یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ایک ایسی قوم تھی جس میں ہمیں یہ خوبی نظر آتی ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے دائرہ استعداد سے نصف ورے رہ جاتاہے یا دو تہائی ورے رہ جاتاہے اس لکیر سے جو اس کے دائرہ کو معین کررہی ہے تو وہ ناکام ہوجاتاہے۔ اگر وہ نصف تک رہ جاتا ہے تب بھی ناکام ہوگیا اور اگر وہ ۸۰فی صد کی حد تک پہنچ جاتاہے تب بھی وہ ایک لحاظ سے ناکام ہوگیا۔ ہماری یونیورسٹیاں ۳۳فی صد نمبر لینے والوں کو پاس کر دیتی ہیں اس لئے میں نے یہ مثال دی ہے تاکہ بچے بھی سمجھ جائیں۔ جوفرد اپنے دائرہ استعداد کے ایک تہائی تک بھی نہیں پہنچاوہ فیل ہے۔ اگرچہ یہ غلط معیار ہے لیکن بہرحال وہ اس معیار کے مطابق فیل ہے ہمارا بچہ بھی اس کو سمجھ جائے گا کہ جس لڑکے نے ۳۰ فیصد نمبرلئے وہ ناکام ہوگیا۔ اسی طرح جس قوم کے ۲۵فی صد افراد نے اپنی صلاحیّتوں کی ۸۰فیصد نشوونماکی وہ قوم ہلاک ہوگئی۔ غرض نجات کی معراج صلاحیّتوں کی نشوونماکی انتہا ء تک پہنچاناہے۔ یہ انسان کی دولت ہے۔ یہ مادی دولت بھی ہے۔ یہ ذہنی دولت بھی ہے۔ یہ اخلاقی دولت بھی ہے اور یہ روحانی دولت بھی ہے۔ اگر پاکستان کے سارے کے سارے شہری اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر اپنی صلاحیتوں کی نشوونماکو اپنی انتہا تک پہنچادیں، ہمارا ملک دُنیاکے امیر ترین ملکوں میں سے ہوجائے گااور دُنیاکے حسین ترین ملکوں میں سے بھی ہوجائے گا کیونکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم ایک ایسی مذہبی جماعت ہیں جس کا اسلام کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے اگر ہماری ذہنی اور ہماری اخلاقی اور ہماری روحانی نشوونما ہو گی تو مادی نشوونماکے لحاظ سے اور مادی دولت کے لحاظ سے امریکہ بھی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ روس بھی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گا،اورچین بھی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گا کیونکہ اگرچہ یہ قومیں دُنیوی لحاظ سے بڑی آگے نکل چلی ہیں لیکن میں نے بڑا غور کیاہے اور بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ابھی بحیثیتِ مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے یعنی مادی لحاظ سے بھی، ذہنی لحاظ سے بھی، اخلاقی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی اپنی نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچے۔ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تو وہ بہت ہی پیچھے ہیں لیکن جسمانی اور ذہنی لحاظ سے بھی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے ۔ اگر اُن کے مقابلے میں پاکستان بحیثیت مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو پہنچ جائے تو وہ ان ملکوں سے آگے نکل جائے گا۔ ہم نے اگر سَومیں سے دس نمبر لئے اور انہوں (یعنی امریکہ ،روس، چین وغیرہ)نے سَو میں سے پچاس نمبر لئے تو اس لحاظ سے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔ وہ ہم سے پانچ گنا آگے ہیں لیکن اگر ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے دس کی بجائے سَو نمبر لینے کی صلاحیت رکھی تھی اور ہم یہ سو نمبر حاصل کرلیں تو گویا ہم اُن سے دوگنا آگے نکل گئے۔
پس انسان کی اصل دولت اس کی صلاحیت ہے یعنی وہ قوتیں اور استعدادیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں۔ یہی اصل دولت ہے۔ اب ایک قوت ہے جو مٹی سے کھیل رہی ہے اور ہم اس کو ’’زراعت ‘‘کہتے ہیں۔ ایک انسان کی قوت ہے جو سونے سے کھیل رہی ہے اس کو سنار یعنی زیور بنانے والا کہتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ پیسے کما رہا ہوتا ہے۔ ایک قوت ہے سرجری یعنی جراحی کی۔ مثلاََ ایک ڈاکٹر ہے وہ اپنے اوزار پکڑتاہے اس کے جسم کی بھی اور ذہن کی بھی ایسی نشوونما ہوتی ہے(بہت سی قوتیں مل کر اس دُنیامیں کام کرتی ہیں)کہ جس وقت وہ چاقو چلاتا ہے تو ایک سیدھی لکیر کھینچتاہے ۔ ذرا بھی ادھر اُدھر نہیں ہوتا لیکن اس کے مقابلے پر ایک دوسرا ڈاکٹر تھا جس میں پوری طاقت تھی لیکن وہ اپنے علم میں نہیں بڑھا اور اپنی صلاحیت کی صحیح نشوونما نہیں کی وہ آپریشن کرتا ہے گردے کا،تو ساتھ ہی تین اور جگہ زخم لگا جاتا ہے اس واسطے کہ اس کی صلاحیّت کی پوری نشوونما نہیں ہوپائی اور اس قسم کے جو کام ہیں اُن میں تو کسی زندہ قوم کو سو فی صد صلاحیّت سے کم پر راضی نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا بعض دفعہ میں سمجھانے کے لئے مذاق میں بات کرتا ہوں تو وہ حیران ہوجاتے ہیں ۔مثلاََ اگر ہمارا لاہور کا طبّی کالج چالیس فی صد نمبروں پر لڑکوں کو پاس کرتا ہے تو وہاں سے ایک فارغ التحصیل ڈاکٹر اگر پانچ میں سے تین مریضوں کو نااہلیت کی بنا پر مارتا رہے تو آپ اس پر الزام نہیں لگا سکتے ۔ وہ آرام سے کہہ دے گا کہ مجھے چالیس فی صد نمبر دے کر پاس کیا گیا تھا۔ دیکھو میں اب بھی پاس ہوں۔ میرے چالیس فی صد مریض اچھے ہورہے ہیں۔ تم نے میری ساٹھ فی صد جو خامی تھی، اس کو جب نظر انداز کیا تھا تو جو ساٹھ فی صدمریض مررہے ہیں ، ان کو نظر انداز کرنے کے لئے کیوں تیا ر نہیں ہوتے۔ پس اس قسم کے جوکام ہیں اُن میں عقل ہمیں یہی کہتی ہے کہ سو فی صد نتیجہ ہوناچاہئے۔
اسی طرح ایک انجینئر ہے۔ آپ نے اُس کو چالیس فی صد نمبر دے کر پاس کردیا۔ وہ پانچ مکان بناتا ہے جن میں دو کی چھتیں قائم رہتی ہیں اور تین مکانوں کی چھتیں گر جاتی ہیں مگر آپ اُسے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ کہے گا میں پاس ہوں مجھے اسی معیار کے مطابق نمبر دے کر پاس کیا گیا تھا۔ اگر تین مکانوں کی چھتیں گر گئی ہیں تو مجھ پر الزام نہیں بلکہ اس ادارے پر الزام ہے جس نے پاس کیا تھا۔
بہر حال یہ مثال میں اس لئے دے رہا ہوں کہ بعض صلاحیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اگر ان کی نشوونما سو فی صد نہ ہوتو وہ قوم کے لئے نقصان دہ بن جاتی ہیں گو بعض صلاحیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اگر ان کی نشوونما پچاس فی صد ہو تو اس طرح کانقصان نہیں ہوتا البتہ یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ اُس کے ذریعہ جو قومی دولت کا پچاس فی صد اَور اضافہ ہونا تھا اس سے قوم محروم ہوگئی۔
پس صلاحیتوں کا ایک دائرہ ہوتاہے اور اس دائرے سے انسان آگے نہیں جاسکتا ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن اس دائرے تک پہنچ سکتا ہے تبھی وہ صلاحیت کا دائرہ بنا اور اس سے کم بھی رہ سکتا ہے اور جو کمی ہے وہ اس فرد اور اُس کی قوم کے نقصان کاباعث بنتی ہے۔
یہ سوچ کر بڑی شرم آتی ہے کہ جس قوم کو یا جس اُمّت کو اس قسم کی حسین تعلیم دے کر ان مسائل کو واضح کیا گیا تھا وہ اس مادی دُنیامیں مادی دولت اور ذہنی دولت اور ذہنی نشوونما کے لحاظ سے چین یا امریکہ یا روس یا یورپ سے پیچھے رہ گئی ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے آپ اُن سے آگے بڑھ سکتے ہیں اس لئے کہ(یہ میری خوش فہمی ہی نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ) یہ قومیں بھی بحیثیت مجموعی اپنے اپنے دائرہ استعداد یا دائرہ صلاحیت کی آخری حد سے ابھی ورے ہیں۔ ابھی اس لکیر تک نہیں پہنچیں جو اس دائرے کو معین کرتی ہے۔ اگر آپ اُس آخری حد تک پہنچ جائیں تو آپ اُن سے آگے نکل جائیں گے ۔ اس واسطے اُمّت محمدیہ کی زندگی میں لغو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ۔ (المومنون:۴)
جس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ یہ اُمّت اور اس کے افرادہر اس کام سے اجتناب کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں صلاحیت کی حقیقی اور کامل نشوونما میں روک پیدا ہوتی ہو۔
اب موجودہ چین ہم سے آگے نکل گیا ہے حالانکہ اس کا وجود پاکستان سے کم عمر ہے۔ ہم نے ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل کی تھی اُنہوں نے غالباََ۴۸ء یا ۴۹ء میں آزادی حاصل کی تھی وہ ملک ہم سے سال دوسال چھوٹا ہے۔ مجھے صحیح طور پرتو یاد نہیں لیکن یہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوںکہ اس کی عمر ہمارے ملک سے چھوٹی ہے لیکن ہم سے وہ مادی اور ذہنی لحاظ سے آگے نکل گیا ہے اور یہ اس لئے ہوا کہ خداتعالیٰ نے ایک مسلمان کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ اگر تُو کوشش نہیں کرے گا تب بھی میں تیری صلاحیتوں کی نشوونما کردوں گا اور ایک غیر مُسلم کو اُس نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تیری نشوونما تیری کوشش کے باوجود دائرہ استعداد کے قریب سے قریب تر نہیں ہوگی ۔ یہ دُنیاکا قانون ہے۔ یہ قانونِ قدرت اور قانونِ فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص اپنی صلاحیتوں کے نُور کو اُجاگر کرنے کی انتہائی کوشش کرے گا وہ منور ہوجائے گا ۔
یہ زندگی صرف مادی اور ذہنی ہی نہیں بلکہ دُنیامیں اخلاقی اور روحانی زندگی بھی ضروری ہے اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے(جیسے بھی ہم ہیں) پھر بھی وہ ہم سے پیچھے ہیں لیکن انہوں نے جس صلاحیت یا صلاحیت کے جس میدان میں(اور میں نے بتایا ہے کہ یہ چار میدان ہیں) کوشش کی اس میں وہ ہم سے آگے نکل گئے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے۔ خدا تعالیٰ کایہ قانون نہیں ہے اگر تم صحیح وقت پر گندم نہ بھی بیجو تب بھی تمہارے اسلام کی طرف منسوب ہونے کے نتیجہ میں تمہارے کھیتوں میں گندم اُگ آئے گی۔ کبھی آپ گندم کا بیج مارچ یا اپریل میں لگا کرتو دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اُس نے تمہارے اندر جو صلاحیتیں رکھی ہیں اگر تم ان کی نشوونما کے لئے اسی کے بتائے ہوئے طریق پر کوشش کروگے تو اس کا نتیجہ نکلے گا۔ ان صلاحیتوں کے نتائج نکالنے کے لئے یہ ساری دنیا بنی ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس عالمین کو تمہارے لئے مسخر کردیا گیا ہے۔ زمین کو مسخر کیا کہ وہ تمہارے لئے اناج اُگائے اور تمہارے لئے کپڑوں کا سامان پیدا کرے یا تمہارے لئے چکنائی کا سامان پیدا کرے یا تمہارے لئے ایندھن کا سامان پیدا کرے وغیرہ وغیرہ۔ ہم زمین سے ہزارہا اشیاء حاصل کررہے ہیں اور پھر بھی ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتنی حمد کرنی چاہئے۔
غرض یہ اسی تسخیر کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیاکی ہر چیز کو ہمارے کام میںلگا دیا ہے یہاں تک کہ خداتعالیٰ نے ایک مسلمان کو تو یہ بھی فرمایا تھا کہ اُس نے تمہارے لئے یورینیم کو مسخر کردیاہے۔ خداتعالیٰ نے اس کے متعلق مسلمانوں کو بڑی وضاحت سے فرمایاتھا مگر اس کا فائدہ اُٹھایا گیا امریکہ اور روس اور یہ بڑے شرم کی بات ہے خداتعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اس زمین میں جوکچھ بھی پایا جاتا ہے خواہ یہ یورینیم ہویا ایک ایسا ذرہ ہو جس سے تم شیشہ بناتے ہو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ تمام صلاحیتیں عطاکردی ہیں کہ جن کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں تم اس مادی دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت کما سکتے ہوا ور پھر تدریج کا اصول بنایا یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نشوونما کی ذمہ داری تمہارے ماں باپ، تمہارے ماحول اور تمہارے نفسوں کے اوپر ڈال دی گئی ہے۔ تم تر قی کرو اور میرے انعامات کو حاصل کرتے چلے جائو۔
اب اس تمہید کے بعد میں اپنے بڑوں اور چھوٹوں، مردوں اور عورتوں ، بچوں اوربالغوں سے کہتاہوں کہ وہ اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور محنت کی عادت ڈالیں۔ محنت سے میری مراد صرف محنت کا وہ لفظ نہیں کہ جس کو میںبولتا ہوں تو ہمارے کان اس کی لہریں سنتے ہیں مگرنہ تو لوگ سمجھتے ہیں اورنہ کام کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ محنت سے میری مراد اس تمہید کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم نے ہراس صلاحیت پر جو خداتعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالنا ہے اور اچھے سے اچھے نتائج نکالنے ہیں۔ جب میں کوشش کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ ہمیں دعائوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دراصل دعا بھی ایک کوشش، ایک تدبیر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ مجھ پر تو وجد طاری کردیتا ہے آپ فرماتے ہیں(صحیح لفظ تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم یہی ہے کہ) دعا تدبیر ہے اور تدبیر دعاہے۔ غرض دنیا بھی ایک کوشش ہے البتہ یہ صحیح ہے کہ یہ روحانی کوشش ہے مثلاََ ہاتھ کی چار انگلیاں ہیں۔ علیٰحدہ علیٰحدہ ہوتی ہیں اگر ان میں سے دو کی نشوونما نہ ہو تو چار کی طاقت نہیں رہتی یعنی وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو چاروں انگلیوں کے ملنے سے نکلنا تھا اب اگر کسی کی صلاحیت کی چھوٹی انگلی جسمانی طور پر اور شہادت کی انگلی ذہنی طور پر ترقی کرگئی اور مضبوط ہوگئی اور بڑی طاقتور بن گئی لیکن اگر بیچ کی دو انگلیوں نے اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی نہیں کی یاان میں کوئی نشوونما نہیں ہوئی تو ان انگلیوں کے ذریعہ گرفت کیسے ہوگی ۔ جس شخص کی اس طرح کی انگلیاں ہوتی ہیں ہم اسے مفلوج کہتے ہیں۔
پس جن قوموں نے صرف مادی لحاظ سے اور ذہنی لحاظ سے ترقی کی ہے اسلام کی اصطلاح میں وہ قومیں مفلوج ہیں کیونکہ انہوں نے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ترقی نہیں کی لیکن وہ تو ناواقف ہیں ۔ ان کو پتہ ہی نہیں وہ اسلام کی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ کسی نے اُن کوقرآن کریم نہیں سکھایا۔ کسی نے اس کے معارف اُن کے سامنے نہیں رکھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے اُن کا تعلق نہیں پیداہوا ۔ وہ اس کے پیار کو نہیں پہچانتے کہ وہ کس طرح اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے انہوں نے وہ نظارے دیکھے ہی نہیں۔ وہ ایک حد تک معذور ہیں مگر جہاں تک صلاحیتوں کا تعلق تھا وہ معذور نہیں لیکن جہاں تک ماحول کا تعلق ہے وہ معذور ہیں۔ مگر کیایہ معذرت آپ کی زبان سے نکل سکتی ہے؟ کیونکہ آپ کو تو خداتعالیٰ نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب عطافرمائی ہے۔ آپ کو تو خداتعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیساعظیم نور عطافرمایا ہے اور آپ کے سامنے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ایک عظیم اسوہ کے رکھا ہے لیکن دوسری قوموں کی آنکھ کے سامنے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی اُسوئہ حسنہ نہیں ہے ۔ اُن کے پاس تو قرآن کریم جیسی کوئی کتاب نہیں ہے۔ اُن کی ایک حد تک دُنیوی لحاظ سے معذرت قبول ہوسکتی ہے۔ باقی یہ تو اللہ تعالیٰ کاکام ہے وہ جانے۔ ہمیں اس سے تعلق نہیں تاہم ہمارے دماغ بھی ایک حدتک اس معذرت کو قبول کرلیتے ہیں لیکن دنیاکا کون سا دماغ ہے جو ایک مسلمان کی معذرت کو قبول کرے گا۔ کوئی شخص نہیں جو اس کی معذرت قبول کرے اس لئے صرف دوسروں کو مفلوج کہہ دینے سے ہمیں کوئی فائدہ، کوئی خوشی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کی دو انگلیاں کام کررہی ہیں اور باقی دو مفلوج ہیں اور آپ کی اُن سے آگے نکلنے کی صلاحیت اور بہتر ماحول رکھتے ہوئے بھی چاروں انگلیاں مفلوج ہیں تو پھر ان کے جزوی فالج کا ذکر ہمیں کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ پھر تو ہم شاید اس بات کے قابل بھی نہ رہیں کہ اُن کے لئے اپنے دل میں رحم کے جذبات پیدا کرسکیں کیونکہ ہماری حالت اُن سے بھی زیادہ گری ہوئی ہے۔
پس جس رنگ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اُس رنگ میں ہر احمدی کو محنت کرنی چاہئے اور اپنی جدو جہد کو انتہا تک پہنچا نا چاہئے۔ ہر فرد کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیت کی شکل میں اُسے جو اصلی قوت اور اصلی دولت عطا فرمائی ہے اس سے وہ اپنے دائرہ صلاحیت کے اندر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اگر آج پاکستان میں بسنے والے احمدی ہی اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کو ان کی انتہا تک پہنچادیں تو اسی سے ہمارے اس پیارے ملک کی کایا پلٹ جائے گی حالانکہ ہم بہت تھوڑے ہیں لیکن اگر ہم اپنی تھوڑی تعداد کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کی نشوونما آخری حد تک پہنچا دیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ دولت ہر چہار لحا ظ سے کسی کو مل سکتی ہے وہ مل جائے تو پاکستان کی دولت میں اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ دُنیاکی کوئی اَور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گی لیکن اگر ہم وعظ تو سنتے رہیں مگر عمل نہ کریں اور اپنے اوقات کو ضائع کرتے رہیں اور ہمارے نوجوان جنہیں خداتعالیٰ نے ذہن عطا فرمائے تھے وہ اپنے ذہنوں کی کند چھری کے ساتھ ذبح کرنے والے ہوں اور ہمارے وہ پیشہ ور دوست جنہیں اللہ تعالیٰ نے حُسن عمل کی صلاحیت عطافرمائی تھی وہ اس دنیا میں خوبصورتی اور حُسن پیدا نہ کر سکیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے لیکن اگر ہم ایسا کردیں تو پھر ہمارا ملک (اور پھر ساری دُنیا لیکن اس وقت میں اپنے ملک کی بات کررہاہوں۔ ویسے ہماری ذمہ داری ساری دُنیا کی خوشحالی کی ہے)دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک امیر ملک بن جائے گا۔ اسلئے کہ ہم تھوڑے ہیں لیکن اگر پاکستان کے سارے باشندے خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوے غلبۂ اسلام کی یہ ایک عظیم مہم جو دنیا میں جاری کی گئی ہے اس میں شامل ہوجائیں تو پھر میں کہوں گا کہ ہم ساری دنیاسے آگے نکل جائیں گے۔ لیکن ہم احمدی جو اس مملکت کے شہری ہیں،ہماری تعداد گو بہت تھوڑی ہے لیکن اگر ہم اپنی نجات کی معراج کو پالیں یعنی ہماری قوتوں، ہماری استعدادوں اور ہماری صلاحیتوں کی نشوونما اپنے کمال تک پہنچ جائے تو ہمیں ہر پہلو سے اتنی دولت ملے! اتنی وافر دولت کہ ہمارے ملک کا نقشہ بدل جائے۔
پس اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہوئے اور بنی نوع انسان سے محبت کا اظہار کرنے کے لئے تم خداتعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوںکی زیادہ سے زیادہ نشوونما کرو اور اپنے اپنے دائرہ استعداد کی آخری حدود پر کھڑے ہوکر تم اپنے ربّ سے یہ کہو اے ہمارے ربّ !تُو نے ہمیں انتہائی پیارسے صلاحیتیں دیں اور اُن کا ایک دائرہ مقرر فرمایا ۔پھر تو نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ ہم درجہ بدرجہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں اب ہم اپنی حدپر پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم اندر کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ دُعا کرتے ہیں کہ جس طرح تُو نے ہمیںہمارے دائرہ استعداد اور صلاحیت میں انتہا تک پہنچنے کی توفیق عطا کرکے ہمیں نجات کی معراج تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح تُو ہمیں یہ توفیق بھی عطا فرما کہ اب ہم زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو۔(آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا۵)


اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات کا وارث بننے کیلئے
جماعت اپنی قربانی کو انتہا تک پہنچادے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جنوری۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-
(البقرۃ:۲۸۷)
(النجم:۳۴،۳۵)

(النجم:۳۹تا۴۳)
اِس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
میں ہر دو پہلو بیان ہوئے ہیں ۔ایک یہ کہ اللہ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہاں طاقت سے مراد دائرۂ استعداد ہی ہے جس پر میں متعدد بار روشنی ڈال چکا ہوں۔ پس کسی کا جتنا دائرۂِ استعداد یا دائرۂ صلاحیت یا دائرۂ قوت وطاقت ہو، اس سے زیادہ بوجھ فرد، گروہ یانوع پر نہیں ڈالا گیا ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ دائرہ استعداد میں جتنی بھی طاقت تھی، اس پر پورا سو فیصد بوجھ ڈال دیا گیا اور انسان کو اس کا مکلف بنادیا گیا۔ اللہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے اور جو طاقت سے باہر ہے وہ اس کا بھی مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ اپنے کسی بندے پر اس وجہ سے بھی خوش نہیں ہوگا کہ اس نے اپنے بھائیوں سے طاقت سے زیادہ مطالبہ کیا لیکن طاقت اور اس دائرہ کے اندر ذمہ داریوں کا جو زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاسکتا ہے، وہ ڈالتا ہے چونکہ قوت وطاقت کی نشوونما ہوتی رہتی ہے اس لئے افراد کے بوجھ اور ان کی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ تیری وحی سے منہ پھیر لیتے ہیں وہ بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک تو مُقِرّ اور ایک وہ جو ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں نباہنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان کا حال یہ ہے کہ تھوڑا سا دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرنے لگتے ہیں۔ میں جو بات بتائی گئی تھی وہ یہاں کھول کر بتادی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تھوڑا دینے پر راضی نہیں بلکہ وہ طاقت کے مطابق پورادینے پر راضی اور خوش ہوتا اور اس کی جزا دیتا ہے۔ باقی اس کی رحمت وسیع ہے وہ اپنے بندوں سے بعد میں جزا سزا کے وقت جو چاہے سلوک کرے (’’بعد میں‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اس زندگی کے بعد اُخروی جزا کاوقت یا اِسی زندگی میں جزا کا وقت یعنی ایک محدود کو شش کا نتیجہ نکلنے کا وقت) وہ مالک ہے جو مرضی ہوکرے اسکے متعلق ہم بات نہیں کیا کرتے لیکن جو خدا نے ہمیں کہا اور تعلیم دی ہے، ہم سے جو چاہتا اور خواہش رکھتا ہے اور جس بات پر وہ کہتاہے کہ میں راضی ہوتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جتنادے سکتے ہو اُتنا دے دو تو میں راضی ہوں گا ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ ڈالا ہے اور اس کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کام نہ کرے بلکہ اس سے کم کرے ۔
کی لغوی بحث میں امام راغب نے بھی اس طرف اشارہ کیاہے کہ انسان کی طاقت سے جوزائد ہے، وہ اس کا مکلّف نہیں لیکن اس دائرے کے اندر مکلّف ہے۔ سورئہ نجم میں یہی چیز کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ تھوڑا دینا اور بقیہ کے متعلق بخل کرنا۔ اگر تمہاری قوتِ استعداد سو اکائی ہو اور تم خدا کی راہ میں خداکے بتائے ہوئے طریق اور اسکی تعلیم کے مطابق اور اس کی شریعت کے اصول کے لحاظ سے ننانوے اکائیاں دے دو اور ایک کے متعلق رو گردانی اور بغاوت کا طریق اختیار کرو توتم باغی ہو۔ اگر بھول جائو توتم خداتعالیٰ کے بعض فضلوں کو کھونے والے ہو سوائے اس کے کہ پھر ایک اَور کوشش کرو یعنی استغفار اور دعائوں اور خدا کے سامنے عاجزانہ تڑپنے کی۔ یہ ایک اَور کوشش ہے جو اِس کمی کو پُورا کرتی ہے پس کوشش بہرحال کرنی پڑے گی۔
آدمیINDIFFERENT(اِن ڈِفرینٹ)اور بے پرواہ نہیں رہ سکتا ۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پر واہ کوئی نہیں ۔ جہاں اس نے یہ کہاکہ مجھے پرواہ کوئی نہیں، وہاں وہ ماراگیا اور اس کے ننانوے بھی اس کے مُنہ پہ پھینک دئے گئے لیکن اگر کوئی بشری کمزوری ہے یا غفلت ہے یا عدم علم یا ناواقفیت کی وجہ سے کوئی مجبوری سمجھی گئی (یہ جہالت کے بعض پہلو اور اندھیرے ہیں جو بعض دفعہ انسان کے اُوپر چھاجاتے ہیں) حالانکہ وہ مجبوری نہیں تھی اور اس پر اللہ تعالیٰ فضل کردے تو اَور بات ہے لیکن مطالبہ یہ کیاگیا ہے کہ ہر شخص اپنی قوت اور طاقت ، استعداد اور صلاحیت کے مطابق جتنا زیادہ سے زیادہ کرسکتا ہے وہ کرے اور اگر وہ خُداکے حقوق اور خدا کی طرف سے عائد کردہ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انہیں خدا کے حضور پیش کردے تو اسکے لئے بہترین جزا مقدّر ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ سورئہ نجم کی ان دو آیات کے بعد ان لوگوں سے مخاطب ہوکرفرماتا ہے جوکچھ دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرتے ہیں کہ کیا اِن کو علم نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے۔ جو پہلی الہامی کتب میں بھی نظر آتا ہے۔یعنی ۔وَزَرَ کے ایک معنے تو گناہ کے ہیں لیکن میں جو تفسیر کررہا ہوں وہاں گناہ کے معنی چسپاں نہیں ہوتے ۔ میری تفسیر کے مطابق بوجھ کے معنے ہیں یعنی خداتعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جس کی استعداد پچاس اکائیاں ہے وہ اسّی اکائیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جو پچاس اور ساٹھ کے درمیان فرق ہے یا پچاس اور سَو کے درمیان فرق ہے وہ تو دوسرے کا بوجھ ہے(جس کی طاقت زیادہ ہے اور) اس کے اوپر نہیں پڑسکتا۔ اس کی جان پر اتنا ہی بوجھ پڑے گا جتنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے مطابق اٹھانے کے قابل ہے اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں نے جو کوتاہی کی، میں نے جو غفلت کی، میں نے جو کمزوری دکھائی اور جو قربانی مجھے پیش کرنی چاہئے تھی، میں نے پیش نہیں کی تو کوئی اَور شخص اس کی خاطر اس کمی کو پورا کردے گا ۔ یا ناممکن ہے اس واسطے کہ اس میں بھی تو اپنی اِستعداد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی اہلیت نہیں ہے اگر اس کی ذمہ داری اسّی اکائیاں ہے تو اسّی اکائیوں پر اس کی طاقت ختم ہوگی۔ وہ دوسرے کی دس اکائیاں کہاں سے پوری کرے گااگر اس کی طاقت سو اکائیاں ہے تو سو اس نے دے دینی ہیں ایک سو دس وہ کہاں سے لائے گا۔
پس یہ ایک اٹل قانون ہے۔ اگر زید اپنی پوری طاقت کے مطابق خداکے حضور پیش نہ کرے تو زید کی طاقت کے اظہار یعنی محنت اور جانفشانی میں جو کمی رہ گئی ہے یہ کمی کوئی دوسرا پوری نہیں کرسکتا کیونکہ اس کااپنا ایک دائرۂ استعداد ہے اور اس دائرۂ استعداد کی انتہاتک اس کی ذمہ داری ہے۔ دوسرے کی ذمہ داری وہ کیسے اُٹھائے گا۔ ۔دوسرے کا بوجھ تو وہ اُٹھا ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ اٹل قانون ہے کہ انسان دوسرے کا بوجھ اور ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا۔ زید بکر کی ذمہ داریاں نہیں اُٹھاسکتا اور بکرزیدکی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا۔ ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں خود ہی ادا کرنی پڑیں گی اور ادا بھی اس طرح نہیں کرنی ہوں گی کہ کچھ دیا اور بقیہ کے متعلق بخل کردیا بلکہ ا ن ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنی طاقت کو انتہا تک پہنچا کر اس کا آخری حصہ تک ادا کرنا پڑے گا کیونکہ دوسرا کوئی ہے ہی نہیں جو کمی کو پورا کرسکے۔ عقلاً بھی کوئی دوسرا اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے کیونکہ جو دوسرا ہے اس کو جتنی طاقت دی گئی تھی اس کے مطابق کام کرنے کی تو اس کی اپنی ذمہ داری تھی اور دوسرے کی ذمہ داری اُٹھانے کی اسے طاقت ہی نہیں ملی۔ اس کی طاقت کا کوئی حصہ ایسانہیں رکھاگیا جس کے بارہ میں اسے کہاگیا ہوکہ تو دوسرے کی ذمہ داری اٹھالے ۔ وہ دوسرے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ ہرگز نہیں اٹھا سکتا۔ پس جو قوم اپنے مقام کی انتہاکو پہنچنا چاہے،اس کے ہر فرد کی ایسی تربیت ہونی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انتہا تک پہنچانے والا ہو۔ فرض کروایک لاکھ کی کوئی قوم ہے اگر ان میں سے نوّے ہزار اپنے دائرہ استعداد کے مطابق یعنی میں جس قسم کے مکّلف ہونے کا ذکر ہے اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرہ استعداد کی انتہاتک پہنچادے اور دس ہزار نہ پہنچائیں تو جو کام دس ہزار سے رہ گیا ہے، کسی اَور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پورا کرسکے۔ یہ بالکل ناممکن ہے خداتعالیٰ نے اس کوپورا کرنے کی طاقت ہی نہیں دی پس اگر یہ کمی رہ گئی تو ایک لاکھ آدمی اپنے مقام کی انتہا کو نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ دس ہزار نے کمزوری دکھادی۔
پھر فرمایا کہ انسان کو اس کی سعی کے مطابق ہی ملا کرتا ہے۔ میں اب یہاں یہ معنی کروں گا کہ بنی نوع انسان کیونکہ ان کی سعی کا جو مجموعہ ہے اس کی انتہا کے مطابق قوم ترقی کرتی ہے ویسے ہر فرد بھی اپنی سعی کے مطابق ہی پاتا ہے۔ بچوں کو سمجھانے کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو سَو روپیہ دینا چاہے اور وہ دو پر راضی ہوجائے تو اس نے خود کو اٹھانوے سے محروم کردیا ۔ اگر کوئی فرد خداتعالیٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں کے حصول کی استعداد رکھتا تھا یعنی اتنی استعداد رکھتا تھا کہ وہ خدا کے حضور ایسی قربانیاں پیش کرسکے کہ خدا تعالیٰ کے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام جو امت محمدیہ میں کسی کو مل سکتے ہیں، وہ پالے اگر اس نے وہ کوشش نہیں کی تو وہ خود کو محروم کرتاہے اور جو قوم بحیثیت قوم اس لئے پیدا کی گئی کہ وہ دنیا کی معلّم اور ہادی بنے اس قوم کے ہر فر د کو اپنی قوت کے مطابق اپنی قربانی انتہاتک پہنچادینی چاہئے اور قوت تو بدلتی رہتی ہے(اس تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں اس کی وضاحت کرچکا ہوں) کیونکہ نشوونما ہورہی ہے اور طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آپ کوئی وقت لے لیں اگر انہوں نے اس وقت کی طاقت کے مطابق اپنی قربانیوں کو انتہاتک پہنچا دیاتو وہ قوم اس وقت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات کی وارث بن گئی لیکن اگر بعض نے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچادیا اور وہ دائرۂ استعداد کی حد بندی کرنے والی آخری لکیر تک پہنچ گئے اور بعض نے اپنی طاقت کی انتہا تک قربانیاں نہ دیں تو بحیثیت مجموعی قوم یا جماعت ان انعامات کی وارث نہیں بن سکتی ، جن کے لئے اسے پیدا کیاگیا ہے(اس حساب میں منافقین کو اس گروہ سے باہر سمجھناپڑے گا)۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا شخص جو اپنی استعداد کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھے گا اور اس کی سعی کے مطابق جَزَآئٌ اَوْفٰییعنی پوری جزاء اسے ضرور ملے گی۔ اسے اپنی کوشش پر نازاں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بعض ایسی کمزوریا ں ہوتی ہیں جو انسان کی نظر میں نہیں ہوتیں اور اس کی عقل میں نہیں آسکتیں لیکن کمزوری ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا کہ اس شخص یا جماعت نے اپنی طاقتوں اور وقتی نشوونما کے مطابق بغیر کسی کمزوری کے (کمزوری ایمان ہو یا کمزوری عمل یا کمزوری فہم) خدا کے حضور اپنی انتہائی قربانی پیش کردی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کاکام ہے۔ انسان یہ کرہی نہیں سکتا اس کی نگاہ دوسروں کے سلسلہ میں بھی متعصبانہ ہوسکتی ہے اور اپنے حق میں تو انسان بڑا سخت متعصب بن جاتا ہے کرتا تھوڑا ہے اور سمجھتا ہے میں نے بہت کیا۔ کچھ بھی نہیںکرتا اور سمجھتا ہے میں نے کچھ کرلیا۔
قرآن کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے کہ کرتے کچھ نہیں اور دعوے بڑے کررہے ہوتے ہیں۔ ایسی کمزوریا ں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ پس فرمایا تم انتہائی کوشش کرو جس قدر تم کرسکتے ہو لیکن تکبر نہ کرنا۔ ہمارا وعدہ یہ ہے کہ تمہاری انتہائی کوششوں کا انتہائی نتیجہ نکلے گا بشرطیکہ تمہاری کوششیں ہماری نگاہ میں بھی انتہا تک پہنچی ہوئی ہوں اور تم اس شرط کو کبھی نہ بھولنا۔
آج میں ایک اور خطبے کے تسلسل میں ہی محنت پر زور دینا چاہتا ہوں گو محنت سے مراد ہر قسم کی محنت ہوتی ہے لیکن ہر فرد اورقوم میں اصولاً دو قسم کی محنتیں ہوتی ہیں۔ ایک فرد یا قوم کی استعدادوں کی نشوونما کے لئے محنت اور ایک یہ کہ پہلے کی نشوونماکے بعد اُس وقت (معین کوئی وقت یا تاریخ لے لیں) کی طاقتوں اوراستعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ، اس کی شریعت کی روشنی میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کرتے ہوئے پورے طور پر کام میں لگا دینا اور اس وقت کے لحاظ سے اپنی ساری طاقت اور استعداد کے مطابق خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو انتہاتک پہنچا دینا۔ یہ دونوں کوششیں اپنی انتہائی شکل میں ہونی چاہئیں یعنی ایک تو تربیت کی کوشش جسے ہم مختصراََ دوسرے الفاظ میں استعدادوں کی نشوونما کہتے ہیں۔ ہروہ فردواحد جو خدا اور اس کے رسول اور خدا کے رسولؐ کے روحانی فرزندعظیم مہدی معہودؑ کی طرف منسوب ہورہا ہے اس کی تربیت کے لئے انتہائی کوشش ہونی چاہئے اور دوسرے جماعت بحیثیت جماعت(بحیثیت جماعت کا مطلب ہے افراد کا مجموعہ) اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کی جتنی طاقت رکھتی ہے اسے اس طاقت کے مطابق انتہائی قربانی دیتے رہنا چاہئے یہ طاقت بڑھتی رہے گی اور پہلے سے بڑی قربانی کا مطالبہ ہوتا رہے گا لیکن آج ۲۸؍جنوری کو ہماری جتنی طاقت ہے اس کے مطابق ہمیں انتہائی قربانی دے دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور کل ہماری طاقت آج سے کہیں بڑھ کر ہو اور خدا کرے کہ کل ہماری قربانیاں بھی اسی نسبت سے آج سے کہیں بڑھ کر ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۹؍اپریل۱۹۷۲ء صفحہ ۲،۳)
ہر مسلمان اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی
قوتوں کی نشوونما کو کمال تک پہنچا دے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍فروری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-

(بنی اسرآئیل :۱۹تا ۲۲)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ نے ہمیں محنت کرنے کے متعلق جو حسین تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو جو بھی قوتیں اور طاقتیں دی گئی ہیں ان کی نشوو نما کا انحصار اُس کی انتھک محنت اور انتہائی کوشش پر ہے۔ اِس لئے انسان کو اپنی قوتوں اور طاقتوں کی کامل نشوونما کے لئے انتھک کوشش اور انتہائی جدوجہد کرنی چاہئے۔
جیسا کہ قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتاہے اصولی طور پر ہمیں چار قسم کی قوتیںاور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں۔ (۱)۔ جسمانی (۲)۔ ذہنی (۳)۔ اخلاقی اور (۴)۔روحانی۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہر قسم کی قوت کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرنی ضروری ہے اور ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم کی قوت اور صلاحیت کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ کی رُو سے انسان کی تمام طاقتوں اور قوتوں کی صحیح اور کامل نشوونما ہونی چاہئے۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ اگر چین سے علم حاصل ہو سکے تو چین جانا ضروری ہے یعنی ذہنی اور علمی قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشوونما کے لئے انتہائی سختیاں برداشت کرنی چاہئیں۔
پھر اخلاق پر بڑا زور دیا۔ فرمایا کھانا کھاتے وقت اس بات کو مدِّنظر رکھنا کہ تمہارے کھانے پینے کا کہیں تمہارے اخلاق پر بُرا اثر نہ پڑے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اسلام میں جو ممنوعات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ اخلاق درست رہیں۔ آپ نے فرمایاکہ سؤر کے گوشت کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ انسانی جسم اور انسانی اخلاق پر اچھا اثر نہیں کرتا اور پھر ممنوعات میں صرف وہ چیزیں ہی نہیں آتیں کہ جن کے نہ کھانے کا حکم ہے بلکہ جس رنگ میں کھانے کا تعلق ہے اس کے بھی بعض پہلوئوں میں ممانعت ہے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ابھی بھوک کا احسا س ہو تو کھانا چھوڑ دو۔ ایک مسلمان طیّب ہی کھا رہا ہوگا لیکن اس میں بھی اسراف سے منع کیا۔ پھر ایسے کھانے سے بھی منع کیا جس کی مقدار ذہن یا اخلاق پر اثر کرنے والی ہو۔ اِس لئے جو لوگ اُس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک بھوک کا احساس قائم رہتا ہے بلکہ اُس کے بعد بھی، اُن کے جسم پر بھی اثر پڑتا ہے، اُن کے اخلاق پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اخلاقی طاقتیں دراصل وہ فطرتی طاقتیں ہیں جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ان کے صحیح استعمال کو ’’اخلاقی طاقت‘‘ کہتے ہیں مثلاً ایک فطرتی طاقت یہ بھی ہے کہ انسان بری چیز کو برا سمجھتا اور اس کے متعلق اس کے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے۔ پس غصہ انسانی فطرت کی ایک طاقت ہے اِس لئے یہ کم و بیش ہر انسان کے اندر (سوائے ان لوگوں کے جو مفلوج ہوں) کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے لیکن انسان کو محض نفرت کرنے یا غصہ کرنے کی طاقت ہی نہیں دی گئی بلکہ نفرت اور غصے کے صحیح استعمال کی طاقت بھی دی گئی ہے اور اسی کو ہم اخلاقی طاقت کہتے ہیں۔ صحیح استعمال کی یہ طاقت انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں نظر نہیں آتی کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً فرشتے ہیں، اُن کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کیونکہ اُن کا اپنا ایک ایسا دائرہ ہے جس میں اُن کی فطرت خود ہی اپنے ماحول کے مطابق تھوڑی بہت لچک پیدا کر دیتی ہے اور اس سے زیادہ کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی یا مثلاً خوف ہے یعنی کسی چیز سے ڈرنا یہ بھی انسانی فطرت کا ایک حصہ اور اس کی ایک طاقت ہے۔ اس کے صحیح استعمال کے لئے جو چیز ہمیں دی گئی ہے۔ وہ اخلاقی قوت ہے مثلاً جو شخص ڈرتا اور خوف کھاتا ہے اُسے ہم نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ (اِس معنی میں جو اسلام نے اخلاقی نفرت بیان کی ہے) اور دوسرا شخص جب ڈرتا ہے وہ ہمارا محبوب بن جاتا ہے یعنی جو شخص شیطان سے ڈرتا ہے جو شخص دُنیوی معبودوں کی پرستش کرنے سے ڈرتا ہے وہ دراصل ایک عقل مند صاحبِ فراست اور بااخلاق مسلمان ہے جس کی قوتوں کی گویا صحیح نشوونما ہو چکی ہے۔ اس لئے وہ شیطان وغیرہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن سے خوف کھاتا ہے البتہ انسانوں سے نفرت کرنا اسلام نے ہمیں نہیں سکھایا۔ اُن کی بداخلاقیوں سے نفرت کرنے کا حکم ہے لیکن اس خوف کو جو اس شخص کے دل میں پیدا ہوا ہم اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہی خوف ایک اَور شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے یعنی خشیت اللہ کے رنگ میں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ سے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہم اُس نعمتوں اور فضلوں سے محروم نہ ہو جائیں۔ ہم اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ اُس کے پیار سے محروم نہ ہو جائیں پس جو شخص اس رنگ میں خوف کا مظاہرہ کرتا ہے وہ ہماری نظر میں بڑا پیارا بن جاتا ہے چنانچہ سب سے زیادہ خشیت اللہ کے مالک ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔ہمارے اس محبوب نے انتہائی خوف کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا کامل پیار حاصل کیا۔ دوسری طرف انتہائی خوف ایک اَور شکل میں ابوجہل کے دل میں تھا۔ اُسے ہر وقت یہ خوف لاحق تھا کہ میری سرداری نہ چھن جائے یعنی اس کے دل میں یہ خوف رہتا تھا کہ حقِ صداقت کے حق میں یہ بات کرنے سے یا بتوں کے خلاف آواز اٹھانے سے اس کی سرداری نہ جاتی رہے لیکن یہ خوف قابل نفرت ہے پس اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں جو قوتیں اور استعدادیں رکھی ہیں ان کا ایسا استعمال ہو کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے یا اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو جائے اور یہی ہماری اخلاقی قوت ہے۔
پھر روحانی قوت ہے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں ہم اس ورلی زندگی کے محدود ہونے کے باوجود ابدی نعمتوں کے وارث بن جاتے ہیں۔ میں اس تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ ایک لمبا مضمون بن جاتا ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمیں چار قسم کی قوتیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ساری قوتوں اور صلاحیتوں کو نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچائو گے تو تم خسران میں ہو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کیا ہم تمہیں بتائیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ گھاٹا پانے والا، سب سے زیادہ گمراہ اور ہلاکت میں پڑنے والا کون ہے؟ فرماتا ہے۔ ہلاکت میں پڑنے والا اور راہ گم کرنے والا وہ شخص ہے جس نے اگرچہ اپنی جسمانی اور ذہنی طاقتوں کی نشوونما کو انتہاء تک پہنچا دیا۔ مگر اس نے اپنی اخلاقی اور روحانی طاقتوں کی طرف اور ان کی نشوونما کی طرف توجہ نہ دی۔
غرض اس آیت میں ہمیں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ اگر ہم چاروں قسم کی قوتوں میں سے ہر قسم کی تمام قوتوں کی نشوونما نہیں کریں گے تو ہم گھاٹے میں رہیں گے مثلاً انسان کو چار قسم کی قوتیں دی گئی تھیں مگر اس آیت کی رو سے انسان نے دو قوتوں پر زور دیا اور باقی دو یعنی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو نظرانداز کر دیا مگر آج تو ہمیں یہ سوچ کر شرم آتی ہے کہ جہاں تک ان دو کا تعلق تھا یعنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کی نشوونما کا اس میں بھی غیر مسلم دنیا مسلمان کہلانے والوں سے آگے نکل گئی ہے۔ ان کی جسمانی اور ان کی ذہنی قوتوں کی نشوونما ایک مسلمان سے بہتر تھی تبھی تو وہ اس دنیا میں ترقی کرگئے لیکن خداتعالیٰ نے ان غیر مسلموں کو دھتکارا اور فرمایا۔پرے ہٹ جائو میرے سامنے سے کیونکہ میں یہی خسران کے معنے ہیں یعنی ان کی کوشش اور ان کی جدوجہد اور ان کی محنت اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے لحاظ سے ادھوری تھی۔ انہوں نے دو قسم کی نشوونما کی اور دوسری دو کو چھوڑ دیا۔ دنیا کے متعلق ان کی کوششیں تھیں مگر اخلاقی اور روحانی قوتوں کا فقدان تھا حالانکہ دنیا میں جب تک اخلاقی حسن نظر نہ آئے اس وقت تک انسانیت میں حسن نظر نہیں آسکتا۔ جسمانی اور ذہنی قوتوںکے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی بھی نشوونما ہونی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرف ارشاد فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ مذہب کے بغیر صحیح اخلاق پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ جن لوگوں نے مذہب کو چھوڑ دیا اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانا پڑا کہ وہ مفلوج ہیں۔ وہ خسران میں ہیں وہ ہلاکت اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہیں۔
پس ان آیات میں علاوہ اور بہت سی باتوں کے یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ اگر ساری طاقتوں کی کمال نشوونما کے لئے تمہاری طرف سے انتہائی جدوجہد نہیں ہوگی تو تم گھاٹے میں رہو گے یا اگر تم نے دو قسم کی قوتوں کی نشوونما پر زور دیا اور دوسری دو بالکل بھول گئے تو یہ بات تمہارے لئے اَور بھی زیادہ نقصان اور ہلاکت کا موجب ہوگی لیکن اگر تم نے اپنی قوتوں کی صحیح اور انتہائی نشوونما کے لئے آخری کوشش نہ کی تو پھر بھی تم گھاٹے میں رہوگے جس حد تک تمہاری کوشش میں کمی ہوگی، اسی حد تک تمہارا نقصان بھی ہوگا۔
غرض خداتعالیٰ تمہیں بہت کچھ دینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس حد تک دینا چاہتا ہے جس حد تک اس نے تمہارے اندر لینے کی قوت اور طاقت پیدا کی ہے۔ اگر تم اس سے لینے کی طاقت کو انتہا تک نہ پہنچائو گے تو وہ تمہیں کچھ نہیں دے گا اس لئے کہ تم نے اس سے لینے کا خود کو اہل ہی نہیں بنایا۔ اگر تم محض دنیا کے لئے کوشش کروگے تو دنیا تمہیں مل جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے یہ ہی ہے پس اگر تم محض دنیا کے لئے اپنی جسمانی اور ذہنی طاقتوں کی نشوونما کو انتہا تک پہنچانے کے لئے محنت کرو گے تو دنیا تمہیں مل جائے گی۔ لیکن کی رو سے اس عارضی چند روزہ اور بے وفا دنیا کے بعد تمہیں کچھ نہیں ملے گا لیکن کی رو سے جو شخص اس دنیا کی بعد کی زندگی کے لئے بھی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا کے انعامات کے علاوہ اخروی زندگی کی نعمتوں سے بھی اسے نوازتا ہے۔
دراصل قرآن کریم میں جہاں بھی اس مضمون میں یعنی اس Context (کن ٹیکسٹ) میں ’’سَعٰی‘‘ کا لفظ آئے گا اس کا مطلب یہی ہوگا کہ جو شخص اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے محنت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی بنیادی صلاحیتیں عطا کرکے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دنیا کے انعامات اور اُخروی زندگی کے انعامات کے حصول کیلئے جو راہیں مقرر کی گئی ہیں ان پر چل کر انتہائی کوشش کرو گے تو اس دنیا میں بھی تم اللہ تعالیٰ کے بہترین انعاموں کے وارث بنو گے اور اُخروی زندگی میں بھی اس کے بہترین انعاموں کے وارث بنو گے۔ مگر یہ سب کچھ تم اپنے اپنے دائرۂ استعداد کے اندر رہ کر حاصل کرو گے کیونکہ اپنے دائرۂِ استعداد سے آگے تو کوئی شخص نہیں بڑھ سکتا نہ اس دُنیا میں اور نہ اُخروی زندگی میں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔۔(الرحمٰن:۳۰)
اس کا ایک نظارہ ہمیںیہاں بھی نظر آتا ہے۔ بہرحال اپنے دائرۂ استعداد اور دائرئہ صلاحیت کے اندر ہر شخص اور (پھر ان کا مجموعہ جس کا نام قوم رکھتے ہیں) ہر قوم اس دُنیا میں آگے سے آگے نکلتی چلی جائے گی اور اس طرح انسان بحیثیت انسان دو حصوں میں منقسم ہو جائے گا۔ ایک وہ انسان جس کا آدھا دھڑ مارا ہوا ہے یعنی اس کے وجود کا دُنیوی حصہ ہے اس میں تو زندگی کے آثار ہیں لیکن اس کے وجود کے اخلاقی اور روحانی حصوں میں ہمیں ایک بے حسی نظر آتی ہے یا جان نظر نہیں آتی اور دوسرا وہ جس کے دونوں حصوں میں جان نظر آتی ہے اور یہ وہ مسلمان ہے جس کی چاروں بنیادی قوتوں کی ارتقاء نہ صرف اس دُنیا تک محدود ہے اور نہ صرف اس دُنیا میں بندھی ہوئی یا محصور ہے بلکہ ایک مسلمان کی قوتوں کی ارتقاء کا تعلق، ان کی نشو و نما کا تعلق اور پھر اس کے نتیجہ میں اس کا اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہونے کا جو تعلق ہے وہ اس دُنیا کے ساتھ بھی ہے اور اُس دُنیا کے ساتھ بھی ہے چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ؓ نے آپ کی قوت قدسیہ اور تربیت کاملہ کے نتیجہ میں اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کو ان کے کمال تک پہنچایا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مادی دُنیا کی سب دو لتیں ان کے قدموں پر لاڈالی گئیں اور انہوں نے اخروی زندگی کے مزے اس دنیا میں لینے شروع کر دیئے کیونکہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ یہ بشارت دیتا ہے کہ میں تجھ سے خوش ہوں میں تجھ سے راضی ہوں تو گویا اس نے اس دنیا میں اخروی زندگی کے مزے لے لئے اسے اَور کیا چاہئے؟ اصل چیز تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے باقی سب کچھ اسی رضا اور خوشنودی کی تفصیل ہے۔ اس لئے جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار مل جائے، اسے اَور کیا چاہئے۔
جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنا پیار دیتا ہے اور اتنا دیتا ہے اور اس طرح دیتا ہے کہ ہماری عقل اس کا احاطہ نہیںکر سکتی۔ غرض اللہ تعالیٰ اپنا پیار تو دے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس لذّت اور اس سرور کا نچوڑ اس طرح دے دیا کہ فرمایا۔ میں تم سے خوش ہوں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میں تیرے صحابہ سے خوش ہوں۔ آپ نے ان کو بشارتیں دے دیںاور اس گروہ کے ایک حصہ کا نام مبشرہ رکھا گیا۔ مختلف موقعوں پر مختلف معنوں میں ان کو مبشرہ کہا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ بشارت نہ ملتی تو کوئی کہہ سکتا تھا پتہ نہیں یہ نفس ہی کا خیال نہ ہو یا دھوکا نہ ہو یا خود ان کے نفس کہتے کہ پتہ نہیں نفس کی کمزوری کے نتیجہ میں کہیں یہ شیطانی وسوسہ نہ ہو اور شیطان ان کے دل میں کبر اور غرور پیدا نہ کرنا چاہتا ہو۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر کامل یقین رکھنے والے اور آپ کی باتوں کو خداتعالیٰ کی وحی یا اس کی تفسیر سمجھنے والے اس گروہ کو جب خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ بشارت ملی تو پھر ان کے لئے کوئی شبہ اور ابہام نہ رہا۔
پس اس دنیا میں بھی روحانی لذتوں اور سرور کے ہزارہا سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ میں تو اس وقت مثال دے کر بعض باتیں بیان کر رہا ہوں ورنہ روحانی نعمتوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہو سکتا۔ اس اگلی زندگی کے جو ٹھنڈے جھونکے ہیں وہ تو یہاں مل جاتے ہیں اور بے شمار ملتے ہیں لیکن بہرحال ایک مسلمان کی زندگی جو اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھری ہوئی ہے اور جو اخلاقی روحانی لذتوں اور سرور کی آماجگاہ ہے۔ اس زندگی کا تعلق اس لذّت کا تعلق اور اللہ تعالیٰ کے اس پیار کا تعلق اس دنیا کی زندگی کے ساتھ بھی ہے لیکن اس اگلی زندگی کے ساتھ حقیقی اور شدید تعلق ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جنتیں دو ہیں۔ ایک اس دنیا کی جنّت اور ایک اس اُخروی دنیا کی جنّت جو شخص اللہ تعالیٰ کے پیار کو پالیتا ہے۔ اسے اس دنیا میں بھی جنت مل جاتی ہے۔
ان ساری باتوں سے ایک یہ نتیجہ بھی بڑا واضح اور نمایاں طور پر نکلتا ہے کہ ایک احمدی بچے، بوڑھے اور جوان مرد و زن کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کی نشوونما کو انتہا تک پہنچانے کے لئے انتہائی محنت اور جفا کشی کی زندگی گزارے۔ اس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں۔ اس کے بغیر زندگی کی کوئی لذّتنہیں اور اس کے بغیر زندگی کا کوئی سرور نہیں۔ یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اگر ہمارا ربّ مثلاً کسی سے یہ کہے کہ میں تجھے اپنا سَو پیار دینا چاہتا ہوں اور وہ کہے کہ اے ہمارے پیدا کرنے والے پیارے محبوب خدا! میں تو تیرے صرف بیس پیار لوں گا اور باقی کو چھوڑ دوں گا تو اس میں زندگی کا کیا مزہ ہے؟
پس اللہ تعالیٰ تمہیں جتنا پیار دینا چاہتا ہے وہ تم حاصل کرو مگر اس کا انحصار تمہاری صلاحیتوں اور قوتوں کے پیمانے پر ہے۔ اس لئے تم اپنے اس پیمانے کو آدھا نہ بھرو اور نہ اس میں کوئی سوراخ ہونے دو کہ کہیں وہ چیز بھی بیچ میں سے بہہ نہ جائے جو تم نے حاصل کی ہے۔ غرض جس حد تک تم خداتعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے اہل اور قابل بنائے گئے ہو تم انتہائی کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنی اہلیت کے مطابق انتہائی طور پر پا لو تاکہ اس دُنیا کے انعامات بھی ملیں اور اُس دُنیا کے انعامات بھی ملیں۔
پس یہی محنت ہے، یہی جدوجہد ہے، یہی جہاد ہے، یہی کوشش ہے اور یہی جفاکشی ہے جس کی طرف اسلام ہمیں بلاتا ہے اور جس پر قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے مختلف رنگوں میں بار بار زور دیا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ عمل میں احسان کو مدنظر رکھیں۔ اس عمل کی خوبصورتی کو انتہا تک پہنچانے کے لئے جس حُسنِ علم کی ضرورت ہے ہم اُس کو بھی حاصل کر سکیں عربی لغت میں’’اَحْسَنَ فِیْ الْعَمَلِ‘‘کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ وہی شخص اچھا ہے جس کے کام میں حسن علم بھی ہے اور حُسنِ عمل بھی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ حُسنِ علم کے بغیر حُسنِ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ جب ہمیں یہ پتہ چلتا ہی نہ ہو کہ اپنے عمل کو یا اپنی کوشش کو یا اپنی قربانیوں کو کس طرح، کس رنگ میں اور کن جہات سے ہم خوبصورت سے خوبصورت بنا سکتے ہیں تو ہمارا عمل ادھورا رہ جائے گا کیونکہ ہمیں اپنے عمل کو خوبصورت بنانے کا علم نہیں ہے۔ اس واسطے جن راہوں پر چل کر انتہائی کوشش کرنی چاہئے اُن راہوں کا علم بھی ہونا چاہئے اور اُن پر چلنا بھی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
(بنی اسرآئیل:۸)
یعنی اگر تم اچھا کام کرو گے تو اس کا بہترین نتیجہ تمہیں مل جائے گا۔ اس میں’’ احسان فی العمل‘‘ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے کاموں میں حُسنِ علم اور حُسنِ عمل پیدا کرو گے تو تم اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حسین ترین جلوہ دیکھو گے۔ تم اپنے جسمانی اور روحانی حواس سے اُس کے حُسن کو اس کے پیار کو اور اس کی محبت کو محسوس کرو گے اور اس سے زیادہ نہ کچھ اَور ہو سکتا ہے اور نہ عقلاً ممکن ہے۔
پس اگرتم اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار اس کے انتہائی انعام اور اس کی انتہائی رحمتوں اور اس کے انتہائی فضلوں کے وارث بننے کے اہل ہو گے تو تمہیں یہ سب کچھ ملے گا لیکن ایک مسلم کی محنت اور ایک غیر مسلم کی محنت میں یہ فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اسی کے مطابق ہمیں عمل کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ایک غیر مسلم سب صلاحیتوں کی کمال نشوونما کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن ہمیں اپنی ساری قوتوں کو (یعنی ہر چہار قسم میں سے ہر قسم میں جتنی قوتیں اور صلاحیتیں ملی ہیں ان میں سے ہر ایک کو) نشوونما کے کمال تک پہنچانے کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے اس کی ہم انتہا کر دیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا پیار ہمارے لئے انتہائی اعلیٰ شکل میں ظاہر ہو گا اور ہمیں دُنیا کی اور دین کی اور اس زندگی کی اور اس اگلی زندگی کی ساری ہی خوشیاں مل جائیں گی۔
خدا کرے کہ جس طرح صحابہ کرامؓ نے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعاموں کو پا لیا تھا اسی طرح ہم عاجز بندے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعاموں کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔ (آمین)
( روزنامہ الفضل ربوہ ۷مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۴)
ززز

اللہ تعالیٰ کی مدد انتہائی قربانی پیش کرنے اور
صبر وثبات دکھانے کے بعد نازل ہوتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍فروری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:-
(اٰل عمران:۱۴۰)
(طٰہٰ:۱۱۳)

(الحج: ۱۲)
(مریم:۸۵)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی نصرت اور مدد فرمائے گا اور دُنیا کی کوئی طاقت اور شیطان کا کوئی منصوبہ اُن کے خلاف کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیک عمل کرو گے، مناسب حال عمل کرو گے تو نہ تمہیں یہ خوف باقی رہے گا کہ کوئی طاقت تم پر ظلم کر سکے اور نہ تمہیں یہ خطرہ رہے گا کہ تمہارے وہ حقوق جو تمہارے نیک اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق قائم ہوں گے اُن کو تلف کیا جائے گا۔ گویا نہ ظلم کا خطرہ باقی رہے گا اور نہ حق تلفی کا۔
تا ہم اللہ تعالیٰ زبانی دعوٰی کو نہیں مانتا۔ زبان سے تو ہر وہ شخص جسے خداتعالیٰ نے زبان دی ہے کوئی نہ کوئی دعوٰی کر سکتا ہے۔ اُس کے لئے دعویٰ کرنا محال نہیں ہے لیکن اس کے دعوٰی میں کہاں تک صداقت ہے یہ اس شخص کے عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ محض زبانی دعوٰی بے فائدہ ہے فلاح اور کامیابی پر منتج نہیں ہوا کرتا۔ اس لئے دعوٰی ایمان بھی ہو اور عمل صالح بھی ہو اور نیک اعمال میں پختگی بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا رشتہ بھی استوار ہو اور اس رشتہ میں وفا اور ثبات قدم بھی ہو۔انسان تمام امتحانوں اور آزمائشوں پر پورا بھی اُترے تب انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کیا کرتا ہے اگر ایسا نہیں تو پھر صرف دعووں کے نتیجہ میں یہ عظیم نعمتیں کہ جن سے بڑھ کر دُنیا میں اور کوئی نعمت نہیں، انسان کو نہیں ملا کرتیں۔
چنانچہ مومن کی جو آزمائش کی جاتی ہے اور اس کا جو امتحان لیا جاتا ہے وہ ہمیں قرآن کریم میں کئی قسم کا نظر آتا ہے۔قرآن کریم نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے مثلاً ایک امتحان قضا وقدر کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے۔ایک امتحان شیطانی وساوس کے مقابلہ میں کمزور ایمان والوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہ نہ بنانے اور پختہ ایمان والوں کا اس فتنہ کو دور کرنے کی کوشش میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ایک امتحان منافق کے منافقانہ حملوں کا مقابلہ کرنے میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ایک امتحان کافر کے اس منصوبے میں مومن کا لیا جاتا ہے کہ دُشمن اُسے اس دُنیا میں مٹا دینا چاہتا ہے۔
چنانچہ جہاں تک اس آخری امتحان کا تعلق ہے یعنی اسلام کا دشمن، اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو دُنیوی اور مادی طاقت کے ساتھ مٹا دینا چاہتا ہے، ایسے امتحان میں (مَیں اکثر مثال دیا کرتا ہوں) اللہ تعالیٰ کی مدد عصر کے وقت نازل ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبا عرصہ ابتلاء میں، امتحان میں، دُکھ میں، کرب عظیم میں اور مصیبت میں گذرتا ہے۔ انسان کو تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ جان دینی پڑتی ہے یعنی جب قومی یا اجتماعی زندگی کا امتحان لیا جا رہا ہو تو ہر قسم کے دُکھ سہنے پڑتے ہیں۔ پھر یہ کرب عظیم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور مومن انسان کو نظر آتا ہے کہ رات کے اندھیرے سر پر آگئے۔ دن ختم ہو رہا ہے اور خداتعالیٰ کی مدد ہمیں نظر نہیں آرہی ۔ کیا رات کے یہ اندھیرے، یہ تاریکیاں اور یہ ظلمتیں ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور ہم ناکامیوں کامنہ دیکھیں گے؟
غرض جب تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اُس وقت مومن اپنے ایمان کی پختگی سے یہ نعرہ بلند کرتا ہے۔
(البقرہ:۲۱۵)
کہ اے میرے رب! تُو نے میرا امتحان لیا اور مَیں نے اپنی طرف سے تیری راہ میں انتہائی قربانی بھی پیش کر دی اور آئندہ بھی دریغ نہیں کروں گا لیکن خواہ میں مر جاؤں یا مٹ جاؤں تب بھی مَیں تیری راہ میں آخری وقت تک قربانی دیتا چلا جاؤں گا لیکن اے خدا! تیرے وعدے بھی تو تھے؟ کیا مَیں اپنے امتحان میں ناکام رہا؟ نہیں! مَیں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ مَیں اس ذلّت کے داغ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر اجتماعی زندگی میں آخری آدمی بھی مارا جائے گا تو قوم کہتی ہے یا اُمّت کہتی ہے کہ مَیں تیری راہ میں قربانی دیتی چلی جاؤں گی لیکن اے خدا! اب تو رات سر پر آگئی۔ کیا یہ اندھیرے ہمیںنگل لیں گے؟ کیا وہ نور جس کا تُو نے وعدہ دیا ہے وہ نور ہمارے لئے ہماری راہوں کو روشن اور منور نہیں کرے گا؟۔
غرض کی پکار کا وقت وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کرب عظیم کی حالت کو پہنچ جاتا ہے یعنی تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور جب قربانی انتہائی طور پر پیش کر دی جاتی ہے۔ اُ س وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندے! تو کیوں گھبراتاہے؟ میں نے تیرا امتحان لیا ہے۔ تو نے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ تُو اپنے عہد پر قائم رہا تو میں اپنے عہد سے کیسے پھر جاؤں گا جو سچے وعدوں والا ہوں اور تمام قدرتوں کا مالک ہوں۔ مَیں تیرے قریب ہوں۔ میری مدد تجھے پہنچ رہی ہے چنانچہ پھر کامیابی پر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
لیکن مسلمان کہلانے والے جس زمانہ میں بھی عصر کے وقت کا انتظار نہیں کرتے اور اپنی طرف سے انتہائی قربانی پیش نہیں کرتے یعنی ایسے وقت کا انتظار نہیں کرتے کہ جب یہ سمجھا جائے کہ وہ مٹ گئے اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت نہ آئی تو اس حالت کے وارد کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے آجائے گی۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کہلانے والوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو بددلی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اُن کا رشتۂ محبت و عشق اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ کمزور ہوتا ہے۔اگر تو خداتعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں آزمائش کے طور پر دُنیا کی کچھ نعمتیں مل جائیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو تکلیف کے ابتدائی دور ہی میں اُن کے پاؤں اُکھڑ جاتے ہیں اور وہ پیٹھ دکھا جاتے ہیں اور سارے وعدوں کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دُنیا میں بھی وہی لوگ ترقی کرتے ہیں کہ جو دُنیا کی خاطر اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں مگر تم نے بد دِلی کا مظاہرہ کیا اس لئے تم دُنیوی لحاظ سے بھی ناکام ہوئے اور تم نے دعوٰی کیا تھا اُخروی زندگی کی بھلائی کے حصول کا اور اُس کے لئے انتہائی طور پر جدوجہد کرنے کا مگر تم اس میں بھی ناکام ہوئے اور اس طرح تم کے مصداق بن گئے۔ تمہیں دُنیا اور دین کی ناکامیاںملیں۔ تم دوسروں سے بھی بدتر ہو گئے اس لئے کہ جو غیر ہے وہ اگر دُنیوی انعامات کے حصول کے لئے محنت میں کوتاہی کرتا ہے تو دین کی نعمتیں تو ویسے بھی اُسے نہیں ملتیں۔ نہ اُس نے اُخروی زندگی کے لئے کوشش کی ہوتی ہے اور نہ اُس کی کوشش کی ناکامی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اُسے اُخروی انعامات نہیں ملتے کیونکہ اُن کے لئے اُس نے کوشش نہیں کی۔ اُس نے خداتعالیٰ کو پہچانا ہی نہیں۔ اُس نے خداتعالیٰ کی صفات کی معرفت ہی حاصل نہیں کی۔ اُس نے خداتعالیٰ سے تعلق رکھنے کا ارادہ ہی نہیں کیا۔ اِس واسطے اس کی کوشش اور اس کے ارادے کی ناکامی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ گو اِس میں شک نہیں کہ ایسا انسان بڑا بد نصیب ہے کیونکہ ایک بہت لمبی اور ایک بہت پیاری زندگی کے انعامات اس کو حاصل نہیں ہوئے لیکن یہ درست ہے کہ ہم کہیں گے کہ کوئی کوشش نہیں تھی جس کی ناکامی کا سوال پیدا ہوتا ہو لیکن یہاں ایک وہ شخص ہے جو اگر صحیح طور پر کوشش کرتا اور اُخروی زندگی کے لئے خداتعالیٰ کے حضور انتہائی قربانیاں پیش کر دیتا تو اِس دُنیا میں بھی اُس کو انعام مل جاتا یعنی اگر اس کی نیت خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہے تو اُسے اُخروی زندگی کاانعام بھی مل جاتا اور اِس دُنیا کا انعام بھی مل جاتا لیکن وہ شخص جو عبادت کرتا ہے علیٰ حرفٍ، تعلق رکھتا ہے بددِلی کا مگر دعوٰی کرتا ہے محبت کا۔ لیکن محبت جس روح، ایثار، قربانی اور جنون کا تقاضا کرتی ہے وہ اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا تو پھر اس کا نتیجہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں ایک مثال دی ہے اس بات کی کہ جو آدمی ابتلاء کے وقت، کرب عظیم کی حالت میںبھی اپنے رب رحیم کے ساتھ پختہ تعلق رکھتے ہیں وہ ناکام نہیں ہوا کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

(الاحزاب: ۱۰ تا ۱۲)


جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت یعنی بددلی سے کرنا تو سراسر بے نتیجہ ہے۔ تمہیں آزمایا جائے گا۔ تمہیں اور دیکھنی ہوںگی۔ تمہیں اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا جائے گا کہ اُس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے تمہاری زندگی اور بقاء کا اور کوئی سہارا نہیں ہو گا۔دوسری طرف تمہاری کیفیت یہ ہو گی کہ تم سمجھو گے کہ سب دُنیوی سہارے ٹوٹ گئے ہیں۔ کامیابی تو کجا تمہاری بقا کا سوال بھی باقی نہیں رہا ہے۔اُس وقت تم سمجھو گے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم نہ زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ کامیاب ہو سکتے ہیں چنانچہ اس طرح جھنجھوڑے جانے کے بعد اور اس امتحان میں کامیاب ثابت ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اِس آواز (البقرۃ:۲۱۵)کو تم عصر کے وقت ُسنو گے کہ دیکھو! اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے قریب ہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ مَیں نے تمثیلی رنگ میں جس عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے، اسی وقت بالعموم اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی رہی ہے چنانچہ مکّی زندگی کے بعد بدر کی جنگ تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت لڑی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے مکی زندگی میں مسلمانوں کو ہر قسم کے دُکھ پہنچائے گئے یہاں تک کہ اڑھائی سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو شعب ابی طالب میں بند رکھا گیا اور آپ کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا حتیّٰ کہ ُکفّار مکہ کھانے پینے کی چیزوں تک کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ گو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زندہ رکھنے کے سامان پیدا کر رہا تھا مگر آزمائش تھی امتحان تھا( جو خدا ان کو زندہ رکھنے کے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا تھا وہ ان کو صحت مند اور طاقتور رکھنے کا انتظام بھی کر سکتاتھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آزمائش تھی) اس لئے ان کی تکلیف کی یہ حالت تھی کہ ایک بزرگ صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز کے اوپر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا چنانچہ میں نے اُسے اُٹھایا اور کھا لیا لیکن مجھے آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ تھی کیا چیز۔ غرض اِس تکلیف دِہ حالت تک وہ پہنچے ہوئے تھے۔ گو اڑھائی سال تک انسان بھوکا نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے محض زندہ رکھنے کے لئے ان کو جتنی غذا کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گئی لیکن بھوک کی آزمائش بڑی سخت تھی علاوہ دوسری آزمائشوں کے جن کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جا سکتا۔
پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو انہی کفار نے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور کہا کہ یہ باہر نکل کر کیسے جاسکتے ہیں۔ ہم ان کو مٹا دیں گے چنانچہ یہ وہ وقت تھا جب دُکھ اور تکلیف،کرب اور ایذاء، آزمائش اور امتحان اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا چنانچہ پھر دُنیا نے بدر کے میدان میں یہ نظارہ دیکھا کہ تین سَو اور کچھ مسلمانوں کے مقابلے میں جو اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے آئے وہاں تھے، وہ اپنے قریباً سب بڑے بڑے سرداروں کے سر چھوڑ کر واپس بھاگے۔ غرض کا ایک عجیب نظارہ تھا جو دُنیا نے بدر کے میدان میں دیکھااور پھر یہی نظارہ ہم بعد کی لڑائیوں میں بھی دیکھتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے مسلمانوں کے لئے بہت سے امتحان اور آزمائشیں ہوتی ہیں لیکن جن آزمائشوں کا بطور خاص میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں وہ مادی طاقت اور زور کے ساتھ اور مادی ذرائع سے دشمن کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل اور اسلام کو مٹانے کا منصوبہ اور آزمائش ہے یعنی یہ آزمائش کہ دشمن مٹانا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں نے صبر وثبات دکھایا اور دشمن ناکام ہوا مثلاً جنگِ احزاب ہے جس کا ان آیات میںذکر ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائیں گے خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ پیدا ہو جائیں۔وہ ہر صورت میں دشمن کا مقابلہ کریں گے اور اسے پیٹھ نہیں دکھائیں گے چنانچہ ’’کیسے ہی حالات‘‘ احزاب کے موقع پر پیدا ہو گئے۔ قریباً سارا عرب اکٹھا ہو کر ان غریبوں اور مفلسوں اور نہتوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں جمع ہو گیا اور اُنہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک کے مارے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر چلتے تھے۔ دوسری طرف مسلمان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جس جگہ وہ اکٹھی کی گئیں وہاں ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کے لئے بھی مسلمان سپاہی میسر نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہ اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ مسلمان عورت سے فرمایا کہ اگر آج تیری عزت کی آزمائش ہے اور خدایہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان عورت میرے راستے میں اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں تو وہ اس امتحان میں پورا اُترنے کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ وہ تیار ہو گئیں۔
پھر جس وقت یہ سارا جم غفیر اور یہ سارا مجمع جو اسلام کو مٹانے کیلئے جمع ہوا تھا اور اُن کفار کی اُمید اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ بس اب وہ غالب آئے اور مسلمان مغلوب ہوئے۔ ادھر مسلمانوں کے حالات کرب عظیم کو پہنچ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر اس وقت خداتعالیٰ کی مدد نہ آئی تو وہ مارے جائیں گے، اس وقت خدا کی مدد آئی اور فرشتے اس مدد کو آسمان سے لے کر آئے تو اُنہوں نے انہی زمینی عناصر میں تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ وہ عناصر کہ جن کے ذرّے ذرّے کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ ان کی تسخیر اور ان پر حکمرانی کرے، اُن کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حاکم اعلیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور آپ کی کامیابی کے لئے حُکم ملا چنانچہ مسلمان جن کے جسم کا ذرہ ذرہ اور رؤاں رؤاں پکار رہاتھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تمام عناصر، یہ زمین اور اس کے ذرات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَیں نے تمہیں آزمایا اور تم اس آزمائش میں کامیاب ہوئے کیونکہ تمہارے اس کرب کو مَیں نے عظیم بنا دیا ہے اور تمہارا امتحان اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے، تمہارے دکھوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا۔ میں نے تمہاری یہ آزمائش اس لئے نہیں کی کہ تمہیں دُنیا سے مٹا دیا جائے بلکہ یہ مَیں نے اس لئے کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ ظاہر ہو اور دُنیا خداتعالیٰ کے اس پیار کا جلوہ دیکھے جو اُسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے متبعین کے ساتھ ہے۔
اب دیکھیں سارے عرب قبائل اکٹھے ہو کر کمزوروں کو مٹانے کے لئے آگئے تھے۔ ان کمزور مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندھے مگر دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی۔ وہاں سے بھاگے نہیں۔ اُنہوں نے بے عزت صلح کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ کمزوری نہیں دکھائی۔ شرک کی طرف مائل نہیں ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اَور سہارا ڈھونڈیں۔ اُنہوں نے کہا ہمارا ایک ہی سہاراہے اگر وہ مل گیا تو اس دُنیا میں بھی کامیاب اور اگر اس دُنیا سے چلے بھی گئے تو ہمیں اُخروی انعامات توضرور ملیں گے اور پھر اس حقیقی سہارے نے ان کو بے سہارانہیں چھوڑا چنانچہ اس وقت جب کہ دشمن غالب آنے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا اور وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے زمین و آسمان میں ایک تغیر پیدا ہوا اور وہ جو مسلمانوں کو مٹانے کے لئے آئے تھے بھاگ نکلے۔ ریت کے چند ذرے کہہ لو، ہوا کی تھوڑی سی شدت کہہ لو یا اُن کے دلوں کے اندر فرشتوںنے جو بزدلی پیدا کی اور مسلمانوں کا جو رُعب پیدا کیا وہ کہہ لو۔ غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے تھے جوا نسان کو نظر آئے لیکن وہ اپنے محاصرے کے پہلے دن ہی نہیں بھاگے، وہ دوسرے اور تیسرے دن بھی نہیں بھاگے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ کئی دن کے بعد رونما ہوا۔
یرموک کی جنگ کولیں۔ یہ پانچ دن کی جنگ ہوئی ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو طفیلِ محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ چار دن تک آزمائشوں کا دور ہو گا یعنی ان کے ذہن میں پہلے سے یہ تصوّر موجود تھا کہ چار دن دشمن کے اور پانچواں دن ہمارا ہو گا یعنی تین پہر دشمنوں کے ہوں گے اور چوتھا پہر ہمارا ہو گا چنانچہ دشمن اپنے وزن، اپنی تعداد اور اپنے ہتھیاروں کے زور کے ساتھ مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے ان کے خیموں تک لے جاتا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایثار پیشہ فدائی مسلمان عورتیں خیموں کے ڈنڈے لے کر مسلمانوں کے سر پر مارتی تھیں کہ واپس جاؤ۔ یہاں کیا لینے آئے ہو چنانچہ اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دو دن بھی یہی حال ہؤا۔ اس معرکے میںکئی مسلمان شہید ہو گئے جن میں عکرمہؓ اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے مگر کسی مسلمان نے پیٹھ نہیں دکھائی حتیٰ کہ عکرمہؓ جیسے شخص نے پیٹھ نہیں دکھائی جو فتح مکہ تک اسلام کا دشمن رہا تھاکیونکہ عکرمہ ؓ اور اس جیسے دوسرے مسلمانوںکے دل بدل گئے۔ حالات مختلف ہو گئے۔ اندھیروں کی جگہ نور نے لے لی۔ وہ جو اسلام کے دشمن تھے ان کے دل میں محبت پیدا ہو چکی تھی۔ عکرمہؓ اور اس کے ساتھی اس خیال سے جلتے تھے کہ اُنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام دشمنی کے داغ لگا رکھے ہیں۔ان داغوں کو دھونے کے لئے خدا جانے ہمیں کوئی موقع ملتا ہے یا نہیں۔
پس یہ لوگ بھی جو بعد میں آنے والے تھے، دشمن کے مقابلے میں بھاگے نہیں۔ کسی نے بزدلی نہیں دکھائی۔ وہ خداتعالیٰ سے ناامید نہیں ہوئے۔ اُنہوںنے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں کی بلکہ کئی ایک نے اپنی جان دے کر (الاحزاب:۲۴) خدا تعالیٰ سے اپنا عہد پورا کر دیااور اس طرح اُنہوں نے اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کئے اور پیچھے رہنے والوں کے لئے فتح کے سامان پیدا کر دئیے۔
غرض اس جنگ میں جب مسلمانوں کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تمثیلی زبان میں وہ آخری وقت یعنی عصر کا وقت آگیا توکہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت یرموک کے میدان میں رومی اپنے پیچھے شاید ڈیڑھ لاکھ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے حالانکہ پہلے چار دنوں میں رومی یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تو مٹھی بھر ہیں یہ بچ کر کیسے جائیں گے وہ سمجھتے تھے کہ ہم اڑھائی لاکھ ہیں اور مسلمان صرف چالیس ہزار اس لئے وہ مسلمانوں کو مٹا دیں گے غرض اس نیت کے ساتھ رومی آئے تھے کہ اس میدان میں سارے مسلمانوں کو قتل کر دیں اور اس فتنے کو (جو اُن کے نزدیک فتنہ تھا) ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے مگر جسے وہ فتنہ سمجھتے تھے اور جس کے مٹانے کے درپے تھے، اس نے اُن کے خون کو کھاد بنا کر انہی کے علاقوں میں اسلام کے درختوں کو بویا۔ جنہوں نے بڑے اچھے پھل دئیے(کھاد ہی پڑی نا! کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بکرے کا خون اگر DECOMPOSED(ڈی کمپوزڈ) ہو کر درختوں کی جڑوں میں ڈالا جائے تو بڑی اچھی کھاد ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلام کا یہ دشمن انسانیت کے لئے اَور توکسی کام نہیں آیا مگر جب اسلام کا باغ ان علاقوں میں لگا تو اس وقت اس نے کھاد کا کام دیا۔ان کی نسل سوچتی ہو گی کہ یہ لوگ کن بلند نعروں کے ساتھ اور بظاہر کس ہمت کے ساتھ اور کس ولولے اور عزم کے ساتھ اور پادریوں کے ہر قسم کے جوش دلانے کے بعد اسلام کو مٹانے کے لئے وہاں گئے تھے مگر ناکام ہوئے اور خداتعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ اور اس کے پیار کے جلوے جنگ کے میدانوں میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ دشمنان اسلام تو بد بخت تھے لیکن ہمارے لئے خوش بختی کے سامان پیدا کر گئے اور ہمارے لئے خوش قسمتی کے محلوں کے دروازے کھول گئے۔
تاہم یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا کرب، کرب عظیم بن گیا تھا۔ دُکھ اور تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا انعام نازل نہیں ہوتا ورنہ ایک کمزور ایمان والے اور ایک پختہ اور سچے ایمان والے آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہو سکتا۔ بہرحال ایک مسلمان نے خداتعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا چنانچہ جب تک اللہ تعالیٰ اس دعویٰ کی پوری طرح آزمائش نہ کرے، اس کی نصرت نازل نہیں ہوتی۔ ’’پیٹھ نہیں دکھائے گا‘‘ کا عہد وہی آدمی کرتا ہے جس کا خداتعالیٰ کی قدرتوں پر کامل بھروسہ ہوتا ہے۔ تبھی وہ کہتا ہے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے کیونکہ وہ سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی وقت یہ فیصلہ کرے کہ میں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کروں گا۔ یہ تو ایک عیب ہے اور خداتعالیٰ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کہے کہ میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ میری قدرت سے باہر ہے کیونکہ وہ تو ساری قدرتوں کا مالک ہے۔ پس وہ سچے وعدوں والا بھی ہے اور کامل قدرتوں والا بھی ہے، اس لئے اس کی صفات کی اسی معرفت کے بعد یہ عہد کیا جاتا رہا ہے کہ مسلمان اپنے دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا چنانچہ قرونِ اولیٰ کے بعد کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش کے وقت سچے مسلمان نے پیٹھ نہیں دکھائی۔
یوسف بن تاشقین کا واقعہ ہے جو سپین میں رونما ہوا۔وہ افریقہ کے رہنے والے تھے۔ میں نے تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے مگر ان کے اس واقعہ میں عملاً عصر کا وقت ہی تھا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی۔
یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب سپین کے حالات خراب ہو گئے تو مسلمانوں نے یوسف بن تاشقین سے درخواست کی کہ ہماری مدد کریں چنانچہ وہ قریباً بارہ ہزار گھوڑ سوار فوج لے کر وہاں پہنچ گئے، عیسائی بادشاہ ساٹھ ستّرہزار کی فوج لے کر حملہ آور ہوا۔ بڑی زبردست جنگ ہوئی جس میں بظاہر دشمن کا پلّہ بھاری تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر یوسف بن تاشقین نے یہ سمجھا کہ آج مجھے اپنی عمر میں شاید پہلی شکست نہ ہو جائے کیونکہ دشمن کا دباؤ بڑا شدید تھا۔ عیسائی مسلمانوں کومار رہے تھے۔ انہیں قتل کر رہے تھے اور پیچھے ہٹا رہے تھے مگر اس سارے دبائو اور ان تیزیوں کے باوجود جو دشمن مسلمانوں کے خلاف دکھا رہا تھا اس پر اُنہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی عیسائی سمجھتے تھے کہ آج وہ غالب آگئے اور سپین سے مسلمان کو گویا مٹا دیا۔
یوسف بن تاشقین کا یہ واقعہ مسلمان کی سپین میں ہلاکت سے کئی صدی پہلے کا ہے گو اس وقت بھی یہی حالات پیدا ہو گئے تھے۔ جو بعد کی صدی میں زیادہ بگڑ گئے اور مسلمانوں کو ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں ایک عذاب کا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال یوسف بن تاشقین سمجھتے تھے کہ عمر میں پہلی شکست ہو رہی ہے اور ادھر عیسائی بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ آج(بزعم خویش) عیسائیت اور اسلام کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ہم نے مسلمانوں کو مٹا دیا ہے۔ یہ باہر سے مدد دینے آئے تھے اپنے مسلمان بھائیوں کو۔ ہم نے ان کو بھی شکست دے دی ہے۔
چنانچہ عصر تک یہی حال رہا پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایک نئی شان میں آئے کیونکہ
(الرحمٰن:۳۰)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہرجلوہ نئی شان رکھتا ہے چنانچہ عصر کے وقت عیسائی فوج بھاگ نکلی حالانکہ اس سے پہلے وہ سارا دن مسلمانوں کو مارتے اور دباتے رہے تھے لیکن مسلمانوں کی تکلیف جب اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے وہ مسلمانوں کی مدد کو آیا۔ اُس نے ان کا امتحان لے لیا تھا اس لئے فرمایا تم کامیاب ہو گئے۔ اب لو میرا انعام چنانچہ رومی بھاگے اور یوسف بن تاشقین اور اس کے آدمی (باوجود اس کے کہ کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ویسے بھی تعداد میں کم تھے مگر چونکہ وہ ایمان پر قائم تھے اس لئے) ساری رات دشمن کو مارتے مارتے ان کا پیچھا کیا اور قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر ایک دریا تھا اُن کا خیال تھا کہ ہم وہاں تک اُن کا پیچھا کریں گے چنانچہ دشمن کا ساٹھ ستر ہزار فوج میں سے کل پانچ سو عیسائی دریا پار کر سکے۔ شاید کچھ دائیں بائیں سے بھی نکلے ہوں گے لیکن ان کی اکثریت ماری گئی۔ چنانچہ وہ دشمن جو عصر کے وقت تک اپنے خیال میں غالب تھا، وہ مغلوب ہی نہیں ہوا بلکہ ہلاک ہو گیا اس لئے کہ صبح سے لیکر عصر تک جو ظلم اُنہوں نے مسلمانوں پر کیا تھا وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ مسلمان تو صبح کے وقت یہ کہتے ہوں گے کہ خدا کا وعدہ جلدی کیوں نہیں پورا ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:- تم ان کے خلاف جلدی نہ کرو۔ مطلب یہی ہے کہ تم خدا سے یہ نہ کہو کہ وہ نصرت ومدد کو جلدی لائے اور ان کافروں کو مار دے جو ہمیں دکھ دے رہے ہیں، ایذا پہنچا رہے ہیں۔ زخمی کر رہے ہیں اور بعض کو قتل کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ (مریم:۸۵) یعنی تمہارے ساتھ بھی ایک وعدہ ہے کہ فلاںوقت مدد آئے گی اور اُن کفار کے ساتھ بھی وعدہ ہے کہ ایک وقت تک ان کو ڈھیل دی جائے گی۔ دراصل یہ دونوں وعدے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اگر مسلمان کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ اُسے عصر کے وقت اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی تو یہ بات لازمی ہے کہ کافر کے ساتھ بھی یہ وعدہ ہو گا کہ عصر کے وقت تک اُس پر الہٰی گرفت نہیں ہو گی اور اصلاح کے لئے اسے مہلت دی جائے گی تبھی وہ اپنا کام کر سکتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور یہ وہی وقت ہے جو ایک مسلمان کا اور ایک کافر کا اکٹھا ہو جاتا ہے۔ جس وقت مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آتی ہے، کافر کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے تمہارا جلدی کرنا، یا قبل از وقت گھبرا جانا اور دعائیں کرنا کہ اے خدا! ہم تکلیفیں برداشت نہیں کر سکتے۔ تو ہماری مدد فرما۔ یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے خلاف جلد ہلاکت کی دعائیں کرنا غلط بات ہے۔یہ نہیں ہو سکتا جس وقت تمہاری آزمائش پوری ہو جائے گی امتحان میں پورے اُترو گے۔ ان کی ڈھیل کا وقت بھی پورا ہو جائے گا۔ ایک ہی وقت میں تمہاری مدد اور ان کی ہلاکت کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔
پس (مریم:۸۵) میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں جلدی نہیں چلے گی اللہ تعالیٰ کی مدد کے آنے تک تمہیں صبروثبات کا مظاہرہ کرنا ہو گا چنانچہ ساری اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اُس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان کی رفعتوں پر پہنچا ہوا تھا اور اس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان میں نسبتاً بہت کمزور ہو چکا تھا۔ ہر دو صورتوں میں مسلمان اگر عصر تک قربانیاں دیتا رہا تو کامیاب ہوتا رہا اور جب بھی اس نے صبح سات بجے یا آٹھ بجے یا نو بجے یا دس بجے یا بارہ بجے یا دو بجے خداتعالیٰ سے یہ کہا کہ اے خدا!تو نے ہماری مدد کرنے میں جلدی نہیں کی اب ہم پیٹھ دکھا رہے ہیں تو وہ ہلاک ہو گئے۔
جو جنگ اس وقت ہندوستان کے خلاف لڑی گئی ہے میرا اندازہ ہے کہ صبح سات بجے ہمارے فوجیوں سے ظالم حکومت نے جنگ کروا دی۔ ہمارا سپاہی بڑی بے جگری سے لڑا ہے۔ اُس نے اپنے خون سے یہ ثابت کیا ہے کہ اُس پر بزدلی یا نااہلی کا دھبہ نہیں آتا۔ اس لئے میں اُن کی بات نہیں کر رہا لیکن جن کا بھی قصور تھا اور جہاں بھی وہ فتنہ تھا اس کی وجہ سے ہتھیار ڈالے گئے تو عصر کا وقت نہیں تھا، ظہر کا وقت بھی نہیں تھا۔ بارہ بھی نہیں بجے تھے۔ دس بجے کا بھی وقت نہیں تھا۔ صبح سات بجے ہتھیار ڈال دئیے اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آئی؟ قرآن کریم کی واضح تعلیم کے خلاف ہے۔
پس ہم جن کا یہ دعوٰی ہے کہ ہم قرآن کریم کو سمجھتے ہیں، ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ انتہائی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد ملا کرتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تمہارے مخالف اور اسلام کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ جلد تباہ کر دے گا کی رو سے صحیح نہیں۔اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم ایسا تصور بھی نہ کریں اور نہ ایسی دعائیں کریں۔ ہمیں تو یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اے خدا! ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ ہم تیری راہ میں اور تیرے دین کو غالب کرنے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ساری دُنیا کے دل میں بٹھانے کے لئے انتہائی قربانیاں پیش کریں اور ہمیں یہ توفیق بھی عطا فرما کہ تیرے علم کامل میں جو عصر کا وقت ہے یعنی انتہائی قربانیوں کا وقت ہے وہ ہمیں نصیب ہو۔ ہم رستے میں کٹ نہ جائیں ہم تیرے دشمن کے ہاتھ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ اے خدا ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم تیری توفیق سے عصر کے وقت تک تیری راہ میں انتہائی قربانیاں دیتے رہیں گے تو تیری مدد ہمیں ضرور ملے گی چنانچہ جب ظاہری حالات میں زبان سے بے اختیار نکلے گا تو اسی وقت ہمیں پتہ لگے گا کہ(البقرۃ: ۲۱۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد مل جائے گی۔ ہم دشمن کے لئے بد دعائیں کیوں کریں کیونکہ ہماری کامیابی میں اس کی ہلاکت ہے اس کی دشمنی کا خاتمہ ہے خواہ وہ جسمانی لحاظ سے ماراگیا ہو یا دُنیوی طور پر وہ اپنے اس منصوبہ میں ناکام ہو گیا ہو کہ وہ اسلام کو مٹا دے گا۔ بعض انبیاء علیہم السلام کی قومیں پہلے بھی (یا تو ان کا کثیر حصہ اور یا بعض مثالوں میں ساری کی ساری ہلاک ہو گئیں یا ناکام ہو گئیں) یعنی جب کافر نہ رہے تو قوم گویا ہلاک ہو گئی۔ وہ قوم جو نبی کی دشمن تھی وہ قوم نہیں رہی کیونکہ وہ اسلام لے آئی۔ اس لئے وہ قوم کہاں رہی جس نے کہا تھا کہ ہم نبی کو مٹا دیں گے۔
غرض یہ بھی ناکامی اور ہلاکت کی ایک شکل ہے جب کسی قوم یا فرد کا منصوبہ ناکام اور مقصد فوت ہو جاتا ہے تو یہ بھی اس کی ایک قسم کی ہلاکت ہے پس ہمیں اپنے دشمن کی جلد ہلاکت کی دعا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اے خدا! تُوہمیںانتہائی قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرما۔ جس وقت تیری نگاہ میں کرب عظیم کے حالات پیدا ہو جائیں اور ہر طرف سے ناامیدی نظر آنے لگے تو ا س وقت بھی ہم تیرے باوفا بندے ثابت ہوں۔ ہمارے دلوں میں تجھ سے بے وفائی کا خیال پیدا نہ ہو۔ وہ وقت جب تیری اٹل تقدیر تیرا اٹل قانون کہتا ہے کہ تیری مدد آئے گی وہ وقت ہمیں نصیب ہو تاکہ ہم تیری مدد و نصرت کے سایہ میں اس دُنیا میں بھی اور اُس دُنیا میں بھی اپنی زندگی کے لمحات گزارنے والے ہوں اور وہ قوم یا شخص جو خداتعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن ہے وہ ناکام ہو خواہ وہ اس رنگ میں ہلاک ہو کہ وہ جسمانی طور پر تباہ ہو جائے یا اس رنگ میں ناکام ہو کہ اس کے سارے کے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں اور پھر وہ دن بھی آجائے کہ وہ دل جو بغضِ محمد سے بھرا ہوا تھا وہ عشقِ محمد سے لبریز ہو جائے۔ یہ ہمارے لئے اور بھی زیادہ خوشی کی بات ہے۔
پس یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ صبح ۸ بجے یا دس بجے یا بارہ بجے یا دو بجے یا تین بجے اللہ تعالیٰ کی مدد تمہیں مل جائے گی۔ درآنحالیکہ ابھی تمہارے امتحان مکمل نہیں ہوئے۔ ابھی تمہاری آزمائشوں کے دن نہیں گزرے۔ ابھی تم نے خدا کی راہ میں انتہائی قربانیاں نہیں دی ہوں گی۔ یہ نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اس کی اب امید ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ قرآن کریم اس بات کی علی الاعلان منادی کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت ملتی ہے جب تم کی کیفیت پیدا ہونے تک قربانی پر قربانی پیش کرتے چلے جاؤ اور خداتعالیٰ کے دامن کو نہ چھوڑو۔ پھرتمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی۔ یہ ویسی ہی مدد ہو گی جو آج سے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو ملی تھی جس کی چمک آج بھی اپنوں اور غیروں کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔
پس یہ وہ مدد ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے اور یہ وہ طریق ہے جو اس مدد کے حصول کے لئے ہمیں بتایا گیا ہے اگر یہ طریق ہم اختیار نہیںکریں گے تو وہ مدد ہمیں نہیں ملے گی۔ پھر خداتعالیٰ پر کیا شکوہ! کیونکہ جب تم نے سات بجے کے بعد یا دس بجے کے بعد جانی یا جسمانی قربانی دینے سے انکار کر دیا تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کے کیسے امیدوار بن بیٹھے۔ یہ چیز قرآن کریم کی ہدایت اور روشنی سے باہر ہے۔ قرآن کریم میں ہمیں یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ قربانی دئیے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ دیا گیا ہو۔
تا ہم جو احمدی ہیں جنہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فرزند کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے اور جو اس وجود کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو مہدی معہود تھا جس کی ہدایت کے سامان خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے کئے تھے اور جو محبوب تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خاص طور پر سلام پہنچایا تھا۔ ویسے آپ کی عام دعائیں تو ساری امت کے لئے ہیں اور ہر زمانے کے لئے ہیں لیکن اس دُعا کے لئے اور سلام کے لئے آپ نے جس کو چُنا وہ ایک ہی وجود ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ اس وجود کے ساتھ ہم وابستہ ہیں اور ہم زندہ خدا کی زندہ تجلّیاں دیکھتے ہیں اس لئے اگر ہمیں تکلیفیں پہنچتی ہیں تو کیا ہم گھبرا جائیں گے ہم جو حقیقی معنوں میں احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور
؎’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘
کی رو سے صحابہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں شامل ہو گئے ہیں۔ کیا ہم ان تکلیفوں سے ہم ان دشمنیوں سے، ہم اس قتل و غارت سے اور دشمن کے دوسرے خطرناک منصوبوں سے گھبرا جائیں گے؟ ہم جن کو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دُنیا میں دُور دُور تک نکل جاؤ اور اسلام کو غالب کرو۔ کیا ہم اس غلبہ سے پہلے یعنی اس عصر کے وقت سے پہلے ّہمتیں چھوڑ بیٹھیں گے؟ نہیں! خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔انشاء اللہ خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا کبھی نہیں ہو گا کیونکہ آسمان نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام تمام دُنیاپر غالب ہو۔ زمین اس فیصلے کو بدل نہیں سکتی۔
پس ہمیں یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں انتہائی قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ یہ فضل بھی فرمائے کہ ہم میں سے بھاری اکثریت ان انتہائی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی دُنیا میں دیکھنے والی ہو۔(آمین)
( روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱ ؍مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا۵)
ززز

مالی قربانیوں کو کمال تک پہنچائیں اور نئے سال
کے لئے انتہائی کوشش شروع کر دیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍فروری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی۔
(الم نشرح:۸)
پھرحضور انور نے فرمایا
دنیا میں انسان کی زندگی مختصر ہے۔ اس کے باوجود انسانی فطرت جب مستقبل کی طرف دیکھے اس کی لمبائی سے اکتا جاتی ہے لیکن جب وقت گذر جاتا ہے اور انسان پیچھے کی طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی زندگی بڑی مختصر نظر آتی ہے اور جب وہ آگے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کبھی مرنا ہی نہیں مثلاً ایک بچہ ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے کبھی جوان ہی نہیں ہونا۔ اور ایک نوجوان ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے شاید بڑھاپے کی عمر تک نہیں پہنچنا اور پھر جب آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے قیامت تک شاید مرنا ہی نہیں۔ کم از کم بہت سے لوگوں کے اعمال ہمیں یہی بتاتے ہیں۔
چونکہ انسان مختلف ادوار میں سے گذر کر اپنی زندگی کے دن پورے کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت کو ایسا بنایا ہے مثلاً ایک طالب علم ہے وہ پہلی میں پڑھتا ہے پھر دوسری میں اور پھر دسویں تک پہنچتا ہے۔ پھر گیارہویں میں، بارہویں میں اور پھر ایف۔اے، ایف ایس سی کے بعد بی اے، بی ایس سی میں اور پھر ایم اے، ایم ایس سی میں پہنچتا ہے پھر جس طالب علم نے مزید پڑھنا ہوتا ہے وہ ایم اے، ایم ایس سی کرنے کے بعد ایک سال یا دو سال یا تین سال کا کورس بھی پاس کرتا ہے۔
بہرحال انسان اپنی زندگی کے دن درجہ بدرجہ گذارتا ہے اور درجہ بدرجہ اپنی ترقیات کی طرف حرکت بھی کر رہا ہوتا ہے چنانچہ انسان جب بڑا ہوا اور حکومت کے کام میں شامل ہونے لگا تو پھر اس نے مثلاً تین سالہ منصوبے بنانا شروع کر دیئے، پانچ سالہ منصوبے اور پھر سات سالہ منصوبے بنائے گئے اور یہ نہیں کہا گیا کہ اس نسل کے لئے ایک ہی منصوبہ کافی ہے اور یہ نسل آخری وقت تک اس پر کام کرتے ہوئے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی۔
تاہم انسان نے وقت کے لحاظ سے اپنی زندگی کے ہر کام کو زندگی کے مختلف ادوار میں بانٹ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بانٹا ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ کے لئے فرمایا دودھ پیئو اَور کچھ نہیں کھانا۔ پھر فرمایا کچھ تھوڑی سی اَور چیز ساتھ ملا کر کھائو لیکن چنے اور مکئی کے دانے نہیں کھانے چنانچہ کھانے کے لحاظ سے ہر عمر میں ایک تدریج پیدا کی گئی اور اس طرح انسانی زندگی کے اس پہلو کو مختلف صورتوں میں بانٹ دیا گیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ غرض زندگی کے ہر میدان میں ہمیں یہی اصول نظر آتا ہے کہ زندگی کو بانٹا گیا اور درجہ بدرجہ ارتقا ء اور رفعتوں کے سامان پیدا کئے گئے ورنہ شاید انسان اپنی فطری کمزوری کے نتیجہ میں ان رفعتوں کو نہ پاسکتا جنہیں وہ درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے پالیتا ہے۔
اسی طرح عبادات میں بھی درجہ بدرجہ ترقی کرنے کے لئے نمازوں کے درمیان وقفے پیدا کر دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم سارے دن کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لو۔ اس غرض کے لئے اس نے دن کو پھر آگے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور پھر رات اور دن کی عبادات کو الگ کر دیا چنانچہ سارے دن کے کام سے تھکنے کے بعد جب رات کی عبادت آئی تو اُسے مشقت والی بنا دیا۔
غرض یہ اصول ہمیں انسانی زندگی میں کچھ اس طرح نظر آتا ہے کہ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر درجہ کے بعد یعنی پہلے درجے میں یا پہلے دائرہ میں یا پہلے دور کے اندر ایک کام مکمل بھی ہو رہا ہے اور اگلے درجہ کے کام کا بیج بھی بویا جا رہا ہے مثلاً نویں کا کورس مکمل بھی ہو رہا ہے اور دسویں میں داخلہ بھی ہو رہا ہے۔ میٹرک کا کورس مکمل بھی ہو رہا ہے اور پھر ایف اے ، ایف ایس سی (جسے انٹرمیڈیٹ کہتے ہیں) کی تیاری کے لئے بھی سامان ہو رہے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ ایک دور کے کام سے فارغ بھی ہو گے اور ایک دوسرے دَور میں داخل بھی ہو رہے ہوگے۔ اگر تم میری محبت کی انتہا کو (اپنے دائرۂ استعداد میں) پہنچنا چاہتے ہو تو پھر اس اصول کو یاد رکھو کہ جب کا سوال ہو۔ یعنی ایک دَور پورا ہو رہا ہو تو بنیادی طور پر تمہیں ایک سبق تو یہ دیا جاتا ہے کہ وہ کام کے معیار پر پورا اترتا ہو۔ فَرَغَ کے معنے عربی زبان میں کسی کام کو یا کسی چیز کو اس کے کمال تک پہنچانے کے ہوتے ہیں چنانچہ منجد نے لکھا ہے کہ فَرَغَ مِنَ الشَّيْ کے معنے ہوتے ہیں اَتَمَّہٗ یعنی کسی کام یا چیز کو کامل اور مکمل بنا دیا۔ اس کے سارے اجزاء پورے ہو گئے تب وہ عربی زبان کے لحاظ سے ہے مثلاً دسویں کا وہ طالب علم جو دو ۲ پرچوں میں فیل ہو جاتا ہے اس کو نہیں کہا جائے گا یعنی اس کا کام مکمل نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک دسویں کے امتحان کی تیاری کا سوال تھا اس نے اپنی ذمہ داری کو کمال تک نہیں پہنچایا اس لئے اس کے اگلے دَور کی ترقی یا اس کے لئے جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یعنی جب تم ایک دور کے کام سے اور اس کی ذمہ داری سے پورے طور پر فارغ ہو جائو اس معنے میں کہ جس ذمہ داری کو جس حد تک نباہنا ممکن تھا وہ تم نباہ لو، اس میں کوئی پہلو کمزوری کا یا کوئی پہلو خامی کا باقی نہ رہ جائے تم اسے مکمل اور پورا کر دو اور اس کے سارے اجزاء نمایاں طور پر نشوونما پا چکیں تو پھر وہاں ٹھہرنا نہیں کیونکہ زندگی کی کوششوں میں ٹھہرائو تو موت کے مترادف ہے۔ فرمایا ایک اَور دَور شروع ہو گیا پھر اس کے لئے تمہیں انتہائی کوشش کرنی پڑے گی۔
نَصَبَ کے ایک معنے رفعت اور مضبوطی سے قائم کرنے کے ہیں اور ایک معنے (جو اس صیغے میں آیا ہے اس کے معنے ہیں) جَھَدَ وَ اِجْتَھَدَ۔ یعنی پورا زور لگا کر کام کو کیا اس لئے اگر ہم اس کے مصدری معنے کو لیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر ذمہ داری کا جو اگلا دور ہے ایک تو وہ رفعت کا دور ہوگا یعنی ایک بنیاد پہلے بن چکی ہے۔ اب اس کے اوپر دوسری منزل بنے گی اور دوسرے یہ بتایا کہ دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی کا باعث ہوگی۔
اس دنیا کی عمارتیں تو بعض دفعہ دوسری منزل کو برداشت نہیں کرتیں مثلاً کسی عمارت کے متعلق انجینئر سے پوچھیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ اس کی بنیادیں دو منزلہ عمارت کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ بعض دفعہ وہ کہہ دیتا ہے کہ چار منزلیں بن سکتی ہیں۔ پانچویں منزل نہیں بن سکتی پس اس سے پتہ لگا کہ ہر دوسری منزل پہلی منزل کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری کا باعث بن جاتی ہے لیکن روحانی دنیا میں ہر دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی اور ارتقاء کا سامان پیدا کرتی ہے۔ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پس مادی اور روحانی کاموں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ روحانی لحاظ سے جو دوسری منزل بنتی ہے وہ پہلی منزل کی مضبوطی کا بھی سامان پیدا کرتی ہے اور اسی کی انتہا کو ہم انجام بخیر کہتے ہیں۔ اس لئے کسی انسان یا فرد واحد کی زندگی جو کہ مختلف ادوار سے گزرتی ہے اگر اس کی آخری منزل کمزور ہو تو پہلی ساری منزلیں کمزور ہوں گی اس لئے یہ سمجھا جائے گا کہ اس کا انجام بخیر نہ ہوا۔
غرض اس لحاظ سے بھی مادی اور روحانی تصور میں بالکل نمایاں فرق ہے مثلاً مادی طور پر ایک منزل بنائی جاتی ہے مگر اس پر دوسری منزل نہیں بن سکتی کیونکہ پہلی منزل مضبوط نہیں ہے یا انجینئر کہتا ہے کہ اس کی بنیاد دو منزلوں کو برداشت کر سکتی ہے اور بنتی ایک منزل ہے یعنی ایک منزل کے بوجھ سے زیادہ برداشت کر سکتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہو گا کہ اس ایک منزل کی شکل میں وہ زیادہ طاقت کی ہوگی لیکن روحانی طور پر دوسری منزل کے بغیر پہلی منزل کمزوررہ جاتی ہے اور تیسری منزل کے بغیر پہلی اور دوسری منزلیں کمزور رہ جاتی ہیں اور آخری منزل کے بغیر تو ساری ویرانی ہے کیونکہ اس طرح انجام بخیر نہیں ہوتا گویا اللہ تعالیٰ کی انتہائی رضا کے پانے کا جب وقت آیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی انتہائی ناراضگی مول لے لی۔
پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری فطرت کے لحاظ سے مختلف دور مقرر کئے ہیں اس لئے تم ان میں سے گزر کر اور انتہائی جدوجہد کے بعد آخری منزل تک پہنچ سکتے ہو چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی ہی کو آپ غور سے دیکھیں تو وہاں بھی یہ نظر آئے گا کہ آپ کے دور میں بھی مسلمانوں نے آہستہ آہستہ تدریجی ترقی کی۔ وہ آپ کی قوت قدسیہ اور تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں منزل بمنزل آگے بڑھتے رہے اور منزل بمنزل بلند ہوتے اور رفعتوں کو حاصل کرتے چلے گئے اور پھر اپنی آخری منزل کو اُنہوں نے پوری جدوجہد اور کوششوں اور قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر بنایا اور اس طرح اُن کا انجام بخیر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی یہ آواز ان کے کان میں آئی۔ میرے بندے! میری جنتوں میں داخل ہو جائو۔ اس آخری عمارت یا منزل کے بعد جنت نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد جو عمارت ہے وہ تو دھڑام سے دوزخ میں جاگرتی ہے۔ اس لئے اس لحاظ سے یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔
غرض اس چھوٹی سی آیت میں بڑی حکمت کی بات بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کسی دَور میں بھی تمہارے سپرد جو کام کیا جائے اس دور کے کام کو کے طور پر کرنا ہے یعنی اس کو تمام کرنا ہے۔ اس کو کامل اور مکمل کرنا ہے اس کے تمام اجزاء کو پورا کرنا ہے۔ لغت عربی کے لحاظ سے کے یہی معنے ہیں۔ فرمایا: جب کام مکمل ہو جائے تو پھر وہاں بیٹھ نہیں جانا اور یہ نہیں سمجھنا کہ بس جو کام کرنا تھا وہ کر لیا۔ تم جب تک اس دنیا میں زندہ ہو تمہیں اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی ذمہ داریوں کو نباہنا ہوگا البتہ اُس دُنیا یعنی اُخروی زندگی کی ہم بات نہیں کر سکے۔ انسان کا تصور یہی ہے کہ وہاں دنیوی قسم کا عمل نہیں ہوگا ویسے وہاں بھی عمل تو ہوگا لیکن یہ عمل امتحان کے طور پر نہیں ہوگا کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اس کا شکر ادا نہیں کرے گا؟ شکر ادا کرنا بھی توآخر ایک عمل ہے یا کیا وہ نہیں پڑھے گا؟ اگرچہ وہ پڑھے گا تو یہ بھی ایک عمل ہے اگرچہ وہ اُس سے زیادہ بصیرت کے ساتھ پڑھے گا جتنا اس دنیا میں پڑھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو اس سے زیادہ بصیرت کے ساتھ دیکھے گا جتنا وہ اس دُنیا میں دیکھ رہا ہے اس لئے اس کی حمد تو اس دنیا کی حمد سے بہتر اور احسن ہوگی۔
غرض جب ہم کہتے ہیں کہ یہ عمل کی دنیا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ اس عمل کی دنیا ہے جسے ہم امتحان کہتے ہیں۔ یعنی یہ آزمائش کی دنیا ہے۔ اس آزمائش اور امتحان کی دُنیا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اگر شیطان سے تمہیں کوڑے بھی لگوائوں تو پھر بھی تم نے میری حمد کرنی ہے اگر تم اس صورت میں بھی میری حمد نہیں کرو گے تب بھی میں تم سے ناراض ہو جائوں گا اور دوسری طرف اُخروی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں لغویات بھی تمہارے کان میں نہیں پڑیں گی گویا وہ دنیا ہی اَور ہوگی لیکن وہاں بھی ایسا عمل تو بہرحال جاری رہے گا جس کو امتحان نہیںکہا جاسکتا۔ اب مثلاً ایک آزمائش بچے کی یہ ہوتی ہے (اور یہ آزمائش ماں باپ لیتے ہیں مگر جہاں تک اس امتحان یا آزمائش کا سوال ہے) ماں باپ نے اپنے ذہن میں یا اعلانیہ اظہار کیا ہوتا ہے کہ اگر تو فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوگیا تو ہم تجھے یہ تحفہ دیں گے۔ یہ بھی آخر ایک عمل اور اس کا نتیجہ ہے نا۔ انہوں نے اپنے بچے کا امتحان لیا یا انہوں نے امتحان کے ساتھ خود کو وابستہ کر دیا اور ایک وہ پیار ہے جو ایک، دو، تین سال کا چھوٹا بچہ ماں کی گود میں پاتا ہے وہ اپنی ماں کی گردن میں باہیں ڈال کر اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اُس وقت ماں اسے جو پیار دے رہی ہوتی ہے وہ اگرچہ عمل کا جواب تو ہے مگر کسی امتحانی عمل کا نتیجہ نہیں اور عمل اس لحاظ سے ہے کہ بچہ آتا ہے، ماں کی گردن میں باہیں ڈالتا ہے اور پھر بڑے پیار کے ساتھ اپنے کلّے کو ماں کے کلّے کے ساتھ لگا دیتا ہے۔ ماں اس سے پیار کرتی ہے چنانچہ اسی طرح اس اگلی اُخروی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا پیار عمل کے ساتھ تو وابستہ ہے لیکن ایسے عمل کے ساتھ وابستہ نہیں ہے جسے ہم امتحان یا آزمائش کہہ سکیں۔
مگر یہاں اس دنیا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں بَأْسَآء اور ضَرَّآء دیکھنی پڑیں گی یا تم ایسے الفاظ سنو گے جنہیں تم برداشت نہیں کر سکو گے لیکن میری خاطر تمہیں برداشت کرنے پڑیں گے پس امتحان اور آزمائش کے لحاظ سے انسانی زندگی پر مختلف دور آتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی جدوجہد کو مختلف ادوار میں تقسیم کردیا ہے۔
چنانچہ اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے منصوبے بنا دیئے ہیں۔ بعض دینی منصوبے ایسے ہیں جن کا تعلق ایک دن کے ساتھ ہے بعض دینی منصوبے اس قسم کے ہیں جن کا تعلق سال میں ایک مہینے کے ساتھ ہے۔ اب مثلاً نماز ہے، اس کا دن کے اوقات کے ساتھ تعلق ہے دن بھی پورا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایک دن کی نماز پڑھنی ہے بلکہ فرمایا کہ دن میں پانچ دفعہ لازماً اور چھٹی دفعہ پیار کے جوش میں پڑھنی ہے (دن میں پانچ نمازوں کے بعد رات کو ہم تہجد کی نماز ادا کرتے ہیں) یہ گویا دن (۲۴ گھنٹے) کا ایک دور ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ ایک دن باقاعدہ صبح دوپہر، عصر شام اور عشاء اور پھر تہجد کی نماز پڑھ لو اور پھر آرام سے بیٹھ جائو یہ کہتے ہوئے کہ ہمارا جو کام تھا وہ ختم ہوگیا۔ فرمایا یہ نہیں تمہارا کام کے مطابق پورا بھی کیا گیا ہو یعنی اس کے ساتھ جو ذیلی چیزیں تھیں ان کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہو۔ مثلاً تم نے ہر نماز کے ساتھ نفل بھی پڑھے ہوں۔ نمازوں سے پہلے بڑی احتیاط کے ساتھ وضو بھی کیا ہو۔ نمازوں میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں بھی کی ہوں۔ پھر رات کوتہجد کی نماز بھی ادا کی ہو اس طرح گویا نماز کے لحاظ سے دن کی ذمہ داری کے سارے اجزاء پورے ہو گئے لیکن اس پر تمہاری ذمہ داری ختم نہیںہو جاتی بلکہ اگلے دن کی جب پَو پھوٹی تو وہ تمہارے لئے نئی ذمہ داریاں لے کر آئی اور مثلاً نمازوں کے لحاظ سے ایک نیا دور شروع ہو گیا۔
تاہم روزے کے لحاظ سے تو نیا دور شروع نہیں ہوا اس کے لئے تو آپ کو گیارہ مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک مہینہ رمضان کی عبادت کا ہے۔ یہ بھی ایک دوسری قسم کی عبادت کا دور ہے۔ پھر جب آپ ایک مہینے کا یہ دور پورا کر لیتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ اللہ کی قسم! اب میں ساری عمر روزے نہیں رکھوں گا کبھی کسی مومن کے دل سے یا اس کی زبان سے یہ آواز نکلی ہے؟ اس لئے نہیںنکلی کہ اسے پتہ ہے کہ میری زندگی کا ایک دَور یا ایک منصوبہ سال کے ایک مہینے کے ساتھ تعلق رکھتا تھا وہ ختم ہو گیا اب دوسرا منصوبہ اگلے سال کے لئے شروع ہوگیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہمیں رمضان کے لئے گیارہ مہینے تیاری کرنی چاہئے۔ پھر اس کا CLIMAX (کلائمیکس) اس کی انتہا اور اس کا انجام رمضان کے مہینے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
پھر حج ہے یہ بھی اصل میں تو ایک دفعہ ساری عمر میں فرض ہوتا ہے گویا ساری زندگی میں ایک دور اس کا آتا ہے لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے وہ ایک سے زائد دفعہ بھی حج کرتے ہیں۔
بہرحال عبادت کے لحاظ سے بھی میں جس چیز کو اچھی طرح واضح کرکے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مختلف دور ہیں کسی چیز کا دور ایک دن سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی کا ایک سال سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی کا ساری عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ سال سے تعلق رکھنے والا دور مثلاً زکوٰۃ بھی ہے۔ اس کا تعلق گو سال کے ختم ہونے سے ہے لیکن خرچ کرنے کے لحاظ سے ایک دور ایسا آجاتا ہے کہ دو دن کے بعد بھی ضرورت پڑ سکتی ہے مثلاً جہاد کے لئے مال دینا چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو جنگیں لڑی گئی ہیں، ہر جنگ کے وقت یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ مالی قربانی دو اور جانی قربانی دو کوئی ایک ہفتہ کے بعد جنگ ہوئی۔ کوئی ایک سال کے بعد جنگ ہوئی۔ کوئی لمبے عرصہ کے بعد اور کوئی تھوڑے عرصہ کے بعد جنگ ہوئی یعنی مختلف جنگوں کے درمیان ایک جیسا وقفہ نہیں ہے۔
پھر ایک اور دور ہے جو پورے کا پورا مظلومیت کا دور نظر آتا ہے۔ یعنی مکی زندگی کا پورا ایک دور ہے اور کیونکہ مسلمانوںنے اس دور میں پر عمل کیا تھا یعنی اس دور مظلومیت کی زندگی میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو انہوں نے پورے طور پر ادا کر دیا تھا۔ اُن کا کوئی جزو ایسا نہیں تھا کہ جس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہو اور ادا نہ کیا ہو۔ غرض انہوں نے اپنی قربانیوں کو مکمل بنا دیا تھا چنانچہ ان کا نتیجہ شاندار کامیابی کی شکل میں نکلا۔ گو اس کامیابی میں بہت ساری اَور چیزیں بھی شامل تھیں لیکن اس ایک خطبہ میں ان کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی لیکن ایک شکل جو بڑی نمایاں تھی وہ یہ تھی کہ مکہ کے ظالم سرداران نے مکہ سے باہر نکل کر جنگ کے ذریعہ اسلام کو مٹانا چاہا تو اپنا سر اور دھڑ چھوڑ کر وہ قوم واپس مکہ کو لوٹی۔ ان کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے تھے جس طرح خواب میں یا کہانیوں میں بے دھڑکے انسان کا منظر دکھائی دیتا ہے یعنی بعض دفعہ بغیر سر کے دھڑ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ حقیقتاً کفارِ مکہ بغیر دھڑ کے واپس لوٹے اس لئے کہ جس سر نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ مسلمانوں کو قتل کر دیا جائے یا جس دماغ نے اسلام کو مٹانے کے متعلق سوچا تھا، اس کو اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا مگر اسلام ختم نہیں ہوا۔ غرض اس دور میں امت محمدیہ نے جب کہ وہ ایک چھوٹی سی امت تھی اور بڑے نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو ان کے تمام اجزا کے ساتھ نباہا اور انتہائی قربانیاں دیں۔
پس واقعہ میں انہوں نے اس حکم پر عمل کیا اور فَرَغْتَ کی رو سے ایک دور کی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگلے دور کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یعنی بدر کی جنگ جس میں پہلے دور کی انتہا اور انجام تھا اورنہایت شاندار انجام تھا اور خداتعالیٰ کی محبت کا ایک عظیم الشان اظہار تھا۔ اُس وقت گویا ایک دور ختم ہوا۔ اگلا حکم کیا ہے! آرام سے بیٹھو اور سو جائو تمہیں مزید قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں۔ فرمایا۔ ایک نیا دَور شروع ہو گیا ہے۔ اس دور میں بھی انتہائی جدوجہد کرنی پڑے گی اور جہاد سے کام لینا پڑے گا اور رفعتوں اور مضبوطی کے سامانوں کے لئے کوشش کرنی پڑے گی۔ غرض اس طرح امت محمدیہ کی فردی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پہلے دور کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، پھر چوتھا وَ َعلٰی ہٰذَالْقِیَاس۔ لیکن جس وقت امت محمدیہ نے پر عمل کیا لیکن پر عمل نہیںکیا وہ سمجھے کہ ہم ساری دنیا کے حاکم بن گئے۔ اب ہمیں پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے تو تباہ ہو گئے مثلاً سپین اسلامی سلطنت کا ایک حصہ تھا اور اس پر مسلمان حکومت کرتے تھے۔ مگر کجا یہ کہ طارق کی فوج بارہ ہزار کے قریب تھی اور اس نے سپین میں جاکر ایک لحاظ سے سارے یورپ کے ساتھ ٹکر لی اور انتہائی قربانی دی۔ وہاں سمندر کے ساحل پر کشتیاں نہیں جلائی گئی تھیں وہاں خداتعالیٰ کے ساتھ محبت کے شعلے بھڑکے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ دنیوی قربانیاں کیا چیز ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کے شعلوں میں ہر چیز کو جلا دیتے ہیں تاکہ ہمیں اس کے پیار کی ٹھنڈک ملے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیار کی ٹھنڈک پہنچائی۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے سامنے عیسائی فوج نہیں ٹھہری اور وہ شکست کھا گئی حالانکہ سارے یورپ والے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے۔ خود سپین کے عیسائی بادشاہ کے پاس بے تحاشا فوج تھی۔ اسی طرح ترکی کی طرف سے مسلمان پولینڈ تک چلے گئے۔
چنانچہ اس دَور میں جب کے ساتھ ساتھ پر بھی عمل ہو رہاتھا۔ ہر وہ طاقت جس نے مسلمانوں سے ٹکر لی ناکام ہوئی اور ہر وہ دشمن جس نے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی ہلاک ہو گیا۔
پھر مسلمانوں پر ایک وقت ایساآیا کہ جب انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ساری دنیا ہمیں مل گئی ۔ ہم نے اجتماعی زندگی میں جو کام کرنا تھا وہ کر لیا اس لئے اب ہمیں قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں رہی حالانکہ یہ نہیں سوچا کہ امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی تو قیامت تک ممتد ہے۔ قیامت سے پہلے تو امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی ختم نہیں ہوتی۔ اس واسطے امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی میں کوئی ایسا مقام نہیں جب انسان یہ سمجھے کہ َ پر پورا اترنے کے بعد کا حکم نہیں رہا بلکہ اس آیت کی رو سے قیامت تک ایک دور کے بعد دوسرا دور شروع ہوگا۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔
بہرحال جب بھی مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے اپنے دور میں قربانیوں کے ہر جزو کو مکمل کر دیا۔ اب انہیں مزید قربانیاں دینے کی کیا ضرورت ہے تو وہ ہلاک ہو گئے مگر یہ ہلاکت دنیوی طور پر ہے رَوحانی لحاظ سے اس لئے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ فَیج اَعْوَجْ کے زمانہ میں بھی امت محمدیہ میں اولیاء اس کثرت سے تھے کہ جس طرح سمندر میں پانی کے قطرے ہوتے ہیں لیکن وہ امت محمدیہ کے کچھ فرد تھے یا وہ کچھ حصے تھے یا وہ کچھ ٹولیاں تھیں۔ ساری امت محمدیہ تو ایسی نہیں تھی جس طرح چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور تھوڑی سی جگہ کو روشن کر دیتے ہیں یہی اُن کا حال تھا مگر ساری امت یا ساری قوم پر جو ذمہ داری تھی اس سے صرف پاکستان کے مسلمان یا افریقہ کے مسلمان یا مصر کے مسلمان یا عراق کے مسلمان یا عرب کے مسلمان یا شام کے مسلمان یا ایران وغیرہ کے مسلمان مراد نہیں بلکہ ساری امت پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں انہیں نباہا نہیں گیا چنانچہ اسلامی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے کے بعد کا خیال نہیں رکھا۔ جب ایک دور ختم ہوا تو انہوں نے دوسرے دور کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں کی۔
پس اگر امت محمدیہ نے یا جماعت احمدیہ نے ترقی کرنی ہے تو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو سبق ہمیں اس چھوٹی سی آیت میں سکھائے گئے ہیں ہم ان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس کے مطابق ہم ہر دور کی قربانیوں کو کمال تک پہنچانے کے بعد نئے دَور کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے انتہائی جدوجہد اور پوری کوشش کرنی شروع کر دیں۔ پھر ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ خدا نہ کرے کہ ہم پہلے لوگوں کے انجام سے سبق نہ لیں اور جو اُن پر گذری تھی خدا نہ کرے کہ وہی ہم پر بھی گذرے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔
ایک چھوٹی سی بات جو آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ غلبۂ اسلام کے لئے ہماری جو عظیم جدوجہد اور عظیم مہم ہے اس کا بھی ایک دور ہے جس میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی کام نہیںہے۔ یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ بعض کمزور دل اور کمزور ایمان آدمی ڈر جائیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ یہ اتنابڑا کام ہے یہ کیسے سرانجام پائے گا؟ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جتنا کام اس وقت تک ہو چکا ہے وہ بھی کیسے ہو سکنے والا سوال تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو قبل اس کے کہ کوئی ایک شخص بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا دو سَو علماء نے آپ پر کفر کے فتوے لگا دیئے۔ آپ کی محفل میں دو سَو علماء کے کفر کے فتوے تو تھے لیکن احمدی کوئی نہیں تھا کیونکہ ابھی آپ نے بیعت لینی شروع نہیں کی تھی لیکن آج دیکھو وہ اکیلی آواز، وہ خدا اور اس کے رسول کے پیار سے لبریز آواز ساری دنیا میں چکر لگا رہی ہے۔
پس جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی دراصل ایک معجزہ ہے۔ اس لئے جب ہم ایک معجزہ دیکھ چکے ہیں تو ہم آئندہ ظاہر ہونے والے معجزوں سے مایوس کیوں ہوں؟ خداتعالیٰ وہ بھی ضرور دکھائے گا البتہ ضرورت اس بات کے سمجھنے کی ہے کہ جب امت محمدیہ نے یا جماعت احمدیہ نے اس سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کو نباہا ہے تو پھر ہم اپنی ان ذمہ داریوں کے نباہنے سے کیوں انکار کریں جو آئندہ نئے دور میں ہم پر پڑنے والی ہیں۔
مَیں نے بتایا ہے کہ انسانی زندگی میں چھوٹا بڑا دَور آتا رہتا ہے۔ ہمارا ایک دَور مالی سال پر مشتمل ہے اور وہ اب ختم ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں ہر سال کے پورا ہونے پر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یعنی جب ذمہ داری پوری ہوگئی، سارے اجزاء کے مطابق ذمہ داری نباہ لی تو پھر اس کے ساتھ لگتا ہوا دوسرا دَور جو ہے اس کے متعلق یہ حکم ہے۔ یعنی ہر دَور کے اختتام پر والی کیفیت پیدا ہونی چاہئے۔ انسانی کوشش مکمل ہونی چاہئے ادھوری نہیں رہنی چاہئے اور ہر دَور کے آخر پر جو اگلے دَور کی ابتداء ہے اس کے لئے کا حکم ہے کہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ زور لگانا چاہئے۔
چنانچہ جب ہمارا پچھلا مالی سال ختم ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت جماعت پر یہ بڑا فضل کیا تھا کہ جو ہمارا بجٹ تھا احباب نے اس سے کہیں زیادہ چندے دیئے تھے اب جو بچے ہیں یا جو لوگ جماعت کے اندر نئے داخل ہونے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں صرف مالی قربانی دے دی یہ صحیح نہیں ہے اس لئے ہماری جماعت کے علماء کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ دو چیزوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا کریں ایک یہ کہ جماعت نے ہر مالی سال کے شروع میں ایک اندازہ لگا کر کہ مثلاً اتنی ہماری مالی طاقت ہے اس کے مطابق جتنا منصوبہ بنایا یعنی بجٹ تیار کیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے مالی قربانیاں دیں اور دوسرے یہ کہ ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جتنے پیار کی وہ توقع رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ پیار اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
اب یہ جو نیا مالی سال ہے جو اب گذر رہا ہے اس کے شروع میں بھی ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم اس سال کے دوران کے حکم پر عمل کریں گے اور پہلے سے زیادہ جدوجہد کریں گے اور اس سال یا اس دَور کو بھی اس کے اتمام یعنی کمال تک پہنچائیں گے۔ اب اس مالی سال کے دَور کے صرف دو مہینے باقی رہ گئے ہیں۔ ویسے یہ درست ہے کہ دنیوی لحاظ سے یہ بڑی پریشانیوں کے دن رہے، تاجروں کے لئے بھی پریشانی ہے زمینداروں کے لئے بھی پریشانی ہے۔ علاوہ ازیں بعض لوگوں کو اپنے علاقوں سے اُٹھنا پڑا ہے۔ اس لئے ملکی اقتصادیات پر بڑا بُرا اثر پڑا ہے لیکن کیا اقتصادی دُنیا کے بحران ہمارے عزم اور ہمارے ارادوں پر بُرا اثر ڈالیں گے؟ ایک مومن تو اقتصادی بحران کی کبھی پرواہ نہیںکرتا کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ آسمان سے امتحاناً بلائیں نازل ہوتی ہیں یا ہم خود ہی اپنے لئے بلائیں پیدا کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یعنی ہمارا تکلیف اٹھانا یا قربانیاں دینا یا خود کو تکلیف میں ڈالنا اس لئے ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔
پس دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اقتصادی بحران جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں کبھی روک نہیںبن سکتے۔ اس واسطے تم ان دو مہینوں کے اندر خدا کی راہ میں قربانیاں دو اس یقین کے ساتھ کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں دو گے تو دنیوی دولت کے لحاظ سے غریب نہیں ہوجائو گے کیونکہ جو شخص خداتعالیٰ کی راہ میں پیسے دیتا ہے وہ غریب نہیں ہوتا بلکہ اَور زیادہ مال دار ہو جاتا ہے تم نے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہمیں اپنے ربّ کی طرف سے جو پیار ملا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گذار بندے ہیں۔
غرض ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ دنیا میںاقتصادی بحران آئیں، دنیا میں حوادث کی شکل میں طوفان برپا ہوں یا دریائوں میں طغیانیاں آئیں یا خشک سالی ہو، دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوتا رہے ہمارے عزم اور ہمارے ارادے اور ہماری قربانیوں میں کوئی رخنہ اور کوئی نقص پیدا نہیں ہوگا۔ ہم پہلے سے زیادہ آگے بڑھیں گے کیونکہ میں نے بتایا ہے میں خالی نئے سرے سے پورے جوش کے ساتھ جدوجہد اور جہاد کرنا نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس نیت سے کرنا ہے کہ پہلی منزل زیادہ مستحکم ہو جائے اور اس کے اندر اَور بھی زیادہ ثبات پیدا ہو جائے اور اسے اَور بھی زیادہ رفعت حاصل ہو۔ اس طرح ہم اوپر سے اوپر نکلتے چلے جائیں گے اور خداتعالیٰ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس بنیادی اصول کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو سدھارنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ززز

جو خود کو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا
ہے اُسے قوی بھی ہونا چاہئے اور امین بھی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
انبیاء علیہم السلام قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی اور پھر انبیاء میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ امین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اسی لئے ہمیں اسوۂ نبوی کی پیروی کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ پس ہر وہ شخص جو خود کو حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے، اُسے قوی بھی ہونا چاہئے اور امین بھی۔
قوی کے معنے صرف یہی نہیں ہوتے کہ کوئی آدمی زیادہ بوجھ اُٹھا لے۔ قوی کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ آدمی ہر اُس ذمہ داری کو حسن و خوبی سے ادا کرسکے جس کے اُٹھانے کی اُسے تلقین کی گئی اور جس کے نباہنے کی اُسے تعلیم دی گئی ہے۔ غرض صرفWEIGHT LIFTING (ویٹ لفٹنگ) یعنی مادی بوجھ کو اُٹھانے ہی کے معنے میں قوی کا لفظ استعمال نہیں ہوتامثلاً قوتِ برداشت ہے۔ جس آدمی میںقوتِ برداشت ہوتی ہے وہ بھی قوی ہوتا ہے۔ پھر عزم ہے یہ بھی دراصل اِسی قوت کی ایک جھلک ہوتی ہے۔
پس انبیاء علیہم السلام کے سچے متبع قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی۔ یعنی وہ ہر قسم کی قوت کو ترقی دیتے ہیں اس کی نشوونما کرتے ہیں اور اس طرح اپنے دائرہ میں ایک حسین ترین وجود بن جاتے ہیں۔
جہاںتک امانت کا تعلق ہے یہ تو دُنیا نے انبیاء علیہم السلام سے سیکھی ہے اور خیانت اسوۂ نبوی سے دُوری کا نام ہے۔ آج پاکستان کوجو ذلّت دیکھنی پڑی ہے، اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ امین نہ ہونا ہے یعنی امانت کا فقدان اور خیانت میں اتنی وسعت کہ تصور میں بھی نہیں آسکتی۔ اگر یہ حال نہ ہوتا تو ہمیں آج یہ دُکھ برداشت نہ کرنا پڑتا۔
پھر جہاں تک قوت کا تعلق ہے، اس کے بعض پہلو ورزش سے نشوونما پاتے ہیں۔ اِس لئے جسمانی ورزش کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ جوان کو بھی اور بوڑھے کو بھی۔(بوڑھا تو میں کسی کو نہیں کہا کرتا اِس لئے مَیں کہوں گا) جوان کو بھی اور جوانوں کے جوان یعنی انصار اللہ کوبھی۔ مرد کو بھی اور عورت کو بھی اِس طرف توجہ دینی چاہئے۔ کبھی توجہ ہو جاتی ہے کچھ اور کبھی بھول ہو جاتی ہے بہت سی۔ اِس لئے چند دن ہوئے بچوں کے ایک اجتماع میں مَیں نے ایک اعلان کیا تھا۔ مَیں آج اسے دُہرانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ساری جماعت کی ذمہ واری ہے۔
میں نے اُس اعلان میں بچوں سے یہ کہا تھا کہ تم ربوہ میں کھیلوں کو منظم کرنے کا کام سنبھالو کیونکہ اس انتظام میں اکثر نوجوان ہی آگے آئیں گے اور ان کو میں نے اِس انتظام کی یہ شکل بھی بتائی تھی کہ دو نمائندے تعلیم الاسلام کالج کے، دو جامعہ احمدیہ کے، دو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے، دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے مل کر سر جوڑیں اور ایسا انتظام کریں کہ ربوہ کا ہر شہری روازنہ ورزش کیا کرے۔
ورزش کے لئے باسکٹ بال کھیلنا ہی ضروری نہیں ہے۔ سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ کی جانے والی ورزش تو سیر ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنّت بھی ہے۔اس لئے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لئے چاروں طرف نکل جایا کریں۔
مَیں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو ہماراBALLIOL کالج Active (ایکٹو) ہونے کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ جس طرف بھی سیر کو جائیں، اگر سو طلباء راستے میں سیر کرتے ہوئے ملے ہیں تو اُن میں پچاس سے زیادہ BALLIOL کالج کے ہوتے تھے، غرض وہ بڑا ACTIVE (ایکٹو) کالج تھا۔ وہ سویا نہیں رہتا تھا یعنی ’’پوستی کالج‘‘ نہیں تھا بلکہ ہر چیز میں آگے تھا۔ پس سیر ایک بڑی اچھی ورزش ہے اور اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مختلف نظارے سامنے آتے ہیں۔ شہر کے اندر رہتے ہوئے جو چیزیں نظر نہیں آتیں وہ باہر نکل کر نظر آجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات اس کائنات میں جلوہ گر ہیں ہمیں اُن کو دیکھنا چاہئے اور اُن کے متعلق غور کرنا چاہئے اور اُن سے لذت حاصل کرنی چاہئے اور اُن سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
اگلے جمعہ سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہئے یعنی اس کام کے متعلق پروگرام بنانے کے لئے کمیٹی بیٹھ جائے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی شرم آتی ہے۔ (میں بھی اس کا ذمہ وار ہوں) کہ پچھلے ۲۰ سال سے وہ جگہیں جن کو ہم ربوہ کے کھلے میدان کہتے ہیں یا جس نے ربوہ کا نقشہ بنایا تھا اس نے نقشے میں ان جگہوں کو OPEN SPACES(اوپن سپیسز) دکھایا تھامگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی یہاں عمارتیں ہوتی تھیں اور اب اُن کے کھنڈرات رہ گئے ہیں اور جن کی بنیادوں کے نشان بھی مٹ گئے ہیں۔ غرض وہ جگہیں آبادی کا حصہ معلوم نہیں ہوتیں اور یہ بڑے شرم کی بات ہے۔
پس تمام کھلی جگہوں یعنی اوپن سپیسز(OPEN SPACES)کو کھیل کے میدان بننا چاہئے۔ تم ان کو کھیل کے میدان میں تبدیل کر دو مگر اس شخص کی طرح نہ کرنا جو جون، جولائی میں دھوپ میں پڑا ہوا تھا اور جسے کسی بھلے مانس راہی نے کہا تھا کہ سامنے ٹھنڈے سایہ دار درخت کے نیچے چلے جاؤ تو اس پر اس نے کہا تھا کہ پھر تم مجھے کیا دو گے؟ تم اس سِلسلہ میں محنت کرو۔ محنت ہی اصل دولت ہے محنت کی جو دولت ہے وہی دراصل ہمارا سرمایہ اور عزت ہے جس کے گرد امانت کی فصیل کھینچی گئی ہے۔ محنت میں اگر خیانت ہو تو یہ ضائع ہو جاتی ہے۔ بے نتیجہ اور بے ثمر ٹھہرتی ہے یا اس کے ثمر کو کیڑا لگ جاتا ہے لیکن جس دولت کو انسان کی محنت کماتی ہے اُسے اس کی امانت قائم رکھتی ہے۔ پس تم محنت کرو اور ساری کھلی جگہوں کو(جو نقشے میں کھلی جگہیں دکھائی گئی ہیں) باغ کی شکل میں تبدیل کر دو۔
ویسے تو بہت ساری جگہیں ایسی بھی ہیں جن کو بعض دوستوں نے مکان کے لئے خریدا تھا۔ مگر سمجھ نہیں آتی کہ وہ کھلی جگہیں ہیں یا مکانوں کی زمینیں ہیں۔ ایسے دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ اُن پر مکان بن جانے چاہئیں۔ جب کبھی ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر لوگ ربوہ کی طرف دوڑتے ہیں اور اس طرح ہمیں بھی ایک اچھا خاصا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بعض لوگ جن کو مکان کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہنگامی حالات تو نہیںہوتے ویسے ان کومکان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مالک مکان سے کہتے ہیں کہ مکان کا ایک حصہ کرایہ پر دے دو(بعض لوگ مفت بھی دے دیتے ہیں) لیکن فرض کرو کرایہ پر مانگا اور وعدہ کیا کہ جس وقت کہو گے ہم خالی کر دیں گے مگر جب ہنگامی حالات پیدا ہوئے اور مالک مکان ربوہ کی طرف دوڑا اور اس نے کہا مکان خالی کرو۔ مگر انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں؟ اب یہ جواب دینا کہ ’’ہم کہاں جائیں‘‘ یہ بھی ایک قسم کی خیانت ہے۔ تم ایسا وعدہ کیوں کرتے ہو جسے تم پورا نہیں کر سکتے اور اگر ایسا وعدہ کر سکتے ہو تو باہر میدان میں نکل آؤ۔ تمہارے جسم کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اس کا کوئی حرج نہیں لیکن تمہاری روح کو کوئی گزند اور تمہارے اخلاق پر کوئی دھبہ نہیں آنا چاہئے۔ اس لئے جو تم نے وعدہ کیا ہے وہ تم پورا کرو یا وعدہ نہ کرو۔ آخر جس دن تم نے یہ کہا تھا کہ جب کہو گے ہم مکان خالی کر دیں گے۔ اس وقت تم نے جہاں بھی جانے کے متعلق سوچا تھا وہاں چلے جاؤ۔
خیر یہ تو ضمنی بات ہے۔ مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ تم محنت کر کے ساری کھلی جگہوں کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دو۔ محنت کے علاوہ جہاں تک تمہیں خرچ کرنا پڑے اور تم خرچ کرنے کی مقدرت بھی رکھتے ہو تو خرچ بھی کر واور جہاں مقدرت نہیں رکھو گے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ تمہارے لئے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہو جائے گا لیکن ابتداء کرنا تمہارا کام ہے اور انجام تک پہنچانا خدائے رحیم کا کام ہے۔
پس اگلے جمعہ سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہئے یعنی انتظامیہ بن جانی چاہئے۔ ورزش کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد یہاں کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنامنٹ کروایا جائے تاکہ کھیلوں کی طرف دلچسپی پیدا ہو۔ سیر کا بھی ٹورنا منٹ ہو سکتا ہے اس کے لئے میں انعام مقرر کر دیتا ہوں مثلاً پانچ میل سیر کا مقابلہ ہو اور دوست آکر یہ بتائیں کہ اُنہوں نے سیر میں خداتعالیٰ کی قدرت کے کیا کیا جلوے دیکھے۔ جب وہ یہ لکھ کر دیں گے یا جسے لکھنا نہیں آتا وہ زبانی بتائیں گے تو اس مقابلہ میں جو اوّل آئے گا۔ اس کو پچاس روپے کا انعام میری طرف سے دیا جائے گا۔ آخر خداتعالیٰ کی صفات کے جلوے اسی لئے ہیں کہ ہم ان کو دیکھیںاور ان پر غور کریں۔اس طرح خداتعالیٰ کے ساتھ پیار بڑھتا ہے۔ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی چیزہوتی ہے لیکن اس میں بھی بڑا حُسن نظر آتا ہے مثلاً یہ چھوٹی سی تتلی جو اِدھر سے اُدھر اُڑ رہی ہوتی ہے۔ اس کے اوپر رنگ اس قدر خوبصورت اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے مختلف رنگوں کے بیل بوٹے اس ہوشیاری کے ساتھ بنائے ہوتے ہیں کہ اگر انسان بنائے تو وہ کہے کہ میں اس کو شاید دس ہزار روپے میں بیچوں گا کیونکہ اس پر میرا بڑا وقت لگا ہے۔ اس پر میں نے بڑا خرچ کیا ہے اور بڑی دماغ سوزی کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور اس مادہ کو حکم دیا تووہ خوبصورت تتلی کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے لیکن آپ گزرجاتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ اتفاق سے آپ کے سامنے نہیں آگئی(دُنیا میں اتفاق کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے) اُسے تو متصرف بالارادہ ہستی نے پیدا کیا ہے یہ کسی اندھے اور اندھیرے میں بسنے والے آدمی کا اتفاق نہیں ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی قدرت کے جلوے ہیں جو تمہارے سامنے آتے ہیں تاکہ تم ان پر غور کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ۔
جہاں تک امین ہونے کا تعلق ہے اس کی طرف ہر مسلمان اور ہر انسان کو متوجہ ہونا چاہئے۔ جن لوگوں کی کوششیں دُنیا میں ضائع ہو گئیں کچھ دُنیا میں بھی وہ ناکام ہو گئے اور جو کامیاب ہوئے ان کی کوشش کا نتیجہ تب نکلا کہ جب وہ دُنیوی معیار کے لحاظ سے امین تھے۔ اگر وہ امین نہ ہوتے اگر اُن میں رشوت کا ایسا ہی زور ہوتا جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک میںرہا ہے۔(اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ اندھیرے دُور ہو جائیں) تو وہ قومیں کبھی ترقی نہ کر سکتیں۔ دُنیا میں ہر جگہ ہمیں خیانت بھی نظر آتی ہے اس لئے کہ دُنیا مذہب سے دُور ہو گئی ہے۔ خود مذہب میں بھی ہمیں بعض استثنائی صورتوں میں خیانت نظر آتی ہے کیونکہ ہر مذہب میں اور اسلام میں بھی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں بھی ہمیں منافق نظر آتے ہیں اورمذہبی لحاظ سے سب سے بڑا خائن منافق ہے۔ جس آدمی نے اپنے رب کے ساتھ خیانت کی وہ اپنے بھائی کے ساتھ کیسے خیانت نہیں کرے گا؟بعض دفعہ میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ یہاں خیانت کا اتنا زور تھا کہ اگر ہم احمدیت کے وجود کو علیٰحدہ کر دیں تو ایک چھوٹی سی جگہ میں بھی مشکل سے کہیں امانت نظر آتی تھی۔ اس حالت میں قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ خیانت صرف یہی نہیں ہوتی کہ کسی کے کچھ پیسے کھا لئے جائیں بلکہ اگر کام پورا نہ کیا جائے تو یہ کام میں خیانت ہے یا پھر ذمہ داری کی ادائیگی میں خیانت ہے پھر ذمہ واریاں محض حکومت کی یا قانون ہی کی نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ مذہبی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔
ایک ذمہ داری یہ تھی کہ اسلام نے بھائی کو بھائی سے پیار کا حکم دیا تھا مگر بعض لوگوں نے اس میں بھی خیانت کی اور وہ اپنے بھائیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ گئے۔ چنانچہ حکومت نے پرسوں زراعت کے متعلق جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس پر بھی سَٹ پٹا رہے ہیں حالانکہ ان سے روزی تو نہیں چھینی گئی البتہ ان کے عیش کے کچھ حصے ہیں جنہیں کاٹ دیا گیا ہے۔ ۱۵۰ ایکٹر بڑی زمین ہے اگر اس میں پہلے سے زیادہ محنت کی جائے اور عقل سے اس سے فائدہ اُٹھایا جائے تو اس سے بھی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ مل جاتا ہے جتنا کہ اس اعلان سے (جسے زرعی انقلاب کہا گیا ہے اس کے نتیجہ میں) ان کروڑوں کو ملے گا جن کو آج تک تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ گو اب بھی فرق ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے عزت کی زندگی کے پہلے سے زیادہ سامان میسر آگئے اور آسودہ زندگی کے کچھ بہتر سامان پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ اب بھی جن لوگوں کے خاندان کے پاس آٹھ یا دس ایکٹر زمین رہے گی۔ ان کو پھر بھی روکھی روٹی کھانی ہے لیکن الا ماشاء اللہ وہ ان کی حقارت کی نگاہ سے محفوظ ہو جائے گا۔
پس اسلام نے تو سب کو برابر کر دیا تھا چنانچہ جہاد کے ایک سفر میں ایک موقع پر کھانے کی تنگی کے پیش نظر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ساری کھجوریں لے آؤ۔ آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں جس آدمی کے پاس ایک من کھجور تھی وہ بھی لے آیا اور جس کے پاس دو کھجوریں بچی ہوئی تھیں وہ بھی لے آیا۔ آپ نے سب میں برابر تقسیم کر دیں۔ اب جس سے آپ نے ایک من کھجور لی تھی اس کو آپ نے پیسے نہیں دئیے اورنہ اُن سے پیسے لئے تھے جن میں آپ نے کھجوریں تقسیم کیںتھیں۔ یہ بھی ایک اعتراض ہے کہ دیکھو جی کہتے ہیں پیسے دئیے بغیر زمین لے لینی ہے۔ مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجوروں کے کب پیسے دئیے یا لئے تھے۔ اگر آج حکومت انہیں پیسے دے توپھر جن کو حکومت دے گی ان سے بھی پیسے لے گی۔ مگر جس غریب کو ساڑھے بارہ ایکٹر زمین دی جا رہی ہے اس کے گھر میں تو کھانے کے لئے پہلے ہی کچھ نہیں۔ وہ ساڑھے بارہ ایکٹر کے پیسے کہاں سے دے گا۔ اگر آپ کہیں کہ وہ قسط وار دے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک پہلے سے بھی زیادہ تنگی کے ساتھ زندگی گزارے گا۔
پس اگرچہ اس زرعی اصلاحات کے اعلان سے چند ہزار آدمیوں کو ُچبھن ضرور ہے۔ ان کو تکلیف ضرور ہو گی ۔ لیکن انہیں چاہئے کہ اس تکلیف کا اندازہ لگائیں جو اس وقت کروڑوں آدمیوں کو لاحق ہے اور پھر اس نئے انتظام میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے۔ لوگوں کی ساری تکلیفیں دور نہیں ہوں گی اور نہ ہی عقلاً دور ہو سکتی ہیں۔ آپ کسی کاغذ پر حساب لگا کر دیکھ لیں کہ کتنے آدمیوں میں زمین تقسیم ہونی ہے اور ان کو کتنی کتنی زمین ملے گی۔ بڑی تھوڑی زمین ملے گی کیونکہ اب بھی ایک بڑا یونٹ جو باقی رکھا گیا ہے۔
ان چند ہزار لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ جو زمین تمہارے پاس باقی رہ گئی ہے اس سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاؤ۔ اگر تم زیادہ سے زیادہ محنت زیادہ توجہ اور زیادہ ہوشیاری سے سرمایہ لگا کر اور کھاد دے کر اور پانی کا بہترانتظام اور نگرانی کر کے اُس کی آمد دس گنا تک لے جاؤ تو اس طرح گویا تمہاری زمین ۱۵۰ ایکٹر سے دس گنا بڑھ گئی یعنی ۱۵۰۰ ایکٹر ہو گئی اور اسی طرح اگر تم اپنی آمد بیس گناتک لے جاؤ تو پھر تو تم تین ہزار ایکٹر کے مالک بن گئے اب زمین کو تو کسی نے چاٹنا نہیں۔ زمین کا مطلب وہ آمد ہے جو اس سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ چند ہزار لوگ اپنی باقی زمین بخوشی حکومت کے حوالے کر دیں تو اس سے قوم کو بھی فائدہ ہے اور ذاتی طور پر ان کواور ان کے خاندان کو بھی فائدہ ہے۔
اس وقت حال یہ ہے(اور مجھے امید ہے کہ حکومت بھی اس طرف توجہ کرے گی)کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایکٹر زمین ایسی ہے جس میں مالکوں نے ہل تک نہیں چلایا مثلاً یہ بڈھ کا علاقہ ہے اس کا ایک حصہ لوگوں نے دس سالہ یا پانچ سالہ لیز پر لیا ہے اور اب پہلی دفعہ وہاں زراعت ہونے لگی ہے چنانچہ جس علاقہ کو کئی سو سال سے ناقابل زراعت سمجھا جا رہاتھا وہ اس وقت بڑا ہی پیدا وار دے رہا ہے اور جو ذاتی یعنی انفرادی ملکیت کے علاقے ہیں وہاں اب بھی بہت سی زمین خالی پڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ لالیاں کے پاس ایک پُل ہے اس کے اور لالیاں کے درمیان ایک ایسی جگہ نظر آتی ہے جہاں کبھی پانی ہوتا تھا اب وہاں پانی نہیں رہا کیونکہ ٹیوب ویل لگ گئے ہیں۔ اس لئے پانی خشک ہو گیا ہے یہ زمین بڑی اچھی ہے کیونکہ کئی سَو سال سے اسے جانوروں کا پیشاب اور گوبر کی کھاد ملتی رہی ہے اس لئے یہ زمین ہے تو بڑی اچھی لیکن چونکہ وہ اردگرد کے دیہات والوں کی ملکیت ہے اور اُن کے پاس اس سے بہت اچھی زمین موجود ہے۔ اس لئے وہ مزے لے رہے ہیں اور یہ زمین خالی پڑی ہوئی ہے۔ اس کی طرف اُن کو توجہ ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی جو زمینیں خالی پڑی ہوئی ہیں، ان کو رکھنے کا عقلاً اور شرعاً کسی کو حق ہی نہیں ہے۔ اب جس زمین کو تم استعمال میں نہیں لا سکتے اُسے بخوشی حکومت کے حوالے کر دو کیونکہ ایسی زمین کو تم استعمال میں نہ لا کر اپنے بھائی کا نقصان کر رہے ہو۔
پس حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دے اور ایسی زمین جس میں کاشت کی جا سکے اور کاشت سے میری مراد یہ نہیں کہ وہاں کپاس لگ سکے یا وہاں گندم لگ سکے یا وہاں چاول لگ سکے بلکہ اگر وہاں بیریاں لگ سکیں یا جھاڑیاں لگ سکیں جو وہاں لکڑیاں پیدا کریں۔ ہر وہ چیز جو اس زمین کے درختوں کے نتیجہ میں اور کھاد اور اس کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہو وہ دراصل اسی کھیتی کی پیداوار ہے بہرحال ایسی زمینوں کو بھی آباد کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نعمت عطا فرمائی ہے اس لئے ہمیں اس کا ناشکرا بندہ نہیں بننا چاہئے۔
اِن زرعی اصلاحات سے چھ کروڑ کے اس ملک میں چند ہزار آدمیوں کو (یعنی وہ لاکھوں بھی نہیں ہوں گے بلکہ ہزاروں میں گنے جا سکتے ہیں) تھوڑی سی تکلیف ہو گی۔ انہیں اپنے بھائیوں اور پاکستان کی مضبوطی کی خاطر یہ تکلیف برداشت کرنی ہو گی۔
وہ میری بات سنیں گے تو شاید غصے میں آجائیں اس واسطے اگر وہ چاہیں تو میں ان کو مخاطب ہی نہیں کرتا لیکن میں اپنے احمدی بھائیوں کو ضرور مخاطب کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بشاشت کے ساتھ حکومت کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ اگر آپ نے اس ملک کے شہری کی حیثیت سے باعزت زندگی گزارنی ہے تو اس ملک کو باعزت اور مضبوط بنانا پڑے گا اس کے لئے اگرتمہیں کوئی قربانی دینی پڑے تو تم ہنسی خوشی اور بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ قربانی دو۔ اسی میں اللہ تعالیٰ برکت کے سامان پیدا کرے گا۔ اُس پر توکل تو کر کے دیکھو۔ تم نے کب اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اس نے تمہاری انگلی چھوڑ دی؟
پس ہم نے قوی بھی بننا ہے اور امین بھی بننا ہے اور امین کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے یہی معنی نہیں کہ جو خیانت نہ کرے وہ امین ہے ۔ یعنی صرف پیسے میں خیانت مراد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی طاقت دی ہے اگر آپ اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے تو آپ خائن ہیں۔ امین نہیںہیں۔ آپ اپنی عقل اور فراست کے ساتھ اپنی تھوڑی سی زمین سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی عقل اور فراست سے کام نہیں لیتے اور زمین سے پورا فائدہ نہیں اُٹھاتے تو آپ خائن ہیں۔ آپ اپنے نفس کے غدار ہیں آپ اپنے نفس سے بھی خیانت کرنے والے ہیں اور اپنی قوم سے بھی خیانت کرنے والے ہیں اور اپنے لاکھوں کروڑوں بھائیوں سے بھی خیانت کرنے والے ہیں۔ اس لئے جہاں تک زمین کا تعلق ہے تم’’تھوڑے‘‘ اور ’’ ُبہتے‘‘ کا خیال نہ رکھو لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنے کا سوال ہے تم بہت اور بہت اور بہت کا خیال رکھو۔ تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اور اس پر توکل رکھو۔ اپنی قوتوں کا صحیح اور بہتر اور بافراست اور پورا استعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی برکتوں سے نوازے گا۔ تھوڑی زمین میں سے تمہیں بہت سا مل جائے گا اور اس طرح قوم بھی ترقی کرے گی۔
ابھی تک زرعی اصلاحات کا جو اعلان ہوا ہے وہ ایک عام اعلان ہے کہ زرعی اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ابھی کوئی قانون نہیں بنایا گیا اس کے متعلق آج اخبار میں آیا ہے کہ دس مارچ کو اس کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد میں شاید تفصیل سے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا لیکن اب جس طرح کا یہ عام اعلان تھا اسی طرح میںنے اس وقت اس مسئلے پر عمومی رنگ میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ آپ امین بنیں اور قوی بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے گا۔آپ بھوکے نہیں رہیں گے۔ آپ عزت کے ساتھ عزت کی روٹی کھائیں گے اور عزت کی زندگی گزاریں گے کیونکہ یہ سمجھنا کہ چند ہزار آدمیوں کی عزت ہو اور چند کروڑ بے عزت رہیں اور قابل نفرت سمجھے جائیں یہ غلط ہے یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کی عزت قائم رہتی ہے یہ حماقت ہے۔ اگر دُنیا کی نگاہ میں پاکستان کی عزت نہیں( کیونکہ تم تو دُنیا کو دیکھتے ہو) تو پھر تمہاری عزت بھی نہیں خواہ ارب ہا روپیہ تمہاری جیب میں کیوں نہ ہو اور اگر تمہارے اصول کے مطابق دُنیا کی نگاہ میں پاکستان قوی اور باعزت بن جائے اور عزت واحترام کا اپنا حق دُنیا سے لینے کے قابل ہو تو پھر تمہاری بھی عزت ہے ورنہ دُنیا میں تمہاری کوئی عزت نہیں ہے۔
میں اپنے احمدی دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک عزت ملی ہے، اُس کو کھو نہ دینا اللہ تعالیٰ نے تمہیںیہ فرمایا ہے کہ میرا کہنا مانو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ عزت دوں گا۔ میں تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھوں گا اور اللہ تعالیٰ کی عزت کی نگاہ یہی ہے نا کہ وہ پیار کرتا ہے وہ ہمارے لئے روحانی اور اخلاقی اور دُنیوی لحاظ سے ترقی کی راہیں کھولتا ہے۔ جب خداتعالیٰ کی نگاہ میں عزت ہو جائے تو یہ (البقرہ:۲۰۲) کا سماں ہوتا ہے۔ دُنیا کی نگاہ میں جو عزتیں ہیں گو ہم تو ان کو کچھ نہیں سمجھتے لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بھی عطا فرماتا ہے لیکن ہماری نگاہ دُنیا کی طرف نہیں اُٹھتی۔ ہماری نگاہ تو اللہ تعالیٰ جو بڑا ہی پیار کرنے والا ہے اُس کے چہرے کی طرف اُٹھتی ہے اور اگر وہاں ہمیں عزت اور پیار مل جائے تو پھر ہمیں دُنیا اور دُنیا داروں سے کیا تعلق؟ لیکن جو دُنیا والے ہیں جنہیں ابھی تک اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کی پوری طرح سمجھ نہیں اُن کو بھی میں یہ کہوں گا کہ دُنیا کی طرف اگر تمہاری نگاہ اُٹھتی ہے تو اپنے ملک کو دُنیا کی نگاہ میں باعزت بناؤ تب تمہاری عزت ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔
یہ تو میں نے مختصراً قوی اور امین کی بحث میں ضمناً زرعی اصلاحات کا بھی ذکر کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر مجلس انتظامیہ یا جسے میں نے ’’مجلس صحت‘‘ ربوہ کا نام دیا ہے وہ بن جانی چاہئے اور اس کے اراکین کو سر جوڑ کر ایک ابتدائی سکیم بنا دینی چاہئے۔ اگر آپ کو (یعنی اراکین مجلس کو ) ضرورت ہو تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں اور ساریOPEN PLACES (اوپن پلیسز) دکھائیں۔ پھر ہم مشورہ کریں گے اور اندازہ لگائیں گے کہ آپ کتنا کام اپنی محنت سے بغیر جماعتی مدد کے کر سکتے ہیں اور کتنا کام جماعتی مدد کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ جماعتی مدد سے میری مراد آپ کی تنظیم سے باہر کی مدد ہے لیکن یہ بھی دراصل غیر کی طرف سے مدد نہیں کیونکہ وہ مدد جو ماں باپ کی طرف سے ملا کرتی ہے وہ غیر کی مدد نہیں ہوا کرتی۔ تاہم یہ بات تو مَیں آپ کو نظام کے لحاظ سے غیرت دلانے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ جتنی جماعتی مدد کی ضرورت ہو گی وہ انشاء اللہ تمہیں مل جائے گی۔ اس لئے میرے نوجوان بچو! تمہیں چاہئے کہ تم ایک سال کے اندر اندر ان کھلی جگہوں کی شکل بدل کر رکھ دو۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۷ اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ۲تا۴)
ززز

خلافت ّحقہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور
نصرت سے پہچانی جاتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانورنے یہ آیت کریمہ پڑھی:-
(النساء: ۱۴۶)
اور پھر حضور انور نے فرمایا:-
ایک منافق جہنم کے شدید ترین عذاب میں اس لئے مبتلا ہو گا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ فتنہ و فسادپیدا کرتا رہتا ہے اور مفسد ہونے کے باوجود ’’مصلح‘‘کے روپ میں خداتعالیٰ کی جماعتوں کے سامنے آتا ہے۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے(صحیح مسلم کتاب الایمان باب خصائل المنافِق) اُس کی ہر بات میںجھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک پورا اور پکا منافق اگر اپنی ماں کی صفات بھی بیان کر رہا ہو تب بھی وہ جھوٹ بول رہا ہو گا اور اگر اپنے بھائی کی خیر خواہی کی باتیں کر رہا ہو تب بھی جھوٹ بول رہا ہو گا کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ منافق کی ہر بات میں جھوٹ کی ملونی ہوتی ہے۔ ہر بات جھوٹ نہیں ہوا کرتی مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے آج فلاں وقت سورج طلوع ہوتے دیکھا ہے اور وہی وقت سورج طلوع ہونے کا ہو اور اُس نے واقعی سورج طلوع ہوتے دیکھا ہو تو یہ بات صحیح ہے لیکن یہ بات کہ میں نے آج سورج طلوع ہوتے دیکھا پوری نہیں ہوئی کیونکہ ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا کہ میں نے مسجد کی طرف دس دس سروں والے انسان ہوا میں اُڑتے ہوئے دیکھے۔ اس کی یہ بات سُن کر آپ یہ نہیں کہیں گے کہ اُس نے کچھ سچ بولا اور کچھ جھوٹ بولا ہے۔ آپ یہ کہیں گے کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے، اس واسطے کہ جو پوری بات ہے وہ جھوٹ ہے اگرچہ اس کے بعض حصے سچ ہیں کہ سورج طلوع ہوا۔ ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہو سکتا ہے کہ اُس نے سورج طلوع ہوتے دیکھا ہو لیکن اُس نے اس کو بنیاد بنایا اپنے جھوٹ کی اس لئے یہ ساری بات جھوٹ ہے۔
پس ہم یہی کہیں گے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سچ فرمایا ہے کہ منافق جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
(النساء:۱۴۶)
حالانکہ اللہ تعالیٰ کی جو دھتکاری ہوئی قوم ہے اس کے اندر کافر بھی ہیں۔ اس میں کمزور ایمان والے بھی آجاتے ہیں۔ غافل بھی آجاتے ہیں اور منافق بھی آجاتے ہیں۔ غرض اپنے اپنے اخلاق اور کردار اور عمل کے لحاظ سے اُن پر خداتعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا میرا سب سے زیادہ غضب منافق پر بھڑکے گا اورمیرا سب سے زیادہ شدید عذاب اُسے ملے گا۔
چنانچہ جب سے سلسلہ نبوت شروع ہوا ہے یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمیشہ ہی الہٰی جماعتوں میں منافق رہے ہیں۔اُمت محمدیہ بھی منافقین کے وجود سے خالی نہیں ہے۔ خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں منافقین موجود تھے جو بڑے ہی غالی اور خبیث قسم کے تھے۔ اب ہم اُن کی باتیں سُنتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق وہ اس قسم کی بکواس کیا کرتے تھے۔
غرض اُس وقت جو منافق تھے اُن کے ’’کارنامے‘‘ یا اُن کی کرتوت اور فتنے اور فساد جن کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے وہ جماعت کے سامنے آنے چاہئیں تاکہ ہمیں پتہ لگے کہ
کیوں کہا گیا ہے۔
آج کل ایک سے زائد گروہ یا بعض افراد منافقانہ باتیں کر رہے ہیں۔اُن میں سے بعض باتوں کے متعلق میں اِس وقت کچھ کہوں گا یہ بتانے کے لئے کہ جو باقی باتیں ہیں وہ بھی اسی قسم کے جھوٹ، افتراء، فتنہ پردازی،اتہام تراشنے،حقائق کو چھپانے اور عدم علم کی بنا پر اعتراض کرنے وغیرہ سے متعلق ہیں۔ دراصل یہ سب چالیں ہیں جن سے منافق کام لیتا ہے اور یہ سب ہتھیار ہیں جن سے شیطان اپنا کام لے رہا ہوتا ہے۔
پس وضاحت کرنے کے لئے میں چند مثالیں دوں گا۔ باقی رطب ویابس تو وہ بولتے ہی رہتے ہیں جسے سُن کر آپ کو اپنے اپنے ایمان کے مطابق غصہ بھی آتا ہو گا۔آپ اُن کے لئے دُعائیں بھی کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور اُن کی بد قسمتی کو دور کرے اور اُن کے فتنے سے جماعت کو محفوظ رکھے اُن کو عقل دے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت بڑے لمبے زمانہ پر ممتد ہے۔ بڑی شاندار اور کامیاب بھی ہے لیکن اِس دور میں بھی وقفے وقفے کے بعد منافقین کے فتنے آتے رہے ہیں۔ مثلاً مصریوں کا فتنہ ہے مگر چونکہ ہماری نوجوان نسل شاید ان واقعات کو نہیں پڑھتی اس لئے اُن کے کان ان چیزوں سے آشنا کم ہوں گے۔پھر فخر الدین ملتانی کا فتنہ تھا۔ غرض اسی طرح کے چھوٹے اور بڑے فتنے اس لئے آتے رہتے تھے کہ ہم سو نہ جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیدار اور چوکس دیکھنا چاہتا ہے۔منافقوں کے مختلف گروہ یا افراد آج کل جو باتیں کر رہے ہیں اُن میں سے سات کے متعلق میں اس وقت کچھ کہوں گا۔اور ان کی اہمیت کے لحاظ سے بڑھاتا جاؤں گا۔
اوّل ۔ایک یہ اعتراض سُننے میں آیا ہے کہ یہ عجیب خلیفہ ہے جو اپنے خطبات میں بھی گھوڑوں کے متعلق باتیں کرتا رہتا ہے اور جماعت کو کہتا ہے کہ گھوڑے پالو اور یہ اور وہ۔ بھلا روحانی جماعت کا گھوڑوں سے کیا تعلق؟
اب یہ منافقانہ بات ہے اور محض جہالت کی بناء پر کی گئی ہے۔ جس وقت میں نے گھوڑوں کے متعلق بات کرنی شروع کی تو میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ وہ گھوڑوں کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے اقوال اکٹھے کریں۔ چنانچہ یہ کاپی ہے جسے آپ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہیں۔ میں نے اس کا نام’’کتاب الخیل‘‘ رکھا ہے اور یہ پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اکثر اقوال اور ارشادات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی آپؐ کے بہت سے ارشادات ہیں جو اکٹھے نہیں ہو سکے۔
پس اگر روحانی آسمان کا بادشاہ گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ کہنے کے باوجود روحانی آسمان کا بادشاہ رہتا ہے تو اس کا ایک ادنیٰ خلیفہ گھوڑوں کے متعلق تمہیں چند باتیں کہتا ہے (اور اس وجہ سے کہتا ہے جو میں ابھی بتاؤں گا) تو اُس کے متعلق یہ اعتراض کر دینا کہ جی یہ عجیب خلیفہ ہیں۔ گھوڑوں کے متعلق باتیں کرتے ہیں اور گھوڑے پالتے ہیں سراسر افتراء پردازی ہے۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا ہے کہ قیامت تک گھوڑے کی پیشانی میں ایک مسلمان کے لئے برکت رکھی گئی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد، باب الخیل معقود فی نواصیھا الخیر الٰی یوم القیامۃِ) جب میںاس پیشانی کی برکتیں تمہاری جھولیوں میں ڈالنا چاہتا ہوں تو منافق کہتا ہے۔ یہ عجیب خلیفہ ہے جو گھوڑوں کی باتیں کرنے لگ گیا ہے۔منافقو! تم اس پاک ذات پر اعتراض کرو جس نے گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ فرمایا ہے کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے چنانچہ بڑے بڑے ماہرین جو دن رات اسی شغل میں لگے ہوئے ہیں کہ گھوڑوں کے متعلق تحقیق کریں۔ اُنہوں نے بھی وہ نہیں کہا اور اتنا نہیں کہا اور اس حقیقت کو بیان نہیں کیا کہ جتنی حقیقت گھوڑوںکے متعلق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ ایک دن مجھ سے غفلت ہو گئی تو مجھے ساری رات یہ کہا گیا کہ تم نے کیوں غفلت کی؟ گھوڑوں کا کیوں خیال نہیں رکھا؟ آپ اپنی چادر کے ساتھ گھوڑے کو صاف کر رہے تھے تو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کیوں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ فرمایا ہے کہ تو نے گھوڑے کا خیال نہیں رکھا اس لئے اب میں اس کی تلافی کر رہا ہوں (موطا امام مالک باب مَاجَآئَ فِی الْخَیْلِ) وہ تو روحانیت لیکن اگر وہی برکت تمہاری جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی جائے تو وہ وجہ اعتراض بن گئی۔ اس قسم کے بے ہودہ اعتراضات کئے جاتے ہیں۔
ویسے یہ ایک معمولی اعتراض ہے لیکن جہاں یہ ایک معمولی اعتراض ہے وہاں اعتراضات کی بے ہودگی کو بڑے نمایاں طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ یہ خدا کا عجیب خلیفہ ہے۔ اپنے آپ کو روحانی جماعت کا امام کہتا ہے مگر گھوڑوں کی باتیں کرتا ہے۔ یہ تمہارا خلیفہ جو اس وقت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک روحانی جماعت کا امام ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔
جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ فرمایا ہے تو آپؐ کے عظیم روحانی فرزند کا یہ خلیفہ کیوں کچھ نہیں کہے گا۔
دوم۔ ایک WHISPRING(وس پرنگ) یعنی کانا پھوسی جو منافق کرتا ہے کیونکہ وہ دلیر تو ہوتا نہیں اس لئے دلیری کر کے سامنے نہیں آتا مگر درپردہ فتنہ اور فساد پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کا صحیح مصرف نہیں ہو رہا۔
تحریک جدید کے جو چندے ہیں دراصل وہ تو ایک بنیاد ہے۔ جہاں تک یہاں پاکستان کے چندوں کا تعلق ہے وہ مبلغوں کے کرائے اور کتابوں وغیرہ پر خرچ ہوتے ہیں یا مبلغ بنانے پر خرچ ہوتے ہیں اور جو باہر کے چندے ہیں وہ باہر کے مشنوں پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے اور ترقی کر رہے ہیں اُن پر خرچ ہو رہے ہیں۔
وقف جدید کے زیر انتظام ہمارے یہاں معلمین ہیں۔ اُن کے سنٹر ہیں۔ اُن کا اپنا ایک نظام ہے۔ اس کے اوپر وقف جدید کا چندہ خرچ ہورہا ہے۔شوریٰ میں ہر سال بجٹ پاس ہوتا ہے۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہر چیز ظاہر ہے۔ اب اس کے باوجود یہ کہنا کہ جی چندوں کا صحیح مصرف نہیں ہو رہا بالکل بے ہودہ بات ہے۔
پھر اس کے متعلق جو مثال دی گئی ہے وہ بھی سُننے والی ہے۔ کہنے والے نے کہا کہ دیکھو میاں طاہر احمد صاحب کو کراچی جانا ہو تو وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں اور تحریک جدید کے جو مبلغ وطن سے باہر جاتے ہیں، اُن کو یہ سہولت میسر نہیں حالانکہ تحریک جدید کا جو مبلغ باہرجاتا ہے(مجھے نہیں یاد کہ اِلا ماشاء اللہ کسی نے کسی وقت شاید دوسرے ذرائع سے سفر کیا ہو) وہ بغیر ہوائی جہاز کے باہر جا ہی نہیں سکتا اور پھر میاں طاہر نے وقف جدید کے کام کے لئے کراچی کا ایک سفر بھی نہیں کیا۔ اب یہ محض اعتراض ہے کہ جس نے وقف جدید کے کام کے لئے کراچی کا کوئی سفر ہی نہیں کیا اُسے مثال کے طور پر پیش کر دیا اور مبلغین جن کے متعلق ہر روز نہیں تو ہر ہفتہ عشرہ یا پندرہ بیس دن کے بعد اخبار میں نکلتا ہے کہ فلاں دوست اشاعتِ اسلام کے لئے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر جار ہے ہیں وہ ہمیشہ ہوائی جہاز کے ذریعہ باہر جاتے ہیں مگر ان کے متعلق محض ایک فتنے والی بات کر دی گئی اور یہ جھوٹی بات کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی تصدیق کی اور یہ اتنا مسنح شدہ جھوٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق ایسے آدمی کو’’اسفل من النّار‘‘ جانا ہی چاہئے۔
اس بات کے کہنے والے کے الفاظ یہ ہیں:-
’’جب کہ محض اشاعت اسلام کے لئے وطن سے باہر جانے والے مبلغین پر اتنا خرچ نہیں کیا جاتا کہ ان کو ہوائی جہاز کاٹکٹ لے کر دیا جائے‘‘
غرض یہ منافقین (جن کے متعلق میرا یہ اندازہ ہے کہ دس پندرہ ہوں گے کیونکہ ستر اسی لاکھ کی اس جماعت میں اس سے زیادہ کیا ہونے ہیں) آجکل مختلف جگہوں پر کبھی خط کے ذریعے اور کبھی ویسے موقع مل گیاتو ایک دوسرے کے ساتھ باتوں باتوں میں اس قسم کے فتنے کی باتیں کرتے ہیں۔اب جس آدمی کے کان میں یہ بات پڑے گی کہ میاں طاہر ہوائی جہاز سے کراچی گئے اور ہمارے باہر جانے والے مبلغ ہوائی جہاز سے نہیں جاتے تو وہ نہ سہی مگر ہمارے کم عمر بچے جنہیں پتہ نہیں وہ کہیں گے یہ کیابات ہوئی۔ اُن کے دماغ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ باہر جانے والا مبلغ ہوائی جہاز سے نہیں جا سکتا۔ اُن کو یہ پتہ نہیں لگ سکتا اور نہ اُن کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ یہ پوچھیں کہ میاں طاہر احمد صاحب نے کبھی وقف جدید کے لئے کراچی کا ہوائی جہاز کا سفر بھی کیا ہے یا نہیں۔ باقی اور کاموں کے لئے تو وہ جاتے رہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان بھی وہ گئے ہیں۔ یہاں سے سارے لوگ ہوائی جہاز سے جاتے تھے اس میں اُن کے لئے کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ وہاںجانے کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ سوائے اس کے کہ آپ یہ سمجھیںکہ ہمارے کارکن اتنے نکمّے ہیں اور اُن کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ وہ سمندری جہاز پر جائیں۔ دس دن جانے میں اور دس دن واپس آنے پر لگیں اور اسطرح ایک مہینہ لگ جائے اس کام کے لئے جسے ۳۔۴ دنوں میں کیا جا سکتا ہے۔
سوم۔ ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ خلافت ثالثہ نے تمام جماعتی عہدوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد کا قبضہ دلا دیا ہے یعنی اُن عہدوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا قبضہ ہے۔ اب اس وقت بڑے بڑے جماعتی ادارے مثلاً صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید، فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں ریزرو فنڈ ہیں۔
جہاں تک صدر انجمن احمدیہ کا تعلق ہے اس کے بہت سے ناظر ہیں۔ (یہی بڑے بڑے عہدے ہیں نا) چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک وقت میں چار ناظر تھے جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے تھا اور آج جب کہ اس اعتراض کو پھیلایا جا رہا ہے۔ دو ناظر ایسے ہیں جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے ہے یعنی تعداد کم ہو گئی ہے اور شور زیادہ مچنا شرو ع ہوگیا ہے۔
دراصل یہ خالی خلافت ثالثہ ہی پر اعتراض نہیں ہوا۔ یہ اعتراض تو منافقین خلافت ثانیہ پر بھی کرتے رہے ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ کا سب سے بڑا عہدہ صدر، صدر انجمن احمدیہ ہے اور اس وقت صدر، صدر انجمن احمدیہ مولوی محمد دین صاحب ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے ان کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کے کام کے لحاظ سے اس وقت دو نگران ہیں۔نگران نمبر دو نظارت علیا ہے جس کا اپنا کوئی شعبہ نہیں، لیکن دوسرے شعبوں میں CO-ORDINATION(کوآرڈی نیشن) کرانا اور ان کی عام طور نگرانی کرنا یہ اس کا کام ہے۔ اس کے اوپر صدر صدر انجمن احمدیہ بیٹھا ہے اور نیچے مستقل ذمہ داری کا کام سنبھالنے والے مختلف ناظر ہیں۔ ناظر بیت المال (ہر دو آمد و خرچ) کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔
ناظرامور عامہ کا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اصلاح وارشاد کے تین ناظر ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ناظر نشرو اشاعت ہے۔ اسکا بھی خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ اس وقت دو ناظر ہی ایسے ہیں جن کا خاندان کے ساتھ تعلق ہے۔ ایک ناظر اعلیٰ اور دوسرے ناظر خدمت درویشاں۔ ہمارے یہاں کی جو عام تنظیم ہے اس کے ساتھ ناظر خدمت درویشاں کا تعلق نہیں ہے لیکن قادیان میں ہمارے جو بھائی قربانی دے کر درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں اُن کے خاندان اور عزیز رشتہ دار جو یہاں رہتے ہیں اُن کی دیکھ بھال کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک ناظر مقرر کر دیا تھا۔ وہ اب بھی ہے۔
پس جہاں تک انتظام کا تعلق ہے ایک نظارت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ سارے کے سارے اور بڑے بڑے عہدے خاندان والوں نے سنبھالے ہوئے ہیں، محض جھوٹ ہے۔
اسی طرح وقف جدید کے جو صدر ہیں وہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہیں اور خاندان کا ایک آدمی وقفِ جدید میں ہے یعنی میاں طاہراحمد صاحب۔ جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے تحریک جدید کے وکلاء میں سے ایک وکیل ہے اور وہ میاں مبارک احمد صاحب ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ وہ وکیل اعلیٰ ہیں مگر میںنے اُن کو پہلی دفعہ وکیل اعلیٰ مقرر نہیں کیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمایا تھا۔ میں نے ان کو اس عہدے سے ہٹایا نہیں۔ اس کا میں قصور وار ہوں اور اپنے قصور کا اعتراف کرتا ہوں لیکن ساری وکالتوں میں صرف ایک شخص ہے مگر منافقین کہتے ہیں کہ سارے عہدے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنبھال لئے ہیں۔
پھر فضل عمر فاؤنڈیشن ہے۔ اس کے نہ صدر اور نہ سیکرٹری ایسے ہیں جن کا تعلق جسمانی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے ہو۔ روحانی طور پر تو سب کا تعلق ہے۔ اگر وہ کہیں کہ ہم نے روحانی معنے میں بولا تھا تو پھر ہر ایک احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تعلق ہے کیونکہ یہ سب جماعت ایک روحانی خاندان پر مشتمل ہے۔
باقی رہا نصرت جہاں ریزرو فنڈ تو اس کے دراصل تین حصے ہیں۔ ایک ہے مجلس نصرت جہاں اس کے انچارج یہ میرے سامنے بیٹھے ہمارے عزیز بھائی اسماعیل صاحب منیر ہیں ان کا جسمانی طور پر تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک حدیقہ المبشرین ہے جس میں تمام شاہدین کو اکٹھا کر دیا گیا ہے ان کے جو انچارج ہیں اُن کابھی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر اس کے چندے وغیرہ کاجو انتظام ہے وہ اپنے چوہدری ظہور احمد صاحب جو ناظر دیوان ہیں ان کے سپرد کیا ہوا ہے اور وہ یہ کام رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔ان کا بھی خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
پس ایک غلط اور جھوٹی بات کو آنکھیں بند کر کے منہ سے نکال دینا اور اپنی حماقت سے یہ سمجھنا کہ دُنیا تمہیں دیکھے گی نہیں یا دُنیا تمہاری شرارت کو سمجھے گی نہیں یا دُنیا سمجھنے کے باوجود تمہیں کچھ کہے گی نہیں یہ تو تمہاری سراسر جہالت ہے لیکن تم یہ کیسے سمجھ لیتے ہوکہ تم خداتعالیٰ سے اپنی ان حرکتوں کو چھپالو گے اور اس کے غضب سے بچ جاؤ گے۔
چہارم۔ ایک بات (اور وہ بھی پہلی بار نہیں کہی جا رہی) یہ ہے کہ خلیفہ خدا نہیں بناتا انسان بناتا ہے۔
یہی اعتراض حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ پر کیا گیا۔ یہی اعتراض حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ پر کیا گیا ہے اور آج یہی اعتراض مجھ پر کیا جا رہا ہے
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو انجمن کے چند آدمیوں نے خلیفہ منتخب کر دیاتھا پھر جماعت نے بھی آپ کی بیعت کر لی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتناکہاجا سکتاہے کہ جو دوست حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر قادیان میں موجود تھے، وہ اکٹھے ہوئے اور جس طرح ایک آندھی آتی ہے اور وہ چیزوں کو ایک طرف کونے میں اڑا کر لے جاتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ کے فرشتوں نے احمدیوں کے دلوں پر تصرف کیا اور وہ سب(الا ماشاء اللہ جن کو ٹھوکر لگی) ایک ہاتھ پر اکٹھے کر دئیے گئے۔
پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۶ء میں انتخابِ خلافت کی ایک کمیٹی بنائی اور ایک نظام قائم کر دیا۔چنانچہ جب خلافت ثالثہ کے انتخاب کا وقت آیا تووہ جو ساری عمر کے مخالف تھے اور جماعت مبائعین جن پر اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور فضل نازل ہو رہے تھے، کو حسد، نفرت او رغصے کی نگاہ سے دیکھنے والے تھے۔ ان کی زبان سے بھی یہ نکلا کہ کاش حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ بھی ایسا انتظام کر جاتے تاکہ یہ ’’فتنہ‘‘ نہ پیدا ہوتا جو ۱۹۱۴ء میں رونما ہوا۔ (اس فتنہ سے ان کی کیا مراد ہے) یہ تو وہ جانیں یا اللہ تعالیٰ جانے لیکن بہرحال وہ بھی اس انتخاب خلافت کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔
پس منافقین یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلافت کمیٹی جو ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قائم کی تھی اُس نے خلیفہ ثالث کو مقرر کیا ہے۔ اس لئے یہ خدا کا انتخاب کیسے ہو گیا؟ یہ تو انسانوں کا انتخاب ہے اور وہ بھی چند لوگوں کا کیونکہ ساری جماعت کو اکٹھا نہیں کیا گیا حالانکہ ساری جماعت توجلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ بہرحال جوممکن ہے وہ یہی ہے کہ جو اس وقت آجائے وہ اس میں شریک ہو جائے۔ ا س کا انتظام کر دیا گیا تھاجس کی بنا پر بڑی سہولت سے انتخاب عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں خلافت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ میرے تو وہم وگمان میں بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ خداتعالیٰ مجھے اتنی بھاری ذمہ داری کے نیچے رکھے گا جو کچل دینے والی ہے۔ لوگ اس کومذاق سمجھتے ہیں مگر یہ اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ میں سمجھتا ہوں کوئی آدمی اپنے ہوش و حواس میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی خواہش نہیں کر سکتا۔
کہتے ہیں کہ میں نے باہر جا کراپنے حق میں پروپیگنڈہ کیا تھا کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے۔ اب اس وقت جو دوست یہاں بیٹھے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو کھڑے ہو کر قسم کھا کر یہ کہہ سکے کہ میں نے اُسے یہ کہا ہو کہ مجھے خلیفہ بنانا؟ (اس پر سامعین کی طرف سے نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہوئیں) میں نے بتایا ہے کہ میرے تو دماغ میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا۔
میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات پر چوہدری انور حسین صاحب میرے پاس آئے اور اُنہوں نے مجھ سے کوئی ایسی بات کی کہ مجھے یہ خیال آیا کہ ان کے دماغ میں ہے کہ آج جماعت شاید خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے باہر کسی کو خلیفہ منتخب کرے۔ تو یہ نہ ہوکہ خاندان کی وجہ سے کوئی ذرا سی بھی بد مزگی پیدا ہو جائے۔ اس لئے محتاط رہنا چاہئے۔ میں نے سمجھا ٹھیک ہے انہیں یہ نیک نیتی سے خیال آیا ہے۔ خیر جب انہوں نے مجھ سے یہ بات کی تو میں نے ایک رؤیا کی بناء پر اُن سے کہا کہ میں تمہیں تسلی دلاتا ہوں اور یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے کسی فرد کی وجہ سے بد مزگی پیدا نہیں ہو گی۔ جماعت جس کو چاہے خلیفہ منتخب کرے۔ ہم اس پر آمنَّا و صدَّقنا کہیں گے اور نیک نیتی سے اس کی اطاعت کریں گے۔
کہتے ہیں کہ باہر کے ٹور کئے اور اپنا پروپیگنڈہ کیا اور انتخاب کے وقت بڑی بد انتظامی ہوئی اور زبردستی خلیفہ بن بیٹھا۔ یہ باتیں میں بڑی دیر سے سُن رہا ہوں۔ سوائے اس کے کہ میں لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ کہوں اور کچھ نہیں کہہ سکتالیکن جہاںتک عقیدہ کا سوال ہے، ہم اس عقیدہ پر قائم ہیں اور ہم سے مراد امت محمدیہ ہے جس میں پہلے بھی خلافت رہی۔ اب بھی خلافت ہے اور رہے گی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور منافق کا یہ عقیدہ ہے یا کم از کم وہ اس عقیدہ کا اظہار یہی کرتا ہے کہ چونکہ انسانوں کے ہاتھ سے یہ فعل ہوتا ہے اس لئے خلیفہ خدا نہیں بناتا۔ اس کی منشاء نہیں ہوتی چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کئی بے وقوف لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو کہاکہ تم جا کر اپنا انتخاب کر لو اور میں یہی سمجھ لوں گا کہ میں نے خلیفہ بنایا ہے۔یہ بات تو خدا تعالیٰ کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ پر بھی یہی اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ کو خدا نے خلیفہ نہیں بنایا۔ اس سلسلہ میں آپ کے بہت سارے حوالے ہیں۔ جن میں سے اس وقت میں چند ایک آپ کو سُنا دیتا ہوں۔
آپ نے ۱۹۱۲ء میں فرمایا تھا:-
’’یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو۔ یہ توخدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا۔ کوئی کہتا ہے خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے… کوئی کہتا ہے کتابوں کا عشق ہے۔ اسی میں مبتلا رہتا ہے ہزار نالائقیاں مجھ پر تھوپو۔ مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا‘‘۔
(بدر ۱۱جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳، کالم ۳))
اب میں بھی یہی کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جو نالائقیاں تم مجھ پر تھوپنے کی کوشش کرو گے وہ تم دراصل مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر اعتراض کر رہے ہو گے پھر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-
’’اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں۔ تم اُن سے بچو۔ پھر سُن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اُس کے چھوڑنے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے‘‘۔ (بدر ۴ جولائی۱۹۱۲ء صفحہ۷، کالم ۱)
پھر آپ فرماتے ہیں:-
’’خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کر دے گا۔
تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔ اگرتم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے‘‘۔ (بدر ۱۱ ؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴، کالم ۳)
حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے بھی بہت سے حوالے ہیں کیونکہ آپ ہی کے زمانہ خلافت میں غیر مبائعین نے زیادہ تر خلافت کی بحثیں چھیڑی تھیں۔ میں آپ کا ایک ہی حوالہ لیتا ہوں اور اس ضمن میں الفضل کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ یہ حوالے اخبار میں بار بار چھاپتے رہیں تاکہ نئی نسل اور نئے آنے والوں کو یہ پتہ لگے کہ اس سلسلہ میں کیا جھگڑے ہوئے اور کیا فیصلے ہوئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:-
’’اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے۔ کسی انجمن، کسی شوریٰ یا کسی مجلس کی نہیں ہے یہی وہ بات ہے جس پر جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے۔
خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ تم اس کے متعلق دیکھ سکتے اور غور کر سکتے ہو مگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے۔ اُن قواعد اور اصول کو نہ بھولو گے جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں۔ تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اُسے وہ عصمت حاصل رہے گی جو اِس کام کے لئے ضروری ہے‘‘۔
(تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۱۹۲۵ء برموقع مجلس مشاورت۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۳)
خالی اتنا نہیں کہ خدا خلیفہ بناتا ہے بلکہ ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر خدا خلیفہ بناتا ہے تو یہ بات جو حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے مختصراً کہی اور جس کی وضاحت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے کی وہ بھی ماننی پڑے گی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ آپس کے جھگڑے اور اختلافات کے متعلق فرماتے ہیں:-
’’سُنو! تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں۔(ان میں سے میں نے دو کو لیا ہے جن کا یہاں تعلق ہے) اوّل ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کافیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے۔ جو حضرت کے فیصلے کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں‘‘۔
پھر فرماتے ہیں دوسرے وہ یعنی بعض ایسے مسائل جو تفصیل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور آئندہ سامنے آنے والے تھے کیونکہ بعض مسائل سلسلہ خلافت شروع ہوتے ہی سامنے آجاتے ہیں۔ سلسلہ خلافت شروع ہونے سے قبل ظاہر نہیں ہوتے مثلاً یہی مسئلہ کہ خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس کا ایک یہ حل ہے جو میں نے پیش کیا اور ایک رنگ میں اور مجھ سے پہلے آنے والوں نے کہا اپنے اپنے رنگ میں۔ چنانچہ جب مجھ سے ۱۹۶۷ء میں پوچھا گیا کہ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے کیا ہے؟ تو میں نے کہا یہ سوال غلط ہے۔ اس لئے کہ میں اور جماعت احمدیہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ ان کو علیٰحدہ علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
غرض آپ نے فرمایا:-
(دوسرے وہ) جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی۔ ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں۔ جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے۔ پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دُنیا میں نہیں آتا۔ ان پر رائے زنی نہ کرو‘‘۔
(بدر ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۵، کالم۱)
مجھ تک یہ رپورٹ بھی پہنچی ہے کہ بعض بیوقوف کمزور ایمان والے یہ کہتے بھی سُنے گئے ہیں کہ مجدد تو اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور خلیفہ انسان بناتا ہے۔ اس بارہ میں موٹی بات تو یہ ہے کہ مجدد کون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا اس کے متعلق ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ملتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ارشاد نہیں۔ سارے قرآن کریم میں مجدد کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ خلیفہ کون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا، اس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۂ نور میں فرماتا ہے۔ (النور:۵۶) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں اب جس کے متعلق قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بناتا ہوں اس کے متعلق تو کہتے ہیں کہ خدا نہیں بناتا اور جس کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نہیں بناتا اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ بناتا ہے۔ حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم سے زائد کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ قرآن کریم کامل اور مکمل نہیں ٹھہرتا۔ جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مجدد اللہ تعالیٰ بناتا ہے یا مبعوث کرتا ہے تو آپ کا یہ ارشاد کی تفسیر تھی جس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے فرمایا مجدد بھی ایک خلیفہ ہے اور خلیفہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسے میں بناتا ہوں۔ انسان نہیں بناتا کیونکہ جو خلیفہ آئے گا وہ خدا بنائے گا دوسرے یہ کہ وہ لوگ جنہیںہمارے دربار سے اجازت نہیں ملی تب بھی خلافت کی بحث میں اُلجھتے ہیں۔ اُن کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آخر یہ کون کہے گا کہ یہ مجدد ہے۔ اس کو خداتعالیٰ نے مجدد بنایا ہے۔ کیا یہ بتانے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو انبیاء علیھم السلام کے لئے بھی نہیں آئے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مانگے گئے لیکن انکار کر دیا گیا کہ اس غرض کے لئے نہیں آئیں گے۔کیا کسی زمانہ میں یا کسی وقت میں انسانوں کا کوئی مجموعہ ہے جس کو خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے کہ جس کے متعلق وہ کہیں گے کہ خدا نے مجدد بنایا ہے وہ مجدد بن جائے گا۔ قرآن کریم میں تو ہمیں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی۔ پھر کون کہے گا؟ وہ خود کہے گا جب کہے گا۔ بہتوں نے تو کہا ہی نہیں کہ ہم مجدد ہیں یعنی جن بزرگوں کو ہم مجدد سمجھتے ہیں اُن میں سے اکثر نے یہ کہا ہی نہیں کہ ہم مجدد ہیں۔ جنہوں نے کہا کہ ہم مجدد ہیں اُنہوں نے بھی یہ کہا کہ خدا نے انہیں بتایا ہے کہ میں نے تمہیں مجدد بنایا ہے۔ پس اگر خلیفہ کہے کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے تو پھر؟ کیا تم فیصلہ کرو گے کہ اس نے صحیح کہا ہے یا غلط۔ فیصلے کرنے کے اصول ہیں یعنی کوئی شخص جھوٹ بھی بول سکتا ہے مگر ا س کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصول مقرر فرمائے ہیں۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے جب یہ فرمایا تھا کہ نہ انجمن مجھے خلیفہ بنا سکتی ہے اور نہ کوئی انسان مجھے خلیفہ بنا سکتا ہے میں تو انجمنوں کے خلیفہ بنانے پر تھوکتا بھی نہیں ہوں۔ تو کیا اُنہوں نے اپنے کسی تکبر اور غرور کے نتیجہ میں کہاتھا یا خدا نے اُنہیں فرمایا تھا کہ میں نے تمہیں خلیفہ بنایا ہے۔ یقینا خدا ہی نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو یہ فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے۔
پھر خلافت ثانیہ آئی۔ کیا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے درآنحالیکہ خدا نے آپ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے وہ اتنا محتاط انسان کہ جس نے امت احمدیہ یعنی امت محمدیہ کے علماء اور سمجھ دار لوگوں کے اصرار کے باوجود مصلح موعود ہونے کا دعویٰ اس وقت تک نہیں کیا کہ جب تک خدا نے اُسے یہ نہیں بتا دیا کہ میں نے تجھے مصلح موعود بنایا ہے اس کے متعلق تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ اُس نے اپنی طرف سے خلیفہ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
اور جہاں تک میرا تعلق ہے، ایک اور تکلیف کے وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی اور میں اُس خداتعالیٰ کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اس مسجد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے بڑے پیار سے فرمایا:-
پس میں خلیفہ اس لئے نہیں ہوں کہ تم میں سے کسی گروہ نے مجھے منتخب کیا ہے۔ میں خلیفہ اس لئے ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے منتخب کیااور خلیفہ بنایا اور پیار کے ان الفاظ سے یاد فرمایا ہے۔ غرض خلیفہ خدا ہی بنایا کرتا ہے۔ انسانوں کایہ کام ہی نہیں اور جن کو خدا خلیفہ بناتا ہے وہ انسانوں کے کام پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ اُن کی پرواہ کرتے ہیں۔
خلافت حقہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کی آگے تفصیل ہے جو بہت لمبی ہے جس میں اس وقت میں نہیں جا سکتا۔ مراد یہی ہے کہ خداتعالیٰ خود اپنی حکمت کاملہ سے جس کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا، خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اُس نے مجھے خلیفہ بنایا اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اُس نے اپنی حکمت کاملہ سے جس کو اِس وقت خلیفہ بنایا ہے،اس سے وہ پیار بھی کرتا ہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے۔غرض خداتعالیٰ کی نصرت بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ خلافت حقہ ہے۔ مگر میں اپنے متعلق سوچتا ہوں تو اپنے آپ کو ایک ناکارہ مزدور پاتا ہوں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق یہی کہا تھا تو میں تو اتنا بھی نہیں۔ غرض خدا کا ایک ناکارہ مزدور ہوں۔ ویسے بھی انسان ہے کیا چیز جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کے شامل حال نہ ہو۔ انبیاء علیھم السلام جس وقت کہتے ہیں یا اُن کے خلفاء جس وقت یہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو خود کو بالکل ناکارہ مزدور پاتے ہیں۔ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر تو انسان کچھ بھی نہیں۔ مگر جو خداتعالیٰ سے ملاپ کے بعد ملتا ہے وہ انسان کا اپنا نہیں ہوتا وہ خداتعالیٰ کا ہوتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ میری دعاؤں کو سنتا ہے اور اتنی کثرت سے سُنتا ہے کہ آپ کو اگر میں ساری باتیں بتا دوں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ ممکن ہے آپ کے خیالات بھی پریشان ہو جائیں گے۔ بعض دفعہ ابھی دعا کی نہیں ہوتی، دل میں خیال ہی آتا۔اللہ تعالیٰ اُسے بھی قبول فرما لیتا ہے۔ ویسے یہ ٹھیک کہ اللہ اللہ ہے اور انسان انسان ہی ہے۔ کبھی وہ ہماری دُعا بھی رد کر دیتا ہے اور نہیں مانتا کیونکہ وہ مالک ہے۔ ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں۔ ہم پر اس کے سارے حقوق واجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی ہماری دُعاؤں کو مہینوں کے بعد سُنتا ہے کبھی وہ سالوں کے بعد سُنتا ہے لیکن کبھی وہ اپنی شان اس رنگ میں بھی دکھاتا ہے کہ ابھی دعا کے الفاظ منہ سے نہیں نکلے ہوتے کہ وہ بات پوری ہو جاتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ دُعا سُنتا ہے اور بات مان لیتا ہے اور کام کر دیتا ہے۔ چنانچہ بے شمار دفعہ دُعاؤں کو اس رنگ میں بھی قبول ہوتے دیکھا ہے کہ اِدھر دِل میں خیال آیا اور اُدھر وہ بات پوری ہو گئی۔ پھر بعض دفعہ دعا کے نتیجہ میں اُس نے ناممکن باتوں کو ممکن بنا دیا۔ دُعا کروانے والے شور مچا رہے تھے کہ دُعاکرواتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دعا کرو مگر بظاہر(مثلاً وکلاء سے مشورہ کیا ہے) بچنے کی کوئی صورت نہیں مگرخداتعالیٰ سے دعا کی تو اُس نے ایسی دعائیں بھی قبول فرما لیں۔ دراصل خداتعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں اپنی شان اور عظمت کے اظہار کیلئے قبول فرماتا ہے۔ خداتعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں اسلئے بھی قبول فرماتا ہے کہ وہ اس سے دُنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ میرے بندے ہیں۔ تم ان سے دشمنی مول نہ لو کیونکہ تم اُنکے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اُن کو میں نے اپنے ایک کام کے لئے چُنا ہے۔ جب تک خدا اُن سے وہ کام لینا چاہتا ہے لیتا ہے پھر مار دیتا ہے اور ایک دوسرا آدمی کھڑا کر دیتا ہے۔ زندگی اور موت تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ایک دم کا بھی اعتبار نہیں ہے لیکن جب تک وہ آخری دم نہیں آجاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نظارے اس ایک وجود میں جس کو وہ خلیفہ بناتا ہے دُنیا دیکھتی رہتی ہے۔
یہ موٹے موٹے نظارے میں بتا دیتا ہوں تاکہ بچوں کو بھی سمجھ آجائے۔میری خلافت پر تھوڑا سا زمانہ گزرا ہے۔ ابھی پانچ چھ سال ہی ہوئے ہیں اس تھوڑے سے عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں ۴۱ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔اب یہ میری طاقت ہے؟ نہیں! میں نے تو کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ یہ میری طاقت سے ہوا ہے یا یہ میری کسی مہارت یا میرے کسی ہنر کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے خلیفہ بنایا تو اُس نے فرمایا میں تیرا مدد گار ہوں۔ میں تیرے ساتھ کھڑا ہوں۔ تجھے کیا فکر ہے جو چیز تو سوچ بھی نہیںسکے گا، وہ میں تجھے دے دوں گا۔ اگر میں شروع میں اپنے دماغ سے کوئی منصوبہ بناتا تو میں یہ ۴۱ فیصد کا اضافہ کبھی نہ کر سکتا کیونکہ مجھے اپنی کمزوریاں سامنے نظر آتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پانچ فیصد کافی ہے تو اس طرح چھ سال میںزیادہ سے زیادہ ۳۰ فیصد کا اضافہ بنتا۔ پھر میں اس میں سے بھی نکالتا کہ شاید یہ ہو جائے، شاید وہ ہو جائے۔ مثلاً زیادہ چندہ دینے والے فوت ہو جائیں۔ اُن کی جائیدادیں تقسیم ہو جائیں۔ اُن کے بچے مخلص نہ رہیں۔
غرض میں ہزار باتیں سوچتا اور میں کبھی یہ اعلان کرنے کی جرأت نہ کرتا کہ میں نے اپنی عقل اور مہارت سے یہ طے پایا ہے کہ آئندہ پانچ چھ سال میں انجمن کے چندے ۴۱ فیصد زیادہ ہو جائیں گے لیکن خداتعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے کام لینا ہے۔ تجھے ضرورت کا پتہ نہیں ہو گا۔ تجھے ضرورت کے لئے جتنی رقم چاہئے۔ اس کا بھی پتہ نہیں ہو گا۔ میں اس کا سامان کروں گا۔
علاوہ ازیں اس تھوڑے سے عرصہ میں جماعت نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے سلسلہ میں بہت بڑی مالی قربانی دی ہے پھر’’آگے بڑھو‘‘ کی سکیم ہے۔ اس میں بھی جماعت نے بہت بڑی قربانی پیش کی ہے۔ یہ جو ’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘ ہے یہ خالی رقم ہی نہیں بلکہ اس کے استعمال میں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی ہے اور یہی اصل الہٰی نصرت اور برکت ہے۔پہلے بھی میں نے شاید بتایا تھا کہ ہم نے مغربی افریقہ کے کچھ ممالک میں طبی امدادی مراکز کھولے ہیں۔ ابھی ایک سال پورا نہیں ہوا مگر جتنا سرمایہ اُن کے اوپر لگایا گیا ہے۔ ایک سال کے اندر اندر اس سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ آمد ہوئی ہے۔ یہ رقم باہر نہیں بھجوائی جا سکتی اور نہ ہماری کہیں باہر لے جانے کی نیت ہے۔ وہ وہیں خرچ ہوتی ہے۔ اس سے آپ کے کاموں میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔ غرض ابھی ایک سال پورا نہیں ہوا لیکن ہم نے جتنا سرمایہ خرچ کیا تھا اس سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ آمد ہوئی ہے یعنی اتنی نصرت ہوئی ہے کہ سو کے اڑھائی سو بن گئے ہیں۔
اب یہ برکت میں نے ڈالی ہے؟ نہیں! یہ برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے۔ یہ جو منافق باتیں کرتے ہیں کیا ان کی بزرگی کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے برکت دی ہے؟ نہیں۔ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے کھڑا ہی نہیں کیا۔ ان کو تو اس نے ڈانٹا اور سمجھایا ہے کہ تم اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ میرے قہر کے نیچے تمہیں شدید عذاب اُٹھانا پڑے گا۔
پس یہ برکتیں بتاتی ہیں کہ خلیفہ خدا نے مقررفرمایا ہے کیونکہ ایسی نصرت کے کام، ایسی نصرت کے واقعات اور ایسی نصرت کے مظاہرے ہوتے ہیں کہ جن میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہوتا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جس طرح اس نصرت میں انسانی ہاتھ نظر نہیں آرہا اسی طرح انتخاب خلافت میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان جو کہے اللہ تعالیٰ مجبور ہو جائے اور اس کی مدد اور نصرت کرنا شروع کر دے۔ کیا تم اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کو مجبور کر سکتے ہو؟ نہیں! جب تک تم اس کے فضل اور رحم کو جذب نہیں کرو گے، تم اس کی مدد اور نصرت کس طرح لے سکتے ہو۔
غرض اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بے شمار نظارے ہیں۔ میں نے بتایا ہے دعاؤں کی قبولیت ہے جو ساری دُنیا پر پھیلی ہوئی ہے۔ قبولیت دُعا کے یہ نظارے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دُنیا اس پر حیران ہو جاتی ہے۔ کئی ایک کے متعلق میں ذکر کر دیتا ہوں اور کئی ایسے بھی ہیں جن کا میں ذکر نہیں کرتا البتہ جہاں دُعا کے وہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ وہاں ان نظاروں کو دیکھ کر خود ہی پتہ لگ جاتا ہے۔ مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ان نظاروں کو دیکھ کر دُنیا کے دل میں اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی یہ مہم چلائی ہے۔ چنانچہ افریقہ سے کئی خط آجاتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں لیکن ہمیں یہ پتہ لگا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ہماری یہ مشکل ہے آپ اس کے لئے دعا کریں۔ ایک دفعہ مشرقی افریقہ سے ایک سکھ کا خط آگیا کہ مجھے یہ ابتلاء درپیش ہے اور یوں تو میں غیر مسلم ہوں لیکن میں نے دیکھا ہے یا سُنا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس لئے آپ میرے لئے دُعا کریں۔ چنانچہ وہ دعا کے لئے خط لکھتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کا کام کر دیا اور اس کی پریشانیاں دور کر دیں۔ پھر جب وہ مجھے خط لکھا کرے تو ساتھ ہی آخر میں مجھے یہ بھی لکھ دیا کرے کہ آپ کی دُعا سے میرا کام ہو گیا ہے۔ میں نے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے آپ کی دعا میں برکت ڈالی، اس لئے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں آپ کو خط لکھوں۔ میں خط لکھ دیتا ہوں مگرآپ کو اس کا جواب دینے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تو اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے دفتر سے کہا کہ اسے کہنے دو جو یہ کہتا ہے۔ اس کے خط کا جواب ضرور جائے گا کیونکہ اگر خدا کی قدرت کا نظارہ دیکھ کر اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے دل میں تو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔
پس یاد رکھو کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو الہٰی سلسلہ کے خلفاء بنایاکرے۔
پنجم۔ ایک یہ اعتراض ہے جو پانچ دس آدمی جن کا ہمیں علم ہوا ہے بڑے زور و شور کے ساتھ کر رہے ہیں کہ جو خلافت کمیٹی خلیفہ کے انتخاب کے لئے ۱۹۵۶ء میں بنائی گئی تھی اس کو فوراً توڑ دو۔ورنہ ہم جماعت احمدیہ میں ایک عظیم انقلاب بپا کر دیں گے۔
کہتے ہیں کہ ہمارا ’’ادارہ‘‘ یعنی ادارہ منافقین اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ خلافت کمیٹی جیسا غیر جمہوری ادارہ قائم ہی اس مقصد کے لئے کیا گیا تھا(یعنی ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس مقصد کے لئے قائم کیا تھا) کہ خلافت خاندان مقدسہ سے باہر کسی صورت نہ جا سکے اور خلافت کمیٹی کی منطق پر(خلافت ثانیہ پر جو تنقید ہو رہی ہے اس کے الفاظ بھی ذرا ملاحظہ کریں) مذہب کی خوبصورت چھاپ چڑھا کر پوری کی پوری جماعت کو ہمیشہ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے‘‘۔
زنجیروں میں تو جماعت کو جکڑا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ زنجیریں غلامی کی نہیں۔ یہ محبت اور پیار کی زنجیریں ہیں اور دونوں طرف سے جکڑے ہوئے ہیں میں بھی جکڑا ہوا ہوں اور آپ بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ باہمی پیار اور محبت میں آپ بھی جکڑے ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ بھی جکڑے ہوئے تھے۔ آپ میں سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی تکلیف ہوتی ہے مثلاً زید کو تکلیف ہوئی بکر کو بھی ہو گی۔شمال میں تکلیف ہو گی جنوب میں ہوگی لیکن میرے اس ایک دل میں تو آپ سب کی ساری تکالیف اور ساری پریشانیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ پس اس کلّے پر تو آپ نے بہت ساری زنجیریں ڈال دی ہیں۔ آپ تو ایک ایک فرد تھے مگر یہاں سارے افراد کی تکالیف اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ میں بلا مبالغہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں آپ کے لئے دُکھ اُٹھاتا ہوں اور تکالیف سہتا ہوں۔ غرض یہ زنجیریں ہیں جنہوں نے مجھے اور آپ کو جکڑا ہوا ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑا وہ تو غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے آیا تھا۔ جس کے متعلق خدا کا مسیح اور مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ کہے کہ وہ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے آئے گا۔ اس کے متعلق یہ منافق کہتے ہیں کہ اس نے ساری جماعت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ کیا آپ اور میں خدا تعالیٰ کی بات کو مانیں گے یا ان منافقوں کی بکواس پر کان دھریں گے؟
ششم۔ پھر وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں (اور یہ ان کی عجیب منطق ہے) کہ خلیفہ کی تنخواہ کا سکیل بند کر دیا جائے حالانکہ خلیفہ کی تنخواہ کا تو سکیل ہی کوئی نہیں۔ جھوٹ بول دیا یعنی یہ کہنا یا خط میں لکھنا کہ خلیفہ کی تنخواہ کا کوئی سکیل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً سو روپے تنخواہ ہے تو ہر سال دس روپے ترقی ہو گی۔ پھر جب سکیل ختم ہوگا تو ایفی شینسی بار ملے گا کیونکہ سکیل میں یہ بھی آجاتا ہے تو پھر ناظر دیوان فیصلہ کرے گا کہ خلیفہ وقت کی اہلیت برقرار ہے۔ اس کی اہلیت ایسی ہے کہ اس کو اگلا سکیل دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ یہ تخیل ہی خلافت کے ساتھ نہیں جاتا اور یہ تصور ہی موجود نہیں مگر اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ خلافت کا سکیل بند کر دو، دوسرے یہ کہا کہ شوریٰ حالات کے مطابق خلیفہ کا الاؤنس مقرر کرے۔ اس میں بھی خباثت ہے یعنی جو بھی الاؤنس ہے وہ شوریٰ ہی نے مقرر کیا ہوا ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ نہیں شوریٰ نے مقرر نہیں کیا ہوا۔ خلیفہ نے آپ ہی مقرر کر دیا ہے کہ میں اتنے پیسے لیا کروں گا اور عیش کروں گا حالانکہ شوریٰ نے خود ہی یہ مقرر کیا تھا اور جس اجلاس میں اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا اس میں میں موجود بھی نہیں تھا اور جس کے لینے میں میری مرضی بھی نہیں تھی۔ اس کے متعلق میں آگے چل کر بات کروں گا۔ پہلے میں اُن کے جو خیالات ہیں اُن کو وضاحت کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں۔
خلیفہ کی تنخواہ کے سکیل کے متعلق اُنہوں نے تیسرے نمبر پر یہ کہا کہ موجودہ خلیفہ کو صرف۳۰۰ ماہوار الاؤنس دیا جائے۔ پہلے یہ کہا کہ شوریٰ مقرر کرے۔ پھر کہا کہ شوریٰ کو بھی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ ہم الاؤنس مقرر کرتے ہیں۔ اس لئے موجودہ خلیفہ کو صرف ۳۰۰ الاؤنس دیا جائے۔ غرض ایک خط میں تو اُنہوں نے یہ لکھا کہ موجودہ خلیفہ کو ۳۰۰ ماہوار ’’ہمارے‘‘ کہنے کے مطابق دیا جائے۔ شوریٰ کو بھی اختیار نہیں۔ ہم یعنی جماعت منافقین نے شوریٰ سے اختیار واپس لے لیا ہے۔مگر دوسرے خط میں یہ لکھ دیا (دو خط سیکلو سٹائل (cyclostyle) کئے ہوئے اُنہوں نے یہاں پندرہ بیس آدمیوں کو لکھے ہیں جو ہمارے علم میں ہیں اور یہ پوائنٹس میں نے انہیں خطوط سے لئے ہیں) کہ موجودہ خلیفہ کا الاؤنس بالکل بند کر دیا جائے کیونکہ ذرائع آمد لا محدود ہیں۔ اس واسطے پہلے تو شوریٰ سے ۳۰۰ مقرر کر کے اس کا حق واپس لے لیا ( یہ میں ان کی باتیں کر رہا ہوں) یعنی پہلے جماعت منافقین نے شوریٰ کو یہ حق دیا کہ وہ حالات کے مطابق خلیفہ وقت کا کوئی گذارہ یا الاؤنس مقرر کرے۔ پھر کہا کہ نہیں ہم تمہارا حق واپس لے کر خود ہی ۳۰۰ مقرر کر دیتے ہیں۔ پھر کہا کہ نہیں ہم اپنا یہ فیصلہ بھی بدلتے ہیں خلیفۂ وقت کو کوئی الاؤنس نہ دیا جائے کیونکہ اس کے ذرائع آمد لا محدودہیں۔ یہ لامحدود کے لفظ پر میں زور دے رہا ہوں۔ اسے یاد رکھنا کیونکہ اس کے متعلق بھی میں آگے کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
پھر کہنا کہ نہ صرف یہ کہ الاؤنس نہ دیا جائے بلکہ موجودہ خلیفہ اپنی ساری جائیداد انجمن کو دے دے۔ غرض الاؤنس کے طور پر اُسے ایک پیسہ نہ دیا جائے اور جائیداد ساری چھین لی جائے اور تیسرے یہ کہ موجودہ خلیفہ کو (اور پہلے دو جو گذر چکے ہیں یعنی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے بھی غلطی کی) کمانے کی اجازت نہ دی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کمائی کے سارے ذرائع محدود کر دئیے جائیں۔ ان کی جائیداد لے لی جائے اورپیسہ ان کو کوئی نہ دیا جائے اور کہا جائے کہ خوب شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی خلافت اور امامت کرو۔
پس یہ سارے بہکے ہوئے خیالات ہیں۔ خود ہی بیوقوف اور اندھے ہیں۔ منافق بھی اندھا ہوتا ہے اگر منافق کا مقام ’’درک اسفل‘‘ میں ہے تو گویا وہ ایک کافر سے بھی زیادہ نیچے ہے تو اس کی نابینائی ( جس کے متعلق قرآن میں ’’عمی‘‘کہاگیا ہے) کی نسبت منافق زیادہ اندھا ہے۔ لیکن ہم یہ روحانی طور پر کہہ سکتے ہیں جسمانی طور پر نہیں کہہ سکتے۔ روحانی طور پر صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ اور بہت سارے روحانی حواس ہیں جو انسان کو بینا اور صاحبِ فراست بناتے ہیں۔
غرض جہاں تک موجودہ خلیفہ کے الاؤنس کا تعلق ہے شروع میں مَیں نے کوئی الاؤنس نہیں لیا پھر شوریٰ ہوئی اور اُس نے اپنے ایک اجلاس میں اڑھائی ہزار روپیہ مقرر کیا جس میں میں موجود نہیں تھا۔ نہ اس اجلاس سے پہلے نہ اس وقت اور نہ اس کے بعد۔ میں تو جماعت سے یہ کہہ ہی نہیں سکتا نہ آج اور نہ مرتے دم تک کیونکہ یہ تو میری فطرت اور میرے مقام کے خلاف ہے کہ میں جماعت سے یہ کہوں کہ مجھے اتنے پیسے چاہئیں۔ آپ ہی اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اڑھائی ہزار روپے تنخواہ اور مہمان آتے ہیں اُن کا الاؤنس اور نوکر اور پتہ نہیں اور کیا کچھ تھا۔ چنانچہ شوریٰ کا ایک نمائندہ وفد میرے پاس آیا۔ مرزا عبدالحق صاحب اُن کے سپوکن مین (spoken man) تھے۔ وہ زندہ ہیں اگر میری بات کا اعتبار نہ آئے تو اُن سے جا کر پوچھ لو۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا مجھے یہ منظور نہیں ہے۔ مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں یہ لینا نہیں چاہتا۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ پہلے دو خلفاء نے بھی نہیں لیا اور آپ بھی نہیں لیں گے تو بعد میں آنے والوں میں سے جن کو ضرورت ہو گی وہ یہ سمجھیں گے کہ تیسرے خلیفہ نے بھی نہیں لیا تھا کیونکہ اس کے دماغ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے دو خلفاء نے نہیں لیا تھا اس لئے خلیفۂ وقت کو الاؤنس نہیں لینا چاہئے اور کہیں گے کہ پھر تیسرے خلیفہ نے بھی نہیں لیا۔ جب تین خلفاء نے نہیں لیا تو اب چوتھا کیوں لے اور اگر چوتھا نہ لے تو پھر پانچواں کیوں لے۔ اس لئے آپ یہ لے لیں۔ میں نے کہا۔ اچھا! اگر یہ بات ہے تو تم نے یہ جو مہمان نوازی کے اور نوکروں وغیرہ کے اور بھی پتہ نہیں کیا کچھ تھا مجھے صحیح یاد نہیں نہ میںنے اس طرف توجہ دی اس کا تو سوال ہی کوئی نہیں۔ باقی آپ کہتے ہیں تو آپ کا دل رکھنے کے لئے اڑھائی ہزار روپے ماہانہ کے متعلق آپ کا فیصلہ مان لیتا ہوں۔
اب جو ملاقاتوں والے دن مہمان نوازی کی جاتی ہے اور یہ میں کسی پر احسان نہیں جتا رہابلکہ میں بڑے پیار سے ایک بات کہہ رہا ہوں۔ مجھے ایک دن بڑا دُکھ پہنچا۔ ایک دوست تھے اُنہوں نے مجھے چٹھی لکھی گرمیوں کے دنوں میں وہ ملاقات کے لئے آئے تھا۔ اُنہوں نے لکھا کہ میں ملاقات کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا(دوست اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے دعا کرتے رہتے ہیں) مجھے پیاس لگی اور میں پرائیویٹ سیکرٹری (جو اُس وقت تھے۔ امام رفیق نہیں تھے۔ نماز کے بعد ان کے پیچھے نہ پڑ جائیں)کے کمرے میں گیا اور اُن سے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے تووہ بڑی رعونت سے مجھے یہ کہنے لگے کہ فلاں کمرے میں پانی کا گھڑا رکھا ہوا ہے۔ وہاں جاکر پی لو۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک پرانا احمدی ہوں پانی کیا چیز ہے ہم احمدیت کی خاطر جانیں بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے بالکل محسوس نہیں کیا لیکن بعض غیر احمدی آتے ہیں نئے احمدی آتے ہیں بعض نوجوان آتے ہیں جن کی پوری تربیت نہیں ہوتی۔ اس لئے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے آپ ان کو سمجھا دیں۔ میں نے بڑا استغفار کیا۔ میں نے کہا میں اس کا ذمہ دار ہوں۔پھر میں نے دفتر سے کہا مولوی ابوالعطاء صاحب اس بات کے گواہ ہیں۔ میں نے ان کو بھی بلا کر کہا کہ یہ جو چائے اور گرمیوں میں شربت اور ٹھنڈا پانی ہے اس کا میں ذمہ دار ہوں۔ جماعت ذمہ دار نہیں ہے۔ اس لئے آپ یہ انتظام کریں۔ میرے پاس وقت اتنا نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میںجب کام کروایا کرتا ہوں اسی طرح کروایا کرتا ہوں۔ غرض میں نے اُن سے کہا کہ میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے کہ میں آپ سے حساب کیا کروں۔ آپ یہ پیسے لیں جب یہ ختم ہو جائیں تو مجھ سے اور لے لیں مگر یہ نہ کہیں کہ فلاں چیز پر یہ خرچ ہوا اور فلاں پر یہ خرچ ہوا۔ بس یہ کہیں کہ اتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ میں دے دیا کروں گا۔ چنانچہ اس وقت سے یہ انتظام چل رہا ہے۔اور یہ میر اپنا انتظام ہے صدرانجمن احمدیہ کا نہیں یہ جماعت کے ساتھ میرے پیار کا نتیجہ ہے اگر آج انجمن مجھ پر زور دے کہ یہ انتظام اس کے حوالے کر دیا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ نہیں میں خود ہی یہ انتظام کروں گا۔
پھر وہ جو مقرر کیاگیا تھا اس کے متعلق بھی میں بڑے دُکھ کے ساتھ اور اپنی فطرت کے خلاف بات کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ جتنا میں نے شوریٰ کا اور آپ کادل رکھنے کے لئے منظور کر لیاتھا اس کا پچاس فیصد سے بھی کہیں کم میں نے عملاً وصول کیا ہے اور جتنا وصول کیا ہے اس سے کہیں زیادہ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ کرنے کے متعلق جو مجھے سرّاً کا حکم ہے اس پر خرچ کیا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا ہے کہ میں تمہارا محتاج نہیں ہوں۔ حضرت خلیفہ ثانی ؓ نے بھی یہی فرمایا تھا اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ میں تمہارا محتاج نہیں ہوں۔ تمہیں کس احمق نے کہاہے کہ مجھے نذرانہ دیا کرو یا میرا الائونس مقرر کیا کرو۔ تم نے کہا ہمارا دل دکھے گا اور بعد میں آنے والے خلفاء کے لئے تکلیف ہوگی اس لئے میں نے تمہاری بات مان لی اور تمہیں آج تک یہ بھی نہیں بتایا کہ میں وہ سارا لے بھی نہیں رہا۔ پچاس فیصد سے بھی کہیں کم لے رہا ہوں تاکہ آپ یہ نہ کہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیاکیا ہے۔ تمہارا تو میں نے اتنا خیال رکھا مگر تمہارے اندر چند ایک منافق ہیں اُن میں سے کوئی کہتا ہے تین ہزار اور کوئی کہتا ہے اڑھائی ہزار روپے ماہانہ تعیّش کے سامان کے لئے وصول کر رہا ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ جتنا میں وصول کرتا ہوں خداتعالیٰ اس سے زیادہ مجھے سرّاً خرچ کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ جس کے متعلق کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ میری بیوی کو بھی کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ میں کس کو دیتا ہوں لیکن جو اعلانیہ خرچ ہے وہ آپ میں سے بعض جانتے ہوں گے۔ اسے میرے گھر سے بھی جانتے ہیں لیکن میں اپنے بھائی پر سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ ایسا بھی خرچ کرتا ہوں جس کے متعلق میرے سوا کسی کو پتہ تک نہیںہوتا اور یہ میں اپنے بھائی کو اس کا حق دینے کے لئے خرچ کرتا ہوں۔ اس کے اوپر میرا کوئی احسان نہیں ہوتا کیونکہ میں تو خداتعالیٰ کی رضا کا طالب ہوں۔
پس جہاں تک سرّاً خرچ کا تعلق ہے اسے صرف میں جانتا ہوں۔ اگر میں نے دفتر کے ذریعہ بھی بھجوانا ہوتا ہے تب بھی خود ہی لفافہ بندکرتا ہوں اور خود ہی اس کے اوپر پتہ لکھتاہوں اور کوشش کرتا ہوں اور عام طور پر اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں کہ دس روپے کانوٹ نہ ہو تاکہ اگر زیادہ روپے دینے ہیں تو سو روپے کا نوٹ ہو تاکہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے کہ اس کے اندر کوئی نقدی یعنی نوٹ بھی ہے اور اس طرح خط بھیج دیا کرتا ہوں کیونکہ بعض دفعہ یہ کام میں خود نہیں کر سکتا یا آدمی نہیں مل سکتا لیکن میں مجبور ہو کر اور بڑے دکھ کے ساتھ اس کا اظہار کر رہا ہوں مگر منافق کھڑے ہو کر کہتا ہے دیکھو یہ دنیا کے عیش میں پڑا ہوا ہے اور اڑھائی ہزار روپے لے کر خوب عیش لوٹ رہا ہے۔
منافق نے یہ کہا ہے کہ میں لامحدود ذرائع کا مالک ہوں میں کہتا ہوں کہ یہ فقرہ تم نے سچ کہا ہے میں لامحدود ذرائع آمد کا اس لئے مالک ہوں کہ وہ جو دنیا کی ساری دولتوں اور خزانوں کا مالک ہے اس نے مجھے فرمایا تھا۔
’’ تینوں ایناں دیاں گاکہ تو رَج جائیں گا‘‘
اس لئے میں لا محدود ذرائع کا مالک ہوں مجھے تمہارے پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح پیسے دیتا ہے وہ تو (الرحمن:۳۰) کی رو سے اس کی شان نرالی ہے۔ اس کے خزانے کا جب منہ کھلتا ہے تو کسی بزرگ کے اس قول کے مطابق وہ چھپر پھاڑ کے دے دیا کرتا ہے۔ بعض دفعہ انسان ذرا سی بات کے لئے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے۔ چنانچہ ایک دن مجھے پیسے کی ضرورت تھی میں نے دعا کی خدایا مجھے پیسے دے کیونکہ تیرا یہ وعدہ ہے کہ
’’تینوں ایناں دیاں گا کہ تو رَج جائیں گا‘‘
مجھے خیال آیا کہ کہیں میرے دل کا نفس (اللہ تعالیٰ تو عالم الکل ہے) یعنی میرے دل کا چور یہ نہ سمجھتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے کسی بندے کا مجھے محتاج نہ کر۔ اور اس کے دل میں ڈال کہ میرے ایک دوسرے بندے کو ضرورت ہے اور وہ اس کو جاکر پیسے دے آئے میں نے دعا کی کہ خدایا میں نے اس طرح کے پیسے نہیں لینے۔ میں نے کسی آدمی کا محتاج ہوکر پیسے نہیں لینے۔ مجھے تو دے جس طرح بھی دیتا ہے۔ چنانچہ میرے ایک بھائی نے مجھ سے اتنی ہی رقم قرض لی ہوئی تھی جتنی کی میں نے دعا کی تھی وہ میرا چھوٹا بھائی تھا اور میری نیت یہ تھی کہ میں نے اس کو واپسی کے لئے نہیں کہنا بے شک وہ واپس بھی نہ کرے۔ بھائی بھائی کا حق بھی ہوتا ہے اور مجھے اس کے حالات کے لحاظ سے یقین تھا کہ اگلے پانچ دس سال تک وہ رقم واپس نہیں کر سکتا مگر میں کیا دیکھتا ہوں کہ شام کے وقت میرے وہی بھائی صاحب میرے پاس آکر کہہ رہے ہیں۔ بھائی یہ لیں اپنی رقم۔ اب میں اس کا منہ دیکھوں اور پتہ نہیں میں نے کس طرح اپنے جذبات پر قابو پایا کیونکہ میں نے دعا کی تھی اے خدایا! میں نے کسی بندے کا محتاج نہیں ہونا۔ تو میرے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا فرما کیونکہ تیرا مجھ سے وعدہ ہے۔ چنانچہ اسی رنگ میں میری دُعا قبول ہو گئی۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جس میں کچھ ظاہر کا بھی رنگ ہے وہ میں نے بتا دی ہے باقی تو چونکہ خداتعالیٰ وراء الوریٰ اور غیب الغیب ہستی ہے وہ وراء الوریٰ اور غیب الغیب دروازے کھولتی ہے آپ ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکیں گے۔
بہرحال میرے لامحدود ذرائع ہیں۔ مجھے پیسے کی کبھی فکر نہیں ہوئی اور جو خدا دیتا ہے اس میں سے جتنی توفیق ملتی ہے اپنے ضرورت مند احمدی بھائیوں کو دیتا ہوں اور ان پر میں احسان نہیں جتاتا بلکہ اُن کے ساتھ کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ اگر وہ سامنے آجائیں تو آپ میری آنکھوں میں کوئی اشارہ بھی نہیں دیکھیں گے۔ اس لئے کہ میں اس بندے کو خوش کرنے کے لئے نہیں دے رہا میں تو اپنے مالک، اپنے مولیٰ، اپنے پیار کرنے والے رب العزت کو خوش کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے دے رہا ہوں۔ میں نے آج مجبوراً اس کا کچھ تھوڑا سا حصہ جو ظاہر ہو سکتا تھا وہ یہاں کر دیا ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ ظاہر کئے جائیں گے۔
بہرحال یہ تو ان منافقین کا دماغی نقص ہے کہ خلیفہ کے الاؤنس کا مشاورت فیصلہ کرے۔ پھر کہا مشاورت فیصلہ نہ کرے ہم خود فیصلہ کرتے ہیں۔ ۳۰۰ ماہوار الاؤنس دیں گے۔ ہم بھی اپنا فیصلہ بدلتے ہیں ایک دھیلہ بھی الاؤنس نہیں ملے گا،نہ صرف ایک دھیلہ نہیں ملے گا بلکہ ساری جائیداد واپس لے لینی چاہئے۔ جائیداد تو مجھے ورثہ میں ملی یا جائیداد کچھ تھوڑی سی ایسی ہے کہ جو تھوڑی سی زمینیں قادیان میں خریدی تھیں۔ کام میں خیال ہی نہیں رہا۔ بارہ تیرہ ایکٹر زمین کی بجائے تین ایکٹر کے کاغذ بچے۔ باقی یہاں پارٹیشن کے بعد ضائع ہو گئے۔ تین ایکٹر زمین ہے وہ بھی جائیداد میں آگئی نا۔ ساری جائیداد لے لو دھیلہ کوئی نہ دو اور جائیداد ساری لے لو، کمانے پر پابندی لگا دو اور کہو تم چار پانچ دن تک بھوکے زندہ رہ سکتے ہو خلافت کرو۔ پھر ہم ایک اور خلیفہ بنا لیں گے پھر چار پانچ دن اس کو بھوکا رکھ کر ماریں گے پھر اور خلیفہ بنالیں گے تو ٹھیک ہے اس طرح کرو۔
لیکن میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں۔ جس کی مجھے ضرورت تھی اُس نے مجھے فرمایا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ پھر میں آپ کی کیسے ضرورت محسوس کروں؟
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا غالباً یہ حوالہ میں نے پہلے نہیں پڑھا۔ فرماتے ہیں:-
’’میں کسی کا خوشامدی نہیں۔ مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نظر اور پرورش کا محتاج ہوں۔ اور خداتعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا وہم بھی میرے دل میں گزرے‘‘۔(بدر ۴؍جولائی ۱۹۱۱ء)
میں جس کا محتاج ہوں اور جو میری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے وہی میرے لئے کافی ہے اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔
ہفتم۔ آج یہ لمبا خطبہ ہو گا کیونکہ ضروری ہے اب آخر میں مَیں ایک بات کہنا چاہتا ہوں اس پر شاید زیادہ وقت لگ جائے۔
جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفہ اوّل کے بچوں کو ایک لمبا عرصہ چشم پوشی کے بعد جماعت کو فتنے سے بچانے کے لئے علیٰحدہ کیا تھا تو اس وقت جو دشمنانِ خلافت تھے، اُنہوں نے بہت کچھ فتنے پیدا کئے۔ بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ خلافت کو نقصان پہنچانے کی بڑی کوشش کی۔ غلبہ اسلام کے لئے ساری دنیا میں جو ایک عظیم حرکت اور جدوجہد ہو رہی تھی اس کے راستے میں روک بننے کی کوشش کی۔چنانچہ اُس موقع پر ایک غیر مبائع دوست نے یہاں تک لکھ دیا۔ یہ الفاظ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہیں اور ان غیر مبائعین کی طرف اشارہ ہے پھر آپ فرماتے ہیں:-
’’اور اُن میں سے ایک شخص محمد حسین چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام (یعنی غیر مبائعین کا نظام) اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے۔ شاباش ، ہمت کر کے کھڑے رہو۔ مرزا محمود سے دبنا نہیں۔ اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو۔ ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے‘‘۔
(خلافت حقہ اسلامیہ: تقریر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء صفحہ۱۴)
یہ غیر مبائعین نے اُس وقت کے فتنے کے موقع پر جو لوگ اُس وقت فتنہ پیدا کر رہے تھے اُن کو مخاطب کرکے کہا تھااور آج ساری جماعت کو خصوصاً اہل ربوہ کو مخاطب کر کے آج کے فتنہ گروں نے یہ کہا ہے اور جسے ذرا غور سے سنتے رہنا۔ میں بھی جہاں ضرورت پڑی زور دوں گا۔ دراصل نفاق چونکہ نقاب پوش ہوتا ہے یہ علی الاعلان سامنے نہیں آتا اس لئے ان کی جو لیڈر ہے وہ بھی نقاب پوش’’رابعہ انقلابی‘‘ یعنی عورت کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اُس نے لکھا ہے:-
’’لہٰذا اس انقلاب کی تکمیل کے لئے آپ کے تعاون کی اشدضرورت ہے…یقینا آج تم اپنے آ ہنی عزم کے بل بوتے پر تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والے ہو(جس طرح بقول محمد حسین چیمہ۱۹۵۶ء میں کرنے والے تھے)…
دوستو! قوت کا اصل سرچشمہ تم ہو جماعت کا وجود صرف تم سے قائم ہے اور جب تک تمہیں اپنی قوت کا احساس نہیں ہو گا تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔لہٰذا ربوہ میں عوامی قانون اور عوامی انصاف لانے کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کر دو‘‘۔
اب ربوہ جو دُنیا میں اشاعتِ قرآن اور حفاظتِ قرآن اورتفسیر قرآن کا مرکز ہے۔ اس ربوہ میں عوامی قانون یعنی اسلامی قانون نہیں بلکہ عوامی قانون اور قرآنی عدل وانصاف نہیں بلکہ عوامی انصاف لانے کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کر دو۔
پھر اس خبیث گروہ کے دل میں ربوہ کی جو قدرو منزلت ہے اور جس فقرہ کو پڑھ کر مجھے آگ لگی اور اب بھی لگی ہوئی ہے اور جسے مردوزن غور سے سُنیں وہ یہ ہے:-
’’کیا ربوہ معاشی دوڑ کے نتیجہ میں غیر فطری فعلوں اور مرد و زن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ نہیں بن رہا‘‘۔
اب ان کے نزدیک ربوہ غیر فطری فعلوں اور مرد و زن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ ہے اور اسی ربوہ سے جو اُن کی خبیثانہ نگاہوں میں غیر فطری فعلوں اور مرد و زن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ ہے اس سے کہتے ہیں کہ اُٹھو اور انقلاب لاؤ۔ اے منافقو اور جاہلو! جس کو تم نے خدا کی نگاہ میں بدترین ملزم قرار دیا ہے اُس سے تم ہاں تم کیسے خیر کی امید رکھتے ہو؟
محمد حسین چیمہ نے بھی کہا تھا کہ بس ڈرنا نہیں خلافت پر حملہ کر دو اور اس کو توڑ کر رکھ دو۔ اب اُنہوں نے بھی یہی کہا ہے چنانچہ لکھا ہے:-
’’میرے بہادرو اور باہمت ساتھیو! ملوکیت کے قلعے میں شگاف پڑ چکا ہے صرف ایک مضبوط دھکے کی ضرورت ہے اُٹھئے اور آگے بڑھئے اور ہامانیت (یعنی خلافت احمدیہ) کے ضمیر فروش ایجنٹوں کے گریبانوں کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑکر ثابت کر دیجئے کہ ہامان اب زیادہ دیر تک مذہبی جبہ میں چھپ کر نہیں رہ سکتا… اُٹھو اور ہمت کرو آگے بڑھو اور ملوکیت کے تخت کو لات مار کر پرے پھینک دو‘‘۔
جس خلافت کے گرد خداتعالیٰ کی مدداور اس کی نصرت پہرہ دے رہی ہے اس خلافت کے قلعے پر تو تمہاری لات اگر پڑے گی تو تمہاری ہڈیاں بھی اس طرح چور چور ہو جائیں گی کہ اُن کے ذرے بھی دُنیا کو نظر نہیں آئیں گے۔
اور پھر اس کے بعد اس نقاب پوش انقلابی نے ہمیں یہ اطلاع دی:-
’’عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ محترمہ رابعہ انقلابی صاحبہ ۱۵ مارچ کو بروز بدھ ۴ بجے شام گول بازار میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عوام سے خطاب کریں گی(یعنی اُن عوام سے جو اس قسم کے افعال کی آماجگاہ ہیں) ہر محنت کش کا فرض ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو مطلع کر دے‘‘
اب یہ پندرہ مارچ کی تاریخ تو آنے والی ہے ایک برقعہ پوش منافق چھپ کر وار کرنے والا ایک تو یہ بھی کر سکتا ہے اور ممکن ہے وہ یہ بھی کرے کہ وہ خفیہ طور پر میری ذات پر وار کرے اور مجھے قتل کرنے کی کوشش کرے دوسرے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس وقت جب کہ امت مسلمہ مومنہ کے دلوں پر ایک اثر طاری ہوتا ہے اور اُن کے دل خداتعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں اس وقت سے فائدہ اُٹھا کر گول بازار میں آکر دو چار فقرے کہہ دے اور پھر واپس جا کر بڑی بڑھیں مارے کہ ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق وہاں بازارمیں تقریریں کیں۔ غرض یہ بھی ممکن ہے لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں موت سے نہ کبھی ڈرا ہوں اور نہ اب ڈرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میری فطرت کو کچھ ایسا بنایا ہے کہ میں موت سے کبھی نہیں ڈرا۔ مجھے اس کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ ۴۷ء میں میں نے کام کیا ہے اس وقت میں نے آگ کے اندر چھلانگیں لگائی ہیں اور ایک لحظہ کے لئے بھی میرے دل میں یہ خوف نہیں پیدا ہوا کہ کہیں یہ آگ مجھے جلا نہ دے۔ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک وہ چاہے گا زندہ رکھے گا اور جب چاہے گا اُٹھا لے گا۔ یہ نہ میرے اختیا ر میں ہے اور نہ میرے دشمن کے اختیار میں ہے۔نہ میں اپنی مرضی سے اپنی عمر بڑھا سکتا ہوں اور نہ میرا دشمن اپنی مرضی سے میری عمر گھٹا سکتا ہے۔ اس لئے موت تو اپنے وقت پر آئے گی لیکن ہو سکتا ہے کہ اُن کا کوئی اس قسم کا منصوبہ بھی ہو لیکن نہ میں ڈرتا ہوں اور نہ آپ اپنے دل میں کوئی خوف اور دہشت پیدا کریں۔
تا ہم میں ربوہ کی بہنوں اور بھائیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تمہاری عزت اور غیرت کو للکاراگیا ہے۔ اس عورت کو ہاں اس عورت کو جس نے اپنے عروسی کے زیورات بھی خداتعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے اور مساجد کی تعمیرکے لئے چندوں کے طور پر دے دئیے اور جس کی محنتوں کے نتیجہ میں یورپ کے مختلف ممالک میں مساجد کے مینار سے خدائے واحد ویگانہ کی کبریائی کا اعلان کیا جاتا ہے اے جاہلو اور ظالمو! اُس عورت کو تم غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ کہتے ہو یا اس آماجگاہ میں رہنے والی کہتے ہو یا اُسے اس کا حصہ دار بناتے ہو؟ اُس نے تو اپنی محبوب ترین چیزیں بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں اور خداتعالیٰ کے پیار کا حُسن اس کے ماتھے پر چمک رہا ہے اور اس کی آنکھوں سے خداتعالیٰ کے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور اے اندھو! تم اُس ماتھے اور اُن آنکھوں میں بدفعلیوں اور غلط قسم کے افعال اور گناہوں کے دھبے دیکھتے ہو؟ پھر یہاں کے رہنے والے وہ مرد جو دین کی خاطر اور جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اور اس مرکز میں سکون، امن اور سلامتی پاتے ہیں اور جن میں سے بعض بے دھڑک ہو کر یہاں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں اور خود دُنیا کمانے کے لئے باہر چلے جاتے ہیں اور پھر وہ بھی ہیں کہ جب وقت آتا ہے تو اپنے جن بچوں سے وہ بے انتہا پیار کرتے ہیں ان بچوں کے پیار کو بھول جاتے ہیں۔ وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے سلسلہ اور قرآن اور اسلام کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اظہار کے لئے اُن کا پیار اتنا جوش مارتا ہے کہ دوسرے سارے پیار اس نئے اور حقیقی پیار کی لپٹوں میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔ مگر اے جاہلو! تم اُن کے متعلق یہ کہتے ہو کہ اُن کے وجود سے ربوہ آماجگاہ بن گیا ہے غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی۔ تم نے ان کو پہچانا نہیں۔ تمہاری نگاہیں ان کی نبض پر نہیں ہیں۔ تم نہیں جانتے کہ وہ کس مٹی سے بنے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ وہ خدا کے اس شیر کو ماننے والے ہیں جس نے ساری دُنیا کی مخالفتوں کے باوجود یہ اعلان کیا تھا کہ میری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔
پس میرے اس بھائی اور میری اس بہن کی فطرت میں بھی ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔ اُن کے کانوں میں تمہاری آواز تو گیڈر کی اس آواز سے بھی زیادہ حقیر نظر آئے گی جو کبھی کبھی رات کے وقت ہمارے کانوں میں آتی ہے۔ بزدل اور منافق گیدڑو! تمہاری آواز تو اُن کے کانوں میں کتوں کے بھونکنے کی اس آوازسے بھی زیادہ قابل نفرت محسوس ہو گی جو کبھی رات کے اندھیروں میں ان کے کانوں میں پڑتی ہے۔ تم نہیں جانتے ہاں تم نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی قوم ہے اور کتنی طاقتور ہے اور اس کی طاقت کا کونسا منبع ہے۔ یہ کتنی فدائی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور کتنی محبوب ہے آپ کے روحانی فرزند مسیح موعود علیہ السلام کی۔ تم کیا پہچانو اس پیارے وجود کو جسے ہم جماعت احمدیہ کہتے ہیں تم سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا شخص جس کی ہم نے ابھی پوری طرح تربیت نہیں کی بو جہ نوجوان ہونے کے یا بوجہ نئے احمدی ہونے کے ایسا کام کر بیٹھے جو ہمارے لئے ملامت اور تمہارے لئے دُنیوی لحاظ سے تباہی کا باعث بن جائے۔
روحانی لحاظ سے تو تم خود اس گڑھے میں گرے ہو جس کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس سے نیچے اور کوئی گڑھا نہیں۔ تم ہاتھوں کو اُٹھا رہے اُن لوگوں کی طرف جن کی دعائیہ پرواز خداتعالیٰ کے عرش تک پہنچتی اور اُسے بھی ہلا دیتی ہے۔ تم جہنم کے گڑھوں میں رہنے والے ان بلند پرواز کرنے والے وجودوں تک کہاں پہنچ سکتے ہو۔ پس تم عقل سے کام لو۔ عقل سے کام لو۔ عقل سے کام لو۔ (از رجسٹر خطبات ناصر۔ غیر مطبوعہ)
ززز
جس چیز پر ہمیشہ ہی عمل کرتے رہنا چاہئے وہ عاجزی ہے
اس لئے آپ کو عاجزانہ راہیں اختیار کرنی چاہئیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے یہ آیات پڑھیں:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
ایک انسان کی حقیقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اس مقام کو پہچانے کہ وہ عبد ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے۔ جو لوگ زبان حال اور زبان قال سے اور اپنے عمل یعنی فعل اور قول کی رو سے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس نے ہمیں صلاحیتیں اور استعدادیں بخشی ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامانوں اور اسی کی ہدایت کے نتیجہ میں اور اسی کی منشاء اور تصرف سے ہر انسان لمحہ بہ لمحہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتے ہوئے اپنی حدِّکمال تک پہنچتا ہے۔ تو انسان کو اگر اپنی عاجزی کا شدید احساس ہو اور اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کی سچی معرفت حاصل ہو تو یہی دراصل اس کی ترقی کا زینہ اور فلاح کی کنجی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ایسے بندے ہوتے ہیں یعنی جو لوگ استقامت دکھاتے ہیں۔ حق کے ہر کام میں ثباتِ قدم ہوتا ہے۔ جو میرے قریب آکر پھر دُور نہیں ہو جاتے بلکہ میرے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور وہ جو میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے اور اپنی قوتوں کو جنہیں میں نے عطا کیا ہے میری ہی بیان کردہ ہدایات کے مطابق ان کو نشوونما دینے کی کوشش کرتے اور اپنی دعائوں کے ذریعہ میرے فضل کو جذب کرتے ہیں۔ فرماتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں یہ تسلی دلاتے ہیں کہ تمہاری انتہائی کوشش کے باوجود اگر کوئی بشری کمزوریاں رہ گئی ہوں تو حزن نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں کو ڈھانپ دے گا اور ان کے بداثرات سے تمہیں بچا لے گا لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کچھ لوگ خداتعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہتے ہوئے شیطان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو ذاتی حقوق دیئے ہیں اور اس نے اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے جو مہمات چلائی ہیں، ان کے راستے میں وہ روک بنتے ہیں تو ان سے ڈرنے کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ تمہارے رب نہیں ہیں تمہارا رب تو اللہ تعالیٰ ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔ جن میں بنیادی طور پر جسمانی قوتیں اور صلاحیتیں ہیں اور جن کی صحیح نشوونما ہونی چاہئے اور جن کی حقیقی اور صحیح حفاظت ہونی چاہئے۔ بہت سے نوجوان اور کم عمر بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو گندی عادتیں پڑ جاتی ہیں۔ جس سے ان کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور منشاء کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر انسان کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ ان کو نشوونما دینا چاہئے۔ دعائوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرکے اپنی قوتوں کی نشوونما کو حدِّکمال تک پہنچانا چاہئے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں مَیں نے پندرہ دن پہلے ایک ’’مجلس صحت‘‘ قائم کی تھی اور کہا تھا کہ اگلے جمعہ (یعنی ۱۰؍مارچ) تک یہ کام شروع ہو جانا چاہئے یعنی کام کی ابتداء کردی جائے۔ چنانچہ انتظامیہ بن گئی اور گذشتہ جمعہ کو پہلا وقار عمل ہوا۔ آج صبح دوسرا وقارعمل کیا گیا جس کا کچھ حصہ میں نے بھی جاکر دیکھا تھا۔
غرض اس سلسلہ میں کام کی ابتداء ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے انتہاء تک پہنچانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی انتہاء تو ہوتی ہی نہیں۔ تاہم یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ اب ہم انشاء اللہ خدا کے فضلوں کو جذب کریں گے اور جذب کرتے چلے جائیں گے۔صحت کے قیام اور جسمانی قوتوں کی کامل نشوونما کے لئے صرف ورزش کافی نہیں۔ ہمارا ماحول بھی ایسا ہونا چاہئے جس میں گندگی نہ ہو کیونکہ ایک صحت مند ماحول کے اندر صحیح طریق پر جو ورزش کی جاتی ہے وہی جسموں کو مضبوط اور محنت کے قابل بناتی ہے اور ذہنی جدوجہد اور اخلاقی کوشش کے لئے سامان پیدا کرتی ہے۔ پھر یہ قدم ہم اس لئے بھی اٹھاتے ہیں کہ ہمارے لئے اگلا قدم اُٹھانا آسان ہو جائے یعنی ذہنی طور پر بھی ہم محنت کرنے کے زیادہ قابل ہو جائیں۔ پھر اس کے بعد تیسرا قدم ہے اخلاقی ذمہ داریوں کے نباہنے کا اور پھر اس سے اگلا قدم ہے روحانی ذمہ داریوں کے نباہنے کا۔ غرض ذہنی، اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے بھی مضبوط جسم کی اشد ضرورت ہے۔
بہرحال مجلس صحت کے کام کی ابتداء ہو گئی ہے۔ ان دو ہفتوں میں کچھ سستی بھی نظر آئی ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
پہلے ہفتہ میں ربوہ کے جتنے احباب وقارعمل میں شامل ہوئے تھے آج اس سے کچھ کم شامل ہوئے ہیں۔ یہ غلط بات ہے ہر دفعہ زیادہ سے زیادہ احباب کو وقارعمل میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر ہر روز جماعت احمدیہ میں کئی بچے پیدا ہوتے ہیں (گو یہ ٹھیک ہے کہ ربوہ میں تو روزانہ شاید ایسا نہیںہوتا ہوگا لیکن جماعت احمدیہ میں بحیثیت مجموعی) ہر روز کئی بچے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں پہنچتے جائیں۔ جو دوست اپنے بچوں کے مجھ سے نام رکھواتے ہیں ان کی تعداد بھی ہر روز قریباً دس پندرہ تو ضرور ہوتی ہے حالانکہ بہت کم احباب ہیں جو مجھ سے نام رکھواتے ہیں۔ خود ہی اپنے گھروں میں بچوں کے نام رکھ لیتے ہیں۔ کسی کو خیال آتا ہے تو وہ مجھ سے بھی نام رکھوا لیتا ہے کئی دوست مجھ سے پیار کا اظہار کرنے کے لئے یہ بھی لکھ دیا کرتے ہیں کہ بچے کی والدہ یا والد، دادا یا دادی، نانا یا نانی یا کسی اور عزیز کو خواب آیا ہے کہ اس بچے کا یہ نام رکھا جائے۔ اس لئے آپ بھی یہ نام رکھ دیں۔ چنانچہ ایسے دوستوں کے لئے میں دعا کر دیتا ہوں اور ان کو لکھوا دیتا ہوں کہ یہی نام رکھ دو۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے۔
پس جب روزانہ پیدا ہونے والے کئی بچوں کے نام رکھے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی ہمارے کئی بچے روزانہ شامل ہو رہے ہیں یعنی جو بچے اس مقررہ عمر کو پہنچے وہ اس میں شامل ہو گئے۔غرض ہم نے کمی کی طرف نہیں جانا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے۔ ہم نے بڑھنا ہے، بڑھنا ہے اور ہر جہت میں بڑھنا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
ہم نے اپنی اُن تمام کھلی جگہوں کو جنہیں انگریزی میں Open Spaces (اوپن سپیسز) کہتے ہیں خوش نما بھی بنانا ہے اور ان کو اس قابل بھی بنانا ہے کہ وہ تعفّن کی جگہیں نہ رہیں بلکہ خوشبودار جگہیں بن جائیں۔ ہمارے لئے آکسیجن بہت ضروری ہے۔ اس لئے ان جگہوں پر درخت بھی لگنے چاہئیں۔ یہ درخت Lungs (لنگز) بھی کہلاتے ہیں اور یہ ہے بھی حقیقت کیونکہ شہروں میں یہ درخت وہی کام دیتے ہیں جو انسانی جسم کے لئے پھیپھڑے کام دیتے ہیں۔ اس لئے ہم نے درختوں کو واقع میں اپنی صحت کے مقام کے لئے پھیپھڑے بنانا ہے۔ پھر ان جگہوں کو ورزش کے لئے ہموار کرنا ہے۔ ان میں گھاس لگانی ہے۔ اس لئے یہ لمبا پروگرام ہے۔ اس کے کچھ حصے انشاء اللہ اسی سال پورے ہو جائیں گے اور کچھ اگلے سال مکمل ہوں گے مثلاً یہ جو چھوٹے درخت ہیں یعنی موسمی نہیں بلکہ مستقل رہنے والے یعنی سدا بہار یہ عموماً تین سال کے بعد قد نکالتے اور شکلیں بدلتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ کام آج سے بیس سال پہلے شروع کیا ہوتا تو آج ربوہ کی شکل ہی اور ہوتی پھر اس کے مکینوں کی صحتیں بھی یقینا اس سے بہتر ہوتیں جو آج ہمیں نظر آرہی ہیں۔
بہرحال یہ کام تو اب شروع ہو چکا ہے اب آپ کو اس میں کسی قسم کی سستی اور غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ اس کام کے ابتدائی حصے مثلاً زمین کو ہموار کرنا ہے اس کے لئے باقاعدگی سے وقارعمل کئے جائیں۔ وقارعمل اب اسی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ ویسے بھی ہم وقارعمل کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ وقارعمل مجلس صحت کا حصہ بن گیا ہے کیونکہ جب تک ہم ان جگہوں کو اس قابل نہیں بنائیں گے اس وقت تک وہاں کیسے کھیلا جائے گا۔ مگر وقارعمل کے لئے سامان کی ضرورت ہے۔
مجھے یاد ہے جب ہم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حکم سے قادیان میں پہلی دفعہ وقارعمل کیا تھا اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس شاید ایک کدال بھی نہیں تھی سب مانگے کا سامان تھا۔ دوستوں نے بڑے پیار اور محبت سے ہماری ضرورت کے لحاظ سے اپنے اپنے گھروں میں سے رنبے، کدال، کَسّی اور ٹوکریاں وغیرہ دے دی تھیں لیکن یہ سامان وصول کرنے اور پھر جب وقار عمل ختم ہو جاتا تھا تو واپس کرنے پر ہمارا بڑا وقت لگتا تھا۔ مجھے بعض دفعہ ظہر کی نماز تک بیٹھنا پڑتا تھا۔ ہر ایک دوست کے گھر اس کا سامان بھجوانا بڑی ذمہ داری کا کام ہوتا تھا۔ ویسے ذہنی طور پر بھی یہ تربیت ہونی چاہئے کہ دوسرے آدمی کے سامان کو ہم نے کسی صورت میں نقصان نہیں پہنچنے دینا۔ چنانچہ اسی لئے میں بھی بڑی ذمہ داری محسوس کرتا تھا اور اپنی نگرانی میں ہر ایک کو سامان واپس بھجواتا تھا لیکن جس وقت ہم نے قادیان چھوڑا ہے اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس ۴۔۵ سو کدالیں اور بیلچے تھے۔ پانچ سو یا شاید ہزار ٹوکریاں تھیں اور اسی قسم کا دوسرا سامان بھی بہت تھا جس سے ہم کام کرتے تھے۔ مگر اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس ۷۵ کدالیں ہیں۔ انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق لی ہوئی ہیں لیکن میں انہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس سال ۵۰ کدالیں اور خرید لیں۔ اس طرح یہ سوا سو ہو جائیں گی۔ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے پاس پتہ نہیں کوئی کدال ہے یا نہیں۔ ان کے پاس بھی ۷۵ کدالیں ہونی چاہئیں۔ اس طرح یہ کل دو سو کدالیں ہو جائیں گی لیکن مجلس صحت کا اندازہ ہے کہ چار سو کدال ہونی چاہئے۔ اس لئے کچھ کدالیں ہمارا کالج خریدے،کچھ سکول خریدے اور کچھ جامعہ احمدیہ خریدے۔ ان اداروں سے میں یہ نہیںکہتا کہ تم اتنی اتنی کدال خریدو۔ وہ خود اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے خریدیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ہمارا کالج ۵۰ کدالیں آسانی سے خرید سکتا ہے لیکن بہرحال یہ میرا خیال ہے۔ وہ خود اپنا جائزہ لیں اور اپنے حالات کے مطابق اس غرض کے لئے رقم خرچ کریں۔ دوسرا سامان بھی ہے کچھ وہ بھی خریدیں اور پھر اگلے سال (بعض اداروں کا آٹھ نو مہینوں کے اندر اگلا سال آجاتاہے بلکہ سبھی کا آجاتا ہے) اور خریدیں۔ پھر جو کمی رہ جائے گی اسے ہم پورا کر دیں گے۔ کچھ ٹیوب ویل بھی لگانے پڑیں گے۔
بہرحال پوری جدوجہد سے تم ربوہ کی شکل اس نیت سے بدل دو کہ باہر سے آنے والے دوست اسے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ صفائی اور نفاست کے لحاظ سے اسلام نے کسی شہر کا جو معیار مقرر کیا ہے ربوہ اس پر پورا اترتا ہے اور ساتھ ہی یہ نیت بھی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہونے والی بڑی عظیم اور بڑی بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ آخر غلبہ اسلام کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔ ساری دنیا سے روحانی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس لئے ہمارا یہ پختہ عزم ہونا چاہئے کہ اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے ہم اپنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کو پوری طرح صحت مند رکھیں گے تاکہ ہم تبلیغ و اشاعت اسلام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکیں اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ محنت کر سکیں۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحت کے قیام کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بیماری نہ آئے اور اگر کوئی ایسی بیماری ہو جس کے کیڑوں کا ایک انسان کے جسم میںہونا ضروری ہو یا جس کے کیڑوں کا روحانی جماعت کے وجود میں رہنا ضروری ہو تو اس کا کوئی بداثر اُس انسان کے جسم یا روحانی جماعت کے وجود پر نہ پڑے غرض یہ امر بھی صحت کے قیام کے لئے ضروری ہے اور ہر لحاظ سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ہر قسم کے نفاق سے بچیں۔ کیونکہ نفاق کی بیماری ہمارے اُس خدا سے جو رب العٰلمین ہے دور لے جانے والی ہے۔ نفاق زدہ آدمی اپنے رب کی بجائے دوسری جگہ اپنے سہاروں کی تلاش کرتا اور ناکام ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا ئے رب العٰلمین کے سوا اس کی مخلوق کے لئے اور کوئی سہارا نہیں ہے۔
پس یہ عرفان حاصل کرنا کہ اللہ تعالیٰ واقع میں ہمارا رب ہے (یعنی جیسا کہ وہ چاہتا ہے ہم اس کا عرفان حاصل کریں۔ اس کی صفات کے متعلق علم حاصل کریں) اور پھر اس اعتقاد اور یقین پر مستقل مزاجی اور ثباتِ قدم کے ساتھ قائم رہنا یہ روحانی صحت کے لئے بھی بڑا ضروری ہے۔
پچھلے جمعہ کو میں نے اپنے خطبہ میں منافقین کی بعض فتنہ پردازیوں کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی اور اس قسم کے فتنے چونکہ جماعت کو بیدار کرنے اور بیدار رکھنے کے لئے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے میں خوش ہوں اور میرا دل خدا کی حمد سے لبریز ہے کہ اہالیان ربوہ کا وہی ردعمل ظاہر ہوا ہے جو ایک الٰہی سلسلہ کے افراد کا ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی احسن جزاء عطا فرمائے۔ لیکن ہمیں تو یہ یاد ہے ہم بھولے تو نہیں کہ ہماری جماعت قانون شکنی نہیںکرتی۔ تاہم قانون ہی نے خود حفاظتی کی ہمیں بہت ساری اجازتیں دے رکھی ہیں کیونکہ خود حفاظتی ہمارا انسانی حق ہے۔ خود حفاظتی ہمارا اخلاقی حق ہے۔ خود حفاظتی ہمارا قانونی حق ہے اور خود حفاظتی ہمارا شہری حق ہے۔ غرض جو انسانی حقوق کا دائرہ ہے یا اخلاق کا دائرہ ہے یا قانون کا دائرہ ہے یا شہریت کا دائرہ ہے، اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنی خود حفاظتی کا انتظام کریں گے اور اس پر کوئی عقلمند انسان اعتراض نہیںکر سکتا لیکن ہم قانون شکنی نہیں کرتے اور نہ کبھی کریں گے لیکن اگر ہمارا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ وہ سر جو عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکا رہتا ہے اس کا اس طرح جھکنا خشیۃ اللّٰہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بزدلی اور کمزوری کے نتیجہ میں ہے تو وہ بیوقوف اور جاہل ہے۔ ہمارا سر اپنے رب رحیم اور رب غفور کے حضور جھکا ہوا ہے اور خدا کرے کہ ہمارا سر اور ہماری آئندہ نسلوں کا سر ہمیشہ ہی خداتعالیٰ کے حضور جھکا رہے۔ لیکن بیوقوف ہے وہ شخص جو ہماری اس عاجزی کو ہماری کمزوری یا بزدلی سمجھتا ہے کیونکہ وہ شخص جس نے خود کو تہی دست سمجھ کر اور خود میں کوئی طاقت اور قوت اور خوبی نہ پاکر اُس خدا کے دامن کو پکڑا ہے جس کے اندر ساری قوتیں جمع اور جس میں ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہ نہ بزدل ہو سکتا ہے اور نہ کمزور۔ کیونکہ وہ تو حاکم اعلیٰ کے سایہ میں، پیار کرنے والے رب کی گود میں بیٹھاہے۔ وہ کمزوری کیسے دکھا سکتا ہے۔
غرض یہ بزدلی اور کمزوری نہیں تاہم ہمارے سر ہمیشہ خدا کے حضور جھکے ہی رہیں گے کیونکہ ہم خدا کے عاجز بندے اور خود کو کچھ نہیں پاتے۔ ہم بالکل تہی دست ہیں لیکن ہم نے اس خدا کے دامن کو پکڑا ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے۔ جو سب دولتوں کا مالک ہے۔ جو سب خزانوں کا مالک ہے۔ جو حقیقی عزت کا سرچشمہ ہے اور ہر قسم کا غلبہ اُسی سے ملتا ہے۔
غرض آپ نے بیداری کا جو مظاہرہ کیا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرمائی ہے اس پر آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور میری دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو احسن جزاء عطا فرمائے۔
جس چیز پر آپ کو ہمیشہ ہی عمل کرتے رہنا چاہئے وہ ہے عاجزی۔ اس لئے آپ کو عاجزانہ راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ آپ کو چاہئے کہ کبھی ان راہوں سے اِدھر اُدھر نہ ہوں۔ آپ یہ کبھی خیال نہ کریں کہ آپ کے اندر کوئی طاقت ہے یا کوئی خوبی ہے یا کوئی علم ہے۔ غرض تکبر اور غرور نہیںہونا چاہئے بلکہ اپنے آپ کو نہایت ہی عاجز بندے سمجھنا چاہئے۔ اتنے عاجز کہ ہم میں سے ہر شخص یہی سمجھتا ہو کہ اس سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں۔ اس سے زیادہ ناتواں اور کوئی نہیں۔ اس سے زیادہ کم علم اور کوئی نہیں اور اس سے زیادہ بے عزت اور کوئی نہیں یعنی جہاں تک ذاتی عزتوں کا سوال ہے۔ پس ہر احمدی میرے سمیت یہی سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ کمزور اور ذلیل اور ناکارہ اور تہی دست ہے لیکن اس تذلل اور عاجزی کے باوجود ہر احمدی نے اپنی زندگی میں اپنے زندہ خدا کی عظیم صفات کے جلوے دیکھے اور خود اپنی ذات میں محسوس کئے ہیں۔چنانچہ جب ہم نے علیٰ وجہ البصیرت خداتعالیٰ کا دامن پکڑا تو ہمیںیہ تسلی ہو گئی کہ ہم سے کمزوریاں تو سرزد ہونگی لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حزن کے سامان نہیں پیدا کرے گا۔ وہ ہمارے لئے رحمت کے سامان پیدا کرے گا دشمن جس رنگ میں بھی آئے، جس طاقت کے ساتھ بھی آئے اس کا وہی حشر ہوگا جو ہمیشہ صداقت، نیکی ، ہمدری اور خیر خواہی کے دشمنوں کا ہوا کرتا ہے۔
پس آپ بھی اور میں بھی اس لئے پیداہوئے ہیں کہ ہم کسی کو دکھ نہ پہنچائیں۔ ہم کسی کی برائی نہ سوچیں۔ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں۔ ہم کسی کے لئے برائی نہ چاہیں ہم کسی کا حق نہ ماریں بلکہ حق دلانے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے جو دوسروں کے ہم پر حق ہیں اُن سے زیادہ ہم ان کو دے دیں تاکہ ہم اپنے رب سے بغیر حساب اجر کی امید رکھ سکیں۔ اگر تم گن گن کر نیکیاں کرو گے تو گن گن کر تمہیں جزاء مل جائے گی مگر گن گن کر جو جزاء ہوتی ہے وہ تو کافی نہیں ہوتی۔ اگر آپ سمجھیں اور سوچیں تو وہ نہ میرے لئے کافی ہے اور نہ آپ کے لئے کافی ہے۔ اس چھوٹی سی زندگی میں ہزار غفلتوں اور کوتاہیوں کے بعد انسان آخر کتنی نیکیاں کر لیتا ہے جن کے بدلے کی وہ امید رکھے اور سمجھے کہ وہ ابدی زندگی کے لئے کافی ہوجائے گا مثلاً اگر تم گن کر دس روٹیاں خدا کی راہ میں دو گے تو اس کے وعدہ کے مطابق گنی ہوئی سَو روٹیاں تمہیں مل جائیں گی کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلے دس گنا زیادہ ثواب ملے گا لیکن سو روٹیاں تو تمہاری اس تھوڑی سی زندگی کے لئے بھی کافی نہیں ہیں۔ پس اگر تم خداتعالیٰ کی راہ میں گن کر دو گے تو تم گھاٹے میں رہو گے۔ تم ہلاک ہو جائو گے اس لئے تم خداتعالیٰ کی راہ میں کوئی چیز گن کر نہ دو بلکہ ہر وہ چیز جس کے تم مالک ہو تم وہ خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کر دو۔ پھر تم خداتعالیٰ سے یہ کہو کہ اے خدا! حساب کوئی نہیں اگر تو نے ہمارا حساب کیا تو پھر تو ہم مارے گئے۔ اس لئے ہم نے خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے تیرے حضور پیش کر دیا ہے۔ اس خیال سے نہیں کہ ہماری اس پیشکش میں کوئی خوبی ہے جسے تو ضرور قبول فرمائے گا بلکہ اس امید اور اس دعا کے ساتھ کہ تو باوجود ہزار کمزوریوں کے ان عاجز بندوں کی پیشکش کو محض اپنے فضل سے قبول فرمائے گا۔
پس جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک صحیح ردعمل کی توفیق عطا فرمائی ہے وہاں آپ یہ دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عاجزانہ راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے اور ہم پر اس کے بے شمار فضل اور بے انتہا رحمتیں ’’بِغَیْرِ حِسَابٍ ‘‘ نازل ہوتی رہیں۔
تیسری بات جو میں اس وقت کہنی چاہتا ہوں۔ وہ ایک اور قسم کے فتنہ کے متعلق ہے جو نفاق کے ساتھ بہت ملتا جلتا ہے البتہ اس کی شکل کچھ بدلی ہوئی ہے اور اس کے متعلق اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ جس وقت واقع میں اور حقیقی طور پر کہتا ہے اور پھر وہ پوری کوشش اور مجاہدہ کے ذریعہ اور انتہائی عاجزانہ دعائوں کے نتیجہ میں استقامت دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ اُن سے ہمکلام ہوتے ہیں اور ان کو تسلی دلاتے ہیں کہ بے شک تم بشر ہو اور تم سے بعض کمزوریاں سرزد ہوں گی بایں ہمہ غم نہ کرو۔ تم سمجھتے ہو کہ تمہارا مخالف بڑا طاقتور ہے مگر خداتعالیٰ سے تو کوئی شخص زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ اس لئے تم اپنے دل میں کوئی خوف نہ لائو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ حزن نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ اندیشہ۔ وہ نہایت بشاشت کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب اُن کا کوئی دشمن یا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اُن پر انتہائی سخت وار کیا۔ تو خدا کے یہ بندے سمجھتے ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ سرور کے سامان مل گئے۔ وہ اس مخالفت سے روحانی طور پر ایک لذت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
پس الٰہی سلسلوں پر بالعموم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ پر بالخصوص اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا فضل اور رحم نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کے طفیل اپنے فضل سے نوازا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ جو محبت کی ہے وہ اس سے بڑھ کر کسی سے نہیں کی۔ چنانچہ اس محبت کا یہ کرشمہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس وجود سے محبت کرو گے تو میری محبت کو پالو گے۔ غرض اس محبت کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملتی ہیں۔
پس دراصل امت محمدیہ اولیاء کی امت ہے۔ اس میں بڑی کثرت سے ولی اللہ پیدا ہوئے ہیں۔ اب بھی پیدا ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں ایک ایک وقت میں ہزاروں اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن ایک بات جو آپ کو کبھی نہیں بھولنی چاہئے اور جس کے متعلق خلفاء کو یاد دہانی کرواتے رہنا چاہئے۔ مجھ سے پہلوں نے بھی یاددہانی کروائی ہے اور آج میں بھی کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ بات ہے اور بڑی ہی اہم بات ہے کہ امت محمدیہ میں ولایت جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے اولیاء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ آج ہماری جماعت میں بھی موجود ہیں مگر یہ ولایت اور چیز ہے او ر گدی والی ولایت اور چیز ہے۔ اس گدی والی ولایت کی اجازت ہی نہیں اور نہ یہ عنداللہ مقبول ہو سکتی ہے کیونکہ یہ نفاق کی حدود پر قائم ہے۔
چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے متعدد موقعوں پرجماعت کو یہ فرمایا ہے کہ بعض لوگ ولایت کی گدی بنا رہے تھے اور خلافت کے زمانہ میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن میں نے بتایا ہے کہ کئی منافق کہیں گے کہ انہوں نے جماعت میں کسی کے بھی ولی اللہ ہونے کا انکار کر دیا ہے یعنی یہ کہ جماعت میں اب کوئی ولی پیدا نہیں ہوگا۔ منافق اس قسم کے اعتراض ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ آپ ان کو جواب دیں۔ جواب میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ امت محمدیہ اولیاء اللہ کی امت ہے۔ اس میں ایک ایک وقت میں ہزاروں لاکھوں اولیاء ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ولی جو حقیقی معنی میں ولی ہوئے ہیں۔ جو اپنے عاجزانہ مقام کو پہچانتے، اپنی عاجزانہ راہوں کو بھولتے نہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور گرے رہتے ہیں۔ میں اس ولایت کی بات نہیں کر رہا۔ میں صرف اس گدی والی ولایت کی بات کر رہا ہوں جس کے متعلق مجھ سے پہلوں نے بھی کہا اور بعد میں آنے والے بھی کہتے رہیں گے کیونکہ یہ فتنہ ساتھ لگا ہوا ہے۔
اور اس گدی والی ولایت کی دو بڑی نمایاں خصوصیتیں ہیں۔ وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ آپ خود ان کے مطابق ایسے لوگوں کو پرکھ لیں۔ چنانچہ بعض گدی والی ولائیتوں میں دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں اور بعض میں پہلی یا دوسری خصوصیت پائی جاتی ہے۔
پس یہ گدی والی ولایت جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں مکروہ ولایت ہے۔ جو دراصل ولایت ہے ہی نہیں۔ لوگ اپنے آپ ایسے شخص کا نام ولی رکھ دیتے ہیں۔ تاہم اس ولایت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایسا شخص اپنے خوابوں کو دُنیوی اموال کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ اس کے متعلق لوگوں میں یہ غلط طور پر مشہور ہو جاتا ہے کہ یہ بڑے بزرگ ہیں۔ ان کی دعائیں مقبول اور خوابیں سچی ہیں۔ اس لئے ان کو جاکر یہ دے دو وہ دے دو۔ ان کو کپڑے بنا کر دے دو۔ ان کے لئے یہ کر دو وہ کر دو۔ پھر ایسے ’’بزرگ‘‘ اشارۃً یا کھل کر مانگتے بھی ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ فلاں ولی اللہ صاحب ہمارے ہاں آئے تھے۔ ان کے پاس کپڑے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے اس کا اظہار کیا تو ہم نے ان کو کپڑے بنا کر دیئے۔ یہ سن کر کہ جماعت احمدیہ میں کوئی ایسا ولی بھی ہو سکتا ہے مجھے تو پسینہ آگیا کیونکہ ولایت کے معنے ہی اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے اور اپنے دل میں اس کی کامل خشیت رکھنے اور اسی کو رَبَّنَا، رَبَّنَا کہنے اور کسی دوسرے کو کسی قسم کا سہارا نہ سمجھنے کے ہوتے ہیں مگر جو لوگ دعائوں اور خوابوں کو احتیاج پوری کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور خدا کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے محتاج بنتے ہیں ایسی ولایت پر ہر احمدی بچہ اور بوڑھا جس نے احمدیت کو پہچانا ہے وہ تھوکے گا بھی نہیں۔ اسلام آپ کا اور میرا خداتعالیٰ سے جو تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ خداتعالیٰ نے اپنی جو محبت ہمارے اندر پیدا فرمائی ہے۔ خداتعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کے جلوے مشاہدہ کروا کر ہمیں جس شدت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا ہے اور اُس نے ہمیں اپنا جو حسن دکھایا ہے اس کی موجودگی میں ہماری نگاہ کسی اورکی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ ایسی صورت میں ہم بندوں کے محتاج کیسے بن سکتے ہیں یا بندوں کی طرف راغب کیسے ہو سکتے ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے متعلق خود فرمائے مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق خدا نے فرمایا کہ یہ میرا اتنا پیارا ہے یہ میری راہ میں اسی طرح قربان ہونے والا ہے یہ میری صفات کے رنگ کو اس طرح اپنے اوپر چڑھانے والا ہے کہ اس سے زیادہ حسین شکل میں کسی اور نے میری صفات کے رنگ کو اپنے اوپر نہیں چڑھایا اور میری راہ میں اس سے زیادہ کسی نے قربانی نہیں دی۔ اس نے سب کچھ میری راہ میں قربان کر دیا۔ اس نے اپنی ساری قوتیں، طاقتیں اور صلاحیتیں کہ اُتنی کسی اور انسان کو نہیں ملیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی وہ تمام قوتیں، طاقتیں اور صلاحیتیں اپنے رب کی راہ میں قربان کر دیں۔ خداتعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے لئے نمونہ بن گیا ہے۔ تم اس سے پیار کرو گے۔ اس کے نقش قدم پر چلو گے اس کو اپنے لئے اسوہ بنائو گے تو میرے پیار کو حاصل کر لو گے یعنی جو راہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مجھ تک پہنچا سکیں اگر تم بھی ان پر چلو گے تو تم بھی کیوں نہیں پہنچو گے۔ تم بھی اگرمجھ تک پہنچ گئے تو اپنی اپنی طاقت کے مطابق تم بھی میری رحمت سے حصہ پائو گے۔
یا پھر خلفاء کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ کی وجہ سے۔ ـآپ نے فرمایا ہے کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت تمہارے لئے اسوہ ہے۔ خلیفہ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو اپنا کچھ نہیں رکھتا بلکہ وہ نبی متبوع کے وجود کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اسی کا رنگ اس کے اوپر چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ خلفاء کی سنت بھی تمہارے لئے اسوہ ہے۔ یعنی اگر کسی وقت کسی مقام پر کسی زمانے میں میرا جو حسن ہے یا مجھ پر خداتعالیٰ کی صفات کا جو رنگ چڑھا ہوا ہے وہ تمہیں صاف اور واضح طور پرنظر نہ آئے تو میرے خلفاء کی طرف دیکھ لینا کیونکہ جو ان کا رنگ ہے وہ ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ میرے نائب ہونے کی حیثیت سے ان میں میرا ہی حسن جلوہ گر ہے۔ اُن پر میرا ہی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اگر زمانہ کی دوری یا مکان کی دوری کی وجہ سے تمہیں کوئی شبہ پیدا ہو تو اس وقت جو میرے نائب اور خلفاء ہوں گے اُن کے اندر تمہیں میرے حسن اور میری سنت کا اسوہ نظر آئے گا۔ اس لئے تم اُن کی پیروی کرنا۔
پس چونکہ خلفاء کا اپنا کچھ نہیں ہوتا اس لئے ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ اس طرح خداتعالیٰ اُن کو کوئی رفعت دینا چاہتا ہے۔ اُن کے لئے تو خداتعالیٰ کا پیار کافی ہے۔ اس لئے ان کو تو کسی اور رفعت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اُنکی اطاعت کا حکم دراصل اس لئے دیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ خداتعالیٰ تمہیں رفعت بخشنا چاہتا ہے۔ اگر تم ان کی اطاعت نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ابلیس بن جائو گے اگر تم ابلیس نہیں بننا چاہتے تو پھر تمہیں خلفاء کی اطاعت کرنی پڑے گی۔ تمہیں ان کی کامل طور پر اور بشاشت کے ساتھ اطاعت کرنی پڑے گی۔
پس خلافت کے زمانہ میں یہ گدی والی ولایت ہو ہی نہیں سکتی۔ جب خلافت کا زمانہ نہ ہو تو اس وقت گدی والی خلافت سے ملتی جلتی خلافت ہوتی ہے۔ وہ بھی حقیقتاً گدی والی خلافت نہیں ہوتی لیکن ایک تھوڑے سے دائرہ کے اندر ایک نائب رسول اپنی محدود صلاحیتوں کے ساتھ امت مسلمہ کے ایک حصے کے شیرازہ کو مضبوط اور ان کے اتحاد کو قائم رکھتا ہے۔ لیکن ہر خلافت کے زمانہ میں جہاں ہزاروں لاکھوں اولیاء ہو سکتے ہیں اورہوتے ہیں وہاں ایک بھی خدا کا پیارا اور محبوب گدی والا ولی نہیںہے اور وہ خداتعالیٰ کا پیارا کیا ہوا جس نے اپنی دعائوں اور خوابوں کو اپنی روزی کا ذریعہ بنا لیا ہو۔ کیا ایسا شخص خداتعالیٰ کو رزّاق نہیں سمجھتا کہ کسی دوسرے کی طرف ہاتھ اُٹھانے کی ضرورت پڑ گئی؟
گدی والی ولایت کی دوسری خصوصیت جو پہلی سے بھی زیادہ مکروہ ہے اور بات کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم تو خداتعالیٰ کی نظر میں بڑے محبوب ہیں۔ اگر کسی نے ہمارے خلاف بات کی تو آسمان سے قہر الٰہی نازل ہوگا اور اسے بھسم کر کے رکھ دے گا۔ میرے پاس ایسے احمقوں کی تحریریں موجود ہیں جن میں انہوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بندۂ خدا! تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑے ہونے کی کیسے اور کس طرح جرأت کر رہے ہو۔ یہ تو خداتعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی وعدہ نہیں تھا کہ آپ کے مخالفوں کے تمام منصوبے ناکام کر دیئے جائیں گے مگر جہاں تک واقعات کا تعلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن ناکام ہوئے۔ اسلام پہلے دور میں بھی آگے بڑھا۔ درمیانی دور میں بھی یہ انسانیت کے لئے فلاح کے سامان اور برکتوں کے سامان اور رحمتوں کے سامان کا موجب بنا رہا اور اب اس دَور میں پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اسکے حکم سے غلبۂ اسلام کی ایک عالمگیر مہم جاری ہوئی ہے اور وہ آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ غرض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی خداتعالیٰ نے نہ یہ وعدہ دیا اورنہ ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ جس نے بھی آپ کے خلاف کوئی بات کی فوراً فرشتوں نے آکر اس کی گردن پکڑ لی۔
اب دیکھو آج عیسائیت ہزاروں کی تعداد میں ایسی کتابیںبھی شائع کر رہی ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اس قسم کی گالیاں دی گئی ہیں کہ ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب ہمیں اُن کا علم ہوتاہے تو ہمارے دل خون ہو جاتے ہیں۔ بایں ہمہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ جب بھی کوئی شخص حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس قسم کی کوئی گالی دے گا تو اس پر فوراً قہر الٰہی نازل ہوگا اور وہ جلد ہی ہلاک کر دیا جائے گا۔ تم کہتے ہو کہ فلاں نے میرے متعلق یہ بات کی ہے اس لئے اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو دو چار کا پہلے ہوا ہے مگر اے گدی والے ولیو! تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑے نہیں ہو اور نہ تمہاری اس بات میں کوئی صداقت ہے۔ ہر مخلص مومن احمدی تمہاری اس حرکت کو نفرت اور کراہت سے دیکھتا ہے۔ مومنین کی یہ جماعت قہر الٰہی کے نتیجہ میں خدا نہ کرے کم نہیں بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ مگر جو دو ایک ایسے آدمی ہیں جو قضائے الٰہی سے فوت ہو جاتے ہیں یا ان کے بچوں کی وفات ہو جاتی ہے تو تم کہہ دیتے ہو یہ ہماری وجہ سے ہوئی ہے۔ جو چیز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے نہیں ہو سکی تمہاری وجہ سے بھی نہیں ہو سکتی۔
پس اس قسم کے جو اولیاء بنے بیٹھے ہیں ان کو اپنے دل سے اس قسم کے شیطانی وساوس نکال دینے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جسے ہم ’’رَبَّنَا‘‘ کہتے ہیں۔ اس رب نے اگرکسی انسان کے ساتھ انتہائی پیارکیا تھا تو وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ آپ کے دشمنوں کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے گئے۔ جو آدمی آپ کے خلاف تلوار لے کر نکلا تھا اور سوچا تھا کہ میں تلوار کے ساتھ مسلمان کی گردن کاٹوں گا، تلوار ہی سے اس کی گردن کاٹ دی گئی اور جو تلوار لے کر نہیں نکلا تھا بلکہ جس طرح آجکل کے زمانہ میں ہو رہا ہے جھوٹے، غلط اور دھوکا دینے والے دلائل پر مشتمل لٹریچر کی اشاعت سے اسلام کے خلاف بدظنیاں پھیلائی گئیں اور جھوٹ بولے گئے اور افتراء پردازی کی گئی۔ غرض اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے بالکل بودے اور فرسودہ دلائل دیئے گئے مگر ان دلائل کے مقابلے میں اور ان گالیوں کے خلاف آسمان سے بجلی نہیں گری۔ اس کے مقابلے کے لئے آسمان سے خدا کامسیح نازل ہوا۔ جس نے دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلام کو سچا ثابت کیا۔
پس جو چیز نامعقول بھی ہے اور جو چیز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خواہش کے خلاف بھی ہے اسے کس طرح روا سمجھاجاسکتا ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دشمنوں کی بہت ایذا پہنچی تو خدا نے فرمایا اے محمد! اگر تم کہو تو ہم ان کو تباہ کر دیتے ہیں آپ نے عرض کیا۔ اے میرے رب! یہ لوگ ابھی میرے مقام کو پہنچانتے نہیں۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ انہی کی نسل سے میرے فدائی نکلیں گے۔ پس نہ صرف یہ کہ اس موقع پر آپ نے اُن کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ جب خداتعالیٰ کا اذن ملا بددعا کا تب بھی آپ نے اُن کے لئے خدا کا رحم مانگا۔ اُن کے لئے قہر الٰہی نہیں مانگا۔
غرض خداتعالیٰ نے تو اس قسم کا کسی کے ساتھ وعدہ نہیں کیا ہوا کہ جونہی وہ کسی کے لئے بددعا کرے وہ ہلاک ہو جائے۔ پھر یہ بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے۔ مگر اس قسم کے گدی والے ولی بڑی دلیری کے ساتھ اپنی ولایت کے حق میں وہ دلیل دیتے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت کے خلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا میں مقبول ہو جائیں گے۔
پس قبل اس کے کہ خداتعالیٰ جس طرح اپنی جماعتوں کے خلاف منصوبوں کو تباہ کرتا ہے اسی طرح خداتعالیٰ کا زبردست قوی اور طاقتور ہاتھ تمہارے اس فتنہ کو تباہ کر دے اور تمہارے لئے تکلیف کا باعث بن جائے تم استغفار کرو اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہی تمہارا بھی رازق ہے۔ تم مانگنا چھوڑ دو۔ وہ خدا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیار کرنے والا ہے۔ تم اُس کے پیار کے جلوے دیکھو کہ وہ کس رنگ میں انسان پر ظاہر ہوتے ہیں۔ تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کرو۔ تم دیکھو گے کہ اس عظیم انسان نے کسی کے لئے کبھی بددعا نہیں مانگی کیونکہ ـآپ ہر ایک کے لئے رحمت تھے۔ آپ کے متعلق خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آپ (الانبیاء:۱۰۸) ہیں۔ آپ پہلوں کے لئے بھی رحمت تھے اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی رحمت ہیں۔ آپ کی رحمت مکان اور زمان کے حدود کو پھلانگتی ہوئی ہر انسان تک پہنچی۔ آپ کے وجود سے ہر انسان نے خیرو برکت ہی پائی اور اگر کسی نے نہیں پائی تو اس نے اپنی حماقت کے نتیجہ میں نہیں پائی کیونکہ وہ تو خیر محض تھا۔ وہ تو خیر لے کر ہر ایک انسان کے پاس پہنچا تھا۔ اُس نے تو رحمت کے سامان لے کر ہر انسان کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس خداتعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کے سامان لے کر آیا ہوں۔ کچھ لوگوں نے اُن رحمتوں اور برکتوں سے اپنے گھروں کو بھر لیا اور وہ خداتعالیٰ کے پیارے بن گئے۔ کچھ لوگوں نے اس رحمت اور برکت کو دھتکار دیا اور وہ خداتعالیٰ کے غضب کا مورد بن گئے۔ مگر آپ نے کسی کے لئے بددعا نہیں مانگی اور نہ خداتعالیٰ نے آپ کو یہ وعدہ دیا تھا کہ جو بھی تیرے خلاف بدزبانی کرے گا یا غلط بات کہے گا اسے ہم فوری طور پر قہری تجلّی سے ہلاک کر دیں گے۔ یہ تو خداتعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہے۔ خداتعالیٰ کے فعل کے خلاف ہے۔ خداتعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے اور یہ بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منشاء کے بھی خلاف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود میں بھی خداتعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہیں۔ اس لئے جو بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہیں کی اس کے متعلق میں علیٰ وجہ البصیرت یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی خداتعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے۔ اس لئے اے گدی والے ولیو! تم یہ ساری لڑائی عملاً خدا اور اس کی صفات اور خدا کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لڑ رہے ہو۔ اب اس بے ہودگی کی بناء پر تمہاری ولایت کی گدی کی کیا قدروقیمت باقی رہ جاتی ہے۔
میں نے بتایا ہے ہم لاکھوں میں ہیں اور شاید جلد ہی کروڑوں تک پہنچ جائیں گے۔ ان لاکھوں میں سوائے چند ایک گنتی کے منافقین کے ہر ایک مخلص احمدی اس قسم کی ولایت کی گدیوں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں اور برکتوں سے خداکے قہر کا مورد نہیں بلکہ اس کے پیار کا مورد ہے۔تم سے جو ایک دو نفرت کرنے والے قضائے الٰہی سے فوت ہو جاتے ہیں وہ تمہاری بزرگی کے ثبوت کی دلیل کیسے بن گئے۔ حالانکہ لاکھوں، لاکھوں، لاکھوں اس ’’بزرگی‘‘ کی تردید کے لئے زندہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں روحانی لذت اور سرور کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پس اگر کوئی ایسا ولی ہے اور بعض کے متعلق پتہ لگا ہے کہ وہ ایسے ہیں تو ان کو توبہ کرنی چاہئے اور استغفار کرنا چاہئے ورنہ ان کا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ پیار کا دعویٰ ایک لغو دعویٰ بن جاتا ہے کیونکہ جب عمل اس کا ثبوت نہ دے تو دعویٰ لغو ہوتا ہے لیکن اگر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیار کا دعویٰ ہے تو پھر آپ کی سنت کو اپنانا پڑے گا۔ اگر خداتعالیٰ سے عشق ہے توپھر خداتعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کے جو جلوے دکھائے ہیں وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی پڑیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے ایسا بنایا ہے کہ اگر کوئی مخالف ایک سال میرے پاس رہے اور روزانہ صبح سے شام تک مجھے گالیاں دیتا رہے تب بھی میرے چہرے پرملال نہیں آئے گا۔ مگر تم اس کے بیٹے بن کر (روحانی طور پر ساری جماعت آپ کے بیٹے ہیں) اس کے خلاف، اس کی سنت کے خلاف، اس کے اس جذبہ کے خلاف اور اس کی اس صداقت کے خلاف اپنی ولایت کی گدی بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ (از رجسٹر خطباتِ ناصر۔غیر مطبوعہ)

غلبۂ اسلام کی جو اہم تحریک جاری ہے اِس میں
پوری ہمت اور اخلاص سے حصہ لیتے چلے جائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات پڑھیں:-


(محمد:۸)


(محمد:۳۲)

(محمد:۳۴)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والے مومن بندوں سے ایک پختہ عہد لیا تھا اور جو ہمیشہ لیا جاتا رہا ہے اور آپ پر ایمان لانے والے قیامت تک جس عہد کے پابند ہیں، وہ یہ ہے کہ لوگ حقیقی طور پر ایمان لائے ہیں، خداتعالیٰ کی راہ میں اُنہیں جو مجاہدہ اور جدوجہد کرنی پڑے گی وہ اس سے منہ نہیں پھیریں گے، وہ اس سے پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عہد یاد دلایا ہے۔ قرآن عظیم جو قیامت تک کے لئے ایک کامل شریعت ہے، وہ ہر صبح وشام ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ تم نے اِس عہد کو بھولنا نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا عہد ہے جو خداتعالیٰ سے باندھا گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ جس سے واقعی جواب طلبی کی گئی تم سمجھو کہ وہ ہلاک ہو گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی پر رحم کرنے پر آتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے وہ انہیں یہ جتاتا بھی نہیں ہے کہ اُن کے کیا گناہ تھے۔ وہ اپنی رحمت میں انہیں لپیٹ لیتا ہے اور نور کی چادر اُن کے گرد باندھ دیتا ہے۔ اُس اگلی دُنیا میں بھی کسی دوسرے کو بھی بلکہ خود اپنے آپ کو پتہ نہیں لگے گا۔ خداتعالیٰ کے نور اور اس کی رحمت کی چادر انسان اور اس کی بد اعمالیوں کے درمیان کچھ اس طرح آجائے گی کہ خود انسان اپنے گناہوں، غلطیوں، کوتاہیوں، بے ادبیوں اور نافرمانیوں کو بھول جائے گا۔ کیونکہ اگر وہ نہ بھولے تو پھر جنت کا وہ تصور باقی نہیں رہتا جسے خداتعالیٰ نے قران کریم میں بیان فرمایا ہے۔ لیکن مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ یعنی جس کا واقعی حساب لیا گیا وہ ضرور ہلاک ہو گیا۔مگر یہ عہد ایسا ہے جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ(اور چیزوں کے متعلق بھی فرمایا ہے کہ) تمہارا حساب لیا جائے گا۔ غرض یہ عہد ایک ایسا عہد ہے کہ یہ ’’مسئولا‘‘ ہے یعنی تم سے اس کی جواب طلبی کی جائے گی۔ تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ تم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا اور تم سے اس بارے میںسوال کیا جائے گا کہ تم نے یہ عہد کیا تھا اسے تم نے کیوں نہیں نباہا۔
پس یہ ایک بڑا پختہ عہد ہے جو بندوں سے لیا گیا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی ہلکا کام ہے جسے ہم نظر انداز کر دیں۔ انسان سوچتا ہے اتنی بڑی ذمہ داری میں نے نبا ہنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی مہربانی کے بغیر میں اس عہد سے کیسے عہدہ برآ ہوں گا۔ چنانچہ اس کے متعلق بھی قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر تم ثبات قدم چاہتے ہو تو اِس کا ایک طریق یہ ہے کہ:-

یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا۔ میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ہمارا اپنے رب سے عہد ہے کہ ہم خدا کی راہ میں ثبات قدم دکھائیں گے اور مختلف رنگ کے مختلف جہاد میں سے کسی میں بھی ہم منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔
اگرچہ اِن آیات میں خاص طور پر جنگ کا ذکر ہے جو ظاہری سامانوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے لیکن اس میں جو اصولی بات بیان ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیٹھ نہیں دکھانی۔ اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں پھیرنا بلکہ ہر حال میں ان کو نباہتے چلے جانا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ذہنیت ایسی ہونی چاہئے کہ تم ہر حالت میں اور ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے۔ اگر تمہارا یہ پختہ عزم ہو گا کہ تم خداتعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے اور کسی صورت میں بھی اس عہد کے خلاف کام نہیں کرو گے تو آسمان کے فرشتے نازل ہوں گے جو تمہارے قدموں میں ثبات پیدا کر دیں گے اور پھر تم خداتعالیٰ کی مہربانی سے اپنے عہد پر پورا اُترو گے۔
پس میں اس نصرت الٰہی کا وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فرشتے ثبات قدم پیدا کریں گے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ اور کے ظاہر ی طور پر صرف یہی معنے ہیں کہ مثلاً لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار لے کر آگئے یا جہاد کے لئے پیسے دے دئیے بلکہ اللہ کے دین کی نصرت سے مراد وہ فدائیت ہے جو انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے جو اس کی ذہنیت بن جاتی ہے جو انسان کی روح بن جاتی ہے۔ انسان کی ایمانی روح ہی یہ ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہنا ہے اور پھر دین کی یہ نصرت ہزار قسم کی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہزار قسم کے مطالبات ہیں جو ہزار قسم کے مختلف حالات میں کئے جاتے ہیں۔ مثلاً مالی قربانیاں ہیں جان کی قربانیاں ہیں یعنی وقف زندگی کی شکل میں زندگی کی قربانی ہے۔ پھر اشاعت قرآن کے لئے جدوجہد ہے جو آج کل بڑے زور سے شروع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیابی عطا فرمائے اور یہ دراصل جہاد اکبر ہے۔ کسی آدمی نے پتہ نہیں یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار ہو، تب صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اور یہی حقیقی الہٰی آواز ہے جو ہمارے کانوں میں پڑی ہے اور جس کا ہم دُنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور ہمارے دوسرے ہاتھ میں بھی قرآن ہے۔ قرآن کریم نے ہمارے دونوں ہاتھوں کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ البتہ قرآن کریم جب یہ کہتا ہے تلوار پکڑ لو تو ہم تلوار پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم ہی جب یہ کہتا ہے کہ مدافعانہ تلوار کا زمانہ گزر گیا اب ہم نے تلوار کا کام قلم سے دکھانا ہے اب ہم نے تلوار کا کام نیکی کی باتوں کو بیان کر کے اپنی زبان سے دکھانا ہے۔ اب ہم نے میدان تبلیغ میں کود کر ان لوگوں سے مشابہت حاصل کرنی ہے جو میدان جنگ میں کود جاتے تھے۔ اب ہم نے میدان تبلیغ اور اشاعت اسلام کے میدان میں ڈٹ جاناہے اور اس میں ثبات قدم کے ساتھ کوشاں رہنا ہے۔ ہم نے اس میدان سے منہ نہیں پھیرنا۔ کمزوری نہیں دکھانی۔ دُنیا کی لالچ میں نہیں پڑنا کیونکہ ہم نے خداتعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم تیرے دین کی مدد کریں گے۔
پس یہ وہ ذہنیت ہے جس کی طرف میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی اگر تم خداتعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے اس طرح تیار ہو جاؤ گے کہ ہر دوسری چیز کو بھول جاؤ گے توتمہاری یہی ایمانی روح خداتعالیٰ کے دین کی مدد کا ذریعہ بن جائے گی۔
ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے ہیں اور ہم نے آپ ہی کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا مشاہدہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی خداتعالیٰ کے عشق میں مخمور ہو جاتا ہے اس کو تو اس بات کی ہوش بھی نہیں ہوتی کہ میری کوئی تعریف کر رہا ہے یا نہیں میرے اوپر کوئی لعن طعن کر رہا ہے یا نہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مست ہوتا ہے۔
دل ریش رفتہ بکوئے دگر زتحسین و لعنِ جہاں بے خبر
پس یہ خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہونے کی جو حقیقت ہے اسی کی طرف میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اسی فدایانہ ذہنیت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو گے اور کچھ ادھر اور کچھ اُدھر نہیں جاؤ گے(انہی آیات میں آگے یہ کہا گیا ہے، ان کی میں نے اس وقت تلاوت نہیں کی ان کا مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ تم یہ نہیں کہو گے کہ ہم کچھ باتوں کی اطاعت کریںگے اور کچھ میں اپنی مرضی چلائیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ باتوں میں اپنی مرضی چلاؤ گے اور کچھ میں میری اطاعت کرو گے تو میری ساری *** تم پر پڑے گی۔ فرماتا ہے میں یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ میری رحمت میں سے حصہ لے لو اور کچھ میرے قہر اور غضب سے حصہ لے لو۔
پس اس ذہنیت کا پیدا ہونا جس کی طرف میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بڑا ضروری ہے خصوصاً ایک احمدی کے لئے بڑا ضروری ہے اور احمدیوں میں سے اس گروہ کے لئے بڑا ضروری ہے۔ جنہوں نے خداتعالیٰ سے ایک نیا عہد باندھا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں تیرے دین کے لئے تیری راہ میں وقف کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے میں جس ذہنیت کی طرف اشارہ ہے اس کی مزید تشریح اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کامل اطاعت کرنی ہے اور بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے اور نیکی کی باتیں کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کو دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ قولِ معروف میں نیک باتوں کے پھیلانے کے معنے بھی آتے ہیں۔ اشاعت قرآن کریم کے معنے بھی آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے متعلق اور بنی نوع انسان کے متعلق نیک باتیں کرنے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں۔
پس قول معروف کے صرف نیکی کی باتوں کو پھیلانے کے معنے نہیں جس طرح کہ تم عام طور پر کہتے رہتے ہو کہ نماز پڑھنی چاہئے۔ وضو کے ساتھ پڑھنی چاہئے شرائط کے ساتھ پڑھنی چاہئے، وقت پر پڑھنی چاہئے، مسجد میں جا کر پڑھنی چاہئے، باجماعت پڑھنی چاہئے، خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنی چاہئے وغیرہ سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے یہ بھی قول معروف ہے یہ بھی نیکی کی باتیں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کو کہتے رہنا چاہئے ’’ذَکِّرْ‘‘ میں بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور امام کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو احکام یاد دلاتا رہے۔ چنانچہ میرا آج کا خطبہ بھی اسی ’’ذَکِّرْ‘‘ کے نتیجہ میں، اسی کی روشنی میں اور اسی حکم کے ماتحت ہے اس لئے کسی کے متعلق بدظنی کی بات نہ کی جائے۔ حُسن ظن کی جو بات کی جاتی ہے عزت واحترام کی جو بات کی جاتی ہے۔ جو حقارت کی بات نہیں ہوتی جو پیارے پیارے نام رکھ کر بات کی جاتی ہے اور برے نام نہیں رکھے جاتے۔ حقارت، ہنسی اور تمسخر نہیںکیا جاتا، غرض یہ ساری باتیں ’’قول معروف‘‘ کے اندر آجاتی ہیں یعنی نیکی کے احکام یاد دلانا اور دوسروں کے متعلق اپنی نیک رائے کا اظہار کرنا۔ بد ظنی نہیں کرنی، آپس میں بھی نہیں کرنی مگر جس کو خداتعالیٰ نے امام بنا دیا ہے اس کے متعلق تو بالکل ہی نہیں کرنی کیونکہ اس میں اور بہت ساری ذمہ داریاں آجاتی ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک استاد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شاگرد کے متعلق اس قسم کی بات کرے اور اسی طرح شاگرد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے استاد کے متعلق اس قسم کی بات کرے جو قول معروف کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر تم امیر ہو تو تمہیں خداتعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ اپنے باورچی یا اپنے گھر میں صفائی کرنے والے کے متعلق قول معروف کے علاوہ کوئی اور بات کرو، تم ان کے متعلق بھی نیک بات کرو۔ ان سے بھی پیار کی بات کرو ان سے بھی عزت واحترام سے پیش آؤ ورنہ قول معروف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
پس کی رو سے تم نے اپنے اندر وہ ذہنیت پیدا کرنی ہے اور تم نے کے لحاظ سے ایک تو کامل اطاعت کا نمونہ دکھانا ہے۔ دوسرے اپنے معاشرہ میں کامل حُسن کا نمونہ دکھانا ہے کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قرآن کریم کے عظیم نور کی طرح خود بھی ایک عظیم نور تھے۔ آپ ایک ایسا نور تھے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ایسا حُسن کہ ’’دو خوبصورتیوں‘‘ میں کوئی دو ری نہیں ہے۔ کوئی غیریت نہیں ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو حُسن اس کے قول کے ذریعہ ظاہر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو حُسن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ ظاہر ہوا۔ اس میں یعنی ان دو خوبصورتیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پس اس سے یہ ظاہر ہوا کہ تم نے دوسروں کے متعلق نیکی کی باتیں بھی کرنی ہیں اور نیک باتیں بھی کرنی ہیں تم نے دوسروں کے متعلق بری باتیں نہیں کرنی۔ تم نے اطاعت کا کامل نمونہ دکھانا ہے۔ تب تم کی بنا پر اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہو جو کا مصداق ہے۔ کیونکہ تم نے خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے ایک ایسا عزم کر لیا۔ ایک ایسا عہد کر لیا۔ ایک ایسی نیت کر لی اور ایک ایسا ارادہ کر لیا جو تمہاری ساری زندگی کے ارادوں پرمحیط ہو گیا ہے۔ تمہارا کوئی ارادہ اس سے باہر نہیں رہا۔ تم نے یہ پختہ عزم کر لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر نہیں جائیں گے ہم خداتعالیٰ کی راہ میں آگے بڑھیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جو تکالیف سامنے آئیں گی ہم ان سے بچنے کی کوشش نہیں کریں گے جو روکیں پیدا ہوں گی ہم ان کو پھلانگیں گے یا ان کو پرے ہٹا دیں گے۔ اس لئے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ جی روک پیدا ہو گئی ہے یا ان کو پرے ہٹا دیں گے۔ اس لئے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ جی روک پیدا ہو گئی ہے۔ راہ میں کانٹے بچھ گئے ہیں پاؤں زخمی ہوتے ہیں دل دُکھتے ہیں سینہ چھلنی ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ چھلنی ہونے دو کیونکہ تم نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے تم خدا کی راہ میں قربانیوں سے منہ نہیں پھیرو گے اور پیٹھ نہیں دکھاؤ گے۔
میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور میں یہ بات بڑی سنجیدگی سے کہتا رہا ہوں اور اسے اب بھی دُہرا دیتا ہوں کہ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ نہیں کیا کہ(جب تم خدا کے دین سے پیٹھ پھیرو گے تو وہ) تمہاری پیٹھوں کی حفاظت کرے گا۔اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہارے سینوں کی حفاظت کرے گا۔ چنانچہ مسلمانوں کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب یہ دشمن اسلام کے سامنے دعویٰ اسلام کرنے والے کی پیٹھ آئی اسے چھید دیا گیا اور جب بھی دشمن اسلام کے سامنے ایک مسلمان مومن کا سینہ آیا اور اس کا چہرہ سامنے آیا اور اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو دشمن ناکام اور ذلیل ہوا۔ وہ اس دُنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوا اور جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں اس کی ذلت ہے وہ تو اس دُنیا کی ذلت سے بھی زیادہ ہے۔
ویسے خداتعالیٰ کا وعدہ نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی بھی چارپائی پر نہیںمرے گا۔ یا میری راہ میں شہادت نہیں حاصل کرے گا۔ کیونکہ زندگی اور موت تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق ہے خداتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس نیک مقصد کی خاطر میری راہ میں ثبات قدم دکھاؤ گے اور پیٹھ نہیں پھیرو گے اس مقصد میں کبھی ناکام نہیں ہو گے۔
باقی بچے بھی مر جاتے ہیں ملیریا بخار سے بھی ٹائیفائیڈ سے بھی اور سِل سے بھی بعض دفعہ ٹھوکر لگتی ہے بچے گرتے ہیں سر پر کسی ایسی جگہ پر چوٹ لگتی ہے جو جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ پس یہ مرنا تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے لیکن جو شخص پیٹھ دکھاتا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ پیٹھ اس لئے دکھاتا ہے کہ اسے ابدی زندگی مل جائے مگر بعض دفعہ وہ پیٹھ دکھا کر اپنے گھر تک نہیں پہنچا ہوتا کہ راستے میں اس کی جان نکل جاتی ہے اگر ایسا کمزور ایمان اور منافق دس گھنٹے اور ایمان پر پختہ رہتا تو وہ جنت میںجاتا لیکن اُس نے آخری دس گھنٹوں میں اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اپنے اندر یہ ذہنیت پیدا کر لو کہ تم ہر قیمت پر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے تو میں آسمان سے تمہاری مدد کے لئے فرشتے بھیجوں گا اور وہ تمہارے قدموں کو مضبوط کر دیں گے اور تمہیں اس قابل اور اہل بنا دیں گے کہ تم اپنے وعدہ پر پورے اُترسکو۔ تم نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ تم پیٹھ نہیں دکھاؤ گے مگر تم بشری کمزوریوں کے ساتھ ہماری مدد کے بغیر اور فرشتوں کے سہارے کے بغیر اپنا یہ عہد پورا نہیں کر سکتے لیکن ہماری مدد یعنی فرشتوں کو جو سہارا ہے وہ تمہیں اس صورت میں مل سکتا ہے کہ کی رو سے تم یہ عہد کر لو کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کریں گے یعنی غلبۂ اسلام کے لئے جو جدوجہد ہو رہی ہے اور اشاعتِ اسلام کے لئے جو بڑی اہم تحریک شروع ہوئی ہے۔ ہم اس میں حصہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کریں گے خواہ کچھ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ ہمارے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آئے گا کہ خدا کے دین سے منہ پھیر لیں۔ تب آسمان سے فرشتے آئیں گے اور تمہارے پاؤں کو صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم کر دیں گے۔
جیسا کہ میںنے ابھی بتایا ہے کی کیفیت میں مانی ہوئی ہے۔ چنانچہ سورۂ محمد میں آگے چل کر طَاعَۃ کے یہ معنے بیان ہوئے ہیں کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ بعض باتوں میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور بعض باتوں میں اطاعت نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا ۔ تمہیں کامل اطاعت کرنی پڑے گی۔ اس وقت بھی اطاعت کرنی پڑے گی جب امام نے ابھی عزم نہیں کیا کیونکہ مومن اس وقت بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم اطاعت کریں پھر ان کے مشورہ اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ شخص جو مومن ہے اور پختہ ایمان والا ہے اور جو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ جو کامل اطاعت کا نمونہ دکھا رہا ہوتا ہے۔ جو نیکی کی باتیں کرتا اور خود اپنے معاشرہ میں نیک باتیں کرتا ہے۔ وہ اس فیصلہ پر بے اختیار یہ کہہ اُٹھتا ہے۔ اے خدا! میری روح کی بھی یہی آواز ہے۔ جو تیرا حکم آیا ہے میں تیرا ممنون ہوں کہ تو نے میرے لئے پہلے ہی ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
لیکن ایک گروہ وہ کمزور ایمان والوں کا بھی ہوتا ہے چنانچہ کی رو سے جس وقت عزم کیا جاتا ہے تو ایسے لوگ اطاعت نہیں کرتے یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں (آل عمران:۱۶۰) فرمایا ہے یعنی کسی کام کے عزم کا ایک آدمی ذمہ وار ہے اور دینی لحاظ سے ہر کام کے اصل ذمہ وار تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے ہیں آپ زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ اس لئے کی رو سے دراصل عزم انہی کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میرے جیسے کمزور بندوں کو آپ کی نیابت میں کھڑا کر دیتا ہے۔ چنانچہ مجھ سے پہلے لاکھوں کروڑوں لوگ مختلف شکلوں میں آئے کئی اولیاء کی شکل میں آئے کئی محدّثین کی شکل میں آئے اور کئی خلفاء کی شکل میں آئے۔ دراصل تو خلافت ہی ہے لیکن خلافت کی آگے کئی شکلیں بن جاتی ہیں۔ غرض جو سلسلہ خلافت اس وقت قائم ہے اور پہلے بھی تھا کئی بزرگ اس شکل میں بھی آئے۔ لیکن خلافت ہی کی جو دوسری شکلیں ہیں اُن میں بھی آئے جیسے محدثیت ہے یہ بھی خلافت ہی کی ایک شکل ہے یا ان میں سے اولیاء اللہ اورمقربین الٰہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جن کو یہ کہتا ہے کہ اس محدود دائرہ میں اس تھوڑے سے وقت میں تم میرے بندوں کی اصلاح کرو اور میرے دین کی مدد کرو تو اگر اُن کا اپنا کوئی وجود ہو یا اگر اُن میں سے کوئی یہ سمجھے کہ میرا کوئی مستقل وجود ہے تو وہ احمق اور ہلاک شدہ ہے۔ روحانی لحاظ سے زندہ اور قائم اور زندگی دینے والے اور قائم رکھنے والے خداتعالیٰ کے حکم (اصل تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اس کے حکم) اور اس کے منشاء اور اس کے فیصلہ کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے اپنی حیّ و قیّوم صفات کا آپ کو متصف بنا دیا ہے۔تب ہی تو یہ فرمایا ہے کہ اے محمد! تو دُنیا کا نور ہے۔ تب ہی تو فرمایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آواز کی طرف آؤ وہ تمہیں زندہ کرتا ہے۔ اگر آپ حق کی صفت کے مظہر اتم نہ ہوتے تو لوگوں سے یہ نہ کہا جاتا کہ اس آواز پر لبیک کہو کہ یہ تمہیں زندہ کر دے گی۔
پس عزم تو وہی ہے لیکن طفیلی طور پر نیابت میں دوسرے عزم بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کی رو سے جس وقت امام وقت کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایک دوسرا گروہ بہک جاتا ہے یا جس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلے کیا کرتے تھے تو منافق اور کمزور ایمان والے بہک جاتے تھے۔ حالانکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اس عہد کو جو انہوں نے کیا تھا اگر سچ کردکھاتے اور اس موقع پر جو عزم کیا گیا ہے وہ اگرچہ ان کے خیالات اور ان کی خواہشات اور ان کی مرضی اور ان کی سہولتوں کے خلاف تھا تو پھر بھی وہ کہتے کہ طَاعَۃ کا ہمارا عہد ہے۔ یعنی ہمارا یہ عہد ہے کہ کسی صورت میں ہم اپنے منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے فرمایا اگر وہ اپنے اس عہد کو پورا کر کے اپنے عہد میں سچے ثابت ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے بھلائی ہی بھلائی کے سامان پیدا ہو جاتے لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر اُن کے لئے شر کے سامان پیدا ہوں گے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں اس طرح چھوڑنا تو نہیں تم یہ سمجھتے ہو کہ جس طرح دُنیا بھول کر تمہیں ثابت قدم سمجھتی ہے کامل اطاعت گزار سمجھتی ہے۔ قول معروف پر کار بند سمجھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار سمجھتی ہے۔ اُسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دے لو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تو تمہیں سمجھتے ہیں ہم دُنیا کو بھی بتا دیں گے کہ تم اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہاری ضرور آزمائش کریں گے اور اس سلسلہ میں یہ ابتلاء اور یہ امتحان اللہ تعالیٰ اپنے علم میں زیادتی کے لئے تو نہیں پیدا کیا کرتا یا لایا کرتا۔ یہ دوسروں کو دکھانے کے لئے لاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ رہ ہی نہیں سکتی۔ کسی لحظہ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ یہ ابتلاء اور امتحان کیا خداتعالیٰ خود جاننے کے لئے کرتا ہے(نعوذ باللہ) کہ کیسی ہے اطاعت کیسا ہے اخلاص؟ کیسا ہے ایثار اور کیسی ہے فدائیت! خداتعالیٰ کو تو ان کا پہلے سے علم ہے خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا سمجھ کر تم نے اپنے نفسوں کو دھوکا دیا کہ اگر ہم انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں تو خداتعالیٰ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے مجھے تو تم دھوکہ دے ہی نہیں سکتے۔ لیکن میں اپنے بندوں کو بھی تمہارے دھوکے میں پھنسنے نہیں دوں گا۔ تمہارے لئے ابتلاء پیدا کروں گا۔ تمہارے لئے امتحان لاؤں گا پھر دُنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ مجاہد اور صابر کون ہے اور وہ جو پارسائی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا اس کے اندر کتنا گند بھرا ہوا ہے ایسے شخص کا ظاہر تو تھا لیکن باطن نہیں تھا۔ اس کا چھلکا تو تھا لیکن مغز نہیں تھا اس کا جسم تو تھا مگر روح نہیں تھی۔ غرض ایسا شخص انسان کو بھی دھوکہ نہیں دے سکے گا کیونکہ خداتعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ ننگا ہو کر بے مغز ہونے کی صورت میں اور ایک ایسے جسم کی شکل میں جس کے اندر روح نہیں ہے۔ دُنیا میں وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے سامنے آجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ تمہیں چاہئے تھا کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاتے اور اس بات کے لئے کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاؤ تمہارے لئے ابتلاء اور امتحان کے سامان پیدا کر دئیے گئے ہیں پھر فرمایا ۔ ہم تمہارے اندرونے کی بھی آزمائش لیں گے یعنی ظاہر بین نگاہ صرف ظاہر کی کمزوریاں نہیں دیکھے گی بلکہ ایک ظاہر بین اور صاحبِ بصیرت و بصارت تمہارے اندر کی یعنی اندرونے کی کمزوریاں بھی دیکھے گا کیونکہ تمہیں ننگا کر کے دُنیا کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور تمہاری ساری شیخیاں کرکری ہو کر رہ جائیںگی۔ اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے چلے جاؤ۔ اس وقت تک کہ تم اس دُنیا میں آخری سانس لو اور میں اس تسلسل کا مفہوم سے نکالتا ہوں چنانچہ میں فرمایا کہ تم اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ کیونکہ نیکی کو سوائے بدی کے اور کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی۔ بہرحال نیکی بدی کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ہر نیکی بدی کا کفارہ بن جاتی ہے۔ ہر نیکی خداتعالیٰ کی آنکھ میں قہر کو بدل کر پیار کے جذبات پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن اگر عمر کے آخری حصے میں نیکی کی بجائے بدی اباء اور استکبار ہو تو گویا سب نیکیاں رائیگاں چلی گئیں سب ضائع ہو گئیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! آخری وقت تک آخری سانس تک خداتعالیٰ اور اس کے رسول اور رسول کے نائبین کی اطاعت کرتے چلے جانا تاکہ ایسا نہ ہو کہ کی رو سے تمہارا انجام بخیر نہ ہو اور تمہارے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے اور تمہارے اعمال باطل اور ضائع ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں شیطان کے اس شر سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں فرشتوں کے پہرے میں رکھ کر ہمارا انجام بخیر کرے اور دُنیا کی کوئی طاقت اور دُنیا کی کوئی قوت اور دُنیا کے سارے اموال مل کر بھی ہمیں جھوٹا ثابت کرنے والے نہ ہوں۔
( میں جن کی طرف اشارہ ہے) کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے مطابق ہم سچے ثابت نہ ہوں بلکہ عِنْدَ اللّٰہ سچے ثابت نہ ہونے والے گروہ میں شامل ہو جائیں بلکہ ہم اس گروہ میں شامل ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے (الاحزاب:۲۴)کیونکہ انہوںنے اپنے کام حُسن سے، پیار سے، ایثار سے، فدائیت کے ساتھ اور عشق الٰہی میں مست ہو کر پورے کر دئیے اور اب وہ اپنے نیک انجام کو پہنچ گئے ۔
خداکرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے نیک انجام کو پہنچے اور ہمیشہ ہر حالت میں ثابت قدم رہے اور دُنیا کی ساری طاقتیں مل کر اور دُنیا کے سارے اموال جمع ہو کر اور دُنیا کے سارے جتھے متحدہو کر بھی ہمارے پائے ثبات میںلغزش پیدا نہ کر سکیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار اس کی رحمت اور برکت سے اس کے فرشتوں کا ہمیں ہمیشہ سہارا ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی نعمت ہمیشہ عطا فرمائے۔آمین ( روزنامہ الفضل ربوہ۲۱؍ مئی ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے لبریز ہیں اس
نے ہمیں ایک نئی بڑی اور اچھی مسجد عطا فرمائی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات پڑھیں:-


(البقرۃ: ۱۵۱۔۱۵۲)

(الجن:۱۹ تا ۲۱)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
کچھ گونج پیدا ہو رہی ہے کیونکہ لائوڈ سپیکر کا انتظام عارضی ہے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کس قسم کے لائوڈ سپیکر یہاں زیادہ اچھے رہیں گے اس پر خاصا وقت لگتا ہے۔ انشاء اللہ اس کا مستقل انتظام ہو جائے گا۔ کل میں نے بھی آکر چیک کیا تھا۔ مسجد کے بعض حصوں میں آواز صاف نہیں پہنچتی۔ پوری توجہ سے سننے کی کوشش کریں جتنا سمجھ سکتے ہیں سمجھیں جتنا اخذ کر سکتے ہیں اخذ کریں۔
ویسے تو ایک مومن کا دل ہر وقت ہی اپنے رب کی حمد سے بھرپور رہتا ہے مگر آج ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے اس لئے بھی لبریز ہیں کہ اُس نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کے بہت سے دوستوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے اس مسجد کے لئے مال بھی دیا، وقت بھی دیا، توجہ بھی دی اور محنت بھی کی اور ساری جماعت نے دعائیں بھی کیں۔ جس کے نتیجہ میں ہمیں ایک نئی اور بڑی اور اچھی مسجد مل گئی ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
تاہم یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ پانچ دس سال تک یہی مسجد ہمارے لئے کافی رہے گی لیکن چونکہ سامنے جلسہ گاہ کا میدان ہے۔ اس لئے امید ہے کہ کچھ وقت تک یہی مسجد ربوہ کی بڑی مسجد بنی رہے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو اور مسجدیں بھی بنتی رہیں گی۔
دراصل مسجدیں صرف تین ہیں باقی مسجدیں تو ان کے اظلال ہیں اور یہ تین مساجد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مساجد ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔ ان میں سے پہلی مسجد تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کی بعثت کے وقت بنوا دی تھی اور جسے ہم مسجد حرام بھی کہتے ہیں، خانہ کعبہ بھی کہتے ہیں اور بیت اللہ بھی کہتے ہیں۔ ویسے جہاں تک بیت اللہ کا تعلق ہے وہ تو ایک لحاظ سے ساری مساجد ہی بیت اللہ ہیں کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ۔
لیکن مسجد حرام کو بیت اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مسجد ہے جو خداتعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے بھی ہزار سال قبل آپ کے لئے بنوا دی تھی۔
دوسری مسجد جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق رکھتی ہے وہ مسجد نبوی ہے اور وہ مدینہ میں ہے۔ تیسری مسجد معنوی لحاظ سے دور کے زمانے کی ایک مسجدہے جسے مسجد اقصیٰ کہاجاتا ہے۔ وہ مسجد بھی ہے اور تعبیری معنی میں مسجد کی علامت بھی ہے تاہم اس کا تعبیری پہلو زیادہ نمایاں ہے یعنی امت محمدیہ میں سے جس شخص نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کی اور آپ کے عشق میں سب سے زیادہ سوزاں رہا اور خداتعالیٰ کی راہ میں جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وساطت سے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے جو بزرگ گزرے ہیں ( جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو زندہ جلوے دیکھے) اُن میں سے جس نے سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ احسان سے پُر جلوے دیکھے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا محبوب مہدی معہود ہے جس کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ اور آخری زمانہ ہے۔ اس لئے اس کی مسجد کو بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی مسجد قرار دیا ہے۔ حدیث میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیںہے۔ پھر کسی وقت مجھے یا کسی اور دوست کو موقع ملا تو وہ بڑی وضاحت کے ساتھ یہ باتیں جماعت کے سامنے رکھ دیں گے یا اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میں بتا دوں گا یہ باتیں ہماری تعلیم، ہمارے لٹریچر اور کتب سلسلہ میں پائی جاتی ہیں۔
بہرحال حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تین مسجدیں ہیں۔ ایک وہ مسجد ہے جو خداتعالیٰ نے ہزارہا سال پہلے بنی نوع انسان سے بنوائی تھی اور پھر اس کی مرمتیں ہوتی رہیں اور جب ا سکے نشان مٹ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ حکم دیا گیا کہ وہ اسے ازسر نو تعمیر کریں کیونکہ اب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ قریب ہے اور چونکہ آپ کی عظمت اور آپ کا جلال ایسا ہے کہ اس کا انسانی ذہن احاطہ نہیں کر سکتا اور آپ کا نور اتنا عظیم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی جب مستقبل کے افق پر نگاہ ڈالی تو انہوں نے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی جھلک کو دیکھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بھی زیادہ روشنی افق پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی دیکھی۔ اگرچہ اڑھائی ہزار سال بعد میں یہ سورج اپنی ظاہری شکل اور پوری شان میں دنیا پر ظاہر ہونا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی ایک جھلک دکھا دی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ نور اب بہت قریب ہے اتنا قریب ہے کہ گویا روشنی کے مینار کی طرح نظر آرہا ہے۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ اب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہت قریب ہے اس لئے یہ مسجد ہے اس کے نشان مٹے ہوئے ہیں تم اسے ٹھیک کردو میں (اللہ) نے اسے اپنے حکم کے ماتحت اور اپنی منشاء کے مطابق ایک پاک وجود اور اپنے پیارے محبوب کے لئے بنی آدم کے ذریعہ بنوایا تھا اور اس کے ذرے ذرے پر میری برکات نازل ہو رہی ہیں۔ تم اسے ازسرنو تعمیر کرو کیونکہ جس کی یہ مسجد ہے اس کو عنقریب دے دی جائے گی۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک تو وہ مسجد ہے جو خداتعالیٰ نے بنوا کر آپ کو بالکل اسی طرح عطا فرمائی جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو کوئی چیز دیتا ہے یا جس طرح پیار کرنے والا رب اپنے بہت ہی پیارے اور پیار کرنے والے بندے کو عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ جب آپ کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لو مسجد اس میں میری عبادت بجا لائو۔ آپ کی دوسری مسجدمدینہ کی مسجد تھی جو کہ خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنوائی اور تیسری مسجد آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند مہدی معہود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن اس میں نمایاں پہلو تعبیری ہے گو علامت کے طور پر اس مادی دنیا میں مادی ذرائع سے اور ظاہری طور پر اینٹوں اور گارے وغیرہ سے بھی بنی ہے لیکن اصل یہ ہے کہ وہ آخری زمانہ کی مسجد ہے کیونکہ جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مہدی معہود تمہاری زندگی میں یا جس نسل میں بھی پیدا ہو اور وہ تمہیں ملے تو میری طرف سے اُسے سلام پہنچا دینا اور معنوی طور پر اس میں اپنی تیسری مسجد کا ذکر ہے جس کے معنی یہی ہیں کہنا کہ تمہاری مسجد کو میں نے اپنی مسجدقرار دے دیا ہے۔ یہ بھی پیار کا ایک اظہار ہے۔ اس لئے کہ جو کام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لیاجانا تھا۔ وہی کام آپ کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ لیاجانے والا ہے۔ گو اس کام میں آپ کے ماتحت ہزاروں جرنیل پیدا ہوئے ہر زمانے میں ہزاروں پیدا ہوئے لیکن جس طرح آپ کے زمانہ میں اسلام اس وقت کی ساری دنیا پر غالب ہوا۔ اسی طرح آپ کی بعثت ثانیہ (جسے ہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی کہتے ہیں) کے زمانے میں بھی اسلام نے ساری دنیا پر غالب ہونا ہے اور غالب ہونا ہے آپ کے محبوب ترین روحانی بیٹے اور آپ کے جرنیلوں میں سے عظیم ترین جرنیل کے ذریعہ جس کے سپاہی میں اور تم ہو۔
پس یہ وہ تین مسجدیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مسجدیں کہلاتی ہیں۔ باقی تمام مساجد ان کے ظل ہیں۔ یہ مسجد بھی ظل ہے۔ اصل میں تو وہی تین مسجدیں ہیں اور اصل میں تو انہیں کے ساتھ حقیقی طور پر اور بلاواسطہ ان برکات اور فیوض کا تعلق ہے۔ جن کی بنیادی اینٹ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے۔ آپ کی ذات مجسم نور اور انتہائی بلند اور ارفع ہے۔ دراصل جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے۔ ہمیں ہر طرف (حضرت) محمد ؐ ، محمدؐ ، محمدؐ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہی نظر آتے ہیں۔ آپؐ کے علاوہ تو کوئی نظر نہیں آتا۔ کوئی آپ سے پہلے آیا تو اس نے بھی آپ ہی کے طفیل روحانی فیوض اپنے رب سے حاصل کئے اور کوئی بعد میں آیا تو اس نے بھی روحانی فیوض آپ ہی کے ذریعہ حاصل کئے۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ حکم دیا کہ برکتوںکا سرچشمہ اور فیوض کا منبع تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ میں نے آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے لئے قرب کی راہیں کھول دی ہیں۔ قرب کی ان راہوں میں ایک بڑی راہ ’’الصلوٰۃ‘‘ یعنی نماز ہے جسے اس کی شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہوتا ہے اور نماز کی ادائیگی کا تعلق مساجد سے ہے اس لئے فرمایا تم مسجدوں میں اکٹھے ہو کر اجتماعی طور پر اپنے رب کے حضور جھکو تاکہ وہ برکات تم پر نازل ہوں۔ جن کا اجتماعی رنگ میں امت محمدیہ کو وعدہ دیا گیا ہے اور جن کی بشارتیں ملی ہیں۔
چنانچہ یہ حکم ان آیات میں ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-

دوسرے اس آیت میں فرمایا

اور تیسرے فرمایا:-

اور چوتھے فرمایا:-

اور پانچویں فرمایا:-

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو۔ تمہیں اپنی زندگی کا یہ مقصد کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ تمہاری بہتری کے تمام سامان اور تمہارے مقاصد کی یاددہانی کرانے والی ساری علامتیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مسجد حرام یعنی بیت اللہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
کچھ عرصہ ہوا میں نے بیت اللہ پر متواتر کئی خطبات دیئے تھے جو چھپ چکے ہیں۔ ان خطبات میں مَیں نے بتایا تھا (اور جن کے بتانے کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ملا تھا) کہ مسجد حرام کے ساتھ تئیس مقاصد وابستہ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مکان کے لحاظ سے یا زمان کے لحاظ سے (دونوں پہلو اس کے اندر آتے ہیں) تمہیں اپنی وجہ یعنی توجہ کو مسجد حرام کی طرف رکھنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا:-
(الرحمٰن:۲۸)
اس کے معنے کرتے ہوئے امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے۔
’’جو باقی رہنے والی چیز ہے وہ ایسے اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں۔ یعنی وہ اعمال صالحہ جنہیں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر بجا لاتا ہے وہ گویا کے مترادف ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کوشش کی جاتی ہے۔ وہ قائم رہتی ہے اور باقی تو ہر عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرماتا ہے:-
(القصص: ۸۹)
امام راغب نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیںکہ
کُلَّ شَیْئٍ مِنْ اَعْمَالِ الْعِبَادِ ھَالِکٌ وَّ بَاطِلٌ اِلَّا مَا اُرِیْدَ بِہِ اللّٰہُ
یعنی انسانوں کے اعمال میںسے ہر عمل ہلاک ہونے والا اور لایعنی اور باطل ہے سوائے اس عمل کے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پس اس اعتبار سے کے یہ معنے ہوں گے کہ تم اپنی نیتوں کو ایسا بنائو کہ وہ ہمیشہ تعمیر بیت اللہ کے مقاصد کی طرف متوجہ اورمائل رہیں۔ تمہیں چاہئے کہ تعمیربیت اللہ کے سلسلہ میں قرآن کریم میں جو مقاصد بیان ہوئے ہیں تم اُن سے نظر نہ ہٹائو۔ جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عملاً ظاہری طور پر بھی خانہ کعبہ کی حکومت تمہیں مل جائے گی۔ اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں ابراہیمی دعائوں کا پھل اورثمرہ ہوں۔ اگر میری بعثت کے مقاصد میں بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور رفعتوں کے حصول خانہ کعبہ کے مقاصد میںبیان ہوئے ہیں اور جن کے آخر میں یہ دعا کروائی تھی کہ ایسا نبی ہو جو تزکیہ کرنے والا، حکمت سکھانے والا، آیات بیان کرنے والا ہو وغیرہ اس سچے دعویٰ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خانہ کعبہ پر کوئی غیر مسلم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماننے والوں کے علاوہ اور کوئی قابض رہے۔
پس ایک تو اس میں دوبارہ اس کو حاصل کرنے کی سعی کا بھی ذکر ہے کیونکہ اس کے بغیر تو وہ وعدے پورے نہیںہوتے اور الزام آتا ہے یعنی اگر ایسا نہ ہوا تو غیر لوگ یہ الزام لگائیں گے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ابراہیمی دعائوں کے نتیجہ میں مبعوث ہوئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ وہ مسجد حرام، وہ بیت اللہ جو حضرت ابراہیم کے ذریعہ ازسرنو تعمیر کروایا گیا تھا اور اس کے جو مقاصد بیان ہوئے تھے ان کے ساتھ تمہارا عملاً کوئی تعلق نہیں وہ تو غیر کے ہاتھ میں ہے۔ فرمایا یہ توتمہیں ملے گا۔ تمہیں ملنا چاہئے مگر اس کے لئے تمہیں جدوجہد کرنی پڑے گی اور تمہیں جدوجہد کرنی چاہئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تمہاری توجہ قیامت تک اس خانہ کعبہ کی طرف رہنی چاہئے۔ تمہاری نگاہ ہمیشہ اس کی طرف اٹھنی چاہئے تاکہ تمہیں معلوم ہوتا رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس عظمت اور جلال کا اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا ہے، آپ اس کے مستحق ہیں کیونکہ آدم کے وقت میں پہلے نبی کے وقت میں جو انسان کی طرف آیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ایک گھر تیار کروایا اور ہزارہا سال تک اس کی حفاظت کروائی۔ جب آپ کی بعثت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اس کھوئے ہوئے خزانہ کو ڈھونڈیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی وحی کے ذریعہ انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کی ازسرنو تعمیر کرو کیونکہ جس کی یہ چیز ہے وہ مبعوث ہونے والا ہے۔
پس اس دعویٰ کے بعد مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ یا بیت اللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماننے والوں کے سوا کسی اور کے پاس رہ ہی نہیں سکتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد وہ مسلمان بڑا ہی ناشکرا ہوگا جو اس کی طرف اپنے وَجْہ کو نہیں کرتا یعنی اپنی توجہ کو اس طرف نہیں رکھتا اور اپنے اندر یہ احساس نہیں پیدا کرتا کہ ہماری ساری ترقیات کا راز ان مقاصد کے حصول کی کوشش میں ہے جو خانہ کعبہ کے تعلق میں بیان کئے گئے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! خانہ کعبہ کی تعمیر کے جملہ مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے رہو تاکہ تم پر دشمن کا کسی طور پر بھی الزام نہ آئے نہ ظاہری طور پر کہ خانہ کعبہ تمہارے پاس نہیں اور نہ روحانی طور پر کہ دعویٰ تو کرتے ہو مگر تم اس کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں گذارتے اس واسطے تمہارا یہ فرض ہے کہ تم ہمیشہ اپنی نیت اور مقصد یہ رکھو کہ خانہ کعبہ کے ساتھ جو برکات اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں یا خانہ کعبہ کے جو مقاصد اس نے بیان فرمائے ہیں۔ ہم اُن مقاصد کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے اس عظیم اور نہایت پُر جلال فعل کو دیکھیں کہ اس نے کس طرح ہزارہا سال پہلے ایک منصوبہ بنایا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بابرکت ظہور کا۔ جس سے آپؐ کی عظمت اور جلال بھی ظاہر ہوتا ہے۔ انسانوں کو پتہ ہی نہیںتھا۔ انبیاء علیہم السلام کو اسی نور کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی تھی یعنی علم الٰہی میں اس نور کا اِدھر بھی اور اُدھر بھی پرتو پڑ رہا تھا۔ ایک روشنی تھی جو ماضی کو بھی منور کر رہی تھی۔ ایک روشنی تھی جو مستقبل کو بھی روشن کر رہی تھی اور قیامت تک پھیلی ہوئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ایک لحاظ سے آپ اس مادی دنیا کے مادی بشر تھے مگر روحانی طور پر آپ کی عظمت اور جلال کا اظہار دیکھو۔ فرمایا میرا وہ محبوب آرہا ہے جو انسانیت کا نچوڑ ہوگا۔ وہ میرے قریب تر ہونے والا ہے اور عملاً قریب تر رہے گا۔ کیونکہ روحانی طور پر آپ کی زندگی ماضی حال اور مستقبل پر اثرانداز ہے ایک ابدی حیات۔ باقی جب سے اور جب تک خداتعالیٰ نے چاہا آپ کو زندگی عطا فرمائی۔ ہم تو عاجز بندے ہیں۔ ہمارا تخیل تو ان چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
بہرحال اتنا ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ پہلے نبی کے وقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا تھا اور علم الٰہی میں تو یہ ہمیشہ سے موجود تھا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عظمت اور جلال کو دیکھنے کے بعد کیا تم غیر اللہ سے ڈرو گے اور تمہارے دل میں اُن کا خوف پیدا ہوگا۔ تم خداتعالیٰ سے ڈرو جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکات کو دنیا میں پھیلانے اوربڑھانے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے انسان کے ذریعہ اپنا کام شروع کروایا تھا اور کہا تھا کہ میرا پیارا آنے والا ہے تم اس کے لئے تیاری کرو اور پھر اس کی عظمت کو دیکھو کہ ہزارہا سال تک ایک نبی کے بعد دوسرا نبی، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی لیکن اللہ تعالیٰ کی جو سکیم تھی وہ جاری رہی۔ پس یہ اس کی عظمت اور جلال کا اظہار ہے۔
اب خانہ کعبہ اور اس کے مقاصد کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد خالی از حکمت نہیںہے کہ یعنی غیر اللہ سے نہیں ڈرنا۔ صرف میرا خوف تمہارے دل میں ہونا چاہئے۔ چنانچہ جیساکہ ہم میں سے سب چھوٹے بڑے جانتے ہیں اور یہ بات اکثر ان کے کانوں میں پڑتی رہتی ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں یہ خوف ہے کہ کہیں خداتعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ہمارے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم اپنے گناہوں اور غفلتوں کی وجہ سے خود کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے محروم نہ کر لیں جنہیں وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل ہمیں عطا کرنا چاہتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا یہی خوف ہے جو ہمیں ہر وقت لاحق رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس عظمت اور جلال کا خوف رہتا ہے جس کے احسا س سے انسان خود کو اور ہر دوسری مخلوق کو لاشئی محض سمجھتا ہے۔ فرمایا تم نے اس عظمت اور جلال کو خانہ کعبہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود میں دیکھا ہے اس لئے کسی اور سے نہ ڈرنا۔ مجھ سے ڈرتے رہنا فرمایا قرآن کریم میں ہم نے خانہ کعبہ کے جملہ مقاصد بیان کر دیئے ہیں۔ اس لئے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سارا منصوبہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور رفعتوں کے لئے ہے اور یہ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ تاکہ میں اپنی کامل نعمتیں تم پر بارش کی طرح نازل کروں اور اس اتمام نعمت کے نتیجہ میں َ تم ایسی فلاح اور کامیابی حاصل کرو کہ جس سے بہتر اور جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی۔
جن آیات میں خانہ کعبہ کے مقاصد بیان ہوئے ہیں ان کے آخر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا کی گئی ہے جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے۔ فرمایا:-

تا انسان کو یہ یاددہانی کرائی جائے کہ کے اصل معنے کیا ہیں۔
قرآن کریم کی ہر آیت کے ایک سے زائد بطون اور بہت سے معانی ہوتے ہیں لیکن مضامین اور معانی کا جو سلسلہ میں اس وقت بیان کر رہا ہوں اس میں کے معنے کی وضاحت کے لئے آگے یہ نتیجہ آگیا ہے کہ

فرمایا وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، وہ خدا کا پیارا اور محبوب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائوں کا نتیجہ اور امیدوں کا مرکز اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش گوئیوں پیش خبریوں اور بشارتوں کے مطابق مبعوث ہونا تھا۔ وہ آگیا اور جن مقاصد کے لئے اسے مبعوث کیاجانا تھا اُن مقاصد کے پورا ہونے کا زمانہ آگیا۔ اس لئے تم اُن مقاصد کو نظر انداز نہ کر دینا ورنہ تم پر الزام بھی آئے گا۔ تم شیطان کے حربوں سے نقصان بھی اٹھائو گے۔ اتمام نعمت کے راستے میں روکیں بھی پیدا ہوں گی اور اس طرح تم آخری فلاح حاصل نہیں کر سکو گے لیکن اگر تم نے اپنی پوری توجہ خلوص نیت اورپختہ عزم کے ساتھ ان مقاصد کو یاد رکھا اور ان کے حصول کے لئے کوشش کی جنکا تعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ہے تو پھر یاد رکھو! دنیا تم پر الزام نہیں دھر سکے گی کیونکہ تم سے خداتعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت کا سلوک دنیاکے سارے الزاموں کو مٹا دے گا۔
پس تم اس پیار کو حاصل کرو۔ دنیا اگر کی رو سے ظلم کی راہ اختیار کرے اور خداتعالیٰ کے پیار کو دیکھتے ہوئے بھی تم پر الزام لگائے تو تم اس کی پرواہ نہ کرو کیونکہ بصارت رکھنے والی دنیا، آنکھیں رکھنے والی دنیا اور عقل رکھنے والی دنیا اعتراض نہیں کر سکے گی۔ دنیا یہ اعتراض نہیں کر سکے گی کہ تم ان مقاصد کو بھول گئے ہو یا یہ کہ اس زمانے میں خانہ کعبہ تمہارے قبضے میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا مسلمانو! خانہ کعبہ یا بیت اللہ تمہیں ملے گا اور پھر قیامت تک تمہارے پاس رہے گا لیکن جن ذمہ داریوں کا تعلق خداتعالیٰ کے اس گھر سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تحفۃً اپنے پیارے بندے، اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیا تھا۔ ان ذمہ داریوں کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھنا۔ ان کو کبھی نظر انداز نہ کر دینا۔ پھر سوائے ظالموں کے کسی اور کا تم پر اعتراض نہیں رہے گا۔ کوئی حجت نہیں ہوگی۔ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھنے لگو گے۔ پھر اندھیرے تمہاری نگاہ کے سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کر لو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھو گے اور تم پر اس کی نعمتیں نازل ہوں گی۔ فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی امت (جسے ہم امت مسلمہ کہتے ہیں) تم پر اتمام نعمت ہو جائے گی۔ پھر دنیا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور تمام بنی نوع انسان اور تمام مخلوق کے رب نے وہ پیار جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس امت سے کیا وہ پیار اورکسی سے نہیں کیا۔ پھر فرمایا اس پیار کے نتیجہ میں کامل اور آخری کامیابی تمہیں نصیب ہوگی۔ مگر دامنِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک دفعہ پکڑ کر پھر اس کو چھوڑنا نہیں۔ پھر تم خداتعالیٰ کی آنکھوں میں اپنے لئے وہ پیار دیکھو گے جو دنیا کے سارے خزانوں اور دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہے پھر تمہیں کسی کی کیا پرواہ رہے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک ذمہ داری تم پر یہ بھی ہے کہ ۔ فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تین مساجد جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان کے ظل کے طور پر مساجد بھی بنائی جائیں (اگر وہ مسجد ضرار نہ ہوں یعنی وہ مسجدیں جن کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر آیا ہے
(التوبۃ:۱۰۷)
بلکہ ایسی مساجد ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (التوبہ:۱۰۸) یعنی جو پہلے دن ہی خلوص نیت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس سے ڈرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں۔ ایسی مسجدوں کے متعلق خدائی فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دروازے ہر موحّد کے لئے کھلے ہیں۔ خواہ وہ اسلام قبول کرتا ہو یا نہ کرتاہو۔ وہ موحد ہونا چاہئے۔
پس یہ وہ عمل کا مقام ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ امر ہر قسم کے شر اور فساد کو دور کرنے والا ہے لیکن اس بات کو پھر واضح کر دیا۔ فرمایا یاد رکھنا خدا کے اس گھر میں غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوگی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے راستے میں بھی روکیں پیدا کی جائیں گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (جنّ:۲۰)یعنی مساجد کے دروازے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر بند کر دیئے جائیں گے وہ پرستش کرنے والے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہوگی۔ مگر وہ جو آنکھوں سے محروم ہیں۔وہ جن کو بصارت عطا نہیں ہوئی اور وہ جن کو روحانی طور پر فراست نہیں ملی وہ ایسے لوگوں پر بھی خداتعالیٰ کی مسجدوں کے دروازے بند کر دیں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سے سوزاں ہوں گے۔ لیکن خداتعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو علی الاعلان یہ کہتا ہے میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والا ہوں۔ اس لئے ہر وہ شخص جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مساجد کے دروازے کھلے ہیں۔ پھر فرمایا تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو کہتا ہے میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتاکیونکہ خداتعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نظارے دیکھنے کے بعد شرک کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
پس ہر شخص جو موحد ہے ہم اسکو یہ کہتے ہیں کہ شرک کی باریک راہوں سے بچنے کی کوشش کرتارہ اور ہماری مسجدوں میں آتا رہ اللہ تعالیٰ ہمارے طفیل شاید تمہاری بھلائی کے سامان بھی پیدا کر دے گا۔
غرض یہ بھی ایک مسجد ہے جو مساجد کے ظل کے طور پر بنائی گئی ہے۔ یہ ایک اور مسجد ہے جسکے بنانے کی کوشش اور جس کے بنانے میں محنت کرنے والوں کا ایک حصہ تو یقینا ایسا ہے جنہوں نے شروع ہی سے تقویٰ کے طریق پر اور دعائوں کے ساتھ اس مسجد کے ذرہ زرہ میں برکت ڈالنے کی کوشش کی۔ جب کہ دوسرے حصے کے متعلق ہم یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس سلسلہ میں پیسے دیئے تو وہ نیک نیتی کے ساتھ دیئے۔ اگر محنت کی تو وہ صدق دل کے ساتھ کی اور اگر وقت دیا تو وہ خلوص نیت کے ساتھ دیا تاکہ خداتعالیٰ اپنے فضل سے اس عمارت کو ان کے لئے الٰہی برکتوں کا موجب، اس کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ، اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا سبب بنا دے۔ ہماری یہ دعا ہے کہ خدا کرے ہم سب کی دعائیں قبول ہو جائیں۔ خدا کرے ہم سب کی محنتیں بار آور ہوں۔ خدا کرے ہم سب کی قربانیاں اور ہمارا ایثار اور ہماری کوششیں مقبول ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان رحمتوں سے نوازے۔ جن رحمتوں سے نوازنے کا وعدہ اس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اتمام نعمت کی بشارت دے کر فرمایا۔ (اللّٰھم اٰمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ززز


اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے استعمال کا صحیح طریق
یہی ہے کہ انہیں اسی کی راہ میں خرچ کیا جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍اپریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
تشہد و ّتعوذ اورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:-

(اٰ ل عمران:۱۸۱)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس زاویہ سے بھی دیکھو تمہیں یہی نظر آئے گا کہ زمین وآسمان کی ملکیت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ زمین وآسمان اور ان میں جو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور چونکہ وہ سب کا خالق ہے اس لئے وہ سب کا مالک بھی ہے۔ پھر اس نقطہ نگاہ سے دیکھنے سے بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی عطا کی و جہ سے کسی آدمی کی ملکیت نظر آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی وجہ سے انسان کی ملکیت ٹھہرتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ چیز اس کی ملکیت میں رہتی ہے۔
چنانچہ روز مرہ کی زندگی میں ہم عموماً یہ دیکھتے ہیں کہ(مثلاً) کچھ تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے متعلق کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگائیں تو سونا بن جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں برکت رکھی ہوتی ہے اور کچھ تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ سونے کو ہاتھ لگائیں تو وہ مٹی بن جاتا ہے۔ پھر ایک وہ تاجر بھی ہے جو ایک وقت میں بڑی برکتوں والا ہوتاہے۔ اس کے کاموں میں اور اس کی کوششوں اور اس کی تجارتوں میں ہمیں بڑی برکت نظر آتی ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ جو مالک ہے اس کے بارے میں اس کی نگاہ بدل جاتی ہے تو وہی برکتوں والا تاجر جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے اس میں برکت کی بجائے نحوست، نفع کی بجائے نقصان اور خوشحالی کی بجائے بدحالی نظر آتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھو گے تمہیں یہی نظر آئے گا کہ زمین وآسمان اور ان میں جو چیزیں ہیں ان سب کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے وہی ان کا حقیقی مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا اَور کوئی ان کا حقیقی مالک نہیں ہے اور یہ ایک ابدی صداقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے جلوے روز مرّہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں دکھاتا رہتا ہے۔ یہ جلوے کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔غرض اللہ تعالیٰ کی ملکیت کے ثبوت میں ہمیں اس کی صفات کے جلوے نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں۔
پس اس ابدی حقیقت کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے اور اُن لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی عطا یعنی وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے، اس مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔
بخل کے معنے عربی زبان میں مال کے اس جگہ نہ خرچ کرنے کے ہوتے ہیں جس جگہ وہ مال خرچ کرنا چاہئے۔
اگر ہم حقائق عالَم پر نگاہ ڈالیں(اور اس سلسلہ میں ایک ابدی حقیقت اور ازلی صداقت کی طرف اِس آیت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کی مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے) تو ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اموال اور اس کی دی ہوئی طاقتوں اور اسی کی عطا کردہ زندگی اور اوقات کو خرچ کرنے کا ایک ہی صحیح راستہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ دراصل یہی حقیقی اور نیک اور مفید اور ثمرات پیدا کرنے والا خرچ ہے۔ باقی اس حقیقی خرچ کے لئے سامان پیدا کرنے والی جو کوششیں ہیں یا اخراجات ہیں تو وہ بھی بالواسطہ نیکی اور بھلائی کا موجب ہیں لیکن اگر کسی کی کوشش یا اخراجات اس کے الٹ ہیں تو پھر یہ بھی اس کے لئے بالواسطہ بدی اور ہلاکت کاموجب ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی مال تمہارے پاس ہے اور جسے تم نے اس دُنیا میں پایا ہے وہ ہم نے دیا ہے مگر تم اُسے ہماری راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہو۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ فعل، تمہاری یہ ذہنیت تمہارے لئے مفید ہے؟ یہ تمہارے لئے ہرگز مفید نہیں بلکہ یہ تمہارے لئے شر کا موجب ہے اور ہلاکت کا باعث ہے۔ تم شاید یہ خیال کرتے ہو کہ تمہارے یہ بُخل دُنیا میں دُنیاداروں سے چھپے رہیں گے اور لوگ تمہاری اس گندی ذہنیت سے ناواقف رہیں گے یا جب اللہ تعالیٰ اس دُنیا میں جنّت کے سامان پیدا کرے گا اور یا اُس اُخروی زندگی میں جو مرنے کے بعد ملتی ہے اور جس میں بہترین شکل میں اور کامل طور پر جزا و سزا ملتی ہے یعنی جنّت کی شکل میں یا جہنّم کی شکل میں کامل جزا و سزا کے سامان پیدا ہوں گے تو اس وقت بھی تمہاری یہ بدیاں اور تمہاری یہ گندی ذہنیتیں چھپی رہیں گی تو تمہارا یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ تمہارا یہ بخل اور تمہاری یہ گندی ذہنیتیں تمہارے گلے کا ہار بنا دی جائیں گی اور تم ان کو چھپا نہیں سکو گے۔ تمہارے گلے کا یہ ہار تمہارے لئے زینت کا باعث نہیں بنے گا۔ تمہارے گلے کا یہ ہار تمہارے لئے بدصورتی پیدا کرے گا۔ تمہاری اندرونی بھیانک بد صورتی کو ظاہر کر رہا ہو گا۔ یہ تمہارے لئے عزت کا باعث نہیں بنے گا بلکہ تمہارے لئے ذلت کا باعث بنے گا۔ یہ لوگوں کو بتائے گا کہ تمہیں اس وجہ سے سزا مل رہی ہے اور سز ا کی طرف تمہیں دھکیلا جا رہا ہے کہ تم نے خداتعالیٰ کی عطا اور مال کے خرچ کرنے میں بخل کیا اور وہ اس رنگ میں کہ اس کے خرچ کرنے کا جو حقیقی راستہ تھا تم نے اس کو چھوڑ دیا اور جو غلط راہیں تھیں ان کو تم نے اختیار کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اس میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مال و دولت بھی ہے اور اوقات بھی ہیں۔ جذبۂ ایثار بھی ہے اور محنت کی عادت بھی ہے۔ کیونکہ محنت کرنے کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔الہٰی سلسلوں میں جب تک کہ وہ اپنی کامیابیوں کے عروج تک نہ پہنچ جائیں ان میں بڑی بھاری اکثریت نیک اور خدا ترس لوگوں کی رہتی ہے جو بڑے ایثار پیشہ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں اور عملاً قربانی دے بھی دیتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ سُست بھی ہوتے ہیں اور ان کی یہ سستی دونوں طرح بڑی نمایاں ہوتی ہے یعنی ایک تو مال دینے میں بخیل ہوتے ہیں اور دوسرے وقت خرچ کرنے میں بخیل۔ توجہ دینے میں بخیل اور محنت کرنے میں بھی بخیل ہوتے ہیں۔
تاہم جب روحانی تنظیم مضبوط ہوتی ہے تو اس کے اندر لوگوں کے لئے یہ امر بسا اوقات ابتلاء کا باعث بن جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تنظیم ہمارے پاس آکر ہماری قربانیاں وصول کرے گی لیکن جب تنظیم ابھی مکمل نہیں ہوتی اس وقت قربانی دینے والا آدمی جس کے دل میں چندہ دینے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے وہ خود پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے یہ میری قربانی ہے۔ اسے وصول کر لو مثلاً وہ آکر کہتا ہے کہ یہ وقف عارضی میں میرے وقت کی قربانی ہے یا وہ کہتا ہے کہ میں واقفِ زندگی بننا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کی قربانی دیتا ہوں وغیرہ۔ لیکن جب تنظیم مکمل ہوتی ہے تو جماعت کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ضرورت کے وقت ہمیں یاد دہانی کروائی جائے گی۔ تنظیم ہم سے وقف عارضی کے فارم پُر کروالے گی اور تنظیم ہی ہمیں رسیدیں دے کر ہم سے چندے وصول کرلے گی۔ یعنی عام چندوں کی صورت میں یا وصیت کے چندے کی صورت میں یا کئی دوسرے چندے ہیں جنہیں احباب خوشی سے دیتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت بہت مالی قربانی دے رہی ہے۔ غرض جس جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ تنظیم ہمارے پاس آئے گی اور وہ ہمیں رسید دے کر ہمارے چندے وصول کرے گی لیکن اگر تنظیم ایسا نہ کرے تو اس جگہ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ علاقہ یا وہ شہر یا وہ قصبہ یا وہ گاؤں بحیثیت مجموعی جماعتی لحاظ سے مالی قربانی دینے میں پیچھے رہ گیا ہے حالانکہ وہ پیچھے نہیں رہا جو کارکن تھے، جو عہدیدار تھے جن کا یہ کام تھا کہ وہ ان کو یاد دہانی کراتے اور ان سے چندہ وصول کرتے وہ اپنی کمزوری اور وقت کی قربانی نہ دینے کی و جہ سے پیچھے رہ گئے۔ جماعت کا اکثر حصہ تو پیچھے نہیں رہا۔ اب ہمارا موجودہ مالی سال چنددنوں تک ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم اس کا بھی جائزہ لیں تو دوستوں کی بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جو بحیثیت جماعت ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہے اور وہ عملاً دے بھی رہے ہیں اور بہت بھاری اکثریت ایسے دوستوں کی ہے جو سلسلہ کے کاموں کے لئے اپنا وقت قربان کرتے ہیں اپنے آرام کو قربان کرتے ہیں، اپنی توجہ کو قربان کرتے ہیں مثلاً وہ اپنی توجہ اپنے بیوی بچوں کی طرف پھیر سکتے تھے مگر وہ اپنی اس توجہ کو الہٰی سلسلہ کے کاموں کی طرف پھیر دیتے ہیں۔وہ درد جو اپنے محدود ماحول کے لئے ان کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے وہی درد وہ جماعت کے لئے اور پھر بنی نوع انسان کے لئے اپنے دل میں پیدا کرتے ہیں اور خدمت کے جذبہ سے معمور اکثر خدمت خلق میں مشغول رہتے ہیں۔
چنانچہ ایسی مثالیں کثرت سے ہیں جن میں اس وقت بڑی نمایاں مثال جماعت احمدیہ کراچی کی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں۔ جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے ساری جماعت ہی مالی قربانی دینے کے لئے تڑپتی رہتی ہے لیکن جہاں نظام قائم ہو اور نظام میں پختگی پائی جاتی ہو وہاں کے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ نظام کے ماتحت محصّل جائے گا اور وہ پیسے وصول کرے گا اور رسیدیں دے گا۔ پس احباب میں چندے دینے کی تڑپ کی کمی نہیں ہوتی۔ یہ نظام کی سُستی یا نظام میں چستی کی کمی ہوتی ہے کہ جس کی و جہ سے وقتی طور پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ فلاں حلقہ مالی قربانیوں کے دینے میں پیچھے رہ گیا ہے۔
جہاں تک وقت کی قربانی کا سوال ہے اس کے متعلق میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ خود میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ جو بظاہر اپنے دُنیا کے کاموں میں پڑے ہوئے ہیں وہ پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے اور بعض دفعہ تو میرا خیال ہے کہ ہمارے صدر انجمن احمدیہ اور دوسرے اداروں کے کارکنوں سے بھی زیادہ وقت رضا کارانہ طور پر جماعتی کاموں کے لئے خرچ کرتے ہیں اور بڑی محنت اور بڑے پیار اور بڑی توجہ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سلسلہ احمدیہ جسے خداتعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے قائم فرمایا ہے۔ اس کے لئے تڑپ رکھتے ہیں اور اس کی ترقی کے لئے دن رات محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ اب جس جماعت کے عہدیدار اس قسم کی لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جماعت مالی قربانیوں میں بھی آگے نکل جاتی ہے چنانچہ ابھی کل ہی مجھے جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ اُنہوں نے اپنے سالانہ بجٹ سے قریباً دس ہزار روپیہ زائد جمع کرد یا ہے حالانکہ ابھی موجودہ مالی سال ختم نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
اب یہ بڑا خوش کن نتیجہ ہے۔ ہزار ہا دوست مالی قربانی دینے والے کراچی کی جماعت میں شامل ہیں۔ اُنہوں نے بحیثیت مجموعی بڑی اچھی قربانی دی ہے۔ انہوں نے جو وعدے کئے تھے ان میں وہ آگے نکل گئے ہیں۔
پھر جہاں تک وقت کی قربانی کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی کراچی نے بڑی قربانی دی ہے وہاں کا جماعتی نظام پورا چوکس اور بیدار ہے۔ علاوہ ازیں پورے سال کے کام کو سارے سال پر پھیلا کر کرنے کی بدولت بھی وہ اچھا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ممکن ہے اسی طرح کی بعض اَور جماعتیں بھی ہوں کیونکہ بہت سارے دوستوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنا بجٹ پورا کر چکے ہیں۔ مَیں نے ہر ایک سے یہی کہا تھا کہ اپنے بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دو۔ اب بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دوست دے سکتے ہیں یا نہیں یہ توخداتعالیٰ کی راہ میں اموال کو وصول کرنے کی ایک زائد خواہش ہے اور ان لوگوں کے لئے خداتعالیٰ کی راہ میں مال دینے کی ایک زائد خواہش ہے تا ہم کئی دوسری جگہوں سے بھی اطلاع آئی ہے کہ اُنہوں نے نہ صرف اپنا بجٹ پورا کرد یا ہے بلکہ اس سے آگے نکل گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
پس جن جماعتوں نے اپنا بجٹ پورا کر کے دس فیصدی زائد چندے دینے کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں آپ کو جماعتی نظام یعنی جو عہدیدار ہیں وہ ہر لحاظ سے خصوصاً وقت کی قربانی کے لحاظ سے زیادہ تندہی سے کام کرنے والے یا زیادہ وقت دینے والے نظر آئیں گے۔
غرض جہاں تک اموال کی قربانی کا سوال ہے خداتعالیٰ کے فضل سے ساری جماعت آگے بڑھنے کی تمنا، خواہش اور تڑپ رکھتی ہے اسی طرح جہاں تک نظامِ جماعت کا سوال ہے اکثر جگہ بڑا اچھا نظام قائم ہے۔عہدیداروں کی اکثریت ایسی ہے جو علاوہ دوسری قربانیوں کے اوقات کی قربانی بھی دے رہے ہیں لیکن بعض جگہیں ایسی بھی نظر آتی ہیں۔ جہاں باوجود اس کے کہ جماعت کے افراد ہر قسم کی قربانی بشمول اموال کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ مگر عہدیداروں کی سستی کی و جہ سے نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا۔ جہاں بھی ایسے عہدیدار ہیں جو اپنی کسی کمزوری کی و جہ سے یعنی ایمان کی کمزوری کی و جہ سے یا نااہلیت کی و جہ سے یا احساس ذمہ داری کے فقدان کے نتیجہ میں سستی دکھاتے ہیں ان کا بہرحال کوئی حق نہیں کہ وہ عہدیدار رہیں ان کو بدلنا پڑے گا۔
چنانچہ جب میرے سامنے یہ تصویر آئی تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ کوئی عدم علم کی و جہ سے شاید یہ نہ سمجھے کہ بعض جماعتیں کمزور ہیں۔ جماعتیں ہرگز کمزور نہیں بلکہ وہ عہدیدار کمزور ہیں جو اپنی سستی کی و جہ سے اُن سے صحیح کام نہیں لے سکتے۔ ایسے سست اور کمزور عہدیداروں کی اصلاح یا ان کی تبدیلی کے ساتھ انشاء اللہ دُنیا دیکھے گی کہ وہ جماعتیں بھی مالی قربانی میں اپنے دوسرے بھائیوں سے پیچھے نہیں رہیں گی بلکہ اُن سے آگے نکلیں گی یہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا حسن ظن بھی ہے اور ماضی میں ہمارا مشاہدہ بھی یہی رہا ہے۔ پیچھے رہنے کے لئے تو احمدی پیدا ہی نہیں ہوا لیکن الہٰی سلسلوں میں بعض لوگ کمزور بھی ہوتے ہیں اور بعض منافق بھی ہوتے ہیں اور یہ منافق عاقبت کے لحاظ سے کمزوروں سے بھی نہیں، کافروں سے بھی نچلا درجہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ تو الہٰی جماعتوں میں ہوتے ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں اور پھر اس وقت سے لے کر آج تک اسلام میں نظر آتے ہیں۔ خدا کا ہر وہ پیارا جو تجدید دین کے لئے استحکامِ ملتِ اسلامیہ کے لئے اور غلبۂ اسلام کے لئے کھڑا کیا گیا تو اُس وقت کے کمزوروں نے بھی اور غیر مومنوں نے بھی اورمنافقوں نے بھی اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کی مخالفت کی البتہ جہاں تک کمزوروں کی مخالفت کا تعلق ہے وہ الہٰی سلسلہ میں کمزوری پیدا کرنے کی نیت سے یا کمزوری پیدا کرنے کی غرض سے نہیں ہوتی یعنی اُن کی نیت بھی یہ نہیں ہوتی کہ الہٰی سلسلہ کمزور ہو جائے اور ان کی کوشش بھی یہ نہیں ہوتی کہ الہٰی سلسلہ کمزور پڑ جائے لیکن منافق کی نیت بھی یہی ہوتی ہے اور کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ الہٰی سلسلہ کمزور ہو جائے۔ ایک منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کے درمیان یہی فرق ہے۔ ایک منافق کا الہٰی سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی نیت اور ارادہ ہوتا ہے اور اس کی کوشش اور جدوجہد بھی نقصان پہنچانے کیلئے ہوتی ہے مگر ایک کمزور ایمان والا آدمی قربانی دینے میںکمزوری تو دکھاتا ہے لیکن اس کی نیت خراب نہیں ہوتی۔ کمزوری ہوتی ہے نیت کی خرابی نہیں ہوتی۔ اس کے اندر ایمان کی کمزوری ہے عمل کی کمزوری ہے لیکن نیت کا فتور نہیں اور نہ اس کی جدوجہد ہی ایسی ہوتی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ وہ سلسلہ کو عملی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لئے جو آدمی کمزور ایمان والا ہے اس کے لئے ہمارے دل میں انتہائی ہمدردی پیدا ہونی چاہئے اور ہے میرے دل میں بھی ہے اور ہر سمجھدار احمدی کے دل میں بھی ہے۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے شخص کو پیار سے اور عقلی دلائل دے کر سمجھائیں۔ ہم آئے دن اللہ تعالیٰ کے پیار کے جو نشان دیکھتے رہتے ہیں وہ اس کے سامنے رکھ کر اس کی اصلاح کریں۔ چنانچہ ہم ایسے لوگوں کو آہستہ آہستہ تربیت کے نتیجہ میں بے صبری دکھائے بغیر ایک اعلیٰ مقام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر باری باری اعلیٰ مقام پر آجاتے ہیں۔ پھر پیچھے ایک اور Queue بنا ہوتا ہے۔ ایک اَور قطار لگی ہوتی ہے یعنی اور کمزور آجاتے نئے احمدی ہوتے ہیں یا نئے جوان ہوتے ہیں۔ جن کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمزوری ایمان اور اس کے نتیجہ میں عمل کی کمزوری دراصل تربیت کی کمی کانتیجہ ہوتی ہے تاہم ایسے کمزور ایمان والے لوگوں کی طرف سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ مقابلہ پر آکر مخالفت کریں گے یا سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ایسے لوگوں کی تربیت ہونی چاہئے اور انہیںپیار کے ساتھ اور عقلی دلائل دے کر سمجھانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے نشان ان کے سامنے رکھ کر انہیں بتانا چاہئے کہ یہ دیکھو اللہ تعالیٰ کس طرح جماعت کے کاموں میں برکت ڈال رہا ہے اور بنی نوع انسان کے دل میں اسلام کو قبول کرنے کی ایک عالمگیر رو پیدا کر رہا ہے۔ اگر آپ یہ باتیں ان کے سامنے رکھیں تو انشاء اللہ اُن کے ایمان بھی پختہ ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں آج ہمیں جن دوستوں کے ایمان پختہ نظر آتے ہیں جب وہ پہلی دفعہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے تو اُن کی یہ حالت نہیں تھی۔ چنانچہ پہلی دفعہ سلسلہ میں داخل ہونے والوں میں سے اگر کسی نے ایک چونّی ماہانہ چندہ دیا تو وہ بڑی قربانی کرنے والا سمجھا گیا اور وہی شخص جس نے اپنے حالات کے لحاظ سے ایک چونّی چندہ دیا تھا اور بڑا مخلص سمجھا گیا تھا اُس نے بعدمیں ایک وقت میں کہا کہ میری ساری جائیداد لے لو۔ غرض اس وقت کی تربیت کے لحاظ سے وہی چونّی انتہائی قربانی تھی اور خداتعالیٰ نے اس قربانی سے پیار کیا اور قربانی کے نتیجہ میں قربانی دینے والے آدمی سے بھی پیار کیا اور پھر یہی آدمی تربیت حاصل کرتے کرتے جب ایک ارفع مقام پر پہنچا تو اس نے اپنی ساری جائیداد خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دی جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب اپنے ارفع مقام پر پہنچے تو ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہٖ وسلم نے خداتعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو آپ اپنا سب کچھ لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دریافت فرمایا ابوبکرؓ گھر میں کیا چھوڑا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا۔ گھر میں خدا اور اس کے رسولؐ کا نام چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ مجھے کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پھر خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور مال عطا فرمایا تو اُنہوں نے وہ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت جو لوگ آپ سے کم درجے پر پہنچے ہوئے تھے اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک پر سوچا کہ ہم اپنا نصف مال یعنی پچاس فیصدی خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیتے ہیں (وصیت میں ہم ۱۰؍۱ سے ۳؍۱ تک یعنی دس فیصدی سے لے کر تینتیس فیصدی تک دیتے ہیں) لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زندگیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت خدا اور اس کے رسول سے محبت اپنے جوش میں آتی ہے اس وقت سارا مال قربان کروا دیتی ہے یا اُس وقت نصف مال قربان کروا دیتی ہے لیکن وہ گھر جس سے دُنیا کی ساری دولت اور دُنیا کے سارے اموال نکال کر خدا کے رسولؐ کے قدموں میں ڈال دیئے گئے تھے وہ گھر دُنیا کی دولت سے بھی خالی نہیں رہے۔ جس بٹوہ میں ایک دھیلا باقی نہیں چھوڑا گیا تھا وہ بھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر اسے بھر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نہ ختم ہونے والے خزانوں کا مالک ہے ہم اس کے نہ ختم ہونے والے بھرپور خزانوں کی مقدار اور قسم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں تو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کے خزانے اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے کتنے وسیع اور کتنے شاندار ہیںانسان کی عقل اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی کیفیّت اور کمیّت کو گراسپ نہیں کر سکتی۔ انسان انہیں اپنے شعور میں بھی نہیں لا سکتا۔ کیونکہ یہ چیزیں انسان کے فکروتدبر اور اس کی عقل ودانش سے بالا ہیں۔ بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی عقل بڑھتے بڑھتے جہاں ختم ہو گئی اس سے بھی ورے اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور وہاں تک انسانی عقل کی پہنچ ہی نہیں ہے۔
بہرحال جن لوگوں نے اپنا مال بے دریغ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا وہ نقصان میں نہیں رہے مگر جنہوں نے نہیں دیا اور انہیں دینا چاہئے تھا، وہ نقصان میں رہے۔ اُخروی زندگی کے لحاظ سے تو یقینا نقصان میں رہے لیکن اُن میں سے اکثر اس دُنیا میں بھی نقصان میں رہے مثلاً کفار مکہ اور سردارانِ قریش امیر لوگ تھے عرب کے، اُس وقت کے اقتصادی نظام میں ان لوگوں کا بڑا اونچا مقام تھا۔ ایک ایک آدمی ہزار ہا اونٹوں کا مالک ہوا کرتا تھا۔ مگر اس ظاہری مال ودولت نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا کیونکہ اُنہوں نے بخل کیا۔ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اُنہوں نے اپنے اموال اسلام کی مخالفت میں خرچ کئے۔ نتیجۃً اُن کے اموال کہاں باقی رہے؟ اُن کا سب کچھ ختم ہوگیا۔ پھر اُن کو اُس وقت مال ودولت ملی جب اُنہوں نے اس ابدی صداقت کو پا لیا کہ سب اموال اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور بہترین اور حقیقی اور سچا خرچ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ تو پھر ان کو خدا تعالیٰ نے دوبارہ مال ودولت عطا فرمایا مگر اس صورت میں عکرمہؓ وہ عکرمہ نہیں تھے۔ اور نہ خالدؓ بن ولید وہ خالدؓ بن ولید تھے جب دوسری دفعہ ان کو اموال عطا ہوئے تو وہ بالکل بدلی ہوئے شخصیتیں تھیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ایک نئی زندگی عطا فرمائی تھی۔ ان کے ذہن بدل گئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی حیات بخشی تھی۔ ان کی پہلی زندگی پر ایک موت وارد ہو چکی تھی۔پھر اس نئی زندگی میں اُنہوں نے نئے خزانے پائے اور اس نئی حیات میں اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے ایک نئی لذت اور نیا سرور حاصل کیا۔پہلے تو غصے کی ایک عارضی تسلی تھی یعنی غصے کو تسلی ہو گئی کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اپنا پیسہ خرچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آل عمران:۱۲۰) تم سمجھتے ہو کہ اس سے تمہارا غصہ تسلی پاتا ہے یہ تو درحقیقت تمہاری موت کا باعث بھی ہے۔ اس طرح تمہارا خداتعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت میں خرچ کرنا تمہاری حیات، تمہاری ترقی، تمہارے ارتقاء اور تمہاری فلاح اور خوش حالی کا باعث نہیں بنے گا۔ یہ تمہاری موت کا باعث بنے گا۔
پھر جہاں تک منافقین کا تعلق ہے ایسے لوگ خداتعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بجائے دوسروں پر اعتراض کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کر دیا کہ پیسے ٹھیک جگہ پر خرچ نہیں ہو رہے۔اور یہ ہو رہا ہے اور وہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے منافقین کی یہ ساری باتیں ہمارے لئے بیان کر دی ہیں۔
اس کے برعکس ایک کمزور ایمان والا آدمی بہکتا ہے پھر اس کو سہارا ملتا ہے تو وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور ترقی کرتا ہے۔ پھر بہک جاتا ہے اور پھر سہارا ملنے پر آگے بڑھتا ہے اور اس طرح اندرونی اور اخلاقی اور روحانی طور پر اس کے اندر ایک کشمکش جاری رہتی ہے پھر جب اس کی کماحقہ تربیت ہو جاتی ہے تووہ اپنے نفسِ امّارہ کو کچل دیتا ہے وہ اس سانپ کا سر کاٹ دیتا ہے اور اپنے نفس کے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک اچھے سوار کی طرح اس کی لگامیں اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے پھر گھوڑا اپنی مرضی کے مطابق اسے جدھر چاہے نہیں لے جاتا بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق گھوڑے کو جدھر چاہے لے جاتا ہے اور اس کی مرضی خدا کی مرضی ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور اسی میں وہ لذت او ر سرور پاتا ہے اور اسی میں وہ ایک نئی خوشحالی اور ابدی زندگی کے سامان دیکھتا ہے اور پھر جن کے پانے کے لئے وہ اسی طریق پر کوشاں رہتا ہے۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے موجودہ مالی سال ختم ہو رہا ہے جہاں جماعت کی اکثریت اور بہت بھاری اکثریت مالی قربانی دینے کے لئے تیار بھی ہے اور اکثر نے عملاً قربانی دے دی ہے وہاں کہیں کہیں ہمیں بظاہر غفلت بھی نظر آتی ہے بہت سی جماعتوں نے مالی قربانی دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اکثرجگہ پر عہدیداروں نے اس سلسلہ میں بھی اپنے وقت کی اور اپنے آرام کی قربانی دی۔ خداتعالیٰ کی راہ میں اُنہوں نے اپنا وقت خرچ کیا اور نظام کی وجہ سے ہر احمدی دوست کے دل میں جو ایک امید پائی جاتی ہے کہ ایک چوکس اور بیدار عہدیدار اس کے پاس آئے گا اور وقت پر اس سے چندہ لے جائے گا۔ ایسے عہدیدار اس کے اس حُسن ظن کو پورا کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بننے والے ہیں۔
لیکن اگر عہدیداروں کے ایک حصے میں کمزوری کی وجہ سے جماعت کی بدنامی سمجھی جائے تو یہ بات غلط ہے ۔ اس سے جماعت کی کوئی بدنامی نہیں ہوتی۔ جماعت کی بدنامی تو تب ہوتی جب مقامی عہدیدار اصلاح یا تبدیلی کے نتیجہ میں چوکس ہو جائیں مگر وہ جماعت پھر بھی کمزوری دکھائے مگر عملاً اس صورت میں کسی جماعت نے کمزوری نہیں دکھائی مثلاً کراچی کی جماعت ہے یہ اپنے بجٹ کو سو فی صد پورا کرنے کے بعد آگے نکل گئی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ تم نے جو سَو فیصدی پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ تمہارا مقصود اور معیار نہیں ہے بلکہ ۱۱۰ تک پہنچو۔ چنانچہ کراچی کی جماعت نے ۱۱۰ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ۱۰۴؍۱۰۳ تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ ممکن ہے اِس وقت تک کچھ اَور آگے نکل چکے ہوں(اور ابھی چند دن باقی بھی ہیں) بہرحال وہ اپنے بجٹ کوسوفیصدی پورا کرنے کے بعد آگے نکل گئے ہیں۔
اب اسی کراچی کی جماعت پر ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب یہ سو کی بجائے ۳۰؍۲۵ تک بھی پہنچ نہیں پاتی تھی۔ اس واسطے کہ اس وقت یہ جماعت تربیت کی محتاج تھی۔ بعض احمدی دوست تربیت کی احتیاج رکھنے والے تھے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جماعت سے کام لینے والے عہدیدار جو تھے۔ وہ یا تو کام لے نہیں رہے تھے یا کام لے نہیں سکتے تھے۔ بہرحال عہدیدار جماعت سے کام نہیں لے رہے تھے۔ مگر اب وہی جماعت ہے جو اپنے عہدیداروں کی چوکسی اور بیداری اور رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں اپنے بجٹ کو سَو فیصدی پورا کرکے آگے نکل گئی ہے۔
پس ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی جماعت یا کوئی حلقہ چندوں کی ادائیگی میں پیچھے رہ جاتا ہے تو اس پر الزام نہ دھرو کیونکہ ان کے اخلاص میں مجھے بظاہر کوئی کمزوری نظر نہیں آتی۔
دوسرے یہ کہ ایسی جماعتوں یا حلقوں کے عہدیداروں کو ٹھیک کیا جائے کیونکہ مجھے ان عہدیداروں میں کمزوری نظر آتی ہے۔پس جماعت کا جو حصہ بھی انہیں ٹھیک کرنے والا ہے وہ اس سلسلہ میں ضروری کاروائی کرے۔ اگر یہ کام میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو میں اُن کو ٹھیک کروں گا۔ ہمیں کسی فرد کے ساتھ پیار نہیں اور نہ ہمیں کسی فرد سے دشمنی ہے۔ ہمیںہر فرد کے اس فعل سے پیار ہے جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خلوص نیت سے کیا گیا اور ہمیں ہر بُرے عمل سے نفرت ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف کیا گیا ہے۔ ہمیں بد عمل شخص سے کوئی نفرت نہیں اور نہ اس سے کوئی دشمنی ہے لیکن اس سے جو برا عمل سرزد ہوتا ہے اس سے ہمیں نفرت ہے اور اسی بُرے عمل کو ہم دُنیا سے مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم بدعمل کرنے والے کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے اس کے تو ہم خیر خواہ اور ہمدرد ہیں اور اُسے نیکی کی راہ پر چلانے کے لئے بے تاب ہیں اور اس کے لئے ہم ہر وقت کوشاں ہیں۔ تاہم جو نیک کام ہے اور خوبی کی بات ہے یا جو کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک نیتی سے کیا جاتا ہے اس کے لئے ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ نے بڑا پیار پیدا کیا ہے مگر جو جماعتیں یا حلقے چندوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں خلوص نیت کے باوجود عہدیداروں کی غفلت کے نتیجہ میں بظاہر داغدار سمجھے گئے ہیں انہیں داغدار سمجھنا غلطی ہے۔ اُن پر کوئی داغ نہیں ہے البتہ ان کے عہدیدار ضرور داغدار بن گئے ہیں۔ اس لئے ایسے عہدیداروں کی اصلاح ہونی چاہئے۔ یا پھر اُن کی تبدیلی ہونی چاہئے جو اپنے وقت پر ہو جائے گی لیکن ان چند دنوں میں ایسی جماعتوں یا حلقوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے عہدیداروں کو جو غافل ہیں یا سست ہیں یا نااہل ہیں یا ان میں کوئی اَور کمزوری پائی جاتی ہے ان کو پرے ہٹا دیں اور اپنے چندے براہ راست مرکز میں آکر جمع کروا دیں۔
مجھے جماعت کے متعلق پورا وثوق اور یقین ہے کہ وہ اپنے چندوں کی ادائیگی میں مخلص ہیں اس لئے ان پر یہ داغ نہیں آتا کہ وہ اپنے حلقے یا قصبے یا گاؤں میں مالی قربانی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر عہدیدار اُن کے پاس نہیں پہنچا تو وہ بھی عہدیداروں کے پاس نہ پہنچیں بلکہ مرکز میں آکر اپنا چندہ جمع کرا دیں۔ تاکہ ان عہدیداروں کو بھی یہ پتہ لگ جائے کہ کتنے پیارے دل تھے جن کی اُنہوں نے قدر نہیں کی اور کتنی حسین ارواح تھیں جن کے حسن کو اُنہوں نے نظر انداز کر دیا۔ وہ اپنے کاموں میںلگے رہے۔ اُنہوں نے اپنے دُنیوی آرام کی طرف توجہ دی اور خداتعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ان کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں اُنہوں نے ان کو نہیں بتایا۔
اللہ تعالیٰ ان کی بھی اصلاح فرمائے۔ ان کے دلوں میں بھی نیکی کا بیج پھوٹ آئے۔ ان کی کمزوریاں دور ہوں۔ ان کی غفلتیں جاتی رہیں۔ خداتعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کے حصول کے لئے ان کی جدوجہد پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہو جائے۔
خدا کرے کہ وہ پیارااحمدی دوست جس کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت کے سمندر موجزن ہیں، وہ کسی کی غفلت کے نتیجہ میں یا کسی غلطی کی وجہ سے اپنی قربانی میں پیچھے رہ کر خداتعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والا نہ ہو بلکہ عملاً جو ایک بری چیز، ایک گندی چیز، ایک بھیانک اور بد صورت چیز نظر آرہی ہے اور جس کے لئے وہ حقیقتاً ذمہ وار نہیں ہیں اُسے بھی دُنیا کی آنکھ بھی اور دین کی آنکھ بھی نظر انداز کر دے کیونکہ اُن کے اوپر حقیقتاً کوئی الزام نہیں آتا۔
پس ہماری دعا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ساری جماعت اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے اور اس کے پیار اور اس کی رضا کو پانے والی ہو۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷ مئی ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ززز

آج کادن (۲۱؍ اپریل) پاکستان کیلئے بڑا اہم ہے
کہ قانون اور عوام کی حکومت کا سورج طلوع ہوا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اپریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اورسورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(اٰل عمران:۲۷)

پھر حضور انور نے فرمایا:-
’’آج کا دن پاکستان کی زندگی میں ایک بڑی ہی تاریخی اہمیت کا دن ہے۔ ایک لمبے عرصہ کی لاقانونیت کے بعد آج قانون کی حکومت شروع ہوئی اور عوام کی حکومت کا سورج طلوع ہوا ہے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
پاکستان کو قائم ہوئے قریباً پچیس سال ہونے کو ہیں۔ اس عرصہ میں بڑی ہی تلخیاں نظر آتی ہیں۔ ایک حسّاس دل ان تلخیوں کو ابھی بھولا نہیں۔ خدا کرے کہ ان تلخیوں کے بھلانے اور ان زخموں پر مرہم لگنے کے سامان پیدا ہو جائیں۔
بہرحال یہ زمانہ ایک مذہبی جماعت کی حیثیت میں ہمارے لئے بھی اور ہمارے ان سب بھائیوں کے لئے بھی جنہیں دُنیا عوام کہتی ہے اور جن کو غریب سمجھتے ہوئے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس دیکھتے ہوئے دھتکار رہی تھی، تلخیوں کا زمانہ تھا۔ اس عرصہ میں اس ساری حسین تعلیم کو جو اسلام نے انسان کو دی اور جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دُنیا میں رائج کرنا چاہتے تھے۔ پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
میں اس وقت گزشتہ پچیس سالہ مختلف حکومتوں کا جو دور ہے، اس میں ان کا کیا کردار رہا۔ اس کا تجزیہ تو نہیں کرنا چاہتا۔ میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ کسی وقت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ماضی کے حالات کا بھی، حالیہ واقعات کا بھی اور مستقبل کی اُمیدوں کا بھی تجزیہ کروں گا۔ لیکن ایک بات بڑی واضح ہے اس کا ذکر میں اس وقت کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جو بالغ اور ادھیڑ عمر کی سنجیدہ نسل تھی اُس نے بڑی قربانیاں دیں تب جا کر پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس نسل کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حکومت کرنے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
اس کے برعکس ایک نسل تو وہ تھی جو تقسیم ملک کے وقت بچے تھے یعنی جو ۱۹۴۷ء میں پیدا ہوئے تھے اور دوسری وہ جو اُس وقت جوانی کے ابتدائی دور یعنی ۲۱ اور ۲۵ سال کی درمیانی عمر کے تھے۔ اب ان میں سے جو بچے تھے وہ تو ناسمجھ تھے اور جوابھی ابھی بالغ ہوئے تھے وہ ناتجربہ کار تھے۔ اس لئے حکومت کا انتظام لازماً اُن لوگوں کے سپرد ہوا جو ذرا بڑی عمر کے تھے یعنی ۳۰۔۳۵ سال سے اوپر کے تھے۔ ان میں سے بھی کچھ لوگ بظاہر کم تجربہ کار اور کچھ زیادہ تجربہ کار تھے اور بڑے سنجیدہ تھے اور ایک وقت میں بڑی قربانیاں دینے والے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اس نسل کو دُنیوی لحاظ سے حقیقی طور پر حاکم نہیں بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس عرصہ میں ظلم کا ایک چکر چلتا رہا۔ کسی حکمران نے بعض باتوں میں لوگوں کا کچھ خیال رکھا اور بعض لحاظ سے ظلم روا رکھے۔ کسی نے بعض اور پہلوؤں کا کچھ خیال رکھا اور ساتھ ہی ظلم بھی کرتا رہا۔ ہم کسی کو پورے طور پر بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس دُنیا میں کسی کو پورے طور پر برا کہہ دینا نہ درست ہے نہ معقول ہے اور نہ مناسب ہی ہے۔ اس لئے گذشتہ دور کی مختلف حکومتیں کلی طور پر بُری نہیں کہلائی جا سکتیں لیکن کسی صورت اچھی بھی نہیں کہلائی جا سکتیں کیونکہ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اُن کے بُرے کام اُن کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں۔ ہم بُرے کام کو بُرا اور اچھے کام کو اچھا کہیں گے کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شراب کی ممانعت فرمائی مگر ساتھ ہی فرمایا شراب جیسی چیز کو بھی تم کلیۃً بُرا نہ کہو کیونکہ یہ بھی اپنی ذات میں پورے اور کلی طور پر بُری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(البقرۃ:۲۲۰)
فرمایا: اس میں گندگی اور گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لئے بھلائی کے سامان بھی ہیں دُنیوی لحاظ سے ہم بہت ساری چیزوں کی PRESERVATION(پری زرویشن) یعنی قائم اور محفوظ رکھنے کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ غرض اس سے بہت سے مفید کام لئے جاتے ہیںمگر جہاں تک کسی آدمی کے شراب کے استعمال کا تعلق ہے اِس میں برائیاں زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس کا پینا منع کر دیا ہے۔
اس میں دراصل ہمارے لئے ایک اصول قائم کر دیا گیا ہے کہ WHOLE SALE CONDEMNATION(ہول سیل کنڈیمنیشن) یعنی خداتعالیٰ کی پیدا کردہ چیز کے متعلق یہ کہہ دینا کہ اس میں برائی ہی برائی ہے، یہ اصولاً غلط ہے کسی چیز میں جو برائیاں ہیں وہ چند خاص اور غلط زاویوں سے پیدا ہوتی ہیں اور جو خوبی ہے وہ صحیح زاویہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر چیز کا مجموعی جائزہ لینے اور اُسے چاروں طرف سے دیکھنے کے بعد ہی اُس کی اچھائی یا بُرائی کا حکم لگانا چاہئے۔ یہ بھی ایک مستقل مضمون ہے اور بیان کرنے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی اور توفیق بخشی تو کسی وقت اسے بھی انشاء اللہ بیان کروں گا۔
بہرحال پچھلے ۲۵ سال میں جن حکومتوں کا دور دورہ رہا اُن میںہمیں بظاہر برائیاں زیادہ اور خوبیاں کم نظر آتی ہیں۔ وہ اس ملک کے حقیقتاً حاکم نہیں تھے۔ ان کی حکومتوں کا نظام صرف پاکستان کو زندہ اور قائم رکھنے کے لئے تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے علم میں ایک وقت ایسا آنے والا تھا جب پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا۔ چنانچہ اس وقت تک پاکستان کی حفاظت بھی کی گئی اور پاکستان میں تلخی پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی اور اُبھرنے والی نسل کی تربیت بھی کی گئی اور ان کو مستقبل کے متعلق سوچنے پر مجبور بھی کیا گیا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے پہلے دور میں جو پاکستانی شہری تھے ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک تو ۱۹۴۷ء کے بچے، دوسرے ۱۹۴۷ء کے نئے نئے اور ناتجربہ کار نوجوان اور تیسرے ۱۹۴۷ء کے ذرا بڑی عمر کے اور زیادہ بڑی عمر کے لوگ جنہیں تجربہ تو تھا لیکن وہ عملاً قوم کے اندر ترقی کی روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
غرض ۱۹۴۷ء میں جو بچہ تھا وہ اس وقت جوان ہو چکا ہے۔ ۲۳،۲۴ سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور جو اُس وقت ۲۵ سال کے لگ بھگ تھے وہ اس وقت ۴۸،۴۹ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ شاید دو تہائی سے بھی زیادہ ہیں یعنی جو ۱۹۴۷ء میں بچے تھے اور اب جوان ہو چکے ہیں اور دوسرے جو اُس وقت بالکل ناتجربہ کار نوجوان تھے اور اب ادھیڑ عمر کے قریب پہنچ گئے ہیں ان ہر دو گروہوں کے متعلق خدا کی شان یہ نظر آتی ہے کہ اس پچیس سالہ دور میں ان کو حکومت میں کوئی دخل نہیں ملا۔ بلکہ حکومت کی باگ ڈور زیادہ تر ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو اس وقت پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک حصہ تو بہت اچھا رہا۔ مگر دوسرا حصہ ملک کی تباہی اور قوم کی ہلاکت کا باعث بنا البتہ اس گروہ کو بھی ہم کلیۃً بُرا نہیں کہہ سکتے ان میں بعض بڑے اچھے لوگ بھی تھے لیکن خرابی یہ تھی کہ ان کی بات بھی ٹھیک طرح مانی نہیں جاتی تھی کیونکہ ڈکٹیٹر شپ یعنی مارشل لاء کا زمانہ تھا یا پھر COMPROMISE(کمپرومائز) کا زمانہ تھا۔ اس کمپرومائز یعنی سیاسی طور پر باہمی سمجھوتے کی یہ صورت بن جاتی ہے کہ باہمی سمجھوتہ کر لو۔اپنی بعض اچھی چیزیں چھوڑ دو اور دوسرے کی بُری چیزیں لے لو۔ غرض پچھلے پچیس سالہ دور میں یہی دو خرابیاں کار فرما رہیں۔
بہرحال اس وقت پہلی دفعہ ایک نیا گروہ اُبھرا ہے جو دراصل دو گروہوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلا گروہ ۴۷ء اور کچھ عرصہ بعد میں پیدا ہونے والے بچے ہیں یعنی وہ بچے جو ۵۱۔۵۰ء تک پیدا ہوئے اور اب وہ ۲۱اور ۲۴ سال کی درمیانی عمر کے ہو چکے ہیں(اور ۲۱ سال کی عمر میں انہیں اپنی رائے دینے کا حق بھی مل چکا ہے) اور دوسرے وہ لوگ جو تقسیم ملک کے وقت ۲۴،۲۵ سال کے تھے اور اب ۴۹۔۵۰ سال کے ہو گئے ہیں ان دونوں گروہوں کو اب تک حکومت میں کوئی حصہ نہیں ملا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص تقدیر چل رہی تھی کہ انہیں حکومت میں کوئی حصہ نہ ملے تاہم ان کو جس چیز میں حصہ ملا وہ تھا ’’سیاست بازی‘‘ اور ’’سیاسی جوڑ توڑ‘‘ کو دیکھنا، ان کامشاہدہ کرنا اور ان کو PERCIEVE(پرسیو) یعنی محسوس کرنا اور پھر اپنے دماغ میں سوچنا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچنا اور اس نتیجہ پر پہنچ کر کسی خاص قسم کے عمل کے لئے تیار ہو جانا۔ یعنی ایک طالب علم جو تربیت حاصل کر رہا تھا، جو فراست حاصل کر رہا تھا، جو علم حاصل کر رہا تھا جو علم سے نتائج نکال رہا تھا اور جس کے دل میں ایک خواہش اور امنگ پیدا ہو رہی تھی کہ ملک میں ہونا تو یوں چاہئے لیکن ہو کچھ اور رہا ہے۔
چنانچہ پچھلے الیکشن پر ملکی آبادی کے اس حصے کو پہلی دفعہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا جس میں اس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ بھی خداتعالیٰ کی شان ہے کہ ہمارے ملک کی ہر سیاسی پارٹی کی نظر سے یہ حقیقت اوجھل تھی۔ اس طرف کسی کو خیال ہی نہیں گیا کہ اس الیکشن کا نتیجہ کن لوگوں کے ووٹوں کی اکثریت سے نکلے گا۔ بس وہ اپنے پرانے اربعے لگا رہے تھے اور خود ہی اپنے دل میں فیصلے کر رہے تھے کہ یہ نتیجہ نکلے گا وہ نتیجہ نکلے گا۔
مجھے کسی آدمی نے بتایا ہے واللہ اعلم یہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ میرے پاس تو ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ میں حکومت کو ملنے والی رپورٹوں کے متعلق یہ کہہ سکوں کہ واقعی ایسی رپورٹ کی گئی تھی تاہم یہ بات مشہور ہے کہ گذشتہ انتخابات سے معاً پہلے پنجاب کے متعلق حکومت کی انٹیلی جینس کی رپورٹ یہ تھی کہ دولتانہ صاحب کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی ۲۵۔۲۶ نشستیں ملیں گی۔ جماعت اسلامی کو ۱۳،۱۴ نشستیں ملیں گی اور پیپلزپارٹی کو ۷۔۸ نشستیں ملیں گی وغیرہ۔ اس طرح اُنہوں نے پنجاب کی جوکہ غالباً ۸۲ نشستیں ہیں ان کا تجزیہ کیا ہوا تھا۔
جب انتخابات سے شاید ایک دن پہلے کسی نے مجھے یہ بتایا کہ یہ ان کا آخری تجزیہ ہے تو میں نے کہا نہ سیاستدانوں کو کچھ پتہ ہے اور نہ یہ جو حکومت کے کان اور آنکھیں ہیں(پولیس و انٹیلی جینس) اُنہوں نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ دراصل وہ اس حصے یا ان دو گروہوں کو جن کے ووٹوں کی اکثریت تھی اور جنہوں نے اس موقع پر فیصلہ ُکن کردار ادا کرنا تھا،بھول گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھ عطا فرمائی ہے۔ ہمارے مستعد غیر متعصب اور نہایت اچھی تربیت پانیوالے نوجوانوں نے اس موقع پر بڑی سمجھ کے ساتھ کام کئے ہیں۔ وہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد ہر حلقہ انتخاب کے متعلق اپنی ایک رائے بھجواتے تھے اور اُنہوں نے یہ سلسلہ انتخابات سے کوئی ایک مہینہ پہلے سے شروع کر رکھا تھا۔ مثلاً کسی حلقۂ انتخاب میں ۴۰ فیصد آراء ہیں یا اپنی برادری کے لحاظ سے اتنے لوگ ہیں یا اتنے ڈاکٹر ہیں یا اتنے محنت کش ہیں۔ اسی نسبت سے وہ ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ تمہاری رائے کدھر ہے؟ چنانچہ ہر ایک گروہ کی آراء معلوم کرنے کے بعد وہ ہمیں رپورٹ بھجوا دیتے تھے۔ چنانچہ جہاں حکومت کے کان اور آنکھوں نے یہ رپورٹ کی تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۷۔۸ نشستیں ملیں گی وہاں ہمارے نوجوانوں نے جن کو سیاسی تجربہ بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں ہم نے سیاست کی طرف کبھی خیال بھی نہیں کیا۔ ہم تو اپنے نوجوانوں کو بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن پڑھو، حدیثیں پڑھو، نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو اپنے لئے بھی، ملک کے لئے بھی اور سب سے زیادہ غلبۂ اسلام کے لئے، اور بد اخلاقی میں نہ پڑو۔ مغربیت کا اثر نہ لو وغیرہ، غرض ہمارے نوجوانوں کو تو اس قسم کی دینی تربیت دی جاتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست عطا فرمائی اور مستعدی بخشی تھی اس لئے ان کی آخری رپورٹ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۶۲ نشستیں ملیں گی چنانچہ انتخابات میں واقعی اُنہوں نے ۶۲ نشستیں لیں ایک کی غلطی بھی نہیں ہوئی چنانچہ مجھے کسی نے بتایا کہ خود پیپلز پارٹی کے بعض لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ دُنیا میں اندازے ہوا ہی کرتے ہیں لیکن ایک کی بھی غلطی نہ ہو اور جو ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا یہ اندازہے اسی کے مطابق نشستیں مل جائیں بڑی حیران ُکن بات ہے۔ یہ بات ان کے لئے واقعی حیران ُکن ہے کیونکہ ہماری جماعت کے باہر جو نوجوان ہیں جن لوگوں کو ان کی تربیت کرنی چاہئے وہ بدقسمتی سے ان کی تربیت کا کماحقہٗ انتظام نہیں کر سکے یا جس طرح اسلام چاہتا ہے کہ ان کی تربیت کی جائے یعنی کوئی تعصب نہ ہو اور عقل وسمجھ سے کام لیا جائے۔ اس طرح وہ ان کی تربیت نہیں کر پاتے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے اندر بھی تعصب راہ پا جاتا ہے حالانکہ تعصب انسانی دماغ کو خراب اور عقل کو مار دیتا ہے۔
بہرحال جو چیز میں بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلی دفعہ ان دو گروہوں کے ووٹوں نے فیصلہ کرنا تھا۔ ان میں سے ایک وہ گروہ ہے جو ۱۹۴۷ء میں آگے پیچھے پیدا ہوا۔ یعنی اس وقت بچے تھے یا تھوڑے سال بعد پیدا ہوئے اور دوسرا وہ گروہ ہے جو اس زمانے میں سیاسی بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے تھے۔یعنی ۲۱ سال کی عمر کو پہنچنے پر ووٹ دینے کا حق مل رہا تھا اور ان دونوں گروہوں کی ۱۹۴۷ء میں بھی بہرحال اکثریت تھی اور چونکہ نسل تو ویسے ہی بڑھ رہی ہے۔ اس لحاظ سے اب بھی اکثریت ہے۔(آپ خود سوچیں اس کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جاتا دیر ہو جائے گی) اور ۱۹۴۷ء میں جو لوگ چالیس، پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ تھے، ان کو خداتعالیٰ نے یہ موقعہ نہیں دیا کہ وہ پاکستان کو صحیح راہوں پر چلا سکیں۔ البتہ ان کو یہ موقع ضرور دیا گیا کہ وہ پاکستان کو ہلاکت سے بچا سکیں اور پھر آخر میں تو اُنہوں نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں ملک کا ایک حصہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور یہ اس گروہ کی دراصل بڑی ہی ناکامی ہے کہ وہ آدھا پاکستان ہم سے کٹ گیا ہے۔
پس یہ تو پچھلے پچیس سال کی سیاست کے متعلق ایک بنیادی بات ہے جسے میں نے مختصرًا بیان کر دیا ہے۔ پاکستان کی اس اکثریت یعنی ان دو گروہوں نے جو اکثریت میں ہیں اور جویا تو اس وقت نوجوان ہیں اور یا ۱۹۴۷ء سے نوجوان اور عملی تجربہ حاصل کرتے ہوئے اب ۵۰ سال کے لگ بھگ ان کی عمر ہے دراصل انہوں نے ہی فیصلہ کیا ہے یعنی یہ ساری شکل جو اب ہمیں نظر آرہی ہے کہ فلاں پارٹی کی اتنی طاقت ہے اور فلاں پارٹی کی اتنی، اس میں بڑا حصہ ان دونوں گروہوں کا ہے جنہیں پہلی دفعہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا ہے۔
پس جہاں ہمارے لئے یہ امر انتہائی دُکھ دہ ہے کہ مشرقی پاکستان عارضی طور پر ہم سے جدا ہو گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لے یہ خوشی کا سامان پیدا کر دیا ہے کہ لاقانونیت اور مارشل لاء کا دور ختم ہوا اور قانون اور عوامی حکومت کا دور شروع ہو گیا ہے۔
’’عوامی جمہوریہ‘‘ دراصل مشاورت کے اصول پر قائم ہوتی ہے اسلام کا بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ باہم مشورہ کے ساتھ حکومت کا نظم ونسق چلانا ہے چنانچہ یہ مسئلہ تو طے ہو گیا ہے اس وقت میں جماعت کو اس امر کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ان کی دعا کرنے کی ذمہ داری ہے، جماعت کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہئے۔ دراصل جہاں تک مشورہ کا تعلق تھا وہ لیجسلیچر یعنی منتخب نمائندوں کی اسمبلی (جسے زیادہ تر ان ووٹوں نے منتخب کیا ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے) قائم ہو گئی، مارشل لاء ختم ہو گیا۔ اب اُنہوں نے سوچنا بھی ہے، مشورے بھی کرنے ہیں۔ مشورے تو ہوں گے لیکن دُنیا کا کام محض مشوروں سے کامیابی تک نہیں پہنچتا۔
پس مشورہ کے علاوہ دو اور چیزوں کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ فلاح وکامیابی کے لئے ایک تو عزم اور دوسرے توکّل کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی مشورہ عزم پر منتج نہ ہو یعنی اگر لوگ ویسے ہی باتیں بنائیں اور دھواں دھار تقریریں کریں اور پھر منتشر ہو جائیں تو یہ لایعنی مشورہ ہے، مشورہ اگر صحیح راہ پر ہے تو اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے عزم کا ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور عزم کے کامیاب ہونے کے لئے توکّل ضروری ہے جس کے بغیر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
پس مجلس مشاورت یعنی لیجسلیچر کے سامان تو پیدا ہو گئے لیکن اگر ہمارے ملک اور ہماری قوم نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا میں عزت کا کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے ازبس ضروری ہے کہ مشاورت یعنی لیجسلیچر کے مشوروں کے بعد صحیح عزم اور صحیح توکّل پیدا ہو۔ اس کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے۔
عزم کے دو معنے ہیں۔ ایک پختہ ارادہ کرنے کے یعنی اپنے دل میں یہ عہد کر لینا کہ میں یہ کام ضرور کروں گا۔ اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو پختہ ارادہ کیا گیا ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ عمل کرنا۔ غرض یہ ہر دو قسم کا مفہوم عزم کے معنوںکے اندر شامل ہے اور پختہ ارادہ جس پر سنجیدگی اور پوری صحت اور طاقت سے عمل کیا جائے اس کو عربی زبان میں’’عزم‘‘ کہتے ہیں۔
پس موجودہ لیجسلیچر نے جو فیصلے کئے ہیں ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ پختہ ارادہ کی ہے یعنی ایک خاص معاملہ کے متعلق فیصلہ ہو گیا لیکن عزم کا جو دوسرا بنیادی اور اہم حصہ ہے یعنی پوری سنجیدگی کے ساتھ اور ساری طاقت کے ساتھ اپنے اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنا کر نیک نتائج تک پہنچا دینا،یہ لیجسلیچر یعنی مُقَنّنہ کا کام نہیں ہے، یہ انتظامیہ یعنی حکومت کا کام ہے مثلاً اب ان حالات میں یہ صدر بھٹو کا کام ہے، یہ اُن کے وزراء کا کام ہے، یہ اُن کے مشیروں کا کام ہے، یہ صوبوں کے گورنروں کا کام ہے یا اُن کے وزراء کا کام ہے۔ غرض لیجسلیچر کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا(لیجسلیچر کے باہر) حکومت کا کام ہے۔
پس مرکزی لیجسلیچر نے فیصلہ کر دیا ہے اور یہ عزم کا ایک حصہ ہے کہ پختہ عزم کر لیا کہ ہم نے یوں کرنا ہے لیکن اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانا اور پوری ہمت اور کوشش سے کامیاب کرنا یہ عزم کا دوسرا حصہ ہے جس کا تعلق ایگزیکٹو سے ہے یعنی موجودہ شکل میں صدر مملکت اور ان کے وزراء یا حکومت کی دوسری مشینری یعنی کل پرزے جو ہیںیہ اُن کا کام ہے۔
جہاں تک انتظامیہ کی کارکردگی کا تعلق ہے اس میں دو برائیاں پیدا ہو سکتی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو ان سے محفوظ رکھے۔ ایک برائی یہ پیدا ہو سکتی ہے کہ جو عزم کا عملی حصہ ہے یعنی پختہ ارادہ کو پوری سنجیدگی اور ساری طاقت کے ساتھ عملی جامہ پہنانا اس میں کوئی کمزوری نہ پیدا ہو جائے مثلاً ہماری لیجسلیچر یعنی مقننہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ بس فیصلہ ہو گیا ہے۔ اب اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں چنانچہ عزم کے اس عملی حصے کی طرف جب پوری سنجیدگی کے ساتھ اور پورے طور پر توجہ نہیں دی جاتی تو اس میں ایک بنیادی نقص پیدا ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے دل کا ارادہ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی دلی ارادہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ حسنِ عمل نہ ہو۔
عزم کے عملی حصے میں دوسری خرابی یہ پیدا ہو سکتی ہے کہ مثلاً انسان کسی کام کے متعلق یہ پختہ ارادہ کرتا ہے کہ میں نے یہ کام کر کے چھوڑنا ہے۔ میں اس کے لئے توجہ بھی دوں گا۔ میرے پاس اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے سامان موجود ہیں۔ غرض وہ اپنے دل میں کہتا ہے میں یہ کروں گا میں وہ کروں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا خانہ خالی رہ جاتا ہے حالانکہ انسانی عزم کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکّل بھی بڑا ضروری ہے۔ انسان جب بھی کسی کام کا عزم کرے تو اُسے چاہئے کہ وہ اپنی طاقت یا اپنے علم یا اپنی خواہش یا اپنے بلند ارادے یا اپنے سامانوں پر بھروسہ نہ کرے بلکہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے محض خداتعالیٰ اوراس کی صفات پر توکّل رکھے اور اس کی طاقتوں پر تکیہ کرے۔ اگر کوئی آدمی ایسا نہیںکرتا تو شیطان اس کے ارادوں کو ناکام بناد یتا ہے۔
پس عزم کے عملی پہلوؤں میں ایک تو کوئی کمزوری نہیں آنی چاہئے۔ یعنی نہ سنجیدگی سے کام کرنے کے لحاظ سے کمزوری پیدا ہو اور نہ پوری طاقت کے استعمال میں کمزوری پیدا ہو کیونکہ ’’آدھی پچدھی‘‘ طاقت خرچ کر دینے سے کوئی کام پور انہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم اپنی قوت بازو سے اپنے ارادوں کو کامیاب بنادیں گے۔ ہمارے ارادے خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، ہماری نیتیں خواہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہوں اگر اس ارادے یا نیت نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو نہیں تھاما اور اسے مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا تو پھر کامیابی ممکن نہیں۔
پس جماعت کو یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے۔ ہمارے وہ مظلوم، غریب اور مستحق بھائی جن کے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا ہونے کا امکان ہمیں اُفق سیاست پر نظر آرہا ہے اُن کے حقوق کی حفاظت کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ میسر آجائیں یعنی مشاورت کے بعد صحیح عزم کا ہونا پھر عزم کے دونوں پہلوؤں کا پایا جانا۔ پھر عزم یعنی پختہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تکبر اور غرور کا پیدا نہ ہونا یعنی اپنے نفس پر، یا اپنی فراست پر یاا پنے علم پر یا اپنے تجربہ پر یا اپنی استطاعت پر یا اپنی دولت پر بھروسہ اور تکیہ نہ کرنا بلکہ محض اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی کامیابی عطا ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے مظلوم بھائیوں کی خاطر ہماری موجودہ حکومت کو یہ سامان میسر آئیں اور خدا کرے کہ ہمارے غریب اور مظلوم بھائیوں کے اندھیروں کے دن حقیقتاً ختم ہو جائیں۔ یہ محض زبانی نعرے نہ ہوں کہ ظلمت دور ہو گئی اور نور آگیا بلکہ ہر گھر میں اس نور سے اُجالا ہو جائے۔ اسلام نے ہر انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں خدا کرے ان حقوق کی شمعیں ہر گھر میں روشن ہو جائیں اور ہمارے ملک میں خوشحالی و خوش بختی اور روشنی و روشن خیالی کے سامان پیدا ہو جائیں اور ہر ایک آدمی کو اپنی ذمہ داریوں کے کماحقہ نباہنے کی توفیق ملتی رہے۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍مئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا ۴)
انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی زندگی میں بھی محاسبۂ نفس کے بغیر کامیابی کی راہیں نہیں کھل سکتیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے اِس حصۂ آیت کی تلاوت فرمائی:-
(البقرۃ:۴۶)
پھر فرمایا:-
ایک سال ختم ہونے کو ہے اور ایک نیا سال شروع ہونے والا ہے۔ یہ زمانی اور مکانی فاصلے اور منزلیں، کوشش اور جدوجہد کی انتہا نہیں ہوتے بلکہ ایک کوشش جب ختم ہوتی ہے تو ایک نئی اور ایک بڑی کوشش شروع ہو جاتی ہے اور اس تسلسل کی ہر منزل ٹھہرنے کی جگہ نہیں بلکہ ایک نئی کوشش کے انتظام۔ ایک نئے عزم کا مقام ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دور تو ایک سال کا بنایا ہے جس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں اور اُس نے بعض دوسرے دور بھی بنائے ہیں جن میں وقت کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ فاصلے اور زمانے کی اس تعیین میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ (سال کا) دَور جو گذرا اِس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس امر کا محاسبہ ہونا چاہئے اور یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آنی چاہئے کہ ہم نے کونسی غلطیاں کیں اور کیا کامیابیاں حاصل کیں۔ جہاں انفرادی زندگی محاسبۂ نفس کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی وہاں اجتماعی زندگی میں بھی محاسبہ کے بغیر ترقی کی راہیں نہیں کھلا کرتیں۔ اگر انسان یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ درست ہے اور کامل ہے اور اس کا صحیح نتیجہ نکلنا چاہئے، تو اس کی غلطیاں دور نہیں ہونگی اور اگر وہ یہ خیال کرے کہ جتنا کام مجھے کرنا چاہئے تھا میں نے کر لیا ہے تو اس کو زیادہ زور کے ساتھ کام کرنے کی توفیق نہیں ملے گی۔ بہرحال ایک جائزہ لینا چاہئے اور اِس بات کا محاسبہ ہونا چاہئے کہ ہم نے کہاں، کس رنگ میں اور کیوں غلطی کی اور آئندہ اس سے بچنے اور اصلاح کرنے کا پروگرام بننا چاہئے۔
ہمارا جو سال ختم ہوتا ہے اس میں جو کوششیں کی جاتی ہیں اس دوران خداتعالیٰ کی راہ میں جو قربانیاں دی جاتی ہیں اور نفس اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے جو جدوجہداور مجاہدہ کیاجاتا ہے اس کا ایک حصہ ہماری مالی قربانیاں ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جب مالی قربانیاں ایک نظام کے ماتحت دی جائیں تو احباب جماعت یہ توقع رکھتے ہیں کہ انتظام چست ہوگا اور سارا سال باہمی مشوروں، یاددہانیوں اور نصیحت کے ذریعے ذمہ داریاں ادا کروائی جائیں گی۔ ایک نقطہ نگاہ سے نظام ذمہ داری ادا کرتا ہے اور ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے ذمہ داری ادا کرواتا ہے۔ پس احباب جماعت یہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داریاں ادا کرائی جائیں گی اور کسی ایک کو بھی سست ہونے دیا جائے گا نہ غافل۔ اس طرح سارے مل کر اس انتظام میں آگے سے آگے اور تیز سے تیز تر ہوتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے لیکن اس کے برعکس بعض جگہ تو بہت بھیانک حد تک اور بعض جگہ ایک حد تک سستی یہ ہوتی ہے کہ وہ مالی بوجھ جو احباب جماعت پر سارے سال میں پھیل کر پڑنا چاہئے۔ وہ پھیلائو کی بجائے بعض دفعہ آخری چھ ماہ یا آخری دو ماہ پر پڑتا ہے۔ پس احباب جماعت کے لئے حالات کے لحاظ سے پروگرام بننا چاہئے مثلاً زمیندار ہیں ان کے لئے چھ ماہ کا پروگرام ہو کیونکہ انہوں نے فصلوں کے موقع پر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنی ہیں۔ جب ان کی فصلیں تیار ہوں اور مالی قربانی کے قابل ہوں تو اس وقت ان کو یاددہانی کرائی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں وقت پر ادا کر دیں اور بعد میں ان کو بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے۔ جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں کہ جنہیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ ان کی ماہانہ مالی ذمہ داری ادا ہونی چاہئے۔ اگر وہ کسی ایک مہینہ میں سستی دکھائیں گے تو دوسرے مہینے ان پربڑابوجھ پڑ جائے گا۔ اگر آپ نے ان کو آٹھ نو مہینے سست رہنے دیا تو گویا دسویں، گیارہویں اور بارہویں ماہ میں سارے سال کے چندے ادا کرنے اور مالی قربانیاں پیش کرنے کا ان پر بڑا بوجھ پڑ گیا۔
یورپ وغیرہ میں اکثر جگہ ہفتہ وار تنخواہ ملتی ہے لہٰذا وہاں ہفتہ وار وصولی ہونی چاہئے۔ مثلاً ایک شخص کو انگلستان میں آٹھ پائونڈ ہفتہ وار ملتے ہیں اگر آپ اس سے ہفتہ وار سولہواں حصہ یعنی دس شلنگ نہیں لیتے(سال کے حساب سے سولہواں حصہ کچھ کم بنے گا) دوسرے ہفتے بھی نہیں لیتے، پھر تیسرے ہفتے بھی نہیںلیتے اور چوتھے ہفتے چار ہفتوں کا اکٹھا لینا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اس پر بڑا بوجھ ہو گا۔
مزدور ہیں جو روزانہ کمانے والے ہیں اگرچہ اس معاملہ میں زیادہ سوچنے، فکروتدبر کرنے اور زیادہ مشورے کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی وقت ہمیں اس طرف آنا پڑے گا اور اس کے بارہ میں کوئی پروگرام بنانا ہو گا۔ ایک مزدور جو صبح سے شام تک محنت کر کے کما رہا ہے۔ اگر اس کی کمائی پانچ روپے روزانہ ہے تو پانچ آنے اس کو چندہ عام دے دینا چاہئے۔(آنے اگرچہ مروّجہ سکّوں میں ختم ہو چکے ہیں لیکن میں اس مثال میں ’’آنے ہی لوں گا تاکہ آسانی سے سمجھ آجائے) پانچ روپے میں سے پانچ آنے دینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن مہینے کے آخر میں روزانہ کمانے والے کے لئے ڈیڑھ سو آنے دینا عملاً ناممکن ہے، سوائے اس کے کے کہ وہ بہت قربانی کرنے والا ہو اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر یہ رقم ادا کر دے اور اس صورت میں آپ (اور آپ سے میری مراد اس تسلسل میں نظامِ جماعت ہے) اُس تکلیف کے ذمہ وارہوں گے۔ روازنہ ادائیگی اُس کے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے کیونکہ پانچ روپے وہ کماتا ہے اور پانچ آنے اُس نے چندہ دینا ہے۔
اگرچہ جماعت میں اِس وقت روزانہ وصولی کا یہ نظام نہیں ہے لیکن اب ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کافضل اور اس کی رحمت جماعت میں وسعت پیدا کر رہی ہے اور انہی سلسلوں میں ابتداء میں غرباء ہی شامل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اکثریت مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے جن کو روزانہ یا دو دن بعد اجرت ملتی ہے یا بعض دفعہ مزدور کو جب سہولت ہو تو خود ہی کہتا ہے کہ میں نے تین دن تمہارا کام کرنا ہے تین دن کے بعد مجھے اکٹھی مزدوری دے دینا لیکن بہت سارے مزدور ایسے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں اور روزانہ ہی ان کا خرچ ہوتا ہے۔ بہرحال اس کا تفصیلی جائزہ لینا چاہئے اور اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔
خداتعالیٰ قادر مطلق ہے اسی کاسب کچھ ہے وہ سارا بھی لے لے تو کسی کو اعتراض نہیں۔ عقلاً نہ کسی اَور لحاظ سے جب وہ خدا کہتا ہے کہ جتنا بوجھ تم برداشت کر سکتے ہو میں اس سے زیادہ مشقت تمہارے اوپر نہیں ڈالوں گا جیسا کہ فرمایا (البقرۃ :۲۸۷)جب قادر مطلق خدا کا یہ ارشاد ہے تو ایک عاجز انسان کو کون حق دے سکتا ہے کہ اپنے بھائی پر اس سے زیادہ بوجھ ڈال دے جتنا وہ برداشت کر سکتا ہے۔ جب آپ انتظامی سستی کرتے ہیں جب آپ کا بھائی اپنی کمائی میں سے مالی قربانی دینا چاہتا ہے اور آپ اس سے وقت پر نہیں لیتے تو آپ اس پر ایسا بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں جو اس کے لئے تکلیف اور تنگی کا موجب ہے اور ناقابل برداشت بوجھ کے احساس پرمنتج ہوتا ہے۔ اس سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ گناہ ہے جس طرح اور دکھ دینا اور ایذاء رسانی منع اور گناہ ہے اسی طرح یہ بھی منع ہے۔
انتظام ایسا ہونا چاہئے کہ احباب جماعت ناقابل برداشت بوجھ سے بچ سکیں۔ اس کی کئی شکلیں نکل سکتی ہیں جن کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جاتا۔ بہرحال کئی جگہ نہیں بلکہ اکثر جگہ کچھ نہ کچھ سُستی ضرور ہو جاتی ہے اور بعض جگہ تو اتنی سُستی ہوئی ہے کہ آدمی سوچ کر کانپ اُٹھتا ہے۔ مثلاً ایک ضلع کا صدر انجمن احمدیہ کا کل چندہ پونے دو لاکھ کے قریب تھا اور اب اسی آخری مہینے میں مجھے پتہ لگا کہ اس میں سے وصولی پچاس ساٹھ ہزار ہے اور بقایا ایک لاکھ بیس تیس ہزار کے درمیان ہے۔ گویا ضلع کے انتظام نے کام ہی کوئی نہیں کیا اور اب خط لکھ رہے ہیں کہ ہم بڑی کوشش کر رہے ہیں۔ جو شخص قربانی دینے والا ہے وہ تو اپنے اوپر مصیبت ڈال کر بھی (ناجائز مصیبت جو تم نے اس کے لئے پیدا کی ہے) اور انتہائی قربانی دے کر بھی خدا کے حضور اپنے اموال پیش کر دے گا لیکن تم منتظم ہونے کے لحاظ سے اور جماعتی نظام کے عہدیدار ہونے کے لحاظ سے ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہو۔ تم نے اپنے بھائیوں کے لئے دُکھ کا سامان پیدا کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ تم ان کے لئے راحت اور بشاشت اور سہولت کے سامان پیدا کرتے۔
اللہ تعالیٰ کا دین یُسر یعنی سہولت کا سامان پیدا کرتا ہے۔ سہولت کے یہ معنے نہیں کہ چوری کرو اور کھالو۔ کئی تو عملاً ان معنوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یُسر کا مطلب ہی یہ ہے کہ سارا ڈھانچہ ایسا ہے کہ جب وہ پختہ اور مضبوط ہو تو ایک مومن ہنستے کھیلتے بشاشت کے ساتھ قربانیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جس دل میں ایمان کی بشاشت پیدا ہو جاتی ہے اسے پھر کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس مومن کا جو ماحول ہے، وہ بشاشتیں پید اکرنے والا ہے۔ مومن جس نظام میں بندھ جاتا ہے وہ نظام بشاشت پیدا کرنے والا ہوتا ہے، ناجائز بوجھ ڈالنے والا نہیں ہوتا لیکن جب نظام کی کمزوری ہو یا نظام کی عدم توجہ ہو یا نظام کی غفلت یا نظام کی بے پرواہی ہو تو نظام ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ بشاشت چھن جاتی ہے۔ اس کے باوجود ننانوے فی صد احمدی ایسے ہیں کہ پھر بھی ان سے بشاشت نہیں چھینی جاتی مگر تم نے ایک گناہ کا ارتکاب کر لیا اور تم سے مراد عہدیدارانِ جماعت ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اکثر جگہ تھوڑی بہت سُستی ہوتی ہے لیکن بعض جگہ اتنی زیادہ سُستی اور غفلت سے کام لیا گیا ہے کہ میں بے حد پریشانی کے ایام میں سے گزر ا ہوں۔ تم نے پچیس فی صد کام کیا اور پچھتر فیصد بوجھ اپنے بھائیوں پر ڈال دیا جس کا جواز ہی کوئی نہیں تمہاری غفلت کے نتیجے میں جو تکلیف پیدا ہوئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں اور تم خدا کے سامنے اس بات کے ذمہ دار اور جواب دہ ہو۔
اب ایک مالی سال گزر رہا ہے اور دوسرا مالی سال شروع ہو رہا ہے۔ سب کو اپنی اپنی جگہ سوچنا چاہئے کہ ہم کم سے کم ناجائز بوجھ ڈالیں۔ کم سے کم میں اس لئے کہتا ہوں کہ بہرحال انسان کمز ور ہے کمزوری بھی ہو سکتی ہے ورنہ، اصولاً تو یہ ہے کہ قطعاً کوئی بوجھ نہ پڑے۔ پس کم سے کم بوجھ ڈال کر احباب جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ بشاشت اورسہولت کے سامان پیدا کر یں۔ یہ سوچنا چاہئے کہ یہ سامان کس طرح مہیا ہو سکتے ہیں۔
بعض جگہ میں نے دیکھا ہے کہ کاغذ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور عقل اور عمل سے تھوڑا۔ یہ بھی غلط ہے کیونکہ کاغذی گھوڑے دوڑانے کے ساتھ تو کامیابی نہیں ہوا کرتی۔ پھر بعض جگہ میں نے دیکھا ہے کہ غلط عمل کرتے ہیں اور غلط عمل کی وجہ سے نتیجہ صحیح نہیں نکلتا اور نہ پھل پیدا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوشش تو بڑی کی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ کوئی مذہبی جماعت انکار کر سکتی ہے کہ جب سے انبیاء کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت سے لے کر آج تک انسان نے یہی دیکھا کہ جب خلوص نیت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون اور خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیر کے ماتحت کام کیا جاتا ہے جس تدبیر میں دعا بھی شامل ہو تو وہ کام بے نتیجہ نہیں رہ سکتا۔ کبھی خداتعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے حکم اور غلبہ اور عزت کے ثابت کرنے کے لئے ایک مثال قائم کر دیتا ہے کہ کوشش کا نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور پھر چھن جاتا ہے۔ انفرادی طور پر بھی ایسا ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی لیکن اس میں بھی حکمت ہوتی ہے اور کوئی سبق دینا مقصود ہوتا ہے کوئی اَور غفلت ہوتی ہے جسے دور کرنا مقصود ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کا عام قانون یہی ہے کہ اگر اس کے بتائے ہوئے طریق پر اور اس کے قائم کردہ قانون کے مطابق کوشش کرو گے تو پھل پاؤ گے۔ یہ عام قانون ہے۔ ناکام ہونے والوں کی غلطی اپنی ہوتی ہے اور سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ ہمیشہ ہر ناکامی اپنی طرف منسوب کرو اگر تم نے کامیاب ہونا ہے تو اپنی اصلاح کی کوشش کرو اور محاسبہ کرو۔ نفس کا بھی محاسبہ اور جماعتی تنظیم کا بھی محاسبہ کوئی کمزوری یا غفلت یا بے ثمر ہونا خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ پس اسے اپنی طرف منسوب کرو اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرو۔مجھے تو بڑا سخت غصہ آتا ہے اگر میرے سامنے کوئی ایسی بات کرے کہ ہم نے تو کوشش کی تھی مگر نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔ نعوذ باللہ گویا اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ہے جس نے کوئی نتیجہ نہیں نکالا۔ یہ تو ناممکن بات ہے اب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہمارے دل میں جو اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اور ہمیں صفات باری کی جو معرفت حاصل ہے وہ اس کی نفی کرتی ہے۔
پس تمہاری کوشش کے نتیجہ میں جو ناکامی پیدا ہوئی ہے وہ تمہاری بد عملی اور کم عقلی کا نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ اگر تم خدا کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق کام کرو گے۔ حُسنِ عمل ہو گا جو دعا کے ستونوں کے اوپر کھڑا ہو گا۔ پھر ناکامی کا سوال ہی نہیں اور رفعت یقینا حاصل ہو جائے گی لیکن اگر تم بظاہر حسن عمل کرو اور دعا کے ستون اس کے لئے تیار نہ کرو تو وہ بلندی تمہیں نہیں ملے گی اور کامیابی تمہارے نصیب میں نہیں ہو گی لیکن جیسا کہ خدا نے کہا کہ ایک مسلسل اور نہ تھکنے والے عمل اور دعا کے ساتھ خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا تمہیں مل جائے گی۔ ہم اس کو فلاح کہتے ہیں اور ہماری کوشش کا یہی پھل ہے صرف سمجھانے کے لئے نام مختلف رکھے جاتے ہیں۔
پس ایک تو مالی قربانیوں کے سلسلے میں جو کامیابیاں ہوئیں یا ناکامیاں ہوئیں، جو غفلتیں ہوئیں یا جو کمزوریاں ہمیں نظر آئیں، یہ سب کچھ ہمارے سامنے آنا چاہئے اور دوسرے ہمیں ایک نیا عہد باندھنا چاہئے کہ اگلے سال ایسا نہیں ہو گا اور ہم اپنے بھائیوں کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ ان کے لئے سہولتوں کا باعث بنیں گے۔
جماعت احمدیہ کی جو اجتماعی جدوجہد ہے اس میں مالی قربانیاں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ جماعت کی طرف سے جو ایک جہاد شروع ہے اور ایک عمل کا پروگرام جاری ہے، دُنیا کبھی اس کو منصوبہ کہتی ہے اور کبھی کچھ کہتی ہے لیکن میں کہوں گا کہ ہر ایک پہلو سے اپنے رب کے حضور ہماری جو عاجزانہ پیشکش ہے مالی قربانی تو اس کا صرف ایک نقطۂ نگاہ، ایک زاویہ اور ایک پہلو ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کی ہزاروں ذمہ داریاں ہیں۔ آپ مالی قربانی بھی حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے ہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو مال کی ضرورت نہیں لیکن اس معنی میں کہ اس کے بندوں کو علم سکھا کر اور عقل دے کر اور قرآن کریم کے نور سے ان کے سینوں کو منوّر کر کے ان کے لئے ایسے سامان پیدا کریں کہ وہ خداتعالیٰ کی حمد کریں اگرچہ اللہ تعالیٰ کا یہی حق ہے کہ ہم اس کے عاجز اور شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کو گزاریں لیکن اللہ تعالیٰ کو نہ میری طاقت کی ضرورت ہے نہ اس کو میرے مال کی ضرورت ہے، نہ میری دولت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو اس حمد کی ضرورت ہے جو میری زبان سے نکلتی ہے غرض کہ خداتعالیٰ کو تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اس کی رضا کو حاصل کرتے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ یہ محاورہ تو ہمیں خوش کرنے کے لئے بنا دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے ورنہ اصل تو یہ ہے کہ ہمارا ہی حق ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کر لیں اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں یہ حق دے دیا۔
حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق کو اُسی کے حکم اور منشاء اور قانون اور شریعت کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرنا اسلام ہے اور یہی مذہب ہے۔ پہلے مذاہب اَور رنگ کے تھے۔ وہ وقتی،زمانی اور مکانی تھے اب ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام آگیا ہے جو قیامت تک کے لئے ہے لیکن مذہب کی یہ خصوصیت یعنی اس کا وقتی یا زمانی یا مکانی ہونا یا اس کا ایک عالمگیر اور قیامت تک کے لئے ممتد ہونا، دونوں میں اس لحاظ سے کوئی تفریق نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ کا حق اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنا ہے یا نہیں۔ ہر مذہب جو اس دُنیا میں آیا اس نے کہا کہ خدا کے حقوق اُس کو دو اور اس کے بندوں کے حقوق ان کو دو۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام نے عالمگیر مذہب ہونے کے لحاظ سے ایسے حقوق قائم کئے جو عالمگیر نوعیت کے ہیں اور ان کی ادائیگی کے ایسے سامان پیدا کئے کہ ہر زمانہ میں جو حق بنے تو بدلے ہوئے حالات کے لحاظ سے ان حقوق کی ادائیگی کی سمجھ اور ان کا فہم بھی عطا کیا۔ خداتعالیٰ نے اسلام میں اپنے بندوں کو کھڑا کیا جنہوں نے قرآن کریم سکھایا۔ پھر ان حقوق کی ادائیگی کے لئے جن نئے سے نئے سامانوں کی ضرورت تھی وہ بھی پیدا کئے۔ دراصل ہم اپنے مال بھی حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہی پیش کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر خدا کے بندے کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے علم قرآن حاصل ہو۔ یہ ایک بندے کا حق ہے اور کوئی شخص اپنے بھائی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ جا تجھے قرآن کریم سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ قرآن کریم نے تو ہر فرد بشر کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے سیکھ مجھے سمجھ، مجھ سے فائدہ اُٹھا اور میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر۔
پس ہر بندہ خدا کا یہ حق ہے کہ وہ قرآن جانتا ہو اور قرآن کی سمجھ رکھتا ہو۔ اب ہماری مالی قربانیوں کا ایک حصہ اُس حق کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے جو خداتعالیٰ نے ہر فرد بشر کا قائم کیا کہ وہ قرآن کریم کا علم حاصل کرے اور اس سے استفادہ کرے۔ ہمیں اس کے متعلق بھی غور کرنا چاہئے کہ گذشتہ سال حقوق العباد کی ادائیگی کے اس حصہ میں ہم نے غفلتیں تو نہیں برتیں اور اس مہم میں ہم پر جوذمہ داریاںتھیں ہم نے وہ پوری طرح ادا کی ہیں یا نہیں؟ میںنے یہ ایک مثال صرف اس لئے دی ہے تاکہ آپ سمجھ جائیں کہ مالی قربانی یا اپنے رب کے حضور جو ہماری مالی پیشکش ہے تو وہ ہماری کوشش ہے وہ تو ہماری کوشش اور جدوجہد کا ایک بالکل تھوڑا سا حصہ ہے پھر وہ خود مقصود بھی نہیں بلکہ مقصود حقوق العباد کی ادائیگی ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہیں۔
اس وقت میں نے زیادہ تفصیل کے ساتھ مالی قربانی کے حصہ کو بیان کیا ہے اور آئندہ مجھے توفیق ملی تو دوسری باتوں کو لوں گا(انشاء اللہ تعالیٰ) اور ان کے متعلق بتاؤں گا مثلاً تعلیم القرآن ہے اس کی جو ذمہ داری ہمارے اوپر ہے جب اس کا محاسبہ کریں گے تو ساری چیزیں سامنے آئیں گی کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں روکیں کون سی ہیں، کن اطراف سے ہیںاور ان کو دور کیسے کیا جا سکتا ہے تاکہ ہماری ذمہ داری پوری طرح ادا ہو سکے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح محاسبہ سے یہ بھی علم ہو گا کہ اس کی ادائیگی میں سہولتیں کونسی ہیں؟ آیا وہ سہولت پوری پوری ہمیں میسر آئی ہے یا کچھ مزید میسر آسکتی ہے غرضیکہ درمیان سے روکیں بھی دور ہوں اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے جو سامان ہیں اگر ہم اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں ایک حد تک ان سے محروم رہے ہیں تو وہ سامان بھی ہمیں ملنے چاہیں تاکہ تعلیم قرآن جو ایک انسان کا بنیادی حق ہے اس بنیادی حق کو ہم پوری طرح ادا کر سکیں۔ میں اگلے مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں جماعت کے سامنے ان باتوں کو رکھوں گا اور اس بارہ میں انہیں نصیحت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے۔
بہرحال آج کل ہمارے دفاتر کے ایک حصے نظارت بیت المال آمد کو بھی بڑی پریشانی ہے اور باہر کے نظام کو بھی اپنی غفلتوں اور سستیوں کے نتیجہ میں پریشانی اُٹھانی پڑی۔ میں نے کئی خطوط اپنے دستخطوں سے بھیج کر ان کو یاد دہانی کرائی اور ان پر زور دیا کہ ذمہ داری کو ادا کریں۔
نظارت بیت المال نے میرے سامنے یہی سفارش کی تھی کہ سو فیصد وعدے پورے کرنے کے بارہ میں لکھا جائے۔ میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ میں تو یہ نہیں لکھوں گا بلکہ میں یہ لکھوں گا کہ اپنے وعدوں کو ایک سو دس فیصد پورا کریں۔ میں ان دوستوں کو اُس جگہ پر کیوں کھڑا کر دوں جہاںایک سال پہلے ہم نے سوچا تھا کہ وہاں کھڑے ہوں گے۔ ان کو تو اس سے آگے نکلنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں ہم پر بڑے فضل کئے ہیں اور بڑی رحمتیں نازل کیں۔ اب ایک جگہ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ اُن کی وصولی ۱۱۸ فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ایک اَور جگہ کی اطلاع ہے (یہ جماعت بہت بڑی ہے اور کئی لاکھ ان کا چندہ ہے) کہ ان کا چندہ ایک سو چھ یا ایک سو آٹھ فی صدتک پہنچا ہوا ہے۔ ابھی وقت ختم نہیں ہوا اور مزید چندہ ابھی آرہا ہے۔ دیکھیں کہاں تک پہنچتا ہے۔(۱۱۸)یک صد اٹھارہ فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ پس اگر صحیح کوشش کی جائے تو صحیح نتیجہ نکلتا ہے اور کوشش کا پھل ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اس سے انسان سرور اور لذت حاصل کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھتا ہے اور اس کے قرب کی راہوں پر زیادہ تندہی کے ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہے پھر اَور زیادہ لذتوں اور سرور کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے ایسے ہی سامان پیدا کرتا رہے۔آمین
( روزنامہ الفضل ربوہ ۴؍جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا ۵)
ززز

آنحضرت ﷺ عبد ہونے کے لحاظ سے بھی درجہ کمال
کو پہنچے ہوئے تھے اور رسول ہونے کے لحاظ سے بھی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍مئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے نَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھا اور پھر اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:-

(الانعام:۵۱)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شخصیت کو جس رنگ میں ہمارے سامنے رکھا ہے اور آپ کو جو حسین تصویر قرآن کریم میں کھینچی گئی ہے وہ عبد اور رسول کا ایک حسین امتزاج ہے۔
ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ہمیشہ اس بات کی شہادت دیتے رہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمعَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ہیں یعنی آپ اللہ تعالیٰ کے ایک کامل عبد اور اس کے ایک عظیم رسول ہیں۔ تاکہ ہم پر آپ کے اسوہ حسنہ کی اتباع کی جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ ہمیشہ ہمارے سامنے رہے اور ہم مقدور بھر یہ کوشش کرتے رہیں کہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں اور وہی رنگ اپنے نفسوں پر چڑھانے کی کوشش کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات و صفات میں ہمیں نظر آتا ہے۔
یہ اعلان کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے عبد اور رسول ہیں ان دو پہلوئوں پر قرآن کریم نے متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے۔ اور مختلف زاویوں سے ان ہر دو پہلوئوں کو کئی جگہ اکٹھا اور بعض جگہ علیحدہ بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔
میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں عبدہٗ کی جو شان ہے، عبد کامل کا جو مقام ہے، اس کے تین پہلو بیان کئے گئے ہیں اور اس طرح رَسُوْلُہٗکی جو عظمت ہے اس پر بنیادی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں میں یہ اعلان کر دو اور کرتے رہو اور پھر ہمیں چونکہ تلاوتِ قرآن کریم کا حکم دیا ہے اور علم قرآن سکھانے کی ہدایت کی اور یہ تعلیم دی ہے کہ ہر زمانے اور ہر ملک میں امتِ محمدیہ کے افراد بھی یہ اعلان کرتے رہیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے کروایا گیا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں علم غیب رکھتا ہوں۔ پھر میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔ میں تو تمہیں یہ کہتا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر جو وحی نازل کی گئی ہے اس کا میں کامل متبع اور اول المسلمین ہوں۔
عبد کے معنے عربی لغت میں عاجزی اور تذلل کو اختیار کرنے اور اطاعت اور فرمانبرداری بجالانے والے کے ہیں۔ ایک اور معنے لغت میں یہ بھی کئے گئے ہیں کہ کامل اتباع اور فرمانبرداری اور کامل عاجزی اور تذلل اس وجود کے سامنے، اس ہستی کے حضور ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں ہر قسم کا کمال رکھتی ہو۔ اس لئے کامل عجز اور کامل اطاعت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو زیب نہیں دیتی۔ اُسی کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکنا چاہئے اور اسی کی کامل اطاعت کرنی چاہئے۔ پس اسی معنی میں عَبْدُہٗ کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی جو شان ہے اور اس کی جو عظمت اور قدر ہے، وہ اس کی ذات اور صفات کی معرفت پر منحصر ہے۔جتنا جتنا کوئی آدمی خداتعالیٰ کو جانتا اور پہنچانتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے وہ اسی قدر (اگر وہ اس کا بندہ بننا چاہتا ہے) اس کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکے گا اور انتہائی خشوع کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن میں ڈالے گا۔
جس طرح کہنے والے نے لغت میں یہ کہہ دیا کہ جس کی عظمت زیادہ ہوگی جس کی شان زیادہ ہوگی۔ جس کی کبریائی زیادہ ہوگی اسی نسبت کے ساتھ اس کے سامنے تذلل بھی زیادہ کرنا پڑے گا اور اس کی اطاعت بھی زیادہ کرنی پڑے گی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور قادر اور حکیم اور مالک اور صاحب حسن حقیقی اور احسان کرنے والا یعنی تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر قسم کی کمزوریوں اور نقائص سے منزہ ہے۔ اس لئے حقیقی اور کامل اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے۔ پس جس طرح اپنی جگہ یہ ایک حقیقت ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے رب عظیم اور رب کریم کی صفات کی کامل معرفت رکھنے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی تھے۔ آپ کے علاوہ دنیا میں نہ کسی ماں نے ایسا بچہ جنا اور نہ کبھی جنے گی، جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی کامل معرفت حاصل کی ہو اور اس کے نتیجہ میں کامل اطاعت اور فرمانبرداری کی راہ کو اختیار کیا ہو۔
جب ہم ’’عبد‘‘ کے ان معنی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عبدہٗ کے تفسیری معنے یہ نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کاملہ تامہ رکھنے کی وجہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی اور تذلل کرنے والے اور اس کی کامل اطاعت اور حقیقی فرمانبرداری کرنے والے تھے۔ کیونکہ آپ خالی عبد نہیں تھے بلکہ ’’عبدہٗ‘‘ کے مقام پر فائز تھے۔ آپ کا مقام اللہ تعالیٰ کے بندے کا مقام ہے یعنی ایک کامل عبد جیسا نہ آپ سے پہلے پیدا ہوا اور نہ آئندہ کبھی پیدا ہوگا۔
اب ہم ان تین پہلوئوں کو دیکھتے ہیں پہلے بشریت اور عبد ہونے کا پہلو یعنی عاجزی اور تذلل کے اس مقام کا اعلان کہ میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ انہیں لینا چاہو تو میرے پاس آجائو۔ دوسرے میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میں علم غیب جانتا ہوں۔ مستقبل کے متعلق جاننا چاہو تو مجھ سے آکر معلوم کر سکتے ہو۔ میرا تو یہ دعویٰ ہی نہیں ہے۔ تیسرے میں نے تمہیں یہ کب کہا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر اپنی طاقت سے پاک اور معصوم ہوں۔ اس لئے تم میرے پاس آئو۔
غرض پہلا مقام مقامِ عبودیت ہے جس پر عبد کامل ہمارا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کھڑا ہے اور آپ کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس اعلان کے بعد احمق ہوگا وہ شخص جو یہ اعلان کرتا پھرے کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ مجھ سے آکر لے لو اور بیوقوف ہوگا وہ آدمی جو یہ اعلان کرے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم غیب بتانے کا ملکہ یا قابلیت یا اہلیت یا مقام عطا ہوا ہے۔ اس لئے اے لوگو! علم غیب حاصل کرنا چاہو توتم میرے پاس آئو۔ میں تمہیں غیب کی باتیں تمہاری منشاء کے مطابق بتادوں گا اور پھر احمق اور بدقسمت ہوگا وہ انسان جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس آواز اور اس اعلان کے بعد کہ میں نے کب کہا کہ میں فرشتہ ہوں، یہ دعویٰ کرے کہ وہ فرشتہ ہے۔ کوئی عقلمند انسان ، کوئی آدمی جو محمدؐ اور اس کے خدا سے پیار کرنے والا ہے۔ کوئی شخص جو الٰہی صفات کو جاننے والا ہے، کوئی عقل جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ دیکھا ہے، کوئی دل جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عاجزی اور تذلل کے مقام کا مشاہدہ کیا اور اسے محسوس کیا ہے۔ وہ اس قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہ بڑا خوف کا مقام ہے۔ میں ایک دن قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا۔ جب میں اس آیت پر پہنچا تو اس نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچا۔ یہ چار پانچ روز پہلے کی بات ہے۔ اس روز سے میں تو اپنے لئے تو بڑا فکر مند ہوں۔ پتہ نہیں انسان کیا کیا غلطیاں کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ہمارا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوت قدسیہ یا آپ کی برکتوں کے نتیجہ میں طفیلی اور ظلی طور پر صرف عبد کا مقام ہے۔ اس لئے ہمارا مقام نہ عبدہٗ کا ہے اور نہ رَسُوْلُہٗ کا۔
پس جس ہستی کا مقام عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ یعنی ان دو چیزوں کے ایک حسین امتزاج کا مقام ہے۔ اس نے تو اپنی عبودیت اور عبادت اور اس نے تو اپنی عاجزی اور انکسار کا اعلان اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیسیوں جگہ کر دیا اور اسی آیہ کریمہ میں بھی تین زاویوں سے اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے یعنی میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ میرا یہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ میرے پاس کسی اپنی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں میں تو محض اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور تذلل کرنے والا اور اس کے اطاعت اور فرمانبرداری کا جوأ اپنے گردن پر رکھنے والا ہوں۔ پھر میرا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ میں علم غیب رکھتا ہوں۔ میرا تو مقام یہ ہے کہ میری بیوی جو میری زندگی کا لحظہ بہ لحظہ مشاہدہ کرتی ہے، اگر وہ مجھ سے یہ پوچھے کہ کیا مجھے میرے اعمال کی وجہ سے نجات ملے گی تو میرا جواب یہ ہوگا کہ نہیں عائشہؓ! مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے نجات مل سکتی ہے اور تیسرے فرمایا کہ میرا یہ بھی دعویٰ نہیں ہے کہ میں فرشتہ ہوں اور کسی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں معصوم عن الخطا ہوں گو آپ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے معصوم کامل بھی ہیں۔
پس وہ جو خدا کا کامل بندہ بھی تھا اور اس کا کامل رسول بھی تھا وہ تو یہ اعلان کرے مگر ہم میں سے کوئی آدمی باوجود محض عبد ہونے کے اور وہ بھی طفیلی طور پر اور پھر باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی کامل معرفت نہ رکھنے کے یہ سمجھے اورکہے کہ وہ نعوذ باللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ گیا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دے۔
بعض نوجوان دماغ بہک جاتے ہیں۔ کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی بڑا بزرگ ہے۔ فلاں شخص بڑا فرشتہ ہے۔ میں کہتا ہوں فلاں شخص فرشتہ کیسے ہوگیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں یہ دعویٰ ہی نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ اور پھر فلاں آدمی بزرگ کیسے بن گیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔
(النجم:۳۳)
جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارا مقام عبد ہونے کا مقام ہے اور وہ بھی طفیلی طور پر کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو خدا اور اس کی صفات کی معرفت کس نے حاصل کرنی تھی اور اس عظمت اور جلال کو دیکھ کر اپنے عبد ہونے کے مقام کو کس نے پہچاننا تھا۔
پس اللہ کے عبد کے مقام کی حیثیت میں ہمیں جو کچھ ملا ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل ملا ہے۔
اس آیۂ کریمہ میں ان تین اعلانوں کے بعدجو عَبْدُہٗ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رَسُوْلُہٗ سے تعلق رکھنے والا یہ اعلان کروا دیا۔ یعنی میں تو اس وحی کی اتباع کرنے والا ہوں جو مجھ پر کی گئی ہے۔ یہ میرا اعلان ہے اور بس۔ اس کے بعد فرمایا اندھا اور صاحب بصارت و بصیرت برابر نہیں ہوا کرتے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت نہیں رکھتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ شخصیت جو عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗکے حسین امتزاج سے بنتی ہے اسے نہیں جانتا، وہ نہ قرب الٰہی، نہ محبت الٰہی اور نہ مقام عبد کو پہچان سکتا ہے اور نہ اسے حاصل کر سکتا ہے لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو قرآن کریم کے بیان کے مطابق جانتا ہے اور جو یہ بھی جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عبد ہونے کہ لحاظ سے بھی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں اور رسول ہونے کے لحاظ سے بھی آپ خاتم الانبیاء کا مقام حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آپؐ یہ اعلان کرتے ہیں:-

حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک ارفع، اعلیٰ صاحب کمالاتِ کاملہ نبی تھے۔ آپ خداتعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب نبی تھے اور آپ اللہ تعالیٰ کے اتنے پیارے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ اگر میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کرو۔ اگر تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بتائی ہوئی راہوں سے پرے ہٹ جائو گے اور آپ کی برکتوں سے دوری اختیار کروگے تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو نہیں پا سکو گے۔ جو شخص اس حقیقت کو پہچانتا ہے، وہ بڑا خوش قسمت ہے۔
پس سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام سے کہیں نیچے ہے۔ ایک معاً نچلا مقام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آگیا یا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آگیا۔ پھر دوسرے انبیاء علیھم السلام کا درجہ بدرجہ مقام ہے۔ پھر ان کے نیچے ان لوگوں کا مقام ہے جو نبی نہیں بلکہ محض عبد ہیں اور جس میں ہم سب شامل ہیں۔
پس ہمیںاپنا مقام پہچاننا چاہئے۔ ہمیں بزرگی یا فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ اور لرزاں و ترساں اپنی زندگی کے دن گذارنے چاہئیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے جب یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ میں تمہیں یہ کہتا ہی نہیں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس علم غیب ہے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں تو پھر تم (یا میں) کس منہ سے اس کا (جس کا اتنا انکار کیا گیا ہے) یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟
سورۃ انعام میں آگے جاکر بڑی لطیف تفسیر بیان ہوئی ہے۔ اس کی طرف میں اس وقت اشارہ کر دیتا ہوں۔ فرمایا تھا (الانعام :۵۱)کہ اے رسولؐ! تم یہ اعلان کر دو کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیںہیں۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خزائن اللہ ہیں۔ اب جہاں تک خزائن اللہ کے نہ ہونے کا تعلق ہے یہ عَبْدُہٗ کا حصہ ہے۔ رَسُوْلُہٗ کا جو حصہ ہے بالکل اس کے مقابلے میں جو آیتیں آئی ہیں وہ اس کو اسی طرح کھول رہی ہیں جس طرح گلاب کی پتیاں ِکھل رہی ہوتی ہیں اور گلاب کا پھول خوبصورت سے خوبصورت تر بنتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح انکار کیا خزائن اللہ کے ہونے کا۔ اور اقرار کیا اس بات کا کہ یہ رسول بشارت و انذار کرنے والا ہے۔ اب سوچنا یہ چاہئے کہ ڈرایا کس چیز سے جاتا ہے اور بشارت کس چیز کی دی جاتی ہے۔ ڈرایا جاتا ہے اس بات سے (یعنی جب قرآن کریم ڈرائے۔ ہم اس کی بات کر رہے ہیں۔ خوف مختلف قسم کے ہوتے ہیں لیکن اس وقت ہم دینِ اسلام، خداتعالیٰ اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ پس خداتعالیٰ کے انبیاء بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے کامل انذار یہ ہے) کہ وہ خزائن اللہ جنہیں تم حاصل کر سکتے ہو، اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں تم خود کو اُن خزائن سے محروم نہ کر دینا۔ بشارت کسی چیز کی دی جاتی ہے بشارت اس چیز کی دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ تمہارے لئے نہ ختم ہونے والے دینی اور دنیوی خزائن مشروط طور پر مقدر کر رکھے ہیں۔ اگر تم قرآنی تعلیم کی اتباع کرو گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جن راہوں پر قدم رکھے، تم بھی ان راہوں پر قدم رکھو گے تو تم بھی ان خزانوں تک پہنچ جائو گے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تو خزانے نہیں لیکن میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی طرف راہنمائی کر سکتا ہوں۔ اسی لئے میں دنیا میں رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔ بلاغ میرا کام ہے۔ میں تمہیں ا س بات سے ڈراتا ہوں کہ اگر تمہارے اعمال گندے اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جو خزانے پیدا کئے ہیں اور جو نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں تم اُن سے محروم ہو جائو گے اور میں تمہیں اس بات کی بشارت بھی دیتا ہوں کہ اگر تم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو گے اور میرے اسوہ کی پیروی کرو گے تو پھر خداتعالیٰ کے نہ ختم ہونے والے خزائن سے تم حصہ پائو گے مگر اپنی اپنی استعداد کے مطابق۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزائن نہیں (میں اگلی آیت کو جوڑ کر اس کا اکٹھا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں) میرے پاس وہ انذار ہے کہ جس پر اگر تم کان دھرو تو محرومی سے بچ سکتے ہو۔ میرے پاس وہ بشارت ہے کہ جس کے مطابق اگر تم عمل کرو تو تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خزائن اللہ کے مالک بن سکتے ہو۔
غرض کی رو سے اور عبد کامل کی حیثیت میں فرمایا۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں لیکن چونکہ میں بشیر اور نذیر ہوں (اگلی آیت کی رو سے) اس لئے اگر تم میرے مقام (اور آپؐ کا مقام تمام انبیاء میںسب سے ارفع ہے) کو پہچانو گے اور میرے اسوہ کی پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے خزانے تمہیں مل جائیں گے اگرچہ وہ خزانے میں محض اپنی طاقت سے تمہیں دے نہیں سکتا۔
پس انکار کیا خزائن اللہ کے ہونے سے اور اقرار کیا اس بات کا کہ محرومی کے راستوں کو میں بند کرتا اور حصول رحمتِ باری کی راہوں کو میں کشادہ کرتا ہوں۔ چنانچہ ان اگلی آیتوں میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔
فرمایا:-

پھر فرمایا:-

(الانعام:۵۳)
اور پھر فرمایا:-

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ رَسُوْلُہٗ کی حیثیت میں یہ اعلان کیا گیا تھا اس کی آگے تفصیل بیان فرمائی جو ان تین باتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہے جن کا انکار کیا گیا تھا یعنی پہلے انکار کیا گیا تھا کہ میرے پاس خزائن ہیں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہوں اور اپنے اس مقام کے لحاظ سے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ پس عَبْدُہٗکی حیثیت سے اس بات کا انکار کیا گیا تھا کہ میرے پاس خزانے ہیں لیکن رَسُوْلُہٗ کے مقام سے یہ اعلان کیا گیا کہ میں محرومی کی راہوں کوبند کرنے والا اور حصولِ رحمت کی راہوں کو کھولنے اور اُن کو کشادہ کرنے والا ہوں۔
دوسرے فرمایا تھا کہ اے رسولؐ! یہ اعلان کرو میں غیب نہیں جانتا یہ آپؐ کی عبودیت کاملہ کا مقام ہے۔ آپؐ کی اس حیثیت سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا اور یہ صرف فلسفیانہ باتیںنہیں۔ آپ اپنے ماحول میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کئی لوگ غیب کے علم کے جاننے کادعویٰ کر دیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں بھی کئی ناسمجھ لوگ یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ شام کے وقت ہم سے دعا کے لئے کہو اور عشاء کے وقت ہم سے جواب لے جائو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ ان کا نوکر بن کر ہر وقت اُن کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے۔ العیاذباللہ! العیاذ باللہ!! لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان دیکھیں۔ آپ عَبْدُہٗ یعنی اللہ تعالیٰ کے عبد کامل تھے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، بچوں کے سمجھانے کی خاطر میں پھر دہرا دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے وہ عبد تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت حاصل کی تھی مگر اُس کی عظمت اور جلال کلی طور پر جاننے کے بعد انتہائی عاجزی اور تذلل، انتہائی اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنا سر اُس کے حضور جھکا دیا۔ پس آپؐ تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں غیب جاننے کا کوئی دعویٰ ہی نہیں کرتا تو پھر آپؐ کی امت میں سے کسی شخص کا غیب کے جاننے کا دعویٰ کرنا تو سراسر جہالت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا مقام رَسُوْلُہٗ کا مقام ہے یعنی رسول کامل کا اور آپؐ کے اس مقام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
(الانعام:۶۰)
فرمایا یہ صحیح ہے کہ خدا کا یہ بندہ غیب نہیںجانتا لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ یہ خدائے قادر و توانا کا رسول کامل ہے۔
یہ اس ہستی کا رسول ہے جو غیب کو جانتا ہے اور جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ اس واسطے غیب کی بہت سے باتیں رسول ہونے کی حیثیت میں سکھائی جاتی ہیں تاکہ یہ تمہاری اصلاح کر سکے لیکن عبد ہونے کی حیثیت میں تمہیں غیب کی باتیں نہیں بتائے گا۔ پس جو محض عبد ہیں ان کو بہکنا نہیں چاہئے۔
چنانچہ عَبْدُہٗکے مقام سے انکار کروایا اور رسول کے مقام سے اقرار کروایا کہ کہ اس کے پاس غیب کی چابیاں ہیں۔ یہاں علم غیب نہیں کہا کیونکہ اس میں بھی ایک مصلحت ہے اور یہ الگ الگ مضمون ہے۔ ویسے قرآن کریم کے مضامین کے بطون تو لامحدود ہیں لیکن اس کا ایک بطن یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ غیب کا علم رکھتا ہے (جیسا کہ انکار کیا گیا تھا) بلکہ فرمایا وہ غیب کی چابیاں رکھتا ہے۔ وہ صاحب ہے۔ غیب کا علم رکھنے میں یہ تو نہیں آتا تھا کہ وہ کسی کو غیب سکھائے گا بھی لیکن چابی رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ کسی کے لئے اسے کھولے گا۔ تاہم جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اُسے تو چابی کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کا تعلق تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے اور جب کوئی چیز کھولی جاتی ہے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ دوسرے کو دینے کے لئے ایسا کیا گیا ہے مثلاً اگر کوئی ایسی چیز ہے جو کسی صندوق یا کمرے میں بند پڑی ہے اور جس کے پاس وہ چیز نہیں اُسے دینی مقصود ہے یا جس کا علم دوسرے کے پاس نہیں اسے یہ بتانا ہو تو تب مِفْتَاح کی ضرورت پڑتی ہے۔ خداتعالیٰ کو تو مِفْتَاحکی ضرورت نہیں وہ تو علام الغیوب ہے قرآن کریم کہتا ہے اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ کسی وقت، کسی آن، کسی لحظہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لئے اس مِفْتَاح یا مَفَاتِحْکی ضرورت تو انسان کو پڑتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
عبد کے مقام سے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے یہی سجتا تھا کہ اور اس کے مقام سے (میں نے بتایا ہے کہ آپؐ کی ذات میں عَبْدُہٗ ورَسُوْلُہٗ کا ایک بڑا ہی حسین امتزاج ہے) یہ اعلان کروایا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس لئے تم میرے ذریعہ بھی غیب کا علم حاصل کر سکتے ہو اور جو راہیں میں بتاتا ہوں ان کے ذریعہ براہ راست بھی حاصل کر سکتے ہو۔ معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غیب کی الجھنوں، غیب کی تکلیفوںاور غیب کی ناکامیوں کو (جو ابھی نہیں آئیں)دور کرنے کی چابی دی گئی ہے۔ اس واسطے اپنی دعا کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اپنی بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلنے کا سامان بھی میں نے تمہیں دے دیا ہے۔
پس جہاں عَبْدُہٗ میں کہا تھا وہاں رَسُوْلُہٗ میں کہا کہ اگرچہ میں اپنی ذات میں علم غیب نہیں رکھتا لیکن میرا ایک ایسی ہستی کے ساتھ تعلق ہے جو اپنی صفات میں کامل ہے اور جس نے اپنی رحمتوں سے بنی نوع انسان کو نوازنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اُس نے مجھے اس دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے۔ میں اس کا رسول ہوں ختم المرسلین ہوں اس لئے میں نے تمہارے لئے ہر دو طریق سے پیشگوئیاں کی ہیں۔ چنانچہ غیب کے متعلق یہ پیشگوئیاں قرآن کریم میں بھی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشادات میں بھی ہیں اور آپؐ کے ارشادات بھی دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔ چنانچہ تیرہ سو سال پہلے کسی نے کہا تھا کہ امت محمدیہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک محبوب مہدی ظاہر ہوگا۔ یہ اسی محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا اور یہ ایک ایسی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو ایک لمبے عرصہ کے بعد پوری ہوئی ہے اور تم اس کے خود شاہد ہو۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں مہدی کے ظہور کی ایک ایسی علامت بتاتا ہوں کہ جس کے پورا ہونے پر کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کرے گا اور وہ یہ علامت تھی کہ رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے کسی شخص کے دعویٰ کی صداقت کے لئے رمضان میں مقررہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن نہیں لگا۔ دوسرے فرمایا کہ میں تمہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ اس مہدی کے سچائی کے یہ دو گواہ دو دفعہ گواہی دیں گے۔ اور اس لئے کہ دنیا نے خود کو دو حصوں میں بانٹ دیاہوگا۔
ایک یہ HEMI SPHERE کہلائے گا جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسرا وہ HEMI SPHERE جس میں امریکہ واقعہ ہے اور اس میں دراصل اس کی صداقت کو لینے پر اتنا زور تھا کہ کہیں امریکہ میں رہنے والوں کو یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے کہ ہم نے معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگتے نہیں دیکھا یا ہندوستان میں رہنے والوں کو (پاکستان تو اس وقت بنا نہیں تھا) یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے کہ امریکہ کا کیا ہے یہاں تو چاند اور سورج کو گرہن لگتے نہیں دیکھا گیا۔ اب تو یہ لوگ ہمیں نعوذ باللہ انگریز کا ایجنٹ کہتے ہیں پھر کہہ دیتے کہ یہ امریکہ کا ایجنٹ ہے انہوں نے امریکیوں سے مل کر یہ جھوٹ بنا لیا ہے۔ خداتعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کی چھتوں پر سے میرے اس نشان کو دیکھو گے۔ کس نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ یہ کون تھا جو اپنے رب کریم کی طرف سے ہمارے لئے یہمَفَاتِحُ الْغَیْبِ لے کر آیا تھا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے جو عَبْدُہٗ کے باوجود رَسُوْلُہٗ بھی ہیں اور ہر دو لحاظ سے آپ کی بڑی شان ہے۔ ہماری تاریخ اور ہمارا قرآن آئندہ کی خبروں، پیشگوئیوں اور علم غیب کے متعلق ہمیںبہت کچھ بتاتا ہے۔ یہاں تک بتاتا ہے کہ ہم دعا اور صدقہ کے ساتھ کس طرح اپنی قسمتوں کو بدل سکتے ہیں۔ استغفار بھی دعا ہے۔ پس دعا اور صدقہ کے ساتھ انسان غیب کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل سکتا ہے۔ مثلاً یہ جو منذر خواب آجاتی ہے یہ تمہیں ڈرانے کے لئے نہیں آتی۔ یہ تمہاری بہبود کے لئے آتی ہے۔ یہ اس لئے آتی ہے کہ تم خداتعالیٰ کے حضور صدقہ دو، مالی قربانی دو، اپنے جذبات اور روح کی قربانی دو تاکہ وہ خطرہ جو منذر خواب میں نظر آیا ہے وہ ٹل جائے۔ یہ بھی دراصل ایک ہے ۔ تو بے شمار ہیں مگر اس وقت ان کی تفصیل میں مَیں نہیں جاسکتا۔
غرض فرمایا تھا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ یہ عَبْدُہٗ کی صدا تھی کیونکہ عبد کی حیثیت میں مقام تذلل و عاجزی اور اطاعت و فرمانبرداری کے لحاظ سے آپؐ کے منہ سے یہی نکلے گا ۔ میری ذات میں کیا خوبی ہے۔ اسلئے میں کسی غیب کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہمارا رسول بھی ہے۔ یہ ہمارا محبوب بھی ہے یہ ہمارا محمدؐ اور خاتم النّبیّن بھی ہے۔ ہم اس کے ہاتھ میںغیب کی چابیاں پکڑا دیں گے۔ سارا قرآن غیب کی چابیاں ہی تو ہے۔
پھر جہاں تک غیب کا تعلق ہے سب سے بڑا غیب، سب سے اہم غیب اور سب سے زیادہ جس غیب کی ہمیں فکر کرنی چاہئے وہ مرنے کے بعد آخرت کی زندگی کے متعلق غیب ہے۔ اس غیب کے متعلق قرآن کریم کی ایک ایک آیت ہی نہیں بلکہ میں کہتا ہوںایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اس کی چابی ہے۔
پس فرمایا یہ چابیاں ہیں۔ ان کو لگائو اور قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیاں گذارو۔ جنت کے قفل تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ جنت غیب ہی تو ہے۔ حاضر کہاں ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی غیب ہے۔ یہاں تو کوئی ارواح نہیں۔ وہ تو اپنے اپنے مقام پر ہیں۔
اس آیت میں تیسرا اعلان ایک تیسرے نقطہ نگاہ سے یہ کیا گیا تھا کہ

میں یہ نہیںکہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری حفاظت کروں گا کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ہم فرشتے بھیجتے ہیں۔ ہماری تعبیر الرویاء کی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے اور ہمارے احمدی مردوں اور عورتوں کا تجربہ بھی یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ہماری حفاظت کے متعلق بتانا ہو تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی بتایا کرتا ہے کہ میں اپنے فرشتوں سے تمہاری حفاظت کروائوں گا یا یہ فرمایا ہے کہ میں نے تمہاری حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے ہیں۔
پس اس معنی میں میں یہ اعلان ہوگا کہ میں بحیثیت عَبْدُہٗ تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔
کے دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ میں اپنی پاکیزگی کا اعلان نہیں کرتا۔ اس لئے ہم میں سے کسی آدمی کا یہ کہنا کہ فلاں شخص تو فرشتہ ہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ اس کا تو یہ مفہوم بنتا ہے کہ فلاں آدمی بالکل معصوم ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ ہے حالانکہ اس چیز کا دعویٰ تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ اگر میرے محبوب بندے بننا چاہتے ہو تو تم اپنی طرف سے یہ اعلان نہ کرنا کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ یہ اعلان کرنا ہے کہ میں لوگوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں۔ یہ عَبْدُہٗ کا اعلان تھا جو کی صورت میں کیا گیا۔ رَسُوْلُہٗ کا اعلان سورہ انعام میں آگے جاکر یوں آتا ہے:-
(الانعام:۶۲)
یعنی جس ہستی کا یہ رسول ہے وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور عربی زبان میں اس غلبہ کے ساتھ عاجزی اور تذلل کے معنے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اسلئے ہم اس کے یہ معنے بھی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے۔ اُس نے اپنی مخلوق کے ایک حصے کو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے پر جبراً مجبور کر دیا ہے۔ مثلاً یہ ہوائیں ہیں، یہ فرشتے ہیں مگر انسان کے لئے یہ حکم دیاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور تذلل کی راہوں کو اختیار کیا جائے کیونکہ وہ غالب ہے۔
غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں تو بندہ ہوں۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اپنے اندر کوئی غلبہ اور طاقت رکھتا ہوں لیکن میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ جس خدا کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں۔
وہ انسانوں پر غلبہ رکھتا ہے اور اُن سے تذلل اور عاجزی کا مطالبہ کرتا اور خواہش رکھتا ہے گو انسان کو اختیار دے دیا گیا۔ مگر خداتعالیٰ چاہتا یہی ہے کہ انسان اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکے اور اس کی بتائی ہوئی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے یعنی وہ نگران رسول بھیجتا ہے۔ وہ بندوں کی طرف نگران رسول ہو کر آتے ہیں۔ ان کی طرف خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اسی لئے ان کو پیغمبر بھی کہا گیا ہے اور نگران کی وجہ سے شہید اور شاہد بھی کہا گیا ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں غلطی ہوئی۔ کس رنگ میں غلطی ہوئی اور پھر کس طرح اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ وہ نگران کے طور پر انذار بھی کرتے ہیں اور تبشیر بھی۔ اس کے یعنی نگران ہونے کے لحاظ سے اور پھر اس لحاظ سے بھی کہ ان کے ذمہ یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو عاجزانہ راہوں سے بھٹکنے نہ دیں یعنی ان کو عاجزانہ راہیں چھوڑنے نہ دیں۔ اس لئے وہ بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔
پس یعنی نگران کے معنے میں پیغام لانے والا بھی ہوگیا اور جس کے معنے بشیر اور نذیر کے بھی ہیں اور یہ نگرانی اس معنے میں بھی ہے کہ لوگ خداتعالیٰ کی راہوں سے بھٹک نہ جائیں۔ قرآن کریم نے ہمیں دوسری جگہ یہ بتایا ہے کہ انسان کی یہ کوشش کہ کوئی آدمی صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائے بالکل لایعنی ہے اور اس کا نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ میرا کام ہے۔ یعنی اس چیز کی حفاظت کہ کوئی شخص صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائے خداتعالیٰ کی ذمہ داری ہے۔ یہ چیز انسان کے اختیار ہی میں نہیں ہے۔ جب انسان کو اس کے کہنے کے مطابق رسول یانگران یا شہید یا حافظ (حفاظت کرنے والا) کہا جائے گا تو یہ اس معنی میں کہا جائے گا کہ وہ دن رات دعائیں کرکے اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتا اور انسان کو گمراہ ہونے سے بچنے کی تبلیغ کرتا ہے۔
غرض عَبْدُہٗ میں یہ اعلان کیا تھا کہ میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور رَسُوْلُہٗ میں یہ اعلان کیا کہ میں خدا کا رسول اور حافظ بنا کر شہید اور شاہد بنا کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں۔ پھر ملک کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ میں یہ نہیںکہتا کہ میں پاک ہوں درحقیقت یہ ایک بڑا ہی عظیم اعلان ہے اور بڑا ہی حسین بھی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسی عظیم ہستی کی زبان مبارک سے یہ کہلوانا کہ میں فرشتہ نہیں دراصل یہ ہمیں سبق دینے کے لئے ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗکے حسین امتزاج کی رو سے جو بھی مقام ہے آپؐ اس مقام کو پہنچ گئے تھے۔
پس عَبْدُہٗ میں یہ اعلان کیا کہ میں فرشتہ نہیں ہوں۔ میں اپنے آپ کو معصوم اور بے خطا نہیں کہتا کیونکہ اگر مَعْصُوم عَنِ الْخَطَاء ہونے کا دعویٰ ہوتا تو پھر آپؐ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اے عائشہؓ! میں بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی جائوں گا۔ دوسری طرف یہ فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپؐ کے متعلق پہلے انبیاء نے بھی دعائیں کی تھیں اور یقین کیا تھا کہ آپ ایسے رسول ہوں گے جو کے مصداق ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! وہ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ایسے رسول ہوں گے جو اپنی طہارت اور پاکیزگی کے بلند مقام پر فائز ہوں گے اور یہ مقام انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوگا اور اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے وہ تمہاری پاکیزگی اور طہارت کے سامان پیداکرنے والے ہوں گے۔ یہ رَسُوْلُہٗ کی ندا ہے۔
کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ملک کے دونوں معنوں پر ہاوی ہے۔ یہ آگے تفسیر کے طور پر میں نے بتا دیا ہے۔ دوسری جگہ زیادہ وضاحت کے ساتھ، زیادہ تکرار کے ساتھ اور زور دینے کے لئے اور کے الفاظ آگئے ہیں۔
پس عَبْدُہٗ کے مقام کی رو سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیںکرتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں جب کہ رَسُوْلُہٗ کے مقام کی رو سے یہ اعلان کروایا گیا کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے قرب کا مجھے وہ مقام عطا فرمایا ہے کہ میں تمہارے گند دور کروں گا اور غلاظتوں کو دھو کر انہیںصاف کردوں گا اور تمہیں پاک اور مطہر بنادوں گا۔
چنانچہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ امت میں سے جس شخص نے بھی آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے آپؐ کے عَبْدُہٗ کے مقام میں ’’اسوہ‘‘ کے جو تقاضے تھے ان کو پورا کیا تو اس نے آپؐ کی وہ برکتیں جو رَسُوْلُہٗ کے مقام کی وجہ سے آپ کو حاصل تھیں ان کو طفیلی طور پر پا لیا مگر جن لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عبد کامل ہونے کے مقام کو پہچانا نہیں اور اَبآء اور اِسْتِکْبَار سے کام لے کر خود کو اس اعلان سے بھی بڑھ کر اعلان کرنے کا اہل سمجھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے کروایا گیا تھا تو انہوں نے رَسُوْلُہٗ کی برکتوں سے خود کو محروم کر دیا۔ ہماری تاریخ اس بات پر شاہد ہے اور ہمارے دل اس بات کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ خداکرے ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عَبْدُہٗ ہونے میںجو اسوہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے اس کی پیروی کرنے والے ہوں تاکہ خاتم الانبیاء اور افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے رَسُوْلُہٗ کے مقام سے جن برکتوں کا اعلان کرتے ہیں ان برکتوں سے ہم حصہ لینے والے ہوں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(از رجسٹر خطبات ناصر ۔غیر مطبوعہ)
ززز


احمد ی جماعتوںنے سخت ناموافق ہنگامی حالات کے
باوجود مالی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍مئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(التوبۃ:۹۸،۹۹)
پھرحضور انور نے فرمایا:-
ہم نے ۳۰؍ اپریل کو پچھلے مالی سال کو ختم کیا ہے اور یکم مئی سے جماعتی چندوں کے لحاظ سے ہم نئے مالی سال میں داخل ہو گئے ہیں۔
یہ گزرنے والا سال ہنگامی نوعیت کا سال تھا۔ ملک میں سٹرائیکس ہو رہی تھیں، ہنگامے ہو رہے تھے۔ کارخانے اپنے معمول کے مطابق چل نہیں رہے تھے۔ جو تجارتیں تھیں وہ بھی کچھ غیر یقینی حالات میں گذر رہی تھیں۔ خریدار چیزوں کو خریدتے ہوئے گھبراتے تھے اور جو تھوک فروش تھے وہ بیچتے ہوئے گھبراتے تھے۔ کچھ عجیب سے حالات تھے جن میں سے ہمارا ملک گذر رہا تھا۔ ملک کا ایک بڑا حصہ کٹ گیا اِس کا تجارتوں پر بھی اثر پڑا۔ پھر جنگ سے متأثر ہونے والے لوگ تھے جنہیں اپنے گاؤں، اپنے گھروں اور بہتوں کو اپنے سامان تک چھوڑنے پڑے۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو جنگ سے متاثر ہونے والے اپنے بھائیوں، رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کو پناہ دینی پڑی اور اُن پر خرچ بھی کرنا پڑا۔ اِن ساری باتوں کو دیکھ کر اور اِن حالات کی وجہ سے طبیعت فکر مند بھی ہوتی تھی اور دُعاکی طرف بڑی راغب بھی ہوتی تھی۔
دراصل الٰہی سلسلے ٹھہرنا نہیں جانتے اور نہ آگے بڑھ کر پیچھے ہٹنا اُن کی فطرت میں ہے۔ وہ تو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اور جب تک وہ اپنی قربانیوں میں اور اپنے ایثار میں اور اُس بے لوث محبت میں جو انہیں اپنے رب اور اپنے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہوتی ہے ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔
بہرحال ملک میں ایک ہنگامہ تھا۔ ایک غیر یقینی حالت تھی۔ دُکھ کے سامان تھے۔ بے چینی اور گھبراہٹ تھی۔ گاؤں کے گاؤں اپنی جگہ سے اُٹھ گئے۔ اِس افراتفری کا تجارتوں پر اثر تھا۔ کارخانوں پر اثر تھا۔ پیشہ وروں کے پیشوں پر اثر تھا۔ غرض اقتصادی زندگی درحقیقت درہم برہم ہو چکی تھی۔ ہمارے احمدی دوست بھی ساری قوم کے ساتھ ان تکلیفوں میں حصہ دار تھے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے بڑی فکر مندی تھی کہ کہیں ان حالات کے نتیجہ میں جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی نہ پیدا ہو جائے کیونکہ اس کے دو بداثرات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو جماعت کا جو کمزور حصہ ہوتا ہے(ابھی میں اس کمزوری کی بات نہیں کر رہا جو نفاق سے مشابہت رکھتی ہے) یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ جماعت کا جو کم تربیت یافتہ حصہ ہوتا ہے۔ اس کے دماغ پر یہ اثر ہوتا ہے کہ شاید جماعت کا قدم ایک جگہ آکر ٹھہر گیا ہے یا پیچھے کی طرف ہٹ گیا ہے۔ شیطان اُن کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ گو اُن میں سے اکثر شیطان کے وسوسے سے اثر نہیں لیتے لیکن بعض لے بھی سکتے ہیں۔
دوسرے ان حالات میں منافق اور کمزور ایمان والوں پر اس کا ایک تو یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں۔ دوسرے وہ سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں موقع مل گیا ہے مالی قربانیوں میں کمزوری دکھانے کا۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بڑا اچھا موقع ہے پیسے بچا لو۔ اگر کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے تجارتوں پر بُرا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے پیشے پر بُرا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے صنعت وحرفت پر بُرا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں اُٹھنا پڑا یا ہمارے دوستوں کو اُٹھنا پڑا ہے۔
سورئہ توبہ کے شروع میں منافقوں کا ذکر ہے پھر منافقوں کے متعلق بہت ساری باتوں کے ذکر کے بعد (جن کا بیان کرنا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا) اللہ تعالیٰ ان آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے کہ اعراب یعنی دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں میں سے بھی بعض منافق ہوتے ہیں۔ اصل مضمون یہ نہیں کہ دیہات میں رہنے والے منافق ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد نفاق کی ایک علامت ہے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے اور اس سے دونوں قسم کے منافق ہیں یعنی دیہاتی بھی اور شہری بھی۔ دیہات میں بھی جہالت کی وجہ سے کمزور ایمان والے یا منافقت رکھنے والے پائے جاتے ہیں کیونکہ منافقت کی اجارہ داری شہروں نے تو نہیں لی ہوئی۔ منافق ہر جگہ ہوتا ہے۔غرض منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو تو بہانہ چاہئے۔ قرآن کریم نے ان کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرماتا ہے:-
ایسے لوگ گردشوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ایک تو اس لئے کہ باتیں بنانے اور اعتراض کرنے کا موقع ملے اور دوسرے اس لئے بھی کہ ان کے دلوں میں جو مخالفت کا پہلو ہے اس کی تسلی کے سامان پیدا ہو جائیں اور زیادہ تر اس لئے بھی کہ ایسے حالات میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے وہ جماعتی نظام کے دباؤ کے نیچے مجبور ہو کر خدا کی راہ میں مالی قربانی دیتے تھے تو اب بچاؤ کی ایک صورت پیدا ہو گئی ہے چنانچہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے جو لوگ ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ الٰہی سلسلوں پر گردشیں تو آتی ہی رہتی ہیں لیکن مومن کے اوپر جب گردش آئے تو یہ اس کو امتحان سمجھتا ہے اور فرسٹ ڈویثرن یعنی اوّل آنے کی کوشش کرتا ہے اور جو منافق ہوتا ہے وہ اس کو قربانی سے بچنے کا ایک حیلہ بناتا ہے مگر حقیقی معنوں میں روحانی طور پر وہ خود اس بُری گردش میں جو اس کو اس دُنیا میںبھی اور آخرت میں بھی نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے مبتلا ہو جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا گردش تو آئے گی مگر ساتھ ہی تم بھی اس کی لپیٹ میں آؤ گے مومن جب اس گردش کے گردوغبار سے اپناسر باہر نکالے گا تو اس کا رب اسے زیادہ حسین پائے گا لیکن تم جب اس کے گردوغبار سے سر نکالو گے تو شیطان تمہیں زیادہ قریب پائے گا۔ اس لئے بُری گردش تو درحقیقت تم پر آئے گی۔ مومن کے اوپر ان گردشوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ مَیں آج تلاوت کر رہا تھا تو اِس آیت کے ایک معنی میری سمجھ میں یہ آئے کہ یہ منافق سمجھتے نہیں۔ گردش انہی کے اوپر آکر پڑتی ہے۔ اس سے نقصان انہی کو ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقی مومن ہوتے ہیں ان کو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آسمانی گردش کے بد اثرات منافق پر پڑتے ہیں اور یہ اس لئے پڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے وہ ان کے زبانی دعووں کو بھی سنتا اور جانتا ہے اور ان کے دلی خیالات سے بھی واقف ہے ان کے زبانی دعووں اور دلی خیالات میں جو تضاد پایا جاتا ہے، وہی ان کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس تضاد کو جانتا ہے اس واسطے کی رو سے بڑی گردش میں وہی مبتلا ہوں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الٰہی سلسلوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی خدا اور اس کے رسول پران کا ایمان بڑا پختہ ہوتا ہے اور وہ آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لئے بڑی قربانیاں دیتے ہیں اور اس دُنیوی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو مال خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یعنی ان کا ایمان لانا اور خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کے لئے ضرور خداتعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔
اس سے پہلے فرمایا تھا ِ۔ یعنی اُنہوں نے ذریعہ بنایاتھا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض کو جذب کرنے کا اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو فیوض کا ایک دریا چلایا ہے۔ ان فیوض سے حصہ لینے کا اور اس کی رحمت میں شریک ہونے کا جو رحمۃ اللعالمین کے ذریعہ دُنیا کی طرف نازل ہوئی تھی۔ فرمایا کہ ہاں قُرْبَۃٌ لَّھُمْ یعنی اسے انہوں نے قربت کا ذریعہ بنایا ہے۔انہوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی رضا کے حصول اور اس کے مقرب ہونے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان پر پختگی سے قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جو مال دیتا ہے وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا انہیں ضرور حاصل ہو گی۔ دوسرے فرمایا تھا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں اور ان کی قبولیت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کے لئے وہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔پس گو ظاہری لحاظ سے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض سے بہرہ ور ہوں گے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو رحمۃ اللعالمین کے فیوض سے حصہ پائے۔ پس چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیوض سے حصہ لئے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمایا کہ ان کی قربانیوں کی جو غرض تھی یعنی اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے روحانی فیوض کا ورثہ ملے۔ یہ ان کو حاصل ہو جائے گا، کیونکہ اس کے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک تو یہ لوگ ہیں مگر ایک وہ بھی ہیں جوامت محمدیہ میں الٰہی سلسلہ کے لئے گردشوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ گردشیں آتی ہیں مگر امتحان کے لئے یہ مومن کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں لیکن ایک منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو ضرور نقصان پہنچاتی ہیں وہ گردش جس کا الٰہی سلسلہ کے لئے وہ انتظار کرتے تھے کی شکل میں ظاہر ہو کران کونقصان پہنچا دیتی ہے۔ وہ ان کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔
الٰہی سلسلوں میں اکثر لوگ تو مومن ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے ہیں۔ وہ اپنے سینوں میں ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں وہ صاحبِ فراست ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی رضا پر اپنی ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں۔ اس لئے وہ تنگی اور ترشی میں بھی اپنے وعدوں کو پورا کرتے اور اپنے اموال کو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض کے وارث بنتے ہیں۔
پس الٰہی سلسلوں میں یہ بات ہمیں نظر آتی ہے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ایک الٰہی سلسلہ ہے جو اس لئے قائم ہوا ہے کہ اس کے ذریعہ غلبۂ اسلام کی پیشگوئی پوری ہو۔غرض احمدیت کی شکل میں ایک مہم جاری کی گئی ہے جس کے ذریعہ اسلام غالب آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ساری دُنیا میں قائم ہو گی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بلند مقام لوگوں پر ظاہر ہو گا۔ جو دلوں میں ایک نور اور سرور پیدا کرنے والا بنے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ اس قسم کی منافقانہ باتیں درحقیقت الٰہی سلسلوں کی راہوں میں رکاوٹیں نہیں بنا کرتیں لیکن ایسے لوگ ہر الٰہی سلسلہ میں پائے جاتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی تھے اور بعد میں بھی اسلام میں ہر زمانے میں رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ چنانچہ کئی کمزور اور منافق طبع لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ سال گردشوں کا سال ہے تو انہوں نے سمجھا کہ شائد اس کے نتیجہ میں مجبور ہو کر، دُنیوی حوادث اور مصیبتوں کے نیچے آکر جماعت احمدیہ مالی لحاظ سے یا بعض دوسرے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو اپنی اس کیفیت اورکمیّت میں اس طرح ادا نہ کر سکے گی جس طرح وہ پچھلے سالوں میں ادا کرتی رہی ہے چنانچہ اس قسم کی باتوں میں سے ایک بات مجھ تک یہ بھی پہنچی کہ بعض منافق کہتے ہیں کہ اس خلیفہ کی نالائقیوں کی وجہ سے جماعت میں بد دلی پیدا ہو گئی ہے۔ ان میں بشاشت نہیںرہی بلکہ کمزوری آگئی ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ ایسی باتیں کر دو کیونکہ ملکی صنعت و حرفت پر اثر پڑا۔ تجارتوں پر اثر پڑا۔ لوگوں کو گاؤں کے گاؤںچھوڑنے پڑے۔ وہ بے گھر ہو کر دوسروں کے اوپر بوجھ بن گئے غرض ان کے دماغ میں تھا کہ اس سے کچھ نہ کچھ تو جماعتی چندوں پر بھی اثر پڑے گا اس لئے ایسی باتیں کردیتے ہیں۔ پھر کہیں گے ہم نے کہا نہیں تھا اب دیکھ لو اثر پڑ گیا ہے۔
جہاں تک میری لیاقت یا نالائقیوں کا سوال ہے، اس عاجز بندے نے کبھی لیاقت کا دعویٰ ہی نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمت اور اس کی فعلی شہادت نے ہر موقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ
میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار
لیاقت کا دعویٰ کرنے کا تو مطلب ہی کوئی نہیں۔ کوئی آدمی جو روحانی طور پر عقلمند اور صاحبِ فراست ہے، وہ اپنی لیاقت کا دعویٰ نہیں کیا کرتا۔ وہ تو اپنی عاجزی کا اظہار کیا کرتا ہے۔ وہ تو اپنی نیستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا سمجھتا ہے۔ اُسے تو نہ اپنی اور نہ کسی اور چیز کی ہوش ہوتی ہے اس نے اپنی لیاقتوں یا علمیت کا دعویٰ کیا کرنا ہے۔ لیکن وہ خدا جو قادر و توانا ہے، وہ نا چیز ذروں کو اپنے ہاتھ میں پکڑتا اور ان کے ذریعہ دُنیا کو اپنی قدرتوں کے جلوے دکھاتا ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ گذشتہ سال بڑا سخت سال تھا۔ میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے لئے فکر بھی پیدا ہوئی اور یہ امر میرے لئے دعائیں کرنے کا ایک سبب اور وسیلہ بھی بن گیا اور ذَکِّرْ کے حکم کے ماتحت میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ بھی دلائی تھی اور میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس قسم کی تکلیفیں اور ہنگامے الٰہی سلسلوں کی راہوں میں روک نہیں پیدا کیا کرتے۔
چنانچہ جب مالی سال ختم ہوا تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے جماعت احمدیہ کی مالی قربانی اس شکل میں ہمارے سامنے آئی کہ پچھلے سال مجلس شوریٰ کے مشورہ سے صدر انجمن احمدیہ کا جو بجٹ منظور ہوا تھا، اس میں اُس وقت کے حالات کے مطابق مشرقی پاکستان کی آمدوخرچ بھی شامل تھا لیکن بعد میں حالات بدل گئے تاہم مشرقی پاکستان میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ زندہ اور قائم ہے وہ اپنے کاموں میں مصروف ہے وہ غلبۂ اسلام کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔لیکن وہ اپنے چندے وہیں وصول اور خرچ کرتے ہیں۔ حالات ہی ایسے ہو گئے ہیںکہ ان کے چندے ہمارے حساب میں نہیں آسکتے۔ اس واسطے شوریٰ ۱۹۷۱ء کے پاس کردہ بجٹ سے مشرقی پاکستان کا جو حصہ تھا وہ اب ہمیں نکالنا پڑا کیونکہ یہ مغربی پاکستان کے بجٹ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ویسے یہ حصہ وہاں وصول ہو رہا ہے اور خرچ بھی ہو رہا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہاں بھی زیادہ آمد ہوئی ہو گی۔ غرض مشرقی پاکستان کے حصہ کی میزان ۴۷۰ ,۴۱, ۱ روپے بنتی تھی۔ اس کے متعلق میں نے متعلقہ نظارت کو کہا کہ گویہ آمد تو وہاں ہو رہی ہے لیکن اس کے اعداد وشمار کا ہمیں پتہ نہیں اس لئے اسے اپنے سالانہ بجٹ میں کیسے شامل کرو گے۔ اس لئے بجٹ سے خارج کر دو۔
اسی طرح کچھ زمین کی آمد ہے۔ جس کا جماعت کے اخلاص پر تو اثر نہیں پڑا یعنی اگر خدا نہ کرے! خدا نہ کرے! کبھی جماعت اپنی مالی قربانی میں مثلاً پچاس ہزار روپے پیچھے رہ جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین کی آمد ساٹھ ہزار روپے زیادہ ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ جماعت نے مالی قربانی میں قدم آگے بڑھایا ہے بلکہ فکر کی بات پیدا ہو جائے گی۔ اس واسطے میںنے کہا کہ زمین کا حصہ بھی علیٰحدہ کر دو۔ کیونکہ اس کو منہا کئے بغیر تو ہم صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ چنانچہ جب ہم نے بجٹ کا جو محاصل خالص ہے اس سے آمد زمین بقدر ۰۰۰,۵۵ اور مشرقی پاکستان سے متعلقہ ۴۷۰,۴۱,ا روپے کی رقوم کو علیٰحدہ کیا اور علیٰحدہ کرنا چاہئے تھا تو بقیہ جو بجٹ رہ گیا وہ ۱۷۱,۴۱,۳۷ روپے کا تھا۔ چنانچہ ان تمام ہنگاموں کے بعدا ور تمام تکالیف کے بعد اورتمام پریشانیوں کے بعد اور گاؤں چھوڑنے کے بعد اور مہمانوں، بھائیوں اور دوستوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا کر زیادہ بار اٹھانے کے بعد جو آمد ہوئی وہ ۰۲۸, ۷۵, ۳۷ روپے کی ہے یعنی جو مجوزہ بجٹ تھا اس سے ۸۵۷, ۳۳ روپے زیادہ ہے۔ الحمد للہ۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے چندوں میں کمی نہیں آئی حالانکہ منافق یہ سمجھتا تھا کہ کمی آجائے گی۔ منافق اپنے اخلاص (آخر کچھ نہ کچھ تو اخلاص اس کے اندر ہوتا ہے۔ اخلاص سے بالکل عاری تو ہم اسے نہیں کہہ سکتے ورنہ تو وہ ارتداد اختیار کر کے جماعت سے نکل جائے۔ اس کا کوئی پہلو تو ایسا ہوتا ہے جو ہمیں یہ امید دلاتا ہے کہ شاید ہماری تربیت سے اس کا نفاق دور ہو جائے بہرحال وہ اپنے اخلاص) کی کم مائیگی کو دوسروں کے اخلاص کو ماپنے کی کسوٹی بناتا ہے چنانچہ اب بھی اس نے سوچا۔ چلو پیشگوئی کر دو کہ جماعت احمدیہ بہت بد دل اور پریشان ہو گئی ہے اور اپنے اس خلیفہ کی نالائقیوں کی وجہ سے بشاشت کھو بیٹھی ہے۔ اُنہوں نے چندوں کا بھی ذکر کیا مجھے بھی رپورٹیں پہنچیں کہ دیکھ لینا اب ان کو پیسے نہیں ملیں گے۔ مگر اے منافقو! تم نے یہ بات کرتے وقت اندازہ لگایا تھا دُنیا کے حالات کا لیکن مومنوں کی اس جماعت نے اپنے عمل کی بنیاد اپنے ایمان پر رکھی ہوئی ہے۔ اس لئے مومنوں نے کہا یہ تکالیف یہ ابتلاء اور یہ ضرآء تو آتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے موقع پر مومن کی گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہا کرتا اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ دراصل منافق ایک مخلص مومن کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے اس کی اپنی ذہنیت، اس کا اپنا دل اور اس کی اپنی روح بنیادی طور پر ایک مومن کی ذہنیت اور اس کے اخلاص اور اس کی روح سے مختلف ہوتی ہے۔
پس اے منافقو! تم نے سمجھا تھا چندوں میں کمی آجائے گی۔ مگر مومنوں کی اس جماعت نے کہا چندوں میں کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ جو وعدے کئے گئے تھے اس سے زیادہ پیش کئے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰـۃ والسلام نے ایک جگہ جماعت کو
میرے درختِ وجود کی سرسبز شاخو!
کہہ کر جماعت سے بڑے ہی پیار کا اظہار فرمایا ہے۔ مَیں بھی آج خدا کی حمد سے معمور ہوں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو اپنی دُعا کے فقرہ میں شامل کر کے یوں دعائیہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ’’اے مسیح محمدی اور مہدی معہود علیہ السلام کے درختِ وجود کی وہ شاخو جو ثمرات حسنہ سے لدی اور جھکی ہوئی ہو، میرے رب کریم کا تم پر سلام ہو‘‘۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۱۸ جون ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۴)
ززز

ہمیں یہ عہد اور عزم کر لینا چاہئے کہ موجودہ مالی سال میں
ہمارا قدم ہر لحاظ سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍مئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درجِ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-

(البقرۃ۔۲۰۲)
پھرحضور انور نے فرمایا:۔
گذشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیںنے بتایا تھا کہ نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی اِس پیاری جماعت کو مالی قربانیوں میں پیچھے رہنے سے بچا لیا ہے۔ چنانچہ جو مجوزہ بجٹ تھا یعنی یہ اندازہ کہ جماعت دورانِ سال اِس قدر قربانی دے گی، اس سے زیادہ قربانی دوستوں نے پیش کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس لئے ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں۔
اب ہمیں یہ عہد اور عزم کرنا چاہئے کہ جس مالی سال میں ہم ابھی ابھی داخل ہوئے ہیں، اس میں بھی ہمارا قدم کسی لحاظ سے پیچھے نہیں رہے گا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔
مَیں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں سے اس کے حضور پیش کرنے کا جو مطالبہ ہے، ہماری مالی قربانی تو اس کا ایک چھوٹا سا جزو ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اُس نے انسان کو جتنی بھی قوتیں اور صلاحتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جو بھی سامان پیدا کئے ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ اُن سب کو میرے حضور پیش کر دو۔ یہ دُنیا کی تمام اشیاء اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ دراصل مقصود بالذات نہیں۔ وہ تو اس لئے پیدا کی گئی ہیں تاکہ انسان کو جو چار قسم کے مختلف بنیادی قویٰ دئیے گئے ہیں اور بنیادی طور پر چار قسم کی صلاحتیں اسے عطا کی گئی ہیں، اُن سے تعلق رکھنے والی ہر قوت اور ہر صلاحیت کی صحیح اورکامل نشوونما ہو سکے۔
غرض ہم نے اپنے مالوں میں سے ایک حصہ خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کیا ہے۔ یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جو اس دُنیا کے عام قاعدہ کی رو سے ملتی ہے۔ گو بعض استثنیٰ بھی ہوتے ہیں لیکن اصولی طور پر اور دُنیوی قاعدہ کے لحاظ سے یہ جو مال کی عطا ہے یہ انسان کو براہ راست نہیں ملتی بلکہ کوشش اور محنت کے نتیجہ میں جب اللہ تعالیٰ کا اس پر فضل نازل ہوتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مال اور دولت عطا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰـۃ والسلام نے فرمایا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے۔
اس کا اصولی طور پر ایک مفہوم تو یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ ہم ماں کے پیٹ سے کچھ نہیں لائے۔ دوسرے اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ کی جو عطا کردہ قوتیں ہیںاور جو طاقتیں ہیں مثلاً سمجھ ہے، فراست ہے، تجارت کرنے کی ایک صلاحیت عطا کی جاتی ہے یا زمیندارے کی صلاحیت ہے یا دنیا کے دوسرے کام ہیں جن کے نتیجہ میں دولت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ انسان کی ساری قوتیں جن کاتعلق اس دُنیوی دولت کے ساتھ ہے اور جن کے نتیجہ میں دولت پیدا ہوتی ہے، ان کی بنیادی چیز یہ ہے کہ محنت کی جائے۔
پس یہ محنت ہی ہے جس سے ہر قوت اور صلاحیت طاقت حاصل کرتی ہے۔ جس طرح انسانی جسم محنت سے طاقت حاصل کرتا ہے اسی طرح دوسری صلاحیتیں بھی محنت سے قوت اور طاقت حاصل کرتی ہیں اور نشوونما پاتی ہیں۔
غرض یہ محنت ہی ہے جس کے نتیجہ میں دُنیوی حسنات اور نعمتیں ملتی ہیں۔ مثلاً اگر دولت نہ ہو گی تو مالی قربانی نہیں ہو گی اگر علم اور فراست نہیں ہو گی تو دوسروں کو علم سکھانا اور عقل کی باتیں بتانا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر اخلاقی قوتوں کی صحیح نشوونما نہیں ہو گی یا اخلاقی قوتوں کی صحیح نشوونما کے لئے محنت نہیں کی جائے گی تو انسان دوسروں کے لئے اچھے اخلاق کا نمونہ پیش نہیں کر سکے گا کیونکہ لوگ اُسے کہیں گے تمہاری اپنی اخلاقی تربیت اور نشوونما نہیں ہوئی، تم ہمیں کیا بتاؤ گے۔ اگر روحانی طاقتوں کی نشوونما کے لئے مجاہدہ نہیں ہو گا تو روحانی صلاحیت روحانی ثمرات پر منتج نہیں ہو گی، اس کا کوئی پھل نہیں ملے گا۔ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا یا اتنا نتیجہ نہیں نکلے گا جتنا نتیجہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نکلے۔
پس یہ تمہید ہے۔ مَیں نے اسے مختصراً بیان کیا ہے۔ کیونکہ آج مَیں خطبہ کو مختصر کرنا چاہتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پانچ سات دن سے گرمی لگنے کی وجہ سے میں پھر بیمار ہو گیا ہوں۔ ایک تو میرے خون میں شکر زیادہ ہو گئی ہے۔دوسرے پانچ سات دن سے اتنی شدید سر درد ہے کہ عمر میں ایسی سر درد کم ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ جمعہ کی نماز سے دو چار گھنٹے پہلے یہ درد اچانک غائب ہو گئی لیکن پہلے جو بیماری تھی اس کا اب بھی اثر ہے۔ دراصل خود گرمی میرے لئے ایک بیماری ہے۔ جس طرح نزلہ اور زکام اور کھانسی اور ٹائیفائیڈ اور فلو اور ملیریا اور ہزار قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اسی طرح بعض لوگوں کے لئے گرمی بھی بیماری بن جاتی ہے۔
بہرحال آج میں مختصر خطبہ دینا چاہتا ہوں اور میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اس زاویہ نگاہ سے (جسے میں نے ابتدا میں مختصراً بیان کیا ہے اور جسے اکثر دوست سمجھ گئے ہوں گے) قربانی کی ماں دراصل محنت ہے۔ اگر آج محنت نہیں کریں گے تو آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہو گی جسے قربان کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا کرتا ہے۔ اگر آپ دُنیوی حسنات کے لئے خلوصِ نیت کے ساتھ محنت نہیں کریں گے اور محنت کو اس کی انتہا تک نہیں پہنچائیں گے توآپ کو دولت نہیں ملے گی۔
تاہم دُنیا میں ایک وہ انسان ہے جو دُنیا کے لئے دُنیا کماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے۔
(الکہف۔۱۰۵) یعنی ان کی تمام تر کوشش اس دُنیوی زندگی کے لئے ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک وہ انسان ہے جو دین کی خاطر اور خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے دُنیا کماتا ہے۔ اب جہاں تک دُنیا کے کمانے کا سوال ہے۔دونوں برابر ہیں لیکن جہاں تک دولت کے خرچ کرنے کا سوال ہے ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے کیونکہ ایک تو دُنیا کما کر زمینی بن گیا اور دوسرے نے دُنیا کمائی اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اس لئے ہر دو میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
پس کی جب دُعا سکھائی گئی تو اس کے ایک معنے یہ ہوئے کہ ہم خدا سے یہ کہیں کہ اے خدا!ہم نے انتہائی محنت اور انتہائی تدبیر کر دی دُنیا کمانے کے لئے ہم نے اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسی طرح دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اب اس مقام پر کھڑے ہو کر ہم یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہماری تدبیر اور ہماری دُعا تیرے فضل اورتیری رحمت کے بغیر نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی اس لئے تو اپنے فضل سے اس کا نتیجہ پیدا کر اور اس دُنیا کی حسنات میں ہمیں شریک اور حصہ دار بنا اور ہمیں اس کا وارث قرار دے تاکہ ہم دُنیا کی نعمتوں کو حاصل کر کے اور پھر ان نعمتوں کو تیری راہ میں قربان کر کے اپنی روحانی اور اُخروی حسنات کے لئے سامان پیدا کریں۔
غرض حقیقت یہی ہے کہ دُنیا کی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات مل نہیں سکتیں۔ میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں تاکہ بچے بھی سمجھ جائیں۔ جو شخص دُنیا کی حسنات سے کلی طور پر محروم ہو جاتا ہے اس کے اوپر روحانی حکم لگتاہی نہیں۔ اس کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاگل ہے۔ اس لئے جہاں تک ایک مجنون کی دُنیوی حسنات کے بارے میں محنت اور کمائی کا تعلق ہے یا اس کی کوشش اور مجاہدہ کا سوال ہے وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پاگل ہے۔ اس لئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسم اور زندگی بخشی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھائی دئیے، اس کو دوست دئیے اور اس کے اردگرد خیال رکھنے والے انسان بنائے۔ چنانچہ وہ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اپنی طاقتوں کا سوال ہے۔ اس کی کسی طاقت کے اوپر کوئی حکم نہیں چلا سکتا۔ وہ اپنے جنون میں کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو جج کہتا ہے کہ پاگل تھا اس سے قتل ہو گیا۔ ظلم ہو گیا لیکن اس کے اوپر کوئی الزام نہیں پس جو شخص مجنون ہے اس کے لئے دُنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے بند ہیں اور چونکہ دُنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے اس کے لئے بند ہیں اسی لئے اُخروی حسنات کی کمائی کا دروازہ بھی اس کے لئے نہیں کھولا جائے گا۔
پس ہم ایسے شخص کو مرفوع القلم کہہ دیتے ہیں۔ ہم اس پر نہ نیکی کا حکم لگاتے ہیں اور نہ بدی کا، نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے مالی قربانی دی اور نہ یہ کہ اُس نے مالی قربانی نہیں دی مثلاً اگر کوئی مجنون یا مرفوع القلم آدمی اپنے باپ کی تجوری کو کُھلا پائے اور وہاں سے دس ہزار روپے نکال کر جنون کی حالت میں کسی مستحق کو دے دے تو یہ نیکی شمار نہیں ہو گی کیونکہ اس نے جنون میں آکر ایسا کیا ہے یہ نیکی نہیں جنون ہے۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے اور قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ دُنیوی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات کے سامان پیدا نہیں ہوتے، اس لئے کہ اُخروی حسنات کے سامان اللہ تعالیٰ کی راہ میں دُنیوی نعمتوں کو خرچ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ جس کے پاس نعمت ہی کوئی نہیں وہ خرچ بھی نہیں کر سکتا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص نامرد ہے وہ پاک باز ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اُسے طاقت ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی طاقتیں اور صلاحتیں بخشی ہیں اور ان کے اوپر اُخروی نعمتوں کا انحصار ہے، یہ طاقتیں ماں ہیں اُخروی نعمتوں کے حصول کی، ان کے بغیر کوئی اُخروی نعمت نہیں مل سکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (البقرۃ:۴) اور بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیںاور ہر طاقت اور صلاحیت سے یہ مطالبہ فرمایا ہے کہ وہ میری راہ میں قربان ہو جائے۔ میں آپ کی بیان کردہ تفسیر کا مفہوم بیان کر رہا ہوں۔ الفاظ میر ے اپنے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارت تو بڑی حسین ہے مگر ہم عاجز بندے ہیں اور اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
غرض ہر انسانی طاقت خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ ہونی چاہئے۔ اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے دُنیوی رشتوں کے ساتھ پیار خداتعالیٰ کے لئے کرو گے تو نیکی حاصل کرو گے مثلاً اگر تم خداتعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں پیار سے لقمہ ڈالو گے تو تمہیں اس کا ثواب مل جائے گا۔ اب تو ویسے ہی دُنیا عیش وعشرت میں پڑی ہوئی ہے۔ ان کو تو کوئی ثواب نہیں ملتا کیونکہ نیت کا فرق پڑ گیا ہے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا جومقصد ہے اس مقصد میں فرق پڑ گیا ہے۔ ایک آدمی نے اپنی عیش کے لئے ایک کام کیا۔ دوسرے نے خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک کام کیا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دُنیا میں جو بھی قوتیں اور صلاحتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان سب کو پوری طرح نشوونما دینا یعنی انتہائی محنت کرنا ہمارا فرض ہے اگر ہم محنت نہیں کرتے تو ہم دُنیا کی نگاہ میں ۴؍۱ دولت دینے والے ہیں۔ اگر ہم نے ۴؍۱ دولت دی اور خداتعالیٰ کی نگاہ میں ہم صرف ۸؍۱ دولت دینے والے ہیں تو اس کی شکل یہ بنے گی کہ اگر ہم نے دولت کی کمائی کے لئے اپنی طاقتوں کی نشوونما صرف پچاس فیصد کی اور پچاس فیصد جو نشوونما ہوئی اس کے نتیجہ میں اگر ہم نے سو روپے حاصل کئے اور اگر سو فیصد نشوونما ہوتی تو دو سو روپے حاصل کرتے۔ مگر ہم نے پچاس فیصد نشوونما کر کے اسی نسبت سے دُنیا کی دولت کمائی اور پچیس روپے یعنی ۴؍۱ خدا کی راہ میں دے دیا لیکن خداتعالیٰ نے جو قوتیں اور صلاحیتیں پیدا کی تھیں وہ تو دو سو روپے کمانے کی تھیں۔ اس لحاظ سے خداتعالیٰ نے اپنی عطا کے مقابلے میں اگر یہ فرمایا کہ مثلاً ۴؍۱ دو تو یہ پچاس روپے بنتے تھے لیکن آپ نے پچاس میں سے پچیس دئیے تو گویا باقی پچیس کی حد تک آپ نے اپنے کو نیکیوں سے محروم کر دیا۔
غرض اللہ تعالیٰ آپ سے جو پیار کرنا چاہتا ہے اور اپنی رضا کی جو جنتیں آپ کے لئے پیدا کرنا چاہتاہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی عطا کردہ تمام قوتوں او رصلاحیتوں کی صحیح اور کامل نشوونما ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ محنت انتہائی طور پر کی جائے۔
چنانچہ لغت عربی میں یہ جو جہاد اور مجاہدہ کا لفظ آتا ہے اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ انسان اتنی محنت کرے کہ اس کے قویٰ تھک جائیں اور وہ زبان حال سے یہ کہہ اُٹھیں کہ اس سے زیادہ کام نہیں کر سکتے۔
پس انتہائی محنت نام ہے پوری اور وسیع قوت کو ہر لحاظ سے خرچ کر دینے کا اور اسلام ہم سے اسی قسم کی محنت کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سلسلہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ محنت کے بغیر نہ دُنیا میں کوئی ترقی ہوتی ہے اور نہ دین میںمحنت کے بغیر کوئی ترقی ہوتی ہے۔
خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو اپنے مقربین کے گروہ میںشامل کرنا چاہا لیکن اُس نے اپنی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی قوتوں کی کمال نشوونما نہیں کی تو وہ دوسرے درجے میں چلا گیا یا تیسرے درجے میں چلا گیا تو گویا خود کو اُس نے کئی نیکیوں سے محروم کر دیا یا مثلاً ایک کند ذہن طالب علم ہے وہ سکول کے امتحان میں تھرڈ ڈویژن لیتا ہے تو (اے بچو!) ماسٹر کہے گا ۔ الحمد للہ۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا پاس ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں ایک ذہین طالب علم ہے مگر اس نے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دی۔ وہ امتحان میں سیکنڈ ڈویژن لیتا ہے لیکن سیکنڈ ڈویژن لینے کے باوجود استاد کہتا ہے یہ بڑا ہی نالائق ہے۔ ہیڈ ماسٹر کہتا ہے یہ بہت ہی نالائق ہے۔ اگر یہ محنت کرتا تو یونیورسٹی میں فرسٹ آسکتا تھا لیکن اس نے اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو ضائع کر دیا۔
اس طرح خداتعالیٰ بھی اپنے بندوں سے فرمائے گا کہ میں نے تمہارے لئے کہیں آگے نکلنے کے لئے مواقع بہم پہنچائے تھے اور تمہارے اندر طاقتیں اور صلاحیتیں رکھی تھیں مگر تم نے میری اس عطا سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور جس طور پر میں تم پر فضل کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح تم نے میرے فضلوں کو حاصل نہیں کیا۔
پس قربانیاں دینے کی ماں دراصل محنت شاقہ ہے اور جہاں تک جنتوں کے حصول کے لئے انسانی کوشش کا تعلق ہے انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے تم تدبیر کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ۔ پھر دعا کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ اور پھر تدبیر اور دعا کے انتہائی مقام پر کھڑے ہو کر کہو اے خدا! ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تیرے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
پس یہ ہے ایک مسلمان کی ذہنیت۔ یہ ہے ایک مسلمان کی شان اور یہ ہے ایک احمدی کا طرّہ امتیاز۔ اس لئے تم محنت کرو، محنت کرو، محنت کرو، اور اے بچو تم بھی محنت کرو، پھر علم کے میدان میں، اخلاق کے میدان میں اور ہدایت پانے اور دینے کے میدان میں تم کسی سے پیچھے نہیں رہو گے بلکہ آگے ہی آگے نکلتے چلے جاؤ گے میرے بھائی اور بزرگ بھی محنت کریں۔ وہ دُنیا کمائیں تو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور پھر جو کمائیں وہ خداتعالیٰ کے قدموں میں قربانی کی شکل میں لا رکھیں کیونکہ اسی میں ہماری راحت، اسی میں ہمارا سکون ہے اور یہی ہماری جنت ہے۔
ہمارا نیا مالی سال شروع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ہمارا قدم پیچھے نہیں بلکہ آگے بڑھنا چاہئے لیکن اگر ہمارا قدم آگے بڑھنا ہے تو ہمارے زمیندار کی زمین کی پیداوار زیادہ ہونی چاہئے۔ ہمارے مزدور کو مزدوری زیادہ ملنی چاہئے تاہم مزدوری زیادہ ملتی ہے فراست کی زیادتی کی وجہ سے مثلاً ایک شخص اپنی فراست اور توجہ اور دُعا کے نتیجہ میں اَن سکلڈ لیبر (UNSKILLED LABOUR) کے گروپ میںسے نکل کر سکلڈ لیبر میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی تنخواہ ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اسی طرح مثلاً ایک ڈاکٹر ہے، وہ خلق خدا سے پیار کرنے کے نتیجہ میں زیادہ کما لیتا ہے کیونکہ ساٹھ روپے فیس رکھنے سے ڈاکٹر زیادہ نہیں کمایا کرتے جب کسی ڈاکٹر کی ساٹھ روپے فیس ہوتی ہے تو اس کے پاس دو چار مریض جاتے ہیں کیونکہ جس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہو گی وہی ساٹھ روپے فیس دے سکتا ہے اور وہی اس کے پاس جائے گا۔ غریب تو نہیں جا سکتا۔
جرمنی میںایک بوڑھے ڈاکٹر تھے جنہوں نے آپریشن کر کے میرے گلے سے غدود نکالے تھے اور یہ غالباً ۱۹۳۶ء کی سردیوں کی بات ہے۔ میں حیران ہو گیا۔ اُنہوں نے اتنے امیر ملک میں اپنی فیس صرف دو روپے رکھی ہوئی تھی مگر ان ساٹھ روپے فیس لینے والے ظالم ڈاکٹروں سے وہ زیادہ کما رہے تھے۔ کیونکہ وہ خدمت خلق کے جذبہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ حاصل کر رہے تھے۔ ان ساٹھ روپے فیس لینے والے ڈاکٹروں کے پاس تو دو تین مریض آتے ہیں۔ مگر ان کے پاس روزانہ سو دو سو مریض آتے تھے اور اس طرح روزانہ ۳۔۴ سو مارک کی کمائی تھی اُس زمانے میں روپے اور مارک میں تھوڑا سا فرق تھا۔ فرض کریں اگر تین سو روپے یومیہ ہو تو بارہ ہزار مہینے کی آمد تھی لیکن جو حریص ڈاکٹر ہے، اس نے یہ ہنر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کیا مگر خدمت خلق کے جذبہ سے محروم رہنے کی و جہ سے وہ دُنیوی لحاظ سے بھی ناکام ہوا۔ یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔
میں کہتا ہوں اگر ہمارا احمدی ڈاکٹر خدمتِ خلق کے جذبہ سے پیار کے ساتھ اور اس تڑپ کے ساتھ کہ غریب سے غریب بیمار بھی آئے گا تو میں اُسے بہتر سے بہتر مشورہ دوں گا۔ اگر اس طرح وہ کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت ڈال دے گا۔
پس اگر آپ کا یہ خلوص، اگر آپ کا یہ جذبہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ اعلیٰ، زیادہ اچھا اور زیادہ حسین ہو جائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو آپ پہلے سے زیادہ حاصل کریں گے۔
میں ڈاکٹروں کے متعلق بات کر رہا تھا۔ ہماری حکومت نے اب ڈاکٹروں پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں۔ ایک احمدی ڈاکٹر میرے پاس آئے او رکہنے لگے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے ہماری کمائی میں کمی واقع ہو جائے گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کی موجودہ ذہنیت کے مطابق کمی ہو جائے گی لیکن اگر آپ اپنی ذہنیت بدل دیں تو زیادتی ہو گی کمی نہیں ہو گی۔ ان کو میں نے یہی خدمت خلق کے جذبہ سے کام کرنے والی بات بتائی توکہنے لگے یہ تو ٹھیک ہے اس سے تو ڈاکٹروں کی آمدنی میں زیادتی ہو گی۔ غرض ایک احمدی ڈاکٹر کو کس نے یہ کہا ہے کہ وہ زیادہ فیس لے۔ اُس نے تو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ یہ ہے اس کی اصل فیس یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ اس دُنیا میں بھی مال دے دیتا ہے اور پھر کہتا ہے۔ اسے میری راہ میں خرچ کر دو۔
پس ہر احمدی ڈاکٹر کو ضمناً میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ غریب سے غریب مریض بھی جسے اس کے طبی مشورہ کی ضرورت ہو، وہ اس کے طبی مشورہ سے اس لئے محروم نہ رہے کہ اس کی فیس زیادہ ہے۔ہمارے اطباء نے پہلے زمانے میں یہ طریق رکھا ہوا تھا کہ وہ غریب آدمی سے فیس نہیں لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ جو بہت زیادہ غریب ہوتا تھا اس سے دوائی کی قیمت بھی نہیں لیتے تھے لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سونا چاندی عطا کیا ہوتا تھا وہ جب اُن سے علاج کروانے آتے تھے تو اُن سے کہتے تھے کہ نکالو پانچ ہزار یا دس ہزار یا پندرہ ہزار روپے یعنی جتنا جتنا کوئی امیر آدمی ہوتا تھا اس سے اتنے ہی زیادہ پیسے وصول کر لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں ان کے اموال میں برکت بخشی تھی۔ ان کے دل میں ایک جذبہ تھا کہ ہم نے غریب آدمی کی خدمت کرنی ہے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی غریب بیمار محض غربت کے نتیجہ میں ہماری مہارت اور ہنر سے (جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے) محروم نہ رہے۔
یہ تو میں نے احمدی ڈاکٹروں کا نام لے کر کہا ہے۔ میری مراد اس سے وہ پیشہ ہے جسے ایک احمدی نے اختیار کر رکھا ہے۔ اس کو ایک تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ خدمتِ خلق کا جذبہ برقرار رہے۔ دوسرے محنت کو اس کی انتہا تک پہنچا دیا جائے۔
پس احباب جماعت کو چاہئے کہ اس نئے مالی سال میں اپنی محنت کو اپنی تدبیر کو اور اپنی دعا کو انتہا تک پہنچا دیں۔ پچھلے سال کی تدبیر اور دعا کے نتیجہ میں ( اگر وہ مقبول ہوئی تو) آپ کو زیادہ تدبیر اور زیادہ دعا کرنے کی توفیق ملے گی۔ اس لئے تم اس توفیق سے فائدہ اُٹھاؤ۔ زیادہ تدبیر کرو، زیادہ دعائیں کرو اور اس چیز کو نہ بھولو کہ دُنیا کی جو نعمتیں ہیں اُن سے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو محروم نہیں کیا بلکہ اُسے دُنیا کی ساری نعمتیں دے کر فرمایا کہ دیکھو! یہ اُخروی جنتوں کے دروازے کھولنے کی چابیاں ہیں ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کرلو۔ اگر دُنیا کی نعمتوں سے ہم محروم کر دئیے جاتے تو پھر جنتوں کے دروازے کھولنے کے لئے مسلمان کے ہاتھ میں کوئی چابی نہ رہتی۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے رہبانیت سے منع فرمایا ہے کیونکہ رہبانیت جس شکل میں اس وقت دُنیا میں رائج ہے وہ جنت کے دروازہ کو بند کرتی ہے۔ ویسے تو ذہنی طور پر ایک مسلمان کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ دُنیا سے اس کا کوئی تعلق اور کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن جیسا کہ دُنیا میں اس وقت رہبانیت رائج ہے۔ اس شکل میں یہ جنت کے دروازوں کو بند کرتی ہے جیسا کہ دُنیا کی ساری نعمتیں اگر ان کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کے مطابق خرچ کیا جائے تو یہ جنت کے دروازوں کو کھولتی ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دُنیوی حسنات جنت کی حسنات یا اُخروی زندگی کی حسنات کی جنتوں کے دروازوں کو کھولنے کی چابی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہم میں سے ہر شخص کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے محبوب فرزند مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا ہے، اس کو دُنیاکی نعمتوں سے بھی سرفراز فرمائے اور دُنیا کی نعمتوں کو جنتوں کے دروازے کھولنے کی چابیاں بنانے کی بھی اسے توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا۔ اور اس کے فضل سے ہر چیز ممکن ہے۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۳ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ززز

نبی اکرم ﷺ کی مبارک زندگی تمام بنی نوع انسان کے لئے کامل، اعلیٰ اور حسین نمونہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جون ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-
(النحل :۱۲۶)

(الانبیاء:۴۹،۵۰)

پھر حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے دنوں گرمی کی وجہ سے مجھے کافی تکلیف رہی ہے۔ شروع میں تو دوران سر کی بہت تکلیف رہی چنانچہ چکروں کے احساس کا یہ عالم تھا کہ بستر پر اُٹھ کر بیٹھتا تھا تو ساری دنیا گھوم جاتی تھی۔ اسی طرح جب لیٹتا تھا تو زمین و آسمان چکر کھانے لگتے تھے۔
چکروں کی تکلیف سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی آرام آگیاہے لیکن کچھ تو بیماری کی و جہ سے ضعف پیدا ہو گیا اور کچھ دوائیں جو چکر دور کرنے کے لئے دی گئی تھی انہوں نے اتنا ضعف پیدا کیاکہ ضعف پیدا کرنے میں ان کامقابلہ کوئی اور دوائی شاید کم ہی کرتی ہو۔ یہ گرمی جو میری بیماری بن چکی ہے۔ اس کی تکلیف تو ابھی تک جاری ہے لیکن چونکہ چند دنوں تک ربوہ سے باہر جانے کا ارادہ ہے اس لئے دل نے یہ نہیں چاہا کہ اس جمعہ سے بھی غیر حاضر ہو جائوں اور اپنے بھائیوں اور دوستوں سے ملاقات نہ کروں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ اہل ربوہ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کے فرشتے ہمیشہ اہل ربوہ (مرد و زن) کی مدد کے لئے تیار رہیں۔ میری آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ میری غیر حاضری میں بھی دعائیں کرتے رہیں کہ میں بھی خداتعالیٰ کی حفاظت اور امان میں رہوں اور اس کی مدد اور نصرت میرے بھی شاملِ حال رہے۔
ایک لمبا مضمون ذہن میں آیا تھا جس کی میں آج مختصراً ابتداء کر دینا چاہتا ہوں۔گذشتہ جمعہ جس دوست کو میں نے خطبہ پڑھنے کے لئے کہا تھا انہیں یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ سات منٹ سے زیادہ خطبہ نہ دیں۔ اب یہی پابندی خود اپنے اوپر کس حد تک عائد کرتا ہوں یا کر سکتا ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن میری کوشش یہی ہوگی کہ بہت ہی مختصر خطبہ دوں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے آیت کے اس مختصر سے فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دوسرے لوگ جو آپ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان سے تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے اُن کے نقطۂ نگاہ اور ان کی ذہنیت کے لحاظ سے جو سب سے اچھا جواب اور اچھی دلیل ہے اس کی رو سے تم ان کو مخاطب کیا کرو اور ان سے تبادلہ خیال کیا کرو۔
سے ہمیں تین باتوں کا علم ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ جہاں تک مذاہب کا سوال ہے اورجہاں تک منکرین اسلام کا سوال ہے مخالفین اور منکرین کا صرف ایک گروہ نہیں بلکہ ان کے ایک سے زائد گروہ پائے جاتے ہیں۔ کوئی کسی جہت سے اسلام کی مخالفت کرتا ہے کوئی کسی وجہ سے اس کا انکار کرتا ہے گویا کئی وجوہ سے اسلام کا انکار اور مخالفت ہوتی ہے۔
غرض ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاں تک مخالفین اسلام کا تعلق ہے وہ ہمیں ایک سے زائد خیالات اور ایک سے زائد اختلافات رکھنے والے نظر آئیں گے۔
دوسری بات جس کا اس حصۂ آیت سے پتہ لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گروہ کے ساتھ بحث کرنے کے لئے جن دلائل کی ضرورت تھی وہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ہدایت کی شکل میں مہیا کر دیئے ہیں۔
تیسری بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے اور اصلاح و ارشاد کے کام میںدوسرے شخص کے خیالات کا علم رکھے اور ان کو اپنی باتوں اور دلائل کے بیان میں مدنظر رکھے۔
اس تیسری بات میں دراصل دوسروں کے خیالات کے مطالعہ کا بھی حکم پایا جاتا ہے ورنہ جب تک ہم ان کو سمجھ نہ جائیں ہم کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔
پس اس حصۂ آیت میں ہمیں یہ تین چیزیں نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تین باتیں بیان فرمائی ہیں اب آج اگرچہ یہ دنیا ماضی کی دنیا سے بڑی مختلف ہو چکی ہے تاہم اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ ایک سے زائد گروہ ہیں جو اپنی اپنی آراء رکھتے ہیں۔ یہ اختلافات ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں نہیں بلکہ شیطان کی بہت سی زنجیریں ہیں۔ جن میں اس نے اپنے ساتھیوں کو باندھ رکھا ہے کسی کے دماغ میں اسلام کے خلاف ایک اعتراض پیدا کر دیا اور کسی کے دماغ میں کوئی دوسرا اعتراض پیدا کر دیا۔ جہاں تک ان مخالف گروہوں کا تعلق ہے۔ ان میں کوئی فرق نہیںپڑا یعنی وہ گروہ جس طرح پہلے زمانے میں تھے اسی طرح آج بھی ہیں اگر کوئی فرق پڑا ہے تو شاید مقدار میں یعنی کمیت میں پڑا ہے۔
ایسے گروہ زیادہ ہو گئے ہیں کم نہیں ہوئے کیونکہ انسان نے جب مختلف دنیوی ترقیات کیں تو اس کے دماغ میں مذہب کے خلاف مختلف اعتراضات بھی پیداہوئے۔
جہاں تک مذہب کا سوال ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد حقیقی معنی میں ایک ہی مذہب ہے یعنی مذہب اسلام۔ اس لئے ہم جو احمدی ہیں اور جن پر ساری دنیا کی اصلاح و ارشاد کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ اسلام کے مخالفین کس قسم کے لوگ ہیں۔ کوئی نئے خیالات کے لوگ تو پیدا نہیں ہو گئے وغیرہ وغیرہ۔
پس ہمیں اپنی تبلیغ میں اور اصلاح و ارشاد کے کام میں نئے سرے سے ایک جائزہ لینا ہوگا اور اس کے ہمیں دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ پہلے جائزہ کے وقت جو چیزیں سامنے آئی تھیں اور اب بھول چکی ہیں وہ پھر دوبارہ ہمارے سامنے آجائیں گی اوردوسرے یہ کہ جو نئے معترضین کے گروپ پیدا ہو چکے ہیں۔ وہ اب ہمارے سامنے آجائیں گے اور اس کے مطابق ہمیں نئے سرے سے اصلاح و ارشاد کے کام کے لئے خود کو تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم یہ جو دو گروہ ہیں (یعنی نئے اور پرانے معترضین اسلام) ان کے متعلق ہمیں قرآن کریم ہی سے تلاش کرنی پڑے گی اور تلاش کرنی چاہئے۔ انشاء اللہ ان کے متعلق قرآن کریم ہی سے ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ مختلف گروہ کیسے ہیں۔
یہ ایک لمبا مضمون ہے آج کا یہ خطبہ اس کی تمہید ہے یا صرف یہی سمجھیں کہ میں آج اس کے بعض عنوان بیان کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کے وقت میں دوایسے گروہ تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ ایک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منکر تھے اور دوسرے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منکر بھی تھے یا اللہ تعالیٰ کے منکر تو نہیں تھے مگر آخرت کے منکر تھے۔ دراصل جو شخص خداتعالیٰ کا منکر ہوتا ہے وہ ساتھ ہی آخرت کا منکر بھی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ خصوصاً یہودیوں میں جن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ اب بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو پیدا کیا اور اس نے قانون بنا دیئے۔ وہ تو اتنی بڑی ہستی ہے۔ اسے کیا پڑی ہے کہ زید یا بکر کے حالات کے متعلق ذاتی طور پر دلچسپی لے کر اس کا جو علم ہے اس کے مطابق وہ کام کرے اور احکام دے۔
بہرحال بیسیوں غلط دلائل ہیں جو ان کے ذہن میں آتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’پرسنل گاڈ‘‘ نہیں ’’ام پرسنل گاڈ ہے‘‘ یعنی ایسا خدا نہیں ہے جس کے ساتھ زید یا بکر یا میں اورآپ میں سے ہر ایک ذاتی تعلق پیداکر سکے اور وہ اس کی ذاتی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہو اور اس کی دعائوں کے نتیجہ میں اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل کرتا ہو۔
چنانچہ یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے۔ جس میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی امت کا ذکر ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ہدایت جو حضرت موسٰی علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ وہ اصلی تورات میں موجود ہے لیکن وہ ان لوگوں کے لئے ہدایت ہو سکتی ہے جو کے مصداق ہیں یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کے مقام کو پہچان کر اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکتے ہیں اور یعنی اخروی زندگی اور اس کے متعلق جزا و سزا کا جو قانون ہے وہ اسے سمجھتے ہیں اور اس کا خوف ان پر طاری رہتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ورلی مختصر اور ناپائیدار زندگی کے بعد ایک ابدی حیات ملنی ہے اور اس کے لئے ہمیں نیک کام کرنے چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنی رضا کا سلوک کرے۔ پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ
(۱)۔ جو شخص خداتعالیٰ کو نہیں مانتا یا
(۲)۔ جو شخص اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس کے لئے یہ (تورات اور قرآن کریم) ’’ذِکْرًا‘‘ نہیںہے۔ یہ اس کے لئے ہدایت کا موجب نہیں ہے یہ اس کے لئے نصیحت کا موجب نہیں ہے البتہ یہ ان متقیوں کیلئے ہدایت کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتے ہیں۔ جو آخرت پر بھی ایمان رکھتے اور اس کی جزا و سزا پر بھی یقین رکھتے ہیں وہ اس خوف میں رہتے ہیں کہ پتہ نہیں خداتعالیٰ کا پیار ملے گا یا خدا جانے ہم اس کے غضب کا مورد بن جائیں گے۔ اس لئے ان کو یہ کہا گیا تھا کہ آخرت کے خوف سے ہمیشہ ڈرتے رہنا (اور چونکہ یہ ایک ہی بات ہے جو ان کو بھی کہی گئی تھی اور ہمیں بھی کہی گئی ہے اور ہمارے سامنے بھی یہی مضمون ایک اور رنگ میں دہرایا گیا ہے اس لئے جو ہمیں کہا گیا ہے میں اس کو لے لیتا ہوں) اللہ تعالیٰ سورئہ احزاب میں فرماتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ میں تمام بنی نوع انسان مخاطب ہیں۔ اس لئے سب انسانوں کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی ایک کامل اسوہ اور ایک اعلیٰ اور حسین نمونہ ہے لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو کی رو سے اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور اس کے قرب کے پانے کی امید رکھتا ہو۔ نیز یعنی وہ اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ اس دنیا میں موت کے بعد ایک نئی زندگی ملے گی اور اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔
غرض جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کے قرب کی امید نہیں رکھتا یوم آخر پر ایمان نہیں لاتا اور اس کے نتیجہ میں ذکر الٰہی نہیں کرتا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ ٔحسنہ سے متاثر نہیں ہے اور اس کامل اسوہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ آپ کا اسوئہ حسنہ تو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے مگر وہ اس سے کام نہیں لیتا۔ وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔
پس اگر کسی ایسے شخص کے سامنے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا۔ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے حالات پیش کریں گے تو اپنا وقت بھی ضائع کریں گے اور اس کا و قت بھی ضائع کریں گے کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں لاتا۔ اس واسطے اس کے نزدیک یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاتم النّبیین آئے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو نہیں مانتا۔ اگر آپ ایسے شخص کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ دیکھو! اسلام کی تعلیم کتنی احسن اور کتنی اچھی ہے۔ اس پر چلنے سے اُخروی زندگی کی ساری نعمتیں مل جاتی ہیں تو وہ کہے گا جائو آرام سے بیٹھو۔ مجھے اُخروی زندگی کے متعلق کیا بتاتے ہو۔ میرا اس پر ایمان ہی نہیں ہے۔
اس لئے اگر آپ نے ان ہر دو گروہوں کو تبلیغ کرنی ہو اور اسلام کی طرف لانا ہو تو آپ کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ اُن کا اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی صفات کا یقین پیدا کریں۔ جس رنگ میں اسلام نے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو پیش کیا ہے۔ اس رنگ میں ان کے سامنے پیش کریں اور دلائل دیں۔ جب وہ ان دلائل کو مان جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی جو صفات اسلام نے بیان کی ہیں اور جن سے خود قرآن کریم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات حسنہ کا مالک ہے مثلاً وہ جزا و سزا کا مالک ہے۔ اگر جزا و سزا نہ ہو تو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا اور اس کی پیدائش ایک کھیل ہے اور چونکہ دنیوی اعمال کی جزا و سزا مقرر ہے اس لئے یہ دنیا کھیل نہیں ہو سکتی اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ کا مالک ہے۔ اس کی کوئی پیدائش کھیل نہیں ہو سکتی اس لئے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے۔
پس ایسے شخص کے سامنے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پیش کریں گے تاکہ پہلے وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے۔ قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے بے شمار دلائل دیئے ہیں۔ پھر وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتا۔ وہ کہے گا ٹھیک ہے میں خداتعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ اللہ تعالیٰ یا اس کی صفات حسنہ کا یہ مطالبہ تھا کہ اُخروی زندگی ہو۔ یہ دنیا کھیل نہ ہو۔ وہ کہتا ہے یہی دنیا ہے۔ یہی کھیل ہے اور یہی سنجیدہ زندگی ہے اور جب ہم اس دنیا میں مر جائیں گے تو پھر اٹھائے نہیں جائیں گے۔ اب ایسے شخص سے اگر آپ یہ کہیں گے کہ اسلامی تعلیم پر چل کر تمہیں خداتعالیٰ کی رضا کی جنتیں مل جائیں گی تو اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ کہے گا میں تو اُخروی زندگی پر ایمان ہی نہیں لاتا۔ اس لئے تمہارے سارے دلائل ہیچ ہیں ایسے شخص کے سامنے آپ اُخروی زندگی کے دلائل پیش کریں گے۔ یہی ایک طریق ہے جس کی بدولت آپ اس کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف لا سکتے ہیں اس کے بغیر آپ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف نہیں لا سکتے۔
پس یہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں اُن میں سے پہلی آیت اصولی تھی اور وہ دراصل عنوان ہے اس سارے سلسلہ ہائے خطبات کا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے میں امید کرتا ہوں کہ میں انشاء اللہ آئندہ دوں گا۔
چونکہ یہ مختلف قسم کے لوگوں کے گروہ ہیں اور وہ مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے متعلق مختلف رنگ میں تیاری کرنی پڑے گی۔ ہم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہستی باری تعالیٰ کے اوپر جتنا مواد ہماری کتب میں پایا جاتا ہے اتنا شایدکسی اورجگہ نہ ہو لیکن یہ مضمون جتنا اور جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس کی پوری تفصیل یکجائی طور پر ہمارے نوجوانوں کے سامنے ابھی تک نہیں۔ یہ تفصیل اُن کے سامنے آنی چاہئے۔
اسی طرح اُخروی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کا حکیمانہ بیان یعنی جو اس نے اس سلسلہ میں دلائل دیئے ہیں وہ بھی ان کے سامنے آنے چاہئیں۔
پس ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے تم انہیں پہلے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُخروی زندگی کا قائل کرو۔ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی توفیق کے حصول کے لئے تم اُن کے مددگار بنو تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے تب وہ اس بات کے سمجھنے کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک عظیم الشان نبی تھے۔ جو خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے پوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور قرآن کریم ابدی صداقتوں پرمشتمل ایک کامل الٰہی کتاب ہے۔
غرض یہ دو گروہ ہیں جن کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ میں نے اپنی ایک خواہش کے مطابق ان کا مختصراً ذکر کر دیا ہے۔ یہ صرف عنوان ہیں تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ بعد میں آجائے گی۔ ہمیں ان حالات کا پورا تجزیہ کرکے پھر اس کے مطابق اپنے آپ کو اصلاح و ارشاد کے کام کے لئے تیارکرنا چاہئے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۵)
ززز

ہمیں اصلاح و ارشاد اور تبلیغ واشاعت
کے کام میں تیزی پیدا کرنی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍جون ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
چند ہفتوں سے گرمی لگ جانے کی و جہ سے مجھے کافی تکلیف رہی ہے۔ بہت سے جمعے تو میں پڑھا بھی نہیں سکا۔ گذشتہ جمعہ گرمی کی وجہ سے ضعف کی تکلیف تھی مگر اِس کے باوجود میں نے جمعہ پڑھایا کیونکہ میں ربوہ سے باہر سفر کرنے سے قبل اپنے بھائیوں سے ملاقات بھی کرنا چاہتا تھا اور ایک نئے مضمون کی ابتداء بھی کرنا چاہتا تھا۔
میں نے گذشتہ خطبہ جمعہ میں (النّحل:۱۲۶) کا جو مضمون ہے (اسے عنوان ہی سمجھنا چاہئے) اس کے متعلق مختصراً بیان کیا تھا۔ تفصیل تو ان مضامین کی بہت لمبی ہے۔ ساری تو بیان نہیں ہو سکے گی۔ لیکن جس حد تک ضروری سمجھوں گا، اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے بیان کروں گا۔
میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ بتایا تھا کہ میں تین بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کے مخاطب ایک ہی ذہنیت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ مختلف ذہنیتوں کے مالک ہیں۔ وہ مختلف طبیعتیں رکھتے ہیں۔ اُن کے عقائد مختلف ہیں اور پھر چونکہ غلط باتیں بھی کئی قسم اور نوع کی ہوتی ہیں۔ اس لئے مختلف قسم کی غلط باتوں کو صحیح سمجھنے والے لوگ بھی ہیں۔ اس لئے غلبۂ اسلام کی مہم میں اگر ہم کامیاب حصہ لینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر ایک گروہ سے اس کی سمجھ اور عقل کے مطابق بات کرنی چاہئے
دو گروہ جن کا قرآن کریم نے دوسری جگہ ذکر کیا ہے اُن کے متعلق میں نے پچھلے جمعہ مختصراً بتایا تھا کہ ایک گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا۔ اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں، اُسے آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان سے قبل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت پر ایمان لانے پر راضی کر ہی نہیں سکتے۔ جو شخص خداتعالیٰ کو نہیں مانتا اس کے لئے رسول کے ماننے کا سوال ہی نہیں ہے۔ وہ کہے گا جب اللہ ہی نہیں ہے تو رسول اللہ کیسے بن گئے۔ دوسرا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو خداتعالیٰ کو مانتے ہیں۔ خالق اور رب کا ایک مبہم سا مفہوم اُن کے دماغ میں ہوتا ہے لیکن اُخروی زندگی پر اُن کا یقین نہیں ہوتا۔ اگر ایسے شخص کے سامنے کوئی یہ کہے کہ تمام مذاہب خصوصاً اسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی شریعت پر اگر عمل کیا جائے تو یہ انسان کو اُخروی زندگی کی نعماء کا وارث بنا دیتی ہے۔ تو وہ کہے گا کہ میں اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا لہٰذا مجھے قرآن کریم کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ اُخروی زندگی کو سنوارتا ہے۔ اُس شخص کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جو اُخروی زندگی پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ وہ کہے گا میں اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس لئے قرآن کریم کی مَیں ضرورت نہیں سمجھتا۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو تعلیم نازل کی گئی تھی، اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ اس میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ انہی لوگوں کو فائدہ پہنچائے گی جو خداتعالیٰ پر ایمان لاتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ پھر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قرآن کریم نے ایک حسین اُسوہ کی شکل میں پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا:- (الاحزاب:۲۲) جو شخص خداتعالیٰ پر ایمان لاتا ہو اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لئے آپ اُسوۂ حسنہ ہیں اور جو ایمان نہیں رکھتا اُس بد قسمت کے لئے آپ کا اسوۂ حسنہ ہونا فائدہ مند نہیں ہو گا۔
پس یہ دو گروہ بن گئے۔ایک دہریوں کا اور دوسرے اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والوں کا۔ ایسے لوگوں کوپہلے تم خداتعالیٰ کی ہستی کا قائل کرو۔ پھر اُخروی زندگی کا قائل کرو اور پھر اُن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسوۂ حسنہ پیش کرو تو اُن پر اثر ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔ بہرحال پچھلے جمعہ کو جو مَیں نے مختصر سا خطبہ دیا تھا، اُسے میں نے خلاصہ کے طور پر بیان کر دیا ہے۔
جو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں، ان میں بھی بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے لیکن چونکہ میری طبیعت خراب ہے۔ مجھے اس گرمی میں بھی تکلیف ہو رہی ہے۔ اس لئے زیادہ لمبا خطبہ نہیں دے سکتا۔
اِن آیات میں دو اور گروہوں کا ذکر ہے۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ اگر سارے گروہ بیان نہ ہو سکیں تو ان میں سے بنیادی طور پر جو اہم گروہ ہیں پہلے ان کو اور پھر ان کے متعلق قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے اس پر روشنی ڈالوں۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ ایک وہ گروہ ہے جو احمدیہ کہلاتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ ہے جو خداتعالیٰ کو تو کسی حد تک مانتا ہے لیکن اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا۔ قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض آیات کا میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کا ذکر فرمایاہے جو لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لائے ہیں وہ رسول پر بھی ایمان لائیں گے۔ جو لوگ رسول پرایمان لائیںگے اور اُخروی زندگی پر ان کو یقین ہو گا۔ ان کو فکر ہو گی کہ اس دُنیا کی چند روزہ زندگی کی بجاے اُخروی زندگی کی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ وہ ابدی زندگی ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ جس کی نعمتیں بھی اس دُنیوی زندگی کے مقابلے میں بہت ہی اچھی، بہت ہی بہتر اور بہت ہی زیادہ لذتوں اور مسرتوں والی ہیں۔ غرض جو لوگ خداتعالیٰ اور اُخروی زندگی پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی(جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے) اسوۂ حسنہ ہے۔ اس طرح جو لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اُخروی زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر مسلمان نہیں وہ آگے دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک کو قرآنی اصطلاح میں کافر کہتے ہیں اور دوسرے کو منافق کہتے ہیں۔ ان ہر دو گروہ نے خداتعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کے لئے دُنیا میں آسمانی ہدایت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بھی ہر وہ آسمانی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نازل ہوئی اس کابھی ان میں سے بہتوں نے انکار کیا اور اس کے خلاف بڑی جدوجہد کی اور بڑا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف روحانی جنگ اور بعض موقعوں پر جسمانی جنگ بھی لڑی گئی۔ اسی طرح پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی شریعت کا بھی انکار کیا گیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں قرآن اور اسلام کے مقابلے میں بھی دو گروہ ہیں۔ ایک کافروں یعنی منکرین اسلام کا گروہ ہے اس گروہ میں شامل لوگ اسلام کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ تو ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں اُخروی زندگی تو ہے اور اس کے لئے آسمانی ہدایت کی بھی ضرورت تو ہے۔ لیکن یہ آسمانی ہدایت نہیں ہے۔ جسے تم اسلام کہتے ہو۔
ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلام میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے شامل ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض لوگ دنیوی لالچ کے لئے شامل ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ دنیوی عزتوں کے لئے شامل ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ دنیوی مشکلات سے بچنے کے لئے اسلام میں شامل ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ اسلام میں شامل تو ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقی ایمان نہیں لاتے۔ ان کی زبان پر ایمان کا لفظ ہوتا ہے لیکن دل میں ایمان نہیں ہوتا ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ وہ دو رنگ یعنی منافق ہے۔ ایک رنگی اس کی طبیعت میں نہیں ہوتی وہ کسی رنگ میں صاف اور سیدھا نہیں ہوتا۔ نہ قولِ سَدید کا پابند اور نہ صراط مستقیم پرچلنے والا ہوتا ہے۔
ان دو گروہوں کے متعلق بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون کو میں اپنے وقت پر انشاء اللہ بیان کروں گا۔ لیکن یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کی طرف اشارہ ہے۔
تقویٰ کے معنے ہیں جو چیز ایذا دینے والی یا ضرر پہنچانے والی ہے اس سے حفاظت کرنا۔ ان چیزوں سے حفاظت کا نام وَقَایَۃ ہے۔ عربی کے بعض قواعد کے لحاظ سے وائو۔ ت سے بدل جاتی ہے۔ اس کا اصل مصدر وِقٰی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ کافروں کو دیکھو، وہ تعداد میں زیادہ، دنیوی سامانوں میں زیادہ، جتھہ بندی میں زیادہ، سیاسی اقتدار میں زیادہ اور رعب میں زیادہ ہیں۔ پھر تاریخی روایات ان کے حق میںزیادہ ہیں۔ جہاں تک تاریخی روایات کا تعلق ہے وہ ان کے نتیجہ میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے آبائو اجداد کو ایسے عقائد کا پابند نہیں پایا۔ ان کو تو ہم نے بتوں کی پرستش کرتے ہی دیکھا ہے۔ ان کو تو ہم نے یہ کرتے اور وہ کرتے دیکھا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ شیطان ان کو اس قسم کی احمقانہ بات بھی سکھا سکتا ہے کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو ہر رسول کی مخالفت کرتے دیکھاہے۔ ہم نے ہر رسول کا انکار کرتے دیکھا ہے اور ہم نے ہر رسول کا استہزاء کرتے دیکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے بھی کہا ہے کہ جو بھی رسول آیا۔ خدا کے بندوں میں سے بہتوں نے شروع میں اس سے استہزاء ہی کیا۔
بہرحال ایک تو یہ گروہ ہے جو جتھے میں زیادہ، مال میں زیادہ ، سیاسی اقتدار میں زیادہ، رعب میں زیادہ، رعب کے غلط فوائد حاصل کرنے میں زیادہ ہوتا ہے۔ (مسلمان تو اپنے اقتدار اور اثرو رسوخ کا غلط فائدہ اٹھا ہی نہیں سکتے) اور پھر اسلام کے خلاف منصوبہ انتہائی طور پر خطرناک اور دل میں بڑی سخت مخالفت کہ اسلام کو مٹا دینا ہے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ظاہر میں اسلام لے آتے ہیں۔ لیکن اندر ہی اندر ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اندر سے اسلام کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اسلام کی ترقی میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ جس طرح پانی آہستہ آہستہ بنیادوں میں مار کرتا ہے اور مکان کو گرا دیتا ہے اسی طرح ان کا اثر بھی آہستہ آہستہ رونما ہوتا ہے۔ ان کی خفیہ طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ الٰہی سلسلوں میں کمزوری پیدا ہو۔ ایسے لوگ ظاہر میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اور ایمان کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
یہ دونوں فتنے یا اسلام کے خلاف دونوں قسم کے منصوبے اتنے خطرناک ہیں کہ کفر کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لئے پختہ ایمان کی ضرورت ہے۔ ورنہ پائوں ڈگمگا جائیں گے۔ دوسرا نفاق کا فتنہ ہے اس فتنہ سے بچنے کے لئے جہاں بڑی ہمت درکار ہے وہاں اس سے بچنا ایک اچھا نمونہ چاہتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ منافق مصلح کے روپ میں آتا ہے وہ دوست کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ ایک پیار کرنے والے ساتھی یا بھائی کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے۔ اس کاظاہر بڑا حسین مگر اس کا باطن ہر لحاظ اور ہر رنگ میں نہایت بے ہودہ، بھیانک اوربدصورت ہوتاہے۔
غرص اس آیت کے لفظی اور ظاہری معنے یہ بنتے ہیں کہ اے نبی! کافرانہ منصوبوں اور منافقانہ ریشہ دوانیوں سے اسلام کو بچانے کی خاطر حفاظت کا ذریعہ خداتعالیٰ کوبنائو اور مسلمان کو یہ کہا (جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان بہرحال زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس لئے فرمایا) تم بہت ہو گئے۔ پھر تم مخالفین سے کیوں ڈرتے ہو۔ فرمایا:-
(الاحزاب: ۲۲)
تمہارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے۔ آپ اکیلے تھے مگر مخالفین سے بالکل نہیں ڈرے۔ حالانکہ کفر کے سارے منصوبے آپ کے خلاف اورکفر کے سارے وار آپ کی ذات پر تھے۔ ہر قسم کی مخالفتوں کا آپ ہی نشانہ تھے۔ اس وقت بندوق تو نہیں تھی۔ مگر ہر تلوار جو میان سے باہر نکلتی اور وار کرتی تھی اس کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ہوا کرتی تھی۔ فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو دیکھو۔ آپ اکیلے تھے مگر آپ نے کافروں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ آپ اکیلے تھے اور آپ نے منافقوں کامقابلہ کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بہت سے منافقین کے متعلق اطلاع دی گئی تھی۔ لیکن آپ نے اپنے ساتھیوں اپنے بھائیوں اوردوستوں کو بتایا نہیں تھا۔ آپ نے اکیلے ہی منافقین کے ساتھ مہم جاری رکھی۔ آخر جب نشانے کا پتہ ہی نہ ہو تو نشانہ لگانے میں کوئی دوسرا آدمی تو شریک نہیں ہوسکتا تھا۔ جب اس بات کا کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وار کہاں سے آرہا ہے۔ تو دوسروں کیلئے اس کے روکنے اور ناکام بنانے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ منافقین کے متعلق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا اس لئے آپ نے خود ہی ان کا مقابلہ کیا۔ یہی کہنا پڑے گا اور یہی معقول بات ہے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کافروں کا بھی مقابلہ کیا اور منافقوں کا بھی مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کی صلوٰت آپ پر ہمیشہ ہمیش ہوتی رہیں (کسی اَور پر نہ اتنی رحمتیں اوربرکتیں نازل ہوئیں اور نہ ہوں گی) اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار آپ کو حاصل ہوا جو کسی اور آدمی کو حاصل نہیں ہوا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے آپ کے لئے مانگتی چلی آرہی ہے۔ اور قیامت تک مانگتی چلی جائے گی۔
بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ایک عظیم نمونہ ہیں۔ آپ کافروں کے مقابلے میں اکیلے کھڑے ہو گئے۔ آپ کے مخلص ساتھی تھے مگر آپ نے اُن کو نہیں بتایا کہ خداتعالیٰ نے کن کن منافقوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ یہ لوگ منافق ہیں اور ان کامقابلہ کرنا ہے۔ آپ نے ایک آدھ آدمی کو بتایا اور وہ بھی اس لئے کہ اُس نے آپ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہنا تھا۔ اس کو علیحدہ کرکے اور اعتماد میں لے کر اور اس سے وعدہ لے کر کہ وہ آگے اس بات کوعام نہیں کرے گا منافقین کے متعلق بتا دیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ میری وفات کے بعد منافقین کی ریشہ دوانیاں ہوں گی۔ اس لئے کوئی نہ کوئی آدمی تو گواہ رہنا چاہئے تاکہ وہ بوقت ضرورت گائیڈنس دے سکے۔ اور امت کو اُن سے متنبہ کر سکے۔جب ایسا شخص ننگا ہو کر باہر آجائے۔ (منافق بعض دفعہ ننگا ہو کر سامنے بھی آجاتا ہے) تو اس وقت لوگوں کو بتا سکے کہ یہ مومن نہیں یہ منافق ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ منافقین کے خلاف بھی اصل جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے لڑی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اور بھی دو گروہ ہیں۔ ایک منکرین اسلام کا گروہ ہے اور دوسرا منافقین کا گروہ ہے۔ منکرین اسلام کے ساتھ ہمارا جو مجادلہ ہے اور ان کومغلوب کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو ہماری جنگ اور جہاد ہے وہ اور قسم کا ہے اور جو منافق کے ساتھ ہماری جنگ ہے وہ اور قسم کی ہے ویسے اصولاً تو ہم تلوار کے ساتھ جنگ نہیں کرتے ہم نے تو ان کی روح کو اپنے قبضے میں لینا ہے ان کے جسموں کو چیلوں کے آگے ڈالنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم نے ان کی روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھیلے میں لے لینا ہے۔ جس طرح لوگوں نے بعض بزرگوں کے متعلق غلط سلط کہانیاں بنا رکھی ہیں (اس کی تفصیل میں مَیں تو اس وقت نہیں جا سکتا جس دوست کو کوئی کہانی یاد آگئی ہو وہ حظ اٹھا لیں) بہرحال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اُن کی روح جیتیں۔ ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم ان کی گردن کاٹیں۔
تاہم یہ جو مقابلہ ہے یہ جو جیتنے کا ایک فعل ہے اس کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس کے لئے انتہائی ایثار کے نمونے خدا کے حضور اور دنیا کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں۔
غرض یہ بڑی سخت جنگ ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے۔
(التوبۃ:۷۳)
جس کے معنے یہ ہیں کہ کفار اور منافقین کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کرو۔ یہاں بھی اس پوری آیت کی رو سے کہہ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بتایا ہے۔
میں اس مضمون کے متعلق ابھی مزید غور کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جہاں بھی کہہ کر کوئی حکم دیا گیا ہے وہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس میں بڑا سخت حکم تھا۔ ایک پابندی تھی اس سے گھبرانا نہیں تمہارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے اس کی طرف دیکھ لینا۔ وہ تمہارا سہارا بن جائے گا۔
پس ْ (التوبہ : ۷۳)
میں لفظ ’’غلظ‘‘ کے معنے ایسی سختی کے ہیں کہ جس کے اندر کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکے۔ مثلاً اسپنج ہے۔ یہ بھی نسبتاً سخت ہے۔ پانی کی نسبت زیادہ سخت ہے اس کو نیچے دبانے کے لئے بھی کچھ زور لگانا پڑتا ہے لیکن اس کے اندر پانی کا اثر چلا جاتا ہے۔ اس کے اندر خلا ہے جس میں دوسری چیز داخل ہو جاتی ہے۔ پانی میں مٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔
پس سختی تو نسبتاً ہے لیکن اسپنج کی سختی ایسی سختی نہیں کہ باہر سے کسی چیز کا اثر اس کے اندر داخل نہ ہو سکے۔ مگر ’’غلظ‘‘ کی رو سے کسی چیز میں ایسی سختی مراد ہے جس پر کسی چیز کااثر نہ ہو سکے۔
چنانچہ کے اس فقرے یا الفاظ کے اس مجموعہ میں دراصل دو معنے پائے جاتے۔اُس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خود اتنے سخت ہو جاؤ کہ کفر اور نفاق کا اثر تمہارے اندر گھس نہ سکے اور دوسرے یہ کہ خود اتنے سخت بن جاؤ کہ کفر اور نفاق کی سختی کے باوجود تمہارا اثر ان کے اندر چلا جائے اُن میں نفوذ کر جائے اور اُن کی جو ہیئت کذائی ہے اور ان کی (چونکہ انسان ہیں اس لئے ہم کہیں گے) جو ذہنیت اور اخلاق ہیں۔ اُن کے جو منصوبے ہیں، اُن کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہو اورجو آج کافر ہے، وہ کل کو مخلص مومن بن جائے جس طرح حضرت عکرمہؓ بن گئے تھے۔ اور جو آج منافق ہے وہ کل سب کچھ قربان کرنے والا سچا مسلمان بن جائے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگ نفاق چھوڑ کر سچے مومن بن گئے تھے۔ تاہم کئی بد بخت نفاق کی حالت میں فوت بھی ہو گئے تھے۔ لیکن کئی ایک کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور کمزور ایمان والے پختہ ایمان والے بن گئے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو گروہ تو وہ تھے جن میں پہلا خدا کا انکار کرنے والا اور دوسرا اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والا اور اُس کا منکر۔ ان کے علاوہ دو اور گروہ ہیں۔ پہلا گروہ خد اکو مانتا ہے۔ اُخروی زندگی کو بھی مانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آسمانی شریعت بھی آنی چاہئے تاکہ اُخروی زندگی سنور جائے لیکن وہ اپنی بد بختی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتا۔ دوسرا گروہ منافقوں کا گروہ ہے۔ وہ اسلام میں دُنیوی اغراض کے لئے شامل ہو جاتے ہیں۔ اُخروی زندگی کے سنوارنے کے لئے شامل نہیں ہوتے پس یہ دو گروہ اور آگئے ان کے متعلق ہمیں مزید تجزیہ کرنا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بے شمار دلائل دئیے ہیں۔ سارے دلائل کا احاطہ کرنا تو ایک عمر کا بھی کام نہیں اس مضمون کا احاطہ ساری عمر کی محنت بھی نہیں کر سکتی۔ تاہم تفصیلی نہیں تو کچھ انشاء اللہ بیان کروں گا۔
جہاں تک کافروں کا تعلق ہے، وہ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن میرے اس مضمون کے لحاظ سے وہ منکر مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ویسے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر نہیں لاتے ان کے متعلق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ بھی منکر ہیں۔ لیکن اس وقت وہ منکرین مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآنی شریعت پر ایمان نہیں لاتے یا وہ لوگ جو نفاق کے طور پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔
پھر قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ منکرین یعنی کافر بھی آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اُن کا بھی ہمیں تجزیہ کرنا پڑے گا لیکن اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیںاپنے اصلاح و ارشاد اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام کا ازسرنو جائزہ لے کر اس میں تیزی پیدا کرنی چاہئے ان طریقوں سے جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں۔
اب مثلاً ایک دہریہ شخص ہے ہمارے پاکستان میں بھی اشتراکیت کے بڑے نعرے لگ رہے ہیں۔ اگر ایسے شخص کے سامنے آپ جاکر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسوہ پیش کریں تو وہ کہے گا میںخداتعالیٰ کو مانتا نہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوہ کو کیسے مان لوں۔ پس جب ہم ایسے لوگوں کے پاس جائیں گے تو ان کے سامنے خداتعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں وہ دلائل پیش کریں گے جو قرآن کریم نے دیئے ہیں اور جنہیں اگر کسی کے سامنے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا۔ پھر اُن پر یہ ثابت کریں گے کہ اُخروی زندگی بھی ماننی پڑے گی۔ ورنہ اس دنیوی زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے۔ اُس نے ہمیں گدھے کتّے اور سؤر تو نہیں بنایا۔ ہمارے اندر ہماری فطرت میں ایک URGE (ارج) رکھی گئی ہے۔ ایک جذبہ پیدا کیا گیا ہے۔ کہ ہم اُخروی زندگی کے لئے کام کریں۔ اگر اُخروی زندگی نہیں تھی تو پھر جو فطرت کے اندر ایک جذبہ ہے یہ خود بخود کیسے آگیا۔ سؤر اور کتے میں کیوں نہیں آیا۔
پھر کفر کفر میں فرق ہے۔ قرآن کریم نے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمایا ہے اسی طرح نفاق نفاق میں فرق ہے کسی آدمی کا دل پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اس کے دل کو نرم کرنے کے لئے پرعمل کرنا پڑے گا۔ کسی کے متعلق فرمایا کہ ان کے کان بہرے یا ان کے کانوں میں ثقل اور بوجھ ہے۔ یا کسی کے متعلق فرمایا وہ اندھے ہیں۔ اُن کی آنکھیں نہیں۔ پس جس شخص کا کفر یا نفاق اندھے آدمی کے مشابہ ہے۔ پہلے اس کی بینائی کی فکر کرنی پڑے گی۔ یعنی وہ طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو آدمی سنتا نہیں اسکے سامنے وہ تعلیم پیش کرنی پڑے گی جو قرآن کریم نے یہ کہہ کر ہمارے سامنے رکھی ہے کہ جو نہیں سنتے اُن کے سامنے یہ تعلیم رکھو۔
پس اگر ہم نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میںکامیاب ہونا ہے تو ہمیں اپنے اصلاح و ارشاد کے کام کا ایک نئے سرے سے جائزہ لے کر ایک نئی مہم چلانی پڑے گی۔ بعض دوستوں کا ابھی تک یہ حال ہے کہ اگر کسی سے جا کر ملیں تو جاتے ہی مثلاً وفات مسیح کے مسئلے پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی شریف آدمی ہو تو وہ چپ کر کے سنتا رہتا ہے۔ جب آدھا گھنٹہ گزر جائے تو وہ کہتاہے میں تو پہلے ہی وفات مسیح کا قائل چکا ہوں آپ نے خواہ مخواہ آدھا گھنٹہ ضائع کیا۔
غرض اب ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ سوائے چند سخت متعصب لوگوں کے کسی بھی سمجھدار پڑھے لکھے آدمی کے ساتھ آپ بات کریں گے تو وہ کہے گا میں پہلے ہی حضرت مسیح کو وفات یافتہ سمجھتا ہوں۔ یہ تو پاگلوں والی بات تھی کہ کسی انسان کو زندہ سمجھا جاتا اور آسمان پر بٹھا دیا جاتا۔ ستّر اسّی فیصد بلکہ اس سے بھی شاید زیادہ لوگ اس مسئلے پر ہمارے مؤقف کے قائل ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے ۔ ہم اس حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔
اب ایک اور بڑی اچھی رَو پیدا ہو رہی ہے خصوصاً پاکستان کے نوجوانوں میں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ختمِ نبوت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرق ہے کہ احمدیوں سے پہلے اسلام میں مختلف فرقوں نے خاتم النّبیّین کے مختلف معانی کئے، احمدیوں نے بھی اپنا ایک معنی کر دیا۔ اس کو کوئی صحیح سمجھتا ہے تو مان لے اور صحیح نہیں سمجھتا تو نہ مانے لیکن ایک احمدی کو خاتم النّبییّن کے اس معنے کی وجہ سے منکرِ ختمِ نبوت نہیں کہا جا سکتا یہ بڑی اچھی رو ہے جو ہمارے حق میں پیدا ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ پانچ سات سال میں یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ وہ ہمارے معنے مانیں یا نہ مانیں، وہ ہمیں اس وجہ سے منکر ختم نبوت نہیں کہہ سکتے۔ ایسے شخص کے ساتھ آپ کی بحث اور قسم کی ہو گی۔
میں نے نوجوانوں کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ لوگوں کے لئے ایک مشکل سامنے آرہی ہے۔ تم اس کے لئے تیاری کرو۔ جب یہ فلسفیانہ اور نظریاتی مسئلے ختم ہو گئے تو پھر لوگوں نے کہنا ہے کہ ہم میں اور تم میں عملاً کیا فرق ہے۔ اسلامی تعلیم پر جو تم عمل کر رہے ہو تو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمونہ دکھایا تھا تم بھی اس کا نمونہ دکھاؤ۔ پس اس کے لئے ہمیں تیار ہونا چاہئے۔ دُنیا کی طرف نہیں جھکنا چاہئے۔
یوں تو اس کی سب پر ذمہ داری ہے لیکن نوجوان نسل پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ اس لئے کہ زیادہ شدت کے ساتھ یہ سوال انہی سے پوچھا جائے گا۔ ابھی کچھ عرصہ تو اس سوال میں وہ شدت پیدا نہیں ہوگی کچھ تھوڑے بہت لوگ ابھی تک حیات و وفات مسیح ؑ کے مسئلے پر الجھتے ہیں۔ تاہم یہ دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس طرح ختم نبوت کے مسئلے پر بھی لوگ الجھتے ہیں۔ لیکن یہ چالیس پچاس فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ یہ مسئلہ بھی کلّی طور پر نہیں تو ستّراسّی فیصد تک ضرور صاف ہو جائے گا۔ پھر لوگ پوچھیں گے کہ ہم میں اور تم میں کیافرق ہے۔ اسلام سے ہم نے جو حاصل نہیں کیاوہ تم نے حاصل کیا ہے تو کیا کیا ہے۔ اس واسطے اسلامی تعلیم کا نمونہ بننے کے لئے تمہیں تیار رہنا چاہئے۔ اگر تم احمدیت کو واقعی سچا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نہایت ہی بابرکت مہم سمجھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو تم واقعی پہچانتے ہو جو آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور وَلَافَخْرَ کیونکہ وہ ہماری کسی نیکی اور خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی رحمت جوش میں ہے۔ وہ اسلام کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ ساری چیزیں ہیں تو پھر تمہیں اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رنگ میں رنگین کرکے لوگوں کے لئے ایک نمونہ بننا پڑے گا ورنہ جو اعتراض ہوگا اس کا آپ جواب نہیں دے سکیں گے۔ اب بھی نمونہ بننا چاہئے۔ لیکن کل آپ کو زیادہ مشکل پڑ جائے گی۔ اب اتنی مشکل نہیں پڑتی۔ پھر ذمہ داری کے نہ نباہنے کے نتیجہ میں گناہ بھی ہے اور کفرانِ نعمت بھی ہے۔ تاہم ابھی اتنی مشکل نہیں کیونکہ سوال کرنے والے اتنے نہیں اور اچھا نمونہ دکھانے والے بہت ہیں نوجوان نسل پر بڑی کثرت سے سوال کئے جائیں گے۔ جتنی کثرت سے یہ سوال ہوں گے اتنی شدت سے انہیں اُن کے جواب دینے کے اہل بننا چاہئے۔ اور قابل ہونا چاہئے۔
بہرحال یہ چار گروہ ہو گئے۔ پھر آگے دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے کفر کی کتنی قسمیں بیان کی ہیں اور ہر ایک قسم کے متعلق کیا کیا دلائل پیش کئے ہیں۔ اسی طرح نفاق کی کتنی قسمیں بیان کی ہیں اور ان کے متعلق کیا کیا دلائل پیش کئے ہیں۔ اسلام کی اس مہم میں ہم غالب آئے تب ساری امت بہت صاف ستھری، نیک، پاک اور مطہر بنتی ہے ورنہ نہیں بنتی۔ (ان کو ایسا بنانا ہمارا کام ہے)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آپ کو بھی اور مجھے بھی صحت اور توفیق دے تاکہ اللہ تعالیٰ جو مضمون سکھاتا ہے، مَیں اس کو احسن طریق پر ضرورت کے مطابق تفصیل سے بیان کر سکوں۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا۵)
ززز

محض قرآن کریم کی تلاوت کافی نہیں اس
سے دلی لگائو ہو اور اس کا اثر قبول کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍جون ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس۔ ایبٹ آباد)

ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-
(الزمر:۱۲)
(الزمر:۱۵)

(الزمر:۲۴)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
ہماری فضل عمر تعلیم القرآن کلاس جولائی کے وسط میںشروع ہو رہی ہے۔ اِس دفعہ گذشتہ سال کے اعلان کے مطابق اِس کلاس کے انعقاد میں ایک بنیادی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اس کے لئے چار ہفتوں کا جو کورس مقرر ہے اس میں سے پہلا ہفتہ ضلع کی جماعتوں نے یہ کلاس لینی ہے۔
گذشتہ سال ہمارے وہ دیہاتی بچے جن کی تربیت کو نظر انداز کیا گیا تھا، جب ربوہ آئے تو وہ آدابِ مسجد سے بھی واقف نہیں تھے اور لطف یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے ضلع کے ایک ذمہ دار عہدیدار ہی تھے جنہوں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی تھی۔
پس ایک تو ربوہ میں رہ کر اس کلاس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خاطر اور دوسرے عہدیداران ضلع کو احساس ذمہ داری دلانے کی خاطر میں نے یہ حکم دیا تھا کہ پہلا ہفتہ اضلاع یہ کلاس لیں اورپھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا ہفتہ یہ کلاس ربوہ میں منعقد ہو۔ ربوہ میں جب یہ کلاس شروع ہوگی تو اس میں ہمارا وہی نوجوان شامل ہو سکے گا جو پہلے ہفتہ کا کورس اپنے ضلع میں مکمل کر چکاہوگا۔ ورنہ اسے وہاں سے واپس کر دیاجائے گا۔ اس لئے اضلاع کو چاہئے کہ وہ ایسے بچوں کو ربوہ بھیجنے کی خواہ مخواہ تکلیف نہ کریں۔
میں اس کلاس میں شامل ہونے والوں کو خصوصاً اور ہر احمدی مسلمان کو عموماً اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی محض تلاوت کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن عظیم کے ساتھ ہمارا تعلق ہو۔ پھر اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کا اثر قبول کریں۔ یہ کوئی جادو یا ٹونہ نہیں ہے کہ آپ نے اس کی تلاوت کی اور اس کا آپ کو فائدہ پہنچ گیا۔ گو قرآن کریم سراپا برکت ہے۔ اس کے پڑھنے سے کچھ نہ کچھ تو برکت مل جائے گی۔ اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن وہ برکت نہیں ملے گی جس کے لئے قرآن کریم کا نزول ہوا تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے قرآن کریم کا اثر قبول کرنے کے لئے دو بنیادی باتیں بتائی ہیں۔ ایک خشیت اللہ کا ہونا اور دوسرے محبت الٰہی کا دل میں پایا جانا۔
جہاں تک خشیت کا تعلق ہے، عربی زبان میں صرف خوف یا ڈر کا نام خشیت نہیں ہے۔ بلکہ اُس خوف کو خشیت کہتے ہیں جو کسی کی عظمت اور جلال کے عرفان کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی عظمت اور جلال کی معرفت کے بعد اس کا خوف کھانا ’’خشیت‘‘ کہلاتا ہے۔
پھر اسی طرح محبت سے میری مراد دنیوی محبت نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے جب محبت کا تعلق ہو تو اسے محبت الٰہی کہتے ہیں اور یہ محبت، اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے نتیجہ میں اور اس کے احسان کو دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کروں۔ عربی محاورہ اور اردو ترجمہ کے لحاظ سے عبادت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل اور فروتنی اختیار کروں۔ غرض عربی لغت میں عبادت کے معنے ’’غَایَۃُ التَّذَلُّل‘‘ کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی تذلل اور فروتنی کی راہوں کو اختیار کیا جائے۔ مگر یہ تذلل اسی وقت نفس انسانی میں پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات اور اس کی عظمت کا عرفان ہو۔ اس کے بغیر تذلل اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظمت اور جلال ہے کہ جب لوگ ان صفات کو پہچاننے لگتے ہیں تو اُن کا سر پھر بامرِ مجبوری ہی اٹھتا ہے ورنہ جھکا ہی رہتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سوار تھے (اِس وقت مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ گھوڑے پر سوار تھے یا اُونٹنی پر) اور آپ دعا میں لگے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ کا سر جھکنا شروع ہوا یہاں تک کہ کاٹھی کے ساتھ لگ گیا۔ اور اس سے نیچے تو جاہی نہیں سکتا تھا۔ پس یہ ہے غایتِ تذلّل یعنی انتہائی فروتنی اور اس کا ظاہری کمال۔ آپ کا سر کاٹھی کے ساتھ لگ گیا۔ اس سے نیچے جاہی نہیں سکتا تھا۔ اور یہ اتنا تذلّل اور فروتنی ہے جس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے یہ قلبی، روحانی اور ذہنی کیفیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے نہ دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم جلالی صفات کی معرفت نہ رکھتا ہو۔ اسی لئے فرمایا
جو لوگ اپنے رب کی خشیت رکھتے ہیں یعنی اس کی عظمت کو دیکھ کر اس کے سامنے تذلل اختیار کرتے ہیں ان کو قرآن کریم کی تعلیم اس رنگ میں اور اس طور پر متاثر کرتی ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کے سامنے یکدم جنگل میں مثلاً شیر آجائے یا کسی اور چیز سے وہ ڈر جائے (اور عام زندگی میں بھی کئی دفعہ ہر انسان کو ایسا تجربہ ضرور ہوتا ہے) تو ایک سنسنی سی پیدا ہوتی ہے۔ اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ کے یہی معنے ہیں یعنی خوف کے مارے جسم میںلہر دوڑنے اور سنسنی پیدا ہونے کے معنوں میں کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
پس ہمارے رب کے مقابلے میں شیر کی کیا حیثیت ہے یا اگر پہاڑ کی بلند چٹانیں ہوں اور ان کے نیچے آپ کھڑے ہوں تو آپ کا دماغ چکرا جاتا ہے اس کی تھوڑی سی بلندی دیکھ کر تو اللہ تعالیٰ کی بلندی اور اس کی رفعت اور اس کی عظمت کا تو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ تو نہ ختم ہونے والی صفات ہیں۔
غرض جیساکہ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے ہمیں اپنے اندر خشیت یعنی تذلّل پیدا کرنا چاہئے۔ پھر قرآن کریم کی تعلیم اثر کرے گی اور وہ کیفیت جو عظمت کے مشاہدہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ وہ پیدا ہونے لگ جائے گی۔ لیکن اگر خشیت اللہ نہ ہو اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس ہی نہ ہو اور اس کے سامنے تذلّل اختیار کرنے کا عہد نہ ہو تو پھر قرآن کریم کی تعلیم کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
پس انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خشیت اللہ پیداکرے۔ خشیت اللہ صرف کسی انتہا کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی ابتداء بھی ہے اور اس کی انتہاء بھی ہے۔ نیز اس کی ابتداء اور اس کی انتہاء میں بڑے فاصلے ہیں۔ اور بڑی دوری ہے۔ انسان اسے شروع کرتا ہے اور پھر وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ آخر حضرت خالد بن ولید اسلام لانے کے بعد پہلے دن تو ’’اتنی خشیت اللہ نہیں رکھتے تھے جتنی مثلاً یرموک کے میدان میں انہوں نے دکھائی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کے رعب کے نیچے آکر انتہائی عاجزی کی راہوں کو اختیار کیا تھا۔ وہ جرنیل تھے مگر خلیفۂ وقت کا حکم آیا تو سپاہی بن گئے۔اور دل میں قطعاً کسی قسم کا کوئی احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔ اس واسطے کہ جہاں ان کو خلافت کے حکم نے لاکرکھڑا کیا تھا اس سے بھی نیچے انہوں نے خود اپنے آپ کو کھڑا کیا ہوا تھا۔ اور یہی انتہائی تذلّل کا مقام ہے۔ پس یہ تو ہے خشیت۔
دوسرے محبت الٰہی ہے جو سے مستنبط ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کے احسان اور دوسری جمالی صفات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس ان ہر دو یعنی خشیت اور محبت کی ایک ابتدا بھی اور ایک انتہا بھی ہے۔ لیکن کوئی فاصلہ حرکت کے بغیر طے نہیں کیا جاسکتا اور کسی منزل پر آپ چلے بغیر پہنچ نہیں سکتے۔ اس لئے جب آپ اس کی ابتداء کریں اور پھر حرکت کریں یعنی اپنی ذہنی ، اخلاقی اور روحانی تربیت کریں تب آپ یہ فاصلہ طے کر سکیں گے اور اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اس کی انتہا تک پہنچ سکیں گے۔ چونکہ ہر ایک آدمی کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ایک آدمی نے اپنے دائرئہ صلاحیت میں ترقی کرنی ہے۔ تاہم اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے لحاظ سے چھوٹی سی ابتداء کرکے اس کی انتہا تک پہنچنا ہے۔
پس قرآن کریم محض پڑھنے کی کتاب نہیں ہے۔ یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جس سے زندگیوں میں اس سے بھی بڑا انقلاب آتا ہے جو انسان کی ظاہری آنکھ نے اشتراکی انقلاب کی شکل میں روس میں یا سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں چین میں دیکھا ہے۔ انسان دراصل خود ایک عالَم ہے۔ ہمارے صوفیاء نے انسان کو ایک یونیورس قرار دیا ہے۔ ایک زاویۂ نگاہ سے حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان خود ایک عالَم ہے اس کے اندر ایک انقلاب آجاتا ہے لیکن اس انقلاب کے لئے یہ ضروری ہے کہ خشیت اللہ ہو۔ پھر یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور دوسری صفات کا عرفان دیتی اور اس میں بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت بھی ہونی چاہئے۔ آپ کتّے کو دس دن روٹی دیں تو وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی نعماء سے مالا مال کر دیا مگر پھر بھی انسانوں میں سے بعض ناشکرے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے پیچھے نہیں چلتے، اس کی آواز پر لبیک نہیں کہتے۔
غرض ذاتی محبت انتہائی احسان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی نعماء میں اس طرح گھرا ہوا پاتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کے احسان کے علاوہ اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ تب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر جاتا ہے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس رشتہ محبت کو جسے وہ اپنے رب سے باندھتا ہے۔ قطع نہیں کر سکتی۔ ہماری (انسان کی) تاریخ میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، انبیاء علیہم السلام کی بھی اور اولیاء اللہ کی بھی پھر سب سے بہتر اور اعلیٰ اور احسن مثال حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کی ہے۔ آپ کی مکی زندگی کا وہ واقعہ تو بڑا مشہور ہے جب سرداران مکہ نے آپ کو اور آپ کے چند ماننے والوں کو قریباً اڑھائی سال کے لئے شعب ابی طالب میں بند کر دیا تھا۔ اُن پر رسدکی ساری راہیں بھی بند کر دی تھیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ رکھنے کے لئے کچھ کیا تو تھا۔ مگر اس کی تفصیل ہماری تاریخ نے محفوظ نہیں رکھی۔ لیکن ان کی حالت یہ تھی کہ ایک بزرگ صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پائوں ایک ایسی چیز پر پڑا جسے میرے پائوں نے نرم محسوس کیا میں نیچے جھکا اسے اٹھایا اور کھا لیا۔ بعد میں مدینہ میں انہوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ چیز کیا تھی بھوک کی یہ حالت تھی کہ ان کو یہ دیکھنے کا خیال ہی نہیں آیا کہ یہ چیز کھانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔
غرض اڑھائی سال تک اس شدید تکلیف کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ قطع نہیں ہوا۔ بلکہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ کیونکہ اس عرصہ میں خدا جانے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے کیا کیا جلوے دیکھے تھے۔ ہر آدمی اپنی زندگی میں یہ جلوے دیکھتا ہے ہم نے اپنی زندگی میں خداتعالیٰ کی صفتِ احسان کے وہ جلوے دیکھے ہیں جن کا مادی سامانوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ خداتعالیٰ اپنے حکم کے اجراء میں مادی اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اُس نے یہ اسباب ہمارے لئے پیدا کئے ہیں اور ہم شکر کے ساتھ ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے۔ خداتعالیٰ تو کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ خداتعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک آدمی کو گرمی سے بچانے کے لئے بھری محفل میں صرف اس کے لئے ٹھنڈی ہوا چلا دے اور وہاں اس کے جو ساتھی بیٹھے ہوں، اُن کو محسوس ہی نہ ہو رہا ہو۔ خداتعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے۔ (مثلاً حافظ روشن علی صاحبؓ تھے) اُن کو کھانا بھی کھلا رہا ہو اور کسی کو نظر بھی نہ آرہا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مادی اشیاء کا محتاج نہیں اور نہ اپنے بنائے ہوئے مادی قوانین کا محتاج اور قیدی ہے وہ تو ٖ (یوسف:۲۲) ہے۔ اس کے جو قوانین ہیں، اُن کے اوپر بھی اس کا حکم غالب ہے۔ جب چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کے پیار کے اُن جلووں کا یہ کرشمہ تھا (جو مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ نے اڑھائی سال میں دیکھے تھے) کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی ظلم اور دنیا کی کوئی سختی محبت کے اس تعلق کو قطع نہ کر سکی جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا تھا۔
پس سورۂ زمر کی ان آیات میں جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں اور اپنے مضمون کے لحاظ سے میں نے ان کو اکٹھا کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف میری عظمت کے سامنے تم نے جھکنا ہے کسی اور کے سامنے اپنے سروں کو نہیں جھکانا اور خالصتاً صرف میری اطاعت کرنی ہے اور کسی کی اطاعت نہیں کرنی۔
میں نے محبت کا جو ذکر کیا ہے وہ دراصل سارا اطاعت کا کرشمہ ہے کیونکہ اصل اطاعت محبت کے زور ہی سے کروائی جاتی ہے۔ یہ جو ڈنڈے کے زور سے اطاعت کروائی جاتی ہے یہ اطاعت نہیں ہوتی۔ بلکہ اطاعت کا چھلکا ہوتی ہے۔ محبت کے زور سے جو اطاعت کروائی جاتی ہے وہ ظاہر میں بھی اطاعت ہوتی ہے اور باطن میں بھی اطاعت ہوتی ہے وہ برسرعام بھی اطاعت ہوتی ہے اور بالکل تنہائی کے لمحات میں بھی اطاعت ہوتی ہے کیونکہ اس اطاعت کا تعلق اور اظہار ہی اور ہوتا ہے۔
پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکوں اور تذلّل اختیار کروں۔ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اسی کی اطاعت کروں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی دوسری جگہ یہ اعلان بھی کروا دیا۔ (الانعام:۱۶۴)کہ پہلا مخاطب بھی میں اور سب سے بڑھ کر اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔ اور پہلا مسلم اور مومن بھی میں ہی ہوں اسی لئے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ اے نبی! کہدو۔
خداتعالیٰ کے حضور کامل اور انتہائی تذلّل کے ساتھ جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اس کی خالص اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔ باقی میں اور آپ ہم سب لوگ اور جو پچھلے چودہ سو سال میں پیدا ہوئے ہیں، ہمیں ہر چیز ظلّی اور طفیلی طور پر ملی ہے۔ ظلّی اور طفیلی کے اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے دھوکا کھایا ہے۔ کچھ بھی بغیر ّظل اور طفیل کے نہیں ملتا۔ اور اگر ظلّی اور طفیلی رشتہ قائم ہو تو پھر سب کچھ مل جاتا ہے۔
غرض سورۂ زمر کی اس آیتِ کریمہ کی رو سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک بہترین کتاب اتاری ہے، جس نے پہلی صداقتوں کو بھی اپنے اندر لیا ہوا ہے اور ایک نئی اور عظیم تعلیم بھی اس کے اندر پائی جاتی ہے۔ انسان کو یہ حکم دیا (پہلے ذکر آچکا ہے) کہ کامل عبادت اور حقیقی اطاعت کے سب سامان اور وسائل اس کتاب میں رکھ دئیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے اثر کو قبول کرنے کے لئے دو چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی خشیت اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے ذاتی اور خالص محبت اور جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان دونوں چیزوں کی بھی ایک ابتداء ہے۔ اور ایک انتہا ہے جسے پانا (ہر شخص کے دائرہ استعداد میں) ممکن ہے۔ لیکن جو شخص ابتدا نہیں کرتا وہ انتہا تک پہنچنے کی امید نہیں رکھ سکتا۔
پس ہمارے وہ بچے جو میرے آج کے خطبہ کے پہلے مخاطب ہیں خصوصاً اور ہر احمدی عموماً یاد رکھے کہ وہ اپنی عمر اور تربیت کے لحاظ سے اس سلسلہ میں ابتداء کر چکے ہیں۔ اب اُن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حرکت میں کمی واقع نہ ہونے دیں۔ بلکہ خشیت اللہ اور محبتِ ذاتیہ الٰہیہ میں ترقی کرتے چلے جائیں تاکہ وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کے ایک ’’نئے اور بڑے‘‘پیار کو حاصل کریں اور اس کے حسن کا نیا جلوہ دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نئے سے نئے جلوے متواتر دیکھتے چلے جائیں تاکہ ایک طرف ان کی ذات اور اُن کا وجود فنا ہو جائے اور دوسری طرف خداتعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں وہ ابدی زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآن کریم کے پڑھنے کی بھی توفیق بخشے اور قرآن کریم کے اثر کو قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنی خشیت بھی پیدا کرے اور ہمارے دلوں میں اپنی محبت ذاتی بھی پیدا کرے اور وہ اپنے فضل سے ہماری اس خشیت اور محبت الٰہی کو دن بدن بڑھاتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری حفاظت کرنے والے ہوں تاکہ شیطان کا کوئی منصوبہ اس خشیت اور محبت کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا ۴)
ززز
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مجھے اور آپ کو خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ قرآن کریم
کی عظمت کو دُنیا میں دوبارہ قائم کیا جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس، کاکول، ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:-

(الفرقان:۳۱)

پھر حضور انور نے فرمایا:-
انسان کے ساتھ بیماری لگی ہوئی ہے۔ دو ایک روز سے مجھے انفلوئنزا کی تکلیف ہے۔ گو پہلے سے کچھ افاقہ ہے لیکن ابھی تکلیف جاری ہے۔ سر بھاری اور طبیعت بے چین رہتی ہے۔ دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے صحت عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ رسول نے کہا اے میرے رب! میری یہ قوم قرآن کریم کو مہجور بنا رہی ہے۔ مہجور کا مصدر ھَجَرٌ ہے اور عربی لغت کے لحاظ سے اس کے معنے زبان سے یا دل سے یا دونوں سے قطع تعلق کرنے کے ہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے ھَجَر کے تین معنے ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ زبان سے کہنا کہ قرآن کریم کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے یہ کہ انسان کی دلی کیفیت یہ ہو کہ اُس کا قرآن عظیم سے کوئی تعلق نہ ہو اور تیسرے یہ کہ زبان سے بھی کہنا اور دل سے بھی زبانِ حال سے یہی تأثر دینا کہ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِس عظیم قرآن کے ساتھ بھی لوگ تعلق قائم نہیں رکھتے اور اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی تو یہ عظمت اور شان ہے کہ وہ اپنی عظمت کا خود دعویٰ کرتا اور پھر اس کے حق میں دلائل بھی دیتا ہے۔ قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی آخری ہدایت اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہے۔ اس نے اپنی عظمت کے متعلق اور اپنی شان کے متعلق اور اپنی افادیت کے متعلق اور اپنی ہمہ گیری کے متعلق اور تمام اقوام سے اپنے تعلق کے بارے میں اور پھر ہر زمانے سے اس کا جو تعلق ہے اس کے بارے میں خود دعویٰ کیا ہے اور پھر دلائل سے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔
قرآن کریم نے ایک بڑا ہی عجیب اور حسین دعویٰ یہ کیا ہے کہ انسان کی عقل ناقص ہے اور اِس کی دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو چوٹی کے عقلمند ہر مسئلہ کے متعلق اختلاف کرتے ہیں چنانچہ انسانوں کا باہمی اختلاف خصوصاً اُن انسانوں کا جو صاحبِ عقل وفراست سمجھے جاتے ہیں، بڑے علم وتدبر والے سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کا باہمی اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی عقل ناقص ہے۔ اگر انسانی عقل ناقص نہ ہوتی تو وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچتی لیکن چونکہ وہ ناقص ہے اور صراطِ مستقیم کو کبھی چھوڑ بھی دیتی ہے اور راہِ راست سے بھٹک جاتی ہے اس لئے وہ متضاد نتائج پر پہنچتی ہے ۔اِسی واسطے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس عقلی دلیل کو بار بار اور بڑی وضاحت سے مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ’’خدا ہونا چاہئے‘‘ اور ’’خدا ہے‘‘ میں بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق انسانی عقل زیادہ سے زیادہ صرف’’خدا ہوناچاہئے‘‘ تک پہنچتی ہے یعنی انسانی عقل دُنیا کی مختلف چیزوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ خدا ہونا چاہئے۔ جب کہ دوسرے انسان کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہونا چاہئے اور یہ بھی اپنے حق میں عقلی دلیلیں دیتے ہیں۔
چنانچہ اب انسان نے ایک نئی سائنس نکالی ہے جسے انگریزی میں’’سائنس آف چانس‘‘ کہتے ہیں۔ پہلے تو دہریے کہتے تھے یہ بھی اتفاق ہے اور وہ بھی اتفاق ہے۔ ہزار بار بلکہ اس سے بھی زیادہ اتفاق! اتفاق!! کہتے چلے جاتے تھے۔ مگر پھر اُنہوں نے سوچا کہ آنکھیں بند کر کے اتفاق، اتفاق کہہ دینا، درست نہیں ہے۔ بالآخر اُنہوں نے اس کائنات اور اس کی اشیاء کی پیدائش اور ارتقاء پر فکر وتدبر کے نتیجہ میں جب ’’سائنس آف چانس‘‘ بنائی تو آدھے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے کہ خدا پر ایمان لانا پڑے گا۔ ہر چیز کو اتفاق کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔ میں ایک دو دفعہ اس کی تفصیل بیان کر چکا ہوں۔ اس وقت اس کو دُہرانا نہیں چاہتا۔
بہر حال’’سائنس آف چانس‘‘ کے نتیجہ میں آدھے سائنسدان اس گروہ سے تعلق رکھنے لگے جنہوں نے یہ کہا کہ ایک قادر مطلق، خالق اور رب ماننا پڑے گا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ نہیں! خدا کے ماننے کی پھر بھی کوئی ضرورت نہیں۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ سائنسدان صرف ’’چاہئیے‘‘ تک پہنچتے ہیں کہ خدا ہونا چاہئے لیکن ’’چاہئے‘‘ اور ’’ہے‘‘ میں بڑا فرق ہے۔ صرف وہی شخض کہہ سکتا ہے کہ ’’خدا ہے‘‘ جس نے خداتعالیٰ کا پیار حاصل کیا ہو اور زندہ خدا کے ساتھ اس کا زندہ تعلق ہو۔ وہ ’’خدا ہونا چاہئے‘‘ پر نہیں رہتا۔ وہ کہتا ہے خدا موجود ہے۔
اب مثلاً راولپنڈی میں ایک احمدی یہ کہہ سکتا ہے کہ آج کا خطبہ ایبٹ آباد میں خلیفۃ المسیح الثالث نے دیا ہو گا۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن کوئی دوسرا آدمی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ بیماری سے اُٹھ کر آئے ہیں۔ بعض دفعہ بیمار کو اور بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ اس لئے اُنہوں نے خطبہ جمعہ نہیں دیا ہو گا۔
پس دونوں کے لئے ایک جیسا امکان ہے۔ ایک کہے گا کہ خطبہ دیا ہو گا۔(یہ بات بھی’’ہونا چاہئے‘‘ کے درجہ میں آتی ہے) دوسرا کہے گا کہ نہیں دیا ہو گا لیکن آپ دوست جو اِس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت صاحب نے خطبہ دیا ہو گا۔ آپ کہیں گے حضرت صاحب نے خطبہ دیا ہے۔ ہم نے خود اُن کا خطبہ سُنا ہے۔
غرض جو شخص اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ خدا ہے۔ مگر جس کا خداتعالیٰ سے زندہ تعلق نہیں ہوتا بلکہ عقلی دلائل سے وہ اِس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کو ماننا چاہئے وہ کہتا ہے کہ خدا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس کے بغیر بہت سی باتیں EXPLAIN (ایکس پلین) نہیں کی جا سکتیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ عقل ہمیں’’خدا ہے‘‘ تک نہیں پہنچاتی بلکہ ’’خدا ہونا چاہئے‘‘ تک پہنچاتی ہے۔ تاہم جہاں تک ’’خدا ہے‘‘ کا تعلق ہے یہ تو خدا تعالیٰ اپنے عاجز بندے کو رحمت کے ہاتھ سے اُٹھاتا اور اُس کے ساتھ اپنے زندہ تعلق کو قائم کرتا ہے۔ پھر وہ بندہ کہتا ہے کہ ’’خدا ہے‘‘ کیونکہ میں اس کا گواہ ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ خدا ہے۔ مَیں نے اس سے غیب کی خبریں معلوم کیں۔ اُس نے گھبراہٹ کے اوقات میں مجھے پیار سے تسلیاں دیں۔ اُس نے میری دُعاؤں کو سُنا اور بسا اوقات اُس نے قبولیت دُعا کی قبل از وقت اطلاع دے دی وغیرہ وغیرہ۔ زندہ تعلق کے بہت سے مظاہرے ہوتے ہیں۔ پھر وہ کہے گا کہ ’’خدا ہے‘‘۔میں اس کا گواہ ہوں۔
مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے۔ مَیں نے ۱۹۶۷ء میںیورپ کے دورے کے دوران سوال کرنے والی ایک عیسائی عورت سے کہا تھا کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ایک احمدی عورت کی ایک رات کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُسے تین خبریں دیں۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ تم ساری عیسائی دُنیا میں اس قسم کی کوئی مثال یا اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں دکھا سکتے۔ پھر میں نے اُس سے کہا کہ یہ عورت جسے ایک رات میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں بتائیں اور وہ پوری بھی ہو گئیں۔ اب اگر اس کے سامنے ساری دُنیا کے فلاسفر اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف دلائل دیں تو وہ کہے گی تم پاگل ہو۔ جس قادر مطلق ہستی کی صفات کا میں نے اپنے وجود میں مشاہدہ کیا ہے مَیں اُس کا انکار کیسے کر سکتی ہوں۔
بہرحال جو بات مَیں اِس وقت بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انسانی عقول کا اختلاف و تضاد انسانی عقول کے نقص کی بڑی زبردست دلیل ہے۔ کیونکہ اگر انسانی عقول ناقص اور کمزور نہ ہوتیں تو مسائل کے بارے میں ان کا آپس میں اختلاف نہ ہوتا۔ چنانچہ آج کی دُنیا نے اقتصادی حقوق کے متعلق بڑا شور مچا دیا ہے۔ امریکہ کے چوٹی کے اکانومسٹ یعنی چوٹی کے ماہرین اقتصادیات یہ سمجھتے ہیں کہ دُنیا میں اُن جیسی عقل کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ ایک گروہ تو امریکہ کے ماہرین کا ہے۔ دوسرا گروہ روس میں بستا ہے وہ کہتے ہیں کہ اتنی عقل جتنی روسی ماہرین کو حاصل ہے دُنیا کے کسی خطے میں تمہیں نظر نہیں آئے گی۔
غرض وہ بھی ماہرین اکانومسٹ اور یہ بھی ماہرین اکانومسٹ۔ وہ امریکہ میں رہنے والے ہیں اور یہ روس میں بسنے والے اور ہر دو اپنی مادی طاقت کے نتیجہ میں خود کو بڑا عقلمند سمجھتے ہیں۔ جو لوگ ان کو جانتے ہیں، اُن سے بھی کہلوا لیتے ہیں کہ جی یہ بڑے عقلمند ہیں ان کی نقل کرنی چاہئے مثلاً پاکستان والے آنکھیں بند کر کے امریکہ کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں یا پاکستان والے روس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں یا پاکستان والے چین کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم گدھے ہیں۔ ہمارے اندر عقل نہیں ہے اور وہ (امریکن اور روسی) عقلمند ہیں اور ان عقلمندوں کا حال یہ ہے کہ امریکہ، روس اور چین کے لوگوں کی عقلوں کو جب اکٹھا کیا جائے تو سوائے اختلاف کے اس کا کوئی نچوڑ نہیں نکلتا یعنی جس طرح ایک طبیب ادویہ بنانے کے لئے بعض چیزوں کا نچوڑ نکالتا ہے اسی طرح اگر ان کی عقلوں کو اکٹھا کر کے ان کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ اختلاف ہو گا۔
پھر ہر ایک کا اپنے اپنے ملک کے اندر اختلاف ہے۔ مَیں آکسفورڈ میں اقتصادیات بھی پڑھتا رہا ہوں۔ وہاں اقتصادیات پر ایک ’’کینز‘‘ کا نظریۂ اقتصادیات تھا اور اسی طرح کے مختلف سکولز ہیں جو اپنی اپنی تھیوریز بناتے چلے جاتے ہیں اور یہی مختلف تھیوریز ہی دراصل ان کی ناقص عقل کی زبردست دلیل ہے۔ ان عقلوں نے ہماری عقل تو اندھی کر دی ہے۔ اِسی لئے بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ جی بس عقل کافی ہے یعنی اسلام میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ اب مسلمان کے لئے الہام کی ضرورت نہیں، عقل کافی ہے۔ مگر کیا وہ عقل کافی ہے جو امریکہ اور روس کو آپس میں لڑا رہی ہے اور چین کو آپس میں لڑا رہی ہے۔
پس ان کا اختلاف بتا رہا ہے کہ عقل کافی نہیں ہے بلکہ یہ تو خود ناقص ہے اس کے ساتھ انسان کو کسی دوسری چیز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے
عقل خود اندھی ہے گر نیّرِ الہام نہ ہو
یہ تو اصل قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ انسانی عقول ناقص ہیں اور اس کمزوری اور نقص کے نتیجہ میں آپس میں اختلاف کرتی ہیں۔ جب دو ایک جیسی چیزیں اختلاف کر رہی ہوں تو ویسی ہی تیسری چیز اُن کا اختلاف دُور نہیں کر سکتی۔ مثلاً اگر دو عقول کی کشتی ہو جائے یا آپس میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو تیسری عقل آکر اُن کا اختلاف دُور کر ہی نہیںسکتی۔ اس لئے لوگوں نے ایک اور اصول وضع کیا اور وہ بھی بڑا ناقص ہے اور وہ ’’کمپرومائز‘‘ کا اصول ہے کہ تم کچھ چھوڑ دو، کچھ میں چھوڑ دیتا ہوں۔ جس کامطلب یہ ہے کہ تم نے خود تسلیم کر لیا کہ عقل ناقص ہے کیونکہ اگر کوئی چیز ناقص نہ ہوتی تو اس کے لئے کچھ چھوڑنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ آخر اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو کیوں اختیار کیا جائے۔
غرض جن لوگوں نے ’’کمپرومائز‘‘ کا اصول بنایا ہے اُنہوں نے بھی اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہماری عقلیں ناقص ہیں۔ اس لئے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے کچھ تم قربانی کرو۔ کچھ ہم قربانی دیتے ہیں۔ مگر قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو ربّ العلمین ہے وہ تمہیں تمہاری عقلوں پر کیسے چھوڑ سکتا تھاکہ تم ہر وقت لڑتے ہی رہو کیونکہ عقل عقل سے اختلاف کرتی ہے اس واسطے فرمایا کہ اے رسول! ہم نے تجھ پر یہ کامل کتاب اس لئے اُتاری ہے کہ لوگوں کی ناقص عقول اور ان کے فکرو تدبر کے نتیجہ میں اختلافات پیدا ہوں تو یہ اُن کو دور کر دے۔ عقل عقل کے باہمی اختلاف کو اللہ تعالیٰ کا الہام دور کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ خدائے علّام الغیوب کے سرچشمہ سے نکلتا ہے۔
پس عقل عقل کے اختلاف کو(دونوں عقول ناقص ہیں تبھی اختلاف پیدا ہوا نا!) ایک تیسری ناقص عقل دُور نہیں کر سکتی۔ البتہ وہ یہ کہتی ہے کہ آپس میں کامپرومائز یعنی کچھ چھوڑو اور کچھ لے لوکے اصول پر سمجھوتہ کر لو لیکن وہ ان کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔وہ ان کے اوپرحَکَم نہیں بن سکتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ درست ہے اور وہ درست نہیںہے۔ اس طرح تو جس کے خلاف فیصلہ ہو گا وہ اس کے پیچھے پڑ جائے گا کہ تم کہاں کے بڑے عقلمند بنے پھرتے ہو۔
غرض زید یا بکر کی عقلوں کا سوال نہیں۔ دُنیا کے چوٹی کے دماغ اور خود کو عقلمند اور صاحب فراست کہنے والے لوگ مسائل میں آکر قریباً ہر مسئلہ میں اختلاف کر گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اور اندرونِ ملک بھی۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ مثلاً اقتصادیات کے معاملہ میںانگلستان گو ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہاں بھی بڑے بڑے ماہر، عقلمند اور بڑے اچھے لکھنے والے اکانومسٹ پیدا ہوئے مگر آپس میں اختلاف کر گئے۔ ایک ایک تھیوری بنا رہا ہے۔ دوسرا دوسری تھیوری بنا رہا ہے۔ یہ تو اندرونِ ملک حال ہے بین الاقوامی سطح پر امریکہ، روس اور چین کا باہمی فرق تو بڑا نمایاں ہے۔
اب مثلاً کمیونزم (اشتراکیت) اور چینی سوشل ازم کو اگر لیں تو چونکہ عقل ناقص ہے۔ اس لئے جس نتیجہ پر روسی کمیونسٹ پہنچا اس نتیجہ پر چینی سوشلسٹ نہیں پہنچا۔ چین نے اپنی اور تھیوریز بنالیں اور اس طرح ان کا آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا ۔ گو عام طور پر لوگوں کے سامنے یہ اختلاف نہیں آیا لیکن میں آپ کو اعلیٰ وجہ البصیرت بتاتا ہوں کہ ان کا آپس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے روسی اور چینی اختلاف سے پہلے یوگو سلاویہ کے ٹیٹو کے کمیونزم اور روسی کمیونزم میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
یوگو سلاویہ والے کہتے ہیں کیا تم ہی بڑے عقلمند ہو؟ ہمیںبھی تو عقل دی گئی ہے۔ ہم بھی اختلاف کر سکتے ہیں۔
غرض یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عقل دی ہے لیکن ایسی عقل دی ہے جو غیر محدود وسعتوں میں جولانی نہیں کر سکتی کیونکہ عقل محدود ہے۔جس وقت وہ اپنی حدود کو پھلانگتی ہے، وہ نقص کو پیدا کرتی ہے۔وہ بطلان کو پیدا کرتی ہے۔ وہ صداقت کو پیدا نہیں کرتی کیونکہ وہ اپنی حدود سے آگے نکل جاتی ہے حالانکہ وہ ایک محدود چیز ہے لیکن جو کلام، جو بیان، جو صداقتیں اور اختلاف کو دور کرنے والے جو اصول علّام الغیوب کے کامل علم کے سرچشمے سے نکلتے ہیں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ عقل اور عقل کے درمیان اختلافات کو دور کرائیں۔
پس یہ عظیم قرآن اس لئے نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ عقول ناقصہ کے اختلاف کو دورکیا جا سکے اور یہ قرآن کریم کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مقام اور شان کو مختلف جگہوں پر بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی بیان کرنے والا ہے۔ جس نے قرآن کریم نازل کیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اپنے کلام کی شان کو بیان کیا ہے جسے عام فہم زبان میں ہم کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم نے خود بیان کیا ہے یہ محاورہ بھی درست ہے۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس محاورہ کو استعمال کیا ہے۔ تاہم یہ ایک عام فہم محاورہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے کلام کی عظمت کو اپنے کلام یعنی قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔ لیکن اتنی عظیم کتاب ہونے کے باوجود رسول نے فرمایا کہ میری قوم نے اس کتاب سے زبانی اور دلی طور قطع تعلق کر لیا ہے۔
چنانچہ اب ابھی آپ اپنی زندگیوں میں دیکھیں، ہمارے پاکستان میں بھی مسلمان کہلانے والوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بسا اوقات زبان سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ چودہ سو سالہ پرانی کتاب آج کے نئے مسائل کس طرح حل کرے گی؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے اسلام ہمارا دین ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ قرآن کریم ہمارے مسائل کے حل کے قابل ہو۔ کئی لوگ تو بڑی دلیری سے کھلے طور پر یہ کہہ دیتے ہیں اور کئی اشاروں میں یہ بات کرتے ہیں اور دل سے تو قرآن کریم کی عظمت کو بہت کم لوگ مانتے ہیں کیونکہ دل کا ایمان تو جوارح کی حرکتوں کو پکڑ لیتا ہے اور اِدھر اُدھر نہیں جانے دیتا وہ یقین جو دل میں پیدا ہوتا ہے اس کے بعد عمل میں گمراہی نہیں پیدا ہو سکتی لیکن اب حالت یہ ہے کہ قرآن کریم پر ایمان بھی ہے اور اسّی فیصد اعمال قرآنی ہدایت کے خلاف بھی ہیں۔ یہ طریق عمل قرآن کریم کو دلی طور پر مہجور قرار دینے یعنی قطع تعلق کرنے کے مترادف ہے زبان سے قرآن کریم کی صداقت کااقرار ہے لیکن دل سے قطع تعلق ہے۔ اس کے باوجود اس میں کوئی شک نہیںکہ یہ کتاب فی الواقعہ عظیم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بڑا فضل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ علاوہ اور بہت سی روشنیوں کے ایک یہ صداقت بھی ملی ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے۔ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل اور ہر زمانے کی عقول ناقصہ کے اختلافات کو دور کرنے والی کتاب ہے الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔ پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کی حمد کرتے رہنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا عظیم احسان ہے کہ اگر ہم اپنی ساری عمرا لحمد للہ پڑھتے رہیں تب بھی صرف اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔لیکن اس نے ہمیں یہ کہہ کر تسلی دی۔
(البقرہ:۲۸۷)
فرمایا تمہاری جتنی طاقت ہے اتنا کام کر لو گے تو میں سمجھوں گا تم نے سارا کام کر لیا اور یہ گویا اس کا ہم پر ایک اَور احسان ہو گیا۔
پس ہم نے قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا ہے اور صرف یہی نہیں کہ ہم نے قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا بلکہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ساری دُنیا کے دل میں قرآن کریم کی عظمت کو قائم کر دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی بالکل بے معنی ہے۔
چنانچہ اشاعت قرآن کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو توفیق بخشی۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی رحمتیں نازل کیں۔ میری خلافت سے پہلے بہت کام ہوا حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے دُنیا کا ذہن بدل دیا مثلاً جس وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ ہوااس وقت جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے دُنیا کی حالت یہ تھی کہ جو عوام تھے اُن کو تو علم ہی نہیں تھا کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب انسان کی طرف دُنیا میں نازل ہو چکی ہے۔ جو متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ تھے اُنہوں نے شاید قرآن کریم کا نام تو سُنا ہو لیکن اُن کے دل میں اس سے کوئی محبت یا دلچسپی نہیں تھی۔ جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے تھے اور سکالرز کہلاتے تھے جن کا عملی مجالس میں اُٹھنا بیٹھنا تھا اور اُن کاآپس میں تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ اُن کو قرآن کریم کے ساتھ محض اس قدر دلچسپی تھی اوراُن کے دل میں قرآن کریم کی صرف اتنی قدر تھی کہ اگر قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی کے طریقہ پر اُن کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ شاید قرآن کریم پر احسان کر کے کبھی کبھی اُسے دیکھ لیا کریں۔ اب ویسے تو یہ طریق درست نہیں ہے کہ قرآن کریم کا متن اس کے ترجمے کے پیچھے چلے اصل طریق تو یہ ہے کہ ترجمہ متن کے پیچھے چلے لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس وقت دُنیا کی حالت یہ تھی کہ اگر قرآن کریم کا ترجمہ ہماری تحریر یا رسم الخط کی طرز پر دائیں بائیں ہوتا تو صرف اتنی سی وجہ سے کہ ہمیںعادت نہیں ہے دُنیا کے انگریزی خواں طبقہ نے بھی قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگانا تھا۔ پھر تراجم ہوئے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی بھی ایک ترجمہ ہواا ور ہمارے خیال میں وہ ضائع ہو گیا۔ واللّٰہ اعلم۔پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی تفسیر کی اور آپ کی زیر نگرانی انگریزی کے علاوہ اور بھی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے مثلاً ڈچ زبان میں ترجمہ ہوا، جرمن زبان میں ترجمہ ہوا، سواحیلی زبان میں ترجمہ ہوا، روسی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔ لیکن چونکہ روسی اور فرانسیسی جاننے والے احمدی ہمیں نہیں ملے اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس واسطے ان کے مسودے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے ابھی تک اُن کو شائع نہیں کیا۔ اب چند سال پہلے فرانسیسی ترجمہ کی REVISION(ری ویژن) کے ہم قابل ہوئے تھے۔ اس کا مسودہ اشاعت کے لئے تیار ہے۔ انشاء اللہ دو ایک سال میں مارکیٹ میں آجائے گا لیکن روسی ترجمہ قرآن کریم کی نظر ثانی ہم نہیں کروا سکے۔ میرے خیال میں بعض اور زبانوں میں بھی تراجم کے مسودے تیار ہیں لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں۔
بہرحال میں یہ بتا رہا ہوں یہ جو ڈچ زبان یا جرمن زبان یا انگریزی زبان بائیں سے دائیں کو چلتی ہے اس کے مطابق ہم نے متن کو رکھا اور اس طرح جہاں سورۃ الحمد ہونی چاہئے تھی وہاں سورۃالنّاس آگئی۔ غرض ابتداء میں متن نے ترجمہ کا پیچھا کیا۔ صرف اس نیت سے کہ ان لوگوں میں قرآن کریم کے ساتھ کوئی دلچسپی پیدا ہو۔ اس میں خداتعالیٰ کے فضل سے ہم کامیاب ہو گئے۔ یہ خداتعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ لوگوں کے ذہن میں ایک انقلاب آگیا گو یہ ایک چھوٹا سے انقلاب ہے مگر ہے یہ بھی انقلاب جس طرح سمندر میں طوفان آئے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہاڑ جیسی اُٹھنے والی ایک لہر طوفان کا حصہ نہیں ہے۔ وہ طوفان کا حصہ ہے لیکن طوفان نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کے حق میں یہ تبدیلی اپنی جگہ ایک صداقت ہے اور دُنیا میں جو ایک انقلاب عظیم بپا ہو رہا ہے یہ اس کا ایک اہم حصہ ہے۔
قرآن کریم کی تفسیر و اشاعت پر ایک لمبا زمانہ گزر گیا۔ اس عرصہ میں ہم نے قرآن کریم میں اتنی دلچسپی پیدا کر دی کہ اگر ترجمہ متن کے پیچھے چلے تو یہ اس کی اشاعت میں روک نہیں بنے گا۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی تیار ہونے والا وہ انگریزی ترجمہ جس کے متعلق میں نے یہ بتایا ہے کہ وہ ضائع ہو گیا تھا وہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنا کر کے شائع کیا تھا میرے خیال میں ۱۹۵۵ء تک اس انگریزی ترجمہ جس کے چالیس پچاس ہزار نسخے شائع کئے جا سکے ان کے اعدادوشمار اکٹھے کروا رہا ہوں۔ خود ہمارا جو پہلا ترجمہ تھا وہ بھی چند ہزار کی تعداد میں چھپا تھا اس سے زیادہ نہیں چھپ سکا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو چوٹی کے پڑھے لکھے لوگ تھے ہم صرف ان تک انگریزی اور چند دوسری زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم پہنچا سکے۔
اب پہلی دفعہ میں نے حالات کو دیکھ کر ترجمہ کی طرز میں تبدیلی کی چنانچہ اب قرآن کریم کا ترجمہ متن کے پیچھے چل رہا ہے یعنی سورۃ الحمد پہلے صفحہ پر ہے آخری صفحے پر نہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ابھی اس کی پہلے کی طرح تو اشاعت نہیں ہوئی۔ اس پر کچھ وقت لگے گا۔
قرآن کریم کے ہزاروں نسخے سمندروں کی لہروں پر ’’موجیں‘‘ کر رہے ہیں اور ابھی تک منزل مقصود پر نہیں پہنچے تاہم پچھلے تین چار مہینوں میں چالیس ہزار سے زیادہ تعداد میں بک چکے ہیں۔ الحمد للّٰہ۔ تاہم یہ تو میرا ایک جائزہ تھا ایک ASSESSMENT(ایسس منٹ) تھی، ایک خیال تھا کہ ہم نے یہ انقلاب پیدا کر دیا اور قرآن کریم سے اتنی دلچسپی پیدا ہو چکی ہے کہ اگر ہم دائیں سے بائیں انگریزی لکھنا شروع کر دیں گے تو ان کو اس کا کوئی احساس نہیں ہو گا۔ چنانچہ افریقہ میں ہم نے جو نمونے بھیجے تھے وہ پڑھے لکھے افریقنوں نے زبردستی چھین لئے۔ کچھ قرآن کریم کے انگریزی ترجمے کے نسخے یورپ میں بھیجے تھے۔ جرمنی کے نو مسلم نواحمدیوںمیں سے بعض کے خط آئے ہیں کہ ہم نے کیا قصور کیا ہے۔ آپ نے حمائل سائز میں انگریزی ترجمہ شائع کر دیا ہے مگر جرمن ترجمہ قرآن کریم ابھی تک شائع نہیں کیا۔ ان کے خطوط سے علاوہ اور چیزوں کے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ترجمہ کی طرز میں کیا تبدیلی ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں کو میں خود بتاتا ہوں کہ دیکھو یہ انقلاب رونما ہو چکا ہے۔ چند دن ہوئے ایک بڑے افسر ملنے آئے ہوتے تھے۔ مَیں نے ان کو انگریزی ترجمہ قرآن کریم دکھایا۔ تو میں نے جیساکہ میری عادت ہے اور ہر عقلمند احمدی کی ہونی چاہئے ہم کوئی بات دھڑلے کے ساتھ پورے علم کے بغیر نہیںکر سکتے۔ میں نے انہیں بڑے محتاط الفاظ میں بتایا کہ میرے علم میں پہلی دفعہ یہ واقع ہوا ہے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کرتے وقت ترجمے کے متن کو FOLLOW (فالو) کیا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کے علم میں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ میں نے کہا میرے علم میں نہیں ممکن ہے کہیں سے کوئی ترجمہ نکل آئے اس لئے ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے لیکن اگر ہے بھی تو وہ بہت تھوڑا ہوگا۔
پس جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت کا تعلق ہے ایک انقلاب آگیا ہے۔ گو اس انقلاب کی اس وقت ہمیں ایک موج نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک انقلاب پیدا ہو رہا ہے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ہمارا اپنا پریس جلدی لگ جائے۔ چونکہ ملک میں ایک سیاسی ہنگامہ اور انتشار پیدا ہوا اور پھر اس کو درست کرنے کے لئے ایک حکومت قائم ہوئی جو حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس پر کچھ وقت لگے گا ورنہ ہمارے پریس کے لئے باہر سے مشینیں منگوانے کا کیس قریباً تیار تھا۔ اس روک کی وجہ سے کچھ دیر ہمیں اور انتظار کرنا پڑے گا لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے راستے میں مستقل روکیں پیدا نہیں ہوا کرتیں۔
چنانچہ میں پریس کے بارے میں پریشان تھا اور دعائیں کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور راستہ بتادیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں وہ خود راہیں کھول دیتا ہے دو، چار مہینے یا سال کی تاخیر ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ملک غلام فرید صاحب نے چھوٹے نوٹوں کے ساتھ قرآن کریم کا جو ترجمہ شائع کیا ہے اس کی طباعت پر پاکستان کے ایک پریس نے چار سال لئے ہیں۔ میں نے تحریک جدید سے کہا کہ فرانسیسی ترجمہ یہاں بالکل نہیں چھپوانا اور نہ باہر سے چھپوانا ہے کیونکہ اگر اس کے چھپنے پر چار سال ہی لگنے ہیں تو ہم تین سال تک اپنے پریس کا انتظار کرسکتے ہیں اپنے پریس میں انشاء اللہ تین مہینے میں چھپ جائے گا اور اس طرح تین سال انتظار کرنے کے بعد نو مہینے پھر بھی بچ جائیں گے۔ اس واسطے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کام اپنے وقت پر انشاء اللہ مکمل ہو جائے گا۔
میں نے بعض بنیادی باتیں بطور تمہید کے بیان کی ہیں۔ قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں مجھ پر اور آپ پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اس ذہنی کیفیت کو بدلنا ہے جو

(الفرقان:۳۱)
میں بیان کی گئی ہے۔ غرض قرآن کریم کو مہجورو متروک سمجھنے کی اس ذہنی کیفیت کو بدلنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کی نشأۃ اولیٰ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور نشاۃ ثانیہ میں تکمیل اشاعت ہدایت مقدر ہے۔ بعض لوگ خواہ مخواہ آنکھیں بند کر کے ہم پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام فنا فی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کسی شخص نے اپنے نفس کو اس طرح فنا نہیں کیا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے نفس کو فنا کیا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے زمانہ میں تکمیل اشاعتِ ہدایت ہو گی کیونکہ ہدایت تو

کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ مکمل ہو گئی تھی اور اس وقت کی معروف دُنیا میں اسلام غالب بھی آگیا تھا۔وہ معروف دُنیا میں تو غالب آگیا لیکن اس وقت کی معروف دُنیا بہت چھوٹی تھی۔ بعض علاقے غیر آباد پڑے ہوئے تھے مثلاً جزائر میں آبادی نہیں تھی۔ آسٹریلیا میں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔
بہرحال چودہ سو سال میں دُنیا کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ افریقنوں نے پچاس پچاس بیویاں رکھ لیں۔ اسلام لانے سے پہلے بھی اور اب اسلام میں بھی۔ وہاں ایسا ہی چلتا ہے کیونکہ ان کی زیادہ تربیت نہیں ہو سکی۔ وہاں کی ہماری جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب مسلمانوں سے احمدی ہوئے ہیں۔ قبول احمدیت سے پہلے اُنہوں نے اتنی بیویاں کیں اور اتنے بچے پیدا کئے کہ انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ کون میرا بچہ ہے۔ ویسے وہ ہیں بڑے امیر آدمی۔ ان کے متعلق یہ لطیفہ بیان ہوتا ہے( اور لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں) کہ ایک نوجوان آجاتا ہے اور کہتا ہے میں تھرڈ ائیر میں داخل ہوں۔ اور میں آپ کا بیٹا ہوں۔ آپ میرا خرچ برداشت کریں وہ چپ کر کے جیب سے پیسے نکال کر اسے دے دیتے ہیں۔ ان کو یہ بالکل پتہ نہیں ہوتا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔ اسلام نے بھی چار شادیوں کی اجازت دی تھی مگر شرائط کے ساتھ اور ویسے دُنیا میں جائز و ناجائز طریقوں سے انسانوں نے بچے پیدا کئے۔ چنانچہ آج کل اخباروں میں عموماً آتار ہتا ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں دُنیا کی اتنی آبادی بڑھ جائے گی۔
پس پچھلے چودہ سو سال میں دُنیا بہت بڑھ گئی۔ دُنیا بہت پھیل گئی غیر آباد علاقے آباد ہو گئے۔ نئے سے نئے ملک اُبھرے۔ آپس میں ملاپ کی راہیں کُھل گئیں۔ پھر ایک خاندان بننے کا وقت آگیا۔ اب دُنیا کو ایک خاندان بنانا آپ کا کام ہے تکمیل اشاعت قرآن آپ کا کام ہے۔
میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کی کم از کم دس لاکھ کاپیاں دس لاکھ افراد کے پاس یا یوں کہنا چاہئے کہ دس لاکھ گھروں میں پہنچ جانی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا۔ میں نے یہ کام کروا دیا ہے۔ میں خود حیران ہوں میرا زمانہ خلافت ابھی بہت تھوڑا ہے۔ پانچ چھ سال کے اس تھوڑے سے عرصہ میں قرآن کریم کی ایک لاکھ کاپیاں چھپ چکی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ میں سے کسی دوست کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہو گی کہ کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے۔
میں نے آپ سے یہ بات کہی تھی لیکن آپ لوگ میرے ساتھ کماحقہ، تعاون نہیں کرتے اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور آپ پر بھی فضل فرمائے۔ میں نے امرائے ضلع کو ایک آسان سکیم بنا کر دی تھی کہ ہر تحصیل اشاعتِ قرآن کے لئے دوہزار روپے جمع کرے بعض تحصیلوں کے لئے تو یہ بالکل معمولی بات ہے مثلاً تحصیل لاہور میں سے ایک آدمی بھی دو ہزار روپے دے سکتا ہے۔ وہ اگر ہمت کریں تو اس سے زیادہ جمع کر سکتے ہیں۔ بعض تحصیلوں میں ہمارے احمدی د وست اتنے تھوڑے ہیں کہ ان تحصیلوں میں دوہزار روپیہ اکٹھا کرنا بظاہر مشکل ہے۔ تاہم یہ ایک عام پروگرام بنایا گیا ہے۔ تکلیف مالایطاق کے بغیر جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہئے لیکن اگر ہم اوسطاً فی تحصیل دو ہزار روپیہ بطور سرمایہ اشاعتِ قرآن کے لئے جمع کریں تو مغربی پاکستان کی کل ۱۵۲ تحصیلیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ۳ لاکھ ۴ ہزار روپے جمع ہو سکتے ہیں۔ میں نے امرائے ضلع کو کہا تھا کہ یہ اپنا سرمایہ رکھو اور اس سے حمائل سائز میں سادہ اور اردو ترجمہ والاقرآن کریم خرید کر فروخت کرو۔ ہم نے یہ قرآن کریم مارکیٹ میں اتنا سستا دے دیا ہے کہ بعض لوگ مانتے نہیں۔ حتیٰ کہ بعض احمدیوں کو بھی شاید شک ہو گا کہ اپنی طرف سے ڈالا ہے حالانکہ ہم اسے اصل لاگت پر دے رہے ہیں۔ اس کااصل خرچ چھ روپے فی کاپی ہے۔ گو بعض ملکوں میں اس سے بھی کم قیمت پردے رہے ہیں اور بعض ملکوں میں اس سے زیادہ قیمت پر بھی دے رہے ہیں تاکہ اسے سمویا جائے اور ہماری اپنی اصل قیمت وصول ہو جائے۔
امت محمدیہ میں دراصل قرآن کریم کی اشاعت دو رنگ میں کی گئی ہے ایک اس کو تجارت کا مال بنا کر منڈی میں پھینکا گیا اور اس سے مادی فائدہ اُٹھایا گیا لیکن خداتعالیٰ نے مجھے تاجر نہیں بنایا۔ مجھے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نائب بنایا ہے اس واسطے میںنے تجارت نہیں کرنی۔
تفسیر صغیر کی طرز پر اردو ترجمہ قرآن کریم بھی چھپ چکا ہے۔ بعض دوستوں نے دیکھا بھی ہو گا۔ یہاں بھی کچھ کاپیاں پڑی ہوئی ہیں۔ شروع میں جب دفتروالوں نے مجھے تین کاپیاں لا کر دیں کہ میں دیکھ لوں۔ تو مَیں نے خاندان کے افراد جو مجھے ملنے کے لئے شام کو آجاتے ہیں ان کو دکھایا تو سب نے بڑا پسند کیا ۔ مَیں نے کہا مجھے بڑا افسوس ہے کہ اس کی قیمت میں چھ روپے نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ اس پر خرچ چھ روپے سے کچھ زیادہ ہو گیا ہے اور کچھ ہم لوگوں کو مفت دے دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے اس سلسلہ میں کام کرنے والوں نے رضاکارانہ طور پر کام کیا۔ ہم نے تنخواہ دار آدمی نہیں رکھے ہوئے اگر اس کی قیمت میں تھوڑا سا اضافہ کر دیا جائے تو پھر بھی اصل خرچ کے اندر ہی رہتا ہے۔ مَیں نے کہا میں اس کی قیمت سات روپے رکھنا چاہتاہوں۔ اس پر ہمارے گھر سے ایک عزیز کہنے لگے کہ یہ تو بہت کم قیمت ہے۔ اس کی قیمت کم از کم دس بارہ روپے ہونی چاہئے۔ میں نے کہا میں اتنی زیادہ قیمت کیوں رکھوں میں کوئی تاجر تو نہیں۔ میری تو خواہش ہے کہ قرآن کریم ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچا دیا جائے اور یہ خواہش تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ہم دُنیا کی تجارت نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تجارت کریں۔ یہ تجارت تو ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میرے ساتھ تجارت کرو۔ چنانچہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے پیارے رب! ہم تیرے ساتھ تجارت کریں گے۔
پس اگر دوست اس سلسلہ میں کوشش کریں تو ’’اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۷۸)کی رُو سے ہمیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی بڑی برکت ملے گی۔
ابو ظہبی وغیرہ عرب ریاستیں جو پٹرولیم کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ وہاں بھی خدا کے فضل سے احمدی دوست کام کرتے ہیں۔وہاں سے پچھلے سال مجھے دوستوں کے کئی خط آگئے کہ پنجاب کے جو علماء وہاں گئے ہیں اُنہوںنے ہمارے خلاف ایک ہی بڑی زبردست دلیل دی ہے اور اس کا ہمیں جواب چاہئے اور اُنہوں نے ہمارے خلاف دلیل یہ دی ہے کہ احمدیوں کا قرآن کریم اور ہے۔ اس لئے ہمیں ربوہ کا چھپا ہوا قرآن کریم بھیج دیں تاکہ ہم ان کو دکھا سکیں کہ ہمارا قرآن اَور نہیں ہے بلکہ وہی قرآن ہے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ اُس وقت تو یہ قرآن کریم ابھی چھپے نہیں تھے اب چھپ گئے ہیں۔ ایک دوست وہاں سے آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے اُن سے کہا تم جتنے لے جا سکتے ہو لے جاؤ اور ان کو بتا دو کہ قرآن عظیم جو اللہ کی کتاب ہے نہ ہماری نہ تمہاری اور اللہ کی یہ عظیم کتاب ایک ہی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غرض ربوہ کا چھپا ہوا قرآن ہو تو ہر جگہ کے احمدی ایسے اعتراض کرنے والے لوگوں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بتاؤ کون سی آیت نئی ڈالی ہے اور کون سی نکالی گئی ہے۔ یہ تو وہی قرآن کریم ہے جو اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔
پس ہم نے اس کی تجارت اللہ تعالیٰ سے کرنی ہے۔ ہم نے پانچ دس فیصدی نفع نہیں لینا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ساتھ تجارت کرے گا اسے دس گنا زیادہ دوں گا اور اگر چاہوں تو اس سے بھی زیادہ دوں گا۔ اس لئے ہم نے یہ دعا کرنی ہے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے لئے یہ پسند فرما اور توفیق دے کہ ہم اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں اور زیادہ سے زیادہ ثواب اور اجر کے مستحق ٹھہریں۔
اس وقت آپ دوست جو میرے سامنے بیٹھے ہیں جن میں کچھ دوست باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں جہاں جہاں سے بھی آپ کا تعلق ہے وہاں قرآن کریم کی اشاعت کریں۔ جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے ہر تحصیل اگر دو ہزار روپے کا سرمایہ جمع کرے امراء ضلع کو تو میں نے پوری سکیم بتائی تھی کہ دو ہزار روپے فی تحصیل جمع کر کے اس سے قرآن کریم خرید لو اور کوشش کرو کہ پوری قیمت یعنی چھ روپے جو اصل لاگت ہے اس پر فروخت کر دو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایک دو روپے رعایت دے کر بھی قرآن کریم کو ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچانے کی کوشش کرو۔ یہ رعایت ہمیں اس لئے بھی دینی پڑتی ہے کہ رسول نے فرمایا تھا:-
(الفرقان:۳۱)
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم اس وقت متروک مہجور ہے۔ ایک شخص جو مسلمان کہلاتا ہے وہ ایک شام کی عارضی اورمتنَوّعِی اور بے معنی لذت حاصل کرنے کے لئے تیس روپے خرچ کرتا اور اپنے بیوی بچوں کو سینما دکھانے چلا جاتا ہے مگر چھ سات روپے قرآن کریم اور اس کے ترجمے کے لئے خرچ نہیں کرتا جو اس کے لئے ساری عمر برکت کا موجب ہے۔
ایک صداقت ہے جسے دُنیا جھٹلا نہیں سکتی لوگوں کا عمل بتا رہا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجھے اور آپ کو خداتعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ قرآن کریم کی عظمت کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ اس لئے اب قرآن کریم مہجور نہیں رہے گا بلکہ یہ ہماری ہی نہیں ہر انسان کی روح کا سرور، ذہنوں کا نور اور سپنوں کی ٹھنڈک بن جائے گا۔ انشاء اللہ۔
ایک سادہ بغیر ترجمہ کے قرآن کریم ہے جو ہمارے اطفال الاحمدیہ یعنی چھوٹے بچوں کے لئے ہے وہ اس سے ناظرہ قرآن پڑھنا سیکھ سکتے ہیں۔ یہ سادہ قرآن کریم ایک لاکھ سے زیادہ لگنا چاہئے کسی اور کے چھپوائے ہوئے قرآن کریم سے ہم نے مقاطعہ نہیں کیا ہوا۔ ہم اپنے اس سادہ قرآن کریم کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ ہمارے بچے قاعدہ یسرناا لقرآن سے قرآن کریم سیکھتے ہیں اور یہ حمائل سائز سادہ قرآن کریم، قاعدہ یسرنا القرآن کے رسم الخط پر شائع کیا گیا ہے اس سے بچوں کو سہولت رہتی ہے اور آسانی سے قرآن کریم کی طرف اُن کی علمی جدوجہد منتقل ہو جاتی ہے چنانچہ شروع میں جب اس رسم الخط پر حمائل سائز پیج قرآن کریم چھپ کر آیا تو مجھے فکر تھی کہ چھوٹا سائز ہونے کی وجہ سے بچے شاید اس کو پڑھ نہ سکیں۔ میں نے اپنے گھر میں اپنی ہمشیرگان سے کہا کہ جو بچے گھروں میں قاعدہ یسرنا القرآن پڑھتے ہیں اور ان کی پڑھائی قرآن کریم کی طرف منتقل ہونے والی ہے ان کو حمائل سائز میں یہ قرآن کریم پڑھا کر دیکھیں وہ اٹکیں گے تو نہیں لیکن مجھے ان کی طرف یہ رپورٹ نہیں ملی کہ اسے پڑھتے وقت کوئی بچہ اٹکا ہو۔ سب نے یہی کہا کہ قاعدہ یسرنا القرآن کی وجہ سے بچے اس قرآن کریم کو آسانی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔
پس ایک لاکھ سے زیادہ تو ہمیں یہی سادہ قرآن کریم پھیلا دینا چاہئے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے تنگ کریں اور کہیں کہ شائع کرنے والے سستی کیوں کرتے ہیں؟ہماری ضرورت کیوں پوری نہیں ہوتی؟
بہرحال میری سکیم یہ تھی کہ دو ہزار روپے فی تحصیل جمع ہوں اور یہ اُن کا سرمایہ ہو گا اور اس میں کچھ کم ہو جائے تو اتنا ہر سال پورا کر لیا جائے مثلاً اگر آپ نے سو آدمیوں کو چھ روپے کی بجائے پانچ روپے میں قرآن کریم دئیے تو اس طرح سو روپیہ آپ کے اصل سرمایہ میں سے کم ہو جائے گا۔ اگلے سال اس کو آپ نے پورا کرنا ہے۔ دوہزار روپے نہیں جمع کرنے ایک سو روپے مزید جمع کر کے دوہزار روپے کے اصل سرمایہ کو برقرار رکھتا ہے ایک سال میں دو ہزار کیا اس کو چکّر دے کر اس سے زیادہ بھی اشاعت ہو سکتی ہے مثلاً اصل سرمایہ سے آپ نے جو قرآن کریم خریدے ہیں اُن کو بیچیں، پھر منگوائیں اور اس طرح فروخت کرتے چلے جائیں۔ اگر کسی دوست کو مفت دینا چاہئیں تو بجائے اشاعت قرآن کے اس اجتماعی فنڈ سے دینے کے اپنے پاس سے ساری یا آدھی قیمت دے دیں۔
غرض یہ سادہ قرآن کریم ہے جو بچوں کے لئے ہے۔ پھر اردو ترجمہ ہے ایک حصہ انگریزی پڑھنے والوں کا ہے ان ہر سہ قسم کے قرآن کریم کی کئی لاکھ کی مانگ تو صرف پاکستان میں ہے۔ ویسے جو دعاؤں کے محتاج ہماری کوششوں کے حصے ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جو امریکہ میں کوشش ہو رہی ہے۔ خدا کرے کہ وہ ہمیں قرآن کریم کا بڑا آرڈر دیں جو کم از کم ایک لاکھ کاپی کا ہو۔ امریکہ تجارتی لحاظ سے بڑا منظم اور امیر ملک ہے اس واسطے امریکن دوستوں نے مجھے کہا کہ انگریزی ترجمہ قرآن کریم کی قیمت وہ نہ رکھیں جو پاکستان میںر کھی ہے ورنہ امریکن لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ چیز اتنی سستی مل رہی ہے اس لئے یہ کوئی قیمتی اور اچھی چیز نہیں ہے۔ چنانچہ ایک دوست نے کہا کہ اس کی کم از کم قیمت دس ڈالر رکھیں۔(آج کل نرخ کے مطابق دس ڈالروں کے ۔؍۱۱۰ روپے بنتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں تو پھر وہ کہنے لگا پانچ ڈالر رکھ لیں۔ اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اس کی کتنی قیمت مقرر ہوئی ہے لیکن زائدقیمت کا فیصلہ ہمیں دو و جہ سے کرنا پڑا۔ ایک اس لئے کہ ہم امریکہ سے کمانا چاہتے ہیں اور کمانا اس لئے نہیں کہ اس سے نفع حاصل کرنا مقصود ہے۔ مَیں اس لئے کمانا چاہتاہوں کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے اس کی تجارت بڑھا سکوں۔ دوسرے اس لئے بھی قیمت بڑھانی پڑی کہ جس امریکی فرم سے ہماری خط وکتابت ہو رہی تھی ( گو وہ اتنی اچھی ثابت نہیںہوئی تاہم) اُس نے ہمیں کہا کہ ہم ساٹھ فی صد کمیشن لیں گے۔ اس لئے آپ جو بھی قیمت رکھناچاہتے ہیں اس میں یہ کمیشن اور امریکہ تک پہنچنے کا کرایہ جمع کر دیں۔ وہ آگے چالیس فیصد رعایت قیمت پر دوکانداروں کو RETAIL(ری ٹیل) پر دیتے ہیں غرض اُنہوں نے کہا کہ ہم قیمت میں اس اضافے کے ساتھ لے لیں گے اور ہم خود ہی اشتہار وغیرہ دے کر فروخت کریں گے۔ دوست دعا کریں۔ اگر میں اس طرح ایک لاکھ کاپی امریکہ میں بھجوا سکوں تو ایک لاکھ نسخے مفت افریقہ میں دے سکتا ہوں ہم اس کے نفع سے مزید قرآن کریم شائع کر کے افریقہ میں مفت تقسیم کریں گے کیونکہ افریقہ اس کامستحق ہے۔ بعض دفعہ مجھے اُن پر بڑا رشک آتا ہے، اُن میں سے آٹھویں، دسویں گیارہویں، بارہویں میں پڑھنے والے بچے کیا اور نوجوان کیا سبھی کے دل میں قرآن کریم اور عربی زبان سے بڑی محبت ہے وہ مجھے یہاں خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ ہمیں قرآن کریم باترجمہ بھیج دیں یہ اُن کے جذبہ کا اظہار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر یہاں جماعت احمدیہ کے مبلغ انچارج کو کہا(وہ سارے احمدی نہیں ہوتے۔ اکثر ان میں وہ ہوتے ہیں جو احمدی نہیں ہوتے) تو یہ دیر کردے گا یا سستی کر دے گا۔ اس واسطے براہ راست کیوں نہ لکھ دیں۔ پھر میں ان کے خطوط اپنے مبلغین کو بھجوا دیتا ہوں کہ ان کے لئے قرآن کریم کا انتظام کر دو۔
غرض اگر ہم پھر پڑھے لکھے افریقن کے ہاتھ میں اپنے انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم دے دیں تو اس افریقن کے پاس جا کر کوئی مولوی صاحب یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں کا قرآن اور ہوتا ہے اور ہمارا قرآن اور۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں گے تو وہ اپنی جیب سے نکال کر دکھا دیں گے کہ بتائیں کہاں اختلاف ہے؟
اسی طرح میں یہ چاہتا ہوں اور میرے چاہنے سے مراد میری یہ خواہش ہے۔ باقی خواہشات کو پورا کرنا یا کب پورا کرنا یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمارا کام صرف نیک خواہش پیدا کر کے اس کے پورا ہونے کے لئے دُعائیں کرنا ہے۔یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے جہاں تک ہماری طاقت ہے کوشش کرنا ہے۔ ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں (ہر فرد کے لئے مَیں نہیں کہہ رہا) ہمارا چھپا ہوا قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پہنچ جائے۔ یہ کام وقت لے گا۔ یہ کام پیسے چاہتا ہے اس لئے سردست ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گاؤں میں ہمارا ایک قرآن کریم سادہ اور ایک اردو ترجمہ والا ضرور پہنچ جائے۔ مجھے صحیح یاد نہیں رہا کہ پاکستان میں کل کتنے گاؤں ہیں۔ جب بی۔ ڈی کے کام ہوا کرتے تھے اس وقت میں نے تعداد نکالی تھی۔ اب یاد نہیں رہی۔ کہیںسے پتہ لگ جائے گا۔ اس کام کے لئے بھی محنت کرنی پڑے گی۔ جب ہر تحصیل میری سکیم کے مطابق کام کرے گی تو بہت ساری چیزیں اُن کے سامنے ایسی بھی آئیں گی جن کو میں بیان نہیں کرنا سمجھتا۔ اُن کو خود ہی سمجھ آجائے گی۔ بہرحال ہر تحصیل کے احمدیوں کو چاہئے کہ پندرہ دن میں دو ہزار روپے جمع کریں۔ دوہزار میں سے فرض کریں چار سو کے قرآن کریم دے دیتے ہیں تو اتنی رقم گویا آپ کو واپس آگئی۔ اس کے آپ اور قرآن کریم منگوا لیں آپ نے دو ہزار سے نیچے نہیں جانا۔ دو ہزار روپے گویا آپ کا ریزرو ہے۔ضمنًا میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ مثلاً ’’نصرت جہاں آگے بڑھو‘‘ کی سکیم کے ماتحت جو کام ہو رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں مجھے ایک دن خیال آیا کہ ایک خاص رقم سے یہاں کا ہمارا فنڈ نیچے جا رہا ہے اور نہ غیر ملکی فنڈ سے نیچے جا رہا ہے حالانکہ یہ کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ اس سے نیچے نہ جائے۔ چونکہ میرے پاس ہر ہفتے رپورٹیں آتی ہیں چنانچہ میں نے دیکھا کہ یہ فنڈ ایک خاص رقم سے نیچے نہیں جا رہا۔ میں نے سوچا کہ اس حد تک خدا تعالیٰ نے اسے سلسلہ کے لئے ریزرو بنا دیا ہے اور اس طرح پاکستان دس لاکھ روپے بطور ریزرو رہیں گے۔ پچھلے ایک مہینے میں نوّے ہزار اور ایک لاکھ کے درمیان خرچ کرنا پڑا اور پھر جب آخری رپورٹ میرے سامنے آئی تو دس لاکھ اور چند ہزار کے قریب رقم باقی تھی۔اسی طرح ہماری بیس ہزارپونڈ کی رقم غیر ملکوں میں ریزرو ہے جو وہاں کے باشندوں نے جمع کی ہے۔ حالانکہ وہاں سے ایک ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار پونڈ افریقہ میں بھجوائے جا چکے ہیں۔ ہماری جماعتیں خداتعالیٰ کے فضل سے ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ہر ایک جماعت نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں حصہ لیا ہے۔ اس لئے ہماری کوشش یہ تھی کہ ساری رقمیں اکٹھیں ہو جائیں تاکہ ان کے OPERATE کرنے میں مشکل پیش نہ آئے اور وقت ضائع کئے بغیر اُن سے فائدہ اُٹھایا جا سکے ۔چنانچہ میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ اس فنڈ کا کچھ حصہ انگلستان میں اور امریکہ میں رکھ کر باقی سوئٹزر لینڈ میں بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ اس وقت ۱۴؍۱۳ ہزار پونڈ سوئس فرانک تک کی شکل میں ریزرو ہیں۔ اور ۶؍۵ ہزار پونڈ انگلستان میں ریزرو تھا۔ وہاں سے کچھ رقم سوئٹزرلینڈ بھجوا دی گئی تھی۔ باقی اور بھی ۲۴؍۲۳ ہزار پونڈ کی رقمیں دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس سے پہلے بھی اور بعد بھی بیس ہزار پونڈ سے رقم نیچے نہیں گئی۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ریزرو قائم کر دیا ہے۔ تاکہ ہم گھبرا نہ جائیں۔ میں تو جو ضرورت ہوتی ہے کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے راستے میں مالی قربانی کی شکل میں پیش کرو میں اپنا کام تو نہیں کر رہا کہ مجھے فکر ہو۔ جس کا یہ کام ہے وہ آپ ہی ضرورت کو پوری کر دے گا۔
غرض دوست دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہم اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کے دس لاکھ نسخے دُنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اس کارِ خیر میں حصہ لینا ہم سب کے لئے موجب برکت ہو گا۔
دوست اپنے ایک مجاہد بھائی کے لئے دعا کریں۔ ڈاکٹر حسن پچھلے سال سیرالیون گئے تھے۔ ان کے متعلق پہلے بھی تار آئی تھی۔ آج پھر تار آئی ہے کہ اُن کی حالت تسلی بخش نہیں۔ اُن کے گردوں نے کام کرناچھوڑ دیا ہے اور اندیشہ ہے کہ شاید گردے کے کسی پتھر نے راستہ بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ’’ٹاکسین‘‘جمع ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے وہ اپنے فضل سے ان کو صحت اور زندگی عطا فرمائے۔
پھر اپنے لئے بھی دعا کریں اور سب سے زیادہ تکمیل اشاعت قرآن کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کام میں کامیابی بخشے۔ آپ یاد رکھیں اس وقت ہمارے سامنے خالی اشاعت قرآن نہیں کہ آپ سمجھیں کہ ہم نے بھی تاج کمپنی کی طرح اشاعت کر دی اور کافی ہو گیا۔ تکمیل اشاعت ہدایت ہماری ذمہ داری ہے صرف اشاعت ہدایت ہماری ذمہ داری نہیں اور اس تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم کی ہدایت پہنچانی ہے۔ دوست دعاکریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری کمزوریوں کے باوجود، مال کی کمی کے باوجود اور اثرو رسوخ کی کمی کے باوجود اور اندرونی اور بیرونی فتنوں کے باوجود ہمیں اس کارخیر کی کماحقہ توفیق عطا فرمائے۔ جہاں تک اندرونی فتنوں کا سوال ہے منافق بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ لگایا ہوا ہے تاکہ ہم بیدار رہیں۔ شیطان نے بھی ایک بزرگ کو تہجد کے لئے اُٹھا دیا تھا۔ پہلے دن سلائے رکھا اور دوسرے دن خود اٹھا دیا۔ اس بزرگ نے کہا شیطان! تو مجھے اُٹھانے کیسے آگیا؟ اس نے کہا کل تہجد نہ پڑھنے کے نتیجہ میں تمہاری روح میں جو اضطراری کیفیت پیدا ہوئی تھی اس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تہجد پڑھنے سے زیادہ ثواب دے دیا۔ اس لئے اس سے زائد ثواب سے محروم کرنے کے لئے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ تمہیں تہجد کے لئے اُٹھا دیا جائے۔
پس یہ منافق ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے وہ خود تو اپنے لئے جہنم کے فرشتوں سے جہنم کی سب سے نچلی جگہ(اسفل سافلین) کی تیاری کروا رہے ہیں لیکن ہمارے لئے وہ جنت کے دروازے کھول رہے ہیں۔ وہ تو بد قسمت ہیں خدا کرے کہ اُن کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ہم خوش قسمت بن جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کے نباہنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔
بہرحال اس وقت یہ تین نسخے قرآن کریم کے ایک سادہ دو مترجم اشاعت کے لئے موجود ہیں۔
(۱) سادہ قران کریم جو اپنوں اور اپنے غیر از جماعت دوستوں کے بچوں کو قرآن کریم سادہ یا ناظرہ پڑھنے کے لئے بہت اچھا ہے اورپھر خود بڑوں کے ہر وقت کے پڑھنے کے لئے بھی کام آسکتا ہے۔ اس کی قیمت چھ روپے ہے۔
(۲) اردو ترجمہ قرآن کریم ہے۔ یہ تفسیر صغیر والا بامحاورہ ترجمہ ہے۔ صرف نیچے نوٹ نہیں ہیں کیونکہ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ ان نوٹس کو پڑھنے والے صرف پانچ دس فیصدی دوست ہوتے ہیں۔ جو ان تفسیری نوٹوں کو پڑھنے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ نوے فیصدی دوست ان سے یا فائدہ اُٹھا نہیں رہے یا اُٹھا نہیں سکتے۔ ان کے لئے حمائل کی شکل میں ترجمہ قرآن کریم چھپوایا گیا ہے۔خود ترجمہ بھی تفسیری ہے اب تک جتنے غیر از جماعت دوستوں کے پاس یہ حمائل گئی ہے وہ اسے دیکھ کر حیران بھی ہوئے ہیں اور خوش بھی۔ یہاں تک کہ مطبع میں کام کرنے والے دوست کہتے تھے کہ ہم نے پہلی دفعہ یہ ترجمہ دیکھا ہے جس سے قرآن کریم کے معنے سمجھ آرہے ہیں۔
(۳) انگریزی ترجمہ قرآن کریم ہے۔یہ بھی ایک تو حمائل سائز ہے اور ایک پاکٹ سائز میں۔ اِسے انگریزی دان طبقہ میں پہنچا دینا چاہئے۔ غرض یہ قرآن کریم شائع ہو چکے ہیں۔ اب ان کی اشاعت کی ذمہ داری جماعت پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی تھوڑی یا بہت اشاعت ہو سکتی ہے۔ اپنا پریس لگ گیا تو بیرونی ملکوں کا شکوہ بھی دُور کرنا ہے۔ انشاء اللہ جرمن اور ڈچ زبانوں میں بھی تراجم کے نئے ایڈیشن شائع ہوں گے اور وہاں لاکھوں کی تعداد میں بھجوائے جائیں گے۔ آپ دعا کریں کہ اگلے پانچ سال میں امریکہ دس لاکھ قرآن کریم کا خریدار بن جائے اور اس طرح ہم اس کی آمد سے مزید قرآن کریم شائع کر کے افریقہ میں مفت تقسیم کروا دیں۔ پھر تو انشاء اللہ بہت کام ہو جائے گا۔ افریقہ کے بعض ملکوں میں فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم کی بڑی مانگ ہے، اس کے لئے بھی دوست دعا کریں کہ جلدی تیار ہو جائے۔ دوست یاد رکھیں مَیں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ آپ کی ذمہ داری اشاعتِ ہدایت نہیں بلکہ تکمیل اشاعت ہدایت ہے اور یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے جہاں دوسری سکیموں پر آپ نے عمل کرنا ہے وہاں میری آپ کویہ بھی ہدایت ہے کہ آپ میں سے ہرآدمی اپنے دوست بنائے۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ جو آدمی آپ سے ایک دفعہ مل لیتا ہے وہ جب آپ سے دوبارہ ملے تو وہ بدلا ہوا انسان ہوتا ہے کیونکہ اُس نے ہمارے خلاف بہت کچھ جھوٹ سنا ہوتا ہے لیکن جب وہ ہم سے ملتا ہے تو ہمارے ملنے میں ہمارے اخلاق میں اور ہماری ذہنیت میں اُسے بالکل برعکس چیزیں نظر آتی ہیں۔ اس تضاد پر اُسے ایک اچھا خاصہ شاق پہنچتا ہے۔ وہ ہل جاتا ہے وہ کہتا ہے میں نے احمدیوں کے متعلق کیا سُنا تھا اور اب دیکھ کیا رہا ہوں۔
پس احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ غیر از جماعت سے ملتے رہیں۔ اس میں کبھی سستی نہ کریں۔ہر سال دس نئے دوست بنائیں اور ان کے ہاتھ میں قرآن کریم کی کاپیاں پکڑا دیں۔ اس وقت میرے سامنے ماشاء اللہ سینکڑوں دوست بیٹھے ہوئے ہیں اگر اس اصول پر عمل کریں تو دو چار ہزار تو یہی تقسیم کر سکتے ہیں۔بعض دوستوں کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ ماشاء اللہ سو سو کاپیاں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ جس کامطلب یہ ہے کہ اگر زیدسو کاپیاں تقسیم کر سکتا ہے تو پھر بکر بھی سو کر سکتا ہے۔ اگر نہیں کرتا تو اس کی سستی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری سُستیاں دور کرے۔ میری صحت کے لئے بھی دعا کریں اور اس کام کے لئے بھی کہ جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ میں نباہ سکوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا۸)
ززز
قرآن کریم انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والا اور اُس
کے درختِ وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمایا:-
پچھلے خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم بڑی عظمت اور شان کا مالک ہے۔ اس نے اپنی عظمت اور علوّ شان کے متعلق خود دعویٰ بھی کیا ہے اور اس کے دلائل بھی دئیے ہیں۔
چنانچہ پچھلے خطبہ میں مَیں نے قرآن کریم کی اِس شان کو مختصراً بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ قرآن کریم انسان کی ناقص عقل کے اختلافات کو دور کرنے کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل بھی دیتا ہے اور عقول ناقصہ کے اختلافات دُور کر دیتا ہے۔
آج قرآن کریم کی ایک اور عظمت ایک اور شان کے متعلق میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تک انسان کی طرف جتنی بھی آسمانی ہدائیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے ہر ایک میں ایک چیز نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم انسان کی جُزوی ترقیات کے سامان پیدا کرتی تھیں۔ وہ انسان کی کامل ترقی کے سامان نہیں پیدا کرتی تھیں۔ اس لئے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ابھی اپنے ارتقاء کو، اپنے عروج کو نہیں پہنچا تھا۔ تا ہم یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انسان اپنے ارتقائی ادوار میں جس مقام، جس وقت، جس زمانے اور جس ملک میں رہتا تھا اُس زمانے، اُس ملک اور اُن حالات میں اُس کے مناسب حال جو بھی تعلیم تھی وہ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کی طر ف اُس زمانے کے نبی کے ذریعہ نازل کی اور اس طرح انسان کی جُزوی ترقی کے درجہ بدرجہ سامان پیدا کئے جاتے رہے تاکہ انسان جُزوی ترقیات کے نتیجہ میں ارتقائی مدارج میں سے گذر تے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے عروج کے لحاظ سے اس زمانے میں پہنچ جائے جس میں انسان کامل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہونے والی تھی۔
پس قرآن کریم سے پہلے کی جس قدر ہدایتیں اور شریعتیں ہیں وہ انسانوں کی حالت کے لحاظ سے اور اُن کی ضروریات کے لحاظ سے، اُن کی جُزوی ترقی کے سامان پیدا کرتی چلی آرہی تھیں۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتی تھیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے انسانی تاریخ کا مطالعہ اپنی ذات میں ایک بڑا لطیف مضمون ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر اپنے اپنے زمانہ میں انسان کی جُزوی ترقی اور اس کے تدریجی ارتقاء میں پوری کوشش کی۔ تاہم یہ چیز بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی نبی کی شریعت میں انسان کی کلّی ترقی کے سامان نہیں پائے جاتے تھے۔
غرض انبیاء علیہم السلام اور آسمانی شرائع کا سلسلہ تو اپنے عروج اور کمال اور افضیلت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہو گیا لیکن فلسفیوں کا جو سلسلہ ہے وہ کسی پر ختم ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس سلسلہ کو کمال حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب ہم فلاسفروں اور مفکرین کے حالات کا مطالعہ کرتے اور ان کے نظریات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ان کی فکر اور تدبر کے نتیجہ میں (گو اس میں شک نہیں اُنہوں نے بعض اچھی باتیں بھی کہی ہیں مگر مجموعی لحاظ سے) انسان کو جو کچھ ملا ہے وہ محض جُزوی بھلائی اور خیر تھی۔ اس میں ایک تو انسان کی کامل ترقیات کے سامان نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی انسان کی کوئی ایسی آزادانہ فکر اور اس کے نتیجہ میں کوئی نظر یہ قرآن کریم سے بہتر ہمیں نظر نہیں آتا۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان فکر وتدبر نے کام تو ضرور کیا۔ بعض لوگ بڑے اچھے دل رکھنے والے تھے۔ ان کی طبیعت میں انسانیت کی خیر خواہی بھی پائی جاتی تھی۔ ہم یہ ساری باتیں تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کا دُنیوی فکر وتدبر اپنے کمال کو نہیں پہنچاتھا۔
انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر جب ہم غور کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو چیز نمایاں ہوتی ہے اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں مختلف مثالیں دے کر واضح کیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلی شریعتوں نے انسان کو جُزوی ترقی کے سامان دئیے تھے۔ کُلّی ترقی یا کامل ارتقاء کا سامان یعنی وہ علوم جن سے انسان اپنی صلاحیتوں کی نشوو نما کو کمال تک پہنچا سکے وہ علوم صرف اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں، پہلوں نے نہیں سکھائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بائیبل کی یہ مثال دی ہے کہ یہودیوں کی تاریخ کی ابتداء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص تیرے گال پر تھپڑ لگاتا ہے تو اس کی گال پر ضرور تھپڑ لگے (خروج ۲۱:۲۵) معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہودیوں کی تاریخ کے آخری دور میں کہا گیا۔ اگر کوئی آدمی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارتا ہے تو تُو دوسرا گال بھی اُس کے سامنے کر دے (متی۵:۳۹)۔ دراصل وہ بھی ایک جزوی حکم ہے اور یہ بھی ایک جُزوی حکم ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے منہ پر تھپڑ لگاتا ہے تو ایسے موقع پر تیرے ذہن میں دو چیزیں آنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ اپنی صلاحیت کو دیکھو۔ خداتعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے۔ تجھے اسلام کی تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک انتہائی حسین اور ارفع نعمت ہے۔ اس عمدہ تعلیم کے ذریعہ تیری بریت کی گئی اور دوسرے یہ کہ تیرے بھائی کا درد تیرے دل میں پیدا کیا گیا۔ ان دو پہلوؤں کے لحاظ سے ایک چیز نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے اور وہ تیرا یہ ردّعمل کہ مَیں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو قربان کرتے ہوئے معاف کرتا ہوں۔ اس قسم کا ردعمل کہ خداتعالیٰ کے لئے جذبات کو قربان کر دیا جائے۔ اسلامی تعلیم ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر بدلہ لینے کی صورت میں گال پر تھپڑ لگانے کی ضرورت ہے تو یہ کام اپنی نفسانی خواہشات یا حیوانی جذبہ کے ماتحت نہیںکرتا۔ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت ہے تو پھر تم نے اس طرح نہیں لڑنا۔ جس طرح بکریاں لڑتی ہیں یا شیر لڑتے ہیں یا مینڈھے لڑتے ہیں اور یہ اتنے زور سے ٹکر مارتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ اگر وہ اتنے زور سے ٹکر مارے تو اس کی کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ جائے۔ پس جس طرح دوسری چیزوں کی آپس میں لڑائی ہو رہی ہے۔ اس طرح تم نے دوسرے انسان سے بدلہ نہیں لینالیکن اگر کوئی کہے کہ جس طرح دوسرے لوگ لڑتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی لڑتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا یہ عمل اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے دوسرے ایسی صورت میں تو وہ حقیقی انسان بھی نہیں ہوتے مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص چوری کرتا ہے وہ چوری کرنے کی حالت میں مسلمان نہیں رہتا۔ اسی طرح جو شخص بھیڑوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتا ہے، وہ اس وقت انسان کی حیثیت میں نہیں لڑ رہا ہوتا۔ وہ اس وقت گویا انسانی معیار سے نیچے گرا ہوا ہوتا ہے۔
پس ایسی صورت میں ہر سچے مسلمان کے سامنے ایک تو یہ چیز آتی ہے کہ اسے اپنے جذبات کو خدا اور اس کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دینا چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اس کا اصل مقصود اس کے بھائی کی اصلاح کرنا ہے یعنی اگر کسی کو معاف کر دینے میں اس کی اصلاح ہوتی ہے تو معاف کر دو۔ اگر بدلہ لینے میں اس کی اصلاح ہوتی ہے تو بدلہ لو مگر ان ہر دو پہلوؤں کے متعلق انسان کو اپنی سمجھ اور ذہنی قابلیت کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک سمجھ اور قابلیت کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
(البقرۃ:۲۸۷)
جو چیز انسان کی سمجھ سے بالا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلّف نہیں ٹھہرایا غرض انسان اگر یہ سمجھے کہ میں بدلہ لوں تو دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے تو پھر بھی غصہ کی حالت میں نہیں بلکہ اصلاح کی غرض سے بدلہ لینا ہے لیکن اگر وہ یہ سمجھے کہ مَیں معاف کر دوں تو شاید اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ اس کے اندر شرمندگی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے کیونکہ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ندامت محسوس کرتی ہے تو پھر وہ اس کو معاف کر دے۔ چنانچہ مسلمان عموماً معاف کر دیتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب وہ کسی سے بدلہ لیتا ہے تو وہ اپنی خواہش نفس کے طور پر نہیں لے رہا ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لے رہا ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کسی وقت بھی معاف نہ کرتا۔
بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق لوگوں کی ایک مخصوص صلاحیت کی پرورش اور اس کی نشوونما کے لئے بدلہ لینے کی تعلیم دی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق ایک دوسری صلاحیت کی پرورش اور نشوونما کے لئے صرف معاف کر دینے کی تعلیم پر زور دیا۔
اسی طرح برصغیر پاک وہند کی پرانی تاریخ کو لے لیں۔ برصغیر میں جو انبیاء آئے ہیں اُن میں سے ایک حضرت گوتم بدھ ہیں دھیمی طبیعت والے اور دوسری طرف وہ ہیں جو اگر وید کی آواز کان میں پڑ جائے تو سیسہ پگھلا کر کانوں میں ڈالنے والے ہیں۔ یہ ہدائتیں اپنے زمانہ میں انسان کی اصلاح کرنے کے لئے آئی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑ کر بھیانک شکلیں اختیار کر گئیں۔ لیکن جس طرح پھول بگڑتا ہے تو وہ گاجر نہیں بنا کرتا اور جب گاجر بگڑتی ہے تو وہ گلاب کے پھول کی شکل اختیار نہیں کرتی اسی طرح ان کی بگڑی ہوئی شکل بگڑے ہوئے ہونے کے باوجود اپنی اصلی ہئیت کذائی کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے ورنہ حضرت گوتم بدھ کی تعلیم جو ہے وہ بگڑکر سیسہ پگھلا کر ڈالنے والی بن جاتی۔ حضرت گوتم بدھ نے نرمی پر زور دیا تھا وہ نرمی کی طرف بگڑی دوسری طرف سختی پر زور دیا گیا تھا وہ جب بگڑی توسختی کی طرف بگڑی۔
بہرحال انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ انسان کی صلاحیتوں کی جزوی نشوونما کے سامان پیدا کئے گئے مثلاً ایک بلند مینار ہے اس کے اوپر چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ہر سیڑھی کو اگر ہم ایک زمانہ سمجھ لیں تو انسان گویا اُس زمانے میں خداتعالیٰ کے نبی کی انگلی پکڑ کر ایک سیڑھی چڑھ گیا۔ پھر ایک اور نبی آیا اُس نے انسان کو اگلی سیڑھی چڑھا دی اور اس طرح اُس بلند مینار پر چڑھنے کے لئے جزوی طور پر مدد کی گئی لیکن اس مینار کے اوپر تک پہنچنے کے سامان نہیں پیدا کئے گئے۔
جہاں تک فلسفے کا تعلق ہے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سلسلہ میں انسانی فکر و تدبرکے نتیجہ میں نئی سے نئی فلسفیانہ بحثیں بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ خاص طور پر اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کے بارے میں نئے سے نیا فلسفہ سامنے آرہا ہے۔ مذہبی لحاظ سے بھی مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود سے کہا تھا کہ دیکھنا کسی یہودی سے سُود نہ لینا اس حکم کے اندر اقتصادی اور معاشرتی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں لیکن اسلام کا یہ کمال ہے کہ اس نے کہا کسی سے بھی سُود نہیں لینا۔
پس آج کا جو معاشرہ ہے اس کی تفصیل میں تو اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن اتنی بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کے لحاظ سے جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اس کااشتراکی نظام سے بڑا زبردست CLASH(کلیش) ہے۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے بہرحال خیر خواہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اگر دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو یہ خیر خواہی نہیں اور چیز ہے۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے۔ میں جب ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورے پر گیا تھا تو فرینکفورٹ سے لیگوس تک چھ گھنٹے دس منٹ کی بڑی لمبی فلائیٹ تھی۔ ہماری پچھلی سیٹ پر دو بوڑھے امریکن بیٹھے ہوئے تھے ان کے ساتھ تعارف ہوا۔ پھر باتیں شروع ہو گئیں۔ باتوں باتوں میں مَیں نے اُن سے کہا کہ یہ سوچ کر انسان حیران ہوتا ہے کہ انسان انسان سے پیار کرنا کب سیکھے گا چونکہ وہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ ہیں فوراً سمجھ گئے کہ اس نے ہم پر سخت طعن کیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے ایک کہنے لگا اب تو ہمارے تعلقات روس سے اچھے ہو رہے ہیں۔ میں نے کہا۔OUT OF FEAR, NOT OUT OF LOVE۔ خوف کی و جہ سے تمہارے تعلقات اچھے ہو رہے ہیں پیار کی و جہ سے تو تمہارے تعلقات اچھے نہیں ہو رہے۔ وہ بے اختیار کہنے لگا کہ یہ بات آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ تاہم یہ تسلیم کر لیں کہ ایک قدم صحیح جہت کی طرف اُٹھایا گیا ہے مَیں نے کہا ہاں! مَیں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ایک قدم صحیح جہت کی طرف اُٹھایا گیا ہے لیکن ایک ہی قدم اُٹھایا گیا ہے یعنی میری وہی بات آگئی کہ یہ ایک جزوی حرکت ہے کلّی حرکت نہیں ہے۔
پھر اسی طرح آج کا جو فلاسفر ہے وہ مختلف گروہوں میں بٹ گیا ہے اور اپنے اپنے حالات کے مطابق اُنہوں نے اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے انسانی گروہ کی جزوی ترقیات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کلی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں اور بہت ساری صلاحتیں دی ہیں وہاں روحانی طور پر بھی استعدادیں بخشی ہیں۔ اب نہ سرمایہ دارانہ نظام انسان کی روحانی استعدادوں، روحانی قدروں اور روحانی صلاحیتوں کی نشوونما کی طرف متوجہ نظر آتا ہے اور نہ اشترا کی نظام اس طرف متوجہ نظرآتا ہے۔
پھر روس نے تو اخلاقیات کو بھی بالکل چھوڑ دیا تھا۔ان کے نزدیک اخلاقی طاقتیں گویا موجود ہی نہیں۔ اُنہوں نے اخلاقی طاقتوں کو پہچانا ہی نہیں تو پھر ان کے متعلق اُنہوں نے کوشش کیا کرنی تھی۔ چین نے اخلاقیات کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے لیکن روحانی استعدادوں کو اُنہوں نے بھی بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ غرض روس اور چین یہ بات کھلم کھلا کہتے ہیں کہ روحانی استعدادوں کا تو وجود ہے ہی نہیں لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک انسانوں میں سے لاکھوں بزرگوں اور مقربین الہٰی کا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اللہ ہے اور روحانی اقدار ہیں اور ان کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق بڑھانا چاہئے۔
غرض یہ ایک مختصر تاریخی پس منظر ہے قرآن کریم کی عظمت اور نشان کو سمجھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کو لیں۔ ہر نبی کی تعلیم انسان کی جزوی ترقیات کے سامان پیدا کر رہی ہے اور انسان کو درجہ بدرجہ اعلیٰ مقام کی طرف لے جا رہی ہے چنانچہ ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور اُس نے انسان کے لئے جزوی ترقیات کے سامان فراہم کئے۔ کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی دُنیا کی طرف مبعوث ہوئے تو ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک کیا ہے وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار سیڑھیاں چڑھا کر انسان کو بلند ترین مینار کی اس چوٹی پر لے گئے جو انسانِ کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام ہے۔
موجودہ زمانہ کے فلاسفر اور تھنکرز یعنی حقائق اشیاء کے متعلق غور اور تدبر کرنے والے لوگوں میں کچھ خوبیاں بھی نظر آتی ہیں۔ آخر وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ کلّی طور پر عیب تو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا گو ان کے اندازِ فکر میں برائی زیادہ ہے، کم عقلی زیادہ ہے۔ اُن میں فراست کی کمی ہے لیکن کچھ اُن میں اچھی باتیں بھی ہیں البتہ اُن کی جو اچھی چیزیں ہیں۔ وہ انسان کی ساری ضرورت کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکیں۔ انسان کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کا دعویٰ صرف قرآن کریم کرتا ہے۔
(بنی اسرائیل:۱۳)
اس آیۂ کریمہ کے اس ٹکڑے کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کی ہدایت اور شریعت اور تعلیم انسان کی جزوی ترقی کے لئے نہیں آئی بلکہ کلی ترقی کے لئے آئی ہے چنانچہ ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اسلام انسان کے درخت وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے۔انسان کے درخت وجود کی جس قدر ہمہ گیر ترقی ہو سکتی تھی یعنی اس کی ہر شاخ خوبصورت ہو اس کے لئے قرآن کریم میں مکمل تعلیم موجود ہے ہم اس حسین تعلیم پر عمل نہ کریں تو اس کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اس کاالزام ہم پر آئے گا۔اسلام کی تعلیم پر اس کا الزام نہیں آئے گا لیکن سوال یہ ہے۔ ہم کیوں اس پر عمل نہ کریں ہمارے سامنے اچھی گرم گرم روٹی آئے تو اپنی عادت سے بھی زیادہ کھا جاتے ہیں ایک وقتی لذت کے لئے اپنا پیٹ خراب کر لیتے ہیں۔ کسی آدمی کو کوئی چیز پسند ہے، کسی کو کوئی چیز پسند ہے۔ جن لوگوں کو آم پسند ہیں کھانا کھا چکنے کے بعد اگر ان کے پاس آم آجائیں تو وہ سارے کھا جائیں گے۔ کسی آدمی کو انگور پسند ہیں تو وہ بے تحاشہ انگور کھا جائے گا۔
غالباً ہمارے بابر بادشاہ کا واقعہ ہے ایک دفعہ قندھار کی طرف سے اونٹوں پر بڑے موٹے موٹے آڑوؤں کے ٹوکرے آئے جن کی تعداد شاید ۱۶۵ تھی(پہلے تو صوبہ سرحد میں بھی بڑے موٹے موٹے آڑو ہوا کرتے تھے) بابر آخر بادشاہ تھے۔ اُنہوں نے دُنیا کو بھی کھلانا ہوتا تھا اور پھر ان کی فطرت پر اسلام کا بھی اثر تھا۔ اُنہوں نے ہر ایک ٹوکرے میں سے ایک ایک آڑو نکال کر کھا لیا ور اس طرح ایک اندازہ کے مطابق اُنہوں نے قریباً ۲۴ سیر آڑو کھائے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کس قسم کے آڑو میری طرف بھیجے گئے ہیں پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس کو آڑو پسند ہیں وہ بے تحاشہ آڑو کھا جاتا ہے جس کو آم پسند ہیں وہ آم کھا جاتا ہے اور جس کو گرم گرم مزے دار روٹی مل جائے وہ بہت ساری روکھی روٹی کھا جاتا ہے۔ مگر اسلامی تعلیم جو کامل لذت اور کامل افادہ کا ذریعہ ہے اُسے لوگ ساری کی ساری کیوں نہیں لیتے؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی اپنے شوق میں آم کھا گیا یا آڑو کھا گیا یا گرم گرم روٹی کھا گیا تو اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو بھی پورے کا پورا لے لینا چاہئے کیونکہ اس سے اچھی اور لذیز چیز اور کوئی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار سے زیادہ لذت والی چیز تو کوئی اور نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو بڑی کثرت سے بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا پیار ملتا ہے اور یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے اس لئے قرآن کریم پر ہم کیوں عمل نہ کریں۔
پس قرآ ن کریم کا دعویٰ یہ ہے اور ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے درختِ وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے۔ یہ انسان کی جزوی ترقی کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ اس کی کلی ترقی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی بھی استعدادیں، قوتیں اور صلاحتیں دی ہیں، ان کی کامل پرورش کے لئے قرآن کریم میں مکمل تعلیم موجود ہے۔ اس واسطے یہ ایک عظیم کتاب ہے۔ ہر احمدی بچے، جوان، بوڑھے اور ہر احمدی مرد اور عورت کو چاہئے کہ وہ اس عظیم کتاب پر غور کیا کرے۔ تمام احمدی اس پر غور کریں اور غور کریں اور اس میں سے اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی لذتوں کے سامان تلاش کریں کیونکہ حقیقت یہی ہے اور اسی کی طرف آج ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پکڑ کر(سختی کے ساتھ جھنجھوڑ کر) لایا گیا ہے۔ فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۷۸) ہر قسم کی بھلائی قرآن کریم میں ہے اس پر غور کرو اور ہر اچھی بات اس میں سے تلاش کرو۔ پس قرآن کریم بڑی عظمت والی اور بڑی بلند شان والی کتاب ہے۔ اب اس کے متعلق آج میرا یہ دوسرا خطبہ ہے۔ میرے پہلے خطبہ کا عنوان تھا
۱۔
(الفرقان:۳۱)
۲۔
(النحل:۶۵)
اس قسم کی عظیم کتاب سے انقطاع لسانی یا انقطاع قلبی نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ اس کی حماقت کی انتہا ہو گی جس طرح اسلام حسن واحسان کی انتہا ہے اسی طرح قرآن کریم کو چھوڑنا انسانی فعل کے لحاظ سے یعنی قرآن کریم کو چھوڑنے کے لحاظ سے حماقت کی انتہا ہے۔ حماقت تو تھوڑی بھی نہیں کرنی چاہئے چہ جائیکہ حماقت کی انتہا کر دی جائے۔ پس اس قسم کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
غرض قرآن کریم سے کماحقہ مستفید ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں اور اس پر غور کرتے رہنا چاہئے اور اس کو حرز جان بنا لینا چاہئیے۔ اس کو اپنی روح سمجھنا چاہئے تمام توہمات کو دور کر کے اس کو اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہئے۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے ۔ بعض مسلمان یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو اپنے ساتھ نہ رکھو شاید تم سو جاؤ اور اس کی طرف تمہاری پیٹھ ہو جائے۔ کیا عجیب خیال ہے۔ جب تم جاگ رہے ہوتے ہو تو تم نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہوتا ہے اس کی تعلیم کو قبول نہیں کرتے۔ لیکن جب تم سوئے ہوئے ہوتے ہو اور خدتعالیٰ کی گرفت کے نیچے نہیں ہوتے اس وقت تمہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ قرآن کی طرف پیٹھ نہ ہو جائے۔ یہ خیال تودرست نہیں۔
بہرحال اس وقت تو میرے بھائی اور بہنیں، میرے عزیز بچے اور میرے بزرگان میرے مخاطب ہیں میں آپ سب سے یہ کہوں گا کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے یہ بڑی عظمتوں والی کتاب ہے۔اس کتاب کی برکت او رحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فیض تھا کہ جس نے اُس گمنام شخص کو جو ایک گمنام بستی میں پیدا ہوا تھا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی پیار کیا تھا اس کو اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فیض اور قرآن کریم کی برکت نے ساری دُنیا میں معروف و مشہور کر دیا۔ چنانچہ پانچ پانچ ہزار میل دور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جن کے دل میں مہدی معہود علیہ السلام کا پیار سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھ رہا ہے۔ اس لئے کہ مہدی ٔ معہود اور مسیح موعودؑ جو ایک امتّی نبی کی حیثیت سے ہماری طرف آئے تھے ان کی بدولت ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین چہرہ دیکھا اور اُنہوں نے ہمیں پکڑ کر کہا ہے کہ قرآن کریم کی طرف منہ کر لو گے تو ساری بھلائیاں تمہارے نصیب اور مقدر میں آجائیں گی۔اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا اور اس طرح ساری لذتیں اور سرور تمہیں مل جائے گا۔ اس دُنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی۔ ( روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍ اگست ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا ۴)
خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول
کے لئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍جولائی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اسلام میں محنت کرنے پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب ہم قرآن عظیم پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں اِس مضمون کو واضح کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اللہ تعالیٰ کے لئے جہاد کا حق ادا کرو۔ اور دوسرے یہ حکم دیا گیا ہے کہ احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت اور پیار کرتا ہے۔
لفظ ’’جہاد‘‘ اور ’’احسان‘‘ پر جب ہم مجموعی طور پر غور کرتے ہیں تو محنت کرو! محنت کرو!! محنت کرو!!! کا مضمون واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ جہاں تک جہاد کا تعلق ہے اسے تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔پہلا جہاد تو بنیادی طور پر نفس کے خلاف جہاد ہے یعنی ایسی خواہشات نفسانیہ جو فطرتِ انسانی اور رضائے الہٰی کے خلاف ہوں اُن کا مقابلہ کرنا، اُن کو دبا دینا اور اُن کا اثر قبول نہ کرنا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اُسے اپنے دائرہ استعداد کے اندر رفعت کے انتہائی مقام پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل کرنا یہ ایک بنیادی جہاد ہے جسے جہادِ اکبر کہتے ہیں۔ یہیں سے جہاد کی بنیاد شروع ہوتی ہے اور اس کے اوپر پھر دوسرے جہاد کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جب تک نفس سے کامیاب جہاد نہ ہو دوسرے دو جہاد عقلاً ممکن ہی نہیں۔
پس نفس کے خلاف انسان کا جہاد یعنی شیطانی وساوس اور شیطان کی پیدا کردہ اہواء اور خواہشات کے خلاف جہاد کی کامیابی اور اصلاح نفس پر دوسرے ہر دو جہاد کی کامیابی کا دارومدار ہے کیونکہ سب سے بڑا جہاد یہی ہے۔ دوسرے دو جہاد اسی کی بنیاد پر اُٹھتے ہیں۔ اس لئے اگر یہ بنیادی جہاد کامیاب نہ ہو تو دوسرے دو جہاد کی کامیابی کا امکان ہی نہیں۔ اس لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے۔
دوسرا جہاد قرآن کریم اور اس کی اشاعت کا جہاد ہے اور اس کو جہاد کبیر کہتے ہیں۔ یہ جہاد اکبر یعنی نفس کے جہاد سے اُبھرتا ہے۔ ان کا آپس میںگہرا تعلق ہے کیونکہ نفس کے خلاف جہاد قرآنی تعلیم اور قرآنی انوار کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ تاہم جہاں تک نفس کے خلاف جہاد کا تعلق ہے یہ بہرحال مقدم ہے۔ ورنہ تو یہ ماننا پڑے گا کہ خود عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں۔ اس لئے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہوائے نفس کے خلاف جہاد یعنی اصلاحِ نفس اور قرآنی انوار کے ذریعہ شیطانی ظلمات کے خلاف جہاد آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔
جب انسانی خواہشات اور شیطانی وساوس انسانی نفس کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اُس کے اور اُس کے پیدا کرنے والے رب کے درمیان بُعد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان سے بچنے کے لئے یعنی نفس کی اصلاح کے لئے انسان قرآن کریم کو ذریعہ بناتا ہے۔ پھر قرآنی انوار کو پھیلانا قرآنی انوار ہی کے ذریعہ ممکن ہے جیسا کہ کہاگیا ہے۔ع
محمد ہست بُرہانِ محمد۔
اِسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ (جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ) قرآنی انوار کی اشاعت اور قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا قرآنی انوار کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ جب اپنے نفس میں ان انوار کو جذب کر لیا تو پھر انہی انوار کو لے کر دُنیا کی اصلاح کے لئے باہر جانا ہے اور اشاعت قرآن کرنی ہے اور یہ دوسری قسم کا جہاد ہے یعنی اصلاحِ نفس انسانی بانوار قرآنی۔
تیسری قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب شیطان اپنی تلوار میان سے نکالے اور مادی اور دُنیوی طاقت کے ساتھ روحانی اقدار کو کچلنے کی کوشش کرے تو اس تلوار کو خداتعالیٰ کی استمداد سے اور دُعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے توڑ دینا اور ناکام بنا دینا۔ یہ سب سے چھوٹا جہاد ہے اِسی لئے اسے جہادِ اصغر کہتے ہیں۔
مَیں یہ مختصراً بیان کر رہا ہوں۔ اس لئے کہ ان تین قسم کے جہاد کے متعلق میں ایک بنیادی بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خواہ نفس کے خلاف جہاد اکبر ہو یا قرآن عظیم کو ہاتھ میں پکڑ کر دُنیا میں نکل جانا یعنی جہاد کبیر ہو یا شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں جب اللہ تعالیٰ طاقت کے مقابلے میں طاقت استعمال کرنے کی اجازت دے یعنی جہاد اصغر ہو، ایک چیز ان تینوں قسم کے جہاد میں مشترک ہے اور اسی کی طرف میں اس وقت اپنے مضمون کے سلسلہ میں یعنی محنت کے متعلق آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ ہے انتہائی کوشش کرنا۔
پس اگر ہم اصلاح نفس کے جہاد میں جو جہاد اکبر ہے کوشش تو کریں مگر انتہائی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم اشاعت قرآن جو جہاد کبیر ہے اس میں کوشش تو کریں لیکن انتہائی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم دشمن اسلام کے مقابلے میں جو طاقت کے بل بوتے پر اسلام کو مٹانا اور مغلوب کرنا چاہتا ہے کوشش تو کریں مگر اپنی کوشش کو انتہا تک نہ پہنچائیں تو اس صورت میں کوئی سا بھی جہاد جہاد نہیں ہو گا۔ عربی لغت کی رو سے وہ ایک عام کوشش تو ہو گی، جہاد نہیں ہو گا۔ کیونکہ جہاد کے معنے انتہائی کوشش کے ہوتے ہیں۔
پس خداتعالیٰ نے ہمیںجہاد کا حکم دیا ہے۔ یہ ہماری اور ہمارے معاشرہ کی زندگی پر حاوی ہے۔ جہاد کے اس حکم کی رو سے خداتعالیٰ نے ہمیں صرف یہی نہیں فرمایا کہ کوشش کرو اور محنت کرو۔ بلکہ اُس نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ انتہائی کوشش کرو اور انتہائی محنت کرو۔ اگر کسی آدمی کی کوشش اور محنت اپنی انتہا کو نہیں پہنچتی تو اُس کا جہاد کوئی جہاد نہیں ہے۔ ہمارا ہر نیک فعل جو اپنی کوشش اور محنت کے لحاظ سے اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہو وہ اسلام میں آکر جہاد بن سکتا ہے یعنی رضائے الہٰی کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ہمارا کوئی فعل اپنے اندر سستی اور غفلت رکھتا ہو یا اس میں لاپرواہی کا عنصر پایا جاتا ہو اور یہ بات ذہن میں حاضر نہ ہو کہ ہمیں محض محنت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ محنت کو انتہاء تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ اسلامی جہاد نہ ہو گا۔
قرآن کریم ایک عمدہ شریعت اور بڑی عظیم ہدایت ہے۔ اسلام اسی پر نہیں ٹھہرا کہ کوشش اور محنت کرو بلکہ وہ انتہائی کوشش اور محنت پر زور دیتا ہے۔ محض یہ نہیں فرمایا کہ اپنی زندگی ایک مجاہد کی زندگی کی طرح گذارو۔ بلکہ ہمارے سامنے تین قسم کے محاذ کھول دئیے۔ ایک نفس کی اصلاح کا محاذ ہے۔ دوسرا قرآنی انوار کے ذریعہ شیطانی ظلمات کو دور کرنے کا محاذ ہے اور تیسرا محاذ ہے اسلام کے خلاف مادی طاقت کے مقابلے میں طاقت کے استعمال کا۔
جہاں تک طاقت کے مقابلے میں طاقت کے استعمال کا تعلق ہے میں نے تلوار کی مثال دی ہے لیکن بعض دفعہ شیطان اس قسم کی طاقت کا استعمال نہیں کرتا بلکہ بعض اور طاقتیں ہیں جو اسلام کے خلاف مختلف شکلوں میں صف آراء ہوتی ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ جہاد اصغر جو ہے وہ دفاعِ اسلام ہے۔ اور جہاد کبیر جو ہے وہ قرآنی انوار کے ساتھ جارحانہ طور پر ادیانِ باطلہ کو مغلوب کرنے کی بھرپور کوشش ہے اور جہاد کبیر کے لئے ایک فوج تیار کرنا یہ جہادِاکبر کا کام ہے۔ کیونکہ اگر اصلاح نفس نہ ہو تو اسلام کی یہ فوج تیار نہ ہو سکے گی۔ اسلام کی فوج کی لیاقت اور اس کی صفت یہی نہیں کہ اُسے تلوار چلاناآتا ہے بلکہ اُس کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے سارے اعمال بجا لاتی ہے۔ جہاں تلوار نہیں چلانی تھی وہاں اُنہوںنے تلوار نہیں چلائی۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تلوار نہیں چلانی تو اُنہوں نے نہیں چلائی۔ مگر جب خداتعالیٰ کے اذن کے مطابق تلوار چلانے کا وقت آیا تو پھر اُنہوںنے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اُن کی تلواریں لوہے کی ہیں یا لکڑی کی۔ اُنہوں نے یہ بھی نہیںسوچا کہ میدانِ جنگ میں کود جانے کے بعد اُن کے بیوی بچوں کا کیا حال ہو گا۔ اُنہوںنے اِس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اُن کے پاس جو تھوڑے بہت اموال ہیں وہ سارے ضائع ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے صرف ایک چیز دیکھی اور وہ تھی اللہ تعالیٰ کی آواز۔ اِس پر اُنہوں نے صدق دل سے لبیک کہا۔
غرض یہ فوج تیار کرنا جہاد اکبر کا کام ہے۔ جہاد اکبر کے نتیجہ میں اسلامی فوج تیار ہوتی ہے۔ جہادِکبیر کے نتیجہ میں وہ ادیان باطلہ پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اس فوج کو حملہ آور ہوتے وقت کسی مادی ذریعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے نہ لوہے کی تلوار کی ضرورت ہے اور نہ ایٹم کی توانائی اور طاقت کی ضرورت ہے۔ اس کو صرف قرآن کریم کی رُوحانی طاقت کی ضرورت ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ جہاد کبیر کے لئے ہمارے دائیں ہاتھ میں بھی قرآن اور ہمارے بائیں ہاتھ میں بھی قرآن ہونا چاہئے۔
پس جہادِاکبر نے اسلامی فوج تیار کی۔ جہادِ کبیر میں اس فوج نے قرآنی انوار کے ہتھیاروں سے ادیان باطلہ پر حملہ کیا اور جو ظلمات نے یہ دیکھا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اُس نے اس نور کو بجھانے کی کوشش کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ تم اپنے مونہوں سے اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانا چاہتے ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کانور منہ کی پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا اور نہ ہی لوہے کی تلوار یا ایٹم (ذروں) کی طاقت سے مٹایا جا سکتا ہے۔
غرض قُرون اولیٰ میں مسلمانوں نے ایک فوج کی حیثیت سے مادی ذرائع کا مادی ذرائع سے مقابلہ کیا اور اسلام کی برتری کو ثابت کر دکھایا۔ اُنہوں نے اسلام کی خدمت میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔بایں ہمہ کبر اور غرور اُن کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ وہ انتہائی عاجزی اور تضرع کرتے اور اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے اور چونکہ خداتعالیٰ کو وہ سب کچھ سمجھتے تھے اِس لئے دُنیا کی کسی طاقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ دُنیوی طاقتوں سے بے خوفی کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی کچھ پراوہ ہی نہیں ہوتی یہ جذبہ محض خشیت اللہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مجھ سے ڈرو اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔
پس اس قسم کی فوج جو اِس قسم کے روحانی ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے یہ جہاد اکبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ پھر یہ نہیں دیکھتی کہ قیصر کے پاس فوجیں تعداد میں زیادہ، سازو سامان میں بہتر ہیں یا کسریٰ کے خزانے ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے ہیں۔ اتنے ہیرے اور جواہرات اور اتنی دولت اور مال کہ بادشاہ سلامت کو اس کا اور کوئی خرچ نظر نہ آئے تو کہا کہ میرے بڑے بڑے جرنیلوں کی ٹوپیوں پر ایک ایک لاکھ کے جواہرات جڑے ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ کم و بیش ایک ایک لاکھ کے جواہرات جڑ کر جرنیل کو ٹوپی پہنانے سے میںتو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اُن کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی اُن ہیرے اور جواہرات سے وہ کیا کام لیں۔
پھر اسی طرح جب مسلمانوں کو بھی بڑی کثرت سے ہیرے اور جواہرات ملے تو اس قیمتی پتھر سے اُنہوں نے اپنی اور اپنے جرنیلوں کی ٹوپیاں نہیں سجائیں بلکہ اُنہوں نے مسجدوں کے ماتھے سجا دئیے۔ اُن کے محراب سجا دئیے۔ اُن کا یہ کام کس حد تک اچھا تھا اس سلسلہ میں مَیں کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اتنی بات توضرور ہے کہ جرنیل کی ٹوپی سجانے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ مسجد کی محراب اور اس کی دیواروں پر ہیرے جواہرات جڑ دئیے جائیں۔
بہرحال جہاد اکبر کے نتیجہ میں جو فوج تیار ہوتی ہے وہ مادی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ نہیں کرتی۔ اُس کے ہاتھ میں مادی ہتھیار نہیں ہوتے بلکہ اُس کے ہاتھ میں قرآنی انوار ہوتے ہیں۔ جب وہ اسلام کا دفاع کرتی ہے تو وہ کسی مادی ہتھیار سے دفاع نہیںکرتی خواہ اُس کے مقابلے میں کسریٰ کی عظیم طاقت ہی کیوں نہ ہو۔ خواہ اُس کے مقابلے میں قیصر کی عظیم طاقت ہی کیوں نہ ہو۔ اُس زمانہ میں یہی دو عظیم طاقتیں تھیں اُس کے مقابلے میں اور کوئی طاقت نہیں تھی۔ اُن کی آپس میں بھی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ کبھی ایک طاقت جیت جاتی اور کبھی دوسری جیت جاتی تھی۔ مگر جہادِاکبر کے نتیجہ میں اسلام کی جو فوج اب پیدا ہو رہی ہے، اگر ضرورت پڑی تو وہ ایٹم کی طاقت سے بھی لڑے گی۔ اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو سب طاقتوں کا سرچشمہ اور منبع ہے، اِس فوج کو اُس کی طاقتوں کا عرفان حاصل ہوتاہے۔ یہی جہاد اکبر کا نتیجہ ہے یعنی خداتعالیٰ سے ذاتی تعلق اور اُس کی صفات اور قدرتوں کاکامل عرفان حاصل ہوتا ہے۔
میںنے بتایا ہے اسلام نے ہمیں انتہائی محنت کرنے کا حکم دیا ہے یہ ایک بڑا لطیف مضمون ہے جہاں تک انتہائی محنت کرنے کا تعلق ہے اس پر میں نے ابھی مختصراً روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے یہ فرمایا کہ تم احسان کرو۔احسان کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی کو کچھ دینا یا انعام کرنا وغیرہ یہ بھی احسان ہے۔ دوسرے یہ کہ عربی لغت میں احسان کا لفظ احسان فی العمل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ مفردات امام راغبؒ نے احسان فی العمل کے معنے یہ کئے ہیں کہ جب ’’اَحْسَنَ فِی فِعْلِہٰ‘‘ کہا جائے تو اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے۔
’’اِذَا عَلِمَ عِلْمًا حَسَناً وَّعَمِلَ عَمَلاً حَسَناً۔‘‘
یعنی وہ حسین علم رکھتا ہو اور حسین عمل کرنے والا ہو اور حسن عمل خدا داد استعدادوں کی تدریجی نشوونما کو چاہتا ہے۔
حُسن کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس سے تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے سخت مجاہدہ انتہائی محنت درکار ہے۔ اس محنت کے ذریعہ طاقتوں کو جلا دینے اور ان کو زیادہ مضبوط بنانے کا گر ہمیں سکھایا گیا ہے۔اور طاقت وقوت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جہاد کی رو سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم میں جتنی طاقت ہے تم اس کا انتہائی طور پر استعمال کرو۔ تب تم مجاہد بنو گے۔ احسان کی رو سے فرمایا تم میں جتنی طاقت ہے تم اس سے کہیں زیادہ طاقت ور بن سکتے ہو اور تم کو بننا چاہئے ورنہ تم صحیح معنوں میں ایک مسلمان مجاہد نہیں بن سکو گے اور جو محنت کا حکم ہے تم اس کی پوری طرح پابندی نہیں کر سکو گے۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو تمہاری طاقتوں کی نشوونما نہیں ہو سکے گی۔
انسان کی طاقتوں کی نشوونما کے لئے دو چیزوں کی ضرورت تھی۔ ایک عرفان ذات وصفات باری تعالیٰ اور یہ علم کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حسین علم پر اس کا دارومدار ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا علم ہی حسین ہو سکتا ہے۔ باقی جتنے علوم ہیں وہ طفیلی اور ظلّی ہیں اصل علم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کریم نے فرمایا کہ احسان کرو۔ کیونکہ خداتعالیٰ محسن ہے اور وہ محسن بندوں سے پیار کرتا ہے۔ اس کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کا عرفان حاصل کیا جائے۔ کیونکہ انسان جب اس کی ذات و صفات کا عرفان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرنے لگ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود حسین ہے تاہم یہ حُسن وہ نہیں جو عام دُنیا کی نگاہ میں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ وہ حسن ہے جس کی انسانی فطرت اور بصیرت گواہی دیتی ہے اور یہ صرف خداتعالیٰ کی ذات میں نظر آتا ہے۔
پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے بعد اس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے اور اس کے مطابق عمل کرے تو جس طرح خداتعالیٰ کی صفات کے جلوے دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح الٰہی صفات سے ملتے جلتے جلوے اس کی زندگی میں بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ یہی وہ حقیقت ہے جو احسان والے مضمون میں بیان ہوئی ہے اور جس کا میرے آج کے اس مضمون یعنی محنت کرو کے ساتھ تعلق ہے۔
محنت کرو یہ مضمون یا دوسرے لفظوں میں جہاد کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر آج جتنی طاقت ہے اس کے مطابق وہ انتہائی کوشش کردکھائے۔ پھر خداتعالیٰ بڑے پیار سے فرماتا ہے کہ دیکھنا وہیں کھڑے نہیں ہو جانا۔ انتہائی کوشش کے بعد احسان کرنا ہے، ذات و صفات باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی ہے۔ چونکہ صفات الٰہیہ غیر محدود ہیں۔ اس لئے ان کے جلوے بھی غیر محدود ہیں۔ اگر انسان الہٰی صفات کا مظہر بن جائے تو علمی فضاؤں میں اور عملی میدانوں میں اس کی ترقی اور رفعتیں بھی غیر محدود ہوں گی۔
پس صفات باری تعالیٰ کی معرفت کے نتیجہ میں انسان کی قوت اور صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ زیادہ محنت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ حسن علم وعمل کے نتیجہ میں انسانی طاقتوں میں اور زیادہ شدت اور اس کی قوت میں اور زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
غرض جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے جس کی رو سے انتہائی محنت اور انتہائی کوشش کرنے کا حکم ہے۔ یعنی آج کے دن انتہائی کوشش کی کل کے دن کے لئے اپنی طاقت کو احسان کے ذریعہ بڑھایا۔ پھر انتہائی کوشش کی پھر اگلے دن کے لئے طاقتوں کو احسان کے ذریعہ بڑھایا اور پھر انتہائی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ محنت کرو تو قرآن کریم کی روشنی میں دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مختلف قوتیں اور صلاحیتیں اور استعدادیں بخشی ہیں ان صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق انتہائی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دائرہ استعداد میں نشوونما کا اصول قائم فرمایا ہے۔ انسان پہلے ہی دن اپنی کوششوں کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا ۔ جہاد ابتداء ہے یا ابتداء کے قریب آگے بڑھنے کا زمانہ ہے۔ احسان طاقت اور قوت میں اضافہ کرتا اور استعدادوں اور صلاحیتوں میں ایک نئی قوت اور طاقت بخشتا ہے زیادہ محنت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔
پس احباب جماعت سے میں یہ کہتاہوں کہ محنت کرو! محنت کرو!! آج جماعت احمدیہ میں جتنی طاقت ہے احباب اس کے مطابق کام کریں۔ کیونکہ اسلام کا یہی منشاء ہے کہ تم میں آج جتنی طاقت ہے اس کے مطابق محنت کرو اور کل کی محنت اس سے بڑی ہونی چاہئے۔ اس کے لئے تیاری کرو۔ کیونکہ جہاد اور احسان نے مل کر ہمارے سامنے محنت کرنے کی تعلیم رکھی ہے۔ جہاد کہتا ہے طاقت کے مطابق انتہائی کوشش کرو اور احسان کہتا ہے کہ اپنی طاقت میں وسعت اور شدت پیدا کرنے کی سعی کرو۔ حسن علم وعمل کا یہی تقاضا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی نئی سے نئی صفات کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔
صفات باری کا عرفان ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہم فکر وتدبر کرنے کے عادی ہوں اور ہمارا تعلق اپنے رب سے قائم ہو تو اس تعلق میں ہم ہر روز زیادہ شدت اور زیادہ مضبوطی پائیں گے ہمارا علم زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ اس حسین علم کے نتیجہ میں ہمارے عمل کے زیادہ سے زیادہ حسین ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زیادہ اچھا ہو جائے گا۔ کیونکہ عمل کی اچھائی تو کام کرنے والے کی ہمت پر منحصر ہے اگر کسی آدمی نے جہاد کا اصول اپنایا اور انتہائی کوشش کے نتیجہ میں اس کی طاقت، صلاحیت اور استعداد بڑھ گئی ہے تو اس کا عمل بھی پہلے دن سے زیادہ حسین اور زیادہ حسین نتائج نکالنے والا بن جائے گا۔
پس اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ محنت کرو اور محنت کو اپنی طاقت کے مطابق انتہاء تک پہنچاؤ۔ پھر اسلام ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ تمہاری طاقت ایک جگہ کھڑی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس طاقت اور قوت میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے تاکہ تمہاری قوت اور طاقت تمہاری استعدادوں اور صلاحیتوں کی کامل نشوونما کر سکے اور اس کے نتیجہ میں تمہارے علم وعمل میں استحکام شدت اور مضبوطی پیدا ہو جائے۔ اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تمہیں اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو کمال نشوونما تک پہنچانے کے لئے ہر روز پہلے سے زیادہ عرفان الہٰی اور پہلے سے زیادہ حسن عمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
پس یہ وہ حکم ہے جو ہمیںدیا گیا ہے، اسے محنت کا فلسفہ کہہ لیں یا محنت کی تعلیم کہہ لیں یا محنت کرنے کا حکم کہہ لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی استعداد کو محدود کر دیا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنی نوع انسان کی مجموعی طور پر جو استعداد اور صلاحیت تھی اس کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر خلق یعنی اشیاء عالم کی پیدائش کا جو عمل ہے اس میں ہمیں ہر جگہ حد بندی کا اصول نظر آتا ہے جس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کوئی ہستی محدّد یعنی حد باندھنے والی بھی ہے۔ یہ نہیں کہ اتفاقاً بعض جگہ تو حد بندی کی گئی اور بعض جگہوں میں حد بندی کا خیال ہی نہیں رکھا گیا ہو۔ ویسے اگر یہ دُنیا اتفاق کے نتیجہ میں معرضِ وجود میں آتی تو کسی جگہ تو ہمیں اللہ بھی نظر آتا۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ہر استعداد کی نشوونما اور ہر استعداد کو کمال نشوونما تک پہنچانے کا ایک فعل اور عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہر عمل کی ایک انتہا ہے اسی طرح ایک ابتداء بھی ہے اور ان کے درمیان بڑا فاصلہ ہے۔
انسانی عمل کی ابتداء پیدائش کے دن سے شروع ہوتی ہے اور جب انسان آخری سانس لیتا ہے اس وقت نشوونما کا یہ عمل ختم ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ کی مثال ذہن میں لائیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو مقام محبت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے یومِ وصال سے ایک روز پہلے تھا اس سے بڑھ کر ایک مقام محبت تھا یومِ وصال پر غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اوربرکتیں اپنی شدت اور وسعت کے اعتبار سے کسی گھڑی کم ہوئیں نہ ایک جگہ ٹھہریں۔ اگر ہمیں اپنے بارے میں کوئی حدبندی نظر آتی ہے تو یہ ہماری صلاحیتوں کا نقص ہے۔ مثلاً جب ہم افق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو جہاں ہماری نظر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں ہم کہہ دیتے ہیں کہ اس کے آگے بس کچھ نہیں حالانکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ چنانچہ ہماری آنکھ ایک دوسرے وجود کی طاقت کی انتہا اس جگہ کو سمجھ لیتی ہے جو ہماری طاقت کی انتہا ہے کیونکہ اسے اس کے باہر کا علم تو حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا اس وجہ سے مشکل ہے کہ جتنی نعمتوں کے آپ وارث ہوئے تھے اتنی نعمتوں کا بنی نوع انسان میں سے کوئی وارث ہوا نہ ہو سکتا ہے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بہت بلند ہے۔ اس کے متعلق کچھ ہم سمجھ سکتے ہیں اور کچھ ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہے۔ کیونکہ ہماری اتنی استعداد ہی نہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا کماحقہ علم حاصل کر سکیں۔ اس لئے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر یوم وصال تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی۔ ورنہ اگر ترقی نہ ہوتی تو حصولِ نعمت پہلے سے زیادہ ممکن نہ ہوتا۔ خداتعالیٰ کی نعمتوں میں ترقی کا ہونا ہمیں بتاتا ہے کہ قبول کرنے والی، متاثر ہونے والی طبیعت اور نفس کی صلاحیت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ ہر آدمی کے اپنے دائرۂ استعداد میں اس کی صلاحیتوں کی کمال نشوونما تب ہی ممکن ہے کہ یوم پیدائش سے لے کر اس کے یوم وصال تک اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں نشوونما ہوتی رہے اور وہ ایک جگہ کبھی نہ ٹھہرے۔ اس کا خداتعالیٰ نے سامان پیدا کر دیا ہے۔ اسی واسطے فرمایا:-
دعا کرتے رہو کہ تمہارا انجام بخیر ہو یعنی یوم وفات کے وقت نفس انسانی روحانی طور پر پہلے سے زیادہ آگے پہنچ چکا ہو۔ اگر وہ کسی جگہ ٹھہرا تو گیا۔
آج دُنیا کا ایک بڑا حصہ (ساری دُنیا تو نہیں) ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے اور اس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے اس وقت دُنیا کو دراصل دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو ترقی پذیر ملک ہیں اور دوسرے ترقی یافتہ مگر تنزل پذیر ملک۔ جو ترقی پذیر ملک ہیں ان میں ترقی کی رفتار مختلف ہے مثلاً اگر یہ ترقی آسمانوں کی طرف ہو تو آپ کو ملک سطح زمین سے دس فٹ اونچا نظر آئے گا دوسرا دس ہزار فٹ اونچا نظر آئے گا اور تیسرا دس کرو ڑ فٹ اونچا نظر آئے گا۔ پھر جو ترقی یافتہ تنزل پذیر ملک ہیں وہ اگرچہ اپنے آپ کو ایک ترقی یافتہ کہتے ہیں مگر اب دُنیوی لحاظ سے اُن میں سخت اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔
ویسے تو روحانی لحاظ سے بھی انسانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے لیکن اس کے ساتھ میرے اس مضمون کا اس وقت تعلق نہیں تا ہم ایسے ممالک کو ہم تنزل پذیر اس لئے کہتے ہیں کہ ایک تو ان میں باہمی اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ دوسرے ان کی صلاحیتوں کی جو ایک حد تک نشوونما ہوئی تھی وہ اب ٹھہر گئی ہے یعنی جو شخص رفعتوں کو حاصل کرتا ہے اگر وہ ٹھہرتا تو اس کی حرکت نیچے کی طرف گرنی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی صلاحیتوں میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی حال تنزّل پذیر ملکوں کا ہے وہ ملک دُنیوی ترقیات کے اس نقطۂ عروج پر آج نظر نہیں آتے جہاں پہلے نظر آیا کرتے تھے۔ مثلاً آج کے انگلستان اور ڈیڑھ سو سال پہلے کے انگلستان میں بڑا فرق ہے۔
میں جب ۱۹۶۷ء میں یورپ گیا تو لندن ائیر پورٹ پر اخبار کے ایک نمائندہ نے مجھ سے ایک سوال کر دیا کہ آپ یہاں پہلے طالب علمی کے زمانہ میں بھی رہے ہیں۔ اب یہاں پھر آئے ہیں۔ فوری طور پر کیا آپ کو کوئی تبدیلی نظر آئی ہے؟ میں نے کہا ہے مجھے انگریز قوم میں تنزل نظر آیا ہے میرے ساتھ مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کھڑے تھے کہنے لگے آپ تو بڑی دیر کے بعد یہاں آئے ہیں اور آپ کو تنزل نظر آیا ہے۔ ہم تو یہیں رہتے ہیں۔ ہمیں تو روزانہ تنزّل نظر آتا ہے۔ غرض وہ ملک جو کبھی بہت ترقی پر تھے اب روبہ تنزل ہیں۔
دوسری طرف جو ترقی کرنے والی اقوام ہیں۔ اُن کے اندر ایک حرکت تو ہے لیکن وہ جہاد نہیں کہلا سکتی۔ یعنی اُن کی انتہائی حرکت نہیں یا انتہائی کوشش نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں جو بہت جلد حاصل کی جا سکتی ہیں ممکن ہے دس ہزار سال کے بعد حاصل کریں۔ پھر تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ اس عرصہ میں سینکڑوں نسلیں گذر جائیں گی اور پھر جا کر یہ مقام حاصل ہو گا۔
ہمارا ملک مسلمان ملک بھی کہلاتا ہے اور اسلام نے محنت کرنے کے اصول اور طریق کار کے متعلق جو حسین تعلیم دی ہے اس سے واقفیت بھی نہیں رکھتا۔ ترقی کرنے والی اقوام میں سے کوئی تو جوں کی چال چل رہی ہے اور کوئی راکٹ کی چال چل رہی ہے لیکن جو مسلمان ہے اس کی حرکت اللہ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق خداداد طاقت کے مقابلہ میں آدھی نہیں ہونی چاہئے یا اسی فی صد نہیں ہونی چاہئے یا نوے فیصد نہیں ہونی چاہئے حتی کہ ننانوے فی صد بھی نہیں ہونی چاہئے بلکہ سو فیصد ہونی چاہئے۔ ورنہ ان کی کوشش جہاد نہیں کہلا سکتی۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ جہاد کہتے ہی اس کوشش کو ہیں جس میں انسان اپنی طاقت کو انتہائی طور پر اور پورے اور مکمل رنگ میں خرچ کر دے۔ یعنی انسان اپنی ساری طاقتیں خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔ غرض خداتعالیٰ کی رضا کے حصول میں انسان جب اپنی طاقتوں کو انتہائی طور پر خرچ کر دیتا ہے تو پھر اسلامی تعلیم کے مطابق حقیقی معنوں میں وہ مجاہدکہلاتا ہے۔
پس جو ترقی کرنے والی قومیں ہیں اور مسلمان ہیں ان کو تو میں کہوں گا کہ قرآن کریم نے آپ کو ایک حکم دیا ہے۔ قرآن کریم نے آپ کو ایک راہ دکھا دی ہے۔ قرآن کریم نے آپ کو جلد از جلد رفعتوں تک پہنچنے کا ایک راستہ بتا دیا ہے اس لئے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنی طاقتوں کوخرچ کرو۔ تاہم جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں قرآن کریم نے خالی یہ نہیں فرمایا کہ محنت کرو بلکہ فرمایا ہے کہ اپنی محنت کو انتہا تک پہنچاؤ۔ اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچاؤ کیونکہ اس طرح تمہاری طاقتوں اور استعدادوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کرو گے اور صفات باری کی معرفت میں روز بروز ترقی کرتے چلے جاؤ گے تو تمہارے علم میں ترقی ہو گی اور اس کے نتیجہ میں تمہارے عمل میں روزانہ ترقی کا امکان اور روزانہ ترقی کے سامان پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ جب مزید ترقی کرنے کے سامان پیدا ہو گئے تو اس صورت میں بھی خداتعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جہاد کرو یعنی آج جو نئی طاقت پیدا ہوئی ہے اس کو بھی اپنی کل کی طاقت میں شامل کرو پھر اور آگے بڑھو۔ پھر اور زیادہ محنت کرو اور زیادہ محنت کرو یہاں تک کہ تم اپنی محنت کو انتہا تک پہنچا دو۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ نہیں فرمایا کہ جو طاقت تم میں نہیں ہے اس کے مطابق کام کرو لیکن قرآن کریم ہمیں یہ ضرور کہتا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقت دی ہے اس کے مطابق سو فیصد کام کرو اور یہ کام تینوں محاذوں پر ہونا چاہئے مثلاً اگر انسان جہاد اکبر میں کامیا ب ہو جائے تو اس نے اپنے نفس کو جوفائدہ پہنچایا سو پہنچایا اس کے نتیجہ میں ظاہر ہے ایک عظیم اسلامی فوج بھی تیار ہو گئی جو قرآنی انوارکے ساتھ جہاد کبیر کرے گی۔ اور یہ جارحانہ جہاد ہے۔ لوگ کہتے ہیں اسلام تلوار سے پھیلا۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم نے اسلام کو تلوار کے ذریعہ پھیلانے کا کہیں حکم نہیں دیا یعنی میں صرف یہ نہیں کہتا کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلائیں یہ بھی کہتا ہوں کہ خالی یہ ہی نہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ خداتعالیٰ نے واضح طور پر ہمیں یہ فرمایا ہے کہ اشاعتِ اسلام کے لئے ہاتھ میں تلوار نہیں پکڑنی کیونکہ اس کام کے لئے تمہیں اس کا اختیار ہی نہیں دیا گیا۔ اس کی اشاعت کے لئے تمہیں قرآنی انوار دئیے گئے ہیں تم قرآنی انوار کے ذریعہ اسے ادیانِ باطلہ پر غالب کرو۔ چنانچہ اس فوج نے قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑا اور ادیانِ باطلہ کو مغلوب کرنے کے لئے جارحانہ کاروائیاں کیں۔ مگر یہ حملہ اس لئے نہیں تھا کہ کسی کا سر تن سے جدا کیا جائے وہ تو مادی ہتھیاروں سے ہوتا ہے یہ حملہ اس لئے تھا کہ وہ سینے جو ظلمات سے بھرے ہوئے ہیں ان کو قرآنی انوار سے منور بنا دیا جائے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا اس کام کے لئے تلوار یا ایٹم بم استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا یہ سوال بڑا نامعقول ہو گا۔ کسی شخص کے سینے کو اگر قرآنی انوار سے منور کرنا ہو تو لوہے کی تلوار یا ایٹمی ذرّات کی جو طاقت ہے اس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اس کے لئے ہمیں قرآنی انوار کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر کوئی بیوقوف منکر اسلام تلوار کے ساتھ اسلام کو مغلوب کرنا چاہے تو پھر جو تمہاری طاقتیں ہیں یا مادی ذرائع ہیں اُن کو تم دفاعی طور پر استعمال کرو۔ یہ طاقتیں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیادہ دے رکھی ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کو جانتا ہو گا۔ اس کی فراست بھی بہت ہو گی۔ اور دوسروں سے مختلف اس کی شجاعت بہت زیادہ اور دوسروں سے مختلف ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مٹھی بھر مسلمانوں نے ان تلواروں کو جو اُن سے ہزاروں گنا زیادہ تھیں اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے میانوں سے باہر نکلی تھیں انہیں واپس میانوں میں نہیں جانے دیا جو تلوار میان سے نکلی تھی اس نیت کے ساتھ کہ جب تک اسلام کو مغلوب نہ کرے گی واپس میان میں نہیں جائے گی۔ اس کو دوبارہ میان میں جانانصیب نہیں ہوا۔ کیونکہ قبل اس کے کہ وہ اپنی میان کی طرف جاتی وہ نہتی فوج جو خداتعالیٰ کی صفات کے علم اور معرفت کے نتیجہ میں تیار ہوئی تھی اس نے دشمن کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ جب ظلم حد سے بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے ظالم کے ہاتھ کو روکنے کی اجازت دی تو مسلمانوں کی تلواریں بھی میان سے باہر نکل آئیں۔ مسلمان ظالم منکرین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بے چین ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آرام کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ ایک دفاعی جنگ کے بعد دوسری دفاعی جنگ لڑی جاتی رہی۔ حضرت خالد ؓ بنی ولید کسریٰ ایران کے ساتھ جب نبرد آزما تھے تو کسریٰ کی بھگوڑی فوج ابھی پچھلی فوج کے ساتھ ملتی نہیں تھی کہ دوسری جنگ شروع ہو جاتی تھی۔ اسی طرح پھر تیسری جنگ اور پھر چوتھی جنگ چھڑ جاتی تھی۔غرض مسلمانوں نے خود آرام کیا نہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع دیا۔
پس یہ کہنا تو غلط اور بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے لیکن یہ صحیح اور یقینا صحیح ہے کہ اسلام کو مٹانے کے لئے جو تلوار میان سے نکلی تھی اس کو واپس میان میں نہیں جانے دیا گیا یہاں تک کہ کفر کی دُنیوی اور مادی طاقت کو پاش پاش کر دیا گیا اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ دشمن اسلام جس وقت اپنے مادی ذرائع کے ساتھ ظلم کرتا اور خداتعالیٰ کے دین کو اپنے منہ کی بکواس سے روکنا چاہتا ہے اور اسلام کے جسد مطہر کو لوہے کی تلوار سے کاٹنا چاہتا ہے تو اس وقت نہ منہ کی پھونک اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا سکتی ہے نہ دین متین اسلام کی ترقی کو روک سکتی ہے اور نہ تلواروں کی دھار اسلام کے روحانی نور کو مٹا سکتی ہے۔
پس اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔ لیکن اسلام تلوار کے زور سے مٹایا بھی نہیں جا سکا۔ یہ ایک حقیقت ہے اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی انکار کرے تو وہ ان لوگوں سے جا کر پوچھے جنہوں نے تلوار یا دوسری مادی طاقتوں سے اسلام کو مٹانا چاہا تھا۔ اُنہوں نے کن مادی ذرائع کو مذہب کے مقابلے پر کھڑا کیا تھا اور کہاں گئیں ان کی وہ تلواریں جن کے ذریعہ بزعم خویش اُنہوں نے اسلام کو مٹانا چاہا تھا۔
پس میں جماعت کے دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم بھی خدا کے سپاہی بنو۔ جہاد اکبر میں تم اپنی محنتوں کو انتہا تک پہنچاؤ۔ اور اپنی محنتوں کو روزانہ زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے لئے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو احسان فی العمل کے حکم میں جو ہدایت دی گئی ہے اس کے مطابق کام کرتے ہوئے ان کو آگے سے آگے لے جاؤ۔ پھر جب تم اصلاح نفس کر لو گے پھر جب تم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنے سینوں کو قرآنی انوار سے بھر لو گے۔ تمہاری زبانیں جب بولتے وقت اس ہوا میں آواز کی لہریں پیدا کریں گی تو وہ محض آواز کی لہریں نہ ہوں گی بلکہ ان لہروں کے ساتھ قرآن کریم کے نہایت ہی اچھے اور عمدہ عطر کی خوشبو بھی دُنیا کی طرف جائے گی۔
غرض اس جہاد کبیر میں ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہئے تاکہ قرآن کریم کی عظمت دلوں میں بیٹھ جائے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جوا علیٰ مقام اور بلند ترین مرتبہ ہے، دُنیا اس سے آگاہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دیا جائے۔
پس دوست اس اہم اور بابرکت کام کے لئے انتہائی کوشش کریں ورنہ یہ جہاد جہاد کبیر نہیں ہو گا۔ اس میں ہماری پوری کوشش صرف ہونی چاہئے۔ اگر دو۲ فی صد کمی رہ گئی تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک جہاد نہیں ہو گا۔ عربی لغت کے لحاظ سے بھی جہاد نہیں ہوگا۔ اسلامی اصطلاح کے لحاظ سے جہاد نہیں ہو گا۔ اگر دُنیا یہ سمجھے کہ یہ غریب، بے کس اور بے سہارا جماعت ہے۔ اس کے پاس مادی سامان نہیں ہیں۔ اس لئے مادی سامانوں کے ساتھ ہم اسلام کی اس فوج کو مٹا سکتے ہیں تو یہ اُن کی بڑی غلطی ہو گی۔ اگر وہ عملاً ایسا کرنا چاہیں تو محض خدائے قادر وتوانا پر بھروسہ رکھ کر، محض اس کی طاقتوں پر کامل یقین کر کے اس کی قدرتوں کا عرفان رکھتے ہوئے اور دعاؤں کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کر کے دُنیا کو یہ نظارہ دکھا دو کہ مادی طاقتیں الہٰی منصوبوں کو کبھی پاش پاش نہیں کر سکتیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا منصوبہ اور تدبیر ہی ہے جو ظلمات اور شیطانی منصوبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیتی ہے۔
یہ تو ایک ذیلی چیز تھی۔ میرا اصل مضمون محنت ہے۔ہماری محنت یعنی ایک احمدی مسلمان کی محنت اور ایک اس شخص کی محنت میں جو اسلام پر ایمان نہیں لاتا زمین وآسمان کا فرق ہونا چاہئے۔ محنت کو اپنی شدت میں بھی اور وسعت میں بھی اور اپنے اثر میں بھی انتہاء تک پہنچانا چاہئے ہر کام ایک ہی وار میں مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ دُنیا کے اکثر کام مرحلے وار مکمل ہوتے ہیں۔ دُنیا میں ایسے لوگوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے جو محنت کر کے آہستہ آہستہ ترقی کرتے اور اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں مسلمان کی یہی شان نظر آتی ہے کہ جب وہ کوئی کام شروع کرتا ہے تو اسے انتہا تک پہنچاتا ہے جس طرح خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے انجام بخیر ہونے کے لئے دُعا کرو اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا سے یہ بھی دُعا کرتے رہو کہ تمہارے ہر فعل کا انجام بخیر ہو تم اسے کامیابی کی آخری حد تک پہنچا سکو۔
اس وقت دُنیا کے ترقی پذیر ملک یعنی جو آہستہ آہستہ ترقی کی طرف جا رہے ہیں اُن میں ایک بنیادی خامی یہ نظر آتی ہے کہ وہ کام شروع تو کر دیتے ہیں لیکن اسے انتہا تک نہیں پہنچاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کی ۴۰ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ بعض کی ۸۰ فی صد محنت ضائع ہو جاتی ہے بعض کی ۹۰ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض ملک تو ایسے بھی ہیں جن کی ۹۹ فی صد محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ آپ باہر نکلا کریں اور دیکھا کریں کہ کس طرح محنت رائیگاں جاتی ہے۔ مثلا ایک سٹرک اسلام آباد سے بننی شروع ہوئی اس کا دوسرا حصہ خانپور سے بننا شروع ہو گیا دونوں طرف چند میل تک سڑک بنی مگر بیچ کے کئی میل ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ہم نے یہ منصوبہ بدل دیا ہے۔ بھلا تمہیں کس احمق نے کہا تھا کہ تم یہ منصوبہ بناؤ اور خواہ مخواہ قوم کے پیسے ضائع کرو۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ہر کام میں کم وبیش یہی نظر آتا ہے کہ کام شروع کر دیتے ہیںمگر انتہا تک نہیں پہنچاتے۔ اس کی دو صورتیں بنتی ہیں ایک یہ کہ کلی ناکامی دوسرے یہ کہ وقتی ناکامی ہوتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں محنت اپنی انتہا کو نہیں پہنچتی۔ وقتی ناکامی سے میری مراد یہ ہے کہ جو کام دس دن میں ہو سکتا تھا اُسے مکمل کرنے میں چار مہینے لگا دیتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے ناظر صاحب امور عامہ اور ٹھیکیدار صاحب جنہوں نے ربوہ کی سڑکیں بنانی شروع کی ہیں دونوں اس بات کے ذمہ وار ہیں کہ جتنے وقت کے اندر یہ بننی چاہئے تھیں اس میں نہیں بن سکیں۔ کبھی یہ بہانہ ہے کہ لُک گرم کرنے میں ایندھن زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر بعد میں تم نے یہ سوچنا تھا تو پہلے ٹھیکہ ہی کیوں لیا تھا۔ پھر یہ کہہ دیا کہ اب اتنی گرمی ہے کہ ٹھیک طرح سے کام نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ ربوہ کا موسم تو بڑی جلد بدلتارہتا ہے۔ آج سردی ہے تو کل گرمی ہو جاتی ہے۔ اور لُو لگنے لگ جاتی ہے۔ غرض کبھی کوئی بہانہ کر دیا جاتا ہے اور کبھی کوئی عذر پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ طریق کار نہ جہاد کے معنوں میں شامل ہے اور نہ عملاً حسنًاکے معنے میں شامل ہے۔ ہمیں دُنیا کے لئے ایک مثال بننا چاہئے مگر اس میں ہمارا ایک اپنا ادارہ ملوث ہے۔ ایسی صورت میں دوستوں کو ٹوکنا چاہئے کیونکہ کسی ناظر کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ غلطی کرے اور پھر بھی اسے کچھ نہ کہا جائے۔ جو عوام سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں اُن میں اگر کوئی ناظر غلطی کرتا ہے تو بڑے ادب کے ساتھ اس کو یہ کہنا چاہئے کہ آپ یہ کیا حرکت کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بدتمیزی نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس طرح انسان کے نفس پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے اور یہ جماعت احمدیہ کے اجتماعی عرفان ذات باری کے خلاف ہے، ایک انفرادی عرفان ہوتا ہے اور ایک اجتماعی۔ اجتماعی عرفان کا مطلب یہ ہے کہ زید اور بکر کا عرفان خالد اور عمر سے مثلاً بیس گنا زیادہ ہے وہ اپنے اجتماعی واقعات بتاتے ہیں۔ دوسروں کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔ لیکن سماع ہوتا ہے۔ اس سے بھی ایمان میں تازگی اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔
اب یہ جو جماعت احمدیہ کا اجتماعی عرفان ہے اس کے مقابلہ میں ہمارا یہ عزم ہونا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے جو جہاد کا حکم دیا ہے اس کے مطابق خدا کی راہ میں اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچانا ہے۔ اب اگر کوئی کام اس کے خلاف ہوتا ہے تو یہ جماعت کی بدنامی کا باعث ہے۔ مَیں تو پچھلے مہینے کڑھتا رہا ہوں کہ ہماری ایک نظارت نے ہمارے اوپر ایک دھبہ لگا دیا ہے۔ اس قسم کی حرکتیں تو نہیں چلنی چاہئیں۔ وہ سمجھتے ہیں ہم آرام سے بیٹھے ہیں مگر ہم انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ نہ میں انہیں بیٹھنے دوں گا اور نہ آپ ان کو بیٹھنے دیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ اگر کہیں کوئی غلطی دیکھیں تو ذمہ وار آدمی کو جا کر پکڑیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے کان سے جاکر پکڑیں اور ادب واحترام کے ساتھ چار پانچ آدمی جا کر کہیں کہ سڑک کو اس وقت تک مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر ابھی تک کیوں تیار نہیں ہوئی؟
میں نے ایبٹ آباد جانے سے پہلے اپنے دفتر سے کہا کہ ناظر امور عامہ کو روزانہ ایک خط لکھتے رہو کہ سڑک کیوں بننی شروع نہیں ہوئی؟ اُنہوں نے بچنے کے لئے جواب لکھنے کی بجائے مجھ سے ملاقات کے دوران کہا کہ دراصل یہ وجہ ہو گئی ہے اور وہ وجہ ہو گئی ہے اس لئے کام شروع نہیں ہو سکا۔ یہ سب بچنے کے لئے جھوٹے بہانے تھے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب پاس کھڑے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی اس EXPLANATIONکو سُن کر خطوط بند نہیں ہوں گے اس لئے آپ ان کو خط لکھتے رہیں جب تک یہ کام شروع نہ کر لیں۔ اب یہ تو نہیں کہ ان پر کوئی سختی کی گئی۔ صرف روزانہ یاد دہانی کروائی جاتی رہی۔ اس طرح اگر چار پانچ آدمی روزانہ جا کر بڑے پیار سے ناظر صاحب امور عامہ سے یہ کہتے ہیں کہ جناب آپ کو خداتعالیٰ نے سلسلہ کے بڑے اہم کام کرنے کی توفیق دی ہے۔ ہم آپ کو
(الذاریات:۵۶)
کی رُو سے یاد دہانی کرانے آئے ہیں۔ جو کام آپ کروا رہے ہیں اس کی رفتار بڑی سست ہے اس کے اندر چستی پیدا ہونی چاہئے۔
یہ یاد دہانی کرانے کا نسخہ میں تو بڑی دیر سے استعمال کر رہا ہوں۔ قادیان کے زمانہ کی بات ہے۔ خدام الاحمدیہ کی بیرونی مجالس جو ماہانہ رپورٹیں نہیں بھجواتی تھیں ان میں سے مثلاً پچاس کو میں نے چُن لیا اور دفتر سے کہا پہلے ہر پندرہ دن کے بعد یاد دہانی کراؤ اس پر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ہر ہفتہ کے بعد, پھر ہفتہ میں دو دفعہ یاددہانیاں کراؤ۔ اگر اس پر بھی ان کو ہوش نہ آئے تو پھر روزانہ یاد دہانی کراؤ اور یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ان کو ہوش نہ آجائے۔ مَیں نے دیکھا کہ کئی قائدین میرے پاس آکر رو پڑے کہ خدا کیلئے ہمیں لکھنا بند کردیں۔ ہم آئندہ سستی نہیں کریںگے۔ کسی جگہ جب متواتر خطوط جاتے ہیں تو اصلی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔وہاں کے سب لوگ اصل حقیقت کو پا جاتے ہیں۔
پس (الذاریات:۵۶)کی رو سے یاددہانی کرانا کسی فرد واحد ہی کے لئے نفع مند نہیںہے بلکہ یہ جماعت مومنین کے لئے بھی نفع مند چیز ہے اس سے ہرکام میں چستی پیدا ہو جاتی ہے۔
بہرحال ہم احمدی مسلمان ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتے اور جانتے ہیںکہ مجاہدہ (جہاد اور مجاہدہ ایک ہی مصدر سے نکلے ہیں) کی جو تعلیم دی گئی ہے اور جسے حُسن فی العمل کہہ کر اور مضبوط کر دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی محنت اور علم وعمل کے اعتبار سے حسن و احسان کا لطیف امتزاج ہمارا معیار ہے۔اس سے ہم نے پیچھے نہیں ہٹنا۔ ہم نے دُنیا کے لئے ایک نمونہ بننا ہے۔ خصوصاً اس دُنیا کے لئے جو ترقی پذیر تو ہے مگر جوں کی چال چل رہی ہے۔
میں نے چینی معاشرہ کے متعلق بڑا غور کیا ہے روحانیت کا تو خانہ خالی ہے اس کو چھوڑ دیں اس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے وجود کا ایک حصہ بالکل کمزور ہے۔ لیکن اُن کا جو دُنیوی اور مادی حصہ ہے مثلاً جسمانی اور ذہنی طور پر اور ظاہری دُنیوی اخلاق کے لحاظ سے اُن کا معیار بہت بلند ہے۔ اب تو روس کے برخلاف چین نے اخلاقی اقدار کو بھی اپنا لیا ہے۔ غرض انتہائی طور پر محنت کرنا چینی معاشرہ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ ایک احمدی مسلمان کو اُن سے بھی زیادہ محنت کرنی چاہئے۔ اُن کے مقابلے میں ہمارے سامنے محنت کا ایک زائد میدان ہے اور یہ روحانی میدان ہے۔ یہی اصل میدان ہے۔ یہ چھت ہے دوسری چیزیں ستون ہیں۔ لوگوں نے یہ ستون تو بنا لئے مگر ہم نے ان ستونوں پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ان کے اوپر چھت بھی بنانی ہے۔ چونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی منشاء کے مطابق دُنیا کے ہر نفس کے اندر روحانی اقدار قائم کرنی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی قوتیں، ذہنی استعدادیں اور اخلاقی صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں تاکہ روحانی چھت بنا سکیں جو حفاظت کا ذریعہ بنے۔ بالکل اسی طرح جس طرح یہ جسمانی آسمان بہت ساری جسمانی حفاظتوں اور بالواسطہ روحانی حفاظتوں کا سامان پیدا کرتا ہے، روحانی استعدادوں کے کمال پر مشتمل روحانی چھت سارے افراد بلکہ تمام بنی نوع انسان کو ہر قسم کی تباہی سے (جس میں جسمانی تباہی بھی شامل ہے) محفوظ رکھتی ہے۔
بہرحال ہمیں چینیوں سے زیادہ کام کرنا ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے ایک زائد میدان عمل ہے۔ جو ان کے لئے نہیں ہے۔ اس طرح دوسرے شعبوں میں بھی ہم نے ان سے کم کام نہیں کرنا بلکہ اُن سے زیادہ کام کرنا ہے۔ ہمارے ہر کام میں زیادہ حُسن ہونا چاہئے۔
ہمارے علم وعمل میں زیادہ حسن واحسان پایا جانا چاہئے۔ اس کے نتائج ہر اعتبار سے اچھے نکلنے چاہئیں۔ بنی نوع انسان جہاں جہاں بستے ہیں ان کی خیر خواہی اور بھلائی کے سامان ہماری کوششوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں۔ ان کے لئے دُکھ اور پریشانی کا سامان پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اُس رنگ میں محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس رنگ میں وہ چاہتا ہے کہ ہم محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق بخشے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو روز بروز ترقی دیتے چلے جانے میں کامیاب ہو جائیں، ہماری محنت ہر روز پہلے کی نسبت زیادہ شدت اور وسعت اختیار کر جائے۔ ہمارے سب کاموں کے نتائج پہلے سے بڑھ کر شاندار نکلیں۔اللہ تعالیٰ ہی کے فضل اور اس کی توفیق سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم تو عاجز بندے ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۶)
ززز
فتنہ و فساد اسلامی شریعت اور فطرت صحیحہ
کے سراسر خلاف ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس ۔ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
قرآن عظیم کی پیشنگوئیوں کے مطابق ہر سُو اور ہر طرف بڑا ہی فتنہ اور فساد پھیلا ہوا ہے۔ گھیرائو اور جلائو، توڑو اور پھوڑو، مارو اور پیٹو کا یہ مظاہرہ صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں ہے بلکہ امریکہ میں بھی ہے بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ بعض ملک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس رحجان کو سختی کے ساتھ روکا ہے تاہم یہ فساد اس زمانے کا فیشن بن چکا ہے۔
غرض قرآن کریم نے اس زمانے کے متعلق یہی خبر دی تھی اور بتایا تھا کہ اسے اسلامی شریعت اور انسان کی فطرت صحیحہ پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(البقرۃ:۲۰۶) اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اس نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مفسد یعنی فساد کرنے والے آدمی کو پسند نہیںکرتا۔ اس عالمین میں صفات باری کے جو جلوے انسان کے لئے ظاہر ہو رہے ہیں۔ فساد ان سے متضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلووں اور فساد کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔
چنانچہ عربی کی کوئی لغت دیکھیں بعض جگہ علماء صرف اتنا لکھ دیں گے کہ فساد ضد الصلاح اور صلاح ضد الفساد ہے۔ بہرحال یہ دو متضاد الفاظ ہیں فساد صلاح کے بالکل متضاد چیز ہے اور صلاح فساد سے بالکل متضاد چیز ہے۔ چنانچہ امام راغبؒ نے مفردات میں اصلح کے معنے یہ لکھے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اس کا فاعل ہو اور انسان اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں۔ خَلَقَہٗ صَالِحًا یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدائش کے وقت قوت اور اہلیت کے لحاظ سے صالح بنایا ہے۔ اسے وہ تمام استعدادیں دی گئی ہیں جو ایک صالح آدمی میں ہونی چاہئیں۔ پھر ’’صالح‘‘ کے معنے یہ لکھے ہیں کہ جو شخص حقوق کی ادائیگی کی اہلیت رکھتا ہو اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنے حقوق اور واجبات کو عملاً ادا بھی کر رہا ہو۔ پس ایسے شخص کو عربی میں ’’صالح‘‘ کہتے ہیں اور یہ معنے ’’فساد‘‘ کے الٹ ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور استعدادیں دے کر پیدا کیا ہے اوراس میں یہ اہلیت پیدا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ حقوق کو وہ ادا کر سکے۔ پھر حقوق کو ادا کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے یعنی نہ صرف اہلیت پیدا کی گئی بلکہ اس کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ تم نے اس اس طرح اپنے حقوق کو ادا کرنا ہے۔ چنانچہ اسلامی شریعت نے حقوق کی ادائیگی کے متعلق مفصل احکام بیان کئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ حقوق کی ادائیگی کے راستہ میں جو روکیں پیدا ہو سکتی تھیں۔ ان کو دور کرنے کے لئے بھی احکام نازل کئے گئے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے انسان کو صالح پیدا کیا ہے اور میں نے اسے وہ تمام طاقتیں، قوتیں، استعدادیں اور صلاحیتیں دے دی ہیں۔ جن کی اسے ان حقوق کی ادائیگی کے لئے ضرورت تھی۔ جن کو میں نے اس کے اوپر عائد کیا ہے اور جن کی ادائیگی واجب قرار دی ہے مثلاً انسان کے اپنے نفس کے حقوق کے علاوہ اس پر دوسروں کے حقوق بھی واجب ہیں۔ ان سب حقوق کی ادائیگی کے لئے جس جس چیز کی انسان کو ضرورت ہے وہ اسے دے دی گئی ہے۔ غرض (الروّم: ۳۱) کی رو سے ہماری سب صلاحیتیں اصولی طور پر اس حکم کی بجا آواری کے لئے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنیں۔ یہ ایک بڑا لمبا مضمون ہے آپ اس کے مختلف حصّوں کے متعلق اکثر سنتے رہتے ہیں۔
غرض نوعِ انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے۔ اگر نوعِ انسان کا کوئی فرد اسکے الٹ چلے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس سے پیار نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسد سے پیار نہیں کرتا۔ اس واسطے کہ انسانی پیدائش کی جو غرض و غایت ہے مفسد اس کے الٹ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیدائشی طور پر اسے صالح بنایا تھا۔ مگر بڑے ہو کر اس نے اس سے متضاد صفات اپنے اندر پیدا کیں یعنی ایسی راہوں کو اختیار کیا جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں ادا نہیں ہوتے۔ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اس عظیم شریعت سے منہ پھیر لیا جس نے انسان کے ہر قسم کے حقوق قائم کئے اور پھر یہ بھی بتایا کہ ان حقوق کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر پوری صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ فرمایا ہے کہ جو آدمی مفسد ہے۔ اس کے اعمال، اس کی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ صحیح معنی میں کامیابی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ فساد برپا کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ایک مفسد کے اعمال کو ان کے نتیجہ کے لحاظ سے صالح قرار نہیں دیتا جو صالح اعمال کا نتیجہ نکلتا ہے وہ مفسد کے اعمال کا نتیجہ نہیں نکلتا۔ جو آدمی خداتعالیٰ اور اس کی صفات سے دور بھاگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتا یعنی جو کام کرنا چاہئے تھا وہ اس نے نہیں کیا اور جو نہیں کرنا چاہئے تھا وہ اس نے کیا تو گو ظاہری اور وقتی طور پر لوگ دھوکا کھاجاتے ہیں مگر حقیقتاً اس کے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ مثلاً ایک چور ہے۔ وہ چوری کرکے آتا ہے اگر وہ صبح پکڑا جائے تو رات کی روٹی تو اس نے اپنے مطلب کے مطابق خوب عیش سے کھائی۔ مگر کیا یہ بھی کوئی کامیابی ہے کہ ایک وقت کی روٹی کھا لی اور اگلے روز ہتھکڑیاں لگ گئیں اور جیل بھیج دیئے گئے یا کہیں ڈاکہ مارا اور ڈکیتی کے دوران قتل ہو گئے یا اس نے اس ناپائیدار اور بے وفا دنیا میں دنیوی طور پر حظ اور مسرت حاصل کر لی لیکن اُخروی زندگی میں لمبے عرصے کی جہنم سہیڑ لی۔ یہ تو کوئی کامیابی نہیں کم از کم ایک سچے احمدی مسلمان کے لئے تو کوئی کامیابی نہیں ہے۔ ایک عقلمند کے لئے بھی یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی عقلمند آدمی اگر ہم اسے اُخروی زندگی کا قائل کر سکیں تو وہ بھی یہ نہیں کہے گا کہ ایک ایسا فعل جس کے نتیجہ میں چند روزہ تکلیفیں اٹھانے کے بعد ابدی لذتوں اور سرور کا سامان پیدا ہو، وہ اس فعل سے برا ہے جس کے نتیجہ میں چند دن اس کو لذت اور سرور کے ملیں اور پھر ابدی مصیبت، دکھ درد اور بے چینی میں اس کی زندگی گذرے یعنی اگر اُخروی زندگی ہے اورہمارے نزدیک تو یقینا ہے تو پھر ہر عقلمند انسان یہی کہے گا کہ پہلی چیز بہرحال اچھی ہے۔ ابدی مسرتوں کے حصول کے لئے چند روزہ تکالیف کا برداشت کرلینا بہرصورت اچھا ہے۔ بجائے اس کے انسان اس دنیا کی چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھا لے اور پھر ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے غضب کا مورد بن کر جہنم کی آگ میں جلتا رہے اس سے بہتر ہے کہ انسان اس دنیا کے مصائب برداشت کر لے اور فتنہ و فساد سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ جائے۔
پس مذہباً بھی انسانی فطرت کے لحاظ سے بھی اور عقلاً بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی صالح بنا رہے تو اچھا ہے کیونکہ جہاں تک ہماری عقل کا تعلق ہے یہ تو متعلقات کے مطابق نتیجہ نکالتی ہے مثلاً اگر یہ ہے اور یہ ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ دو اور دو جمع کئے جائیں تو نتیجہ چار نکلتا ہے۔ اس کا آٹھ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ پس عقلاً بھی یہی درست ہے کہ انسان کی صالحیت ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ اگر کوئی مفسد بن جائے اور عارضی اور وقتی طور پر اسے بظاہر کچھ فائدہ بھی پہنچ جائے تو یہ دراصل اس کی کامیابی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مفسدوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ صالح اعمال سمجھ کر یا بنا کر ویسا نتیجہ نہیں نکالا کرتا جیسا صالح اعمال کا نتیجہ نکالتا ہے۔ پس مفسد لوگ حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہوتے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فساد کرنے سے منع فرمایا کیونکہ فساد صلاح کے متضاد ہے۔ صلاح کے معنے ہوتے ہیں حقوق کی ادائیگی کی اہلیت کا ہونا، جیسا کہ فساد مسخ شدہ فطرت کو مستلزم ہے اور ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ حقوق کی ادائیگی کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس کے اعمال کے کامیاب نتائج نکالتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کو نہیں مانتے اور خداتعالیٰ کی اس نصیحت پر کہ فساد نہیں کرنا اس وقت عمل پیرا ہو کر ترقی کر گئے مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں وہ اس کی نصیحت کو بھلا بیٹھے ہیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
مجھے کچھ چکر آتے ہیں اس لئے میں اس مضمون کی مختصراً تمہید ہی آج بیان کر سکوں گا میں نے فساد کے معنے بتا دیئے ہیں۔ میں نے صلاح کے معنے بتا دیئے ہیں۔ جب ہم بہت ساری چیزیں اکٹھی سامنے رکھتے ہیں تو حقیقتاً اور انجام کار آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ فساد صلاح کی ضد ہے۔ صلاح کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کامظہر بننے کی اہلیت رکھنا اور فساد کے معنے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے سے نفرت کرنا۔ اس کے لئے کوشش بھی نہ کرنا بلکہ اس کے الٹ کوشش کرنا۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہمیں نظر آرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ یہ ہیں میری صفات تم ان کے مظہر بنو مثلاً صفت خالقیت ہے تم مختلف چیزیں ایجاد کرو تو اس کے مظہر بن جائو گے۔ سائنسدان جو کسی نہ کسی چیز کے موجد ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر ’’خالق‘‘ کی صفت کے مظہر بن رہے ہیں۔ مگر انسان حقیقی طور پر اس معنی میں تو خالق نہیں بن سکتا جس معنی میں اللہ تعالیٰ خالق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کا کوئی بھی مثل نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ انسانی عقل بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی تصور نہیں کر سکتی۔
بہرحال انسان اپنے دائرہ کے اندر خالق بھی بن سکتا ہے۔ رازق بھی بن سکتا ہے۔ وہ اپنے دائرہ کے اندر مالک بھی بن سکتا ہے رب بھی بن سکتا ہے وہ اپنے دائرہ استعداد کے مطابق رحمان بھی بن سکتا ہے اور رحیم بھی بن سکتا ہے انسان جب باپ بن جاتا ہے تو وہ ایک لحاظ سے رحمان بھی بن جاتا ہے۔ اس کا دو مہینے کا بچہ چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔ جب رات کو اٹھ اٹھ کر اس کے آرام اور دودھ کا انتظام کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ بچے کے کس عمل کی جزا دے رہا ہوتا ہے جس وقت وہ بچہ جوان ہوتا ہے اور عمل کرنا شروع کرتا ہے تو پھر وہ اس کے لئے رحیم بن جاتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے انسانی فطرت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ خدا کے نیک بندے اپنی اس فطرت کے مطالبے کو روحانی مطالبہ بنا کر اس پر عمل کر رہے ہوتے ہیں یعنی جو کام کرتے ہیں صفات باری کی پوری معرفت اور عرفان کے بعد کرتے ہیں ورنہ تو ایک دہریہ بھی اس فطرت سے مجبور ہو کر کبھی رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے اور کبھی رحیمیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے لیکن ایک کامل مومن اور ایک دہریہ کے ان صفات کے جلووں میں جو فطرت کے نتیجہ میں اس کے اور عرفان کے نتیجہ میں اس کے ظاہر ہو رہے ہیں بڑا فرق ہے۔
بہرحال فساد سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور یہ اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس طرح ایک تو انسان اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے خداتعالیٰ اس سے پیار نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی فلاح اور بہبود کے لئے جو اچھے اور نیک نتائج نکالنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں نکلتے مثلاً اگر مزدور کسی کارخانے کا گھیرائو کر لیتا ہے اور اس کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو جو اسکا مطلب اور مقصود تھا کہ اس کا معیار زندگی بڑھ جائے اس کا یہ فعل (یعنی توڑنے پھوڑنے) اس کی اس خواہش کی تکمیل میں ممد و معاون نہیں بن سکتا بلکہ نتیجہ اس کے اپنے ہی خلاف نکلتا ہے۔ کیونکہ اس طرح جب کارخانے بند ہو جائیں گے اور پیداوار نہیںہوگی تو مزدور کا معیار زندگی کیسے بڑھ جائے گا؟ پس توڑ پھوڑ کے نتیجہ میں یہ سمجھنا کہ معیار زندگی بڑھ جائے گا ایک سراسر نامعقول اور خلاف عقل بات ہے۔
یہ تو میرے مضمون کی تمہید ہے میں آئندہ انشاء اللہ تفصیل سے بتائوں گا کہ قرآن کریم نے اس مسئلے پر بڑا زور دیا ہے اور فساد کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ فسادی اور مفسد اپنے مفسدانہ اعمال کے نتیجہ میں محنت اور کام کو بھی اور ذرائع پیداوار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے خود اصولی طور پر ذرائع پیداوار بھی بتائے ہیں قرآن کریم کی یہی تو عظمت ہے کہ وہ ایسے اصول بتا دیتا ہے جس سے انسانی عقل آگے خود نتائج اخذ کر سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ ایک یا دو خطبات میں یہ مضمون ختم ہو جائے لوگ اسے پڑھیں تو شاید ان کی اصلاح ہو جائے اور قرآن کریم کی طرف ان کی توجہ پھر جائے تو وہ فساد سے بچنے اور اصلاح کی طرف لوٹنے کی کوشش کرنے لگ جائیں۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۳؍ اگست ۱۹۷۲ء صفحہ۳ تا۴)
ززز


فتنہ و فساد، ذرائع پیداوار اور خداداد استعدادوں اور طاقتوں
کو تباہ کرکے انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موردبنا دیتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍اگست ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
مَیں نے اس سے پہلے جو خطبہ دیا تھا اس میں مَیں نے بتایا تھا، اسلامی تعلیم نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ مَیں نے یہ بھی بتایا تھا کہ عربی زبان میں ’’فساد‘‘ کا لفظ ’’صلاح‘‘ کے مقابلے پر آتا ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں لفظ آپس میں متضاد ہیں۔
’’صلاح‘‘ کے لفظ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ انسانی حقوق و واجبات کو ادا کیاجائے اور حقوق و واجبات کی ادائیگی کی اہلیت بھی ہو۔ اس کے مقابلے میں ’’فساد‘‘ کے معنے یہ ہونگے کہ حقوق و واجبات کی اہلیت نہیں۔ یا اُنہیں جان بوجھ کر ادا نہیں کیا جا رہا۔ تاہم ’’اہلیت نہیں‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق واجب قرار دیا اور اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اہلیت تو رکھی تھی لیکن اس کی نشوونما نہیں ہو سکی اور نشوونما اس لئے نہیں ہو سکی کہ جس شخص کو وہ خداداد قوتیں ملی تھیں اس نے ان کی نشوونما کی طرف توجہ نہیں کی اور خود گناہگاربنا یا ماحول نے اسے نشوونما کا موقع نہیں دیا۔ اس کے لئے سامان میسر نہیں آسکے۔ اس لئے اس کی نشوونما نہیں ہو سکی۔
بہرحال ’’فساد‘‘ کے حقیقی اور بنیادی معنی ادائیگیٔ حقوق کی اہلیت کے فقدان نیز حقوق و واجبات کے ادا نہ کرنے کے ہوتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں ’’صلاح‘‘ کے معنی بنیادی طور پر یہ ہیں کہ حقوق و واجبات کے ادا کرنے کی اہلیت بھی ہو اور حقوق و واجبات ادا بھی کئے جائیں۔
غرض فساد اور صلاح کے معنوں پر میں نے پچھلے خطبہ میں بھی مختصراً روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا فساد کا وہ خوشکن اور حسین نتیجہ نہیں نکلتا جو صلاح کانکلتا ہے اور جو اس دنیا کو بھی جنت میں تبدیل کر دیتا ہے کیونکہ اگر انسانوں کے حقوق و واجبات ادا نہ ہوں۔ اگر انسان انسان کے حقوق پامال کر رہا ہو تو وہ جنت پیدا نہیں ہو سکتی جو اس صورت میں پیدا ہوتی ہے کہ جب ہر شخص کے جو بھی حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کو مل جائیں۔
پھر مَیں نے اپنے گذشتہ خطبہ میں یہ بھی بتایا تھا کہ فطرتی اہلیت یعنی وہ قوتیں اور استعدادیں جو انسان کو دی گئی ہیں وہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں۔ ’’صلاح‘‘ میں ہمیں صفات باری تعالیٰ کا عکس نظر آتا ہے۔ فساد اس کے الٹ ہے۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے پر آتا ہے، اس کے اعمال کا وہ نتیجہ تو نہیں ہو سکتا جو اس شخص کے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے جس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہریت کے جلوے دکھا رہے ہوں۔
چنانچہ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تمہیں دنیا میں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جو بظاہر بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ سیاست کے متعلق، سیاسی حقوق کے متعلق، معاشرہ میں حسن پیدا کرنے کے متعلق اور اقتصادی حقوق کو ادا کرنے کے متعلق بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں۔ جن میں حقیقت تھوڑی اور لفّاظی زیادہ ہوتی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اپنی ہر بات پر خداتعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہیں۔ وہ ہر ایک سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو! جس طرح ہماری زبان سے یہ باتیں نکل رہی ہیں اسی طرح ہمارا دل بھی خلوص سے پر ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ایسا شخص سخت جھگڑالو ہوتا ہے۔ یہ اس کی خصوصیت ہوتی ہے۔ یہ اس کی طبیعت ہوتی ہے جو اس کی لچھے دار تقریروں کے بعد ہر ایک کے سامنے ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس کوئی بھی شخص جو صلاح چاہتا ہے۔ وہ کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ صلاح خلوص اور ایثار پر مبنی ہوتی ہے۔ ایسا شخص دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی بھی دیتا ہے۔ کیونکہ اس قسم کے خلوص اور ایثار کے بغیر باہمی جھگڑے ختم نہیں ہوتے۔ مگر جو شخص جھگڑالو ہوتا ہے وہ ایثار کی جڑیں کاٹتا ہے۔ وہ دوسرے کی ہر بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتا ہے۔ کہنے والے کے ذہن میں وہ بات نہیں ہوتی مگر یہ اس کی بات کو نئے رنگ میں دوسرے لوگوں کے دماغ میں ڈال دیتا ہے۔ جس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو اور وہ جھگڑا کریں۔ اب یہ تو ظاہرہے کہ جھگڑے کے نتیجہ میں فساد ہوتا ہے۔ صلاح تو پیدا نہیں ہوتی۔
پس کی رو سے اس کا دعویٰ تو صلاح کا ہوتا ہے لیکن اس کے قول اورفعل کا تضاد نمایاں ہو کر سامنے آجاتاہے۔ گو بعض چیزیں تو لوگ اپنی منافقت کی وجہ سے چھپا لیتے ہیں۔ تاہم جو چیز چھپائے نہیںچھپتی۔ وہ ان کا ہونا ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں اور اس سے ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اب آج کل جو سیاسی فساد ہمارے ملک میں رونما ہے اگر آپ اسے غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے پس پردہ کی خصوصیات کارفرما ہیں۔ مثلاً ا اور ب دو سیاسی پارٹیاں ہیں ’’ ا ‘‘کہتی ہے ’’ب ‘‘ نے میرے خلاف یہ کہا ہے اور ’’ب ‘‘ ’’ا‘‘ کے خلاف الزام لگاتی ہے کہ تم نے جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے۔ چنانچہ جھگڑا کرنے کے لئے اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ جو شخص کے گروہ میں ہے وہ خواہ کتنا ہی کے زمرہ میں آجائے اور خواہ کتنی ہی چرب زبانی سے کام لے اور بظاہر بڑی ہی پسندیدہ باتیں کرے اور قسمیں کھا کھا کر کہے میں بڑا مخلص ہوں۔ ملک کا استحکام میرا مقصد ہے اور یہ ہے اور وہ ہے۔ یا وہ یہ کہے کہ ہم بھی دنیا میں غلبۂ اسلام چاہتے ہیں ، اسلامی معاشرہ کے لحاظ سے برسرِاقتدار جماعت کی طرح ہم بھی مساواتِ محمدی چاہتے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے بعد ذرا سی بات میں نہ وہ مساوات باقی رہتی ہے اور پھر جہاں تک انسان کے اقتصادی حقوق کا تعلق ہے نہ وہ حقوق کی ادائیگی باتی رہتی ہے۔ نہ وہ حب الوطنی باقی رہتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے استحکام کا خیال باقی رہتا ہے۔ وہ لڑائی شروع کر دیتا ہے کہتا ہے اچھا تمہارا مطلب یہ ہے یا جو تم نے فقرے کہے ہیں، اس میں تم نے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ کہنے والے کی بات کچھ اور ہوتی ہے مگر یہ اس میں سے اپنے مفسدانہ مطلب کی بات نکالتا ہے اور اسے گالی بنا لیتا ہے اور پھر اپنے حریف کو بغیر مطلب کے بے نقط گالیاں دینے لگ جاتاہے۔ ہمیں یعنی امت محمدیہ کے ان افراد کو جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خلوص پیداکیاہے اورجو اپنے دل میں غلبۂ اسلام کی تڑپ رکھتے ہیں اور ملکی اتحاد چاہتے ہیں اور نیکی اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ ہمارے دل میں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ کیا مسخرہ پن ہے۔ یہ کیا کھیل کھیلاجا رہا ہے۔ ایک طرف مذہب سے، دوسری طرف ملک سے، تیسری طرف معاشرہ سے اور چوتھی طرف اقتصادی حقوق کی ادائیگی سے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگ جن کی زبان بظاہر بہت میٹھی اور باتیں بڑی اچھی معلوم ہوں۔ اصولی طور پر وہ دعوے بھی بڑے کریں کہ ہم یہ ہیں، ہم وہ ہیں۔ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم وہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا شروع کر دیں یعنی ایک طرف زبان بڑی میٹھی بھی ہے اور دوسری طرف وہ تلوار کی تیز دھار بھی ہے۔ ایسا شخص اپنے دعویٰ میں سچا نہیں ہوتا۔ وہ عملاً فسادی ہوتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
یہ وہ لوگ ہیں کہ جس وقت ان کو کسی سیاسی جماعت کی قیادت ملے۔ (دراصل کے معنے صرف صدر مملکت یا بادشاہِ وقت کے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹی موٹی قیادت پر کا لفظ بولا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب بھی ان کو کسی قسم کے چھوٹے یابڑے دائرہ میں قیادت مل جائے) تو کے مصداق بن جاتے ہیں۔ ملک میں خوب دورے کرتے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں فساد اور بدامنی پیدا ہو۔
پھر فرمایا:-

آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے اقتصادی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی فرمائی ہے۔ مالک اور مزدور یا صاحب اقتدار اور حزب اختلاف کے جھگڑوں کی نوعیت کو اس چھوٹے سے فقرے میں بیان کر دیا ہے۔
دراصل میرے پچھلے خطبہ کی تمہید اسی فقرے کے معانی اور مفہوم کو بیان کرنے کے لئے تھی۔ اس حصۂ آیت یعنی کے تینوں لفظ بڑے اہم ہیں۔ ان کے معانی اگر ہمارے ذہن میں حاضر ہوں تو پھر اس فقرے کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔
عربی زبان میں لفظ اَھْلَکَ یا اَلْھَلَاکُ کے تین معنے بیان ہوئے ہیں۔ یہ معنے میں نے مفردات امام راغبؒ سے لئے ہیں۔ اس لفظ کے ایک معنے انہوں نے ’’کسی چیز کا انسان کے ہاتھ سے نکل جانا‘‘ کے کئے ہیں۔ اگرچہ وہ چیز تلف نہیں ہوتی، ضائع نہیں ہوتی لیکن وہ ایک انسان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ تو اس معنی میں بعض دفعہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز ہلاک ہو گئی یا مثلاً یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی دولت میں سے اس قدر سونا ہلاک ہوگیا۔ عربی محاورہ میںا س کے معنے ہونگے رات کو چور آیا اور سونا چرا کر لے گیا۔ اگرچہ ایک انسان کے ہاتھ سے تو وہ سونا نکل گیا لیکن سونا تو ضائع نہیں ہوا۔ وہ تو اپنی شکل میں موجود ہے۔ اور نہ ہی سونے کی خصوصیت میں کوئی فرق پڑا۔ وہ بازار میں مارکیٹ کے نرخ پر بک جائے گا اور چور کو اس کے پیسے مل جائیں گے یا کسی سنار کے ہاتھ میں یہ مال حرام چلا جائے گا اور وہ اس سے کسی کی بیوی یا لڑکی کے لئے زیور بنا دے گا۔ غرض سونا چونکہ ایک بڑی قیمتی دھات ہے۔ اس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی قیمت میں اس قسم کی ہلاکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب یہ چوری ہو جاتا ہے تو گویا جو اس کا مالک تھا اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کا جو حق دار نہیں تھا اس کے پاس چلا گیا۔ پس اس معنی میں عربی زبان میں اَھْلَکَ یا اَلْھَلَاکُ کا لفظ بولا جاتاہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز مثلاً سونا ہے وہ ضائع نہیں ہوا لیکن ایک آدمی کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا گیا۔ جس کے ہاتھ سے نکلا اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کا سونا ہلاک ہو گیا۔
اس کے دوسرے معنے ہیں ہَلَاکُ الشَّئِْ بِاِسْتِحَالَۃٍ وَ فَسَادٍ۔ یعنی کوئی چیز خراب ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔ مثلاً کھانے کے متعلق جب عربی میں یہ کہیں گے کہ ’’ھَلَکَ الطَّعَامُ ‘‘ تو اس کے معنے ہوں گے کھانا خراب ہو گیا ہمارے جلسہ سالانہ پر صبح دال کی دیگیں پکتی ہیں بعض دفعہ اگر وہ بچ جائیں تو دوسرے وقت تک وہ ابل رہی ہوتی ہیں ایسے موقع پر عربی میں کہیں گے ھَلَکَ الطَّعَامُ کھانا ہلاک ہو گیا یعنی خراب ہو گیا۔
پھر اِسْتِحَالَہ کے ایک معنی تَحَوَّلَ مِنْ حَالٍ اِلٰی اٰخِرٍ کسی چیز کی حالت بدل کر دوسری حالت میں آگئی۔ دراصل ’’ھَلَکَ الطَّعَامُ ‘‘ کے بنیادی معنی بھی یہی ہیں تاہم اس کی شکل تھوڑی سی بدلی ہوئی ہے۔ اِسْتِحَالَہ کے دوسرے معنے ’صَارَ مَحَالًا‘ کے ہوتے ہیں اور محال کے معنے باطل کے ہیں یعنی ایسی چیز جو ہر جہت سے فساد کی مقتضی ہو عربی زبان میں محال کہلاتی ہے۔
اَھْلَکَ (یا اَلْھَلَاکُ) کے تیسرے معنے موت کے ہوتے ہیں۔ یعنی انسانی زندگی میں بنیادی تبدیلی کا رونما ہونا ہم تو روح کو زندہ سمجھتے ہیں ہم روح اور مادی اجزاء کے ملاپ کو دنیوی زندگی سمجھتے ہیں۔ اس ملاپ کے نتیجہ میں ایک نئی چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان ہے جسے اس دنیا کا عقل اور شعور دیا گیا ہے۔ جب انسان کی یہ کیفیت باقی نہ رہے تو اس پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ البتہ جسم کے ذرے بالکل ضائع نہیں ہو جاتے یہ موت والی ہلاکت بھی ایک خاص معنی میں استعمال ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اسی واسطے امام راغب ؒنے اس کو علیحدہ تیسری شکل میں ہمارے سامنے رکھاہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ صلاح کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں۔ یہ درحقیقت دنیا میں فساد کرناچاہتے ہیں۔ یہ ہر قسم کی (ہرسہ معنی میں) ہلاکت کی تدبیریں کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جن لوگوں کا کسی چیز کا حق بنتاہے ایسے سامان پیدا کر دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں وہ چیز نہ رہے یعنی وہ چیز تو قائم رہے مگر جس کا اس پر حق تھا اس کے پاس نہ رہے دوسرے یہ کہ جو چیز ان کے پاس ہو اس کے اندر خرابی پیدا ہو جائے جیسا کہ مثلاً (ذرا سوچنے کی بات ہے) بلیک مارکیٹنگ ہے۔ یہ کھانے میں پیدا ہونے والی خرابی تو نہیں لیکن انسان کے ہاتھ میں مثلاً نقدی ہے (اس میں یہ خرابی پیدا ہو گئی کہ پہلے ایک روپے میں مثلاً تین سیر آٹا ملتا تھا مگر بلیک مارکیٹنگ کے نتیجہ میں اسی روپے سے ڈیڑھ سیر آٹا ملتا ہے۔ پس اس روپے کا جو استعمال اور استفادہ ہے اس کے اندر خرابی پیدا ہوگئی۔ گو یہ دال کے ابلنے والی خرابی تو نہیں ہے مگر روپے کی قدر یا قیمت میں خرابی کے مترادف ضرور ہے۔
پھر یہ کہ ایسی صورت میں صلاح کی بجائے فساد کی حالت پیدا ہو جاتی ہے مثلاً یہ کارخانوں کی جو تالہ بندی ہے اس سے بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس سے صلاح کی حالت فساد کی حالت میں بدل جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مزدوروں کو کام کرنے کی جو قوتیں اور طاقتیں عطا فرمائی ہیں کارخانے دار ان کا وہ حق ادا نہیں کر سکتے۔ مگر جتنا وہ کام کر سکتے تھے تالہ بندی کے نتیجہ میں اس کے دروازے بھی الٹے بند ہو گئے۔ دوسرا کام ان کو کوئی ملا نہیں تو ظاہرہے وہ خود بھوکے رہیں گے۔ ان کے بچے بھوکے رہیں گے جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ حالتِ صلاح کی بنیادی کیفیت یہ ہے کہ حقوق ادا ہوں لیکن جس مزدور کے اوپر تالہ بندی کے نتیجہ میں کام کا دروازہ بند کر دیا گیا تو ایک طرف اس کی طاقتوں اور قوتوں کی نشوونما رک گئی دوسری طرف اس کے حقوق کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ مفلوک الحال ہو گیا۔ پس ’’ھَلَاکُ الشَّئِْ بِاِسْتِحَالَۃٍ وَ فَسَادٍ کی رو سے صلاح یعنی امن کے حالات میں تالہ بندی کے نتیجہ میں فساد کی کیفیت پیدا کرنا ہلاکت ہے اور یہ عمل سراسر باطل ہے اور حق کے صریحاً خلاف ہے۔ اس سے باہمی طور پر ہم آہنگی نہیں بلکہ دوری پیدا ہو جاتی ہے۔
میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بنیادی طور پر استعدادیں بخشی ہیں اور اس دنیا کی ہر چیز کو استعدادوں کے ذریعہ استعمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کا نام ہم تسخیرِعالمین رکھتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ہم نے اس عالمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے دنیا کی ہر چیز کو تمہارا خادم بنا دیا ہے۔ تمہاری قوتوں سے اثر قبول کرنے کے لئے اس کائنات کی ہر چیز کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک خاصیت رکھ دی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ تم کوشش کرو اور ان سے فائدہ اٹھائو۔
اَھْلَکَ یا اَلْھَلَاکُ کے تیسرے معنے ’’موت‘‘ کے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب فساد ہوتا ہے تو مزدور مارا جاتا ہے اور مارا وہ جاتا ہے جو معصوم ہوتا ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں خواہ مخواہ زبان کا جھگڑا کھڑا کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ ہنگامے ہوئے جلوس نکالے گئے۔ اب جس وقت جلوس نکلتا ہے تو وہ بیچارا غریب مزدور جسے پانچ روپے دے کر کہا کہ جاکر جلوس نکالو یا کسی کے خلاف غلط باتیں بتا کر کہا کہ جاکر جلوس نکالو دراصل وہ گنہگار نہیں وہ تو دھوکا خوردہ اور فریب خوردہ ہے۔ گناہگار وہ ہیں جو غریب آدمیوں کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں۔ چنانچہ جب جلوس نکلتے ہیں تو مرتے ہیں تو بیچارے مزدور۔ جو لوگ انہیں دھوکا دیتے ہیں وہ پیچھے مزے سے بیٹھے ہوتے ہیں۔
پس یہ جو موت ہے یہ صریح طور پر فساد ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ بغیر حق کے کسی کی جان نہیں لینی۔ اس لئے ان بیچاروں کی جان لینے کا تو حق ہی نہیں بنتا لیکن ہنگامہ کھڑا کرکے شکل ایسی بنا دی کہ جان لینے والوں نے کہا کہ ان کو مارو۔ حالانکہ وہ فسادی نہیں ہوتے فسادی تو پیچھے کوئی اور دماغ ہے کوئی جیب ہے جس میں پیسے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ فسادی ہے۔ اس کے اوپر فساد کو دور کرنے والی تلوار چلنی چاہئے نہ کہ اس بیچارے معصوم پر جس کا دراصل قصور نہیں ہے کیونکہ وہ یا تو دھوکے میں آکر یا اپنی غربت کی وجہ سے یا پھر اس وجہ سے کہ پہلے اس کے حقوق ادا نہیں ہوئے جلوس میں شامل ہوتا ہے جس شخص کو اس کے حقوق مل چکے ہیں وہ پانچ روپے کی خاطر فساد نہیں کرے گا۔ وہ اتنی تھوڑی سی رقم کی خاطر اپنی موت کو دعوت نہیں دے گا۔ فساد کرنے پر وہی شخص آمادہ ہوگا جسے یا تو بہکایا، ورغلایا گیا ہو یا جس کے حقوق تلف کئے گئے ہوں اور اس کو اس حالت میں کر دیا گیا ہو کہ وہ فساد میں کود پڑے یعنی خداتعالیٰ نے اس کی جو حالت بنائی تھی اس کو بدل کر اس حالت میں کر دیا جائے کہ وہ مجبوراً پیسے لے کر فسادی گروہ میں شامل ہو جائے۔ اب یہ تو ظلم ہے کہ جنہوں نے دوہرا گناہ کیا وہ تو چھوڑ دیئے جائیں لیکن جو درحقیقت معصوم تھے وہ گولیوں کا نشانہ بن جائیں۔ ویسے ہم تو خداتعالیٰ کے عاجز بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے۔ اس کا علم کامل ہے وہ جانتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون نہیں ہے لیکن بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ایسے شخص کا بھی گناہ کا منشاء نہیں ہوتا بلکہ وہ دھوکے میں آجاتا ہے۔ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے دھوکے میں آگئے تھے یہ مزدور بیچارے بھی دھوکے میں آجاتے ہیں اور بعض اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بہرحال میں یُھْلِکَ کے یہ تین معنے ہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ اس وقت صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں کی حالت ہمیں نظر آتی ہے۔ قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے مطابق ہمیں ہر جگہ فتنہ و فساد دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مفسد ہے وہ ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ اردو میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے یا عربی زبان میں کہیں ’’اَھْلَکَ‘‘ تو اس کے تین معنے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ جن چیزوںپر ان کا (مزدور کا) حق تھا اور جو ان کو ملی تھیں وہ ان سے چھین لی جائیں اور وہ کسی اور کے پاس چلی جائیں۔ یہ معنے آج کی دنیا پر چسپاں ہوتے ہیں۔ دوسرے معنے کچھ تھوڑے سے اختلاف اور شاخوں کے ساتھ ’’تَحَوَّلَ مِنْ حَالٍ اِلٰی اٰخَر‘‘ اور ’’صَارَ محالًا‘‘ کے لحاظ سے یہ ہیں کہ مفسد ہلاکت کے اسباب پیدا کر دیتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ جن سے اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتا بلکہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تیسرے معنے موت کے ہیں۔ مفسد بے گناہوں کی موت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ غرض تینوں معنوں میں ہلاکت کا لفظ اس دنیا کے فساد کے ماحول پر چسپاں ہوتا ہے لیکن آگے ہلاکت کے بنیادی طور پر عقلاًاور مشاہدۃً دو مفعول بن سکتے ہیں ایک ’’حرث‘‘ کی ہلاکت اور دوسرے نسل کی ہلاکت۔ عربی زبان کے لحاظ سے حرث کے جو معنے ہیں اور جس رنگ میں اسے اس آیت میں رکھا گیا ہے اس سے ایک بڑا عجیب مفہوم پیدا ہوتا ہے اور درحقیقت یہ لفظ ایک وسیع معنوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ چنانچہ حرث کے معنی عربی زبان میں صرف کھیتی کے نہیں ہوتے۔ ویسے کھیتی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی جو محرو ث ہے اسے بھی حرث کہتے ہیں لیکن اس کے اصل معنے کھیتی کے نہیں ہوتے۔ اس کے اصل معنے مادی ذرائع پیداوار کے ہیں۔ جن کے اندر انسان کا اپنی محنت سے ایسی تبدیلیاں پیدا کرنا مقصود ہے کہ وہ انسان کی فلاح کے سامان کا ذریعہ بن جائیں تاہم یہ لفظ جب زمین میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں۔
’’ اِلْقَائُ الْبَذْرِ فِی الْاَرْضِ وَ تَھَیُّؤُھَا لِلزَّرْعِ‘‘
یعنی کھاد وغیرہ ڈال کر اور ہل وغیرہ چلا کر زمین کو کاشت کے قابل بنا دینا یعنی جو اس سے ہم نے پیداوار لینی ہے زمین کو اس کے قابل بنا دینا اسی طرح کھیتی کو یا کمائی کو جو ہم اس سے حاصل کرتے ہیں اس کو بھی حرث کہتے ہیں۔ تاہم اس کا اصل اور بنیادی مفہوم یہ ہے کہ مادی ذرائع کو اپنی کوشش کے نتیجہ میں اس قابل بنا دینا کہ اس سے ہم اپنی انفرادی اور خاندانی اور ملکی اور عالمگیر فلاح و بہبود کے سامان پیدا کر سکیں۔ یہ ہیں حرث کے اصل معنے۔ ویسے جب عربی میں ہم یہ کہتے ہیں کہ حَرَثَ نَاقَتَہٗ تو اس کے معنے ہوتے ہیں اِذَا اسْتَعْمَلَھَا یعنی اونٹنیوں کا استعمال کیا اور اونٹنیوں کا استعمال تو ان کی سواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اونٹ بڑا مفید جانور ہے۔ اس کا گوشت کھائیں تب فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی کھال کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی ہڈیوں کو مختلف کاموں میں استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کے دودھ کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے یا پھر اس پر سواری کریں خصوصاً خلوص نیت کے ساتھ حج کے لئے جائیں تب فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ ایک صحابی سے کسی نے پوچھا کہ فلاں موقع پر تم نے اپنی اونٹنیوں کا کیا کیا تھا۔ تو انہوں نے کہا حَرَثْنٰھا ہم نے ان کاموقع کے لحاظ سے استعمال کیا یعنی ان پر سواری کی۔
یہ سارے معنے امام راغب ؒ نے کئے ہیں نیز وہ لکھتے ہیں:-’’کَمَا أَنَّ بِالْاَرْضِ زَرْعٌ مَابِہٖ بَقَائُ اَشْخَاصِھِم‘‘
یعنی زمین مادی ذرائع پیداوار کی علامت ہے۔ سورج کی شعاعیں زمین کے اندر جذب ہونے کے بعد ہمارے کام آتی ہیں۔
زمین سے مراد یہ سارا کرۂ ارض اور اس کی ہوا وغیرہ ہے اسے قرآن کریم کی رو سے الارض کہا جاتا ہے اور یہ ذرائع پیداوار کی ایک علامت ہے۔ پس قرآن کریم نے زمین کو ذرائع پیداوار کی ایک علامت ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ ان معنوں کی رو سے حرث سے یہ مراد لی جائے گی کہ زمین سے ایسا کام لیا جائے جس سے انفرادی اور اجتماعی بقاء کے سامان پیدا ہو جائیں۔ اس کو اصل میں حرث کہتے ہیں۔ اب زمین سے کام لینے کا مطلب یہ ہے انسان کی جو جسمانی طاقتیں ہیں انکی کمال نشوونما کے لئے ذرائع پیداوار سے کام لیاجائے کیونکہ جب تک انسان کی جسمانی طاقتیںاپنے نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچتیں اس وقت تک دوسری صلاحیتیں اور استعدادیں مثلاً ذہنی،اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی نشوونما ممکن ہی نہیں جسمانی طاقت دوسری استعدادوں کے پنپنے کے لئے بنیاد کا کام دیتی ہے مثلاً انسانی جسم میں دماغ کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو ہم کہتے ہیںکہ یہ مجنون ہو گیا ہے۔ اس خاص قسم کی خرابی کے نتیجہ میں نہ وہ ذہنی نشوونما حاصل کر سکتا ہے نہ اخلاقی اور روحانی نشوونما حاصل کر سکتا ہے یا جب کوئی شخص لنگڑا ہو جائے یا کسی اور وجہ سے معذور ہو جائے تو وہ جسمانی طاقتوں کے نشوونما نہ پانے کی وجہ سے ذہنی اور اخلاقی استعدادوں کی نشوونما سے ایک حد تک محروم ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایسا شخص جہاد میں شامل نہیں ہو سکتا۔ وہ جہاد کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ جہاد میں شامل نہ ہو کر انسان صرف اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما ہی سے محروم نہیںہوا وہ ذہنی قوتوں کی نشوونما سے محروم ہو گیا۔
انگریزی کا محاورہ ہے You live to learn (یو لِو ٹو لرن) یعنی زندگی کا ہر مشاہدہ ہمارے لئے بڑا اہم ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ہمارے لئے معلم کے طور پر بنایا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے۔ اگر ہماری جسمانی طاقتیں کسی لحاظ سے ہمارے مشاہدات کو ایک حد تک محدود کر دیں تو ہماری ذہنی نشوونما اتنی وسیع نہیں ہو سکے گی جو دوسری صورتوں میں ممکن ہے۔
پس حرث کے معنے بنیادی طور پر یہ ہیں کہ بنیادی ذرائع پیداوار کو ایسے رنگ میں استعمال کرنا کہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنے نشوونما کے کمال کو پہنچ جائیں۔
جہاں تک نسل کی ہلاکت کا سوال ہے۔ نسل کے معنے ولد یا اولاد ہی کے نہیں ہوتے نسل کے بنیادی اور حقیقی معنے جس سے آگے شاخوں کی طرح دوسرے معنے نکلتے ہیں (امام راغبؒ لکھتے ہیں) یہ ہیں ’’اَ لْاِنْفِصَالُ عَنِ الشَّیْ ئِ‘‘ کسی چیز سے علیحدہ ہو کر اس کا حصہ نہ رہنا نسل کہلاتا ہے۔ یعنی اس رنگ میں حصہ نہ رہنا ورنہ تو بہت سے پہلوئوں کے لحاظ سے حصہ رہتا ہے اسی وجہ سے جو شخص جگہ کو جلدی جلدی چھوڑے تو ہم کہتے ہیں وہ دوڑ رہا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں نَسَلَ۔ یَنْسَلُ اِذَا سَرَعَ یعنی جب آدمی تیزی سے دوڑنے کے نتیجہ میں جلدی جلدی جگہ بدلتا ہے تو اس کو نسل کہتے ہیں۔ امام راغبؒ نے مفردات میں ایک عجیب محاورہ دیاہے۔ دراصل میں اسی چیز کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ امام راغب ؒ نے مفردات میں لکھا ہے کہ نسل کا لفظ اس محاورے میں استعمال ہوا ہے۔
’’اِذَا طَلَبْتَ فَضْلَ اِنْسَانٍ
فَخُذْ مَا نَسَلَ لَکَ مِنْہُ عَفْوًا‘‘
یعنی اگر تم کسی آدمی کی بزرگی کو دیکھنا چاہو تو تم اس کے حسن سلوک کو دیکھو جو رضائے الٰہی کے لئے وہ تم سے کر رہا ہے۔ تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس قسم کا انسان ہے۔ دراصل عَفْوًا کے معنے ہوتے ہیں رضائے الٰہی کے حصول کے لئے حسن سلوک کرنا۔ کیونکہ عَفْوًا کہیں تو اس سے ’’اَلْقَصْدُ لِتَنَاوُلِ الشَّیْ ئِ‘‘ مراد ہوتی ہے۔ پس مَا نَسَلَ لَکَ مِنْہُ عَفْوًا کے معنے ہوں گے جو اس نے تجھ سے حسن سلوک کیا عفو کے طور پر یعنی کسی چیز کے حصول کے لئے تو چونکہ انسانی فضل رضائے الٰہی ہی کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ جو شخص رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تجھ سے حسن سلوک کرتا ہے اس سے اس کا فضل ظاہر ہوتا ہے۔
اسی طرح نسل کے معنے چھوڑ دینے کے بھی ہوتے ہیں مثلاً جب شہد اپنے چھتے سے خود بخود نکلے تو اس شہد کو اَلنَّسِیْلَۃ کہتے ہیں یعنی اس کو آگ کے اوپر گرم کرکے نہیں نکالا جاتا بلکہ بعض دفعہ وہ خود بخود بہہ نکلتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سارے دوست شہد لے آتے ہیں یا ہم خود اپنے باغ سے چھتّے اترواتے ہیں۔ چنانچہ ہم شہد نکالنے کے لئے یہ آسان طریق اختیار کرتے ہیں کہ ایک ململ کے کپڑے میں چھتے کا شہد والا حصہ باندھ کر لٹکا دیتے ہیں اور نیچے برتن رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح شہد اپنے ہی وزن سے کشش ثقل کی وجہ سے بہہ نکلتا ہے غرض جس شہد کو نکالنا نہ پڑے بلکہ خود بخود بہہ نکلے۔ اس کو ’’نَسِیْلَۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح جب دودھ دینے والے جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکالا نہ جائے بلکہ خود بخود بہہ نکلے تو ایسے دودھ کو ’’اَلنَّسَلُ‘‘ کہتے ہیں۔ بعض عورتوں کے پستان سے بھی دودھ بہہ نکلتا ہے اور کپڑوں کو خراب کر دیتا ہے عورتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے کپڑے خراب ہو گئے اسی طرح بھینس یا بکری کا دودھ بھی بعض دفعہ خود بخود گرتا رہتا ہے۔
پس اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جو خود بخود علیحدہ ہو جائے وہ ’’نَسِیْلَۃ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس جگہ نسل کے معنے ہوں گے کہ انسان کی وہ قوتیں اور طاقتیں جن سے اس کے اعمال خود بخود فطری بہائو کے ساتھ سرزد ہوتے ہیں مثلاً ایک صاف شفاف اور ٹھنڈے اور لذیذ پانی کے چشمے سے جس طرح پانی خود بخود بہہ نکلتا ہے اسی طرح انسان کے اعمال اس کی طاقتوں سے خود بخود بہہ نکلتے ہیں۔ یعنی ایک تو ہے اہلیت اور جیساکہ میں نے بتایا ہے صلاح میں اہلیت کا بھی سوال ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو طاقتیں دی ہیں وہ ایک ’’اہلیت‘‘ کا رنگ رکھتی ہیں جو انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اس قوت اور استعداد کے ساتھ اس دنیا میں دو سلوک ہوتے ہیں اگرچہ یہ چار قسمیں ہیں لیکن ہم قوت اور استعداد مراد لیں گے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ نے انسان کو اس دنیامیں پیدا کیا اور اسے ایک مخصوص دائرہ کے اندر ایک بااختیار وجود کی حیثیت عطا فرمائی۔ اس کے لئے ثواب اور گناہ۔ جزا اور سزا مقرر فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان سے فرمایا۔ میں نے تجھے قوتیں تو دی ہیں مگر ان قوتوں کی صحیح نشوونما کرکے تم جنت میںبھی جاسکتے ہو اور ان قوتوں کی غلط نشوونما کرکے جہنم میں بھی جاسکتے ہو۔ تجھے یہ اختیار دیا ہے اور تیری قوتوں کے نشوونما کے سامان بھی پیداکر دیئے ہیں یعنی ربوبیت کے مفہوم میں ہر قوت جو انسان کو بحیثیت مجموعی یا افراد انسانی کو بحیثیت فرد دی گئی ہے۔ اس کے کمالِ نشوونما کے لئے اس مادی دنیا میں ضروری چیزیں پیدا کر دی گئی ہیں ورنہ تو یہ سارا سلسلۂ کائنات ایک مذاق بن کر رہ جاتا۔ خداتعالیٰ بندہ سے کہتا یہ لے قوت اور اس کی نشوونما کر۔ وہ کہتا اے میرے رب! مجھے اپنی قوت کی نشوونما کے لئے فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ تو اگر اللہ تعالیٰ اسے یہ جواب دیتاکہ وہ تو میں تجھے نہیں دوں گا تو پھر تو یہ ایک مذاق بن جاتا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو مذاق نہیں کرتا وہ تو کہتا ہے میں نے اس دنیا کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا، یہ دنیا لہو و لعب نہیں ہے۔
غرض ایک طرف قوتیں پیدا کیں تو دوسری طرف ان کی نشوونما کے لئے ضروری سامان بھی پیدا کر دیئے۔ انسان اپنی خداداد قوتوں کی نشوونما کرتا ہے۔ پھر نشوونما کرکے انہیں کسی لوہے کے صندوق میںبندتو نہیں کر دیتا اسے جو بھی قوتیں ملی ہیں وہ باہر نکل رہی ہوتی ہیں مثلاً ہماری قوت بینائی ہے۔ اگر ہم روئی بھر کر پیڈ بنا کر اپنی آنکھوں پر باندھ دیں تو ظاہرہے ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا کیونکہ ہماری یہ قوت بینائی مادی دنیا کے ملاپ سے کچھ حاصل کرتی ہے۔ یہ ایک قوت ہے جو مادی دنیا کے ملاپ سے کام دیتی ہے۔ مثلاً روشنی کی کرنیں ہیں۔ آنکھ کے اندر ان سے عکس حاصل کرنے کی طاقت ہے دونوں کا ملاپ اس کو بینائی دے رہا ہے۔
پس جس طرح ہم آنکھیں بند نہیں کیا کرتے نہ کانوں میں روئی ٹھونسا کرتے ہیں نہ دوسرے مادی حواس کو معطل کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں الحمد للہ۔ ہمیں خداتعالیٰ نے قوتیں دی ہیں۔
الحمدللہ کہنا تو تب مناسب ہوتا جب ان کا صحیح اور کامل استعمال ہوتا اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو طاقتیں اور استعدادیں دی ہیں جتنا جتنا ہم ان کا استعمال کرتے اور ان کی نشوونما کرتے چلے جاتے ہیں اتنا اتنا وہ چشمہ سے بہنے والے پانی کی طرح خود ہی Flow out (فلو آئوٹ) یعنی ابل کر باہر نکل رہی ہوتی ہیں اور اسی معنی میں نسل کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی انسانی قوتوں اور استعدادوں سے افعال اور اعمال خود بخود سرزد ہونے لگتے ہیں مثلاً مال ہے، روپیہ پیسہ ہے سوائے چند کنجوس لوگوں کے جو دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں باقی لوگ اپنے مال و دولت کو خرچ کرتے ہیں۔ روپیہ خرچ کے ذریعہ خود بخود ہماری جیبوں سے علیحدہ ہوتا رہتا ہے۔ اب مثلاً آپ اپنے بچے کو پڑھانے کے لئے استاد مقررکرتے ہیں اور اسے روپے دیتے ہیں تو گویا اس طرح آپ کے ہاتھ سے روپیہ نکل گیا یا مثلاً گندم ہے آپ اسے کھاتے ہیں اسے CONSUME (کنزیوم) کرجاتے ہیں گندم کی شکل میں کھاتے ہیں اس سے آپ کو مثلاً چلنے کی طاقت مل گئی آپ نے آٹھ میل سیرکی۔ کچھ طاقت آپ کے جسم سے نکل گئی۔ انسانی وجود کے اندر ساری قوتیں بند تو نہیں رہتیں۔ وہ انسانی جسم سے باہر نکل رہی ہوتی ہیں۔ غرض جسمانی طاقتوں کے Out Flow (آئوٹ فلو) کو باندھ دیا ہے نشوونما کے ساتھ۔ ہم جتنا جتنا ان طاقتوں کو استعمال کرتے ہیں اتنا ہی یہ چیزیں نشوونما میں ممدومعاون بن جاتی ہیں۔
پس بنیادی طور پر یہی دو چیزیں اس دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر رہی ہیں مثلاً ایٹم کی ایجاد ہے۔ ایٹم پاور کی ایجاد ہے۔ دوسری مادی چیزیں ہیں جنہوں نے مختلف شکلیں اختیار کر رکھی ہیں۔ پھر یہ ساری یونیورس ہے۔ یہ ذرائع پیداوار کی علامت ہے۔ ذرائع پیداوار کے اندر نسل یعنی انسانی طاقتیں تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور اس طرح یہ کام کی چیزیں بن رہی ہیں۔ گویا آسمان سے لے کر زمین تک ہم نے انسانی ہاتھ کا تصرف دکھا دیا مثلاً انسان چاند پر پہنچ گیا۔ اب چاند پر پہنچنے کے لئے آسمان سے کوئی اڑن کھٹولا تو نہیں آگیا تھا۔ یہ انسان کی استعدادیں اور قوتیں تھیں جو پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی تھیں یعنی سائنس دانوں نے فزکس کے اصول پر سائنسی تحقیق کی ان قواعد اور قوانین کے مطابق عمل کیا جو خداتعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں تو وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے۔ اب مثلاً جو حساب دان سائنٹسٹ ہیں انہوں نے اپنی دریافت اور ایجاد کی بنیاد حساب پر رکھی۔ حساب بھی ایک سائنس اور فلسفہ بن گیا ہے۔ چنانچہ وہ ازروئے حساب سوچ رہے تھے فکر و تدبر کر رہے تھے۔ خود ہمارے ڈاکٹر سلام بھی فکر و تدبر میں لگے رہتے ہیں اس کی کچھ خصوصیتیں علم طبعی سے ملتی ہیں۔ تاہم جہاں تک سائنسی تحقیق میں حساب کا تعلق ہے سائنس دان بے شمار اربعے لگاتے ہیں اور بڑی لمبی لمبی ضربیں اور تقسیمیں کرتے ہیں۔ یہ چونکہ بڑا لمبا حساب بن جاتا ہے اس لئے انسان نے اس کو آسان کرنے کے لئے ایک مشکل سامضمون بنا دیا ہے جسے الجبرا کہا جاتا ہے۔ چونکہ مجھے یہ مضمون سکول کے زمانے میں مشکل لگتا تھا اس لئے میں نے اسے مشکل کہہ دیا ہے۔ بہرحال حساب کے مضمون کو آسان کرنے کے لئے لوگوں نے الجبرا بنا دیا۔ اور اس کی علامتیں بنا لیں مثلاً کہہ دیا ا۔ب۔ج کا یہ مطلب ہے اور پھر لوگ اس سے اصولاً کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے انہی اصول و قواعد کے مطابق کچھ نتائج اخذ کئے اور چاند پر جانے کے قابل ہو گئے یا زمین میں اٹامک انرجی کو استعمال کرنے لگے۔ وغیرہ وغیرہ۔
غرض سائنس دانوں نے اپنی خداداد طاقتوں اور قوتوں کو قوانین قدرت کے مطابق استعمال کیا۔ آخر ایٹم کی طاقت کا پتہ کیسے لگا؟ یہ انسان کی طاقت تھی، یہ اس کی استعداد تھی جو اس کے جسم سے باہر نکل آئی گویا اس کی طاقت کی نسل ہو گئی۔ اس کا انفصال ہو گیا۔ یہ باہر نکلی اور باہر نکلتی چلی جارہی ہے۔ یہ ایک چشمہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک انسان زندہ ہے اس کی طاقتیں باہر نکلتی چلی جائیں گی۔ یہ ایک تبدیلی ہے جو مسلسل رونما ہوتی چلی جائے گی۔
پس حرث سے مراد مادی ذرائع ہیں اور نسل انسان کی محنت ہے۔ انسان اپنی طاقتوں کو کام پر لگاتا ہے۔ یہ دو بنیادی چیزیں ہیں یہ دو بنیادی نعمتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں۔ انسان اپنی فطرتی اہلیت کے صحیح استعمال کرنے پر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن مفسد ان ہر دو قسم کی نعمتوں کو ہلاک اور برباد کر دیتا ہے۔ ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے وہ کبھی ایٹم بم سے زمین کی پیداوار کو ختم کر دیتا ہے کبھی وہ کیمیکل اجزاء چھڑک کر اچھے پودوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ ایسے مفسد آدمی نے ایک وقت میں کہا یہ تھا کہ اس نے یہ کیمیکل اجزاء اس لئے بنائے ہیں کہ وہ ان سے مضرت رساں کیڑوں کو ہلاک کرے گا لیکن جب وہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے کیڑوں پر پہنچا جو مفید ہیں مضرت رساں نہیں تو ایسے مفسد اور ناشکرے انسان نے ان کیڑوں کو بھی ہلاک کر دیا۔ اب مثلاً یہ اینٹی بائیوٹک وغیرہ قسم کی دوائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف کرے کبھی مجبوری ہو تو استعمال کرنی پڑتی ہیں مگر ان کے غلط استعمال سے بے شمار کیڑے جو مفید اور زندگی رکھنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مثلاً انسان کے معدے، جگر اور انتڑیوں میں پیدا کیا ہے اور وہ نظام ہضم میںممدومعاون ہیں۔ یہ ایک نابینا ہتھیار (اینٹی بایوٹک ادویہ) انسان کے جسم میں جو مضرت رساں کیڑے ہیں یعنی پیچش اور ہیضہ کے کیڑے ہیں ان کا بھی قتل عام کر دیتا ہے اور جو مفید کیڑے ہیں اُن کابھی قتل عام کر دیتا ہے۔
بہرحال میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ ہماری استعدادیں ہیں جو باہر نکلیں ان کا صحیح استعمال کرنے والے خداتعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلائے اور ان کا غلط استعمال کرنے والے مفسد کہلائے قرآن کریم نے کہا ہے کہ تم ان مفسدوں کے کاموں کا بھی جائزہ لو، غور اور تحقیق کرو اور ان کے دل اور معدہ کو پھاڑو یعنی ان کی تھیوریز جس رنگ میں روبہ عمل ہیں اور ان کی طاقتیں جس رنگ میں باہر نکل کر کام کر رہی ہیں اور جس رنگ میں ان کی استعدادیں مادی اشیاء میں کام کر رہی ہیں ان کو غور سے دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ ہلاکت کی تینوں قسمیں ان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ یہ ہے مفسد جسے قرآن کریم نے بھی کہاہے۔
اب جہاں تک مادی ذرائع پیداوار کا تعلق ہے اس کی ایک تو بہت خطرناک شکل ایٹم کی طاقت کے غلط استعمال کی شکل میں نظر آتی ہے۔ دوسرے کارخانوں کا بند رہنا ہے۔ کارخانہ بھی ایک ذریعہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اور اس نے مادی ذرائع کو بروئے کار لاکر کارخانہ قائم کر دیا۔ اب جس دن کارخانہ بند رہا اس دن کی پیداوار سے نہ صرف مزدور بلکہ بنی نوع انسان اور ملک بھی محروم ہو گیا۔ ایک کارخانہ مثلاً دو لاکھ گز کپڑا ایک دن میں تیار کرتا ہے اگر وہ کارخانہ تالہ بندی یا ہڑتال کی وجہ سے ایک دن بند رہتا ہے تو اس ملک کے باشندے دو لاکھ گز کپڑے سے محروم ہو گئے۔ غرض اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے اس کے کیا نتیجے نکلے یہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فساد پیدا ہو گیا۔ حقوق کی ادائیگی پر یہ چیز بہرحال اثر انداز ہوگی مثلاً کپڑے کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جائیں گی وہ غریب آدمی جو یہ سوچ رہا تھا کہ اب میرے پاس اتنے پیسے ہو گئے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو کپڑے بنادوں۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں رہیں گے کیونکہ کپڑے کی قیمت زیادہ ہو گئی اب اس کے پاس اتنے پیسے نہیں رہے کہ وہ کپڑا خرید سکے۔ پھر وہ کہے گا کہ میں پانچ دن اور مزدوری کرتا ہوں تاکہ بچوں کے کپڑے بن جائیں۔
یہ بیچارے مزدور کا حال ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا یہی حال ہے حتیٰ کہ چین میں بھی موجود ہ حکومت سے قبل یہی حال تھا۔ چین کی جو اقتصادی اور معاشرتی خوبیاں ہیں موجودہ حکومت کے وقت وہ ہم بیان کرتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے شراب اور جوئے کی بھی خوبیاں بتائی ہیں۔ بہرحال پرانے چین میں ایک قصہ بتایا جاتا ہے کہ ایک عورت برابر ۲۳سال تک پیسے جوڑتی رہی اس نیت کے ساتھ کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک گرم جوڑا سلوا دے مگر وہ ایک جوڑا تک نہ بنوا سکی کیونکہ ہوتا یہ رہا کہ جب وہ ایک حد تک پیسے جمع کر لیتی تو قیمتیں پھر بڑھ جاتیں۔ یہاں تک کہ وہ ۲۳ سال میں ایک گرم جوڑا نہ خرید سکی۔
چنانچہ آپ خود دیکھ لیں پچھلے ۲۵سال میں قیمتیں کہاں سے کہاں چلی گئیں۔ یہ ایک فساد ہے۔ یہ فساد دور ہونا چاہئے۔ جو شخص اس فساد کو دور کرے گا ہم اس کی تعریف کریں گے خواہ وہ چیئرمین مائوزے تنگ ہوں یا کوئی اور ہو۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پورا فساد وہ بھی ہمارے نزدیک دور نہیں کر سکے کیونکہ انسان کے پاس ایسی تعلیم ہی نہیں۔ قرآن کریم کو وہ مانتے ہی نہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ وہ پچاس فی صد فساد دور کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ کیونکہ پچاس فیصد حقوق کی ادائیگی کے قابل ہو گئے ہیں مگر اسلام سو فیصد حقوق کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے برعکس چینی سوشلسٹ پچاس فیصد حقوق دیتے ہیں۔ میں نے یہاں کئی مسلمان لیڈروں سے کہا ہے کہ بیچارے غریب مزدوروں نے تمہاراکیا قصور کیا ہے کہ تم ان کو یہ کہہ رہے ہو کہ پچاس پر راضی ہو جائو اور دوسرے پچاس کا مطالبہ نہ کرو جو اسلام انہیں دے رہا ہے۔
تاہم جو شخص مزدورکو پچاس فیصد حقوق دے رہا ہے وہ اس شخص سے بہت اچھا اور قابل تعریف ہے جو مزدور کو یا تو کچھ بھی نہیں دے رہا اور اگر دے رہا ہے تو وہ بیس پچیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیں یہ بنیادی تعلیم سکھائی ہے کہ کسی شخص کو آنکھیں بند کرکے برابھلا نہ کہو جو اس کی برائی ہے اسے بیان کرو اصلاح کی خاطر اور اس کی جو خوبی ہے وہ بیان کرو دوسروں کے لئے ایک سبق کے طور پر۔
بہرحال اگر کوئی مِل یا کارخانہ ایک دن کے لئے بھی بند ہو جاتا ہے تو اس میں مالک بھی قصور وار ہے اس نے تالہ بندی کی اجازت سے غلط فائدہ اٹھایا اور فساد کا موجب بنا دوسری طرف ہڑتال کرانے والا جو لیڈر ہے وہ بھی فساد کرنے والا ہے۔ اس کو مزدور سے کوئی پیار نہیں ہوتا وہ مزدوروں سے کہتا ہے ہڑتال کر دو مگر خود گھر میں آرام سے بیٹھا رہتا ہے۔ یہ دونوں پہلو موجب فساد ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے مزدوروں کے سارے حقوق ادا کرو لیکن اسلام یہ بھی کہتاہے مالک کے سارے حقوق بھی ادا کرو۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ مالک کے سارے حقوق ادا کرو لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام یہ بھی کہتا ہے مزدور کے بھی سارے حقوق ادا کرو اور اس کی ہر تکلیف کو دور کردو۔ اس واسطے نہ اس سے پیار اس کے مالک ہونے کے لحاظ سے اور نہ مزدور سے پیار مزدور ہونے کے لحاظ سے ہمیں پیار ہے اپنے انسانی بھائی سے انسان ہونے کے لحاظ سے یعنی مزدور ہونے کی خصوصیت ہمارے اندر پیار نہیںپیدا کرتی۔ مالک ہونے کی خصوصیت ہمارے دل میں ان کا پیار پیدا نہیںکرتی بلکہ خداتعالیٰ کے پیدا کردہ بندے ہونے کے لحاظ سے اور اس نوع سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے دل میں ان کی محبت پیداہوتی ہے۔ بحیثیت انسان دونوں کی عزت ہوگی۔ البتہ جو شخص بھی ظلم کرے گا ہم اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم یہ صحیح ہے کہ آج کی دنیامیں زیادہ ظلم بیچارے مزدور ہی پر ہو رہا ہے۔ یعنی غیر بھی اس کے لئے ظالم اور اپنے بھی ظالم۔ میں نے کئی مزدور لیڈروں سے کہا کہ دیکھو انگلستان میں لوگ ہڑتال کرتے ہیں ان کے لیڈر کہتے ہیں تم فکر نہ کرو تمہیں جو تنخواہیں مل رہی تھی اس کے مطابق چھ مہینے کے پیسے ہمارے پا س موجود ہیں تم دو مہینے کے لئے ہڑتال کرو۔ ہم تمہیں پیسے دیں گے یا انہوں نے بعض اور قسم کے فارمولے بنائے ہوئے ہیں۔ اس سے فساد تو پیدا ہو گا مگر اس کی شدت وہ نہیں جو ہمارے ملک میں محسوس کی جاتی ہے۔ یہاں مزدور لیڈر کہتے ہیں کہ ہڑتال کر دو مگر ہم روٹی ایک دن کے لئے بھی تمہیں نہیں دیں گے تو پھر تم کہاں سے ان کے ہمدرد بن بیٹھے ہو؟
میں نے پچھلے سال ایک مزدور لیڈر سے کہا تھا کہ دیکھو تم جب ہڑتال کرائو گے تو جب تک بیچارے مزدور کے دل میں جذبہ ہے وہ قربانی دیتا چلا جائے گا۔ اس کے گھر میں جنس پڑی ہے وہ چپ کرکے کھالے گا اور کہے گا ہمارے مزدور لیڈر نے کہا ہے ہڑتال کرنی ہے سو میں ہڑتال میں شامل ہو جاتا ہوں۔ مگر جب یہ ہڑتالوں کا سلسلہ لمبا ہو جائے گا تو پھر وہ اپنا سامان بیچنا شروع کر دے گا اور اس طرح اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے گا۔ کیونکہ وہ بھوکا تو نہیں رہ سکتا۔ پھر جس وقت اس کے پا س کچھ بھی نہیں رہے گا تو اسے ہوش آئے گا اور وہ واپس پلٹے گا۔ تو اس وقت وہ مالک کا گریبان نہیں پکڑے گا اور اس کے پیٹ میں چھرا نہیں گھونپے گا بلکہ وہ تمہاری (مزدور لیڈر کی) گردن پکڑے گا۔ وہ سوچے گا میرا مالک ظالم تھا مگر وہ پھر بھی میرا آدھا پیٹ تو بھر دیتا تھا میرا مزدور لیڈر اس سے بھی بڑھ کر ظالم ہے۔ اس نے مجھے بالکل ہی بھوکا مار دیا ہے۔
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ بیچارہ مزدور ہر دو لحاظ سے مظلوم ہے۔ جب اس کا مالک کارخانے کو مقفل کر دیتا ہے تب بھی اس پر ظلم ہوتا ہے اور جب اس کا لیڈر بیوقوفی سے اس سے ہڑتال کرواتا ہے تب بھی اس پرظلم ہوتا ہے اورپھر ستم بالائے ستم یہ کہ جب کبھی ’’اسلام زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگوانے والے اسے جلوس میں آگے کر دیتے ہیں۔ تب بھی اس پر ظلم ہوتا ہے نہ نعرہ لگوانے والوں کو اسلام کا پتہ اور نہ اس بیچارے کو اسلام کا کوئی علم دیا گیا نہ اسلام کے متعلق کچھ پڑھایا گیا اور نہ اسلام کی حقیقی روح کا اس کو کچھ پتہ ہے اس صورت میں اس مظلوم مزدور کا ایک ہی ہمدرد ہے اور وہ ہے اسلام، وہ ہے قرآن کریم کی یہ حسین تعلیم جسے اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے فقرے میں بیان کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں تک حرث کا تعلق ہے لوگ فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں یعنی ذرائع پیداوار سے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر جتنی پیداوار حاصل کر سکتا ہے اس کے راستے میں وہ روک بن جاتے ہیں۔ انسانی طاقتوں اور قوتوں کے استعمال میں مخل ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ذرائع پیداوار کے ساتھ جب تک محنت شامل نہ ہو اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ چنانچہ انسانی قوتوں اور استعدادوں کے تعطل کی وجہ سے انسان کو گویا بھوکا مار دیا۔ اس کی قوتوں کی نشوونما میں روک پیدا کر دی۔ اس کاجتنا دماغ تھا اس کے مطابق اس کے لئے سامان نہیں پیدا کئے۔ مثلاً ایک غریب آدمی ہے اس کے گھر ایک ذہین بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ دسویں تک تو وہ اسے جوں توں کرکے پڑھاتا ہے مگر پھر اس کی غربت آڑے آتی ہے بچے کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے۔ اب وہ لڑکا جو مثلاً ڈاکٹر سلام کا ہم پلہ بن سکتا تھا اس کا دماغ اور اس کی ذہانت ضائع ہو جاتی ہے۔ وہ کلرکی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ ہمارے پھوپھا جان حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ دھوبی کے لئے اشتہار دیا تو ایک بی۔اے یا ایم۔اے پاس کی درخواست آگئی وہ تو خیر پڑھ گیا تھا پھر بھی اس کو ملازمت نہ ملی لیکن کسی بیچارے کو تو مزید پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
پس یہ نسل کشی ہے۔ نسل کشی کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ غلط فیملی پلاننگ کی جائے یا بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا جائے یا انہیں بھوکا رکھ کر مار دیا جائے یا جس طرح بعض ظالم عیسائی بادشاہ کیا کرتے تھے کہ پہلے وہ عیش کرتے اور پھر ناجائز بچوں کو قتل کرکے تہہ خانوں میں پھنکوا دیتے یہ اور اس طرح کے ہزاروں ظلم ہیں جو انسان انسان پر کر رہا ہے۔ غرض قوتوں اور استعدادوں کا ضیاع بھی نسل کشی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے درحقیقت بنیادی طور پر ہمیں دو ہی چیزیں دی ہیں اور ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو نہ ہمارے تصور میں آسکتی ہے اور نہ اس کی وسعتوں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی اس پر اللہ تعالیٰ کا کماحقہ شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو انسان کے اندر یعنی انسانی فطرت کے اندر جو استعدادیں پیدا کیں اور ان استعدادوں کی کامل نشوونما ہے۔ تسخیر کائنات کے لئے اور دوسرے انسان کی بہبود کے لئے تخلیق کائنات یعنی اس عالمین کی مادی اشیاء یا ذرائع پیداوار ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ہیں یعنی مادی ذرائع پیداوار اور ان سے کماحقہ مستفید ہونے کے لئے۔ (۲)۔ انسانی قوتیں اور استعدادیں۔ ایک کو قران کریم کہتا ہے حرث اور دوسرے کو نسل۔ ایک وہ ہے جس کو انسان تیار کرتا ہے۔ پھر اس سے کچھ حاصل کرتا ہے۔ بعض دفعہ اچھی نیت سے بعض دفعہ بری نیت سے بہرحال انسان جس چیز کو تیار کرتا ہے اس سے پیار کرتا ہے۔ مثلاً زمین کو تیار کرتا ہے تاکہ اس سے گندم حاصل کرے،کپاس حاصل کرے وغیرہ وغیرہ۔ وہ کارخانوں کو تیار کرتا ہے کارخانے بھی مادی چیزوں کی تیاری کی جگہ ہیں۔ کچھ اینٹیں ہیں، کچھ لوہا ہے، کچھ مشینری ہے۔ یہ ساری چیزیں مل کر کارخانے کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ تاکہ انسان اس سے مثلاً کپڑا پیداکرے یا اس سے کھاد پیدا کرے یا لوہا پیدا کرے یا اس میں موٹریں بنائے۔ وغیرہ۔ اب تو بے شمار قسم کی چیزیں بننے لگی ہیں۔ بے شمار سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کو گن نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو تو ان سب کا علم ہے۔
غرض ایک مادی ذرائع پیداوار اور دوسرے انسانی استعدادیں۔ یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں اور ایک مفسد ان دونوں کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے یا ہلاکت کی کوشش میں مشغول نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مفسد بھی بنو یعنی جو مادی ذرائع پیداوار ہیں ان کو تم ہلاک کرو۔ ان کو تم ضائع کرو۔ دوسرے جو تمہیں استعدادیں دی ہیں ان سے تم غفلت برتو اور ان کی نشوونما نہ کرو۔ ان کا صحیح استعمال نہ کرو اور پھر یہ سمجھو کہ میں تمہارے ان بداعمال اور مفسدانہ اعمال کا صالحانہ اعمال جیسا نتیجہ نکال دوں گا تو یہ خیال غلط ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے پیار نہیں کرتا یعنی جو لوگ حرث اور نسل کو فساد میں مبتلا اورمعرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا پیار تو نہیں ملے گا۔ اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا قہر ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی جہنم انہیں ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا کی جنتیں تو ان کو نہیں ملیں گی۔ اسی واسطے میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ یونس میں فرمایا ہے۔
(یونس:۸۲)
مفسد کے عمل کا نتیجہ صلاح نہیں ہو سکتا۔ مفسدانہ اعمال کا نتیجہ صالح اعمال جیسا نہیں نکلا کرتا۔ اب اس وقت یوں تو ساری دنیا میں فساد کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ امریکہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی فتنہ و فساد کی آگ مختلف شکلوں میں پھیلی ہوئی ہے لیکن ان ملکوں میں جن میں ظالم اور مفسد ملکوں کی ریشہ دوانیاں بڑی کثرت سے ہو رہی ہیں۔ ان میں خصوصاً یہ وبا زیادہ ہے۔ ہمارا ملک بھی بدقسمتی سے ایسے ہی ممالک میں شامل ہے اور اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت کے ہاتھ میں قرآن تو ہے لیکن کوئی بھی اس کوکھول کر پـڑھتا نہیں۔ پہلے تو اس بیماری کا احساس ہی نہیں اگر کسی کو اس کا احساس ہے تو وہ اس کے علاج کی طرف متوجہ نہیں۔ گو بعض دفعہ بیمار اتنا بے حس ہو جاتا ہے کہ اس کو بیماری کا احساس تک نہیں رہتا لیکن اگر بیماری کا احساس تو ہو مگر اس کے علاج کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک بات ہے۔
چنانچہ اسی حقیقت کے متعلق یعنی بیماری کے اس مفہوم سے مجھے ایک بزرگ کی رویا یاد آگئی۔ ہمارے ایک بزرگ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے چند سال قبل تمثیلی زبان میں عین حرم مکہ میں ایک رؤیا دکھائی گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک چارپائی ہے اس پر ایک بیمار لیٹا ہوا ہے اس کے ارد گرد بہت سے اطباء جمع ہیں۔ وہ اس کے علاج کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بیمار کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ان کو رئویا ہی میں یہ دکھایا گیا کہ چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص بیٹھا ہواہے اور خواب ہی میں بتایا گیا کہ اگر یہ شخص توجہ کرے تو بیمار اچھا ہوجائے گا لیکن وہ شخص توجہ نہیں کرتا۔ اتنے میں ان کی آنکھ کھل گئی۔ مگر تعبیر سمجھ نہ آئی۔ بڑی پریشانی پیدا ہوئی حج کرکے واپس آئے اور اپنے ایک بزرگ جن کی انہوں نے بیعت کر رکھی تھی، ان کو خط لکھا کہ میں نے خانہ کعبہ میں یہ خواب دیکھا ہے۔ مجھے اس کی تعبیر سمجھ نہیں آرہی اور میں بڑا پریشان ہوں۔ مجھے اس کی تعبیر بتائیں چنانچہ انہوں نے لکھا کہ تمہاری اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جو تم نے بیمار دیکھا ہے وہ اسلام کی آج کی حالت ہے۔ جو تم نے اس کے گرد اطباء دیکھے ہیں وہ میرے تمہارے جیسے طبیب ہیں جن کے علاج سے اسلام کی اس وقت جو بیماری کی حالت ہے اس سے اس کو آرام نہیں آسکتا اور جو تم نے چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور تمہیں یہ بتایا گیا کہ اگر یہ توجہ کرے تو بیمار کو آرام آسکتا ہے تو وہ مہدی معہود ہے۔ تمہیں خواب میں زمانہ (کیونکہ چند سال کے بعد مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی) مکان کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ چند قدم کا مطلب یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد اس کا ظہور ہوگا۔ چنانچہ چند سالوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی۔ غرض اس رؤیا کی تعبیر یہ تھی کہ جب مہدی معہود آجائیں گے تو اسلام کی بیماری کی کیفیت دور ہو جائے گی۔
پس فسادی کے فساد کو دور کرنے کی کوشش وہی آدمی کر سکتا ہے جس کو ایک تو علم ہو کہ فساد بری چیز ہے۔ دوسرے اس کو یہ علم ہو کہ اس کو دورکس طرح کیا جاسکتا ہے۔ تیسرے ایسی جماعت کے ساتھ اس کا تعلق ہو جس کے متعلق یہ پیشگوئی ہو کہ وہ اس بیماری کو دور کرے گی اور اس سے مراد جماعت احمدیہ کے افراد ہیں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لحاظ سے ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری مجھ پر بھی اور آپ پر بھی۔ مردوں پر بھی اور عورتوں پر بھی اور خصوصاً نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے۔ یوں تو میری دعا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو لمبی زندگی عطا فرمائے لیکن عام حالات میں چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑی عمر والوں کی نسبت نوجوانوں نے زیادہ عرصہ اس دنیا میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔ اس لئے احمدی نوجوانوں سے میں خاص طور پر یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کچھ حقوق عائد کئے ہیں۔ ان میں تمہارا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ نہ صرف اپنے نفس کے حقوق کو پور اکرو بلکہ دوسروں کے حقوق بھی ادا کرو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ حق عطا فرمایا ہے کہ تم دنیا کے رہبر اور قائد بنو۔ تم دنیاکے معالج اور طبیب بنو۔ پھر کیوں تم اپنے ان حقوق کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اپنے ان حقوق کو لینے کی کوشش نہیں کرتے۔
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم صالح بنے رہیں مفسد نہ بنیں ہمیشہ صلاح کی کوشش کرتے رہیں۔ جہاں بھی فساد ہو اس کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کارخیر میں بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوں تا وہ جو آج مظلوم ہے اسے اس کے سب حقوق مِل جائیں۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا۸)
ززز


دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک
سے فتنہ و فساد کو دور کر دے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اگست ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس۔ کاکول۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اسلام نے نفس پر جائز سختی کا حکم بھی دیا ہے اور ناجائز سختیاں کرنے سے روکا بھی ہے۔ جہاں کسی نفس کا حق نہیں بنتا اسے وہ نہیں ملنا چاہئے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے:- وَ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ۔
(بخاری کتاب الصوم بابُ مَنْ اَقْسَمَ عَلٰی أَخِیہِ لیُفْطَرَ فِی التّطوع)
اس ارشاد کی رو سے انسانی نفوس کے جو بھی حقوق قائم کئے گئے ہیں۔ وہ حقوق ادا ہونے چاہئیں۔ اسی طرح دِیْنُ اللّٰہِ یُسْرٌ کی رو سے احکام شریعت اسلامیہ کی ادائیگی میں بشاشت پیدا کرنے کے سارے طریق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان کر دیئے ہیں۔ لیکن کسی وقت جہاد کے دوران میں انسان کو بارش میں بھی بعض دفعہ تو چوبیس گھنٹے اپنے فرائض کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ چنانچہ جب فرقان بٹالین قوم کی خدمت کے لئے محاذ پر پہنچی تو وہاں جو بٹالین تھی اس نے آخری لائن پر ہونے کے باوجود بنکر بنائے ہی نہیں تھے۔ چنانچہ فرقان بٹالین نے ادھر بنکر یعنی مورچے بنانے شروع کئے اور ادھر بادلوں نے مینہ برسانا شروع کر دیا۔ ہم نے مجاہدین کو لنڈے سے یونیفارم خرید کر دی تھی کیونکہ حکومت ان کو یونیفارم نہیں دے رہی تھی۔ جماعت یونیفارم پر خرچ کرتی تھی۔ سات دن کے بعد میں پہلی دفعہ محاذ پر گیا تو میں نے وہاں یہ نظارہ دیکھا کہ بعض نوجوان احمدیوں کی قمیصوں کی آستینیں ہیں مگر دھڑ غائب ہے بعض کی قمیصوں کے دھڑ ہیں اور آستینیں غائب ہیں۔ کیونکہ لنڈے کے پرانے کپڑے تھے پتہ نہیں وہ کتنی دیر استعمال شدہ تھے۔ ان میں کوئی جان نہیں تھی سات دن کی بارشوں اورسختیوں نے یہ حال کر دیا تھا کہ وہ تار تار ہو چکے تھے لیکن انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ بارش میں بھی کام کرتے رہے۔ جب کام کرنا ہو اور کام ضروری ہو تو وہ بارش میں بھی ہوگا لیکن جہاں نمازوں کا سوال تھا اس کے متعلق صَلُّوْا فِی رِحَالِکُمْ (مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین و قصرھا) بھی کہہ دیا۔ بعض ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں مسجد میں آنے کی ضرورت نہیںہوتی اعلان ہو جاتاہے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو۔ نماز کی جو جان ہے وہ توجہ کو قائم رکھنا ہے۔ اب جس آدمی کے سر پر بارش کے قطرے گر رہے ہوں کبھی وہ کانوں کو کھجلائے اور کبھی وہ آنکھوں کو صاف کرے تو ظاہر ہے وہ توجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتا وہ نماز میں قیام اور رکوع اور سجدے تو کر سکتا ہے لیکن اس کی توجہ قائم نہیں رہ سکتی اس واسطے جس حد تک ممکن ہو توجہ کو قائم رکھنا چاہئے۔
خطبہ جمعہ کو سننا بھی اس لئے ضروری ہے کہ ایک تو یہ ہماری عبادت کا حصہ ہے اور دوسرے یہ ہفتہ میں ایک بار یعنی جمعہ کے روز دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امام پر بڑی سخت ذمہ داری ڈال دی ہے اسے لوگوں کی تربیت کے لئے کچھ نہ کچھ بیان کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑی سخت ذمہ داری ہے میری زندگی میں خلافت کے بعد ہفتے کے سات دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے سخت دن ہوتا ہے کیونکہ میرے مقام کے لحاظ سے کوئی ایسی بات منہ سے نہیں نکلنی چاہئے جو ٹھیک نہ ہو یا درست نہ ہو یا مفید نہ ہو یا ضروری نہ ہو یا پھر جماعتی تربیت اس کی محتاج نہ ہو۔ اس لئے مجھے بڑی استغفار کرنی پڑتی ہے۔ بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں بڑا غور کرنا پڑتا ہے۔ بڑا سوچنا پڑتاہے اس لئے میرے لئے یہ دن بڑا سخت ہوتاہے (اس اثناء میں چونکہ بارش کچھ زیادہ تیز ہو گئی تھی اور احباب ابھی تک شامل ہو رہے تھے اس پر حضور نے فرمایا) دوست اندر آجائیں ہمارے دل بڑے وسیع ہیں۔ یہ برآمدہ بھی بڑا وسیع ہے۔ یہاں اگر میں آپ کو باہر بٹھا دیتا اور آپ اپنے کانوں کو کھجلاتے رہتے اور آپ کے کان کے سوراخ خطبہ سننے کے قابل نہ ہوتے تو پھر تو ہمارا یہاں جمعہ پڑھنا ہی بے فائدہ تھا۔ ہم نماز پڑھتے اور جن دوستوں نے جلدی جانا تھا وہ اپنے گھروں کو چلے جاتے بہرحال خطبہ جمعہ کے متعلق یہ تاکیدی ارشاد ہے کہ خطبہ اتنی توجہ اور خاموشی سے سنا جائے کہ پاس بیٹھا آدمی اگر بولے بھی تو اسے منع کرنے کی طرف انسان کی توجہ نہ ہو ایسے شخص کو منع کرنے سے بھی روکا ہے کیونکہ اس سے اور زیادہ شور مچے گا۔
دوسری بات آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک میں اس وقت بڑا فتنہ و فساد برپا ہے۔ اس سلسلہ میں مَیں پہلے بھی دو خطبے دے چکا ہوں۔ آج میں بنیادی طور پر جو ہماری ذمہ داری ہے احباب کو اس کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں۔ ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں مفسد عجیب طرح کے فتنے سوچتاہے۔ مثلاً ۱۹۵۳ء میں جو فسادات ہوئے تھے عام طور پر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فسادات احمدیوں کے خلاف تھے۔ ایسا نہیں تھا بلکہ ان کی شکل یہ تھی کہ ایک وقت تک ’’مرزائیت مردہ باد‘‘ کے نعرے لگتے رہے اور پھر ایک خاص وقت پر آکر ’’مرزائیت مردہ باد ‘‘ کا نعرہ زبان پر آیا ہی نہیں بلکہ ’’حکومت مردہ باد‘‘ کے نعرے لگنے لگے۔ چنانچہ جب بھی فساد شروع ہوتا ہے ہمیں گالیاں دینے سے شروع کرتے ہیں اور ختم کرتے ہیں حکومت کے خلاف نعرے لگانے پر اور اس کے خلاف سخت فساد پیدا کرکے حکومت کا تختہ الٹنے پر۔ یہ ایک آسان طریق ہے کہ زور اور طاقت حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ ہمارے خلاف نعرے لگاتے ہیں یعنی ابتداء ہمارے خلاف نعرے لگانے سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا حکومت کے خلاف فتنہ اور فساد پر ہوتی ہے۔
پس دوستوں کو بڑی دعا کرنی چاہئے۔ اب نعرے بھی لگ رہے اور خفیہ سکیمیں بھی بن رہی ہیں اس خیال کے ماتحت کہ شاید ہمیں پتہ نہیں لگے گا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جہاں بھی شرارت کی باتیں ہوتی ہیں تو انہی میں سے کوئی شخص آکر بتا دیتا ہے کہ فلاں جگہ اس قسم کی شرارت کی بات ہو رہی ہے اگر ہم بڑے غریب ہیں ہمارے پاس سامان نہیں، سیاسی اقتدار نہیں، حکومت نہیں ہم تو خداتعالیٰ کے عاجز بندے ہیں تاہم ہماری جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے۔ اسلام کے مقابلے میں تمام ادیانِ باطلہ مٹ جائیں۔سارے اندھیرے جاتے رہیں۔ اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں کسی کو اسلام کی اشاعت کا فکر نہیں اور نہ اسلام کا درد ہے۔ یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے اس لئے ہمارا فکر اور ہمارا تدبر ہمارا پڑھنا اور ہمارا سننا، ہمارا سونا اور ہمارا جاگنا اسلام کی ترقی کے لئے وقف ہے۔ لیکن دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے۔ دشمن یہ سمجھتاہے کہ وہ طاقتور ہے ملک کے حاکموں کے مقابلے میں۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے پاکستان کے مقابلہ میں، اس لئے وہ اسے مٹانا چاہتا ہے۔ غرض اس وقت کئی خیالات ہیں جو لوگوں میں چکر لگا رہے ہیں۔
تاہم جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ مجھے تو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی کہ میں بڑا غریب ہوں میں سے مراد جماعت احمدیہ ہے کیونکہ جماعتِ احمدیہ اور اس کا امام ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ بہرحال ہمارے پاس نہ کوئی سیاسی اقتدار ہے اور نہ سیاسی اقتدار کے لئے اپنے اندر کوئی دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ نہ ہمارے پاس تلوار ہے اور نہ بندوق ہے اور نہ کوئی اور سامان ہیں۔
لیکن ایک ہتھیار اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دیا ہے جس کے مقابلے میں کوئی ہتھیار ٹھہر نہیں سکتا اور وہ دعائوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ہتھیار ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزانہ طور پر جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کے لئے آتا ہے۔ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی شکست کھائی یا دشمن سے مار کھائی یا دشمن کے ہاتھوں ذلت اٹھائی تو وہ اسلام کو چھوڑ کر اور خداتعالیٰ سے دور ہو کر اٹھائی۔
پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک زبردست ہتھیار ہے تم اسے استعمال کرو اور بہت دعائیں کرو۔ صرف اپنے لئے نہیں صرف اپنوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے بلکہ اپنے دوستوں کے لئے جن کا جماعت کے ساتھ تعلق نہیں حکومت کیلئے اور پھر اپنے دشمنوں کے لئے بھی دعا کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص بھی پختہ ایمان والا نہیں ہوا جو اپنے دشمن کے لئے دعا نہیں کرتا۔ ویسے ہماری تو کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے لیکن جس کو ہمارے ساتھ دشمنی ہے اس کے لئے بھی ہم دعا کریں گے۔
اللہ تعالیٰ اسے عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ وہ اپنی تباہی اور ملک کی تباہی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔
بہرحال ہم عاجز بندے ہیں اور یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے ہم اسے بھولے تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھنے پر بھی اتنا زمانہ نہیں گذرا کہ ہم یہ کہیں کہ پہلوں نے نشان دیکھے تھے۔ ہمیں کیامعلوم ہے نہیں! ہمیں بھی معلوم ہے کیونکہ ہم بھی روز یہ نشان دیکھتے ہیں۔ کوئی پشاور میں نشان نظر آرہا ہے کوئی نشان گوجرانوالہ میں نظر آرہا ہے۔ کوئی گجرات میں نظر آرہا ہے۔کوئی سیالکوٹ میں نظر آرہا ہے۔ کوئی نشان ملتان، بہاولپور اور کراچی غرض سارے پاکستان میں یہاں تک کہ ساری دنیا میںنشان نظر آرہے ہیں۔ ہمارا ربّ بڑا ہی پیار کرنے والاہے اگر ہم اس سے بے وفائی نہ کریں تو وہ انسان سے کہیں زیادہ وفادار ہے اگر ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں تو وہ ہمیں اپنے فضلوں سے بہت زیادہ نوازتا ہے اسی لئے اس نے قرآن کریم میں فرمایا:- (ابراہیم:۸) پس اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔
بعض لوگ جو ابھی احمدی نہیں ہوئے مثلاً افریقہ میں بھی ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی ہیں وہ اپنی تقریروں میں علی الاعلان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے احمدیت کی صداقت کے نشان دیکھے ہیں چنانچہ سیرالیون کے ایک سابق ڈپٹی پرائم منسٹر کے متعلق میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ جب میں افریقہ کے دورے پر گیا اور سیرالیون پہنچا تو اس نے پیچھے پڑ کر استقبالیہ دیا میں سمجھتا تھا کہ سابق نائب وزیر اعظم صاحب اس لئے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ اس طرح وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی استقبالیہ تقریر میں یہ کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں ہوں۔ لیکن جس شخص نے (یہ ان کے الفاظ تھے) بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت کی اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ کرکے رکھ دیا۔ اب وہ ایک ایسے شخص سے جو یہاں سے پانچ ہزار میل دور سیرالیون کے رہنے والے تھے نہ وہ یہاں آئے نہ مرکز سلسلہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا احمدی وہ نہیں تھے محض ایک سیاستدان ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی تقریر میں کہا میں نام نہیں لیتا (شاید ان کی وزارت کے زمانہ میں کوئی وزیر تھا) بڑا امیر آدمی تھا اس کے پاس کاریں تھیں وہ بڑے پیسے والا تھا مگر اس نے جماعت کی بڑی مخالفت کی تھی تم میں سے ہر ایک شخص کو پتہ ہے۔ میں اس کانام نہیں لیتا۔ مگر اب بتائو کہاں ہے وہ آدمی کہاں ہیں اسکی کاریں اور کہاں ہے اس کاخاندان؟ غرض یہ الفاظ ایک غیر از جماعت سمجھدار اور سابق نائب وزیر اعظم کے ہیںجس نے اپنی تقریر میں برملا اظہار کیا اور احمدیت کی صداقت کا ایک نشان بنا۔
غرض اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے حق میں ساری دنیا میں اپنی قدرت اور اپنے پیار کے نشان دکھاتا ہے جب تک ہم اس کے وفادار اورشکر گذار بندے بنے رہیں گے اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے نشان اور اس کے پیار کے جلووں کو دیکھتے رہیں گے۔ اس واسطے عاجزانہ دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے پیار اور اس کے فضلوں کو جذب کرو تاکہ دشمنوں کی طرف سے جو بھی فتنہ کھڑا ہو وہ کامیاب نہ ہو۔ ہمیں ان کی ہلاکت سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہلاک ہوں۔ ہم تو ان کی اصلاح چاہتے ہیں ہم ان کے مقابلے پر کھڑا ہونا نہیں چاہتے ہم دعا کرتے ہیں کہ ان کے جو منصوبے ہیں وہ ’’خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ ‘‘ توڑ کر رکھ دے وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اسلام کو غلبۂ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھاتی چلی جائے۔ احباب اس کے لئے دعا کرتے رہیں۔
خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے متعلق خدام سے خطاب
تیسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عنقریب خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا اجتماع ہونے والا ہے۔ ۵۔۶۔۷؍ اکتوبر ربوہ میں منعقد ہوگا۔ چونکہ اس خطبہ کے چھپنے اور جماعتوں میں پہنچنے پر کچھ وقت لگے گا اس واسطے میں نے اس اجتماع کے متعلق کچھ کہنے کے لئے اس جمعہ کو چنا ہے۔
پچھلے دنوں جب میں ربوہ گیا تھا اس وقت میں نے ’’محنت کر و محنت کر و محنت کرو‘‘ کے مضمون پر خطبہ دیا تھا وہ خطبہ ابھی چھپا نہیں۔ میں نے اس خطبہ میں یہ بتایا تھاکہ جہاد کے اصل معنی ہیں انتہائی طاقت استعمال کر دینا۔ پھر میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ تین قسم کے جہاد اسلام میں بیان ہوئے ہیں ایک جہاد اکبر ہے دوسرا جہادِکبیر ہے اور تیسرے کو جہاد صغیر کہتے ہیں۔ اور جہاد کے بنیادی معنے کی رو سے ہر سہ قسم کے جہادوں میں کوشش کو انتہا تک پہنچانا لازمی ہے۔ جہاد اکبر نفس کے خلاف جہاد ہے یعنی شیطان کے جو حملے نفس کے خلاف یا کسی خاص شخص کے خلاف ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی خداداد طاقتوں کو ان شیطانی حملوں سے محفوظ رکھ کر ان کی انتہائی نشوونما کے لئے کوشش کرنا ہے۔ ہم نے اپنی قوتوں کی پرورش کرنی ہے، انتہائی زور لگانا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ خداداد طاقتوں کی نشوونما میں کوئی تدبیر رہ نہ جائے کوئی غفلت یا سستی نہ ہوجائے اس کوشش کوجہاد اکبر کہتے ہیں۔
میں نے بتایا تھا کہ جہاد اکبر کے ذریعہ اسلام کی ایک زبردست فوج تیار ہوتی ہے اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدوسیوں اور مطہرین کے سردار ہیں آپ کی فوج غیر مطہر اشخاص پرمشتمل نہیں ہو سکتی۔ اس واسطے جس شخص نے اسلام کی فوج کا سپاہی بننا ہو اور وہ دل سے یہ چاہتا ہو کہ وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خود مطہر بنے۔
پس جہاد اکبر ایک ذریعہ ہے نفوس کی اصلاح کا۔ تاکہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے اسلام کی ایک زبردست فوج تیار کی جائے یہ فوج تلوار یا ایٹم بم لے کر دنیا میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ پاک نفوس اور منور سینوں کو لے کر دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نکلتی ہے۔
پس یہ اصلاح نفس، جس سے اسلام کی فوج تیار ہوتی ہے، اس کے لئے دو بنیادی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ایک ولِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌ کے مطابق خود انسان اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اس کو ہماری اصطلاح میں محاسبہ نفس کہا جاتا ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے ایک نئی اصطلاح بنا دی ہے میرے کان تو اس سے مانوس نہیں اور نہ اس کی ضرورت تھی وہ محاسبۂ نفس کی جگہ ’’خود تنقیدی‘‘ کہتے ہیں۔ اب جبکہ ہمارے پاس محاسبۂ نفس جیسی ایک نہایت عمدہ اصطلاح موجود تھی تو پھر بھلا ’’خود تنقیدی‘‘ کی اس اصطلاح کی کیا ضرورت تھی؟ یہ اصطلاح اردو میں استعمال نہیں ہوتی۔ ہمارے کان اس سے ناآشنا بھی ہیں اور اسے سننا پسند بھی نہیں کرتے۔
بہرحال ایک تو یہ محاسبۂ نفس ہے جس کے ذریعہ انسان خود اپنا خیال رکھتا ہے کہ اس نے کہاں غلطی کی ہے۔ انسان کے اندر بشری کمزروریاں ہیں وہ غلطی کرتا ہے محاسبۂ نفس کی عادت ہو تو اس کے اندر ندامت پیدا ہوتی ہے وہ توبہ و استغفار کرتاہے اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے اصلاح نفس یعنی انسانی قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشوونما کے لئے کئی دوسرے طریقے بھی ہیں جنہیں انسان اختیار کر سکتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(بنی اسرائیل:۱۳)
یعنی انسانی طاقتوں اور قوتوں کی بہترین اور حقیقی اور کامل نشوونما کے لئے جس قسم کی تعلیم اور ہدایت کی ضرورت تھی وہ قرآن کریم کے ذریعہ کھول کر بیان کر دی گئی ہے۔
پس انسان جب ذاتی اصلاح کے لئے قرآن کریم پر غور کرتا ہے تو اسے اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے اس کی صرف یہی خواہش نہیں ہوتی کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فوج کا ایک سپاہی بنے بلکہ اس کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فوج کا ایک ایسا سپاہی بنے جس کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پیار حاصل ہو۔
غرض ایک تو یہ کوشش ہے جس سے انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور جہاں غلطی دیکھتا ہے وہ اس کی اصلاح کرتا ہے اصلاح نفس کے لئے اسلام نے ہمیں جو دوسرا ذریعہ بتایا ہے وہ (المائدہْ:۳) ہے۔ اس میں ہم اپنے نفس کی اصلاح کے علاوہ اپنے بھائی کے نفس کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ کے یہی معنے ہیں کہ اپنے بھائی کو نیکی اور تقویٰ کے اختیار کرنے میں مدد دی جائے تاکہ اس کی غلطیاں اور کمزوریاں، اس کی سستیاں اور غفلتیں دور ہوں اور باہم مل کر اس رفعت کے میدان میں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے لئے تیار کیا گیا ہے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں وہ اپنی اصلاح کرکے کندھے سے کندھا ملا کر روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے چلے جائیں۔
پھر کی جو کوشش ہے وہ آگے دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے ایک انفرادی اور دوسری منظم۔ جہاں تک انفرادی کوشش کا تعلق ہے ایک بھائی بھائی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ ایک دوست دوست کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ ایک خاوند بیوی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ایک بیوی خاوند کی اصلاح کی کوشش کرتی ہے۔
یعنی انسانی معاشرہ میں جو لوگ تعلق رکھنے والے اور قریبی ہیں وہ جس رنگ میں بھی قریبی ہوں وہ اپنے قرابت داروں کا پور اخیال رکھتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تاکہ ان کے اندر جو قوتیں ہیں وہ کامل نشوونما حاصل کریں۔
پھر ایک منظم طریق ہے جس پر الٰہی سلسلے کام کرتے ہیں مثلاً قرون اولیٰ میں ایک منظم طریق یہ تھا کہ جہاد کا اعلان ہوجاتا تھا۔ جہاد کے لئے چلنے کا حکم ملتا تھا اور لوگ جوق در جوق جہاد کے لئے چل پڑتے تھے۔ چنانچہ جہاد صغیر کو ذریعہ بنایا جاتا تھا جہاد اکبر یعنی انسان پر روحانی حسن چڑھانے کا۔ جس طرح لڑکوں کو کچھ پڑھا کر پھر ان کا امتحان لیا جاتا ہے اور اس سے ان کی قابلیت کا پتہ لگتا ہے۔ امتحان کے قریب آکر طلبہ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اُس وقت تو ایک نکما طالب علم جس کی پڑھائی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوتی،وہ بھی کوشش کرتا ہے کہ امتحان کے سات دن پہلے خوب پڑھے۔ میں نے ایسے طالب علموں کو خود دیکھا ہے کہ وہ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سات دن کے ’’رت جگے‘‘ کے نتیجہ میں وہ بڑے اچھے نمبر لیں گے۔ یہ ان کی غلطی ہوتی ہے لیکن بہرحال جب امتحان کا وقت قریب ہو تو انسان کی کوشش تیز ہو جاتی ہے۔ تو اسی طرح جہاد کے دوران میں جب موت اپنے سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے تو کمزور سے کمزور آدمی بھی اپنی اصلاح نفس کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے۔ میں اس وقت جہاد صغیر کے اس حصے کو لے رہا ہوں جس کا تعلق اجتماعی طور پر نفس کی اصلاح سے ہے اور یہ بتا رہا ہوں کہ جہاد صغیر کے دوران میں انسان کے دل میں ایک خوف پیدا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید وہ دو دن یا تین دن کے بعد خدا کے حضور پیش ہو جائے تو کیا منہ لے کر خداکے حضور پیش ہو گا؟ پھر وہ زیادہ استغفار کرتا ہے۔ وہ اپنے اخلاص اور ایثار میں زیادہ حسین نظر آتا ہے اس کے روحانی حسن میں زیادہ چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس میں اور زیادہ حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس وقت بھی بہت سے اجتماعی کام ہیں جن میں ایک خدام الاحمدیہ کا کام ہے جس کا ایک شعبہ اس کا سالانہ اجتماع ہے اگرچہ خدام الاحمدیہ کااجتماع اصلاح نفس کی ساری ضرورتوں کو تو پورا نہیں کرتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اجتماع نفس کی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور بہترین سبق ہے اس لئے احمدی نوجوانوں کو اس طرف پوری توجہ دینی چاہئے۔
ہماری رجسٹرڈ جماعتیں ہزار کے قریب ہیں (رجسٹرڈ سے مراد یہ ہے کہ جو ہمارے رجسٹروں پر درج ہیں) کئی ایسی جماعتیں ہیں جو ایک جماعت کے طور پر ہمارے رجسٹروں میں درج ہیں مگر ہیں وہ دو یا تین یا پانچ یا سات آبادیوں پر مشتمل یعنی انتظامی سہولت کے پیش نظر قریبی اور چھوٹے چھوٹے گائوں پر مشتمل ایک جماعت بنا دی گئی ہے۔
میرے خیال میں ابھی تک خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع میں جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے بمشکل پچاس فیصدی نمائندگی ہوتی ہے۔ صحیح اعداد و شمار تو مجھے اس وقت یاد نہیںتاہم کم و بیش پچاس فیصد نمائندگی کا مطلب یہ ہے کہ باقی پچاس فیصد کے نمائندے اجتماع میں شامل نہیں ہوتے حالانکہ اجتماع کی افادیت کے پیش نظر ان کو بھی شامل ہونا چاہئے تھا تاکہ اجتماعی اصلاحِ نفس کی جو ذمہ داری ہے اس سے ہم عہدہ برآ ہو سکیں۔ لیکن یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے نوجوان اجتماع میں شامل ہوں۔ اگر وہ مرکز میں پہنچیں گے نہیں تو ان کی اصلاحِ نفس کی اجتماعی کوشش شروع کیسے ہوگی؟ لیکن انفرادی اصلاح یعنی اپنے بھائی کے نفس کی اصلاح تو یہاں بھی اور وہاں بھی ہر جگہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت مختلف جماعتوں کے خدام یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی اپنی جماعتوں میں جاکر اپنے دوسرے خدام بھائیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے کی ترغیب دلائیں۔
غرض ہر جماعت کا کم از کم ایک نمائندہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں ضرور شامل ہونا چاہئے۔ اجتماع میں ہماری پوری کی پوری جماعت کی نمائندگی ہونی چاہئے کسی جگہ اگر ایک یا دو احمدی گھرانے ہیں انہوں نے ایک جماعت کی شکل اختیار نہیں کی مگر ہیں بڑے مخلص گھرانے۔ وہ اپنے چندے براہِ راست مرکز میں بھجوا دیتے ہیں۔ وہ جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی آدمی خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں آجاتا ہے تو جب مجلس خدام الاحمدیہ اپنے حاضری کے رجسٹر پر اسے درج کرنا چاہتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی جماعت کا نمائندہ نہیں کیونکہ اس کی جماعت کا نام ہمارے رجسٹروںمیں درج ہی نہیں ہوتا۔ پھر وہ ویسے ہی اجتماع میں تقریریں سن کر یا کھیلیں دیکھ کرچلے جاتے ہیں اور اکثر نہیں بھی آتے۔ میرے خیال میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی نمائندہ شامل ہی نہیں ہوتا۔ پس تمام جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں بھی کوشش کریں تاکہ خدام کے اجتماع میں ان کی نمائندگی سو فی صد تک پہنچ جائے۔چوتھے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر ذمہ داریاںبٹ جاتی ہیں جہاں تک منتظمین کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے وہ تو مختلف النوع ہیں مَیں صرف اجتماع کے پروگرام کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پروگرام ایسا بنانا چاہئے کہ وہ نوجوان احمدیوں کی اصلاحِ نفس میں زیادہ سے زیادہ ممد ہو۔
پانچویں نوجوان احمدیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اجتماع کے دوران میں اپنے اوقات کو نیکی کی باتیں سننے اور سنانے میں خرچ کریں تاکہ جب وہ اپنی جماعتوں میں واپس آئیں تو اپنے دل میں زیادہ سے زیادہ اخلاص اور نیکی محسوس کریں اور پھردعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خلوص سے کام کرنے اور نیکی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پس ہمارے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نوجوانوں کو یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ آج دنیا میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اور اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کی خاطر جو جنگ لڑنی ہے وہ کوئی معمولی جنگ نہیں ہے وہ بڑی زبردست جنگ ہے۔ دہریت (جسے ہم اشتراکیت اور کمیونزم بھی کہتے ہیں) دنیا کی آدھی آبادی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصے پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف مذہب کے نام پر زندہ رہنے والی قومیں خواہ کتنی ہی کمزور ایمان والی کیوں نہ ہوں یا بدمذہب جن میں کسی نبی کی تعلیم کا ایک معمولی سا عکس نظر آتا ہے اور اسے بھی وہ اب بھول چکے ہیں لیکن بہرحال وہ لامذہب نہیں کہلا سکتے۔ (بدمذہب کی اصطلاح نئی نہیں ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعمال فرمایا ہے۔) انہوں نے آدھی دنیا کی دولت سنبھالی ہوئی ہے اور دنیوی لحاظ سے ان کی بہت بڑی طاقت ہے اور اسلام دشمنی میں بھی یہ لوگ بہت نمایاں ہیں۔ جس طرح آج جو شخص بھی مفسدانہ نعرہ لگانا چاہتا ہے وہ ’’مرزائیت‘‘ کے خلاف نعرہ لگا دیتا ہے حالانکہ مرزائیت تو دنیا میں ہے ہی کہیں نہیں۔ یہ تو احمدیت ہے۔ لیکن بہرحال فساد برپا کرنے کی نیت سے مرزائیت کے خلاف نعرہ لگ جاتا ہے لیکن جو باہر کی دنیا ہے یعنی اسلام سے باہر کی دنیا وہ جب بھی شرارت کرنا چاہتی ہے وہ اسلام کو ملوث کرتے اور اس کے خلاف باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایک عیسائی جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے کلی طور پر علیحدہ اور جدا ہو چکا ہے اس کے دل میں عیسائیت سے کوئی پیار نہیں رہا وہ بات بات میں کہے گا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا نہیں، اس کے متعلق تمہیں بات کرنے کا حق تب پہنچتا جب تم حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ عیسائیت پر سے ایمان تو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اب اسلام کے خلاف یہ دلچسپی تمہارے اندر کہاں سے پیدا ہوگئی ہے کہ تم بات بات میں اسلام کے خلاف جھوٹ بولنے لگے ہو۔
میں نے اس وقت تک یورپ کے دو دورے کئے ہیں۔ مجھے وہاں یہ عجیب بات نظر آئی کہ عیسائیت غائب ہے اور اسلام دشمنی قائم ہے۔ پہلی بار جب میں ۱۹۶۷ء میں وہاں دورے پر گیا تھا تو دو جگہ مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے۔ ایک پریس کانفرنس میں ۲۰۔۲۵ صحافی یہ جواب سن کر بلا مبالغہ سُن ہو کر رہ گئے تھے۔ ایک منٹ تک تو ان کے منہ سے کوئی بات نہیں نکل سکی تھی کیونکہ انہوں نے ساری عمر یہ سن رکھا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور ان کا سوال دراصل اسلام پر یہ طعن تھا کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلتا ہے۔ تلوار ہم نے اسلام کے ہاتھ سے چھین لی ہے اب تم ہمارے ملک میں اسلام پھیلانے کے لئے کیا جھک مارتے پھرتے ہو۔ لیکن جس وقت انہوں نے میرا یہ جواب سنا تو مبہوت ہو کر رہ گئے۔ غرض اسلام کو پھیلانے کے لئے تلوار کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔ ہم لوگوں کے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے۔ کیونکہ اسلام کی تعلیم کے اندر اتنا حسن و احسان موجود ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تلوار کی ضرورت ہی نہیں ہے میں چونکہ پہلے بھی اپنے کئی خطبات میں اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
تاہم میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ادیان باطلہ کے خلاف ہماری زبردست جنگ جاری ہے۔ اس وقت دنیا کا جاہل بھی اور پڑھا لکھا طبقہ بھی دنیا کا مذہبی بھی اور خدا کو گالیاں دینے والا بھی اسلام پر حملہ آور ہے۔ ہم نے نہ صرف اسلام کا دفاع کرنا ہے بلکہ دنیاکو اسلام کے حسن و احسان کا گرویدہ بنا کر اسے محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالنا ہے یہ کام بڑا ہی عظیم کام ہے جتنا یہ عظیم الشان کام ہے ہم پر اتنی ہی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اس لئے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری جو نوجوان نسل ہے وہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلامی فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہ ہو اور غیرتربیت یافتہ ہو۔ چنانچہ اس تربیت کی خاطر ہم بہت سی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ایک تدبیر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ کی تھی کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم بنا دی اور پھر اس تنظیم میں مزید حسن پیدا کرنے کے لئے ان کا ایک اجتماع رکھ دیا جو سال بسال ہوتا چلا آرہا ہے۔
چھٹے یہ اجتماع منتظمین پر بھی بڑی بھاری ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اجتماع کے موقع پر اگر بعض غیر تربیت یافتہ نوجوان گپیں ہانکنے لگ جائیں تو انہیں دیکھ کر غصے نہیں ہونا چاہئے بلکہ پیار سے سمجھانا چاہئے۔ وہ وہاں تربیت حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں وہ حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی طرح تو نہیں ہوتے ہم انہیں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی نیکی اور تقویٰ کو اپنائیں مگر اُن کے بلند معیار پر ہر ایک کو پرکھا تو نہیں جاسکتا۔
بہرحال خدام میں تربیت کی کمی ہوتی ہے اسی لئے تو ہم ان کو وہاں بلاتے ہیں۔ اجتماع میں مثلاً تقریروں کے دوران میں بعض غیرتربیت یافتہ نوجوان اپنے خیمہ میں آپس میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ منتظمین ان پر غصے ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ ایسی صورت میں منتظم کو چاہئے کہ وہ خود بھی ان کے پاس بیٹھ جائے۔ انہیں آرام سے سمجھائے اور کہے آئو چلیں تقریریں سنیں۔ میں نے بھی غلطی کی بیٹھ گیا آپ نے بھی غلطی کی بیٹھ گئے۔ اسی طرح آرام سے سمجھانے سے یقینا ان پر خاطر خواہ اثر ہوگا۔ پس اجتماع کا اصل مقصد خدام کی تربیت اور اصلاح ہے۔
پھر منتظمین کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ (المائدۃ:۳) کے اصول کی رو سے اور جہاد اکبر کے لحاظ سے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدام کے ساتھ تعاون کریں اور انہیں آرام سے سمجھائیں اور انہیں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کی احسن رنگ میں تلقین کریں۔ تاکہ ہم انفرادی اور اجتماعی ہر دو رنگ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے لگ جائیں۔ ہم صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی دنیا کو اسلام کے نور سے منور کر دیں تاکہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آئے گا جلد تر پورا ہو۔ خدا کرے ہماری زندگیوں میں پورا ہو۔
پس خدام الاحمدیہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اجتماع میں شمولیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجتماع میں شامل ہونے کی کوشش کریں پھر اجتماع کو کامیاب بنانے کی طرف منتظمین بھی توجہ دیں۔ اجتماع کے دنوں میں خدام اصلاح نفس اور علوم دینیہ کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ خدا کرے ہماری یہ کوششیں پوری طرح کامیاب ہو جائیں۔ خداتعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ۲ تا۶)
ززز

موجودہ انقلابی تحریکیں تمہید ہیں اس عظیم اسلامی
انقلاب کی جو آخری زمانہ میں مقدر بن چکا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍اگست ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-
(الفرقان:۳۱)
(الانعام:۳۹)
پھرحضور انور نے فرمایا:-
اس سے قبل چند خطبات مَیں اس مضمون پر دے چکا ہوں۔ قرآن کریم ایک عظیم ہدایت اور کامل شریعت ہے۔ خود قرآن کریم نے اپنی عظمت اور علوِّ شان کا دعویٰ بھی کیا ہے اور اس پر دلائل بھی قائم کئے ہیں۔ قرآن کریم کی اس عظمت اور کمال کے باوجود بنی نوع انسان کی ایک بڑی تعداد اور خود امت محمدیہ کا ایک حصہ اس قرآن عظیم سے قطع تعلق کرتا ہے۔ وہ نہ زبان سے اس کی طرف رغبت کا اظہار کرتا اور نہ اپنے عمل سے اپنے دلی لگائو کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک اور عظمت اور شان آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں بیان کر دی گئی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے علم میں یعنی علم الٰہی میں کوئی ایسی بنیادی بات نہیں تھی جس کی انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہو اور قرآن کریم نے اسے بیان نہ کیا ہو۔ چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر قیامت تک کی ضرورتوں کو اس کتابِ عظیم نے پورا کرنا تھا اور لوگوں کی ہدایت کے سامان مہیا کرنے تھے اور ایسی تعلیم دینی تھی جو خداتعالیٰ کی طرف انہیں لے جانے والی اور اللہ تعالیٰ سے انسان کے ذاتی تعلق کی پختگی کو قائم رکھنے والی ہو۔ چنانچہ سورۂ انعام کی آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
تاہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس صدی میں مبعوث ہوئے تھے اس صدی کی انسانی ضرورتیں اس صدی کی ضرورتوں سے مختلف تھی جس میں انسان نے صنعتی انقلاب بپا کیا یا زراعت میں یعنی زمین سے پیداوار کے حصول میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور انسان نے اس سلسلہ میں نئے طریقے رائج کئے۔ چنانچہ اس زمانے میں یعنی قرون اولیٰ میں لوگوں کو اس کا تفصیلی علم دیا جانا ضروری نہیں تھا کیونکہ اُن کی یہ ضرورت نہیں تھی لیکن جو اس وقت کی ضرورتیں تھیں امت مسلمہ کو ان کا تفصیلی علم دے دیا گیا تھا۔
ویسے اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کی ضرورتوں کا علم دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھتے اور ان پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کی سائنس نے جو ضرورتیں پوری کیں یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے ان کے متعلق ہمیںحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہدایت ملتی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال دے کر میں اس حقیقت کو واضح کروں گا۔
انسان کے دانت کی صحت کی حفاظت کے لئے انسانی علم نے ماضئ قریب میں بہت ترقی کی ہے جس میں ایک نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ دانت صاف کرنے کے لئے انسان نے آج کل جو برش بنائے ہیں ان کو اوپر سے نیچے دانتوں پر پھیرنا چاہئے۔ جہاں تک امت محمدیہ کا تعلق ہے وہ تو ان ایجادات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل میں مسواک کرتی رہی ہے۔ مسواک، برش اور ٹوتھ پیسٹ (دانت صاف کرنے والی دوا) کا مجموعہ ہے۔ انسان نے برش علیحدہ بنا لیا اور ٹوتھ پیسٹ ٹیوبوں کی شکل میںعلیحدہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔ بہرحال حفظان صحت پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹروں نے یہ بات نکالی کہ مسوڑھوں پر برش کی حرکت نیچے سے اوپر نہیں ہونی چاہئے اس سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں اسلئے اوپر سے نیچے کی طرف حرکت ہونی چاہئے۔ اس سے صفائی بھی زیادہ ہوگی۔ مسوڑھے بھی صحت مند رہیں گے اور دانتوں میں خرابی کا امکان بھی پیدا نہیں ہوگا۔ چنانچہ ڈاکٹر بڑے خوش تھے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز ایجاد کی ہے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اعجاز صاحب جو دانتوں کے بڑے اچھے ماہر ہیں ان سے باتوں باتوں میں مَیں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مسواک کو اوپر سے نیچے کی طرف لے جائو۔ نیچے سے اوپر کی طرف لے کر نہ جائو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر وہ بڑے حیران بھی ہوئے اور بڑے خوش بھی ہوئے۔ کہنے لگے مجھے اس کا حوالہ چاہئے۔ شاید انہوں نے کوئی مضمون لکھنا ہوگا میں نے یہ حوالہ نکلوا کر انہیں بھجوا دیا تھا۔ گو یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے لیکن جس وقت انسان نے اپنے دانت غلط قسم کی غذا کے نتیجہ میں زیادہ خراب کر لئے تو اس کے لئے یہ مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ پرانے زمانہ میں لوگوں کو مسواک کرنے کی عادت تھی اور اس سے دانت بڑے اچھے رہتے تھے۔ پھر غذا کا دانتوں کی صحت کے ساتھ بڑا تعلق ہے۔ مثلاً جو لوگ زیادہ میٹھا کھانے والے ہوتے ہیں۔ اُن کے دانت بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جو قومیں ہر وقت منہ میں چینگھم رکھتی ہیں ان کے دانت اکثر خراب رہتے ہیں یا جن لوگوں کو بڑی کثرت سے چاکلیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے یا ہمارے ملک میں بچے ہر وقت میٹھا پھانکتے رہتے ہیں ان کے دانت خراب ہوجاتے ہیں۔
غرض دانتوں کی خرابی اس رنگ میں اور اس وسعت کے ساتھ اس زمانے کی بیماری ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے غور کیا۔ حفظان صحت کے طریقے نکالے اور وہ بڑے خوش تھے کہ انہوں نے ایک مفید طریقہ نکال لیا ہے حالانکہ یہ طریقہ پہلے سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں پایا جاتا ہے۔
یہ میں نے ایک چھوٹی سی مثال دی ہے۔ اس سے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصولی طور پر قیامت تک کے جو مسائل اور الجھنیں تھیں ان کا علم دیا گیا تھا اور قرآن کریم کی وہ تفسیر جس کا تعلق اس زمانے کے ساتھ تھا وہ تفسیر اصولی طور پر بتا دی گئی تھی۔ تاہم اس کی تفصیل میں جانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقت نہیں تھا۔ کیونکہ اگر آپ زیادہ تفصیل میں جاتے تو اس زمانے کے لوگ جن کو ہم صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں۔ اُن کے لئے ان باتوں کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔
بہرحال قرآن کریم کا یہ دعویٰ واقعی بڑا عظیم دعویٰ ہے کہ اس میں ہر ضروری بات بیان ہو گئی ہے۔ تاہم اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ پہلی صدی کی ضروری باتیں جو انسان کے لئے تھیں وہ اور تھیں اور دوسری صدی کی ضروری باتیں جو انسان کے لئے تھیں وہ اور تھیں اور دوسری صدی کی ضروری باتیں اور تھیں۔ اسی طرح آج سے دو سو سال پہلے کی ضروری باتیں اور تھیں۔ دوسو سال پہلے ایک عظیم انقلاب بپا ہورہا تھا۔ یہ انقلاب سرمایہ داری کا انقلاب تھا۔ سرمایہ داری نظام ایک انسانی نظام تھا۔ اس میں بڑی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور وہ خرابیاں بڑھتی چلی گئیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک عظیم انقلاب تھا مثلاً اس سرمایہ داری نظام کے دور میں ہوائی جہاز بھی آگئے تھے۔ ریلوں کا استعمال شروع ہو گیا تھا سمندری سفر کی سہولتیں میسر آگئی تھیں۔ تار کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ وغیرہ
پس یہ ایک عظیم انقلاب تھا جو زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے لوگو ں کو ایک خاندان بنانے میں ممد ثابت ہورہا تھا بعد میں بھی ممد ثابت ہوا اور آئندہ اور زیادہ ممد ثابت ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں اسلامی نظام کے تحت آجائیں گی تو اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جائے گا۔
پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ ہر صدی کی یا ہر زمانے کی یا ہر ملک کی یا ہر انسان کی ضرورتوں کو سلجھانے کے لئے بنیادی اور اصولی تعلیم قرآن کریم میں دے دی گئی ہے۔ اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۹۹ باتیں بیان کی گئی اور ایک چھوڑ دی گئی گئی سَو کی اگر ضرورت تھی تو سَو باتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ اس کے لئے اللہ تعالی نے ایک نظام قائم کیا ہے اور اس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ فرمایا:-

یہ سارا نظام اسی دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ آج سے پانچ سو سال کے بعد جو مسائل ہیں ان میں آج کے انسان کو اپنا وقت اس سوچ میں ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کیسے حل کئے جائیں گے؟ آج کے جو مسائل ہیں وہ پہلی صدی سے بہت مختلف ہیں۔ پہلی صدی کے انسان کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ کیونکہ چودہ سو سال بعد وہ مسائل پیدا ہونے تھے۔ لیکن قرآن کریم میں وہ بیان بھی ہو گئے اور قرآن کریم میں وہ چھپائے بھی گئے اس کے لئے ایک نظام اور روحانی علماء کے سلسلہ کا قیام ضروری ٹھہرا۔
ایک روحانی عالم خداتعالیٰ سے علم سیکھ کر اپنے زمانے، اپنی قوم اور اپنے ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ہدایت لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ سے جو علم سیکھتا ہے وہ دراصل قرآنی رموز اور اسرار کا علم ہوتا ہے جو اسے ان مسائل کے حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے جن کے ذریعہ قرآن کریم کی تعلیم اور نئی تفسیر کی روشنی میں نئے انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے یہ کام انسانی عقل سے بالا ہے۔ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی عقل ان رموز اور اسرار کو حاصل نہیںکر سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(الواقعۃ:۸۰)
قرآن کریم کے علوم سیکھنے کے لئے عقل کافی نہیں ہے۔ بلکہ قلبی طہارت کی بھی ضرورت ہے اس لئے جو لوگ پاک اور مطہر نہیں ہوتے وہ قرآنی رموز اور اسرار پر آگاہی نہیں پاسکتے یوں ویسے لوگوں میں دنیوی لحاظ سے بڑی عقل نظر آتی ہے۔ آخر یہ ساری ایجادات انسانی عقل کا کرشمہ ہیں۔ اس کام کے لئے دلی پاکیزگی اور طہارت کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم ان ایجادات کے نتیجہ میں وہ انسان کی خوشحالی کا سامان پیدا نہیں کر سکے۔
اب مثلاً سرمایہ داری نظام ہے اس سے ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ۔مگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ ریل ایجاد ہو گئی لیکن ریل کے صحیح اور اچھے اور مفید نتائج جو خوشحالی کا باعث بنتے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوئے۔ اسی طرح یہ سمندری اور پھر ہوائی جہازں کا سفر ہے اس نے انسان کو ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب تو کر دیا لیکن انسان کو ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب کر دینے کے نتیجہ میں جو مسائل پیدا ہونے تھے ان کو حل نہیں کیا۔ مثلاً دو سو سال پہلے لندن میں رہنے والا شخص اگر وہ زمیندار ہے تو ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک اور لارڈ کہلاتا تھا۔ مگر اس کا تعلق عوام کے ساتھ نہیں تھا۔ ملک کے اندر کہیں کہیں سرمایہ داری کے یہ نقطے تھے جہاں دولت اکٹھی ہو رہی تھی۔ مگر جہاں انسانوں کی کثرت تھی ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ امیر لوگ کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کس کس قسم کے عیش میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اپنی دولت کو کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔ اپنی دولت کا صحیح استعمال کرکے بنی نوع انسان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے میں وہ کس قسم کی غفلت برت رہے ہیں۔ لیکن جب انسان انسان کے قریب ہوا یعنی اسے سفر کی سہولتیں میسر آگئیں تو دیکھتے دیکھتے ہی انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ مجھے تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ لارڈ اور امیر آدمی اپنی دولت کو ضائع کرتے ہیں۔ لو گوں نے سمجھا کہ ہم بھو کے مرتے ہیں اور یہ عیش کرتے پھرتے ہیں۔چنانچہ اپنے حقوق منوانے کے لئے اقتصادی شعبوں میں ہڑتالیں ہونے لگیں اور اس طرح انسانی عقل نے مسائل پیدا کئے ان کو حل نہیں کیا۔
پس پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے یہ ضروری تھا کہ قرآن کریم کی طرف رجوع کیا جاتا اور اس کی ہدایت کے مطابق مسائل حل کئے جاتے۔ مگر قرآن کریم کے رموز اور اسرار کے لئے یہ ضروری تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں اور خدا خود ان کا معلم بنے اور اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرکے وہ ان تمام معاشرتی، اقتصادی اور دوسری بہت سی برائیوں کو دور کریں جو خود انسانی عقل نے پیدا کی تھیں اور جس کا حل انسانی عقل تلاش نہیں کر سکی۔ چنانچہ قرآن کریم کی اصطلاح میں ان روحانی علماء کو نجوم یعنی آسمانی ستارے کہا گیا ہے۔ ان ستاروں میں ایک خاص ستارہ ہے جسے چاند کہا گیا ہے یا جسے مسیح محمدی کہا گیا ہے۔ یا جسے مہدی معہود کہا گیا ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ایک روحانی آفتاب ہیں ان کے نور کو دوسرے ستاروں کی نسبت بہت زیادہ یعنی پوری طرح جذب کرکے نوع انسانی کے لئے روشنی کے سامان پیدا کئے۔ مگر جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو روحانی آفتاب ہیں اور قیامت تک کے لئے دنیا کو روشن کرنے والے ہیں۔ آپ کی روشنی نہ کم ہوتی ہے اور نہ کبھی کم ہو سکتی ہے۔ لیکن کچھ دور ایسے آتے رہے ہیں جب اس زمانے کی بینائی میں کمزوری آجاتی رہی ہے اب مثلاً ڈاکٹر مجھے اور آپ کو جن کی آنکھیں صحیح و سلامت ہیں کہے گا کہ سورج کی طرف نگاہ نہ کرو اس سے آنکھوں کو نقصان پہنچے گا۔ مگر وہ ایک نابینے کو یہ ہدایت نہیں دے گا۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایسے زمانے بھی آئے اور آتے رہے ہیں اور آتے بھی رہیں گے جن میں تھو ڑے یا بہت لوگ جو امت محمدیہ کے افراد اور آپ کی طرف منسوب ہوں گے مگر اپنی روحانی بصیرت اور بینائی کو کھو بیٹھیں گے۔ چنانچہ اس حقیقت کو جب قرآن کریم نے بیان کیا تو فرمایا ایسے موقعوں پر سورج کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ سورج کی روشنی میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔ ایک پردہ ہوتا ہے جو سورج کے گرد آجاتا ہے۔ یہ پردہ انسانی آنکھ پر پڑ جاتا ہے جو سورج کو دیکھنے نہیں دیتا۔
پس جہاں تک نجوم کا سوال ہے قرآن کریم نے دو محاورے استعمال کئے ہیں۔ ایک ستاروں کا گر جانا یا جھڑ جانا جسے قرآن کریم نے (الانفطار:۳) کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور دوسرے ان کا دھندلا جانا یعنی علمائے روحانی جو دراصل اسلام کا سب سے زیادہ حسین اور مفید حصہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ خود اپنی رحمت اوراپنے فضل سے قائم کرتا ہے۔ اور اب تک ایسے علماء امت محمدیہ میں بڑی کثرت سے لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہو چکے اور لاکھوں کی تعداد میں آگے پیدا ہوں گے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم نے ماضی کی تعداد یاد نہیں رکھی۔ مستقبل کی تعداد کے متعلق کچھ کہنے کی کیسے جرأت کر سکتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ضرور فرمایا ہے۔ فیج اعوج یعنی اسلام کے تنزل کے زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے اولیاء اللہ بڑی کثرت سے پائے جاتے تھے۔ لیکن جہاں یہ کہا گیا تھا کہ ستارے گر جائیں گے اس کا مطلب یہی تھا کہ بہت سارے رہ بھی جائیں گے۔ گو پوری ضرورت کو کما حقہٗ پیدا کرنے والے نہیں ہوں گے۔ تاہم ان کے وجود سے دنیا خالی نہیں ہوگی۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب آندھی آتی ہے تو آم کے درخت کا پھل گر جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس درخت پر کوئی آم بھی نہیں رہا کچھ گرتے ہیں اور کچھ باقی رہ جاتے ہیں۔
پس ستاروں کے گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت دینے والے علماء کی تعداد کم ہو جائے گی۔ چنانچہ جس وقت ہدایت دینے والے کم رہ جاتے ہیں تو ایک ایسا طبقہ اُبھر آتا ہے جو اپنے آپ کو عالم کہتا ہے کیونکہ نجوم کا تو بہرحال وعدہ دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ طبقہ بھی اپنے آپ کو نجوم یعنی روحانی ستارے سمجھتا ہے۔ مگر درحقیقت یہ لوگ اسلامی محاورہ میں علمائے ظاہر ہوتے ہیں۔ جو علمائے باطن یعنی روحانی علماء کی روشنی کومکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج کی روشنی تو قیامت تک قائم رہنے والی ہے مگر جس طرح ہمارا یہ سورج ہے جب دن چڑھتا ہے اور سورج طلوع ہوتا ہے تو ایک نابینا شخص اسے نہیں دیکھ سکتا اسی طرح علمائے ظاہر کے غلط استدلال کے نتیجہ میں امت محمدیہ کے افراد کی نظر میں علمائے باطن یعنی روحانی علماء دھندلا جاتے ہیں۔ اُن کی روشنی ان کو نظر نہیں آتی کیونکہ ان کی آنکھیں کام نہیں کرتیں۔ لیکن انسان کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے علمائے باطن کی پیدائش کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کر رکھا ہے۔ چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:- (الواقعۃ:۷۹) وہاں ابتداء کی ہے نجوم کے گرنے سے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(الواقعہ:۷۶)
نجوم کے گرنے کو میں گواہی کے طور پر پیش کرتاہوں۔ کہ خداتعالیٰ ہر زمانے میں علمائے باطن کو پیدا کرے گا۔ روحانی علماء پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن امت محمدیہ کا جو حصہ علمائے ظاہر پر مشتمل یا ان کے اثر کے نیچے ہوگا ان کے لئے یہ چمکنے والے ستارے ہدایت کا موجب نہیں بنیں گے۔ ان کے لئے ان کی روشنی دھندلی دھندلی ہوگی وہ اسے سمجھ نہیں سکیں گے جیسا کہ آج کل دیکھ لیں۔ ہمارا تجربہ بھی یہی ہے۔ دنیا میں علمائے ظاہر نے باطنی علماء کی روشنی کو دھندلا کر دیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- یعنی میں نجوم کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں۔ پھر فرمایا:- (الواقعۃ:۷۷)
فرمایا یہ بڑی عظمت والی شہادت ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور عظمت والی شہادت یہ پیش کی کہ (الواقعۃ:۷۸) کہ قرآن کریم بڑی عظمت والی کتاب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایک چھپی ہوئی کتاب ہے۔ اس کے اندر ایسے رموز اور اسرار ہیں جو آنے والے زمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ کہ اس میں بیان ہونے سے کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ بعض بیوقوف لوگ یا بعض دنیوی علوم رکھنے والے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے جو کتاب نازل ہوئی تھی وہ ہماری ضرورتوں کو کیسے پورا کرے گی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح پورا کرے گی کہ میں خود امت محمدیہ کے ایک گروہ کا معلم بنوں گا۔ میں ان کو ہر زمانہ میں علم سکھاتا ہوں۔ ان کی پاکیزگی کو دوبالا کرتا ہوں۔ ان کو روشن کرتا ہوں۔ ان کے اندر طہارت اور تزکیہ پیدا کرتا ہوں انہیں اس قابل بنا دیتا ہوں کہ قران کریم کے سیکھنے کی ان کے اندر اہلیت پیدا ہو جائے جس کی پہلی اور بڑی شرط طہارت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
پھر اس کے بعد فرمایا:- (الواقعۃ :۸۱) یعنی ہونا چاہئے تھا کیونکہ قرآن کریم ایک صدی کے لئے یا ایک نسل کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ تو رب العالمین کی طرف سے عالمین کی ہدایت کے لئے ہر زمانے اور ہر ملک کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے قرآنی عظمت کے اظہار کے لئے یہ دعویٰ بھی کیا اور دلیل بھی بیان فرمائی اور فرمایا:- انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے علم الٰہی میں جو چیز بھی ضروری تھی وہ اس میں بیان ہو گئی ہے۔ فرمایا ہم نے کوئی کمی نہیں کی۔ ہمارے علم میں جس چیز کی ضرورت تھی وہ اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں بیان کر دی گئی ہے۔
پس ہمارے اس زمانے میں وہ چاند آگیا۔ وہ قمر طلوع ہوگیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی آفتاب کا پرتو لئے ہوئے ہے۔ اس طلوع قمر کے نتیجہ میں بھی جو نجوم کی ضرورت ہے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ ایک وقت میں کم ہو گیا تھا مگر اس وقت بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے فیج اعوج یعنی اسلام کے تنزل کے زمانے میں لاکھوں کی تعداد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے نتیجہ میں خدا کے پیارے اور محبوب بندے پائے جاتے تھے۔ اب تو بہت زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ ضرورتیں بڑھ گئیں مسائل اور بھی زیادہ الجھ گئے ہیں (یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اب میں یہیں اس کو ختم کروں گا لیکن اس خطبہ میں اس کا جوڑ ملا دیتا ہوں) حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں کئی جگہ اس کی بڑی وضاحت فرمائی ہے۔ اس عظیم انقلاب کا مطلب ایک ایسا انقلاب ہے جس سے بڑا کوئی اور انقلاب تصور میں نہیں آسکتا جس کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری کے انقلاب یا اشتراکیت کے انقلاب یا چینی سوشلزم کے انقلاب کی اس انقلاب کے مقابلے میں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا کوئی حیثیت ہی نہیں۔ چنانچہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے اللہ کی مصلحت نے یہ تقاضا کیا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے یکے بعد دیگرے تین انقلاب رونما ہوں۔ اور اس طرح اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے لئے زمین تیار ہو جائے۔
جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہے وہ تو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ روسی اشتراکیت اور چینی سوشلزم کے پیرو سرمایہ داری کے نظام کو REACTIONARY (ری ایکشنری) نظام کہتے ہیں REVOLUTIONARY (ریوولوشنری) نظام نہیں کہتے۔ میرے نزدیک وہ غلطی خوردہ ہیں۔ سرمایہ داری کا نظام اپنے وقت میں پہلا انقلاب تھا۔ یہ واقع میں انقلاب ہے کسی چیز کا ردعمل نہیں ہے اگر سرمایہ داری کا انقلاب بپا نہ ہوتا تو اشتراکیت کا انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا انقلاب آیا۔ پہلے سرمایہ داری کا انقلاب آیا (یہ ایک لمبا مضمون ہے اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو کسی وقت مثالیں دے کر یہ سارا مضمون بیان کروں گا)پھر روسی اشتراکی انقلاب آیا۔ اگر اشتراکی انقلاب نہ آتا تو چین میں سوشلزم کا انقلاب آیا ہے اس کا بھی امکان پیدا نہ ہوتا۔ کیونکہ یہ دونوں بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور چینی سوشلزم اسلام سے زیادہ قریب ہے۔ غرض پہلے سرمایہ داری کا انقلاب پھر کمیونسٹ (اشتراکی) انقلاب اور پھر چینی سوشلٹ انقلاب نہ آیا ہوتا تو ساری دنیا میں اسلام کے غالب ہونے کے لئے سامان نہ پیدا ہوتے۔
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا جو آخری غلبہ ادیان باطلہ اور فلسفہ ہائے باطلہ پر مقدر ہے اس کے لئے سرمایہ داری کے انقلاب کے وقت سے بنی نوع انسان کو تیار کیا گیا ہے۔ اس لئے میرے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو ان انقلابی تحریکوں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ یہ تو ہمارے لئے تمہید کے طور پر ہیں۔
چنانچہ دیکھ لیں جس وقت سرمایہ داری کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنی جوانی کے زمانہ میں داخل ہو رہا تھا۔ جس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا تھا اور انشاء اللہ اور اسی کے فضل سے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک خاص سلسلہ ہے جو ایک زبردست الٰہی منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ اس لئے میں علیٰ و جہ البصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا ہوگا اسلام کا عظیم انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا ہوگا۔ اس لئے ہماری جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جہاد اکبر کے ذریعہ اسلام کی ایک زبردست فوج تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ اسلام کی وہ روحانی فوج ہوگی جس کے ذریعہ اسلام کو عالمگیر غلبہ نصیب ہوگا۔ اس لئے ہمارے نوجوانوں کو بہکنا نہیں چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کو ایثار دکھانے اور قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
میں نے بتایا ہے کہ اس وقت تک دو انقلاب بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں پہلا سرمایہ داری کا نظام ہے یہ بظاہر دم توڑ رہا ہے پتہ نہیں اس کی عمر کتنی لمبی ہے۔ روسی اشتراکی نظام میرے نزدیک بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو انقلاب جوانی میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے بعض مسائل کو ایثار اور قربانی سے حل کرتا ہے۔ اور جو انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے مسائل کو COMPROMISE (کمپرومائز) یعنی سمجھوتے کے ذریعے حل کرتا ہے۔ کمپرومائز یا مداہنہ اپنے نفس میں تضاد ہے اور صراط مستقیم سے روگردانی ہے۔ کیونکہ صراط مستقیم میں کسی اور طرف سڑکیں نہیں نکلتیں۔ وہ ایک سیدھی شاہراہ ہے۔ اس سے ادھر ادھر ہونا گمراہی ہے۔
غرض کا ایک جلوہ تو انقلاب عظیم کی شکل میں قرون اولیٰ میں رونما ہوا۔ دوسرا جلوہ آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روحانی تاثیرات اور انفاس قدسیہ کے ذریعہ بپا ہونا تھا۔ اس زمانے میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں بھی نجوم کا سلسلہ جاری ہے۔ پھر اس کے آخر میں فرمایا (الواقعۃ:۸۲) کیا اس قرآن کے بارے میں تم مداہنت سے کام لیتے ہو۔ یہ تو مسائل کو حل کرنے کے لئے مداہنت یعنی کمپرومائز کو روا نہیں سمجھتا یہ تو ایثار اور قربانی پر زور دیتا ہے اور اس میں مداہنت نہیں البتہ کمپرومائز میں مداہنت ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اپنے نفس میں ایک لمبا مضمون ہے پھر کسی وقت انشاء اللہ بیان ہو جائے گا۔ میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ میں جس روحانی سلسلہ کے قیام کا ذکر ہے وہ سلسلہ اب آخری اور ہمیشہ رہنے والے غلبہ اسلام کے زمانہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا نازل ہونا رب العالمین خدا کی طرف سے ہے کیا تم اس سے مداہنت کا رویہ اختیار کرتے ہو۔ قرآن کریم کی تعلیم سے مداہنت کرنا تو بڑی عجیب بات ہے۔
میں نے اس مضمون کو مختصراً بیان کر دیا ہے۔ ہمارے بعض نوجوان انقلابی تحریکوں کا تھوڑا بہت اثر قبول کر لیتے ہیں ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ اثر قبول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ تو دنیا کے قائد اور معلم بنائے گئے ہیں۔ وہ شاگرد اور بھک منگے نہیں بنائے گئے۔ انہیں کچھ حاصل کرنے کے لئے کسی کے سامنے اپنا کشکول رکھنے کی ضرورت نہیں ہے پس میں اپنے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ تم دنیا کو رشدو ہدایت دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ دنیا سے کچھ لینے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے۔ دنیا تم سے وہ کچھ حاصل کرے گی جسے تم آج نہیں سمجھتے مگر میں اسے جانتا ہوں۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہہ دیں کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا ہے۔ لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ دنیا تم سے وہ کچھ حاصل کرے گی کہ اس نے نہ سرمایہ داری انقلاب سے وہ چیز حاصل کی نہ اشتراکی انقلاب سے اور نہ چینی سوشلسٹ انقلاب سے اس چیز کو حاصل کیا ہے۔
پس جو چیز تم نے دنیا کو دینی ہے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اور ایک عظیم انقلاب کی شکل میں اس کی تم اپنے اندر اہلیت پیدا کرو تاکہ تم وہ چیز یعنی رشدو ہدایت دنیا کو اپنے وقت پر دے سکو۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو بھی اور مجھے بھی اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍ستمبر۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا۵)

غلبہ اسلام کا خدائی وعدہ نشأۃ ثانیہ
میں بھی پورا ہو کر رہے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس۔ کاکول۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(الروم:۶۱)

(المومن:۵۶)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے دو زمانے مقدر تھے۔ پہلے زمانہ کی جدوجہد اور غلبۂ اسلام کی کوشش کے لئے جو مہم چلائی گئی تھی اور قربانیاں دی گئی تھیں وہ ایک لمبے زمانے پر ممتد ہیں۔ جب ہم اس زمانے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ زمانہ مختلف اَدوار میں بٹا ہوا نظر آتا ہے۔
حضرت نبی اکرم ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم دعویٰ لے کرمبعوث ہوئے تھے لیکن ابتداء میں آپ کی یہ حالت تھی کہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگ اپنے اسلام کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے۔ گنتی کے چند صحابہؓ تھے۔ تاہم وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فدائی تھے اور آپ کی تربیت حاصل کر رہے تھے وہ آپ سے روحانی علم بھی سیکھ رہے تھے اور آپ کے فیوض سے بہرہ ور بھی ہو رہے تھے۔ لیکن مکہ کے بہت کم لوگوں کوپتہ تھا کہ کون اس نئے دین کو، اس عظیم دین کو اور اس حسین دین کو قبول کر چکا ہے۔
غرض یہ بھی ایک دَور تھا جس میں سے مسلمان گزرے۔ پھر اسلامی تاریخ نے ایک اور موڑ کاٹا۔ چنانچہ مکی زندگی ہی میں ایک اور دور ہمیں نظر آتا ہے۔ اس دَور میں مسلمانوں کی تعداد گو پہلے سے کچھ بڑھ کر تھی لیکن ظلم بھی پہلے سے بڑھ گیا تھا۔ جن قربانیوں کے دینے کے لئے مسلمان پہلے دَور میں تیار کئے گئے تھے، اب اس دَور میں اُن کی فدائیت اور قربانیاں اور بھی عظمت اور شان دکھانے لگیں۔ کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ چند مسلمان ہیں تھوڑے سے وقت کے لئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ بہت جلد یہ کھیل ختم ہو جائے گا اس لئے وہ مسلمانوں سے تمسخر کرنے اور انہیں استہزاء کا نشانہ بناتے تھے۔
تاہم اس دوسرے دَور میں کفار نے یہ سمجھا کہ اس مہم کا زمانہ اس قدر مختصر نہیں جتنا وہ سمجھتے تھے مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ قوت مل گئی ہے۔ ان میں پہلے سے زیادہ دلیری پیدا ہو گئی ہے۔ یہ لوگ پہلے سے زیادہ جرأت کے ساتھ اسلام کے احکام اور فرائض کو بجا لانے لگے ہیں۔ بہت سے اثرورسوخ رکھنے والے لوگ بھی ان میں شامل ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ تلوار سے قتل کرنے سے ورے ورے جو ظلم روا رکھا جا سکتا ہے وہ روا رکھا جائے اس کے نتیجہ میں اسلام مٹ جائے گا۔ اس وقت اگر کفار مسلمانوں کو قتل کرنے لگ جاتے تو صحابہؓ چند سو سے زیادہ نہیں تھے۔وہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ، دو سو کی تعداد میں تھے۔ اُن وحشیوں کے لئے ان تھوڑے سے مسلمانوںکو قتل کر دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا چنانچہ کفار مکہ نے مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا مگر اللہ تعالیٰ ایک طرف اس مختصر مگر ’’عظیم‘‘ گروہ کی حفاظت بھی کر رہا تھا اور دوسری طرف اُن سے انتہائی قربانیاں بھی لے رہا تھا گو کفار مکہ کا ظلم بڑھ گیا تھا لیکن خداتعالیٰ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو قتل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے ورے ورے وہ جتنا چاہیں ظلم کریں مگر یہ میرے محبوب بندے ہیں۔ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ کفار کے ظلم کے نتیجہ میں صراط مستقیم کو نہیں چھوڑیں گے۔ ارتداد کو اختیار نہیں کریں گے۔
چنانچہ یہ زمانہ کئی سال پر ممتد تھا۔ یہ بھی گزر گیا۔ پھر ہجرت ہو گئی اس پر رؤسائے مکہ کی آنکھیں کھلیں کہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے تلوار نکلنی چاہئے تھی۔ ہم سے غلطی ہو گئی۔ اب بھی کوئی بات نہیں۔ ہم مسلمانوں کو بزور شمشیر مٹا دیں گے چنانچہ کفر اور اسلام کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی اس میں کم وبیش ۳۱۳ مسلمان لڑنے والے تھے یہ تو کوئی نفری نہیں ہے اسلام پر لبیک کہنے والوں کی جو ساری دُنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا انتظام کیا اور یہ سمجھا کہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے رؤسائے مکہ کافی ہیں چنانچہ اُنہوں نے اپنے ساتھیوں اور نوکروں اور غلاموں کو ساتھ لیا اور اسلام کو مٹانے کے لئے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجہ میں جنگ بدر ہوئی، جہاں اسلام کا سر تو نہیں کٹا اور نہ کٹ سکتا تھا لیکن اسلام کے خلاف رؤسائے مکہ کی جو مہم تھی اس کا سر کٹ گیا۔وہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس جنگ میں گو کفار کا فیصلہ تو نہیں ہوا لیکن فیصلے کی ابتداء ہو گئی اندھیرا دور تو نہیں ہوا لیکن غلبۂ اسلام کے اُفق پر غیروں کو بھی روشنی کی کرن نظر آنے لگ گئی۔
پس جنگ بدر میں شکست کھانے پر کفّار مکہ نے سوچا یہ کیا ہو گیا ہے وہ سمجھے ہم اکیلے تو مسلمانوں کو مٹا نہیں سکتے۔ اس لئے اب ہمیں مکہ کے علاوہ عرب میں رہنے والے دوسرے قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہیئے۔ چنانچہ مظلومیت کے اس تیسرے دور میں مسلمانوں کو اپنے دفاع میں ہتھیار استعمال کرنے پڑے کیونکہ جارحیت لوہے کے ہتھیاروں سے کی گئی تھی۔ اس لئے اس کو روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار استعمال کرنے کی اجازت دی۔ یہ مدافعانہ جنگ تھی جو اس سے بھی ایک زبردست روحانی اور جارحانہ جنگ کی تیاری کے لئے لڑی گئی مسلمان اس دَور میں سے بھی گذر گئے۔
پھر سارا عرب مسلمان ہو گیا اور حکومت کی شکل میں عرب کے اندر اسلام قائم ہو گیا۔ جس وقت سارا عرب مسلمان ہو گیا اُس وقت کسریٰ اور قیصر کو ہوش آیا۔ اُنہوں نے کہا یہ کیا ہو گیا ہے۔ یہ عرب کے بدو نہ ان کو کھانے کی تمیز ہے اور نہ رہنے کی۔ یہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں جہاں تک عربوں کا رہن سہن کا تعلق تھا، ایرانیوں اور رومیوں کی بات واقعی ٹھیک تھی۔ اسلام سے پہلے عرب لوگ بڑے وحشی تھے۔ اُن کی وحشت اور بربریت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ تاہم اُن میں بعض خوبیاں بھی تھیں وہ بڑے مہمان نواز تھے۔ بڑے اچھے دوست بھی تھے۔ ہر چیز میں خوبیاں بھی ہیں فائدے بھی ہیں اور حُسن بھی پایا جاتا ہے۔ ورنہ تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق کو پیدا ہی نہ کرتا جس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
بہرحال جس وقت عرب میں اسلام کی حکومت قائم ہو گئی تو اس کے ساتھ اسلام کا چوتھا دَور شروع ہوا۔ ہر دَور پہلے دَور سے زیادہ نازک تھا۔ مسلم عرب کی طاقت اسلام کے منکر، کافر اور دشمن کسریٰ اور قیصر کی مجموعی طاقت کا شاید ہزارواں حصہ بھی نہ تھی۔ مسلمانوں کی طاقت کے مقابلے میں کسریٰ اور قیصر کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے۔ مسلمانوںکے پاس مال ودولت نہیں تھا۔وہ گھوڑے نہیں خرید سکتے۔ اُن کے پاس اُونٹنیاں نہیں تھیں۔ اُن کے پاس زِرہیں اور خَود بہت کم تعداد میں تھے مسلمانوں کے مقابلے میں مخالفینِ عرب کے پاس بہت کچھ تھا۔ کسریٰ اور قیصر کے مقابلے میں عرب کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے چنانچہ جس وقت عرب میں اسلام کی حکومت قائم ہو گئی تو اس وقت کسریٰ اور قیصر کی دو بڑی طاقتیں اسلام کے خلاف صف آراء ہو گئیں۔ یہ دونوں اُس وقت کی معلوم دُنیا کی اسی طرح حاکم تھیں جس طرح آج کی معلوم دُنیا پر امریکہ، روس حاکم ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر آزاد قومیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں۔یہ ایک فراڈ ہے جو انسانیت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
بہر حال یہ دونوں بہت بڑی طاقتیں تھیں۔عرب میں اس وقت ان کے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں تھی چنانچہ پہلے کسریٰ نے جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ قیصر نے سمجھا کہ یہ موقع ہے اب مسلمانوں کو مٹا دو۔ کسریٰ تو بد مذہب تھا۔ اس نے اپنے دُنیوی اثرورسوخ، مال و دولت اور اپنے عروج و غرور کی وجہ سے اسلام کو مٹانا چاہا اور قیصر نے عیسائیت کے نام پر اسلام کو مٹانا چاہا اس نے اپنی طرف سے عیسائیت کی حفاظت کے لئے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے مسلمانو ں کے ساتھ لڑائی چھیڑ دی۔ ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ یہ امر ثابت ہو گیا تھا کہ عیسائیت ختم ہو چکی ہے۔ تاہم پادری تو عیسائیت کا نام لیتے تھے۔ وہ اسلام کے خلاف اور مذہب کے نام پر جنگ لڑنے کے لئے عیسائیوں کو بہت اُکساتے پھرتے تھے۔ اُن کا جو بادشاہ تھا، وہ سمجھتا تھا کہ اس کی دُنیوی حکومت کے لئے اسلام کی شکل میں ایک چھوٹا سا چیلنج ایک مدّمقابل پیدا ہو گیا ہے جس کو ابھی سے ختم کر دینا چاہئے ورنہ وہ ہمیں تکلیف دے گا۔
چنانچہ یہ چوتھا دور اور ایک لحاظ سے غلبۂ اسلام کے آخری دور کا آغاز تھا کسریٰ اور قیصر کے خلاف اسلام کو اپنی حفاظت اور بقا اور اس کو ہر لحاظ سے مستحکم کرنے کے لئے مجبور کیا گیا کہ وہ تلوار کے مقابلے میں تلوار نکالے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں پھر اسلام کے حق میں اور غلبۂ اسلام کے لئے سامان پیدا فرمائے۔ تاہم مسلمانوں کو اگرکی رو سے یہ تسلی نہ ہوتی کہ خداتعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے تو مسلمان اُن کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ کو دہرایا گیا ہے جن میں سے میں نے ایک خاص حکمت کے ماتحت اور اپنے مضمون کے لحاظ سے دو آیتوں کا انتخاب کیا ہے۔
بہرحال پہلے دَور میں بھی یعنی جس وقت مکی زندگی میں گنتی کے چند آدمی تھے۔ اگر انہیں یہ یقین نہ ہوتا کہ ٌّ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے اگر انہیں یہ بشارت نہ دی گئی ہوتی کہ اسلام ساری دُنیا پر اور دُنیا کے سارے ادیانِ باطلہ پر غالب آئے گا تو وہ مظلومیت کی زندگی کو بشاشت کے ساتھ برداشت کرہی نہ سکتے۔
پھر دوسرے دَور میں مسلمانوں کی تعداد تو کچھ زیادہ ہو گئی۔ پہلے گنتی کے افراد تھے مسلمانوں کی فرداً فرداً گنتی ہو رہی تھی۔ مگر اس کی بجائے اب بیس بیس کی گنتی ہونے لگی۔ مجھے اس وقت صحیح اعدادو شمار تو یاد نہیں لیکن جب ہجرت کے معاً بعد مدینہ میں مسجد نبوی بنائی گئی تھی تو اُس وقت نمازیوں کی تعداد دواڑھائی سو ہوا کرتی تھی اس سے زیادہ نہیں تھی حالانکہ اس وقت تک مدینہ کے لوگ بھی مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے۔
بہرحال بیسیوں مسلمان کہنا چاہئے جو دوسرے دور میں ظلم وتشدد کے باوجود اسلام کی بقا کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے رہے۔ اس وقت دُنیوی لحاظ سے یا دُنیوی سامانوں کے لحاظ سے بظاہر یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بچ جائیں گے۔ وہ اپنی اس جدوجہد میں اور اسلام کو غالب اور مستحکم کرنے کے لئے ان تھک کو شش میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر ان کے دلوں میں چونکہ پختہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے کہ اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا۔ یہ سچا وعدہ ہے حالانکہ ظاہر میں نہ کوئی عقلی دلیل اور نہ کوئی ظاہری سامان اس وعدہ کو سچا کرنے کے لئے موجود تھے لیکن چونکہ مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقانیت پر یقین تھا۔ آپ کے ذریعے اُنہیں جو وعدے ملے تھے ان پر ان کا یقین تھا اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ رہے اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے۔
پھر تیسرا دَور شروع ہوا۔ اس میں بھی چند سو مسلمان تھے۔ میں نے بتایا ہے بدر کے میدان میں ۳۱۳ کے قریب صحابہ شامل تھے۔ ان چند سو مسلمانوں کو مٹانے کے لئے رؤسائے مکہ پوری شان کے ساتھ آئے وہ اپنے تمام دوستوں اور لواحقین کے ساتھ، اپنے نوکروں اور غلاموں کے ساتھ اور اونٹنیوں اور سیوف ہندی(جو اس زمانے میں بڑی مشہور تھیں) کے ساتھ آئے تھے۔ اُن کا اِرادہ بھی تھا، ان کی خواہش بھی تھی اور اُن کو یقین بھی تھا کہ بدر کے میدان میں اسلام اور بت پرستوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اُس وقت کفار مکہ جو تھے وہ تو تھے ہی مگر یہ ۳۱۳ آدمی کس برتے پر، کس سہارے پر بدرکے میدان میں لڑنے چلے گئے تھے۔ وہ اس یقین کے ساتھ لڑنے گئے تھے کہ:-
اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا فَاصْبِرْ یہ حکم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا گیا ہے۔ مگر اس قسم کا حکم بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے صرف آپ کے اُوپر چسپاں ہوتا ہے اور بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے آپ کی امت پر انفرادی اور اجتماعی ہر دو لحاظ سے چسپاں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے کے معنے ہوں گے مسلمانو! ایمان کی راہ پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ۔
تم مخالف دُنیا کی طاقت کی طرف نہ دیکھو خدا تعالیٰ نے تمہاری مدد کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اس کو ضرور پورا کرے گا۔ کیونکہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے۔
پھر یہ دَور بھی ختم ہو گیا۔ اسلام کو ظاہری شان وشوکت نصیب ہوئی۔ سارا عرب مسلمان ہو گیا پھر کسریٰ اور قیصر مقابلے پر آنکلے۔ اُن کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اس سے پہلے وہ آپس میں بھی لڑ چکے تھے۔ ان کی باہمی لڑائی کے جو واقعات رونما ہوئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت کار فرما ہے۔ اس سے ہمیں بڑے سبق ملتے ہیں چنانچہ اُس زمانے میں ایک وقت میں کسریٰ کی فوجوں نے قیصر کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور دوسرے موقع پر قیصر کی فوجوں نے کسریٰ کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور اس وقت اسلام اپنی مکی زندگی اور مدنی زندگی میں یعنی جیسا کہ میں نے ادوار گنوائے ہیں اس لحاظ سے دوسرے اور تیسرے دَور میں سے گذر رہا تھا۔
پس ان کی آپس میں لڑائی کے یہ دو واقعات خاص حکمت کے ماتحت رونما ہوئے اور اس سے دُنیا کو یہ بتانا تھا کہ ہر دو بہت بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر ان کی یہ جنگیں نہ ہوتیں تو آج مخالف تاریخ دان اور مستشرق اور دوسرے لوگ بھی یہ کہہ دیتے کہ اسلامی فوجوں نے کیا کارنامہ دکھایا۔ یہ تو چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں۔ اُن کے پاس تھوڑی تھوڑی فوج تھی لیکن جب وہ ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں آئیں تو ساری دُنیا کی طاقت بن کر دونوں میں آگئی ساری دنیا کے ہتھیار بٹ کر دونوں کے پاس آگئے۔اُن علاقوں میں جہاں ہاتھی استعمال نہیں ہوتے تھے وہاںہاتھی استعمال کئے گئے۔ اُن کے بعض سپاہیوں نے اپنے پاؤں کو بڑی بڑی زنجیروں سے باندھ لیا یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ انہیں بھاگنے کی ضرورت نہیں۔ گو اس میں اور بھی بہت حکمتیں تھیں لیکن ایک یہ حکمت بھی تھی کہ انہیں میدان جنگ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں چنانچہ ان دونوں کی آپس کی جنگ میں کئی لاکھ کا مقابلہ کئی لاکھ کی فوجوں سے ہوا۔ بعد میں جب ان کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی ہے تو میرا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کی مجموعی طور پر کوئی آٹھ لاکھ فوج بنتی تھی۔حالانکہ مسلمانوں کی یرموک کے میدان میں قیصر کی فوج سے لڑنے والی صرف ۴۰؍۳۰ ہزار فوج تھی۔ بعض لوگوں نے یہ تعداد زیادہ بھی بتائی ہے لیکن عام طور پر تاریخ دان ۴۰ ہزار فوج بتاتے ہیں ان کے مقابلے میں قیصر کی کئی لاکھ فوج تھی۔ ایک اندازہ کے مطابق تین لاکھ فوج تھی جس کے ساتھ مسلمانوں نے مقابلہ کیا اور بالآخر ان پر فتح پائی۔
پہلے بھی میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید جب تک کسریٰ کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے اُن کے پاس غالباً چودہ ہزار فوج تھی۔ اُنہوں نے کسریٰ کے خلاف سات آٹھ لڑائیاں لڑی ہیں۔ ہر لڑائی میں کسریٰ ساٹھ ستر ہزار تازہ دم فوج بھیجتا تھا۔ علاوہ ازیں جو پہلی لڑائیوں کے بچے کھچے لوگ ہوتے تھے وہ بھی اُن میں شامل ہو جاتے تھے ان کو تو چھوڑو۔ وہ تو پہلے لڑ چکے ہوئے تھے۔ چنانچہ ان چودہ ہزار مسلمانوں نے مجموعی طور پر قریباً پانچ لاکھ فوج کا مقابلہ کیا ہے کسریٰ کی تازہ دم فوجیں آتی رہیں اور مسلمانوں کی وہی فوج جو پہلے لڑتی چلی آرہی تھی۔ اس میں سے بھی بعض زخمی ہو گئے۔ کچھ شہید بھی ہو گئے۔ اس سارے عرصہ میں مسلمانوں کو صرف ایک آدمی کی کمک پہنچی تھی۔ چنانچہ حضرت خالدؓ بن ولید نے شروع میں جب کمک مانگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تم چلے جاؤ۔ خالد کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس پر مدینے والے حیران بھی ہوئے تھے اس کی تفصیل میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں۔
پس اسلام کے چوتھے دَور میں ایک طرف کسریٰ سے جنگ ہو رہی تھی تو دوسری طرف قیصر سے جنگ ہو رہی تھی وہ مسلمانوں پر بدنیتی سے حملہ آورہوئے تھے وہ اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ اُن کا خون کھول رہا تھا کہ کل تک جنہیں ہم بدو سمجھتے تھے وہ آج ہمارے حاکم بننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اس لئے وہ بڑے غصہ میں آتے تھے۔ یہ نہیں کہ اُنہوں نے اسے کھیل سمجھا تھا حملہ کرنے آگئے تھے۔وہ بڑی جانبازی سے لڑتے تھے۔ وہ بڑی بہادر قومیں تھیں اور بڑی تجربہ کار بھی تھیں۔ چنانچہ اُن کے بعض ایسے جرنیل بھی تھے جنہوں نے کئی کئی لڑائیوں میں شاندار فتح حاصل کی ہوئی تھی، اُن کے لئے کسریٰ کا حکم تھا کہ اُنہیں ایک لاکھ روپے کی ٹوپیاں پہنا دی جائیں۔ ایک لاکھ روپے تو بڑی رقم ہوتی ہے۔ مخمل کی ٹوپی پر چند روپے خرچ آتے ہیں۔ اس لئے ٹوپیوں پر لاکھ لاکھ روپے کے ہیرے اور جواہرات جڑے ہوتے تھے۔ اب تو بہادری کے کارناموں پر فوجیوں کو تمغے ملتے ہیں۔ اُس وقت ایرانیوں میں ہیرے جواہرات کی ٹوپیاں پہنانے کا رواج تھا چنانچہ ایک ایک لاکھ روپے کی ٹوپی پہننے والے جرنیل کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے نزدیک وہ انتہائی تجربہ کار جرنیل تھے جو مختلف محاذوں پر بڑی زبردست اور کامیاب جنگیں لڑ چکے تھے۔ ان میں سے ہر جرنیل تازہ دم فوج کے ساتھ چودہ ہزار مسلمانوں کے مقابلے پر آتے تھے۔ چنانچہ ہر دفعہ ساٹھ سے اسّی ہزار تازہ دم فوج نئے جرنیلوں کی قیادت میں مقابلے پر آتی اور ہر دفعہ ہزیمت اُٹھاتی رہی۔
پس اُس وقت جب ان دونوں قوموں سے مسلمانوں کی لڑائی ہو رہی تھی کون احمق تھا جو یہ سوچ سکتا تھاکہ دُنیوی اور ظاہری سامانوں کے ساتھ مسلمان اُن پر غالب آئیں گے اُن کے کانوں میں تو بڑی پیاری یہ آواز پڑی تھی ایک خدا پر ایمان رکھنے اور الہٰی سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے۔
تم دشمن کی طاقت نہ دیکھو کیونکہ جب دشمن کی طاقت دیکھ کر اپنی طاقت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہو تو آدمی یہی فیصلہ کرے گا کہ لڑنا نہیں چاہئے۔ مداہنت اختیار کرنی چاہئے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ایمان کی راہ میں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور یاد رکھو دشمن جتنا بھی طاقتور ہو ،ہوتا رہے تم مغلوب نہیں ہو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسلام غالب آئے گا۔
چنانچہ ان چار ادوار میں سے گزر کر مسلمان ایک ایسی طاقت بن گئے جن کے مقابلے میں کسریٰ اور قیصر کی عظیم سلطنتیں پاش پاش ہو گئیں۔ حتّٰی کہ دشمنِ اسلام بھی اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ خداتعالیٰ نے مسلمانوں سے جووعدہ کیا تھا وہ پورا ہوا۔ کوئی وعدہ پہلے دور میں پورا ہوا، کوئی دوسرے دور میں پورا ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر وہی رؤسائے مکہ جو اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے اسی دلیل سے وہ مسلمان ہو گئے۔ اُنہوں نے سوچاکہ اگر خداتعالیٰ کا ہاتھ مسلمانوں کے سر پر نہ ہوتا تو انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ پس فتح مکہ کا دن جو کفار کے لئے ان کے زعم میں نحوست کا دن تھا وہ مسلمانوں کے لئے بڑی برکتوں اور خوشیوں کا دن تھا کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔ یہ مختصر سا خاکہ ہے اسلام کی نشأۃ اولیٰ یعنی اس کے پہلے دَور کا جس میں اسلام اس وقت کی معروف دُنیا پر غالب آیا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام کے دو عالمگیر غلبوں کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کویہ بشارت دی تھی اور اُن سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جس طرح اسلام پہلے زمانہ میں غالب آئے گا اسی طرح آخری زمانہ میں بھی سب ادیان پر غالب آئے گا۔
پس اسلام کے پہلے چار اَدوار میں سے کسی دَور میں بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ ہمارا جیتنا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ممکن ہے؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں وہ لوگ تو پاگل ہوں گے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ ظاہری سامانوں کے لحاظ سے جیت جائیں گے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں ۱۹۵۳ء کے فسادات کو لے لیجئے۔ اُس وقت جب کہ مخالفت زوروں پر تھی اور ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ ہم آپس میں رتن باغ میں باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی احمدی ہمیں آکر یہ کہے کہ ظاہری حالات ایسے ہیں کہ ہم اس آگ سے بچ جائیں گے۔ تو ہم سمجھیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیونکہ ظاہری حالات میں ہمارا بچنا ممکن نہیں تھا۔ ویسے تو ہم میں سے ہر ایک کو خداتعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا کامل یقین تھا۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک یہ کہتا تھا کہ ہم بچ جائیں گے۔ ہمیں کوئی مار نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ یہ ہر احمدی سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ ہم ظاہری سامانوں کی بدولت بچ جائیں گے۔ اگر کوئی احمدی آکر اس وقت یہ کہتا کہ ظاہری سامان ایسے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے تو ہم سمجھیں گے اُس کے دماغ پر اتنا بوجھ پڑا ہے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہم اُن فسادات میں بچ گئے کیونکہ خدا تو سچے وعدوں والا ہے وہ کہتا ہے ’’اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ‘‘ اسی کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے
تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم ونثر کی اکثر تحریرات قرآنی آیات کی تفسیر اور ترجمہ ہوتا ہے۔
پس یہ مختصر سا پس منظر ہے اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں اسلام کے دوبارہ عالمگیر غلبہ کا۔ اب ہم اس زمانہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اس وقت ہوئی جب اسلام کا تنزّل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ اسلام کے حالات اس پہلے دور کے (جسے ہم نشأۃ اُولیٰ کہتے ہیں اور جس کے آگے چار مختلف اَدوار ہیں) حالات سے ملتے جلتے تھے۔ جس طرح اس وقت مسلمان چُھپے پھرتے تھے اور ظاہر ہو کر سامنے نہیں آتے تھے اسی طرح اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے پہلے دور کی بھی یہی حالت تھی۔ مسلمان اغیار کے سامنے چھپے پھرتے تھے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے۔ سیرالیون کے ایک سابق نائب وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ احمدیوں کے آنے سے پہلے ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے۔ وہ گویا چھپ گئے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اُنہوں نے اسلام کا نام لیا تو وہ مارے جائیں گے اور یہ کہتے تھے کہ اسلام کا نام لے کر ہم شرم سے مرجائیں گے۔ یہ بھی مرنے کا سوال تھا۔ پھر اُنہوں نے کہا اب پچاس سال کے بعد ہم بڑے فخر سے اپنی گردنیں اُٹھا کر اسلام کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ تاہم اس نے اعلان کیا کہ یہ اس اسلام کا نتیجہ ہے جو احمدیوں نے ہمیں سکھایا ہے حالانکہ وہ خود احمدی نہیں تھا اور اپنی تقریر کے دوران یہ بار بار کہتا تھا مَیں احمدی نہیں ہوں۔
پھر ہمارے اوپر بھی ایسا دور آیا۔ میں کئی دفعہ یہ کہا کرتا ہوں کہ خدا کی یہ شان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک وقت میں اکیلے تھے۔ آپ کے گھر والوں میں سے کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا۔ حتیٰ کہ آپ کو روٹی دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ باوجود اس کے کہ جائیداد میں آپ اُن کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ پھر بھی بچی کچھی روٹی کھانے کو بھجوا دیتے تھے۔ اُس وقت ایک آدمی احمدیت کو مٹا سکتا تھا۔ مثلاً کوئی ایک آدمی جاکرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو قتل کر دیتا تو کیا یہ خدا تعالیٰ نے منصوبہ بنایا تھا عالمگیر غلبۂ اسلام کا وہ ختم ہو جاتا لیکن خداتعالیٰ کے منصوبے تو کبھی ختم نہیں ہوتے خداتعالیٰ نے فرمایا یہ میرا بندہ ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا۔
چنانچہ یہ ایک دور تھا جو گذر گیا پھر جماعتیں قائم ہونے لگیں اور ہم مکیّ زندگی سے ملتے جلتے دوسرے دور میں داخل ہو گئے۔ مخالفین کے ظلم بڑھ گئے۔ اِکّا دکّا احمدی شہید بھی ہوا حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف کو بڑے ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا اور بھی بہت سے جاں نثار پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام واحمدیت کی سچائی کی خاطر اپنی جان دے دی۔ ہر احمدی نے اپنے ایثار اور قربانی سے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ اس یقین پر قائم ہے کہ خداتعالیٰ کے وعدے سچے ہیں۔ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے قائم کیا ہے۔ اس واسطے کسی احمدی کو مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہے وہ سمجھتا ہے کہ موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ نوجوان بھی مر جاتا ہے۔ ادھیڑ عمر کا ہو یا بوڑھا ہو، مرد ہو یا عورت ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ موت پر تو انسان کو اختیار نہیں ہے لیکن جب ظالم ظلم سے مارنا چاہے تو بشاشت کے ساتھ خدا کی رضا کے حصول کے لئے جان دے دینا یہ بہت بڑی چیز ہے اور حقیقی قربانی کی علامت ہے۔ چنانچہ ہمارے محترم صاحبزادہ سید عبداللطیف شہیدؓ نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ اسی طرح اور بھی جانباز پیدا ہوئے جنہوں نے احمدیت کی خاطر جان دے دی۔ پھر بعض نے میدان تبلیغ میں جانیں دے دیں۔ یہ بھی ایک شہادت ہے جو ایک گروہ کو حاصل ہوتی رہی۔ جس طرح رؤسائے مکہ نے سمجھا تھا کہ مسلمان تھوڑے سے ہیں ان کو تنگ کر کے مرتد کر لینا چاہئے اس طرح اس دوسرے دَور میں ساری دُنیا میں اسلام پر بھی ایک ایسا وقت آیا کہ عیسائیوں نے کہا ان کو پیسے دے کر دنیا کا عیش پیش کر کے عیسائی بنا لو۔ بس یہ اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ اس قوم میں کوئی جان نہیں ہے وہ مسلمانوں کو اتنی تنزل کی حالت میں دیکھ رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ جلد ہی عیسائی ہو جائیں گے چنانچہ ۱۸۵۵ء اور ۱۸۸۰ کے درمیان عالمی کانفرنسوں میں عیسائیوں کے چوٹی کے منّاد پادریوں نے یہ کہا کہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے کہ خداوند یسوع کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائے گا۔
چنانچہ برصغیر پاک وہند میں حضرت علامہ عماد الدین جو آگرہ کی جامع مسجد میں واعظ رہے تھے وہ عیسائی ہو گئے۔ پھر وہ پادری عماد الدین کہلانے لگے وہ بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا۔ علوم ظاہری میں بڑا ماہر تھا۔ علمائے ظاہر کے گروہ کا ایک بہت بڑا عالم تھا میں نے بھی اس کی بعض کتابیں پڑھی ہیں۔ جہاں تک ظاہری علوم کا تعلق ہے وہ تو ایک عیسائی بھی پڑھ سکتا ہے۔ مثلاً بخاری ہے۔ حدیث کی دوسری کتابیں ہیں۔ پھر تفاسیر کی کتابیں ہیں جنہیں مسلمان علماء نے لکھا ہے انہیں ہر کوئی پڑھ سکتا ہے اور یاد رکھ سکتا ہے۔ یہ بھی علم کی ایک قسم ہے اور ایسے شخص کو بھی عالم کہتے ہیں۔ اس قسم کا وہ عالم تھا۔ غالباً امریکہ میں عیسائیوں کی عالمی کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ اُنہوں نے ان کو بھی بلایا مگر یہ کسی وجہ سے اس کانفرنس میں شریک نہ ہو سکے۔ البتہ اُنہوں نے اس کانفرنس کے لئے ایک مضمون بھجوا دیا اس میں اُنہوں نے دُنیا کے عیسائیوں کو یہ بشارت دی کہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں (اس وقت پاکستان تو بنا نہیں تھا سارا ہندوستان اکٹھا تھا) کسی شخص کے دل میںیہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی زندگی میں کسی مسلمان کو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی یعنی یہاں ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا۔ یہ اُن کا دعویٰ تھا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ دُنیا کے حالات بدلے ایک کے بعد دوسرا۔ دوسرے کے بعد تیسرا دور شروع ہوا اور گزر گیا۔ اس وقت ہم عملاً چوتھے دَور میں داخل ہو چکے ہیں۔ پہلے تو ہندوستان اکٹھا ہو کر اسلام کے غلبہ کی مہم میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ مگر پھر ساری دُنیا اکٹھی ہو گئی اور اُنہوں نے اسلام کو غالب کرنے کی اس الٰہی سکیم اور منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے۔ اور یہ وہ دَور ہے جس میں سے ہم اب گزر رہے ہیں لیکن دَور دَور کے مختلف مراحل میں فرق ہوتا ہے میں نے بڑا غور کیا ہے۔ میرے نزدیک ابھی اس دَور کی ابتداء ہے لیکن مجھے نظر آرہا ہے کہ ہم عنقریب اس چوتھے دَور کے نہایت نازک مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جس طرح اسلام کی نشأۃ اولیٰ کے چوتھے دَور میں پہلے کسریٰ اور پھر قیصر کے خلاف مسلمانوں کو ایک زبردست جہاد اور سخت مجاہدہ کرنا پڑا تھا اس طرح اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے اس چوتھے دَور میں بھی اسلام کو غالب کرنے کی جو جدوجہد تھی وہ پہلے ادیانِ باطلہ کے خلاف تھی۔ جماعت احمدیہ کی کش مکش دیگر مذاہب کے ساتھ یعنی ہماری ان لوگوں کے ساتھ مذہبی جنگ ہو رہی تھی جو اپنے آپ کو عیسائیت کی طرف منسوب کر رہے تھے۔ یا اپنے آپ کو وید کی طرف منسوب کر رہے تھے یا بعض دوسرے مذاہب کی طرف منسوب ہوتے تھے مگر جس طرح پہلے کسریٰ اور پھر قیصر کے ساتھ جنگ ہوئی یعنی پہلے ایک طاقتور مخالف حکومت کے بعد دوسری طاقتور مخالف طاقت کے ساتھ جنگ ہوئی اس طرح جماعت احمدیہ کے مقابلے میں اس چوتھے دَور کا پہلا حصہ ہے ادیان باطلہ کی مخالفت اور اس کا مقابلہ ہمیں اس میں بڑا زبردست جہاد اور سخت مجاہدہ کرنا پڑا اور کرنا پڑ رہا ہے اس جنگ کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک دلائل کا تعلق ہے جیت لیا ہے۔ ہماری کوشش کامیاب ہو گئی ہے۔ دلائل کے مقابلے میں اب لوگ ہمارے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں ایک جگہ ایک بڑا ہی عجیب فقرہ لکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ پادری ہر نکڑ پر اور ہر چوراہے پر کھڑے ہو کر مسلمانوں پر آوازے کسا کرتے تھے کہ کہاں ہیں وہ اسلام کے معجزات جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے دکھائے تھے۔ وہ ہمارے سامنے پیش کرو۔ مگر اب یہ حال ہے کہ وہی پادری میرے ساتھ جو محمد ﷺ کا خادم ہوں مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ غرض دلائل کے میدان میں اہل مذہب کی پسپائی کا دَور آپ علیہ السلام کی زندگی میں شروع ہوگیا تھا۔ اب مثلاً وفات مسیح کا مسئلہ ہے۔ اندرونی طور پر مسلمان کہلانے والوں کے ساتھ ایک وقت میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اس مسئلہ پر بڑی سرپھٹول ہوا کرتی تھی۔ بڑی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ اسی بناء پر قتل کی کوششیں ہوئیں کہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام (جو ایک عاجز انسان تھے ان) کو آسمان پر زندہ کیوں نہیں مانتے؟ اس مسئلہ پر لوگ ہمارے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے۔ وہ ہمیں کہتے تھے تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ایک طرف عیسائی تھے۔ وہ ہمیں کہتے تھے کہ تم اُس مسیح کو خدا کیوں نہیں مانتے اور دوسری طرف مسلمان کہہ رہا تھا تم اسے آسمان پر زندہ کیوں نہیں مانتے۔ حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک عاجز انسان تھے جو ماں کے پیٹ کے اندھیروں میں نو مہینے رہنے کے بعد اس دُنیا میں پیدا ہوئے تھے وہ نہ تو خدا بن سکتے تھے اور نہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ رہ سکتے تھے۔
چنانچہ ہم نے حیات مسیح کے عقیدہ کے خلاف عقلی اور نقلی اور تاریخی دلائل کے ذریعہ لوگوں کولاجواب کر دیا۔ اب اسّی نوے فی صد مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ غلطی کرتے تھے جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے تھے۔ بمشکل دس بیس فی صد لوگ ایسے رہ گئے ہیں جو حیات مسیح کے قائل ہیں۔ ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہے جو مانتا تو ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں لیکن وہ اس بات کا اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تاہم ایک وقت آئے گا کہ وہ لوگ بھی وفات مسیح کا اقرار کر لیں گے۔
دوسری طرف عیسائی کہتے ہیں کہ مریم کا بیٹا (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہے اور خدا کے دائیں ہاتھ بیٹھا خدائی کر رہا ہے تین مل کر ایک بن گئے ہیں یعنی تثلیث عیسائیوں کا بنیادی عقیدہ ہے حالانکہ بائیبل نے حضرت مسیح کو SON OF MAN(سن آف مین) یعنی ابن آدم کہا ہے۔ یہ بڑی موٹی بات ہے پھر بھی آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس کے باوجود عیسائی حضرت مسیح کو خدا مانتے ہیں آخر وہ ان کی خدائی کو کس طرح اور کس دلیل کی بناء پر مانتے ہیں۔ عیسائیوں نے بائیبل میں دجل کر کے جو حصہ ملایا ہے وہ علیٰحدہ ہے اس کے باوجود بائیبل نے کئی جگہ حضرت مسیحؑ کو ابن آدم کہہ کر پکارا ہے۔
میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ڈنمارک میں ایک عیسائی پادری نے بدتمیزی کی تھی اس نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بات کی تھی۔ اس کا میں نے جو جواب دیا تھا وہ ان کے لئے پریشان کن تھا۔ میں نے اپنے جواب میں جان بوجھ کر حضرت مسیح کے لئے ابن آدم کا لفظ استعمال کیا تھا وہ چونکہ پڑھے لکھے اور ہوشیار لوگ ہیں اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا اور بڑا تلملایا کہ یہ کیا ہو گیا ہے وہ کہنے لگا کہ ابن آدم کے معنے وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں میں نے اس کو جواب دیا (دوست یاد رکھیں کہ ایسے وقت میں اپنی جگہ کو بالکل نہیں چھوڑنا چاہئے) کہ ابن آدم کے معنے سوائے ابن آدم کے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے۔ اس واسطے تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ میں ابن آدم کے جو معنے سمجھتا ہوں وہ درست نہیں سن آف مین یعنی ابن آدم کے معنے ابن آدم ہی کے ہوتے ہیں اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ تو ہماری مذہبی اصطلاح ہے۔ میں نے کہا میں جانتا ہوں۔ یہ تمہاری مذہبی اصطلاح ہے لیکن دُنیا کے سارے علوم اور دُنیا کے سارے مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ کسی لفظ کے یا کسی جملے کے اصطلاحی معنے لغوی معنے کو محدود کرتے ہیں اس میں وسعت پیدا نہیں کرتے۔ اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ لُغت کوئی اور معنے کر رہی ہو اور اصطلاحی معنے کچھ اور ہوں۔ مثلاًگھوڑا ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ عربی میں گھوڑے کے کئی سونام ہیں۔ اب ایک خاص قسم کا گھوڑا ہے(جس کا ایک خاص نام ہے) تو اس کے متعلق اگر کوئی کہہ دے کہ یہ گھوڑا نہیں اس کے معنے گدھے کے ہیں تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ گھوڑا، گھوڑا ہی رہے گا گدھا نہیں بن جائے گا۔
اسی لئے ساری دُنیا کے عالم اور مذہبی لو گ اس بات پر متفق ہیں کہ اصطلاحی معنے لغوی معنوں کو محدود کرتے ہیں ان میں وسعت پیدا نہیں کرتے۔اس لحاظ سے ابن آدم کے معنے ابن آدم ہی کے ہوتے ہیں یعنی اس کا مفہوم کچھ محدود ہو جائے گا۔ ابن آدم سے بڑھ کر کچھ نہیں بنے گا۔ جب اُس نے یہ کہا تو چونکہ اس کے ساتھ کج بحثی نہیں کرنا چاہتا تھا نہ یہ میرا مقام ہے۔ میں نے بڑے وثوق سے اُن کے لیڈر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کا جواب میں نہیں دوں گا۔ یہ دیں گے کوئی کہہ سکتا تھاکہ میں نے ایسا کر کے خطرہ مول لیا تھا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ دل میں خواہش پیدا کرتا ہے اس کو پورا بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اُن کا لیڈر اس پادری سے کہنے لگا۔ تم غلط کہتے ہو یہ ٹھیک کہتے ہیں۔
پس عیسائیوں کو بھی حضرت مسیحؑ کا ابن آدم ہونا تو ماننا پڑ گیا۔ میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ ادیان باطلہ کے ساتھ ہماری دلائل کی جو جنگ تھی اُسے ہم نے قریباً قریباً جیت لیا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے یہ جنگ پوری جیت لی ہے۔ ہم نے یہ جنگ دلائل کے میدان میں جیت لی ہے۔ بعض لوگ بیس فیصد احمدی ہو چکے ہیں۔ بعض پچاس فیصد احمدی ہو چکے ہیں بعض ساٹھ فیصد احمدی ہو چکے ہیں۔
غرض غلبۂ اسلام کی راہ میں روک بننے والی دو بنیادی طاقتیں تھیں۔ ایک ادیان باطلہ کی مجموعی طاقت۔ چنانچہ جب اسلام کا سوال پیدا ہو تو یہودی اور عیسائی ایک بن جاتے ہیں۔ جب اسلام کا سوال نہ ہو تو عیسائی یہودیوں سے کہتا ہے تم نے خداوند یسوع کو صلیب پر لٹکا دیا تھا۔ تم سخت ظالم ہو لیکن جس وقت اسلام کا سوال ہو تو اس وقت یہودی او رعیسائی ایک ہو جاتے اس وقت یہودی۔ عیسائی اور آریہ ایک ہو جاتے ہیں۔ دوسرے سب مذاہب والے ایک ہو جاتے ہیں۔ جس وقت اسلام کا سوال ہو تو مذہب اور فلسفہ ایک ہو جاتے ہیں یعنی ایک فلسفی بڑے آرام سے اسلام پر وار کر دیتا ہے مگر دوسرے مذاہب پروار کرنے کی متحدہ جرأت نہیںکرتا۔ گو اس کی دلیل غلط ہوتی ہے یہ ہم مانتے ہیں۔ یہ رجحان اب آہستہ آہستہ دُور ہو رہا ہے مذہبی دلائل کے میدان میں ہم نے اُن کو لاجواب کر دیا ہے۔ یہ جنگ ابھی شدت سے جاری ہے۔ اور ان کو حلقہ بگوش اسلام کرنا ابھی رہتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کی فتح کے آثار نظر آرہے ہیں تاہم یہ جنگ مزید ۲۰۔۲۵ سال تک جاری رہے گی۔
اسلام کے خلاف دوسری طاقت لامذہبیت یعنی دہریت کی تھی جسے اشتراکیت بھی کہتے ہیں یہ لوگ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر لامذہبیت کے نام پر انسانی معاشرہ کو خوشحال بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے نزدیک اسلامی ہدایت اور قرآنی شریعت کو چھوڑ کر انسانی معاشرہ نہ حقیقی طور پر خوش حال بن سکتا ہے اور نہ بااخلاق اور با خدا بن سکتا ہے۔ یہاں تک کہ دُنیوی لذتوں کا جتنا احساس ایک مسلمان کو ہے اتنا ان کو نہیں ہے۔ ہم اس وقت ایسے موڑ پر کھڑے ہیں کہ جس طرح نشأۃ اولیٰ میں اسلامی ترقی کے چوتھے دَور میں پہلے تو کسریٰ اور بعد میں قیصر کے ساتھ مقابلہ تھا۔ اسی طرح ہمارا بھی پہلے مذاہب کے ساتھ اور اب لامذہبیت یعنی دہریت کے ساتھ مقابلہ ہے۔ اس کے لئے ہمیںدو ہتھیار ملے ہیں ایک دلائل کا ہتھیار اور دوسرا آسمانی نشانات یعنی معجزات کا ہتھیار چنانچہ اس دَور کے پہلے حصہ میں ہم دلائل پر زور دیتے رہے ہیں۔ کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ پہلے ہمارا مقابلہ تھا وہ مذہب کو ماننے والے تھے اس واسطے ہم انہیں اسلام کا قائل کرنے کیلئے عقلی اور نقلی دلائل قاطعہ دیا کرتے تھے جن کا وہ جواب نہیں دے سکتے تھے۔ دلائل کے علاوہ انہیں آسمانی نشانات سے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس میں ہم قریباً قریباً کامیاب ہو چکے ہیں۔
اب ہم اس دَور کے دوسرے حصہ میں داخل ہو رہے ہیں اس میں ہمیں آسمانی نشانات پر زیادہ زور دینا پڑے گا۔ اور ساتھ ساتھ دلائل بھی دینے پڑیں گے ہمارے پاس یہ دونوں ہتھیار ہیں پہلے زمانے میں جب اسلام کے دفاع میں جنگ لڑی جاتی تھی تو کسی وقت تلوار کی جنگ ہو رہی ہوتی تھی اور کسی وقت تیر کی ہو رہی ہوتی تھی۔ یا ایک وقت میں تیر چلتے تھے تو دوسرے وقت میں تلواریں اور نیزے نکل آتے تھے۔
پس ہتھیار تو دونوں قسم کے استعمال ہوں گے لیکن زیادہ اہمیت اب آسمانی نشانوں کو دی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ ہوں گے۔ اس دَور کے پہلے حصے میں زیادہ اہمیت دلائل کی تھی اور دوسرے نمبر پر معجزات کی ضرورت تھی۔ اب معجزات کی اہمیت پہلے نمبر پر ہے اور دلائل کی حیثیت ثانوی ہے۔ گو دونوں ہتھیار ہی نہایت اہم ہیں۔
جیسا کہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بتا چکا ہوں کہ اس مہم میں کامیابی کے لئے جہاد اکبر کی بڑی ضرورت ہے۔ جہاد اکبر کامطلب ہے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدہ کرنا، اپنے نفس کی تربیت کرنا اپنے نفس کا ایسا محاسبہ کرنا جس کے نتیجہ میں مقبول عبادت کی توفیق مل جائے یعنی حقیقی عبادت اور قربانی جسے اللہ تعالیٰ قبول بھی فرمالے۔ دراصل مقبول عبادت کے بغیر طہارت اور پاکیزگی نصیب نہیں ہوتی اور پاکیزگی کے بغیر آسمانی نشان نہیں ملتے۔
اس لئے اس دَور میں جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں ہم میں سے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نوجوانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو پاک کریں۔ جہاں تک اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے روحانی جنگ کا تعلق ہے اس کے متعلق تو خداتعالیٰ کا منشاء ہے اس کا وعدہ ہے اور آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ یہ جنگ ہم نے جیتنی ہے۔ تم میدان میں نہیں آؤ گے تو کوئی اور آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کوئی اور قوم لے آئے گا۔یہ جنگ بہرحال جیتی جانی ہے۔ تاہم یہ جنگ ایٹم بم سے نہیں جیتی جانی یہ جنگ دلائل اور آسمانی نشانوں کے ذریعہ جیتی جانی ہے اس کے لئے ایک بڑی زبردست اور تربیت یافتہ روحانی فوج تیار ہونی چاہئے۔ اور وہ جہاد اکبر کے ذریعہ یعنی نفس کے محاسبہ اور تربیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس جماعت کے ہر چھوٹے اور ہر بڑے بالخصوص نوجوانوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اپنے نفس کی تربیت اور اصلاح میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھنی چاہئے۔ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اس مضمون کو مختصر کر دیتا ہوں۔
میں نے خطبہ کے شروع میں جن دو آیتوں کی تلاوت کی ہے اُن میں سے پہلی آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے وہ تو پورا ہو کر رہے گا۔ اس کے وعدوںکو تو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے وہ یہ کوشش کریں گے کہ تمہیں جادۂ استقامت اور صراط مستقیم سے پرے ہٹا دیں۔ فرمایا اُن سے ہوشیار رہنا اور ان کے دھوکے میں نہ آنا۔
کے لفظ میں دونوں قسم کے لوگ آجاتے ہیں بلکہ تینوں آجاتے ہیں۔ یعنی کمزور ایمان والا۔ منافق اور منکر۔ ان تینوں کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوں گے مگر ایک پکے اور پختہ ایمان والے مسلمان کو تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر کامل یقین ہوتا ہے۔
دوسری آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا لیکن ساتھ ہی فرمایا اس کے لئے تمہیں استغفار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس وعدہ کے پورا ہونے کے رستہ میں تمہاری کمزوریاں حائل ہو سکتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وعدہ پورا ہونے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم پیدا کر دے۔جو ان وعدوں کو پورا کرنے والی ہو۔اس لئے فرمایا تم ہمیشہ استغفار کرتے رہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے استغفار کے معنے یہ کئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے یہ درخواست کرتا رہے کہ اس کی بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی طاقت رکھنے والا اور قادر مطلق ہے اس کی طاقت سے انسان طاقت حاصل کرنے کی توفیق پائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خدا کے وعدے تو ضرور پورے ہوں گے اسلام کو کامیابیاں نصیب ہوں گی۔ مگر خدا کے وعدوں کی وجہ سے غرور نہ کرنا اور یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا اس لئے ہم کمزوری دکھا جائیں تو کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کمزوری نہیں دکھانی بلکہ ہر وقت چوکس رہنا ہے اور استغفار کرتے رہنا ہے اس لئے ہم نے کوشش بھی کرنی ہے اور دعابھی کرنی ہے کہ ہماری بشری کمزوریاں غلبۂ اسلام کی راہ میں حائل نہ ہو جائیں۔ا یسا نہ ہو کہ کوئی اور قوم پیدا ہو جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے پورے ہوں اور وہ ان بشارتوں کی وارث بن جائے۔
دوسرے فرمایا غرور نہیں کرنا بلکہ ہر حال میں خداتعالیٰ سے طاقت حاصل کر کے کامیابی کی راہوں کو تلاش کرنا ہے پھر فرمایا جس شخص نے خداتعالیٰ سے طاقت حاصل کرنی ہو اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک تسبیح کرنا اور دوسرا تحمید کرنا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
تم شام اور صبح کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو اور حمد بھی کرتے رہو۔ہمارا بھی یہی محاورہ ہے اور دوسرے ملکوں کا بھی یہی محاورہ ہے کہ جب اس قسم کا مفہوم ادا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں صبح وشام ایسا ہوتا ہے اس آیت میں یہ ترتیب بدل دی گئی ہے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرو شام کے وقت بھی اور صبح کے وقت بھی دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی مجاہدہ یعنی غلبۂ اسلام کے لئے جو جدوجہد کی جاتی ہے اس کی حرکت اندھیروں سے روشنی کی طرف تھی۔ روشنی سے اندھیروں کی طرف نہیں تھی۔ اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے ایک تو وہ رات ہے جو سورج کے غروب ہونے پر دھندلکے سے شروع ہوتی ہے اور ایک اس وقت کی رات ہے جس وقت مسلمانوں کو روشنی نظر نہیں آرہی تھی ان کو تکالیف کا سامنا تھا۔ ان پر ظلم وستم ہو رہے تھے، کفر نے ان کی ترقی کے راستے میں روکیں پیدا کی ہوئی تھیں۔
پس اسلام کے غلبہ کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد نشأۃ اولیٰ میں بھی ظلمت سے نور کی طرف تھی اور نشأۃ ثانیہ میں بھی ظلمت سے نور کی طرف ہے۔ اس لئے اَلْعَشِّی پہلے کہا گیا ہے اور اَلْاِبْکَار بعد میں کہا گیا ہے آیت کے اس حصے میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری یہ حرکت قائم رہے تو جس طرح مثلاً زمین کی حرکت قائم رہتی ہے۔ عشی کے بعد صبح کا آنا یقینی ہے اسی طرح اگر تمہاری جدوجہد اورتمہاری قربانیاں اور ایثار بھی قائم رہے گا تو جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد صبح صادق کا طلوع یقینی ہے اسی طرح تمہاری تکالیف کے بعد تمہاری کامیابی اور غلبۂ اسلام بھی یقینی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی تسبیح و تحمید کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور کامل اور قوی فطرت کے ساتھ اپنی مجاہدانہ ذمہ داریوں کو ادا کریں اور دلائل قاطعہ اور آسمانی نشانوں کے زبردست ہتھیاروں کے ساتھ اپنی مجاہدانہ زندگیوں کو لیس کر کے اور طاقتور بنا کر ہم اسلام کی اس جنگ میں کامیاب ہوں اور وہ دن جلد آجائے جب اس نشأۃ ثانیہ میں بھی اسلام ساری دُنیا پر غالب آجائے۔ ادیان باطلہ بھی باطل کو چھوڑ کر حق کو قبول کرنے لگ جائیں اور وہ بھی جو اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں اور اپنے غرور کی وجہ سے اپنے رب عظیم کو بھول چکے ہیں۔ خدائے قادر مطلق کی طرف لوٹ آئیں۔ میری مراد دہریت یعنی LEFTIZM(لیفٹ ازم) سے ہے جس کا اس وقت دُنیا میں بڑا اثر ہے ان کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ اُنہوں نے مذہب کے خلاف جو کچھ لکھا ہے وہ دراصل ہمیں تیار کرنے کے لئے ہے پہلے تو ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم نے ان کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے جس طرح مسلمان جب کسریٰ ایران کے مقابلے میں گئے تھے اور ان کے مقابلے میں ہاتھی آگئے تھے تو ان کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ اُن کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر وہیں مسلمانوں کو ان پر فتح پانے کی باتیں سکھا دی تھیں۔ اس طرح یہ سوشلزم وغیرہ کا اثرورسوخ پھیل رہا ہے۔ یہ اس وقت اس سٹیج پر ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے گُر سیکھیں تاکہ جب اُن کے ساتھ مقابلے کا وقت آئے تو اس وقت خدا تعالیٰ اپنافضل فرمائے اور پھر اسی کی دی ہوئی توفیق سے اور اسی کی رحمت اور طاقت سے وہ آخری جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی جاسکے جس کے نتیجہ میں اسلام نے ساری دُنیا پر غالب آنا ہے۔ا ور اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو خدا کرے ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ۱ تا۹)
ززز

ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیاگیا ہے
خدا کی عظمت اور جلال ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ستمبر۱۹۷۲ء بمقام سعید ہائوس۔ کاکول۔ ایبٹ آباد)
ّتشہد و ّتعوذاور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-

(الملک:۳۰)
پھرحضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم اِس صداقت پر پہنچتے ہیں (جسے قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے اس یونیورس، اس عالمین کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان اس سے خدمت لے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام طاقتیں بھی بخشی ہیں جن کی بدولت وہ اس کی مخلوق سے ہر قسم کی خدمت لینے کا اہل ہے۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہر چیزکی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے اور اس کی خدمت بجالائے۔ چنانچہ تم جانوروں مثلاً کتے کو سکھاتے ہو اور اس سے اپنی خدمت لیتے ہو۔ پس انسان کو دوسروں کے سکھانے اور معلم بننے کی ایک ایسی طاقت دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف دوسرے انسان کو علم دیتا ہے اور سکھاتا ہے بلکہ کتوں کو بھی سکھا سکتا ہے۔ کتّا اس کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے مثلاً ایک سدھایا ہوا کتا جسے انگریزی میں ’’گن ڈاگ‘‘ کہتے ہیں۔ وہ شکاری کے ساتھ جاتا ہے تو شکار پر دانت نہیں مارتا بلکہ اسے اپنے نرم ہونٹوں سے پکڑ کر اپنے مالک کے پاس لے آتا ہے۔ ظاہر ہے انسان اُسے یہ علم سکھاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے، اس سے علم سیکھے اور اس کے کہنے کے مطابق کام کرے۔
اسی طرح انسان بے جان مادی اشیاء سے بھی خدمت لیتا ہے۔ مثلاً انسان نے ہیرے سے اپنی خدمت لی۔ عورت نے اسے اپنی زینت بنا لیا۔ مرد نے اسے پٹرول کے کنوئیں کھودنے کے لئے استعمال کیا۔ بور کرنیوالی مشینوں کے آگے ہیرے لگے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کے سرے ’’ڈائمنڈ ہیڈز‘‘ کہلاتے ہیں۔ ورنہ یہ لوہا تو پتھر نہیں کاٹ سکتا۔
بہرحال عورت نے اس سے اپنے رنگ میں خدمت لی اور مرد نے اپنے رنگ میں۔ اسی طرح ہزاروں خدمتیں ہیں جو انسان ہیرے اور دوسری مادی اشیاء سے لیتا ہے۔ اب مادی اشیاء سے ہزاروں خدمتیں لینے کی قوت اور طاقت انسان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یعنی ایک طرف اس عالمین کو پیدا کیا جس سے اس دنیا میں انسان کی ہر ضرورت پوری ہوتی ہے۔ (البتہ وہ ضرورت پوری نہیں ہوتی جو انسان خود اپنی حماقت سے ضرورت سمجھ لیتا ہے) اس سے وہ ضرورت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی یعنی کسی چیز کی احتیاج کے پورا ہونے کے سامان پیدا کئے تو دوسری طرف انسان کو قوت و طاقت اور عقل و تمیز بھی عطا فرمائی تاکہ وہ اس دنیا کی چیزوں سے کام لے۔
پھر انسان جب مادی اشیاء سے کام لیتا ہے تو بسا اوقات وہ شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے مثلاً ایک شخص ہے جسے تجارت کا بڑا ڈھنگ آتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میںیہ رکھا ہے کہ وہ جس چیز کو ہاتھ میں لیتا ہے اسے سونا بنا دیتا ہے۔ چنانچہ وہ تجارت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ بڑا نفع کماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و فراست اور تاجرانہ ذہنیت عطا فرمائی ہے جس کی بدولت وہ دولت جمع کر لیتا ہے تو پھر اس کے پاس شیطان آجاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو نے جو دولت کمائی ہے یہ تو محض تیری عقل اور سمجھ کا نتیجہ ہے، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے ضائع نہ کرنا۔ گویا شیطان اسے بخل سے کام لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اگر وہ مومن بندہ ہے اور سمجھ دار ہے تو وہ شیطان کو دھتکار دے گا کیونکہ خدا کی یہ آواز اس کے کان میںپڑتی ہے کہ یہ اللہ کا مال ہے۔ اللہ کی دی ہوئی طاقتوں سے میں نے کمایا ہے۔ یہ مالِ حلال اس کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوگا اور اس میںکوئی کمی بھی نہیں آئے گی کیونکہ یہ عالمین بھی اسی طرح موجود ہے۔ انسانی قوتیں اور طاقتیں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح پہلے تھیں اور اللہ تعالیٰ بھی موجود ہے۔ اس کی رحمانیت کے جلووں میں کوئی فرق نہیںپڑا انسانی کوششیں ناکام ہو سکتی ہیں مگر خدائے رحمان کے جلوؤں میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ چنانچہ خدائے رحمان اپنے بندہ سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے بن جائو تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ میں تمہیں ناکام نہیں ہونے دوں گا۔ میں تمہیںہر دکھ سے بچائوں گا اور ہر نعمت عطا کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ تم میرے بندے بن جائو اور میری ہدایت پر کاربند ہوجائو۔ لیکن شیطان بھی تاک میں ہوتا ہے وہ اس کے کان میں ڈالتا ہے کہ تم نے ایک دفعہ دولت کمالی۔ تمہارا دائو لگ گیا ممکن ہے یہ دولت پھر تمہارے ہاتھ میںنہ آئے اس لئے تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔ اسی طرح مثلاً ایک سیاست دان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سیاسی شعور عطا فرمایا ہے۔ اس کے اندر قیادت کا خداداد جوہر ہے جس کی بدولت وہ سیاسی میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کی اس کامیابی کا انحصار اس عالمین کے کچھ حصوں پر ہے مثلاً وہ کاغذ اور سیاہی کو، لائوڈ سپیکر کو اور انسانوں پر اثر ڈال کر ان کے اجتماعوں کو استعمال کرتا ہے اور اپنے مقاصد میںکامیاب ہو جاتا ہے۔ مگر جس وقت وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور ملک کے کسی ایک حصے کا حاکم بن جاتا ہے اس چیز کو استعمال کرکے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بطور انعام کے عطا فرمائی تھیں تو پھر شیطان کہتا ہے کہ اب تمہیں اقتدار مل گیا ہے اس لئے اگر تمہیں اقتدار قائم رکھنے کے لئے بے انصافی کرنی پڑے تو کرو۔ غرض دولت ہو یا سیاست ہو ہر دو صورتوں میں شیطان انسان کے دل میں خوف پیداکر دیتا ہے۔ بخل دراصل دولت کے ضائع ہونے کا خوف ہے جو شیطان پیدا کرتا ہے اس شخص کے دل میں جس نے خدا کی پیداوار سے خداداد طاقتوں کے ذریعہ مال حاصل کیا ہوتا ہے اور اسی طرح سیاستدان، سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں اور سامانوں کے نتیجہ میں حاصل کرتا ہے۔ مگر شیطان آکر اسے کہتا ہے پتہ نہیں پھر تمہیں اقتدار ملے یا نہ ملے، اگر تم نے بے انصافی نہ کی تو شاید تم سے اقتدار چھن جائے اس لئے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے خوب ناانصافیاں کرو۔ چنانچہ شیطان اس کے دل و دماغ پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ حقیقت یاد نہیں رہتی کہ خدا رحمن اور رحیم ہے۔ وہ خالق اور مالک یوم الدین ہے۔ اَلْحُکْمُ لِلّٰہ کی رو سے اس دنیا میں حکومت اسی کی ہے اور فیصلہ اسی کا لاگو اور چالو ہے۔ وہ پہلے کی طرح اب بھی موجود ہے اور اس کی طاقتیں اس دنیا میں کارفرما ہیں۔ اس لئے کسی کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ کہ دولت چلی گئی تو پھر پتہ نہیں ملے یا نہ ملے۔ انصاف کیا تو کہیں اقتدار نہ جاتا رہے۔ اسی قسم کے اور بھی بہت سے خوف ہیں جو شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کی آیت کے اس ٹکڑے میں جس کی میں نے ابتداء میں تلاوت کی تھی فرمایا ہے:-
یعنی تم ان شیطانی وساوس یا شیطان صفت لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے۔

یعنی شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے۔ جو لوگ شیطان کے دوست بن جاتے ہیں اور خدا کے دوست نہیں رہتے ان کے دل میںشیطان خوف پیدا کرتا ہے کہتا ہے دیکھو! دولت چلی گئی تو پھر پتہ نہیں تمہیں ملے یا نہ ملے اور وہ بیوقوف یہ نہیں سمجھتا کہ پہلے جو دولت آئی تھی وہ شیطان نے تو نہیں دی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دولت کو پیدا کیا۔ اور ان طاقتوں کو بھی پیدا کیا جن کی بدولت اسے وہ دولت ملی۔ اس کا اپنا تو کچھ نہیں۔
اسی طرح جو شخص صاحب اقتدار بن جاتا ہے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ کہتا ہے اگر میں انصاف کروں تو شاید میرا اقتدار جاتا رہے کیونکہ صاحب اقتدار لوگوں سے بے انصافی کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں۔ ان سے ظلم کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں۔ آخر شیطان کو قیامت تک جو مہلت دی گئی ہے تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شیطان کو قیامت تک دوست ملتے رہیں گے جن کو وہ ڈراتا اور خوف دلاتا رہے گا۔ چنانچہ مطالبہ ہوتا ہے کہ فلاں حصہ ملک پر یا فلاں جماعت پر یا فلاں گروہ پر ظلم کرو ورنہ ایجی ٹیشن ہوگی، ورنہ اقتدار تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
پس شیطان اپنے دوستوں کو اس قسم کی باتوں سے ڈراتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ ۔ شیطان کے دوست الٰہی احکام کے خلاف الٰہی شریعت کے خلاف اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے خلاف لوگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ڈراتے ہیں مگر تم نے ان سے نہیں ڈرنا۔ ایک ہی چیز ہے ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ہستی ہے جس کے خوف سے انسان کے دل میں خشیت پیدا ہونی چاہئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا شیطان کے دوستوں سے مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرو اور میری خشیت اختیار کرو۔
میں نے اس وقت دنیا کی نعمتوں کے ضیاع کے خوف کا حصہ زیادہ نمایاں کیا ہے ورنہ یہ چیز ہر قسم کے خوف کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ تاہم نعمتوں کے ضیاع کے خوف کی طرف میری توجہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے اِس عالمین کو پیدا کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ تمہاری خدمت کر سکے۔ تم اُسے مسخر کر سکو۔ تسخیر کائنات کے لئے تمہیں ہر قسم کی طاقتیں دیں۔ اِس کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ ان ستاروں سے لے کر جن کی روشنی ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی زمین کے ذرّوں تک کو تمہاری خدمت پر لگا دیا کہ تم اُن پر حکومت کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو بڑی طاقتیں اور صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جن کی بدولت انسان دولت اور اقتدار کا مالک بنتا ہے۔ مگر شیطان اُسے یہ کہتا ہے کہ تجھے دولت ملی ہے اس کو سمیٹنے اور جمع کرنے کی فکر کرو۔ خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو کیونکہ خدا کی یہ مخلوق اور یہ عالمین اور تیری طاقتیں تیرا ساتھ چھوڑ دیں گی تو پھر کیا کرو گے؟ آج دولت ملی ہے کل نہیں ملے گی۔ مگر خداتعالیٰ فرماتا ہے جس طرح میں نے آج دولت دی ہے کل بھی دوں گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم نے شیطانی خوف دل میں نہیں رکھنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا ہے اور صرف میری خشیت کو اپنے دل پر وارد کرنا ہے۔ خشیت کے معنی دراصل ایسے خوف کے ہوتے ہیں کہ جس ہستی سے خوف کھایا جائے اس کی عظمت اور جبروت کا دل پر اثر ہو۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کی دہشت، اس کی عظیم قدرتوں کا احساس اور اس کے حاکم کل ہونے کا یقین ہے جو انسان کو خشیت اللہ پر مجبور کر دیتا ہے۔
پس اللہ تعا لیٰ نے فرمایا اگر تم اپنے دل میں شیطانی وساوس پیدا نہیں ہونے دو گے، میری عطا کردہ دولت اور اقتدار یا مَیں نے جو دوسری چیزیں (مثلاً) صلاحیتوں کے رنگ میں یا عقل کے رنگ میں یا اخلاق کے رنگ میں عطا ہیں اُن کو میرے قرب کا ذریعہ بناؤ گے تو میں تم پر اور زیادہ انعام کروں گا اب مثلاً جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ودیعت کردہ ہیں۔ ورنہ انسان کی کیا طاقت تھی کہ وہ خدا کے فضل کے بغیر اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کر سکتا۔ آپ دیکھ لیں وہ قومیں جنہوں نے اسلام کی طرف توجہ نہیں دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا ہے اُن کے ظاہری طور پر اخلاق اچھے ہوںتو ہوں ورنہ حقیقتاً وہ لوگ بااخلاق نہیں ہوتے۔ مثلاً جب انگریز یہاں کے حاکم ہوا کرتے تھے تو وہ بظاہر بڑے دیانتدار بنتے تھے اور وہ اس بات پر بڑا فخر کرتے تھے کہ دیکھو مسلمان اور ہندو کے آپس میں جھگڑے ہوتے ہیں یہ خود اپنے فیصلے نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے درمیان انصاف اور دیانت داری کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض ایک دکھاوا تھا یہ دیانت داری ظاہری دیانت داری تھی۔ حقیقی دیانت داری نہیں تھی۔ کیونکہ انگریزوں کی تاریخ ہمیں بلا استثناء یہ بتاتی ہے کہ جب بھی انصاف اور ان کے ذاتی یا قومی مفاد کا ٹکراؤ ہوا، اُنہوں نے انصاف کو چھوڑ دیا اور ذاتی اور قومی مفاد کو ترجیح دی۔ چنانچہ وہ برصغیر میں ہمیں لوٹ بھی رہے تھے اور ہم WHITEMAN'S BURDEN (وائٹ مینز برڈن) بھی تھے یعنی ہم بے رنگ قوموں کا بوجھ بھی تھے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ جب میں آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میرے چند انگریز دوست میرے پاس آکر کہنے لگے کہ چلو سیر کو چلیں۔ اتوار کا دن تھا۔ ہم ایک باغ میں چلے گئے۔ ان میں سے ایک کے پاس کیمرہ تھا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں ان سے سبق آموز مذاق کروں۔ چنانچہ میں نے کہا میں ایک پوز (شکل) بناتا ہوں تم اس کی تصویر لو۔ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ اس سے میرا کیا منشاء ہے۔ خیر وہ کہنے لگے ہاں ٹھیک ہے میں نے ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ میری پیٹھ پر سوار ہو جائے اور میں کچھ نوٹ اپنی جیب میں رکھتا ہوں ۔ شکل یہ بناؤ کہ تم مجھ پر سوار بھی ہو اور میری جیب سے نوٹ بھی نکالنے لگے ہو۔ ہم اس تصویر کے نیچے لکھیں گے WHITEMAN'S BURDEN یعنی تم ہماری پیٹھ پر سوار بھی ہو اور ہمیں لوٹ بھی رہے ہو۔ پھر بھی دُنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہو کہ ہم تمہارے لئے ایک بوجھ ہیں۔
غرض حقیقی اخلاق سوائے اللہ تعالیٰ کی منشاء اور ہدایت اور شریعت کے پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ حقیقی خلق جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے اس بات کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قوتیں عطا فرمائی ہیں اُن کا صحیح مصرف ہو۔ یہ مصرف اللہ تعالیٰ ہی نے اسلام کے ذریعہ سکھایا ہے۔ اس لئے جن لوگوں کو صحیح مصرف کا علم ہی نہیں وہ اپنے اندر حقیقی اخلاق پیدا ہی نہیں کر سکتے یہ ناممکن ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ شیطان کے دوست ہیں شیطان انہیں خوف دلاتا رہتا ہے۔ مثلاً وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہاری دولت نہیں رہے گی۔ وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہارا اقتدار نہیں رہے گا۔ چنانچہ شیطان جس قسم کا بھی خوف دلاتا ہے اس کا مقصد اور مطلوب یہ ہوتا ہے کہ انسان نیکیوں سے محروم ہو جائے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شیطان کی آواز سنو گے تو نیک نہیں بنو گے۔ تم ان عظیم نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکو گے۔ جن کو میں نے اس دُنیا میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن اگر تم شیطان کے دوست نہیں بنو گے اس کے خوف دلانے سے اثر قبول نہیں کرو گے۔ بلکہ اللہ سے خوف کھاؤ گے اس کی عظمت اور جلال کا احساس اور اس کی صفات حسنہ کی معرفت رکھو گے اور یہ یقین رکھو گے کہ یہ کائنات یہ عالمین ہمیشہ تمہارے خادم رہیں گے۔اور یہ کہ تمہارے اندر وہ قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعہ تم ان سے خدمت لے سکتے ہو تو پھر میں(اللہ) تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری اس خشیت (کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ کہیں ہم اس کی رحمتوں سے محروم نہ ہو جائیں) اس خوف کے نتیجہ میں میں تم پراتمامِ نعمت کروں گا۔ چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ میں اتمامِ نعمت کی حسین شکل یہ ہے

اس آیہ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اتمامِ نعمت یعنی کامل شریعت تمہیں مل چکی ہے اگر تم اس کامل ہدایت پر عمل کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو گے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیم کے رنگ میں رنگین کر لو گے تو اس دُنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی تم پر اتمامِ نعمت ہو جائے گا تمہیں حسنات دُنیا بھی اپنے کمال میں ملیں گی اور حسنات اُخروی بھی کامل رنگ میں ملیں گی۔
اب اگر ہمیں یہ حسنات نہیں ملتیں تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے ہم نے خداتعالیٰ کی بجائے بنی اسرائیل کا خوف اپنے دل میں بٹھا لیا یا خدا تعالیٰ کی بجائے روس کا خوف اپنے دل میں پیدا کر لیا یا ہم خداتعالیٰ کی بجائے امریکہ سے ڈرنے لگے اور یہ نہ سوچا یہ خدائے رحمان ہی ہے جس نے ہماری پیدائش سے قبل ہمارے لئے ان گنت نعمتیں پیدا کیں۔ دُنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی نہیں ہے جو عمل سے پہلے انعام دے رہی ہو۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو نہیںمانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی پرچھائیاں اور سائے سے نظر آئیں تو آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل جلوے اسی انسان پر نازل ہوتے ہیں جو اس کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔
انگریزوں میں سے مالدار اور دولت مند لینڈ لارڈز اور کارخانے دار لوگوں کو جب یہ نظر آیا کہ ان کے اپنے ملک میں عوام کی گرفت ان پر سخت ہو رہی ہے تو وہ نو آبادیات کی طرف نکل آئے اور اُنہوں نے لوگوں پر یہی ظاہر کیا کہ رحمن کی صفت کا جلوہ دکھا رہے ہیں۔ یعنی وہ ان کے اندر عدل وانصاف قائم کرنے۔ ان کے تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور یہ کرنے اور وہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ وہ اُٹھتے بیٹھے لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ ہم بیچارے تو تمہاری خدمت کے لئے تمہارے ملکوں میں پہنچے ہیں اور تم خواہ مخواہ ہم سے ناراض ہوتے ہو۔ ہم تو تمہارے خادم ہیں۔
گذشتہ سے پیوستہ سال جب میں افریقہ گیا تو نائیجیریا کے سربراہ یعقوبو گوون سے میری ملاقات تھی۔ اس سے پہلے میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے ایک دو دن میں جو جائزہ لیا ہے اور مشاہدہ کیا ہے میرا یہ تاثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر نعمت عطا فرمائی تھی مگر تم ہر نعمت سے محروم کر دئیے گئے ہو۔ وہ سمجھتے تھے کہ میرا عیسائی مشنوں کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اگلے روز جب یعقوبو گوون سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا میرا یہ تأثر ہے جس کا میں نے اپنے دوستوں سے اظہار بھی کیا ہے کہ
‏YOU HAD ALL BUT YOU WERE DEPRIVED OF ALL
اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر چیز عطا فرمائی تھی مگر تم ہر چیز سے محروم کر دئیے گئے ہو۔ میں نے جب یہ فقرہ کہا تو اس نے بے ساختہ کہا
‏HOW TRUE YOU ARE! HOW TRUE YOU ARE! HOW TRUE YOU ARE!!!
پس کہنے کو تو بغیر کسی عمل کے نائیجیریا پر احسان دھرنے لگے تھے نائیجیریا نے انگریز پر کوئی احسان تو نہیں کیا تھا کہ وہ وہاں پہنچا تھا بقول خود ان کی خدمت کرنے کے لئے ان کا یہ عمل رحمان کی صفت سے ملتا جلتا ہے کیونکہ صفتِ رحمن کامطلب یہ ہے کہ کسی عامل کے عمل کے بغیر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے۔ مثلاً اس نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے ہزار ہا چیزیں پیدا کر دیں۔ انگریزوں کا اہل افریقہ سے سلوک گو بظاہراس سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن حقیقتاً اس کے برعکس ہے انگریز ان کو ایکسپلائٹ کرنے کے لئے گئے تھے۔
میں اپنی تقریروں میں اپنے افریقن دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب پادریوں کی فوج تمہارے ملک میں داخل ہوئی تو اعلان اُنہوں نے یہی کیا تھا کہ وہ ’’خداوند یسوع مسیح‘‘ کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ان پادریوں کی صفوں کے پیچھے ان کی جو فوجیں داخل ہوئیں اُن کی توپوں سے پھول نہیں جھڑتے تھے بلکہ گولے برسے تھے اور اُنہوں نے جو تمہارا حال کیا وہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہم(جماعت احمدیہ کے مبلغین بعض ملکوں میں) پچاس سال سے کام کر رہے ہیں اور تم جانتے ہو۔ تم بھی گواہ ہو اورتمہاری حکومتیں بھی گواہ ہیں۔ ہم تمہاری ایکسپلائٹیشن کے لئے نہیں آئے ہم تمہیں لوٹنے کے لئے نہیں آئے۔ ہم تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے ہیں ہم ایک پیسہ تمہارے ملکوں میں باہر لے کر نہیں گئے اور لاکھوں روپے باہر سے لاکر تمہارے ملکوں میں خرچ کر دیئے ہیں۔
چنانچہ اس بے لوث خدمت کا ان کے عوام کو بھی پتہ ہے اور ان کی حکومت کو بھی علم ہے۔ اس واسطے ہمارے ساتھ ان کا سلوک برادرانہ ہے۔ وہاں اکثر ملکوں میں کئی انقلاب آئے یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتی رہیں۔ کبھی فوجی حکومت آئی۔ کبھی سول حکومت آئی لیکن ہر حکومت ہمارے ساتھ بڑی عزت و احترام سے پیش آتی رہی۔ تاہم جہاں کہیں بھی تعصب برتا جاتا ہے اس کی ذمہ دار عیسائیت ہے کیونکہ عیسائیت کے ساتھ ہماری روحانی جنگ ہو رہی ہے اور یہ انشاء اللہ جاری رہے گی ہم اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے جہاں کہیں عیسائی پادریوں کا داؤ لگتا ہے وہ ہماری مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔
غرض میں بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ کسی اور کی خشیت تمہارے دل میں پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ تمہارے دل میں خشیت صرف اللہ تعالیٰ کی پیدا ہو۔ دیکھو! تم اسلامی تعلیم اور اسلامی ہدایت کے نتیجہ میں تھوڑی یا بہت معرفت حاصل کر چکے ہو کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا اور رب رحمان ہے اگر تم اپنی عقل سے کام لو تو تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ دُنیا میں اور کوئی ہستی نہیں۔یہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کی عظمت اور جلال کا تقاضا ہے کہ انسان کا دل اس کے خوف سے لرزاں و ترساں رہے۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ کی ایسی بے شمار نعمتیں ہیں جو ہمارے عمل کے وقت سے پہلے پیدا کی گئیں۔ ہر آدمی کے عمل کا ایک وقت ہے۔بنی نوع انسان کی پیدائش کے بعد عمل کے وقت سے غیر معین زمانہ پہلے سے وہ نعمتیں عطا کی گئیں اور ان کی تدریجی نشوونما کا سلسلہ اس دُنیا میں جاری ہے مثلاً بعض ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی زمین پر پچھلے سو سال میں پہنچی ہے۔ اس سے پہلے نہیں تھی۔ یا چودہ سو سال پہلے نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آگئی۔ کثرت شہب میں شاید اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے ستاروں کی روشنیاں بھی کثرت سے زمین پر پڑ رہی ہیں۔ غرض سورج چاند اور ستاروں کی روشنی زمین پر پڑتی ہے اور زمین کی خدمت کی طاقت کو زیادہ کر دیتی ہے اسی طرح انسان کی بھی تدریجی ترقی جاری ہے۔ وہ جسمانی طور پر بھی اور عقلی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی غذا میں بھی ایک تدریجی ارتقاء کا اصول کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس اللہ پر ایمان لائے ہو جو رحمان ہے اور اگر رحمان خدا پر تم نے توکل نہیں کرنا تو پھر کیا اس پر توکل کرنا ہے جس کے اندر خدائے رحمان والی کوئی اور طاقت بھی نہیں ہے۔ یعنی جب کوئی شخص عمل کرتا ہے توا س کی صحیح اور مناسب اور پوری جزا دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ نہ شیطان اور نہ اس کے چیلے اور یہی آجکل کے سارے فسادات کی جڑ ہے یعنی جو حقدار ہے اُسے اس کا حق نہیں مل رہا۔ بہرحال یہ ایک علیٰحدہ مضمون ہے جس کے بعض حصے میں پہلے کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیںبڑی حسین تعلیم دی ہے۔ ہم احمدیوں کو بھی یہ تعلیم بھولنی نہیں چاہئے۔ ہمارے دل میں سوائے اللہ کے کسی اور کی خشیت نہیں پیدا ہونی چاہئے کیونکہ ہم تو اللہ کے دوست ہیں۔ یہ تو شیطان کے دوست ہیں جن کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ شیطان خود سرکش اوراپنے دوستوں کو خدا سے دور لے جانے والا ہے۔ جو شخص خدا سے دور لے جانے والے کا دوست ہو گا اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہو گی تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوں گے کہ شیطان کے ساتھ اس نے دوستی لگا لی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو یہ علامت ہوتی ہے شیطان کی دوستی کی۔ ہمیں ہرحال میں اس تعلیم پر عمل پیرا رہنا چاہئے جس کے متعلق قرآن کریم نے بار بار زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:-
(ابراہیم:۱۳)
بھروسہ کرنے والوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
پھر فرمایا:- (المجادلۃ:۱۱)
اور چاہئے کہ مومن صرف اللہ پر توکل کریں۔
غرض مومن بندوں کو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی اور پر توکل نہیں کرنا چاہئے غیراللہ پر نہیں کیونکہ یہ صرف خدائے رحمان ہی ہے جس پر توکل کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تمام صفات حسنہ کا مالک ہے۔ اُس نے اپنی صفات حسنہ سے متصف ہونے اور ان کا مظہر بننے کی طاقت انسان کے اندر ودیعت کر رکھی ہے۔یہ اب انسان کا کام ہے کہ وہ خداداد طاقتوں اور صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائے تاکہ وہ صفات الہٰیہ کا مظہر بن سکے۔ اس کے اندر الٰہی صفات کا رنگ جلوہ گر ہو۔
قرآن کریم نے اس مسئلہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ مختصراً یہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے گا وہ نیکی کی توفیق پائے گا۔ جو شخص نیک بننے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی کمزوری کی پردہ پوشی بھی کرتا ہے اس کے گناہ معاف بھی کر دیتا ہے۔ وہ خود اپنے فضل سے اس کے لئے نیکی کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اس کی عقل میں ترقی بھی عطا کرتا ہے۔ مال ودولت میں فراخی بھی بخشتا ہے اور جب مال ودولت جمع ہو جائے تو پھر اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے وہ الٰہی صفات کی معرفت حاصل کرنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نور عطا کرتا ہے اور نور کے اتمام کے سامان پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے فرمایا میں تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کروں گا۔
جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے وہ ایک جگہ کھڑا تو نہیں رہتا۔ اس کا ہر روز پہلے روز سے زیادہ شاندار اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ حاصل کرنے والا اور اس کے پیار کو زیادہ پانے والا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا اور اس کی صفات کی معرفت میں دن بدن ترقی کرتاہے۔ وہ نور جو خداتعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ اس نور میں روز بروز زیادہ شدت پیدا ہوتی ہے۔ ویسے نور اور نور میں بھی فرق ہے۔ ایک نور ہے سرسوں کے تیل سے جلنے والے دئیے کا۔ اس کی بھی ایک روشنی ہے اور ایک روشنی ہے سورج کی۔ ظاہر ہے ان کے درمیان بہت فرق ہے۔ جس طرح دئیے اور سورج کی روشنی میںبہت فرق ہے۔ اسی طرح سورج کی روشنی اور اللہ تعالیٰ کے نور میں بے اندازہ فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نور کی اصل حقیقت کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک نہ ختم ہونے والی ترقی اور حرکت ہے جو انسان کو خدا کے قرب کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی حرکت ہے یہ تو ابدی زندگی میں بھی ختم نہیں ہوگی۔ کیونکہ خدا کے بندے اور خدا کے درمیان لامحدود فاصلہ ہے۔
جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے اس کی تاریخ میں مختلف مراحل میں مختلف حالات پیدا ہوتے رہے ہیں کبھی ہمارا مخالف بڑے زوروں پر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے بس آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کو مٹا دیا جائے گا۔ کبھی مخالف کے مکر اور تدبیر میں کمزوری نظر آتی ہے۔ کبھی جماعت کے اندر دنیا کو نسبتاً کمزوری نظر آتی ہے۔ کبھی نسبتاً زیادہ طاقت نظر آتی ہے۔ جس وقت ہمارے اندر نسبتاً کمزوری ہوتی ہے اس وقت بھی ہمیں کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جماعت ناکام نہیں ہو گی۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی تحدّی کے ساتھ فرمایا ہے:-قرآن کریم نے بھی مومنوں کو یہ بشارت دی تھی:-
(آل عمران:۱۴۰)
اگر تم مومن ہو تو پھر تم ہی غالب رہو گے۔
حقیقت یہی ہے کہ جنگ کا آخری نتیجہ ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں سے فیصلے نہیں ہوا کرتے۔ اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں دُشمنان اسلام سے مقابلے پر بالآخر مسلمانوں ہی نے کامیاب ہونا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جماعت احمدیہ کے ذریعہ انشاء اللہ پوری ہو گی۔
جیسا کہ الٰہی سلسلوں میں پہلے بھی کچھ لوگ کمزوری دکھاتے تھے اب اس وقت بھی بعض لوگ کمزوری دکھاتے ہیں تاہم اللہ تعالیٰ سہارا دیتا ہے وہ اُن سے اکثر کو بچا لیتا ہے۔ جس وقت دشمن بڑے زوروں پر ہوتا ہے۔ اس وقت لوگ دو قسم کی کمزوریاں دکھاتے ہیں(یا اگر منافقوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو تین قسم کے لوگ کمزوریاں دکھاتے ہیںلیکن میں اس وقت منافقوں کو شمار نہیں کرتا) ایک تو یہ کمزوری کہ وہ ارتداد اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسری یہ کمزوری کہ بعض لوگ زبانی طور پر صداقت کا انکار کرتے ہیں لیکن دل میں پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ صداقت یہی ہے اور اسلام کا اصل چہرہ وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھایا ہے۔ لیکن جسمانی اور روحانی کمزوری کے نتیجہ میں وہ اظہار حقیقت میں کمزوری دکھاتے ہیں جس کی کمزور انسان کو کسی حد تک اجازت بھی دی گئی ہے۔ یہ فی الواقعہ کمزوری تو ہے لیکن حالات کی مجبوری کے نتیجہ میں نہ قرآن کریم اور نہ قرآن کریم کے خدا نے ایسے لوگوں کو برا بھلا کہا ہے اس لئے ہم بھی ایسے لوگوں کو بُرا نہیں کہتے البتہ کمزور ایمان ضرور کہتے ہیں۔
ان کے برعکس جو لوگ ارتداد اختیار کرتے ہیں وہ چونکہ پہلے ہی کمزور ایمان والے ہوتے ہیں۔ الٰہی سلسلہ کی مخالفت اور مختلف قربانیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے وہ اس سلسلہ ہی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں شیطان کے اولیاء یعنی دوست بڑے خوش ہوتے ہیں کہ فلاں نے ارتداد اختیار کر لیا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن کریم نے ہمیں یہ کہہ کر بڑی تسلی دی ہے۔ فرمایا یہ نہ دیکھنا کہ ایک یا دو نے ارتداد اختیار کر لیا ہے بلکہ یہ دیکھنا ان دنوں قوم نے ایمان اختیار کیا ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی جو نصرت جماعت احمدیہ یا اسلام کو ہمہ وقت ترقی کی طر ف لے جا رہی ہے اس میں کوئی رخنہ یا کمی تو واقع نہیں ہوئی۔ جو لوگ ارتداد اختیار کرتے ہیں وہ بد قسمت ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم نہیں ہوتی۔
دوسرے جس وقت جماعت بظاہر کامیاب ہو رہی ہوتی ہے۔ جماعت کی ترقی کی لہریں بہت اونچی اُٹھتی دُنیا کو نظر آرہی ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی جماعت کے بعض لوگ کمزوری دکھاتے ہیں۔ کیونکہ شیطان تو کسی وقت غافل نہیں ہوتا۔ وہ بعض لوگوں کے دلوں میں تکبر پیدا کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم نے اپنی طاقت، اپنی فراست اور اپنے ہنر سے یہ سب کچھ حاصل کیاہے۔ یہ بھی بڑے خطرے کا مقام ہے۔
غرض ہر دو مقام بڑے خطرہ کے ہیں کمزوری کے وقت شیطان سے ڈرنا یہ بھی خطرے کا مقام ہے اور طاقت کے وقت اپنے نفس کو خدا بنا لینا اورتکبر کی راہوں کو اختیار کرنا یہ بھی خطرہ کا مقام ہے۔ دراصل نہ کمزوری کے وقت شیطان سے ڈرنا چاہئے اور نہ طاقت کے وقت اپنے نفس کو خدا بنا لینا اور نہ اپنے دوستوں کو خدا سمجھنا چاہئے۔ اس حقیقت اور اس صداقت پر ہمیشہ قائم رہنا ہے کہ جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے ہماری حیثیت مردہ کیڑے کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر ہم کچھ ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں اگر اس کا فضل اور رحمت ہمارے شامل حال نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہیں۔ پھر تو ہمارا دشمن بڑی آسانی کے ساتھ ہمیں پاؤں کے نیچے اسی طرح مسل سکتا ہے جس طرح افریقہ کا وحشی بھینسا جب غصہ میں آتا ہے تو وہ اپنے دشمن کو اس طرح لتاڑتا ہے کہ اس کی ہڈیوں تک کو پیس کر ذرّے ذرّے بنا کر مٹی میں ملا دیتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے اور تمہارے شامل حال نہ ہو اللہ تعالیٰ کا سہارا اور مدد حاصل نہ ہو تو اس وقت جب تم میں سے بعض لوگ بڑے فخر سے اپنی گردنیں اُٹھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی دشمن میں اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ اس وحشی بھینسے کی طرح ہمارے گوشت اور ہڈیوں کا قیمہ بنا کر مٹی میں ملا دے اور پھر ہوا کا جھونکا آئے اور اس غبار کو اُڑا کر لے جائے۔ پس یہ بھی خطرہ کا مقام ہے اس سے بھی جماعت کو بچنا چاہئے۔
اب مثلاً گذشتہ سال ڈیڑھ سال میں سیاسی میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ جن لوگوں کے ساتھ جماعت کی اکثریت تھی وہ کامیاب ہو گئے۔ لیکن اگر کوئی احمدی یہ سمجھتا ہے کہ اب ہم کامیاب ہو گئے ہیںاب ہم کچھ بن گئے ہیں تو یہ اس کی بڑی حماقت ہو گی۔ بعض دفعہ لوگ میرے پاس بھی آجاتے ہیں کہ سفارش کر دیں مجھے اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور مجھے ان پر بڑا غصہ آتا ہے۔ اسلام کے ذریعہ اور اب اسلام کے عظیم روحانی جرنیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰـۃ والسلام کے ذریعہ تمہیں خدا اور اس کی صفات سے روشناس کیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود تم خدا کو چھوڑ کر سفارشوں کی طرف متوجہ ہوتے ہو۔ اس لئے کہ سیاسی میدان میں بظاہر ایک چھوٹی سی فتح تمہیں حاصل ہو گئی ہے۔
ایک احمدی کا یہ مقام نہیں ہے اُسے خود خداتعالیٰ کو قاضی الحاجات سمجھنا چاہئے اور جو غیر ایسا نہیں سمجھتے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ہرسہ شیخ کے ایک بڑے زمیندار تھے۔ اُن کے آباؤ اجداد میں ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ ان کی اولاد میں سے تھے۔ وہ روحانی طور پر بزرگ، یہ جسمانی اور دُنیوی طور پر زمینوں والے تھے۔ وہ جو ان کے بزرگ تھے ان کی قبرپر چڑھاوے بھی چڑھتے تھے اُنہوں نے کچھ مجاور رکھے ہوئے تھے ان سے یہ اپنا حصہ لیا کرتے تھے۔ گاؤں میں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں ایک عام بات ہے۔ چنانچہ ان کے دشمنوں نے مجاوروں کو اُکسایا تو اُنہوں نے ان کو حصہ دینا بند کر دیا۔ نوبت مقدمہ تک جا پہنچی۔ چنانچہ ان کا مقدمہ جب سیشن جج تک کی عدالت میں گیا تو وہ ایک دن میرے پاس آگئے کہ آپ میری سفارش کریں۔ میں نے اُن سے کہا ہم آرام سے قادیان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہاں سے اُکھاڑ کر ربوہ میں اس لئے آباد نہیں کیا کہ تمہارے پاس پہلے ایک سو سفارشی تھا تو اب ایک سو ایک ہو جائے۔ تمہیں تو سفارش کروانے کی گویا عادت پڑی ہوئی ہے ہم تو کسی اور مقصد کے لئے تمہارے علاقے میں بھیجے گئے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کو توحید باری تعالیٰ کے متعلق مختصراً بتایا اور کہا دعا کرو خداتعالیٰ پر توکل رکھو یہ نہ کہو کہ ہمیں حصہ ملے بلکہ اُس کے حضور دعا کرو کہ اگر ہمارا حق ہے تو ہمیں مل جائے مگر وہ کہاں سمجھنے والے تھے وہ تو توحید حقیقی کو پہچانتے ہی نہیں۔ مَیں بڑا تنگ آیا۔ آخر میں نے اُن سے کہا آپ لکھ کر دے جائیں۔ جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں کروں گا۔اُنہوں نے مجھے ایک کاغذ پر لکھ کر دیا۔ میں نے دعا کی کہ اے خدا! اگر ان کا حق ہو تو مل جائے اور اگر نہیں تو نہ ملے۔تجھے اصل حقیقت کا پتہ ہے مجھے تو اس کا علم نہیں ہے۔
اب اس مقدمہ میں مجاوروں پر وہ اپنا حق فائق سمجھتے تھے ہمارے نزدیک نہ تو کسی مجاور کا حق ہے اور نہ کسی اور کا۔ بہرحال مقابلہ مجاوروں اور ان کے درمیان تھا اور چھ سات دن کے بعد جج نے فیصلہ سنانا تھا۔ خیر وہ چلے گئے جس دن جج نے فیصلہ کرنا تھا اس سے ایک روز پہلے پھر میرے پاس آگئے۔(یہ کالج کے زمانہ کی بات ہے اُس وقت میں کالج کی کوٹھی میں رہتا تھا) مجھے اطلاع ملی تو میں بڑا گھبرایا۔ کیونکہ ہم ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹال دیتے ہیں۔ میں نے سوچا اگر میں نے سچی بات کہہ دی تو ان کو تکلیف ہو گی۔ مَیںسوچ ہی رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا جواب سمجھا دیا میں باہر نکلا اور کہا چوہدری صاحب! آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی جس کو میں نے کہنا تھا کہہ دیا ہے میرا مطلب تھا خدا تعالیٰ سے میں نے کہنا تھا سو وہ میں نے کہہ دیا ہے۔خیر وہ یہ جواب سُن کر چلے گئے میں تو اپنے کام میں مشغول رہتا تھا۔ مجھے یاد ہی نہ رہا، چند دن کے بعد مجھے کسی دوست نے بتایا کہ فلاں صاحب چنیوٹ میں مجھے ملے تھے۔ اور کہہ رہے تھے کہ میں نے میاں صاحب کا شکریہ ادا کرنے جانا ہے میرے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ میرے پاس آئے۔ میں نے اُن کو بڑا سمجھایا کہ میں نے خداتعالیٰ سے دعا کی تھی۔ کسی کے پاس سفارش نہیں کی تھی۔ اور یہی میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ مَیں خدا سے دعا کروں گا کیونکہ وہ بڑی طاقتوں والا ہے مگر آپ یہ بات سمجھتے نہیں۔ وہ چلے گئے مگر یقین ہے کہ وہ میری بات کو جھوٹا سمجھے ہوں گے اور کہتے ہوں گے اُنہوں نے سفارش تو ضرور کی ہے مگر یہ بتانا نہیں چاہتے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام کے ذریعہ تم نے خدائے رحمان کو پہچانا ہے تو کیا پھر اس کے بعد بھی تم کسی اور پر توکل کرو گے؟ کیا اس کے علاوہ کسی اور ہستی کی خشیت تمہارے دل میں پیدا ہو گی یا نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ خواہ ہمارے اوپر بظاہر کمزوری کا دور آئے اور مخالفت کی آندھیاں چلیں اس صورت میں بھی ہم نے اس بات سے نہیں ڈرنا کہ شیطان جیتے گا اور خداتعالیٰ کے وعدے پورے نہیں ہوں گے۔ خداتعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے خداتعالیٰ نے ہمیں ہلاک کر دینے کے لئے نہیں پیدا کیا۔خداتعالیٰ نے ہمیں زندہ رہنے کے لئے پیدا کیا ہے۔
ہماری جماعت دوسرں کی روحانی مُردنی کو دور کرنے کے لئے معرضِ وجود میں آئی ہے دُنیا میں کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور دُنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو ہمیں بحیثیت جماعت مٹا سکے۔
خوف کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم خدا کے عاجز بندے ہیں اور اسے اپنا دوست رکھتے ہیں۔ یہ تو شیطان کے دوست ہیں جن کے دل میں شیطانی وساوس کے نتیجہ میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے ہم خدائے رحمان کے عاجز بندے ہیں۔ ہم نے اس کا دامن پکڑا ہے پس جب اس کی عظمت اورجلال ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے تو شیطان کی کیا مجال ہے کہ وہ ہم پر کوئی وار کرے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہیں تو شیطان کے تیر ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس طرح جب ہم پر کامیابی کا وقت آئے تو اس وقت تکبر بالکل نہیں کرنا۔ خدا کے دامن کو ہرگز نہیں چھوڑنا۔
پس چاہئے کہ تم عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو۔ تا رحمان خدا تم سے پیار کرے۔ اگر تم نے یہ سمجھا کہ ہم کچھ بن گئے۔ ہماری طاقت بڑھ گئی۔ ملک میں ہمارا بھی کوئی اثر ورسوخ پیدا ہو گیا تو تم مارے گئے۔ تم نے اسی دن اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے لیکن اگر ہم بحیثیت جماعت اللہ کے دامن کو عسر اور یسر ہر دو حالتوں میں پکڑے رکھیں ۔ نہ ایک وقت میں بزدلی کمزوری اور سستی دکھائیں نہ دوسرے وقت تکبر اور انانیت کا مظاہرہ کریں بلکہ ہر دو حالتوں میں کامل اطمینان اور کامل تقویٰ اور کامل توکل اور کامل تذلل اور کامل انکسار کا مظاہرہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی رحمت سے ہم سے بھی جو کام لینا چاہتا ہے وہ اپنے وقت پر لے گا۔ یہ خداتعالیٰ کے وعدے ہیں جو ایک نہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ ہم اپنی ذمہ داریاں نہیں نباہیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کرے گا جو ان ذمہ داریوں کو پورا کرے گی اور اسلام کو شاہراہ غلبہ پر آگے سے آگے لے جائے گی۔ خدا کرے کہ یہ سعادت ہمارے نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل وسمجھ عطا کرے اور ہمیں غلبۂ اسلام کی راہ میں جان ومال کی قربانی دینے کی بیش از پیش توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو پختہ کرے۔ خدائے رحمان سے ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہوجائے کہ دُنیا کی کوئی طاقت اُسے قطع نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنی محبت کو اس طور پر اس قدر اور اس رنگ میں بھر دے کہ کا جو وعدہ ہے اس کے نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں۔ خدا کے پیار کا سلوک ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا۶)
ززز

ملک پر اس وقت ابتلا کا وقت ہے استحکام پاکستان
کے لئے دعائیں بھی کریں اور صدقات بھی دیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے چند دن صحت کمزور رہی ہے۔ پہلے تو ہوا لگنے سے بائیں ٹانگ میں شدید درد شروع ہو گئی تھی۔ رات تو جاگ کر گزارنی پڑی اور پھر اس کے بعد کئی دن تک یہی تکلیف رہی۔ آج کل اس بیماری میں جو دوائیں دی جاتی ہیں وہ بہت ضعف پہنچاتی ہیں۔ اس بیماری سے پوری طرح آرام نہیں آیا تھا کہ دانتوں میں تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹر ہمایوں اختر صاحب لاہور سے کل آئے تھے۔ انہوں نے دائیں طرف کی ایک داڑھ نکال دی ہے۔ یوں اس عمر میں داڑھیں تو نکلتی رہتی ہیں مگر داڑھ نکالنے کے بعد انہوں نے سلفا کی جو دوائی دی ہے اس سے مجھے اور بھی زیادہ ضعف ہو گیا ہے۔
اس وقت یہاں آنے کی ہمت تو نہیں پڑتی تھی لیکن بعض ضرورتوں نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کیا۔ ایک ضرورت تو یہ تھی کہ دیر سے آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ یہ سمجھ کر کہ جمعہ کی نماز بھی ایک لحاظ سے اجتماعی ملاقات ہوا کرتی ہے دل چاہا کہ چند منٹ کے لئے مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے آجائوں گا تاکہ اس طرح دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی۔
دوسرے اس سے بھی زیادہ اور بڑی ضرورت یہ تھی کہ ہمارے محترم بھائی ابوبکر ایوب صاحب وفات پاگئے ہیں (البقرۃ:۱۵۷)۔
مرحوم انڈونیشیا کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ہمارے بچپن میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی تھی۔ ہم اکٹھے ہی پڑھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ساری عمر مخلصانہ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ وہ اب ہالینڈ میں مبلغ تھے اور وہیں میدان جہاد میں مبلغ اسلام کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وفات پا گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور احسن جزا عطا فرمائے۔ ان کا جنازہ یہاں پہنچ چکا ہے۔ میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھائوں گا۔ اس لئے گو بیماری کی وجہ سے مجھے شدید ضعف تھا مگر اس کے باوجود میرا یہاں آنا ضروری تھا تاکہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔
تیسری ضروری بات میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات ہر صاحب فراست کے دل میں تشویش پیدا کر رہے ہیں۔ اندرونی دشمن دشمنی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بیرونی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دوست نہیں ہے بلکہ وہ ہمارا دشمن ہے اور ان کی باتیں ، ان کے منصوبے، ان کی خواہشات اور ان کے عمل ہمارے ملک کے خلاف ہیں۔ گو ساری دنیا تو ہمارے خلاف نہیں۔ دنیا کا ایک حصہ ہمارا دوست بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص سے دوستی نباہنے کی توفیق دے اور اس کی جزا بھی دے لیکن دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دشمن ہے۔ جو عجیب شاطرانہ اور دجالانہ منصوبوں سے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
پس اندرونی دشمن بھی اس وقت اپنی شرارتوںمیں تیز ہو رہے ہیں اور بیرونی دشمن تو بہرحال دشمن ہے۔ اس واسطے قوم پر اس وقت ایک ابتلاء کا وقت ہے۔ دعائوں اور صدقات سے ابتلاء دور ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لئے آپ دعائیں کریں اور استحکام پاکستان کے لئے آپ کے لئے جس حد تک ممکن ہو صدقات بھی دیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے باشندوں کو بھی دعا کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جب تک ساری قوم مومنانہ فراست سے حصہ نہیں لیتی اور مومنانہ قربانیوں اور ایثار کا مظاہرہ نہیں کرتی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل اس رنگ میں تو ہماری دعائوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ظاہر نہیں ہو سکتے جس رنگ میں اس صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں کہ ساری کی ساری قوم خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکے اور اسی سے ہر قسم کی خیرو برکت چاہے۔
پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم پر فضل فرمائے۔
ان مختصر الفاظ کے بعد میں ایک اور بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں موت و حیات کے سلسلہ تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ جماعت احمدیہ پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، اُن ذمہ داریوں کو جماعت احمدیہ کی صرف ایک نسل پوری طرح ادا نہیں کر سکتی کیونکہ قربانیوں کا زمانہ اپنے اندر بڑی وسعت اور پھیلائو رکھتاہے۔ ساری دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بندھنوں میں باندھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ آپ سوچیں اور ان بشارتوں کو دیکھیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو دی ہیں اور دوسری طرف ان کمزوریوں پر نظر ڈالیں جن میں ہم خود کو پاتے اور نہایت بے بسی کی حالت میں دیکھتے ہیں۔ ہمارا تو سوچ کر بھی سر چکرا جاتا ہے کہ کتنے عظیم وعدے ہیں اور کتنے کمزور کندھے ہیں۔ کتنے وسیع کام ہیں اور کتنے محدود ذرائع ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہمارے شامل حال نہ ہو۔ اگر اس کا حکم فرشتوں کو اور اس عالمین کو اور ان جہانوں کو نہ ہو کہ انہوں نے غلبۂ اسلام کے لئے اس چھوٹی سی جماعت کی مدد کرنی ہے تو پھر تو ہماری کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
پس ایک تو ہر احمدی کو ہر وقت یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے جو کام لینا چاہتا ہے اس میں ہم کمزور ی نہ دکھائیں اور دوسرے ہم نوجوان نسل کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں کیونکہ جدوجہد، قربانی اور ایثار کے زمانہ میں بڑا پھیلائو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو نسل قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کے لئے عطا فرمائی تھی۔ ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ چند ایک باقی ہیں۔ اس کے بعد دوسری نسل پیدا ہوئی۔ اس میں سے بھی بہت سے وفات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ نے بہتوں کو یہ توفیق دی اور دے رکھی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششوں اور عاجزانہ دعائوں کو پیش کرتے رہیں۔
ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بھی انہی میںسے ایک تھے جو
(الاحزاب: ۲۴)
کے مصداق بن گئے۔ بہت سے زندہ ہیں جو قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے بعد کی نسل، اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری خواہش اور کوشش بھی یہی ہونی چاہئے کہ قیامت تک کی ہر احمدی نسل خداتعالیٰ سے پیار کرنے والی اور خداتعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والے مربیوں کو بعد میں آنے والی نسلوں کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ تاہم جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، ہمیں اس ذمہ داری کو کماحقہٗ پوری توجہ اور دعائوں اور کوشش کے ساتھ نباہنا چاہئے۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بڑے مخلص احمدی تھے۔ خدا کرے کہ جماعت کو اسی قسم کے مخلص دل اور روشن دماغ اور پوری توجہ اور انہماک سے قربانیاں دینے والے سینکڑوں ہزاروں مخلصین ملتے رہیں تاکہ کام کے اندر سہولت اور کام کے اندر وسعت اور کام میں تیزی پیدا ہو اور جلد ہی نتیجہ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں۔
خدا کرے کہ دنیا کے تمام اندھیروں کے باوجود اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اپنے نور سے منور ہی رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازتا ہی رہے۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں اس جہت کی طرف ہدایت دیتا چلا جائے جس جہت کی طرف وہ ہمیں لے جانا چاہتا ہے اور جس مقصود تک وہ ہمیں پہنچانا چاہتاہے اس مقصود تک وہ اپنے فضل سے اپنی راہنمائی میں ہمیں پہنچا دے۔ وہ ہماری زندگیوں کو کامیاب اور خوشحال اور ہر طرح سے قابل اطمینان بنا دے۔
پس ۳۔۴ قسم کی دعائیں ۲۔۳ قسم کے تربیت کے کام اورکچھ قربانیوں اور صدقات کی طرف میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے۔ خدا کرے کہ آپ سب اس کی اہمیت کو سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے والے بنیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ۱ تا۲)
ززز
پاکستان کی بقا، استحکام اور فتنہ و فساد سے بچائو
کے لئے خاص طور پر دعائیں کی جائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت اور ترجمہ بیان فرمایا:-
اور جو شخص اللہ کی پناہ لے لے تو (سمجھو کہ) اسے سیدھی راہ پر چلا دیا گیا۔ اس لئے اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو اور زندگی کے آخری سانس، موت کی گھڑی تک اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار بنے رہو۔
اور تم سب (کے سب بغیر کسی استثناء کے) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پراگندہ اور متفرق مت ہو اور اللہ کا احسان (جو اس نے) تم پر (کیا) ہے یاد رکھو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اس نے تمہارے دلو ں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات (و ہدایات) کو بیان کرتا ہے تاکہ تم (راہِ) ہدایت (اور صراط مستقیم پر چل کر کامیابیوں) کو پالو۔
میں نے پچھلے خطبہ میں چند دعائیں کرنے کی بھی تحریک کی تھی۔ ان میں سے ایک دعا کی تحریک یہ تھی کہ دوست اپنے ملک کے استحکام اور بقا نیز شرپسندوں کی شرارتوں سے بچائو کے لئے دعا کرتے رہیں۔
اس وقت ہمارے ملک کے دشمنوں کے منصوبے اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ جو لوگ بظاہر ملک کے دوست ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں بھی وطن کی محبت نہیں پائی جاتی کہ جس کے نتیجہ میں قومیں پنپتی اور ترقی کرتی ہیں چنانچہ ذاتی مفاد اور ذاتی رنجشوں کی پرواہ زیادہ ہے اور ملک کے اتحاد اور یک جہتی کی پرواہ کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ایک لمبا، وسیع اور نہایت ہی حسین مضمون بیان فرمایا ہے میں اس کے ایک پہلو کی طرف آج جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں لیکن قبل اس کے کہ میں اصل مضمون کی طرف آئوں۔ میں یہ بات تمہیداً بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے نزدیک ہمارا یہ ملک بحیثیت قوم دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ قوم کا ایک حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچانتے ہوئے اور اس کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہر چیز کے لئے اسی کی طرف جھکتا اور ہر شر سے بچائو کے لئے اسی کی پناہ میں آتا یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس ملک کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کی اکثریت (سارے نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ غیر مسلم بھی آباد ہیں)خود کو خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتی ہے وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ مسلمان کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت خداتعالیٰ کی طرف بھاگنے کی بجائے ان کے چہروں کا رخ اور طرف ہوتا ہے اور ہر خیر کا منبع اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فیوض کو سمجھنے کی بجائے وہ خیر کا منبع کہیں اور تلاش کرنے لگتے ہیں حالانکہ وہ مسلمان ہیں، خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ لیکن اسلام کے یہ معنے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دینا حتیٰ کہ اپنی گردن بھی اس کے آگے رکھ دینا کہ اگر خدا کی راہ میں وہ جاتی ہے تو جائے خدا کا پیار اور اس کی رضا مل جائے، ان کی زندگیوں میں اس قسم کا کوئی رنگ اور اسلام کے یہ حقیقی معنے جھلکتے نظر نہیں آتے۔
بہرحال جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس معنی میں ہم بھی ان کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ ان کو دعا کی طرف، ان کو اعتصام باللہ کی طرف، ان کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی طرف، ان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے حصار میں محصور ہونے کی طرف توجہ یا تو سرے سے ہوتی ہی نہیں یا اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم ہوتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات سے ناآشنا اور اس کے فضل جذب کرنے کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے۔ اس لئے اب ساری قوم کی ذمہ داری جہاں تک دعائوں کا تعلق ہے وہ ہمارے کندھوں پر آپڑی ہے۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہمارے ملک کا ایک گروہ تو وہ ہے جو خدا کی عظمت اور جلال کی معرفت اور عرفان رکھتا اور اس کی تمام صفات حسنہ کا علم رکھتا ہے اور ہر ضرورت کے وقت اسی کی طرف جھکتا اور اسی کا سہارا لیتا ہے اور ہر شر سے بچنے کے لئے اسی کی پناہ میں آنے کے لئے انتہائی کوشش کرتا ہے۔ مگر ایک دوسرا گروہ جو ہے اس کی یہ حالت نہیں ہے۔ تاہم ان میں سے بعض لوگوں کے متعلق یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح جھٹپٹے کا وقت ہوتا ہے شاید اسی طرح کی روشنی میں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو دیکھنے والے بھی ہوں، اس کی طرف توجہ بھی کرتے ہوں لیکن ہمارے نزدیک وہ بھی تقویٰ کی راہوں کو اس کی ساری شرائط کے ساتھ قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ میں نے حالات کا یہ تجزیہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ جس حد تک ہم نے قرآن کریم کو سمجھا ہے ہم نے تو اسی کے مطابق بات کرنی ہے۔
میں نے گذشتہ خطبہ میں مختصراً یہ بتایا تھا اور جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ملک کے استحکام کے لئے بہت دعائیں کی جائیں کیونکہ دعائیں کرنے کی اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈنے کی اس سے مدد مانگنے کی اور اسی کے سہارے کامیابیوں کے حاصل کرنے کی امید اور آخرت میں سرخرو ہونے کی توقع رکھنے کی اصل ذمہ داری جماعتی لحاظ سے ہمارے نزدیک ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہمارے جو دوسرے بھائی ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس کی حفاظت اور پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔
اس وقت میں نے آیت کا ایک ٹکڑا اور دو پوری آیات تلاوت کی ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا ہی وسیع مضمون بیان فرمایا ہے۔ اس میں ایک بنیادی بات جسے بڑا نمایاں کرکے ہمارے سامنے رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے کہ انسانوں کے گروہ آگ کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے جاتے رہے۔ وہ دیکھ رہے ہوتے تھے کہ سامنے آگ کا گڑھا ہے جس میں آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں اور اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر اب تک دنیامیں یہی نظارہ دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ بعض دفعہ جماعت مومنین کا امتحان لینے کے لئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیار کے اظہار کے لئے اور بعض دفعہ فسق و فجور یا کفر و نفاق کی سزا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ قوموں نے اور جماعتوں نے خود کو آگ کے گڑھے کے کنارہ پر دیکھا۔
چنانچہ ایک آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے بھی تیار کی گئی تھی (محبوبیت کے اظہار کے لئے) اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نفس کو اور اپنے وجود کو اس آگ کے کنارہ پر دیکھا تھا۔ پھر ایک اور مخالفت کی آگ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے لئے بھی جلائی گئی اور بھڑکائی گئی تھی تا ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ ختم المرسلین سے کس قدر عظیم محبت رکھتا ہے۔ اس وقت اس چھوٹی سی جماعت نے خود کو (آل عمران:۱۰۴) پایا تھا اور اس کے برعکس ایک آگ وہ بھی تھی جو اللہ تعالیٰ کے غضب کی ایک تجلی کے طور پر بغداد کی حکومت کو تہس نہس کرنے کے لئے ہلاکو خان کے ذریعہ جلائی گئی تھی۔ کہتے ہیں اس بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر اور مسلمان قوم کو اس کے کنارہ پر کھڑا پا کر خدا کے ایک بندہ نے خدا کے حضور عاجزانہ التجا کی تھی کہ اے ہمارے رب کریم! تیرے یہ بندے آگ کے کنارہ پر کھڑے ہیں۔ تواپنے فضل سے ان کو آگ سے بچا اور ان کی حفاظت کے سامان پیدا کر تو ان کے کان میں آسمان سے یہ آواز پڑی تھی اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوْا الْفُجَّارََ۔ یعنی اے کفار فاسقوں کو قتل کرو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ شدید العقاب بھی ہے چنانچہ کبھی لوگوں کو عذاب دینے کے لئے آگ بھڑکتی ہے۔
پس آگ خواہ کسی قسم کی ہو وہ نیک بندوں کو بظاہر جلانے کے لئے ناسمجھ، جاہل اور خدا سے دور لوگوں کی طرف سے جلائی گئی ہو لیکن جو محبت کا نور بن گئی یا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی آگ ہو۔ ہر دو صورتوں میں اس سے بچنے کا طریق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں (ا) اعتصام باللہ اور (۲) تقویٰ اللہ بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اللہ کی حفاظت کو حاصل کرو تو اس آگ سے بچ جائو گے خواہ وہ خدا کے غضب کی آگ ہو یا مومنوں کا امتحان لینے کے لئے آگ جلائی گئی ہو۔ ہر دو صورتوں میں یہ خداتعالیٰ کی پناہ ہی ہے جو اس آگ کی تپش اور اس سے جھلس جانے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زورِ بازو سے اس آگ سے محفوظ نہیں رہے تھے جو ان کو جلانے کے لئے بھڑکائی گئی تھی اور نہ ہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ اپنی ذاتی قوت اور طاقت یا اپنی دولت اور اقتدار کے نتیجہ میں کفار کی بھڑکائی ہوئی آگ سے محفوظ رہے تھے۔ یہ تو خدائے ذوالعرش کا فضل تھا جس نے یہ اعلان فرمایا تھا (اللّھب: ۲)اللہ تعالیٰ نے ہر دو موقعوں پر فرشتوں کو بھیجا چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کے لئے وہ آگ ٹھنڈک اور سلامتی کا باعث اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کامیابی اور ترقی کا ذریعہ بن گئی۔ پھر اس نبی کی قوم نے (یونس ؑ کی قوم) جو ساری کی ساری خدا کے غضب سے محفوظ ہو گئی تھی اس نے (تمثیلی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ) اپنے آنسوئوں سے خدا کے پائوں کو پکڑ لیا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کو قہری عذاب سے بچایا تھا۔
پس ان آیات میں ایک چیز جو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے آپ کو یا کسی اور کو آگ کے کنارہ پر کھڑا دیکھو گے تو اس آگ سے بچائو کا ایک ہی طریقہ ہے جو تمہیں اپنی تاریخ میں بھی اور انسانی زندگی میں بھی نظر آئے گا اور وہ ہے اعتصام باللہ اور تقویٰ اللہ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان چمٹ جائے اور اس کی پناہ میں آجائے اور وہ ان کا ذمہ لے لے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کسی کو کیسے نقصان پہچا سکتی ہے؟ اگر انسان خدا کو اپنی ڈھال بنا لے تو دشمن کے تیر اس تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ کیا خداتعالیٰ کی ڈھال کو چھیدنے والا کوئی تیر اس دنیا میں پایا جاتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔
پس اس وقت حالات بتا رہے ہیں اور ہر صاحب فراست کو یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری قوم شعلہ زن آگ کے کنارہ پر کھڑی ہے ان حالات میں ہماری دوہری ذمہ داری ہے۔
ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سارے کے سارے پاکستانی شہریوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن کریم کی اس تعلیم کو سمجھیں کہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانا صرف خدا کا کام ہے۔ پس یہ آگ جو اس وقت ملک میں بھڑک رہی ہے خدا کرے لوگوں کو یہ نظر بھی آنے لگ جائے اور یہ حقیقت بھی ان پر عیاں ہو جائے کہ اس آگ سے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں بچا سکتا اور پھر وہ خداتعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ اس کی باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ دوسری ذمہ داری ہماری اپنی جماعت کی ہے کیونکہ اگر ملک میں آگ لگے تو ہماری جماعت بھی چونکہ ملک اور قوم کا ایک حصہ ہے اس کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے میں جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ تم اپنی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے اپنے ماحول کی حفاظت کے لئے اور ان نعماء کی حفاظت کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے محض احسان کے نتیجہ میں عطا فرمائی ہیں اور جن کا کوئی شمار نہیں ہے عاجزانہ طور پر اپنے رب کریم کے حضور جھکو اور اپنے آنسوئوں سے اس کے قہر کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرو اور خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرکے اس کی گود میں اپنے لئے جگہ بنائو تاکہ اس کا پیار اور اس کی رحمت جوش میں آئے اور جو کامیابیاں اس کے بندوں کے لئے مقدر کی گئی ہیں (جن کی طرف ان آیات میں بھی اشارہ ہے وہ کامیابیاں) ہمارے حصہ میں بھی آئیں ہمارے مقدر میں بھی ہوں۔
ان آیات میں جو دوسری بات نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے پیدا کردہ بندوں سے ایسے اختلاف نہیں رکھتا جو ان کے لئے مضرت کا باعث اور قوم و ملک کے اتحاد یک جہتی کے لئے نقصان دہ اور انتشار کا موجب ہوں۔ وہ ایسے اختلافات کو مٹا دیتا ہے کیونکہ اعتصام باللہ کے نتیجہ میں تفرقہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ اعتصام کا لازمی نتیجہ ہے۔ اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آگیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کی صفات حسنہ کی معرفت حاصل کر لی وہ اس کی مخلوق سے نفرت کے ساتھ کیسے پیش آسکتا ہے یا لوگوں کے لئے شفقت اور ایثار کے جذبات کیسے نہیں رکھ سکتا؟
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا مومنو! تمہارے اندر تفرقہ نہیں ہونا چاہئے تاہم ایک تفرقہ تو وہ ہے جو فطرتی ہے وہ تو ہونا چاہئے۔ اس قسم کے تفرقہ سے میری مراد فطرتی اختلاف کا پایا جانا ہے یہ اختلاف تو انفرادیت کو اجاگر کرنے والا ہے۔ مثلاً ایک باپ کے بچے ایک قسم کی فطرت، ایک قسم کے اخلاق، ایک قسم کی ذہنیت اور ایک جیسا حافظہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔ حتی کہ ان کی شکلوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہاں وہ اختلاف مراد ہے جو بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا موجب تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کا اختلاف ان کے لئے رحمت کا موجب ہوگا۔ مگر شیطان آتا ہے اور اس اختلاف کو اس کے لئے رحمت کی بجائے زحمت اور ہلاکت کا موجب بنانے کی کوشش کرتا ہے اس اختلاف سے جو انسان کے لئے رحمت کی بجائے ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو، اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے کیونکہ اعتصام کے بعد یعنی جب کہ خدا کو پہچان لیا، اس کے جلووں میں تنوع کی جھلک کا مشاہدہ کر لیا جب اس کی عظمت اور جلال کے نتیجہ میں اس کا خوف دل میں پیدا ہو گیا اور جب اس کی صفات حسنہ نے دل میں اس کے لئے انتہائی محبت کا سمندر موجزن کر دیا تو اس کی مخلوق کے ساتھ انسان کی شفقت اور پیار خود بخود قائم ہو جانا چاہئے اور قائم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اعتصام باللہ کا طبعی فطرتی نتیجہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ اختلاف جو تفرقے اور انتشار کا باعث ہے وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے۔ زبان سے دعویٰ کرنا آسان ہے مگر عمل سے ثابت کر دکھانا مشکل ہے۔
پس ہماری جماعت کے ہر مردو زن کا یہ فرض ہے کہ وہ محض زبانی دعویٰ پر انحصار نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں زبانی دعووں سے حاصل نہیں ہوا کرتیں۔ وہ تو عمل کو دیکھتا ہے۔ اس کی نظر تو انسان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے اور وہاں نیکی اور طہارت کو تلاش کرتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل میں خلوص اور باطنی پاکیزگی نظر آجائے تو وہ اس سے پیار کرتا اور اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اگر انسان کے اندر ان چیزوں کا فقدان ہو تو وہ اس کے ظاہری دعووں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بلکہ انہیں شیطان کی ایک شکستہ و خستہ، گندی اور سڑی ہوئی چیز سمجھ کر پرے پھینک دیتا ہے۔
پس میں جماعت احمدیہ کے ہر چھوٹے اور بڑے، ہر جوان اور بوڑھے اور ہر مرد اور عورت سے کہتا ہوں کہ تم بھی اپنے نفس کا محاسبہ کرو تا ایسا نہ ہو کہ آج ملک میں جو فتنہ فساد ہمیں نظر آرہا ہے تباہی اور انتشار کی بھڑکتی ہوئی جس آگ کو ہم دیکھ رہے ہیں، اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہم میں سے بھی کوئی آجائے کیونکہ بسا اوقات جو ظالم نہیں ہوتا وہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا بھی قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ ایک اور مضمون کے ضمن میں ہے اس کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جا سکتا۔
میرے سامنے اب بڑی کثرت سے یہ باتیں آنے لگ گئی ہیں کہ بعض خاندانوں یا بعض افراد میں دُنیا داری زیادہ آگئی ہے۔ ابھی کل ہی میں ایک خط پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ خاوند کا بیوی سے اس بات پر جھگڑا ہو گیا ہے کہ بیوی زیادہ جہیز نہیں لائی۔ میرا شرم کے مارے سر جھک گیا۔ میں کہتا ہوں جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں کو پکڑ لیاتو پھر اپنی بیوی سے یہ کیوں کہتے ہو کہ چونکہ جہیز ہمارے مطلب کا لے کر نہیں آئی اس لئے ہم تجھے تنگ کریں گے۔
اسی طرح بعض عورتیں اپنے خاوندوں کو تنگ کرتی ہیں ۔ بعض امیر لوگ ہیں جو اپنے غریب بھائیوں کو تنگ کرتے ہیں یا ان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے۔
تاہم میں بعض لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے کہ ہمیں بحیثیت جماعت ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ یہ مقام ہمیں خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ ہی ملا ہے غرض میں مخلصین جماعت کی بات نہیں کر رہا۔ میں جماعت کے کمزور لوگوں کی بات کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہمیں یہ الہٰی حکم ہے یعنی بغیر استثناء کے تم سب کے سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور اس کی پناہ میں آجاؤ اس لئے میں نے استثناء کا ذکر کیا ہے۔ اس غرض سے کہ یہ استثناء بھی جماعت میں نہیں رہنے چاہئیں یا تو ان کی اصلاح ہو جانی چاہئے اور یا ان کو چاہئے کہ وہ خود ہی جماعت کو چھوڑ دیں۔ ہمارا اس شخص سے آخر کیا واسطہ ہے جو خدا کی آواز کو نہیں سنتا۔ جو اعتصام باللہ نہیں کرتا۔ جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور جو شیطانی تفرقے کی راہوں کو اختیار کرتا ہے؟ ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرما کر سب کے اوپر ذمہ داری ڈالی ہے۔ اس لئے ساری جماعت کا یہ فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اس قسم کا گند اور بھیانک استثناء نظر آئے اس آدمی کو سمجھائیں اور اس طریق سے سمجھائیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے کہ وہ احسن اور پر حکمت ہونا چاہئے یعنی ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے سب سے اچھا طریق اختیار کرنا چاہئے تاہم ایسے استثنائی احمدیوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جماعت احمدیہ میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
پس جماعت کو سارے تفرقے مٹا کر یکجان ہو جانا چاہئے جس طرح جسم کے اعضاء ہوتے ہیں اسی طرح انہیں آپس میں متحد ہو جانا چاہئے۔ دوستوں کو یاد ہوگا میں نے ۱۹۶۷ء میں اپنے یورپ کے دورے میں اس سوال کے جواب میں (جو ازراہ شرارت کیا گیا تھا اورجس کا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے جواب سمجھا دیا تھا) یہ کہا تھا کہ خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے اور سوال کا جواب بھی یہی تھا مثلاً زید یا بکر یا عبداللہ یا اسماعیل یا دائود مختلف ناموں سے مرد امۃ اللہ یا امۃ الرفیق یا نصرت جہاں یا آمنہ یا خولہ قسم کے ہزاروں نام ہیں جن سے عورتیں پکاری جاتی ہیں۔ لوگوں کے یہ نام دراصل حقیقت کے ایک پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے رکھے جاتے ہیں لیکن حقیقت کا ایک پہلو ساری کی ساری حقیقت کو چھپا نہیں دیا کرتا۔ پوری حقیقت یہی ہے کہ جماعت کا ایک وجود ہے مثلاً ہمارے ہاتھ کی (چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا مل کر) پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔ جس طرح کسی شخص کا انگلی کہنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس کے وجود کا حصہ نہیں ہے اسی طرح زید یا بکر کہنے کایہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شخص جماعت کے وجود کا حصہ نہیں ہے۔
پس میں جماعت سے ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ تم ہر قسم کے تفرقوں کو مٹا دو کیونکہ اس کے بغیر تمہیں اللہ تعالیٰ کی برکتیں نہیں مل سکتیں۔ یہ وقت اتحاد اور اتفاق کا ہے یہ وقت ملک کی یکجہتی اور سلامتی کے لئے قربانیاں دینے کا ہے۔ تباہی کی آگ شعلہ زن ہے ہر سو فتنہ و فساد نظر آرہا ہے۔ پس ایسی صورت میں ہمارے دلوں میں اتحاد کے اس جذبہ کو یکجہتی کی اس روح کو اور ایک وجود ہونے کے اس احساس کو پہلے سے بھی زیادہ جوش مارنا چاہیئے جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان آیات کریمہ میں تعلیم دی ہے۔
ہماری جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اس نے خود سلامت رہنا ہے اور دنیا کو سلامتی بخشنی ہے۔ اس لئے تم اپنی سلامتی کے لئے اور اس مقصود کے حصول کے لئے جس کے لئے تم بہ حیثیت جماعت پیدا کئے گئے ہو یعنی غلبۂ اسلام کے لئے اپنے سارے اختلافات کو مٹا کر اور لڑائی جھگڑوں کو دور کرکے ایک ہو جائو۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کل آپ سے اللہ تعالیٰ کیا قربانی لے گا لیکن آج میں یہ بتا سکتا ہوں کہ آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ یہ ہلاکت کی آگ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر بچنا مشکل ہے۔
پس قرآن کریم کی زبان میں مَیں تم سے یہ کہوں گا (آل عمران:۱۰۴) تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو۔ اسی طرح میں یہ بھی کہوں گا کہ تم (آل عمران:۱۰۳)کی رو سے تقویٰ اللہ کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو تاکہ تم خداتعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچ جائو اور اگر یہ آگ اس کی طرف سے بطور امتحان کے ہے تو تم اس میں کامیاب ہو جائو اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ رحمتیں حاصل کر سکو اور غلبۂ اسلام کے دن قریب سے قریب تر آسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا۵)
اللہ تعالیٰ نے ایمانی درخت کی نشوونما کے بہت سے
ذرائع رمضان المبارک میں اکٹھے کر دیئے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍اکتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاورسورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورئہ مجادلہ کی آخری آیت کا مندرجہ ذیل حصہ تلاوت فرمایا:-

(المجادلۃ:۲۳)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
آیہ کریمہ کے اس ٹکڑے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو سچی طہارت اور پاکیزگی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ آسمانی مدد اس کے شامل حال نہ ہو۔
ماہ رمضان اپنی بھر پور برکات کے ساتھ آرہا ہے اس لئے میں آج رمضان کی برکات کی طرف اپنے بھائیوں اور بہنوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اس نے اپنے فیوض کو جذب کرنے کے بہت سے سامان اس ماہ مبارک کے مختصر زمانہ میں اکٹھے کر دیئے ہیں۔ ان فیوض و برکات میں سے بعض کی طرف میں اس وقت آپ کو توجہ دلائوں گا۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے آیت کے اس حصہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آسمانی مدد یعنی اللہ تعالیٰ کے فیوض کے حصول کے بغیر طہارت اور پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے آسمانی مدد یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت اس کے پیار اور رضا کو جذب کرنے کے لئے قرآن کریم نے بہت سے طریق بتائے ہیں جن کی عملی تفسیر ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے۔ چنانچہ جب ہم اسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں فیض الٰہیہ کے جذب کرنے کے بہت سے طریق جمع کئے گئے ہیں۔
میں تمہیداً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ایمان اور اعمال صالحہ کو بڑے حسین پیرایہ میں بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کی مثال درخت کی ہے اور اعمال صالحہ کی مثال اس پانی کی ہے جو اس درخت کے لئے آب حیات بنتا ہے۔ چنانچہ وہ درخت جو پہلے ایک بیج کی شکل میں ہوتا ہے اور جو اپنی روئیدگی نکالتا ہے۔ پھر اس میں پختگی آتی ہے اور پھر وہ مضبوطی سے اپنی جڑ پر قائم ہو جاتا ہے پھر وہ پھیلتا اور وسعت پکڑتا ہے۔ اس کی شاخوں پر پتے نکلتے ہیں۔ پھر وہ خوبصورت درخت اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسے پھل لگیں۔
یہی حال انسان کے ایمان اور اس کے مجاہدہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ایمان کے بیج کو اعمال صالحہ کے زندگی بخش پانی سے سیراب کرکے اس کے مجاہدہ کو اس حد تک پھیلایا ہے کہ وہ روحانی طور پر پھل لگنے کے قابل ہو سکے۔ چنانچہ جس وقت انسان اپنی پوری کوشش اور مجاہدہ کے نتیجہ میں اعمال صالحہ بجا لاتے ہوئے اپنے درختِ وجود کو نشوونما دینے کے بعد اس شکل میں لے آتا ہے جس شکل میں مثلاً عام طور پر دنیوی درختوں کے پھل لگا کرتے ہیں تو گویا اس مالی کا جو اپنے ہی وجود کے باغ کی پرورش کر رہا تھا کام ختم ہوگیا۔ اس کے بعد اگر انسان کے اعمال صالحہ مقبول ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے تو پھر آسمان سے ایک ایسا خاص فضل نازل ہوتا ہے جو انسان کے درختِ وجود کو بارآور اور ثمرآور بنا دیتا ہے۔ انسان خداتعالیٰ کی جنت میں داخل ہوتا اور جنت کے بے شمار غیر محدود پھل حاصل کرتا ہے وہ ان سے لذت پاتا اور روحانی طاقت حاصل کرتا ہے۔ گویا جنت یہیں اسی دنیا سے اعمال صالحہ بجالانے کے نتیجہ میں شروع ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف مثال ہی نہیں دی بلکہ کچھ تفصیل میں جا کر بھی بتایا ہے کہ کون سے اعمال درخت کی نشوونما کے کس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم اِس میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے۔ مثلاً آم کا درخت ہے اس کا بیج جب نئی زندگی پاتا ہے تو اس کی شکل ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ آم یا دوسرے درختوں کی جڑوں کو کھودیں تو کہیں بھی بیج نظر نہیں آئے گا۔ چنانچہ بعض بیج اپنی شکل کو چند دنوں میں کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض بیج اپنے وجود کو چند ہفتوں میں، بعض چند مہینوں میں اور ممکن ہے بعض درخت جن کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور بیج بڑا سخت ہوتا ہے اُس کاوجود چند سال میں ختم ہو جاتا ہو۔ تاہم اس مؤخر الذکر صورت کا تو مجھے ذاتی طور پر علم نہیں لیکن مہینوں میں ختم ہونے والے بیجوں کا تو مجھے علم ہے۔ ایسے بیج چند مہینوں کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد جو غذا ان درختوں کو دی جاتی ہے اس غذا کا تعلق بیج کے وجود کے ختم ہو جانے کے بعد پھر بیج سے نہیں رہتا بلکہ درخت کی جڑوں کے ساتھ ہو جاتا ہے لیکن جو انسان کا بیج ہے جس نے آگے چل کر درخت بننا ہے اس کو ایسی غذا ملتی رہنی چاہئے کہ جو چیز اس دُنیوی مادی درخت کی انسان کی نظر سے غائب ہو گئی اور اس کے لئے ہمیں کوئی فکر کی ضرورت نہیں رہی وہ روحانی دُنیا میں غائب نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کے لئے فکر کی ضرورت رہتی ہے۔ اصل میں تو دُنیا کے جو درخت ہوتے ہیں اُن میں بھی وہ چیز غائب نہیں ہوتی کیونکہ اگر بیج کا وجود کلّیۃً غائب ہو جائے (صرف انسانی نظر سے غائب ہونے کا سوال نہ ہو بلکہ حقیقتاً غائب ہو جائے) تو اس درخت کو پھر بیج نہیں آئے گا مگر پھل میں دوبارہ اسی شکل کے بیج کا نکل آنا بتاتا ہے کہ بیج اپنی صفات کے ساتھ اس درخت کے اندر موجود رہتا ہے۔
بہرحال مادی درختوں کے بیج نظر سے اوجھل ہو جایا کرتے ہیں لیکن انسانی درختِ وجود کا بیج نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں نہ ہونے چاہئیں۔ وگرنہ وہ مثال پورے طور پر صادق نہیں آتی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن مجید کی تفسیر میںبیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انسانی درختِ وجود کا بیج بھی باقی رہتا ہے۔ اس کی جڑیں بھی قائم رہتی ہیں۔ زمین سے نکلنے والی اس کی روئیدگی بھی قائم رہتی ہے۔ اس کے اوپر بڑھنے والی چھوٹی چھوٹی سی شاخیں بھی قائم رہتی ہیں اور جب شاخیں پھیل جاتی ہیں تو اُن کی مضبوطی بھی قائم رہتی ہے یا رہ سکتی ہے پھر وہ ایک بڑا تنا ور درخت بن جاتا ہے۔ حسین پتوں اور خوبصورت پھولوں کے ساتھ چمک اُٹھتا ہے۔
موہبت الہٰیہ یعنی آسمان سے جو رحمت نازل ہوتی ہے، وہ اس کو پھولوں کا حسن بھی بخشتی ہے اور پھل کی افادیت بھی دیتی ہے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو خشوع کی حالت ہے وہ ایمان کے بیج کی روحانیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ ایک تو اس کے اندر نمو کی طاقت کو قائم رکھتی ہے کیونکہ اس سے آگے چل کر درخت نے حصہ لینا ہوتا ہے۔ میں نے بتایا ہے روحانی طور پر ہم اس کو غائب نہیں سمجھ سکتے۔ پھر اس کی صفات (جو بھی ہیں اُن) کو قائم رکھنے کے لئے، ان کی بڑھوتی کے لئے، ان کی نشوونما کے لئے، روحانی بیج یعنی ایمان کا بیج قائم رہتا ہے۔ اس کے لئے جو پانی اعمال صالحہ کے طور پر دیا جاتا ہے وہ خشوع کی حالت ہے، وہ انسان کی عاجزانہ اور متضرعانہ حالت ہے۔ یہ ایک بنیاد ہے اس بیج کے قیام کی۔ کیونکہ جب عاجزی غائب ہو گی جب عاجزی اور تضرع کا پانی نہیں ملے گا تو انسانی درخت وجود کی شاخیں مرجھا اور تنا سوکھ جائے گا۔ اس واسطے تمام اعمال صالحہ کے بیج اور جڑ کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان تکبر اور خود پسندی اور خودرائی اور انانیت سے بچے۔ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے اور خداتعالیٰ کے حضور ہمیشہ عاجزانہ طور جھکا رہے کیونکہ اس کے بغیر بیج اور جڑ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ عاجزی اور انکسار بھی بمنزلہ پانی کے ہے بلکہ یہ باقی پانیوں کی بنیاد ہے۔ جس طرح مثلاً شہد کی مکھی ہے۔ جہاں وہ نیکٹر یعنی پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتی ہے وہاں وہ اپنی ملکہ کے لئے رائل جیلی (سائنسدانوں نے یہ نام دیا ہے وہ بھی) بناتی ہے اور اس سے اس کی زندگی اور بیج کے قیام میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔ وہ یعنی ملکہ اس کے نتیجہ میں بہت زیادہ انڈے دیتی ہے اور چھتے کی اجتماعی زندگی کو قائم رکھتی ہے۔ اسی طرح عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے ایمان کے بیج کی قوتوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ انہیں قائم رکھا جاتا ہے ان کو مضبوط کیا جاتا ہے اُن کے اندر حُسن کے نمو کی صفت کو پیدا کیا جاتا ہے اور ثمر آور بننے کی حالت تک پہنچنے کے جو سامان ہیں وہ اس کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں۔ غرض خشوع اور عاجزی کی جو حالت ہے یہ سارے اعمال صالحہ کے پانی کی بنیاد ہے۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ اعمال صالحہ کے پانی کا منبع اور سر چشمہ ہے۔ اعمال صالحہ کا پانی گویا عاجزی کے سر چشمہ سے جوش مارتے ہوئے باہر نکلتا ہے۔
چنانچہ خشوع اور تضرع کے ساتھ جب بیج کی حفاظت ہو جاتی ہے تو دوسری کیفیت یہ ہے کہ ہلکی سی روئیدگی زمین سے باہر نکلے۔ بڑا درخت ہو یا فصلیں ہوں، پہلے ان کی ایک بالکل نازک سی کونپل نکلتی ہے۔ انسان کی بچپن کی عمرمیں وہ نزاکت نہیں ہوتی جو ان کونپلوں میں پائی جاتی ہے۔ اُن میں خداتعالیٰ کی بڑی شان نظر آتی ہے جس پر دوستوں کو غور کرنا چاہئے۔
پھر سبزہ یعنی چھوٹی چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں۔ ساتھ ہی درخت کی یا فصلوں کی جڑوں میں بعض گندی اور ضرر رساں بوٹیاں اُگ آتی ہیں جو اصل درخت یا فصل کی غذا کو چوس لیتی ہیں اس لئے اگر اُن کو نکالا نہ جائے تو یہ درخت کی پرورش میں روک بنتی اور بسا اوقات اس کی ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ایمان کے بیج سے جو روئیدگی نکلتی ہے اس کی سرسبزی و شادابی کا انحصار لغو باتوں کے چھوڑنے پر ہے۔ جس طرح خود جڑی بوٹیاں اصل فصل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں اسی طرح لغو باتیں، پراگندہ خیالات اور بیہودہ عمل، ایمان کے درخت کے لئے ضرر رساں ہوتے ہیں۔ اس لئے لغو باتوں سے ہمیشہ اعراض کرنا چاہئے اور اس کے مقابلے میں پسندیدہ اور مفید باتوں کو اختیار کرنا چاہئے مثلاً کھیتوں کے لئے ہر قسم کی کھاد مفید ہے۔ اس سے اس کی سرسبزی اور شادابی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نشوونما میں کوئی روک نہیں پیدا ہوتی۔ اسی طرح لغو باتوں کے اعراض سے وہ روکیں دور ہو جاتی ہیں جو حسنات کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔
پھر اس درخت پر ایک تیسرا دور آتا ہے اور وہ یہ کہ روئیدگی اب ٹہنیوں کی شکل میں بدل جاتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں اور اُن میں کسی قدر مضبوطی بھی آجاتی ہے۔ گو ٹہنیاں نکل آئیں لیکن ابھی کونپلیں ہری اور نرم ہیں اُن کے اندر پوری سختی اور مضبوطی نہیں آئی۔ چنانچہ پھر چوتھا مرحلہ آتا ہے اور یہ شہوات نفسانیہ سے مقابلہ کرنے کا مرحلہ ہے لیکن اس سے پہلے تیسرے مرحلے میں صدقہ وخیرات اور زکوٰۃ کے علاوہ اموال خرچ کرنے سے تعلق رکھنے والے دوسرے احکام کے نتیجہ میں جو نرم نرم شاخیں نکلتی تھیں شہوات نفسانیہ کا خاتمہ کر کے ان شاخوں میں مضبوطی پیدا کی جاتی ہے، مضبوطی کے بعد پھر وہ شاخیں پھیلنے لگتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان نے مثلاً جو عہدوپیمان کیا ہے اور بندوں نے جو امانتیں اُسے دینی ہیں اُن کو ذہن میں حاضر رکھنے اور ان کی حفاظت کرنے سے ایمان کا درخت مضبوط تنے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اُسے پھل لگے۔ اسی طرح فرد کو بھی اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی جنت کے پھل نصیب ہوں۔ وہ خدا کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جائیں۔
چونکہ امانتوں کا ذکر آیا ہے اس لیے میں ضمناً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ امانت صرف روپے پیسے کی نہیں ہوتی بلکہ ہر قسم کی امانتیں مراد ہیں مثلاً بندوں کی ایک یہ امانت ہے جس کے متعلق آپ اکثر سنتے رہتے ہیں (النسآء:۵۹)
یہ آیت کا ایک حصہ ہے جس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اہل ہے اس کو عہدہ دو۔ کیونکہ عہدہ بھی ایک امانت ہے۔ یہ ایک بڑا ہی وسیع مضمون ہے۔ مختصراً یہ کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہدوپیمان کو پورا کرنے اور بندوں کی جو امانتیں ہیں ان کو لوٹانے سے انسانی درختِ وجود میں ایک حُسن پیدا ہوتا ہے۔
پس یہ ایمان اور عملِ صالح کا آپس میں تعلق ہے۔ گو اور بھی بعض تعلقات ہیں لیکن یہ پانچوں چیزیں یعنی جہاں انسان کا مجاہدہ ختم ہوتا ہے وہاں تک چار اور جہاں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت شروع ہوتی ہے وہ پانچویں۔ ان کا مَیں نے اِس وقت مختصراً اِس غرض سے ذکر کیا ہے کہ ان کا تعلق ماہ رمضان سے ہے۔ یہ چاروں پانچوں چیزیں ہمیں اس ماہ مبارک میں نظر آتی ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں پہلی چیز خشوع کی حالت ہے۔ یہ حالت یعنی دل میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کا احساس ، انکسار کا جذبہ اور اصلاحِ نفس کی طرف توجہ پیدا ہو تو رمضان میں نفس کی تادیب و اصلاح کا بڑا موقع ملتا ہے۔ انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے، وہ راتوں کو جاگ رہا ہوتا ہے۔ اس تھوڑی سی مشقت کے بعد ایک صاحب فراست انسان سمجھ جاتا ہے کہ اتنی سی تکلیف نے اس کا وجود جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے یہاں تک کہ اس کی انَا ختم ہو گئی۔
غرض انسان کا مجاہدہ اس کو عاجزی کی طرف مائل کرتا ہے۔ گو ساری عبادتیں ہی اس قسم کی ہیں لیکن میں اس وقت ان پانچ بڑی بڑی چیزوں کو لوں گا جن کا تعلق رمضان کی برکات سے ہے۔ چنانچہ بھرپور برکتوں کے ساتھ آنے والے اس ماہِ مبارک کی پہلی برکت یہ ہے کہ ایمان کے بیج کو مضبوط کرنے کے سامان اس میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ خشوع و خضوع، تضرع و ابتہال اور عاجزی اور فروتنی کی حالتیں اس مہینے میں بمقابلہ دوسرے مہینوں کے زیادہ میسر آتی ہیں علاوہ ازیں اس مہینے میں بھی گو حسنات دنیا کے حصول کی جدوجہد کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرے مہینوں میں زیادہ دی گئی ہے۔ اس مہینے میں زیادہ زور عبادات پر دیا گیا ہے۔ چنانچہ تہجد کے نوافل ہیں۔ انسان قربانی اور ایثار دکھاتا ہے۔ بعض صورتوں میں نماز باجماعت سے استثناء بھی جائز ہے یعنی نماز کے لئے مسجد میں نہ جانا قابل اعتراض نہیں ہوتا لیکن رمضان کے بارہ میں یہ کہا گیا ہے کہ مسجدوں میں زیادہ تعداد میں اور کثرت سے آئو۔ پھر اور عبادتیں ہیں یہ ساری عبادتیں انسان کے لئے جنگلے کا کام دیتی ہیں۔ انسان تکبر، غرور اور خود پسندی کے کانٹے دار جھاڑیوں کے جنگل میں سرگرداں ہونے سے بچ جاتا ہے کیونکہ اسے محاسبۂ نفس کے مواقع رمضان میں کثرت سے میسر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ دیکھو تمہاری حیثیت کیا ہے۔ جب تک تم خداتعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتے۔ جب تک تم عاجزانہ طور پر اس کے سامنے نہیں جھکتے اور جب تک تضرع کے آنسوئوں کے ساتھ اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرکے اس کی رحمت کو جذب نہیں کرتے اس عالمین میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ پس خشوع کی حالت رمضان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ میسر آتی ہے۔
دوسری چیز لغو باتوں کو چھوڑنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید بیان فرمائی ہے کہ رمضان میں بالخصوص لغو باتوں کی طرف توجہ نہ دیا کرو۔ زیادہ توجہ اپنی عبادتوں کی طرف قائم رکھو۔ یہ حکم خداوندی ہے اور ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو نمایاں طور پر ہمارے سامنے ماہ رمضان میں آتی ہے۔ درختوں یا فصلوں کے بیج سے سبزہ پھوٹتا اور چھوٹے چھوٹے اور نرم نرم تنکے نکلتے ہیں۔ ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ چھوٹی سی چڑیا یا چنڈدل اسے ضائع کر سکتی ہے مثلاً پچھیتی گندم لگا دیں تو اگر چڑیوں کو اور کہیں کھانے کو نہ ملے تو وہ چونچ سے ذرا جھٹکے کے ساتھ پودے کو بیج سمیت باہر نکال دیا کرتی ہیں۔ انسان کی بھی یہی حیثیت ہے۔ اگر وہ اس سے پہلے عاجزانہ مقام اختیار نہ کر چکا تو وہ چنڈدل کی زد میں ہے ایک چھوٹی سی بے حیثیت چڑیا آکر اسے فنا کر سکتی ہے لیکن چونکہ اس نے عاجزانہ راہ کو اختیار کیا ہوتا ہے اس لئے وہ اللہ کی حفاظت کے اندر آجاتا ہے۔ ایمان کی روئیدگی کا جو زمانہ ہے وہ خیریت سے گذر جاتا ہے۔ اس سبزہ کے اگانے اور اس کو قائم رکھنے میں رمضان کی برکات بڑی مفید بھی ہیں اور بڑی حسین بھی ہیں۔ ہمارے درختِ وجود کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور اس سے روئیدگی نکلتی اور پنپتی بھی ہے۔ اب یہ خطرہ نہیں رہتا کہ درخت یا فصل کے ساتھ خودرو، بے فائدہ اور ضرر رساں جھاڑیاں اُگ آئیں گی جو درختوں کی غذا کھا لیں گی۔ اسی طرح انسان جب لغو باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اکثر گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
پھر تیسری چیز اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ ہر درخت کی پہلے ایک روئیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس کے اندر کچھ مضبوطی آجاتی ہے۔ یہ ایک ٹہنی کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ اور بڑی بڑی اونچی نکل جاتی ہے مثلاً آم لمبی عمر پانے والا درخت ہے اگر تخمی آم ہے تو اس کا درخت پچاس پچاس فٹ اونچا چلا جاتا ہے اور ایک ایک درخت پچاس پچاس من پھل دے جاتا ہے۔ اس کی گٹھلی بڑی نرم اور نازک سی ہوتی ہے مگر اس گٹھلی (یعنی بیج) سے اگنے والا پودا اپنی جسامت اور اونچائی میں ایک بہت بڑا درخت بن جاتاہے۔
اسی طرح ایمان کا پودا بڑھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی پرورش اللہ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے کرو۔ رمضان میں انفاق فی سبیل اللہ کی طرف بڑی توجہ دلائی گئی ہے۔
احادیث میں آتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے۔ آپؐ کی سخاوت ایک تیز چلنے والی ٹھنڈی ہوا کی مانند ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی بڑے سخی تھے۔ اتنے سخی کہ آپ کی سخاوت کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک دفعہ مدینہ میں عرب کا ایک سردار آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قبیلہ سے اس کا تعلق تھا وہ اپنی سخاوت میں اپنے فطرتی میلان کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر ایک ٹیلے پر تشریف فرما تھے سامنے وادی میں بیت المال کے اونٹ اور بھیڑیں چر رہی تھیں وہ سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان جانوروں میں سے مجھے کچھ جانور دیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ جو تمہیں سامنے جانور نظر آرہے ہیں یہ سب ہانک کر لے جائو۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گیا اسے یقین نہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا سوچ رہے ہو۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سارے جانور ہانک کر لے جائو۔ بڑی مشکل سے اسے یہ بات سمجھ میں آئی۔ چنانچہ وہ سارے جانور لے گیا اور جب اپنے قبیلہ میں پہنچا تو اس نے لوگوں سے کہا کہ سارے مسلمان ہو جائو۔ جو شخص اس قدر سخاوت کرتا ہے اور مجھے یہ کہہ دیتا ہے کہ وادی کے سارے کے سارے جانور ہانک کر لے جائو اس کی دولت کا سرچشمہ دنیا کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جو تمام خزانوں کا مالک ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے ورنہ وہ یہ کہنے کی جرأت نہ کرتا کہ سارے کے سارے جانور ہانک کر لے جائو۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر رحمت نازل کرنی تھی اس لئے اس پر یہ دلیل کارگر ہو گئی۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اس قدر سخاوت کرنے والے تھے ان کے متعلق احادیث یہ گواہی دیتی ہیں کہ ماہ رمضان میں آپ کی سخاوت عام مہینوں کے مقابلہ میں ایسی تھی جیسے تیز ٹھنڈی ہوا ہوتی ہے۔ ہلکی ہوا کے مقابلہ میں اس سے یہ اندازہ لگا نا بھی مشکل ہے کہ آپ کی سخاوت کہاں تک پہنچی ہوگی۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس وقت ایمان کے درخت کی ٹہنی نکل آئے یعنی پہلے باریک چھوٹی اور معمولی سی روئیدگی تھی اس کے بعد جب وہ ٹہنی کی شکل اختیار کر جائے تو اس میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے خدا کی راہ میں اموال خرچ کرو۔ ماہِ رمضان سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ رمضان کی برکتوں میں سے یہ تیسری برکت ہے۔ اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے احمدیوں کو بھی اور دوسروں کو بھی جن کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے۔ ہر شخص اپنی طبیعت اپنے اموال، اپنی حیثیت اور اپنے وسائل کے مطابق سخاوت کرتا ہے خدا کے حکم سے خدا کی راہ میں مال دیتا ہے لیکن اپنے اپنے دائرہ میں عام مہینوں کے مقابلے میں تمہاری رمضان کی سخاوت معمولی ہوا کے مقابلے میں جو تیز چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں ہوتی ہیں اس نسبت سے ہونی چاہئے۔ اتنی سخاوت کرو کہ جسے دنیا بھی محسوس کرے اور تمہارا ماحول بھی محسوس کرے۔ میں نے بتایا ہے کہ اعمال صالحہ کی مثال پانی کی ہے خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی ایک عمل صالح ہے۔ آپ کو اس حد تک سخاوت کرنی چاہئے کہ گویا کسی چیز کو اتنا پانی مل جائے کہ مثلاً درخت کے اردگرد جو ہودی لگائی جاتی ہے اس سے باہر نکل آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح تمہارے ایمان کے درخت کی جو ٹہنیاں ہیں ان کو کسی قدر مضبوطی حاصل ہو جائے گی۔ پہلے ان کے اندر نرمی تھی اور ان کے لئے بہت سے خطرات تھے۔ نرمی کا مطلب یہی ہے کہ وہ وقت معرض خطر میں ہیں مثلاً ہمارا یہ مادی جسم ہے۔ جس شخص کے اندر قوت مدافعت نہ ہو تو اس پر بیماری کے حملے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ چنانچہ جن بچوں کے اندر قوت مدافعت نہیںہوتی کمزور ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ والدین ایسے بچوں کو میرے پاس دعا کے لئے لے آتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے جسمانی ساخت کے لحاظ سے بہت کمزور ہے۔ اچانک بیمار ہو جاتا ہے کبھی بخار اور کبھی نزلہ زکام ہو جاتا ہے۔ آپ دعا کریں تندرست ہو جائے۔ غرض جس طرح درخت کی ٹہنیاں نرم و نازک ہونے کی وجہ سے ہر وقت معرض خطر میں ہوتی ہیں اسی طرح ایمان کے درخت کی ٹہنیوں کوبھی بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اس روحانی امراض کے خطرہ کو دور کرنے کا ایک طریق انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے روحانی درخت کی ٹہنیوں میں مضبوطی آجاتی ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے کا رمضان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس ماہ مبارک میں یہ بڑا تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کرو۔ گویا رمضان کے مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ روحانی ٹہنیوں کو مضبوط کرنے کی یہ تیسری برکت ہے۔ جس کا رمضان کے ساتھ تعلق ہے۔
پھر رمضان کے مہینے میں صبح روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت روزہ کھلنے تک دن کا ایک بڑا لمبا عرصہ جس میں بیویوں سے جائز تعلقات سے روکا گیا ہے۔ روزہ کی حالت میں انسان جائز تعلقات بھی نہیں رکھ سکتا۔ اس میں شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے کا سبق دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم جب اپنے نفس پر قابو پالو گے تو گویا ایمان کا درخت اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑا ہو جائے گا۔ خواہشات نفسانیہ پر قابو پانا انسان کا آخری مجاہدہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نفس کے تابع نہ رہے بلکہ اس کا نفس اس کی روحانی فراست کے تابع ہو جائے اور یہ انسان کے مجاہدے کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ سبق ہمیں رمضان میں سکھایا گیا ہے اور یہ چوتھی بڑی برکت ہے جو اس ماہ مبارک میں میسر آتی ہے۔
پھر جس وقت انسان کا نفس اس کے قابو میں آجاتا ہے اور انسان مجاہدہ کی آخری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے اور اپنا ہاتھ آسمانی برکات کو حاصل کرنے کے لئے اوپر اٹھاتا ہے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اب بھی اسے آسمانی برکات نہیں مل سکتیں جب تک آسمانی برکات خود اس کے قریب نہ آجائیں یا آسمان سے برکات کا نزول نہ ہو اور خداتعالیٰ خود اپنے فضل سے اپنے فیض کو اس کے قریب نہ کر دے پہلے اس نے پکڑنے کے لئے ایک ہاتھ اٹھایا تھا۔ پھر وہ دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور دعا میںمشغول ہو جاتا ہے۔ اور کہتا ہے اے میرے رب کریم! جہاں تک میری کوششوں کا تعلق تھا میں نے اپنی سمجھ، ہمت اور طاقت کے مطابق تیرے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کر دی ہے۔ میرا درخت وجود تو قائم ہو گیا مگر پھل نہیں آتا جب تک تیری رحمت آسمان سے نازل نہ ہو اس لئے اے خدا! تو اپنے فضل سے آسمان سے اپنی رحمت کو نازل فرما۔ چنانچہ اگر اس کی یہ دعا قبول ہو جائے تو ایک نئی قوت آسمان سے آتی ہے ایک نئی چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے جو زمین سے پیدا نہیں ہوتی جس کو ہم اپنی طاقت سے نشوونما نہیں دے سکتے۔ گو جسم اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ اس کی ٹہنیوں میں مضبوطی پیدا ہو گئی۔ اس کے پتوں پر حسن آگیا لیکن ابھی اس کو پھول آئے نہ پھل لگے۔ اس کے لئے انسان عاجزانہ طور پر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا طالب ہوتا ہے۔
پس اگر اور جب اللہ تعالیٰ انسان کی عاجزانہ اور متضرانہ دعائوں کو قبول کر لیتا ہے تو وہ ہاتھ جو اس کی طرف اٹھتے ہیں وہ خالی واپس نہیں آتے اللہ تعالیٰ اپنے بے شمار خزانوں سے انسان کی جھولی بھر دیتا ہے اور بھرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان بسا اوقات یہ بھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے میرے خدا! تیری سخاوت کی کوئی انتہا نہیں مگر میرا دامن تو بہرحال محدود ہے۔ اب تو مجھے اور دیتا چلا جاتا ہے۔ یہ تو میری طاقت سے بڑھ کر ہے۔ میں اسے کس طرح سنبھالوں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حدیث میں بھی کہا گیا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو خداتعالیٰ کی رحمتوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کے خزانے اس رنگ میں لٹائے گا اور اتنے لٹائے گا کہ دنیا ان کو لینے سے انکار کر دے گی اس کا ایک مطلب ہم یہ بھی لیا کرتے ہیں کہ جو لوگ ان خزانوں کو خزانے نہیں سمجھیں گے ان کی طرف رغبت نہیں رکھیں گے وہ لینے سے انکار کر دیں گے تاہم اس کا اصل اور حسین مطلب یہی ہے کہ ہر ایک مخلص انسان کو اعلیٰ استعداد اور طاقت کے مطابق دے دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ زبان حال سے پکار اٹھے گا کہ بس! بس! اب زیادہ کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اس پر بھی خداتعالیٰ نے انسان پر اپنی رحمتوں کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ موہبت الٰہی کا ایک چکر چل پڑتا ہے۔انسان کے روحانی درخت وجود پر پھول آئے پھل لگے خداتعالیٰ کی جنتوں میں وہ داخل ہو گیا۔ روحانی فضلوں سے لذت اٹھانے لگ گیا لیکن چونکہ خدا نے اس کے دل کے اندر یہ تڑپ یا یہ خواہش اور یہ جذبہ پیدا کیا اور فرمایا کہ اس پر راضی نہ ہونا کیونکہ میرے خزانے غیر محدود ہیں چنانچہ بعض دفعہ انسان کہتا ہے خدایا! اس درخت کو تو پانچ من پھل لگے ہیں یہ تیری رحمت سے لگے ہیں تو اس درخت کو اتنی طاقت فرما کہ یہ دس من پھل اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ پھر اس کی دعائوں کے نتیجہ میں وہی درخت دس من پھل دینے لگ جاتا ہے پھر سینکڑوں ہزاروں من پھل دینے لگ جاتا ہے۔
پس حقیقی جنت جس میں انسان داخل ہو جاتا ہے وہ تو ختم ہونے والی نہیں ہے اور نہ خداتعالیٰ کے قرب کے مقامات ختم ہونے والے ہیں۔ اس میں تو ترقی ہی ترقی ہے۔ اس میں بھی عمل تو ہے لیکن یہ وہ عمل نہیں جس کا تعلق امتحان سے ہوتاہے۔ جس کا تعلق جزاء و سزا سے ہوتا ہے۔ جنتوں میں داخل ہونے کی بعد انسان بے عمل نہیں ہو جاتا تاہم امتحان کا خوف اور امتحان میں فیل ہو جانے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقی جنت میں انسان کو ناکامی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایم۔اے یا پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے بعد کوئی عقل مند یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے تعلّم کا زمانہ ختم ہو گیا۔ اسی طرح حقیقی جنت میں انسان کے دل میں یہ احساس زیادہ بیدار ہو جاتا ہے کہ علم کے حصول کا اصل موقع تو اب پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ جس طرح انسان ایم۔اے یا پی۔ایچ۔ڈی کے بعد اپنے طور پر مطالعہ کرتاہے عملی زندگی میں انسان جو کچھ حاصل کرتاہے۔ علم کے ذریعے اس کے تجربے کرتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے (یہی علم و عمل کا جوڑ ہے جس کے متعلق کل میں نے اجتماع میں خدام کو سمجھانے کی کوشش کی تھی) اس طرح جنت میں اللہ تعالیٰ کی موہبت ختم ہونے میں نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ انسان کو فضلوں اور رحمتوں سے نوازتاچلاجاتاہے۔
پس رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آرہا ہے۔میں نے اس وقت رمضان کی چار پانچ برکتوں کا ذکر کیا ہے یعنی چار برکتیں تو وہ ہیں جو انسان اپنی کوشش اور اپنے عمل سے، اپنے ایمان کے درخت کو نشوونما دے کر، اس کی پرورش کرکے اسے ایک بڑا شاندار حسین شاخوں سبز پتوں والا درخت بناکر حاصل کرتا ہے اور پانچویں وہ برکت ہے کہ جب وہ درخت ثمرآور ہونے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تو اس وقت انسان دعائوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتا ہے اس طرح وہ اسے پھولوں کا گہنا پہناتا اور پھلوں سے لاد دیتا، اس کی افادیت کے ہر پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ گویا پانچویں برکت کا تعلق انسان کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی موہبت کے ساتھ ہے۔ جب انسان کو یہ موہبت الٰہیہ نصیب ہوتی ہے تو پھر اس کے بعد روحانی درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں ہوتا ہے اور وہ انسان کے لئے ابدی جنت اور ابدی سرور کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پس میں اپنی جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں ، جوانوں اور بوڑھوں سے کہتا ہوں کہ تم اپنے درخت وجود یعنی ایمان کے درختوں کی نشوونما کے جو بھی سامان اور ذرائع ماہ رمضان میں دیکھو ان سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم بھی خداتعالیٰ کی رضا کی جنتوںمیں داخل ہو جائو۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ تا ۴)
ززز

روحانی انقلاب کا تسلسل آج بھی قائم
ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
تشہد وتعوذاورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل سورۃ تلاوت فرمائی:-

اس کے بعدحضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلہ میں ہمارا دامن تنگ ہو گیا ہے اور یہ مسجد بھی نمازیوں کے لئے اس حالت میں اب کافی نہیں رہی۔ اس لئے منتظمین کو چاہئے کہ وہ آئندہ جمعہ سے شامیانوں کی ایک پوری قطار باہر صحن میں لگایا کریں پھر دو قطاریں اور اسی طرح جوں جوں اللہ تعالیٰ زیادتی کرتا چلا جائے گا شامیانوں کی قطاریں بڑھتی چلی جائیں گی۔
آج ہم اپنے دو پیاروں اور خادمانِ دین کے جنازے پڑھیں گے۔ اس وقت ایک جنازہ تو یہاں پہنچ چکا ہے دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک جنازہ تو چوہدری عبدالرحمان صاحب کا ہے جو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا جنازہ اغلباً آج یہاں پہنچ رہا ہے چوہدری صاحب مرحوم بڑے سمجھدار محنتی اور بے نفس خادم دین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سالہا سال تک لندن کی جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق بخشی۔ میں اپنی خلافت کے زمانہ میں دو بار لندن جا چکا ہوں۔ میں نے خود بھی اندازہ لگایا اور دوستوں سے بھی پوچھا میرا یہی تاثر ہے کہ وہ اپنے ذاتی کاموں کے علاوہ اکثر چھ چھ سات سات گھنٹے مسجد میں جماعتی کاموں کے لئے دیا کرتے تھے یعنی جو کارکنان الائونس لے کر یہاں کام کرنے والے ہیں ان سے زیادہ وقت چوہدری عبدالرحمن صاحب لندن میں جماعت اور الٰہی سلسلہ کے کام کے لئے رضاکارانہ دیا کرتے تھے۔ وہ ڈیڑھ سال سے دل کے مرض میں مبتلا تھے۔ چند دن پہلے چوہدری صاحب پر دل کا جو دورہ پڑا وہ جان لیوا ثابت ہو۔۔ مرحوم موصی تو نہیں لیکن خادم احمدیت اور خادم اسلام ہیں ان کے لئے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور اپنی رحمتوں کی جنتوں میں رکھے۔
دوسرا جنازہ جو پڑھا جائے گا وہ ہمارے محترم بزرگ شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی کا ہے۔ بہت سے دوست انہیں جانتے ہوں گے۔ علمی میدان میںانہوں نے بڑی خدمت کی ہے ان کا جنازہ یہاں پہنچ چکا ہے وہ بھی پڑھا جائے گا لیکن چونکہ رمضان میں ظہر سے عصر تک قرآن کریم کا درس ہوتا ہے اور نماز جنازہ کی ادائیگی کی نسبت قرآن کریم کا سکھانا اور سیکھنا بہرحال بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس واسطے یہ سوچا گیا ہے کہ قرآن کریم کے درس کو تو بہرحال نہیں چھوڑ سکتے۔ قرآن کریم کا یہاں درس ہوگا۔ درس ٹھیک چار بجے تک جاری رہے اور پورے وقت میں ختم ہو۔ میں مسجد مبارک میں نماز چار بجے کی بجائے سوا چار بجے پڑھائوں گا اور چونکہ آج یہاں درس ہوتا ہے اس درس میں شمولیت کے لئے ہماری بہت سی بہنیں یہاں آئی ہوں گی جنہوں نے نماز جنازہ میں شامل نہیں ہونا۔
دوسرے بعض دوست بیمار ہیں بعض بوڑھے ہیں وہ ایک حد تک ہی جسمانی بوجھ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ اس لئے درس چار بجے ختم ہوگا۔ اس کے بعد یہاں بھی نماز ہوگی۔ مستورات اس میں شامل ہوں اور ہمارے وہ بزرگ دوست جو نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکتے اور ان کی مجبوریاں ہیں وہ یہاں نماز ادا کریں اور میں رمضان میں عصر کی نماز پڑھنے کا جو معمول ہے یعنی چار بجے پڑھنے کا اس کی بجائے پندرہ یا بیس منٹ بعد مسجد مبارک میں نماز پڑھائوں گا اور اس کے بعد نماز جنازہ بھی پڑھائوں گا جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور طاقت بخشی ہے وہ وہاں نماز کے لئے پہنچ جائیں اور اپنے ان مخلص بھائیوں کی نماز جنازہ میں شامل ہوں۔
خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر سورۂ تین میں جن چار زبردست انقلابات (اور جن میں سے چوتھا ایک عظیم انقلاب ہے) کا ذکر ہے ان کی روشنی میں مَیں نے تاریخ انسانی پر طائرانہ نظر ڈالی تھی کیونکہ مضمون بہت لمبا ہے اور میں سادہ طریق پر خدام اور اطفال کو یہ مسئلہ سمجھانا چاہتا تھا اس لئے مجھے صرف اس کا خاکہ پیش کرنے کا موقع ہی مل سکا تھا چنانچہ سورۂ تین میں جن چار روحانی انقلابات کا ذکر کیا گیا ہے اُن پر میں نے مختصراً چند مثالیں دے کر روشنی ڈالی تھی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو انقلاب عظیم دنیا میں بپا ہو چکا ہے اور چودہ سو سالہ مدارج میں سے گذر کر اپنے آخری غلبہ کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اس سلسلہ میں سورہ تین کی ان چار انقلابات سے متعلقہ آیات کے بعد کی جو آئتیں ہیں۔ ان کو میں نے مختصراً بیان کر دیا تھا۔ آج میں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو واضح کر دینا چاہتا ہوں تاکہ بعض دوست جو اس کے متعلق غور کریں گے (بہت سے ہمارے دوست مسائل پر غور کرنے کے عادی ہیں) میرا علم جو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھے سکھایا ہے وہ ان تک پہنچ جائے۔
قرآن کریم کی آیات کے مختلف بطون ہوتے ہیں اور ہر نیا بطن یا نیا مضمون جو بیان ہوا ہے وہ ہماری نظر کے سامنے قرآن کریم کے حسن میں ایک اضافہ پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم تو کامل حسن کا مالک ہے۔ اس کا حسن تو ہمیشہ ہی کامل ہے اور اس کے احسان کے جلوے ہمیشہ کامل ہیں لیکن حالات کی نسبت سے ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ضرورتیں بدلتی ہیں۔ علم کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں چنانچہ جو مضمون میں نے سورۂ تین کی تفسیر میں بیان کیا تھا اس کے تسلسل میں اگلی آیتوں کے معنے (بعض ان معانی سے مختلف ہو جائیں گے جو اس سے پہلے ہماری جماعت میں یا اس سے پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں) میں اب بیان کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں بتایا ہے کہ ان تین ابتدائی روحانی انقلابات کا کامیابی کے ساتھ ختم ہو کر ایک انقلاب عظیم کے زمانہ میں داخل ہو جانا ایک ایسا امر ہے جس سے بہت سی صداقتوں کا حقیقتوں کا ہمیں علم حاصل ہوتا ہے اس سے ایک تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ (التّین:۵)اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے یعنی ان انقلابات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی پیدائش احسنِ تقویم کے رنگ میں ہوئی ہے۔ احسن تقویم کے مختلف معنی کئے گئے ہیں جو سارے کے سارے لغوی معنی کے مطابق ہی ہیں۔ اس وقت میں جو معنی بیان کروں گا وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور استعدادیں عطا فرمائی ہیں وہ سب عالمین کی پوری طرح تسخیر کر سکتا ہے۔ تسخیر کے معنی عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس عالمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا ان سے خدمت لینے کی اہلیت انسان کے اندر پیدا کر دی گئی ہے۔ اسے وہ تمام قویٰ دئے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام قوتیں انسان میں ودیعت فرمائیں جن کے نتیجہ میں ان مخلوقات سے اس رنگ میں خدمت لے سکتا ہے کہ وہ اسے اس کے قویٰ کی آخری نشوونما تک لے جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منزلیں طے کرتا ہوا خدا کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکے یعنی وہ قوتیں جو ایک طرف پیدائش عالمین کے مقصد کو پورا کرنے والی ہیں اور جس کا منتہائِ مقصود حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے بہرحال اس عالمین کی تمام چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ ان سے انسان فائدہ حاصل کرے انسان کو وہ ساری قوتیں دی گئیں کہ انسان اس سے فائدہ حاصل کر سکے اور ان سے خدمت لے سکے تو ایک طرف انسان اس قابل ہے اور اس قابلیت کو اس نے ثابت کیا ہے کہ اس نے مخلوقات سے خدمت لی اور اس کے نتیجہ میں مقصدِ پیدائش عالمین پورا ہوا اور دوسرے اسے وہ تمام قوتیں بخشی گئیں تاکہ اس عالمین کی خدمت کے نتیجہ میں وہ زیادہ سے زیادہ روحانی ترقیات حاصل کر سکے اور احسن رنگ میں اللہ تعالیٰ کا عبد بن سکے جس سے پیدائش انسانی کامقصد پورا ہو۔ پس یہ خدمتیں ایسی ہیں کہ پیدائـش (خلق) کے ہر دو مقاصد کو پورا کرنے والی ہیں یعنی پیدائش عالمین کے مقصد کو بھی اور پیدائش انسانی کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان انقلابی ادوار پر غور کرو جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے جو حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پھیلے ہوئے ہیں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر انسان چوتھے دور میں داخل ہو چکا ہے) تم ان پر غور کرو تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی جدوجہد اور اس کے مجاہدہ سے پیدائش عالم کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے اور اس سے پیدائش انسانی کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔
دوسرے ان زبردست ادوار میں سے آخری عظیم انقلاب کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اپنی قوتوں کاصحیح استعمال نہ کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے اور جن انعامات کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان میں قوتیں اور استعدادیں پیدا کی تھیں ان انعامات کے حصول سے وہ محروم ہو جاتے ہیں اور ان کا نام اس گروہ میں شامل ہو جاتاہے جسے ہم(التّین: ۶)کہتے ہیں کیونکہ ایک چیز مثلاً زمین سے اٹھی اور پچاس گز اوپر گئی۔ اگر وہ ناکام ہو گی تو پچاس گز نیچے آجائے گی۔ ایک چیز جس میں طاقت رکھی گئی ہے دو سو گز اوپر جانے کی تو وہ دو سو گز اوپر گئی اور پھر اپنی جگہ پر واپس آجائے گی۔ انسان میں طاقت رکھی گئی ہے نچلی سے نچلی جگہ سے بلند ہو کر بلند سے بلند تر مقام تک پہنچنے کی۔ جس وقت وہ ناکام ہوگا تو مخلوقات کے مقابلے میں بھی کہیں نیچے جاگرے گا۔ یہی قانون قدرت ہے یہی قانون شریعت ہے اور یہی قانون روحانیت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان انقلابات کا یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کے گروہ میں اس لئے شامل ہو گئے کہ انہوں نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کا صحیح استعمال کرکے ان نعمتوں کو حاصل نہیں کیا جن کے لئے اس عالمین کو اور ان کے وجود کو پیدا کیا گیا تھا۔
تیسری چیز ان انقلابات سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ شیطان ظلمات کا مالک اس بات میں تو کامیاب ہو گیا کہ اس نے انسانوں میں سے ایک گروہ کو روحانی ترقیات سے محروم کرکے کے زمرہ میں شامل کر دیا لیکن ہزارہا سال کی کوشش کے نتیجہ میں وہ حقیقی معنی میں کامیاب نہیں ہوا کیونکہ انسان کو جن رفعتوں کے لئے پیدا کی گیا تھا اوراس کی رفعتوں کی طرف جو حرکت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی گئی تھی اس کے اندر ایک تسلسل پایا جاتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ شیطانی گروہ جو کے زمرہ میں ہے انہوں نے اس روحانی حرکت کو روک دیا ہو اور معطل کر دیا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ جو ایمان اور عمل صالح بجالانے والا گروہ ہے اس کے لئے ان انقلابات میں ہمیں نظر آتا ہے ایک تسلسل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا۔ پھر اس انقلاب عظیم سے شروع ہوا اور قیامت تک ممتد ہے۔
پس شیطان کی ہزاروں سال کی کوشش سے جو امر ثابت ہوا وہ شیطانی منصوبوں کی ناکامی اور اس کی تدبیروں کی ہلاکت ہے یہ ثابت نہیں ہوا کہ روحانی انقلاب کی جو ایک رو پیدا کی گئی تھی اس کا تسلسل ٹوٹ گیا ہو بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو مومنون کا گروہ ہے یعنی ایمان لانے والوں کا اور عمل صالح بجالانے والوں کا گروہ ہے اس کے لئے مقدر ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے یہ تسلسل قائم ہوا اور قیامت تک چلتا چلا جائے گا کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی وسعتیں اس کی گہرائی کو کم کر دیتی ہیں اور کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی گہرائی اس کی وسعتوں کو کم کر دیتی ہے لیکن یہ کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے یہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ گویا حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے انقلاب سے لے کر آخری انقلاب تک یہ سلسلہ قائم ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صدہا سال سے انسان کے لئے جو اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ مقدر ہے اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا۔
پھر انقلابات سے یہ نتیجہ نکلا کہ کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے دین کے غلبہ کی مہم کو شیطان کی بھلا کونسی تدبیر ناکام بنا دے گی۔ الدین کے ایک معنی اَلظُّلْمَۃُ وَالْاِسْتِیْـلَائُ بھی ہے۔ ان انقلابات کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا کہ جس طرح پہلے انقلابات ایک تسلسل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک کامیاب ہوتے رہے ہیں اسی طرح یہ انقلاب عظیم بھی ایک تسلسل کے ساتھ غلبہ حاصل کرتے ہوئے دنیا میں آخری اور عظیم غلبہ حاصل کرے گا اور نبی نوع انسان قیامت تک اس کی برکتوں کا پھیلائو دیکھیں گے۔
پس کی رو سے کون ہے جو اپنے ہوش و حواس میں ہومگر وہ یہ کہے کہ ایسے کامیاب انقلابات کے بعد (دراصل یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی انقلاب ہے لیکن وہ مضمون علیحدہ ہے) جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر چوتھے انقلاب عظیم میں داخل ہوگئے ہیں (اگر پہلے تین انقلاب کامیاب ہوئے ہیں تو کون ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلاب ناکام ہوجائے گا۔ دنیا کی کوئی تدبیر، ظلمات کی کوئی کوشش اس انقلاب کو ناکام نہیں کر سکتی اور نہ اس نور کو اندھیرے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ ہے ہر چیز پر اس کا حکم چلتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صدہا سال پہلے آدم کے وقت یعنی پہلی روحانی رہنمائی کے وقت جو انسان نے اس سے حاصل کی شیطان کو کہا تھا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا دائو نہیں چل سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اور اس کا فیصلہ تھا اور اسی کا حکم چلا۔ اسلامی تاریخ یا انسانی تاریخ کے کسی دور پر نظر ڈال کر دیکھ لو سوائے ان محروموں اور بدبختوں کے جو خداتعالیٰ سے دور جاپڑے تھے شیطان کی گود میں کون گیا؟ تھوڑی بہت کامیابی جو شیطان کو ہوئی یہ تو ان کی اپنی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ پس جو مہم ان نقلابات کے ذریعہ روحانی غلبہ کی چلائی گئی تھی اس پر نظر ڈالنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیںکہ حکم اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے الحُکْمُ لِلّٰہِ ۔ دوسرے یہ کہ وہ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ ہے۔
کو میں پھر لیتا ہوں میں آج کل کے حالات سے اس کا کچھ جوڑ ملانا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی انقلاب کی اس مہم کو ناکام نہیں کر سکتی۔ کون سی تدبیر اس قابل ہوگی کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ کو جھٹلا سکے کہ الدّین یعنی دین کا کامل غلبہ آپ کے حصہ میں مقدر ہے؟ پس جہاں یہ پتہ لگتا ہے کہ دین اسلام کے خلاف شیطان کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی وہاں اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ شیطانی تدبیریں ضرور ہوں گی کیونکہ جہاں شیطان کا اثر ہوتا ہے وہاں شیطانی تدبیر بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قادیان کے محدود ماحول میں تدابیر ہوئیں پھر پنجاب میں ہوئیں پھر سارے ہندوستان میں ہوئیں اور ایک عرصہ تک وہاں ٹھہری رہیں اس کے بعد جب اسلام کا نور ہندوستان کی حدود سے باہر نکلا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے پھیلنا شروع ہوا تو پھر اُن علاقوں میں احمدیت کو ناکام بنانے کے لئے تدبیریں شروع ہو گئیں اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ تو روحانی سلسلہ کے ساتھ چلتا رہتا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظلمات کے بادشاہ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے دن قریب آگئے ہیں اس لئے آج ہمیں باہر سے اسلام کے خلاف صرف ملکی یا علاقائی تدابیر کے متعلق ہی معلومات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ ایسے منصوبوں کے متعلق بھی ہمارے دوست ہمیں علم دیتے رہتے ہیںکہ جو بین الاقوامی منصوبے ہیں۔ کئی ممالک اکٹھے ہو کر سوچتے ہیں کہ کس طرح جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچایا جائے اور اسلام کی جو زبردست اور عظیم مہم غلبہ اسلام کے حصول کے لئے جاری ہوئی ہے اس کوکمزور کیا جائے یا اسے ناکام کیا جائے۔ ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسے بالکل ختم کر دیا جائے لیکن اگر پچھلے ہزاروں سال میں تمہاری تدبیریں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب کیسے کامیاب ہوں گی؟ لیکن ان تدابیر اور ان منصوبوں کی مضرات سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ایمان پر پختگی سے قائم ہو اور عمل صالح کے نتیجہ میں حالات کے لحاظ سے اسے جو قربانیاں دینی چاہئیں وہ دے کر دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے۔
غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے خلاف ایک زبانی اورناکام ہونے والے دعویٰ کا اعلان تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس قسم کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے اور خداتعالیٰ کا فرمان ہے کہ اسلام سارے ادیان پر غالب ہوگا۔ الدین یعنی اس کا غلبہ اور استیلاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مقدر ہو چکا ہے۔ یہ تو ہو کر رہے گا لیکن اس غلبہ کو عملی طور پر دنیا میں قائم کرنے کے لئے جماعت مومنین کو ہزارہا قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں اور ظلم سہنے پڑتے ہیں اور دکھ جھیلنے پڑتے ہیں تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وہ وارث بنتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ ان کی ڈھال بن کر دنیا سے یہ کہتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو۔ جس تدبیر پر عمل کرنا چاہتے ہو کر لو جو منصوبہ بنانا چاہتے ہو بنائو اور اس پر عمل کرکے دیکھ لو لیکن جس طرح پہلے اور نسبتاً چھوٹے انقلابات کو تمہاری تدابیر ناکام نہیں کر سکیں اسی طرح اس سے زیادہ بڑھ کر یہ امکان ہے کہ اس انقلاب عظیم کو تمہاری کوئی تدبیر خواہ وہ بین الاقوامی تدبیر ہی کیوں نہ ہو ناکام نہیں کر سکے گی۔
پس جہاں ہمارے کانوں میں غیر ممالک سے یہ اطلاعات پہنچتی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ملک یا دنیاکی بہت سی جماعتیں یا دنیا کے بہت سے مفادات اکٹھے ہو کر جماعت کے خلاف منصوبہ بنا رہے ہیں اور یہ تیاری کر رہے ہیں کہ جماعت اپنی اس مہم میںناکام ہو جائے وہاں خدا کرے کہ ہمارے کانوں میں ساری دنیا کے احمدیوں کی طرف سے یہ آواز بھی پہنچے کہ خداتعالیٰ کے دین کی حفاظت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود ’’الدّین‘‘ اور غلبہ کو قریب لانے کے لئے جن قربانیوں کی بھی ضرورت پڑے گی وہ ہم دیتے چلے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ وارث بنائے۔ خدا کرے کہ یہ حقیقت ہماری زندگیوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے بھی اور ان ظلمات کے بادشاہوں کی آنکھوں کے سامنے بھی آجائے کہ آخری غلبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدر میں ہے اور ناکامیاں تمہارے حصہ میں ہیں تم کامیاب نہیں ہو سکتے وہی کامیاب ہوگا جس کو کامیاب کرنے کے لئے آدم علیہ السلام سے لے کر مختلف انقلابات کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔
پس دعائوں کے ساتھ اعمال صالحہ کے ساتھ، ایمان پر پختگی کے ساتھ شیطان کے وساوس سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرکے اس آخری غلبہ کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے کوشش کرتے رہو خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور وہ دن جلد آجائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍اکتوبر صفحہ ۳ تا ۷)
ززز

رمضان بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس میں الٰہی برکتوں
کے حصول کے خاص سامان پیدا کئے گئے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورئہ بقرہ کی مندرجہ آیات مع ترجمہ پڑھیں:-


(البقرہ: ۱۸۴تا ۱۸۸)
ترجمہ:- اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اُسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح اُن لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تاکہ تم (روحانی ترقیات کے لئے اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل کرو اور اسی طرح اخلاقی ترقیات کے لئے اس کی برکت سے) اپنے اندر ایک طاقت پیدا کرو (سو تم روزے رکھو) چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو (اُسے) اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی) ہوگی اور اُن لوگوں پر جو اس (یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا(بشرطِ استطاعت) واجب ہے(اس کے ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ اُن لوگوں پر جو فدیہ کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ دینا واجب ہے) اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اُس کے لئے بہتر ہو گا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو (سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے۔
رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس میں(قرآن کریم) بار بار نازل کیا گیا ہے۔(وہ قرآن) جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت (بنا کر بھیجا گیا) ہے(یعنی پہلا الہام الہٰی جس کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں) اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے (ایسے دلائل) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی (قرآن میں) الہٰی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو ( اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) اُسے چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب) ہو گی اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔ (اس لئے تم خود اپنے نفسوں کے لئے تنگی نہ چاہو بلکہ اللہ کی دی ہوئی آسانی سے فائدہ اُٹھاؤ) اور(یہ حکم اُس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑواور) تاکہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس (بات) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تاکہ تم (اس کے) شکر گزار بنو۔
اور (اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو (تُو جواب دے کہ) میں (اُن کے) پاس (ہی) ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔سو چاہئے کہ وہ (دعا کرنے والے بھی) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔
تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے۔ وہ تمہارے لئے ایک(قسم کا) لباس ہیں اور تم اُن کے لئے ایک(قسم کا) لباس ہو اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے۔ اس لئے اُس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری (اس حالت کی) اصلاح کر دی۔ سو اب تم (بلا تامّل) اُن کے پاس جاؤ اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے مقدرکیا ہے اس کی جستجو بھی کرو اور کھاؤ اور پیئو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد (صبح سے) رات تک روزوں کی تکمیل کرو اور جب تم مساجد میں معتکف ہو تو اُن کے (یعنی بیویوں کے) پاس نہ جاؤ۔ یہ اللہ کی (مقررکردہ) حدیں ہیں اس لئے تم اُن کے قریب (بھی) مت جاؤ۔ اللہ اسی طرح لوگوں کے لئے اپنے احکامات بیان کرتا ہے تاکہ وہ (ہلاکتوں سے) بچیں۔
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
اس رکوع میں جو رمضان کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ایک یہ آیت ہے۔

(البقرۃ:۱۸۷)
اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں انسان یا بشر کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ’’عباد‘‘ کو مخاطب کیا ہے اور یہ سارا مضمون اللہ کے’’ عبد‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اس عبد سے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذّاریات کی اس آیت میں بھی کیا ہے۔
(الذٰریٰت: ۵۷)
فرمایا میں نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے جو شخص حقیقتاً میرا عبد بننا چاہتا ہے اور میری صفات کا مظہر بننے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لئے مجاہدہ کرنے کیلئے بھی تیار ہے تو اسے یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ مَیں اس کے بہت قریب ہوں۔
چنانچہ جب ہم عبد کی حقیقت یا عبد بننے کی حالت یا عبد بننے کی اہلیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مادی وجود دیا اور اس کو بروئے کار لانے کیلئے مختلف قویٰ عطا فرمائے۔ مادّی قویٰ اور ان کی پرورش کے لئے بہت کچھ چاہئے تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مادّی قویٰ اور بالواسطہ روحانی قویٰ کی پرورش کے لئے اس کائنات کو بنایا۔ اب کامل قویٰ (مادی لحاظ سے) عطا کرنا، پھراُن کی ساری حکمتوں کو اور سارے پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر اُن کے لئے ضرورت کی ہر چیز کو پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ (ویسے تمثیلاً ہم اپنی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی صفات تو بڑی مختلف ہیں۔ ہمیں سمجھانے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں) پس باریک در باریک طاقتوں اور ان کی نشوونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی اس کو پیدا کرنے کے لئے انتہائی قرب کی ضرورت تھی کیونکہ جو شخص دور ہوتا ہے وہ کسی کی ضرورتوں کو پہچانتا اور سمجھتا ہی نہیں اس لئے وہ مادی قویٰ کی نشوونما کے لئے کچھ پیدا ہی نہیں کر سکتا یا اگر پیدا کر سکتا ہے تو وہ ادھوری چیزیں ہوتی ہیں۔ جس طرح مثلاً انسان کی نشوونما کے لئے جس حد تک اس کی ذمہ داری ہے اس کے متعلق بھی ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ نقص پیدا ہو جاتا ہے یا بھول چوک ہو جاتی ہے۔ ماں اور مامتا کے باوجود اور باپ اپنے پیار کے باوجود تربیت اولاد میں غلطیاں کر جاتا ہے خواہ اولاد کی جسمانی تربیت ہو یا اخلاقی اور روحانی تربیت ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! تمہارے عبد بننے کے لئے جن طاقتوں اور جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی وہ ساری کی ساری تمہیں دے دی گئی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اُن کی کامل نشوونما کے لئے جس قسم کے مادی ذرائع کی ضرورت تھی، وہ بھی پیدا کر دئیے گئے ہیں۔ پس ان طاقتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ان کی نشوونما کے لئے مادی ذرائع کا پیدا کر دینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے مادّی قویٰ اور ان کی تربیت اور نشوونما کے لئے زمین وآسمان پیدا کئے۔ چنانچہ فرمایا:-
(الجاثیۃ:۱۴)
زمین وآسمان میں بے شمار چیزیں ہیں جو انسانی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ پیدائش یعنی انسان کی قوتوں میں استعدادی کمال کا پایا جانااور اُن کی نشوونما کے لئے ہر ضروری چیز کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کے قرب کی دلیل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کے لئے صرف مادّی قویٰ کافی نہیں تھے۔ روحانی صلاحتیوں اور قوتوں کی بھی انسان کو ضرورت تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں۔
پس اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے روحانی قوت اور استعداد کا پیدا کر دینا بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے۔
پھر جہاں تک روحانی قوتوں کا تعلق ہے انسان از خود اُن سے کام نہیں لے سکتا اس لئے روحانی قوتوں کی کمال نشوونما کے لئے ہر آن ہدایتِ باری تعالیٰ کی ضرورت ہے۔
غرض تخلیق کائنات کا یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جس کی طرف پہلی آیت میں اشارۃً ذکر کیا گیا ہے اور پھر وضاحت کے ساتھ اس مضمون کے متعلق قرآن عظیم میں ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے۔ چنانچہ خالی یہی نہیں فرمایا کہ آدم کو ایک ہدایت دے دی اور انسان کو کہا کہ تم اس کے مطابق روحانی ترقیات کرتے چلے جاؤ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت انسان کو اپنی نشوونما کے جس درجہ اور جس مقام پر پہنچنا تھا اور اس کے لئے جس قسم کی آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دے دی گئی۔ پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے انبیاء آئے۔ انسان دُنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتا چلاگیا۔ پس جہاں تک آسمانی ہدایتوں کا تعلق تھا اور زمین کے اندر قوتوں کے پیدا کرنے کا سوال تھا اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر درجے میں مختلف ہدائیتیں نازل کرتا اور قوتیں پیدا کرتا رہا کیونکہ وہ ہر آن اتنا باخبر اور قریب ہے کہ انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کا اُسے علم ہوتا ہے ویسے تو وہ علام الغیوب ہے۔ ہر چیز اس کے علم میں بھی ہے۔ یہ اور چیز ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی توجہ بھی انسان کی طرف رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کے مطابق اس کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا سامان پیدا کیا اور پھر بالآخر قرآن کریم کی شکل میں اُس نے ایک کامل ہدایت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی۔ کیونکہ بعثت نبوی کے وقت انسان اپنے شعور میں اس مقام تک پہنچ چکا تھا اور انسان اس قابل ہو گیا تھاکہ ایک کامل ہدایت اور مکمل شریعت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا سکے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے لوگو! تم دیکھتے نہیں۔ مَیں نے تمہارے لئے رمضان کے مہینے میں ایک ایسی ہدایت نازل کی ہے جوِ ہے جس میں سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کے سامان موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پہلی ہدائیتیں محدود تھیں اور محدود ہونا بھی ایک نقص ہے اس لئے جب ہم پہلی ہدایتوں کو ناقص کہتے ہیں تو اس معنی میں ناقص کہتے ہیں کہ وہ محدود تھیں بوجہ اس کے کہ اس زمانے کی ضرورتیں محدود تھیں اور بوجہ اس کے کہ انسان اپنی مادی اور روحانی نشوونما میں اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا۔ اس لئے فرمایا اس قرآن عظیم کے ذریعہ وہ علم بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا ذکر پہلی ہدایتوں میں نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو ایک کامل ہدایت کی شکل میں نازل ہوا ہے۔ اس کے نزول سے پہلے انسان کے ذہنی، اخلاقی او روحانی قویٰ اس قابل نہیں تھے کہ اُن کی نشوونما کے لئے کامل ہدایت نازل ہوتی۔
اس لئے اگرچہ بعض ہدایات کا انہیں اجمالاً علم دیا جاتا رہا لیکن مکمل علم نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اس کو کماحقہٗ حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے لیکن قرآن عظیم کے زمانے کا انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ کا حامل بن سکے۔ چنانچہ وہ جو پہلی ہدایتوں میں اجمال پایا جاتا تھا قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان کی گویا انسان کو ایک ارفع مقام پر پہنچ جانے کی وجہ سے قرآن کریم کے ذریعہ ہدایت کی نئی اور پُر حکمت باتیں بتائی گئیں یعنی وہ ہدایتیں جو مجملاً پہلوں کو دی گئی تھیں وہ تفصیل کے ساتھ سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان کو بتا دی گئیں۔
پھر قرآن کریم کی تیسری خوبی یہ ہے کہ یہ فرقان ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قریہ قریہ اور ملک ملک خدا کے رسول آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ضرورتوں اور طاقتوں کے لحاظ سے انہیں آسمانی ہدایت عطا فرمائی۔ چنانچہ پہلے زمانہ میں رسولوں کی کثرت جہاں اللہ تعالیٰ کے قرب پر دلالت کرتی ہے۔ وہاں ضرورتوں اور استعدادوں میں اختلاف بھی ظاہر کرتی ہے ہر علاقہ بلکہ بعض دفعہ تو قریب کے دو شہروں کی ضرورت کے اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول مبعوث ہوئے تاکہ خدا کی آواز ہر جگہ پہنچ جائے۔ یہ کام ایک عظیم اور قریب ہستی ہی کر سکتی ہے اور وہی اس کا خیال رکھ سکتی ہے یعنی ہر زمانہ میں ہرعلاقہ کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خداتعالیٰ کا انبیاء کو بھیجنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر اور اس کا علم زمان ومکان کی وسعتوں پر محیط ہے۔
پس پہلے زمانہ میں انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے ملک اور علاقہ کے حالات کے لحاظ سے اور اپنے قویٰ کی نشوونما اور اس کے استحقاق کے لحاظ سے جن چیزوں کو حاصل کیا، اُن میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے رسولوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ اُن کو دی گئی۔ ہندوستان اور چین میں بسنے والوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دی گئی۔ ہر دو قسم کی ہدایت خدا کے رسول لے کر آئے مگر ان دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مذہبی دُنیا میں دوسرا اختلاف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نازل ہوئی۔ اس کے ماننے والے مختلف الخیال ہو گئے ہر ایک گروہ نے اپنے مطلب کا ایک حصہ لے لیا اور اس پر فخر کرنے لگ گئے یعنی ایک ہی نبی کی امت جب بعد میںبگڑی تو اس نے آپس میں اختلاف کیا اور لوگ مختلف گروہوں میں بٹ گئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن کریم تمہارے لئے فرقان بن کر آیا ہے۔ وہ تمام مذہبی اختلافات خواہ پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں یہ اُن کو دور کرنے والا ہے۔ کیونکہ یہ فرقان ہے۔
جیسا کہ مَیںنے بتایا ہے دراصل ’’عبد‘‘ کا لفظ اس آیت کے مفہوم کے سمجھنے کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے جس قسم کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ہدایت دے دی گئی یعنی انسان مختلف مدارج میں سے گزرا ہے اُسے تاریخ کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کی ہدایتوں کی ضرورت تھی وہ اسے دے دی گئیں اور اب اُسے ایک کامل ہدایت خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ اس ہدایت پر چلنے کیلئے، اس کو اپنانے کے لئے اس کی روشنی میں بہ حصہ رسدی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر کامل بننے کے لئے یعنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مظہر صفات باری بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیض کی ضرورت ہے دراصل انسان کا روحانی قویٰ کا مالک بن جانا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر جو قویٰ پیدا کئے ہیں اُن کی کمال نشوونما کے لئے صرف آسمانی ہدایتوں کا نازل ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ انسان اُن سے اس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جب تک خداتعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان دعاؤں کے ذریعہ جذب کر سکتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہیں قوتیں عطا کیں اور روحانی قوتوں کی نشوونما کے لئے آسمانی ہدایت نازل کی تاکہ تم اس قابل ہو جاؤ کہ تم اپنی اپنی استعداد کے مطابق میرے عبد بنو۔ میر اقرب حاصل کرو اور میری صفات کے مظہر بنو لیکن تم محض اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں بن سکتے۔ جب تک میرا (اللہ)کا فضل آسمان سے نازل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کے نتیجہ میں تم پر آسمانی فیوض کی بارش نہ برسے۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا نزول دعا کا متقاضی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (المؤمن:۶۱) تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اس میں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہئے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے دروازے اس پر وا کر دئیے گویا انسان اِدھر پیدا ہوتا ہے اور اُدھر اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کائنات اور انسانی پیدائش سے لے کر انسانی قویٰ زبان حال سے مانگتے اور پاتے رہے ہیں۔ پیدائش عالم تو انسان کی کسی دعا کا نتیجہ نہیں۔ اُس وقت تو انسان کا وجود ہی نہیں تھا۔ یہ تو خداتعالیٰ کی مشیت تھی کہ دُنیا میں ایک ایسا وجود پیدا ہو جو اس کی صفات کا مظہر بنے اس لئے اُس نے اُس کائنات کو پیدا کیا۔ قرآن کریم نے اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس وقت چونکہ اس کا میرے مضمون کے ساتھ تعلق نہیں ہے اس لئے میں نے اس کا مجملاً ذکر کیا ہے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مادی وجود عطا فرمایا ہے اس میں جسمانی،ذہنی اخلاقی اور روحانی قوتیں اور استعدادیں ودیعت کی گئی ہیں۔ ان قویٰ کی نشوونما کے لئے زمین وآسمان کی پیدائش کی ضرورت تھی چنانچہ انسانی قویٰ زبانِ حال سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! تو نے قویٰ عطا کر دئیے۔ ان کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ جب تک تیرا فضل اور رحم شامل حال نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زبانِ حال کی اس دعا کو قبول فرمایا اور اس کائنات کو پیدا کر دیا۔
انسان کو خداتعالیٰ کا عبد بننے کے لئے صرف زمینی کائنات کافی نہیں تھی۔ یہ تو ایک ابتداء تھی انسانی زندگی کی، یہ تو ایک تمہید تھی کارخانہ حیات کی اور یہ تو ایک بنیاد تھی جس پر معاشرتی زندگی قائم کی گئی تھی۔ آگے اس عمارت کی خوبصورت اور پائیداری کے لئے اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انسان کی ان خوابیدہ قوتوں نے زبان حال سے یہ دعا کی کہ اے خدا! قوتیں تو مل گئی ہیں لیکن محض ان قوتوں سے تو وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے تو نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان تیرا حقیقی عبد نہیں بن سکتا جب تک اس کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی بھی نشوونما نہ ہو اس لئے ان کی کمال نشوونما کا سامان بھی ہونا چاہئے۔ تو گویا ان قوتوں کی نشوونما کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی جس کا اظہار دعائیہ رنگ میں زبانِ حال سے ہوا اور جو انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے ساتھ پوری ہوتی رہی۔
جہاں تک زبانِ حال سے دعا کرنے کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ ایک تو جاہل کی دعا ہوتی ہے اور ایک عارف کی دعا ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا بعض دفعہ دہریہ سائنسدان کو شش کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اُن کو کچھ سمجھ نہیں آتی اُن کیلئے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں تب بے چینی اور گھبراہٹ کی وجہ سے ان کی فطرت کسی نامعلوم منبع کو اپیل کرتی اور اس سے دعائیں مانگتی ہے۔ وہ لوگ گو خدا کو تو نہیں پہچانتے لیکن اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ان کی دعا سمجھ لیتا ہے اور بسا اوقات ان پر اپنے فضل نازل کرتا ہے۔ پس یہ بھی زبان حال کی ایک دعا ہے۔ گو یہ ناقص دعا ہے لیکن ہے یہ بھی ایک قسم کی دعا جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں میں ہر ایک قوت کی زبان حال کی دعا پر دلالت کرتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی قوتوں کی نشوونما کے لئے ہر ضروری چیز عطا فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے! تو مجھ سے میرے فضل اور رحمت کی دعا کر میں تجھے اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازوں گا پس گو ہدایت تو مل گئی لیکن صرف ہدایت کا ِمل جانا کافی نہیں ہے۔ ہدایت کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے صفات باری کا عرفان حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس ہدایت پر قائم رہنا یعنی جب تک انجام بخیر نہ ہو جائے اور ناکامی کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے اس وقت تک صراطِ مستقیم پر گامزن رہنا بھی ضروری ہے۔ انجام بخیر کے یہی معنے ہیں کہ اس کے بعد ناکامی کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا۔ پس جب تک خداتعالیٰ کا فضل اور اس کا فیض آسمان سے نازل نہ ہو اُس وقت تک جسمانی اور روحانی قوتوں کے ہونے کے باوجود انسان روحانیت حاصل نہیں کر سکتا اور خدا کا عبد نہیں بن سکتا۔
چنانچہ آپ دیکھ لیں کیا عقلی لحاظ سے اور کیا دُنیوی علوم کے لحاظ سے بعض قومیں بڑی آگے نکل گئی ہیں مگر اس کے باوجود ان کے وجود کا ایک حصہ مفلوج ہے۔ گو اجتماعی رنگ میں انہوں نے بڑی ترقی حاصل کی ہے لیکن انفرادی لحاظ سے فالج زدہ ہیں۔ روحانی لحاظ سے اُن کے اندر نہ جان ہے نہ کوئی حرکت نظر آتی ہے۔ انہیں بڑی حد تک مذہبی اقدار اور اخلاقی قیود کا کوئی احساس ہی نہیں۔ اُن کی حالت اس انسان کے مشابہ ہے جسے بعض دفعہ فالج ہوتا ہے اور اس کا آدھا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کو فالج ہوا وہ بعض باتیں تو بڑے پتے کی کرتا ہے لیکن بعض باتیں بے ہوشی کی حالت میں مجنونانہ قسم کی ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ افراد میں اس قسم کے حالات اس لئے پیدا کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھ آجائے چنانچہ اسی طرح روس اور امریکہ اور بعض دوسرے ممالک بعض باتیں خصوصاً مادی علوم کے متعلق تو بڑی پتے کی کرتے ہیں مگر بعض باتیں انتہائی نامعقول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خدائے حیّ و قیوم کی ہستی کا انکار کر دیتے ہیں پس ایسی صورت میں انسان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دُنیا میں ایسا بھی ہو جایا کرتا ہے جس طرح کسی فرد کو فالج ہوسکتا ہے اور ہو جاتا ہے اور اس طرح بعض دفعہ کسی قوم یا جماعت یا گروہ کو بھی فالج ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے۔
بہرحال یہ تو ایک ضمنی بات تھی میں بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! تم غور نہیں کرتے کہ تمہاری پیدائش کے وقت تمہیں جسمانی قویٰ دئیے گئے۔ اُنہوں نے زبانِ حال سے دعا کی اور اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں ان کی نشوونما کے لئے ہم نے ہر ضروری چیز پیدا کر دی۔ ہم نے انسان کو روحانی قویٰ دئیے۔ روحانی قویٰ کی نشوونما کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی۔چنانچہ ہم نے ہر قوم اور ہر ملک یہاں تک کہ بعض زمانوں میں ہر شہر میں انبیاء بھیج کر لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے روحانی ہدایت کے سامان پیدا کر دئیے کیونکہ خداتعالیٰ اپنے مقصد سے پیار کرتا ۔ اس نے اس دُنیا میں انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کے عبد تو گویا اس کائنات کی پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا عبد اور اس کی صفات کاملہ حسنہ کا مظہر بنے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے بے توجہی نہیں برتی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں کہ انسان خود ان کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر ہمارے پیار کرنے والے رب نے ان کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا۔
غرض تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کا یہی مقصد ہے جس کے پیش نظر اُس نے انسان کو دُنیا میںپیدا کیا۔ اس کی قوتوں کی کمال نشوونما کے لئے زمین وآسمان پیدا کئے۔ آسمان سے ہدایت نازل فرمائی۔ زبان حال کی دعائیں قبول ہوئیں اور اس رنگ میں پوری ہوئیں کہ انسانی زندگی کے ہر زمانے اور ہر مرحلہ پر یہ بات واضح اور عیاں ہو گئی کہ یہ قرآن کریم ہی جو انسان کو دینی اور دُنیوی ہر دو اعتبار سے صحیح اور حقیقی راہِ عمل دکھاتا ہے۔
غرض یہ کہ جب انسان کو روحانی قویٰ بھی مل گئے اور ایک کامل آسمانی ہدایت بھی مل گئی تو اُسے اپنی زبان سے یہ دعا بھی کرنی پڑے گی کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم بھی عطا فرما اور اس پر چلنے کی توفیق بھی بخش ہمیں اپنی صفات کا عرفان بھی عطا فرما اور ہمارے لئے الٰہی صفات کا مظہر بننے کے سامان بھی پیدا کر۔ ایسی دعا اور التجا ایک ایسی ہستی ہی سے کی جا سکتی ہے جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ قریب اور مجیب الدعوات ہے۔ چنانچہ یہ بزرگ و برتر ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جس نے قرآن کریم میں فرمایا:-

جیسا کہ مَیں پہلے بتا چکا ہوں لفظ عبد قابل ذکر ہے چنانچہ انسان کی پچھلی تاریخ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے اور وہی تاریخ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان اور انسانی فطرت کے مطابق بھی اور پھر عقلاً بھی یہ بتاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے دُعا کی ضرورت ہے۔
پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ تم دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرو اور جس قرب کے نظارے زبان حال کی دعاؤں کے ذریعہ انسان نے مشاہدہ کئے اور محسوس کئے اس قرب الہٰی کے نظارے عقل کی اور بینائی کی اور فراست کی اور روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ تمہیں آسمانی برکتوں سے نوازے گا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مشروط ہے۔ اس نے یہ شرط لگائی ہے کہ کوشش کرو، عمل صالح بجا لاؤ، مجاہدہ کرو، میری قرب کی راہوں کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی زور لگاؤ تو پھر آسمانی برکتیں ملیں گی۔ خدا کرے کہ تمہیں اس کی توفیق عطا ہو۔
ہمارا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جب یہ دونوں چیزیں یعنی تدبیر اور دُعا اکٹھی ہو جاتی ہیں تو آسمان اپنے فیض کے سارے دروازے کھول دیتا ہے اور فضلوں کی موسلادھار بارش شروع ہو جاتی ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو آسمانی فیض اور فضل باری کا مورد بنتا ہے۔
یہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ یہ مہینہ اور بھی کئی لحاظ سے بڑی برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس میں الٰہی برکتوں کے حصول کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اس لئے ہم سب کا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے اس ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ کوشش کریں خدا کرے کہ آپ بھی اور یہ خاکسار بھی اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ پیار حاصل کرنے کی توفیق پائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۳ تا ۷)
تحریک جدید کے انتالیسویں،انتیسویں
اور آٹھویں سال کا اعلان
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍نومبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
جس وقت یہ مسجد تعمیر ہو رہی تھی اس وقت منتظمین مجھے یہ رپورٹ دیا کرتے تھے کہ یہ مسجد اور اس کا مسقف حصہ مسجد مبارک سے اتنے گنا بڑا ہے کہ اس کا صرف مسقف حصہ ہی نمازیوں کے لئے کافی ہوگا مگر آج ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ اس کا مسقف حصہ بھی تنگ ہو گیا ہے بلکہ باہر صحن میں جو شامیانوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے وہ بھی نمازیوں کے لئے کافی نہیں ہے۔ اسی طرح ہماری بہنوں کے لئے اوپر کی گیلری میں جگہ بہت تنگ ہو گئی ہے۔ اسی تنگی کو دور کرنے کے لئے اگرچہ سامنے برآمدے میں قناتیں لگا کر مستورات کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا گیا ہے لیکن یہ بھی ان کے لئے کافی نہیں ہے۔ میں نے ابھی دیکھا تھا کہ کئی عورتیں مسجد کے باہر بیٹھی ہوئی ہیں۔ گو رمضان میں مستورات کی حاضری بھی نسبتاً زیادہ ہے لیکن عام جمعہ کے دنوں میں بھی ان کے لئے جگہ تھوڑی ہوتی ہے۔ اس لئے آئندہ سے ہماری بہنوں کے بیٹھنے کے لئے صحن میں شامیانے کے نیچے بھی قنات لگا کر جگہ مخصوص ہونی چاہئے تاکہ مستورات کو تکلیف نہ ہو۔ بہرحال ہم اپنی حدبست کے اندر رہتے ہوئے اپنے منصوبے بناتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو وہ ذات ہے جس کی حد بست نہیں کی جاسکتی۔ وہ اپنی قدرتوں اور رحمتوں کے نتیجہ میں اس سے بہت زیادہ دے دیتا ہے جس کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ اس لئے شکر کرنے اور الحمدللہ پڑھنے کا مقام ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
آج کا یہ جمعہ اس سال کے رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ ہے اور اس آخری جمعہ کے متعلق جہاں بہت سی بدعات امت مسلمہ میں پیدا ہو گئی ہیں وہاں بہت سے لوگوں نے اس سے نہایت اچھے اسباق بھی سیکھے ہیں۔ جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے ہم میں سے ہر ایک دوست کو ہر وقت چوکس رہنا چاہئے کہ اس قسم کی کوئی بدعت کسی چور دروازے سے جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے پائے۔
ابھی جب میں یہاں پہنچا تو ربوہ کے ایک فوٹوگرافر صاحب کھڑے تھے۔ مَیں نے پوچھا آپ یہاں کیسے آگئے ہیں۔ کہنے لگے آپ کی تصویریں لینی ہیں۔ میں نے کہا رمضان کے پہلے ہفتوں میں مَیں نے آپ کو یہاں نہیں دیکھا۔ مَیں سمجھتا ہوں اُن کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ وہ اس موقع پر تصویریں کھینچیں گے اور بعد میں جو لوگ نئے نئے احمدی ہوتے ہیں اور پرانے خیالات لے کر آتے ہیں یا کئی بچے ہیں جوبڑے ہوتے ہیں یا بعض بچے ہیں جن کو ابھی شعور نہیں آیا ہوتا اُن کو کہیں گے دیکھو! یہ جمعۃ الوداع کی تصویر ہے۔ اِس لئے مَیں نے اُن کو تصویریں اُتارنے سے روک دیا۔ گو ہے تو یہ ایک چھوٹی سی بات لیکن اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے اندر سوئی کے ناکے جتنا رخنہ بھی پیدا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ بدعات کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم خداتعالیٰ کی ایک چیدہ جماعت ہیں۔ ہمیں اِس قسم کی بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سادگی اورعاجزی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گذارنے چاہئیں۔
پس یہ تو ایک حقیقت ہے کہ رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے مگر اسے جمعۃ الوداع کہہ کر اس کے گرد بہت ساری غلط باتیں لپیٹ دینا اسلام کی اصل روح کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اس لئے بدعات سے قطع نظر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ جمعہ رمضان کو الوداع کہتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد رمضان کا اور کوئی جمعہ نہیں۔ جمعہ خود تو نہیںبولتا۔ جمعہ کے دن تو خطبہ ہوتا ہے پس جمعہ کا رمضان کو الوداع کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ امام اور خطیب کو ماہِ رمضان میں اجتماعی نصیحت اور وعظ کرنے کا یہ ایک آخری موقع ہے۔ پہلے ایک جمعہ آیا پھر دوسرا پھر تیسرا جمعہ آیا اور اب یہ جمعہ آخری جمعہ ہے اس کے بعد رمضان کے باقی دنوں میں امام جماعت یا خطیبوں کے لئے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے اور حکمت اور روحانیت کا درس دینے کا موقع نہیں پیدا ہوگا۔
اس رمضان میں جو چیز نمایاں طور پر میرے مشاہدہ میں آئی ہے وہ بڑی خوشکن ہے۔ گو میں باقاعدگی سے ریڈیو تو نہیں سنتا لیکن کبھی تقریروں وغیرہ کا پروگرام ہو تو سن لیتا ہوں۔ اِس دفعہ رمضان کے متعلق جو تقریریں یا درسِ قرآن کریم ریڈیو کے ذریعہ نشر ہوتے رہے ہیں اُن میں سے چند ایک میں نے بھی سنے ہیں۔ میں نے بتایا ہے کہ میں کبھی کبھی ریڈیو سنتا ہوں۔ چنانچہ ایک دن رات کے وقت جب مَیں نے ریڈیو سنا تو ایک مولوی صاحب پچیسویں سیپارہ کا درس دے رہے تھے۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہر شام کو کسی معینہ وقت پر یہ درس بھی ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد چند مرتبہ اُن کا درس میں نے اس غرض کے لئے سنا کہ وہ اپنے درس میں کیا بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ ان درسوں اور تقریروں وغیرہ میں یا جو مضامین اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں ان میں زیادہ تر اسلام کے متعلق جو صحیح خیالات ہیں یعنی جماعت احمدیہ کے جو خیالات ہیں ان سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم کی اصلاح کے لئے کثرت سے فرشتے نازل کر رہا ہے اور ہماری دعائیں جو ہم رمضان میں غلبۂ اسلام کے لئے کرتے چلے آئے ہیں اور کر رہے ہیں ان کی قبولیت کے آثار نمایاں طور پر پیدا ہو رہے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
رمضان کا جمعہ کے ساتھ ایک بڑا ہی گہرا تعلق ہے قبولیتِ دعا کا جو حبل اور رسہ ہے اس نے جمعہ اور رمضان کو ایک ساتھ باندھ دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں رمضان کے متعلق بہت سے احکام بیان ہوئے ہیں انہی احکام کے ضمن میں اللہ تعالیٰ اس آیۂ کریمہ میں جس کی میں نے شروع میں تلاوت کی ہے فرماتا ہے جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (اس آیۂ کریمہ کے ایک پہلو کے متعلق میں پچھلے خطبہ میں بھی بیان کر چکا ہوں) تو ان سے کہو۔ مَیں قریب ہوں۔ اور میرے قرب کی دلیل یہ ہے کہ مجھ سے دعا کرو گے مَیں قبول کر لوں گا۔ اب مثلاً ہم نماز میں جو دعائیں کرتے ہیں تو ہمارے ساتھ کھڑا ہوا آدمی بھی نہیں سن رہا ہوتا مگر خداتعالیٰ سن رہا ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو نمازی ہمارے دائیں بائیں کھڑے ہیں خداتعالیٰ اُن سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ہمارے دائیں بائیں کھڑے ہونے والے نمازیوں کو جو آواز نہیں پہنچتی وہ اللہ تعالیٰ کو پہنچ جاتی ہے۔ ویسے تو یہ ایک گہرا مضمون ہے لیکن بچوں کو سمجھانے کے لئے ایک عام اور سیدھے سادے آدمی کو ذہن نشین کرانے کے لئے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ دائیں طرف کھڑے ہوئے نمازی تک آواز نہیںپہنچی۔ بائیں طرف کھڑے ہوئے نمازی تک آواز نہیں پہنچی۔ مگر اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئی۔ اس سے ایک بچہ بھی یہی نتیجہ نکالے گا کہ دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہونے والے نمازیوں کی نسبت اللہ تعالیٰ زیادہ قریب ہے یہاں تک کہ قرآن کریم کی ایک اور آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ انسان اپنے نفس اَور اپنی روح سے اتنا قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں مختلف زاویوں اور مختلف حالتوں میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی انسان کے دل کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی انسان کے اپنے گناہوں کے نتیجہ میں خداتعالیٰ بطور سزا کے جہنم اور عذاب کی طرف اس کا زاویہ کر دیتا ہے۔ کبھی انسان کی نیکی اُسے مزید نیکیوں کی توفیق بخشتی ہے اور کبھی انسان کی بدیاں اسے مزید بدیوں کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی ہیں۔ تاہم یہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ نہیںہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہو اور شیطان کے عمل دخل سے کسی چیز کی کوئی اَور شکل بن جائے گی یہ باریک مسئلے ہیں لیکن ضرورت کے مطابق خطبات میں عمیق اور گہرے مضامین کو بھی بہت سادہ الفاظ میں اس لئے بیان کرنا پڑتا ہے کہ سننے والوں میں بعض بچے ہوتے ہیں کچھ لوگ اَن پڑھ بھی ہوتے ہیں اور پھر مستورات بھی ہوتی ہیں ان کو بھی سمجھ آجائے بلکہ میں تو یہ کہوں گا بعض پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ خطبے سے پورا استفادہ نہیںکرتے۔ بعض پوری توجہ سے خطبہ کو سنتے ہیں بعض نصف توجہ سے خطبہ کو سنتے ہیں۔ بعض لوگوں کو خطبہ کے دوران کوئی خیال آجاتا ہے اور ان کی توجہ بٹ جاتی ہے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوست دور بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ نیم تربیت کی وجہ سے چند لمحوں کے لئے آپس میں باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ یا ویسے ہی ان کے دماغ میں خیالات آجاتے ہیں اور خطبہ کی طرف اُن کی کماحقہ‘ توجہ قائم نہیں رہتی۔اس لئے خطبہ کے دوران خیالات سے بچنے اور توجہ کو قائم رکھنے کے لئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ غرضیکہ مختلف لوگوں کی توجہ کے مختلف معیار ہوتے ہیں۔
بہرحال ہم یہ مثال دے سکتے ہیں کہ دیکھو پاس کھڑے ہوئے نمازی سے خداتعالیٰ زیادہ قریب ہے اور وہ واقعی بہت ہی قریب ہے کیونکہ وہ انسان کی دعائوں کو سنتا ہے اور انہیں شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ خداتعالیٰ نے قبولیتِ دعا کو اپنے وجود کی دلیل قرار دیا ہے۔ اس نے قبولیت دعا کو اپنی ذات و صفات کی معرفت کا ذریعہ ٹھہرایا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی قدرتوں والا ہے وہ دعا کے نتیجہ میں بسا اوقات اَن ہونی بات کو ہونی کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ انسان کی اس آواز کو بھی جانتا ہے جس نے ابھی الفاظ کا جامہ نہیں پہنا ہوتا کیونکہ اس کا علم انسان کے مخفی اندرونہ اور باطنی آرزوئوں پر بھی محیط ہے۔ ہمارا سر خدائے قادر و توانا کے سامنے جھک جاتا ہے کہ ادھر دل میں دعائیہ خیال آتا ہے اور اُدھر وہ دعا قبول بھی ہو جاتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے۔ میں نے اس کی قدرتوں کا بارہاتجربہ کیا ہے۔ میں اس کی کئی مثالیں پہلے بیان کر چکا ہوں بہت ساری ایسی بھی ہیں جن کے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہرحال خداتعالیٰ کی ذات و صفات کی ایک دلیل قبولیت دعا دی گئی ہے اور یہ ایک بڑی زبردست دلیل ہے۔ بڑی زبردست ہے اس لحاظ سے بھی کہ ساری دنیا کے فلاسفر اس کے مقابلہ میں کوئی دلیل نہیں لا سکتے جو اس کو توڑ سکے۔
پس رمضان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اس مہینے میں مختلف عبادتوں کے لئے ایسے حالات پیداکئے ہیں کہ جن کی بناء پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
اسی طرح جمعہ کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ ایک ایسا مبارک دن ہے کہ اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ انسان کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور آپ کا بالکل یہی ارشاد رمضان میں قبولیت دعا کے متعلق بھی ہے۔
پس قبولیت دعا کے لحاظ سے ماہ رمضان اور یوم جمعہ ایک دوسرے سے بہت ملتے ہیں۔ چنانچہ آج رمضان بھی ہے اور جمعہ کا دن بھی ہے۔ اس سے ہمیں ایک سبق بھی ملتا ہے اور وہ یہ کہ ایک عظیم چیلنج جو ہمیں دیا گیا ہے اور ایک عظیم مطالبہ جو ہم سے کیا گیا ہے ہم اسے صرف پورا ہی نہ کریں بلکہ پہلے سے اسے بڑھ کر پورا کریں۔ گویا ہر جمعہ زبان حال سے یہ کہتا اور چیلنج دیتا ہے کہ مجھ سے بھی بڑھ کر جمعہ (اور اس کی برکات) لائو۔ اور اس کے لئے میں تمہیں چھ دن تیاری کے دیتا ہوں۔ پھر مجھ سے آکر ملنا اور اللہ تعالیٰ کے فیوض اور برکات کے حصول کے لئے کوشش کرنا۔ قبولیت دعا کی ایک گھڑی تمہارے لئے مقدر تھی۔ کسی نے اس سے فائدہ اٹھایا کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس وقت یہ سوال نہیں مگر اس سے اس حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ تمہارے لئے ایک ایسی گھڑی مقدر ہے جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہر جمعہ بزبان حال یہ کہتا ہے کہ اب میں جارہا ہوں چھ دن کا تمہیں وقت دیتا ہوں۔ اس عرصہ میں اَور زیادہ مجاہدہ کرو، ایثار دکھائو، قربانیاں دو، خدا کے قرب کی مزید راہیں تلاش کرو۔ اس کا پیار حاصل کرو۔ ساتویں دن میں پھر تمہارے پاس آئوں گا تمہیں چاہئے کہ پہلے سے بڑھ کر اخلاص دکھائو۔
پس یہ ایک چیلنج ہے اور اس کو سمجھانے کے لئے خصوصاً بچوں کے ذہن نشین کرانے کے لئے میں نے یہ مثال دی ہے درحقیقت یہ ایک مطالبہ ہے جو ہر جمعہ ہم سے کرتا ہے اس اعتبار سے ماہ رمضان کا یہ آخری جمعہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک پاک اور صاف ہو جائے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ برکتوں اور رحمتوں سے معمور یہ ماہ مبارک آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے فضل کے سامان پیدا کئے۔ بہت سی عبادتیں اکٹھی کر دی گئیں۔ ماحول کو بدل دیا گیا۔ دوست جانتے ہیں کہ ماہ رمضان کا ماحول دوسرے گیارہ مہینوں کے ماحول سے بڑا مختلف ہے۔ مثلاً لاہور کے بعض معتکفینبھی اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں دوسرے دنوں میں شاید دو دو مہینوں کے بعد اور وہ بھی ایک آدھ دن کے لئے ربوہ آتے ہیں لیکن ماہ رمضان انہیں یہاں کھینچ لایا اور اب وہ کئی دن سے ربوہ میں مقیم ہیں۔ پس رمضان کی وجہ سے ماحول بدل جاتا ہے اس مہینے میں قبولیت دعا کے مواقع بکثرت میسر آتے ہیں۔ اب جس جمعہ کوہم جمعہ کے لحاظ سے رمضان کو الوداع کہتے ہیں وہ جمعہ ہمیں یہ چیلنج کرتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کی حیثیت سے میں جا رہا ہوں۔ آئندہ سال میں پھر اسی حیثیت سے تمہارے پاس آئوں گا اور دیکھوں گا کہ پہلے سے بڑھ کر برکات کے حصول کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ گیارہ مہینے چوری کرتے رہو ڈاکے ڈالتے رہو قتل کرتے رہو۔ لڑکیوں کو اٹھواتے رہو۔ تجارت میں دھوکہ بازی کرتے رہو، لوگوں کے مال دباتے اور ان کے حقوق کو پامال کرتے رہو اور پھر رمضان کی عبادتیں کرو یا بعض کے نزدیک وہ بھی نہ کرو۔ پس جمعۃ الوداع میں آجائو اور سارے گناہ معاف کروالو۔ یہ تو خداتعالیٰ سے تمسخر اورمذہب کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ اسلام نے تو ہمیں یہ نہیں سکھایا اسلام نے تو ہمیں یہ کہا ہے کہ مجاہدہ کرو، جہاد کرو، کوشش کرو محنت کو اپنی انتہا تک پہنچائو، اپنی قوت کارکردگی کوبذریعہ احسان بڑھائو اور اپنے اندر زیادہ محنت کرنے کی اہلیت اور طاقت پیدا کرو۔ یہ وہ سبق ہے جو آخری جمعہ ہمیں دیتا ہے۔ اور یہ وہ محنت کا تصور ہے جس کے نتیجہ میں انسان احسان فی العمل کے ذریعہ اپنے اندر اہلیت اور قوت پیدا کرتا ہے۔ احسان فی العمل کے متعلق مَیں ایک گذشتہ خطبہ میں مَیں مختصراً بیان کر چکا ہوں جو الفضل میں شائع بھی ہو چکا ہے۔
غرض تمثیلی زبان میں رمضان کا آخری جمعہ ہم سے یہ کہتا ہے کہ دیکھو میں پھر اگلے سال آئوں گا اور دیکھوں گا کہ تم روحانی لحاظ سے کتنے کامیاب ہوئے ہو۔ رمضان قبولیت دعا کا مہینہ اور پھر جمعہ قبولیت دعا کی ساعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے آتا ہے جو ہمارے لئے روحانی ترقیوں کا اور برکتوں کے حصول کے سامان پیدا کرتا ہے لیکن برکتیں حاصل کرنا ہمارا کام ہے البتہ برکتوںکے حصول کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک دکان پر اچھے سے اچھے کپڑے پڑے ہوئے ہیں وہ تمہیں بہت پسند بھی ہیں لیکن اس دکاندار نے یا کارخانہ والوں نے یا اس حکومت نے جس کے انتظام میں وہ کارخانہ چل رہا ہے، انہوں نے تمہیں وہ کپڑے مہیا نہیں کرنے البتہ کپڑوں کے حصول کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ کپڑے تیار کر دیئے ہیں جنہیں تم اپنی محنت سے حاصل کر سکتے ہو کوئی کہے گا محنت سے کیسے حاصل ہو سکتے ہیں۔ مَیں کہوں گا محنت سے پیسے کمائو اور ان پیسوں سے کپڑے خریدو۔
پس جس طرح کسی دکان میں تمہاری پسند کے کپڑوں کا پایا جانا یہ نہیں بتاتا کہ وہ کپڑا تمہیں مل بھی گیا ہے بلکہ کپڑا حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اسی طرح ماہ رمضان کے روزے رکھ لینا یا آخری جمعہ پڑھ لینا یہ نہیں بتاتا کہ تمہیں رضائے الٰہی حاصل ہو گئی بلکہ ماہ رمضان رضائے الٰہی کے حصول کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ رمضان میں روحانی دکان سجا دیتا ہے اور فرماتا ہے دیکھو! میری یہ برکت ہے اور میری وہ رحمت ہے جو تمہیں روزے کے نتیجے میں ملے گی۔ نوافل پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے پھر اس ماہِ مبارک میں باجماعت نمازوں میں زیاہ تعہّداور التزام کے ساتھ جانا تلاوت قرآن کریم کرنا عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا اپنے بھائیوں کی خبرگیری کرنا، مالی لحاظ سے ان کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ بیسیوں ثواب کے کام ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوتے ہیں۔
غرض خداتعالیٰ نے ثواب حاصل کرنے کے لئے روحانی دکان سجا دی۔ یہ نہیں فرمایا کہ ثواب تمہیں دے دیا گیا بلکہ فرمایا ماہ رمضان میں وہ دکان سج گئی۔ اب تم تلاوت قرآن کریم، فہم قرآن کریم اور قرآن کریم کے مضمون پر فکر اور تدبر کرنے کے نتیجہ میں اصلاح نفس، تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلب کے ذریعہ اس دکان سے مال خرید سکتے ہو۔ روحانی مال پڑا ہوا ہے۔ تم تلاوتِ قرآن کریم کرو، قرآن کریم پر غور و فکر کرو اس سے علوم سیکھو، محنت کرو اور اپنی محنت سے روحانی چیزیں خرید لو۔ اسی واسطے قرآن کریم نے اس مفہوم میں بھی ان چیزوں کو تجارت کہہ کر پکارا ہے۔ چنانچہ فرمایا کون ہے جو اللہ تعالیٰ سے تجارت کرتا ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک نیتی سے تجارت کرتے ہیں وہ گھاٹے میں نہیں رہتے۔ قرآن کریم کہتا ہے اپنے بھائی کی خبرگیری کرکے اللہ کی رضا حاصل کرو یعنی اپنی طرف سے پوری کوشش کرو کہ کوئی آدمی بھوکا نہ رہے۔ کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اس کی تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا اور سخاوت بھی کرنی چاہئے۔ یعنی اس کے لئے دوائیوں کا انتظام کرنا وغیرہ ہزاروںنیکیاں ہیں جن کے کرنے سے خداتعالیٰ کی رحمتیں مل سکتی ہیں اور وہ ساری رمضان کی دکان میں موجود ہیں۔ لیکن سخاوت کرو گے تو خدا کی رحمت ملے گی۔ غرض تم نے اپنی محنت سے اپنے مجاہدہ کے ذریعے اور عاجزانہ دعائوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرکے روحانی برکات کو حاصل کرنا ہے۔ یہ بھی اسی طرح کی ایک دکان ہے جس طرح مثلاً انگلستان میں ہر ہفتہ منڈیاں لگتی ہیں۔ یہاں بھی بعض جگہ میلے لگتے ہیں۔ گویا ہر ہفتہ جمعہ کے دن ایک روحانی میلہ لگتا ہے اور جمعہ کی برکتوں کے حصول کے لئے جو چیز تمہاری جیب میں ہونی چاہئے وہ روحانی طور پر تمہاری مقبول محنت ہے جس کے نتیجہ میں وہ گھڑی ملتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے اور خدا کا فضل نازل ہوتا ہے۔ انسان کی خالی محنت تو کافی نہیں جب تک اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہ ہو۔ پس یہ محنت اور انتہائی محنت یعنی تدبیر اور دعا کو انتہا تک پہنچانے ہی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔ جب انسان کی محنت قبول ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اے میرے بندہ! جا اور اس روحانی دکان سے حسب پسند چیزیں خرید لے پس بڑا خوبصورت ہے وہ مال جو روحانی دکان سے ملتا ہے اور بڑی لذت اور سرور ہے اس کھانے میں جو روحانی طور پر ملتا ہے اور بڑا نرم اور آرام پہنچانے والا ہے وہ کپڑا جو ہمیں روحانی طور پر میسر ہے اس دنیا کی چیزیں توبڑی کھردری اور چبھنے والی ہوتی ہیں۔ لیکن روحانی نعمتیں تو اس قسم کی نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے ساتھ امتحان نہیں ہوتا۔ ویسے کبھی کبھی کھدر کے کھردرے کپڑے بھی پہننے پڑتے ہیں جب ہمیں ۱۹۵۳ء میں ظالمانہ طریق پر پکڑ کر لے گئے تھے تو ہمارے پہننے کے لئے کھدر کے موٹے موٹے کپڑے لے آئے کہ تمہیں سی کلاس دینی ہے دل میں سوچا کہ خدا کے لئے یہ کھدر کیا کانٹوں کے کپڑے دیں تو وہ بھی پہن لیں گے مگر لطف یہ کہ پتہ نہیںوہ کپڑے کس سے اور کہاں سے لائے گئے تھے۔ چنانچہ جب ہم نے وہ کپڑے پہنے تو زور سے سانس لینے پر ان کے دھاگے ٹوٹ گئے اور سلائی کھل گئی یوں لگتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی گڑیوں کو پہنانے والے کپڑے ہیں ہم نے کہا ہم راضی برضائے الٰہی ہیں۔
غرض مَیں اس وقت صرف یہ بات بتا رہا ہوں کہ دنیا کے جو کپڑے ہیں ٹھیک ہے ان میں سے بعض خوبصورت بھی ہیں لیکن بعض دکھ بھی ان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ گو ملک کی اکثریت کھدر کے کپڑے پہنتی ہے لیکن بعض لوگوں کے ہاں نائیلون کے کپڑے پہننے کا فیشن ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں تو کھردرا پن نہیں ہوتا۔ کھردرا پن تو بے شک نہیں ہوتا مگر کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ نائیلون پہنیںتو ان کو الرجی ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا نائیلون پہننے سے پسینہ بند ہو جاتا ہے بعض کو پسینہ زیادہ آنے لگ جاتا ہے۔ بظاہر یہ کپڑا بڑا خوبصورت لگتا ہے مگر پتہ نہیں لوگوں نے کس گند کو اکٹھا کرکے اور کون سا فارمولا لگا کر نائیلون کا کپڑا بنا دیاجودیکھنے میں بڑا خوبصورت مگر پہننے کے لحاظ سے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ میں خود بھی یہ کپڑا نہیں پہن سکتا۔ کچھ تو اس سے مجھے طبعاً گھن آتی ہے اور کچھ اس سے مجھے تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے مجھے تو گرمیوں میں سوتی کپڑے کی تلاش رہتی ہے اب تو اچکن سلوانے کے لئے سوتی کپڑا آسانی سے نہیں ملتا۔ اس کے لئے بھی بڑی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ پس اس قسم کی جو مثالیں ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ دنیوی نعمتوں کے ساتھ بعض دکھ پہنچانے والے حصے بھی لگے ہوتے ہیں۔ لیکن روحانی نعمتوں کے ساتھ دکھ اور تکلیف نہیںہوتی۔
غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے جمعہ اور رمضان کا (یہ مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے ابھی میں نے ایک اور بات کہنی ہے) آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور وہ یہی قبولیت دعا کا تعلق ہے۔ رمضان کا جمعہ بالخصوص یہ آخری جمعہ ہمیں یہ چیلنج دیتا ہے اور کہتا ہے اگلے سال میں پھر آئوں گا تو دیکھوں گا تم نے روحانی طور پر ترقی کی ہے یا نہیں۔ پس رمضان کا مہینہ تو اب گزرا چاہتا ہے اس میں قبولیت دعا کی جو دکان کھلی تھی یہ ہر جمعہ کو کھلتی رہے گی جس میں روحانی اجر اور ثواب، اللہ کے فضل اور اس کی رحمتیں، قسما قسم کی برکتیں اور نعمتیں میسر آئیں گی۔ مگر ہر انسان اپنے اپنے اعمال اور مجاہدہ کے مطابق انہیں حاصل اور روحانی حسن کو دوبالا کر سکے گا۔ غرض رمضان میںاور پھر ہر جمعہ کے دن روحانی بھوک کی سیری کا انتظام کیا گیا ہے۔
ایک چیلنج جو مجھے اور آپ کو رمضان اور رمضان کا یہ آخری جمعہ دیتا ہے وہ اس دفعہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ ہم ہر سال یکم نومبر سے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہیں۔ چنانچہ اب اس جمعہ نے ہمیں یہ چیلنج دیا کہ پچھلے سال سے آگے بڑھ کر دکھائو یعنی یہ جمعۃ المبارک ہمیں یہ کہہ کر جا رہا ہے کہ میں اگلے سال آئوں گا اور دیکھوں گا کہ خداتعالیٰ نے تمہارے لئے برکتوں اور نعمتوں کے جو سامان پہلے سے زیادہ مہیا کئے تھے ان میں سے تم نے کتنا حصہ پایا۔
اس چیلنج پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا اترنے کی توقع کے ساتھ میں آج تحریک جدید کے ۳۹ ویں اور ۲۹ویں اور ۸ویں سال کا اعلان کرتا ہوں۔ تحریک جدید کے تین دفتر ہیں۔ یکم نومبر سے دفتر اول کا ۳۹ واں، دفتر دوم کا ۲۹ واں اور دفتر سوم کا ۸ واں سال شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے۔
چار سال ہوئے میں نے اُس وقت کے حالات کے مطابق اور گزشتہ سالوں میں تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ لے کر جماعت کے سامنے ایک ٹارگٹ رکھا تھا اور وہ یہ تھا کہ اندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہئے ویسے تو تحریک جدید کا مجموعی بجٹ یعنی تحریک جدید کی ساری دنیا کی آمد جب اکٹھی کی جائے تو وہ کم و بیش پچاس لاکھ روپے بنتی ہے۔ جس میں آپ کا یعنی پاکستان کی جماعتوں کا چندہ اس وقت بہت کم ہے اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو سکا تاہم اس کی چند وجوہ ہیں۔ گزشتہ چار سال میں ملک میں جو حالات گزرے ہیں جب ان کا جائزہ لیتاہوں تو میں اپنے دل کو حمد کے جذبات سے معمور پاتا ہوں آپ کے خلاف میرے دل میں غصہ نہیں پیدا ہوتا۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے چونتیسویں سال یعنی ۶۸۔۱۹۶۷ء میں دفتر دوم اور سوم کو بھی ملا کر اندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھا۔ اور اس سے اگلے سال یعنی ۶۹۔۱۹۶۸ء میں چھ لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گیا یعنی اسّی ہزار روپے کا اضافہ ہوا اور یہ بڑا خوشکن اضافہ تھا پھر اس سے اگلے سال یعنی ۷۰۔۱۹۶۹ء میں یہ چندہ چھ لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا مگر اس سے اگلے سال یعنی ۷۱۔۱۹۷۰ء میں یہ رقم چھ لاکھ پینسٹھ ہزارسے گر کر چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے پر آگئی۔ کیونکہ ملک میں ہنگاموں کی وجہ سے بڑا شور مچ گیا۔ جلوس اور سٹرائیکس گھرائو اور جلائو کی ایک جنونی کیفیت تھی جو قوم پر طاری ہو گئی لیکن اتنے بڑے ہنگاموں اور اس قدر جنونی کیفیت کے باوجود تحریک جدید کے چندوں میں صرف ستائیس ہزار روپے کی کمی واقع ہوئی۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ ملکی حالات تو بڑے دگرگوں تھے۔ چنانچہ ملک میں سٹرائیکس وغیرہ کا سلسلہ ایک حد تک اب بھی جاری ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملکی سٹرائیکس کا تحریک جدید کے چندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس کا تعلق ہمارے تاجروں کے ساتھ ہے اور اس کا تعلق ہمارے دوستوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میںملازم ہیں اور اس کا تعلق ان چیزوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میں بنتی ہیں یا نہیں بنتیں۔ ہڑتالوں کی وجہ سے جب پیداور کم ہوگی تو ملک کی آمد بھی مجموعی طور پر کم ہو جائے گی۔ پیداوار اور آمد ایک ہی چیز کی دو شکلیں اور دو زاویئے ہیں۔ ہم ایک کو پیداوار اور دوسرے کو آمد کہہ دیتے ہیں۔
بہرحال ہنگاموں اور ہڑتالوں کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے وہاں تحریک جدید اور جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی اثر پڑتا ہے مگر ان غیر تسلی بخش حالات کے باوجود تحریک جدید کے پچھلے سال یعنی ۷۲۔۱۹۷۱ء میں چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے کی آمد ہوئی حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کا چندہ شامل نہیں ہے۔ گو ہماری دعائیں ہیں کہ خدا کرے ملک کے دونوں حصے پھر سے ایک ہو جائیں لیکن بظاہر حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ تحریک جدید کا جو چندہ مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا وہ نہیں آسکا اور نہ آسکتا تھا۔ ویسے ہم امید رکھتے ہیں اور غیر ممالک مثلاً انگلستان سے مختلف ذرائع سے ہمیں خبریں بھی مل رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کی جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے ان ہنگاموں اور وحشتوں کے باوجود مالی قربانیاں بھی دے رہی ہے وہاں نئی سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں۔ نئے احمدی بھی ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کی خوشکن خبریں جب انگلستان یا دوسرے ممالک میں پہنچتی ہیں تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ وہاں کے دوست ہمیں بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہیں اور ان کے حالات لکھ بھیجتے ہیں۔
غرض مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے باوجود پچھلے سال تحریک جدید کا چندہ تدریجی ترقی کا آخری سال یعنی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پچھتر ہزار تک جا پہنچا حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کی آمد شامل نہیں ہے اگر وہ بھی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے والی آمد کی طرح ہی سمجھ لی جائے تو یہ رقم سات لاکھ پانچ ہزار روپے بنتی ہے۔
پس اگرچہ ساری دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو۔ یہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ کی اس قدرت کا مظاہرہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا۔ لوگوں کی آمدنیوں پر اثر پڑنا چاہئے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ اس فتنہ و فساد کی آگ سے اپنی آمدنیوں کو متاثر نہ ہونے دیں۔ تاکہ غلبۂ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی جو ذمہ داری ان پر عائد کی گئی ہے۔ وہ اثر انداز نہ ہو اور ان کی کوششوں میں کمی واقع نہ ہو یا اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوںمیں کمی نہ آجائے۔ ویسے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال غیر ممالک میں جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل نازل ہوا ہے جو آپ کے سامنے بھی آنا چاہئے۔ اس لئے تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ چھوٹے چھوٹے نوٹ الفضل میں دیا کریں۔ اسی طرح ’’نصرت جہاں آگے بڑھو‘‘ کی سکیم ہے۔ اس سکیم کے ماتحت بہت سے کام ہو رہے ہیں۔ اس الٰہی سکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رحمت کے عجیب نظارے ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظارے جماعت کے سامنے آنے چاہئیں تاکہ وہ بھی شکر ادا کریں اور دل کی گہرائیوں سے الحمد للہ کا ورد کریں۔ اور دین کی راہ میں بشاشت کے ساتھ مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں۔
بہرحال سات لاکھ پانچ ہزار کی رقم بھی ٹارگٹ سے کم ہے اس میں پچاسی ہزار روپے کا فرق ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے اس کمی کو اس نئے سال میں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ میں بھی کوشش اور دعا کروں گا۔ آپ بھی دعائیں کریں میری کوشش اور دعائیں کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دعائیں نہ کریں۔ آپ دعائیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور میں کوشش بھی کروں گا اور دعائیں بھی کروں گا تاکہ یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ تحریک جدید میں چندوں کی کمی کو پوراکرنے کی اصل ذمہ داری دفتر سوم پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ نیا دفتر ہے اور اس کے قیام پر ابھی سات سال گزرے ہیں اس دفتر نے آگے چل کر دفتر دوم کی قائمقامی کرنی ہے اور پھر دفتر اوّل کی قائم مقامی کرنی ہے۔ دفتر اوّل میں شامل ہونے والوں میں سے کچھ دوست ہر سال وفات پا جاتے ہیں بعض دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پانچ پانچ ہزار روپے آمد تھی لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آمد کم ہو گئی ہے اس کمی کو تو وہ خداتعالیٰ کے پیار میں شاید برداشت کر لیتے ہوں۔ لیکن ان میں سے اکثر وفات پا جاتے ہیں اور اس میں نہ میرا اختیار ہے اور نہ آپ کا اختیار ہے۔ پس اگرچہ دفتر اوّل نے اپنے وقت پر تحریک جدید کے چندوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا مگر طبعی اثرات کی وجہ سے مشکل یہ بن گئی کہ دفتر اوّل کا چندہ گرتے گرتے ۶۸۔۱۹۶۷ء میں (اس سے پہلے کے اعدادوشمار میرے پاس نہیں) ایک لاکھ پچپن ہزار روپے پر آگیا۔ پھر تین سال بعد ۷۲۔۱۹۷۱ء میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار روپے رہ گیا ان تین چار سال میں دس ہزار روپے کی کمی بتاتی ہے کہ بعض دوست وفات پاگئے یا بعض پنشن پر آگئے اور آمد کم ہو گئی یا بڑھاپے کی وجہ سے تجارت کرنا چھوڑ دی اور بیٹوں سے کہہ دیا کہ وہ کاروبار سنبھالیں۔ ایسی صورت میں تحریک جدید کا چندہ ان کے بیٹوں کے حساب میں لکھا جائے گا لیکن ایسے بوڑھے دوستوں کی آمدنی تو بہرحال کم ہو جاتی ہے اسی طرح ان کا چندہ بھی۔ ایسے دوستوں سے تو پھر تھوڑے چندے کی توقع کی جاسکتی ہے یعنی وہ اپنے جیب خرچ یا اس آمد سے جو وہ اپنے لئے علیحدہ کر لیتے ہیں اس میں سے ہی چندہ دے سکتے ہیں۔ اس لئے ان حالات میں ۶۸۔۱۹۶۷ء اور ۷۲۔۱۹۷۱ء کے درمیانی عرصہ میں دفتر اوّل کے چندوں میں دس ہزار کی کمی کوئی اتنی بڑی کمی نہیں ہے عام حالات میں اس سے زیادہ کمی واقع ہونے کا اندیشہ تھا۔ ویسے تو خداتعالیٰ دس آدمیوں کو بھی اگر یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس دفتر میں پچاس گنا زیادہ چندہ دیں تو یہ فرق دور ہو جائیگا اس لئے میں یہ نہیںکہتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے میں یہ کہتا ہوں کہ انسانی زندگی کا یہ معمول ہے کہ کچھ عرصہ زندگی گزارنے کے بعد ہر انسان پر بڑھاپا آتا ہے اور پھر موت آتی ہے اس لحاظ سے دفتر اوّل بظاہر کمی کی طرف جارہا ہے اور پچھلے سالوں میں عملاً کمی واقع بھی ہو چکی ہے۔
پھر دفتر دوم جو مالی قربانی کے لحاظ سے ۲۸ سال گزار چکا ہے اس میں دوستوں نے ہمت کی ان کا چندہ چار لاکھ پچپن ہزار تک پہنچ گیا ہے جب کہ ۶۸۔۱۹۶۷ء میں تین لاکھ چون ہزار روپے تھا گویا دوست ان چند سالوں میں قریباً ۹۹ہزار کی حد تک آگے بڑھے ہیں اور انشاء اللہ سات آٹھ یا دس سال میں اور آگے بڑھیں گے۔ اور پھر یہ دفتر،دفتر اوّل کی جگہ لے لے گا۔
دفتر سوم نے چونکہ دفتر دوم کی جگہ لینی ہے ا س واسطے اگلے آٹھ دس سال میں دفتر دوم کا چندہ ساڑھے چار اور چھ لاکھ کے درمیان پہنچنا چاہئے۔ ساڑھے چار لاکھ روپے کے قریب تو ہماری یہ موجودہ نسل پہنچ گئی ہے۔ اگلی نسل اپنی تعداد کے لحاظ سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں اپنی آمد کے لحاظ سے بہرحال بڑھے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ تو پھر اس لحاظ سے ان کا تحریک جدید کا چندہ بھی بڑھے گا۔ بہرحال اب اس سال کی میں بات کر رہا ہوں اس میں دفتر سوم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کریں۔ اور اسے مقررہ ٹارگٹ تک لے جائیں یعنی مجموعی چندہ ان کی کوشش سے یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ ٹارگٹ تک لے جانے کے لئے بڑی کوشش ان کی ہونی چاہئے تاکہ اس سال تحریک جدید کے چندوں کی رقم سات لاکھ نوے ہزار تک پہنچ جائے اس میں کچھ دفتر دوم بھی حصہ دار ہوگا دفتر اوّل کے لئے تو بظاہر مشکل ہے بعض دفعہ استثنائی حالات میں اللہ تعالیٰ معجزہ دکھا دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے ہم عاجز اس کے مستحق تو نہیںمگر اس نے ہمیں اپنی رحمتوں کے لئے چنا ہے اس لئے ہمارے دلوں میں تقویت پیدا کرنے کے لئے اور ہمارے چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے وہ معجزے دکھاتا ہے اور کہتا ہے تم میری راہ میں تھوڑا دیتے ہو اور میں تم پر بہت فضل نازل کرتا ہوں۔ اس لئے تم میری راہ میں اور دو تاکہ تم میرے فضلوں کے مزید حقدار اور وارث بنو۔ ایک اور بات میں مختصراً یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر نے مجھے لکھا ہے کہ سابقہ تعامل یہ ہے کہ ۳۱؍امان یعنی ۳۱؍مارچ تک وعدے آتے رہتے ہیں مگر تحریک جدید کا بجٹ مشاورت سے کئی مہینے پہلے تیار ہونا چاہئے۔ اور وہ ۳۱؍دسمبر تک تیار ہوتا ہے اس لئے وعدہ کی تاریخ بدل دینی چاہئے میں سمجھتا ہوں کہ وکیل المال اوّل کی رائے درست ہے۔ اس طرح کام میں سہولت پیدا ہوگی کام تو وہ پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کریں گے لیکن ان کی سہولت کے پیش نظر بالفاظ دیگر اپنے احمدی بھائی اپنے دوسرے بھائیوں کی سہولت کے مدنظر اپنے وعدے ۳۱؍دسمبر سے پہلے دفتر وکالت مال تحریک جدید میں بھجوا دیں تاکہ ان کے کام میں سہولت پیدا ہو جائے۔ اور آسانی کے ساتھ وہ اپنے بجٹ وغیرہ تیار کر سکیں۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں آپ بعض لوگوں کو چھ مہینہ کا عرصہ کیوں دیتے ہیں۔ آپ سوچیں گے آپ کو شرم آئے گی۔ آپ غصہ کے خط لکھیں گے کہ پہلے تاریخ کیوں نہیں بدلوائی۔ بہرحال ۳۱؍دسمبر تک یہ وعدے دفتر وکالت مال میں پہنچ جانے چاہئیں۔
میں اس سلسلہ میں دو جماعتوں کو اچھی مثال کے طور پر اپنے بھائیوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ایک اسلام آباد کی جماعت ہے۔ سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے مطابق ان کے حصہ میں جو رقم آئی تھی وہ انہوں نے ادا کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے دوسری کراچی کی جماعت ہے انہوں نے بذریعہ تار اطلاع دی ہے کہ سال رواں کے تحریک جدید کے وعدوں کی سوفیصدی وصولی کر لی ہے۔ وہ کچھ رقم بھجوا چکے ہیں اور باقی ماندہ بھجوا رہے ہیں ٹارگٹ کے لحاظ سے جو رقم ان کے حصہ میں آتی تھی وہ انہوں نے ادا کی ہے یا نہیں اس کا تو تار میں ذکر نہیں تاہم اس وقت جب کہ اکثر جماعتوں کی ادائیگی سو فیصد نہیں ہوئی انہوں نے چھ مہینے پہلے تحریک جدید کا وعدہ سو فیصد پورا کر دیا ہے۔ فجزاھم اللّٰہ تعالٰی خیرًا ویسے تحریک جدید کا نیا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے یہ تو کچھ سہولتیں جماعت کے مختلف چندوں کی وصولی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت کو دی گئی تھیں۔
بہرحال ایسی جماعتیں چند ایک ہی ہیں جو وقت سے پہلے سو فیصد ادائیگی کر دیتی ہیں اس سلسلہ میں کراچی کی جماعت قابل ذکر ہے۔ ان کی طرف سے سال رواں کا وعدہ ایک لاکھ سولہ ہزار کا تھا اب انہوں نے نیا وعدہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا بھجوایا ہے۔ اسی طرح لاہور کی جماعت ہے، راولپنڈی کی جماعت ہے، پشاور کی جماعت ہے پانچ سات بڑی بڑی جماعتیں ہیں جو تحریک جدید (اور دوسرے چندوں کا بھی) بڑا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ اب مثلاً تحریک جدید کے سال رواں کے بجٹ میں سے ایک لاکھ سولہ ہزار روپے کا بجٹ کراچی نے پورا کیا ہے جو پاکستان میں تحریک کے چندوں کے سارے بجٹ کا قریباً پانچواں حصہ ہے۔ گویا بیس فیصد بوجھ صرف کراچی کی جماعت نے اٹھا لیا ہے ان کے علاوہ بھی بہت سی جماعتیں نومبر تک یہ چندہ ادا کر سکتی ہیں یا کم از کم دسمبر سے پہلے دے سکتی ہیں اور ان کو دینا چاہئے تاہم اگر بروقت ادائیگی نہیں ہوتی تو اس میں ان کا اتنا قصور نہیں جتنا لینے والوں کا قصور ہے۔ دفتر انہیں یاددہانیاں نہیں کراتے۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے یوں ہی بلاوجہ کی نصیحت نہیں فرمائی۔ خداتعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے مختلف محاورے استعمال کرکے مختلف مضامین کے ضمن میں کا لفظ استعمال کرکے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگوں کو یاددلاتے رہا کرو۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک انتہائی مخلص انسان بھی سستی کر جاتا ہے۔ پس یعنی یاددہانی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جس آدمی کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اس کے اندر اخلاص نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کو کی یاددہانی کرنے کی نصیحت کی گئی تھی اس نے اس حکم پر عمل نہیں کیا۔
پس یہ ایک چیلنج ہے جو رمضان کا یہ آخری جمعہ ہمیں دے کر رخصت ہو رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمانے کے لئے بھی دعا کرو۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمانے کو برا بھلا نہ کہو جس کا مطلب یہی ہے کہ زمانے کو اچھا کہو۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ زمانے سے کہو تیرا شکریہ چنانچہ اس کے متعلق حدیث میں ایک معنے یہ بھی بیان ہوئے ہیں کہ زمانہ کوئی چیز نہیں اصل تو خداتعالیٰ ہی ہے۔ پس جب اصل خداتعالیٰ ہی ہے تو پھر زمانہ کو برا بھلا نہ کہو کے مقابل پر آئے گا۔ الحمد للہ پڑھو اور الحمد للہ اُن نعمتوں کو دیکھ کر پڑھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں خداتعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کی تلاش میں ایک گروہ ایک جماعت کوشاں ہوتی ہے اور وہ مجاہدہ میں مصروف ہوتی ہے۔ غرض جس زمانہ میں رضائے الٰہی اور محبت الٰہی کے حصول کے لئے انسانوں کی ایک جماعت کی جماعت (اگرچہ کبھی چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی بڑی ہوتی ہے لیکن کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں ہوتا) جب کوشاں ہوتی ہے۔ اس کے لئے مجاہدہ کر رہی ہوتی ہے تو اس زمانہ کو تم کیسے برا کہو گے۔ چنانچہ اس معنی کے اعتبار سے ہم یہ کہیں گے کہ زمانہ کے لئے بھی دعائیں کرو۔
پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے آج کے یوم الجمعہ! تیرے اندر زندگی گزارنے والی وہ جماعت جو خداتعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے خدا کرے کہ تیرا وجود دن کے لحاظ سے ان کے لئے ایک بابرکت دن بنے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍نومبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۶)
ززز

خدائی جماعتوں کے خلا ف ہمیشہ ہی ایذا رسانی
کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍نومبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ جو لوگ انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ منکرین اور مخالفین انہیں دُکھ دینے اور ایذا پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اِس ایذا رسانی اور دُکھ دہی کے متعلق بڑی تفیصل اور وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ جماعت مومنین کو زبان سے بھی دُکھ پہنچایا جائے گا اور ہاتھ سے بھی تکلیف دینے کی کوشش کی جائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:-

یعنی اگر وہ تم پر کبھی قابو پا لیں اور اُن کو موقع ملے تو وہ تمہاری تباہی کے لئے اپنے ہاتھ بھی استعمال کریں گے اور زبانیں بھی استعمال کریں گے۔
پھر ایک دوسری جگہ فرمایا:-

(اٰل عمران:۱۸۷)
فرمایا تم اہل کتاب سے بھی اور مشرکوں سے بھی کثرت سے ایذا پہنچانے والی اور دُکھ دینے والی باتیں سُنو گے۔
جہاں تک زبان سے دُکھ پہنچانے کا تعلق ہے، یہ بنیادی طور پر دو قسم کاہوتا ہے۔ ایک یہ کہ گندہ دہنی سے کام لینا یعنی گالیاں دینا اور دُوسرے یہ کہ افتراء کرتے ہوئے جھوٹے اتہام لگانا۔ اِس بارہ میں جب ہم انبیاء کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ شیطان نے دُکھ اور افتراء کا سب سے بڑا ہدف ہمارے سیّد ومولا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا۔ آپ کی زندگی میںمنکرین اسلام نے آپ کو جو دُکھ اور ایذاء پہنچائے تاریخ کے صفحات ان سے بھرے پڑے ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد مخالفینِ اسلام کی طرف سے آپ کے خلاف گندے اتہامات اور جھوٹے اعتراضات کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور آپ کے مشن پر تین ہزار سے زائد اعتراضات صرف عیسائیوں کی طرف سے عائد کئے گئے۔ آپ نے عیسائیوں اور آریوں وغیرہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی جانے والی گالیوں اور اعتراضات کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا ہے تاکہ جب مہدیٔ معہود کا مشن اور مقصد کامیاب ہو جائے اور معترضین کا وجود کہیں بھی نظر نہ آئے تو بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے یہ امر باعث یادگار ہو کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اس قسم کے دُکھ دِہ حالات تھے۔ گو اب تو وہ زمانہ بدل گیا عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو روز بروز ترقی حاصل ہو رہی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے اسلام پر ادیان باطلہ کے حملے ہو رہے تھے۔ ایذا رسانی اور گالیوں کا ایک سلسلہ تھا جو ہمارے محبوب اور ہمارے آقا (خداتعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور صلوات ہوں آپ پر) کے خلاف جاری تھا۔ اب یہی ایذاء رسانی اور گالیاں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے خلاف سُنتے ہیں۔ بعض لوگ بڑے فخر سے گندہ دہنی کرتے اور اپنے سروں کو اُونچا کرتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اسلام تو وہ حسین مذہب ہے جس نے انسان کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف کو دُور کرنے کی نصیحت کی ہے۔ چنانچہ بانیٔ اسلام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک چھوٹی سی نیکی إِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ (سنن نسائی، کتاب الایمان، باب ذکر شعب الایمان) بھی ہے۔ فرمایا تم راستے میں پڑی ہوئی ایذاء پہنچانے والی چیزوں کو ہٹا دو تاکہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے مگر اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض لوگ راستوں پر چلتے ہیں تو دُوسروں کو ایذاء پہنچانے والی باتوں سے فضا کو مکّدر کر دیتے ہیں اور اسی طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں انہیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے کی بھی توفیق نہیں ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ایذاء پہنچانے کا دوسرا حصہ دجل سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں عیسائیت نے بڑی مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ عیسائیت نے تاریخی واقعات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اسلام کے خلاف اتنا دجل کیا ہے اور اسلام کی ایک ایسی بھیانک شکل پیش کی ہے اور اسلام اور بانیٔ اسلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایسا زہر پھیلا دیا ہے کہ جس سے بہت سے جاہل اور نادان آدمی اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پس ایک طرف تو گالیاں ہیں جو اسلام کے خلاف ہمیں سُننی پڑتی ہیں اور دُوسری طرف افتراء پردازی اور دجل ہے جو ہمارے کانوں میں پڑتا ہے۔ اسلام کے خلاف یہ دونوں حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ عیسائی اور بعض دوسری مخالف قومیں اسلام کو اتنا بدل دیتی ہیں کہ جو لوگ اصل حقیقت کو نہیں جانتے وہ فوراً متاثر ہو جاتے ہیں۔ اُن کے تصور میں بھی نہیں آسکتاکہ یہ کس قسم کا دجل ہے جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے خدا، قرآن کریم اور اسلام کے خلاف لوگوں نے استعمال کیا ہے۔
غرض یہ دو بڑی بڑی ایذاء رسانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو زبان اور تحریر کے ذریعہ پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ دکھ دہی کے دو حربے ہیں جو الٰہی جماعتوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں چنانچہ ان کا سب سے زیادہ استعمال اس محسنِ انسانیت کے خلاف رونما ہوا جو افضل الرسل تھا اور ابدی صداقتوں پر مشتمل ایک عظیم ہدایت لے کر بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوا تھا۔ جس نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ اس میں یعنی قرآن کریم میں تمہاری عزت اور شرف کا سامان ہے۔ پس یہ امر بڑا حیران کن ہے کہ بعض لوگ اس چیز سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے جو اُن کے لئے عزت اور شرف کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔
علاوہ ازیں جہاں تک مال و جان کا تعلق ہے اس سلسلہ میں بھی دُکھ پہنچایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک وقت میں مخالفین اسلام نے میان سے تلوار نکال لی اور کہا ہم مسلمانوں کو ذبح کر دیں گے، قتل کر دیں گے ہلاک کر دیں گے مار دیں گے برباد کر دیں گے اور اسلام کا خاتمہ کر دیں گے۔ گو جس غرض کے لئے تلوار نکالی گئی تھی وہ تو پوری نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی لیکن اُن حالات میں تلوار کے میان سے باہر آجانے سے اسلام کے خلاف تلوار کو ہاتھ میں پکڑنے والوں کی نیتوں کا تو پتہ لگ گیا کہ وہ کیا چاہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ ممتحنہ کی مذکورہ آیت میں فرمایا ہے کہ مخالفین کو جب بھی موقع ملے، وہ اپنے ہاتھ بڑھا بڑھا کر تمہاری ہلاکت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اموال کو لوٹتے بھی ہیں ان کو جلاتے بھی ہیں اور ان کو تباہ بھی کرتے ہیں ایسے لوگ بڑے نادان ہیں جو نہیں سمجھتے کہ ایک عظیم تحریک جو اس زمانے میں غلبۂ اسلام کے لئے جاری کی گئی ہے (اور اس زمانہ سے مراد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا زمانہ ہے) اُسے بعض لوگوں کے بچگانہ افعال اور طفلانہ اور جاہلانہ اعمال کیسے روک دیں گے یا اس میں کمزوری پیدا کر دیں گے۔ یہ تو ان کی سراسر نادانی ہے۔ تاہم جس کے وہ دوست بن گئے ہیں وہ ان کو یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کے اموال لوٹ لو، جلا دو اور تباہ وبرباد کر دو۔ پچھلے سال چیچہ وطنی میں چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ کے مکان کو جب آگ لگا دی گئی تو چند دن بعد کچھ دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے یہ کیا ہو گیا؟ میں نے کہا۔ کیا ہو گیا ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ایک واقعہ تھا جو چند دن میں گذر گیا۔ ہمیں خداتعالیٰ ان چند دنوں میں ہی کہیں سے کہیں لے گیا ہے۔ پس میں نے ان سے کہا کہ ایک مکان کا تباہ ہو جانا کیا جماعت احمدیہ کو ناکام کر دے گا؟جو آدمی ایسا سمجھتا ہے وہ نادان ہے اور جیسا کہ میںآگے چل کر بتاؤں گا۔ ہمیں اس پر رحم آتا ہے۔ اُس پر غصہ نہیں آتا اور نہ آنا چاہئے۔
دوستوں کو علم ہو چکا ہو گا کہ ایبٹ آباد میں جماعت کی جو کوٹھیاں تھیں۔ کچھ بن چکی تھیں اور کچھ بن رہی تھیں۔ جن میں ایک دو میری ذاتی بھی تھیں۔ پچھلے مہینے ان کو جلانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں (ہمارا اندازہ ہے کہ) بیس پچیس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔ کئی دوستوں نے مجھے بڑے غصے کے خط لکھے ہیں۔ میں نے ان کو یہی سمجھایا ہے کہ دیکھو! مالی لحاظ سے بیس پچیس ہزار روپے کا نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو ناکام اور ہلاک کر دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ اب تو خدا کے فضل سے وہ وقت آگیا ہے کہ جماعت کے اندر ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی ایک فرد کی ایسی پچاس کوٹھیاں جلا دی جائیں تو اس کو محسوس بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے تو بھرے ہوئے ہیں۔ اس نے جماعت احمدیہ کو مال بھی عطا فرمایا ہے۔ پس ایک ایسا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کی توفیق عطا کی ہو اُس کے پچاسویں حصے کو نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ جماعت احمدیہ کو ناکام کر دیں گے تو ان کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔
غرض دوستوں کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کی رو سے یہ چیزیں ہمارے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں۔ الٰہی سلسلوں کے ساتھ مخالفین کا یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم ایسے موقعہ پر خوف اس بات کا نہیں ہوا کرتا کہ مخالفین کی یہ حرکتیں جماعت کو ناکام کر دیں گی بلکہ یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں جماعت کا ردّ عمل اللہ کی رضا اور اس کی منشاء کے خلاف ظاہر نہ ہو۔ مَیں نے شروع میں جو دو آیات تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں تین قسم کے خوف اور دوسری آیت میں ان کے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں تمہیں دُکھ اور تکلیف پہنچے گی مگر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے اندر وھن، ضعف اور استکانت پیدا نہ ہونے دو۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ آیت ایک لحاظ سے ہمار ے لئے خوشخبری کا باعث بھی ہے کہ ہمیں مالی نقصان بھی پہنچایا جائے گا،جذباتی اور روحانی نقصان بھی پہنچانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ نقصان ہمیں اس لئے نہیں پہنچایا جائے گا کہ ہم تباہ وبرباد ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ہمیں مارنے کے لئے پیدا نہیںکیا بلکہ ہمیں زندہ رکھنے اور اور ہمارے ذریعہ دوسروں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے تاہم بشری کمزوریوں کی وجہ سے ایسے موقع پر تین قسم کے رد عمل ممکن ہیں جن سے بچنے کی ضرورت ہے۔
پہلا وَھْنٌ ہے یعنی مفوضہ فرائض میں سستی کا پیدا ہو جانا اللہ تعالیٰ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے متعلق فرماتا ہے۔
یعنی وہ اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے۔ سست نہیں ہوتے۔ وھن کے معنے ضُعْفٌ فِی الْأَمْرِ وَالْعَمْلِ (المنجد زیر لفظ وَھَنَ) کے بھی ہوتے ہیں۔ ایک اجتماعی کوشش کے سلسلہ میں جو کام سپرد ہوا ہے اس میں کمزوری پیدا نہ ہو۔ ضُعْفٌ فِی الْأَمْر دراصل ضُعْفٌ فِی الْعَمْلِ کی بنیاد ہے۔ عمل میں جب قوت اور شدت پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امر میں قوت اور شدت موجود ہے یعنی اس میں ایک قسم کا جھکاؤ، دلچسپی، بشاشت اور ایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے جماعت احمدیہ اسی روحانی بشاشت، شوقِ عمل اور جذبۂ ایثار کا ایک حقیقی نمونہ ہے۔ خداتعالیٰ نے اسے اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرے۔پس یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کے مطابق ہم عمل کریں گے اور انشاء اللہ اسلام کو ساری دُنیا پر غالب کر کے دم لیں گے۔
غرض یہ جذبہ برقرار رہنا چاہئے یعنی دنیا خواہ اِدھر سے ادھر ہو جائے یا ساری دنیا مل کر ہماری تباہی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے مگر ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے کیونکہ اس جذبہ میں جب کمزوری واقع ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں انسان اپنے عمل میں سست پڑ جائے تو اس کو وَھْنٌ کہتے ہیں یعنی مایوسی اور شبہ کے آثار پیدا ہو جائیں کہ پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے بھی ہوں گے یا نہیں پتہ کیسے نہیں! اگر وہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں تو ضرور پورے ہوں گے۔
پس یہ ایک خطرہ ہے جوِ کی رو سے پیدا ہو سکتا ہے تاہم یہ خطرہ پیدا نہیں ہوتا کہ خدا کی جماعت ہلاک ہو جائے گی۔ ہلاکت تو درکنار اگر وھن، ضعف اور استکانت کی وجہ سے جماعت کا ایک حصہ چھوڑ بھی دے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الٰہی مقصد و منشاء بہرحال پورا ہوگا۔ خداتعالیٰ ایک نئی قوم لے آئے گا جو صحیح طور پر قربانیاں دینے والی ہوگی۔ جسے اپنے مقصد سے پیار اور اس کی عظمت کا احساس ہوگا۔ جو خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال سے لرزاں و ترساں رہے گی۔ وہ دُنیا کی ایذاء رسانی اور دُکھ دہی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گی۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت الٰہیہ کو اس خطرہ سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور ان کے اندر وھن نہیں پیدا ہونا چاہئے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ وھن دراصل مومن کے جوش عمل اور جذبۂ جہاد میں کمزوری کی علامت ہے الٰہی جماعتوں کے اندر تو یہ جوش پایا جاتا ہے کہ ان کے ذمہ دین کا جو اہم کام ہے اسے انہوں نے بہرحال پورا کرنا اور خدا کے فضل اور اسی کی مہربانی سے اس میں کامیاب ہونا ہے۔ اسی لئے مومنین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس جوش اور جذبہ میں کسی وقت کمی نہ آئے اور اس میں ضعف پیدا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ وھن کے معنے بڑے حسین پیرایہ میں بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
(النسآء :۱۰۵)
فرمایا تم دشمن قوم کی تلاش میں سستی نہ کرو۔ اب دشمن کی تلاش میں سستی کرنا۔ یہ ضعف فی العمل کی ایک شکل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے کام میں ضعف نہیں پیدا ہونا چاہئے ورنہ رابطہ قائم نہیں رہے گا۔ فوج والوں نے ایک بڑا اچھا محاورہ ایجاد کیا ہے جب دشمن دو بدو لڑائی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں دشمن سے CONTACT (کانٹیکٹ) یعنی تعلق نہ رہا یعنی جب لڑائی ہو رہی ہوتی ہے تو گویا لڑتے وقت دونوں فوجوں کا آپس میں ایک تعلق قائم ہو تا ہے لیکن جب کوئی شخص عین میدانِ جنگ سے کھسک جاتا ہے تو ایسی صورت میں کہتے ہیں اس کا دشمن سے تعلق (کانٹیکٹ) نہیں رہا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دشمن اگر تمہیں نقصان پہنچا کر اتنا دور ہو جائے کہ تمہاری گرفت سے نکل جائے تو پھر ابتغاء القوم کے اس الٰہی ارشاد کی رُو سے اس کا پیچھا کرنا چاہئے ورنہ تمہاری یہ حالت وھن یعنی سستی کہلائے گی۔ اس لئے تمہیں اپنے دشمن سے کانٹیکٹ قائم رکھنا چاہئے۔ اس کی تلاش کرنی چاہئے۔ جہاں بھی ہو اور جس محاذ پر وہ جائے وہاں تک اس کا پیچھا کرنا چاہئے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ محاذ تلوار اور ایٹمی اسلحہ کا محاذ نہیں ہے۔ ہماری اصل جنگ ادیان باطلہ کے خلاف ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دلائل کے ساتھ لڑی جا رہی ہے (اسے جہادِ کبیر کہتے ہیں اس کی کچھ تفصیل میں پہلے ایک خطبہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں) پس یہ وہ اصل محاذ ہے جس پر ڈٹ جانا چاہئے میں نے دیکھا ہے اورمیرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ بعض لوگ تبلیغ کرتے وقت ایک غلطی کر جاتے ہیں اور وہ یہ کہ مثلاً وہ اپنے مخالف کو ایک دلیل دیتے ہیں جب وہ لاجواب ہو جاتا ہے تو حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے بات کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ واقعی دلیل تو آپ کی بڑی پختہ ہے اور میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اس کے متعلق بعد میں بات کریں گے اور پھر جھٹ اپنی طرف سے ایک اور بحث چھیڑ دیتا ہے چنانچہ اس کا یہ رویہ کانٹیکٹ توڑنے کے مترادف ہے گویا ایک محاذ پر جب بھرپور جارحانہ حملہ ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ نہیں دوسرا محاذ لے لو آخر دلیل بھی تو ایک محاذ ہی ہے۔ ہر دلیل ایک محاذ قائم کرتی ہے میں نے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں جب بھی کسی دوسرے لڑکے سے بات کی یا کوئی دلیل دی اور اس نے لاجواب ہو کہ کہہ دیا کہ بعد میں بات کروں گا۔ تو میں کہہ دیتا تھا کہ نہیں پہلے اس کا فیصلہ ہوگا پھر بعد میں دوسری طرف بھی جائیں گے۔
غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ ایسے موقعوں پر احباب جماعت کو یہ کہنا چاہئے کہ ہم دلیل ضرور دیں گے لیکن ہم کانٹیکٹ نہیں توڑنے دیں گے۔ زیر بحث دلیل کا پہلے فیصلہ ہوگا بعد میں دوسری دلیل لیں گے۔ بعض لوگ یہ کانٹیکٹ توڑ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اگر کوئی فائدہ ہو رہا ہوتا ہے تو وہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں مدّمقابل سے یہ کہلوا لینا چاہئے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس دلیل کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ دوسری دلیل معلوم کرنا چاہتا ہے پھر اس کے ساتھ بحث کرنی چاہئے۔ ورنہ جب کانٹیکٹ ٹوٹ جائے تو اس کو ازسرنو قائم نہ کرنا اس کو بھی قرآن کریم میں وھن کہا گیا ہے۔ فرمایا:-
دشمن جب بچ کر اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے تو اس کی تلاش میں سستی نہ دکھائو۔ بلکہ اسکے ساتھ کانٹیکٹ قائم رکھو یہ نہ سمجھو کہ تم تھوڑے ہو۔
اسلام کی پہلی جنگ بدرمیں کچھ صحابہ شہید ہو گئے تھے۔ وہ تو پہلے ہی تھوڑے سے تھے مگر کیا ان میں کوئی کمزوری پیدا ہو گئی تھی نہیں ہرگز نہیں۔ اسی طرح ہم پہلے بھی کمزور تھے اب بھی کمزور ہیں جہاں تک ہمارا تعلق ہے لیکن پہلے بھی طاقتور تھے اور اب بھی طاقتور ہیں جہاں تک ہمارے اللہ اور اس کے فضل کا تعلق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ عظیم قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے۔ اس کی طاقت اور قدرت میں تو کوئی فرق نہیں آیا اور نہ آسکتا ہے۔
اسلامی تاریخ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حسین واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے حسین نظارے دکھائی دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ کسریٰ ایران کے خلاف جنگ میں حضرت خالدؓ بن ولید کے پاس غالباً چودہ ہزار فوج تھی۔ وہ اتنی تھوڑی سی فوج کے ساتھ کسریٰ کے خلاف مدافعانہ جنگ لڑنے کے لئے ایران کی حدود میں داخل ہوئے تھے جہاں انہیں ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ لڑنی پڑی۔ چنانچہ وہ کسریٰ کے خلاف سات آٹھ جنگیں لڑ چکے تھے کہ خلافت کی طرف سے انہیں حکم ملا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں کیونکہ قیصر روم کامقابلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو گیا تھا اور اس محاذ پر فوج کی کمی بھی تھی۔ بہرحال یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اندازہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دیتا تھا۔ چنانچہ ایران میںکسریٰ کے خلاف حضرت خالدؓ نے سات آٹھ جنگیں لڑی تھیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان جنگوں کے دوران میں ہر جنگ کے موقع پر کسریٰ کی ایک تازہ دم فوج مقابلے پر آئی جس کی تعداد ایک دو جنگوں میں تو چالیس ہزار بتائی جاتی ہے اور پانچ چھ جنگوں میں ساٹھ ستر ہزار فوج مقابلے پر ہوتی تھی۔ اس عرصہ میں حضرت خالدؓ بن ولید کی فوج کو سوائے ایک آدمی کی کمک کے کوئی کمک نہیں ملی یعنی صرف ایک فردِ واحد کمک کے طور پر ان کے پاس آیا گویا ساٹھ ستر ہزار کی ایرانی فوج کے مقابلے میں چودہ ہزار مسلمان لڑتے اور ان پر کامیابی حاصل کرتے رہے۔
بہرحال مسلمانوں کی فوج صرف چودہ ہزار تھی جن میں سے بعض خدا کی راہ میں شہید بھی ہو گئے۔ بعض زخمی بھی ہوئے اور بعض تو اس قسم کے زخمی ہوتے تھے کہ اگلی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو اگلی جنگ میں اپنی پوری جسمانی طاقت کے ساتھ حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ یہ سب کچھ تھا مگر انہوں نے اپنے عمل میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دی۔ ایک اجتماعی جہاد تھا جس میں امت محمدیہ کی چودہ ہزار نمائندہ فوج کسریٰ کے مقابلہ میں مدافعانہ جنگ لڑ رہی تھی مگر نہ اُن میں کوئی وھن پیدا ہوا اور نہ ان میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی ان مٹھی بھر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہمارے اتنے آدمی مارے گئے۔ ہماری طاقت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے اتنے آدمی زخمی ہو گئے ہیں اور وہ جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ غرض ان میں سے کسی آدمی کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا بلکہ جو زخمی تھے وہ اپنے ایثار کے جذبہ کے ماتحت اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے زخمی ہونے کے باوجود اور زخمی ہونے کی وجہ سے کمزور ہونے کے باوجود میدان جنگ میں آگئے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ تعداد کی کمی اور بعض کے زخمی ہونے کے باوجود اُن کے عمل میں کوئی ضعف نہیں پیدا ہوا بلکہ پہلی جنگ میں تو وہ بہت تھوڑے تھے اور ان کے مقابلے میں کسریٰ کی فوج کے سپاہی ہر جنگ میں بڑھتے چلے گئے اور یہ کم ہوتے چلے گئے۔
پسکی رو سے مسلمانوں کی فوج کو خدا کی راہ میں شہادت اور تھوڑے بہت زخموں کے نتیجہ میں جو دُکھ اور تکلیف پہنچی اور دنیا والوں کی نگاہ میں کمزوری پیدا ہوئی وہ خدا کے ان پاک اور محبوب بندوں کی نگاہ میں کمزوری نہیں ثابت ہوئی ان میں نہ وَھْنٌ فیِ الْاَمْرِ کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے اور نہ وَھْنٌ فِی الْعَمْل کی کوئی مثال ملتی ہے۔ وہ اسی جرأت کے ساتھ اسی بہادری کے ساتھ خداتعالیٰ پر اسی توکل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے ہوئے اگلے میدان میں چلے گئے۔ پھر اگلے میدان میں چلے گئے اور پھر اس سے اگلے میدان میں چلے گئے۔
پھر کی رُو سے دوسری کمزوری جس کا خطرہ پیدا ہوتا ہے وہ ضعف کا پیدا ہونا ہے۔ غصے کی زیادتی کے نتیجے میں بھی ضعف پیدا ہو جاتا ہے ضعف کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مَیں نے اگلی آیت سے استدلال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خدا کی راہ میں جو دکھ اور تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تمہارے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تمہارے اندر ایک قسم کا ضعف پیدا ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود تم نے کسی پر زیادتی نہیں کرنی اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے
گالیاں سُن کر دعا دو
(درثمین صفحہ ۱۴۴)
جو شخص گالیاں سن کر دعا دینے کی بجائے گالیاں دیتا ہے وہ اپنے مجاہدانہ عمل میں ضعف پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کی توجہ دوسری طرف پھر جاتی ہے پھر آپ نے فرمایا:-
پا کے دکھ آرام دو
(درثمین صفحہ ۱۴۴)
جو شخص دُکھ پاتا لیکن دُکھ سہتا نہیں بلکہ جوابی کاروائی کرتا ہے اور کہتا ہے مَیں تیری خبر لیتا ہوں، تم نے ایک چپیڑ لگائی ہے میں تجھے دو لگاؤں گا، اس سے ضعف پیدا ہو گیا کیونکہ اس نے زیادتی کی ہے حالانکہ اس کا اصل مقصد صراط مستقیم کو اختیار کرنا ہے۔ مگر ایک نے دائیں طرف توجہ پھیر لی اور دوسرے نے بائیں طرف پھیر لی اس لحاظ سے ضعف کا بڑا خطرہ ہے یعنی زیادتی ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پاک اور محبوب بندے اس قسم کے ضعف میں مبتلا نہیں ہوتے وہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ تیسرا خطرہ استکانت کا ہے کچھ کمزور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں تذلل نہ اختیار کر لیں اور دشمن کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے نہ لگ جائیں مگر وہ جماعت جسے خداتعالیٰ نے دُنیا کا قائد بنایا ہو اُسے نہ تو دشمن سے ڈرنا اور نہ اس کے پیچھے لگنا چاہئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خطرے بتا کر ان کے علاج کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔
چنانچہ قرآن کریم کی اس دوسری آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے ان خطروں سے بچنے کی دُعا سکھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا منکرین اور مخالفین کے منہ سے تمہارے خلاف جو بات نکلتی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے منہ سے یہ دُعا نکلنی چاہئے۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا۔ یعنی انسان کمزور ہے دُنیوی معیار کے لحاظ سے اور فاتح بھی ہے اللہ کے فضلوں کے نتیجہ میں وہ گھر بھی جاتا ہے۔ ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں، دُشمن اُسے ذہنی، جسمانی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچاتا ہے لیکن وہ اس نقصان کو برداشت کر لیتا ہے اُس سہارے کی وجہ سے جو اسے حاصل ہے یہ سہارا کیا ہے ایک رسی ہے جو آسمان سے لٹکی ہوتی ہے۔ یہ حَبْلُ اللّٰہ ہے۔ جسے وہ پکڑتا ہے اور دُعا کرتا ہے اس کے خلاف ہر قسم کے گند اچھالے جاتے ہیں مگر اس کے دل میں نہ کوئی شکوہ اور نہ کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے نہ گھبراہٹ میں باتیں ہوتی ہیں اور نہ مشورے ہوتے ہیں کہ کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ کیا ہونا ہے۔ وہی ہونا ہے جو خدا تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے منہ سے ان سارے دُکھ دہ حالات میں کچھ فرق نہیں نکلتا سوائے اس دُعا کے اے ہمارے رب! ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما۔ ہمارے اندر وہن پیدا نہ ہو کیونکہ وہن پیدا ہو جانے کا جو خطرہ ہے اس کا تعلق کوتاہیوں کے ساتھ ہے۔ بشر کمزور ہے جو کچھ اسے کرنا چاہئے وہ نہیں کر سکتا کیونکہ بعض دفعہ شیطان اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس پردہ کو سوائے خداتعالیٰ کی رحمت کے اور کوئی اُٹھا نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مغفرت کے حقیقی معنوں پر بڑے حسین پیرایہ میں روشنی ڈالی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ خطرات جو بشری کمزوریوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق یہ دُعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے خدا! میں انسان ہوں، بہرحال کمزور ہوں، ایسا نہ ہو کہ میری بشری کمزوریاں میری روحانی رفعتوں کے حصول میں روک بن جائیں۔ پس اے خدا! ایسا کر کہ مجھ سے کوتاہیاں سرزد نہ ہوں۔ پس وھن کا تعلق چونکہ کوتاہیوں سے تھا۔ اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اگر تم وہن سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی کوشش اور سعی کے نتیجہ میں تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے ایثار اور اخلاص کی وجہ سے غرور نہیں کرنا چاہئے۔ وھن سے بچنے کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنی پڑے گی اور اس مدد کے حصول کے لئے ہم تمہیں یہ دعا سکھا دیتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے زور سے وہن سے نہیں بچ سکتے۔ میری مدد سے بچ سکتے ہو اور میری مدد کے حصول کے لئے تمہیں یہ دعا کرتے رہنا چاہئے رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا کہ اے خدا! ہم سے جو کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں اُن کے بد اثرات سے بھی ہمیں بچا اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر کہ ہمارے اندر بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کوتاہیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ بھی پیدا نہ ہوں۔ اگر تم یہ دعا کرو گے اور اللہ تعالیٰ جب اس دُعا کو قبول فرمائے گا تو تمہارے اندر وھن یعنی کمزوری پیدا نہیں ہو گی۔
دوسرا خطرہ ضعف کے پیدا ہو جانے کاہے یعنی ضعف کے نتیجہ میں زیادتیاں نہ ہونے لگ جائیں۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعاسکھائیکہ اے ہمارے خدا! ہماری زیادتیاں معاف فرما میں نے بتایا کہ ضعف کی حالت میں مومن انسان بعض دفعہ زیادتی کا مرتکب ہو جاتا ہے مثلاً دیکھو ایذا کے مقابلے میں دُعا نہیں دیتا یا دُکھ پا کر سُکھ پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ دُکھ کے مقابلے میں دُکھ پہنچاتا اور گالی کے مقابلے میں گالی دیتا ہے۔ پس خدا کا بندہ جب اس قسم کے کام کرتا ہے تو یہ اس کی زیادتی متصور ہوتی ہے۔ چنانچہ اس زیادتی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دُعا سکھائی اور فرمایا کہ تم ہمیشہ یہ دُعا کرتے رہو۔ ہمیں اس جدوجہد میں، اس مجاہدہ میں اور اس عظیم کوشش میں جو تیرے دین کے غلبہ کے لئے شروع کی گئی ہے۔ اس میں ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم اسراف کے گناہ میں ملوث ہو جائیں۔
تیسرا خطرہ استکانت یعنی دشمن کے سامنے تذلل اختیار کرنا اور اس کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے لگنے کا خطرہ ہے۔ یہ کمزوریٔ ایمان کی علامت ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جی ہم نے انتظام کر لیا ہے ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی ہیں اور منافقوں کے ساتھ بھی ہیں۔ ہم نے کفار منکرین اور دشمنان اسلام سے بھی ساز باز کی ہوئی ہے اور ہر ایک سے کہتے ہیں کہ اگر تم کامیاب ہو گئے تو ہم تمہارے پیچھے چل پڑیں گے۔ میں اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاسکتا۔ اصولاً بتا رہا ہوں کہ اس گناہ اور کمزوری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہ دُعا کرتے رہا کرو کہ اے خدا ہمارے قدموں کو مضبوطی عطا فرما۔ فرمایا تمہیں اپنی کوششوں سے ثباتِ قدم حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے فضل سے حاصل ہو سکتا ہے اس لئے تم یہ دعا کرتے رہا کرو کہ ہمارے قدموں میں مضبوطی عطا ہو۔
پس جب ان کمزوریوں کا خدشہ باقی نہ رہے اور ابتغاء القوم کی قوت ہو اُن سے، کانٹیکٹ کرنے اور جنگ کرنے کے لحاظ سے اور پھر زیادتی بھی نہ ہو بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے انسان گالی کے مقابلے میں دعائیں کرنے والا اور دُکھ سہنے کے مقابلے میں سکھ پہنچانے کی تدبیر کرنے والا بن جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کے نتیجہ میں خود کو دشمن کے سامنے ذلیل کر کے اس کی اطاعت قبول کرنے کی بجائے اس کے قول اور عمل میں ثباتِ قدم ہو۔ اللہ کے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں وہ جس جگہ کھڑا ہو وہاں اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہ آئے تو وہ دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کرے اور کہے تم تعداد میں زیادہ ہو تو ہوا کرو۔ تمہارے پاس اموال زیادہ ہیں تو ہوا کریں۔ اس سے میرے جذبہ ٔ ایمان اور شوقِ عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو خدا کا سپاہی ہوں جہاں کھڑا ہوں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ آگے بڑھوں گا کیونکہ میں اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جسے آگے بڑھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس مومن کے عمل میں ثباتِ قدم ہوتا ہے۔ اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آتی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جاتے ہیں لیکن مومن کے قدم اپنی جگہ سے ٹلا نہیں کرتے۔ مومن پیچھے نہیں ہٹا کرتا وہ اپنے مقصد کے حصول میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
جب یہ سب کچھ ہو جائے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو تم ان خطرات سے بچنے کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہا کرو کہ اے خدا! کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ ان تینوں خطرات کے بعد ایک چوتھا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے تکبر پیدا ہونے کا خطرہ یعنی انسان نے سب کچھ حاصل کیا اللہ کے فضل اور اس کے حضور عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں مگر کامیابی کے وقت شیطان آگیا اور اس نے کہہ دیا تم نے یہ کامیابی اپنی کوشش اپنی ہمت اور اپنی طاقت سے حاصل کی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں باوجود پہلی دعاؤں کی قبولیت کے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پھر ناکامی اور ہلاکت کے سامان پیدا نہ ہو جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان دعاؤں کے بعد اور میرے فضلوں کو حاصل کرنے کے بعد یہ دعا بھی کیا کرو کہ اے خدا! کافروں کے مقابلہ میں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں ہمیں فتح تیری نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں یہ فتح ہماری کسی قوت، کسی طاقت اور ہمارے ثباتِ قدم یا کسی اخلاص یا ایثار کے نتیجہ میں نہیں مل سکتی۔ اس لئے اے خدا! توخود ہماری مدد کو آ اور ہمارے اور اپنے دشمنوں کو ان کے منصوبوں میں ناکام کر۔
چنانچہ جب خدا کا بندہ یہ دعا بھی کرتا ہے تو پھر وہ شیطان کے ہر قسم کے وسوسوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے۔ جب سب کچھ مل گیا تو پھر کس بات کا ڈر ہے۔ جب انسان شیطان کو شکست دے دیتا ہے تو پھر اسے شیطان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جس شخص کا سر اُٹھتا ہی نہیں اور جس کا سر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا ہی رہتا ہے اس کی گردن تک شیطان کا وار کیسے پہنچ سکتا ہے وہ تو محفوظ ہو جاتا ہے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرنے والی اور اسی کی حفاظت میں ہے۔ تاہم کبھی کبھی یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کیونکہ مخالف غیر بھی ہیں اور اپنے بھی ہیں۔ جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بڑا غصہ آتا ہے کہ کیوں یہ جماعت خدا کے فضل سے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ایک کامیاب جدوجہد اور ایک نہایت فاتحانہ قسم کا مجاہدہ کر رہی ہے۔
پس ہمیں غصہ نہیں آنا چاہئے۔ ہمارے مخالفین ہمیں جتنی چاہیں تکلیفیں دیں اور دُکھ پہنچائیں ہاتھ سے بھی اور زبان سے بھی افتراء پردازی سے بھی اور دجل سے بھی کام لیتے ہوئے جیساکہ عیسائی لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے اموال کو تلف کر کے، انہیں لوٹ کر اور انہیں جلانے کی کوشش کر کے یا ہماری جانوں کو نقصان پہنچا کر جو مرضی آئے وہ کریں۔ ہو گا وہی جو خدا چاہے گا اور خدا نے یہ چاہا ہے کہ احمدیت ہمیشہ غالب رہے گی اسی کے فضل اور اسی کی توفیق سے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶؍دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا ۶)
ززز


سال کے وقفہ کے بعد انشاء اللہ اس سال
ہمارا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے فرمایا:-
کل سردرد کا شدید حملہ ہواتھا جس کے نتیجہ میں نقاہت ہوگئی ہے۔ آج صبح تو لیٹے ہوئے ہی وقت گزارناپڑا۔ یہ تین دن کچھ اس قسم کی ذمہ داریوں کے جمع ہوگئے ہیں جو بیماری کی وجہ سے بستر پر لیٹ کر یا گھر میں بیٹھ کر ادا نہیں جا سکتیں۔انصاراللہ کے علاوہ لجنہ اماء اللہ مرکز یہ کا پچاس سالہ اجتماع بھی ہورہا ہے اس سال ۲۵؍ دسمبر کو لجنہ اماء اللہ کو قائم ہوئے پچاس سال ہوجائیں گے۔ چنانچہ اس اجتماع کے موقعہ پر وہ اپنی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی ماضی کی قربانیوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور اب انہیں نئے دور میں نئی اور بدلی ہوئی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت میں مختصراً دوباتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ایک تویہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ قریب آرہاہے۔ یعنی اب اتنادور نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں انتظار کیا جائے اور بعض ذمہ داریوں کی طرف احباب کو توجہ نہ دلائی جائے۔ جہاں تک جلسہ سالانہ کے انتظامات کاتعلق ہے وہ تو بعض لحاظ سے جلسہ کے معًا بعد شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر جب نیا مالی سال شروع ہوتا ہے تو اس وقت بہت سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔بعض اشیاء خریدنی پڑتی ہیں۔ مثلاً شروع میں گندم خریدنی پڑتی ہے۔ اس وقت نسبتاً سستی مل جاتی ہے۔ پھر جلسہ سالانہ کے ضمن میں کچھ یاددہانیاں کرانی پڑتی ہیں۔ اہل ربوہ کو بھی اوران بھائیوں کو بھی جو باہر سے ربوہ میں تشریف لاتے اور جلسہ کی برکات اور فیوض سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک سال کے وقفہ(ناغہ) کے بعد انشاء اللہ اور اسی کی توفیق سے اس سال ہمارا جلسہ سالانہ منعقد ہوگا۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کی امید رکھتے ہیں اورہمارااپنے رب کریم پر بھروسہ ہے کہ وہ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کردے گا کہ بیچ میں کسی قسم کی روکیں پیدا نہ ہوں۔ دوست دو سال تک جلسہ کا انتظار کرتے رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں یہ توفیق بخشے گا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور دعائوں کے ماحول میں دعائیں کرنے کی توفیق پائیں۔
جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات کے علاوہ اہلِ ربوہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، میں سمجھتا ہوں ان میں سے سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پوری تعداد میں، رضا کارانہ طورپراپنی خدمات منتظمین جلسہ کو پیش کردیں۔ ان دِنوں ہمارے سکول اور کالج بڑا کام کرتے ہیں۔ بچوں کا کالج بھی، بچیوں کا کالج بھی اور اسی طرح ہمارے سکول بھی بہت کام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے بعض دوستوں کو بعض خدشات بھی لاحق ہیں کیونکہ ہماری نئی حکومت نے اپنے منشور کے مطابق سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لینا شروع کردیا ہے ’’شروع کردیا ہے‘‘ کا مطلب ہے کہ اعلان کردیا گیا ہے کہ حکومت نے سکولوں او رکالجوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ چنانچہ اس دفعہ نصرت گرلز ہائی سکول کی استانیوں کو یکم کی بجائے گیارہ تاریخ کو تنخواہیں ملیں جبکہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ کو ابھی تک تنخواہیں نہیں ملیں۔
بہرحال سکولوں وغیرہ کو قومی تحویل میں لینا بہت بڑا کام ہے۔ بڑی ذمہ داری حکومت نے اپنے سر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح خدمت کی توفیق دے۔ یہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا چنانچہ(سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لے لئے جانے پر بعض بچے یا بعض ناسمجھ دوست گھبراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہائی سکول میں، جامعہ میں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ہمارے مہمان ٹھہرتے ہیں اور طلباء بطور رضا کار خدمات انجام دیتے ہیں۔ اب سکول اور کالج تحویل میں چلے جانے کی وجہ سے نہ تعلیمی ادارے خالی ہوں گے اور نہ طلباء کو بطور معاون جلسہ میں بھجوایا جائے گا۔ دراصل یہ مفروضہ ہی غلط ہے۔ اس لئے اس سلسلہ میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں جماعت احمدیہ تو ہر لحاظ سے عوام ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ دنیا کی بھلائی کے لئے قائم ہوئی ہے۔ ہر مسلمان کو’’النّاس‘‘ کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ’’النّاس‘‘ ہی ہیں جن کے لئے قرآن عظیم اتارا گیا ہے۔ پس ان دنوں عوامی حکومت کابڑا چرچا ہے حالانکہ یہ لفظ’’عوام‘‘ دراصل ’’النّاس‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کیونکہ ’’النّاس‘‘ سے مراد بالعموم عوام لئے جاتے ہیں۔ اس لئے جب ہر چیز ہے ہی ’’النّاس‘‘ کی تو پھر اس کے راستے میں دنیا کی کوئی حکومت یا اس کی نئی پالیسی روک نہیں بن سکتی۔ لہذاسکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں انشاء اللہ اسی طرح رضا کارانہ طور پر کام کریں گی جس طرح وہ سالہاسال سے کام کرتے چلے آئے ہیں اور عوام کی یہ عمارتیں بھی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت میں پیش ہوں گی اور اپنی مہمان نوازی اور خدمت پیش کریں گی جس طرح پہلے کرتی چلی آئی ہیں) جب کسی عمارت میں برکت کے کام کئے جاتے ہیں تو عمارتیں بھی برکت والی بن جاتی ہیں۔
پس ایک تو یہ ذمہ داری ہے کہ رضا کار پوری طرح (نوّے فیصد بھی مَیں نہیں کہتا) اور پوری تعداد میں انتظامیہ کو ملنے چاہئیں۔ پوری تعداد سے میری یہ مراد ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ رضاکار مہیا ہوسکتے ہوں اتنے ضرور ملنے چاہئیں۔
علاوہ ازیں ایک بڑی ذمہ داری جلسہ کے دنوں میں باہر سے آنے والے مہمانوں کیلئے اپنے مکانوں کے مسقف حصوں کو مہیا کرنے کی ہے۔ ربوہ میں ہر سال جتنی بھی جماعتی طورپر نئی عمارتیں بنتی ہیں وہ مہمانوں کے لئے کافی نہیں ہوتیں۔ چنانچہ اس دفعہ میں نے جامعہ سے بھی کہا ہے کہ تمہاری ضرورت بھی ہے لیکن میری ضرورت بھی ہے اورجیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں میری ضرورت سے مراد جماعت کی ضرورت ہے کیونکہ میں اور جماعت ایک ہی وجود کے دونام ہیں جو غلبۂ اسلام کی عظیم مہم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ غرض جماعتی ضرورت کے پیش نظر جماعت احمدیہ کے ہوسٹل کی عمارت کا پہلے تھوڑا سا حصہ مکمل ہونا تھا لیکن میں نے کہا ہے کہ اسے زیادہ بڑھائو۔ چنانچہ اس کی تعمیر کا پروگرام تین حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ دوحصے جلسہ سالانہ تک انشاء اللہ مکمل ہوجائیں گے۔ تیسرا حصہ جلسہ تک مکمل نہیں ہوسکتا کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے۔ بہرحال کچھ مہمانوں کے لئے اس میں بھی گنجائش نکل آئے گی۔ پھر جو عمارت کیمپس کہلاتی ہے جہاں ہمارا ایم۔ ایس۔ سی فزکس کا حصہ ہے۔ اس میں کئی اورکمروں پر چھتیں پڑگئی ہیں جومہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے بڑی حدتک کافی ہیں اور اس سے میری مراد یہ ہے کہ جتناٹی۔ آئی۔ ہائی سکول اور اس کی بورڈنگ کا مسقف حصہ ہے اتنی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کمروں کی چھت مکمل ہوگئی ہے۔ اس میں بھی کئی کمرے میسر آجائیں گے ویسے اس میں کچھ انتظام کرناپڑے گا کیونکہ ابھی دیواریں نہیں بنیں صرف چھت ہی پڑی ہے۔ بہرحال ہم اس کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن ان تمام تعمیراتی وسعتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے مہمانوں کے لئے موجودہ عمارتیں کافی نہیں ہواکرتیں۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باہر سے آنے والے احباب بڑی قربانی کرتے ہیں وہ راتوں کو اس طرح سوتے ہیں کہ دفتروں میں بیٹھ کر حکومت کرنے والے لوگ اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے میں افسر جلسہ سالانہ تھا۔ میرے پاس ایک رپورٹ آگئی کہ ۱۸×۱۴یا شاید۱۵×۱۸ کا کمرہ ہے جس میں مقیم ایک سومہمانوں کیلئے مالک مکان یا منتظم کھانا لے گیا ہے۔ اتنے چھوٹے سے کمرہ میں تو اتنے مہمان نہیں ٹھہر سکتے۔ چنانچہ ہم نے رات گئے جب سارے مہمان اپنی اپنی رہائش گاہوں پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اس وقت جاکر چیک کیا تو جتنے مہمانوں کا کھانا منگوایا گیا تھا اتنے مہمان وہاں موجود تھے۔ انسان سوچے تووہ اس کااندازہ نہیں لگا سکتا تاہم اس چھوٹے سے کمرے میں سوکے قریب مہمان موجود تھے۔ وہ بیٹھ کر رات گزارتے تھے یا کیسے رات گزارتے تھے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر وہاں سو کے قریب مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہمارے احمدی دوست مہمان اور میزبان دونوں بڑی قربانی دیتے ہیں۔ ویسے یہاں ایک لحاظ سے مہمان اور میزبان کا فرق مٹ جاتا ہے کیونکہ جہاںتک مہمان ہونے کا تعلق ہے میں بھی اور آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں مگر خادم ہونے کی حیثیت میں ہم سارے میزبان ہیں۔ غرض مہمان اور میزبان دونوں اکٹھے ہوجاتے اور جلسہ کے انتظامات میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی برکت اور رحمت ہے۔ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
جلسہ کے دنوں میں رہائش کے سلسلے میں مَیں نے دیکھا ہے کہ باہر سے جو دوست اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ تویہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ انہیں کوئی غسل خانہ دے دیا جائے، وہ اسی میں اپنا وقت گزار لیں گے۔ پس مکانوں کی مانگ کاتو یہ حال ہے اور ادھر ربوہ کے دوست تھوڑی تعداد میں بیٹھنے والے یادوسرے کمرے فارغ کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی بعض دوست عملاً فارغ نہیں کرتے جس سے انتظامیہ کو بڑا غصہ آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دے سکتے نہیں کیونکہ مثلاً ان کے دور کے عزیز یاکوئی دوست ہیں وہ انہیں اطلاع دے دیتے ہیں کہ وہ جلسہ پر نہیں آرہے۔چونکہ انہوں نے پہلے سے یہ ذہن میں رکھا ہوتا ہے کہ میں فلاں کمرہ ان کو دونگا لیکن جب ان کی طرف سے اطلاع آجاتی ہے کہ وہ جلسہ پر نہیں آرہے تو وہ یہی کمرہ جلسہ سالانہ کے منتظمین کو دیدیتے ہیں مگر جب جلسہ سالانہ کے مہمان آنے لگتے ہیں۔ تو ان کے عزیز یا دوست کا ایمان جوش میں آتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ جلسہ سالانہ سے کیوں غیرحاضر ہوں؟ چنانچہ جب وہ ربوہ پہنچ جاتے ہیں تو وہی کمرہ ان کو دیدیا جاتا ہے۔ اس پر جلسہ سالانہ کے منتظمین شور مچا دیتے ہیں کہ تم نے تو ہمیں کمرہ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر کمرہ فارغ نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے وہ مہمان جن کے آنے کی توقع نہیں تھی وہ آگئے ہیں۔ وہ بھی تو آخر جلسہ کے مہمان ہیں اس لئے انہوں نے استعمال کرلیا ہے۔ بہرحال اس مرحلہ پرظاہری انتظام میں تو رخنہ پڑ جاتا ہے لیکن ایسے مالک مکان کا اخلاص اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
بعض دوست اس سلسلہ میں بھی بڑی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ اپنا سارا گھر مہمانوں کو دیدیتے ہیں۔ وہ خود کسی ایک کمرہ میں سمٹ کر گزارہ کرلیتے ہیں اور باقی سارا گھر خدا کے مہمانوں کیلئے فارغ کردیتے ہیں۔ دوسری طرف ایک وقت میں ہزاروں ہزار روپے چندہ دینے والے دوستوں کو اگر ربوہ میں کوئی غسل خانہ مل جائے جس میں پرالی پڑی ہوئی ہو تو وہ اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں اور شکرکرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بھی اورممنون ہوتے ہیں منتظمین کے بھی کہ انہوں نے ہمارے لئے رہنے کا انتظام کردیا ہے۔ بہرحال اہلِ ربوہ کے لئے جس حد تک ممکن ہو وہ اس سلسلہ میں منتظمین جلسہ سے تعاون کریں علاوہ ان مہمانوں کے جو ان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انکے گھروں میں ٹھہرتے ہیں ان مہمانوں کے لئے بھی اپنے مکانوں کے بعض حصے فارغ کریں جو ان سے تعلق تورکھتے ہیں لیکن جلسہ کے انتظام کے ماتحت ٹھہرتے ہیں۔ پس ایسے دوستوں کیلئے رہائش مہیا کرنے کیلئے بھی منتظمین جلسہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہئے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کی صفائی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ جلسہ کے دنوں میں بھی صفائی ہونی چاہئے اور اس سے پہلے بھی صفائی ہونی چاہئے۔ صفائی کی طرف اہلِ ربوہ کو بالعموم اور مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس صحت کو بالخصوص توجہ دینی چاہئے۔ باہر کے وہ دوست جو اس عرصہ میں ربوہ نہیں آئے ان کو بعض تبدیلیاں تو نظر آئیںگی مثلاً سڑکوں کے بعض حصے پختہ ہوگئے ہیں۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ کچھ اور تبدیلیاں بھی نظر آئیں۔ تاہم اس میں وقت لگے گا۔ نئی جگہوں پر درخت لگائے جارہے ہیں جو کھلی جگہیں تھیں ان کو استعمال کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔ کچھ تیار ہوگئی ہیں۔ کچھ تیار ہورہی ہیں اورکچھ انشاء اللہ تیار ہوجائیں گی۔ غرض صفائی کی طرف جس حد تک ممکن ہوہمیں توجہ دینی چاہئے۔ گو جس حد تک توجہ دینے کی ضرورت ہے اس حد تک ہم سرِ دست توجہ نہیں دے سکتے کیونکہ اس وقت ہمارے ذرائع محدود ہیں۔ لیکن کوشش کرتے رہنا چاہئے جس حد تک ممکن ہو،اپنے ماحول کی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہاں کبھی کوئی بیماری وبائی صورت میں نہیں آئی حالانکہ مہمانوں کی تعداد ہزاروں بلکہ اب تو ایک لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ایسی صورت میں احباب کا وبائی امراض سے محفوظ رہنا اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا مرہونِ منت ہے۔ جلسہ سالانہ نے ربوہ کی زمین کوبڑا اچھا کردیا ہے۔ جس وقت ہم پہلے پہل یہاں آباد ہوئے تھے اس وقت ہر طرف کلّر ہی کلّر نظر آتا تھا جن دوستوں نے سن انچاس پچاس اور اکاون کے جلسے دیکھے ہیںاوران کا حافظہ اچھا ہے ان کو یاد ہوگا کہ یہاں کلّر کی وجہ سے ہرجگہ سفیدہی سفید نظر آتی تھی اب تو درخت اُگ آئے ہیںسایہ ہوگیا ہے کئی جگہ پھول بھی نظر آنے لگے ہیں اور انشاء اللہ ایک دوسال میں کئی دوسری جگہوں پر بھی پھول نظر آئیں گے اورپھر اس سے بھی نمایاں فرق نظر آئے گا۔ یہ تو ایک مستقل کام ہے جوآہستہ آہستہ مکمل ہورہا ہے۔
پس جلسہ کے ایّام میں احباب کو صفائی کی طرف خاص طورپر توجہ دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جلسہ سالانہ کی کامیابی کے لئے دعائوں پربڑا زور دینا چاہئے۔ دوست یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی نیت رکھنے والوں کو ہر طرح صحت سے رکھے اور ان کے لئے جلسہ میں شمولیت کے سامان پیدا کردے۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ربوہ کو بھی صحت وعافیت سے رکھے اور انہیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ بہتر اور احسن رنگ میں خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے روحانی فرزندِ جلیل مہدی معہود کے مہمانوں کی خدمت کرسکیں اور وہ ہرقسم کی ذمہ داریاں چوکس اور بیدار رہ کر ادا کرسکیں۔
جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے نانبائیوں پر روزبروز بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جلسہ سالانہ کے دنوں جو نانبائی یہاں آتے ہیں وہ سب الّا ماشاء اللہ احمدی نہیں ہوتے۔ یہ بھی ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے کہ جلسہ سالانہ کی وجہ سے ان کا ہمارے ساتھ ایک پرانا تعلق قائم ہے۔ لیکن اب ان کی بساط کی بات نہیں رہی۔ اسی لئے ہم نے دوتین سال سے روٹیاں پکانے والی مشین استعمال کرنی شروع کردی تھی پہلے تجربہ کے طور پر اورپھر آج سے دوسال پہلے کافی بڑے پیمانے پر استعمال کی تھی۔ اس سال غالباً ۱۶ نئی مشینیں لگ گئی ہیں گویہ بھی کافی نہیں۔ لیکن ان کا اتنا فائدہ ضرور ہے کہ اگر خدا نخواستہ سارے تنور ناکام ہوجائیں تو اتنی روٹیاں پکادیں کہ جیسا کہ ہم بعض دفعہ جلسہ سالانہ پرکیا کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ایک روٹی میں ہر ایک دوست کی سیری کے سامان پیدا کردے گوہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر ایک دوست کو اس کا جو عام طریق ہے اور روزمرہ کا معمول ہے اس کے مطابق کھانا دیا جائے لیکن بعض دفعہ انتظام میں غیر متوقع خرابی کیوجہ سے تھوڑا کھانا دینے پر اکتفا کرناپڑے تب بھی دوست اسے بطیبِ خاطر قبول کرلیتے ہیں۔
اگرچہ روٹیاں پکانے والی مشینیں مل گئی ہیں لیکن پیڑے اورروٹیاں بنانے کی مشینیں ابھی تک ہمیں نہیں مل سکیں۔ اس سال ایک مشین ہمیں ملی ہے جو پیڑے بنانے یا روٹیاں بنانے والی ہے۔ یہ مشین ربوہ میں پہنچ چکی ہے اوراس وقت اس پر تجربہ ہورہا ہے یہ مشین کراچی سے بن کرآئی ہے مگر ٹھیک طرح کام نہیں کررہی ہمارے ایک احمدی انجینئردوست ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر اور سمجھ اور فراست عطا فرمائے وہ اس کو ٹھیک کررہے ہیں۔ اس میں کافی حد تک درستی ہوگئی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کا تجربہ کامیاب ہوجائے تو پھر اگلے سال ہمارے لئے بہت سہولت پیدا ہوجائے گی لیکن سردست میں یہ کہوں گا کہ ہمارے جلسہ میں نانبائیوں کی کمی کسی صور ت میں رخنہ انداز نہیں ہونی چاہئے جلسہ کے ایام میں بوقت ضرورت ہمارے مرد و زن ہر دوکوپیڑے اور روٹیاں بنانے کیلئے تیار رہنا چاہئے یہ اسلام کاایک بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی عظیم مقصد کے حصول میں جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اس میں مردوزن کی تفریق نہیں کی جاسکتی ہر دوپر ایک جیسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ جن میں ہمیں یہ اصول یاد کرایا جاتا ہے کہ دیکھو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ایک عظیم جدوجہد شروع ہے۔ اس زمانے سے مراد ایک احمدی ہمیشہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لیتا ہے کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آپ کی بعثت سے قیامت تک ممتد ہے۔ اسلئے ہمارا یہ زمانہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ پس اس زمانہ میں توحید کے قیام بنی نوع انسان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کا پیار اور قرآن کریم سے دلی وابستگی پیدا کرنے کے لئے جو عظیم جدوجہد ایک مجاہدہ اور ایک جہاد شروع ہوا ہے۔ اس نے مردوزن کی تفریق مٹا دی ہے۔ دونوں پر ایک جیسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان دونوں کے کاموںمیں فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کی ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں۔ ہم عورتوں کو پرے نہیں بٹھا سکتے بلکہ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم دینی امور میں ان سے استثنائی خدمت لیتے ہیں۔ شروع اسلام میں جب عورتوں کی ضرورت پڑی تھی تو وہ میدان جنگ میں چلی گئیں۔ جب ان کی ضرورت نہیں تھی تووہ پانی پلاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں یا دیکھ بھال کے دوسرے کام کرتی تھیں لیکن بوقت ضرورت میان سے تلوار نکال لیتیں اور تیر کمان ہاتھ میں پکڑ لیتی تھیں اور مردوں سے پیچھے نہیں رہتی تھیں وہ ہر مشکل کے وقت تیار رہتی تھیں پس اگرچہ مرد اورعورت کا اپنا اپنا کام اوردائرہ کار مقرر ہے لیکن ضرورت کے وقت وہ سب کا کام بن جاتا ہے۔
پس ہماری احمدی بہن غلبۂ اسلام کی اس جدوجہد سے باہر نہیں رہ سکتی اور نہ اسے باہر رکھا جاسکتا ہے۔ اس عظیم جدوجہد میں اسے شامل کرنا پڑے گا چنانچہ اگر ضرورت پڑے گی تو ہم اپنی بہنوں کو روٹی پکانے والی مشینوں پر بٹھا دیں گے، اپنی مائوں کو بٹھا دیں گے اوراپنی بیٹیوںکو بٹھا دیں گے اور کہیں گے پیڑے بنائو اور روٹیاں لگائو تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قلعہ میں آنے والے مہمانوں کو کھانا مل سکے۔ اپنے گھروں میں جب مہمان آتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک عورت دس دس پندرہ پندرہ سیر آٹا گوند کر روٹیاں پکالیتی ہے تو خدا کے محمدﷺ کے مہدی کے گھر مہمان آئیں اور عورتیں باہر بیٹھی رہیں یہ تونہیں ہوسکتا۔ اگر کسی کے دل میں کوئی شبہ ہے تو وہ نکال دے۔ عورتیں باہرنہیں بیٹھیں گی وہ آئیںگی اوراپنی ذمے داری کو پورا کریں گی ۔تاہم ان کو یاد کرانے کی ضرورت تھی سو میں نے اس وقت یاد کرادیا ہے۔ انہیں تیار رہنا چاہئے۔ لجنہ اماء اللہ کو چاہئے وہ اس سلسلہ میں ان کی راہنمائی کریں۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ روٹی پکانے کا کام عام طورپر عورت کا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن نانبائی آپ کو عام طور پر مرد نظر آتے ہیں۔ اس واسطے دنیا میں احمدی مرد بھی ضرور نانبائی ہونگے ان کو مرکز میں آنے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ وہ یہاں جلسہ سننے اورخدا کی برکات سے حصہ پانے کے لئے آئیں۔ وہ یہاں آکر اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم برکات، فضل اوررحمتیں دیکھیں جو جماعت احمدیہ اور اس کے ذریعہ تمام دنیا کے انسانوں پر نازل ہورہی ہیں۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے شکر کے جذبات سے معمور ہوجائیں گے تاہم وہ ساتھ یہ نیت بھی کریں کہ اگر روٹی پکانے کی ضرورت پڑی یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ پیڑے بناکر روٹی بنانے والی مشین پر لگانے کی ضرورت پڑی تو ہم اس کام میں شامل ہوں گے کئی ایسے مرد اورعورتیں بھی ہیں جوعام طور پر پیڑا اور روٹی تو بنا سکتے ہیں لیکن تنور میں روٹی نہیں لگا سکتے۔ اس کے لئے بڑی مشق کی ضرورت ہے کیونکہ تنور میں ہرروٹی کے لئے دودفعہ ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔ لیکن مشین کے اوپر روٹی بنانے کے لئے اس قسم کی مشقت کی ضرورت نہیں صرف جذبہ کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی عورت مشین پر تکونہ یا ہشت پہلو روٹی پکا دیگی تو ہم وہ بھی خوشی سے کھالیںگے۔ پکا ہواآٹا ہونا چاہئے روٹی کی شکل چاہے کسی قسم کی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہم جب بچے تھے اور سکائوٹنگ کے لئے باہر جایا کرتے تھے تو خودہی’’و نگی ٹرنگی‘‘ اور کچی پکی روٹی پکا کر کھا لیا کرتے تھے۔ تاہم جلسہ سالانہ کے دنوں میں نہ توروٹی کچی ہونی چاہئے اور نہ جلی ہوئی ہونی چاہئے کیونکہ بچے بھی ہوتے ہیں بعض دوست بیمار بھی ہوجاتے ہیں پتہ نہیں کون سی چیز کس کے حصہ میں آنی ہوتی ہے اس لئے کچی اورجلی ہوئی روٹی نہیں ہونی چاہئے لیکن یہ ضروری نہیں روٹی گول ہویا اوول ہو جیسے صوبہ سرحد میں رواج ہے یا تین کونے یا چارکونے والی ہو۔ جس قسم کی روٹی مشین میںتیار ہوگی وہ آپ کو مل جائے گی ایک مشین ایسی بھی ہے کہ اس میں علیحدہ علیحدہ ایک ایک روٹی نہیں بنائی جاتی بلکہ جس طرح کپڑے کا بنا بنایا تھان باہر نکلتا ہے اسی طرح مشین کے اندر سے روٹی کا ایک تھان نما ٹکڑا باہر نکلتا رہتا ہے جس میں سے آگے کاٹ کر تین تین دودویا ایک ایک روٹی بنالی جاتی ہے۔
غرض ہمیں روٹی ملنی چاہئے ہمیں اسکی شکل سے سروکار نہیں۔ اس کی شکل تھان کی ہویا چاند کی ہو یازرہ کی ہو یا چورس ہو یا جوبھی ہو پکے ہوئے آٹے کی روٹی ہونی چاہئے۔ اسی طرح چاول بھی پورے طورپر پکے ہوئے ہونے چاہئیں تاکہ جلد ہضم ہوجائیں اور دوست بیمار نہ ہوں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس نان میں بڑکت ڈالے گا کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی کے درویش دنیا میں پائے جائیں گے اس وقت تک فرشتے آسمان سے اُس نان کے مشابہ نان لیتے آئیں گے جو فرشتوں کی طرف سے اللہ کے حکم سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے حضور یہ کہتے ہوئے پیش کیا گیاتھا کہ ’’یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۱۴) تاہم یہ ساری چیزیں جہاں ہمارے لئے باعث طمانیت ہیںوہاں ہمارے اوپر ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔ اسلئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکاہوں آج انصاراللہ اورلجنہ اماء اللہ کا اجتماع شروع ہورہا ہے پاکستان میں اس وقت بیماری بھی بہت پھیلی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ دوستوں کو بہت احتیاط کرنی چاہئے ان دنوں عام طور پر تین بیماریاں اکٹھی حملہ کرتی ہیں۔ ملیریا، انفلوئنزا، گلے کی تکلیف جسے انگریزی میںTHROAT INFECTION(تھروٹ انفیکشن) کہتے ہیں۔ تو یہ اللہ کی تقدیر ہے اورہم اس سے گھبراتے نہیں لیکن باوجود اسکے کہ بہت دوست بیمار رہے ہیں۔ پھر بھی وہ اس اجتماع پر آگئے ہیں اس لئے یہ بیماری ہمارے راستے میں روک نہیں بنی۔ اسی طرح لجنات کے متعلق بھی کہنے والوں نے تو یہی رپورٹ دی ہے کہ اس دفعہ مستورات زیادہ تعداد میں شامل ہورہی ہیں۔ لیکن یہ رات کی گنتی ہے صبح سے لیکر اس وقت تک مجھے نہ لجنہ کی طرف سے اورنہ انصاراللہ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ کتنی لجنات اور کتنے انصار اجتماع میں شامل ہورہے ہیں۔
غرض انصاراللہ لجنات دونوں کے اجتماع آج شروع ہورہے ہیں۔ امت محمدیہ میں جب بھی اجتماع ہوں اس بارہ میں قرآن کریم کی ایک ہدایت موجود ہے جسے بھولنا نہیں چاہئے اوروہ یہ ہے کہ جب بھی دینی اجتماع ہو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور توبہ و استغفار بڑی کثرت سے کرنا چاہئے۔ اس پر نہ توکوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے اورنہ وقت لگتا ہے۔ یہ صرف عادت کی بات ہے۔پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان دنوں کثرت سے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۲۵) کا ورد کریں۔ تسبیح وتحمید سمیت درود پڑھنے کی تحریک تومیں پہلے بھی کرچکا ہوں۔ پھر استغفار ہے یعنی اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیّ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ بھی کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اس کے ساتھ جو دوست لاحول پڑسکیں وہ لاحول بھی پڑھیں۔میرا تجربہ ہے کہ استغفار کرنا اندرونی کمزوریوںکے دورکرنے کے حق میں اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور لاحول بیرونی حملوں کے شر سے حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
پس (ابراہیم:۸) کی رو سے آپ جتنی زیادہ تسبیح وتحمید کرینگے آپ اپنے محسن اور انسانیت کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنا زیادہ درود پڑھیں گے اتنے ہی زیادہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے انصار اللہ کا اجتماع عملاً جمعہ کے بعد شروع ہوجاتاہے۔ اسلئے دوست ابھی سے تسبیح وتحمید اور درود و استغفار پڑھنے لگ جائیں اور اگر ہوسکے تواپنے اس ورد میں لاحول کو بھی شامل کرلیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضل نازل فرمائے۔ اسکی جو برکات ہمارے لئے مقدر ہیں اور ان برکات کے حصول کیلئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں وہ قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں قبول بھی فرمائے۔ یعنی ہمیں مقبول ایثار کی مقبول قربانیوں کی توفیق عطا ہو تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں اور انسان کے ضمن میں دنیا کی بحیثیت مجموعی جو ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پرڈالی گئی ہیں ہم ان ذمہ داریوں کوالٰہی توفیق سے بہتر رنگ میں ادا کرسکیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍ دسمبر ۶ ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ تا ۴)
ززز

امراض کی تکالیف سے بچنے کیلئے ضروری ہے
انسان دوا بھی کرے اور خدا کے حضور بھی جھکے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجداقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج کل ہمارے ملک میں بھی اور باہر سے آمدہ اطلاعات کے مطابق بعض بیرونی ممالک میں بھی ملیریا، انفلوئنزا اور گلے کی خرابی نے وبائی صورت میں انسان پر حملہ کررکھا ہے۔ یہ تینوں بیماریاں بظاہر اکٹھی حملہ کرتی ہیں۔ چنانچہ یہاں ربوہ میں بھی بڑے بھی اور چھوٹے بچے بھی بڑی کثرت سے بیمار ہوتے رہے ہیں۔ بہت سے اب بھی بیمار چلے آرہے ہیں۔ بعض گھروںمیں توسارے کے سارے گھر والے بیمار پڑے ہوئے تھے۔
جہاں تک انفلوئنزا کا تعلق ہے یہ ضروری نہیں کہ گلے، ناک اور سرپر اس کا حملہ ہو اور ساتھ بخار ہوجائے بلکہ بعض دفعہ تو یہ معدہ اور انتڑیوں پر بھی حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے پیچش اور اسہال کی بیماری خصوصاً بچوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں تو ربوہ میں بہت سے چھوٹے بچے وفات پاگئے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو بڑوں اور چھوٹوں سب پر حملہ کرتی ہے۔ بعض دفعہ چند گھنٹوں کے بخار میں مریض کی وفات ہوجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انفلوئنزا کی نئی قسم کے VIRUS(وائرس) یعنی کیڑے حملہ آور ہوئے ہیں جن کی ابھی تک صحیح طورپر تشخیص نہیں ہوسکی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ان بیماریوں سے محفوظ رکھے۔انفلوئنزا کا پہلا بڑا حملہ جو انسان کے علم میں آیا وہ ۱۹۱۸ء کا فُلو تھا۔ اس میں مجھے یاد ہے قادیان میں ایک وقت میں آدھے شاید اس سے بھی زیادہ یعنی ستراسّی فیصد دوست انفلوئنزا کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر بھی اس کا بڑا سخت حملہ ہواتھا۔ حالت بڑی پریشان کن اور تشویشناک تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو صحت عطا فرمائی۔ اسکے بعد دوچاربار فلووبائی شکل میں مختلف ملکوں میں حملہ آور ہوتا رہا ہے۔ مگر تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر دفعہ انفلوئنزا کے وائرس یعنی کیڑے مختلف شکل کے ہوتے تھے جن پر پہلی دوائیوں کا اثر بھی نہیں ہوتا تھا مثلاً انسان نے اپنے تجربہ سے ۱۹۱۸ء میں جودوائیاں ایجاد کیں ان کا اثر بعد کے وبائی فلو کے اوپر نہیں ہوا۔ لندن میں ایک ہومیو پیتھک فرم ہے جس نے ۱۹۱۸ء اور اس کے بعد کے مختلف وبائی فُلو کے جو کیڑے ہوتے رہے ہیں ان کوٹی بی کے کیڑوں کے ساتھ اکٹھا کرکے ہومیو پیتھی کی شکل میںعلاج تیار کیا ہے۔ یہ دوا احتیاطی تدبیر کے طورپر بھی استعمال کی جاتی ہے تاکہ فلو نہ ہو۔ میں نے بھی یہ دوامنگوائی تھی اور بہت سے دوستوں کوپچھلے سال استعمال کروائی تھی۔ اکثر دوستوں کو اس سے بڑا فائدہ بھی ہوا۔ گویہ دوابڑی اچھی ہے لیکن اس دفعہ میں نے یہ دوا استعمال نہیں کرائی کیونکہ ہم نہیں کہہ سکتے اگر کوئی نیا وائرس یعنی کیڑا ہے تو اس پر وہ اثر بھی کرتی ہے یا نہیں۔
بہرحال بیماری خواہ کسی بھی شکل میں ہو۔ وبائی شکل میں ہو یا روزمرہ کی ان بیماریوں کی طرح ہو جوعام طورپر کسی نہ کسی کو ہوتی ہی رہتی ہے۔ اصل شافی تواللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے (الشعراء:۸۱) یعنی جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے بیماری انسان کی غلطی اور گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ کھانے پینے اوررہنے سہنے کے طریق اسلام نے بتا دئیے ہیں کہ کس طرح اپنے جسم کی حفاظت کرنی ہے اور کھانے کو ہضم کرنے کے لئے کیاطریق اختیار کرنا چاہئے وغیرہ چنانچہ اس دنیا میں صحت مند رہنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے جو احکام بیان فرمائے ہیں جب انسان انکی پرواہ نہیں کرتاتووہ بیمار ہوجاتا ہے پھر چونکہ بیماری خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے اس لئے اسکو دورکرنے کے لئے خدا تعالیٰ کو استغفار کے ذریعہ خوش کرنا پڑتا ہے اور اسکی پیدا کردہ ادویہ سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔
پھر جہاں تک بیماری کے علاج کاتعلق ہے اور بیمار کی ذہنی کیفیت کا سوال ہے، ہمیں دنیا میں تین قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو دائیں طرف جھکے ہوتے ہیں دوسرے وہ جو بائیں طرف جھکے ہوتے ہیں اور تیسرے وہ جو صراطِ مستقیم کی راہ پر قائم ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ دائیں کو جھکے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شفا تو اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اس لئے کسی دوا یاتدبیر کی کیا ضرورت ہے۔ اسکے مقابلہ پر جو لوگ بائیں کو جھکے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صرف دوا کافی ہے۔ دوا نے شفا دینی ہے۔ ایسے لوگ خدا کا خانہ خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ ان دوانتہائوں کے درمیان جو لوگ صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں یعنی اس سیدھی اور درمیانی راہ کو اختیار کرتے ہیں جس کا اُمَّۃً وَسَطًا میں ذکر ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا۔ دوائیوں کو بھی اسی نے پید اکیا اس لئے دوانہ کرنا جہاں اسکی نعمتوں کی نافرمانی ہے وہاں دوا پر ُکلی بھروسہ کرنا کفر اور شرک ہے اور توحید کی راہ سے بھٹکنے کے مترادف ہے۔
پس جو لوگ یہ کہتے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی نے شفا دینی ہے تو پھر دوا کرنے کی کیا ضرورت ہے، ان سے میں یہ کہوں گا کہ پیٹ بھرنا بھی تواللہ کاکام ہے لیکن کبھی تم نے یہ نہیں کیا کہ کھاناکھا کر کیا لینا ہے۔ پیٹ تواللہ نے بھرنا ہے۔ کبھی کسی آدمی نے یہ نہیں کہاکہ سردی سے اللہ نے حفاظت کردی ہے اس لئے سردی کے موسم میں گرم کپڑے پہننے کی کیا ضرورت ہے مثلاً ان دنوں سردی کی لہر آگئی ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ شاید اس سے بھی زیادہ آئے گی بہرحال سردی کی وجہ سے لوگ گرم کپڑے مثلاً سویٹراور کوٹ وغیرہ پہنتے ہیں لیکن اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ کپڑے پہننے کی کیا ضرورت ہے ہم لنگوٹا باندھیں گے یا سترکا حصہ ڈھانپ لیں گے اور چلیں پھریں گے۔ اب جو شخص بھی ایسا کرے گا وہ بیمار ہوجائے گا اور پاگل کہلائے گا۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دواشفا دے گی خواہ خدا تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہو اور وہ شفا نہ دینا چاہے اس قسم کا خیال بھی غلط ہے۔ دوا صرف اس صورت میں شفا دے گی جب اللہ تعالیٰ کا اسے حکم ہوگا اورہم دوا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوا کو استعمال کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے مضامین کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے دوا پیدا کردی ہے۔ آخردوا کا تعلق بھی تو اس مادی جسم کے ساتھ ہے اور جسم کی دیگر ضروریات کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہزاروں لاکھوں چیزیں پیدا کی ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے کھانے پیدا کئے ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی اشیاء پیدا کیں۔ اس نے ہمارے لئے کپڑے پیدا کئے کپڑے بنانے کے لئے روئی پیدا کی۔ اس نے چودہ چودہ پندرہ پندرہ ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر رہنے والی بھیڑیں پیدا کیں جن پر بہت باریک اور گرم اُون ہوتی ہے جسے پشمینہ کہتے ہیں۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ جہاں برف پڑتی ہے اس کے نیچے نیچے ڈھلوانوں میں بھیڑیں پرورش پاتی ہیں جن کی اون ایک توخود ان کو گرم رکھنے اور دوسرے انسان کو گرمی پہنچانے کا بھی کام دیتی ہے۔ بعض دفعہ عمر کے بعض حصوں میں بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جو بھاری کپڑوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں کسی زمانہ میں سردیوں کے دنوں میں بڑا وزنی کوٹ پہن لیا کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک کوٹ دیا تھا جو بڑا موٹا اور وزنی تھا۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک میں نے وہ کوٹ بھی استعمال کیا تھا مگر اب میرے کندھوں کے اعصاب اور عضلات موٹی چیز کا بوجھ برداشت نہیں کرتے۔ میں اپنی بات کررہا ہوں۔ مجھے کپڑوں میں ایسی ہلکی چیزکی ضرورت ہوتی ہے جوگرم بھی ہو اور کم وزن بھی ہو۔ اس قسم کی چیز کی مجھے تلاش کرنی پڑتی ہے ورنہ پھر ٹھنڈ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ غرض جب اس مادی جسم کے آسائش وآرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں لاکھوں اشیاء پیدا کی ہیں اور اس جسم کو بیماری کے اثرات سے بچانے کے لئے اس نے دوا بھی پید اکی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اوراپنے بندہ کو جو اس کی قدرتوں پر ایمان لاتا ہے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تیرے لئے ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے۔ تو ضرورت کے وقت اسے استعمال کر۔ لیکن اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب تو ساتھ ہی مجھ سے میری رحمت کا طالب ہوگا۔ تب میں دوا کو حکم دوں گا کہ وہ تجھ پر اثر کرے اور تیرے جسم کو حکم دوں گا کہ وہ دوا کے اثر کو قبول کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیںکہ اصل شفا اس وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم دونوں پرنازل ہوتا ہے یعنی دوا پر بھی اور جسم پر بھی ۔ ڈاکٹر جس مریض کولاعلاج قراردیتا ہے اس کا مطلب اسلامی اصطلاح میں صرف اتنا ہے کہ اس مریض کے جسم کے ذرّات دوا کے اثر کوقبول کرنے سے انکار کررہے ہیں لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا اور اس کے حضور عاجزانہ رنگ میں جھکتا اور اس سے شفا کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگرچاہے تو اس کے جسم اور جسم کے ذروں میں دوا کے قبول کرنے کی خاصیت عود کرآ تی اور بیمار کو شفا مل جاتی ہے۔
پس یہ کہنا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ شافی ہے اسلئے کسی دوا کے استعمال کی ضرورت نہیں اسلامی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ دائیں طرف جھکنے والے ہوتے ہیں وہ ظاہر میں تو توحید کے قائل ہوتے ہیں لیکن اندرونی طورپر اورباطنی لحاظ سے مشرک ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوائیاں وغیرہ اپنے آپ ہی آگئی ہیں خدا کی منشاء اور اس کی حکمت کاملہ نے انکو پیدا نہیں کیا ایسا سمجھنا غلط ہے دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے یا وہ حقیقی توحید پر قائم نہیں ہوتے وہ کہتے ہیں کہ بس دوا کھالی۔ آرام آجائے گا لیکن صرف دوا پر بھروسہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ ویسے اگر خدا تعالیٰ نے شفا دینی ہوتو وہ مٹی کی چٹکی میں شفا رکھ دیتا ہے ہم نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ سخت تکلیف میں مبتلا بلکہ تڑپتے ہوئے مریض کو مٹی کی ایک چٹکی دی گئی اور اسے آرام آگیا اورپھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک ہی نسخہ ایک دعا گو طبیب دیتا ہے تو مریض کوشفا ہوجاتی ہے اور ایک غافل شخص جس کو توحید کا علم نہیں ہوتا اور وہ دعائوں سے کام نہیں لیتا وہی نسخہ اور وہی دوا دیتا ہے لیکن مریض کو شفا نہیں ہوتی۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ ہمارے والد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ماموں تھے۔ ہم سب بھی انہیں ماموں جان ہی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ شملہ میں تھے خود مریض بھی تھے مگر طبیعت میں استغناء تھا پیسے کا لالچ نہیں تھا۔ طبیعت خراب ہوتی تھی تو وہ اپنے کمپائونڈر سے کہتے تھے کہ وہ مریض کو دیکھنے چلاجائے۔ کمپائونڈر کوبھی وہی نسخے یاد تھے جو حضرت میر صاحبؓ دیا کرتے تھے لیکن مریض آکر کہتے تھے کہ آپ خود دوائی لکھ کر دیں۔ کمپائونڈر نے جو دوائی لکھ کر دی ہے اس سے آرام نہیں آیا حالانکہ دوائی ایک ہی ہوتی تھی۔ غرض کمپائونڈر نے دوائی تو وہی دی لیکن اس نے وہ دعا نہیں کی جو حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ مریض کے لئے کیا کرتے تھے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعہ پر یہ ہدایت فرمائی ہے کہ بڑا ظالم ہے وہ ڈاکٹر اور طبیب جو اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا۔ ظالم اس لئے ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ صرف دوائی سے آرام آجائے گا یا اس کی طبی مہارت سے مریض کے کام آجائے گی۔ ڈاکٹر کی مہارت اور دوا اس مریض کے کام آتی ہے جب اللہ تعالیٰ آسمانوں سے ایسا حکم نازل کرتا ہے ورنہ وہ فائدہ نہیں کرتی۔
پس بائیں طرف جھکنے والے مریض سمجھتے ہیں کہ بس دوا لے لی ہے دعا کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضروت نہیں ہے لیکن جو شخص مومن ہے اور راہ ِراست اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے۔ وہ دوا کھاتا بھی ہے اور دوا پر بھروسہ بھی نہیں رکھتا۔ وہ دوا اس لئے کھاتا ہے کہ اس کے رب نے اسے کہا کہ تیرے لئے یہ دوا پیدا کی گئی ہے تو اسے استعمال کر۔ دوا تدبیر ہے اوردعا اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرتی ہے جو شخص بیماری کی حالت میں دوا استعمال کرتا ہے اوراپنے رب کے حضور عاجزانہ جھکتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے شفا بخشتا ہے۔
پس میںاپنی جماعت کو خصوصاً اور تمام بنی نوع انسان کو عموماً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ امراض کی تکالیف سے ، ان کے نتائج سے بسا اوقات موت کی شکل میں یا فالج کی شکل میں یعنی بعض دفعہ جسم کے معین حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں مثلاً جگر مستقل طورپر خراب ہوجاتا ہے۔ ان سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ دوا کے علاوہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے۔ اس سلسلہ میں اپنے احمدی دوستوں سے بالخصوص یہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیںحسب استعداد معرفت وعرفانِ ذات وصفات باری عطا فرمایا ہے اس لئے نہ صرف خود بیماریوں سے بچنا ہے بلکہ دوسروں کو راہ راست کی طرف لانا بھی ہمارا فرض ہے اس لئے جہاں دوائوں کو استعمال کرو وہاں دوائوں پر بھروسہ بھی نہ رکھو کیونکہ دوائیں استعمال نہ کرنا خداتعالیٰ کی ناشکری ہے اور دوائوں پر کلی بھروسہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی توحید کے خلاف ہے۔ اسلئے صراط مستقیم کو اختیار کرو۔ دوائوں وغیرہ کو استعمال کرو لیکن یہ نہ سمجھو کہ بس دوائوں کے نتیجہ میں شفا حاصل ہوگی۔ شفا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملے گی اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اوراس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرو کہ (الشعراء:۸۱) یعنی انسان اپنی غلطی سے بیمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوتا ہے۔
غرض یہ تو تھی علاج معالجہ کے ضمن میں مریض کی ذہنی کیفیت۔ اب ہم طبیب کی ذہنی کیفیت کولیتے ہیں جو اچھی بھی ہوتی ہے اور بُری بھی ہوتی ہے مثلاً طبیب کی بُری ذہنیت یہ ہوسکتی ہے کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے طبیب اپنے مریض کے لئے دعانہ کرے اور اس کی اچھی ذہنیت یہ ہے کہ وہ اپنے مریض کے لئے دعا بھی کرے لیکن دعا کے علاوہ صحیح تدبیر کرنا بھی ضروری ہے۔
اس وقت ہمارے ہاں مختلف قسم کی طب رائج ہیں۔ ایک کو ایلو پیتھی کہتے ہیں۔ اس کی طرح مغربی ممالک نے ڈالی ہے انہوں نے اس پرریسرچ کرکے اور مختلف اجزاء کو ملا کرکچھ دوائیں تیار کیں اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کی تاثیرات معلوم کیں۔ پھر انڈسٹری یعنی صنعت وحرفت کی ترقی کے ساتھ مختلف قسم کے اپریشن ممکن ہوگئے یا اس سلسلہ میں بعض دوائیوں کا استعمال ممکن ہوگیا مثلاً ٹیکہ لگانا اس وقت تک ممکن نہیںتھا جب تک انسان کوئی ایسی باریک سی سوئی نہ بنا لیتا جس کے اندر ایسا سوراخ ہو جس کے ذریعہ دوائی مریض کے جسم میں داخل کی جاسکے۔ کیونکہ حقے کی نال کے ذریعہ سے توانسانی جسم میں ٹیکہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پس پانچ سوسال پہلے انجکشن لگانے کاسوال ہی نہ تھا یعنی اگردوائی کی طرف توجہ ہوتی اورہم بنا بھی لیتے تب بھی چونکہ انجکشن کا طریق معلوم نہیں تھا اس لئے اسے انسان کے جسم میں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا۔
غرض جب تک صنعت وحرفت کی ترقی سے ایسے سامان نہ پیدا ہوگئے اور انجکشن کی سوئی بنانا ممکن نہ ہوگیا اس وقت تک ان دوائیوں کی طرف انسان کو توجہ نہیں ہوئی۔ شروع میں توصنعت وحرفت کا صرف یہی مطلب تھا کہ کپڑے بنادئیے یا شکر کے کارخانے کی مشینری بنادی لیکن آپریشن کے اوزار کی فراہمی توصنعت وحرفت کی ترقی یافتہ صورت میں ممکن تھی چنانچہ جب صنعت وحرفت نے ترقی کی اور انسان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ اٹھایا اورانجکشن کی سوئی اور ادویہ وغیرہ بنالیں مگر اس سلسلہ میں انسان نے دوغلطیاں کیں ایک یہ کہ سرجن یعنی جس ڈاکٹر کے ہاتھ میں اپریشن کرنے والا چاقو ہے اس کی ذہنیت یہ ہوگئی کہ جب بیمار اس کے پاس آتا ہے تو اسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ مریض کو فلاں بیماری ہے اس کی انگلیوں میں کھجلی ہونے لگتی ہے وہ کہتا ہے کہ نشتر استعمال ہونا چاہئے۔ اس لئے اگر کسی آدمی کو مثلاً اپنڈکس کی تکلیف ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے تم لیٹ جائو میں تمہارا آپریشن کرتا ہوں۔ تمہارا پیٹ کھولتا ہوں۔اپنڈکس خراب ہوئی تب بھی نکال دوں گا اور اگر اچھی ہوئی تب بھی نکال دوں گا۔ کیا فرق پڑتاہے۔ اسی لئے کسی زمانہ میں ڈاکٹر کہتے تھے کہ اپنڈکس بے فائدہ ہے مگر اب ڈاکٹر یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ پیدانہیں کی۔ پس اگر کوئی چیز بے فائدہ نہیں تو اپنڈکس کے بھی بعض فوائد ہیں۔ اب جس آدمی کی اچھی بھلی اپنڈکس نکال دی گئی اسے تو گویا اس کے فوائد سے محروم کردیاگیا۔ سرجن نے شبہ میں(یابعض توویسے ہی شوق میں) پیٹ کھولا اور دیکھا کہ اپنڈکس نہیں ہے تو سوچا کہ اب توپیٹ کھولاہوا ہے کیوں نہ اپنڈکس نکال کر باہر پھینک دیا جائے حالانکہ میرا یہ ذاتی تجر بہ ہے کہ بہت سے احمدی دوست جو اپنڈکس کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں وہ مجھ سے مشورہ لیتے ہیں تومیں دعائوں کے بعد(اللہ تعالیٰ ہی میری طبیعت میں کیفیت پیدا کرتا ہے) میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ آپریشن نہ کرائو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے۔ آپریشن کے بغیر آرام آجاتا ہے۔ میں نے شاید پہلے بھی بتایا ہے صادقہ حیدرصاحبہ جن کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان کا ایک آپریشن ٹیوب کھولنے کے لئے ہوا مگر اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا میں جب ۱۹۶۷ء میں دورے پر گیا تو انہوں نے مجھ سے بھی ذکر کیا کہ میںبڑی پریشان ہوں شادی کو کئی سال ہوگئے ہیں لیکن بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ بچہ پیدا ہوہی نہیں سکتا جب کوئی آدمی میرے سامنے یہ کہے کہ فلاں کام ناممکن ہے تو میری طبیعت بہت پریشان ہوجاتی ہے اور میری غیرت دینی جوش مارتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ کہنے لگیں کہ ڈاکٹر کہتے ہیں دوبارہ آپریشن کروائو۔ میں نے کہا کہ چھ مہینے تک آپریشن نہ کروائو۔ اس کے بعد پھر مجھ سے مشورہ کر لینا۔ چنانچہ تین مہینے بعد اس کا خط ملا کہ مجھے حمل ٹھہر گیا ہے اب دیکھو ڈاکٹر جس بات کو ناممکن قرار دیتے ہیںاللہ تعالیٰ کے فضل نے اسے ممکن بنا دیا حالانکہ ڈاکٹروں کی انگلیوں میں کھجلی ہورہی تھی وہ انہیں کہتے تھے کہ ہم آپریشن کے لئے دوبارہ چاقو چلا دیتے ہیں۔ دیکھیں گے اگرٹھیک ہوا تو رہنے دیں گے ورنہ بچہ پیدا کرنے والے نظام کو کاٹ کاٹ کر باہر پھینک دیں گے۔ پس انسان نے ایک تو یہ غلطی کی کہ جب جراحی کے سامان ترقی کرگئے تو عمل جراحی حداعتدال سے آگے بڑھ گیا اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کی تھیں ان کا خیال نہ رکھا گیا اور اس سے انسانوں کو آرام کی بجائے مزید تکلیف پہنچی۔ علاج کے اس مخصوص طریق میں دوسری خرابی یہ پیدا ہوئی کہ جس طرح انہوںنے آپریشن کے اوزار مثلاً اب تو انہوںنے ایسے چاقوبنالیے ہیںجن میں بجلی کی ایک خاص طاقت کی لہر ہوتی ہے اور وہ ساتھ ساتھ شریانیں بند کرتی جاتی ہے تاکہ بلیڈنگ نہ ہو اسی طرح ادویہ بھی تیار کرلیں جو نشتر ہی کی طرح تیز اور زود اثر ہوتی ہیں مثلاً جتنی اینٹی بائیوٹک وغیرہ ادویہ ہیں یعنی پنسلین اورمائی سین وغیرہ وہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ ادویہ دراصل اندھی ہیں۔ یہ خراب اور اچھے دونوں قسم کے جراثیم مار دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے پیٹ میں اربوں کی تعداد میں مختلف قسم کے ایسے کیڑے پیدا کئے ہیں جو انسان کے ہضم کے نظام میں اور اس کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بہت ضروری ہیں مگر مائی سین جو اندھی ہے یہ دے کر اگر بیماری ہے تو نہ صرف بیماری کے کیڑے کو ہلاک کرتی ہے بلکہ ساتھ ہی ان کیڑوں کو بھی تباہ کردیتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور اس طرح اس قسم کی ادویہ کے بالعموم بُرے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمارے اپنے گھر کا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ اسے مری میں نمونیہ کی کچھ تکلیف ہوگئی توڈاکٹر نے اسے اتنی مقدار میں مائی سین دے دی کہ اسے خون کا کینسر ہوگیا یعنی خون کے سرخ ذرے بننے بند ہوگئے۔ چنانچہ وہ مائی سین کے غلط استعمال کی وجہ سے جلد ہی وفات پاگیا۔ ہمارے ہاں عام آدمی پڑھاہوا نہیں ہوتا وہ دیکھتا ہے کہ ہمارے محلے میں دوتین آدمیوںکو مائی سین کے استعمال سے فائدہ ہوا ہے تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور بعض دفعہ ڈاکٹر کہتا بھی ہے کہ مائی سین کی ضرورت نہیں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں مائی سین کا ٹیکہ ضرورلگوانا ہے۔
پس ایک تومیں مریض اور اس کے لواحقین کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی انتہائی خطرناک دوائیں انتہائی ضرورت کے وقت استعمال ہونی چاہئیں۔ اس سے پہلے استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔ دوسرے میں ڈاکٹروں سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ ایسی ادویہ کا اندھا دھند استعمال نہ کرائیں۔ انگلستان میں کوئی انگریز ڈاکٹر کسی انگریز پر آنکھیں بند کرکے ان دوائوں کا استعمال نہیں کرتا۔ بعض ہمارے احمدی دوست جو بیمار تھے جب وہ انگلستا ن گئے اور انہوں نے وہاں ڈاکٹروں کودکھایا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک کے ڈاکٹر بھی عجیب ہیں جو اس کثرت کے ساتھ ان دوائوں کو مریض پر استعمال کرا دیتے ہیں یہ توبڑی مہلک ادویہ ہیں لیکن یہاں لوگ ڈاکٹروں کے پیچھے پـڑ جاتے ہیں چنانچہ کئی ڈاکٹروں نے مجھے بتایا ہے کہ مثلاً ملیریا بخار کے مریض کہتے ہیں کہ کونین کا ٹیکہ لگا دیں ورنہ ان کی تسلی نہیں ہوگی۔ یہ طریق درست نہیں ہے۔ ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے عقل وفراست عطا فرمائی ہے اس لئے بیماری کے علاج سمیت ہرکام عقل وفراست سے کرنا چاہئے۔
کچھ دن ہوئے میری ایک پوتی جو چند مہینے کی ہے اسے بھی اسی بیماری کاشدید حملہ ہوا جوآج کل ملک میں پھیلی ہوئی ہے اسے باربار اسہال آنے لگے۔ میں توڈاکٹر نہیں ہوں جن ڈاکٹروں نے بچی کو دیکھا انہوںنے مائی سین تجویز کی چنانچہ بچوں والی مائی سین دینی شروع کی گئی پانچ سات دن گزر گئے مگر آرام نہ آیا یہاں تک کہ نوبت دس دس منٹ کے بعد اسہال تک پہنچ گئی تو میں نے اپنی بہو سے کہا کہ دراصل اب یہ بیماری کے اسہال نہیں اب یہ دوائی کے اسہال شروع ہو گئے ہیں۔ اس واسطے تم اس دوائی کو چھوڑدو۔ چنانچہ وہ دوائی چھڑوادی اوراپنا ہی جو مجھے تھوڑا بہت ہومیو پیتھی کا علم ہے اس کے مطابق علاج کیا تو اسے آرام آگیا۔دوتین سال کی بات ہے ہمارے ایک شاہد مبلغ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں انہیں دیکھ کر حیران ہوگیا پہلے ان کی صحت عام طورپر بڑی اچھی اور چہرے پر رونق رہتی تھی لیکن اب جو میں نے دیکھا تو یوں لگا جیسے وہ نیم مردہ سے ہیں۔ میں نے ان سے کہا بات سنو! بات نہ کرنا۔ میں نے پوچھا کیا آج کل اینٹی بائیوٹک ادویہ کھا رہے ہو کہنے لگے ہاں میں نے کہا وہ تمہارے چہرے پر ہلاکت کے آثار چھوڑ رہی ہیں۔ اس لئے میں آپ کو یہ حکم دیتا ہوں کہ آج کے بعد تم اینٹی بائیوٹک ادویہ استعمال نہیں کروگے۔ چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد ان کا خط آگیا کہ میں نے آپ کا حکم مان لیا تھا اور دوائی چھوڑ دی تھی اس سے مجھے آرام آگیا ہے۔
پس اس قسم کی جتنی بھی اینٹی بائیوٹک ادویہ ہیں ان کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایلو پیتھی کے اطباء کو چاہئے کہ وہ مریضوں کو سوائے اس کے کہ کوئی اور چارہ نہ رہے اس قسم کی مہلک ادویہ استعمال نہ کرائیں اور نہ ہمارے مریضوں کو ان دوائوں کے استعمال پر اصرار کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اس لئے ہمیں عقل سے کام لینا چاہئے۔
دوسری پرانی طب ہے اسے آئیورویدک، طب یونانی کہتے ہیں یا اسے اسلامی طب کہنا چاہئے کیونکہ ہمارے مسلمان اطباء نے اس پر بڑا کام کیا ہے لیکن میں نے کسی کو مسلم کہتے نہیں سنا۔ حالانکہ یہ دراصل مسلم طب ہے کیونکہ مسلمان اطباء نے اس کی ترقی وترویج میں بڑا کام کیا ہے۔ ایک وقت تک اس طب نے بڑا اچھا کام کیا اور دنیا کو اس کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچایا۔ مگربعد کے زمانہ میں فکر میں بھی، مشاہدہ میں بھی اور عملی تجربات میں بھی تنزل رونما ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے باہر سے مختلف قسم کے دوسرے خیالات تھے وہ لئے اور کچھ انہوں نے اس طب یونانی سے اخذ کئے اورعلم طب میں ترقی کرگئے انہوںنے ان کا زیادہ صحیح استعمال کیا یا غلط استعمال کیا اس سے اس وقت بحث نہیں تاہم میں یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ طب یونانی کے جومرکبات اور نسخے ہیں میرا خیال ہے کہ پچاس فیصد سے زائد نسخوں میں افیون پڑتی ہے لیکن میرے علم میں ایسا کوئی شخص نہیں حالانکہ میں نے لوگوں سے پوچھا بھی ہے اور خودغور بھی کیا ہے لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جس نے طب یونانی یا مسلم طب کا ایک ایسا نسخہ استعمال کیا ہو جس میں افیون پڑتی ہو اور اسے افیون کھانے کی عادت پڑگئی ہو۔ میرے علم میںایسا کوئی مریض نہیں ہے لیکن یہ بات میرے علم میں ہے کہ جب ایلو پیتھی میں افیون کے مختلف ست(اجزاء) نکالے گئے اور میرے خیال میں اس وقت تک ۲۳-۲۴ اجزاء بنائے جاچکے ہیں بلکہ اب تو کسی نے مجھے بتایا ہے کہ ان کی تعداد ۳۵-۴۰ تک جا پہنچی ہے۔ بہرحال جب ان کو علیحدہ علیحدہ استعمال کیا گیاتو میرے علم میں ہے اور ڈاکٹروں کے علم میں بھی ہے کہ اکثر مریضوں کو افیون کھانے کی عادت پڑگئی اسی لئے جو سمجھدار ڈاکٹر ہے وہ اپنے مریض کو تنبیہ کردیتا ہے کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ ان کو ایک ٹیکے یا ایک خوراک سے افیون کھانے کی عادت پڑجاتی ہے۔ غرض جو نقصان طب یونانی کی شکل میں افیون دینے سے نہیں ہوا تھا وہ ایلو پیتھی کی شکل میں دینے سے پیدا ہوگیا۔ بایں ہمہ ایلو پیتھی والوں کا یہ کہنا کہ طب یونانی ہمارے کام کی نہیں ہے یہ توپرانا اور دقیانوسی طریق علاج ہے۔ یہ طب ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ یہ کہنا غلط ہے۔
لیکن انسان جب کسی مسئلہ میں مجبور ہوجاتا ہے توپھر نئی راہیں تلاش کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اس توجہ کی مثال ہمیں چین میں نظر آتی ہے۔ چین بھی چونکہ ایک نیا اور ترقی کرنے والاملک ہے۔ اس نے بھی شروع میں ایلو پیتھی طریقِ علاج اختیار کیا لیکن چند سال ہوئے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہم ستراسی کروڑ آبادی کا علاج ایلوپیتھی کے ذریعہ نہیں کرسکتے۔ ایک تو لوگ اتنی کثرت سے بیمار ہوتے ہیں دوسرے اس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ دوائوں کا مہیاکرنا اور مریض کے علاج کا خرچ اٹھانا حکومت کے ذمہ ہے۔ پھر بعض ایسی بیماریاں ہیں جن کے لئے کوئی دوا نہیں ہے ۔ چنانچہ جب انہوںنے اس مسئلہ پر غورکیا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ سمجھنا غلطی ہے کہ پرانی طب بے فائدہ ہے۔ اس کو بالکل چھوڑ دینا ٹھیک نہیں۔ بالآخر انہوںنے ایک جامع پروگرام کے ماتحت کئی لاکھ ڈاکٹر اور میڈیکل کالجوں کے طلباء کو سارے چین میں پھیلا دیا اور کہا کہ جتنے بھی بڑے بوڑھے حکیم لوگ ہیں ان سے مل کر علاج کے پرانے ٹوٹکے دریافت کرو۔ ویسے ہر جگہ کوئی نہ کوئی آدمی حکیم ضرورہوتا ہے۔ جس کو کچھ آتا ہے وہ بھی حکیم ہے اور جس کو کچھ نہیں آتا وہ بھی حکیم ہے اس قسم کے کسی حکیم کا نسخہ کبھی فائدہ دیتا ہے اور کبھی نقصان بھی دیتا ہے۔ بہرحال چینی ڈاکٹروں اورطالب علموں کی ٹیمیں گائوں گائوں میں گئیں اور ستّر ستّراسی اسی سال کے بوڑھے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کون سی بیماری کاکس دوائی یا جڑی بوٹی سے علاج کرتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے بوڑھے لوگوں اورپرانے حکیموں کی باتوں، ان کے تجربات اور آزمودہ جڑی بوٹیوں کے متعلق معلومات کوبڑی سنجیدگی سے نوٹ کیا اورپھر ایک جگہ اکٹھا کرکے ان پر غورکیا گیا۔ اورپھر ان فراہم شدہ معلومات کی روشنی میں دوائیاں تیار کرکے ان پر تجربات کئے گئے اور اس طرح وہ ایسی دوائیں بنانے میں کامیاب ہوگئے جو ایلو پیتھی والے نہیں بنا سکے مثلاً اگر معدہ کا کینسر ہوتو ایلو پیتھی ڈاکٹر معدہ کا بیمار حصہ کاٹ دیتے ہیں اور جوصحت مند حصہ ہوتا ہے اس کو سی دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے معدہ میں اور انتڑیوں میں ایک حرکت پیدا کی ہے جس کے نتیجہ میں ایک توکھانا آگے جاتا ہے اور ہضم ہوتا ہے کھانا ہضم کرنے کے لئے انتڑیوں اور معدہ میں چھوٹے چھوٹے گلینڈز ہوتے ہیں جن میں سے سکویشن نکلتی ہے اس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوسکتا۔ پس ایک تویہ حرکت ہے۔ دوسرے خون کا دوران ہوتا ہے جو صحت کے لئے ضروری ہے۔ اس قسم کے آپریشن سے نظام ہضم کوبہت بڑاصدمہ پہنچتا ہے۔ وہ کام نہیں کرتا۔ معدہ اور انتڑیوں میں حرکت نہیں رہتی مگر ایلوپیتھی والے جب آپریشن کرتے ہیں تو کئی دن کھانے کو نہیںدیتے کہتے ہیں کہ جوکھانا کھائو گے وہ اندر جاکر سٹر جائے گا۔ معدہ میں چونکہ کوئی حرکت نہیں اس لئے معدہ میں پڑا رہے گا انتڑیوں میں چلا گیا تووہاں پڑے گا اور عفونت پیدا ہوجائے گی جس سے زہر پیدا ہوجائے گا۔ اس لئے ڈاکٹر ایسے مریض کو کئی دن تک کھانے کو کچھ نہیں دیتے۔ ایک تو آپریشن کرکے کمزور کردیتے ہیں دوسرے کھانے کو کچھ نہیں دیتے اس سے مریض اور بھی زیادہ کمزور ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کئی کئی مہینوں بلکہ بعض دفعہ سالوں تک اپنی نارمل صحت حاصل نہیں کرپاتا لیکن حکومت چین نے جو معلوماتی ٹیم دیہاتوں میں بھجوائی تھی ان کے ذریعہ پرانے حکیموں سے باتیں کرکے یہ پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انتڑیوں اور معدہ کی حرکت کو معمول پرلے آتی ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں میںنے ایک چینی رسالے میں ایک مضمون پڑھاتھا کہ چینی ڈاکٹروں نے ایک بہت ہی زیادہ بیمار آدمی کاآپریشن کیا۔ پیٹ کھولنے پر معدہ بہت زیادہ خراب نکلا ایک مٹھی بھر صحت مند معدہ رہ گیاتھا۔ اس کو تو انہوں نے سی دیا اور جو بیمار حصہ تھا اسے کاٹ دیا اورقبل اس کے کہ وہ معدہ کے ساتھ انتڑی کو ملاتے انہوںنے ایک پلاسٹک کی ٹیوب انتڑی کے منہ پر رکھدی اور وہی نسخہ جوبڑے بوڑھے حکیموں سے حاصل کیا تھا جو دس جڑی بوٹیوں کے مرکب پر مشتمل تھا۔ ٹیوب کے ساتھ ایک خوراک اندر داخل کردی تو چونکہ پیٹ کھلا ہوا تھا انہوں نے دیکھا کہ اسی وقت انتڑیوں میں حرکت پیدا ہوگئی ہے چنانچہ انہوںنے آپریشن مکمل ہونے کے دوگھنٹے بعد مریض کونرم غذا دے دی اور پھر تین دن کے بعد کہا کہ جو مرضی کھائو کچھ نہیں ہوگا۔
ہمارے ایلو پیتھی والوں کے پاس اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے انہیں توبس کاٹنا اور جوڑنا آتا ہے اس طرح وہ بیمار کواورزیادہ بیمار کردیتے ہیں۔ غرض میں بتا یہ رہاہوں کہ دوسری طب یونانی ہے جو پہلے فائدہ دیتی رہی ہے اور اب بھی فائدہ دے سکتی ہے لیکن عقلِ انسانی کا استعمال ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی لئے عقل دی ہے کہ وہ اپنے نفع اور نقصان کو معلوم کرسکے۔ تاہم جو احمدی طبیب ہے اس کی عقل انسانی تو نور آسمانی کامرکب بن کر عقل اور نورآسمانی کاایک بڑا ہی اچھا نسخہ پیش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دوستوں کو فراست عطاکرتا ہے۔ وہ دعائیں کرتے ہیں۔ پس ایک یہ طب یونانی ہے اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے عقلمندوں نے پھر اسکے ذریعہ علاج شروع کردیا ہے۔
علاج کی تیسری قسم ہومیوپیتھی ہے۔ اس نے بھی بڑی ترقی کی ہے۔ غرض ایلو پیتھی طب یونانی اور ہومیو پیتھی طریق پر مریض کا علاج کرنے والے ڈاکٹراور اطباء خاص طورپر اس وقت میرے مخاطب ہیں۔ اس وقت یہاں جو بیماری پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میں نے یہ دن بڑے فکر میں گزارے ہیں۔ جماعت کے بچوں اور بزرگوں کو بیمار دیکھ کر میں ان دنوں بڑا فکر مندر ہاہوں۔ بعض دفعہ ہر روز تین تین چارچار موصی اور موصیات کے جنازے پڑھاتا رہا ہوں اس لحاظ سے بھی یہ امر فکر پیدا کرنے والا ہے اس لئے تمام ایلو پیتھک اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر اوریونانی طبیب کل شام عصر کی نماز کے بعد مجھ سے ملیں۔ ہم سب بیٹھ کر سوچیں گے کہ اس بیماری کا جو ایک طرح سے ابتلاء اورامتحان ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس طرح مقابلہ کیا جائے۔ ڈاکٹروں کو تو میں علیحدہ طورپر بھی تلقین کروں گا کہ جودوست مریض ہیں ان کے لئے دعا بھی کریں۔ بلا ضرورت محض اصرار مریض یا اس کے لواحقین کے کہنے پر مائی سین وغیرہ کا استعمال نہ کریں۔ وقت پر بیماری کوپکڑیں۔مریض سے ہمدردی کریں اور ضرورت کے وقت مریض کو دیکھنے کے لئے اس کے گھر پہنچ جائیں۔ آج کل فضل عمر ہسپتال میں بھی ڈاکٹروں کی بہت کمی ہوگئی ہے میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوںاور الفضل کوچاہئے کہ وہ کل ضرور شائع کردے کہ ہمارے احمدی ڈاکٹروں میں سے ایک یا دوڈاکٹر ایک مہینے کی چھٹی لے کر یہاںآجائیں تاکہ ربوہ میں جودوست بیمار ہیں ہم ان کا اپنی تسلی کے مطابق علاج یعنی تدبیر والا حصہ پورا کرسکیں۔ جو دعا والا حصہ ہے اس کے لئے تو کسی اندرونی یا بیرونی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اورآپ سب دعا کریں گے لیکن جوتدبیر والا حصہ ہے اس میں بھی ہم نے پوری کوشش کرنی ہے اس وقت کماحقہ تدبیر نہیں ہورہی کیونکہ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اگر ہمارے ایک یادو فزیشن ڈاکٹر ایک مہینے کی چھٹی لے کر یہاں آجائیں تو مجھے امید ہے کہ بیماری پر بڑی حدتک قابوپالیں گے۔ ہمارے ایک اپنے ڈاکٹر مزید تجربہ حاصل کرنے کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں وہ واپس آنے والے ہیں شاید آٹھ یا دس دسمبر کو انشاء اللہ یہاں پہنچ جائیں گے۔ ڈاکٹر لطیف صاحب بھی اچھے خاصے کامیاب ڈاکٹرتھے اور میراخیال ہے کہ دعائیں کرنے والے بھی تھے کیونکہ ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شفا بھی رکھی تھی۔ وہ اپنی بعض مجبوریوں کے وجہ سے چھٹی لے کر باہر گئے تھے۔ انہوں نے اس سال اگست ستمبر میں واپس آنا تھا مگر وہ اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے نہیں آسکے تاہم میں نے ان کو لکھا ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں کو چھوڑیں اور بہت جلد واپس آجائیں لیکن اس وقت چونکہ ہمیں فوری طورپر فزیشن ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بہرحال پوری ہونی چاہئے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے احمدی ڈاکٹر صاحبان جوپاکستان میں مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایک یا دو ڈاکٹر ایک ایک مہینے کی رخصت لے کر ربوہ آجائیں تاکہ میری اور آپ کی فکر دورہو سردست جو ڈاکٹر یہاں موجود ہیں یعنی تینوں قسم کے اور ان سب کو میں اطباء یعنی ڈاکٹر کہتا ہوں اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ نے ڈاکٹر کہا تھا اور میں تو ہومیو پیتھ ہوں یا طبیب ہوں اس لئے میٹنگ میں شامل نہیں ہوا۔ میری مراد اس وقت وہ سب دوست ہیں جو یہاں طب کاکام کرتے ہیں یعنی جوپیشہ ورطبیب ہیں خواہ وہ ہومیو پیتھک کے ڈاکٹر ہوں یا ایلو پیتھک کے یا طب یونانی یا مسلم طب کے حکیم اور طبیب ہوں۔ وہ سب کل عصر کی نماز کے بعد میٹنگ میں شامل ہوں تاکہ ہم مشورہ کریں اورپھر سارے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی مناسب عملی اقدام کریں۔
میں نے آپ کو ایک تحریک کی تھی کہ پانی ابال کر پیا کریں۔ اگر اس طرح پانی بدمزہ لگے تو سبز چائے کی پتی بیچ میں ڈال دینی چاہئے۔ دوست اس پر ضرورعمل کریں۔ معدہ اور انتڑیوں کے لئے ابلا ہوا پانی بہت مفید ہے۔
میں مختصراً ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں اوروہ یہ ہے کہ مجلس صحت کا کام کچھ سست پڑگیا ہے گرمیوں میں تو سست ہونا ہی تھا کیونکہ اکثر طلباء موسم گرما میں ربوہ سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پچھلا وقت تو گزرگیا اب اس کام میں چُستی پیدا ہونی چاہئے۔ مجلس صحت کا ایک کام ربوہ میں شجرکاری بھی ہے۔ فروری میںدرخت لگانے کا موسم آئے گا اگر اس وقت تک ہم اسی طرح بیٹھے رہے کہ وقت پرکام کریں گے تو پھر جس طرح ہم پہلے درخت نہیں لگا سکے اسی طرح اب بھی نہیں لگا سکیں گے اس واسطے یہ کام ابھی سے شروع کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ہمیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کہاں کہاں درخت لگ سکتے ہیں وہاں درخت لگانے کا انتظام ہونا چاہئے میں سمجھتاہوں کہ ہم ربوہ میں پندرہ بیس ہزار درخت لگا سکتے ہیں جس سے شہر کی شکل بد ل سکتی ہے۔ پھر درختوں کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے۔ درختوں کی حفاظت کی ذمہ داری میں اس طبقے پر ڈالتاہوں جس سے درختوں کو سب سے زیادہ خطرہ رہتاہے اور اس سے میری مراد بچے ہیں۔ اطفال الاحمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹے درختوں کی حفاظت کریں اوراپنے ان بھائیوں کابھی خیال رکھیں جو ابھی چھوٹے ہیں اور اطفال الاحمدیہ کی عمرکو نہیں پہنچے۔ ایسے چھوٹے بچے بھی درخت نہ توڑیں۔ دراصل(درخت کے لئے دوحالتیں خطرناک ہوتی ہیں۔ ایک جب وہ بالکل چھوٹا ہوتا ہے۔ اس حالت میں بچے بھی اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری وہ حالت ہے جب درخت بڑا ہوجاتا ہے اس کی ہری بھری ٹہنیاں نکل آتی ہیں اس وقت بعض بیوقوف حریص اور دنیا دار آدمی دوچار آنے کے فائدہ کے لئے اس کی ٹہنیوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ ان ہر دوحالتوں میں درختوں کی حفاظت ازبس ضروری ہے۔ جب کبھی ایسا آدمی درخت کاٹ رہا ہو دوسرے آدمی کو اس کے پاس سے نوٹس لئے بغیر گزرنہیں جانا چاہئے بلکہ اسے ٹوکنا چاہئے اور اس سے یہ پوچھنا چاہئے کہ وہ کس کے حکم سے درخت کاٹ رہا ہے بعض دفعہ خود میں نے دیکھا ہے جب پوچھا کہ کیوں درخت کاٹ رہے ہو؟ تو بولا کہ جی بس کاٹ رہے ہیں۔ اب دیکھو ہم نے تو ۲۰-۲۵ سالہ کوشش کے نتیجہ میں یہاں کچھ تھوڑے بہت درخت لگائے ہیں اور اس قسم کے لوگ آرام سے آکر بغیر اجازت بغیر کسی جائز وجہ اور بغیر جائز حق کے درخت کاٹنے لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں جی بکری کے لئے چارہ یا چائے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی ضرورت ربوہ کے درختوں سے پوری نہیں کرنی چاہئے۔ پس ربوہ کے ہر مکین کا یہ فرض ہے کہ اسے جہاں بھی نظر آئے کہ کوئی شخص درخت کاٹ رہا ہے تو وہ اس کے پاس چلاجائے اور اسے درخت کاٹنے سے روک دے۔ یہ تو تھی وہ ذمہ داری جو ان درختوں کی حفاظت کے لئے ہے جوپہلے سے موجود ہیں جو نئے درخت لگائے جائیںگے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اطفال الاحمدیہ پر ہے۔ سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس فی صد درخت مرجاتے ہیں اور بڑھتے نہیں انسانی غلطی یا لاپرواہی کے نتیجہ میں ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ سارے چھوٹے اوربڑے بچے درختوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ مجلس صحت کو چاہئے کہ ان کی ٹولیاں بنا کر ہر ٹولی کے ذمہ لگائیں کہ مثلاً انہوں نے فلاں جگہ کے اتنے درختوں کی حفاظت کرنی ہے۔
دوسرے صفائی وغیرہ کاکام ہے ورزش کے لئے میدان ٹھیک کرنے کاکام ہے۔ مجلس صحت کی طرف سے مجھے دیر سے کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ شاید ہمارے چوہدری بشیر احمد صاحب بیمار ہوگئے ہیں یا لاپرواہ ہوگئے ہیں۔ یہ لاپرواہی بھی ایک قسم کی بیماری ہی ہے بہر حال مجلس صحت کو پوری طرح بیداررہ کر اورپورے زور سے عمل کرنے والی ایک فعّال مجلس بننا چاہئے۔ ساراربوہ اس کا ممبر ہے۔ میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ جلسہ سالانہ سے پہلے سیر کا ایک او رمقابلہ کرایا جائے جس میں ربوہ کا ہر مکین یعنی مرد شامل ہواور اس کے لئے اخبار کے ذریعہ باربار اعلان کیا جائے۔ سیر کامقابلہ تو آج ہوگیا ہے الحمداللہ۔ یہ پتہ نہیں کہ کتنے دوست اس میں شامل ہوئے ہیں تاہم یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کام کوپوری طرح کامیاب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی باربار یاددہانی کرائی جائے اور اس طرح ایک بیداری پیدا کردی جائے جواصل کامیابی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ الحمداللہ کچھ کام توہوگیا ہے لیکن جلسہ سالانہ تک اور بہت کام کرنے والے ہیں اس لئے مجلس صحت کو اب پوری طرح بیدار رہنا چاہئے۔
درختوںکے متعلق میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہتاہوں کہ ریل اور سڑک پر بھی دو رویہ درخت ہونے چاہئیں۔ علاوہ ازیںاور کئی جگہیں بیکار پڑی ہوئی ہیں مثلاً ہمار اجلسہ گاہ ہے اس کی حدود میں بالکل آخر میں دو دو درختوں کی ایک قطار ہونی چاہئے۔ علاوہ اجتماعی فوائد کے باہر سے آنے والوں کو ان سے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً گرمیوں میں اگر کوئی دوست باہر کے گائوں سے گھوڑی یا بچھیری پرسوار ہوکر نماز پڑھنے کے لئے آئے تووہ اپنے جانور کودرخت کے ساتھ باندھ دے گا یا اگر اس کے ساتھ کوئی غیراز جماعت دوست ہے تو وہ وہاں آرام کرسکے گا اگرکوئی عورت ہے جو ایسی حالت میں ہے کہ نماز نہیںپڑھ سکتی تو وہ درخت کے نیچے بیٹھ جائے گی۔ اس وقت آپ نے کوئی ایسی جگہ نہیں بنائی جہاں آدمی آرام کرسکے۔
(غرض درختوں کے بے شمار فوائد ہیں یہ انسان کے ہزاروں کام آتے ہیں اس لئے نئے اورپرانے درختوں کی حفاظت ازبس ضروری ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ دار اور پھلدار درختوں کے کاٹنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے چنانچہ ایک موقع پر جنگ کے دوران انسان کی جان کی حفاظت کے لئے نہیں! بلکہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کے لئے(جس کی قیمت زیادہ ہے) غالباً نو درخت کاٹنے پڑے تھے جس پر قرآنی وحی نازل ہوئی کہ یہ درخت ہمارے حکم سے کاٹے گئے ہیں۔ غرض اتنی چھوٹی سی استثنائی صورت کا ذکر حکمت سے خالی نہیں ہے آخر نودرخت ہیں کیا چیز؟ لیکن چونکہ امت مسلمہ کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ اتنی اہم ضرورت کے لئے نودرخت کاٹنے پر بھی اللہ کا الہام نازل ہوا۔ گو اس طرح آئندہ کے لئے بوقت ضرورت درخت کاٹنے کی اجازت تومل گئی لیکن اس سے بالواسطہ طورپر درخت خواہ وہ سایہ دار ہوں یا پھلدار ہوں ان کے نہ کاٹنے بلکہ نئے درخت لگانے اور ان کی حفاظت کرنے کی تاکید کی گئی ہے میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ ہمارا ربوہ ایک باغ بن جانا چاہئے۔ آخر یہ افسوس ناک تفاوت اور اس کودورکرنے کاخیال ہمارے پیش نظر کیوں نہیں رہتا کہ ہمارے جو بزرگ اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کی جو ابدی رہائش گاہ ہے اس کو تو ہم نے باغ بنادیا مثلاً قادیان کا بہشتی مقبرہ ہے یہاںربوہ کے بہشتی مقبرہ میں درخت نکل رہے ہیں۔ مگر جوزندوں کی رہائش گاہیں ہیں ان کو ہم نے نظر انداز کررکھا ہے حالانکہ اس دنیا میں تو زندوں کی رہائش گاہوں کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ ہونی چاہئے تھی۔ ابدی رہائش گاہوں میں درختوں اورپھولوں کے اپنے فوائد ہیں اس لئے یہ نہ ہوکہ کل کوئی لکڑہارا ہمارے بہشتی مقبرہ میںسے درخت کاٹنے شروع کردے۔ وہاں بھی درخت ہوں گے اورپھول اُگیں گے اور ماحول خوش نما اور خوشگوار ہوگا کیونکہ باہر سے جو لوگ آتے ہیں (جن میں بعض غیر از جماعت دوست بھی ہوتے ہیں)ان کے دل پر اس کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں قبروں کی سیدھی قطاریں بنی ہوئی ہیں درخت لگے ہوئے ہیں پھول اُگے ہوئے ہیں صفائی ہے خاموشی ہے اور فضا پرسکون ہے اور دعا کرنے کی کیفیت پیدا کرنے والا سماں ہے چنانچہ جولوگ احمدی نہیں ہوتے وہ بھی خاص طورپر محسوس کرتے ہیں کہ واقعی یہ جگہ بہشت کانمونہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ربوہ کا ہرگھر بھی اسی طرح بہشت کا نمونہ بن جائے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق ہی سے یہ ہوسکتا ہے)
بہرحال مجلس صحت کو اب زیادہ چوکس ہوکرکام شروع کردینا چاہئے۔ پہلی سٹیج میں سے ہم گزر گئے ہیں ایک سیڑھی ہم چڑھ گئے ہیں۔ دوسری سیڑھی پر ہم چڑھ رہے ہیں مجلس کے کام کرنے کا یہی وقت ہے۔ بہت سارے کام ایسے ہیں جو سردیوں میں ہوسکتے ہیں گرمیوں میں ان کاہونا بڑا مشکل ہے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کاموں کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کماحقہ توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۳ تا ۸)
ززز

ضروری ہے کہ ہر احمدی مرد اور عورت کے
خُداداد قویٰ کی ُپوری طرح نشوونماہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء بمقا م مسجد اقصیٰ۔ ربوہ )
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :-
گذشتہ جمعہ میں مَیں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہفتہ کے دن شام کو عصر کی نماز کے بعد ربوہ میں کام کرنے والے پیشہ ور اطبا ء اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر وغیرہ مجھے ملیں ۔اندازہ سے زیادہ ان اطباء کی تعداد تھی اور جو کام اس دن ان کے سپرد کیا گیا تھا وہ تو انہو ںنے تندہی سے کیا ۔مَیں نے ان سے کہا تھا کہ وہ سارے ربوہ کا جائزہ لیں کہ ربوہ میں کتنے دوست مریض ہیں اور کس قسم کے مرض میں مبتلا ہیں ۔چنانچہ اس ابتدائی رپورٹ کیلئے وہ مختلف وفود کی شکل میں کام کرتے رہے ممکن ہے بعض گھر رہ گئے ہوں لیکن انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہر گھر پر پہنچیں اور معلومات حاصل کریں ۔چنانچہ میرے پاس ان کی جو رپورٹ آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دنوں ربوہ میں ۱۶۳۲ مریض تھے جن میں سے۹۰۳انفلوئنز اکے مریض اور ۱۳۹ملیریا کے مریض اور ۶۳پیچش کے اور ۵۲۷دیگر مختلف امراض میں مبتلا تھے ۔تاہم بہت سے انفلوئنزا کے مریض صحت یاب ہو چکے تھے ۔ الحمد للہ اِس رپورٹ سے جو چیز نمایاں طور پر میرے سامنے آئی اور میرے لئے پریشانی کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ ان کی رپورٹ کے مطابق بہت سے ایسے مریض ہیں اور تھے کہ جنہیں علاج نصیب نہیں ہوا ۔بعض مریض ایسے تھے کہ جن کے پاس ڈاکٹر بوجہ دُور ہونے کے جانہیں سکے اور ان کے خیال کے مطابق (گو یہ ماننے والی بات نہیں لیکن بہر حال ان کی رپورٹ ہے کہ ) بعض ایسے مریض بھی تھے کہ جو اپنی غربت کی وجہ سے علاج نہیں کرواسکے۔
ہم نے محلہ وار صدر صاحبان اور ان کی مجالس عاملہ کا انتظام کیا ہوا ہے ۔اور ایک صدر عمومی ہیں یہ انکے فرائض میں سے ہے کہ وہ محلہ کے رہنے والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیںاور ایک بڑی ضرورت (احساس کے لحاظ سے مَیں سمجھتا ہوں سب سے بڑی ضرورت )یہ ہے کہ کسی گھر میں اگر کوئی بیمار ہے تو اس کا علاج تسلّی بخش طور پر ہونا چاہیے۔ خصوصاًہمارے ربوہ کے وہ محلے جو ربوہ کی مشرقی سرحدوں پر ہیں ۔ ان کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ وہ اپنا علاج نہیں کروا سکتے مثلاً الف محلہ جو پہاڑیوں کے دامن میں ہے اور دارالعلوم میں تو ہمارے غریبانہ معیار کے مطابق اکثر کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔ تاہم الف محلہ کچھ غریب محلہ ہے ۔ مَیں نے مجلسِ صحت کے کا م کے معائنہ کے لئے بھی ان محلو ں کو دیکھا ہے ۔الف محلے میں پانی کھارا ہے جو صحت کے لیے اچھا نہیں ۔جس دن میںنے معائنہ کیا اُس دن ہنسی ہنسی میں اور مُسکراتے ہوئے ان کے دل کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے لیے پانی کا جلد انتظام ہونا چاہیئے۔ وہیں باتوںباتوں میں دوچیزیں میرے ذہن میں آئیں ۔ایک کا تو مَیں نے وہاں اظہار کیا تھا کہ جو ساتھ کی پہاڑیا ںہیں اُن میں بعض ایسی پہاڑیا ں بھی ہیں جہاںبارش کا پانی اکٹھا ہو کر جب نیچے بہتا ہے تو بعض دفعہ نقصا ن بھی پہنچتا ہے۔مَیں نے کہا تھا ایسی جگہ کا سروے کرکے مجھے بتائوتاکہ وہاں بند باندھ دیا جائے جس میں بارش کا پانی اکٹھا ہو جائے گا اس بند کی وجہ سے پانی نیچے جذب ہوگا جس کے نتیجہ میں اس محلہ کے نلکوں کا پانی اچھا ہو جائے گا ۔دوسرے جو پانی اکٹھا ہو کر بہتا ہے اور نقصا ن پہنچاتا ہے۔ اس سے ایک حد تک حفاظت بھی ہو جائے گی اور پھر وہاں جو کُھلی جگہیں ہیں وہاں درخت وغیرہ بھی کوئی نہیں۔ کئی لوگوں نے اپنے گھروں میںتو درخت لگا رکھے ہیں لیکن باہر سڑکوں اور کھلی جگہوں پر درخت نہیں ہیں حالانکہ درخت صحت کے لئے ضروری ہیں۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو برس پہلے درخت لگا نے پر اُس وقت زور دیاتھا جب کہ ابھی سائنس نے ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کی دریافت نہیں کی تھی۔درخت آکسیجن گیس جو ہماری ضرورت کی چیز ہے اُس کو دن کے وقت باہر نکالتا ہے اورجو ہماری ضرورت کی گیس نہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈاس کو وہ حاصل کرتا ہے ۔اسکے علاوہ صحت قائم رکھنے کے لئے بہت سارے کام ہیںجو اللہ تعالیٰ نے درختوں کے سپرد کئے ہوئے ہیں ۔مثلاًیو کلیپٹس کا درخت ہے ۔ملیریا کو دُور کرنے کے لئے،میرے اندازے کے مطابق یہ اس سے زیادہ کام کرتا ہے جتناہماری حکومت کا محکمہ انسدادملیریا کا کا م کرتا رہا ہے ۔ یہ مچھرمارتاہے اوراس کے جو پتے ہیںان سے تیل نکالتے ہیں جو نزلے اور انفلوئنزا کی بیماریاں کے علاج کیلئے مختلف شکلوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ہومیوپیتھی کی شکل میںبھی اور ایلوپیتھی کی شکل میں بھی ۔ طب یونانی کے متعلق تو مجھے علم نہیں کہ وہ اس کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ میراخیال ہے وہ بھی اب اس کا استعمال کرنے لگ گئے ہوں گے۔غرض یہ بڑا مفید درخت ہے۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کلر یعنی شور (جو ربوہ میں پہلے زیادہ تھا اور اب بھی کہیں کہیں نظر آیا کرتا ہے) اسکی غذاہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے اس کویہ عقل دی ہے اوراسے یہ الہام کیا ہے کہ اگر نچلی زمین سخت ہو اوراسکی جڑیںنیچے زمین میں نہ جاسکیں تواس کو کہاہے کہ اپنی صحت مندزندگی کیلئے اپنی جڑوںکوسطح زمین کے اوپرپھلادو حالانکہ عام درخت ایسانہیں کرتے اور اسی لئے بعض لوگوں نے ایک عام اصول بنا یا ہوا ہے کہ درخت جتنا بلند ہوگا اتنی ہی اس کی جڑ نیچے زمین میں جاتی ہے یہ بھی صحیح ہے لیکن اگر یو کلیپٹس کو اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تا تو یہ ربوہ میں نہ لگ سکتا ۔مَیں نے کا لج میں شروع میں کئی قسم کے درخت لگوائے تھے اکثر مر گئے جو اُن میں سے بچے ان میں اکثریوکلیپٹس کے پَودے تھے ۔
مَیں نے پھر ایک وقت میں مشاہدہ کیا کہ یہ درخت جڑیں گہرائی میں لے جانے کی بجائے سطح زمین پر پھیلا دیتا ہے ۔اور ہمارایہ بھی مشاہدہ تھا کہ اس علاقے میں خصوصاًاور ربوہ میں عموماًہماری زمین میں ۲۔۳فٹ کے بعد ایک تہہ آتی ہے جو بڑی سخت ہو تی ہے اور بعض جگہ وہ دو۲ فٹ کی اور بعض جگہ چار فٹ کی ہے ۔پھر دس بارہ فٹ کے بعد ایک اور تہ آتی ہے اور وہ بھی بڑی سخت ہوتی ہے ۔اکثر دوست جنہوں نے درخت لگائے اورانہیں اللہ تعالیٰ نے مشاہدہ کی توفیق اور طاقت بخشی ہے انہوں نے دیکھا ہو گا کہ چنگا بھلا درخت تھا صبح کو اٹھے تو وہ مرجھایا ہو ا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب تک اس کی جڑیں نیچے جا کر اپنی غذا لیتی ہیں اور اس کو کو ئی صدمہ نہیں پہنچتا اسے طبعی نشوونما ملتی رہتی ہے اور جس وقت رات کے کسی حصہ میں اس کی جڑوں نے سخت زمین کے اندر داخل ہو نے کی کوشش کی لیکن داخل نہ ہو سکیں تو جس طرح انسانوں کا ہارٹ فیل(HEART FAIL)ہوجاتاہے درختوں کا بھی فیل ہوجاتاہے یعنی گو اس کا دل انسان کی طرح تو نہیں ہوتا لیکن اُسے ایک ایساصدمہ پہنچتاہے کہ اس کی زندگی صدمہ کو برداشت نہیں کرسکتی اور درخت مرجاتاہے۔مَیںنے خودیہ مشاہدہ کیاہے۔ایک درخت رات کو ٹھیک تھا۔صبح دیکھاتو مرا ہواتھا۔
پس پوکلپٹس ایسے درختوں میں سے نہیں۔وہ اس صدمہ کو سہہ بھی لیتا ہے اور پھراس کی جڑیںاگرنیچے زمین سخت ہوتو اوپرپھیلنے لگ جاتی ہیںمیںنے شروع شروع میںکالج میں درخت لگوائے ایک درخت دوسرے تیسرے سال میں کوئی ۲۵؍۲۰فٹ بڑاہوا تو پاس ہی ایک جگہ خالی پڑی تھی مجھے خیال آیاکہ وہاںدرخت لگوادوں وہاںدرخت لگوانے کے لیے گڑھا کھدوایا تو یوکلپٹس کی جڑیں وہاں تک پہنچی ہوئی تھیں کیونکہ وہ جگہ ۲۵فٹ کے اسی دائرہ کے اندر تھی جس میں یو کلپٹس بھی لگا ہوا تھا یہ شور اور کلر کو کھاتا ہے۔میںنے خود دیکھا ہے کہ بعض دفعہ اس کے پتوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں تو شور کے باریک باریک ذرّے پتوں کے اوپر جمے ہوئے ہوتے ہیں ۔وہ شور کھاتا ہے ۔کچھ ہضم کر لیتا ہے اور کچھ باہر نکال دیتا ہے جو باہر پتوں پر باریک باریک ذرّوں کی شکل میں جم جاتا ہے پس کلر ایک لحا ظ سے یوکلپٹس کی غذابھی ہے اور یہ اسے دور بھی کرتا ہے اس لئے ربوہ جو خراب زمین ہے اس میں یوکلپٹس کا درخت بڑا مفید ثابت ہوتا ہے ۔بہاولپور کی طرف ایک بہت بڑا علاقہ تھا جہاںکوئی درخت نہیںاگتاتھا ۔دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے اس وقت کی حکومت نے مشورہ کے لئے آسٹریلیاسے ماہرین منگوائے اورلاکھوں روپیہ ان پر خرچ کیا۔وہ یہاں چھ مہینے یا سال رہے اوربیس لاکھ روپیہ خرچ کر دیا اور دو سطروں میںاپنی رپورٹ لکھ کر چلے گئے کہ یہاں یوکلپٹس کے سوا اور کوئی درخت نہیں لگ سکتا ۔انہی دنوںمحکمہ زراعت کے ایک بڑے افسر جو میرے واقف تھے و ہ مجھے ملنے کے لیے آئے تو میں نے چونکہ یوکلپٹس کے متعلق تجربہ کیا ہواتھا مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ آسٹریلیا والوں کو تکلیف دی۔مجھ سے پوچھ لیتے کیونکہ میرا یہی مشاہدہ ہے کہ جو حالات انہوںنے بتائے اُن میں ایسی جگہوں پریوکلپٹس ہی لگ سکتا ہے اورکوئی درخت پورا صحت مند نہیںرہ سکتا۔
پس جہاں تک الف محلے کی زمین کا تعلق ہے (بعض دوسرے محلوں کی زمین بھی اسی قسم کی ہے )اس میں یوکلپٹس کے درخت لگنے چاہئیں اگر اس محلے کے مکینوں کی صحت کو ہم نے بحال رکھنا ہے اوران کو قومی امین بنانے کی کوشش کرنی ہے توپھرہماری یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کی صحت ایسی ہو جس کا قرآن نے بڑے حسین پیرایہ میںدو۲ لفظوں میں ذکر فرمایا ہے کہ جس نے کا م کر نا ہو اور کا میا ب ہوناہو اسے قوی بھی ہونا چاہیئے اور امین بھی ہونا چاہیئے۔ پس اگر ہم نے یہ امید رکھنی ہو کہ ہر احمدی اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے اور نباہنے کے قابل ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی خاطر اس کے کندھوں پر ڈالی ہے تویہ امید تبھی پوری ہوسکتی ہے کہ جب جماعت اجتماعی رنگ میں اور ہر احمدی کو انفرادی طور پر جتنی اﷲتعالیٰ نے طاقت اور قوت بخشی ہے اس کے مطابق اسکی انتہائی نشوونما ہو۔اس وقت انسان پر انتہائی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا کوئی کھیل تو نہیںساری دنیا میں کسی مذہب کو غالب کرنا یہ صرف مسلمان پر فرض ہواکیونکہ پہلے مذاہب تو ساری دنیا کے لیے تھے ہی نہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں کے لیے پھر علاقوں کے لئے اورپھر ملکوں کے لئے انبیاء آئے جیسے جیسے حالات بدلتے رہے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے جو تقاضہ کیا وہ اسے پورا کرتے رہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کوئی ایسی جماعت یا گروہ یا قوم نہیں گزری کہ جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ مذہب کو ساری دنیا میں پھیلائے اور غالب کرے یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر پہلی اور آخری دفعہ ڈالی گئی اور اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آخری نبی ہیں جو بنی نوع انسان کو بلند تررفعتوں تک لے گئے۔پس ہم پریہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ساری دنیامیںاسلام کو غالب کریں۔جس قوم کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اس کے افراد کیا چھوٹے کیا بڑے کیا مرد اور کیا عورتیں صحت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے ہونے چاہئیں۔
پس اس محلے کے متعلق ایک تو میں نے یہ ہدایت کی ہے کہ وہاں تالاب بنیںگے۔اس اوراس طرح کے دوسرے کاموں کوہم سب نے مل کر کرناہے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جماعت ہمارے لئے فلاں چیزبناوے ۔ یہ بات غلط ہے ۔تمہیں ہم نے اپاہج تو نہیں بنانا اسی طرح جماعتی تنظیم کی طرف سے اگرکہہ دیا جائے کہ ہر محلہ خود کام کرے ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے تویہ بات بھی غلط ہے کیونکہ جب میں نے یہ کہا تھا کہ میں اورجماعت ایک ہی وجود کے دونام ہیں تو اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
پس جو با ت میںنے الف محلے کے دوستوں سے نہیں کہی تھی وہ اب میں سمجھتا ہوں کہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مَیںنے سوچا تھا کہ اب پانی نکالنے والے بڑے اچھے پمپ پاکستان میں بھی بننے لگ گئے ہیں بیکو نے مونو بلاک کی شکل میں بڑے اچھے پمپ بنائے ہیں جو اچھی خاصی مقدار میں پانی باہرنکالتے ہیں ابھی پیچھے ہمارے بچوں کوزمین کے لئے پمپ کی ضرورت تھی انہوں نے سات انچ سکشن اور چھ انچ ڈلیوری والاپمپ ۲۵۰۰روپے میں خریدا ہے میراخیال ہے کہ ہم مشورہ کریں گے اور جائزہ لیں گے ۔اگر دو سکشن اور دو ڈلیوری کا مونوبلاک بنتا ہو تو یہ بڑا EFFICIENT (ایفیشینٹ) ہوتاہے۔یہ گیارہ سو روپے میں آجائے گامیرے ذہن میں یہ تھا کہ جب وہاں پانی کے لیے کافی مقدار میں انتظام ہوجائے اورسارے محلے کوسر سبز بنانے کے لئے جتنی محنت وہ محلہ کر سکتا ہے وہ تو ان سے لی جائے جتنی محنت دوسرے بھائی وہاں پہنچ کر وقارعمل کے ذریعہ کر سکتے ہیں وہ کریں تالاب بن جائے پانی کو محفوظ کر لیں پانی کی زیادتی ہو جائے تونلکوں کے پانی میٹھے ہو جائیں گے اور پھر اگرچہ وہ غریب محلہ ہے لیکن وہاں کے دوست اپنے حالات کے مطابق پانی کے پمپ کے لئے پچاس روپے جمع کر سکتے ہوں تو پچاس روپے ان کو ضرور دینے چاہئیں اور اس میں سے جتنا باقی رہ جائے گا وہ پھر جماعت کا کام ہے۔اس کاہم انتظام کر دیں گے وہاں تو ایک پمپ کی ضرورت ہے اور اسی طرح ابھی تک جو میرے علم میں بات آئی ہے (بعض جگہوں پر تو میں ابھی نہیں جاسکا)ہمارا دارالعلوم کالج اور ربوہ کے درمیان جو محلہ ہے وہ بڑا آباد ہو گیاہے وہاں بھی نلکوں کا پانی ہے لیکن کہیں اچھا اور کہیں خراب ہے اگر اچھا پانی مل جائے تو ایک پمپ وہاں بھی لگانا پڑے گاکیونکہ وہاںپر کافی کھلی جگہ موجود ہے اور اس محلہ کو سر سبز بنا دیاجائے اگر صحتیں اچھی رکھنی ہیں تو ہمیں ہر محلے کو ایسا بنا دینا چاہیئے کہ دوسرے لوگ یہ کہیں کہ باغ زیادہ ہے اور آبادی کم ہے اور درختوں کے اندر مکانات چھپ جاتے ہیںتاکہ ہماری اور ہمارے بچوںکی صحت ٹھیک رہے۔
جہاں تک الف محلہ کا تعلق ہے بہت سارے دوست دُوری کی وجہ سے ہسپتال پہنچ ہی نہیں سکے کئی ایسے خاندان ہیں جن کے مرد باہر کمارہے ہیں صرف ان کے بیوی بچے یہاں ہیں ایسے حالات ہو سکتے ہیں ۔یہ محلہ کے پریزیڈنٹ کا فرض تھا کہ یا خود انتظام کرتا یا ہمیںبتاتااور ہم انتظام کرتے بہر حال اس کا انتظام ہوناچاہیئے اس کے لئے محلے کی مجلس عاملہ سر جوڑے اور سوچے کہ کوئی ایک خاندان بھی ایسا رہا ہے جس کے بیمار افراد کا علاج نہیں ہو سکا۔اور یہ ایک بڑی غلط بات ہے کہ دوست باہم مشورہ نہیں کرتے مشورہ کرنا فرض ہے۔ مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیئے اس کے لئے اسلام نے دنیا کے طریقوں سے ایک بہتر طریقہ بتا یا ہے لیکن مشورہ کرنا افضل قرار دیاہے۔اس لئے الف محلے کی مجلس عاملہ کو چاہیئے کہ سارے محلے کواور سارے محلے میںجتنی مسجدیں ہیں (بڑاپھیلا ہوا محلہ ہے میرے خیال میں کم از کم وہاں ۳ مسجدیں ہیں) ہر مسجد میں قریب کے لوگوںکو بلا کر پوچھیں کیوں تمہارا علاج نہیں ہو سکا؟کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور پھر وہ اپنی رپورٹ سارے ربوہ کی جو مجلس عاملہ ہے جس کا صدر صدر عمومی کہلاتا ہے اس مجلس میں وہ پیش ہو پھر وہ سوچیں پھر اسی طرح دوسرے محلوںکاجائزہ لیں ۔جانتے بوجھتے ہوئے بعض خاندانوں میں کسی مریض کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔صد ر عمومی کی مجموعی رپورٹ آنے پر پھر ہم خود بھی غور کریںگے یا ہم کسی ڈاکٹر کی ڈیوٹی لگائیں گے کہ وہ ہر روز یا ضرورت کے مطابق دوسرے دن یا ہفتہ میں دوبار یا ہفتہ میں ایک بار مقررہ وقت پر مریض کو دیکھنے کے لیے جایا کرے اور ان سے ملے اور ان کا علاج کیا کرے۔
آج ہمارے ملک میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہر مریض کو میسر آہی نہیں آسکتاکیونکہ ملک کی آبادی زیادہ ہے اور ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اس مسئلے کو ہمارا ملک کس طرح حل کرے گا؟یہ تو وہ جانیں جنہیں اس وقت سیاسی اقتدار حاصل ہے لیکن ہمیں اپنا تو کوئی نہ کوئی طریق معلوم کرنا ہی چاہیئے ۔چین میں ہمارے ملک کی نسبت یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل تھا ۔ستر کروڑ کی آبادی اورایم بی بی ایس معیار کاڈاکٹراس سے بھی تھوری تعداد میں تھا جتنا اس وقت پاکستان میں ہے ۔اس واسطے انہوں نے اپنے لئے ایک طریق ایجاد کیا ۔میں یہ نہیںکہتاکہ اس کی نقل کرنی چاہیئے میں یہ کہتا ہوں کہ تم عملی قدم اٹھائو اور جو تمہارامسئلہ ہے اپنے حالات کے مطابق اس کو حل کرو۔اس کو اسلام کی اصطلاح میں’’عمل صالح‘‘ کہتے ہیں یعنی ایسا نیک کا م جو حالات کے مطابق اور ضرورت کے مطابق کیا جاتاہے انہوں نے یعنی چینیوں نے شروع میں یہ کہا (ابھی تک ان کا یہ منصوبہ چل رہاہے)کہ دسویں بلکہ آٹھویں پاس ذہین طالب علموں کو تین مہینے کا کو رس یا چھ مہینے کا کورس پڑھاکر ایک قسم کا ڈاکٹر بنا دیا اور پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ کیا کہ ایک علاقہ منتخب کیا اور وہاں ماہرین دس دس پندرہ پندرہ دن کے لئے بھیجے اور کہا پتہ کرو بیماریاںیہاں کیاہیں ؟ انہوں نے رپورٹ کی مثلاًملیریا ہے یا پیچش ہے اور نزلہ کھا نسی یہی چار پانچ بیماریاں ہیں جو عام طور پر ہوتی ہیں۔ یعنی بیماریوں کا نوّے فیصد ان بیماریوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دس فیصد یا اس سے بھی کم اور قسم کی بیماریاںہوتی ہیں ۔انہوں نے آٹھویں یا دسویں جماعت میں طالب علموں کو چارپانچ بیماریوںکے متعلق پوراعلم سکھا دیا بلکہ ان کو زبانی طور پر رٹا دیا کہ اگر کسی کو ملیریا بخار ہو اور اس کی یہ یہ علامتیں ہوں تو یہ یہ علاج کرنا ہے اور انفلوئنزا کی یہ علامتیں ہوتی ہیں اس میں یہ علاج کرنا ہے اگر کسی کو پیچش ہو تو اس میں یہ دیکھنا ہے کہ خونی پیچش ہے یا بادی ہے، قبض والی ہے یا بدہضمی کی وجہ سے پیچش آرہی ہے ۔اس کے مطابق علاج کرنا ہے، چنانچہ ان بیماریوں کے متعلق پندرہ بیس نسخے سکھا کران کو مختلف جگہوں پر لگا دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جب کسی مریض کی بیماری کی تشخیص میں الجھن ہو تو ہمیں اطلاع دوہم اس کو کسی ہسپتال لے جائیں گے۔
غرض یہ وہ طریق تھا جس کو اختیار کر کے انہوں نے بیماریوں پرقابو پالیا ہم نے ان کی نقل نہیں کرنی ہم نے اپنے حالات کے مطابق اس سلسلہ میں ایک اور عمل صالح بجا لانا ہے اور وہ ا س طرح ہو گا کہ آپ باہمی طور پر ایک دوسرے سے مشورہ کریںکچھ ڈاکٹروں کے متعلق تعصب ہوتے ہیں کچھ بیماریوں کے متعلق تعصب ہوتے ہیں کچھ دواؤں کے متعلق تعصب ہوتے ہیںان کو ذہن سے نکالنا پڑے گا اور ہر احمدی کی صحت کو حتی المقدور (یعنی جتنی خدانے ہمیںطاقت دی ہے اور سامان دیئے ہیں ) بہترین رکھنا پڑے گا ۔اگر انہوں نے وہ ذمہ داری نباہنی ہے جو سخت ترین ہے او ران پر ہا ں ہا ں صرف ان پر ڈالی گئی ہے تو پھر ہمیں اپنے حالات کے مطابق سو چنا اورعملی قدم اٹھانا پڑے گا ۔چین کے حالات ہمارے حالات سے مختلف ہیں اس واسطے ہم چین کی نقل نہیں کر سکتے نہ صرف ہمارے حالات ان سے مختلف ہیں بلکہ ہماری عقلیں بھی ان سے مختلف ہیں۔ جو صحیح رنگ میں احمدی ہیں دنیاداروں کے مقابلہ میں ان کی فراست زیادہ ہونی چاہیئے گو عام طور پر اب بھی ہے لیکن جہاں کمزوری ہے اس کمزوری کو دور ہونا چاہیئے کیونکہ تھوڑی جگہ کمزوری ہوتی ہے اور بہت جگہ نقصان پہنچاتی ہے مثلاًکسی گھر کی بنیادمیں دو فٹ کمزوری آجائے تو وہ ساری دیوار خراب ہو جا ئے گی خواہ وہ دیوار کتنی پختہ ہی کیو ں نہ ہو ۔پس کمزوری کوتھوڑا سمجھ کر یا اسے تھوڑا دیکھ کر خاموش نہیں ہو نا چاہیئے یہ ایک کمزوری ہے کہ بعض دوستوں کا علاج نہیں ہو پایا ۔یہ ایک کمزوری ہے کہ صحت قائم نہیں رکھی جا سکی ۔اسکے نتیجہ میںاور بہت کچھ سامنے آئے گا مثلاًمتوازن غذاکا مسئلہ ہے غذاکے ہضم کرنے کا مسئلہ ہے اور اخلاقی صحت کے قیام کے لئے بہت کچھ کرنے کا مسئلہ ہے وہ آہستہ آہستہ اب بھی حل ہو رہا ہے ۔لیکن زیادہ وسعت کے ساتھ ان کی طرف توجہ کرنی چاہیئے جو احمدی ناتجربہ کار ہے اور انکی تعداد زیادہ ہو رہی ہے اور اس وقت ناتجربہ کا ر احمدی سے میری مراد وہ احمدی ہے جواحمدی کے گھرانہ میں پیدا ہو ا وہ ماں کے پیٹ سے کوئی تجربہ لے کر نہیں آیا وہ ناتجربہ کار ہے اس کے تجربہ حاصل کرنے کے سامان آپ نے پیداکرنے ہیں ۔پس ہمارے کام میں ایک وسعت پیدا ہو رہی ہے ہمارے مسائل بدل رہے ہیں دس سال پہلے جو ہمارے مسائل تھے وہ اب نہیں رہے ۔اندرونی تربیت کے لحاظ سے بھی اوربیرونی تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کے لحاظ سے بھی پہلے جو ہمارے مسائل تھے وہ اب بدل چکے ہیں۔
بہرحال اس وقت تو میں ابتدائی طور پر جسمانی قویٰ کی بحا لی اور ان کو کمال تک پہنچانے کا انتظام اور کمال نشوونما پر قائم رکھنے کے انتظامات کی ایک شق کے متعلق بات کر رہا ہوں جہاں تک پانی کا تعلق ہے اس کی فر اہمی کا مسئلہ فوری توجہ چاہتا ہے ۔تاہم جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا یہ کا م سر دست مشکل ہے لیکن ایک کا م آپ کو کرنا چاہیئے اور وہ آپ کر سکتے ہیں وہ پانی کو ابال کر استعما ل کرنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر آ پ پانی ابال کر پئیں تو آپ ہمارے ملک کی آدھی بیماریوں سے نجا ت حاصل کرسکتے ہیں ۔ربوہ میں پیچش کی بیماری عام ہے پیچش کے ساتھ ملتی جلتی بعض اور بیماریاں ہیں یہ مہلک تو نہیں لیکن کبھی اسہال اور کبھی قبض کی شکل میںبہرحال کمزور کرنے والی بیماری ہے ۔پس اس قسم کی بیماریاں جن کا معدہ اور انتڑیوں کے ساتھ تعلق ہے اور پھر بالواسطہ جگر کے ساتھ تعلق ہے جس کا کام ہضم میں مدد کرنا ہے ان پر اس کا اثر پڑتا ہے چنانچہ اُبلا ہوا پانی پینے سے انسان ان بیماریوں سے بچ جائے گا ۔میراتو دل کرتا ہے کہ ثواب کی خاطر خود مثلاًالف محلے میں پندرہ بیس دن بلکہ مہینہ تک خداتعالیٰ مجھے طاقت دے اور کچھ رضا کار میرے ساتھ تعاون کریں تو میں دیگوں میں پانی اُبال کر مختلف جگہوں پر رکھ دوں اور یہ اُبلا ہوا پانی گھروں میںسپلائی کروں ممکن ہے بعض گھر اس طرح نہ ابال سکیں بہت ساری وجوہات کی وجہ سے جن کی تفصیل میں جانے کی تو اس وقت ضرورت نہیں۔
پس اس وقت تو دارالعلوم اور الف محلہ کے صدر صاحبان اور ان کی مجلس عاملہ اورتمام اہل محلہ کے مشورہ کے ساتھ زیادہ تفصیلی رپورٹ مع مشورہ جات کہ اس تکلیف کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے اس مشورہ کے ساتھ ربوہ کی مجلس عاملہ کو پیش کریں اور پھر وہ ہمارے پاس بجھوائے مجلس صحت کے کنویز الف محلہ اور دارالعلوم کے محلہ میں ٹیوب ویل لگانے کے متعلق مقامی معلومات بہم پہنچائیںباقی رہا کہ کو ن سا پمپ مناسب رہے گا اس کے متعلق میںخود غور کر لوں گاکہ وہ مجھے صرف یہ بتائیں کہ ان محلوں میںکس جگہ پر پمپ لگ سکتاہے ۔
خالی پمپ تو کافی نہیں پمپ نے نیچے سے پانی کو اٹھانا ہے۔پانی جہاں ہو گا وہاں سے اٹھائے گا جہاں نہیں ہوگا وہا ں سے نہیں اٹھائے گا اسی طرح الف محلہ میں میں چاہتاہوں کہ اگر محلے والے ہمت کریں تو ہم جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے دو جگہ پمپ لگاسکتے ہیں یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں پھر فروری میں انشاء اللہ وہاں درخت بڑی کثرت سے لگا کر اس کی شکل بدل دیں گے۔
سر دست جہاں تک ابلے ہو ئے پانی کا تعلق ہے یہ تو کسی تنظیم کا کا م نہیں ہے یہ تو ہر فرد کا کا م ہے ۔میں آپ سے کہتا ہوں کہ اے میرے بھائی یا بہن ُتو پانی ابال کر پی۔ اس شکل میں جس میں پانی ہوتا ہے یا اس شکل میں جس طرح میں پیتا ہوں یعنی سبز چائے کی دو چار پتیاں بیچ میں ڈال دیں جس سے پانی کا مزہ بدل جا تا ہے۔
پس جن دوستو ں کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے وہ سبز چائے کے ساتھ ایک دو الائچی بھی ڈال سکتے ہیں ۔لیکن اصل چیز ابلا ہوا پانی ہے ۔بالکل ہلکی سی پتی ڈال دینے سے ہلکا سا انگوری یا موتیاسا رنگ آجا تا ہے (سبز پتی کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں )بحرحال ہلکا سا شیڈآجا نا چاہیئے اور اس سے پانی کا بک بکا پن دور ہو جا تا ہے۔ بعض لوگوں کو اس میں شایدکسیلا پن لگے۔ کوئی بات نہیں دُ نیا بُری عادتیں پیداکر لیتی ہے۔ تو آپ نیک عادتیں کیوں نہ پیدا کریں ہر بھلائی کی عادت نیک عادت ہے ۔خواہ وہ آپ کی جسمانی صحت کو قائم رکھنے کے لئے ہو یا اس کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو قائم رکھنے کے لئے ہو بہرحال اس عادت کو پیداکریں اوراس طرح ابلاہوا پانی پینے سے ربوہ کی بہت ساری بیماریاں دُور ہو جائیں گی مثلاًگردے کی بعض بیماریوں کے کیڑے ربوہ کے پانی میں پائے جاتے ہیں یہ تو پانی کے ٹیسٹ میں پائے گئے ہیں۔بعض کیڑے ایسے ہیں جو جگر کے اوپر حملہ کر تے ہیںیعنی بالواسطہ جگر کو متاثر کرتے ہیں۔ بہر حال معدہ اور انتڑیاںٹھیک ہوںکھانا ہضم ہو رہا ہو اور آپ ورزش کر رہے ہو ں تو آپ کی صحت ٹھیک رہے گی ۔بہر حال صحت اچھی ہونی چاہیئے کیونکہ ذمہ داری بڑی ہے اور آپ کو مشغول بھی رکھنا چاہیئے تا کہ شیطان کسی دروازے سے آپ کے خیالا ت کو پراگندہ نہ کرے۔ اس کے متعلق بعد میں انشاء اللہ کسی وقت باتیں ہونگی ۔اس وقت تو الف محلہ اور دارالعلوم محلے زیا دہ توجہ طلب ہیںکیونکہ یہیں زیادہ تر ایسے مریض تھے جن کا علاج نہیں ہو سکا۔ اگر دوسرے محلوں میں ہیں تو ان کا بھی پتہ لگنا چاہیئے۔ ان دونوں محلوں میں پانی کا انتظام درست نہیں ہے۔ پانی کا انتظام درست ہو نا چاہیئے اگر یہ کا م جلد ہو جائے تو کوشش ہونی چاہیئے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے چھڑکائو کا انتظام ہو جائے تاکہ اس وقت جو دھول اڑرہی ہے کم از کم اس سے تو لوگ بچ جائیں، پھر درخت ہو جائیں گے ۔گھاس ہو جائے گی’’کھبل ‘‘گھاس کے لئے میں نے تجربہ کیا ہے اس کے لئے اچھی مٹی باہر سے یعنی دریا کی َبھل لانے کی ضرورت نہیں۔شور مٹی میں بھی بڑا اچھا ہو جاتا ہے۔ میں نے اس کا خود اس نیت سے تجربہ کیا تھا کہ ربوہ میں میرے بھائیوں کو اس سے فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے ۔بہت سارے پیسے بھی ضائع ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ پس ہمارے یہ دو محلے ایسے ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔دوسرے محلوں میںبھی اگر کو ئی ایسا مریض ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا تو ہمیں اس کا پتہ لگنا چاہیئے۔
یہ مہینہ عام دعائوں کے علاوہ خصوصی دعائیں کرنے کا مہینہ ہے ۔ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ایک عام دعا ہوتی ہے مثلاًعام دعائیںتو میںہر نماز میں کرتا ہوں مثلاًجماعت کی پریشانیوں کی دوری کے لئے ،بیماروں کی صحت کے لئے ،تنگ دست دوستوں کی فراخی رزق کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں لیکن ان عام دعائوں کے علاوہ بعض مواقع پر خاص دعائیںبھی کرنی پڑتی ہیں دسمبر کا مہینہ آج شروع ہو رہا ہے اس میں جلسہ سالانہ کے لئے خاص دعائیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ہماراجلسہ دُنیا کے عام جلسوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس عظیم جدوجہد کا ایک ضروری حصہ ہے جو آج غلبہ اسلام کے لئے جاری ہے یعنی تکمیل اشاعت ِہدایت بذریعہ ان عاجز بندوں کے۔ پس ہمارا سالانہ جلسہ تربیت کے لیے اجتماعی بندھنو ںکو مضبوط کرنے کے لئے بڑی مفید چیز ہے اس کی بڑی اہمیت ہے یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کسی نہ کسی کو ہزار پریشانیاں ،دکھ اور تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں عام طور پر تکلیف سے محفو ظ رکھتا ہے ۔مَیںنے مخلصینِ جماعت کے اپنی آنکھوں سے ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ دنیا کی کوئی عقل اسے تسلیم نہیں کرے گی ۔مَیںنے اپنی آنکھو ں سے بچّوں کے پیارسے زیادہ ربوہ کے پیار کا مشاہدہ کیا ہے۔ مَیں افسر جلسہ سالانہ تھا ۔ایک دفعہ ایک سپیشل ٹرین آرہی تھی اس کے استقبال کا انتظام دیکھنے کے لئے مَیں سٹیشن پر گیا تو مَیں نے دیکھا ۔ہماری ایک دیہاتی بہن جس کی گود میںدو تین ماہ کا بچہ تھا جب گاڑی سٹیشن پر آئی اور اس کاخاوند دروازے کے پاس سامان وغیرہ اتارنے گیا تو اس نے ربوہ پہنچنے کی خوشی میں اپنے بچے کو خاوند کی طرف یوں پھینکا جیسے اپنے بچے کی محبت کو بھول گئی ہو ۔ربوہ کی اینٹوں اور یہاں کی زمین اور پتھروں اور گنجی پہاڑیوں سے تو ہمیں پیار نہیں ربوہ سے ہمیں(یہاں کے بسنے والوں کو اور باہر سے آنے والوںکو)اس لئے پیارہے کہ یہ ایک عظیم الٰہی جماعت کا مرکزہے جس کے سپرد ایک عظیم کام ہے اور عظیم دونوں لحاظ سے ہے یعنی اپنے کام کے لحاظ سے بھی اور مخالفتوں کے لحاظ سے بھی ۔مخالف اسلام کی ہر طرف سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اگر اس کے ہاتھ میں ہماراکوئی بال آتا ہے تو وہ پکڑے کوئی ہماری چادر کا پلّو پکڑلے کو ئی ہمارے پائوں کا ناخن پکڑلے غرض وہ کسی نہ کسی طرح ہماری حرکت میں کمزوری پیداکرنے کی کوشش کرتا ہے ۔چنانچہ چاروںطرف سے ہمارے خلاف عجیب و غریب جھوٹ بولے جاتے ہیں افترا کئے جاتے ہیں مگر تم ان کی طرف نہ دیکھا کرو آج کل بھی اخبارات تو جو منہ میں آتاہے لکھ جاتے ہیں ۔ہمارے سپرد ایک کام ہے ہماری توجہ اس طرف ہونی چاہیئے اگر توجہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ ایک بڑا زبر دست ذریعہ ہے دکھو ں سے محفو ظ رہنے کا۔دراصل احساس درد قیام توجہ پر منحصر ہے ۔اگر اس طرف توجہ نہیں ہو گی تو درد نہیں ہو گا۔ پس اگر کوئی آدمی پوری طرح خدا کی توجہ میں محو ہو جائے تو اس کی آپ لات کاٹ لیں تو اسے درد نہیں ہو گا۔حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک جنگ میں جس صحابی ؓکا بازو کٹ گیا تھا اور تھوڑا سا رہ گیا تھا اس کے باوجو د اس نے لڑائی جاری رکھی تھی ۔مگر تمہیں ایک تھوڑا سا کانٹا چبھ جائے تو درد ہوتا ہے اوربعض دفعہ چلاّنے لگ جاتے ہو ۔مگر اس صحابیؓکی اپنے پیارے رب کی طرف اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتنی توجہ تھی کہ اس کو درد کا کوئی احسا س نہیں ہوا بلکہ اس نے کہا یہ بازو کیوں میرے ساتھ لٹکا ہوا ہے ذرا سا گوشت ساتھ رہ گیا تھا ۔چنانچہ اس پر ایک پائوںرکھا اور جھٹکا د ے کر اسے الگ کر کے پھینک دیا اگر ِکسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ کہتا اس پر گہری بے ہوشی طاری کرنے کے بعد اس کا علاج کریں گے ۔پس ہماری توجہ اپنے رب کی طرف اور اپنے پیا رے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف قائم رہنی چاہیئے ہماری راہ کے کانٹے کیا ہیں کچھ بھی نہیں ہیں ۔
پس ربوہ اس وقت ایک مرکزی نقطہ ہے اس عالمگیر مہم کا جس کے ذریعہ اسلام نے ساری دنیا پر غالب آنا ہے اس لئے یہاں تر بیت کے لیے،آپس میں ملنے کے لئے ساری دُنیا میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر جو فضل نازل کر رہا ہے ان کے متعلق باتوں کو سننے کے لیے اور خلیفہ وقت کے ساتھ پختہ تعلق کا اظہار کرنے کے لئے کثرت سے آنا چاہیئے ویسے تو ہر مومن کا امام وقت کے ساتھ تعلق ہو تاہے ۔مگر دوست یہاں آکر مل کر اور دیکھ کر ہی پیار کے تعلق کا اظہار کر لیتے ہیںکیونکہ سارے دوست تو مصافحہ نہیں کر سکتے ۔نہ اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ انسان کو اتنی طاقت دی گئی ہے کہ وہ ایک دن میں۶۰ہزار دوستوں سے مصافحے کر لے اس کے لئے وقت بھی چاہیئے طاقت بھی چاہیئے اور پھر اس غرض کے لئے دوستوں کو ایک لمبا عرصہ کھڑے رہنے کی ضرورت بھی ہے وغیرہ بہرحال دوست دیکھ لیتے ہیںآنکھوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں اور پیار دے دیتے ہیں آخر آنکھ بھی تو ایک دوسرے کو پیار دینے اور دعا کرنے کا ذریعہ ہے ایسے وقت جس طرح ایک پہاڑی چشمے سے پانی ابل ابل کر باہر نکل رہا ہوتاہے اسی طرح ہمارے دوست جب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو ہر احمدی کا دوسرے کے لئے اور جماعت کے امام کے لئے اور ا مام کا جماعت کے لیے پیا ر اور اخوت کے جذبات پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ پس جماعت کے اس سالانہ اجتماع کے لئے ان دنوں خصوصاً بڑی دعا ئوں کی ضرورت ہے جس غرض کے لئے یہ جلسہ قائم ہو ا ہے ساری جماعت اس غرض کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ جو بر کتیں وابستہ کی ہیں ان برکتوں کو حاصل کرے اور وہ فضل اس کو ملے اور وہ پیار اس کو ملے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔وہ توجہ سے باتوںکو سنیں اور اثر قبول کریں ۔اپنی عادتیں چھوڑنی پڑیں تو چند دن کے لئے احباب کو دیکھ کر اور تقریروں کو سن کر چھوڑ دیں ۔صبر کی عادت ڈالیں ابھی پیچھے افریقہ کے ایک ملک میں بعض متعصب عیسائی کیتھو لکس کی سازش کے نتیجہ میں ہمارے بعض کلینک بند ہوگئے تھے۔ وہاں سے دوستوں نے مجھے گھبر ا ہٹ کے خطوط لکھے۔ بہرحال اصل ذمہ داری تو امام کی ہوتی ہے۔ دوست تو طبعاًگھبرا جاتے ہیں کہ دو مہینے ہو گئے ہیں کلینک بند پڑے ہیں ڈاکٹروں کو تنخواہ دے رہے ہیں میل نرسز کو تنخواہ دے رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے آج فیصلہ کریں گے۔ کل فیصلہ کریں گے میںنے کہا آرام سے بیٹھیں ۔ایک دوست تو بہت زیا دہ تیز تھے اُن سے میں نے کہا حضرت یو سف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر کی تھی وہ تم پڑھ لو۔ چنانچہ ان کا مجھے خط آیا کہ میں امیرصاحب سے پوچھوں گا کہ وہ کیا تعبیر تھی اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ سات سال کمائو گے اور سات سال کھائو گے میںنے کہا تم سمجھو کہ یہ وہ زمانہ ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے وقت میں اس قوم پر آیا تھا کہ پہلے کمائے ہوئے سے کھا نا پڑاتھا ۔خداتعالیٰ نے تمہارے مال میںبرکت دی اور خداتعالیٰ نے جو دیا اسے بیٹھ کر آرام سے کھائیں گے ان کی مخالفتوںکے مقابلہ میں ہمارا کام صبردکھانا ہے وہ سمجھتے کہ دو مہینے نکمے بیٹھیںگے چار مہینے نکمے بیٹھیں گے جب تنخواہیں دیتے دیتے تنگ آجا ئیں گے تو کہیں گے کسِی اور ملک میں چلے جا تے ہیں۔میںنے کہا آرام سے بیٹھے رہو ۔کتنی دیر تک وہ ہمیںستاتے رہیں گے آخر کار ہمارا صبر پھل لایا ۔چند دن ہوئے خط آیا ہے کہ حکومت نے نومہینے کے بعد کلینک کھولنے کی اجازت دے دی ہے چنانچہ میرا یہ عزم تھا کہ سوائے اسکے کہ حکومت ان کو حکماًاپنے ملک سے باہر نکال دے ڈاکٹر کو وہاں سے نہیں بلائیں گے کیونکہ جب ملک چھوڑنے کا حکم مل جائے توپھر تو کوئی شخص اس ملک میں نہیں رہ سکتا۔ میں نے دوسرے ملکوں کو اطلاع بھی دے دی تھی ۔لیکن میں نے کہا اس سے ورے ورے سال دو سال تین سال تک بیٹھے رہو اس سے مخالفین کو پتہ لگ جائے گا کہ تم میں کتنی سکت ہے ۔وہ مقابلہ کر کے دیکھ لیں گے کہ کسی چیز میں بھی اور کسی میدان میں بھی شکست کھانے کے لئے احمدی پیدا نہیں ہو ا ۔چنانچہ نو مہینے کے بعد اجازت دے دی۔ اس سے ہمیں کیا فرق پڑا لیکن اُن کو یہ پتہ لگ گیا کہ اسلام کے ساتھ کوئی آسان مقابلہ نہیں ہے۔ غرض عیسائیوں کی سازش ناکام ہو گئی اور ان کو سمجھ آ گئی انہوں نے ہمارے کلینک کے متعلق عجیب اعتراض کر دئیے تھے۔ ایک یہ اعتراض تھا کہ لکڑی کی میز پر ڈاکٹر کیوں اپریشن کرتا ہے اس کے لئے باقاعدہ اپریشن ٹیبل ہونی چاہیئے۔ بند ہ خدا ـ ! اگر ڈاکٹر کے پاس اپنڈے سائنس کا ایک مریض درد سے تڑپتا ہوا آئے تو کیا ڈاکٹر اس سے یہ کہے گا کہ جب تک ولایت سے میری ٹیبل نہ آجائے اس وقت تک انتظار کرو۔ اُس وقت تو زمین کے اوپر لٹا کر بھی اپریشن کر دینا چاہیئے کیونکہ اس کی تکلیف کو دور کرنا دراصل اس کی جان کی حفاظت کرنا ہے ۔
پھر یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ اگر تم نے اِن ڈور مریض رکھنے ہیں تو اگر بیس مریضوں کی گنجائش ہے یا بیس چارپائیاں ہیں تو بیس نر سیں رکھو ۔ خواہ کسی وقت وہا ں بارہ مریض ہی کیوں نہ ہوں ۔ حالانکہ یہ معیا ر تو امریکہ میں بھی نہیں ہے ۔چنانچہ کہہ دیا کہ فی مریض ایک نرس رکھو تب تمہیںاجازت دیں گے مگر انہو ں نے یہ اعتراض کرتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ ان کے اپنے بڑے بڑے ہسپتالوں میں تو ایک وقت میں تین تین چارچار نرسیں ہی کا م کر رہی ہو تی ہیںاور ہم سے یہ مطالبہ کررہے ہو کہ فی مریض ایک نرس رکھو لیکن میںنے اپنے دوستوں سے کہا ٹھیک ہے ان سے جنگ ہے چلنے دو ۔اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا ۔ہم نے جس سہارے کو پکڑا اور جس سہارے پر ہمارا توکل ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہم تو ایک ادنیٰ خادم ہیں ۔ہم تو خدا کے بڑے نکمے مزدور ہیں۔ وہ پہلے بھی فضل فرماتا اور ہم نالائقوں سے کا م لیتا رہا ہے اب بھی فضل فرمائے گا ۔
تاہم اپنی طرف سے ہمیں کو شش کرتے رہنا چاہیئے۔ روحانی ہتھیاروں سے ساری دنیا کا مقابلہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ دوست اس بات کو کبھی نہ بھولا کریں کہ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان مقصد ہے یعنی ساری دنیا میں غلبہ اسلام ۔اس مقصد کے حصول میں ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے اور ذرا ذرا سی بات پر آپس میں نہیں الجھنا چاہیئے کیونکہ میدان جنگ میں تو ہر قسم کے الجھائو ہر قسم کی پریشانیوں کے باوجود بھی جذبہ اخوت قائم رہتا ہے
کشمیر کے محاذپر سیز فائر کے بعد ایک دفعہ ہمارے ساتھ کچھ صحافی بھی گئے ۔ایک صحافی نے اِدھر اُدھر دیکھاپاس ہی ایک ریگولر کمپنی کی مشین گن یونٹ تھی ۔اس کا فرقان بٹالین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ۔اس صحافی کو شرارت سوجھی اس نے یونٹ کے ایک آدمی سے پوچھا۔ یہاں احمدی غیر احمدی کا سوال تو نہیں اٹھتا۔ لاہور کے اس صحافی کا کہنا تھا کہ وہ تو لال پیلاہو گیا اور کہنے لگا ہم سارے یہاں جانیں دینے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں اور تم اس قسم کی بکواس کر رہے ہو حالانکہ اس وقت سیز فائر ہو چکاتھا اور جان کازیادہ خطرہ بھی نہیں تھا لیکن بہرحال محاذ جنگ تھا تا ہم بڑا معمولی محاذ تھا کیونکہ سیزفائر کے بعد محاذکی شدّت تو بہت کم ہو جاتی ہے۔ جنگ تو ہو ہی نہیں رہی ہوتی ۔اس وقت انسان کے خیالات ان چیزوں میں نہیں الجھتے۔ تو وہ شخص جو گھمسان کی جنگ میں مشغول ہوتا ہے وہ کس طرح ادھر ُادھردیکھ سکتا ہے۔ ہم بھی چونکہ اس وقت اپنے آپ کو گھمسان کی جنگ میں پاتے ہیں ویسے ہماری تلواروں بند وقوں یا ایٹم کی جنگ تو نہیں ہے دلائل کے ساتھ اور دعائوں کے ساتھ ہم خدااوراِس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔اس لئے اس گھمسان کی جنگ میں ہم ادھر اُدھر کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
بہرحال قرآن کریم کے دلائل کے ذریعہ روحانی جنگ کی تیاری کے لئے ،تر بیت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نشانات کو سننے کے لئے اور اس کی رحمتوں کے حصول کی کو شش کے لئے ہم سب جلسہ سالانہ پر جمع ہوتے ہیں ۔
اللہ ہم سب کو (اہل ربوہ کو بھی اور باہر سے آنے والے بھائیوں کو بھی )ہر قسم کے دُکھ اور پریشانی اور فتنہ سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کی برکتوں رحمتوں اور فضلوں کا وارث بننے کے سامان عطا فرمائے۔
آج یکم دسمبر ہے۔یہ مہینہ چونکہ جلسہ سالانہ کی وجہ سے خصوصی دعائوں کا مہینہ ہے اس لئے مَیں یہ تحریک کرتا ہوں کہ دوست خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جلسہ کی جملہ ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔جملہ بر کا ت کا حقدار ٹھہرائے ۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍مارچ ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۷)
ززز

احباب جماعت لازمی چندوںکا دو تہائی
۳۱ دسمبر تک ضرور ادا کردیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍دسمبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
جلسہ سالانہ کے لئے جو سامنے سٹیج بن رہی ہے وہ میری طبیعت پر کچھ گراں معلوم ہوتی ہے۔گذشتہ جلسہ سالانہ پر تو مجبوری تھی میں نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اگر لکڑی کے تخت پوش بن جائیں تو وہ سٹیج کا کام دے سکتے ہیںموجودہ صورت میں سٹیج کو ورے کرنے کی وجہ سے چھ فٹ اونچی کرنی پڑتی ہے۔
گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر تو بن گئی تھی۔اس وقت بھی میں نے خود آکر دیکھا اور جائزہ لیا تھا(عملی کام کا عملی جائزہ لینا چاہئے تب کام ٹھیک ہوتا ہے)تو پتہ لگا کہ چونکہ صحن باہر کے میدان سے اونچا ہے اس لئے اگر سٹیج اونچی نہ ہو تو ۲۵۔۔۳۰ فٹ کی جگہ ایسی ہے کہ جہاں سے مقر ر نظر نہیں آئیگا۔چنانچہ ہم نے وہاں پر آدمی بیٹھا کر اندازہ لگایا۔پھر ہم نے آخری وقت میں اسے چار فٹ کی بجائے چھ فٹ اونچا کیا۔تب جا کر وہ درست ہوئی۔
اس دفعہ نظارت اصلاح و ارشاد نے تخت پوش بھی نہیں بنوائے اور جو سٹیج اس وقت بن رہی ہے اور جو اس وقت میری نظروں کے سامنے ہے اسے میر ی طبیعت نے پسند نہیں کیا۔یا تو ہم ساری جلسہ گاہ مسجد سے باہر لے جائیںجس طرح پہلے خیال تھا لیکن پہلے خیال یہ تھا کہ مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ بڑا تھڑا ہو اندر داخل ہونے کے لیے۔ہمارے انجینئرز نے خوبصورتی کی خاطر اس دروازہ کی ایسی شکل بنا دی تھی کہ اس کے اوپر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ آتا تھا میری طبیعت پر وہ چیز گراں گزری کہ محض انٹرنس کو خوبصورت بنانے کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کیوں خرچ کیا جائے۔اس لئے اس کی بجائے موجودہ طریقہ اختیار کیااور اب یہ بھی ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔یہ انتظام تو اب بھی تبدیل ہو سکتا ہے کوئی ایسی بات نہیں یا تو ہم اس کو اس دفعہ صحن کے بالکل آخر میں لے جائیںپھر اتنی اونچی سٹیج کی ضرورت نہیں۔ایسی صورت میں جلسہ گاہ کے لئے جتنی گنجائش مسجد کے صحن میں ہمیں ملتی تھی اتنی ہی گنجائش صحن سے باہر پیدا کر دیں۔یعنی رقبہ پور ا کردیں تاکہ باہر سے آنے والے ہمارے بھائیوں کو تکلیف نہ ہو۔اس سلسلہ میں اگر کسی دوست کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو وہ کل تک مجھے لکھ کر بجھوا سکتے ہیں۔مکرم سردار بشیر احمدصاحب جن کی نگرانی میں یہ کام ہو رہا ہے وہ اس کے متعلق پورا جائزہ لے کر مجھے فوراً بتائیں۔
یوں بھی ہر سال سٹیج کو بنانا اور اکھیڑنا ٹھیک نہیںہے۔دوسرے ہم اس مسجد کے محراب کے سامنے والے مسقف حصہ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں کے لئے استعمال کر ہی نہیں سکتے کیونکہ سٹیج مسجد کے صحن میں ہوتی ہے اگر صفیں یہاں بچھا دی جائیں تو نمازوں کے بعد جلسہ گاہ میں سب سے پہلے آنے والوں کو چکر لگا کر سب سے پیچھے جا کر بیٹھنا پڑے گا۔ کیونکہ جس جگہ پر وہ پہلے بیٹھے تھے وہاں تو دوسرے دوستوں نے قبضہ کیا ہو گا ۔یہ درست نہیں ہے۔ پس اس سٹیج کو بدلنا چاہئے۔ اس سال بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔ ابھی تو کام شروع ہی ہوا ہے۔یہ جگہ بدل دینی چاہئے۔ اتنی اونچی سٹیج کی ضرورت بھی نہیں ہے۔اس سلسلہ میں ایک اور تجویز یہ تھی کہ Landingکے اوپر جو Opening ہے اس سے سٹیج کا کام لیا جائے لیکن اس طرح دوستوں اور مقررین کے درمیان( اور خصوصاً میری طبیعت کے لحاظ سے )میرے اور دوستوں کے درمیان ایک بُعد اور دوری پیدا ہو جاتی ہے جو طبیعت پر سخت گراں گزرتی ہے مجبوری ہو تو اور بات ہے ۔لیکن اللہ کے فضل سے اب تو کوئی مجبوری بھی نہیں۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گذشتہ جمعہ کے روز خطبہ میں میں نے دو محلوں کے متعلق پانی کے انتظام کے سلسلہ میں بعض باتیں کیں تھیں۔میری خواہش یہ تھی کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے ایسا انتظام ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قانون بنائے ہیں ان کے لحاظ سے ہر کام خواہ کتنی ہی تندہی اور مستعدی سے کیوں نہ کیاجائے کچھ وقت ضرور لیتا ہے ۔اسی واسطے جو چیز انسان کے اختیا ر میں نہیں۔ کہانی لکھنے والوں نے وہ جنوں کے اختیا ر میں دے دی آنکھ جھپکتے ہی ایک محل تیار ہو گیا۔انسان اس طرح کبھی محل تیار نہیں کر سکتا۔وہ بچوں کا دل بہلانے کے لئے جن ہی تیار کر سکتے ہیں پس میری خواہش ہے عملاً پوری نہیں ہو سکی اور نہ اتنی تھوڑی مدت میں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر کام کا جائزہ لینا ہو تا ہے۔سروے ہو گیا ہے ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں ہو ا کہ کس جگہ پانی بہتر مل سکتا ہے۔پانی کی ضرورت بہت ہے اس واسطے کو شش یہ ہونی چاہئے اور عملاً ایسا ممکن بھی ہے کہ سردیوں کے اختتام تک بجلی کے کنویں مختلف جگہوں پر لگ جائیں اس تا خیر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھے خیال آیا کہ صرف ان دو محلوں ہی کے متعلق نہیں بلکہ ربوہ کے جس جس محلہ میں بھی پانی کا کنواں لگانے کی ضرورت ہے وہ محلے مجھے کل یا پرسوں تک اطلاع دیں تو ان کو بھی اس جائزہ اور سکیم میں شامل کرنے کی کوشش کر یں گے کچھ اب لگ جائیں کچھ بعد میں لگ جائیں گے یا ممکن ہے سارے ہی اس وقت لگ جائیں دوسرے اس سلسہ میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اور بڑی وضاحت سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو پانی کا انتظام ہو رہا ہے یہ مرکز سو فیصد اپنی ذمہ داری پر آپ کو بنا کر نہیں دے گا بلکہ آپ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں اور جس حد تک آپ کی خدا داد طاقت اور قوت ہے اس حد تک آپ کو خود چلنا پڑے گا اس کے بعد کے کام مرکز کے سپرد ہوں گے۔وہ آپ کے کنویں کا انتظام کرے گا۔جہاں تک کنویں کا تعلق ہے اس کے لئے کم از کم یہ ضروری ہے کہ اس کی کھدائی وغیرہ کا خرچ یا اس کی محنت آپ کو خود کرنی پڑے گی اور اگر اس سے زائد پیسے جمع کر سکیں تو وہ بھی آپ کا حصہ ہو گا لیکن اتنا آپ کو ضرور کہنا پڑے گا اور اگر آپ اس سے زائد پیسے جمع نہیں کر سکتے تو جو پمپ اور بجلی کی موٹر کا خرچ ہے اور پائپ وغیرہ کا خرچ ہے وہ مرکزمہیا کرے گا۔ لیکن کنواں بور کرنے کا جو خرچ ہے وہ آپ خود برداشت کریں گے۔ کیونکہ کنواں کھودتے ہیں۔ اینٹوں سے اس کو بناتے ہیں تب جا کر بجلی کا پمپ لگاتے ہیں۔ یہ کام محلہ نے خود کرنا ہے یعنی ہم نے پکی پکائی روٹی آپ کے منہ میں نہیں ڈالنی جس طرح بھائی بھائی کی مدد کرتا ہے اس طرح مدد ہو گی جس طرح ماں دودھ پیتے بچے کی مدد کرتی ہے اس طرح کی مدد نہیں ہو گی ۔ کیونکہ ہمارے نزدیک آپ کی عمر اللہ تعالیٰ کی طاقت اور آپکے جذبۂ فدائیت کے لحاظ سے دو مہینے یاسال یا دوسال کے بچے سے زیادہ ہے آپ ایک حد تک اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں آپ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہئے لیکن اگر حالات اس کی اجازت نہ دیں تب (المائدۃ:۳) کے حکم کے ماتحت مرکز آپ کے ساتھ تعاون کرے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ یہ کام آپ وقارعمل کے ماتحت کریں آپ کنواں خود کھودیں اور مٹی نکالیں اور اینٹیں مہیا کریں محنت کے ذریعہ جتنی رقم بچا سکتے ہیں وہ بچائیں جو نہیں بچا سکتے وہ جمع کریں پھر اس کے بعد آپ کے اندر مزید طاقت نہ ہوئی تو اس صورت میں مرکز آپ کے لئے نل اور اس کا پمپ اور اس کے لئے بجلی کی موٹر جو بھی وہاں چھوٹی قسم کی لگ سکتی ہے دو اڑھائی انچ کی کافی ہو گی اب یہ پاکستان میں بڑی اچھی بننے لگ گئی ہیں تو اس قسم کا بجلی کا کنواں لگا دیا جائیگا پھر اس کو سنبھالنا ،نقصان سے بچانا،روز مرہ کے خرچ بر وقت کرنا یہ بھی محلہ کا کام ہے ۔ہم اتنی مدد کر سکتے ہیں ۔دو تین بلکہ پانچ چھ پمپ کنویں لگتے ہوں تو میرے خیال میں اس سال لگ سکتے ہیں ۔پہلے دو محلوں کے لئے اب دقت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ اگر انہوں نے سستی دکھا ئی تو دوسرے محلے اولیت لے جائیں گے وہ کہیں گے کہ ہم نے کام کردیا پہلے ہمیں کنویں لگا کر دیں۔لیکن میرے نزدیک محلہ الف اور دارالعلوم کو زیادہ ضرورت ہے بہرحال یہ کام جو کرنے والے ہیں یہ اس طرح مل جل کر کرنے سے ہو سکتے ہیں اب بھی انشاء اللہ ہو جائیں گے مجھے افسوس ہے کہ پہلے اس طرف خیا ل نہیں آیا ۔جب سے مجلس صحت کا کام شروع ہوا ہے اس وقت سے میں خود باہر نکل کر مختلف محلوں میں موقع پر جگہوں کو دیکھتا ہوں پھر پتہ چلتا ہے اور ضرورتوں کے مطابق نئے خیالات ذہن میں آتے ہیں
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مئی،جون ، جولائی، اگست،ستمبر ،اکتوبر،نومبر گزر گئے اب دسمبر کا مہینہ آگیا ہے ۔گویا کہ دسمبر کے آخر میں موجودہ مالی سال کے آٹھ مہینے ختم ہو رہے ہیں اس کے لئے جو بجٹ آپ نے اپنے نمائندوں کی معرفت مجلس شوریٰ میں پاس کیا تھا اس کا دو تہائی دسمبر کے آخر تک جمع ہو جانا چاہئے بعض دفعہ شیطان انسان کے دماغ میں عجیب طرح کے وسوسے بھی پیداکرنے کی کوشش کرتا ہے ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔ بعض ایسی جگہوں سے اطلاع ملی ہے جنہوں نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کی تحریک میں عطایا نہیں دیئے یا بہت کم دئیے ہیں مگر انہوں نے یہ عذر بیان کر دیا کہ کیونکہ نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے عطایا دینے تھے اور جلد ادا کرنے کا حکم تھا اس لئے ہم لازمی چندہ جات کی ادائیگی میںکچھ سست ہو گئے ہیں۔ ادھر یہ عذر پیش کر دیا اور ادھر وہ کام بھی نہیں کیا یہ بے خیالی کا نتیجہ ہے میں آپ پر الزام نہیں دیتا انسان سے بھول ہو سکتی ہے یہ اِنْ نَّسِیْنَا میں آتا ہے یعنی جو ہم بھول جائیں مختلف راہوں سے شیطان ہم پر اثر انداز ہوتا ہے ۔بھول کر یہ عذر کر دیا نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے جو آپ دوستوں میں سے بعض لوگوں کے وعدے ہیں وہ رضاکا رانہ طور پر ہیں۔اور لازمی چندہ جات لازمی ہیں وہ بہر حال آپ کو ادا کرنے چاہیں۔لازمی چندے مختلف ادوار میں سے گزر کر کم سے کم ایمان کے معیار کو بتاتے ہیں۔ورنہ تو جو آگے نکلے انہوں نے دسویں حصہ کی وصیت کر دی ۔جو ان سے آگے نکلے انہوں نے نویں حصہ کی وصیت کر دی اور پھر آٹھویں حصہ کی اور پھر ساتویں حصہ کی اور پھر چھٹے حصہ کی کسی نے ۳؍۱کی کر دی ۔اس سے زیادہ وصیت تو اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں کر سکتے۔لیکن لازمی چندے تو کم از کم معیار ہیں۔اور لازمی چندے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عقل اور سمجھ عطا کی ہے ۔جتنی سہولتیں دوستوں کی مجبوریوں کی وجہ سے دی جانی چاہیں وہ دی جاتی ہیں۔مثلاًہمارا زمیندار ہے جو سال میں دو دفعہ غلہ زمینوں سے اٹھا کر اپنے گھر لاتا ہے ۔تو ان کے لئے اس میں سہولت ہے کہ سال میں اگر ہر مہینہ چندہ نہیں دے سکتے تو سال میں دو دفعہ سارے سال کے چندے دے دیا کریں۔میں سمجھتا ہوں کہ جن کے ذمہ مثلاًایک سو لازمی چندہ ہے وہ ایک فصل کے موقع پر دو دفعہ پچاس پچاس کر کے دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایک روپیہ ہر مہینے ادا کر ے تواس کے لئے بہتر ہے کیونکہ کھانے کی طرح یہ بھی ایک روحانی غذاہے ۔اس کو ہر مہینے کچھ سہارا مل جائے گا۔ویسے زمیندار کی عادت ہے کہ پانچ دن کی روٹی پانچویں دن کھا لے تو پانچ دن صبر بھی کر سکتا ہے۔ دس وقتوں کی ایک وقت میں روٹی بھی کھا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے زمیندار کو ایسی عجیب طاقت دی ہے کہ جس کا شہر والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ خود میرا اپنا مشاہدہ ہے ایک دفعہ میں خدام الاحمدیہ کے دورے پر گیا۔ ایک جگہ بارش ہو گئی سیلاب آ گیا۔راستے رک گئے، جس گائوں میں جانا تھا وہاں کے قائد صاحب پانی میں سے گزرتے ہوئے سات آٹھ میل گائوں سے دور جہاں سے آگے ہم نہیںجا سکتے تھے،ہمیں لینے کے لئے پہنچے۔ہمارا سامان اٹھایا ہمارے ساتھ گئے۔ ہماری خدمت کی ،ہمیں کھانا کھلایا اور ہر وقت میرے ساتھ رہے اور کھانے میں شریک نہیں ہوئے اگلے دن صبح کے ناشتے میں شریک نہیں ہوئے۔دوپہر کا کھانا کھا کر ملا قا تیں کر کے باتیں کر کے سمجھا کر۔ کام کے متعلق مشورہ لے کر مشورہ دے کر دوپہر کے کھانے کے بعد واپس آئے اس طرح آٹھ دس میل تک ہمارے ساتھ ہمیں واپس چھوڑنے آئے جہاں سے گئے تھے اور جہاں ہماری پرانی سی کار کھڑی تھی جسے میں استعمال کرنے کے لئے مقامی تبلیغ والوں سے لے گیا تھا۔ تو جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے ان سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ لگے رہے ہو کل سے کچھ کھایا بھی ہے کہنے لگے نہیں۔ خدا تعالیٰ نے ایک زمیندار کو یہ طاقت دی ہوئی ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ روحانی میدان میں بھی میں چھ ماہ بعد دے دوں گا تو گزارہ کر لوں گا ۔خدا کرے گزارہ کر جائے۔لیکن جتنا ہو سکے ماہانہ چندہ بھی دیں اس میں سے کٹوتی ہو جائے گی۔
کھانے کے لحاظ سے بھی زمیندار بڑے مشہور ہیں۔میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں ایک زمیندار دوست جلسہ کے مو قع پر میرے ہاں مہمان تھے۔ اور بھی مہمان تھے جن کے لئے کھانا عموماًگھر ہی میں پکا کرتا تھا۔ ایک دن اُنہوں نے کہا صبح لنگر سے کھانا منگوا دیں۔چنانچہ میں نے رات کا کھانامنگوایا جو بڑی دیر سے پہنچا ۔اتنے میں ہم کھانا کھا چکے تھے۔ یہ زمیندار دوست بھی کھانا کھا چکے تھے۔ جب لنگر کا کھانا آیا جو بائیس روٹیاں اور اس کے مطابق سالن تھا تو یہ زمیندار دوست کہنے لگے صبح تک تو یہ خراب ہو جائے گا۔تو میں ہی کھا لیتا ہوں چنانچہ انہوں نے رات کا کھانا کھانے کے باوجود ۲۲ روٹیاں اور سالن کھا لیا ۔پس زمیندار دوست کھانے پر صبر بھی کر سکتے ہیں اور پانچ پانچ دن کا کھانا اکٹھا بھی کھا لیتے ہیں شہری لوگ ایسا نہیں کر سکتے ۔اس لئے ان کو ہم کہتے ہیں کہ جب خریف کی فصل کا ٹو تو آدھا چندہ دے دو اور جب ربیع کی کاٹو تو آدھا چندہ دے دو کچھ تھوڑا تھوڑا ہر مہینے دیتے رہا کرو لیکن اب چونکہ خریف کی فصلوں کی آمد آ رہی ہے اس واسطے آج میں خصوصاًاپنے زمیندار بھائیوں اور زمیندا ر جماعتوں کو یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ لازمی چندہ کا ۳؍۲ حصہ ۳۱ دسمبر تک یہاں پہنچ جائے۔یہ کوئی مشکل بات نہیں ذرا سی ہمت کی بات ہے ۔
ہمارے ناظر صاحبان دفتری نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ حقیر انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کا امام بنا دیا ہے وہ کسی اور نگاہ سے دیکھتا ہے چنانچہ وہ گھبرا جایا کرتے ہیں اور میں ان کی گھبراہٹ پر مسکرایا کرتا ہوں۔یہ قوم اس لئے پیدا نہیں کی گئی کہ وہ چندوں کی ادائیگی یا دیگر ہمہ گیر قربانیوں میں پیچھے رہ جائے۔لیکن سال میں ایک دو بار ناظر صاحب بیت المال آمد پر گھبراہٹ کا دور آتا ہے آج کل بھی آیا ہوا ہے ۔وہ مجھے گبھراہٹ کے بار بار خط لکھ کر میری مسکراہٹوں میںاضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پس میں اپنے زمیندار دوستوں سے کہوں گا کہ اب آپ کو مثلاًگنے کی آمد آ رہی ہے ۔کپاس کی آمد آ رہی ہے ۔جن دوستوں نے مُونجی لگا رکھی ہے ، اس کی آمد ان کو پہنچ رہی ہے ۔اس وقت وہ بڑی آسانی سے اپنے اپنے چندے ادا کر سکتے ہیں۔اور یہ خریف کی فصل ہی میں زیادہ آسانی ہے کیونکہ ربیع کی فصل سے زیادہ تر گندم آتی ہے ہمارا جو چھوٹا زمیندا ر ہے اس نے سارے سال کے لئے اپنے کھانے کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت چندے کا بوجھ پوری طرح نہیں اٹھا سکتا ۔ہمارا سندھ کی زمینوں کا تجربہ ہے سارے سال کا خرچ خریف کی فصلوں میں رکھا جاتا تھا گویا یہ اصول بنایا ہو ا تھا اور زمین سے جو اصل منافع متوقع ہوتا ہے وہ ربیع کی فصل سے حا صل کیا جاتا ہے ۔گنا اور کپا س تو Cash Crops ہیں یعنی یہ وہ فصلیں ہیں جن کے بدلے آپ کو نقد روپیہ ملتا ہے اسی طرح پنجاب کے اکثر حصوں میں لوگوں کو چاول کھانے کی عادت نہیں اس لئے یہ چاول بھی Cash Crops ہی سمجھاجاتا ہے یہ بھی بازار میں چلا جاتا ہے اور اس کے عوض نقد پیسہ مل جاتا ہے آپ چونکہ حضرت محمد ﷺکے مزدور بن گئے ہیں اس لئے اللہ نے آپ کے اموال میں بڑی برکت رکھی ہے ۔
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے اموال اور آپ کی فصلوں اور تجارتوں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے ۔اللہ تعالیٰ کی برکت کو جذب کرنے والی جو آپ کوشش اور سعی کر رہے ہیں اس میں کمی نہیں آنی چاہئے آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں جتنی زیادہ قربانی دیں گے اتنا ہی زیادہ وہ آپ کو دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اس لئے تما م زمیندارہ جماعتیں خریف کی فصلوں کی آمد سے اپنے لازمی چندوں کا کم از کم ۳؍۲ حصہ ادا کریں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے دفتر والے گھبراتے پھریں دوستوں کو توجہ دلانے کی ضرورت تھی میں نے ان کو توجہ دلا دی ہے اب یہ دفتر والوں کا کام ہے کہ وہ دوستوں تک ان کے گائوں میں پہنچ کر توجہ دلائیں کچھ دوست تو یہاں ہر جمعہ میں آئے ہوتے ہیں لیکن اکثریت تو اپنے اپنے گائوں میں آباد ہے اس سلسلہ میں ہمارے مربی صاحبان وقف عارضی پر جانے والے دوستوں اور اخبار اور عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ جماعتوں کو توجہ دلائیں ان پندرہ بیس دنوں کے اند ر اندر اپنے چندے کا ۳؍۲ حصہ مرکز میں بھجوا دیں یہ رقم انہوںنے کما کر تو نہیں دینی یہ تو زمین کی اس پیداوار سے ادا کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی برکتوں کے ساتھ ا ن کو عطا فرمائی ہے جس کے کچھ حصے بک گئے اور کچھ آج کل بک رہے ہیں پس ہمارے زمیندار دوست اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ ادا کر یں گے تواللہ تعالیٰ ان کی ربیع کی فصل میں انشاء اللہ برکت ڈال دے گا میں نے اللہ تعالیٰ کی ان برکتوں کے خود نظارے دیکھے ہیں اس لئے میں تمام دوستوں سے عموماً اور زمیندار جماعتوں سے خصوصاً ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے بجٹ کا ۳؍۲ حصہ اس ماہ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے مرکز میں پہنچ جانا چاہئے۔ اگر کوئی ایسی جماعت ہے جو نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا وعدہ اور لازمی چندہ اس ماہ میں ادا نہ کر سکتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس ماہ میں پہلے لازمی چندوں کو ادا کرے اور نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے بقیہ وعدوں کو جنور ی یا فروری یا اگلی فصل کے نکلنے پر ڈال دے لیکن لازمی چندوں کا ۳؍۲ حصہ اس ماہ کے آخر تک ادا کرنے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں اور آپ کی کوششوں میں اور آپ کی زمینداری اور آپ کی تجارت اور آپ کے پیشوں میں برکت ڈالے۔
چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بزرگ دوست مولوی یعقوب خان صاحب کل لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی بیعت خلافت اولیٰ کی ہے لیکن خلافتِ اولیٰ کی بیعت کرنے کے باوجود (ویسے تو یہ موٹی بات ہے بچے بھی یہ سمجھ جائیں گے کہ جب ایک خلافت کی بیعت کر لی تو)پھر خلافت کا انکا ر دوسری خلافت کے وقت کیسے ہو گیا مگر ہو گیا ۔بعض لو گ دنیا کے ابتلا میں پھنس جاتے ہیں غر ض انہوں نے خلافت اولیٰ میں بیعت کی اور خلافت ثانیہ کا انکار کر دیا اس طرح غیر مبا ئعین میں شامل ہو گئے جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی اور اس گروہ میں شامل نہیں ہوئے جو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے اس وقت ساری دنیا پر چھایا ہو ا ہے اس انکا ر پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا میں سمجھتا ہو ں کہ خلافت اولیٰ میں ان سے کوئی ایسی نیکی ہوئی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا انجام بد نہیں ہو گا چنانچہ انہوں نے خلافت ثالثہ کی بیعت کر لی اور اس کے بعد انہوں نے ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ کو وصیت بھی کر دی گویا یہ آج سے تین سال پہلے کی بات ہے ا نہوں نے بیعت بھی وصیت سے کچھ عرصہ شاید ایک دو مہینے پہلے کی تھی اور پور ی بشاشت کے ساتھ اور پورے دھڑلے کے ساتھ بیعت کی ان کے ایک بڑے بیٹے تو پہلے سے مبائع تھے ان سے چھوٹے بیٹے نہ صرف یہ کہ مبائع نہیں تھے بلکہ بڑا شدید اختلاف رکھنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کیا انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر ان کی بیوی نے بھی بیعت کر لی۔ ا س پر مولوی صاحب مرحوم کے پرانے ساتھیوں کو بڑا غصہ آیا اور اپنے اس غصے کا اظہار پیغام صلح میں بھی کرتے رہے اور مولوی صاحب بڑے پیا ر کے ساتھ ان کا جواب بھی دیتے رہے اور ان کو یہ نصیحت بھی کرتے رہے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن کامیاب کرنے کے لئے جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہو تو پھر تم بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائو ۔ پس خلافت سے دوری بھی رہی اور بڑے لمبے عرصے تک رہی پھر ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور وہ شمع خلافت کے پروانہ بن گئے اور اس طرح ان کا اچھا انجام ہو ا خیر کے ساتھ ان کا خاتمہ ہوا اللہ تعالیٰ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور بہت پیار کرے اور اپنے فدائی اور محبوب بندوں کے ساتھ ان کو بھی شامل کرے جو لوگ ان کی مبائع ہونے کی حیثیت میں تین سالہ زندگی میں غصے کا اظہار کرتے رہے تھے وفات کے بعد ان کو بھی خیال پیدا ہوا اور یہ تو قابل اعتراض بات بھی نہیں خدا کرے یہ پیا ر بڑ ھتے بڑ ھتے مرحو م کی ا س خواہش کو بھی پور ا کر دے او ر وہ بھی خلا فت کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں بہرحال لا ہو ر میں ان کے کچھ عز یزو ں نے کہا کہ وصیت کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ لاہور میں ہی ان کو دفنا دیا جا ئے اگر چہ ان کی وصیت تھی مگر یہ تو عزیزوں کا کام تھا کہ کسی کا جنازہ زبر دستی تو نہیںلے جا یا جا سکتا اور نہ لے جا نا چاہئے چنا نچہ ان کا جنازہ ہسپتال سے ہما ری مسجد دارالذکر میں لے جا یا گیا۔اور غالباًوہیں ان کی تجہیز و تکفین ہوئی اور پھر مبائعین نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ان کا جنازہ عزیزوں کو دکھانے کے لئے ا ن کے گھر لے گئے وہاں انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں چاہتے کہ ان کاجنازہ ربوہ لے جایا جائے چنانچہ انہوں نے مجھے فون پر اطلاع دی میں نے کہا اگر ان کے عزیز نہیں چاہتے تو پھر اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو امانتاًدفن کر دیا جائے وقتی طور پر ایسے جذبات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور وہ ان کا جنازہ یہاں لے آئیں۔لیکن ان کی جو روح ہے ان کے اُوپر تو عزیزوں کا اختیار نہیںہے۔روح کو خدا تعالیٰ نے جہاں پہنچانا تھا وہاں پہنچ گئی۔اللہ تعالیٰ سے ہم امید رکھتے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ بے شمار اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فدائی جماعت جن سے خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم راضی اور جو اپنے رب پر راضی ہیں اور جو اس گروہ میں ہیں اور جو ہم سے آگے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ان میں شامل کرے اور بے شمار نعمتوں کا وارث بنائے۔پس روح پر تو نہ میرا اختیار ہے اور نہ ہی ان کے کسی عزیزکا اختیار اور نہ آپ کا اختیار ہے۔جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار سے غیر مبائعین پر ایک حجت بنا دیا اور ایک لمبا عرصہ ان میں رہے۔اور ایک لمبا عرصہ ان کے سوچے سمجھے منصوبوں کے مطابق(جو بھی وہ سمجھتے تھے) احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔لمبے عرصہ کے مشاہدہ اور ایک لمبے عرصے کے جائزہ نے انہیں حقیقی کامیابیوں سے محرومی کا احساس بھی دلا دیااور پھر وہ علیٰ وجہ البصیرت اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد پورا ہونا ہے تو پھر جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیار کرنے والا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نیک دل پر اپنے پیار کا جلوہ نازل فرمایا اور جو غلطی تھی وہ اس شخص نے اسی دنیا میں معاف کرالی اب ہمارا یہ بھائی خدا تعالیٰ کے پیا ر کو لے کر اُخروی دنیا میں چلا گیا ہے۔ ان کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد میں پڑھائوں گا۔سب دوست اس میں شامل ہوں اور ان کے لئے اور اپنے لئے اور جانے والوں کے لئے اور رہنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہمیشہ ہمارے نصیب میں رہے اورکبھی عارضی طور پر بھی اس کی ناراضگی کی راہیں ہم پر نہ کھلیں اور ہمارے قدم ناپسندیدہ راستوں کی طرف نہ بھٹکیں)اس ضمن میں مزید فرمایا:
خدا کرے کہ آٹھ نو مہینوں کے بعد جب جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں اور عقل ان کے تابع نہ رہے تو ان کا تابوت (جو خدا کرے عارضی طور پر وہاں دفن ہوا ہو)یہاں بہشتی مقبرہ میں آجائے۔بہرحال ان کی روح کا جو مقبرہ ہے وہ تو وہی ہے جو خدا نے ان کے لئے پسند کیا ہماری دعائیںان کے ساتھ بھی ہیں اور ہماری دعائیں ہر وقت پہلے جانے والوں کے ساتھ بھی ہیں یہاں جو رہ گئے ہیں ان کے ساتھ بھی ہیں ۔دعا ہی تو ہماری روح اور زندگی کا سہارا ہے۔ اس کے بغیر تو ہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے۔اور نہ کسی کامیابی کی امید رکھ سکتے ہیںنہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کو جذب کرنے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔یہ صرف دعا ہی ہے جس سے یہ سب کام ہو جاتا ہے ۔نماز جنازہ بھی ایک دعا ہے جس میں خدا تعالیٰ کی حمد کی جاتی ہے ایک تہائی یا اس سے بھی زیادہ وقت میں اور جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے۔ایک تہائی وقت میں یا اس سے بھی زیادہ وقت میں اور جس میں ایک تہائی وقت سے کم اپنے لئے دعا کی جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی حسین حکمت نے اس کی بھی تقسیم یوں کی ہے کہ اس دعا کا ایک تھوڑا سا حصہ اس میں وہ وفات پانے والے کے لئے اور باقی زندہ رہنے والوں کے لئے ہے پس اس پر بھی جب غور کریں تو دو باتوں کا پتہ لگتا ہے۔ایک یہ کہ جانے والے کے لئے ضرور دعا کرنی چاہئے تا کہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی زیادتی ہوتی رہے۔دوسرے یہ کہ جو زندہ ہیںان کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ نمازجنازہ میں بھی دعائوں کا زیادہ وقت ان کے لئے ہے یعنی اس دعا کے لئے نماز کا تیسرا حصہ ان کے لئے تھا۔اور اس میں سے بھی ایک حصہ وفات پانے والوں کے لئے اور باقی زندہ رہنے والوں کے لئے ہے تو اللہ تعا لیٰ وفات پانے والوں پر بھی رحمتیں نازل فرمائے اور زندہ رہنے والوں کے لئے بھی بہت زیادہ رحمتیں نازل کرے کیونکہ ابھی انجام کا کچھ پتہ نہیں۔خود انسان کو کوئی پتہ نہیں اور نہ کسی اور کو کچھ پتہ ہے۔ پس جو شخص وفات پا گیا خدا کرے کہ اس کا انجام نیک ہو اور وہ خدا کی رحمتوں میں داخل ہونے والا ہو اور جو زندہ رہ گئے ہیں اللہ تعا لیٰ ان پر بھی فضل فرمائے اور ان سے کبھی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کی نظر ِ پیار اور نظرِ رضا سے محروم ہو جائیںپس نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ مولوییعقوب خاں صاحب کا جنازہ پڑھائوں گا آپ سب اس میں شامل ہوں۔
( روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ۵ تا۸)
ززز

ہمارا ہر کام ایسا ہونا چاہئے جو محبت الٰہیہ کو جذب
کرنے والا اور الفت و اخوت کو مضبوط بنانے والا ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍دسمبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:۔

(اٰلِ عِمْرَان: ۱۰۴)

(البقرۃ:۱۴۹)
اسلام نے جہاں باہمی الفت اور اخوّت پر بڑا زور دیا ہے وہاں جذبہ مسابقت پیدا کرنے کی بھی بڑی تاکید کی ہے۔ تاہم ان دو باتوںکا آپس میں اکثر تصادم بھی ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن تصادم اس وقت ہوتا ہے جب اس چیز کو نظر انداز کر دیا جائے جس کے مقدم کرنے پر اسلام بنیادی طورپر زور دیتا ہے جس کے بغیر نہ تو اجتماعی رنگ کے اخروی کام کامیاب ہوتے ہیں اور نہ دنیوی اجتماعی کوششیں کامیابی کا منہ دیکھتی ہیں۔ اسی لئے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام کی اس تعلیم نے ہر زمانہ میں قریباً ہر ترقی کرنے والی کامیاب ہونے والی ذہنیت پر اثر ڈالا ہے۔
اسلام نے بنیادی چیز ہمیںیہ بتائی ہے کہ کامیابی کے لئے اتحاد ملی اور الفت و اخوت سب سے اہم چیز ہے اور مسابقت اس دائرہ کے اندر ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ صف میں فرمایا کہ مومن جن سے اللہ پیار کرتا اور جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے وہ ہیں جو اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میں اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے بنیان مرصوص کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی پختہ دیوار جس کو مضبوط سے مضبوط کرنے کے لئے سیسہ پگھلا کر اس کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ کوئی درز، کوئی رخنہ اس دیوار میں باقی نہیں رہتا اور اس مضبوطی کے لئے انسانی کوششیں کافی نہیںاور تدبیرکا تو حکم ہے لیکن انسانی کوشش، محض انسانی کوشش اس لئے کافی نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورئہ انفال میں فرمایا:۔

کہ وہی اللہ ہے جس نے اے محمدؐ تجھ کو اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعہ سے مضبوط کیا اور مضبوط اس طرح کیا کہ مومنوں کے دلوں کو الفت کے بندھنوں میں باندھ دیا اور اگر ساری دنیا کے اموال اس مقصد کے حصول کے لئے خرچ کر دئیے جاتے تب بھی یہ مقصدانتہائی دنیوی کوششوں کے باوجودحاصل نہیں ہو سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تیری نصرت اور مدد کا یہ سامان کیا کہ مومنوں کے دلوں کو آپس میں الفت کے ساتھ باندھ دیا۔ فرمایا وہ یقینا غالب اور حکمت والا ہے۔
فرمایا یعنی اپنی نصرت کے ساتھ تیری تائید کی اور وہ غالب ہے ایسا کر سکتا ہے کوئی دنیوی طاقت اس کے مقابلے میں نہیں آ سکتی لیکن ا س تدبیر کی دنیا میں خداتعالیٰ نے جو حکیم ہے اور جس کے کام حکیمانہ ہیں اپنی نصرت کے لئے ایک راہ یہ کھولی کہ مومنوں کی ایسی تربیت ہوئی اور ان کے اندر ایسی الفت اور اخوت پیدا ہوئی کہ وہ تیرے ممد اور معاون بن گئے اور دنیوی طاقتوں کے مقابلہ میں تیرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر تیرے آگے اور پیچھے مقابلہ کرکے انہوں نے مقصد حیات انسانی یعنی توحید کے قیام اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے قیام کے لئے انتہائی کوشش کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دئیے۔
سورہ آل عمران میں فرمایا:۔

(اٰل عمران: ۱۰۴)
کہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ مختلف قومیں جو آپس میں برسرپیکار تھیں ان میں سے ایک ایک کو لیا اور ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا۔ اسلام لانے سے پہلے ان کا آپس کا باہمی تعلق دشمنی اور عداوت کا تعلق تھا اور پھر اسلام لانے کے بعد کا انہی کا آپس کا باہمی تعلق الفت اور اخوت کا تعلق بن گیا۔
اَلَّفَ کے معنے بڑے حسین ہیں اور وہ ہمارے سامنے رہنے چاہئیں۔ مفردات میں آیا ہے اَلْمُؤَلَّفُ مَاجُمِعَ مِنْ اَجْزَائٍ مُخْتَلِفَۃٍ وَرُتِّبَ تَرْتِیْبًا قُدِّمَ فِیْہِ مَاحَقُّہُ أَنْ یُقَدَّمَ وَاُخِّرَفِیْہِ مَاحَقُّہُ اَنْ یُؤَخَّرَ۔
مؤلَّف کے معنی انہوں نے بیان کئے ہیں (یعنی جن کی تالیف کی گئی) یعنی جو امت محمدیہ ہے ہمارے اس مضمون کے لحاظ سے۔ کیونکہ

ہے۔ یہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہی نہیں بلکہ اپنے اجزاء کی ایک حسین نسبتیں رکھنے والی دیوار ہے۔ یہ نہیں کہ پٹھان جس طرح دیوار بناتے ہیں۔ مٹی کا لوتھڑا ڈالا (جسے پنجابی میں تھوپا کہتے ہیں اور دیوار کھڑی کر دی۔ بلکہ جس چیز کی جہاں ضرورت ہے وہاں لگائی گئی ہو۔ کیونکہ مؤلَّف (مؤلَّف یہاں آ جائے گا مسلمان کے معنوں میں یا مؤلفہ امت محمدیہ جو اجزاء مختلفہ کو جمع کرکے اور ان کو ایسی ترتیب دے کرجسے مقدم رکھنا چاہئے اسے موخّر رکھا گیا ہو اور جسے موخر ہونا چاہئے اسے موخر رکھا گیا ہو ۔ ان کو جمع کرکے یکجان کر دیا گیا ہے اس معنی میں ایک واضح اصول کی طرف اشارہ ملتا ہے یعنی مسابقت کی جو ہدایت ہمیں دی گئی ہیں فرمایا جذبہ مسابقت میں قُدِّمَ فِیْہِ مَاحَقُّہُ أَنْ یُقَدَّمَ وَاُخِّرَفِیْہِ مَاحَقُّہُ اَنْ یُؤَخَّرَ کا خیال ہمیں رکھنا پڑے گا۔ ورنہ اسلام کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق مسابقت نہیں ہو گی۔
پس اسلام نے الفت و اخوت اسلامی کو ایک بنیادی چیز قرار دیا ہے۔ کوئی ایسا کام ایک احمدی مسلمان کو نہیں کرنا چاہئے جو اللہ کی محبوب اجتماعی ہیئت کذائی پر برے رنگ میں اثر انداز ہو۔ ہر کام ایسا ہونا چاہئے۔ جو خداتعالیٰ کی محبت کو زیادہ جذب کرنے والا اور اس اتحاد اور الفت اور اخوت کو زیادہ مضبوط بنانے والا ہو اور اس حقیقت کے باوجود کہ سب ایک جان ہو گئے یہ بھی ضروری ہے کہ جذبہ مسابقت پایا جائے۔
(البقرۃ:۱۴۹)
ہر ایک کا ایک نہ ایک مطمح نظر ہوتا ہے فرمایا تم نیکیاں کرنے میں ایک دوسر ے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اب جو کوشش خیرات کرنے کی نیکیاں کرنے کی، بھلائی کرنے کی دکھ دور کرنے کی خیر پہنچانے کی، سکھ پہنچانے کی ہو گی۔ یہ نیکیوں کی جو کوشش ہے اس سے جو بنیان مرصوص ہے اس پر مخالف اثر نہیں پڑتا بلکہ موافق اثر پڑتا ہے اس سے اتحاد زیادہ مضبوط ہوتا ہے کمزور نہیں ہوتا۔ لیکن مسابقت ضروری ہے کیونکہ مسابقت کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔ اس بنیاد پر مسابقت ہے کہ (الصف:۵) اس بنیاد پر مسابقت ہے کہ الفت و اخوت اسلامی قائم رہے اور مضبوط تر ہوتی چلی جائے اور یہ نیکیوں کی مسابقت ہے۔ پہلی چیز کو بھلا کر اگر آپ مسابقت کریں گے۔ اس کی دنیوی مثالیں میں دیتا ہوں جس سے بچے سمجھ جائیں گے۔ جیسے یہ ہاکی کے میچ میں مقابلہ ہے کہ کون جیتتا ہے۔ لیکن اگر اتحاد سامنے نہیں تو وہ ہاکی سٹک جو بنانے والوں نے گیند کو مارنے کے لئے بنائی ہے وہ سروں پر پڑے گی اور سر پھوٹ جائیں گے ابھی چند دنوں کی بات ہے کسی نے مجھے بتایاکہ پاکستانی طالبات کا لائلپور میںایک میچ ہو رہا تھا تو ایک دوسرے پر گملے پھینک مارے۔ اب یہ جو نیٹ بال (Net ball)ہے اس کا گملوں سے کیا تعلق اور پھٹول سے کیا واسطہ مقابلہ اور مسابقت تو یہ ہے کہ قوم اجتماعی رنگ میں اچھی کھیل کھیلے اور نتیجہ نکل آیا یہ کہ گملے ٹوٹے سر پھوٹے اور پھول خراب ہو گئے جو پھولوں میں حسن الٰہی ہے ا س کو نقصان پہنچ گیا۔ پس یہ تو ایک ایسی مسابقت ہے جس میں الفت و اخوت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ تنزل کرنے والی قومیں یا جنہیں تنزل کی دلدل سے باہر نکلنے کی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔ وہ اس قسم کی مسابقت کیا کرتی ہیں۔ اور جنہیں ترقی کرنے کے راز اور گُر آتے ہیں وہ ایسی مسابقت نہیں کیا کرتے لیکن انسانی کمزور ی ہے اس کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اور ہر وقت اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی آپس میں لڑائی اور غلط مسابقت کا کام شروع نہ ہو جائے۔
اب مثلاً چین ہے۔ چین ہم سے دو سال چھوٹا ہے ہم ۴۷ء میں آزاد ہوئے اور وہ ۴۹ء میں آزاد ہوا۔ چین ہم سے آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے پاکستان کی آبادی آزادی کے وقت گیارہ کروڑ کے قریب تھی اب غالباً بارہ تیرہ کروڑ ہے چین کی آبادی آزادی کے وقت ساٹھ پینسٹھ کروڑ تھی اقتصادی لحاظ سے چین ہم سے بہت پیچھے تھا۔ انڈسٹری (Industry) کے لحاظ سے چین ہم سے بہت پیچھے تھالیکن وہاں کے جو کرتا دھرتا لوگ ہیں انہوں نے اسلام کی تعلیم کو اپنایا اور بڑی تگ و دو کی کہ مسابقت کرنی ہے اور آپس میں لڑنا نہیں۔ ان کا ماٹو جو انہوں نے بنایا ہے اس سلسلے میں اس کا انگریزی ترجمہ میں نے ایک جگہ یہ پڑھا ہے
‏"Friendship First, Competition Second"
تو پہلے دوستی ہے یہ چینی دماغ کی پروازاور اڑان نہیں ہے یہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے قرآن کریم کی یہ عظمت ہے کہ جو لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ان کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانتے نہیں ان کو اپنے عمل سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ واقعہ میں رحمۃ للعالمین ہیں گویا جنہوں نے آپ کو نہیں پہچانا ان کے لئے بھی رحمت بن گئے یہ ایک بنیادی چیز ہے کہ الفت و اخوت اول باہمی مسابقت بعد میں ان کی آپس کی نسبت یہ ہے کہ ایک بنیاد ہے اور ایک فرع ہے۔ ایک کی اہمیت اتنی ہے کہ اس کو کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ایک کی اہمیت ایسی ہے کہ اگر وہ بنیادی چیز کو ضرب لگانے والی ہے تو اس کو چھوڑنا پڑے گا۔ مسابقت کو، Competition کو ہمیں چھوڑنا پڑے گا اگر وہ کو ضرب لگا رہی ہے۔
پس قرآن کریم بڑی عظمتوں والی کتاب ہے کہ جو لوگ اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ جو اس پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی اس سے فیض حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جنہوں نے اس کو مانا ہے انہوں نے بھی اس کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا۔ دیکھو ہمارے ملک میں فتنہ وفساد کی آگ بھی بھڑک رہی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو زیادہ اچھا چلا سکتے ہیں۔ ہم آگے بڑھیں گے اتحاد کا دعویٰ کرکے پاکستان کی بنیاد کے اوپر تبرچلانا اور فساد کرنا اس کو تو خداتعالیٰ پسند نہیں کرتااور پاکستان کے جو اموال اور خزانے ہیں انہیں تباہ کرنا اور انہیں آگیں لگانا اور پاکستان کی جو حقیقی دولت ہے یعنی انسان اور اس کی فراست اور اس کی محنت، اور اس کی جدوجہد، اس کی جفا کشی اور اس کا مجاہدہ اس حقیقی دولت کو تباہ و برباد کرنا یا اس کی جدوجہد میں روکیں پیدا کرکے دراصل قوم کی دولت کو نقصان پہنچانا ہے یہ اسلام کی مسابقت نہیں۔ اسلام کی مسابقت تو وہ ہے کہ جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اِخْتِــلَافُ أُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ لیکن تمہارے اختلاف تو امت مسلمہ کے لئے زحمت بن گئے ہیں ایک دوسرے کو زخمی کرنا اور سر پھوڑنا امتی کا اختلاف کہاں سے ہو گیا؟۔
پس یہ جو فتنہ بپا ہے یہ پانچ سات دن کا نہیں یہ ایک منصوبہ ہے جو پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کے معاً بعد شروع ہو گیاتھا۔
جماعت احمدیہ دنیوی معیار کے مطابق، ایک کمزور سی، ایک بے سہارا سی، ایک لاوارث سی جماعت ہے لیکن نہ ہم کمزور ہیں نہ بے سہارا کیونکہ ہمارا سہارا تو وہ چیز ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتی یعنی خداتعالیٰ کی قدرت اور اسکی رحمت ہمارا سہارا ہے۔اس لئے ہم کمزور بھی ہیں دنیا کی نگاہ میں اور ہم طاقتور بھی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا سہارا بنے گا۔ پس قادر و توانا خدا جس کا سہارا بن جائے اس کو دنیا کیسے کمزور پائے گی؟
گو ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیںلیکن تھوڑابہت علم ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ گزشتہ جولائی میں ایک ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا مجھے یہ خبر ملی کہ یونیورسٹیز کو بند کروانے اور تعلیمی اداروں میں فتنہ و فساد کروانے کیلئے ایک بہت بڑی سازش پاکستان کے باہر ہوئی ہے۔ میں سیاسی حکومتوں کی وجہ سے نام کسی کا نہیں لوں گا لیکن جو بات کروں گا وہ بالکل پکی ہے یعنی مجھے یہ اطلاع ملی کہ پاکستان کی یونیورسٹیزاور کالجز کو ہنگاموں کے ذریعہ اور فساد کے نتیجہ میں بند کروانے کے لئے ایک سیاسی جماعت کو دس کروڑ روپیہ دیا گیا ہے پاکستان کی سلامتی کا جذبہ اور پاکستان کی محبت اگر تمہارے دلوں میں ہو تو پھر تمہیںہر فساد کے لئے باہرسے پیسے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ہمیں ۶؍ اکتوبر کی چلی ہوئی بیرون پاکستان سے یہ اطلاع آئی کہ بڑے منصوبے بن رہے ہیں اور ان میں یہ بھی منصوبہ ہے کہ چونکہ جماعت احمدیہ کے افراد بھی عوام ہیں اور ان کی ہمدردیاں پیپلز پارٹی سے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا ایک بہت بڑا منصوبہ پاکستان سے باہر بنایا گیا ہے پھر نومبر میں پاکستان کے ایک ذریعہ سے پتہ چلا کہ بعض غیر ملکی جماعت احمدیہ میں غیرمعمولی مفسدانہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس طرح پہلی خبرکی تصدیق ہو گئی میں نے بتایا ہے کہ ہم تو ایک کمزور سی جماعت ہیں۔ ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیں ہمیں یہ خبریں ملیں مگر حکومت کے زیادہ ذرائع ہیں اسے زیادہ خبریں ملتی ہوں گی اور یہ نتیجہ میں پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر کی پچھلے سات آٹھ دن کی تقاریرسے نکالتا ہوں کیونکہ نگران کو حالات کی زیادہ خبر ہے آج تو انہوںنے بہت زیادہ سخت بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے منصوبہ بنایا ہے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان میں خون بہانے کا لیکن اگر خون ایک دفعہ بہنا شروع ہو گیا یعنی تم نے پہل کر دی تو پھر اس وقت تک خون بہتا رہے گا جب تک تمہارا سارا خون نہ نکل جائے۔ آئندہ کیا حالات رونما ہوتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ لیکن کیا ضرورت سمجھی حکومت نے اس قسم کی تنبیہہ کی۔ وہ آج کے بیان سے ظاہر ہے۔ ہمیں اپنے ذرائع سے پہلے سے علم تھا کہ ہمارے خلاف منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور میں انتظار کررہا تھا، میں دعائیں کررہا تھا۔ بعض دوستوں کو میں نے بعض باتیں بتائیں اور بعض کو دوسری باتیں بتائیں میں نے کہاکہ دعا کریں اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحظہ ہر آن ہر لحاظ سے اپنی حفاظت اور امان میں رکھے۔ اگر ہم نے خدا کے حضور صحیح قربانیاں دیں تو ہم اس کی مدد اور نصرت کو معجزانہ طور پر آسمان سے نازل ہوتے دیکھیں گے۔
جہاں تک احمدیت کو تباہ کرنے کا سوال ہے۔ وہ تو ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ جس جماعت کو خدا نے تمام بنی نوع انسان کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اس جماعت کو انسانوں کا ایک چھوٹا سا ناسمجھ گروہ تباہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا تعلق ہے وہ نہ کبھی ٹوٹنا چاہئے۔ نہ کمزور ہو نا چاہئے۔ دنیا جو مرضی کرتی ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ ربوہ میں بھی اس فتنے کی کچھ آنچ آئی اور ہمارے کالج میں بعض لڑکوں نے نعرے لگائے۔ وہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا ۔ پھر ایک اور چھوٹا سا واقعہ بھی ہوا۔ ملک میں آگ لگی ہو تو ہم تک گرمی تو پہنچے گی اور وہ ہم تک پہنچی لیکن میرے لئے جو بات بڑے دکھ کا باعث بنی وہ یہ کہ ہمارے بعض احمدی خاندان بھی روپے کے لالچ میں اس آگ میں ملوث ہو گئے۔ یہ کام میرا اکیلے کا نہیں بلکہ اہل ربوہ کا اجتماعی کام ہے کہ ہمارے اندر اس قسم کی کمزوریاں دکھانے والا کوئی شخص نہ ہو اور نہ رہے آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل باہر کی جماعتوں سے زیادہ ہیں مثلاً ربوہ کا مکین جو چند روپے بھی خرچ کر سکتا ہے وہ اپنے کالج میں اپنے بچوں کو پڑھانے لگتا ہے مگر جو احمدی بچہ سیالکوٹ سے آئے گا اور اس کے والدین کا شوق ہو گا کہ مرکز میں ان کا بچہ پڑھے اس کو آپ کے مقابلہ میں دس پندرہ گنا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل ہے کہ جو مواقع آپ کو ربوہ میں نیکی کی باتوں کے سننے کے ہر وقت ملتے ہیں وہ مواقع باہر رہنے والے احمدیوں کو میسر نہیں آتے۔ آپ خلیفہ وقت سے قریباً ہر جمعہ کا خطبہ سنتے ہیں۔ ملاقاتیں کرتے ہیں۔آپ میں سے جو بھائی ضرورت مند ہوںان تک خلیفہ وقت کی نگاہ بڑی جلدی پہنچ جاتی ہے۔ باہر سے اگر کوئی واقعی ایسا مطالبہ ہو جو ہر طرح جائز ہو اور پورا کرنا ہو اس کے لئے بھی ہمیں باہر سے رپورٹ منگوانی پڑتی ہے۔ حالات کا جائزہ لئے بغیر تو ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔اس لئے ہم نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ احمدی ہو یا نہ ہو جب بھی اس قسم کا کوئی مطالبہ آئے ہم اسے امیر کے پاس بھیج دیتے ہیں اور پھر کافی دیر لگ جاتی ہے۔ یہاں کی ضرورت اگر ایسی ہے کہ ایک گھنٹے میںپوری ہونی چاہئے تو ایک گھنٹہ ہی میں پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن باہروالوں کا تو یہ معاملہ نہیں۔
آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے پھر یہاں کالج ہے سکول ہے۔ ہمارا کالج ۱۹۴۴ء میں بنا تھا۔ میں ہی زیادہ دیر اس کا پرنسپل رہا ہوں۔ مجھے خیال آیا اور میں نے سوچا میرا اندازہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی تعلیمی اداروں پر اس وقت تک ایک کروڑ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی ہے اور اس کا فائدہ زیادہ تر آپ مرکز میں رہنے والے اٹھاتے ہیں یہ تو آپ پر خدا کا فضل ہے۔ اسی کے عین مطابق ذمہ داریاں بھی آپ پر زیادہ ہیں اور آپ ہیں کتنے جماعت میں۔ مغربی پاکستان کی احمدیہ جماعت کا آپ اہل ربوہ۔ ایک فی صد بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت کہیں سے کہیں پہنچ گئی اور اتنی بڑی رقمیں مرکز میں خرچ کی جاتی ہیں۔ باہر والے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ ان کو زیادہ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ آپ کے گھر میں یہ سہولت ہے آپ جماعت کی تعداد کے مقابلہ میں ایک فیصد بھی نہیں اور اتنی نعمتیں خداتعالیٰ نے آسمان سے بارش کی طرح نازل کر دی ہیں۔ اگر آپ اپنی ذمہ داریاں نہیں نباہیں گے تو ایک فی صد کی خداتعالیٰ اتنی پرواہ نہیں کرے گا جتنی ننانوے فیصد مخلصین کی وہ کرے گا۔ باہر سے لوگ آ جائیں گے پھر آپ باہر چلے جائیں گے وہ یہاں رہیں گے۔ ان کے دل میں خداتعالیٰ قدر پیدا کرے گا مرکز اور اس کی ذمہ داریوں کی ایک نعرہ جو یہ لگا کہ آج عوامی حکومت ہے ٹھیک ہے ہم خوش ہیں عوامی حکومت ہے ۔ کون ہیں عوام؟ ہم ہیں عوام۔ احمدی سے زیادہ عوامی کون ہے ہم پہلے بھی عوامی تھے۔ جب عوامی حکومت نہیں تھی اور اب بھی عوامی ہیں۔ ہم وہ عوام ہیں جو اس حقیقت کو ابتداء سے جانتے ہیں کہ ہمار ے پیارے اور محبوب جس کے لئے یہ کہا گیا تھا۔لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَ فْـلَاککہ اگر تیرے وجود کو میں نے پیدا نہ کرنا ہوتا تو اس عالمین کو بھی میں پیدا نہ کرتا آپ نے یہ حسین اعلان کیا تھا۔
(الکہف:۱۱۱)
کہ یہ اعلان کر دو کہ میں تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں۔ بشر ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے ہیں۔ جس جماعت نے ، جس امت مسلمہ احمدیہ نے اس حقیقت کو پہچانا وہ عوام ہے وہ پہلے بھی عوامی جماعت تھی اور اب بھی عوامی جماعت ہے۔
عوامی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ صحیح اصول، وہ نیکی کی باتیں، وہ آپس میں ایک دوسرے کی معاونت اور ہر قسم کے پاک اقوال پاک اعمال کا مجموعی طور پر جو ماحول ہے۔ ربوہ کے تعلیمی اداروں کا ویسا ہی پاک ماحول قائم رہے گا۔ کل کو عوام دشمن عناصر کو لائل پور والے یا چنیوٹ والے یہاں آ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم عوام ہیں ہم یہاں اپنی مرضی چلائیں گے۔ ’’عوام‘‘ ہو؟ تو تم تو عوام دشمن عناصر ہو یا تو اعلان کرو۔ ہم عوامی پارٹی کے مخالف نہیں ہیں اور جب یہ اعلان کرو گے تو ہم کہیں گے لائل پور میں جا کر چلا ئو۔ کیونکہ عوامی حکومت کا تو مطلب ہی یہی ہے۔ عوامی حکومت کے مرکزنے ایک بنیادی پالیسی (Policy)وضع کرنی ہے۔ یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم آٹھویں جماعت تک مفت تعلیم دیں گے۔ یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم اتنی نئی درسگاہیں کھول کردیں گے۔ یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کا اس قسم کا انتظام کریں گے یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم سائنسدا ن کو وظائف دے کر باہر بھیجیں گے تاکہ سائنسدانوں کی ضرورت ہمارے ملک میں پوری ہو جائے یہ بنیادی طور پر حکومت کا کام ہے۔ لیکن اس با ت کا فیصلہ کرناکہ سرگودھا کا ماحول کیسا رہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ لائل پور کا ماحول کیسا رہے اس بات کا فیصلہ کرنا (جو بنیادی ہدایت ہے مرکزی حکومت کی طرف سے اس کے اندر رہتے ہوئے) کہ ملتان کا ماحول کیسا رہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ شیخوپورہ کا ماحول کیسا رہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ سیالکوٹ کا ماحول کیسا رہے یہ ان شہروں کا کام ہے (اس طرح دوسروں شہروں کا) اور اس با ت کا فیصلہ کرنا کہ ربوہ میں کس قسم کا حسین ماحول قائم رہے گا یہ احباب ربوہ کا کام ہے اور کوئی عقلمند آدمی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ حکومت تو ویسے ہی اعتراض نہیں کرے گی لیکن کسی اور کی طرف سے بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
حالات کچھ اس قسم کے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریںکہ اللہ تعالیٰ ملک کو ملک دشمن عناصر کے منصوبوں سے محفوظ رکھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ پہلے ایک بیان آیا اور پھر اس کے بعد ایک سخت بیان آیا۔ آج کا بیان تو بہت زیادہ سخت ہے اس سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ ملک دشمن عناصر کا مقصد یہ ہے کہ جگہ جگہ خون بہایا جائے۔ آپ ذمہ دار ہیں ربوہ میں کوئی خون نہیں بہے گا نہ احمدی کا نہ کسی اور کا۔ ربوہ کو اپنی پیاری فضا، جس میںایک دوسرے سے پیار کیاجاتا ہے کو قائم رکھنا چاہئے اور آپ ظالم کی بھی مدد کریں اور مظلوم کی بھی مدد کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ یہ ہے عوامی حکومت جو ظالم کی بھی مدد کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مظلوم کو ظلم سے بچا کر اس کی مدد کرو۔ اور ظالم کو اس کے ہاتھ پکڑ کے کہ وہ ظلم نہ کر سکے، اس کی مدد کرو کیونکہ جو ظالم ہے وہ تو خداتعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے جو ظالم ہے وہ خداتعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتا اور اسلام اس لئے دنیا میں قائم ہوا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنے دائرہ استعداد کے اندر خداتعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لے تو ظالم کا ہاتھ پکڑنا اس کی مدد ہے۔ چور کو چوری نہ کرنے دینا یہ اس کی مددہے۔ ورنہ دنیوی قانون کی گرفت میں بھی وہ آ جائے گا اور الٰہی قانون کی گرفت میں بھی وہ آ جائے گا۔یہ اس کی مدد نہیں کہ آپ آرام سے بیٹھے رہیں کہ ہمیں اس سے کیا۔ کیا تمہیں اس سے کچھ نہیں کہ تمہارا بھائی خدا کے غضب کی جہنم میں جا رہا ہے اگر تم نے جو آج ربوہ میں رہتے ہو اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو یقینا باہر سے آکرلوگ اس جگہ کو آباد کریں گے اور تمہارے لئے اس میںکوئی گنجائش نہیں ہو گی اور رحمۃ للعالمین کی طرف سے جو عوام کے لئے رحمت مجسم بن کر آیا تھا تمہیں ظلم کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ہر ایک لحاظ سے عوام ہی ہیں نا یا ان کے ذرئع یا ان کی دولتیں یا ان کے Source Wealth وغیرہ عالمین کا حصہ ہیں پس یہ ہیں عوام اور یہ ہے عوام کے حق میں اور عوامی صورت جہاں کوئی استحصال نہ ہو۔ جہاں ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ اس جھنڈے کے ہم علمبردار ہیں۔ یہ جھنڈا ہے (کالا اور سفید) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کہ اندھیروں میں وہ آئے اور عالمین کو منورکر دیا۔ یہی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈوںکا رنگ ہے یعنی سیاہ اور سفید۔
یہ سبز جھنڈے بعدکے ہیں۔شاید سو سال بعد بنے ہیں۔ اصل جھنڈا جو ہے وہ کالا اور سفید رنگ کا ہے۔ پس آپ ظلمات کی رات میں آئے لیلۃ القدر میں آئے۔ لیلۃ القدر منور رات تو نہیں ہوتی لیلۃ القدر وہ رات ہوتی ہے جب چاند بھی اپنی روشنی کا بہت سارا حصہ کھو چکاہوتا ہے اگر ۲۱؍ کو آجائے تو پھر بھی پورے چاند کو ایک ہفتہ گزر گیا یا پھر ۲۹ ؍ آئے تو بالکل اندھیری رات ہوتی ہے تو لیلۃ القدر میں آپ آئے اور اس کوروشن کر دیا اس واسطے خداتعالیٰ نے آپ کو کہا کہ اپناجھنڈا کالا اور سفید بنائو کالا یہ یاد دلانے کے لئے کہ میں اندھیروں کو منور کرنے آیا ہوں اور سفید یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں نے اندھیروں کرمنور کر دیا روشن کر دیا۔ تو یہ ہے عوامی حکومت اور امت محمدیہ ہی حقیقی معنوں میںعوام ہے۔ غیر نے تو’’عوام‘‘ کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ بُنْیَانٌ مَرْصُوْص کی طرح متحد دنیا کی اقوام کو آگے سے آگے لے جانے کے لئے جذبہ مسابقت رکھنے والے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے جو مسابقت جو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی راہیں اختیار کرنی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا اور اس مسابقت کی طرف اسلام ہمیں توجہ دلا رہا ہے۔ چنانچہ سورۂ حدید میں فرمایا

(الحدید:۲۲)
یہاں یہ فرمایا کہ ہم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ اس کا نتیجہ اَلْخَیْر نکلے گا۔ فرمایا کہ جلدی سے آگے بڑھو کس چیز کی طرف ؟ خیرات کی طرف بڑ ھ کر خیرات کی طرف سبقت لے جانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اس جنت کی طرف جس کی قیمت عالمین ہیں۔ یعنی زمین و آسمان اس کی قیمت ہیں۔ یہ اتنی قیمتی شے ہے اس کی طرف آگے بڑھو۔ یہ ہے مسابقت فی الخیرات اور یہ ہے مسابقت الی الخیرات اور عوامی حکومت میں عوام کا آپس میں مقابلہ الی الخیرات ہونا چاہئے۔ سرپھٹول میں مسابقت نہیں۔ مکانوں کو جلانے میں مسابقت نہیں، گاڑیوں کو ٹرکوں اور بسوں کو آگ لگانے میں مسابقت نہیں، ذہنی دولت کو جو قوم کے مستقبل کی دولت ہے کلی طورپر ضائع کر دینے میں مسابقت نہیں کہ کون کسی کا وقت زیادہ ضائع کرتا ہے مسابقت اس بات میں ہے کہ تمہارا بھائی اگر تمہارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ سبق مجھے سمجھ نہیں آیا تو اس کو سمجھائو۔ اگر ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے کہ میں نے کسی مجبوری کی وجہ سے لیکچر نہیں سنے تم نے جو نوٹ لئے ہیں مجھے دو تاکہ میں نقل کر لوں یا ٹائپ کروا لوں تم اسے دو۔ ہرشخص کو پوری مدد ملنے کے بعد اور آپس میں کلی تعاون کے بعد دیکھو کون آگے نکلتا ہے اور وہ خیرات میں آگے نکلنا ہو گا وہ بھلائی میں آگے نکلنا ہو گا۔ وہ قوم کو زیادہ ترقی کی راہ میں ڈالنے میں آگے نکلنا ہو گا۔ وہ قوم کی پرورش کرنے میں آگے نکلنا ہو گا۔ یہ ہے وہ مسابقت جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے اور جس کے نتیجہ میں میں کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا۔ اگر تم نے ربوہ میں رہ کر اپنے بچوںکو سنبھالناہے اور دنیا کے لالچ میں نہیں آنا تو ربوہ کا نیک ماحول تمہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے تمہیں پیار کرنا پڑ گا ۔ لیکن اگر تم نے اس پاک فضا سے فائدہ نہ اٹھایا تو میرے مخلص بھائی ربوہ کی فضا کو پاک رکھنے اور معاشرہ کو حسین رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے ۔ اس سلسلہ میں آپ دوستوں کو بنیادی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ حکومت سے تعاون کرو اور آج حکومت نے یہ اعلان کیا کہ سڑکوں پر نکل آئو اور ملک کی دولت اور جائیدادوں اور اہل پاکستان کی عزتوں اور جانوں کی حفاظت کرو اور اگر ہم نے حکومت سے تعاون کرنا ہے اور ضرور کرنا چاہئے۔تو ربوہ میں بھی ہم کسی ناخوشگوار اور مفسدانہ فعل کو برداشت نہیں کریں گے جن کی نیتیں خراب ہیں وہ بھی سن لیں اور جنہوںنے ذمہ داری نباہنی ہے وہ بھی سن لیں کہ ہم اپنے شہر کو ایک نمونہ بنانا چاہتے ہیں۔ قابل رشک نمونہ۔ اس لئے رشک کرو ہم پر اور اپنے شہروں کو بھی اسی طرح امن کے جزیرے بنائو۔ کون تمہیں اس سے روکتا ہے لیکن جو بھڑکتی ہوئی آگ دشمنی کی، حسد کی، بددیانتی کی اور لاپرواہی کی اور ایک دوسرے کو لوٹنے کی اور استحصال کرنے کی تم میں سے بعض نے اپنے شہروں میں بھڑکائی ہوئی ہے ہمارے شہر میں اس کے بھڑکانے کی کوشش نہ کرو۔ اس میں خدا کے فضل سے تم کامیاب نہیں ہو گے ہم عوام (جو ہمارے مخالف ہیں ان کو مخاطب کرکے میں کہتا ہوں) تمہاری خیر خواہی اور ہمدردی کی خاطر’’عوامی‘‘ بنے ہیں۔ ()تمہیں دکھ پہنچانے یا تم سے کچھ چھیننے یا تمہارا استحصال کرنے کے لئے ہم عوامی نہیں بنے یہ عوام کی الناس کی حکومت للناس ہے اور ہم عوامی ہیں۔ جب ہم عوامی حکومت کا ہی ایک حصہ ہیں تو تمہیں خوف کس بات کا؟ ہم تو دکھ پہنچاتے ہی نہیں۔ ہمیں تو یہ حکم ہے ’’گالیاں سن کر دعا دو‘‘ ہمیں تو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ’’پا کے دکھ آرام دو‘‘ ہمیں تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خود اس لئے تکالیف برداشت کرو کہ تمہارا بھائی تکالیف اور مشقتوں سے بچ جائے۔
ہم استحصال کرنے کے لئے نہیں استحصال دورکرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر تم کیوں گھبراتے ہو اور شیطانی وساوس کا شکار کیوں بن جاتے ہو۔ لیکن یہ تو نہیں ہو گا انشاء اللہ کہ گندی زیست کی جوآگ، بددیانتی کی جو آگ، ایک دوسرے پر ظلم اور حسد کی آگ اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے اور پامال کرنے کی جو آگ دوسری جگہوں میں ہے۔ جس کو بجھانے کے لئے آج عوامی حکومت کوشش کر رہی ہے وہ آگ اپنے ماحول میں بھڑکنے دیں۔ یہ اجازت تو نہیں دی جا سکتی کہ سماج دشمن عناصر ان جگہوں پر بھی آگ لگانے کی کوشش کریں۔ جہاں وہ پہلے نہیں۔ جہاں خوبصورت باغ ہیں پھول ہیں۔ باہر تم نے مشہور کیا کہ ربوہ میں جنت ہے۔ ہے جنت۔ لیکن جنت وہ تصور نہیں جو تمہارے دماغ میں آیا۔ کوئی مصنوعی چیز نہیں نہ یہاں مصنوعی جنت ہے نہ مصنوعی جہنم ہے۔ یہاں تو محبت و پیارکا ماحول دل کی گہرائیوں سے جذبہ خدمت کے فوارے نکلتے ہیں۔ یہ ہے وہ دولت جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا کہ تمہاری زندگیوں میں بھی اس دنیا میں وہ جنت ملا کرتی ہے یہاں تو وہ جنت ہے۔
پس ساری دنیا میں اشاعت اسلام کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کی تیزی کو قائم رکھنے کا سوال، اس میں سستی نہ پیدا ہونے کا سوال ہے۔ یہ میرے اور تیرے سوال کا نہیں۔ یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور خداتعالیٰ کی توحید کا سوال ہے ۔ اور خداتعالیٰ کی توحید بہرحال دنیا میں قائم ہو گی اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا پیار بہرحال ہر انسان کے دل میں قائم کیا جائے گا۔ ا س کے لئے خواہ ہمیں اپنی گردنیں کٹوانی پڑیں یا اپنی ساری مال و دولت کو قربان کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ جنت عطا کرے جس کے متعلق جس نے دنیا میں بھی وعدہ کیا اور اس کے متعلق یہ بھی کہا کہ اتنی حسین اور اتنی قیمتی اور اتنی اعلیٰ ہے وہ جنت کہ زمین و آسمان کی جو قیمت ہے وہ اس کی سمجھ لو۔ کیونکہ اس سے زیادہ تو انسانوں کے ذہن میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہی ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے۔ اور ہمارے ملک کو بھی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۷ ؍اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۷)
ززز

جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی
شہادت اور اس کے پیارکی ایک گواہی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍دسمبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے فرمایا:-
میں نے گزشتہ تین روز شدید سردرد کی تکلیف میں گزارے ہیں، جس کی وجہ سے بعض کاموں کا حرج بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ آج تو کافی افاقہ ہے۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح صحت عطا فرمائے کہ کام تو ہمیشہ ہی اہم رہتے ہیں لیکن جلسہ سالانہ کے جو کام ہیں اور جلسہ سالانہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ باہر سے ہزاروں بلکہ ایک لاکھ کے قریب دوست تشریف لاتے ہیں (عملاً ایک لاکھ ۲۵ ہزار کا اجتماع ہوا) ان سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جماعت احمدیہ پر ہر آن بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں، ا س کے متعلق ان کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری ہے۔ غرض نیکی کی باتیں، آئندہ کے پروگرام اور اسلام اور احمدیت کی بنیادی باتیں بتانی ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو سال بہ سال آتی ہے مگر بڑی ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور صحت سے رکھے۔
یہ جمعہ اور اس کے بعد کا جو جمعہ ہے وہ جلسہ کے جمعے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے مہمان ہمارے لئے خوشیوں اور برکتوں کے سامان لے کر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میںبیان ہوا ہے کہ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ آپ کو دیکھنے والا ہر شخص آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت کے آثار مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ گویا مسکرانا سنت نبوی ہے اسی واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اور مجھ سے پہلو کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑتا رہا ہے۔ مگر ہماری مسکراہٹ کوئی نہیں چھین سکا۔ جب جماعت نسبتاً چھوٹی تھی، اس چھوٹی سی جماعت کو بھی اور اب جب کہ جماعت نسبتاً بڑی ہو گئی ہے (دنیا کے لحاظ سے تو یہ اب بھی چھوٹی ہے) اس نسبتاً بڑی جماعت کو بہت سی پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہماری مخالفتیں ہوتی ہیں۔ ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہے۔ ہمارے خلاف منصوبے باندھے جاتے ہیں۔ احمدیت کے مخالفین کی یہ کوششیں اور منصوبے دراصل غلبہ اسلام کی اس مہم کے خلاف ہیں جو احمدیت کے ذریعہ جاری ہوئی ہے ۔ غرض لوگ جانتے بوجھتے یا ناسمجھی کی وجہ سے اس جماعت کو دکھ پہنچاتے ہیں جس پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں ہماری مسکراہٹوں کو ہم سے نہیں چھین سکیں۔ اس لئے کہ ہم تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور آپ کے اسوئہ حسنہ میں اپنی زندگی اور زندگی کے حسن کو دیکھتے اور پاتے ہیں۔
پس یہ موقعہ ایک لحاظ سے امتحان کا ہے کیونکہ جب بہت دوست جمع ہو جائیں تو کچھ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ کچھ فکر زیادہ کرنی پڑتی ہے کچھ آنے والے بھائیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی کے علاوہ جماعت پر عموماً اور اہل ربوہ پر خصوصاً ایک زائد بوجھ پڑتا ہے۔ پھر بیچ میں کچھ منافق بھی ہوتے ہیں جو دکھ دینے والی باتیں کرتے ہیں، وہ بھی سننی پڑتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری مسکراہٹوں کو چھینا نہیں جا سکتا۔ اس لئے میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مسکراتے چہروں اور مخلصانہ جذبات کے ساتھ اپنے آنے والے بھائیوں کا استقبال کریں اور ان کا پورا خیال رکھیں۔
جلسہ سالانہ کے یہ ایام جو دوسری بات ہمیں یاد دلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ایک وقت تھا مہدی معہود اکیلے تھے آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا اور لوگ تیری طرف اس کثرت سے رجوع کریں گے کہ راہیں ہموار نہیں رہیں گی۔ چنانچہ وہ شخص جو تن تنہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس ایک کو ہزار کر دیا۔ ہزار نہیں کیا بلکہ اس کو ایک خداتعالیٰ نے لکھوکھہا کر دیا ہے اگر پختہ احمدی اور نیم احمدی ہر دو کو شامل کیا جائے تو اس وقت جماعت کی تعدادکروڑ سے اوپر نکل چکی ہے۔ گو اب بھی جماعت بہت تھوڑی ہے اور ہمیں اس کا اعتراف ہے لیکن یہ روز بروز ترقی کرتی چلتی جا رہی ہے۔ دنیا اس حقیقت کو بھول گئی ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ (الانبیاء: ۴۵) اور نتیجہ یہ نکالا تھا کہ گو ابھی ہلکی رفتار کے ساتھ ترقی ہو رہی ہے مگر تدریجی ترقی ہوتی چلی جاتی ہے پس تمہارے اند رعقل ہو تو سوچو۔کیا اس کے بعد بھی تم غالب آنے کا اور اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو ناکام کرنے کا نتیجہ نکالو گے۔ چنانچہ ایک مسلسل ترقی کی راہ ہے۔ جس پر جماعت احمدیہ کا کارواں گامزن ہے۔ میں نے پہلے بھی اس حقیقت کو بیان کیا تھا کہ کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی جو پہلے دن کی صبح سے جماعت کو زیادہ مضبوط نہیں دیکھتی اور زیادہ تعداد میں نہیں پاتی اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور یہ جلسہ الٰہی فضلوں کی ایک علامت اس کی رحمتوں کی ایک شہادت اور اس کے پیار کی ایک گواہی ہے۔
جو دوست جلسہ سالانہ پر باہر سے تشریف لاتے ہیں وہ بڑی قربانی کرکے آتے ہیں۔ اب مثلاً جہاں تک مالی لحاظ سے قربانی کا تعلق ہے ایک دوست جو کراچی سے آئے گا وہ اگر تیسرے درجے میںبھی سفر کرکے آئے تو بھی فی کس سو روپے سے زیادہ خرچ آئے گا۔ غریب جماعت ہے۔ غریب احباب پر مشتمل جماعت ہے لیکن احباب جماعت ایک جنونی کیفیت کے ساتھ جلسہ کے دنوں میں الٰہی برکتوں کے حصول کے لئے مرکز کی طرف دوڑتے ہیں۔ یہ عشق کی ایک آگ ہے یہ سلسلہ کی محبت کی ایک آگ ہے جو ہر سال اپنا ایک جلوہ دکھاتی ہے اس لئے کہ دعویٰ کرنے والے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دوں اور آپ کی محبت تمام بنی نوع انسان کے دل میں قائم کر دوں۔ چنانچہ یہ وجود مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہے جس نے جماعت کے دلوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کیا تھا۔اس وجود سے اس محسن سے جماعت جلسہ سالانہ کے دنوں میں پیار کرنے کا عملی مظاہرہ کرتی ہے۔
پس جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے دوست بہت بڑی قربانی کرکے آتے ہیں وہ جب مرکز میں آتے ہیں تو جہاں ہمیں ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ ان کا استقبال کرنا چاہئے وہاں ان کے لئے بڑی دعائیںبھی کرنی چاہئیں۔ سفر میں بعض تکالیف بھی بعض دفعہ برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے جلسہ سالانہ کے مسافروں کو سفر کی ہر تکلیف سے محفوظ رکھے۔ اور خدا کرے ان ایام میںجہاں اجتماعی دعائیں بڑی کثرت سے ہوں گی اور جہاں خداتعالیٰ سے پیار کرنے والے بڑی کثرت سے جمع ہوں گے مرد بھی اور عورتیں بھی اور جہاں خداتعالیٰ کے حضور انسان بڑی کثرت سے عاجزانہ طور پر جھکے گا وہاں آسمانوں سے کثرت سے برکتیں بھی نازل ہو گی۔ اس لئے دوست کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو خداتعالیٰ کی آواز کو سن کر خدا کے لئے نہ کہ کسی دنیوی غرض کے لئے مرکز سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں ۔ ان کو بھی ان بے شمار رحمتوں میں حصہ دار بنائے جو ہر آن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور کوئی شخص اپنی غفلت کی وجہ سے خداتعالیٰ کی نعمتوں کے حصول سے کلیۃً یا ایک حد تک بھی محروم نہ ہو جائے۔
غرض یہ دن بڑی دعائوں کے دن ہیں۔ بڑی قبولیت دعا کے دن ہیں ان دنوں دعائیں بھی ہوتی ہیں اوربڑی کثرت سے ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سنتا اور بڑی کثرت سے قبول بھی فرماتا ہے۔ آخر ہم یہاں سلسلہ کے مرکز میں کیوں بیٹھے ہیں صرف خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیٹھے ہیں یہاں آنے والے کیوں آتے ہیں جبکہ یہاں نہ ان کو کوئی دنیوی لذت اور نہ ان کو کوئی دنیوی نفع حاصل ہوتا ہے۔ وہ صرف اس لئے آتے ہیںکہ دوران سال اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں جماعت پر نازل ہوتی ہیں وہ ان کے بعض نظارے ان کی بعض جھلکیاں دیکھ لیں کیونکہ بے انتہا فضل نازل ہو رہے ہیں۔ وہ سارے ان چند دنوں میں تو بیان نہیں کئے جا سکتے وہ یہاں آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر ان کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دعائوں کی توفیق عطا فرما دے۔ اور خدا کے فضل سے وہ مقبول دعائوںکا درجہ پائیں ایسی دعائیں نہ ہوں جو رد کر دی جاتی ہیں۔
پس مخلصین ربوہ کو چاہئے کہ وہ ان دنوں بہت دعائیںکریں اور جولوگ احمدی ہونے کے باوجود ایمان میںکمزور ہیں۔ احباب ان کے لئے بھی دعائیں کریں کہ الٰہی فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کی جو بارش حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ آج دنیا میں نازل ہو رہی ہے وہ لوگ اپنی بے سمجھی کے نتیجہ میں ان سے محروم نہ رہیں۔ وہ بھی خدا کے لئے اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دینے والے ہوں۔
پس دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور کہہ رہا ہوں وہ یہی ہے کہ احباب ان ایام میں اپنے دن اور رات کو اپنی دعائوں سے اس طرح معمور کر دیں کہ بعد میں آنے والوں کے لئے آپ کا یہ زمانہ موجب فخر ہو۔ خدا کرے آپ کی دعائیں اللہ کی رحمتوں کو جذب کرنے کا موجب بنیں اور اس کے فضل اور رحمتیں پہلے سے بھی زیادہ جماعت پر اجتماعی رنگ میں اور آپ پر انفرادی لحاظ سے نازل ہوں۔
تیسری بات جو میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں اور جس کی طرف جلسہ کے انتظامات کی وجہ سے توجہ پیدا ہوئی ہے و ہ یہ ہے کہ اب مرکز میں سٹیڈیم طرز کی جلسہ گاہ تیار ہونی چاہئے۔ جب جلسہ سالانہ کے یہ دن گزر جاتے ہیں تو انسان دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ضروری اور توجہ طلب باتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ چونکہ ایک وسیع جلسہ گاہ کی تعمیر کی ضرورت بہت اہم ہے اس لئے میں احباب کو اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک لمبا عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی کہ ایک ایسا بڑا ہال ہو جہاں لیکچروں کا انتظام کیاجا سکے اور جس میں یکصد سامعین سما سکیں۔ آپ نے اس زمانے کی ضرورت کے مطابق فرمایا تھا۔ پھر ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک کی کہ ایک لاکھ سامعین کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا جائے اور آج خلیفۃ المسیح الثالث تمہیں کہتا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک ایسی جلسہ گاہ کی ضرورت ہے جس میں کم از کم دو اڑھائی لاکھ آدمی بیٹھ سکیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو یہ توفیق ہے اور وہ عملاً یہ کام کر سکتے ہیں یعنی یہ محض ایک خواب و خیال والی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی تجویز ہے جو ممکن الحصول ہے اس کی طرف جماعت احمدیہ کو توجہ دینی چاہئے اور سٹیڈیم کی شکل کی کوئی ایسی جلسہ گاہ بن جانی چاہئے جو ایام جلسہ میں دو اڑھائی لاکھ مردوں اور عورتوں (دونوں کے لئے جلسہ گاہ اکٹھا کرناپڑے گا بیچ میں پردے کا انتظام ہو جائے گا) کے لئے بیٹھنے کا انتظام ہو جائے۔ یعنی سٹیڈیم کی طرز پر بنی ہوئی سیڑھیاں اور زمین پر کم از کم دو اڑھائی لاکھ نفوس کے بیٹھنے کی گنجائش ہو کیونکہ جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اگر ہم نے آج کی ضرورت کے مطابق کوئی سٹیڈیم بنا لیا تو پانچ سال کے بعد وہ بھی چھوٹا ہو جائے گا۔ اس واسطے اس سلسلہ میں اگلے دس سال کی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا پڑے گا دس سال کے بعد خداتعالیٰ جماعت کو یہ توفیق دے گا کہ اس وقت کی جماعت اس سے بھی بڑا سٹیڈیم بنا لے گی۔ لیکن اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں دو اڑھائی لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش رکھنے والا سٹیڈیم درکار ہے۔ اس کے لئے جو خرچ ہے وہ تو مجھے اپنے رب کریم پر امید ہے کہ مل جائے گا لیکن جو کام ہمارے کرنے کے ہیں۔ مثلاً اچھے نقشے تیار کرائے جائیں۔ ایسے نقشے ہوں جن میں ضرورت کا خیال رکھا جائے اور نمائش کا خیال نہ رکھا جائے۔ ایسے نقشے ہوں جن کے مطابق ہم آسانی سے عمارت کھڑی بھی کرسکتے ہوں ایسے نقشے ہوں کہ جن کے مطابق عمارت کو بتدریج ہر سال بڑھایا جا سکے۔ یعنی پہلے سال پورا سٹیڈیم مکمل کرنے کی بجائے تدریجاً مکمل کرنے کی گنجائش ہو یعنی پہلے سال جو حصہ بن جائے اگلے سال اس میں کچھ اور اضافہ ہو جائے اس سے اگلے سال اور بڑھا دیا جائے ۔ تاہم یہ کام تو ڈرافٹسمین (Darfts man) اور انجینئرز کی لیاقت پر منحصر ہے۔ ان کو سوچنا چاہئے اور جماعتی نظام کو یہ کام کروانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگلے سال خواہ عارضی طور پر جس طرح اس دفعہ جلسہ گاہ میں سیڑھیاں بنائی گئی ہیں اس طرح کا انتظام کر دیاجائے لیکن ایک بڑی جلسہ گاہ کا انتظام ہو جا نا چاہئے۔
جس وقت مسجد اقصیٰ بن رہی تھی تو ہمارا خیال تھا کہ سامنے کاصحن نمازیوں کے لئے کافی ہو گا لیکن بہت سی ضرورتیں نظر انداز کرکے مشکل سے اس دفعہ بیچ میں سے ایک جگہ نکالی گئی ہے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد کا صحن بڑا ہو اس لئے ہمیں مسجد کا موجودہ صحن آگے لے جانا پڑے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ عام جمعوں کے موقعوںپر گویہ مسقّف حصہ بھر جاتا ہے لیکن صحن والا حصہ پوری طرح نہیں بھرتا لیکن ہماری بہنوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ان کے لئے اوپر گیلری میں جوجگہ بنائی گئی تھی وہ ان کے لئے ناکافی ہے۔ پچھلے یا پچھلے سے پچھلے جمعہ ان کے لئے نیچے صحن میں قناتیں لگا کر جو جگہ بنائی گئی تھی وہاں ان کو خطبہ کی آواز ہی سنائی نہیں دیتی تھی وہ اس پر بڑی سیخ پا ہوئیں اور ان کا گلہ جائز تھاکہ نظارت اصلاح وارشاد نے ہمارے لئے جگہ تو بنا دی لیکن آواز پہنچانے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا غرض سامنے باہر جو کھلا میدان ہے (جس میں اس وقت جلسہ گاہ بن رہی ہے) یہ تو مسجد کا حصہ بن جائے گا۔ ممکن ہے یہ جو موجودہ شکل ہے آئندہ جو مسجد بنے اس کا نصف حصہ یہ ہو اور نصف ہمیں اور بنانا پڑے۔ اس لئے یہ جگہ تو جلسہ گاہ کے لئے ٹھیک نہیں دوسر ے جیسا کہ وہ سٹیڈیم جو میرے ذہن میں ہے اور جس کا میںنے اظہار بھی کیا ہے۔ یعنی دو اڑھائی لاکھ سے زیادہ سامعین کے بیٹھنے کی جگہ ہونی چاہئے اس کے لئے زمین بھی زیادہ درکار ہے۔ سردست جگہ کا انتخاب کرکے کام شروع کر دینا چاہئے۔
مینارۃ المسیح ہال بنانے کی تجویزشورٰی میں پاس ہو چکی ہوئی ہے۔ اس مد میں کچھ پیسے جمع بھی ہوئے تھے وہ موجود ہیں۔ گو تھوڑے سے ہیں لیکن بڑی برکت والے پیسے ہیں ۔ بڑی دیر سے خزانے میں پڑے برکتیں سمیٹ رہے ہیںغرض اس جمع شدہ رقم کے ذریعے انشاء اللہ کام کی ابتدا ہو جائے گی۔
پس جماعت کو اس سٹیڈیم کی تعمیر کی طرف جنوری میں عملی اقدام کرنا چاہئے ورنہ پھر بھول جائیں گے۔ میںیہ نہیں چاہتا کہ آئندہ سال جلسہ سالانہ کے دو جمعوں میں سے پہلے جمعہ میں پھر مجھے اسی قسم کی باتیں جماعت کے سامنے پیش کرنی پڑیں۔ اس لئے کام شروع کر دینا چاہئے کیونکہ جو کام شروع ہو جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ختم بھی ہوجایا کرتا ہے۔ لیکن کام شروع ہی نہ ہو۔ اس کے خاتمہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کام کا آغاز نہیں اس کا انجام بھی کوئی نہیں کیونکہ آغاز، حرکت پیدا ہونے کا نام ہے اور ’انجام‘ اس حرکت کا مطلوب و مقصود اپنے آخری نقطے تک پہنچ جانے اور اس کے حصول کا نام ہے۔ یہی اصول ہماری ہر ظاہری حرکت اور ہمارے ہر کام میں کار فرما ہوتا ہے ۔
غرض ہر کام کا ایک آغاز ہے اور ہر کام کا بفضل خدا ایک انجام ہے۔ تاہم میںیہ نہیں کہتا کہ ہر کام کا انجام ضرور ہوتا ہے کیونکہ بہت سے ایسے کام بھی جن کو انسان بیچ میں چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا اور ناکام ہو جاتا ہے لیکن حقیقتاً اور اصولی طور پر کوئی ایسا انجام نہیں جس کا آغاز نہ ہو۔ پس یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے ایسے آغاز ہیں جن کا کوئی انجام نہیںلیکن کوئی ایسا انجام نہیں جس کا آغاز نہ ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم اپنے انجام بخیر ہونے کے لئے کثرت سے دعا کیا کرو۔ جو کام تم نے اپنی زندگی میں پورے شعور کے ساتھ شروع کیا یعنی خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو پانے کا کام اور وہ جو ایک زبردست مجاہدہ اسلام میں شروع ہوا ہے ہر فرد اس میں اپنے انجام کو پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ بیچ میں وہ ایمانی لحاظ سے کمزور ہو جائے یا ٹھوکر کھا جائے یا دنیا کی دلدل میں پھنس جائے اور دنیا اسے اپنی طرف کھینچ لے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو بھول جائے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم ہو جائے۔
پس اگر انجام بخیر ہو تو گویا وہ آغاز کامیابی کے انجام کو پہنچ گیا۔ ہمارا ہر کام چونکہ خداتعالیٰ کی رضا کی ایک کوشش ہے ہمارا ہر آغاز اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوششوں کے لئے ایک ممد حرکت ہے ۔ اس لئے مجوزہ سٹیڈیم نما جلسہ گاہ بنانے کے لئے حرکت پیدا ہوجانی چاہئے یعنی جلسہ سالانہ کے معاً بعد جنوری سے کام شروع ہو جانا چاہئے تاکہ آئندہ سال کسی نہ کسی شکل میں ہمیں وہ جلسہ گاہ نظر آئے جو ہمارے بزرگ محترم اور محبوب مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش تھی اور جو آپ ہی کے طفیل ہماری بھی خواہش ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو میں نے تعداد بتائی ہے یعنی دولاکھ یا اس سے زیادہ چار پانچ سال کے اندر جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد انشاء اللہ دو اڑہائی لاکھ تک پہنچ جائے گی شاید زیادہ سے زیادہ دس سال تک جائیںلیکن میں امید رکھتا ہوں کہ پانچ سال میں ایک اتنی بڑی جلسہ گاہ کی ضرورت پیدا ہو جائے گی۔ جس میں دو اڑھائی لاکھ سامعین بیٹھ سکیں۔
اس سٹیڈیم کی تعمیر کے ساتھ ہماری ایک اور ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔ میں کل قیام گاہوں کا نقشہ دیکھ رہا تھا جسے دیکھ کر میں بڑا پریشان ہوا۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسی جماعتیں بہت بڑی تعداد میں جلسہ سالانہ میںشامل ہوتی ہیں جو اکٹھی ٹھہرتی ہیں ان کے ٹھہرانے کے لئے مہمانوں کی نسبت ہمارے پاس جو عمارتیں ہیں وہ بہت تھوڑی اور چھوٹی رہ گئی ہیں۔ اسی طرح مستورات کی قیام گاہیں بھی ایک تو تھوڑی ہو گئی ہیں اور دوسرے چھوٹی ہو گئی ہیں اگر سٹیڈیم کی طرز پر جلسہ گاہ بنائیں تو اس میں ہمیں رہائش کے لئے شاید اس سے زیادہ مسقف حصہ مل جائے جتنا اس وقت جماعت کی عمارتوں میں میسر آتا ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوںاس سے دگنی مکانیت میسر آ جائے گی کیونکہ ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں رہائش کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔
پس سٹیڈیم نما جلسہ گاہ کی اس وقت بڑی ضرورت ہے دس دن پہلے کی بات ہے مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ سارے ربوہ کے کئی ہزار مکانوں میں سے صرف تیس مکانوںمیں افسر جلسہ سالانہ کو مہمانوں کے ٹھہرانے کے لئے کوئی جگہ ملی ہے جگہ اس لئے تھوڑی ملی ہے کہ ہر دوست کے گھر میںاس کے اپنے مہمان آ رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ افسر جلسہ سالانہ کے ساتھ کیا تعاون کرے گا۔ کل ہی میری ایک ہمشیرہ نے مجھے بتایاکہ میں اپنی چھوٹی چند ماہ کی نواسی کو لے کر اس سردی کے موسم میں خیمہ میں جا رہی ہوں اس لئے کہ مہمان اتنے آ رہے ہیں کہ میرے لئے کوئی کمرہ بچتا ہی نہیں۔ اب جس مکان میں صاحب خانہ کے لئے کوئی کمرہ نہیں بچا ظاہر ہے اس مکان سے افسر صاحب جلسہ سالانہ کو تو کوئی کمرہ نہیں مل سکتا۔
پس رہائش کی ضرورت روز بروز بڑھ رہی ہے ہمارا وہ عارضی انتظام جس کے ماتحت بعض دوست اپنے گھروںکے کمرے جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو دے دیا کرتے تھے وہ انتظام کمزور ہورہا ہے تاہم وہ انتظام اس لئے کمزور نہیں ہو رہا کہ اہل ربوہ کے اخلاص میں کمی آ گئی ہے بلکہ اس لئے کمزور ہو رہا ہے کہ ان کے اخلاص میں زیادتی ہو گئی ہے جہاںپہلے وہ اپنے گھر میں دو گھرانوں کو ٹھہراتے تھے وہاں اب وہ چار چار پانچ پانچ گھرانوں کو ٹھہرانے لگے ہیں۔
غرض اس لحاظ سے یعنی مکان میں وسعت نہ ہونا یہ بات بڑی فکر پیدا کرنے والی ہے آخر ہمارے جو مہمان آئیں گے ان کو اس سردی میں سر چھپانے کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ تو دینی پڑے گی وہ ہم سے چارپائیاں نہیں مانگتے وہ تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نیچے زمین پر سونے کے لئے پرالی یا کسیر بچھا دو۔ پہلے ہم بامر مجبوری دب کے چبھنے والے پتے یا گنے کے چھلکے وغیرہ نیچے بچھانے کے لئے دیتے رہے ہیں دوست ان پر بھی خوشی خوشی گزارہ کر لیتے تھے لیکن اب چونکہ ہمارے قرب و جوار میں چاول پیدا ہونے لگ گیا ہے اس لئے پرالی نسبتاً آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے چنانچہ ہمارا ایک لکھ پتی دوست بھی یہ کہتا ہے کہ مجھے پرالی دے دو، وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ مجھے مکان دو اور نہ یہ کہتا ہے مجھے بڑا کمرہ دو۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ مجھے سر چھپانے کے لئے کوئی چھوٹا سا کمرہ دے دو جس میں ہم خاندان کے آٹھ دس افراد زمین پر لیٹ کر گزارہ کر لیں گے۔
پس ہمارے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کایہ مطالبہ نہ صرف یہ کہ معقول ترین ہے بلکہ اس سے کم کا مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا اور اس سے زیادہ ہم ان کو دے بھی نہیں سکتے وہ تھوڑے پر خوش ہیں اور ہم زیادہ نہ دینے پر مجبور ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ گزارہ کے لئے رہائش مل گئی اور ہم مجبور ہیں کہ ہم ان کو زیادہ جگہ نہیں دے سکتے۔ لیکن جتنا آرام ملنا چاہئے وہ تو ضرو رملنا چاہئے۔ اس سردی میں ہم ان کو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ باہر ٹھہرو۔ ممکن ہے بعض صحت مند نوجوان ایک کمبل کی بجائے دو کمبل اوڑھ کر باہر بھی ٹھہر جائیں آخر فوجوں کو بھی تو اسی طرح باہر ٹھہرنے کی مشق کرائی جاتی ہے لیکن ہر عمر اور صحت کے مرد، عورتیں اور بچے تو باہر نہیں ٹھہر سکتے۔
پس اگر ہم سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ بنائیں گے تو اس سے کسی حد تک یہ ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل کا کچھ حصہ بن رہا تھا اور کچھ حصہ ابھی نہیں بن رہا تھا تو میں نے پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ سے کہا تھا کہ جو حصہ نہیں بن رہا اس کو بھی بنا دو۔ اس وقت اگرچہ وہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں بھی دوسرے Wing (ونگ) کی بڑی ضرورت ہے لیکن میرے دل میں ان کی ضرورت کا اتنا احساس پیدا نہیں ہوا جتنا میرے دل میں اپنے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ میں نے پرنسپل صاحب سے کہا کہ ہم آپ کو پچاس ساٹھ ہزار روپیہ اور دے دیتے ہیں۔ آپ دوسرے حصہ کو بھی جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے بنوا لیں، چنانچہ وہ بھی مکمل ہو گیا ہے اب تیسرا ونگ بھی انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا اسی طرح گو ہماری اور کئی عمارتیں بنتی رہتی ہیں۔ لیکن ضرورت چونکہ بہت زیاہ ہے اس لئے ناکافی ہوتی ہیں۔ اس واسطے اگر ہم سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ بنائیں گے تو اس میں ہماری یہ ضرورت بھی کسی حد تک پوری ہو جائے گی۔ پھر عام سٹیڈیم کی جو شکل ہوتی ہے اور جس کے متعلق میںچند ہفتوں سے غور کر رہا ہوں، وہ بھی ہماری ضرورت کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتی۔ اس واسطے کہ جو عام سٹیڈیم ہوتے ہیں اگر اس کے اندر کرکٹ کا میچ ہوتا تو ہر شخص کی نگاہ کا مرکز وہ ساری گرائونڈ ہے جس میں کرکٹ کھیلا جا رہا ہے اس واسطے وہ تو ایک خاص شکل ہے۔ اس میں وہ گرائونڈ ہر ایک کو نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن جلسہ گاہ کا مرکز نگاہ مقرر ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ دو تین فٹ کا ایک نقطہ ہے۔ وہ تین فٹ جمع تین سو فٹ یا چار سو فٹ جمع آٹھ سو فٹ کا نقطہ نہیں ہے بلکہ وہ تو بالکل چھوٹی سی جگہ ہے اس واسطے ہمیں اپنے اس سٹیڈیم (جو عام سٹیڈیم کا بھی کام دے گا کیونکہ سارا سال ہم نے اس سے فائدہ بھی اٹھانا ہے) کے بنانے کی اصل غرض(جلسہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی) ہے۔ اس کے مطابق نقشہ بننا چاہئے اور پھر وہ زمین ہوگی وہاں کھیلیں بھی ہوں گی وہاں باہر سے بھی جو ٹیمیں آتی ہیں یعنی غیر ممالک سے ہم ان کو بھی یہاں بلا سکیں گے۔ ہم نے کسی نہ کسی بہانے دوسرے لوگوں کو مرکز سلسلہ میںکھینچ کر لانا ہے تاکہ وہ یہاں آ کر دیکھیں۔ بہت سے دوست آتے رہتے ہیں یہ نہیں کہ وہ آتے ہی احمدی ہو جاتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی رنگ میں اثر ضرور لیتے ہیں ہماری ترقی کا راز اور ہماری کامیابی کا انحصار تو اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ جو بالکل دہریہ ہیں یعنی خدا کو نہیں مانتے جب انہوں نے یہاں آ کر کچھ دیکھا تو اگرچہ وہ اس چیز کو پہچان نہیں سکے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مرہون منت ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب انہوں نے یہاں آکر دیکھا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ تم ضرور کامیاب ہو گے گو ہمیں تو پتہ ہے کہ ہماری کامیابی کا انحصارمحض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ہے۔ لیکن انہوں نے خدا کو تو پہچانا نہیں۔ خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے کی ایک جھلک ان دھندلی آنکھوں کو بھی نظر آ گئی۔ انہوں نے نتیجہ صحیح نکالا ۔ گو اس کی صحیح وجہ ان کے ذہن میں نہیں آئی لیکن انہوں نے نتیجہ صحیح نکالا۔ پس ہم توایک کمزورجماعت ہیں۔ ہم ایک غریب جماعت ہیں۔ ہم بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے والی جماعت ہیں۔ ہمیں سیاسی اقتدار حاصل نہیں اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ یہ ساری چیزیں مسلّم ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہم جیتیں گے انشاء اللّٰہ تعالٰی ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی ہیں اور ہماری جماعت مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَۃ یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں ایسی قربانیاں پیش کرے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیار اور رحمت کے جلوے دکھایا کرتا۔
پس اصل چیز ہے کہ اس کا نقشہ ایسا ہونا چاہئے جو ہماری جلسے کی ضرورت کوپورا کرے۔ اس کے علاوہ یہ ہمارے لئے سٹیڈیم کا کام بھی دے گو اس کی شکل دنیا کے عام سٹیڈیم سے ذرا مختلف ہو گی لیکن ایک نئی چیز ہم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے اور اس طرح ربوہ کے اندر غیروں کی توجہ جذب کرنے کاایک ذریعہ ہم پیدا کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کے سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ تیار کرنے کی جلد توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے تو بھرے ہوئے ہیں اور وہ بڑا عظیم دیالو بھی ہے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ کو بتائوں گا کہ وہ کس طرح جماعت پر اپنے فضلوں کو نازل کر رہا ہے۔ کسی ناشکرے کے لئے ناشکری کی کوئی وجہ اس لئے نہیں چھوڑی مگر وہ بڑا ہی بدبخت احمدی ہے جو پھر بھی ناشکری کا جذبہ دل میں رکھتا یا ناشکری کا فقرہ اپنی زبان پر لاتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے کمزور ایمان پر بھی رحم فرمائے۔
بہرحال وہ بڑا دیالو ہے ہمیں اس کی سخاوت اور اس کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پس اس جمعہ میں جو جلسہ کے دو جمعوں میں سے پہلے بعض باتیں میں نے بتا دی ہیں۔ ایک بات میں دہرا دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی آپ لوگ بھی چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی پر فخرکرنے والے ہیں۔ آپ کے چہروں پر بھی ہمیشہ مسکراہٹ رہنی چاہئے۔ خصوصاً اس وقت جب کہ دنیا کے بڑے بڑے بہادروں کے چہروں پر انقباض کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ کے چہروں پر اس وقت بھی مسکراہٹیں ہی کھیلتی رہنی چاہئیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو ایک دفعہ بشاشت ایمانی عطا فرمائے۔ وہ شیطان کے کامیاب حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے (شیطان کے حملے تو ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ بالعموم کامیاب نہیں ہوتے) تو وہ بشاشت دراصل یہ مسکراہٹ ہے جو چہروں پر کھیلتی رہتی ہے۔ یہ مسکراہٹ جہالت کا نتیجہ نہیں ہوتی یہ مسکراہٹ غرور اور تکبرکا نتیجہ نہیں ہوتی۔ یہ مسکراہٹ کم فہمی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ وہ مسکراہٹ ہوتی ہے جو بچے کے منہ پر اس وقت آتی ہے جب وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوا اس کے پیار کو حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ پس وہ مسکراہٹ ہر وقت آپ کے چہروں پر بھی رہنی چاہئے کیونکہ خداتعالیٰ نے آپ کواٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا ہے اور اس نے تمہیں کہا کہ اگر آگ بھی بھڑکائی جائے گی تو اس سے ڈرنا نہیں کیونکہ ہم نے اس آگ کو تمہارا غلام بنا دیا ہے۔ پس دیکھو اللہ تعالیٰ ہم سے کتنا پیار کرنے والا ہے اس لئے ہمیشہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ رہنی چاہئے۔ اس جلسہ کے موقع پر خصوصاً اس بات کا خیال رکھیں۔ آنے والوں سے مسکرا کر باتیں کریں۔مسکرا کر ان کے کام کریں اور جس کو تھوڑی بہت ضرورت پڑے ہم ان کی ضرورت کومسکراہٹوں کے جھرمٹ میں لے آئیں تو وہ وہیں تسلی پا جائے گا کوشش بھی کریں۔ میں نے دوبارہ یاد دہانی کرا دی ہے۔ میں دعا تو کرتا ہی رہتا ہوں جمعہ میں بھی کروں گا۔ اب اس وقت بھی زبانی چند دعائیہ فقرات کہہ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی یہ توفیق دیتا چلا جائے کہ ہمارے چہروں سے دنیا کا کوئی منصوبہ اور تدبیر مسکراہٹیں نہ چھین سکے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس مقصد کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے اس میں اسے کامیاب کرے اور وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور ساری دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا کے محسن اعظم ہیں کی محبت پیدا ہو جائے اور آپ کے حسن و احسان کے بڑے حسین اور نورانی جلووں کو ساری دنیا دیکھنے اور پہچاننے لگ جائے۔ اے خدا تو ایساہی کر۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۷؍ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۷)
ززز

جلسہ سالانہ آیا اور گزر گیا اس موقع پر اللہ تعالیٰ
نے ہمیں بے شمار برکتوں سے نوازا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ دسمبر۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ۔ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ فاتحہ کے حسب ذیل الفاظ و آیت دوبارہ پڑھی:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالی ہی ہر قسم کی تعریف اور حمد کا مستحق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی اس جماعت کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس کی خدمت میں سال کے دن رات گزار کے جلسہ سالانہ میں شمولیت بالواسطہ یا بلاواسطہ کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تفسیرمیں یہ مضمون بیان کیا ہے اور بڑا حسین نکتہ نکالا ہے کہ خدا کے کسی بندے کو کہنے کا حق تبھی حاصل ہوتا ہے جب کہنے کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کرلے۔ کے معنی ہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور تو نے ہمیں روحانی قوتیں عطا کرنے کے بعد ایسی تمام مادی اشیاء بھی عطا کیں جن کی ضرورت ان قوتوں کی نشوونما کے لئے تھی اور ہم نے تیری توفیق سے تیری عطا کردہ قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کرکے تیرے حضور اپنی پیشکش کی۔ جب تک ان قوتوں سے انسان فائدہ نہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، اس وقت تک وہ حقیقی معنی میں نہیں کہہ سکتا۔ جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب قوتوں سے انتہائی فائدہ حاصل کر لے تب وہ کہہ سکتا ہے کہ تو نے اپنا بندہ اور عبد بننے کے لئے جو طاقتیں ہمیں دی تھی ہم نے ان کا صحیح اور انتہائی استعمال کر لیا اور چونکہ تو نے ہمارے اندر آگے ہی آگے بڑھنے کا جذبہ اور جوش پیدا کیا ہے۔اس لئے اس مقام پر ہمارے دل تسلی نہیں پکڑتے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہیں کھڑے رہیں۔ اس لئے جو قوتیں تو نے ہمیں عطا کیں ان کے مطابق ہم نے اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی، اب آگے بڑھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری قوت میں اضافہ ہو، اس واسطے ہم تیری مدد مانگتے ہیں تجھ سے استعانت چاہتے ہیں کہ تو ہمیں مزید طاقت دے تاکہ تیری راہ میں ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں۔
کئی فقیر آپ کونظر آئیں گے یا بعض ہنگامی حالات میں ان کی یہ حالت آپ کے سامنے آئے گی کہ دس دس ہزار، بیس بیس ہزار، پچاس پچاس ہزار روپیہ ان کے پاس جمع بھی ہے اور گلیوں اور بازاروں میں اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے مانگنے والا ہاتھ انہوں نے آگے بھی کیا ہوا ہے اسی طرح کئی لوگ ایسے ہیںکہ جو ان کے پاس ہے اسے خرچ نہیں کرتے اور خدا کو کہتے ہیںکہ اَور دے۔ فقیر جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتاہے اسے تو معلوم نہیں کہ اس کے گھر میں رات کی روٹی ہے یا نہیں۔ نہ اسے یہ علم ہے کہ اس کی تجوری یا تھیلی میں پانچ دس بیس پچاس لاکھ روپیہ ہے۔ جب نوٹ کینسل (Cancel) ہوئے اور کہا گیا کہ پرانے نوٹ لائو تو بعض ایسے فقیروں کا ذکر بھی اخباروںمیںآیا (واللہ اعلم کہاں تک یہ درست ہے) جن کے پاس لاکھوں روپیہ تھا اور پھر بھی وہ بھیک مانگ رہے تھے اور دینے والا ان کو دے رہا تھااور اس کے بھائی کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ بے چارا! اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ پیسہ اس کے پاس نہیںکہیں رات کو بھوکا نہ سو جائے اس کو دے دو لیکن جو ہاتھ خداتعالیٰ کے سامنے پھیلایا جاتا ہے وہ ایک ایسی ہستی کے سامنے پھیلایا جاتا ہے جس سے کوئی چیز غائب نہیں۔ خداتعالیٰ کہتا ہے میں نے تجھے دیا اور تو نے میری راہ میں خرچ نہیں کیا۔ اب میرے سامنے ہاتھ کیوں پھیلا رہا ہے۔ آگے کا مقام جو آج کے دن کا مقام ہے اسے حاصل کر۔ جو کچھ میں نے تجھے دیا قوت اور طاقت اور استعداد کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے اور مادی اشیاء کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا عقل اور فراست کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا قرآن عظیم جیسی ہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے لحاظ سے۔ یہ جو تجھے چیزیں ملیںپہلے ان سے انتہائی فائدہ اٹھا۔ پھر میرے پاس آ۔ میرے خزانے خالی نہیں ہیں لیکن تیری ساری قوتیں میری راہ میں خرچ ہونے کے بعد میرے سامنے تیرا دست سوال پھیلنا چاہئے۔ پھر انسان خرچ کرنے کے بعدیعنی ’’جو کچھ ہے‘‘ پورے کا پورا خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دینے کے بعد خدا سے کہتا ہے کہ جہاں تو نے مجھے اتنا کچھ دیا اور مجھے یہ توفیق بھی دی کہ میں تیری راہ میں سارا کچھ خرچ کرد وں وہاں تو نے مجھے یہ جذبہ اور جوش بھی دیا کہ میں کسی مقام سے تسلی نہ پکڑوں کیونکہ تیرے قرب کے مقامات کی کوئی انتہا نہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے میرے رب مجھے اور دے۔
پھر جب کے بعد مخلصانہ دعا کی ہوتی ہے تب خداتعالیٰ اسے اور قوت دیتاہے اور تب خداتعالیٰ اسے جو قوت دیتا ہے اسے لے کر وہ آگے بڑھتا ہے پھر ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوتا ہے پھر کہتا ہے اے خدا! تو نے مجھے جو طاقتیں دیں وہ تیری راہ میں خرچ ہو گئیں اب مجھے اور دے کیونکہ جو طاقتیں ملیں ان کے خرچ کرنے پر تو ایک جیسا ثواب ملتا رہے گا۔ اگر مجھے مزید ثواب ملتا ہے’’اور‘‘ ترقی کی مزید راہیں کھلتی ہیں تو ضروری ہے کہ تو مجھے اور طاقتیں دے پھر کہتا ہے کہ اے خدا! میری مدد کو آ میں یہاں کھڑا ہو گیا ہوں جو کچھ تو نے دیا تھا وہ اب استعمال کر چکا۔ یہ سلسلہ چند گھنٹوں کا بھی ہے چند گھنٹے انسان خدا کی راہ میں کام کرتا ہے۔ پھر ہر نمازمیں کہتا ہے۔ پھر ہر نماز میں کہتا ہے۔ ۔ یعنی جو کچھ تو نے مجھے دیا میں نے وہ تیری راہ میں خرچ کر دیا۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس دو گھنٹے کے وقفہ میں مثلاً جو آج کل ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں خدا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ خداتعالیٰ کے بندے تو ہر وقت خداتعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس سے مزید حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ عصر کے وقت حقیقتاً (مبالغہ کے طور پر نہیں) بندے کا کا مقام ظہر کے مقابلہ میں آگے ہوتا ہے اور پھر کہتا ہے اے خدا! مغرب کے وقت تک مجھے اور آگے لے جا۔ یہ حرکت روحانی جو لازمی قرار دی گئی ہے (یعنی نمازوں کی ادائیگی حرکت روحانی ہے) اس میں دو گھنٹے کا وقفہ ہے اور ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کوپڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازمیں ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا سے یہ دعا کرو کہ جو تو نے ہمیں اس عرصے میں بھی دیا اسے بھی ہم نے تیری راہ میں خرچ کر دیا تیرا ہی عطا کردہ ابدی ترقیات کا جو جذبہ ہے اسی کی وجہ سے ہم ایک جگہ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ پھر مغرب کی نماز میں پھر عشاء کی نماز میں (نوافل میں چھوڑ رہا ہوں) پھر صبح کی نماز میں نوافل کی توفیق ملتی ہے۔ نوافل کی توفیق مغرب اور صبح کے درمیان اس لئے ملتی ہے کہ عشاء کے وقت کہنے کے بعد ا س نے کی بھی دعا کی تھی۔ تو یہ چھوٹے سے چھوٹا جو وقفہ ہمارے سامنے کے تسلسل کو قائم رکھنے اور جاری رکھنے کا آتا ہے۔ نمازوں کے درمیان ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا یہ چھوٹے سے چھوٹا وقفہ ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ خدا نے تمہارے لئے عید بنا دیا ہے یہ ایک دوسری اکائی ہے یعنی جمعہ سے جمعہ تک ہر روز لازمی طور پر پانچ دفعہ توفیق دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ہفتہ پینتیس دفعہ لازمی طور پر اس نے بھی کہا اور بھی کہا پھر جمعہ آتا ہے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں اور خدا سے کہتے ہیں اے خدا پچھلے جمعہ ہم نے کہا اورہم نے کہا تو نے ہماری دعا کو قبول فرمایا۔ (جمعہ کی نماز ایسی ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے) میں اس گھڑی کو لیتا ہوں۔ مَیں جماعت کی اجتماعی زندگی کے متعلق بات کر رہا ہوں۔ کوئی ہم میں سے کمزور ہے، کوئی بزرگ ہے۔ اجتماعی زندگی کے لحاظ سے میں یہ لے رہا ہوں کہ جمعہ کو وہ دعا کی گھڑی آئی تو بعض احمدیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا (جو نہیں اٹھا سکے انہیں اللہ تعالیٰ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے) اور اس گھڑی میں خداتعالیٰ کے مومن بندے نے کہا ۔ یعنی جو قوتیں اور طاقتیں تو نے دیں ان کے مطابق میں نے تیری عبادت کی اور پرستش کی اور میں نے آگے بڑھنا ہے اس واسطے مجھے اور قوتیں عطا کر میری قوتوں میں اَور مضبوطی اور استحکام پیدا کر اور خدا نے اس گھڑی میں وہ کی دعا قبول کی اور اس کا ایک قدم اگلے جمعہ کو اَور آگے بڑھ گیا۔ پھر اگلا جمعہ آیا، پھر اگلا جمعہ، پھر اگلا جمعہ یہاں تک کہ خداتعالیٰ کے فضل سے انسان کا انجام بخیر ہو جائے۔ یہ ایک دوسری اکائی ہے جمعہ سے جمعہ آٹھ دن اور معنی میں ثواب کی اکائی ہے۔ ہمارے لئے سارے معنی برکت کے معنی ہیں پھر اس کے بعد سال آجاتا ہے کیونکہ جو اگلی عید ہے وہ ایک سال کے بعد آتی ہے۔ بعض عبادتوں کے لحاظ سے ایک وقت میںعید آ جاتی ہے اور دوسری عبادتوں کے لحاظ سے دوسرے وقت میں۔ اور ہمارے لئے جلسہ سالانہ ہے جو سال کے بعد آتا ہے آج کے جلسہ پر ہم نے کہا لیکن ساتھ ہی ہم نے کہا آئندہ جلسہ پر اے خدا ہم تیری رحمتوں کے زیا دہ وارث بننے والے ہوں بوجہ اس دعا کے جو تو نے ہمیں سکھلائی اور جو تو نے ہمارے منہ سے بار بار کہلوائی۔ ہم تجھ سے زیادہ طاقتیں حاصل کرنے کے بعد تیرے حضور زیادہ حسین قربانیاں پیش کرنے والے ہوں۔ جلسہ آیا اور جیسا کہ آپ میں سے ہر ایک کی آنکھ نے دیکھا اور دل نے محسوس کیا، بڑی برکتوں سے معمور ہو کر آیا وہ گزر گیا لیکن یہ تو ہماری ایک منزل ہے یہ ہمارے سفر کی انتہا تو نہیں ہے پھر اگلا جلسہ آئے گا لیکن میں اس وقت اگلے جلسہ کی بات کرتا ہوں۔ آج ہم اجتماعی طور پر جماعت کی طرف سے یہ دعا کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی استعداد کے مطابق اپنی قوتوں اور طاقتوں کو تیرے حضور پیش کیا اور تجھ سے وہ رحمتیں اور برکتیں حاصل کیں جن کا شمار کوئی نہیں اور جن کے متعلق جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر مومن کا دل اور ہر مومن کی آنکھ گواہی دے رہی ہے مگر اے خدا! یہاں بس نہیں کیونکہ ہم تیرے زیادہ قریب ہونا چاہتے ہیں۔ ہم تیری زیادہ برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہماری آج یہ دعا ہے کہ اور پھراگلے جلسہ تک کے لئے ہماری دعا سے ہمیں اور دے تاکہ ہم اور زیادہ تیرے حضور پیش کر سکیں اور تیری نگاہ میں پہلے سے زیادہ برکتوں کے حصول کے حقد ار بھی قر ار دیئے جائیں اور انہیں حاصل بھی کریں۔ جلسے کے ساتھ ہی ہمارا وقف جدید کا سال بھی ختم ہو گیا ہے اور نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے۔ یہ بھی ہم یاد رکھتے ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ ہر سال ہمارا قدم آگے ہے یہ ایک حقیقت ہے اور ہر سال ہمارا قدم آگے اس لئے ہے کہ ہم بھی کہتے ہیں اور بھی کہتے ہیں یعنی اپنی توفیق کے مطابق کچھ پیش بھی کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے نئی قوتیں بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب جلسہ کی آخری تعداد جو یہاں جلسہ گاہ کے اندر گنی گئی وہ قریباً ۷۲ ہزار ہے یعنی بہتر ہزار احمدی خدا کے فضل سے جلسہ گاہ کے اندر بیٹھے تھے اور اندازہ یہ ہے کہ جلسہ گاہ جب بھر چکی تھی تو پانچ چھ ہزار جلسہ گاہ کے باہر ارد گرد پھر رہے تھے۔ کچھ ہمارے کارکن جو اپنی اپنی جگہوں پر کام کر رہے تھے وہاں لائوڈ سپیکر کی آواز چونکہ چلی گئی اس لئے وہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے ویسے بھی وہ شامل ہیں کیونکہ وہ خدمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو ہماری مستورات اور بہنیں اس جلسہ میں شامل ہوئیں ان کا تو شمار نہیں ہو سکا اور نہ ہو سکتا تھا کیونکہ اتنی تھیں کہ گنتی کے لئے جو ماحول پیدا ہوناچاہئے۔ وہ نہیں ہو سکا۔
ہمارا اندازہ ہے کہ چالیس ہزار کے قریب ہوں گی کیونکہ ہر عارضی حد جوجلسہ گاہ بناتی ہے اس کو پھلانگ کر سینکڑوں گزدور تک پہنچی ہوئی تھیں اور پہاڑیوں کے اوپر چڑھی ہوئی تھی اور ارد گرد کھیتوں کے اندر پھر رہی تھیں اور اُلامہ آ گیا کہ اپنی مستورات کو سنبھال لو ہمارے کھیتوں میں پھر رہی ہیں اور ہماری کھیتیاں خراب کر رہی ہیں لیکن ہمارے ہمسایہ شریف کسانوں سے شریفانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے ان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ہمارے تک یہ پیغام دیا تو اندازہ ہے کہ چالیس ہزار خواتین اور اسی ہزار مرد یقینی طور پر جلسہ میں شامل ہوئے۔ اس سے زائد ہوںگے کم نہیں یعنی ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع جلسہ گاہ میں تھا۔ یہ پہلے جلسہ کی نسبت بہت زیادہ ہے اور ہمارے دل خداتعالیٰ کی حمدسے معمورہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ کے مقابل کو رکھا گیا ہے۔اسی واسطے میں نے اس طرح اس حصہ سورۃ کو پڑھا کہ۔ ۔ جو کچھ ہمیں اس کے عبد بننے میں ملا اس پر ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں اور ہم اس کے ممنون ہیں اور ہماری زبانیں اس کی حمدکرتے ہوئے تھکتی نہیں ہمارے گلے خشک ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دھڑکنیں اور روح کی امواج خداتعالیٰ کی حمد کر رہی ہوتی ہیں اس اتنے بڑے اجتماع کی برکتیں ہمارے دوسرے کاموں پر بھی اثر انداز ہوں گی اور ان کا ایک عکس پڑے گا روشنی پڑے گی۔
پس میں امید رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت وقف جدید کے کام میں بھی جس کی ابتدا یکم جنوری اور جس کی انتہا ۳۱ دسمبرکو ہوتی ہے سال رواں کے مقابلہ میں آئندہ سال بہت زیادہ حصہ لے گی۔ اپنی بساط کے مطابق (بہت زیادہ کہنے کے بعد میں رک گیا تھا کہ جماعت تو پہلے ہی ہرکام میں بہت زیادہ حصہ لے رہی ہے اس واسطے میرا دماغ کھڑا ہو گیا کہ کہیں ضرورت سے زیادہ تو مطالبہ نہیں کر رہا، بہرحال خداتعالیٰ نے زیادہ دیا ہے۔ آپ کو پتہ بھی نہیں لگے گا اور نتیجہ زیادہ نکل آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اور نتیجہ اس لئے زیادہ نکلے گا کہ خداتعالیٰ نے کی ہماری آج کی دعاکو قبول کیااس جلسہ میں جس نئے نئے رنگ میں کہنے کے ہم قابل ہوئے ہیں ہم اپنی طرف سے اپنے زور سے تو اس قابل نہیں ہوئے۔ پچھلے جلسہ کے مقابل میں جو زیادتی ہے وہ ہماری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے۔
ہم نے پچھلے جلسہ پر (دو سال قبل) کہا تھا۔ اے خدا! اس مقام پر ہمیں کھڑے نہ رہنے دینا۔ ہم تیرے عاجز بندے ہیں۔ اپنی طرف سے کچھ اور دے تاکہ ہمارا قدم اگلے جلسہ کے موقع پر آگے ہی آگے بڑھا ہوا ہر ایک کو نظر آئے یعنی آپ کو بھی نظر آئے اور جو آپ کے کام کے لحاظ سے دوست اور ساتھی ہیں جو جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور جو ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے ان کو بھی نظر آئے کہ جماعت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
جیسا کہ میں نے جلسہ میں بھی بتا یا تھا کہ تحریک جدید اس سال نامساعد حالات کے باوجود آگے نکلی۔ اگلے سال انشاء اللہ پھر آگے نکلے گی۔ یہی وقف جدید کا حال ہے۔ یہ ایک طریق ہے کہ نئے سال کا اعلان باضابطہ بھی کر دیاجاتا ہے پس میں نے اعلان کر دیا میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ بیس ہزار اس سال کی نسبت زیادہ دیں۔ میں نے یہ اعلان کیا ہے کہ آپ کی دعا والی پہلے موقعوں پر جو قبول ہوئی آج بھی آپ کی دعاخداتعالیٰ کے فضل سے قبول ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کی طاقتوں اور استعدادوں اور قوتوں میں اضافہ کرے گا۔ اور اس اضافہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ آپ کی ساری زندگی سے بڑھ کر ہو گی۔ اب نصرت جہاں (ریزرو فنڈ) میں جو ہم نے کام کئے ہر وقت جائزہ تو نہیں لیتے۔ کام کر رہے تھے دعائیں کر رہے تھے۔ جب نوٹ لئے تو پتہ چلا کہ خداتعالیٰ کے فضل نے اتنی برکتیں نازل کر دیں۔ پس گننا ہمارا کام نہیں یہ بھی یاد رکھیں (اپنی اپنی طبیعت ہے اس سے منع نہیں کرتا نہ روکتا ہوں) لیکن میری اپنی طبیعت یہ ہے کہ تسبیح کے دانوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ کیا میں گن کے دوں گا اور خدا سے یہ کہوں گا کہ تو مجھے محدود اور گن کے دے؟
پس ہماری کوشش محدود ہے لیکن ہم اپنی یاد میں اس کو غیر محدود بنا دیتے ہیں۔ اگر تسبیح کے دانوں کو گنیں گے تو وہ محدود ہوں گے اور آپ کے حافظہ میں بھی وہ محدود تعداد ہو گی۔ آپ نے کہا سو دفعہ ہم نے پڑھا لیکن ایک شخص کہتا ہے میں گن کر نہیں دوں گا میں تو اپنے عاجزانہ مقام سے بغیر گنے کے تجھے دوں گا اور میرا حافظہ کہے گا کہ وہ غیر محدود اور غیر معین ہے مثلاً میں ستر دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم کہوں یا سات سو دفعہ کہوں یا سات ہزار دفعہ گن کر کہوں مجھے پتہ نہیں ہونا چاہئے یعنی اپنی طبیعت بتا رہا ہوں کیونکہ میری خواہش یہ ہے کہ میں خدا سے گنتی کرکے کوئی سودا نہ کروں بلکہ حافظے کے لحاظ سے انسان کی ہر کوشش محدود ہے لیکن اس کا حافظہ بھی محددد ہے میں غیر محدود اس کے حضور پیش کروں اور اس سے کہوں کہ تو اپنے فضل کے لحاظ سے اور اپنے مقام الوہیت کے لحاظ سے اور ’’اللہ‘‘ کے مقام کے لحاظ سے مجھے غیر محدود دے۔ پس ہم گنانہیں کرتے۔ میں تو بالکل نہیں گنتا اور بغیر گننے کے جماعت آگے بڑھ رہی ہے جیسے کہ نوٹ تیار ہوتے ہیں مختلف مواقع پر کچھ کہنا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی کچھ نعمتیں شمار ہو جاتی ہیں اور ایک حد تک ہمارے سامنے آ جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے فضلوں کو شمار نہیں کر سکتے۔ بے حد و بے حساب اس کی نعمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں۔ ایک مخلوق ہونے کے لحاظ سے بھی جس میںپتھر بھی شامل ہیں۔ ایک جاندار ہونے کے لحاظ سے بھی جن میں بکرا اور اونٹ بھی شامل ہے اور ایک انسان ہونے کی حیثیت میں بھی جس پر پہلے رحیمیت کے جلوے اور پھر مالکیت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ میری نعمتوںکو تم گن نہیں سکتے اور یہ بڑے بڑے حساب دان اور سائنس دان اور سائنس میں بہت آگے نکلے ہوئے، کمپیوٹر بنانے والے ان کو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی نعمتوں کو سارے انسانوں پر نہیں کسی ایک انسان پر جو ہوئی ہیں۔ ان کو گن کے دکھائو گن ہی نہیں سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اس طرح نہیں پیش کیا ۔ آپ نے کہا ساری دنیا قیامت تک رائی کے ایک دانہ کی صفات معلوم کرتی رہے۔ اس کی صفات ختم نہیں ہوں گی یعنی رائی کے ایک دانے، سونف کے ایک دانے، گندم کے ایک دانے، چاول کے ایک دانے کے اندر خداتعالیٰ کے جلووں نے جو صفات پیداکی ہیں وہ بھی شمار میں نہیں آ سکتیں۔ ایک وقت میںسائنسدان کہتا ہے جو کچھ تھا ہم نے پا لیا۔ اگلی نسل میں ایک اور سائنسدان پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے اس نے غلط کہا تھا اس مخلوق کی اور بہت سی صفات ہم نے دریافت کی ہیں یہ دونوں طرح ہے ایک تو زمانہ ماضی کے جلووں کی تاثیریں دوسرے یہ کہ تازہ بہ تازہ نو بہ نو جلوے اللہ تعالیٰ کی صفات کے ہر چیز پر ظاہر ہو رہے ہیں اور ان کی صفات بڑھ رہی ہیں۔ بہرحال خدا کا بڑا فضل ہے اور اس کی وجہ سے (یعنی یہ حصہ)کہ تو نے ہمیں دیا جو ہم نے تیرے حضور پیش کر دیا اپنی بساط کے مطابق۔ ’’گھر سے تو کچھ نہ لائے‘‘ جو ہم نے دیا وہ بھی ہمارا نہیں ہے وہ بھی تیرا ہے اور وہ ہے بے شمار۔ ہم محدود ہونے کے لحاظ سے اور کمزور ہونے کے لحاظ سے اس سے کچھ دیتے ہیں لیکن یہ ہمیں احساس ہے کہ حمد کے ہم مستحق نہیں حمد کا اے ہمارے رب! تو ہی مستحق ہے اور صرف تو ہی مستحق ہے۔
پس دعائیں کرو جو کچھ خدا نے دیا اس پر بس نہ کرو اور تسلی نہ پکڑو۔ بلکہ اپنے رب کریم سے کہو کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور دے تاکہ تیری نعمتوں کو ہم پہلے سے زیادہ حاصل کر سکیں ہمیں اور دے ہر قدم پر نمازوں کے درمیان ہمیں اور دے۔ ہر جمعہ جمعہ کے درمیان ہمیں اَور دے۔ سال سال کے بعد ہمیں اور دے یہاں تک کہ ہم اس امتحان کی دنیا سے نکال کر اس دنیا میں داخل ہوجائیں جہاں تیری حمد کے جلوے تو ہمارے دلوں میں موجود ہوں گے لیکن وہ دارامتحان نہیں ہو گا۔ امتحان کا تصور یہ ہے کہ پاس ہونے کا بھی امکان ہے اور فیل ہونے کا بھی امکان ہے لیکن دوسری زندگی میں ترقیات کے امکانات تو ہیں لیکن ناکامی کاکوئی امکان نہیں اس لئے ہم اسے دارالابتلاء یا امتحان کی دنیا نہیں کہہ سکتے وہاں بھی ترقیات ہوں گی۔
بہرحال ایک سال گزرا خدا کے فضل سے اور اس کی رحمتوں سے نزول بارش کی طرح اس کی نعمتوں کے نزول کے ہم نے نظارے دیکھے۔ ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں اور ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تو نے ہمارے دل میں جو آگے ہی آگے بڑھنے کی خواہش پید ا کی ہے۔ اس کے لئے تو نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہم تجھ سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں۔ اے ہمارے خدا! تو ہماری دعا کوقبول کر اور کسی منزل کو ہماری اس دنیوی زندگی میں ہماری آخری منزل نہ بنا دے۔ ہماری آخری منزل تو موت کا دن ہے جب اس دنیا سے ہم دوسری دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔ جب پردہ نہیں رہے گا کیونکہ تیرے جلوے ظاہر ہو کر، منور ہو کر، روشن ہو کر اور حجابات سے مبّرا ہوکر ہمارے سامنے آئیں گے۔ اس وقت تک تو ہماری طاقتوں میں اضافہ کرتا چلا جا اور اپنے فضلوں میں جو ہم پر تیری طرف سے نازل ہوں اضافہ کرتا چلا جا۔ ہر دن جو ہم پر چڑھے پہلے دن سے زیادہ مبارک ہو۔ ہر جمعہ جو ہماری زندگیوں میں آئے اس میں ہمیں پہلے جمعہ سے زیادہ رحمتوں کے سمیٹنے کی توفیق ملے اور ہر جلسہ جو پہلے جلسہ کے بعد آئے اس میں ہم تیرے فضلوں او رتیری رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے ہوں۔
کی ایک بنیادبھی قائم ہو رہی ہوکہ مزید طاقتیں ملیں گی مزید قربانیوںکی توفیق ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی بڑھ کر فضل نازل ہوں گے اور رحمتیں نازل ہوں گی سب کچھ اسی کی منشاء اور اسی کے حکم سے ہو سکتا ہے۔ ہم عاجز بندے عاجزانہ اسی کے حضور جھکتے اور ہمارے دل کی گہرائیوںسے نکلتا ہے خداتعالیٰ ہماری دعائوںکو قبول کرے۔‘‘
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا۔
ایک اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں جمعہ کے روز بہت سے دوستوں کی سہولت کے مدنظر میں خطبہ اور نماز کے علاوہ کسی اور کام کے لئے اپنے بھائیوں کو مسجد میں روکے نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ کوئی بہت ضروری بات ہو اس لئے جمعہ کے دن میں نماز کے بعد نکاحوں کا اعلان نہیں کرتا۔ چونکہ آج ایسا جمعہ ہے کہ ضرورت حقہ کی وجہ سے ہم نے نمازیں جمع کرنی ہیں اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو نکاحوں کے اعلانات ہونے ہیں( بہت سے فارم نکاح کے اعلان کے لئے دفتر میں آئے ہوئے ہیں) ان نکاحوں کا اعلان میں گھڑی کے وقت کے مطابق چار بجے مسجد مبارک میں کروں گا جن دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ اس موقع پر ان کے بچوں اور عزیزوں کے نکاح کا اعلان کر دیا جائے۔ وہ چار بجے مسجد مبارک میں جمع ہو جائیں انشاء اللہ تعالیٰ اس کی توفیق سے ہم بہت سی شادی کی خوشیاں بھی دیکھ لیں گے۔ اب میں نمازیں جمع کروں گا اور پھر جو دوسرے کام ہیں ان کی طرف توجہ دینی ہے۔ چار بجے انشاء اللہ مسجد مبارک میں نکاحوں کا اعلان ہو گا۔ چالیس سے زائد نکاح ہیں۔ اس لئے بہت سے دوست اکٹھے ہو جائیں گے(ماشاء اللّٰہ) اور بڑی دعائیں بھی ان رشتوں کے لئے مل جائیں گی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ۲ تا۵)
 
Top