• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 5

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 5


ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں کہ اس نے ہمارے جلسہ سالانہ کو بہت ہی بابرکت اور کامیاب بنایا
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍جنوری۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ہمارے وجود کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہے۔ اُس نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمارے جلسہ کو بہت ہی بابرکت بنایا اور اُس کی برکتوں سے نہ صرف اہل پاکستان کے لئے بلکہ دنیا میں بسنے والوں کے لئے رحمت کے سامان پیداکئے۔ جو دوست یہاں بیرونی وفود کی صورت میں یا جو دوست بیرونی ممالک میں بسنے والے احمدیوں کی نمائندگی میں یہاں پہنچے اور جلسہ میں شامل ہوئے تھے ان میں سے قریباََ سب واپس پہنچ چکے ہیں اور خداتعالیٰ کے حُسن اور اُسکے احسان کے جو جلوے اُنہوں نے جلسہ کے ایّام میں یہاں دیکھے تھے اپنے اپنے علاقوں اور مُلکوں میں اُن کے متعلق وہاں بسنے والے احمدیوں اور اُ ن کے دوستوں کوحالات بتانے شروع کردئیے ہیں۔ یہاں جو تأثر اُنہوں نے ظاہر کیا وہ تو یہ تھا کہ ہمارے خواب وخیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ اِس تحریک کا یہ سالانہ جلسہ اس قدر شان اور عظمت کا حامل اور اس قدر برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ بہر حال ہرایک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے مطابق اثرات قبول کئے اور اپنی ہمّت اور طاقت کے مطابق ان تاثرات کو اپنے اپنے ملکوں میں پھیلائیں گے۔
میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو یہ بتایا تھا کہ یہ عظیم منصوبہ جس کا میں اعلان کررہا ہوں اس کا ماٹو(MOTTO)دو بنیادی حقیقتیں ہیں جن کو ہم حمدؔ اور عزمؔ کے دولفظوں سے پکار سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں پر مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ بڑی ہی رحمتیں نازل کرنی شروع کی ہیں اور ہم حمد کے ترانے گاتے ہوئے پُختہ عزم کے ساتھ اِس راہ پر گامزن ہیں جس کی تعیین غلبۂ اسلام کے لئے آسمانوں سے ہوئی اور ہمارا ہر قدم اِس شاہراہِ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکے فضل سے وہ دن آنے والا ہے جب اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور تمام ملّتیں مٹ جائیں گی سوائے اسلام کے۔ جس کا گھر ہر انسان کا سینہ ہوگا اور جس خداکو اس نے پیش کیااُس کی محبت میں ہر دل مستانہ وار اپنی زندگی گذار رہا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ جب وہ انسان کے لئے برکات اور رحمتوں کے سامان پیدا کرتا ہے اور انسان کی عاجز قربانیوں کوقبول کرتا ہے تو وہ لوگ جو زمین کی پستیوں کی طرف جُھکنے والے اور آسمانی رفعتوں سے بے خبر ہیں وہ حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حسد کی یہ آگ ایک عقل مند مومن کے لئے یہ دلیل مہیاکرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی قربانیوں کو قبول کیا۔
بنیادی صداقت تو توحیدِ باری ہی ہے باقی سب فروعات ہیں۔ بہرحال بنیادی صداقت اور اُس بنیادی صداقت کی فروعات کو (جو صداقتوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں) جُھوٹ کے سہارے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی نہ بنیادی صداقت کو تضاد یا اختلاف کا سہارالینا پڑا۔ جب کسی دعویٰ کے خلاف جب کسی حقیقت کو ناکام بنانے کے لئے جھوٹ اور افتراء کا سہارالیاجائے اور ایک ایک بیان میں انسان کو دس دس تضاد نظر آئیں تو محض یہ فعل ہی جھوٹ کا سہارا لیاگیا اور متضاد باتیں بیان کرکے صداقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی اِس بات کی بّین دلیل ہوتی ہے کہ جس چیز کے خلاف یہ مہم جاری کی گئی جس کے خلاف جُھوٹ باندھا گیا اور افتراء سے کام لیاگیا ، متضاد باتیں بیان کرکے سُننے والے کے دماغ میں خبط اور الجھائو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہ یقینا صداقت ہے اور صداقت کوکسی جُھوٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔صداقت یا صراطِ مستقیم کے ساتھ تضاد کا تخیّل اکٹھا ہوہی نہیں سکتا۔ صداقت تو ایک سیدھی راہ ہے اور تضاد ایک ٹیڑھاراستہ ہے کبھی دائیں طرف نکلتاہے اور کبھی بائیں طرف نکلتا ہے اور جو سیدھی راہ،درمیانی راہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی راہ جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی راہ ہے اُس سے بھٹکتا ہے۔ کبھی دائیں طرف بھٹکتا ہے کبھی بائیں طرف بھٹکتا ہے۔ بہر حال صداقت کو ،صراطِ مستقیم کو، نہ تضاد کی ضرورت کبھی پیداہوئی نہ جھوٹ کا سہارا لینے کی خواہش کبھی پیداہوئی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی اسلام کی ابدی صداقت پر قائم کیا۔ اُس نے محض اپنے ہی فضل اور رحمت سے اپنی صفات کی معرفت ہمیں عطا کی ہے۔ ہم اُسکی عظمتوں کو پہچانتے ہیں۔ وہ خدا جو جھوٹ کا دشمن ہے اُس کی عظمتوں کے پہچاننے کے بعد ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اِس عظیم ہستی کی محبت اور عظمت کو قائم کرنے کے لئے کبھی ہمیں جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت پڑے گی۔ صداقت اور سچائی سے اُس حقیقی صداقت اور سّچائی کی طرف، حسین اعمال سے حُسن کے سرچشمہ کی طرف، نوعِ انسانی پر ہمیشہ احسان کرتے ہوئے محسنِ حقیقی کی طرف بُلانا ہماراکام ہے اور وہ جو جھوٹ کی طرف جُھکتے ہیں تاکہ اس صداقت کو مٹا دیں وہ جو ایک ہی سانس میںمتضاد باتیں بیان کرتے ہیں ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی ہدایت اور رحمت کے سامان پیدا کرے اور اس حقیقت کو وہ سمجھنے لگیں کہ جو سچ ہے وہ جھوٹ کی طرف مائل نہیں ہوسکتا اور جو سیدھی راہ ہے اُس میں تضاد نہیں پائے جاتے، ٹیڑھا پن نہیں پایا جاتا۔جو ابھی میں نے اصولی باتیں بیان کیں اُن کے پس منظر کچھ واقعات ہیں جن کا ذکر کرنامیں مناسب نہیں سمجھتا چونکہ ہمیں یہ نظر آیا کہ جس صداقت پر ہمیں اللہ تعالیٰ نے قائم کیااور جس صداقت کو کبھی نہ تضاد نہ کذب و افتراء کی ضرورت پیش آئی اُس کے خلاف کذب وافتراء اور متضاد بیانات کا جاری ہوجانا ہمیں خداتعالیٰ کی حمد سے معمور کردیتا ہے کیونکہ اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ جب وہ کسی کوشش کو قبول کرتا ہے کسی قربانی کو قبول کرتا ہے تو دنیا میں حاسدوں کا ایک گروہ پیدا کردیتا ہے جو حسد کی آگ کو بھڑکاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ آگ اس صداقت کو بھسم کر دے گی، جلا کر راکھ کر دے گی حالانکہ حسد کی آگ مومنوں کے وجود میںزِندگی کی حرارت پیدا کرنے والی ہوتی ہے جس سے دُعائیں، گریہ وزاری کے ساتھ نکلتی ہیں۔ غلبۂ اسلام کے لئے بھی اور اِن لوگوں کی ہدایت کے لئے بھی۔ اس لئے ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں اور اُسی کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ معمور رہیں گے جب تک کہ اس دنیا کا خاتمہ نہ ہوجائے اور اسلام ساری دُنیا پر غالب آکر نوعِ انسانی میںسے ہر فرد کو اپنے احاطہ میں لے کر اُس کی زندگی کو حقیقی انسان کی زندگی بنا کر کامیاب نہیں ہوجاتا اور پھر نسلاََ بعد نسلِِ انسانی تربیت کو کمال تک نہیں پہنچا دیتا۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اُس کی بشارتیں ہیں۔ یہ اُس کے وعدے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کا سّچا ہے۔ یہ تو حمد کا حصّہ ہے عزم کا جو حصہ ہے اُس کا زیادہ تر تعلق ہمارے نفوس کے ساتھ ، ہماری جماعت کی کوششوں کے ساتھ، ہماری والہانہ حرکت کے ساتھ، ہمارے مستانہ وار نعروں کیساتھ ہے۔ اِس یقین کی بنا پر کہ دُنیا کی کوئی طاقت خداتعالیٰ کے اس منشاء اور تحریک کوناکام نہیں کرسکتی ۔ عزم کے محل استوار کرنا ہماری صفت ہے اور اس سے ہی عظیم جدوجہد اور کوشش کے حسین اور صاحبِ احسان دھارے پُھوٹ نکلتے ہیں جو راہ کے ہر خس و خاشاک کو بہاکر لے جاتے ہیں اور مردِ مومن، مسلم ، مجاہد اپنے مقصود کو پالیتاہے اور جس وقت یہ حقیقت انسان کے سامنے آتی ہے تو کمزور انسان بھی ایک پختہ اور مضبوط مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسی کو ہم عزم کہتے ہیں۔ اُسکے لئے ہم نے ایک اور منصوبہ بنایا ہے جودعائوں کے نتیجہ میں اور ہماری قربانیوں کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے نتیجہ میں اور سچ تویہ ہے کہ اُسی کی رحمتوں کو جذب کرنے کے نتیجہ میں انشاء اللہ کامیاب ہوگا۔ پس یہ حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو (MOTTO) ہیں۔ یہ دو چیزیں ہیں جن کی برکت سے ہم نے اسلام کو غالب کرنا اور نوعِ انسانی کے دِل خدائے واحد و یگانہ کے لئے جیتنا ہے۔
دوسری بات جو اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقفِ جدید کا نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔ وقفِ جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک خاص تحریک ہے۔ اس کے کام میں اتنی وسعت نہیں لیکن اس کے نتائج بڑے خوشکن نکل رہے ہیں۔ پا کستان میںلاکھوں ہندو بھی بستے ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو سچا سمجھتے اور اس میں حقیقی صداقت پاتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کی برکات کو محسوس کرتے ہیں وہ ان لوگوں کو بھی حلقہ اسلام میں لانے کی کوشش کریں جو اس دائرہ سے باہر اور ان برکات سے محروم ہیں لیکن کم ہیں جو اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ بہر حال جماعت احمدیہ پر یہ بھی فرض ہے اور یہی بہت بڑا فرض ہے کہ وہ لوگ جو خُدائے واحد و یگانہ اور ہمارے ربّ کریم سے بُعد کی وجہ سے اُس کی رحمتوں سے محروم ہیں ان کوخدائے واحدویگانہ کی معرفت کے حصول میںمدد دی جائے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پہچاننے لگیں اور ایک خوشحال اور مسرور زندگی دینی و دنیاوی ہر دو لحاظ سے گزارنے لگیں۔ بہر حال یہ ہمارا فرض ہے اور حتی الوسع ہم اس کی طرف توجّہ کرتے ہیں اوراس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اسوقت وقفِ جدید کے نظام کے ماتحت بعض ایسے علاقوں میںبھی اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جہاں ہندو بستے ہیں۔ یہ تو ایک حقیر سی کوشش ہے لیکن اسکے مقابلہ میں جو حقیر سی کوشش کی قبولیت کی علامات ہیں وہ یہ ہیں کہ اُس علاقہ کے ہندوئوں کی توجّہ بڑی شدت کے ساتھ اسلام کی طرف ہورہی ہے اور وہاں کے سینکڑوں ہندو خاندان کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیںاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود بھیجتے اور خدائے واحد و یگانہ سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ دوسال ہوئے وہاں ایک مقام پر ان میںسے بعض کو بعض شرپسند ہندوئوں کی طرف سے اُنکے سامان پر بٹھا کرسامان کو آگ لگا کر جلانے کی کوشش کی گئی۔ اس وعدے کے ساتھ کہ اگر وہ اسلام کو چھوڑدیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنابند کردینگے تو یہ آگ بجھادی جائے گی اور ان کو آگ میںجلایا نہیں جائے گا لیکن وہ نومسلم اسلام کی لذّت سے اِس طرح بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے دشمنانِ اسلام کی اِ س پیشکش کوقبول کرنے سے انکار کردیا اور اِس جُرات کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے ان کو جلایا نہیں کیونکہ ایک کو جب جلانے لگے تو بہت سے اور آگے آگئے کہ ہم بھی ہندوئوں سے مسلمان ہوئے ہیں اور اگر جلانا ہے تو ہم سب تیار ہیں،ہم سب کو جلائو۔
پس اللہ تعالیٰ اس رنگ میں اس علاقہ کے ہندوئوں پر بڑا فضل کررہاہے اور اسلام کی طرف وہ مائل ہورہے ہیں اور یہ انتظام اِس وقت وقفِ جدید کے ماتحت ہے اور معلّمین وقفِ جدید وہاں کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مختلف مقامات پر وقف جدید کے معلّمین ہیں انکے ذریعہ سے ان کی اپنی لیاقت کے مطابق کام لیاجارہا ہے، وہ تربیت کاکام کر رہے ہیں۔ وہ بچّوں کو قاعدہ(یسّرناالقرآن) پڑھارہے ہیں۔ نوعمر نوجوانوں کو قرآنِ کریم ناظرہ پڑھا رہے ہیں۔ جن کو ترجمہ نہیں آتا اُنہیں ترجمہ پڑھارہے ہیں۔ ہزاروں احمدی تربیت کے لحاظ سے ان سے مختلف مقامات پر استفادہ کر رہے ہیں۔
اِ س وقت میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم تھوڑا سا زور اُس ہندو علاقہ میں اور لگائیں تو بظاہر ایسے حالات نظر آرہے ہیں کہ شاید عنقریب ہزاروں کی تعداد میں وہ ہندو مسلمان ہو جائیں۔ اِس وقت اُن پر اسلام میںداخل ہونے کے خلاف دو طرف سے زور پڑرہا ہے۔ ایک تو اندرونی مخالفت ہے دوسرے بڑے بڑے امیر اور تاجر پیشہ ہندو جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اُونچی ذات ہے وہ اُن پر دبائو ڈال رہے ہیں اور ان کے دبائو کے نیچے ویسے تو وہ ہمیشہ سے غلاموں کی طرح تھے۔ وہ ان کو قرض دیتے تھے اور سُود وصول کرتے تھے۔ بظاہر اُن پر احسان کرتے تھے اور اندر سے اُن کاخُون چُوستے تھے ۔ اُن کا دبائو بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات ایسے پیداہو رہے ہیں کہ یہ لوگ اِس دبائو کو قبول نہیں کررہے ۔ پس اُس جگہ کام میں اضافہ ہونا چاہیئے جس کے لئے پیسے کی بھی ضرورت ہے اور جس کے لئے مخلصین معلمیّن واقفینِ زندگی کی بھی ضرورت ہے جو وقفِ جدید میں کام کرنے والے ہوں۔ کام میں وسعت پیدا ہو رہی ہے اور نتائج میں برکت پیدا ہورہی ہے۔ اس لئے ہمارے نوجوان اور وہ لوگ جو ہمت اور عزم کے لحاظ سے جوان ہیں انہیں آگے آنا چاہیئے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اُٹھانا چاہیئے۔
گزشتہ سال وقفِ جدید کے چندہ میں پچاس ہزار کچھ سو روپے کا اضافہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ہمّت کرے اور اس سال یعنی سالِ رواں میں جو یکم جنوری سے شروع ہوا ہے۔ جس کا اس وقت مَیں اعلان کررہا ہوں۔ ایک لاکھ روپیہ مزید دے دے اور وقفِ جدید کو میں کہوں گا کہ جو آپ کی زائد آمدنی ہو اُسے اُس علاقہ میں خرچ کریں جہاں ہندو مسلمان ہورہے ہیں تو آپ کے لئے بڑی برکت کا باعث ہے اور اسلام کے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے پیار کرتاہے۔وہ جو اُس سے دُور چلے گئے تھے۔ وہ جو اُسے چھوڑ کر مُورتیوں کی پرستش کرنے لگ گئے تھے وہ اس کی طرف آئیں گے تو اس کا پیا ر ان لوگوں کے لئے جلوہ گر ہوگا۔ اور اگرچہ یہ الفاظ اس عظیم ہستی جو ہمارا ربّ اور ہمارا خالق ومالک ہے کے لئے اس معنیٰ میں استعمال نہیں ہو سکتے جس معنی میں ہمارے اپنے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن تمثیلی زبان میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال کردیتے ہیں کہ ہمارا رب بھی بڑا خوش ہوگا کہ اُس کے بھٹکے ہوئے بندے اس کی طرف واپس آگئے۔
پس اس اعلان کے ساتھ میں وقفِ جدید کے نئے سال کی ابتداء کا اعلان کرتاہوں اس امید پر کہ جماعت ایک لاکھ روپیہ زائد چندہ اس وقف جدید کے انتظام کو دے گی اور اس ہدایت کے ساتھ کہ وقفِ جدید والے اس کا بڑا حصہ اُس علاقے میں خرچ کریں گے جہاں ہندو بستے ہیں اور اس وقت ان کی توجہ اسلام کی طرف ہے اور اس توکّل اور اُمیّد کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کرے گا اور ان اُچھوتوں پر رحم کرے گا جن کو اُن کے اپنے مذہب والوں نے دھتکار دیا اور جن کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے اسلام اپنے بازو پھیلائے ان کی طرف بڑھ رہاہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے کے نیچے اُنہیں یہ جماعت لانا چاہتی ہے۔ خدا کرے کہ ہمیں اس کی راہ میں اس مّد میں بھی خرچ کرنے کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہماری یہ حقیر کوشش اس کے حضور قبول ہو اور خدا کرے کہ اسکے نتائج بہت ہی شاندار نکل آئیںاس سے زیادہ شاندارجتنی ہماری قربانیاں ہیں جیسا کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک رہاہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا۴)










مخلص اور باہمت انگریزی دان اپنی زندگیاں
تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍جنوری۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:-

پھرحضور انور نے فرمایا:-
دُنیا پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس وقت یہ صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک طرف دہریت واشتراکیت کی شکل میں ساری دُنیا پر چھا جانے کی کوشش کررہی ہے دوسری طرف مذہب سرمایہ داری کا سہارا لیتے ہوئے اس یلغار کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ جہاں تک ترقی یافتہ مغربی ممالک کا تعلق ہے یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ اب اُن میں اشتراکیت کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور یہ خطرہ پیداہوگیا ہے کہ کسی وقت بھی یہ ممالک اس کشمکش میں ہتھیار ڈال دیں اور دہریت اُن ممالک پر قابض ہو جائے ۔ اس وقت سرمایہ داری اور (اسلام کے علاوہ ) دیگر مذاہب کا آپس میں اشتراک ہے۔
جس رنگ میںاُس دنیا کے سامنے جو اشتراکی دنیایا سوشلسٹ دنیا کہلاتی ہے مذہب کو پیش کیا گیا اُس رنگ میں کوئی بھی سمجھدار انسان مذہب قبو ل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتاکیونکہ مذہب کو ان ممالک نے(میں لفظ مذہب میں اسلام کے علاوہ سب مذاہب کو شامل کر رہاہوں) اس رنگ میں پیش کیا کہ نہ انسان کے لئے وہ مقام شرف اور عزت کا باقی چھوڑا جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کا ایک بنیادی حق قرار دیاہے نہ اس کی دیگر صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جن مادی سامانوں کی ضرورت تھی اور جن سے وہ لوگ محروم تھے اُن کا حقدار سمجھا گیا۔ اگر مذہب (نعوذ باللہ) انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشوونما میں روک ہے تو انسان کا فرض ہے مذہب کو دھتکار دے اس رنگ میں اشتراکیوں نے اسے دھتکار دیا لیکن حقیقی مذہب تو ایسا نہیں ہے۔ جو مذہب جو ابدی صداقت، جو حسین شریعت، جو احسانِ عظیم کی مالک ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی شکل میں دی وہ تو اس کے برعکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کی اُن تمام صلاحیّتوں کی جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں کامل نشوونما کے سامان پیدا ہونے چاہئیں اور جب ہم دہریت ، اشتراکیت ، سوشلسٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ انسان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں ان کا تصور بھی اشتراکیّت اور اس قسم کے دوسرے ’’اِزمز‘‘ میں نہیں پایا جاتا۔
اِس وقت اُن ترقی یافتہ ممالک میں جو اشتراکیت کے خلاف برسِر پیکار سرمایہ دارنہ نظام تو معرضِ زوال میں ہے اور مذہب میدان سے بھاگتا نظر آتا ہے۔ اِسی لئے میں نے جماعت کو پہلے بھی کہا کہ اِن علاقوں میں ایک خلا پیدا ہورہاہے۔ اب اس خلا کو دو طاقتیں پُر کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایک طاقت لامذہبیت اور دہریت کی ہے اور دوسری طاقت اسلام اور احمدیت کی ہے۔ ہمارا اصل مقابلہ ان لادینی طاقتوں سے ہے اور اس مقابلہ میں ایک شدت پیدا ہورہی ہے۔ وہ بھی ان علاقوں کے انسانوں کا دل خدا سے دُور لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور جماعتِ احمدیہ بھی اُن علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے دِل خدائے واحد و یگانہ کیلئے جیتنے کی کوشش میںلگی ہوئی ہے۔ جہاں تک مادی وسائل کا سوال ہے غیر مذاہب اور خداکے اِس دشمن کے مقابلہ میںہماری کوئی طاقت ہی نہیںہے۔ مادی وسائل اُن کے مقابلہ میں ہمارے پاس ہزارواں کیا لاکھواں حصہ بھی نہیں لیکن ہم نے اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان کا مشاہدہ کیاہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور مغفرت کی چادر میں خود کواِس معنی میںڈھانپتا ہے کہ وہ اس کے حضور جُھکتا اور یہ دُعاکرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیداکرے کہ جو بشری کمزوریاں ہیں وہ سرزدنہ ہوں اور جو بشرِی صلاحیتیں ہیں ان کی کامل نشوونما ہوجائے اورخُدا کے علاوہ ہر شئے کو لاشئے محض سمجھتے ہوئے اُسی کی طرف رجوع کرتا ہے تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ بڑی سے بڑی مادّی طاقتوں کو ملیامیٹ کردیتا اور ہلاک کردیتا ہے اور اپنے بندے کی مدد اور نصرت کیلئے آسمانوں سے سامان پیدا کرتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں بھی یہ بات ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ہمارے وجود نے اس چیز کا مشاہدہ کیاہے کہ تمام مادی سامان اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے حُکم کے مُقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے پس یہ تو درست ہے کہ اس روحانی جنگ میں، اس اخلا قی جنگ میں اس مذہبی جنگ میں مادی وسائل دہریہ اقوام کے پاس ہم سے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلہ میںہمارے مادّی وسائل ذکر کے قابل بھی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے ہم اس سے انکار نہیں کرتے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ ان کمزور بندوں کی کوششوں میں اپنی زبردست تدابیر کو چھپا کر دُنیا میں اپنی قدرت کے ہاتھ کا ایک زبردست جلوہ ظاہر کرے یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تک ہماری طاقت ہے یا جہاں تک ان وسائل کا تعلق ہے۔ جن سے ہم اپنی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں یہ ہماری ذمّہ داری ہے اس طاقت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اور اس کوشش میں لگے رہیں کہ جو طاقت اور قوت کو بڑھانے کے وسائل اور راہیں ہیں وہ ہمیں میّسر آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیۂ کریمہ میں جس کی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی ہے یہ حکم فرمایا ہے کہ اگر تم استغفار کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو تمہاری خو شحالی کے سامان آسمانوں سے پیدا کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اگر تمہاری زندگیاں اُس کی رضا کے حصول کے لئے لگی ہوئی ہوںگی تو تمہیں قّوت کے بعد مزید قوت عطا کرتا چلاجائے گا۔
اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا دشمنِ انسانیت اور دشمن رُوحانیت اور دشمن مذہب کے خلاف ہماری جو جدوجہد اور لڑائی ہے اس کے لئے ہمیں دشمن کے مادّی وسائل کے اثر کو کالعدم کرنے کے لئے ایسی روحانی طاقت کی ضرورت ہے جو خدا سے حاصل ہوتی ہے اور جس کے حصول کا ایک ذریعہ اِس آیت میں استغفار اور توبہ بتایا گیا ہے اور جس کے نتیجہ میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ برکتوں کے سامان پھر آسمان سے پیدا ہوں گے اور قوت کے بعد مزید قّوت عطا ہوتی چلی جائے گی۔ ان وسائل سے خدا تعالیٰ جو قدرت کا اور قّوت کا اور طاقت کا اور عزت کا اور غلبہ کا اور قہر کا سرچشمہ ہے اُس سے قوت لیکر ہمیں اس میدان میں دشمنِ اسلام، دشمنِ روحانیت، دشمنِ مذہب اور اللہ تعالیٰ کے خلاف صف آرا ہونے والی فوجوں کا مقابلہ کرنا ہے اور کامیابی کے ساتھ کرنا ہے اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا ایک خلا پیدا ہورہا ہے اور جلدی جلدی بڑھ رہا ہے۔ اس کے لئے تدبیر جتنی ہم کرسکتے ہیں وہ ہمیں کرنی چاہئیے۔ اس کیلئے ہمیں اس سے زیادہ مجاہد چاہئیں اس سے زیادہ مبشر چاہئیں۔ اس سے زیادہ مبلغ چاہئیں جتنے کہ مبلغ بنانے والے ہمارے ادارے اس وقت بنارہے ہیں۔ اعلیٰ پیمانہ پر مبلّغ بنانے والا ادارہ تو جامعہ احمدیہ ہے۔ دوسرے بھی بعض ادارے ہیں لیکن وہ اس معیار کے مُبشر پیدا نہیں کرسکتے نہ اُن کے قیام کا یہ مقصد ہے کہ جو غیر ممالک میں جاکر اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں ان طاقتوں کا مقابلہ کریں، اگرہم صرف جامعہ احمدیہ پر انحصار کریں تو جس قدر انسانوں کی، مخلص انسانوں کی، مومن انسانوں کی، صاحبِ فراست انسانوں کی، اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے انسانوں کی، خُدا سے اخلاص کا تعلق رکھنے والے انسانوں کی، خُدا سے عہدِ وفا جو انہوں نے باندھا ہے اس پر عزم کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ قائم اور قائم رہنے والے انسانوں کی ضرورت ہے اتنے انسان تو یہ ادارہ ہمیں شاید اگلے سوسال میں بھی نہ دے سکے لیکن ہمیں آج ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اُن بڑی عُمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اگرچہ جامعہ احمدیہ یا اس قِسم کے کسی ادارہ میں تو نہ پڑھے ہوں لیکن اُن کی زندگی صحیح اور حقیقی اِسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی ہواور جن کے دل خداتعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں اور جن کا اپنے رب سے اخلاص کا تعلق ہو اور جن کی ہمت جوان ہو اگر چہ عمر کے لحاظ سے وہ جواں نہ ہوں وہ آگے آئیں۔ وہ ریٹائر ہوگئے دنیوی کاموں سے۔ وہ جو ریٹائر ہوسکتے ہیں۔ (ملازمت کا ایک ایساحصہ جس میں انسان اپنی مرضی سے ریٹائر ہوجاتاہے اور اسکی پنشن پر خاص فرق نہیں پڑتا یا بعض دفعہ بالکل ہی فرق نہیں پڑتا ) ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں تاکہ ہم اُنہیں ان ممالک میں بھجوا سکیں ایسے لوگ جن کی خصوصیات اور اہلیت کے کچھ پہلو تو میں نے ابھی بتائے ہیں لیکن زبان کے لحاظ سے انہیں انگریزی زبان اچھی طرح آنی چاہیئے کیونکہ یہ ہرجگہ غیر ممالک میں کام دے جاتی ہے۔ انہیں وقف کرنا چاہئیے۔ اس وقت ہمیں شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اس قسم کے مخلصین، مجاہدین باوفا انسانوں کی جو ان غیر ممالک میںجاکر کام کریں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہمارا ایک ہی ادارہ ہے جو مبلّغ پیدا کررہاہے اور اب تعداد کچھ زیادہ ہوئی ہے جامعہ میں۔ ایک وقت میں تعداد بہت ہی گر گئی تھی۔ پھر جو آج امتحان پاس کرتا ہے یا جس نے دو سال پہلے جامعہ احمدیہ سے شاہد کیاہے وہ اپنے تجربہ کے لحاظ سے اور اپنے معیار کے لحاظ سے آج اس قابل نہیں ہے کہ اُسے ہم باہر بھیج دیں۔ اسلئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا لیکن اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے انگریزی دان احمدی ہیں۔جنہوں نے اخلاص سے اپنی زندگیاں گذاری ہیں۔ جنہیں اپنی گزشتہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم کی جو تفسیر ہمارے سامنے رکھی ہے اس کے مطالعہ کا شغف رہاہے جو علی وجہ البصیرت حقیقی اسلام کو دنیاکے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے اسی مطالعہ کے دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہب اسلام کا موازنہ کیاہے اور جن کو دُعا کی عادت ہے جو اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں دُعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جن کے دِلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبّت جوش مارہی ہے اور جن کے سینوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دُنیا میں بلند کرنے کی ایک تڑپ پائی جاتی ہے۔ ایسے سینکڑوں ہزاروں احمدی جماعت احمدیہ میں موجود ہیں۔ آج میں اُن کو آواز دے رہا ہوں کہ اسلام کی خاطر دُنیا کے مختلف ممالک میں بھیجوانے کے لئے مجاہدین کی آج ضرورت ہے اور اس قسم کے لوگ ہی آج کے حالات میں اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔ اس لئے وہ آگے آئیں اور اپنے ناموں کو پیش کریں۔اگر وہ ریٹائرہوچکے ہوں اور اپنی ملازمتوں سے فارغ ہوچکے ہوں تب بھی،اگر وہ آسانی سے فارغ ہوسکتے ہیںتب بھی ہرقسم کے انگریزی دان افراد خواہ وہ ڈاکٹر ہوں انجینئر ہوں، ٹیچرہوں، پروفیسر ہوں، وغیرہ وغیرہ اپنے آپ کو پیش کریں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ لوگ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہوں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے مطالعہ میں گذری ہیں اور جو دوسروں سے تبادلۂ خیالات کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں نے جماعت میں( پہلے مثالیں موجود ہیں) بڑا اچھا کام کیاہے ہمارے جو مبلّغین ابتداء میں امریکہ یا انگلستان یا یورپ گئے وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے یعنی بی اے ،ایم اے کرکے زندگی وقف کرکے جماعت کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے یا جو باہرکام کررہے تھے لیکن دفتری اوقات سے باہر سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ بلاناغہ وہ جماعت کے کاموں میں خرچ کررہے ہیں(میرے علم میںہیں میں نے پہلے بھی بتایا ہے بیسیوں ایسے احباب کو میں جانتا ہوں) ایسے لوگ سامنے آئیں اور اپنے نام پیش کریں تاکہ اس وقت جو ایک خلا پیداہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں ایک فکر پیداہورہاہے کہ ہم اس خلاء کو اگر پُر نہ کرسکے تو خدا کے نام کو اس دُنیا سے مٹانے کا دعویٰ کرنے والوں کی کوششیںکہیں کامیاب نہ ہوجائیں۔
اس وقت اسلام کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے میں جماعت کے ان احباب کو آواز دیتاہوں کہ آگے بڑھو! زندگیوں کو وقف کرو!! اور اخلاص کے ساتھ، سب کام چھوڑ کر باہر جائو اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کی جو ذمّہ داری ہے اُسے اپنے کندھوں پر اٹھائو اور دنیا کو یہ بتائو اپنی دعائوں کے ساتھ اور میری اور جماعت کی دعائوں کے ساتھ کہ مذہب اسلام جودنیاوی لحاظ سے علمی لحاظ سے اخلاقی لحاظ سے تعلیم دُنیا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اشتراکیت وغیرہ اس کے مقابلہ میں کسی میدان میں بھی ٹھہر نہیں سکتی لیکن انسانوں کی اکثریت غافل ہے اور انہیں بیدار کرنے کی ذمہ داری ہم پرہے۔ اور ہمارے مادی وسائل تھوڑے ہیں۔ ہمیں روحانی وسائل اور روحانی ہتھیاروں کی طرف رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ استغفار کے ساتھ اور توبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو قبول کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکیں اور اللہ تعالیٰ جماعت کے ایسے مخلصین کو توفیق عطا کرے کہ وہ اپنی زندگیوں کو وقف کریں اور بیرونی ممالک میں جاکر ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے اپنے بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس اہم ذمہ داری کی طرف توجہ کریں اور اُسے کامیاب طریقے پر نباہنے کی کوشش کریں۔
اَے خدا تُو ایساہی کر!!
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۰؍فروری ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۴)
تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ قرآن کا ایک عظیم منصوبہ
’’صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت احمدیہ کے سامنے اشاعتِ اسلام کا ایک منصوبہ رکھاتھا۔ اس منصوبہ کی معیاد قریباً سولہ سال بنتی ہے۔ پندرہ سال اور دو مہینے کے بعد جماعت احمدیہ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرنے کے لئے رکھی گئی تھی، اپنی زندگی کی دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہوگی۔
میںنے یہ بھی بتایا تھا کہ سو سال گذرنے پر ہم خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے صدسالہ (اُس وقت میں نے نام لیاتھا) جشن منائیں گے اور اس سولہ سال کے عرصہ میں یہ بات بھی ہمارے مِدنظر رہے گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پہلی صدی کی بُنیادوں کو مضبوط کریں اور دوسری صدی کے استقبال کے لئے حالات کو ساز گار بنانے کی کوشش کریں۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس تحریک کا تعلق ہے، پہلی صدی زیادہ تر اس کی بُنیادوں کو بنانے اور مضبوط کرنے پر خرچ ہوئی ہے اور ہوگی لیکن دوسری صدی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارتیں دی ہیں حضرت نبیٔ اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے بابرکت، مقدس، ارفع اعلیٰ اور افضل وجود کے ذریعہ اور پھر صُلحائے اُمّت کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں اور اب اس زمانے میں حضرت مہدیٔ معہود علیہ السلام کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں اُن سے استدلال کرتے ہوئے مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری جماعت کی ’’دوسری صدی غلبۂ اسلام کی صدی ہوگی‘‘ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہماری زندگی میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زندگی میں دوسری صدی میں اسلام قریباً ساری دُنیا میں غالب آجائے گا اور پھرجو تھوڑا بہت کام رہ جائے گا جماعت کو اسے شاید تیسری صدی میں کرنا پڑے۔
پس جماعتِ احمدیہ کی بُنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے اور صد سالہ زندگی گذارنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جُھکتے ہوئے پختہ عزم کے ساتھ یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اِس منصُوبے کی بہت سی شقیں ہیں۔ میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بتایا تھا کہ میں اس کی تفاصیل جماعت کی مجلسِ شوریٰ کے سامنے رکھوں گا۔ میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس وقت تو میں صدسالہ جشن کے نام سے اِس منصوبہ کے متعلق بات کروں گا بعد میں مشورہ کرکے اس کا جو نام مناسب ہو گا اس کا اعلان کردیا جائے گا۔ چنانچہ اب مشورہ کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کانام صدسالہ احمدیہ جوبلی ہوگا۔ صدسالہ احمدیہ جوبُلی اُس حصہ کا نا م ہوگا جس کومیں نے جشن کہاتھااور اس کے لئے میں نے جماعت کے سامنے جو منصوبہ پیش کیا تھا اس کو ہم صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کہیں گے اور اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے میں نے مالی قربانیوں کی جو تحریک کی تھی اسے ہم صدسالہ جوبلی فنڈ کا نام دیںگے۔ اس منصوبہ کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر دو کروڑ پچاس لاکھ روپے کی تحریک کی تھی۔ ساتھ ہی میں نے اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر اُمید رکھتے ہوئے اگرچہ میں یہ تحریک اڑھائی کروڑ روپے کی کررہا ہوںلیکن یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ میں نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ دوست اپنے وعدے مجلس مشاورت سے قبل بھجوادیں۔ پھر میں نے اعلان بھی کیا تھا کہ رقوم میرے پاس نہ بھیجوائیں کیونکہ اس سے میرا وقت ضائع ہوتاہے۔ رقوم خزانہ صدر انجمن میں جانی چاہئیں اور وعدے میرے پاس آنے چاہئیں کیونکہ اس سے وعدہ کرنے والوں کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے لیکن ہم عاجز بندوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے حضور دعائوں میں مشغول رہیں اور اُس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کریں۔ مجلس مشاورت میں تو ابھی قریباً دو مہینے کا عرصہ باقی ہے اور ابھی بہت سی پاکستانی جماعتوں کے وعدے نہیں آئے مثلاً شیخوپورہ کی طرف سے سوائے انفرادی یا ایک جماعت کے اجتماعی وعدوں کے ضلع کی طرف سے جماعتی وعدے ابھی تک نہیں پہنچے۔ اسی طرح سرگودھا شہر کا وعدہ پہنچ گیا ہے لیکن ضلع کا وعدہ نہیں پہنچا۔ پاکستان کے اور بھی بہت سے علاقے ہیں جہاں ہماری جاعتیں قائم ہیں لیکن ان کے وعدے ابھی تک نہیں پہنچے۔ بہت سے ایسے اضلاع ہیں جنہوں نے اس تحریک میں بہت پڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہ اُنکی پہلی قسط ہے اور یہ اُن کی طرف سے دوسری قسط ہے یا یہ اُن کی تیسری قسط ہے۔ اسکے علاوہ وہ اور اقساط بھی بھیجوائیں گے۔
پس جہاں تک جماعتہائے احمدیہ پاکستان کا تعلق ہے، بہت سی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے تاہم وہ اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں۔ مشاورت سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے ضرور بھجوادیںگے۔ جہاں تک بیرونِ پاکستان کی احمدی جماعتوں کا تعلق ہے، انگلستان میں ہمارے مبلغ یہاں موجود تھے۔ انہوں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو وعدہ کیا تھا، اسکے ساتھ جب میں نے چوہدری محمدظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ بھی ملادیا تو یہ ایک کروڑ روپے کا وعدہ بنتا تھا۔ ہمارے مبشر نے ہمیںاِس کی یہیں اطلاع دیدی تھی لیکن جب وہاں کی جماعت کو معلوم ہوا تو وہاں کی جماعت کی مجلس عاملہ نے اپنی میٹنگ میں بھی یہی وعدہ کیا اور مجھے بذریعہ تار اطلاع دی ۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کی جماعت کے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے ہمیں مل گئے ہیں۔ گویا بیرونی جماعتوں میں سے اب تک ہمیں صرف ان دو مما لک سے وعدے موصول ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ احمدی دوست جو دیگر ملکوں میں بستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اِس جماعت کی مالی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں یا جن ممالک کی طرف سے مثلاً نصرت جہاں ریز رو فنڈ میں وعدے آئے تھے وہاں سے ابھی تک وعدے نہیں آئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے انگلستان سے قریباََ سارے وعدے آگئے ہیں۔ ڈنمارک سے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے آگئے ہیں۔ ان کے علاوہ جن ممالک میں احمدی دوست بستے ہیں اورجن میں سے بعض ممالک میں ہماری بڑی مضبوط اور مخلص جماعتیں قائم ہیں اور جن کی طرف سے ہمیں ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے اور مجلس مشاورت تک وعدوں کا انتظار ہے وہ مندرجہ ذیل ملک ہیں:۔
(۱) امریکہ(۲) کینیڈا(۳) مغربی جرمنی(۴) ہالینڈ(۵) سوئٹزرلینڈ(۶) سویڈن (۷) سپین(۸) فرانس(۹) یوگوسلاویہ(۱۰) سعودی عرب(۱۱) مصر(۱۲) ترکی (۱۳) ایران (۱۴) مسقط(۱۵) ابوظہبی(۱۶) عدن(۱۷) بحرین(۱۸) کویت(۱۹) قطر(۲۰) دوبئی (۲۱) انڈونیشیا (۲۲) ملائیشیا (۲۳) آسٹریلیا(۲۴) جاپان(۲۵)جزائرفجی(۲۶) ماریشس (۲۷) سباء (۲۸) برما(۲۹) افغانستان(۳۰) مسلم بنگال(۳۱) بھارت(۳۲) تنزانیہ (۳۳) یوگنڈا (۳۴) کینیا(۳۵) نائیجریا(۳۶) غانا(۳۷) سیرالیون (۳۸)لائبیریا (۳۹) گیمبیا (۴۰) آئیوری کوسٹ(۴۱) لیبیا(۴۲) آسٹریا (۴۳) سینیگال(۴۴) ناروے (۴۵)آئر لینڈ (۴۶) گی آنا(۴۷) ٹرینیڈارڈ(۴۸) سری لنکا (۴۹) شام(۵۰) زیمبیا (۵۱) سوڈان۔
افریقہ کے بعض دوسرے ممالک میں جہاں ہمارے مشن تو نہیں لیکن جماعتیں قائم ہیں۔ان کے نام دفتر نے مجھے نہیں دئیے وہ بھی انشاء اللہ شامل ہو جائیں گے۔
پس یہ ۵۱ ممالک ہیں ان میں بھی کسی میں تھوڑی اور کسی میں بہت زیادہ احمدی جماعتیں قائم ہیں۔ انہوں نے’’ نصرت جہاں ریزروفنڈ ‘‘ میں حصہ لیا تھا مگر ان کی طرف سے ابھی تک ’’صدسالہ جوبلی فنڈ‘‘ میں وعدے نہیں پہنچے۔ میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں بہت سی جماعتیں ہیں جن کے ابھی تک وعدے نہیں پہنچے۔ اسکے باوجود اسوقت تک اڑھائی کروڑ کی مالی تحریک کے مقابلے میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد رقم کے وعدے موصول ہوچکے ہیں۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قُوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں ایک ایسی جماعت بنادی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو نوعِ انسانی کے دل خدا اور اُس کے رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں اس لئے اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اشاعت اسلام کے اس عظیم منصوبہ کیلئے سولہ سال میں پانچ کروڑ سے بھی زائد رقم اکٹھی ہوجائے۔
جہاں یہ بڑی خوشی کی بات ہے وہاں ان ممالک کی تعداد پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے لئے فکر کے لمحات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیںجہاں ہماری منظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے۔ اسی لئے اس منصوبے کے ایک ابتدائی حصّے کی رُو سے یہ تجویز تھی کم از کم سو زبانوں میں(یعنی دُنیا کے مختلف ملکوں میں بولی جانے والی مختلف سو زبانوںمیں) اسلام کی بنیادی تعلیم کے تراجم کرکے بیرونی ملکوں میں کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت واصلاح اور ان کواسلام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے۔
’’صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ ‘‘ میں اب تک جو وعدے ہوئے ہیں ان کے متعلق باہر سے خطوط کے ذریعہ دوست پوچھتے رہتے ہیںکہ ان کی ادائیگی کا کیا طریق اختیار کرنا چاہیئے۔ کیا وہ ہر سال کا اپنا سولہواں حصہ دیں یا کوئی اور شکل ہو۔ چنانچہ میں اس بارے میں سوچتا رہا ہوں اگرچہ قانون تو اندھا کہلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو تو سُوجا کھااور صاحبِ بصیرت اور صاحبِ بصارت بنایاہے۔ میں نے سوچا کہ مختلف شکلوں میںلوگوں کو روپیہ ملتاہے یعنی آمدنی کی شکلیں مختلف ہیں۔ انسانوں کا ایک گروہ تو وہ ہے جس کے ہر فرد کی ماہانہ آمد بندھی ہوئی ہے مثلاً کہیں نوکر ہیںیامزدور ہیں اسلئے نوکری کی تنخواہ یا مزدوری کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمد نہیں ہے۔ ایک معین رقم ہے جو ہرماہ ان کو مل جاتی ہے اور بس۔ ایسے لوگوں سے تو میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو جتنی بھی توفیق عطا فرمائی ہے اور انہوں نے اسکے مطابق اِس فنڈ میں وعدے کئے ہیںوہ اپنے وعدہ کو سولہ پر تقسیم کردیں۔ اِس طرح ہر سال کا جو حصہ بنے گا اُسے وہ سال کے بارہ مہینوں پر تقسیم کرکے ماہ بماہ اپنا وعدہ دیتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے مال میں برکت ڈالتا چلاجائے گا۔ اس طرح شائد ان کو اس سے زیادہ دینے کی توفیق مل جائے جتنا وہ آج سمجھتے ہیں کہ وہ دے سکتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذاتّ عزّوجل سب خزانوں کی مالک ہے۔اسکی رحمتیں ہماری قربانیوں اور ایثار کا انتظار کررہی ہیں کہ کب ہم عاجزانہ قربانی اور ایثار کے ساتھ اُسکے حضور جُھکتے اور اس سے اس کی رحمتوں کو حاصل کرتے ہیں۔
غرض وہ لوگ جن کی ماہانہ بندھی ہوئی آمد ہے وہ ماہانہ کے حساب سے ادائیگی کریں گے تاکہ اُن کوبعد میں پریشانی لاحق نہ ہو۔ پس یہ قاعدہ تو ان لوگوں کے متعلق ہے جن کی ماہوار آمد بندھی ہوئی اور مقررہے لیکن باقی لوگ جن کی آمدنیوں کے ذرائع اور طریق مختلف ہیں اُن کے متعلق بھی اصولاً یہ قاعدہ ہو گا کہ وہ ہر سال اس سال کا جو حصّہ بنتاہے وہ ادا کردیںگے لیکن چونکہ اس مالی منصوبہ کیلئے پورے سولہ سال نہیں بلکہ پندرہ سال اور کچھ مہینے ہیں اس لئے پہلے دو سال کا جو وعدہ ہے و ہ دوسال کی نسبت سے یعنی کُل وعدہ کا۸/۱ حصّہ ۲۸؍فروری ۱۹۷۵ء سے پہلے ادا ہوجانا چاہیئے اور اسکے بعد دوست سال بسال عام قا عدے کے مطابق اداکریںگے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک تو ماہ بماہ ادا کرنے والے ہونگے اور دوسرے دیہات میںبسنے والے زمیندار اور بعض دوسرے لوگ بھی ہونگے جن کی رہائش دیہات میںہے، ان کی آمد عام طور پر ششماہی کے حساب سے ہوتی ہے(یعنی سال میں دوبار ہوتی ہے) اگر وہ خیال کریں کہ سال میں آمد کے دو موقعوںپر اداکریںگے تو اس لحاظ سے ۳۲/۱ہوجائیگا۔ گویا وہ ہر آمد یا ہر فصل کی پیداوار کے موقع پر ۳۲/۱اور ہر سال۱۶/۱ ادا کریںگے سوائے پہلے سال کے جس میں انہوں نے چار فصلوں کی آمد کے لحاظ سے اپنے وعدے کا ۱۶/۱ادا کرناہے۔ ان کے علاوہ تاجر پیشہ لوگ ہیں، ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، انجینئر ہیں اور صنعتکار ہیں ان کی نہ معین ماہوار آمد ہے اور نہ قریباََ معین ششماہی آمد ہے مثلاً ڈاکٹر ہے کسی ماہ اُسے زیادہ فیس مل جاتی ہے کسی ماہ اُسے کم فیس ملتی ہے۔ اسی طرح آزاد انجینئر ہے، وکیل ہے، تاجر ہے اور صنعتکار ہے ان کی بندھی ہوئی یا مقررہ آمدنی نہیں ہوتی بلکہ ان کی آمد میں اُتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ ان کی آمد ایک خاص حدّ کے اندر گرتی بڑھتی رہتی ہے۔ کبھی کم ہوجاتی ہے اور کبھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ تاجروں کے لئے مختلف موسم ہیں جو مختلف وقتوں میں آتے ہیں۔
پس میں ان(تاجروں، ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئر اور صنعتکاروں) سے یہ کہوں گا کہ ہم نے چونکہ کام کی ابتدا ابھی سے کرنی ہے اور چونکہ ابتدائی کاموں کیلئے ہم پر بہت سے ابتدائی اخراجات پڑجائیں گے۔اِس لئے وہ ہمّت کرکے شروع میں اپنے اپنے وعدہ کے سولہویں حصّے کی بجائے جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں دیدیں یعنی وہ شرح کا خیال نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنی توفیق عطا فرمائی ہے اتنا ادا کردے تاہم میں اُن کو یہ نہیں کہوں گا کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف میںڈال کر ایسا کریں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تکلیف میں پڑے بغیر وہ پہلے سواسال میں یعنی۲۸؍فروری ۱۹۷۵ء سے پہلے پہلے اپنے وعدہ کا جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، وہ دے دیںتاکہ شروع میں جو ابتدائی کام کرنے ہیں وہ کئے جاسکیں کیونکہ ہم ان کاموں کو ۱۶/۱ کی نسبت سے تقسیم نہیں کرسکتے۔ مثلاً میں نے کہا تھا کہ کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے وہاں مسجدیں بنانی پڑیں گی۔ مشن ہائوسز بنانے پڑیں گے اور کئی اخراجات ہوں گے جو ابتدا میں اُٹھانے پڑیں گے اب مثلاً جہاں مشن ہاؤسز بننے ہیں وہاں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم انہیں ۱۶سال میں مکمل کریں گے اور ہر سال ان پر۱۶/۱ حصّہ خرچ کریں گے۔ ان پر تو ہمیں جب بھی حالات اور ذرائع میّسر آجائیںگے فوری طور پر خرچ کرنا پڑیگا مثلاً زمین مل جائے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی اجازت مل جائے تو وہاں فوراً مکان بنانے پڑیں گے۔ آجکل غیر ممالک میں خصوصاً (اور یہاں بھی عموماََ لوگ)جب زمین دیتے ہیں تو شرط لگاتے ہیں کہ اتنے عرصہ کے اندر مثلاً دوسال میںیا تین سال میں جس غرض کیلئے زمین دی گئی ہے اس کیلئے عمارت مکمل کرو۔
غرض ابتداء میں بہر حال نسبت سے زائد خرچ ہونگے اسلئے جماعت میں سے ایک گروہ ایسا نکلنا چاہیئے جو مذکورہ نسبت سے زیادہ ادائیگی کرنیوالا ہوتاکہ اشاعتِ اسلام کے کاموں میںکوئی روک پیدا نہ ہو مثلاً قرآن کریم کے تراجم کروانے ہیں ان کو شائع کرناہے قرآن کریم تو برکت سے معمور کتاب ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسے ہماری روح کی تسکین کا ذریعہ بنایاہے۔ اس لئے جہاں تک قرآن کریم کے تراجم کا سوال ہے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم قرآن کریم کے ترجمے شائع تو کرسکتے ہوں مگر پھر بھی ۱۶سال کا انتظار کریں۔ جب بھی خداتعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہم بہر حال ان کی اشاعت کریں گے تاکہ ان ممالک میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے وہ علاقے اسلام کی روشنی سے منوّر ہوں۔ یہی ہماری اصل غرض ہے جس کیلئے جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے کی تحریک کی جاتی ہے۔
پس چونکہ بنیادوںکو تو ہم نے بہر حال مضبوط کرناہے اس لئے ہم نے کام شروع کرنے میں انتظار نہیں کرنا۔ اس لئے جن لوگوں کواللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اپنا سارا وعدہ ادا کرنے کی وہ سارا دیدیں اورپھر آنے والے سالوں میں تھوڑی بہت جتنی بھی خدا توفیق دے وہ دبتے چلے جائیںیا۱۶/۳ یا ۱۶/۴ دے دیں۔ مگر وہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں کیونکہ اس کی بھی ہمیںاجازت نہیں ہے۔ بعض دفعہ اس طرح اس قسم کی تنگی پیدا ہوجاتی ہے جو انسان کیلئے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہے۔ اسلئے وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے یا اچانک اُن کی آمد کا کوئی ذریعہ پیدا ہوگیا ہے وہ آگے بڑھیں اور خود کو تکلیف میں ڈالے بغیر نسبت کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو ضرورت ہے اس عظیم منصوبہ کی اس کو مِدنظر رکھتے ہوئے پہلے سال جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہیں، دے دیدیں۔
غرض اصولاََ تو سوائے پہلے سواسال کے جس میں ہر ایک کو اپنے وعدہ کا ۱۶/۲حصّہ اداکرنا ہے ہرسال۱۶/۱ کے حساب سے ادائیگی ہونی چاہئیے۔ بندھی ہوئی آمدنی والے دوستوں کیلئے سہولت اسی بات میں کہ وہ ہر ماہ اس نسبت سے ادا کردیا کریں۔ دیہاتوں میں رہنے والے دوست کو جن کی عام طور پر سال میں دو دفعہ برداشت ہوتی ہے اور آمد کا ذریعہ پیدا ہوتا ہے وہ ان دو موقعوں پر کم از کم ۱۶/۱ ہر سال دے دیا کریںمگر پہلے سوا سال میں ۱۶/۲ کے حساب سے ادا کریں۔ تیسرے وہ دوست ہیں جن کی آمد کبھی بڑھ جاتی ہے اور کبھی کم ہوجاتی ہے مثلاً وکیل یا تاجر پیشہ لوگ ہیںیا صنعتکار ہیں جو ملک کی اقتصادی ضرورتوں کو پُورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اور جب اللہ تعالیٰ اُن کے رزق میں فراخی کے غیر معمولی سامان پیدا کردے(میری دعاہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایساہی کرے) تو وہ نسبت سے ادائیگی کا انتظار نہ کریںبلکہ تنگی میںپڑے بغیر جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، دیدیں۔ اس طرح ہمارے کام شروع ہی سے تیز سے تیز تر ہوتے چلے جائیںگے اور ہمارا یہ جو منصوبہ ہے جس کی کامیابیوں کی شکل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں سولہ سال بعد ظاہر ہونی ہے، اِس میںعظمت اور شان پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ ہم نے اپنے خون اور پسینے کی کمائی سے، ہم نے اپنے جذبات کی قربانیوں سے، ہم نے اپنی جانوں کی قربانیوںسے اور ہم نے دنیا والوں سے دُکھ اُٹھا کر خدا تعالیٰ کے حضور سب کچھ پیش کرنے کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کرنے ہیں۔ اس لئے ہماری جو ذمہ داریاں ہیں وہ کسی وقت بھی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں پوری ہوں اور اس کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں۔ ہم عاجز بندے ہوتے ہوئے بھی پورے وثوق اور توکل کے ساتھ یہ امیدرکھتے ہیں کہ جتنی ہماری کوشش ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اس سے ہزار گنا لاکھ گنا بلکہ کروڑ گنا زیادہ نتائج نکال دے گا اور ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ۔
یہ ایک منصوبہ ہے اور بڑ ا پھیلا ہوا منصوبہ ہے اسلئے اس کا حساب رکھنے کی بھی شروع ہی سے فکر کرنی چاہئیے۔ اس کیلئے ابھی باقاعدہ دفتر تو نہیں کھلا لیکن میں نے ایک دوست کو اپنے ساتھ معاون کے طور پر لگایا ہوا ہے اُن کومیں نے یہ ہدایت کی ہے کہ جس طرح لائبریری میں کتب کے کارڈ ہوتے ہیں اسی قسم کی کیبنٹ (چھوٹی سی الماریاں)بناکر شروع ہی سے اس میں اپنا پورا ریکارڈ رکھیں مثلاً کراچی ہے۔ یہ ’’ک‘‘کے نیچے آجائے گی اور پھر اس کے نیچے حروفِ تہجی ہی کے لحاظ سے دوستوں کے نام آجائیں گے۔ اس طرح ریکارڈ مکمل ہوجائیگا۔ اگر شروع ہی سے حساب باندھ دیاجائے توآسانی رہتی ہے لیکن اصل جو ریکارڈ ہے حساب وغیرہ رکھنے کا یا رجسٹر وغیرہ مکمل کرنے کا اس کا انتظام ضلع کی جماعتوں کو کرنا چاہیئے ۔ اگر ضلعی نظام سہولت سے ایسا کرسکے تو انہیں ضرور کرنا چاہیئے اگر نہ کر سکے تو پھر بڑی جماعتوں کو آزادانہ طور پریہ کہا جائے کہ جس طرح وہ دوسرے چندوں کے حساب رکھتے ہیں اسی طرح یہ حساب بھی رکھیں لیکن نگرانی ضلعی نظام کرے تاکہ حسابات شروع سے بالکل صاف اور ستھرے ہوں۔کسی وقت بھی ہمیں یہ پریشانی نہ ہو کہ دس پندرہ دن تک پانچ سات آدمی لگیں گے تب حساب کی صحیح شکل ہمارے سامنے آئے گی۔ پس جس طرح شروع ہی سے حساب باندھا جاتاہے(اوراس میں بھی انسانی عقل کافی ترقی کرچکی ہے) اس طرح اس کا بھی حساب رکھاجائے اور یا ددہانیاں کرائی جائیں’’ذَکَّرْ‘‘کے حکم کے ماتحت،لوگوں کے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق اور جماعت کو اُن کی قربانیوں اور ایثار کی طرف توجہ دلائی جائے حکمت کے ساتھ اور اسی طرح انہوں نے خداکی راہ میں جو تکالیف برداشت کرنی ہیں وہ بھی ان کے سامنے لائی جائیں اور اسکے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں وہ بھی اُن کو بتائی جائیں تاکہ دل میں بشاشت اور انشراح صدر پیداہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مہم ہے جو آسمانوں سے چلائی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کاانسان تصور بھی نہیںکرسکتا نہ احمدیت کے باہر کوئی اس کا تصور کرسکتاہے اور نہ احمدیت کے اندر خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی اس کاتصور کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم منصوبہ بنایا اور اس نے جماعت احمدیہ جیسی کمزور جماعت کو کھڑا کرکے کہا کہ میں تجھ سے یہ کام لوں گا۔ غلبۂ اسلام کا یہ منصوبہ ہے کہ نوع انسانی میں اتنابڑا اورکوئی منصوبہ نہیںہے اس لحاظ سے کہ حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کیلئے جن برکات کا سامان پیدا کیا گیا تھا ان برکات کو ہر فرد بشر تک پہنچانا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان کے دل کو جیتناہے یعنی یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتدا حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے ہوئی اور جس کی انتہا بھی آپ ہی کی قوت قدسیہ اور روحانی برکات کے ساتھ مہدی معہود کے ذریعہ مقدر ہے۔
پس یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو دنیا میں تبلیغِ اسلام او ر اشاعتِ قرآن کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ انسان جب اس بارے میں سوچتا ہے تو اس کا سر چکراجاتا ہے۔ اگر ہمیں خداتعالیٰ کا پیارنہ ملتا اگرہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ نہ کرتے اور اگر ہمارے دماغ میںیہ خیال نہ ہوتا کہ ہم دنیاکے دل خدا اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیلئے صرف اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہی سے جیت سکتے ہیں تو ہم بھی خود کو پاگل سمجھنے لگتے لیکن اللہ تعالیٰ کے جس پیار کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں خود اپنے وجود میں مشاہدہ کئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اور اس علمِ حقیقی کے حصول کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے اور تمام خزانوں کا مالک ہے اور حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ اپنے حکم پر اور اپنے امر پر غالب ہے۔ ہم اس علم ومعرفت کے بعد اپنی کمزوری اور عاجزی پر نگاہ ڈالنی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم آسمانوںکی طرف اپنی نگاہ کو اٹھاتے اور اس قادر وتوانا خدا کی قدرتوں کے متصرفانہ جلوے دیکھ کر خدا پر توکل کرتے ہوئے اعلان کردیتے ہیں کہ ایسا ہوجائے گا۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری طاقت کیا؟ بظاہر یہ ناممکن ہے لیکن خدا نے آج آسمانوں پریہی فیصلہ کیاہے کہ اس کی تقدیر سے یہ بات بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود بھی ممکن ہوجائے گی اور دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں گے۔
ایک نیا دور نئی صدی میں شروع ہونے والا ہے۔ میں نے بتایا ہے پہلی صدی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہے اور دوسری صدی غلبۂ اسلام کی صدی ہے۔ اب یہ صدی اور آئندہ آنے والی صدیاں مہدیٔ معہود کی صدیا ں ہیں کسی اور نے آکر نئے سرے سے اشاعتِ اسلام کے کام نہیں سنبھالنے یہ مہدی ہی ہے جو اسلام کی اس نشاء ۃ ثانیہ میں اسلام کے جرنیل کی حیثیت میںاور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی حیثیت میں دنیاکی طرف بھیجا گیا ہے جماعتِ احمدیہ کی پہلی صدی بھی اسلام کے جرنیل کی حیثیت سے مہدی معہود کی صدی ہے اور دوسری صدی بھی مہدیٔ معہود کی صدی ہے جس میں اسلام غالب آئیگا اس کے بعد تیسری صدی میں تھوڑے بہت کا م رہ جائیں گے اور وہ جیسا کہ انگریزی میں ایک فوجی محاورہ ہےMoppling up operation(یعنی جو چھوٹے موٹے کام رہ گئے ہوں اُن کو کرنا) جب تیسری صدی والے آئیں گے وہ خود ہی ان کاموں کو سنبھال لیں گے لیکن ہم جن کا تعلق پہلی اور دوسری صدی کے ساتھ ہے کیونکہ میرے سامنے اس وقت بھی جو چھوٹی سی جماعت کا ایک حصّہ بیٹھا ہوا ہے اُن میں سے بہت سے وہ ہوں گے بلکہ میرا خیال ہے یہاں بیٹھنے والوں کی اکثریت وہ ہوگی جو اسی دلیری اور شجاعت اور فرمانبرداری اور ایثار کے جذبہ کیساتھ پہلی صدی کو پھلانگتے ہوئے دوسری صدی میںداخل ہوں گے اور خداتعالیٰ کے حضور دینی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوںگے کہ اسلام کے غلبہ کیلئے دوسروں کے دلوں میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیںرہا۔
ہمارے دلوں میں تو آج بھی نہیں ہے لیکن دنیا کی اکثریت بلکہ مسلمانوں کی اکثریت بھی اس شبہ میںہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہوجائے اُن کویہ نظر نہیں آرہا کہ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کردئیے گئے ہیں۔ ہم خدا کی رحمت سے مہدی معہود کے زمانے کو پانے اور آپ کو شناخت کرنے والے ہیں، ہمیں یہ نظر آرہا ہے اُن بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھ کر جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے دی گئی ہیں اور خدا کے اس سلوک کو دیکھ کر جواس کا جماعت سے ہے اور خدا تعالیٰ کے ان معجزات کو دیکھ کر جو ہمارے بڑوں اور ہمارے چھوٹوں نے دیکھے ہیں اور جو ہمارے مغرب اور ہمارے مشرق اور ہمارے شمال اور ہمارے جنوب میں ظاہر ہو رہے ہیںہم علیٰ وجہ البصیرت اس مقام پرکھڑے ہیں کہ غلبۂ اسلام کا زمانہ آگیا اور یہ زمانہ مہدی معہود کا زمانہ ہے اور وہ صدی جس میں عملاً اسلام دنیامیں غالب آنا شروع ہوجائیگا وہ شروع ہونیوالی ہے اس سے پہلی (یعنی موجودہ) صدی میں اسلام کے عظیم محل اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم قلعے کی عمارت کو بنانے کیلئے جن مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی وہ تیار ہوتی رہیں۔ اب صدی ختم ہورہی ہے۔ قریباََ سولہ سال باقی رہ گئے ہیں۔ گویا پہلی صدی میں قربانیاں دینے کے لحاظ سے ایک آخری دھکا لگانا رہ گیا ہے اس کے لئے یہ ۱۶ سالہ سکیم بنائی گئی ہے تاکہ اسلام کے غلبہ کے سامان جلد پیداہوں۔
پس اسلام تو انشاء اللہ خداکے فضل اور اس کی رحمت سے ساری دنیا پر غالب آئے گا ۔ دوسرے مذاہب اسلام کے عالمگیر غلبہ کا ابھی احساس نہیں رکھتے البتہ اپنی موت کا احساس ان کے اندرپیداہوگیا ہے اگر دوسرے سارے مذاہب نے مٹ جاناہے اور اگر اسلام نے بھی غالب نہیں آنا تو پھردنیا سے مذہب مٹ جائیگا اور اس کی جگہ دہریت آجائیگی جو لو گ اس وقت دہریہ ہیں وہ اسی زعم میں ہیں۔ اُن کا یہ خیال ہے کہ اب وہ دنیا پر غالب آجائیں گے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہت بڑی مادی اور فوجی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور دنیا کی مجموعی دولت کا ایک بڑا حصہ ان کے پاس ہے اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کی وجہ سے اور اپنی دولت کے نتیجہ میں دنیاپر غالب آجائیںگے مگر ہم جو ایک کمزور جماعت کی طرف منسوب ہونیوالے ہیں ان کی باتو ں کو سنتے اور ان کی جہالت پر مسکراتے ہیں کیونکہ ساری دُنیا کی مادی طاقتیں اور مادی دولتیں ملکر بھی اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مقابلہ میں ایک سکینڈ کے لئے بھی کھڑی نہیں ہو سکتیں ۔ غلبۂ اسلام کایہ منصوبہ جو صدیوں پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے یہ اتنا لمبا اسلئے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک سیکنڈمیں ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر میں ساری دنیا کو دین واحد پر جمع کرناچاہتا تو اس کیلئے میر احکم دیناکافی تھا لیکن خداتعالیٰ نے چاہا کہ وہ بندوں کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر آزاد چھوڑ دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ رضاکارانہ طور پر دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئیں اور محبت الٰہیہ کو حاصل کریںاور اس طرح وہ اُس’’شلجم‘‘ سے کہیں زیادہ اللہ کے مقرب بن جائیں جو ایک ترکاری ہے او رخدائی مشیت کے تحت خدا کی رحمت کو حاصل کرتی ہے۔ ظاہر ہے شلجم کے اندر جو غذائی خاصیتیں ہیں اُن کو اس نے اپنے زور سے حاصل نہیں کیا خدا نے کہا کہ شلجم کے اندر یہ یہ خاصیتیں پیداہوجائیں وہ پیداہوگئیں اب اگر انسان کی بھی یہی حالت ہوتی اگر وہ بھی ایک’’کُن‘‘ کے حکم پر جبراً مسلمان ہوجاتا ہے یعنی جس طرح شلجم پر جبر ہے خدا کی طاقت نے اس کو پکڑا اور کہا کہ تو میری معین کروہ حدود سے باہر نہیں جا سکتا یا مٹر ہے یا جانوروں میں سے مثلاً گھوڑا ہے یا بیل ہے یا اونٹ ہے یا سمندری جانور ہیں یا درخت ہیں پھلدار اور دوسرے کام آنے والے یا سمندر ہیںدریا ہیں یا فضاء ہے۔ سورج ہے اور اس کی روشنی ہے یہ سب قانونِ قدرت میں بندھے ہوئے ہیں لیکن اپنے اپنے دائرہ میں بندھے ہوئے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کررہے ہیں۔ اگر حییّ و قیّوم خدا اُن پر اپنی رحمت کا سایہ نہ ڈالے رکھتا تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا لیکن جو رحمت اس نے انسان کیلئے مقدر کر رکھی ہے اس میں اور اس رحمت میں جس کامیں نے ابھی ذکر کیاہے زمین اور آسمان کا فرق ہے ایک وہ رحمت ہے جو خداکی رضا کے حصول کیلئے انسان کی رضا کارانہ اور عظیم اور مقبول جدو جہد کے نتیجہ میں آسمانوں سے ناز ل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے پیار اور محبت کے ساتھ اپنے بندہ کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے۔ اس رحمت کا مقابلہ دوسری رحمتوں کے ساتھ جن کے مورد عموماً نباتات اور جانور وغیرہ ہوتے ہیں نہیں ہوسکتا گویا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دنیا میں ہر وجود جو نظر آتا ہے۔ کبھی موجود ہوا۔اب ہے یا آئندہ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر نہ تو وجود میں آسکتاتھا، نہ نشوونما حاصل کرسکتاتھااور نہ وہ فائدہ مند چیزیں بن سکتا تھا لیکن یہ اور قسم کی مربیانہ رحمتیں ہیں جو اس کائنات کی ہر چیز میں نظر آتی ہیں۔ انسان کیلئے ابدی رحمت مقدر ہے اسلئے کہ خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا تھاکہ وہ اس کی عبادت میں ہمہ تن مشغول رہ کر اس کی رحمتوں سے حصہ لے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے ایک لمباعرصہ تک ایسے سامان پیداکئے کہ انسان ارتقائی مدارج طے کرتا ہو اس دور میںداخل ہو جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مقدر تھی اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور مشن پورا ہونا تھا اور جس کی انتہا اس بات پر ہونی تھی کہ دنیا کا ہر انسان اپنے خدا کی معرفت حاصل کرچکا ہو اور اس کی رحمت سے اس کے پیار سے اس کی رضا سے اس دنیا میں بھی اور اس (آخری) دُنیا میں بھی اس کی جنتوں سے حصّہ لینے والاہو۔
پس بڑا عظیم کام ہے جو ہوناہے۔ بڑا عظیم کام ہے جس کی تکمیل کیلئے اس کی ساری عظمتوں کے باوجود میرے اور تمہارے جیسے کمزور کندھوں کو چنا گیا ہے ہمیں اس کے لئے قُربانیاں دینی ہیں۔ یہ ہمارا کام ہے ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم اس وقت خدا کے حضور پیش کرتے ہیں وہ فی ذاتہ کوئی چیز نہیں کیونکہ اسلام کے مخالفین میں سے ایک ایک آدمی اسلام کے خلاف چلنے والی مہموں کیلئے بسا اوقات پانچ پانچ کروڑ روپے دے سکتا ہے۔پس سوال پانچ کروڑ روپے کا نہیں یا دس کروڑ روپے کا نہیں سوال تو یہ ہے کہ کس اخلاص کے ساتھ کس جذبہ کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے جس پیار کے نتیجہ میں اور دین کے کس جذبہ کے ساتھ ہم نے اپنی حقیر قربانیاں اس کے حضور پیش کیں جسے قبول کرکے اس نے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلایا اور دنیا نے یہ سمجھا کہ جماعت احمدیہ نے یہ قربانیاں دیں اور اسلام غالب آیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کا وجود اپنی تمام قربانیوں کے باوجود ایک ذرہ ناچیز سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے اس مادی دنیامیں تدبیروں میں چھپے ہوئے ظاہرہوتے ہیں اس نے ایک تدبیر کی اور اسکی تدبیر ہی ہمیشہ غالب آیا کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو تدابیر کی جاتی ہیں وہ غالب نہیں آیا کرتیں۔۔ پس دعائوں کیساتھ قربانیوں کیساتھ ایثار کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جُھکتے ہوئے ہم نے اشاعت اسلام کے اس عظیم منصوبہ کو عملی جامہ پہناناہے۔ اس سلسلہ میں میرے ذہن میں کچھ نفلی عبادتیں بھی ہیں۔ محض پانچ کروڑ روپے کی تو خدا کو ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کو نوافل کی ضرورت ہے لیکن ہمیں ہر چیز قربان کرنے کی ضرورت ہے اسلئے جہاں تک نفلی عبادتوں کا سوال ہے اسکے متعلق انشاء اللہ میں اگلے خطبہ میں بتائوں گا کہ اس عرصہ (یعنی ۱۶سال) میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنے کیلئے ہمیں کیا کیا اور کتنی کتنی نفلی عبادتیں کرنی چاہئیں۔
غرض ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیںمالی قربانیوں کی بھی توفیق دے اور نفلی عبادتوں کی بھی توفیق دے اور پھر اپنے عاجز بندوں کی ان نہایت ہی حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے اپنے وعدہ کے مطابق نہایت ہی عظیم الشان نتائج نکال دے۔ خداکرے ایساہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۰؍فروری ۱۹۷۴ء صفحہ۲ تا۶)









جماعت احمدیہ کا ہر قدم دُنیا کی ہر جہت میں
غلبہ اسلام کی طرف اُٹھ رہا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے تسبیح و درود پر مشتمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ الہامی دعا پڑھی:-
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۲۵)
پھر حضور انور نے یہ ادعیہ پڑھیں۔
أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَـیْہِ۔

(البقرۃ:۲۵۱)
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔
پھر حضور انور نے فرمایا:-
انسان آج ہلاکت کے کناروں پر کھڑا ہے اور انسانیت خطرہ میں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو محسنِ اعظم ہیں جو محافظ انسانیت ہیں، جو رحمت للعالمین ہیں۔آپ کی رحمت کے سایہ تلے آئے بغیر آج انسان اس ہلاکت سے جو اُس کے سامنے کھڑی ہے بچ نہیں سکتا اور جیسا کہ بتایا گیا تھا یہ زمانہ وہ ہے جس میں انسانیت کی جنگ شیطنت سے اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ یہ زمانہ وہ ہے جس میں نور کی طاقتوں نے ظلمات کے ساتھ ایک آخری اور نہایت شدید جنگ لڑ کر ظلمت کو دُنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹا دینا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مہم جو چودہ سو سال سے شروع ہے وہ اپنے آخری ارتقائی دَور میں سے گزرتی ہوئی ساری دُنیا پر غالب آکر استحصال کے لئے نہیں، ساری دُنیا پر غالب آکر انسانوں کی بھلائی اور خیر کے لئے اُن کے دلوں کو جیت کر اللہ تعالیٰ جو واحدویگانہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ جس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ کوئی باپ۔ جس کا کوئی ہمتا نہیں۔ جو اپنی تمام صفات میں یگانہ اور یکتا ہے۔ وہ پیار کرنے والا ہے اپنے بندوں سے انتہائی پیار کرنے والا۔ جس نے انسان کو اپنا عَبْد بننے کے لئے پیدا کیا۔انسان کو عَبْد کی حیثیت سے اور انسانیت کو اپنی تمام صفات کے ساتھ اور تمام طاقتوں کے ساتھ جو اُس میں پیدا کی گئی ہیں اکٹھا کر کے، اُمّتِ واحدہ بنا کر خدائے واحد ویگانہ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ کوشش شروع ہو چکی ہے مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آسمانی نزول کے ساتھ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُن روحانی برکتوں کے ساتھ جن کا وعدہ اِس مسیح اور اِس مہدی کو دیا گیا تھا۔ اُس پیار کے ساتھ جس پیار سے اِس پاک فرزند محمد کا وجود بھرا ہوا ہے۔ یہ مہم شروع ہو چکی ہے۔ ایک صدی گزرنے والی ہے۔ صدی کی انتہا پندرہ سال اور ایک ڈیڑھ ماہ تک ہونے والی ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے، اُس سے دعائیں کرنے کے بعد، اُسی کی دی ہوئی توفیق سے ایک منصوبہ جماعت احمدیہ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ منصوبہ ہے انسان کے دل کو جیت کر خدا کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کرنے کا۔ یہ منصوبہ ہے ہر انسانی دل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پیدا کرنے کا۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں جن کا اِجمالاً میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ذکر کیا تھا اور اِس منصوبہ کو چلانے کے لئے اپنی سمجھ کے مطابق مالی قربانیوں کی مَیں نے تحریک کی تھی۔ جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے فضلکیا اور جو کم سے کم میری تحریک کی رقم تھی یعنی اڑھائی کروڑ روپیہ، اُس سے بڑھ چکا۔ پچھلے جمعہ تک تین کروڑ اور تیس لاکھ سے زائد کے وعدے وصول ہو چکے تھے اور جو میرے، اس عاجز بندے کے نزدیک بڑی سے بڑی رقم کی اُمید کی جا سکتی تھی یعنی پانچ کروڑ روپیہ، اُس کے اور کم سے کم یعنی اڑھائی کروڑ کے درمیان اس رقم کے وعدے پہنچ گئے۔ اب تو میرا خیال ہے چار کروڑ کے قریب پہنچے ہوئے ہوں گے۔ بہرحال جو حالات اس وقت نظر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اِس پیاری جماعت کے دل میں خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اِسْلام کی جو محبت پیدا کی گئی ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ یہ رقم پانچ اور دس کروڑ کے درمیان کہیں پہنچ جائے۔ شاید پانچ کی نسبت دس کروڑ سے زیادہ قریب۔
جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی دی جاتی ہے اور دی جاسکتی ہے۔ جہاں تک دینے والوں کی نیتوں کا سوال ہے بعض دفعہ سوچتے سمجھتے ہوئے بھی نیت میں خلوص نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ جہالت کی وجہ سے انسان بعض ایسے کام کر جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوتے ہیں اور قربانیاں قبول نہیں کی جاتیں بلکہ واپس دینے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ میں نے نصرت جہاں کے منصوبہ کے وقت جماعت کو یہ کہا تھا کہ مجھے فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا اور کیسے آئے گا۔ مجھے یہ فکر نہیں کہ ڈاکٹرز جن کی ضرورت ہے یا پروفیسرز اور لیکچررز جن کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے آئیں گے ۔ جب خدا تعالیٰ نے اپنی منشاء کو ظاہر کیا تو وہ یہ سامان بھی پیدا کر دے گا۔ جو مجھے اور آپ کو فکر ہونی چاہیئے وہ یہ ہے کہ جو حقیر قربانی ہم اُس کے حضور پیش کریں اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر فرد واحد کی قربانی کو قبول کرے اور اس کے نتیجہ میں جو اُس کی رحمت کے پیار کے جلوے انسان دیکھتا ہے وہ پیار اور رحمت کے جلوے ہم میں سے ہر شخص پر ظاہر ہوں۔ یہ فکر کرنی چاہیئے۔ اس کے لئے دُعاؤں کی ضرورت ہے۔ بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ پس ایک منصوبہ تو اپنی سمجھ کے مطابق بنایا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے۔ جماعت نے بحیثیت مجموعی بڑی قربانی کا ارادہ اورعزم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو بحیثیت جماعت اور ہر فردِ جماعت کوانفرادی حیثیت میں اپنی رحمتوں کو چادر میں لپیٹ لے لیکن ہم میں سے ہر ایک کے لئے خوف کا مقام ہے اور دعاؤں کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے تضرع کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے پھر جو منصوبہ، ایک کوشش ایک جدوجہد اور ایک جہاد کا بنایا گیا ہے اس کے بہترین نتائج نکلنے کے لئے آسمانی طاقت کی ضرورت ہے اور یہ طاقت بھی جو آسمان سے آتی اور زمین کی ہر مخالفت کو پاش پاش کر دیتی اور مٹا دیتی ہے اس آسمانی طاقت کے حصول کے لئے بھی انتہائی عاجزی کی ضرورت ہے۔ تضرع کی ضرورت ہے ہر وقت دعاؤں کی ضرورت ہے۔
پچھلے خطبہ میں مَیں نے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ دعاؤں کا بھی ایک پروگرام اگلے خطبہ میں(یعنی جو آج میں دے رہا ہوں) آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اس کے متعلق اس عرصہ میں بھی اور پہلے بھی میں نے دعائیں بھی کیں اور میں نے سوچا بھی جو میں چاہتا ہوں جو میری خواہش ہے جو میں سمجھتا ہوں اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر اور اپنی قربانیوں کے جو کہ حقیر سی قربانیاں ہیں ان کے بہترین نتائج نکالنے کی خاطر جن عاجزانہ دعاؤں کی یا دیگر عبادات کی ہمیں ضرورت ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھوں۔ جماعت میں کچھ کمزور بھی ہیں اور طاقت ور بھی ہیں۔ کمزور اپنی تربیت کے لحاظ سے بھی ہیں بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں اور سب کو (یعنی طفل کی عمر تک کو) مَیں عبادات کے اِس منصوبہ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں۔ بعض ایسی نفلی عبادتیں ہیں۔ (میں اس وقت سب نفلی عبادتوں کا ذکر کروں گا) بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ بعض عبادتیں کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بعض ایسے ہیں کہ جتنی میں نے کم سے کم حد مقرر کی ہے اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان ساری چیز وں کو سامنے رکھ کر ایک سمویا ہوا درمیانہ درجہ کا مطالبہ مَیں نفل عبادات کے سلسلہ میں اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں، اپنے بزرگوں اور اپنے بچوں کے سامنے اس وقت رکھنا چاہتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبہ لئے آسمان پر برکات کے حصول کے لئے جماعت کو روزے بھی رکھنے چاہئیںاور اس کے لئے میرے ذہن میں یہ تجویز آئی ہے کہ یہ جو اس منصوبہ کے کم وبیش ایک سو اسی ماہ ہیں ان میں ہر ماہ ایک روزہ ہر احمدی جو روزہ رکھنے کے قابل ہے وہ روزہ رکھے۔ اس طرح قریباً ایک سو اسی ( پندرہ سال کے اور جو ابھی دو ماہ رہتے ہیں وہ بیچ میں شامل ہو جائیں گے لیکن بعض لوگوں کو اطلاع دیر سے پہنچے گی اس لئے میں نے پندرہ سال پر ہی اپنے حساب کی بنیاد رکھی ہے) ہر احمدی جو روزہ رکھ سکتا ہے اور آ ج بھی روزہ رکھنے کی اہلیت اور طاقت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی عمر میں برکت ڈالے اور اُس کی صحت میں برکت ڈالے۔
آئندہ پندرہ سال تک وہ روزہ رکھنے کی طاقت پاتا رہے۔ ہر وہ احمدی ایک سو اسّی روزے اس نیت کے ساتھ کہ ان روزوں میں وہ اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے یعنی غلبۂ اسلام کے لئے یعنی نوعِ انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے یعنی انسانیت جو ہمیں اس وقت خطرہ میں نظر آرہی ہے اس خطرہ سے اُسے نکالنے کے لئے وہ یہ روزہ رکھے گا اور ان روزوںمیں وہ اُن تمام شرائط کو ملحوظ رکھے گا جو فرض روزوں کے متعلق اسلام نے قائم کی ہیں۔
میں نے سوچا اور اندازہ لگایا کہ اگر پانچ لاکھ ایسے احمدی مرد اور عورتیں اور وہ بچے جو روزہ کی عمر کے قابل ہیں ایسے صحت مند پانچ لاکھ افراد مل جائیںتو اس منصوبہ کے زمانہ میں نو کروڑ روزے رکھے جائیں گے۔ اگر آپ کی مالی قربانیاں ساڑھے چار کروڑ تک پہنچیں تو آپ اپنی مالی قربانی کے ہر روپے میں برکت کے پیدا کرنے کے لئے آپ خداتعالیٰ سے فی روپیہ دو روزے رکھ کر دعائیں کر رہے ہوں گے اور اگر آپ کی مالی قربانی نو کروڑ تک پہنچے تو فی روپیہ آپ ایک روزہ رکھ کے آپ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! یہ مال ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں اسے قبول فرما اور اپنی ساری برکتیں اس مال کے اندر ڈال دے کیونکہ تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے اور تیرے پیدا کردہ انسان کو تیری طرف واپس لانے کے لئے یہ ساری مہم جاری کی گئی ہے۔ پس ہر ماہ میں ایک روزہ رکھنا ہے میں دِن کی تعیین نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دن کی تعیین روزوں میں پسندیدہ نہیں سمجھی گئی لیکن ایک اجتماعی کیفیت بھی پیدا کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں نے یہ سوچا کہ میں دِن کی تعیین کئے بغیر جماعت سے یہ توقع رکھوںکہ ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں ہر شہر، گاؤں، قصبہ یا محلہ میں جیسا آپ چاہیں ایک دن مقرر کر لیا کریں یعنی ایک تاریخ مقرر کر لیا کریں اور اُس تاریخ کو حتی الوسع اس دائرہ میں( محلے میں یا قصبہ میں شہر میں) ساری جماعت روزہ رکھے اس طرح ہر ماہ کا آخری ہفتہ قریباً سارا ہفتہ ہی روزہ کا ہفتہ بن جائے گا۔ اگرچہ ایک روزہ رکھا جائے گا لیکن کسی تاریخ کو کسی مقام پر کسی دوسری تاریخ کو کسی اور مقام پر سارا ہفتہ ہی اللہ کے حضور گڑ گِڑا کر عاجزانہ دعائیں کرنے کا موقع مل جائے گا کہ روزے کے اندر دُعا بھی شامل ہے۔ روزہ حقیقتاً ہے ہی دُعا۔ اور پھر تلاوت قرآن کریم ہے۔ میں نے کہا ہے کہ روزے کی شرائط اختیار کی جائیں۔ روزے میں صدقات کی طرف توجہ کرنا بھی شامل ہے اور بہت سی شرائط ہیں۔ ان تمام شرائط کے ساتھ ایک روزہ آدمی رکھے۔ عام طور پر بھوکے کا خیال رکھے۔ ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ ہو۔وہ دن ایسا ہو جس میں اگر روزانہ ایک شخص مثلاً ایک رُبع کی تلاوت کرتا ہے تو اُس دن ایک سپارہ کی کرے ایک سپارہ کی تلاوت کرنے والا اُس دن دو تین سپاروں کی تلاوت کرے۔ اور اگر اس طرح کیا جائے تو قرآن کریم کی تلاوت بھی اس نیت کے ساتھ کہ اس منصوبہ میں خدا سے ہم نے برکت حاصل کرنے کے لئے ایک عاجزانہ سعی اور جہاد کرنا ہے۔ قرآن کریم کے بھی لاکھوں دَور ہو جائیں گے۔ پس فی ماہ ایک روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ میں کسی دن جس کا فیصلہ شہر یا محلہ یا قصبہ یا گاؤں کرے۔ اُس دن علاوہ روزے کے(وہ دعاؤں کا دن ہے جس طرح ہماری) رمضان کے آخر میں اجتماعی دُعا ہوتی ہے) جس دن جو علاقہ مہینے کے آخری ہفتہ میں روزے کے لئے مقرر کرے اُس دن عصر کے بعد یا مغرب کے بعد جو بھی اُن کے لئے سہولت ہو وہ اپنے علاقے کی اپنے حلقے کی اپنے گاؤں کی اپنے قصبے کی اپنے محلے کی اجتماعی دُعا کا بھی انتظام کریں۔ اور اپنی زبان میں جو ہم نے دُعائیں کرنی ہیں( علاوہ ان دُعاؤں کے جن کا میں ابھی ذکر کروں گا) اپنی زبان میں خداتعالیٰ کے حضور جھک کر اُس سے مانگیں۔ اپنی عاجزی کے پورے احساس کے ساتھ کہ اے خدا! اتنا بڑا بوجھ تو نے ہم پہ ڈالا اور اتنے کمزور ہم انسان ہیں اور بشری کمزوریاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں اور علمی کمزوریاں بھی ہیں۔ جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ پوری طاقت تو شاید لاکھ میں سے ایک بھی آدمی ایسا ہو گا جس کوسو فیصد جو اُس کی صحت کا معیار ہونا چاہیئے اپنی اندرونی طاقتوں کے لحاظ سے وہ اُسے حاصل ہو۔ کبھی ہوا چلتی ہے تو نزلہ ہو جاتا ہے۔ کبھی ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔ کبھی گرمی پڑتی ہے تو ہیٹ سٹروک (Heat Strock)ہو جاتا ہے۔ موسم بدلتے ہیں تو ہمیں فائدہ بھی پہنچاتے ہیں۔ موسم بدلتے ہیں تو ہمیں دوسرے اسباق بھی دیتے ہیں۔ خُدا کے حضور جھکیں اور خُدا سے کہیں کہ اے ہمارے پیارے ربّ! تُو نے ہمیں یہ کہا ہے کہ شیطان سے انسان کی یہ آخری جنگ ہے اور یہ انسان جو آج تیرے مہدیٔ معہود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیری طرف لوٹا اور تیرے قدموں پر آکر گِر گیا ہے یہ کمزور انسان ہے جو تُو نے منصوبہ بنایا ہے اُس سے تیری شان کے مطابق جو نتائج نکلنے چاہئیں تو ہماری تدبیروں میں وہی برکتیں ڈال دے۔ وَلَا فَخْر اور ہمیں کوئی فخر نہیں۔ فخر کر ہی نہیں سکتا انسان۔ یہی ہم نے سُنتِ نبوی سے سیکھا اور یہی ایک حقیقت ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا اگر پانچ لاکھ احمدی بڑا اور چھوٹا مرد و زن اس روزے کی طرف (جو میں تحریک کر رہا ہوں عبادات میں سے نمبر ایک) اس کی طرف توجہ کرے تو نو کروڑ روزے اس منصوبہ کے زمانہ میں رکھے جائیں گے۔ اور نو کروڑ دِنوں میں اس کے لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور اجتماعی دعائیں ہوں گی۔
دوسری تحریک نوافل کی ہے یعنی باقاعدہ جس طرح نماز پڑھی جاتی ہے۔ نماز میں فرض بھی ہیں اور سُنتیں بھی ہیں اور نوافل بھی ہیں۔
نوافل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر احمدی جس پر نماز فرض ہے (بعض تو ایسے بچے ہوتے ہیں جن کو شوقیہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے اور نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ہم نماز پڑھاتے ہیں ایک ایسی عمر ہے جہاں نماز فرض ہو جاتی ہے۔ تو ہر وہ احمدی بچہ یا بڑا یا عورت جن دنوں میں اس پر نماز فرض ہے۔ جس پر بھی نماز فرض ہے وہ دو رکعت نفل روزانہ پڑھے۔ اس منصوبہ میں برکت پیدا کرنے کے لئے دعائیں کرنے کی غرض سے اور روزوں کے متعلق میرا اندازہ پانچ لاکھ افراد کا تھا لیکن نفلوں کے متعلق میرا اندازہ دس لاکھ افراد کا ہے اور دس لاکھ احمدی اگر روزانہ دو نفل پڑھ رہا ہو تو فی روپیہ(نو کروڑ روپیہ اگر آجائے اُس کے لحاظ سے فی روپیہ) ایک سو بائیس نوافل بنتے ہیں۔ خداتعالیٰ کے حضور جو ایک روپیہ قربانی کے لئے پیش کیا جائے ایک سو بائیس نوافل پڑھ کر دُعائیں کر کے پیش کریں تاکہ عاجزی کا اور نیستی کااحساس ہمارے دلوں میں پیدا ہو اور ہمیں محسوس ہو کہ روپیہ دینا فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ایک روپیہ دے دیا یا ایک لاکھ روپیہ دے دیا یا نو کروڑ روپیہ اجتماعی طور پر دے دیا اصل تو یہ کہ جب تک نیک نیتی کے ساتھ خُداتعالیٰ کی طرف جُھکتے ہوئے مالی قربانی نہیں کی جاتی وہ اپنے نتائج نہیں نکالا کرتی۔ تو روزہ ہر ماہ ایک اور نوافل ہر روز دو رکعت اور ان کا جو وقت ہے وہ عِشا سے لے کر صبح کی اذان کے درمیان یا نمازِ ظہر کے بعد کوئی وقت مقرر کر لیں۔ یہ انفرادی ہے سوائے اس کے کہ کہیں اکٹھے ہو کر بھی پڑھ لیں۔ مسجدوں میں جہاں تک ممکن ہو لیکن بہرحال یہ انفرادی نوافِل ہیں۔
جو بچے ہیں وہ بعض دفعہ تو عِشاء کی نماز میں بھی اُونگھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو یہ کہنا کہ تم تہجد پڑھو یا نماز عشاء کے بعد نوافل پڑھو۔ یہ ان کو ایسی تکلیف دینا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے لیکن ظہر کے بعد وہ دو رکعت نفل پڑھ سکتے ہیں۔ یہ دو نفل اُن نوافل سے زائد ہیں جن کی پہلے سے کسی احمدی کو عادت ہے اور وہ نفل کی صورت میں پہلے سے پڑھ رہا ہے۔ اُن کو یہ دو نفل زائد کرنے پڑیں گے۔
ذِکر (روزہ، نفل نماز پڑھنا اور ذکر) ذکر کے مختلف پہلو ہیں جن کو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں ایک ہے ذکر سورۂ فاتحہ کی تلاوت۔ سورۂ فاتحہ قرآن کریم کا نچوڑ بھی ہے اور خالی نچوڑ نہیں بلکہ اتنا حُسن ہے اس اختصار میں اور اتنی تفصیل ہے اس اجمال میں اور اتنے پیار کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ کے اِس احسان میں کہ قرآن کریم کا خلاصہ ہمیں سورۂ فاتحہ کی شکل میں دے دیا اور اتنی خوشبو ہے اس کی روحانیت میں کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پس سورۂ فاتحہ بہت بڑا ذکر ہے ہم اسے بہت دفعہ پڑھتے ہیں۔ نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ جتنی بار اب ہم پڑھ رہے ہیں اس سے زیادہ سات بار روزانہ ایک احمدی سورۂ فاتحہ کو پڑھے۔ اور اس کے مطالب پر غور کرے اور اس کے لئے میرا اندازہ ہے کہ اگر دُنیا میں بسنے والے سب احمدی اس طرف توجہ کریںتو تیس لاکھ احمدی ایسا ہو گا جو سورۂ فاتحہ سات بار روزانہ پڑھ سکتا ہے اور اگر تیس لاکھ احمدی بچہ، بڑا سات بار روزانہ پڑھے مگر اس میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ماں باپ اپنے گھر میں بچوں کو اکٹھی سات مرتبہ نہیں پڑھائیں کیونکہ اس سے وہ اُکتا جائیں گے بلکہ دو دفعہ سے زیادہ کسی وقت نہیں۔اپنے بچوں سے سورۂ فاتحہ پڑھائیں۔ جو چھوٹے بچے ہیں پانچ یا سات سال کے اور خدام الاحمدیہ کے قواعد کے مطابق ابھی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل نہیں ہوئے ان سے بھی پڑھائیںاور جو چھوٹے بچے ہیں اُن کی تعداد بے شک کم ہی ہو کیونکہ یہ اصل میں تو اُن کے لئے ہے جن پر نماز فرض ہو گئی وہ سات بار پڑھیں اور جو اپنی عمر کے لحاظ سے ایسا ہے جس پر نماز فرض نہیں ہوئی وہ اپنی طاقت کے مطابق جس کا فیصلہ اُس کے نگران یا ماں باپ یا بڑے بھائی نے کرنا ہے اگر وہ اس گھر میں ہے اور ماں باپ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔ اگر تیس لاکھ آدمی سات بار سورۂ فاتحہ روزانہ پڑھیںتو جماعت کی مجموعی مالی قربانی کے فی روپیہ کے مقابلہ میں سورۂ فاتحہ کی ایک سو اٹھائیس مرتبہ تلاوت ہو گی یعنی فی پیسہ کے مقابلہ میں ایک دفعہ سے زائد سورۂ فاتحہ جیسا عظیم اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھے اور اس دُعا کے ساتھ،بڑی عجیب دُعا ہے کہ اے خدا! پیسہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر تیرے اس عظیم کلام کے صدقے سے ہم تجھ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے دھیلے میں تُو برکت ڈال اور اس کے وہ نتائج نکال جو آج ہم کمزور بندے چاہتے ہیں کہ نکلیں اور اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے۔ یہ ذِکر کا الف حصہ ہے۔
ب:- دوسری بات جو میں چاہتا ہوں کہ اتنی تعداد میں احمدی تسبیح و تحمید اور درود پڑھنے والے ہو اور اگر تیس لاکھ احمدی تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ الَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وّ آلِ مُحَمَّد۔ موجودہ جو دَور وہ کر رہے ہیں اس کے علاوہ تینتیس بار پڑھیں تو فی روپیہ جو ہم اللہ کے حضور پیش کر رہے ہوں گے تو اس کے مقابلہ میں اُس روپیہ میں برکت کی خاطر سات سو ستائیس دفعہ تسبیح تحمید اور درود پڑھ رہے ہوں گے۔یہ نوکروڑ کے حساب سے ہے ورنہ ساڑھے چار کروڑ روپے اگر ہوں تو یہ چودہ سو سے اُوپر فی روپیہ ہو جائے گا۔ اصل روپیہ نہیں اصل یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُورود بھیجتے ہوئے آسمانی برکات کے حصول کی کوشش کی جائے تاکہ ہمارا یہ منصوبہ کامیاب ہو۔ پس تسبیح و تحمید اور درود جیسا کہ میں نے ابھی خطبہ کے شروع میں پڑھا اور پہلے بھی بڑی تعداد میں یہ پڑھا جاتا رہا ہے لیکن اب میں نے بتایا ہے کہ سب کچھ سوچ کر تعداد میں نے تھوڑی رکھی ہے کیونکہ بہت سی دُعائیں اس کے اندر آگئیں۔ تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمّد۔ پڑھنا ہے۔
ج۔ تیسرے نمبر پر استغفار اور توبہ ہے۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ أَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ تینتیس بار روزانہ اُس گنتی سے زائد جس کی عادت اور جس کا دستور کسی شخص نے بنایا ہو۔ یہ زائد استغفار اور توبہ کرنی ہے تاکہ جیسا کہ خطبہ میں مَیں نے ایک آیت قرآنی پڑھ کے آپ کو بتایا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آسمانوں سے بارش کی طرح خداتعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی اور خلوص نیت رکھنے والوں کی زبانوں پر جب استغفار اور توبہ کے کلمات جاری ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس شخص یا اس جماعت کو قوت کے بعد اور قوت دی جاتی ہے اور ایسا ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔
د۔ چوتھے یہ کہ ۔ اللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ یہ گیارہ بار پڑھی جائے کیونکہ پہلی جو ہے اُس کی عادت بھی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ نوجوانوں نے بھی اپنا لیا ہو گا۔ اس میں میرا اندازہ ہے کہ شاید تیس لاکھ احمدی شاید نہ پڑھ سکیں اس لئے میرا اندازہ ہے کہ کم از کم (یہ سارے اندازے میرے کم از کم کے ہیں) دس لاکھ احمدی مردو زن گیارہ بار ان دو دُعاؤں کو پڑھیں۔ ایک قرآن کریم کی اور ایک حدیث نبوی کی ہے اور اس طرح ہر روپیہ جو ہم خدا کے حضور پیش کریں گے۔ چھیاسٹھ بار ہم خدا سے یہ کہیں گے کہ اے خدا جو تیرے نام کو مٹانا چاہتی ہیں ان طاقتوں کے مقابلہ پر تیرے یہ عاجز بندے کھڑے ہوئے ہیں اور کمزور ہیں ہر لحاظ سے ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبہ کے مطابق تیری محبت کو انسان کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن دشمن انسان کو وہ دشمن جو اے خدا! تیرا بھی دشمن ہے اور انسانیت کا بھی دشمن ہے تیرے انسان کو تجھ سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ اس واسطے ہم تیرے حضور جھکتے ہیں اور بار بار جھکتے ہیں اپنی ایک مادی کوشش کے لئے چھیاسٹھ بار تیرے حضور جھکتے اور تجھ سے یہ طلب کرتے ہیں عاجزانہ طور پر تجھ سے مانگتے ہیں گِڑگِڑاتے ہیں تیرے حضور تڑپتے ہیں تیرے پاس آکر کہ تو ہماری اس مادی قربانی کو قبول کر اور اس میں برکت ڈال اور ہمارے اس منصوبہ کو جو تیرے انسان کے فائدے اور اپنی روح کے فائدے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اُسے تو کامیاب کر دے۔ پس ذِکر کے اندر یہ چار پہلو ہیں۔ سورۂ فاتحہ کا سات بار روزانہ پڑھنا۔ (علاوہ اُس تعداد کے جو ہمارا معمول ہے۔ ہر ایک کا اپنا معمول ہوتا ہے۔ غور وفکر کرنے والے سورۂ فاتحہ کو ویسے بھی بار بار پڑھ رہے ہیں) اور سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰل مُحَمَّد۔ تینتیس بار روزانہ اور اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ تینتیس بار روزانہ پڑھنا اور ۔ اللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم۔ اس دُعا کا گیارہ بار روزانہ پڑھنا یہ ذکر کے ماتحت ایک نفلی عبادت ہے۔ جو اس منصوبہ میں برکت ڈالنے کی خاطر اس وقت میں جماعت کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا دو نفل روزانہ اور ہر ماہ میں ایک روزہ اُس طریق پر جو ابھی میں نے بتایا اور اُن شرائط پر جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی ہدایت کے مطابق قائم کیا ہے۔ جس میں نوعِ انسانی کی دُنیوی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ جس میں نوعِ انسانی کی اُخروی و روحانی ضرورتوںکا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ جس میں اپنے نفس کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ یہ بنیادی طور پر تین شرائط مختلف شکلوں میں ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کرنا۔ قرآن کریم پڑھتے وقت جو اللہ تعالیٰ کی صفات سامنے آتی ہیں ان پر غور کرنا۔ قرآن کریم پڑھتے وقت انسان کی صلاحیتیں یعنی جن طاقتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کو لے کر انسان پیدا کیا گیا ہے وہ سامنے آتی ہیں ان کی نشوونما کی ذمہ داری سامنے آتی ہے۔ قرآن کریم نے ان تمام صلاحیتوں کی نشوونما کے طریق بتائے ہیں۔ یہی چیز ہے جو ہم نے دُنیا میں قائم کرنی ہے اور اسی غرض کے لئے اس منصوبہ کو بنایا گیا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا ذِکر کے عنوان کے ماتحت جن دُعاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن کے علاوہ اپنی زبان میں خداتعالیٰ کے حضور تضرّع کے ساتھ گِڑ گِڑاؤ اور اُس کی مدد حاصل کرنے کی اور اُس کی رضا کے حصول کی اور اُس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کروکیونکہ یہ عظیم منصوبہ یا ایک پاگل سوچ سکتا ہے یا ایک مخلص جانثار جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتا ہو اُس کے دماغ میں آسکتا ہے تو اگر آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتے نہیں تو پھر آپ پاگل ہیں جو منصوبہ سوچ رہے ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے اور اُس قادر و توانا خدا کے اوپر آپ کا توکل نہیں ہے اگر آپ اپنی زندگیو ں میں اُس کی متصرفانہ قدرتوں کے جلوے نہیں دیکھتے وہ جلوے موجود تو ہیں لیکن اگر آپ ان کا مشاہدہ نہیں کرتے تو پھر یہ منصوبہ جنون کی علامت ہے لیکن نہیں جماعتِ احمدیہ مجنون نہیں۔ چاہے دُنیا اسے مجنون سمجھے صاحبِ فراست جماعت۔ خداتعالیٰ نے پیدا کی۔ یہ ایک وہ جماعت ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے غلبۂ اسلام کا جھنڈا دیا ہے اور جس کا ہر قدم دُنیا کی ہر جہت میں غلبۂ اسلام کی جانب اُٹھ رہا ہے لیکن پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا کہ وَلَا فَخَرْ۔ فخر کا کوئی مقام نہیں ہے۔ رونے کا اور عاجزی کا مقام ہے کہ کہیں انسان نفس کو دھوکا دے کر کئے کرائے پر پانی نہ پھیر دے۔ پس عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اِن نفلی عبادتوں کے ساتھ جس کا منصوبہ ابھی میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کریں اور ان برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے بعد خداتعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ اسلام نے بہرحال غالب آنا ہے۔ غلبۂ اسلام کی شاہراہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی طاقت سے حصہ عطا کرے اور اپنے نور سے ہمیں علم عطا کرے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ شیطان کی تمام ظلمات کو اس زمانہ میں دُنیا سے مٹا کر توحید کا جھنڈا دُنیا کے کونے کونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر دل میں ایک پختہ، اندر گُھس جانے والی میخ کی طرح گاڑ کر اُس مقصد کے حاصل کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس مقصد کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو دُنیا کی طرف مبعوث کیا گیا اور جس غرض کے لئے قرآن کریم جیسی بہت ہی عظیم اور حسین اور احسان کی طاقتیں رکھنے والی شریعت کو جو انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشوونما کی اہلیت رکھتی ہے اُسے دُنیا کی طرف ابدی شریعت کے لحاظ سے قیامت تک قائم رہنے والی شریعت کے لحاظ سے بھیجا گیا ہے۔ دعاؤں کے ساتھ دعاؤں میں مشغول رہ کر اِن دُعاؤں کو بھی پڑھتے ہوئے اس طریق پر جو میں نے بتایا اور اپنی زبان میں بھی ہر شخص اپنے فہم اور اپنی قوت کے مطابق اپنے علم اور اپنی فراست کے مطابق خداتعالیٰ کے حضور جھکے اور ایک چیز سامنے رکھے کہ غلبۂ اسلام کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ہمارے جسموں کا قیمہ بنا دیا جاتا ہے تو ہم اُس کے لئے بھی تیار ہیں اور دُنیا کو ایک نہایت بھیانک ہلاکت سے بچانے کی خاطر ہم اپنے پر ہر قسم کا دُکھ اور ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ جیساکہ وعدہ دیا گیا ہے اگر آپ خلوصِ نیت سے کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس سے زیادہ آپ پر نازل ہوں گی جس کو آپ کا ذہن اپنے تصور میں لا سکتا ہے۔‘‘
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)










’’صدسالہ احمدیہ جوبلی فنڈ ‘‘
غلبہ اسلام کا ایک عظیم منصوبہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍فروری۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
رحمتوں اور برکتوں کا حقیقی سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے ہر خیر اسی سے ملتی ہے اور وہی ہر خیر کے حصول کیلئے راہیں متعین کرتاہے۔ حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمارے لئے حصولِ خیر کی ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گھوڑوں کی پیشانیوں میں اُمتِ محمدیہ کے لئے قیامت تک خیروبرکت کے سامان رکھے گئے ہیں۔ اس خیر کے حصول کے لئے بھی جماعت احمدیہ کوشش کررہی ہے اور وہ اس طرح کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصو ل کا ایک ذریعہ ہے میں کچھ عرصہ سے گھوڑوں کی طرف ، گھوڑے پالنے کی طرف،گھوڑ سواری کی طرف اور گھوڑوں کی پرورش کی ذمّہ داریوں کی طرف جماعت کو توجہ دلا رہاہوں۔ چنانچہ آج سے گھوڑ دوڑ کے تیسرے سالانہ مقابلے شروع ہورہے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال زیادہ گھوڑے آئے ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کی منتظم ہے۔ میں نے پچھلے سال انہیں کہاتھا کہ کم از کم چار سوگھوڑے تو اس مقابلے میں شامل ہونے چاہئیں۔ اس دفعہ چار سو تک تو نہیں پہنچے سَو تک پہنچے ہیں اور اچھا ہوا ابھی چار سو تک نہیں پہنچے کیونکہ اس تھوڑی تعداد ہی نے بعض ضرورتوں کی طرف توجہ دلادی ہے اور وہ یہ کہ گھوڑے خواہ چند روز کے لئے ہی جمع ہوں ان کے ٹھہرانے کا صحیح انتظام ہونا چاہیئے تاکہ وہ پوری طرح صحت کے ساتھ اپنے مقابلوں میں حصّہ لے سکیں۔
پس اگر چار سو گھوڑوں نے ایک وقت میں ربوہ میں ٹھہرنا ہے چار سو گھوڑوں کے لئے پُرانے طرز کی ایک یاایک سے زائد سرائے ہونی چاہئیں جہاں گھوڑے بھی رہیں اور اُن کے مالکوں کے ٹھہرنے کیلئے کمرے بھی ہوں۔ میں نے منتظمین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اس کا جلد انتظام ہونا چاہئیے۔ ایک حصہ کاتو (یعنی کچھ گھوڑوں کے لئے تو)انشاء اللہ جلد ہی انتظام ہوجائے گا کیونکہ دوستوں کو جب گھوڑے رکھنے اور اُن کے استعمال کا شوق پیدا ہوگا تو گائوں کے رہنے والے دوست پچیس تیس میل سے گھوڑوںپر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے یہاں آجایا کریںگے اس لئے ایسی جگہ کا انتظام ہوناچاہئیے جہاںپندرہ بیس گھوڑے جمعہ والے دن باندھے جاسکیں اور اُن کی خوراک کا انتظام ہو یہ بھی دارالضیافت کا ایک حصہ ہے۔
مجھے یاد ہے دریائے بیاس کے کنارے پر جب ہماری جماعتیں مضبوط ہوئیں تو وہاں کے بہت سے زمیندار دوست آٹھ میل، دس میل بلکہ بعض پندرہ میل سے گھوڑوں پر سوار ہوکر جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے قادیان آجایا کرتے تھے۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی بچھیریوں پر سوار ہوکر قادیان پہنچتے اور قریباً ہر نماز جمعہ میں شامل ہوتے تھے اور اس طرح اُن کی عام دینی اور دنیوی معلومات کا معیار بہت بلند ہوگیا تھا۔ تاہم یہ تو ’’گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ ‘‘کے سلسلہ میں ضمناً بات آگئی ہے اور میں نے پھر توجہ دلائی ہے حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس خیر کے حصول کی طرف بھی اُمتِ محمدیہ کو توجہ کرنی چاہیئے اور ہم جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ خادم ہیںہمیں بالخصوص اس منبع سے بھی خیر اور برکت کے حصول کی کوشش کرنی چاہئیے۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے سامنے جو صد سَالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ رکھا گیا تھا اس سلسلہ میں ایک دو باتیں میںاِس وقت کہنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک جو وعدے موصول ہوچکے ہیں ان کی رقم قریباََ چار کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے، الحمد للہ۔ تاہم ابھی ہمارے اندرونِ مُلک سے بھی بہت سے مقامات بلکہ بہت سے ضلعوں کے مجموعی وعدے بھی نہیں ملے اِس لئے کہ وعدہ کرنے اور وعدوں کو یہاں پہنچانے کی معیاد شوریٰ تک رکھی گئی ہے اور بیرون ملک جن چالیس پچاس ممالک میں احمدی بستے ہیں ان مین سے بھی میرے گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ کے بعد صرف ایک ملک کے وعدے پہنچے ہیں اور وہ بھی غالباََ پہلی قسط کے طور پر ہیں۔ گویا بیرون ملک سے بھی وعدے آنے والے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بعض بیرونی ممالک میں بھی اتنی مضبوط جماعت ہائے احمدیہ قائم ہوچکی ہیں کہ اُن کے سالانہ بجٹ تیس لاکھ روپے سے بھی زائد ہوتے ہیں یعنی صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے مجموعی بجٹ کا پچاس فیصد! غرض بڑی مضبوط اور قربانی کرنے والی جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ ان کی طرف سے بھی اس منصوبے کے وعدوں کی ابھی اطلاع نہیں آئی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دل میں اب یہ جو خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل میں اللہ تعالیٰ اس قدر برکت ڈالے کہ عملاََ نو کروڑ روپیہ جمع ہوجائے ۔ اس کے پورا کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کم از کم اتنی رقم اگلے پندرہ سولہ سال میں ضرور جمع ہوجائے گی۔ اس سکیم کے بہت سے حصے ایسے ہیں(جنہیں میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا اور) جن کی وجہ سے آمد زیادہ ہوجائے گی۔
یہ منصوبہ جس وقت میرے ذہن میں آیا تو بعض دوستوں نے بھی مشورہ دیا اور خود میرے دماغ نے بھی اسکے متعلق سوچا اور مطالعہ کیا۔ اس دوران میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض فرمان بھی میری نظروں سے گزرے۔ اس وقت یہ ایک لحاظ سے مبہم سا منصوبہ تھا کیونکہ تفاصیل تو ذہن میں نہیں تھیں اور نہ آسکتی تھیں۔ بس یہ خواہش تھی کہ نہ صرف یہ کہ صد سالہ جشن منایا جائے بلکہ جماعت احمدیہ کی زندگی میں جب دوسری صدی شروع ہو اور وہ صدی جیسا کہ میں گذشتہ خطبہ میں بتاچکاہوں۔ ’’غلبہ اسلام‘‘کی صدی ہے اسلئے اس کا استقبال کرنے اس کے کاموں کی بنیادیں رکھنے اور ان کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں اگلے پندرہ سولہ سال میں انتہائی کوشش کرنی چاہئیے۔
جلسہ سالانہ کے بعد بعض باتیں علم میں آئیں لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو اس منصوبہ کی تفاصیل انشاء اللہ مجلس مشاورت میں جماعت کے سامنے رکھوں گا اس لئے یہ منصوبہ جو ایک خاکہ کی صورت میں پیش کیا گیا تھا اسکے متعلق تفصیلی باتیں تو مجلس شوریٰ میں پیش ہونگی لیکن میں چاہتا ہوں کہ دعا کی تحریک کی غرض سے دوستوں کے سامنے جس حد تک ان باتوںکو ظاہر کرنا ممکن ہے ان کو ظاہر کردوں۔ اس وقت تک اسلام کی اشاعت میںہماری جو جدوجہد تھی اس کی شکل حقیقی طور پر بین الاقومی گروہوں کی بین الاقوامی کوشش کے خلاف نہیں تھی مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو پہلے پنجاب اور پھر سارے ہندوستان نے مخالفت کی اور لوگوں نے کوشش کی کہ اس آواز کو دبادیا جائے جس کو آسمانوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس دنیا میں مہدی معہود کے مُنہ سے بلند کروایا تھا۔ پس پہلے پنجاب میں اس آواز کو دبانے کے لئے غلبۂ اسلام کی اس جدوجہد کے راستہ میں روکیں ڈالنے کے لئے مخالفت شروع ہوئی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد سارے ہندوستان میں مخالفت شروع ہوگئی ۱۹۴۷ء تک یہی حالت رہی۔ پھر بیرون پاکستان پاکستان بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فرشتوں نے کوئی ایسی تحریک کی کہ جماعت احمدیہ کی طرف اور جماعت کے اس مقصد کی طرف جس کی خاطر مہدی معہود کی بعثت ہوئی تھی افراد کو خاندانوں کو توجہ پیداہونی شروع ہوئی اور ایسی جگہوں پر بھی جہاں ہمارے علم کے مطابق نہ کوئی مبلّغ پہنچا تھا اور نہ کتب پہنچی تھیں لیکن کسی ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچا تھا وہاں اِکا دُکّا افراد اور خاندان احمدی ہونے لگے تو ان کی تعداد تھوڑی تھی لیکن غلبۂ اسلام کی تحریک آہستہ آہستہ وسعت اختیار کرنے لگی۔ گویا غلبۂ اسلام کی وہ آواز جو قادیان سے بلند ہوئی تھی وہ ہندوستان سے باہر نکلی اوردُنیا کے اکثر ممالک میںپھیلنے لگی ۔ چنانچہ جب وہاں اِکا دکّا لوگ احمدی ہوئے تو اُن کی مخالفت بھی بڑی معمولی سی تھی یعنی جس ملک میں کوئی اِکادکّا احمدی ہوتا اس ملک کی مجموعی مخالفت سامنے نہیں آتی تھی اللہ تعالیٰ اشاعت اسلام کیلئے اپنی تدبیر کرتا ہے اس لئے ایسی مخالفت کہیں بھی اور کسی شکل میں بھی کسی ملک میں پیدا نہیں ہوئی جو ہماری کوششوں کو کسی ایک محدود دائرے میں کلیتاََ ناکام بنادے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھنے لگیں اور بعض ممالک میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری جماعتیں تعداد کے لحاظ سے وہاں کی آبادی میں دس فیصد سے زیادہ ہیں اور مالی قربانیوں کا یہ حال ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ملک کی جماعتوں کا بجٹ تیس لاکھ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اُن کی آبادی ہمارے مقابلہ میں دس فیصد ہے لیکن بجٹ ہمارے مقابلہ میں پچاس فی صد ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی دینے والی جماعتیں قائم ہوگئیں ۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو پھر ہر اس ملک میں جہاں احمدیت کو ترقی ہورہی تھی، مخالفت شروع ہوگئی تاہم مخالفت سے گھبراہٹ کبھی پیدا نہ ہوئی کیونکہ مخالفت کا پوری جدوجہد کے ساتھ مقابلہ کرنا تو ہماری زندگی کا ایک ضروری حصّہ ہے بہر حال جب ہماری اجتماعی زندگی میں توانائی پیدا ہوئی تو مخالفت میں زور پیدا ہوا اور ہونا بھی چاہیئے تھا۔ گویا ہر وہ ملک جس میںجماعتیں قائم ہوئیں وہ جماعتی کوششوں کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ مثلاً افریقہ کے بہت سے ممالک ہیں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے ترقی کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقبولیت حاصل ہوئی تو وہاں کے لوگوں نے(غیر مسلموں نے بھی اور ان مسلمانوں نے بھی جنہوں نے ابھی تک حقیقت کو نہیں پایا) مخالفت شروع کردی اور جُوں جُوں جماعت بڑھتی گئی، اس مخالفت میں شدت پیداہوتی چلی گئی لیکن مخالفانہ عنصر اسی ملک کیساتھ تعلق رکھتا تھا جس میں جماعتیں قائم تھیں یعنی ہر ملک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت مقامی نوعیت کی حامل تھی اور گذشتہ جلسہ سالانہ تک یہی حالت رہی۔ جلسہ سالانہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں صد سالہ احمدیہ جوبلی کا منصوبہ ڈالا اور اس کے متعلق بڑے زور کے ساتھ تحریک ہوئی کہ جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کردیا جائے کہ اگلے پندرہ سولہ سال بڑے اہم ہیں۔ بڑے سخت ہیں بڑی قربانیوں کے سال ہیں خود کو سنبھالنے کے سال ہیں نئی نسلوں کی از سر نو تربیت کرنے کے سال ہیں۔
چنانچہ جلسہ سالانہ پر جب صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا گیااس کے بعد بعض ایسی اطلاعات موصول ہوئیں کہ جن کو پاکر دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے چشمے پھوٹے۔ اللہ تعالیٰ علّام الغیوب ہے ہمیںعلم نہیں تھا لیکن اس کوعلم تھا۔ اس نے جماعت کو اس طرف متوجہ کردیا کہ قربانیاں دینے کیلئے تیار ہوجائو۔ اب جماعت احمدیہ کی طرف سے غلبۂ اسلام کی اس عظیم اور خداتعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہونے والی جدوجہد کی مخالفت ایک نئی شکل میں اور ایک اور رنگ میں شروع ہوئی ہے اور وہ بین الاقوامی متحدہ کوشش کی شکل میں ہے۔ پہلے ہرایک ملک اپنے ملک میں مخالفت کررہاتھا۔ یہاں بھی مخالفت تھی اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے خلاف مکّہ اور مدینہ سے کفر کے فتوے حاصل کرلئے لیکن اس کفر کے فتووں کی مہم کے نتیجہ میں جماعت میں کمزوری پیدا نہیں ہوئی جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو جس رنگ میں حاصل کیاہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بہرحال ملک ملک میں مخالفت تھی یہ کہ ممالک اکٹھے ہوکر جماعت کی متحدہ مخالفت کریں۔ اس رنگ میں جماعت کو مخالفت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا۔
میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے اسلام کو غالب کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا منصوبہ ہے یہ اتنا بڑا منصوبہ ہے (جو آسمان سے اُترا اور انسان کے کمزور ہاتھوں میں دیاگیا ہے)کہ اگر خداتعالیٰ کی رحمتوں اس کی طاقتوں اور قدرتوں اور اسکے غالب اور قہار ہونے پر توکل نہ ہوتو اس کا تخیل وتصور ہی انسان کو پاگل بنادیتا ہے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنے کا اتنا عظیم منصوبہ مہدیٔ معہود کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں دیا وہاں ہر احمدی کے دل میںاللہ تعالیٰ نے اس قدر توکل پیدا کیا کہ وہ تمام عقلی پہلوئوں کو اپنے پائوں تلے روندتے اور خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھا، ظاہر ہے کہ پہلے صوبے کی مخالفت تھی پھر ملک کی مخالفت تھی پھر ملک ملک کی مخالفت تھی، مخالفت میں ترقی ہوتی چلی گئی۔ اب ممالک کے اکٹھے ہوکر مقابلے میں آجانے کا جو منصوبہ ہے اس سے بڑھ کر اس کرہِ ارض پر اور کوئی منصوبہ تصور میں بھی نہیں لایا جاسکتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو خداتعالیٰ پر ایمان رکھتے اوراسی پر اپنا توکل رکھتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی آخری گھڑی قریب آگئی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ کیونکہ جب منصوبہ اپنی انتہا کو پہنچا تو ہمارے ہر دل نے یہ کہا ؎
نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں
(درثمین صفحہ ۵۰)
اب اس بین الاقوامی منصوبہ کے خلاف جماعت نے اسلام کو کامیاب اور غالب اور فاتح کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی جہاد کرناہے۔ اس جہاد کیلئے آپ کو تیار ہونا چاہیئے اس کی تفاصیل تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت پر توکّل کرتے ہوئے مجلس شوریٰ میں پیش کروںگا لیکن اس وقت اس مرحلے پر کہ پہلے ہمیں خدانے کہا کہ بہت بڑے پیمانے پر قربانی دینے کے لئے تیار ہوجائو اور پھر ہمارے علم میں بعد میں یہ بات آئی کہ ایک بین الاقوامی منصوبہ کئی ملکوں نے اکٹھے ہوکر بنایا ہے کہ اسلام غالب نہ ہو اس کی کوشش دونوں طرف سے ہوئی ہے جو مسلمان ہیں وہ تو اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ حقیقت کو سمجھتے نہیں اور جو غیر مسلم ہیں وہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے اسلام کو مٹانے کی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں اور اب ان کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں اُن کے مذہب پر اسلام غالب نہ آجائے اور جو دہریہ ہیں وہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اس وقت دنیا میں دہریت اور اشتراکیت کے رستے میں انہیں ایک ہی روک نظر آتی ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے۔ پس ایک بین الاقوامی متحدہ حملے کا منصوبہ بنایا گیاہے تا اسلام دنیا پر غالب نہ آئے ۔ اس بین الاقوامی منصوبہ کامقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے ’’صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ‘‘ بنایا گیا ہے جس کی رو سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ پس غیر مسلموں کی طرف سے یہ انتہائی مخالفت نشاندہی کرتی ہے اس بات کی کہ اسلام کے انتہائی غلبہ کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے نزدیک آگئے ہیں۔
ہم نے تو اڑھائی کروڑ روپے کا سوچا تھا اور اس وقت (جلسہ سالانہ پر) اپیل بھی یہی کی تھی۔ مگر ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی ۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ فنڈ اس سے بھی آگے نکلے گا۔ شاید نوکر وڑ روپے تک چلا جائے۔ لیکن اصولی طور پر جو چیز مجھے نظر آئی اور جس نے میرے دل میں حمد کے جذبات پیدا کردئیے اور میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد میں میرے ساتھ شریک ہوں وہ یہ تھی کہ یہ جو اڑھائی سے پانچ کروڑ تک اور پھر پانچ سے ۹کروڑ روپے تک جمع ہونے کی امیدپیدا ہوگئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اور پاک نیت کیساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی قربانیاں پیش کرینگے تو اسلام کے غلبہ کیلئے خدا کے نزدیک جس قدر بھی مادی ذرائع کی ضرورت پیداہوگی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عطا کئے جائیں گے اور اس کام کے لئے جس قدر دعائوں کی ضرورت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو یہ تو فیق عطا کرے گا کہ وہ دعائیں کریں تاکہ جہاں تک ہمارے امکان میںہے ہم تدبیر اور دعا کو انتہا تک پہنچا دیں اور خدا تعالیٰ کے آلہ کار بنتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کا ذریعہ بنیں اور اس کی رحمتوں کے وارث بن جائیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍مارچ ۱۹۷۴ء صفحہ۲تا۴)





’’صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جاری کرایا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍فروری۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
بارش کے موسم میں گھروں میں نماز پڑھ لینا اور جمعہ کے لئے جامع مسجد میں نہ آنا اِس کی اجازت ہمیں دی گئی ہے لیکن چونکہ میرا خیال تھا کہ بعض دوست اس اجازت سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے اور مسجد میں پہنچ جائیں گے اس لئے میں نے سمجھا کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں اور یہاں آکر سورج کی مسکراہٹوں سے لطف اندوز بھی ہو رہا ہوں۔ اگر میری طرف سے صبح اعلان کر دیا جاتا کہ نماز جمعہ کی بجائے گھروں میں دوست نمازیں پڑھ لیں تو پھر تو اور بات تھی لیکن بہرحال جیسا کہ میرا خیال تھا کافی دوست یہاں موجود ہیں۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے خشیت اللہ رکھنے والی نگاہ اُس میں امتحان اور آزمائش کا پہلو بھی دیکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے (النّمل:۴۱) تو جہاں بھی فضل نازل ہو وہاں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ جس فرد پر یا جس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا وہ فرد اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے یا وہ جماعت خدا کا شکر ادا کرتی ہے یا ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتی ہے۔ جہاں تک جماعتِ احمدیہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل نازل ہو رہے ہیں جو اُس کی قائم کردہ جماعتوں پر ہی نازل ہوتے ہیں اور دُنیا میں کہیں اور اس کی مثال ہمیں نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد اُس کی محبت اور اُس کے عشق میں مست ہو کر اُس کی راہ میں اُسی کی عطا میں سے دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں اور ہم نے دیکھا کہ اس قسم کے فضل بھی خداتعالیٰ کی قائم کردہ اِس جماعت پر بڑی کثرت سے نازل ہو رہے ہیں جو اڑھائی کروڑ روپے کا منصوبہ میں نے جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر جلسہ سالانہ کے موقع پر رکھا تھا اور میں نے اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے یہ اعلان بھی اُسی وقت کر دیا تھا کہ یہ پانچ کروڑ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ غالباً گذشتہ سے پیوستہ خطبۂ جمعہ میں مَیں نے کہا تھا کہ جماعت کا وعدہ چار کروڑ روپے کے قریب قریب پہنچ گیا ہے کل جو رپورٹ مجھے ملی ہے جس کے تیار کئے جانے کے بعد لاکھوں روپے کے وعدے مجھے ملے ہیں اور جو ابھی دفتر میں نہیں پہنچے۔جو وعدے میرے پاس آتے ہیں وہ میرے دفتر میں جاتے ہیں پھر جس دوست کو مَیں نے مقرر کیا ہوا ہے اُس کے پاس جاتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی بارہ پندرہ لاکھ کے قریب ہوں گے جو ابھی تک اس میں شامل نہیں کئے گئے۔ وعدہ بھجوانے کی آخری تاریخ میں ابھی وقت باقی ہے۔ بیرونِ ملک جماعتوں میں سے ابھی بہت سی رجسٹرڈ جماعت ہائے احمدیہ ہیں جن کی طرف سے ابھی وعدے نہیں آئے۔ خود پاکستان کے بہت سے ضلعوں سے مجموعی وعدے ابھی نہیں آئے۔ انفرادی وعدے یا جو جماعتیں مختلف ضلعوں میں ہیں ان میں سے بعض کے وعدے ابھی پہنچے ہیں۔
بیرون ملک جو جماعت ہائے احمدیہ ہیں ان کے متعلق میں نے ’’رجسٹرڈ‘‘ کا لفظ عمداً بولا ہے اس لئے کہ ہمارے بہت سے نوجوانوں بلکہ بعض بڑی عمر کے لوگوں کو بھی شاید یہ علم نہ ہو یا شاید ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر نہ ہو کہ مختلف ممالک میں جہاں جماعتیں مضبوط ہو چکی ہیں وہاں جماعتِ احمدیہ مستقل حیثیت میں ایک رجسٹرڈ جماعت ہے اور وہ صدر انجمن احمدیہ یا تحریکِ جدید انجمن احمدیہ کے اُس طرح ماتحت نہیں جس طرح وہ خلافت کے ماتحت ہیں۔ خلافت کے ماتحت تو ساری دُنیا کے مبائع احمدی ہیں کیونکہ بیعت ہی اطاعت کی ہے اور نیکیوں کی جو ترغیب دی جاتی ہے اور قربانیوں کی جو اپیل کی جاتی ہے اس میں سب اُسی طرح بشاشت کے ساتھ لبیک کہتے ہیں جس طرح کسی دوسرے ملک کے احمدی لبیک کہتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کے فضل سے) مثلاً انگلستان کا اپنا دستور ہے اور وہاں رجسٹرڈ جماعت ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ممالک اور یورپ وغیرہ میں ان کے اپنے رجسٹرڈ دستور ہیں۔ وہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ماتحت نہیں۔ ویسے صدر انجمن احمدیہ کی اس معنی میں شاخیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دُنیا کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو قائم کیا تھا لیکن اس معنی میں شاخیں نہیں ہیں کہ اُن پر پاکستان کا حکم لگنے لگ جائے۔ اُن پر انگلستان ہی کا حکم لگے گا اور جہاں تک دُنیوی احکام اور قوانین کا تعلق ہے اُن پر انگلستان کے ہی احکام اور قوانین کی پابندی فرض ہے۔جو قوانین ہیں نائجیریا کے، نائجیریا کی جماعت پر اُن کی پابندی لازمی ہے۔ غانا، سیرالیون اور گیمبیا، جرمنی، ہالینڈ اور سؤٹزر لینڈ اور ڈنمارک وغیرہ وغیرہ درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری جماعتیں مضبوط ہو گئی ہیں۔وہاں ان کا اپنا ایک دستور ہے جو وہاں اس ملک میں رجسٹرڈ ہے تو ایسی بات نہیں ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن ان پر لاگو ہوتا ہے وہ خود اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ ہر دستور میں جو بنیادی چیز ہے وہ یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی اطاعت بالمعروف ضروری ہو گی عام نگرانی تو ہے لیکن وہ اپنے فیصلے کرتے ہیں اور بڑی بشاشت سے کرتے ہیں۔ مثلاً جلسہ سالانہ پر لنڈن کے مشنری انچارج امام بشیر رفیق صاحب یہاں تھے۔ اُن کو مَیں نے پہلے بتایا تھا کہ یہ تحریک ہو رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک کروڑ کے وعدے انگلستان کی رجسٹرڈ باڈی جماعت احمدیہ کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں اور جس وقت میری طرف سے یہ اعلان ہوا اور ان کو اس کی اطلاع ملی تو جس طرح یہاں صدر انجمن احمدیہ ہے اس طرح جو ان کی مرکزی مجلس عاملہ ہے اُنہوں نے میٹنگ کی اور باہمی مشورہ کیا اور اُنہوں نے دو ایک روز کے اندر ہی تار کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع دی کہ ہمیں پتہ لگا ہے کہ آپ نے یہ تحریک کی ہے اور ہم ایک کروڑ ایک لاکھ روپے کے وعدے کرتے ہیں۔ اب وہاں سے جو اطلاعات آرہی ہیں اُن سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں جماعتوں میں قربانی کی بڑی بشاشت پیدا ہو رہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو ابتدائی اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل تھی۔ ہم کوشش کریں گے کہ وہ اڑھائی کروڑ روپیہ جماعت ہائے احمدیہ انگلستان دے دیں۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں اور اس کی اطلاع انشاء اللہ مشاورت تک مجھے امید ہے آجائے گی (یہ وعدے عملاً ۱۲ ۲ کروڑ سے اوپر نکل چکے ہیں) کیونکہ اُنہوں نے اس سلسلہ میں پہلی میٹنگ جو لندن میں کی اُس میں صرف ۱۵۸ احمدی شامل ہو سکے تھے۔ وہاں تو کئی ہزار احمدی ہیں میرے خیال میں اس وقت انگلستان میں شاید دس پندرہ ہزار سے زیادہ احمدی ہو گا۔ اس میٹنگ میں ۱۵۸ احمدی تھے اس میں دو لاکھ پائونڈ سے اوپر یعنی ۵۰ لاکھ روپے کے وعدے ہو گئے تھے اُنہوں نے چار لاکھ پائونڈ کا وعدہ کیا ہے(ساڑھے تین لاکھ پائونڈ جمع چوہدری ظفراللہ خان صاحب کا ۵۰ ہزار پائونڈ کا وعدہ جو اب اُنہوں نے بڑھا کر ایک لاکھ پائونڈ کر دیا ہے) ممکن ہے اس سے زیادہ وہاں کی جماعت دیدے۔ (وعدے ۱۲ ۲ کروڑ سے اوپر نکل چکے ہیں)
بہرحال رجسٹرڈ مَیں نے اس لئے کہا کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی دوستوں کو چونکہ علم نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے صدر انجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن چلا جاتا ہے جس کی پابندی ان کو کرنی پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی ایک رجسٹرڈ انجمن ہے اور وہ صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت نہیں بلکہ خلیفۂ وقت کے ماتحت ہے اُسی معنی میں جس معنی میں کہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان خلیفۂ وقت کے ماتحت ہے اس موضوع پر مَیں کسی وقت تفصیل سے بات کروں گا لیکن سر دست چند فقروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو روحانی سلسلۂ خلافت اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مہدی معہود کی بعثت کے بعد جاری ہوا یہ سلسلہ خلافت دُنیا کو اُمتِ واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے اور اس سلسلہ کا کوئی خلیفہ کبھی بھی کسی علاقے کا حاکم وقت اور بادشاہ وقت نہیں بنے گا اور دُنیا کی سیاست میں خلیفۂ وقت نہیں آئے گا کیونکہ ہر ملک کی اپنی سیاست ہے اور ہر ملک کے باشندوں کے ساتھ امام وقت اور خلیفہ وقت نے پیار کرنا اُن کی ہدایت کے لئے دُعائیں کرنا ان کو مشورے دینا ان کو اپنے وجودِ روحانی کا ایک جزو بنانے کی کوشش کرنا ہے تاکہ سب مل کر ایک وجود بن جائیں۔ جیسا کہ مَیں دُنیا کے سامنے کچھ عرصہ سے اس بات کو پیش کر رہا ہوں کہ میرا(مرزا ناصر احمد نہیں بلکہ خلیفۃ المسیح الثالث کا) اور جماعت احمدیہ کا ایک ہی وجود ہے۔ ان دو میں کوئی فرق نہیں تو جو اس وقت حالات ہیں اور جو کام مہدیٔ معہود کے سپرد ہیں ان کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی خلافت سیاست میں کبھی ملوث نہیں ہو گی کیونکہ اس صورت میں خلافت وہ فرائض سر انجام نہیں دے سکتی جو بحیثیت نائب مہدی علیہ السلام اُس کے سپرد کئے گئے ہیں لیکن نیکیوں کی تحریک کرنا اور جماعت میں بشاشت پیدا کرنا یہ خلیفۂ وقت پر ایک بھاری ذمہ داریاں ہے کہ وہ قربانیاں بھی لے اور بشاشت کو بھی قائم رکھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کرتا ہے اور بندہ تو کمزور ہے اور سب سے زیادہ کمزور تو خلیفہ وقت ہے کیونکہ ساری ذمہ داری اُس کے کندھوں پر ڈال دی گئیں وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے لیکن ذمہ داریاں تو دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی کام کرتا ہے۔ تو خداتعالیٰ نے اُس کو جن کاموں کے کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اُس کی اسے طاقت بھی دیتا ہے یا فرشتوں کو کہتا ہے کہ جاؤ اس کے کام کر دو۔
جماعت احمدیہ ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے نہ کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا تھا نہ کبھی مرکز میں آئے تھے غلبۂ اسلام کے ساتھ ان کا عشق آپ سے کم نہیں۔میں ۱۹۷۰ء میںمغربی افریقہ میں گیا اور بلا مبالغہ میں کہتا ہوں کہ جتنا پیار اور محبت جماعت احمدیہ کے ساتھ اور مہدی معہود کے ساتھ اور جتنا پیار اور محبت جماعت میں مہدیٔ معہود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیدا کیا وہ آپ لوگوں کو حاصل پیار سے کم نہیں بلکہ جو آپ میں چوٹی کا ایک گروہ ہے اُس کے پہلو بہ پہلو وہ لوگ کھڑے ہیں اور ان کے خلوص اور محبت کو دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔ پس یہ سب کام تو فرشتے ہی کرتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک جو وعدے یہاں پہنچے ہیں وہ ۰۰۰,۳۰۰,۲,۴(چار کروڑ تئیس لاکھ) سے زیادہ ہیں اور اس میں پچھلے دو تین دن کے ایسے وعدے جو میرے دفتر میں پڑے ہیں یا کچھ ڈاک کے تھیلے جو میرے گھر میں پڑے ہیں وہ شامل نہیں ہیں میرا خیال ہے کہ وہ ملا کر یہ رقم ۴ کروڑ ۳۰ لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔پتہ نہیں کیوں نو کروڑ کے اعدادوشمار میرے ذہن میں آتے ہیں کہ وہاںتک پہنچ جائیں گے۔ انشاء اللہ
اخلاص کچھ وضاحتیں بھی طلب کرتا ہے جتنا کوئی مخلص ہو اتنا ہی وہ ڈرتا بھی ہے تو اُن میں سے بعض وضاحتیں اس وقت میں کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میری عمر اس وقت ۷۷ سال ہے اور وعدوں کی ادائیگی کا پھیلاؤ پندرہ سال سے کچھ زائد عرصہ پر ہے تو بظاہر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اتنا لمبا عرصہ میں زندہ رہوں ویسے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور عمر دے تو اور بات ہے لیکن ستتر سال میں پندرہ جمع کریں تو ۹۲ سال ہوتے ہیں لیکن اس ملک میں تو ۷۰ یا اسّی سال بڑی عمر سمجھی جاتی ہے تو اُنہوں نے یہ سوال کیا کہ اگر مَیں پندرہ سال کا وعدہ کروں اور میری وفات ہو جائے تو کیا مجھے گناہ ہو گا؟ یا میری وفات کے بعد وعدہ کی وہ ذمہ داری میری اولاد پر پڑ گئی اور اس نے غفلت برتی تو کیا اس پر گناہ ہو گا حالانکہ اولاد نے تو وعدہ نہیں کیا ہو گا۔ وعدہ تو اُنہوں نے اپنا کیا ہے؟ پس ایک تو مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک زندگی اور موت کا سوال ہے پانچ سالہ بچہ بلکہ ایک دن کے بچے سے بھی موت اتنی ہی قریب ہے جتنی ۷۷ سال کے بوڑھے سے قریب ہے۔ زندگی اور موت ہمارے اختیار میں نہیں اس لئے عام طور پر ہم اخلاص کی وجہ سے یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور اتنی زندگی مل جائے گی لیکن کوئی شخص یقین نہیں رکھتا۔ ایک پَل کا یقین نہیں ہوتا تو پندرہ سال تو بے شمار پَلوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن بعض ۹۰ یا ۹۵ سال کی عمر کے ہیں یا بعض ایسے مریض ہیں مثلاً ایک سِل کا مریض ہے۔ یہ بیماری ایسی ہے کہ وہ بظاہر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا باقی اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے اُس کی قدرتوں میں تو کمی نہیں ہے لیکن بظاہر حالات خداتعالیٰ کا جو قانون چلتا ہے وہ ڈاکٹروں کے نزدیک یہی ہے کہ ایک سِل کے مریض کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ چالیس سال تیری عمر ہے کئی لوگوں کی عمر ڈاکٹروں کے کہنے کے خلاف اس سے بڑھ بھی جاتی ہے یا پھر کینسر کا مریض ہے۔ یہ حالات استثنائی حالات ہیں ان صورتوں میں کہ مثلاً کینسر کا مریض ہے یا مثلاً اسّی سال عمر کا ہے اس صورت میں ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ وعدہ کرے کہ مَیں اپنی آمد کے لحاظ سے سولہ سال کا یہ وعدہ کرتا ہوں اور میں یہ وضاحت دیتا ہوں کہ اگر کوئی دوست فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی اولاد پر ذمہ داری نہیں پڑتی۔ دوسرے یہ کہ اگر وہ فوت ہو جاتے ہیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ (البقرۃ:۲۸۷) لیکن جو مخلص دِل ہے میرے نزدیک ایک مخلص دِل کو یہ کرنا چاہیئے کہ ہر سال کا یہ طوعی چندہ جو صد سالہ جوبلی فنڈ کا ہے وہ سال کے ابتداء میں ادا کر دے گا کیونکہ وہ اس سال میں داخل ہو گیا جس کا کچھ حصہ اس نے زندگی کے دن گذارے۔ اگر وہ سال کے بیچ میں فوت ہو جائے یا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ اتنا میں دینا چاہتا ہوں مثلاً ایک شخص ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حالات ایسے ہیں کہ میں سو روپیہ سالانہ دے سکتا ہوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سولہ سال کا چندہ (یونٹ تو سولہ سال ہے اگرچہ سولہ سال پورے تو نہیں پندرہ ہیں) مَیں سولہ سو روپیہ دے سکتا ہوں اور نیت میری یہی ہے لیکن میں وعدہ پہلے دو سال کے یونٹ کا کرتا ہوں۔ دو سو روپیہ میں اب دوں گا اور ہر سال میں وعدہ کی تاریخ کے لحاظ سے یکم تاریخ کو وعدہ کروں گا اور ادائیگی کرتا چلا جاؤں گا۔ یہ بھی ایک شکل ہے ویسے یوں ہونا چاہیئے کہ جس میں جتنی ہمت ہے آج وہ ادا کرے جو بڑی عمر کے ہیں یا سخت بیمار ہیں وہ اپنا وعدہ کریں اور سال کے شروع میں ادا کردیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ سولہ سال کی ادائیگی کا ہی ثواب دیدیگا کیونکہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیّاتِ۔ (صحیح بخاری کتابُ بَدء الْوَحْیِ) اور جو نیّت ہے اس نیت کا اخلاص انسان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس بات کا مستحق قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی رحمت کا دروازہ ایسے شخص پر کھولے(سوائے اس کے کہ کوئی اور مصلحت خداتعالیٰ کے نزدیک ہو) اور اُسے ثواب اتنا دیدے جتنی اُس کی نیت ہے۔ پس سولہ سال کی نیت کرو اور آگے ادائیگی جس شکل میں بھی کرو ثواب تمہیں مل جائے گا۔ گناہ نہ تمہیں ہو گا نہ تمہارے وارثوں کو۔
ایک اور شکل سامنے آئی وہ یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص ہے وہ بڑا ذہین ہے اس نے بڑی ترقی کی اور ملازمت کے سلسلہ میں وہ آگے نکلا۔ دو تین ہزار روپے ماہوار اس کی تنخواہ تھی۔ یکدم اُس کو موقع مل گیا کہ وہ ورلڈ بینک یا یو این او (U.N.O) یا اس قسم کی جو بین الاقوامی تنظیمیں ہیں ان میں سے کسی میں چلا گیا ایسی تنظیمیں بہت پیسے دیتی ہیں پیسے تو وہ بہت دیتی ہیں لیکن ان کا معاہدہ ایک وقت میں دو سال کا ہوتا ہے۔ ایسے بھی متعدد آدمی ہیں میرے خیال میں ایک درجن سے زیادہ ہوں گے جو ان بین الاقوامی تنظیموں میں ہیں۔ ان کو بہت پیسے مل رہے ہیں ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم کس طرح اندازہ لگائیں اور اپنے وعدہ کی بنیاد کس آمدنی پر رکھیں اس وقت تو دو سال کے لئے ہمیں پچاس ہزار روپیہ ماہوار مل رہا ہے اور دو سال کے بعد ہمیں تین ہزار روپیہ ماہوار ملے گا۔ تو ہم اپنے وعدہ کی بنیاد پچاس ہزار روپے مہینہ پر رکھیں یا تین ہزار روپیہ ماہوار آمد پر رکھیں جس نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا اس کو مَیں نے یہی سمجھایا تھا کہ آپ وعدہ کر دیں پچاس ہزار روپے کی بنیاد پر اور پچاس ہزار میں سے تین ہزار روپیہ ماہوار دینے کا وعدہ کر دیں اور دو سال کے بعد آپ کو تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملنے لگے وہ آپ اِدھر دے دیں اور گھر میں گزارے کیلئے کچھ نہ ہو اور خدا آپ کو یہ کہے کہ سارے کے سارے پیسے دے دو۔ یہ بات تو نہیں ہے پس تم پہلے کہہ دو کہ حالات کے مدنظر دو سالوں میں مَیں اتنا دوں گا اور اس کے بعد جو نئے حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق میں رقم کی تعیین کر دوں گا۔ یا تین ہزار جو عام آمد ہے اُس کے مطابق یہ وعدہ کرو اور ساتھ یہ کہو کہ جن سالوں میں میری آمد بڑھ جائے گی اُسی نسبت سے جو آمد اور اس موجودہ وعدہ کی ہے مَیں اپنا وعدہ بڑھا دوں گا یااس نسبت میں کمی یا زیادتی کر دوں گا یہ کوئی ایسی تکلیف نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔
اِس ضمن میں اس سے ملتی جُلتی شکل یہ سامنے آتی ہے کہ ایک آدمی تین چار ہزار روپے تنخواہ پا رہا ہے اور دو سال یا پانچ سال بعد اُس نے ریٹائرڈ ہو جانا ہے پھر تو اُسے پنشن ملے گی۔ یہ سارے حالات سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی نیت میں اخلاص پیدا کریں تو قطعاً آپ کو کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ اپنے بدلے ہوئے حالات کے مطابق خداتعالیٰ کی راہ میں قربانی دیتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے آپ کے لئے کھلتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
قرآن کریم نے خَیْر کے مقابلہ میں بڑی خیر کا وعدہ دیا ہے اور بعض جگہ تو کہہ دیا کہ اتنے گُنا زیادہ ثواب ملے گا اور بعـض جگہ حد نہیں مقرر کی اور صرف یہ کہا کہ اس سے زیادہ ثواب ملے گا۔ اب زیادہ جو ہے وہ ۵۰ فیصد بھی زیادہ ہے اور پچاس کروڑ فی صد بھی زیادہ ہے یعنی ایک نیکی کے مقابلہ میں پچاس لاکھ گُنا ثواب بھی’’زیادہ‘‘ ہے اللہ تعالیٰ نے بڑی اُمید دلائی ہے اور بڑا توکل دِل میں پیدا کیا ہے اور بڑی بشاشت دل میں پیدا کی ہے۔ اصل میں تصور یہ ہمیں دیا گیا کہ انسان کی قربانی کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا کی کوئی حد بست ہی نہیں ہے۔
اخلاص پیدا کرتے چلے جاؤ اور اُس کی رحمتوں سے حصہ لیتے چلے جاؤ۔ پس اس قسم کی تفصیل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ خلوصِ نیت کے ساتھ جو حالات ہیں لکھ دو یا اس کے مطابق نیت کر لو۔ اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اور اجر دے گا۔ اس کی رحمتوں کے دروازے ُکھلیں گے۔ بہرحال چار کروڑ تئیس لاکھ تک ہم پہنچ چکے ہیں ابھی کچھ وقت باقی ہے اور ابھی بہت سے علاقے بھی باقی ہیں جن سے وعدہ جات آنے ہیں۔ مثلاً ایک ضلع کا مجھے علم ہے وہ کہتے ہیں ہم بیس لاکھ سے آگے نکلیں گے اور ابھی تک میرا خیال ہے سات آٹھ لاکھ سے زیادہ بحیثیت مجموعی اس ضلع کے وعدے نہیں ہوئے جو ہم تک پہنچے ہیں یہ کام تو بشاشت سے ہونے والے ہیں اور ہوں گے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ایک منصوبہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے عاجز بندوں کے ذریعہ جاری کر دیا اور پھر وہ باتیں سامنے آگئیں جو اس منصوبہ کی متقاضی تھیں اور دل میں یہ یقین پیدا ہوا کہ جس بالا ہستی نے، قادر و توانا نے، جس کے علم میں ضرورت تھی اُس نے ہمارے دماغ میں صرف منصوبہ ڈال دیا بعد میں کہا یہ ضرورت ہے جس پر ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرورت پوری ہو گی یعنی ہماری یہ جدوجہد کامیاب ہو گی اور ساری دُنیا اکٹھی ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کی کوشش کرے تو خود ناکام ہو جائے گی خداتعالیٰ کا منصوبہ ناکام نہیں ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا۔ رضینا باللّٰہ ربًا وبمحمّدٍ رسولًا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا۵)










اللہ تعالیٰ کی عظمت کی معرفت اور جلال کا عرفان
بدرجہ کمال موجود سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہوتا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد دارالذکر لاہور۔ غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ایک لمبے عرصہ کے بعد میں یہاں آیا ہوں اور اب میری نظر میں یہ مسجد بہت چھوٹی لگتی ہے۔ شاید اسے اور بڑھانے کی ضرورت پڑ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی تعداد میں بھی اور جماعت کے اموال میں بھی اور جماعت کی کوششوں میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ برکتیں ڈال رہا ہے۔ الحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔ آپ کے اس فقرہ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ فطرت اور وہ سرشت جس میں ناکامی کا خمیر نہ ہو‘ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق کن صلاحیتوں کی مالک ہونی چاہیئے یعنی جب حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے تو جماعت کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کون سی صلاحیتیں ہیں جو ہمیں اپنانی چاہئیں جس کے بعدناکامی کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔ جب ہم اس بارے میں غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ صرف اسی فطرت اور سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہوتا جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی معرفت اور اس کے جلال کا عرفان بدرجہ کمال موجود ہوتاہے۔ وہ ایک ایسی فطرت ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی محبت پائی جاتی ہے جس کے سامنے دُنیا کی ساری محبتیں ہیچ ہیں۔ پس جس شخص کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا احساس اور اس کی ذاتی محبت پائی جاتی ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوا کرتی اور اللہ تعالیٰ کی یہی عظمت اور یہی جلال ہے جس کی معرفت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس جماعت کا ایک خاصہ ہے اور جو اُمت محمدیہ ہی کا ایک حصہ ہے اور اس آخری زمانہ میں پیدا ہو کر اور مہدی معہود کے گِرد جمع ہو کر ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے پر مامور ہے۔
پس اگر کسی فطرت یا کسی جماعت کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا احساس پیدا ہو جائے تو اس کا ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی اور کا خوف نہیں رہتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔ میرے سوا کسی اورسے مت ڈرو۔ پس ایک ایسا فرد، ایسی فطرت اور ایسی جماعت جس کی یہ سرشت ہو جس کی یہ طبیعت ہو اور جس کی یہ فطرت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں پا ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کا سارا وجود خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات میں گم ہو جاتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں دُنیا کی ہر چیز ہیچ ہوتی ہے وہ ہر چیز کو لاشئی محض سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے جس دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ہو گی اگر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف اور اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دُنیا کی ساری طاقتیں(دینی بھی اور مادی بھی)اکٹھی ہو جائیں اور وہ شخص اکیلا ہو تب بھی وہ یہ کہے گا ’’الجَمْعُ‘‘ تو ہے مگر سَیَھْزَمُ چنانچہ اس وقت دُنیا یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ ساری دُنیا خداتعالیٰ کے منصوبہ کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی دُنیا یہ نظارہ بھی دیکھے گی کہ ساری طاقتیں جمع ہو کر ساری دولتیں اکٹھی ہو کر اور باہم منصوبے بنا کر بھی خداتعالیٰ کی منشاء کے خلاف کامیاب نہیں ہوں گی۔دُنیا یہ بھی دیکھے گی کہ جس دل میں اللہ تعالیٰ کی خالص ذاتی محبت پائی جاتی ہے اور وہ شخص یا وہ جماعت جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہر خیر کا منبع سمجھتی ہے اورکسی بھلائی کے لئے اللہ کے سوا کسی اور طرف توجہ نہیں کرتی(کسی اور میں اس کا اپنا نفس بھی شامل ہوتا ہے) وہ کبھی ناکام نہیں ہوتی۔
غرض خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا دل میں پیدا ہو جانا اور اس سے پیار کا اتنا بڑھ جانا کہ خود اپنے نفس کو بھی کوئی چیز نہ سمجھنا اور دُنیا کی طاقتوں کو خیر کا منبع تسلیم نہ کرنا۔ یہ وہ صلاحیتیں ہیں، یہ وہ اخلاق ہیں اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی موجودگی میں انسانی فطرت ناکام نہیں ہوا کرتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے یہی حالت آپ کی جماعت کی ہے جو آپ کے نقش قدم پرغلبہ اسلام کے لئے کوشاں ہے۔ تاہم غلبہ اسلام کا منصوبہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کی تکمیل خداتعالیٰ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈال دی ہے۔ ظاہر ہے ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس وقت آدھی سے زیادہ دُنیا خدا کی منکر ہو چکی ہے۔ آدھی سے کچھ کم دُنیا بظاہر مذہب کا نام لیتی ہے مگر درحقیقت مذہب کی روح سے نا آشنا ہے۔ وہ یہ جانتی ہی نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے۔وہ مذہب اور وہ شریعت اور وہ ہدایت جو خدا کے عاجز بندوں کو خدا تک پہنچاتی ہے وہ صرف اسلامی شریعت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے بھی کتنے ہیں جو اسلام کی شان اور قرآن کریم کی عظمت کی معرفت رکھتے ہیں۔ یہ شرف صرف ایک چھوٹی سی جماعت کو حاصل ہے کہ جو اگرچہ دُنیا کی دھتکاری ہوئی ہے۔ جس کی دُنیا کی نگاہ میں کوئی عزت نہیں جس کے خزانوں میں دُنیا کی دولتیں نہیں جس کے پاس سونا اور جواہرات نہیں جس کے پاس سونا اگلنے والی زمینیں نہیں لیکن پھر بھی اس یقین پر قائم ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے اور انسان کو زندہ خدا کی طرف واپس لے جانے کی جو کوشش اور جدوجہد ہو رہی ہے اس میں بالآخر یہی جماعت کامیاب ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ’’میرے درختِ وجود کی شاخو‘‘ کہہ کر جماعت کو مخاطب فرمایا ہے۔ اس لحاظ سے جماعت احمدیہ گویا حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درختِ وجود کی مختلف شاخیں ہیں۔ اصل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔ یہ آپ ہی کا درخت ہے جو قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا لیکن’’نئی شاخیں‘‘ نئے تنے بنیں گی اور ’’نئے تنے‘‘ نئی شاخیں نکالیں گے۔ بہرحال اس وقت حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہر ہو گئے اور وہ وجود آگیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سلامتی اور حفاظت میں ہے۔ خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ آخری زمانہ میں خدا کا دین غالب آئے گا۔
جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس فیصلہ کا نفاذ اور اس منصوبے کی تکمیل زمین پر شروع ہو چکی ہے۔ گو اس وقت یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور بے اثر ہے سیاسی لحاظ سے اور بے ہنر ہے علم کے لحاظ سے لیکن یہ ایک ایسی جماعت ہے جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا عرفان رکھتی ہے۔ خدا کو سب قدرتوں کا مالک سمجھتی ہے اس کے بغیر کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں رکھتی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر خدا کی عظمت اور جلال کے مقابلے میں ساری دُنیا کی طاقتیں بھی اکٹھی ہو کر آجائیں تب بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے اتنا پیار رکھتی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ اتنا عشق ہے کہ وہ اپنے نفس کو بھی بھول چکی ہے۔ وہ اُن عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے جن کے اختیار کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ وہ کبر و غرور‘ اور تکبر و ریا میں ملّوث نہیں ہوتی۔ اشاعتِ اسلام کو جو تھوڑا بہت کام کرتی ہے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسی کی توفیق سے یہ صورت پیدا ہوئی ورنہ اتنا سا کام کرنے کے بھی قابل نہ تھے۔
پس اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے جلوے دیکھنے والی یہ جماعت اپنے سروں کو ہمیشہ زمین کی طرف جھکائے رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ اپنے نفس کو بھی کچھ نہیں سمجھتی اور ہر خیر اور بھلائی، اور تمام نیکیوں اور کامیابیوں کا سرچشمہ صرف خدائے قادروتوانا کی ذات کو سمجھتی ہے اور اسی کی محبت میں غرق رہتی ہے اور خداتعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتی ہے اور ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے اور یہی اس کی اجتماعی سرشت ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے اس لئے کہ ایک طرف ہم خدا کی عظمت اور جلال کو پہچانتے ہیں اور دوسری طرف ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمارے نفسوں میں اپنے طور پر کوئی نیکی اور بھلائی یا کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے بلکہ ہم ہر خیر خداتعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں اس لئے ہمارے دلوں میں کوئی فخر نہیں پیدا ہوتا۔ ہمارے سر اونچے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ خدا کے حضور جھکے رہتے ہیں ہم بندوں کی خدمت میں مگن ہیں ہم اس اصول کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ادا ہونے چاہئیں۔ اسلام نے اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے مگر اسے مسلم دُنیا بھول چکی ہے یا اگر بھولی نہیں تو بھی اسلام کا صرف ایک دھندلا سا تصور باقی رہ گیا ہے حالانکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے مسلمانوں پر فرض عاید کیا گیا ہے کہ اُن کا کتنا بھی شدید دُشمن کیوں نہ ہو اس کے وہ حقوق جو خداتعالیٰ نے قائم کئے ہیں وہ اُسے ملنے چاہئیں اور کبھی یہ جرأت نہیں کرنی چاہیئے کہ کوئی بندہ اللہ کے بندوں کو اُن کے حقوق سے محروم کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی حسین اور پیارا معاشرہ ہے جس کے نمونے ہماری تاریخ میں بھی پائے جاتے ہیں اور ہم سے پہلے مسلمان بزرگوں کی زندگیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
پس کتنا امن پیدا ہو سکتا ہے اگر ہم اس اصول کو اپنا کر اسے معاشرہ میں جاری کر دیں۔ جو حق خدا نے قائم فرمایا ہے اس سے دشمن سے دشمن آدمی کو بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی رو سے آدمی کا جو حق قائم کیا گیا ہے وہ بڑا عظیم ہے۔ خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص خواہ وہ تمہارا دشمن ہے یا دوست، تمہار ا عزیز رشتہ دار ہے یا کوئی دوسرا جسے تم پہچانتے بھی نہیں، غرض ہر فردِ واحد کا تم پریہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نفس میں اور اس کے ماحول میں جو قوتیں اور استعدادیں پیدا کی ہیں اُن کی کامل نشوونما ہونی چاہیئے۔ تمہارا یہ فرض ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ تمہارے ساتھ اس کے ذاتی تعلقات کیسے ہیں تم یہ دیکھو کہ اُس کا حق اُسے ملتا ہے یا نہیں، اس کی تمام خدا داد صلاحیتوں کی کامل نشوونما ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہو رہی تو نشوونما … ؟
یہ ایک حسین تعلیم ہے۔ جس کا تصور شاید کہیں کھوکھلے طریقہ پر الفاظ میں ظاہر ہوا ہو تو ہوا ہو عملاً کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ یہ شرف صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اسلامی تعلیم پر مسلمانوں نے مجموعی طور پر نشأۃ اولیٰ میں عمل کیا پھر بعد میں آنے والے مختلف لوگوں یا گروہوں نے مختلف اوقات میں اور مختلف زمانوں او رمختلف علاقوں میں اس پر عمل کیا اور اب پھر امت محمدیہ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اسلام دُنیا میں غالب ہو گا اور ایک حسین معاشرہ قائم ہو گا جس میں ہر انسان کو اس کے حقوق ملیں گے۔ کوئی شخص انسانی حقوق کو غصب کرنے کی جرأت نہیں کرے گا تاہم اس کے لئے ہمیں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے نفس کو ایک مردہ کیڑے سے بھی ہیچ سمجھنا لازمی ہے۔
پس اگرچہ قرآن کریم نے کامیابی کی اور بہت سی راہیں بھی بتائی ہیں لیکن اس وقت میں چونکہ لمبا خطبہ دینا نہیں چاہتا کیونکہ آٹھ نو دنوں سے پیچش کا مریض ہوں اور اس کی وجہ سے کمزوری بھی ہے اس لئے مَیں مجموعی طور پر جماعت احمدیہ میں پائی جانے والی ان دو صفات کے اظہار پر اکتفا کروں گا۔مَیں نے یہ بتایا ہے کہ جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال پیدا ہو جاتا ہے اور پھر انتہائی طور پر عجز کا احساس اور قربانی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد انسان ناکام نہیں ہوا کرتا۔
ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر خشیۃ اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گذشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے سامنے ایک منصوبہ رکھا تھا۔ میںنے اس منصوبے کے اعلان سے پہلے بڑا غور کیا۔ بہت دعائیں کیں۔ دوستوں سے مشورے کئے اور مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سلسلہ میں میری طرف سے صرف اڑھائی کروڑ روپے کی مالی تحریک ہونی چاہئیے۔ تاہم میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اس لئے یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی وہ چنانچہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میں نے اس منصوبہ کا اعلان کیا تو (میں نے اس کا ایک خاکہ بیان کیا تھا اس کی تفصیل میں انشاء اللہ مجلس مشاورت پر بتاؤں گا) ساتھ ہی میں نے یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اُمید ہے کہ یہ رقم اڑھائی کروڑ سے بڑھ کر پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس منصوبہ کے لئے وعدوں کی رقم پانچ کروڑ سے اوپر نکل چکی ہے۔ فالحمد لِلّٰہ علٰی ذٰلک۔ اور اب میرا یہ خیال ہے کہ یہ رقم نو کروڑ روپے بلکہ شاید اس سے بھی آگے نکل جائے گی۔ میں نے اپنے ایک پچھلے خطبہ میں نام لے کر بتایا تھا کہ ۵۱ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے وعدے نہیں ملے۔ ان میں سے اب تک صرف ۱۱ ملکوں کے وعدے ملے ہیں۔ پھر ابھی اندرون ملک کی بہت سی جماعتوں کے وعدے موصول نہیں ہوئے کیونکہ میں نے مشاورت تک وعدہ جات کی وصولی کی میعاد مقرر کر رکھی ہے اور ابھی مشاورت میں کئی دن باقی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ نسلیں جو موج در موج احمدیت میں داخل ہوں گی یا ہمارے بچے اور نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کر اگلے پندرہ سال میں کمانے والی دُنیا میں داخل ہوں گے وہ تو ابھی اس منصوبہ میں شامل نہیں ہوئے۔ اُن کا تو ہمیں بھی پتہ نہیں اور اُن بچوں کو بھی پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اقتصادی رحمتیں بھی اُن پر نازل کرے گا۔ پس ابھی تو وقت ہے کئی اور لوگوں کی طرف سے اپنے اپنے وقت پر وعدے آئیں گے اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں گے اور اس کی طرح تو شاید یہ رقم ۹ کروڑ روپے سے بھی بڑھ جائے گی۔ ویسے اصولاً ہمارا یہ تجربہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جائے اور انسان نہایت عاجزی اور تضرع کے ساتھ صرف خدا کے حضور جھک جائے اور بغیر ریا کے اور بغیر فخر کے دعاؤں میں لگ جائے تو خدا تعالیٰ اسے کسی چیز سے محروم نہیں رکھتا۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جس اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنی اس محبوب جماعت کو مادی ذرائع سے نوازتا ہے۔ جس قدر ضرورت پڑتی ہے اتنا مال عطا کر دیتا ہے۔ اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ایک دھیلا بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ملا۔
جماعت کو بڑا محتاط رہنا چاہیئے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے اموال کی حفاظت بھی کرنی چاہیئے اور بڑی احتیاط سے اُن کا خرچ بھی کرنا چاہیئے۔ بہرحال میں بتا یہ رہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اس صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل کے دوران کسی ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں اشاعتِ اسلام ہم سے بیس کروڑ روپے کی قربانی کا مطالبہ کرے تو اللہ تعالیٰ بیس کروڑ کے بھی سامان پیدا کر دے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
بہرحال ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں کہ وہ جو ایک دل کی آواز تھی اور جس کے متعلق مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ میں اس کا مطالبہ نہ کروں لیکن اس کا اظہار کر دوں۔ آج خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے (اپنی گردنیں اوپر نہ اُٹھانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا) اور محض اپنی رحمت سے اور محض اپنی برکت سے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ تحریک کی گئی تھی اڑھائی کروڑ روپے کی اور خواہش دل میں پیدا کی گئی تھی پانچ کروڑ روپے کی۔ چنانچہ اس وقت تک پانچ کروڑ تین لاکھ سے بھی اوپر کے وعدے مل چکے ہیں اور ابھی ڈاک کے ذریعہ روزانہ وعدے موصول ہو رہے ہیں۔
پس میری تو یہ دُعا ہے اور ہر احمدی کی یہ دُعا ہونی چاہیئے کہ اے خدا! تو نے ہی اپنے قادرانہ تصرف سے غلبۂ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے۔ اب اس غرض کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہو۔ مادی ذرائع ہوں یا غیر مادی ذرائع ہوں اے خدا! تو اپنے فضل سے ان کے حصول کے سامان پیدا کر دے اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم تیری منشاء کے مطابق اسلام کو ساری دُنیا پر غالب کر دیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیار بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کر دیں۔ ہم نے ایک عظیم منصوبہ کی ابتدا کی ہے۔ اے خدا! تو اپنے فضل سے اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے جو سامان درکار ہیں وہ ہمیں مہیا فرما۔ ہم نہ تو غیب کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہماری نگاہیں اس دُنیا کی زندگی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتی ہیں۔ ہماری تو کوتاہ نگاہیں ہیں لیکن اے ہمارے رب! تو علام الغیوب ہے۔ تیری نظر سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ تو اپنی متصرفانہ قدرتوں سے ایسے تغیرات رونما فرما جو غلبہ اسلام کے لئے ضروری ہیں۔ اسلام کا عالمگیر غلبہ ہماری زندگی کا منتہائے مقصود ہے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی کی بچہ ہو یا جوان، چھوٹا ہو یا بڑا‘ مرد ہو یا عورت یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غلبۂ اسلام کو دیکھ لے۔ اسی صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کو لے لیں جو ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ایک نمایاں کام ہے۔ اس سلسلہ میں مجھے روزانہ بیسیوں ایسے خطوط ملتے ہیں جو ۷۰۔۷۵ بلکہ۸۰ سال کے احمدی دوستوں کے ہوتے ہیں اور وہ بھی اس منصوبہ میں بڑی گرم جوشی سے حصہ لے رہے ہیں اور باوجود بڑی عمر کے اُن کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی نگاہوں سے یہ نظارہ دیکھ لیں۔
پس ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو پتہ نہیں کتنے مال کی ضرورت ہے اور کتنے سامان کی ضرورت ہے۔ ہماری تو یہ خواہش ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلام غالب آئے اور ہم اپنی آنکھوں سے بنی نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے دیکھ لیں۔
غرض دوست یہ دعائیں کریں عاجزی کے ساتھ اور تضرع کے ساتھ اور خدا کا شکر ادا کریں اور اس کی حمد کے گیت گائیں کہ تمہارے اندر نیکی کی جو بھی خواہش پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیج کر اُسے پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)
ہماری دلی خواہش ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید اور
رسول اکرم ﷺ کی عظمت دنیا میں قائم ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵؍مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی:-
(الرّوم:۶۱)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے صدسالہ جوبلی فنڈ کے وعدے چھ کروڑ سے اُوپر نکل گئے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔
جلسہ سالانہ پرمَیں نے اڑھائی کروڑ کی اپیل کی تھی جو وعدے بیرون پاکستان سے مل رہے ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ بیرون پاکستان کے وعدے بھی تین کروڑ سے اُوپر پہنچ جائیں گے اِنْشَائَ اللّٰہُ۔ اس وقت بھی دو کروڑ بیس لاکھ کے وعدے بیرون ملک سے پہنچ چکے ہیں اور مجھے علم ہے کہ پچاس لاکھ کے وعدے اس کے علاوہ بھی دو ایک ہفتوں میں پہنچ رہے ہیں لیکن ہمیں بہت سے بیرونی مقامات کے وعدہ جات کا علم نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ تین کروڑ کے لگ بھگ شاید تین کروڑ سے اُوپر بیرون پاکستان کے وعدے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے بشاشت سے اِن قربانیوں کو دینے کی توفیق جماعت احمدیہ کو دی۔ اس قدر وعدے وصول ہو جائیں گے؟ اتنی ذمہ داری مالی لحاظ سے جماعت اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گی؟ ہمارے ساتھ جو تعلق رکھنے والے ہیں اور ابھی جماعت سے باہر ہیں اُن کو بھی کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا لیکن ہر گھڑی ہماری زندگی کی ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خالی نطر نہیں آتی۔ یہ اُسی کی رحمت ہے جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔ ہمیں شیطانی یلغار سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی کرنی چاہیئے۔ ہمیں یہ دُعائیں کرتے رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ طاقت عطا کرے کہ اِن وعدوں سے بھی زیادہ اموال اُس کے قدموں پر رکھ پائیں اور اللہ تعالیٰ ہماری اِن حقیر قربانیوں کو قبول کرنے اور اُن کے وہ نتائج نکالے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی اُس قدر اچھے اور حسین اور احسن نتائج نہیں آسکتے۔
اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو دُنیا میں حسد بھی پَیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں حاسدین کا ایک گروہ پَیدا ہوجاتا ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے الہام میں بھی اِس طرف متوجہ کیا گیا ہے اور حاسدین کے اس گروہ کے سامنے آجانے سے دو فائدے ہیں جو ہم حاصل کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے سامنے ہماری عاجزی زیادہ نمایاں ہو کر آجاتی ہے اور دوسرے ہمارے عزم اور ہماری ہمّت میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور ہماری زندگی کا یہ پہلو اور ہماری رُوح کا یہ زاویہ کہ خداتعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے والے ہیں اور ہماری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں زیادہ شدّت کے ساتھ مقابلہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو الٰہی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے اور اُن کا یہ یقین نہیں مثلاً اِس زمانہ میں یہ ہم کہیںگے کہ جن کو یہ یقین نہیں کہ مادی دُنیا کی اِس قدر ترقّی کے زمانہ میں اسلام کے دوبارہ غالب آجانے کا کوئی امکان ہے۔ جن کو یہ یقین نہیں وہ اُس جماعت کو بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اِس پختہ یقین پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے سچّے ہیں وہ پُورے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی منصوبہ اُنہیں ناکام نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم نے فرمایا:۔ جو خُدائی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے وہ دھوکہ دہی سے مومن کو اُس کے مقام معرفت اور مقام یقین سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے دھوکے میں مومن نہیں آیا کرتا۔ مومن کو تو یہ حکم ہے ( اور اُس کی زندگی اِس حکم کی عملی مثال ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پُورا ہو گا۔ اس لئے استقلال کے ساتھ اور صبر کے ساتھ انتہائی قُربانیاں دیتے ہوئے، مالی بھی اور جانی بھی اور دوسری ہر قسم کی، آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ کیونکہ تمہاری ہی جھولیوں میں خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کے پورا ہونے سے حاصل ہونے والی برکتوں کا پَھل گرنے والا اور تمہیں ہی ان سے فائدہ پہنچنے والا ہے۔ مخالف اپنی مخالفت میں بڑھتا ہے اور مومن اپنے یقین میں ترقی کرتا ہے۔ مخالف اپنے منصوبوں کو تیز کرتا ہے اور مومن اپنے سر کو اَور بھی جھکا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اعمال بجا لاتا ہے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار اُسے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُسے ملتی اور فرشتوں کی فوجیں آسمان سے نازل ہوتیں اور اُس کا ہاتھ بٹاتیں اور کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعانہ جُھک کر یہ درخواست کرتے رہنا چاہیئے کہ ہم کمزور ہیں۔ ہم کمزور سہی اے ہمارے ربّ! لیکن ہم نے تیرے دامن کو پکڑا ہے اور تیرے اندر کوئی کمزوری نہیں۔ اس لئے جب ہم تیری پناہ میں آگئے تو ہمیں ڈر کس بات کا؟ سوائے اس ڈر کے کہ کہیں اپنی کسی غفلت اور کوتاہی اور کمزوری اور بے ایمانی کے نتیجہ میں تُو ہمیں جھٹک کر پَرے پھینک دے اور تیری حفاظت ہمارے شامِل حال نہ رہے، جب تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت انسان کے ساتھ ہے جب تک اسے اُس کی نصرت ملتی رہتی ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سایہ اُس کے سر پر ہوتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کی مدد کے لئے آسمانوں سے اُترتے رہتے ہیںاُس وقت تک مومن جو خُدا کی طرف خود کو منسوب کرتا اور اُس کے حضور قربانیاں پیش کرنے والا ہے صبر اور استقلال کے ساتھ اُس مقصد کی طرف (جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے) حرکت کرتا ہے اور آخر کامیاب ہوتا ہے اور اس دُنیا میں بھی وہ پاتا ہے جو خُدا سے دُور رہنے والے کبھی پا نہیں سکتے اور عقبٰی میں بھی وہ اُس کو ملے گا جس تک خود مومن کا بھی تخیل اس دُنیا میں نہیں پہنچ سکتا۔ کہا گیا وہاں وہ ہو گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سُنا۔ اُن لذّتوں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ ہمارے اِدراک سے وہ باہر ہیں اور ہماری عقل وہاں تک پہنچ نہیں سکتی لیکن اس دُنیا میں جو جنت اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے پیدا کی اور جسے صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دُنیا میں حاصل کیا۔ یہ جنت آج پھر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے اور آسمان کے سارے دروازے ہمارے لئے کھول دئیے گئے ہیں۔ ہمت کر کے عزم کے ساتھ اپنے پورے ایمان اور اخلاص اور قربانی اور ایثار کے ساتھ ہم نے دروازوں کی طرف بڑھنا ہے اور ان میں داخل ہو کر اس زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کر لینا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس لئے بے وقوف ہے وہ مخالف، خواہ وہ سیاسی اقتدار رکھتا ہو، دنیاوی وجاہت رکھتا ہو یا مادی اموال رکھتا ہو۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ چونکہ اُسے الٰہی وعدوں پر یقین نہیں اس لئے وہ جماعت احمدیہ کو بھی الٰہی وعدوں سے پَرے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا یہ تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی رحمت سے ہمیں ایمان اور یقین اور معرفت اور محبت اور ایثار کے مقام پر کھڑا کیا ہے اگر اس کا فضل نہ ہوتا تو یہ کمزور انسان ایک لحظہ کے لئے بھی ان تمام مخالفتوں کے ہوتے اس مقام پر کھڑا نہ رہ سکتا۔
ہمارے سر اس کے حضور جُھکتے ہیں ہماری روح اُس کی حمد سے بھری ہوئی ہے ہم اس کے پیار کو دیکھتے ہیں ایک لحظہ کے پیار کو دُنیا کی ساری دولتوں سے زیادہ قدر والا اور زیادہ قیمتی پاتے ہیں اور اُسے چھوڑ کر کسی اَور طرف منہ نہیں کر سکتے۔ دھوکہ میں ہیں وہ جو جماعت کے متعلق اس کے خلاف کچھ سمجھتے ہیں اور مجنون ہیں وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی دُھن کے پکّے لوگوں کا یہ گروہ جو احمدیت کے نام سے موسوم ہوتا ہے یہ ناکام ہو سکتا ہے جو پیدا کرنے والے رب کی گود میں بیٹھ کر زندگی گزارنے والا جو اس کے پیار کے ہاتھ کو اپنے سر اور اپنے سینہ پر اور اپنی پیٹھ پر پھرتے محسوس کرنے والا ہے جس کے کان میں اُس کی آواز آ رہی ہے کہ اسلام غالب آ کر رہے گا اور تمہارے ذریعہ سے غالب آئے گا۔ جس کے دل میں یہ یقین ہے کہ اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں وہ قربانیوں سے ڈرا نہیں کرتا۔ وہ اپنے مقام کو چھوڑا نہیں کرتا۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ مجنون ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے مِشن، اپنے مقصد میں کہ اسلام پِھردُنیا میں غالب آئے، ناکام ہو گی اسلام غالب آئے گا انشاء اللہ۔ اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں ہے چند دِنوں میں آپ نے یہ نظارہ دیکھا۔ آپ میں سے بھی کئی ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل کر دی ہے۔ اتنی بڑی مالی قربانی تو شاید یہ جماعت نہ دے سکے لیکن ایسے بھی تھے جنہوں نے مجھے یہ پیغام بھیجے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے کہ آپ نے تھوڑی قربانی مانگی ہے ثابت کیا کہ جو کہا گیا تھا وہ بھی دیا (یعنی اڑھائی کروڑ کے وعدے کر دیئے) اور جو امید ظاہر کی گئی تھی کہ پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گا اُس خواہش کو بھی پورا کر دیا اوراس اصول کو بھی عملاً ظاہر کر دیا جو اللہ تعالیٰ کا ایک اصول ہے۔ ایک بنیادی چیز ہے، بنیادی سلوک ہے اس کا ہمارے ساتھ کہ جتنی ضرورت ہوتی ہے اُتنا وہ سامان کر دیتا ہے۔ اس لئے مَیں نے پچھلے خطبہ میں لاہور کی جماعت سے کہا تھا۔ لاہور میں مَیں نے خُطبہ دیا کہ دراصل تو اڑہائی کروڑ یا پانچ کروڑ کا سوال نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے علمِ غیب میں غلبۂ اسلام کے لئے ان پندرہ سالوں میں بیس کروڑ کی ضرورت ہوئی تو اللہ تعالیٰ اپنے علمِ غیب کے نتیجہ میں جتنی بھی ضرورت ہو گی وہ تمہیں دے دے گا اور اس کے راستہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکے گی لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے جس کی طرف مَیں بار بار توجہ دلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ فخر نہ پیدا ہو، غرور نہ پیدا ہو، تکبّر نہ پیدا ہو، سر ہمیشہ زمین کی طرف جُھکے رہیں تاکہ وہ حدیث ہمارے حق میں بھی پوری ہو جس میں کہا گیا تھا کہ جب خدا کا ایک مخلص بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے اور تواضع کی راہوں پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان تک اُس کی رفعتوں کا سامان کر دیتا ہے۔ ساتویں آسمان تک پہنچ کر بھی ہمارا دل خوش نہیںبلکہ اس سے بھی بلند تر اور ارفع جو چیز ہے یعنی خدا تعالیٰ کا پیار وہ ہمیں ملنی چاہیئے اس میں یہی اشارہ ہے کہ تمہاری کوشش کے نتیجہ میں ساتواں آسمان تمہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں اس کا ثواب جو کوشش سے زیادہ ملا کرتا ہے یعنی اُس کی رضا وہ تمہیں مل جائے گی۔
پس ہم تو خدا کے پیار کے بُھوکے ہیں اور ہمارے دل میں تو یہ خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دُنیا میں قائم ہو اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمت قائم ہو انسان کے دل میں جس عظیم مقام پر اللہ نے آپ کو کھڑا کیا۔ ہماری تو یہ خواہش ہے ہم تو نا چیز ذرّے خدا تعالیٰ کے پاؤں کی گرد سے بھی حقیر ہیں (اگر تمثیلی زبان میں خدا تعالیٰ کے پاؤں کا ذکر کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے پاؤں کے ساتھ جو ذرّے مٹّی کے لگ سکتے ہیں ہم میں تو وہ بھی طاقت نہیں ہے) لیکن یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ پیار سے ہمیں پکڑتا پیار سے ہمیں اٹھاتا اور اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور ہمیں یہ تسلّی دیتا ہے کہ اِدھر اُدھر کیوں دیکھتے ہو۔ ساری دُنیا مل کر بھی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ناکام نہیں کر سکتی۔
پس ہمارے دل حمد سے لبریز ہیں کہ چھ کروڑ سے اوپر تک وعدے پہنچ گئے اور ہماری روح اور ہمارا ذہن اُس کے حضور نہایت عاجزی سے جُھکا ہوا یہ دعائیں کرتا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے، نہ ہمارے کسی فعِل سے اور ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ہمیں کامیاب کرے اور ہمیں غلبۂ اسلام کے دن دیکھنے نصیب ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍اپریل ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۴)








قویٰ انسانی کی تین قوتیں قوّتِ بیان، قوّتِ تصدیق و افکار اور قوتِ عمل صالح
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
۔(البقرۃ: ۲۸۶)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
انسانی قویٰ میں سے ایک قوّتِ بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی قوّتِ جو ان باتوں کے اظہار پر قُدرت رکھتی ہو جن کا اظہار ایک انسان کو کرنا چاہیئے اور جس رنگ میں اظہار کرنا چاہئیے۔ قوّتِ بیان ، نُطق سے مختلف اور زیادہ وسیع قوّت ہے۔ قویٰ انسانی میں سے دوسری قوّت قوّتِ تصدیق و انکار ہے جس کا انسانی دِل سے تعلق ہے یعنی ایسی قوت جو حق سے، صداقت سے، حقائق الاشیاء سے اور حقائق الوجود سے کُلّی اور تام مطابقت بھی رکھ سکتی ہو اور اختلاف بھی رکھ سکتی ہو یعنی کُلّی وتام مطابقت سے انکار بھی کرسکتی ہو۔ تیسری قوّتِ قویٰ انسانی میں سے یہ ہے کہ دِل کی کیفیت کے مطابق( اگر دل کی کیفیت تصدیق اور تحقیق کی ہے تو ) اعمالِ صالحہ بجا لانا ۔ جسے ہم قوّتِ عمل صالح کہتے ہیں یا اگر انکار کی کیفیت ہوتو عمل غیر صالح بجالانا یہ ایک طاقت ہے۔ ان تینوں طاقتوں کو اکٹھا کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا۔ ان میں بنیادی قوّتِ دِل کی طاقت ہے اور یہ تصدیق کی تحقیق کی موافقت کی یا عدم موافقت کی اور انکار کی طاقت ہے۔ یہ ان تین طاقتوں کا اصل اور جڑ ہے۔ اگر فطرت کی حقیقت کچھ اور ہو اور انسان کے دِل کی حقیقت کچھ اور ہو اگر یہ کیفیت ہو اور اسی کے مطابق بیاِن کی قوّت بھی دِل کے ساتھ چل رہی ہو یعنی تکذیب کا اعلان کرتا اور عمل کی قوّت بھی ایسے کافرانہ دِل کی کیفیت کے ساتھ مطابقت کھاتی ہو یعنی عملِ غیر صالح صادر ہو نا تو اس کو اسلامی اصطلاح میں کُفر کہتے ہیں۔ مگر دِل کی کیفیت کی صرف یہ شکل نہیں بنتی بلکہ یہ شکل بھی بنتی ہے کہ دِل انکار کررہا ہے اور زبان اقرار کررہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ منافق کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے۔ حقیقت یہی ہے۔ (المنافقون:۲) حقیقت یہی ہے کہ تُواللہ کا رسول ہے لیکن منافق کاذب ہے جھوٹا ہے یعنی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے بھی وہ اِس لئے جُھوٹاہے کہ اصل چیز انسان کو جودی گئی وہ ایک قلبِ سلیم تھا۔ جب قلبِ سلیم نہ رہا اور دِل کُفر کی طرف مائل ہوگیا اور ظاہری حالات میں زبان نے اس کافرانہ دِل کا ساتھ نہ دیا تو یہ ایمان نہیں بلکہ نفاق ہے۔ ایک تو یہ حقیقت ہے ایسے انسان کی حقیقت جِس کے دِل نے حق سے موافقت نہیں کی اور حق کی تصدیق نہیں کی اور حق کو قبو ل نہیں کیا اور حق کو اپنایا نہیں کافِر بن گیا یا منافقّ بن گیا لیکن جس غرض کے لئے ان طاقتوں کو پیدا کیا گیا تھا وہ یہ نہیں تھی کہ انسان کُفر یا نفاق کی راہوں کو اختیار کرے۔ وہ حقیقت یہ تھی کہ انسان کے اندر دُنیا کے ُکفر اور نفاق کی جو Teptation یعنی میلان ہے اس کو دھتکارے خُدا کی خوشنودی کے لئے اور اپنے ایمان اور ایثار کی رفعتوں کے لئے اور اپنی روحانی پرواز کا مظاہرہ کرے اور فرشتوں سے آگے جائے جس طرح اُسے کافر ہونے کی حیثیت میں قرآن نے کہا کہ زمین کی طرف جُھک گیا۔ اسلئے کہ اُسے زمین کی گہرائیوں میں دھنسنے کی طاقت دی گئی تھی۔ اگر وہ زمین کی طرف نہ جُھکے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی توجہ ہو وہ خالصتاً اُسی کا ہو جائے تو پھر وہ آسمانوں کی اُن بلندیوں کو چھُوتا ہے جہاں تک فرشتوں کو پہنچنے کی تاب نہیں اُن سے بڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو وہ حاصل کرتاہے۔
پس جو طاقتیں انسان کو دی گئیں ان میں دو پہلو رکھے گئے۔ ایک تکذیب کا اور ایک تصدیق کا۔ میں ایک ہی چیز کو لے لیتا ہوں۔ اسکے دو مختلف نتائج نکلتے ہیں جن پر میں نے مختصراً روشنی ڈالی ہے۔ یہ اس لئے تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پیار کو فرشتوں سے بھی زیادہ حاصل کرسکے۔ مومنانہ دل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ حق کو حق تسلیم کرتا ہے اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو اپناتا ہے ۔ اُس سے پیار کرتا ہے اپنی فطرت کو بالکل اُس کے موافق پاتا اور اُسی کے مطابق اپنی زندگی ڈھالتا ہے۔ وہ حق کو پہچاننے کے بعد حق کا ہو جاتا ہے اور کسی اور کی طرف اُس کی توجہ باقی نہیں رہتی۔ یہ مومنانہ دل ہے اور یہ دل کی اصل کیفیت ہے۔ یہ جڑ ہے اس سے دو شاخیں نکلتی ہیں۔ ایک شاخ بیان کی طرف نکلتی ہے اور پھر ایسے مومن کا بیان جو کچھ اُس کے دِل نے محسوس کیا اُس کا اعلان وہ قولِ سدید سے بھی کرتاہے قولِ طیّب سے بھی کرتا ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق سچ کے عام معیار سے اُوپر بھی نکلتا ہے اور پھر اُس کا بیان دُنیا میں ایک طیب انقلابی تحریکیں پیدا کرتا اور روح کو جھنجھوڑ دینے والے انقلابی نتائج پیدا کر تا اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایک دُنیا کو لیجانے والا بن جاتا ہے۔ دوسری شاخ جو اس اصل سے نکلتی ہے وہ اعمال کی شاخ ہے۔ قلبِ سلیم سے عمل صالح کی شاخ نکلتی ہے یعنی ہر وہ عمل جو اُس دِل سے موافقت بھی رکھتا ہو اور اُس کے ذریعہ سے حق سے موافقت رکھتاہو ۔ حق کے ایک معنی ’’اللّٰہ ‘‘ کے بھی کئے گئے ہیں۔ حق کے معنی ہیں قائم رہنے والی چیز ۔ خواہ وہ ابدی قائم رہنے والی چیز ہو۔ ایک حقیقتِ تامہ کاملہ مستقلّہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یاخداتعالیٰ کی منشاء کے مطابق عارضی طور پر قائم رہنے والی اور بعض پہلوئوں سے تبدیل ہوکر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے والی چیزیں اُس کی مخلوقات میں ہمیں نظر آتی ہیں۔
جہاں تک شریعت کا سوال ہے حق کو تسلیم کرنا مختلف پہلو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ایسا دل شریعت حقّہ کو سمجھتا اور اُسے قبول کرتا ہے اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے ایسا دِل بشاشت سے تعلیمِ حق کو پہچانتا اور قبول کرتا ہے اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے۔ ایسا دِل بشاشت سے تعلیمِ حق کو پہچانتا اور قبول کرتاہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا اُس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔ ایمان کے یہی معنی کئے گئے ہیں کہ جب یہ تین کیفیتیں پیدا ہوجائیں اصل دِل میں تصدیقِ حق کرنے کی کیفیت ہو اور انسان کی جو قوّتِ اظہار و بیان ہے اس میں حق کے بیان کرنے کی کیفیت ہو اور اُس کے جوارح میں اعمالِ صالحہ بجالانے کی طاقت ہو۔ تو اِن تین چیزوں کانام اسلامی اصطلاح میں ایمان رکھا گیاہے۔
پس میں بتا رہا ہوں کہ اصل چیز اور جڑ دِلی کیفیت ہے اور اللہ نے رسول پر جو نازل کیا اُس پر وہ ایمان لائے ہیں یعنی اُس کے متعلق مومنوں کی دِلی کیفیّت اُسے قبول کررہی ہوتی ہے (اس کے تین پہلو میں بتا رہاہوں) ایک شریعت کا پہلوہے ایک عام تعلیم کا پہلو ہے اس میں دنیوی تعلیم بھی آجاتی ہے ایک بشارتوں کانزول ہوتاہے رسول پر۔ مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی گئی کہ اسلام اب قیامت تک کے لئے قائم رہے گا۔ یہ ایک بشارت ہے جو اسلامی شریعت نے اسلامی ہدایت نے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اُس وحی نے ہمیںدی مثلاً ہمیں یہ بشارت دی گئی کہ تمام دُنیااُمتِ واحدہ بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے مہدی معہود کے زمانہ میں جمع ہوگی۔ یہ ایک عظیم بشارت ہے پھر اس عظیم بشارت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مہدی علیہ السّلام کے زمانہ میں اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب اسلام کو انتہائی کامیابی اور آخری غلبہ حاصل ہوجائے گا توجو اُس وقت بھی مسلمان نہیں ہوسکیںگے اُن کی مثال ایسے ہی ہوگی جیسے کسی مُلک میں چوہڑوں چماروں کی ہوتی ہے کہ شاید وہ ہزار میں سے ایک ہوتاہے۔ وہ محروم رہتا ہے ۔بد قسمت ہوتاہے لیکن اتنی بھاری اکثریت دوسروں کی ہوتی ہے کہ اُس ملک کے باشندے چوہڑوں اور چماروں کوکسی میں شمار نہیں کرتے یہی حالت مُسلم اور غیر مسلم کی ہوجائے گی۔ اتنا غلبہ حاصل ہوگا۔
ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے کے لئے اس کی آگے شاخیں ہیں۔ اور ہمارے دلوں میں ایک قوّت پیدا کرنے کے لئے ہمیں اُن خطبہائے حق کے متعلق کہاگیا بڑے بڑے مخالف علاقے جو تھے جہاں اسلام کے لئے کوئی میدان نہیں تھا نہ داخل ہونے کا نہ کامیاب ہونے کا۔ مثلاً رَشیا ہے کہہ دیا گیا ۔ وہ رَشیا جو کامیونسٹ ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ میں زمین سے خُدا کے نام کو اور آسمانوں سے خُدا کے وجود کو مٹادوں گا ۔اُس مُلک کے لئے اُسی بشارت کے ماتحت کہ اسلام ساری دُنیا پرغالب آجائے گا یہ بشارت دی کہ میں رشیا میں اپنی جماعت کے افراد کو ریت کے ذرّوں کی طرح دیکھتا ہوں۔ یہ بڑی زبردست بشارت ہے اور اُسی عظیم بشارت کے ماتحت ہے کہ ساری دُنیا میں اسلام غالب آئے گا۔دُنیا کا ایک حصّہ رشیا ہے اُس کے متعلق پیش گوئی کر دی کیونکہ اس کے متعلق بظاہر ایک ناممکن چیز نظر آرہی تھی۔اسی طرح دوسرے ہمارے بھائی مُسلمان اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے خلاف ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے مکّہ کو مرکز بنالیا احمدیت کے خلاف منصوبے بنانے کا وہ مکہ(اورمدینہ) جو مرکز ہے اور بنے گا غلبہ اسلام کے منصوبوں کا ۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی کہ اہل مکّہ اور اہل حجاز فوج درفوج احمدیت میں داخل ہونگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میںیہ نظارہ دکھایا ۔اصل پیشگوئی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کہ اسلام مہدی معہود کے زمانہ میں ساری دُنیا میں غالب آئے گا اور اُسی کی ذیل میں اُس کی تفاصیل حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی پیشگوئیوں میں بتائی گئیں اور ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیئے اس پر۔ اُن کو صداقتیں سمجھ کر ہمارے دِل کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ دُنیا کے حالات جیسے بھی ہیں رہیں۔ اور مخالفانہ طاقتیں جس قدر بھی مضبوط ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا نے کہا ہے کہ یہ ہوگا اس لئے یہ ضرور ہوگا اور جب قلبِ سلیم کی یہ کیفیت ہو۔ ایک مومن کی یہ کیفیت ہوتو مومنانہ جرات کے ساتھ وہ تبلیغ بھی کرتا ہے اور انتہائی قربانی اور ایثار اور بشاشت کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجا لارہا ہوتاہے اور عام طور پر جماعتِ احمدیہ کی اللہ کے فضل سے اُسی کی رحمت سے یہ کیفیّت ہے کہ دُنیا مخالفت میں لگی ہوئی ہے اور احمدی دِل اس یقین پر قائم ہے کہ دُنیا کی کوئی طاقت غلبہ اسلام کی اس تحریک کو روک نہیں سکتی اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوگا اور جماعت احمدیہ کے دِل میں ایک بشاشت ہے، بشاشت اسلئے کہ کمزور جماعت ہے دُنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے۔ دُنیا کی دولتوں سے محروم جماعت ہے دُنیا کا سیاسی اقتدار اُس کے پاس بھی نہیں پھٹکا اس کے باوجود خدانے اسے اُٹھایا اور کہا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو دُنیا میں غالب کروں گا۔ کتنے بڑے پیار کا اظہار ہے جو خُدا نے ہم سے کیا اور اس کے مقابلے میں کتنا عظیم ایثار اور قربانی کا جذبہ ہمارے دِل میں پیداہوتا ہے ۔ دُنیا حیرا ن رہ جاتی ہے۔ بعض دفعہ خود ہم بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا اور بعد میں اسکا نام ’’ صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ ‘‘ رکھاگیا۔اُس کی تفصیل جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آج شوریٰ کے سامنے پیش کرکے کوئی لائحہ عمل تیار کرلیاجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
جلسہ سالانہ میں میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں شوریٰ تک یعنی مارچ کے آخر تک وقت دیتا ہوں۔ دوست مارچ کے آخر تک’’ صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ ‘‘ کے لئے اپنے وعدے پہنچادیں اور اُس وقت میرے دل کی جو کیفیت تھی وہ اپنے اندر دو پہلو رکھتی تھی اور اُس کے مطابق میں نے اُس وقت اعلان کیا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں کچھ اور خواہشات بھی پیدا ہوئیں اور پھر میں نے ان کا اعلان کیا۔ جلسہ سالانہ پر میں نے کہا کہ میں اس منصوبہ کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں اور اُسی وقت میں نے یہ اعلان بھی کیا کہ میری یہ خواہش ہے اور مجھے اُمید ہے کہ ایسا ہوجائیگا کہ اس فنڈ میں پانچ کروڑ کی رقم آجائے گی۔ بعد میں اللہ کے فضلوں کو دیکھ کر گذشتہ دنوں اپنے چند روزہ قیام کے دوران (۸مارچ ۱۹۷۴ء کے) خطبہ جمعہ میں میں نے یہ اعلان کیاکہ نظر ایسا آرہا ہے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ فنڈ نو کروڑ تک پہنچ جائے گااور ساتھ میںنے یہ کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ سوال اڑھائی کروڑ یا پانچ کروڑ یا نوکروڑ کا نہیں ۔ سوال ہے اسلام کو غالب کرنے کے منصوبے اور تدابیر جو ہمارے ذہن میں آتی ہیں اُن کو عملی جامہ پہنانے کا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیاہے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے اور چونکہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کو چُناہے اس لئے اصول یہ ہے کہ اِس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے جتنی بھی رقم کی ضرورت ہوگی اللہ تعالیٰ اُس کا سامان پیداکرے گا خواہ وہ رقم بیس کروڑ تک کیوں نہ ہو۔ ضرورت کا ہمیں علم نہیں ان پندرہ سالوں میں پندرہ مختلف گروہ جماعت میں داخل ہونے والے ہیں جو نئے سرے سے کمانے لگیں گے۔اُن کی قربانیاں تو ہمارے سامنے نہیں آئیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کِس رنگ میں کتنی رحمتیں کرتا ہے اس کا بھی ہمیں علم نہیں۔ لوگ اب بھی اپنے وعدے بڑھارہے ہیں۔ دو مہینے میں بھی بعض لوگوں نے اپنے وعدے بڑھا دئیے ہیں۔ اس عرصہ میں بھی بڑھاتے رہیں گے۔
پس میں یہ بتارہا تھا کہ جب انسان کا دِل اللہ اور اُس کی بنائی ہوئی فطرت سے موافقت رکھتاہے جسے ہم قلبِ سلیم کہتے ہیں تو مومنانہ جرات کے ساتھ بیان کی بھی اُسے توفیق ملتی ہے اور مومنانہ قربانی اور ایثار سے بشاشت کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجالانے کی بھی اُسے قوت عطا کی جاتی ہے۔ چنانچہ آج میں اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہوکر اور اُس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ابھی شوریٰ نہیں شروع ہوئی اس میں چند گھنٹے باقی ہیں اور صدسالہ احمدیہ جوبلی فنڈ میں عطا یا کے وعدے نو کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ گئے ہیں اور اس میں بھی وہ وعدے شامل نہیں جس کا مجھے علم ہے لیکن جن کی اطلاع متعلقہ دفتر کو ابھی نہیں پہنچی اور وہ بھی میرا خیال ہے کہ شاید ۵۰لاکھ کے لگ بھگ ہوں گے اور ابھی وعدے آرہے ہیں اندرونِ مُلک سے بھی آرہے ہیں باہر سے بھی آرہے ہیں۔
دیکھو! خُدا کتنا پیار کرنے والا ہے۔ اُس نے مجھ سے اعلان کروایا کہ جماعت اڑھائی کروڑ کی قربانی دے اور مجھے اور جماعت کو توفیق دی کہ وہ یہ قربانی دے۔ پھر مجھ سے اس خواہش کا اظہار کروایا کہ پانچ کروڑ تک یہ رقم پہنچ جائے اگرچہ میں اپیل اس کی نہیں کرتا۔ اُس وقت میں نے صرف خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جماعت نے پانچ کروڑ کے وعدے کردئیے۔ پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اِس رنگ میں نازل ہوتی مجھے نظر آرہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ نو کروڑ تک پہنچ جائیں گے پھر میں نے کہا تھا جتنی ضرورت ہوگی پہنچیں گے ضرورت کا مجھے علم نہیں مگر میرے ربّ کو اس کا علم ہے۔ اُس کے مطابق خداتعالیٰ مال کا انتظام کرتا چلا جائے گا اور اس وقت جو دفتر میں رجسٹر میں لکھے جاچکے وہ وعدے نوکروڑ بیس لاکھ تک چلے گئے یعنی نو کروڑ سے آگے نکل گئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان وعدوں کا رُخ اُس ضرورت کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ ہمارے علم میں نہیں۔
پس مخلصانہ طور پر تہہ دِل سے اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہوکر زبان سے اور اپنے افعال سے اور اپنے خیالات سے اور جذبات سے سُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر اور اُس کے پیار کے بغیر اور اُس کی رحمت کے بغیر اور اُس کی قدرت کے بغیر انسان کو اُس کی راہ میں قربانیاں دینے کا موقع بھی نہیں ملتا اور درود پڑھیں اُس عظیم ہستی پر جس کے طفیل دُنیا آہستہ آہستہ اپنے پیداکرنے والے ربّ کو پہچاننے لگی ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حمد کی ساتھ اُس عزم کی بھی توفیق دے کہ جو میں نے اس پندرہ سالہ عرصہ کا ایک ماٹو جماعت کے سامنے رکھا تھا کہ اگلے پندرہ سال میں حمد اور عزم ان دو سُتونوں کے اُوپر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کرے کہ اُس کی تو فیق کے بغیر ہم اپنے پیدا کرنے والے ربّ کا شکر بھی ادا نہیںکر سکتے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مخلصانہ شکر ادا کرنے کی توفیق دے تاکہ یہ جو وعدہ دیا گیا ہے کہ تم شکر کر و گے تو میں مزید دوں گا۔ وہ مزید ہمیں ملے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ جب مزید ہمیں مِلے تو ہم مزید قربانیاں اُس کے حضور پیش کرکے اُس سے بھی بڑھ کر حاصل کرنے کی توفیق پائیں اور یہ ایک تسلسل ایک چّکر چلتا ہی رہے اور ہمارا قدم بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے۔ اللّٰھمَّ اٰمین۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)






تحریک جدید کے ذریعے جماعت احمدیہ کو اتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئیں کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ اپریل ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
چند ہفتوں سے بیماری چلی آرہی ہے اور بار بار تکلیف ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کمزوری ہو گئی ہے۔ دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت دے اور زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں (انسان کے علاوہ جو مخلوق ہے) مختلف وجودوں میں دو مختلف اور متضاد طاقتیں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی فطرت میں یہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ نشیب کی طرف حرکت کریں مثلاً پانی ہے۔ پانی فراز یعنی بلندی کی طرف نہیں بہتا بلکہ ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ اِس کے برعکس بعض گیسز (Gases) ہیں جو متضاد فطرت رکھتی ہیں مثلاً ربڑ کے غباروں میں ہوا بھر دیں تو وہ آسمان کی طرف اُڑنے لگتے ہیں۔
پس یہ دو متضاد صفات ہیں جو مختلف قسم کی چیزوں میں ہمیں نظر آتی ہیں لیکن انسان میں ایک ہی وقت میں گہرائیوں کی طرف لُڑھکنے کی صفت بھی پائی جاتی ہے اور بلندیوں کی طرف پرواز کرنا بھی اس کی فطرت میں داخل ہے۔ روحانیت کے علاوہ انسان کے اندر جو دوسری طاقتیں ہیں وہ نیچے جانے کی طاقتیں ہوں یا بلند ہونے کی طاقتیں ہوں، انسان ہر دو طاقتوں سے دُنیوی فوائد حاصل کرتا ہے۔ وہ سمندر کی گہرائیوں میں بھی اُترتا ہے اور چاند کی بلندیوں پر کمندیں بھی ڈالتا ہے اور اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا اور مختلف فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جہان تک روحانیت ، رُوحانی رفعتوں کا سوال ہے بعض انسان اپنی فطرت کو بُھول جاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص دائرہ میں صاحب اختیار بنایا ہے اِس لئے وہ بعض اوقات فطرت صحیحہ اور قلبِ سلیم کے تقاضوں کو پُورا کرنے کی بجائے رفعتوں سے دُور نشیب یعنی تنزّل کی طرف حرکت کرتا ہے۔ قرآن کریم نے اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:۔ِ (الاعراف: ۱۷۷) گویا خلود الی الارض کی طاقت ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہے اور انسان چونکہ صاحبِ اختیار ہے اِس لئے وہ بعض اوقات ہلاکت کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے لیکن۔ (الروم:۳۱) کی رُو سے ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کو اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ رفعتوں کی طرف پرواز کرے۔ رُوحانی طور پر بلند ہوتے ہوئے دُنیا کی ہر مخلوق کو پیچھے چھوڑ دے اور اپنے ربّ کریم تک پہنچ جائے اور اس کا قرب حاصل کر لے۔
ہم پانی کی مثال لیتے ہیں اگرچہ میرے نفسِ مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن ہمیں اس کا علم ہونا چاہیئے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا نظام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے اور وہ یہ کہ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں۔ ہوا اُن کو اُڑا کر لے جاتی ہے پھر ایک خاص نظام کے ماتحت وہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہے وہاں برستے ہیں اور دریاؤں میں پانی آجاتا ہے۔ بادل عموماً مخلوق کے فائدہ کے لئے برستے ہیں تاہم بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق بعض لوگوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ پھر برف باری ہوتی ہے اور قدرتی ریزر وائر(Reservoir) میں پانی اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر موسموں کی تبدیلی کے ساتھ وہ پگھلتا اور دریاؤں میں بہنے لگتا ہے۔
بہرحال میرے مضمون کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے وہ صرف اتنا ہے کہ دریاؤں میں پانی بہتا ہے۔ پانی پہاڑوں میں سے بہہ کر آتا ہے اور اپنی فطرت کے مطابق نشیب کی طرف بہتا ہے اور مختلف علاقوں میں سے گذرتا اور لوگوں کے لئے تازہ بتازہ پانی کی سہولت پیدا کرتا ہے کنوؤں کے ذریعہ نیز کھانے پینے کے سامان پیدا کرتا ہے فصلوں کے ذریعہ۔ غرض پانی نشیب کی طرف جاتا ہے اور حرکت اپنے معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہے دریا کے پاس کھڑے ہو کر دیکھیں تو (طغیانی کے دنوں کے علاوہ) ایسا لگتا ہے کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے سوائے تنکے یا درخت کی ٹہنی کے بہنے یا بُلبلے اُٹھنے کے پانی کی حرکت نظر نہیں آتی۔ پانی بالعموم چند میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بہہ رہا ہوتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ پانی کتنی رفتار سے بہہ رہا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں نشیب کی طرف حرکت رکھ دی ہے اس لئے جتنا نشیب زیادہ ہو گا اس کی حرکت میں اتنی ہی تیزی آ جائے گی۔ یہ قانون قدرت ہے۔ انسان نے پانی کی اس فطرت سے فائدہ اٹھانے کی ترکیب سوچی تو اُسے بند (Dams) باندھنے کا خیال آیا۔ ’’بند‘‘ میں پانی ایک جگہ دریا کی نسبت زیادہ اکٹھا ہو جاتا ہے اور پھر ڈیم سے پانی کے نکاس کی طرف انسان نے زیادہ نشیب بنا دیا اسے ہم Fall یعنی آبشار کہتے ہیں۔ بعض جگہ لوگوں نے کئی سو فٹ بلند پہاڑوں سے پانی نیچے گرایا ہے۔ پانی نے چونکہ نشیب کی طرف جانا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے زوراپنی فطرت اور اپنے وزن کے مطابق بڑی تیزی سے زمین کی طرف آتا ہے لیکن چونکہ روحانیت نہیں ہوتی اس کا یہ خلود انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے انسان اس سے بجلی کی طاقت پیدا کرتا ہے جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے مختلف نہریں نکال کر وہاں تک پانی لے جاتا ہے جہاں تک دریا پانی نہیں پہنچا سکتا تھا۔
اسی طرح جب الٰہی سلسلے قائم ہوتے ہیں تو روحانی طور پر بھی بند باندھنے پڑتے ہیں اور چونکہ فطرتِ انسانی کی روحانی حرکت بلندی کی طرف ہوتی ہے اس لئے جب یہ بند باندھا جاتا ہے توجس طرح پانی کئی سو فٹ کی بلندی سے بڑی تیزی کے ساتھ نیچے بہتا ہے اسی طرح روحانی بند کے نتیجہ میں انسان کی روحانی حرکت عام معمول کی نسبت بہت زیادہ تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف محو پر واز ہوتی ہے جس طرح پانی ۳۔۴ سو فٹ کی بلندی سے بڑی تیزی کے ساتھ نیچے نہتا ہے اور انسان نے اس سے Tunnels کے ذریعہ بے تحاشا بجلی پیدا کر لی ہے اسی طرح روحانی Damکے نتیجہ میں طاقت Generate پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان کو انفرادی لحاظ سے بھی اورالٰہی سلسلوں کو اجتماعی طور پر بھی بڑی تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔
ہمارے عام بجٹ کی مثال اس پانی کی ہے جو آہستہ آہستہ نشیب کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ہمارا بجٹ جماعت احمدیہ کو آہستہ آہستہ بلندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دو سے پانچ روپے بن گئے مَیں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو جن برکتوں سے نوازتا ہے وہ اسے معمول کے مطابق بلندی کی طرف لے جانے والی ہیں اور اُسے بہرحال ناکام نہیں ہونے دیتیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ فرائض کیا ہیں؟ آپ نے بتائے تو اس نے کہا ۔ مَیں نہ اس فرائض کو چھوڑوں گا (ولا انقص) اور نہ نوافل پڑھوں گا (لاازید) آپ نے فرمایا اگر یہ شخص اس بات پر قائم رہا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا (المسلم: کتاب الایمان باب بیان الصلوٰت الّتی ھی احد ارکان الاسلام) کیونکہ ایمان اور قربانی کا ایک عام معیار جو ہے اُس پر قائم ہونے کی وجہ سے وہ جنّت کا حق دار ہو گیا ہے لیکن ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم سب سے کم نمبر لے کر تھرڈ ڈویژن میں پاس نہ ہوں جو لڑکا سب سے کم نمبر لے کر پاس ہوتا ہے اس کی بھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ وہ تھرڈ ڈویژن لے کیونکہ انسان کے اندر بلندیوں اور رفعتوں کے حصول کی خواہش پیدا کی گئی ہے اور انسان کو بلندیوں اور رفعتوں کے حصول کی طاقت عطا کی گئی ہے۔ وہ اپنی معمول کی حرکت کے مطابق بھی بلندی کی طرف بڑھتا ہے اور وہ بند بھی باندھتا ہے تا کہ اس کی حرکت میں اَور تیزی پید ا ہو جائے۔
ہماری جماعت کے ایک تو عام چندے ہیں چندہ عام ہے، چندہ وصیت ہے، چندہ جلسہ سالانہ ہے یہ عام چندے ہیں جن کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی لحاظ سے بلند سے بلند تر ہو رہی ہے لیکن بلندی کی طرف اس کی حرکت میں اتنی تیزی نہیں جتنی روحانی بند باندھنے کے ساتھ آنی چاہیئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں نظامِ خلافت قائم فرمایا۔ خلیفہ وقت کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ روحانی بند(Dam)بنائے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے علاوہ اور بہت سے اہم کاموں کے تحریک جدید کے نام سے ایک بہت بڑا روحانی بند تعمیر کیا، تحریک جدید کی مالی قربانیاں عام چندوں سے مختلف تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کو اتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئی کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی۔ گو پہلے چند بڑے بڑے ملکوں میں جماعت قائم تھی لیکن اس میں وسعت نہیں تھی۔ پھر جب تحریک جدید کا روحانی بند تعمیر ہوا تو جس طرح نہریںنئے سے نئے بنجر علاقوں میں پانی لے جا کر اُن کو آباد کرتی ہیں اسی طرح تحریک جدید کے اس بند کے ذریعہ احمدیت نے افریقہ میں دور دور تک اسلام کے روحانی پانی کو پہنچایا۔ پھر یورپ میں پہنچایا امریکہ میں پہنچایا اور جزائر میں پہنچایا۔ یہ ایک عظیم الشان روحانی بند تھا جس سے جماعت احمدیہ کو اسی طرح طاقت حاصل ہوئی جس طرح مادی پانی کے بند ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ بجلی کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسان دوسرے فائدے بھی اٹھاتاہے۔
پھر خلافت ثالثہ کے زمانہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے ایک چھوٹا سا روحانی بند تعمیر کیا گیا۔ اس سے بھی خدا کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی مل رہی ہے۔ اس سے ذرا بڑا بند نصرت جہاں ریزروفنڈ کے نام سے بنایا گیا اس روحانی بند کے ذریعہ مغربی افریقہ میں ایک سال کے اندر اندر سولہ ہسپتال قائم ہو گئے اور بہت سے نئے سکول اور کالج کھل گئے۔ اس مالی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا فرمائیں لوگوں کو خدمتِ دین کا شوق پیدا ہوا مجھے نائیجریا سے ایک دوست کاخط آیا ہے کہ سعودی عرب کے سفیر کہتے ہیں کہ احمدیوں کو حج پر نہیں جانا چاہیئے مگر ہم ایک کے بعد دوسری مسجد بنا رہے ہیں اس وقت تک انہوں نے درجنوں نئی مسجدیں بنا دی ہیں ان میں اسلام کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے۔ وہاں کئی نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور یہ اس روحانی بند کی برکت ہے جسے نصرت جہاں منصوبہ اور ریزرو فنڈ کا نام دیا گیا تھا۔
جماعت احمدیہ کی روحانی ترقی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور اس کی رفتار ترقی کو بڑھانے کے لئے اب ایک اَور زبردست روحانی بند صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ کے لئے فنڈ اکٹھا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو اس منصوبہ میں مالی قربانی پیش کرنے کی بے مثال توفیق عطا فرمائی ہے۔ پچھلے جتنے بھی بند تھے اُن سے روحانی نہریں نکلیں اور بنجر علاقے سیراب ہوئے اور جماعت احمدیہ نے انفرادی اور اجتماعی ہر دو رنگ میں روحانی ترقی کی اور اس کے نتیجہ میں اس نئے بند کی تعمیر ممکن ہوئی اور جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے۔
’’ نصرت جہاں ریزرو فنڈ ‘‘ کے وقت بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ شاید میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں اُتنے لاکھ روپے جمع ہو جائیں۔ مگر جماعت نے اس فنڈ میں بڑی قربانی دی۔ چنانچہ میری خواہش تو ۵۱ لاکھ روپے کی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے تین سالوں میں قریباً ۵۳لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک۔
یہ ان رفعتوں کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں روحانی طور پر بصیرت پیدا ہو گئی قوم کو دوربین نگاہ ملی اور ان کی فراست تیز ہو گئی اور اُن کے ایمان بڑھ گئے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے سے اُن کے دلوں میں بشاشت پیدا ہو گئی۔ چنانچہ دوستوں نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ میں اب تک قریباً دس کروڑ کے وعدے کردیئے ہیں۔ مَیں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ نوکروڑ بیس لاکھ روپے کے وعدے آ چکے ہیں اور پھر دو گھنٹے کے بعد مجلس مشاورت کے افتتاحی اجلاس میں نو کروڑ چون لاکھ کا اعلان کیا تھا۔ میرا خیال ہے اب تک نو کروڑ ستر اسی لاکھ تک وعدے پہنچ چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اب کبھی تو یہ حال تھا کہ بڑی تگ و دو کے بعد اور بڑی فکر کے بعد بڑی دعاؤں کے بعد جماعت نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ۵۳ لاکھ روپے کی مالی قربانی دی لیکن اب ایک نیا بند باندھنے کا منصوبہ خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا تو جماعت نے بڑی بشاشت کے ساتھ ۵۳ لاکھ کے مقابلے میں قریباً دس کروڑ روپے کی قربانی کے وعدے کر دئیے اور جیسا کہ مَیں نے مجلس مشاورت پر بھی بتایا تھا دراصل یہ ایک زبردست تیاری ہے نئی صدی کے استقبال کی۔ اس پندرہ سولہ سال کے عرصہ میں ہم نے نئے مشن کھولنے ہیں۔ نئی مساجد بنانی ہیں۔ قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کرنی ہے کم ازکم سو زبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم پر مشتمل کتاب شائع کرنی ہے اور جیسا کہ مَیں نے اعلان کیا تھا کہ مَیں علی وجہ البصیرت (انسان ہوں اس لئے غلطی کر سکتا ہوں) اس یقین پر قائم ہوں کہ جب ہم دوسری صدی میں داخل ہوں گے تو جماعت احمدیہ کی زندگی کی یہ دوسری صدی غلبۂ اسلام کی صدی ہو گی۔ اس دوسری صدی میں ہم غلبۂ اسلام کے اتنے زبردست جلوے دیکھیں گے کہ ان کے مقابلے میں پہلی صدی ہمیںیوں نظر آئے گی کہ گویا ہم نے غلبۂ اسلام کے لئے تیاری کرنے میں سو سال گذار دیئے۔ دوسری صدی میں ہم کہیں گے کہ پہلی کوششوں کے نتائج اب نکل رہے ہیں۔ جو باغ پہلی صدی میں لگایا گیا تھا اب ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ گویا دوسری صدی میں اسلام غالب آ جائے گا اور اس کے بعد کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے علاقے ایسے رہ جائیں گے جن میں اسلام کی تبلیغ کا کام کرنا پڑے گا ۔ تاہم اُس وقت ایک بڑا کام جو باقی رہ جائے گا وہ ہر نسل کی تربیت کا کام ہو گا۔ خدا کرے اس وقت تک کہ جب کافروں پرقیامت آنا مقدر ہو سو سال تو نہیں پانچ سو سال بلکہ ہزار سال تک احمدیت کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل پوری تربیت یافتہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی بن جائے۔
اب بند اور دریا کا جو تعلق ہے وہ واضح ہو چکا ہے یعنی اگر بند نہ باندھے جائیں تو پانی کی رفتارمیں تیزی نہیں پیدا ہو گی جس طرح ایک ہوا خوری کرنے والا آدمی خراماں خراماں چلتا ہے اسی طرح دریا کا پانی بھی آہستہ آہستہ بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے جو پانی کی شکل ہے وہی روحانی طور پر رفعتوں کی طرف روحانی حرکت کی حالت ہے اگر روحانی بند نہ باندھے جائیں تب بھی جماعت ترقی تو کرے گی لیکن بہت آہستہ آہستہ ترقی کرے گی لیکن جس طرح دریاؤں کو بند باندھنے سے پانی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے مختلف نہر نکالنے کی سہولتیں میسر آتی ہیں۔ لاتعداد کلو واٹ بجلی مہیا ہوتی ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی مختلف منصوبے (جنہیں مَیں روحانی بند کہتا ہوں اپنائے بغیر تیزی اور شدت نہیں پیدا ہو سکتی لیکن اگر دریا میں بھی پانی نہ ہو تو بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں بند کا فائدہ تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دریا میں پانی ہو اُسے ایک خاص جگہ پر روک کر اکٹھا کیا جائے اور پھر بلندی سے نیچے گرا کر اس میں غیر معمولی تیزی پیدا کی جائے اور اس سے کئی فوائد حاصل کئے جائیں اور اگر دریا میں پانی ہو اور اس پر بند نہ باندھا جائے تو دریا کے پانی میں تیزی نہیں پیدا ہوتی اس لئے ترقیات کے لئے ہر دو کا وجود آپس میں لازم و ملزوم ہے۔ دریا میں عام معمول کے مطابق پانی بھی ہونا چاہیئے ورنہ بند کے اندر پانی حسب ضرورت جمع نہیں ہو سکے گا اور اگر بند نہ ہوں تو پانی کا ضیاع ہے مثلاً جہاں ضرورت نہیں یا کم ضرورت ہے وہاں پانی زیادہ پہنچے اور جہاں پانی کی زیادہ ضروت ہے وہاں پہنچ نہ سکے۔ اگر ہم روحانی بند نہ بنائیں تو ہمارے کاموں میں شدت اور تیزی پیدا نہیں ہو گی رفعتوں کی طرف حرکت میں اگر تیزی پیدا نہیں ہو گی ہماری ترقی کی رفتار بہت سست پڑ جائے گی۔
مَیں نے ابھی تحریک جدید اور نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی مثالیں دی ہیں۔ ہر آدمی کو یہ نظر آرہا ہے کہ ان کی وجہ سے جماعت کی ترقی کی رفتار میں غیر معمولی تیزی آ گئی ہے لیکن اگر عام چندے نہ ہوں تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بند میں جمع ہونے کے لئے پانی نہیں جائے گا یعنی بند باندھنے کے باوجود اس میں شدت پیدا نہ ہو گی اس لئے معمول کے مطابق جس طرح دریا میں پانی رہنا چاہیئے اسی طرح عام چندوں کی ادائیگی بھی از بس ضروری ہے جس طرح مختلف موسموں میں دریا کا پانی بڑھتا رہتا ہے اسی طرح عام چندوں کو بھی آہستہ آہستہ بڑھتے رہنا چاہیئے کیونکہ جماعت احمدیہ کا قیام بتاتا ہے کہ بہار آگئی ہے۔ ہمارے لئے عید کا سماں پید ا ہو گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے عید کی مبارک باد مل گئی ہے۔ پس جس طرح سُورج کی تمازت بڑھتی ہے تو برف زیادہ پگھلتی ہے اور دریاؤں میں پانی زیادہ آ جاتا ہے اسی طرح ہماری جماعتی زندگی کا یہ سماں متقاضی ہے کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی جَوش مارے تا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ریزرو ائر کی برف پگھلے اور ہمارے پانی (یعنی مالی قربانی ) میں زیادتی کا موجب بنے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے کیونکہ ہماری اجتماعی فطرت کا تقاضا یہی ہے۔ اگر ہم اس میں کمزوری دکھائیں یعنی ہماری ترقی تدریجی رنگ میں اور آہستہ آہستہ ہو رہی ہو یعنی چندہ عام، حصّہ آمد یا چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کی رفتار سُست ہو تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر بند نہ باندھیں تو عام چندوں کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے اِس لئے بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے۔
اب ایک نیا رُوحانی بند بن رہا ہے ۔ ہم نے پہلے جو رُوحانی بند باندھے تھے ہم اُن سے رُوحانی فیض حاصل کر رہے ہیں۔ اِس وقت تحریک جدید بھی بڑا کام کر رہی ہے۔ وقف جدید اور فضل عمر فاؤندیشن بھی اپنے اپنے رنگ میں بڑا کام کر رہی ہے مثلاً فضل عمر فائونڈیشن نے پہلے جماعت کو ایک لائبریری بنا کر دی تھی۔ اب اس کے زیرِ اہتمام باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کا ایک بہت بڑا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے۔ اس کے پہلے مرحلے پر شاید پانچ سات لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ پھر اس کا ایک دوسرا مرحلہ ہے جو بعد میں تعمیر ہو گا اس پر بھی بہت خرچ آئے گا۔ پھر نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا منصوبہ ہے جس کے تحت کئی ہسپتال بن گئے ہیں۔ سکول کُھل گئے ہیں۔ اِس عرصہ میں کئی مخالفانہ روکیں پیدا ہوئیں ہمارے صبر کی آزمائش ہوئی۔ پھر ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوا۔بعض متعصّب افسروں کی وجہ سے (وہ ملک متعصّب نہیں لیکن بیچ میں کوئی بلجیئم کا باشندہ یا بنگال کا متعصّب ہندو آجاتا ہے) ایک جگہ ہمارا ہسپتال نو مہینے تک بند پڑا رہا۔ لوگوں نے ہمارے ڈاکٹر کو یہ مشورہ دیا کہ تم اِس ملک سے چلے جاؤ۔ اس نے مجھے لکھا تو مَیں نے کہا آرام سے بیٹھے رہو۔ یہ مقابلہ ہمارے صبر اور ہمّت کا اور اُن کے تعصّب کا ہے اُن کا تعصّب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہمارا صبر اور ہماری قوّت برداشت ہی بالآخر کامیاب ہو گی چنانچہ ہم نے نو مہینے تک ڈاکٹر اور اس کے سٹاف کو فارغ نہیں کیا۔ مَیں نے ہدایت کی تھی کہ سب کو تنخواہیں دیتے چلے جاؤ۔ ہمیں خدا تعالیٰ دیتا ہے تو تم بھی لوگوں کو دیتے چلے جاؤ۔ اگر متعصّب لوگ یہ تماشا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا کرتا۔ چنانچہ نو مہینے کے بعد اب وہاں کی حکومت نے ہسپتال کی اجازت دے دی ہے۔ وہ لوگ ہمارے ہسپتال کی عمارتوں کے متعلق عجیب و غریب شرطیں لگا دیتے ہیں ہم وہ بھی پوری کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خدمتِ دین کے لئے ہمیں پیسے دیتا ہے ہم خرچ کر دیتے ہیں اور بفضلہٖ تعالیٰ کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بہرحال افریقی ممالک میں بڑی زبردست حرکت ہے اور یہ نصرت جہاں منصُوبے کی برکت ہے۔ وہاں سے ہمارے چیف گامانگا صاحب جلسہ سالانہ پر آئے تھے۔ وہ بڑے زیرک اور صاحبِ فراست اور بڑے مخلص احمدی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نصرت جہاں سکیم کے بہت ہی خوشکن نتائج نکل رہے ہیں۔ اور اب تو یُوں لگتا ہے کہ سارا ملک ہی بڑی جلدی احمدی مسلمان ہو جائے گا۔ دوست دعا کریں کہ یہ ملک بھی جلد احمدی مسلمان ہو جائیں دوسرے ممالک بھی احمدی مسلمان ہو جاتے لیکن ہماری دعا یہ ہے کہ جلدی جلدی احمدی ہو جائیں تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا بن جائے۔
پس جس طرح دریا میں مادی پانی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح روحانی پانی کا ہو نا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالَمِ کشف میں دُودھ دکھایا تھا اب جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دُودھ کی نہریں چلائی ہیں لیکن دُودھ کی بھی مادی فطرت نشیب کی طرف ڈھلک جانے کی ہے لیکن جو رُوحانی دُودھ ہے وہ کا مصداق ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا کی رُو سے بلندیوں کی طرف پرواز کرنا ہے۔ اِس بلند پروازی میں رُوحانی بند کے ذریعہ شدّت اور تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا مادی اور روحانی طور پر بند باندھنے کے دو متضاد نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مادی بند کے نتیجہ میں پانی میں نشیب کی طرف جانے کی حرکت میں شدّت پیدا ہوتی ہے اور روحانی بند باندھنے کی وجہ سے الٰہی سلسلوں اور جماعتوں میں بلندیوں کی طرف پرواز کرنے میں تیزی اور شدّت پیدا ہوتی ہے اِس لئے اِن ہر دو کا وجود ضروری ہے ہم نے ایک بڑا زبردست بند باندھا ہے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کے نام سے یہ ایک عالمگیر منصُوبہ ہے اس کو پُورا پانی بہم پہنچانے کے لئے ہمارے رُوحانی دریا میں جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تھا ور جس کی غرض بنی نوع انسان کو رُوحانی طور پر سیراب کرنا تھا اس میں پہلے کی نسبت پانی بڑھ جانا چاہیئے تاکہ اس بند کے پُرہو جانے سے غلبۂ اسلام کے حق میں شاندار نتائج برآمد ہوں۔
جماعتی چندوں کا سال اب ختم ہو رہا ہے۔ ہمارے دفتر والے ڈرتے ہیں کہ کہیں کمی نہ واقع ہو جائے۔ مَیں نے پچھلے سال غالباً ۲۰؍اپریل کو ایک خطبہ جمعہ میں دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ چند دن رہ گئے ہیں اور پانچ لاکھ روپے کا ابھی بقایا ہے اسے پُورا کریں چنانچہ دوستوں نے میری آواز پر لبیّک کہتے ہوئے پانچ لاکھ سے زائد رقم ادا کر دی تھی اب اِس دفعہ بھی مالی سال ختم ہونے میں ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے اور پانچ سات لاکھ روپے کی کمی ہے یہ بھی انشاء اللہ پوری ہو جائے گی۔ اس کی مجھے فکر نہیں لیکن مجھے یہ بھی حکم ہے۔ (الذّٰریٰت:۵۶) اور اطاعت میرا فرض ہے پس میرا فرض ہے کہ احبابِ جماعت کو یاددہانی کراؤں کیونکہ یاددہانی ایمان کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم بڑی حسین کتاب ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ کمزورں اور جاہلوں کو یاددہانی کراؤ بلکہ کہا ہے کہ مومنوں کو یاددہانی کراؤ۔
پس چونکہ جماعتِ احمدیہ خدا کی بڑی پیاری جماعت ہے۔ یہ ایمان میں بڑی پُختہ جماعت ہے لیکن چونکہ وہ ایمان میں پُختہ ہے اِس لئے میرا فرض ہے کہ میں اُن کو یاددہانی کراؤں اور پھر دنیا یہ تماشا دیکھے (وہ تو اسے تماشا ہی سمجھتی ہے) کہ یہ ایک عجیب قوم ہے ان کے سالانہ بجٹ میں اتنی بڑی کمی تھی جسے انہوں نے چند دنوں میں پُورا کر دیا ہے مجھے اُمیّد ہے یہ کمی بھی انشاء اللہ پوری ہو جائے گی۔ دوست اپنی طرف سے پُوری کوشش کریں کہ نہ صرف یہ کہ سالانہ بجٹ پُورا ہو بلکہ ہم اِس سے آگے بڑھیں مثلاً کراچی کی جماعت نے بھی صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کی مختلف مدّات میں کم وبیش ایک لاکھ روپے کی رقوم بھجوائی ہیں لیکن اُنہوں نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ وہ صرف اپنا بجٹ ہی پورا نہیں کریں گے بلکہ اس سے دس فی صد زائد ادا کریں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بجٹ سے کم و بیش ۴۰ ہزار روپے زائد بھجوائیں گے یہ ایک بہت بڑی جماعت ہے اور بڑی مخلص جماعت ہے اور بڑے چندے دینے والی جماعت ہے۔ ان کا مجموعی بجٹ چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ دس فی صد کا مطلب یہ ہے کہ وہ مزید ۴۰ ہزار روپے وصول کر کے مرکزمیں بھجوائیں گے۔
پھر لاہور کی جماعت ہے اس کے اندر بھی بیداری کی رُوح پیدا ہو گئی ہے۔کسی زمانہ میں راولپنڈی کی جماعت کی طرح یہ بھی بہت کمزور جماعت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے لاہور والوں پر فضل فرمایا اور وہ بیدار ہو گئے مگر راولپنڈی والوں میں ابھی تک وہ جان اور وہ طاقت نہیں آئی جو کمزوری کے بعد لاہور والوں میں آ گئی ہے اِس لئے ان کی مجھے زیادہ فکر رہتی ہے اور اب مَیں ان کا نام لے کر اُن کو یہ یاددہانی کراتا ہوں کہ تمہارے دوسرے بھائی جو مختلف علاقوں میں رہتے ہیں جب وہ اپنے بجٹ سے دس فی صد زائد دے سکتے ہیں تو تم دس فی صد کم پر کیسے تسلّی پا لو گے۔ اِس لئے مَیں احبابِ جماعت سے یہ کہوں گا کہ جو اُن کے بجٹ ہیں وہ تو بہرحال پُورے ہونے چاہئیں۔ اگر ہمارے بجٹ پورے نہیں ہوں گے یا دریا میں عام پانی نہیں ہو گا تو ہم جو بند باندھ رہے ہیں اُن کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا حالانکہ ہماری کوشش اور خواہش یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں۔
اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں ان صداقتوں کے سمجھنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶)






مومن کی زندگی کی نمایاں علامت ہے کہ وہ کسی
منزل پر رکتا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۲؍ اپریل ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
طبیعت ابھی کمزور ہی چلی آ رہی ہے۔ گو پہلے سے بہتر ہے۔ الحمد للہ۔
قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرے۔ میں صراطِ مستقیم کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ راستہ جو کم سے کم کوشش کے نتیجہ میں منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو۔ دُنیا کی ہر خواہش کے پُورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ایک راستہ ہے اور جب تک اُس راہ کا علم انسان کو نہ ہو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یا بہت تکالیف اُٹھانے کے بعد بہت چکر کاٹ کر اور تکلیف اُٹھا کر اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی بلکہ کی دعا کی قبولیت کے ساتھ جو ذمہ واری ہم پر عائد ہوتی ہے اُس کے نبھانے کے لئے دعا ہمیںمیں پہلے سکھائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ جو طاقتیں تُو نے صراط مستقیم پر چل کر منازل مقصودہ تک پہنچنے کے لئے عطا کی ہیں ہم ان کا صحیح اور پُورا استعمال کر سکیں۔ اِس تفسیر کی روشنی میںکے یہ معنی ہیں۔ پھر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دُعا سکھائی کہ بتدریج ارتقاء کا قانون اس مادی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے اور کسی منزل کو بھی آخری منزل سمجھ کر تسلی پا جانے کی فطرت ہمیں تُونے دی نہیں اس لئے ہر منزل پر پہنچ کر اگلی منزل کی تلاش دل میں پیدا ہوتی ہے اور تیری محبت کی جس منزل پر بھی ہم پہنچے ہوتے ہیں اُس سے زیادہ کے حصول کی خواہش ہمارے دل میں مچلتی ہے اِس لئے ہر منزل جس تک ہم پہنچیں (ان طاقتوں اور کوششوں اور تدابیر کو انتہا تک پہنچا کر ان طاقتوں کے ذریعہ جو تُو ہمیںدے چکا ہے یعنی اپنی انتہائی کوشش کے نتیجہ میں) وہ تیری پیدا کردہ فطرت کے مطابق ہماری آخری منزل نہیں بلکہ اگلی منزل کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس کے لئے پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کی ضرورت ہے اور جب تیری توفیق سے اپنی طاقتوں کا صحیح اور پورا استعمال کر کے ہم ایک جگہ پہنچیں تو پھر ہماری دعا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں مزید طاقتیں عطا کر۔ چنانچہمیں اس طرف اشارہ ہے اور اس طرح پر یہ صراطِ مستقیم جو ایک معنی میں منزل بہ منزل انسان کی خوشیوں کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور دوسرے معنی میں ہر منزل اگلی منزل کی نشاندہی کرتی ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو مزید حاصل کرنے کی جو خواہش دل میں مچلتی ہے اُس کے لئے مزید طاقتوں کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں دعا سکھائی ۔
پس صرف یہ نہیں کہا کہ ہمیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ صراطِ مستقیم کی ہدایت ملنے کے بعد بھی بعض بد قسمت راہِ راست کے کنارہ پر گِر کر مر جاتے ہیں اور ان کا جسم اور رُوح سڑ گل جاتی ہے اور تعصب اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی زندگی میں ہمیں یہ نظارہ نظر آیا کہ بعض ایسے بد قسمت تھے جن کو یہ کامل اور مکمل ہدایت ملی یعنی قرآن عظیم کی شریعت اور جن کو ایک بہترین اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ملا اُنہوں نے اس کو ایک حد تک پہچانا اور اس سے فائدہ حاصل کیا اور ایک وقت کے بعد وہ مُرتد ہو گئے۔ پس صراطِ مستقیم کے کنارے پر ان کی رُوحانی یا بعض دفعہ رُوحانی اور جسمانی ہلاکت واقع ہوئی۔ پس محض صراطِ مستقیم کا عرفان حاصل کر لینا کافی نہیں یعنی اِس ہدایت کا مِل جانا کہ یہ سیدھا راستہ ہے بلکہ اس پر چلنا ضروری ہے اور محض چلنا ضروری نہیں بلکہ ہر لمحہ اور ہرآن پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ راہِ راست پر حرکت کرنا ضروری ہے تب انسان کو آخری خوشیاں اور جو انتہائی لذّتیں ہیں اور انتہائی خوشی ہے وہ ملتی ہے جس کا نام اِس دُنیا کی جنّت بھی رکھا گیا ہے اور جس کی آخری شکل اِس جہان سے گذرنے کے بعد دوسری زندگی کے اندر انسان کے سامنے آئے گی لیکن وہاں بھی صراطِ مستقیم کی منازل کی انتہا نہیں ہو گی۔ قرآن کریم نے بھی اور احادیث نے بھی قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ وہاں بھی اگرچہ امتحان نہیں ہو گا مگر عمل ہو گا۔ امتحان کا مطلب ہے کہ جہاں یہ خطرہ ہو کر عمل درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے عمل اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل بھی کر سکتا ہے یعنی عمل صالح بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی بھڑکا سکتا ہے یعنی عملٌ غیرُ صالح بھی ہو سکتا ہے۔
پس جہاں عمل ہے اور امتحان ہے اور دوسری زندگی میں عمل تو ہے (نکمّا پن نہیں کہ پوستیوں کی طرح افیم کھا کر بیٹھ گئے اور اونگھتے رہے) عمل ہے مگر امتحان نہیں۔ یہاں عمل ہے اور امتحان ہے۔ وہاں عمل ہے اور ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں پیچھے ہٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے آ گے ہی آ گے بڑھنا ہے ہر روز زیادہ ترقیات ملتی ہیں اور ہر روز زیادہ عمل کی توفیق ملتی ہے۔ پس یہ شکل ہے ایک مومن کی زندگی کی۔ پھر دنیا میں اُس کے اعمال بھی یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اور دوسری دُنیا میں بھی اُس کے اعمال یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان مومن صالح، خدا کا محبوب اور مقرب دو قسم کا عمل کرتا ہے۔ ایک عمل ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے اور ایک عمل ہے مزید شکر کے سامان کے حصول کے لئے یعنی پہلے سے زیادہ ملے اور زیادہ وہ شکر ادا کرے۔ ہمیںکی دعا سکھائی کہ ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا کر کہ اس دنیا کی حسنات بھی ہمیں ملیں (مثلاً درخت لگے ہوئے ہوں اور گرمی کم ہو۔ یہ دنیا کے حسنات میں سے ہے) اور ہمیں ایسے مقبول اعمال کی توفیق عطا کر کہ تیری جنتیں ہمیں یہاں سے جانے کے بعد حاصل ہوں۔ جنتوں کے ہم حقدار ٹھہریں وہاں جانے کے بعد ایک ہی زندگی ہے یہاں ہمارے سامنے دو زندگیاں ہیں۔ ایک اس دنیا کی زندگی اور ایک اُس دنیا کی زندگی اس لئےہمیں سکھایا لیکن اُس دنیا میں ایک ہی زندگی ہے یعنی جنت کی زندگی اور اس میں امتحان نہیں ہے لیکن ترقیات ہیں اس لئے وہ ایک ہی قسم کے اعمال ہیں۔ وہ اعمال شکر بھی ہیں اور مزید ترقیات کے حصول کے بھی ہیں یہاں کی جو دعا ہے وہ شکر کے لئے ہے اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے بھی ہے کہ جو تو نے دنیا کی نعمتوںکے حصول کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ان پر تیرا شکر ادا کر سکیں اور کبھی محروم نہ رہ جائیں۔ بہرحال یہ مومن کی زندگی کی تصویر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب حقیقی مومن بن جاتا ہے تو اس کا قدم آ گے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ استقامت اور صراط مستقیم قریباً ایک مفہوم میں استعمال ہو جاتے ہیں۔ پس استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ کام کرتے چلے جانا یہ مومن کی زندگی کی ایک نمایاں علامت ہے۔
ہم نے یہاںکے ماتحت کام شروع کیا درخت لگانے کا پانی مہیا کرنے کا اور نہ صرف یہ کہ اس کام میں آ گے ہی آگے بڑھنا چاہیئے بلکہ اس سلسلہ میں جو حرکت ہے اُس میں سستی نہیں پیدا ہونی چاہیئے لیکن سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ انسان بھول جاتا ہے اسی لئے دُعا سکھائی کہ جو ہم بھول جائیں اس پر ہماری گرفت نہ کر اور جو غلطی ہم کر جائیں تو اس کے کفارہ کے سامان ہمارے لئے پیدا کر دے میں کچھ عرصہ سے محسوس کر رہا ہوں کہ جو ہم نے یہاںدرخت لگانے کا کام شروع کیا تھا اور پانی کی جو ضرورت تھی۔ اُسے پورا کرنے کے لئے ٹیوب ویل لگانے کا پروگرام بنا تھا اور یہ مشترکہ کوشش یعنی نظام کی کوشش اور اہل محلہ کی رضا کارانہ کوشش کا پھل ہم نے حاصل کرنا تھا۔ اس میں کچھ کمی واقع ہو گئی ہے میرے علم کے مطابق اس منصوبہ کے ماتحت تین کنوئیں لگ چکے ہیں اور ایک ابھی اپنی آخری شکل میں نہیں آیا یعنی وہاں ٹینکی نہیں بنی اور محلہ دارالیمن کے غربی حصہ میں پانی کی تکلیف ہے اور دوسرے اس محلہ میں جہاں ہمیں پانی ملا ہے وہ دریا کے قریب کا علاقہ ہے اور وہ محلہ پہاڑی کے دامن کے ساتھ ساتھ درّہ تک پھیلا ہوا ہے وہاں میں نے سروے وغیرہ کروایا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ وہاں جائزہ لو اور دیکھو کہ زمین کی شکل کیسی ہے اور جتنے فٹ اونچا ہمیں اٹھانا پڑے اٹھانا چاہیئے تاکہ میٹھا پانی اُس محلہ کے غربی کنارے تک ہم پہنچا سکیں اس میں بھی پوری تیز رفتاری اور مستعدی کے ساتھ کام نہیں ہوا کچھ کام تو ہوا ہے لیکن میری تسلی کے مطابق نہیں ہوا۔
پھر یہ ہے کہ نیا سال آ رہا ہے اس لئے نئی سکیم ہمارے سامنے آنی چاہیئے۔ اگر اور ضرورتیں ربوہ میں کسی جگہ بجلی کے کنوئیں لگانے کی ہیں تو وہ ابھی سے ہمارے علم میں آنی چائیں تا کہ اگلے سال میں ہم وہ ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں۔ کنوئیں کی سکیم کے ساتھ بہت سے درخت لگائے گئے تھے کچھ تو بڑے اچھے پل رہے ہیں اور کچھ مر گئے اور جب درخت لگائے جاتے ہیں تو ان میں سے پلتے بھی ہیں اور کچھ مر تے بھی ہیں۔ یہ قانون قدرت ہے کہ کچھ زندہ رہتے ہیں کچھ مرتے ہیں۔
قانونِ قدرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ عام طور پر جتنے فی صد درخت عام قانون کے مطابق مرتا ہے اس سے زیادہ نہیں مرنا چاہیئے اور اس کے لئے کوشش ہونی چاہیئے۔ جہاں زیادہ مرتا ہے۔ وہاں ہمیں کوشش کی کمی نظر آتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ مر جاتا ہے یا پھر بکریاں چر لیتی ہیں ربوہ میں بکریوں کو رہنے کی اجازت صرف اس صورت میں مل سکتی ہے کہ وہ ہمیں گوشت دیں اس شکل میں نہیں مل سکتی کہ ہمارے درختوں کو وہ کھا لیں۔ آپ خیال رکھیں سب اہل ربوہ کا یہ کام ہے نیز درخت مر جاتے ہیں اس لئے کہ بچہ بعض دفعہ عدم تربیت کے نتیجہ میں شرارت کی وجہ سے بعض دفعہ بے خیالی میں مثلاً سکول سے گھر آتے ہوئے بے خیالی میں کسی پودے کو پکڑ کر جھٹکے سے کھینچتا ہے اور بعض دفعہ پودا اس کے ہاتھ میں آ جاتا ہے یا اس طرح پر اُسے تکلیف اور صدمہ پہنچتا ہے کہ اس کے لئے پوری طاقت کے ساتھ آ گے بڑھنا ممکن نہیں رہتا یا چند دنوں کے بعد وہ مر جائے گا۔ پس ہمارے بچوں کی یہ تربیت ہونی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے درخت ہمارے لئے پیدا کئے ہیں اور درختوں کے سائے سے اور ان کے پھلوں سے فائدہ اُٹھانا ہمارا کام ہے اس وقت اگرچہ موسم نہیں لیکن کوشش کر کے ہم اس میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مسلمانوں کی تو ذہنی حالت یہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ مغلیہ دَور کے بادشاہ جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی تھی ان میں بہت سی علمی کمزوریاں پیدا ہو گئی تھیں یہ تو درست ہے لیکن اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے بعض ایسے عجیب نظارے ہمارے سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ میں اس وقت روحانی ترقیات کا ذکر نہیںکر رہا صرف (حسنات دُنیا کے سلسلہ میں) مثال دے رہا ہوں۔ روحانی ترقیات بھی اُن میں سے بہتوں نے کیں اور ایسے بادشاہ بھی گذرے ہیں کہ جن کو علمائے وقت نے مجدّدِ وقت تسلیم کیا لیکن میرا مضمون وہ نہیں ہے میں اٰتِنَا فیِ الدّنْیَا حَسَنَۃً کے متعلق کہہ رہا ہوں۔ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لئے بے حد کوشش کی اور اُس کے شکر کے طور پر اُس کی شان کو اور عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے کام کیا۔ مغل بادشاہوں کی تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ بادشاہ کسی سفر پر جا رہا ہے۔ کسی جگہ بنجر علاقہ میں پہاڑی کے دامن میں بڑا سا چشمہ دیکھا۔ اُس زمانہ میں ہوائی جہاز تو تھے نہیں۔ مہینوں کے سفر ہوتے تھے مثلاً آگرہ سے بادشاہ چلا ہے تو دکّن سے واپسی بعض دفعہ ڈیڑھ سال میں ہوتی تھی لیکن انتظام ایسا تھا کہ وہ بادشاہ افسر متعلق کو کہتا تھا دیکھو! یہاں اچھی آبشار ہے لیکن یہ علاقہ بنجر پڑا ہوا ہے۔ میں آ گے جا رہا ہوں جب میں واپس آؤں تو اس جگہ حوض بنا ہوا ہو اور سو دو سو ایکڑ میں باغ لگا ہوا ہو۔ یہ حکم دے کر وہ آ گے چلا جاتا تھا پھر وہ مزے سے بیل گاڑیوں پر سفر کرتا اگر فوج ساتھ ہے تو کئی لاکھ آدمیوں کا اس طریقہ پر سفر کرنے میں بڑا وقت لگتا تھا۔ ان کے سامان آ گے جاتے تھے بازار ان فوجوں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور دو حصوں میں بٹ کر چلتے تھے۔ ایک حصہ پڑاؤ کے ساتھ رہ جاتا تھا اور دوسرا حصہ آ گے نکل جاتا تھا۔ بیس بیس ہزار گھوڑے کے چارے اور دانے کا انتظام بڑا انتظام ہے جو ان کو کرنا پڑتا تھا اس کے نتیجہ میں ان کے سفر کی رفتار سست پڑ جاتی تھی۔ میں نے پڑھا ہے کہ جاتے ہوئے بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ یہاں حوض بنا ہوا ہو اور پورا باغ لگا ہوا ہو اور جب واپس آئے تو پھلدار پودے وہاں لگے ہوئے تھے۔ اس لئے کہ اگر ہم پودے کو Transplant کریں یعنی ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگائیں تو پودا لگ جاتا ہے لیکن ہر شخص کی اپنی اپنی ہمت ہے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ صرف چار مہینے کے پودے کو ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگا سکتا ہے اور کسی میں اتنی ہمت ہے کہ چار سال کے پودے کو لگا سکتا ہے۔ اپنی عمر کے لحاظ سے پودے کی جڑوں کا پھیلاؤ ہے چھ مہینے کا پودا ایک فٹ کی گاچی نکالنے سے دوسری جگہ لگ سکتا ہے اور پل سکتا ہے لیکن چار سال کا پودا ایک فٹ کی گاچی نکالنے سے نہیں پلے گا کیونکہ اس کو زندہ رکھنے کے لئے جتنی جڑوں کی ضرورت ہے وہ چار یا پانچ یا سات فٹ کے گھیر میں اور پانچ یا سات فٹ کی گہرائی میں ہے۔ پس جب اُن بادشاہوں کا حکم ہوتا تھا وہ پُورا کیا جاتا تھا۔ بادشاہ کہہ دیتا تھا جب میں واپس آؤں تو یہاں پھلدار پودے بھی ہوں وہ آٹھ آٹھ فٹ کی گاچیاں نکالتے تھے اور اُن کے پاس ہاتھی اور دوسرے ایسے سامان تھے کہ ان پودوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ گاچ ٹوٹتی نہ تھی۔ اس کے لئے ایک تو ’’وتّر‘‘ صحیح ہونا چاہیئے ورنہ مٹی ُبھر جائے گی اور اگر صحیح وتّر ہو اور مٹی گرے نہیں اور جڑیں ننگی نہ ہوں تو چار سال کا پودا بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی لگ سکتا ہے۔ مغل بادشاہوں نے ایسا کر دکھایا ًکا یہ مطلب نہیں کہ انسان تدبیر نہ کرے مثلاً کوئی شخص دو مہینے کے آم کے پودے کے نیچے منہ کھول کر لیٹ جائے اور آم کا رس اس کے منہ میں ٹپکے۔ یہ مطلب تو نہیں کہ قوانین قدرت الٰہی قوانین کو توڑے بھی اور بھلائی کی امید بھی رکھے۔ بنیادی طور پر اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور اسے اچھی طرح ذہن نشین کرو کیونکہ آج کے کمیونسٹ دہریہ کا جو اعتراض مذہب پر ہے اس کی بڑی وجہ اس مسئلہ کو جو اسلام نے پیش کیا ہے نہ سمجھنا ہے کیونکہ دوسرے مذاہب نے اس چیز کو اُن کے سامنے نہیںرکھا نہ اپنی زندگیوں میں اس پر عمل کیا۔ بنیادی تعلیم کے متعلق بھی یہ ہے کہ اس دُنیا اور عالمین میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کے متعلق فرمایا(الجاثیۃ:۱۴) کوئی استثنا نہیں۔ بغیر استثناء کے ہر چیز تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے یہ اعلان کیا لیکن یہ نہیں کہ تم نکمّے بیٹھ جاؤ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہو، اونگھتے رہو، افیم کھانی شروع کر دو، زندگی میں تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہو، تم محنت نہ کرو، تم وہ قانون جو فائدہ اٹھانے کے ہیں نہ سیکھو اور مشاہدات تمہارے کمزور ہوں پھر بھی تم اس سے فائدہ اٹھا لو گے اور مخلوق تمہاری خادم بنی رہے گی جہاں ایک طرف یہ اعلان کیا کہوہاں دوسری طرف یہ اعلان کیا کہ (النجم:۴۰)کہ یہ چیزیں تمہاری خادم تو ہیں لیکن جتنی خدمت تم اپنی محنت سے ان سے لو گے اُتنی خدمت کریں گی اس سے زیادہ نہیں کریں گی۔ مغل بادشاہ نے پانچ برس کا پھل دینے والا درخت اپنے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لگوادیا اور قانون قدرت جو درختوں اور اُن کی جڑوں اور اُن کے پھیلاؤ اور ان کو پانی دینے کے متعلق ہے کہ اتنا پانی ملنا چاہیئے اور اتنے وقت کے بعد ملنا چاہیئے۔ غذا اتنی ہونی چاہئیے ان سب چیزوں کے متعلق قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اس قانون کو ان بادشاہوں نے سمجھا اور اس کے مطابق اُسے پچاس میل یا دو سو میل دُور لے جا کر دوسری جگہ لگوا دیا۔ فرقان بٹالین جب کشمیر کے محاذ پر رضا کارانہ طور پر اپنے ملک کی خدمت کر رہی تھی تو ہماری دائیں طرف ایک قلعہ تھا جس کی دیواریں اس محراب کی اونچائی کے برابر اگر سمجھی جائیں تو اس میں تین یا چار پتھر تھے اور وہ پتھر اس علاقہ کے نہیں تھے ہم نے پتہ لیا۔ صحیح اور علیٰ وجہ البصیرت تو ہمیں پتہ دینے والے نہیں تھے لیکن جتنا پتہ لگ سکا وہ یہ تھا کہ سینکڑوں میل سے ہاتھیوں کے اوپر اتنے بڑے بڑے پتھراٹھا کر لائے اور وہاں قلعہ بنا دیا۔ وہ دیواراتنی مضبوط تھی کہ ہندوستان کے ۲۵ پائونڈ کے گولے اُس دیوار پر پڑتے تھے۔ تو ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور بغیر نقصان پہنچائے دوسری طرف جا کر گر جاتے تھے تو جو اتنے اتنے وزنی پتھر اُٹھا کر لے آئے اُن کے لئے درختوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا کیا مشکل تھا۔ درخت کی عمر کے مطابق جتنی بڑی گاچ کی ضرورت ہوتی تھی وہ جانتے تھے اور اس طرح وہ درخت پھلدار ہو جاتے تھے۔ بادشاہ سلامت واپس آئے تو وہاں باغ لگا ہوا تھا۔ پھلدار درخت لگے ہوئے تھے موسم کے مطابق پھل لگے ہوئے تھے، پھول لگے ہوئے تھے ہر چیز وہاں تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے کم و بیش ایک سال میں یہ سب کچھ ہوا۔ پس جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک اِس عالمین کی ہر چیز انسان کی خادم ہے لیکن انسان پر اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگائی ہے کہ محنت سے اپنی عقل کو استعمال کر کے تجربہ حاصل کرنے اور مشاہدہ حاصل کرنے کے بعد قانون قدرت کی اتّباع کرتے ہوئے وہ جو کوشش کرے گا اس کا پھل اس کو مل جائے گا۔ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ انسان کو اُس کی کوشش کا پھل ملے گا لیکن خدا تعالیٰ نے جس طرح کہا کہ اسی کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ ہم نے قانون قدرت اور احکام الہٰی کی زنجیروں میں باندھ کر ہر شے کو تمہارا خادم بنایا ہے ان قوانین کا علم حاصل کرو۔ ان کے مطابق کوشش کرو تو پھل تمہیں ملے گا سوائے اس کے جو دوسرا قانون ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام قانون کو تمہارے حق میں استعمال نہیں ہونے دے گا اور درختوں کوکہے گا نہیں اب میرا وہ قانون نہیں چلے گا کیونکہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کھڑے ہو کر بغاوت کی ہے اس لئے اب اگر یہ عام قانون کی بھی پابندی کریں گے تب ان کو پھل نہیں ملے گا۔ وہ تو عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے مُنہ موڑنے والوں اور انبیاء کے مخالفوں پر ہمیشہ آتے رہے ہیں اور قرآن کریم نے اس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ قرآن کریم یقینا بڑی عظیم کتاب ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بہرحال جو کام ہم نے درخت لگانے کا شروع کیا ہے قانون قدرت کے مطابق ہم اگر محنت کریں گے تو ہمیں ان کا سایہ ملے گا اور پھل ملے گا ورنہ نہیں ملے گا قانون قدرت یہ کہتا ہے کہ اگر درخت بچّہ ہو اور اُس کی جڑوں کو ہلا دیا جائے تو وہ درخت بڑھ نہیں سکتا اور مر جاتا ہے اس کی جڑیں ننگی ہو جائیں تب بھی مر جاتا ہے جڑیں ہل جائیں اور ہوا اندرپڑ جائے تب بھی مر جاتا ہے جڑیں کٹ جائیں تب مر جاتا ہے مثلاً اگر ایک سال کا درخت ہے اور آپ نے اُس کی گاچی دو مہینے کے پودے جتنی بنائی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی موٹی جڑیں کٹ جائیں گی تو قانون قدرت کی خلاف ورزی کر کے آپ کو پھل نہیں ملے گا۔ پس قانون قدرت کی پابندی کرنی پڑے گی۔
اب میں نے آپ سے کہا کہ یہ جو بنیادی تعلیم ہے اس کو یاد رکھیں تا کہ کوئی کمیونسٹ دہریہ آپ سے بات کرے تو آپ جواب دے سکیں۔ میں حیران ہوا جب ایک کمیونسٹ رسالہ کے ایک مضمون میں میں نے یہ پڑھا کہ یہ صرف عزم یعنی انسانی ارادہ ہے جو نتائج پیدا کرتا ہے آسمانی قانون نتائج پیدا نہیں کرتا۔ میں نے کہا واہ ! تم نے تو ۲؍۱ علم بھی حاصل نہیں کیا۔ انسانی کوشش اور عزم صرف اُس وقت کامیاب ہوتا ہے جب عام حالات میں قانون قدرت کی پابندی کر رہا ہو اور خاص حالات میں (یعنی اگر کوشش کرنے والا خدا کا برگذیدہ ہے تو عام حالات میں جتنی فصل ہو گی اس سے) زیادہ خدا تعالیٰ دے دے گا اور اگر اس نے خدا کو ناراض کیا ہے تو عام حالات میں اُس کوشش اور تدبیر کا وہ نتیجہ اُس کے حق میں نہیں نکلے گا جو اس جیسی تدبیر کا نتیجہ زید اور بکر کے حق میں نکلے گا کیونکہ اِس نے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیا۔ اگرچہ زید اور بکر نے خدا تعالیٰ کو نہ خوش کیا نہ ناراض کیا لیکن خدا تعالیٰ کو چونکہ ناراض نہیں کیا اس لئے ان کے حق میں عام قانون چلتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا وہ پھل جلدی حاصل کرتا ہے اور زیادہ حاصل کرتا ہے اس وقت میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ جس مذ ہب نے یہ کہا ہو کہ ہر چیز جو پیدا کی گئی ہے وہ انسان کے فائدے کے لئے اور انسان کی خادم بنا کر پیدا کی گئی ہے اُس کو یہ کہنا کہHeavens نے یا اللہ تعالیٰ نے انسان کا کوئی خیال ہی نہیں کیا تھا۔ انسان نے اپنے عزم سے اور قوتِ ارادی کے ساتھ نتائج حاصل کرنے ہیں یہ بات عقل میں نہیں آتی۔ بہرحال اس وقت جو بات میں کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے ربوہ میں ایک کام شروع کیا ہے۔ آپ اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ وہ درختوں کی حفاظت کریں اور ان کی ہلاکت کا باعث نہ بنیں۔ آپ خود بھی خیال رکھیں۔ وقت پر پانی دیں اسی طرح ان کی اور بہت سی حفاظتیںہیں وہ کرنی پڑتی ہیں اگر مثلاًدرخت کے ساتھ گھاس پُھوس اُگ آیا ہے تو محلے والے اس کو صاف کریں درخت کے اردگرد ایک دائرہ کے اندر زمین کو نرم کریں وقت پر اس کو کھاد دیں اور جو گرمی اور سردی کے مطالبات ہر درخت کے ہیں ان کو پورا کریں اور جو منتظمین ہیں وہ اہل محلہ کو اس سلسلہ میں معلومات فراہم کریں ہدایات دیں، مشورے دیں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ توجہ اور صحیح نگہداشت سے کتنا فرق پڑتا ہے۔ میں جب گذشتہ سال انگلستان کے دورہ پر گیا تو کچھ بیماری کی وجہ سے وہاں آرام بھی کرنا تھا لیکن بہت سا کام بھی کرنے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی بہرحال یہاں ایک نیم کا پودا ہم نے انجمن کے اس مکان کے صحن میں جہاںہماری آج کل رہائش ہے لگایا تھا اور میں اس کو کوئی تین فٹ اونچا چھوڑ کر گیا تھا وہ دو مہینے کا پودہ تھا یوں بھی بکائین کی نسبت نیم دیر میں پلتی ہے جب میں چند ماہ کے بعد آیا تو میں نے دیکھا کہ اس نیم کا قد دس گیارہ فٹ تک گیا ہوا تھا میں بڑا حیران ہوا کہ یہ درخت بدلا گیا ہے یا کیا بات ہوئی ہے غیر معمولی قد اس نے نکال لیا ہے تو پتہ لگا میرے بچے نے اس میں انگریزی کھاد دی اور اس میں کچھ دوسری کھاد ملا کر مشورہ سے ڈالتا اور خیال رکھتا رہا اور یوں یہ بڑھ گیا ہے حالانکہ عام قانون کے مطابق اس کو دو سال میں وہاں پہنچنا چاہیئے تھا۔ پس اس کا بھی علم ہونا چاہیئے۔
درختوں کو عام طور پر لوگ یہ سمجھ کر کہ ان کو ضرورت نہیں کھاد نہیں دیتے ٹھیک ہے اگر اس نے دس فٹ تین سال میں ہونا ہے تو اس کو کھاد کی ضرورت نہیں وہ تین سال میں اُتنا ہو جائے گا لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک سال میں دس فٹ تک پہنچ جائے (ایسے درخت ہیں ہمارے گھر کے صحن میں لگا ہوا ہے) تو اُس کو آپ کھاد دیں وہ ایک سال کا بھی انتظار نہیں کرے گا۔ چھ مہینے کے اندر اس تک پہنچ جائے گا۔ پس درختوں کی حفاظت کریں اور نئے درخت لگائیں۔ جو میں نے مغل بادشاہوں کی مثال دی ہے اُس وقت میں تعلیمی لحاظ سے ایک اصولی بات بتا رہا تھا۔ اس سلسلہ میں استدلال کیا تھا اس سے آپ یہ بھی استدلال کر سکتے ہیں کہ جہاں درخت مر گئے ہیں اگلے موسم کا ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہیں ذخیروں میں درخت مل جائیں تو بڑی بڑی گاچیاں نکالیں اور یہاں لگا دیں۔ پاپلَر کا درخت اپنی پت جَھڑ کے وقت سویا ہوا ہوتا ہے۔ اگر فروری میں اس کو جڑوں سمیت اُکھاڑ کر جھاڑ کر مٹی کے بغیر دوسری جگہ لگائیں تو وہ ہو جائے گا لیکن جب اس نے پتے نکال لئے ہیں اس اُکھاڑ کر اور جھاڑ کر لگائیں گے تو نہیں لگے گا لیکن آپ ڈیڑھ یا دو فٹ کی یا جو بھی مناسب ہو گا گاچی نکال کر لگائیں تو وہ ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایک معنی میں اپنا مقام چھوڑا اور دوسرے معنی میں اپنی زمین نہیں چھوڑی وہ اس کے ساتھ ہی آ گئی۔
پس نئے درخت لگائیں جو دوست آج کے بعد مجھے بتا کر صحن سے باہر عام قسم کے پانچ درخت پال لے یا دو پھلدار درخت اپنے صحن کے اندر بڑی گاچیاں لگا کر پال لے تو ہر دو درخت پالنے والے کو میں انعام دوں گا لیکن میں اب انعام کی شکل معیّن اس لئے نہیں کر سکتا کہ اگر سب کو ہی میں نے انعام دینا ہے تو اس کی شکل کچھ اور ہو گی اور اگر دو یا چار ہیں تو پھر اس کی شکل اور ہو گی اگر وہ دو سو یا سات سو گھر ہیں تو ان سب کو انعام دوں گا لیکن اس کی شکل بہرحال بدل جائے گی۔ انجیر یا شہتوت کا درخت بہت جلدی پھل دیتا ہے انجیر تو چند مہینوں کے اندر پھل دے دیتا ہے اگر وہ تھوڑا ہی ہو گا کیونکہ شروع میں تو ایک ہی شاخ ہو گی لیکن پھل آ جائے گا۔ شہتوت بھی اگر آپ بڑی گاچی لگائیں گے تو اگلے سال پھل دے دے گا۔ میں نے احمدنگر میں اپنی زمین پر شہتوت کا پودا لگایا ہے لیکن وہ اپنے وقت پر لگایا تھا یعنی جب شہتوت کی پت جھڑ ہوتی ہے یعنی فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں اُس کے پتے بڑے اچھے نکلے ہیں اللہ نے خیر کی اور وہ آفات سماوی سے بچا رہا اور ہماری کسی غلطی اور غفلت کے نتیجہ میں ہمیں سزا دینے کے لئے اس پودہ کو اللہ تعالیٰ نے نہ مارا تو اگلے سال اس کا پھل آ جائے گا یعنی ڈیڑھ سال بعد پس آپ اپنے چھوٹے سے صحن میں بھی پھلدار پودے لگا سکتے ہیں۔ لگائیں اور پھل کھائیں۔ اگر صحن بڑا ہے اور دس دس فٹ کے فاصلہ پر انجیر اور شہتوت لگا دیں تو تین چار درخت لگا سکتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر ۱۵ فٹ مربع جگہ ہے تو اس میں آسانی سے دس دس فٹ کے فاصلہ پر ۴ درخت لگ سکتے ہیں کچھ دیوار کے قریب آ جائیں گے۔ دیواریں اگر تپتے والی ہیں تو اُدھر آپ جھاڑیاں کھڑی کر دیں۔ مری ہوئی جھاڑیاں بھی دیواروں کی تپش کو روکتی ہیں بہرحال مشورہ کریں اور لگائیں اور میں یہ چاہتاہوں کہ ہر گھر اپنے صحن کا پھل دو سال کے اندر اندر کھا رہا ہو۔ انشاء اللہ کوشش تو کریں دیکھیں کتنا مزہ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حُسن کو اُس کے قدرت کے جلووں میں آپ دیکھیں گے گند کے اندر پلا ہوا درخت اتنا ستھرا پھل آپ کو دے رہا ہو گا۔ میں نے کلّر اور شورہ والی زمین میں پلے ہوئے درخت دیکھے ہیں کہ اتنے میٹھے اور شیریں پھل دیتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ جس زمین سے غذا اس درخت نے لی تھی وہ تو کلّر والی اور کھاری تھی اور جو پھل ہمیں ملا ہے وہ میٹھا ہے۔ اگر کسی کا بالکل ہی چھوٹا صحن ہے اور وہ زیادہ درخت نہیں لگا سکتا تو فالسے کے پانچ سات درخت لگا لے اسے فالسہ ملے گا۔ خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے لئے ہر چیز پیدا کی ہے جس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمہارے لئے چیز پیدا ہوئی ہے اس میں سے زیادہ سے زیادہ تم فائدہ اُٹھاؤ مگر جائز طریقوں پر خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے اُس کی قدرت کے نشان ان درختوں میں اور ان کی پرورش میں دیکھتے ہوئے اس دُنیا میں بھی حسنات حاصل کرو۔
اور پھر دوسری زندگی جو اصل زندگی ہے۔ یہ زندگی تو کوئی چیز ہی نہیں جس طرح ایک سیکنڈ میں ایک بُلبلا پانی کے اُوپر بنتا ہے اور مٹ جاتا ہے اسی طرح یہ زندگی ہے۔ ہم آئے ہیں اور چلے جائیں گے لیکن اگر ہمیں اُخروی زندگی کی جنت مل جائے جو نہ ختم ہونے والی جنت ہے اور اس کے لئے ہم نے یہاں کام کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال ہو اور اُس کی مغفرت کی طاقتیں ہماری خطائیں اور کمزوریوں کو دُور کر کے ہمیں اپنی جنت میں لے جائیں تو اُس سے اچھی کوئی چیز نہیںوہ بھی ملے گی۔ لیکن پہلے کہا گیا اور بعد میں کہا گیا اس لئے کہ دنیا کی حسنات پر ہم نے اُخروی زندگی کے محلات کی بنیادیں رکھنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور جن کو میں نے منتظم بنایا ہے اُن کو اللہ تعالیٰ سمجھ اور توفیق دے کہ اگلا منصوبہ مزید بجلی کے کنوئیں اور درخت لگانے کا وہ بنا سکیں۔ یہ ایک نئی چیز ہے اور سمجھانے والی بات ہے ۔ ہر ایک کو تو علم نہیں ہوتا جو لوگ گھروں میں درخت لگائیں گے اور دو سال کے بعد جب ٹرے بھری ہوئی اُن کے سامنے انجیروں کی ہو گی تو وہ بڑے خوش ہوں گے کہ خدا کی شان ہے یہ حصہ صحن کا ہمارا یونہی پڑا ہوا تھا اب اتنی انجیریں مل رہی ہیں اور یہاں ربوہ میں تو درخت کا ُچناؤ اور انتخاب اچھا ہو تو بہت اچھا پھل دیتا ہے میں کالج کی کوٹھی میں دو درخت لگائے تھے اتنے اچھے انجیر کہیں میں نے دُنیا میں نہیں کھائے جتنے وہاں ہوئے۔ باہر سے ہمارے مہمان پروفیسر وغیرہ آتے تھے اور حیران ہوتے تھے اتنا اچھا اور لذیذ اور خوشبودار اور شیریں انجیر بھی دُنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا رحم کرنا چاہتا ہے آپ اُس کی رحمت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور منتظمین نئے کنوئیں اور درخت لگانے کے متعلق سکیم اور منصوبہ بنا کر کچھ بہار میں اور کچھ خزاں میں (وہ بھی درختوں کے لگانے کا ایک موسم ہے) درخت لگائیں اور یہاں تو جو ریل میں آئے اُسے بھی اور جو بسوںاور موٹروں پر آئے اُسے بھی اور جو ہوائی جہاز سے گذرے اُسے بھی نظر آئے کہ یہاں ایک باغ لگا ہوا ہے جس میں اس دُنیا کی جنت کے لوگ بس رہے ہیں اور دُنیا جو مرضی کرتی رہے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو آپ حاصل کرنے والے ہوں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵؍مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶)







دیگر مذاہب کی تعلیم اتنی واضح نہیں جتنی
اسلام نے واضح اور روشن تعلیم دی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء بمقام مسجدنور راولپنڈی۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے۔ اس لئے پہلے تو میرا خیال تھا کہ میں یہاں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے بھی شاید نہ آسکوں لیکن آپ کی محبت کی گرمی زیادہ ہوگئی اور میں موسمی گرمی کے باوجود یہا ں آپ کو سلام کہنے، آپ کے لئے دُعائیں کرنے اور اسلامی تعلیم کے بعض حسین پہلوئوں کو آپ پر اجاگر کرنے کے لئے آگیاہوں۔
ہمارے زمانہ میں بد مذہب اور لا مذہب لوگوں کی طرف سے مذہب پر ایک یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ مذہب افیون کی خاصیت رکھتاہے اور یہ انسان کو بے حِسّ اور بے عمل بنا دیتا ہے۔ Heavens(یہ مختلف زبانوں کا محاورہ ہے جسے دہریہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اللہ کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں Heavens) ہمیں کیا دیتی ہیں۔ انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اپنی کوشش اور اپنی محنت اور اپنے علم کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔
جہاں تک اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا تعلق ہے، اس مسئلہ کے بارہ میں اُن کی تعلیم اتنی واضح اور روشن نہیں جتنی اسلام نے واضح اور روشن تعلیم دی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی تعلیم کو دیکھ کر دہریہ دماغ میں یہ بات آئی ہو کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تو کچھ نہیں ملتا جو کچھ ملتا ہے وہ انسان کی اپنی کوشش کے نتیجہ میں ملتا ہے۔ غرض مذہب کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور ایک شور مچایا جارہا ہے کہ مذہب تو محض ایک افیون ہے۔ انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اسکی کوششوں کا مرہون منت ہے اور اس بارہ میں اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اور جو حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر قرآن کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوتی ہے اُسے میں اس وقت مختصراََ بیان کروں گا۔
اس تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس کا کسی دوسرے مذہب نے ذکر نہیں کیا کم ازکم میرے علم میں نہیں کہ کوئی انسانی دماغ وہاں تک پہنچا ہو۔ بعض دفعہ لوگ تفاصیل میں گئے بغیر اسلامی تعلیم سے ملتی جلتی باتیں کہہ دیتے ہیں لیکن جو حصہ میں ابھی بیان کروں گا وہ میں نے کسی ’’اِزم‘‘میں نہیں دیکھا۔ اسے میں نے نہ کمیونزم میں دیکھا نہ چینی سوشلزم میں دیکھا اور نہ کیپیٹلزم میں دیکھاہے حالانکہ ایک وقت میں سرمایہ دارانہ نظام بڑی بلندی پر پہنچا ہوا تھا۔ اس نظام نے بڑے بڑے فلاسفر پیدا کئے جنہوں نے Metaphisics(میٹا فزکس) یعنی مابعدالطبیعات پر بھی فلسفیانہ کُتب لکھیں اور اخلاقیات پر بھی بظاہر بڑے گہرے مضامین بیان کئے۔ ہم نے ان مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ان پر غور کیا اور بالاخر ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ جو تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اور انسان کے ہاتھ میں حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو شریعت پہنچائی گئی ہے وہ ان حسین کوششوں اور زاویوں کو بھی نمایاں کرتی ہے جو انسانی عقل سے پوشیدہ رہتے ہیںاور انسان کا دماغ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ تعلیم بیان کی ہے اور احادیث میں اس کی تفسیر بیان ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھول کر یہ چیزیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ میں اُن کو مختصراً بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
اسلام نے پہلی بات ہمیں یہ بتائی ہے کہ اس یونیورس (Universe) اس عالمین کی ہر چیز بلا استثنیٰ انسان کی خدمت کیلئے اوراُسے فائدہ پہنچانے کیلئے پیدا کی گئی ہے۔ آج سے چودہ سوسال پہلے جب کہ چاند سے فائدہ حاصل کرنے کا تخیل بھی انسان کے ذہن میں نہیں آیا تھا، قرآن کریم نے یہ اعلان کیا:

(لقمان :۲۱)
اور ایک دوسری جگہ فرمایا
(الجاثیۃ:۱۴) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے۔ اس کا ئنات کی ہر چیز تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اور اُسے تمہاری خدمت پر لگادیا گیاہے۔ اس سلسلہ میں اسلام نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم اور بڑی ہی حسین بات یہ بتائی ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کے فوائد غیر محدود ہیں۔ میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ کسی شخص نے اس مسئلہ پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہو۔ اسلام کے مقابلہ پر کوئی انسان کسی مقام پر کسی زمانہ میں کھڑے ہو کر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ اگر کوئی بیوقوف یہ دعویٰ کرے تو ہم اس کو جُھٹلانے کے لئے کافی ہیں۔ مثلاً کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ چیونٹی کے پائوں کی جو خاصیتیں ہیںیا اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے چیونٹی کے پائوں کی خلق کے ذریعہ ظاہر ہوئے ہیں وہ گنے جا سکتے ہیں یا ہم نے گن لئے ہیں اور اب اور کوئی خاصیت باقی نہیں رہی۔ میں تو کسی خاص فن کا ماہر نہیں ہوں اورنہ سپیشلسٹ ہوں کسی مضمون کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کا شوق عطا فرمایا ہے اور آنکھیں کھلی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیاہے اور لوگوں کے مشاہدات کو بھی پڑھا ہے۔ چنانچہ دیکھنے میں یہ آیا کہ ایک وقت میں تجزیہ کرنے والوں نے کہا کہ افیون میں ۱۸ ست ہیں اور بس۔ اور پھر اور آگے آئے اورکہا ہم نے کچھ اور ست نکال لئے ہیں ۔ میرا خیال ہے اب تک ۳۵۔۴۰ یا شاید اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو اس وقت میں نے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ افیون کے ۱۸ یا ۲۰ ست معلوم ہوئے ہیںمگر پھر اور ست نکلتے چلے گئے ۔
اسی طرح عورتوں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہے۔ انسان نے ایک وقت میں یہ کہہ دیا کہ اس کے بڑے فائدے ہیںدوسرے وقت میں کہہ دیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب کہا ماں کا دودھ پلانے کے فائدے ہیں یا جس نے کہا فائدے ہیں تو اس نے گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہا کیونکہ دودھ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز میں اللہ تعالی نے انسان کے لئے فائدہ رکھا ہے اسلئے ظاہر ہے کہ ماں کی چھاتیوں کے دودھ میںبچے کے لئے فائدہ ہے۔ مگر جب اس دودھ کو بے فائدہ قراردے کر عورتوں کی ایک یا دو نسلوں کی صحتیں خراب اپنی تھیوریز اور اصول بیان کرکے اور اُن پر عمل کروا کر کروا دیں تو پھر انسان نے بڑے آرام سے یہ کہہ دیا کہ اوہ ہو! ہم سے غلطی ہوگئی تھی۔ اب تو ہماری نئی ریسرچ یہ ہے کہ اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلائے گی تو نہ بچہ صحتمند ہوگا اور نہ زچگی کے بعد ماں کی صحت عود کرے گی۔ اور یہ سب کچھ اس انداز میں کہا کہ گویا انسان نے ہلاکت کا کوئی کام ہی نہ کیا تھا۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ بتاچکا ہوںکہ قرآن کریم نے جو فیملی پلاننگ ( خاندانی منصوبہ بندی) کی ہے اس کی اپروچ (Approach) اور طریق تعلیم آجکل کے سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جو شخص اپنے بچے کی رضاعت کو مکمل کروانا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلائے اور دودھ پلانے کے زمانہ میں عورت کو حمل نہیں ہونا چاہیئے۔ اس طرح دو بچوں کے درمیان قریباً ۳سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے۔ اب کل ہی ایک دوست ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ایک کتاب کا ذکر کیا جو حال ہی میں چھپی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی نوّے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقتیں دو سال کے اندر بتدریج ترقی کررہی ہوتی ہیں تو یا نوے فیصدسے زیادہ ذہنی طاقت پہلے دو سال کے اندر نشوونما پاتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے رضاعت کا زمانہ قرار دیا ہے اورکہا ہے کہ ماں بچے کو دو سال تک دودھ پلائے۔ دودھ ویسے بھی بڑی اچھی غذا ہے لیکن ماں کا دودھ بچے کی نشوونما کے لئے بہترین غذا ہے مگر ایک وقت میں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح ماں بھی بیمار ہوجائے گی اوربچے کو بھی فائدہ نہ ہوگا۔ جب دیکھا کہ اس طرح عورتوں کی صحت تباہ ہورہی ہے تو پھر کہہ دیا کہ اس میں فائدہ ہے اور پھر اب حال ہی میںیہ کہہ دیا کہ بچے کے نوے فیصد سے زیادہ ذہنی قویٰ دوسال کے اندر نشوونما پاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسال تک اس کو بہترین غذا ملنی چاہیئے تاکہ اس کے دماغ کی بہترین نشوونما ہو اور بہترین غذا ماں کا دودھ ہے۔
پس قرآن کریم کی تعلیم پر لوگوں نے اعتراض شروع کردئیے پھر وہ اعتراض واپس لے لئے۔ پھر خود ہی ریسرچ کی اور قرآن کریم نے جو پُر حکمت تعلیم دی تھی اسکی تائید میں باتیں کرنی شروع کردیں۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگادی گئی ہے یعنی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ہر مخلوق میں انسان کیلئے بے شمار فائدے رکھے گئے ہیں( بے شمار کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کا شمار نہیں کرسکتے ورنہ ہر مخلوق محدود ہے) اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلامی تعلیم بہت عظیم ہے اس پر کوئی جتنا زیادہ غور کرتاہے اس پر اس کی عظمت اور زیادہ کھلتی چلی جاتی ہے۔
دوسرے ہمیں یہ بتایا گیاہے کہ اس عالمین کی ہرچیز کے اندر جو فائدے ہیںاُن میں وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے مثلاً گندم کا دانہ اپنے اندر جو خواص آج رکھتا ہے وہ پانچ ہزار سال پہلے نہیں رکھتا تھا۔ گو اس کے حق میںبہت سے دلائل دئیے جاسکتے ہیں لیکن ایک موٹی دلیل دینا بہتر ہوگا اور وہ یہ ہے کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ستاروں کی روشنی کی جو شعاعیں زمین تک پہنچتی ہیں وہ ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیںاور یہ علم اب عام ہوگیا ہے میرے خیال میں بچے بھی اسے جانتے ہیں۔ پھر سائنسدان یہ بھی کہتے ہیںکہ نئے سے نئے ستاروں کی شعاعوں کا اضافہ ہورہاہے۔بعض ایسے ستارے ہیں جو اتنے فاصلہ پر ہیں کہ ہزاروں سال پہلے پیدا ہونے کے باوجود آج پہلی بار اُن کی روشنی زمین تک پہنچی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں ستارے ایسے ہیں جن کی شعاعیں پچھلے پانچ دس سال میں زمین تک پہنچی ہیں۔ ہم اُن کا حساب نہیں رکھ سکتے ۔ اگر ستاروں کی شعاعوں کا اثر ہماری فصلوں پر پڑتا ہے اگر ستاروں کی شعاعوں میں زیادتی ہورہی ہے تو ظاہر ہے خواص اشیاء میں بھی زیادتی ہورہی ہے ۔ چنانچہ فصلوں کو لے لیں تو ظاہرہوتا ہے کہ آج کی گندم پانچ ہزار سال پہلے کی گندم سے مختلف ہے یہی حال دوسری فصلوں کاہے۔ اس دنیا کی ہر مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے لئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کے جسم پر بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنی نالائقیوں اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے اپنے جسم کو ایسا بنا لیتا ہے کہ جسم کے اجزاء روٹی کے اثرات کو قبول کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیںدوائی کا اثر معجزانہ طور پر کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ڈاکٹر کہہ رہا کہ میں۲۰ دن سے دوائیاں دے رہا ہوں اور کوئی اثر نہیں ہورہا کیونکہ دوا کے اثر کوقبول کرنے کے لئے جسم تیار نہیں ہوتا اور اس طرح گویا دلوں میں بڑی مایوسی پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جب ڈاکٹر کے دل میں بھی مایوسی پیداہوچکی ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اجزاء پر اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتاہے کہ دوائی کے اثر کو قبول کریں تو مریض کو صحت مل جاتی ہے کیونکہ دوا بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیداکی ہے اور انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی ہے اس لئے جب جسم کے اجزاء دوائی کے اثر کو قبول کرنا شروع کردیتے ہیں تو مریض اور اس کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کے دل میں جو مایوسی پیداہوئی ہوتی ہے وہ دور ہوجاتی ہے اور بیمار اچھا ہوجاتاہے۔
پس اسلام نے ہمیں ایک تو یہ تعلیم دی کہ اس یونیورس کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہے۔ اس عالمین کی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے اور دوسرے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے اندر جو خواص ہیں وہ تمہارے شمار میں نہیں آسکتے۔ تم کسی جگہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کرلیا اور اب کچھ باقی نہیں رہا مثلاً یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ گندم کے خواص سے یا آدم کے خواص سے یا گوشت کے خواص سے سب کچھ حاصل کرلیا ہے اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اپنی صفات کے جلووں کے ذریعہ بے شمار خواص پیدا کردئیے ہیں۔
تیسرے میں نے یہ بتایا ہے کہ جب تک انسان کوشش کرتا رہے گا مثلاً اگلے دو کروڑ سال تک بھی ہرروز نئی سے نئی چیز اور اس میں ایک نئے سے نیا خاصہ دریافت ہوتا رہے گاپس اگلے دو کروڑ سال تو کیا ان گنت سالوں تک خداتعالیٰ کی مخلوق کے خواص معلوم ہوتے رہیں گے ۔ اشیاء میں آج جو خواص پائے جاتے ہیں وہ محدود بھی ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے لئے نئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں یہ ختم نہیں ہوسکتے۔ ہمیشہ نئی سے نئی مخلوق خدا کے بندوں کی خدمت کے لئے تیار ہوتی رہتی ہے۔ پس اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور اس بات کو اچھی طرح بتاکر ذہنوں میں بٹھایا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیداکی گئی ہے۔ اس سے فائدہ حاصل کرنا انسان کی اپنی کوشش پر منحصر ہے۔ کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام نے دعا کرنے پر بھی زوردیا اور یہ دعا سکھادی (البقرہ:۲۰۲)اس دعا میں صرف یہی نہیں کہا کہ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً بلکہ آخرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی چاہنے کی بھی دعاسکھا دی۔ ظاہر ہے دُنیا کی حسنات ہم نے دنیوی مخلوقات سے حاصل کرنی ہیں۔ انہی سے فائدہ اٹھا کر اپنی آخرت سنوارنی ہے ۔ اس لئے اسلام نے یہ اعلان کیا کہ مذہب افیون نہیں ہے۔ وہ شخص بڑا بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام بھی افیون کا کام دیتا ہے۔ اسلام نے تو یہ کہا ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسان کی خدمت پر لگا رکھی ہے لیکن خداتعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ(النجم :۴۰) کی رو سے انسان کو اتنا فائدہ ملے گا جتنا وہ اسکے لئے کوشش کرے گا۔ تب (النجم:۴۱) کی روسے اور عام قانون کے مطابق کوشش نتیجہ خیز ہوگی۔ انسان کو محنت کا پھل مل جائے گا ایک شخص مثلاً ہزار یونٹ کوشش کرتا ہے اس کو ہزار یونٹ کا پھل مل جاتا ہے ۔ میں عام تقدیر کے مطابق بات کررہا ہوں جو اس دُنیا میں کار فرما ہے خاص تقدیریں جن کو ہم معجزات کہتے ہیں اُن کے متعلق میں بات نہیں کررہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افیون کھا کر سو نہ جانا اور تقدیر کا یہ مطلب نہ لینا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیںہے۔ اگرتم نے اپنی جھولیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے فائدہ اُٹھا کر بھرنی ہیں تو تمہاری جھولیاں تبھی بھریں گی جب تم اس کے لئے محنت، کوشش اور مجاہدہ کروگے ۔ محنت نہیںکروگے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا ۔
پس یہ مذہب جو اتنی عظیم اور حسین تعلیم دیتا ہے وہ افیون کیسے بن گیا۔ یہ تو ہمیں ہر آن خدا کی باتیں یاد دلاتا ہے ۔ یہ تو ہمیں ہر صبح جھنجھوڑتا ہے کہ تمہارے کام کے اوقا ت آگئے۔ یہ تو ہر لحظہ سے لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہیں خداتعالیٰ کی مخلوق سے صرف وہی فوائد حاصل ہوں گے جن کے لئے وہ کوشش کریں گے ۔ قرآن کریم نے چونکہ بدی کو بھی روکناتھا اس لئے یہ بھی کہا کہ جو کوشش کروگے اس کے مطابق تمہیں اجر ملے گا لیکن ساتھ یہ بھی کہاکہ تمہاری کوششوں کے دو راستے ہیں جو تم پر کھولے گئے ہیں۔ ایک وہ سیدھی راہ ہے جسے صراط مستقیم کہاگیا ہے جو نیکی کی راہ ہے اور جو بھلائی کی راہ ہے اور جو صلاح کی راہ ہے اور جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کی راہ ہے۔ فرمایا تمہاری طرف سے کوشش ضرور ہونی چاہیئے لیکن یہ کوشش صراط مستقیم پر ہونی چاہیئے۔ یہ کوشش صحیح راستے پر ہونی چاہیئے۔ ایک دوسرا راستہ بھی تمہارے لئے کھولا گیا ہے اوروہ خداتعالیٰ کے غضب کی راہ ہے وہ مغضوب علیھم کی راہ ہے ۔ اس کو اختیار نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم ملے گی۔ اگر صراط مستقیم پر چلوگے تو تمہاری کوشش کا نتیجہ تمہیں ملے گا اور ساتھ جنت بھی ملے گی کیونکہ سیدھی راہ اختیار کرنے والوں کے لئے دوسری دنیا کی بھلائی بھی مقدر ہے۔
دراصل مذہب پر اعتراض کرنے والے لوگوں میں ایک کمزوری یہ پائی جاتی ہے کہ وہ صراط مستقیم اور راہ ضلالت میں فرق اور تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتے مثلاً ایک شخص ہے جو اپنے کھیتوں میں جاکر دن رات محنت کرتاہے اور ساتھ دعائیں بھی کرتا ہے اور اس طرح اس کو بہت اچھی فصل میسر آتی ے اسکو ایک ایکڑ میں سے دو ہزار کی پیداوار ہوتی ہے( ویسے دنیا میں پانچ پانچ اور سات سات ہزار فی ایکڑ کمانے والے لوگ بھی ہیں) خرچ کرنے کے بعد اسے ۳۔۴ ہزار روپیہ بچ جاتا ہے۔ اس نے صراط مستقیم پر چل کر یعنی جائز ذرائع سے محنت کرکے یہ دولت کمائی۔ زمین اس کے لئے پیدا کی گئی تھی۔ اُس نے اس کے خواص مثلاً یہ کہ وہ گندم بھی پیدا کرسکتی ہے اس نے زمین کے اس خاصہ سے فائدہ اُٹھایا۔ اُس نے خدا کا شکر ادا کیا اور بڑی الحمدپڑھی۔ خداتعالیٰ نے اس کو ایک اور سبق دینا تھا رات کو چور آیا اور وہ اسکی جمع شدہ پونجی چرا کر لے گیا۔ اب ایک ماہ پہلے چار ہزار روپے کی رقم جو زمیندار کے پاس تھی وہ چور کے پاس چلی گئی اورچور اسکا مالک بن گیا۔ مگر ان دو ملکیتوں میں فرق کرنا پڑتا ہے۔ چور کی کوشش جہنم کی طرف لے جانے والی کوشش ہے یعنی چوری کے ذریعے مال کو حاصل کرلیا یا رشوت کے ذریعہ حاصل کیا یا Corruption (کرپشن ) کے ذریعے حاصل کر لیا یا ذہنی بددیانتی کے ذریعہ حاصل کرلیا غرض ہزار قسم کی غلط راہیں ہیں جن پر انسان بہک جاتاہے اور اپنی جہالت سے اُن کو اختیار کرلیتا ہے لیکن اسلام نے ہمیں یہ کہاکہ ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ ہر چیز میں بے شمار خاصیتیں رکھی گئی ہیں۔ گویا اس کائنات کی ہرچیز انسان کی خدمت پر لگادی گئی ہے۔ مگر یہ پکے ہوئے پھل کی طرح کسی آدمی کی گود میں آکر نہیں گرے گی پکا ہوا پھل بھی گود میں نہیں گرتا اسکے لئے بھی بسا اوقات درخت پر چڑھنا پڑتا ہے۔ اُسے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔اس لئے فرمایا تم جتنی کوشش کرو گے اس کے مطابق اشیاء سے خدمت لے لوگے لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی کہہ دیا( ہمارا رب بڑا پیار کرنے والا ہے)کہ میری مخلوق سے خدمت تم لے سکتیہو صحیح ذریعہ سے بھی اور خدمت تم لے سکتے ہو غلط ذرائع کو اختیار کرکے بھی۔ فرمایا غلط ذرائع کو اختیار نہ کر نا۔ جو جائز اور ٹھیک ذرائع ہیں جن کو اپنی اصطلاح میں صراط مستقیم کہاجاتاہے اُن کو اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کروگے تو کس نتیجہ پر پہنچو گے ۔اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ(لقمان:۲۱) اللہ تعالیٰ نے اس عالمین کی ہر چیز کو تمہاری خدمت پر لگادیااور تمہارے اندر طاقتیں پیداکیں کہ تم اسکی مخلوق سے فائدہ حاصل کر سکو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں صراط مستقیم کو کھول کر بیان کردیا اور تمہیں اس قا بل بنادیا کہ نہ صرف یہ کہ تم بے شمار نعمتوں کے وارث بنو بلکہ اس مقام تک بھی پہنچو کہ دنیا میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ ہے۔ کسی انسان نے اپنی Will Power (وِل پاور) اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کیا۔ پس خداتعالیٰ کی یہ بے شمار نعمتیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم خدا کے شکر گذار بندے بن کر اپنی زندگیاں گذاریں اور خداتعالیٰ کے مزید فضلوں کے وارث بنیں خداکرے کہ ایسا ہی ہو ۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)








حمد اور شکر کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق
انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍مئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔ غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:-

(الصآفات:۶)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
جہاں کہیں بھی روشنی کی کِرن چمکتی ہے اُس کا منبع ربّ المشارق ہی ہمیشہ ہوتاہے۔ طلوعِ نُورمختلف شکلوں میں اس دُنیامیں نظر آتاہے۔ سورج کا طلوع ہے، چاند کا نکلنا ہے۔ تاروں کی چمک ہے۔ چہروں پر مسکراہٹوں کا آنا ہے دِلوں میں بشاشت کا پیداہونا ہے یہ سب نُور ہیں۔ نُور سے اِن کا تعلق ہے اور سب کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جوربّ المشارق ہے۔
اہل پاکستان ایک لمبا عرصہ تک امتحان اور ابتلاء میں مبتلا رہے۔ ایک جنگ ہوئی ایک عالمگیر سازش کے نتیجہ میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور مشرقی حصّہ میں ہماری افواج اور پولیس اور شہریوں میں سے قریباً 90ہزار قیدی بنا لئے گئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اِس حصّہ میں جو مغربی پاکستان تھا لاکھوں خاندان اور گھرانے ایسے تھے جنہوں نے ایک لمبا عرصہ پریشانی میں اپنے دن گذارے اور اُنہیں یہی احساس تھا کہ کچھ روشنیاں اُن سے چھین لی گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نُور کے کچھ دروازے ان پر بند کردئیے اور ایک لمبے ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ وہ قیدی واپس آگئے ۔ ان گھروں میں ایک نور چمکا وہ غمگین احساس جو لمبا عرصہ روشنی کا منتظر تھا اُسے تسکین پہنچی اور اُنہیں اس لحاظ سے بھی خوشیوں کے دن دوبارہ ملے۔ویسے تو اللہ تعالیٰ انسان کی خوشی کے ہزاروں سامان پیداکرتاہے لیکن یہ خوشی جو اپنے عزیزوں کی جُدائی کے وجہ سے چھینی گئی تھی۔ یہ روشنی ، یہ چہروں کی بشاشت یہ احساسات کی تسکین جس سے وہ محروم تھے۔ وہ حالات بہتری کے اور نُور کے اور بشاشتوں کے اور چہروںکی مسکراہٹوں کے دوبارہ پیدا ہوئے ۔ اس کے لئے سارا پاکستان آج اپنے اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گارہاہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ذات وصفات کا عرفان اُس سے زیادہ بخشاہے جو کسی اور جماعت کو ملا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔ ہمارے حمد کے جذبات اور شُکر کے احساسات شاید مختلف ہوں لیکن حمد اور شکر کے جذبات آج اہلِ پاکستان کے ہرگھر میں پائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں سب نے اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کرنی ہے۔ اُس کا شکر بھی ادا کرناہے اور جب ہم سوچتے ہیں تو ایک سبق بھی ہمیں ملتاہے کہ یہ جو دُنیا کی خوشیاں ہیں اس میں تو اللہ تعالیٰ مومن و کافر میں فرق نہیں کرتا جیسا کہ قرآن کریم میں وضاحت سے بیان ہواہے۔ ربّ العالمین اپنی مخلوق میں سے مومن کیلئے بھی تسکین اور خوشیوں اورظاہری ومادی ودُنیاوی روشنیوں کے اور نُور کے سامان پیدا کرتاہے۔ وہ سامان مومن کیلئے بھی ہوتے ہیں۔ مومن اورکافر میں فرق دُنیاکے نُور یا دُنیا کی تسکین یا دُنیا کی بشاشتوں کا نہیں، فرق تو دین اور دُنیا کاہے۔ فرق تواِس دُنیا کی اُن بشاشتوں کاہے جو یہیں ختم ہوجاتی ہیںا ور فرق اِس دُنیا کی اُن بشاشتوں کاہے جو ابدالآباد اور نہ ختم ہونے والے زمانہ پر پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ فرق ہے جو مومن اورکافر میں مابہ الامتیاز اور ایک فرقان پیداکرتاہے لیکن جہاں تک دُنیا کی تسکین اوردُنیاوی زندگی کے آرام کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں کافروں کو بھی دیتاہوں اور بعض حالات میں مومنوں سے زیادہ ان کو مل جاتاہے اس میں کوئی فرق نہیں۔ بہرحال یہ ایک فرق ہے۔ ان جنگی قیدیوں میں شاید بعض عیسائی افسر اور سپاہی بھی ہونگے دوسرے بھی شاید ہوں لیکن عیسائی تو یقیناہوں گے اور اہل پاکستان کی حیثیت سے اُن کا یہ حق ہے جوان کو ملتاہے۔ بہرحال عقیدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے خوشی اور نور کی یہ لہر پاکستان کے ہر گھر میں داخل ہوئی اور تسکینِ قلب کا سامان پیداکیا اس سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئیے کہ وہ باتیں جومشترک ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فیصلے مشترک طور پر ہوتے ہیں اورجن فیصلوں میں عقائد وغیرہ کا فرق اللہ تعالیٰ اورا ُس کے بندے نہیں کرتے اس فرق کو نظر انداز کرکے دُنیا کی خوشیوں کے سامان ایک دوسرے کے لئے پیدا کرنے چاہئیں اور ایک مسلمان اور ایک احمدی کیلئے تویہ نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے صحیح معنی مہدی معہود کے ذریعہ اسے سکھائے ہیں او اُسے علم ہے کہ (اٰل عمران:۱۱۱) کے کیا معنی اور کیا مفہوم ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی کو دُکھ پہنچائے بلکہ حُکم یہ ہے کہ ہر ایک کے دکھوں کو دُور کرنے ہرایک کی خدمت کرنے ہر ایک کے سکون کا انتظام کرنے ہرایک کی خوشی کیلئے جدوجہد کرنے کے لئے اُمت ِ محمدیہ ، اُمتِ مسلمہ اور اسکے دائرہ کے وسط میں جماعت احمدیہ پیدا کئی گئی ہے۔ اس لئے ہم آج خداتعالیٰ کی حمدسے پُر ہیں اور نماز میں بھی اور باہر بھی اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی کیا اور ہمارے قیدی واپس آگئے ویسے تو اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہم پر نازل ہوتی ہیں بارش کے قطروں سے بھی زیادہ اور ہمیں ہر ایک نعمت کے مقابلہ میں اُس کی حمد کرنی چاہئیے اور خداتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئیے اور اگر کوئی انسانی کوشش اِس سکون کے لانے میں بروئے کار آئی ہے تواُن انسانوں کا بھی ہمیں ممنون ہونا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کے نباہنے کی توفیق عطا کرے ۔
دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتاہوں وہ بھی حمدِ باری سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ بھی عزم مومنانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ جس کا اعلان جلسہ سالانہ پر ہواتھااور جس کیلئے’’صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ‘‘ قائم کیاگیا تھا۔ اس کے وعدے دس کروڑ سترہ لاکھ سے اُوپر نکل چکے ہیں۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک اور ابھی تیرہ بیرونی ممالک کے وعدے ہمیں نہیں پہنچے ۔ ان کا انتطار ہے اور جب مجھے یہ رپورٹ ملی ہے اُس کے بعد بھی کئی لاکھ کے وعدے آچُکے ہیں جو میرے علم میں ہیں لیکن میں نے ان کو شامل اس لئے نہیںکیا کہ بعض دفعہ دو جگہ اطلاع آجاتی ہے۔ممکن ہے اُنہیں پہلے اطلاع ہوگئی ہو اور مجھے بعد میں ملی ہو لیکن جو وعدے دفتر کے رجسٹر کے مطابق پہنچے ہیں وہ دس کروڑ ستّرہ لاکھ سے اُوپر جاچکے ہیںاور ہمارے دِ ل اس وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں۔
کل میں نے اپنے بچوّں سے(ان کی تربیتی کلاس کے اختتام کے موقع پر) کہاتھا کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نئی ذمہ داریاں اپنی قائم کردہ جماعت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر ڈالی ہیں تو اس سے ہم قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ نئی ذمہ داریاں اُمتّ ِ محمدیہ کو جماعت ِ احمدیہ کو بحیثیت مجموعی نئی طاقتیں بھی عطا کریں گی کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ تو نئی ذمہ داریاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کچھ نئی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُس کے بندوں کو اور اس کی جماعت کو ملیں گی اور جب کسی نئی طاقت کا مظاہرہ ہم دیکھتے ہیں مثلاً یہی کہ سن ۱۹۷۰ء میں جماعت نے ایک منصوبہ کیلئے صرف ۵۳ لاکھ کے وعدے کئے اور پھر اپنے وقت میں وہ وعدے پورے کردئیے ۔ اس کے مقابلہ میں تین ساڑھے تین سال کے بعد جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت عطا کی (جو پہلی طاقت کے مقابلہ میں بیس گُنا زیادہ ہے) کہ دس کروڑ سے زیادہ مالی قربانی میں دے دے ویسے تو جماعت کی جدّوجہد اور کوشش مالی قربانی کے مقابلہ میں دوسرے میدانوں میں بیسیوں گُنا زیادہ ہے لیکن یہ ایک چیز ہم لیتے ہیں جو ایک نشاندہی کرنے والی چیز ہے۔ بیس گُنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تین سال کے بعد مالی میدان میں اپنی حقیر قربانیاں اپنے ربّ کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس تین سالہ عرصہ کے بعد ایک ایسے زمانہ میں داخل ہوچکے ہیں جب ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۹۷۰ء کے مقابلہ میں بیس گُنا زیادہ ذمّہ داریاں ڈالی جائیں گی اوراس کے لئے اُس نے طاقت دے دی اور اس عطا کردہ طاقت نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں اور ہاں اس حقیر جماعت اِس دُنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت اِس بے کس جماعت اس جماعت کو جس کو ہر طرف سے ایذاء کی باتیں سننی پڑتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پر اتنا فضل کیا کہ اس کو تین سال کے اندر پہلے سے بیس گُنا بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقت عطا کی ہے۔ یہ اُس کا فضل ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے دِل اُس کے شکرسے معمور ہیں اور ہماری زبانیں اُس کی حمد کے ترانے گا رہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قدر فضل جماعتِ احمدیہ پر کررہا ہے اُس کا شکر نہ فرد کے بس کی بات ہے نہ جماعت کے بس کی بات ہے لیکن جس قدر ہم حمد کر سکیں اور اُس کا شکر کرسکیں وہ تو ہمیں کرنا چاہیئے یعنی حمد اور شکر کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ زندگی بھر بھی جتنے اُس کے فضل ہوچکے ہیں ان کا حمد اور شکر نہیں کرسکتے ۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عام انسانوں کی بھلائی کیلئے پیدا کیا ہے اور اس بھلائی کیلئے جو مختلف منصوبے جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دئیے جاتے ہیں اور جماعت لبیک کہتی ہے اور قربانیوں کیلئے آگے بڑھتی ہے۔ اس میں سے ایک چھوٹا سا منصوبہ وقفِ عارضی ہے۔ وقف عارضی والوں کو اور سائیکل چلانے والوں کو میری نصیحت ہے(میں مختلف رنگوں میں بات کیا کرتا ہوں بہرحال) جو بنیادی چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں خادم بنایا گیا ہے کا مفہوم بھی خدمت کی طرف اشارہ کرتاہے لوگوںکی بھلائی اور خیر خواہی کی خدمت اورا ن کے دکھوں کو دُور کرنے اور اُن کو سُکھ پہنچانے کے لئے اُمت محمدیہ پیداکی گئی ہے پس خادم کے لئے اگراُس نے صحیح خدمت کرنی ہو تو یہ ضروری ہے کہ اپنے مخدوم کی ضرورتوں اور دکھوں کا اور جس رنگ میں اُس کو خوشیاں اور سُکھ پہنچا یا جاسکتاہے پہنچایا جانا چاہئیے اور ان حالات اور ذرائع کا علم ہونا چاہئیے۔ اگر علم نہیں تو خدمت نہیں ہوسکتی پس خادم کا مخدوم کے ساتھ قریبی تعلق ہونا ضروری ہے اور مخدوم ہیں ساری دُنیا کے انسان اور خادم ہے یہ ایک چھوٹی سی جماعت۔ اپنی سی کوشش کرکے ہرایک کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرنا چاہئیے۔ سائیکل سواروں کو میں نے کہا ہر گائوںمیں جائو ان کے حالات معلوم کرو کیونکہ ہر گائوں کے تم خادم ہو۔ سرگودھا اُس وقت آگے نکلا۔ اور سرگودھا نے قریباََ ہر گائوں سے ملاپ کیا اور ان کی ضروریات اور دکھ کے متعلق رپورٹیں دیں۔
اسی طرح وقفِ عارضی ہے۔ واقفینِ عارضی بھی ایک پہلو سے بعض باتوں میں خدمت کیلئے باہر نکلتے ہیں۔ اب اس کے دو بازو بن گئے ہیں ایک وہ جو عام ذرائع سفر کو اختیار کرکے بسوں میں یا گاڑی کے ذریعہ سفر کرکے اپنے اپنے مقامات تک جاتے ہیں جو اُن کیلئے مقرر کئے جاتے ہیںاور کم ازکم چودہ دن وہاں رہتے ہیں اور جب’’سائیکل سوار واقفین ‘‘ کی تحریک کی گئی تو دوسرا بازو بن گیا۔ میں نے کہاتھا کہ سائیکل سوار واقفین عارضی بھی چاہئیں کیونکہ وہ زیادہ وسیع علاقہ اور دائرہ میں کام کرسکتے ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ سے اس کی تحریک نہیں کی تھی اب یاد کراتاہوں(ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار احمدیوں نے اس عرصہ میں کام کیاہے) لیکن ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیئے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ میں اپنے پیارے احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اِس کام کے لئے آگے آئیں۔ اب چھٹیوں کے دِن آرہے ہیں ۔ ہماری قوم کا ایک حصّہ اوراُسی نسبت سے جماعت کا ایک حصّہ ایسا ہوگا جن کو چھٹیاں ملیں گی۔ جو چھٹیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیں وہ وقف کریں اور وقفِ عارضی کے منصوبہ کے ماتحت مختلف علاقوں میں جائیں یا سال کے دوسرے اوقات میں جائیں۔ زمینداروں کے بعض دوسرے اوقات نسبتاً خالی ہوتے ہیں اور مصروفیت بڑھ جاتی ہے تو زمینداروں کیلئے نسبتاً جو سہولت کے دِن ہیں اُن میں وہ کام کریں تاکہ دُنیاوی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر اُخروی سہولت کے سامان اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کیلئے وہ پیدا کرسکیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔
میری بیماری مختلف عوارض کی وجہ سے کچھ لمبی ہوگئی ہے اور اب وہ دن آگئے جو گرمی کے ہیں۔ گرمی میری مستقل بیماری ہے ۔ کل شام کو میں اپنے خدام واطفال سے ملنے چلاگیا تھا۔ اسکے بعد مجھے تکلیف ہوگئی۔ کچھ عرصہ سے یہاں آپ کے سامنے خطبہ نہیں دے سکا تھا اس لئے خواہش پیداہوئی کہ آنا چاہیئے۔ یہ گرمی جتنی بھی ہے یہ بھی مجھے تکلیف دیتی ہے کیونکہ کئی دفعہ مجھے لُو لگ چُکی ہے۔ جسے انگریزی میں Heat Strokeکہتے ہیں ۔ پچھلے سال بھی تین مرتبہ مجھے تکلیف ہوئی جو بہت کمزور کردیتی ہے اور بہت پریشان کرتی ہے۔ بہر حال یہ بات میں اس لئے بتارہا ہوں کہ دوست میری صحت کے لئے دعا کریں۔اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خدمتِ دین کی اور خدمتِ انسان کی توفیق عطاکرے جو ہمارے نزدیک دونوں ایک ہی چیز ہے۔‘‘ (از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)
جماعت نے نہ صرف بجٹ کو پورا
کر دیابلکہ آٹھ فیصد زیادہ ادا کیا
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۰؍مئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نییہ آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:-

(صٓ:۵۴:۵۵)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی جماعتوں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور اُن انبیاء علیہم السلام کی دُعاؤں اور تدابیر کے نتیجہ میں اُن کی اُمّتیں اس صداقت پر قائم تھیں کہ یہ دُنیا اور اس کی دولتیں اور اس کی عزتیں فانی اور لایعنی ہیں لیکن وہ رزق ، وہ دولت اور وہ سب کچھ جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور جس کا حقیقی تعلق اُخروی زندگی سے ہے، وہ رزق جب انسان کو ملے تو وہ ختم نہیں ہوا کرتا بلکہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور انسان پھر کبھی محرومی کا مُنہ نہیں دیکھتا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اپنی عظمت و جلال کے لحاظ سے گذشتہ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور اعلیٰ تھے اس لئے آپ کی قوت قدسیہ اور آپ کی دُعاؤں نے یہ اثر کیا کہ اُمّت محمدیہ میں کروڑوں انسانوں کی جماعتیں ایسی پیدا ہوتی رہیں کہ جو اس حقیقت و صداقت پر علیٰ وجہ البصیرت قائم تھیں، قائم رہی ہیں اور آئندہ بھی جماعت احمدیہ میں یہ جماعتیں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی رہیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔
پھر یہ جماعت یہ اُمّت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے اس کی شان ہی کچھ نرالی ہے اور پہلی اُمّتیں جہاں اُن کا دائرہ عمل محدود، جہاں اُن کی تعلیم وقتی اور زمانی تھی اُسی کے مطابق اُن کی کوششیں تھیں، اُن کی قُربانیاں تھیں۔ خُدا کی راہ میں اُنہوں نے تکالیف برداشت کیں اور لافانی نعمتوں کے حصول کے لئے وہ فانی چیزوں کو خدا کے حضور پیش کرتے رہے۔ یہ ٹھیک ہے لیکن اِس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمّت کی شان بڑی عظیم اور دوسروں کے مقابلہ میں نرالی ہے۔ جب ہم اُمّت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس عظمتِ اُمّتِ مسلمہ کا عظیم جلوہ اُمّت کے اندر صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گروہ میں ہم دیکھتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ملی ہوئی نسلوں نے پہلی تین صدیوں میں اتنی عظیم قربانیاں دی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انہوں نے وہ قربانیاں اس لئے دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور قرآن کریم کی ہدایت کے نتیجہ میں علیٰ وجہ البصیرت وہ اس مقام پر کھڑے تھے کہ اس دُنیا کی دولتیں بھی اور اس دُنیا کی عزتیں بھی اور دُنیاوی اقتدار بھی فانی ہے اور ہم نے اللہ تعالیٰ سے جو حاصل کرنا ہے اور جس کی ہم اُمید رکھتے اور جس کے لئے ہم نے دُعا اور تدبیر سے کوششیں کرنی ہیں وہ ایک لافانی اور ایک نہ ختم ہونے والا رزق ہے۔ اس کے بعد اگرچہ اُمّت میں وسعت پیدا ہوئی اور اگرچہ بعض مقامات پر بعض زمانوں میں تنزّل کے حالات بھی پیدا ہوئے لیکن پھر بھی اس اُمّت کے وہ بزرگ، خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو اپنے پیدا کرنے والے رب سے پیار کرنے والے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور فدائی تھے انہوں نے اسی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کیں کہ جو پیش کر رہے ہیں وہ فانی اور لایعنی اور ناقابل اعتبار چیزیں ہیں اور جن اشیاء کے ملنے کا وعدہ ہے۔ اس کے متعلق کہا گیا کہ۔اس میں کمی نہیں آتی۔ اس میں ضعف نہیں پیدا ہوتا۔ کہیں جا کر اس نے ختم نہیں ہو جانا۔ وہ ابدی رزق ہیں، وہ ابدی نعماء ہیں۔ وہ ہمیشہ رہنے والا پیار ہے جو انسان اپنے رب کی نگاہ میں دیکھے گا۔ بہرحال اس تنزّل کے زمانہ میں بھی اُمّت محمدیہ کی شان اتنی عظیم ہے کہ کوئی اور گروہ مقربین جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوا وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ہمیں یہ بشارت دی گئی تھی کہ اس اُمّت کے آخری حصہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا فدائی پیدا ہو گا جو مسیح اور مہدی علیہ السلام کا لقب پائے گا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اندھیروں کے خلاف شیطانی طاقتوں کے خلاف جو جنگ شروع ہوئی اس کا آخری معرکہ اس نے اور اس کی جماعت نے سر کرنا ہے۔ اور ان کی قربانیاں اور ان کے ایثار اور ان کی جاں نثاری اور ان کی دین کے لئے فدائیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور مشن کے لئے ان کا فنا ہو جانے کا جذبہ صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جُلتا ہو گا۔
یہ بشارتیں تھیں جو اُمّت محمدیہ کو دی گئیں یہ قوم تھی جس نے پیدا ہونا تھا۔ جس نے علی وجہ البصیرت فانی اشیاء کو دے کر دنیا کی دولتیں دُنیا کے مال ، دُنیا کی عزتیں اور دُنیا کے اقتدار اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے ایک ابدی لذّت اور سرور کے حصول کے لئے اس نے کوشش کرنا تھی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے اُسے حاصل کر لینا تھا۔ یہ جماعت قائم ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو یہ اس رنگ میں جذب کر رہی ہے اُسی کی توفیق سے وہ رنگ اتنا حسین اور اس کی شان اتنی عظیم ہے کہ مخالف حیران ہوتا ہے اور ہماری گردنیں تو جُھکتی ہوئی ( اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دیکھ کر) زمین کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ ہر روز ہی ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا تھا ؎
تیری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے
تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے

شمارِ فضل اور رحمت نہیں ہے
مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے
(درثمین صفحہ۵۴)
ہر آن، ہر مہینہ، ہر سال ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے اس سال اس قسم کے نظاروں میں سے ایک یہ ہے کہ گذشتہ ماہ ۵؍اپریل کو جمعہ کے روز میں نے ’’ فَذَکِّرْ‘‘ کے حکم کے ماتحت جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ نے مجلس شُوریٰ میں سر جوڑ کر ہر ضلع اور تحصیل اور بڑے شہر اور قصبوں سے نمائندے بھجوا کر مجوزہ بجٹ پر غور کیا اس پر بحثیں کیں۔ کمیٹی میں وہ بجٹ گیا پھر آپ نے ایک بجٹ بنایا اور اس کے مقابلہ میں خرچ کی راہوں کی تعیین کی کہ اتنی رقم اس حصہ میں خرچ ہو گی ( اُس وقت میں نے کہا تھا کہ) اب قریباً ایک ماہ رہ گیا ہے لیکن آپ کے بجٹ میں ساڑھے چھ لاکھ روپے کی کمی ہے دفتر بعض دفعہ گھبرا جاتا ہے لیکن چونکہ میں اپنے بھائیوں اور دوستوں کے اخلاص سے واقف ہوں اس لئے مجھ میں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی لیکن یاد کرانا ’’ فَذَکِّر‘‘ کے حُکم کے مطابق ضروری سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹتا لیکن دعاؤں کی ضرورت ہے میں دعائیں کرتا ہوں۔ جماعت بھی دعائیں کرتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ بجٹ پورا ہو جائے گا۔ بہرحال ۵؍اپریل کو ساڑ ھے چھ لاکھ کی کمی تھی اور آج جماعت نے (ابھی کچھ رقمیں جمعہ کے بعد بھی وصول ہونے والی رہتی ہیں) محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وہ ساڑھے چھ لاکھ بھی پورا کیا اور اُس سے زائد ساڑھے تین لاکھ روپے کی رقم بھی بھجوا دی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک یہ رقم مجوزہ بجٹ سے قریباً آٹھ فیصد زائد ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ جمعہ کے بعد کس قدر وصولی ہو گی۔ ہمارا وصولی کا سال ۱۰ مئی کو ختم ہوتا ہے پس یہ نہیں کہ یہ ایک سال اور دس دن کی رقمیں ہیں۔ یہ پورے سال کی رقمیں ہیں پچھلے سال بھی ۱۰؍ مئی تک جو رقوم موصول ہوئی تھیں وہ اس سے پچھلے سال کے اندر پڑ گئی تھیں اور اس سال بھی دس مئی تک کی مہلت دی گئی تھی تا کہ پورا سال ہو جائے اس لئے کہ یکم کو تنخواہیں ملتی ہیں آمدنیاں ہوتی ہیں بعض تاجروں کو بھی یکم دو کو پیسے دینے کی عادت ہو گئی ہے۔ وہ رقوم دراصل پچھلے مہینے کی ہیں اللہ تعالیٰ کتنا فضل کرنے والا ہے کمی تھی اور جب جماعتوں کو احساس دلایا گیا تو ایک مہینے میں دیوانہ وار اُنہوں نے مالی قربانیاں دیں۔
میں بتاتا رہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کا اصل مقصد مالی قربانی نہیں یہ تو ذریعہ ہے دوسرے مقاصد کے حصول کا۔ جماعت غلبۂ اسلام کی جدوجہد کے دیگر میدانوں میں اس سے کم قربانی نہیں دیتی بہرحال ہر میدان میں قدم آ گے ہے تو (ساڑھے چھ لاکھ جمع ساڑھے تین لاکھ ) دس لاکھ کی رقم اس عرصہ میں جماعت نے انتہائی بشاشت کے ساتھ دی ہے اور ابھی مجھے ناظر بیت المال نے بتایا ہے کہ بعض شہروں سے جو دوست رقوم لے کر آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ اتنا جوش اور بشاشت اور اخلاص جماعت میں بڑھ رہا ہے کہ وہ کمزور مگر مخلص احمدی جو چندوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اگر سارے سال کا چندہ بھی ان کے ذمہ تھا تو بشاشت سے انہوں نے اس عرصہ میں وہ پورا کر دیا۔ انسان کمزور ہے اور اُسے ان طاقتوں کے صحیح استعمال کا بھی شعور نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں سوائے اس کے کہ خود اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ اس کی رہبری کرے۔
پس جب آپ کے سامنے اس قسم کی قربانیوں کی اپنے ہی متعلق مثالیں آئیں تو آپ کے دل میں کِبر اور غرور اور فخر نہیں پیدا ہونا چاہیئے بلکہ آپ کے سر اور بھی جُھک جانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اور بھی عاجزی کے ساتھ آپ کو دعائیں کرتے رہنا چاہیئے کہ وہ غفور اور پردہ پوش ہے۔ اگر وہ اپنی رحمت سے پردہ پوشی نہ کرے تو ہماری کمزوریاں تو دیمک کی طرح ہمیں کھا جائیں۔ وہ پردہ پوشی کرتا ہے اورپھر اس پردہ کے اندر ہی ہمارے لئے پہلے سے بڑھ کر اعمال صالحہ بجا لانے کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے زور سے ایسا نہیں کہا اور جو ہمیں پہچانتا نہیں اور صرف دنیاوی نگاہ رکھتا ہے اور دینی بینائی اُسے حاصل نہیں اُس کے لئے بڑی حیرانی کی بات ہوتی ہے کہ یہ کیا ہو گیا لیکن جماعت کے لئے یہ حیرانی کی بات نہیں جماعت کے لئے عاجزی اور انکساری کا لمحہ ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرتا ہے کہ کس طرح وہ بشاشت کے ساتھ ان فانی چیزوں کو پیش کرنے کی ہمیں توفیق دیتا ہے اس وعدہ کے ساتھ جسے ہم علی وجہ البصیرت درست اور صحیح سمجھتے ہیں کہ فانی اشیاء دے کر لافانی رزق ہمیں ملے گا جس کے متعلق آیا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ ملے گا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ جن جنتوں کا اس دُنیا میں اس نے وعدہ دیا وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا اور جن جنتوں کا اس دُنیا سے گذر جانے کے بعد انسان کو وعدہ دیا گیا ہے وہ وعدے بھی اسی کے فضل سے ہمارے حق میں پورے ہوں گے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ سے پیار کی علامت ہے۔ یہ تمہاری طاقت کا مظاہرہ نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی آنکھ سے تمہیں دیکھا اور اس کی راہ میں وہ چیز پیش کرنے کی تم نے توفیق پائی کہ جس کہ نتیجہ میں وہ رزق ملتا ہے جو ابدی ہے فانی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ بھی ہمیشہ اپنی راہ میں ان قربانیوں کے پیش کرنے کی توفیق دے جنہیں وہ اپنی رحمت سے قبول کرے اور اُن کے وہ نتائج نکالے جو اُس نے صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے نکالے تھے اور جو ہماری دلی خواہش ہے اور ہماری روح کے اندر ایک تڑپ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے اللہ کرے کہ وہ دن ہمیں دیکھنا نصیب ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۴)









غلبۂ اسلام اور دنیا کو امت واحدہ بنانے کا
کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۷؍مئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
گذشتہ ہفتہ بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف میں گذرا ہے۔ اس وقت بھی میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں لیکن میں چاہتا تھا کہ جماعت کو دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلاؤں اس لئے میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں۔
جیسا کہ ہمیں قرآن عظیم سے معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی متعدد بار توجہ دلا چکا ہوں کہ جس قدر عظیم ذمہ داریاں ہوتی ہیں اُسی کے مطابق بشارتیں ملتی ہیں اور جس قدر عظیم بشارتیں ملیں اسی کے مطابق انسان کو ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ امّت محمدیہ کو جس قدر بشارتیں ملی ہیں پہلی کسی اُمّت کو اس قدر بشارتیں نہیں ملیں۔ اُمّت محمدیہ کے اندر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں اور آپ کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کرنے والوں کو جو بشارتیں ملیں اور جن کے مطابق انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور نباہا اس قدر بشارتیں بعد میں آنے والے افراد امّت کو نہیں ملیں اور نہ اُس قدر ذمہ داریاں اُن پر ڈالی گئیں اس لئے کہ جب کام شروع کیا جاتا ہے تو ابتداء میں کام کرنے والوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال، بالکل ہی چھوٹی سی مثال میں دیتا ہوں اور چونکہ میری زندگی کا مشاہدہ ہے اس لئے مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔ کچھ باتیں آپ کے سامنے آ جائیں گی۔
اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کافی فعاّل مجلس ہے۔ اس کا ایک اپنا دائرہ عمل اور دستور ہے اس کے جو ابتدائی کام تھے وہ بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔ اب بھی ہمارا نوجوان بہت ہمت اور بڑی قربانی سے کام لینے والا ہے اور شروع میں بھی یہی حال تھا۔ جب میں ۱۹۳۸ء میں ولایت سے واپس آیا تو اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ اس کا کوئی دستور بھی نہیں تھا نیا نیا کام تھا۔ اس کو چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا مجھے یاد ہے کہ شروع میں جب قادیان میں باہر کیمپ کی شکل میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع کیا تو اس وقت چونکہ یہ نیا نیا کام تھا اور تجربہ نہیں تھا اس لئے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مقام اجتماع کے گردبانس کیسے لگانے ہیں اور ان پر رسیاں کس طرح باندھنی ہیں۔ میں اس وقت جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا ۔ جامعہ احمدیہ کے میرے شاگرد اور میں خود بھی کئی دن خرچ کرتے اور چھوٹے رنبوں کے ساتھ گڑھے کھود کر اُن کے اندر بانس لگاتے تھے بیچارے خدام کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ پھر ایک دو سال کے تجربہ کے بعد یہ پتہ لگا کہ اتنی کوفت اور تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے بس ایک ’’کِلّہ‘‘ بنا لیا دو چار ضربیں لگائیں بانس کے لئے سوراخ بن گیا اُس کو نکالا آ گے چلے گئے۔ اس طرح جس کام پر ہفتے لگے تھے وہ دو گھنٹوں میں مکمل ہو گیا۔ میں نے یہ ایک چھوٹی سی ظاہری مثال دی ہے خدام الاحمدیہ کے کام کی تاکہ بچے بھی سمجھ جائیں۔ غرض جس کام کو شروع کیا جاتا ہے اس کو معیار پر لانے کے لئے بڑی کوفت اُٹھانی پڑتی ہے۔ بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ بعد میں آنے والوں کو اس قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑئیں۔
چنانچہ ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کے نور اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دائرہ میں لانے کا کام جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوا تو یہ اتنا عظیم کام تھا اور بھاری ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں اور بڑا بوجھ اُٹھانا تھا اس لئے اس ابتدائی زمانہ کے مسلمانوں کو عظیم بشارتیں دی گئیں اور ایسے وقت میںدی گئیں جب کہ غربت کا زمانہ تھا۔ مسلمان ایک ایسی جنگ میں گھرے ہوئے تھے جسے ہماری تاریخ جنگ احزاب کے نام سے یاد کرتی ہے احادیث میں آتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کے احساس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کے صحابہ کو بشارت یہ دی گئی کہ کسریٰ اور قیصر کی سلطنتوں پر اسلام غالب آئے گا۔ چنانچہ بعد میں مسلمان کسریٰ اور قیصر کی سلطنتوں پر غالب آئے۔ جس طرح چند سال پہلے امریکہ اور روس دنیا کی دو عظیم سلطنتیں کہلاتی تھیںاسی طرح اُس زمانے میں کسریٰ اور قیصرکی دو عظیم سلطنتیں تھیں۔ اب دیکھو مسلمانوں کو کھانے کو میسّر نہیں تھا مگر ان کو بشارت دی گئی تھی کسریٰ اور قیصر کی دو عظیم سلطنتوں پر اسلام کے غالب آنے کی۔ چنانچہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان ان کی دولت سے فائدہ اٹھائیں گے اور کسریٰ اور قیصر کے پاس جو دنیوی حسنات ہیں وہ مسلمانوں کو ملیں گی۔ اس موقع پر یہ بشارت دینا گویا مسلمانوں کو یہ سبق سکھانا تھا کہ جو قربانیاں تم دے رہے ہو اس سے زیادہ ہماری طرف سے تمہیں بشارتیں دی گئی ہیں اور تمہیں یہ چیزیں ملنے والی ہیں۔
امّت محمدیہ میں بڑا ہی عظیم وہ گروہ ہے جس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تربیت حاصل کی۔ امّت مسلمہ کی زندگی سنوارنے اور امّت مسلمہ کے محلوں کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور ان کو مضبوط کرنے اور پھر اُن پر اسلام کے عظیم قلعے بنانے کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا اور بڑی عظیم بشارتوں کے وارث بنے چنانچہ انہیں جب بھی بشارتیں ملتی تھیں اُن کو تسلی ہو جاتی تھی اور وہ یقین رکھتے تھے کہ یہ اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی مگر ان کے بعد میں آنے والوں نے اُن قلعوں پر جو منزلیں تعمیر کی ہیں اُن منزلوں کی تعمیر کے لئے ویسی ہی قربانیوں کی ضرورت نہیں پڑی جیسی قربانیوں کی بنیادوں کو قائم کرنے اور اُن کو مضبوط کرنے اور ابتدائی عظیم قلعوں کی تعمیر کے لئے شروع میں ضرورت پڑی تھی۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک اور بشارت دی گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ کی بعثت کا جو آخری مقصد ہے یعنی تمام اقوام عالم کو امت واحدہ بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جانا اور ہر قوم اور ہر ملک کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے اسی طرح حصہ لے رہا ہو جس طرح کوئی اور ملک یا کوئی اور قوم حصہ لے رہی ہے۔ یہ کام اب جماعت احمدیہ کے سپرد ہوا ہے جو مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے۔ یہ کام اتنا عظیم ہے اور یہ بوجھ اتنا بھاری ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد امت محمدیہ کے کسی اور گروہ پر اس قدر عظیم اور اس قدر وزنی اور اس قدر اہم ذمہ داری نہیں پڑی۔ مگر اس عظیم ذمہ داری کے ساتھ بہت بڑی بشارتیں بھی دی گئی ہیں جنہیں سُن کر آج ہمارے وہ احمدی دوست بھی جنہوں نے تھوڑی بہت تربیت حاصل کر لی ہے اُن کے دماغ بھی شاید انہیں قبول نہ کریں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دکھایا گیا تھا کہ کسریٰ اور قیصر مغلوب ہوں گے۔ آپ کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود اور مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کشف میں رشیا (Russia) (جو اس وقت دُنیا کی طاقتور حکومتوں اور ملکوں میں سے ایک ہے اس) میں ریت کے ذرّوں کی طرح احمدی دکھائے گئے ہیں اسی طرح مغربی اقوام (جو بہت طاقتور تھی حکومتیں ہیں) جو کسی زمانہ میں سفید فام قومیں کہلاتی تھیں ان کے کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔ حالات میں ایک نئی تبدیلی ہو چکی وہ یہ کہ خود مسلمان کہلانے والے بھی مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت میں غفلت برت رہے تھے اور یہ بھی امّت محمدیہ کے اندر ایک بہت بڑا فتنہ تھا کہ مہدی آ گئے لیکن جن کو شناخت کرنا چاہیئے تھا انہوں نے شناخت نہیں کیا۔
اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک اور کشف بھی دکھایا گیا کہ مکّہ میں احمدی ہی احمدی پھر رہے ہیں اس لئے اگر آج مکّہ سے ہمارے خلاف کفر کا فتوی جاری ہو جائے تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ ایک عارضی حالت ہے لیکن جو ہمیشہ رہنے والی صداقت ہے وہ یہ ہے کہ مکّہ و مدینہ پر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور وہ مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت کریں گے اور اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اپنی ہر چیز کو قربان کر دیں گے اور دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں اسلام کے سب فرقے ایک ہو جائیں گے۔
پس یہ وہ عظیم بشارتیں ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں یہ بشارتیں بتاتی ہیں کہ بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں جن کو ہم نے اٹھانا ہے ان عظیم ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اور بشاشت کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرنے کے لئے جتنی عظیم ذمہ داریاں ہیں اُن سے کہیں زیادہ عظمت ان بشارتوں کی ہے جو اس کے مقابلے میں ہمیں دی گئی ہیں اس لئے اس تمہید کے بعد جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اور جسے آپ کے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں اور جس کے لئے میں آپ کی روح کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان کمزور ہے وہ اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں۔ ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہیں جماعت کے بڑے بھی اور چھوٹے بھی۔ مرد بھی اور عورتیں بھی اور بچے بھی اور بچیاں بھی۔ سب دعاؤں کی عادت ڈالیں اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اے خدا تو نے ہمیں اتنی عظیم بشارتیں دی ہیں۔ ان بشارتوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھتے ہیں اور ہمارا ذہن اور ہماری عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسی کے مقابلے میں اور اسی نسبت سے ہم پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں لیکن اے خدا ! ہم تیرے عاجز بندے ہیں تیری مدد کے محتاج ہیں۔ اگر تیری نصرت ہمیں حاصل نہ ہو تو ہم ان ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اور ان بشارتوں کے وارث نہیں بن سکتے اس لئے اے ہمارے خدا ! آسمانوں پر اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول اور فرشتوں کو ہماری مدد کے لئے نازل فرما۔ ہمیں طاقت عطا فرما کہ ہم بشاشت کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے تیری بشارتوں کے وارث بن جائیں۔
پس دوست بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان عظیم بشارتوں کا وارث بننے کی توفیق بخشے۔ خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے یہ بھٹکے ہوئے راہی جنہوں نے اُمّت مسلمہ میں ہوتے ہوئے بھی مہدی کو شناخت نہیں کہا، اللہ تعالیٰ انہیںمہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ بھی ہم میں شامل ہو کر اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے والے بن جائیں کہ ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے‘ اس کے لئے کوشش کرنی ہے، اس کے لئے تدابیر کرنی ہیں اس کے لئے دعائیں کرنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس میں کامیاب ہونا ہے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۳ تا ۴ )







مامورین کی جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ
کو بھی ابتلائوں میں سے گزرنا پڑیگا
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍مئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:-
صٓ:۲)


(المؤمن:۷۹)
پھر حضور انور نے فرمایا :-
قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذکر و ہدایت اور نصیحت کی باتیں (خواہ شریعت اور ہدایت سے تعلق رکھنے والی ہوں یا شریعت و ہدایت کی یاددہانی کے طور پر ہوں) خدا تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین کی بعثت کے ذریعہ دُنیا میں نازل ہوتی ہیں اُس وقت وہ دُنیا جس کی طرف کوئی نبی یا مامور مبعوث ہوتا ہے دو گروہوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک گروہ ایمان لے آتا ہے ایک گروہ انکار کرتا ہے۔ جو گروہ انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں ایک عرصہ تک ڈھیل دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت اور مامورین کا آنا دُنیا کی بھلائی اور دُنیا کی خیر خواہی کے لئے ہے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں چونکہ یہ غرض ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی گرفت فوری طور پر نہیں آتی دوسرے جو ایمان لانے والے ہیں ان کی تربیت اور امتحان مقصود ہوتا ہے اور مُنکرین کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں اور نبیوں پر ایمان لانے والوں کی تربیت ہی اس رنگ میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کی رضا کے حصول کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس چونکہ مُنکرین کی بھی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے اور چونکہ مومنین کا امتحان مقصود ہوتا ہے اس لئے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل نہیں ہوتی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ فوری طور پر مُنکرین کو پکڑے اور ان پر عذاب نازل کر دے تو پھر توبہ کا موقع جو اُنہیں میسّر آ سکتا تھا اُس سے وہ محروم ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھو سب سے عظیم اور افضل اور آخری اور کامل اور مکمل شریعت لانے والے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش مکّہ نے جس قسم کی حرکتیں کیں اور جس قسم کے شیطانی منصوبے بنائے اور جس قسم کے انتہائی دُکھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیئے ان کی گرفت پر بھی ایک لمبا عرصہ لگا وہ فوری طور پر نہیں پکڑے گئے۔ پھر جب گرفت ہوئی تو سب نہیں پکڑے گئے بلکہ کچھ پکڑے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ زمانہ جس میں آپ اپنے وصال سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت میں مصروف تھے اس وقت کا نقشہ یہ ہے کہ سوائے گنتی کے چند مومنوں کے اہل مکّہ کی بڑی بھاری اکثریت انتہائی مخالفت اورظلم کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ پھر ایک عرصہ کے بعد جب عذاب آیا اور ان کو اللہ تعالیٰ نے جھنجھوڑا اور اللہ تعالیٰ کا قہران پر نازل ہوا تو اگرچہ بدر کے میدان میں چوٹی کے سرداران قریش میں سے بہتوں کے سر کاٹ دیئے گئے کیونکہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلالم کو مٹانا چاہا اور تلوار کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہلاکت کا ان پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ درست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ مخالفین کی جو تعداد تھی اُس کا وہ شاید آٹھ فی صد یا پانچ فی صد بھی نہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت فرمائی تھی جس طرح ہر نبی اور مامور کی بعثت ہوتی ہے۔ ان کی ڈھیل دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے ایک لمبے عرصہ کی گمراہی اور اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد ان کے لئے ہدایت اور روشنی کے سامان پیدا کئے اور وہ ایمان لائے۔ پھر جو باقی بچے ان میں سے اِلَّا مَاشَاء اللّٰہ فتح مکّہ کے وقت سب ایمان لے آئے اور ان میں خدا تعالیٰ نے بڑا اخلاص پیدا کیا اور بعد میںجو خلافت راشدہ کے زمانہ میں اس وقت کی دو بڑی طاقتوں کے خلاف مسلمانوں کو اس لئے لڑنا پڑا کہ وہ حملہ آور ہوئے تھے اور اسلام کو مٹانے کے منصوبے بنا رہے تھے اُس زمانہ میں میدان جنگ میں انہوں نے اس قسم کی مخلصانہ قربانیاں دی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
پس اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے معاً بعد خدا تعالیٰ کے قہر کی گرفت اہل مکّہ پر ہو جاتی تو یہ مخلصین ہدایت ملنے سے پہلے ہی دوزخ کا ایندھن بن جاتے۔ نبی کی بعثت ہلاکت کے لئے نہیں ہوتی۔ ہلاکت کا سامان تو مخالف خود اپنے ہاتھ سے پیدا کرتا ہے وہ تو بھلائی اور خیر خواہی کے لئے آتا ہے اور جنتوں کے دروازے ان کے لئے کھولنے آتا ہے لیکن بعض بدبخت قبل اس کے کہ ان کو ہدایت ملے اللہ تعالیٰ کی ہلاکت کی گرفت میں آجاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو ایک لمبا عرصہ کی مخالفت کے بعد ایمان کی دولت سے متمتع ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں اورپھر ان کے دل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔ وہ اخلاص قربانیوں کی شکل میں ہمارے سامے آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں اس کی جنتوں کے وارث ہو جاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بھی جو میں نے مختلف مقامات سے لی ہیں۔ تین آیات سورۂ صٓ کی ہیں اور یک سورۂ مومن کی ہے جو ایک مضمون کی کڑیاں ہیں وہ میں نے یہاں ملائی ہیں۔ یہاں یہی بتایا گیا ہے کہ جب مخالفت شروع ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے نبی یا مامور کی تو اس وقت ڈھیل دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ ہم ڈھیل دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں تم یہ سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ وھا ب تو ہے مگر عزیز نہیں ہے اور شوخیوں میں بڑھ جاتے ہو۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعثت نبوی اور مخالفانہ منصوبوں اور عذاب کے درمیان اپنی حکمت کاملہ سے ایک فاصلہ رکھا ہوتا ہے۔ ایک زمانہ گذرتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت پکڑتی ہے۔ چونکہ ابھی عذاب کا وقت نہیں آیا ہوتا اس لئے شوخیوں میں یہ آ گے بڑھ رہے ہوتے ہیں اور چونکہ اس زمانہ میں دنیوی حسنات بھی اس کو مل رہی ہوتی ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہی کو ’’خَیْر‘‘ دی گئی ہے ( اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بہت بزرگ ہیں) اور دُنیا کی حسنات اور دُنیا کی دولتیں جو انہیں دی گئی ہیں وہ اس لئے دی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے آ گے تقسیم ہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اُن کی ذہنیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف اُن کے پاس ہیں کیونکہ جو متبعین ہیں وہ غربت کی حالت میں ہوتے ہیں وہ کسمپرسی کی حالت میں ہوتے ہیں وہ دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں اور جو منکرین ہیں ان میں سے اکثر دولت اور اقتدار کے لحاظ سے بڑے بلند دنیوی مقام پر فائز ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف انہی کو مل سکتے ہیں اور دوسروں کو نہیں مل سکتے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو خزانوں کا دینے والا ہے وہ عزیز بھی ہے۔ اور وہ وھَّاب بھی ہے۔ یہ لوگ خدائے وھّاب کی رحمتوں سے جب حصہ لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ عزیزؔ نہیں اور اُس کے مقرب بندے کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خدا عزیزبھی ہے اور جب خدا تعالیٰ کا غالب ہاتھ قہر کا طمانچہ لگاتا ہے تو پھر وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا وھّاب نہیں لیکن مومن خدا تعالیٰ کو وھّاب بھی سمجھتا ہے اسی لئے اس کی راہ میں قربانیاں دے رہا ہوتا ہے اُسے معلوم ہے کہ جو ہم قربانیاں دیں گے خدا تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اُن قربانیوں سے ہزاروں گُنا بلکہ بے شمار گُنا واپس ( اسی دُنیا میں بھی) کرتا ہے لیکن جو اس کے مقابلے میں اُخروی زندگی کے معاملات ہیں ان کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ اس زندگی اور یہاں کی حسنات اور یہاں کی لذتوں اور یہاں کے آراموں سے بہرحال وہ وھّاب خدا کا عرفان بھی رکھتے ہیں لیکن اس حالت میں وہ خداتعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ اُسے عزیز بھی جانتے ہیں۔ اُن کے دل میں تکبّر اور غرور نہیں پیدا ہوتا لیکن جو مُنکر ہے جس وقت خدا تعالیٰ کی رحمت کا سلوک امتحان کے طور پر اس دُنیا میں ابتدائے مخالفت میں اس کے ساتھ کیا جاتا ہے تو وہ خدائے وھّاب کو تو پہنچانتے ہیں لیکن وہی اللہ جس کی دوسری صفت العزیز بھی ہے اس کو پہچانتے نہیں اور جب خدائے عزیز کی گرفت میں آ جاتے ہیں پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا کوئی جلوہ اب ظاہر نہیں ہو گا۔ جیسا کہ وہ واقعہ آتا ہے ( میں مختصراً بیان کروں گا) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر تلوار لے کر ایک شخص حملہ آور ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جب اُس نے پوچھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا خدا۔ اور اُس پر اتنا رُعب طاری ہوا کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور جس وقت تلوار اس کے ہاتھ سے گری تو آپ نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اُس سے پوچھا تمہیں اب میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ کہنے لگا آپ ہی رحم کر دیں۔ وہ یہ سمجھا ہی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت کے ذریعہ بچانے والا ہے تو اُسے بھی خدا ہی بچانے والا ہے تو جو سبق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس شخص کو سکھانا چاہتے تھے وہ اس نے نہیں سیکھا اور اشارہ نہیں سمجھا۔
پس مخالفین جب رحمت کا جلوہ دیکھتے ہیں تو مخالفت میں تیزی دکھاتے ہیں اور جب خداتعالیٰ کا عذاب چکھتے ہیں تو اس وقت یہ بُھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ وھّاب بھی ہے۔ اُس کی رحمتوں کے جلوے بھی انسان پر آتے ہیں اور نبی کی تو بعثت ہی اس لئے ہوتی ہے کہ رحمت کے جلوے انسان دیکھے تو ان کا ایک حصہ عذاب کے وقت بھی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ عذاب بار بار آتا ہے کچھ لوگ عذاب کی شکل میں آنے والے پہلے ہی امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں کچھ دوسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں کچھ تیسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ آخری وقت تک انتظار کرتے اور اُن کا ایک حصہ (القمر:۴۶) کے نظارے دیکھتا اور پھر وہ فتح مکہ کی شان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دیکھتا ہے وہاں وہ مارا جاتا ہے اور یہاں وہ کہتا ہے کہ آپ ہمیں معاف کر دیں۔ فتح مکّہ میں ایسا ہی ہوا۔ یہ نہیں کہا کہ ہم خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور وہ ہمیں معاف کردے گا انہوں نے کہا کہ آپ ہم پر رحم کریں اور اسی واسطے اُن کے بعض سرداروں کو بنانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرنے والا ہے۔ میں تو اس کا ایک کارِندہ ہوں اور اُس کے حکم سے کرتا ہوں جو کرتا ہوں۔ اُن سے کہا اچھا تمہارے گھر میں جو داخل ہو جائے گا اُس کو ہم پناہ دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو گروہ ہو جاتے ہیں۔ ایک مومنوں کا گروہ ہے۔ ایک کافروں کا گروہ ہے۔ جو کافر ہیں وہ انکار کرتے ہیں اور حقیقتاً اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اُس نبی کے مُنکر ہیں اور پہلوں کے وہ ماننے والے ہیں بلکہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ قصے رہ جاتے ہیں اور حقیقی ایمان دل میں نہیں ہوتا کیونکہ اگر حقیقی ایمان ہو تو نئے آنے والے پر بھی فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہی سلوک جو پہلوں سے تھوڑا یا بہت اللہ تعالیٰ کا ہوا وہی سلوک بعد میں آنے والے سے ہوا۔ اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے انتہائی پیار کیا۔ اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ پہلے انبیاء سے بھی اللہ تعالیٰ نے پیار کیا۔ ان کے حالات کے مطابق ان کے ذریعہ جو ذمہ داریاں اُن کی اُمّت کی اُن پر ڈالی گئی تھیں اس کے مطابق پیار کیا لیکن جس نے انتہائی قربانی اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور پیش کی اور جو انتہائی محبت اور عشق کے مقام پر پہنچا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انتہائی تعلق اور محبت اور پیار کا سلوک کیا لیکن اس کا جو خاکہ بنتا ہے اور جو تصویر بنتی ہے وہ شروع سے ایک ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار نبی اور اس کے ماننے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ آدم سے لے کر اس وقت تک ہم نے یہی دیکھا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو شک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذِکر نازل بھی ہوتا ہے یا نہیں اور اس شک کی وجہ سے وہ آنے والے کو بھی نہیں مانتے اور حقیقت یہ ہے کہ (صٓ:۱۰) اُس وقت تک یہ مخالفت کرتے رہیں گے منصوبے بناتے رہیں گے، تکالیف دیتے رہیں گے۔ ناکام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی صفتِ عزیز کا جلوہ گرفت کی صورت میں نہیں دیکھیں گے اور اس عرصہ میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف ان کو دیئے گئے ہیں اور مومنین کو وہ نہیں مل سکتے۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے مومن کو اللہ تعالیٰ ابتلاء میں ڈالتا ہے ایک تو اس کا یہ امتحان لیتا ہے کہ جو تربیت خدا تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ سے اس کی کی گئی ہے وہ تربیت اُس نے حاصل کی یا نہیں۔ دوسرے دُنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو میرے بندے میری خاطر دنیا کا ہر ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں لیکن مجھ سے بے وفائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ خداتعالیٰ اپنے پیاروں کا یہ نظارہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب کی شکل میں اس کا حکم نازل ہوتا ہے تو اُس وقت مومن بھی اور کافر بھی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہتے اور اُس کے مامورین اور اُس کے انبیاء کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف پیراؤں میں یہ مضمون قرآن کریم میں بیان کیا اور ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ماننے والوں کو خدا نے حکم دیا ہے کہ جلدی نہ کرنا اور جو تمہیں دُکھ پہنچانے والے تم پر ظلم کرنے والے تمہیں ہلاک کرنے کی تدابیر کرنے والے تمہیں بے عزت کرنے والے تمہیں حقیر سمجھنے والے ہیں اُن کے لئے دعائیں کرو۔ اُن کے لئے یہ دعا کرو کہ وہ عظیم نعمت جو اللہ تعالیٰ کے پیار کی شکل میں تم نے دیکھی اور اس سے مخالف محروم رہے اللہ تعالیٰ اُن کے لئے بھی یہ سامان پیدا کرے۔
ہماری جماعت اِس وقت مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت ہے اور وہ احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں دُکھ نہیں دیئے جائیں گے ہم پر مصیبتیں نازل نہیں کی جائیں گی، ہماری ہلاکت کے سامان نہیں کئے جائیں گے ہمیں ذلیل کرنے کوششیں نہیں کی جائیں گی اور آرام (کے) ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے وہ غلطی خوردہ ہے اُس نے اُس سنّت کو نہیں پہچانا جو آدمؑ سے لے کر آج تک انسان نے خدا تعالیٰ کی سنت پائی۔ ہمارا کام ہے دعائیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہے کہ جس وقت وہ مناسب سمجھے اُس وقت وہ اپنے عزیز ہونے کا اپنے قہّار ہونے کا جلوہ دکھائے اور کچھ کو ہلاک کر دے اور بہتوں کی ہدایت کے سامان پیدا کردے۔ دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال ابھی میںنے آپ کے سامنے رکھی ہے جو مخالف تھے اُن میں کتنے فی صد خدا تعالیٰ کے قہر کا نشانہ ہے؟ اور مارے گئے؟ بہت کم۔ باقیوں کے لئے وہ عذاب جو بار بار مختلف شکلوں میں آتے تھے وہ ان کے لئے عبرت کا موجب بنے اور ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔
پس ہمارا کام اپنے لئے یہ دعا کرنا ہے کہ جو ہمیں دوسروں کے لئے دعائیں کرنے کی تعلیم دی گئی ہے کہیں ہم اس کو بُھول نہ جائیں۔ ہمارا کام غُصّہ کرنا نہیں۔ ہمارا کام غُصّہ پینا ہے ہمارا کام انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہمارا کام معاف کرنا ہے ہمارا کام دعائیں کرنا ہے اُن کے لئے جو ہمارے اشدّ ترین مخالف ہیں کیونکہ وہ پہچانتے نہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور اُس کے پیار کی راہوں سے وہ بھٹک گئے ہیں یہ ہمارا کام ہے اور جس وقت اللہ تعالیٰ ایک لمبے سلسلہ کے بعد جو صفتِ عزیز کے جلووں کا سلسلہ ہے یعنی کبھی کہیں تھوڑی گرفت ہوتی ہے اور کسی اور مقام پر اور کسی اور زمانہ میں زیادہ سخت گرفت ہوتی ہے ان سب کا نچوڑ یہ ہے کہ دو چار فیصد لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن باقیوں کے لئے ہدایت کا سامان پیدا ہو جاتا ہے آخر خلافت راشدہ میں اسلامی مہم میں کتنی وسعت پیدا ہو گئی تھی اور جہاں جہاں اسلام کا اثر و نفوذ پھیلا کسریٰ کے ساتھ لڑائیوں میں ایران کے باشندوں میں سے ایسا تو نہیں ہوا کہ نوّے فیصد لوگ مارے گئے ہوں یہ بھی نہیں کہ اِن میں سے پانچ فیصد ہلاک ہوئے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شاید ایک فیصد بھی ہلاک نہ ہوئے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر اپنی گرفت کے جلوے اپنے عزیز ہونے کے جلوے ظاہر کئے اور ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کر دیا اور ان کی بھاری اکثریت مسلمان ہوئی۔ پھر ان لوگوں نے بڑے اخلاص کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی قوّتوں اور استعدادوں کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا تھا۔ سپینؔ کے فاتحین موؔسیٰ اور طارؔق بھی جہاں تک مجھے یاد ہے ایران سے وہاں گئے ہوئے تھے اور اُن لڑائیوں میں غلام بن کر آئے تھے وہ جنگی قیدی تھے پھر اسلام کے اندر ان کی تربیت ہوئی پھر ان کی جتنی ذہنی طاقتیں اور استعدادیں تھیں وہ اسلام کے لئے وقف ہو گئیں اور اپنا کچھ باقی نہ رہا اور انہوں نے اطاعت امام کا اعلی نمونہ قائم کیا حالانکہ ان کے زمانہ میں تو خلافت نہیں تھی ملوکیّت آ گئی تھی لیکن پھر بھی اسلام کے نظام کی اطاعت کے لئے انہوں نے اپنی غلط فہمی کے نتیجہ میں جو سزائیں دی تھیں اُس سلسلہ میں انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کر دیں لیکن اسلام سے جو انہیں پیار اور محبت تھی اس پر انہوں نے حرف نہیں آنے دیا۔ بہرحال یہ دوسری باتیں ہیں مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احباب جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں۔ ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف اس قسم کا غُصّہ نہ آئے کہ جس کی اجازت ہمیں ہمارے رب نے نہیں دی۔ خدا تعالیٰ نے کہا ہے میری خاطر تم ظلم سہو میں آسمانی فرشتوں کو بھیجوں گا تا کہ تمہاری حفاظت کریں۔ اب ظاہر ہے اور موٹی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی دوسرا فرد حملہ آور ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کو اپنے دفاع کے لئے ان دو چار ہتھیاروں میں سے جو میسّرہیں کسی ایک ہتھیار کے منتخب کرنے کا موقع ہو تو عقل کہتی ہے کہ اُس کے نزدیک جو سب سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہو گا وہ اسے منتخب کرے گا تو اگر ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مومن کی عقل کو یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اگر دُنیا کے سارے دلائل بھی ہمارے پاس ہوں اور ان کے ساتھ ہم اپنے مخالف کا مقابلہ کریں تو ہماری اس تدبیر میں وہ قوت اور طاقت نہیں جو ان فرشتوں کی تدبیر میں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے بھیجے اور کہے کہ میرے بندوں کی حفاظت کرو اور اُس کی خاطر مخالفین سے لڑو۔ پس جب یہ بات ہے تو ہماری عقل کہتی ہے کہ ہمیں کمزور ہتھیار سے اپنے مخالف کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب ہمیں ایک مضبوط ہتھیار بھی میسّر آ سکتا ہے اور آ رہا ہے تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ کہا کہ تمہارا کام ہے دعائیں کرنا اور میرا کام ہے (۱) تم سے قربانیاں لینا تا کہ تم میرے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن جاؤ اور (۲) تمہاری اجتماعی زندگی کی حفاظت کرنا۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور اس کے بعد ہمیں اپنے غصّے نہیں نکالنے چاہئیں۔ تمہارا کام ہے دعائیں کرو۔
گالیاں سُن کر دُعا دو پا کے دُکھ آرام دو
(درثمین صفحہ ۱۴۴)
جہاں کہیں تمہیں کوئی تکلیف دینے والا ہے وہاں خود سوچو کہ کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی کہ ہم اس کی کسی تکلیف کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کو ماننے والے ہوں۔ اب یہاں بھی ہماری بڑی مخالفت ہوتی رہتی ہے لیکن اجتماعی طور پر احمدیوں کے دلوں کی کیفیت یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسا انسانی دُکھ ملے جس کو ہم دُور کر سکیں تو اس کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اب اخبار میں ایک دن یہ خبر آئی کہ دریائے سندھ نے اپنے بہاؤ کا رُخ موڑا ہے اور پچاس گاؤں اُس کی زد میں آ گئے ہیں اور لوگ بڑی تکلیف میں ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں (میں ایک مثال دے رہا ہوں ہماری کیفیت یہی رہنی چاہیئے۔ اسی میں برکت ہے) میں نے خدام الاحمدیہ کو کہا کہ وہاں آدمی بھیجو اور پتہ لو کہ اُن کو کس چیز کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان کی ضرورتیں پوری کریں۔ ہمارے دو نوجوانوں کا وفد وہاں گیا اور انہوں نے وہاں سارے حالات کا جائزہ لیا اور ایک مفصل رپورٹ اپنے دفتر میں پیش کی وہ مجھے بھجوائی گئی ہمیں پتہ لگا کہ وہ لوگ تکلیف میں تو ہیں لیکن اس تکلیف کو ہم جماعتی طور پر دُور نہیں کر سکتے حکومت دور کر سکتی ہے میں نے دفتر کو کہا ہے کہ ’’مساوات‘‘ کو جس نے یہ خبر دی تھی لکھو کہ ہم نے خدام بھیجے تھے اُن کی یہ رپورٹ ہے اور ان کی تکلیف حکومت کے سوا اور کوئی ذریعہ دُور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان کی تکلیف یہ ہے کہ اس علاقہ میں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور یہ جو بیچارے غریب کسان ہیں ان کا پچھلے سال کے سیلاب میں بھی نقصان ہوا مکانات گر گئے۔ اب پھر ان کے مکانات گر گئے ہیں اور بڑے زمیندار ان غریبوں کو کوئی اونچی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں جہاں وہ اپنا گاؤں آباد کر سکیں اور پانی سے بچ سکیں۔ اب یہ کام میں یا آپ تو نہیں کر سکتے کہ زمینداروں سے زمین چھین کر ان غریبوں کو دے دیں۔ حکومت کو توجہ کرنی چاہیئے۔
پس میں نے انہیں ہدایت کی کہ ’’ مساوات‘‘ کو خط لکھیں کہ وہ اس امر کو شائع کرے یا اپنے کسی ذریعہ سے حکومت کو توجہ دلائے کہ اس طرح پاکستان کے کچھ دیہات تکلیف میںہیں اور صرف حکومت اس تکلیف کو دور کر سکتی ہے کوئی اچھی جگہ سروے کر کے جہاں گذشتہ سال پانی نہیں آیا اور اب بھی نہیں آیا وہ جگہ منتخب کر کے انہیں دیں تا کہ وہ اپنا گاؤں آباد کریں اور سُکھ اور چین کی زندگی گذار سکیں۔ یہ ہماری ذہنیت اور رُوح ہے کہ ہم نے کسی کو دُکھ نہیں دینا بلکہ یہ کوشش کرنی ہے کہ جتنے بھی دُکھ ہمار ے ذریعہ سے دور ہو سکیں وہ ضرور دور ہو جائیں۔ گذشتہ سال سیلاب کے دنوںمیں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں سے درجنوں بلکہ بیسیوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اُن لوگوں کی جانیں بچائیں جو جہالت کی وجہ سے ہر وقت ہماری اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے تیار رہتے تھے کیونکہ اگر وہ اس نُور کو دیکھ لیں جو نور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا آج مہدی علیہ السلام پر نازل ہوا ہے تو پھر تو سارے جھگڑے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
پس ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑا عظیم وعدہ دیا ہے اور بڑی عظیم بشارت دی ہے کہ ہمارے ذریعہ ہم جو بالکل کمزور ہیں اور اس دنیا میں ایک دھیلہ بھی ہماری قیمت نہیں ہے۔ ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا اور جب دُنیا کے بادشاہوں کے جرنیل اس کے کروڑواں حصہ کارنامہ کرتے ہیں تو اُن کو بادشاہوں کی طرف سے انعام ملتا ہے تو وہ جو حقیقی بادشاہ اورعالمین کا بادشاہ ہے اُس کی خاطر سب جماعت کے افراد اور جماعت بحیثیت مجموعی یہ کام کرے گی اور دنیا میں اسلام کو غالب کرے گی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیار دُنیا کے دل میں میخ کی طرح گاڑ دے گی تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ اور حقیقت میں ہے ہی وہی بادشاہ باقی تو سب یونہی ہیں۔ اُس کی طرف سے ہمیں کتنا بڑا انعام ملے گا جس کی ہم توقع رکھتے اور اُمیّد رکھتے ہیں۔ اس لئے غصہ میں نہ آیا کرو اور یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے جب جو کہا تو اس وقت جو خدا تعالیٰ کے قہر کا ہاتھ حرکت میں نہیں آیا تو میرا کیا حق ہے کہ میرا ہاتھ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف حرکت میں آجائے؟ تو جب وقت آئے گا اور جس قدر وہ گرفت کرنا چاہے گا جن پر وہ ہلاکت کی گرفت کرنا چاہے گا اور جن کو دوسروں کے لئے عبرت کا مقام بنانا چاہے گا وہ خود اس کا انتظام کرے گا۔ ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں جس چیز کی ہمیں فکر ہے وہ ہمارے اپنے نفوس اور اپنی جانیں ہیں کہ ہماری کسی کمزوری اور کسی غفلت کے نتیجہ میں ہمارا ربّ کریم ہم سے کہیں ناراض نہ ہو جائے خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔
خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے اپنی صحت سے متعلق فرمایا۔
میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ گرمی میں میرے خون کی شکر بڑھ کر بیماری بن جاتی ہے گرمی جب سے ہوئی ہے مجھے یہ تکلیف ہے۔ میں ابھی انگریزی دوائیاں استعمال نہیں کرتا۔ ہومیو پیتھک یا طبّ یونانی کی کوئی دوائی استعمال کر لیتا ہوں کیونکر تدبیر کرنی ضروری ہے۔ انگریزی دوائیاں اس لئے استعمال نہیں کرتا کہ اُن کی پھر عادت پڑ جاتی ہے اور خداتعالیٰ مجھے توفیق دیتا رہے۔ کام میرے ایسے ہیں کہ جن میں کوئی عادت میرے ساتھ چل نہیں سکتی نہ کھانے کا کوئی وقت نہ کچھ یعنی کوئی بھی عادت مجھے نہیں پڑنی چاہیئے تو جس دوائی کی عادت پڑ جائے وہ پھر کام میں روک بنے گی اس لئے میں انگریزی دوائیوں سے بچ رہا ہوں ورنہ تو اگر خدا کا منشاء یہ ہو کہ انگریزی دوائیاں کھاؤ تو کھائیں گے۔ اس ہفتہ میں خون کی شکر پہلے سے کمی کی طرف مائل ہے لیکن ابھی کافی بیماری کی شکل میں ہے اس لئے دوست دُعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بیماری کو دور کرے اورکام کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا کرے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۸؍جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶)




ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبۂ اسلام
کے خدائی منصوبہ کو ناکام نہیں بنا سکتیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳۱؍مئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیاتِ کریمہ تلاوت فرمائیں:-

(محمد:۳۴،۳۶)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اُمت مسلمہ کوان آیات میں ان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایا گیا ہے۔ ایک تویہ کہ اگر امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے عملاً باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کاموعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہوجائیں گے اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے زور لگالے وہ امت مسلمہ پر، اگروہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہوکبھی غالب نہیں آسکتی۔ علوّ اور غلبہ امت مسلمہ کے ہی مقدر میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے فرمایا کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور جس کا حقیقی عاشقانہ اور عاجزانہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو اس کے نیک اعمال، وہ اعمال جن کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں۔ جن اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے زیادہ حاصل ہوتی رہتی ہے ان اعمال میںکمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی صفات کا ہر دوسرا جلوہ پہلے سے بڑھ کر حسین، پہلے سے زیادہ عظیم ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے پس ہمارے مقام کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ ہمیں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ گالیوں کا جواب دعائوں سے دینا اور جب کسی کی طرف سے دکھ دیا جائے تو اس کا جواب اس رنگ میں ہو کہ اس کے لئے سکھ کا سامان پیدا کیا جائے۔ اسی لئے پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی مَیں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوںکو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اورکسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگا فساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ تمہارے لیے تسکین کا بھی باعث ہے، ترقیات کا بھی باعث ہے۔ وہ ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارنا۔ صبراور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارو مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیںاور اس پرعمل نہیں کیا اور جوفساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آکر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے۔
۲۹،مئی کو اسٹیشن پر یہ واقعہ ہوا۔ اس وقت اس واقعہ کی دوشکلیں دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی غلط اور باطل شکل ہے مثلاً ایک روزنامہ نے لکھا کہ پانچ ہزار نے حملہ کردیا۔ مثلاً یہ کہ(احمدیوں کی طرف سے۔ ناقل) سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ایسا کیاگیا۔ وغیرہ وغیرہ۔یہ بالکل غلط ہے اس میں شک نہیں لیکن دوسری شکل یہ ہے کہ کچھ آدمیوں نے بہرحال اپنے مقام سے گرکر اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کو چھوڑتے ہوئے فساد کا جو منصوبہ دشمنوں کی طرف سے بنایا گیا تھا اسے کامیاب کرنے میں شامل ہوگئے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور چونکہ ایسا ہوا اور اگر دشمن کو آپ کے دس آدمی ایک ہزار نظر آتے ہیں تو اس سے آپ کی برأت نہیں ہوتی یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے لیکن آپ کی برأت اس سے نہیں ہوتی جتنے بھی اس جھگڑے میں شامل ہوئے۔ انہوں نے غلطی کی اور سوائے نفرت اور مذمت کے اظہار کے ان کے اس فعل کے خلاف ہم کچھ کر نہیںسکتے نہ امام جماعتِ احمدیہ اور نہ جماعت احمدیہ۔ اس لئے انہوںنے تو غلطی کی اور چونکہ وہ دشمن کی سوچی سمجھی تدبیر تھی اور ایک نہایت بھیانک منصوبہ ملک کو خراب اور تباہ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا اب اس میں آپ کا ایک حصہ شامل ہوگیا اوراب ملک کے ایک حصہ میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کواس رنگ میں ہوا دی جارہی ہے کہ یہ شدت اختیار کرے گی۔ یہ آگ جہاں لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ء کی آگ سے زیادہ شدید طورپر لگی ہوئی ہے۔ اس وقت حکومتِ وقت زیادہ تدبر اور زیادہ انصاف سے کام لے رہی تھی۔ اس وقت جو رپورٹیں آرہی اگر وہ درست ہیں تو ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومتِ وقت نہ تدبر سے کام لے رہی ہے اور نہ انصاف سے کام لے رہی ہے۔ بہرحال یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ لگے گا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن حصوں میں آگ لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ء سے زیادہ شدت کے ساتھ اس فساد کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض احمدیوں کے دلوں میں گھبراہٹ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔میں حقیقت بیان کرنے کے لئے یہ کہتا ہوں ورنہ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں یہ بتائوں کہ ان کو کیا کرنا چاہیئے۔ جو سیاستدان ہیں ان کو اپنا مفاد خود سمجھنا چاہیئے۔ اگر نہیں سمجھیں گے تو دنیا میں حکومتیں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں۔ میری اس سے کوئی غرض نہیں میں تو مذہبی آدمی ہوں۔
نصیحت کرنامیرا کام ہے ان کو بھی ایک رنگ میں نصیحت کردی، سمجھنانہ سمجھنا ان کا کام ہے لیکن اصل چیز میں آپ کے سامنے اول یہ لانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے بھی غلطی کی ، غلطی کی ہے اورہمیں اس چیز کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ دوسرے یہ کہ صرف انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ انہوںنے اپنی ناسمجھی کے نتیجہ میں دشمن کے ایک سوچے سمجھے منصوبہ میں شمولیت کی اور جماعت کے لئے بھی پریشانی کے سامان پیدا کرنے کے موجب بنے اور ملک کے لئے بھی کمزوری کا سامان پیدا کرنے کا موجب بنے میں سمجھتا ہوں اورمیں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کم ازکم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور توبہ کریں اوراللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں۔ جو بھی اس معاملہ میں شامل ہوئے ہیں۔ مجھے ان کاعلم نہیں لیکن جوبھی شامل ہوئے ہیں وہ کم ازکم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکیں اوراپنی بھلائی کے لئے اورخود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے دس ہزار مرتبہ اس سے معافی مانگیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہ کر دے۔
دوسری بات میں جماعت کے مخلص، سمجھدار، فدائی حصہ کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ آگ تو بڑی شدت سے بھڑکائی گئی ہے لیکن یہ آگ ناکام ہوگی۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ناکامی اس معنیٰ میں نہیں کہ کسی احمدی کو بھی مختلف قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑیں گی۔ وہ تودینی پڑیں گی جب تک جماعتِ احمدیہ کے احباب وہ اور اس قسم کی تمام قربانیاں خدا کے حضور پیش نہیں کرتے جو قربانیاں کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے خدا کے حضور پیش کی تھیں اس وقت تک وہ ان انعامات کو بھی حاصل نہیں کرسکتے جو صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کریم سے حاصل کئے تھے لیکن دنیا کے کسی دماغ میں اگر یہ بات آئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی غلبۂ اسلام کی اس تدبیر اوراللہ تعالیٰ کے غلبۂ اسلام کے اس منصوبہ کو ناکام بناسکتی ہیں جس غرض کے لئے کہ جماعت احمدیہ قائم کی گئی تھی توہمارے نزدیک وہ روحانیت سے دور ہونے کی وجہ سے ناسمجھی کے خیالات رکھنے والا ہے۔ یہ توہونہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منصوبہ ناکام ہوجائے۔
قرآن کریم نے جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے اور جس کے اندر کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہوئی نہ ہوسکتی تھی اور شیطانی دخل سے اسے خدا تعالیٰ نے محفوظ کررکھا ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا یہ عقیدہ صرف نظریاتی عقیدہ نہیں بلکہ ہماری زندگیوں نے اس صداقت کو سینکڑوں بارمشاہدہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کاکلام بہرحال کلام اللہ ہے اور غیراللہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ہم علیٰ وجہ البصیرت اپنی زبان سے بھی اپنے عمل سے بھی، اپنے جذبات سے بھی ، ہم اپنی روح کے ہر پہلو سے دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس خدا کے کلام میں غیراللہ کو کوئی دخل نہیں ہے اور یہ کلام ہم میں سے ہر ایک کے کان میں بڑے پیار کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے۔ آخر کارتم ہی غالب رہوگے۔ جو خدا تعالیٰ سے دورہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے جو غلط فہمیوں میںمبتلا ہیں وہ ناسمجھیوں کے نتیجہ میں غلط اعلانات کرتے ہیں۔ ان کی باتیں باطل ہیں وہ مٹ جائیں گی۔ آج جو ہمارا دشمن ہے وہ یہ حقیقت یادرکھے کہ کل وہ ہمارا دوست ہوگا۔ وہ اپنے کئے پر پچھتارہا ہوگا وہ ہم سے مصافحہ کرنے میں فخر محسوس کررہاہوگا کہ یہ وہ قوم ہے جس کو پہچانا نہیں گیا، یہ وہ جماعت ہے جس کو دھتکارا گیا اور کمزور سمجھا گیا اور دکھ دینے کی کوششیں کی گئیں اور ایذاء پہنچائی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے یہ ثابت کردیا کہ یہی جماعت صداقت پر قائم ایک جماعت ہے۔
خدا تمہیں کہتا ہے کہ بحیثیت جماعت غالب تم نے ہی آنا ہے اگرکسی جماعت کو یہ یقین ہواگرکسی جماعت کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ خداتعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ غالب انہوں نے ہی آنا ہے اگروہ شرائط ایمان اور شرائطِ اسلام پوری کرنے والے ہوںپھر ان کوکیا ڈر اور ان کو خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں دینے میں کیا جھجک؟ افراد تو قربانیاں دیا ہی کرتے ہیں ابتدائے اسلام میں بہتوں نے ایسی قربانیاں دیں۔ جب ابھی یہ جھگڑے اور لڑائیاں مخالفینِ اسلام کی طرف سے شروع نہیںکی گئی تھیں مکی زندگی میں جو ظاہری حالات کے لحاظ سے کمزور زندگی تھی(ورنہ مومن کی روحانی زندگی تو کمزور نہیں ہوتی کیونکہ ساری شیطانی طاقتوں کا وہ مقابلہ کررہی ہوتی ہے) بہرحال ظاہری لحاظ سے وہ کمزور تھے۔ حالت یہ تھی کہ ان کی اورہماری بزرگ مستورات میں سے بعض کو ننگا کرکے ان کی شرمگاہوں میں نیزے مارکر ان کو ہلاک کردیا گیا اور اس وقت کے مسلمانوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی خاتون کی عزت کی حفاظت کرسکتے اور خدا نے کہاتھا کہ ہماری اس مخلصہ کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پراتنی نہیں جتنی تم پر اس بات کی ذمہ داری ہے کہ تم ہمارا حکم سنو اوربجالائو اورتمہیں حکم یہ ہے کہ صبر اوردعا کے ساتھ ان آفات کا، ان تکالیف کا، دشمن کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرو۔ گالی کا جواب گالی سے دے کر نہیں پتھر کے مقابلہ میں پتھر پھینک کر نہیں بلکہ پتھر کھائو اورصبر کرو اوردعا کرو اپنے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو پتھرائو کرتے ہیں۔ یہ مقام ہے ایک احمدی کا اس مقام نہ چھوڑیں اور یہ نہ بھولیں کہ کا وعدہ اسی صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب اطاعتِ خدا اور اطاعت رسول کے مقام سے آپ کا قدم ادھر اُدھر نہ ہوجائے اور خدا تعالیٰ نے پھر عجیب وعدہ دیا ہے کہ اگر تم اطاعت خدا اور اطاعت رسول پر مضبوطی کے ساتھ اور ثباتِ قدم کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہوگے اوراللہ تعالیٰ کے دامن کو انتہائی پختگی کے ساتھ اور انتہائی عشق اور محبت کیساتھ تم نے تھاما ہوا ہوگا تونہ صرف یہ کہ تم اعلیٰ ہوگے بلکہ تمہیں اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ حسین اور مقبول اعمال کی توفیق دیتا چلاجائے گا۔ ان کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوگی بلکہ اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ انعام کی عطا کہیں ٹھہرے گی نہیں حصولِ انعام کی کوئی آخری منزل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں اس قوم پر انعام پر انعام کرتا چلا جائوں گا جس کے افراد انتہائی قربانیاں دے کر میری محبت اورپیار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا سکہ دنیا میں بٹھانے والے ہوں گے۔
غصہ تم ان لوگوں پرکرتے ہو جن کی اولادیں تمہارے کندھے سے کندھا ملاکر اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والی ہیں؟ کیسی نامعقول بات ہے کس نے تم سے کہا؟ قرآن کریم کی کون سی آیت بتاتی ہے کہ مخالف کو اس کی زندگی میں ابدی *** کا طوق پہنا دیا جاتا ہے؟ قرآن کریم تویہ کہتا ہے کہ جو اسلام کا مخالف ہے اور جو صداقت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے اس کو ہم ڈھیل پر ڈھیل دیتے جاتے ہیں، کبھی پکڑتے ہیں کبھی چھوڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے منصوبہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرلیں۔ آپ کی بھی یہی کوشش ہونی چاہیئے اگرآپ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔
پس دشمنوں کے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور صبر کا نمونہ دکھائو اور خدمت اور خیر خواہی کی ایسی مثال قائم کرو کہ جوآج اشد ترین دشمن ہے وہ بھی اس خیر خواہی اور خدمت اور اس پیار کی تیز دھار سے گھائل ہو اورپھر ہم سب مل کر یہ کوشش کریں کہ جوآج غیر ہیں وہ بھی غیر نہ رہیں اورہم سب مل کر اسلام کی کچھ اس طرح خدمت کریں کہ جلد ترساری دنیا پر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کے باعث اسلام غالب آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر ملک میں بلند ہواور آپ کی محبت ہردل کے اندر اس دل کی دھڑکن کے طورپردھڑک رہی ہو۔ مادی دل کی دھڑکن توکوئی چیز نہیں ہے جس دل میں مادی دھڑکن سے زیادہ نمایاں اور زیادہ مؤثر طریقہ پر خدا اور اس کے رسول کی محبت اور عشق کی دھڑکن ہو وہ دل ہے جس کے اوپر یہ عالمین قربان کردئیے جاتے ہیں۔ وہ دل اپنے سینوں میں پیدا کرو اور محبت اورپیار کے ساتھ ان لوگوں کے دلوں کو جیتو جو اپنی نا سمجھی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے دشمن ہیں۔ تم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ تم ان کے دشمن نہیں بلکہ تم ہی ان کے خیراہ ہو، تم ہی ان سے حقیقی پیار کرنے والے ہوتم ہی ان کے دکھوں کودور کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ تم نے ان کے اوپر اتنا احسان کرنا ہے کہ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کی معرفت حاصل ہو جائے۔ وہ چوٹی بہت ہی بلند ہے جہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان پہنچا لیکن خاردار جھاڑیاں بیچ میں ہیں وہ نظر نہیں آرہیں ان خاردارجھاڑیوں کو تم نے محبت اور پیارکے ساتھ صاف کرنا ہے اورپھر اس محبت اورپیار کے نتیجہ میں جو ایک نورانی فضا پیدا ہوگی اس سے انہیں پتہ لگے گا کہ ہمارا محسنِ اعظم جوتھا(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا کیا مقام تھا۔ اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے پڑکر اپنے اوقات ضائع نہ کرو اور خواہ وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو دوسروں کو ابتلاء میں نہ ڈالو اور جو ایسے منصوبے ہیں جو غلبۂ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ہیں ان منصوبوں میںخود کو شامل نہ کرو۔ تم اس کام کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ۔ دعائیں کرو اور صبر سے کام لو اورہمہ وقت خدمت کیلئے تیار رہو اورجس شخص کویہ وہم ہے کہ وہ آپ کا اشدترین دشمن ہے اپنی پیاری خدمت کے ساتھ اس کے اس وہم کو دور کرنے کی کوشش کرو تاکہ جوہم چاہتے ہیں وہ ہمیں جلد ترمل جائے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹؍ جون ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۵)









انسانی قوٰی، طاقتوں اور استعدادوں کو موقع و محل
کے مطابق استعمال کرنا تقویٰ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۷؍جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:-
(النحل: ۱۲۹)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
’’قرآن عظیم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے سے محبت اور عشق کے لئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے متصف ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔
ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جیسا کہ اور دیگر آیات میں بیان ہوا ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہیں ہوتا،جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اُس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں کہ قرآن عظیم نے اس فقرہ کو استعمال کیا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ جلوے جن کا تعلق الٰہی معیّت سے نہیں ہوتا، وہ ان لوگوں پر بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں یعنی جو مفہوم میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا مثلاً سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفت رب العلمین بتائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو قویٰ دئیے ہیں۔ اس عالمین میں موجود ہر مخلوق کو جو استعدادیں عطا کی ہیں، اُس نے اُن کی ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے ہیں یعنی جہاں تک کھانے کا تعلق ہے، غذا کا تعلق ہے یا گندم اور دوسری اشیاء کا تعلق ہے، جیسے ان لوگوں کے لئے زمین پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے ویسے ہی ان لوگوں کے لئے بھی پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق اللہ نہیں ہے لیکن ایک ایسی دُنیا بھی ہے اور ایک وہ صفات بھی ہیں جو صرف ان لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔
اس وقت گرمی بہت ہے چونکہ گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے اس لئے گرمی کی وجہ سے لمبا خطبہ نہیں دے سکتا۔ میں مختصراً ایک موٹی مثال دیتا ہوں جو میری آب بیتی سے متعلق ہے اور جس کے مطابق میں علیٰ وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ سرور جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت سے انسان کو حاصل ہوتا ہے ساری دُنیا کی لذتیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔یہ وہ چیزیں ہیں جو ان لوگوں کے حق میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔
چنانچہ ایک دفعہ پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی(شاید کوئی کہے گا یہ پاگل پن تھا) میں نے یہ دُعا کی کہ اے خدا! مجھے وہ لذت عطا فرما جس کا تعلق کسی مادی چیز سے نہ ہو مثلاً ایک پیاسا آدمی ہے اس کے لئے گرمیوں کے دنوں میں ٹھنڈا پانی سرور پیدا کرتا ہے پانی ایک مادی چیز ہے اسی طرح ایک بھوکا آدمی ہے اس کو کئی دن کے بعد کھانا ملے تو اسے سرور حاصل ہوتا ہے۔ پچھلے سال جب سیلاب آئے تھے تو ہمارے بعض نوجوان ۳۶۔ ۳۶ گھنٹے بھوکے رہ کراور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے اپنے علاقے کی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لئے کام کرتے رہے۔ وہ جب واپس آئے ہوں گے اور اُنہوں نے کھانا کھایا ہو گا تو اُنہیں کھانے میں غیر معمولی لذت حاصل ہوئی ہو گی۔ چنانچہ میں نے یہ دُعا کی کہ اے میرے رب کریم! تیرے قانون کے مطابق مادی اشیاء سے سرور حاصل ہوتے ہیں ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے میں دُعا نہیں کرتا یہ تو مجھے روز ملتے ہیں۔ اے خدا! مجھے ایسی لذت عطا فرما جس کا تعلق مادی طور پر لذت پہنچانے والی اشیاء سے نہ ہو۔ خداتعالیٰ کی شان تھی کہ دُعا کرنے پر ابھی ایک گھنٹہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ میرے جسم کے روئیں روئیں میں ایک ایسی لذت اور سرور پیدا ہوا جس کی کوئی مادی وجہ نہ تھی، صرف دُعا کی قبولیت تھی۔میں اس غیر معمولی لذت اور سرور کو ۲۴ گھنٹے تک محسوس کرتا رہا یعنی میرا دل بھی اور میرا دماغ بھی میرا جسم بھی اور میری روح بھی اور میرا ذہن بھی اس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ حقیقی معنے میں اللہ تعالیٰ کے عاشق ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ دونوں جہان اُن کو دے دیتاہے مگر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عاشق ہیں وہ ان دو جہانوں کو لے کر کیا کریں گے۔
پس اصل بات یہ ہے کہ دُنیا دار کی نگاہ میں صرف دُنیا ہی کا سرور ہے مثلاً اچھے کھانے اور آرام دہ گھر ہیں دولتیں ہیں آپس میں بڑی بڑی سوسائٹیاں، مجلس اورکلب بنا رکھے ہیں۔غرض انسان نے ہزار قسم کی لذت کے سامان بنا لئے ہیں اور ان میں وہ بڑی تفصیل میں گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے بندہ کو جو لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے اس رنگ میں دوسروں کو نہیں ملتا۔ ویسے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تعلق ہے مومن کو بھی اس سے حصہ ملتا ہے اور کافر کو بھی لیکن جو سرور خدا کا بندہ حاصل کرتا ہے وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مبالغہ نہیں کیا بلکہ جب آپ نے یہ سچ فرمایا کہ اے خدا! جو شخص تیرا ہو جاتا ہے۔ جو شخص تیرا عاشق زار بن جاتا ہے جو شخص تیری محبت میں فنا اور تجھ پر فدا ہو جاتا ہے اس کے سامنے تو دونوں جہان پیش کر دیتا ہے لیکن اس کے لئے یہ دونوں جہان بھی غیر ہیں وہ ان کو لے کر کیا کرے گا کیونکہ اے خدا! جب تو مل گیا جب تیرا پیار مل گیا جب تیری رضا مل گئی تو پھرکسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے۔
معیّت کا یہی وہ مفہوم ہے جس کا قرآن کریم نے متعدد جگہ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔کبھی اس کی کوئی صفت بیان کی ہے اور کبھی کوئی اور صفت بیان کی ہے۔اس وقت میں صرف دو باتوں کو لوں گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی معّیت ایک تو متقیوں کو حاصل ہوتی ہے دوسرے محسنین کو۔ چنانچہ تقویٰ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کے میں ایک دو حوالے اس وقت پڑھوں گا تاکہ احباب پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں:-
’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے

(الحدید:۲۹)
یعنی اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اِتِّقَا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیارکرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہیں نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں اور تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۷۷،۱۷۸)
پھر آپ ملفوظات میں فرماتے ہیں:-
’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریاء عجب، حقارت، بُخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔‘‘
یعنی متقی کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ صرف بُرے اخلاق سے بچے۔ متقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں جو اچھے اورنیک اخلاق بیان فرمائے ہیں اور جن کی تفصیل ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات عالیہ میں ملتی ہے اُن اخلاق میں ترقی کرتا چلا جائے۔ چنانچہ اسی تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
’’لوگوں سے مروت خوش خلقی ہمدردی سے پیش آوے خداتعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جولوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اُسے متقی نہ کہیں گے۔‘‘
مثلاً ایک شخص عام طور پر سچ بولتا ہے۔ لیکن دیانت سے کام نہیں لیتا تو وہ متقی نہیں بلکہ تمام انسانی قویٰ اس کی تمام طاقتوں اور استعدادوں کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا یہ تقویٰ ہے اگر کسی شخص میں کوئی ایک خاص خُلق فرداً فرداً پایا جاتا ہے تو اُسے متقی نہ کہیں گے۔ فرمایا:-
’’جب تک بحیثیت مجموعی اخلاقِ فاضلہ اس میں نہ ہوں اور ایسے ہی شخصوں کے لئے ہے اور اس کے بعد اُن کو کیا چاہیئے اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے۔جیسے کہ وہ فرماتا ہے (الاعراف:۱۹۷) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ اُن کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ اُن کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سُنتے ہیں۔ اُن کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے ۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خداتعالیٰ اُس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۸۰۔۶۸۱)
پس اس آیۂ کریمہ میں جو کہا گیا ہے یہ دو صفات کا مطالبہ کرتا ہے ایک اُس تقویٰ کا جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کے متعلق میں نے اس وقت دو حوالے پڑھ دئیے ہیں۔ تفسیر آپ خود سمجھ جائیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ احسان کرنے والے ہوں۔ احسان کے دو موٹے معنی ہیں وہ میں اس وقت بیان کر دیتا ہوں۔
احسان کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی قوتوں اور استعدادوں کو موقع و محل کے لحاظ سے استعمال کرکے جو اچھے خُلق بجا لاتا یا بجا لا سکتا ہے اُن کوپورے حُسن کے ساتھ بجا لائے۔ اُن کو اچھی طرح ادا کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے۔ ایسی کوشش کہ اس میں کوئی خامی اور کوئی کمی نہ رہے مثلاً خدمت خلق ہے۔ انسان کو اس کی طاقت دی گئی ہے۔ اس لحاظ سے احسان کے معنی یہ ہوں گے کہ خدمت خلق کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اور اپنی بساط کے مطابق اس خدمت کو کمال تک پہنچانا۔ اسی لئے ہماری جماعت جو ایک غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے جب کبھی خدمت خلق کا موقع پیدا ہوتا ہے تو یہ کوشش یہ کرتی ہے کہ جہاں تک اس سے ہو سکے قطع نظر اس کے کسی کا عقیدہ کیا ہے یا کسی کا سیاسی مسلک کیا ہے، خدمت کے لئے باہر نکلتی ہے اور لوگوں کی بے لوث خدمت بجا لاتی ہے اور خدمت کے ہر موقع کو اس کے کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ گویا احسان کے ایک معنی ہر اچھے فعل کے کرنے اور ہر اچھے خُلق کے اظہار کو انتہا تک پہنچانے کے ہوتے ہیں۔
احسان کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو کر بنی نوع انسان پر احسان کرنا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا صمدہونا ہے یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہر شخص اس کا محتاج ہے۔ انسان کلی طور پر یہ صفت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی اسے طاقت نہیں دی گئی۔ کسی انسان کو یہ استعداد نہیں دی گئی کہ وہ کلی طور پر یہ کہے کہ کسی کی اُسے ضرورت نہیںاور ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک عجیب خیال ہو گا بلکہ یہ تو پھر خدائی کا دعویٰ بن جائے گا کیونکہ اب بھی دیکھ لو یہاں جتنے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اُنہوں نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ان کپڑوں کے بنانے والے آدمی کی انہیں احتیاج تھی اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں جو انسانی زندگی میں ہمیں ملتی ہیں لیکن خداتعالیٰ صمد ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اس صورت میں تو کوئی انسان اس صفت کی نقل نہیں کر سکتا کیونکہ انسان اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ آخر انسان ہے لیکن وہ اس معنی میں خداتعالیٰ کی اس صفت کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔دوسروں پر اس کے جو حقوق ہوتے ہیں، وہ اُن سے پورے حقوق نہیں لیتا یعنی جن حقوق کی اُسے احتیاج ہے اور وہ دوسروں پر واجب ہیں اور ضرورت ہے کہ اس کے جو حقوق دوسروں پر واجب ہیں وہ سارے اُسے ملیں لیکن خداتعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی غرض سے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حقوق کی سو یونٹ یا اکائیاں دوسرے شخص پر واجب ہیں لیکن میں ان میں سے صرف ۸۰ لوں گا اور ۲۰ چھوڑ دوں گا اور جو اس کا دوسرا پہلو ہے کہ ہر ایک شخص خدائے صمد کا محتاج ہے اس رنگ میں ہر ایک انسان کا محتاج نہیں ہوتا۔ کچھ ہلکی سے جھلک اس میں آجاتی ہے اور وہ اس طرح پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ جو حقوق دوسروں کے اس پر واجب ہیں، اُن سے زیادہ میں دوسروں کو دوں گا یا اُن سے زیادہ حسن سلوک کروں گا۔
پس پورے طور پر تو انسان صمد نہیں بن سکتا اور نہ دوسروں کی محتاجی سے وہ نجات حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہر ایک لحاظ سے اور ہر معنی میں اس کا محتاج بن سکتا ہے لیکن انسان کو جتنی طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس صفت (صمد) کا رنگ بھی اپنے اوپر چڑھائے۔ اس لئے جو لوگ یہ گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور وہ کیا یا اُن پر ہمارا حق ہے وہ ہمیں ملنا چاہیئے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے اگر تم محسن ہو تو یہ مطالبہ نہ کرو۔ جو تمہارے حقوق ہیں، اُن میں سے بہتوں کو چھوڑ دو۔ اُن کا مطالبہ نہ کرو لیکن تم نے دوسروں کے جو حقوق دینے ہیں، وہ تم زیادہ دو۔ اگر تم ایسا کرو گے اور ان دو طریقوں سے تم اپنی زندگی گزارو گے تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری معیّت تمہیں حاصل ہو گی۔اگر تم متقی اور محسن بنو گے تو میںتمہارا متولی اور متکفل بن جاؤں گا۔تم کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرو میں ہر ضرورت کے وقت تمہاری مدد کروں گا اور تمہاری ہر ضرورت کو پورا کروں گا اور تمہیں یہ توفیق دوں گا کہ تم غیروں پر احسان کرو اور احسان کے ذریعہ اُن کے دلوں کو جیتو۔
خدا کرے کہ ہم جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور جن پر یہ ذمہ داری عاید کی گئی ہے کہ ساری دُنیا کے دل، محبت اور پیار اور خدمت کے ذریعہ سے خدا اور اس کے رسول خاتم النّبیّن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے جیتیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم وہ تمام صفات اپنے اندر پیدا کریں جن کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ جب یہ باتیں تمہارے اندر پیدا ہو جائیں گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔ تم میری معیّت اور میری پناہ میں ہو گے۔ تم میری محبت اور میری رحمت کے سایہ میں ہو گے۔ خداتعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(ازرجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)





خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کیلئے اٹھتے بیٹھتے
چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہروقت استغفارکرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۴؍جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ہمارا رب، رب العالمین ہے سب جہانوں(اس یونیورس Universe) میں جوکچھ بھی ہے اسے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس نے اپنی مخلوق کو جس غرض اورجس کام کے لئے پیدا کیا اس کے مطابق اس کو شکل اور صورت او رطاقت عطا کی لیکن انسان کے سوا کسی مخلوق کو بھی روحانی ترقیات کی طاقتیں اور استعدادیں عطا نہیں ہوئیں فرشتوں کو بھی یہ طاقتیں عطانہیں ہوئیں صرف انسان یا جیسا کہ قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے انسان جیسی کامل فطرت اورعادات رکھنے والی ہستی خواہ وہ اس زمین پر ہو یا دوسرے ستاروں میںہو، اسے اللہ تعالیٰ نے روحانی رفعتوں کی ایسی طاقتیں دی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کونہیں دیں۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت کے جلووں کا تعلق ہے وہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر بھی ہوتے ہیں مثلاً آم کے ایک درخت کو بھی پنپنے اوربڑھنے کے لئے اور اچھے پھل دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت ہے اور ایک انسان کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ایک تووہ جلوے ہیں جن میں انسان اور غیر انسان سبھی شامل ہیں اور ایک وہ جلوے ہیں جن میں غیر انسان انسان کے ساتھ شامل نہیں ہوتے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر انتہائی رفعتوں تک پہنچنے کی طاقت، قوت اور استعداد عطا کی ہے کہ ہماری اصطلاح میں عام طور پر اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انسان وہاں تک جا پہنچتا ہے جہاں تک کہ فرشتوں کی بھی رسائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں وہ تمام قوتیں اور استعدادیں عطا کیں جو روحانی رفعتوں کے حصول کے وقت اسے فرشتوں سے بھی آگے لے جانے والی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں آزادی بھی رکھی ہے اسے صاحبِ اختیار بنایا ہے یعنی اگروہ چاہے تو ان کی رفعتوں کو حاصل کرے اور اگر ان رفعتوں کوحاصل کرنا نہ چاہے یا غفلت برتے تو جس طرح وہ انتہائی رفعتوں کو حاصل کرسکتا ہے اسی طرح وہ روحانی طورپر اوراخلاقی لحاظ سے انتہائی تنزل تک بھی پہنچ سکتا ہے اور یہی وہ کمزوری ہے جسے ہم بشری کمزوری کہتے ہیں۔
دراصل انسان کی ہروہ طاقت جو اس کو روحانی رفعتوں تک اور ان مقامات تک لے جانے والی ہے جہاں خدا تعالیٰ کی کوئی دوسری مخلوق نہیں پہنچ سکتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کا اتنا پیار حاصل کرسکتا ہے کہ کوئی دوسری مخلوق اس قسم کے پیار کے جلوے پا نہیں سکتی لیکن چونکہ انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ اس لئے اگر وہ اپنی اس طاقت کو غلط طورپر استعمال کرے توتنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرتا ہے اور یہ اس کی کمزوری ہے۔ پس ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی رفعتوں تک پہنچنے کی طاقتیں اور استعدادیں دینے کے بعد اس کی فطرت کوآزاد بنایا تو دوسری طرف اپنی مخلوق سے کہا کہ دیکھو! میرے بندے جو اس آزادی کے باوجود کہ میری خاطر اگروہ مجاہدہ نہ کرتے تو ان کے لئے کوئی مجبوری نہیں تھی لیکن انہوں نے میرے پیار میں محو ہوکر میری خاطر ہر قسم کی کوشش کی انہوں نے اپنے نفس کی تربیت کے لئے مجاہدہ کیا اپنے ماحول کو پیارا اور حسین بنانے کیلئے جدوجہد کی اوردنیاکے دلوں کو خدا تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی جدوجہد میں لگے رہے حالانکہ ان کو اختیار دیا گیا تھا۔ وہ صاحبِ اختیار تھے اگر وہ چاہتے تو اپنی طاقتوں کورفعتوں کے حصول میں خرچ کرنے کی بجائے غلط راہوں پر خرچ کردیتے لیکن اس اختیار کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا اورمیرے پیار اور میری رضا کو انہوں نے حاصل کیا۔
ہم جس چیز کو عام طورپر بشری کمزوری کہتے ہیں وہ اس کے علاوہ اور کوئی کمزوری نہیں ہوتی یعنی انسان کی ہرطاقت اسے روحانی اور اخلاقی رفعتوں تک لے جا کر اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے زیادہ سے زیادہ سامان بھی پیدا کرتی ہے اور کسی وقت یہی طاقت اس کے لئے کمزوری بھی بن جاتی ہے کیونکہ جب اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں ہوگا یا جب اس کا باموقع استعمال نہیں ہوگا یا جب عمل صالح نہیں ہوگا یا جب ان طاقتوں کو صیقل نہیں کیا جائے گا یعنی ان کو ہر مشقت اٹھا کر ہر ابتلاء اور ہر ایمان میں سے گزار کر اس بات کی تربیت نہیں دی جائے گی کہ وہ صحیح راہ یعنی صراط مستقیم پر چلیں توپھر انسان تنزل کی طرف گرے گا۔
پس وہ ساری طاقتیں جو انسان کو دی گئی ہیں جن کو ہم روحانی طاقتیں کہتے ہیں۔ یہ طاقتیں مجموعی طورپراللہ تعالیٰ کے ان تمام صفات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے ہمارے سامنے کیا ہے اور جن کا تعلق انسان سے ہے یعنی ہماری کچھ طاقتیں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت سے تعلق رکھتی ہیں کچھ طاقتیں صفتِ رحمانیت سے تعلق رکھتی ہیں ہماری کچھ استعدادیں صفتِ رحیمیت سے تعلق رکھتی ہیں، ہماری کچھ قابلیتیں مالکیت یوم الدین سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ اللہ تعالیٰ کی صفتِ مغفرت سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ اللہ تعالیٰ کی حیّ وقیّوم ہونے کی صفات سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان اپنے محدود دائرہ استعداد میں (ہرانسان کے دائرہ استعداد میں فرق ہوتا ہے) اپنی ساری طاقتوں کے ذریعہ جو اسے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اخلاق اور صفات کا رنگ چڑھا نے کیلئے دی گئی تھیں وہ رنگ جب انسان اپنے اوپر نہیں چڑھاتا اور شیطان کی طرف مائل ہوجاتا ہے اورشیطانی اخلاق اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے تو وہ طاقت جو اس کے لئے رفعت کا باعث تھی اس کے تنزل کا اس کی محرومی کا خدا تعالیٰ سے اس کی دوری اور بُعد کا باعث بن جاتی ہے۔
غرض وہ تمام طاقتیں جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ صرف انسان کو دی گئی ہیں دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا اوراسکے پیار کو حاصل کرنے والی ہیں ساری طاقتیں خداتعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت سے تعلق رکھتی ہیں جس کاذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔ جب ان طاقتوں کا غلط استعمال ہو اور جب انسان کی اور اس کی زندگی ’’تَخَلَّقُوْا بِاخْلَاقِ اللّٰہِ‘‘ کی مظہرنہ ہو جب انسانی خلق پر خدا تعالیٰ کے نور کی چادر نہ ہو تو پھر جب نور نہیں ہوگا تو اندھیرا ہوگاجب خدا تعالیٰ کا پیار نہیں ہوگا تو اس کا غصہ اور قہر ہوگا۔ بہرحال انسان کیلئے یہ خطرہ موجودہے یعنی جہاں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑی ترقیات کے سامان پیدا کئے ہیں وہاں یہی ترقیات کے سامان اسکے لئے یہ خطرہ بھی پیدا کردیتے ہیں کہ مثلاً انسان کی وہ استعدادیں جو صفت ربوبیت باری تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھیں اگر ان کی پرورش ربوبیت کے رنگ میں رنگین ہوکر نہیں کئی گئی توگویا انسان بجائے اسکے کہ وہ اپنے رب کریم کی گود میں بیٹھ سکے تنزل کی طرف چلا گیا۔ اس طرح ہروہ طاقت جو انسان کی خیر اور بھلائی کیلئے تھی وہی اس کے لئے بشری کمزوری بن جاتی ہے اس بشری کمزوری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ اسلام کی عظیم اور نہایت ہی حسین شریعت اور ہدایت میں ہمارے لئے راہنمائی کے سامان مہیا کردیئے ہیں۔ان میں سے ایک استغفار ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ وہ ہماری فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے کیونکہ اس سہارے کے بغیر ہماری فطرت بلندیوں کی طرف حرکت نہیں کرسکتی بلکہ تنزل اور پستیوں کی طرف حرکت پیدا ہوجائے گی۔
استغفار کے دو۲ معنے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے ان پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ استغفار کرنے والااللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب! مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوچکیں تو انہیں معاف کردے اورمجھے ان کی بداثرات اور بدنتائج سے محفوظ رکھ۔ عام طور پر عام انسانوں کے لئے اسی معنی میں مغفرت اور غفر اور استغفار کا لفظ بولاجاتا ہے لیکن انسانوں میں وہ انسان بھی پیدا ہوئے جو اپنے مقام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کے نتیجہ میں معصوم بنائے گئے تھے اور معصومین کے سردار ہمارے محبوب آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باوجود اسکے کہ آپ کی ہر وہ طاقت جو آپ کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے لئے دی گئی تھی تنزل کی طرف کبھی بھی مائل نہیں ہوئی، پھر بھی قرآن کریم نے آپ کو کہا استغفار کرو۔ پس استغفار کرنے کے بارہ میں قرآن کریم کی جن آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے وہ سیاق وسباق کے لحاظ سے دومختلف معانی میں بیان ہوا ہے۔ جہاں یہ لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق استعمال ہوا ہے وہاں یہ معنی ہرگز نہیں کرسکتے کہ نعوذ باللہ وہ روحانی طاقتیں جو آپ کو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف پرواز کرنے کے لئے دی گئی تھیں آپ نے ان کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ اس کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اس معنی میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معصومین کے سردار ہیں نہ ان کے لئے یہ لفظ اس معنی میں استعمال کیاجاسکتا ہے، نہ ان دوسرے بزرگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سایہ کے نیچے ہیں مثلاً دیگر انبیاء علیہم السلام ہیں اور بعض اور لوگ بھی ہوں گے اور بھی ہیں۔ ہوںگے کا امکان ہے اور ’’ہیں‘‘ میں اس لئے کہتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض ایسے گروہ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ جو مرضی کریں وہ جنت میں جائینگے اب جو مرضی کریں کا یہ مطلب تونہیں تھا کہ کسی کی ناجائز جان لے لیں یاکسی کامال کھاجائیںاور بددیانتی کریں وغیرہ وغیرہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آکر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کی وہ طاقتیں اور استعدادیں جو انسان کو انسان بناکر رفعتوں کی طرف اس کی پرواز میں ممدومعاون ہوتی ہیں، وہ دوسری طرف یعنی تنزل کی طرف حرکت ہی نہیں کرسکتیں۔ اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں انہیں کامل تربیت حاصل ہوگی لیکن استغفار کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ ہر وہ قوت اور استعداد جو اے ہمارے رب! تونے ہمیں روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے اوراپنی رضا کی جنتوں میں جانے کے لئے دی تھی۔ ہمیں اختیار دے کہ(فرشتوں کو اختیار نہیں دیا گیا۔ انسان کو اختیار دیا گیا ہے) تو نے ہماری ہرقوت ہماری بشری کمزوری بنادی ہے۔ ہم عاجز بندوں کوہم کمزور بندوں کو تونے یہ اختیار دیا اوریہ اختیار اس لئے دیا کہ ہم روحانی ترقیات کرسکیں لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ہر وہ قوت اور استعداد جو تو نے عطا کی تھی وہ ہمارے لئے ایک بشری کمز وری بن گئی اس لئے اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بشری کمزوریوں کے بدنتائج سے محفوظ رکھ اور تونے ہمیں روحانی رفعتوں کے حصول کیلئے اوراپنے پیار کو پانے کے لئے جو طاقتیں عطا کی ہیں وہ ہمیشہ اس رنگ میں حرکت میں آئیں کہ ہم روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے ہوں اور تیرے پیار کوپانے والے ہوں۔ پس انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ خود کو انسان سمجھتا ہے اور عبد سمجھتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے لئے اسے پیدا کیا ہے اور بلندیوں کے لئے اس کی خلق کی گئی ہے تو استغفار اس کو اٹھتے بیٹھتے کرنی چاہیئے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر وہ قوت اور وہ استعداد جو رفعتوں کی طرف لے جانے والی ہے، بوجہ صاحب اختیار ہونے کے وہ ہماری کمزوری بن گئی ہے۔
پس مغفرت کے معنے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے ہماری بشری کمزوریوں کو ڈھانپ لے۔ وہ ہماری فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے۔ ہم پر رحم فرمائے اورہمیں یہ توفیق بخشے کہ صاحبِ اختیار ہونے کے باوجود ہم اپنی طاقتوں کو الٰہی منشاء کے مطابق ہمیشہ رفعتوں کے حصول کی راہوں پر لگانے والے ہوں ہم اس کے قرب میں بڑھتے چلے جائیں۔ ہمیں ہر روز پہلے سے زیادہ پیار ملے اورہم کبھی بھی غافل ہو کر، کبھی بھی سست ہوکر ، کبھی بھی لاپرواہ ہوکر، کبھی بھی بے احتیاط ہوکر، کبھی بھی بھول کر اور کبھی بھی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہوں کہ یہ طاقتیں رفعتوں کے حصول کے لئے ہیں تنزل کی طرف لے جانے کے لئے نہیں دی گئیں۔
غرض خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ اے خدا! تو نے ہمیں اختیار دیا لیکن ہم تجھ سے یہ طاقت مانگتے ہیں کہ تو اپنی مغفرت کی چادر میں ہمیں ڈھانپ لے اور ہمیں توفیق عطا کر کہ وہ تمام قوتیں جو تونے ہمیں اس لئے عطا کی تھیں کہ ان پر تیرے اخلاق اور تیری صفات کا رنگ چڑھے۔ تیرے نور کی چادر میں وہ لپٹی رہیں اور اس طرح ہر طاقت تیری کسی نہ کسی صفت کی پناہ میں آجائے اورہر طاقت جو تونے ہمیں دی ہے، وہ ہماری رفعتوں کے سامان پیدا کرنیوالی ہو ہمیں آسمان پر لے جا کر وہاں سے زمین پر گرانے والی نہ ہو کیونکہ جتنی بلندی پرکوئی جاتا ہے اتنا ہی اس کیلئے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اگر گرے گا تو اس کی ہڈیاں بھی قیمے کی طرح پس جائیں گی اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی جو آدمی دوفٹ سے گرتا ہے اس کے لئے اتنا خطرہ نہیںہوتا جتنا دس ہزارفٹ کی بلندی سے گرنے والے شخص کو ہوتا ہے مثلاً ہوائی جہاز اڑرہا ہے اس میں اگرکوئی باہر جا پڑے تو اس کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اسی طرح جو پہلے آسمان سے گرتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے لیکن جو شخص روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے ہوئے دوسرے آسمان تک جاپہنچتا ہے اور پھر شیطان سے مغلوب ہوکر وہاں سے گرایا جاتا ہے اس کے لئے اور بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ جو تیسرے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو چوتھے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے اسی طرح جو پانچویں چھٹے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے وہ لوگو جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اور میری امت میں داخل ہو تم میں سے جو شخص تواضع اور انکساری کو اختیار کرے گا عاجزانہ راہوں پر چلتے ہوئے عجز اور انکسار کو اپنا شیوہ بنائے گا تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے ساتویں آسمان کی بلندی تک لے جائے گا۔ مگر جہاں یہ بشارت ہے وہاں یہ خوف بھی ہے کہ خدانخواستہ خدانخواستہ!! اگر ہم میں سے کوئی ساتویں آسمان سے نیچے گر جائے تو پھر تو اس کے ذرے خوردبین سے بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے استغفار ہے اس لئے تم اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا سے مددمانگو(پچھلے جمعہ کے دن پریشانی تھی لیکن بشاشت بھی تھی اورگھبراہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا لیکن بہرحال ہمارے کئی بھائیوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے لئے پریشانی تھی۔ میں نے نماز میں کئی دفعہ سوائے خدا تعالیٰ کی حمد کے اور اس کی صفات دُہرانے کے اور کچھ نہیں مانگا میںنے خدا سے عرض کیا کہ خدایا تو مجھے سے بہتر جانتا ہے کہ ایک احمدی کو کیا چاہیئے اے خدا! جوتیرے علم میں بہتر ہے وہ ہمارے ہراحمدی بھائی کو دے دے۔ میں کیا مانگوں میرا توعلم بھی محدود ہے میرے پاس جو خبریں آرہی ہیں وہ بھی محدود ہیں اور کسی کے لئے ہم نے بددعانہیں کرنی ہاں یادرکھو بالکل نہیں کرنی۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں دعائیں کرنے کے لئے اور معاف کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس نے ہمیں نوع انسان کا دل جیتنے کیلئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہم نے کسی کونہ دکھ پہنچانا ہے اور نہ ہی کسی کے لئے بددعا کرنی ہے۔ آپ نے ہر ایک کے لئے خیر مانگی ہے۔ یا درکھو ہماری جماعت ہر ایک انسان کے دکھوں کودور کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے لیکن اپنے اس مقام پرکھڑے ہونے کیلئے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اس طرح دعائیں کی جائیں کہ آپ کی خوابیں بھی استغفار سے معمور ہوجائیں۔ ہمارے گھروں میں بچے سوتے ہوئے عموماً خواب میں بول رہے ہوتے ہیں اور جب آپ کسی بچے سے یہ کہتے ہیں کہ تم سوتے وقت یہ یہ باتیں کررہے تھے تووہ کہہ دیتا ہے مجھے توکوئی پتہ نہیں۔ اس لئے انسان کو پتہ ہو یا نہ ہو تمہارے رب کریم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ تمہاری نیند کی گھڑیاں بھی فرشتوں نے استغفار کے لمحات شمار کی ہیں۔
پس تم ہر وقت استغفار کرو اور خد اتعالیٰ کی پناہ میں آجائو۔ تم خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں کرو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے تم یہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہاری فطری قوتوں کو اپنی طاقت کا سہارا دے تاکہ تم بلندیوں کی طرف جانے والے بن جائو اورتمہاری زندگی ایک مثال بن جائے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنی فطرت پر میرے خلق اور میری صفات کا رنگ چڑھائو۔ انسان نے بزبانِ حال کہا کہ اے خدا! تو توہمیں نظر نہیں آتا۔ ہم تیری صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں مادی اشیاء میں لپٹے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہم اس اندھیرے میں کیا کوشش کریں گے۔ کوئی کوشش نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میرے خاتم الانبیاء یہ میرے محبوب محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں یہ ہر انسان کے لئے ایک نمونہ اور اسوہ ہیں یہ بتانے کے لئے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اخلاق کے اوپر چڑھایا جاسکتا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ آپ کے اسوۂ حسنہ کو ہمیشہ سامنے رکھو۔ آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرو کیونکہ آپ کے اسوۂ حسنہ کے جانے بغیر اسے سمجھے بغیر اور اس کا مطالعہ کئے بغیر اسے کیسے اپنایا جاسکتا ہے۔ جب تک آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو جانتے نہیں۔ آپ کے نمونے کو پہنچانتے نہیں۔ آپ کی طبیعت کے رنگ کودیکھتے نہیں اور اس پاک اور ارفع وجود (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نوع انسان پر جو احسان عظیم کیا اور کرتا چلا گیا اور قیامت تک کرتا چلا جائے گا جب تک یہ حقیقت آپ کے سامنے نہ ہو اس وقت تک آپ اپنے اخلاق پر اور اپنی طاقتوں پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ نہیں چڑھا سکتے۔
پس دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے دل میں سوچیں اور اس حقیت کو یادکریں کہ جس غرض کے لئے ہمیں پیدا کیاگیا ہے صاحبِ اختیار ہونے کے باوجود کیا ہم اس مقصد پیدا ئش کو پیدا کررہے ہیں؟ آج خدا تعالیٰ نے آسمانوں پریہ فیصلہ کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا مذہب اسلام دنیا میں اپنی قوتِ قدسیہ اور حسن واحسان کے نتیجہ میں اوراپنی خدمت کے نتیجہ میں اوربنی نوع انسان پر اپنی شفقت کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے دل جیت کر غالب آئے گا اور نوع انسانی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کردیا جائے گا۔ یہ آسمانوں کا فیصلہ ہے اس لئے استغفار کرو اور دعائیں کرو اوراپنی فطرت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طاقت کاسہارا مانگو اور اس وقت تک بس نہ کرو جب تک خدا تعالیٰ کی طاقت کا وہ سہارا تمہیں مل نہ جائے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم میری ان باتوں کو مانوگے ان کی اطاعت کروگے اور قرآن کریم کی شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو گے تو تمہیں یہ فخر نصیب ہوگا کہ تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارلو کیونکہ تم نے آپ کی محبت نوع انسان کے دل میں ڈالی مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی اورشمال میں بھی اور جنوب میں بھی۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی اورسمندرکی سطح سے نیچے بھی(بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگ سطح سمندر سے نیچے بستے ہیں) تم گئے اور تم نے وہاں جاکر اس مقصد کوپورا کیا جس کا وعدہ امت مسلمہ کو اس بشارت کے حصول کیلئے دیا گیا تھا کہ تمام دنیا پر اسلام غالب آئے گا اور نوعِ انسان کے دل ایک مہدی کی جماعت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے اور محبت اورپیار کے ساتھ انسان کو اسلام کی حسین تعلیم کا دیوانہ ومجنون بنا دیا جائے گا۔ اسلام کے عالمگیر غلبہ کی بشارت بتاتی ہے کہ یہ کام صرف اور صرف مہدی کی جماعت کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے اس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بشارت یہ کہتی ہے کہ مہدی کی جماعت کویہ طاقت دی جائے گی لیکن قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کسی کو طاقت دی جائے تو چونکہ انسان صاحبِ اختیار ہے اس لئے سب سے زیادہ خوف اسی کے لئے ہے۔ جتنی بلندیوں کی بشارتیں دی گئی ہیں اتنا ہی تنزل سے ڈرایا اور خوف دلایا گیا ہے۔ پس تم اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھو۔ خدا تعالیٰ سے چمٹ جائو اور اس کے دامن کو نہ چھوڑو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کن راہوں سے اپنے پیار کے جلوے تم پرظاہر کرتا ہے۔ اللّٰھم آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍جون ۱۹۷۴ء صفحہ۳ تا ۶)









حقو ق انسانی کا منشور اور پاکستان کا آئین دونوں ہر شخص کے اس حق
کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور عقیدہ کا خود اعلان کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے چند دن بڑی شدید گرمی پڑی اورآج گو موسم نسبتاً بہتر ہے لیکن دوست جانتے ہیں کہ گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے اوربیمار کردیتی ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ گرمی سے کہہ دے کہ وہ مجھے تکلیف نہ دیا کرے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ مجھے ایسی خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے جواس کے نزدیک مقبول ہواور سبھی احبابِ جماعت کی پریشانیاں اور ابتلاء جلد تردور ہوجائیں۔ اس وقت میں اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش توکروں گا مگر کہہ نہیں سکتا کہ اس میں کامیاب ہوں گا یا نہیں۔
پہلی بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قران کریم نے بڑی وضاحت سے یہ تعلیم دی ہے اور بڑی تاکید سے ہمارے سامنے یہ مسئلہ رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کواورظالم کوپسند نہیں کرتا اور نہ رضا اور محبت کا تعلق ظالموں سے رکھتا ہے۔ فرمایا ۔ قرآن کریم نے کئی جگہ بعض دوسری باتوں کے ذکر میں کہاہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے پیار نہیں کرسکتا مثلاً مُعْتَدِیْن (حد سے بڑھنے والوں) سے پیار نہیں کرتا۔ قرآن کریم نے کئی جگہ یہ کہا ہے کہ یہ یہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کوپیاری ہیں مثلاً کہا خداتعالیٰ متوکلین سے پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ صبر کرنے والوں سے پیار کرتا ہے یا مثلاً یہ کہا کہ خدا تعالیٰ متّقیوں سے پیار کرتا ہے۔
میں اس وقت ظلم کے متعلق یہ بتانا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا کہ وہ ظالم سے پیار نہیں کرتا مگر یہ نہیں فرمایا کہ اس کے پیار کے حصول کے لئے محض مظلوم بن جانا کافی ہے بلکہ جو شخص مظلوم بھی ہے اور اس کے اندر دوسری صفات بھی (جو اللہ کوپیاری ہیں) پائی جاتی ہیں مثلاً وہ متقی ہے، وہ صابر ہے، وہ متوکل ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والا ہے وہ آزمائشوں اورامتحانوں اورابتلائوں کے وقت ثباتِ قدم دکھاتا ہے اوروفا کی راہوں کو نہیں چھوڑتا۔ وہ خدا تعالیٰ کے دامن کومضبوطی سے پکڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دامن پر اس کی گرفت کبھی ڈھیلی نہیں پڑتی اللہ اس سے پیار کرتا ہے۔
پس قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ظالموں سے بہر حال پیارنہیں کرتا اورقرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ایسے مظلوم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک ہوتے چلے آئے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں ڈھالا کہ خدا تعالیٰ نے ان سے پیار کیا۔ پھر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ تمہیں آزمایا جائے گا تمہارے لئے خوف کے آثار، خوف کے حالات پیدا کئے جائیں گے اورتمہارا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایسی تدابیر کی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والوں، اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والوں، اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اسلام، قرآن عظیم اورحضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والوں کی آزمائش کی جائے گی اور ایسی تدابیر کی جائیں گی کہ ان کوکھانے پینے کوکچھ نہ ملے۔
پچھلے دنوں جوحالات گزرے ہیں وہ بڑے تکلیف دہ ہیں مگر اب یہ بھی رپورٹیں آرہی ہیں کہ جہاں دیکھا کہ کمزور اور تعداد میں کم احمدی ہیں تو کہاان کا بائیکاٹ کردو، ان کوکھانے کو کچھ نہ دو، ان کو پانی نہ لینے دو(دکانوں سے سودا سلف خریدنے اور ماشکیوں کو پانی سے منع کردیا گیا وغیرہ) ہمیں اس لئے گھبراہٹ نہیں کہ جُوْع (بھوک) کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اس کی خبرتوقرآن عظیم نے ہمیں پہلے سے دی ہوئی ہے جو گھبراہٹ ہے اس کا مَیں آگے ذکر کروں گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مال کے نقصان سے تمہارا امتحان لیا جائے گا اورتمہیں جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے گی۔ پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا دنیا کی حسنات کے حصول کے لئے تمہاری جو کوشش ہوگی اور اس کے عام حالات میںجو نتائج نکلنے چاہئیں یا کوشش کا ثمرہ ملنا چاہیئے اس سے تم محروم کئے جائو گے گویا تمہاری کوشش کے ثمرہ یا نتیجہ سے تمہیں محروم کردینے کی صورت میں بھی تمہاری آزمائش کی جائے گی۔
اس وقت باہر سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہمارے بھائیوں کی جُوع(بھوک) کے امتحان میں ڈالنے کی طرف زیادہ توجہ ہے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ احمدیوں کوکھانے کو نہ ملے، پینے کو نہ ملے۔ جب میرے پاس باہر سے ایسی رپورٹیں آتی ہیں تو میں سوچ میں پڑجاتا ہوں اوراپنے ملنے والوں کوبھی یہ سمجھاتا ہوں کہ دیکھو ہمارے پیارے اور محبوب آقاحضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی میں بعض تاریخوں کے مطابق اڑھائی سال تک اور بعض کے مطابق تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا اوراس وقت جتنے بھی مسلمان تھے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب کی آزمائش کی گئی۔ ان کا امتحان لیا گیا اور اڑھائی سال تک یہ کوشش کی گئی کہ نہ ان کوکھانے کے لئے کچھ ملے اورپینے کے لئے۔ گواللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ انتظام توکیاکہ کھانے کواتنا ملتا رہے کہ وہ زندہ رہ سکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان کا امتحان لینا تھا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کے صدق ووفا کا دنیا میں اعلان ہوناتھا اور اس نشانِ عظیم کو قیامت تک کے لئے قائم رکھنا تھا اس لئے باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سب کچھ دے سکتا تھا کیونکہ دنیا میں حکم اسی کا چلتا ہے اور دنیا کی سب طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرسکتا تھا کہ اس قید کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کو معمول کے مطابق کھانا ملتا رہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اتنا ہی دیا جس سے ان کی زندگی قائم رہ سکے۔ اس کے لئے مادی ذرائع کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایاایک کے بعد دوسرے دن لگاتار روزے نہ رکھا کرو صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ تو اسی طرح روزے رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے توخدا کھلاتا پلاتا رہتا ہے اس معاملہ میں تم مجھے اسوہ نہ بنائو بلکہ ظاہری تدابیر اورمادی دنیا کے جوقوانین ہیں ان میں مجھے اپنا اسوہ بنائو۔ میرے کچھ ایسے مقام بھی ہیں جو میرے ساتھ خاص ہیں مثلاً خود ختم نبوت کا مقام ایک ایسامخصوص مقام ہے جو دنیا کے کسی دوسرے انسان سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس کا تعلق صرف اس پیاری اور حسین ترین ہستی سے ہے جسے دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے یاد کرتی ہے۔
بہرحال میں سوچتا بھی ہوں اوردوستوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتا ہوں کہ دیکھو اگر تین سال نہیں تو کم ازکم اڑھائی سال تک توضرور لگاتار بغیر کسی وقفہ کے اس وقت کے منکرین اور مخالفین نے یہ کوشش کی تھی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے مسلمانوں کوقید کردیا جائے یہاں تک کہ ان کو کھانے کو نہ ملے اور ان کو پینے کونہ ملے ۔ ایک بزرگ صحابیؓ نے بعد میں جب کہ ساری دنیا کے اموال مسلمانوں کے قدموں میںلاکرڈال دئیے گئے تھے، ایک دفعہ ذکر کیا کہ میں شعب ابی طالب میں قید کے زمانے میں رات کے اندھیرے میں کہیں جارہا تھا کہ میرے پائوں کے نیچے ایک چیزآئی جسے میں نرم محسوس کیا۔ وہ کہتے ہیں میں نیچے جھکا اور اسے اٹھا کر کھالیا مگرآج تک پتہ نہیں کہ وہ تھی کیا چیز۔ گویا اس قدر بھوک کی شدت تھی۔ مکی زندگی قریباً ساری ہی تکالیف کی زندگی تھی اسلئے ہمارے دل میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا پیا رہے اور یقینا ہے توپھر آپؐ نے تو خدا کی راہ میں دس سال تک تکالیف برداشت کیں اس محبت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم دس نہیں بلکہ دسیوں سال تک بھی اگرخدا ہمیں آزمائے توہم اس پیار کے نتیجہ میں دنیا پر یہ ثابت کردیں کہ جولوگ خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار کرتے ہیں جُوع(بھوک) کی حالت ان کی وفا کوکمزور نہیں کرتی وہ اسی طرح عشق میںمست رہتے ہیں جس طرح پیٹ بھرکر کھانے والا شخص مست ہوتا ہے۔ وہ مست رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عشق میںاور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں۔
پس ہر احمدی کوچاہیئے کہ وہ مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرے۔ اگروہ مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرے گا تواللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ انہی انعامات کا مستحق ہوگا جن کے مستحق وہ لوگ ہوتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کی تکالیف کو بشاشت کے ساتھ قبول کرتے تھے۔ اسلامی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ جو جوتیوں کے نیچے مسلی ہوئی نرم چیز کوبغیر دیکھے کھاجاتے تھے خدا تعالیٰ نے دنیا کی دولتیں ان کے قدموں میں ڈال دیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں ذکر کیاتھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ہے اے خدا! جو شخص تیرا ہوجائے تو اسے دوجہان بخش دیتا ہے لیکن جو تیرا ہوگیا وہ ہر دوجہان لے کرکیا کرے گا۔ اس کے لئے توکافی ہے۔ غرض پہلی بات جو میں کہنا چاہتاہوں وہ یہی ہے کہ تم مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرو تاتم اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں کے وارث بنو (انشاء اللہ تعالیٰ)
دوسری بات یہ ہے کہ کل کے اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی کہ سرحد کی صوبائی اسمبلی نے متفقہ طورپر وفاقی حکومت سے یہ سفارش کی ہے کہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ اس کے متعلق میں ایک دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلہ میں پہلی بات تومیں یہ کہوں گا کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کرنا حکومت کا اسی طرح فرض ہے جس طرح کسی دوسرے پاکستانی شہری کے حقوق کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے اوراس حکومت کے لئے ہم دعائیں کرتے آئے ہیں، اب بھی کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو فراست عطا فرمائے اوران سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجس سے دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں ان کے لئے ذلت کے سامان پیدا ہوجائیں۔
جہاں تک اقلیت کے سلسلہ میں علمائے ظاہر کے فتاوٰی کاتعلق ہے وہ تو ساری دنیا کے علمائے ظاہر اورہرفرقہ سے تعلق رکھنے والے علمائے ظاہر جوہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے وہ ہمارے خلاف کفر کے فتوے دیتے چلے آئے ہیں۔ ساری دنیا کے علمائے ظاہر کے فتاویٰ کفر کے بعد حکومت پر یہ زور دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ حکومت احمدیہ فرقہ کے مسلمانوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ میں نے بھی سوچا آپ نے بھی سوچا ہوگا اورپاکستان کی ۹۹فیصد شریف اکثریت نے سوچا ہوگا کہ یہ کیا قصہ ہے کہ ساری دنیا کے مولویوں نے اعلان کئے اورجماعت احمدیہ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن ساری دنیا کے مولویوں کے فتووں کے بعد بھی احمدی کافر نہیں بنے اس لئے اب حکومت پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قراردے۔ دراصل یہ اعلان ہے ساری دنیا کے علمائے ظاہر کا کہ ہم تو احمدیوں کو کافر کہہ کہہ کرتھک گئے مگر ہم سے یہ کافر نہیں بنتے ا ب حکومت کچھ کرے تاکہ ہمارے دل خوش ہوں۔ گویا ساری دنیا کے علماء کی کوششوں کی ناکامی کے مقابلے میں حکومت کچھ کرے تاکہ مولویوں کے دلوں میں ٹھنڈ پڑے۔ پس دنیا کے علمائے ظاہر کی طرف سے یہ اعلان درحقیقت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے سارے فتوے ناکام ہوگئے ہیں۔
میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں ۱۹/۱۸ سال کی بات ہے حکومت پنجاب کے ایک سیکرٹری جوہمارے ساتھ آکسفورڈ میں پڑھاکرتے تھے، ایک دن مجھے کہنے لگے کہ علماء میرے پاس آرہے ہیں اور وہ مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ حکومت ایک توجماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے اور دوسرے یہ قانون بنایاجائے کہ کوئی شخص آئندہ احمدی نہیں بنے گا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے یہ قانون بنانے سے پہلے کہ آئندہ کوئی شخص جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوگا آپ کو ایک اور قانون بنانا پڑے گا کہنے لگے وہ کیا؟ میں نے کہا کہ آپ کو پہلے یہ قانون بنانا پڑے گا کہ ہم پاکستان میں ’’منافقین‘‘ کا ایک ایسا گروہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو دل سے احمدی ہوں اورزبان سے اس کا انکار کریں کیونکہ دنیا کی کوئی مادی طاقت دل کا عقیدہ نہیں بدل سکتی۔ کسی کے زبان سے اظہار پر آپ پابندی لگا سکتے ہیں اس کے دل کے عقیدہ پر نہیں لگاسکتے۔ اگر ا س قسم کا قانون بنادیاگیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہزاروں لاکھوں آدمی دل سے تو احمدی ہوتے چلے جائیں گے لیکن زبان سے کہیںگے کہ وہ احمدی نہیں ہیں۔ اس لئے پہلے یہ قانون بنائو کہ ہم اس قسم کے ’’منافقوں‘‘ کی ایک جماعت پیدا کرنا چاہتے ہیں جودل سے احمدی ہوںگے لیکن زبان سے انکار کررہے ہوں گے۔
باقی رہی پہلی بات یعنی احمدیوںکو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی توانہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مولوی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سارے فتووں کے باوجود عوام کی بہت بھاری اکثریت پھربھی ان کومسلمان سمجھتی ہے۔ گویا انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کے فتوے غیر مؤثر ثابت ہوئے ۔چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ اگر ساری دنیا کے علماء کے فتووں کے باوجود پاکستان کی بھاری اکثریت احمدیوں کو مسلمان سمجھتی ہے تو پھر جو آپ قانون بنائیں گے اور ایک اور فتویٰ صادر کریں گے اس کی ایک فتوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ماضی کے بیشمار فتاویٰ پر ایک فتویٰ اور زائد ہوجانے سے مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہمیں غیرمسلم کیسے سمجھنے لگ جائے گی۔ہم نمازیں پڑھ رہے ہوں گے ایک مسلمان کی طرح ہمارے گھروں سے قرآن مجید کی تلاوت کی آوازیں باہرپہنچ رہی ہوں گی اور وہ سن رہے ہوں گے اورہماری زندگیوں میں وہ اس کوشش کو دیکھ رہے ہوں گے کہ اسلام کے مطابق انہیں ڈھالا جائے، دنیا میں’’تبلیغ اسلام کے کارنامے‘‘ ان کے کانوں میں پڑیں گے تووہ تمہارے ایک اور فتویٰ کی زیادتی سے ہمیں کافر کیسے سمجھنے لگ جائیں گے۔ اس پر وہ سوچ میں پڑگئے اورکہنے لگے بات توٹھیک کہتے ہو۔
پس ساری دنیاکے علمائے ظاہر جو ہمیں کافر قرار دے چکے ہیں، ان کو یہ فکر کیوں لاحق ہوئی کہ ساری دنیا ہمیں اب بھی مسلمان سمجھتی ہے یا تو وہ یہ اعلان کریں کہ ہمارے سارے فتوے غیرمؤثر اور ناکام ہیں اور ہم یہ اعلان کریں گے کہ حکومت کا کوئی فتویٰ قانونی حیثیت نہیں رکھتا دنیا کا جوقانون ہے اورہمارے ملک کا جودستور ہے وہ تواس قسم کے مسئلہ پر غور کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ ملکی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، بین الاقوامی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔
بہر حال ایک تویہ لوگ اس وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت قانون بنائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے فتاویٰ ناکام ہوگئے ہیں، ان کا کوئی اثر پیدا نہیںہوا۔ دنیا احمدیوں کو اب بھی مسلمان سمجھتی ہے۔ دوسری وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اگر حکومت کافتویٰ نہ ہو اور صرف علمائے ظاہر کا فتویٰ ہوتو جیسا کہ جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان فتاویٰ کو دیکھ کر تو ہر فرقہ کافر ٹھہرتا ہے مثلاً ہمارے وہ بھائی جن کو لوگ وہابی کہتے ہیں یعنی امام محمد بن عبدالوہابؒ کے متبعین(بعد میں آنیوالوں نے ان کی تعلیم کی پرواہ نہیں کی اوران کی تعلیم کے مطابق بدعات سے پاک معاشرہ قائم نہیں کیا) بہرحال جو لوگ امام محمد بن عبدالوہابؒ کی اتباع کرنے والے ہیں اوران سے منسلک ہیں، ان کے متعلق دوسرے تمام فرقوں کے علماء نے کفر کافتویٰ دیا۔
پھر شیعہ ہیں۔ ان کی حکومتیں بھی ہیں ان کے اپنے عقائد ہیں بعض تفاصیل میں وہ دوسرے مسلمانوں سے بڑے مختلف ہیں۔ ان کی نمازمیں بھی سنیوں کی نماز سے اختلاف ہے۔ پھر سنیوں میں آگے مالکی ہیں۔ بعض دفعہ وہ افریقہ میں ہمارے ساتھ یہ بحث کرتے ہیں کہ تم کہاں سے مسلمان ہو گئے۔ تم توسینے پرہاتھ باندھ کر نمازپڑھتے ہو۔ چنانچہ ان میں سے کئی دوست جن کو حج کرنے کی توفیق ملی اورانہوں نے مکہ معظمہ کے علماء اور مقتدیوں کو ہاتھ باندھے ہوئے نمازپڑھتے دیکھا تووہ سمجھ گئے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ بنا کر بحث چھیڑ رکھی تھی پھر جب وہ حج کرکے واپس گئے تو احمدی ہوگئے۔ اگر کسی دماغ نے یہ سوچا ہوکہ احمدیت کو پھیلنے سے روکا جائے توپھر اس کے لئے احمدیوں کو حج سے روکنے میں اتنا فائدہ نہیں جتنا افریقن ممالک کے غیر احمدیوں کو حج سے روکنے کا فائدہ ہے کیونکہ ان فروعی مسائل میں سے بعض (مثلاً ہاتھ باندھ کر نمازپڑھنا وغیرہ)وہاں جاکر خودبخود حل ہوجاتے ہیں اور اس طرح لوگ احمدی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث کولے لیں اور ان کو علماء ظاہر کے مختلف فرقوں سے علیحدہ کرلیں اور باقیوں کے فتاویٰ کودیکھیں تو آپ کومعلوم ہوگا کہ اہل حدیث غیرمسلم اقلیت ہیں۔ محمد بن عبدالوہابؒ سے تعلق رکھنے والے یعنی وہابی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ یہ میں وہی کچھ بتارہاہوں جوجسٹس منیز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے اورمیں سمجھتا ہوں انہوں نے ٹھیک لکھا ہے کہ پھر مسلمان تمہیں کہاں نظر آئے گا پس چونکہ محض علماء کے فتاویٰ پر انحصار کرکے کوئی فرقہ بھی مسلمان نہیں رہتا تھا اور یہ ان علماء کیلئے بڑی مصیبت بنی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے سوچا کہ ایک فتویٰ ایسا ہوجائے جوصرف ایک فرقہ کوغیرمسلم اقلیت قرار دے اور پھر ہم شور مچا کر دوسروں کو یہ بات ُبھلا دیں گے کہ سارے فتاویٰ کا اثر امت مسلمہ پر کیا پڑا ہے۔ یہ ایک دوسری وجہ ہے علماء کے اس بات پر زوردینے کی کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ فتویٰ دے دے۔
تیسرے وہ حکومت کو اس لئے مفتی بن کر بیچ میں آنے کے لئے کہتے ہیں کہ اگران کے فتاویٰ کفر کو دیکھا جائے توان فتاویٰ میں قرار نہیں ہے کچھ عرصہ پہلے ہمارے محترم شاہ فیصل اور ان کے خاندان اوران کے ہم عقیدہ لوگوں کوکم ازکم بارہ سال تک حج سے روکا گیا اوران کے بعض ہم خیال یا ملتے جلتے خیالات رکھنے والے لوگ جوہندوستان سے حجاز چلے گئے تھے ان سب پر اس وقت کی حکومت نے بڑی سختیاں شروع کردیں جس پرانگریزوں کو دخل دے کران کی جانیںبچانی پڑیں لیکن پھر بھی چوٹی کے بعض علماء جو ہندوستان سے وہاں گئے تھے ان کو ۳۹-۳۹ کوڑوں کی سزا دی گئی اورباقیوں کو انگریزی حکومت کے دبائو پر زبردستی ہندوستان واپس بھیج دیاگیا اور اب ان کی وہاں حکومت ہے اور موجودہ علماء کے فتوے اس سے مختلف ہیں جو پہلے دئیے گئے تھے۔ حکومتیں بدل جانے کی وجہ سے اورحالات میں تبدیلی آجانے کے نتیجہ میں علمائے ظاہر کے وہ فتاویٰ جو چودہ سو سال سے کفر کے متعلق دئیے جاتے رہے ہیں ان میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اورکوئی عقلمند انسان صرف اسی نقطہ نگاہ سے دیکھے تووہ اس نتیجہ پرپہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ علماء کے فتاویٰ قابل قبول نہیں کیونکہ آج ایک فتویٰ دیا دس دن کے بعد دوسرا فتویٰ دے دیا۔ آج ایک فتویٰ دیا بارہ سال کے بعد ایک دوسرا فتویٰ دیدیا۔ حرمین شریفین کا ہمارے دل میں احترام کا یہ حال ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ساری آبادیاں ان مٹی کے ذروں پر قربان ہونے کے قابل ہیں جن پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پائوں پڑا تھا لیکن مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کا احترام اپنی جگہ اور ان علمائے ظاہر کا احترام اپنی جگہ جنہوں نے ایک وقت میں محمد بن عبدالوہابؒ اوران کے متبعین پرکفر کا فتویٰ لگایا اوربڑا سخت فتویٰ لگایا اوردوسرے وقت میں ان کے مسلمان ہونے اورکسی دوسرے کے کافر ہونے کافتویٰ لگادیا اوریہ دونوں فتوے ہمارے کتب میں حرمین شریفین کے فتاویٰ کے نام سے مشہور ہوچکے ہیں۔
بہرحال چونکہ ان کے اپنے فتووں کو قرار نہیں اس لئے دنیا جو دنیوی لحاظ سے کافی حد تک صاحبِ فراست بن چکی ہے گودین کاعلم اس کو حاصل نہیں۔ اس کا ایک زبردست اعتراض ان علماء کے فتاویٰ پر یہ ہے کہ آج تم ایک فتویٰ دیتے ہو پھر پچاس سال کے بعد دوسرا اورمتضاد فتویٰ دے دیتے ہو مثلاً ایک وقت میں سید عبدالقادر جیلانی ؒپر علماء نے یہ کہہ کر کفر کا فتویٰ لگا یا کہ آپ قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ سے پہلے علماء اور بزرگوں نے نہیں کیں اورپھر پچاس یا سوسال کے بعد پیدا ہونے والے جو بزرگ تھے ان پر یہ کہہ کر فتویٰ لگا دیا کہ آپ جو باتیں کرتے ہیں وہ سید عبدالقادر جیلانی ؒسے مختلف ہیں۔ پہلے ان پر فتویٰ لگایا کہ تم پہلے بزرگوں سے مختلف باتیں کرتے ہو۔ پھر بعد میں آنے والے بزرگ اولیاء پرفتویٰ لگایا کہ تم سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کی جوتفسیر دنیا کو بتائی تھی اس سے مختلف تفسیر بتارہے ہو۔
بہرحال علماء اب یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا فتویٰ ہویعنی حکومت کا فتویٰ ہو جس میں یہ اختلاف نہ ہو کہ صبح کچھ اور شام کو کچھ کہہ دیا جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کیوں فتویٰ دے؟ حکومت کونہ انسانی عقل، نہ انسانی شرافت، نہ انسانی فطرت اورنہ وہ مذاہب جو کسی وقت خدا کی طرف سے زمین پرنازل ہوئے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکم لگائے۔
ایک جنگ کے موقع پر ایک شخص جو اسلام کے خلاف لڑرہاتھا جب ایک مسلمان کی تلوار اس کے سرپر کوندی تو اس نے کہا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ مگر اس مسلمان نے اسے یہ کہتے ہوئے قتل کردیا کہ تم جان کے خوف سے اسلام لائے ہو۔ جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا آپؐ اس صحابی سے سخت ناراض ہوئے اوراس سے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیرکردیکھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا خدا جب یہ پوچھے گا کہ اس نے جب کلمہ پڑھا تو تم نے کس اصول اور کس عقیدہ اور کس تعلیم کے مطابق اس کی گردن کا ٹی توبتائو تم خدا کوکیا جواب دو گے؟
پس دنیا کا کوئی مذہب کسی حکومت کویہ اجازت نہیں دیتا کہ اگرکوئی شخص یا کوئی جماعت یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے توحکومت یہ کہے کہ نہیں تم مسلمان نہیں ہو۔ یہ تواتنی موٹی اوربڑی واضح بات ہے کہ وہ لوگ بھی جو خدا کی ہستی کا انکار کرتے ہیں، حیات انسانی کی اس صداقت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے۔
ہماری دنیا میں اس وقت کچھ توغیر جانبدار قسم کے ملک ہیں لیکن جو طاقتور اوردولت مند دنیا ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک کودائیں دنیا یعنی Rightist کہتے ہیں اوردوسری کو بائیں دنیا یعنی Leftist کہتے ہیں۔ چنانچہ Rightist بھی اس صداقت کو تسلیم کرتے ہیں اور Leftist بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ چیئر مین مائوزے تُنگ ایک بہت بڑے ملک کے ایک عظیم رہنما ہیں۔ا للہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے اور جہاں تک میں نے پڑھا ہے میں سمجھتا ہوں انہوںنے انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے البتہ اخلاقی قدروں پرایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے بڑے زور سے لکھا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے نوجوان پوری طرح بااخلاق ہونے چاہئیں اورانہی اخلاق کانام لیا ہے جو اسلام نے ہمیں بتائے ہیں۔ وہ خدا کو نہیں مانتے لیکن یہ اخلاق تعلیم دیتے ہیں کہ دیکھو! کبھی کِبر اورغرور تم میں پیدا نہ ہو۔ ان کا یہ فقرہ جو دراصل اسلام کا فقرہ ہے اوراسلام کی تفسیر کرنے والے حضرت مہدی علیہ السلام کا فقرہ ہے ، فرشتوں نے چیئر مین مائو کو سکھا دیا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے اسی ضمن میں یہ بھی کہا ہے’’تمہارے سرہمیشہ زمین کی طرف جھکے رہیں‘‘ یہ چیئر مین مائوزے تنگ کے الفاظ ہیں۔ ان کی ایک کتاب ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے جو چیئر مین مائو کی تصانیف اورمضامین میں سے بعض لمبے لمبے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:-
"Our Constitution lays it down that citizens of the People's Republic of China enjoys freedon of speech, of the press, assembly, association, procession, demonstration, religious belief."
کہ ہمارا آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں: -
"We cannot abolish religion by adminstative decree or force people not to believe in it."
ان کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا جوظاہری اورمادی طاقت ہے وہ دل کو تبدیل نہیں کرسکتی زبان کو تومجبور کرسکتی ہے مگر دل کو مجبور نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو انہوں نے سمجھا اور ان الفاظ میں اس کا اظہار کیا کہ ہم مذہب کو انتظامی قوانین کے ذریعہ مٹا نہیں سکتے اورہم کسی شخص کو مادی طاقت کے ذریعہ مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ اس عقیدہ پر ایمان نہ رکھے جو اس کا عقیدہ ہے۔
پس ایک دہریہ بھی یہ جانتا ہے اور دہریہ بھی وہ جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لئے ایک عظیم انسان ہے۔ اس نے بڑی خدمت کی ہے وہاں کے مظلوموں کی اور ان کو استحصال سے بچایا ہے اور دنیوی حسنات کے سامان ان کیلئے پیدا کئے ہیں اور بڑی ذہانت اورعقلمندی سے پیدا کئے ہیں۔ ان لوگوں کاوہ محبوب لیڈر ہے اورہم سب کے دل میں بھی اس کا احترام ہے کیونکہ اس نے نوعِ انسانی کی خدمت کی ہے۔ اگرچہ وہ مذہب اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن انسان کا وہ خادم ہے۔ وہ ہے تو دہریہ مگروہ اخلاق پر زور دے رہا ہے اور اس حقیقت کو وہ پاگیا کہ کوئی دنیوی طاقت خواہ وہ چین جیسی بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان توچین جیسی بڑی طاقت نہیں ہے۔ خواہ وہ چین جیسی بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو کوئی دنیوی طاقت قانون بنا کر اورانتظامیہ کے احکام کے ذریعہ کسی شخص کو بھی اس بات پر مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ اس عقیدہ کو چھوڑ دے جو اس کا اپنا عقیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کوئی طاقت ایسا کر ہی نہیں سکتی۔ یہ ناممکن بات ہے۔ پس پاکستانی حکومت کے لئے یہ بات کیسے ممکن ہوجائے گی۔ یہ نامعقول بات ہے۔ اس میں ان کو الجھنا نہیں چاہیئے۔ کیا کہے گا چین؟ اور کیا کہے گا روس؟ اور کیا کہے گا امریکہ؟ اور کیا کہے گی ساری دنیا؟ اور کیا کہے گا وہ شریف انسان جو اکثریت میں ہے اور اس ملک میں بستا ہے کہ جو چیز غیر معقول ہے تمہارے اختیار میں نہیں اس کا فیصلہ کرنے کی طرف تم کیوں مائل ہورہے ہو؟ دنیا کی میں نے پہلے بات کی ہے پاکستان کی بعد میں کروں گا۔ دوسرے دنیا نے یُواین او میں (جس تنظیم سے صرف چندممالک باہر ہیں) جو ایک Human Rights (’’انسانی حقوق کے منشور‘‘) کا اعلان کیا اور ہرسال انسانی حقوق کے لئے دن منایا جاتا ہے۔ ان حقوق انسانی کے منشور پر پاکستان نے دستخط کئے ہیں اور ان کو تسلیم کیا ہے۔ ان Human Rights ’’انسانی حقوق‘‘میں یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کے ممالک مل کر یہ ضمانت دیتے ہیں کہ ہر انسان کو مذہبی آزادی ہوگی (میں اس وقت عمداً صرف مذہبی آزادی کا ذکر کررہاہوں) کس معنی میں مذہبی آزادی ہوگی؟ (جب مَیں پاکستان کی بات کروں گا تووہاں بیان کرونگا دہرانے کی ضرورت نہیں) چین جیسا ملک جو دنیوی لحاظ سے ایک عظیم ملک ہے ان کا رہنما چیئر مین مائو جس نے اپنی ساری عمر اپنی قوم کی بہبودی کیلئے وقف کردی اور جس کو خدا تعالیٰ نے یہ فراست عطا فرمائی کہ بعض دوسرے کمیونسٹ ممالک کی طرح اس نے یہ نہیں کہا کہ اخلاق کیا ہوتے ہیں؟ بلکہ اس نے یہ کہا کہ اخلاق ہوتے ہیں اوریہ اخلاق ہیں۔ مَیں وجہ تو نہیں جانتا لیکن جن اخلاق کا انہوں نے نام لیاوہ، وہ اخلاق تھے جوقرآن کریم اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے تھے کہ یہ اچھے خُلق ہیں اورانہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرہ میں بد اخلاقی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں تک کہ ایک امریکی صحافی نے جب ایک چینی کارخانہ میں یہ پوچھا کہ نوجوان لڑکے اورلڑکیاں پہلو بہ پہلو کام کررہے ہیں ان کے درمیان کوئی گندے تعلقات تو نہیں پیدا ہوجاتے؟ توجو چینی صحافی ساتھ تھا اس نے حیران ہوکر یہ جواب دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟یعنی ان کے دماغ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی ۔ گویا وہ دنیوی لحاظ سے اتنا بااخلاق معاشرہ ہے۔
اخلاق کی بنیادہمارے نزدیک چونکہ مذہب پر ہے اور ا س وقت چونکہ قرآنِ عظیم کی شریعت اورہدایت ہی حقیقی اورکامل شریعت اورہدایت ہے لہٰذا تمام اخلاق کی بنیاد قرآن کریم کی ہدایت پرہے لیکن دنیا کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اورچین نے اپنے معاشرہ کی بنیاد اچھے اخلاق پر رکھی اورجواخلاق اس کے ذہن میں آئے وہ وہی اخلاق تھے جن پر اسلام نے زور دیا(فرشتوں نے اس کے ذہن پر القاء کیا ہوگا) کیونکہ ہماری زندگی اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس سے باہر تونہیں جاسکتے۔ ایک خاص دائرہ میں اختیارتودیا گیا ہے۔ وہ لوگ خدا کوتو نہیں مانتے لیکن ان کا دماغ اس صداقت کوپا گیا کہ یہ نامعقول بات ہے کہ ہم کوئی قانون بناکرکسی کو ان اعتقادات سے روک دیں گے جن کا وہ اعلان کرتا ہے۔
آخرمیں مَیں اپنے دستور کولیتاہوں ہمارا موجودہ دستور جو عوامی دستورہے، جوپاکستان کادستور ہے۔ وہ دستور جس پرہمارے وزیراعظم صاحب کوبڑا فخر ہے،وہ دستور جو ان کے اعلان کے مطابق دنیا میں پاکستان کے بلند مقام کوقائم کرنے والا اور اس کی عزت اور احترام میں اضافہ کاموجب ہے، یہ دستور ہمیں کیا بتاتا ہے؟ اس دستور کی ۲۰ ویں دفعہ یہ ہے:-
(a) "Every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion, and
(b) "Every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institution."
)The constitution of the Islamic republic of Pakistan 1973 page 22 & 23.(
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کوہمارا یہ دستور جوہمارے لئے باعثِ فخر ہے یہ ضمانت دیتا ہے کہ جواس کا مذہب ہو اور جس مذہب کا وہ خود اپنے لئے فیصلہ کرے وہ اس کا مذہب ہے(بھٹو صاحب یا مفتی محمود صاحب یا مودودی صاحب نہیں بلکہ) جس مذہب کے متعلق وہ فیصلہ کرے وہی اس کا مذہب ہے اور وہ اس کا زبانی اعلان کرسکتاہے۔ یہ دستور اسے حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں تو یہ آئین جس پر پیپلز پارٹی کو بھی فخر ہے (اور ہمیں بھی فخر ہے اسلئے کہ یہ دفعہ اس میں آگئی ہے) یہ دستور کہتا ہے کہ ہرشہری کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ مَیں مسلمان ہوں یا مسلمانوں کے اندر میںوہابی ہوں یا اہل حدیث ہوں یا اہل قرآن ہوں یابریلوی ہوں (وغیرہ وغیرہ تہتر فرقے ہیں) یا احمدی ہوں تو یہ ہے مذہبی آزادی۔ مذہبی آزادی سے مراد آج کا انسان یہ لیتا ہے کہ ہرانسان کا اپنا کام ہے یہ فیصلہ کرنا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں ہے عیسائی ہے یا نہیں ہے، یہودی ہے یا نہیں ہے، ہندو ہے یا نہیں ہے، بدھ مذہب والا ہے یا نہیں ہے یا دہریہ ہے یا نہیں ہے۔ یہ اس نے اعلان کرنا ہے کہ میرا کس مذہب سے تعلق ہے اور دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس کا یہ حق نہیں چھین سکتیں۔ یہ اعلان کرتا ہے ہمارا آئین۔ پچھلے یُو۔این او نے اعلان کیا اور اب ہمارا آئین یہ اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں اوراپنے عقائد کے مطابق وہ عبادات بجا لائے اور زندگی کے دن گزارے مثلاً ایک احمدی کہے گا کہ میں نماز پڑھوں گا پانچ وقت ہاتھ باندھ کر، ایک مالکی کہے گا کہ میں پانچ وقت نماز پڑھوں گا اور ہاتھ چھوڑ کرپڑھوں گا اور شیعہ اپنے مذہب کے مطابق کہے گا۔ تومذہب کے متعلق بھی اس کو حق ہے کہ وہ کہے کہ میرا کونسا مذہب ہے۔ وہ کہے گا میرا مذہب اسلام ہے مگر یہ اس کا حق ہے کہ وہ آئین کے مطابق کہے کہ میں شیعہ مسلمان ہوں۔ میں سنی مسلمان ہوں یا سنیوں میں سے آگے دیوبندی یا بریلوی یا اہل حدیث یا وہابی مسلمان ہوں یاکسی اوردوسرے فرقے سے میرا تعلق ہے(کہتے ہیں فرقے تہتر ہی رہتے ہیں کچھ مٹ جاتے ہیں اور کچھ نئے پیدا ہوجاتے ہیں) تومذہبی آزادی کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس کو یہ آزادی ہے کہ وہ یہ کہے کہ میرایہ مذہب ہے اور اس میں دنیا کی کوئی طاقت، کوئی حکومت دخل نہیں دے سکتی اور اس کا قانونی اوردستوری حق ہے کہ وہ اپنی زبان سے یہ فیصلہ دے کہ میرا فلاں فرقے سے تعلق ہے اوراپنے اعتقاد کے مطابق میں اپنی عبادات بھی بجا لائوں گا اوراپنی زندگی بھی گزاروں گا۔ پھر اس کا یہ حق ہے کہ اپنے اعتقاد کے مطابق وہ تبلیغ کرے اورقانون یہ کہتا ہے کہ اس طرح تبلیغ نہ کرو کہ فساد پیدا ہو۔ قانون یہ کہے گا کہ دوسرے کی طرف جھوٹے اعتقادات منسوب نہ کرو قانون یہ کہے گا جس فرقہ سے تمہاراتعلق ہے جس مذہب سے تمہارا تعلق ہے وہ مذہب تمہیں کہتا ہے کہ تم بدزبانی نہ کرو تو بدزبانی نہ کرو۔ وہ کہے گا جوش میں نہ آئو تو تم جوش میں نہ آئو لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تبلیغ کرو ہی نہ۔ کیونکہ Propagateکا مطلب ہی یہ ہے کہ اگردلائل کسی کوگھائل کریں تو اس کو اس بات کی بھی اجازت ہو کہ وہ ان دلائل کو Professکرنے کااعلان کرے یعنیPropagateکاتعلق پھر Professکے ساتھ ہوجائے گا اور شق (B)یہ ہے کہ ہر مذہب اور مذہب کے ہرفرقہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی اداروں کوقائم کرے، ان کا انتظام کرے، ان پر خرچ کرے اور جو دیگر انتظام ہیں وہ کرے۔ ہمارا دستورہماری حکومت کویہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں؟ ہمارا دستور ایک احمدی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں اور حکومت پاکستان کو اس کے بعد یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے کہ یہ مسلمان نہیں۔ حکومت پاکستان کویہ حق ہے کیونکہ ہم یہ Professکرتے ہیں (اس عقیدہ کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم احمدی وہابیؔ نہیں) کہ قانون بنائے کہ جماعت احمدیہ وہابیؔ نہیں ہے۔ حکومت کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ احمدی شیعہ نہیں ہیں۔حکومت کا یہ حق بھی ہے کہ وہ یہ کہے کہ احمدی اہل حدیث نہیں، دیوبندی نہیں، بریلوی نہیں۔ یہ نہیں وہ نہیں۔ جس کا ہم نے انکار کیا ہے وہ انکار ہماری طرف منسوب کرکے اس کا انکار کرے اورجس کا ہم نے اقرار کیا ہے وہ ہماری طرف منسوب کرکے اقرار کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ اعلان کیا کہ ہم’’احمدیہ فرقہ کے مسلمان‘‘ہیں۔ ایک جگہ آپؑ نے انہی الفاظ میں یہ جملہ بولا ہے’’احمدی فرقہ کے مسلمان‘‘۔ ساری دنیا کے احمدی کہیں گے کہ ہم احمدی فرقہ کے مسلمان ہیں اوردنیا کی کوئی حکومت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ یہ کہے کہ تم احمدی فرقہ کے مسلمان نہیں ہو۔
پس ہزار ادب کے ساتھ اورعاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت نے اورسرشت نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں دنیا کی حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں یُو۔این۔ او کے Human Right نے(جن پر تمہارے دستخط ہیں) حق نہیںدیا، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کوئی شخص Professکچھ کررہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اورکردیا جائے۔میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں، کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ یہ کیسی نامعقول بات ہے۔ یہ ایسی نامعقول بات ہے کہ جو لوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آگئی۔ پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور کتنا حسین دستور ہے آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑو اسے خدا پر چھوڑدوکیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اورکون کافر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جب اس قسم کے شور پڑتے تھے توآپؑ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہاں کیوں شور مچاتے ہو امن سے، آشتی سے اور صلح سے زندگی گزارو۔ جب ہم اس دنیا سے گزر جائیںگے اورخدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو خودپتہ لگ جائے گا کہ کون مومن؟ اورکون کافر؟
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍جون ۱۹۷۴ء صفحہ ۱ تا ۸)
ہمارا زمانہ خوش رہنے، مسکراتے رہنے اور
خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی:-

پھر حضور انور نے فرمایا:-
ہمارا زمانہ خوش رہنے، مسکراتے رہنے اور خوشی سے اُچھلنے کا زمانہ ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا دُنیا کے ہر ملک میں گاڑا جائے گا اور دُنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل کی دھڑکنوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور پیار دھڑکنے لگے گا۔ اس لئے مسکراؤ!۔
مجھے یہ خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ ہمارے تو ہنسنے کے دِن ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہو وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لئے کھولے گئے ہیں وہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔
ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ دُنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرتے ہیں۔ یعنی ان راہوں پر چلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے پیار کی طرف لے جانے والی ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہیں جن کے اعمال کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور غصے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ آسمانوں کے وہ دروازے جو دنیا میں بسنے والوں پر بند کئے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتّباع اور آپ کی کامل پیروی اور آپ سے کامل محبت اور آپ کے ساتھ فدائیت اور جان نثاری کا کامل تعلق رکھنے کے نتیجہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو گی اور اُس کی رحمت تم پر نازل ہو گی اور یہ وعدہ دوحصوں میں منقسم ہوتا ہے۔ ایک وہ وعدہ ہے جو اس جماعت کے ساتھ ہے جو اُس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک پیارے جرنیل کی جماعت ہے۔ جسے(اور صرف اُسی کو) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام بھیجااور سلامتی کے لئے دُعائیں فرمائیں۔ اُس کی جماعت کو یہ وعدہ ہے کہ مصائب آئیں گے اور جب وہ جماعت بشاشت کے ساتھ ان مصائب میں سے گذرے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور نصرت آسمانوں سے اُن کے لئے نازل فرمائے گا۔
آجکل جس قسم کے حالات ہیں اُس سے کہیں زیادہ سخت حالات ہماری جماعت پر گذر چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کی ابتداء میں دس دس گاؤوں کے حلقہ میں ایک ایک احمدی ہو گیا اور ان کا بھی اُس وقت(یہ محاورہ بڑا عام تھا) ’’حقہ پانی‘‘ بند کر دیا گیا۔حُقّہ تو غالباً بہتوں نے خود ہی چھوڑ دیا ہو گا لیکن بہرحال پانی بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ دس گاؤں کے حلقہ میں ایک احمدی گھرانے نے وہ ساری تکالیف برداشت کیں لیکن اُس صداقت کو جسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُنہوں نے حاصل کیا تھا چھوڑنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوئے۔ اُن کے لئے آج کے گاؤں میں رہنے والے احمدی کے مقابلے میں زیادہ خوف تھا۔ اب تو ایک ایک گاؤں میں(بچے اور عورتیں ملا کر) پانچ پانچ سو، سات سات سو، آٹھ آٹھ سو کی جماعت بن گئی۔ اُس وقت دس دس گاؤں میں صرف ایک ہی خاندان تھا۔ میاں بیوی ہوں گے اور دو چار چھوٹے بچے ہوں گے۔
اِس وقت جو ہماری چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں اُن کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی۔ بعض کی جائیدادیں بھی جلائی گئیں۔ بعض کو جان کی قربانی بھی دینی پڑی اور ان کی تعداد بھی (اگر دو گھرانے ہیں تو)دس پندرہ نفوس پر مشتمل ہو گئی لیکن اب سینکڑوں جماعتیں ایسی ہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں احمدی بستے ہیں۔ بعض گاؤں میں ہزار سے بھی اُوپر احمدی ہیں۔ شہروں میں سے بعض جگہ ایک ایک شہر میںبیس بیس ، پچیس پچیس ہزار احمدی بستے ہیں۔ تو اگر عقل اور فراست کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آج بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ سختیوں کا زمانہ گذر چُکا اور سہولت کا زمانہ آگیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ بچے ہیں اور کچھ احمدیت میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں اور ان کی تربیت اتنی نہیں ہوئی جتنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ یہ تو صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ مثلاً آج سے دس دن قبل جو احمدیت میں داخل ہوا اُس نے یہ اعلان کیا کہ میں تو صداقت کو پہچاننے کے بعد اُس سے دُور رہنا ایک دن کے لئے بھی برداشت نہیں کرتا۔ نئے آنے والوں میں سے ایسے بھی ہیں جو پُرانوں کو غیرت دلا رہے ہیں اور یہ ایک نہیں متعدد مثالیں ایسی ہیں۔ کل ایک ہی دن میں مجھے تین طرف سے یہ اطلاع ملی۔ اس وقت میں جب بظاہر ہر طرف سے شور مچایا گیا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس کے مقابلہ میں ایسے نوجوان نکل رہے ہیں۔ ایک کو کسی نے کہا کہ تم نے تو ابھی پوری طرح سمجھا نہیں اور مطالعہ کرو۔ اُس نے کہا میں مہدی علیہ السلام کی جماعت سے ایک دن بھی باہر رہنا نہیں چاہتا اور وہ جماعت میں داخل ہو گیا۔
بعض نے زبان سے کمزوری دکھائی ہے۔ خدا کرے کہ وہ دل سے کمزوری دکھانے والے نہ ہوں۔ ایسے بھی دُنیا میں ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قیصرکے خلاف جنگِ یرموک بڑی سخت جنگ تھی۔ اُس وقت اسلام کی جنگیں تلوار کے ساتھ لڑی جا رہی تھیں۔ اس وقت اسلام کی جنگیں دلائل اور فراست اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کے ساتھ اور ایثار پیشہ وجودوں کے ساتھ لڑی جا رہی ہیں جو ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور راتوں کو خدا کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے حضور کچھ بھی پیش نہیں کیا۔ اس لئے کہ جو پیش کیا وہ گھر سے تو نہیں لائے تھے۔ تیری ہی عطا تھی۔ پھر ہم نے خُدا کو کیا دیا؟ سوچیں تو سہی۔ یا تو آپ نے خدا کے علاوہ کسی اور سے لیا ہو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا!ہم نے لات اور عُزّیٰ ( جو بت تھے اُن) سے کچھ حاصل کیا اور تیرے قدموں میں لا ڈالا۔ لیکن اگر اللہ ہی اللہ ہے اور اُس کے سوا اور کوئی چیز نہیں تو پھر تم نے خُدا کے سوا کسی اور ہستی سے کچھ نہیں پایا اور جو کچھ پایا اُسی سے پایا وہ اُسی کے حضور پیش کرتے ہوئے ایک عقلمند، صاحبِ فراست مومن کی تو جان نکلتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا ہم نے تیرے حضور کچھ پیش کیا، کیا پیش کیا؟ جو اُس کا تھا؟ جو اپنے خزانوں میں اِس رنگ میں بھی رکھ سکتا تھا کہ تمہیں وہ دیتا ہی نہ! لیکن ہمارا رب کتنا پیارا ہے جو اُسی کی دی ہوئی عطا اور اُسی کے دئیے ہوئے اموال اور اُسی کی دی ہوئی طاقت اور اُسی کی دی ہوئی فراست سے جب تم کچھ اُس کے سامنے پیش کرتے ہو تو وہ بڑے پیار سے کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندے مجھ سے کتنا پیار کرنے والے ہیں کہ اس طرح اپنا سب کچھ میرے حضور پیش کر دیتے ہیں۔یہ تو اُس کا فضل ہے ۔ اس میں ہمارے لئے فخر کی تو کوئی بات نہیں۔ یہ تواُس کی رحمت ہے ہم نے اس کو کیا دیا؟ اور اُس نے ہم سے کیا لینا ہے؟
پس میں بتا رہا تھا کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ غلبۂ اسلام کے لئے میں نے تمہیں چُنا اور تمہارے ذریعہ سے نوعِ انسانی کے دل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر میں جیتوں گا اور اس غرض کے لئے تمہیں اپنا آلۂ کار بناؤں گا۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ (تمثیلی زبان میں) اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہم بندوں کی نگاہ میں جو حقیر ذرّہ ہے پکڑا ہوا ہو اور خدا کہے کہ میں ساری دُنیا میں اس ذرّۂ حقیر کے ذریعہ تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہوں تو وہ ایسا کر دے گا کیونکہ تبدیلی پیدا کرنے والا اصل میں وہ ذرّہ نہیں بلکہ تبدیلی پیداکرنے والی اللہ تعالیٰ کی وہ طاقتیں ہیں کہ مادی دُنیا اُن طاقتوں کے اثر کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ۔ اِس دُنیا پر، اِس عالمین میں اللہ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے ۔ العِزَّۃُ لِلّٰہِ، المُلْکُ لِلّٰہِ۔ بادشاہت اُسی کی ہے اور طاقت اور غلبہ اُسی کا ہے۔ قرآن کریم نے بہت سی صفات کے ساتھ اس طرح بھی اِس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔گو الفاظ آگے پیچھے ہیں اور قرآن کریم کے الفاظ ہی زیادہ مؤثر ہیں لیکن انسان مختلف انداز میں اپنی عقل استعمال کرتا ہے۔ بہرحال ہم نے کہہ دیا العِزَّۃُ لِلّٰہِ اور خداتعالیٰ نے کہا اِنَّ العِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا الفاظ کا فرق ہے۔ویسے یہ الفاظ قرآن کریم کا مفہوم بتا رہے ہیں۔ اِس جہان کا اور اس عالمین کا بادشاہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر خدا بادشاہ اور اس دُنیا کے بادشاہوں کا بادشاہ ہے تو دُنیا کی طاقتیں اور بادشاہتیں اگر اللہ تعالیٰ کی بادشاہت سے ٹکرانے کی کوشش کریں گی تو اس کا نتیجہ چُھپا ہوا نہیں ہے۔ ہمارا ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جو طاقتور سے ٹکراتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے دُنیا داروں نے اور دُنیا کی حکومتوں نے اُن فیصلوں کے کرنے کی کوشش کی جن فیصلوں کے کرنے کا جواز کوئی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا اختیار نہیں دیا تھا۔ وہ ایسا کرتے رہے لیکن انسان کی تاریخ میں ایک مثال بتا دو کہ جب دُنیا کی طاقتوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر کوئی کام کرنا چاہا تو دُنیا کی طاقتیں تو کامیاب ہو گئیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طاقت نے کمزوری دکھائی اور ناکام ہو گئی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے۔ نہ عقلاً ایسا ممکن ہے اور نہ عملاً ایسا ہوا۔ نہ عرفان رکھنے والے جو خداتعالیٰ کے عشق میں مست ہیں وہ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ گمان کر سکتے ہیں کہ ایسا ہونے کا کوئی موہوم سا بھی امکان ہے۔ جو خُدا تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے وہ کچھ اور سوچتے ہوں گے۔ ہمیں اس کا علم نہیں لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ خداتعالیٰ سچے وعدوں والا ہے اور اس نے جماعتِ احمدیہ کو یہ بشارت دی اور جماعت احمدیہ سے یہ سلوک کیا کہ دُنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔ دُکھ دے سکتی ہے۔ پریشانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ ابتلاء لا سکتی ہے۔ لیکن نہ مٹا سکتی ہے نہ ناکام کر سکتی ہے۔ ایک وہ بشارتیں ہیں جو افرادِ جماعت احمدیہ کو دی گئی ہیں دوسری وہ بشارت ہے جو جماعت کو دی گئی۔ جس سے بڑی بشارت کسی فرد کو نہیں دی گئی۔خداتعالیٰ نے کہا کہ اگر تم میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے میرے دین اور میری شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہو گے تو اُن جنتوں کا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جن کا تصور اور خیال بھی تمہارے دماغوں میں نہیں آسکتا۔ ایک فرد کے لئے اتنا عظیم انعام ہے لیکن فرد کے لئے حقیقی اور ایسا انعام جو ہر احمدی مخلص اور قربانیاں دینے والے کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ اگر میرے احکام پر تم کاربند رہو گے اور میری محبت میں تم زندگی گزارو گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو اپناؤ گے تو جنتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور پھر یہ بھی ایک بڑے ہی پیار کا اعلان تھا کہ بہتوں کو اُس نے کہا کہ میں جنت کے آٹھوں دروازے کھول دوں گا اور تم کو کہوں گا کہ جس دروازے سے چاہو اندر داخل ہو جاؤ۔ اس سے زیادہ پیار اللہ تعالیٰ کا اور کیا ہو سکتا ہے؟ تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے ہر شخص کی زندگی کی مَیں حفاظت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ نہیں کہا کہ مَیں تم میں سے ہر شخص کے اموال کی حفاظت کروں گا۔ خداتعالیٰ نے تمہیں ہر گز انفرادی طور پر یہ بشارت نہیں دی کہ تم میں سے ہر ایک کی عزت کی حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور کسی ایک احمدی کو بھی عزت کی قربانی نہیں دینی پڑے گی یا مال کی قربانی نہیں دینی پڑے گی یا جان کی قربانی نہیں دینی پڑے گی لیکن چونکہ جماعت، افراد کے مجموعہ کا نام ہے اس لئے یہ کہا کہ وہ لوگ جن کو انفرادی طور پر جان کی یا مال کی یا عزتوں کی قربانی دینی پڑے گی۔ (عزتوں کی قربانی کا حلقہ زیادہ وسیع ہے۔ اس کے بعد اموال کی قربانی کا حلقہ ذرا تنگ ہے اور جان کی قربانی کا حلقہ اِس سے بھی زیادہ تنگ ہے لیکن بہرحال) وہ تو دینی پڑے گی لیکن اگر تم بحیثیت جماعت نبی اکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چنیدہ اور پیارے گروہ کی حیثیت سے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے تو تم میں سے اکثر کی جانیں بھی بچائی جائیں گی اور اموال بھی بچائے جائیں گے اور عزتیں بھی بچائی جائیں گی اور اِس دُنیا میں بھی دُنیا دار جو خدا کو پہچانتا نہیں خداتعالیٰ کے اُس پیار کے نظارے دیکھے گا جو تم پر نازل ہو گا لیکن قربانیاں تمہیں بہرحال دینی پڑیں گی اور ہمیں اس آیت میں بھی( جو میں نے ابتداء میں تلاوت کی تھی) اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ دیکھو! اپنے اوپر دو لعنتیں نہ اکٹھی کر لینا۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ہی وقت میں دُنیا بھی تم پر *** کر رہی ہو اور خداتعالیٰ آسمان سے بھی تم پر *** بھیج رہا ہو۔ایسا نہ کرنا! بلکہ خداتعالیٰ کی رضا کی راہوں پر جس حَد تک تمہارے لئے ممکن ہو چلتے رہنا اور اُن لوگوں کی طرح نہ بن جانا جن کی بداعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب آسمانوں سے نازل ہوا۔ جو آیت میں نے تلاوت کی اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر خداتعالیٰ کی رضا نازل ہوتی ہے یا وہ کون لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کا غضب لے کر لوٹتے ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بتا دیا کہ انسان ایسے زمانوں میں کہ جب خداتعالیٰ کا کوئی مامور (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں) شریعتِ حقہ اسلامیہ کو قائم کرنے کے لئے دُنیا میں آئے گا تو ایک جماعت انسانوں کی وہ ہو گی جو خداتعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلنے والی ہو گی اور ایک جماعت وہ ہو گی جن کے اعمال کے نتیجہ میں ان کو رضا نہیں ملے گی بلکہ خداتعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہو گا۔ بڑے خوف اور ڈر کا مقام ہے۔ اسی لئے میں آپ کو بار بار کہتا ہوں کہ عاجزانہ دُعاؤں کے ساتھ خداتعالیٰ کی دہلیز پر سجدہ ریز رہو اور اُس سے کہو کہ اے خدا! ہم انسان ہیں اور کمزور ہیں تو ہمارے گناہوں کو بخش اور ہم سے اُس پیار کا سلوک کر جس پیار کا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اور آپؐ کی دی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں مہدیٔ معہود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں وعدہ دیا اور بشارت دی۔
اِس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک لمبا سا اقتباس، جو میں نے انتخاب کیا ہے پیش کروں گا۔ اِس میں تو اتنی باتیں آگئی ہیں کہ اگر میں ان سب کو کھول کر بیان کرنے لگوں اور تشریح کرنے لگوں تو یہ وقت اس کے لئے مناسب نہیں اور گرمی جو میری بیماری ہے وہ بھی مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ میں جب یہاں کھڑا ہوتا ہوں تو تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن جب میں بول رہا ہوتا ہوں تو بالکل تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ جب میں آپ کے چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹیں دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور جب میں آپ کے چہروں پر اُداسی دیکھتا ہوں تو مجھے فکر لاحق ہوتی ہے اور میں آپ کے لئے دُعائیں کرتا ہوں۔
یہ زمانہ تو وہ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اسلام کے غلبہ کی بشارت آسمانوں سے آگئی۔ اب ہم اپنی ذاتی تکلیفوں کے نتیجہ میں ان مسکراہٹوں کو اپنے چہروں سے کیسے غائب کر سکتے ہیں؟ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی ہم مسکرائیں گے۔ اُس یقین کی وجہ سے کہ خداتعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کی ہمیں بشارت دی ہے اور ہماری زندگی کی کوئی حقیقت نہیں۔ بعض بچوں کو یا بعض غیر تربیت یافتہ احمدیوں یا جن کے اندر ذرا کمزوری میں محسوس کرتا ہوںان کو سمجھانے کے لئے میں کہا کرتا ہوں کہ دُنیا میں سب سے زیادہ خطرناک چارپائی ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ یہ کتنی خطرناک چیز ہے۔ دُنیا کی کسی بھیانک ترین جنگ میںا تنے انسان نہیں مرے جتنے ایک سال میں چارپائی پر دم توڑ دیتے ہیں۔انسان کی موت اکثر چار پائی پر واقع ہوتی ہے نا! پس اگر مرنے سے خوف کھانا ہے تو پھر سب سے زیادہ خطرناک اور ہمارے دل میں خوف پیدا کرنے والی چارپائی ہونی چاہیئے۔ جو سب سے زیادہ جانیں لے جاتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ چارپائی ہمارے لئے خوف نہیں پیدا کرتی۔ وہ ہماری جان نہیں لیتی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں زندہ رکھتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں۔ جب زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور موت کا ایک وقت خدا کے علم میں مقدر ہے مثلاً زید ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فلاں تاریخ کو اُس نے اِس دُنیا سے کُوچ کر جانا ہے اُس کے لئے کوچ کی دو راہیں تھیں۔ یا وہ چارپائی پر مر جاتا یا دین کے رستہ میں اُس کی جان چلی جاتی۔ وہ صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بدر کے میدان میں شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کی موت اس دن مقدر تھی۔ منافقوں کو خدا نے یہی کہا کہ تم موت سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہو۔ اگر اُس دن صحابہ بدر کے میدان میں جانے سے ہچکچاتے اور وہاں نہ پہنچتے تو اپنے مکان کے سامنے گلی میں اُن کو ٹھوکر لگتی اور سر کسی سخت جگہ پر لگتا اور وہ مر جاتے کیونکہ اُن کی موت اُس وقت مقدر تھی۔ کتنی پیاری ہو گئی، کتنی حسین ہو گئی، کتنی بشارتوں کی حامل ہو گئی وہ موت جو چارپائی پر یا گلی میں گر کر نہیں آئی بلکہ بدر کے میدان میں آئی۔ موت تو اُس دن آنی ہی تھی۔
اس لئے زندگی اور موت یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں ڈرانے والی ہو یا ایک احمدی کے دل میں خوف پیدا کرنے والی ہو۔ آگ ہمارے خلاف آج ہی تو نہیں بھڑکائی جا رہی۔ ۱۹۴۷ء میں بھی ہمارے خلاف آگ بھڑکائی گئی تھی اور اُس کے شعلے آج کے مقابلہ (میں) زیادہ بھڑک رہے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے سروں پر سے سکھوں اور ہندوؤں کی گولیاں ’’شوں‘‘ کر کے نکل رہی ہوتی تھیں اور میں اپنے ساتھیوں کے چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے ان کو لطائف سناتا تھا اور ہم قہقہے لگایا کرتے تھے۔ میں اپنی ساری عمر میں اتنا نہیں ہنسا جتنا اُن دو مہینوں میں ہنسا ہوں۔ اِس واسطے جب مخالف یہ کہتا ہے یا نادان منکر یہ کہتا ہے کہ ہم تمہارے چہروں سے مسکراہٹیں چھیننے کے لئے ایسا کر رہے ہیں تو ایک متقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو پہچانتا ہے اور اُس کی معرفت رکھتا ہے اُسے کہتا ہے کہ جو مرضی کرو تم میرے چہرے کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکتے۔ کیونکہ ان مسکراہٹوں کا منبع اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کرنے والے کا وہ پیار ہے جو ظاہراً بھی اور باطناً بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملتا ہے۔ اس لذت اور سرور میں زندگی گزارنے والے کے چہرے کی مسکراہٹیں کون چھین سکتا ہے؟ دُنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔
یہ جو قہوہ میں پی رہا ہوں یہ پھیکا سبز قہوہ ہے اور آجکل چونکہ ہمارے ملک میں فساد کی وجہ سے ادویہ کا ملنا ذرا مشکل ہو گیا ہے۔ اس قہوہ سے بہت سی پیٹ کی تکلیفوں سے انسان بچ جاتا ہے۔ میں نے پہلے بھی جماعت کو کہا تھا کہ جن سے ہو سکتا ہے وہ پانی اُبال کر پئیں اور اس میں دو چار پتیاں سبز چائے کی ڈال دیں تو سبز قہوہ بن جائے گا۔ اور بالکل ہلکا سا موتیا رنگ پانی میں آجائے گا۔ اور جو اُبلے ہوئے پانی میں بکبکا پَن ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہے گا بلکہ خوشبو اور ذائقہ چائے کا آجائے گا یہ میں استعمال کرتا ہوں۔ یہ وہی قہوہ ہے آپ بھی پیا کریں۔
مجھے خداتعالیٰ نے جس قدر کڑواہٹوں کو برداشت کرنے کی طاقت دی ہے کم ہی لوگوں کو ملی ہو گی۔ ان حالات میں ہر دُکھ جو کسی فرد یا خاندان کو پہنچا اُس کا زخم میں اپنے سینے میں بھی محسوس کرتا ہوں۔ پس کئی ہزار پریشانیاں نیزے کی انّی کی طرح میرے سینے میں پیوست ہیں اور میرے جسم کو بھی عادت ہے۔
مجھے گرمی میں خون کی شکر کے نظام میں خرابی کی وجہ سے تکلیف ہو جاتی ہے۔اِس کے لئے میں کبھی کبھی نیم کے پتوں کا جوشاندہ استعمال کرتا ہوں۔ ایک دفعہ میں وہی جوشاندہ پی رہا تھا کہ ہماری ایک عزیزہ اُس وقت آگئیں۔ وہ سمجھیں کہ پتہ نہیں میں کیا شربت پی رہا ہوں۔ تو میں نے ا یک گھونٹ چھوڑ دیا میں نے کہا پئیں گی؟ تو اُنہوں نے کہا لائیں پیتی ہوں تو جونہی نیم کا جوشاندہ منہ کو لگایا اور چہرے کی حالت بدلی اور اعصاب کھنچے تو وہ حالت دیکھنے والی تھی۔
ایک دفعہ ہمارے ایک زمنیدار ساتھی تھے۔ ملیریا کے دن تھے۔ میں کونین کی گولی کھانے لگا۔ ہمارے زمیندار بھائی اگر جوش میں ہوں تو اپنے دعویٰ میں بڑے سخت بھی ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا کونین کھائی جائے۔ کہنے لگے ہاں میاں صاحب کھائی جائے۔میں نے کونین کی ایک گولی منہ میں ڈال کر دانتوں سے اچھی طرح چبائی اور پھر منہ کھول کر کہا کہ اس طرح کھائی جائے وہ کہنے لگے ہاں جی! اِسی طرح کھائی جائے۔ میں نے گولی دے دی اور چونکہ اُنہوں نے کہا ہوا تھا اُسی ’’پَچ‘‘ میں اُنہوں نے اسی طرح کونین کی گولی چبائی اور مجھے بڑی مشکل سے منہ کھول کر کہا اِس طرح؟ اور منہ اور گردن کے سارے پٹھے اکڑ گئے اور اڑتالیس گھنٹے تک وہ ہنستے تھے اور دُنیا سمجھتی تھی کہ یہ رو رہے ہیں۔ یہ حالت ہو گئی تھی۔ تو مادی کڑواہٹوں کونین وغیرہ کی برداشت کی طاقت ہر ایک کو خدا نے نہیں دی لیکن زندگی کی دوسری کڑواہٹیں جو خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے پیش آتی ہیں وہ ہم ہنستے، مسکراتے برداشت کر جاتے ہیں اور دوسروں کوپتہ بھی نہیں لگتا۔ یہ ہے ایک احمدی کی شان اور جیسا کہ میں نے کہا کوئی احمدی اس بات کے لئے تیار نہیں ہو گا کہ وہ دو لعنتیں اپنے پر اکٹھی کر لے۔ ایک دُنیا کی *** اور ایک اللہ تعالیٰ کی ***۔ اگر کوئی ایسا احمدی ہے تو کھڑا ہو جائے ہم بھی اس کی شکل دیکھ لیں۔ یقینا کوئی احمدی ایسا نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:-
’’اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جس سے وہ راضی ہو جائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے۔ اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے۔ ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سُننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دُکھ دے گا۔ وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے۔ تاتم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سُن رکھو (کہ غلبۂ اسلام کی مہم تمہارے سپرد کی گئی ہے اور نوعِ انسانی کے دل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فتح کرنے کا جو کام تمہیں سونپا گیا ہے اُس میں ناقل) کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو۔کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی۔ جن سے خداتعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو۔ ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی۔
یقینا یاد رکھو کہ لوگوں کی ***، اگر خداتعالیٰ کی *** ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں۔ اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا۔ ہم کیونکر خداتعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو۔ اس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے۔ سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ۔ بغیر عمل کے سب باتیں ہیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خداتعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مُچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی۔اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتاہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے۔ سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پائو اُس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اورپھر تم کاٹے جائو۔
پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خداتعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قویٰ کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیرہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں۔ کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود رہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی۔ خداتعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میںبٹھائو اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اورہر ایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبۂ فطرت اور مرتبۂ سلوک اور مرتبۂ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے۔ سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھائو اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا۔ اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اُٹھائو کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے (کہ ہمیں یہ ملے اور وہ ملے۔ ناقل) خداتعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھا درپیش ہے۔ بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہیئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے۔
خدا بڑی دولت ہے۔ اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جائو۔ وہ بڑی مراد ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو۔ عزیزو! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو۔ موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ ایک بچے کی طرح بن کہ اس کے حکموں کے نیچے چلو۔ نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایساہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوئوں کے ساتھ کھڑے ہو جائو اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کر لو تاتم پر رحم کیا جائے۔‘‘ ( ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۵۴۶ تا ۵۴۹)
اے اللہ اے ہمارے پیارے!! ہم پر اپنی رحمتوں کے نزول کے سامان پیدا کرو
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)
ہر احمدی کایہ فرض ہے کہ ملکی قانون
کا پابند ہو اور قانون شکنی نہ کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
جیسا کہ احباب جماعت کو علم ہے میں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہہ کر امرائے اضلاع کی میٹنگ جمعرات کو بلوائی تھی لیکن چونکہ ان دنوں بیرونی اضلاع سے بھی پانچ پانچ، دس دس اور بعض شہروں سے بھی دو دو، تین تین دوست تشریف لائے ہوئے تھے، اس لئے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ امرائے اضلاع کی میٹنگ سے قبل اپنے ان دوستوں سے ملاقات کروں۔ اُن کے علاقہ کے حالات معلوم کروں اور جماعت احمدیہ کی تعلیم کے مطابق ان دنوں میں جو طریق کارا پنانا چاہیئے، وہ اُن کے ذہن نشین کراؤں اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہم عاجز، کمزور اور بے بس بندوں کو جو مہدیٔ معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والے ہیں، اُن سے اُن الٰہی بشارتوں کا ذکر کروں جو غلبہ اسلام کے لئے انہیں دی گئی ہیں اور ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے اُن کو ہدایات دوں اور پھر اس کے بعد امرائے اضلاع سے گفتگو کروں۔ چنانچہ کل قریباً سارا دن اور رات کا ایک حصہ بھی ان ملاقاتوں میں گزرا۔ میرا اندازہ ہے کہ آٹھ گھنٹے تک لگاتار میں نے احباب جماعت سے ملاقاتیں کی ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہو سکیں۔ کچھ ملاقاتیں رہتی ہیں، وہ جمعہ کی نماز کے بعد ہوں گی۔ اس لئے جو دوست ملاقات کرنے سے رہ گئے ہیں، وہ فکر مند نہ ہوں۔ تاہم جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اکثر دوستوں سے ملاقاتیں ہو گئی ہیں جو پاکستان کے اکثر حصوں سے آئے ہوئے تھے۔اور اُن سے باتیں کر کے حالات معلوم ہوئے اور صورتِ حال نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آگئی۔
آج صبح بھی میں نے قریباً اڑھائی گھنٹے تک اسی قسم کی انفرادی ملاقاتیں کیں۔ (انفرادی ملاقاتوں کا مطلب صرف ایک فرد کی ملاقات ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ دو چار آدمیوں کی اکٹھی ملاقات بھی انفرادی ملاقات ہی کہلاتی ہے)اور پھر اس کے بعد امرائے اضلاع کی میٹنگ ہوئی اور اس طرح انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کے ذریعہ حالات سامنے آگئے۔ امرائے اضلاع کو میں نے جو نصیحتیں کی ہیں اور اُن کو اپنے اپنے ضلع کے ہر احمدی کے ذہن نشین کرانے کی جو ہدایتیں دی ہیں، وہ میں اس خطبہ جمعہ کے ذریعہ ساری جماعت کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ان نصیحتوں سے پاکستان والے بھی اور پاکستان سے باہر والے احمدی دوست بھی فائدہ اُٹھائیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ملکی قانون کی پابندی کریں اور قانون شکن نہ بنیں۔ اس لئے ہر شہری کا یہ فرض ہے اور ہر شہری ہونے کے لحاظ سے ہر احمدی مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ملکی قانون کا پابند ہو اورقانون شکنی نہ کرے۔ اس لئے جہاں جہاں بھی احمدی بستے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انہیں پوری توجہ کے ساتھ اور پوری ہمت کے ساتھ ملکی قانون کی پابندی کرنی پڑے گی اور قانون شکنی سے بہرحال بچنا ہو گا۔ صرف اس لئے نہیں کہ ہر شہری کا یہ فرض ہے بلکہ اس لئے بھی اور زیادہ تر اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ خواہ حالات کیسے ہی جوش دلانے والے اور غصہ دلانے والے ہی کیوں نہ ہوں، تم نے قانون شکنی نہیں کرنی۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم اپنے جوش کو ٹھنڈا کرو۔اپنے غصہ کو دباؤ اور قانون کا احترام اور پابندی کرو۔
دوسرے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انفرادی ملاقاتوں سے یہ بات بڑی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں بہت سی جگہوں پر حکومت کے افسران نے فرض شناسی سے کام لیا اور جہاں تک اُن کی طاقت میںتھا، اُنہوں نے فتنہ و فساد کو روکا اور امن کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ جہاں بھی افسرانِ حکومت لوگوں کو ملک میںفتنہ فساد پیدا کرنے سے روک رہے ہوں تو آپ اُن سے انتہائی طور پر تعاون کریں اور اُن کی ہر ممکن مدد کریں۔ اس لئے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مفسدوں سے پیار نہیں کرتا دوسرے اس لئے کہ فساد کے نتیجہ میں انسان نہ صرف اللہ تعالیٰ کا پیار کھو دیتا ہے ( اور اصل نقصان تو یہی ہے) بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے کھو دینے کے مقابلہ میں ایک چھوٹا سا نقصان اور بھی کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ فتنہ وفساد کے نتیجہ میں ملک کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کا کوئی بھی محب وطن تصور بھی نہیں کر سکتا۔ گو بعض لوگ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے اچھے محبان وطن میں سے ہیں۔ ہم نے اس پاکستان کے لئے ۱۹۴۷ء میں جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں۔ ہم نے پاکستان کے لئے اُس وقت سے لے کر آج تک بھی ہر موقع پر، ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں تاکہ ہمارا ملک پاکستان پھلے پھولے اور اس میں استحکام پیدا ہو۔ جب کبھی ہمارے خلاف فتنہ وفساد پیدا کیا گیا تو جہاں اس میں ہمارے لئے روحانی رفعتوں کے سامان تھے وہاں ہمارے لئے یہ فکر کی بات بھی تھی کہ اس سے ہمارے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ اس لئے ہر احمدی نے اور تمام جماعت ہائے احمدیہ نے ہر موقع پریہ کوشش کی کہ ملک کو فتنہ وفساد اور نقصان سے بچایا جائے کیونکہ یہ اُسی طرح ہمارا ملک بھی ہے، جس طرح دوسرے محبان وطن کے ملک ہے۔ پچھلے دنوں بعض اخباروں نے جب یہ اشارے کئے کہ یہ لوگ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے تو ہمیں ایسی خبریں پڑھ کر بڑی ہنسی آئی۔ انسان اپنا مٹی کا بنا ہوا گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ نہیں جاتا تو ہم اپنے اس پیارے وطن کو چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا ارادہ کس طرح کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارا پیارا وطن ہے۔ ہم یہیں رہیں گے۔ ہم نے یہیں رہ کر اس کی حتی المقدور خدمت کرنی ہے۔ ہم نے دوسرے محبان وطن کے شانہ بشانہ اس کی ترقی کی راہ میں تمام روکوں کو دُور کر کے اسے جنت نظیر بنانا ہے۔ یہی ہماری خواہش ہے۔ یہی ہمارے ارادے ہیں اور یہی ہماری دعائیں ہیں کہ ہمارا یہ ملک پھولے، پھلے اور ترقی کرے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ہر قسم کے عجز کے باوجود، ہماری بے بسی اور کمزوری کے باوجود وہ ہماری دُعاؤں کو قبول فرمائے گا(انشاء اللہ) پس ہمارے اس پیار نے ملک کو فتنہ وفساد اور نقصان سے بچانے کے لئے افسران جو کوششیں کر رہے ہیں، جماعت احمدیہ کو چاہیئے کہ وہ اس سلسلہ میں اُن سے پورا پورا تعاون کرے۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ہمیں قرآن عظیم میں یہ حکم دیا ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی یہی ہے کہ کسی سے دُشمنی نہیں رکھنی۔ اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بنیادی نقطہ کو ہمیشہ یاد رکھے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں۔ جو شخص خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے اُس کے متعلق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی غلطی پر ہے۔ اس لئے کہ آج نہیں توکل اُسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دراصل اس کا مقام بھی دشمنی کا نہ تھا کیونکہ کہا جاتا ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ جب ہم کسی کے دشمن بنیں تو تم ایک ہی ہاتھ سے ہمارے دشمن کیسے بن جاؤ گے۔غرض ہم کسی کے دشمن نہیں، مگر یہ تو ایک منفی اعلان ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں۔ ہم ہر انسان سے ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے دل کو خدا اور خدا کے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ جیتے۔ اس لئے ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنی نوع انسان کے دل پیار اور محبت کے ساتھ جیتنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قدموں میں دلوں کے ڈھیر لگا دینے ہیں۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سینوں سے نکال کر لا ڈالیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دل تو وہ ہے جو جذبات سے پُر ہوتا ہے۔ لوتھڑے کا دل مراد نہیں ہے یہ تو گائے، بھینس، بھیڑ، بکری اور گیدڑ اور لومڑ کے اندر بھی ہوتا ہے۔ جب مذہب کی زبان میں دل کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے سے مراد وہ روحانی جذبات ہوتے ہیں جن کو بعض دفعہ انگریزی میں Mindکہا جاتا ہے اور ہماری زبان میں اس کو قلب کہتے ہیں۔ عربی میں بعض اور نام بھی ہیں لیکن اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ہم نے انسان کے دل کے سارے جذبات کو جیت کر خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دینے ہیں اور یہ کام پیار کے ساتھ کرنا ہے سختی سے نہیں کرنا۔ ہم نے دوسروں کے دُکھ دور کرنے کے لئے خود مصائب جھیلنے ہیں ہم نے لوگوں کے دل پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور بے لوث خدمت کے ساتھ اور ہمدردی اور غم خواری کے ساتھ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جیتنے ہیں۔ سو ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ بھی غلطی خوردہ ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔ غلطی خوردہ اس لئے کہ جو شخص صداقت پر قائم ہوتا ہے، وہ ابدی طور پر صداقت پر قائم رہتا ہے لیکن جو غلط تصورات رکھتا ہے، اس کے تصورات ایک نہ ایک دن مٹ جاتے ہیں اور حقیقت اُس پر آشکار ہو جاتی ہے۔ اسی معنی میں میں کہتا ہوں کہ بعض لوگ غلطی خوردہ ہیں کیونکہ وہ خود کو ہمارا دشمن سمجھتے ہیں۔ اُن کی یہ غلطی اُن پر ایک نہ ایک دن ظاہر ہو گی۔ یہ غلطی کس طرح ظاہر ہو گی۔ اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں اس سے کسی کا عیب بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ کسی فرد واحد کا ذکر کرنے کی بجائے میں پرانے زمانے کی مثال لیتا ہوں۔ امت مسلمہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جو لوگ ایک وقت میں اسلام کے دشمن تھے دوسرے وقت میں وہی مسلمان ہو کر اسلام کے فدائی بن گئے۔ اسلام عرب سے نکل کر کئی دوسرے ممالک میں پھیل گئے۔ ایک طرف مصر اور پھر مغرب میں سے ہوتا ہوا سپین تک جا پہنچا اور دوسری طرف شام، عراق، ایران تک پھیل گیا۔ پھر روم کے ایک طرف سے نکل کر مسلمان یورپ تک جا پہنچے اور اُنہوں نے یورپ کو اسلام کی محبت کی گاڑی میں بیٹھ کر عبور کیا اور پولینڈ کے ان کناروں تک پہنچ گئے جنہیں سمندر تر کرتے تھے۔ مگر ان سارے علاقوںمیں بسنے والے لوگوں کے دلوں کو پیار سے جیتا۔ تاہم یہ بھی ٹھیک ہے کہ جب اُن پر حملے کئے گئے تو اس وقت جوابی حملے بھی ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مسلمانوں کو اپنی خود حفاظتی کے لئے تلوار کا مقابلہ تلوار کے ساتھ بھی کرنا پڑا۔ لیکن تلوار دلوں کو فتح نہیں کیا کرتی، محبت دلوں کو فتح کیا کرتی ہے۔ چنانچہ اُن اُن ملکوں میں اسلام پھیلا جو مسلمانوں کیلئے بالکل غیر اور اجنبی تھے۔ جن کی عادتیں مختلف تھیں۔ جن کا رہن سہن مختلف تھا۔ جن کا کھانا پینا مختلف تھا۔ جن کا کھانے پکانے کا طریق مختلف تھا جن کا کھانا کھانے کا طریق مختلف تھا۔ گویا ہر لحاظ سے اختلاف پایا جاتا تھا۔ مگر جب اسلام کے ذریعہ اُن کے دل جیت لئے گئے تو وہ اس طرح باہم گُھل مل گئے جس طرح ماں جائے بھائی اور حقیقی بھائی دوست ہوتے ہیں۔ چودہ سو سال سے اسلام کے حسن واحسان کے یہ معجزات ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اسلام نے محبت اور پیار کے ساتھ لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور ایک دوسرے سے پیار کرنے والی قوم بنا دیا۔ بہرحال یہ ایک لمبی تاریخ ہے جو سنہری اوراق، نہایت خوبصورت واقعات، اور دل کو موہ لینے والے کلمات پر مشتمل ہے۔
ہمارے محبوب آقا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا تھاکہ توحید حقیقی کی معرفت عطا کرنے کیلئے آپ کو دُنیا کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور یہ کہ آپ تمام جہانوں کے لئے ایک مجسم رحمت بن کر تشریف لائے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بعثت سے لے کر آج تک نوع انسانی نے اسلام کے حسن واحسان، محبت وپیار اور بے لوث اور بے غرض خدمت کے اتنے حسین اور شاندار نتائج دیکھے ہیںکہ دُنیا کا کوئی آلہ یا دُنیا کا کوئی مذہب آج تک اس قسم کے نتائج پیدا نہیں کر سکا۔
پس چونکہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں، اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم تمام لوگوں کے لئے دعائیں کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص اُس آدمی کے لئے دُعائیں نہیں کرتا جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے، تو اُس کی دعاؤں کی قبولیت کے متعلق مجھے شک ہے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اس لئے جہاں احباب جماعت اپنے لئے دعائیں کرتے ہیں وہاں بڑی عاجزی اور تضرع کے ساتھ، بڑے خلوص اور پیار کے ساتھ اُن لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے لئے ہدایت کے سامان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں اسلام کی اُن راہوں کی شناخت عطا فرمائے جو عارضی طور پر اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں۔
میں بتا یہ رہا ہوں کہ میں نے امرائے اضلاع سے بھی اور جو دوست مجھے ملنے آئے تھے، ان سے بھی میں نے یہی کہا ہے کہ واپس جا کر ساری جماعت کو یہ باتیں بتاؤ اور اب انہی باتوں کا اعادہ اس خطبہ میں بھی کر رہا ہوں۔ یہاں سے جو دوست واپس اپنے گھروں کو جا رہے ہیں، وہ اپنے ضلع کی جماعتوں یا اپنے ماحول کے احمدیوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ اگر تم احمدیہ فرقہ کے مسلمان ہو تو یہ تعلیم ہے جو تمہیں دی گئی ہے۔ تم اس پر عمل کرو۔ اس میں تمہارے ملک کا فائدہ ہے۔ اس میں تمہارے خاندانوں کا فائدہ ہے اور اس میں تمہارے نفسوں اور تمہاری روحوں کا فائدہ ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کسی کے دشمن نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ہم اُسے غلطی خوردہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اُن لوگوں کو بھی پیار کے ساتھ اپنے سینے کے ساتھ لگانا ہے جو ہمارے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ وہ دن دُور نہیں جب یہ مسئلہ اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ بھی ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ ہم تو کبھی اُن کے دشمن نہیں ہوئے اور یہ ملک جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا ملک ہے اور وہ بُڑھیا شاید انسانوں میں سے ایک ہی پیدا ہوئی تھی جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے لئے ایک بڑی خوبصورت انگوٹھی بنوائی اور اس میں ایک قیمتی ہیرا یا پتھر لگوایا اور بڑے شوق سے پہنا لیکن اس کے ہمسائے میں اس کی ملنے والیوں، اور سہیلیوں اور دوسری عورتوں کو اس کی انگوٹھی کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی۔ وہ بڑی پریشان ہوئی کیونکہ نمائش کی اُسے عادت تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ میں نے پیسے خرچ کر کے انگوٹھی بنوائی ہے مگر اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ لوگوں کی اس بے توجگی سے تنگ آکر اُس نے ایک دن اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ جب دورونزدیک سے واقف عورتیں پوچھنے کے لئے آئیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تمہارے گھر کو آگ لگ گئی ہے اور بہت نقصان ہو گیا ہے تو وہ اُن سے کہتی تھی کہ سب کچھ جل گیا ہے۔ بس یہی ایک انگوٹھی بچی ہے اور اس طرح اُس نے اپنی انگوٹھی کی نمائش کی۔ ایسی بُڑھیا آدم سے لے کر آج تک ایک ہی پیدا ہوئی ہے۔ ہم اس بڑھیا کی اولاد نہیں ہیں ہم ان ماؤں کی اولاد ہیں جو چودہ سو سال سے اسلام کی عظمت کے قیام کے لئے اپنی نسل میں اُس محبت کو پیدا کرتی رہی ہیں جو اسلام کو پھیلانے میں کارگر ہوتی تھی اور اسلام میں پیار پیدا کرتی تھی اور یہی وہ محبت ہے جس سے لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ پس وہ بڑھیا جس نے اپنی انگوٹھی کی نمائش کے لئے اپنا گھر جلا دیا تھا وہ ہماری ماں نہیں ہے۔ ہم نے پاکستان کی کوئی چیز حتیٰ کہ ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونے دینا۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کا ایک دھیلہ بھی جو ہماری نگرانی میں آجائے گا وہ ضائع نہ ہو۔ ہمارا ملک غریب ہے۔ ہم نے اس کے لئے انتہائی قربانیاں دیں اور انتہائی تکالیف برداشت کیں اور غریبانہ زندگی اختیار کی تاکہ ہمارے ملک کی شان وشوکت دُنیا پر ظاہر ہو۔ ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو ایک ایسا ملک بنانا ہے کہ جو دُنیا کے لئے ایک نمونہ ثابت ہو۔ ہمارا ملک دُنیا کو ہدایت دینے والا ملک بن جائے۔ دُنیا اس سے ہدایت حاصل کرے کہ دیکھویہ ملک کس طرح غربت سے اُٹھا اور ترقی کر گیا۔ ۱۹۴۷ء میں اس کا کیا حال تھا اور اب اپنی محنت سے کیا سے کیا بن گیا ہے۔ تاہم یہ درست ہے کہ بہت سا وقت ضائع ہو گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ قوموں کی زندگی میں اگر دس پندرہ سال ضائع بھی ہو جائیں تو قومیں جب اس نقصان کو پورا کرنا چاہتی ہیں تو وہ پھر درجنوں یا بیسیوں سال کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ اپنی محنت، اپنی فراست، اپنے علم اور اپنی دعاؤں سے(کیونکہ ہم مسلمان احمدی ہیں اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے)اس کمی کو پورا کرتی ہیں اور ملک کی ترقی کے سامان پیدا کرتی ہیں۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔
غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے احباب جماعت نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ حکومت کے افسران سے جو اپنے اپنے علاقہ میں فتنہ وفساد کو دور کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرتے ہیں، اُن سے پورا پورا تعاون کرنا ہے اور وہ افسران جو اپنی فرض شناسی کے لحاظ سے غافل اور سست ہیں، اُن کے لئے واعظ اور نگران بنناہے۔ تم اُن سے مناسب رنگ میں یہ کہو کہ تمہارا ملک تم سے اخلاص کا مطالبہ کر رہا ہے اس لئے غفلت کو چھوڑو، سستیوں کو ترک کرو اور ملک کی خدمت کے لئے آگے بڑھو،ہم تمہارے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ فتنہ فساد ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے تم فتنہ و فساد کو دور کرنے کی کوشش کرو اس سلسلہ میں ہم سے جو قربانی لینا چاہتے ہو اس سے ہم دریغ نہیں کریں گے۔
اسی طرح ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرنی ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے دعائیں کرنی ہیں کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔جو لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ہم نے اُن کے لئے بھی دُعائیں کرنی ہیں اور اس ضمن میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت عطا فرمائی ہے اور اس نے ہمیں یہ عرفان بخشا ہے کہ ہماری انفرادی یا اجتماعی طاقت اللہ جل شانہٗ کی قدرت اور طاقت کے مقابلہ میں اتنی حقیر ہے کہ اس کا نام لینا بھی غلطی ہے۔ ہم نے اپنے دُکھوں کو دور کرنے کیلئے اپنی طاقت یا اپنی دولت یا اپنے جتھے یا کسی جگہ پر اپنی کثرت کو نہیں دیکھنا۔ اگر آپ نے اپنے ماحول کو ساز گار بنانے کے لئے اپنی طاقت پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ پھر مجھے تمہاری مدد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر تم نے اپنی طاقت پر بھروسہ نہ کیا۔ اگر تم اپنے خدائے قادر و توانا کے حضور جھک گئے اور صدق دل سے یہ دعا کی کہ اے ہمارے رب! ہم اندھے نہیں، ہم مجنون نہیں کہ خود کو کچھ سمجھیں، ہم تو ذرۂِ ناچیز ہیں اور تیرے سوا ہمارا اور کوئی سہارا نہیں۔ ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اگر تو ہمارا سہارا بن جائے تو پھر ہمیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے اے ہمارے رب کریم! ہم نہایت عاجزی کے ساتھ تیرے دامن کو پکڑتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اے خدا! تو اپنا دامن چھوڑا کر ہمیں پرے نہ پھینک دینا۔ اے خدا! ہم تیرے فضل اور رحم کے ہر آن محتاج ہیں۔
میں نمازیں جمع کروں گا جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا کیونکہ بہت سے دوستوں نے واپس اپنے گھروں کو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا حافظ وناصر ہو۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)












پاکستان ہمارا اپنا مُلک ہے جس کے لئے ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر بڑی قربانیاں دی ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
(خلاصہ خطبہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
دُنیا میں ہر ملک کے شہر ی مختلف گروہوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تقسیم تو یہ ہے کہ بعض شہری اچھے شہری ہوتے ہیں اور بعض شہری اچھے شہری نہیں ہوتے۔ دُنیا کے ہر مُلک میں ہمیں ایسا ہی نظر آتا ہے۔ دوسری تقسیم یہ ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اچھے شہری سے ایک بات مراد لی جاتی ہے اور بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک اچھے شہری سے ایک اور چیز مراد لی جاتی ہے یعنی بعض کہتے ہیں کہ اچھے شہری کی یہ یہ صفات ہونی چاہئیں اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اچھے شہری کی ( اس سے مختلف ایک حد تک یا بعض دفعہ متضاد) یہ یہ صفات ہونی چاہئیں۔ اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک (جیسا کہ ہم نے اسلام کو مہدیٔ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل سمجھا ہے) اچھے شہری وہ ہیں جو شہری حقوق کی ادائیگی کی کوشش کے علاوہ یہ ایمان بھی رکھتے ہوں کہ اپنے مُلک سے پیار بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے اور یہ ادنیٰ ترین شعبہ نہیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ایک کم سو حصوں یا ستّر سے زیادہ شعبوں میں منقسم ہے (زبان کے یہ محاورے ہیں ضروری نہیں کہ کسی چیز کو یہ اُسی عدد کے اندر محدود کر دیں بلکہ کثرت بتانا مقصود ہوتی ہے تو ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں۔ عربی زبان اور دوسری زبانیں بھی اس قسم کے محاورے استعمال کرتی ہیں۔ بہرحال جس رنگ میں بھی اسے لیں خواہ لفظی معنی میں لیں تب بھی ایمان کا ایک کم سَو شعبہ بڑی تعداد ہے اور اگر محاورہ کے معنی میں لیں تو پھر تو مفہوم یہ ہو گا کہ ایمان کافی تعداد میں مختلف شعبوں میں تقسیم شدہ ہے اور سب سے بلند اور افضل شعبہ ایمان ‘ ایمان باللہ ہے اور ادنیٰ ترین شعبۂ ایمان اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ ہے یعنی گزر گاہوں سے ایسی چیزوں کا ہٹانا جو وہاںسے گزرنے والوں کو تکلیف پہنچانے والی ہوں اور ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیمَانِ تو جو سب سے بلند ہے اُس کے تو قریب بھی نہیں لیکن جو سب سے ادنیٰ ہے اُس سے بہرحال کچھ درجے اُوپر کا یہ شعبۂ ایمان ہے۔
شہریوں کے فرائض ایک تو حکومتیں خود متعین کرتی ہیں اور مختلف ممالک کی اس تعیین میں فرق بھی ہوتا ہے اور انسانی عقل اس فرق کو اپنے اپنے حالات کے مطابق برداشت بھی کرتی ہے۔ ایک ماحول میں بعض صفات جو اچھے شہری سے متعلق ہیں ان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے ماحول میں بعض صفات پر زور دیا جاتا ہے۔
اگر ہمارے نزدیک بھی یہی تعریف کافی ہوتی کہ قانونِ وقت اچھے شہریوں میں جو صفات دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک احمدی میں ہونی چاہئیں تو ہمارے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی ہم اپنے قانون دانوں کو کہتے اپنے پڑھے لکھوں کو کہتے کہ جماعت کے سامنے ان صفات کو بیان کرتے رہا کرو جو قانون وقت کے نزدیک اچھے شہریوں میں پائی جانی چاہئیں لیکن ہماری ذمہ واری اس سے بڑھ کر ہے۔ ہماری ذمہ واری یہ ہے کہ جس رب نے اپنے پیارے خَاتَمُ الْاَنْبِیَاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ ہم یہ دیکھیں کہ وہی خدائے علّام الغیوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل اور آپ کے ذریعہ لائی ہوئی شریعت کے مطابق کن چیزوں کو حُبّ الوطنی میں شامل کرتا ہے ( میں اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے علماء اس کی تفصیل میں جا کر چھوٹے چھوٹے مضامین ’’الفضل‘‘ کو دیں گے تا کہ دوستوں کے سامنے یہ چیز آ جائے۔)
مسلمان جو صحیح اسلام پر قائم ہوا پہلے دن سے آج تک اُس کو یہی حُکم ہے کہ پیار اور محبت کے ساتھ نوع انسانی کے دل اللہ اور اس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے جیتو اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ جو تعلق ہے جو پیار اور محبت کے نتیجہ میں اور بے لوث خدمت کے نتیجہ میں پیدا ہوا اُس کو قائم رکھنا اور اُس میں زیادہ حُسن پیدا کرنے کی کوشش بھی تو محبت اور پیار کے نتیجہ میں ہی ہو سکتی ہے۔ بہرحال شریعت محمدیہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزارو اور ایک چھوٹا سا حکم یہ دیا گیا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ اس لئے اپنے اس ملک کی خیر خواہی کے لئے جو کچھ بن آتا ہے وہ کرو اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے یہ ہمارا ملک ہے جس کے لئے ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر بڑی قربانیاں دی ہیں اور اس مُلک کو ایک نہایت حسین لہلہاتے ثمر آور باغ میں تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش جماعت احمدیہ اور اس کا ہر فرد کرے گا‘ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گھروں میں آباد رکھے اور تمہارے گھروں میں وہ فضا پیدا کر دے جس کا ذکر اسلام میں جنت کے متعلق آیا ہے اور تمہارے گھر اس دنیا میں تمہارے لئے بھی اور تمہارے ساتھ تعلق رکھے والوں کے لئے بھی اور پاکستان کے ہر شریف الطبع شہری کے لئے بھی دنیوی محبتیں بن جائیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۳؍اگست ۱۹۷۴ء صفحہ۳)










ہمارے دکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں ہماری مسکراہٹیں
مسرتیں اور بشاشتیں نہیں چھین سکتے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
آج کل بعض دفعہ کام اکٹھے ہوجاتے ہیں اور آرام کا وقت جو خدائی قانون کے مطابق ضروری ہے وہ بھی نہیں ملتا۔ چنانچہ گذشتہ رات بھی میں نے ایک سیکنڈ کے لئے نیند نہیں لی۔ صبح کے وقت کچھ آرام کیا مگر اس سے بھی کوفت دُور نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں دس بارہ گھنٹے تک لگاتار بولنا پڑا۔ بہر حال جمعہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے الٰہی سلسلہ کے ذمہ دار امام اور اس کے درختِ وجود کی شاخوں کے درمیا ن ایک ملاپ کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہوتاہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جمعہ میں آجائوں اور اپنی سمجھ اور عقل اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور رحمت سے جو ضروری باتیں ہیں وہ دوستوں کے سامنے رکھوں۔ اسی فلسفہ یا اصول کے مطابق میں اس وقت یہاں آگیا ہوں اور جو آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے( اور جو پہلی دفعہ نہیں بتارہا)کہ ہماری خوشیاں اور مسرتیں اور ہماری مسکراہٹیں کسی ذاتی خُوبی یا ذاتی وجاہت یا ذاتی اثر ورسوخ یا ذاتی دولت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل نے مہدی معہود کی شناخت کی تو فیق عطافرمائی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحا نی فرزند کے طفیل ہمیں اسلام کا صحیح چہرہ نظر آیا۔ خداتعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں جو اسلام قائم کیا تھا مرور زمانہ کے ساتھ اس کے نقوش دُھندلے ہوتے رہے مگر زمانہ کی ہر صدی نے اسلام کی خاطر اللہ تعالیٰ کا یہ نشان دیکھا کہ ایسے بندے پیدا ہوتے رہے جو ان دھندلے نقوش کو روشن کرتے رہے اور بدعات کو اسلام سے نکالتے رہے۔
غرض اسلام کے ساتھ شروع ہی سے یہ دونوں باتیں لگی ہوئی ہیں۔ اسی کو حضرت امام ابو حنیفہؒ نے اپنی رویاء میں دیکھا۔ انہو ں نے رویاء میں یہ دیکھا کہ گویا انہوں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کو کھولا اور آپ کے جسد اطہر کو باہر نکالا اور آپ کی بعض ہڈیوں کو پسند کیا اور بعض کو ناپسند کیا۔ جنہیں ناپسند کیا انہیں پرے پھینک دیا اور جن کو پسند کیا ان سب کو پھر اسی روضہ میں دفنا دیا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ایک مخلص دل رکھتے تھے لیکن تعبیرالرؤیا اُن کی لائن نہ تھی۔ یہ اُن کا مضمون نہ تھا۔ اس لئے جب آنکھ کھلی تو سخت گھبرائے اور بڑے بے چین ہوگئے کہ میںنے کیا گناہ کیا۔ یہ تو میری ہلاکت کا سامان پیداہورہا ہے۔ میں نے یہ کیا خواب دیکھ لیا۔ اتفاقاََ ان کے گائوں میں ابن سیرین(جو ہمارے بڑے مشہور معبرّ ہیں اُن ) کے ایک شاگرد رہتے تھے ۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اُن کے پاس گئے اور بتایا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ میں تو ہلاک ہو رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اس کی تعبیر یہ ہے کہ سنت نبوی میں جو بدعات شامل ہوگئی ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں اُن کو باہر نکال پھینکنے کی توفیق عطا فرمائیگا اور خالص سنت نبوی کو امت مسلمہ میں رائج کرنے کی تمہیں توفیق ملے گی۔ اس سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ کشوف و رویاء پر امت مسلمہ اعتراض نہیں کرتی آئی، تعبیر کرتی آئی ہے وہاں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد میں بد عات کی ملونی ہوتی رہی تو ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نظام قائم کردیا کہ خداتعالیٰ کے پاک اور مقّدس رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام پیدا ہوتے رہے جن کے ذریعہ بدعات کو علیحدہ کردیا جاتا تھا اور خالص سنت نبوی اسلام کے روشن اور صحیح نقوش امت محمدیہ میں جاری رکھے جاتے تھے۔
ہمارے اس زمانہ کے متعلق بڑی پیشگوئیاں تھیں۔ اسے ضلالت کا زمانہ کہاگیاتھا۔ مہدی معہود کا یہی وہ زمانہ ہے جس میں شیطانی ظلمات کے ساتھ آخری اور شدید جنگ لڑی جائے گی۔ بدعات کی بھرمار ہوجائے گی۔ اسلام کو بدعات سے پاک کرنے کاکام مہدی معہود کے سپرد ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے جو معلم حقیقی ہے اس سے قرآن کریم کی تفسیر سیکھ کر اور سنت نبوی کے حالات معلوم کرکے دُنیا میں قرآن کی تعلیم کو رائج کرے گا اور سُنت رسول کی طرف نوعِ انسانی کو بلائے گا۔ صرف یہ خبر نہیں دی گئی تھی کہ وہ ایسا کرے گا بلکہ اس خبر کے ساتھ یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ وہ اپنی اس مہم میں اور اس جہاد میں کامیاب بھی ہوگااور اللہ تعالیٰ اسے ایسے نیک بندوں کی جماعت عطاکرے گا جو خدا کی راہ میں قربانیاں دیںگے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دلوں میں گاڑ نے کے لئے اور اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرنے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو انفرادی طور پر بھی انعامات دے گا لیکن ایسے شخص کا جو اصل انعام ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اسلام کا غلبہ دیکھ لے ۔ اُسے یہ انعام بھی ملے گا۔
پس ہمارے دُکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں، وہ ہماری مسکراہٹیں اور ہماری مسرتیں اور ہماری بشاشتیں ہم سے نہیں چھین سکتے۔ قضاء وقدر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آتی ہیں اور ابتلا آتے ہیں تو بسااوقات سوکھی ٹہنیاں کاٹ دی جاتی ہیں مگر جن درختوں کی ٹہنیاں ہری ہوتی ہیں ان پرایک نیا حُسن اور ایک نیا جوبن نظر آتا ہے ۔ جو لوگ درختوں کوغور سے دیکھنے والے ہیں کیا وہ دیکھتے نہیں کہ کس طرح آندھیاں درختوں کے نیچے سوکھی ہوئی ٹہنیاں بھی چھوڑ جاتی ہیں اور پھر جب بارشیں ہوتی ہیں تو درختوں کا بالکل رنگ ہی بدل جاتاہے۔ درختوں کا جو رنگ لُو کے زمانہ میں ہوتا ہے کیاتم نے برسات کے زمانہ میں کبھی وہ رنگ دیکھا ہے؟ دراصل لُو کا زمانہ اور آندھیوں کا زمانہ سُوکھی ٹہنیوں کے گرانے کا زمانہ ہے اور برسات کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں درختوں میں ایک نیاحُسن اورایک نیا جوبن پید کرنے کا زمانہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے جسے ہم ہر سال مشاہدہ کرتے ہیںدرخت ایک ایسی چیز ہے جس میں روح نہیں ہوتی مگر لُو کے زمانہ میں، طوفان کے زمانہ میں جب سوکھی ٹہنیاں ٹوٹ گئی ہوتی ہیں اس وقت بھی اس میں ایک حُسن اورخوبصورتی باقی رہتی ہے۔ گو برسات کی جو خوبصورتی اور حُسن ہے وہ مقابلۃً زیادہ ہے لیکن یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ درخت ٹند منڈ ہوجاتا ہے۔ طوفان اور خشکی کے زمانہ میں بھی پہلے پتوں میں جان ہوتی ہے ۔ اس کے اندرایک روح ہوتی ہے۔اس میں اس وقت بھی جب اُسے تھوڑا ساموقع ملے تو وہ نئے پتے نکالتا ہے اس کے اوپر نیا سبزہ آتاہے۔ ٹھیک ہے پھر طوفان جب درخت کی خشک ٹہنیاں توڑ کرنیچے پھینک دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بادل اس پر اپنی بارش برساتے ہیں تو اس کا رنگ بدل جاتاہے ۔
پس ہماری جو خوشیاں اور بشاشتیں ہیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ ہم اپنی ماں کے پیٹ سے بہت سی خوبیاں لے کر پیدا ہوئے تھے بلکہ ہماری مسکراہٹیں اس بات کی مرہنون منت تھیںکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ تم خوش ہوجائو کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے۔ اسلام کے بہار کے دن آگئے۔اسلام پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے بادلوں کے برسنے کے دن آگئے ۔چنانچہ اب وہ زمانہ آگیا جب ساری دنیا پر اسلام غالب ہوگا مگر ان لوگوں کو جو خود کو مہدی معہود کی طرف منسوب کرتے ہیں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کیلئے انہیں قُربانیاں دینی پڑیں گی اس مادی دُنیا میں آسمانوں سے فرشتے نازل ہوکر خداتعالیٰ کے دین کی خدمت نہیں کیا کرتے ۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بزرگ وجود جس کا ثانی نہ دنیا میں کبھی پیدا ہوا اورنہ ہوگا اُ ن سے بھی جب کفار مکہ نے کہا کہ اے محمدؐ ! اگر تم سچے ہو تو تمہاری مدد کیلئے آسمان سے فرشتے نازل کیوں نہیں ہوتے؟ آپ نے فرمایافرشتے نازل تو ہوں گے لیکن اُنہیں تمہاری آنکھ نہیں دیکھ سکے گی۔ تمہاری آنکھ تو صرف ان مادی ، ٹوٹی ہوئی نکمی اوربالکل بے بھروسہ تلواروں کو دیکھے گی لیکن تمہاری آنکھ جو نتیجہ دیکھے گی اُس کے لئے تمہیں ماننا پڑے گاکہ وہ فرشتوں کے دخل کے بغیر ممکن نہ تھا۔
پس ہم اپنی قضاء وقدر کے ابتلاء کے نتیجہ میں یا مصیبتوں کے اوقات میں مایوس کیسے ہوسکتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے زور سے اپنی طاقت سے اسلام کو غالب کرنا تھا یا اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس زمانہ میں ایسا کروں گا۔ پس گو وعدہ تواللہ تعالیٰ کاہے لیکن وہ ہم سے قربانیاں ضرور لے گا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک اُس کی یہی سنت چلی آرہی ہے۔ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں جو انبیاء آئے ہیں وہ گنے تو کسی نے نہیں تعداد میں فرق ہے لیکن کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں۔ تم کوئی ایک پیغمبر بتائو جس کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں نے قربانی نہ دی ہو۔ گالیاں نہ کھائی ہوں مصیبتیں نہ جھیلی ہوںاور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو نہ بھیجاہو اور اُن کو کامیاب نہ کیا ہو۔ ہرایک نبی کے ماننے والوں نے اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کے مطابق اور اپنے کام کی وسعت کے مطابق قربانی دی ہے۔ جو نبی ایک چھوٹے سے شہر میں آیا اس کے لئے چند آدمیوں نے قربانی دی۔ جو نبی ایک خاص علاقے کے لئے آیا اس علاقے نے اس کے لئے قربانیاں دیں۔ جو نبی ایک خاص قوم کی اصلاح کیلئے آیا۔ اُس قوم نے اس کیلئے قُربانیاں دیں بغیر قربانیاں دئیے اُن کو خداتعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں نہیں ملیں مگر وہ رحمۃللعالمین ہوکر بنی نوع انسان کی طرف آیا، نوع انسانی اس کیلئے اس وقت تک قُربانیاں دیتی چلی آرہی ہے اس لئے تمہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی اور مجھے بھی قُربانیاں دینی پڑیں گی اور بشاشت کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے قربانیاں دینی پڑیں گی ۔ ہم نے اسلامی تاریخ میں یہ کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ مصیبت کے دنوںمیں رویا نہیں کرتے تھے اورنہ ہی ہماری تاریخ نے یہ ریکارڈ کیاہے کہ جس وقت اندرونی حملوں کی وجہ سے حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام مالک ؒ جیسے بزرگ انفرادی طور پر بڑے سخت ابتلاء اور امتحان میں ڈالے گئے تو اس وقت اُن کے چہرے پژ مردہ ہوگئے ہوں۔ جو شخص ایک بار اللہ تعالیٰ کے حُسن کو دیکھ لیتا ہے وہ تو اس میں مست ہوجاتا ہے۔ زمانہ کی تکلیفوں کی وجہ سے اس کے چہرے پر پژمردگی کے آثار نمودار نہیں ہوا کرتے ۔ چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہوا ۔ میں نے ایک جگہ دو بچے بھجوائے تھے۔ راستے میں سات میل تک لوگ ان کو مارتے چلے گئے اور وہ ہنستے چلے گئے ۔ ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ جب ہم اُن کے مکے اور چپڑیںکھاکر بھی مسکراتے تھے تو اُن کو اور غصہ چڑھتا تھاکہ پتہ نہیں یہ کیا قوم ہے۔ ہم یہی قوم ہیں۔ ہم خدا کی راہ میں تکلیفیں بھی اُٹھائیں گے اور دنیا ہمیں مسکراتے ہوئے اور قہقہے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گی۔ جس وقت ہم پر زیادہ مصائب نازل ہوں گے اُس وقت زیادہ قہقہے لگیں گے کیونکہ ہماری خوشی اور مسرّت کا منبع وہ بشاشتیں ہیں جن کا ہماری ذات سے تعلق نہیں ہے۔ ان کا تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کو نوع انسانی کے دل میں بٹھانے سے ہے اور اس میں کامیاب ہونے سے ہے۔ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہورہی ہے۔ اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کرکے بے دل نہیں ہونا چاہیے کہ اب کیا کریں۔ یقینا سمجھوکہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جُوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیساکہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلاچکا ہے۔یہ پیشگوئی یا درکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زورآور حملے کریں۔ کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کاراُن کے لئے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طورپر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتاہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کردیگا۔ اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی۔ تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الٰہی طاقت ایسا ضعیف کرکے کالعدم کردیوے گا۔‘‘
(آئنہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۵۴،۲۵۵حاشیہ)
پس چونکہ ہمیں اس قسم کی بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں اس لئے ہم خوش ہیں اور خداتعالیٰ سچے وعدوں والا ہے اور اس کے وعدے پورے ہوتے ہیں لیکن جو مقام خوف ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دُنیا میں اسلام کوغالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ نوع انسانی کے دل اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے کامیابی کے ساتھ جیت لینے کا وعدہ دیا ہے لیکن یہ وعدہ مجھے اور آپ کو نہیں دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا وعدہ پورا ہوگا لیکن اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نباہوگے تو میں ایک اورقوم لے آئوں گا۔ایک اور نسل پیدا ہوگی جو قربانیاں دینے والی اور ذمہ داریوں کے نباہنے والی ہوگی اور اس کے وجودمیں میری بشارتیں پوری ہوں گی اور وہی قوم یا نسل اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی رحمتوں کوحاصل کرنے والی ہوگی۔ اس لئے تم دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ نے جن عظیم رحمتوں اورفضلوں کا وعدہ فرمایا ہے وہ ہم پر نازل ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان رحمتوں اورفضلوں کی عظمت کو یہ کہہ کر بیان فرمایا ہے
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
صحابہ رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کو دیکھو وہ کون سی نعمت تھی جو اُن کو نہیں ملی تھی او ر وہ کون سی رحمت تھی جو اُن پر نازل نہیں ہوئی تھی اور وہ کون سافضل تھا جو اُن کے شامل حال نہ ہوا تھا۔جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی خداتعالیٰ کی رحمتوں اورفضلوں کا وعدہ ہے۔ مگریہ صحابہ ؓ کی طرح قربانیاں دینے کے بعد ہی پورا ہوگا، پہلے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)










انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲؍اگست ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۂ فاتحہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(الفاتحہ:۵،۶)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
سورۂ فاتحہ میں ایک حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور بندہ اپنے ربّ کا عبد اُسی وقت بنتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اُس پر چڑھ جائے اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہو جائے اور چونکہ انسان اپنی طاقت یا اپنے کسی حیلہ یا تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں خود کو رنگین نہیں کر سکتا اس لئے سورۂ فاتحہ میں ہمیں یہ دُعا سکھلائی۔ اِس میں دُعا کا پہلو ہے اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی، جو تمام عیوب اور نقائص سے منزہ ہے اور تمام صفاتِ حَسنہ کا جامع ہے، اُس کی صفات کی معرفت حاصل کرو گے تو اس کی عظمت اور جلال تم پر ظاہر ہو گا اور جب اُس کی عظمت اور جلال اور اُس کی صفات کی عظمت اور جلال کا عرفان تمہیں حاصل ہو گا تو صرف اُس صورت میں ہی تم اُس کی صفات کی پیروی کر سکتے ہو اور اُس کی عظمت اور جلال کا جلوہ انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ وہ فی ذاتہٖ کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں رکھتا اور ریاکاری جو تمام نیکیوں کو کھا جانے والا گُناہ ہے اُس سے انسان اُس عظمت کے جلوہ کے نتیجہ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری بدی جو اِس سعادت عظمیٰ سے انسان کو محروم رکھتی ہے اور وہ بہت بڑی بدی ہے بلکہ تمام بدیوں کی بسا اوقات وہی جڑ اور موجب بن جاتی ہے۔ وہ بدی تکبر کی بدی ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ میں وہ طاقت، وہ قوت وہ استعداد ہے کہ میں اپنی قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں کے نتیجہ میں کچھ بن سکتا ہوں لیکن کی دُعا تکبر کی جڑ کو کاٹنے والی ہے اس طرح پر کہ ہمیں اُن نعمتوں اور اُن احسانوں کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے ہم پر کئے۔ اس کی رحمانیت کے جلوے جو بغیر استحقاق کے ذِی ارواح پر نازل ہوتے ہیں اُن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب تک وہ نعمتیں ہمارے کسی عمل کے بغیر ہمیں حاصل نہ ہوتیں ہم کسی قسم کی ذاتی کوشش اور جدوجہد کرنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ مثلاً رحمانیت نے انسان کے لئے روشنی اور اندھیرے کا انتظام کیا ہے۔ ایک نظام بنایا ہے اِس دُنیا میں جہاں انسان کی قوتیں اپنی جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں اور جہاں ہماری قوتیں تھک کر رات کے اندھیروں میں سکون کی تلاش کرتی ہیں اور کوفت کو دور کرکے وہ آرام کی حالت اپنی طاقت کو ازسر نو زیادہ سے زیادہ کوشش کے لئے تیار کر دیتی ہے۔ بادلوں کا برسنا، زمین کی یہ ساری قوتیں جو ہماری جسمانی غذا کا سامان پیدا کرتی ہیں اور ہماری بیماریوں کے علاج کے لئے مختلف جڑی بوٹیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ چیزیں انسان کی پیدائش سے پہلے یہاں تھیں۔ کوئی احمق کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میں نے نیکیاں کیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورج بنایا اور آسمان بنایا اور یہ پانی بنایا اور یہ زمین بنائی۔ تم تو تھے ہی نہیں جب یہ سب کچھ بنایا گیا۔ اس لئےُ کی دُعا اور یہ دُعائیہ فقرہ ہمیں یہ دُعا سکھلانے والا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے یہ رحمانیّت کے مقابلہ پر رکھا گیا ہے اور رحمانیّت کے جلووں کا احساس اور اُن کا عرفان اور اُن کی معرفت انسان کو اِس حقیقت سے آشناکرتی ہے کہ وہ خود اپنی کوشش اور اپنی جدوجہد سے کچھ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جن چیزوں پر اُس کی کوشش کی بنیاد ہے وہ اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر دی گئی تھیں۔ پس جو نعمتیں اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر دی گئیں اور جن کے بغیر اُس کی کوئی کوشش ممکن ہی نہیں۔ جب یہ معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اُس کے اندر تکبر کا کوئی سوراخ باقی نہیں رہتا جو اُس کے وجود کے اندر، جو اُس کی شخصیت کے اندر داخل ہو اوراُس کی تمام نیکیوں کو تمام نیکی کی کوششوں کو جڑسے اکھیڑ دے۔ پس ریا سے انسان کو بچاتا ہے اور تکبّر سے انسان کو بچاتا لیکن تیسری چیز جو کہ انسان کی روحانی رفعتوں کے لئے ضروری وہ اس معرفت کے علاوہ ایک اور چیز ہے۔ ہمیں یہ معرفت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف ہے اور کوئی نقص اور کمی اُس میں نہیں ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں یہ بتایا ہے خصوصاً سورۂ فاتحہ میں اس پر روشنی ڈالی کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور تخلّق باخلاق اللّٰہ ہو اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہونے کی کوشش کرے اور اس عرفان کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں جو انسان کو یہ بتاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں اُس کے پاس کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان (show)شو کر سکے اور جس پر بنیاد رکھ کر ریاکاری کر سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُس پر اپنی رحمانیّت کے جلوے ظاہر کئے اور رحمانیّت کے جلووں نے اُس کویہ بتایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار، بے حدوحساب ایسی نعمتیں ملی ہیں جن میں تیرے عمل کاکوئی دخل نہیں ہے۔ تیری پیدائش سے بھی پہلے وہ نعمتیں تیرے لئے پیدا کر دی گئیں اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ ان کے بغیر تیری قوتیں اور تیری استعدادیں جو خود خداداد ہیں وہ اپنا کام نہیں کر سکتی تھیں تو تیری ہر حرکت خداتعالیٰ کی صفتِ رحمانیّت کی محتاج ہے۔ تو تکبّر کِس بات پر؟ انسان ایک انگلی نہیں ہلا سکتا اگر رحمانیّت کا جلوہ اس سے قبل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ یہی ظاہر کرنے کے لئے بہت سے بچوں کو پیدائش کے وقت اپنی رحمانیّت کے جلووں سے محروم کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ بڑا تندرست، بڑا خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے اور ہوا جو رحمانیّت کا جلوہ ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے اُس کے لئے بنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو کہتا ہے کہ تو اِس پروہ اثر نہ کر جو عام انسانوں پر تو کرتی ہے۔ وہ سانس نہیں لے سکتا۔ ہمارے ہی گھر میں، میری بڑی بیٹی کے ہاں پہلا بچہ جب پیدا ہوا تو اُس نے سانس نہیں لیا اور اتنا خوبصورت اور اتنا تندرست اور خوب موٹا تازہ بچہ میں نے اپنی ساری عمر میں کبھی نہیں دیکھا۔ خدا کی شان تھی کہ عین اُس وقت جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے اِس دُنیا میں آیا تو رحمانیّت کے جلوے اُس بچے کے لئے بند کر دئیے گئے اور یہ میری اُس بچی کو اور دوسری کو سبق دینے کے لئے ہوا کہ جب تک تمہارے عمل سے پہلے کی نعمتیں نہ ملیں اُس وقت تک تمہارا اپنا کام شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ سانس ہم اپنی ماں کے پیٹ سے تو لے کر نہیں آتے۔ پھر پانی ہے۔ غذائیں ہیں۔ آب وہوا ہے۔ گرمی اور سردی کا ایک متوازن نظام ہے جسے زمین میں مختلف شکلوں میں خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اِس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جا سکتا وہ بڑی عجیب مختلف مؤثرات اور تاثیریں ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کے جسم اور اس کے اخلاق بنتے ہیں۔ بہرحالکی دُعا کو ٹھیک طرح سمجھ لینا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا یہ چیز تکبّر کو بالکل مٹا دیتی ہے کیونکہ انسان کو پتہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ کسی میدان میں بھی میری کوئی حرکت آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک اس حرکت سے پہلے خداتعالیٰ کی رحمانیّت کے جلوے موجود نہ ہوں لیکن خداتعالیٰ کی عظمت وجلال بھی ہو اور رحمانیّت کی صفت کو بھی انسان پہچانے تو پھر بھی خود اپنے لئے اپنی کوشش سے راہِ راست اور صراطِ مستقیم تلاش نہیں کر سکتا۔ اس میں بھی اُسے خداتعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ جس کے بغیر وہ راہِ راست پر چل نہیں سکتا۔ راستہ پر تو وہ چلنا شروع کر دے گالیکن وہ صرف ’’صراط‘‘ ہو گا صِراط الْمُسْتَقِیْمْ نہیں ہو گا۔ راستہ پر اس لئے چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس پر ظاہر ہوئے اور صفتِ رحمانیّت کے جلوے ظاہر ہوئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کا تعلق رحیمیّت سے ہے اور نیکوں کی کوششوں کو نقص سے پاک کرنا اور اچھے نتائج نکالنا یہ رحیمیّت کا کام ہے۔انسان خواہ کتنا ہی جہاد خدا کی راہ میں کر رہا ہو اور محاسبۂ نفس کر رہا ہو اس کے اعمال میں تھوڑا یا بہت نقص رہ جاتا ہے اور عام قانون یہ ہے کہ تھوڑا یا بہت نقص رہ جائے تو انسان منزلِ مقصود تک پہنچ نہیں سکتا مثلاً ایک موٹی مثال میں اِس وقت دیتا ہوں جسے بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ ایک شخص نے سو قدم چل کر وہاں پہنچنا ہے جہاں اُس کا مقصود اُسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر وہ ننانوے قدم چلے اور سواں قدم نہ چلے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ تو صرف ایک قدم کی کمی ہے ننانوے قدم اُس نے اُٹھائے ہیں لیکن ایک قدم نہیں اُٹھا سکا اس لئے وہ اپنے مقصود کو نہیں پاسکتا۔ پس ہر انسان کی کوشش اور عملِ صالح میں کوئی نہ کوئی کمی اور غفلت رہ جاتی ہے۔ اِس وقت رحیمیّت آتی ہے اور انسان کی انگلی پکڑتی ہے اور کہتی ہے جو قدم تو نے نہیں اُٹھایا وہ میں تمہیں اُٹھا دیتا ہوں اور اُس کے عملِ صالح کی کفیل ہو جاتی ہے۔
میں یہی دُعا سکھائی ہے کہ وہ سیدھا راستہ ہمیں دکھا جو منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ سارے قدم اور ساری کوششیں انتہا تک پہنچانے والی ہمیں نصیب ہوں۔اس کے بغیر تو کوئی دو قدم سیدھا چل کر، کوئی بیس قدم سیدھا چل کر، شاید کوئی ننانوے قدم سیدھا چل کر بھی اپنے عمل کے نتیجہ سے محروم ہو جاتا ہے پس یہاں بتائی گئی تین دعاؤں کے نتیجہ میں انسان کو ایک طرف ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے محفوظ رکھنے کا سامان پیدا کیا گیا جو اس کی کوششوں کو بے نتیجہ اور بغیر ثمر کے بنا دیتی ہیں اور دوسری طرف خداتعالیٰ کی انگلی پکڑ کر انتہائی کامیابی تک پہنچانے کے میں سامان پیدا کر دئیے۔ یہ مضمون بیان کرنے کے بعد آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ تفصیل اور فروعی ذمہ داریوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ وہ چند ہدایات میں پڑھ دیتا ہوں۔ یہ ان باتوں کا ایک قسم کا خلاصہ ہے جو باتیں میں نے بیان کی ہیں۔
’’اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کسی بندہ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اُس وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ سے توفیق پانے کے بغیر عبادت کا حق ادا کرے اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے(میں نے بتایا تھا کہ آپ نے یہاں عبادت کی فروع بتائی ہیں) کہ تم اُس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگذر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو اور تم بُری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلاتکلف اور تصنّع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دُکھ نہ دو اور نہ کسی بات سے اس(کے دل) کو زخمی کرو بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مر جاؤ اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی (ملنے کے لئے) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو‘‘۔ (اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلدنمبر۱۸ صفحہ۱۶۸،۱۶۹)
پس میں نے مختصراً ہی تین اصولی باتیں بیان کی تھیں۔ ایک یہ کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر آن یہ کوشش کرتے رہیں کہ تخلق باخلاق اللّٰہ کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ سے ہمارا وجود رنگین ہو اور ریاکاری ہماری زندگی میں داخل نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اُن رحمانیّت کے جلووں سے ہمیں نوازے جن کی ہمیں ذاتی جدوجہد کے لئے ضرورت ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اُسی کی عطا کردہ قوّتوں اور استعدادوں کو اُس کے قُرب اور اُس کی رضا کے حصول پر لگائیں تو وہ خود ہماری رہنمائی کرے اور ہمیں صراطِ مستقیم دکھائے اور اُس پر چلنے کی اور انتہا تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اُس کی فروع وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند سطروں میں آئیں ہیں اور میں نے بیان کی ہیں۔ پس دُعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندے بنائے اور وہ تمام نعمتیں ہمیں حاصل ہوں جو اُس کے نیک بندوں کے لئے مقدر ہیں۔
(آخر میں حضور نے اپنی صحت کے متعلق دُعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:)
گرمی بہت بڑھ گئی ہے اور وہ مجھے بیمار کر دیتی ہے۔ اس کا مجھ پر اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے آپ بھی دُعا سے میری مدد کریں۔‘‘ (از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)
ابتلاء کے زمانہ اور سخت گھڑیوں
میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍اگست ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ۔غیر مطبوعہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
یہ ابتلاؤں کا زمانہ، دعاؤں کا زمانہ ہے اور سخت گھڑیوںہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کا لُطف آتا ہے۔ ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی، مردوزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا جو منصوبہ بنایا ہے اُسے دُنیا کی کوئی طاقت ناکام نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں ناکام نہیں کیا کرتیں۔ پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاء اللہ پورا ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوعِ انسانی کے دل جماعت احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فتح کئے جائیں گے اور نوعِ انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رب کریم کے قدموں میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ بشارتیں اور یہ خوشخبریاں تو انشاء اللہ پوری ہو کر رہیں گی۔ ایک ذرہ بھر بھی ان میں شک نہیں البتہ جس چیز میں شک کیا جا سکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ڈر پیدا ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہیں اپنی بساط کے مطابق وہ ذمہ داریاں ادا کی جا رہی ہیں یا نہیں؟
پس جماعت اپنے کام میں لگی رہے یعنی تدبیر کے ساتھ اور دُعاؤں کے ساتھ غلبہ اسلام کے جہاد میں خود کو مصروف رکھے اور خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتی چلی جائے۔ وہ خدا جو ساری قدرتوں کا مالک اور جو اپنے امر پر غالب ہے۔ اُس نے جو کہا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہماری کوششوں کو مقبولیت حاصل ہو اور غلبہ اسلام کے وعدے پورے ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔
اس زمانہ میں بالخصوص ان ایام میں دُعاؤں پر بہت زوردینا چاہئے۔میں نے اجتماعی دُعا کی ایک تحریک کی تھی لیکن مختلف اطراف سے ملنے والی خبروں سے پتہ لگا ہے کہ بعض جگہ وہ ایک خشک بدعت کا رنگ اختیا کر گئی ہے۔
اس لئے میں آج سے اس طریق کو بند کرتا ہوں۔ اب نماز مغرب اور فجر کے بعد اجتماعی دُعائیں نہیں ہوں گی۔ مسجد مبارک میں تو میں نے مغرب کی نماز کے بعد ہدایت کر دی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات وہیں تک محدود رہی۔ دراصل اس قسم کی اجتماعی دُعا سے قبل حالات پر روشنی ڈالنی چاہئے۔ حالات کی نزاکت سے احباب جماعت کو آگاہ کرنا چاہئے اور وہ بشارتیں بھی بتانی چاہئیں جو جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے دی گئی ہیں۔ اس کے بعد اجتماعی دُعا ہونی چاہئے۔ سلام پھیر کر یہ کہہ دینا کہ آؤ دُعا کر لیں یہ تو خشک دعا ہے اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بہتوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ دُعا کس رنگ میں کرنی چاہئے۔ یہ سمجھ بو جھ رکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں کہ اس طرح دُعا کرنی چاہئے لیکن چونکہ دوستوں کو اس کا طریق نہیں بتایا گیا اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں۔ باقی رہا دُعا کرنا، وہ تو ظاہر ہے کہ ہم اب بھی کریں گے کیونکہ دُعا کے بغیر ہماری زندگی نہیں۔ ہم دُعائیں کریں گے اور بہت دُعائیں کریں گے لیکن مغرب اور فجر کی نماز کے بعد اجتماعی دُعا کی جو ہدایت کی گئی تھی اور اس کے مطابق جو دُعا ہوتی رہی ہے وہ میرے نزدیک خشک ہو چکی ہے اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں لیکن چونکہ دُعا کے بغیر ایک احمدی کو زندگی میں کوئی لطف ہی نہیں ہے اس لئے احباب جماعت کومیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دُعائیں کریں اور بہت دُعائیں کریں۔ انفرادی طور پر دُعائیں کریں غلبہ اسلام کے لئے، انفرادی طور پر دُعائیں کریں ملک کی بہبود کے لئے۔ اس وقت ہمارے ملک کو بھی ہماری دُعاؤں کی ضرورت ہے۔ احباب اس طرح دعائیں کریں کہ جب ان کی انفرادی دُعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچیں تو ساری اکٹھی ہو کر اجتماعی دُعا بن جائیں اور خدا کرے کہ وہ قبول ہوں ا ور اس کے نتیجہ میں ہماری زندگی کا مقصد اور ہماری جماعت کی غرض پوری ہو یعنی اس زمانہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوں جو اس زمانہ کے متعلق کی گئی تھیں اور وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ جو اسلام کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کر رہے اور جو اپنے خدا کو نہیں پہچانتے اور جو اپنے خدا سے دُور ہو چکے ہیں اور خداتعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں اور اس کی محبت سے لاپرواہ ہو گئے ہیں۔ ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سلام کی نعمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فیوض سے حصہ عطا فرمائے گا مثلاً کمیونسٹ ممالک ہیں۔ اُنہوں نے نعرہ یہ لگایا کہ وہ زمین سے خداتعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے خداتعالیٰ کے وجود کو مٹا دیں گے لیکن جس وجود کو آسمانوں سے مٹانے کا وہ نعرہ لگا رہے ہیں، آسمانوں سے اُسی وجود نے ہمیں بتایا ہے کہ ریت کے ذرّوں کی طرح وہاں مسلمان نظر آئیں گے۔
پس یہ دونوں باتیںایکسٹریم Exteme) (پر دلالت کرتی ہیں۔ ایک وہ جو اس منہ سے نکلی جس کو اس وقت دُنیوی طاقت حاصل ہے اور ایک وہ جو اس منبع سے نکلی جسے حقیقی طاقت حاصل ہے اور حکم اُسی کے پورے ہوا کرتے ہیں۔ جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے انسان نے اسی کے حکم پورے ہوتے دیکھے ہیں۔ہر مخلوق نے یہی دیکھا کہ حکم اسی کا چلتا ہے۔ پس جس ہستی کا دُنیا میں حکم چلتا ہے وہی کہتا ہے کہ میرے وجود کو آسمانوں سے مٹانے والے میرے وجود کی معرفت حاصل کریں گے اور تب اُن کے دل میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاانتہائی پیار پیدا ہو گا اور وہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے کہ اس پاک وجود کے ذریعہ انہوں نے اپنے رب کریم کو پایا جو تمام قدرتوں کا سرچشمہ اور تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ اس کی بنائی ہوئی مخلوق میں مرضی اسی کی چلتی ہے کسی اور کی نہیں چلتی۔ اس لئے تم زمین والوں کو بولنے دو۔ ہو گا وہی جو آسمانوں نے فیصلہ کیا۔ ہو گا وہی جو ہمارے رب کریم نے ہمیں بتایا ہے۔ کتنی زبردست پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہو رہی ہیں۔ اتنی زبردست پیشگوئیاں ہیں کہ اگر ہم نے یہ سوچا ہوتا کہ اپنی طاقت یا اپنی کوشش یا اپنی دولت یا اپنے علم یا اپنے زور کے ساتھ ان پیشگوئیوں کو پورا کر لیں گے تو لوگ ہمیں پاگل کہتے اور وہ ہمیں پاگل کہنے میں حق بجانب ہوتے لیکن ہمارے رب کریم نے جو کچھ کہا اُسے سچا کر دکھایا۔ ہم نے تھوڑی سی طاقت خرچ کی اور ذرہ سا زور لگایا مگر اس کا نتیجہ خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اتنا زبردست نکال دیا کہ انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے۔ ہم ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور دُعائیں کرتے رہتے ہیں مگر ہمیں تو کوئی جوڑ، کوئی تعلق اپنی کوشش اور اس کا جو نتیجہ نکلا ہے اس میں نظر نہیں آتا۔
میں پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ یورپ کے ممالک ہیں امریکہ ہے، جزائر ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ علاقے ہیں جہاں لوگوں نے اسلامی تعلیم کا ایک دھندلا سا خاکہ بھی نہیں پایا۔ مخالفین اسلام نے اُن کے کان میں جو باتیں ڈالیںوہ جھوٹ اور افتراء تھا۔ یورپ میں اگرچہ نوجوان نسل عیسائیت کو چھوڑ چکی ہے لیکن اُن کے اذہان اُن افتراؤں سے پاک نہیں ہوئے جو عیسائیوں نے اسلام کے خلاف باندھے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطہر ذات بابرکات پر تہمتیں لگائی تھیں۔ یہ افتراء اور یہ ناپاک الزامات ابھی تک اُن کے دماغ میں ’’رڑک‘‘ رہے ہیں۔
جب میں پچھلے سال مختصر سے دورے پر یورپ گیا تو دو جگہ مجھے یہ طعنہ ملا کہ آپ اسلام کی اتنی حسین تعلیم پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ تو بتائیں کہ ہمارے ملک کے عوام تک آپ نے اس کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ طعنہ دینے والا عیسائی تھا یا دہریہ یہ تو میں نے نہیں پوچھالیکن جہاں تک اس طعنے کا تعلق ہے یہ اتنا زبردست طعنہ تھا کہ اس نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ میںنے اپنے مبلغین سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا جماعت احمدیہ ایک غریب جماعت ہے جتنی طاقت ہے اس کے مطابق کام کی ابتداء کر دیتے ہیں۔ میں نے مبلغین سے کہا کہ تم یہ اندازے لگاؤ کہ اگر تمہارے ملک کے ہر گھر میں ایک خط پہنچانا ہو جس میں صرف یہ لکھا ہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والا جس مہدی کا دُنیا انتظار کر رہی تھی وہ مہدی آگئے۔ جماعت احمدیہ اُن کی جماعت ہے او رمہدی یہ بشارتیں لے کر آئے ہیں کہ دُنیا میں انسانی شرف قائم کیا جائے گا اور انسانی دکھوں کو دور کیا جائے گا۔ غرض میں نے مبلغین سے کہا کہ اس قسم کا ایک مختصر سا مضمون لکھیں جو ایک خط پر مشتمل ہو اور اسے ہر گھر میں پہنچا دیں تاکہ کم از کم ہر گھر کے مکینوں کے کان میں یہ آواز پڑ جائے کہ مہدی آگئے۔ چنانچہ جب اس کام پر خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ لگوایا گیا تو ایک چھوٹے سے ملک کا اندازہ سولہ لاکھ روپے تھا یعنی صرف ایک ملک کے ہر گھر تک یہ پیغام پہنچانے پر سولہ لاکھ روپے درکار تھے۔ ایک اور ملک کے مبلغ نے کہا کہ پندرہ بیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ پھر جب مجموعی اندازہ لگا لیا گیا تو معلوم ہوا کہ صرف اس قسم کے ایک خط کو دُنیا کے ہر گھر تک پہنچانے پر کئی ارب روپے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کافی نہیں۔ پھر کچھ اور سوچا کیونکہ انسان اپنی طرف سے اپنی عقل وسمجھ کے مطابق تدبیر کرتا ہے چنانچہ کچھ اور تدبیریں ذہن میں آئیں اور پھر ہمارے ملک میں یہ حالات پیدا ہو گئے۔ ہمیں نہیں پتہ اور میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ مجھے نہیں علم کہ کن فرشتوں نے کہاں کہاں جا کر تاریں کھینچیں کہ دُنیا کے ہر انسان نے بلکہ بعض دفعہ دن میں چار چار دفعہ مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا نام سنا۔ چند ارب روپے ایک خط پہنچانے پر خرچ ہوتے تھے مگر خدا نے ایسا سامان کر دیا کہ ایک دن میں چار چار پانچ پانچ بلکہ دس دس دفعہ مہدی علیہ السلام، اسلام اور جماعت احمدیہ کا نام لوگوں کے کانوں میں پڑا۔ اخبارات روزانہ لکھ رہے تھے۔ ہمارے ہاں رواج نہیں لیکن بہت سے ملکوں میں اخبارات کے قد آدم پوسٹر چھپتے ہیں۔
ایک دوست جو چند دن کے لئے باہر گئے ہوئے تھے وہ جن جن ممالک میں گئے وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ ہر صبح اخبارات کے پوسٹر پر جماعت احمدیہ کا ذکر ہوتا تھا۔ جب ہم ان دکھوں کو دیکھتے ہیں اور اُن تکالیف پر نظر ڈالتے ہیں جن میں سے اس وقت جماعت گزری ہے تو ہمیں دُکھ ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں مگر حقیقی احساس درد جس دل میں پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائی کا شریک بن جاتا ہے۔ اسی لئے جب یہ حالات رونما ہوئے تو ساری جماعت ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو گئی لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اتنی سی قربانی لے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اربوں نہیں کھربوں روپے کا کام کر دیا تو میرا سر اس کے آستانے پر جھک گیا اور میں نے کہا اے میرے رب کریم! تیری نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جیسا کہ تو نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے، انسان کی یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کو گِن سکے۔ اس لئے جن نعمتوں کو انسان گن بھی نہیں سکتا اُن کا شکر کیسے ادا کرے گا۔ پس اے خدا! تیری جتنی بھی نعمتیں ہیں، اُن پر ہماری طرف سے شکریہ قبول کر۔ ہمیںا تنی زیادہ طاقت نہیں ہے کہ تیری نعمتوں کا، تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو ہم شمار میں بھی لا سکیں۔
ہمارے ملک کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت نہایت شریف ہے۔ وہ کسی کو دُکھ پہنچانے کے لئے تیار نہیں لیکن ملک ملک کی عادتیں ہوتی ہیں۔ کس جگہ شریف آدمی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور کسی جگہ شریف آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہوں۔ جن لوگوں نے یہاں تکلیف کے سامان کئے ہیں وہ دو چار ہزار یا پانچ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دُعا ہے کہ اُن کو بھی ہدایت نصیب ہو۔ ہمارے دل میں تو کسی کی دشمنی نہیں ہے لیکن آج ملک کو بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس لئے احباب جماعت جہاں غلبہ اسلام کے لئے دُعائیں کریں وہاں پاکستان جو ہمارا پیارا اور محبوب ملک ہے۔ اپنے اس وطن کے لئے بھی بہت دُعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ! تو اپنے فضل سے پاکستان کو اُن تمام باتوں سے محفوظ رکھ جو اس کو کمزور کرنے والی ہیں یا جو اس کے استحکام میں روک بننے والی ہیں اور ہمیں وہ دن نصیب ہو کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیںکہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو اور وہ حقوقِ انسانی جو اسلام نے قائم کئے ہیں وہ اس ملک میںبسنے والے انسانوں کو ملنے لگ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
پس وہ اجتماعی دعا جس کا اعلان کیا گیا تھا وہ تو آج سے بند کی جاتی ہے مگر اس کے بدلہ میں انفرادی دعاؤں پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دیں اور پہلے سے بھی زیادہ تضرع کے ساتھ اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور پہلے سے بھی زیادہ چوکس ہو کر اور خداتعالیٰ کی طاقتوں کی معرفت رکھتے ہوئے اور اُن کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے یہ دعا کریں کہ
اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ
(درثمین صفحہ ۱۵)
خدا کرے ایسا ہی ہو۔
(از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ)
احمدیوں کا فرض ہے کہ نفسانی جذبات کو فنا کردیں
اور اپنے آپ کو طیش میں نہ آنے دیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍ستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے دنوں مجھے دورانِ سر کی شدید شکایت رہی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اب کافی آرام ہے کچھ تھوڑا سابقایا اس کا رہ گیا ہے دعا کریں اللہ تعالیٰ بقیہ تکلیف کو بھی دورکرے۔
ہمارا کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اپنے اندربڑے عمیق اوروسیع معانی رکھتا ہے اورسچ تویہ ہے کہ خلقِ عالمین کامنبع اورسرچشمہ بھی یہی ہے۔ اس کے دو۲ اجزاء ہیں پہلا جزولَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ جس کے معانی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بتا کر کہ محاورۂ عرب اور لغتِ عربی کوسامنے رکھیں تو اس کے جومعنی ہمیں معلوم ہوتے ہیں وہ چار ہیں۔ ایکؔ یہ کہ سوائے اللہ کے اورکوئی انسان کا مطلوب نہیں۔ دوسرےؔ یہ کہ بجزاللہ کے کوئی اورہمارا محبوب نہیں اور تیسرےؔ یہ کہ اللہ کے سوا ہمارا کوئی اورمعبود نہیں اورچوتھےؔ یہ کہ اللہ کے سوا ہمارا کوئی مطاع نہیں ہے۔
مطاع کے معنوں کو اگر ہم ذہن میں رکھیںتودوسرا جزوسامنے آجاتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ اگر انسان نے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بننا ہو اور اس کے لئے اس نے کوشش کرنی ہو تو فرمانِ الٰہی اس کو معلوم ہونا چاہیئے اورجب ہم فرمان کو معلوم کرنے کی کوشش کریں تو فرمان لانے والے کا ہمیں پتہ لگتا ہے اور نوعِ انسانی کی زندگی کے آخر میں وہ کامل ہدایت لانے والا خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آیا تو فرمان لانے والے آج دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورفرمان کی حقیقت کوپہچاننے اور اس کے مطابق زندگی کوگزارنے کے لئے ضروری ہے کہ فرمان لانے والا اپنی امت کیلئے اسوہ بنے۔ پس بطور رسول کے اور بطور اسوہ کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے تا اللہ تعالیٰ جو صرف وہی مطاع ہے اس کی فرمانبرداری صحیح معنوں میں ہوسکے۔ یہ اس وسیع مضمون کا خلاصہ ہے۔
جب ہم ان چارباتوں کی طرف دیکھتے ہیں جولَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی پہلے حصہ میں پائی جاتی ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ سوائے اللہ کے انسان کا کوئی مطلوب نہیں ہے۔ اسی کوہم نے طلب کرنا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ معرفت حاصل ہو۔ ہم پہچانیں کہ اللہ کسے کہتے ہیں؟ کس ہستی کو اسلام نے اللہ کہا ہے؟ معرفتِ باری کاپایا جانا اور اس کی تلاش کرنا یہ مطلوب کے مفہوم میں پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود قرآن عظیم میں اپنا تعارف یوں کروایا ہے اوراپنی معرفت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ کہا کہ اللہ وہ ذات ہے کہ جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اورجوتمام نقائص اورکمزوریوں سے منزّہ ہے۔ کوئی کمزوری یا نقص اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا اورہروہ خوبی جو ایک فطرتِ صحیحہ کے نزدیک ایک کامل ہستی کے اندر پائی جانی متصور ہوسکتی ہے وہ اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت ہے اور معرفت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ جب تک انسان کسی کے حسن واحسان سے واقف نہ ہو،اس کا عرفان نہ رکھے اس وقت تک محبت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ مجازی محبت پیدا نہیں ہوسکتی تو جو حقیقی ہے وہ کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
پس محبت کیلئے معرفت کا پایا جانا ضروری ہے اورلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کا مطلوب سوائے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اورکوئی نہیں ہوسکتا اس واسطے انسان کے لئے فرض ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا عرفان رکھے۔ اس کی معرفت حاصل کرے اس کو جانے پہچانے۔ علم رکھے کہ وہ ہے کیا (کن صفات کی مالک وہ ہستی ہے) اورجب ہم قرآنِ کریم پرغور کرتے ہیں توہمارے سامنے اللہ کی عظمت، اس کا جلال، اس کی کبریائی، اس کاحسن، اس کا احسان آتا ہے وہ عظیم ہستی ہے جب انسان کے دماغ میں اس کا صحیح تصور آئے توانسان کی روح تڑپ اٹھتی ہے، محبت کا ایک سمندر اس کے اندر موجزن ہوتا ہے۔
اوردوسری بات لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہمیں یہ ہے جو معرفت کے بعد پیدا ہوتی ہے کہ سوائے اللہ کے ہمارا محبوب کوئی نہیں۔ محبت دوباتوں کا تقاضا کرتی ہے ایک تقاضاہے محبت کا اس خوف کا پیدا ہوجانا کہ ہمارا محبوب ہم سے کہیں ناراض نہ ہو جائے اس کو اسلام کی زبان میں خشیت اللہ کہتے ہیں۔ خشیت وہ خوف نہیں جو ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے خشیت وہ جذبہ ہے جو اللہ، اس عظیم ہستی کے جلال کو دیکھ کر اور اس کے حسن کا گرویدہ ہوکر اس کے احسان تلے پس کر اس احساس کے ساتھ کہ اتنے احسانات ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتے۔ یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ عظیم اورصاحب جلال واقتدار ہستی ہم سے ناراض نہ ہوجائے اوراس کے نتیجہ میں ہم اس کی محبت کوکھو بیٹھیں اوراپنی اس کوشش میں کہ ہم اس کی رضا کو حاصل کریں ناکام ہوجائیں۔ یہ ہے خشیت جو اللہ تعالیٰ کی پیدا ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری معرفت کے حصول کے بعد جب تم محبت کے میدانوں میں داخل ہوگے۔ (البقرۃ:۱۵۱) اس وقت یہ یادرکھنا کہ صرف میری ہی ذات وہ صاحب جلال ذات ہے کہ جس کے متعلق جذبۂ خشیت انسان کے دل میں پیدا ہونا چاہیئے کسی اور ہستی میں نہ وہ جلال ہے نہ وہ عظمت نہ اس کا وہ حسن نہ اس کا وہ احسان کہ انسان کے دل میں اس کے لئے خشیت پیدا ہو۔ایک جابر اور ظالم بادشاہ کے لئے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے خشیت نہیں پیدا ہوتی یعنی دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس کے ظلم کا نشانہ ہم نہ بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ توظالم اورجابر نہیں وہ تورحیم اوررحمان ہے ہم کچھ بھی نہیں کرتے تب بھی وہ ہمیں اپنی عطا سے نوازتا ہے۔ وہ رحمان ہے اور جب ہم اس کے حضور کچھ پیش کرتے ہیں تو وہ کمال رحیمیت کی وجہ سے نہ ہمارے کسی حق کے نتیجہ میں ہمارے اعمال کو قبول کرتا اور بہتر جزا ہمیں دیتا ہے اور انسان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کسی گناہ کے نتیجہ میں اس کی کسی کمزوری کی وجہ سے وہ عظیم حسن واحسان کامالک ہم سے ناراض نہ ہوجائے اور اس کی محبت اور اس کی رضا سے ہم محروم نہ ہوجائیں۔
پس محبت کا ایک پہلو تو خشیت کا ہے یعنی ہر وقت انسان لرزاں و ترساں رہے کہ کسی گناہ اورکمزوری کے نتیجہ میں کہیں ہمارا رب کریم ہم سے ناراض نہ ہو جائے اورمحبت کا دوسراپہلو یہ ہے کہ انسان پورے عزم کے ساتھ ان اعمال کے بجا لانے کی کوشش کرتا رہے کہ جن کے متعلق قرآنِ کریم نے کہا ہے کہ ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیاراور رضا کو تم حاصل کرسکتے ہو۔ یہ دوسرا پہلو ہے ایک یہ کہ اس کی ناراضگی کہیں مول لینے والے نہ بن جائیں اوردوسرے یہ کہ اس کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرنے والے ہم بنیں ورنہ یکطرفہ اور ناقص محبت جس کے نتیجہ میں محبوب کے دل میں مُحِبّ کی محبت پیدا نہیں ہوتی لایعنی چیز ہے اوریہاں یہ سوال نہیں کہ جس سے انسان فطرتاً پیارکرتا ہے وہ اس سے پیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ یہ نہیں اس نے تو اپنے پیار کے لئے انسان کو پیدا کیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو انسان سے پیار کرنا چاہتا ہے اورانسان جس کے پیارکوفطرتاً حاصل کرنے کا خواہش مند ہے کہیں وہی انسان اپنی کوتاہی یا غفلت یا گناہ یا اباء اوراستکبار کے نتیجہ میں اپنے پیارے کو ناراض نہ کر لے اور اس سے دوری کے سامان نہ پیدا ہوجائیں اور جومحبت اس سے ملنی چاہیئے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے جس کی اس نے بشارت دی ہے اس سے ہم کہیں محروم نہ ہوجائیں۔ پس’’سوائے اللہ کے اورکوئی معبودنہیں‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کے متعلق ہمارے دل میں خشیت کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ انسان جب خدا کا ہوجائے تو پھر دنیا کی طاقتیں اسے مرعوب نہیں کیا کرتیں اور جو شخص یہ کہے کہ میں دنیا کی طاقتوں سے مرعوب ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ اعلان کررہا ہے کہ میرا خدا کے ساتھ واسطہ کوئی نہیں۔ ورنہ آدمؑ سے لے کر معرفت حاصل کرنے والوں نے خدا تعالیٰ کے پیار کے سمندر اپنے دلوں اورسینوں میں موجزن کئے اور سوائے خدا تعالیٰ کی خشیت کے اورکوئی خوف اور خشیت تھی ہی نہیں ان کے دلوں میں۔ یہ جو خشیت اللہ ہے یہ غیراللہ کے خوف کو مٹادیتی ہے۔ اللہ سے یہ ڈر کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے وہ ہردوسرے کے خوف کو دل سے نکال دیتا ہے کیونکہ مثلاً ایک جابر بادشاہ کا یہ خوف ہوگا کہ کہیں ہم پر وہ ظلم نہ کرے اور اس لئے خدا سے منہ موڑ کرکوئی جاہل انسان اس ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے اس کی خوشامد کرسکتا ہے مگر ایک مومن اور خدا کا عارف بندہ خوشامد نہیں کرسکتا۔ بڑی دیر کی بات ہے ۔ شاید سات آٹھ سال گزر گئے غالباً ۱۹۶۶-۱۹۶۷ کی بات ہے ایک موقع پر مجھے حاکم وقت سے ملنا تھا تو مجھے بڑے زور سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ(یوسف: ۴۰) اوریہ میرے لئے عنوان تھا۔ ہدایت تھی کہ اس رنگ میں جاکر باتیں کرنی ہیں۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کمزوری سے بچانے کے لئے وقت سے پہلے ہی راہ بتا دی۔
ہم احمدی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی بیعت میں آکر ہم نے اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے اپنے دائرہ استعداد میں حاصل کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں اوراس کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم پورے اورکامل طور پر اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوپہچانتے ہیں۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو سمجھتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔(اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیںجو میں آپ کو بتارہاہوں) ایک احمدی کا دل ہے ۔ اس کے اندر سوائے خدا کی خشیت کے اورکسی کی نہ خشیت (پیدا) ہوسکتی ہے کیونکہ اس جیسا کوئی نہ حسن رکھتا ہے نہ احسان کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ کسی اورکا خوف پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی عظمت اوراس کے جلال کو دیکھنے کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں خدا کے ایک عارف بندے کوکیڑے کی مانند نظر آتی ہیں اور محبت ورضائے الٰہی کیلئے ہی تویہ جماعت اور اس کے افراد اس قدر قربانی دے رہے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اورپھر یہ جماعت خدا تعالیٰ کے پیار کو بھی حاصل کرتی ہے۔
اب پریشانی کے حالات پیدا ہوئے اورکچھ تجارت پیشہ لوگوں کو بھی پریشانی اٹھانی پڑی لیکن اس کا ردعمل یہ نہیں ہوا کہ کسی ایک نے بھی جماعت کویہ کہا ہو کہ ہمارے چندے معاف کردو یاکم کردو۔ یہ توہمارے علم میں ہے کہ بہتوں نے یہ کہا کہ اس وقت قربانی کا وقت ہے ہم ماہ بماہ چندے دینے کی بجائے آئندہ پانچ چھ مہینوں کا بھی اکٹھا چندہ دے دیتے ہیں اور انہوں نے دیا تو جماعت احمدیہ جو ہے وہ کس غرض کے لئے زندہ ہے؟آپ سوچا کریں کہ کیوں آپ نے مہدیٔ معہود کو قبول کیا؟ کوئی مقصد ہونا چاہیئے ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں تک کی گالیاں سننے کیلئے تیار ہوگئے اورآپ نے مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میںہاتھ دیدیا۔
پس ایک ہی چیز ہے کہ مہدی معہود کے ذریعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کوپہچانا اورمہدیٔ معہود کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسین وعدہ ہمارے کانوں میں پڑا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے اور اس کامنصوبہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے ایک عام دنیوی عقل اسکو قبول نہیںکرتی عقلاً یہ انہونی بات ہے یہ کیسے ہوجائے گا۔ دنیا نے ایٹم بم بنالئے۔ یہ کرلیا وہ کرلیا۔ چاند پرکمندڈال لی۔ دوسرے ستاروں کی طرف اس کی نگاہیں اٹھی ہوئی ہیں اورتم یہ کہتے ہوکہ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام تمام ادیان پرغالب آئے گا۔سلفِ صالحین اورپہلے جو صلحاء اوراولیاء امت میں گزرے ہیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ یہ زمانہ مہدی کا زمانہ ہے وہ زمانہ آگیا۔ ہم نے مہدی کو پہچانا اور اس کو قبول کیا۔ ہم قربانی دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اس کی خشیت کے باعث۔ وہ توہمیں یہ کہتا ہے کہ میں نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے پھر بھی ہم سستی دکھائیں اور اس کو ناراض کرلیں۔ اوروہ تو یہ کہتا ہے کہ مَیں نے اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گھر گھر گاڑ دینا ہے اور تمہارے ذریعہ سے، ناچیز ذرّوں کے ذریعہ سے اپنی قدرت کے جلوے دنیا کو دکھانے کی خاطر۔ اورہم یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی ہمیں ضرورت نہیں ۔ ہم سست ہوجائیں گے غفلت کریں گے لیکن احمدی تویہ نہیں کہتے۔ ایک ایسی جماعت خدا تعالیٰ نے پیدا کردی ہے کہ اسے دنیا پہچان ہی نہیں رہی کہ کس خمیر سے یہ بنی ہے اورخمیر وہی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔ ایک احمدی کی فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں خدانے کہا کہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کرونگا اورہم اپنی جانیں تودے سکتے ہیں مگر اس عقیدہ سے ہٹ نہیں سکتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے اور یہ بات پوری ہوکر رہے گی۔ یہ تو ہوکررہے گی اوراحمدی اس حقیقت کو جانتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ اس کے تمام احکام کی پابندی کرنے والاہے۔
تیسری چیزلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں اورتیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ سوائے اللہ کے میرا کوئی معبود نہیں۔ دنیا میں عالمین میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کی صفات کارنگ میں اپنے اوپر چڑھائوں میں صرف اس کا بندہ ہوں اور اس کی صفات میں میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی صفت جو ہے اس کے متعلق آیا ہے اللہ تعالیٰ کوجو گالیاں دینے والے دہریہ ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں مارتا بلکہ قرآن کریم نے تو یہ کہا کہ اس دنیا میں ہم ان کوبڑے مال دے دیتے ہیں کیونکہ جو روحانی اوردینی معاملات ہیں ان کے فیصلے اور جزاء سزا کے احکام دوسری دنیا میں جاری کئے جاتے ہیں ویسے بعض حکمتوں کے مطابق یہاں بھی جاری کئے جاتے ہیں لیکن عام اصول یہ ہے کہ یہاں نہیں بلکہ وہاں فیصلے ہوں گے لیکن جب ظلم آخری حد تک پہنچ جاتا ہے اور خدا کے بندوں پر انتہائی تکالیف نازل کی جاتی ہیں اس وقت خدا تعالیٰ اپنی قدرت اورمالکیت کے جلوئوں کی ایک جھلک جوآخری فیصلہ ہے اس کی جھلک اس دنیا میں دکھا دیتا ہے لیکن جب تک ظلم اس حد تک نہ پہنچے اس کی یہی سنت ہے۔ قرآن کریم نے یہی بیان فرمایا ہے۔ہماری انسانی تاریخ نے یہی ریکارڈ کیا اور یہی محفوظ رکھا۔ خداتعالیٰ کی رحمت ہردوسری چیز پروسیع ہے اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس کے ہمارا کوئی معبودنہیں اور اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرینگے تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے حکم کے ماتحت اس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ کی رحمت ہے اس کے بندے کا بھی رحم کا سلوک وَسِعَتْ کُلِّ شیء کے ماتحت ہونا چاہیئے اور کسی پر غصہ یا کسی کو دکھ پہنچانے کا خیال بھی ایک احمدی کے دماغ میں پیدا نہیں ہونا چاہیئے۔ کجایہ کہ اس کا ہاتھ دکھ پہنچانے لگے دماغ کو بھی اس گندے خیال سے پاک رکھنا ایک احمدی کا فرض ہے۔ اس لئے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے مفہوم کو ہم سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت ہمیں حاصل ہے اور خدا تعالیٰ کا عبد بننا، اس کیلئے اپنی اس دنیاوی ظاہری زندگی سے عملاً ہاتھ دھوبیٹھنا۔فنا کے لبادہ کواپنے اوپر اوڑھ لینا اوراسی رنگ میں رنگین ہونا اورنفسانی رنگوں اورجذبات کو مٹاڈالنا یہ ہونہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت نہ کی جائے۔
اس لئے چوتھے معنی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکے جو ہمیں سمجھائے گئے وہ یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ہمارا مطاع نہیں اس کے احکام اس کے اوامرونواہی پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کارنگ ہم پر نہیں چڑھ سکتا۔ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ یہ لفظ ہمیں بتاتا ہے (اس سلسلہ میں مَیں بتا دیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا ہے توآپ نے کہاقرآن کریم (خُلُقُہ الْقُرْاٰنَ) قرآن کریم کیا ہے؟ (یہ اب میں پوچھتاہوں) اوامر ونواہی یعنی احکام کامجموعہ ہے۔ برکات کا مجموعہ اور احسان کا مجموعہ ہے۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قرآن کریم سارے کا سارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جلوہ گر ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآنی اخلاق سے مزین اور خوبصورت بنی ہوئی ہے اورہمارے لئے وہ اسوہ ہے اس لئے دوسرے جزو کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی کامل اتباع بندے نے کرنی ہو اس کاپورا اور حقیقی فرمانبردار بننا ہو تو اس کے فرمان کاعلم ہونا چاہیئے۔ فرمانبردار تبھی بنے گا کہ جو اس کا حکم ہے اس کاپتہ ہو۔ اگر فرمانبردار ہم نے بننا ہے اور حقیقی فرمانبردار بننا ہے تو اس کے فرمان کا ہمیں علم ہونا چاہیئے اورساری دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا فرمان لانے والے حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ توفرمان کے علم کیلئے فرمان لانے والے پر یقین ہونا چاہیئے کہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ احکام، یہ اوامر، یہ نواہی، یہ سبق اورزندگی کے مختلف شعبوں کے یہ اصول بیان کئے ہیں وہ سچا ہے۔ اس کے بغیر توآپ فرمان پر ایمان نہیں لائیںگے اور نہ آپ اس کے بغیر اتباع کرسکتے ہیں اورنہ خدا تعالیٰ کواپنا مطاع بنا سکتے ہیں۔ پس لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہنے تقاضا کیا کہ اس عظیم اور جلیل القدر ہستی پر ہم ایمان لائیں۔ جو خدا تعالیٰ کی کامل شریعت اور کامل ہدایت دنیا کی طرف لانے والا تھا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس کلمہ طیّبہ کا دوسرا حصہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے اس میں دوایمانوں کی طرف اشارہ ہے۔ خالی حکم انسان کو پوری طرح عمل کرنے کااہل نہیں بناتا جب تک کوئی نمونہ سامنے نہ ہو۔ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوحیثیتیں ہیں اور دونوں بڑی پیاری حیثیتیں ہیں دونوں ہمیں آپ کا عاشق بنانے والی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کامل ہدایت اور شریعت لے کر آئے اوردوسرے یہ کہ ان احکام کی بجا آوری میں نوعِ انسانی کیلئے آپ ایک کامل نمونہ بنے۔ آپ اسوۂ حسنہ تھے۔ آپ جیسا اسوہ نہ پہلوں نے کبھی دیکھا نہ بعد میں کوئی دیکھ سکتا ہے۔ پس خالص اتباع کا کامل نمونہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورمُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہِ یہ دونوں معنی ہمیں بتاتا ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہنے تقاضا کیا کہ فرمان آئے گا۔جب کامل بندہ بننا ہے اور خداتعالیٰ کے اخلاق کے رنگ میں رنگین ہونا ہے توہمیں یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ خدا چاہتا کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے اس کا فرمان کیا ہے؟ اس واسطے فرمان لانے والے عظیم وجود پرایمان لانا ضروری ہوگیا اور فرمان لانے والے کے عظیم اسوہ حسنہ پر ایمان اور اعتقاد اور یقین بھی ضروری ہوگیا اس کے بغیر توکوئی شخص اپنے محدود دائرہ استعداد کے اندر روحانی ترقی کرہی نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ نبوت اور صدیقیت اوردوسرے جو بزرگی کے القاب اور مقامات ہیں صرف وہ ہی نہیں بلکہ روحانیت کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے بغیر انسان حاصل نہیں کرسکتا اور یہی ایک حقیقت ہے اس واسطے ہر شخص کیلئے خواہ وہ عالم ہو یا جاہل خواہ اس کی روحانی استعداد بڑی ہو یا چھوٹی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ اسوہ ہیں جو اس کے دائرہ استعداد میں اس کی روحانیت کو ممکن کمال تک پہنچا سکے(’’ممکن کمال‘‘ میں نے دائرہ کی وجہ سے کہا ہے اس اسوہ کے بغیر ایسا ممکن نہیں)۔ پس میں نے بتایا ہے کہ یہ ہمارا عظیم کلمہ ہے جس کا ایک جز لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہاور دوسرا جزو مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہہے اور سوائے اللہ کے کوئی ہمارا مطلوب نہیں اور اس طلب میں (مطلوب کا مطلب ہے جس کیلئے طلب ہو) ہم نے اس کی معرفت حاصل کی اور اس معرفت کے نتیجہ میں ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوئی اور اس کی رضا کے حصول کی ایک بہت بڑی تڑپ بھی پیدا ہوئی تاکہ اس کا پیار ہمیں حاصل ہو۔ صرف یکطرفہ ہمارا پیار نہ رہے اس کا پیار بھی ہمیں حاصل ہو اور اسکے پیار کے حصول کیلئے عبد بننا ضروری ہے۔ اس واسطے سوائے اس کے کوئی معبود نہیں۔ جب تک خداتعالیٰ کے اخلاق او را س کی صفات کے رنگ میں انسان رنگین نہ ہوخدا تعالیٰ کا پیارانسان حاصل نہیں کرسکتا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے ایک اور پہلو سے اس کو بیان کیا ہے۔ ایک اورطریق سے آپ نے فرمایا ہے کہ وہ پاک ہے اور جب تک تم پاک نہیں ہوگے اس کی محبت کو پانہیں سکتے۔ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے۔ جب تک تم اور میں اس کے مطابق اخلاق اپنے اندر پیدا نہ کریں اس کی محبت کونہیں پاسکتے۔ وہ تمام کمزوریوں سے منزہ ہے۔ جب تک ہم استغفار کی چادر میں لپٹ کر اس کے فضل کے ساتھ اپنی بشری کمزوریوں کو چھپا نہ لیں اس وقت تک ہم اسکے پیار کو حاصل نہیں کرسکتے اور عبدبننے کیلئے اس کے فرمان کے سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ مجھے یہ کہنا چاہیئے کہ اس کے فرمان کی موجودگی کی ضرورت ہے اور وہ پاک وجود جو کامل شریعت اورہدایت لایا اس پرایمان کی ضرورت ہے اوران احکام کے مطابق، ان اوامرونواہی کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کیلئے ایک بہترین ایک اعلیٰ ترین نمونہ کی ضرورت ہے جو ہمارے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں رکھا گیا۔
پس یہ دنیا جس میں دنیا کے لوگ بستے ہیں ایک اوردنیا ہے اور وہ دنیا جس میں احمدی بستے ہیں وہ ایک اور ہی دنیا ہے اور احمدیوں کا فرض ہے کہ اپنے نفسانی جذبات کو بالکل فنا کردیں اور کسی صورت میں کسی حال میں غصہ اور طیش میں نہ آئیں اورنفس بے قابو ہوکر وہ جوش نہ دکھلائے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے بلکہ تواضع اور انکسار کی انتہا کو پہنچ جائیں اوراپنی پیشانیاں ہمیشہ خداتعالیٰ کے حضور زمین پر رکھے رہیں۔ عملاً اس مادی زندگی میں یہ ممکن نہیں لیکن روحانی زندگی میں نہ صرف یہ کہ اس کا امکان ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی پیشانی خداتعالیٰ کے حضور ہمیشہ زمین پرپڑی رہی اورپھر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے انہیں نوازا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جوتیرے عُشاق بن جاتے ہیں۔ توہردوعالم ان کو دے دیتا ہے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ایک شعر کے دو مصرعوں میں لفظوں کی تبدیلی کرکے عجیب شان پیدا کی ہے) جو تیرے عاشق حقیقی بن جائیں تو ہر دوجہاں ان کو دے دیتا ہے لیکن جوخود کو تیرے غلام سمجھتے ہیں وہ ان جہانوں کولے کر کیا کریں؟ وہ تو تیرے در پرپڑے ہوئے ہیں اور اسی میںخوش ہیں ہم بھی اس کے درپرپڑے ہوئے ہیں اوراسی میں خوش ہیں اورسوائے اس کے ہمارے دل میں کسی ہستی کی خشیت یا اس کی محبت کے حصول کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے درپر ہی پڑا رہنے دے اورکبھی شیطانی وسوسہ ہمارے ماحول میں گھسنے نہ پائے کہ سب قدرتیں اسی کو ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ عطا ہونے والی قرآنی بصیرت کے روسے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی کامل معرفت حاصل ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۳؍ستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے مذہب کے متعلق ایک قرارداد پاس کی ہے۔ اس پر جماعت احمدیہ مجھ سے دوسوال دریافت کرتی ہے۔
اوّلؔ یہ کہ جو قرارداد پاس ہوچکی ہے اس پر جماعت احمدیہ کے خلیفۃ المسیح الثالث کا تبصرہ کیا ہے یعنی جماعت احمدیہ کو یہ بتایا جائے کہ اس قرار داد کے معانی کیا ہیں؟
دومؔ یہ کہ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد جماعت احمدیہ جس کا صحیح نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’احمدیہ فرقہ کے مسلمان‘‘رکھا ہے۔ تو اب احمدیہ فرقہ کے مسلمانوں کا ردعمل کیا ہونا چاہیئے؟ پس یہ دو۲سوال ہیں جو پوچھے جارہے ہیں۔
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے یعنی جو قرار داد پاس ہوئی ہے اس پر جماعت احمدیہ کے خلیفۂ وقت کا تبصرہ کیا ہے؟ اس پر تنقید کیا ہے؟ کیا پاس ہوا ہے؟ اس کے متعلق جماعت کو بتایا جائے۔ اس میں اس لئے بھی الجھن پڑتی ہے کہ مختلف اخبارات مختلف باتیں لکھ دیتے ہیں اور بعض اخبار بعض باتیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے متعلق اس وقت تو میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ No Commentکوئی تبصرہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر تبصرے سے قبل بڑے غور اور تدبر کی ضرورت ہے اورمشورے کی ضرورت ہے۔ پس مشورے اورتمام پہلوئوں پرغور کرنے کے بعد پھر میں جماعت احمدیہ کو بتائوں گا کہ جو پاس ہوا ہے وہ اپنے اندر کتنے پہلو لئے ہوئے تھا۔ کیا بات صحیح ہے اور کیا بات صحیح نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال اس وقت اس پر کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کچھ دن اور انتظار کرلیں۔کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے۔ اس لئے حقیقت کو ابھرنے دیں۔ حقیقت کو Uufold (ان فولڈ) ہونے دیں۔ اس کو پتیاں نکالنے دیں پھر اس کے اوپر تبصرہ بھی آجائے گا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا رد عمل کیا ہونا چاہیئے یا جماعت احمدیہ کا کیاردعمل ہے؟ کیونکہ ہر احمدی باوجود اس بات کے کہ وہ بڑا تربیت یافتہ ہے پھر بھی مرکز کی طرف دیکھتا ہے اور بہرحال مرکز سے ہدایت طلب کرتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ ہمارا کیا رد عمل ہونا چاہیئے؟ اس کا جواب لمبا ہے اور یہ ایک خطبہ میں ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے جواب میں دوپہلو مدِنظر رکھنے پڑتے ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کی بنا پر جوہماری زندگی کی حقیقت ہے اور جس کے بغیر ایک احمدی کی زندگی، زندگی ہی نہیں اوروہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ ہے اورہم پورے وثوق کے ساتھ اور پورے عرفان کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر پورا اورکامل ایمان رکھتے ہیں۔ اس اللہ پر جسے قرآن عظیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہم اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر جیسا کہ قرآنِ کریم نے ہمیں بتایا ہے واقعہ میں عارفانہ ایمان رکھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اور بے مانند ہے اس یونیورس، اس عالمین میں اس جیسا کوئی نہیں ہے ذات کے لحاظ سے اور نہ اس کا مثیل ہے صفات کے لحاظ سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اسلام نے قرآن عظیم کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھی ہے۔ پھرقرآن کریم نے شروع سے لے کرآخر تک ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے۔ یہ صفت پائی جاتی ہے اور یہ صفت پائی جاتی ہے کبھی نام لے کر اور کبھی کام کاذکر کرکے۔ قرآن کریم نے شروع سے لے کر آخر تک ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو کس معنے میں لیتا ہے مثلاً سورۃ فاتحہ کولیں تو اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی چار بنیادی صفات ہمارے سامنے رکھی گئی ہیں۔ سورۃ فاتحہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تمام تعریفوں کا مرجع اللہ ہے۔ فرمایا کہ اللہ وہ ہے جو رب العالمین ہے۔ اللہ وہ ہے جو رحمن ہے ، اللہ وہ ہے جو رحیم ہے، اللہ وہ ہے جو مالک یوم الدین ہے۔ قرآن کریم نے اور پھر ان مطہر بزرگوں نے جن کاذکر خودقرآن کریم نے ان الفاظ میں کیا ہے (الواقعۃ : ۷۸تا۸۰) گویا خود قرآن کریم نے ایک گروہ کو مطہرین کاگروہ قراردیا ہے۔ پس ایک تو خودقرآن عظیم نے الٰہی صفات بیان کیں دوسرے مطہرین کے گروہ نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرکے دنیاکے سامنے الٰہی صفات کوبیان کیا۔ ان کی تفصیل بتائی۔ ان پرروشنی ڈالی اورپھر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ کہا گیا تھا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے نتیجہ میں آپ کے عشق میں فانی ہو کر خدا تعالیٰ کی ذات اورصفات کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جس رنگ میں قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس طرح حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الٰہی صفات کی تشریح کی ہے ہم اسی معنے میں اللہ کو مانتے ہیں مثلاً ہم سبحان اللہ پر یقین رکھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر کوئی نقص ، کوئی کمزوری اور کوئی عیب پایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نہیں کہ کوئی ناسمجھ کھڑے ہوکر یہ کہہ دے کہ مثلاً نعوذ باللہ خدا چوری کرسکتا ہے مگر ہمارا سبحان اللہ کہنا اس کی تردید کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات میں کوئی عیب یا نقص متصور ہی نہیں ہوسکتا۔ میں اس اللہ کی بات کررہا ہوں جس کو اسلام نے پیش کیا ہے۔ بعض مذاہب بگڑگئے انہوں نے ایک (انسانی) وجود کو خداوند بھی کہا اور اسے پھانسی پر بھی لٹکا دیا۔ یہ مذہب کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں مثلاً ایک وجود کو لوگوں نے خداوند بھی کہا اوریہ بھی تصور کرلیا کہ وہ خدا ہونے کے باوجود رحم مادر کی تنگ کوٹھڑی میں نومہینے تک قید بھی رہا۔ یہ توبگڑے ہوئے مذہب کی حالتیں ہیں مگر ہمارا اسلام توبگڑا ہوا مذہب نہیں ہے اس کی توچمکتی ہوئی لشکار ہر زمانے میں ظاہر ہوتی رہی ہے اس کی ذات کے متعلق بھی اور صفات کے متعلق بھی۔
امت محمدیہ میں ایسے کروڑوں بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کیا اور خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی ذات وصفات کی کیفیت اورماہیت انہیں بتائی۔(جہاں تک انسان کو اس کی ضرورت تھی)
پس جب یہ ہمارا دعویٰ ہے اوراگرہمارا یہ دعویٰ ہے اور یقینا یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعودومہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لا کر ہم نے اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اورصفات کے ساتھ پہچانا ہے تو پھر آپ کو سمجھانے کے لئے دلیل میں نے پہلے دے دی ہے، اگر یہ درست ہے اوریقینا یہ درست ہے اور اگر اس کے نتیجہ میں ایک احمدی کے دل میں اپنے رب کریم کے لئے ایک محبت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ ہروقت ڈرتا رہتا ہے کہ میرا محبوب خدا مجھ سے کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ یہ خشیت کا مقام ہے اوروہ ہروقت اس امید میں رہتا ہے کہ میراپیارا خدا میری طرف محبت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ گویا یہ محبت کے دوپہلو ہیں اوریہ ہر دوپہلو ہر مخلص احمدی کے دل میں پہلو بہ پہلو کھڑے ہوئے ہیں توپھر یہ دلیل یا ایک احمدی کی زندگی کی جو حقیقت ہے وہ ہمیں بتاتی ہے کہ ان حالات میں اصولی طورپر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیئے اورکیا نہیں ہونا چاہیئے۔ جو نہیں ہونا چاہیئے اس کے متعلق میں آج صرف دو۲ باتوں کولوں گا۔ قرآن کریم احکام کی کتاب ہے یہ اسلامی شریعت اور ہدایت ہے اس میں بیان ہونے والے احکام کو ہماری اصطلاح میں دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک اوامر ہیں اوردوسرے نواہی ہیں، کچھ کرنے کی باتیں ہیں اور کچھ سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے گویا کچھ باتیں ایسی ہیں جوکرنی چاہئیں اورکچھ ایسی ہیں جن سے بچنا چاہیئے۔
پس جہاں تک نواہی کا تعلق ہے قرآن کریم نے ہمیں کئی جگہ بتایا ہے کہ اگرایسا کروگے تواللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہوجائے گا۔ یوں کروگے تواللہ تعالیٰ کی محبت کو نہیں پاسکو گے۔ اس قسم کا فعل صادر ہوا تو تم پرخدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا۔ یہ کام کیا تو خدا تعالیٰ سے دوری پیدا ہوجائے گی۔ وغیرہ وغیرہ
غرض بہت سی باتیں نواہی میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کردیں۔ ان باتوں میں سے دو۲ کو میں اس وقت لوں گا۔
ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ۔ (اٰل عمران:۵۸) کہ خداتعالیٰ ظالموں سے پیار نہیں کرتا۔ اگریہ سچ ہے اور اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ سچ ہے کیونکہ قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان سے ناراض ہوجاتا ہے توپھر کسی احمدی کا کسی واقعہ کا رد عمل ظالمانہ ہوہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ یہ دنیا اور اس کے جو حوادث ہیں یا اس کے جوزوال پذیر واقعات ہیں ان کی طرف تو ہم توجہ ہی نہیں دیتے ہماری نگاہ توصرف ایک ہی مرکزی نقطے پر مرکوز رہتی ہے اوروہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جلّشانہ۔ ہمارے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پاک ذات کے ساتھ تعلق پیدا کیا جسے قران کریم نے اللہ کہا ہے اور جسے ہم نے پہچانا اور اس کا عرفان حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا عشق پید اکیا ہے کہ جس کی مثال اسلام سے باہر مل ہی نہیں سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تعلق کی مضبوطی کا ایک جگہ بڑی سادگی اورآرام کے ساتھ اس طرح بھی اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا آسان ہے۔ اس میں کیا مشکل ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت مل جائے کوئی مشکل ہی نہیں ہے وہ جان مانگتا ہے جان دے دو۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا گہرا اور مضبوط رشتہ قائم کیا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس لئے جس چیز کو خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتااور جس حقیقت کا عام اعلان قرآن کریم نہیں کرتا وہ ہماراردعمل نہیں ہوسکتا۔ اگرکوئی شخص احمدی کہلاتاہو اور اس کا ایسا ردعمل ہو جوظلم کی تعریف کے اندر آتا ہو اور جس کے نتیجہ میں اس شخص پر انفرادی طورپراللہ تعالیٰ کا غصہ ظاہر ہو اوروہ خدا کی محبت سے دورہوتووہ احمدی نہیں ہے۔ چاہے وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہو۔ اس لئے کسی احمدی کو کوئی ردعمل خواہ دنیا کے حالات کیسے ہی کیوں نہ رونما ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس پر ظلم کی مہر لگی ہو۔ پس ۷؍ ستمبر کوہماری قومی اسمبلی نے جو قرارداد پاس کی ہے اس کارد عمل ایک سچے اور حقیقی احمدی کا ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ جس سے کسی پر ظلم واردہو۔
ظلم کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وَضْعُ الشَّیْئٍ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہِ کسی چیز کا غیر محل میں رکھ دینا یعنی مناسب حال کام نہ کرنا بھی ظلم میں شامل ہے۔ ظلم کے معنی مفردات امام راغبؒ کی روسے حق تلفی کرنا ہوتے ہیں گویا ظلم کے معنی میں حقوق کوتلف کردینا اور حق کے معاملہ میں تجاوز کی راہ کو اختیار کرنا شامل ہے۔ امام راغبؒ نے مزید لکھا ہے کہ جب ظلم کا لفظ گناہ کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس معنی کے لحاظ سے وہ گناہ کبیرہ پر بھی استعمال ہوتا ہے اور گناہ صغیرہ پر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی حق سے چھوٹے سے چھوٹا تجاوز بھی ظلم ہے اوربڑے سے بڑا تجاوز بھی ظلم ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ظلم کی تین قسمیںکی گئی ہیں۔ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ اللّٰہِ انسان کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں، ان میں ظلم ہوجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے جوحقوق ہیں۔ انسان ظالم بن کرانہیں ادا نہیں کرتا۔ (پس) اس ظلم کی ایک بھیانک توجیہہ یہ ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کے جوحقوق ہیں، وہ ادا نہیں کئے جاتے۔ وہ حقوق اس معنی میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی انسان کی ضرورت ہے۔ وہ تو خالق او رمالک ہے اس نے دنیا کی ہرچیز کو پیدا کیا ہے وہ صمد اور غنیہے اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے۔ وہ ہرچیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ہر چیز اس کی ملکیت ہے۔ ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے لیکن اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے جب خدا تعالیٰ کی یہ دوتین صفتیں ہمارے سامنے آتی ہیں توخدا تعالیٰ کی(ان)صفات کی یہ شکل بنتی ہے کہ اس نے ہرچیز کوپیدا بھی کیا۔ وہ ہرچیز کا مالک بھی ہے لیکن وہ صمد اور غنی بھی ہے اس لئے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں۔ اس نے اپنی حکمتِ کاملہ سے جوکیا وہ کیا مگر اسے کسی چیز کی احتیاج اور ضرورت نہیں تھی اسے ضرورت نہ تھی کہ انسان اس کی حمد کرتے، اس کی تسبیح کرتے، اس کے شکرگزار بندے بنتے، اس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے یعنی مظہر صفاتِ الٰہیہ بنتے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کا نظارہ دکھاتے۔
غرض خدا تعالیٰ کودنیا کی کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے احتیاج توہمیں ہے لیکن حقوق اللہ کی ادائیگی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ہے۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ وہ اس کی تسبیح کرے، تحمید کرے شرک نہ کرے اور فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو۔اس کا کہنا مانے اس کے حکم کو توڑنے والا نہ ہو۔ خدا تعالیٰ جو کہتا ہے یعنی جو اوامر ہیںان کے مطابق کام کیا جائے اور جوکہتا ہے نہ کرویعنی نواہی ہیں ان کے مطابق قطع تعلق کرلو، توپھر خدا تمہیں مل جائے گا۔ گویاظلم کے ایک معنی حقوق اللہ کوادا نہ کرنے کے ہیں۔ پس وہ حق جوخدا کا بندہ پر ہے اس میں تجاوز نہ ہو۔ اس کو تلف نہ کیا جائے۔
۲۔ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ النَّاسِ کہ وہ حقوق جو ایک شخص پر ’’الناس‘‘ یعنی عوام کے ہیں انسان ان حقوق کو تلف نہ کرے۔ اگرتلف کرے گا تو ظالم بن جائے گا۔
۳۔ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ نَفْسِہٖ کہ انسان پر اس کے نفس کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو فرمایا ہے کہ تم اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کیا کرو مثلاً نفس کا سب سے بڑا حق تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس قدر روحانی قوتیں اور استعدادیں دی ہیں ان کو صحیح اورکامل نشوونما دے کروہ اپنے دائرہ کے اندر خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب ترہوجائے۔
یہ نفس کا ایک حق ہے۔ اس حق کی ادائیگی کے لئے پھر دنیا کے حقوق ہیں مثلاً انسان جان کر اتنا بھوکا نہ رہے کہ کمزوری پیدا ہوجائے اوروہ نفس کے روحانی حقوق نہ ادا کرسکے یا اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ دوسرے انسانوں کا یہ حق ان کو ملتا رہے کہ وہ بھوک، پیاس یا بیماری جس کا علاج نہ ہوان تکالیف کودور کرنے کے نتیجہ میں جو روحانی رفعتیں وہ حاصل کرسکتے تھے عبادات زیادہ غور اور توجہ اور انہماک کے ساتھ اورزیادہ وقت دے کر اور روحانی طورپر زیادہ سختیاں برداشت کرکے اس میں کمی واقع ہوجائے اور وہ اپنے دائرہ استعداد میں ان روحانی رفعتوں کو حاصل نہ کرسکے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کوپیدا کیا ہے۔ یہ پہلو بھی نفس کے حقوق کے اندر آجاتا ہے اور یہ نفس کے حقوق کے اندراس لئے آجاتا ہے کہبَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ النَّاسِ کی روسے عوام کے حقوق جو ایک شخص واحد پرہیں، اس میں بھی آتا ہے اوروہ الناس کے نقطہ نگاہ سے ہے اور بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ نَفْسِہٖ میں اس کے اپنے نقطۂ نگاہ سے کیونکہ وہ شخص جو اپنی شخصیت کوروحانی طورپر نشوونما دینے کی کوشش کررہا ہے اگروہ اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ اس کا جو ماحول ہے اس میں اس کے حقوق مل رہے ہیں۔ اگر نہیں تونشوونما کے اندرکمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ پس ہر انسان اپنی نشوونما کی خاطر غیر کی نشوونما میں تَعَاونُوْا عَلَی البِرِّ وَالتَّّقْویٰ(المآئدۃ:۳) کے حکم کے مطابق کو شش کرتا ہے۔
پس ظلم کے یہ تین معنے کئے گئے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےظلم کے کسی معنی میں بھی خدا تعالیٰ ظالم سے پیا رنہیں کرتا۔ اس لئے جماعتِ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے افراد کا کوئی رد عمل ۷ ستمبر کی قرارداد پر ایسا نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میںوہ ظالم ٹھہر جائیں۔ انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا ان کاردعمل ایسا ہوگا کہ خدا تعالیٰ انہیں یہ کہے گاکہ میرے پیارو! میرے اور قریب آجائو کہ جب تمہیں دکھ دیا گیا توتم نے میرے حقوق نہیں بھولے بلکہ میرے پیار اور رضا کو حاصل کرنے کے لئے اور زیادہ کوشش کی۔
دوسری چیز جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ کے پیار اورمحبت سے محروم ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت ۲۰۶ میں فرمایا ہے: کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ فسادکے معنے ہیں: ’’خُرُوْجُ الشَّیْئِ عَنِ الْاِعْتِدَالِ‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بیچ کا راستہ ہے یا خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے صراط مستقیم یعنی سیدھی راہ بنائی ہے اس سے بھٹک کرانسان اگر دائیں چلاجائے تب بھی اور بائیں چلا جائے تب بھی خداتعالیٰ کے پیار سے محروم ہوجاتا ہے۔ فساد کے مقابلہ میں صلاح کا لفظ آتا ہے کیونکہ فساد منفی معنوں میں دلالت کرتا ہے۔ اس لئے گویا صلاح کا نہ ہونا صلاح کا فُقدان فساد کہلاتا ہے اورصلاح کے معنے فساد کے معنوں پر روشنی ڈالتے ہیں اور صلاح کے معنے(جب یہ لفظ صالح اسم فاعل کے طورپر استعمال ہوتا ہے) تو اس وقت اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ ’’اَلْقاَئِمُ بِمَا عَلَیْہِ مِنَ الْحُقُوْقِ وَالْوَاجِبَات‘‘ کہ ہر وہ انسان جس پر اللہ تعالیٰ نے جو حقوق اور واجبات مقرر کئے ہیں اوریا اس کی صلاحیت میں رکھے ہیں وہ ان سے منحرف نہ ہو بلکہ مضبوطی کے ساتھ وہ اپنے اس مقام پر کھڑا ہوجو مقام کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے۔ چنانچہ دنیا میں جتنا فتنہ وفساد، لڑائیاں جھگڑے اور ظلم ہوتے ہیں دراصل ان کی جڑ یہ فساد ہی ہوتا ہے۔ انسان کسی (دوسرے) کا حق دینے سے گریز کرتا ہے اوراپناحق لینے کے لئے دوسرے کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہوجاتاہے۔
پس ہر ایک احمدی کا جو حق ہے وہ اسے ملنا چاہیئے خواہ وہ کوئی ہو۔ ہمارا اشد ترینمخالف بھی ہے تب بھی ہراحمدی یہ کہتا ہے کہ اس کے جوحقوق خدا تعالیٰ نے اورہمارے دستور نے اور قانون نے بنائے ہیں وہ انکو ملنے چاہئیں۔ کسی احمدی یا کسی جماعت احمدیہ یا مرکز احمدیت کا یہ مطالبہ نہ کبھی ہوا نہ کبھی ہمارے دماغوں میں آیا بلکہ ہم توہمیشہ اپنے بھائیوں اور دوستوں کو جو احمدی نہیں اور جن پر انتظامی ذمہ داریاں ہیں ان سے باتیں کرتے ہوئے انہیں سمجھایا کرتے ہیں کہ دیکھو ہر آدمی کا جو بھی حق ہے وہ اسے ملنا چاہیئے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ احمدیت کی مخالفت کرتا ہے یا حمدی ہے یا احمدیت کے متعلق نہ مخالفانہ رائے رکھتا ہے اور نہ اسے قبول کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ اسے ملنے چاہئیں ورنہ توساری دنیا میں فساد پیدا ہوجائے گا۔ پس لڑائی جھگڑے جنہیں ہم عام معنوں میں فساد کہتے ہیں ان کی جڑ ہی یہ ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو ان کے حقوق نہیں ملتے اور وہ بے چین ہوجاتے ہیں۔ ان کو اتنا غصہ چڑھتا ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے حقوق مارنے شروع کردیتے ہیں اور اس طرح غلط قسم کا چکر چل پڑتا ہے۔ پس ایک احمدی چونکہ اپنے دل میں خشیت اللہ رکھتا ہے اور چونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجائے اس لئے وہ کہتا ہے کہ مجھے کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہیئے جو فساد کا موجب ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا۔ اگر اللہ تعالیٰ فساد سے پیا رنہیں کرتا توفسادی سے پیار کیسے کرے گا۔
پس ایک احمدی کا رد عمل ۷، ستمبر کی قرارداد پر ایسا نہیں ہوگا کہ اس میں دنیا ظلم کا شائبہ دیکھے اور نہ ایسا ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہو اور لوگوں کی حقوق تلفی ہو یا ان کے حقوق تلف ہونے کے حالات پیدا ہوجائیں کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض جگہ فساد کے نتیجہ میں وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو فسادی نہیں ہوتے اور نہ وہ کسی کے حقوق تلف کررہے ہوتے ہیں مگر وہ بھی فساد کی زد میں آجاتے ہیں مثلاً دو ہمسائے لڑپڑتے ہیں توان میں سے ایک بہرحال حق پر نہیں ہوتا یا بعض دفعہ جب دو آدمی لڑپڑتے ہیں تو تین شکلوں میںسے ایک شکل ضروری ہوتی ہے یا دونوں حق پر نہیں ہوتے۔ ہردو اپنے حقوق سے زیادہ کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں یا ان میں سے ایک حق پر ہوتا ہے مثلاً زید حق پر ہوتا ہے اور بکر حق پر نہیں ہوتا یا بکر حق پر ہوتا ہے اور زید حق پر نہیں ہوتا۔ اب بکر اورزید کی لڑائی میں ان کے ہمسائے جو دو گھر پرے ہٹ کرہوتے ہیں اور ان کی لڑائی میں شامل نہیں ہوتے وہ بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ اس طرح کہ لڑائی کرنے والوں میں سے غصہ میں آکر کوئی ایک آدمی بجلی کا پول اڑا دیتا ہے ۔ جس سے ساری گلی میں اندھیرا ہوجاتا ہے۔ کئی گھروں کے معصوم بچے امتحان کی تیاری کررہے ہوتے ہیں ان کاوقت ضائع ہونے کی وجہ سے ان پر ظلم ہورہا ہوتاہے حالانکہ وہ فساد میں شامل ہی نہ تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ایک بڑی پیاری اور حسین آیت کے ایک ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ ایسے گناہ کرنے سے بچا کروکہ جب ان پر گرفت کی جاتی ہے تو وہ لوگ بھی سزااورعذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جن کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقتِ زندگی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں ہوتا البتہ اس سے انسان پر اعتراض واقع ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ماحول کو مومنانہ اور صالحانہ کیوں نہیں رکھا۔ بہرحال یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ میں اس وقت مختصراً دومنفی پہلوئوں پر روشنی ڈال رہا ہوں۔
جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جماعت احمدیہ مجھ سے ایک سوال یہ کررہی ہے کہ مذکورہ قرارداد پر تبصرہ کیا جائے۔ اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ میرے تبصرہ کوسننے کے لئے کچھ دیر انتظار کرو۔ میں غور کررہاہوں میں دعائیں کررہا ہوں۔ میں مشورے لے رہا ہوں اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ اگر خدا نے چاہا تواسی کی توفیق سے اگلے جمعہ کے خطبہ میں یا جب خدا چاہے گا۔ انشاء اللہ تبصرہ ہوگا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیئے؟ میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا ردعمل یہ ہونا چاہیئے کہ نہ تم ظالم بنو خدا کی نگاہ میں اور نہ تم مفسد بنو خدا کی نگاہ میں۔ اس لئے جماعت احمدیہ کا کوئی رد عمل ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس میں سے ظلم کی بُو آتی ہو یا اس کے اندر فساد کی سٹراند پائی جاتی ہو ہمارا رد عمل بالکل ایسا نہیں ہوگا۔ اور بھی باتیں ہیں لیکن آج کے لئے یہی دوکافی ہیں۔ یہ میرا کام ہے کہ اسے آہستہ آہستہ واضح کرتا چلاجائوں۔ ردعمل کے منفی پہلو پر بھی شاید مجھے کچھ اور کہنا پڑے گا۔ پھر اسکے مثبت پہلو بھی بتائوں گا اوراپنے وقت پر انشاء اللہ تبصرہ بھی کروں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج بہت سارے لوگ باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں ان کو ایک حصہ مل گیا ہے۔ باقی حصوں کے متعلق سننے کے لئے بھی وہ ہر جمعہ کوآیا جایا کریںاور احباب دعائیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت سے رکھے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکوں۔
جیساکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تھا آپ کا وجود امت محمدیہ کے وجود سے علیحدہ نہیں تھا۔ اس لئے آپ کے نائبوں کے جونائب ہیں ان کے مبائع کا وجود اور خلیفۂ وقت کا وجود علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی وجود کے دونام ہیں۔ پس جو میں سمجھا اور جو خدا نے مجھے بتایا اس کے آگے سارے جسم پراثر ہونا چاہیئے۔ حتی کہ اس کا اثر انگلیوں کے ناخنوں اورپائوں کی انگلیوں تک سرایت کرنا چاہیئے یہ ایک حقیقت ہے اس کا سمجھنا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر ایسا نہ ہو کہ ہماری انگلی کسی اور طرف منہ کرکے ہل رہی ہو اورہمارا دماغ خدا کی طرف نگاہ کئے اللہ تعالیٰ کی حمد میں مشغول ہو۔ اس طرح کرنے پرتضاد پیدا ہوجائے اور ہماری انگلی اتنی بیمار سمجھ لی جائے کہ اسے کاٹنا پڑجائے انشاء اللہ یہ نہیں ہوگا۔
باقی جہاں تک کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا سوال ہے یہ تو میں شروع سے کہہ رہا ہوں اس قرارد داد سے بھی بہت پہلے سے کہتا چلا آیا ہوں کہ جس شخص نے اپنا اسلام لاہور کی مال(روڈ) کی دکان سے خریدا ہو، وہ توضائع ہوجائے گا لیکن میں اورتم جنہیں خدا خود اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تم (مومن) مسلمان ہو تو پھر ہمیں کیا فکر ہے دنیا جو مرضی کہتی رہے تمہیں فکر ہی کوئی نہیں۔ باقی تبصرے بعد میں ہوتے رہیں گے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا۶)










امتحان کے وقت مومن کے اندر ضعف نہیں
پیدا ہوتا بلکہ وہ ایمان میں ترقی کرتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍ستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
ماہِ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا ہے۔ اس مہینہ میں قریباً ہرقسم کی عبادات جمع کی گئی ہیں ۔ صدقہ وخیرات، قربانی ، روزہ رکھنا، قرآن کریم کی تلاوت کثرت کے ساتھ کرنا (جو منبع اور سرچشمہ ہے تمام علوم کا اور بنیادی طورپر دنیوی علوم کا بھی منبع ہے او رروحانی علوم کا سرچشمہ تو ہے ہی) اسی وجہ سے صوفیائے کرام کا یہ قول ہے کہ اس ماہ میں تنویرِ قلب کے بہت سے سامان رکھے گئے ہیں یعنی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور میں قربانیاں دے تو کشف کا دروازہ کھلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر سال میں ایک ماہ ایسا رکھ دیا کہ جس میں اس قسم کی عبادتیں اکٹھی ہوگئیں کہ( جن کے نتیجہ میں) اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی راہوں کو فراخ کردیتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے (اترکر) انسان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تمثیلی زبان ہے(بعض لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی اوردماغ میں اعتراض پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے لیکن)تمثیلی زبان میںہم یہ کہتے ہیں کہ آسمان سے نیچے اترآتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کی راہیں ا س پر آسان ہوجاتی ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کا ایک مخلص اورمومن بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طفیل کشف حاصل کرتا اور محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے اور بُعد کے خطرات اور توہمات سے وہ نجات حاصل کرلیتا ہے۔ پس اس ایک مہینہ میں اگر ہم سمجھ کے ساتھ اورعرفان کے ساتھ ان عبادات کوبجا لائیں جن کو اس مبارک مہینہ میں اکٹھا کیاگیا ہے تو روحانی طورپر زیادہ ذوق اورشوق پیدا ہوتا ہے اور عام دنوں اور عام موسموں کے علاوہ ان دنوں میں روحانی طورپرمحبت الٰہی کی ایک آگ بھڑکتی ہے اور یہ روحانی تپش اور آگ ایسے سامان پیدا کرتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو زیادہ روشن طورپر اپنی زندگی میں دیکھتا ہے اور اس کے پیار پر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا شکراور حمد کرنے کا اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کا سلسلہ اور بھی تیز ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے مہینے سے زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
پچھلے خطبہ میں مَیں نے جماعت کویہ بتایا تھا کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اورمہدی معہود (جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب ترین روحانی فرزند ہیں) کی وساطت سے نئے سرے سے وہ معرفت عطا ہوئی جو صحابۂ کرام کو اسلام کی نشأۃِ اُولیٰ کے زمانہ میں ملی تھی اور اس معرفت کا نتیجہ یہی ہوتا ہے خواہ وہ دنیوی معرفت ہو یعنی یقینی علم ہو یاروحانی معرفت ہو کہ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے یعنی جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کاعلم ہوجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی اس معرفت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے انسان کے دل میں محبت ذاتی پیدا ہوتی ہے محبت ذاتی کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی محبت نہیں ہوتی جو دنیادار مثلاً انگلستان یا ہندوستان یاکسی اورملک کا رہنے والا اپنے افسر سے محبت یا لگائو کااظہار اس لئے کرتا ہے کہ اس سے کچھ دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک اس قسم کی (میں کہوں گا) بیہودہ سی محبت بھی دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی معرفت انسان کو حاصل ہوجائے اور اس کی عظمت اور اس کے جلال کا علم مل جائے اور یقینی طورپر انسان کے سامنے خداتعالیٰ کی عظمت اوراس کاجلال اور اس کا حسن اوراس کااحسان آجائے توخدا تعالیٰ کا پیار پیدا ہوتا ہے۔ محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اورمیں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اس طورپر ذاتی محبت پیدا ہوجائے تویہ محبت محبت ذاتی جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے دو تقاضے کرتی ہے۔ ایک یہ کہ انسان کو شش کرتا ہے کہ میرا یہ محبوب میری کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں مجھ سے ناراض نہ ہوجائے اور دوسرے یہ کہ انسان کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ میں وہ اعمال بجا لائوں جن کے نتیجہ میں میری یہ محبت یکطرفہ نہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کاپیار اور اس کی رضا بھی مجھے حاصل ہو۔
میں نے بتایا تھا کہ ۷ ستمبر کو جو بھی ایک مذہبی فیصلہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے کیا اس کا رد عمل احمدی کی طرف سے جس کے دل میں اپنے رب کا پیار ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خدشہ ہو اور یہ بات ہمیں قرآن کریم نے بتائی ہے کہ کن باتوں سے وہ ناراض ہوتا ہے اور کن اعمال کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ وہ کام جن کے متعلق قرآنِ عظیم نے کہا ہے کہ اگرانسان ان کا مرتکب ہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کومول لینے والا ہے ان میں سے میں نے دو کا ذکر کیا تھا۔ ایک ظلم اوردوسرے فساد کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ظلم کو پسند نہیں کرتا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں فساد سے پیار نہیں کرتا تو ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ظالم ہو یا فسادی ہو وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کرسکتا بلکہ اس کی ناراضگی مول لینے والا ہوتا ہے۔ اس لئے جماعت احمدیہ اور احباب جماعت احمدیہ (سوائے چند منافقوں کے یا پھربہت ہی نئے نئے جوان احمدیوں کے جن کی تربیت ابھی صحیح نہیں ہوئی جو لاکھ میں شاید ایک ہوان کے سوا اور کسی کا ردعمل ایسا نہیں ہوگا کہ جس کے متعلق قرآنِ عظیم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ کام کرو گے تواللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لوگے اوراللہ تعالیٰ کی رضااور اس کے پیار کو تم حاصل نہیں کرسکو گے تو میں نے اس قسم کے دوبداعمال کا پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا۔
میںنے بتایا ہے کہ قرآنِ عظیم نے بہت سے ایسے اعمال کا ذکر کیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے اور بہت سے ایسے اعمال کا ذکر کیا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی رضا مترتب ہوتی ہے اور انسان کو اپنے اس عظیم اورپاک اور عظمت اور جلال کے سرچشمہ اورتمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور ہر ایک عیب سے پاک ذات کی محبت اس کو مل جاتی ہے۔
آج میں مختصراً دوایسی مثبت باتیں لوں گا جن کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ تم یہ اعمال بجا لائو گے تواللہ تعالیٰ کی محبت تمہیں مل جائے گی یعنی معرفت کے نتیجہ میںپیدا کرنے والے رب کریم کے لئے جو تمہارے دل میں پیدا ہوگا وہ یکطرفہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ پیار کا سلوک کرے گااوراس کی رضا کوتم حاصل کروگے۔ ان میں سے پہلی چیز صبر ہے۔ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ اور اس آیت میں صبر کے دو۲ پہلو نمایاں کئے ہیںاسی آیت میں جس کے آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْناس کے شروع میں دو۲ معنی بتائے ایک یہ کہ وہ تکالیف جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہنچی ہیں ان کے نتیجہ میں انسان سست ہوتا ہے نہ ضعف کے آثار اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں یعنی ضعف اورکمزوری پیدا نہیں ہوتی اور سستی پیدا نہیں ہوتی تو جوں جوں اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں(آفات کے ذریعہ اورابتلاء کے ذریعہ اور بأساء کے ذریعہ ضرّاء کے ذریعہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے) خداتعالیٰ کے بندے کی اس کے محبوب کی طرف سے آزمائش کی جاتی ہے اسی نسبت سے اس کے اعمال صالحہ میں وھن اور سستی کی بجائے زیادہ شدت پیدا ہوتی ہے اور ضعف وکمزوری اورتانوانی کی بجائے طاقت پیدا ہوتی ہے وہ اور ابھرتا ہے جس طرح بچے ٹینس کی گیند اور ربڑ کی گیند کے ساتھ کھیلتے ہیں(بچپن میں ہم بھی بہت کھیلا کرتے تھے اب وہ عمر گزرگئی) جتنے زور سے گیند کو زمین پر آپ پھینکیں اتنے ہی زور کے ساتھ وہ زیادہ اونچا ابھرے گا تو انسان جب اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ اس کی آزمائش کے لئے اور اس کے ثواب میں زیادتی پیدا کرنے کے لئے اور اپنی محبت کا زیادہ حسین رنگ میں اظہار کرنے کے لئے اپنی مخلوق میں سے بعض کو اپنے اس بندے کو زمین پر پٹخنے کی اجازت دے دیتا ہے کہ میرے اس بندے کو زمین پر زور سے پٹخو! اور جب وہ پٹخا جاتا ہے تو وہ ایک کمزور ایمان والے کی طرح یا غافل کی طرح زمین کے ساتھ چپک نہیں جاتا بلکہ جتنے زور سے پٹخا جاتا ہے اتنا بلند ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے تواس آیت میں صبر کے ایک معنی یہ بتائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے پیار کرتا ہے میں اس کی آزمائش کرتاہوںاوراس کو مصیبتوں میں ڈالتا ہوں اگرمیرے ساتھ پیارسچا ہو تو اس ابتلا اورامتحان کے اوقات میں میری محبت کے اظہار میں نہ سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ میرے ساتھ عشق کے تعلق میں کمزوری اور ضعف پیدا ہوتا ہے بلکہ جوں جوں اسے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے اورپیسا جاتا ہے اسی نسبت سے اس کا پیار زیادہ ابھرتا ہے اوروہ ایسے اعمال بجا لاتا ہے جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے جلوے زیادہ حسین اور اس کا عرفان (بندہ کے دل میں) نسبتاً بہت زیادہ عظمتوں والا بن جاتا ہے۔ کلیتہً (اور کامل طورپر) تو حسن اور احسان کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مگر اس کی صفات کے جلوے اپنے بندوں کے ساتھ ان کے پیار اور ان کے اعمال کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص پر خد اتعالیٰ کے پیار کا جلوہ ایک جیسا نہیں ہوتابلکہ ہرشخص پر اس کی محبت اور اس کی قربانی اور ایثار اور اس کے صبر اور دوسری وہ چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ پیارکرتا ہے ان کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی استعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرا رنگ ہے۔ کسی کی استعداد تھوڑی ہے کسی کی زیادہ ہے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو ا س کے حسن اوراحسان کے جلوے جو اس کے پیار اوررضا کے جلوے اسی کے مطابق نسبتاً کم یا زیادہ صورت میں اس پرظاہر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس صبر کرنے والے سے پیارکرتا ہوں جسے میری راہ میں دکھ دیا جاتا ہے۔ اس میں نہ کمزوری واقع ہوتی ہے نہ ضعف واقع ہوتا ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بشاشت کے ساتھ اورپہلے سے بھی زیادہ ذوق اور شوق کے ساتھ( جیسا کہ میں نے بتایا رمضان کی عبادتوں میں یہ انسان کی حالت روحانی ہو جاتی ہے) میرا بندہ میری طرف بڑھتا ہے اور جتنی تیزی سے وہ میری طرف بڑھتا ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ میں اس کی طرف بڑھ رہاہوتا ہوں۔ یہ اس کی جزا ملتی ہے۔ اور اس آیت میں صبر کے دوسرے معنیٰ یہ کئے گئے ہیں کہ’’مخالف کے سامنے تذلل اختیار نہ کرنا بلکہ غَیْرُ اللّٰہِ کے سامنے تذلل توحید سے بُعد کانام ہے کیونکہ جو توحید خالص پر قائم ہوتا ہے وہ تو غیر اللہ کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی مانند بھی نہیں سمجھتا اور حقیقت بھی یہی ہے۔ آپ خود بھی سوچیں کہ جس پاک وجود یعنی ہمارے اللہ نے اتنے بڑے عالمین(Universe)کوپیدا کیا۔ اتنے بڑے عالمین کی وسعت کوہمارا دماغ اورقوت فکر اپنے احاطہ میں نہیں لے سکتی۔ (ایک لمبے مضمون کو مختصر کرکے میں اس کی مثال دے دیتا ہوں کہ) ہمارا جو نظام شمسی ہے (بہتوں کو اس سے واقفیت ہوگی بعض بچوں کو نہیں ہوگی) ان گنت اور بے شمار نظام ہائے شمسی سے ایک قبیلہ بنتا ہے۔ وہ قبیلہ اس عالمین کی ایک اکائی ہے۔ اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اس کو انگریزی میں گیلیکسی (Galaxy)کہتے ہیں اور یہ گیلیکسی (صرف) اپنی وسعتوں کے اندر قائم (اورمحدود) نہیں بلکہ جب سے گیلیکسیز پیدا ہوئی ہیں اور جو گیلیکسی پیدا ہوجائے وہ ایک خاص معین اورنامعلوم جہت کی طرف حرکت کررہی ہے اتنی وسعت ہے اور کے متعلق ان سائنسدانوں کا (جن کا تعلق ستاروں کاعلم حاصل کرنے سے ہے) کہنا ہے کہ ہم ان نظام ہائے شمسی کو شمار ہی نہیں کرسکتے جن سے ایک گیلیکسی یا ایک قبیلہ بنتا ہے گویا ان گنت سورج کے نظاموں سے مل کر ایک قبیلہ بنتا ہے۔ سورج کے ایک نظام کوایک خاندان سمجھیں اس سے پھر ایک قبیلہ بنتا ہے اور اس قبیلہ میں سورج کے بے شمار نظام ہیں اور اس ساری چیز کا ایک وجود ہے اور وہ سب سے اپنی اپنی نسبتیں(جوایک دوسرے سے ہیں) قائم رکھتے ہوئے ایک جہت کی طرف حرکت میں ہیں مثلاً ہمارا سورج اور اس کے نظام کے ستارے اپنے اپنے محور پر بھی ایک خاص زاویہ میں ایک خاص تیزی کے ساتھ حرکت کررہے ہیں اور سورج کے گرد بھی ان کی حرکت جو ایک مخصوص فاصلہ پر ہورہی ہے اپنی جگہ قائم ہے اور ایک نظام شمسی کی نسبت وسعت کے لحاظ سے دوسرے نظام شمسی کے ساتھ ہے۔ یہ بے شمار اور ان گنت نسبتیں اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کی آپس میں رکھی ہیں اور سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ جو گیلیکسی ہے جس میں ان گنت اور بے شمار نظام ہائے شمسی ہیں ان قبائل کی تعداد بھی بے شمار ہے اور ان گنت ہے آپ کا دماغ چکرا جائے گا۔ ہم اس وسعت کودماغ میںلا ہی نہیں سکتے۔ پھر خالی یہ نہیں بلکہ ان بے شمار نظام ہائے شمسی کے بے شمار قبائل کی حرکت آپس میں Parallelیعنی متوازی نہیں بلکہ ہرلمحہ ان کے آپس کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ان بے شمار اوران گنت قبائل کے درمیان کا فاصلہ ہر آن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ تو جس خلا (Space)میں یہ ان گنت گیلیکسیز (Galaxies) ہیں اس کی وسعت کا تصور کون کرسکتا ہے اور یہ فاصلہ بڑھتے بڑھتے ایک وقت میں اتنا ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر بے شمار اور انگنت خاندانوں کی ایک گیلیکسی سما سکے تو آدھے سائنسدان اس بات کے قائل ہوگئے ہیں کہ) اس وقت خدا تعالیٰ کُنْ کہتا ہے اور یکدم بیشمار اوران گنت خاندانوں کا ایک قبیلہ وہاں پیدا ہوجاتا ہے۔
اورچونکہ یہ حرکت ایسی ہے کہ ان کا باہمی فاصلہ ہر وقت بڑھ رہا ہے تو گویا ہروقت ان بے شمارگیلیکسیز کے درمیان اوربے شمارگیلیکسیز پیدا ہورہی ہیں اور ان کا کوئی خاتمہ نہیں۔
پس خدا تعالیٰ کی صرف صفتِ ’’خلق‘‘ میں اتنی وسعت ہے تو خداتعالیٰ کو ہماری عقل اپنے احاطہ میں لے ہی نہیں سکتی اور جب ہم نے اس عظیم ہستی پر کامل توکل کرکے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالا توپھر کسی اور کے سامنے تذلل کے ساتھ ہم جھک کیسے سکتے ہیں؟ تو یہ ہے صبر جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے۔
صبرؔ کے متعلق بہت سی آیات ہیں جن پر درجنوں خطبے دئیے جاسکتے ہیں لیکن میں آپ کو ایک احمدی کی حقیقتِ حیات سمجھانے کیلئے مثالیں دے رہا ہوں کہ ایک احمدی ایسا ہے جوصبر کرتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے اوراللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جوصبر کرے گا وہ میرا پیارحاصل کرے گا۔ دوسری جگہ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔(البقرۃ:۱۵۴) پہلے جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ صبر کرنے والے سے پیار اور محبت کرتا ہے اور یہاں یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا صبر کرنے والے سے ہرقسم کااچھا تعلق ہے۔میں اس پہلے تصور سے بڑھ کر ایک تصور پیش کیا گیا ہے اورصبرؔ کی جو صفت مومن کو اپنے اندرپیدا کرنے کو کہا اس سے ایک اورامر کی طرف توجہ دلائی اور گویا ساری زندگی کی روحانی کوشش کو ان دو۲ چیزوں کے اندر محدود کردیا یعنی صبر اورصلوٰۃ(یعنی دعا) کہ اگر تم صبر اوردعا سے میری مدد چاہوگے تومیں ہروقت تمہارے ساتھ رہوں گا۔ایک تو اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ خالی دعا (بغیر تدبیر کے) بالکل بے نتیجہ ہے کیونکہ یہ نہیں کہا کہ جو محض صلوٰۃ سے کام لیتا ہے دعا کرتا ہے اس کی زندگی کی کوششیں ثمر آو رہونگی۔ یہ کہا کہ جو دعا بھی کرتا ہے اور صبر بھی کرتا ہے(وہ کامیاب ہوگا) صبر کے جیسا کہ میں نے ابھی معنیٰ بتائے ہیں یہ ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے روحانی عمل کے اندر کمزوری نہیں پیدا کرسکتی۔ جب انسان آزمایا جاتا ہے تو اس کی تدبیر کمزور ہونے کی بجائے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں یہ مفہوم ہوگا کہ جودعا اورجو تدبیر وہ تدبیر جو صحیح معنی میں ہو اور ان راہوں پر ہوجو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت انسان حاصل کرتا ہے۔ ویسی تدبیر اوردعا اللہ تعالیٰ کی ہرقسم کی معیت جو انسان کی جسمانی اور روحانی زندگی کے لئے چاہیئے۔ وہ معیت اسے میسر آجاتی ہے اور جب کے معنیٰ دوسری جگہ سورۂ بقرہ میں ہی ہمیں یہ بتائے کہ (یہ آیات صبر، مصیبت اورآزمائش اورامتحان اور اس کی جزاء سے متعلق ہیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مصیبت کے وقت اور امتحان کے زمانہ میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کا زبانی اورعملی ورد کرتا ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہم نے توساراکچھ تیرے سپرد کردیا۔ ہم سارے کے سارے خد اکے ہیں۔ زمین وآسمان خدا کی ملکیت ہے۔ یہ’’ل‘‘ کے معنوں میں داخل ہے۔ انسان کو خدا نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا انسان کہتا ہے اِنَّالِلّٰہِ ہم سارے کے سارے ہرپہلو سے تیرے ہی ہیںاورہم یہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی یہاں ختم ہونے والی نہیں اورہم تیری طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ اس زندگی میں بھی اس رجوع کا مطلب یہ ہے کہ توہمیں اپنی حفاظت میں رکھ اورہمارے اعمال کا نتیجہ اچھا نکال اوراُخروی زندگی میں ہمیں پچھتاوا نہ ہو کہ ہم نے دنیا میں جو نیک کام کرکے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کوحاصل کرنا تھا اس میں کوتاہی اور غفلت اور وَھْن اور ضُعف پیدا نہ ہو۔ وہ آیات جن میں مختلف آزمائشوں کا ذکر ہے مثلاً وہ آزمائشیں اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں۔ میرا مضمون یہ ہے کہ ہرآزمائش کے وقت خدا تعالیٰ کے ان احکام کو سامنے رکھ کر اِنَّ ِللّٰہِ کا احساس(ذہنی احساس اور عملی احساس) قائم رکھنا کہ جس کے ہم مِلک ہیں اور ایک زبردست ہستی اپنی ملکیت کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے وہ سلوک ہم اس سے متوقع رکھتے ہیں اور ہم اس کی پناہ میںہیں وہ ہمیں آزمائے گا تو سہی لیکن ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔ وہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا بلکہ وہ ہماری ترقیات کے اور دروازے کھولنے والا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمتیں حاصل کرنے والے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں کہ گویا خداتعالیٰ ان کی انگلی پکڑ کر ان کے نیک انجام تک ان کو پہنچادیتا ہے اور منزل مقصود تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور انتہائی کامیابی ان کو مل جاتی ہے اورچونکہ صبر کے ساتھ آزمائشوں کا بھی ذکر ہے اس لئے ساتھ ہی یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ ایک تو اصول ہے تعلیم یہ ہے کہ تم خدا کے ہوجائو گے اور اپنے قول اور فعل سے کہنے والے ہوگے اور تمہارا توکل اورتمہاری نگاہیں کی طرف ہوں گی۔
آخری انجام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو اللہ تعالیٰ سورۂ رومؔ میں فرماتا ہے کہ اگر تم استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہو تو اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں بھرپور وعدے دئیے ہیں جو ہماری زندگی کے ہر پہلو میں برکتوں کے وعدے ہیں اورنیک انجام کے وعدے ہیں اور ترقیات کے وعدے ہیں۔ اس زمانہ میں توخدا تعالیٰ نے امت محمدیہ اور اس زمانہ کے مومنوں کواتنا زبردست وعدہ دیا ہے کہ ویسا وعدہ صرف صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملاتھا ورنہ دنیا کی تاریخ میں نوع انسانی کو اتنی زبردست بشارت آج تک نہیں ملی(آج سے میری مراد اسلام سے قبل ہے) اور اسلام کے دو۲ حصوں پر یہ بشارت بٹی ہوئی تھی۔ ایک وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت آپ کی تربیت حاصل کرکے اس وقت کی ساری دنیا پر اسلام کوغالب کرنے والے بنے۔ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ اور ایک وہ دوسرا گروہ جس کا تعلق(ہمارے پہلے بزرگوں کے نزدیک بھی)مہدیٔ معہود علیہ السلام کے ساتھ تھا یعنی تم جماعت احمدیہ(کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق مہدی آگئے)تم سے خداتعالیٰ نے آج وعدہ کیا ہے۔ اتنی بڑی بشارت دی ہے کہ انسان اس بشارت کو دیکھ کر پھر اپنی کمزوریوں پر نگاہ کرکے کانپ اٹھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کمزور اور دھتکاری ہوئی جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کردے گااور کشفی حالت میں اور الہام میں اسکی شکلیں یہ دکھائیں(اس کی بھی میں ایک مثال دے دیتا ہوں) مثلاً روس ہے۔ روس میں جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ریت کے ذروں کی طرح دکھائی گئی۔ سارے روس کے ریت کے ذرے کون گن سکتا ہے۔ یہاں دریا کے کنارے پر جاکرکسی دن کھڑے ہوکر اپنے پائوں کے نیچے جو ریت کے ذرے آئیں گے ان کو گننے کی کوشش کرنا، وہ بھی تم سے نہیں گنے جائیں گے۔ یہ توایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ زمانہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ہے۔ اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ کن لوگوں کے ذریعہ سے یہ کام ہوگا۔ پس بڑی ذمہ داریاں ہیں اوراپنے نفوس کی بڑی اصلاح کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ سے بہت پختہ تعلق قائم کرنے اور قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے۔
اور جہاں یہ کہا کہ استقلال سے ایمان پرقائم رہووہاں یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان وعدوں پر یقین نہیں رکھتے۔ فَاصْبِرْ اِ نَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ تو ساتھ یہ کہا کہ جوان وعدوں پریقین نہیں رکھتے( ان سے ہوشیار رہو) یہ یادرکھو کہ وہ تمہیں دھوکہ دے کر اپنی جگہ سے ہٹا نہ دیں۔ ہر وقت محتاط رہنا۔
اوردوسری چیز بنیادی طور پر جواللہ تعالیٰ کی محبت کوجذب کرتی ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے(آل عمران:۳۲) اگر تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی معرفت اور احسان کے بعد پیدا ہوچکی ہے تو یہ نہ سمجھنا کہ محض اس محبت کے پیدا ہوجانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم سے پیار کرنے لگ جائے گا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر تمہارے دل میں سچی محبت ہے تو قرآن کہتا ہے کہ تمہیں یقین رکھنا چاہیئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو جواب میں بھی حاصل کروگے مگر اس کے لئے ایک شرط ہے۔ اس کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے کی کوشش میں ہروقت لگا رہے۔ اس اتباع کے بغیر اور محض معرفت کے نتیجہ میں کسی سینہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ محبت کا سلوک نہیں کرتا۔ بیچ میں اتباعِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بات یہ ہے کہ کوئی چیزبھی اور خصوصاً جو بڑے بڑے سائنس کے علوم ہیں وہ عملؔ (اورعملی تجربات) کے بغیر بے نتیجہ ہیں یعنی محض علم کا ہونا انسان کو اس کا پھل نہیں دے سکتا جب تک عمل نہ ہو۔ اس کی عام فہم مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دی ہے (بچے بھی سمجھ لیں گے) اگرڈاکٹر یہ کہے کہ بچے کو ملیریا بخار ہے اسے کونین دولیکن بچہ کہے کہ کونین کڑوی ہے میں نہیں کھائوں گا اور نہ کھائے تو(کیا) کونین کا فائدہ اس بچہ کو ہوگا؟ صرف اس علم کی وجہ سے کہ کونین سے ملیریا کا بخار اترجاتا ہے وہ بخار نہیں اترتا۔ محض علم بخار نہیں اتارتا۔ علم کے مطابق عمل کرنا بخار اتارتا ہے۔ یہ علم اب عام زمینداروں کو بھی ہوگیا ہے کہ گندم کے بہت سے بیج ایسے ہیں جن کے لئے زیادہ مقدار میں مصنوعی کھاد کی ضرورت ہے اور مصنوعی کھاد زیادہ پانی مانگتی ہے۔اگر انسان گندم کے لئے بیج لگا دے اور تجربوں سے جو ثابت ہوا ہے کہ اتنی کھاد چاہیئے اس کا پتہ توہو مگراس پر عمل نہ کرے(انسان کاعلم ہرروزناقص ہی رہتا ہے نئے نئے تجربے ہوتے رہتے ہیں اور نیا علم انسان کو بتاتا ہے کہ پہلا علم ناقص تھا جس پر تونازاں ہواکرتا تھا، بڑا فخر کرتا تھا بہرحال) اب ماہرین یہ کہتے ہیں کہ نئے بیج کیلئے ایک اور دوکی نسبت سے کھاد کی ضرورت ہے یعنی تین میں سے ایک فاسفورس اوردویوریا کی نسبت ضروری ہے۔ اگر ایک بوری فاسفورس کی ڈالی ہے تودوبوری یوریا یا اگر سوپائونڈ فاسفورس ڈالا ہے تو دو۲ سو پائونڈ یوریا چاہیئے۔ اگرکوئی ایسا بیج لگائے اور اس کو صحیح مقدارمیں کھاد اور وقت پر پانی ملتا رہے تو پچاس یا ساٹھ من ایک ایکڑ میں سے گندم ہوجائے گی۔ بیج تووہ لگادے لیکن کھاد دینے کاوقت آئے تو وہ سوچے کہ کون رقم خرچ کرے بس اسی طرح ٹھیک ہے، اللہ مالک ہے، تو خدا کا قانون اور حکم کہتا ہے کہ جو علم میرے قانون کاتم نے حاصل کیا اگر اس کے مطابق تم عمل نہیں کروگے تونتیجہ وہ نہیں نکلے گا جس کی تم توقع رکھتے ہو یا جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ محکمہ زراعت والے مشورہ دیتے ہیں کہ اتنی کھاد ڈال دو اور اگرآپ اتنی کھاد ڈال دیں اور محکمہ آبپاشی آپ کو وقت پر پانی مہیا نہ کرے جیسا کہ بسااوقات احمدی میرے پاس یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں وقت پر پانی نہیں دیا اورنہر یا سوئے بند کردئیے اور درمیان میں کوئی ایسی روک آجاتی ہے توسوکھے کی وجہ سے گندم کے جلنے کا امکان زیادہ ہے پچاس ساٹھ من گندم پیدا ہونے کا امکان کم ہے۔
میں آپ کو یہ دو۲ مثالیں دے کر یہ سمجھا رہاہوں کہ محض علم اور معرفت کا حاصل ہونا نتیجہ خیر نہیں۔ اس کے لئے اس کے مطابق عمل ہونا چاہیئے۔ پس معرفت صرف علم ہے اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی اس شان کو جو فی الواقعہ ہے جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کی کبریائی اور اس کی وحدت، ان چیزوں کی جب انسان معرفت حاصل کرتا ہے تو پھر اس میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت توبہرحال عمل کروا دیتی ہے کیونکہ پھردوری ناقابل برداشت ہوجاتی ہے لیکن (ہم یہ ممکن مثال لے رہے ہیںکہ) اگرمعرفت ہواورعمل نہ ہو، قریب جانے کی کوشش نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ نہ ہو جہاں سے ہمیں ان اعمال کا علم مل رہا ہے یعنی قرآن کریم، وہ ہم پڑھیں نہ، اس پر غور نہ کریں، قرآن کریم کے علم کے مطابق کوئی نمونہ ہمارے سامنے نہ ہو اوراسوۂ حسنہ کونظر انداز کردیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے اورتمام ان لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ کاپیارحاصل کرنا چاہتے ہیں ایک اسوۂ حسنہ ہیں۔جو خدا کو چاہتا ہے اور اس کی محبت حاصل کرنے کی توقع رکھتا ہے اور امید رکھتا ہے اور رِجَاء رکھتا ہے اس کے لئے محض معرفت کے نتیجہ میںسینوں میں اوردلوں میں محبت کا پیدا ہوجانا کافی نہیں اور حقیقتاً تووہ محبت ہے ہی نہیں جو عمل کی طرف انسان کو اکساتی نہیں۔ قرآن کریم نے کہاَ اگر معرفت باری تمہیں حاصل ہوگئی اور خدا تعالیٰ کی معرفت کے بعد تمہارے دل میں اس کا پیار پیدا ہوگیا توپھر بھی تمہیں اس کا پیار نہیں ملے گا جب تک تم کے مطابق میری(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) کامل اتباع نہیں کروگے۔ یہ اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کروایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اسوہ بنایا ہے اگراپنی محبت کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی محبت کی توقع اور رِجَاء رکھتے ہو تومیری اتباع کرنی پڑے گی، میرے پیچھے چلنا پڑے گا، نمازیں اس طرح اداکرنی پڑیں گی جس طرح میں نے کیں، روزے اس طرح رکھنے پڑیں گے جس طرح میں نے رکھے۔ یہ درست ہے کہ آپ کی استعداد تمام بنی نوع انسان سے زیادہ تھی۔ اسوہ اور مثال یہ نہیں کہ آپ اگرساتویں آسمان سے اوپر نکل گئے(اور آپ کامقام عرش رب کریم پر ہے) تو ہر مسلمان کوساتویں آسمان سے اوپر نکلنا چاہیئے، یہ نہیں کہا، یہ اسوہ نہیں ہے۔ اسوہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف ایک ہستی کو ساتوں آسمان پارکرکے عرشِ رب کریم کے پاس جگہ دینی تھی تو وہ شخص اپنی استعداد اور قوت کی کامل نشوونماکے نتیجہ میں وہاں پہنچ گیا تو جس کی جتنی جتنی استعداداورقوت ہے اپنی استعداد اور قوت کے دائرہ کے اندر سب سے زیادہ جو روحانی اورجسمانی مقام انسان کو حاصل ہوسکتا ہے وہ اس کو حاصل ہونا چاہیئے اوروہ جو اتباع کرے گا اس کے نتیجہ میں جو اس کی طاقت اور اس کی روحانی استعداد ہے اس کے مطابق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والااور اسی استعداد کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والا ہے اوریہ چیز محل اعتراض نہیں کیونکہ جس برتن میں صرف ایک سیر دودھ سما سکتا ہے اس میں اگر تم ڈیڑھ سیر ڈالو گے توآدھ سیر بہہ جائے گا اور ضائع ہو جائیگا کیونکہ اس برتن میں سیر سے زیادہ گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہی حالت انسان انسان کی ہے۔ انسان کا جو ظرف ہے(انسان کے معاملہ میں ہم ظرف کہتے ہیں) جس طرح دودھ کے برتن ہیں اورگھی کے برتن ہیں اورآٹا رکھنے کے برتن ہیں اور پھرتوڑی رکھنے والے بڑے بڑے چھتوں والے کمرے بنائے ہوئے ہوتے ہیںاوربعض دفعہ لپائی کرکے گُم سُم چھپا ہوا ایک گھر بنا لیا جاتا ہے جس میں توڑی بھرلی جاتی ہے۔تو اگروہ دس گز کے رقبہ میں بناہوا ہے تو اتنی ہی توڑی آئے گی۔ اگروہ سوگڈّوں کی گنجائش والی جگہ ہے تواتنی بلندی تک لے جاکر آپ سوگڈے تولپائی کرسکتے ہیں اس میں دوسو گڈّے نہیں سما سکتے۔ اسی طرح ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے ایک ظرف دیا ہے اورہر فردِواحد کے لئے انتہائی خوشی کے سامان یہ ہیں کہ جتنا اس کے اندر سماسکتاتھا اس کو مل گیا۔ جس طرح ان سوبرتنوں میں سے جن میں ایک سیر دودھ پڑسکتا ہے۔ زبان حال سے سب سے زیادہ خوش وہ برتن ہے جس میں ایک سیر دودھ پڑگیا اور ان سَو میں سے مثلاً دس برتنوں میں سیرسیر دودھ پڑگیا۔ باقی ماندہ میں سے مثلاً کسی کے پیندے کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ جس برتن میں پیندے کے ساتھ دودھ لگا ہوا ہے وہ برتن ’’خوش‘‘ نہیں۔ قرآن نے کہا کہ جہنم بھی شور مچا دیگی کہ کوئی اور ہے تواور مجھے دیدو۔ وہاں ایک علیحدہ فلسفہ بیان ہوا ہے و ہ اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کام کے لئے جس مقدار اورجس حد تک جانے کے لئے بنائی گئی ہے اتنی پوری مقدار اس کو نہ ملے تو پوری خوشی اس کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی عبادات اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رنگ میں کیں کہ آپ کی استعداد جہاں تک آپ کو پہنچا سکتی تھی وہاں تک آپ پہنچنے میں کامیا ب ہوگئے اوراپنی استعداد کے مطابق کامل خوشی حاصل کی۔ اگرچہ دوسروں کے مقابلے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اکثرلوگ تو زمین پرہی روحانی مسرتیں حاصل کررہے ہیں، پہلے آسمان تک بھی نہیں پہنچے اورآپ ساتویں آسمان کوبھی پھلانگ کرعرشِ رب کریم کے پاس پہنچے اورخدا تعالیٰ نے بڑے پیار کے ساتھ اٹھا کر اپنی دائیں طرف اپنے عرش پر بٹھالیا۔ اس حقیقت کے بیان کے لئے یہ ایک تمثیلی زبان ہے ورنہ سمجھ ہی نہیں آسکتی اور ایک وہ شخص ہے جس کی استعداد اورظرف صرف پہلے آسمان تک جاتا ہے۔ جب اس کا پیمانہ بھرگیا تو جس طرح دودھ کا برتن منہ تک بھرجانے سے ایک حسن پید ا ہوتا ہے، بھینسوں والوں میں سے جس نے پہلے کبھی یہ حسن نہیں دیکھا وہ جاکر دیکھے کہ سیر والاپیمانہ جب بھرجاتا ہے تواس میںایک حسن پیدا ہوتا ہے، جب پیندے میں دوچھٹانک دودھ پڑا ہوا ہو تو اس میں کوئی حسن پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری یہ ظاہری آنکھ بھی اس حسن کودیکھتی ہے۔ پھر جانوروں کی خوبصورتیاں ہیں مثلاً بڑی خوبصورت وہ بھینس ہے جس کا جسم پوری طرح ڈِیوَیلوپ (Develope) ہوا ہو۔ وہ بہت اچھی لگتی ہے۔ یہاں بہت سے زمیندار آئے ہوئے ہیں۔ وہ خیر اور برکت کے ساتھ واپس جائیں اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اورامان کے اندر وہ جائیں۔ (موسم اب بدل رہا ہے اورشرافت کا موسم اور حقوق کی ادائیگی کا موسم آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر فضل کرے۔ یہ توضمنی بات تھی)
ہر انسان اپنے اپنے ظرف کے مطابق جب پوری نشوونما حاصل کرلیتا ہے توپوری لذت اورسرور وہ محسوس کرتاتھا(اورجس قدر ممکن الحصول تھا) اتنا اسے مل گیا۔ اسی کے مطابق اس نے محسوس کرناتھا۔ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے (دوسری بات جو مثبت رنگ کی ہے یعنی) یہ کرو گے توخدا تعالیٰ راضی ہوجائیگا۔ (پچھلے خطبہ میں مَیں نے کہاتھا کہ یہ نہ کرنا اللہ ناراض ہوجائے گا) اب میں دوباتیں قرآن کریم کے مطابق ایسی بتارہا ہوں کہ قرآنِ کریم نے کہا یہ کرو گے تو میرا پیار حاصل کرو گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معرفت کے نتیجہ میں محبت اورمحبت کے نتیجہ میں خشیت پیدا ہوتی ہے یعنی خدا کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ اس کے متعلق میں نے پہلے خطبہ میں بتایا تھا لیکن ایک جذبہ یہ ہے کہ جب میں اپنے پیدا کرنے والے رب سے محبت اورپیار کررہا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ جو میرا محبوب ہے وہ مجھ سے پیار کرے اورمجھ سے محبت کرے، اس کی رضا مجھے حاصل ہو، یہ انسانی فطرت کے اندر ہے۔ قرآن کریم نے کہا اس کا سامان ہم نے کردیا۔ اس محبت کے پیدا ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میری محبت ہر ایک کو اس کے ظرف کے مطابق مل جائے گی۔ اگراتباع نہیں کروگے، اگرمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ نہیں بنائوگے تو میری محبت نہیں ملے گی اور مجموعی طورپر جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پرنظر ڈالتے ہیں تو وہ دوحصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک کو ہم مکی زندگی کہتے ہیں اورایک کو مدنی زندگی کہتے ہیں۔ ہمارا یہ زمانہ آپ کی اس زندگی سے مشابہ ہے جو مکی زندگی تھی۔ امتحان اور ابتلاء اورمصائب خدا کی خوشنودی اور محبت کی خاطر برداشت کرنے کی زندگی تھی۔ یہ نمونہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی گزارو! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنی تمام برکتیں بھیج کر اور محبت کے سامان پیدا کردئیے تھے اسی طرح تمہارے لئے بھی پیدا ہوں گے کیونکہ اسلام کے ذریعہ جس خدا سے ہمارا تعارف کرایا گیا ہے نہ اس خدا کی طاقتیں کم ہوتی ہیں نہ معطل ہوتی ہیں، نہ اسے نیند آتی ہے نہ وہ اونگھتا ہے، نہ وہ بوڑھا ہوتا ہے وہ تو ازلی ابدی خدا اپنی طاقتوں کے انتہائی جلووں کے ساتھ جوخدا میں ہونے چاہئیں موجود ہے۔ جس رنگ میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اپنے فدائین اورجاں نثاروں کی مدد کرسکتا تھا اسی طور پر بغیر ایک ذرہ کمی کے وہ آج بھی(اگر آپ کا اخلاص ویسا ہو اوراس مقام تک پہنچ جائے جہاں ان کا پہنچا تھا)ویسی ہی مدد وہ آپ کی کرسکتا ہے اورآپ وفا کے دامن کو نہ چھوڑیں وہ اپنی محبت کا دامن آپ کے اوپر سے کبھی نہیں اٹھائے گا اور اس کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں گی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۷۴ء صفحہ۱ تا۷)







تکبراللہ تعالیٰ کوپسندنہیں اس کے بالمقابل
وہ عاجزی کو پسند کرتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۴؍اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
پچھلے مہینے خطبات کا جو سلسلہ میں نے شروع کیا تھا اس میں مَیں نے بتایا تھا کہ جو مذہبی فیصلہ ہوا ہے اس کے متعلق جماعتِ احمدیہ مجھ سے دو۲ سوال پوچھ رہی ہے۔ ایکؔ تو یہ کہ اس فیصلہ پرمیرا تبصرہ کیا ہے اور دوسرا ؔیہ کہ اس فیصلہ پر ہماری جماعت کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ میں نے اس وقت بتایا تھاکہ جہاں تک تبصرہ کا سوال ہے شاید دوتین ہفتہ کے بعد میں تبصرہ کروں لیکن اب میںبڑے غور اور دعا کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں ابھی یہ تبصرہ نہ کروں بلکہ آئندہ جنوری یا فروری میں تبصرہ کروں جہاں تک ردعمل کا تعلق ہے اس سلسلہ میں دو۲ خطبے میں پہلے دے چکا ہوں، تیسرا آج دے رہا ہوں۔
میں نے بتایا تھا کہ اس اسلام ایک نہایت ہی حسین اورہر لحاظ سے کامل اور مکمل شکل میں ’’حق‘‘ کا یعنی اللہ تعالیٰ کا تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوعِ انسان کے لئے توحید کا جو پیغام لائے اورآپ نے بنی نوعِ انسان کے سامنے اسے جس شکل میں پیش کیا ہم نے اس کی معرفت اس زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ حاصل کی۔ اس معرفت کے نتیجہ میں ایک طرف خدا تعالیٰ کی عظیم کبریائی کا احساس اوردوسری طرف اس کا ایسا حسن جلوہ گرہوا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ معرفت ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوئی جس نے دو۲ رخ اختیار کئے۔ ایکؔ یہ کہ ہم جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ہر لحظہ اورہرآن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں اپنی کسی غفلت یا گناہ یا کوتاہی کے نتیجہ میں یانافرمانی کی وجہ سے ہمارا محبوب ہم سے ناراض نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت اس خشیت کی وجہ سے ہے جو ہر احمدی کے سینہ میں پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے دل میں ہر وقت یہ جوش اور جذبہ پیدا ہوتا رہتا ہے کہ ہم ایسے کام بجا لائیں اورہم سے ایسے افعال سرزد ہوں جو اللہ نے کی نگاہ میں صالحہ ہوں اور جن کے نتیجہ میں ہمیں اس محبت کا جواب ملے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں پیدا کیا ہے یعنی جو معرفت کے نتیجہ میں ہمارے سینوں میں پیدا ہوئی ہے، ہماری محبت کے جواب میں خدا تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرنے لگے۔
میں نے اس سلسلہ میں اپنے پہلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جن اعمال سے یا جن باتوں سے انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے ان کا علم بھی ہمیں قرآن عظیم ہی سے مل سکتا ہے اورقرآن عظیم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم سے پیار نہیں کرتا اورنہ ظالم سے پیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا اور نہ فسادی سے پیار کرتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میںجو خشیت پیدا کی ہے وہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم خود کو ظلم سے کلّی طورپر بچائیں اور ہم فساد کی کسی صور ت میں شریک نہ ہوں اور اس داغ سے جو خدا تعالیٰ کا غضب مول لینے والا ہے یعنی فساد کا داغ وہ ہمارے اعمال پر اور ہماری روح پرنہ پڑے تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ ہوں۔
غرض میں نے اپنے پہلے خطبہ میں صرف انہی دو۲ باتوں کوبیان کیا تھا اور دوسرے خطبہ میں میں نے دوباتیں وہ بیان کی تھیں جن کے متعلق قرآن عظیم نے بتایا ہے کہ جولوگ ایسے اعمال بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے۔ گویا پہلے دو۲ اعمال ایسے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نفرت کرنے لگتا ہے، اس کا غضب بھڑکتا ہے اور دوسرے دو۲ اعمال ایسے بتائے تھے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ پیارکرتا ہے۔ آج میں پھر پہلیخطبہ والے مضمون کی طرف لوٹتاہوں لیکن چونکہ میری طبیعت میں کمزوری ہے اس لئے مختصراً صرف ایک بات بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
خشیت اللہ جس چیز سے ہمیں باز رکھتی ہے یاقرآن کریم کی روسے اللہ تعالیٰ جس بات سے ناراض ہوجاتا ہے اور نفرت کرنے لگتا ہے وہ ہے تکبر۔ یعنی عاجزی کا فقدان گویا کسی آدمی کا مختلف شکلوں میں خود کوبڑا سمجھنا یا خود کودوسروں سے بلند قرار دینا تکبر ہے مثلاً کسی کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا ہوجاتا ہے یا کسی کے پاس سیاسی اقتدار ہوتا ہے وہ (بعض اوقات) متکبر بن جاتا ہے۔ کسی کے پاس علم ہوتا ہے یا کسی کو مہارت حاصل ہوتی ہے جو اسے متکبر بنادیتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیسیوں باتیں ہیں جن کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسان تکبر کرنے لگتا ہے تاہم ہر علم ، ہرسیاسی اقتدار، ہر دولت ، ہرجتھہ اورہرجسمانی طاقت کے نتیجہ میں کبر نہیں پیدا ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کے بندے انہی چیزوں کی بدولت خدا تعالیٰ کے مزید فیوض کو حاصل کرتے ہیں لیکن دولت، اقتدار اور علم ومہارت کی وجہ سے بعض دفعہ تکبر بھی پیدا ہوجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اسکو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

دوسری جگہ فرمایا:-
(النحل:۲۴)
یعنی اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا۔ وہ ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہے جیسا کہ سورۂ اعراف کی مذکورہ بالاآیت میں فرمایا کہ جو لوگ ہمارے احکام کو جھٹلاتے ہیں اورہمارے نشانات سے اعراض کرتے ہیں اور وہ اس وجہ سے اعراض کرتے ہیں کہ وہ خود کو ان احکامات اور نشانات کے لانے والوں سے بڑا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے جب رسول آتے ہیں اور ہمارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے رسول اور خاتم الانبیاء تھے تویہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے جیسا انسان ہمارے اوپر روحانی حکومت چلانے آگیا ہے۔
پس خودلوگوں کا یہ تکبر اور فخر یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا یا اپنے نفس کو ایسی عظمت دینا جو موجود ہی نہ ہو تصنّع سے یا میں کہونگا حماقت سے۔ تصنّع سے تو لُغت نے کہا ہے اور حماقت سے ایسا سمجھنا تکبر کی حقیقت ہے یعنی آدمی خود کوکچھ سمجھ لے، یہ میرے نزدیک حماقت ہے۔ غرض خدا تعالیٰ کی طرف سے جو احکام نازل ہوں ان کے مقابلہ میں تکبر کرکے ان کا انکارکرنا یا قبول کرکے ان کے مطابق اعمال نہ بجالانا یہ تباہی کا موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نفرت کا باعث بنتا ہے۔ ہم جو احمدی ہیں ہمیں سارے کے سارے احکامات یعنی اوامر ونواہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملے ہیں اوروہ قرآن عظیم میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی عظمت کا انسانی عقل احاطہ نہیں کرسکتی اور جس کے معانی پر انسانی علم پوری طرح حاوی نہیں ہوسکتا۔ اس آخری ہدایت اورابدی شریعت نے ہمیں وہ تمام احکام دئیے جو جسمانی اور روحانی طورپر انتہائی رفعتوں تک پہنچانے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ اعلان فرمایا کہ خدا کے مقرب بندے میرے لائے ہوئے احکام یعنی میری شریعت اورہدایت پر عمل کرکے پہلوں کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں بھی اورقرب میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اورقرب یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے پیار کی باتیں سنے کیونکہ ایک ایسا’’پیار‘‘یا پیار کے حصول کا ایک ایسا دعویٰ جس کے لئے کوئی دلیل نہ ہو، بے معنیٰ دعویٰ ہے۔ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی سے پیار کرے تو اس سے گفتگو بھی کرے۔ یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے پیاراور گفتگو کرے۔
فطرت کی پہلی آواز کہ جس سے انسان پیارکرے اس سے باتیں بھی کرے، دعا ہے۔ اسلام نے دعا کرنے کا حکم دیکر ہمیں ایک عجیب چیز عطا کی ہے۔ انسان اپنے خدا سے دعا کرتا ہے اوروہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی معرفت توہمیں حاصل ہوتی ہے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ اپنے وجود اوراپنی کیفیت میں اتنا مختلف ہے کہ ہماری آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی اسلئے وہ اپنی صفات کی تجلیات سے خود کوشناخت کرواتا ہے وہ اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے۔یہ نشانات ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ حسن، حسنِ ازلی کا ہے۔ جس طرح پھول پسِ پردہ ہوتے ہوئے بھی خوشبو سے اپنی شناخت کروا دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے۔ آجکل کے جورنگ برنگ گلاب کے پھول نظر آتے ہیں ان میں خوشبو نہیں ہوتی لیکن دیسی گلاب میں خوشبو ہوتی ہے یا اسی طرح کے اور کئی پھول ہوتے ہیں جن کی خوشبو ہوتی ہے۔ اگراس قسم کے پھولوں کے باغ کے پاس سے آپ گزریں جس کی چاردیواری ۶۔۷ فٹ اونچی ہے آپ کی نظر اندر نہیں جاتی، آپ ان پھولوں کو دیکھ نہیں سکتے لیکن آپ کا ناک آپ کو بتا دے گا کہ یہاں یہ پھول ہے مثلاً موتیا ہے یا چنبیلی ہے وغیرہ حالانکہ آپ نے اس کودیکھا نہیں ہوتا۔
پس وہ خدا جو انسان کو نظر نہیں آتا اورنہ آسکتا ہے وہ اپنے نشانات سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنے نشانات سے اوراپنے پیار سے اپنے حسن واحسان کی خبر دیتا ہے۔
میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت کے بعد انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کے لئے محبت جوش مارتی ہے، اس محبت کا تقاضا ہے کہ خدا اس سے باتیں کرے، اس کے لئے اسلام نے ہمیں دعائیں سکھائیں اورہمیں دعا کرنے کی تعلیم دی۔ دعا کرنے کی تعلیم کے نتیجہ میں ہم اپنی زبان میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی اجازت پاتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں اور بہت سی دعائیں سکھادیں، ایسی عظیم دعائیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے۔ وہ ایک قسم کے نشانِ راہ ہیں۔ وہ علامات ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ خدا کے حضور جا کر انسان پناہ لے۔ ایک طرف ہمیں یہ دعا سکھا دی اے خدا! ہم جو بھی تیرے حضور پیش کریں تو اسے قبول فرما اورایک نبی کے منہ سے یہ کہلوایا: ہمارے اسلام کوسلامت رکھ اور قائم رکھ۔ یہ کتنی بڑی دعا ہے، جس میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ اسلام کی سلامتی کے لئے انسان خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے کا محتاج ہے نہ کہ کسی اور کا، اور دوسری طرف حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بوٹ کا تسمہ بھی لینا ہو تو خدا سے مانگو۔ اب تو پتہ نہیں تسمے کی کیا قیمت ہے۔میں نے خود کبھی تسمہ نہیں خریدا۔ جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ایک آنے یا چھ۶ پیسے کا تسمہ ملتا تھا۔ گوتسمے کی عمر جوتے سے چھوٹی اوربوٹ کی عمر تسمے سے بڑی ہوتی ہے اور پھر یہ بھی کہ بچے کے ایک بوٹ کے لئے بعض دفعہ ماں باپ کو پانچ پانچ، دس دس دفعہ تسمے خرید کردینے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں یہی کہا گیا کہ اگرتمہیں اتنی چھوٹی چیز کی بھی ضرورت پڑے تو اپنے خدا سے مانگو۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی تم خدا کے حضور جھکو اور دعا کروکہ اے خدا! ہمیں فلاں چیز کی ضرورت ہے ۔ اپنے فضل سے وہ ہمیں عطا فرما۔
میں نے بتایا ہے کہ جوشریعت آنی تھی وہ توکامل اورمکمل شکل میں آگئی لیکن بعد میں قیامت تک کی آنے والی نسلوں کی پیاس تو نہیں بجھتی۔ ہرانسان کہتا ہے کہ میراپیارا خدا مجھ سے کلام کرے تو اس کے لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام دو۲ قسم کا ہوتا ہے۔ ایک شریعت وہدایت کا حامل ہوتا ہے اور وہ آگیا ہے (اور کامل ومکمل ہوگیا ہے) وہ اب نہیں آئے گااور ایک خدا کاکلام صرف بشارتوں پر مشتمل ہوتا ہے اوروہ قیامت تک آتارہے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ اس لئے محبت کا یہ حصہ تودونوں طرف ہے ایک یہ کہ وہ پیار کرے اور بات کرے۔ خشیت اللہ محبت کی بنیا د بنتی ہے اور محبت تقاضا کرتی ہے اپنے محبوب سے باتیںسننے کا۔ ہمیں جو اسلامی شریعت ملی ہے اس میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام بند ہوگیا ہے بلکہ قرآن کریم ایسے ارشادات اور آیات سے بھرا ہوا ہے کہ خدا اپنے پیارے بندوں سے باتیںکرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے جس کا یہ تقاضا ہے کہ بندہ اپنے خدا سے دعا کرے اوروہ اپنے بندہ سے ہم کلام ہو۔ فطرت کا یہ تقاضا ویسے ہی ہے جیسے ایک ماں اپنے دوتین ماہ کے بچے کو کندھے سے لگائے باتیں کررہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے دو۲تین ماہ کابچہ توایک لفظ بھی نہیں سمجھتاتاہم اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ماں پاگل ہوگئی ہے اس لئے وہ چھوٹے بچے کے ساتھ باتیں کرتی ہے، ماں کو پتہ ہوتا ہے کہ بچہ باتیں نہیں سمجھتا لیکن ماں کوپتہ ہے کہ اس کے دل میں بچے کے لئے محبت ہے اوروہ محبت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے سے باتیں کرے۔ اسی طرح خداکے بندے خدا سے باتیں کرتے ہیں اور اسکی باتیں سنتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعائوں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہوں۔ اب دعائوں کاسننا کوئی ایسا فلسفہ تو نہیں جس کیلئے کوئی دلیل نہیں یا جس کاکوئی ثبوت نہیں۔
پس خدا تعالیٰ اپنے بندہ کی دعا سنتاہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اس کااسے جواب مل جاتا ہے ورنہ پھر تو ہماری دعا کا نتیجہ ایک بت کے سامنے دعا کرنے کے مترادف ہے۔ نہ بت بولے نہ خدا بولے(نعوذباللہ) مگر قرآن کریم نے کہا کہ تم ان ہستیوں کی باتیں کرتے ہوجو تمہیں جواب تک نہیں دے سکتیں اور جو تمہاری دعا ئیں نہیں سن سکتیں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ صرف خدا تعالیٰ ہی ہے جو انسان کی دعائوں کو سنتا اور جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری آیات کا انکار کرتے ہیں اوراپنے آپ کو بڑاسمجھ کرہماری لائی ہوئی ہدایت یعنی قرآن عظیم جیسی ہدایت سے بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے: ان پر آسمان کے دروازے کھولے نہیں جاتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ قرآن کریم پر ایمان لاتے اوراس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہیں ان کے لئے آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس آیت سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے لیکن ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ واضح طورپر فرماتا ہے کہ (الاعراف :۹۷) کہ اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اورتقویٰ اختیار کرتے تو آسمان اورزمین کی برکات ان کے اوپر کھول دی جاتیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ان پر کھول دئیے جاتے۔ پس تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور جو اس کا الٹ ہے، اس کی ضد ہے۔ یعنی عاجزی وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو۔ آپ نے فرمایا:- ’’بدتر بنوہرایک سے اپنے خیال میں‘‘ یعنی اپنے آپ کو سب سے زیادہ عاجز سمجھو، سب سے زیادہ حقیر اور ساری دنیا کے نیچے سمجھو۔ اس سے تمہارا خدا تعالیٰ سے وصال اورپیار کا تعلق قائم ہوجائے گا۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے، ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھے بیٹھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے جھکنا شروع کیا۔ آپ کا سرجھکتا رہا، جھکتارہا۔ یہاں تک کہ سواری کی کاٹھی پر جالگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا سر اتنا جھک گیا کہ اس سے زیادہ جھک ہی نہیں سکتا تھا۔
پس جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے تو وہ لوگ جو خو دکوآپ کے غلاموں کے بھی غلام سمجھتے ہیں ان کامقام تو نہایت عاجزی کامقام ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اورآپ کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا مقام احقر الغلمان کا ہے اور ہماری نسبت سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کا مقام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم ترروحانی فرزند کا ہے یعنی ایک ایسا سالار جس کے زمانہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ساری دنیا میں اسلام نے غالب آنا ہے ہمارے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا بڑا اونچا مقام ہے لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام نے خود اپنے مقام کی تعیین احقر الغِلْمان کی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں اوراس یقین اورمعرفت پر قائم ہوں کہ کہ اگر حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قسم کا عاجزانہ رشتہ قائم نہ کرسکتے جو انہوں نے قائم کیا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظِلّ اور کامل انعکاس نہ بن سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل انعکاس بننا یا آپ کی پوری تصویر پورے خدوخال کے ساتھ نمایاں طورپر اپنی زندگی میں ظاہر کرنا، کامل عاجزی کو چاہتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کا ایک دھبہ بھی اس کے اوپر نہ پڑے۔ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا اور کامل طور پر عاجزانہ راہوں کو اختیار نہیں کرتا، اور کچھ دیتا ہے اور کچھ اپنے پاس رکھ لیتا ہے اس کا شیشہ ایسا ہی ہے جیسا کہ برسات کے موسم میں بعض خراب شیشوں کے پیچھے جب نمی چڑھتی ہے تو اس میں دھبے آجاتے ہیں لیکن جب حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے اپنا سب کچھ مٹا دیا اورکامل طورپر فنافی الرسول کامقام حاصل کیا تو اس وقت آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل اورکامل انعکاس بنے۔ پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا مقام احقر الغلمانؔ یعنی کامل عاجزی کا مقام تھا اور جو ہمارے ساتھ آپ کا رشتہ ہے، وہ ہم سمجھتے ہیں کہ عقلاً بھی حکماً بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب روحانی فرزند کی حیثیت سے ہے۔ حکم سے میری مراد ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبر دی ہے وہ ہمارے لئے حکم ہے کہ مہدی معہود علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے اور بہادر اورمحبوب روحانی فرزند اور اسلام کے جرنیل ہیں۔ آپ اس امت کے جرنیل ہیں اس لئے کہ امت مسلمہ میں ہم سے پہلے جو بزرگ گزرے ہیں، ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مہدی م علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا کے انسانوں کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کردے گا۔ تمام ادیان باطلہ پر اسلام کا کامل غلبہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں مقدر ہے۔ اس لئے مہدی علیہ السلام کی بڑی شان ہے لیکن بڑی شان ہے ہمارے مقابلہ میں کیونکہ آپ نے جوکچھ لیا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آپ کا مقام احقر الغلمان ہے اورہماری نسبت سے آپ کا مقام بڑا بلند ہے۔ بہرحال جو بات میں اس وقت آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا اس واقعہ پر ہی رد عمل نہیں بلکہ زندگی کے ہر واقعہ پر ہمارا ردعمل ایسا ہوتا ہے اور ایسا ہونا چاہیئے کہ جس میں اپنے نفسانی جوش کا شائبہ نہ ہو اور جس میں تکبر اورفخر اور غرور بالکل نہ ہو او رانسان یہ سمجھے کہ میں نیست ہوں۔ میں لاشئی محض ہوں۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو میرا اپنا ہے ہی کچھ نہیں اور اگرآپ(احمدیوں) کی زندگی کا سہارا اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اورآپ کو اس حقیقت کااحساس ہوتو پھر آپ کو کسی اور چیز کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ہی بنادے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲؍نومبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۵)









ایسی تمام بدعات سے اجتناب کریں جوشریعت اسلامیہ
اور سنت نبوی کے خلاف ہوں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۱؍اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
آج جمعہ ہے۔ یہ جمعہ ماہِ رمضان کا جمعہ ہے اورماہِ رمضان کے یہ ایام رمضان کے آخری عشرہ کے ایام ہیں۔ رمضان کا مہینہ دعائوں کا مہینہ ہے رمضان کا مہینہ قبولیت دعا کا مہینہ ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کو انسان کے پہلو پر لاکھڑا کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کا مہینہ شرفِ انسانی کے قیام کا مہینہ ہے۔ رمضان کا مہینہ اخوت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کا مہینہ بہت ہی ذکر الٰہی کرنے کا مہینہ ہے۔ مختلف قسم کی عبادات بجالانے کا مہینہ ہے۔ بہت ہی بابرکت مہینہ ہے جس میں سے گزر تے ہوئے اب ہم اس کے آخری عشرہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس آخری عشرہ کی بھی بعض خصوصیات ہیں مثلاً یہ کہ اس عشرہ میں لیلۃ القدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے یعنی اسکی ہر رات کو تلاش کی رات بنا دیا۔ ہررات کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور متضر عانہ دعائوں کی گھڑیاں بنا دیا اورعام طورپر بہت سے لوگوں کو وہ گھڑیاں نصیب ہوجاتی ہیں۔ جن میںدعائیں قبول ہوتی ہیں اوروہ لوگ اپنی ذہنیت اور ایمانی کیفیت کے لحاظ سے ایسے ہوتے ہیں کہ جونوعِ انسانی کے لئے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کی دعائوں کی قبولیت کے نتیجہ میں انسانیت اور نوعِ انسانی کی تقدیریں بھی بعض دفعہ بدل جاتی ہیں۔ اس عشرہ میں یہ ہمارا جمعۃ (الوداع) واقع ہے۔ جمعہ خود بہت سی برکتیں اپنے ساتھ لاتا ہے۔ خواہ وہ رمضان میں ہویا رمضان سے باہر ہو۔ خواہ وہ(رمضان کے) پہلے بیس دنوں میں ہویا رمضان کا آخری جمعہ ہو۔ یہ تو صحیح ہے کہ رمضان کے بابرکت ایام کے آخری عشرہ کے بہت ہی زیادہ بابرکت ایام میں یہ خصوصی برکتوں والا دن جسے ہم جمعہ کہتے ہیں آیا ہے لیکن جماعتِ احمدیہ اور اس کے افراد کو جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان نصیب ہوا ہے۔ہمیشہ اس چیز سے بچتے رہنا چاہیئے کہ ایسی بدعتیں جو ناپسندیدہ ہوں اور شریعت اسلامیہ کے خلاف ہوں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہمیں ان کا پتہ نہ ملتا ہو وہ بدعتیں کسی چیزمیں بھی شامل نہ ہوں اس جمعہ میں بھی شامل نہ ہوں۔ نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ توعلم حاصل ہوتا ہے کہ جمعہ ایک برکت والا دن ہے اس میں بعض گھڑیاں ایسی ہیں جن میں خاص طورپر دعا قبول ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا دن ہے جو پہلے چھ دنوں میں ایک مومن اپنی ذمہ داریاں دنیوی بھی اوردینی بھی اداکرتے ہوئے جوکمزوریاں اپنی اس کوشش میں چھوڑجاتا ہے اللہ تعالیٰ جمعہ کی انہی بابرکت گھڑیوں میں ان کمزوریوں کے بد اثرات کو دورکردیتا ہے اور وہ معاف کردیتاہے۔ دعائوں کی یہ بابرکت گھڑیاں کفارہ بن جاتی ہیں عبادات اورفرائض کی ان خامیوں اورکمزوریوں کے لئے جو انسان بشری کمزوری کی وجہ سے پچھلے چھ دنوں میں کرتا آیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی تم پردینی اور دنیوی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اوردونمازوں کے درمیان یہ ذمہ داریاں تم بہر حال اداکرتے ہو جو نماز کے علاوہ ذمہ داریاں ہیں وہ نماز کے اندر تونہیں ادا ہوتیں۔ جس وقت آدمی نماز پڑھ رہا ہو اس وقت تو نماز کی یعنی اَلْصَّلٰوۃ کی ذمہ داری، باجماعت فرض نماز کی ذمہ داری اور سنت اور نوافل کی ذمہ داری اداکرتا ہے لیکن بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر صرف نماز پڑھنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے عائد نہیں کی بلکہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی(نماز کے علاوہ) دوسری ذمہ داری ہے۔ نماز میں بھی حقوق العباد کی ایک ذمہ داری ہم پرپڑتی ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں۔ سب انسانوں کے لئے دعائیں کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں۔ حقوق اس معنیٰ میں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں، اس کی تسبیح کرتے ہیں، اس کی تحمید کرتے ہیں اور اس طرح کہنے کوتوہم اللہ کے حقوق اداکررہے ہوتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی جھولیاں اس کے فضل سے بھررہے ہوتے ہیں۔ انسان کو خوش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں ان کانام حقوق اللہ رکھتا ہوں فائدہ صرف تمہیں ہے مجھے تونہیں۔ میں تو غنی اور صمد ہوں جسے کسی کی احتیاج نہیں ہے لیکن چونکہ نماز کے علاوہ اور بھی دینی اور دنیوی ذمہ داریاں ہیں وہ بہرحال بَیْنَ الصَّلٰوتَیْن یعنی دونمازوں کے درمیان ادا کی جاتی ہیں توآپ نے فرمایا کہ ہرنماز اپنے اورپچھلی نماز کے درمیان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بشری کمزوریوںکی وجہ سے جو نقائص رہ جاتے ہیں ان کے لئے کفارہ بن جاتی ہے۔ اسلام بڑا پیارا مذہب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بڑی رحمتیں لے کر آئے ہیں تو ہر نماز کے متعلق آپ کا یہ ارشاد ہے کہ ہر نماز پہلی نماز اور اس کے درمیان(مثلاً اب جمعہ کی نماز ہم پڑھیں گے اس سے پہلے صبح کی نمازہم نے ادا کی تو اس کے درمیان) خدا تعالیٰ نے دنیوی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں ان میں سے کچھ کوتم نے اداکیا اور تم بشر اور کمزور ہو خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر اور اس کی مغفرت کی چادر میں آئے بغیر تم اپنی کمزوریوں کے بدنتائج سے بچ نہیں سکتے۔ اپنی کمزوریوں کے واقع ہونے سے بچ نہیں سکتے۔
پس ایک تو آپ نے یہ فرمایا کہ ہر نماز اپنے سے پہلی اوراپنے درمیان کی کمزوریوں اور گناہوں اور غفلتوں اور کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور معاف کروادیتی ہے۔ اگر خلوصِ نیت کے ساتھ تضرع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور انسان جھکے تو اس کی یہ غفلتیں اور کوتاہیاں جو بَیْنَ الصَّلٰوتَیْن ہوں دور ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ جو رہ جائیں اس کے لئے کسی بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتو ہم نے جمعہ کی بعض گھڑیاں قبولیتِ دعا کی ایسی رکھی ہیں کہ ایک جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان کی کوتاہیاں جو نمازوں کی ادائیگی کے باوجود مغفرت کی چادر میں نہیں آسکیں وہ جمعہ ان کو دور کردیتا ہے اورآپ نے فرمایا کہ بعض ایسی تمہاری کوتاہیاں ہوں گی کہ جو ایک جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان جمعہ کی دعائیں اور جمعہ کی تضرع اور عاجزی دور نہیں کرسکے گی توفکر نہ کروہم نے رمضان کا مہینہ اس کے لئے مقرر کیا ہے اور ایک رمضان اوردوسرے رمضان کے درمیان کے گیارہ ماہ کی کوتاہیاں اور غفلتیں رمضان کی عبادات کے ذریعہ دورہوجاتی ہیں بشرطیکہ خلوصِ نیت ہو اور انسان سارے کا سارا اپنے رب کے لئے ہوکر زندگی گزارنے والا ہو۔اپنی زندگی کودوحصوں میں بانٹ کر ایک حصہ شیطان کو دینے والا اوردوسرا حصہ خدا کے حضور پیش کرنے والا نہ ہو کیونکہ پھراللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جس کوتم نے میرے حصہ میں سے دیا ہے اسی کوجاکر سارا دے دو میری تمہیں اب ضرورت نہیں۔
پس ہرنماز پہلی نماز اوراپنے درمیان کی غفلتیں اورکوتاہیاں دور کرتی ہے اور ہر جمعہ پہلے جمعہ اور اپنے درمیان کی کوتاہیوں اور غفلتوں کو(جوباقی رہ جاتی ہیں) دورکرتا ہے اور ہر ماہِ رمضان پہلے رمضان اوراپنے درمیان کے گیارہ مہینوں کی غفلتیں اورکوتاہیاں دورکرتا ہے۔ یہ توآپ نے فرمایا ہے لیکن آپ نے ایک اور وضاحت کی ہے اور عام طورپر لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ یہ غفلتیں اور کوتاہیاں کبائر نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تک انسان، خدا کا بندہ کبائر سے اجتناب کرتا رہے اس وقت تک خدا تعالیٰ اسکو یہ توفیق دے گا مثلاً نماز کو ترک کر دینا کبائر میں سے ہے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک رمضان اور دوسرے رمضان کے درمیان کے یہ کبیرہ گناہ کہ نماز کو اس نے ترک کیا معاف نہیں ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ معاف نہیں ہوگا۔ جو ایسا نہیں سمجھتا وہ بدعت کا عقیدہ رکھتا ہے اور بدعت کا عمل کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں اگر زکوٰۃ تم پر واجب ہوتی ہے اور جو خدا کی راہ میں زکوٰۃ نہیں دیتا اور خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ کبائر کا ارتکاب کرنے والا ہے اوریہ بالکل معاف نہیں ہوگا۔ رمضان اور رمضان کے درمیان اگر کوئی شخص کبائر کامرتکب ہوا ہے تو رمضان کی دعائیں، رمضان کی برکتیں، رمضان کی رحمتیں، رمضان میں اللہ تعالیٰ کا بندہ کے قریب ہوجانا۔ یہ وعدہ کرنا کہ رمضان کی تمہاری عبادات کے نتیجہ میں میںایک خاص جزا دوں گا۔مَیں ہوں تمہاری جزا اتنیبڑی بشارت کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلط فہمی میں نہ رہنا۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ تم کبائر کے مرتکب ہوتے رہو اوراللہ تعالیٰ تمہیں معاف کردے۔ جب تک بندہ اجْتَنَبَ الْکبَائِر۱؎ ( ۱؎ نوٹ: پوری حدیث یوں ہے۔ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات مابینھنّ مااجتنبت الکبائر (مسند احمدبن حنبل جلدنمبر۲، صفحہ۴۰۰)) کے مطابق کبائر سے اجتناب نہیں کرتا اس وقت تک یہ برکتیں، یہ وعدے اس کے حق میں پورے نہیں ہوں گے۔ اس قسم کی بدعتیں ہیں وہ ہمارے لئے نہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہمیں اللہ تعالیٰ نے سمجھ دی ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھنے اوران پرغور کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ اگر کبائرسے اجتناب ہو تو پھر ایک نماز اپنے سے پہلی نماز کے درمیان کی کوتاہیاں معاف کرا دے گی۔ جمعہ اپنے اورپہلے جمعہ کے درمیان کی کمزوریاں خدا تعالیٰ سے معاف کروا دیگا۔ (مگر خلوص نیت ہونا چاہیئے) اور رمضان، رمضان کے درمیان جو کوتاہیاں اور غفلتیں ہیں اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی مل جائے گی لیکن کبائر کے متعلق یہ اصول نہیں ہے اور سب سے بڑا کبیرہ گناہ توشرک ہے۔ شرک کی پھر آگے شاخیں ہیں کہ انسان بعض دفعہ سمجھتا ہی نہیں۔ اسی لئے خدا نے کہا کہ شرک کی باریک سے باریک قسموں سے بھی بچو اور کامل تقویٰ اختیار کرو انسان اپنے نفس کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اپنی عقل کوکچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اپنے علم کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اپنے جتھے اورقوم کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اپنے ملک اوراپنی ایجادات کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ جس طرح مثلاً امریکہ اور روس نے ایٹم بم کیا ایجاد کرلیا یہ لوگ اپنے آپ کوانسان سے ایک بالا مخلوق سمجھنے لگ گئے اور ان کا خیال یہ ہے کہ ساری دنیاکو ان کی ـغلامی کرنی چاہیئے۔ پاکستان توان کی غلامی کرنے کے لئے تیار نہیں(جہاں تک ہم اپنے ذہنوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ملک ہے اورہم نے قربانیاں دے کر اس کو بنایا ہے اور ہم اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں اور اس رمضان میں بھی ہم نے اس کے لئے بڑی دعائیں کی ہیں اور اب بھی آپ دعائیں کرتے رہیں۔ رمضان کے ایام میں(بھی اور بعد میں بھی) کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر اس اندرونی یا بیرونی منصوبہ سے جو اس کے استحکام کو کمزور کرنے والا ہواور اسے انصاف اور عدل کی بنیادوں سے ہٹا کربے انصافی اورظلم کی طرف دھکیلنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس سے محفوظ رکھے) پس شرک کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مقابلہ میں لآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے یعنی خدائے واحد ویگانہ کو ذات اور صفات کو سمجھنا اور اس کی معرفت حاصل کرنا اور کسی چیز کو بھی کسی رنگ میں کسی طور پر اسکی ذات اورصفات میں شریک نہ ٹھہرانا یہ ہے لآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ(کا صحیح معنی میں اقرار) پھرنماز۲ہے، روزہ۳ ہے، زکوٰۃ۴ ہے، حج۵ ہے اگر شرائط حج پوری ہوجائیں۔اسی طرح دیگر احکامات ہیں۔ مثلاً جہاد ہے۔ یہ بڑا ضروری حکم ہے۔ لیکن اس کے لئے بہت سی شرائط ہیں۔ جماعت احمدیہ سے پہلے بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ جہاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ ساری امت مسلمہ کا ایک امام اکبر ہو یعنی ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک امام اکبر ہو اور اس کے بغیر جہاد نہیں ہے۔جہاد کی کئی قسمیں ہیں لیکن اس وقت یہ میرا مضمون نہیں ہے۔
فرائض میں بھی آپس کا فرق ہے لیکن بنیادی طورپر جوفرض ہے وہ ہے خدا تعالیٰ کے حکم کو ماننا یعنی خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے باغیانہ رویہ اختیار نہ کرنا۔ اس کے حضور جھکے رہنا اور(تمثیلی زبان میں یہ کہ) اس کے پائوں پر اپنے ماتھے کوہروقت لگائے رکھنااوراسی کے ہوجانا اورغیراللہ کی طرف نگاہ نہ کرنا یہ ایمان کی بنیاد ہے اوریہ جواصولی تعلیم ہے اس کو ترک کرنا کبائر میں سے ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جارہا۔ تفصیل میں پھر بعض صغائر بھی آجاتے ہیں۔ مثلاً چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اِمَاطَۃُ الْاَذیٰ عَنِ الطَّرِیْقِ یعنی رستہ میں کوئی ضرر رساں چیزپڑی ہو اس کو ہٹا دینا یہ چھوٹے سے ایمان کاایک فعل ہے توجوشخص راستہ میں مثلاًکیلے کا چھلکا پھینک دیتا ہے اور کوئی گند پھینکتا ہے تووہ گناہ کرنے والا ہے لیکن ہر گناہ کبیرہ نہیں ہے۔ صغیرہ ہے لیکن ہمیں یہ بھی حکم نہیں کہ کبائر سے بچو اورصغائر کرتے رہا کرو۔ ہمارے ایمان کا یہ تقاضا نہیں حکم یہ ہے کہ کبائر سے بھی بچو اور صغائر سے بھی بچو ہر دوسے بچنے کا حکم ہے لیکن انسانی کمزوریاں ہیں وہ بعض دفعہ سہواًبے خیالی میں چلتے چلتے چھلکا پھینک دیتا ہے اور بے خیالی میںاپنے دھیان میں کچھ سوچتا چلا جارہا ہے اور سامنے راستہ میں چھلکا آیا وہ اس نے دیکھا نہیں اور اٹھایا نہیں اور اِمَاطَۃُ الْاَذیٰ عَنِ الطَّرِیْقِ والا ثواب اس نے حاصل نہیں کیا یہ چیزیں ہیں جو بین الصَّلوٰتَیْن اور دو جمعوں کے درمیان اور دورمضان کے درمیان معاف ہوتی ہیں ورنہ بنیادی طورپر ایمان پر بکلی یعنی شاخوں سمیت قائم رہنا( ضروری ہے) اور ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک دعا سکھا ئی ہے اوروہ یقینا بنیادی چیز ہے کہ ایمان پر مضبوطی سے قائم رہا جائے اوراللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ اپنے ایمان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے تمہیں میرے حضور عاجزانہ دعائوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے اسوہ کے مطابق اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں اورآپ کے اسوہ کے مطابق ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعاکرتے رہنا چاہیئے کہ اے ہمارے پیارے رب! ہمارے ایمانوں کو محفوظ رکھ اور سلامت رکھ کہ تیرے فضل کے بغیر ہمارے ایمان ہر وقت خطرہ میں پڑے رہتے ہیں۔ پس اپنے ایمانوں کی سلامتی اور حفاظت کے لئے ہمیں خداتعالیٰ کی احتیاج ہے۔ اس کے بغیر کسی اورکی احتیاج نہیں ہے۔ اسی کے ذیل میں میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میرا خیال ہے وہ مضمون بہت لمبا ہوجائے گا۔ آدھ پون گھنٹے کا مضمون ہے اس کو ادھورا چھوڑنا نادرست نہیں(اس لئے وہ پھر کسی موقع پر بیان ہو جائے گا) بہرحال میں نے آپ کو یہ بتایا ہے۔ بچوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ہرنماز پہلی نماز اوراپنے درمیان کے وقفہ(میں سرزد ہونے والی خطائوں کو معاف کرواتی ہے) اس درمیانی وقفہ میں جہاں نماز کی عبادت کی علاوہ دوسری ذمہ داریاں انسان نباہتا ہے۔ ان میں کوئی ایسا وقفہ نہیں جو دونمازوں کے درمیان نہ ہو۔ صبح کی نماز اور ظہر کے درمیان، ظہر اورعصر کے درمیان، عصر اور مغرب کے درمیان، مغرب اور عشاء کے درمیان، عشاء اور صبح کی نماز کے درمیان، یہی ہماری زندگی ہے۔ دن اسی کا مجموعہ ہے۔ پانچ نمازوں کے اوقات مل کر ایک دن بن جاتے ہیں اور یہ دن مِل کر ہفتے بن جاتے ہیں اور ہفتے پھر سال بن جاتے ہیں اورکئی سال اکٹھے ہوکرہماری عمر بن جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہمیں یہ بشارت دی کہ نماز، نماز کے درمیان کی جوکوتاہیاں اور غفلتیں ہیں ان کے لئے نماز میں دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ جو غفلتیں ہوگئی ہیں وہ دورکراور ہمیں معاف کردے لیکن غفلتوں سے مراد کبائر نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جوانسانی کمزوریوں کے نتیجہ میں اس سے سرزد ہوجاتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ اور جمعہ کے درمیان کے وہ صغائر، وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جو ہماری نمازیں معاف نہیں کروا سکیںجمعہ کی بعض گھڑیاں ایسی ہیں جن میں خدا کے حضور جھکو اورکہو کہ اے خدا ہم نے کوشش کی لیکن ہماری کمزور کوششوں کے نتائج پورے نہیں نکل سکتے جب تک تیرافضل شامل حال نہ ہو۔جو خامیاں رہ گئی ہیں۔ اب اس ہفتہ کی کوتاہیوں کو آج معاف کردے اور اگر خلوصِ نیت ہو اور اگر انسان کے اندر ایک عاجزانہ تڑپ ہو اور تضرع ہو اور حقیقی توحید پر وہ قائم ہو اوراللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گرہوں گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے توپھر اسے امید رکھنی چاہیئے کہ ہر جمعہ سے پہلے سات دنوں کے اس کے اس قسم کے صغائر جو پہلے معاف نہیں ہوسکے وہ اس جمعہ کی پاک گھڑیاں معاف کروا دیتی ہیں پھر بھی کچھ رہ سکتا ہے۔ انسان کمزور ہے(مَیں یہ بتارہاہوں کہ کتنا پیارہے بندے سے اللہ کا اور کتنی رحمت کا جلوہ ہے بندے پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا) کہا پھربھی ہوسکتا ہے تمہارے کچھ صغائر معاف ہونے سے رہ جائیں تو رمضان کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینہ کا ہردن اپنے سے پہلے بارہ مہینوں کی خطائیں معاف کرواتا ہے۔ سارا مہینہ مل کر سارے سال کی خطائوں کی معافی کے سامان پیدا کرتا ہے لیکن کبائر معاف نہیں ہوتے۔ شرک معاف نہیں ہوتا۔ نمازیں چھوڑی ہوئی ہیں تووہ معاف نہیں ہوتیں کیونکہ جو پانچ ارکان اسلام ہیں۔ توحید کا اقرار، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ان کو چھوڑنا کبائر میں شامل ہے۔ ان کے متعلق آپ نے واضح طورپر فرمایا ہے کہ جوان کو چھوڑے گا اس کی کوئی معافی نہیں ہوگی سوائے حقیقی توبہ کے ۔ ہاں صغائر جوانسان کی بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں سرزدہوتے ہیں ان کی معافی کے یہ سامان ہیں۔ اسی طرح بڑی عیدہے اس کے متعلق کہا۔ اس رحمۃ للعالمین کا اپنی امت کے لئے لائی ہوئی تعلیم کا اور آپؐ کی دعائوں اور آپ کے جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے اور خدا تعالیٰ نے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیئٍ کہہ کرجوایک عظیم ارشاد فرمایا تھا اسی ارشاد کی روشنی میں یہ ساری چیزیں ہیں کہ دو نمازوں کے درمیان کی خطائیں معاف ، جمعہ اورجمعہ کے درمیان کی خطائیں معاف، رمضان اور رمضان کے درمیان کی خطائیں معاف، لیکن شیطان کی راہ پر چل کر اباء اور استکبار نہیں کرناکبائر کا مرتکب نہیں ہوتا ، باقی انسان کمزور ہے ہزار بھول چوک انسان سے ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں خدا کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے اور تضرع سے اپنی خطائوں کومعاف کروانے کی ضرورت ہے اور مَیں نے بتایا ہے کہ اصل جو چیز ہے وہ تو بحیثیت مجموعی ایمان ہے۔ ایمان کے لفظ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قریباً آٹھ سو مرتبہ استعمال کیا ہے۔ اس کی تفصیل میں مَیں نہیں گیا۔ وہ مضمون میرے ذہن میں ہے اس کو دیکھ رہاہوں۔ بہرحال اصل چیز ایمان ہے اور بحیثیت مجموعی اس میں صغائر سے بچنا بھی شامل ہے۔ کبائر سے بچنا بھی شامل ہے۔ اس ایمان میں چھوٹی نیکیاں کرنا بھی شامل ہے اور بڑی نیکیاں کرنا بھی شامل ہے۔ انسان کوشش کرتا ہے اور دعا کرتا ہے۔ خدا ان نیکیوں کو قبول کرے تو اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں اور بحیثیت مجموعی انکا ایمان خالص رہتا ہے اور اس کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں ہوتی تو ایسے ایمان کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا اور اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتاہے۔ اسی لئے میں نے کہا کہ آپ کی اصل اور بنیادی دعا ہر وقت کی یہ ہونی چاہیئے کہ اے خدا اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمارے ایمانوں کی سلامتی اور ان کی حفاظت کے سامان پیدا کردے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۹؍نومبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۵)











آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسیہ وحشی کو انسان
انسان کو بااخلاق اور پھرباخدا انسان بناتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
قرآن عظیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جوہدایت اور شریعت نازل کی وہ ایک عظیم شریعت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی شریعت اورہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوّتِ قدسیہ اوررُوحانی تاثیر ایک وحشی کو انسان بنانے کی طاقت رکھتی ہیں اور انسان کو بااخلاق بنانے کی طاقت رکھتی ہیں اوربااخلاق انسان کوباخدا انسان بنانے کی طاقت رکھتی ہیں۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ایک بڑا ہی عجیب اور بڑا ہی حسین نظارہ دُنیا نے عرب کے مُلک میں دیکھا۔عرب میں بسنے والے ایک وحشی قوم کی حیثیت سے زندگی گزاررہے تھے۔اُن میں سے بہت سے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔عیش و عشرت کی زندگی تھی۔اپنی راتیں شراب کے نشہ میں اور عیش میں گزارنے والی قوم تھی۔معاف کرنا اُن کوآتا ہی نہیں تھا۔ظلم بے انتہا کرتے تھے۔غلام بناتے تھے اور غلاموں پر بے اندازہ مظالم ڈھاتے تھے پھرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے توقرآن کریم کی شریعت اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اورآپ کی رُوحانی تاثیر اور قوّتِ قدسیہ نے ان ہی وحشیوں کوانسان بنایا۔انسان اگر سوچے توبااخلاق بننے سے پہلے اُسے انسان بننا پڑتا ہے۔اس لئے کہ ہزارہاسال قبل جب سے آدم ؑپیدا ہوئے اور انسان اپنی مہذب شکل میں دنیا میںظَاہر ۂوااُس وقت سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیں یہی نظّارہ نظرآتا ہے کہ خداتعالیٰ کی شریعت ہمیشہ انسانوں پرنازل ہوتی رہی۔ حیوانوں پر نازل نہیں ہوتی رہی اورقرآن کریم کے جواحکام ہیں اُن میں سے درجنوں ایسے ہیں جن کا تعلق مسلمان سے نہیں بلکہ انسان سے ہے۔مَیں جب ۱۹۶۷ء میں دورہ پر انگلستان گیا تو لندن کے ایک حصّہ میں سینکڑوں کی تعداد میں بالغ احمدی بستے ہیںانہوںنے ایک دن مجھے اپنے ہاں بُلایا اور مجھے علم نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک ہال کرایہ پر لے کر میری مختصر سی تقریر کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔وہاں جاکرمجھے پتہ لگا اُس ہال میں زیادہ مجمع نہیں تھا چھوٹا سا ہال تھا اس ہال میں اکثریت غیرمسلموں کی تھی مجھے خیال آیا کہ ان کااسلام سے تعارف کرایا جائے۔ مَیںنے اپنے رنگ میںسات آٹھ ایسے نِکات چُنے،تعلیم کے وہ حصّے لئے جن کا تعلق انسان سے بحیثیت انسان ہے مثلاًاس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں مختصراً یہ کہ)اسلام یہ نہیں کہتا کہ صرف مسلمان پر افتراء باندھناناجائز اورحرام ہے اورغیرمسلموں پرجُھوٹ باندھو اور افتراء باندھو۔اسلام کی یہ تعلیم نہیں۔اسلام یہ کہتا ہے کہ کِسی انسان پر تم نے افتراء نہیں باندھنا اُس کے خلاف جھوٹ نہیں بولنا۔اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی انسان پرظُلم نہیں کرنابلکہ اس سے آگے جاتاہے کہتاہے کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرنا۔وہ چونکہ غیر مُسلم تھے مَیں نے ان کو اس طرح سمجھایا کہ دیکھو تم لوگ اسلام کے مُنکر ہو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے۔جو اللہ کا تصوّر اسلام نے پیش کیاہے وہ تم تسلیم نہیں کرتے لیکن یہ اُس اللہ کی شان ہے جسے اسلام نے پیش کیاہے اور یہ شان ہے قرآنِ عظیم کی شریعت کی کہ تم اس کے مُنکر اور یہ تمہاراخیال رکھنے والی ہے۔ اس طرح مختصراً سات آٹھ باتیں مَیں نے بیان کیں اور اُن کے اُوپر اثر ہوا اور بعدمیں اُنہوں نے میرا قریباً ’’گھیراؤ ‘‘کر لیا اور کہا ہمارے ہاں آئیں اور تقریرکریں۔ اسلام کے حسن اور احسان کی یہ باتیں تو ہم آج پہلی مرتبہ سُن رہے ہیں۔
پس اسلام میں یہ قوت اورطاقت ہے اوراسلام میں وہ تعلیم سکھائی گی ہے۔جو وحشیوں کو انسان بنانے والی ہے اورمیں نے بتایا کہ آج تک کسی جانور پر گھوڑے پر یا بیل پر یا پرندوںمیں سے کبوتر پر شریعت نازل نہیں ہوئی۔صرف انسان پر ہمیشہ سے شریعت نازل ہوتی رہی ہے اس سے ہمیں پتہ لگا کہ روحانی ترقیات سے پہلے بلکہ اخلاقی منازل طے کرنے سے پہلے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے اندر انسانی اقدار پیدا کرے۔اگرکِسی میں انسانی اقدار نہیں جیسا کہ خود قرآنی شریعت نے بتایا تواُس کے لئے یہ عقلاًممکن نہیںہے کہ وہ بااخلاق بھی ہو اور باخُدا بھی ہو۔ پہلے اس کے لئے انسان بننا ضروری ہے اور انسانی اقدار میں سے جو قرآن کریم نے ہمیں بتائیں یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے ظُلم کِسی انسان پر نہیںکرنااور حقارت اور گالیاں اور بُرا بھلا کسی انسان کو نہیں کہنا۔یہاں تک کہہ دیا، اتنی دلجوئی کی، جذبات کا اتنا خیال رکھا کہ وہ لوگ انسان توہیں لیکن اُن کے اندر انسانی اقدار نہیںوہ خدا تعالیٰ پرایمان نہیں لاتے بلکہ شرک کرتے ہیں ان کے جذبات کا خیال رکھا پتھر کے تراشے ہوئے بُت تو نہ گالی سُنتے ہیں نہ اُن کے جذبات ہیں،نہ اُن کے اُوپر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔اثر توان پرہوتا ہے جس نے اُس بُت کو تراشا۔اگر کوئی اس کے بُت کو گالی دے تواس کے جذبات کوٹھیس لگتی ہے توجو خدا تعالیٰ کے مقابلے میں بُت تراشتے ہیں اورشرک میں مبتلا ہیں قرآن کریم ان کے جذبات کابھی خیال رکھتاہے۔یہ وحشی کوانسان بنانے کا سبق ہے۔پس درجنوں ایسی تعلیمات قرآنی ہیں جو وحشی سے انسان بناتی ہیں اور مَیں نے بتایا کہ قرآنی شریعت اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تاثیرات اور فیوض کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ وحشی قوم جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیاکرتی تھی۔ وہ وحشی قوم جو ظلم کے چشمہ سے پانی کی طرح ظلم پی پی کرسیر ہوتی تھی۔وہ لوگ جو افتراء کرنے والے تھے۔ جھوٹ باندھنے والے تھے عیش میں زندگی کے دن گذارنے والے تھے جو پاکدامن عورتوں کے متعلق اپنے عشق کی جھوٹی داستانوں کاا علان خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے عشقیہ اشعار میں کرتے تھے۔جن میں معصوم عورتوں کے ساتھ جُھوٹا عشق جتایا جاتا تھا اوربڑے فخر سے باتیں کی گئی تھیں۔اس قسم کی ان کی وحشیانہ حالت تھی۔وہ وحشیانہ زندگی گذار رہے تھے۔ پھراِس شریعت اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض نے ان رسمی انسانوں کو (حقیقی)انسان بنایا پھرانسان بننے کے بعداُن کوبااخلاق انسان بنایا اور بااخلاق انسان بننے کے لئے ضروری ہے کہ آسمان سے وحی نازل ہو اور اخلاق سکھائے کیونکہ حقیقی اخلاق جن پر انسان پختگی سے قائم ہوسکتا ہے وہ وحی کے طفیل ہی انسان کو ملتے ہیں مثلاًآجکل کی دُنیا کو لے لو۔ اِس دنیا میں بڑی مہذّب قوموں میں ظاہراً تو دیانتداری پائی جاتی ہے یہ ایک انسانی قدر ہے کہ کسی سے بھی دھوکہ نہیں کرنا اور اس کا مال نہیں کھانا۔اسلام نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان کا مال نہ کھاؤ۔ اسلام نے کہا ہے کسی کابھی مال نہ کھاؤ مگریہ(یہ قومیں ایسی ہیں کہ)جب تک ان کا فائدہ ہو اُس وقت تک یہ بڑی دیانتدارہیں۔ جتنے کالونِیز (Colonies) آباد کرنے والے(ممالک)ہیں مثلاً سلطنت برطانیہ جس کا دعویٰ تھا کہ اُس کی ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوتا اس ایمپائرکے بانی یعنی انگلستان جو ان کی کالونِیز(Colonies) کے ماں باپ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب تک ان کا فائدہ ہوتا تھا یہ بڑے دیانتدار تھے اور جہاں اُن کا فائدہ نہیں ہوتا تھا وہاں وہ دیانتدار نہیں تھے۔ تقسیم ہندکے وقت جب پاکستان علیحدہ ہوا اُس وقت کا مجھے ذاتی طور پرعلم ہے کہ انگریزکی حکومت کے افسروں نے بددیانتی کی اورپیسے کھائے اور اس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ بہرحال اسلام نے وحشی کو انسان بنانے کے بعد بااخلاق انسان بنایا اور قرآن عظیم کی ہدایت اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ نے اخلاق بھی وہ سکھائے کہ اُس حُسن اوراحسان کے جلوے انسانی عقل کی حدود سے بھی باہر تھے اسلام انسان کے اخلاق کی اتنی باریکیوں میں گیا ہے کہ انسانی عقل وہاں نہیں پہنچتی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے اس کو بڑی وضاحت سے’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘میں بیان فرمایا ہے اوربعض کتب میںبھی اس پرروشنی ڈالی ہے یہ بہت لمبا مضمون ہے جوکئی خطبوں پر مشتمل ہو سکتاہے لیکن میں اس وقت مختصراًآپ کواس قِسم کے عنوان بتارہاہوں۔پس وحشی سے انسان بنایا انسان سے بااخلاق انسان بنایا ۔دیانت(جواخلاق کی کسوٹی پر پوری اُترتی ہے)تکبّرسے پرہیز۔ ریا نہیں کرنالیکن جو یہ حصّے دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے والے ہیںاُن کو ہم اخلاق کہتے ہیں یعنی انسان سے تکبّرسے پیش نہ آنا اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھنا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ بڑے ہو کر چھوٹوں سے محبت اورپیار کا سلوک کرو۔ نہ یہ کہ اُن پر تکبّر کا اظہار کرو۔ پس جوعالم ہے وہ اپنے علم پر غرور نہ کرے۔جو مالدارہے وہ اپنے مال پر غرور کر کے اپنے بھائیوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہ آئے لیکن یہی تکبّرسے پرہیز ایک منفی پہلو ہے اور اس کے مقابلہ میں مثبت اخلاق بھی ہیں جِس وقت اس کاتعلق اللہ تعالیٰ سے ہو تو وہ پھر نہایت درجہ کی عاجزی بن جاتی ہے اور انسان خُداکے مقابلہ اپنی نیستی کی حقیقت کو پہنچاننے لگتا ہے۔ پس انسان سے بااخلاق انسان بنایااورپھربااخلاق سے باخُداانسان بنایا۔ اسلام کے اندر یہ طاقت پائی جاتی ہے۔اسلام اورقرآن کریم کی ہدایت نے اپنی اِس قوت وطاقت کا عملی نمونہ دکھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑی شان سے یہ چیز ہمیں نظرآتی ہے لیکن آج تک قرآنی شریعت وہدایت نے عملی نمونہ دکھایا ہے۔وہ جوایک ایک آدمی دُنیاکے کناروں تک چلاگیا تھا اوروہاںانسان کا دِل محمدصلی اللہ علیہ وسلم اوراللہ تعالیٰ کے لئے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے لئے جیتے تھے اُس نے اپنے نمونہ سے، اپنے اخلاق سے، اپنے کردارسے،اپنے فعال اورنیک اعمال سے اورحُسن کے جلوے لوگوں کو دکھا کر احسان کی طاقت کامظاہرہ لوگوں کے سامنے کرکے اُن لوگوں کے دِلوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ ایک بڑامشہورتاریخی واقعہ ہے۔ سینیگال جس کے جغرافیائی حدود اُس وقت آج کی نسبت مختلف تھے اُس وقت بہت بڑا علاقہ تھا۔ اس میں بعض بہت بڑے بڑے دریا ہیں۔ وہاں ہمارے ایک بزرگ گئے۔ اُنہوںنے وہاںتبلیغ کی لیکن کوئی اُن کی بات نہ سُنتا تھا اور ایک لمباعرصہ تبلیغ کے بعدمایوس ہوکراُنہوںنے سوچا کہ مَیںان لوگوںکی خاطراپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اصل چیز تو یہ ہے (المائدۃ:۱۰۶) اگرہدایت اُن کے نصیب نہیں تو میں جاکر اپنی عاقبت سنواروں۔ وہ ایک بہت بڑے جزیرہ میںچلے گئے اور وہاں جاکر عبادت شروع کردی خدا تعالیٰ نے اُن کو ایک معجزہ دکھاناتھا۔ خداتعالیٰ نے اُن پرقرآنِ عظیم کی تاثیر ظاہرکرنی تھی۔ انہوںنے وہاں ایک جھونپڑا بنایا کچھ شاگرد ساتھ ہی گئے ہوئے تھے۔ وہ چند آدمی وہاںرہنے لگے اورغریبانہ درویشانہ زندگی گذارنی شروع کی تب خُدانے فرشتوں کو کہا کہ اس شخص کو، میرے اس بندے کو یہ سمجھ آگئی کہ اس کی کوششیں بے نتیجہ ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کافضل شامل حال نہ ہو پس خداتعالیٰ نے اس علاقہ میں بیسیوںبلکہ شاید سینکڑوں قبائل اردگرد آباد تھے۔ ان میں سے ہر قبیلہ میں سے دو چارکے دِل میں فرشتے تحریک پیدا کرتے تھے کہ اُن کے پاس چلے جاؤ تو وہ ان کے پاس مسلمان ہو کر آجاتے تھے۔ وہ غیرمسلموں کا علاقہ تھا اور پھر انہوں نے وہاں قرآن کریم اُن کو پڑھانا شروع کیا اور درس دینا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُن کے دماغوں کو کھولا اور قرآنِ کریم کا علم اُن کو حاصل ہوا معلّم حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ لوگ جو اس غلطی میں مبتلاہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے نئے اسرار روحانی کسی پرظاہر نہیں ہو سکتے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے معلّم حقیقی ہونے سے انکار کر رہے ہیںمعلّمِ حقیقی اُس کی ذات ہے۔ وہ اس بزرگ کو قرآن کریم سِکھا رہا تھا اور یہ آگے اُس زمانہ کے حالات کے مطابق جو ابدی اوربنیادی صداقتیںتھیںوہ اُن کو سکھا رہے تھے۔ کئی سال تک یہ مدرسہ انہوںنے لگایا اور قرآن کریم پڑھایا اُس استاد کی اپنی کوششیں تو ناکام ثابت ہوئیں لیکن جب ان کے شاگرد اپنے اپنے قبیلہ میںگئے تو ہزاروں کی تعداد میں اُن کے قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے اور وہ سارا علاقہ مسلمان ہو گیا۔
پس ہم کہتے ہیں بااخلاق سے باخُدا انسان بنایا۔ باخُدا کامطلب ہے کہ خُدا کا اُس سے تعلق ہے۔ خُدا کا قرب اُسے حاصل ہے وہ خُداکی آواز سُنتاہے خُداتعالیٰ اس کا معلّم بنتا ہے۔ خداتعالیٰ اُس کا ہادی بنتاہے خداتعالیٰ اُس کارہنما بنتاہے خُدا تعالیٰ اس کو غلطیوں اور کبائر سے جو چُھپے ہوئے ہیں یا جو صغائر ہیں (بزرگوںکے لئے وہ بھی کبائربن جاتے ہیںوہ علیٰحدہ مسئلہ ہے) اس لغزش سے اُن کو بچاتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ نہ جسمانی زندگی نہ روحانی زندگی اللہ کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیںہے۔
پس اسلام نے اورقرآن کریم کی ہدایت نے وحشی کو انسان بنایا انسان کو بااخلاق انسان بنایا۔ بااخلاق کوباخُدا انسان بنایا اورکسی کایہ سمجھنا کہ قرآنِ کریم کی تاثیریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوائے روحانیہ ایک وقت تک کام کررہے تھے اور اس کے بعد پھر وہ نعوذ باﷲ مُردہ ہوگئے یہ غلط ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جِن کی جس رنگ میں ہمیں مہدی علیہ الصَّلٰوۃ والسلام کے ذریعہ معرفت حاصل ہوئی وہ ایک زندہ رسول ہیںاور ان کے اوپر کبھی موت نہیںآسکتی قیامت تک آپؐ کی روحانی زندگی اِس دُنیا میںاپنے جلوے دکھاتی اور نوعِ انسان کوہدایت کی طرف جذب کرتی اورکھینچتی ہے۔آج بھی خُدااُسی طرح بولتاہے جس طر ح وہ پہلے بولا کرتا تھا۔ آج بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی اتّباع خدا کے بندوںکو خدا کا محبوب بناتی ہے۔ آج بھی جو خداکے بندے ہیں وہ اس قدرعظیم اخلاقی رفعتوں کو پہنچے ہوئے ہیںکہ وہ اپنے اخلاق اور نمونہ کے ذریعہ سے نوعِ انسانی کواللہ تعالیٰ اور محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور قرآنی ہدایت کی طرف کھینچنے والے ہیں۔ پس وہ عظیم ہدایت اورشریعت ہے جس پرہم ایمان لائے ہیں۔یہی چیزیںتھیںجنہیںدیکھ کرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:-
ع قرآںکے گردگھوموںکعبہ مرایہی ہے (درثمین صفحہ۸۴)
ایک عظیم شریعت آپ کو ملی ہے جس کے فیوض پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ وہ قیامت تک نوعِ انسانی کی انگلی پکڑ کر خدا تعالیٰ کے دربار میںپہنچانے والے ہیں۔پس دُعائیں کرو۔ بہت دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو، جماعتِ احمدیہ کے مرد و زن کو خودمعلّم حقیقی بن کرقرآن کے اسرارِ روحانی سکھانے والا ہو اور اپنے فضل سے انسان، پھر بااخلاق انسان، پھر باخُدا انسان بنانے والا ہو اور خدا کرے کہ احمدی کانمونہ انسان کو جذب کرکے اورکھینچ کر اللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیںپہنچانے والابنے۔آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍نومبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۵)











اسلام کے نزدیک انسان اور غیر انسان میں فرق کرنے والی چیز خداتعالیٰ کی عطا کردہ قوت دعا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۵؍اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

(بنی اسرائیل:۴۵)

(النمل:۶۳)

(الفرقان:۷۸)
پھر حضور انور نے فرمایا:-
اِس سے قبل (بعض خطبات میں) مَیں تین ایسی باتیں بیان کر چکا ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں یہ فرمایا ہے کہ ان کے کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتا۔ ایسے اعمال کے نتیجہ میں لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کو مُول لیتے ہیں اور پچھلے خطبہ میں دو باتیں مَیں نے ایسی بیان کی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ یہ ایسے اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پیارے ہیں۔ ان پر عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کرتے ہیں۔
آج مَیں ایک تیسری بات بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس کام کے کرنے سے اور اس عمل کے بجا لانے سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار اور اس کی رضا حاصل کرلیتا ہے اور اس کے متعلق خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں ہر مخلوق شامل ہے اور اس کا ایک پہلو ایسا ہے جو انسان کو اس کائنات کی ہر دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے والا ہے یعنی یہ پہلو انسان اور کائنات کی ہر دوسری مخلوق کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان کے اندر جو کچھ بھی ہے یعنی انسان اور دوسری سب چیزیں خداتعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے والی ہیں۔ فرمایا :- کائنات کی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے کہ جو خداتعالیٰ کی تسبیح نہ کرتی ہو اُسے پاک نہ قراردیتی ہو اور اس کی تعریف نہ کرتی ہو اور ہر تعریف زبانِ حال سے اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی طرف پھیرتی نہ ہو اِس کائنات میں صرف انسان ہی کا نہیں کرتا بلکہ ہر مخلوق کسی نہ کسی کام پر لگی ہوئی ہے اور اُن کے یہ کام خداتعالیٰ کی ذات کو پاک بھی قرار دیتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی نقص نہیں یا کوئی کمزوری نہیں ہے۔
پس جہاں تک تسبیح و تحمیدکا تعلق ہے انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیرانسان میں حیوان ہوں، حیوانوں میں چرند، پرند اور درند ہوں یا غیر انسان میں غیرحیوان ہوں مثلاً نباتات ہوں یا جمادات ہوں، نباتات کی اپنی زندگی ہے، جمادات کی اپنی زندگی ہے۔ زمین کی اپنی زندگی ہے۔ ستاروں کی اپنی زندگی ہے۔ ستاروں کے خاندانوں کی اپنی زندگی ہے۔ غرض اِس کائنات میں ہمیں مختلف زندگیاں نظر آتی ہیں اور ہر چیز اپنی زندگی میں خداتعالیٰ کی تسبیح بھی کررہی ہے اور اس کی تحمید بھی بیان کررہی ہے مگر اس زبان میں کررہی ہے جو انسان کی زبان سے مختلف ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی تسبیح اور تحمید کو سمجھ نہیں سکتے اور اُن کی زبان ہے اطاعت کی اور انسان کی زبان ہے محبت اور عشق کی اور ان دو زبانوں میں بڑا فرق ہے۔ اطاعت پر مجبور ہوجانا یہ اَور چیز ہے اور خداتعالیٰ کی محبت میں مست ہو کر اس کے حضور قربان ہوجانا، یہ بالکل اور چیز ہے۔ فرمایا ہر دو یعنی انسان بھی اور غیر انسان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کررہے ہیں اور اس کی حمد میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن جس زبان میں غیرانسان تسبیح و تحمید کررہے ہیں انسان اس زبان کو سمجھ نہیں سکتا۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے اور یہی ان کی تسبیح وتحمید ہے۔ وہ خدا کے حکم سے ایک ذرّہ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔ انہیں جو بھی حکم ہوتا ہے وہ اُسے بجالاتے ہیں۔ وہ حکم عدولی کرہی نہیں سکتے حکم بجالانے پر وہ مجبور ہیں۔ اسی لئے انسان اپنے علم کے لحاظ سے بھی اور اپنی مخصوص رَو جہد اور مجاہدے کے لحاظ سے بھی فرشتوں سے آگے نکل گیا کیونکہ فرشتوں کی پیدائش اطاعت کے لئے تھی اور انسان کی پیدائش مَظہرالوہیت بننے کے لئے تھی یعنی وہ اختیار رکھتے ہوئے رضا کارانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اُوپر چڑھائے۔
میرے مضمون کا پہلا نکتہ یا پہلا حصّہ یہ ہے کہ انسان اور غیرانسان سب ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میںلگے ہوئے ہیں۔ وہ اُسے پاک بھی قرار دیتے ہیں اور اس تعریفوں کا مستحق اُسی کو سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ہر ایک کی تسبیح و تحمیدمیں رنگ بدلا ہوا ہے لیکن پھر بھی جہاں تک تسبیح کرنے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گانے کا سوال ہے انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ مَیں نے اِس وقت جو چند آیات منتخب کر کے پڑھی ہیں، ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بھی اور دوسری مخلوقات بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں لگے ہوئے ہیں۔ (’’مَنْ‘‘ انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ’’مَا‘‘ میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں مگر بعض دفعہ مَنْ کے معنے مَا کے بھی ہوجاتے ہیں) اس لئے انسان اور غیر انسان کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کررہے ہیں اور تحمید بھی کررہے ہیں۔ جب انسان اور غیر انسان ہر دو خداتعالیٰ کی حمد بھی بجا لا رہے ہیں اور سُبحان اللہ کہنے والے بھی ہیں تو اس طرح ہر دو میں کوئی فرق نہیں رہتا لیکن میرے مضمون کا دوسرا نکتہ یا دوسرا حصّہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز نمایاں طور پر بیان کی ہے اور جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہے، وہ خدا کی محبت کے حصول میں اس کی وہ ایفرٹ (Effort) اور اس کی وہ کوشِش اور اس کا وہ مجاہدہ ہے جس کے نتیجہ میں وہ مظہرِ صفات باری بن کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس اپنے اندر پیدا کرکے خداتعالیٰ کا محبوب اور پیارا بندہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے اندر یہی ایک چیز ہے جو فرق پیدا کرتی ہے انسان میں اور حیوانات میں، انسان میں اور نباتات میں، اور انسان میں اور جمادات میں۔ اور یہ شرف انسان کو قوّتِ دُعا کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت عطا فرمائی ہے کہ وہ اُس کے حضور مُضْطَر کی حیثیت میں حاضر ہو کر اس سے دعائیں کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس پر رجوع برحمت ہو اور اس کی دعاؤں کو قبول کرے۔
غرض یہ دُعا اور دُعا کی قبولیّت ہی ہے جو انسان اور ’’غیر انسان‘‘ میں فرق کرتی ہے البتہ تسبیح و تحمید میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں لگے ہوئے ہیں لیکن انسان کے علاوہ دُنیا کی کوئی چیز اپنے لئے دُعا نہیں کررہی ۔ مَیں نے یہ جان کر کہا ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق اپنے لئے دُعا نہیں کرتی تاکہ کسی عالم کے دماغ میں یہ اعتراض نہ آئے کہ خداتعالیٰ نے فرشتوں سے انسان کے لئے دُعائیں کرائی ہیں۔ ٹھیک ہے مگر فرشتوں کی دعا اس دعا سے مختلف ہے جو انسان کرتا ہے کیونکہ فرشتوں کی تو خصلت ہی یہ ہے کہ وہ وہی کچھ کریں جو خدااُنہیں کہے۔ خدا نے کہا کہ میرے بندوں کے لئے دُعائیں کرو۔ اُنہوں نے دُعائیں کرنی شروع کردیں۔ وہ انکار کرہی نہیں سکتے۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا ہے کہ اس معنی میں فرشتہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو بہرحال مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہوتا ہے وہ اس کے مطابق کام کرتا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے فرمایا اِس معنی میں دُنیا کی ہر مخلوق فرشتہ ہے کیونکہ دُنیا کی کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بات کے کرنے کا حکم ہواور وہ اِباء اور اِستکبار کرے اور کہے کہ اے خدا! مَیں نے تیرا حکم نہیں ماننا۔ جہاں بھی ہمیں اِباء اور استکبار نظر آتا ہے وہاں اس لئے نظر آتا ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ظاہر ہے شیطان کو یہ اجازت اور ڈھیل دی گئی تھی کہ وہ اِباء اور اِستکبار کرے اور یہ بھی دُعا بہرحال نہیں ہے۔ اِباء ہے اور اِستکبار یعنی ’’خداتعالیٰ کی بات کو نہ ماننا یہ بات مان کر کہ بات نہ مانے۔‘‘ یہ ایک لمبا مضمون ہے اس کی تفصیل میں مَیں اِس وقت نہیں جانا چاہتا بعض لوگوں کے دماغ میں ایک خیال پیدا ہوسکتا تھا اُس کو مَیں نے دُور کرنے کے لئے اشارہ کردیا ہے۔
بہرحال جو چیز انسان اور غیرانسان میں فرق والی ہے وہ اسلام کے نزدیک قوّت دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے اور یہ سمجھ عطا کی ہے اور یہ معرفت بخشی ہے کہ دُعا کے بغیر اس کی زندگی کوئی زندگی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وعدہ دیا ہے کہ جب وہ شرائطِ دُعا کے ساتھ خدا کے حضور عاجزانہ طور پر جُھک کر دُعا کرے گا تو وہ اس کی دُعا کو قبول کرے گا یہاں تک کہ اگر وہ نادانستہ طور پر اپنی ہلاکت کے لئے دُعا مانگ رہا ہو گا تب بھی اس کی دُعا قبول کرے گا مگر اس کو ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ اِس صورت میں کہ اس کی دُعا اس کے لئے بھلائی کا باعث بن جائے گی۔ مثلاً جس طرح بچّہ آگ کا انگارہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح بہت سارے لوگ خداتعالیٰ کے حضور ایسی دُعائیں کرتے ہیں جو دراصل اُن کی تباہی کا باعث بننے والی ہوتی ہیں اس لئے بظاہر وہ دُعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کو تباہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُن کو ہلاکت سے بچانا چاہتا ہے اس لئے ایسی دُعائیں کسی اور رنگ میں قبول ہو جاتی ہیں۔ سچّی بات یہ ہے اور ہر عارف اسے جانتا ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور شرائِط کے ساتھ عاجزانہ اور متضرّعانہ دُعائیں قبول ہو جاتی ہیں قبولیت کے وقت میں فرق ہے۔ قبولیت کی شکل میں فرق ہے لیکن قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دُعا کے متعلق ہمیں بڑی وسیع تعلیم دی ہے اور ہر طرح سے اس کی حکمت سمجھائی ہے۔ مَیں نے اس ضمن میں تین آیات منتخب کی ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کر کے فرمایا میں ہر پُکارنے والے کی پُکار کو سُنتا ہوں اور اسکی دُعاؤں کو قبول کرتا ہوں بشرطیکہ وہ میرے حضور جُھکے اور مجھ سے دُعائیں کرے۔ میں دراصل شرائط ِ دُعا ہی کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا انسان کو مَیں نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے حکم کو مانے اور پھر فرمایا ایمان کے اُن تقاضوں کو بھی ُپورا کرے جو مَیں نے قائم کئے ہیں اور ایمان ہے زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تسلیم کرنا اور اعمال سے اس اقرار اور تسلیم پر مُہر لگانا پھر اس ضمن میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ جب ایک مضطر عاجزانہ طور پر اور بڑے اضطرار کے ساتھ خدا کے حضور دُعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے، اس کی دُعاؤں کو قبول کر کے اس کی تکلیف کو دُور کر دیتا ہے اور اس کی بے چینی کو سکون میں بدل دیتا ہے۔ بے چینی کی ایک حالت یہ بھی ہے کہ مثلاً ایک شخص کو ابھی تک خدا کا پیار نہیں ملا یا اُسے خدا کا پیار تو ملا ہے لیکن وہ اس سے زیادہ پیار چاہتا ہے اور اس کے لئے بے چین ہو جاتا ہے تو یہ چیز بھی مضطر کے اندر آجاتی ہے چنانچہ اگر دُعا میں دل نہیں لگتا۔ رقّت نہیں پیدا ہوتی توجہ نہیںقائم رہتی یا اَور بہت سی وجوہات ہیں جن کو لوگ بیان کرتے رہتے ہیں تو اِس صورت میں یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے دُعا کے میدان میں ایک مبتدی کے لئے بڑی حکیمانہ تعلیم دی ہے آپؑ فرماتے ہیں :-
از دُعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دُعا
چُوں علاجِ مَے زمَے وقتِ خمار و التہاب
(درثمین فارسی صفحہ ۱۴۶)
فرمایا اگر انسان میں دُعا سے انکار یا دُعا سے بے رغبتی پیدا ہو جائے تو اس بیماری کا علاج دُعا سے کرو اور یہ علاج اسی طرح ہو گا جس طرح ایک دنیادار شرابی جب اس کی شراب کا نشہ ٹوٹ جائے اور خمار پیدا ہو تو اس کی تکلیف کا مداوا شراب سے کر لیتا ہے۔ اسی طرح تم دُعا سے انکار اور دُعا سے بے رغبتی اور دُعائیں اَور زیادہ توجہّ کو قائم کرنے کے لئے دُعائیں کرو اور بہت دُعائیں کرو۔ اس کے علاوہ اَور کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ ایک گہرا نکتہ ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے قرآن کریم کی روشنی میں واضح کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم خدا کے حضور یہ دُعا کرو کہ وہ صحیح شرائط کے ساتھ اور پوری رغبت کے ساتھ اورپوری توجہّ کے ساتھ دُعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پس خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قوّت دُعا عطا کی ہے اور اُسے دُعا کی جو سمجھ بخشی ہے اور دُعا کی جو معرفت دی ہے اور انسان کے اندر(وصلِ الٰہی کے لئے جو) ایک بے چینی اور جذبہ پیدا کیا ہے یہی انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہے نہ صرف یہی بلکہ جب انسان صحیح حالت میں خدا کے حضور جُھکتا ہے تو وہ اپنے فضل سے اس کی دُعا کو قبول کر لیتا ہے اور یہ بھی انسان اور اس کے غیر میں بہت بڑا امتیاز پیدا کرنے والی بات ہے۔ اُمتِ محمدیہ میں مختلف مقامات پر بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنی بدقسمتی سے یہ کہہ دیا کہ دُعا کا قبولیت دُعا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں یہ تو ایک عبادت ہے اور بس۔ دراصل عبادت اَور چیز ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت کو پا لینا اَور چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید میں تو ہر غیر انسان بھی شامل ہے۔ ایک کُتّا بھی اپنی زبان میں خدا کی تسبیح کر رہا ہے یعنی کُتّے کی پیدائش اور اُس کے کاموں میں کوئی ایسی چیز ہمیں نظر نہیں آتی جس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کو ہر عیب سے پاک سمجھنے میں کوئی روک دیکھیں۔ اپنے کام کے لئے وہ ایک پرفیکٹ یعنی کامل چیز ہے۔ اس کے ذمہّ کام تھا (مثلاً) انسان کی حفاظت کے لئے بیدار رہنے کا کام۔ وہ یہ کام کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے ذمّہ یہ کام تھا کہ انسانوں کی غذاکے لئے بعض رقبہ پر شکار پکڑے اور اس رنگ میں بھی بڑا اچھا کام کرتا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ سدھائے ہوئے کُتّے تمہارے لئے جو شکار پکڑیں، اس کے کھانے کی تمہیں اجازت ہے۔ مَیں نے مثالاً دو باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کُتّے کے ذمّہ اور بھی کام ہوں کیونکہ خداتعالیٰ کی مخلوق اور اس کے کام میں کوئی شخص حَدّ بندی نہیں کر سکتا۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس کام کے لئے کُتّے کو پیدا کیا گیا ہے وہ اُسے کررہا ہے۔ اسی طرح جس کام کے لئے سانپ کو پیدا کیا گیا ہے وہ بھی اُس کام کو کررہا ہے۔ ہماری بہت سی بیماریاں سانپ کے زہرسے شفا پاتی ہیں۔ اس کے اَور بھی بہت سے فائدے ہیں۔
پس کائنات کی بے شمار چیزوں میں سے مَیں نے اس وقت دو کا نام لیا ہے۔ ایک کُتّا ہے جس کی گندگی کی وجہ سے کراہت آتی ہے اور ایک سانپ ہے جو ہمارا دشمن ہے اور بڑا زہریلا ہے اور بہت سے انسانوں کو ان کی غفلت کے نتیجہ میں مار بھی دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ نے کب کہا تھا کہ تم غافل ہو کر سانپ سے ڈسوا لو یہ تو ہماری کمزوری ہے۔ کئی آدمی بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور مرجاتے ہیں لیکن یہ تو نہیں کہ خدا تعالیٰ نے کھانے کا حکم نہیں دیا انسان پاگل ہو کر کھانا چھوڑ دے اور اپنا جسم نہ پالے تو اس کا اعتراض اللہ تعالیٰ پر تو نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح انسان اگرغافل ہو کر(خودکو) سانپ سے ڈسوالے تو اس کا خدا پر اعتراض نہیں پڑتا۔ تاہم سانپ کو ڈسنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ورنہ ہر سانپ ڈس رہا ہوتا یعنی اگر اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ سانپ کو پیدا کرتا کہ وہ انسان کو ڈس لے یا اُسے کاٹ کھائے تو ہر سانپ خدا تعالیٰ کا حکم مان کر انسان کوڈس رہا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بعض دفعہ انسان کا اس طرح کہنا ماننا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ کی بات ہے۔ سندھ کے علاقے شروع شروع میں آباد ہونے لگے تھے پنجاب کے کئی لوگوں نے جا کر سندھ کی بڑی خدمت کی ہے چنانچہ انہی دنوں ’’وِنجواں‘‘ (گاؤں) کے ایک دوست جو صحابی تھے، ان کے کچھ غیر احمدی رشتہ دار بھی وہاں چلے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں سے لکھا کہ اس علاقے میں سانپ بہت ہیں بعد میں جب انجمن نے وہاں زمینیں لیں۔ تحریک نے زمینیں لیں۔ حضرت صاحب نے زمینیں لیں اور بھی بہت سے احمدیوں نے وہاں زمینیں لیں تب بھی شروع شروع میں وہاں سانپ بہت تھے مگر آہستہ آہستہ آبادی کے ساتھ کم ہوتے چلے گئے لیکن مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ کی بات کر رہا ہوں اور ’’ونجواں‘‘ کے ایک بزرگ کا واقعہ بتا رہا ہوں کہ اُن کے غیر احمدی رشتے دار جو سندھ میں جاکر آباد ہو گئے تھے اُن کے آپس میں جھگڑے پیدا ہو گئے اور اُن کو چونکہ خدا تعالیٰ نے سمجھ اور عقل اور دیانت عطا فرمائی تھی اس لئے غیر احمدی بھی انہی سے فیصلے کروایا کرواتے تھے چنانچہ انہوں نے لکھا کہ اس اس طرح ہمارے درمیان فساد جھگڑے پیدا ہو گئے ہیں تم آ کر ہمارے جھگڑے دُور کرواؤ مگر چونکہ ان کو خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں بہت سانپ ہوتے ہیں اور یہ سانپوں سے بہت ڈرتے تھے اس لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔ کہنے لگے حضور اگر مجھے کوئی کہدے سانپ ! تو مَیں تو ڈر کے مارے چھلانگ لگا کر چارپائی پر چڑھ جاتا ہوں۔ سانپ کو دیکھنا تو درکنار سانپ کے متعلق آواز سُن کر ڈر جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تم سندھ چلے جاؤ۔ تمہیں سانپ سے ڈر نہیں لگے گا بلکہ سانپ تم سے ڈریں گے۔ وہ چونکہ بڑے مضبوط ایمان والے صحابی تھے۔ وہ حضور کے ارشاد پر سندھ چلے گئے۔ تربیت یافتہ ذہن تھا۔ میرا بھی ان سے واسطہ پڑا ہے وہ بتایا کرتے تھے کہ مَیں اتنا نڈر ہو گیا تھا کہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ مَیں نے سانپ دیکھا۔ مَیں اپنے رستہ پر چل رہا ہوتا اور سانپ آگے آ گے بھاگ رہا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ مَیں بھی یہاں اپنی زمینوں پر پھر رہاتھا کہ یکدم آواز آئی سانپ ! مَیں چوکنّا ہو گیا اور دیکھتا رہا۔ ذرا آگے گیا تو ایک سانپ نظر آیا۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے تو فلاں جگہ سے آواز آئی تھی وہ کہنے لگے آپ تو آ گے آ گے تھے، وہاں بھی ہم نے ایک سانپ مارا ہے۔ پس نہ صرف یہ کہ سانپ کو ڈسنے کا حکم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہوئے وقت سے پہلے تنبیہہ بھی کر دیتا ہے کہ یہاں سانپ ہے، اس سے بچو۔ ورنہ اگر سانپ کو حکم ہوتا انسان کو ڈسنے کا تو اُس نے تو حکم الٰہی کو بہرحال ماننا تھا۔ غرض مَیں بتا رہا ہوں کہ سانپ کو ڈسنے کا حکم نہیں ورنہ سارے سانپ انسان کو ڈسا کرتے ۔ میرے خیال میں شاید لاکھ میں سے ایک سانپ ڈستا ہو گا یورپ نے یہ ریسرچ کی ہے کہ جن لوگوں کو سانپ ڈس لیتے ہیں (اوراس سے وہ مرجاتے ہیں) اُن میں سو میں سے ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جس کو زہریلا سانپ کاٹتا ہے۔ اکثر سانپ ایسے ہوتے ہیں جن میں زہر ہی نہیں ہوتا ہے مگر ایسے سانپوں سے ڈسے ہوئے لوگوں میں سے بھی کچھ مر جاتے ہیں۔ زہر کی وجہ سے نہیں بلکہ دہشت سے اُن کی حرکتِ قلب بند ہو جاتی ہے۔ اگر ایسے لوگ خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ڈریں نہیں تو اُن کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
بہرحال سانپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ مظہرِ صفات باری بنے اور نہ کُتّے کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ صفات الہٰیہ کا مظہر بنے لیکن وہ خُدا کی مخلوق ہے اُسے جو خداتعالیٰ کہتا ہے وہی کرتا ہے۔ اُس کے حکم سے ایک ذرّہ بھر اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا مگر انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اُسے خدا تعالیٰ نے دُعا کرنے کی طاقت بھی دی ہے اور یہ اختیار بھی دیا ہے کہ چاہے تو وہ دُعا کرے اور چاہے تو نہ کرے لیکن اگر وہ دُعا کرتا ہے اور شرائط دُعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جُھکتا اور دُعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کا اُسے وعدہ بھی دیا گیا ہے تاہم ساتھ ہی اُسے یہ انذار بھی کیا ہے کہ اگر تم شرائط دُعا پوری نہ کرو گے اور میرے پیار کے حصول کے لئے پورے انہماک اور پوری توجہ سے اور انتہائی پیار کے ساتھ دعائیں نہ کرو گے تو میں تمہاری دُعاؤں کو قبول نہیں کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک عاجز انسان کو یہ چیز دے کر درحقیقت اس پر اتنا احسان کیا ہے کہ وہ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ آخر انسان ہے کیا چیز۔ ایک ذرّہ نا چیز، مگر خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ جب تو میرے پیار میں مست ہو کر مجھے پُکارے گا تو مَیں تیرے ساتھ پیار کروں گا اور تیری پُکار کا جواب دونگا۔ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں امّت محمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ دُعا قبول نہیں ہوتی بلکہ جس طرح ہم الحمدﷲ کہتے ہیں یا جس طرح سُبحان اﷲ کہتے ہیں، اسی طرح ہم دُعا کرتے ہیں۔ یہ عبادت ہے اور بس ۔ اس کا قبولیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اگر یہ اسی طرح عبادت ہے جس طرح تسبیح و تحمید عبادت ہے تو پھر تو انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔ یہی تو ایک بنیادی فرق ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسی بہت سی قوّتیں عطاکیں (جن میں ایک بنیادی قوّت دُعا کرنے کی قوّت ہے) انسان کے علاوہ دوسری مخلوق اِن قوتوں سے محروم ہے۔ وہ نہ دُعائیں کرتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر جُھکتی ہے یعنی رضاکارانہ طور پر اختیار رکھتے ہوئے مگر انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے ہر دو اختیار دیئے ہیں دُعا کرنے کا بھی اور دُعا نہ کرنے کا بھی۔ نمازیں پڑھنے کا بھی اور نمازیں نہ پڑھنے کا بھی۔ اعمال صالحہ بجالانے کا بھی اور اعمال سّیٔہ کا مرتکب ہونے کا بھی۔ مگر انسان جب ان دونوں اختیارات میں سے صراط مستقیم کو اختیار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں بڑی کوشش کرتا ہے اور سخت تکلیف اٹھاتا ہے اور انتہائی جہدوجہد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز اس کے کان میں پڑتی ہے اور خدا تعالیٰ کی برکات اور اُس کی رحمتیں اُسے حاصل ہوتی ہیں تب وہ ایک ایسا ممتاز اور صاحبِ فرقان انسان بن جاتا ہے کہ دُنیا اُسے دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے لیکن ویسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دُعا کی قبولیت سے انکار کیا مثلاً سر سید بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے گو انہوں نے تعلیمی (دنیوی تعلیم پھیلانے میں ) میدان میں مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے لیکن روحانی میدان میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ دُعا کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک گویا دُعا تو اسی طرح ہے جس طرح الحمدﷲ کہہ دیا یا سُبحان اﷲ پڑھ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ دُعا اسی طرح ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی ہر دوسری مخلوق تسبیح و تحمید کر رہی ہے۔ لیکن قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے۔ کہ اگر انسان کو دعا کرنے کی قوت نہ دی جاتی اور دُعا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہ دیا جاتا اور انسان دُعا نہ کرنے کے اختیار کو چھوڑ کر دُعا کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کو نہ پکارتا تو خداتعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ خداتعالیٰ نے اپنی کسی اور مخلوق یا کسی اور جانور سے اس طرح اپنے غصہ کا اظہار نہیں فرمایا کہ اگر وہ خدا کی تسبیح نہ کرے اور اس کی تحمید نہ کرے تو خدا کواس کی کیا پرواہ ہے؟ اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بنایا ہی اس صورت میں ہے کہ وہ بہرحال تسبیح و تحمید کو چھوڑ دیں لیکن انسان کو خدا نے یہ کہا ہے کہ اگر تُو صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں میرے قُرب کی راہوں کو تلاش کرنے کی بجائے اور اُن کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کی بجائے دُعا کرنے سے لاپرواہ ہو جائے گا اور دُعا کرنے میں رغبت نہ ہو گی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ غرض کی آواز انسان کے سوا کِسی اور مخلوق نے نہیں سُنی لیکن اس کے ساتھ اور اس کے پہلو میں وہ عظیم بشارت بھی ہے کہ اگر تم دُعا کرو گے تو تمہارا قادر و توانا خُدا جو تمہارا خالق اور مالک ہے، وہ تمہاری پرواہ کرے گا کتنا حسین کلمہ ہے جس میں خداتعالیٰ کی محبت پنہاں ہے اور یہی وہ تیسری بات ہے جس کے متعلق میں نے اس خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم دُعائیں کرو تا میرا پیار تمہیں حاصل ہو، دُعائیں کرو تا میری آواز سنو ! دُعائیں کرو تا میری قدرت کے معجزات دیکھو۔ دُعائیں کرنے سے لاپرواہ نہ ہوجاؤ ورنہ تمہارے کان میں میرے غضب کی وہ آواز آئے گی جو کسی اور مخلوق مثلاً کُتّے اور سُور نے بھی نہیں سنی ہو گی۔ کبھی کُتّے، گھوڑے، بیل اور بکری کے کان میں یہ آواز نہیں آتی اور نہ ہی خار دار جھاڑیوں یا کیکر کے درختوں نے جن کے لمبے لمبے کانٹے ہوتے ہیں، یہ آواز سُنی ہے کہ۔ ۔
غرض انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں سے کسی کے کان میں یہ آواز نہیں پڑی کہ اگر تم دُعا نہیں کرو گے تو خدا تمہاری کیا پرواہ کرے گا لیکن انسان کے کان میں یہ آواز پڑی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انسان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مخاطب کر کے فرمایا:۔ اس سے انسان کا اتنا بڑا امتیاز قائم کر دیا اور اُسے اتنی عظیم بشارت دی کہ انسان خُدا تعالیٰ کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے اور خشیۃ اللّٰہ سے اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ یہ کپکپاہٹ اور خشیت دراصل الٰہی پیار کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ اسے اہتزاز کہتے ہیں۔ انسان کے جسم میں سر سے پاؤں تک محبت کی ایک لہر اٹھتی ہے جو اس کے جسم اور روح کے گوشہ گوشہ میںسرور بھر دیتی ہے گویا اللہ تعالیٰ نے انسان سے یہ کہا کہ اگر تم شرائط کو پورا کرتے ہوئے میرے حضور عاجزانہ جُھکو گے تو مَیں تم پر رجوع برحمت ہوں گا۔ یہ کتنا ہی پیارا فقرہ ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمارے کان میں پڑا۔
پس ہر احمدی کو آج اس دنیا میں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دُعائیں کرے اور پھل پائے کیونکہ وہ اس مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لایاہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے والے ہیں حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں باربار اور بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ دُعا بہت بڑا اثر رکھتی ہے۔ دُعا اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے والی ہے شاید ہی کوئی احمدی ہو گا جس نے دُعاؤں کے اثر کو اپنی زندگی میں نہ دیکھا ہو ظاہر ہے اگر کوئی ایسا ہے تو وہ نہایت ہی بد قسمت اور بدبخت ہے۔
غرض احباب جماعت کو مَیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو ! دُعاؤں کے رنگ میں اتنی بڑی بشارت تمہیں دی ہے تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور دُعاؤں میں لگ جاؤ اور اس طرح دُعائیں کرو کہ خداتعالیٰ کی آواز نہ صرف بشارت کے رنگ میں بلکہ عملاً تمہارے کانوں میں آئے کہ تمہیں (کسی کی اور) کیا پرواہ ہے۔ مَیںجو تمہاری پرواہ کرنے والا ہوں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍نومبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶)


دعائیں کرو کہ توحید کے قیام کیلئے اموال مہیا
اور خرچ کرنے کی ہمیں توفیق ملے
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
آج جمعہ کی عید سے تحریک جدید کا سالِ نُو شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر جہت اور ہر لحاظ سے سارا سال ہی ہمارے لئے مختلف الانواع عیدوں کااہتمام کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ فرمایا۔

(البقرۃ:۲۶۶)
ایک تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے اور دوسرے انسان خود کو ان اخراجات کے ذریعہ جو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرتا ہے مضبوط کرتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال کی ضرورت نہیں۔ وہ خود خالق اور مالک ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اُس کا ہے اور اُس کا عطیّہ ہے۔ ہم فُقَرَاء ہیں اور وہ غَنِی ہے۔ ہم محتاج ہیں اور اُس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ ہم اسلام اور مذہب اور اللہ تعالیٰ کی وحی کے محاورہ میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اِس اصطلاح اور محاورہ کی حقیقت ہمارے ذہن نشین رہنی چاہیئے۔ ہم کہنے کو تو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں مگر چونکہ وہ غنی ہے اور اُس کو کوئی احتیاج نہیں اور وہ خالق اور خود ہی مالک ہے اِس لئے اُس کے حضور پیش کرنے کا مطلب اِس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ اُس کی رضا ہمیں حاصل ہو اور یہ کہ الٰہی سلسلہ میں ایک مضبوطی پیدا ہو اور نوعِ انسانی میں ایک حسین اتحاد قائم ہو جائے۔ اِن کو ہم دو حصّوں میں اِس وجہ سے تقسیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اللہ کی راہ میں جو اخراجات ہوتے ہیں وہ دو قسموں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِس معنی میں کہ ایک قِسم کا خرچ ایک خاص چیز پر زور دے رہا ہے اور دوسری قِسم کا خرچ ایک دوسری چیز پر زور دے رہا ہے۔ ایک یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جائے ۔ اس میں زیادہ تر زور روحانیت پر ہے اور یہ وہ خرچ ہے جو انسان خدا کے حضور پیش کر کے اُس کے بندوں پر اس غرض کے لئے خرچ کرتا ہے کہ اُس کے جو بندے توحید پر قائم ہو چکے ہیں وہ توحید پر قائم رہیں یعنی تربیت کے اخراجات ہیں اور اس کے جو بندے توحید پر قائم نہیں اورا للہ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کریں۔ اسے ہم اصلاح وارشاد کا خرچ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال جو خرچ تربیت پر ہے یا اصلاحِ نفوسِ انسانی کے لئے ہے اِس معنٰی میں کہ وہ انسان جو دُوری اور بُعد میں زندگی گزار رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قُرب اور پیار اُنہیں حاصل نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اُس کا قُرب اور اُس کا پیار حاصل کریں۔ اِس کو ہم اِس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مَرْضات کے حصول کے لئے یہ خرچ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جو خرچ ہوتے ہیں اُن کا ایک حصّہ ایسا ہے جس کے نتیجہ میں الٰہی سلسِلہ میں اتّحاد اوریکجہتی پیدا ہوتی ہے اور اُن کوششوں کے نتیجہ میں بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص بن جاتے ہیں اور ایک حصّہ اس خرچ کا ایسا ہوتا ہے کہ جو نوعِ انسانی میں اختلافات کو دُور کرنے کے لئے اور اتحاد کے قیام کے لئے ہوتا ہے۔ آخر کار یہ حرکت بھی پہلے حصّہ کی طرف ہی ہوتی ہے اور جب انسان اُمّتِ واحدہ بن جائے گا اور اسلام تمام اُمَم پر غالب آکر نوعِ انسانی کی ایک اُمّتِ مُسلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی۔ پس یہ بھی اسی جہت کی طرف حرکت ہے۔ توحید کے قیام کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں اِس سلسلہ میں مَیں اُس بہت لمبے مضمون کی طرف آج کے خطبہ میں اشارہ کر دیتا ہوں۔ یہ بدخیال اور وسوسہ آج کے زمانہ میں انسانی ذہن میں شیطان نے ڈالا ہے کہ اسلام صرف انفرادی عبادات پر توجّہ دیتا ہے اور جو اجتماعی ذمّہ داریاں ہیں ان کو نظر انداز کرتا ہے حالانکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ کچھ احکامات اسلامی اجتماعی زندگی اور اجتماعی ذمّہ داریوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو احکام ، جواوامر انفرادی عبادت کے رنگ میں ہیں ان میں بھی اجتماعی زندگی کو استوار کرنے کے لئے بہت زبردست سبق ہمیں ملتے ہیں، اچھے ، سمجھدار، پڑھے لکھے آدمیوں سے مَیں نے سُنا ہے کہ اسلام بس انفرادی عبادات پر زور دیتا ہے اور اجتماعی ذمّہ داریوں سے بالکل اعراض کرتا ہے اسی وجہ سے دنیا میں فساد ہو جاتے ہیں اور ایک نے تو مجھے کہا کہ پچھلے دنوں جماعت کے خلاف جو ہوا وہ بھی اسی کا نتیجہ تھا کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق انفرادی عبادات کی طرف توجہ کرتے تھے اور اجتماعی ذمّہ داریاں، جو انسان کے انسان پر حقوق ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ بات یوں نہیں ہے کہ اسلام نے جہاں ہر فردِ واحد کے لئے روحانی ترقیات کے سامان پیدا کئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی راہیں متعین کیں اور ان کی راہنمائی کی وہاں اللہ تعالیٰ نے اِس قدر حسین معاشرہ نوعِ انسانی میں پیدا کیا کہ مَیں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جو یورپ اور افریقہ کے تین سفر کئے ہیں وہاں مَیں نے پریس کانفرنسِز کیں اور اُن میں اسلامی معاشرہ اور کمیونزم اور بڑے بڑے تمدّنی ممالک امریکہ وغیرہ یا سوشلزم کا موازنہ اور مقابلہ کیا تو سوائے اس کے کہ وہ خاموشی کے ساتھ اسلام کی برتری کو تسلیم کریں ان کے لئے اَور کوئی چارہ مَیں نے نہیں دیکھا لیکن وہ تو ایک لمبا مضمون ہے مَیں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ ایک جگہ بہت سے غیر مُسلم تھے تو آٹھ دس نکات نکال کر مَیں نے اُن کے سامنے رکھے کہ دیکھو تم اسلام کے منکر ہو مگر پھر بھی تمہاری مخالفت کے باوجود اور بہتوںمیں تم میں سے بغض اور عناد بڑا سخت ہے اس کے باوجود تمہارے جذبات کا بھی خیال رکھا اور تمہارے دنیوی مفاد کا بھی خیال رکھا اور انشاء اللہ اللہ نے جب بھی توفیق دی (اس کی طرف بھی ایسی باتیں سُن کر میری توجہ پھری ہے) اِس مضمون پر روشنی ڈالوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو اسلامی تعلیم کی روشنی میں تم اس سے دو مقصود حاصل کرنا چاہتے ہو۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل ہو اور دوسرے یہ کہ تمہارا آپس میں اتّحاد اور ثبات پیدا ہو۔ سے یہی مراد ہے۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں سے جو خرچ کرواتا ہے وہ خرچ بھی اِن دو حصّوں میں بٹا ہوا ہے جو توحید کے قیام کے لئے خرچ کیا جاتا ہے وہ پاکستان میں بھی ہے اور بیرون پاکستان کے بہت سے ممالک میں بھی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اگلے دس پندرہ سال میںہر ملک میں توحید کے قیام کے لئے ہماری کوششیں تیز ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے بُھولے بھٹکے بندوں کو واپس لانے کے لئے ہماری تدبیر اللہ کے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں کامیاب ہو۔
باہر جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تدبیر چل رہی ہے اس میں زیادہ حصّہ اُن اموال کا ہے جو تحریک جدید کے نام سے خدا کی راہ میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ ان اموال میں میرا خیال ہے کہ کوئی دسواں حصّہ پاکستان کی جماعتہائے احمدیہ دیتی ہیں اور ۹ حصّے بیرون پاکستان کی جماعتیں دیتی ہیں۔ اللہ کے فضل سے بڑی ترقی ہو گئی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کی کوششوں کے نتائج اللہ تعالیٰ نے عظیم نکالے ہیں۔ کجا یہ حال تھا کہ اس خرچ کا سَو فیصد اِس بّرِصغیر کا تھا جب تحریک جدید شروع ہوئی ہے اُس وقت پارٹیشن نہیں ہوئی تھی تو ہندوپاک کی جماعتیں سارے ثواب خود ہی حاصل کر رہی تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اِس ثواب میں اَوروں کو بھی شریک کیا اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے دسواں حصّہ ان اخراجات کا، اِن مالی قربانیوں کا، اِس دولت کو خدا کی راہ میں قربان کر دینے کا پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور۱۰؍۹ بیرون پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اس لئے نہیں کہ ہم یہاں کے رہنے والے پیچھے ہٹ گئے بلکہ اس لئے کہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کی تعداد میں ایک وسعت پیدا ہوئی اور ان کے ایثار اور قربانیوں اور اخلاص میں بھی ایک مضبوطی اور روشنی پیدا ہوئی، پس یہ جو تھوڑا سا ہمارا حصّہ ہے اس کی طرف تو ہمیں توجہ دینی چاہیئے۔ پاکستانی جماعتوں کا صرف۱۰؍۱ اس کوشش میں حصّہ ہے اور۱۰؍۹ بیرونِ پاکستان سے اکٹھا ہوتا ہے اور چونکہ پاکستان بہرحال دُنیا کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہے جُوں جُوں بیرون پاکستان جماعتہائے احمدیہ عددی اور مالی ہر لحاظ سے ترقی کرتی چلی جائیں گی ہمارا حصّہ دُنیا میں نسبتاً کم ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو ایک لحاظ سے ہمیںنظر آرہی ہے اور جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس کے بغیر دُنیا میں کوئی چارہ نہیں یعنی ساری دُنیا کی آبادی نے سمٹ کر پاکستان میں تو نہیں آجانا اور ساری دُنیا کی آبادی کے لئے مقدّر ہے کہ وہ مہدی معہود کے اُن فیوض کے نتیجہ میں جو مہدی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل کر کے دُنیا میں تقسیم کرنے کے سامان پیدا کئے ساری دنیا نے مُحمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے تو جُوں جُوں اُن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تُوں تُوں جماعت احمدیہ میں پاکستانی احمدیوں کی نسبت کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اگر ہر سال دُنیا کی آبادی کا دو فیصد احمدی ہو تو بیرونِ پاکستان دُنیا کی آبادی کا دو فیصد بہت بڑی تعداد ہے پاکستان کی آبادی کے دو فی صد کے مقابلہ میں۔ یہ ایک حقیقت ہے یہ تو انشاء اللہ اُس کے فضل اور اُس کی رحمت سے ہونی ہی ہے۔ لیکن مَیں جب سوچتا ہوں تو مجھے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کیا ہم محض اس لئے کہ ہماری نسبت تعداد کے لحاظ سے بیرونِ پاکستان کے مقابلہ میں تھوڑی ہورہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیا ہماری قربانیوں کی نسبت بھی کم ہو جائے گی؟ اس سے طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنی قربانیاں زیادہ تیز کریں یہ مقابلہ ہے۔ (البقرۃ:۱۴۹)خیرات میں آگے بڑھنے کے لئے ہماری کوشش ہونی چاہیئے۔ بہرحال یہ تو آئندہ کی فکر ہے اور وہ ہمیں کرنی چاہیئے کیونکہ ایک مومن ماضی سے سبق حاصل کرتا اور حال میں ان اسباق کے بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مستقبل میں زندہ رہتا ہے۔ یہ ماضی حال اور مستقبل کی جہتوں کے لحاظ سے ایک مومن کی حیات کا نقشہ ہے۔
دو ایک سال پہلے مَیں نے ایک معیار تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جماعت کے سامنے پیش کیا تھا لیکن اس میں کچھ تا خیر ہو گئی اور پچھلے سال مَیں نے وہی معیار جب جماعت کے سامنے رکھا تو ان کے وعدے تحریک جدید کے نظام کی زندگی میں پہلی بار اُس معیار سے آگے بڑھ گئے۔ الحمدﷲ، لیکن یہ ایک ظلم و تشدّد کا لمبا زمانہ جماعت کو دیکھنا پڑا اور جماعت کے اخلاص میں برکت ہوئی اور اس میں خدا تعالیٰ نے بڑی پختگی اور تطہیر کی اور نیکی کو مضبوط بنانے کے سامان پیدا کئے۔ خصوصاً ان علاقوں میں جہاں خدا کے لئے احمدی احباب مرد و زن نے تکالیف برداشت کیں اور بعض دفعہ مَیں حیران ہوتا تھا کہ کسِ خمیر سے مہدیٔ معہود کی یہ جماعت بنی ہے کہ اپنا سب کچھ لٹا کر ہنستے ہوئے آجاتے تھے اور کہتے تھے الحَمْدﷲ ہمارے مال لوٹے گئے مگر ہمارے ایمان سلامت رہے۔
ان حالات کی وجہ سے تحریک جدید کے وعدوں میں اضافے کے باوجود اور اس زمانہ کی تحریک جدید کی وصولیوں کے باوجود جو پہلے سال سے زیادہ نہیں پھر اس عرصہ میں کچھ کمی آئی لیکن مومن کو اگر دھکّا دیا جائے تو وہ تھوڑا سا لڑھکتا تو ضرور ہے یہ تو قدرتی بات ہے لیکن رُک نہیں جاتا۔ اُس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ قبل اس کے کہ وہ تاریخ آئے جب اس سال کے حسابات بند کردیئے جائیں اور آئندہ سال کے حسابات جن کا ابھی مَیں اعلان کروں گا وہ کھولے جائیں۔ اپنے وعدے جماعت پورے کرچکی ہو گی بحیثیتِ مجموعی یقینا ایسا ہی ہو گا۔ ہو سکتا ہے بعض ایسے دوست ہوں جو اپنے مالی نقصانات کی وجہ سے اپنے وعدے پورے نہ کرسکیں۔ اُن پر کوئی الزام نہیں ہے لیکن کچھ اَور دوست ہوں گے جو یہ وعدے پورے کر دیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح میرے لئے خوشی کا سامان پیدا کیا آپ کے لئے بھی خوشی کا سامان ہے۔ آپ کو بتادیتا ہوں۔ مغربی افریقہ کے ایک دوست نے لکھا کہ (پاکستان میں) فلاں جگہ کی مسجد جب جلائی گئی اور ہمیں پتہ لگا تو ہم نے کہا کہ اچھا وہاں مسجد جلائی گئی ہے ہمارے پاس یہاں مسجد نہیں ہے ہم یہاں بنا دیتے ہیں اور باوجود سامان نہ ہونے کے اُس دوست نے لکھا پہلے میں نے نیّت کی پھر خُدا نے اَور سامان پیدا کر دیئے اب ہماری مسجد (جس کی اُنہوں نے تصویر بھی بھیجی ہے) قربیاً مکمل ہو گئی ہے۔ اُن کے ذہن میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے یہ ڈالا کہ دُنیا میں بحیثیت مجموعی جماعتِ احمدیہ کی مساجد کم نہیں ہونی چاہئیں، اگر ایک جگہ عارضی طور پر کمی آئی ہے تو دوسری جگہ مستقل طور پر اضافہ ہو جائے کیونکہ جو کمی ہے وہ بہرحال عارضی ہے اور جو مسجد جلائی گئی ہے وہ انشاء اللہ اللہ کی توفیق سے بہرحال اُس جگہ بنے گی لیکن اس وقتی کمی کو بھی مُخلص دلوں نے جو غیر ممالک میں بسنے والے ہیں ۔ انہوں نے محسوس کیا۔ اُنہوں نے کہا یہ عارضی کمی بھی نہیں رہنے دیں گے۔ وہاں مسجد کی ضرورت بھی تھی پیسہ نہیں تھا اس لئے نہیں بنی تھی۔ چند آدمی وہاں کھڑے ہوئے اُنہوں نے کہا پاکستان میں ایک مسجد اُور جَلی بیرون پاکستان میں ایک مسجد اَور بنے گی تاکہ مجموعی تعداد مساجدِ احمدیہ کی کم نہ ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اِس فرمان کی صداقت معلوم ہوتی ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں اور جماعت کو آپؑ نے فرمایا ’’ میرے درختِ وجود کی سرسبز شاخو!‘‘ پس جماعت اور مہدی معہود ایک روحانی وجود کا نام ہے اور ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے ٹھیک ہے ہم پر وہ پابندیاں ہیں جو دوسرے نہیں اٹھاتے۔ مثلاً ہم پر پابندی ہے ظلم نہیں کرنا۔ فساد نہیں کرنا۔ غلط قسم کے انتقامات نہیں لینے۔ ایک شیریں انتقام "Sweet Reveng"کا محاورہ میرے دماغ میں آیا تھا جب مَیں۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کر رہا تھا۔ کتنا بڑا انتقام ہے اور کتنا حسین انتقام ہے جو رؤسائے مکّہ سے جو فتحِ مکّہ کے موقع پر بچ گئے تھے لیا گیا یعنی۔ مَیں نے مغربی افریقہ میں بسنے والے اُن دوستوں کو جن کی میرے ساتھ ملاقات ہوئی اور جن سے مَیں نے خطاب کیا۔ مَیں نے ان کو یہ کہا کہ جو یوروپین ممالک اور حکومتیں یہاں آئی تھیں اور انہوں نے یہاں کالونیز بنالی تھیں وہ تمہاری دولتیں لوٹ کر چلے گئے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے اُسوہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں سے ایک Sweet Reveng یعنی شیریں انتقام لینا ہے۔ بہت میٹھا انتقام اور وہ یہ ہے(یہ اُس وقت۱۹۷۰ء میں مَیں نے وعدہ کیاتھا) مَیں نے کہا سفید فام یا بے رنگ آئے اور تمہاری دولت لوٹ کر لے گئے۔ تمہیں مَیں اُن ملکوں میں مبلّغ کے طور پر بھیج دوں گا اور تم جا کر اُن میں روحانی خزائن تقسیم کرو گے وہ دُنیا لے گئے۔ تم روحانی خزائن اُن کے اندر جا کر تقسیم کرو گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور عبدالوہاب بن آدم جو ہمارے غانا کے مبلّغ ہیں وہ کئی سال سے انگلستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انگریزوں کو تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ بڑا ہی ذہین انسان اور بڑا ہی بے نفس انسان اور مجھے کہنا چاہیئے کہ بڑا ہی بزرگ انسان ہیں اورTopکے احمدیوں میں سے۔ پاکستانیوں نے کوئی اجارہ داری تو نہیں لی ہوئی۔ قربانیاں دو گے تو خدا کے پیار کو اُس معیار کے مطابق حاصل کرو گے۔بہرحال یہ ہے ہمارا انتقام جب ہم انتقام لیتے ہیں۔ خواہ مخواہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ تمہارا ردّ عمل کیا ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے جب بھی انتقام لیا ہمارا حسین انتقام ہو گا ہمارا شیریں انتقام ہو گا۔ تمہیں جنہوں نے ہمارے اموال کو جلایا اُن میں ہم دنیوی اور دینی اور جسمانی اور روحانی نعمتیں تقسیم کریں گے مگر اللہ کی توفیق سے۔ یہ ہے ہمارا انتقام ۔ دُکھ دینا اور فساد کرنا یہ ہمارا انتقام نہیں۔ مَیں تو بیعت میں تم سے یہ عہد لیتا ہوں کہ کسی کو بھی دُکھ نہیں پہنچاؤں گا۔ دُکھ پہنچانے کے لئے ہم پیدا نہیںہوئے، مارنے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے ہم زندہ کھنے اور زندگی دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں۔ پس یہ ہے ہمارا انتقام۔ جس کی ہمیں اُمید ہے۔ خُدا کی توفیق سے ہم یہ انتقام لیں گے لیکن وہ دُکھ پہنچا نے والا انتقام نہیں ہو گا۔ وہ ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ نہیں بلکہ(الشورٰی:۴۱) والا انتقام ہے۔
بہرحال مَیں تحریک جدید کے متعلق یہ کہہ رہا تھا کہ جن دو اغراض کے لئے ایک مومن خُدا کے حضور اموال پیش کرتا ہے ایک یہ کہ اس کی مرضات حاصل ہوں یعنی اُس کی توحید دنیا میں قائم ہواور جیسا کہ ہم خُدا تعالیٰ کی تسبیح اور اُس کی تحمید کرنے میں ایک سُرور محسوس کرتے ہیں ہمارے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر بندہ خُدا کے حضور جُھکنے والا اور اُس کی تسبیح کرنے والا اور اُس کو پاک قرار دینے والا اور اُس کی حمد کرنے والا۔تمام تعریفوں کو اُسی کی طرف پھیرنے والا ہو، نہ اپنی طرف نہ غیراللہ کی۔ کسی اور ہستی کی طرف۔ یہ ہماری خواہش ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم خُدا کی راہ میں اموال دیتے ہیں اور اُن کا ایک دور تحریک جدید کی شکل میں آیا ہے۔ لاکھوں عیسائی تثلیث پرست جو خدائے واحد و یگانہ کو نہیں مانتے تھے یا بُت پرست جنہوں نے اپنے ہاتھ سے پتھر اور لکڑی کے اور اسی طرح دوسرے مادوں سے بُت بنائے اور اُن کی پُوجا کر رہے تھے وہ لاکھوں کی تعداد میں جماعت احمدیہ کے طفیل ( اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور رحمت سے کہ ہم بالکل لا شیِٔ محض ہیں) افریقہ میں مسلمان بنے لیکن ہماری سیری تو نہیں ہوئی۔ لاکھوں بن گئے۔ جب تک ہم کروڑوں نہ بنا لیں۔ جب تک ہم بنی نوعِ انسان کو توحید کی طرف کھینچ کر نہ لے آئیں۔ اُس وقت تک ہماری پیاس نہیں بُجھ سکتی پس دُعائیں کرو کہ خُدا تعالیٰ آپ کی اور میری پیاس کو بجھانے کے سامان پیدا کرے اور جس کے لئے جن اموال کی ضرورت ہے اُن کو دینے اور خرچ کرنے کی توفیق عطا کرے۔
آج یکم نومبر کو تحریک جدید کے تین دفاتر دفتر اوّل کے اکتالیسویں سال کا اور دفتر دوم کے اکتیسویں سال کا دفتر سِوم کے دسویں سال کا مَیں افتتاح کرتا ہوں۔ جو معیار میں نے پچھلے سال دِیا تھا۔ وہی قائم رہے گا اور جو ادائیگیوں میں مَیں نے بتایا کہ عارضی طور پر کمی ہے وہ انشاء اللہ دُور ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھتے ہوئے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو توفیق عطا کرے گا کہ جو عارضی کمزوری ہے۔ بیرونی ظلم اور تشدّد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کمزوری کو اپنے فضل سے دُور کرے گا اور آپ کے اخلاص کے مدّ نظر آپ کو مالی قربانیوں کی بھی توفیق عطا کرے گا۔
دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں ۔ وہ جلسہ سالانہ کے متعلق ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیںمَیں کہنا چاہتا ہوں۔ ایک تو چونکہ جو اس قوم پر ظلم ہوا کہ بھائی بھائی اور انسان انسان کے درمیان نفرت پیدا کی گئی ہے اس کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں روٹی پکانے والے پوری تعداد میں نہ ملیں۔ گو یہ یقینی بات نہیں لیکن دنیا کی کوئی چیز ہماری راہ میں اس طرح روک نہیں بن سکتی کہ ہم نا کام ہو جائیں اوّل تو یہ جماعت اتنی پیاری ہے کہ دو تین سال ہوئے جلسہ کے موقع پر آپس میں نان بائی لڑ پڑے تھے اور روٹیوں میں کچھ کمی واقع ہو گئی تو صبح کی نماز سے پہلے اطلاع مجھے ملی ، مَیں نے صبح کی نماز کے وقت یہ اعلان کیا کہ آج ہر آدمی خواہ مہمان ہے یا مقیم ہے ایک روٹی فی کَس کھائے گا اور ہم نے بھی اپنے گھروں میں یہی کیا تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ایک روٹی کھا لی بلکہ بعض دوستوں نے مجھے کہا کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کہا کیا فرق پڑتا ہے ہم سارا جلسہ ہی ایک روٹی کھائیں گے ٹھیک ہے کوئی ایسی بات نہیں ویسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے شروع میں لگا تار روزے رکھے تو اُس وقت آپ ؑنے فرمایا کہ مَیں نے کہا چلو یہ بھی تجربہ کرتے ہیں کہ کم سے کم کتنا کھا کر آدمی صحت کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے تو کھانا کم کرتے رہے اور ایک روٹی کے اوپر آگئے یا شاید آدھی روٹی کے اوپر آگئے بعض دفعہ بیماری میں (ہمیشہ تو نہیں) میرا بھی کبھی کبھی خون کی شکر کا نظام Upset ہو جاتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں، جو پتلا پُھلکا ہمارے گھروں میں پکتا ہے وہ نصف پُھلکا مَیں کھاتا تھا اور مَیں نے اندازہ لگایا کہ چوبیس گھنٹے میں میرے آٹے کی خوراک سوا چھٹانک ہے تو میں بہت ٹھیک رہا۔ نا معلوم سی کمزوری ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن خُدا نے فضل کیا۔ اصل تو اللہ ہی فضل کرنے والا ہے آج مَیں بتاتا ہوں کہ میری شکر کافی بڑھ گئی تھی اور۲۳۰تک چلی گئی تھی اور انگریزی دوائی مَیں کھاتا نہیں اور کل جو ٹیسٹ(Test) کوئی چار ہفتہ کے بعد لیا تو وہ ۲۳۰سے گر کر۱۶۰پر آگیا ہے الحمدﷲ۔ تھوڑی سی ابھی زیادتی ہے۔ میرا خیال ہے ایک دو ہفتوں میں بغیر انگریزی دوائی کھانے کے اِسی طرح کھانے کا پرہیز کر کے وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ مَیں بتا یہ رہا ہوں کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے لنگر کا نظام یعنی دارالضیافت کو ہنگامی حالات کے لئے چاول زیادہ خریدنے چاہئیں۔ وہ جلدی پک جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس سال ہمارا کوئی مہمان اعتراض نہیں کرے گا۔ اگر اُن کو باسمتی کی بجائے آپ موٹا چاول دیں کیونکہ قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اِس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کھانے کے سلسلہ میں روٹی پکانے کے لئے سارے ربوہ کا ہر گھر تیار ہو۔ ربوہ میں ایک ہزار اور دو ہزار کے درمیان چُولھے گرم ہوتے ہیں اگر ضرورت پڑی۔ خُدا کر ے کہ ضرورت نہ پڑے لیکن اگر ضرورت پڑے تو ہر گھر سو روٹیاں پکا کر دے دے تو ایک ہزار گھروں سے ایک لاکھ روٹی مل جائے گی اور ہمارا ایک ایک روٹی (فی کس) والا حساب ٹھیک ہو جائے گا کچھ چاول ہو جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ جو بیرون ربوہ اپنے احمدی دیہاتی ہیں(شہریوں کے لئے مشکل ہے) دیہاتی احمدی پیڑے بنا کر روٹی گھڑ کے مشینوں پر ڈالنے کے لئے احمدی مرد یا احمدی عورتیں ابھی سے تیار کی جائیں اور مرد بھی ساتھ ساتھ ہوں۔ اس طرح جو ہماری روٹی پکانے کی مشینیں چلتی ہیں یا جو دوسرا اگر کوئی انتظام ہو تو ہمیں وہ روٹیاں مل جائیں اور بہرحال عورتوں کے لئے روٹی پکانے کا لجنہ اماء اللہ انتظام کرے۔ دوسری چیز مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اتفاقاً ہماری ایک تو جو بڑی عید کہلاتی ہے وہ بھی ۲۵؍دسمبریا۲۶؍دسمبر کو آ رہی ہے ۔ میرا خیال ہے۲۵؍دسمبرکو ہوگی انشاء اللہ ۔ تو۲۵۔۲۶اور۲۷کو جماعت نے قربانیاں دینی ہیں ربوہ میں بھی اور باہر بھی ۔ ان قربانیوں کو ایک نظام کے ما تحت تین دنوں پر تقسیم کر کے ان کا سارا گوشت (سارے گوشت سے میری مراد ہے ان کے اُن دو حصّوں کے علاوہ جو اپنااور قریبی دوستوں کا ہوتا ہے تیسرے حصّہ کا) سارا گوشت جلسہ کے نظام کو دے دیں اور جو بیرونِ ربوہ ہیں ان میں سے بعض اپنی قربانیاں پہلے بھی ربوہ بھیج دیتے ہیں جماعتی نظام کے تحت لیکن پرائیویٹ طریق پر وہ کسی نظارت یا لنگر کو بھیج دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے قربانی دی جائے پس جہاں تک ممکن ہو مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر قربانی یہاں آجائے ہر ایک نے اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے جہاں تک آپ کے حالات اجازت دیں آپ باہر والے لوگ ربوہ میں قربانیاں کروائیں اور ربوہ کے مکیں جتنا ہوسکے زیادہ گوشت جلسہ کے انتظام ، دارالضیافت، یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے لنگر کا انتظام ان دنوں میں ہو گا۔ وہ ان کو دے دیں۔ خرچ بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مگر دُنیا کا کوئی خرچ ہمارے رستہ میں روک نہیں لیکن اس سال کے لئے یہ تجربے بھی ہو جائیں گے۔ جن تجربوں کا موقع ملے وہ کر لینے چاہئیں اور آخری بات جلسہ کے متعلق مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جلسہ پر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اُس کی برکت اور اُس کی رحمت کے نتیجہ میں مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہو گی۔ انشاء اللہ اور ان ہنگاموں کے دنوں میں جنہوں نے مکان بنانے تھے وہ بھی نہیں بنوا سکے ہر سال مکان بنتے رہتے ہیں۔ بیسیوں ، بعض دفعہ سینکڑوں بن جاتے ہیں اس لئے مَیں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے پاس زمین ہو لیکن اُس نے ابھی تک مکان نہ بنایا ہو وہ (قانونی اجازت لے کر) فوری طور پر جلسہ سے قبل اپنی زمین میں اگر ممکن ہو تو دو تین فٹ کی چار دیواری بھی بنالے اور اگر یہ اُس کے لئے ممکن نہ ہو تو ایک کمرہ بنا لے۔ اس نیت کے ساتھ کہ جلسہ کے مہمان وہاں ٹھہریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اُس مکان میں اس خلوص نیّت کی وجہ سے بہت برکتیں دے گا۔ پس آج ہی یہ کام شروع کردو یعنی آج سے مراد ہے جس کے کان میں جس دن یہ آواز پہنچے۔ کمرہ بنانا ہے بے شک ایسا بنادیں جس کی آپ کو بعد میں ضرورت نہ ہو یا جو امیر لوگ ہیں وہ اپنے کام کرنے والوں کے لئے کمرے بناتے ہیں۔ بے شک کچے کمرے بنادیں مگر مہمانوں کے لئے بنائیں (اور قانونی اجازت لے کر بنائیں)
میری اس تحریک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اُس دن جب اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاسIncamera(یعنی خفیہ) ہو گا۔ اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہو گا مجھے پریشان کیا اور اس اطلاع کے ملنے کے بعد سے لے کر اگلے دن صبح چار بجے تک مَیں بہت پریشان رہا اور مَیں نے بڑی دُعائیں کیں۔ یہ بھی دُعا کی کہ اے خُدا خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے۔ تیرا حُکم ہے کہ مَیں مقابلہ میںتدبیر کروں تیرا حُکم ہے مَیں کیسے مانوں۔ مجھے پتہ ہی نہیں اُن کی تدبیر کیا ہے تو ان حالات میں مَیں تیرا حُکم نہیں مان سکتا۔ بتائیں کیا کروں۔ سورۂ فاتحہ بہت پڑھی بہت پڑھا۔ ان الفاظ میں دُعا بہت کی اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ اِنَّا کَفّیْنَا کَ المُسْتَھْزِئِیْنَ۔ کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں ان منصوبوںکے دفاع کے لئے تیرے لئے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ جو خاص طور پر کہا گیا اس لئے میرا فرض تھا کہ جماعت کو کہوں کہ وسعتیں پیدا کرو جو اپنے مکانوں میں کمرے بڑھانا چاہتے تھے وہ بنائیں اور ہر پلاٹ میں جلسہ کے مہمانوں کو ایک کمرہ بنادو۔ رہائش کے لئے عارضی طور پر انہیں تحفہ دو اور عارضی تحفہ کے نتیجہ میں اپنے لئے ابدی ثواب کے حصول کے سامان پیدا کرو اللہ تعالیٰ سب کو نیکیوں کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۷۴ء صفحہ۲ تا ۶)

خداتعالیٰ کے ولی بن جائو اور کوشش کرو کہ خدا کے اتنے قریب ہو جائو کہ ذرّہ بھر بھی دوری نہ رہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-
(آل عمران:۶۹)
(البقرۃ:۱۰۸)

پھرحضور انور نے فرمایا:-
ایک تو مَیں جلسہ سالانہ کے لئے مکانات کی دوبارہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ جن دوستوں کے یہاں مکان ہیں (اپنے ہیں یا کرایہ کے مکانوں میں وہ رہ رہے ہیں) اُن کے اپنے مہمان بھی بڑی کثرت سے اُن مکانوں میں ٹھہرتے ہیں۔ مَیں خود کئی سال تک افسر جلسہ سالانہ رہا ہوں اور مجھے ذاتی علم ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرہ میںاتنے مہمان ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں کہ عام حالات میں اُتنے مہمانوں کا اُس چھوٹے کمرہ میں ٹھہرنا متصوّر ہی نہیں ہو سکتا۔ آدمی سوچ ہی نہیں سکتا کہ اتنے چھوٹے سے کمرہ میں ٹھہر سکتے ہیں لیکن قربانی اور ایثار کرنے والے اللہ کے دوست اور ولی خداتعالیٰ کی باتیں سُننے کے لئے یہاں آتے ہیں اُنہیں اپنے آرام کا خیال نہیں ہوتا وہ ہر قِسم کی بے آرامی کو بُھول جاتے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ رہائش کی تکلیف ہے، کھانے پینے کی تکلیف ہے۔ عادتوں کے خلاف کھانا ملتا ہے اور گزشتہ سال کو بیرونِ ملک سے جو احمدی دوست آئے تھے وہ حیران ہوتے تھے (جیسا کہ کئی دوستوں نے مجھے کہا) کہ اس قدر سردی پڑ رہی تھی اور کُہر تھی اور اس طرح خاموشی کے ساتھ اتنا بڑا مجمع خدا تعالیٰ کی اور خدا تعالیٰ کے پیارے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سُن رہا ہوتا تھا تو اس نظارہ اور اس کیفیت کا مشاہدہ ایسے جلسوں کے علاوہ کہیں اَور انسان کو نظر نہیںآتا۔ پس یہ تو درست ہے کہ دوست اپنے گھروں میں اپنے عزیز و اقارب، اپنے دوستوں اور شناساؤں کو بطور مہمان کے رکھ لیتے ہیں۔ وہ مہمان جو حقیقتاً مسیح موعود اور مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے مہمان ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ بہت سے ایسے دوست یہاںتشریف لاتے ہیں جن کی واقفیت اور دوستی نہیں ہوتی اور وہ بہرحال یہاں ٹھہرتے ہیں اور اُن کا انتظام ہونا چاہیئے۔ انہیں جماعتی نظام کے ماتحت ٹھہرایا جاتا ہے اور پھر یہ انتظام آگے دو شکلیں اختیار کرتا ہے ایک تو وہ عمارتیں ہیں جن میں جماعتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ مَرد علیحدہ ٹھہرتے ہیں اور ہماری بہنیں علیحدہ ٹھہرتی ہیں اور ایک وہ خاندان ہیں جنہیں جلسہ سالانہ کے انتظام کے ما تحت اُن کمروں میں جو دوست جلسہ سالانہ کے انتظام کو پیش کرتے ہیں یا اُن خیموں میں جو اِس موقع پر اس غرض کے لئے لگائے جاتے ہیں، ٹھہرایا جاتا ہے اور سینکڑوں ایسے خاندان ہیں جنہیں بڑی کوفت اور تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔ اس لئے مَیں تحریک کرتا ہوں کہ اپنے مکانات میں سے جس قدر ممکن ہو خواہ چھوٹا ہی کمرہ کیوں نہ ہو، دوست جماعتی نظام کو دیں اور چونکہ ہر سال جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ربوہ میں ہر سال عمارتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہیلیکن چونکہ یہ سال پریشانی اور ہنگاموں کا گزرا اس لئے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ عام حالات میں جس قدر مکانات بنتے رہے اس سال شاید نہ بنے ہوں۔ بہرحال میرا یہ تاثر ہے مَیں نے کوئی اعداد و شمار اکٹھے نہیں کئے اس لئے مَیں نے یہ توجہ دلائی تھی کہ جن دوستوں کے یہاں رہائشی پلاٹ ہیں اُن میں چھوٹی سی چاردیواری اور ایک کمرہ بنادیں۔ اس نیّت کے ساتھ کہ اُن کے تو کام آئے گا ہی لیکن اُس زمین اور اُس تعمیر میں برکتیں ہوں گی خدا تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والوں کے استعمال میں سب سے پہلے وہ کمرے آئیں۔ مجھے اُمید ہے کہ اِس طرف دوستوں نے توجہ کی ہوگی کیونکہ مکان بنانے کی نیّت کے معاً بعد تو تعمیر شروع نہیں ہوسکتی اس کے لئے سامان خریدنا اور پھر اُس کو تعمیر کی جگہ لے کر آنا اِس میں وقت لگتا ہے اور اگر ہماری ربوہ کی ٹاؤن کمیٹی جو حکومت نے قائم کی ہوئی ہے۔اس کا یہ قانون ہو کہ چار دیواری اور سروس رُوم کے لئے بھی اُن کی اجازت لینی چاہیئے تو اِس میں بھی چار پانچ دن لگیں گے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ بہرحال وہ قانون ہے اور قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے اور بہرحال یہ عوامی حکومت ہے اور عوامی خدمتگار کہلانے والے جو خود کو آج سے قبل خدّامِ عوام نہیں سمجھتے تھے اب باربار وزیراعظم صاحب نے ان کو توجّہ دلائی ہے کہ تم عوام کے خادم بن کر کام کرو۔ آپ نے متعدد بار ایسی تقاریر اخباروں میں پڑھی ہوں گی۔
پس مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ اِس دنیوی ہدایت بالا کو سامنے رکھ کر ربوہ کے شہریوں کو ہر قِسم کی سہولت جلد تر بہم پہنچانے کی خاطر اور پریشانیوں سے ان کو بچانے کے لئے جب اِس قسم کی درخواستیں اُن کے پاس آئیں گی تو دو چار دن کے اندر اندر وہ ان کے فیصلے کر کے ان کو اجازت دیں گے کہ اپنے قطعات میں چار دیواری بھی بنائیں اور سروس روم بھی ۔ سروس روم مَیں نے اس لئے کہا کہ نقشہ بنانا اور پھر اس کی اجازت لینا اس میں لمبا وقت لگتا ہے لیکن ساری دُنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب تعمیرات ہوتی ہیں اور مکان بنتے تو ایک عارضی کمرہ بنادیا جاتا ہے جہاں سیمنٹ اور دوسرا سامانِ تعمیر رکھا جاتا ہے اُسے سروس رُوم کہتے ہیں اور وہ عارضی ہوتا ہے۔ اسی لئے مَیں نے کہا تھا کہ آپ عارضی انتظام کریں گے لیکن ہمیشہ کے ثواب کے آپ وارث بن جائیں گے۔ پس مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ جنہیں عوامی حکومت نے عوام کی خدمت کے لئے ربوہ میں مقرر کیا ہے وہ لوگوں کے ساتھ پورا تعاون کرتے ہوئے دو ایک دن کے اندر اندر ان کو اجازت دیں گے کہ وہ چاردیواری بنا لیں اور سروس رُوم بنا لیں۔ میں نے تو قواعد وغیرہ نہیں پڑھے۔ ہماری ٹاؤن کمیٹی کے بہت سے By-Laws یعنی ذیلی قوانین ہیں اگر ذیلی قوانین میں یہ ہو کہ چاردیواری اور سروس رُوم کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں تو اُن کی طرف سے اس کا اعلان ہو جانا چاہیئے تاکہ سب دوستوں کو پتہ لگ جائے اگر اس کے لئے اجازت کی ضرورت ہے تو جو بھی درخواست آئے اس کو فوری طور پر منظور کرنے کا انتظام ہونا چاہیئے تاکہ جو وعدے علی الاعلان پبلک جلسوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے لوگوںسے کئے ہیں لوگ محسوس کریں کہ وہ وعدے پُورے ہو رہے ہیں اور انتظامیہ ان وعدوں کے پُورا ہونے میں روک نہیں بن رہی۔ بہرحال اب مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اِس بات کا خیال رکھیں گے۔
جو مضمون آج کے خطبہ میں مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآن عظیم نے مومن سے کہا کہ خد تعالیٰ کا ولی بنو اور اگر تم اللہ کے ولی بنو گے تو اللہ تمہارا ولی بن جائے گا۔ ولیؔ کے معنٰی صرف پیار کرنے والے یا دوستی کرنے والے کے نہیں ہوتے۔ ولیؔ کے معنٰی یا ولایت کے معنٰی یا وَلِیَ کے معنٰی اُس قُرب کے ہیں کہ دو چیزوں کے اُس قُرب کے بعد اُن کے درمیان کوئی اَور چیز آہی نہ سکے، اس کا آنا ممکن ہی نہ ہو یعنی اللہ سے قریب تر ہو جانا۔ تو قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم اولیاء اللہ بنو ۔ اس سلسلہ میں بہت سی آیات ہیں۔ فرمایا اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو اور جن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت اور شریعت پر ہم ایمان لائے یعنی ہم زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور قلبِ صمیم اور قلب سلیم کے ساتھ یہ اعتقاد رکھتے ہیں اور ہمارا عمل یہ ظاہر کرے گا کہ ہم یہ ایمان لاتے ہیں کہ کامل اور مکمّل شریعت خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم کی شکل میں انسان کے ہاتھ میں دی اور اس پر عمل کرنا انسان کے دین اور انسان کی دنیا کے لئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دین و دُنیا کی حقیقی حسنات انسان کو مِل ہی نہیں سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرے ولی بنو مَیں تمہارا ولی بنوں گا (البقرۃ:۲۵۸) دوسری بہت سی آیات میں زیادہ تفصیل سے بھی بتایا۔ جو متعدد آیات اکٹھی مَیں نے پڑھی ہیں ان میں سے پہلی میں ہے کہ مومنین کا خدا ولی بن جاتا ہے لیکن بعد میں جو تین چار آیات اکٹھی مَیں نے پڑھی ہیں پہلے مَیں اُن کے معنٰی بیان کرتا ہوں پھر ان کے اندر بیان شدہ مضمون آپ کے سامنے کھول کر بیان کروں گا۔ اگر تم خدا کے حکم کو مان کر اللہ تعالیٰ کے ولی بن جاؤ گے اور اُس سے محبت ر کھنے لگو گے اور اس کے اتنے قریب ہو جاؤ گے کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی اَور وجود سماہی نہیں سکے گا (بالکل ساتھ جُڑے ہوئے ہونے کے تعلق کو ولایت کہتے ہیں) جو خدا کے ولی ہو جاتے ہیں اُن پر نہ کوئی خوف مستولی ہوتا ہے اور نہ غمگین ہوتے ہیں اور پھر فرمایا اولیاء اللہ وہ ہیں جو ایمان لائے یعنی زبان اور دل سے اقرار اور تسلیم کیا اور اعمال سے اُس کا اظہار کیا اور تقویٰ کو ہمیشہ لازم حال رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اِس ورلی زندگی میں بھی خدا کی طرف سے بشارت پانے کا انعام مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں وہ سُنتے ہیں اس لئے کہ اُن کو قُربِ کامل و تامّ حاصل ہے جس سے زیادہ قُرب کوئی متصوّر ہو ہی نہیں سکتا اور بعد والی زندگی میں بھی اُن کا یہی حال ہو گا کہ فرمایا اور اللہ کی فرمودہ باتوں میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور پھر فرمایا کہ خدا کا ولی بن جانا اور خدا کی ولایت حاصل کر لینا کہ اللہ بھی ولی بن جائے یہ ایک ایسی کامیابی ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی متصوّر ہو ہی نہیں سکتی اور چاہیئے کہ اُن (مخالفوں) کی کوئی مخالفانہ تمسخر اور استہزاء کی بات تمہیں غمگین نہ کرنے پائے۔ مخالفت کی کوئی بات تمہیں اِس لئے غمگین نہ کرے کہ غلبہ اللہ کا ہی ہے۔ اس کے علاوہ اُس کے ارادہ اور منشاء کے خلاف کوئی طاقت ہے ہی نہیں جو اُس کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکے کیونکہ(یونس:۶۶) اور تمسخر اور استہزاء دونوں معنی اس کے مَیں نے کر دیئے ہیں۔ قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے اس کو جب واضح کیا جائے تو اس میں مخالفانہ بات اور تمسخر اور استہزا کی بات دونوں مفہوم آجاتے ہیں اور آگے جو لفظ استعمال کیا ہے عربی زبان اور قرآن کریم کے محاورہ میں دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ نہ اُس کے علاوہ کسی اَور کا حقیقی غلبہ ہے اور نہ اُس کے علاوہ عزت کے حصول کا کوئی اَور سرچشمہ ہے۔ پس دُنیا اولیاء اللہ سے اگر تمسخر اور استہزاء سے پیش آئے تو غم کی کوئی بات نہیں اس لئے کہ عزّت، مخالفانہ تمسخر اور استہزاء کو حاصل نہیں بلکہ عزّت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دُنیا خواہ کتنا ہی ذلیل کیوں نہ کرنا چاہے اگر اللہ تعالیٰ عزّت دینا چاہے تو خدا تعالیٰ کے اِس ارادہ میں دنیا کی کوششیں حائل نہیں ہو سکتیں۔ وہ خُوب سُننے والا بھی ہے اُس کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں اور خُوب جاننے والا بھی ہے کہ تمہاری دُعاؤں کو کِس شکل اور کس رنگ میں وہ قبول کرے گا۔
مَیں جو سلسلۂ مضامین بیان کر رہا ہوں جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا تھا اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک خوفؔ اور خشیت کہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے اور دوؔسرے یہ خواہش اور شدید جذبہ اور تڑپ کہ ہم سے ایسے کام سر زد ہوں کہ جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار ہم حاصل کریں۔ یہ اِسی دوسرے حصّہ کے تسلسل میں ایک مضمون ہے۔
اگر ہم خدا تعالیٰ کی ولایت، ایسا قُرب کہ ہمارے اور اُس کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہے، حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (پیار پیار میں بھی فرق ہوتا ہے) ایسا پیار جس سے بڑھ کر کوئی اَور پیار ہو ہی نہیں سکتا ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اِس رنگ میں گذاریں اور انتہائی کوشش کے نتیجہ میں اِس بات کو حاصل کر لیں کہ اللہ ہی اللہ ہو۔ بندے اور اللہ کے درمیان اَور کوئی چیز باقی نہ رہے۔ جب تک ہماری یہ کوشش نہیں ہو گی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں ہو سکتا ۔ خدا تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ اگر تم میرے قریب آنا چاہو گے تو مَیں تمہارے قریب آؤں گا۔ اگر تم یہ کوشش کرو گے کہ اتنے قریب آجاؤ کہ غَیْرُ اللّٰہ نیست ہو جائے اور تمہاری کوشش یہ ہو کہ میرے اور تمہارے درمیان غیرُاللہ نہ رہے تو مَیں تمہارے اتنا قریب آجاؤں گا کہ پھر اِس طرح ملاپ ہوجا ئے گا کہ کوئی چیز بیچ میں آہی نہ سکے۔ یہ ولایت کے معنٰے ہیں جس کا یہاں اعلان کیا گیا ہے۔ اِس کے لئے بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے لئے بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اِس کے لئے انتہائی چوکس رہ کر اپنے اعمال کو سنوارنا پڑتا ہے۔ اِس کے لئے ہر محبت، ہر پیار اور ہر تعلّق ، رشتہ داری کا اور دُوسرا جس کا تعلّق خدا سے نہیں اُن سارے علائق کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ لیکن خدا میں ہو کر خُدا کے حُکم سے اقرباء پروری بھی کرنی ہوتی ہے، دوست نوازی بھی ہوتی ہے۔ ہمسایہ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔بنی نوعِ انسان کی خدمت بھی کرنی ہوتی ہے لیکن خدا میں ہو کر، خُدا کی ولایت کے بعد ، پہلے نہیں کیونکہ دنیا میں ہمیں یہ نظر آتا ہے۔ انسان نے اپنی پیدائش سے اِس وقت تک یہی دیکھا کہ انسان کے جو انسان کے ساتھ تعلّقات ہیں وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہے جو خدا کو چھوڑ کرانسان ان تعلقات کو نباہتا ہے۔اپنے بھائی کے لئے ، اپنے عزیزوں کے لئے، اپنے دوستوں کے لئے ہر قِسم کے ناجائز حربے استعمال کرنے کے لئے تیّار ہو جاتا ہے۔ ایک یہ تعلّق دو انسانوں کے درمیان انسان کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے لیکن ایک وہ تعلّق ہے کہ جب انسان کہتا ہے کہ میرا کسی سے کوئی تعلّق نہیں سوائے اُس تعلّق کے جو میرے ربّ نے قائم کیا ہے۔ یہ بھی ایک تعلّق ہمیں نظر آتا ہے اور اصل انسان انسان کے درمیان قابل اعتبار تعلّق صرف یہی ہے۔ جس شخص کو یہ پتہ ہو کہ زید میری خدمت میں اس لئے نہیں لگا ہوا کہ اُس نے مجھ میں کوئی خوبی دیکھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو خطرہ ہے کہ جس وقت وہ خوبی نظر سے اوجھل ہو جائے اُس کی خدمت بند ہوجائے گی بلکہ میری خدمت میں وہ اِس لئے لگا ہوا ہے کہ خُدا نے اُسے کہا۔ (اٰل عمران:۱۱۱)۔ میرے حکم کی بنا پر میرے بندوں کے دُکھوں کو دُور کرنے کے لئے اور اُن کو سُکھ پہنچانے کیے ہر دم تیّار رہتا ہے، جسے وہ دُکھ سے بچا رہا ہے اور جسے سُکھ پہنچانے کی وہ کوشش کر رہا ہے اُس کو یہ یقین ہو کہ دُنیا کچھ سے کچھ ہو جائے اِس شخص کی خدمت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ میری وجہ سے میری خدمت نہیں بلکہ ہمارے ربِّ کریم کی خوشنودی کے حصول کے لئے یہ خدمت ہو رہی ہے۔ پس تعلّقات تو قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے خدا تعالیٰ نے اِس کائنات کو کہہ کر انسان کا خادم قرار دِیا ہے یعنی جو چیز بھی کائنات میں پائی جاتی ہے وہ انسان کی خدمت کے لئے ہے اور انسان اپنے ’’خادم‘‘ سے بھی اگر اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں انسانیت کے درجہ سے بھی نیچے گرِ جائے جس طرح کسی وقت میں انسان کو دوسرے انسان غلام بنا لیتے تھے۔ اسلام غلامی کے خلاف ہے لیکن کہا کہ جن کو تُم نے غلطی سے احکامِ شریعت کے خلاف غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اِس معاشرہ میں آزاد ہو کر اگر نکّمے بیٹھ رہنا چاہتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر وہ آزاد معاشرہ کا مفید اور فعّال حصّہ نہ بن سکتے ہوں تو اُن کو بیشک آزاد نہ کرو لیکن اگر وہ آزاد ہو کر معاشرہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں تو تمہیں بہرحال آزاد کرنا پڑے گا یہ پُرانے غلاموں کی بات تھی اور آئندہ کے لئے ایسے احکام دے دیئے کہ غلامی کو مٹادیا۔ یہ درست ہے کہ عملاً بعض علاقوں میں نا سمجھی سے بعض مسلمانوں نے غلامی کو جاری رکھا مگر قرآن کریم میں اِس قِسم کی غلامی کا کوئی جواز ہمیں نہیں ملتا لیکن جس وقت قرآن کریم نازل ہورہا تھا اُس وقت جو غلام تھے اُن میں سے ایسے غلام جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے تھے قرآن کریم نے اُن کے لئے ایسے اصول وضع کر دیئے کہ وہ آزادی حاصل کر سکیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے غلام بھی تھے کہ اگر ان کو کہا بھی جاتا کہ آزاد ہو جاؤ تو وہ کہتے تھے نہیں ہم آزاد ہو کر کیا کریں گے۔ ایسے غلام جہاں بھی پائے جاتے اُن کے لئے قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں انسانی شرف کو قائم کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اُس کے لئے بھی اپنے گھر جیسا اقتصادی ماحول پیدا کرو۔ جیسا خود کھاتے ہو اُسے بھی کھلاؤ۔ جیسا خود پہنتے ہو اُسے بھی پہناؤ۔ ہر گھر کا اپنا ایک معیار ہے کوئی دوسو روپیہ ماہانہ کمانے والا ہے کوئی دس ہزار روپیہ ماہانہ کمانے والا ہے۔ کوئی اپنے گھر پر بیس ہزار روپیہ ماہانہ خرچ کرتا ہے اگر اُن حالات میں کہ پرانے غلام موجود ہیں اور اُن کی آزادی کا کوئی سامان نہیں دو سو روپیہ کمانے والے کو کہا جو تیرے گھر کا ماحول ہے وہی اُسے دو۔ جس طرح تم اپنے بچّے کو کھلاتے ہو اور پہناتے ہو اسی طرح غلام کو بھی کھلاؤ اور پہناؤ اور بعض خاندان بیس ہزار یا تیس ہزار روپیہ بھی خرچ کر جاتے ہیں اُن کو کہا اس کے مطابق غلام کو بھی رکھو۔ پس ہر انسان کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ ملنا چاہیئے جو اُس کا حق ہے لیکن جو حقوق انسان بناتا ہے اُس میں تو وہ چالاکی کر جاتا ہے۔ اپنے لئے کچھ بنا لیتا ہے اور غیر کے لئے کچھ بنالیتا ہے اُس کے لئے اُس نے حیلہ سازی پہلے ہی کی ہوتی ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ کمیونزم نے اعلان کیا اس کے الفاظ بظاہر ایسے ہیں جو بڑے پیارے لگتے ہیں
‏ ’’To each according to his needs‘‘
یعنی ہر ایک کو اُس کی ضروریات کے مطابق دیا جائے گا اور جب اُن کے سارے لٹریچر اور کُتب میںNEEDS یعنی ’’ضروریات‘‘ کی تعریف نہیں کی گئی اور جب عمل کرنے کا وقت آیا تو کمیونسٹ چیکو سلواکیہ میں اُن کے قتل و غارت کے لئے اپنی فوجیں لے کر آگئے حالانکہ وہ بھی کمیونسٹ تھے اور اُن کاا قتصادی معیار وہ نہیں بننے دیا جو ان کے اپنے مُلک کا تھا اور جو روس کے مشرق میں مسلمانوں کے علاقے ہیں ان کا اقتصادی معیار اور جو وائٹ رشیا (White Russia)کہلاتا ہے اس کا اقتصادی معیار۔ اس نعرہ کے باوجود کہ ’’To each according to his needs‘‘ بالکل اَور کردیا۔ بھَلا دو انسانوں کی ضروریات بنیادی طور پر مختلف کیسے ہو گئیں؟ فروغی طور پر تو مختلف ہو سکتی ہیں مثلاً جو چھ فٹ کا جوان ہے اُس کے لباس پر زیادہ کپڑا خرچ آئے گا بہ نسبت اس انسان کے جس کا قد ساڑھے چار فٹ ہے۔ یہ تو فروعی فرق ہوا۔ لیکن اصول یہ ہے کہ ہر ایک کو ایک جیسا ایک ہی قسم کا کپڑا ملے۔ اُس کپڑے کی کمیّت میں توفرق ہو گا لیکن کیفیت اور قسم میں فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ مَیں بتایہ رہا ہوں کہ جو انسان نے انسان کے لئے قوانین بنائے اوّل تو وہ ناقص ہیں پھر ان پر عمل ناقص۔ اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ایک تعریف کر دی اور پھر جب چاہا وہ تعریف بدل دی۔
پس وہ قانون جو بنیادی اصول سے بندھا ہوا نہ ہو وہی قانون ہے کہ جو اپنی مرضی سے جب چاہے بدل دیا۔ اسی لئے اسلام کو ہر دوسرے قانون پر فوقیّت حاصل ہے کہ مسلمان کا یا مومن احمدی کا جو قانون ہے وہ قرآن کریم کی ہدایت سے بندھا ہوا ہے اور اس وجہ سے وہ محفوظ ہے اور اُس کے حُسن پر کوئی داغ نہیں لگتا لیکن جو قانون انسان نے بنایا ہے وہ بدلتا رہتا ہے۔ آج کچھ قانون بنایا کل کچھ بنادیا۔ جیسے جیسے حالات بدلے ویسے ویسے چالاکیاں کر کے بعض لوگوں کو فوائد سے محروم کرتے رہے یا بعض کو زیادہ فوائد دے دیئے ساری دُنیا میں یہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں بھی ،روس میں بھی، یورپ میں بھی، کیونکہ انسانی قانون کا حُسن الٰہی حُسن کے ساتھ بندھا ہوا نہیں ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے تو کہا کہ یہ نہیں کرنا کسی شخص کو یہ نہیں کہا کہ جو مسلمان نہیں اُس کا آدھا پیٹ بَھرنے کی تجھے اجازت ہے۔ جن غلاموں کے متعلق شروع میں اسلامی شریعت اور قانون کے مطابق عمل ہونا تھا اُن میں سے تو بہت سے مسلمان نہیں تھے اور غلام تھے اور اُن کے متعلق کہا کہ ٹھیک ہے یہ تمہارے ہم عقیدہ نہیں ہیں لیکن تمہارے ہم جنس اور ہم نوع ہیں۔ اس لئے جیسا تم نے کھانا ہے ویسا ہی اُن کو دینا ہے لیکن انسان جب قانون بناتا ہے تو اپنے مطابق، اپنی ضرورت کے مطابق، اپنے خیالات کے مطابق۔ اپنے تعصبات کے مطابق اس میں ایک لچک رکھتا ہے لیکن پیدا کرنے والے ربّ کو تو کِسی سے بھی کوئی تعصب نہیں ہے۔ اُس نے تو ہر انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کے انسانی حقوق قائم کئے۔ ایسے حسین قوانین ہیں (میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے اِس وقت موقع نہیں پھر موقع ہوا تو پھر یاددھانی کرا دوں گا) کہ اپنے بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات سے مَیں نے باتیں کی ہیں۔ مَیں نے اسلامی تعلیم پیش کر کے کہا یہ ہے اسلام کی اقتصادی تعلیم۔ اس سے بہتر یا اس جیسی تعلیم مجھے دکھا دو تو میں سمجھوں گا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو وہ آگے سے بات نہیں کرتے۔ مَیں نے پہلے بتایا تھا کہ۱۹۷۳ء کے دورہ کے دوران یورپ کے دو ملکوں میں مجھے شرمندہ ہونا پڑا کہ جب میں نے اسلامی تعلیم بیان کی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ اتنی حسین تعلیم ہے۔ یہ تو ہم مانتے ہیںلیکن یہ بتائیں کہ اس حسین تعلیم کو جانتے ہوئے بھی آپ نے ہمارے عوام تک اسے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ ٹھیک ہے ابھی ہمارے پاس اتنی دولت نہیں۔ ہمارے پاس اتنے انسان نہیں جو ہر جگہ پہنچ کر اُن کو بتائیں لیکن ہمارا قدم اس جہت کی طرف اُٹھ رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلامی تعلیم کا پیغام گھر گھر میں پہنچایا جائے گا اور اسلام کے حُسن اور احسان سے اُن کے دِل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے انہیں جمع کردیا جائے گا۔
پس قرآنِ کریم نے فرمایا کہ خُدا کا ولی بن جاؤ یعنی یہ کوشش کرو کہ خداسے ذرّہ برابر بھی دوری نہ رہے کہ کسی غیر کی بیچ میں گنجائش نکل آئے تمہارے دل میں یہ جذبہ اور خواہش ہونی چاہیئے کہ میںخدا کا ایسا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے اور خُدا کے درمیان ایک ذرّہ برابر بھی فرق نہ رہ جائے کیونکہ اگر ذرّہ برابر بھی فرق ہو تو میرے اور خُدا کے درمیان وہ ذرّہ آجائے گا اور وہ دُوری اور مہجوری ہوگی، ناکامی کا احساس ہو گا کہ مَیں نے اپنا مقصد حاصل نہیں کیا۔ مَیں اتنا قریب نہیں ۂوا۔ خُدا تعالیٰ نے کہا تم ایک دفعہ قریب آ کر تو دیکھو مَیں تمہارے قریب آجاؤں گا اور سچّی بات یہ ہَے کہ جو انسان خدا تعالیٰ کا اس طرح قرب حاصل کر لیتا ہے جس طرح دو باہم جُڑی ہوئی انگلیوں کے درمیان کسی اور کی گنجائش نہیں اُس کے بعد خُدا تعالی چھوڑا نہیں کرتا یعنی پھر وہ اپنے اس بندے سے جو اُس کے اتنا قریب ہو جاتا ہے جس کو ہم وَلی کہتے ہیں جو اس کا ولی بن جاتا ہے۔ جو عملاً اپنے مجاہدہ کے بعد اس کے قریب تر آجاتا ہے تو خُدا تعالیٰ بھی اُس کے قریب آجاتا ہے اور اُس سے اِس قسم کا پیار کرتا ہے اُس سے اس قِسم کا لگاؤ رکھتا ہے۔ اُس کا اِس قسم کا خیال رکھتا ہے اُس کو اِس قِسم کی ہدایت دیتا ہے اور رحیمیت کے جلوؤں سے اُس کی کمزوریوں کو دور کرتا ہے اور اُس کی کوششوں میں کامیابی کی راہیں اُس پر کھولتا رہتاہے اور کی حیثیت سے اِس دُنیا میں بھی(یونس:۶۵)۔ اس دُنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی بشارت اُن کے لئے ہے اور جو فوزِ عَظِیم کہا کہ اِس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں سوچو وہ فوز عظیم کیا ہو سکتی ہے وہ فوزِ عظیم یہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کوئی فوزِ عظیم نہیں کہ ہر وقت خداتعالیٰ کے پیار کی آواز انسان کے کان میں پڑتی رہے۔ پیار کا احساس اُس کے دِل میں پیدا ہوتا رہے اُس کے پیار کے جلوے اپنی زندگی میں وہ دیکھے اور اس کے پیار کے جلوے صرف وہ شخص نہیں بلکہ اس کے ماحول کے لوگ بھی اس شخص کی زندگی میں دیکھیں کہ خداتعالیٰ اس شخص یا اس خاندن سے یا اُس قوم سے یا اُس جماعت سے جیسا کہ یہ جماعتِ احمدیہ ہے۔ خدا تعالیٰ کا کتنا پیار ہے۔ جب دُنیا خدا تعالیٰ کو جماعتِ احمدیہ کے افراد سے اس طرح پیار کرتے دیکھے گی۔ تو اُن کے دلوں میں خود بخود تمہارے لئے محبت پیدا ہو گی ۔ جب دُنیا یہ دیکھے گی کہ یہ جماعت وہ ہے جنہوں نے ہم سے خدمت کا اور الفت کا اور ہمارے دُکھوں کو دُور کرنے کے لئے کوششوں کا وہ تعلّق پیدا کرلیا ہے جس کی بنیاد خُدا تعالیٰ کے قُرب پر ہے اُن کو تسلّی ہو گی کہ اِن سے ہمیں کوئی دُکھ نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ہم پر ظلم نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے حقوق کو تلف نہیں کر سکتے۔ ہمیشہ ان سے ہمارے لئے خیر کے چشمے پُھوٹیں گے۔ ہمیشہ یہ ہمارے دُکھوں کو دُور کرنے کے بعد ہمارے لئے سُکھ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ پھر جس شخص کو یہ سمجھ آ جائے گی وہ تو آپ کے قریب آ جائے گا اور جو آپ کے قریب آیا چونکہ آپ خُدا کے قریب ہوں گے لہٰذا وہ بھی خُدا کے قریب ہو جائے گا اور پھر اس طرح ہم نے دُنیا کو اسلام کے لئے ، اللہ کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا ہے جو اصل غرض ہے۔ ہماری یہ غرض تبھی پوری ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد آیات میں بیان ہوا ہے اُن میں سے چند ایک کا میں نے انتخاب کیا ہے۔ جو اس وقت مَیں نے بیان کی ہیں یہ ولایت کا تعلق کہ ہم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کا ولی بن جائے اور اللہ اُس کا ولی بن جائے یہ تعلق پیدا ہو جائے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اور خُدا کے درمیان ایک ذرّہ بھی جگہ نہ رہے، جہاں غیراللہ کے داخل ہونے کا امکان رہ جائے جہاں شیطانی وسوسہ (جو ذرّہ سے بھی باریک جگہ میں چلا جاتا ہے) اور اُس کے اندر داخل ہونے کا سوال پیدا ہو پھر شیطانی حملوں سے ہر طرح محفوظ ہو جاتا ہے اور خُدا تعالیٰ کے حُسن واحسان کے جلوے ہر دم اور ہر آن اپنی زندگی میں وہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کی طرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی نے آپ لوگوں کو اور مجھے بلایا۔ یہ وہ زندگی ہے جس کی طرف قرآن کریم نے یہ کہہ کر بنی نوع کو مخاطب کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو اس لئے کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندہ کردے ہر وہ زندگی ہر وہ حیات جس میں خُدا اور بندے کے درمیان بُعد اور ہجر پایا جاتا ہے، دُوری پائی جاتی ہے وہ زندگی زندگی نہیں ہے۔ زندگی اپنے کمال کو تبھی پہنچتی ہے جب بندے اور خُدا کے درمیان کوئی فرق نہ رہے اور اس لئے اس غرض کی خاطر مہدیٔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جنہیں پہلوں نے محمد مہدی بھی کہا ہے انہوں) نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا۔ اپنی طرف نہیں بلایا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بُلایا تا کہ آپ حقیقی حیات اور زندگی پائیں تا کہ آپ کی وجہ سے اور آپ کی کوششوں اور تدبیر اور دُعاؤں کے نتیجہ میں تمام بنی نوعِ انسان حقیقی حیات اور زندگی حاصل کریں۔ خُدا کرے کہ ہمیں اپنے مقام کی سمجھ اور معرفت حاصل ہو اور کبھی بھی ہم اُس غرض کو جس کے لئے ہمیں اجتماعی طور پر پیدا کیا گیا اور اکٹھا کیا گیا ہے، نہ بھولیں اور ہماری نظر سے یہ مقصد اوجھل نہ ہو۔ اور خُدا کرے کہ حقیقی معنی میں اور سچ مچ خُدا تعالیٰ کے ولی بن جائیں اور خُدا تعالیٰ اُس کے نتیجہ میں ہمارا ولی ہو جائے۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍ جنوری ۱۹۷۵ء صفحہ ۲ تا ۶)

اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اعتداء سے بچو اور بغض و عداوت کو اپنے قریب نہ آنے دو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:-

پھر حضور انور نے فرمایا ۔
پہلے تو مَیں اپنے دوستوں کو اِس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عملِ صالح کے معنے موقع و محل پر عمل کرنے کے ہوتے ہیں۔ غلط جگہ پر صحیح کام بھی اسلام میں پسندیدہ نہیں اِس لئے موقع اور محل کے مطابق کام کرنے کا حکم ہے مقام بھی صحیح ہونا چاہیئے اور کام بھی صحیح ہونا چاہیئے۔ اگر کسی دوست نے مجھے کوئی خط دینا ہو تو اس کے لئے صحیح جگہ میرا دفتر ہے مسجد اقصیٰ نہیں ہے، بہرحال دوستوں کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اعمالِ صالحہ بجا لاؤ یعنی نیکیاں بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے جو موقع اور محل کے مطابق ہوں۔ اس حکم کو ہمیشہ مدِّنظر رکھنا چاہیئے اور اس کے مطابق اعمال بجا لانے چاہئیں تا کہ ثواب حاصل ہو۔
ایک سلسلہ مضامین پر مَیں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں، یہ سلسلہ اِس وجہ سے شروع ہوا کہ نیشنل اسمبلی نے ایک فیصلہ کیا اور مَیں نے بتایا تھا کہ جہاں تک اس پر تبصرہ کا سوال ہے مَیں جنوری یا فروری کو اس پر تبصرہ کروں گا لیکن جہاں تک ردِّ عمل کا سوال ہے، مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ ہم قرآنی شریعت کو شریعت حقّہ سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا ضروری اور واجب سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم نے قُرب الٰہی اور رضائے الٰہی کے لئے جو راہیں متعیّن کی ہیں ہم اُن پر چلنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ ان پر چلنے میں اپنی خوشحالی اور کامیابی کا راز سمجھتے ہیں۔
قرآن کریم نے ہمیں بُنیادی طور پر دو قِسم کی باتیں بتائی ہیں ۔ ایک وہ جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اُن سے بچنا ضروری ہے دوسرے وہ احکام ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ ان کے بجا لانے سے اللہ تعالیٰ کا پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ بعض خطبات میں مَیں نے ایک پہلو کے متعلق بات کی اور بعض میں دوسرے پہلو کے متعلق بات کی۔ آج مَیں ایک اَور ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق قرآن کریم بتاتا ہے کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان سے خوش نہیں ہوتا وہ اس سے پیار نہیں کرتا۔ انسان رضائے الٰہی کو حاصل نہیں کر سکتا اور وہ ہے اعتداء یعنی حد سے بڑھنا۔
مَیں نے سورۂ اعراف کی جو آیات ابھی پڑھی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پُکارو۔ اُس سے دُعائیں کرو۔ گڑِ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی، اجتماعی طور پر بھی دُعائیں کرو اور انفرادی طور پر بھی اور اُس سے یہ دُعا مانگو کہ اے اللہ تو ہمارا ربّ ہے۔ تُونے ہمیں پیدا کیا اور ہماری پیدائش کو احسن بنایا ہے تُو نے ہمیں ضرورت کے مطابق قوّتیں عطا کیں اور ان قوتوں کی نشو و نما کے سا مان پیداکئے ہیں۔ گویا ہمارے قوٰی میں درجہ بدرجہ ترقیات عطا کر کے خدا تعالیٰ ہمیں بلندیوں اور کامیابیوں کی طرف لے جانے والا ہے۔ اسی غرض کے لئے اُس نے شریعت ِ حَقّہ کو قرآن کریم کی شکل میں نازل فرمایا۔ اِس لئے اس سے دُعا کرو کہ وہ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اُن حدود کے اندر رہ کر اور اُن حقوق کو ادا کر کے جو اُس نے مقرر کئے ہیں اپنی ربوبیّت اور نشو و نما کے سامان پیدا کریں اور یہ دُعا گِڑ گڑا کر بھی کرو اور خُفیہ بھی، اجتماعی طور پر بھی کرو اور انفرادی طور پر بھی اور یہ یاد رکھو کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اُس کے فضل کو جذب نہیں کیا جاتا، انسان حقوق کے دائرہ میں نہیںرہتا۔ وہ اُس کو پامال کرتا ہے۔ جو شخص حقوق کو پامال کرتا ہے اُس کے متعلق فرمایا:- اللہ تعالیٰ اعتداء کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔ وہ ان سے پیار اور محبت نہیں کرتا۔ اعتداء کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل نہیں ہوتی اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: دینِ حق کے نزول کے بعد، حقوق کی تعیین کے بعد، حقوق کی وضاحت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے بعد کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے مادی اور غیر مادی سامان پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی تقسیم ان اصول پر ہونی چاہیئے جن کے نتیجہ میں اس دنیا میں اصلاح کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوف کے حالات دور کردئیے جاتے ہیں۔ ان حالات کے پیدا ہونے کے بعد کی رو سے اس زمین جو میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک نیا روپ لے کر دُنیا کے سامنے آئی ہے ۔ اس میں فساد کے حالات پیدا نہ کرو۔ پھر تاکیداً فرمایا کہ وَادْعُوْہُ کہ خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دُعائیں کر کے اس کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کرو اور اس کی نُصرت اورمدد پاؤ تاکہ تم اس خوف سے نجات پاؤ جو حق تلفی کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اس رَجَاء اور امید کے ساتھ دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تمہیں حقوق کی ادائیگی کے دائرہ میں رکھ کر خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والا بنادے۔ فرمایا اگر تم محسن بنو۔ اگر تم ہمارے احکام کو تمام بیان کردہ شرائط کے ساتھ بجا لاؤ تو یاد رکھو کہ تم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اپنے قریب پاؤ گے۔
پس آج کا میرا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اعتداء کو پسند نہیں کرتا انسان اعتداء کے بعد (جس کے معنے مَیں ابھی بتاتا ہوں) خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
عربی کے لفظ عدو(ع۔ؔد۔ؔو ؔ) کے مختلف معانی ہیں اور قربیاً سارے معانی کا عکس اور اُن کی جھلک اعتداء میں آجاتی ہے۔ اِعْتَدَوْا کے معنے ہیں حق سے تجاوز کرنا۔ گو لُغت میں یہ لفظ تین طرح بیان ہوا ہے لیکن مَیں اس وقت صرف دو کو لوں گا۔ حد سے تجاوز کرنے کے ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ حق تو نہیں ہوتا۔ مگر اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حق سے تجاوز کرنے کے ایک معنی یہ ہیں کہ دوسرے کا حق ہوتا ہے مگر اسے دینے سے انکار کیا جاتا ہے گویا اپنے لئے یا غیر کے لئے۔ اپنے دوست کے لئے یا اپنے عزیز کے لئے ۔ اپنے ہم خیال کے لئے، اپنے ہم عقیدہ کے لئے اُن حقوق کا مطالبہ کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں کیا یہ حق سے تجاوز کرنا ہے۔ دوسری طرف اُن حقوق کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات اور اُس کے عزیزوں کے لئے قائم کیا۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمسایوں کے لئے قائم کیا۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم عقیدہ لوگوں کے لئے قائم کیا۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے لئے قائم کیا گویا وہ حقوق جو خدا کے قائم کردہ ہیں، اُن کو ادا نہ کرنا اور ان کی ادائیگی میں روک بننا، یہ بھی حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس وجہ سے جب دوسرے کی حق تلفی کے معنی میں یہ تجاوز ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ظلم اور دشمنی کے ساتھ اور بُغض سے دوسرے کو ایذاء پہنچانا۔ یعنی دشمنی اور بُغض کی وجہ سے کسی کو دُکھ دینے کی خواہش رکھنا اور دُکھ پہنچانے کے لئے کوشش کرنا اعتداء ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص حق سے تجاوز کرے گا اور حق تلفی کرے گا اور دشمنی اور بُغض کے نتیجہ میں دُکھ پہنچانے کی کوشش کے گا تو خدا تعالیٰ اُس سے پیار نہیں کرے گا اور یہ ایک زبردست اعلان ہے جو ان آیات میں کیا گیا ہے۔
ان آیات سے جو مطلب ہم اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ جب تک ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کو مدد کے لئے نہ پُکاریں اُس وقت تک ہم اُن حدود میں جو خدا تعالیٰ نے قائم کی ہیں، رہ نہیں سکتے یعنی اپنی حدود میں رہنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آج کی اندھی دُنیا دعاؤں پر زور دینے کی بجائے اپنی عقل پر فخر کرتی ہے۔ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ کے قائم کردہ دائرہ حدود میں رہنے کے لئے تمہیںعقل کی ضرورت تھی اور وہ تمہیں ہم نے عطا کر دی۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کے حصول کے لئے اعمال تم بجا لاتے ہو اس میں تم کامیاب تبھی ہو سکتے ہو، جب دعائیں کرو، ٹھیک ہے عقل بھی ایک عطاء الٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے لیکن عقل اسی وقت صحیح کام کر سکتی ہے جب اُسے خدا تعالیٰ کی ہدایت اور تعلیم اور وحی کی روشنی حاصل ہو۔ الٰہی نُور کے بغیر عقل کو وہ روشنی نہیں ملتی جو عقل کو صحیح راستوں پر چلا سکے اور کامیابیوں تک عقل مندوں کو لے جا سکے۔
اس سے ایک تو ہمیںیہ پتہ لگا کہ اپنے حقوق لینے ہوں تو بھی دوسروں کے لئے سکھ پیدا کرنے ہوں گے اور دُکھوں سے بچانا ہو تو بھی دعاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ کسی اَور چیز کی کیونکہ جب تک عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور جب تک اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو انسان جذب نہیں کرتا، اُس وقت تک وہ حق کے دائرہ کے اندرنہیں رہ سکتا۔ نہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کی کوششیں جائز ہوں گی نہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس کے اندر ایک جذبہ اور جوش پیدا ہو گا۔
دوسری بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے حقوق کے دائرہ میں نہیں رہتا اور زیادتی کرتا ہے اور تجاوز کرتا ہے اور حق تلفی کرتا ہے اور دشمنی اور بُغض سے دوسرے کو ایذاء پہنچاتا ہے اور اپنے لئے وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا حق نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھو بیٹھتا ہے۔
اس ضمن میں ہمیں دُنیا میںدوقسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو عادتاً دوسروں کو سُکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اپنی بد قسمتی سے دوسروں کو دُکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کم و بیش دنیا کے ہر خِطّہ میں نظر آتی ہے۔ اس وقت دنیاوی لحاظ سے جو ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے جو ترقی کی ہے اُس کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو پہچانا کہ دوسروں کو سُکھ پہنچانے کے نتیجہ میں اور اُن کے دُکھ دور کرنے کی وجہ سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں۔
مَیں نے کئی ایسے واقعات پڑھے ہیں مثلاً انگریز قوم کو ایک وقت میں برطانوی سلطنت پر بڑا ناز تھا۔ دُنیا میں انگریزوں کی طاقت پھیلی ہوئی تھی۔ دُنیا کے ایک بڑے علاقے کو انہوں نے اپنے ماتحت کر رکھا تھا چنانچہ اگر سنگا پور یا ملائشیا یا کسی اَور دور دراز علاقے میں کسی انگریز کی دس ہزار پائونڈ کی حق تلفی ہوتی یعنی کوئی شخص کسی انگریز کے دس ہزار پائونڈ مار لیتا تو برطانوی حکومت اس دس ہزار پائونڈ کے حق کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جاتی تھی اور پُورا زور لگاتی تھی اور اپنی طاقت کے بَل پر اُس کودس ہزار پونڈدلواتی تھی چاہے اس کے اوپر اُسے کتنا بھی خرچ کیوں نہ کرنا پڑے گویا فردِ واحد کو ذہنی، جسمانی اور دُنیاوی حقوق کے لحاظ سے دس ہزار پائونڈ کے ضیاع سے جو دُکھ پہنچا تھا، اس کو دُور کرنے کے لئے ساری ایمپائر(Empire) متوجہ ہو جاتی تھی۔ وہ یہ نہیں کہتی تھی کہ اتنی بڑی ہماری سلطنت ہے اور اتنی دولت ہمارے پاس جمع ہو چکی ہے ایک آدمی کے دس ہزار پائونڈ ضائع ہو گئے تو کیا بات ہے۔ اس لئے کہ جو قوم اور مملکت اپنے شہریوں کو حقوق دلانے کے لئے ہر وقت چوکس اور بیدار نہیں رہتی وہ قوم اس دُنیا میں ترقی نہیں کر سکتی، یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے کوئی عقل مند انکارنہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کے باوجود استثنائی طور ہمیں انگریزوں میں سے ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو دوسروں کو ایذاء پہنچا کر اور دُکھ دے کر خوشی اور مسرت حاصل کرتے ہیں۔ اب تو اُن کی حالت بدل گئی ہے لیکن کسی وقت میں اُن کی بہت بڑی سلطنت تھی جس کے متعلق اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ اُس پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ (اب تو غروب ہونے لگ گیا ہے) تا ہم غروب ہوتا ہے یا نہیں، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں دراصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے جو ترقی کی ہے اس کے لئے انہوں نے کِن اصولوں کو اپنایا تھا نیز ان میں سے ایک اصول یہ تھا کہ قوم کے دکھوں کو اور افراد کے دُکھوں کو دور کرنے میں قوم کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ دُنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو دُکھ پہنچا کر خوشی اور مسّرت محسوس کرتے ہیں یعنی بگڑی ہوئی فطرت غلط رنگ میںدُنیا کے سامنے طاقت اور کوشش کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جو قومیں ترقی یافتہ نہیں، اُن میں ہمیں یہی دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جن کو اس راز کا علم نہیں ہے اور وہ اپنے ہی بھائی بند کو دُکھ پہنچانے میں خوشی اور مسّرت محسوس کرتے ہیں گویا وہ اپنی خوشی اور مسّرت کے حصول کے لئے دوسروں کو دُکھ پہنچاتے ہیں لیکن ان کا ایک حصّہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کی یہ ذہنیت نہیں ہوتی وہ ملک میں رہنے والے ہر شہری کو سُکھ پہنچانے کی کوشش کرتے اور دُکھوں کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والی اقوام میں مختلف نسبتوں کے ساتھ یہ ذہنیت ہمیں نظر آتی ہے۔
اس تمہید کے بعد مَیں اپنے ملک کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے ملک میں یہ گندی ذہنیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور اس میں صرف احمدیت کا تعصّب نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی آپ کو کوئی دُکھ پہنچانے والا ملتا ہے۔ وہ عام شہری ہے یا حکومت کا کوئی کارندہ اسے دیکھ کر آپ یہ نہ سمجھ لیا کریں کہ وہ صرف احمدیت کی وجہ سے آپ کو دُکھ پہنچا رہا ہے۔ ہمارے اس ملک میں کثرت کے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو ایک دوسرے کو دُکھ پہنچانے میں مصروف ہیں مثلاً سُنّی سُنّی کو دُکھ پہنچا رہا ہے اور شیعہ شیعہ کو دُکھ پہنچا رہا ہے اور اپنے ہی گھر والا اپنے بھائی کو دُکھ پہنچا رہا ہے۔ کیا آپ اخباروں میں بھائیوں کی آپس میں لڑائیوں کے متعلق پڑھتے نہیں؟ تو وہاں تو عقیدہ کے اختلاف کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایک ہی گھر میں پیدا ہوئے ایک ماں باپ کی اولاد لیکن اُن کی ذہنیت ایسی ہے کہ ہر بھائی دوسرے کو دُکھ پہنچانے میں لذّت اور سرور محسوس کرتا ہے۔ بد قسمتی سے اس قسم کی ذہنیت والے لوگ حکومت کے نوکر اور عوام کے خادموں میں بھی ہیں لیکن ان کی کثرت نہیں ہونی چاہیئے۔ استثنائی طور پر تو جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے انگریز کے زمانہ میں بھی جب برٹش ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا شاید لاکھوں میں ایک آدمی اُن میں بھی ہو جو اذّیت پسند ہو لیکن جب قوم میں کثرت اس ذہنیت کے لوگوں کی ہو جائے کہ کسی کو سُکھ نہیں پہنچانا، دوسروں کو دُکھ پہنچانا ہے اور دُکھوں کو دُور نہیں کرتا اور اگر کسی کو سکھ پہنچا ہوا ہو اور وہ چین سے زندگی بسر کر رہا ہو تو اس کو اس سے محروم کرنے کی کوشش کرنی ہے تو پھر قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی اس لئے کہ مملکت کے شہریوں کے مجموعہ سے مملکت اور ملک بنتا ہے۔ مثلاً اگر ہر فرد کو ایک ایک کر کے اور چُن چُن کر غریب بنا دیا جائے تو سارا ملک غریب ہو جائے گا۔ اگر ایک ایک آدمی کو پڑھائی سے اور علم سے محروم کر دیا جائے تو وہ جاہلوں کی قوم بن جائے گی لیکن اگر انفرادی طور پر ہر فرد کو علم سکھایا جائے اس کی علمی ترقی کے لئے کوشش کی جائے۔ اگر وہ روزی کمانے کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو اس میں اس کی مدد کی جائے حصول رزق کے لئے اس کی رہنمائی کی جائے ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اس کی کوششیں بار آور ہوں اور وہ امیر بن جائے ، اگر ہر فرد امیر ہو جائے تو گویا ملک امیر بن جائے گا۔ اگر پچاس فی صد لوگ امیر ہوں اور پچاس فی صد غریب ہوں تو وہ ملک درمیانہ درجہ کا ہوتا ہے ۔ اقتصادی لحاظ سے وہ کوئی دولت مند ملک نہیں کہلائے گا۔ اسی لئے جمہوریت کی یہ تعریف کی گئی ہے۔(طالب علمی کے زمانہ میں یہ میرا مضمون رہا ہے) کہ جمہوریت کچھ اس قسم کی حکومت ہے کہ جس میں(ONE FOR ALL AND ALL FOR ONE) کا اصول کارفرما ہوتا ہے یعنی ہر فرد قوم کی خاطر زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور ساری قوم اُس ایک فرد کے لئے زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ یہ ہے جمہوریت کی صحیح تعریف بڑے بڑے ماہرین سیاست نے اپنی فلسفیانہ بحثوں میں یہ کہا ہے کہ فردِ واحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں سب کے لئے قربانی دے کر بہت سی باتوں سے محروم ہو جاؤں گا اس لئے کہ ’’ایک سب کے لئے اور سب اُس ایک کے لئے‘‘ کے اصول کی رُو سے فرض کرو کسی ملک کی آبادی چھ کروڑ ہے تو اگر ایک شخص چھ کروڑ کے لئے قربانی دے رہاہے تو اس کو اس لئے نقصان نہیں کہ چھ کروڑ اُس ایک کے لئے قربانی دے رہے ہوں گے اور اس کو بہر حال فائدہ ہے کیونکہ اُس ایک نے جو کچھ قوم کی خاطر کھودیا اور چھ کروڑ سے کچھ حاصل کر لیا۔ پس اس ایک نے جو کچھ کھویا اس کے مقابلہ میں چھ کروڑ سے جو حاصل کیا وہ بہرحال زیادہ ہے۔ وہ عقلاً بھی زیادہ ہے اورعملاً بھی زیادہ ہے۔ جمہوریت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ نوے لاکھ کی اکثریت دس لاکھ کو کھا جائے اور کہے کہ جو اکثریت ہے وہ اقلیّت کو دُکھ ہی پہنچایا کرتی ہے اور کھا ہی لیا کرتی ہے، یہ جمہوریت نہیں۔ یہ ایذا دہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے:۔جب قوم کی اکثریت اعتداء کے گناہ میں ملّوث ہو جائے اور اکثریت ایک دوسرے کو دُکھ پہنچانے لگے اوراعتقاد اعتقاد کا فرق، قوم کا فرق خاندان خاندان کا فرق، علاقے علاقے کا فرق اور خطّے خطّے کا فرق ہونے لگے اور ایذا دہی کی بنیاد بنے تو اس قسم کا تعصّب اور اس قسم کی ذہنیت جس کا مقصد ایک دوسرے کو ایذا اور نقصان پہنچانا ہوتا ہے، ملک و ملّت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ایسی ذہنیت اعتقادات کی حدود کو پھاند کر بہت آگے نکل جاتی ہے۔ ملک کی اکثریت یا ایک بڑے بھاری حصّہ میں جب یہ ذہنیت پیدا ہو جائے تو قوم کی ہلاکت کے سامان تو پیدا ہو سکتے ہیں قوم کی نجات اور اس کی فلاح اور ترقیات کے سامان نہیں پیدا ہو سکتے کیونکہ کوئی قوم دین و دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی جب تک دینی معاملات میں خدا تعالیٰ کے پیار کو اور دنیوی معاملات میں خدا تعالیٰ کی مدد کو حاصل نہ کرے، ہمار اللہ صرف رحیم نہیں جو مومن کو اُس کے اعمال کا بہترین پھل عطا کرتا ہے۔ ہمارا اللہ ربّ بھی ہے جو مومن و کافر کی بھلائی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اُس کو گالیاں دینے والے ہیں انہیں بھی وہ بُھوکا نہیں مارتا۔ دُنیوی لحاظ سے ان کی ترقیات کے راستہ میں فرشتوں کی فوجیں کبھی حائل نہیں ہوتیں۔ ان کو ترقی کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب صرف اس لئے نہیں بھڑکتا کہ ان لوگوں نے اپنے ربّ کو پہچانا نہیں بلکہ جس وقت اس کی مخلوق اور اس کا پیدا کردہ انسان ظلم کی انتہا کو پہنچتا ہے تو اپنے دوسرے بندوں کو ان نا سمجھ انسانوں کے ظلم سے اور اُن کے اعتداء سے بچانے کے لئے اُس کا قہر بھڑکا کرتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ (الاعراف:۱۵۷)ویسے قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کی ساری توجہ اور کوشش اور اعمال دُنیا کے لئے ہو گئے خدا نے اُن کو دُنیا دے دی کیونکہ دینی عقائد کی رُو سے اعمال صالحہ بجا لانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے پیار اور اُس سے محبت رکھنے کے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کے نتائج اور ثواب اگلی دُنیا میں ملتے ہیں۔ یہاں اِس دُنیا میں تو اعمال کے نتائج اور ثواب کی ایک چھوٹی سی جھلک ہمیں نظر آتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا تعلق اُن اعمال کے ساتھ ہے جو دین کی حالت میں انسان بجا لاتا ہے یا جو خدا کی راہ میںاُس کی رضا حاصل کرنے کے لئے انسان کچھ پیش کرتا ہے اپنے مال سے، اپنے وقت سے اور اپنے سُکھ اور آرام کو چھوڑ دینے سے، جواس کی جزا انسان کو مرنے کے بعدملتی ہے، وہ جنّت ہے جہاں خدا تعالیٰ کا پیار ایسے رنگ میں سامنے آجائے گا کہ انسان حقیقی مسّرت اور خوشی سے سرشار ہو جائے گا۔ ہم سب اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے ہم سب کے لئے حقیقی خوشی کے سامان پیدا کرے گا۔
بہرحال اِس وقت ہماری آنکھ وہ چیز دیکھ نہیں سکتی جو اُخروی زندگی میں خدا رسیدہ انسان کے لئے مقدّر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اِس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے ۔ اِس وقت مَیں بتایہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ اِس دنیا میں صرف مومن ہی کو اُس کے دین اور دُنیوی اعمال کی وجہ سے جزا نہیں دیتا بلکہ جو لوگ مومن نہیں اُن کے جو اعمال ہیں اُن کا بھی نتیجہ ربّ ہونے کے لحاظ سے اور رحمٰن ہونے کے لحاظ سے نکالتا ہے یعنی وہ کوششیں ابھی اُن کی شروع بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اُن کی کامیابی کے سامان اُس نے پیدا کر دیئے تھے اور درجہ بدرجہ اُن کو دُنیوی کامیابیوں کی طرف دُنیوی کوششوں کے نتیجہ میں لے جا رہا ہے۔
پس جس مُلک میں خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف دُکھ پہنچانے کی ذہنیت زیادہ ہو جائے وہ قوم ترقی نہیں کیا کرتی اور خدا کو نہ پہچاننے والے اور اس کا عرفان نہ رکھنے والے بھی اگر اِس اصول کو سمجھنے لگیں (خواہ وہ یہ نہ بھی سمجھیں کہ خدا نے یہ اصول قائم کئے ہیں) لیکن اِس اصول کو سمجھنے لگیں کہ دُنیوی ترقیات کے لئے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں تاکہ ہر فرد کے دُکھوں کو دُور کیا جائے تب ہی ملک کی حالت سُدھر سکتی ہے کیونکہ اگر ہر فرد دُکھی ہو گاتو وہ قوم خوشحال کیسے ہو گی، اُس کے چہروں پر مسکراہٹیں کیسے آئیں گی۔ یہ تو الٰہی جماعتوں کی استثنائی حالت ہے کہ دُنیا والے سمجھتے ہیں کہ ہم اُنہیں دُکھ پہنچا رہے ہیں مگر ان کے چہروں پر اسی طرح مسکراہٹیں ہوتی ہیں جس طرح پہلے تھیں۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ الٰہی سلسلوں کی مسکراہٹوں کا سر چشمہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اُس کی رحمت ہوتی ہے۔ کوئی دنیوی وجہ اُن کی مسکراہٹوں کی نہیں ہوتی اس لئے دُنیا اُن کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکتی۔ خدا تعالیٰ کا پیار اُن کی مسکراہٹوں کا منبع ہوتا ہے او ر خدا تعالیٰ کے پیار کو دُنیا کی کوئی طاقت اُن سے چھین نہیں سکتی۔ دُنیا سمجھتی ہے کہ اُس نے اُنہیں عذاب میں مبتلا کیا مگر اُن کے دل خدا تعالیٰ کے پیار سے اس طرح بھرے ہوتے ہیں کہ اُن کے رُوئیں رُوئیں سے اُس کی لذت اور سرور پُھوٹ پُھوٹ کر باہر نکل رہا ہوتا ہے۔
پس اِن دو آیات کی تفسیر سے مَیں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ دُنیا میں دو قِسم کے لوگ ہوتے ہیںایک وہ جو دوسروں کو دُکھ دینے میں لذّت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہدایت کے سامان پیدا کرے اور قوم کو ایسی ذہنیت سے محفوظ رکھے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہر غیر کو بھی سُکھ پہنچانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اپنا ہے یا بیگانہ بلکہ ہر ایک کو سُکھ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے کسی احمدی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ اُسے سُکھ پہنچانے کے لئے احمدی کی تلاش کی جائے بلکہ اُسے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اُسے سُکھ پہنچانے کے لئے کسی انسان یا کسی حیوان یا کسی حِسّ رکھنے والی مخلوق کی ضرورت ہے۔ دُنیا سے دُکھ کو دُور کرنا اُس کا نصب العین ہونا چاہیئے۔ اگر اس نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو اُسے یہ طریق اختیار کرنا پڑے گا کیونکہ اگر وہ دُنیا میں دُکھ پیدا کرنے کا موجب بنے گا تو خدا تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے پیارسے اور اس کی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
تیسری بات ہمیں اِن آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآن عظیم ایک عظیم شریعت ہے اس نے مخلوق کے حقوق قائم کئے اور اصلاح کے سامان پیدا کئے۔ اسی لئے فرمایا۔ تو اصلاح کے سامان خود قرآن کریم نے پیدا کئے ہیں۔ گویا ہر انسان کے حقوق کی اور حیوانات کے حقوق کی اور نباتات کے حقوق کی اور جمادات کے حقوق کی یعنی ہر مخلوق کے حقوق کی تعیین قرآنِ عظیم میں پائی جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس عالمین میں اصلاح اور صلاحیت امن اور آشتی کی ایک فضا پیدا ہوتی ہے۔ پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کر کے اور پہلے مسلمان کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ انسانی حقوق قائم کر دیئے گئے۔ انسان اپنے حقوق کے دائرہ کے اندر رہ کر فساد کے حالات سے بچے اور اصلاح کے حالات پیدا کرے کیونکہ حق سے تجاوز کرنا ہر دو معنی میں جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے فساد کے حالات کے پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
پھر فرمایا تم دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو کہ تم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے نہ بن جاؤ۔ اس سے کہ اللہ تعالیٰ کہیں ناراض نہ ہو جائے، حقوق کے دائرہ کے اندر اپنے اعمال کو رکھو یعنی اپنے حق سے زیادہ نہ مانگو اور نہ لو۔ کسی اَور کی حق تلفی کرنے پر جرأت نہ کرو۔ تمہارے دلوں میں یہ خوف پیدا ہونا چاہیئے کہ اگر ایسا کیا تو پھر اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے گا اور ہم اس کی جنّت کو نہیں پا سکیں گے اور پر، اس طمع سے کہ اگر ہم شرائط کے ساتھ عمل کریں گے تو محسن ہونے کی صورت میں اُس کی رحمت پائیں گے۔ دراصل مُحسِنٌ کے معنی ہیں تمام شرائط کے ساتھ حُسنِ عمل کرنے والا۔ صرف عمل کرنے والا نہیں بلکہ شرائط کے ساتھ جو عمل ہو گا وہ حسنِ عمل بن جائے گا۔ غرض جو شخص تما م شرائط پُوری کرتے ہوئے حُسنِ عمل بجالانے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قریب پائے گا۔ جو شخص دُکھ کے مقابلہ میں دوسروں کے لئے سُکھ کے سامان پیدا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا پیار حاصل کرتا ہے۔
بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جی! لوگوں نے ہمیں بڑا دُکھ پہنچایا ہے اس لئے اس کا بدلہ (اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق) ہم لے لیں تو کیا کوئی حرج تو نہیں؟ مَیں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ دیکھو! قرآن کریم نے بدلہ لینے کے لئے بھی اصول وضع کئے ہیں اور اس کے لئے بھی احکام جاری کئے ہیں۔ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم اپنی مرضی سے جس قسم کا بدلہ لینا چاہو وہ لے لو۔ مثلاً قرآن کریم نے ایک بڑا حسین اصول یہ وضع کیا ہے کہ بدلہ لینے کا اصل مقصد اصلاح ہونی چاہیئے۔ اگر کسی کو معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہے بدلہ لینے کا تمہیں حکم ہی نہیں۔ نہ قانون شکنی کی تمہیںاجازت ہے۔ اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے۔ مَیں اصولاً یہ بتا رہا ہوں کہ خود بدلہ لینے کے قوانین وضع نہیں کرنے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ بدلہ اِس رنگ میں نہ لو کہ حق سے تجاوز کر جاؤ۔ تم کسی سے اِس رنگ میں بدلہ نہ لو کہ جس نے تم پر ظلم کیا مقابلہ میں بدلہ لیتے وقت تم نے بھی ظلم کر دیا اور اس کی حق تلفی کر دی۔ خدا نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تم بدلہ لیتے وقت یہ خیال رکھو کہ اگر اس کی اصلاح کی اُمید ہو تو اپنا حق چھوڑ کر بھی اُس شخص کی اصلاح کی کوشش کرو۔ تم کسی کی خوشی اور سُکھ کے لئے اپنے حق کی قربانی دے دو۔
پس ہمیں قرآن کی ہدایات پر ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیئے اور اپنے اعمال کو ان احکام کے مطابق ڈھالنا چاہیئے، یہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا حاصل ہو۔ اس کے لئے اِس چھوٹی سی زندگی میں ہر قسم کی تکلیف اُٹھا کر اور ہر قسم کی قربانی دے کر اعمالِ صالحہ بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ وہ زندگی جو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے اُس میں ہمیشہ کے لئے خوشی اور مسّرتوں کے سامان میسّر آ جائیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍اپریل ۱۹۷۵ء صفحہ ۲ تا۶)

جو شخص تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کر دیتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
سورۂ اٰلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

(اٰل عمران:۷۷)
اللہ تعالیٰ مُتّقیوں سے محبت کرتا ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاحی لُغت میں بتایا گیا ہے کہ جب لفظِ محبت کا فاعل انسان ہو اور یہ مفہوم ہو کہ انسان نے اللہ تعالیٰ سے محبّت کی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے لئے اُس نے کوشش کی اور جب قرآن کریم میں اِس لفظ کو اِس طرح استعمال کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندے سے محبت کی تو اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو پسند کیا اور اُس کو اپنے انعامات اور رحمتوں سے نوازا، یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے عہد کو پُورا کرتے ہیں اور تقوٰی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں وہ مُتّقی ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے مُتّقیوں سے یقینا محبّت رکھتا ہے اور اپنے انعامات اور رحمتوں سے نوازتا ہے۔ عہد کے معنی حفاظت اور نگہداشت اور بار بار اور ہر حالت میں کسی چیز کی حفاظت کرنا اور مفرداتِ راغبؒ نے اَوْ فُوْا بِالْعَھْدِ کے معنی یہ کئے ہیں اَوْ فُوْا بِحِفْظِ الْاِیْمَانِ اپنے عہد کی حفاظت کرو، اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور ایمان کے معنی مفرداتِ راغبؒ نے یہ کئے ہیں کہ کبھی یہ اِسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اِسْمًا لِلشّرِ یْعۃِ الَّتِیْ جَائَ بِھَا مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَام۔ یعنی ایمان اُس شریعت کا نام سے جِسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لے کر آئے۔ جو شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس شریعت کا نام اور اِسم ’’ایمان‘‘ ہے لفظِ ایمان بطور اِسم اِس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پس اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ کے یہ معنی ہوں گے کہ شریعت محمدیہ نے جو احکام اوامرو نواہی کی شکل میں دیئے ہیں اُن کی نگہداشت کرو۔ایسا نہ ہو کہ کِسی کام کے نہ کرنے کا حُکم ہو اور غلطی سے تم وہ عمل بجا لاؤ جس سے روکا گیا ہے اور کسی کام کے کرنے کا حُکم ہو اور غفلت سے تم اُسے چھوڑ دو اور عمل نہ کرو۔ پس فرمایا کہ جو شریعت محمدیہ کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اِس عہد کی حفاظت کرتے ہیں یعنی ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اِس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی حُکم بجا آوری سے رہ نہ جائے اور کسی نہی کا انسان غفلت کے نتیجہ میں مرتکب نہ ہو جائے۔ وَاتَّقَوْا اور جو تقوٰی کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے مُتّقیوں پر اپنے انعامات اور رحمتیں نازل کرتا ہے ایمانؔ کی حفاظت کے تین رُخ ہیں ایک مومن مذہبی رنگ میں اُس وقت مومن کہلاتا ہے جب اُس میں تین باتیں پائی جائیں۔ ایک ؔ تو یہ کہ وہ دِل سے حق کو حق سمجھے ۔ دوسرے زبان سے حق کا اقرار کرے اور تیسرے اِسی کے مطابق یعنی حق اور ہدایت کے مطابق اُس کے جوارح یعنی اُس کی عملی قُوّتیں عمل میں مصروف ہوں۔ یہ لُغوی باتیں مَیں اِس لئے بتا رہا ہوں کہ گفتگو کے دوران مَیں نے محسوس کیا ہے کہ یہ چیزیں بہت سے دوستوں کے ذہن میں نہیں ہیں۔ ایک تو مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ ایمان نام ہے شریعتِ محمدیہ کا۔ جس طرح میرے سامنے دوست بیٹھے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے نام ہیں۔ میرا نام ناصر ؔ ہے۔ اِسی طرح ایمان ؔ شریعت محمدیہ کا نام ہے۔ دوسرؔے مَیں نے بتایا کہ تین چیزیں اِس میں پائی جاتی ہیں یعنی زبان کا اقرار اور دِل کی تصدیق یعنی حق کو حق سمجھنے کی کیفیت قلبی اور ذہنی اور جو قوائے عملیہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں ان کے ذریعہ سے بھی عمل اِس تصدیق ، اِس حقیقت ، اِس حقانیت ، اِس ہدایت اِس شریعت کے مطابق ہو اور مفردات راغبؒ میں لکھا ہے ان تینوں میں سے ہرایک کو ایمان کہا جاتا ہے۔ وَیُقَالُ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنَ الْاِعْتِقَادِ وَالْقَوْلِ الصِّدقِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ اِیْمَانًا اور تقویٰ کے معنٰی ہیں کہ اپنے نفس کو اُن باتوں سے محفوظ رکھنا جو گناہ ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور اِتَّقٰی فَـلَانٌ بِکَذَا اِدَا جَعْلَہٗ وِقَایَۃً لِّنَفْسِہِ اس واسطے ہم تقویٰ کے معنیٰ یہ کیا کرتے ہیں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کا مطلب ہے کہ اللہ کو اپنے لئے ڈھال کے طور پر حفاظت کا ذدیعہ بناؤ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں پر فرمایاکہ جو شریعت محمدیہ یعنی ایمان کی نگہداشت اور حفاظت کرتا ہے یعنی شریعت محمدیہ پر ایمان رکھتے ہوئے یہ حفاظت کرتا ہے کہ اُس کا نفس کوئی ایسا کام کرنے سے رہ نہ جائے جس کا حکم اُس شریعت کی طرف سے دیا گیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل ہوئی اور اس کے ساتھ جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے لئے بطور ڈھال کے اور ذریعہ حفاظت بنا لیتا ہے یعنی دُعائیں کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں وہ آ جائے تاکہ شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے وہ محفوظ رہ سکے متقیوں سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے یعنی اپنے انعاموں اور اپنی رحمتو ں اور اپنی رضا سے انہیں نوازتا ہے۔
تقویٰ پر قرآنِ کریم نے یعنی شریعتِ محمدیہ نے بڑا زور دیا ہے اور دراصل انسان کی روحانی ترقیات کی ابتداء گناہوں سے بچنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک زمین کو اعمال صالحہ کے بیچ لگانے کے لئے تیا نہ کیا جائے اُس وقت تک وہ بیچ اگر لگائے بھی جائیں پنپ نہیں سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان اپنی فطرت میں کمزور ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس کمزوری کے بد نتائج سے بچنے کے لئے شریعتِ محمدیہ نے ہمیں تعلیم دی ہے یا اگرکوئی بَشَرِی کمزوری سرزد ہو جائے تو اس کے بدنتائج سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ مثلاً توبہ ہے اور استغفار ہے بہرحال انسان کی سیر روحانی بدیوں سے بچنے کی کوشش سے شروع ہوتی اور اس کی انتہا اپنے اپنے ظرف کے مطابق قُرب الٰہی کے حصول پر ختم ہوتی ہے اور پھراس کی ترقیات اُس نقطہ سے ایک اَور رنگ میں آ گے بڑھتی ہیں۔ مثلاً جنت کا جو تصور اللہ تعالیٰ نے ہمیں‘‘ ایمان یعنی شریعت محمدیہ(صلی اللہ علیہ وسلم) میں دیا ہے وہ یہ نہیں کہ جنت میں عمل نہیں ہو گابلکہ وہ یہ ہے کہ جنت میں کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ عمل تو ہوں گے لیکن ایسے اعمال وہاں نہیں ہوں گے جیسے امتحان کا عمل ہے کہ جس کے نتیجہ میں سزا اور انعام ہر دو کا امکان ہو ایک طالبعلم جب امتحان میں بیٹھتا ہے تو اس کے لئے یہ بھی امکان ہے کہ وہ ناکام ہو جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے تو جنت کے اعمال اپنے اندر امتحان کا رنگ نہیں رکھتے لیکن کسی کا یہ تصور کہ جواسلام نے جنت بتائی ہے اس میں انسان غفلت اور کسل کی بیماری میں مبتلا ہو گا اور کوئی کام نہیں کرے گا۔ یہ قرآن کریم کا تصوّر نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے اور اس کی تفسیر میں نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نے تو یہ بتایا ہے کہ جنت میں انسان روزانہ اس قدر کام کرے گا کہ اگلے دن اس کا مقام پہلے دن سے بلند ہو گا، اس دنیا میں ساری عمر جو ہم کام کرتے ہیں (یہ ٹھیک ہے کہ ایک آدمی کی جنت اور دوسرے کی جنت میں فرق ہے لیکن) اس کا نتیجہ بظاہر یہی نکلتا ہے کہ خُدا نے فضل کیا اور اس کی رحمت سے انسان جنت کا مستحق ہو گیا اور کئی ہیں جو ناکام ہوئے اور ناکامی کی سزا اُنہیں مرنے کے بعد بھگتنی پڑی لیکن جو کامیاب ہوئے ساری عمر کی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمتوں کی جنت انہوں نے حاصل کی لیکن جنت کے شب و روز غفلت کے شب و روز نہیں۔ وہاں جو اعمال انسان کو کرنے کے لئے بتائے جائیں گے وہ اس قسم کے ہیں کہ روزانہ ہی درجات کو بلند کرنے والے اور انسان کو اپنے رب کے قریب سے قریب کرنے والے ہوں گے بہرحال اس دنیا میں ہماری سیرروحانی یہاں سے شروع ہوتی ہے گو گناہوں سے اور غفلتوں سے اور کوتاہیوں سے ایسے اعمال سے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے انسان بچنے کی کوشش کرے اور تقویٰ کا ایک پہلو یا بڑا پہلو یہی ہے۔ اس کی تفصیل میں تو اس وقت مَیں نہیں جاؤں گا لیکن یہ کہنا یقینا درست ہو گا کہ انسان کی سلامتی کے لئے یعنی خداتعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہنے کے لئے اور غفلت کا نتیجہ خدا تعالیٰ کے قہر کے وارث ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ تعویذ کا کام دیتا ہے اور حفاظت کرتا ہے اور ہر قسم کے فِتن اور فسادات سے اور ہر قسم کی بد اعمالیوں سے محفوظ رہنے کے لئے تقویٰ ایک مضبوط قلعہ کا کام دیتا ہے۔ جو تقویٰ کی چار دیواری کے اندر داخل ہو گیا وہ اس قِسم کے فتنوں اور فسادوں اور بدعملیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں سے محفوظ ہو گیا اور تقویٰ کی باریک در باریک راہیں ہیں۔ انسان انسان کے لحاظ سے تقویٰ میں فرق ہے۔ بعض انسانوں کی استعدادیں موٹی موٹی ہیں بعض کی استعدادیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ باریکیوں میں جاتے ہیں اور زیادہ روحانی ترقیات کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی قوت بھی دی اور تقویٰ کی باریک راہوں کی شناخت بھی عطا کی۔ تقویٰ کی یہ باریک راہیں ان کی روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اورخوشنما خدّو خال ظاہر کرنے والی ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ وہ فتنہ و فساد اور ظُلم اور نواہی میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے حفاظت کا کام دیتا ہے اور جب انسان ہر پہلو سے متقی بن جائے یعنی کسی پہلو سے بھی کوئی گناہ اور گندگی اُس کے قریب نہ آئے تو چونکہ گندگی اور بد صورتی سے اُس نے خود کو محفوظ کر لیا اس لئے روحانی طور پر اُس کے جو نقوش اور خدّو خال تھے وہ نمایاں ہو کر سامنے آگئے اور اُبھر آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے متقیوں سے مَیں پیار کرتا ہوں اور قرآن کریم پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے پیار کرنے کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنے انعامات اور اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتا ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں خود بتایا کہ متّقی پر اللہ تعالیٰ کے کس قسم کے فضل نازل ہوتے ہیں کون سے انعام ہیں جو اسے دیئے جاتے ہیں کن رحمتوں سے اُنہیںنوازا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ (الانفال:۳۰)۔ فرمایا کہ جو شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے مجھے پناہ بنا لیتے ہیں اور ڈھال بنا لیتے ہیں میں اُن لوگوں سے اس رنگ میں محبّت کرتا ہوں یعنی اس طور پر میرے انعام اور رحمتیںاُن پر نازل ہوتی ہیں کہ اُن میں اور اُن کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کیا جاتا ہے۔ مومن اور غیر مومن میں روحانی حُسن کے لحاظ سے تو بہرحال فرق ہے لیکن ظاہر میں بھی وہ پہچانے جاتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے صاحب فراست انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ شخص کِس قِسم کا ہے۔ اُن کے اخلاق میں، اُن کے بات کرنے کے طریق میں، اُن کے تخاطب میں، اُن کے سلوک میں اُن کے دِل میں خالقِ خُدا کے لئے جو پیار اور ہمدردی ہے وہ ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور ایک نمایاں فرق ہوتا ہے۔ مَیںنے دیکھا ہے کہ جو ابھی زیر تربیت احمدی ہیں بوجہ اس کے کہ نئے نئے جوان ہوئے یا بوجہ اس کے کہ وہ احمدیت میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں اُن میں بھی تھوڑی سی تربیت کے بعد اس رنگ کی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے کہ فوراً پتہ لگ جاتا ہے بعض دفعہ دوست اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو لے آتے ہیں اور ایک دو فقروں میں ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ اِن کو بہت سی تربیت کی ضرورت ہے یعنی ابھی احمدیت کی تربیت، اسلام کی تربیت ، ایمان کی تربیت کے حصول کی۔ ابتداء انہوں نے نہیں کی گفتگو ہے، چلنے کا طریق ہے چلنے کے طریق سے مجھے یاد آیا۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ایک شخص کو نماز میں شامل ہونے کے لئے دوڑتے ہوئے آتے دیکھ کر فرمایا اَلْوَقَارَاَلوَقَارَ کہ تمہاری چال میں ایک مومن کا وقار نہیں نظر آتا تو معلوم ۂوا کہ مومن کی چال ایک غیر مومن کی چال سے امتیاز رکھتی ہے ان کے درمیان ایک فرقان پایا جاتا ہے۔ پھر مثال کے طور پر کپڑوں کی نگہداشت ہے۔ ٹھیک ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بہت سی کمزوریاں ہیں بہت سے مومنوں سے بھی کمزوریاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ایک امتیاز ہے۔ اکثریت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو جو مومن ہے وہ کپڑے کو اُس سے بہتر جو عمل صالح ہے اُس پر ترجیح نہیں دے گا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ آپ کا اُسوہ ہے کہ میری زندگی اور میرے رہن سہن میں تمہیں کوئی تکلّف نظر نہیں آئے گا اور آپ نے دیکھا ہو گا اور یہ مَیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جو احمدی ایسے ہوں جن میں یہ چھوٹی سی کمزوری ہو اس کو بھی دُور ہونا چاہیئے کیونکہ اُس سے فرقان میں اور امتیاز میں فرق آتا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ کپڑا پہنا ہوگا اور مٹی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں گے۔ حالانکہ کئی دفعہ زمین پر بغیر کپڑا بچھائے بیٹھنا ثواب کا موجب بن جاتاہے، یا اگر اُن کے کپڑوں پر کہیں مَٹّی لگ جائے توفوراً جھاڑ پُھونک شروع کردیتے ہیں اور اپنے کپڑوں سے مَٹّی اڑانے لگ جاتے ہیں ۔ جس چیز سے بنے ہیں اُسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بہرحال بعض دفعہ مٹی پر بیٹھنا بھی ثواب کا کام بن جاتا ہے ایک دفعہ مجھے یاد ہے سٹھیالی میں ہمارے احمدیوں کے دو گروہوں میں آپس کا اختلاف پیدا ہوا اور وہ نا معقول حد تک پہنچ رہا تھا۔ ہم وہاں گئے لمبا قصّہ ہے مختصر کروں گا تو میں نے دونوں گروہوں کے لیڈروں کو کہا آؤچلو میرے ساتھ اُن کے ساتھی ایک دوسرے کو غصّہ دلانے کی باتیں کر کے بھڑکا رہے تھے اور وہ صلح کی طرف مائل نہیں ہو رہے تھے، مَیں اُن کو باہر لے گیا۔ ایک کھیت میں ہم آرام سے بیٹھ گئے اور میرے دماغ کے کسی کونہ میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کپڑوں کو مٹی لگ جائے گی۔ زمین پر بیٹھ گئے اُن سے باتیں شروع کیں آدھ پون گھنٹہ میں آرام کے ساتھ اُن کی صلح ہو گئی ، کیونکہ اکیلے تھے اور اُن کو جوش دلانے والا کوئی نہیں تھا کپڑے کی صفائی ضروری ہے لیکن یہ سمجھنا کہ کپڑے کو صاف ستھرا رکھنا کہ مٹی بھی نہ لگے یہ اتنا بڑا ثواب ہے کہ اس سے بڑھ کر اَور کوئی ثواب ہی نہیں، یہ غلط ہے۔ جب تکلّف بیچ میں آجائے گا تو کپڑے کی صفائی بھی گناہ بن جائے گی، یعنی اس حد تک صفائی کہ مٹی لگی ہی نہ ہو کوئی داغ نہ لگا ۂوا ہو یہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نظر آتا ہے کہ ایسا زمانہ بھی تھا کہ وہ کوئی کپڑا بھی نہیں بچھا سکتے تھے نماز کا وقت ایسی جگہ آگیا ہے کہ مسجد نہیں جا سکتے وہیں زمین پر ہی نماز پڑھ لیتے تھے کیونکہ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرضُ مَسْجِدًا۔ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ بڑی بے تکلّف زندگی ہے جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کی ہے جو قرآنی ہدایت نے ہمیں بتائی ہے۔ پس جو شخص تقویٰ سے کام لیتا ہے یعنی جن برائیوں سے جن کمزوریوں سے اسلام نے روکا ہے اُن سے بچتا ہے اور ان راہوں کو اختیار کرتا ہے ۔ مثلاً استغفار کثرت سے کرنا دُعا کثرت سے کرنا۔ خدا تعالیٰ سے دعائیں کثرت سے کرنا کہ خدا تعالیٰ ہر قِسم کی بدی اور بُرائی سے محفوظ رکھے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرقان کا سامان ایک امتیاز کا سامان پیدا کردیتا ہے اور جو شخص اِس قِسم کا ہو کہ وہ ہر وقت چوکس رہ کے گناہوں سے بچنے والا اور اعمال صالحہ بجالانے والا اور مخلوق کی خدمت کرنے والا اور انسان سے ہمدردی کرنے والا ہے اس کی زندگی اور غیر کی زندگی میں تو زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دیکھو کتنا بڑا انعام مَیں تمہیں دوں گا۔ اگر تم عہد شریعتِ محمدیہ کو نباہو گے اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو گے تو تم میں اور غیر میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا کر دیا جائے گا اور سّیئآت کو ڈھانپ دیا جائے گا اور ڈھاپنے کے بھی دو معنی ہیں جس طرح استغفار کے اندر آتا ہے کہ یا گُناہ سَرزد نہیں ہو گا یا بد نتائج سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھ لے گا۔ قرآن کریم نے مختلف انسانوں کے لئے مختلف معانی کئے ہیں۔ فرمایا اور نُور دیا جائے گا۔ نور کے معنٰی ہیں کہ ہرکام میں تمہیں ایک بشاشتِ نورانی دی جائے گی اور علٰی وجہ البصیرت تم نیکی کے کام کرو گے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصَّلوٰۃ والسّلام نے فرمایا کہ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ تمہارے افعال میں نور ہو گا۔ تمہارے اقوال میں نُورہو گا۔ تمہارے قویٰ میں نُور ہوگا، تمہارے حواس میں نُور ہو گا۔ تم نُور کامل بن جاؤ گے اور جن راہوں پر تم چلو گے وہ روشن اور چمکدار ہوں گی اور جن راہوں سے تم نے بچنا ہو گا اور جن سے خدا تعالیٰ نے شریعت محمدیہ میں بچنے کا حُکم دیا ہے وہ اندھیرے ہوں گے ۔ نور اور اندھیرے کا فرق تمہارے اور غیر کے درمیان ہو گا کہ تم روشن راہوں پر علیٰ وجہ البصیرت بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کرنے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے اور جو غیر ہیں اور خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دور وہ اندھیروں میں بھٹکنے والے ہو گے۔ اُن کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ کونسی راہ خُدا تک لے جاتی اور کونسی راہ اُس سے دور کرنے والی ہے۔
یہ اُسی سلسلہ ٔ مضامین کا حصّہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی سے محبت کرتا ہے اور جو متقی نہیں ہے اُس سے پیار نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس عہد پر کامیابی کے ساتھ اور وفا کے ساتھ قائم رہنے والے سے محبت کرتا ہے۔ اُس عہد پر جس کے معنی قرآن کریم کے سمجھنے والوں نے شریعت محمدیہ کے کئے ہیں۔ پس جو احکام اوامر و نواہی قرآن کریم کی شریعت میں ہمیں بتائے گئے اگر ہم نے جو عہدِ بیعت کیا ہم نے جو یہ عہد کیا کہ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھیں گے اور اُس پر عمل کریں گے ہم نے جو یہ عہد کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ ہم اپنے لئے اُسوۂ حسنہ بنائے رہیں گے ۔ ہم نے جو یہ عہد کیا کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے اور جن راہوں پر ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں پڑا ہم اُن راہوں پر قدم نہیں ماریں گے اگر اس عہد کو ہم نباہیں گے اگر ہم خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے خداتعالیٰ کو اپنے لئے ڈھال بنائیں گے اور سلامتی کا اور بھٹکنے سے حفاظت کا ذریعہ اس قرار دیں گے۔ اس کی انگلی پکڑیں گے (یہ تمثیلی زبان ہے ٹھیک ہے لیکن تمثیلی زبان کے بغیر ہم سمجھ نہیں سکتے) ہم اُس سے یہ عاجزانہ دعائیں کریں گے کہ وہ خود ہمارا رہبر بنے اور اگر تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کر کے اپنے روحانی وجود کے نقوش ابھاریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم میں اور غیر میں فرق کردے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہم میں اور غیر میں ایک فرق کرے گا اس طرح ہم سے پیار کرے گا تو ہم سے غلطیاں یا سرزد نہیں ہوں گی یا ہمیں توبہ اور استغفار کے ساتھ ان غلطیوں کی معانی کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ نیکیوں کی راہوں کو ہمارے لئے منوّر کردے گا اور ہمارے قویٰ کو اور ہماری طاقتوں کو اور ہماری استعدادوں کو یہ عادت پڑ جائے گی کہ صرف انہی راہوں پر وہ چلیں جن راہوں کو اللہ تعالیٰ کے نُور نے اُس کی رحمت کے ساتھ منوّر کیا ۂوا ہے۔ یہ وہ امتیاز ہے، یہ وہ فرقان ہے جس کے نتیجہ میں احمدیت کے ذریعہ انسانوں کے دل جیتے جاتے رہے اور جیتے جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو آپ پر ڈالی گئی ہے۔ اس کے بغیراِس دعویٰ میں آپ سچے نہیں ہو سکتے کہ ہماری زندگیاں نوعِ انسانی کے دلوں کو جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے اس لئے جو خُدا نے کہا کہ عہدوں کو پورا کرو اورتقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو تم میں اور غیر میں ایک امتیاز ایک فرقان پیدا کیا جائے گا اور تمہاری کمزوریوں کو اُن ہر دو معنٰی میںجو میں نے بتائے ڈھانپ دیا جائے گا اور نُور کے سامان تمہارے لئے پیدا کئے جائیں گے۔ یہ امتیاز ہے۔ یہ امتیاز اگر آپ پیدا کرلیں تو کسی کو کچھ اَور کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی، ہر شخص یہ سمجھے گا کہ غیروں میں اور اُن میں فرق ہے اور ہر شخص یہ سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے نُور کی طرف یہ قوم لے جانے والی ہے اس لئے(المائدۃ:۳) کے مطابق اپنے نفوس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول کی اصلاح بھی کرو اوراُسے نورانی بنانے کی کوشش کرتے رہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطاکرے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم مارچ ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا۵)










نجات اُس ابدی خوشحالی کا نام جو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بعد اُس سے ذاتی تعلق کی بناء پر انسان کو حاصل ہوتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ ربوہ)
ّتشہد و ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:-
انسان کی طرف یوں تو ہزاروں بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ پیغمبر ، نبی اور رسول آئے جنہوںنے اپنے اپنے وقت کے تقاضوں کو پُورا کیا اور مُلک مُلک کے مطابق وقت وقت کی انسانی استعداد کے مدِّ نظر انسان کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب کچھ ان انبیاء پر ایمان کے بعد میسّر آیا اور اب بعثت نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد ایمان کا لفظ اِس جگہ مَیں بطور اسم استعمال کر رہا ہوں۔ بطور مصدر استعمال نہیں کر رہا۔ مفردات امام راغبؒ میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں ایمان کا لفظ جب بطوراسم استعمال ہو تو اس کے معنی ہیں وہ شریعت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ گویا ایمان ، شریعت محمدیہ کا دُوسرا نام ہے۔ اِس کامل اور مکمل اور ابدی شریعت کے بعد جو قیامت تک قائم رہنے والی ہے نجات کا تعلق ’’ایمان‘‘ سے وابستہ ہے۔ پہلی شریعتیں منسُوخ ہو گئیں کیونکہ اِس کامل شریعت اور مکمل ہدایت کے بعد انسان کے لئے پہلی ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب نجات ایمان سے، شریعت محمدیہ سے وابستہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نجات کہتے کسے ہیں؟ جہاں تک پہلے مذاہب کا تعلق ہے۔ اُن کی شریعتیں محرف و مبدّل ہو گئیں، انسانی ہاتھ نے اُن میں ملاوٹ کر دی ۔ اِس لئے مذہب کے ہر پہلو پر اس تحریف کا اثر پڑا مثلاً ایک مذہب نے یہ کہا کہ نجات وابستہ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے کفّارہ پر ایمان لانے کے ساتھ، حالانکہ وہ وحی جو حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور وہ شریعت جس کے قیام کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے یعنی شریعت موسویہ، اس میں کہیں بھی نجات کو مسیح علیہ السلام کی صلیب کے ساتھ وابستہ نہیں سمجھا گیا تھا لیکن چونکہ انسانی ہاتھ نے تبدیلیاں کر دیں اور غلط باتیں بیچ میں ملا دیں اس لئے اس ملاوٹ اور تحریف کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ نجات کو مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا لیکن نجات کے معنیٰ اُن کی نظر سے اوجھل ہیں اور نجات کی حقیقت سے انہیں آگاہی نہیں۔ ہم نے عیسائی لٹریچر کا بڑا مطالعہ کیا ہے۔ ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہی نہیں کہ نجات ہے کس چیز کا نام مگر یہ صرف شریعتِ محمدیہ کا کمال ہے کہ نجات کی تعریف بھی ہمیں ایمان نے سکھائی۔ نجات کے معنے بھی ہمیں شریعتِ محمدیہ نے سکھائے اور نجات کے حصول کے ذرائع بھی ہمیں شریعت محمدیہ نے بتائے چنانچہ شریعتِ محمدیہ کی رُو سے نجات کے معنی ہیں وہ خوشحالی جس کا تعلق ابدی مسّرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ گویا نجات کے معنے انسان کی وہ خوشحالی اور وہ لذّت اور وہ سرور ہے جو اس کی تمام قُوّتوں کی سیری کے بعد اُسے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کے مادّی اور جسمانی حقوق قائم کئے ہیں وہاں اُس نے انسان کے ذہنی اور علمی حقوق بھی قائم کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی قوتیں عطا کیں اور اُن کی سیری کے سامان پیدا کئے۔ اُن کی کمال نشو ونما کے سامان پیدا کئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی طاقتیں اور استعدادیںعطا کیں اور اُن کی سیری اور کامل نشو ونما کے سامان پیدا کئے شریعت محمدیہ نے اِس کی طرف بھی رہنمائی کی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو چوتھی قسم کی طاقتیں اور قوتیں دیں اور روحانی طاقتیں اور قوتیں دیں۔ روحانی طاقتوں اور قوتوں کی سیری اور کمال نشو ونما کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے اور شریعت محمدیہ نے وہ راہیں بتائیں جن پر چل کر انسان دُنیوی خوشحالی اور ابدی طاقتیں اور سرور بھی حاصل کر سکتا ہے۔ نہ صرف روحانی سرور بلکہ بقیہ طاقتوں سے تعلق رکھنے والی اور بقیہ استعدادوں سے وابستہ جو خوشحالیاںاور جائز لذتیں اور سرور ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ میرے بندے ان کو حاصل کریں، اُن کی طرف بھی اسلام نے رہنمائی کی اور اُن کے اصول کے لئے وسیع سامان بھی پیدا کئے۔ یہ ایک لمبا مضمون ہے جس کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی ابدی خوشحالی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ہے جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے یعنی اُسے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کی ہستی ہے اور وہ کن صفات کی مالک ہے قرآن کریم نے صفات الٰہیہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیّت اس کی مخلوق کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ اورکس طرح اُس کی وسیع رحمت ہر چیز پر حاوی ہے کس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ہر حصّہ کے حقوق کی تعیین کرتا اور اُن کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح اُس نے انسان کے علاوہ اپنی مخلوق کو انسان کا خادم بنا رکھا ہے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں انسان پر نازل ہوتیں اورکس طرح اِن رحمتوں کے بعد انسان اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے آشنا ہوتا ہے کس طرح اس معرفت کے بعد انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کی عظمت کو دیکھ کر انسان کا دل لرزاں و ترساں ہو کر اللہ کی طرف جُھکتا ہے، اس خوف سے نہیں کہ وہ کوئی ڈراؤنی چیز ہے بلکہ اس خوف سے کہ اتنی عظمتوں والی ہستی اگر ناراض ہو گئی تو انسان کا باقی کچھ نہیں رہے گا۔ پس نجات کا تعلق اللہ تعالیٰ کی معرفت سے وابستہ ہے اور یہی معرفت ہے جس کے نتیجہ میں محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس زندہ تعلق کے نتیجہ میں انسان کو اِس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اتنی خوشیاں مل جاتی ہیں کہ اسے کسی اورچیز کی کوئی احتیاج باقی نہیں رہتی اور نہ کسی چیز کی کمی کا کوئی احساس باقی رہتا ہے۔ اسلام نے نجات کے حقیقی معنوں کو کھول کر بیان کیا اور بتایا کہ انسان کو حقیقی خوشی اور خوشحالی۔ ابدی لذتیں اور سرور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نتیجہ میں ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے نتیجہ میں خشیت اللہ اور محبت الٰہیہ پیدا ہوتی ہے۔ محبت خود ایک بڑا سرور ہے جو لوگ روحانی محبت کا تجربہ رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اس میں کتنا عظیم سرور ہے۔ اس کے مقابلہ میں مادّی دُنیا سے جو لذتیں تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں مثلاً پسندیدہ کھانا ہو۔ بھوک لگی ہوئی ہو انسان کی طاقتیں فعّال ہونے کی وجہ سے مزید طاقتوں کا حصول چاہتی ہوں اور وہ شوق سے کھانا کھا رہا ہو تو یہ بھی ایک لذّت ہے لیکن وہ لذّت جو خدا تعالیٰ کے پیار سے انسان حاصل کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیوی کھانے پینے کی لذّت کوئی چیز ہی نہیں۔ غرض نجات اس خوشحالی کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بعد خشیت اللہ اور محبّت الٰہی کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں اور خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کی بنا ء پر انسان کو حاصل ہوتی ہے اسی خوشحالی اور رضائے الٰہی کو ہم جنت کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انسان کے لئے اس دُنیا میں بھی جنت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اور مرنے کے بعد یعنی اس دُنیا سے دوسری دُنیا کی طرف منتقل ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں داخل کرے گا۔ یہی حقیقی نجات ہے۔ اب یہ بات کہ خدا تعالیٰ کا پیار انسان کو حاصل ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی خوشحالی کے سامان پیدا ہو جائیں۔ یہ کسی اور کے مجاہدہ اور قربانی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ یہ خود انسان کے اپنے عمل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ کہ وہ خدا کی راہ میں انتہائی کوشش کر کے ۔ خدا کے سوا کسی اَور کی طرف ذرّہ بھر میلان نہ ہو۔ دل میں غیر اللہ کے ہرنقش اور ہر دُوئی کو مٹا کر خداتعالیٰ کے ساتھ ایک سچّا اور زندہ تعلق قائم کرے۔ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کے نتیجہ میں جو خوشحالی پیدا ہوتی ہے، وہ اس دنیا میں بھی جنت کے سامان پیدا کر دیتی ہے اور اُخروی جنتوں کا بھی انسان کو وارث بنا دیتی ہے۔ یہ ہے وہ حقیقی نجات اور اس کا حسین تصوّر جو اسلام نے پیش کئے ہیں اور یہی وہ نجات ہے جس کے حصول کے ذرائع اسلام نے بیان کئے ہیں اور یہی وہ نجات ہے جس کی حقانیت کی خدا تعالیٰ کے کروڑوں محبوب بندوں نے پچھلے چودہ سوسال میں گواہی دی۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو انہوں نے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کی اس شیریں آواز کو اُنہوں نے سُنا جس کے مقابلہ میں دُنیا کی ہر آواز بھدّی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حُسن کے جلوے دیکھے تو انسان کو معلوم ۂوا کہ حُسن کا اصل سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر ہمیں اور کہیں خوبصورتی نظر آتی ہے۔ مثلاً گلاب کے پھول میں یا مثلاً برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کی چوٹیوں کی طرف ہم دیکھتے ہیں تو وہاں خوبصورتی نظر آتی ہے یہ ساری چیزیں تو ذیلی ہیں یہ تو ایک ہلکا سا جلوہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی صفات کا۔ حسن کا اصل منبع اور سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دنیا کی چیزیں جو ہماری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ اور کسی نہ کسی رنگ میں دُنیا کی ساری مخلوقات انسان کی خدمت کر رہی ہیں۔ ان کا ہم پر احسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اُس نے اپنے فضل سے ایک طرف ان کو خادم بنایا ۔ دوسری طرف ہمیں خدمت لینے کی طاقتیں عطا کیں اور تیسری طرف اس نے ہمیں یہ توفیق دی کہ ہم اپنی طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات سے خدمت لے سکیں۔ پس نجات کا مدار ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت پر۔ اس کے بغیر نجات حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ خدا تعالیٰ کی معرفت کے سوا نجات کے حصول کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہی ایک ذریعہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت کی یہی غرض ہے۔ یوں تو ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی رہی ہے لیکن جیسا کہ مَیں ابھی بتا چکا ہوں اسلام سے پہلے کے مذاہب اپنے وقت اور زمانہ میں ایک خاص مقصد میں اور انسانوں کی محدود بستیوں میں اس مقصد کو پورا کرتے رہے کیونکہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام زمانی اور مکانی لحاظ سے محدود ذمہ داریاں لے کر آتے تھے۔ انسان نے بہت سی تدریجی منازل طے کر کے اپنی استعدادوں کو جلا دینی تھی۔ پس انسانوں کی استعدادوں کے مطابق نجات کے سامان پیدا کئے لیکن محمد ی شریعت کے نزول کے بعد دُنیا نے ’’رحمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘ کا نظارہ دیکھا۔ شریعت محمدیہ کے فیضان کا دائرہ قیامت تک وسیع ہو گیا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنایا۔ آپ سے پہلے کسی اَور نبی کا یہ کام نہیں تھا ۔ اس سلسلہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چھوٹا سا اقتباس پڑھ کر سُناتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’ مذہب کی اصلی غرض اُس سچے خدا کو پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کی محبت میں اس مقام تک پہنچنا ہے جو غیر کی محبت کو جلا دیتا ہے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے اور حقیقی پاکیزگی کا جامہ پہننا ہے لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ غرض اس زمانہ میں بالائے طاق ہے اور اکثر لوگ دہریہ مذہب کی کسی شاخ کو اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی شناخت بہت کم ہو گئی ہے اس وجہ سے زمین پر دن بدن گناہ کرنے کی دلیری بڑھتی جاتی ہے کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ جس چیز کی شناخت نہ ہو نہ اس کا قدر دل میں ہوتا ہے اور نہ اس کی محبت ہوتی ہے اور نہ اس کا خوف ہوتا ہے۔ تمام اقسام خوف و محبت اور قدردانی کے شناخت کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔
پس اس سے ظاہر ہے کہ آج کل دُنیا میں گناہ کی کثرت بوجہ کمیٔ معرفت ہے اور سچیّ مذہب کی نشانیوں میں سے یہ ایک عظیم الشان نشانی ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان کے وسائل بہت سے اس میں موجود ہوں تاانسان گناہ سے رُک سکے اور تا وہ خدا تعالیٰ کے حسن و جمال پر اطلاع پا کر کامل محبت اور عشق کا حصّہ لیوے، اور تا وہ قطع تعلق کی حالت کو جہنم سے زیادہ سمجھے ۔ یہ سچّی بات ہے کہ گناہ سے بچنا اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جانا انسان کے لئے ایک عظیم الشان مقصود ہے اور یہی وہ راحتِ حقیقی ہے جس کو ہم بہشتی زندگی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ تمام خواہشیں جو خدا کی رضا مندی کے مخالف ہیں دوزخ کی آگ ہیں اور ان خواہشوں کی پیروی میں عمر بسر کرنا ایک جہنمی زندگی ہے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ اس جہنمی زندگی سے نجات کیونکر حاصل ہو؟اس کے جواب میں جو علم خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس آتش خانہ سے نجات ایسی معرفت اِلٰہی پر موقوف ہے جو حقیقی اور کامل ہو کیونکہ نفسانی جذبات جو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں وہ ایک کامل درجہ کا سیلاب ہے جو ایمان کو تباہ کرنے کے لئے بڑے زور سے بہہ رہا ہے اور کامل کا تدارک بُجز کامل کے غیر ممکن ہے۔ پس اسی وجہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک کامل معرفت کی ضرورت ہے۔‘‘
(روحانی خزائن جلد۲۰ ۔لیکچر لاہور ۱۴۸ ؎۔ ۱۴۹؎)
اللہ تعالیٰ فضل اور رحمت سے ہم سب کو اس کامل معرفت سے حصّہ کاملہ عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم فروری ۱۹۷۵ء صفحہ ۲ تا۴)
 
Top