• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات نور ۔ خلیفۃ المسیح الاول حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات نور ۔ خلیفۃ المسیح الاول حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ

‏KH1.1
خطبات|نور خطبات|نور
۲۷ / جنوری ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بمقام دھاریوال

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون- و لا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانسٰھم انفسھم اولٰئک ھم الفاسقون- لا یستوی اصحاب النار و اصحاب الجنۃ اصحاب الجنۃ ھم الفائزون- )الحشر:۱۹تا۲۱(
اور پھر فرمایا-:
یہ کلمات طیبات جن کو میں نے ابھی پڑھا ہے قرآن شریف کی آیتیں ہیں جو خدا تعالیٰ کا کامل کلام ہے - ان پاک آیتوں میں تاکید یہ ہوتی ہے کہ یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ لوگو ! گو مومن کہلاتے ہو )اور تم اس بات کو جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ گندوں اور ناپاک لوگوں کو پسند نہیں کرتا- وہ پاک ہے- پس وہ قدوس خدا پاکیزگی اور طہارت چاہتا ہے( تو پھراس دعوائے ایمان کے ساتھ متقی بن جائو- اور متقی بھی ظاہر کے نہیں - اس لئے نہیں کہ لوگ تمہیں متقی اور پرہیزگار کہیں یا مجلسوں میں تمہاری تعریف کریں- نہیں ! نہیں !! اتقوااللٰ اللہ تعالیٰ کے متقی بنو - متقی کے لئے یہ ضروری باتیں ہیں -
اولاً - ہر ایک کام جب کرو‘ اٹھتے‘ بیٹھتے‘ چلتے‘ پھرتے‘ دشمنی میں‘ دوستیٰ میں‘ عداوت اور محبت میں‘ مقدمہ ہو یا صلح ہو‘ غرض ہر حالت میں یہ امر خوب ذہن نشین رکھو کہ نہیں معلوم موت کی گھڑی کس وقت آ جاوے - وہ کونسا وقت ہو گا جب دنیا سے اٹھ جاویں گے اور اس وقت ماں‘ باپ‘ بیوی‘ بچے‘ دوست‘ یار‘ کنبے کے بڑے بڑے‘ ہمدردی کا دم بھرنے والے انسان‘ مال‘ دولت‘ غرض کوئی چیز نہ ہو گی جو اس وقت ساتھ دے سکے- اس وقت اگر کوئی چیز ساتھ جا سکے گی تو وہ وہی انسان کا عمل ہو گا خواہ اچھا ہو‘ خواہ برا ہو اور جیسا عمل ہو گا ویسا ہی اس کا پھل ملے گا -
جیسے تم ہر روز دنیا میں دیکھتے ہو کہ ایک زمیندار گیہوں کے بیج بو کر جو‘ یا جو بو کر گنے کا پھل نہیں لے سکتا پس اسی طرح پر جیسے عمل ہوں گے‘ بدلہ ان کے ہی موافق اور رنگ کا ہو گا- یہی سچی بات ہے کہ بھلے کام کا پھل دنیا اچھا اٹھاتی ہے- پس یہ بات ضرور ضرور یاد رکھو کہ جن کی خاطر انسان عداوتیں اور دشمنیاں کرتا ہے اور مکر و فریب اور کیا کیا شرارتیں کرتا ہے‘ وہ اس آخری ساعت میں اس کے ساتھ نہ جائیں گی- اکیلا ہی آیا ہے اور اکیلا ہی چلا جائے گا- بادشاہوں کی بادشاہت‘ امیروں کی امارت‘ دوستوں کی دوستی‘ کنبہ‘ گھر‘ پڑوس‘ گائوں اور سارے شہر کے رشتہ دار یہیں رہ جاتے ہیں- پس ان ساری باتوں کو غور کرو اور موت کی آنے والی اور یقینا آنے والی اور نہ ٹلنے والی گھڑی کا خیال رکھو اور اس خیال کے ساتھ ہی کل کا فکر آج کرو اور اپنے اعمال کا محاسبہ اور پڑتال کر لو کیونکہ نیک بدلہ تب ہی ملے گا جب کہ اعمال بھی نیک ہوں گے-
ثانیاً - متقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایمان سچا ایمان ہو اور اس کے عقائد نیک عقائد ہوں اور پھر اس پر اعمال بھی نیک ہوں - ایمان کے اصول صاف ہیں- قدوس اور پاک خدا قدوسیت چاہتا ہے- ناپاک انسان پاک ذات سے تعلق پیدا نہیں کر سکتا- تم اپنے اندر اس بات کو دیکھو کہ کیا کوئی بھلا مانس اور شریف پسند کرتا ہے کہ وہ بدمعاش اور بدنام آدمیوں کے ساتھ ملے اور تعلق پیدا کرے- پھر اس پر قیاس کرو کہ وہ خدا جو قدوسوں کا قدوس اور پاک ہے‘ جو تمام محامد اور خوبیوں کا مجموعہ اور سرچشمہ ہے‘ کب پسند کر سکتا ہے کہ گندے اور ناپاک لوگ اس سے تعلق رکھ سکیں- پس اگر خدا سے رشتہ قائم رکھنا چاہتے ہو اور اس کو خوش کرنا پسند کرتے اور ضروری سمجھتے ہو تو خود بھی پاک ہو جائو اور اس پر سچا ایمان لائو کہ تمام محامد اور تعریفوں اور خوبیوں کے لئے وہی ایک پاک ذات سزاوار ہے- جس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم کرتا اور شفقت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے تم بھی اس کی مخلوق کے ساتھ سچی محبت اور حقیقیشفقت کرو اور رحم اور ہمدردی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برتائو کرو- میں پھر کہتا ہوں سوچو اور غور کرو کہ تقویٰ کے سوا فائدہ نہیں- خدا تعالیٰ نے صاف صاف لفظوں میں اس بات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ مغرب یا مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ہی نیکی نہیں بلکہ سچا ایمان خدا کو مطلوب ہے- اس لئے اس بات پر ایمان لائو کہ وہ خدا قدوس ہے‘ تمام رحمتوں‘ بزرگیوں اور سچائیوں کا سر چشمہ ہے اور اس کے قرب کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا پورا لحاظ رکھیں-
خدا تعالیٰ کی صفت ہے کہ بدکار اور غافل بھی اس کی ربوبیت سے فیض پاتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں- پس تم بھی خدا کی مخلوق کے ساتھ مہربانی‘ نیکی اور سلوک کرنے میں مسلم ‘ غیر مسلم کی قید اٹھا دو اور تمام بنی نوع انسان سے جہاں تک ممکن ہو احسان کرو- خدا
رب العالمین ہے- یہ بھی رحیم للعالمین ہو جاوے- پس یہ تقویٰ ہے-
ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جائو جن کی نسبت فرمایا کہ نسوا اللہ فانسٰھم انفسھم اولٰئک ھم الفاسقون یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدوس خدا کو چھوڑدیا اوراپنی شرارتوں‘ چالاکیوں‘ ناعاقبت اندیشیوں‘ غرض قسم قسم کی حیلہ سازیوں اور روباہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں- مشکلات انسان پر آتی ہیں- بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں- کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے- دوست بھی ہوتے ہیں- دشمن بھی ہوتے ہیں- مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو- دوست پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے- حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے‘ اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس|قدر دور ڈال دے کہ وہ کام نہ آ سکیں- پس ہر آن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی‘ موت کسی حال میں ہم سے جدا نہیں ہو سکتا-
پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے اور سکھ نہ پائو گے بلکہ ہر طرف سے ذلت کی مار ہو گی اور ممکن ہے کہ وہ ذلت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے- ایسے لوگ جو خدا سے قطع|تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق‘ فاجر ہوتے ہیں- ان میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا- یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں- نہیں- ان میں شفقت علیٰ خلق اللہ بھی نہیں ہوتی-
یاد رکھو کبھی یہ بات نہیں ہو سکتی کہ قدوس کے متبع اور بھلے مانس ذلیل ہوں- نہیں- وہ دنیا میں‘ قبر میں‘ حشر میں‘ جنت میں عیش اور سچا آرام پاتے ہیں- وہ ان لوگوں کے جو آگ میں جل رہے ہیں برابر نہیں اور ہرگز نہیں- وہ لوگ جو سچے راستباز اور متقی ہیں اور ہمیشہ سکھ پاتے ہیں‘ یہ لوگ ہی آخرکار کامیاب ہونے والے ہیں-
میں پھر آخر میں کہتا ہوں کہ کامل ایمان کے بدوں انسان اس درجہ پر نہیں پہنچتا- کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الٰہی پر ایمان لائو کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ ایک ناپاک اور گندے کو ایک پاک اور مومن سے ملاوے اور گندے کو عزت دیوے- پھر کامل ایمان میں سے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وسائط پر ایمان لائو- یعنی ملائکہ پر‘ اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لائو- وفادار ہو- عسر و یسر میں قدم آگے ہی بڑھائو اور جزا و سزا پر ایمان لائو- نمازوں کو مضبوط کرو اور زکٰوتیں دو- غرض یہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی کہلاتے ہیں- خدا تعالیٰ آپ کو اور مجھے توفیق دے کہ ہم متقی بن جاویں- یاد رکھو کہ دنیا سے وہی تعلق ہو جو خدا چاہتا ہے- آخر جیت راستبازوں ہی کی ہوتی ہے- اللہ تعالیٰ مخفی در مخفی حالات کا واقف ہے- ہمیشہ اس کے پاک قانون کے متبع بنو اور ہر حالت میں رضائے الٰہی کے طالب رہو اور اس پاک چشمہ سے دور نہ رہو- آمین-
) الحکم جلد۳ نمبر۵ ---- ۱۰ / فروری ۱۸۹۹ء صفحہ۸-۹ (
* - * - * - *

یکم شوال ۱۳۱۶ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳ فروری ۱۸۹۹ء


خطبہ عید الفطر
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
یٰبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین- واتقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئاً و لا یقبل منھا شفاعۃ و لایوخذ منھا عدل و لا ھم ینصرون- )سورۃ البقرۃ:۴۸-۴۹(
اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ ہمارا مالک‘ ہمارا خالق‘ ہمارا رازق‘ کثیر اور بے انتہا انعام دینے والا مولا فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو- انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت ودیعت کر رکھی ہے کہ جب کوئی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے- جبلت القلوب علیٰ حب من احسن الیھا)جامع الصغیر-(اور ایسا ہی اس آدمی سے اس کے دل میں ایک قسم کی نفرت اور رنج پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کو کسی قسم کی تکلیف یا رنج پہنچے- اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا انسان کا ہے- پس اسی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس مقام پر فرماتا ہے کہ اللہ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو اور ان کو یاد کر کے اس محسن اور منعم کی محبت کو دل میں جگہ دو- اس کے بے شمار اور بے نظیر احسانوں پر غور تو کرو کہ اس نے کیسی منور اور روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارئہ قدرت کو دیکھتے اور ایک حظ اٹھاتے ہیں- کان دیئے جن سے ہر قسم کی آوازیں ہمارے سننے میں آتی ہیں- زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں- ہاتھ دیئے کہ جن سے بہت سے فوائد خود ہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں- پائوں دیئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں- پھر ذرا غور تو کرو کہ دنیا میں اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ادنیٰ سا احسان بھی کرتا ہے تو وہ اس کا کس قدر ممنون ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس احسان کو محسوس کرتا ہے- مگر خدا تعالیٰ کے احسان جو کل دنیا کے احسانوں سے بالا اور بالاتر ہیں- اور جو سچ پوچھو تو وہ احسان بھی جو دوسرا ہم سے کرتا ہے در اصل اللہ تعالیٰ ہی کے احسان ہیں جس نے یہ توفیق عنایت فرمائی- کوئی کسی کو نوکر کرادیتا ہے یا دعوت کرتا ہے یا کپڑا دیتا ہے - پر سوچو تو سہی کہ اگر خداداد طاقتیں نہ ہوں تو ہم کیا سکھ ان سے اٹھا سکتے ہیں- دعوت میں عمدہ سے عمدہ اغذیہ اور کھانے کے سامان ہوں لیکن اگر قے کا مرض ہو یا پیٹ میں درد ہو تو وہ کھانے کیا لطف دے سکتے ہیں اور ان سے کیا مزہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ عمدہ سے عمدہ چیز بجز فضل الٰہی فائدہ اور سکھ نہیں دے سکتی- یہ روشنی جس سے ہزارہا سکھ اور فائدے پہنچتے ہیں‘ کس نے دی؟ اسی نے جو نور السمٰوات و الارض )النور:۳۶( ہے- ہوا‘ پانی‘ کس نے عطا فرمایا؟ اسی منعم حقیقی کی نعمتوں اور برکتوں کا ایک شعبہ ہے- سر سبز کھیت اور باغوں میں پھل لگانا اس کی نوازش اور عنایت ہے- غرض کل دنیا کی نعمتوں سے جو انسان مالا مال ہو رہا ہے یہ اس کی ہی ذرہ نوازیاں ہیں- جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اب میں ایک عظیم الشان نعمت‘ روح کے فطرتی تقاضے کو پورا کرنے والی نعمت کا ذکر کرتا ہوں- وہ کیا؟ یہ اس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہوا اور ایک ظلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا- ایک انسان دوسرے انسان کی‘ باوجود ہم جنس ہونے کے‘ رضا سے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا سے واقف ہونا کس قدر محال اور مشکل تھا- یہ خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی رضا کی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الوریٰ مرضیوں کو ظاہر کر نے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایا- انسان دنیا کے عجائبات اور خداداد چیزوں میں غور کر کے سکھ پاتا ہے- لیکن وہ ابدی اور دائمی خوشی جو خود اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے کیسی سچی ہو گی-
کس قدر کاوش اور تکلیف سے جسمانی سکھ حاصل کرنے کے لئے انسان کپڑا اور غذا بہم پہنچاتا ہے- مگر ایک وقت آتا ہے کہ کپڑا پھٹ جاتا ہے اور غذا کا فضلہ باقی رہ جاتا ہے- روحانی نعمتیں ابدالآباد کی راحتیں ہیں- دنیا میں‘ مرنے میں‘ جنت میں‘ حشر و نشر میں ہمارے ساتھ ہیں- غرض خدا|تعالیٰ کے دلچسپ انعامات میں سے انبیاء اور رسل کا بھیجنا ہے-
گذشتہ ایام میں چونکہ رستے صاف نہ تھے‘ تعلقات باہمی مضبوط نہ تھے‘ اس لئے ایک ایک قوم میں نبی اور رسول آتے رہے- جب مشرق اور مغرب اکٹھا ہونے لگا‘ خدا کے علم میں وہ وقت خلط|ملط کا آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا- انبیاء علیہم السلام اور جس|قدر رسول آئے فرداً فرداً قوموں کی اصلاح کے لئے آئے- ان کا جامع اور راستبازوں کی تمام پاک تعلیموں کا مجموعہ قرآن|کریم ہے جو جامع اور مہیمن کتاب ہے- فیھا کتب قیمۃ )البینۃ:۴( فرمایا-
پھر انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے لئے ایک مشکل یہ پیش آتی تھی کہ ان میں کوئی خلیفہ اور کوئی یاد دلانے والا نائب نہ ہوتا تھا- اس لئے لوگ بے خبر ہو جاتے تھے اور قوم پھر سو جاتی تھی- مگر مولا کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا دامن چونکہ الیٰ یوم القیامۃ وسیع کر دیا ہے اور آپ کا ہی دعویٰ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً )الاعراف:۱۵۹( کا ہے اور ایسی مضبوط کتاب آپ کو عطا فرمائی‘ ممکن تھا کہ لوگ بے خبر رہتے‘ اس کی حفاظت کا انتظام بھی خود ہی مولا کریم نیفرما دیا- جیسے ظاہری حفاظت کے لئے قراء اور حفاظ ہیں‘ ایسے ہی باطنی تعلیم کے لیے ایک سامان مہیا فرمایا- ہزارہا مذاہب اس وقت دنیا میں نظر آویں گے- مگر جب دیکھا گیا تو انبیاء علیہم السلام کا ہی مذہب عمدہ پایا- کوئی درختوں کی پوجا کرتا ہے- کوئی پتھروں کے آگے سر جھکاتا ہے- افسوس انسان ہو کر حیوان اور بے جان استھان کی پرستش کرتا ہے- اور پھر ایک اپنے جیسے کھاتے پیتے‘ محتاج اور ناتواں انسان کو معبود مانتا ہے- ایسی صورت میں توحید کا پاک چشمہ مکدر ہو چکا تھا اور قریباً توحید پرستی کا نام و نشان مٹ گیا تھا- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اس پاک چشمہ اور مبارک سلسلہ توحید کو قائم کیا اور پھر اس کی تکمیل کی- ہر ایک قسم کی گندی اور ناپاک بت پرستی کو دور کر دیا-
اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کسی اسم ‘ کسی فعل اور کسی عبادت میں غیر کو شریک کرنا‘ یہ شرک ہے- اور تمام بھلے کام اللہ تعالیٰ ہی کی رضاء کے لئے کرے اس کا نام عبادت ہے- لوگ مانتے ہیں کہ کوئی خالق خدا تعالیٰ کے سوا نہیں- اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موت اور حیات خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں اور قبضئہ|اقتدار و اختیار میں ہے- یہ مان کر بھی دوسرے کے لئے سجدہ کرتے ہیں‘ جھوٹ بولتے ہیں اور طواف کرتے ہیں- عبادت الٰہی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں- خدا تعالیٰ کے روزوں کو چھوڑ کر دوسروں کے روزے رکھتے اور خدا تعالیٰ کی نمازوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر اللہ کی نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے لئے زکٰوتیں دیتے ہیں- ان اوہام باطلہ کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا- انسان کی اوسط عمر ساٹھ‘ ستر‘ اسی- پس اس عمر کا انسان پچھلی صدی کے حالات تو پہچان سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ احسان ہے اللہ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے کہ بھولی بسری متاع جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے- یہ انعام ہے‘ یہ فضل اور احسان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو دین لائے تھے اور جس کے ضروری کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا نہ ہمارا خالق ہے نہ رازق‘ نہ اس کے سوا علیم‘ نہ محیی‘ نہ ممیت‘ نہ سکھ دکھ دینے والا ہے- بلکہ صرف خدا ہی ہے جو سب کام کرنے والا ہے- سجدہ‘ رکوع‘ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ہو‘ پکارنا ہو‘ یہ سب کام صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں- ملائکہ پر ایمان لانا‘ اللہ تعالیٰ کی کتابوں‘ اس کے پاک رسولوں کو ماننا اور جزا و سزا پر ایمان لانا اور اس امر کا ماننا کہ ہر چیز کا اس نے اندازہ کیا ہے- یہ ایمان کے اصول ہیں- اپنے سب عقائد کو رضائے الٰہی میں لگا دینا ایک سچے مومن کا کام ہے- پانچ وقت کی نماز ادا کرنا‘ اپنے مال میں سے ایک معین حصہ یعنی زکٰوۃ کا ادا کرنا‘ یتیموں‘ بیکسوں اور رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا‘ رنج و راحت‘ بیماری‘ تندرستی‘ دکھ سکھ‘ غریبی‘ امیری‘ مقدمہ‘ مقابلہ‘ عسر یسر‘ صلح‘ عداوت میں خدا تعالیٰ کی رضاء کو ہاتھ سے نہ دینا‘ یہ اصول یہ پاک اور مبارک اصول‘ ممکن تھا کہ بھول جاتے جس طرح اور قومیں اپنی کتابیں کھو بیٹھیں- لیکن یہ خداتعالیٰ کا فضل‘ اس کا کمال احسان ہوا کہ ایمان‘ عقائد‘ اخلاق فاضلہ کے سکھانے کے لئے اور اصلاح نفس اور تہذیب کے لئے وہ وقت پر اور عین ضرورت کے وقت پر اپنے پاک بندے پیدا کرتا رہتا ہے- بڑے ہی بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کو ان بیدار کرنے والوں کی خبر ہی نہیں ہوتی- اور بڑے ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کو خبر تو ہوتی ہے مگر وہ اپنی کسی خطا کاری کے برے نتیجے کی وجہ سے اس کو شناخت نہیں کر سکتے-
غرض اس آیت میں خدا تعالیٰ اس فطرت کے لحاظ سے جو انسان میں ہے ارشاد فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پرکی ہیں- و انی فضلتکم علی العالمین بنی اسرائیل کو کہتا اور مسلمانوں کو سناتا ہے کہ میں نے تم کو دنیا پر ایک قسم کی بزرگی عطا فرمائی ہے- خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا‘ آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اس سے بہتر اور افضل وہم میں بھی نہیں آسکتی- منافق کا نفاق جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے- جھوٹ بولنے والے کے جھوٹ کے ظاہر ہونے پر‘ وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ کام کرنے پر ان کو کیسا دکھ ہوتا ہے- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والے مذہبی حیثیت سے اپنے پاک اور ثابت|شدہ بین اور روشن عقائد اور اصول مذہب کے لحاظ سے کل دنیا پر فضیلت رکھتے ہیں- کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعوے سے افضل ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں- خدا تعالیٰ مخفی|درمخفی ارادوں اور نیتوں کو جانتا ہے- اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا- بلکہ من جاء بقلب سلیم کام آتا ہے- سلامتی ہو- انکار نہ ہو- خدا سے سچی محبت ہو- اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور خیر خواہی ہو- امر بالمعروف کرنے والا اور ناھی عن المنکر ہو- بدی کا دشمن‘ راستبازوں کا محب ہو- خداتعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو- یہ منشائے اسلام ہے- پس یاد رکھو کہ عقائد کے لحاظ سے دنیا میں بینظیر چیز اسلام ہے- میں راستی سے کہتا ہوں کہ ایمان کے لحاظ سے‘ اعمال کے لحاظ سے دنیا میں کوئی مذہب اسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتا- مگر میں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گا کہ اسلام ہو- دعوائے اسلام نہ ہو- من اسلم وجھہ للٰہ و ھو محسن )البقرۃ:۱۱۳( ساری توجہ خداتعالیٰ ہی کی طرف لگا دیوے اور ایسے طریق پر کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے- یا کم از کم اتنا ہی ہو کہ اس بات کو کامل طور پر سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے- خدا تعالیٰ کے انعام کو یاد کر کے اور یہ دیکھ کر کہ کیسی کتاب‘ کیسا مذہب اس نے عطا کیا ہے-
دنیا کے دیگر مذاہب کی حفاظت کے لئے موید من اللہ‘ نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے- اسلام کے اندر کیسا فضل اور احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعائوں کا مانگنے والا‘ خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان‘ شرارتوں اور عداوتوں کے بدنتائج سے آگاہ‘ بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے- جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی راہوں میں بے|سمجھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفاء پیدا کرے گا جس کے سبب سے کل دنیا میں اسلام فضیلت رکھتا ہے-
یہ امر مشکل نہیں ہوتاکہ ہم اس انسان کو کیونکر پہچانیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے- اس کی شناخت کے لئے ایک نشان منجملہ اور نشانوں کے خدا تعالیٰ نے یہ مقرر فرمایا ہے کہ لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم )النور:۵۶-( خدا فرماتا ہے کہ ہمارے مامور کی شناخت کیا ہے؟ اس کے لئے ایک تو یہ نشان ہے کہ وہ بھولی بسری متاع جس کو خدا تعالیٰ پسند کرتا ہے اس سے لوگ آگاہ ہوں اور غلطی سے چونک اٹھیں اور اسے چھوڑ دیں- اس کو پورا کرنے کے لئے اس کو ایک طاقت دیجاتی ہے- ایک قسم کی بہادری اور نصرت عطا ہوتی ہے- اس بات کے قائم کرنے کے لئے جس کے لئے اس کو بھیجا ہے قسم قسم کی نصرتیں عطا ہوتی ہیں- کوئی ارادہ اور سچا جوش پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی مدد کا ہاتھ ساتھ نہ ہو- بڑی بڑی مشکلات آتی ہیں اور ڈرانے والی چیزیں آتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان سب خوفوں اور خطرات کو امن سے بدل دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے- ایک معیار تو اس کی راستبازی اور شناخت کا یہ ہے-
اب ذرا ہادی کامل صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت پر غور کرو- جب آپﷺ~ نے دعوت حق شروع کی‘ تنہا تھے- جیب میں روپیہ نہ تھا- بازو بڑے مضبوط نہ تھے- حقیقی بھائی کوئی نہ تھا- ماں باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا اور ادھر قوم کو دلچسپی نہ تھی- مخالفت حد سے بڑھی ہوئی تھی- مگر خدا کے لئے کھڑے ہوئے- مخالفوں نے جس قدر ممکن تھا دکھ پہنچائے‘جلا وطن کرنے کے منصوبے باندھے‘ قتل کے منصوبے کئے‘ کیا تھا جو انہوں نے نہ کیا- مگر کس کو نیچا دیکھنا پڑا- آپ کے دشمن ایسے خاک میں ملے کہ نام و نشان تک مٹ گیا- وہ ملک جو کبھی کسی کے ماتحت نہ ہوا تھا آخر کس کے ماتحت ہوا- اس قوم میں جو توحید سے ہزاروں کوس دور تھی توحید پہنچا دی اور نہ صرف پہنچا دی بلکہ منوا دی- خوف کے بعد امن عطا کیا- ان کے بعد ان کے جانشین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوئے- آپ کی قوم جاہلیت میں بھی چھوٹی تھی- حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قوم میں سے بھی نہ تھے- پھر کیونکر ثابت ہوا کہ خلیفہ حق ہیں- اسامہ کے پاس بیس ہزار لشکر تھا اس کو بھی حکم دے دیا کہ شام کو چلے جائو- اگر اسامہ کا لشکر موجود ہوتا تو لوگ کہتے کہ بیس ہزار لشکر کی بدولت کامیابیاں ہوئیں- نواح عرب میں ارتداد کا شور اٹھا- تین مسجدوں کے سوا نماز کا نام و نشان نہ رہا تھا- سب کچھ ہوا- پر خدا نے کیسا ہاتھ پکڑا کہ رافضی بھی گواہی دے اٹھا کہ اسد اللہ الغالب کو خوف کی وجہ سے ساتھ ہونا پڑا- - - - - - - - - - - - کیسا خوف پیدا ہوا کہ عرب مرتد ہو گئے- مگر سب خوف جاتا رہا- کیوں؟ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنائے تھے- اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ جب لوگ مامور ہو کر آتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہے- اس کے ہاتھ کا تھامنا یہ دکھلا دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں محفوظ ہوتا ہے- یادر رکھو جس قدر کمزوریاں ہوں‘ وہ سب معجزات اور الٰہی تائید میں ہیں- کیونکہ ان کمزوریوں ہی میں تائید الٰہی کا مزہ آتا ہے اور معلوم ہو جاتا
ہے کہ خدا کی دستگیری کیسا کام کرتی ہے- امیر دولت کے گھمنڈ سے‘ مولوی علم کے گھمنڈ سے‘ کوئی منصوبہ بازیوں اور حکام کے پاس آنے جانے کے گھمنڈ سے اگر کامیاب ہوتا ہے تو خدا کے بندے خدا کی مدد سے کامیاب ہوتے ہیں- ان کے پاس سرمایہ‘ علوم اور سفر کے وسائل نہیں ہوتے- مگر عالم ہونے کی لاف|وگزاف مارنے والے ان کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں- اس کے پاس کتب خانے اور لائبریریاں نہیں ہوتیں- وہ حکام سے جا کر ملتے نہیں- مگر وہ ان سب کو نیچا دکھا دیتے ہیں جو اپنے رسوخ‘ اپنی معلومات کی وسعت کے دعوے کرتے ہیں- برادری اور قوم اس کی مخالفت کرتی ہے مگر آخر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے- یہی ہمیشہ ان کی پہچان ہوتی ہے-
غرض راستباز اور مامور کی شناخت کے یہ نشان خدا تعالیٰ نے خود ہی بیان فرما دیئے ہیں- اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے انعام یاد دلاتا ہے- ہر ایک مخلوق مخلوق ہونے‘ اچھی قوم میں پیدا ہونے کو دیکھے- مگر اس میں شبہ پڑے گا کہ اور بھی شریک ہیں- پھر عقائد کو دنیا کے مقابلہ میں رکھے- میں نے مذاہب کو بے|تعصب ہو کر ٹٹولا ہے‘ بت پرستوں‘ آریوں‘ براہموئوں کو دیکھا ہے- جب ہم ایک خدا کے عقیدے کو پیش کرتے ہیں تو کوئی مذہب بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ مانتا ہو- یہ فخر اسلام اور صرف اسلام کو ہے- اس کے ساتھ کیا کوئی عقیدہ مل سکتا ہے؟ پھر انبیاء کو جنہوں نے چھوڑا اور اپنے عقلی ڈھکونسلوں سے اسے پانا چاہتے ہیں وہ ایک گڑھے میں گر رہے ہیں-
ایک مشہور براہمو لیکچرار نے نہایت جوش سے اپنے لیکچر میں کہا کہ اے خدا ! میں ہندوستانیوں کو تیرے پاس پہنچانا چاہتا ہوں مگر وہ نہیں آتے- ایک شخص کہتا ہے کہ اس کا یہ فقرہ سن کر میں دعا میں گر گیا اور دعا کی کہ اے خدا! تو میرے دل کو کھول دے- پھر میں استقلال سے اوپر آیا اور کہا کہ میں ایک عرض کرنی چاہتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ میں ہندوستانیوں کو خدا کے حضور پہنچانا چاہتا ہوں- میں تیار ہوں- مگر آپ اتنا فرما دیں کہ کیا آپ یقینا یقینا مجھے اس کے حضور پہنچا دیں گے؟ چونکہ اس کا انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان نہ تھا‘ گھبرا گیا اور بولا کہ آج تک کی تحقیقات کے بھروسے پر پہنچا سکتا ہوں- مگر کل معلوم نہیں کیا جدید بات پیش آوے لہذا یقینا نہیں- اس پر میں نے کہا کہ ایک شخص ایک دعوے اور کامل شعور اور بھروسے سے کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے حضور یقیناً پہنچا سکتا ہوں تو پھر اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے یا آپ کی طرف؟ اس کو شرمندہ ہو کر کہنا پڑا کہ ہاں! اس کو ہی مانو!! وہ شخص جو کامل بھروسے اور پورے یقین اور شعور سے خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے پہنچا دیا اور پہنچاتا ہے اور پہنچا دے گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں- کیا وہ جو کہتے ہیں کہ دو ارب سال گزرے خدا تعالیٰ نے ہم کو کتاب دی اور وہ آج تک ایک بھی ترجمہ پیش نہ کر سکے اور اس پر بھی وہ اسے کامل کہتے ہیں‘ کیا ان کو شرم نہیں آتی؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان چند سال کے اندر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو مشرق اور مغرب میں پہنچا دیا-
غرض انسان خوب مطالعہ کرے کہ اسلام سے بڑھ کر نعمت اور عزت و شرافت کا موجب اور کوئی چیز نہیں ہے- میں نے پہلے بتلایا ہے کہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے خلیفہ بنانے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور وہ خلیفہ دلائل سے نہیں‘ آدمیوں کے انتخاب سے نہیں‘ بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت اور طاقت سے بنیں گے- اب اس زمانہ کے منعم علیہ پر غور کرو- کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ منصوبہ باز اور مشرک ہے‘ عبادت میں سست ہے؟ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک عابد اور موحد خدا کا پرستار کہلانے والا ممکن ہے ریاکار ہو- مگر اللہ تعالیٰ اس کے خلوص نیت اور صدق کو اپنی تائیدات اور نصرتوں سے ثابت کر رہا سے- پھر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ خوف کے وقت ہی وہ پرستارالٰہی ہو- نہیں! نہیں!! وہ جبکہ خوف امن سے بدل جاتا ہے‘ وہ اس وقت بھی سچا پرستار ہوتا ہے-
الغرض ایمان بڑھانے کے لئے خدائے تعالیٰ کے انعام پر غور کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے- ایمان‘ عقائد‘ اعمال‘ معاملات کے لحاظ سے بے نظیر نعمت اسلام ہے- اور پھر مسلمانوں سے وہ فرقہ جو خلفاء اللہ کے سلسلے کو مانتا ہے ان سے بڑھ کر نہیں- کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر کوئی موید من اللہ نہیں-
انسان اکیلی نماز زیادہ پڑھتا ہے- جماعت کے ساتھ نماز گو چھوٹی اور مختصر ہی ہو مگر اس میں ثواب زیادہ ہوتا ہے- اس سے پتہ لگتا ہے کہ امام کے ماتحت اعمال میں کسقدر زیادتی ہوتی ہے- پس یہ ایک عظیم|الشان نعمت ہے جو خدا نے ہم کو دی ہے- مگر اس انعام میں ان الفاظ کو بھی یاد رکھو کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا-‘‘ بڑی ذمہ واری کا وعدہ ہے- یہ وعدہ کسی عام انسان کے ہاتھ پر نہیں بلکہ امام کے ہاتھ پر- نہیں! نہیں!! بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کیا ہے - خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سے وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے- پس ڈرنے اور رونے کا مقام ہے اور بڑے حزم|واحتیاط کی ضرورت ہے-
پھر اللہ تعالیٰ کے انعام یاد کر کے مومن اس بات کو سوچے کہ ایک وقت آتا ہے و اتقوا یوماً-ایک وقت آتا ہے کوئی دوست‘ آشنا‘ اپنا‘ بیگانہ کچھ کام نہیں آتا- دنیا میں نمونہ موجود ہے- انسان بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کی بیماری کو نہیں بٹا سکتے- یہ نمونہ اس بات کا ہے کہ یہ سچی بات ہے کہ خدا|تعالیٰ کی پکڑ کے وقت کوئی کام نہیں آتا- کسی کی سفارش اور جرمانہ کام نہیں آتا- اس لئے اس دن کے لئے آج سے ہی تیار رہو- پس خدا تعالیٰ کے فضل کو یاد کر کے محبت الٰہی کو زیادہ کرو اور غفلتوں اور کمزوریوں کو چھوڑ دو اور اپنے وعدوں پر لحاظ کرو کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے-‘‘ رنج وراحت‘ عسر یسر میں قدم آگے بڑھائیں گے- اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور بھائیوں سے محبت کریں گے- پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ جو وعدوں کی خلاف کرتا ہے وہ منافق ہوتا ہے- جھوٹ اور وعدوں کی خلاف|ورزی کرتے کرتے انسان کا انجام نفاق سے مبدل ہو جاتا ہے- اللہ|تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس سے بچائے اور صدق‘ اخلاص اور اعمال حسنہ کی توفیق دے- آمین-
)الحکم جلد۳ نمبر ۷ ----- ۳ / مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ تا ۶ (
* - * - * - *

۳۱ / مارچ ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
) خلاصہ (
ان الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون - و الذین ھم بایٰات ربھم یومنون- و الذین ھم بربھم لا یشرکون- و الذین یوتون ما اٰتوا و قلوبھم وجلۃ انھم الیٰ ربھم راجعون- اولٰئک یسارعون فی الخیرات و ھم لھا سابقون- )المومنون:۵۸تا۶۲(
مولا کریم‘ رحمن و رحیم مولا‘ ان آیات میں انسان کو ان راہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس کو ہر ایک قسم کے سکھوں کی طرف لیجاتے ہیں اور اپنے ہم چشموں اور ہم عصروں میں معزز و موقر بنا دیتے ہیں-
انسان فطرتی طور پر چاہتا ہے کہ وہ ہر ایک قسم کے سکھوں اور آراموں اور پہلی باتوں کو حاصل کرے اور پھر ان میں سب سے بڑھ کر رہنا چاہتا ہے- جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے متعلقین خوش و خورسند ہیں اور لوگوں کو بھلائی کی طرف متوجہ پاتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ فلاں بھلائی میں ایک سعادتمند نے قدم رکھا ہے اور فلاں شخص نے بھی رکھا ہے- پس میں سب سے بڑھ کر سبقت لے جائوں- غرض عام طور پر انسان فطرتاً ایک کمپیٹیشن (Competition) میں لگا رہتا ہے اور ساتھ والوں سے سربرآوردہ ہونے کا آرزو مند ہوتا ہے- بچے چاہتے ہیں کہ کھیل میں دوسری پارٹی سے بڑھ کر رہیں اور جیت جاویں- عورتیں کھانے‘ پہننے‘ لباس و زیورات میں چاہتی ہیں کہ اپنی ہم نشینوں سے بڑھ کر رہیں- پس یہ خواہش اور آرزو جو فطرتی طور پر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے اس کے پورا کرنے کے اسباب اور وسائل قرآن کریم میں اس مقام پر رحیم کریم مولا بیان فرماتا ہے اور وہ چند ایک اصول پر مشتمل ہے-
پہلا اصل - انسان غور کرے کہ اس کے دل میں اپنے سے بڑے کا ڈر ہوتا ہے- ادنیٰ ادنیٰ کام والے لوگ نمبردار کا‘ اور نمبردار تحصیلدار کا‘ اور تحصیلدار حکام بالا دست کا ڈر رکھتے ہیں- ماتحت اگر افسروں کا ڈر دل میں نہ رکھیں تو وہ اپنے فرض منصبی کو اس خوبی اور صفائی سے نہ کریں جس سے وہ اس ڈر کی حالت میں کرتے ہیں- اب اس اصل کو زیر نظر رکھ کر مولا کریم فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو نیکیوں اور بھلائیوں کے کمپیٹیشن (Competition) اور مقابلہ میں سرفراز ہوتے ہیں سب سے پہلے وہ ہر ایک کام کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا نگران ہے اور ان کے ہر فعل کھانے‘ پینے‘ دوستی‘ دشمنی‘ بغض و عداوت‘ لین دین‘ غرض تمام معاملات میں ان کو دیکھتا ہے-
پس مومن وہ ہوتے ہیں جو خیرات میں بڑھتے ہیں‘ جو ان اعمال و افعال کے وقت علیم و خبیر کی ذات اور نگرانیوں پر نگاہ کرتے ہیں اور ہر آن خوف و خشیت الٰہی سے لرزاں رہتے ہیں- اس لئے ہر ایک کام میں خواہ کھانے پینے کا ہو‘ یا بغض و عداوت ہو‘ دوستی ہو یا دشمنی‘ ہر بات میں خوش رہنے اور بڑھ کر رہنے کے لیے پہلا اور ضروری اصل کیا ہے؟ خشیت الٰہی- عمل کرنے سے پہلے دیکھ لیا کرو کہ یہ عمل خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کی وجہ سے کسی سرخروئی کا باعث ہے یا اس کی نارضامندی کا موجب ہو کر سیاہ روئی کا پیش|خیمہ؟
خوف الٰہی کے بعد دو اصل اور ہیں- وہ کیا؟ ایک اخلاص- دوسرا صواب-کوئی عمل صالح ہو نہیں سکتا جب تک اخلاص اور صواب نہ ہو-
اخلاص کیا ہے؟ اخلاص کے معنے ہیں کہ جو کام کرو اس میں یہ مد نظر ہو کہ مولا کریم کی رضا حاصل ہو- حب ہو تو حبا" للہ ہو- بغض ہو تو بغضا" للہ ہو- کھائو تو اس لئے کہ کھانے کا حکم دیا ہے- پیتے ہو تو سمجھ لو کہ و اشربوا کے حکم کی تعمیل ہے- غرض سارے کاموں میں اخلاص ہو‘ رسم|و|عادت‘ نفس|وہوا کی ظلمت نہ ہو- اندرونی جوش اس کے باعث نہ ہوئے ہوں-
صواب کیا ہے؟ کہ ہر بھلا کام اس طرح پر کیا جاوے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کر کے دکھایا ہے- اگر نیکی کرے مگر نہ اس طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سکھائی ہے‘وہ راہ صواب نہیں- غرض یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے میں اجازت سرکاری ہے یا نہیں- اور پھر اللہ کی رضا مقصود ہے یا نہیں- پس کام کرو خشیت الٰہی سے اور پھر اخلاص و صواب سے-
و الذین ھم بایٰات ربھم یومنون اللہ تعالیٰ کے احکام پر ایمان لاتے ہیں- و الذین ھم بربھم لایشرکون اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعمال اور ترک اعمال میں کسی کو شریک نہیں کرتے- نیکی کو اس لئے کرے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے اور اس کے لئے اس کو کرے- اور بدی سے اس لئے اجتناب کرے کہ خدا نے ان کو برا فرمایا اور ان سے روکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع مدنظر رکھ کر نیکی کرے- نیکی کرتا ہوا بھی خوف الٰہی کو دل میں جگہ دے کیونکہ وہ نکتہ|نواز اور نکتہ گیر ہے- حدیث شریف میں آیا ہے جنابہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں کہ بدیاں کرتے ہوئے خوف کریں؟ فرمایا نہیں! نہیں! نیکیاں کرتے ہوئے خوف کرو- جو نیکیاں کرنے کی ہیں‘ کرو اور پھر حضور الٰہی میں ڈرتے رہو کہ ایسا نہ ہو کہ عظیم|و|قدوس خدا کے حضور کے لائق ہیں یا نہیں- ایسے لوگ ہیں جو یسارعون فی الخیرات و ھم لھا سابقون کے مصداق ہوتے ہیں- یعنی اول اور آخر میں خشیت ہو- فعل اور ترک فعل اخلاص اور صواب کے طور پر ہوں اور وہ بھلائیوں کے لینے والے اور دوسرے سے بڑھنے والے ہیں-
وسوسہ شیطانی یہ بھی آجاتا ہے کہ یہ راہ کٹھن ہے کیونکر چلیں گے- خدا تعالیٰ خود ہی اس وسوسہ کا جواب دیتا ہے لا نکلف نفساً الا وسعھا )المومنون:۶۳( کہ ہم نے جو اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے اور نواہی سے روکا ہے وہ مشکل نہیں- کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عدم استطاعت پر حج کا حکم ہے- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اوامر و نواہی ایسے ہیں کہ عمل کر سکتا ہے اور ان سے باز رہ سکتا ہے-
اور یہ امر بھی بحضور دل یاد رکھو کہ بعض اعمال بھول جاتے ہیں- جناب الٰہی کے ہاں بھول نہیں- بلکہ فرمایا و لدینا کتٰب ینطق بالحق و ھم لا یظلمون )المومنون:۶۳( یاد رکھو! جناب الٰہی میں اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں- خدا کے ہاں ظلم نہیں ہوتا-
انسان اگر غور کرے تو دنیا میں بھی ایک جنت اور نار کا نمونہ دیکھ سکتا ہے- مجھے افسوس آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں کی چٹھیوں کے پڑھنے پڑھانے میں کس قدر ہوشیاری اور مستعدی سے کام لیا جاتا ہے‘ مگر خدا تعالیٰ کی چٹھی- اور پھر جس کے لانے والا وہ کامل انسان جو محمد ہے‘ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم‘ کی اتنی پرواہ نہیں کی جاتی- سستی کی جاتی ہے تو کتاب الہدیٰ کے سمجھنے میں-
بعض اعمال ایسے ہیں کہ ہم نیکی سمجھتے ہیں مگر قانون الٰہی کا فتویٰ نہیں ہوتا- جب انسان مرفہ|الحال اور اکڑ باز ہو جاتا ہے تو وہ دکھوں میں مبتلا ہوتا ہے‘ اس وقت نجات کی راہ نہیں ملتی- میں دیکھتا ہوں کہ ایسے انسان ہیں کہ دعویٰ اسلام کرتے ہیں مگر عمل دیکھو تو بازار میں کفار کے اعمال اور ان کے اعمال برابر ہیں- نیک نمونہ دکھا کر دوسروں کو قائل کر سکتا ہے- اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر تو نرم مزاج نہ ہوتا تو یہ لوگ تیرے گرد جمع نہ ہوتے- صحابہ کرام کی زندگیوں کے حالات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام سے کوئی غلطی بھی ہو جاتی تھی اور آپ استغفار بھی فرمایا کرتے تھے- مگر ذرا ذرا سی بات پر مواخذہ اور تشدد کرتے تو تیرے پاس یہ قوم کس طرح جمع ہوتی- حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس نہ مال نہ طمع کی امید تھی- اگر کوئی چیز گرویدہ کر سکتی تھی تو وہ صرف حق کا نور اور آپ کے برگزیدہ اخلاق تھے-
اپنے اعمال میں یہ امرمدنظر رکھو کہ اخلاص اور صواب ہو- نہ یہ کہ اپنے اغراض و مقاصد کے لئے کسی آیت یا حدیث کا بہانہ تلاش کرتے پھرو- اور نیکی کرتے ہوئے یہ نہ سمجھو کہ گویا تمام منازل طے کر لئے- نہیں! بلکہ بعض امور ضروری ہیں اور بعض اس سے کم- بعض فرائض ہیں‘ بعض سنن‘ بعض واجبات ہیں- ایک سخت بدی ہوتی ہے‘ ایک اس سے کم اور بعض ایسی کہ ان پر حرام اور مکروہ کا لفظ عائد ہوتا ہے-
خدا تعالیٰ کی باتیں جب سنائی جاویں تو مناسب نہیں کہ انسان سن کر بھی اس راہ کو اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہ ہے- اور اسے اساطیر الاولین کہنے والوں کی طرح لاپروائی سے چھوڑ دے-
میں ایک ضروری امر آخر میں تمہیں بتلانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی ہادی دنیا میں آتا ہے تو اس کی شناخت کے کئی طریق ہوتے ہیں-
اول - جاہل اور بے علم نہ ہو- خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نادان اور بے خبر نہ ہو- اب کتاب اللہ کو پڑھو اور دیکھو کہ جو معارف اور حقائق اس میں بیان کئے گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ کسی جاہل اور نادان کے خیالات کا نتیجہ نہیں ہو سکتے- سوچو! اور پھر سوچو!! نادان ایسی معرفت اور روح و راستی سے بھری ہوئی باتیں نہیں کر سکتے-
دوم - وہ ہادی اجنبی نہ ہو- کیونکہ ایک ناواقف انسان دور دراز ملک میں جا کر باوجود بدکار اور شریر ہونے کے بھی چند روز تصنع اور ریاکاری کے طور پر اپنے آپ کو نیک ظاہر کر سکتا ہے- پس ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کا واقف ہو- اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دعویٰ صاف ہے کہ ما ضل صاحبکم و ماغویٰ )النجم:۳(
تیسری بات یہ ہے کہ ہادی یا امام یا مرشد اپنے سچے علوم کے مطابق عملدرآمد بھی کرتا ہو- اوروں کو بتلاوے اور خود نہ کرے؟ پس اس امر کو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی نسبت فرمایا ہے ما ضل صاحبکم و ماغویٰ- حضور کے عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ جنابہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک لفظ میں سوانح عمری بیان فرما دی- کان خلقہ القراٰن )مسند احمد بن حنبل جلد۶صفحہ۹۱( یعنی آپ کے اعمال و افعال بالکل قرآن کریم ہی کے مطابق ہیں-
اللہ تعالیٰ مجھے اور سب احباب سامعین کو نیک رستہ پر چلاوے اور قرآن|کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت اور ہدایت بخشے- آمین-
) الحکم جلد۳ نمبر۱۴ ------ ۱۹ / اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ۴-۵ (
* - * - * - *
‏KH1.2
خطبات|نور خطبات|نور
۲۱ / اپریل ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الاضحیٰ
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للٰہ الحمد- اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً )المائدۃ:۴(
یہ آیت شریف قرآن مجید میں کس وقت نازل ہوئی؟ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ایک آیت آپ کی کتاب میں ہے‘ اگر ہماری کتاب میں ہوتی تو جس دن وہ اتری تھی اسے عید کا دن قرار دیتے- حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ وہ کونسی آیت ہے؟ تو اس نے یہ آیت پڑھی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً- جناب عمرؓ نے فرمایا کہ یہ آیت کب نازل ہوئی؟ کس وقت نازل ہوئی؟ کہاں نازل ہوئی؟ میں اسے خوب جانتا ہوں- وہ جمعہ کا دن تھا- وہ عرفہ کا دن تھا- وہ اسی عیداضحیٰ کا مقدمہ تھا- عرفات میں نازل ہوئی تھی- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند روز زندہ رہے- یوں تو اللہ جل شانہ کا نزول ہر روز خاص طور پر رات کے آخر ثلث میں ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن پانچ دفعہ اور عرفات کو نو|دفعہ نزول ہوتا ہے-
احادیث صحیحہ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ شیطان ایسا کبھی یاس میں نہیں ہوتا جیسے عرفات کے دن- یہ وہ دن ہے کہ اللہ جل شانہ نے ہماری نعماء دینیہ کے لئے جس کتاب کو نازل فرمایا تھا اسے کامل کر دیا- کامل دین جس کا نام اسلام ہے اسے اسی دن کامل کر دیا- جس دین کی متابعت ضروری اور اس پر کاربند ہونا سعید انسان کو لازم ہے اس کے اصول اور فروع اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن میں تمام و کامل کر دیئے- وہ چیز جس کو کامل طور پر تمہیں‘ نہیں بلکہ دنیا کو پہنچانے کے لئے سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ساری دعائوں اور کل طاقتوں اور مساعی جمیلہ کو پورے طور پر لگایا تھا اس کا نام اسلام ہے اور اس کی تکمیل کا دن جمعہ کا مبارک دن اور عرفات کا پاک دن ہے-
تمام ادیان مروجہ اور مذاہب موجودہ کا مقابلہ کرنا چاہیں اور غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کیا بلحاظ اصول کے اور کیا بلحاظ حفظ اصول اور فروع کے وہ اسلام کے مقابلہ میں کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتے اور بالکل ہیچ دکھائی دیتے ہیں- اس کے اہم ترین امور میں سے اللہ جل شانہ کا ماننا‘ اس کو اسماء حسنیٰ اور صفات و محامد میں یکتا و بے ہمتا ماننا ہے- جس کا خلاصہ لا الٰہ الا اللہ میں موجود ہے‘ جس کا نام افضل الذکر ہے اور جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ کل نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ ہے‘ جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور آج میں بھی کہتا ہوں- اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ- اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی کے برابر اور ہستی کو یقین نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء میں‘ افعال میں یکتا‘ وجود و بقا میں یکتا‘ تمام نقائص سے منزہ اور تمام خوبیوں سے معمور یقین کرے- وہی معبود حقیقی ہے- اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت جائز نہیں- عبادت کا مدار ہے حسن و احسان پر‘ پھر یہ دونوں باتیں بدرجہ کامل کس میں موجود ہیں؟اللہ ہی میں- احسان دیکھ لو- تم کچھ نہ تھے- تم کو اس نے بنایا- کیسا خوبصورت‘ تنومند اور دانشمند انسان بنا دیا- بچے تھے- ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کیا- سانس لینے کو ہوا‘ پینے کو پانی‘ کھانے کو قسم قسم کی لطیف غذائیں‘ طرح طرح کے نفیس لباس اور آسائش کے سامان کس نے دیئے؟ خدا نے! میں کہتا ہوں کیا چیز ہے جو انسان کو فطرتاً مطلوب ہے اور اس نے نہیں دی- سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسان اور افضال کو کوئی گن ہی نہیں سکتا - حسن دیکھو تو کیسا اکمل- ایک ناپاک قطرہ سے کیسی خوبصورت شکلیں بناتا ہے کہ انسان محو ہو ہو رہ جاتا ہے- پاخانہ سے کیسی سبز اور نرم‘ دل|خوشکن کونپل نکالتا ہے- انار کے دانے کس لطافت اور خوبی سے لگاتا ہے- ادھر دیکھو- ادھر دیکھو- آگے پیچھے دائیں بائیں جدھر نظر اٹھائو گے اس کے حسن کا ہی نظارہ نظر آئے گا- اور یہ بالکل سچی بات ہوئی یسبح للٰہ ما فی السمٰوات و ما فی الارض )التغابن:۲-(ساری دنیا میں جس قدر مذاہب باطلہ ہیں ان میں دیکھو گے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی اسم یا صفت کا انکار کیا ہے اور اسی انکار نے ان کو بطلان پر پہنچا دیا ہے- ایک بت پرست اگر خدا تعالیٰ کو علیم‘ خبیر‘ سمیع‘ بصیر‘ قادر جانتا ہے تو کیوں پتھر‘ شجر‘ ہوا‘ سورج‘ چاند اور ارزاں ترین چیزوں کے سامنے سجدہ کرتا اور کیوں اس کی استتی کرتا ہے- اور کوئی جواب نہیں ملتا تو یہی عذر تراش لیا کہ ہماری عبادت صرف اسی لئے ہے کہ یہ اصنام و معبود ہم کو خدا تعالیٰ کے حضور پہنچا دیں اور مقرب بارگاہ الٰہی بنا دیں-
اصل یہی ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر غریب و گنہگار کی آواز سنتا ہے اور ہر ایک دور شدہ کو نزدیک کرنا چاہتا ہے- اونچی آواز سے پکارو یا دھیمی آواز سے‘ وہ سمیع ہے- اگر ایسا مانتے تو کبھی بھی وہ عاجز اور ناکارہ مخلوق کے آگے‘ ہاں ان اشیاء کے آگے جو انسان کے لئے بطور خادم ہیں‘ سر نہ جھکاتے اور یوں اپنے ایمان کو نہ ڈبوتے-
عیسائی مذہب کو اگر دیکھیں تو یہ بطلان پرستی کیوں ان میں پیدا ہوئی؟ صرف اس لئے کہ خدا|تعالیٰ کی صفات اور اسماء کا انکار کیا- ایک طرف زبان سے خدا تعالیٰ کو قدوس اور رحیم اور عادل خدا پکار رہے ہیں مگر اپنے معتقدات اور ایمان سے بتلاتے ہیں کہ جس کو خدا مانا ہے وہ ساری برائیوں اور بدیوں کا مورد ہے- خدا کو عادل قرار دیتے ہیں مگر گنہگاروں کے بدلے ایک بے گناہ کو سزا دے کر بھی اس کے عدل کو قائم رکھ سکتے ہیں-
آریہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو سرب شکتی مان تو مانتا ہے لیکن خالق کل شی ہونے کی اسے مقدرت نہیں- ایک ایک ذرہ کو علیحدہ سمجھتے ہیں اور روحوں کو مخلوق نہیں مان سکتے- ان کے خواص‘ گن‘ کرم‘ سبھائو سب کے سب انادی اور خدا تعالیٰ کے ہمتا اور شریک سمجھتے ہیں- خدا تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہیں مان سکتے کہ وہ بڑے سے بڑے بھگت اور پریمی کو بھی ابدی نجات دے بلکہ ابدی نجات کا دینا گویا خدا تعالیٰ کو خدائی ہی سے دست|بردار کرنا چاہتے ہیں- معاذ اللہ منھا-
براہمو لوگو ں کو دیکھو تو خدا تعالیٰ کی بڑی تعریفیں کریں گے مگر خدا تعالیٰ کی اس صفت سے ان کو قطعاً انکار ہے‘ جس سے وہ ہدایت نامے دنیا میں بھیجتا اور انسان کو غلطیوں سے بچانے کے لئے رہنمائی کرتا ہے اور نہیں مانتے کہ یرسل الرسول بھی خدا تعالیٰ کی کوئی صفت ہے- الغرض ہر ایک مذہب پر اگر غور اور دھیان کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام کے ان کو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات پر ایمان نہیں رہا- کوئی اسم اعلیٰ طور پر ایسا نہیں جس کے معنی مسلمان اعلیٰ طور پر نہیں کرتے- کسی نے کیا چھوٹا اور سچا فقرہ کہا ہے- ’’مسلمان خدا کے سامنے شرمندہ ہونے کے قابل نہیں-‘‘ لیکن اس نعمت کی قدر کیا ہو سکتی ہے؟ کیا تم لوگوں میں خدا کے سوا دوسرے کی پرستش نہیں ہوتی؟ کیا غفلت نہیں رہی؟ کیا برادری اور اخوت کا وہ بے نظیر اور قابل قدر مسئلہ جو مخلوقات کو سکھلایا گیا تھا اور یہ بتلایا گیا تھا کہ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم )الحجرات:۱۴( یعنی تم میں معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ تر متقی ہے- جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ تر ہیں وہی زیادہ معزز و مکرم ہے- کیا بے جا شیخی اور انانیت پیدا نہیں ہو رہی؟ پھر بتلائو کہ اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟ یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کے دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا- پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب و ملت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پرہیز کرتے تھے مگر اب شدھ کرتے اور ملاتے ہیں- گو کامل اخوت اور سچے طور پر نہیں- مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف غور کرو کہ حضور نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں- اسلام یا مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اٹھا دیا- جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا- قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علیٰ خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی‘ اسے دور کر دیا- ہمیشہ کا منکر‘ خدا رسول کا منکر‘ جب اسلام لاوے تو شیخ کہلاوے- یہ سعادت کا تمغہ‘ یہ سیادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا‘ صرف تقویٰ تھا-
اب بتلائوایسے انعام اور ایسے فضل کے نازل ہونے کے بعد اب کیا حالت موجود ہے-کیا وہی اتحادبرادری ہے؟ کیا اسماء الٰہی پر ویسا ہی یقین کامل ہے؟ وہ کتاب جس نے غافل و بدمست قوم کوہوشیار کر کے دکھا دیا تھا اور جس نے عرب جیسی اکھڑ قوم کو ہمدردی اور اخوت کا ایک پاک نمونہ دنیا میں بنا کر دکھا دیا‘ کیا اس کی ایسی قدر اور عظمت ہے جو اس کی اتباع اور عمل درآمد کا نام ہے؟ کیا مسلمان کہلانے والے کتاب اللہ‘ رسول اللہ کی ایسی ہی عزت کرنے والے چست و چالاک ہیں جیسے صحابہ تھے؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر سب باتوں کا جواب دیا جائے تو دلوں کو نہ ہلادے-میں دیکھتا ہوں عقائد کا حال خدا ہی کو معلوم ہے- دل کی باتیں تو وہی جانتا ہے جو علیم بذات الصدور ہے- مگر یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ انسان کے دل کا جوش قویٰ پر ضرور جلوہ گری کرتا ہے- کون ہے جو یہ جانتا ہو کہ آگ جلاتی ہے اور پھر اس میں ہاتھ ڈال دے - کون گڑھے میں عمداً گر سکتا ہے؟ روٹی کو بھوک کا علاج جانتے ہو اور پیاس کا علاج پانی جانتے ہو تو بھوک کے وقت روٹی کھاتے اور پیاس کے وقت پانی پیتے ہو- پھر جب کوئی انسان یہ اصول مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ علیم و خبیر‘ سمیع و بصیر ہے تو پھر قیاس کرے کہ ان اسماء حسنیٰ کو مان کر بھی بدمعاشیوں اور بدکاریوں کے ارتکاب میں کیوں دلیری کرتا ہے- ہندو‘ دہریہ‘ سکھ‘ آریہ‘ عیسائی وغیرہ قسم قسم کی مخلوق موجود ہے اور ان کے اخلاق ظاہری اور افعال و اعمال و یکھ لو اور پھر اپنے افعال و اعمال کا معائنہ کرو- تم میں تو خاص نعمت اتری تھی اور پھر اس کی تکمیل ہوئی تھی- اب اس نعمت کے لینے کے بعد اور قوموں میں اور تم میں کیا امتیاز ہوا؟ صحابہ کرام میں اخوت کا مسئلہ ایسا تھا کہ وہ اس امر کو تکملہ|ایمان سمجھتے تھے کہ جب تک اپنے بھائی مسلمان کے لئے وہی نہ چاہیں جو خاص اپنی ذات کے لئے چاہتے تھے-
دوسرے کی عزت وآبرو‘ دوسرے کے آرام و چین کے لئے ایسی ہی کوشش کرو جیسی اپنے لئے کرتے ہو- مگر جب اپنے آپ ہی کو غفلت میں ڈال رکھا ہے تو دوسرے کی بہتری کی کیا امید! کرتے نفاق ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ نعمتیں ملیں جو اتفاق میں ہیں- جہالت میں پڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علم کی عزت وآبرو ملے- غفلت میں سرشار ہیں اور ہوشیاری اور لذت کے خواہاں- علم ہاں صحیح علم کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہتے مگر اجر وہ لینا چاہتے ہیں جو عاملین کو ملتے ہیں- مکہ کے کفار کہتے تھے کہ ہم پر رسولوں والی بات کیوں نازل نہیں ہوتی- بہت سے تم میں سے ہیں جو چاہتے ہیں ہم ملہم کیوں نہیں بنتے- ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں- ہم کیوں آسودہ حال نہیں ہوتے- مگر یہ تو بتلائو کہ کتاب اللہ کے مطابق عمل درآمد کرنے میں تم نے کس قدر محنت اٹھائی ہے- انصاف تو یہی ہے کہ جس قدر روپیہ اور عمر کورسوں کے پورا کرنے میں صرف کیا ہے کیا قرآن کریم کے مطالب پر اطلاع پانے اور اس کو دستور|العمل بنانے میں اس سے آدھا بھی کیا ہے؟ خدا کے حضور بخیلی نہیں- اس کے اسماء میں بخل نام کو نہیں- پھر یہ محرومی کیوں؟ سچی بات یہ ہے ما ظلمھم اللہ و لٰکن انفسھم یظلمون )اٰل|عمران:۱۱۸( اللہ تعالیٰ نے تو کسی کی جان پر ظلم نہیں کیا مگر بات یہ ہے کہ لوگ خود ہی اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں- پس اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرو- اس نے خاتم الانبیاء بھیجا- کتاب بھی کامل بھیجی- کتاب کے سمجھانے کا خود وعدہ کیا اور ایسے لوگوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا جو آ آ کر خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں- اس زمانے ہی کو دیکھو کہ لیستخلفنھم )النور:۵۶( کا وعدہ کیا سچا اور صحیح ثابت ہوا- اس کا رحم‘ اس کا فضل اور انعام کس کس طرح دستگیری کرتا ہے- مگر انسان کو بھی لازم ہے کہ خود بھی قدم اٹھاوے- یہ بھی ایک سنت اللہ چلی آتی ہے کہ خلفاء پر مطاعن ہوتے ہیں- آدم پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی ذریت بھی اب تک موجود ہے- صحابہ کرام پر مطاعن کرنے والے روافض اب بھی ہیں- مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل|و|کرم سے ان کو تمکنت دیتا ہے اور خوف کو امن سے بدل دیتا ہے- سچے پرستار الٰہی اور مخلص عابد بنو- خدا کی طرف قدم اٹھائو- یہاں بھی رضیت لکم الاسلام دیناً )المائدۃ:۴( فرمایا- اسلام کا لفظ چاہتا ہے کہ کچھ کر کے دکھائو- موجودہ حالت میں ہم نے )ہم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام کے ہاتھ پر توبہ کی ہے( اور مسلمانوں سے بڑھ کر امتیاز پیدا کیا ہے-
ہم میں ملہم ہے- ہم میں ہادی اور امام ہے- ہم میں وہ ہے جس کی خدا تائید کرتا ہے- جس کے ساتھ خدا کے بڑے بڑے وعدے ہیں- اس کو حکم اور عدل بنا کر خدا نے بھیجا ہے - مگر تم اپنی حالتوں کو دیکھو- کیا مدد اور عمل درآمد کے لئے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا ہے جیسا کہ واجب ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا- اس میں کیا بات تھی|؟ فاستقم کما امرت )ھود:۱۱۳( تم سیدھی چال چلو‘ نہ صرف تم بلکہ تیرے ساتھ والے بھی - یہ ساتھ والوں کو‘ جس نے حضور کو بوڑھا کر دیا- انسان اپنا ذمہ دار تو ہو سکتا ہے مگر ساتھیوں کا ذمہ دار ہو تو کیونکر؟ بس یہ بہت خطرہ کا مقام ہے- ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلتوں سے اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے جو تمہارے امام کے ساتھ ہیں‘ پورا ہونے میں معرض توقف میں پڑیں - موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کے ساتھ کنعان پہنچانے کا وعدہ تھا مگر قوم کی غفلت نے اسے محروم کر دیا - پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور خوب سمجھو - غفلت چھوڑ دو اور اس نعمت کی قدر کرو جو آج کے مبارک دن میں پوری ہوئی- میں پھر کہتا ہوں کہ فرماں بردار بن کر دکھائو- ۱~}~
خطبہ ثانیہ
انا اعطیناک الکوثر- فصل لربک و انحر- ان شانئک ھو الابتر- )الکوثر:۲ تا ۴(
یہ ایک مختصر سی سورۃ ہے اور اس مختصر سی سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے جو جامع ہے- پھر اس کے پورا ہونے پر شکریہ میں مخلوق الٰہی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے اس کا ارشاد کیا- وہ پیشگوئی کیا ہے؟ انا اعطیناک الکوثر تجھے ہم نے جو کچھ دیا ہے بہت ہی بڑا دیا ہے- عظیم الشان خیر عطا کی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دامن نبوت دیکھو تو قیامت تک وسیع- کسی دوسرے نبی کو اس قدر و سیع وقت نہیں ملا- یہ کثرت تو بلحاظ زمان ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً )الاعراف:۱۵۹( میں ظاہر فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں- یہ کوثر مکان کے لحاظ سے عطا فرمائی- کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الٰہی میں اتباع|رسالت پناہی کی ضرورت نہیں- کوئی صوفی‘ کوئی مست قلندر‘ بالغ مرد‘ بالغہ عورت کوئی ہو اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے- اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لن تستطیع معی صبراً )الکہف:۶۸( بول اٹھے- یہ وہ موسیٰؑ ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا- کوئی آدمی مقرب ہو نہیں سکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اتباع نہ کرے-
کتاب میں وہ سچی کوثر عنایت کی کہ فیھا کتب قیمۃ )البینہ:۴( کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتابیں سب کی سب قرآن مجید میں موجود ہیں-
ترقی مدارج میں وہ کوثر کہ جبکہ یہ سچی بات ہے الدال علی الخیر کفاعلہ )ترمذی- کتاب العلم‘( پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جبکہ ان کے دال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم‘ تو ان کی جزائے|نیک آپﷺ~ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے- اعمال میں دیکھو! اتباع‘ فتوحات‘عادات‘ علوم‘ اخلاق میں کس کس قسم کی کوثریں عطا فرمائیں ہیں-
استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو- جس قدر مذاہب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے‘ ان کی حفاظت کا ذمہ وار خود ان لوگوں کو بنایا- مگر قرآن کریم کی پاک تعلیم کے لئے فرمایا انا لہ لحافظون )الحجر:۱۰( یہ کیا کوثر ہے؟ اللہ تعالیٰ اس دین کی حمایت و حفاظت اور نصرت کے لئے تائیدیں فرماتا اور مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الٰہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں- اس کو دیکھ کر پتہ لگ سکتا ہے کہ کیونکر بندہ خدا کو اپنا بنا لیتا ہے-اس ہستی کو دیکھو‘ زبان اور اس کے حرکات کو دیکھو- جب خدا بنانے پر آتا ہے تو اسی عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے اور ایک اجڑی بستی کو اس سے آباد کرتا ہے- کیا تعجب انگیز نظارہ ہے- بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکڑباز مدبروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع و سیع ہوتے ہیں- مثلاً دیکھو! کس بستی کو برگزیدہ کیا جہاں نہ ترقی کے اسباب‘ نہ معلومات کی توسیع کے وسائل‘ نہ علمی چر چے‘ نہ مذہبی تذکرے‘ نہ کوئی دارالعلوم‘ نہ کتب خانہ‘ صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے تربیت کی اور اپنی تربیت کا عظیم الشان نشان دکھایا- غور کرو کس طرح یہ بتلاتا ہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے کیا کوثر عطا فرمایا- لیکن غافل انسان نہیں سوچتا- افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت اور سستی کی ویسے ہی غفلت کا شکار مسلمان بھی ہوئے- آہ! اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی ان سے حصہ لینے کے آرزومند ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی کوثر دیتا- میں نے جو کچھ اب تک بیان کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیاوی کوثر کا ذکر تھا پھر مرنے کے بعد ایک اور کوثر برزخ میں‘ حشر میں‘ صراط پر‘ بہشت میں‘ غرض کوثر ہی کوثر دیکھے گا- اس کوثر میں ہر ایک شخص شریک ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے فصل لربک - اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو- دیکھو اس آدم|کامل کا پاک نام ابراہیم بھی تھا جس کی تعریف اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے و ابراھیم الذی وفیٰ )النجم:۳۸( اور وہی ابراہیم جو جاء ربہ بقلب سلیم )الصافات:۸۵( کا مصداق تھا‘ نے سچی تعظیم الٰہی کر کے دکھائی جیسے مولیٰ کریم فرماتا ہے- و اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمٰت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً )البقرۃ:۱۲۵-( پھر کیا نتیجہ پایا- الٰہی تعظیم جس قدر کوئی انسان کر کے دکھاتا ہے اسی قدر ثمرات|عظیمہ حاصل کرتا ہے- مثلاً حضرت ابوالملت ابراہیم کو دیکھو- اس کی دعائوں کا نمونہ دیکھو- ہمارے سیدومولیٰ‘ اصفی الاصفیائ‘ خاتم الانبیاء ان دعائوں کا ثمرہ ہیں- اللٰھم صل و سلم و بارک علیہ و علیٰ ابراھیم انک حمید مجید-
ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے- خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی- اسمعیل جیسی اولاد دی- جب جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دے دو- ابراہیم کی قربانی دیکھو‘ بڑھاپے کا زمانہ دیکھو‘ مگر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں‘ ساری امیدیں‘ تمام ارادے یوں قربان کر دیئے کہ ایک طرف حکم ہوا اور معاً بیٹے کے قربان کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا- پھر بیٹا بھی ایسا بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا! انی اریٰ فی المنام انی اذبحک )الصافات:۱۰۳( تو وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو گیا- غرض باپ بیٹے نے ایسی فرمان برداری دکھائی کہ کوئی عزت‘ کوئی آرام‘ کوئی دولت‘ اور کوئی امید باقی نہ رکھی- یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں-
پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کیسی جزا دی- اولاد میں ہزاروں ہزار بادشاہ اور انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء بھی اسی کی اولاد میں پیدا کیا- وہ زمانہ ملا جس کی انتہا نہیں- خلفاء ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں- سارے نواب اور خلفاء الٰہی دین کے‘ قیامت تک اسی گھرانے میں ہوئے ہیں اور ہونے والے ہیں-
پھر جب شکریہ میں نماز میں خدا کی عظمت اور کبریائی بیان کی تو مخلوق الٰہی کے لئے بھی- کیونکہ ایمان کے اجزاء تو دو ہی ہیں- تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ‘ ہاں مخلوق کے لئے یہ کہ و انحر جیسے نماز میں لگے ہو قربانیاں بھی دو تاکہ مخلوق سے سلوک ہو- قربانیاں وہ دو جو بیمار نہ ہوں- دبلی نہ ہوں- بے آنکھ کی نہ ہوں- کان چرے ہوئے نہ ہوں- عیب دار نہ ہوں- لنگڑی نہ ہوں- اس میں اشارہ یہ ہے کہ جب تک کامل قویٰ کو خدا کے لئے قربان نہ کرو گے‘ ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ|گر نہ ہوں گی- پس جہاں ایک طرف عظمت الٰہی میں لگو دوسری طرف قربانیاں کر کے مخلوق الٰہی سے شفقت کرو اور قربانیاں کرتے ہوئے اپنے کل قویٰ کو قربان کر ڈالو اور رضاء الٰہی میں لگا دو- پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ ان شانئک ھو الابتر تیرے دشمن ابتر ہوں گے- انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ اس کو آپ تو راحتیں ملیں اور اس کے دشمن ہلاک ہوں- یہ باتیں بڑی آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں- خدا کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت- نمازوں میں خصوصیت دکھائو- کانوں پر ہاتھ لے جا کر اللہ|اکبر زبان سے کہتے ہو مگر تمہارے کام دکھا دیں کہ واقعی دنیا سے سروکار نہیں- تمہاری نماز وہ نماز ہو جو تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر )النحل:۹۱( ہو- تمہارے اخلاق‘ تمھارے معاملات عامیوں کی طرح نہ ہوں بلکہ ایک پاک نمونہ ہوں پھر دیکھو! کوثر کا نمونہ ملتا ہے یا نہیں- لیکن ایک طرف سے تمہارا فعل ہے‘ دوسری طرف سے خدا کا انعام-
درود پڑھو- آج کل کے دن عبادت کے لئے مخصوص ہیں- و اذکروا اللہ فی ایام معدودات )البقرۃ:۲۰۴-( کل وہ دن تھا کہ کل حاجی ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ ہوں گے- دنیا سے نرالا لباس پہنے ہوئے عرفات کے میدان میں حاضر تھے اور لبیک لبیک پکارتے تھے- تم سوچو اور غور کرو کہ تمھاری کل کیسی گذری- کیا تم بھی خدا تعالیٰ کے حضور لبیک لبیک پکارتے تھے- آج منیٰ کا دن ہے- آج ہی وہ دن ہے جس میں ابراہیمؑ نے اپنا
پاک نمونہ قربانی کا دکھلایا-
کوئی اس کی طاقت نہ رہی تھی جسے خدا پر قربان نہ کیا ہو- نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی بھی- یہ جمعہ کا دن ابراہیم کی قربانی اور مفاخر قومی کا روز ہے‘ جس میں عرب کے لوگ قبل اسلام بزرگوں کے تذکرے یاد کر کے فخر کیا کرتے تھے- اس میں خدا کا ذکر کرو جیسے فرمایا- فاذکروا اللہ کذکرکم اٰباء کم )البقرۃ:۲۰۱( خدا کے حضور ساری قوتوں کو قربان کرنے کے لئے خرچ کرو پھر دیکھو کہ تمھارے کام کیا پھل لاتے ہیں-
انسان خوشحالی چاہتا ہے اور دشمنوں کی ہلاکت- خدا تیار ہے مگر قربانی چاہتا ہے-
اولاد پر نمونے دکھائو جیسے اسماعیل نے دکھایا- پس نئے انسان بنو پھر دیکھو کہ خداتعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل تم کو کس طرح کی کوثر دیتا ہے اور تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے-
و اٰخر دعوانا ان الحمد للٰہ رب العالمین-۲~}~
۱~}~ )الحکم جلد ۳ نمبر۱۶ - ۵ / مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ تا ۵(
۲~}~ )الحکم جلد۳ نمبر۱۷ -- ۱۲ / مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۱ تا ۳ (
۲۰ / اکتوبر ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ الدھر کے پہلے رکوع کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا-:
یہ ایک وہ سورۃ شریف ہے جو جمعہ کے دن فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں پڑھی جاتی ہے-
اللہ تعالیٰ اس میں اول اپنے ان احسانات کا تذکرہ فرماتا ہے جو مولیٰ کریم نے انسان پر کئے ہیں - اس تذکرہ کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی کی فطرت اچھی ہو اور وہ سعادت مند ہو‘ فہیم ہو‘ عقل کی مار اس پر نہ پڑی ہو تو یہ بات ایسے انسان کی سرشت میں موجود ہے کہ جو کوئی اس پر احسان کرے تو محسن کی محبت طبعاً انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے- اسی طبعی تقاضائے فطرت کی طرف ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایما کر کے ارشاد فرمایا ہے- جبلت القلوب علیٰ حب من احسن الیھا )جامع الصغیر( یعنی انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے - اسی قاعدہ اور تقاضائے فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ طرز بھی اختیار کیا ہے کہ سعادت مندوں کو اپنے احسان وانعام یاد دلاتا ہے کہ وہ محبت الٰہی میں ترقی کر کے سعادت حاصل کریں- اندرونی اور بیرونی انعامات پر غور کریں اور سوچیں تا ان کی جناب الٰہی سے محبت ترقی کرے- پھر یہ بات بھی انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان کسی سے محبت بڑھا لیتا ہے تو محبوب کی رضامندی کے لئے اپنا وقت‘ اپنا مال‘ اپنی عزت و آبرو غرض ہر عزیز سے عزیز چیز کو خرچ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے- پس جب خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کے مطالعہ کی عادت پڑ جاوے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو گی اور روز بروز محبت بڑھے گی- اور جب محبت بڑھ گئی تو وہاپنی تمام خواہشوں کو رضاء الٰہی کے لئے متوجہ کر سکے گا اور اس رضاء الٰہی کو ہر چیز پر مقدم سمجھ لے گا-
دیکھو سب سے بڑا اور عظیم الشان احسان جو ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ ہم کو پیدا کیا- اگر کوئی دوست مدد دیتا ہے تو ہمارے پیدا ہونے اور موجود ہونے کے بعد- اگر کوئی بھلی راہ بتلا سکتا ہے یا علم پڑھا سکتا ہے‘ مال دے سکتا ہے- غرض کہ کسی قسم کی مدد دیتا ہے تو پہلے ہمارا اور اس چیز کا اور دینے والے کا وجود ہوتا ہے تب جا کر وہ مدد دینے والا مدد دینے کے قابل ہوتا ہے- غرض تمام انعاموں کے حاصل کرنے سے پیشتر جو کسی غیر سے ہوں پہلا اور عظیم الشان احسان خدا تعالیٰ کا یہ ہے کہ اس نے ہم کو اور اس چیز کو جس سے ہمیں راحت پہنچی اور جس نے ہمیں راحت پہنچائی اس کو وجود عطا کیا- پھر صحت و تندرستی عطا کی - اگر ذرا بھی بیمار ہو جاوے تو تمام راحت رساں چیزیں بھی راحت رساں نہیں رہتیں- دانت درد کرے تو اس کو نکالنا پسند ہو جاتا ہے- آنکھ دکھ دینے کا باعث بن جاوے تو گاہے اس کو نکالنا ہی پڑتا ہے-
برادران ! جب بیماری لاحق ہوتی ہے تب پتہ لگتا ہے کہ صحت کیسا انعام تھا- اس صحت کے حاصل کرنے کو دیکھو کس قدر مال خرچ کرنا پڑتا ہے- طبیبوں کی خوشامد‘ دعا والوں‘ تعویذ ٹوٹکے والوں کی منتیں‘ غرض قسم قسم کے لوگوں کے پاس جن سے کچھ بھی امید ہو سکتی ہے انسان جاتا ہے- دوائوں کے خرید کرنے میں کتنا ہی روپیہ خرچ کرنا پڑے بلا دریغ خرچ کرتا ہے- ایک آدمی مرنے لگتا ہے تو کہتے ہیں- دو باتیں کرا|دو خواہ کچھ ہی لے لو- حالانکہ اس نے لاکھوں باتیں کیں-
چونکہ ان لوگوں کو جو احسانات کا مطالعہ نہیں کرتے خبر بھی نہ تھی- غرض یہ سب انعامات جو ہم پر ہوتے ہیں ان میں سے اول اور بزرگ ترین انعام وجود کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے پس اس سورئہ|شریفہ میں اول اسی کا ذکر فرمایا- ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئاً مذکوراً )الدھر:۲( انسان پر کچھ زمانہ ایسا بھی گذرا ہے یا نہیں کہ یہ موجود نہ تھا-
میری حالت کو دیکھو- اس وقت میں کھڑا بول رہا ہوں مگر کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ سو‘ اسی برس پیشتر میں کہاں تھا؟ اور میرا کیا مذکور تھا- کوئی نہیں بتلا سکتا- یہ جناب الٰہی کا فیضان ہے کہ ایک ذرا سی چیز سے انسان کو پیدا کیا- چنانچہ فرماتا ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ )الدھر:۳( ہم نے انسان کو نطفہ سے بنایا- نطفہ میں صدہا چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان بنتا ہے- عام طور پر ہم لوگ ان کو دیکھ نہیں سکتے- کوئی بڑی اعلی درجہ کی خورد بین ہو تو اس کے ذریعہ سے وہ نظر آتے ہیں- پھر بتلایا کہ پہلا انعام تو عطاء وجود تھا پھر یہ انعام کیا فجعلنٰہ سمیعاً بصیراً- خدا ہی کا فضل تھا کہ کان دیئے‘ آنکھیں دیں اور سنتا دیکھتا بنا دیا-
سارے کمالات اور علوم کا پتہ کان سے لگ سکتا ہے یا نظارئہ|قدرت کو دیکھ کر انسان باخبر ہو سکتا ہے- یہ عظیم الشان عطیے بھی کس کی جناب سے ملے؟ مولیٰ کریم ہی کی حضور سے ملے- آنکھیں ہیں تو نظارئہ|قدرت کو دیکھتی ہیں- خدا کے پاک بندے اس کے پاک صحیفوں کو دیکھ کر حظ اٹھاتے ہیں- کان کے عطیہ کے ساتھ زبان کا عطیہ بھی آ گیا- کیونکہ کان اگر نہ ہوں تو زبان پہلے چھن جاتی ہے- اب اگر ان میں سے کوئی نعمت چھن جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ کیسی نعمت جاتی رہی- آنکھ بڑی نعمت ہے یا کان بڑی دولت ہے- ان عطیوں میں کوئی بیماری یا روگ لگ جاوے تو اس ذرا سے نقصان کی اصلاح کے لئے کس قدر روپیہ‘ وقت خرچ کرنا پڑتا ہے- مگر یہ صحیح سالم‘ عمدہ‘ بے عیب‘ بے روگ عطیے اس مولیٰ کریم نے مفت بے مزد عنایت فرمائے ہیں- یوں نظر اٹھاتے ہیں تو وہ عجیب در عجیب تماشا ہائے قدرت دیکھتے ہوئے آسمان تک چلی جاتی ہے- ادھر نظر اٹھاتے ہیں تو خوش کن نظارے دیکھتی ہوئی افق سے پار جا نکلتی ہے- کان کہیں دلکش آوازیں سن رہے ہیں‘ کہیں معارف|وحقایق قدرت کی داستان سے حظ اٹھاتے ہیں‘ کہیں روحانی عالم کی باتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں- بیشک یہ مولیٰ کریم ہی کا فضل اور احسان ہے کہ ایسے انعام کرتا ہے- پیدا کرتا ہے اور پھر ایسی بے بہا نعمتیں عطا کرتا ہے- کسی کی ماں‘ کسی کا دوست‘ کسی کا باپ وہ نعمتیں نہیں دے سکتا جو خدا تعالیٰ نے دی ہیں-
پھر اسی پر بس نہیں فرمائی- انا ھدیناہ السبیل )الدھر:۴( ہم نے انسان کو ایک راہ بتلائی- یہی ایک مسئلہ ہے جو بڑا ضروری تھا- ہم پیدا ہوئے سب کچھ ملا مگر کوئی کتنی کوششیں کرے ہمیشہ کے لئے نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا- سارے انبیاء و رسل‘ تمام اولیاء و کبرائ|ملت‘ تمام مدبر اور بڑے بڑے آدمی سب کے سب چل دئے- پس کوئی ایسا انعام ہو جو ابدلآباد راحت اور سرور کا موجب ہو- اس کے لئے فرمایا انا ھدیناہ السبیل ہم نے ایک راہ بتلائی‘ اگر اس پر چلے تو ابدالاباد کی راحت پا سکتا ہے- اس پاک راہ کی تعلیم ہمیشہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی معرفت ہوئی ہے- گو خود فطرت انسانی میں اس کے نقوش موجود ہیں- بہت مدت گذری جب کہ دنیا میں ایک عظیم الشان انسان اس پاک راہ کی ہدایت کے لئے آیا جس کا نام آدم علیہ السلام تھا- پھر نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ‘ عیسیٰ علیہم السلام آئے اور ان کے درمیان ہزاروں ہزار مامور من اللہ دنیا کی ہدایت کو آئے- اور ان سب کے بعد میں ہمارے سید و مولیٰ سید ولد آدم فخرالاولین و الآخرین افضل الرسل و خاتم النبیین حضرت محمد رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے- اور پھر کیسی رہنمائی فرمائی کہ ان کے ہی نمونہ پر ہمیشہ خلفائ|امت کو بھیجتا رہا- حتیٰ کہ ہمارے مبارک زمانہ میں بھی ایک امام اس ہدایت کے بتلانے کے لئے مبعوث فرمایا- اور اس کو اور اس کے اقوال کو تائیدات عقلیہ اور نقلیہ و آیات ارضیہ و سماویہ سے موید فرما کر روز بروز ترقی عطا کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح الٰہی ہاتھ ایک انسان کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح آئے دن اس کے اعداء نیچا دیکھتے ہیں- و الحمد للٰہ رب العالمین-
ہاں تو پھر خدا کی ایک ممتاز جماعت ہمیشہ اپنے اقوال سے اس راہ کو بتلاتی اور اپنے اعمال سے نمونہ دکھلاتی ہے جس سے ابدی آرام عطاء ہو- پھر دیکھو کہ انعام الٰہی تو ہوتے ہیں مگر ان انعامات کو دیکھنے والے دو گروہ ہوتے ہیں اما شاکراً و اما کفوراً- )الدھر:۴-( ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان ہدایات کی قدر کرتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو قدر نہیں کرتے ہیں- اور ان دستوروں پر عمل در آمد نہیں دکھاتے- ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے- ایک گروہ جو سعادتمندوں کا گروہ ہوتا ہے ان پاک راہوں کی قدر کرتا ہے اور اپنے عمل در آمد سے بتلا دیتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اس راہ کے چلنے والے اور اس راہ کے ساتھ پیار کرنے والے ہیں اور دوسرے اپنے انکار سے بتلا دیتے ہیں کہ وہ قدر نہیں کرتے- یہ قرآن|شریف جب آیا اور ہماری سید و مولیٰ‘ رسول اکرم‘ فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم اور پھر اپنے کامل اور پاک نمونہ سے ہدایت کی راہ بتلائی تو بہت سے نابکار‘ سعادت کے دشمن‘ انکار اور مخالفت پر تل پڑے- اور جو سعادت مند تھے وہ ان پر عمل کرنے کے لئے نکلے اور دنیا کے سرمایہ فخر و سعادت اور راحت و آرام ہوئے اور ان کے دشمن خائب و خاسر اور ہلاک ہوئے- آخر وہ سعادت کا زمانہ گزر گیا- دور کی باتیں کیا سنائوں- گھر کی اور آج کی بات کہتا ہوں- اب بھی اسی نمونہ پر ایک وقت لایا گیا اور وہی قرآن شریف پیش کیا گیا ہے- مگر سعادت مندوں نے قدر کی اور ناعاقبت اندیش نابکاروں نے ناشکری اور مخالفت-
مگر نادان انسان کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انعام الٰہی کی ناقدری کرنے سے ہم سے کوئی باز پرس نہ ہو گی- ان کا یہ خیال غلط ہے- دنیوی حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی حاکم کا حکم آجاوے اور پھر رعایا اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو سزا یاب ہوتی ہے- نہ ماننے والوں کا آرام رنج سے اور ان کی عزت ذلت سے متبدل ہو جاتی ہے- پھر اگر کوئی احکم الحاکمین کی بتائی راہ اپنا دستور العمل نہ بناوے تو کیونکر دکھوں اور ذلتوں سے بچ سکتا ہے-
یاد رکھو کہ حکم حاکم کی نافرمانی حسب حیثیت حاکم ہوا کرتی ہے- یہ ذلت بھی اسی قدر ہو گی جس قدر کہ حاکم کے اختیارات ہیں-
دنیا کے حاکم جو محدود حکومت رکھتے ہیں ان کی نافرمانی کی ذلت بھی محدود ہی ہے- مگر خدا تعالیٰ جو غیر|محدود اختیارات رکھتا ہے اس کے حکم کی خلاف ورزی میں ذلت بھی طویل ہوگی- گو یہ سچ ہے کہ ]nsk [tag سبقت رحمتی علیٰ غضبی میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے مگر جیسی کہ اس کی طاقتیں وسیع ہیں اسی انداز سے نافرمان کی ذلت بھی ہونی چاہئے اور ہو گی- ہاں بہت سی سزائیں ایسی ہیں کہ انسان ان کو دیکھتا ہے اور بہت سی سزائیں ہیں کہ ان کو نہیں دیکھ سکتے- تو غرض یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا کے قانون اور حکم کی اگر پرواہ نہ کریں گے تو کیا نقصان ہے؟ نہیں نہیں- خبردار ہو جائو- مولیٰ فرماتا ہے انا اعتدنا للکافرین سلاسلا و اغلالاً و سعیراً )الدھر:۵( منکر کو تین قسم کی سزا دیں گے-
ہر ایک انسان کا جی چاہتا ہے کہ میں آزاد رہوں- جہاں میری خواہش ہو وہاں پہنچ سکوں- پھر چاہتا ہے کہ جہاں چاہوں حسب خواہش نظارہ ہائے مطلوبہ دیکھوں اور آخر جی کو خوش کروں- کہیں جانا پڑے تو جائوں اور کہیں سے بھاگنا پڑے تو وہاں سے بھاگوں اور کسی چیز کو دیکھنا پڑے تو اسے دیکھوں- بہر|حال اپنا دل ٹھنڈا رکھوں-
پس یہ تین عظیم الشان امور ہیں- اگر کہیں جاتا ہے تو منشا ہے کہ دل خوش ہو- کسی کو دیکھتا ہے تو اس لئے کہ جان کو راحت ملے- نتیجہ بہر حال دل کی خوشی ہے مگر جب انسان خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے-
خدا تعالیٰ نے اولاً تین ہی نعمتوں کا ذکر کیا ہے عطاء وجود ‘ عطاء سمع ‘ عطاء بصر ‘ ان نعمتوں سے اگر کوئی جاتی رہے تو کیا سچی خوشی اور حقیقی راحت مل سکتی ہے ؟ کبھی نہیں - پھر خاص الخاص نعمت جو انبیاء علیہم|السلام کے ذریعہ ملی ہے اس کے انکار سے کب راحت پا سکتا ہے؟ قانون الٰہی اور شریعت خداوندی کو توڑتا ہے کہ راحت ملے مگر راحت کہاں؟ دیکھ لو ایک نابکار انسان حدود اللہ کو توڑ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے کہ اسے لذت و سرور ملے- مگر نتیجہ کیا ہے کہ اگر آتشک اور سوزاک میں مثلاً مبتلا ہو گیا تو بجائے اس کے کہ جسم کو راحت و آرام پہنچاوے دل کو سوزش اور بدن کو جلن نصیب ہوتی ہے- قانون الٰہی کو توڑنے والے کو راحت کہاں؟ پھر اس کے لئے انا اعتدنا للکافرین یعنی منکر انسان کے لئے کیا ہوتا ہے- پائوں میں زنجیر ہوتی ہے‘ گردن میں طوق ہوتا ہے جن کے باعث انواع و اقسام راحت و آرام سے محروم ہو جاتا ہے‘ دل میں ایک جلن ہوتی ہے جو ہر وقت اس کو کباب کرتی رہتی ہے- دنیا میں اس کا نظارہ موجود ہے مثلاً وہی نافرمان زانی‘ بدکار قسم قسم کے آلام جسمانی میں مبتلا ہو کر اندر ہی اندر کباب ہوتے ہیں اور پھر نہ وہاں جا سکتے ہیں نہ نظر اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں- اسی ہم و غم میں مصائب اور مشکلات پر قابو نہ پا کر آخر خودکشی کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں- دنیا میں ہدایت کے منکروں اور ہادیوں کے مخالفوں نے کیا پھل پایا؟
دیکھو! ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منکر جنہوں نے اس ابدی راحت اور خوشی کی راہ سے انکار کیا ان کا کیا حال ہوا؟ وہ عمائد مکہ جو ابوجہل‘ عتبہ‘ شیبہ وغیرہ تھے اور مقابلہ کرتے تھے وہ فاتح نہ کہلا سکے کہ وہ اپنے مفتوحہ بلاد کو دیکھتے اور دل خوش کر سکتے؟ ہرگز نہیں- ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی عزت گئی‘ آبرو نہ رہی‘ مذہب گیا‘ اولاد ہاتھ سے گئی- غرض کچھ بھی نہ رہا- ان باتوں کو دیکھتے اور اندر ہی اندر کباب ہوتے تھے اور اسی جلن میں چل دیئے- یہ حال ہوتا ہے منکر کا- جب وہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا انکار کرتا ہے تو برے نتائج کو پا لیتا ہے اور عمدہ نتائج اور آرام کے اسباب سے محروم ہو جاتا ہے-۱~}~
پھر دوسرے گروہ اما شاکراً )الدھر:۴( کا ذکر فرمایا کہ شکر کرنے والے گروہ کے لئے کیا جزا ہے- ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافوراً- )الدھر:۶( بے شک ابرار لوگ کافوری پیالوں سے پیئیں گے-
ابرار کون ہوتے ہیں؟ جن کے عقائد صحیح ہوں اور ان کے اعمال صواب اور اخلاص کے نیچے ہوں اور جو ہر دکھ اور مصیبت میں اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی نارضامندی سے محفوظ رکھ لیں-
خود جناب الٰہی ابرار کی تشریح فرماتے ہیں- سورۃ البقرۃ میں فرمایا- لیس البر ان تولوا وجوھکم )البقرۃ:۱۷۸( ابرار کون ہوتے ہیں؟
اول جن کے اعتقاد صحیح ہوں کیونکہ اعمال صالحہ دلی ارادوں پر موقوف ہیں- دیکھو ایک اونٹ کے ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ایک بچہ بھی اسے جہاں چاہے‘ جدھر لے جائے‘ لئے جاتا ہے- لیکن اگر کنوئیں میں گرانا چاہیں تو خواہ دس آدمی بھی مل کر اس کی نکیل کو کھینچیں ممکن نہیں وہ قدم اٹھا جاوے- ایک حیوان|مطلق بھی اپنے دلی ارادے اور اعتقاد کے خلاف کرنا نہیں چاہتا- وہ سمجھتا ہے کہ قدم اٹھایا اور ہلاک ہوا- پھر انسان اور سمجھدار انسان کب اعتقاد صحیحہ رکھتا ہوا اعمال بد کی طرف قدم اٹھا سکتا ہے- اس لئے ابرار کے لئے پہلے ضروری چیز یہی ہے کہ اعتقاد صحیحہ ہوں اور وہ پکی طرح پر اس کے دل میں جاگزیں ہوں- اگر منافقانہ طور پر مانتا ہے تو کاہل ہو گا حالانکہ مومن ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے- ان اعتقادات صحیحہ میں سے پہلا اور ضروری عقیدہ خدا تعالیٰ کا ماننا ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام خوبیوں کا چشمہ ہے- دنیا میں ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جب تک دوسرے سے مناسبت پیدا نہ ہو اس کی طاقتوں اور فضلوں سے برخوردار نہیں ہو سکتا- جب انسان قرب الٰہی چاہتا ہے اور اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے خاص فضل اور رحمتوں سے بہرہ ور اور برخوردار ہو جائے تو اسے ضروری ہے کہ ان باتوں کو چھوڑ دے جو خدا تعالیٰ میں نہیں یا جو اس کی پسندیدہ نہیں ہیں- جس قدر عظمت الٰہی دل میں ہو گی اسی قدر فرمان برداری کے خیالات پیدا ہوں گے اور رذائل کو چھوڑ کر فضائل کی طرف دوڑے گا- کیا ایک اعلی علوم کا ماہر جاہل سے تعلق رکھ سکتا ہے یا ایک ظالم طبع انسان کے ساتھ ایک عادل مل کر رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں- پس خدا تعالیٰ کی برکتوں سے برخوردار ہونے کے لئے سب سے ضروری بات صفات الٰہی کا علم حاصل کرنا اور ان کے موافق اپنا عمل درآمد کرنا ہے-
اگر یہ اعتقاد بھی کمزور ہو تو ایک اور دوسرا مسئلہ ہے جس پر اعتقاد کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی فرماں|برداری میں ترقی کر سکتا ہے وہ جزا و سزا کا اعتقاد ہے- یعنی افعال اور ان کے نتائج کا علم مثلاً یہ کام کروں گا تو نتیجہ یہ ہو گا- برے نتائج پر غور کر کے انسان‘ ہاں سعید الفطرت انسان برے کاموں سے جو ان نتائج بد کا موجب ہیں پرہیز کرے گا اور اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش- یہ دونو اعتقاد نیکیوں کا اصل الاصول اور جڑیں ہیں یعنی اول خدا تعالیٰ کی صفات اور محامد کا اعتقاد اور علم تاکہ قرب الٰہی سے فائدہ اٹھاوے اور رذائل کو چھوڑ کر فضائل حاصل کرے-
دوسرا یہ کہ ہر فعل ایک نتیجہ کا موجب ہوتا ہے- اگر بدافعال کا مرتکب ہو گا تو نتیجہ بد ہو گا- ہر انسان فطرتاً سکھ چاہتا ہے اور سکھ کے وسائل اور اسباب سے بے خبری کی وجہ سے افعال بد کے ارتکاب میں سکھ تلاش کرتا ہے مگر وہاں سکھ کہاں؟ اس لئے ضروری ہے کہ افعال اور ان کے نتائج کا علم پیدا کرے اور یہی وہ اصل ہے جس کو اسلام نے جزا و سزا کے لفظوں سے تعبیر کیا ہے-
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تجربہ کار اور واقف کار لوگوں کے بتلائے ہوئے مجرب نسخے آرام و صحت کے لئے چاہتا ہے- اگر کوئی ناواقف اور ناتجربہ کار بتلائے تو تامل کرتا ہے- پس نبوت حقہ نے جو راہ دکھلائی ہے وہ تیرہ سو برس سے تجربہ میں آ چکی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے راحت کے جو سامان بتلائے ہیں ان کا امتحان کرنا آسان ہے-
غور کرو اور بلند نظری سے کام لو! عرب کو کوئی فخر حاصل نہ تھا- کس سے ہوا؟ اسی نسخہ سے! کیا عرب میں تفرقہ نہ تھا؟ پھر کس سے دور ہوا؟ ہاں اسی راہ سے!! کیا عرب نابودگی کی حالت میں نہ تھے- پھر یہ حالت کس نے دور کی؟ ماننا پڑے گا کہ اسی نبوت حقہ نے!!!
عرب جاہل تھے‘ وحشی تھے‘ خدا سے دور تھے- محکوم نہ تھے تو حاکم بھی نہ تھے- مگر جب انہوں نے قرآن کریم کا شفابخش نسخہ استعمال کیا تو وہی جاہل دنیا کے استاد اور معلم بنے- وہی وحشی متمدن دنیا کے پیشرو اور تہذیب و شائستگی کے چشمے کہلائے- وہ خدا سے دور کہلانے والے خداپرست اور خدا میں ہو کر دنیا پر ظاہر ہوئے- وہ جو حکومت کے نام سے بھی ناواقف تھے دنیا بھر کے مظفر و منصور اور فاتح کہلائے- غرض کچھ نہ تھے سب کچھ ہو گئے- مگر سوال یہی ہے کیونکر؟ اسی قرآن کریم کی بدولت‘ اسی دستور العمل کی رہبری سے- پس تیرہ سو برس کا ایک مجرب نسخہ موجود ہے جو اس قوم نے استعمال کیا جس میں کوئی خوبی نہ تھی اور خوبیوں کی وارث اور نیکیوں کی ماں بنی- غرض یہ مجرب نسخہ ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے قرب اور سکھ کی تلاش چاہو اسی قدر جن کے محامدالٰہیہ اور صفات باری تعالیٰ پر ایمان لائو- کیونکہ اسی قدر انسان رذائل سے بچے گا اور پسندیدہ باتوں کی طرف قدم اٹھائے گا-
حاصل کلام‘ ابرار بننے کے لئے مندرجہ بالا اصول کو اپنا دستور العمل بنانا چاہئے- میں نے ذکر یہ شروع کیا تھا کہ شاکر گروہ کا دوسرا نام قرآن کریم نے ابرار رکھا ہے اور ان کی جزا یہ بتلائی ہے کہ کافوری پیالوں سے پیئیں گے- چنانچہ فرمایا ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافوراً )الدھر:۶( پہلے ان کو اس قسم کا شربت پینا چاہئے کہ اگر بدی کی خواہش پیدا ہو تو اس کو دبا لینے والا ہو- کافور کہتے ہی دبا دینے والی چیز کو ہیں- اور کافور کے طبی خواص میں لکھا ہے کہ وہ سمی امراض کے مواد ردیہ اور فاسدہ کو دبا دیتا ہے اور اسی لئے وبائی امراض طاعون اور ہیضہ اور تپ وغیرہ میں اس کا استعمال بہت مفید ہے- تو پہلے انسان یعنی سلیم الفطرت انسان کو کافوری شربت مطلوب ہے- قرآن|کریم نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا فمنھم ظالم لنفسہ )فاطر:۳۳( پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو برگزیدہ ہیں- پس بعض ان میں سے ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبر و اکراہ سے نفس امارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں-
دوسرا گروہ میانہ رو آدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے بجبر|و|اکراہ لیتے ہیں اور بعض الٰہی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجا لاتا ہے- غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی فرماں|برداری ان سے صادر ہوتی ہے-
تیسرے سابق بالخیرات اور اعلی درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے جو نفس امارہ پر بکلی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں-
غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں- پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوت کو دباوے- شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتدا میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہو گی- شہوت کے وقت عفت سے کام لے اور قوائے|شہوانیہ کو دباوے- اسی طرح جھوٹ بولنے والا‘ سست‘ منافق‘ راستبازوں کے دشمنوں کو بدیاں چھوڑنے کے لئے جان پر ظلم کرنا پڑے گا تاکہ یہ اس طاقت پر فاتح ہو جائیں-
بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی- کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گو کسی وقت کچھ خواہش|بد پیدا بھی ہو جاوے‘ ایک لذت اور سرور بھی حاصل ہو جایا کرے گا مگر تیسرے درجہ میں پہنچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آ جاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الٰہی کا شرف عطا ہو گا- تو سب سے پہلے ابرار کو کافوری شربت دیا جاوے گا تاکہ بدیوں اور رذائل کی قوتوں پر فتح مند ہو جاویں اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ بدیوں کو دباتے دباتے نیکیوں میں ترقی کرتا ہے اور پھر وہ ایک خاص چشمہ پر پہنچ جاتا ہے- عیناً یشرب بھا عباد اللہ یفجرونھا تفجیراً- )الدھر:۷( وہ ایک چشمہ ہے کہ اللہ کے بندے اس سے پیتے ہیں- صرف خود ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کو بھی مستفید کرتے ہیں اور ان چشموں کو چلا کر دکھاتے ہیں-
فطرت انسانی پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ تمام قویٰ پہلے کمزوری سے کام کرتے ہیں- چلنے میں‘ بولنے میں‘ پکڑنے میں‘ غرض ہر بات میں ابتداء لڑکپن میں کمزوری ہوتی ہے- لیکن جس قدر ان قویٰ سے کام لیتا ہے اسی قدر طاقت آ جاتی ہے- پہلے دوسرے کے سہارے سے چلتا ہے پھر خود اپنے سہارے چلتا ہے- اسی طرح پہلے تتلا کر بولتا پھر نہایت صفائی اور عمدگی سے بولتا ہے‘ پکڑتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ- گویا بتدریج نشو و نما پاتا ہے- اگر چند طاقتوں سے کام لینے کو چھوڑ دے تو وہ طاقتیں مردہ یا پژمردہ ضرور ہو جاتی ہیں- یہی معنی ہیں جب انسان بدی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو طاقت کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کے قویٰ بالکل ازکار رفتہ ہوتے ہیں- یہ کوئی ظلم نہیں اگر کسی حاکم کو حکومت دی جاوے اور وہ فرائض منصبی کو ادا نہ کرے تو نگران گورنمنٹ اس کے وہ اختیارات سلب کر دے گی اور اسے معزول کرے گی اور اگر اس حالت کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی پروا نہ کرے تو یہ امر عاقبت اندیشی اور عقل کے خلاف ہے کہ |سست انسان کے پاس رکھی جاوے- ایسے ہی وہ انسان ہے جو ایمانی قویٰ کو خرچ نہیں کرتا‘ وہ ابرار کے زمرہ میں رہ نہیں سکتا-
جن کے عقائد حقہ ہیں یعنی وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں- جزا و سزا اور خدا کی کتابوں اور انبیائ|علیہم|السلام پر ایمان لاتے ہیں- پھر ان وسائط کو مانتے ہیں جن کا مقصود اتم فرمان برداری ہے- پھر عمل کے متعلق کیا چاہئے- سب سے زیادہ عزیز مال ہے- پانچ روپے کا سپاہی پانچ روپیہ کے بدلے میں عزیز جان دے دینے کو تیار ہے- ماں باپ اس روپیہ کے بدلے اس عزیز چہرہ کو جدا کر دیتے ہیں- تو معلوم ہوا کہ مال کی طرف انسان بالطبع جھکتا ہے- لیکن جب خدا سے تعلق ہو تو پھر مال سے بے تعلقی دکھاوے اور واقعی ضرورتوں والے کی مدد کرے- مسکینوں کو دے جو بیدست و پا ہیں- رشتہ داروں کی خبر لے- کوئی کسی ابتلا میں پھنس گیا ہو تو اس کے نکالنے کی کوشش کرے- مگر سب سے مقدم ذوی القربیٰ کو فرمایا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ذوی القربیٰ کے ساتھ سلوک کرنا زیادتی عمر کا موجب ہے- یتیموں کی خبر لے- پھر جو بے دست و پا ہیں ان کی خبر لے- پھر جو علم پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھتے ہیں اور مصیبت میں مبتلا شدہ لوگوں کی خبر لے- پس جناب الٰہی کے ساتھ تعلق ہو اور دنیا اور اس کی چیزوں سے بے تعلقی دکھلاوے- پھر جناب الٰہی کی راہ میں جان کو خرچ کرے-
خدا تعالیٰ کی راہ میں جان خرچ کرنے کی پہلی راہ کیا ہے؟ نمازوں کا ادا کرنا- نماز مومن کا معراج ہے- نماز میں ہر قسم کی نیازمندیاں دکھائی گئی ہیں- غرض کافوری شربت پیتے پیتے انسان اس چشمہ پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے شفقت علی خلق اللہ کی توفیق دی جاتی ہے-
پھر بتلایا کہ جو معاہدہ کسی سے کریں اس کی رعایت کرتے ہیں- مسلمان سب سے بڑا معاہدہ خدا سے کرتا ہے کہ میں نیک نمونہ ہوں گا- میں فرمان بردار ہوں گا- میں اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہ دوں گا- اور ایسا ہی ہماری جماعت امام کے ہاتھ پر معاہدہ کرتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا- رنج میں‘ راحت میں‘ عسر یسر میں‘ قدم آگے بڑھائوں گا- بغاوت اور شرارت کی راہوں سے بچنے کا اقرار کرتا ہے- غرض ایک عظیم الشان معاہدہ ہوتا ہے- پھر دیکھا جاوے کہ نفسانی اغراض اور دنیوی مقاصد کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا دین کو مقدم کرتا ہے- عامہ مخلوقات کے ساتھ نیکی اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصاً نیکی کرتا ہے یا نہیں؟
ہر امر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے- مقدمہ ہو تو جھوٹے گواہوں‘ جعلی دستاویزوں سے محترز رہے- دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے وعظ کہنا بھی مفید امر ہے- اس سے انسان اپنے آپ کو بھی درست بنا سکتا ہے- جب دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اپنے دل پر چوٹ لگتی ہے-
امر بالمعروف بھی ابرار کی ایک صفت ہے اور پھر قسم قسم کی بدیوں سے رکتا ہے- المختصر یفجرونھا تفجیراً- جب خود بھلائی حاصل کرتے ہیں‘ ظالم لنفسہ ہوتے ہیں تو دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں- یوفون بالنذر )الدھر:۸( جو معاہدہ جناب الٰہی سے کیا ہو اس کو وفاداری سے پورا کرے اور نیکی یوں حاصل کرے کہ میرے ہی افعال نتائج پیدا کریں گے-
ایک فلسفی مسلمان کا قول ہے-
گندم از گندم بروید جو ز جو
از مکافات عمل غافل مشو
و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکیناً و یتیماً و اسیراً )الدھر:۹( اور کھانا دینے میں دلیر ہوتے ہیں- مسکینوں‘ یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں- قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے- ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھوکے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں! تم کو خدا ہی دے دیتا اگر دینا منظور ہوتا- قرآن کریم میں سورۃیٰس میں ایسا لکھا ہے و قال الذین کفروا للذین اٰمنوا ا نطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ )یٰس:۴۸-( آج کل چونکہ قحط ہو رہا ہے انسان اس نصیحت کو یاد رکھے اور دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدر وسعت تیار رہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے یتیموں‘ مسکینوں اور پابند بلا کو کھانا دیتا رہے- مگر صرف اللہ کے لئے دے- یہ تو جسمانی کھانا ہے- روحانی کھانا ایمان کی باتیں‘ رضاء الٰہی اور قرب کی باتیں‘ یہاں تک کہ مکالمہ الہیہ تک پہنچا دینا‘ اسی رنگ میں رنگین ہونا ہے- یہ بھی طعام ہے- وہ جسم کی غذا ہے‘ یہ روح کی غذا-
منشا یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں انا نخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً )الدھر:۱۱( کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں- عبوس تنگی کو کہتے ہیں- قمطریر دراز یعنی قیامت کا دن‘ تنگی کا ہو گا اور لمبا ہو گا- بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دے دیتا ہے- نتیجہ یہ ہوتا ہے فوقٰھم اللہ شر ذٰلک الیوم و لقٰھم نضرۃ و سروراً )الدھر:۱۲( خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچا لیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے-
میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنگیوں سے بچ جائو گے- خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالاباد کی عزت اور راحت کے لئے بھی کوشش کریں آمین-
۱~}~ )الحکم جلد۳ نمبر۳۸ ۔۔۔ ۲۴ / اکتوبر ۱۸۹۹ء صفحہ۳ تا ۶ (
۲~}~ )الحکم جلد۳ نمبر۴۱ ۔۔۔ ۱۷ / نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۱ تا ۴ (
* - * - * - *
‏KH1.3
خطبات|نور خطبات|نور
۱۲ / نومبر ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلسہ~ن۲~ الوداع کے موقعہ پر
صحبت صادقین
کے موضوع پر خطاب
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۱۹(
ہر ایک مریض و بیمار کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ اپنی زندگی اور صحت کی کچھ بھی قدر جانتا ہے تو کسی تجربہ کار طبیب کے حضور حاضر ہو اور اپنی بیماری کے حالات عرض کرے اور پھر صبر اور استقلال کے ساتھ اس کے علاج اور طبی مشورے سے فائدہ اٹھائے- گھبرائے نہیں! بے دل نہ ہو! جلدبازی نہ کرے! بدپرہیز نہ ہو- طبیب کی رائے میں اپنی رائے کا دخل نہ دے اور نہ کسی دوسرے کی رائے کو اس پر مقدم کرے- اور پوری احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ اس کے تجویز کردہ نسخہ کو استعمال کرے- یہ قاعدے اور اصول ہیں جو ہر مریض کو اختیار کرنے چاہئیں- اگر اس کا مرض حد علاج سے باہر نہیں ہو گیا یعنی مرض اس پر پورا پورا اثر کرکے اس کے قویٰ کو مضمحل اور بیکار نہیں کر چکا تو ضرور ہے کہ اس تجربہ کار طبیب سے فائدہ اٹھائے- لیکن اگر مرض اس کو کھا چکا ہے اور علاج کے لئے کوئی وقت اور موقع باقی نہیں رہا تو گو وہ مریض بچ نہ سکے تاہم کسی نہ کسی حد تک فائدہ اٹھائے گا- لیکن اگر مریض ان قواعد کی پیروی نہیں کرتا اور جلدبازی اور عجلت سے کام لیتا ہے تو طبیب اس کی کیا پروا کرے گا- کچھ بھی نہیں- اور وہ شخص جس سے طبی مشورہ لیا جاوے جس کی صحبت میں رہ کر اپنے دکھوں کا علاج کیا جاوے اس کا تجربہ کار ہونا ضروری ہے-
اس اصل کو یاد رکھنے کے بعد اب یہ سمجھنا چاہئے کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو جسمانی امراض ہوتے ہیں اور دوسرے روحانی‘ جسمانی امراض کا اثر بھی روح پر پڑتا ہے- اس لئے سرور عالم فخر ولد آدم صلی اللہ علیہ و سلم نے علوم کی تقسیم بیان فرماتے ہوئے یہی فرمایا العلم علمان علم الابدان و علم الادیان علم الابدان کو علم الادیان پر مقدم اسی لئے کیا ہے-
یہ مسئلہ بہت ہی صاف اور واضح ہے کہ جسمانی امور اور حوادث کا اثر روح پر ضرور پڑتا ہے- اگر کسی کے سر میں چوٹ لگ جاوے تو اس کی قوت حافظہ متفکرہ اور دوسرے عقلی قویٰ میں فتور آ جاتا ہے- انسان اگر بیرونی حوادث سے متاثر ہو تو اس کی روح پر بھی ایک اثر ہوتا ہے اور اس کے قلب میں رقت پیدا ہو جاتی ہے- غرض اس امر کی بہت سی مثالیں ہیں اور اس پر مجھ کو کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک عام مسلم بات ہے-
جس طرح پر جسمانی امراض بے شمار ہیں اسی طرح روحانی امراض بھی کثرت سے ہوتی ہیں اور ہر عضو اور قوت کی جدا جدا بیماریاں ہوتی ہیں- بہت سی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کو بالکل معمولی باتیں سمجھتا ہے لیکن وہ اندر ہی اندر اپنی باریک رفتار سے بہت سی روحانی قوتوں کا ستیاناس کر دیتی ہیں اور آخر روحانی طور پر انسان کو ہلاک کر دیتی ہیں- پس جیسے کسی جسمانی عارضہ کو گو وہ کیسا ہی خفیف کیوں نہ ہو کبھی خفیف نہیں سمجھنا چاہئے اور تجربہ کار اور حاذق طبیب کی صحبت میں رہ کر اس کے مشورہ اور ہدایت کے موافق علاج اور پرہیز کے اصول مدنظر رکھ کر علاج کرنا ضروری ہے اسی طرح پر روحانی امراض کے علاج کی فکر چاہئے- علاج کرانے کے اصول اس میں بھی وہی ہیں جو جسمانی علاج کے ہیں یعنی بدظنی نہ ہو‘ شتاب|کاری‘ بدپرہیزی اور اپنی یا کسی اور کی رائے کا تقدم طبیب کی رائے پر نہ ہو- ایسا مریض فائدہ اٹھانے کی توقع کر سکتا ہے- اور فائدہ اٹھاتا ہے- خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے موقع دیا ہے کہ امراض اور ان کے علاج کا ایک علم اور تجربہ مجھے عطا فرمایا اور ایک فقیر سے لے کر بادشاہ‘ جاہل سے لے کر عالم‘ غرض ہر طبقہ اور عمر کے لوگوں کے امراض اور ان کے طرز علاج کا علم سیکھا- اور چونکہ جسمانی اور روحانی امراض کے اصول ایک ہی ہیں‘ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باریک در باریک روحانی امراض کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے اور میں مولیٰ کریم کی حمد کرتا ہوں اور اس کا شکر گذار ہوں کہ اس نے جیسے مجھے امراض کا علم عطا کیا اس کے علاج کی طرف بھی توجہ دلائی اور تمام قسم کے روحانی امراض کا مجرب نسخہ میں نے پا لیا- وہ مجرب نسخہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف ہے جس کے نام رحمت‘ ہدایت‘ شفا‘ نور‘ فرقان‘ کتاب|منیر وغیرہ وغیرہ ہیں- اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بھی احسان کیا کہ اس نسخہ کا عشق اور محبت میرے دل میں ڈال دی اور اس رحمت اور شفا کتاب کو میرے لئے روحانی غذا بنا دیا جس کے بغیر میں سچ کہتا ہوں کہ زندہ نہیں رہ سکتا-
اور پھر اس کے فضلوں میں سے ایک عظیم الشان فضل مجھ پر یہ بھی ہے کہ اس نسخہ کا سچا عامل اور حاذق طبیب جو اس زمانہ کے مریضوں کے لئے مسیح ہے اس کا مجھے پتہ دیا اور نہ صرف پتہ بلکہ اس کی خدمت میں پہنچا کر مجھے موقع اور توفیق دی کہ میں اپنی روحانی امراض کا علاج کروں- چنانچہ میں یہ ساری باتیں تحدیث بالنعمت کے طور پر ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے اس کی صحبت میں رہ کر اپنی بہت سی بیماریوں سے خدا کے فضل سے شفاء پائی اور بہت سے امراض ہیں جو دور ہو رہے ہیں- میں چونکہ اصول علاج سے واقف اور تجربہ کار ہوں اس لئے میں جو کچھ کہوں گا وہ خیالی اور فرضی باتیں نہیں ہو سکتیں اور میں اس لئے بیان کرتا ہوں کہ شائد کسی کو فائدہ پہنچ جاوے-
قرآن شریف کو غور سے پڑھنے اور اس زمانہ کی حالت پر فکر کرنے کے بعد جبکہ وہ نازل ہوا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قدر امراض روحانی طور پر ہو سکتے ہیں اور میرا تو یقین ہے کہ جسمانی بھی‘ وہ سب کے سب اس نسخہ کے استعمال سے پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر ہو چکے ہوں تو دور ہو جاتے ہیں- لیکن اس کے لئے ضرورت ہے صدق کی‘ ضرورت ہے استقلال اور صبر کی‘ ضرورت ہے حسن ظن کی- یہ ایک عام اصول ہے کہ ہر مریض کو ضروری ہے کہ وہ کسی تجربہ کار طبیب کے حضور حاضر ہو اور اس طبیب کو ضروری ہے کہ تجربہ شدہ نسخہ اس کے علاج کے لئے استعمال کرے- دنیا میں جس قدر امراض اس وقت ہیں یا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ہو چکی ہیں وہ سب کی سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھیں- سب سے بڑھ کر قابل عزت و عظمت اللہ تعالیٰ کی کتاب ہو سکتی ہے اور ہے- لیکن اس زمانہ میں اللہ کی کتاب ایسی چھوٹ گئی تھی کہ کتاب اللہ کا کہیں پتہ ہی نہیں ملتا تھا- چنانچہ طبقات الارض کے محققوں کو بھی باوجودیکہ انہوں نے زمین کو کھود ڈالا اس کا پتہ نہ ملا بلکہ صرف ترجمہ در ترجمہ رہ گئے جس سے ایک آدمی جو سمجھدار ہو اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے تھے کن مشکلات اور مصائب میں مبتلا تھے- وہ قوم جو اپنی عقلوں اور علوم پر آج ناز کرتی ہے‘ اپنی صنعتوں اور ملمع سازیوں پر اتراتی اور خدائی کے دعوے کرتی ہے‘ اس کا یہ حال کہ بغل میں جو کچھ لئے پھرتی ہے اس کے اصل کا ہی پتہ نہیں- مذہب کا معاملہ‘ ابدی رنج و راحت کا سوال‘ مگر افسوس اس کے حل کرنے کی کلید‘ روحانی امراض کا شفا بخش نسخہ- خدا کی کتاب پاس نہیں اور جو پاس ہے وہ ترجمہ در ترجمہ ہے اور اس کو لے کر خوش ہو رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے- افسوس اس قوم پر جو اپنی توجہات سے باریک در باریک راہیں نکالتی ہے کلام اللہ سے اس طرح محروم ہے اور تعجب اور عبرت کی جگہ ہے کہ اس کا فخر ایسا ملیامیٹ ہوا کہ سچی کتاب کا پتہ نہیں کہ کہاں گئی-
یہ دنیا کی معزز قومیں جیسی اس وقت اپنی کتاب کا پتہ نہ دے سکتی تھیں اور اس طرح پر گواہی دے رہی تھیں کہ ہادی کامل کے آنے کے وقت دنیا کی کیا حالت ہوتی ہے- آج بھی باوجود تیرہ سو سال کے ترقیوں کے اسی طرح اپنی کتاب کی اصلیت پیش کرنے سے قاصر اور بے دست و پا ہے- میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک طرف یہ قوم اس قدر بلند پروازیاں کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کے دعوے کرتی اور رموز قدرت میں سے بہت سے امور کو اپنے قبضہ میں کر لینے کی مدعی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ حال کہ اصل کتاب کا پتہ نہیں دے سکتی! یہ صدی لا انتہا نہیں تو کثیر التعداد ترقیوں کی صدی کہلاتی ہے- لیکن مذہب کے معاملہ میں کتاب اللہ کی تفتیش اور تحقیق کے متعلق ایسی گری ہوئی صدی ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ اس معاملہ کو تاریکی میں گرا دیا ہے- ۱~}~
آزاد خیال )فری تھنکرز( لوگوں نے کوشش کی ہے کہ یورپ کو مذہب ہی کی قید سے آزاد کریں- یہ ایک اور ثبوت ہے کہ اس وقت ایک ہادی کی ضرورت ہے- غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت یہ تو پچھلوں کا حال تھا جن کی کتاب کو نازل ہوئے پورے چھ سو سال بھی نہ ہوئے تھے‘ تو ان سے پہلوں کا کیا حال؟ توریت شریف کے محافظ جو انبیاء اللہ اور احبار کہلاتے تھے ان کا یہ حال ہے کہ وہی توریت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں اسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی ذکر کیا ہے حالانکہ یہ ناممکن بات ہے کیونکہ وفات کا واقعہ حضرت موسیٰؑ کے بعد کا ہی ہو سکتا ہے- اور پھر قبر کا پتا نہیں‘ یہ بھی اس میں لکھا ہے- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا اندراج بعد میں ہوا ہے اور اس سے صاف کھل جاتا ہے کہ اصل توریت کی کیا حالت تھی اور وہ کہاں تک علماء یہود کی دست برد کے نیچے تھی- اس میں کمی بیشی کرنے کے لئے وہ کیسے بے باک اور دلیر تھے؟ اپنے مذہبی شعائر سے ایسے ناواقف اور بے|خبر کہ بیت اللہ کی تعیین میں ہی ان کو شبہ پڑا ہوا تھا جیسا کہ انجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے-
غرض یہ تو ان دو قوموں کا حال ہے جو اپنے آپ کو صاحب کتاب سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کھلے طور پر جن کا مصدق بھی ہے- پھر ان دو سے پہلے جو قومیں گذری ہیں ان کے بقیہ~ن۲~ السلف جو اس وقت موجود ہوں گے ان کی حالت کا اسی پر قیاس کر لو- ہمارے اس ملک میں ایک قوم اٹھی ہے جس کو زمانہ کے تازیانہ نے یا ترقی کی ہوا نے بیدار کیا ہے- وہ بھی ایک کتاب لے کر میدان میں نکلی ہے اور اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہے کہ اس کتاب کو دوسری کتابوں کے بالمقابل کوئی جگہ دے- مگر مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی کتاب کا پتہ جرمن سے ورے نہیں ملتا- اور اگر اب پائی بھی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا سمجھنے والا ہی کوئی نہیں- پہلوں نے جو ترجمے کئے‘ بھاش لکھے‘ ٹیکا کئے وہ بالکل غیر مفید‘ غیر متعلق اور خانہ ساز تھے‘ اصل عبارات سے ان کا کچھ تعلق نہیں ہے-
میں جب ایسی آوازیں سنتا ہوں تو میری حیرت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ کتاب کی اصل غرض عمل ہوتی ہے اور عمل کے لئے مطلوب ہے اس کا علم اور واقفیت اور وہ یہاں مفقود ہے پھر اس کتاب کا فائدہ کیا؟
غرض جس قدر اس سوال پر میں نے سوچا ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے مدتوں سوچا ہے اور بالکل خالی الذہن ہو کر محض سچائی اور راستی کے لینے کے لئے سوچا ہے اسی قدر میرا تعجب اور افسوس بڑھا ہے ان قوموں پر‘ ان کتابوں پر- اور شرح صدر ہوا ہے قرآن کریم کی تعلیمات کی سچائی پر اور اس کے لانے والے کی صداقت پر اور بے اختیار ہو کر میرے دل سے نکلا ہے- اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد و بارک و سلم
دنیا کے مختلف مذاہب اور ان کی مذہبی کتابوں اور ان کے ماننے والوں کی عملی حالت نے مجھے ضرورت|قرآن کی طرف بڑی بھاری رہنمائی کی ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں اور اسی لئے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے گوشہ تنہائی میں دل کو صاف کر کے اس تفرقہ مذاہب اور حالت مذاہب پر نظر کرے گا‘ اگر اس کے دل میں کچھ بھی سلامتی اور فطرت میں سعادت‘ سر میں‘ دماغ اور عقل میں قوت|فیصلہ ہے‘ تو وہ اس نتیجہ پر بہت جلد پہنچ جاوے گا کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو انسان کے روحانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور قرآن شریف ہی ایک کامل کتاب ہے جو انسان کی زندگی کو مفید اور ان اغراض کے ماتحت کرنے کے لئے اکیلی حاوی ہے جن کے لئے وہ پیدا ہوا ہے- پھر عرب کی حالت اور بھی قابل غور ہے- اس کے اردگرد یہ تینوں قومیں آباد تھیں- ہندوستان میں وید کے ماننے والے- ایران میں زرتشتی مذہب کے پیرو اور شام میں اور عرب کے حﷺ میں عیسائی اور یہود- لیکن کس قدر تعجب|خیز بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا قوی التاثیر مذہب نہ ہوا کہ عربوں پر اپنا اثر ڈال سکتا-
تاریخ دنیا کا مصنف )جو ہمارے سید و مولا امام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ایک دعا کا نشانہ اور اسلام کی صداقت پر ایک نشان ہے( جس نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو براہین احمدیہ کی تکذیب لکھ کر مکذب کہا ہے‘ عرب کو آریوں کا راستہ بتاتا ہے کہ وہ مصر کو اسی راستہ سے جاتے تھے- مگر مجھے ہمیشہ ہی تعجب رہا کہ وہ صداقتیں جو وید میں تھیں یا تو ان آریوں کو بھی معلوم نہ تھیں جو مصر کو عرب کے راستہ سے جاتے تھے اور یا ایسی کمزور اور بودی تھیں کہ عرب جیسے مشرکوں پر کوئی اثر ہی نہ ڈال سکتی تھیں- اسی طرح پر عیسائیوں اور یہودیوں اور زردشتیوں کے فیضان سے عرب محروم کا محروم ہی رہا- مگر یہ کیا معجزہ ہے کہ عرب میں جب فاران کی چوٹیوں اور حرا کے غاروں سے ایک نور نکلا تو اس نے ہند پر اپنا اثر ڈالا- ایران پر اپنا اثر ڈالا اور عیسائیوں اور یہودیوں پر اپنا اثر ڈالا- وہ عرب جن پر کسی کا اثر نہ پڑا تھا ان کے اثر سے سب کے سب متاثر ہو گئے اور اس کے نور سے سب نے حصہ لیا-
میں تو اس سے یہی نتیجہ نکالتا ہوں کہ یہ لوگ جو کچھ اپنے پاس لئے بیٹھے تھے وہ دراصل ایک کمزور اور بے حقیقت شے تھی جس میں دوسرے پر اثراندازی اور جذب کی کوئی قوت ہی نہ تھی- ورنہ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ وہ اثر کرنے سے رہتی اور حقیقت میں یہ بالکل سچ ہے جبکہ ابھی میں نے دکھایا ہے کہ ان لوگوں کی مذہبی کتابوں کی یہ حالت تھی- جب ایسی حالت اور صورت تھی تو دانشمند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا اس وقت کس قدر جہالت کا سامان اکٹھا کر چکی تھی-
عرب میں تفرقہ اس قدر تھا کہ وحدت کا نام و نشان بھی پایا نہ جاتا تھا- یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے تحدیث بالنعمت کے طور پر اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً )اٰل عمران:۱۰۴( تم آپس میں دشمن تھے ہم نے تمہارے دلوں میں ایسی محبت ڈال دی کہ اگر رات کو تم دشمن سوئے تھے تو صبح کو بھائی بھائی بن کر اٹھے-
غرض ان میں وحدت نظر نہ آتی تھی- نہ وہ فاتح تھے اور نہ مفتوح- جیسے وہ حکمرانی کے قواعد و ضوابط سے ناآشنائے محض ویسے ہی رعایا بن کر رہنے کے اصول سے ناواقف- نہ مصنف تھے‘ نہ موجد تھے- غرض کچھ بھی نہ تھے- ایسی حالت میں ان کی عام حالت پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ’’مردے از غیب بروں آید و کارے بکند‘‘ دنیا کی عام حالت کا وہ نظارہ‘ خاص عرب کی یہ حالت- اس سے بڑھ اور کیا ضرورت ہو سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی-
جب ایسی حالت دنیا کی ہو رہی تھی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور اس وقت کی موجودہ حالت ہی صاف طور بتا رہی تھی کہ ایک مزکی کی ضرورت ہے- اور پھر آپ نے جو اصلاح کی اس نے مہر کر دی کہ لاریب آپ حقیقی مصلح تھے- عربوں کی اس حالت کو ایسا تبدیل کیا کہ ایسی حیرت انگیز تبدیلی کی نظیر دنیا کی تاریخ میں پائی نہیں جاتی- ۲~}~
قرآن شریف کی روشنی کے آتے ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں جو تاریکی اور تیرگی چھائی ہوئی تھی یکدم اڑ گئی- دنیا میں نابود قوم بود ہو گئی- وہ دنیا کی فاتح‘ امام‘ مقتدر‘ فخر ٹھہری- وہ قوم جو ہزار درہزار مرض میں مبتلا تھی اس نے جس نسخہ کے ذریعہ شفا حاصل کی وہ نسخہ قرآن کریم ہی کا نسخہ تھا- یہی وجہ ہے کہ اس کا نام نور‘ رحمت‘ شفا اور فضل ہے- اس نسخہ کو اپنا معمول بنا کر صحابہ کے سامنے کوئی سمندر یا پہاڑ روک نہ ہوا- لیکن جوں جوں قرآن شریف ہی کی اتباع کی برکت سے کامیابی اور فتوحات کے دروازے کھلتے گئے اسی قدر تعیش کے آ جانے کی وجہ سے قرآن شریف سے اعراض ہوتا گیا اور دنیوی امور اور آسائشوں کی طرف توجہ بڑھتی گئی- نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن شریف چھوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ خیر|و|برکت اٹھنے لگی- اختلاف بڑھنے لگا یہاں تک کہ انجام کار نہ دنیا رہی نہ دین- مگر قرآن شریف اس وقت بھی ایسی کامل اور حکیم کتاب موجود تھی اور ہے کہ اگر اس کی طرف رجوع کیا جاتا اور سارے اختلافات کے مٹانے کا اس کو ہی ذریعہ قرار دیا جاتا تو کوئی مشکل مشکل نہ رہتی- مگر حکومت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ خودرائی اور خود غرضی پیدا ہوتی گئی اور قرآن شریف دستور العمل نہ رہا- جس نے وہ دن دکھایا جس کا کبھی خیال بھی مسلمانوں کو نہ آتا ہو گا- لیکن اصل یہ ہے کہ وہ دن بھی مقدر تھا- ضرور تھا کہ اسلام پر ضعف کی حالت آتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے اس کی اطلاع دی تھی کیف تکفرون باللہ و کنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون )البقرۃ:۲۹-(اس وقت پھر وہی موت کی حالت طاری ہے- اسلام فی نفسہ زندہ اسلام ہے- قرآن شریف زندہ کتاب ہے- لیکن مسلمانوں کی اپنی کم ہمتی‘ کم توجہی اور قرآن شریف سے اعراض نے ان کو مردہ بنا دیا ہے- بالاتفاق مسلمانوں نے ایک زبان ہو کر مان لیا ہے کہ ان کی قوم مر چکی ہے یہاں تک کہ بعض نے جنازہ بھی پڑھ دیا ہے- اس قسم کی صدائیں سن کر اس میں شک نہیں کہ مجھے بعض اوقات سخت گھبراہٹ اور اضطراب ہوا ہے- لیکن مجھے خوشی بھی ہوئی ہے اس لئے کہ میں جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق اس موت کے بعد ایک احیا بھی ہے اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اس احیا کا یہی وقت ہے اور وہ احیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ کرنا چاہا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس کے اور صرف اس کے آنے ہی سے بلکہ اس کے ہی منہ سے زندہ رسول‘ زندہ مذہب‘ زندہ کتاب‘ زندہ خدا وغیرہ الفاظ سننے میں آئے ہیں- یہ اس لئے کہ ہم میں زندگی بخش قوت ہے- اس امام کے حکم سے میں اس وقت آپ لوگوں کو کچھ سنانا چاہتا ہوں- میں نے شروع میں کہا ہے کہ مریض کو اپنے علاج کے لئے جہاں تجربہ کار اور حاذق طبیب کی طرف رجوع کرنا چاہئے وہاں صبر اور استقلال کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے علاج اور پرہیز سے فائہ اٹھانا چاہئے اور ایک مجرب نسخہ استعمال کرنا چاہئے-
اب اس وقت جو امراض دنیا میں روحانی طور پر پھیلے ہوئے ہیں اس قسم کے امراض اس وقت بھی تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہور فرمایا تھا اور ان بیماریوں کا علاج قرآن شریف کے ذریعہ کیا گیا تھا- اس وقت بھی جب تک اس مجرب نسخہ کو استعمال نہ کیا جائے کچھ فائدہ نہ ہو گا- اور اس نسخہ کا استعمال اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حاذق طبیب کی طرف رجوع نہ ہو اور وہ حاذق طبیب کون ہے؟ اس زمانہ کا امام )علیہ السلام-( اس کی صحبت میں رہ کر علاج کے اصول کے موافق فائدہ اٹھائو- اور اسی لئے میں نے تمہیں یہ آیت سنائی یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۱۹( ایمان والو! متقی بن جائو- متقی بننے کی تدبیر یہ ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جائو- یہی ایک گر ہے معزز بننے کا‘ قوم بننے کا- یعنی متقی بن جانا اور متقی بننے کے لئے صادق کا ساتھ دینا اور اس کے ساتھ رہنا ضروری ہے-
تقویٰ کیا چیز ہے؟ مختصر الفاظ میں تقویٰ سے یہ مراد ہے اول سچے عقائد کو حاصل کرنا اور ان پر ایمان لانا پھر اس کے موافق کو کرنا اور اپنے اعمال سے اس کا ثبوت دینا- وہ اعمال اس کے جسم کے متعلق ہوں یا مال کے- غرض ہر طرح سے عقائد کے موافق سچی وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے اعمال کر کے دکھاوے- سچے عقائد کے اصول میں سے پہلی اصل یہ ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ پر ایمان لاوے- حق سبحانہ تعالیٰ کا اعتقاد عظیم الشان نیکیوں اور خوبیوں اور مدارج پر پہنچنے کے لئے ضروری اور لابدی اصل ہے- میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ کوئی شخص نیک چلن اور راست باز ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہ لاوے- میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی دہریہ بھی نیک چلن ہو سکتا ہے- حق سبحانہ تعالیٰ کے ماننے میں ایک عظیم الشان بات اور اصل یہ بھی ہے کہ اس کی صفات کو پورے طور پر مانا جاوے- صفات|الٰہی کا مسئلہ ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نہ ماننے سے دنیا کا بہت بڑا حصہ ہلاک ہوا ہے- میں نے اس معاملہ پر بہت غور کی ہے اور مختلف مذاہب کے اعتقادات اور مسائل کو خوب ٹٹولا ہے اور بڑی سوچ اور فکر کے ساتھ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قدر مذاہب باطلہ موجود ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کے انکار سے پیدا ہوئے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا گر اور اصل سمجھا دیا ہے کہ میں مذاہب باطلہ کو قرآن|شریف کے ایک ایک لفظ کے ساتھ رد کر سکتا ہوں اور قرآن شریف کے کمالات اور فضائل میں سے یہ بھی ایک مہتم بالشان امر ہے کہ اس نے صفات الٰہی کے مسئلہ کو خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے کیونکہ اسی راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا نے ٹھوکر کھائی ہے اور وہ گمراہ ہوئی ہے- اور اس کے علاوہ صفات الٰہی کے مسئلہ سے ہی یہ راز بھی خدا کے فضل سے مجھ پر کھلا ہے کہ انسان جس قدر بدیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اگر صفات الٰہی کے مسئلہ کو سمجھ لے اور اس پر پورا ایمان رکھے اور ہر بدی کے ارتکاب کے وقت یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ نگران ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے بچا لے-
یہ امور اور یہ اصول سمجھ میں آتے ہیں جب انسان قرآن شریف میں تدبیر کرے اور فکر کرے- قرآن شریف پر تدبر اور فکر کی قوت پیدا ہوتی ہے- تقویٰ سے- جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳( اور یہ میں نے ابھی بتایا ہے اور اس کی تفصیل بیان کروں گا کہ تقویٰ کی حقیقت منکشف نہیں ہوتی‘ سچا متقی انسان بن نہیں سکتا جب تک صادقوں اور راست بازوں کی صحبت میں رہنے کا اس کو موقع نہ ملے اور ان کی معیت اختیار نہ کرے کیونکہ تقوی اللہ ]ttex [tagکی حقیقت منحصر ہے- اولاً اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پر اور یقین بجز خدا تعالیٰ کے راست بازوں کی صحبت میں رہنے کے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس صحبت میں رہ کر وہ اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے اور خارق عادت امور کو دیکھتا ہے جو انسانی طاقتوں اور ارادوں سے بالاتر ہوتے ہیں- ان امور اور عجائبات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان پیدا ہونے لگتا ہے اور پھر اس کی صفات پر یقین آتا ہے جس سے تقویٰ اللہ کی حقیقت اس پر کھلنے لگتی ہے اور وہ متقی بننے لگتا ہے-
پس سچے عقائد کے اصول میں سے پہلی اصل اللہ تعالیٰ کا ماننا اور اس کی صفات پر ایمان لانا ہے اور یہ میں نے بتایا ہے کہ یہ ایمان پیدا نہیں ہوتا جب تک صادق کی صحبت میں نہ رہے؟
اب دوسرا امر عقائد کے متعلق یہ ہے کہ وہ ملائکہ پر ایمان لاوے- ۳~}~
وجود ملائکہ کے ثبوت کے لئے مجھے کسی فلسفیانہ بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملائکہ کے وجود کے انکار سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں- دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر فیوض اور برکات خواہ جسمانی ہوں یا روحانی‘ انسان اللہ تعالیٰ سے پاتا ہے اس کے لئے کچھ نہ کچھ وسائط ضرور ہیں- ان وسائط ہی کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور انہیں سے ملائکہ بھی ایک نام ہے- اس صداقت سے انکار ایسا ہی ہے جیسا وجود آفتاب کا انکار-
ایمان بالملائکہ کی حقیقت اور غرض جو مجھے سمجھ آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یہ راز معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں جب نیکی کی تحریک ہو معاً اس نیکی کے کرنے کے لئے مستعد اور ہوشیار ہو جاوے اور اگر اس میں ذرا بھی ستی اور کاہلی سے کام لے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ وہ توفیق اس سے چھین لے گا- اور اس کے دل پر ایک حجاب سا چھا جاتا ہے- اسی طرح پر ایمان بالکتب ہے اور پھر رسولوں پر ایمان ہے-
ایمان بالرسل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ اس کی حقیقت تب پیدا ہوتی ہے جب کہ اس ایمان کے موافق عمل ہو ورنہ وہ ایمان مردہ ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں- دیکھو اونٹ کتنا بڑا جانور ہے- لیکن اگر ایک ہزار اونٹ کی بھی ایک لمبی قطار ہو اور ان سب کی مہار ایک بچے کے ہاتھ میں دے دی جاوے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ ان سب کو لئے چلا جاوے گا- لیکن اگر سو آدمی بھی مل کر ایک اونٹ کو کنوئیں میں گرانا چاہیں تو وہ گرنا پسند نہیں کرے گا اور جہاں تک اس سے ممکن ہو گا وہ اس سے بچے گا- کیوں؟ وہ جانتا ہے کہ کنواں اس کے لئے ہلاکت کا گھر ہے- یہ ایمان کا ایک چھوٹا سا عمل ہے جو حیوان سے ہوتا ہے- پھر کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہم انسان کہلا کر ان باتوں پر عمل نہ کریں جن کو ہم ایمانیات کی ذیل میں مانتے ہیں- ایمان بالرسل بھی ایک عظیم الشان شعبہ ایمان کا ہے- آج کل دنیا میں برہموازم بہت پھیلا ہوا ہے- ہر ایک شخص اپنی ہی مرضی اور رائے کو پسند کرتا اور اسی پر عمل کرنا چاہتا ہے- لیکن میں سچ کہتا ہوں یہ بات اصلی ترقی کے خلاف اور صریح متضاد ہے- جو فیوض اور برکات قوم پر بہ حیثیت قوم نازل ہوتے ہیں وہ انفرادی حالت میں نہیں سکتے لیکن قوم کے لئے قوم بننے کے واسطے شخصی رائوں کو چھوڑ کر ایک ہی امام کی اتباع ضروری ہوتی ہے- پس انبیاء و رسل کی ایک بڑی غرض بعثت کی یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگ اپنی رائوں کو چھوڑ دیں اور اس مقتدا اور مطاع کی باتوں کو مانیں اور ان پر عمل کریں- اس ایک امر سے انسان کے قلب پر بڑے بڑے فیض حاصل ہوتے ہیں اور اخلاق فاضلہ اور بہت سی نیکیوں سے اسے حصہ ملتا ہے- خودپسندی‘ خود غرضی‘ تکبر اور انانیت جیسے رذائل سے نجات ملتی ہے جو اس کو صداقت کے قبول کرنے سے روکنے والے ہوتے ہیں-
انبیاء و رسل اور دوسرے ریفارمروں اور لیڈروں میں ایک عظیم الشان فرق ہوتا ہے جس کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے- اور وہ یہ ہوتا ہے کہ انبیاء و رسل جس امر کی تعلیم دیتے ہیں وہ خود اپنے نمونہ سے دکھا دیتے ہیں اور اس کے نتائج اور ثمرات کا بھی مشاہدہ کرا دیتے ہیں- خیالی ریفارمروں اور اصلاح کے مدعیوں میں یہ بات قطعاً نہیں ہوتی- غرض ایمان بالرسل بہت بڑی ایمانی جزو ہے- اعمال صالحہ اعمال صالحہ ہوتے ہی نہیں کیونکہ جو فعل خواہ وہ کیسا ہی نیک کیوں نہ ہو نیک نہیں کہلاتا جب تک انبیائ|ورسل کے افعال کے نمونہ پر نہ ہو- دنیا اس وقت حضرت امام کے دعویٰ کو سن کر حیران ہو رہی ہے اور آپ کی مسیح ابن مریم کے ساتھ مماثلت کو حیرت کے ساتھ دیکھ رہی ہے لیکن مجھے تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایمان بالرسل رکھ کر کیوں تسلیم نہیں کرتے- کیونکہ اگر انبیاء کی بعثت سے ایک آدمی بھی ان کے رنگ میں رنگین نہیں ہوتا اور وہی خوبو اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا تو اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ وہ محض ناکام رہا اور یہ صحیح نہیں ہے- غرض ایمان بالرسل بھی عقائد صحیحہ میں سے ایک امر اہم ہے-
پھر عقائد میں سے ایک عظیم الشان مسئلہ جزا و سزا پر یقین کرنا ہے- اس مسئلہ کے ماننے کے بغیر انسان نیکیوں کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا- یہ مسئلہ حقیقت میں بہت بڑی ترقیوں کا بنیادی پتھر ہے- کیونکہ جب انسان مسئلہ جزا و سزا پر یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے فلاں فعل کی جزاء یہ ہو گی- اگر وہ فعل بد ہے تو اس ے اجتناب کرے گا اور اگر وہ فعل نیک ہے تو اس کے کرنے کے لئے چست اور چالاک ہو گا- یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس مسئلہ کو عقائد میں داخل کیا ہے اور میں اپنے تجربہ ے کہتا ہوں کہ اگر اس اصل کو محکم طور پر دل میں جگہ دی جاوے اور اس کی حقیقت کو سمجھ لیا جاوے تو انسان کو بہت سی نیکیوں کی توفیق مل جاتی ہے اور اس ایک اصل کو چھوڑنے اور غافل ہونے سے بہت لوگ ہلاک ہوئے ہیں- ۴~}~
پھر دوسرا جزو ایمان کا جس سے تکمیل ہوتی ہے شفقت علی خلق اللہ کہلاتا ہے- مخلوق کی ہمدردی اور نوع انسان کی بھلائی کے لئے اپنے مال سے کچھ خرچ کرے- رنج میں‘ راحت میں‘ عسر میں یسر میں‘ مصیبت میں‘ خوشی میں ہر حال میں قدم آگے بڑھائے- کسی حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو- اور یہ ساری باتیں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ صادقوں کا ساتھ دے- صادقوں کے ساتھ کے بغیر تقویٰ کی حقیقت کھلتی ہی نہیں- دقائق تقویٰ کا پتہ ہی نہیں لگتا جب تک انسان صادقوں کی صحبت میں نہ رہے- یہ ایک نہایت غلط خیال ہے جو انسان اپنے دل میں سمجھ لیتا ہے کہ میں نیکی کرتا ہوں- مخلوق الٰہی پر شفقت بھی کرتا ہوں- محب ملک اور قوم ہوں- تہجد گذار ہوں اور یقین کے اصل مقام پر کھڑا ہوں- مجھے کسی صادق کی صحبت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس قسم کا خیال نفس کا دھوکا ہے جو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے- یہ ایک قسم کا برہموازم ہے- ا فتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض )البقرۃ:۸۶( کیا تم قرآن کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو- یہ انکار کتاب اللہ نہیں تو کیا ہے؟ جب کہ کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۱۹( کی ہدایت کی گئی ہے- پھر اس حکم کی ضرورت نہ سمجھنا اور عملی طور پر اس کو بے کار ٹھہرانا اس سے بڑھ کر کس قدر ظلم اور حماقت ہو گی؟ اتقوا اللہ text] [tag جو لوگ ایسا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کے بعض حﷺ کا انکار کرتے ہیں خواہ علمی طور پر‘ خواہ عملی‘ وہ یاد رکھیں ان کی پاداش اور سزا بہت خطرناک ہے- خزی فی الحیٰوۃ الدنیا )البقرۃ:۸۶( اسی دنیا میں وہ ذلیل ہو جائیں گے- اور اب دنیا کی تاریخ کو پڑھ لو اور انبیاء علیہم السلام کے معاملات پر غور کرو کہ جن لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انکار کیا ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا وہ اسی دنیا میں ذلیل اور خوار ہوئے ہیں یا نہیں؟ جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے یا آثار الصنادید سے پتہ مل سکتا ہے وہاں تک صاف نظر آئے گا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد صاف اور ثابت شدہ امر ہے-
میں اس معیت صادق کو حصول نیکی اور حصول تقویٰ کے لئے ایک ضروری چیز سمجھتا ہوں- بغیر اس کے حقیقی نیکی کو انسان سمجھ سکتا ہی نہیں اور رضاء الٰہی کے طریق اس کو معلوم ہی نہیں ہو سکتے- ایک انسان اپنے جیسے انسان کی‘ خواہ اس کی صحبت میں بھی رہے‘ رضامندی کے طریق کو بدوں اس کی اطلاع اور تفہیم کے جب معلوم نہیں کر سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کا علم اس کو کس طرح ہو سکتا ہے جب تک خود الہام الٰہی نہ ہو- اور ہر شخص چونکہ ایسی استعداد اور قابلیت نہیں رکھتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا ہے جو براہ راست مکالمہ الٰہی کا شرف حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ نوع انسان کو ان امور سے اطلاع دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہوتے ہیں- اور پھر ان آثار اور نتائج کو جو رضاء الٰہی کا ثمرہ کہلاتے ہیں وہ اپنے وجود میں دکھاتے ہیں جس سے واقعی طور پر پتہ لگتا اور یقین بڑھتا ہے کہ ہاں یہی بات ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور یہی حقیقی نیکی ہے- اسی لئے میں نے بتایا ہے کہ نیکی‘ کامل نیکی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق ہو-
صادق کی صحبت اور راست باز کے ساتھ ہو نیکی ضرورت کا مضمون بڑا وسیع مضمون ہے اور اس کے بہت سے پہلوئوں پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن میں مختصر طور پر اس کے متعلق کہوں گا- قانون قدرت میں اس کے نظائر موجود ہیں- خود انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ میں اس کے نمونے نظر آتے ہیں-
قوموں کی عظمت و جبروت پر نظر کرو اور ان اسباب کی تحقیقات کرو جو اس کی عظمت کا اصل باعث ہوتے ہیں- انجام کار تم کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ وہ کسی راستباز کی معیت اور صحبت کا نتیجہ ہیں- یہ امر الگ ہے کہ بعد میں اور اسباب بھی اس کے ساتھ مل گئے ہوں-
میں ایک موٹی تمثیل کے ساتھ اس مضمون کو ذہن نشین کراتا ہوں- پہاڑوں کی طرف نگاہ کرو- پہاڑ کا لفظ ہی انسان کے اندر ایک عظمت اور شوکت اس کے نام کی پیدا کرتا ہے- مگر اصل کیا ہے ذرات کا مجموعہ ہے- اب اگر یہ ذرات پراگندہ اور منتشر حالت میں ہوتے تو کیا ہم ان کا نام پہاڑ رکھ سکتے؟ ہرگز نہیں- یہی ذرات منتشر حالت میں بے شمار تعداد میں تھلوں میں موجود ہوتے ہیں- کیا کوئی کہتا ہے کہ یہ پہاڑ ہیں؟ کبھی نہیں- پس اگر یہ ذرات حالت منتشر میں ہوتے تو تھلوں سے زیادہ ان کی شوکت اور وقعت نہ ہوتی اور وہ مفاد اور منافع‘ جو اس ہیئت مجموعی میں جو پہاڑ کی ہے‘ دنیا کو پہنچتے ہیں نہ پہنچ سکتے- حالت اجتماعی میں پہاڑوں سے چشمے نکلتے ہیں‘ دریا بہتے ہیں‘ ندیوں نالوں سے سلسلہ جاری ہوتا ہے- عجیب عجیب قسم کے میوے‘ قسم قسم کی لکڑیاں اور دوائیوں کے سامان پہاڑوں سے حاصل ہوتے ہیں یہاں تک کہ بعض بعض مقامات پر بڑی بڑی گرانقدر کانیں بھی نکلتی ہیں- غرض ہر ہر قسم کی راحت اور آسائش اور نعمتوں کا سامان ایک طرح پر پہاڑوں سے حاصل ہوتا ہے- اور بالمقابل انفرادی حالت تھلوں کی دیکھ لو کہ ریت اڑتی ہے- نہ پیداوار ہو سکتی ہے نہ کوئی درخت ہی پیدا ہوتا ہے نہ کچھ اور- غرض ہر طرح سے بربادی بخش اور مہیب نظارہ ہے- اس زمانہ میں )جو علوم کا زمانہ کہلاتا ہے اور ہر قسم کی ایجادیں اور ترقیاں ہو رہی ہیں( ان علوم|مروجہ سے معلوم ہوا ہے کہ اجزا کے تفریق سے علیحدگی‘ کمزوری اور توافق سے تقویٰ پیدا ہوتی ہے- یہ تو جمادات کا نظارہ ہے جو میں نے دکھایا ہے-
اب نباتات کو لو - اس درخت کو دیکھ لو جو اس مسجد میں سامنے کھڑا ہے- اس کی شاخیں جو اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں یہ کیس سرسبز اور خوش نما ہیں- ان کی ہر حالت اور ہر صورت خوبصورت معلوم ہوتی ہے- اس وقت جو غذا ان کو اس درخت کی جڑ کے ذریعہ اور پھر اس کے بڑے تنے کے ذریعہ‘ جن کے ساتھ ان کا پیوند ہے‘ پہنچتی ہے وہ بہر حال حصہ رسدی سے پہنچتی ہے- لیکن باوجود اس کے بھی وہ شاداب اور سرسبز ہیں- اب ان میں سے ایک شاخ کو کاٹ لو اور اس کو عین بہار کے موسم میں کاٹ لو جبکہ خشک درخت بھی کوئی نہ کوئی پتہ نکال لیتے ہیں اور ایک بڑے تالاب میں اس شاخ کو رکھ دو اور نتیجہ کا انتظار کرو- کیا ہو گا ؟ وہ شاخ مرجھا جائے گی- خشک ہو جائے گی- آخر سڑ جائے گی جو تھوڑی دیر پہلے درخت کے ساتھ رہ کر انسانی زندگی کے لئے ایک نفع رساں اور راحت بخش ہوا کا ذریعہ تھی- وہی شاخ اس سے الگ ہو کر مضر صحت مواد اور اسباب پیدا کرنے کا ذریعہ ہو گئی- باوجودیکہ اسے پہلے سے زیادہ|پانی میں رکھا گیا مگر وہ اس کے لئے آب حیات کی بجائے زہر کا کام دے رہا ہے- اب اس کے ہرے بھرے رہنے اور مثمر ثمرات اور نفع رساں ہونے کی کیا توقع ہو سکتی ہے- کوئی نہیں- لیکن وہی|شاخ جب درخت کے ساتھ اس کا پیوند ہوتا ہے کیسے ثمرات لاتی اور پھر پھول لا کر انسان کے لئے‘ حیوانات کے لئے مفید اور نافع ہوتی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بزرگ اور عظیم تنہ کے ساتھ کا پیوند ہی اس کے لئے مفید اور مثمر|ثمرات ہونے کا باعث تھا اور وہ الگ ہو کر کبھی کوئی مفید شے نہیں ہو سکتی- ۵~}~
امام کی ضرورت ایک ایسی ضرورت ہے کہ اس سے کوئی سلیم الفطرت تو انکار نہیں کر سکتا ہاں جو انکار کرتا ہے وہ اپنے آپ کو کیسا ہی دانشمند‘ تجربہ کار اور نیک سمجھتا ہو لیکن میں اس کو سب سے بڑھ کر بیوقوف‘ ناوافق اور خطا کار قرار دوں گا کیونکہ وہ بدیہی باتوں سے انکار کرتا ہے- درخت کی مثال سے میں بتا چکا ہوں کہ کس طرح پر ٹہنیوں کو سرسبز و شاداب رہنے اور بارور ہونے کے لئے درخت کے ساتھ حقیقی پیوند ضروری ہے- اپنی نظر کو ذرا اور وسیع کرو اور ریل گاڑی کی طرف دیکھو- ایک ٹرین جس میں سٹیم انجن نہ لگا ہوا ہو اس میں خواہ کیسی ہی مصفا اور شاندار گاڑیاں لگی ہوئی ہوں لیکن سٹیم انجن کے نہ ہونے کے سبب ان میں کوئی حس و حرکت پیدا نہیں ہو گی اور وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچیں گی-
حیوانات پر غور کرو- مرغی کے بچے اگر متفرق کر دیئے جاویں تو خواہ ان کو کیسی ہی غذا دو لیکن اگر وہ مرغی کے پروں کے نیچے آ کر اس کی حرارت سے حصہ نہیں لیتے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے- ان کو چیلیں اور دوسرے جانور ہی کھا جائیں گے-
غرض یہ تو سچ ہے کہ مادہ نشو و نما پاتا ہے لیکن تعلق کے ساتھ- اسی طرح پر جب دنیادار قومیں جب کوئی انجمن یا سوسائٹی بناتی ہیں اور مل کر کوئی کام کرتے ہیں اس وقت باوجودیکہ کثرت رائے پر فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس پر بھی ان کو اپنا ایک میر مجلس یا پریذیڈنت منتخب کرنا پڑتا ہے- اس کا فیصلہ قطعی اور آخری فیصلہ ہوتا ہے- جمہوری سلطنتوں کو بھی پریذیڈنٹ کی ماتحتی ضروری ہوتی ہے باوجودیکہ وہ بڑے آزاد رائے اور آزادی پسند ہوتے ہیں- پھر جب عام نظارئہ قدرت اور موجودات میں وحدت ارادی کے پیدا کرنے کی ضرورت ایک عام ضرورت سمجھی جاتی ہے اور انسان کی مادی ترقیات کی جڑ میں بھی وحدت|ارادی کی روح کام کر رہی ہے پھر کیسا نادان اور بیوقوف ہے وہ انسان جو علوی اور روحانی امور میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا-
میں نے اس مسئلہ پر گھنٹوں اور منٹوں سے لے کر دنوں اور ہفتوں بلکہ مہینوں اور سالوں تک غور کی ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ جس قدر میں اس مضمون پر سوچتا گیا ہوں خاص ذوق اور سرور کے ساتھ اس کی باریک باتیں مجھ پر کھلتی گئی ہیں یہاں تک کہ اس وحدت کے نظارہ میں میں اوپر چڑھتا گیا اور میں نے دیکھا کہ واحد لاشریک خدا کے لئے وحدت کا نظارہ ضروری ہے- خدا جو اسماء حسنیٰ کا مرکز ہے اگر اس کی صفات پراگندہ ہوتیں تو خدائی ہی نہ چلتی- اسی طرح پر وہ جامع جمیع صفات کاملہ ہستی چاہتی ہے کہ اجزائ|متفرقہ کا جو مجموعی طور پر ہیں‘ اتحاد ہو-
یہی وجہ ہے کہ کشش اتصال کا وجود اس نے رکھا ہے جو ذرات متفرقہ کو باہم ملاتی ہے- انفرادی حالت میں فیوض و برکات کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی توسط کی حاجت ہوتی ہے- یہ کشش قابل جوہروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ان کو ان منافع اور برکات کا وارث ٹھہرا دیتی ہے جو اتحاد سے پیدا ہوتی ہیں- جس طرح پر امور مادی میں میں نے یہ ضرورت دکھائی ہے آسمانی اور روحانی معاملات میں بھی ایک صاحب|کشش امام کی ضرورت ہوتی ہے- وہ اپنی کشش سے پاک فطرت اور سعیدوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے- اور پھر اس تعلق سے جو ان میں پیدا ہوتا ہے اس قوت اور طاقت کو نشو و نما ہوتا ہے جو فیوض الٰہی کے جذب کرنے کا ذریعہ ٹھیرتی ہے- یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ وہ سلسلہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ان الفاظ میں فرمایا ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملٰئکۃ )حٰم السجدہ:۳۱-(قالوا ربنا اللہ کی حالت اور کیفیت مجرد زبان سے کہہ دینے سے پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ایک کیفیت ہے کہ اس کا ظہور اور بروز نہیں ہوتا جب تک خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ کی صحبت میں رہنے کا موقع حاصل نہ ہو اور اس کے ساتھ ہی سچا پیوند اور رشتہ قائم نہ ہو-
یہ مسئلہ چونکہ ایک باریک مسئلہ ہے اسی لئے میں نے پہلے عام نظارئہ|قدرت کی مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وحدت ارادی فیوض کا وارث بناتی ہے لیکن یہ بیان کرنا کہ وہ برکات اور فیوض جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور صادقوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے ملتے ہیں وہ کس طرح پر نازل ہوتے ہیں یہ ایک کیفیت ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے- اسی لئے میں نے بتایا ہے کہ جس طرح پر مرغی اپنے انڈوں کو پروں کے نیچے لے کر بیٹھتی ہے اور اپنی گرمی پہنچاتی ہے اور اس گرمی سے اس مادہ میں جو انڈوں کے اندر نشو و نما پانے کی قابلیت رکھتا ہے ایک خاص قسم کی حرارت جو زندگی کی روح رکھتی ہے پیدا ہونے لگتی ہے اور معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ روح کدھر سے آئی اور کس وقت- اسی طرح پر جب انسان ایک مامور کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے تو اندر ہی اندر اس کی پاک تاثیریں‘ عقدہمت‘ دعائیں اس تعلق پیدا کرنے والے انسان میں ایک نیا نفخ روح کرتی جاتی ہیں اور اس میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوتے ہیں- اس کی صحبت میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایک نیا ایمان پیدا ہونے لگتا ہے جو اس ایمان پر اسے اپنا جان و مال تک نثار کر دینے کی قوت بخش دیتا ہے- وہ ایمان اس کو استقامت کی قوت دیتا ہے اور وہ اس آیت کا مصداق بنتا ہے اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کے برکات اور فیوض کا چشمہ اس کی طرف جاری ہوتا ہے اور ملائکہ کا نزول اس پر ہونے لگ جاتا ہے-
غرض میں اس کیفیت کی گواہی تجربتا" دے سکتا ہوں جو انسان کو خدا تعالیٰ کے ماموروں کے ساتھ تعلق پیدا کر کے‘ ہاں سچا تعلق پیدا کر کے حاصل ہو سکتی ہے- حضرت امام علیہ الصلٰوۃ و السلام نے اس کیفیت کا ایک مرتبہ اس طرح پر اظہار کیا تھا کہ جیسے پانی کی ایک بڑی نالی ہوتی ہے مامور من اللہ اس نالی کی مانند ہوتا ہے اور سچے ارادت مندوں کا اس نالی کے ساتھ اسطرح پر تعلق ہوتا ہے جیسے چھوٹی چھوٹی نالیاں ایک بڑے لوہے کے نل کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں اور جب پانی کے چشمہ سے اس بڑے نل میں پانی آتا ہے تو ان چھوٹی نالیوں میں بھی ان کے ظرف کے موافق اور استعداد کے مطابق وہ پانی گرتا جاتا ہے- پس چونکہ امام خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو براہ راست حاصل کرتا ہے اسی لئے اس سے سچے تعلق رکھنے والے ان برکات کو اس میں ہو کر حاصل کرتے ہیں- میں اس سلسلہ میں دور چلا گیا- میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسمائ|حسنیٰ کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ اجزاء متفرقہ کو مجتمع کرے اس لئے اجتماع لازمی ہے-
ساری گاڑیاں اگرچہ اپنے پہیوں سے چلتی ہیں مگر سٹیم انجن کے بدوں وہ پہیے بے کار محض اور نکمے|ہیں اسی طرح پر ہمارے اندر بھی جو قرب کی فطری قوتیں اور طاقتیں ہیں وہ سب کی سب بے کار اور نکمی ہیں اگر کسی سٹیم انجن کے ساتھ ہمارا تعلق نہ ہو- کوئی شاخ مثمر ثمرات نہیں ہو سکتی جبتک اصل درخت کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو- کوئی بچہ نشو و نما نہیں پا سکتا جبتک ماں کی گود میں نہ ہو- اسی اصل اور بنا پر اللہ|تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین یعنی ایمان باللہ والو تقویٰ اختیار کرو- اور تقویٰ اختیار کرنے کی راہ یہ ہے کہ صادقوں کی صحبت میں رہو- مجھے اپنے طالب علمی کے زمانہ کا ایک واقعہ یاد ہے- جب میں ہندوستان میں تعلیم پاتا تھا تو میرے ایک مہربان تھے جو بڑے ہی پرہیزگار اور صالح آدمی تھے ان کا نام شاہ عبد الرزاق تھا- وہ رامپور روہیل کھنڈ میں رہتے تھے اور سید احمد بریلوی کے معتقد تھے- میں عموماً ان کی ملاقات کے واسطے جایا کرتا تھا اور ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا- ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ کئی دن تک مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہ ملا- اس غیر حاضری کے بعد جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا کہ تم اتنے دنوں تک کیوں نہیں آئے؟ میں نے عرض کی کہ یونہی آنا نہیں ہو سکا- اس پر مجھے فرمایا کہ کیا تم کبھی قصاب کی دوکان پر بھی نہیں گئے ہو-؟ دو تین مرتبہ اس فقرہ کو دہرایا مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے اور میری غیر حاضری اور حاضری کو اس سے کیا تعلق؟پھر آپ نے ہاتھ کے اشارہ کے ساتھ سمجھایا کہ دیکھو قصاب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی دونوں چھریوں کو کس طرح باہم رگڑ لیتا ہے حالانکہ بظاہر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی- اس سے عارف کو سبق لینا چاہئے کہ دنیا کے دھندوں اور تعلقات میں انسان کے قلب پر ایک قسم کا زنگ چڑھ جاتا ہے اور معرفت کی تیزی جلد کند ہونے لگتی ہے جس کے واسطے ضروری ہے کہ انسان وقتا" فوقتا" صادقوں کی صحبت میں رہ کر اس زنگ کو دور کرتا رہے اور ان کی نیک صحبت سے اس تیزی اور جلا کو قائم رکھے-
قرآن کریم میں اسی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین-میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں‘ بے|شمار کتابوں کے پڑھنے نے مجھے اتنا فائدہ نہیں دیا جس قدر خدا تعالیٰ کے صادق بندوں کی صحبت نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور اب میں سالہا سال سے تجربہ کر رہا ہوں کہ قادیان میں بیٹھ کر جس قدر فائدہ میں نے اٹھایا ہے اپنی ساری عمر میں نہیں اٹھایا جو قادیان سے باہر بسر کی ہے-
اور چونکہ انسان کی فطرت میں یہ امر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے کہ وہ نفع رساں اشیاء کو لینا چاہتا ہے اور مضر اور نقصاں رساں سے بھاگتا ہے اسی لئے میں قادیان سے باہر ایک دم گذارنا بھی موت کے برابر سمجھتا ہوں- یہی وجہ ہے کہ میں قادیان سے باہر ہزاروں روپیہ پیش کرنے کی صورت میں بھی جانا نہیں چاہتا- ہاں اگر کبھی نکلتا ہوں تو محض اس لئے کہ اس پاک وجود کا حکم ہوتا ہے جس کے حضور حاضر رہ کر یہ عظیم|الشان فائدہ اٹھا رہا ہوں جس نے ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ دنیا کے سارے مال و متاع سے مجھے مستغنی کر دیا ہے-
میں نے یہ باتیں اس لئے نہیں کی ہیں کہ میں تمہیں یہ بتائوں کہ امام کے ساتھ میرا کیسا تعلق ہے انما الاعمال بالنیات- میری غرض فقط یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو خصوصاً ان دوستوں کو جو مجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں ان فوائد سے اطلاع دوں جو مجھے یہاں رہ کر حاصل ہوئے ہیں اور جنہوں نے دنیا کی ساری دولت کو میرے سامنے ہیچ کر دیا ہیتاکہ وہ بھی یہاں رہ کر وہ بات حاصل کریں جو حضرت امام کے آنے کی اصل غرض ہے اس امر کے اظہار سے میری یہ بھی ایک غرض ہے کہ ان لوگوں کو ابتلاء سے بچائوں جو کبھی کبھی بدظنی کر بیٹھتے ہیں کہ میں دوسروں کو حقیر سمجھ کر بلانے پر قادیان سے باہر نہیں جاتا- تم جو یہاں موجود ہو یاد رکھو- خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے‘ ہاں اپنے ہی فضل سے مجھے اس راہ کی ہدایت فرمائی ہے کہ الٰہی فیوض و برکات کے حصول کا اصل ذریعہ ایمان باللہ اور تقویٰ ہے-
مگر ایمان باللہ اور تقویٰ اللہ کی حقیقت اور کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کہ صادق کی صحبت میں نہ رہے اور مجھے اپنی ذات پر تجربہ کرنے سے اس کی قدر معلوم ہوئی ہے اس لئے میں کھول کر کہتا ہوں کہ اگر چاہتے ہو کہ وہ انوار سماوی اور روحانی برکات حاصل کرو جو روح کے تقاضوں کی انتہا ہیں تو سنو! یہاں آئو اور صادق کی صحبت میں رہو اور اس سے وہ فیض لو جو وہ لے کر آیا ہے- غرض مامور من اللہ اور صادق کی صحبت اور معیت ضروری ہے-
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی انسان اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرے اور اپنی تجویزوں اور تدبیروں سے اعلی کامیابیوں تک پہنچے- اور اس امر کی پروا نہ کرے کہ مامور من اللہ اور صادق کی صحبت میں رہنے سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے- اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ بیوقوف ہے‘ اپنا دشمن ہے- دیکھو خیر القرون میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قرن تھا خدا تعالیٰ کے برکات اور فیوض کی بارش کا وقت تھا- لیکن کل عرب و عجم نہیں‘ ساری دنیا میں سے مکہ کو جو ام القریٰ ہے منتخب فرمایا اور سارے مکہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور پھر عبد اللہ اور آمنہ کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو دنیا کو ان انوار و برکات سے بہرہ ور کرے- پھر خیر القرون میں صحابہ نے اور تابعین اور تبع|تابعین نے کیسی ترقی کی؟ انہوں نے اپنے سلوک کے منازل کو طے کرنے کے واسطے کیا راہ اختیار کی؟کیا یہ کہ آپ کا اقرار کر لیا‘ آپ کو صادق تسلیم کر لیا اور پھر آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھے- اپنے گھروں میںجا کر اپنے کاروبار میں مصروف ہوکر روپیہ کمانے کی فکر میں ہو گئے اور پاس نہ رہنے کے لئے دنیا اور اس کے مخمصوں کا عذر کر دیا؟ سوچو! اور پھر سوچ کر بتائو- میں خود ہی اس سوال کا جواب دے دیتا ہوں- صحابہ نے جس قدر ترقیاں کیں‘ جو جو مدارج عالیہ انہوں نے حاصل کئے ان سب کا اصل سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک صحبت اور معیت ہی تھی جس نے ان کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت اس درجہ تک کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی کہ جس کے مقابلہ میں انہوں نے وطن‘ آبرو‘ عزت‘ راحت‘ دولت‘ آسائش‘ عزیز واقربا‘ غرض دنیا کی کسی چیز اور کسی تعلق کی پروا نہیں کی- اور تو اور انہوں نے اپنی جانوں تک کی پروا نہیں کی- اپنے خون پانی کی طرح بہا دیئے- وہ بات جس نے ہمیں یہ قوت‘ یہ شجاعت و استقامت اور ایثار نفس پیدا کر دیا تھا یہی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہے اور آپ کے ساتھ تعلق کو اتنا شدید کیا اور ایسے وابستہ ہوئے کہ وہ سکینت اور اطمینان جو خدا کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتی تھی جس نے آپ کا شرح صدر فرمایا- اس تعلق اور محبت کی نالی کے ذریعہ صحابہ کے دل پر بھی اترتی تھی اور ان کے شرح صدر کر کے نور یقین سے بھرتے جاتے تھے- ۶~}~
وہ محبت اور اخلاص جو صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اس کے مقابلہ میں انہوں نے نہ وطن کی پروا کی اور نہ عزت و آبرو اور راحت و آرام کو مدنظر رکھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور فنا فی الرسول کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس میں پورے کامیاب ہوئے-
عرب جیسی اکھڑ اور آزاد خود رائے قوم تھی لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی فیض صحبت سے مستفیض ہوئے تو ان کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک مجلس میں ان کو دیکھتا تو اسے صرف بت نظر آتے- ہر ایک اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھا ہے اور اتنا حوصلہ اور جرات نہیں کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان پر پیش دستی کرے اور بولنے لگے- کیوں؟ اس لئے کہ انہیں حکم ہو چکا تھا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ )الحجرات:۲( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کوئی بات بڑھ کر نہ کرو- یہ چھوٹی سی بات نہیں- اتنی بڑی جماعت کو یہ حکم ہوتا ہے کہ تم کچھ نہیں بول سکتے‘ ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی اتباع کرو- لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی )الحجرات:۳( یعنی یاد رکھو تم حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو بلکہ تم اس کے ماتحت رہو- اصل بات یہ ہے کہ ہر مجلس اور محفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں- اگر ان آداب اور مجلس سے قطع نظر کی جاوے اور پروا نہ ہو تو انسان بجائے اس کے کہ اس مجلس سے فائدہ اٹھاوے اور اس میں کوئی عزت حاصل کرے وہ اس سے نکالا جاتا ہے یا ان فوائد اور منافع سے محروم رہ جاتا ہے جو اس مجلس میں بیٹھنے والوں کو ہوتے ہیں- دنیا کے حاکموں اور عہدہ داروں کے درباروں میں جائو تو تمہیں آگاہ کیا جاوے گا کہ وہاں کس طرح پر بیٹھنا ہے اور کس طرح ہونا ہے- مکارم اخلاق کی کتابوں میں آداب مجلس اور آداب گفتگو وغیرہ وغیرہ جدا جدا باب مقرر کیے ہیں- اس لئے کہ اخلاق فاضلہ کے حصول کے واسطے آداب وقواعد کی پابندی ضروری ہے- پر صاحب خلق عظیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی پاک مجلس سے سعادت اندوزی کے لئے کیا پابندی آداب کی ضرورت نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے- صحابہ کی کامیابیوں اور روحانی مدارج کی ترقیوں اور منازل سلوک کے طے کرنے کا اصل راز یہی تھا کہ انہوں نے فنا فی الرسول ہونے کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا اور وہ ایک دم کے واسطے بھی آپ کی اطاعت سے قدم باہر نکالنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے قدم باہر نہیں رکھا-
اعمال صالحہ کی حقیقت اسی لئے یہ بتائی گئی ہے کہ کوئی عمل‘ عمل صالح نہیں کہلاتا جب تک کہ اس میں دو شرطیں نہ پائی جائیں-
اول یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فرمان کے موافق اور ماتحت ہو-
دوم وہ اس طریق پر ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طرز عمل ہے- پہلی شرط کا نام اخلاص ہے اور دوسری کو صواب کہتے ہیں-
صحابہ نے اس راز کا پتہ لگا لیا تھا- اس واسطے وہ وہی کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت اور اتباع کا رنگ رکھتا ہو- کیونکہ انہوں نے یہ آداب الرسول کی آیتیں سنی ہوئی تھیں- وہاں انہوں نے کلام الٰہی کو اس طرح پر بھی سنا تھا- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۱( یعنی اے رسول )صلی اللہ علیہ سلم( ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب|الٰہی بن جائو تو میری اطاعت کرو‘ اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا- پس وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کی ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی کلید- اور وہ ہے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم-
صحابہ کرام کو جو یہ حکم دیا گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو اور محبوب|الٰہی بننے کا جو یہ گر ان کو بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع کرو‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ ترقی نہیں کر سکتے- اور نہ ترقی کرنے کا یہ اصول ہے کہ انفرادی طور پر ترقی کریں- بلکہ انبیاء و رسل کے ماتحت ترقی کرنے کا اصل الاصول یہی ہے کہ سب کے سب اکٹھے ہو کر اس کی اطاعت اور نقش قدم پر چلنے میں ایسے فنا ہوں کہ اسی کا عکس اور نمونہ بننا چاہیں- اور اس کے سایہ میں اس طرح پر جمع ہو جائیں جیسے مرغی کے پروں کے نیچے بچے جمع ہو جاتے ہیں-
جو لوگ انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ و السلام کی سیرت اور پاک لائف کو پڑھتے ہیں جو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرز زندگی پر نظر کرنے سے ملتی ہے- کیونکہ آپ مجموعی طور پر کل نبیوں کی صفات اور کمالات کو لے کر آئے تھے اور جہاں ایک طرف آپ نوع انسان کے اکمل افراد میں سب سے اعلی تھے اور سب کی خوبیوں اور کمالات کے جامع تھے وہاں کل دنیا کی اصلاح اور ہمیشہ تک کے لئے مصلح اور ریفارمر ہو کر آئے تھے- اس واسطے جس قدر نبی دنیا میں گذرے ہیں یا جس قدر خوبیاں اور کمالات انسان میں انتہائی درجہ تک ہو سکتے ہیں وہ سب آپ میں موجود تھیں- اس لئے آپ ہی کی لائف پر غور کرنا کل نبیوں کی سیرت کو پڑھ لینا ہے- مگر مجھے اس مقام پر پہنچ کر دل پر ایک ٹھوکر لگی ہے اور سخت درد محسوس ہوا ہے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور لائف پڑھنے والے اور اس کو اسوہ بنانے والے بہت ہی کم ہیں- مسلمانوں کا فرض تھا کہ آپ کی سیرت کو تدبر سے پڑھتے مگر انہوں نے نہیں پڑھا-
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خلق قران کریم ہے اور قرآن کریم کی طرف جو کچھ توجہ مسلمانوں کو ہے اس کے لئے یہ آیت بالکل صحیح ہے یٰرب ان قومی اتخذوا ھٰذا القراٰن مھجوراً )الفرقان:۳۱-( قرآن شریف ہی آپ کی پاک سیرت ہے اور اسی کی طرف مسلمانوں کو توجہ نہیں- باوجودیکہ وہ بہت ہی ذلیل حالت تک پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی تک بھی وہ بیدار نہیں ہوئے- اور اصل باعث جو ان کی تباہی اور ذلت کا ہے اس کو نظرانداز کر کے یورپ کی اتباع سے اور مغربی فلسفہ کو اسوہ بنا کر مسلمان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے اور ہرگز نہیں کر سکتے- ترقی کی ایک ہی راہ ہے اور وہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کی تھی- اور وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اسوہ بنانا- کیونکہ اللہ تعالیٰنے آپ ہی کو اسوہ حسنہ ٹھہرایا ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ )الاحزاب:۲۲-(بات کچھ اور تھی اور میں اس سلسلہ میں ادھر چلا گیا- میں نے ایسا عمداً اور ارادتاً نہیں کیا- یہ میرے دل میں ایک درد تھا اور ہے کہ مسلمان بلندی سے گرے ہیں اور پھر ابھرنے اور گڑھے سے نکلنے کے لئے گھاس پھوس کو ہاتھ مارتے ہیں اور اس مضبوط رسی کو جس کی بابت کہا گیا تھا و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً )اٰل عمران:۱۰۴( چھوڑ بیٹھے ہیں اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے-
غرض انبیاء علیھم السلام سے فیض ملنے کی ایک ہی راہ ہوتی ہے اور وہ وہی راہ ہے جس کو قرآن شریف میں کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۱۹( کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے- جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک مشین یا کل کی طرح ہوتا ہے- جس قدر لوگ اس کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہیں وہ انفرادی طور پر ترقی نہیں کرتے بلکہ ان کا فرض ہونا چاہئے کہ اس سے ملے رہیں- اگر وہ اس سے ملے نہیں رہتے تو وہ ترقی نہیں کر سکتے اور اس فیض کو جو اس سے ملتا ہے نہیں پا سکتے- جس قدر لوگ محبوب الٰہی بننا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ اس کا ساتھ دیں اور اس کی سچی اتباع کریں-
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوچھتے ہیں کہ مامور کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ہم کو کیا ضرورت ہے؟ ہم عقائد حقہ سے واقف ہیں اور اعمال صالحہ کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور ان کے پابند ہیں- مگر یہ ان کا دعویٰ ہی ہوتا ہے- اگر وہ اس سے واقف اور آگاہ ہوتے تو انکار ہی نہ کرتے- اعمال صالحہ کی حقیقت میں رسول کی سچی اتباع ضروری جزو ہے- پھر اعمال صالحہ سے وہ واقف اور اس کے پابند کیسے ہو سکتے ہیں-
اور ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض امور اصولی طور پر معلوم ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا یا سچا اور حقیقی ایمان پیدا ہونا اور گناہ سے نفرت کرنا اور بچنا یہ باتیں صرف ایک رسمی یا خیالی علم سے نہیں ہو سکتیں- مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جب کفار کو مخاطب کر کے فرمایا من خلق السمٰوات و الارض لیقولن اللہ )لقمان:۲۶( یعنی جب ان سے پوچھا جاوے کہ خالق السموات و الارض کون ہے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہی ہے- اور اپنی حاجت پرستی کے متعلق بھی وہ یہی سمجھتے اور کہتے تھے- لیقربونا الی اللہ زلفیٰ )الزمر:۴( یعنی خدا تعالیٰ کے قرب میں پہنچاتے ہیں- پھر قرآن|شریف کا ایک سطر میں توحیدی وعظ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں- پھر ایسا کون مذہب ہے جو سچ بولنے کو اچھا نہ سمجھتا ہو یا عام اخلاق کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو- اور تو اور بدکار سے بدکار آدمی بھی بدکاری کو برا سمجھتا ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس سے باز بھی رہے اور بدی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کرے-
پس انبیاء علیہم السلام نرا علم دینے کے لئے نہیں آتے ہیں بلکہ وہ اپنے اندر ایک کشش اور جذب کی قوت رکھتے ہیں جس سے دنیا کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور پھر اپنی قوت|قدسی کا اثر ان پر ڈالتے ہیں اور وہ لوگ جو ان کی پاک صحبت میں رہتے ہیں ان کے پاک اور کامل نمونہ سے فائدہ اٹھا کر اپنے اندر بدیوں کو دور کرنے اور رذائل سے بچنے اور فضائل کے حاصل کرنے کی قوت پاتے ہیں- مگر یہ قوت اور طاقت اور توفیق کب ملتی ہے‘ اس وقت جبکہ وہ اس کے فیض صحبت سے بہرہ ور ہوں اور اس کی مجلس کے آداب کی نگہداشت کریں اور ان میں ایسی وحدت ارادی ہو کہ سارے کے سارے ایک کل کے نیچے کام کرتے ہوں- اور سب کے سب حبل اللہ کو مضبوط پکڑے رہیں اور ان کی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ ہوں- یہ ہے وہ اصل جس سے انسان روحانی کمالات کو مامور کی صحبت میں حاصل کرتا ہے اور صحابہ نے اسی اصل کو مضبوط پکڑ کر سب منازل سلوک طے کیں-
یاد رکھو قوم قوم نہیں بنتی اور انعام نازل نہیں ہو سکتے جب تک وہ ایک شیرازہ میں جمع نہ ہو- جب تک وہ متفرق اور منفرد حالت میں رہے گی اس کی طاقت کمزور ہو گی اور وہ ان فیوض سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی- کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی سرگروہ‘ ایک ہی مرکز اور ایک ہی چشمہ ہو-
میں نے ایک چھوٹی سی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک بار انسانی جسم کے اعضا نے باہم مشورہ کیا- پائوں نے کہا کہ مجھے روزی کمانے کے لئے سفر کی کیا ضرورت ہے کھا تو پیٹ لیتا ہے- ایسا ہی ہاتھوں نے کہا کہ مجھے کمانے کی کیا حاجت- آنکھوں نے دیکھنے سے‘ کانوں نے سننے سے‘ غرض ہر ایک عضو نے اپنے اپنے فرض منصبی سے انکار کر دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ پیٹ میں جب کچھ نہ گیا تو آخر کل طاقتیں اور قوتیں سلب ہونے لگیں اور جب ہر ایک پر اس کا اثر ہوا تو پھر سب پکار اٹھے کہ یہ ہماری غلطی ہے- پیٹ ہی کے لئے مفید نہ تھا بلکہ ہم سب کی زندگی کا اصل راز بھی یہی اتفاق تھا- اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک وحدت ارادی پیدا نہ ہو زندگی پیدا نہیں ہو سکتی-
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس راز کو سمجھ لیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین و دنیا میں مظفر و منصور ہو گئے- صحابہ کرام نے یہ بات کیسے حاصل کی اور کس طرح سلوک پورا کیا- اس کا ایک نمونہ ان کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے- ایک مرتبہ ہادی کامل صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے- اثنائے بیان میں آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جائو- ابن مسعود ایک گلی میں آ رہے تھے وہاں ہی یہ آواز ان کے کان میں آئی اور معاً وہیں بیٹھ گئے- کسی نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے؟ فرمایا کہ اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جائو- چونکہ اس حکم کی تعمیل ضروری تھی اور یہ معلوم نہیں کہ مسجد تک جانے میں مجھے یہ موقع ملے یا نہ ملے اس واسطے میں یہیں بیٹھ گیا کہ تعمیل ارشاد ہو جاوے- یہ ہے نمونہ صحابہ کی اطاعت اور تعمیل حکم کا- اور جبتک یہی روح اور رنگ مسلمانوں میں پیدا نہ ہو یقینا سمجھ لو کہ کوئی ترقی اور کامیابی نہیں ہو سکتی اور ہرگز نہیں ہو سکتی- خواہ یورپ کے فلسفہ اور ایجاد کو اپنا قبلہ بھی بنا لیں-
اس طرح پر تم سمجھ سکتے ہو کہ وحدت کی کیسی ضرورت ہے- انسان انسانی کمالات میں ترقی کرنی چاہتا ہے- جمادات اور نباتات بھی اپنے رنگ میں ایک ترقی کرتے ہیں لیکن ان ترقیوں کی تہہ میں بھی یہ راز|وحدت کام کر رہا ہے- اگر وہ اعضاء کسی مرکز کے متبع نہ ہوں تو مردہ اور بیکار ہو جاتے ہیں- اگر یہ اعضا انسانی دوران دم قلب میں شریک نہیں ہوتے تو پھر تھوڑی دیر میں ان کا نتیجہ عام طور پر نظر آ سکتا ہے کہ وہ قویٰ بیکار ہو جاویں-
یہ خیال کرنا اور سمجھ لینا کہ جو مامور آوے وہ کوئی نہ کوئی نئی بات ہی سناوے یہ حماقت عظیم ہے- انبیاء علیہم السلام تو اس صداقت کی نشو و نما کے لئے آتے ہیں جو فطرت‘ قانون قدرت اور جستہ جستہ فقرات|کتاب میں موجود ہوتی ہے اور ان کی غرض اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنا اور گناہ کی موت سے بچانے کی تدابیر کا بتانا اور ایک وحدت پیدا کرنا ہوتی ہے- اس مسئلہ کو حضرات صحابہؓ باریک نظر سے دیکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ کوئی امر بدوں کسی جمعیت کے ہرگز حاصل نہیں ہو گا- نادان قوم نے صحابہ کی باریک عقل کو نہیں پہچانا اور بعض ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد معاً کچھ لوگوں کو خلافت کی فکر پڑی- وہ اعتراض کرنے کو تو اعتراض کرتے ہیں مگر نہیں جانتے- من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ )احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ۹۶-(صحابہ اس اصل کو مانتے اور اس پر ایمان لاتے تھے اس لئے انہوں نے پہلے امام کا اقرار ضروری سمجھا- کیونکہ اگر امام نہیں تو یہ کس طرح معلوم ہوتا کہ کہاں دفن کرنا ہے اور کیا کرنا ہے- مختلف الرائے اور مختلف الخیال آدمی موجود تھے- کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ- لیکن جب ایک امام ہو گیا اور اس کو قوم نے تسلیم کر لیا پھر کوئی امر متنازعہ باقی نہیں رہ سکتا تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا- ۷~}~
اس سے تو صحابہ کی اولوالعزمی‘ ان کی فراست صحیحہ اور وحدت و یکجہتی کی خواہش صادقہ کا پتا ملتا ہے اور یہ فعل ان کا قابل تعریف ثابت ہوتا ہے- مگر نادان معترض اس کو بھی اعتراض سے خالی نہیں چھوڑتا- سچ ہے- ’’ عیب نماید ہنرش در نظر ‘‘ کا معاملہ ہے-
پھر قرآن شریف چونکہ حکیم خدا کی کتاب ہے اور وہ انسانی قویٰ اور انسانی ضرورتوں کے علم پر حاوی ہے اس لئے وہ ایک اصل کو تو قائم رکھتا ہے اور ضمنی امور کو اس حد تک‘ جہاں تک انسان کی جائز ضروریات کا تعلق ہے‘ چھوڑ دیتا ہے یا یہ کہو کہ وہ کوئی حکم ایسا پیش نہیں کرتا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو اور وہ اس کی تعمیل ہی نہیں کر سکتا ہو چنانچہ صاف فرمایا لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا )البقرۃ:۲۸۷-(
مجھے اس موقع پر قرآن کریم کی عظمت اور کمال کے سامنے روح میں ایک وجد محسوس ہوتا ہے اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر یہ ہی زبردست دلیل نظر آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی ایک بڑی قوم جو آج اپنی دانش اور سمجھ پر اتراتی ہے- اپنی ایجادوں اور صنعتوں پر ناز کرتی ہے- اپنے ہدایت نامہ کو بکلی چھوڑ بیٹھے ہیں محض اس لئے کہ اس کی تعلیم ناممکن العمل ہے- اور وہ ایسی تعلیم ہے جس کے معلم کی نسبت تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ انسانی قویٰ کی حقیقت سے بالکل ناواقف اور نا آشنا ہے- یہی وجہ ہے کہ زندگی کے کسی حصہ اور شعبہ کے لئے انجیل کی ہدایت نہیں مل سکتی-
ایک شوہر‘ ایک باپ‘ ایک کمانڈر انچیف‘ ایک قاضی اور جج‘ ایک سلطان جلیل القدر‘ ایک متبتل|الی|اللہ درویش‘ ایک مقنن‘ ایک جواد انسان‘ بتائو انجیل سے کیا ہدایتیں لے سکتا ہے- ہماری گورنمنٹ مذہباً عیسائی ہے لیکن اگر وہ انجیل کے موافق عملدرآمد کرنا چاہے تو آج پولیس اور فوج کو الگ کرے اور کوئی ہندوستان مانگے تو یہ دوسرے حصے سلطنت کے دینے کو تیار ہو جاوے- ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے پر عمل شروع ہو تو آج انگلستان کا صفایا ہو جاوے- ملک کا امن چین خطرناک حالت میں پڑ جاوے- مگر خدا کا شکر ہے کہ اس پر عمل نہیں اور عملی طور پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انجیل ہدایت|نامہ نہیں ہے اور وہ انسانی زندگی کی ضروریات سے ناواقف شخص کے خیالات ہیں-
غرض ذکر تو ذوق بیان کی وجہ سے درمیان آ گیا- میں یہ بیان کرنا چاہتا تھا کہ قرآن شریف چونکہ اللہ علیم و حکیم کی کتاب ہے اس لئے وہ انسانی ضرورتوں اور ملکی مجبوریوں کا پورا علم اور فلسفہ اپنے اندر رکھتی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک صحبت میں رہنے کا حکم دیا ہے- اور انسان چونکہ متمدن ہے بعض اوقات اس کو مشکلات پیش آ جاتے ہیں اور وہ ہردم اس سرکار میں حاضر رہنے سے معذور ہو سکتا ہے اس لئے معمولی دوری کو انقطاع کلی کا موجب نہیں ہونے دینا چاہئے- جس قدر دور ہوتا جاتا ہے اسی قدر سستی اور کاہلی پیدا ہو سکتی ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور کثرت استغفار نہ ہو- اس لئے انقطاع کلی سے بچانے کے لئے حکم دیا ہے- ما کان لاھل المدینۃ و من حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ )التوبۃ:۱۲۰( یعنی اہل مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والوں کا یہ کبھی حال نہ ہو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کسی خاص کام میں توجہ کریں تو یہ اپنی جگہ سمجھیں یا نہ سمجھیں‘ اس کی خلاف ورزی نہ کریں-
انبیاء و مرسلین کے کام اللہ تعالیٰ کے اشارے اور ایما کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان میں باریک در باریک اسرار اور غوامض ہوتے ہیں- موٹی عقل سے دیکھنے والوں کی نظر میں ممکن ہے کہ ایک فعل مفید معلوم نہ ہو لیکن دراصل اس میں مال کار قوم اور ملک کے لئے ہزاروں ہزار مفاد اور بہتریاں ہوتی ہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی اگر اس پر اعتراض کر دے-
نادان انسان ہر فعل کی علت غائی اور ضرورت کو نہیں سمجھتا اور نہ اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ ہر ایک فعل کی علت غائی ہی سوچتا رہے- ایک کیکر کے درخت کو جو اس قدر کانٹے لگائے اور شیشم یا آم کے درخت کو ایک بھی کانٹا نہ لگایا- اب اگر ایک احمق اعتراض کرے کہ یہ کیا کیا- کیکر کے درخت کو کانٹے کیوں لگائے اور دوسرے کو کیوں نہ لگائے یہ اس کی نادانی ہو گی یا نہیں؟ اس کی مصلحت اور ضرورت کو تو وہی خدا سمجھتا ہے جس نے کیکر اور آم کو بنایا ہے دوسرا کیونکر اسے سمجھے-
اسی طرح پر انبیاء کے افعال و حرکات‘ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے خفی و جلی احکام اور اشارات کے ماتحت ہوتے ہیں- بعض اوقات ان کے افعال عام نظر میں ایسے دکھائی دئے جاتے ہیں جو دوسروں کو اعتراض کا موقع ملتا ہے مگر درحقیقت درست اور صحیح وہی ہوتا ہے- اب ایک آدمی دیکھتا ہے کہ بدر کی جنگ میں تین آدمی مخالفوں کی طرف سے نکلے ہیں اور تین ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے نکلے ہیں- کوئی کہے کہ تین کے مقابلہ میں ڈیڑھ کافی تھا آپ نے تین کیوں بھیجے جو چھ کے لئے کافی تھے؟ مگر وہ بڑا ہی احمق اور نادان ہو گا جو کہے کہ یہ کارروائی غلط تھی-
یاد رکھو خدا تعالیٰ کی مرسل مخلوق کو اپنی فراست پر قیاس نہیں کر لینا چاہئے- اسی لئے فرمایا کہ خیر القرون کی مخلوق کو تخلف جائز نہیں ہے خواہ اس میں مصائب اور مشکلات ہی پیدا ہوں اور ہوتے ہیں- مگر جب وہ اپنا کام اس پر مقدم نہ کریں گے تو کیا یہ تکالیف اور مصائب اکارت جائیں گے؟ کبھی نہیں- سنو! ذالک بانھم لا یصیبھم ظما و لا نصب و لا مخمصۃ فی سبیل اللہ و لایطئون موطئاً یغیظ الکفار و لاینالون من عدو نیلاً الا کتب لھم بہ عمل صالح ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین )التوبۃ:۱۲۰(
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سفر میں پیاس لگتی ہے موقع پر پانی نہیں ملتا- بوجھ اٹھانا پڑتا ہے- تکان یا تکالیف ہوتی ہیں- ایسا ہی سفر میں ممکن ہے کہ روٹی نہ ملے یا ملے تو وقت پر نہ ملے- اس قسم کی صدہا قسم کی تکلیف ہوتی ہے-۱~}~ اس قسم کی تکالیف اور مشکلات اگر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور یا دشمن سے کوئی فائدہ حاصل کر لے- غرض حضور الٰہی میں ان کا ثمرہ ضرور ہوتا ہے اور ان کے نامہ اعمال میں نیک عمل لکھا جاتا ہے- خدا چونکہ شکور خدا ہے وہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا- مولا کریم چونکہ شکور ہے اور علیم و خبیر ہے اس لئے وہ فرماتا ہے ان اللہ لایضیع اجر المحسنین بے شک اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا- محسن کسے کہتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احسان کی تعریف جبرائیل نے صحابہ کی تعلیم کے لئے پوچھی ہے- آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کو دیکھتا رہے یا کم از کم یہ کہ یہ یقین کر لے کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیکھتا ہے- ۸~}~
یہ ایک ایسا مرتبہ عظیم الشان ہے جس کے کسی نہ کسی پہلو کے حاصل ہو جانے پر انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے اور بڑے بڑے مراتب اور مدارج اللہ تعالیٰ کے حضور پا لیتا ہے- ساری نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام ترقیوں اور بلند پروازیوں کی جان اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے- انسان اعلی درجہ کے اخلاق فاضلہ کو حاصل
۱~}~ مطابق اصل
ہی نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو کہ وہ ہے- میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی تیار نہیں ہو سکتا کہ ایک دہریہ بھی کبھیاعلی درجہ کے اخلاق فاضلہ والا ہو سکتا ہے- کوئی چیز اس کو گناہوں کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی- نیکی کا کوئی سچا مفہوم اس کی سمجھ میں آ نہیں سکتا- پھر وہ نیکی کیسے کرے اور گناہوں سے کیونکر بچے- اس کی ساری عمر ناامیدیوں اور مایوسیوں کا شکار رہتی ہے- وہ اسباب اور علت و معلول کے سلسلہ کے پیچ در پیچ تعلقات میں ہی منہمک رہ کر آخر حسرت اور یاس سے اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے- میں نے دہریہ اور ایمان والے دونوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے اور دونوں کی موت میں زمین و آسمان کا فرق پایا ہے- میں سچ کہتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربہ سے کہتا ہوں اور پھر جو چاہے آزما کردیکھ لے کہ سچی راحت اور حقیقی خوشی صرف صرف ایمان باللہ سے ملتی ہے- یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم|السلام اور صلحاء کی لائف میں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی واقعہ خودکشی کا نہیں پایا جاتا- مومن کی امید اپنے اللہ پر بہت وسیع ہوتی ہے- وہ کبھی اس سے مایوس نہیں ہوتا- ان کی زندگی کے واقعات کو پڑھو تو معلوم ہو گا کہ ایک ایک وقت ان پر ایسا آیا ہے کہ زمین ان پر تنگ ہو گئی ہے لیکن اس شدت ابتلا میں بھی وہ ویسے ہی خوش و خرم ہیں جیسے اس ابتلاء کے دور ہونے پر- وہ کیا بات ہے جو ان کو اس موت کی سی حالت میں بھی خوش و خرم اور زندہ رکھتی ہے‘ فقط اللہ پر ایمان-
غرض محسنین کے زمرہ میں داخل ہونا بہت ہی مشکل اور پھر مشکل کشا ہے- پہلا درجہ جو محسن کا اعلی مقام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے بعد میں حاصل ہوتا ہے- اس کا ابتدائی درجہ یہی ہے کہ وہ یہ ایمان لائے کہ میرے ہر قول|وفعل کو مولیٰ کریم دیکھتا اور سنتا ہے-
جب یہ مقام اسے حاصل ہو گا تو ہر ایک بدی کے وقت اس کا نور قلب اس ایمان کی بدولت اس سے روکے گا اور لغزش سے بچا لے گا- اور رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخر وہ اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ خدا تعالیٰ کو دیکھ لے گا- اور یہ وہ مقام ہے جو صوفیوں کی اصطلاح میں لقا کا مقام کہلاتا ہے-
پس جب انسان محسن ہوکر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو پھر تھوڑا ہو یا بہت‘ اللہ تعالیٰ اس کے بہتر بدلے دیتا ہے- یہ صرف اعتقادی اور علمی بات ہی نہیں- کہانی اور داستان ہی نہیں بلکہ و اقعات نفس|الامری ہیں- میں دنیا کی تاریخ میں جس سے مراد میں انبیاء علیہم السلام کی پاک تاریخ لیتا ہوں بہت سے واقعات اس کی تصدیق میں پیش کر سکتا ہوں اور علمی طریق پر بھی خدا کے فضل سے اس کی سچائی ثابت کرنے کو تیار ہوں- مگر ان سب باتوں کو چھوڑ کر میں ایک عظیم الشان واقعہ صحابہ کی لائف کا دکھانا چاہتا ہوں-
میں ایک عرصہ تک اس سوال پر غور کرتا رہا کہ کیا وجہ تھی جو انصار کو خلافت نہ ملی بلکہ خلافت کے اول وارث مہاجر ہوئے اور مہاجرین میں سے بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ- حالانکہ انصار میں سب نے بڑی ہمت کی اور ان کی اس وقت کی امداد ہی نے ان کو انصار کا پاک خطاب دیا- لیکن اس کا کیا سر ہے کہ بادشاہی اور حکومت کا ان کو حصہ نہ ملا اور پہلا خلیفہ قریشی ہوا- پھر دوسرا‘ تیسرا‘ چوتھا بھی یہاں تک کہ عباسیوں تک قریشیوں ہی کا سلسلہ چلا جاتا ہے- بنوثقیفہ میں کوشش کی گئی کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے مگر یہ تجویز پاس نہیں ہوئی اور کسی نے نہ مانا- آخر مجھ پر اس کا سر یہ کھلا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین اپنا کام کر رہی تھی- انصار نے کیا چھوڑا تھا جو ان کو ملتا- مہاجرین نے ملک چھوڑا- وطن چھوڑا- گھر بار چھوڑا‘ مال|و|اسباب- غرض جو کچھ تھا وہ سب چھوڑا اور سب سے بڑھ کر ابوبکر صدیقؓ نے- اس لئے جنہوں نے جو کچھ چھوڑا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر پایا- زیادہ سے زیادہ ان کی زمین چند بیگہ ہو گی جو انہوں نے خدا کے لئے چھوڑی مگر اس کے بدلہ میں یہاں خدا نے کتنے بیگہ دی؟ اس کا حساب ہی کچھ نہیں-
پس یہ سچی بات ہے کہ انسان جسقدر قربانی خدا کے لئے کرتا ہے اسی قدر فیض اللہ تعالیٰ کے حضور سے پاتا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کتنی بڑی تھی پھر اس کا پھل دیکھو کس|قدر ملا- اپنی عمر کے آخری ایام میں ایک خواب کی بنا پر جس کی تاویل ہو سکتی تھی حضرت ابراہیم نے اپنے خلوص کے اظہار کے لئے جوان بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم بالجزم کر لیا- پھر خدا نے اس کی نسل کو کس|قدر بڑھایا کہ وہ شمار میں بھی نہیں آ سکتی- اسی نسل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا عظیم الشان رسول‘ خاتم النبیین رسول کر کے بھیجا جو کل انبیاء علیہم السلام سے افضل ٹھیرا جس کی امت میں ہزاروں ہزار اولیاء اللہ ہوئے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثیل تھے اور لاکھوں لاکھ بادشاہ ہوئے- یہاں تک کہ مسیح موعود جو خاتم الخلفاء ٹھیرایا گیا ہے وہ بھی اسی امت میں پیدا ہوا- اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے اسے پایا اور اس کی شناخت کا موقع ہم کو دیا گیا و الحمد للٰہ علیٰ ذالک-
یہ بدلہ یہ جزا کس بات کی تھی؟ اسی عظیم الشان قربانی کی جو اس نے خدا تعالیٰ کے حضور دکھائی- واقعی یہ بات قابل غور ہے کہ ابراہیم کی عمر جب کہ سو برس کے قریب پہنچی اس وقت قوائے بشری رکھنے والا کیا امید اولاد کی رکھ سکتا ہے- پھر تیرہ برس کی عمر کا نوجوان لڑکا جو چوراسی برس کے بعد کا ملا ہو اہو اس کے ذبح کرنے کا اپنے ہاتھ سے ارادہ کر لینا معمولی سی بات نہیں ہے جس کے لئے ہر شخص تیار ہو سکے- غور کرو اس ذبح کے بعد عمر کے آخری ایام ہیں اور قبر قریب ہے- پھر کیا باقی رہ سکتا ہے‘ نہ مکان رہا‘ نہ عزت|و|جبروت- مگر اے ابراہیم! تجھ پر خدا کا سلام‘ تو نے خدا تعالیٰ کے ایک اشارہ اور ایما پر سارے ارادوں اور ساری خوشیوں اور خواہشوں کو قربان کر دیا اور اس کے بدلے میں تو نے وہ پایا جو کسی نے نہیں پایا- خاتم|النبیین اسی اسماعیل کی نسل میں ہوا اور خاتم الخلفاء اسی خاتم النبیین کی امت میں- اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید-
پھر ابراہیم علیہ الصلٰوۃ و السلام کا وہ صدق اور اخلاص کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا اسلم قال اسلمت )البقرۃ:۱۳۲( اے ابراہیم! تو فرمانبردار ہو جا- عرض کیا حضور میں تو فرمانبردار ہو چکا-اسلم نہیں کہا
اسلمتکہا یعنی اپنا ارادہ رکھا ہی نہیں معاً حکم الٰہی کے ساتھ ہی تکمیل ہو گئی- پھر اس اخلاص سے کیا بدلہ پایا یہی کہ ابو الملت ٹھیرا- جو کچھ چھوڑا‘ اس سے بڑھ کر ملا-
اسی طرح پر سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حالت پر غور کرو- اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو بادشاہ بننے کی آرزو ہے تو ہم تجھ کو بادشاہ بنانے کے واسطے تیار ہیں- اگر تجھے دولتمند بننے کی خواہش ہے تو دولت جمع کر دیتے ہیں- اگر حسین عورت چاہتا ہے تو تامل و مضائقہ نہیں- یہ کیا چیزیں تھیں مگر دنیا پرست کی نظر ان سے پرے نہیں جا سکتی تھی اس لئے اسی کو پیش کیا- آپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ یہی کہ اگر سورج اورچاند کو میرے دائیں بائیں رکھ دو تو بھی میں اس اشاعت اور تبلیغ سے رک نہیں سکتا- اللہ! اللہ! کس قدر اخلاص ہے‘ اللہ تعالیٰ پر کتنا بڑا ایمان ہے- قوم کی مخالفت‘ ان دکھوں اور تکلیفوں کے سمندر میں اپنے آپ کو ڈال دینے کے واسطے روح میں کس قدر جوش اور گرمی ہے جو اس انکار سے آنے والی تھیں- ان تمام مفاد اور منافع پر تھوک دینے کے لئے کتنی بڑی جرات ہے جو وہ ایک دنیادار کی حیثیت سے پیش کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ کو راضی رکھ کر‘ اس کو مان کر‘ اس کے احکام کی عزت و عظمت کو مدنظر رکھ کر اس قربانی کا بدلہ آپ نے کیا پایا؟ وہ پایا جو دنیا میں کسی ہادی کو نہیں ملا اور نہ ملے گا- انا اعطیناک الکوثر )الکوثر:۲( کی صدا کس کو آئی اور کس نے ہر چیز میں آپ کو وہ کوثر عطا کی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی؟ سوچو اور غور کرو!
میں نے مختلف مذاہب کی کتابوں‘ ان کے ہادیوں اور نبیوں کے حالات کو پڑھا ہے اس لئے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی قوم اپنے ہادی کے لئے ہر وقت دعائیں نہیں مانگتی ہے مگر مسلمان ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں‘ ہر وقت‘ ہر آن اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد و بارک و سلم کی دعا آپ کے لئے کر رہے ہیں جس سے آپ کے مراتب ہر آن بڑھ رہے ہیں- یہ خیالی اور خوش کن بات نہیں‘ واقعی اسی طرح پر ہے- دنیا کے ہر آباد حصہ میں مسلمان آباد ہیں اور ہر وقت ان کی کسی نہ کسی نماز کا وقت ضرور ہوتا ہے جس میں لازمی طور پر اللٰھم صل علیٰ محمد پڑھا جاتا ہے- مقرر نمازوں کے علاوہ نوافل پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے- اور درود شریف بطور وظائف کے پڑھنے والے بھی کثرت سے- اس طرح پر آپ کے مراتب و مدارج کا اندازہ اور خیال بھی ناممکن ہے- یہ مرتبہ‘ یہ فخر کسی اور ہادی کو دنیا میں حاصل نہیں ہوا ہے- ۹~}~
حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے محض خدا تعالیٰ کے خوف سے ایک عورت کے ساتھ بدکاری کرنے سے پرہیز کیا- ورنہ ایک عام آدمی بھی جس کی نگاہ بہت ہی چھوٹی اور پست ہو کہہ سکتا ہے کہ اس تعلق سے وہ اس عزت سے جو اس وقت ان کی تھی زیادہ معزز اور آسودہ حال ہوتے- اگرچہ یہ خیال ایک دنی الطبع آدمی کا ہو سکتا ہے- مومن کبھی وہم بھی نہیں کر سکتا کہ کسی بدی اور بدکاری میں کوئی آرام اور آسودگی کی عزت مل سکتی ہے‘ سچی عزت اور راحت مل سکتی ہے- کیونکہ ارشاد الٰہی اس طرح پر ہے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں- اور پھر معزز ہونا رسول اور مومنین کے لئے لازمی ہے-
بہر حال جو کچھ بھی ہو کمینہ فطرت‘ کم حوصلہ انسان‘ عاقبت اندیشی سے حصہ نہ رکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ ان کو آرام ملتا ہے- مگر حضرت یوسف نے اس عزت‘ اس آرام اور دولت کو لات ماری اور خدا|تعالیٰ کے احکام کی عزت کی- قید قبول کی مگر حکم الٰہی کو نہ توڑا- نتیجہ کیا ہوا- وہی یوسف‘ اسی مصر میں‘ اسی شخص کے سامنے اس عورت کے اقرار کے موافق معزز اور راست باز ثابت ہوا- وہ امین ٹھیرایا گیا اور جس مرتبہ پر پہنچا تم میں سے کوئی اس سے ناواقف نہیں- یوسف علیہ السلام کا یہ سارا تذکرہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و کذالک نجزی المحسنین )الانعام:۸۵( یعنی عادت اللہ اور سنت|اللہ اسی طرح پر واقع ہوئی ہے کہ کوئی محسن ہو)خواہ( کبھی ہو‘ اس کو اس طرح پر جزا ملتی ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو ملی-
غرض انسان محسن بنے پھر خدا اس کے ساتھ ہے اور اسے مراتب اعلی ملتے ہیں- خدا کی راہ میں تھوڑا ہو یا بہت‘ جو کچھ خرچ کرتا ہے اور خداکے لئے اگر کوئی وطن اور مال اور دولت یا عزت کو چھوڑتا ہے وہ بے وطن نہیں ہوتا‘ اس کو بہترین وطن دیا جاتا ہے- وہ بے قوم و بے یار و مددگار نہیں رہتا‘ اس کو بہترین قوم‘ بہترین احباب و دوست دیئے جاتے ہیں- جو چھوڑتا ہے اس سے بہتر پاتا ہے- لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر خرچ کے لئے جو اللہ کی راہ میں ہو اوقات ہوتے ہیں-
مامور من اللہ جب آتا ہے اس کے ابتدائی زمانہ میں اس کی اعانت و نصرت کی عند اللہ بہت قدر اور عزت ہوتی ہے- وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ ایک مٹھی بھر جو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا بہت قیمت اور قدر رکھتے ہیں- مگر ایک زمانہ اس مامور کی کامیابیوں کا آ جاتا ہے اس وقت سونے کے پہاڑ خرچ کرنے کی بھی اس قدر قیمت نہیں ہو گی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ہر طرف سے مخالفت کی صدائیں بلند تھیں اور مسلمان ہونے والوں کو وہ اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں جو آج خدا کے محض فضل سے اس گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمارے مخالف ہم کو نہیں پہنچا سکتے اس وقت آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی جو کی آج جو قدر ہے وہ ایک وقت آنے والا ہے احد پہاڑ کے برابر سونا دینے والے کی وہ قدر نہ ہو گی- حقیقت میں یہ کیسی سچی بات ہے- جب مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ بہت وسیع ہو گیا اگر عباسیوں کے زمانہ میں ہارون رشید یا مامون رشید اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک مٹھی جو کی دیتے تو ان کے لئے شرم اور عار کا باعث ہوتا- مگر یہ خوب یاد رکھو جس چیز کے بدلے انہوں نے سلطنت پائی اور قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے پائوں میں ڈالے گئے وہ ایک مٹھی جو ہی تھی جو صحابہ نے دی- اس سے بھی صاف نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور پھر مامور کی ابتدائی بعثت کے ایام میں خرچ کرنا بہت ہی بڑا قدر و قیمت رکھتا ہے- یہ تو ہے انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت-
اب ایک اور امر ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہے اور جس کی طرف بڑی توجہ دلائی گئی ہے‘ وہ کیا ہے؟ متقی بننا اور صادقوں کا ساتھ دینا ہے- حقیقت میں تقویٰ کی اصل روح انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ صادقوں کی صحبت میں نہ رہے- صادق کی پاک صحبت اندر ہی اندر ایک خاص اثر انسان کی روح پر کرتی ہے اور اس کے امراض روحانی کا مداوا اس کی پاک توجہ‘ عقد ہمت‘ دعا اور موثر وعظ و نصائح جو وہ وقتا" فوقتا" درد دل سے کرتا ہے اور وہ نشانات و خوارق جو وقتا" فوقتا" اللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کے لئے نازل فرماتا ہے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور جب ایمان کامل ہونے لگتا ہے تو گناہوں کی زندگی پر موت آ کر ایک نئی زندگی اسے عطا ہوتی ہے جس میں تقویٰ کے خواص اور آثار پائے جاتے ہیں- لیکن انسان کی ضرورتیں اور کم نظریاں‘ انعامات الٰہیہ کی وسعت سے بے خبری‘ اس کی ذاتی کمزوریاں اور بشری تقاضے بعض اوقات ایسا کرتے ہیں کہ ہر وقت وہ ماموروں کی صحبت میں نہیں رہ سکتا- اور وہ فیض اور فضل جو ان کی پاک صحبت میں ملتا ہے وہ اسے ان شرائط اور لوازمات کے ساتھ جو خاص صحبت ہی سے مختص ہیں‘ نہیں پا سکتا- اس لئے ایک اور ضرورت پیش ہوئی وہ ضرورت ہے تفقہ فی الدینکی- تفقہ فی الدین کے لئے پھر یہ حکم صادر ہوا و ما کان المومنون لینفروا کافۃ فلو لانفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون )التوبۃ:۱۲۲( یعنی چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے اور نہ مناسب بھی ہے کہ سب کے سب مسلمان یک دفعہ ہی نکل جاویں اس لئے کیوں نہ ہر گروہ سے ایک جماعت اس مقصد اور غرض کے لئے نکلے کہ وہ تفقہ فی الدین کرے اور جب وہ قوم کے پاس لوٹ کر واپس آئیں تو قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ قوم بری باتوں سے بچے-
اس آیت سے پہلی آیت میں انفاق کے فضائل بیان ہوئے ہیں- اس واسطے کہ اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے انفاق کی ایک ضرورت بھی پیش ہوئی ہے- اس سے پہلی آیت یہ ہے و لاینفقون نفقۃ صغیرۃ و لا کبیرۃ و لا یقطعون وادیاً الا کتب لھم لیجزیھم اللہ احسن ما کانوا یعملون )التوبۃ:۱۲۱( یعنی اور نہ وہ اللہ کی راہ میں کوئی ہو ایسا تھوڑا یا بہت مال خرچ کریں گے اور نہ کوئی میدان طے کریں گے مگر یہ کہ ان کے واسطے اس خرچ اور سفر کی جزا لکھی جاوے گی تا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس اچھے کام کا بدلہ دے جو وہ کرتے تھے-
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مامورین کے وقت سفروں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے اور خدا کے لئے کوئی نہ کوئی سفر قوم کے بعض یا کل افراد کو کرنا پڑتا ہے- پس وہ سفر بجائے خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین جزا کا موجب اور باعث ہوتا ہے- غرض اس میں انفاق کی فضیلت بیان کر کے اس دوسری آیت میں جو تفقہ فی الدین کے لئے ایک جماعت کے نکلنے کی ہدایت کرتی ہے انفاق کی ضرورت بیان کی گئی- ۱۰~}~
عام طور پر کل انسان ایک امام کے حضور جمع نہیں ہو سکتے- کل دنیا نہ تو متفق ہی ہو سکتی ہے نہ وہ ایک جگہ جمع ہو سکتی ہے- ملکیت کی طبعی تقسیم اور پھر کل دنیا کی طبعی تقسیم اس امر کی شاہد ہے- اس عام نظام قدرت کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ سب کے سب امام کے حضور جمع رہو اور ہر وقت حاضر رہو قریباً تکلیف ما لایطاق ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھی- یہ فخر عیسائیوں کو بے شک ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کو ایسی شریعت ملی ہے جس کو کوئی انسان بجالا سکتا ہی نہیں- اگرچہ تعجب ہے کہ پھر وہ شریعت کا نزول ہی کیوں مانتے ہیں- سرے سے کہہ دیتے شریعت آئی ہی نہیں اور نہ اس کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ انسان اس کی بجاآوری اور تعمیل سے قاصر ہے- لیکن اسلام‘ ہاں پاک و بے عیب اسلام ایسی شرمناک اور قابل مضحکہ بات کو روا نہیں رکھتا- وہ لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا )البقرۃ:۲۸۷( کی پاک ہدایت دیتا ہے- پھر میں کیوں ایک طرفہ~ن۲~ العین کے لئے بھی یہ روا رکھوں کہ اسلام میں کوئی حکم ایسا بھی ہے جس کی تعمیل ناممکن ہے- یہ خوبی اور عظمت اسلام کی ہی ہے کہ اس کے جمیع احکام اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک انسان ان سے اپنی استطاعت و طاقت کے موافق اپنی حالت اور حیثیت کے لحاظ سے یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے- مثلاً ایک شخص ہے وہ بیمار ہے‘ اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا‘ وہ بیٹھ کر حتی کہ اشاروں سے بھی پڑھ سکتا ہے- اس کا ثواب ایک مستعد تندرست آدمی کی نماز سے کم نہیں ہو گا اور نہ اس نماز میں کوئی سقم واقع ہو سکتا ہے- ایک شخص استطاعت حج کی نہیں رکھتا- حج نہ کرنے سے اس پر گناہ نہیں ہو گا- اسی طرح پر تفقہ فی الدین کی بھی مختلف صورتیں ہیں- ہر شخص اتنا وقت اور فراغت نہیں رکھتا کہ وہ اس کام میں لگا رہے- دنیا میں تقسیم|محنت کا اصول صاف طور پر ہدایت دے رہا ہے کہ مختلف اشخاص مختلف کام کریں- انسان کی تمدنی زندگی کی ضروریات کا متکفل ہو گا- اسی طرح اسی اصول کی بنا پر حکم ہوا کہ و ما کان المومنون لینفروا کافۃ فلو لانفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون یعنی یہ امر تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کل مومن علوم حقہ کی تعلیم اور اشاعت میں نکل کھڑے ہوں- اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ ہر طبقہ اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ایسا ہو جو علوم دین حاصل کرے اور پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کو حقائق|دین سے آگاہ کرے تا کہ ان میں خوف و خشیت پیدا ہو-
میں افسوس اور درد دل کے ساتھ کہتا ہوں کہ عملی رنگ میں اس آیت کو منسوخ کر دیا گیا ہے- حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے-
علم کی غرض و غایت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہو‘ جس خوف سے خدا تعالیٰ کی معرفت بڑھتی ہے اور انسان گناہوں اور بدیوں سے بچتا ہے- یہ بات خیالی نہیں یقینی اورنیچرل ہے- دیکھو تم کیوں خون کرنے سے ڈرتے ہو؟ صرف اس لئے کہ تعزیرات ہند ڈراتی ہے اور اس کی سزا تمہارے دل پر ایک خاص اثر ڈال کر ایسی حرکات سے بچاتی ہے- یہ طریقے دراصل بدیوں سے بچنے کے عارضی اور ظلی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون مجریہ وقت کے ہوتے ہوئے بھی‘ باوجودیکہ مجرموں کو سزا ملتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں‘ من کل الوجوہ جرائم کا دروازہ بند نہیں ہوتا- اور اس کی وجہ یہی ہے کہ حقیقی طور پر یہ دروازہ اللہ|تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے بند ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ علماء ربانی اور ماموروں کی زندگی میں یہ نمونہ بدیوں کا نہ ملے گا بلکہ ان کی زندگی پاک اور بے لوث ہو گی- وہ اس لئے بدیوں سے نہیں بچتے کہ وہ تعزیرات ملک سے ڈرتے ہیں بلکہ وہ تعزیرات خدا سے ڈرتے ہیں اور وہ خوف ان کے نفسانی قویٰ پر غلبہ پا کراس مادہ کو بھسم کر دیتا ہے جو بے اعتدالی کا جوش نفس سے پیدا ہو سکتا ہے-پس حقیقی طور سے گناہ سے بچنے کا طریق خوف خدا کا دل پر مستولی ہونا ہے-
ایک اور بھی راہ ہے جس سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے‘ وہ خدا تعالیٰ کے حسن پر اطلاع ہے- جب پوری معرفت اور بصیرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جمال کو دیکھتا ہے تو اس حسن کے بالمقابل تمام لذات اسے ہیچ اور فانی نظر آتی ہیں اور ساری خوشیوں اور راحتوں کواسی صاحب الحسن کی اطاعت میں پاتا ہے- یہ مقام اعلی درجہ کے انسانوں کا ہوتا ہے- مگر ایک طبقہ انسانوں کا ایسا بھی ہے جو خوف الٰہی بھی ان کو گناہوں سے بچا لیتا ہے- اور یہ خوف علوم حقہ میں تفقہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے اسی لئے علماء ربانی کی شان میں کہا گیا ہے-
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹-(مگر آج اس زمانہ میں عالم کے یہ معنی سمجھے گئے ہیں کہ کج بحثیاں کرنے میں طاق ہو- کبھی کسی بات کے ماننے کے لئے تیار نہ ہو- جو منہ سے نکل جاوے خواہ وہ کیسا ہی بیہودہ اور لغو ہو اس کی تائید میں قرآن شریف میں تحریف کرنے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر افتراء کرنے سے بھی نہ ڈرے- خدا تعالیٰ مجھ کو اور میرے بھائیوں کو ایسے علم سے بچائے- آمین
حضرت امام نے ایک الہامی قصیدہ لکھا ہے اس کا یہ شعر کیسا سچا ہے-
علم آں بود کہ غور فراست رفیق اوست
ایں علم تیرہ را بہ نمی خرم
تم علم پڑھو لیکن اگر اس علم سے خدا کا خوف اور خشیت پیدا نہیں ہوتی تو استغفار اور لاحول پڑھو کہ وہ علم حجاب اکبر ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہو جاوے- میں نے بڑے بڑے مولوی اور عالم کہلانے والے دیکھے ہیں- اس وقت موجود ہیں- اور تم میں سے اکثر اس سے ناواقف نہیں کہ وہ چیز جو ان کی راہ میں امام وقت کی اطاعت میں ٹھوکر کا پتھر ہوئی وہ وہی ان کا علمی ناز اور گھمنڈ تھا- اگر وہ حقیقی علوم کے وارث ہوتے تو ان میں خشیت اور خوف پیدا ہوتا- ان کے دل یہ سن کر ڈر جاتے کہ سنانے والا کہتا ہے-
’’میں خدا کا مامور ہوں‘‘
یہ چھوٹی سی بات نہ تھی- خدا کے بھیجے ہوئے سے مقابلہ! میں سچ کہتا ہوں کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کو میں بیان کرتا ہوں کہ میرا دل اس تصور سے بھی کانپ جاتا ہے کہ انکار کے لئے کیوں جرات کرتے ہیں؟ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ علم نور فراست ساتھ ہی نہ رکھتا تھا- اس سے بہتر تھا کہ وہ جاہل رہتے-
ایک اور بات قابل غور ہے کہ عالم ربانی بننے کے لئے شرط ہے تقویٰ اللہ کی- بدوں اس کے علوم|حقہ کی کلید مل سکتی ہی نہیں کیونکہ خود خدا تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳-(اصل معلم علوم حقہ کا تو خدا تعالیٰ ہی ہے اور اس کی راہ ہے تقویٰ اللہ- جب اس طریق پر انسان تقویٰ اختیار کرے تو علوم حقہ کے دروازے اس پر کھلیں گے اور وہ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹( میں داخل ہو گا-
غرض عالم ربانی کے لئے ضرورت ہے کہ تقویٰ سے کام لے- اور تقویٰ کی حقیقت اس وقت تک کھل نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے صادق اور مامور بندوں کی صحبت میں نہ رہے- جیسا فرمایا ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۲۰-(اس سے معیت صادق کی بہت بڑی ضرورت معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت ضرورت ہے- لیکن چونکہ ساری قوم ایک ہی وقت اپنے امام کے گرد نہیں رہ سکتی- اور اگر ہر فرد قوم کا حاضر بھی ہو تو ہر ایک فائدہ نہیں اٹھا سکتا- طبیعتیں جدا جدا ہیں اور مذاق الگ الگ- اور تقسیم محنت کا اصول الگ اس کی مخالفت کرتا ہے- اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر فرمایا کہ ایک گروہ حصول تعلیم دین کے لئے حاضر ہو اور وہ واپس جاکر قوم کو سکھلائے-
میں پھر کہتا ہوں کہ اس آیت اور اس کے اصل مفہوم پر غور کرو- اس کے الفاظ کو سوچو کہ ان کے اندر اصول تعلیم کے لئے کیسا کھلا اور واضح قانون رکھا ہے- اصل غرض تفقہ فی الدین ہے- یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ طوطے کی طرح چند کتابیں رٹ لے اور دستار فضیلت باندھ کر یا ایک کاغذ سند کے طور پر ہاتھ میں لے کر قوم پر ایک بوجھ بن کر مالیہ وصول کرتا پھرے- نہیں‘ بلکہ اس کی روحانی اور اخلاقی حالت‘ اس کی نکتہ رسی اور معرفت ایسی ہو‘ اس کے کلام میں وہ تاثیر اور برکت ہو کہ لوگوں پر خوف الٰہی مستولی ہو کر ان کو گناہوں سے بچانے کا باعث ہو- وہ ایک نمونہ ہو جس سے قوم پر اثر پڑ سکے- مگر بتائو اور وسیع نظر کر کے دیکھ لو کتنے ہیں جو اس کے صحیح مصداق ہیں- اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مرزا صاحب کو امام مانا- صادق سمجھا بہت اچھا کیا لیکن کیا اس غرض و غایت کو سمجھا کہ امام کیوں آیا ہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی غرض یا اس کا مقصد میری تقریروں سے یا مولوی عبد الکریم کے خطبوں سے یا کسی اور کی مضمون نویسیوں سے معلوم نہیں ہو سکتا- اور نہ ہم اس غرض اور مقصد کو پورے طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہمارے بیان میں وہ زور اور اثر ہو سکتا ہے جو خود اس رسالت کے لانے والے کے بیان میں ہے- پھر اس کے معلوم کرنے کو تو خود اس کے منہ سے کچھ سننا چاہئے- اور یہ اس کی صحبت سے معلوم ہو گا-
تم نے مولویوں کو ناراض کیا- سجادہ نشینوں کو چھوڑا اور اکثروں کو یہ مشکلات بھی پیش آئیں کہ ان کو اپنے بعض رشتہ داروں یا عزیزوں سے قطع تعلق کرنا پڑا- یہ سب کچھ صحیح لیکن اگر اس غرض کو معلوم نہ کیا جس کے لئے یہ چھوڑا ہے تو کیا فائدہ! اپنے آپ کو مشکلات میں تو ڈال لیا- مگر غور تو کرو کہ کس قدر ہیں جو یہاں رہ کر قرآن شریف سیکھیں- علمی اور عملی تفسیر کا یہاں کے سوا کہیں موقع نہیں کیونکہ خدا|تعالیٰ کا مامور یہاں موجود ہے- میں سچ کہتا ہوں میرے دل میں یہ تڑپ اور جوش ہے اور رہتا ہے کہ میرے بھائی سمجھدار اور ذہین یہاں رہیں اور قرآن شریف کے علوم حقہ کو سیکھیں اسی طرح پر جس طرح پر صحابہ مدینہ میں رہ رہ کر سیکھتے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو تبلیغ کرتے اور ان کی اشاعت میں مصروف رہتے- ۱۱~}~
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہنے کی کس قدر ضرورت ہے- کیونکہ جب تک یہاں نہ رہے تو انوار شریعت اور مغز قرآن جو یہاں پیش کیا جاتا ہے اس سے اطلاع کیونکر ہو؟ یہاں نہ رہنے ہی کی وجہ سے آداب النبی کے خلاف بعض اوقات ہمارے بھائی حضرت اقدس کو دعا کے لئے لکھتے ہیں-
ننانوے فیصدی ایسے خطوط دعا کے لئے آتے ہیں جن کو دعا کرانے کی حقیقت سے خبر نہیں ہے اور اگر ان کو اس راز پر اطلاع ہو تو ان کا قلم کانپ جاوے اور کبھی ایسی درخواستیں کرنے کی جرات نہ کریں- کیا دنیادار کے رنگ میں کوئی شخص بطور خود یہ تجویز ملکہ معظمہ کو کر سکتا ہے کہ مجھے فلاں جگہ کا گورنر یا عہدہ|دار بنائو؟ ایسے آدمی کو نادان نہ کہا جائے گا؟ ][ دعا ایک عجیب برکت اپنے ساتھ لاتی ہے اور اس سے بڑے بڑے عقدے حل ہوتے ہیں- مگر دعا دعا ہو- جب تک اس میں وہ زینت اور خوبصورتی پیدا نہ ہو جو اس کے لوازمات ہیں اس کا کوئی اثر نہیں- سچا اضطراب ہو‘ کامل تبدیلی کی جاوے‘ رعایت آداب الدعا ہو‘ خشوع و خضوع کے ساتھ اعلاء کلمہ~ن۲~ الاسلام کے لئے دعا کی جاوے پھر باب اجابت اس کے لئے جلد کھولا جاتا ہے اور دنیوی برکات بھی اس کے ساتھ ہی آتی ہیں-
میں نے صحابہ کی سیرت کو خوب غور سے پڑھا ہے اور مجھے یاد نہیں کسی اولوالعزم صحابی کی پاک زندگی میں یہ پایا جاتا ہو کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور دنیوی اغراض کے لئے یہ عرض کی ہو کہ حضور دعا کریں مجھے فلاں سلطنت مل جاوے یا میرے بیٹا ہو جاوے جو میری جائیداد کا وارث ہو- اس سے صحابہ کی عظمت اور ان کی پاک باطنی کا اندازہ ہوسکتا ہے- مگر دیکھو انہوں نے گو دنیا کے لئے کوئی دعا نہیں کرائی لیکن کیا وہ دنیا سے محروم رہے؟ دنیا خود ان کے پاس آ گئی- وہ بادشاہ بنا دیئے گئے- اور قیصر|و|کسریٰ کے خزانے ان کے پائوں میں ڈالے گئے-
اب کوئی مقابلہ کرے دوسرے بادشاہوں کا جو دنیا میں ہوئے ہیں لیکن کیا وہ صحابہ جیسے بادشاہ ہوئے؟ پس تم بھی دنیا کے لئے دعائیں نہ کرو اور نہ منگوائو بلکہ دین کی عظمت اور اس کے اعلاء کے لئے خود بھی کرو- اور امام سے بھی کرائو- یہ خدا تعالیٰ کے لئے ہوں گی- ان کی اجابت یقینی ہے پھر اس کے ثمرات بھی لازم طور پر آئیں گے-
دعائوں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے- ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن مومن کبھی تھکتا نہیں- قرآن شریف میں دعائوں کے نمونے موجود ہیں- ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے ہیں- ربنا و ابعث فیھم رسولاً منھم )البقرۃ:۱۳۰( اس دعا پر غور کرو- حضرت ابراہیم کی دعا روحانی خواہشوں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات‘ بنی نوع کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے- وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولاد کو بادشاہ بنا دے- مگر وہ کیا کہتے ہیں- اے ہمارے رب! میری اولاد میں انہیں میں کا ایک رسول مبعوث فرما- اس کا کام کیا ہو- وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے اور اسقدر قوت قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہر کرے اور ان کو کتاب اللہ کے حقائق و حکم سے آگاہ کرے- اسرار شریعت ان پر کھولے-
یہ ایسی عظیم الشان دعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی- اور ابتدائے آفرینش سے جن لوگوں کے حالات زندگی ہمیں مل سکتے ہیں کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی- حضرت ابراہیم کی عالی|ہمتی کا اس سے خوب پتہ ملتا ہے- پھر اس دعاکا نتیجہ کیا ہوا اور کب ہوا؟ عرصہ دراز کے بعد اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جیسا انسان پیدا ہوا اور وہ دنیا کے لئے ہادی اور مصلح ٹھیرا- قیامت تک رسول ہوا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رشد‘ نور اور شفا نہیں ہے-
یہ دعائوں کے برکات اور ثمرات ہیں- پھر اس دعا سے کس قدر ثمرات حضرت ابراہیم کی اولاد کو ملے‘ تم خود سوچ سکتے ہو-
بات یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بن جاتا ہے اور اس کی ساری نفسانی خواہشوں پر موت آ جاتی ہے اور ساری غرض و غایت اللہ کے لئے ہو جاتی ہے اور اس کے دین کا جلال ظاہر کرنا اس کا مقصد ہو جاتا ہے تو پھر ساری مشکلات اس کی حل ہو جاتی ہیں- دنیا اور اس کے اسباب خود اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں- مگر اس کی راہ اختیار کرنے کے واسطے ضرورت ہے قرآن شریف پر عمل کرنے کی- اور عمل کے لئے پہلے ضروری ہے قرآن شریف کا فہم اور فہم قرآن بجز تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا اور اس کے واسطے مجاہدہ شرط ہے- اور یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں مامور کی صحبت سے اور صادق کے پاس رہنے سے- اسی لئے اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۲۰-(اور پھر یہ نصیحت فرماتا ہے کہ تفقہ فی الدین کے لئے اپنی اپنی جگہ سے کچھ آدمی بھیجو جو مامور کی صحبت میں رہ کر وہ فیض حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کریں تا کہ تم میں خشیت الٰہی پیدا ہو-
بارہا یہ بات میرے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جوش اٹھتا ہے کہ لوگ اس ارشاد الٰہی پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ تمہیں فخر ہے کہ قرآن فہمی ہم میں ہے- مگر یہ فخر جائز اس وقت ہو گا کہ تم ایک بار اس قرآن کو دستور العمل بنانے کے واسطے سارا پڑھ لو- لوگ مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کیونکر آ سکتا ہے- میں نے بارہا اس کے متعلق بتایا ہے کہ اول تقویٰ اختیار کرو- پھر مجاہدہ کرو- اور پھر ایک بار خود قرآن|شریف کو دستور العمل بنانے کے واسطے پڑھ جائو- جو مشکلات آئیں ان کو نوٹ کر لو- پھر دوسری مرتبہ اپنے گھروالوں کو سنائو- اس دفعہ مشکلات باقی رہ جائیں ان کو نوٹ کرو- اس کے بعد تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو سنائو- چوتھی مرتبہ غیروں کے ساتھ پڑھو- میں یقین کرتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر کوئی مشکل مقام نہ رہ جائے گا- خدا تعالیٰ خود مدد کرے گا- لیکن غرض ہو اپنی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید- کوئی اور غرض درمیان نہ ہو- بڑی ضرورت عملدرآمد کی ہے- ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے- وہ کیا بات تھی جس نے آپ کو بوڑھا کر دیا- وہ یہ حکم تھا- فاستقم کما امرت )ھود:۱۱۳( یعنی جب تک تو اور تیرے ساتھ والے تقویٰ میں قائم نہ ہوں وہ کامیابیاں نہیں دیکھ سکتے اس لئے تو سیدھا ہو جا جیسا کہ تجھ کو حکم دیا گیا ہے- اسی طرح پر یاد رکھو کہ ہماری اور ہمارے امام کی کامیابی ایک تبدیلی چاہتی ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل بنائو- نرے دعوے سے کچھ نہیں ہو سکتا- اس دعوے کا امتحان ضروری ہے جب تک امتحان نہ ہو لے کوئی سارٹیفیکیٹ کامیابی کا کامل مل نہیں سکتا- خیر القرون کے لوگوں کو بھی یہی آواز آئی ا حسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا و ھم لا یفتنون )العنکبوت:۳( کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر چھوڑ دیئے جاویں گے کہ وہ ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں-
ابتلائوں اور آزمائشوں کا آنا ضروری ہے- بڑے بڑے زلزلے اور مصائب کے بادل آتے ہیں- مگر یاد رکھو ان کی غرض تباہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے استقامت اور سکینت کا عطا کرنا ہوتا ہے اور بڑے بڑے فضل اور انعام ہوتے ہیں- ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ جو لوگ کچے‘ غیر مستقل|مزاج‘ کم ہمت اور منافق طبع ہوتے ہیں وہ الگ ہو جاتے ہیں- صرف مخلص‘ وفادار‘ بلند خیال اور سچے مومن رہ جاتے ہیں جو ان ابتلائوں کے جنگلوں میں بھی امتحان اور بلا کی خاردار جھاڑیوں پر دوڑتے چلے جاتے ہیں- وہ تکالیف اور مصائب ان کے ارادوں اور ہمتوں پر کوئی برا اثر نہیں ڈالتیں- ان کو پست نہیں کرتیں بلکہ اور بھی تیز کر دیتی ہیں- وہ پہلے سے زیادہ تیز چلتے اور اس راہ میں شوق سے دوڑتے ہیں- نتیجہ کیا ہوتا ہے- وہ بلائیں‘ وہ تکالیف و مصائب و شدائد خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضل اور کرم اور رحمت کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ کامیابی کے اعلی معراج پر پہنچ جاتے ہیں- اگر ابتلائوں کا تختہ مشق نہ ہو تو پھر کسی کامیابی کی کیا امید ہو- دنیا میں بھی دیکھ لو- ایک ڈگری حاصل کرنے کے واسطے اے- بی- سی شروع کرنے کے زمانہ سے لے کر ایم اے کے امتحان تک کس قدر امتحانوں کے نیچے آنا پڑتا ہے- کس قدر روپیہ اس کے واسطے خرچ کرتا ہے اور کیا کیا مشکلات اور مشقتیں برداشت کرتا ہے- باوجود اس کے بھی یہ یقینی امر نہیں ہے کہ ایم اے پاس کر لینے کے بعد کوئی کامیاب زندگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا- بسااوقات دیکھا جاتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ تعلیم میں طالب علم کی صحت خطرناک حالت میں پہنچ جاتی ہے اور ڈپلوما اور پیام موت ایک ہی وقت آ پہنچا ہے- اس محنت اور مشقت اور ان امتحانوں کی تیاری‘ روپیہ کے صرف سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا یا والدین نے کیا؟ مگر اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کے لئے ابتلائوں اور امتحانوں میں پڑنے والا کبھی نہیں ہوا کہ وہ کامیاب اترا ہو اور نامراد رہا ہو- ان لوگوں کی لائف پر نظر کرو اور ان کے حالات پڑھو جن پر خدا تعالیٰ کے مخلص بندے ہونے کی وجہ سے کوئی ابتلا آیا اور انہوں نے ثبات قدم‘ استقلال اور صبر کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور پھر بامراد نہ ہوئے ہوں- ایسی ایک بھی نظیر نہ ملے گی- ۱۲~}~
دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل کے لئے غور کرو کہ ابجد شروع کر کے ایم- اے- کی ڈگری تک‘ پھر امتحان مقابلہ‘ ڈالیاں دینے اور دوسرے اخراجات ضروریہ خرید کتب وغیرہ میں کس قدر محنت‘ وقت اور روپیہ صرف ہوتا ہے- اور ہم کرتے ہیں- مگر اس کے بالمقابل قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنانے کے واسطے‘ اس کے پڑھنے اور سمجھنے کے واسطے کس قدر محنت اور کوشش اور روپیہ ہم نے خرچ کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو گا کہ کچھ بھی نہیں- اگر اس کے واسطے ہم عشرعشیر بھی خرچ کرتے تو خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت کے دروازے ہم پر کھل جاتے- مسلمانوں کے افلاس‘ ان کی تنگ دستی اور قلاشی کے اسبابوں پر آئے دن انجمنوں اور کانفرنسوں میں بحث ہوتی اور بڑے بڑے لیکچرار اپنی طلاقت لسانی سے اس افلاس کے اسباب بیان کرتے ہیں- میں نے بھی ان لیکچروں کو پڑھا ہے اور مسلمانوں کے افلاس کے اسباب پر بھی غور کی ہے-
ان تمام ریفارمروں اور لیکچراروں کا اسی پر اتفاق ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں میں ہائی ایجوکیشن نہیں رہی اس لئے یہ اعلی عہدوں کے حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور یہی اصلی باعث ہے- پھر اس ہائی ایجوکیشن کے نعروں سے لیکچر ہال گونجا دیئے جاتے ہیں-
لیکن میں جب ان لیکچروں کو پڑھتا ہوں تو میری حیرت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو اور بھی مفلس بنا دینے کی ایک تدبیر ہے- میں ہائی ایجوکیشن کا مخالف نہیں ہوں مگر مجھے افسوس اس بات سے آتا ہے کہ مسلمانوں کو الٹی راہ پر ڈالا جاتا ہے- خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے افلاس کی یہ وجہ نہیں بتائی- قرآن|شریف نے صاف فیصلہ کیا ہے و من اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکاً و نحشرہ یوم القیامۃ اعمیٰ )طٰہٰ:۱۲۸( اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا پس تحقیق اس کے لئے گذران تنگ ہو گی اور ہم قیامت کے دن اسے اندھا اٹھائیں گے-
اصل وجہ افلاس کی تو یہ ہے- مگر افسوس ہے کہ اس سے غافل ہیں اور اور بھی دور ہٹتے جاتے ہیں- اور باایں ہمہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تنزل سے نکالیں- جب قرآن کریم اور ذکر اللہ سے دوری بڑھے گی تو اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق ضنک معیشت ہو گا- پس میں ان لیکچراروں اور ریفارمروں کے ساتھ اسباب افلاس میں متفق نہیں- ہائی ایجوکیشن کا نہ ہونا وجہ افلاس ہو گا- ہو- لیکن اصل باعث اعراض عن ذکر اللہ ہی ہے- میں پھر پوچھتا ہوں کہ جس قدر کوشش اور وقت اور روپیہ ہم دنیاوی علوم کے حاصل کرنے کے لئے صرف کرتے ہیں ہم نے اور تم نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کے واسطے قرآن کریم کو دستور العمل بنانے کی خاطر پڑھنے کے واسطے کس قدر نقدی‘ وقت اور دعائوں کو خرچ کیا ہے- میں نے جب بعض لوگوں کو کہا ہے کہ قرآن شریف پڑھا کرو تو انہوں نے نہایت متانت اور شوق سے یہ جواب دیا ہے کہ کوئی عمدہ خوبصورت خوشخط چھپی ہوئی حمائل دے دو- جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قرآن شریف کے لئے یہ لوگ گویا ایک اٹھنی یا روپیہ بھی خرچ کرنا نہیں چاہتے- اور دوسری طرف مخرب اخلاق ناولوں اور افسانوں کے خریدنے میں صدہا روپیہ بھی خرچ کر دیں تو مضائقہ نہیں- آہ!
یا لیت قومی یعلمون )یٰس:۲۷(
غرض انسان کو واجب ہے اور ہم کو بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی طرف بہت توجہ کریں- بجز اس تعلیم کے اور تعلیم بھی دستور العمل کے لئے ہو تو مفید ہے- بجز اس کے کچھ فائدہ نہیں ہے- اور اس کے لئے یہ موقع اور وقت بہت ہی عجیب ہے- ایک قوم اس وقت غافل اور بے خبر ہے اور ہم چشم دید واقعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- ایک قوم نے قرآن کو عملی طور پر قصہ کہانی سمجھ رکھا ہے اور ایک ہماری قوم ہے جو قرآن کو زندہ کتاب سمجھتی ہے اور اس کی آیات کو اب بھی اسی طرح پاتی ہے جیسے آنحضرتﷺ~ کے وقت خیرالقرون کے لوگ پاتے تھے- پس ہم زیادہ ذمہ وار اور جوابدہ ہیں- ہم پر حجت پوری ہو چکی ہے- ہم میں خدا کا امام موجود ہے- بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن کی تعلیم کی طرف توجہ کریں اور اس کے لئے یہ ایک راہ ہے کہ یہاں آ کر ایک جماعت رہے اور وہ تعلیم حاصل کر کے واپس اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کرے اور وہ منذر بنیں-
میں دیکھتا ہوں کہ ہم نے ایک چھوٹا سا مدرسہ بطور امتحان بنایا ہے اس کی طرف بھی لوگوں کو بہت ہی کم توجہ ہے- حالانکہ یہ مدرسہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خاص توجہ سے کھلا ہے- غرض ایک مرحلہ اور موقع یہ ہوتا ہے کہ مومن راستباز مامور کے حضور رہ کر اپنی اصلاح کرتا ہے اور اس کے پاک نمونہ اور پاک صحبت سے فیض حاصل کرتا ہے اور عملی طور پر قرآن کے حقائق اور معارف سے آگاہی پاتا ہے- اور اس کے پاس رہ کر بھوک‘ پیاس یا اور جو ابتلا اس پر آئیں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اسے حکم ہوتا ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار و لیجدوا فیکم غلظۃ و اعلموا ان اللہ مع المتقین )التوبۃ:۱۲۳-(اب اس کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ جوں جوں اسے کافر ملتے جاویں ان کا مقابلہ کرے- پہلا کافر اس کا نفس ہے- نفس بسااوقات اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف اس کو ہدایتیں کرتا ہے اور ان راہوں کی طرف اسے لے جانا چاہتا ہے جو خدا سے دور پھینک دینے والی راہیں ہیں جن پر شیطان کا تسلط ہے- اس لئے پہلی کوشش اور پہلا مقابلہ خود اپنے نفس سرکش سے ہو اور اس کے جذبات سے بچتا رہے- خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے- پھر وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق یا رشتہ محبت کا نہیں رکھتے- مثلاً برادری یا قوم کے تعلقات ہیں- وہ برادری یا قومی رسم و رواج کے ماتحت اس سے وہ کرانا چاہتے ہیں جو اس کا خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت فرض نہیں بلکہ اس کے مخالف ہے- ایسے موقع پر اس کو چاہئے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور قومی تعلقات یا سوسائٹی کا کوئی اثر اس کو خدا سے دور پھینک دینے کا موجب نہ ہو- پھر غیر قومیں بھی اپنے کسی نہ کسی اثر کے ذریعہ اس کو خدا سے دور کرنا چاہیں تو یہ اپنی ایمانی قوت سے ان کا ایسا مقابلہ کرے کہ اشداء علی الکفار )الفتح:۳۰( ہو جاوے- کسی منکر کا اثر کوئی اس پر نہ پڑے- جیسے مضبوط چیز پر جونک کام نہیں کر سکتی اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے ایمان اور محبت میں تمہارا وہ دل ہو کہ کافر کی عظمت و جبروت کسی قسم کا اثر اس پر نہ ڈال سکے اور خدا کی رضا کے خلاف کوئی کام نہ کر سکے- غلیظ کو دوسری جگہ شدید بھی فرمایا ہے- اس کے معنی یہی ہیں کہ مومن کفار کے مقابلہ میں ایسا قوی ہو کہ ان کی کسی بات کا اثر اس پر نہ ہو-
پھر انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنے قویٰ‘ علم و دولت‘ جمعیت پر ناز کرتا ہے اور کبھی کبھی نیکی کی شکل میں بھی شیطان دھوکا دے دیتا ہے- خوابوں اور الہاموں پر بھی گھمنڈ کر بیٹھتا ہے حالانکہ ان کی حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے- مگر یاد رکھو کہ یہ بھروسے‘ یہ ناز‘ یہ فخر کام نہیں دے سکتے- اصل بات جو انسان کو ہر حالت میں بچاتی اور اس کا ساتھ دیتی ہے وہ ایک ہی ہے جس کو تقوی کہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ان اللہ مع المتقین )البقرۃ:۱۹۵(
اللہ تعالیٰ کی معیت بڑی نعمت اور دولت ہے‘ اور مبارک ہے وہ جس کو یہ نعمت ملی- لیکن اس کے حاصل کرنے کی ایک ہی راہ ہے کہ انسان متقی بن جاوے- ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ و سلم جب غار میں تشریف لے گئے اور کفار آپ کی تلاش میں وہاں تک آ پہنچے تو جناب صدیقؓ نے عرض کیا- آپ نے کیا فرمایا ان اللہ معنا )التوبۃ:۴۰( اللہ ہمارے ساتھ ہے- موسیٰؑ کی قوم جب فرعون کے لشکر اور دریا کے نظارہ کو دیکھ کر گھبراتی اور انا لمدرکون )الشعرائ:۶۲( کی آواز آتی ہے تو موسیٰؑ کیا کہتے ہیں کلا ان معی ربی سیھدین )الشعرائ:۶۳( ہرگز نہیں- میرا رب میرے ساتھ ہے- وہ بامراد کرے گا- غرض خدا کی معیت تقوی سے ملتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمنوں پر فتحمند ہوتا ہے- متقی کا خدا خود معلم ہوتا ہے- اس کے لئے من حیث لایحتسب )الطلاق:۴( رزق دیا جاتا ہے- متقی خدا کا محبوب اور ولی ہوتا ہے- متقی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں-
پس ضرورت ہے اس امر کی کہ تم متقی بنو- اپنے ایمان کا تجزیہ کرو- اور کوئی ذرا سا بھی گنہ اور میل اس میں پائو تو اس کو نکالنے کی کوشش کرو- کیونکہ تم جانتے ہو اگر بہت سارے دودھ میں ایک قطرہ بھی پیشاب کا ڈال دیا جاوے وہ سارا نجس ہو جاتا ہے- اس لئے اگر کوئی ذرا سی کمزوری اور غلطی بھی محسوس کرو تو اس کے چھوڑنے کی فکر کرو- ہر روز اپنی کمزوریوں کا مقابلہ کرو- راست باز کا ساتھ دو- کوئی شاخ جو درخت سے الگ ہو جاتی ہے وہ پھلدار نہیں ہو سکتی جب تک درخت کے ساتھ پیوند نہ ہو- گویا وہ اسی کا ایک حصہ یا جزو ہے- جب خدا کا مامور کسی کام کے لئے حکم دے تو پھر بھوک‘ پیاس اور خرچ کا خیال مت کرو- تمہارے کام اس خدا کے لئے ہوں جو شکور‘ قدیر اور علیم خدا ہے- وہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا-
قرآن پڑھو مگر دستور العمل کے واسطے پڑھو- اور قرآن چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے تقاضا سے آیا ہے اس لئے وہاں آتا ہے جہاں کوئی عبدالرحمن ہو- اس کے پاس رہو تاکہ اس کے اپنے اطوارنشست و برخاست سے تم خدا تعالیٰ کے کلام کو سیکھ سکو- وہ اپنے طرز عمل سے اس قدر سکھا دیتا ہے جو برسوں میں بھی حاصل نہ ہو- پھر اپنی قوم کے لئے منذر بنو- اس کو جا کر تبلیغ کرو- نذیر و بشیر ہو کر جائو- اور ان سب باتوں کے لئے آخر ایک ہی طریق ہے کہ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو- اللہ تعالیٰ مجھے اور تم سب کو جو یہاں موجود ہیں اور ان کو جو ان باتوں کو کسی اور ذریعہ سے سنیں‘ اعمال صالحہ کی توفیق دے- آمین ۱۳~}~
۱~}~ ) الحکم جلد۷ نمبر۳۰ ۔۔۔۔ ۱۷ / اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۴ (
۲~}~ ) الحکم جلد۷ نمبر۳۱ ۔۔۔۔ ۲۴ / اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵-۱۶ (
۳~}~ ) الحکم جلد۷ نمبر۳۲ ۔۔۔۔ ۳۱ / اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۹-۱۰ ( ][۴~}~ ) الحکم جلد۷ نمبر۳۶ ۔۔۔۔ ۳۰ / ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳ (
۵~}~ ) الحکم جلد۷ نمبر۳۷ ۔۔۔۔ ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ۱۰-۱۱(
۶~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۱ ۔۔۔۔ ۱۰ / جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۵-۶ (
۷~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۲ ۔۔۔۔ ۱۷ / جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵-۱۶ (
۸~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۳ ۔۔۔۔ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۷ (
۹~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۵ ۔۔۔۔ ۱۰ / فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴ (
۱۰~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۶ ۔۔۔۔ ۱۷ 3] ft[s / فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۷-۸ (
۱۱~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۷ ۔۔۔۔ ۲۴ / فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴-۵ (
۱۲~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۸ ۔۔۔۔ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴ (
۱۳~}~ ) الحکم جلد۸ نمبر۹ ۔۔۔۔ ۳۱ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴ (
* - * - * - *
‏KH1.4
?
‏KH1.5
?
‏KH1.6
خطبات|نور خطبات|نور
۱۲ / نومبر ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلسہ~ن۲~ الوداع کی تقریب پر حضرت حکیم الامت کا دوسرا وعظ
سورۃ البقرہ کے پہلے رکوع کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا -:
یہ ابتدا ہے اس پاک کتاب کی جس کا نام نور رکھا ہے اور فضل‘ شفا‘ رحمت اور ہدایت
کہا ہے- وہ پاک کتاب جو اختلاف مٹانے کے واسطے حکم ہو کر آئی ہے‘ وہ کتاب جس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کل صداقتوں کا مجموعہ ہے‘ خواہ وہ اس سے پہلے دنیا کی کسی کتاب میں موجود تھیں یا اس کے بعد تصنیف ہونے والی کتابوں میں ہوں‘ غرض راستی کا کوئی ٹکڑا اور حصہ کہیں اور کسی کے پاس ہے تو قرآن|شریف میں بالضرور موجود ہے- اور پھر قرآن شریف ان تمام صداقتوں کا جامع ہی نہیں بلکہ ان کا محافظ‘ مفسر اور ان کو مدلل بیان کرنے والا ہے-
یہ خیالی اور خوش کن بات نہیں کہ قرآن شریف کل صداقتوں کا مجموعہ ہے بلکہ قرآن شریف نے بڑے دعوے اور ناز کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے- چنانچہ مولا کریم فرماتا ہے فیھا کتب قیمۃ )البینۃ:۴( جس قدر سیدھا کرنے والی‘ مضبوط اور مستحکم کتابیں ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں- اس لئے میں قرآن شریف پر عرصہ دراز تک تدبر کرنے اور خشیت اللہ کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے کے بعد تحدی کرنے کے لئے تیار ہوں کہ کوئی سچائی اور پاک تعلیم دنیا کی کسی کتاب اور کسی زبان میں پیش کرو‘ قرآن شریف میں وہ ضرور موجود ہو گی- یہ تو اس کتاب کی شان ہے- پھر اس کتاب کے لانے والے کی شان کو سوچو تو اور بھی عظمت اس پاک کتاب کی ہوتی ہے- جناب الٰہی نے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا- ن و القلم و ما یسطرون )القلم:۲( یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قدر دواتیں اور قلمیں مل سکتی ہیں اور پھر جو کچھ ان سے لکھا جاوے وہ سب کی سب تحریریں اس امر پر شاہد ہوں گی ما انت بنعمۃ ربک بمجنون )القلم:۳( تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجنون نہیں ہے- پھر یہ نرا دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک دلیل بھی دی ہے کہ مجنون کے افعال|واعمال‘ اس کے حرکات و سکنات کا کوئی نتیجہ واقعی نہیں ملتا- لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر فعل و حرکت‘ ہر بات کا ثمرہ ملتا ہے اور اس سے پاک نتیجہ ملتا ہے- ساری رات پاگل چلاتا رہے لیکن اس کا نتیجہ کیا؟ کچھ بھی نہیں- برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے فرمایا و ان لک لاجراً غیر ممنون )القلم:۴( اور یہ بھی نرا دعویٰ ہی نہیں کہ کہہ دیا ان لک لاجراً غیر ممنون- آپ کی پاک سیرت اور واقعات زندگی پر نظر کرو کہ کس قدر اجر ملا- کیا یہ چھوٹی سی بات ہے کہ وہ مکہ جہاں سے بداندیشوں کی ریشہ دوانیوں اور آئے دن کی ایذا رسانیوں سے آپ کو ہجرت کرنی پڑی‘ آخر آپ اس پر ایک فاتح سلطان کی طرح قابض ہوئے اور دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ داخل ہوئے- کسی نبی کی زندگی میں یہ بے نظیر کامیابی اور جلال نظر نہیں آتا- مسیح کہتا ہے کہ کوئی نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں- لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک زندگی کے واقعات بتاتے ہیں کہ آخر آپ نے مکہ معظمہ میں کس قدر عزت و عظمت حاصل کی- پھر آپ کے لئے یہ جزا کیا کم ہے کہ آپ کی زندگی میں ایک بھی آپ کا دشمن باقی نہ رہا- یا تو وہ ذلت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور یا آپ کے خدام میں داخل ہو گئے- اس کامیابی کی بھی کوئی نظیر تلاش کرنے پر کبھی نہیں ملے گی-
پھر کیا آپ کے افعال کا یہ مزد کم ہے کہ جس غرض اور مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس میں پورے طور پر کامیاب ہو گئے- مکہ معظمہ میں جہاں گھر گھر ایک بت خانہ بنا ہوا تھا ایک خدا کی عبادت کا سکہ بیٹھا دینا چھوٹی سی بات نہیں- یہ ایسی عظیم الشان بات ہے کہ میں نے مختلف ہادیان مذہب کی زندگیوں اور بڑے بڑے ریفارمروں کے حالات میں غور کی ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ ایسا نمونہ کامیابی کا مجھے نہیں ملا- ایک ذرا سی رسم یا رواج کا اٹھا دینا مشکل ہوتا ہے- یہاں صدیوں کے بیٹھے ہوئے غلط اعتقادات کو ملیامیٹ کیا ہے اور عرب کی حالت کو بالکل پلٹا دیا ہے- جو لوگ عرب کی اس حالت سے واقف ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے سے پیشتر تھی اور پھر جنہوں نے اس انقلاب پر نظر کی ہے جو آپ کی بعثت سے ہوا‘ وہ حیران رہ گئے ہیں کہ اس قدر تغیر عظیم انسانی طاقت سے باہر ہے- بہرحال کیا یہ جزائ‘ یہ نتیجہ حسنہ‘ یہ ثمرشیریں‘ آپ کے افعال کا کچھ کم ہے؟ پھر کیا یہ جزاء کچھ کم ہے کہ آج روئے زمین پر ایک ارب کے قریب مسلمان موجود ہیں جو آپ کی امت کہلانے پر فخر کرتے ہیں؟ پھر آپ کے افعال کا یہ ثمرہ کیا کم ہے کہ ہر وقت اور ہر گھڑی دنیا کے ہر قطعہ اور ہر حصہ پر اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد و بارک و سلم پڑھا جاتا ہے اور اس طرح پر آپ کے مدارج‘ آپ کے کمالات ترقی کر رہے ہیں-
پھر آپ کے لئے یہ بدلہ کیا کم ہے کہ اپنی ہی زندگی میں الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی )المائدۃ:۴( کی صدا آپ کو آئی؟ پھر یہ آواز کس کی زندگی میں آئی کہ رایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً )النصر:۴(؟یہ ہیں آپ کے افعال|وحرکات|وسکنات کے مختصر نتائج اور اگر میں اس مضمون کی تفصیل کروں تو بہت وقت چاہئے- اس لئے اسی قدر پر کفایت کرتا ہوں-
اب دوسرا امر قابل غور یہ ہے کہ پاگل کے اخلاق فاضلہ نہیں ہوتے- اس میں کوئی خلق ہوتا ہی نہیں- وہ ایک وقت دوستوں کو گالیاں دیتا ہے اور دشمنوں سے پیار کرنے لگتا ہے- لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت فرمایا و انک لعلیٰ خلق عظیم )القلم:۵( اے رسول! تو اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق فاضلہ کی تفسیر اور تشریح بھی کوئی چھوٹا سا کام نہیں- آپ کے اخلاق قیامت تک کے لئے اسوہ حسنہ قرار پائے ہیں اور کل دنیا کے لئے ہر طبقہ‘ ہر عمر اور ہر حالت کے لئے ان میں نمونہ کامل موجود ہے- پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بیان میں چند گھنٹوں میں ختم کر سکوں-
غرض یہ اسی کتاب کا ابتدا ہے جس کا لانے والا اتنا بڑا عظیم الشان اور جلیل القدر کامل انسان ہے- میں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا ‘ راحت بخش‘ لذت دینے والی جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو‘ نہیں دیکھی جس کو باربار پڑھتے ہوئے‘ مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اکتائے‘ طبعیت نہ بھر جائے اور یا بدخو دل اکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو- میں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر‘ میری مطالعہ پسند طبیعت‘ کتابوں کا شوق اس امر کو‘ ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر‘ کہنے کے لئے جرات دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے- اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے- وہ کونسی کتاب؟ ذالک الکتاب لاریب فیہ )البقرۃ:۴( کیا پیارا نام ہے- میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو‘ جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی- طبیعت اکتانے کی بجائے چاہے گی کہ اور وقت اسی پر صرف کرو- عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان‘ یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں-
میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ایسے افراد بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے ان کو لذت نہیں آئی مگر وہ یہ کیوں کہتے ہیں؟ شامت اعمال کی وجہ سے‘ بدکاریوں اور اعتدا کے سبب سے- قرآن شریف میں اسے ہی لذت نہیں آ سکتی جو ایک گندی زیست رکھتا ہے- چونکہ وہ بیمار دل ہوتا ہے اس لئے جیسے ایک مریض بعض اوقات اپنا ذائقہ تلخ ہونے کی وجہ سے مصری کو بھی تلخ بتاتا ہے‘ وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے اس سے لذت نہیں آتی‘ اس کے کہنے پر کیا انحصار ہے- خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضاً )البقرۃ:۱۱-(اور پھر صاف صاف ارشاد کر دیا لایمسہ الا المطھرون )الواقعۃ:۸۰-(جس جس قدر انسان پاکیزگی‘ تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرے گا اسی اسی قدر قرآن|شریف کے ساتھ محبت‘ اس کے مطالعہ اور تلاوت کا جوش اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اور قوت اسے ملے گی- لیکن اگر خدا تعالیٰ کے احکام اور حدود کی خلاف ورزی میں دلیری کرتا ہے اور گندی صحبتوں اور ناپاک مجلسوں اور ہنسی ٹھٹھے کے مشغلوں سے الگ نہیں ہوتا وہ اگر چاہے کہ اس کو قرآن شریف پر غوروفکر کرنے کی عادت ہو‘ تدبر کے ساتھ اس کے مضامین عالیہ سے حظ حاصل کرے ~}~ ایں خیال است و محال است و جنون‘ ایسے لوگوں کو قرآن کریم سے کوئی مناسبت نہیں ہے-
میں ایک چھوٹی سی مثال تمہیں چشم دیدبتاتا ہوں- ایک شخص قرآن|شریف کا حافظ تھا- اسے قرآن شریف سے بڑی محبت اور عشق تھا- وہ اتفاقاً ایک لڑکے پر عاشق ہو گیا- نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن شریف سے جو لذت اس کو آتی تھی وہ جاتی رہی- تھا سعید الفطرت- اس نے اس کمی کو محسوس کیا اور دعائیں کرنے لگا- عرصہ دراز تک وہ دعائوں میں لگا رہا- آخر سالہا سال کے بعد اس کی دعائوں نے اپنا نتیجہ پیدا کیا اور خداتعالیٰ نے اس کو تنبیہ کی اور بتایا کہ یہ لذت قرآن اسی غلطی کی وجہ سے جاتی رہی ہے جو تو نے ایک لڑکے کو پسند کرنے میں کی ہے- اسی سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن شریف سے لذت اٹھانے کے واسطے کس قدر طہارت اور پاکیزگی کی ضرورت ہے- خدا تعالیٰ خود فرماتا ہےnsk] g[ta و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳( تقویٰ اختیار کرو‘ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ تمہارا معلم ہو اور قرآن|شریف تمہیں پڑھاوے-
غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ دنیا میں بھی ایک کتاب ہے جس کی تلاوت‘ جس کا تکرار گھنٹوں‘ دنوں‘ ہفتوں‘ مہینوں اور سالوں کا تدبر انسان کو گھبراتا نہیں بلکہ زیادہ خوشی اور زیادہ جوش اور عشق اورمجاہدہ کتاب اللہ کے لئے عطا کرتا جاتا ہے- ہزاروں ہزار اولیاء اور صلحاء اور اکابر امت گذرے ہیں جنہوں نے اس نتیجہ کو اپنے حالات زندگی سے صحیح پایا ہے- تاہم میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے بڑھ کر راحت بخش کوئی کتاب اور اس کا مطالعہ نہیں ہے- مگر آہ! درد دل سے کہتا ہوں اسی راحت بخش کتاب کو آج چھوڑ دیا گیا ہے- یٰرب ان قومی اتخذوا ھٰذا القراٰن مھجوراً )الفرقان:۳۱( اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے- مجھے قرآن اس قدر محبوب ہے کہ میں باربار اس کا تذکرہ کرنا‘ اس کا پیارا نام لینا اپنی غذا سمجھتا ہوں اور اسی دھن اور لو میں ابھی تک میں نے اس مضمون پر جو میں نے شروع کیا تھا کچھ بھی نہیں کہہ سکا- یہی وجہ ہے کہ بعض آدمی میرے اس قسم کے طرز بیان کو پسند نہ کرتے ہوں- مگر میں کیا کروں‘ میں مجبور ہوں- اپنے عشق کی وجہ سے باربار اپنے محبوب کے تذکرہ سے ایک لذت ملتی ہے‘ کہے جاتا ہوں-
حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم کتنا وسیع ہے اور آپ کی نظر کیسی باریک اور عمیق ہے- کسی نے صحابہ میں سے آپ سے لائف آف محمدﷺ~ پوچھی ہے- کیونکہ بیرونی حالت تو لوگ دیکھتے تھے- آپ کے معاملات کا بھی علم تھا جو وہ صحابہ اور دوسرے لوگوں سے کرتے تھے- غرض گھر کے باہر کی لائف صحابہ کے پیش نظر تھی- مگر اندرونی لائف‘ اندرونی معاملات کا علم کسی کو نہیں تھا- اس لئے نہایت سے نہایت بے|تکلف رشتہ میاں اور بی بی کا ہوتا ہے- صحابہ نے بیرونی معاملات اور حالات کے لئے اپنی اور اپنے احباب کی آنکھیں کافی سمجھ کر حضرت صدیقہ سے پوچھا ہے کیونکہ صدیقہ سے بڑھ کر آپ کی پاک لائف کا کوئی گواہ نہ تھا- حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سوال کا کیا لطیف جواب دیا کان خلقہ القراٰن- )مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ۹۱( یعنی قرآن شریف ایک علم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے عامل ہیں- گویا یہی آپ کی لائف ہے-
اسی طرح پر میری رائے نے فیصلہ کر لیا ہے کہ قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی کتاب قابل|مطالعہ نہیں کیونکہ ساری دنیا اور مخلوق پر اس نسخہ کا تجربہ ہو چکا ہے اور اس کے طبیب )صلی اللہ علیہ و سلم( کی خوبیاں اور کمالات ظاہر ہو چکے ہیں- پھر اس کے بعد اور کیا باقی رہ سکتا ہے-فماذا بعد الحق الا الضلال )یونس:۳۳( حق کے بعد بجز ہلاکت اور گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے- اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسی پاک کتاب کو اپنا محبوب بنائیں اور دنیا کی ساری کتابوں کو اس پر نثار کر دیں-
لیکن ایک بات اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن شریف کے ساتھ عشق و محبت کے اتنے ہی معنے نہیں ہیں کہ ایک عمدہ قرآن شریف لے کر اس کی سونے کی جدول بنوا کر اور عمدہ جلد کرا کے ایک ریشمی غلاف میں بند کر کے ایک کھونٹی کے ساتھ لٹکا دیا اور کبھی اسے کھول کر بھی نہ دیکھا کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ یا اگر کھول کر دیکھا بھی تو اس کی غرض صرف اس قدر سمجھ لی کہ اس کی معمولی تلاوت کافی ہے- اگر کوئی شخص اسی قدر سمجھتا ہے تو وہ سخت غلطی کھاتا ہے اور وہ قرآن شریف کی عزت و عظمت کا حق ادا نہیں کرتا اور نہ اس کی تلاوت کے اصل مقصد کو پاتا ہے- یاد رکھو تلاوت کا اصل مقصد قرآن شریف پر عمل کرنا ہے-
اگر کوئی عمل نہیں کرتااور عمل درآمد کے واسطے اسے نہیں پڑھتا تو اسے کچھ بھی فائدہ اس تعظیم سے نہیں ہو گا- دیکھو کوئی انسان جس کے پاس حاکم وقت کا کوئی پروانہ آئے تو کیا اگر وہ اسے زرافشاں کاغذوں پر لکھ کر رکھ چھوڑے اور اس کی تعمیل نہ کرے تو وہ حاکم محض اس وجہ سے کہ اس کاغذ کی اتنی عزت کی وہ اس سے باز پرس نہ کرے گا؟ ضرور کرے گا- اور اس تعظیم کے ساتھ قانونی سلوک کیا جاوے گا اور اس کے اس عذر پر کہ میں نے تو اس کو زرافشاں کاغذ پر لکھ کر رکھا ہوا ہے اسے پاگل خانے میں بھیج دینے کے قابل سمجھا جاوے گا- پھر اس سے اتر کر اپنے احباب متعلقین اور رفقاء کے خطوط پر نظر کرو-
ایک دوست کا خط آتا ہے تو کس بے صبری اور غور کے ساتھ اس کو پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے- اگر خود نہیں پڑھ سکتا تو اس شخص کی خوشامد اور منت کی جاتی ہے جو اس کو پڑھ دے- پھر صرف ایک مرتبہ ہی پڑھ لینے پر صبر نہیں آتا بلکہ حتی الوسع دو دو تین تین مرتبہ اس کو پڑھا اور سنایا جاتا ہے- اور اس کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کی تعمیل کی جاوے نہ یہ کہ اس کو عمدہ طور پر سنبھال کر رکھ لیا جاوے اور اس امر کی کچھ پرواہ نہ کی جاوے کہ اس کی تعمیل بھی کرنی ہے- یہ ایک فطرتی امر ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے اور تم میں سے ہر ایک اس کا تجربہ کار ہو گا- ایسے موقع پر کبھی یہ بھی دیکھا نہیں جاتا کہ کوئی مجبوری یا مشکل درپیش ہے بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو سکتا ہے اس کی تعمیل کرنے کی فکر ہوتی ہے- میں نے دیکھا ہے کہ جب ولائتی ڈاک کے آنے کا دن ہوتا ہے تو انگریز ڈاک خانوں میں بڑی تیزی اور سرعت اور بے|قراری کے ساتھ دوڑے جاتے ہیں- اس لئے کہ وہ اس ڈاک میں اپنے عزیز رشتہ دار یا کسی اور دوست کے خط کے متوقع ہوتے ہیں اور پھر اسی ڈاک میں ان کو جواب دینا ہوتا ہے جو ولائت کو جانے والی ہوتی ہے- یہ تیزی‘ یہ اضطراب ان میں کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ ان کی فطرت میں یہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو ان پر اتمام حجت کرتا ہے- پھر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ایک معمولی دوست اور رشتہ دار کے خط کی تعمیل کے لئے اس میں اس قدر جوش ہو مگر خدا تعالیٰ کی کتاب احکم الحاکمین کی پاک کتاب کی تعمیل کے لئے وہ جوش اور اخلاص نہ ہو؟ ۱~}~
پھر اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے پہنچانے میں کیا کیا مصائب اور مشکلات برداشت کیں- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک لائف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس پاک کلام کو لوگوں تک پہنچا دینے میں اپنی جان تک کی پروا نہیں کی- مکی زندگی جن مشکلات کا مجموعہ ہے وہ سب کی سب اسی ایک فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے آپ کو برداشت کرنی پڑی ہیں- لکھا ہے کہ جب مکہ کے شریروں اور کفار نے آپ کے پیغام کو نہ سنا تو آپ طائف تشریف لے گئے اس خیال سے کہ ان کو سنائیں اور شاید ان میں کوئی رشید اور سعید ایسا ہو جو اس کو سن لے اور اس پر عملدرآمد کرنے کو تیار ہو جائے- جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف پہنچے تو آپ نے وہاں کے عمائد سے فرمایا کہ تم میری ایک بات سن لو- لیکن ان شریروں‘ قسی|القلب لوگوں نے آپ کا پیچھا کیا اور نہایت سختی کے ساتھ آپ کو رد کر دیا- اینٹیں اور پتھر مارتے جاتے تھے اور آپ آگے آگے دوڑتے جا رہے تھے یہاں تک کہ آپ بارہ کوس تک بھاگے چلے آئے اور پتھروں سے آپ زخمی ہو گئے- ان تکالیف اور مصائب کو آپ نے کیوں برداشت کیا؟ آپ خاموش ہو کر اپنی زندگی آرام سے گذار سکتے تھے- پھر وہ بات کیا تھی جس نے آپ کو اس امر پر آمادہ کر دیا کہ خواہ مصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑ کیوں نہ ٹوٹ پڑیں لیکن امر الٰہی کے پہنچانے میں آپ تساہل نہ فرماویں گے؟ قرآن شریف سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے آپ کو حکم ہوا تھا-بلغ ما انزل الیک )المائدۃ:۶۸( جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسے مخلوق الٰہی کو پہنچا دے- اور فاصدع بما تومر )الحجر:۹۵( جو تجھے حکم دیا جاتا ہے اس کو کھول کھول کر سنا دے- اس پاک حکم کی تعمیل آپ کا مقصود خاطر تھا اور اس کے لئے آپ ہر ایک آفت اور مصیبت کو بہزار جان برداشت کرنے کو آمادہ تھے- پھر قرآن شریف کے تو تیس پارے ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار مضامین ہیں جس کو پہنچانا آپ کا ہی کام تھا- اگر اللہ تعالیٰ کی تائید شامل حال نہ ہو اور اس کی نصرت ساتھ نہ ہو تو پشت شکن امور پیش آ جاتے ہیں-
اس زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ ایک توفی کے امر کو پیش کرنے میں کس قدر دقتیں اندرونی اور بیرونی لوگوں کی طرف سے پیش آ رہی ہیں اور کیا کیا منصوبے اور تجویزیں مخالفوں کی طرف سے آئے دن ہوتی رہتی ہیں اور وہ شخص جو مسیح موعود کے نام سے آیا ہے اور اس پیغام کو پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی بالمقابل ان کی تکلیفوں اور اذیتوں کی کچھ پروا نہیں کرتا- وہ تھکتا اور ماندہ نہیں ہوتا- اس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے اور اس مضمون کے پہنچانے میں کوئی سستی نہیں کرتا- کوئی ذکر ہو‘ اندر ہو‘ باہر ہو آخر اس کے کلام میں یہ بحث ضرور آ جاتی ہے- ادھر مخالفوں کی کوششیں ادھر اس کی مساعی جمیلہ- اس پر دعائیں کرتا ہے‘ کتابیں لکھتا ہے‘ تقریریں کرتا ہے- غرض کیا ہے؟ انی متوفیک )ال|عمران:۵۶( کے حقیقی معنے لوگوں کے ذہن|نشین ہو جائیں- کیوں؟ اس موت سے خدا تعالیٰ کی زندگی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات‘ اسلام کی زندگی اور قرآن کریم کی زندگی ثابت ہوتی ہے- اور یہ قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خدمت ہے-
غرض قرآن شریف وہ پاک اور مجید کتاب ہے جس کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہؓکو وہ محنت کرنی پڑی اور آج اس زمانہ کے امام اور خاتم الخلفاء کو وہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے-
پھر اس سے اصل غرض یہی ہے کہ قرآن شریف کا حقیقی علم پیدا ہو اور اس پر عمل کیا جائے- قرآن|شریف کے حقائق‘ قرآن شریف کی صداقتیں‘ اس کی اعلی تعلیم اور معرفت کی باتیں کوئی گورکھ|دھندا نہیں ہیں جو کسی کو معلوم نہ ہوں- نہیں‘ بلکہ ہر شخص اپنے ظرف ‘ اپنے عزم و استقلال اور محنت|ومساعی کے موافق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے- خود اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے-]kns [tagو الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا )العنکبوت:۷۰( جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں یقینا یقینا کھول دیتے ہیں- یہ بالکل سچی بات ہے- مولیٰ کریم تو اس وقت ہر متنفس کو یہ حقائق اور صداقتیں دکھا دیتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ میں ہو کر کسی صداقت کے پانے کے لئے اضطراب ظاہر کرتا اور اس کے لئے سچی تلاش کرتا ہے- بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مجاہدہ تو کرتے ہیں لیکن وہ مجاہدہ خدا میں ہو کر نہیں کرتے بلکہ اپنی تجویز اور عقل سے کوئی بات تراش لیتے ہیں اور جب اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا- یہ اس کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے اور وہ الزام خداتعالیٰ اور اس کی پاک کتاب پر رکھتے ہیں-
میں نے دیکھا ہے کہ قرآن شریف کا علم صرف و نحو کی کتابوں کے رٹنے پر موقوف نہیں ہے- بدیع|ومعانی قرآنی علوم و حقائق کے لئے لازمی طور پر پڑھنے ضروری نہیں ہیں- یا دوسرے علوم کے بغیر قرآن|شریف کا سمجھ میں آنا ناممکن نہیں ہے- یہ خیالی باتیں ہیں- اس قدر تو میں بیشک مانتا ہوں کہ جس|قدر علوم|حقہ سے انسان واقف ہو گا اور ان علوم میں جو قرآن کریم کے خادم ہیں دسترس رکھتا ہو گا وہ اس کے فہم|قرآن میں ایک ممد و معاون ہوں گے لیکن اسی صورت میں کہ اس کا مجاہدہ‘ مجاہدئہ صحیحہ ہو-
مجاہدئہ صحیحہ کی تشریح بہت بڑی ہو سکتی ہے مگر مختصر طور پر یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اس لئے کہ اس پر عمل ہو- ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جائو اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جائو کہ تم کس گروہ میں ہو- کیا منعم علیھم ہو یا مغضوب ہو یا ضالینہو اور کیا بننا چاہئے- منعم علیھمبننے کے لئے سچی خواہش اپنے اندر پیدا کرو‘ پھر اس کے لئے دعائیں کرو- جو طریق اللہ|تعالیٰ نے انعام الٰہی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو- اس طریق پر اگر صرف سورہ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو میں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق|ومعارف سے بہرہ|ور کرنا‘ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور ایک صورت ہے مجاہدئہ صحیحہ کی-
پھر میں نے انسانی فطرت اور اس کی بناوٹ پر نظر کی ہے- میں نے دیکھا ہے کہ انسان کے اندر خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں- کمزوریاں اس میں کیوں ہیں؟ اس لئے کہ مغفرت کی شان دکھاوے اور اس کو تکبر سے بچاوے- ہر ایک شخص جس جس قدر اپنی کمزوریوں سے بچے گا اسی اسی قدر سکھ اور راحت اسے ملتا جاوے گا-
مثلاً ایک شخص عام قوانین صحت کی پابندی کرتا ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں اسے اتنا سکھ ضرور ملے گا کہ اس کی حالت صحت اچھی ہو- اگرچہ ممکن ہے کہ وہ ان اسباب اور ذرائع سے ناواقف ہو کہ کیوں اس کی صحت عمدہ ہے- لیکن قانون الٰہی یہی ہے کہ وہ اس سے متمتع ہو گا اور فائدہ اٹھائے گا- لیکن اس کے بالمقابل ایک شخص ہے خواہ وہ کیسا ہی عالم و فاضل ہو لیکن وہ قوانین حفظ صحت کو توڑتا ہے- اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ اس کی حالت صحت بگڑ جائے-
اس سے بڑھ کر ایک شخص خیانت‘ بدنظری‘ چوری‘ ڈاکہ زنی‘ قتل اور ان بدیوں سے‘ جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور اس کا اثر دوسری مخلوق پر پڑتا ہے‘ بچتا ہے تو اس کو ایسے انداز کے موافق سکھ ملے گا اور اس کا دائرئہ راحت وسیع ہو جائے گا- لیکن ایک سستی کرتا ہے‘ اپنے کاروبار میں غفلت کر کے بنی|نوع|انسان کے حقوق تلف کرتا ہے‘ قتل و غارت‘ چوری‘ خیانت سے کام لیتا ہے‘ اسی قدر اس کے دکھ کا میدان وسیع ہو جائے گا- اپنے گھر میں حسن معاشرت سے کام لیتا ہے‘ اس کو گھر کا سکھ حاصل ہو گا- برخلاف عمل کرنے سے دکھ ملے گا- غرض جس جس پہلو اور جس جس حد تک انسان قوانین فطرتیہ کی پابندی کرتا ہے اسی حد تک وہ سکھ پاتا ہے- قرآن شریف انسان کو قوانین فطرتیہ پر عامل کرانا چاہتا ہے اور اس جوئے کے نیچے اس کو رکھنا چاہتا ہے جو بظاہر تکالیف اور پابندی کا جوا نظر آتا ہے لیکن اس کے ماتحت ہو کر سچی خوشحالی اور حقیقی آزادی نظر آتی ہے- کوئی اس جوئے کو اپنی گردن پر رکھ لے اور پھر آزما کر دیکھ لے- یہ کہنے کی بات نہیں‘ ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ اس کے نمونے دنیا میں گذر چکے ہیں اور گذرتے رہتے ہیں اور اب بھی ایک کامل نمونہ ہم میں موجود ہے- خوشی چاہتے ہو اور ضرور چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی سبیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر کرو-اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کی باتوں کو معلوم کرو- وہ تمہیں قرآن شریف میں ملیں گی- قرآن شریف کا فہم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو- صادقوں کی صحبت میں رہو اور پھر مجاہدہ کرو- وہ مجاہدہ جو اللہ تعالیٰ میں ہو کر ہو-
تم جہاں ہو اس اصل کو کبھی مت بھولو کہ ہر روز اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اندازہ اور امتحان کرو کہ کس قدر تم نے حقیقی نیکی کے کام کیے اور کس قدر بدیاں تم سے سرزد ہوئیں- پھر ان بدیوں کے اسباب پر نگاہ کرو اور ان کے ترک کی فکر کرو- نیکی کے متعلق بھی ایک عام دھوکا اور نفس کا مغالطہ بعض وقت پیدا ہو جاتا ہے- ایک شخص ایک کام کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ نیکی کا کام ہے لیکن فی الحقیقت وہ کام اس کے لئے موجب عذاب ہو جاتا ہے- اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کے ماتحت نہیں ہوتا-
پس یاد رکھو کہ کوئی نیکی کبھی نیکی ہوتی ہی نہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور امر کے ماتحت نہ ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کے موافق نہ ہو- ان دونوں باتوں کو اخلاص اور صواب کہتے ہیں اور یہ دونوں جب تک کسی فعل میں موجود نہ ہوں وہ فعل نیکی کا فعل نہیں کہلا سکتا- بہت سے لوگ ہیں جو خاص قسم کی نمازیں اور وظیفے پڑھتے ہیں اور ان کے ادا کرنے میں بعض اوقات وہ جماعت کی پابندی اور بر وقت نماز پڑھنے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں- اب نماز یا ذکر ایک عمدہ فعل تھا لیکن چونکہ وہ اپنی ذاتی تجویز کے موافق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے وہ ثابت نہیں تو اسے کوئی نیکی کا فعل نہیں کہہ سکتے- یا مثلاً صدقہ دینا اور زکٰوۃ نکالنا ایک عمدہ اور نیکی کا فعل ہے لیکن ایک اٹھتا ہے اور وہ اپنے مال سے پیران پیر کی گیارھویں نکالتا ہے- چونکہ اس میں اخلاص اور صواب نہیں اس لئے وہ فعل اس کا نیکی کا فعل نہ ہو گا- اسی طرح پر بہت سی باتیں ہیں اور میں درد دل کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج کل مسلمانوں میں ایسی بدعتیں اور خرابیاں بہت سی پیدا ہو گئی ہیں اور قرآن شریف کی شریعت کے مقابلہ میں ایک نئی شریعت اور نیا دین تجویز کر لیا گیا ہے اور باوجودیکہ ایسی خرابیوں اور غلطیوں میں مبتلا ہیں اور خود نئی شریعت کے مجوز اور عامل ہیں- لیکن جو کہتا ہے کہ قرآن شریف پر عمل کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کرو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ نیا دین پیش کرتا ہے العجب! ثم العجب!!
بہت سے لوگ اپنے دنیوی کاموں میں ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اور جس طرح بھی ممکن ہو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن جب ضرورت دین کا موقع ہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کام میں خرچ کرنا پڑے تو پھر انہیں ہزاروں ہزار عذر ہوتے ہیں- وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانہ سے یہاں سے بچ جاویں- یا جو لوگ ناجائز مال حاصل کرتے ہیں اور رشوت وغیرہ سے کماتے ہیں پھر اپنی اس خطاکاری کے چھپانے کے واسطے اپنے نفس سے اس کے جواز کے حیلے اور عذر تراشتے ہیں اور اس کو حلال بنانا چاہتے ہیں اسی طرح پر ہر قسم کی بدی کو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے لئے جائز بنانے کی فکر کرتے ہیں- مجھے تعجب ہو جاتا ہے کہ جس قدر سعی اور فکر ان لوگوں کو ایک بدی کے جائز کرنے کے لئے کرنی پڑتی ہے اور وہ اس کوشش اور تدبیر سے جائز ہو بھی نہیں سکتی- اگر یہ اس سے بھی آدھی کوشش اس بدی کے چھوڑنے کے لئے کریں تو یہی نہیں کہ وہ بدی ان سے چھوٹ جاوے بلکہ اس کے بدلے میں وہ ایسی نیکی کی توفیق پا لیں جو ان کو اس سے زیادہ سکھ اور اطمینان دے سکے جو اس بدی سے ان کو ہرگز ہرگز نہیں مل سکتا-
انسان کے نیک یا بد ہونے کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کے واسطے اس کو کوئی کام کرنا پڑے- اپنی جگہ وہ اخلاق کا پتلا بنا ہوا ہوتا ہے اور راست بازی کے لئے مشہور ہوتا ہے لیکن کوئی مقدمہ ہو تو پھر جان و مال کو اس میں لگا دیتا ہے اور دشمن کو ذلیل کرنے کے لئے ہر ایک قسم کی جائز و ناجائز حرکتوں کو روا رکھتا ہے- غرض جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشا اور مقصد معلوم ہو گی- وہ ہے حصول سکھ- اس کے لئے وہ ہر قسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے- لیکن میں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پورا کرنے کا ایک آسان اور مجرب نسخہ بتاتا ہوں- کوئی ہو جو چاہے اس کو آزما کر دیکھ لے- میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہو گی اور میں یہ بھی دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پر سکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اس کے لئے کرو تو کامل طور پر سکھ مل سکتا ہے- وہ نسخہ|راحت یہ کتاب مجید ہے اور میں اسی لئے اس کو بہت عزیز رکھتا ہوں- اور اس وجہ سے کہ انسان اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘ میں اس کتاب کا سنانا بہت پسند کرتا ہوں- اس کتاب مجید کی یہ پہلی سورۃ شریف ہے اور اس میں الحمدشریف کی گویا تفسیر ہے- بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ الحمد شریف کی تفسیر میں سے پہلی سورۃ ہے- الحمد شریف کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء ظاہری اللہ- رب العالمین- الرحمٰن- الرحیم- مالک یوم الدین سے شروع فرمایا تھا اور اس سورۃ شریفہ کو اسماء باطنی سے شروع فرمایا یعنی الم جس کے معنیٰ ہیں انا اللہ اعلم- پھر الحمد شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک کامل دعا تعلیم فرمائی تھی- اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم یعنی ہم کو اقرب راہ کی جو تیرے حضور پہنچنے کی ہے راہنمائی فرما- وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا یعنی نبیوں‘ صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ-
سورہ فاتحہ میں یہ دعا تعلیم ہوتی ہے- لیکن اس سورۃ بقرہ میں اس دعا کی قبولیت کو دکھایا ہے اور اس کا ذکر فرمایا جبکہ ارشاد الٰہی یوں ہوا- ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین )البقرۃ:۳( یہ وہ ہدایت نامہ ہے یعنی متقی اور بامراد گروہ کا ہدایت نامہ- ہاں انعمت علیھم گروہ کی راہ یہی ہے- پھر منعم علیہ گروہ کے اعمال و افعال کا ذکر کیا اور ان کے ثمرات میں اولٰئک علیٰ ھدی من ربھم و اولٰئک ھم المفلحون )البقرۃ:۶( فرمایا- ان کے افعال و اعمال میں بتایا کہ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں- اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور کلام اور سلسلہ رسالت پر ایمان لاتے ہیں- جزا و سزا پر ایمان لاتے ہیں- یہ منعم علیہ گروہ کی راہ ہے-
اب ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا ہے یا سنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع سے آگے نہ چلے جب تک اپنے دل میں یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کیا مجھ میں یہ صفات‘ یہ کمالات ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فکر کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان|صحیح عطا فرماوے-یومنون بالغیب )البقرۃ:۴( در اصل عقائد صحیحہ کو مشتمل ہے- اور یومنون بما انزل الیک )البقرۃ:۵( مسئلہ رسالت اور الہام و وحی کے متعلق ہے- اور بالاٰخرۃ ھم یوقنون )البقرۃ:۵( جزا و سزا کے متعلق ہے- پھر ان اعمال و افعال کے ثمرات میں اولٰئک ھم المفلحون )البقرۃ:۶( بتایا ہے-
اگر انسان حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے اور بامراد ہو رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے منعم علیہ گروہ کے زمرہ میں شامل ہے- لیکن اگر نہیں تو پھر فکر کا مقام اور خوف کی جا ہے- پس قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے-
منعم علیہ گروہ کے ذکر کے بعد پھر بتایا کہ مغضوب علیھم کون لوگ ہیں- ان کے کیا نشانات ہیں اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ان کے عام نشانات میں سے بتایا کہ یہ وہ گروہ ہے جو تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتا ہے اور چونکہ وہ وجود و عدم وجود کو برار سمجھتے‘ اس لئے باوجود دیکھنے کے وہ نہیں دیکھتے اور باوجود سننے کے نہیں سن سکتے- دل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھ سکتے- ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟ عذاب الیم- بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جو شخص آنکھ رکھتا ہے وہ کیوں نہیں دیکھتا- کان رکھتا ہے کیوں نہیں سنتا- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نتیجہ ہے ایسے لوگوں کے ایک فعل کا- وہ فعل کیا ہے؟ انذار اور عدم انذار کو مساوی سمجھنا- اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کو برابر سمجھے تو وہ اس کو کب سیکھ سکتا ہے- اس صورت میں وہ اس زبان کی اگر کسی کتاب کو دیکھے تو بتائو اس دیکھنے سے اسے کیا فائدہ؟ اگر کسی دوسرے کو پڑھتے ہوئے سنے تو اس سننے سے کیا حاصل؟ دیکھو وہ دیکھتا ہے اور پھر نہیں دیکھتا- سنتا ہے اور پھر نہیں سنتا- اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور و مرسل کے انذار اور عدم|انذار کو برابر سمجھتے ہیں تو وہ اس سے فائدہ کیونکر اٹھا سکتے ہیں- کبھی نہیں- جب ایک چیز کی انسان ضرورت سمجھتا ہے تو اس کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہے اور پھر اس مجاہدہ پر ثمرات مترتب ہوتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا تو اس کے قویٰ میں مجاہدہ کے لئے تحریک ہی پیدا نہیں ہو گی- یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے جو انسان رسولوں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں اور اس کی کتابوں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لے- اس مرض کا انجام اچھا نہیں بلکہ یہ آخرکار تکذیب اور کفر تک پہنچا کر عذاب الیم کا موجب بنا دیتا ہے- پس تلاوت کرنے والے کو پھر اس مقام پر سوچنا چاہئے کہ کیا میں خدا کے رسول و مامور کے انذار اور عدم انذار کومساوی تو نہیں سمجھتا؟ کیا میں اس کی باتوں پر توجہ تام کرتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں اور سوچتا ہوں کہمساوات کی یہی صورت نہیں ہوتی جو آدمی زبان سے کہہ دے بلکہ اگر رسول کے فرمودہ کے موافق عمل نہ کرے تو یہی ایک قسم کا انذار اور عدم انذار کی مساوات ہے-۲~}~
پھر الضال کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ سورۃ فاتحہ میں جو دعا تعلیم کی تھی اس میں ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا تھی اور یہاں ان لوگوں کے حالات بتائے کہ وہ کون ہوتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور‘ باطن کچھ اور ہوتا ہے اسی لئے فرمایا اولٰئک الذین اشتروا الضلالۃ بالھدیٰ فماربحت تجارتھم و ماکانوا مھتدین )البقرۃ:۱۷( یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو مول لے لیا ہے- پس ان کی تجارت ان کے لئے سودمند تو نہ ہو گی اور وہ کب بامراد ہو سکتے تھے-
ان لوگوں کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے تو ایمان باللہ اور یوم الاخر کی لاف و گزاف مارتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں یہ ہے ما ھم بمومنین )البقرۃ:۹-(اس سے ایک حقیقت کا پتہ لگتا ہے کہ انسان اپنے منہ سے اپنے لئے خواہ کوئی نام تجویز کر لے اس نام کی کوئی حقیقت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر کوئی مبارک نام نہ ہو- اور یہ امر اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان اپنے ایمان کے موافق اعمال بنانے کی کوشش کرے- ایمان جب تک اعمال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کوئی سودمند نہیں ٹھہر سکتا- اور اگر نرا ایمان رکھ کر انسان اعمال اس کے موافق بنانے کی کوشش نہ کرے تو اس سے مرض نفاق پیدا ہوتا ہے جس کا اثر آخر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ نہ قوت فیصلہ باقی رہتی ہے اور نہ تاب مقابلہ- ان لوگوں کے دوسرے آثار اور علامات میں سے بیان کیا کہ وہ مفسد علی الارض ہوتے ہیں- اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم فساد نہ کرو تو وہ اپنے آپ کو مصلح بتاتے ہیں حالانکہ وہ بڑے بھاری مفسد ہوتے ہیں-
اس طرح پر الضال کی ایک تفسیر ختم کر دینے کے بعد پھر اس سورۃ میں فرمانبرداری کی راہوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کی اصل غرض اور مقصد ہے اور یہ بتایا ہے کہ حقیقی راحت اور سکھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے- اور فرمانبرداری کے راہوں کے بیان کرنے میں قرآن کریم کا ذکر فرمایا جس سے یہ مراد اور منشا ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بنائو اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرو- پھر اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک زبردست تحدی کی ہے کہ اگر کسی کو اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہو تو وہ اس کی نظیر لاوے- پھر منعم علیھم قوم میں سے آدم علیہ السلام ابوالبشر کا ذکر کیا اور بتایا کہ راست بازوں کے ساتھ شریروں اور فساد کرنے والوں کی ہمیشہ سے جنگ ہوتی چلی آئی ہے اور آخر خدا کے برگزیدے کامیاب ہو جاتے ہیں- پھر مغضوب اور ضال کا ذکر کیا ہے- بالاخر ابوالملت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ذکر فرمایا اور اس کی فرمانبرداری کو بطور نمونہ پیش کیا کہ اس کی راہ اختیار کر کے انسان برگزیدہ ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو حاصل کر لیتا ہے- پھر نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکٰوۃ کی تاکید اور اسی سورۃ شریف میں عبادت کے طریق سکھائے ہیں- پھر آخر میں یہ دعا سکھائی ہے فانصرنا علی القوم الکافرین )البقرۃ:۲۸۷-(
یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورہ فاتحہ کا جو اس سورہ بقرہ میں موجود ہے- اس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہئے- مگر میں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سنائوں گا- چنانچہ ابتدا میں مولیٰ کریم فرماتا ہے الم ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین )البقرۃ:۲-۳( میں اللہ بہت جاننے والا ہوں- اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی آرام اور سچے عقائد اور جسمانی راحتیں حاصل کر سکتا ہے- میں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اللہ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے- و للٰہ العزۃ و لرسولہ و للمومنین جمیعاً )المنافقوں:۹( یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزز ہوتے ہیں- ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عملدرآمد کرتے ہیں- یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے- تاریخ اور واقعات صحیحہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستور العمل بنایا وہ دنیا میں معزز و مقتدر بنائی گئی-
کون ہے جو اس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ دنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی- وہ بالکل دنیا سے الگ تھلگ قوم تھی- لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کل دنیا کی فاتح کہلائی- علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے- پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے- میں دیکھتا ہوں کہ آج کل مسلمانوں کے تنزل وادبار کے اسباب پر بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں- لیکچر دیتے ہیں- آرٹیکل لکھتے ہیں- مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دور ہیں- ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہو سکتا ہے- حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عملدرآمد کرنے والے معزز ہو سکتے ہیں- بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آ جاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کی قابلیت عطا کرتی ہے- جیسا کہ اولٰئک ھم المفلحون )البقرۃ:۶( سے پایا جاتا ہے- غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت نامہ دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے- ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے والا انسان تقویٰ شعار ہو‘ متقی ہو-
ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو ان لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متقی ہیں- دوسرے مقام پر علوم قرآنی کی تحصیل کی راہ یہی تقویٰ ہی قرار دیا ہے- جیسے فرمایا و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳( یعنی تقویٰ اختیار کرو اللہ تعالیٰ تمہارا معلم ہو جائے گا-
تقویٰ کے پاک نتائج بڑے عظیم الشان ہوتے ہیں- ان میں سے ایک تو وہ ہے جو میں نے ابھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کا معلم ہو جاتا ہے اور قرآنی علوم اس پر کھلنے لگتے ہیں- پھر تقویٰ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے- جیسے فرمایا ان اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون )النحل:۱۲۹( بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو محسنین ہوتے ہیں- احسانکی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو- اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اس پر ایمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے- پھر یہ بھی تقویٰ ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے متقی کو نجات دیتا ہے اور اس کو من حیث لایحتسب )الطلاق:۴( رزق دیتا ہے- متقی اللہ کا محبوب ہوتا ہے یحب المتقین )الطلاق:۴( غرض تقویٰ پر ساری بنا ہے-
پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ ان کی پہلی نشانی یہ ہے یومنون بالغیب )البقرۃ:۴( وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں- خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں- ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہونا سہل ہے لیکن خلوت میں‘ جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بجز اللہ تعالیٰ کے‘ اس کا مومن رہنا ایک امر اہم ہے- لیکن متقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں- اسی بنا پر کسی نے کہا ہے-
مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر میکنند
چوں بخلوت میروند آں کار دیگر میکنند
پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہئے- اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شے ہے- اگر کوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتائو کہ یہ ایمان اس کو کس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں- لیکن جن چیزوں کو اس نے دیکھا نہیں ہے صرف قرائن قویہ کی بنا پر ان کو مان لینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں آئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سودمند اور مفید ہے-
پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تو اس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظیم لامر اللہ کا لحاظ ہو- اس لئے فرمایا و یقیمون الصلٰوۃ یہ متقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں- کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے- مومن کو چاہئے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے- ابتدائے نماز سے جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دنیا اور اس کی مشیختوں سے الگ ہو جاتا ہے- پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے- نماز میں قیام‘ رکوع‘ سجدہ اور سجدہ سے اٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کر سکتا ہے- پھر التحیاتمیں صلٰوۃ اور درود کے بعد دعا مانگ سکتا ہے- گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں-۳~}~
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں قسم قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور حضور قلب حاصل نہیں ہوتا- اس کے لئے کیا کیا جاوے؟ اس کا علاج بھی نماز ہی ہے- کثرت کے ساتھ بے ذوقی اور بے|حضوری سے بھی جب دعائیں ہوتی رہیں گی تو اسی بے حضوری سے حضور اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جائے گا- لیکن اصل بات یہ ہے کہ گھبرانا نہیں چاہئے اور تھک کر اس راہ کو چھوڑنا نہیں چاہئے- جو مطالب پیش کرتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اگر سمجھ کر پڑھو پھر حضور پیدا ہونے لگے گا-
نماز کے عجائبات میں سے اجتماع بھی ہے اس لئے حتی الوسع نماز کو باجماعت ادا کرو- ہماری جماعت کے لئے ایک قسم کا ابتلا کا زمانہ ہے- بعض کم فہم اور مساجد کے اغراض سے ناواقف لوگ ہماری مخالفت میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ اپنی مسجدوں میں آنے سے روکتے ہیں- ایک وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور کچھ عیسائی آئے تھے اور آپ نے اپنی مسجد میں ان کو اپنے طریق پر گرجا کر لینے سے منع نہیں فرمایا- اور یہ زمانہ ہے کہ ذرا سے اختلاف کی وجہ سے مسجدوں سے نکال دیتے ہیں اور اس اخراج میں اس قدر غلو ہے کہ بعض دفعہ ان لوگوں نے مسجدوں کے فرش اکھڑوا دیئے ہیں اور ان کو دھلوایا ہے- مسلمانوں کی اس قسم کی حالت ہی بتلاتی ہے کہ اس وقت ایک امام کی ضرورت ہے- مگر یہ بیمار قوم اپنے دردمند طبیب اور شفیق غمگسار کو دشمن سمجھتی ہے اور اس طرح پر اس کے فیوض و برکات سے بے نصیب ہو رہی ہے- آہ! یاحسرۃ علی العباد مایاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزئ|ون )یٰس:۳۱-(
غرض نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرو- اس کے لئے مسجدوں کا انتظام ہونا چاہئے- میرے دوست میری اس عرض کو غور سے سنیں اور بدگمانی کی نظر سے نہ سنیں- میں سچ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ درد دل سے کہتا ہوں- خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر ایمان رکھ سکتا ہوں- بعض لوگوں کو جب کہا گیا ہے کہ تم اپنے شہر میں مسجد بنا لو تو وہ کہتے ہیں کہ چندہ کرادو تا کہ مسجد بنا لیں- میں نے انہیں کہا ہے کہ مسجد کی بہت بڑی ضرورت ہے لیکن فی الحال یہ ضروری بات نہیں ہے کہ کوئی عظیم|الشان عمارت ہو- تم سیدھی سادھی کوئی عمارت‘ اگر ممکن ہو‘ بنا لو ورنہ چبوترہ ہی سہی- اس پر چھپر ڈال لو- دیکھو! ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا کام مدینہ طیبہ میں یہی مسجد کی بنا تھی مگر اس کے لئے کوئی بہت بڑا اہتمام اس وقت نہیں کیا گیا- معمولی کھجور کے پتوں کی چھت ڈال لی گئی- یہاں تک کہ بارش میں وہ مسجد اس قدر ٹپکتی کہ صحابہ کے کپڑے لت پت ہو جاتے- وہی مسجد گو آج عظیم|الشان مسجد ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کی بنا تو ضروری سمجھی مگر اس کی عالیشان عمارت کی طرف توجہ نہیں فرمائی- اسی طرح پر وادی غیر ذی زرع میں ایک عظیم الشان مسجد بنائی گئی جو اللہ تعالیٰ کا گھر کہلایا- بیت الحرام اس کا نام رکھا گیا جو ان اول بیت وضع للناس )اٰل|عمران:۹۷( کا مصداق ہوا- ہاں جو خدا تعالیٰ کی ہستی‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت‘ قرآن|کریم کی سچائی کا زبردست نشان ہے- وہ مسجد جہاں روئے زمین کے مسلمان کھچے چلے جاتے ہیں وہ مسجد کعبہ~ن۲~ اللہ کی مسجد ہے-
اب غور کرو کیا ان دونوں مسجدوں کے لئے بنانے والوں نے اس وقت چندوں کی فہرستیں کھولی تھیں؟ نہیں کعبہ کی بنا کے لئے خدا تعالیٰ کے دو برگزیدہ بندے باپ اور بیٹا خود ہی مستری معمار اور مزدور تھے- وہ سماں کیسا عجیب ہو گا جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام اور حضرت اسماعیل اس مسجد کو بنا رہے تھے- جس اخلاص اور غرض کے لئے انہوں نے بنیادی پتھر رکھا ہو گا اس کا ثبوت اس قبولیت اور رجوع سے ملتا ہے جو اس مسجد کو حاصل ہوئی- ایسی جگہ وہ عظیم الشان انسان پیدا ہوا جو کل دنیا کے لئے رحمہ~ن۲~ للعالمین ہو کر آیا جس کی رسالت کا دامن قیامت تک دراز اور جو خدا تعالیٰ کی کامل شریعت کا لانے والا ٹھہرا- اور وہ وادی غیر ذی زرع آخر ’’ام القریٰ‘‘ کہلائی اور دنیا کی ناف اس کو کہا گیا ہے- اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب تک انسان تاریکی کے اندر ہوتا ہے اور پیٹ میں ہوتا ہے ساری غذا اس کو ناف ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہے اور اس کی پرورش ہوتی ہے اور پھر آخر وہ ایک جدید راستہ سے پیدا ہوتا ہے اور ایک عظیم الشان قضا کے نیچے آتا ہے- اسی طرح پر جب دنیا ایک خطرناک ظلمت میں مبتلا تھی اس وقت توحید کا دودھ مکہ کی ہی ناف سے نکلا ہے اور جب تک انسان اس دودھ سے پرورش نہیں پاتا وہ جنم لینے کے قابل نہیں ہو سکتا-
غرض وہ عظیم الشان مسجد تھی- اس کا بنانا کوئی مشکل کام اس وقت نہیں سمجھا گیا- باپ بیٹے نے مل کر اس کو بنا لیا- اور وہ دوسری مسجد جو اس کے لئے فخر بنی یعنی مسجد نبوی‘ وہ بھی ایک معنوں سے باپ اور بیٹوں نے بنائی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں کو امہات المومنین قرار دیتا ہے- اس حیثیت سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم باپ بنے اور صحابہ آپ کے فرزند تھے- اس مسجد کو صحابہ کے ساتھ مل کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنا لیا اور ساری دنیا اس کی متوالی ہو گئی-
اس زمانہ میں بھی میں اس قسم کی مسجد کا ایک نمونہ دکھاتا ہوں- ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی مسجد بنائی ہے- زمین نہیں ملی تو اوپر چھت کے ہی بنا لی ہے- بات کیا ہے- جو چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے ہوتی ہے وہ بابرکت ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو کچھ نہیں بنتا- تم خیال کر سکتے ہو کہ لاہور- امرتسر میں کئی بڑی بڑی مسجدیں ہیں- لاہور میں شاہی مسجد اور وزیر خان کی مسجد موجود ہے- کیا وہ مسجدیں ایسا متوالا اور پروانہ بنا سکتی ہیں جو مکہ اور مدینہ کی مسجد بنا سکتی ہے یا ہماری چھوٹی سی مسجد- غرض جس جس جگہ ہمارے بھائی رہتے ہیں تو سب سے مقدم اور ضروری کام کم از کم ایک چھوٹی سی مسجد ہے-جیسی ممکن ہو بنا لو- اگر سستی کرو گے تو نتیجہ اچھا نہ ہو گا-
غرض پہلی بات نماز ہے- نماز پانچ وقت احباب کو جمع کرتی ہے- یہ تو اس کی ظاہری خوبی اور حسن ہے- نماز ہی کی خوبی ہے کہ سارے گائوں کے لوگ ایک دن جمع ہوتے ہیں اور نماز ہی کی خوبی ہے کہ کل روئے زمین کے مسلمان مکہ میں جمع ہوتے ہیں- نماز ہی کی خوبی سمجھو کہ تم آئے- یہاں آنے کی یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ آئیں گے تو ایسا جلسہ ہو گا- تقریریں ہوں گی- یہ تو ایک قسم کے میلے کی ہی صورت ہے- نہیں- بلکہ یہاں آنے کی غرض وہی ہو جو حق سبحانہ تعالیٰ کا منشاء ہے- وحدت ہو‘ اخوت ترقی پکڑے اور اصلاح نفس ہو-
ایک مرتبہ مجھے خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ انعام فرمایا فاصبحتم بنعمتہ اخواناً )اٰل|عمران:۱۰۴( یہ نہیں فرمایا احباباً-اس میں کیا سر ہے؟ وہ سر مجھے یوں سمجھ میں آیا کہ محبوب میں رنج نہیں ہوتا- بھائیوں میں رنج بھی ہو جاتے ہیں- کبھی کسی قصور فہم سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئی اور ناراض ہو گیا-
اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ فضل الٰہی سے ہی اخوان بن سکتے ہیں- اپنی کوشش اور محنت سے کچھ نہیں ہوتا- پس اگر کسی سے کوئی غلطی یا کمزوری ہو جاوے تو اخوت ہی کے رنگ تک رکھو- یہاں آنے کی ایک بڑی غرض یہ بھی رکھو کہ تمہارے تعلقات باہم مضبوط اور اعلیٰ ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو-
جناب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں پر غور کرو کہ ان میں کیا چاہا گیا ہے؟ کیا جناب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی مربع مل جاوے؟ نہیں- بلکہ ان کی ساری دعائیں اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی ہیں-
غرض یاد رکھو کہ اجتماع پر اللہ تعالیٰ کا فیضان نازل ہوتا ہے- اس وقت ایک تعارف پیدا ہوتا ہے- ایک خدمت کا شریک ہوتا ہے- اپنا خرچ کیا- گھر چھوڑا- آرام چھوڑا- منجملہ اغرض کے یہ غرض بھی ہو سکتی ہے کہ اگر گھر چھوڑتے ہیں‘ احباب سے جدا ہوتے ہیں اور اپنے اغراض اور اموال کو خرچ کرتے ہیں‘ مشکلات بھی پیش آتی ہیں‘ تو اس میں تو کوئی شبہ اور کلام نہیں ہو سکتا کہ جب ہم یہ سب کچھ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے مامور اور شکور خدا کی طرف سے قدر بڑھتی ہے- اور یہ ایک مزدوری ہوتی ہے جس کا عظیم الشان اجر ملنے والا ہوتا ہے اور ان دعائوں سے حصہ ملتا ہے جو خدا تعالیٰ کا مامور خصوصیت کے ساتھ ایسے موقع پر مانگتا ہے- کیونکہ وہ سب جو اس وقت موجود ہوتے ہیں ان دعائوں میں شریک ہوتے ہیں-
پس ایسے موقعوں پر آنا چاہئے- لیکن پاک اغراض اور رضائے الٰہی کے مقصد کو ملحوظ رکھ کر‘ نہ کسی اور غرض اور خواہش سے-۴~}~
پھر نماز میں ایک خاص قسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں- کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استعداد کے موافق ان سے حصہ لیتا ہے- پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ وسیع ہوتا ہے- ہزاروں کمزوریاں دور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دور ہوتے ہوئے محسوس کر لیتا ہے- اور پھر ان کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آتی ہیں جو آہستہ آہستہ نشوونما پا کر اخلاق فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں-
یہ مت خیال کرو کہ ہم یہاں آتے ہیں اور کچھ نہیں لے جاتے ہیں- بہت کچھ ساتھ لے جاتے ہیں مگر یہ لینا اپنی استعداد کے موافق ہوتا ہے- جس جس قدر انسان اپنا دل صاف کرتا اور نیکی کے قبول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اسی اسی قدر وہ ان فیضانوں سے حصہ لیتا ہے-
جس طرح پر بچہ پرورش پاتا اور نشوونما پاتا ہے اسی طرح پر نیکیوں اور بدیوں کا بھی نشوونما ہوتا ہے- جو شخص مامور کی صحبت میں رہ کر ایک دم میں چاہتا ہے کہ تبدیلی ہو جاوے وہ خدا سے ہنسی کرتا ہے- ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے لیکن ہم اس کا قانون قدرت اسی طرح پر پاتے ہیں کہ تدریجی ترقی ہوتی ہے- انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون صاف دل اور پاک فطرت ہوتا ہے لیکن ان کے کمالات اور ترقیوں کے سلسلے پر اگر نظر کی جاوے تو وہ بھی تدریجی ہوتے ہیں- اگر کمالات تدریجی نہ ہوتے تو چاہئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر یکدفعہ ہی سارا قرآن شریف نازل ہو جاتا- ۲۳ برس میں کیوں نازل ہوا؟ دیکھو کسان جو دانہ زمین میں ڈالتا ہے کیا وہ دوسرے ہی دن اس کے کاٹنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے؟ نہیں- ایک اچھے خاصے عرصہ تک اسے انتظار کرنا پڑتا ہے- پھر خدا کے اس صریح اور بین قانون کو توڑ کر جو چاہتا ہے کہ پھونک مارنے سے ولی ہو جاوے تو وہ میری رائے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہنسی کرتا اور اسے آزماتا ہے-
اس لئے ضروری بات یہ ہے کہ انسان عرصہ دراز تک خدا تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں حسن ظن اور ارادت کے ساتھ بیٹھے اور وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کے نمونہ کو اختیار کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے اور اس کو نیکیوں اور اخلاق فاضلہ کا وارث بناوے- میں کسی اور کی بابت کوئی رائے نہیں دے سکتا- اپنی نسبت کہتا ہوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر کر کے خیال کرتا ہوں کہ میں اس گائوں سے ایک گھنٹہ کے لئے بھی باہر جانا اپنی موت سمجھتا ہوں بجز ایسی حالت اور صورت کے کہ مجھے حضرت امام نے حکم دیا ہو-
مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں مگر یہاں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو اس قدر جلدی کرتے ہیں کہ ایک دن رہنا بھی ان کے لئے ہزاروں موتوں کا سامنا ہو جاتا ہے- ان کے جتنے کام بگڑتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر بگڑتے ہیں- جتنے مریض ہوتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر ہوتے ہیں- ہزاروں ہزار عذر کرتے ہیں- یہ بات مجھے بہت ہی ناپسند ہے- مجھے ایسے عذر سن کر ڈر لگتا ہے کہ ایسے لوگ ان بیوتنا عورۃ )الاحزاب:۱۴( کے الزام کے نیچے نہ آ جائیں- پس جب یہاں آئو تو امام کی صحبت میں رہ کر ایک اچھے وقت تک فائدہ اٹھائو- کسل اور بعد اچھا نہیں ہے- خدا کرے ہمارے احباب میں وہ مزہ دار طبیعت پیدا ہو جو اس ذوق اور لطف کو محسوس کر سکیں جو ہم کر رہے ہیں-
اللہ تعالیٰ ستار ہے اور جب تک کسی کی بدیاں انتہا تک نہ پہنچ جاویں اور احاطت بہ خطیئتہ )البقرۃ:۸۲( نہ ہو جاوے اور حد سے تجاوز نہ کر جاوے‘ خدا تعالیٰ کی ستاری کام کرتی ہے- بعد اس کے پھر سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے- اس لئے اس سے پہلے کہ تمہاری بدیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کر چکیں اور یہ زہر تمہیں ہلاک کر دے اس کی تریاق‘ توبہ کا فکر کرو-
اسلام ایسا پاک مذہب ہے کہ اس نے کنفیشن (Confession) جیسی گندی تعلیم نہیں دی کہ پوپ کے سامنے انسان اپنی تمام بدیوں اور بدکاریوں کا اقرار کرتا ہے- اسلام نے اس کے بالمقابل توبہ کا پاک مسئلہ رکھا ہے جس میں انسان اپنے مولیٰ کریم کے حضور اپنی دردوں کا اظہار کرتا ہے اور خاص اسی کے حضور کہتا ہے- جو کچھ کہتا ہے ملائکہ تک کو اس میں شرکت کا موقع نہیں دیتا-
انسان میں کمزوریاں ضرور ہیں اور ان کے دور کرنے کے لئے اجتماع ایک عمدہ چیز ہے- جس بات کے لئے تم بلائے گئے ہو وہ کیا چیز ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت کا نمونہ دیکھنے کے واسطے تیرہ سو برس سے جس کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی تھیں- خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ وقت دیا اور پھر اس عالیشان انسان کی شناخت کی توفیق دی جو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے-
یہ وہ وقت ہے کہ اس میں پھر پتہ لگے گا کہ انسان کس طرح ترقی کرتا ہے- تدریجی کمال حاصل کرتا ہے- کس طرح پر اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی حاصل ہوتی ہے اور وہ اور اس کی جماعت بامراد اور فائزالمرام ہوتی ہے- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں جس طرح صحابہ کی روحانی تربیت ہوئی اور ان کی تکمیل ہوئی اس طرح پر اب پھر خدا نے چاہا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے جو اس طرح پر کمالات|روحانی حاصل کرے- خدا تعالیٰ کا کلام اب پھر نازل ہو رہا ہے جس سے قرآن کریم کی صداقتوں کی تازہ بتازہ تائید ہوتی ہے اور اس کے ثمرات و برکات کا تازہ بتازہ نمونہ پیش کیا جاتا ہے- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کس طرح پر تحدیاں ہوتی تھیں اور کس طرح پر مخالف قومیں باوجود سرتوڑ کوششوں اور مخالفتوں کے بھی ان تحدیوں کے جواب سے عاجز اور لاجواب ہوتی تھیں‘ ہماری باتیں سنی سنائی تھیں- مگر آج دکھایا جاتا ہے کہ وہ تحدیاں اس طرح پر ہوتی ہیں- خدا تعالیٰ کا راست باز مامور اور مسیح اللہ تعالیٰ کی منشا اور تائید سے قرآن کریم کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے آج تحدیاں کر رہا ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کس طرح پر مخالف شرمندہ ہو رہے ہیں اور وہ ان تحدیوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے- ساری قوم کو بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم جس کو چاہو اپنے ساتھ ملا لو اور اس کا مقابلہ کرو- مگر میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر یہ شخص کاذب ہے )معاذ اللہ( جیسا کہ یہ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہ عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا اور اس نے کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی مگر وہ خداتعالیٰ کی تائید سے بول رہا ہے- اس کے قلم میں اللہ تعالیٰ کی طاقت کام کرتی ہے- اور یہ انسانی طاقت میں ہرگز ہرگز نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر سکے- اگر انسانی طاقت بھی ایسا کر سکتی تو پھر خدا خدا ہی نہ رہتا- ان لوگوں کے مقابلہ کے لئے نہ نکلنے نے ہی ثابت کر دیا ہے کہ یہ راستباز ہے اور خدا تعالیٰ اس کی تائید کر رہا ہے- اور وہ کاذبوں کی تائید نہیں کیا کرتا-
غرض یہ وہ زمانہ ہے کہ ہم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تازہ کمالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں- یہ بات بالکل سچی ہے کہ اگر یہ شخص نہ آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالات اور معجزات ایک افسانہ سے بڑھ کر نہ ہوتے‘ جو اب واقعات اور مشاہدہ کے رنگ میں نظر آ رہے ہیں- اور یہ سب کچھ اسی کے طفیل سے ہے جس کے بلانے سے تم آج یہاں جمع ہوئے-
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے وقت میں صحابہ محض اللہ تعالیٰ کے جلال و جبروت کے اظہار کے لئے دور|دراز کے سفر کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے تھے- وہی رنگ یہاں دکھایا جاتا ہے کہ ایک جماعت کو اس نے تیار کیا ہے جو جنگلوں کو طے کرتی ہوئی اور سمندروں کو چیرتی ہوئی دوردراز بلاد میں جائے گی اور اس کی غرض کیا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار- اس کی گم شدہ توحید کو پھر دنیا پر ظاہر کرنا- کیسی پاک اور مبارک غرض ہے- آج سفروں کے لئے ہر قسم کی آسائش اور سہولت کے بہم پہنچنے کی وجہ سے لوگ دور و دراز ولایتوں کے سفر کرتے ہیں اور آئے دن ایسے مسافر روانہ ہوتے ہیں- مگر میں پوچھتا ہوں ان کی غرض کیا ہوتی ہے؟ دنیا اور صرف دنیا-
کوئی ولایت کو جاتا ہے- ماں باپ اور احباب اور وطن سے جدا ہوتا ہے‘ اس لئے کہ وہاں جائے- بیرسٹری کا یا کوئی اور امتحان پاس کرے اور دنیا کمائے- پھر وہاں سے وہ کیا لاتا ہے- علمی یا عملی طور پر خدا کے نہ ہونے کا اقرار- یہ تو روحانی ترقی ہوتی ہے اور مارل اینڈ سوشل اصلاح جو وہ کر کے آتا ہے وہ تم میں سے اکثروں کو ایسے لوگوں کے دیکھنے سے معلوم ہوئی ہو گی- لیکن آج یہ پہلا موقع ہے کہ ایک جماعت سفر کرتی ہے لیکن اس سفر کی غرض خدا اور صرف خدا ہے- ان لوگوں کی حالت پر جب میں نظر کرتا ہوں تو میرے دل میں ان کی عظمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ پاک اغراض اور مقاصد لے کر جاتے ہیں-
یہ اپنے احباب اور عزیزوں سے جدا ہوں گے‘ جنگل اور بیابان کاٹتے ہوئے جاویں گے اور ایسے ایسے مقامات پر یہ پہنچیں گے جہاں سے ہمیں ان کی کچھ بھی خبر نہ ہو گی کہ ان کے ساتھ کیا گذر رہی ہے- اگر وہ کسی مصیبت اور مشکلات میں مبتلا ہو جاویں جو سفروں میں ممکن ہے )اور ہماری دعا ہے کہ وہ ان مصائب اور مشکلات سے محفوظ رہیں- آمین( تو تم میں سے کون ہو گا جو ان کی اس وقت مدد کر سکے گا- کوئی بھی نہیں- کیونکہ وہ تم سے اتنے دور ہوں گے کہ اول تو اطلاع آنی مشکل اور آئے بھی تو بہت دیر کے بعد- اور پھر وہاں تک پہنچنا بہت مشکل اور وقت چاہے گا- مگر یہ لوگ ان تمام مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں- انہوں نے اپنے اعزہ اور احباب کی محبت‘ وطن کی الفت اور آرام کی پروا نہیں کی اور اس سفر کو مقدم رکھا-۵~}~
اس وقت اس دور دراز ملک کے سفر کی جو تیاری کی گئی ہے تو اس کی کیا غرض ہے؟ اس کی غرض بھی وہی ہے جو صحابہ کے سفروں کی تھی- یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ اور اسلام کی عزت‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کو ظاہر کرنا- اس وقت ایک قوم موجود ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی صفات ایک عاجز انسان کو دے رکھی ہیں اور اسے خدا بنا کر دنیا کو منوانا چاہا ہے- یہ قوم عیسائیوں کی قوم ہے- وہ مسیح کو خالق مانتے ہیں- شافی مانتے ہیں- منجی مانتے ہیں اور عالم الغیب مانتے ہیں- اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمان جو ایک ہی حقیقی خدا کے پرستار تھے وہ اعتقادی طور پر ان کے ساتھ ہی ہیں یعنی اسی قسم کی صفات مسیح میں یقین کرتے ہیں- یہ جدا امر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو خدا نہیں مانتے مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ وہ خدائی کی صفات ان میں یقین کرتے ہیں- حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی ایک مثال بارہا دیا کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی ایسی حالت ہے جیسے کوئی شخص کسی مردہ کو کہے کہ یہ مر گیا ہے لیکن دوسرا شخص کہے کہ ہاں اس کی نبض بھی نہیں چلتی- بدن بھی سرد ہے- کسی قسم کی حس و حرکت باقی نہیں ہے لیکن ہے زندہ- عیسائی تو صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ خدا ہے مگر مسلمان اپنی غلط|فہمی سے یہ کہتے ہیں کہ نہیں خدا تو نہیں ہے- یہ غلط ہے- البتہ وہ شافی ہے اسی طرح جس طرح اللہ شافی ہے- غیب دان ہے- مردوں کو زندہ کرنے والا‘ محی ہے- حی و قیوم ہے- پھر بتائو اس کے خدا ہونے میں کیا شک باقی رہا- مسلمانوں نے ایک اور بات بھی مسیح کے متعلق مان رکھی ہے جو دوسرے انبیاء میں وہ نہیں مانتے کہ صرف مسیح ہی مس شیطان سے پاک ہے- میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو سخت حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ وہ جو موحد کہلاتے ہیں‘ ان کا اعتقاد اس قسم کا ہے- صرف اللہ تعالیٰ کی توحید کو زندہ کرنے کے واسطے اور اس عقیدہ کو دور کرنے کے لئے حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پسند فرمایا ہے کہ ہمارے بعض احباب سفر کریں اور جو کچھ باتیں معلوم ہوئی ہیں ان کی تصدیق کروا دیں-
مسیحی مذہب کی شکست کے لئے اس سے بڑھ کر کارگر حربہ نہیں ہو سکتا کہ یہ ثابت جو جاوے کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مرا ہے اور صلیب پر نہیں مرا- اس حربہ کی حقیقت سے وہ لوگ خوب مزا اٹھا سکتے ہیں جو عیسائی مذہب کے اصولوں سے واقف ہیں اور ان کو ان کے ساتھ کبھی کلام کرنے کا موقع ہوا ہے-
غرض اس بات کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے- یہ تو میرے نزدیک ایک چھوٹی سی بات ہے جو حضرت امام کے اس جوش کا نمونہ ہے جو توحید کے قائم کرنے کے لئے اس کے دل میں ہے- والا وہ دکھ اور کپکپی جو اس کے دل|ودماغ میں پہنچی ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے- کیونکہ نہ وہ دل ہے اور نہ وہ مزا اور لذت ہے- اسی توحید کے پھیلانے کے واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اتباع کو کیا کیا تکالیف برداشت کرنی پڑی تھیں پھر آج یہ کام آسان کیونکر ہو سکتا ہے- اس وقت تو مشکلات اور بھی بڑھے ہوئے ہیں- اس لئے بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے اور ہر شخص اس قدر توجہ نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی تائید نہ ہو- تم جانتے ہو کہ جس شخص نے سارے جہاں میں قرآن شریف کی عظمت کا بیڑا اٹھایا ہے اس کو کس قدر مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- الغرض چونکہ قرآن شریف کی عظمت ہی اسے مقصود ہے اس لئے اس کے واسطے یہ ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات اٹھانے کو ہر وقت تیار رہتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے کہ کوئی مشکل اور تکلیف اس کے حوصلہ کو پست نہیں کر سکتی-
پھر دوسری بات جو سکھائی گئی ہے منعم علیہ بننے کے واسطے‘ وہ شفقت علی خلق اللہ ہے- یعنی مما رزقناھم ینفقون )البقرۃ:۴( اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے رہو- یہاں کوئی چیز مخصوص نہیں فرمائی بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو- زبان دی ہے خدا کی عظمت اور جبروت کے اظہار کے لئے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کے اظہار کے واسطے‘ پس اس سے یہ کام لو- حق گوئی کے لئے اسے کھولو- جب کوئی آپ کے مقابلہ میں گندہ دہنی کر رہا ہو تو و جادلھم بالتی ھی احسن )النحل:۱۲۶( پر عمل کر کے نہایت پاکیزہ اور معقول اور مدلل طریق سے اس کی زبان بند کرنے کی کوشش کرو اور اس کے گند کے بالمقابل ایک اعلیٰ درجہ کا محکمہ حفظ|صحت قائم کرو- جبکہ مخالف قسم قسم کے ردی اور مضر صحت )روحانی( مواد پھیلانا چاہتا ہے تو شائستہ باتوں سے ان کو دور کرو- اسی طرح اپنے ہاتھوں اور پائوں کو خدا کے لئے‘ مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی میں خرچ کرو اور ایسا ہی اگر اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے‘ کپڑا دیا ہے‘ غرض جو کچھ دیا ہے اسے مخلوق کی ہمدردی اور نفع رسانی کے لئے خرچ کرو- میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں لیکن وہ پرانے کپڑے کسی غریب کو نہیں دیتے بلکہ اسے معمولی طور پر گھر کے استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں- مگر میں کہتا ہوں کہ اگر کسی کو خدا کے فضل سے نیا ملتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ نیا کپڑا خرید کر بنا لے تو وہ کیوں پرانا اپنے کسی غریب اور نادار بھائی کو نہیں دیتا- اگر نیا جوتا ملا ہے تو کیوں پرانا کسی اور کو نہیں دے دیتے ہو- اگر اتنی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں پڑتا تو پھر نیا دینا تو اور بھی مشکل ہو جائے گا- خداتعالیٰ نے تکمیل ایمان کے لئے دو ہی باتیں رکھی ہیں- تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ- جو شخص ان دونوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا- کیا تم میں سے اگر ایک ہاتھ‘ ایک ٹانگ کسی کی کاٹ دی جاوے تو وہ نقصان نہ اٹھاوے گا؟ اسی طرح پر ایمان کا بہت بڑا جزو ہے شفقت علیٰ خلق اللہ- مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایمان کا پہلا جزو تعظیم لامراللہ بھی نہیں رہا- پس اس میں ہرگز سستی اور غفلت نہ کرو- خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی شکر گذاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کو نفع پہنچایا جاوے- خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانا درازی عمر کا باعث ہوتا ہے- کون ہے جو نہیں چاہتا کہ دنیا میں لمبی عمر پاوے- ہر شخص کے دل میں کم و بیش یہ آرزو موجود ہے مگر لمبی عمر کے حاصل کرنے کا اصلی اور سچا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچایا جاوے- چنانچہ خود اللہ|تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے و اما ماینفع الناس فیمکث فی الارض )الرعد:۱۸-(درازی عمر کا ایک اور نسخہ قرآن مجید میں موجود ہے‘ وہ استغفار ہے- پس جو چاہتا ہے کہ عمر سے تمتع اٹھاوے‘ وہ اس نسخہ پر عمل کرے-
اس لئے جہاں تک تم سے بن پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس کی مخلوق کی نفع رسانی کے واسطے اسے خرچ کرو- دل دیا ہے تو پوری توجہ کے ساتھ دعائیں ہی مانگتے رہو اپنے لئے اور اپنے اور دوسرے لوگوں کے واسطے- میں باربار تاکید کرتا ہوں کہ منشاء الٰہی یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک ہو- اس اصل کو کبھی مت بھولو کیونکہ منعم علیہ بننے کے واسطے اس پر عمل کرنا بڑا ہی ضروری ہے-
جس قدر صداقتیں موجود ہیں اور جو احکام اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں ان سب پر عمل کر کے دکھائو تا کہ نتیجہ میں سکھ پائو- اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین کا نتیجہ یہی تو ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کے نواہی سے بچے- جب انسان اس قسم کا بن جاتا ہے کہ الغیب پر ایمان لاتا ہے اور خدا کی عبادت کرتا اور اس کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم اس کا بدلہ کیا دیں گے؟ اولٰئک ھم المفلحون )البقرۃ:۶( یہ لوگ مظفر و منصور ہو جائیں گے- دنیا میں بامراد اور کامیاب ہونے کا یہ زبردست ذریعہ ہے اور اس کا ثبوت موجود ہے- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لائف پر نظر کرو- ان کی کامیابیوں اور فتح مندیوں کی اصل جڑ کیا تھی؟ یہی ایمان اور اعمال|صالحہ تو تھے- ورنہ اس سے پہلے وہی لوگ موجود تھے- وہی اسباب تھے- وہی قوم تھی- لیکن جب ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر بڑھا اور ان کے اعمال میں صلاحیت اور تقویٰ اللہ پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق وہ دنیا میں بھی مظفر و منصور ہو گئے تاکہ ان کی اس دنیا کی کامیابیاں آخرت کی کامیابیوں کے لئے ایک دلیل اور نشان ہوں-
یہ نسخہ صرف کتابی نسخہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ شدہ اور بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے- جو اسے استعمال کرتا ہے وہ یقینا کامیاب ہو گا اور منعم علیہ گروہ میں داخل ہو جاوے گا- پس اگر تم چاہتے ہو کہ بامراد ہو جائو اگر تم چاہتے ہو کہ منعم علیہ بنو تو دیکھو اس نسخہ کو استعمال کرو- ۶~}~
بامراد اور کامیاب ہونے کی اصل تو بیان ہو چکی اب محرومی کی اصل جڑ بتائی- ان الذین کفروا سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون )البقرۃ:۷( جن لوگوں نے خلاف|ورزی کی اور تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھ لیا وہ مومن نہیں ہوں گے-
یہ کیسی سچی بات ہے کہ جب انسان کسی شے کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لیتا ہے وہ اس کے حصول کے لئے کوئی سعی نہیں کر سکتا- آخر محروم رہ جاتا ہے- یہی حال ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے آپﷺ~ کے انذار اور عدم|انذار کو مساوی سمجھا- نتیجہ اس کا ایمان سے محرومی ہوئی اور انجام کار وہ ان تمام کامیابیوں اور فتوحات سے جو اہل ایمان لوگوں کے حصہ میں آئیں بالکل بے نصیب اور محروم رہے-
یہ کتاب مجید جو ہمیں دی گئی ہے ساری خوبیوں اور کمالات سے بھری ہوئی ہے- لیکن جو شخص اس کتاب کے وجود اور عدم وجود ہی کو برابر سمجھے وہ ان انعامات اور برکات سے جو اس کتاب کے پڑھنے اور پھر عمل کرنے سے ملتے ہیں کیونکر بہرہ ور ہو سکتا ہے؟ وہ یقینا یقینا محروم رہے گا اور اسے ایمان نصیب نہیں ہو گا- لیکن اگر سلیم الفطرت انسان اپنے قویٰ سے کام لے اور اس کو یونہی نہ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو محروم نہیں چھوڑے گا- اس کا نام شکور ہے وہ اس کی ضرور قدر کرے گا اور اس پر اپنی نعمت کے دروازے بے شک کھول دے گا- اسے فہم قرآن عطا کرے گا اور ایک ذوق کے ساتھ توفیق عمل نصیب ہو گی-
اس بات کو میں باربار بیان کروں گا اور تم بھی خوب یاد رکھو کہ بامراد اور کامیاب ہونے کی کلید یہی ہے کہ اس کتاب کو اپنا دستورالعمل بنا لو- اگر اس کتاب کو کوئی چھوڑتا ہے اور اس کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ سے اسباب محرومی تیار کرتا ہے- اس فعل پر خدا تعالیٰ سے اسے اولاً یہ سزا ملتی ہے کہ غور کرنے والا دل چھین لیا جاتا ہے- وہ حقائق اور معارف کو سوچ نہیں سکتا اور اسی طرح پر دیکھنے اور سننے کے قویٰ بھی بیکار ہو جاتے ہیں- وہ حق کا شنوا اور حق کا بینا نہیں رہتا-
پس متقی بننے کی راہ تو یہ ہے کہ مومن بالغیب ہو- اعمال صالحہ پر چست اور چالاک ہو- تمام صداقتوں پر کاربند ہو- جزا و سزا پر ایمان لانے والا ہو- کسی صداقت کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور دل سے کام لے تا کہ عذاب سے محفوظ رہے-
بہت سے دل اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے فوری جوش یا بعض خارجی اثروں کی وجہ سے اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتے ہیں لیکن جناب الٰہی کے حضور سے فتویٰ ملتا ہے کہ مومن نہیں ہیں- اگر غور کیا جاوے تو اس اصل سے بھی بہت سے جھگڑے طے ہو جاتے ہیں- میں اپنا نام نور الدین کہلاتا ہوں- کوئی شمس الدین‘ جمال الدین‘ کمال الدین کہلاتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا آسمان پر بھی یہی نام ہے؟ اگر آسمان پر نہیں تو کچھ فائدہ اور حاصل نہیں- اسی طرح پر مومن وہی ہے جو آسمان پر مومن ہو اور کافر وہی ہے جس کا نام آسمان پر کافر ہو- دنیا کی نظر میں مومن یا کافر ہونا کوئی اثر اصل بات پر نہیں ڈال سکتا-
غرض بعض لوگوں کا خدا تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے کہ وہ بتاتے ہیں ہم مومن ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا فتویٰ ان کے متعلق یہی ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں- اگر ہمارے مخالف اس بات کو سمجھتے کہ ہمارے تجویزکردہ نام کوئی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ حقیقت ان اسماء کے اندر ہے جو خدا تعالیٰ کے مقبول اور پسندیدہ ہیں تو انہیں حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے سمجھنے میں کیا دقت اور مشکل پیش آتی تھی؟ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتے اوراللہ تعالیٰ کے پاک نام کا ادب ان کے دل میں ہوتا تو وہ ایک شخص کے منہ سے یہ سن کر کہ خدا نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے اس قدر جوش غصہ سے نہ بھر جاتے- وہ سمجھ لیتے کہ جب ہم اپنے بچوں کے نام یوسف‘ موسیٰ‘ محمد رکھ لیتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کو اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کا نام ابن مریم رکھ لے؟ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ان باتوں سے محض بے خبر ہیں اور انہوں نے قرآن شریف میں کبھی غور نہیں کیا- پس ایسے لوگ جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا فتویٰ ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں انہوں نے کیا کیا ہے؟ خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اس جماعت کو چھوڑ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومنین کی جماعت ہے- ان لوگوں میں نہ تاب مقابلہ ہے نہ قوت فیصلہ ہے- یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا فیصلہ اور مقابلہ ابھی نہیں کر سکتے جبکہ ابتدا ہے- جب اور ترقی ہو گی تو کب کر سکیں گے- ان کا یہ مرض تو بڑھتا ہی نظر آتا ہے- اس جھوٹ کا بدلہ عذاب الیم ہے-
اب یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ ایک شخص بظاہر اچھے لباس میں لوگوں کے سامنے آتا ہے- نمازی بھی نظر آتا ہے- لیکن کیا اسے اتنی سی بات پر مطمئن ہو جانا چاہئے؟ ہرگز نہیں- اگر اسی پر انسان کفایت کرتا ہے اور اپنی ساری ترقی کا مدار اسی پر ٹھہراتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے- جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ سرٹیفیکیٹ نہ مل جاوے کہ وہ مومن ہے وہ مطمئن نہ ہو- سعی کرتا رہے اور نمازوں اور دعائوں میں لگا رہے تا کہ کوئی ایسی ٹھوکر اسے نہ لگ جاوے جو ہلاک کر دے- عام طور پر تو یہ فتویٰ اسی وقت ملے گا جبکہ سعادتمند جنت میں داخل ہوں گے اور شقی دوزخ میں- لیکن خدا تعالیٰ یہاں بھی التباس نہیں رکھتا- اسی دنیا میں بھی یہ امر فیصل ہو جاتا ہے اور مومن اور کافر میں ایک بین امتیاز رکھ دیتا ہے جس سے صاف صاف شناخت ہو سکتی ہے- ہر ایک شخص ان آثار اور ثمرات کو جو ایمان اور اعمال صالحہ کے ہیں اسی دنیا میں بھی پا سکتا ہے اگر سچا مومن ہو- بلکہ اگر کوئی شخص اس دنیا میں کوئی اثر اور نتیجہ نہیں پاتا تو اسے استغفار کرنا چاہئے- اندیشہ ہے کہ وہ آخرت میں اندھا نہ اٹھایا جائے- من کان فی ھٰذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ )بنی اسرائیل:۷۳(
حضرت امام علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بارہا اس سوال کو چھیڑا ہے اوراپنی تقریروں میں بیان کیا ہے کہ بہشتی زندگی اور اس کے آثار اور ثمرات اسی عالم سے شروع ہو جاتے ہیں- جو شخص اس جگہ سے وہ قویٰ نہیں لے جاتا وہ آخرت میں کیا پائے گا- اور یہ ایک امتیازی نشان ہے جو آپ نے دوسرے مذاہب باطلہ کے رد کے لئے پیش کیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نجات یافتہ ہے تو وہ آئے میرے ساتھ ثمرات و نتائج میں مقابلہ کرے- اور کوئی نہیں آتا-
پس یہ تو بالکل سچا فیصلہ ہے کہ مومن اور کافر کی عام شناخت کا تو وہی وقت ہے جبکہ ایک فریق جنت میں جاوے گا اور دوسرا دوزخ میں- لیکن چونکہ بہشتی اور جہنمی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اس لئے یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ اسی عالم میں اللہ تعالیٰ کے اس فتویٰ کا پتہ لگ جاتا ہے- اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم زمینی اور خیالی باتوں پر صبر کرنے والے نہ بنو- اپنے تجویز کردہ ناموں پر خوش مت ہو بلکہ اس فکر میں لگے رہو کہ آسمان سے تمہیں سرٹیفیکیٹ مل جائے- میں اس پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ حقیقی مومن خدا تعالیٰ سے براہ راست بھی مومن ہونے کا فتویٰ سن لیتا ہے جس کا زندہ نمونہ ہمارا امام علیہ الصلٰوۃ والسلام موجود ہے- جس کو کھلے الفاظ میں حکم ہو گیا ہے قل انی امرت و انا اول المومنین یہی وجہ ہے کہ ان فتاویٰ اور کاغذات کی جو اس کے خلاف شائع کئے جاتے ہیں وہ ایک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں سمجھتا- اسے پرواہ نہیں کہ اسے کن ناموں سے یاد کیا جاتا ہے بلکہ وہ اس کے جواب میں کیا کہتا ہے-
کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے
اسے کیوں ان مخلوق پرستوں کے فتووں کی پروا نہیں- صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ سے اس نے سن لیا ہے کہ وہ اول المومنینہے اور مومنین کے ثمرات و برکات اس پر نازل ہو رہے ہیں-
آج کل بہت سے متصوفین اور کمزور دل کی مخلوق ایسی ہے کہ جن کا اس پر عمل ہے- ’’بامسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام‘‘ یہ لوگ جیسا موقع دیکھتے ہیں ویسا ہی اپنے آپ کو بنا لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا- وہ اخلاص اور حنیفیت چاہتا ہے- جب تک یہ بات پیدا نہ ہو گی کچھ نہیں- بہت سے لوگ اس وقت ایسے بھی ہیں جو ہم سے ملتے ہیں تو ہماری باتوں کو سنتے اور پسند کرتے ہیں- لیکن جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم کیوں ہمارے ساتھ نہیں مل جاتے؟ تو کہتے ہیں کہ ہم شامل تو ہو جائیں مگر حکام کی نظروں میں کھٹکنے لگتے ہیں اور مالی مشکلات کے لئے بلایا جاتا ہے- اور یوں تو ہم آپ کے ہی ساتھ ہیں- ظاہر کرنے کی کوئی حاجت نہیں- لیکن جب اپنے مدبروں سے ملتے ہیں تو پھر مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو آپ ہی کی رائے کے تابع ہیں اور آپ کے ہی ساتھ ہیں- ایسے لوگ منافق ہوتے ہیں-
اس لئے تم جو حضرت اقدس کے ساتھ ہو اپنے دل کو ٹٹولو اور اپنے اعمال اور افعال پر نظر کرو کہ کیا تم میں وہ بات پیدا ہو گئی ہے کہ تم اس کے لئے اپنی قوم‘ برادری کو چھوڑنے کے لئے تیار رہو؟ کیا تم ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کر سکتے ہو جو اس کی خاطر تمہیں پیش آئیں؟ اگر تمہارا دل اس کے لئے قوت پاتا ہے اور وہ بڑی خوشی کے ساتھ آمادہ ہے تو سمجھو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے- لیکن اگر مشکلات کی برداشت نہیں‘ قوم اور برادری کا ڈر تمہیں دھمکاتا ہے تو پھر دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں استقلال اور قوت عطا کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اور اس کے فضل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم دعا میں لگے رہو- اپنے اعمال میں ایک تبدیلی کرو-
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عجیب در عجیب تقریروں یا تحریروں سے کامیاب ہو سکتے ہیں اور اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ عارضی طور پر بظاہر بعض لوگوں کو کامیابی نظر بھی آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کامیابی کوئی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ ناکامی اور نامرادی ہی ہوتی ہے- کیونکہ اس کا انجام خطرناک طور پر برا ثابت ہوتا ہے- کامیابی کا اصلی راز اور گر تقویٰ اللہ ہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ روح القدس کی تائید ہوتی ہے جس سے وہ کلام الٰہی کے اسرار اور نکات کو سمجھ سکتا ہے اور اس کی تقریر اور تحریر میں اللہ تعالیٰ ایک نور اور برکت رکھ دیتا ہے- اس میں ایک اثر ہوتا ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں پر پڑتا ہے اور ان کو اس کی طرف کھینچ لاتا ہے- انبیاء علیہم السلام کی کامیابی کی اصل جڑ یہی ہے- اس لئے تم جو کامیابی چاہتے ہو اس اصل کو مضبوط پکڑے رکھو اور ہر ایک کام کو محض اللہ تعالیٰ ہی کی رضاجوئی کے لئے کرو- اس میں اپنے اغراض اور مقاصد کو قربان کر دو ورنہ ذاتی اغراض اس میں شریک ہو کر اس کی برکت اور خوبی کو کھو دیں گے- میں جانتا ہوں کہ تمہیں اپنے مخالفوں سے بہت کچھ سننا پڑتا ہے اور ایسے موقعے بھی آ جاتے ہیں کہ تمہیں ان سے گفتگو کرنی پڑتی ہے- ایسے وقت کے لئے
یاد رکھو کہ دشمن کے لئے تیار ہو مگر تائید الٰہی پر بھروسہ کر کے دعا مانگتے رہو- کبھی مناظرات اور مباحثات کی خود خواہش نہ کرو- لیکن اگر مقابلہ پیش آ جاوے تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر کشودکار کی خواہش کرو- اختلافی مسائل کے حل کے لئے آسان طریق یہی ہے کہ ان کو لکھ رکھو تا کہ ہر وقت نظر پڑتی رہے اور خداتعالیٰ سے اس کے لئے بھی دعا مانگتے رہو کیونکہ ہر ایک مسئلہ میں ہدایت کی راہ بتا دینا خدا ہی کا کام ہے ان علینا للھدیٰ )اللیل:۱۳-(جب انسان سچا دل لے کر جناب الٰہی میں تضرع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مولا کریم! تو جانتا ہے میں تیری رضا کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہوں‘ اس راہ میں تو ہی مجھے مدد دینے والا ہے اور تیرے ہی فضل سے منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہوں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان اختلافی مسائل اور مشکلات کو پتوں کے ہلنے اور ہوائوں کے جھونکوں میں حل کر دیتا ہے- ہاں اخلاص ہو-
اللہ تعالیٰ مستغنی کو کبھی پسند نہیں کرتا کیونکہ غنا مخلوق کو نہیں دیا گیا ہے- میں باربار تم لوگوں کی توجہ دعا کی طرف منعطف کرتا ہوں کیونکہ ام الکتاب دعا ہی سے شروع ہوتی ہے- بدبخت ہیں وہ لوگ جو دعا سے محروم ہوئے اور تکبر اور خودپسندی کے خطرناک مرض میں مبتلا ہو گئے-
منافقوں کے خصائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں- پس تم کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو- چھوٹے سے چھوٹے بھائی کو بھی حقیر مت جانو- ورنہ مقابلہ میں خدا ہنسی میں اڑا دیتا ہے- تم نے وہ اشتہار شائد سنا ہو گا یا پڑھا ہو گا جو ہمارے رحیم و کریم امام نے دیا تھا کہ
’’اپنی آوازوں کو قابو میں رکھو- دوسرے پر حملہ کرتے ہوئے شرم و حیا سے کام لو‘‘-
تم اپنی آوازوں کو نکالتے وقت اس ارشاد کو مدنظر رکھو تا کہ ایسا نہ ہو کہ تم خلاف ورزی کرنے والوں میں ٹھہرو- قرآن شریف کو پڑھو عمل کرنے کے لئے کیونکہ اس کی تلاوت کا اصل مقصد یہی ہے- اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے- آمین ۷~}~
۱~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۲ ----- ۱۰ / اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵تا۱۸(
۲~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۳ ----- ۲۴ / اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲(
- )الحکم جلد۸ نمبر۱۴ ----- ۳۰ / اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۱۳(
۳~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۶ ----- ۱۷ / مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸(
۴~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۷ ----- ۲۴ / مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۲(
۵~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۸ ----- ۳۱ / مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸(
۶~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۱۹ ----- ۱۰ / جون ۱۹۰۴ء صفحہ۸(
۷~}~ - )الحکم جلد۸ نمبر۲۲ ----- ۱۰ / جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ۸(
* - * - * - *
‏KH1.7
?
‏KH1.8
?
‏KH1.9
خطبات|نور خطبات|نور
۸ / دسمبر ۱۸۹۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
و لقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٰلحون- ان فی ھٰذا لبلٰغاً لقوم عٰبدین- و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین- )الانبیائ:۱۰۶تا۱۰۸( کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:
ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ اس زمین کے مالک میرے نیکوکار بندے ہوں گے- اس بات میں جو زبور کی پیشگوئی کے متعلق بیان کی گئی‘ فرماں بردار لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کو‘ اے نبی! کل مخلوقات کے لئے رحمت کر کے بھیجا ہے-
اس آیت شریف کے پڑھنے سے میری یہ غرض نہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ بہت سی باتیں بیان کروں- یہ ایک لمبا مضمون ہے- اس وقت مجھے اپنی جماعت کو چند باتیں صلاح|و|تقویٰ کے متعلق سنانی منظور ہیں-
خدا تعالیٰ نے اس آیت میں کہ ان فی ھٰذا لبلٰغاً لقوم عٰبدین ایک لگتی ہوئی بات سنائی ہے- یہود ہمیشہ اپنے تئیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم ابراہیمؑ کے فرزند ہیں اور خدا نے ہم میں سے ایک بڑا سلسلہ انبیاء علیہم السلام اور ملوک کا پیدا کیا اور خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضل و کرم کے وارث اور ٹھیکیدار ہم ہی ہیں- لیکن انھوں نے اس امر کے سمجھنے میں سخت غلطی کھائی کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا انحصار اور اس کی رحمت و برکت کا مدار کسی کی قرابت پر ہے- حالانکہ خدا کے نزدیک صرف ایک اور صرف ایک ہی بات تھی اور ہے جو اس کی نصرت‘ تائید اور اس کے فضل و کرم کا موجب رہی ہے اور وہ بات قوموں کے درمیان صلاح و تقویٰ ہے- مدتوں اس سے پہلے خدا فرما چکا تھا کہ جب بنی اسرائیل اس اصل کو چھوڑ دیں گے اور صلاح و تقویٰ سے دور جا پڑیں گے خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت کے وارث نہ رہیں گے اور ایک اور قوم پیدا کی جاوے گی جو متقی ہوں گے اور اس وعدہ کی زمین کے‘ جس کے لئے قوم تڑپتی تھی‘ ہاں اسی ارض مقدس یعنی زمین شام کے وارث وہ بنیں گے-
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں پھر خدا نے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ اس وعدہ کے پورا ہونے کا وقت آیا ہے- قرآن کریم کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک نمونہ سے ایک قوم تیار ہو رہی ہے جو دائود علیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق ارض مقدس کی وارث ہو گی- مگر ہاں اس کے لئے راہ یہی ہے کہ عابد اور فرماں بردار بن جائو- رسول کے آگے پست ہو جائو اور وہ تقویٰ جو خیال‘ بناوٹ‘ اپنی تجویز سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک نمونہ اور خدا|تعالیٰ کے فرمودہ نقشہ کے موافق ہے وہ اختیار کرو- و ماارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین اس کے ضمن میں نکلتا ہے کہ اگر اس رحمت کو اختیار نہ کرو گے اور اس کے نقش قدم پر چل کر اپنا چال چلن‘ صلاح و تقویٰ نہ بنائو گے تو ذلیل ہو کر ہلاک ہو جائو گے- رسول اللہ پر حرف نہ آئے گا کیونکہ وہ تو رحمت مجسم ہے-
یہ بات کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخلوق کے لئے رحمت کر کے بھیجا ہے نرا دعویٰ ہی دعویٰ نہیں- تاریخ بتلاتی ہے اور تجربہ صحیحہ گواہی دیتا ہے کہ جس قوم نے صدق دل سے روح اور راستی سے اس پاک نمونہ کی پیروی کی وہ قوم کیا سے کیا ہو گئی- وہ بدنام اور ذلیل قوم جس میں کسی قسم کی خوبی نہیں تھی‘ وہ جنگجو‘ وحشی بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کی اطاعت کرنے سے آخر اس ارض مقدس کے وارث ہوئے جس کے لئے بنی اسرائیل کی برگزیدہ قوم جنگلوں اور بیابانوں میں تڑپتی اور بھٹکتی رہی تھی- بنو قریظہ اور بنو نضیر جو وارث بنے بیٹھے تھے کہاں گئے؟
اس سے ایک سبق ملتا ہے- بہت سے لوگ اپنی نحوستوں اور فلاکتوں‘ اپنے فقر و فاقہ کے متعلق چلاتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں- وہ یاد رکھیں کہ تنگ دستیوں اور فلاکتوں کے دور کرنے کے لئے یہی اور ہاں یہی ایک مجرب نسخہ ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اطاعت کی جاوے اور صلاح و تقویٰ جو اس اطاعت کی غایت اور منشاء ہے اپنا شعار بنا لیا جاوے- پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ صادق ہے کہ یرزقہ من حیث لایحتسب )الطلاق:۴ -( بے شک! بے شک!! یہ سچی بات ہے کہ ممکن نہیں رحمت کی اطاعت میں زحمت آئے- پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت کرو کہ اس سے تمام نحوستیں اور ہر قسم کے حزن و ہموم دور ہو جاتے ہیں-
خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ صلاح و تقویٰ کے اختیار کرنے والے کا متولی‘ حافظ و ناصر خود وہ مولیٰ کریم ہو جاتا ہے- ہاں متقی بنو- اس کے فرماں بردار اور صالح بندے بنو- پھر وعدہ کی زمین وہ شام کی زمین ہو یا کوئی اور‘ وہ مومنوں کا حق ہے اور وہی اس کے حقیقی وارث ہیں-
مسلمانوں کے ادبار اور نکبت پر بہت سی رائے زنیاں کرتے ہیں لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں تو کھول کر کہتا
ہوں کہ یہ ساری ذلتیں اور نحوستیں جو مسلمانوں پر آئی ہیں یہ خلاف سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پیدا ہوئی ہیں- رحمت سے جس قدر کوئی دور ہوتا جاوے گا‘ ذلت اور زحمت اس کے شامل حال ہوتی جاوے گی-
پس متقی بنو کہ ہر تنگی اور ہر قسم کی سختی سے نجات ملنے کا ذریعہ تقویٰ اللہ ہے- اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتا ہے- و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً )الطلاق:۳( جو اللہ تعالیٰ کا متقی ہوتا ہے اس کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے- تقویٰ اللہ کیا ہے؟ متقی کے ہر قول اور فعل اور اس کی ہر حس و حرکت میں اللہ کا خوف اور اس کی صفات کا حیا ہوتا ہے- کبھی اس کی صفت علیم‘ خبیر‘ بصیر سے ڈرتا ہے‘ کبھی اعلم بما فی الصدور کو دیکھ کر گندے اور ناپاک منصوبوں سے پرہیز کرتا ہے-
غرض جس قدر اللہ تعالیٰ کی صفات کی حیا ہو اسی قدر تقویٰ اللہ کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملتی ہے اور اسی نسبت سے خدا اس کا متولی ہو جاتا ہے- متقی کو بڑی بات یہ میسر آتی ہے کہ کسی دکھ کے وقت جب کہ ہر طرف سے وحشت پر وحشت اور تاریکی پر تاریکی نظر آتی ہو اسے کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے دلی آ کر نہیں ستاتی- اس کو کامل یقین ہوتا ہے کہ خدا نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور ضرور کر دیتا ہے-
میں نے خود آزما کر اور تجربہ کر کے بارہا دیکھا ہے کہ خدا نے کس کس طرح پر مخرج عطا کیا ہے- خدا کے بڑے بڑے راستبازوں‘ صدیقوں اور متقیوں کے تجربے اور شہادتیں موجود ہیں- کوئی بڑے سے بڑا دنیادار جس کو ہر قسم کی آسائشیں اور راحتیں میسر ہوں کبھی بھی سچا اطمینان اور حقیقی راحت حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدائے عظیم کا تکیہ اور سہارا نہ ہو- فطرت انسانی ایک تکیہ چاہتی ہے- دیکھو کوئی آدمی گفتگو کرنے اور بولنے میں کیسا ہی آزاد اور دلیر کیوں نہ ہو لیکن جب کوئی بیماری آتی ہے تو دل چھوٹ چھوٹ جاتا ہے مگر طبیب کے کہنے سے کہ تم اچھے ہو جائو گے‘ نئی جان اور طاقت آ جاتی ہے- جی کا گھٹنا تسلی سے بدل جاتا ہے- اس نکتہ معرفت کو سوچو- ایک خدا ہے- یقیناًخدا ہے- پس جن کو وہ تسلی دیتا ہے اور جن سے ہم کلام ہوتا ہے‘ ان کی سنتا اور اپنی سناتا ہے- ان کو کیسا اطمینان‘ کیسی راحت اور سکینت اور جمعیت خاطر ملتی ہے-
یورپ کے بڑے بڑے لائق فلسفہ دانوں کی خود کشی کا کیا سر ہے؟ یہی کہ ان کو اطمینان اور سکینت مل نہیں سکتی کیونکہ خدا پر ایمان نہیں‘ وہ ایمان جو دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں ایک لذیذ رفیق ہوتا ہے- یاد رکھو جو ایمان اور یقین قرآن لایا ہے‘ فطرت انسانی کی سیری اور غذا اسی میں ہے- کسی قوم‘ کسی مذہب و ملت‘ کسی کتاب میں یہ لذیذ ایمان نہیں ہے جس کے ذریعہ دکھوں اور حزنوں کی ساعتوں میں انسان کو خدا کی آوازیں راحت پہنچاتی اور تسلی دیتی ہیں- جیسے مریض کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ تو اب غم نہ کھا‘ تیری مرض دور ہو چلی اور تو اچھا ہے اور مریض ایک تسلی حاصل کر لیتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ شیریں آوازیں خدا کی کان میں آتی ہیں- مگر بات وہی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو- نامرد‘ عورت اور مرد کے تعلقات کی لذت کو کیا سمجھ سکتا ہے- اسی طرح پر خدا سے دور اور اس کی صفات سے حیا نہ کرنے والا بے حیا کیا سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی راحت رساں آواز کیا ہوتی ہے؟ ہر وقت اللہ کی صفات کا کپڑا پہن لینا- یہی وہ بات ہے جو نئی زندگی‘ نئی طاقت اورنئی روح‘ نیا دل عطا کرتی ہے-
اسوۃ المتقین کو دیکھ لو- خدا تعالیٰ کی ساری راست بازی اور ایک ہدایت کا مجسم نمونہ ہے- دشمنوں کے سانپوں اور بچھوئوں نے کیسے گھیرا ہے- ایک سوراخ سوئی کے برابر بھی نکلنے کو نہیں- مگر دیکھتے ہو کہ کیسا صاف اور کشادہ راستہ ملا- شاھت الوجوہ کی ایسی مٹی پھینکی کہ بھونڈے اور اندھے ہو گئے اور وہ مکہ کا نکالا ہوا‘ بیابان مدینہ کا سرگردان‘ نصرت الٰہی کا تاج پہنتا ہے- اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد-
یہ ایک سبق ہے- اسی طرح اللہ سے انس لگائو- اللہ تعالیٰ کے منکر و نواہی سے بچو اور امر کی اطاعت کرو- پھر ایسی مدد کرے گا جو اسوۃ المتقین کی اس نے کر کے دکھائی-
اے میرے دوستو! جن کو اللہ کے فضل و کرم سے موقع ملا ہے کہ وہ امام المتقین کے موعود اور اس پر سلام پہنچائے ہوئے کے نمونہ کے پاس بیٹھے ہیں- ہاں جن کو اس رحمت اور نور خدا کے عاشق‘ قرآن کریم کے غیرت مند عاشق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے شیدا کی صحبت نصیب ہوئی ہے- تم سب سے بڑھ کر تقویٰ پیدا کرو- تمھاری آنکھ میں وہ حیا ہو کہ دیکھنے والا کہہ اٹھے کہ یہ آنکھ خدا کو دیکھتی ہے-
تمھارے ہر عضو کامنہ قبلہ حقیقی کی طرف ہو- پھر تم شھداء علی الناس )البقرۃ:۱۴۴ ( ہو گے اور خدا کا فضل اور نصرت تمھارے شامل حال ہو گی-
یاد رکھو ہمارے مذہب میں کسی انسان سے نرا پیار اور محبت کام نہیں دے سکتا- ایمان اور اعمال|صالحہ کام دیتے ہیں- اگر نرا پیار اور محبت ہو اور عمل صالح نہ ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے یہود کہتے تھے نحن ابناء اللہ )المائدۃ:۱۹-( آخر میں پھر کہتا ہوں کہ متقی بنو کہ متقی کامیاب ہوتے ہیں-
خدا سے دعا ہے کہ ہماری جماعت کو سچا متقی بنا دے اور اپنے فضل و رحمت کا وارث- آمین-
)الحکم جلد ۳ نمبر ۴۵ ----- ۱۷ / دسمبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۱ تا ۳(
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۳ / اپریل ۱۹۰۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
و العصر- ان الانسان لفی خسر- الا الذین اٰمنوا و عملوا الصٰلحٰت و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر )العصر:۲تا۴( کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:
قرآن کریم سے بڑھ کر دنیا کے لئے کوئی نور‘ شفا‘ رحمت‘ فضل اور ہدایت نہیں ہے اور قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی مجموعہ سچی باتوں کا نہیں ہے- یہ سچ اور بالکل سچ ہے- اصدق الحدیث کتاب اللہ- اس قرآن کی ایک مختصر سی سورۃ میں اس جمعہ میں سنانے کو کھڑا ہوا ہوں- ذرا سی سورۃ ہے‘ ایک سطر میں تمام ہو گئی ہے- لیکن اگر اسی ذرا سی سور~ہ~ کو انسان اپنا دستور العمل بنا لے تو کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہ جاتی- اس سورۃ کو مولیٰ کریم نے عصر کے لفظ سے شروع فرمایا ہے- انسان کے واسطے دن معاش کا ذریعہ اور رات آرام کا وقت بنایا ہے اور فرمایا و جعلنا النھار معاشاً- )النبا:۱۲( سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بارک اللہ فی بکورھا ) ترمذی کتاب البیوع( فرمایا- کس قسم کا معاش؟ دنیوی معاش‘ اخروی معاش کے لئے یہ جگہ ہے- الدنیا مزرعۃ الاٰخرۃ- جیسا بیج بوو گے‘ انجام کار ویسا پھل پائو گے- کون اس بات کو نہیں جانتا کہ جو کے بونے والے کو آخر جو کاٹنے پڑیں گے- اس دن میں آخری حصہ کا نام عصر ہوتا ہے- عصر کے بعد کوئی وقت فرضی نماز کے ذریعہ رضا الٰہی کے حصول کے لئے باقی نہیں رہتا- دن کی نمازوں کی انتہا عصر کی نماز ہے- جو عصر کی نماز ترک کرتا ہے اسے اب دن نہیں ملتا- اسی طرح جس کو عصر کے وقت تک مزدوری نہیں ملی اب اس کا دن ضائع گیا اور اسے مزدوری نہیں مل سکتی-
اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ عصر کا زمانہ ہے- ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ بعض قومیں صبح سے دوپہر تک مزدور بنائے گئے ہیں اور بعض دوپہر سے عصر تک مزدور بنائے گئے اور ایک قوم عصر سے غروب آفتاب تک ٹھیکہ دار ہے- پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا زمانہ عصر سے مناسبت رکھتا ہے- جیسے قرآن کریم کے بعد اور کوئی کتاب نہیں اور شرائع الٰہیہ کے بعد اور شرع نہیں- عصر کے بعد کسی نماز کا وقت نہیں- پس اس عصر کی نماز کے لئے بہت تاکیدیں فرمائی ہیں- جو عصر کی نماز چھوڑتا ہے اس کا اہل و مال کاٹا گیا- اسی نماز کے لئے فرمایا کہ یہ نماز منافق کی تمیز کا نشان ہے جو سورج کے غروب کے وقت چار ایک چونچیں سی لگا دیتا ہے- امت محمدیہ میں آنے والے لوگوں کے لئے بھی عصر کا نمونہ ہے- ہم کھلے طور پر مدلل مبرہن دکھا سکتے ہیں- حجت ملزمہ کی طرح یقین دلانے کو تیار ہیں اگر فطرت سلیم ہو- یہ حقیقی وقت ہے کہ کوئی کاسرصلیب مامور ہونے والا ہو- پس یہ عصر کا وقت ہے اس کو غنیمت جانو- جب سایہ زرد ہوتا ہے اور آفتاب غروب ہونے کو ہوتا ہے‘ مفید وقت جاتا رہتا ہے- اسی وقت منافق کی نماز کا وقت ہوتا ہے- ایسا ہی جو قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام نہ ہوئی وہ آخر خلفاء کے زمانہ میں مسلمان تو ہوئے مگر وہ غیرت اور شوکت ان کی نہ رہی- رعب کے نیچے آ کر‘ کثرت کو دیکھ کر بہت سے لوگ ایک جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں مگر ابتلا کے وقت مخلص ہی شامل ہوتے ہیں- جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کاہن‘ ساحر‘ مفتری‘ مجنون کہا جاتا تھا اس وقت جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آ کر ملے اور آپ کی دعوت کو قبول کیا ان کے ساتھ پیچھے آنے والے کب مل سکتے ہیں- خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی سابقین کے ایک مٹھی جو کے برابر قدر نہیں ہو سکتی- یہی وہ سرعظیم تھا جس کو پہنچ کر صحابہ نے ابوبکر صدیق کو حضور علیہ السلام کا جانشین بنایا- غار ثور میں جب آپ تشریف رکھتے تھے اس تیرہ و تار غار میں ساتھ جانے والا جو کچھ لے گیا ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہے- غرض عصر کے وقت کو غنیمت سمجھو-
اس عصر کے وقت میں کیا کر سکتے ہو؟ چار کاموں کے لئے ارشاد فرمایا- و العصر ان الانسان لفی خسر ساری مخلوق گھاٹے میں ہے- انسان گویا برف کا تاجر ہے- برف پر ایک وقت آئے گا کہ ساری پگھل جائے گی اس لئے برف کے تاجر کو لازم ہے کہ بہت ہی احتیاط کرے- انسان بھی اگر غور کرے تو عمر کے لحاظ سے اس کو برف کا کارخانہ ملا ہے- ایک بچہ کی ماں اپنے بیٹے کو چار برس کا دیکھ کر خوش ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں اس کی عمر میں سے چار برس کم ہو چکے ہیں- پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر دم بدم گزرتی اور برف کی طرح پگھلتی جاتی ہے اور اس وقت کا علم نہیں جب یہ تمام ہو- اس لئے انسان کو لازم ہے کہ اپنے وقت کی قدر کرے اور عمر کو غنیمت سمجھے اور اس تھوڑے سے دنوں میں جو اس کو مل گئے ہیں مولا کریم سے ایسا معاملہ کرے کہ ان کے گزرنے پر اس کو عظیم الشان آرام گاہ حاصل ہو- بڑے بدبخت ہیں وہ جو اپنے بیوی بچے کے آرام کے لئے دین برباد کرتے ہیں- یاد رکھیں کہ مال‘ اسباب‘ عزیزوں‘ رشتہ داروں سے برخوردار ہونا اور فائدہ اٹھانا محض مولیٰ کریم کے فضل پر منحصر ہے-
اس سورۃ شریفہ میں فرمایا کہ سب انسان گھاٹے میں پڑ رہے ہیں مگر ایک قوم نہیں- وہ کون؟ الا الذین اٰمنوا و عملوا الصٰلحٰت و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر- چار باتوں کو دستور العمل بنا لے تو اس عصر کے وقت سارے دن کی مزدوریوں سے زیادہ مزدوری مل جاوے- حدیث میں لکھا ہے کہ صبح سے شام تک مزدور کے لئے ایک دینار ہے- پس صبح والے مزدوروں نے دوپہر تک کام کیا اور چھوڑ بیٹھے‘ پھر اور مزدوروں نے دوپہر سے عصر تک کام کیا اور پھر کام کو ترک کر دیا- مگر تیسری اور جماعت مزدوروں کی آئی جنہوں نے عصر سے کام کو شروع کیاآخر دن تک‘ تو ان کے لئے دو دینار مزدوری ملی- مگر قرآن شریف سے یہ ملتا ہے کہ جب ایک مومن عمل کرتا ہے تو اس کو دس گنا بڑھ کر اجر ملتا ہے- غرض وہ چار باتیں کیا ہیں جن کا اس سورۃ میں ذکر ہے؟
ان میں اول اور مقدم ایمان ہے- یہ عظیم الشان چیز ہے- بدوں اس کے کوئی عمل مقبول ہی نہیں ہوتا- ہر ایک عمل میں ضروری ہے کہ ایمان‘ اخلاص اور صواب ہو- یہ پتہ لگانا کہ کس درجہ کا مومن ہے‘ آسان نہیں- ایک دراز تجربہ کے بعد معلوم ہو سکتا ہے- شادی غمی کا موقع آتا ہے- ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے اور دوسری طرف برادری کا قانون اور قومی محرکات- اب اگر اللہ تعالیٰ کی حکومت سے نہیں نکلتا اور قومی اور برادری کے اصولوں کی پروا نہیں کرتا تو بیشک مخلص مومن ہے- ایک طرف نفس کا فیصلہ ہو‘ دوسری طرف قوم کا فیصلہ اور تیسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ- اب اگر اپنے اور قوم کے فیصلہ کی کچھ پروا نہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ کے نیچے گردن رکھ دیتا ہے تو یقیناً مومن ہے-
میں دیکھتا ہوں شادیاں ہوتی ہیں تو بڑی قوم کی تلاش ہوتی ہے- تقویٰ کی تلاش نہیں کی جاتی- بدمعاش‘ آوارہ مزاج‘ شریر ہو‘ کچھ پرواہ نہیں مگر ہڈی پسلی اور خون کسی بڑی قوم کا ہو- افسوس! صد افسوس!! پھر شادی کی دعوتوں میں مسکینوں کودھکے دے کر باہر نکالا جاتا ہے لیکن شریر النفس اور بے|حیا لوگوں کو بلا بلا کر بٹھایا جاتا ہے- جن لوگوں کے اموال کا تلف کرنا غضب الٰہی کا موجب ہے نہایت بیباکی اور شوخی کے ساتھ اس کو تباہ کیا جاتاہے- دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے میں بیباک ہیں- مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو کر احکام الٰہی کو سنتے ہیں- مگر اپنی جماعت یا سوسائٹی کے کسی معمول پر عمل کے خلاف دیکھ کر اس کے لینے میں مضائقہ کرتے ہیں- میرا تو یقین ہے کہ یہ لوگ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ کی باتوں کے ماننے میں اسی طرح مضائقہ کرتے جیسا آج امام کی اتباع سے مضائقہ کرتے ہیں-
غرض ایمان موقوف ہے خدا کی ذات میں‘ اسماء میں‘ یاد میں- عظمت و جبروت میں دوسرے کو شریک نہ کرے خواہ فرشتہ ہو یا رسول ہو‘ نبی ہو یا ولی ہو- کیسا افسوس آتا ہے کہ موحد لوگ توحید کا اقرار کر کے پھر مسیح کو خالق کخلق اللہ اور محیی کاحیاء اللہ مانتے ہیں! کیا یہی توحید ہے- اور یہ کہنا کہ خدا کے اذن سے کرتے تھے ایک دھوکا ہے- اگر کوئی کام اذن الٰہی سے بھی کیا جاوے تو کیا وہ خدا کی طرح کا کام ہو جاتا اور کرنے والے کو خدا کا شریک بنا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خالق کل شیی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے- ایک شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا- جب اس سے پوچھا گیا کہ مسیح اور خدا تعالیٰ کی چمگادڑوں میں کچھ فرق بھی ہے تو اس نے کہا کہ رل مل گئے ہیں- ایمان کی پہلی شرط ہے ایمان باللہ کہ کسی حمد‘ فعل‘ عبادت‘ حسن و احسان الٰہی میں کسی غیر کو شریک نہ کرے- مجھے ان لوگوں پر تعجب آیا کرتا ہے جو اپنی محروسیت کے باعث خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے سے محروم ہیں- کہا کرتے ہیں کہ الٰہی محبت نہیں ہے وہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول )التغابن:۱۳( کے کیا معنے کرتے ہیں؟ قرآن کریم تو ہمیں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے ذریعہ پہنچا ہے- اطیعوا اللہ کا موقع ہی کب ملتا ہے- رسول کے ذریعہ ماننا اس کے بھی بعد ہے- خدا تعالیٰ کی قدر کرو ایسا نہ ہو کہ ما قدروا اللہ ]01 [p )الانعام:۹۲( کے نیچے آ جائو- پس جبکہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ آج چپ ہو گیا؟ مجھے اس آیت پر کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جب قوم نے بچھڑے کو خدا بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دلیل دی ہے کہ الا یرجع الیھم قولاً )طٰہٰ:۹۰( یعنی تم دیکھتے ہو کہ تمہاری بات کا جواب نہیں دیتا‘ یہ تفہیم ہوئی کہ جو خدا جواب نہ دے وہ بچھڑے کا سا خدا ہوا- ہاں یہ بھی سچ ہے کہ سارے جگ سے بات کرنا کبھی نہیں ہوا- انسان اپنے اندر وہ خوبیاں اور خواص پیدا کرے جو کلام الٰہی کے لئے ضروری ہیں پھر جواب ملے گا-
دوسری شرط ایمان کی اخلاص ہے یعنی خدا ہی کے لئے ہو- اور تیسری شرط صواب ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے موافق عملدرآمد ہو- کوئی عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک اخلاص اور صواب سے نہ ہو-
پھر ایمان بالملائکہ ہے- ایمان بالملائکہ ایسی چیز ہے جس کی طرف سے تساہل کر کے نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں- آج کل کے لوگ سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ بدوں سبب کے فعل سرزد نہیں ہوتا- پس بیٹھے بیٹھے جو انسان کو دفعتاً نیکی کا خیال آتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک لمتہ الملک انسان کے ساتھ ہے- اس کے ذریعہ نیک خیال پیدا ہوتے ہیں اور شیطانی تعلقات سے برے خیالات اٹھتے ہیں- پس انسان کو لازم ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر فی الفور نیکی کرے- ایسا نہ ہو یحول بین المرء و قلبہ )الانفال:۲۵( کا مصداق ہو جاوے- ایمان بالملائکہ کا یہی فائدہ ہے کہ نیکی سے تغافل نہ کرے- پھر اللہ کی کتابوں‘ اس کے رسولوں پر ایمان لائے-
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے- اس کو دستور العمل بنائو- افسوس ہے کہ مسلمان اس کو کتاب اللہ جان کر بھی دستورالعمل بنانے میں مضائقہ کرتے ہیں اور السنۃ قاضیۃ علیٰ کتاب اللہ کا فتویٰ دیتے ہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی قرآن کریم کو کس ادب اور عظمت کی نگاہ سے دیکھا ہے- ساری حدیث کی کتابیں دیکھو- جن مسائل پر قرآن کریم نے مفصل بحث فرمائی ہے اور ان کے دلائل دیئے مثلاً ہستی باری تعالیٰ‘ ضرورت نبوت‘ مسئلہ تقدیر وغیرہ‘ ان پر احادیث میں بحث نہیں کی گئی- پھر تقدیر کے مسئلہ پر ایمان لاوے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ فاسق کو کوئی عمدہ نتیجہ ملے- پھر جزائ|وسزا پر ایمان لاوے- اس کے بعد دوسری بات عملوا الصٰلحٰت ہے- اس کا عام اصول ہے کہ ہر سنوار کا کام کرے اور اس کے معلوم کرنے کے واسطے قرآن کریم‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عملدرآمد معیار ہے- پھر انسان سوچ لے کہ امت محمدیہ کو کنتم خیر امۃ )اٰل عمران:۱۱۱( قرار دیا ہے- پس جس سے آٹھ پہر میں کوئی بھلائی بھی نہ ہو وہ اپنی حالت پر غور کرے- ایسی ہی وصیت|الحق ضروری ہے- گونگا شیطان بننا اچھا نہیں- مقابلہ میں مشکلات پیش آتی ہیں- پھر کوشش کرے اور صبر و استقلال سے کام لے- یہ ہیں چار دستور العمل جو اس مختصر سی سورت میں بیان ہوئے ہیں-
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ قرآن ہمارا دستور العمل ہو‘ محمد صلی اللہ علیہ و سلم مطاع ہو اور یہ زمانہ جو دین اور ایمان کے لئے ہے ہم اس کی قدر کریں- آمین-
) الحکم جلد۴ نمبر۲۹ - ۱۶ / اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۴ تا ۷(
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۲ / جنوری ۱۹۰۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الفطر
سورۃ البقرہ کے چوبیسویں رکوع )آیات ۱۹۰ تا ۱۹۷( کی تلاوت کے بعد فرمایا -:
یہ رکوع شریف جو میں نے ابھی پڑھا ہے‘ یہ رمضان شریف کی تاکیدوں اور اس کے احکام اور فضائل اور فوائد کے بیان کے بعد نازل فرمایا گیا ہے- اس رکوع کامضمون اور مطلب رمضان کے بعد ہی سے بلافصل شروع ہوتاہے جو آج کی تاریخ ہے- یہ مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ بہ نسبت اور مہینوں کے ایک خاص فضل اور انعام مسلمانوں پر اس میں نازل ہوا ہے- گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یہی مہینہ ابتدائی سال ہے- آخررمضان میں جو وحی نازل ہوئی ہے تو تبلیغ شوال ہی سے شروع فرمائی ہے- وہ نور جوتاریکیوں کے دور کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور جس کا ذکر انزلنا الیکم نوراً مبیناً )النسائ:۱۷۵( میں کیا ہے اس کا شروع یہی مہینہ ہے-
جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رمضان کے فضائل اور فوائد سنے اور معلوم کیا کہ اس سے اس طرح پر تقویٰ حاصل ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں ایک فکر اور جوش پیدا ہوا کہ دوسرے مہینوں کے بھی فضائل اور حقائق سے واقف ہوں- اس لئے یسئلونک عن الاھلۃ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے-
رمضان میں تقویٰ کا سبق یوں ملتا ہے- سخت سے سخت ضرورتیں بھی جو بقائے نفس اور بقائے|نسل کے لئے ضروری ہیں ان کو بھی روکنا پڑتا ہے- بقائے نفس کے لئے کھانا پینا ضروری چیز ہیں اور بقائے|نسل کے لئے بیوی سے تعلق ایک ضروری شے ہے مگر رمضان میں کچھ عرصہ کے لئے یعنی دن بھر ان ضرورتوں کو خدا کی رضامندی کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ سبق سکھایا ہے کہ جب انسان بڑی ضروری خواہشوں اور ضرورتوں کو ترک کرنے کا عادی ہوگا تو غیر ضروری کے چھوڑنے میں اس کو کیسی سہولت ہوگی- دیکھو ایک شخص کے گھر میں تازہ دودھ‘ ٹھنڈے شربت‘ انگور‘ نارنگیاں موجود ہیں- پیاس کے سبب سے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں- کوئی روکنے والا نہیں- باوجود سہولت اور ضرورت کے اس لئے ارتکاب نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم ناراض نہ ہو جائے اور اسی طرح عمدہ عمدہ کھانے‘ پلائو‘ کباب اور دوسری نعمتیں میسر ہیں اور بھوک سے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں اور پھر کوئی نہیں جو ان کھانوں سے روکنے والا ہو مگر یہ اس لئے استعمال نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو- جبکہ یہ حال ہے کہ ایسی حالت اور صورت میں کہ اس کو عمدہ سے عمدہ نعمتیں جو اس کے بقائے نفس کے لئے اشد ضروری ہیں‘ یہ صرف مولیٰ کریم کے حکم کی رضامندی کی خاطر ان کو چھوڑتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ چھوڑ سکتا ہے تو بھلا ایسا انسان جو خدا کے لئے ضروری چیزیں چھوڑ سکتا ہے وہ شراب کیوں پینے لگا اور خنزیر کیوں کھانے لگا؟ جس کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہے یا مثلاً کوئی رشوت خور‘ ربٰو خوری کرنے والا یا چور یا ایسا انسان جو قرض لیتا ہے کہ ادا کرنے کی نیت نہیں ہے جبکہ دیانت داری سے کام لیتا ہے اور مولیٰ کریم کی اجازت اور پروانگی کے سوا کچھ نہیں کرتا وہ ایسے خبیث مال کے لینے میں کیوں جرات کرے گا؟ ہرگز نہیں- اسی طرح گھر میں حسین جوان بیوی موجود ہے مگر اللہ ہی کی رضا کے لئے تیس دن چھوڑ سکتا ہے تو بدنظری کے لئے جی کیوں للچائے گا-
غرض رمضان شریف ایک ایسا مہینہ تھا جو انسان کو تقویٰ‘ طہارت‘ خدا ترسی‘ صبر و استقلال‘ اپنی خواہشوں پر غلبہ‘ فتح مندی کی تعلیم عملی طور پر دیتا تھا- ان ترقیوں کو دیکھ کر جو صحابہ نے رمضان میں تقویٰ میں کی تھیں‘ انھوں نے دوسرے مہینوں کے فضائل و فوائد سننے کی خواہش ظاہر کی اور سوال کیا- اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب یوں دیا- قل ھی مواقیت للناس )البقرۃ:۱۹۰( کہہ دو کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے یہ وقت مقرر فرمائے ہیں- کیسا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو صحت‘ فرصت‘ پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے علم بھی عطا ہوا ہے اور اگر نہیں تو کوئی درد دل سے سنانے والا موجود ہے- عاقبت اندیشی کی عقل دی ہے مگر باوجود اس قدر اسباب اور سہولتوں کے میسر آجانے پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی فکر نہیں کرتا اور منافع اٹھانے کی سعی میں نہیں لگتا تو اس سے بڑھ کر بدقسمت کون ہو سکتا ہے؟
مواقیت للناس کیا عجیب وقت بنایا ہے تمہارے فائدہ کے لئے اور نفع اٹھانے کا بہت بڑا موقع دیا ہے اور اس لئے بھی کہ تم حج کرو- یاد رکھو کہ حج اللہ کی سنن میں سے ہے-
یہ ایک سچی بات ہے کہ جہاں بدکاریاں کثرت سے ہوں وہاں غضب الٰہی نازل ہوتا ہے اور جہاں عظمت اور ذکر الٰہی ہو وہاں فیضان الٰہی کثرت سے نازل ہوتا ہے- قوی روایات سے متفقہ یہ شہادت ملتی ہے کہ بیت اللہ کا وجود تو بہت بڑے زمانہ سے ہے- لیکن حضرت ابو الملت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جس کی تاریخ صحیح موجود ہے ابا عن جد قوموں کا مرکز اور جائے تعظیم چلا آیا ہے اور پتہ ملتا ہے کہ رات دن میں کوئی ایسا وقت بیت اللہ میں نہیں آتا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے اوراد نہ پڑھے جاتے ہوں- مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کا زندہ اور بین ثبوت موجود ہے- چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس )المائدۃ:۹۸( یعنی اس الٰہی گھر کو معزز گھر بنایا- اس کو لوگوں کے قیام اور نظام کا محل بنایا اور قربانیوں کو مقرر کیا کہ تم کو سمجھ آجائے کہ خدا ہے اور وہ علیم و خبیر خدا ہے کیونکہ جس طرح اس نے فرمایا ہے اسی طرح پورا ہوا-
میں نے ایک دہریہ کے سامنے اس حجت کو پیش کیا وہ ہکا بکا ہی تو رہ گیا- لوگوں کے مکانات اور پھر مذہبی مقامات کو دیکھو کہ ذرا سے انقلاب سے ساری عظمت خاک میں مل جاتی ہے- بابل کس عظمت|و|شان کا شہر تھا مگر آج اس کا کوئی پتہ بھی نہیں دے سکتا کہ وہ کہاں آباد تھا- کارتھج میں ہنی بال کا معبد‘ پراموں کا مندر جہاں سکندر عظیم الشان بادشاہ آ کر نذر دیتا تھا اور اپنے آپ کو اس کا بیٹا منسوب کرتا تھا‘ آتش کدہ آذر‘ غرض بڑے بڑے مقدس مقامات تھے جن کا نام و نشان آج زمانہ میں موجود نہیں ہے- مگر مکہ معظمہ کی نسبت خدائے علیم و حکیم نے اس وقت جبکہ وہ ایک وادی غیرذی زرع تھا یہ فرمایا کہ وہاں دنیا کے ہر حصہ سے لوگ آئیں گے‘ وہاں قربانیاں ہوں گی اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا رہے گا- صدیاں اس پر گذر گئیں- دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ہوئے- سلطنتوں کی سلطنتیں تباہ ہو کر نئی پیدا ہو گئیں مگر مکہ معظمہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی وہ آج بھی اسی شوکت اور جلال کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پر کئی سو سال پیشتر- اس سے اللہ تعالیٰ کی علیم و خبیر ہستی کا کیسا پتہ لگتا ہے- اگر انسانی منصوبہ اور ایک خیالی اور فرضی بات ہوتی تو اس کا نام و نشان اسی طرح مٹ جاتا جیسے دنیا کے اور بڑے بڑے مقدس قرار دیئے گئے مقامات کا نشان مٹ گیا- مگر نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی باتیں تھیں جو ہر زمانہ میں اس کی ہستی کا زندہ ثبوت ہیں-
یہ بات اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے کہ جس کو وہ عزت دینی چاہے وہ معزز و مکرم ہو جاتا ہے اور جس کو ذلیل کرنا چاہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے- انسانی کوشش اور سعی پر اس کا انحصار اور مدار نہیں ہے- بیت اللہ کی عزت و حرمت کا ٹھیکیدار وہ خود ہوگیا ہے- اس لئے کوئی نہیں کہ اس کی ذلت کا خواہشمند ہو اور خود ذلیل نہ ہو جائے- اسی طرح پر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ جس کی عزت کا ٹھیکہ لے لے وہ دنیا داروں کی ذلت کے ارادوں سے ذلیل ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں-
میں نے بار ہا سنایا ہے کہ جب مامور من اللہ آتا ہے تو لوگوں کو اس کی مخالفت کا ایک جوش ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کے اعزاز کے لئے تل جائے اس کو کوئی ذلیل نہیں کر سکتا- مدینہ طیبہ میں ایک راس المنافقین کا ارادہ ہوا لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل )المنافقون:۹( ہم اگر لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے تو ایک ذلیل گروہ کو معزز گروہ نکال دے گا- جناب|الٰہی نے فرمایا و للٰہ العزۃ و لرسولہ و للمومنین )المنافقون:۹( معزز تو اللہ ہے اور اس کا رسول اور اس کی جماعت- منافقوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آتی- آخر ایام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک بھی منافق نہ رہا- بلکہ یہ فرمایا ملعونین اینما ثقفوا اخذوا و قتلوا تقتیلاً )الاحزاب:۶۲-( اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تیری مجاورت میں بھی نہ رہیں گے-
تو حج کا مقام وہ مقام ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسان اللہ کی یاد کے لئے حاضر ہوتے ہیں- اللہ کی تحمید کے لئے مال و جان کو خطرات میں ڈالتے ہیں- اہل و عیال اور رفقاء لوگوں کو چھوڑتے ہیں‘ پھر خدا کا فیضان کیسا جلوہ گری فرماتا ہے-
قرآن جو نازل فرمایا اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوا- انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون 10] p)[الحجر:۱۰-( دنیا کی اور کسی کتاب کی نسبت یہ ارشاد خداوندی نہیں ہوا اور جس مقدس اور راستباز‘ ہاں قوم کے مسلم امین اور صادق انسان پر یہ پاک کتاب نازل ہوئی‘ اس کی حفاظت کا ذمہ|دار بھی مولیٰ کریم ہی ہوا- چنانچہ و اللہ یعصمک من الناس )المائدۃ:۶۸( کی صدا اسی راستباز کو پہنچی- پھر جو دین لے کر یہ خدا کا سچا نبی صلی اللہ علیہ و سلم آیا اس کا نام اسلام رکھا جس کے معنی ہی میں سلامتی موجود ہے-
یہی وہ دین ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اظہار یہ کہہ کر فرمایا و رضیت لکم الاسلام دیناً )المائدۃ:۴-( اور اس اسلام پر عملدرآمد کرنے والے سچے مسلمان کو جس نتیجہ پر پہنچایا وہ دارالسلام ہے- پس کون ہے جو اس|قدر سلامتیوں کو چھوڑے؟ وہی جو دنیا میں سب سے بڑھ کر بدنصیب ہو- لیکن یاد رکھو کہ ہر ایک چیز کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک راہ رکھی ہوئی ہے- اسی راہ پر چل کر وہ اصل مقصد حاصل ہو سکتا ہے- اسی طرح نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے یہی ایک راہ ہے- کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اخلاص اور صواب اس کے ساتھ نہ ہو- عام طور پر نیکیوں کے سمجھنے کے واسطے انسان کی عقل کفایت نہیں کر سکتی- انسان اپنی عقل اور دانش سے اپنے جیسے انسان کی رضامندی معلوم نہیں کر سکتا پھر ورائ|الوریٰ کی رضا کیونکر سمجھ لے- اس کا ایک ہی طریق ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے ایک کو منتخب فرماتا ہے- مگر انسان اپنی اٹکل بازی اور دانش سے اس منتخب شدہ بندہ کو نہیں سمجھ سکتا اس لئے کہ نبوت اور ماموریت ایک باریک اور لطیف راز ہوتا ہے جس کو دنیا میں منہمک انسان جھٹ|پٹ نہیں سمجھ سکتا- اگر یہ بات ہوتی کہ ہر شخص معاً نبی کے دعویٰ کرنے ہی پر اس کی حقیقت کو سمجھ لیتا تو پھر مخالفوں کا وجود ہی نہ ہوتا- چونکہ انسان اپنی عقل و دانش پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے اور مجرد اسی کے فیصلہ پر راضی ہونا پسند کرتا ہے اس لئے اکثر اوقات وہ غلطیاں کرتا اور نقصان اٹھاتا ہے-
یہی اٹکل بازی تھی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں لوگوں سے یہ کہلوایا لو لانزل ھٰذا القراٰن علیٰ رجل من القریتین عظیم )الزخرف:۳۲( میاں یہ قرآن شریف تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے نمبردار پر نازل ہونا چاہئے تھا- اپنی نگاہ و نظر میں وہ یہی سمجھتے تھے کہ قرآن شریف اگر نازل ہو تو کسی نمبردار پر نازل ہو- کیونکہ ان کی نگاہوں کی منتہیٰ تو وہ نمبرداری ہو سکتی تھی- پس یہی حال ہے کہ انسان اپنی اٹکلوں سے کام لینا چاہتا ہے حالانکہ ایسا اس کو نہیں کرنا چاہئے- بلکہ جس معاملہ میں اس کو کوئی علم اور معرفت نہیں ہے اس پر اس کو رائے زنی کرنے سے شرم کرنی چاہئے- اس لئے پاک کتاب کا حکم ہے کہ لاتقف ما لیس لک بہ علم )بنی اسرائیل:۳۷-(
ناواقف دنیا اپنی تدبیروں سے جو انتخاب کرنا چاہتی ہے وہ منظور نہیں ہو سکتا- سچا انتخاب وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کرتا ہے- چونکہ انسانی عقل پورے طور پر کام نہیں کرتی اور وہ فتویٰ نہیں دے سکتی کہ ہمارا کیا ہوا انتخاب صحیح اور مفید ثابت ہو گا یا ناقص- اس لئے ماموریت کے لئے انتخاب اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے-
ایک بار ایک شیعہ نے مجھ سے پوچھا کہ تیرہ سو برس کے وہ دلائل جو سنیوں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے بیان کئے ہیں اور شیعوں نے جو دلائل ان کے مقابل میں پیش کئے ہیں ان سب کو لکھ دو اور پھر ان پر ایک محاکمہ اور فیصلہ لکھو- اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تیرہ سو برس کے جھگڑے کو فیصل کرنے کے واسطے تو عمر نوحؑ بھی وفا نہیں کر سکتی کیونکہ کہتے ہیں کہ وہ تو ساڑھے نو سو برس ہی اس دنیا میں رہے- پس مجھے اس وقت اس جھگڑے کے فیصلہ کی تفہیم یہ ہوئی اور میں نے لکھ دیا کہ بات یہ ہے کہ چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں‘ عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قویٰ قوی ہیں‘ کس میں قوت انتظامیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے اس لئے جناب الٰہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم و عملوا الصٰلحات لیستخلفنھم فی الارض )النور:۵۶-( خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے- اب واقعات صحیحہ سے دیکھ لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں؟ یہ تو صحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے اور ضرور ہوئے- شیعہ یہی مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی بیعت آخر کر لی تھی- پھر میری سمجھ میں تو یہ بات آ نہیں سکتی اور نہ اللہ تعالیٰ کو قوی‘ عزیز‘ حکیم خدا ماننے والا کبھی وہم بھی کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ پر بندوں کا انتخاب غالب آ گیا تھا- منشاء الٰہی نہ تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہو گئے-
غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ خلفائے ربانی کا انتخاب انسانی دانشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا- اگر انسانی دانش ہی کا کام ہوتا ہے تو کوئی بتائے کہ وادی|غیرذی|زرعمیں وہ کیونکر تجویز کر سکتی ہے- چاہئے تو یہ تھا کہ ایسی جگہ ہوتا جہاں جہاز پہنچ سکتے- دوسرے ملکوں اور قوموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اسباب میسر ہوتے- مگر نہیں- وادی|غیرذی|زرعہی میں انتخاب فرمایا اس لئے کہ انسانی عقل ان اسباب و وجوہات کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی جو اس انتخاب میں تھی اور ان نتائج کا اس کو علم ہی نہ تھا جو پیدا ہونے والے تھے- عملی رنگ میں اس کے سوا دوسرا منتخب نہیں ہوا اور پھر جیسا کہ عام انسانوں اور دنیا داروں کا حال ہے کہ وہ ہر روز غلطیاں کرتے اور نقصان اٹھاتے ہیں آخر خائب اور خاسر ہو کر بہت سی حسرتیں اور آرزوئیں لے کر مر جاتے ہیں- لیکن جناب الٰہی کا انتخاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے- اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی- وہ جدھر منہ اٹھاتا ہے ادھر ہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ فضل‘ شفا‘ نور اور رحمت دکھلاتا ہے- الیوم اکملت لکم )المائدۃ:۴( کی صدا کس کو آئی؟ کیا اپنی دانش اور عقل کے انتخاب کو یا وادی|غیرذی|زرعمیں اللہ تعالیٰ کے انتخاب کو؟ جناب الٰہی ہی کا منتخب بندہ تھا جو دنیا سے نہ اٹھا جب تک یہ صدا نہ سن لی-
پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کے انتخاب میں جو جناب الٰہی ہی کا کام ہے چون و چرا کرنی درست نہیں ہے- ہزارہا مصائب اور مشکلات آئیں وہ اس کوہ وقار کو جنبش نہیں دے سکتیں- آخر کامیابی اور فتح ان کی ہی ہوتی ہے- اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ پھر ہم اس مامور من اللہ اور منتخب بارگاہ الٰہی کو کیونکر شناخت کریں؟ اول یاد رکھو کہ حق اور باطل دو ایسی چیزیں ہیں کہ تم معاً دونوں کو شناخت کر سکتے ہو اور ان میں امتیاز کر لیتے ہو- اسی طرح پر مامور من اللہ کو تم اس کے فوق العادت غیر معمولی کاموں سے شناخت کر سکتے ہو- علاوہ اس کے اس مامور سے پہلے بھی تو مامور گزرے ہوتے ہیں- ان حالات کو ان گزرے ہوئے لوگوں کے حالات اور واقعات سے مقابلہ کرو- یہ یاد رکھو کہ یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ کوئی مامور اور خلیفہ آئے اور لوگوں نے اس کو بغیر چون و چرا کے مان لیا ہو اور اس کی کوئی مخالفت نہ ہوئی ہو- خلفائے|ربانیین کی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ ان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے- تاریخ کو جانے دو- عام مشاہدہ قانون قدرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک ترقی اپنے اندر تدریج کا سلسلہ رکھتی ہے- ایک بچہ جو آج ہی پیدا ہو آج ہی جوان نہیں ہو سکتا- ایک طالب علم جس نے ابھی ابجد شروع کی ہو ابھی عالم فاضل نہیں بن سکتا- پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے- اس لئے ایک دم میں اس کی نشوونما یا ترقی کو معیار نہ ٹھہرائو کہ یہ غلط راہ ہے اور حق سے دور پھینک دینے والی-
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا لطیف ارشاد فرمایا قل ما کنت بدعاً من الرسل )الاحقاف:۱۰( کہہ دو کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا- مجھ سے پیشتر ایک دراز سلسلہ انبیاء و رسل کا گزرا ہے‘ ان کے حالات دیکھو- وہ کھاتے پیتے بھی تھے‘ بیویاں بھی رکھتے تھے- پھر مجھ میں تم کونسی انوکھی اور نرالی بات پاتے ہو- غرض یہ مامور ایک ہی قسم کے حالات اور واقعات رکھتے ہیں- ان پر اگر انسان خدا|ترسی اور عاقبت اندیشی سے غور کرے تو وہ ایک صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے جبکہ تم نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کو سپر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی رضا کا حال معلوم ہو اور وہ مامور من اللہ کے ذریعہ سے معلوم ہوتی ہے اور مامور من اللہ کی شناخت کا اصول بھی سمجھ لیا- میں آگے چلتا ہوں- و اتقوا اللہ )البقرۃ:۱۹۵-( ]text [tagبڑے بڑے مشکلات اور مصائب پیش آتے ہیں- اختلافات ہوتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے- دشمنوں کی زدوں اور ماموروں کی سادگی کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہو جاتا ہے- ان مشکلات سے نجات پانے کے واسطے ایک ہی راہ ہے- اللہ کو سپر بنا لو- نتیجہ یہ ہو گا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً )الانفال:۳۰-( اللہ تعالیٰ متقی کو فیصلہ کی راہیں خود بتا دیتا ہے- ہزاروں ہزار طریقے ہیں جن سے سمجھا دیتا ہے- وجدان‘ فطرت‘ علمی دلائل‘ الہام‘ رئویا‘ غرض جس طرح پر وہ چاہتا ہے سمجھا دیتا ہے-
تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متقی بامراد ہوتا ہے- اس کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے کہ اسے سمجھ میں بھی نہیں آتا- اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں- الٰہی نصرت اس کو ملتی ہے- خدا کی محبت کا انعام اس پر ہوتا ہے- پھر دنیا میں کون انسان ہے جو کامیابی‘ نصرت‘ محبت الٰہی‘ دشمنوں کی ہلاکت نہیں چاہتا مگر اس کا انحصار اور مدار تو تقویٰ پر ہے- تقویٰ اختیار کرو-
و قاتلوا فی سبیل اللہ )البقرۃ:۱۹۱( اللہ تعالیٰ کی راہ میں‘ اعلاء کلمہ~ں۲~ اللہ میں‘ اللہ کے بندوں کی عزت اور وقعت کے لئے دشمنان دین‘ دشمنان قرآن کریم‘ نبی کریم کے دشمنوں‘ آپ کے جانشینوں کے دشمنوں سے مقابلہ کرو مگر اس راہ سے جس راہ سے وہ مقابلہ کرتے ہیں- وہ اگر تلوار اور تیر سے کام لیں تو تم بھی تلوار اور تیر سے کام لو- لیکن اگر وہ تدابیر سے کام لیتے ہیں تو تم بھی تدابیر ہی سے مقابلہ کرو- ورنہ اگر اس راہ سے مقابلہ نہیں کرتے تو یہ اعتدا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اعتدا کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا- غرض جو راہ دشمن اختیار کرے اسی قسم کی راہ اختیار کرو-
پس میں پھر کہتا ہوں کہ انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس راہ اور سبب کو اختیار نہیں کرتا جو اس کے حصول کے واسطے مقرر ہے- کامیابی کے صحیح اور یقینی اسباب اور ذرائع معلوم نہیں ہو سکتے جب تک سچا علم نہ ہو اور سچا علم بدوں قرآن کے نہیں آ سکتا اور قرآن بدوں تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا اور سچا تقویٰ اور خشیت الٰہی پیدا نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کے منتخب فرمائے ہوئے بندوں کی صحبت میں نہ رہے اور مامور اور منتخب کی شناخت کا اصول یہ ہے کہ جو اس سے پہلے آئے ہیں ان کے کاموں اور حالات سے اس کو پہچانو-
غرض آج کا دن نبوی تاریخ کا پہلا دن ہے اور تقویٰ کی تیاری رمضان کے مہینہ سے شروع کی ہے- اس لئے واجب ہے کہ سال آیندہ کے لئے اب ہی سے تیاری کریں-
پھر رمضان شریف کے احکام و فضائل کو لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل )البقرۃ:۱۸۹( پر ختم کیا ہے- باطل طریق سے اموال کا لینا بہت خطرناک بات ہے- پس ہر ایک اپنے اپنے اندر سوچو اور غور کرو کہ کہیں بطلان کی راہ سے تو مال نہیں آتا- اپنے فرائض|منصبی کو پورا کرو- ان میں کسی قسم کی سستی اور غفلت نہ کرو- لایومن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ مایحب لنفسہ- )بخاری کتاب الایمان-(
اپنی طاقتوں اور عمر کے ایام کو غنیمت سمجھو- ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو کسی طرح بھی ناراض کرو اور آج کے لئے‘ فقراء اور مساکین کے واسطے اپنے اموال کا ایک حصہ دے دو- صدقات مال کو پاک کر دیتے ہیں اور آفات اور مشکلات کو روک دیتے ہیں- آج کے صدقہ میں گیہوں دو مد )بھرا ہوا بک( اور غلہ چار مد غرباء اور مساکین کو دینا چاہئے کیونکہ مالوں ہی کی احتیاطوں سے اس رکوع شریف کو یا یوں کہو کہ آج کے دن کو شروع اور رمضان کو ختم کیا ہے- خدا کے فضل اور توفیق کے بدوں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا- پس اس کا فضل ہمارے شامل حال ہو- آمین-
بعد ظہر ’’انجمن تشحیذ الاذہان‘‘ کا جلسہ ہو گا- شاید میں اس میں تمہیں کچھ اور سنائوں اس لئے اب ختم کرتا ہوں-
)الحکم جلد۵ نمبر ۵ ---- ۱۰ / فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۴تا۶(
و
)الحکم جلد۵ نمبر۶ ---- ۱۷ / فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۵تا۷(

* - * - * - *
‏KH1.10
خطبات|نور خطبات|نور
۳۰ / مارچ ۱۹۰۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ عید الاضحیٰ
)ایڈیٹر ’’الحکم‘‘ کے الفاظ میں(
خطبہ کے شروع میں آپ نے فرمایا-
عید کا خطبہ پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ارادہ فرمایا تو لوگوں کو کہا کہ جس کی مرضی ہو بیٹھے‘ جس کی مرضی نہ ہو یا اسباب اس کے نہ بیٹھنے کے ہوں وہ بے شک چلا جاوے- *
اس کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
ضرب اللہ مثلاً عبداً مملوکاً لایقدر علیٰ شی|ء و من رزقنٰہ منا رزقاً حسناً فھو ینفق منہ سراً و جھراً ھل یستون الحمد للٰہ بل اکثرھم لایعلمون )النحل:۷۶(
میں نے یہ آیت شریف سورۃ نحل میں سے پڑھی ہے- اس کے ابتدا میں حضرت حق سبحانہ تعالیٰ

* - عن عبد اللہ بن السائب قال شھدت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العید فلما قضی الصلاۃ قال انا نخطب فمن احب ان یجلس للخطبۃ فلیجلس و من احب ان یذھب فلیذھب- )سنن ابی دائود کتاب الصلوۃ باب الجلوس للخطبۃ- نیز دیکھیں- سنن نسائی کتاب صلوۃ العیدین- سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا-(
نے اپنی ہستی‘ اپنی توحید‘ اپنے اسمائ‘ اپنے محامد اور لا انتہا عجائبات قدرت کا اظہار فرمایا ہے اور بعد اس بیان کے جو درحقیقت لا الٰہ الا اللہ کے معنوں کا بیان ہے‘ اس کے دوسرے جزو محمد رسول اللہ پر بحث کی ہے اور ضرورت نبوت‘ پھر ختم نبوت پر لطیف طرز سے بحث کی ہے اور بیان کیا ہے کہ کیوں خدا کی طرف سے کوئی مامور ہو کر آتا ہے اور اس کا کیا کام ہوتا ہے؟ پھر اس آیت میں بتایا ہے کہ جو شخص مامور من اللہ اور حجہ~ن۲~ اللہ ہو کر آتے ہیں وہ بلحاظ زمانہ‘ بلحاظ مکان عین ضرورت کے وقت آتے ہیں اور ان کی شناخت کے لئے وہی نشانات ہیں جو اس آیت میں بیان کئے جاتے ہیں- وہ کیا کام کرتے ہیں- ان پر کیا اعتراض ہوتے ہیں- دوسروں کی نسبت ان میں کیا خصوصیت ہوتی ہے؟ ان دو آیتوں میں انہی باتوں کا تذکرہ ہے- ان میں سے پہلی آیت شریف کا ترجمہ یہ ہے‘ مگر ترجمہ سے پیشتر یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ممتاز بنایا ہے اور پھر انسانوں میں سے کچھ لائق اور بعض نالائق ہوتے ہیں اور اس طرح پر خود ان میں ایک امتیاز قائم کرتا ہے- غرض نبوت کی ضرورت اور اس کے اصول کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ اسی آیت میں ایک نہایت ہی عجیب بات سناتا ہے-
’’مثل‘‘ اعلیٰ درجہ کی عجیب بات کو کہتے ہیں- غرض اللہ تعالیٰ ایک عجیب بات اور نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی بات سناتا ہے- کوئی کسی کا غلام ہے‘ وہ عبد جو کسی کامملوک ہے اس کا مالک اس کے لئے بہت سے کام رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا غلام وہ کام کرے مگر غلام کی یہ حالت ہے کہ لایقدر جس کام کو کہا جاتاہے وہ مضائقہ کرتا ہے اور اپنے قول و فعل‘ حرکات وسکنات سے بتاتا ہے کہ آقا! یہ تو نہیں ہو سکتا- وہ زبان سے کہے یا اعمال سے دکھاوے‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس کام کے کرنے کے قابل نہیں- اب ایک اور غلام ہے جو کام اس کے سپرد کیا جاوے‘ جس خدمت پر اسے مامور کیا جاوے پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے اس کو سر انجام دیتا ہے- جب اس کو کوئی مال دیا جاوے تو وہ اس کو کیا کرتا ہے؟ اس مال کو لیتا ہے- جہاں آقا کا منشاء ہو کہ مخفی طور پر دیا جاوے وہاں مخفی طور پر دیتا ہے اور جہاں مالک کی مرضی ہو کہ ظاہر طور سے دیا جاوے وہاں کھلے طور پر دیتا ہے- غرض وہ مالک کی مرضی اور منشاء کا خوب علم رکھتا ہے اور اس کے ہی مطابق عمل درآمد کرتا ہے- اور مخفی در مخفی اور ظاہر در ظاہر موقعوں پر ہی جہاں مالک کی مصلحت ہوتی ہے اس مال کو خرچ کرتا ہے- اب تم اپنی فطرتوں سے پوچھو کہ یہ دو غلام ہیں جن میں سے ایک تو ایسا ہے کہ کسی کام کے کرنے کے بھی قابل اور لائق نہیں- اور دوسرا ہے کہ اپنے مالک کی مرضی اور مصلحت کا پورا علم رکھتا ہے اور صرف علم ہی نہیں اس پر عمل بھی کرتا اور سراً اور جہراً دونوں قسم کے اخراجات کر سکتا ہے- اب یہ کیسی صاف بات ہے اپنی ہی فطرت سے فیصلہ پوچھ لو- ]nsk [tagھل یستون کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں- ہر ایک دانشمند کو اعتراف کرنا پڑے گا-
چونکہ وہ فطرت انسانی‘ اعتقادات‘ اخلاق سب کو جانتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے کامل علم اور فطرت کی صحیح اور کامل واقفیت کی بنا پر فتویٰ دیتا ہے- الحمد للٰہ اللہ تعالیٰ ہی کی حمد دنیا میں قائم ہو گی- کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہی غلام لائق اور ممتاز ہو سکتا ہے جو ہر قسم کے اخراجات کو بر محل کرنے اور اپنے آقا کی منشاء و مصلحت کو جانتا ہے اور یہی نہیں بلکہ عملی طاقت بھی اعلیٰ درجہ کی رکھتا ہے-
جب یہ بات ہے تو عرب و عجم کی تاریخ پر نظر کرو- نہیں! دنیا کی تاریخ کے ورق الٹ ڈالو اور دیکھو کہ جس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر جلوہ گری کی کیا اس سے بہتر کوئی اور وجود اس قابل تھا کہ وہ دنیا کا معلم ہو کر آتا؟ ہرگز نہیں- لوگوں کو سچے علوم ملتے ہیں اور با برکت اساتذہ کا اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ بات کہ حق سبحانہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو اور اس کے مقرب ہونے کے لئے اقرب راہ مل جاوے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کامل طور پر دنیا میں نہیں ہوا- زمانہ کے امراض پر پوری نظر کر کے مریضوں کی حالت کی کامل تشخیص کس نے کی تھی؟ کسی کا نام تو لو- جب معالج ہی نہ تھا تو شفاء کا تو ذکر ہی کیا!
مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاء کامل کا نسخہ لے کر آئے اور مریضوں پر اس کا استعمال کر|کے ان کو تندرست بنا کر دکھا دیا کہ یہ دعویٰ کہ ننزل من القراٰن ما ھو شفاء )بنی اسرائیل:۸۳( بالکل سچا دعویٰ ہے-
اس وقت کی عام حالت پر نظر تو کرو تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں ایک بلاخیز طوفان بت پرستی اور شرک کا آرہا تھا- کوئی قوم‘ کوئی ملک‘ کوئی خاندان‘ کوئی ملت ایسی نہ رہی تھی جو اس ناپاکی میں مبتلا نہ ہو- کیا ہند میں عالم نہ تھے؟ مجوسیوں کے پاس گھر اور دستور آگاہ نہ تھے؟* یہود کے پاس بائیبل اور طالمود نہ تھی؟ عیسائیوں کی روما کی سلطنت نہ تھی؟ مصریوں کے ہاں علم کا دریا نہ بہتا تھا؟ کیا خاص عرب میں بڑے بڑے طلیق اللسان اور فصیح البیان شعراء موجود نہ تھے؟ مگر قوم کی امراض نہیں بلکہ ملک کی بیماریوں‘ نہیں نہیں دنیا کو تباہ کر دینے والی بلا کی کس نے تشخیص کی؟ وہ کون تھا جس نے شفاء اور نور کہلانے والی کتاب دنیا کو دلوائی؟ جواب آسان اور بہت آسان ہے بشرطیکہ انصاف اور سچائی سے محبت ہو کہ وہ پاک ذات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی- اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ
-* مطابق اصل
اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں رزق اور مال سے کیا مراد ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ جیسے اس زمانہ میں مولوی اور درویش کاہل اور سست اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو پکی پکائی روٹی دے جاوے‘ اسی طرح جب مہدی موعود علیہ الصلٰوۃ و السلام آئیں گے تو لا تعداد زر و مال تقسیم کریں گے اور اس طرح پر گویا قوم کو سست اور بے دست و پا بنائیں گے- اور قرآن کریم نے جو یہ اشارہ فرمایا تھا و ان لیس للانسان الا ما سعیٰ )النجم:۴۰( اور حصر کے کلمہ کے ساتھ فرمایا تھا اس کو عملی طور پر منسوخ کر دیں گے- اس میں جو حصر کے کلمے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا یہ حکم منسوخ ہو جاوے گا اور جناب مہدی کا یہی کام ہو گا؟ سوچو اور غور کرو- صاف معلوم ہوتا ہے کہ رزق کے کیا معنے ہیں-
اس کے بعد جناب الٰہی ایک دوسری شہادت سناتے ہیں اور اس مثال میں ابکم کا لفظ اختیار فرمایا ہے- پہلے ابکم نہ تھا اس لئے کہ ہم کو غرض ہے کسی ایسے آدمی کی جو پیغام رسانی کر سکے- لیکن جب کہ وہ ابکم ہے کچھ بول ہی نہیں سکتا‘ بھلا وہ اس منصب کے فرائض کو کیوں کر سر انجام دے گا؟ غلام مت سمجھو- رجلین ہیں یعنی ’’حر‘‘ ہیں- آدم سے لے کر اس وقت تک ان پر کسی نے سلطنت نہیں کی اس لئے اس میں ترقی فرمائی ہے اس سے پہلے عبدکہا اب رجلین- اس سے میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حروں میں‘ عربوں میں تاریخ پتہ نہیں دیتی کہ وہ کبھی کسی کی رعایا ہوئے ہوں- انہوں نے کبھی کسی کے تسلط اور جبروت کو پسند نہیں کیا اور یہاں تک آزاد ہیں کہ بذریعہ انتخاب بھی کل جزیرہ نما عرب پر ایک شخص حاکم ہو کر نہیں رہا- اب انہی سے ہم پوچھتے ہیں کہ اس وقت جو بحر و بر میں فساد برپا ہو رہا ہے اور دنیا میں بت پرستی‘ فسق وفجور‘ ہر قسم کی شرارت اور بغاوت پھیل رہی ہے کوئی ہے کہ اللہ|تعالیٰ کی گم|شدہ توحید کو از سر نو زندہ کرے اور مری ہوئی دنیا کو زندہ کر کے دکھاوے؟ اللہ تعالیٰ کی عظمت|وجبروت‘ اس کے جلال وسطوت کو کھول کر سنا دے- وہ جو ابکم الکن ہیں وہ کیا بتا سکیں گے- کیا تم نہیں جانتے کہ ابکم نوکر تو اپنے آقا پر بھی دوبھر ہوتا ہے- اس کو کھانا کھلانا اور ضروریات کے سامان کاnsk] ga[tتکفل کرنا خود مالک کو ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے اور پھر جہاں جاتا ہے تو کوئی خیر کی خبر نہیں لا سکتا- اب پھر تم اپنی فطرت سے پوچھو ھل یستوی ھو و من یامر بالعدل و ھو علیٰ صراط مستقیم )النحل:۷۷( کیا اس کے برابر یہ ہو سکتا ہے جو امر بالعدل کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے اپنی عملی حالت سے اس کو دکھاتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے؟
اس وقت جو دنیا میں افراط و تفریط بڑھ گئی ہے- دنیا کو اعتدال کی راہ بتانے والا اور
اقرب راہ پر چل کر دکھانے والا اور اپنی کامیابی سے اس پر مہر کر دینے والا کہ یہی صراط مستقیم ہے جس پر میں چلتا ہوں- اب انسان اگر دانشمند اور سلیم الفطرت ہو تو اس کو صفائی کے ساتھ مسئلہ نبوت کی ضرورت کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے-
میں نے ایک بار اس آیت پر تدبر کیا تو مجھے خیال آیا کہ اگر مولویوں کی طرح کہیں تو کیا عرب گونگے تھے؟ سبعہ معلقہ اور امرء القیس کا قصیدہ دیکھو جو بیت اللہ کے دروازہ پر آویزاں کیا گیا تھا- زید بن عمرو اور اس کے ہم|عصر اعلیٰ درجہ کے خطیب موجود تھے- ان لوگوں میں جب کبھی اس بات پر منازعت ہوتی تھی بڑے دنگل لگتے تھے- جس کی بات کو مکہ کے قریش پسند کرتے وہ جیت جاتا- ان کی زبان عربی تھی- وہ دوسروں کو عجم کہتے تھے- اپنے آپ کو فصاحت میں بے|نظیر سمجھتے تھے- پھر اس پر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ابکم ہے؟ اپنی معشوقہ اور عشیقہ کے خد و خال‘ بہادری اور شجاعت کے کارنامے چستی و چالاکی کے‘ غرض ہر قسم کے مضمون پر بڑی فصاحت سے گفتگو کر سکتے تھے اور اپنے تحمل مزاج کے ثبوت دیتے تھے مگر ہاں وہ ’’ابکم‘‘ تھے تو اس بات میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کے محامد‘اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انہیں کچھ علم نہ تھا اور وہ اس کی بابت ایک لفظ بھی منہ سے نہ بول سکتے تھے- اللہ تعالیٰ کے افعال کی بینظیری کو بیان کرنے کی مقدرت ان میں نہ تھی- وہ عرب کہلاتے تھے مگر لا الٰہ الا اللہ جیسا اعلیٰ درجہ کا فصیح|وبلیغ کلمہ ان میں نہ تھا- وحشیوں سے انسان اور انسانوں سے بااخلاق انسان پھر باخدا انسان بننے کے لئے اور ان مراتب کے بیان کرنے کو‘ آہ! ان میں ایک لفظ بھی نہ تھا- اخلاق فاضلہ اور رذائل کو وہ بیان نہ کر سکتے تھے- شراب کا تو ہزار نام ان میں موجود تھا مگر افسوس! اور پھر افسوس!! اگر کوئی لفظ اور نام نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور توحید کے اظہار کے واسطے- پھر یوں سمجھو کہ ان میں لا الٰہ الا اللہ نہ تھا- وہ اپنی سطوت اور جبروت دکھاتے- ایک پلے )کتی کے بچے( کے مر جانے پر خون کی ندیاں بہا دینے والے اور قبیلوں کی صفائی کر دینے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا بول بالا کرنے کے واسطے ان میں اس وقت تک سکت نہ تھی یہاں|تک کہ پاک روح مطہر و مزکی معلم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ظہور فرمایا-
یہ وہ وقت تھا جب کہ ظھر الفساد فی البر و البحر )الروم:۴۲( کا نقشہ پورے طور پر کھینچا گیا تھا- سماوی مذاہب جو کہلاتے تھے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں کے پڑھنے کے دعوے کرتے تھے باوجود اس کے کہ اپنے آپ کو مقربان بارگاہ الٰہی کہتے نحن ابناء اللہ و احباوہ )المائدۃ:۱۹( مگرحالت یہاں تک خراب ہو چکی تھی کہ عظمت الٰہی اور شفقت علی خلق اللہ کا نام و نشان تک نہ پایا جاتا تھا- اور دنیوی ڈھکوسلے والوں کی حالت بھی بگڑ چکی تھی- اسی حالت میں اللہ تعالیٰ مکہ والوں کو آگاہ کرتا اور بتاتا ہے کہ تم ابکم ہو- صنادید مکہ میں سے ابوجہل ہی کو دیکھ لو- اس کے افعال و اعمال‘ اس کے اخلاق صاف طور پر بتاتے ہیں کہ وہ دنیا کے لیے ہرگز ہرگز خیر و برکت کا موجب نہیں- یہ صرف اسی پاک ذات کے لئے سزاوار ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح اور فلاح کے لئے مامور ہوا جس کا پاک نام ہی ہے محمد و احمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ جس نے اپنی پاک تعلیم‘ اپنی مقدس و مطہر زندگی اور بے عیب چال چلن اور پھر اپنے طرز عمل اور نتائج سے دکھا دیا کہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲( میں اپنے اللہ کا محبوب ہوں- تم اگر اس کے محبوب بننا چاہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اتباع کرو- جب کہ میں اپنے خدا کا محبوب ہوں پھر بتائو کہ کوئی چاہتا ہے کہ اس کا محبوب ناکام رہے؟ پھر خدا مجھے کبھی ناکام نہ رہنے دے گا- میرے دشمن ذلیل اور ہلاک ہو جائیں گے- اور یہ باتیں ایسی سچی اور صاف ہیں کہ تم خود کر کے دیکھ لو- میری اطاعت کرو‘ میرے نقش قدم پر چلو‘ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہو جائو گے اور تمہارے دشمن مردود اور مخذول ہو کر تباہ ہو جائیں گے- کیا اس وقت تم نہیں دیکھتے کہ ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا )الانبیائ:۴۵( کیسے واضح طور پر پورا ہو رہا ہے- اعلیٰ درجہ کے عظیم الشان لوگ طرف کہلاتے ہیں اس لئے کہ وہ ایک طرف ہو کر بیٹھتے ہیں- اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے بعض سلیم الفطرت ہوتے ہیں‘ وہ بھی طرف کہلاتے ہیں- یعنی تمہارے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے یا یہ کہو کہ ہر طبقہ اور درجہ میں سے جو عظیم الشان اور سلیم الفطرت لوگ ہیں وہ سب کے سب اسلام میں داخل ہو کر تمہاری جمعیت کو دن بدن کم کر رہے ہیں-
غرض مامور من اللہ کا وجود ایک حجتہ اللہ ہوتا ہے- اس کی جماعت بڑھتی جاتی اور اس کے مخالف دن بدن کم ہوتے جاتے ہیں-
یہ تو تیرہ سو برس کی بات تھی اور اب اس پر چودہویں صدی گذرتی ہے- اس میں سے بھی اٹھارہ سال گذرنے کو آئے- اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بناوٹ کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ اس نے حاصل کیا ہوتا ہے اس کو تھوڑی دیر کے بعد خرچ کر کے پھر اور کی تلاش میں ہوتی ہے اور نئی چال اختیار کرتی ہے کہ وہ متاع واپس آئے- یہ نظام درختوں میں بھی نظر آتا ہے- ایک وقت یہ نہایت صاف آکسیجن جو انسانی زندگی کے لئے اعلیٰ درجہ کی ضروری شے ہے نکالتے ہیں اور ابھی اس پر پورے ۱۲ گھنٹے نہیں گذرنے پاتے کہ کاربن جیسی زہریلی چیز دینے لگتے ہیں- پھر اس آکسیجن کے نکالنے کے واسطے بہت سی زہریلی چیزیں ان کو جذب کرنی پڑتی ہیں-
ہم آپ بیتی ہی کیوں نہ سنائیں- اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی کھانے اور پینے کی چیزیں آتی ہیں- قوائے|شہوانی کی سیری کا سامان موجود ہوتا ہے- سیر ہو کر ان کو ترک کر دیتے ہیں- اس وقت ایسا معلوم دیتا ہے کہ گویا ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے- ابھی تھوڑا وقفہ نہیں گذرتا کہ وہی بھوک‘ وہی پیاس‘ وہی شہوانی خواہشیں موجود ہوتی ہیں- ابھی بہت عرصہ نہیں گذرا کہ سردی کے واسطے گرم کپڑوں کی ضرورت تھی اور بڑی محنت اور صرف سے کپڑے تیار کرائے تھے مگر اب وہی ہم ہیں اور وہی کپڑے‘ لیکن ان کپڑوں کو اب رکھ نہیں سکتے- ضرورت آپڑی ہے کہ نئی طرز کے کپڑے ہوں جو اس موسم کے حسب حال ہوں- غرض یہی حال حضرات انسان کا ہے- قسم قسم کی غذائیں اندر پہنچ کر صرف اپنا خلاصہ در خلاصہ چھوڑ کر پاخانے کی شکل میں نکل جاتی ہیں اور پھر انہیں غذائوں کی ضرورت اور انہیں خلاصوں کی احتیاج پیدا ہوتی رہتی ہے-
یہی مضمون اور مفہوم ہے تجدید دین کا- اس وقت بھی دیکھ لو اور غور سے دیکھ لو کہ کس قدر ضرورت ہے کہ کوئی مرد خدا آوے اور ہماری گم شدہ متاع کو پھر واپس دلائے-
بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس کا گھر لوٹا جا رہا ہو اور وہ میٹھی نیند سو رہا ہو اور خواب میں جنت کی سیر کر رہا ہواور خوبصورت عورتیں اس کے گرد ہوں اور وہ اس نیند سے اٹھنا ایک مصیبت خیال کرتا ہو-
یہی حال اس وقت اسلام کا ہو رہا ہے- دشمن نے چاروں طرف سے اس کا محاصرہ کر لیا ہوا ہے اور بعض اطراف سے در و دیوار کو بھی گرا دیا ہے- قریب تھا کہ وہ اندر داخل ہو کر ہمارے ایمان کی متاع لوٹ لے کہ ایک بیدار کرنے والے کی آواز پہنچی-
یا تو ہمیں اپنے دکھ اور مصیبت کی خبر نہیں ہے اور یا خبر تو ہے مگر ہم پوری لاپروائی سے کام لے رہے ہیں- ہمارے سید و مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں ایک دعا تعلیم فرمائی ہے- میں بہت ہی خوش ہوں کہ ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو قریباً فرض قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے اللٰھم انی اعوذبک من العجز و الکسل )بخاری- کتاب الدعوات-( عجز کیا ہے؟ کہ اسباب ہی کو مہیا نہ کر سکے اور کسل یہ ہے کہ اسباب تو مہیا ہوں لیکن ان سے کام نہ لے سکے-
کیسا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو اسباب کو مہیا نہیں کرتا اور وہ انسان تو بہت ہی بدقسمت ہے جس کو اسباب میسر ہوں لیکن وہ ان سے کام نہ لے- اب میں تمہیں توجہ دلانی چاہتا ہوں گھر کی حالت پر- تمہیں یا مجھے یا ہماری موجودہ نسلوں کو وہ وقت تو یاد ہی نہیں جب ہم اس ملک کے بادشاہ تھے- سلطنت بھی خدا تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک بڑی نعمت ہے- اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرمایا ہے جعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکاً )المائدۃ:۲۱( یعنی اے میری قوم! خدا نے تجھ میں انبیاء کو مبعوث فرمایا اور تجھ کو بادشاہ بنایا-
جب قوم کی سلطنت ہوتی ہے تو قوم کے ہر فرد میں حکومت کا ایک رنگ آجاتا ہے- ہاں ہمیں تو وہ وقت یاد نہیں جب ہم بادشاہ تھے- اچھا تو قوم کی سلطنت تواب ہے نہیں اور خدا کا شکر بھی ہے کہ نہیں ہے- کیونکہ اگر ہوتی تو موجودہ نااتفاقیاں‘ یہ لاچاریاں‘ یہ بے کسی اور بے بسی‘ خودنمائی اور خودبینی ہوتی- ضروریات زمانہ کی اطلاع نہ ہوتی تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا اور کیسے دکھوں میں پڑتے- بیرونی حملہ|آور اندرونی بغاوتوں کو دیکھ کر حملہ آور ہوتے اور ہلاک کر دیتے- تو یہ خدا کا رحم ہے جو اس نے سلطنت لے کر دوسروں کے حوالے کی اور ہم کو اس دکھ سے بچا لیا جو اس وقت موجودہ حالت کے ہوتے ہوئے ہمیں پہنچتا-
اس کے ماوراء وہ مقدس چیز جس کا نام مذہب ہے اور جو ایسا صاف اور مدلل اور معقول تھا کہ فطرت|انسانی اسے اپنا مایحتاج قرار دیتی تھی‘ اس کا یہ حال ہے کہ اس کے عقائد کو‘ اصول ہوں یا فروع‘ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ وہ پہیلیوں اور چیستانوں میں ڈال رکھا ہے- وہ ایک ایسا معمہ کر دیا گیا ہے کہ حل ہی ہونے میں نہیں آتا-
اس کا اثر اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ایک ناتواں انسان کے بچہ کو جو ہگنے اور موتنے کا محتاج تھا خدا بنا رہے ہیں اور اپنے گناہوں کی گٹھڑی دوسرے پر ڈال کر جو کچھ کریں سو تھوڑا ہے‘ ان کو بھی جرات اور دلیری ہو گئی کہ وہ اس باطل کی اشاعت میں پورے مستعد اور تیار ہو کر نکلے ہیں اور کروڑوں کتابوں‘ اخباروں‘ رسالوں سے کام لے رہے ہیں- کہیں ہسپتالوں کی شکل میں‘ کہیں مشن سکولوں کے رنگ میں‘ غرض کہیں کسی بھیس میں‘ کہیں کسی لباس میں انسان کی خدائی منوانے اور اس کو ’’منجی‘‘ قرار دینے میں زور لگا رہے ہیں- ہمارے لئے یہ امر بھی کوئی رنجیدہ نہ ہوتا اگر ان کی کوششوں کی انتہا اپنے ہی مذہب کی اشاعت ہوتی- مگر اس پر آفت یہ برپا کی ہے کہ اپنے مذہب کی اشاعت کا طرز اور رنگ انہوں نے یہ اختیار کر لیا کہ مقدس اسلام پر‘ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک ذات پر وہ دل آزار حملے کرنے شروع کیے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں- تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ محض خیالی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب پر حملے کرتے ہیں- فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھٰذا من عنداللہ ]01 [p )البقرۃ:۸۰-(
یہ سچی بات ہے کہ ترجمہ مترجم کے ذاتی خیالات ہوتے ہیں- اب دیکھ لو نصاریٰ قوم تراجم کو ہاتھ میں لے کر کہتے پھرتے ہیں خدا کا کلام ہے- کتاب مقدس میں یوں لکھا ہے- حالانکہ اصل کتاب کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئی- بلکہ یہاں تک مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ وہ اصلی زبان جس میں انجیل تھی عبرانی تھی یا یونانی- حالانکہ مسیح علیہ السلام کے آخری کلمات ’’ایلی ایلی لماسبقتانی‘‘ اور ان کی قومی اور مادری زبان سے صاف طور پر یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ عبرانی ہی تھی مگر یہ یونانی کہتے جاتے ہیں- اصل یہ ہے کہ اصل کتاب کا پتہ ہی نہیں ہے- اب جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہیوہ ذاتی خیالات ہیں-
غرض اس قسم کا تو مذہب کمزور ہے اور پھر اس پر طرفہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طریق اشاعت کی وجہ سے‘ کہیں خوبصورت عورتوں کے ذریعہ تبلیغ کر کے‘ کہیں ہسپتالوں کے ڈھنگ ڈال کر اخبارات اور رسالہ جات کی اشاعت سے‘ کوئی قوم کوئی خاندان ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کسی کو گمراہ نہ کر لیا ہو-
یہ آفت ہی اسلام کے لئے کم نہ تھی کہ ایک اور قوم اٹھی جو اپنا وجود تو دو ارب سال سے بتاتی ہے مگر آج تک اتنا بھی نہ ہوا کہ اپنی پاک کتاب کو ہند سے باہر ہی کسی قوم کو سنا دیتی- ہند سے باہر تو بہت بڑی بات تھی وہ تو اپنے گھر میں بھی برہمنوں کے سوا باقی قوموں کو اس سے آگاہ کرنا گناہ سمجھتی رہی اور اب تک اصل سناتن دھرم والے وید کا پڑھنا بجز برہمن کے دوسرے کے واسطے جائز نہیں سمجھتے- یہ قوم بھی باایں ہمہ اسلام پر اعتراض کرنے کو آگے بڑھی-
فلسفہ‘ طبعی اور طباعت وغیرہ علوم کی ترقی‘ آزادی اور حریت کے بے طرح بڑھنے نے ایک اور قوم کو پیدا کر دیا جو اپنے آپ کو برہمو کہتے ہیں- انہوں نے سلسلہ نبوت ہی کا انکار کر دیا ہے اور اپنے ہی کانشنس کو سب کچھ سمجھ لیا حالانکہ وہ تفریق نہیں کر سکتے کہ ایک زناکار کا کانشنس زنا ہی کا مجوز کیوں ہے یا ایک ڈاکو اور راہزن خون کرنے اور لوٹ کھسوٹ ہی کا فتویٰ جب دیتا ہے تو وہ گناہ کیوں ہے؟ پھر ان سے اتر کر وہ لڑکے ہیں جن پر آئندہ نسلیں ہونے کا فخر کیا جاتا ہے اور ان کو اپنی بہتری اور بہبودی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے- ان کو سکولوں اور کالجوں میں اس قسم کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا لازمی نتیجہ دہریت اور بے دینی ہونی چاہیے-
اس لئے کروڑ در کروڑ مخلوق دہریت کے لئے تیار ہو رہی ہے- ان کالجوں کی ذریت بجائے اس کے کہ وہ خدا پرست اور اعلیٰ درجہ کے الٰہیات میں غور کرنے والے ہوتے‘ پکے دہریہ اور مذہب کے سلسلہ سے آزاد پیدا ہو رہے ہیں- پھر اندرونی مشکلات قوم کو سمجھنے کے واسطے اہل دل گروہ قوم کا دل اور علماء دماغ تھے- امراء حکومت کرنے والے تھے- لیکن اگر اہل دل‘ علماء اور امراء کے حالات کو غور سے دیکھیں تو ایک عجیب حیرت ہوتی ہے- عظمت الٰہی اور خشیت الٰہی علوم قرآنی کے جاننے کا ذریعہ تھا- انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹( یا یوں کہو کہ اہل دل گروہ علماء سے بنتا ہے یا اہل دل ہی عالم ہونے چاہیے تھے مگر یہاں یہ عالم ہی دوسرا ہے-
فقر اور علم میں باہم تباعد ضروری سمجھا جاتا ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ عالم اور فقر کیا؟ وہ علم جو خشیتہ|اللہ کا موجب ہوتا اور دل میں ایک رقت پیدا کرتا‘ ہرگز نہیں رہا- رہی نری زبان دانی جس پر کوئی یونیورسٹی فکر کر سکتی ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ان لوگوں کے کلام ہیں جو شراب خور‘ فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نام سے نا آشنا تھے-
عربی زبان کے متعلق مجھ سے لوگوں نے پوچھا ہے اور میں نے بجائے خود بھی غور کیا ہے- چار قسم کی زبان ہے- اول اللہ کی زبان جو قرآن شریف میں موجود ہے- پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان‘ اس سے اتر کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زبان- ان تین قسم کی پاک زبانوں سے پوری محرومی ہے- چوتھا درجہ وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا- وہ جاہلیت کے شعراء کی زبان جن کے اخلاق|و|عادات ایسے تھے کہ ان کا ذکر بھی مجھے اچھا نہیں معلوم دیتا-
یہ ایک باریک علم ہے جس کی لوگوں کو بہت کم اطلاع ہے- زبان اندر ہی اندر انسان کے روحانی اور اخلاقی قویٰ پر ایک زبردست اثر کرتی ہے- بہت سی کتابیں اس قسم کی موجود ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ فسق و فجور میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا ہے- استادوں اور کتابوں کا اثر بہت آہستہ دیرپا ہوتا ہے- اسی لئے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ استادوں کے تقرر اور تعلیمی کتابوں کے انتخاب میں بڑی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ان کا اثر اندر ہی اندر چلتا ہے- اب دیکھ لو کہ اللہ کی زبان‘ اس کے کامل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان‘ صحابہ کرامؓ کی زبان کی طرف مطلق توجہ نہیں کی- یونیورسٹی نے اگر کوئی حصہ لیا تو وہ بھی ان لوگوں کا جن کے کلام کا اثر اخلاق اور عادات پر اچھا نہیں پڑ سکتا-
میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بتائو تو سہی کہ تم نے کس قدر روپیہ‘ کس قدر وقت اور محنت اس پر کی؟ جواب یہی ہو گا کہ کچھ نہیں- میں نے بہت سے آدمیوں کو دیکھا ہے کہ جب ان کو کہا گیا کہ قرآن|شریف بھی پڑھا کرو تو انہوں نے آخر کہا تو یہی کہا کہ کوئی بہت ہی خوبصورت عمدہ سا قرآن دو اور وہ بھی مفت- اللہ! اللہ!! ناولوں اور انگریزی کتابوں کی خرید میں جس قدر روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس کا سواں حصہ بھی قرآن شریف کے لئے خرچ نہیں کر سکتے- چاہئے تو یہ تھا کہ ساری توجہ اسی کی طرف ہوتی مگر ساری چھوڑ ادھوری بھی نہیں- مجھے اس وقت ایک معمول کی بات یاد آ گئی ہے- میں نے اس کو کہا کہ قرآن شریف پڑھو- اس نے کہا کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا خوبصورت قرآن ہو تو دو- میں نے اپنے دل میں کہا اللہ! یہ شخص اپنے کوٹ پتلون کے لئے تو اس قدر روپیہ خرچ کر سکتا ہے اور نہیں لے سکتا تو قرآن نہیں لے سکتا-
یہ بناوٹی بات نہیں ہے- خود سوچ کر دیکھ لو جس قدر جیب خرچ کے واسطے دیتے ہو دین پڑھانے کے لئے اتنا نہیں دیتے-
توحید کا تذکرہ میں نے اس لئے نہیں کیا کہ مسلمان جو سامنے ہیں کفار نہیں- نبوت کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ برہمو نہیں ہیں- لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے میرے سامنے ہیں-
انتخاب کا ذکر کیا تھا اس کی ایک ضرورت تھی- اس میں بات چل پڑی کہ کیسی ضرورت ہے کہ قرآن|کریم کی طرف توجہ دلائوں- دنیا کی *** ملامت- طعن و تشنیع سب کچھ سنا- پھر بھی ٹٹول کر دیکھو کہ خود قرآن دانی‘ قرآن فہمی کے لئے کیا کیا- کتنی کوشش کی؟ جواب یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں- ہرگز نہیں- قطعاً نہیں کی- حضرت امام نے طاعون کے اشتہار دیئے- تم ہی بتائو کہ تبدیلی کی تو کیا کی؟ غرض کیسے کیسے مشکلات ہیں- رہنمائی کے لئے صرف ایک ہی چیز تھی جس کا نام شفا اور نور ہے- اس کے سمجھنے کے لئے آپ نے کیا فکر کی ہے؟ اندرونی یہ آفت اور بیرونی وہ مشکلات-
بعض لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کامل کتاب ہم میں موجود ہے- اس کے ہوتے ہوئے اور کسی کی کیا ضرورت ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس کتاب ہی کو اگر پڑھتے تو یہ سوال ہرگز نہ کرتے- کیونکہ اس میں صاف لکھا ہے ھو الذی بعث فی الامین رسولاً منھم یتلوا علیھم ایٰاتہ )الجمعہ:۳(کتاب چاہئے‘ کتاب کا پڑھنے والا بھی تو ضروری ہے اور اس کے پڑھانے والا ایسا ہو جو مزکی النفس اور مطہرالقلب ہو- محمد رسول اللہ ابکم نہیں بلکہ سراً و جہراً خرچ کرنے والا‘ خود محبوب ہوکر دوسروں کو محبوب بنانے والا-
اسی طرح کتاب سکھ دینے والی ہے مگر اس کے لئے مزکی معلم کی ضرورت ہے- بدوں اس کے وہ کارگر نہیں ہو سکتی- یہ ضرورت ہے مامور من اللہ کی-
میں بھی اپنی جگہ درس دے لیا کرتا ہوں اور گھر میں اور باہر آ کر بھی قرآن پڑھتا رہتا ہوں- مگر کیا مزکی ہوں؟ تاکہ میں اپنے عملدرآمد کے رنگ میں دوسرے کو دکھا سکوں- نہیں‘ نہیں اور ہرگز نہیں- مسیح مر گئے- حضرت اقدس نے اس مسئلہ کی انتہا کر دی اور قرآن شریف سے اس کو ایسا ثابت کر دیا کہ اب دوسرا کیا لکھے گا- روایت کشی میں مرزا خدا بخش صاحب نے حد کر دی ہے- میں سوچنے لگا کہ مجھے کوئی نئی دلیل اس کے متعلق سمجھ میں آ سکتی ہے- قرآن کو اٹھاتے ہی یہ بات ذہن میں آئیnsk]- ga[t ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون )اٰل عمران:۶۰( جہاں جہاں اس کو دیکھا تو مردوں کے جی اٹھنے پر آیا ہے-
پھر آدم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک کسی نبی کی وفات کا تذکرہ نہیں مگر مسیح کی وفات کا تذکرہ ہے- پھر مشکلات ہیں تو کیا ہیں؟ جواب ہے وہی اندرونی اور بیرونی مشکلات جو ابھی کہہ چکا ہوں- کل بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ ایسا نہ ہو عید تجھ کو پڑھانی پڑھے- جیسے مجددوں کی ضرورت ہے‘ اس لئے عید کے متعلق تیرے دل میں نئی نئی بات کیا آتی ہے- اسی دھن میں کبھی فقہ کی کتابیں پڑھتا- کبھی احادیث کو دیکھتا- کبھی مختصرات پر نظر کرتا- آخر میرے جی میں آیا کہ ان لوگوں کی کتابوں کو دیکھوں جو اخلاق اور ضروریات کو بیان کر سکتے ہیں- اس مطلب کے لئے میں نے ایک کتاب لی- ۴۲ صفحوں اور وہ بھی بہت بایک سطروں میں عید کا ذکر تھا- میں اسے پڑھنے لگا تو دیکھا کہ لمبے مباحثات ہیں جن کا کچھ پتہ نہ چلتا تھا- آخر میں نے کہا کہ چھوڑ دوں- پھر کہا شاید کچھ آگے لکھا ہو- اسی طرح پر ساری کتاب کو ختم کیا- آخر مجھے افسوس ہی ہوا کہ کس قدر وقت ضائع کیا- لیکن میری نیت چونکہ بخیر تھی اس لئے وہ افسوس جاتا رہا- لیکن مجھے یہ حیران کر دینے والا خیال پیدا ہوا کہ کس قدر مشکلات اس ایک عید کے معاملے میں ہیں- کوئی کہتا ہے کہ کس وقت نماز پڑھی جاوے- ایک رمحہ سورج نکل آیا ہو- کس وقت اس عشرہ میں تمجید‘ تکبیر‘ تقدیس‘ تسبیح اللہ کو پسند ہے اور ہر وقت خدا کی یاد کی جاوے- پھر یہ کہ دو رکعت نماز پڑھ لو- پھر بحث شروع کی کہ فرض عین ہے یا نہیں- مستحب ہے یا کیا؟ تکبیریں کتنی پڑھنی چاہئیں وغیرہ- کپڑوں‘ خطبوں کے متعلق کیا احکام ہیں- غرض ایک لمبا سلسلہ تھا- مجھے اس پر غور کرتے کرتے یہ معلوم ہوا کہ وہ مقدس دین جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کو پہنچایا اس کا خلاصہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو- ملائکہ پر ایمان ہو- اس کے رسولوں پر ایمان ہو- اس کی کتابوں پر ایمان ہو- تقدیر پر ایمان ہو- ختم نبوت اور قیامت پر ایمان ہو اور ضرورت ہے کہ اس میں کچھ بھی کمی بیشی نہ ہو- لیکن یہ ایزادی کی ہی بات تھی جو ۴۲ صفحے لکھ دیئے- اب اس کے حل کرنے والا بھی تو کوئی ہونا چاہیئے-
ایک شیعہ نے مجھے خط لکھا کہ تم جو دین کی طرف متوجہ ہو یہ تو بتائو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے دلائل جو آج تک سنیوں نے دیئے ہیں کیا ہیں اور ان پر شیعوں نے جو اعتراض کئے ہیں اور پھر ان کا جو جواب سنیوں نے دیا ہے اور ان سب پر اپنا فیصلہ لکھ دو- تم سمجھ سکتے ہو کہ تیرہ سو برس کاجھگڑا اور پھر خوارج بھی ساتھ- اعتراض اور جرح الگ‘ ان سب پر نظر- لکھنا آسان بات نہ تھی- میں نے کہا مولیٰ کریم! تو نے اپنے فضل و کرم سے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے کہ حکم - عدل تو موجود ہی ہے- کوئی راہ اس کے پرتو سے کھول دے- آخر میں نے یہ لکھ دیا کہ ہمارا انتخاب آخر غلط ہوتا ہے‘ اس کو معزول کرنا پڑتا ہے- زندگی اور موت ہی ہمارے اختیار میں نہیں ہے- ممکن ہے کہ ایک کو منتخب کریں اور رات کو اس کی جان نکل جاوے- میرے استاد کہتے تھے- سعادت علی خاں نے کئی کروڑ روپیہ ہند کے واسطے انگریزوں کو دیا کہ اسے دے دیں- کہتے ہیں جب عملدرآمد کے لئے کاغذ پہنچے تو رات کو جان نکل گئی- یہ مشکلات ہیں جو ہمارے انتخاب درست نہیں ہو سکتے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے- وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم )النور:۵۶( یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ کسی کو خلیفہ بناوے- پس کسی دلیل کی حاجت نہیں- تم سمجھتے ہو کہ بنی ہاشم نے بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے- خدا نے جس کو بنانا تھا اس کو بنا دیا- ۱~}~
اسی امت سے خلیفہ ہونا اور خلیفہ کا تقرر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہونا ہی قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے اور اگر خلیفہ بننا بہت کتابوں کے پڑھ لینے پر ہوتا تو چاہئے تھا کہ میں ہوتا- میں نے بہت کتابیں پڑھی ہیں اور کثیر التعداد میرے کتب خانہ میں ہیں- مگر میں تو ایک آدمی پر بھی اپنا اثر نہیں ڈال سکتا- غرض خدا تعالیٰ کا وعدہ آپ ہی منتخب کرنے کا ہے- کون منتخب ہوتا ہے؟ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ )الانعام:۱۲۵-( جو شخص خلافت کے لئے منتخب ہوتا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزاوار اس وقت ہرگز نہیں ہوتا- کیسی آسان بات تھی کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے مصلح مقرر کردے- پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوںسے تعلق پیدا کیا انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی پاک صحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے-
دیکھو انسان عبث پیدا نہیں کیا گیا- افحسبتم انما خلقناکم عبثاً )المومنون:۱۱۶( کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے؟ ایسا خیال تمہارا غلط ہو گا- ہمارے حضور تم کو آنا ہو گا- جب تم عبث نہیں بنائے گئے تو پھر سوچو کہ تم کیوں بنائے گئے ہو-
یٰایھا الناس اعبدوا ربکم لوگو اپنے رب کے فرمانبردار بن جائو- فرمانبرداری ضروری ہے- مگر کوئی فرمانبرداری بدوں فرمان کے نہیں ہو سکتی اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا جبتک کہ اس کی سمجھ نہ ہو- پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلم کی ضرورت ہے اور الٰہی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزکی اور مطہر القلب کے کسی کو نہیں آتی- کیونکہ لایمسہ الا المطھرون )الواقعہ:۸۰( خدا تعالیٰ کا حکم ہے-پس کیسی ضرورت ہے امام کی‘ کیسی مزکی کی- میں تمہیں اپنی بات سنائوں- تمہارا کنبہ ہے‘ میرا بھی ہے- تمہیں ضرورتیں ہیں- مجھے بھی آئے دن اور ضرورتوں کے علاوہ کتابوں کا جنون لگا رہتا ہے- مگر اس پر بھی تم کو وقت نہیں ملتا کہ یہاں آئو- موقع نہیں ملتا کہ پاس بیٹھنے سے کیا انوار ملتے ہیں- فرصت نہیں‘ رخصت نہیں- سنو! تم سب سے زیادہ کمانے کا ڈھب بھی مجھے آتا ہے- شہروں میں رہوں تو بہت سا روپیہ کما سکتا ہوں- مگر ضرورت محسوس ہوتی ہے بیمار کو- ظھر الفساد فی البر و البحر کا زمانہ ہے- میرے لئے تو یہاں سے ایک دم بھی باہر جانا موت کے برابر معلوم ہوتا ہے- تم شائد دیکھتے ہو گے کہ یہاں کھیت لہلہا رہے ہیں- دنیا اپنے کاروبار میں اسی طرح مصروف ہے- مگر میرا ایک دوست لکھتا ہے کہ وبا کے باعث گائوں کے گائوں خالی ہو گئے ہیں-
بے فکر ہو کر مت بیٹھو- خدا کے دردناک عذاب کا پتہ نہیں کس وقت آ پکڑے- غرض اس وقت سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اس شخص کے پاس باربار آئو جو دنیا کی اصلاح کے واسطے آیا ہے- تم نے دیکھ لیا ہے کہ جو شخص اس زمانہ میں خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ابکم نہیں ہے بلکہ علی وجہ|البصیرت تمہیں بلاتا ہے- تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر فائدہ اٹھا لو اور انہیں ہی کافی سمجھو- میں سچ کہتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں- کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز و اقارب کو چھوڑا تھا- پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے- کیا تم ہم کو نادان سمجھے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا ہماری ضرورتیں نہیں؟ کیا ہم کو روپیہ کمانا نہیں آتا؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے- شائد اس لئے کہ میری بیماری بڑھی ہوئی ہو- دعائوں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا-
مختلف اوقات میں آنا چاہئے- بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہے اس لئے وہ شخص جو اسی دن آ کر چلا گیا وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصہ کر رہے ہوں گے اس وقت جو عورت آئی ہو گی تو حیران ہی ہو کر گئی ہو گی- غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلائوں کہ تم یہاں باربار آئو اور مختلف اوقات میں آئو-
میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ انسان عبث نہیں بنایا گیا اور اس کو خداتعالیٰ کے حضور ضرور حاضر ہونا ہے اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ انسان کی اصل غرض پیدا کرنے کی یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرے- اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو- فرمانبرداری فرمان کے بغیر نہیں ہوتی اور فرمان کی تعمیل جب تک فرمان کی سمجھ نہ ہو ناممکن ہے- خدا تعالیٰ کا فرمان قرآن شریف ہے اور اس کی زبان عربی ہے- پس عربی زبان سے واقفیت پیدا کرو- پھر امام کی صحبت میں آ کر رہو کیونکہ وہ مطہر القلب ہے- قرآن شریف کا علم لے کر آیا ہے- ایک اور بات ہے جو انسان کو سچائی کے قبول کرنے سے روک دیتی ہے اور وہ تکبر ہے- خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ متکبر کو خدا تعالیٰ کی آیتیں نہیں مل سکتیں- کیونکہ تکبر کی وجہ سے انسان تکذیب کرتا ہے اور جھٹلانے کے بعد صداقت کی راہ نہیں ملتی ہے- پہلے تکذیب کر چکتا ہے پھر انکار کرتا ہے- یاد رکھو مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا- ان اللہ لایھدی من ھو مسرف کذاب)-المومن:۲۹( پس اپنے اندر دیکھو کہ کہیں ایسا مادہ نہ ہو- کبھی کبھی انسان کی ایک بدعملی دوسری بدعملی کے لئے تیار کر دیتی ہے- خداتعالیٰ سے بہت وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے- امام کے ہاتھ پر بڑا زبردست اور عظیم الشان وعدہ کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا-
اب سوچ کر دیکھو کہ کہاں تک اس وعدہ کی رعایت کرتے ہو اور دین کو مقدم کرتے ہو- جب قرآن|شریف دیکھا ہے تو انبیا علیہم السلام کی اجماعی تعلیم استغفار ہے- اس کے معنے ہیں اپنی غلطیوں اور ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے دعا کرنا- پہلے استغفار ہے- گذشتہ گناہوں کے بدنتائج اور آئندہ ان سے بچنے کی دعا- اس کے ذنوب سے بچنے کے لئے سعی اور مجاہدہ کرنا اور پھر امر الٰہی کی تعظیم کرنا اور نواہی سے اللہ تعالیٰ کے جلال کو دیکھ کر ہٹ جانا اور ڈر جانا ہے- قرآن شریف میں مطالعہ کرو کہ نابکار خدا تعالیٰ سے نہ ڈرنے والوں اور انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ کرنے والے شریروں کا انجام کیا ہوا- کس طرح وہ ذلت کی مار سے ہلاک ہوئے- اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو‘ اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں‘ اس کے رسولوں پر‘ ختم|نبوت پر‘ تقدیر پر‘ مسئلہ جزا و سزا پر- اس سب کے بعد رذائل سے بچنے اور فضائل کو حاصل کرنے کی بے تعداد ضرورت ہے- اور یہ بات حاصل ہوتی ہے کسی برگزیدہ انسان کی صحبت میں رہنے سے جس کو خدا نے اس ہی کام کے لئے مقرر کیا ہے-
مشکلات آتی ہیں اور ضرور آتی ہیں- مگر مومن کا کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کبھی بدظن اور اس سے مایوس نہیں ہوتا- مجھے اس آیت نے بڑا ہی مزا دیا ہے انہ لایایئس من روح اللہ الا القوم الکافرون )یوسف:۸۸-(پس مجھے دیکھو کہ کتنی دیر سے کس استقلال اور ہمت سے محض خدا کو راضی کرنے کے واسطے یہاں بیٹھا ہوں- مجھے بھی مشکلات ہیں- بعض دوست کہتے ہیں کہ تم الٹی ترقی کرتے ہو‘ پر میں خود ہی سمجھتا ہوں کہ میری مرض گھٹ رہی ہے یا بڑھ رہی ہے-
مشکلات ضرور ہوتے ہیں‘ تمہیں بھی آئیں گی- مگر اس بات کی کچھ پروا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہم نے جس کو امام‘ مامورمن|اللہ مانا ہے اور خدا کے فضل سے علیٰ وجہ البصیرت مانا ہے اس کو خدا کے لئے مانا ہے- پس ہم کو تو اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے- یاد رکھو کہ مزکی کے پاس رہنے کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی- علوم میں سے ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ اسماء اللہ معلوم ہوں- خدا تعالیٰ کے افعال کا علم ہو- ایمان کے معنے معلوم ہوں- کفر اور نفاق کی حقیقت معلوم کریں- ایک میرے بڑے پڑھے لکھے دوست نے کئی بار مجھ سے پوچھا ہے کہ عبادت کیا چیز ہے؟ پس جب اتنے بڑے علم کے بعد بھی ان کو مشکل پیش آئی تو وائے ان لوگوں پر جو مطلق بے خبر اور ناواقف ہیں-
پرسوں یا اترسوں میں لغیر اللہ بہ پر کچھ کہہ رہا تھا کہ ایک بول اٹھا کہ تمہارے نزدیک سارے کافر ہو جاتے ہیں-
پہلا الہام جو ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا وہ بھی رب زدنی علماً )طٰہٰ:۱۱۵( کی دعا تعلیم ہوتی ہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علم کی کس قدر ضرورت ہے- سچے علوم کا مخزن قرآن|شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے- اور یہ حاصل ہوتا ہے تقویٰ اللہ سے‘ مامورمن|اللہ کی پاک صحبت میں رہ کر- یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سلامتی‘ صدق نیت‘ شفقت علی خلق|اللہ‘ غایت البعد عن الاغنیائ‘ آسانی جودت طبع‘ سادگی اور دور بینی کی صفات سے فائدہ پہنچاتے ہیں-
ایک اثر میں میں نے پڑھا ہے کہ نماز کی نسبت خطبہ چھوٹا ہو‘ اس لئے اب میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں-
اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت‘ اتحاد‘ جرات‘ شجاعت‘ خودداری‘ شریفانہ آزادی پیدا ہو- ایک طرف انسان بنائو دوسری طرف مسلمان-۲~}~
۱-~}~ )الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ ۔۔۔ ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۷-۸( و )الحکم جلد ۵ نمبر ۱۳ ۔۔۔ ۱۰ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۳ تا ۷(
۲-~}~ )الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ ۔۔۔ ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۳-۴(
‏KH1.11
خطبات|نور خطبات|نور
۱۷ / مئی ۱۹۰۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
)ایڈیٹر ’’الحکم‘‘ کے اپنے الفاظ میں(
و من یرغب عن ملۃ ابراھیم حنیفاً و ما کان من المشرکین )البقرۃ:۱۳۱(کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:

ہر ایک سلیم الفطرت انسان کے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ ایک بات حجت کے طور پر رکھ دی ہے کہ وہ ایک مجمع کے درمیان معزز ہو جاوے- گھر میں اپنے بزرگوں کی کوئی خلاف ورزی اس لئے نہیں کی جاتی کہ گھر میں ذلیل نہ ہوں- ہرایک دنیادار کو دیکھتے ہیں کہ محلہ داری میں ایسے کام کرتا ہے جن سے وہ باوقعت انسان سمجھا جاوے- شہروں کے رہنے والے بھی ہتک اور ذلت نہیں چاہتے- پھر اس مجمع میں جہاں اولین و آخرین جمع ہوں گے اس مقام پر جہاں انبیاء و اولیاء موجود ہوں گے وہاں کی ذلت کون عاقبت اندیش سلیم الفطرت گوارا کر سکتا ہے؟ کیونکہ عزت و وقعت کی ایک خواہش ہے جو انسان کی فطرت میں موجود ہے- اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک نظیر کے ساتھ اس خواہش اور اس قاعدہ کو جس کے ذریعہ انسان معزز ہو سکتا ہے بیان کرتا ہے- نظیر کے طور پر جس شخص کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس کا نام ہے ابراہیم علیہ السلام -
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو کیسی عزت دی‘ یہ اس نظارہ سے معلوم ہو سکتا ہے جو خدا نے فرمایا و لقد اصطفینٰہ فی الدنیا و انہ فی الاٰخرۃ لمن الصٰلحین )البقرۃ:۱۳۱( ہم نے اس کو برگزیدہ کیا دنیا میں اور آخرت میں بھی سنوار والوں سے ہو گا- اللہ تعالیٰ کے مکالمات کا شرف رکھنے والے‘ شریعت کے لانے والے‘ ہادی و رہبر‘ بادشاہ اور اس قسم کے عظیم الشان لوگ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہوئے- یہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے لئے نتیجہ دکھایا ہے- حضرت موسیٰؑ‘ حضرت دائودؑ‘ حضرت مسیح علیہ السلام سب حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے اور حضرت اسماعیلؑ اور ہمارے سید و مولیٰ ہادی کامل صلی اللہ علیہ و سلم اسی کی اولاد سے ہیں-
ایک اور جگہ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابراہیمؑ اور اس کی اولاد کو بہت بڑا ملک دیا- مگر غورطلب امر یہ ہے کہ جڑ اس بات کی کیا ہے؟ کیا معنی- وہ کیا بات ہے جس سے وہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور برگزیدہ ہوا اور معزز ٹھہرایا گیا؟ قرآن کریم میں اس بات کا ذکر ہوا ہے جہاں فرمایا ہے- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العٰلمین )البقرۃ:۱۳۲( جب ابراہیم کے رب نے اس کو حکم دیا کہ تو فرمانبردار بن جا تو حضرت ابراہیمؑ عرض کرتے ہیں میں رب العالمین کا فرمانبردار ہو چکا- کوئی حکم نہیں پوچھا کہ کس کا حکم فرماتے ہو- کسی قسم کا تامل نہیں کیا- فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ ہی معاً بول اٹھے کہ فرمانبردار ہو گیا- ذرا بھی مضائقہ نہیں کیا اور نہیں خیال کیا کہ عزت پر یا مال پر صدمہ اٹھانا پڑے گا یا احباب کی تکالیف دیکھنی پڑیں گی- کچھ بھی نہ پوچھا- فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ اقرار کر لیا کہ اسلمت لرب العٰلمین- یہ ہے وہ اصل جو انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور برگزیدہ اور معزز بنا دیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو جاوے-
فرماں برداری کا معیار کیا ہے؟ ایک طرف انسان کے نفسانی جذبات کچھ چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کچھ- اور اب دیکھیں کہ آیا خدا تعالیٰ کے احکام کو انسان مقدم کرتا ہے یا اپنے نفسانی اغراض کو- اسی طرح رسم و رواج‘ عادات‘ کسی کا دبائو‘ حب جاہ‘ رعایت قانون قومی ایک طرف کھینچتے ہیں اور اللہ|تعالیٰ کا حکم ایک طرف- اس وقت دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی طرف جھکتا ہے یا اس پر دوسرے امور کو ترجیح دیتا ہے- اب اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کی قدر کرتا اور ان کو مقدم کر لیتا ہے تو یہی خدا کی فرمانبرداری ہے-
وہ لوگ جو اولوالامر کہلاتے ہیں اور جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ان کے لئے بھی ارشاد الٰہی یوں ہے- فان تنازعتم فی شی|ء فردوہ الی اللہ و الرسول )النسائ:۶۰( یعنی اگر تم میں کسی امر کی نسبت تنازع ہو تو اس کا آخری فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع سے کر لو- یہی ایک سیدھی راہ ہے- مگر یہ یاد رکھو کہ اہل حق کے انکار کا مدار تکبر پر ہوتا ہے اس لئے اس سے دور رہو- ورنہ کیسی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ فرماتے ہیں کہ ما کنت بدعاً من الرسل )الاحقاف:۱۰( میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا- آدم سے لے کر اب تک جو رسول آئے ہیں ان کو پہچانو- ان کی معاشرت‘ تمدن اور سیاست کیسی تھی اور ان کا انجام کیا ہوا‘ ان کی صداقت کے کیا اسباب تھے ‘ ان کی تعلیم کیا تھی‘ ان کے اصحاب نے ان کو پہلے پہل کس طرح مانا‘ ان کے مخالفوں اور منکروں کا چال چلن کیسا تھا اور ان کا انجام کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا اصل تھا کہ اگر اس وقت کے لوگ اس معیار پر غور کرتے تو ان کو ذرا سی دقت پیش نہ آتی اور ایک مجدد‘ مہدی‘ مسیح‘ مرسل من اللہ کے ماننے میں ذرا بھی اشکال نہ ہوتا- مگر اپنے خیالات ملکی اور قومی رسوم بزرگوں کے عادات کے ماننے میں تو بہت بڑی وسعت سے کام لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اس کے احکام کے لئے خدا کے علم اور حکمت کے پیمانہ کو اپنی ہی چھوٹی سی کھوپڑی سے ناپنا چاہتے ہیں- ہر ایک امام کی شناخت کے لئے یہ عام قاعدہ کافی ہے کہ کیا یہ کوئی نئی بات لے کر آیا ہے؟ اگر اس پر غور کرے تو تعجب کی بات نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اصل حقیقت کو اس پر کھول دے- ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہیچ سمجھے اور تکبر نہ کرے ورنہ تکبر کا انجام یہی ہے کہ محروم رہے-
پس انسان خدا کے غضب سے بچنے کے لئے ہر وقت دعا کرتا رہے- وہ دعا جس کے پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘ یہ ہے اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و لا الضالین )الفاتحۃ( یعنی ہم کو صراط مستقیم دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا- ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو حق سے بیجا عداوت کرنے والے ہیں اور نہ ان لوگوں کی راہ جو گمراہ ہو گئے ہیں- منعم علیہ گروہ کی شناخت کے لئے ایک آسان اور سہل راہ ہے- انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات‘ احکام‘ اور عملدرآمد اور ان کی زندگی کو ان کے ثبوتوں اور آخر انجام کو دیکھو- پھر ان کے حالات پر نظر کرو جنھوں نے مخالفت کی- غرض مامور من اللہ لوگوں کا گروہ ایک نمونہ ہوتا ہے- اس خواہش کے پورا کرنے کے قواعد بتانے کے لئے جو ہر انسان میں بطور حجت رکھی گئی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معزز ہو- خدا تعالیٰ کے حضور معزز وہی ہو سکتا ہے جو رب العالمین کا فرمانبردار ہو- یہ ایک دائمی سنت ہے جس میں تخلف نہیں ہو سکتا-
اب ہم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم غور کر کے دیکھیں کہ ہم لباس‘ عادات‘ عداوت‘ دوستی‘ دشمنی‘ غرض ہر رنج و راحت‘ ہر حرکت و سکون میں کس پر عمل درآمد کرتے ہیں- کیا فرمانبرداری کی راہ ہے یا نفس پرستی کی؟
عام مسلمانوں اور عام غیر مذہب کے لوگوں کو دیکھو کہ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں تو کیا مسلمان ہو کر ایک مسلمان جھوٹ سے محفوظ ہے؟ غیر مذہب والے اگر نفس پرستیاں اور شہوت پرستیاں کرتے ہیں تو کیا مسلمانوں میں ایسے کام نہیں کرتے؟ اگر ان میں باہم تباغض اور تحاسد ہے تو کیا ہم میں نہیں؟ اگر ان حالات میں ہم ان ہی کے مشابہ ہیں اور کوئی فرق اور امتیاز ہم میں اور ان میں نہیں ہے تو بڑی خطرناک بات ہے‘ فکر کرو-
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم )الرعد:۱۲( یاد رکھو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیضان میں تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے جب انسان خود اپنے اندر تبدیلی کرے- اگر ہم وہی ہیں جو سال گذشتہ اور پیوستہ میں تھے تو پھر انعامات بھی وہی ہوں گے لیکن اگر چاہتے ہو کہ ہم پر نئے نئے انعامات ہوں تو نئے نئے طریق پر تبدیلی کرو-
خدا کی کتاب نے تصریح کر دی ہے کہ کفر کیا ہوتا ہے کیونکر پیدا ہوتا ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے- ایمان کیا ہوتا ہے- اس کے نشان اور انجام کیا ہیں؟ منافق اور مفتری کے انجام اور نشان کو بتا دیا ہے- پھر امام اور راستباز کی شناخت میں کیا دقت ہو سکتی ہے-
آدم سے لے کر اس وقت تک ہزاروں ہزار مامور آئے ہیں- سب کے واقعات ایک ہی طرز اور رنگ کے ہیں- اگر تم اپنے آپ کو تکبر سے محفوظ کر لو تو شیطانی عمل دخل سے پاک ہو کر خدا کے فیضان کو لے سکو گے-
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود بھی خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور انہی باتوں کی وصیت اپنی اولاد کو بھی کی اور یعقوب نے بھی یہی وصیت کی کہ اے میری اولاد! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک عجیب دین کو پسند کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر وقت فرمانبرداری میں گزارو- چونکہ موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت فرمانبردار رہو تاکہ ایسی حالت میں موت آوے کہ تم فرمانبردار ہو- میری تحقیقات میں یہی بات آئی ہے کہ سچی تبدیلی کر کے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرے-
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ ایک پاک تبدیلی کریں- آمین
)الحکم جلد۵ نمبر۱۹ ۔۔۔ ۲۴ / مئی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۰-۱۱(

۲۲ / نومبر ۱۹۰۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
) خلاصہ از ایڈیٹر الحکم (
‏]sli [tag تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے سورۃ البقرہ کی آیات ۹ تا ۱۵ کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا-:
یہ آیتیں سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی ہیں- الحمد شریف میں خدا تعالیٰ نے تین راہیں بتائی ہیں- ایک انعمت علیھم کی راہ‘ دوسرے مغضوب علیھم تیسرے الضالین کی راہ-
انعمت علیھم text] ga[tکے معنی خود قرآن شریف نے بتائے ہیں کہ وہ انبیائ‘ اصدقائ‘ شہداء اور صالحین کی جماعت ہے-
انبیاء وہ رفیع الدرجات انسان ہوتے ہیں جو خدا سے خبریں پاتے ہیں اور مخلوق کو پہنچاتے ہیں- پھر وہ راستباز ہیں جو انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں- اور پھر وہ لوگ ہیں جن کے لئے وہ باتیں گویا مشاہدہ میں آئی ہوئی ہیں اور پھر عام صالحین-
اس گروہ کی تفسیر خدا تعالیٰ نے آپ ہی سورۃ بقرہ کے شروع میں بیان کر دی ہے کہ ہدایت کی راہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اللہ پر ایمان لائے- جزاء و سزا پر ایمان لاوے اور پھر اللہ ہی کی نیاز مندی کے لئے‘ تعظیم|لامراللہ کے واسطے نمازوں کو درست رکھنا اورشفقت علی خلق اللہ کے واسطے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کریں-
پھر اس بات پر ایمان لاویں کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تسلی اور تعلیم پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے معلم اور مزکی آئے ہیں- یاد رکھو صرف علم تسلی بخش نہیں ہو سکتا جب تک معلم نہ ہو- بائیبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بغل میں کتاب لئے پھرتے ہیں- پھر اگر ایمان صرف کتابوں سے مل جاتا تو کیا کمی تھی- مگر نہیں‘ ایسا نہیں- خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو یتلوا علیھم ایٰاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتٰب )الجمعۃ:۳( کے مصداق ہوتے ہیں-
ان مزکی اور مطہر لوگوں کی توجہ‘ انفاس اور روح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے جو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے- یاد رکھو انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اورپھر تزکیہ کرنے والا اور پھر علم اور عمل کی قوت دینے والا نہ ہو- تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علم معلم سے ملتا ہے-
بہرحال مومنوں کا ذکر ہے کہ ان کو ایمان بالغیب کی ضرورت ہے جس میں حشر و نشر‘ صراط‘ جنت و نار سب داخل ہیں- یہ اس کا عقیدہ اول درست ہو جائے تو پھر نماز سے امر الٰہی کی تعظیم پیدا ہوتی ہے اور خدا کے دئے ہوئے میں سے خرچ کرنے سے شفقت علی خلق اللہ-
پھر برہموئوں کی طرح نہ ہو جاوے جو الہام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنا کلام اتارا اور آپ سے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی مکالمات الہیہ کا سلسلہ بند نہیں ہوا- یہ تو منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے-
اس کے بعد وہ لوگ مغضوب ہیں جو خدا کے ماموروں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لیتے ہیں اور ان کے انذار اور عدم انذار کو مساوی جان لیتے ہیں اور پروا نہیں کرتے اور اپنے ہی علم و دانش پر خوش ہو جاتے ہیں- وہ خدا کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں- یہی حال یہود کا ہوا-
پھر تیسرا گروہ گمراہوں کا ہے جن کا ذکر ان آیات میں ہے جو میں نے پڑھی ہیں- اس کے کاموں میں دجل اور فریب ہوتا ہے- وہ اپنے آپ کو کلام الٰہی کا خادم کہتے ہیں مگر ما ھم بمومنین )البقرۃ:۹-(
بڑی بڑی تجارتیں کرتے ہیں مگر ہدایت کے بدلے تباہی خریدتے ہیں اور کوئی عمدہ فائدہ ان کی تجارت سے نہ ہوا-
میرے دل میں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ ایک تنکے پر بھی شے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہی شے کا لفظ وسیع ہو کر خدا پر بھی بولا جاتا ہے-
یاد رکھو منافق دو قسم کا ہوتا ہے- ایک یہ کہ دل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی- وہ اعتقادی منافق ہوتا ہے- اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ عیسائیوں کا مذہب ہے- انجیل کی حالت کو دیکھو کہ اس کی اشاعت پر کس قدر سعی بلیغ کی جاتی ہے مگر یہ پوچھو کہ اس کتاب کے جملہ جملہ پر اعتقاد ہے؟ تو حقیقت معلوم ہو جائے گی- اس طرح پر میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا خوف اٹھ گیا ہے- وہ دعویٰ اور معاہدہ کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ قابل غور ہو گیا ہے- اب اپنے حرکات و سکنات‘ رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے- پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو- ایسا نہ ہو کہ ما ھم بمومنین کے نیچے آ جائو- منافق کی خدا نے ایک عجیب مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی مگر وہ روشنی جو آگ سے حاصل کرنی چاہئے تھی وہ جاتی رہی اور ظلمت رہ گئی- رات کو جنگل کے رہنے والے درندوں سے بچنے کے واسطے آگ جلایا کرتے ہیں لیکن جب وہ آگ بجھ گئی تو پھر کئی قسم کے خطرات کا اندیشہ ہے- اسی طرح پر منافق اپنے نفاق میں ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ حق کا گویا‘ شنوا اور حق کا بینا نہیں رہتا- ایک شخص اگر راہ میں جاتا ہو اور سامنے ہلاکت کا کوئی سامان ہو وہ دیکھ کر بچ سکتا یا کسی کے کہنے سے بچ سکتا یا خود کسی کو مدد کے لئے بلا کر بچ سکتا ہے- مگر جس کی زبان‘ آنکھ‘ کان‘ کچھ نہ ہو اس کا بچنا محال ہے- یاجوج ماجوج بھی آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں مگر انجام وہی نظر آتا ہے- مومن کا کام ہے کہ جب دعویٰ کرے تو کر کے دکھاوے کہ عملی قوت کس قدر رکھتا ہے- عمل کے بدوں دنیا کا فاتح ہونا محال ہے-
یاد رکھو کہ ہر ایک عظیم الشان بات آسمان سے ہی آتی ہے- یہ امر خدا کی سنت اور خدا کے قانون میں داخل ہے کہ امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہے- سخت تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے- اسی طرح پر فیج|اعوج اور سخت کمزوریوں کے بعد ایک روشنی ضروری ہے- وہ شیطانی منصوبوں سے مل نہیں سکتی- بہتوں کے لئے اس میں ظلمت اور دکھ ہواور ایک نمک کا تاجر جو اس میں جا رہا ہے اسے پسند نہ کرے-
بہت سے لوگ روشنی سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور اکثر ہوتے ہیں جو اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں مگر احمقوں کو اتنی خبر نہیں ہوتی کہ خدائی طاقت اپنا کام کر چکی ہوتی ہے- غرض یہ ہے کہ علم حاصل کرو اور پھر عمل کرو- علم کے لئے معلم کی ضرورت ہے- یہ دعویٰکرنا کہ ہمارے پاس علم القرآن ہے صحیح نہیں ہے- ایک نوجوان نے ایسا دعویٰ کیا- ایک آیت کے معنے اس سے پوچھے تو اب تک نہیں بتا سکا- ہمارے ہادی کامل نبی کریمکو تو یہ تعلیم ہوتی ہے قل رب زدنی علماً )طٰہٰ:۱۱۵-( تم بھی دعا کرو-
یاد رکھو کہ اگر انعمت علیھم میں سے ہو تو اور ترقی کرو اور کسی وجود کو جو خدا کی طرف سے آیا ہے اس کے وجود اور عدم وجود کو برابر نہ سمجھو- ظاہر و باطن مختلف نہ ہو- دنیا کو دین پر مقدم نہ کرو- بعض اوقات دنیاداروں کو دولت و عزت اندھا کر دیتی ہے- خدا کی برسات لگ گئی ہے- وہ اب سچے پودوں کو نشوونما دے گی اور ضرور دے گی- خدا کی ان ساری باتوں پر ایمان لا کر سچے معاہدہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ اذا لقوا الذین اٰمنوا قالوا اٰمنا )البقرۃ:۱۵( ہی کے مصداق رہ جائو- اس کا اصل علاج استغفار ہے اور استغفار انسان کو ٹھوکروں سے بچانے والا ہے-
)الحکم جلد۵ نمبر۴۳ ۔۔۔ ۲۴ / نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۷-۸(
* - * - * - *
‏KH1.12
خطبات|نور خطبات|نور
جنوری ۱۹۰۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ عید الفطر
و لقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومہ فقال یٰقوم اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ افلاتتقون )المومنون:۲۴( کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:
یہ آیتیں جو میں نے تم کو سنائی ہیں یہ اس شخص کا قصہ ہے جو دنیا میں اصلاح الناس کے لئے بھیجا گیا تھا- اس کا نام نوح ہے‘ علیہ الصلٰوۃ والسلام- وہ ایک پہلا انسان ہے جو لوگوں کو آگاہ اور بیدار کرنے کے واسطے غفلت کے زمانہ میں آیا تھا- وہ ایک خطرناک ظلمت اور تاریکی کے دنوں میں نور اور ہدایت لے کر آیا تھا- یہ اسٹوریاں‘ کہانیاں اور دل خوشکن قصے نہیں بلکہ عبرۃ لاولی الابصار صداقتیں ہیں ان اہل نظر کے لئے جن میں تذکرہ کا مادہ ہوتا ہے‘ جو فہم و فراست سے حصہ رکھتے ہیں- ان قﷺ میں بڑے بڑے مفید اور سودمند نصائح ہوتے ہیں- میں نے بجائے خود ان قﷺ سے بہت بڑا فائدہ اٹھایا ہے- ان میں یہ عظیم الشان )امور( قابل غور ہیں-
اول -: کسی مامور من اللہ کی کیونکر شناخت کر سکتے ہیں ؟
دوم -: مامور من اللہ کیا پیش کرتے ہیں یا یوں کہو کہ وہ کیا تعلیم لے کر آتے ہیں یا یہ کہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سے کس غرض کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں؟
سوم -: لوگ ان پر کس کس قسم کے اعتراض کرتے ہیں ؟
یہ امور اس لئے پیش کئے ہیں تا کسی راستباز مامور من اللہ کی شناخت میں تمہیں کبھی کوئی دقت نہ ہو- یہی وجہ ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ ہادی کامل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی رسالت اور نبوت کو پیش کرتے ہوئے یہی فرمایا اور یہی آپ کو ارشاد ہوا- قل ما کنت بدعاً من الرسل )الاحقاف:۱۰( میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا ہوں- جو رسول پہلے آتے رہے ہیں ان کے حالات اور تذکرے تمہارے پاس ہیں ان پر غورکرو اور سبق سیکھو کہ وہ کیا لائے اور لوگوں نے ان پر کیا اعتراض کئے- کیا باتیں تھیں جن پر عملدرآمد کرنے کی وہ تاکید فرماتے تھے اور کیا امور تھے جن سے نفرت دلاتے تھے- پھر اگر مجھ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اعتراض کیوں ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ان کے معترضوں کا انجام کیا ہوا تھا؟
الغرض پہلے نبیوں کے جو قﷺ اللہ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں ان میں ایک عظیم الشان غرض یہ بھی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آنے والے ماموروں اور راستبازوں کی شناخت میں دقت نہ ہوا کرے- اس وقت میں نے نوح علیہ السلام کا قصہ آپ کو پڑھ کر سنایا ہے- سب سے پہلی بات جو اس میں بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا اصل وعظ اور ان کی تعلیم کا اصل مغز اور خلاصہ کیا ہوتا ہے- وہ خدا کے ہاں سے کیا لے کر آتے ہیں اور کیا سنوانا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے- اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ افلاتتقون اللہ جل|شانہ کی سچی فرمانبرداری اختیار کرو‘ اس کی اطاعت کرو‘ اس سے محبت کرو‘ اس کے آگے تذلل کرو‘ اسی کی عبادت ہو اور اللہ کے مقابل میں کوئی غیر تمہارا مطاع‘ محبوب‘ معبود‘ مطلوب‘ امید و بیم کا مرجع نہ ہو- اللہ تعالیٰ کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نہ ہو- ایسا نہ ہو کہ اللہ|تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری )سوسائٹی( کے اصول اور دستور ہوں‘ سلاطین ہوں‘ امراء ہوں‘ ضرورتیں ہوں‘ غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو‘ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل میں تم پر اثر انداز نہ ہو سکے- پس اللہ تعالیٰ کی اطاعت‘ عبادت‘ فرمانبرداری‘ تذلل اور اس کی حب کے سامنے کوئی اور شے محبوب‘ معبود‘ مطلوب اور مطاع نہ ہو-
یہ ایک صورت خدا تعالیٰ کے ساتھ ند نہ بنانے کی اعتقادی طور پر ہے- دوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا کوئی ند اور مقابل نہ ہو اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی جس طرح پر عبادت کی جاتی ہے‘ جس طرح اس کے احکام کی تعمیل اور اوامر کی تعظیم کی جاتی ہے‘ دوسرے کے احکام و اوامر کی ویسی اطاعت‘ وہی تعمیل‘ وہی تعظیم‘ اسی طرز و نہج پر امید و ڈر ہرگز نہ ہو اور کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جاوے-
جب انسان ان دونوں مرحلوں کو طے کر لیتا ہے یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑتا اور اس کی اطاعت اور صرف اسی کی اطاعت کرتا ہے تو پھر اس کا آخری مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ متقی ہو جاتا ہے- تمام دکھوں سے محفوظ ہو کر سچی راحتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے- پس نوحؑ نے آ کر اپنی قوم کے سامنے وہی تعلیم پیش کی جو تمام راستبازوں کی تعلیم کا خلاصہ اور انبیاء اور رسل کی بعثت کی اصل غرض ہوتی ہے اور پھر انہیں کہا افلاتتقون تم کیوں متقی نہیں بنتے؟ یاد رکھو انسان کو جس قدر ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں‘ جس|قدر خواہشیں اور امنگیں اسے کسی کی طرف کھینچ کر لے جا سکتی ہیں وہ سب تقویٰ سے حاصل ہوتی ہیں- متقی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے- اور اللہ سے بڑھ کر انسان کس دوست اور حبیب کی خواہش کر سکتا ہے- تقویٰ سے انسان خدا تعالیٰ کی ’’تولی‘‘ کے نیچے آتا ہے- متقی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے- متقی کے دشمن ہلاک ہوتے ہیں- متقی کو اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے تعلیم دیتا ہے- متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے- اللہ تعالیٰ متقی کو ایسی راہوں اور جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا جیسا کہ اسی حمید و مجید کتاب میں موجود ہے- ان اللہ یحب المتقین )التوبۃ:۷( و اللہ ولی المتقین )الجاثیۃ:۲۰( ان اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون )النحل:۱۲۹( ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً )الانفال:۳۰( و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳( من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً و یرزقہ من حیث لایحتسب )الطلاق:۳‘۴-( اب مجھے کوئی بتاوے کہ انسان اس کے سوا اور چاہتا کیا ہے- اس کی تمام خواہشیں‘ تمام ضرورتیں‘ تمام امنگیں اور ارادے ان سات ہی باتوں میں آ جاتی ہیں اور یہ سب متقی کو ملتی ہیں- پھر نوحؑ ہی کے الفاظ بلکہ خدا تعالیٰ ہی کے ارشاد کے موافق میں آج تمہیں بھی کہتا ہوں افلا تتقون- تم کیوں متقی نہیں بنتے- اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ نام ہے اعتقادات|صحیحہ‘ اقوال صادقہ‘ اعمال صالحہ‘ علوم|حقہ‘ اخلاق فاضلہ‘ ہمت بلند‘ شجاعت‘ استقلال‘ عفت‘ حلم‘ قناعت‘ صبر کا- اور یہ شروع ہوتا ہے حسن|ظن باللہ‘ تواضع اور صادقوں کی محبت سے اور ان کے پاس بیٹھنے‘ ان کی اطاعت سے- جبکہ تقویٰ کی ضرورت ہے تو راستبازوں اور ماموروں کا دنیا میں آنا ضرور ہوا اور ان کی تعلیم اور بعثت کا منشا اور مدعا یہی ہوا اور یہی تعلیم لے کر نوحؑ آئے تھے اور انہوں نے قوم کو فرمایا- مگر ناعاقبت اندیش‘ جلد باز‘ حیلہ|ساز‘ مخالفوں نے اس کے جواب میں کیا کہا؟ فقال الملوا الذین کفروا من قومہ ما ھٰذا الا بشر مثلکم )المومنون:۲۵( نابکار اعدائے ملت ائمہ~ن۲~ الکفر نے کہا تو یہ کہا ما ھٰذا الا بشر مثلکم text] g[ta کہ یہ شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے کا مدعی ہے کہتا ہے کہ تمہیں ظلمت سے نکالنے کے لئے میں بھیجا گیا ہوں- اس میں کوئی انوکھی اور نرالی بات تو ہے نہیں‘ ہمارے تمہارے جیسا آدمی ہی تو ہے-
پس یاد رکھو سب سے پہلا اعتراض جو کسی مامور من اللہ‘ راستباز صادق انبیاء و رسل اور ان کے سچے جانشین خلفاء پر کیا جاتا ہے‘ وہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو حقیر سمجھا جاتا ہے اور اپنی ہی ذات پر اس کو قیاس کر لیا جاتا ہے- ایک طرف وہ اس کے بلند اور عظیم الشان دعاوی کو سنتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں- خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے- اس کے ملائکہ مجھ پر اترتے ہیں- دوسری طرف وہ دیکھتے ہیں کہ وہی ہاتھ‘ پائوں‘ ناک‘ کان‘ آنکھ‘ اعضاء رکھتا ہے- بشری حوائج اور ضرورتوں کا اسی طرح محتاج ہے جس طرح ہم ہیں اس لئے وہ اپنے ابنائے جنس میں بیٹھ کر یہی کہتے ہیں- یاکل مما تاکلون منہ و یشرب مما تشربون )المومنون:۳۴-( پس اپنے جیسے انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کر|کے خسارہ اٹھائو گے-
غرض اس قسم کے الفاظ اور قیاسات سے وہ مامور من اللہ کی تحقیر کرتے ہیں اور جو کچھ اپنے اندر رکھتے ہیں وہی کہتے ہیں- مگر انبیائ‘ مرسل‘ مامور اور اصحاب شریعت کے سچے خلفاء اور جانشین انہیں کیا جواب دیتے ہیں- ان نحن الا بشر مثلکم ) ابراھیم:۱۲( اور کہتے ہیں- و لٰکن اللہ یمن علیٰ من یشاء من عبادہ )ابراھیم:۱۲( بیشک ہم تمہاری طرح بشر ہیں- تمہاری طرح کھاتے پیتے اور حوائج بشری کے محتاج ہیں- مگر یہ خدا کا احسان ہوا ہے کہ اس نے ہمیں اپنے مکالمات کا شرف بخشا ہے- اس نے ہمیں منتخب کیا ہے اور ہم میں ایک جذب مقناطیس رکھا ہے جس سے دوسرے کھچے چلے آتے ہیں- خدا کی توحید کا پانی جو مایہ حیات ابدی ہے وہ ہمارے ہاں سے ملتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں- مگر بدکار انسان جس طرح اپنی بدیوں‘ جہالتوں‘ شہوات و جذبات کا اسیر و پابند ہوتا ہے دوسروں کو بھی اسی پر قیاس کرتا ہے اور ایک نامرادی پر دوسری نامرادی لاتا ہے- اور کہتے ہیں کہ یرید ان یتفضل علیکم )المومنون:۲۵( یہ چاہتے ہیں کہ تم پر فضلیت
حاصل کر لیں- دکان چل جاوے- اپنے اور اپنی اولاد کے لئے کچھ جمع کر لیں- یہ ان کی اپنی ہی ہوائے نفس ہوتی ہے جس میں دوسروں کو اسی طرح ملوث اور ناپاک خیال کرتے ہیں جیسے خود ہوتے ہیں-
یہ خطرناک مرض ہے جس کو شریعت میں سوء ظن کہتے ہیں- بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ہزاروں قسم کی نکتہ چینیوں سے دوسروں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں اور اسے حقیر بنانے کی فکر میں ہیں- مگر یاد رکھو و ان عاقبتم )النحل:۱۲۷-( عقاب کے معنے جو پیچھے آتا ہے- انسان جو بلاوجہ دوسرے کو بدنام کرتا ہے اور سوء ظن سے کام لے کر اس کی تحقیر کرتا ہے اگر وہ شخص اس بدی میں مبتلا نہیں جس بدی کا سوئ|ظن والے نے اسے متہم ٹھہرایا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ سوء ظن کرنے والا ہرگز نہیں مرے گا جب تک خود اس بدی میں گرفتار نہ ہو لے- پھر بتائو کہ سوئ|ظن سے کوئی کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے- مت سمجھو کہ نمازیں پڑھتے ہو- عجیب عجیب خوابیں تم کو آتی ہیں یا تمہیں الہام ہوتے ہیں- میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوئ|ظن کا مرض تمہارے ساتھ ہے تو یہ آیات تم پر حجت ہو کر تمہارے ابتلا کا موجب ہیں- اس لئے ہر وقت ڈرتے رہو اور اپنے اندر کا محاسبہ کر کے استغفار اور حفاظت الٰہی طلب کرو-
میں پھر کہتا ہوں کہ آیات اللہ جن کے باعث کسی کو رفعت شان کا مرتبہ عطا ہوتا ہے‘ ان پر تمہیں اطلاع نہیں وہ الگ رتبہ رکھتی ہیں- مگر وہ چیزیں جن سے خود رائی‘ خود پسندی‘ خود غرضی‘ تحقیر‘ بدظنی اور خطرناک بدظنی پیدا ہوتی ہے وہ انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں- ایک ایسے انسان کا قصہ قرآن میں ہے جس نے آیات اللہ دیکھے مگر اس کی نسبت ارشاد ہوتا ہے- و لوشئنا لرفعنٰہ بھا و لٰکنہ اخلد الی الارض )الاعراف:۱۷۷( - اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا- ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث )بخاری کتاب الوصایا( بدگمانیوں سے اپنے آپ کو بچائو‘ ورنہ نہایت ہی خطرناک جھوٹ میں مبتلا ہو کر قرب الٰہی سے محروم ہو جائو گے-
یاد رکھو حسن ظن والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا- مگر بدظنی کرنے والا ہمیشہ خسارہ میں رہتا ہے-
غرض پہلا مرحلہ جو انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں اور ان کی ذریت اور نوابوں کو پیش آیا‘ وہ یہ تھا کہ اپنے آپ پر قیاس کیا- پھر یہ بدظنی کی کہ یرید ان یتفضل علیکم تم پر فضیلت چاہتا ہے- پس اس پہلی اینٹ پر جوٹیڑھی رکھی جاتی ہے جو دیوار اس پر بنا لی جاوے خواہ وہ کتنی ہی لمبی اور اونچی ہو کبھی مستقیم نہیں ہو سکتی اور وہ آخر گرے گی اور نیچے کے نقطہ پر پہنچے گی- سوء ظن کرنے والا نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بلکہ اس کا اثر اس کی اولاد پر‘ اعقاب پر ہوتا ہے اور وہ ان پر مصیبت کے پہاڑ گراتا ہے جن کے نیچے ہمیشہ راستبازوں کے مخالفوں کا سر کچلا گیا ہے- میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ سوئ|ظن خطرناک بلا ہے جو اپنے غلط قیاس سے شروع ہوتا ہے- پھر غلط نتائج نکال کر قوانین کلیہ تجویز کرتا ہے اور اس پر غلط ثمرات مترتب ہوتے ہیں اور آخر قوم نوح علیہ السلام کی طرح ہلاک ہو جاتا ہے- پھر اس سوئ|ظن سے تیسرا خیال اور غلط نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ لو شاء اللہ لانزل ملٰئکۃ )المومنون:۲۵( اگر اس کو قرب الٰہی حاصل تھا‘ اگر یہ واقعی خدا کی طرف سے آیا تھا تو پھر کیوں خدا نے ملائکہ کو نہ بھیج دیا جو مخلوق کے دلوں کو کھینچ کر اس کی طرف متوجہ کر دیتے اور ان کو بھی مکالمات الہیٰہ سے مشرف کر کے یقین دلا دیتے؟ اس وقت بھی بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں- میں اس نتیجہ پر ان خطوط کو پڑھ کر پہنچا ہوں جو کثرت سے میرے پاس آتے ہیں جن میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے‘ ہم نے بہت دعائیں کیں‘ توجہ کی اور کوئی ایسا رویا یا مکالمہ نہیں ہوا- پس ہم کیونکر جانیں کہ فلاں شخص اپنے اس دعویٰ الہام میں سچا ہے؟ یہ ایک خظرناک غلطی ہے جس میں دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ مبتلا رہا ہے- حالانکہ انہوں نے کبھی بھی اپنے اعمال اور افعال پر نگاہ نہیں کی اور کبھی موازنہ نہیں کیا کہ قرب|الٰہی کے کیا وسائل ہیں اور ان کے اختیار کرنے میں کہاں تک سچی محنت اور کوشش سے کام لیا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ اگر مشیت حق میں یہ بات ہوتی تو وہ ملائکہ بھیجتا- یہ مثال ان لوگوں کی طرح ہے جیسے کوئی چھوٹاسا زمیندار جس کے پاس دو چار گھمائوں اراضی ہو اس کو نمبردار کہے کہ محاصل ادا کرو اور وہ کہہ دے کہ تو میرے جیسا ہی ایک زمیندار ہے‘ تجھ کو مجھ پر کیا فضیلت ہے؟ صرف اپنی عظمت اور شیخی جتانے کو محاصل مانگتا ہے اور ہمارا روپیہ مارنا چاہتا ہے- اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو وہ خود آ کر لیتا- وہ آپ کیوں نہیں آیا؟ مگر لقد استکبروا فی انفسھم و عتو عتواً کبیراً )الفرقان:۲۲( کیا بڑا بول بولا- نادان زمیندار بادشاہ کو طلب کرتا ہے- اسے معلوم نہیں کہ بادشاہ تو رہا ایک طرف اگر ایک معمولی سا چپڑاسی بھی آ گیا تو وہ مار مار کر سر گنجا کر دے گا اور محاصل لے لے گا- اسی طرح ماموروں کے مخالف ایسے ہی اعتراض کیا کرتے ہیں- لیکن جب ملائکہ کا نزول ہو جاتا ہے پھر ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں جو انہیں یا تو چکناچور کر دیتے ہیں اور یا وہ ذلیل و خوار حالت میں رہ جاتے ہیں اور یا منافقانہ رنگ میں شریک ہو جاتے ہیں-
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تین قسم کے لوگ ہوئے تھے- ایک وہ جو سابق اول من المہاجرین تھے اور دوسرے وہ جو فتح کے بعد ملے- اور تیسرے اس وقت جو رایت|الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً )النصر:۳( کے مصداق تھے- اسی طرح جو لوگ عظمت|وجبروت الٰہی کو پہلے نہیں دیکھ سکتے آخر ان کو داخل ہونا پڑتا ہے اور اپنی بودی طبیعت سے اپنے سے زبردست کے سامنے مامورمن|اللہ کو ماننا پڑتا ہے اور بالآخر یعطوا الجزیۃ عن ید و ھم صاغرون )التوبۃ:۲۹( کے مصداق ہو کر رہنا پڑتا ہے-
پھر اس سے ایک اور گندہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب ملائکہ بھی نہیں آتے تو ہمیں بھی الہام نہیں ہوتا‘ کشف نہیں ہوتا- اور یہ دوکاندار بھی نہ سہی مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ کیا ہمارے پیشوایان مذہب نے اس کو مان لیا ہے؟ وہ لوگ چونکہ اپنے نفس کے غلام اور اپنے جذبات کے تابع فرمان ہوتے ہیں اس لئے پھر کہہ دیتے ہیں کہ ما سمعنا بھٰذا فی اٰبائنا الاولین )القﷺ:۳۷( ہم نے یہ باتیں جو یہ بیان کرتا ہے اپنے آباء واجداد سے تو کبھی بھی نہیں سنی ہیں- جب کوئی مامور من اللہ آتا ہے تو نادان بدقسمتی سے یہ اعتراض بھی ضرور کرتے ہیں کہ یہ تو نئی نئی بدعتیں نکالتا ہے اور ایسی تعلیم دیتا ہے جس کا ذکر بھی ہم نے اپنے بزرگوں سے نہیں سنا- اس وقت بھی جب خدا کی طرف سے ایک مامور ہو کر آیا اور اس نے سنت|انبیاء کے موافق ان بدعتوں اور مشرکانہ تعلیموں کو دور کرنا چاہا جو قوم میں بعد زمانہ کے باعث پھیل گئی تھیں تو ناعاقبت اندیش‘ ناقدرشناس قوم نے بجائے اس کے کہ اس کی آواز پر آگے بڑھ کر لبیک کہتی اس کی مخالفت شروع کی اور نوح کی قوم کی طرح اس کی باتوں کو سن کر یہی کہا ما سمعنا بھٰذا فی اٰبائنا الاولین یہ سلف کے خلاف ہے- یہ اجماع امت کے مخالف ہے- فلاں بزرگ کے اقوال میں کہاں لکھا ہے؟ فلاں مصنف کے مخالف ہے وغیرہ وغیرہ- یہی صدائیں ہمارے کان میں آ رہی ہیں- ورنہ اگر غور کیا جاتا اور ذرا ٹھنڈے دل سے ان باتوں پر توجہ کی جاتی جو خدا کا مامور لے کر آیا تھا اور سنن|انبیاء کے موافق اس کی تعلیم کو دیکھا جاتا تو آسانی کے ساتھ یہ عقدہ حل ہو سکتا تھا- مگر افسوس! ان نادانوں نے جلدبازی سے وہی کہا جو پہلے معترضوں اور مخالفوں نے کہا- میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف میں انبیائ|ورسل کے مخالفوں کے اعتراضوں کو پڑھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی ہے اور خدا کے فضل سے میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے سامنے اب کسی نشان یا اعجاز کی ضرورت میرے ماننے کے لئے نہیں رہی- اس لئے تمہیں میں یہ اصول سمجھاتا ہوں کہ مامور من اللہ جب آتے ہیں تو کیا لے کر آتے ہیں اور ان پر کس قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں؟ میں نے بارہا معترضوں اور مخالفوں سے اب بھی پوچھا ہے کہ کوئی ایسا اعتراض کریں جو کسی نبی پر نہ کیا گیا ہو- مگر میں سچ کہتا ہوں کہ کوئی نیا اعتراض پیش نہیں کرتے- میں تعجب کرتا ہوں کہ آج جو لوگ حضرت اقدس کی مخالفت میں اٹھے ہیں ان کے معتقدات کا تو یہ حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کی اصل غرض اور قرآن شریف کی تعلیم کا خاص منشاء دنیا میں سچی توحید کا قائم کرنا تھا مگر لوگوں کو پوچھو تو وہ مسیح کو خالق مانتے ہیں کخلق اللہ- شافی مانتے ہیں- عالم الغیب یقین کرتے ہیں- محیی اسے مانتے ہیں- حلال اور حرام ٹھہرانے والا اسے سمجھتے ہیں- قدوس وہ ہے- ساری دنیا کے راستبازوں حتیٰ کہ اصفی الاصفیا‘ سرور انبیاء صلی اللہ علیہ و سلم تک کو مس شیطان سے بری نہیں سمجھتے مگر مسیح کو بری کرتے ہیں- مسیح خلا میں ہے‘ زندہ ہے مگر باقی سارے نبی فوت ہو چکے- اس کے آئندہ مرنے کے دلائل بھی بودے‘ کمزور اور ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں کہ ان پر بہت سے اعتراض ہو سکتے ہیں- غرض وہ کونسی صفت خدا میں ہے جو مسیح میں نہیں مانتے- اس پر بھی جو ایک خدا کے ماننے کی تعلیم دیتا ہے اور خدا کی عظمت و جلال کو اسی طرح قائم کرنا چاہتا ہے جیسے انبیاء کی فطرت میں ہوتا ہے‘ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کو کہا جاتا ہے کہ سلف کے اقوال میں اس کے آثار نہیں پائے جاتے- افسوس! یہ لوگ اگر انبیاء علیہم السلام کی مشترکہ تعلیم کو پڑھتے اور قرآن شریف میں ماموروں کے قﷺ اور ان کے مخالفوں کے اعتراضوں اور حالات پر غور کرتے تو انہیں صاف سمجھ میں آ جاتا کہ یہ وہی پرانی تعلیم ہے جو نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ‘ عیسیٰ علیہم السلام اور سب سے آخر خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لے کر آیا تھا- اگر تعلیم پر غور نہ کر سکتے تھے تو ان اپنے اعتراضوں ہی کو دیکھتے کہ کیا یہ وہی تو نہیں جو اس سے پہلے ہر زمانہ میں ہر مامور پر کئے گئے ہیں- مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ قرآن شریف کو پڑھتے ہی نہیں-
غرض یہ بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جو مامور من اللہ اور اس کے مخالفوں کو پیش آتا ہے اور اس زمانہ میں بھی پیش آیا- پھر یہ لوگ گھبرا اٹھتے ہیں اور لوگوں کو دین الٰہی کی طرف رجوع کرتا ہوا پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی مخالفتیں اور عداوتیں مامور کے حوصلے اور ہمت کو پست نہیں کر سکتی ہیں اور وہ ہر آئے دن بڑھ بڑھ کر اپنی تبلیغ کرتا ہے اور نہیں تھکتا اور درماندہ نہیں ہوتا اور اپنی کامیابی اور مخالفوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کرتا ہے- جیسے نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم غرق ہو جائو گے اور خدا کے حکم سے کشتی بنانے لگے تو وہ اس پر ہنسی کرتے تھے- نوحؑ نے کیا کہا؟ ان تسخروا منا فانا نسخر منکم کما تسخرون ) ھود:۳۹( اگر تم ہنسی کرتے ہو تو ہم بھی ہنسی کرتے ہیں اور تمہیں انجام کا پتہ لگ جاوے گا کہ گندے مقابلہ کا کیا نتیجہ ہوا- اسی طرح پر فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ سن کر کہا قومھما لنا عٰبدون )المومنون:۴۸( ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام رہی ہے- ھو مھین و لایکاد یبین )الزخرف:۵۳( یہ کمینہ ہے اور بولنے کی اس کو مقدرت نہیں- اور ایسا کہا کہ اگر خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں ملا- غرض یہ لوگ اسی قسم کے اعتراض کرتے جاتے ہیں- اور جب اس کی انتھک کوششوں اور مساعی کو دیکھتے ہیں اور اپنے اعتراضوں کا اس کی ہمت اور عزم پر کوئی اثر نہیں پاتے بلکہ قوم کا رجوع دیکھتے ہیں تو پھر کہتے ہیں ان ھو الا رجل بہ جنۃ )المومنون:۲۶( میاں یہ وہی آدمی ہے- انسان جس قسم کی دھت لگاتا ہے اسی قسم کی رئویا بھی ان کو ہو جاتی ہے- اس قسم کے خیالات کے اظہار سے وہ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ تا خدا کی پاک اور سچی وحی کو ملتبس کریں- کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جیسے رمال‘ احمق‘ جفار‘ گنڈے والے‘ فال والے‘ ایک سچائی کے ساتھ جھوٹ ملاتے ہیں اسی طرح اس سچائی کا بھی خون کریں- اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ دھت کی باتیں ہیں- یہ وعدے اور یہ پیشگوئیاں اپنے ہی خیالات کا عکس ہیں- دوستوں کے لئے بشارتیں اور اعداء کے لئے انذار- یہ جنون کا رنگ رکھتے ہیں- عیسائی اور آریہ اب تک اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں اپنے مطلب کیوحی بنا لیتے ہیں- اور دو ر کیوں جائیں اس وقت کے کم عقل مخالف بھی یہی کہتے ہیں- مگر ایک عجیب بات میرے دل میں کھٹکتی ہے کہ وہ کافر جو نوح علیہ السلام کے مقابل میں تھے انہوں نے یہ کہا فتربصوا بہ حتیٰ حین )المومنون:۲۶( چند روز اور انتظار کر لو- اگر یہ جھوٹا اور کاذب مفتری ہے تو خود ہی ہلاک ہو جاوے گا- مگر ہمارے وقت کے ناعاقبت اندیش اندھوں اور نادانوں کو اتنی بھی خبر نہیں اور ان میں اتنی بھی صلاحیت اور صبر نہیں جو نوحؑ کے مخالفوں میں تھا- وہ کہتے ہیں فتربصوا بہ حتیٰ حین- ]txet [tag اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ کاذب کا انجام اچھا نہیں ہوتا- اس کی گردن پر جھوٹ سوار ہوتا ہے- خود اس کا جھوٹ ہی اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہوتا ہے- مگر وہ لوگ کیسے کم عقل اور نادان ہیں جو اس سچائی سے بھی دور جاپڑے ہیں اور اس معیار پر صادق اور کاذب کی شناخت نہیں کر سکے- میرے سامنے بعض نادانوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مفتری کے لئے مہلت مل جاتی ہے- قطع نظر اس بات کے کہ ان کے ایسے بیہودہ دعویٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت اور آپ کی نبوت پر کس قدر حرف آتا ہے‘ قطع نظر اس کے ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی پاک تعلیم پر اس قسم کے اعتراف سے کیا حرف آتا ہے اور کیونکر انبیاء و رسل کے پاک سلسلہ پر سے امن اٹھ جاتا ہے؟ پوچھتا ہوں کہ کوئی ہمیں بتائے کہ آدمؑ سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک اور آپﷺ~ سے لے کر اس وقت تک کیا کوئی ایسا مفتری گذرا ہے جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے- اور وہ کلام جس کی بابت اس نے دعویٰکیا ہو کہ خدا کا کلام ہے‘ اس نے شائع کیا ہو اور پھر اسے مہلت ملی ہو- قرآن شریف میں ایسے مفتری کا تذکرہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک اقوال میں پاک لوگوں کے بیان میں اگر ہوا ہے تو دکھائو کہ اس نے تقول علی اللہ کیا ہو اور بچ گیا ہو- میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مفتری بھی پیش نہ کر سکیں گے- مہلت کا زمانہ میرے نزدیک وہ ہے جبکہ مکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر یوں نازل ہوا- لو تقول علینا بعض الاقاویل- لاخذنا منہ بالیمین- ثم لقطعنا منہ الوتین- فما منکم من احد عنہ حاجزین )الحاقہ:۴۵ تا۴۸( اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ اس کا اپنا کلام ہوتانہ خدا کا تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچا نہ سکتا- کیسا صاف اور سچا معیار ہے کہ مفتری کی سزا ہلاکت ہے اور اسے کوئی مہلت نہیں دی جاتی- یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی کی کیسی روشن دلیل اور ہر صادق مامور من اللہ کی شناخت کا کیسا خطانہ کرنے والا معیار ہے- مگر اس پر بھی نادان کہتے ہیں کہ نہیں- مفتری کو مہلت مل جاتی ہے-
یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی- اب کیا مشکل ہے جو ہم اس زمانہ کو جو مفتری کے ہلاک ہونے اور راستباز کے راستباز ٹھہرائے جانے پر بطور معیار ہو سکتا ہے سمجھ لیں
اس آیت کے نزول کا وقت صاف بتاتا ہے مگر اندھوں کو کون دکھا سکے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جبکہ جامع جمیع کمالات تھے آپ کی امت ان تمام برکات اور فیوض کی جامع ہے جو پہلی امتوں پر انفرادی طور پر ہوئے- اور آپ کے اعداء ان تمام خسرانوں کے جامع جو پہلے نبیوں کے مخالفوں کے حصہ میں آئے- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب سورۃ الشعراء میں ہر نبی کا قصہ بیان فرماتا ہے تو اس کے بعد فرماتا ہے ان ربک لھو العزیز الرحیم )الشعرائ:۶۹( ۱~}~
غرض یہ آیت لوتقول والی ہر ایک مفتری اور صادق مامور من اللہ میں امتیاز کرنے والی اور صادق کی صداقت کا کامل معیار ہے- لیکن اگر کوئی نادان یہ کہے کہ اس سے تاریخ کا پتہ کیونکر لگائیں اور میعادمقررہ کیونکر معلوم ہو؟ میں کہتا ہوں ان امور کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ یہ آیت مکی ہے- اگر اس پر بھی کوئی یہ کہے کہ مکی اور مدنی آیتوں کا تفرقہ مشکلات میں ڈالتا ہے‘ اور اصطلاحات میں اب تک بھی اختلافات چلا آتا ہے تو میں کہتا ہوں اس سے بھی ایک آسان تر راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس آیت کو آخری آیت ہی تجویز کر لو- پھر بھی تم کو ماننا پڑے گا کہ تئیس برس تک خیر الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت‘ عظمت و جبروت‘ عزت‘ وجاہت‘ تائید و نصرت‘ دشمن کے خسران کے لئے ایک فیصلہ کن امر ہے- اب بتائو کہ کیا حجت باقی رہی؟ مکی مدنی کا فیصلہ نہ کرو- اصطلاحات کے تفرقہ میں نہ پڑو- اس تئیس سال کی عظیم الشان کامیابیوں کا کیا جواب دو گے- پس بہر حال ماننا پڑے گا کہ اس قدر عرصہ دراز تک جو چوتھائی صدی تک پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ مفتری کو مہلت نہیں دیتا- ایک راستباز کی صداقت کا پتہ اس کے چہرہ سے‘ اس کے چال چلن سے‘ اس کی تعلیم سے‘ ان اعتراضوں سے‘ جو اس پر کئے جاتے ہیں‘ اس کے ملنے والوں سے لگ سکتا ہے- لیکن اگر کوئی نادان ان امور سے پتہ نہ لگا سکے تو آخر تئیس سال کی کافی مہلت اور اس کی تائیدیں اور نصرتیں‘ اس کی سچائی پر مہر کر دیتی ہیں- میں جب اپنے زمانہ کے راستباز کے مخالفوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے حالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس زمانہ کے مخالفوں کی حالت پر بہت رحم آتا ہے کہ یہ ان سے بھی جلد بازی اور شتاب کاری میں آگے بڑھے ہوئے ہیں- وہ نوح علیہ السلام کی تبلیغ اور دعوت کو سن کر اعتراض تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں فتربصوا بہ حتیٰ حین )المومنون:۲۶( چندے اور انتظار کر لو- مفتری ہلاک ہو جاتا ہے- اس کا جھوٹ خود اس کا فیصلہ کر دے گا- مگر یہ شتاب کار نادان اتنا بھی نہیں کہہ سکتے- العجب! ثم العجب!!
غرض جب ان شریروں کی شرارت اور تکذیب حد سے گزر گئی تو چونکہ مامور من اللہ بھی انسان ہی ہوتا ہے‘ اعداء کی تکذیب اور نہ صرف تکذیب بلکہ مختلف قسم کی تکالیف خود اسے اور اس کے احباب کو دی جاتی ہیں تو وہ بے اختیار ہو کر لو کان الوباء المتبر کہہ اٹھتا ہے- ایسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام نے بھی کہا رب انصرنی بما کذبون )المومنون:۲۷( ]ttex [tag اے میرے مولیٰ! میری مدد کر- میری ایسی تکذیب کی گئی ہے جس کا تو عالم ہے- جب معاملہ اس حد تک پہنچا تو خدا کی وحی یوں ہوتی ہے- ان اصنع الفلک باعیننا و وحینا )المومنون:۲۸( ہماری وحی کے موافق ہماری نظر کے نیچے ایک کشتی تیار کرو اور اپنے ساتھ والوں کو بھی ساتھ لے لو تو ہم تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو بچا لیں گے اور شریر مخالفوں کو غرق کر دیں گے- چنانچہ حضرت نوحؑ نے ایک کشتی تیار کی اور اپنی جماعت کو لے کر اس میں سوار ہوئے- خدا کا غضب پانی کی صورت میں نمودار ہوا- وہی پانی حضرت نوح کی کشتی کو اٹھانے والا ٹھہرا اور اسی نے طوفان کی صورت اختیار کر کے مخالفوں کو تباہ کر دیا اور نتیجہ نے حضرت نوح علیہ السلام کی سچائی پر مہر کر دی- غرض یہ آسان پہچان ہے راستباز کی-
تمہیں چونکہ اور بھی بہت سے کام ہوں گے میں خطبہ کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور پھر مختصر سی بات کہہ کر آگاہ کرتا ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنی خاص حفاظتوں میں لاتا ہے‘ ارضی بیماریوں اور دکھوں سے بچاتا ہے‘ آسمانی مشکلات سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اس کی نصرت فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو سچے طور سے اس کا ساتھ دیتے ہیں یا یوں کہو کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو کر وہی بن جاتے ہیں‘ سچا تقویٰ اور حقیقی ایمان حاصل کرتے ہیں اور مامور کا ادھورا نمونہ بھی بن جاتے ہیں تو مقتدا کی عظمت و ترقی اور نصرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو بھی شریک کر لیتا ہے-
جو لوگ حضرت اقدسؑ کے رات کے وعظ میں شریک تھے‘ ان کو معلوم ہو گا اور جو بدقسمتی سے نہیں پہنچے ان کو میں ایک جملہ میں اس کا مغز اور خلاصہ بتا دیتا ہوں کہ انسان سچا متقی‘ سچا مومن اور خدا کے حضور راستباز تب ٹھہرتا ہے جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے- یہ چھوٹی بات نہیں- کہنے کو بہت مختصر مگر حقیقت میں تمام نیکیوں کی جامع اور تمام اعمال حسنہ پر مشتمل ہے-
یاد رکھو کبھی کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھو- چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے انسان ایک خظرناک اور گھیر لینے والے گناہ میں گرفتار ہو جاتا ہے- تمہیں معلوم نہیں یہ پہاڑ چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنے ہیں- یہ عظیم الشان بڑ کا درخت ایک بہت ہی چھوٹے سے بیج سے بنا ہے- بڑے بڑے اجسام ان ہی باریک ایٹمز و ذرات سے بنے ہیں جو نظر بھی نہیں آتے- پھر گناہ کے بیج کو کیوں حقیر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو! چھوٹی چھوٹی بدیاں جمع ہو کر آخر پیس ڈالتی ہیں- انسان جب چھوٹا سا گناہ کرتا ہے تو اس کے بعد اور گناہ کرتا ہے- یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی حدبندی کوتوڑ کر نکل جاتا ہے جس کا نام کبیرہ ہوتا ہے اور پھر راستبازوں کے قتل کی جرات کر بیٹھتا ہے-
اسی طرح پر ادنیٰ سی نیکی اگر کرو تو اس سے ایک نور معرفت پیدا ہوتا ہے- نیکی اور بدی کی شناخت کا انحصار ہے قرآن شریف کے علم پر- اور وہ منحصر ہے سچے تقویٰ اور سعی پر- چنانچہ فرمایا و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۲۸۳-( اور فرمایا و الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا )العنکبوت:۷۰-( جب اللہ تعالیٰ میں ہو کر انسان مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی راہیں اس پر کھول دیتا ہے- پھر سچے علوم سے معرفت‘ نیکی اور بدی کی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی عظمت و جبروت کا علم ہوتا ہے اور اس سے سچی خشیت پیدا ہوتی ہے- انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹(- یہ خشیت بدیوں سے محفوظ رہنے کا ایک باعث ہوتی ہے اور انسان کو متقی بناتی ہے اور تقویٰ سے محبت الٰہی میں ترقی ہوتی ہے- پس خشیت سے گناہ سے بچے اور محبت سے نیکیوں میں ترقی کرے‘ تب بیڑا پار ہوتا ہے اور مامور من|اللہ کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کے غضبوں سے جو زمین سے یا آسمان سے نکلتے ہیں محفوظ ہو جاتا ہے-
یہ بات کہ دین کو ہم نے دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں ہم کو واجب ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں‘ دین کے ہوں یا دنیا کے متعلق ہوں یا مال کے متعلق‘ ہر وقت سوچتے اور پرکھتے رہیں اور اپنا محاسبہ آخرت کے محاسبہ سے پہلے آپ کریں- اور جب خدا کی راہ میں قدم اٹھایا جاتا ہے تو معرفت کا نور ملتا ہے- پس کوشش کرو‘ استغفار کرو اور جس درخت کے ساتھ تم نے اپنا آپ پیوند کیا ہے اس کے رنگ میں رنگین ہو کر قدم اٹھائو- اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا- ۲~}~
۱~}~ ) الحکم جلد۶ نمبر۲ ۔۔۔ ۱۷ / جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۸ تا ۱۰(
و ) الحکم جلد۶ نمبر۳ ۔۔۔ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ ‘ ۶ (
۲~}~ ) الحکم جلد۶ نمبر۴ ۔۔۔ ۳۱ / جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶ ‘ ۷ (
‏KH1.13
خطبات|نور خطبات|نور
۳۱ / جنوری ۱۹۰۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
اذا جاء نصر اللہ و الفتح- و رایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً- فسبح بحمد ربک و استغفرہ انہ کان تواباً- )النصر:۲ تا ۴(
یہ ایک مختصر اور چھوٹی سی سورۃ قرآن شریف کے آخری حصہ میں ہے- مسلمانوں کے بچے علی|العموم نمازوں میں اسے پڑھتے ہیں- اس پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کی جناب میں قدم صدق پیدا کرنے کے لئے اور اپنی عزت و آبرو کو دنیا و آخرت میں بڑھانے کے واسطے انسان کو مختلف اوقات میں مختلف موقعے ملتے ہیں- ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں اندھیر ہوتا ہے اور ہر قسم کی غلطیاں اور غلط کاریاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں- خدا کی ذات پر شکوک‘ اسماء الٰہیہ میں شبہات‘ افعال اللہ سے بے اعتنائی اور مسابقت فی الخیرات میں غفلت پھیل جاتی ہے اور ساری دنیا پر غفلت کی تاریکی چھا جاتی ہے- اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی برگزیدہ بندہ اہل دنیا کو خواب|غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے مولیٰ کی عظمت و جبروت دکھانے‘ اسماء الٰہیہ و افعال اللہ سے آگاہی بخشنے کے واسطے آتا ہے تو ایک کمزور انسان تو ساری دنیا کو دیکھتا ہے کہ کس رنگ میں رنگین اور کس دھن میں لگی ہوئی ہے اور اس مامور کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ سب سے الگ اور سب کے خلاف کہتا ہے- کل دنیا کے چال چلن پر اعتراض کرتا ہے- نہ کسی کے عقائد کی پروا کرتا ہے نہ اعمال کا لحاظ- صاف کہتا ہے کہ تم بے ایمان ہو اور نہ صرف تم بلکہ ظھر الفساد فی البر و البحر )الروم:۴۲( سارے دریائوں‘ جنگلوں‘ بیابانوں‘ پہاڑوں اور سمندروں اور جزائر‘ غرض ہر حصہ دنیا پر فساد مچا ہوا ہے- تمہارے عقائد صحیح نہیں- اعمال درست نہیں- علم بودے ہیں- اعمال ناپسند ہیں- قویٰ اللہ تعالیٰ سے دور ہو کر کمزور ہو چکے ہیں- کیوں؟ بما کسبت ایدی الناس )الروم:۴۲( ]txte [tagتمہاری اپنی ہی کرتوتوں سے- پھر کہتا ہے دیکھو میں ایک ہی شخص ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ لیذیقھم بعض الذی عملوا )الروم:۴۲( لوگوں کو ان کی بدکرتوتوں کا مزہ چکھا دیا جاوے- بہت سی مخلوق اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتی ہے اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل غفلت ہی میں ہوتے ہیں- انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کچھ مقابلہ و انکار پر کھڑے ہو جاتے ہیں- اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جبروت دکھانا چاہتا ہے- وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو مال|ودولت‘ کنبہ اور دوستوں کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں- بڑے بڑے رئوسا اور اہل تدبیر لوگوں کے مقابلہ میں ان کی کچھ ہستی ہی نہیں ہوتی- یہ اس مامور کے ساتھ ہو لیتے ہیں- ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یعنی ضعفاء سب سے پہلے ماننے والے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ اگر وہ اہل دول مان لیں تو ممکن ہے خود ہی کہہ دیں کہ ہمارے ایمان لانے کا نتیجہ کیا ہوا؟ دولت کو دیکھتے ہیں‘ املاک پر نگاہ کرتے ہیں‘ اپنے اعوان و انصار کو دیکھتے ہیں تو ہر بات میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں اس لئے خدا کی عظمت|وجبروت اور ربوبیت کا ان کو علم نہیں آ سکتا- لیکن جب ان ضعفاء کو جو دنیوی اور مادی اسباب کے لحاظ سے تباہ ہونے کے قابل ہوں عظیم الشان انسان بنا دے اور ان رئوسا اور اہل دول کو ان کے سامنے تباہ اور ہلاک کر دے تو اس کی عظمت و جلال کی چمکار صاف نظر آتی ہے- غرض یہ سر ہوتا ہے کہ اول ضعفاء ہی ایمان لاتے ہیں-
اس دبدھا کے وقت جبکہ ہر طرف سے شور مخالفت بلند ہوتا ہے خصوصاً بڑے لوگ سخت مخالفت پر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں کچھ آدمی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چنلیتا ہے اور وہ اس راستبازکی اطاعت کو نجات کے لئے غنیمت اور مرنے کے بعد قرب الٰہیکا ذریعہ سمجھتے ہیں- اور بہت سے مخالفت کے لئے اٹھتے ہیں جو اپنی مخالفت کو انتہا تک پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد آ جاتی ہے اور زمین سے‘ آسمان سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے‘ غرض ہر طرف سے نصرت آتی ہے اور ایک جماعت تیار ہونے لگتی ہے- اس وقت وہ لوگ جو بالکل غفلت میں ہوتے ہیں اور وہ بھی جو پہلے عدم ووجود مساوی سمجھتے ہیں آ آ کر شامل ہونے لگتے ہیں- وہ لوگ جو سب سے پہلے ضعف و ناتوانی اور مخالفت شدیدہ کی حالت میں آ کر شریک ہوتے ہیں ان کا نام سابقین اولین‘ مہاجرین اور انصار رکھا گیا- مگر ایسے فتوحات اور نصرتوں کے وقت جو آ کر شریک ہوئے ان کا نام ’’ناس‘‘ رکھا ہے-
یاد رکھو جو پودا اللہ تعالیٰ لگاتا ہے اس کی حفاظت بھی فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ دنیا کو اپنا پھل دینے لگتا ہے لیکن جو پودا احکم الحاکمین کے خلاف اس کے منشاء کے موافق نہ ہو اس کی خواہ کتنی ہی حفاظت کی جاوے وہ آخر خشک ہو کر تباہ ہو جاتا ہے اور ایندھن کی جگہ جلایا جاتا ہے- پس وہ لوگ بہت ہی خوش|قسمت ہیں جن کو عاقبت اندیشی کا فضل عطا کیا جاتا ہے-
اس سورۃ شریفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے انجام کو ظاہر کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فسبح بحمد ربک اللہ کی تسبیح کرو‘ اس کی ستائش اور حمد کرو اور اس سے حفاظت طلب کرو- استغفار یا حفاظت الٰہی طلب کرنا ایک عظیم الشان سر ہے- انسان کی عقل تمام ذرات عالم کی محیط نہیں ہو سکتی- اگر وہ موجودہ ضروریات کو سمجھ بھی لے تو آئندہ کے لئے کوئی فتویٰ نہیں دے سکتی- اس وقت ہم کپڑے پہنے کھڑے ہیں- لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت اور فضل کے نیچے نہ ہوں اور محرقہ ہو جاوے تو یہ کپڑے جو اس وقت آرام دہ اور خوش آئند معلوم ہوتے ہیں ناگوار خاطر ہو کر موذی اور مخالف طبع ہو جاویں اور وبال جان سمجھ کر ان کو اتار دیا جاوے- پس انسان کے علم کی تو یہ حد اور غایت ہے- ایک وقت ایک چیز کو ضروری سمجھتا ہے اور دوسرے وقت اسے غیر ضروری قرار دیتا ہے- اگر اسے یہ علم ہو کہ سال کے بعد اسے کیا ضرورت ہو گی‘ مرنے کے بعد کیا ضرورتیں پیش آئیں گی تو البتہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ انتظام کر لے لیکن جب کہ قدم قدم پر اپنی لاعلمی کے باعث ٹھوکریں کھاتا ہے پھر حفاظت الٰہی کی ضرورت نہ سمجھنا کیسی نادانی اور حماقت ہے- یہ صرف علم ہی تک بات محدود نہیں رہتی- دوسرا مرحلہ تصرفات عالم کا ہے وہ اس کو مطلق نہیں- ایک ذرہ پر اسے کوئی تصرف و اختیار نہیں- غرض ایک بے علمی اور بے بسی تو ساتھ تھی ہی پھر بدعملیاں ظلمت کا موجب ہو جاتی ہیں-
انسان جب اولاً گناہ کرتا ہے تو ابتدا میں دل پر غین ہوتا ہے پھر وہ امر بڑھ جاتا ہے اور رین کہلاتا ہے- اس کے بعد مہر لگ جاتی ہے- یہ چھاپا مضبوط ہو جاتا ہے- قفل لگ جاتاہے- پھریہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ بدی سے پیار اور نیکی سے نفرت کرتا ہے- خیر کی تحریک ہی قلب سے اٹھ جاتی ہے- اس کا ظہور ایسا ہوتا ہے کہ خیر و برکت والی باتوں سے نفرت ہو جاتی ہے- یا تو اس کے حضور آنے ہی کا موقع نہیں ملتا یا موقع تو ملتا ہے لیکن انتفاع کی توفیق نہیں پاتا- رفتہ رفتہ اللہ سے بعد‘ ملائکہ سے دوری اور پھر وہ لوگ جن کا تعلق ملائکہ سے ہوتا ہے ان سے بعد ہو کر کٹ جاتا ہے- اس لئے ہر ایک عقلمند کافرض ہے کہ وہ توبہ کرے اور غور کرے- ہم نے بہت سے مریض ایسے دیکھے ہیں جن کو میٹھا تلخ معلوم دیتا ہے اور تلخ چیزیں لذیذ معلوم ہوتی ہیں- کسی نے مجھ سے ملذذ نسخہ مانگا- میں نے اسے مصبر- کچلہ- شہدملا کر دیا- اس نے کہا کہ بڑا ملذذ ہے- یہ نتیجہ ہوتا ہے انسان کے معاصی کا- ان کی بصر اور بصیرت جاتی رہتی ہے اور ان کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے چہروں پر نگاہ کر کے اہل بصرانہیں اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے سانپ ‘ بندر‘ خنزیر کو دیکھتے ہیں-
اس لئے مومن کو چاہئے کہ خدا کی حمد اور تسبیح کرتا رہے اور اس سے حفاظت طلب کرتا رہے- جیسے ایمان ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے اسی طرح ہر برائی کا مجموعہ کفر کہلاتا ہے- ان کے ادنیٰ اور اوسط اور اعلیٰ تین درجے ہیں- پس امید و بیم‘ رنج و راحت‘ عسر و یسر میں قدم آگے بڑھائو اور اس سے حفاظت طلب کرو-
غور کرو حفاظت طلب کرنے کا حکم اس عظیم الشان کو ہوتا ہے جو خاتم الانبیاء اصفی الاصفیاء سید|ولدآدم ہے‘ صلی اللہ علیہ وسلم‘ تو پھر اور کون ہے جو طلب حفاظت سے غنی ہو سکتا ہے؟ مایوس اور ناامید مت ہو- ہر کمزوری‘ غلطی‘ بغاوت کے لئے دعا سے کام لو- دعا سے مت تھکو- یہ دھو کا مت کھائو جو بعض ناعاقبت اندیش کہتے ہیں کہ انسان ایک کمزور ہستی ہے‘ خدا اس کو سزا دے کر کیا کرے گا؟ انہوں نے رحمت کے بیان میں غلو کیا ہے- کیا وہ اس نظارہ کو نہیں دیکھتے کہ یہاں بعض کو رنج اور تکلیف پہنچتی ہے- پس بعد الموت عذاب نہ پہنچنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ یہ غلط راہ ہے جو انسان کو کمزور اور سست بنا دیتی ہے- بعض نے یاس کو حد درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ بدیاں حد سے بڑھ گئی ہیں اب بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے- استغفار اس سے زیادہ نہیں کہ زہر کھا کر کلی کر لی- یہ بھی سخت غلطی ہے- استغفار انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے- اس میں گناہ کے زہر کا تریاق ہے- پس استغفار کو کسی حال میں مت چھوڑو- پھر آخر میں کہتا ہوں کہ نبی کریمﷺ~ سے بڑھ کر کون ہے؟ وہ اخشیٰ للٰہ- اتقیٰ للٰہ- اعلم باللہ انسان تھا‘ صلی اللہ علیہ و سلم- پس جب اس کو استغفار کا حکم ہوتا ہے تو دوسرے لاابالی کہنے والے کیونکر ہو سکتے ہیں- پس جنہوں نے اب تک اس وقت کے امام راستباز کے ماننے کے لئے قدم نہیں اٹھایا اور دبدھا میں ہیں وہ استغفار سے کام لیں کہ ان پر سچائی کی راہ کھلے اور جنہوں نے خدا کے فضل سے اسے مان لیا ہے وہ استغفار کریں تاکہ آئندہ کے لئے معاصی اور کسی لغزش کے ارتکاب سے بچیں اور حفاظت الٰہی کے نیچے رہیں-
)الحکم جلد۶ نمبر۵ ۔۔۔ ۷ / فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶-۷(
* - * - * - *

۱۲ / ستمبر ۱۹۰۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ-
پھر آیات مسنونہ بابت نکاح کی تلاوت کے بعد فرمایا -:
مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے- کیا بلحاظ اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے اور یہ ایک عظیم الشان انعام انسان پر ہے- کیونکہ ساری راحتیں‘ ساری خوشیاں اور خوشحالیاں اسی کے بعد ملتی ہیں کہ پیدا ہوا ہو اور پھر پیدا بھی اپنے رب کے ہاتھ سے ہوا ہو جو بتدریج کمالات تک پہنچاتا ہے اور پھر ہمارے لئے تو خصوصیت کے ساتھ حمد ضروری ہے- کیا بلحاظ اس کے کہ ایسی نعمت عظمیٰ کے منعم ہیں کہ جس|قدر صداقتیں اور حق و حکمت حضرت آدمؑ سے لے کر ہمارے سید و مولا‘ سرورعالم‘ فخربنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم تک مختلف اوقات میں مختلف نبیوں‘ رسولوں‘ راستبازوں کے ذریعہ مختلف زبانوں اور ملکوں میں پہنچایا گیا‘ ان تمام صداقتوں کا مجموعہ مبرہن اور مدلل ہو کر ہم کو ملا جس کا نام قرآن کریم ہے- یہ انعام کیا کم انعام ہے- سوچ کر دیکھو کہ ساری دنیا کی کل صداقتیں‘ وہ تمام ذریعے جو روح کی پرورش کے تھے‘ وہ سب مہیمن کتاب مجید میں جس کا نام نور‘ شفا‘ رحمت‘ برکت ہے‘ ہم کو دی گئی ہے اور پھر ’’عربی مبین‘‘ میں جیسی صاف اور کھلی سہولت اور یسر سے دی گئی‘ وہ سب صداقتیں مدلل اور مبرہن کر کے قرآن شریف نے بیان کی ہیں اور نہایت سہل الفاظ میں جو میرے خیال میں چار ہزار سے زیادہ لغت نہیں- پھر پہنچانے والا ایسی طاقت اور تاثیر رکھتا ہے کہ باید و شاید- اللٰھم صل علیٰ محمد و بارک و سلم- یعنی محمد بن عبد اللہ اور بن آمنہ‘ کس طرح کا وہ معلم اور ہادی ہے اور کس طرح سے اس کی پاک تاثیروں نے ایک تبدیلی کی؟ وہ اسی ایک واقعہ سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس نے حیرت انگیز‘ آئینہ نما فتح اپنی قوم پر جو عرب تھی حاصل کی اور ایسی فتح کہ ایک بھی مخالف نہ رہا اور پھر یہ کس|قدر تعجب انگیز کہو یا آیت مبینہ‘ اثر ہے کہ تیرہ سو برس پہلے مکہ اور مدینہ میں جس قسم کے فیوض اور برکات آپ کے پاک انفاس سے پہنچے اور آپؑ کی تعلیم و تربیت نے جو اثر اس وقت پیدا کیا آج تیرہ سو برس کے بعد بھی اسی کی تعلیم و تربیت کے نیچے اس کا غلام موجود ہے-
) غلام احمد علیہ الصلوٰۃ و السلام (
اور پھر کیا بلحاظ اس انعام اور فضل کے جو ہم پر اللہ تعالیٰ نے کیا کہ تیرہ سو برس سے جس کے دیکھنے کو ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں مخلوق کی آنکھیں ترستی گئی ہیں اور امت کے صلحا اور اولیاء اور علماء ربانی جس کو سلام کہتے گئے‘ ہم نے اس کا زمانہ پا لیا- اور پھر جس سے اکثر لوگوں کی بدبختی نے انہیں محروم رکھا ہمیں اس کی غلامی کا شرف عطا فرمایا اور اس طرح پر ہم پر وہ انعام کیا کہ جیسے اولین میں ایک نبی اور خاتم|النبیین صلی اللہ علیہ و سلم موجود تھا‘ آخرین میں بھی اسی طرح آپ کا تابع نبی صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہے- اس لئے جب ہم پر یہ انعام‘ یہ فضل ہوئے ہیں تو اور بھی زیادہ ہمیں ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کریں-
نستعینہ لیکن انسان چونکہ ایک کمزور اور ضعیف ہستی ہے اس لئے ہر آن اور ہر حالت میں اسی رب العالمین اور تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام نقائص اور بدیوں سے منزہ ذات‘ اللہ تعالیٰ سے استمداد کی ضرورت ہے- انسان کا فانی جسم ہر آن تغیرات کے نیچے ہے اور کمزور روح علوم میں اسی فانی اور کمزور جسم کی محتاج ہے- کیونکہ وہ اس جسم اور ذرات کے بغیر کوئی راحت یا علم و صداقت حاصل نہیں کر سکتی اور سارے علوم اور صداقتیں زبان‘ کان‘ آنکھ‘ ناک اور ٹٹولنے کی حس کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں- مگر یہ جسم فانی ہے اور ہرآن تنزل کی حالت پیدا کرتا ہے- فضلے پیدا ہو کر جسم سے نکلتے رہتے ہیں- ایسی حالت میں صاف ظاہر ہے کہ روح کا ذریعہ فانی اور کمزور ہے- پھر کیسے ترقی کرے‘ جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو- اسی محسن نے کیسی پاک راہ بتائی اور سچے اور حقیقی محسن‘ اللہ کی بتائی ہوئی بتائی کہ اللہ کے فضل اور احسان کے بغیر ایک آن گذارہ نہیں ہو سکتا- اسی لئے ہم اس کی ہی مدد چاہتے ہیں-
و نستغفرہ پھر ایک اور تعلیم دی اور وہ استغفار کی تعلیم ہے- اللہ تعالیٰ کے وسیع قانون اور زبردست حکم اس قسم کے ہیں کہ انسان بعض بدیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے بڑے بڑے فضلوں سے محروم رہ جاتا ہے- جب انسان کوئی غلطی کرتا اور خدا تعالیٰ کے کسی قانون اور حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں ایک روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل اور انعام سے محروم کیا جاتا ہے- اس لئے اس محرومی سے بچانے کے لئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو- یہ تعلیم بھی اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے- استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمداً ہوں یا سہواً اور نسیان اور خطا سے- غرض ما قدم و اخر جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے‘ اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو اعلم و لا اعلم کے نیچے رکھ کر یہ دعا کرے کہ میری غلطیوں کے بدنتائج اور بد اثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان غلط کاریوں سے محفوظ فرما- یہ ہیں استغفار کے مختصر سے معنے-
بارہا ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ و السلام لوگوں کو استغفار بتاتے ہیں- میں نے دیکھا ہے کہ وہ اکثر مجھ سے آ کر پوچھتے ہیں کہ استغفار کی کتنی تسبیحیں کریں اور آپ کے یہاں کونسا استغفار معمول ہے- اس لئے میں نے بتایا ہے کہ سچا استغفار یہی ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو یاد کر کے جناب الٰہی میں یہ طلب کرے کہ ان کمزوریوں کے برے نتائج سے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان کمزوریوں سے محفوظ فرما-
و نومن بہ اور ہم پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے- وہ اپنی ذات میں‘ اپنی صفات میں‘ اسماء اور محامد اور افعال میں واحد لاشریک ہے- وہ اپنی ذات میں یکتا‘ صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لیس کمثلہ شی|ء )الشوری:۱۲( اور بے نظیر ہے- اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی رضامندی اور ناراضی کی راہوں کو ظاہر کرتا رہا ہے اور ملائکہ کے ذریعہ اپنا کلام پاک اپنے نبیوں اور رسولوں کو پہنچاتا رہا ہے اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں میں آخری کتاب قرآن شریف ہے جس کا نام شفا‘ فضل‘ رحمت اور نور ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم النبیین ہیں- اور اب کوئی نبی اور رسول آپؑ کے سوا نہیں ہو سکتا- اس وقت بھی جو آیا وہ اس کا غلام ہی ہو کر آیا ہے-
اور پھر یہ تعلیم دی کہ نتوکل علیہ یہ بات ہم میں پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں جس مطلب اور غرض کے لئے بنائی ہیں وہ اپنے نتائج اور ثمرات اپنے ساتھ ضرور رکھتے ہیں- اس لئے اس پر ایمان ہونا چاہئے کہ لابد ایمان کے ثمرات اور نتائج ضرور حاصل ہوں گے اور کفر اپنے بد نتائج دیئے بغیر نہ رہے گا- انسان بڑی غلطی کرتا اور دھوکا کھا جاتا ہے‘ جب وہ اس اصل کو بھول جاتا ہے- اعمال اور اس کے نتائج کو ہرگز ہرگز ہرگز بھولنا نہیں چاہئے- سعی اور کوشش کو ترک کرنا نہیں چاہئے-
اور پھر یہ تعلیم دی و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا- انسان اپنی کمزوریوں پر پوری اطلاع نہیں رکھتا اور بعض وقت نقد کو ادھار پر پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہے- پیش پا افتادہ اور زیردست چیزیں مقبول نگاہ ہوتی ہیں- اس لئے الٰہی احکام کو اپنی غلطی سے بھول جاتا ہے یا ان کے ثمرات اور نتائج کو اپنی غلطی اور نادانی سے ادھار اور دوسرے ہی جہان پر منحصر سمجھ کر سستی اور لاپروائی کرتا ہے اور اس طرح پر اصل مقصد سے دور جا پڑتا ہے- اس غلطی کو دور کرنے اور اس کے برے نتائج سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جائیں- کیونکہ بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے جو ساری قدرتوں اور قوتوں کا مالک اور مولیٰ ہے اور ہر نقص سے پاک‘ ہر کامل صفت سے موصوف-
پہلے ضروری ہے کہ شرور انفسنا سے پناہ مانگیں- انسان کی اندورنی بدیاں اور شرارتیں اکثر اس کو ہلاک کر دیتی ہیں- مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا اور عفت کو ترک کرتا ہے- بدنظری اور زنا کا ارتکاب کرتا ہے- حلم کو چھوڑتا ہے اور غضب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی قناعت کو جو سچی خوشحالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے‘ چھوڑ کر حرص و طمع کا پابند ہو جاتا اور کبھی ہمت بلند اور استقلال نہیں رہتا‘ بلکہ پست|ہمتی اور غیرمستقل مزاجی میں پھنس جاتا ہے- سعی اور مجاہدہ کو ترک کرتا اور کسل میں مبتلا ہوتا ہے- یہ نفسانی شرور ہیں- اس لئے ان تمام شرارتوں اور ان کے برے نتائج سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ لینی چاہئے اور پھر بداعمال کے بدنتائج ہیں- ان سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ ہو-
غرض اصل تو یہ ہے من یھدہ اللہ فلامضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ اللہ کے سوا کوئی ہادی نہیں جس کے پاس گمراہی کا ڈر نہیں اور جس کو اللہ ہلاک کرے اس کو کوئی بامراد نہیں کر سکتا-۱~}~
و نشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- پھر عظیم الشان اصولوں میں سے یہ اصل بتائی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا معبود‘ محبوب اور مطاع نہ بنائو- اللہ وہ ذات کامل ہے جو ہر نقص سے منزہ اور خوبی سے موصوف ہے- اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود‘ محبوب‘ مطاع بنانا اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا آنکھ سے بدنظری کرتا ہے یا نہیں؟ کان سے حرص و ہوا کی باتیں سنتا ہے یا نہیں؟ ناک کے خیال سے تکبر اور فضول خرچیاں کرتا ہے یا نہیں؟ پھر زبان‘ غرض کل اعضاء فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں یا نہیں؟ مختصر یہ کہ کوئی خوف اور امید اگر مخلوق سے ہے تو سمجھ لو کہ لا الٰہ الا اللہ کے معنوں سے بے خبری ہے یا بے پروائی ہے-
لا الٰہ الا اللہ کو ماننے والا کسی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ رکوع سجود کر سکتا ہے- ایسا ہی مخلوق کے لئے نہ قربانی دے سکتا ہے اور نہ اپنے مال کا ایک مقرر حصہ مخلوق میں سے کسی کے لئے الگ کر سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے الگ کرنے کا حکم ہے بلکہ ساری باتوں میں وہ اپنا معبود مسجود اللہ ہی کو مانتا ہے اور اپنی امید و بیم کو اسی سے وابستہ کرتا ہے- ہر ایک کام اس کی رضا کے لئے کرتا یہاں تک کہ کھانا اس لئے کھاتا ہے کہ ’’کلوا‘‘ کا حکم ہے- اور پیتا اس لئے کہ ’’اشربوا‘‘ کا حکم ہے- بیوی سے معاشرت کرے نہ اس لئے کہ طبعی تقاضا ہے بلکہ اس لئے کہ بالمعروف )النسائ:۲۰( کا حکم ہے اور اس لئے کہ و ابتغوا ما کتب اللہ لکم )البقرۃ:۱۸۸( کا ارشاد ہے- اس سے نیکی کے کاموں میں پہلا جزو پیدا ہو گا‘ جس کو اخلاص کہتے ہیں- پھر ان سارے کاموں میں صواب ہو اور یہ تب حاصل ہو سکتا ہے کہ ساری الٰہی رضامندیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع اور حکم کے نیچے ہوں- کیونکہ وہ کامل انسان اللہ تعالیٰ کا سچا پرستار بندہ تھا اور ہماری اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مبعوث فرمایا- ان کے سوا الٰہی رضا ہم معلوم نہیں کر سکتے اور اسی لئے فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲-( جس طرح پر اس نے اپنے غیب اور اپنی رضا کی راہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ظاہر کی ہیں اسی طرح پر اب بھی اس کی غلامی میں وہ ان تمام امور کو ظاہر فرماتا ہے- اگر کوئی انسان اس وقت ہمارے درمیان آدمؑ‘ نوحؑ‘ ابراہیمؑ‘ موسیٰؑ عیسیٰؑ‘ دائودؑ محمدﷺ‘~ احمدﷺ‘~ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے ذریعہ سے ہے اور آپﷺ~ ہی کی چادر کے نیچے ہو کر ہے- کوئی راہ اگر اس وقت کھلتی ہے اور کھلی ہے تو وہ آپ میں ہو کر- ورنہ یقیناً یقیناً سب راہیں بند ہیں- کوئی شخص براہ راست اللہ تعالیٰ سے فیضان حاصل نہیں کر سکتا- اگر کوئی اس وقت یہ کہے کہ ’’من چہ پروائے مصطفٰے دارم‘‘ اور پھر وہ ہمارا مقتدا اور امام اور مطاع بننا چاہے تو یاد رکھو کہ وہ ہمارا امام اور مقتدا ہرگز نہیں ہو سکتا- ہمارا مقتدا اور امام وہی ہو سکتا ہے جو ’’و لیکن میفزائے بر مصطفٰےﷺ‘‘~ پر عمل کرنے کی ہدایت کرتا ہو اور غلام احمدﷺ~ ہو- غرض ہر ایک نیکی‘ نیکی تب ہی ہو سکتی ہے جب وہ اولاً اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے نیچے ہو-
یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ )النسائ:۲-(
یہ ایک آیت شریف ہے جس سے ایک سورۃ کا ابتداء ہوتا ہے اور ایسے خطبوں کے وقت اس کا پڑھا جانا مسلمانوں میں مروج ہے- وہ اس آیت کو ضرور پڑھتے ہیں- وجہ یہ ہے کہ ساری سورۃ کی طرف گویا متوجہ کیا گیا ہے جس میں میاں بیوی کے متعلق حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور تفاول کے طور پر اس کی ابتداء کو پڑھتے ہیں تاکہ سعادت مند لوگ ایسے تعلقات پیدا کرنے سے پہلے اور بعد ان امور پر نگاہ کر لیا کریں جو اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں-
وہ تعلق جو میاں بیوی میں پیدا ہوتا ہے بظاہر وہ ایک آن کی بات ہوتی ہے- ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی لڑکی دی اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے لی- بظاہر یہ ایک سیکنڈ کی بات ہے- مگر اس ایک بات سے ساری عمر کے لئے تعلقات کو وابستہ کیا جاتا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں اور جواب دہیوں کا جوا میاں بیوی کی گردن پر رکھا جاتا ہے- اس لئے اس سورۃ کو یٰایھا الناس سے شروع کیا ہے- کوئی اس میں مخصوص نہیں- ساری مخلوق کو مخاطب کیا ہے- مومن‘ مقرب‘ مخلص‘ اصحاب الیمین‘ غرض کوئی ہو کسی کو الگ نہیں کیا‘ بلکہ یٰایھا الناس فرمایا- الناس جو انس سے تعلق رکھتا ہے وہ انسان ہے- انسان جب انس سے تعلق رکھتا ہے تو سارے انسوں کا سرچشمہ میاں بیوی کا تعلق اور نکاح کا انس ہے- اس کے ساتھ اگر ایک اجنبی لڑکی پر فرائض کا بوجھ رکھا گیا ہے تو اجنبی لڑکے پر بھی اس کی ذمہ داریوں کا ایک بوجھ رکھا گیا ہے- اس لئے اس تعلق میں ہاں نازک تعلق میں جو بہت سی نئی ذمہ|داریوں اور فرائض کو پیدا کرتا ہے‘ کامل انس کی ضرورت ہے جس کے بغیر اس بوجھ کا اٹھانا بہت ہی ناگوار اور تلخ ہو جاتا ہے- لیکن جب وہ کامل انس ہو تو رحمت اور فضل انسان کے شامل حال ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں- غرض اس تعلق کی ابتدا انس سے ہونی چاہئے تاکہ دو اجنبی وجود متحد فی الارادت ہو جائیں- اس لئے یٰایھا الناس کہہ کر اس کو شروع فرمایا-
اور دوسرے یہ آیت یٰایھا الناس اتقوا ربکم سے شروع ہوتی ہے- یعنی لوگو! تقویٰ اختیار کرو- تقویٰ عظیم الشان نعمت اور فضل ہے جسے ملے- انسان اپنی ضروریات زندگی میں کیسا مضطرب اور بے قرار ہوتا ہے- خصوصاً رزق کے معاملہ میں- لیکن متقی ایسی جگہ سے رزق پاتا ہے کہ کسی کو تو کیا معلوم ہوتا ہے خود اس کے بھی وہم گمان میں نہیں ہوتا- یرزقہ من حیث لایحتسب )الطلاق:۴( پھر انسان بسا اوقات بہت قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتا ہے- لیکن اللہ تعالیٰ متقی کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے جیسے فرمایا- من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً )الطلاق:۳( انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علوم الہیٰہ پر ہے- کیونکہ جب تک کتاب اللہ کا علم ہی نہ ہو وہ نیکی اور بدی اور احکام رب العالمین سے آگاہی اور اطلاع کیونکر پا سکتا ہے- مگر تقویٰ ایک ایسی کلید ہے کہ کتاب اللہ کے علوم کے دروازے اسی سے کھلتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ متقی کا معلم ہو جاتا ہے- و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۳۸۲( انسان اپنے دشمنوں سے کس قدر حیران ہوتا اور ان سے گھبراتا ہے- لیکن متقی کو کیا خوف؟ اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں-
ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً )الانفال:۳۰-( اللہ تعالیٰ سے دوری اور بعد ساری نامرادیوں کی جڑ اور ناکامیوں کی اصل ہے- مگر متقی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ان اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون )النحل:۱۲۹-( تقویٰ ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے مولیٰ کا محبوب بناتی ہے ان اللہ یحب المتقین )اٰل عمران:۷۷-( تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ متقی کے لئے مکتفی ہو جاتا ہے اور اس سے ولایت ملتی ہے و اللہ ولی المتقین )الجاثیہ:۲۰-( پھر تقویٰ ایسی چیز ہے کہ دعائوں کو قبولیت کے لائق بنا دیتا ہے انما یتقبل اللہ من المتقین )المائدۃ:۲۸( بلکہ اس کے ہر فعل میں قبولیت ہوتی ہے-
غرض تقویٰ جیسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے اور تقویٰ نام ہے اعتقادات صحیحہ‘ اقوال صادقہ‘ اعمال|صالحہ‘ علوم حقہ‘ اخلاق فاضلہ‘ ہمت بلند‘ شجاعت‘ استقلال‘ عفت‘ حلم‘ قناعت‘ صبر کا‘ حسن ظن باللہ‘ تواضع‘ صادقوں کے ساتھ ہونے کا-
پھر یہ تقویٰ اپنے رب کا اختیار کرو- ’’ربکم‘‘ میں بتایا ہے کہ وہ تمہیں کمالات بخشنے والا ہے- ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا ہے- اس کے متقی بنو-
مخلوق کی نظر کا متقی نہیں- اگر انسان مخلوق کی نظر میں متقی بنتا ہے لیکن آسمان پر اس کا نام متقی نہیں تو یاد رکھو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فتویٰ ہے ما ھم بمومنین )البقرۃ:۹-(
ایک غلط خیال عام لوگوں میں پھیلا ہوا ہے- میں چاہتا ہوں کہ اس کو بھی دور کروں اور وہ یہ ہے کہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ دین پر عمل درآمد کرنا انسان کی مقدرت سے باہر ہے اور یہ شریعت گویا کہنے کی ہے کرنے کی نہیں- اس پر عمل نہیں ہو سکتا- یہ بدی عام پھیلی ہوئی ہے اور اس نے بہت حصہ مخلوق کا تباہ کیا ہے- در اصل اس قسم کے حیلے شریروں نے اپنی بدیوں کو چھپانے کے لئے تراشے ہوئے ہیں- مگر میں یقیناً کہتا ہوں کہ یہ بدی اور بدخیالی اللہ تعالیٰ پر سوء ظن سے پیدا ہوئی ہے کہ انسان کہلائے اور کہے کہ شریعت پر پابندی نہیں کر سکتے اور فرائض اور سنن ادا نہیں ہو سکتے- یہ بڑی بدقسمتی ہے- اسی ایک بدی نے قوم کو تباہ کر دیا اور اس نے شریعت کو نعوذ باللہ *** کہہ دیا- یعنی عیسائیوں کی قوم نے شریعت کو بالکل الگ رکھ دیا- یہ شیطانی وسوسہ تھا اور شیطان ان پر غالب آیا- پس ایسی باتوں اور خیالوں سے پرہیز کرو- میں نے ایک ایسے ہی خطبہ میں )یعنی نکاح کے خطبہ میں جو اگلے روز مجھے پڑھنا پڑا اور اسی طرح پر صادق امام کے حضور میں پڑھا( اس امر پر زور دیا تھا )اور یہ میرا ایمان ہے- میرا دل چاہتا ہے کہ اسی طرح ہو اور میں خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے ایسا کرنا چاہتا ہوں( کہ لوگ اپنے امام کی سچی اتباع کریں اور اس کے احکام کی تعمیل کو اپنی خواہشوں پر مقدم کر لیں- بعض بدقسمتوں نے میری ان باتوں کو سن کر یہی نتیجہ نکالا کہ یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں- ان پر عمل کرنا مشکل ہے- میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ خطرناک بدظنی ہے جو ایک مومن کی نسبت کی جاوے- اس کا محاسبہ اللہ تعالیٰ کے حضور دینا پڑے گا-۲~}~
پھر فرمایا- خلقکم من نفس واحدۃ )النسائ:۲( اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک جی سے بنایا اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پیدا کیں- قرآن شریف سے عمدہ اور نیک اولاد کا پیدا ہونا‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کا منطوق معلوم ہوتا ہے- ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو دیکھو کہ خدا نے اسے کیسا برومند کیا‘ جس میں صدہا نبی اور رسول آئے‘ حتیٰ کہ خاتم الرسل بھی اسی میں ہوئے- مگر یہ طیب اور مبارک اولاد کس طرح سے حاصل ہو؟ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ تقویٰ ہے- تقویٰ کے حصول کا یہ ذریعہ ہے کہ انسان اپنے عقائد اور اعمال کا محاسبہ کرے اور اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھے- ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۲( جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے‘ بچ سکو گے- دیکھو کسی عظیم الشان انسان کے سامنے انسان بدی کے ارتکاب کا حوصلہ نہیں کر سکتا- ہر ایک بدی کرنے والا اپنی اس بدی کو مخفی رکھنا چاہتا ہے- پھر جب خدا تعالیٰ کو رقیب اور بصیر مانے گااور اس پر سچا ایمان لائے گا تو ایسے ارتکاب سے بچ جائے گا- غرض تقویٰ ایسی نعمت ہے کہ متقی ذریت طیبہ بھی پا لیتا ہے-
پھر ارشاد ہوا ہے یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱( یہ ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے تعلقات اور عقد کے وقت یہ نصیحت فرماتا ہے- تقویٰ اللہ اختیار کرو اور پکی باتیں کہو- پکی باتیں حاصل ہوتی ہیں کتاب اللہ کو غور کے ساتھ پڑھنے سے‘ سنن اور تعامل کے مطالعہ سے‘ احادیث صحیحہ کے یاد رکھنے سے- یہ باتیں ہیں علوم حقہ کے حاصل کرنے کی- مجھے اس موقعہ پر یہ بھی کہنا ہے کہ بعض لوگ تم میں سے اپنی غلط فہمی سے احادیث کو طالمود کہتے ہیں- یہ ان کی سخت غلطی ہے- انہوں نے ہرگز ہرگز امام کے مطلب کو نہیں سمجھا- کیا ان کو معلوم نہیں کہ حضرت امام اپنی عظیم الشان پیشگوئیاں احادیث سے لیتے ہیں اور اپنے دعاوی پر احادیث سے تمسک کرتے ہیں؟ آپ کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث قرآن شریف کے معارض ہو وہ قابل اعتبار نہیں- کیونکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ راجح کا مقابلہ مرجوح سے نہیں کر سکتے- اس کوآگے بڑھانا اور یہاں تک پہنچانا جہالت ہے- اگر میری بات پر توجہ نہ ہو تو تم خود دریافت کر سکتے ہو- احادیث سے انکار کرنا بڑی بدقسمتی ہے-
حضرت امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا ہے کہ ہمارے لئے تین چیزیں ہیں- قرآن‘ سنت اور حدیث- قرآن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھ کر سنایا تو سنت کے ذریعہ اس پر عمل کر کے دکھا دیا اور پھر حدیث نے اس تعامل کو محفوظ رکھا ہے- غرض حدیث کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے جب تک وہ صریح قرآن شریف کے معارض اور مخالف واقع نہ ہوئی ہو- بھلا دیکھو تو اسی نکاح کے متعلق غور کرو کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی نکاح کرتا ہے تو کیا کیا امور مدنظر رکھتا ہے- گاہے عورت بیاہی جاتی ہے کہ وہ مالدار ہے اور گاہے یہ کہ حسین ہے یا کسی عالی خاندان کی ہے اور بعض اوقات مقابلہ مدنظر ہوتا ہے- مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ علیک بذات الدین تربت یداک )بخاری کتاب النکاح باب اکفاء فی الدین( تاکہ تقویٰ بڑھے- ایک سے زیادہ نکاح بھی اگر کرو تو اس لئے کہ تقویٰ بڑھے- جب تقویٰ مدنظر نہ ہو تو وہ نکاح مفید اور مبارک نہیں ہوتا-
غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱( انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گاہے مومن اور گاہے کافر بنا دیتی ہے- معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے اس لئے مولیٰ کریم فرماتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو- خصوصاً نکاحوں کے معاملہ میں اس کا فائدہ ہوتا ہے- یصلح لکم )الاحزاب:۷۲( تاکہ تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جاویں-
صدہا لوگ ان معاملات نکاح میں تقویٰ اورخدا ترسی سے کام نہیں لیتے اور الٰہی حکم کی قدر و عظمت ان کو مدنظر نہیں ہوتی بلکہ وہ اس تراش خراش میں رہتے ہیں کہ یہ مقابلہ ہو یا شہوات کو مقدم کرتے ہیں- لیکن جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے-
بات یہ ہے جو اللہ رسول کا مطیع ہوتا ہے وہ بڑا کامیاب ہے- اس لئے یہ بات ہر ایک کو مدنظر رکھنی چاہئے-
پھر فرمایا-:
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد )الحشر:۱۹( پھر تقویٰ کی تاکید اس تیسری آیت میں بھی ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا- جو کام ہم کرتے ہیں‘ ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں- اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہوگا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا- لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے‘ اس کو مفید اور مثمر بثمرات حسنہ بنا دیتا ہے-
غرض مختصر یہ ہے کہ متقی بنو اور اللہ کا خوف کرو- تمہارے اعمال میں تکبر‘ کذب اور دوسرے کو ایذا نہ ہو- ان شرائط کی پوری پابندی کرو جو بیعت کے لئے بیان کی گئی ہیں اور پھر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور استغفار کرتے رہو اور لاحول پڑھ کر دوسری قوموں کے لئے نمونہ بنو-
اس کے بعد میں اللہ کے فضل و کرم پر بھروسہ کر کے اس ایجاب و قبول کا اقرار کراتا ہوں- میاں بشیر احمد صاحب جو اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اطلاع کے موافق دنیا میں آئے ہیں‘ ان کا نکاح مولوی غلام حسین صاحب کی لڑکی سے جن کا نام سرور سلطان ہے )اللہ اس کے نام میں بڑی برکت نازل کرے آمین- ایک ہزار مہر کے قرار پایا ہے اور میں دعا کرتا ہوں اور میری دعائوں سے بڑھ کر ہمارے امام کی دعائیں اس کے حق میں ہوں کہ جب اس کی ساس نور کے بچے جننے والی ہوئی ہے ایسے ہی اور برکت کا وہ باعث ہو- حضور خصوصیت سے اس وقت دعا کریں کہ ہمارے گھروں کی عورتوں میں بخصوصیت اصلاح ہو- گو ان کی بدقسمتی ہے کہ ان میں سے ان کی جنس سے کوئی نبی یا رسول نہیں آیا اور ہم میں باہم اتحاد اور محبت ہو اور وہ بات پیدا ہو جو حضور چاہتے ہیں- خدا آپ کی دعائیں ہمارے حق میں منظور کرے- آمین-۳~}~
۱~}~ ) الحکم جلد۶ نمبر۳۳ ۔۔۔ ۱۷ / ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰ تا ۱۲ (
۲~}~ ) الحکم جلد۶ نمبر۳۹ ۔۔۔ ۳۱ / اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۴‘۱۵(
۳~}~ ) الحکم جلد۶ نمبر۴۱ ۔۔۔ ۱۷ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۳ (
* - * - * - *
‏KH1.14
خطبات|نور خطبات|نور
جنوری ۱۹۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ~ن۲~ الوداع
)ایڈیٹر ’’الحکم‘‘ کے الفاظ میں(و من یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ و لقد اصطفینٰہ فی الدنیا و انہ فی الاٰخرۃ لمن الصٰلحین )البقرۃ:۱۳۱(
‏ils] g[ta
ان آیتوں میں‘ ان کلمات شریفہ میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کی راہ پر چلنے کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ انسان اس قسم کا ہے جس کو ہر مذہب و ملت کے لوگ عموماً یا غالباً عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- وہ کون؟ ابوالانبیاء حنفاء کا باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام- یہ ابراہیمؑ وہ ہے جس کی نسبت اس سے پہلے فرمایا- و اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمٰت فاتمھن )البقرۃ:۱۲۵( کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں کے بدلے انعام دینا چاہا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا-
اللہ تعالیٰ جب انسان کو سچے علوم عطا کرتا ہے اور اس کا ان علوم کے مطابق عملدرآمد ہو پھر اس میں قوت مقناطیسی پیدا ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا نمونہ ہو کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے- یہ درجہ اس کو تب ملتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ رنج میں‘ راحت میں‘ عسر میں‘ یسر میں‘ باساء میں‘ ضراء میں‘ غرض ہر حالت میں قدم آگے بڑھانے والا ہو اور اللہ جل شانہ کی وفاداری میں چست ہو- اس کو حاجتیں پیش آتی ہیں مگر وہ اس کے ایمان کو ہر حال میں بڑھانے والی ہوتی ہیں کیونکہ بعض وقت حاجت پیش آتی ہے تو دعا کا دروازہ اس پر کھلتا ہے اور توجہ الی اللہ اور تضرع الی اللہ کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور اس طرح پر وہ حاجتیں مال|و|جان کی ہوں‘ عزت و آبرو کی ہوں‘ غرض دنیا کی ہوں یا دین کی‘ اس کے تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی ہیں- کیونکہ جب وہ دعائیں کرتا ہے اور ایک سوز و رقت اور دلگداز طبیعت سے باب اللہ پر گرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو باب شکر اس پر کھلتا ہے اور پھر وہ سجدات شکر بجا لا کر ازدیادنعمت کا وارث ہوتا ہے جو ثمرات شکر میں ہیں- اور اگر کسی وقت بظاہر ناکامی ہوتی ہے تو پھر صبر کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور رضا بالقضائکے ثمرات لینے کو تیار ہوتا ہے- اسی طرح یہ حاجتیں جب کسی بدبخت انسان کو آتی ہیں اور وہ مالی‘ جانی یا اور مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ حاجتیں اور بھی اس کی دوری اور مہجوری کا باعث ہو جاتی ہیں- کیونکہ وہ بے قرار مضطرب ہو کر قلق کرتا اور ناامید اور مایوس ہو کر مخلوق کے دروازہ پر گرتا ہے- اس وقت اللہ تعالیٰ سے ایسا بیگانہ اور ناآشنا ہوتا ہے کہ ہر قسم کے فریب|و|دغا سے کام لینا چاہتا ہے- اگر کبھی کامیاب ہو جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ذکر اور اس کی حمد و ستائش کا موقع نہیں ملتا- بلکہ وہ اپنی کرتوتوں اور فریب و دغا اور چالبازیوں کی تعریف کرتا اور شیخی اور تکبر میں ترقی کرتا اور اپنیحیل و تجاویز پر عجب و ناز کرتا ہے- اگر ناکام ہوتا ہے تورضا بالقضائکے بدلے اس کی مقادیر کو کوستا اور بری نگاہ سے دیکھتا اور اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے- غرض یہ حاجتیں تو سب کو ہیں اور انبیائ‘ اولیاء و صدیقوں اور تمام منعم علیہ گروہ کے لئے بھی مقدر ہوتی ہیں مگر سعید الفطرت کے لئے وہ تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی اور اس کو مزید انعامات کا وارث بنا دیتی ہیں اور شقی مضطرب ہو کر قلق کرتا ہے اور ناکام ہو کر سخط علی اللہ کر بیٹھتا ہے- کامیابی پر وہ مبتلا فی الشرک ہو جاتا ہے اور ناکامی پر مایوس-
مشکلات اور حوائج کیوں آتے ہیں؟ ان میں باریک در باریک مصالح الہیٰہ ہوتے ہیں- کیونکہ مشکلات میں وسائط کا مہیا کرنا تو ضروری ہوتا ہے- اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ من یشفع شفاعۃ حسنۃ )النسائ:۸۶( کا ثواب لینا بھی کیسی نعمت الٰہی ہے اور پھر ان میں یہ حکمت ہوتی ہے کہ ان خدمات کے ثمرات‘ مساعی جمیلہ‘ ان کی فکر اور محنت پر اللہ تعالیٰ کو انعام دینا منظور ہوتا ہے اور اس طرح پر نہ سنن|الٰہی باطل ہوتے ہیں اور نہ سلسلہ علم ظاہری کا باطل ہوتا ہے-
غرض سچا اور پکا مومن وہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت امام نے شرائط بیعت میں لکھا ہے کہ رنج میں‘ راحت میں‘ عسر میں‘ یسر میں قدم آگے بڑھا وے- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان امور کا پیش آنا ضروری ہے تو ہر ایک حالت میں فرمانبردار انسان کو چاہئے کہ ترقی کرتار ہے اور دعائوں کی طرف توجہ کرے تا کامیابی کی راہیں اسے مل جائیں- اور یہ ساری باتیں ابراہیمی ملت کے اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں-
ابراہیمی ملت کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا اسلم تو فرمانبردار ہو جا- انہوں نے کچھ نہیں پوچھا‘ یہی کہا اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲-(
اسلام کسی دعوے کا نام نہیں- بلکہ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچا نمونہ ہو- صلح و آشتی سے کام لے- فرمانبردار ہو- سارے اعضا قلب‘ زبان‘ جوارح‘ اعمال و اموال انقیاد الٰہی میں لگ جائیں- منہ سے مسلمان کہلا لینا آسان ہے- شرک‘ حرص‘ طمع اور جھوٹ سے گریز نہیں- زنا‘ چوری‘ غفلت‘ کنبہ پروری اور ایذارسانی سے دریغ نہیں- پھر کہتا ہے میں فرمانبردار ہوں- یہ دعویٰ غلط ہے- کیسا عجیب زمانہ تھا جب یہ دعویٰ کہ نحن لہ مخلصون )البقرۃ:۱۴۰‘( نحن لہ عابدون ]01 )[pالبقرۃ:۱۳۹( علی|رئوس الاشہاد کئے جاتے تھے- ایسے پاک مدعیوں کی طرح مومن بننا چاہئے جن کی تصدیق میں خدا نے بھی فرمایا کہ ہاں‘ سچ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے مخلص عابد ہیں- مومن کو اسلم کہنے کے ساتھ ہی اسلمت کہنے کے لئے تیار رہنا چاہئے- یہی نکتہ معرفت کا ہے جو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴( کے مصداق ہو جاتے ہیں- بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مدارج تحقیقات پر پہنچے ہوئے ہیں- اس غلط خیال نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے- اسی سے مشرکوں نے استدلال کر لیا بل نتبع ما الفینا علیہ اٰباء نا )البقرہ:۱۷۱-(غرض ایک راستباز کی شناخت کے لئے کبھی کوئی مشکل یہود یا نصاریٰ یا منکرین امام پر نہ آتی اگر وہ سمجھتے کہ پاک رسول نے کیا دعویٰ کیا-
قل ما کنت بدعاً من الرسل )الاحقاف:۱۰( ان کو کہہ دو کہ میں نے کوئی نیادعویٰ نہیں کیا- نئے رسول کے لئے مشکلات ہوتی ہیں لیکن جس سے پہلے اور رسول اور نواب اور ملوک اور راست باز گزر چکے ہیں اس کو کوئی مشکلات نہیں ہوتیں- جن ذرائع سے پہلے راستبازوں کو شناخت کیا ہے وہی ذریعے اس کی شناخت کے لئے کافی اور حجت ہیں- تعلیم میں مقابلہ کر لے- اس کا چال چلن دیکھ لے کہ پہلے راستبازوں جیسا ہے یا نہیں- دشمن کو دیکھ لے کہ اسی رنگ کے ہیں یا نہیں- آدمی کو ایک آسان راستہ نظر آتا ہے- مگر خدا کے فضل سے مجھے محض اللہ ہی کے فضل سے اس آیت قل ما کنت بدعاً من الرسل )الاحقاف:۱۰( کے بعد راستباز کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں پڑی- مگر بات یہ ہے کہ تعلیم|الٰہی کے بغیر یہ سمجھ میں نہیں آ سکتی اور تعلیم الٰہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون ٹھہرا دیا ہے- و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۲۸۳-(
میں پھر کہتا ہوں کہ ملت ابراہیم بڑی عجیب راحت بخش چیز ہے- وہ ملت‘ وہ سیرت کیا ہے؟ اسلم فرمانبردار ہو کر چلو- nsk] gat[ قال اسلمت لرب العالمین پھر اس ملت اور سیرت کو چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شفابخش‘ رحمت اور نور پایا تھا اس لئے نہ صرف اپنے ہی لئے اس کو پسند کیا بلکہ وصیٰ بھا ابراھیم )البقرۃ:۱۳۳( اسی سیرت اور ملت کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو وصیت کی- ایک دانا انسان اولاد کے لئے کوئی ضرر رساں چیز نہیں چاہتا- مکانوں میں ان کے لئے مضبوطی‘ خوبصورتی اور دیگر لوازم کی کیسی سعی کرتا ہے اور کیوں؟ اولاد کی بہتری کے خیال سے یہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ اولاد کی بہتری چاہتا ہے- پھر ابراہیمؑ جیسا اولوالعزم انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا- الذی وفیٰ )النجم:۳۸( اس نے اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کی ہوگی؟ اور وہ خواہش اس وصیت ابراہیمی سے ملتی ہے اور اس دعا سے اس کا پتہ ملتا ہے جو انہوں نے کی ربنا و ابعث فیھم رسولاً منھم )البقرۃ:۱۳۰-( اس وصیت پر غور کر کے ہمیں اندازہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے اور کیا ارادہ رکھتے ہیں؟ الغرض یہی باتیں تھیں یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہونا اور اس کے احکام پر کار بند ہونا- اسی کی وصیت اپنی اولاد کو کی اور اس کے پوتے کے بیٹے کریم ابن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق کی بھی یہی ملت تھی- اب تم سب اپنے اندر ہی اندر سوچو کہ کیا خواہش اور ارادے ہیں-
میں نے ایک شخص کو کہا کہ قرآن پڑھا کرو- اس نے کہا کہ میری شان کے موافق کوئی قرآن مجھے دیدو- میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں اس نے قرآن پر خرچ کرنے سے مضائقہ کیا- علی العموم لوگ یہی چاہتے ہیں کہ قرآن مفت مل جاوے اور دیگر اخراجات میں خواہ کسی قدر بھی روپیہ خرچ کریں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی طرف توجہ ہی نہیں- دیکھو ہمارے امام کو الہام ہو چکا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ سورج کے ہوتے سورج کے وجود پر- وہ کہتا ہے کہ جن کی خواہش اور محبت قرآن کریم سے نہ ہو گی ان کی اولاد گندہ خراب و خستہ ہو گی- اب تم سب اپنی اپنی جگہ دیکھو کہ بیاہ شادی اور معاشرت کے وقت کیا کیا خواہشیں ہوتی ہیں- ایک طرف ان کو رکھو اور دوسری طرف اس پیغام الٰہی پر غور کرو جو امام کی معرفت ملا ہے- پھر ابراہیمؑ کا پوتا یعقوبؑ اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کہتا ہے یٰبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین )البقرہ:۱۳۳( اے میری اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک دین برگزیدہ کیا ہے- فلاتموتن الا و انتم مسلمون )البقرۃ:۱۳۳( پس تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تمہاری موت نہ آوے مگر ایسے رنگ میں کہ تم مسلمان ہو- اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہو-
انسان کو موت کا وقت معلوم نہیں اور پتہ نہیں اس وقت حواس درست ہوں یا نہ ہوں اور پھر یہ امر اختیاری نہیں‘ اس لئے یہ عقدہ کس طرح حل ہو؟ ایک صحیح حدیث نے اس مسئلہ میں میری رہنمائی کی ہے- اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب عمل کرتا ہے تو فرشتے اس کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیں‘ سعادت کے اعمال بھی اور شقاوت کے اعمال بھی اور موت کے قریب ان کی میزان کی جاتی ہے اور پھر وہ مقادیر الہیٰہ سبقت کرتی ہیں- اگر وہ لوگوں کی نظر میں نیک تھا‘ پر اللہ سے معاملہ صاف نہیں یا اللہ سے معاملہ صاف ہے مگر لوگوں کی نگاہ میں نہیں تو وہ کتاب باعث ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ اللہ کی
رضا یا سخط پر جیسی صورت ہو‘ ہو- پس ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ چاہئے- ایک صحابی نے ہماری سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جاہلیت میں میں نے کچھ صدقات کئے تھے- کیا وہ بابرکات ہوں گے؟ ارشاد ہوا کہ اسلمت ما اسلفت یہ اسلام ان کی ہی برکت سے تجھے نصیب ہوا ہے- موت علی الاسلام اس طرح نصیب ہو سکتی ہے کہ انسان ہر روز محاسبہ کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف کرے- اگر تعلقات صحیحہ نہ ہوں تو توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں- ام کنتم شھداء )البقرہ:۱۳۴( تم تو موجود تھے- تمہارے اسلاف گواہی دیتے ہیں کہ یعقوبؑ نے آخر وقت کیا ارشاد کیا‘ کس کی اطاعت کرو گے؟ انہوں نے کہا نعبد الٰھک )البقرہ:۱۳۴( ہم اللہ کے فرمانبردار ہوں گے جو تمہارا اور اسحاقؑ اور ابراہیمؑ کا معبود تھا اور وہ ایک ہی تھا- و نحن لہ مسلمون )البقرہ:۱۳۴( ہم ہمیشہ اسی کے فرمانبردار رہیں گے- پس یہ حق وصیت کا ہے اور تمام وعظوں کا عطر اور اصل مقصد یہی ہے جو تمہارے سامنے پیش کیا ہے اور یہ وصیت ہے اس شخص کی جو ابوالانبیاء اور ابوالحنفاء ہے-
اور اسی کی وصیت کو میں نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے- پس تم اپنے کھانے پینے‘ لباس‘ دوستی‘ محبت‘ رنج‘ راحت‘ عسر‘ یسر‘ افلاس‘ دولتمندی‘ صحت اور مرض‘ مقدمات و صلح میں اس اصول کو مدنظر رکھو کہ اللہ کی فرمانبرداری سے کوئی قدم باہر نہ ہو- پس یہ وصیت تمام وصیتوں کی ماں ہے- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ ہر حال میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری مدنظر ہو- اور یہ ہو نہیں سکتی جب اللہ|تعالیٰ سے بغاوت ہو- اور یہ بھی بغاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک کو بڑا بناتا ہے اور اس کو برگزیدہ کرتا ہے مگر یہ اس کی مخالفت کرتا اور اس سے انکار کرتا ہے- برہموئوں نے اسی قسم کا دعویٰ کیا ہے جو وہ رسالت|ونبوت کے منکر ہیں- یہ بغاوت ہے- اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ مطاع ہو اور وہ گویا ارادہ الٰہی کا دشمن اور باغی ہے- پس اھدنا الصراط المستقیم )الفاتحہ:۶( کی دعا کرو- علوم پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو- رنج میں‘ راحت میں اور عسر‘ یسر میں قدم آگے بڑھائو-
‏]sli [tagخطبہ ثانی
ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ و ینھیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون )النحل:۹۱(
اس آیت میں بڑے حکم ہیں- پہلا حکم عدل کا ہے- ایک عدل و انصاف بندوں کے ساتھ ہے- دیکھو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہم سے دغا فریب کرے یا ہمارا نوکر ہو تو وہ ہماری خلاف ورزی کرے- پس ہم کو بھی لازم ہے کہ اگر ہم کسی کے ساتھ خادمانہ تعلق رکھتے ہیں تو اپنے مخدوم و محسن کی خلاف ورزی نہ کریں- اپنے فرائض منصبی کو ادا کریں اور کسی سے کسی قسم کا مکروفریب اور دغا نہ کریں- یہی عدل ہے- ہر چہ بر خود نہ پسندی بر دیگراں مپسند-
یہ عدل باہم مخلوق کے ساتھ ہے- اور پھر جیسے ہم اپنے محسنوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو محسنوں کا محسن اور مربیوں کا مربی اور رب العالمین ہے اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل کو ملحوظ رکھیں- اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اس کا ند اور مقابل تجویز نہ کریں-
اس کے بعد دوسرا حکم احسان کا ہے- مخلوق کے ساتھ یہ کہ نیکی کے بدلے نیکی کرتے ہیں اس سے بڑھ کر سلوک کریں- اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ عبادت کے وقت ہماری یہ حالت ہو کہ ہم گو یا اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو یقین ہو کہ وہ ہم کو دیکھتا ہے-
پھر تیسرا حکم ایتاء ذی القربیٰ کا ہے- ذی القربیٰ کے ساتھ تعلق اور سلوک انسان کا فطری کام ہے جیسے ماں باپ بھائی بہن کے لئے اپنے دل میں جوش پاتا ہے اسی طرح اللہ کی فرمانبرداری میں متوالا ہو- کوئی غرض مدنظر نہ ہو- گویا محبت ذاتی کے طور پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہو-
پھر چوتھا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے ہر قسم کی بے حیائیوں‘ نافرمانیوں اور دوسرے کو دکھ دینے والی باتوں سے اور ان بغاوتوں سے جو اللہ جل شانہ یا حکام یا بزرگوں سے ہوں اور آخر میں یہ ہے یعظکم لعلکم تذکرون اللہ تعالیٰ تمہیں وعظ کرتا ہے- غرض اور منشاء الٰہی یہ ہے کہ تم اس کو یاد رکھو- دو قسم کے واعظ ہوتے ہیں اور دو ہی قسم کے سننے والے- واعظ کی دو قسمیں تو یہ ہیں کہ کچھ پیسے مل جاویں اور یا مدح سرائی ہو کہ عمدہ بولنے والا ہے- خدا کا شکر ہے کہ تمہارے وعظ میں یہ دونوں باتیں نہیں بلکہ وہ محض نصح کے لئے کہتا ہے جو کہتا ہے- اور سننے والوں میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اس وقت کچھ مزہ آتا ہے اور پھر یاد کچھ نہیں رہتا- دوسرے بالکل کورے کارے ہوتے ہیں- پس تم اس قسم کے سننے والے نہ بنو بلکہ وعظ کی اس غرض کو ملحوظ رکھو لعلکم تذکرون - اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے- آمین
) الحکم جلد۷ نمبر۲ ۔۔۔۔۔ ۱۷ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱ تا ۱۳(
* * * *

جنوری ۱۹۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الفطر
لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی )البقرۃ:۲۵۷(
دین کے معاملہ میں جبر نہیں‘ وہ کھلی چیز ہے- رشد اور غی الگ الگ چیزیں ہیں- رشد کے اختیار کرنے اور غی کے چھوڑنے میں کسی اکراہ کی ضرورت نہیں- اس آیت میں تین لفظ ہیں ’’دین-‘‘ ’’رشد-‘‘ اور’’غی-‘‘
الدین
اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جو ’’دین‘‘ کی توضیح اور تفسیر فرمائی ہے وہ یہ ہے ان الدین عند اللٰٰہ الاسلام )اٰل عمران:۲۰( اللہ تعالیٰ کے حضور ’’دین‘‘ کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟ الاسلام! اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اللہ کا فرمانبردار ہو جائے - اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لے اور اس پر روح اور راستی سے عمل درآمد کرے - دین کے متعلق جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور سوال کیا ہے اور آپﷺ~ نے صحابہ کرام کو بلکہ ہم کو آگاہ کیا ہے کہ یہ جبرائیل تھا- اتاکم لیعلمکم دینکم )صحیح مسلم کتاب الایمان-( پس دین کی حقیقت اور اس کا صحیح اور سچا مفہوم وہ ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت بیان فرمایا- الاسلام کے معنی یہ ہیں سر رکھ دینا- جان سے‘ دل سے‘ اعضاء سے‘ مال سے غرض ہر پہلو اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری کرنا-
دین کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کی کامل اطاعت‘ فرمان|پذیری اور وفاداری کا اظہار کر سکتے ہیں اور پھر ان کے وراء الوریٰ‘ اندر ہی اندر قویٰ پر حکمرانی کر سکتے ہیں اور ان کو الٰہی فرمانبرداری میں لگا سکتے ہیں- غرض دین کی اصل حقیقت جو قرآن شریف نے بتائی ہے وہ مختصر الفاظ میں کامل وفاداری‘ سچی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے-
دین کا پہلا رکن ایمان
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبرائیل کے توسط سے جو کچھ صحابہ کو اور ہم کو سکھایا ہے وہ ان سوالات میں بیان ہوا ہے جو صحابہ کی موجودگی میں جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کئے اور جن کی اصل غرض لیعلمکم دینکم تھی- ان میں سے پہلا یہ ہے- ما الایمان ؟ یا رسول اللہ! ایمان کس چیز کا نام ہے؟ فرمایا- ان تومن باللہ ایمان کی عظیم الشان اور پہلی جزو ایمان باللہ ہے- اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ ایمان کا سرچشمہ اور اس کی ابتدا اللہ پر یقین کرنے سے شروع ہوتی ہے- ایمان|باللہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کو جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسماء حسنیٰ کا مجموعہ اور مسمی اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ یقین کرنا اور اس کے سوا کسی شے سے کوئی امید و بیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کا ند اور شریک نہ ماننا‘ یہ ایمان باللہ ہے- جب انسان اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف یقین کرتا ہے تو ایسے خدا سے وہی قرب اور تعلق پیدا کر سکتا ہے جو خوبیوں سے موصوف اور بدیوں سے پاک ہو گا- پس جس جس قدر انسان فضائل کو حاصل کرتا اور رذائل کو ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے قرب کے مدارج اور مراتب کو بڑھاتا اور اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتا جاتا ہے کیونکہ پاک کو گندے کے ساتھ قرب کی نسبت نہیں ہو سکتی اور جوں جوں رذائل کی طرف جھکتا اور فضائل سے ہٹتا ہے اسی|قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو کر اس کے فیضان ولایت سے دور اور مہجور ہوتا جاتا ہے-
حصول قرب الٰہی کا ذریعہ
یہ ایک قابل غور اصل ہے اور اس کو کبھی بھی ہاتھ سے دینا نہیں چاہئے- صفات الٰہی پر غور کرو اور وہی صفات اپنے اندر پیدا کرو- نتیجہ یہ ہو گا کہ قرب الٰہی کی راہ قریب ہوتی جائے گی- اور اس کی قدوسیت اور سبحانیت تمہاری پاکیزگی اور طہارت کو اپنی طرف جذب کرے گی- بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جو خود ناپاک اور گندی زیست رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ کیوں ہم کو قرب الٰہی حاصل نہیں ہوتا؟ وہ نادان نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں کو قرب الٰہی کیونکر حاصل ہو جو اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا نہیں کرتے- قدوس خدا ایک ناپاک انسان سے کیسے تعلق پیدا کرے؟
ایمان بالملائکہ کی فلاسفی
ایمان باللہ کے بعد دوسری جزو ایمان کی ایمان بالملائکہ ہے- ایمان بالملائکہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے یوں سمجھ دی ہے کہ انسان کے دل پر ہر وقت ملک اور شیطان نظر رکھتے ہیں- اور یہ امر ایسا واضح اور صاف ہے کہ اگر غور کرنے والی فطرت اور طبیعت رکھنے والا انسان ہو تو بہت جلد اس کو سمجھ لیتا ہے- بلکہ موٹی عقل کے آدمی بھی معلوم کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح پر کہ بعض وقت یکایک بیٹھے بٹھائے انسان کے دل میں نیکی کی تحریک ہوتی ہے یہاں تک کہ ایسے وقت بھی تحریک ہو جاتی ہے جبکہ وہ کسی بڑی بدی اور بدکاری میں مصروف ہو- میں نے ان امور پر مدتوں غور کی اور سوچا ہے اور ہر ایک شخص اپنے دل کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں سے آگاہ ہے- وہ دیکھتا ہے کہ کبھی اندر ہی اندر کسی خطرناک بدی کی تحریک ہو رہی ہے اور پھر محسوس کرتا ہے کہ معاً دل میں رقت اور نیکی کی تحریک کا اثر پاتا ہے- یہ تحریکات نیک یا بد جو ہوتی ہیں بدوں کسی محرک کے تو ہو نہیں سکتی ہیں- پس یہ وہی بات ہے جو میں نے ابھی کہی ہے کہ انسان کے دل کی طرف ملائکہ اور شیاطین نظر رکھتے ہیں- پس ایمان بالملائکہ کی اصل غرض یہ ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر جو ملائکہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے کبھی کسل و کاہلی سے کام نہ لے اور فوراً اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جائے اور توجہ کرے- اگر ایسا نہ کرے گا تو و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ )الانفال:۲۵( کا مصداق ہو کر پھر نیکی کی توفیق سے بتدریج محروم ہو جائے گا-
‏]head20r [tagقرب الٰہی کا دوسرا ذریعہ
یہ پکی بات ہے کہ جب انسان نیکی کی تحریکوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر وہ طاقت‘ وقت‘ فرصت اور موقع نہیں ملتا- اگر انسان اس وقت متوجہ ہو جاوے تو معاً نیک خیال کی تحریک ہوتی ہے- چونکہ اس خواہش کا محرک محض فضل الٰہی سے ملک ہوتا ہے جب انسان اس کی تحریک پر کار بند ہوتا ہے تو پھر اس فرشتہ اور اس کی جماعت کا تعلق بڑھتا ہے اور پھر اس جماعت سے اعلیٰ ملائکہ کا تعلق بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے-
ایک حدیث میں صاف آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل کو آگاہ کرتا ہے تو وہ جبرائیل اور اس کی جماعت کا محبوب ہوتا ہے- اسی طرح پر درجہ بدرجہ وہ محبوب اور مقبول ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین میں مقبول ہو جاتا ہے- یہ حدیث اسی اصل اور راز کی حل کرنے والی ہے جو میں نے بیان کیا ہے- ایمان بالملائکہ کی حقیقت پر غور نہیں کی گئی اور اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیا جاتا ہے- یاد رکھو کہ ملائکہ کی پاک تحریکوں پر کاربند ہونے سے نیکیوں میں ترقی ہوتی ہے یہاں تک کہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب اور دنیا میں قبول حاصل کرتا ہے- اسی طرح پر جیسے نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے میں نے کہا ہے کہ بدیوں کی بھی تحریک ہوتی ہے- اگر انسان اس وقت تعوذ و استغفار سے کام نہ لے‘ دعائیں نہ مانگے‘ لاحول نہ پڑھے تو بدی کی تحریک اپنا اثر کرتی ہے اور بدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے- پس جیسے یہ ضروری ہے کہ ہر نیک تحریک کے ہوتے ہی اس پر کار بند ہونے کی سعی کرے اور سستی اور کاہلی سے کام نہ لے‘ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر بدتحریک پر فی الفور استغفار کرے‘ لاحول پڑھے- درود شریف اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور دعائیں مانگے-
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایمان باللہ کے بعد ایمان بالملائکہ کو کیوں رکھا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری سچائیوں اور پاکیزگیوں کا سرچشمہ تو جناب الٰہی ہی ہے- مگر اللہ تعالیٰ کے پاک ارادے ملائکہ پر جلوہ گری کرتے ہیں اور ملائکہ سے پاک تحریکیں ہوتی ہیں- نیکی کی ان تحریکوں کا ذریعہ دوسرے درجہ پر چونکہ ملائکہ ہیں اس لئے ایمان باللہ کے بعد اس کو رکھا-
ملائکہ کے وجود پر زیادہ بحث کی اس وقت حاجت نہیں- یہ تحریکیں ہی ملائکہ کے وجود کو ثابت کر رہی ہیں- اس کے علاوہ لاکھوں لاکھ مخلوق الٰہی ایسی ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں اور نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم ہے-
اس کے بعد تیسرا جزو ایمان کا ایمان بالکتب ہے- براہ راست مکالمہ اول فضل ہے پھر ملائکہ کی تحریک پر عمل کرنا اس کے قرب کو بڑھاتا ہے- ان کے بعد کتاب اللہ کے ماننے کا مرتبہ ہے- کتاب اللہ پر ایمان بھی اللہ کے فضل اور ملائکہ ہی کی تحریک سے ہوتا ہے- اللہ کی کتاب پر عمل درآمد جو سچے ایمان کا مفہوم|اصلی ہے‘ چاہتا ہے محنت اور جہاد- چنانچہ فرمایا- و الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا )العنکبوت:۷۰( یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ اور سعی کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں- یہ کیسی سچی اور صاف بات ہے- میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختلاف کے وقت انسان مجاہدات سے کام نہیں لیتا-
کیوں ایسے وقت انسان دبدھا اور تردد میں پڑتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک کچھ فتویٰ دیتا ہے اور دوسرا کچھ تو وہ گھبرا جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا- کاش وہ جاھدوا فینا کا پابند ہوتا تو اس پر سچائی کی اصل حقیقت کھل جاتی- مجاہدہ کے ساتھ ایک اور شرط بھی ہے‘ وہ تقویٰ کی شرط ہے- تقویٰ کلام اللہ کے لئے معلم کا کام دیتاہے و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۲۸۳-( اللہ کی تعلیم تقویٰ پر منحصر ہے اور اس کی راہ کا حصول جہاد پر- جہاد سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور کوشش ہے- اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقویٰ اللہ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴-(کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے- خواہ کسی قسم کا علم ہو‘ وجدان کا‘ سائنس کا‘ صرف و نحو یا کلام یا اور علوم‘ غرض کچھ ہی ہو انسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے-
راستباز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بجھ سکتی بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے- اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان اعلم باللہ- اتقیٰ للٰہ- اخشیٰ للٰہ جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سچے علوم‘ معرفت‘ سچے بیان اور عمل درآمد میں کامل تھا- اس سے بڑھ کر اعلم‘ اتقیٰ اور اخشیٰ کوئی نہیں- پھر بھی اس امام المتقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قل رب زدنی علماً- )طٰہٰ:۱۱۵( اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقہ کے لئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی جس قدر وہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرے گا- جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بجھا ہوا محسوس کرے اور فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴( کے آثار پائے اس کو استغفار اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہے جو اس کے لئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے-
چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے انت اور اس کے مراتب و درجات بے انتہا ہیں پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے- اس لئے اسے واجب ہے کہ اللہ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا متبع ہو کر کتاب اللہ کے سمجھنے میں چست و چالاک ہو- اور سعی اور مجاہدہ کرے- تقویٰ اختیار کرے تا سچے علوم کے دروازے اس پر کھلیں-
غرض کتاب اللہ پر ایمان تب پیدا ہو گا جب اس کا علم ہو گا اور علم منحصر ہے مجاہدہ اور تقویٰ پر اور فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴( سے الگ ہونے پر-
ایمان بالرسالت
اس کے بعد چوتھا رکن ایمان کا ایمان بالرسول ہے- بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں ڈھیر کتابیں ہیں- پرانے لوگوں کی یادداشتیں ہیں- ہم نیکی اور بدی کو سمجھتے ہیں- کسی مامور و مرسل کی کیا ضرورت ہے؟ ۱~}~
یہ لوگ اپنے مخازن علوم کو کافی سمجھتے ہیں اور خطرناک جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور باغی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے- اللہ تعالیٰ ہی سے تو وہ مقابلہ کرتے ہیں- جب اللہ تعالیٰ ایک انسان کو معظم و مکرم اور مطاع بنانا چاہتا ہے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ رضاء الٰہی کو مقدم کرے اور اس کو اپنا مطاع سمجھے- ارادہ الٰہی کو کوئی چیز روک نہیں سکتی- اس کے مقابلہ میں تو جو آئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا- پس جو خلاف ورزی کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ میرے علوم کے سامنے اس کی احتیاج نہیں وہ اس تعظیم‘ مکرمت‘ اعزاز میں جو اس مطاع‘ مکرم و معظم کے متبعین کو ملتا ہے حصہ دار نہیں ہوتا بلکہ محروم رہ جاتا ہے- خواہ ایسا انسان اپنے طور پر کتنی ہی نیکیاں کرتا ہو مگر ایک انسان کی مخالفت اور خلاف ورزی سے اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم|الشان منشاء کے خلاف کرتا ہے- اس پر بغاوت کا الزام ہے- دنیوی گورنمنٹوں کے نظام میں بھی یہی قانون ہے- ایک بھلامانس آدمی جو کبھی بدمعاملگی نہیں کرتا- چوری اور رہزنی اس کا کام نہیں- تاجر ہے تو چونگی کا محصول اور دوسرے ضروری محاصل کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرتا- زمیندار ہے تو وقت پر لگان ادا کرتا ہے- لیکن اگر وہ یہ کہے کہ بادشاہ کی ضرورت نہیں اور اس کے اعزاز و اکرام میں کمی کرے تو یہ شریر اور باغی قرار دیا جاوے گا-
اسی طرح پر ماموروں کی مخالفت خطرناک گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور ہو سکتا ہے-
ابلیس نے یہی گناہ کیا تھا- انبیاء علیہم السلام کے حضور شیاطین بہت دھوکے دیتے ہیں- میرے نزدیک وہ لوگ بڑے ہی بدبخت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ذرہ ذرہ اس پر *** بھیجتا ہے- جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ معزز و مکرم اور مطاع ہو تو اس کی مخالفت کرنے والا تباہ نہ ہو تو کیا ہو- یہی سر ہے جو انبیاء و مرسل اور مامورین کے مخالف ہمیشہ تباہ ہوئے ہیں- وہ جرم بغاوت کے مجرم ہوتے ہیں-
پس کتابوں کے بعد رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ انسان متکبر ہو جاتا ہے اور پہلا گناہ دین میں خلیفت اللہ کے مقابل یہی تھا ابیٰ و استکبر )البقرۃ:۳۵-( اس میں شک نہیں کہ سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں- اچھے بھی کرتے ہیں اور برے بھی‘ مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور برے نہیں کرتے- مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے- پس اگر یہ ملک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑے گا ورنہ *** کا طوق گلے میں پڑے گا-
جزا و سزا
اس کے بعد پانچواں رکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے- یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے- یہ ایک فطرتی مسئلہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا- ایک بچہ بھی جب دیکھتا ہے کہ یہاں سے دکھ پہنچے گا وہاں سے ہٹتا ہے اور جہاں راحت پہنچتی ہے وہاں خوشی سے جاتا ہے- چلا چلا کر بھی جزا لینے کو تیار رہتا ہے یہاں تک کہ فاسق و فاجر کی فطرت میں بھی یہ امر ہے- ایک آدمی کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے کے سامنے ذلیل و خوار ہو- ہر ایک چاہتا ہے کہ معزز ہو- میں نے دیکھا ہے کہ فیل ہونے سے ایک بچہ کو کیسی ذلت پہنچتی ہے- بعض اوقات ان ناکامیوں نے خودکشیاں کرادی ہیں اور پاس ہونے سے کیسی خوشی ہوتی ہے- زمینداروں کو دیکھا جب بروقت بارش نہ ہو‘ پھل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو کیسا رنج ہوتا ہے لیکن اگر غلہ گھر لے آئے تو کیسا خوش ہوتا ہے- اسی طرح ہر حرفہ صنعت والا‘ دوکاندار غرض کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچائو کا سامان نہ ہو-
پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کا جزو رکھا ہے کہ جزا و سزا پر ایمان لائو- وہ مالک یوم الدین )الفاتحۃ:۴( ہے- روز روشن کی طرح اس کی جزائیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور برے کام پر سزا دیتا ہے- اس حصہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قرب الٰہی کی راہوں سے دور چلا جاتا ہے-
دوسرا سوال
‏text] g[ta پھر دوسرا سوال جو جبرائیل نے تعلیم الدین کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا اور آپﷺ~ نے اس کا جواب دیا وہ ہے ما الاسلام؟ اس کا جواب جو پاک انسان خاتم|الانبیاء و خاتم الاولیائ‘ خاتم|الکمالات کی زبان سے نکلا وہ یہ ہے- ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ )بخاری کتاب الایمان-(جو بات انسان کے دل سے اٹھتی ہے ضرور ہے کہ اس کا اثر اس کے اعضا‘ جوارح اور مال پر پڑے- کون نہیں سمجھتا کہ شجاعت اگر اندر ہو تو وہ اپنے ہاتھ‘ بازو اور اعضا سے محل و موقع پر اس کا ثبوت نہ دے گا- اگر وہ موقع پر بھاگ جاتا اور بزدلی ظاہر کرتا ہے تو کوئی اس کو شجاع نہیں کہہ سکتا- اسی طرح سخاوت ایک عمدہ جوہر ہے لیکن اگر اس کا اثر مال پر نہیں پڑتا تو وہ سخاوت نہیں‘ بخل ہے- ایسا ہی عفت ایک عمدہ صفت ہے- ضرور ہے کہ جس میں یہ صفت ہو وہ بدنظری اور بے حیائی سے بچے اور تمام فواحش اور ناپاک کاموں سے پرہیز کرے- اسی طرح جس کے اندر قناعت ہو ضروری ہو گا کہ وہ دوسروں کے مال پر بے جا تصرف سے پرہیز کرے گا- غرض یہ ضروری بات ہے کہ جب اندر کوئی بات ہو تو اس کا اثر جوارح اور مال پر ضرور ہوتا ہے- پس اگر سچی نیازمندی‘ فرمانبرداری‘ تحریک ملائکہ‘ کتابوں‘ ماموروں‘ خلفاء اور مصلحوں کی اطاعت میں ہو اور دل میں یہ بات ہو تو زبان پر ضرور آئے گی اور وہ اظہار کرے گا- اگر سچائی سے کسی انسان کو مانا ہوا ہو اور اس کے اظہار سے مضائقہ ہو تو یاد رکھو دل کمزور ہے- اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے اسماء پر کامل یقین ہو اور اس کے رسولوں پر‘ ملائکہ پر اور کتابوں اور انبیاء پر یقین ہو اور ایسا ہی اس یقین میں ان کا ثواب اور اللہ کا قرب داخل ہو تو اس یقین کا اثر زبان پر آتا ہے اور وہ ایک لذت کے ساتھ کہہ اٹھتا ہے اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
بے ریب سید الاولین و الاخرین‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم‘ کامل صفات والا انسان کل سچائیوں اور علوم حقہ کا لانے والا ہے- جب یہ اقرار اور وہ ایمان ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سچی نیازمندی کے ساتھ جناب الٰہی کے حضور پیش ہو اور یہی نماز ہے- نماز ظاہری پاگیزگی‘ ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرمگاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے میں اس ظاہری پاکیزگی کو ملحوظ رکھتا ہوں اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچی طہارت عطا کر اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سبحانیت‘ قدوسیت‘ مجدیت‘ پھر ربوبیت‘ رحمانیت‘ رحیمیت اور اس کے ملک ملک میں تصرفات اور اپنی ذمہ|واریوں کو یاد کر کے کہ اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں‘ سینہ پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں- اس قسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس کی وہ خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے جو ان الصلوٰۃ تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر )النحل:۹۱( میں بیان ہوا ہے- پھر پاک کتاب کا کچھ حصہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اور نیازمندی کی انتہا بجز سجدہ کے اور کوئی نہیں - جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیازمندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح پر اپنا اثر کر چکی تو اور جوش مار کر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا اور ایک مقررہ حصہ اپنے مال کا دے گا - جیسے آج کے دن بھی صدقہ~ن۲~ الفطر ہر شخص پر‘ غنی ہو‘ حر ہو یا عبد‘ غرض سب پر واجب ہے کہ صدقہ دے تاکہ روزوں کے لئے طہر کا کام دے اور نماز سے پہلے ایک مقام پر جمع کرے-
وحدت کی ضرورت
اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وحدت پیدا ہو- اسلام کے ہر امر میں وحدت کی روح پھونکی گئی ہے- جب تک وحدت نہ ہو اس پر اللہ کا ہاتھ نہیں ہوتا جو جماعت پر ہوتا ہے- میں درختوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایک پتہ کہے کہ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں اور اپنے رب سے مانگتا ہوں وہ مجھے سرسبز کردے گا- کیا وہ الگ ہو کر سرسبز رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ مرجھا جائے گا اور ادنیٰ سے جھونکے سے گر جائے گا- اس لئے ضروری ہے کہ ایک شاخ سے اس کا تعلق ہو اور پھر اس شاخ کا کسی بڑی شاخ سے اور اس کا کسی بڑے تنے سے تعلق ہو جو جڑ اور اس کی رگوں سے اپنی خوراک کو جذب کرے- یہ سچی مثال ہے- جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا بیج لگاتا ہے تو جو شاخ اس سے الگ ہو کر بار آور اور ثمردار ہونا چاہے وہ نہیں رہ سکتی خواہ اسے کتنے ہی پانی میں رکھو- وہ پانی اس کی سرسبزی اور شادابی کی بجائے اس کے سڑنے کا موجب اور باعث ہو گا- پس وحدت کی ضرورت ہے اسی لئے صدقہ~ن۲~ الفطر بھی ایک ہی جگہ جمع ہونا چاہئے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عید سے پہلے یہ صدقہ جمع ہو جاتا اور ایسے ہی زکٰوۃ کے اموال بڑی احتیاط سے اکٹھے کئے جاتے یہاں تک کہ منکرین کے لئے قتل کا فتویٰ دیا گیا- مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں ابھی یہ وحدت پیدا نہیں ہوئی یا ہوتی ہے تو بہت کمزور ہے-
تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ تم نے اس کو کامل صفات سے موصوف مانا ہے اور یہاں تک تم نے توحید سے حظ اٹھایا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے مخلوق میں سے کسی کو ان صفات سے موصوف مانتا تھا تم نے اس کو بھی اس امام کے طفیل سے چھوڑا اور اب تم پاک ہو گئے کہ مسیح کو خالق اور باری‘ محلل‘ محرم اور محیی اور ممیت اور عالم الغیب سمجھو- تو جیسے یہ امتیاز حاصل کیا تھا اب کیسی ضرورت تھی کہ پھر صحابہ کی طرح تمہارے سارے تعلقات اس شجر طیبہ کے ساتھ ہوتے جس کے ساتھ پیوند ہو کر وہ تمام پھل لانے والے تم ہو سکتے تھے- مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے جب میں کسی کو ایسے تعلقات سے باہر دیکھتا ہوں- دیکھو تمہارے تعلقات‘ تمہارے چال چلن‘ شادی و غمی‘ حسن معاشرت‘ تمدن‘ سلطنت کے ساتھ تعلقات‘ غرض ہر قول و فعل آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہو گا- پھر کیا تم چاہتے ہو کہ رحمت اور فضل کا نمونہ تم بنو یا *** کا- پس دعائیں کرو کہ تم جو اس پاک چشمہ پر پہنچے ہو‘ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے سیراب کرے اور عظیم الشان فضل اور خیر کے حاصل کرنے کی تمہیں توفیق ملے- اور یہ سب توفیقیں اس وقت ملیں گی جب تمہارے سب معاملات ایک درخت سے وابستہ ہوں-
پس ان سارے چندوں اور اغراض میں ایک ہی تنا اور جڑ ہو- پھر ایسی وحدت ہو کہ تمام دغا اور فریب‘ کپٹ سے بری ہو جائو- شائد تم نے سمجھا ہو کہ کسی کتاب کا نام کشتی نوح ہے- نہیں‘ کچھ اغراض|ومقاصد ہیں‘ کچھ عقائد اور اعمال ہیں- اس پر وہی سوار ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کی تعلیم کے موافق بناتا ہے- پھر ان سب کے بعد تقویٰ کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے- جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک وقت معین تک چھوڑتا ہے-
اب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کا استعمال کیوں کرے گا- روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اللہ کو ناراض نہ کرے- اس لئے فرمایا لعلکم تتقون )البقرہ:۱۸۴-(
پھر جیسے پنجگانہ نمازیں ہر محلے میں باجماعت پڑھتے ہیں اور پھر جمعہ کی نماز سارے شہر والے اسی طرح ارد گرد کے دیہات والے اور کل شہر کے باشندے جمع ہو کر عید کی نماز ایک جگہ پڑھتے ہیں- اس میں بھی وہی وحدت کی تعلیم مقصود ہے- غرض اسلام نے ہر رکن میں ایک وحدت کو قائم کیا ہے پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے خاص حکم بھی دیا لاتنازعوا )الانفال:۴۷( باہم کش مکش نہ کرو- کیونکہ جب ایک کھچا کھچی کرتا ہے تو دوسرا بھی اس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہوا بگڑ جاتی ہے- جب یہ خود دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو چونکہ وہ بھی کبر الٰہی کا مظہر ہے اس لئے تکبر کرتا اور وحدت اٹھ جاتی ہے- اسی لئے حکم دیا کہ نزاع نہ کیا کرو ورنہ پھسل جائو گے اور فرمایا صبر کرو- ایسا صبر نہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری پھیر دو بلکہ ایسا صبر کرو اور عفو ہو کہ جس میں اصلاح مقصود ہو- سچے مومن بننا چاہتے ہو تو یاد رکھو لایومن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ )بخاری کتاب الایمان-( اسی وحدت کے قائم رکھنے کے لئے نمازوں میں یک جہتی تھی- مکہ کا وجود تھا- اور اب اس وقت خدا کا کیسا فضل ہے اور کیسی مبارکی کا یہ زمانہ ہے کہ سب سامان موجود ہیں- مکالمہ الٰہی ہوتا ہے- ایک مطاع مکرم معظم موجود ہے جو اپنے عام چال چلن‘ مخلوق کے ساتھ تعلقات‘ معاشرت اور گورنمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات کا نمونہ دکھانے سے قوم بنا رہا ہے- اس لئے اب کوئی عذر باقی نہیں رہ سکتا-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں‘ کرنے کی نہیں- یہ ان کی غلطی ہے- اللہ تعالیٰ نے کوئی امر و نہی ایسا نہیں دیا ہے جو انسان کی طاقت سے باہر ہو ورنہ اس کی حکیم کتاب قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا )البقرہ:۲۸۷( باطل ہو گا اور وہ باطل نہیں ہے- متقی اور خدا سے ڈرنے والا ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتا- یہ صرف خبیث روح کی تحریکیں ہیں-
الاحسان
اس کے بعد تیسری بات جبرائیل نے پوچھی ہے جس سے دین کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ یہ ہے- ماالاحسان؟ )بخاری کتاب الایمان( احسان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ایسا اخلاص اور ایسا انتساب ہو کہ تو گویا اس کو دیکھتا ہے اور اگر اس درجہ تک نہ پہنچے تو کم از کم اپنے آپ کو اس کی نگرانی میں سمجھے- جب تک ایسا بندہ نہ ہو وہ دین کے مراتب کو نہیں سمجھ سکتا- پس ایسا دین‘ کوئی سلیم الفطرت کہہ سکتا ہے کہ اس میں اکراہ کی ضرورت ہے؟ ہرگز نہیں- لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی )البقرۃ:۲۵۷-( اس وقت بھی ویسا ہی وقت ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھا- ہدایت کی راہیں کھلی ہوئی ہیں- تجربے‘ مشاہدہ‘ سائنس‘ قویٰ کا نشو و نما‘ وجدان‘ صحیح فطری قویٰ رشد اور غی میں امتیاز کرنے کو موجود ہیں-
رشد کو اقتصاد بھی کہتے ہیں جو افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے- بہت سے لوگ ہیں جو خاص خاص مذاق میں بڑھے ہوئے ہیں- بعض ایسے ہیں کہ ان کو کھانے ہی کی ایک دھت ہوتی اور اب وہ اس میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور کرتے جاتے ہیں- بعض کو دیکھا ہے کہ بچپن میں یہ عادت ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے بہت سی بداطواریوں کا باعث بن گئی- ایسا ہی لباس میں افراط کرنے والے‘ مکانات میں افراط سے کام لینے والوں کا حال ہے- ایسا ہی بعض جمع اموال میں‘ بعض فضول خرچیوں میں بڑھتے ہیں- جب ایک کی عادت ڈال لیتے ہیں تو پھر وہ ہر روز بڑھتی ہے- غرض افراط اور تفریط دونوں مذموم چیزیں ہیں- عمدہ اور پسندیدہ اقتصاد یا رشد ہے- یہی حال اقوال اور افعال میں ہے- اس طرح پر ترقی کرتے کرتے ہم عقائد تک پہنچتے ہیں- بعض نے تو سوسائٹی کے اصول رسم و رواج سب کو اختیار کر لیا اور مذہب کا جزو قرار دے لیا اور بعض ایسے ہیں کہ ساری انجمنوں کو لغو قرار دیتے ہیں- غرض دنیا عجیب قسم کی افراط اور تفریط میں پڑی ہوئی ہے- رشد اور اقتصاد کی صراط مستقیمصرف اسلام لے کر آیا ہے- بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام تو رشد اور اقتصاد سکھاتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقابلہ کیوں کیا؟ مگر افسوس ہے کہ ان کو معلوم نہیں- انہوں نے تو تیرہ سال تک صبر کر کے دکھایا اور پھر آخر آپ چونکہ کل دنیا کے لئے ہادی تھے تو بادشاہوں اور تاجداروں کے لئے بھی کوئی قانون چاہئے تھا یا نہیں؟ اب دیکھ لو کہ غیرقوموں کی لڑائیوں میں کیا ہوتا ہے- جب دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو بعض اوقات عورتیں‘ بچے‘ مویشی‘ کھیت سب تباہ ہو جاتے ہیں-
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لئے کہ مذہب نے ملک داری کا کوئی نمونہ اور قانون پیش نہیں کیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ضرورت کی خود تکمیل کی ہے اور اسی لئے خانہ داری کے اصولوں پر الگ بحث کی ہے- ان لوگوں کو جو حیض و نفاس کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں غور کرنا چاہئے کہ معاشرت کا یہ بھی ایک جزو ہے-
غرض ہماری شریعت جامع شریعت ہے جس میں انسان کے فطری حوائج کھانے پینے سے لے کر معاشرت‘ تمدن‘ تجارت‘ زراعت‘ حرفت‘ ملک داری اور پھر ان سب سے بڑھ کر خدا شناسی اور روحانی مدارج کی تکمیل کی یکساں تعلیم موجود ہے- یہی وجہ ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں- یہی باعث ہے کہ اسلام مکمل دین ہے- یہ ایک نیا قصہ ہے کہ اسلام ہر شعبہ اور ہر حصہ میں کیا تعلیم دیتا ہے- چونکہ اس وقت کتاب اللہ موجود ہے اور اس کا معلم بھی خدا کے فضل سے موجود ہے اور اس کا نمونہ تم دیکھ سکتے ہو- میں صرف یہی کہوں گا- قد تبین الرشد من الغی )البقرۃ:۲۵۷( اس کی راہ رشد کی راہ ہے اور اس کے خلاف خواہ افراط کی راہ ہو یا تفریط کی اس کا نام غی ہے- رشد والوں کو مومن‘ متقی‘ سعید کہا گیا اور غی والوں کو کافر‘ منافق‘ شقی- فمن یکفر بالطاغوت )البقرۃ:۲۵۷( جو لوگ الٰہی حدبندیوں کو توڑ کر چلے گئے ہیں ان کو طاغوت کہا ہے- اللہ تعالیٰ کی راہیں جن کو قرآن نے واضح کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ان میں تو فصم نہیں ہے- )ادنیٰ درجہ فصم ہے اس سے بڑھے تو فصم پھر اس سے بھی بڑھے تو فضم(- اللہ وہ اللہ ہے جو تمہاری دعائوں کو سنتا اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے-
الغرض یہ دین ہے اور اس کا نتیجہ ہے قرب الٰہی- جب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے تو چونکہ اللہ نور السمٰوٰت و الارض )النور:۳۶( ہے اس لئے یہ ظلمت سے نکلنے لگتا ہے اور اس میں امتیازی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے- ظلمت کئی قسم کی ہوتی ہے- ایک جہالت کی ظلمت ہے- پھر رسومات‘ عادات‘ عدم استقلال کی ظلمت ہوتی ہے- جس قدر ظلمت میں پڑتا ہے اسی قدر اللہ|تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اور جس قدر قرب حاصل ہوتا اسی قدر امتیازی قوت پیدا ہوتی ہے-
نزول و صعود
پس اگر کسی صحبت میں رہ کر ظلمت بڑھتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قرب الٰہی کا موجب نہیں بلکہ بعد و حرمان کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تو جسقدر انسان قریب ہو گا اسی قدر اس کو ظلمت سے رہائی اور نور سے حصہ ملتا جاوے گا- اسی لئے ضروری ہے کہ ہر فعل اور قول میں اپنا محاسبہ کرو- نیچے اور اوپر کے دو لفظ ہیں جو سائنس والوں کی اصطلاح میں بھی بولے جاتے ہیں اور مذہب کی اصطلاح میں بھی ہیں- میں نے نیچے اور اوپر جانے والے چیزوں پر غور کی ہے- ڈول جوں جوں نیچے جاتا ہے اس کی قوت میں تیزی ہوتی جاتی ہے اور اسی طرح پتنگ جب اوپر جاتا ہے پہلے اس کا اوپر چڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن آخر وہ بڑے زور سے اوپر کو چڑھتا ہے- یہی اصل ترقی اور تنزل کی جان ہے یا صعود اور نزول کے اندر ہے- انسان جب بدی کی طرف جھکتا ہے اس کی رفتار بہت سست اور دھیمی ہوتی ہے لیکن پھر اس میں اس قدر ترقی ہوتی ہے کہ خاتمہ جہنم میں جا کر ہوتا ہے- یہ نزول ہے- اور جب نیکیوں میں ترقی کرنے لگتا اور قرب الی اللہ کی راہ پر چلتا ہے توابتدا میں مشکلات ہوتی ہیں اور ظالم لنفسہ ہونا پڑتا ہے مگر آخر جب وہ اس میدان میں چل نکلتا ہے تو اس کی قوتوں میں پرزور ترقی ہوتی ہے اور وہ اس قدر صعود کرتا ہے کہ سابق بالخیرات ہو جاتا ہے- جو لوگ اس اصل پر غور کرتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں یا تنزل کی طرف‘ وہ ضرور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں-
غرض وعظ کا اصل تو مختصر سا تھا مگر مضمون لمبا ہو گیا ہے اس لئے پھر میں مختصر الفاظ میں کہتا ہوں کہ اصل غرض اور منشاء دین کا سعادت اور شقاوت کی راہوں کا بیان کرنا ہے- ایمان باللہ‘ ایمان بالملائکہ‘ اللہ کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان‘ جزا و سزا پر ایمان ہو اور پھر اس ایمان کے موافق عمل درآمد ہو اور ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ کرو-
آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھہو- قرآن تمہارا دستور العمل ہو- باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان|الٰہی کو روکتا ہے- موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے- اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے- اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے- تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ- اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں- استغفار کثرت سے کرو اور دعائوں میں لگے رہو- وحدت کو ہاتھ سے نہ دو- دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو- تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آ سکتا- پس اس نعمت کا شکر کرو- کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے- لئن شکرتم لازیدنکم )ابراھیم:۸( لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے]kns [tag ان عذابی لشدید- )ابراھیم:۸(
اب میں ایک تحریک کر کے ختم کرتا ہوں- دیکھو یہاں کئی قسم کے چندے اور ضرورتیں ہیں- بعض کہتے ہیں کہ چندوں کی کیا ضرورت ہے وہ غلطی کرتے ہیں- انفقوا فی سبیل اللہ )البقرۃ:۱۹۶( اللہ|تعالیٰ کا ارشاد ہے- اگر تم اس پر عمل نہیں کرتے تو ہلاک ہو جائو گے- کئی قسم کی ضرورتیں درپیش ہیں- حضرت امام کی تعلیم کی اشاعت اور تبلیغ‘ مہمانوں کی خبرگیری‘ مکانات کی توسیع کی ضرورت‘ مدرسہ کی ضروریات‘ غرباء و مساکین رہتے ہیں ان کا انتظام‘ مدرسہ میں غریب طالب علم ہیں ان کے خرچ کا کوئی خاص طور پر متکفل نہیں اور مستقل انتظام نہیں- اس کے علاوہ اور بہت سی ضروریات ہیں- اسی مسجد کا خادم ایک بڈھا ہے اور حضرت اقدس کا ایک سچا خادم حافظ معین الدین ہے- ایسے لوگوں کی خبرگیری کی ضرورت ہے- غرض یہاں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہر شخص کو جو کچھ اس سے ہو سکے اپنے مال سے‘ کپڑے سے الگ کرنا چاہئے- یہ مت خیال کرو کہ بہت ہی ہو‘ کچھ ہو خواہ ایک پائی ہی کیوں نہ ہو- ہر قسم کا کپڑا یہاں کام آ سکتا ہے- پس یہاں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ان میں دینے کے لئے کوشش کرو- صحابہ کی سوانح پڑھو تا تمہیں معلوم ہو کہ کیا کرنا پڑا تھا- تم جو ان سے ملنا چاہتے ہو وہی راہ اور رنگ اختیار کرو- اللہ تعالیٰ ہم تم سب کو اس امر کی توفیق دے کہ ہم سچے مسلمان بنیں اور امام کے متبع ہوں- آمین- ۲~}~
۱~}~ )الحکم جلد ۷ نمبر ۲ - ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴-۱۵(
۲~}~ )الحکم جلد ۷ نمبر ۳ - ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴-۱۵(
و )الحکم جلد ۷ نمبر ۴ - ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶-۷(
* * * *
‏KH1.15
خطبات|نور خطبات|نور
۱۱ / مارچ ۱۹۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارالامان قادیان

خطبہ عید اضحیٰ
)عیدالضحیٰ دارالامان میں ۱۱مارچ ۱۹۰۳ء بروز بدھ ہوئی- اس سے پہلی رات کو اور اس دن قادیان دارالامان میں خوب بارش ہوئی- راستے خراب ہو گئے- اس لئے نمازعید دو جگہ ادا ہوئی- مسجد اقصیٰ میں حسب معمول سابق حضرت حکیم الامت نے پڑھائی اور بعد نماز سورۃکوثر پر خطبہ پڑھا جو ہم ناظرین کے فائدہ کے لئے درج کرتے ہیں- )ایڈیٹر(
انا اعطینٰک الکوثر- فصل لربک و انحر- ان شانئک ھو الابتر- )الکوثر:۲ تا۴(
یہ ایک سورۃ شریف ہے بہت ہی مختصر- لفظ اتنے کم کہ سننے والے کو کوئی ملال طوالت کا نہیں- یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ایک دن میں اسے یاد کر لے- مگر ان کے مطالب اور معانی کو دیکھو تو حیرت انگیز-
واعظوں اور سامعین کی اقسام
ان کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک ضروری بات سنانی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہجہاں تک میں غور کرتا ہوں واعظوں اور سننے والوں کی دو قسم پاتا ہوں- ایک وہ واعظ ہیں جو دنیا کے لئے وعظ کرتے ہیں- دنیا کا وعظ کرنے والے بھی پھر دو قسم کے ہیں- ایک وہ جو اپنے وعظ سے اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں یعنی کچھ روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ خود کوئی روپیہ حاصل کریں مگر یہ مطلب ضرور ہوتا ہے کہ سننے والوں کو ایسے طریقے اور اسباب بتائیں جن سے وہ روپیہ کما سکیں- مادی ترقی کرنے والے بنیں- دنیا کے لئے وعظ کرنے والوں میں اس قسم کے واعظوں کی اغراض ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں- کوئی فوجوں کو جوش دلاتا ہے‘ ان میں مستعدی اور ہوشیاری پیدا کرنے کے لئے تحریک کرتا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ کے لئے چست و چالاک ہو جائیں- کوئی امور خانہ داری کے متعلق‘ کوئی تجارت اور حرفہ کے لئے- مختصر یہ کہ ان کی غرض انتظامی امور یا عامہ اصلاح ہوتی ہے جو دوسرے الفاظ میں سیاسی یا پولٹیکل‘ تمدنی یا سوشل اصلاح ہے-
اور وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں- ایک وہ جو محض اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرض ان کو ملا ہے اس کو ادا کریں- بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں اور اپنے آپ کو اس خیر امت میں داخل ہونے کی فکر ہوتی ہے جس کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے- کنتم خیر امۃ اخرجت للناس )اٰل عمران:۱۱۱( تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو- امر بالمعروف کرتے ہو اور نہی عن المنکر-
اور ایک وہ ہوتے ہیں جن کی غرض دنیا کمانا بھی نہیں ہوتی مگر )مذکورہ بالا( یہ غرض بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف حاضرین کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا ان کی واہ واہ کے خواہش مند کہ کیسا خوش تقریر یا مئوثر واعظ ہے-
دینی واعظوں میں سے پہلی قسم کے واعظ بھی فتوحات ہی کا ارادہ کرتے ہیں مگر ملکی فتوحات سے ان کی فتوحات نرالی ہوتی ہیں- ان کی فتوحات یہ ہوتی ہیں کہ برائیوں پر فتح حاصل کریں- نیکی کی حکومت کو وسیع کریں-
جیسی واعظوں کی دو قسم ہیں ایسی ہی سننے والوں کی بھی دو حالتیں ہیں- ایک وہ جو محض اللہ کے لئے سنتے ہیں کہ اس کو سن کر اپنی اصلاح کریں اور دوسرے جو اس لحاظ سے سنتے ہیں کہ واعظ ان کا دوست ہے یا کوئی ایسے ہی تعلق رکھتا ہے یعنی واعظ کی خاطرداری سے- اب تم دیکھ لو کہ تمہارا واعظ کیسا ہے اور تم سننے والے کیسے؟ تمہارا دل تمہارے ساتھ ہے؟ اس کا فیصلہ تم کر لو- جس نیت اور غرض سے کھڑا ہوا ہوں وہ میں خوب جانتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ درد دل کے ساتھ خدا ہی کے لئے کھڑا ہوا ہوں-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک تقسیم فرمائی ہے کہ واعظ یا مامور ہوتا ہے یا امیر یا متکبر- امیر وہ ہوتا ہے جس کو براہ راست اس کام کے لئے مقرر کیا جاوے اور مامور وہ ہوتا ہے جس کو امیر کہے کہ تم لوگوں کو وعظ سنا دو اور متکبر وہ جو محض ذاتی بڑائی اور نمود کے لئے کھڑا ہوتا ہے- یہ اقسام واعظوں کی ہیں-
اب میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کرو کہ تمہیں وعظ کرنے والا کیسا ہے اور تم کیسا دل لے کر بیٹھے ہو؟ میرا دل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ناظر ہے- جو بات میری سمجھ میں مضبوط آئی ہے اسے سنانا چاہتا ہوں اور خدا کے لئے- پھر مجھے حکم ہوا ہے تم مسجد میں جا کر نماز پڑھا دو- اس حکم کی تعمیل کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور سناتا ہوں-
میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود‘ ان کے حوصلے چھوٹے‘ خیالات پست ہوتے ہیں- جس واعظ کی اغراض نہ ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیوی وعظ سب اس کے اندر آ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے- ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بری بات سے روکنے والا ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ نے مھیمن فرمایا- یہ جامع کتاب ہیجس میں جیسے ایک ملٹری )فوجی( واعظ کو فتوحات کے طریقوں اور قواعد جنگ کی ہدایت ہے ویسے ہی نظام مملکت اور سیاست مدن کے اصول اعلیٰ درجہ کے بتائے گئے ہیں- غرض ہر رنگ اور ہر طرز کی اصلاح اور بہتری کے اصول یہ بتاتا ہے-
پس میں قرآن کریم جیسی کتاب کا واعظ ہوں جو تمام خوبیوں کی جامع کتاب ہے اور جو سکھ اور تمام کامیابی کی راہوں کی بیان کرنے والی ہے اور اسی کتاب میں سے یہ چھوٹی سی سورۃ میں نے پڑھی ہے-
قرآن کا طرز بیان ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘
میں اس سورۃ کے مطالب بیان کرنے سے پہلے یہ بات بھی تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کا طرز بیان دو طرح پر واقع ہوا ہے- بعض جگہ تو اللہ تعالیٰ ایک فعل کو واحد متکلم یعنی ’’میں‘‘ کے لفظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے اور بعض جگہ جمع متکلم یعنی ’’ہم‘‘ کے ساتھ- ان دونوں الفاظ کے بیان کا یہ سر ہے کہ جہاں ’’میں‘‘ کا لفظ ہوتا ہے وہاں کسی دوسرے کا تعلق ضروری نہیں ہوتا- لیکن جہاں ’’ہم‘‘ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات‘ اس کے فرشتے اور مخلوق بھی اس کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں- پس اس بات کو یاد رکھو- یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا اعطینٰک الکوثر‘ بے ریب ہم نے تجھ کو دیا ہے الکوثر ‘ ہر ایک چیز میں بہت کچھ-
یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا کام ہے جیسے اس میں آپ فضل کیا ہے‘ فرشتوں اور مخلوق کو بھی لگایا ہے-
’’بہت کچھ‘‘ کے معنی مختلف حالتوں میں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ’’بہت کچھ‘‘ عطا فرمایا ہے- اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس ’’بہت کچھ‘‘ کی کیا مقدار ہے؟ تم میں سے بہت سے لوگ شہروں کے رہنے والے ہیں جنہوں نے امیروں کو دیکھا ہے- بہت سے دیہات کے رہنے والے ہیں جنہوں نے غریبوں کو دیکھا ہے- خدا تعالیٰ نے مجھے محض اپنے فضل سے ایسا موقع دیا ہے کہ میں نے غریبوں امیروں کے علاوہ بادشاہوں کو بھی دیکھا ہے اور ان تینوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے- ان کی ہر چیز میں‘ ہر بات میں علیٰ قدر مراتب امتیاز ہوتا ہے- مثلاً ایک کسی غریب کے گھر جا کر سوال کرے تو وہ اس کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیدیتا ہے- اس کی طاقت اتنی ہی ہے- لیکن جب ایک امیر کے گھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس کو ’’کچھ‘‘ دیدو تو اس کی ’’کچھ‘‘ سے مراد تین چار روٹیاں ہوتی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بادشاہ کہتا ہے کہ ’’کچھ‘‘ دیدو تو اس کے ’’کچھ‘‘ سے مراد دس بیس ہزار روپیہ ہوتا ہے- اس سے عجیب بات پیدا ہوتی ہے- جس قدر کسی کا حوصلہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کی عطا ہوتی ہے- اب اس پر قیاس کر لو- یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ’’بہت کچھ‘‘ دیا ہے- اللہ تعالیٰ کی ذات کی کبریائی‘ اس کی عظمت و جبروت پر نگاہ کرو اور پھر اس کے عطیہ کا تصور- دیکھو ایک چھوٹی سی شمع‘ سورج اس نے بنائی ہے- اس کی روشنی کیسی عالمگیر ہے- ایک چھوٹی سی لالٹین چاند ہے- اس کی روشنی کو دیکھو کس قدر ہے- کنووں سے پانی نکالنے میں کس قدر جدوجہد کرنی پڑتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی عطا پر دیکھو کہ جب وہ بارش برساتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے-
غرض یہ سیدھی سادھی بات ہے اور ایک مضبوط اصل ہے- جس قدر کسی کا حوصلہ ہو اسی قدر وہ دیتا ہے- پس اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لحاظ سے اب اس لفظ کے معنی پر غور کرو کہ ہم نے ’’بہت کچھ‘‘ دیا ہے- خدا کا ’’بہت کچھ‘‘ وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا اور پھر اس کا اندازہ میری کھوپڑی کرے! یہ احمقانہ حرکت ہو گی اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اس وقت کوئی کوشش کرے کہ وہ پانی کے ان قطرات کو شمار کرنے لگے جو آسمان سے برس رہے ہیں )جس وقت آپ یہ خطبہ پڑھ رہے تھے آسمان سے نزول|باران رحمت ہو رہا تھا- ایڈیٹر-( ہاں یہ بیشک انسانی طاقت کے اندر ہر گز نہیں ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا ہے اس کو سمجھ سکے- چونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے اس لئے میں اندازہ تو ان عطیات کا نہیں کر سکتا لیکن ان کو یوں سمجھ سکتا ہوں-
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ باپ انتقال کر گیا اور چلنے ہی لگے تھے کہ ماں کا انتقال ہوا- کوئی حقیقی بھائی آپ کا تھا ہی نہیں- چنانچہ اسی کے متعلق فرمایا الم یجدک یتیماً )الضحیٰ:۷( ہم نے تجھے یتیم پایا تھا- اس یتیم کو جسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دے دیا‘ خاتم|الانبیائ‘ خاتم الرسل‘ سارے علوم کا مالک‘ ساری سلطنتوں کا بادشاہ بنا دیا- آپ کی عادت شریف تھی کہ کبھی جو بے انتہا روپیہ مالیہ کا آیا ہے تو مسجد ہی میں خرچ کر دیا-
غرض غور کرو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دیا- کس قدر خیر کثیر آپ کو دی گئی ہے- آپ کا دامن نبوت دیکھو تو وہ قیامت تک وسیع ہے کہ اب کوئی نبی نیا ہو یا پرانا‘ آ ہی نہیں سکتا- کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا- یہ کثرت تو بلحاظ زمان کے ہوئی- اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً )الاعراف:۱۵۹( میں فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں- یہ کوثر بلحاظ مکان کے عطا ہوئی- کوئی آدمی نہیں جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الٰہی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں- کوئی صوفی‘ کوئی بالغ مرد‘ بالغہ عورت‘ کوئی ہو اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے- اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لن تستطیع معی صبراً )الکہف:۷۶( بول اٹھے- یہ وہ موسیٰؑ ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا- کوئی آدمی مقرب نہیں ہو سکتا‘ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اتباع نہ کرے-
تعلیم اور کتاب میں وہ کاملیت اور جامعیت اور کثرت عطا فرمائی کہ فیھا کتب قیمۃ )البینہ:۴( کل دنیا کی مضبوط کتابیں اور ساری صداقتیں اور سچائیاں اس میں موجود ہیں-
ترقی مدارج میں وہ کوثر- جب کہ یہ سچی بات ہے الدال علی الخیر کفاعلہ پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جب کہ ان کے الدال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں تو ان کی جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے-
اعمال میں دیکھو‘ اتباع‘ فتوحات‘ عادات‘ علوم‘ اخلاق میں کس کس قسم کی کوثریں عطا فرمائی ہیں- آدمی وہ بخشے جن کے نام لیکر عقل حیران ہوتی ہے- ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علیرضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ‘ عباسیوں اور مروانیوں جیسے- کیا انتخاب سے ایسے آدمی مل سکتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پانی گرانے کا حکم دیں خون گرانے کے لئے تیار ہو جائیں؟ جگہ وہ بخشی کہ ایران‘ توران‘ مصر‘ شام‘ ہند تمہارا ہی ہے- وہ ہیبت اور جبروت آپﷺ~ کو عطا فرمائی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی طرف کا ارادہ کرتے تو ایک مہینہ کی دور راہ کے بادشاہوں کے دل کانپ جاتے- اللہ جب دیتا ہے تو اس طرح دیتا ہے-
یہ بڑا لمبا مضمون ہے جو اس تھوڑے وقت میں بیان نہیں ہو سکتا- مختلف شاخوں اور شعبوں میں جو کوثر آپ کو عطا ہوئی ایک مستقل کتاب اس پر لکھی جا سکتی ہے-
باطنی دولت کا یہ حال ہے کہ تیرہ سو برس کی تو میں جانتا نہیں‘ اپنی بات بتاتا ہوں- جس قدر مذاہب ہیں میں نے ان کو ٹٹولا ہے- ان کو پرکھ پرکھ کر دیکھا ہے- قرآن کریم کے تین تین لفظوں سے میں ان کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہوں- کوئی باطل مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا- میں نے تجربہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کتاب اور طرز انسان کے پاس ہو تو باطل مذاہب خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی‘ وہ ٹھہر نہیں سکتے-
پھر استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو- جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں‘ ان کی حفاظت کا ذمہ وار اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ٹھہرایا ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے لئے فرمایا انا لہ لحافظون )الحجر:۱۰( یہ کیا کوثر ہے!
اللہ تعالیٰ خود اس دین کی نصرت اور تائید اور حفاظت فرماتا اور اپنے مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں- ان کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک انسان کیونکر خدا تعالیٰ کو اپنا بنا لیتا ہے- ہر صدی کے سر پر وہ ایک مجدد آتا ہے جو ایک خاص جماعت قائم کرتا ہے- میرا اعتقاد تو یہ ہے کہ ہر ۴۵ ‘ ۵۰ اور سو برس پر آتا ہے- اس سے بڑھ کر اور کیا کوثر ہو گا؟
پھر سارے مذہب میں دعا کو مانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنے مولیٰ سے کچھ مانگتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے- گو مانگنے کے مختلف طریق ہیں مگر مشترک طور پر یہ سب مانتے ہیں کہ جو مانگتا ہے وہ پاتا ہے- اس اصل کو لیکر میں نے غور کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پہلو سے بھی کیا کچھ ملا ہے- تیرہ سو برس سے برابر امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے لئے اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کہہ کر دعائیں کر رہی ہے اور پھر اللہ اور اللہ کے فرشتے بھی اس درود شریف کے پڑھنے میں شریک ہیں اور ہر وقت یہ دعا ہو رہی ہے کیونکہ دنیا پر کسی نہ کسی نماز کا وقت موجود رہتا ہے اور علاوہ نماز کے پڑھنے والے بھی بے انتہا ہیں- اب سوچو کہ اس تیرہ سو برس کے اندر کس قدر روحوں نے کس سوز اور تڑپ کے ساتھ اپنے محبوب آقا کی کامیابیوں اور آپ کے مدارج|عالیہ کی ترقی کے لئے اللٰھم صل علیٰ محمد کہہ کر دعائیں مانگی ہوں گی- پھر ان دعائوں کے ثمرہ میں جو کچھ آپ کو ملا‘ کیا اس کی کوئی حد ہو سکتی ہے؟
اگر دعا کوئی چیز ہے اور ضرور ہے تو پھر اس پہلو سے آپ کے مدارج اور مراتب کی نظیر پیش کرو- کیا دنیا میں کوئی قوم اور امت ایسی ہے جس نے اپنے نبی اور رسول کے لئے یہ التزام دعا کا کیا ہو- کوئی بھی نہیں- کوئی عیسائی مسیحؑ کے لئے‘ یہودی موسیٰؑ کے لئے‘ سناتنی شنکر اچارج کے لئے دعائیں مانگنے والا نہیں ہے-
اس دنیا کے مدارج کو تو ان امور پر قیاس کرو اور آگے جو کچھ آپ کو ملا ہے وہ وہاں چل کر معلوم ہو جاوے گا- مگر اس کا اندازہ اسی بہت کچھ سے ہو سکتا ہے کہ برزخ میں‘ حشر میں‘ صراط پر‘ بہشت میں غرض کوثر ہی کوثر ہو گا-
اس عاجز انسان اور اس کی ہستی کو دیکھو کہ کیسی ضعیف اور ناتوان ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کے بنانے پر آتا ہے تو اس عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے اور ایک اجڑی بستی کو آباد کرتا ہے- کیا تعجب|انگیز|نظارہ ہے- بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکڑباز مدبروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع- مثلاً اس وقت دیکھو کہ کس بستی کو اس نے برگزیدہ کیا؟ جہاں نہ ترقی کے اسباب‘ نہ معلومات کی توسیع کے وسائل‘ نہ علمی چرچے‘ نہ مذہبی تذکرے‘ نہ کوئی دارالعلوم‘ نہ کوئی کتب خانہ! صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے اپنے بندہ کی خود تربیت کی اور عظیم الشان نشان دکھایا- غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کوثر عطا فرمایا- لیکن غافل انسان نہیں سوچتا- افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت کی‘ ویسی ہی غفلت کا شکار مسلمان ہوئے- آہ! اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی ان سے حصہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی کوثر عطا فرماتا-
میں دیکھتا ہوں کہ جھوٹ بولنے میں دلیر‘ فریب و دغا میں بیباک ہو رہے ہیں- نمازوں میں سستی‘ قرآن کے سمجھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے اور سب سے بدتر سستی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چال چلن کی خبر نہیں- میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی اور آریہ آپ کے چال چلن کو تلاش کرتے ہیں اگرچہ اعتراض کرنے کے لئے‘ مگر کرتے تو ہیں- مسلمانوں میں اس قدر سستی ہے کہ وہ کبھی دیکھتے ہی نہیں- اس وقت جتنے یہاں موجود ہیں ان کو اگر پوچھا جاوے تو شاید ایک بھی ایسا نہ ملے جو یہ بتا سکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی معاشرت کیسی تھی- آپ کا سونا کیسا تھا‘ جاگنا کیسا- مصائب اور مشکلات میں کیسے استقلال اور علو ہمتی سے کام لیا اور رزم میں کیسی شجاعت اور ہمت دکھائی- میں یقیناً کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جو تفصیل کے ساتھ آپ کے واقعات زندگی پر اطلاع رکھتا ہو-۱~}~
حالانکہ یہ ضروری بات تھی کہ آپ )صلی اللہ علیہ و سلم( کے حالات زندگی پر پوری اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی- کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آپﷺ~ دن رات میں کیا کیا عمل کرتے تھے‘ اس وقت تک ان اعمال کی طرف تحریک اور ترغیب نہیں ہو سکتی-
خدا تعالیٰ کی محبت یا اس کے محبوب بننے کا ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اتباع ہے- پھر یہ اتباع کیسے کامل طور پر ہو سکتی ہے جب معلوم ہی نہ ہو کہ آپ کیا کیا کرتے تھے؟ اس پہلو میں بھی مسلمانوں نے جس قدر اس وقت سستی اور غفلت سے کام لیا ہے وہ بہت کچھ ان کی ذلت اور ضعف کا باعث ٹھہرا-
اس ضروری کام کو تو چھوڑا پر مصروفیت کس کام میں اختیار کی؟ نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں- چائے پی لی- حقہ پی لیا- پان کھا لیا- غرض ہر پہلو اور ہر حالت سے دنیوی امور میں ہی مستغرق ہو گئے- مگر پھر بھی آرام اور سکھ نہیں ملتا- ساری کوششیں اور ساری تگ و دو دنیا کے لئے ہی ہوتی ہے اور اس میں بھی راحت نہیں- لیکن جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو وہ دیتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے اور ساری راحتوں کا مالک اور وارث بنا دیتا ہے- میں نے پہلے بتا دیا ہے کہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے اس کا اتنا ہی دینا ہوتا ہے- اور جس قدر بڑا‘ اسی قدر اس کی دہش ہوتی ہے- جس قدر کبریائی اللہ تعالیٰ رکھتا ہے اسی کے موافق اس کی عطا ہے اور اس کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا-
میں نے ایک دنیادار کو دیکھا ہے- وہ میرا دوست بھی ہے- میں کلکتہ میں اس کے مکان پر تھا- اس نے مجھے دکھایا کہ وہ ایک ایک دن میں چار چار پانچ پانچ سو روپیہ کیسے کما لیتا ہے- مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ میں نے اس کو اور تو کچھ نہ کہا- صرف یہ پوچھا کہ بتائو کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حالت ہو گئی ہے کہ رہنے کو جگہ نہیں‘ کھانے کو روٹی نہیں- اس وقت یہاں آیا ہوں کہ فلاں شخص کو پندرہ ہزار روپیہ دیا تھا مگر اب وہ بھی جواب دیتا ہے- میں نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر یہ سبق حاصل کیا کہ چالاکی سے انسان کیا کما سکتا ہے؟ ادھر بالمقابل دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اتباع نے کیا کمایا؟ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وعظ کرتے ہیں- چالاکیاں کرتے ہیں- لیکن ذرا پیٹ میں درد ہو تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم گئے-
پس تم وہ چیز بنو جس کا نسخہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپﷺ~ کے اتباع پر تجربہ کر کے دکھایا ہے کہ جب وہ دیتا ہے تو اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا- یہ لمبی کہانی ہے کہ کس کس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی نصرت کی ہے- اسی شہر میں دیکھو )مرزا غلام احمد ایدہ اللہ الاحد( ایک شخص ہے- کیا قد میں امام الدین اس سے چھوٹا ہے یا اس کی ڈاڑھی چھوٹی ہے- اس کا مکان دیکھو تو حضرت اقدس کے مکانوں سے مکان بھی بڑا ہے- ڈاڑھی دیکھو تو وہ بھی بڑی لمبی ہے- کوشش بھی ہے کہ مجھے کچھ ملے- مگر دیکھتے ہو خدا کے دینے میں کیا فرق ہے- میں یہ باتیں کسی کی اہانت کے لئے نہیں کہتا- میں ایسے نمونوں کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہر جگہ یہ نمونے موجود ہیں-
میں خود ایک نمونہ ہوں- جتنا میں بولتا‘ کہتا اور لوگوں کو سناتا ہوں اس کا بیسواں حصہ بھی مرزا صاحب نہیں بولتے اور سناتے- کیونکہ تم دیکھتے ہو وہ خاص وقتوں میں باہر تشریف لاتے ہیں- اور میں سارا دن باہر رہتا ہوں- لیکن ہم پر تو بدظنی بھی ہو جاتی ہے- لیکن اس کی باتوں پر کیسا عمل ہے- بات یہی ہے کہ اللہ کا دین الگ ہے اور وہ موقوف ہے ایمان پر-
منصوبہ باز‘ چالاکیوں سے کام لینے والے بامراد نہیں ہو سکتے- وہ اپنی تدابیر اور مکائد پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یوں کر لیں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کو دکھاتا ہے کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی- غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دینے کے منتظر بنو- اور یہ عطا منحصر ہی ایمان پر ہے- اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو ملا وہ سب سے بڑھ کر ملا- شرط یہ ہے- فصل لربک اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو- نماز سنوار کر پڑھو- نماز مومن کی الگ اور دنیادار کی الگ اور منافق کی الگ ہوتی ہے- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک نام ابراہیمؑ بھی تھا جس کی تعریف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ابراھیم الذی وفٰی اور وہی ابراہیمؑ جو جاء بقلب سلیم )الصافات:۸۵( کا مصداق تھا اس نے سچی تعظیم امر الٰہی کی کر کے دکھائی- اس کا نتیجہ کیا دیکھا- دنیا کا امام ٹھہرا- اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوتا ہے کہ تعظیم لامر|اللہ کے لئے تو فصل لربک کا حکم ہے مگر شفقت علیٰ خلق اللہ اور تکمیل تعظیم امر الٰہی کے لئے و|انحر )قربانی بھی کرو-( قربانی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے- جب یہ شروع ہوئی اس وقت دیکھو کیسے مشکلات تھے اور اب بھی دیکھو-
ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے- ۹۹ برس کی عمر تھی- خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی- اسمٰعیل جیسی اولاد عطا کی- جب اسمٰعیلؑ جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو- اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو- زمانہ اور عمر وہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی- اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دیئے- ایک طرف حکم ہوا اور معاً بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا- پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا! انی اریٰ فی المنام انی اذبحک )الصٰفٰت:۱۰۳(تو وہ بلا چون و چرا یونہی بولا کہ افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللہ من الصٰبرین )الصٰفٰت:۱۰۳(ابا! جلدی کرو- ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے‘ اس کی تعبیر ہو سکتی ہے- مگر نہیں- کہا پھر کر ہی لیجئے- غرض باپ بیٹے نے فرمانبرداری دکھائی کہ کوئی عزت‘ کوئی آرام‘ کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی- یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں- مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے-
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی؟ اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء پیدا کئے- وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں- خلفا ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں- سارے نواب اور خلفاء الٰہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں-
پس اگر قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو- زبان سے انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت و الارض )الانعام:۸۰(کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو- ان صلوٰتی و نسکی و محیای و مماتی للٰہ رب العٰلمین )الانعام:۱۶۳(کہتے ہو تو کر کے بھی دکھلائو-
غرض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کی فرمانبرداری اور تعمیل حکم کے لئے جو اسلام کا سچا مفہوم اور منشا ہے- کوشش کرو مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں وسوسے اور دنیا کی ایچا پیچی ہوتی ہے-
خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے کل قویٰ اور خواہشوں کو قربان کر ڈالو اور رضائ|الٰہی میں لگا دو تو پھر نتیجہ یہ ہو گا ان شانئک ھو الابتر )تیرے دشمن ابتر ہوں گے-(
انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ خود اس کو راحتیں اور نصرتیں ملیں اور اس کے دشمن تباہ اور ہلاک ہوں- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نماز اور اپنی قربانیوں میں دکھا دیا کہ وہ ہمارا ہے- ہم نے اپنی نصرتوں اور تائیدوں سے بتا دیا کہ ہم اس کے ہیں اور اس کے دشمنوں کا نام و نشان تک مٹا دیا- آج ابوجہل کو کون جانتا ہے- ماں باپ نے تو اس کا نام ابو الحکم رکھا تھا مگر آخر ابوجہل ٹھہرا- وہ سیدالوادی کہلاتا مگر بدتر مخلوق ٹھہرا- وہ بلال جس کو ذلیل کرتے‘ ناک میں نکیل ڈالتے اس نے اللہ تعالیٰ کو مانا- اسی کے سامنے ان کو ہلاک کر کے دکھا دیا- غرض خدا کے ہو جائو وہ تمہارا ہو جائے گا من کان للٰہ کان اللہ لہ- میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں ہزار اعتراض مرزا صاحب پر کرتے ہیں- مگر وہ وہی اعتراض ہیں جو پہلے برگزیدوں پر ہوئے- انجام بتادے گا کہ راستباز کامیاب ہوتا ہے اور اس کے دشمن تباہ ہوتے ہیں-
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے ورنہ نامراد مرتا ہے- پس ایسے بنو کہ موت آوے خواہ وہ کسی وقت آوے مگر تم کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار پاوے- یاد رکھو کہ مر کر اور مرتے ہوئے بھی اللہ کے ہونے والے نہیں مرتے- اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق دے- جو اپنی اصلاح نہیں کرتا اور اپنا مطالعہ نہیں کرتا وہ پتھر ہے- اور دنیا کے ایچ پیچ کام نہیں آتے- کام آنے والی چیز نیکی اور اعمال صالحہ ہیں- خدا سب کو توفیق عطا کرے- آمین
خطبہ ثانیہ میں اتنا ہی فرمایا کہ قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں‘ دبلی نہ ہوں‘ بے|آنکھ کی نہ ہوں‘ کان چری نہ ہوں‘ عیب دار نہ ہوں‘ لنگڑی نہ ہوں- اس میں اشارہ ہے کہ جب تک کامل طور پر قویٰ قربان نہ کرو گے ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ|گر نہ ہوں گی- اصل منشا قربانی کا یہ ہے- پھر جس کو مناسب سمجھتا ہووے-۲~}~
۱~}~ )الحکم جلد۷ نمبر۱۰ ۔۔۔ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ تا ۱۶(
۲~}~ )الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ ---- ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۳ تا ۵(
* * * *

۲۸ / مئی ۱۹۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم الاسلام کالج قادیان

تقریر
بر موقع
افتتاحی جلسہ تعلیم الاسلام کالج قادیان
پیشتر اس کے کہ ہم یہ تقریر درج کریں اول یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ تعلیم الاسلام کالج اور بورڈنگ کے درمیان جو میدان ہے اس میں اس جلسہ کا انتظام ہوا تھا- شمالی جانب ایک چبوترہ بنا کر اس پر اراکین مدرسہ و دیگر معزز احباب کی خاطر کرسیاں رکھی گئی تھیں- جنوبی جانب اس چبوترہ کے ایک بڑی میز تھی جس پر دہنی طرف قرآن کریم اور بائیں طرف کرہ ارض )گلوب( رکھا ہوا تھا- میدان کی دھوپ سے حفاظت کے واسطے ایک سائبان لگایا گیا تھا اور میز کے بالمقابل ایک لمبا ستون تھا- اس نظارہ کو ذہن میں جما کر آپ ذیل کی تقریر کو مطالعہ فرماویں-
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ اما بعد - ہم تو ہر روز تم کو وعظ سناتے ہیں اور سارا دن اسی میں صرف ہو جاتا ہے-
قرآن|شریف کا وعظ بھی خدا کے فضل سے مستقل طور پر جاری ہے- مگر اس وقت خصوصیت سے مجھے ارشاد ملا ہے کہ کچھ سنائوں- تمہید کی ضرورت نہیں ہے- اس وقت یہ نظارہ سامنے موجود ہے- ایک طرف قرآن|شریف اور دوسری طرف کرئہ ارض پڑا ہوا ہے- پھر اوپر سائبان ہے اور ایک طرف وہ لمبی لکڑی ہے- یہی مضمون کافی ہے- انسان کو خدا نے بنایا ہے اور اس کے اندر اس قسم کی اشیاء رکھی ہیں کہ اگر ان سب کا نشو و نما نہ ہو تو پھر وہ انسان انسان نہیں رہتا‘ ایک ذ لیل مخلوق ہو جاتا ہے- لیکن اگر خدا کی ان عطا|کردہ قوتوں کا عمدہ نشوونما ہو تو وہی انسان خدا کا مقرب بن سکتا ہے اور اس کے یہی ذرائع ہیں جو تمہارے سامنے ہیں- )قرآن کی طرف اشارہ کر کے( یہ پاک کتاب جب نازل ہوئی اس وقت ساری دنیا میں اندھیر تھا- عرب خصوصیت سے ایسی حالت میں تھا کہ کل دنیا کا روبراست ہو جانا آسان مگر اس کا سدھرنا مشکل سمجھا جاتا تھا- یرمیا نبی کے نوحہ میں یہ ایک فقرہ موجود ہے جس میں وہ اپنی قوم کو نصیحت کرتا ہے کہ تم نے سچے خدا کو چھوڑ دیا- دیکھو تمہارے پاس عرب موجود ہیں- وہ جھوٹے خدائوں کو نہیں چھوڑ سکتے- لیکن یہ ایک کتاب ہے جس نے ان عربوں کو ایسا بنایا اور وہ عزت دی کہ وہ دنیا کے ہادی‘ مصلح‘ نور اور ہدایت بن گئے- اس کا ذریعہ صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے واسطے شفا‘ نور اور رحمت ہوا-
قرآن کریم کا دائیں جانب ہونا تمہارے لئے خوش قسمت ہونے کی فال ہے اور یہ وہی کتاب ہے جو کہ دائیں جانب ہونی چاہئے- اس سے یہ تفاول ہے کہ یہ تمہارے دائیں ہاتھ میں ہو- )کرئہ ارض کی طرف اشارہ کر کے( دوسری طرف یہ ہے جس پر زندگی چل رہی ہے- کتاب اللہ میں بھی اس کی ترتیب اسی طرح سے ہے کہ اول آسمان کا ذکر ہے تو پھر زمین کا- موجودہ ضرورت کے لحاظ سے تم کو اس قرب|الٰہی کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے عرب کی نابود ہستی بود ہو کر نظر آئی- وہ ذریعہ قرآن کریم ہے کہ جس سے اس کرہ پر ان کو حکمرانی حاصل ہوئی تھی- اس وقت اس کے بڑے حصے ایشیا اور افریقہ اور یورپ ہی تھے جن کو مخلوق جانتی تھی اور اس قرآن کی بدولت ان معلوم حﷺ پر ان کی حکمرانی ہوئی- مگر اس کے ساتھ ہی اصلی جڑ فضل الٰہی کا سائبان بھی ان پر تھا- ورنہ قرآن تو وہی موجود ہے اور اس وقت اہل اسلام کی تعداد بھی اس وقت سے اضعاف مضاعفہ ہے- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں پڑھے لکھوں کی تعداد ۱۳۵ سے زیادہ ہرگز نہ تھی- خطرناک قوم کے مقابلہ پر سخت جنگ کی حالت میں ۳۱۳ سے زیادہ سپاہی نہ تھے- غزوہ خندق میں ۶۰۰ تھے- اب باوجود اس کے کہ اس وقت سے بہت زیادہ تعداد موجود ہے مگر وہ بات نہیں ہے- نہ وہ عزت‘ نہ آبرو‘ نہ اندرونی خوشی‘ نہ بیرونی- تو اس بات کی جڑ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جس وقت فرمان نازل ہوا اس کی قدر کی گئی‘ اس کو دستورالعمل بنایا گیا- نتیجہ یہ ہوا کہ اہل عرب جو اول کچھ نہ تھے پھر سب کچھ بن گئے- قرآن شریف کے ابتدائی الفاظ میں لکھا ہے-ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ )البقرہ:۳-(نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کتاب کا ادب اس طرح سے کیا کہ آپ کے زمانہ میں سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب نہ لکھی گئی- اس وقت بھی خوش قسمتی سے وہی کتاب موجود ہے- اگر کوئی اور بھی اس وقت کی لکھی ہوئی ہوتی تو پھر یہ جوش نہ ہوتا یا خدا اور کوئی راہ کھول دیتا- غرضیکہ اس کتاب کے ذریعہ سے فضل الٰہی کا وہ سایہ قائم ہوا جیسے اس وقت تم لوگ آسائش سے بیٹھے ہو- سائبان تم پر ہے- دھوپ کی تپش سے محفوظ ہو- اس طرح وہ لوگ جو کہ جنگلوں میں اور دور دراز بلاد میں رہتے تھے وہ اس کے ذریعہ سے امن کی زندگی بسر کرنے لگے-
تمام ترقیوں‘ عزت اور حقیقی خوشی کی جڑ یہ کتاب ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہم اس )کرہ ارض( پر حکمرانی کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے فضل الٰہی کا سایہ ہم پر پڑ سکتا ہے- یہ نہ خیال کرو کہ ایرانی سلطنت ایسی راحت میں ہے- ہرگز نہیں- جس قدر وہ اس کتاب سے دور ہے اسی قدر اس میں گند ہے مگر تم کو ان باتوں کا علم نہیں ہے- بڑے بڑے لائق‘ چالاک اور پھرتی سے بات کرنے والوں کے ساتھ ناچیزی کی حالت میں میرا مقابلہ ہوا ہے مگر اس قرآن کے ہتھیار سے جب میں نے ان سے بات کی ہے تو ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگ گئیں- ایک انسان جو کہ بیماریوں میں مبتلا ہو بظاہر تم اسے خندہ اور خوش دیکھ سکتے ہو مگر اندر سے دکھ اسے ملامت کا نشانہ بنا رہے ہیں- یاد رکھو خوشی کا چشمہ قلب‘ پھر عقل‘ پھر حواس ہیں- اس کے بعد جسم میں خوشی ہوتی ہے مگر جو لوگ غموں میں مبتلا ہوں ان کو حقیقی خوشی نہیں ہوا کرتی-
میں تم کو ایک بچہ کا قصہ سناتا ہوں کیونکہ تم بھی بچے ہو مگر وہ عمر میں تم سب سے چھوٹا تھا- اس کا نام یوسفؑ ہے- جس وقت بھائیوں نے اسے باپ سے مانگا اور چاہا کہ اسے باپ سے الگ کر دیں اور جنگل میں جا کر ایک کنوئیں میں اتار دیا- اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اس کی کیا عمر تھی- اگرچہ وہ چھوٹا تھا اور ناواقف تھا مگر پھر بھی بچوں کی طرح باپ سے الگ ہونے اور نکالے جانے کا اسے علم تھا اور یہ جانتا تھا کہ اس سے دکھ ملتا ہے- ذرا سوچو تو جب ایک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کیا جاتا ہے تو بچہ کا کیا حال ہوتا ہے- پھر بچہ ہونے کے نام سے دب جاتے ہیں- سہم جاتے ہیں- اور اس کو وہ تاریک کنواں دکھایا گیا جس میں اسے اتارا گیا- نہ اس وقت کوئی یار اور نہ آشنا‘نہ ماں اور نہ باپ- اگر ہوتے بھی تو اسے وہ بات نہ بتلا سکتے جو خدا نے بتائی- اور ان کو کیا علم تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ مگر خدا کا سایہ اس پر تھا اور خدا نے اسے بتلایا- لتنبئنھم بامرھم ھٰذا و ھم لایشعرون )یوسف:۱۶( کہ اے یوسفؑ! دیکھ تجھے باپ سے الگ کیا- تیری زمین سے تجھے الگ کیا اور اندھیرے کنوئیں میں ڈالا- مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اس علیحدگی کی تعبیر کو تو بھائیوں کے سامنے بیان کرے گا اور ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے- دیکھو یہ باتیں باپ نہیں کر سکتا- نہ وعدہ دے سکتا ہے کہ یوں ہو گا یا جاہ و جلال کے وقت تک یہ تندرستی بھی ہو گی- ایک باپ بچے سے پیار تو کر سکتا ہے مگر وہ اس کے آئندہ کی حالت کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے- ان باتوں کو جمع کر کے دیکھو- اگر کوئی انسان تسلی دیتا تو بچہ کو پیار کرتا- گلے میں ہاتھ ڈالتا اور اسے کہتا کہ ہم چیجی دیویں گے- مگر خدا کی ذات کیا رحیم ہے وہ فرماتا ہے- لتنبئنھم بامرھم ھٰذا ہم وہ عروج دیں گے کہ تو ان احمقوں کو اطلاع دے گا-
یہ حقیقت ہے اس سایہ کی جسے میں چاہتا ہوں تم پر ہو- علوم کی تحصیل آسان ہے مگر خدا کے فضل کے نیچے اسے تحصیل کرنا یہ مشکل ہے- کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی اور دنیوی تربیت ہو مگر اول فضل کا سایہ ہو‘ پھر کتاب‘ پھر دستور العمل ہو- اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے؟ فضل الٰہی کے لئے پہلی بشارت پیارے عبد الکریم نے دی ہے- وہ کیا ہے؟ حضرت صاحب کی دعائیں ہیں- میں ان دعائوں کو کیا سمجھتا ہوں- یہ بہت بڑی بات ہے اور یقینا تمہارے ادراک سے بالاتر ہو گی- مگر میں کچھ بتلاتا ہوں- ][ مخالفتوں سے انسان ناکامیاب ہوتا ہے- گھبراتا ہے- ایک لڑکا ماسٹر کی مخالفت کرے تو اسے مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے- جس قدر مہتمم مدرسہ کے ہیں اگر وہ سب مخالفت میں آویں تو زندگی بسر کرنی مشکل ہو- اگرچہ افسر بھی لڑکوں کے محتاج ہیں مگر ایک ذرا سے نکتہ سے اسے بورڈنگ میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے- اب اس پر اندازہ کرو کہ ایک کی مخالفت انسان کو کیسے مشکلات میں ڈالتی ہے- لیکن ہمارے امام کی ساری برادری مخالف ہے- رات دن یہی تاک ہے کہ اسے دکھ پہنچے- پھر گائوں والے مخالف حالانکہ ان کو نفع پہنچتا ہے- میں نے ایک شریر سے پوچھا کہ اب مرزا صاحب کے طفیل تمہاری کتنی آمدنی ہو گئی ہے- تو کہا کہ بیس روپیہ ماہوار زیادہ ملتے ہیں- علیٰ ہذا القیاس ان گدھے والوں اور مزدوروں سب سے دریافت کرو تو یقین ہو گا کہ ان کے واسطے ہمارا یہاں رہنا کیسا بابرکت ہے- مگر ان سب کے دلوں میں ایک آگ بھی ہماری طرف سے ہے- باوجود ہم سے متمتع ہونے کے پھر بھی ان کے اندر ایک کپکپی ہے کہ یہ یہاں کیوں آ گئے- ابھی ایک مینار بن رہا ہے- اگر کوئی میرے جیسا خلیق ہوتا تو راستہ کو توڑ کر مینار ایک کونے میں بناتا مگر اس مجسم رحم انسان )مرزا غلام احمد( نے اسے مسجد کے اندر بنایا کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو- ان لوگوں کو غیرت نہیں آتی کہ کیا ان دور دراز سے آنے والوں کی عقل ماری گئی ہے کہ دوڑے چلے آ رہے ہیں- یہ کہاں کے فلاسفر ہوئے جو ایسی بات کرتے ہیں- کیا ان کے تجارب ہم سے زیادہ ہیں یا معلومات میں ہم سے بڑھ کر ہیں- شرم کے مارے کچھ جواب تو نہیں دے سکتے- یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ روپیہ اپنا کھاتے ہیں اور یہاں رہتے ہیں- یہ حال تو گائوں کی مخالفت کا ہے- پھر سب مولوی مخالف‘ گدی|نشین مخالف‘ شیعہ مخالف‘ سنی مخالف‘ آریہ مخالف‘ مشنری مخالف دہریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر وہ بھی مخالفاور نہایت خطرناک دشمن اس سلسلہ کے ہیں- ان تمام مشکلات کے مقابلہ میں دیکھو وہ )حضرت مرزا صاحب( کیسے کامیاب ہے- کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم اس طرح کامیاب ہو- یہاں ہمارا رہنا‘ تمہارا رہنا‘ سب اسی کے نظارہ ہیں کہ باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پروانہ وار اس پر گرتے ہیں- اس کا باعث یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کا سچا حامی ہے اور رات دن دعا میں لگا ہوا ہے- اس لڑکے سے بڑھ کر کوئی خوشی قسمت نہیں ہے جس کے لئے یہ دعائیں ہوں- مگر ان باتوں کو وہی سمجھتا ہے جس کی آنکھ بینا اورکان شنوا ہو-۱~}~
لتنبئنھم بامرھم ھٰذا کی صدا یوسف کے کان میں پڑی- اسی سے سوچو کہ جب خدا کا فضل ساتھ ہوتا ہے تو کوئی دشمن ایذا نہیں پہنچا سکتا- کس طرح کا جاہ و جلال اور بحالی یوسف کو ملی- اور سب سے عجیب بات یہ کہ ان بھائیوں کو آخر کہنا پڑا ان کنا لخاطئین )یوسف:۹۲-(اس کا جواب یوسفؑ نے دیا لاتثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم )یوسف:۹۳-(یہ اللہ پر یقین کا نتیجہ تھا-
تم بھی اللہ پر کامل یقین کرو اور ان دعائوں کے ذریعہ‘جو کہ دنیاکی مخالفت میں سپر ہیں‘ فضل چاہو- کتاب اللہ کو دستور العمل بنائو تا کہ تم کو عزت حاصل ہو- باتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے اس کتاب کے تابع اپنے آپ کو ثابت کرو- ہنسی‘ تمسخر‘ ٹھٹھا‘ ایذا‘ گالی‘ یہ سب اس کتاب کی تعلیم کے برخلاف ہے- جھوٹ سے‘ *** سے‘ تکلیف اور ایذا دینے سے ممانعت اور لغو سے بچنا اس کتاب کا ارشاد ہے- صوم اور صلوٰۃ اور ذکر|و|شغل الٰہی کی پابندی اس کا اصول ہے-
تمہاری تربیت کی ابتدائی حالت ہے-اور اگرچہ تربیت کرنے والے اس قابل نہیں ہیں کہ تم کو اعلیٰ منازل تک پہنچا دیں مگر کوئی کمزوری اور نقص اگر انتظام میں ہے تو اس کی اصلاح تمہارے ہی ہاتھ میں ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و کذٰلک نولی بعض الظالمین بعضھم بما کانوا یکسبون )الانعام:۱۳۰( یعنی اسی طرح ہم ظالموں پر ظالموں کو ولی کرتے ہیں تا کہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں- پھر فرماتا ہے ان اللہ لایغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم )الرعد:۱۲-( پس اپنی اصلاح میں لگو کہ تمہارا مصلح تمہارا متولی اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دیوے کہ فضل خدا کا سایہ تم پر ہو- اس کی کتاب تمہارا دستور العمل ہو- کرہ زمین پر عزت سے زندگی بسر کرو- دنیا کے لئے کمال نور اور ہدایت ہو جائو- اپنی کمزوریوں کے لئے دعا کرو اور کوشش کرو کہ یوسف کی طرح بن جائو-
یہ تقریر فرما کر حضرت مولانا حکیم صاحب کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے مدرس جناب مولوی مبارک علی صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے باری باری نظمیں پڑھیں-
بعد اختتام نظم جناب ڈائرکٹر صاحب نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ خدا کے فضل و احسان سے افتتاح کالج کی رسم ادا ہو چکی ہے اور اس خوشی میں آج مدرسہ کو رخصت دی جاتی ہے- اس کے بعد دعا کی گئی اور جلسہ برخاست ہوا- ۲~}~
۱~}~ ) البدر جلد ۲ نمبر۲۲ ۔۔ ۱۹ / جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۱‘۱۷۲ (
۲~}~ ) البدر جلد ۲ نمبر۲۳ ۔۔ ۲۶ / جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۹ (
* * * *
‏KH1.16
خطبات|نور خطبات|نور
۲۱ / دسمبر ۱۹۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ عید الفطر
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد-
یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس و الحج و لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا و لٰکن البر من اتقیٰ و اتوا البیوت من ابوابھا و اتقوا اللہ لعلکم تفلحون )البقرہ:۱۹۰(
یہ رکوع جس کا میں نے ابتداء پڑھا ہے‘ اس رکوع کے بعد ہے جس میں رمضان اور روزہ کا تذکرہ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کو نیک اعمال کے بجالانے کی کیسی محبت تھی اور کلام اور اس کی اصلی بات پر آگاہی پانے کا کس قدر شوق تھا-
روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے- رکوع میں رمضان شریف کے متعلق یہ بات مذکور ہے کہ انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی- اور بقائے نسل کی شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق- ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بننا سیکھ لیوے- آجکل تو دن چھوٹے ہیں- سردی کا موسم ہے اور ماہ رمضان بہت آسانی سے گذرا- مگر گرمی میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھوک پیاس کا کیا حال ہوتا ہے اور جوانوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کو بیوی کی کس قدر ضرورت پیش آتی ہے- جب گرمی کے موسم میں انسان کو پیاس لگتی ہے- ہونٹ خشک ہوتے ہیں- گھر میں دودھ‘ برف‘ مزہ دار شربت موجود ہیں مگر ایک روزہ دار ان کو نہیں پیتا- کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مولا کریم کی اجازت نہیں کہ ان کو استعمال کرے- بھوک لگتی ہے- ہر ایک قسم کی نعمت زردہ‘ پلائو‘ قلیہ‘ قورمہ‘ فرنی وغیرہ گھر میں موجود ہیں- اگر نہ ہوں تو ایک آن میں اشارہ سے طیار ہو سکتے ہیں مگر روزہ دار ان کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا- کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے مولیٰ کریم کی اجازت نہیں- شہوت کے زور سے پٹھے پھٹے جاتے ہیں اور اس کی طبیعت میں سخت اضطراب جماع کا ہوتا ہے- بیوی بھی حسین‘ نوجوان اور صحیح القویٰ موجود ہے- مگر روزہ دار اس کے نزدیک نہیں جاتا- کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ مانتا ہے کہ اگر جائوں گا تو خدا تعالیٰ ناراض ہو گا- اس کی عدول حکمی ہو گی- ان باتوں سے روزہ کی حقیقت ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے نفس پر یہ تسلط پیدا کر لیتا ہے کہ گھر میں اس کی ضرورت اور استعمال کی چیزیں موجود ہیں مگر اپنے مولا کی رضا کے لئے وہ حسب تقاضائے نفس ان کو استعمال نہیں کرتا‘ تو جو اشیاء اس کو میسر نہیں ان کی طرف نفس کو کیوں راغب ہونے دے گا؟ رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا- قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا ہے- کہتا ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون )البقرہ:۱۸۴( روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے- ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے- صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولا کی اجازت نہیں- تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے‘ پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے- تقویٰ کے لئے ایک جزو ایمان یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال مت کھایا کرو-
حرام خوری کے اقسام
حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قسم کا ہوتا ہے- ایک نوکر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے- مگر وہ اپنا کام سستی یا غفلت سے‘ آقا کی منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے- ایک دوکاندار یا پیشہ|ور خریدار کو دھوکا دیتا ہے- اسے چیز کم یا کھوٹی حوالہ کرتا ہے اور مول پورا لیتا ہے- تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا تو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ ہرگز نہیں- جب وہ اس دھوکا کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے- اس کے کاروبار میں ہرگز برکت نہ ہو گی- پھر ایک شخص محنت اور مشقت سے مال کماتا ہے مگر دوسرا ظلم )یعنی رشوت‘ دھوکا‘ فریب( سے اس سے لینا چاہتا ہے تو یہ مال بھی مال بالباطل لیتا ہے- ایک طبیب ہے- اس کے پاس مریض آتا ہے اور محنت اور مشقت سے جو اس نے کمائی کی ہے اس میں سے بطور نذرانہ کے طبیب کو دیتا ہے یا ایک عطار سے وہ دوا خریدتا ہے تو اگر طبیب اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور تشخیص کے لئے اس کا دل نہیں تڑپتا اور عطار عمدہ دوا نہیں دیتا اور جو کچھ اسے نقد مل گیا اسے غنیمت خیال کرتا ہے یا پرانی دوائیں دیتا ہے کہ جن کی تاثیرات زائل ہو گئی ہیں تو یہ سب مال بالباطل کھانے والے ہیں- غرضیکہ سب پیشہ ور حتیٰ کہ چوڑھے چمار بھی سوچیں کہ کیا وہ اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں پر ان کو دھوکا دیا جائے- اگر وہ پسند نہیں کرتے تو پھر دوسرے کے ساتھ خود وہی ناجائز حرکت کیوں کرتے ہیں- روزہ ایک ایسی شے ہے جو ان تمام بری عادتوں اور خیالوں سے انسان کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے اور تقویٰ حاصل کرنے کی مشق سکھاتا ہے- جو شخص کسی کا مال لیتا ہے وہ مال دینے والے کی اغراض کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر مال لیوے اور اسی کے مطابق اسے شے دیوے-
روزہ سے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے-
روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب|الٰہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے- اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے- و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب- اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی و لیومنوا بی لعلھم یرشدون )البقرہ:۱۸۷-(
یہ ماہ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیا ہے اور اس سے اس ماہ کی عظمت اور سر الٰہی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو میں قبول کروں گا- لیکن ان کو چاہئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں- انسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قوی ہوتا ہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے- لعلھم یرشدون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو رشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان‘ اس کے احکام کی اتباع اور دعا کو قرار دیا ہے- اور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے-
آیت کا شان نزول
جب صحابہؓ نے دیکھا کہ ایک ماہ رمضان کی یہ عظمت اور شان ہے اور اس قرب الٰہی کے حصول کے بڑے ذرائع موجود ہیں تو ان کے دل میں خیال گزرا کہ ممکن ہے کہ دوسرے چاندوں و مہینوں میں بھی کوئی ایسے ہی اسرار مخفیہ اور قرب الٰہی کے ذرائع موجود ہوں- وہ معلوم ہو جاویں اور ہر ایک ماہ کے الگ الگ احکام کا حکم ہو جاوے- اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ دوسرے چاندوں کے احکام اور عبادات خاصہ بھی بتا دیئے جاویں-
ہلال اور قمر کا فرق
یہاں لفظ اھلۃ کا استعمال ہوا ہے جو کہ ہلال کی جمع ہے- بعض کے نزدیک تو پہلی‘ دوسری اور تیسری کے چاند کو اور بعض کے نزدیک ساتویں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد قمر کا لفظ اطلاق پاتا ہے- احادیث میں جو مہدی کی علامات آئی ہیں ان میں سے مہدی کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ ایک ہی ماہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا- وہاں چاند کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اعلیٰ درجہ کا قمر ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵ تاریخ کو ہوتا ہے اور اس کے گرہن کی بھی یہی تاریخیں مقرر ہیں- اس سے کم زیادہ نہیں ہو سکتا- اور ایسے ہی سورج گرہن کے لئے بھی ۲۷‘ ۲۸‘ ۲۹ تاریخ ماہ قمری کی مقرر ہے- غرضیکہ قمر کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کی رو سے مہدی کی علامت تھی- لیکن لوگوں نے تصرف کر کے وہاں قمر کی بجائے ہلال کا لفظ ڈال دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے-
ہر ایک نیا چاند انسانی زندگی کی مثال میں ایک سبق دیتا ہے
صحابہ کرامؓ کے اس سوال پر کہ اور چاندوں کے برکات و انوار سے ان کو اطلاع دی جاوے اللہ جل|شانہ نے یہ جواب دیا- قل ھی مواقیت للناس و الحج یعنی جیسے ماہ رمضان تقویٰ سکھانے کی ایک شے ہے ویسے ہرایک مہینہ جو چڑھتا ہے وہ انسان کی بہتری کے لئے ہی آتا ہے- انسان کو چاہئے کہ نئے چاند کو دیکھ کر اپنی عمر رفتہ پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ میری عمر میں سے ایک ماہ اور کم ہو گیا ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ چاند تک میری زندگی ہے کہ نہیں- پس جس قدر ہو سکے وہ خیر و نیکی کے بجالانے میں اور اعمال صالحہ کرنے میں دل و جان سے کوشش کرے اور سمجھے کہ میری زندگی کی مثال برف کی تجارت کی مانند ہے- برف چونکہ پگھلتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہوتا رہتا ہے اس لئے اس کے تاجر کو بڑی ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی حفاظت کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے- ایسے ہی انسان کی زندگی کا حال ہے جو برف کی مثال ہے کہ اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کم ہوتا ہی رہتا ہے اور اس کا تاجر یعنی انسان ہر وقت خسارہ میں ہے- چونسٹھ- پینسٹھ سال جب گزر گئے اور اس نے نیکی کا سرمایہ کچھ بھی نہ بنایا تو وہ گویا سب کے سب گھاٹے میں گئے- ہزاروں نظارے تو آنکھ سے دیکھتے ہو- اپنے بیگانے مرتے ہیں- اپنے ہاتھوں سے تم ان کو دفن کر کے آتے ہو اور یہ ایک کافی عبرت تمہارے واسطے وقت کی شناخت کرنے کی ہے- اور نیا چاند تمہیں سمجھاتا ہے کہ وقت گزر گیا ہے اور تھوڑا باقی ہے- اب بھی کچھ کر لو- لمبی لمبی تقریریں اور وعظ کرنے کا ایک رواج ہو گیا ہے ورنہ سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ایک لفظ ہی کافی ہے- کسی نے اسی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہے-
مجلس وعظ رفتنت ہوس است
مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است
پس ان روزانہ موت کے نظاروں سے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے اور تمہارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں‘ عبرت پکڑو اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور کاہلی اور سستی میں وقت کو ضائع مت کرو- مطالعہ کرو اور خوب کرو کہ بچہ سے لے کے جوان اور بوڑھے تک اور بھیڑ‘ بکری‘ اونٹ وغیرہ جس|قدر جاندار چیزیں ہیں‘ سب مرتے ہیں اور تم نے بھی ایک دن مرنا ہے- پس وہ کیا بدقسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وقت کی کیسی قدر کرتے تھے کہ جب ان کو ماہ رمضان کے فضائل معلوم ہوئے تو معاً دوسرے مہینوں کے لئے سوال کیا کہ قرب الٰہی کے اگر اور ذرائع بھی ہوں تو معلوم ہو جاویں-
روح کا علاج ضروری ہے اور اس کا ایک ہی نسخہ ہے
میرے پاس بیمار آتے ہیں- ان کی اوراپنی حالت پر حیران ہوا کرتا ہوں کہ جس جسم کے آرام کے لئے یہ اس قدر تکلیف برداشت کر کے اور اخراجات اور مصائب سفر کے زیر بار ہو کر میرے پاس آتے ہیں اسے یہ آج نہیں توکل اور کل نہیں تو پرسوں ضرور چھوڑ دیں گے- لیکن پھر بھی ذرا سے دکھ سے آرام پانے کے لئے ترک وطن کرتے ہیں- عزیز و اقارب کو چھوڑتے ہیں- اور ان کی بڑی آرزو یہ ہوتی ہے کہ جس طرح ہو تپ جلدی ٹوٹ جاوے لیکن روح کی بیماری کی کسی کو فکر نہیں ہے- اس کے واسطے نہ کوئی تڑپ‘ نہ رنج و الم- حالانکہ جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد اعمال کے جوابدہ ہو ں گے اور یہاں بھی برابر ہوتے رہتے ہیں- آتشک والے مریض کو اس کے اعمال کی جو پاداش ملتی ہے وہی اسے خوب جانتا ہے- اسی طرح بدنظری اور بدکاری کی عادتیں جو پڑتی ہیں پھر انسان ہزار جتن کرے ان کا دور ہونا بغیر خاص فضل الٰہی کے بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کے بڑے بڑے دکھ دینے والے نتیجے اسے برداشت کرنے پڑتے ہیں- جب یہ حال ہے اور جسم کی ادنیٰ ادنیٰ سی ایذا کی تم کو فکر ہے تو روح کا کیوں فکر نہیں کرتے- روح کی بیماریوں کے علاج کا ایک ہی نسخہ ہے جس کا نام قرآن شریف ہے- اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بدکار لوگ کہیں گے لو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحاب السعیر )الملک:۱۱( کہ اگر ہم خدا کے فرستادوں کی باتوں کو کان دھر کر سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے- یہ حسرت ان کو کیوں ہو گی؟ صرف اس لئے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب پھر ہاتھ نہیں آ سکتا- پس روح کی بیماری کا بھی علاج ہے کہ وقت کو ہاتھ سے نہ گنواوے اور اس نور اور شفا کتاب‘ قرآن شریف پر عملدرآمد کرے- اپنے حال اور قال اور حرکت اور سکون میں اسے دستور|العمل بناوے-
عبرت پکڑنے کے میں دو مرحلے اوپر بیان کر آیا ہوں- تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ واعظ کا وعظ انسان کی ہدایت کے لئے کافی نہیں ہوتا- آج سے کئی سو برس پیشتر ایک تجربہ کار کہتا ہے-
مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
میری طرح بہت سے واعظ کھڑے ہوتے ہیں- بہت سے ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی نیت روپیہ بٹورنے کی ہوتی ہے- بہت سے ایسے کہ لوگ ان کے وعظ اور تقریر کی تعریف کریں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہوں گے جو کہ محض خدا کے واسطے وعظ کرتے ہوں- اسی طرح سننے والوں کا حال ہے- میں طبیب ہوں اس لئے بعض لوگ صرف اسی لحاظ سے وعظ سنتے ہوں گے کہ ان کا علاج بھی اچھی طرح کروں اور کسی کی کچھ اور کسی کی کچھ غرض ہو گی اور بعض ایسے بھی ہوں گے کہ محض خدا کے لئے سنتے ہوں-
غرض وعظوں کے سننے اور سنانے والے مختلف اغراض لئے ہوتے ہیں- جو خدا کے لئے سنتے اور سناتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقیوں کے لئے یہ علم بڑی مشکلات کا موجب ہوتا ہے اور وبال جان ہوتا ہے- کیونکہ اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوتی ہے اور انسان سن یا سنا کر خود ہی اس میں پھنس جاتا ہے- عالموں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تم خود اپنے علم پر عامل تھے کہ نہیں؟ تم تکبر کا وعظ کرتے تھے لیکن خود تکبر سے خالی نہ تھے- تم بغض اور کینہ سے بچنے کی نصیحت لوگوں کو کرتے تھے مگر خود نہیں بچتے تھے- تم ریاکاری سے لوگوں کو روکتے تھے مگر خود نہیں رکتے تھے- یہ روحانی بیماریاں ہیں جن کا علاج انسان کے لئے ضروری ہے- چاہئے کہ علم کے مطابق تمہارا عمل ہو-
ایک مزکی النفس انسان سے مستفید ہونے کی راہ
لوگوں کے اندر کمزوریاں بھی ہوتی ہیں- اس لئے خدا کی رحمت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے ایک مزکی نفس انسان پیدا کرتا ہے جو کہ اپنے نفس اور خواہش سے کچھ نہیں کرتا- خدا کے بلائے بولتا ہے- اس کی زبان خدا کی زبان ہوتی ہے- اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں یا خدا کی آنکھیں اس کی آنکھیں ہوتی ہیں- اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ یا خدا کے ہاتھ اس کے ہاتھ ہوتے ہیں- وہ خدا کی طرف سے آتا ہے اور ایک مقناطیسی قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے تاکہ لوگ اس کے ساتھ تعلق پیدا کر کے اپنے اپنے نفوس کا تزکیہ کریں اور یہ تعلق ایسا مضبوط ہو جیسے ایک درخت کی شاخ پورے طور پر اپنے تنے سے پیوستہ ہوتی ہے- ایسا ہی یہ بھی صدق و صفا اور اخلاص اور پوری اطاعت کے ساتھ اس کے ساتھ پیوستہ ہو تو تزکیہ کی اس روح سے جو مزکی کے اندر ہوتی ہے فائدہ اٹھا سکے گا- ورنہ اس کا نشو و نما ہرگز ممکن نہیں-
ماہ شوال نبوت کا چاند ہے
پس وقت کی قدر کرو اور ہر ایک چاند جو تمہاری روح کے لئے ایک وقت اور فرصت لاتا ہے اس سے نصیحت سیکھو- جو چاند تم نے کل دیکھا ہے وہ گویا نبوت کے اول سال کا چاند ہے- کیونکہ قرآن شریف کا نزول اسی ماہ شوال کے ماقبل رمضان میں شروع ہوا- اس لئے یہ چاند اور اس کے پہلے کا چاند ہر ایک مومن کے لئے خیر و برکت کا موجب ہے- حدیث شریف میں دعا آتی ہے کہ انسان چاند دیکھے تو کہے- اللٰھم اھلہ علینا بالامن و الایمان و السلامۃ و الاسلام ربی و ربک اللہ ھلال رشد و خیر )ترمذی کتاب الدعوات( پس چاہئے کہ روحانی پرورش کے لئے ہم سچا تعلق مزکی کے ساتھ پیدا کریں- وہ اب موجود ہے جس کی انتظار تیرہ سو برس سے ہو رہی تھی-
حقیقت حج و جماعت
پھر فرمایاو الحج - text] ga[t کہ چاند حج کے وقت کی بھی خبر دیتا ہے جو اسلام کا ایک اعلیٰ رکن ہے- باوجود اس کے کہ نوٹس اور اشتہاروں کی کثرت ہو رہی ہے اور ہر جگہ مجلسیں اور سوسائٹیاں جوش|وخروش سے قائم ہو رہی ہیں مگر پھر بھی دنیا میں کوئی مجلس ایسی دید و شنید میں نہیں آئی‘ جس کے ممبر پانچ وقت جمع ہوتے ہوں- مگر جناب الٰہی نے اطاعت اور طہارت کے ساتھ پانچ وقت جمع ہونا اور مل کر اس کی عظمت|و|جبروت کو بیان کرنا مسلمانوں پر فرض کر دیا ہے- کوئی شہر اور قصبہ نہ دیکھو گے جس کے ہر محلہ میں اسلام کی یہ پنجگانہ کمیٹی نہ ہوتی ہو- لیکن اس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام باشندگان شہر کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا جاتا تو یہ ایک تکلیف مالایطاق ہوتی- اس لئے تمام شہر کے رہنے والے مسلمانوں کے اجتماع کے لئے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا مقرر ہوا- پھر اسی طرح قصبات اور دیہات کے لوگوں کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی- اور چونکہ یہ ایک بڑا اجتماع تھا اس لئے عید کا جلسہ شہر کے باہر میدان میں تجویز ہوا- لیکن اس سے پھر بھی کل دنیا کے مسلمان میل ملاپ سے محروم رہتے تھے- اس لئے کل اہل اسلام کے اجتماع کے لئے ایک بڑے صدر مقام کی ضرورت تھی تاکہ مختلف بلاد کے بھائی اسلامی رشتہ کے سلسلہ میں یکتا باہم مل جاویں- لیکن اس کے لئے چونکہ ہر فرد بشر مسلمان اور امیر اور فقیر کا شامل ہونا محال تھا اس لئے صرف صاحب استطاعت منتخب ہوئے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر تبادلہ خیالات کریں اور مختلف خیالات و دماغوں کا ایک اجتماع ہو اور سب کے سب مل کر خدا|تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو بیان کریں- حج میں ایک کلمہ کہا جاتا ہے لبیک لبیک اللٰھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لاشریک لک )بخاری کتاب الحج باب التلبیہ( جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مولا! تیرے حکموں کی اطاعت کے لئے اور تیری کامل فرمانبرداری کے لئے میں تیرے دروازے پر حاضر ہوں- تیرے احکام اور تیری تعظیم میں کسی کو شریک نہیں کرتا- غرضیکہ یہ حقیقت ہے مذہب اسلام کی جس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- پھر دن میں پانچ دفعہ کل مسلمانوں کو ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ سے بلایا جاتا ہے- کوئی نادان اسلام پر کیسے ہی اعتراض کرے کہ ان کا خدا ایسا ہے ویسا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے اکبر سے بڑھ کر لفظ وضع نہیں کر سکتا- نماز کے لئے بلاتے ہیں تو ’’اللہ اکبر‘‘ سے شروع کرتے اور ختم کرتے ہیں تو رحمۃ اللہ پر-
حج کے برکات میں سے ایک یہ تعلیم ہے جو کہ اس کے ارکان سے حاصل ہوتی ہے کہ انسان سادگی اختیار کرے اور تکلفات کو چھوڑ دے- اس کے ارکان کبر و بڑائی کے بڑے دشمن ہیں- سستی اور نفس|پروری کا استیصال ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بات یہ ہے کہ ہزاروں ہزار سال سے ایک معاہدہ چلا آتا ہے- وہ یہ کہ جناب الٰہی کے حضور حاضر ہو کر تحمید کرتا ہے اور بہت سی دعائیں مانگتا ہے-
محدود عقل اور خواہش کے محدود نتائج
’’ و لیس البر ‘‘ انسان کو ایک زبردست طاقت کا خیال ہمیشہ رہتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ ہر ایک مذہب میں جناب الٰہی کی عظمت و جبروت کو ضرور مانا جاتا ہے- جو لوگ اس سے منکر ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ ایک عظیم الشان طاقت ضرور ہے جس کے ذریعہ سے یہ نظام عالم قائم ہے- اس کے قرب کے حاصل کرنے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں- بعض کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جسمانی سامان حاصل کر کے جسمانی آرام حاصل کیا جاوے- جیسے ایک دوکاندار کی بڑی غرض و آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کا گاہک واپس نہ جاوے- ایک اہل کسب ایک دو روپیہ کما کر پھولا نہیں سماتا- لیکن ایسے لوگ انجامکار کوئی خوشحالی نہیں پاتے- وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہش محدود ہوتی ہے- اس لئے محدود فائدہ اٹھاتے ہیں اور محدود خیالات کانتیجہ پاتے ہیں- بعض اس سے زیادہ کوشش کرتے ہیں اور ان پر خواب اور کشف کا دروازہ کھلتا ہے- اس قسم کے لوگوں میں بھلائی اور اخلاق سے پیش آنے کا خیال و ارادہ بھی ہوتا ہے- مگر چونکہ ان کی عقل بھی محدود ہوتی ہے اس لئے ان کی راہ بھی محدود ہوتی ہے- ایک حد کے اندر اندر رہتے ہیں اور ان کو مشیر بھی محدود الفطرت ملتے ہیں- تیسری قسم کے لوگ کہ کوئی بھلائی ان کی نظر میں بھلی اور برائی بدی کسی محدود خیال سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر وسیع اور اس بات پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الورا ہے- کوئی عقل اور علم اسے محیط نہیں- بلکہ کل دنیا اس کی محاط ہے- اس کی رضامندی کی راہوں کو کوئی نہیں جان سکتا بجز اس کے کہ وہ خود کسی پر ظاہر کرے- یہ نظر انبیاء اور رسل اور ان کے خلفاء راشدین کی ہوتی ہے- وہ نہ خود تجویز کرتے ہیں اور نہ دوسرے کی تراشیدہ تجاویز مانتے ہیں بلکہ خدا کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں-
عرب کے نادانوں کا خیال تھا کہ جب وہ گھر سے حج کے لئے نکلیں اور پھر کسی ضرورت کے لئے ان کو واپس گھر آنا پڑے تو گھروں کے دروازہ میں داخل ہونا وہ معصیت خیال کرتے تھے اور پیچھے سے چھتوں پر سے ٹاپ کر آیا کرتے تھے اور اسے ان لوگوں نے نیکی خیال کر رکھا تھا- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ باتیں نیکی میں داخل نہیں بلکہ نیکی کا وارث تو متقی ہے- تم اپنے گھروں میں دروازہ کی راہ سے داخل ہوا کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پائو-
اس روح کو ابدالاباد ضرورتیں ہیں جن کی کسی کو خبر نہیں- اور مر کر جس ملک میں لوگ جاتے ہیں وہاں سے آج تک کوئی نہیں آیا جو یہ بتلا وے کہ وہاں کے لئے کس قسم کے سامان کی ضرورت ہے- کھانے‘ پینے‘ لباس اور آسائش کے واسطے کیا کیا انسان ساتھ لے جاوے- گزشتہ زمانہ کی نسبت تو لوگوں کے بڑے بڑے دعوے ہیں اور بعض مذاہب اپنی قدامت پر بڑا فخر و ناز کرتے ہیں- آریہ کہتے ہیں کہ ہم ہزارہا برس سے ہیں اور جین مت والے ان سے بھی زیادہ قدامت میں قدم مار رہے ہیں اور زردشت کے ماننے والوں نے تو حد ہی کر دی کہ مہاسنکھ کے پہلے سترہ صفر بڑھا دیئے-
غرضیکہ گزشتہ تاریخ کے دیکھنے میں انسانوں نے بڑے دعوے کئے ہیں- ایسے ہی اسٹرالوجی (Astrology) علم نجوم میں دور دور کے ستاروں کی تحقیق کی گئی ہے اور عجیب عجیب خواص اور ہیئت ان کی دریافت کی ہے- قدامت میں وہاں تک اور دوربینی میں یہاں تک نوبت پہنچائی ہے- نیچے کی طرف جیالوجی والوں نے زمین کے اندر بڑے بڑے غوطے لگائے مگر ایک سیکنڈ کے بعد کیا ہونے والا ہے‘ کوئی نہیں بتاتا اور جب ایک سیکنڈ کے بعد کی خبر نہیں بتلائی جاتی تو مر کر کیا ہونا ہے اور کیا مرحلے پیش آتے ہیں‘ اس کی خبر کون دے؟ صرف خدا کی ہی ایک ذات ہے جو اس کی خبر دے سکتی ہے اور کوئی نہیں- وہی بتلاتا ہے کہ مرنے کے بعد تم کو فلاں فلاں امور کی ضرورت ہے اور تم کو اس ولایت میں بودوباش کے لئے فلاں قسم کا سامان درکار ہے- یہ خبر انبیائ‘ ان کے خلیفہ اور ماموروں کے ذریعہ ملتی ہے اور جو کچھ وہ بتلاتے ہیں وہ خدا سے خبر پا کر بتلاتے ہیں ورنہ بذات خود غیب کی کنجی نہیں ہوتے-
رضاء الٰہی کی وہی راہ ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کی معرفت بیان کرے اور خوش قسمتی سے ہمارا امام ان سب سے واقف ہے اور وہ بتلا سکتا ہے کہ تم کس طرح خدا کا قرب حاصل کر سکتے ہو- لیکن جو شخص اپنی طرف سے کوئی راہ تجویز کرتا ہے اور بلا کسی الٰہی سند کے کہتا ہے کہ اس سے خدا راضی ہو گا‘ وہ نفس دھوکا دیتا ہے- خدا کی راہوں کا علم انسان کو تقویٰ کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے- و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۲۸۳( تم تقویٰ اختیار کرو- اللہ تم کو علم عطا کرے گا جس سے تم اس کی رضامندی کی راہ پر چل سکو گے- تقویٰ ہی ہے کہ انسان بالکل خدا کا ہو جاوے- اس کا اٹھنا‘ بیٹھنا‘ چلنا‘ پھرنا‘ کھانا‘ پینا‘ ہر ایک حرکت و سکون خدا کے لئے ہو- جب وہ ہمہ تن اپنے وجود اور ارادوں کو خدا کے لئے بنا دے گا تو پھر خدا بھی اس کا بن جاوے گا- من کانللٰہ کان اللہ لہ
یہ وقت قابل قدر ہے
میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ چاندوں کے ذریعہ سے انسان کو وقت کی قدر معلوم ہوتی ہے اور یہ اس کی گذشتہ اور آئندہ عمر کا سبق دیتے ہیں- اسی طرح ہر ایک بات کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے- وہ جب ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر ہاتھ نہیں آیا کرتا- دیکھو کل شام تک ایک وقت تھا کہ اس دن میں تندرست اور مقیم کے لئے کھانا پینا حرام تھا- لیکن جب وہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے احکام اور برکات بھی ختم ہو گئے- آج ایک وقت ہے کہ اس کا حکم کل سے بالکل متضاد ہے- اگر کل تندرست اور مقیم کے لئے کھانا پینا دن میں حرام تھا تو آج اس کے واسطے نہ کھانا حرام ہے‘ نہ پینا- ہماری آنکھ‘ کان‘ ناک‘ دست و پا سب کچھ وہی ہیں جو کل تھے- لیکن تقویٰ‘ اطاعت اور حکم برداری کے لحاظ سے کل اور آج میں کس قدر تفرقہ ہے- اسی طرح خدا نے حج‘ عید‘ نماز‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے وغیرہ کے وقت مقرر کئے ہیں اور جب وقت پر ایک کام حسب رضاء الٰہی بجا لایا جاتا ہے تو وہ فضل اور برکات کا موجب ہوتا ہے- کل روزہ رکھنے کا ثواب تھا اور آج عذاب ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت دراصل اطاعت کا نام ہے- اگر اس میں احکام الٰہی کی اطاعت نہ ہو تو وہی عبادت حرام اور قبیح ہو جاتی ہے- اس سے ایک سبق حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے ہر ایک بات کے لئے ایک وقت ہوتا ہے ایسے ہی کامل متقی بننے کے لئے ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وہ وقت ہوتا ہے جب خدا کی طرف سے کوئی اس کا خلیفہ دنیا میں آیا ہو- سو یہ بھی وہی وقت ہے- جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہاتھ نہیں آتا- موت کا دروازہ تو کسی انسان کے لئے بند نہیں ہے- حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سید الرسل‘ خاتم الانبیاء ہیں- جن لوگوں نے آپ کا زمانہ پایا وہ آپ پر ایمان لائے اور متقی بنے- لیکن آخر آپﷺ~ فوت ہوئے اور ہمیشہ کے لئے ان لوگوں میں نہ رہے- ہاں آپﷺ~ کے انفاس طیبہ دیر تک رہے اور رہیں گے اور یہ ہر ایک نبی اور مامور کے ساتھ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ کسی کے انفاس طیبہ بہت دیر تک رہتے ہیں‘ کسی کے تھوڑی دیر تک- لیکن وہ بذات خود ان میں نہیں رہتے- دیکھو جس مسیح کو دو ہزار برس سے زندہ کہتے تھے آخر وہ بھی مردہ ثابت ہوا- اس کے پجاریوں نے اسے آسمان پر زندہ کہا مگر زمین نے مردہ ثابت کیا اور اس کے انفاس بھی مر گئے- تعلیم کا یہ حال ہوا کہ خدا کا بیٹا بنایا گیا- اسی لئے ہماری تعلیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کے ساتھ nsk] ga[t ’’عبدہ و رسولہ‘‘ کا لفظ ایزاد ہوا کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح گمراہ ہو کر متبوع کو خدا نہ بنا بیٹھیں اور جب خدا کی توحید کا بیان کریں تو ساتھ ہی ساتھ آپ کی عبودیت کا بھی ذکر کیا جاوے- اگر ایسی تعلیم عیسائیوں کے ہاتھ ہوتی تو وہ گمراہ نہ ہوتے-
میں وقت کا ذکر کر رہا تھا- پس تم کو چاہئے کہ وقت کا خیال رکھو- یہ آج عید الفطر ہے- پھر جو زندہ رہے تو دوسرے سال اسے پاوے گا- امام کے ماننے کا بھی یہی وقت ہے جبکہ وہ زندہ موجود ہے- اگر اس وقت نہ مانا تو پھر پچھتائو گے-
مومنوں پر تین وقت
ہر ایک مامور کے ماننے والوں پر تین وقت ہوا کرتے ہیں اور صحابہؓ پر بھی وہ وقت تھے- ایک تو مکہ کا جبکہ آنحضرت کو ہر طرف سے دکھ دیا جاتا تھا- جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کو بعض لوگوں نے مانا- دوسرا وہ جبکہ آنحضرتﷺ~ مدینہ میں پہلے آئے اور بعض لوگ آپﷺ~ پر ایمان لائے- تیسرا وہ وقت جبکہ صحابہؓ دنیا کے فاتح ہو رہے تھے اور ملک پر ملک آپ کے قبضہ میں آ رہا تھا- اب سوچ لو کہ ان تین وقتوں میں جن جن لوگوں نے مانا اور خرچ کیا‘ کیا وہ برابر ہو سکتے ہیں؟ فتح مکہ سے اول جن لوگوں نے خرچ کیا تھا ان کی نسبت خود آنحضرتﷺ~ نے فرمایا کہ اب جو لوگ احد کے پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں تو ان کی وہ قدر نہیں ہو سکتی جو فتح مکہ سے اول ایک جو کی مٹھی کی ہو سکتی ہے-
خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے مقام اور ان کا وقت
خالد بن ولید جیسے فاتح کے سامنے یہ فقرہ کہا تھا کہ تمہاری خدمات اور فتوحات ان لوگوں کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہو سکتیں جو کہ فتح مکہ سے پیشتر ایمان لائے اور نہ ان کی ان کے سامنے کچھ قدر ہے- پس یاد رکھو کہ امام کے ماننے کا ایک وقت ہوتا ہے- اسے ہاتھ سے کھونا نادانی ہے اور اس کے ساتھ ہو کر خرچ کرنے میں بڑی برکات ہوتی ہیں اور اس خرچ کا یہی وقت ہے- اگر تم کرو گے تو خدا اس کا اجر اپنے ذمہ نہ رکھے گا- اس کے لئے خدا نے ہر ایک سلیم فطرت میں ایک نظیر رکھ دی ہے کہ جب کوئی کسی سے سلوک کرے یا نیکی کرے تو ایک سلیم الفطرت انسان کبھی گوارا نہیں کرتا کہ اسے بدلہ نہ دیا جاوے اور دل میں اس کی عظمت گھر نہ کرے- تو اب سوچ لو جس نے فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے وہ آپ کیسے گوارا کرے گا کہ کسی کی نیکی کا بدلہ نہ دے- وہ بڑا غنی ہے- اس کی راہ میں اس کی رضامندی کے لئے جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے وہ ضرور بدلہ دیتا ہے- لمبے لمبے وعظ و نصیحت میں کیا کروں- میں مجدد‘ ملہم‘ مامور یا مسیح نہیں ہوں- جو ہے اس نے کشتی نوح بنا کر تمہارے آگے رکھ دی ہے- وہ جدھر بلانا چاہتا ہے ادھر جانا تو درکنار ہمارا تو رخ بھی ابھی اس طرف نہیں- وہ کہتا ہے کہ مجھ کو بڑے بڑے خاردار جنگل جسمیں لوہے کے کانٹے ہیں اور دشوار گزار راہیں طے کرنی ہیں- نازک پائوں والے میرے ساتھ نہیں چل سکتے- پھر میں نے اسے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ جس چشمہ سے میں تم کو پلانا چاہتا ہوں اس میں سے ابھی کسی نے پانی نہیں پیا- اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ بہت سی باتیں کہنے کے لائق ہیں مگر میں تم میں ان کی قبولیت اور برداشت کا مادہ نہیں پاتا اس لئے نہیں کہتا- پس اگر یہ سب باتیں تمہاے کام نہیں آتیں اور تم کو نفع نہیں بخشتیں تو میرا کورا بیان کیا فائدہ دے سکتا ہے؟ اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی قدر کرو- اگر یہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہزاروں برس کے انتظار کے بعد بھی نہ ملے گا- خرچ کرنے کا اور نفس کے تزکیہ حاصل کرنے کا یہی وقت ہے- نفس کا تزکیہ امام کے ساتھ ہو کر مال خرچ کرنے سے بھی ہوا کرتا ہے- وہ اب موجود ہے اور اس سے پیوند ہونے کا موقع ہے- اگر یہ چلا گیا تو میرے جیسے واعظوں کا کیا ہے- ۱۳۰۰ برس سے وعظ ہوتے ہی آئے ہیں- دعا کرو اور وقت کا مطالعہ کرو اور خدا سے قوت طلب کرو کہ وہ ان باتوں کی توفیق عطا کرے-
مثلاً خرچ کرنے کے یہاں بڑے موقعے ہیں- مہمان خانہ ہے- لنگرخانہ ہے- مدرسہ ہے- پھر بعض لوگ آتے ہیں لیکن وہ بے خرچ ہوتے ہیں- ان کو خرچ کی ضرورت پڑتی ہے- اور بعض دولتمند بھی آتے ہیں اور میں نے اکثر دفعہ لوگوں کو کہا ہے کہ وہ آ کر اپنا سامان وغیرہ میرے حوالہ کر کے رسید لے لیا کریں کہ گم نہ ہوا کرے- مگر وہ ایسا نہیں کرتے- اور ان کا سامان گم ہو جاتا ہے اور امداد کی ضرورت ان کو آ پڑتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ محض ابتغاء لوجہ اللہ یہاں رہتے ہیں- پھر دو اخبار بھی ہیں- اگرچہ ان کے مہتمم اپنے فرائض کو کماحقہ بجا نہیں لاتے مگر تاہم ان کا ہونا غنیمت ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے فان لم یصبھا وابل فطل )البقرہ:۲۶۶-( text] gat[ تو ان سب اخراجات کو مدنظر رکھنا اور ان موقعوں پر خرچ کرنا چاہئے- جو اہم امور ہیں وہاں اہم اور جو اس سے کم ہیں وہاں کم- درجہ بدرجہ ہر ایک کا خیال رکھو-
اس وقت اور خرچ کی یہ مثال ہے جیسے ایک کسان تھوڑے سے دانے بو کر اور کھیت کو خدا کے سپرد کر کے چلا آتا ہے اور اگرچہ ان میں سے کچھ ضائع ہوتے ہیں- پرندے کھاتے ہیں- لیکن پھر بھی منوں غلہ ان سے پیدا ہوتا ہے- مگر بے وقت بونے سے وہ پیداوار محال ہے جو وقت پربیج بونے سے حاصل ہو سکتی ہے-
غرضیکہ ہرایک چاند کو غنیمت جانو اور اپنی بہتری‘ کنبہ کی بہتری‘ خلق اللہ کی بہتری کو ہر وقت مدنظر رکھو اور نیک سلوک سے سب سے پیش آئو- اس وقت جو مراتب تم کو مل سکتے ہیں پھر نہیں ملیں گے- اب ایک پیسہ سے جو کام نکلتا ہے وہ پھر ہزاروں کے خرچ سے نہ نکلے گا- خدا سے قوت مانگو کہ وہ نیکی کرنے کی اور بدی کو ترک کرنے کی توفیق دیوے- جس|قدر بچے یہاں بوڈنگ میں رہتے ہیں وہ سب ہمارے بچے ہیں- ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ سچے علوم میں ترقی کریں اور نیک بنیں- آمین-
) بدر جلد۳ نمبر۱ ۔۔۔ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۲ تا ۶ (
) الحکم جلد۸ نمبر۳ ۔۔۔ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲ تا ۱۴(
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۲ / جنوری ۱۹۰۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ جمعہ
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد- الٰھکم الٰہ واحد لا الٰہ الا ھو الرحمٰن الرحیم )البقرہ:۱۶۴(
لا الٰہ الا اللہ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جسے ہر ایک طبقہ کے مسلمان خواہ مرد ہوں خواہ عورت‘ بچہ ہو یا بوڑھا‘ بداطوار ہو یا نیک اطوار‘ اعلیٰ ہو یا ادنیٰ‘ غرض کہ سب جانتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ دو برس اورڈیڑھ برس کا بچہ بھی لا الٰہ الا اللہ جانتا ہے- اگر کسی سے سوال ہو کہ میاں تم مسلمان ہو؟ تو وہ جھٹ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے دیتا ہے- اب غور کرو اور سوچو کہ اس اقرار اور اس کے تکرار کرنے میں کیا سر ہے؟ کیا یہ ایک چھوٹی سی بات ہے جو کہ اہل اسلام کو بتلائی گئی تھی-
نہیں‘ ہرگز نہیں- اس چھوٹے سے فقرے میں دو باتیں ہیں- اول حصہ میں تو انکار اور دوسرے میں اقرار ہے- اور ان چند ایک چھوٹے حرفوں میں اس قدر قوت اور زور ہے کہ اگر ایک شخص سو برس تک کافر رہے اور کفر کے کام بھی کرتا رہے لیکن اگر وہ اپنے آخر وقت میں لا الٰہ الا اللہ کہہ دے تو وہ کافروں سے الگ اور مسلمانوں میں شمار ہونے لگ جاتا ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفتیں اور جنگیں اور بڑی بڑی خونریزیاں اور جانفشانیاں انہی دو حرفوں پر تھیں- انہی حرفوں کے ذریعہ سے اجنبی لوگ دور دور سے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیارے بن جایا کرتے تھے- کیا تمہارے خیال میں یہ کوئی منتر جنتر ہے؟ نہیں- یہ کوئی منتر جنتر نہیں ہے کہ بے معنے منہ سے کہہ دینے سے کوئی شعبدہ نظر آ جاتا ہے- جب یہ بات ہے تو کیا ہر ایک مسلمان کا فرض نہیں ہے کہ وہ کم از کم غور تو کر لے کہ یہ ہے کیا؟ کہ جس کے ذریعے سے سو برس کا شریر النفس دشمن معتبر دوست بن جاتا ہے اور سو برس کا دوست اس کے انکار سے دشمن بن جاتا ہے-
پیدائش کے بعد کچھ خواہشیں ہوتی ہیں جو کہ انسان کو لگی ہوئی ہوتی ہیں- بھوک چاہتی ہے کہ غذا ملے اور شکم سیری ہو- پیاس چاہتی ہے کہ ٹھنڈا پانی ملے- آنکھ چاہتی ہے کہ کوئی خوش منظر شے سامنے موجود ہو- کان چاہتے ہیں کہ سریلی اور میٹھی آواز ان میں پہنچے- اسی طرح ہر ایک قوت الگ الگ اپنا تقاضا وقتاً فوقتاً کرتی ہے- لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعض وقت ایسے کام بھی کرتا ہے جن کو اس کا جی نہیں پسند کرتا- بعض تو ان میں سے ایسے ہیں کہ قوم‘ اپنے بیگانے‘ برادری اور اہل محلہ اور شہر والوں کی مجبوری سے کرتا ہے اور بعض کام حاکموں کے ڈر سے کرنے پڑتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں کسی نہ کسی کی بات کے ماننے کا بھی مادہ موجود ہوتا ہے- انسان تو درکنار حیوانوں میں بھی ہم ایک اطاعت کا مادہ پاتے ہیں- بندروں کو دیکھو کہ کس طرح سے ایک شخص کی بات مانتے چلے جاتے ہیں اور اسی طرح سے سرکس میں کتے‘ گھوڑے‘ شیر‘ ہاتھی وغیرہ بھی اپنے مالک کا کہا مانتے ہیں- پس انسان کو حیوانوں سے متمیز ہونے کے لئے ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر اپنے آقا اور مولا کی اطاعت کرنی چاہئے-
اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس چھوٹے سے کلمہ میں اول تو ہر ایک کو اپنے بیگانے یار‘ دوست‘ خویش‘ ہمسائے اور نفس و خواہش کی فرماں برداری سے منع فرمایا ہے اور اس کلمہ کا اول حصہ لا الٰہ ہے- لیکن اگر کسی کا بھی کہا نہ مانا جاوے تو زندگی محال ہوتی ہے- انسان نہ کہیں اٹھ سکتا ہے‘ نہ بیٹھ سکتا ہے- نہ کسی سے مل جل سکتا ہے‘ نہ صلاح مشورہ لے سکتا ہے- نہ کوئی کسب وغیرہ کر سکتا ہے اور اپنی ضروریات مثل بھوک‘ پیاس‘ لباس اور معاشرت وغیرہ سب سے اسے محروم رہنا پڑتا ہے- اس لئے آگے الا اللہ کہہ کر ان سب باتوں کا گر بتلا دیا ہے کہ تم سب کچھ کرو لیکن اللہ کے فرماں|بردار بن کر کرو- پھر دیکھو کہ دنیا تمہاری بنتی ہے کہ نہیں- کھانا کھائو- کیوں؟ صرف اس لئے کہ خدا کا حکم کلوا ہے- پانی پیو- کیوں؟ صرف اسی لئے کہ اشربوا خدا کا حکم ہے- اپنی بیبیوں سے معاشرت کرو- کیوں؟ صرف اس لئے کہ عاشروھن کا حکم ہے- غرضیکہ اسی طرح سے اپنے بیگانے‘ ماں باپ اور حکام وقت کی اطاعت وغیرہ سب کاموں کو خدا کے حکم اور اطاعت کے موافق بجالائو- یہ معنے ہیں الا اللہ کے کہ میں حالت عسر اور یسر میں صرف خدا کا فرماں بردار ہوں-
اب انسان کو غور کرنا چاہئے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک جس قدر حرکت|و|سکون وہ کرتا ہے اگر وہ خدا کے حکم سے اور فرمان کے بموجب کرتا ہے تو وہ اس کلمہ میں سچا ہے ورنہ وہ اسے کہنے کا کیونکر مستحق ہے-
میں یہاں کس لئے آیا ہوں- دیکھو بھیرہ میں میرا مکان پختہ ہے اور یہاں میں نے کچے
مکان بنوا لئے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی- مگر میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں- محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں- لاچار ہوں اور بہت ہی لاچار ہوں- پس میں اپنے ان دکھوں کے دور ہونے کے لئے یہاں ہوں- اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتا ہے کہ وہ میرا نمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی غلطی ہے اور اس کی نظر دھوکا کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتا ہے- یہاں کی دوستی اور تعلقات‘ یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بود و باش‘ سب کچھ لا الہ الا اللہ کے ماتحت ہونی چاہئے‘ ورنہ اگر روٹیوں اور چارپائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا! تم میں سے اکثروں کے گھر میں یہاں سے اچھی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا؟ تم اس اقرار کے قائل ٹھیک ٹھیک اسی وقت ہو سکتے ہو جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں- اگر کوئی تمہارا دشمن ہے تو اس سے خوف مت کرو- خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمٰن وداً )مریم:۹۷( کہ ایمان|داروں اور نیک عمل کرنے والوں کے لئے ہم خود دوست مہیاکر دیں گے- بڑی ضروری بات یہ ہے کہ تمہارا ایمان لا الٰہ الا اللہ پر کامل ہو-
مطالعہ کرو کہ ایک چھوٹے سے کلمے کی اطاعت کی جو ایک انگلی کے ناخن پر کھلا لکھا جا سکتا ہے کس قدر تاکید ہے- اس لئے اپنے ہر ایک کام اور عزت اور آبرو کے معاملہ میں اور سکھ اور دکھ میں جناب|الٰہی سے صلح کرو- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سوائے خدا کے سایہ کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا- یہ واقعہ دنیا میں بھی پیش آتا ہے- بیٹھے بٹھائے انسان کے پیٹ میں سخت درد شروع ہو جاتی ہے اور انسان ماہی بے آب کی طرح لوٹنے لگ جاتا ہے- بیوی سے بڑھ کر غمگساری اور ماں سے بڑھ کر محبت میں اور کوئی نہیں ہوتا- لیکن دونوں میں سے ایک بھی اس کے دکھ کو دور نہیں کر سکتی جب تک خدا کا فضل نہ ہو۔ پس لا الٰہ الا اللہ کا مطالعہ کرو‘ اس پر کاربند ہو اور خدا کے سوا کسی اور کے فرمانبردار نہ بنو- اسی سے تم کو عزت آبرو اور دوست وغیرہ سب حاصل ہوں گے- تجربہ اور فہم کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ اس وقت خدا کا منشا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کا راج ہو- پس تم اس دعویٰ میں سچے بن کر دکھلائو-
) بدر جلد ۳ نمبر۵ ۔۔۔ یکم فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴‘۵ (
*۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔*
‏ KH1.17
خطبات|نور خطبات|نور
۲ / دسمبر ۱۹۰۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
یٰایھا المدثر- قم فانذر- و ربک فکبر )المدثر:۲تا۴( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں نے یہ آیت اس لئے انتخاب کی ہے کہ تمہیں بتلائوں کہ کیا کرنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں کیسی تحریکیں اور تنبیہیں دی جاتی ہیں- پر ہم ایسے غافل ہیں کہ کانوں پر جوں نہیں رینگتی اور ہم کانوں سے غفلت کی روئی نہیں نکالتے-
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی ہوئی وہ یہی آیت ہے- یٰایھا المدثر قم- مرسل کو جب وحی ہوتی ہے تو اس پر خدا کے کلام اور اس کی ہیبت کا ایک لرزہ آتا ہے- کیونکہ مومن حقیقت میں خدا تعالیٰ کا ڈر اور خشیت اور خوف رکھتا ہے- جس طرح کوئی بادشاہ ایک بازار یا سڑک پر سے گزرتا ہے اس سڑک میں ایک زمیندار جاہل جو بادشاہ سے بالکل ناواقف ہے کھڑا ہے- دوسرا وہ شخص ہے جو زمیندار ہے‘ پر صرف اس قدر جانتا ہے کہ یہ کوئی بڑا آدمی ہے یا شاید حاکم وقت ہو گا- تیسرا وہ شخص کھڑا ہے کہ وہ منجملہ اہالیان ریاست ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ بادشاہ ہے اور ہمارا حاکم ہے- اور چوتھا وہ شخص کھڑا ہے جو بادشاہ کا درباری یا وزیر ہے- اس کے آداب و قواعد‘ آئین|وانتظام‘ رعب و داب‘ رنج اور خوشی کے سب قواعد کا واقف اور جاننے والا ہے- پس تم جان سکتے ہو کہ چاروں اشخاص پر بادشاہ کی سواری کا کیا اثر ہوا ہو گا- پہلے شخص نے تو شاید اس کی طرف دیکھا بھی نہ ہو- دوسرے نے کچھ توجہ اس کی طرف کی ہو گی اور تیسرے نے ضرور اس کو سلام بھی کیا ہو گا اور اس کا ادب بھی کیا ہو گا- پر چوتھے شخص پر اس کے رعب|وجلال کا اس|قدر اثر ہوا ہو گا کہ وہ کانپ گیا ہو گا کہ میرا بادشاہ آیا ہے- کوئی حرکت مجھ سے ایسی نہ ہو جاوے جس سے یہ ناراض ہو جاوے- غرض کہ اس پرازحد اثر ہوا ہو گا- پس یہی حال ہوتا ہے انبیاء اور مرسل علیہم السلام کا- کیونکہ خوف اور لرزہ معرفت پر ہوتا ہے- جس قدر معرفت زیادہ ہو گی اسی قدر اس کو خوف اور ڈر زیادہ ہو گا اور وہ معرفت اس کو خوف میں ڈالتی ہے اور اس لرزہ کے واسطے ان کو ظاہری سامان بھی کرنا پڑتا ہے- یعنی موٹے اور گرم کپڑے پہننے پڑتے ہیں جو لرزہ میں مدد دیں- جب وہ الہام کی حالت جاتی رہی تو ان کے اعضاء اور اندام بلکہ بال بال پر ایک خاص خوبصورتی آ جاتی ہے- پس اسی حالت میں بنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرما کر کہتا ہے کہ اے کپڑا اوڑھنے والے اور لرزہ کے واسطے سامان اکٹھا کرنے والے! کھڑا ہو جا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ |سست| مومن اللہ تعالیٰ کو پیارا نہیں- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلا حکم یہی ملا- پس یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمان واعظ جب احکام الہی سنانے کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر سناتے ہیں- یہ اسی قسم کی تعمیل ہوتی اور اس میں نبی کریم کی اتباع کی جاتی ہے- بعض لوگ غافل اور سست نہ تو سامان بہم پہنچاتے اور نہ ان سامان سے کام لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں- پر یہ ساری ضرورتیں جو ہم کو ہیں نبی کریمﷺ~ کو بھی تھیں- بیوی بچے‘ اہل و عیال وغیرہ وغیرہ- پر جب اس قسم کا حکم آیا فوراً کھڑے ہو گئے اس لئے کہ بادشاہ رب|العالمین‘ احکم|الحاکمین کا حکم تھا- پھر کام کیا سپرد ہوا- انذر-
لوگ دو باتوں میں گرفتار تھے اور ہیں- وہ خدا کی عظمت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور کھانے پینے‘ عیش|وآرام اور آسائش میں مصروف ہو گئے تھے- دوسرا باہمی محبت اخلاص‘ پیار نام کو نہیں رہا تھا- دوسروں کے اموال دھوکہ بازی سے کھا جاتے- مثلاً ہمارے پیشہ کی طرف ہی توجہ کرو- گندے سے گندے نسخے بڑی بڑی گراں قیمتوں سے فروخت کئے جاتے اور دھوکہ بازی سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے- دوسروں کی عزت مال جان پر بڑے بے باک تھے-
حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی نابینا کی لکڑی ہنسی سے اٹھا لینا کہ وہ حیران و سرگرداں ہو‘ سخت گناہ ہے- پر ہنسی ٹھٹھا پر کچھ پروا نہیں- بدنظری‘ بدی‘ بدکاری سے پرہیز نہیں- کوئی شخص نہیں چاہتا کہ میرا نوکر میرے کام میں سست ہو- پر جس کا یہ نوکر ہے کیا اس کے کام میں سستی نہیں کرتا؟ دوکاندار ہے- طبیب ہے وغیرہ وغیرہ- جب پیسہ دینے والے کے دل میں یہ ہے کہ مجھے ایسا مال اس قیمت کے بدلہ میں ملنا چاہئے‘ اگر اس کو اس نے نتیجہ تک نہیں پہنچایا تو ضرور حرام خوری کرتا ہے اور یہ سب باتیں اس وقت موجود نہیں-
خدا کی پرستش میں ایسے سست تھے کہ حقیقی خدا کو چھوڑ کر پتھر‘ حیوانات وغیرہ مخلوقات کی پرستش شروع کی ہوئی تھی- اس قوم کی بت پرستی کی نظیریں اب موجود ہیں- ابھی ایک بی بی ہمارے گھر میں آئی تھی اور میرے پاس بیان کیا گیا کہ بہت نیک بخت اور خدارسیدہ ہے- میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وظیفہ کرتی ہو؟ کہا مشکل کے وقت اپنے پیروں کو پکارتی ہوں- پس مجھے خیال ہوا کہ یہ پہلی سیڑھی پر ہی خطا پر ہے یعنی خدا کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہے-
پس رسول کریمﷺ~ کے زمانہ میں ایک طرف خدا کی بڑائی‘ دوسری طرف مخلوق سے شفقت چھوٹ گئی تھی اور خدا کی جگہ مخلوق کو خدا بنایا گیا تھا اور مخلوق کو سکھ پہنچانے کے بدلے لاکھوں تکالیف پہنچائی جاتی تھیں-
اس لئے فرمایا- انذر ڈرانے کی خبر سنا دے- جب مرسل اور مامور آتے ہیں تو پہلے یہی حقوق ان کو سمجھائے جاتے ہیں- پس ایسے وقت میں امراض طاعون وغیرہ آتے ہیں- جنگ و قتال ہوتے ہیں- یہ ضرورت نہیں کہ اس مامور کی اطلاع پہلے دی جاوے یا ان لوگوں کو مامور کا علم ہو- کیونکہ لوگ تو پہلے خدا ہی کو چھوڑ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں- پھر کھڑا ہو کر کیا کرو؟ و ربک فکبر خدا کی بزرگی بیان کر- اکبر سے آگے بڑائی کا کوئی لفظ نہیں اور اس کے معنی ہی یہی ہیں کہ ایک وقت آقا کہتا ہے کہ میرا فلاں کام کرو- دوسری طرف ایک شخص پکارتا ہے اللہ اکبر آئو نماز پڑھو- خدا سے بڑا آقا کوئی نہیں- ایک طرف بی|بی عید کا سامان مانگتی ہے- دوسری طرف خدا کہتا ہے کہ فضولی نہ کر- اب یہ کدھر جاتا ہے- نیک معاشرت‘ نیک سلوک‘ بی بی کی رضا جوئی اور خوش رکھنے کا حکم ہے اور مال جمع کرنے کی ضرورت ہے- دوسری طرف حکم ہے کہ ناجائز مال مت کھائو- ایک طرف عفت اور عصمت کا حکم ہے‘ دوسری طرف بی|بی موجود نہیں‘ ناصح کوئی نہیں اور نفس چاہتا ہے کہ عمدہ گوشت‘ گھی‘ انڈے‘ زعفرانی‘ متنجن‘ کباب کھانے کے واسطے ہوں- پھر رمضان میں اس سے بھی کچھ زیادہ ہوں- اب بی بی تو ہے نہیں- علم اور عمدہ خیالات نہیں- پس اگر خدا کے حکم کے خلاف کرتا ہے اور نفس کی خواہش کے مطابق عمدہ اغذیہ کھاتا ہے تو لواطت‘ جلق‘ زنا‘ بدنظری میں مبتلا ہو گا- اسی لئے تو اصفیا نے لکھا ہے کہ انسان ریاضت میں سادہ غذا کھاوے-
اس لئے ہمارے امام علیہ السلام نے میاں نجم الدین کو ایک روز تاکیدی حکم دیا کہ لوگ جو مہمان|خانہ میں مجرد ہیں عام طور پر گوشت ان کو مت دو بلکہ دال بھی پتلی دو اور بعض نادان اس سر کو نہیں سمجھتے اور شور مچاتے ہیں- پس رسول کریمﷺ~ نے اللہ اکبر مکانوں اور چھتوں اور دیواروں اور منبروں پر چڑھ کر سنایا- پس شہوت اور غضب کے وقت بھی اس کو اکبر ہی سمجھو-
ایک شخص کو کسی شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے- وہ بہت سخت ناراض ہوا اور اس کی ناراضگی امام کے کان میں پہنچی- آپ ہنس پڑے اور فرمایا کاش کہ اس قدر غضب کو ترقی دینے کی بجائے اپنے کسی جھوٹ کو یاد کر کے اس کو کم کرتا- حرص آتی ہے اور اس کے واسطے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت حلال حرام کا ایک ہی چھرا چلا بیٹھتا ہے- ایسا نہیں چاہئے- ایک طرف عمدہ کھانا‘ دوسری طرف حکم کی خلاف ورزی‘ سستی کرنا اور یہ دونوں آپس میں نقیض ہیں- اس سے عجز اور کسل پیدا ہوتا ہے- پس ایسی جگہ میں شہوت پر عفت اور حرص پر قناعت اختیار کرے اور مالی اندیشے کر لیا کرے-
مال کی تحصیل میرے نزدیک سہل اور آسان امر ہے- ہاں حاصل کر کے عمدہ موقع پر خرچ کرنا مشکل امر ہے- پس ایک طرف خدا شناسی ہو اور دوسری طرف مخلوق پر شفقت ہو-
اللہ اکبر کا حصول - چار دفعہ تم اذان کے شروع میں ہر نماز سے پہلے سنتے ہو اور سترہ دفعہ امام تم کو نماز میں سناتا ہے- پھر حج میں‘ عید میں‘ رسول کریمﷺ~ نے کیسی حکم الٰہی کی تعمیل کی ہے کہ ہر وقت اس کا اعادہ کرایا- اور یہ اس لئے کہ انسان جب ایک مسئلہ کو عمدہ سمجھ لیتا ہے تو علم بڑھتا ہے اور علم سے خدا کے ساتھ محبت بڑھتی ہے- پھر اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ کہا جاتا ہے- جس کے معنے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں- پھر جس طرح خدا نے حکم دیا اس طرح اس کی کبریائی بیان کر- جس طرح اس نے حکم دیا اسی طرح نماز پڑھ- اسی طرح اس سے دعائیں مانگ- پھر یہ طریق کس طرح سیکھنے چاہئیں- وہ ایک محمد ہے صلی اللہ علیہ و سلم اور وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے‘ اس سے جا کر سیکھو- پھر جب ان احکام کی تعمیل میں تو مستعد ہو جاوے تو حی علی الصلوٰۃ- آ نماز پڑھ کہ وہ تجھے بدی سے روکے- پھر نماز کے معانی سیکھنا کوئی بڑی بات نہیں- کودن سے کودن آدمی ایک ہفتہ میں یاد کر لیتا ہے-
ایک امیر میرا مربی تھا- اس کے دروازہ پر ایک پوربی شخص صبح کے وقت پہرہ دیا کرتا تھا- ایک دن جو وہ صبح کی نماز کو نکلے تو وہ خوش الحانی سے گا رہا تھا- کہا تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جواب دیا کہ پہرہ دار ہوں- انہوں نے کہا- اچھا تمہارا پہرہ دن میں دو گھنٹہ کا ہوتا ہے‘ ہم تمہارا پہرہ پانچ وقت میں بدل دیتے ہیں- تم تھوڑی تھوڑی دیر کے واسطے آ جایا کرو اور نماز کے وقت میں پانچوں وقت اس کے وقت کو تقسیم کر دیا اور اس وقت جاتے جاتے اس کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معنے سکھا دیئے کہ میری واپسی پر یاد رکھنا- چنانچہ جب وہ نماز صبح پڑھ کر واپس آئے تو اس نے یاد کر لئے تھے- آ کر اس کو رخصت دے دی- پھر الحمد شریف کے معنے بتا دیئے- غرض عشاء کی نماز تک الحمد اور قل کے معنے اس نے پورے یاد کر لئے- ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد اس کا پہرہ پچھلی رات میرے مکان پر تھا- میں نے سنا کہ وہ بارھویں پارہ کو پڑھ رہا تھا- غرض دریافت پر کہا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے بارہ پارہ بامعنے یاد کر لئے ہیں- پس قرآن کا پڑھنا بہت آسان ہے- نماز گناہ سے روکتی اور گناہ سے رکنے کا علاج ہے مگر سنوار کر پڑھنے سے- غافل سوتے ہوئے اٹھ کر نجات کے طالب بنو اور اذان کی آواز پر دوڑو- و ثیابک فطھر )المدثر:۵( ہاں بلانے والا پہلے اپنا دامن پاک کر لے پھر کسی کو بلاوے- جب اذان سن لے تو درود پڑھے کہ یااللہ! ہمارے نبی~صل۳~ نے کس جانفشانی اور محبت اور ہوشیاری سے خدا کی تکبیر سکھلائی اور ہم تک پہنچائی ہے‘ اس پر ہماری طرف سے کوئی خاص رحمت بھیج اور اس کو مقام محمود تک پہنچا- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے-
) الحکم جلد۸ نمبر۴۳‘ ۴۴ ۔۔۔ ۱۷‘ ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ۱۹(
* ۔ * ۔ * ۔ *
۹ / دسمبر ۱۹۰۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الفطر
اللہ اکبر - اللہ اکبر- اللہ اکبر- اللہ اکبر- لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر- اللہ اکبر و للٰہ الحمد-
ربنا و ابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایٰٰتک و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و یزکیھم انک انت العزیز الحکیم )البقرہ:۱۳۰( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
یہ ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب رب العزت اور رب العالمین‘ اللہ جلشانہ کے حضور مانگی ہے- اس سے ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل نے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پیدا کر دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارا رب اور مربی اور محسن ہے- تیری عالمگیر ربوبیت سے جیسے جسم کے قویٰ کی پرورش ہوتی ہے‘ عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزین ہوتا ہے‘ ویسے ہی ہماری روح کی بھی پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا- اے اللہ! اپنی ربوبیت کی شان سے ایک رسول ان میں بھیجیو جو کہ ’’منھم‘‘ یعنی انہی میں سے ہو اور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری )اپنی نہیں( باتیں پڑھے اور پڑھائے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے- پھر اس پر بس نہ کیجیو بلکہ ایسی طاقت‘ جذب اور کشش بھی اسے دیجیو جس سے لوگ اس تعلیم پر کاربند ہو کر مزکی اور مطہر بن جاویں- تیرے نام کی اس سے عزت ہوتی ہے کیونکہ تو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں- اس دعا کی قبولیت کس طرح سے ہوئی وہ تم لوگ جانتے ہو- اور یہ صرف اس دعا ہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اٹھاتے ہیں-
دعا ایک بڑی عظیم الشان طاقت والی شے ہے- علاوہ ابراہیم علیہ السلام کے جب دوسرے نبیوں کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا باعث بھی صرف دعاہی کو پاتے ہیں- وہ دعا ہی تھی جس نے حضرت آدم کو کرب و بلا سے نجات دی- اور وہ دعا ہی تھی جس نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو پار لگایا- قرآن شریف کے ابتداء میں بھی اھدنا الصراط المستقیم )الفاتحہ:۶( اور انتہا بھی دعا ہی پر ہے یعنی اعوذ برب الناس ]01 [p )الناس:۲-( جب ہم نبی کریم علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے چلنے پھرنے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ کھانے پینے‘ نماز کے ادا کرنے‘ سودا سلف لانے‘ بات چیت کرنے‘ غرضیکہ ہر ایک کی ابتداء دعا ہی سے ہے- پس خوب یاد رکھو کہ مضطر کی تسکین کا باعث اور کمزور طبائع کی ڈھارس یہی دعا ہے- جب انسان کسی غرض کی تکمیل کے لئے ظاہری سامان مہیا کرتا ہے تو اسے یہ علم ہرگز نہیں ہوتا کہ اس سے ضرور وہ غرض حاصل ہو جاوے گی- کیونکہ سامان کے بہم پہنچ جانے کے بعد اور مخفی در مخفی ایسے اسباب اور واقعات کی ضرورت ہوتی ہے جن پر اس کا علم ہرگز محیط نہیں ہوتا‘ تو اس وقت صرف دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی غرض مطلوبہ کے حاصل کرنے کے لئے امداد طلب کر سکتا ہے اور اسی سے وہ مخفی در مخفی اسباب میسر ہو جاتے ہیں جن سے اس غرض کی تکمیل ہوتی ہے-
بعض کمزور طبائع جو کہ دعا کی اس خوبی سے ناوقف ہیں ان کو چاہئے اور لازم ہے کہ اسے ایک مجرب نسخہ مان کر استعمال کریں- کیونکہ یہ ہزارہا راستبازوں کا تجربہ کیا ہوا ہے- طبابت میں بھی عمدہ اور اعلیٰ نسخہ وہی ہوتا ہے جو کہ بہت سے بیماروں پر مفید ثابت ہوا ہو- اور اگرچہ ایک دو کو مضر بھی ہو لیکن فائدہ کی کثرت اس کے عمدہ ہونے پر کافی دلیل ہوتی ہے- یہی حال دعا کا ہے- ہر ایک کی طبیعت ایجاد نہیں کر سکتی- اس لئے عام اور کمزور طبائع کے لئے مجربات کا استعمال دانائوں نے بھی تجویز کیا ہے- اس لئے اس قسم کے لوگوں کو بھی پہلے فرضی طور پر اس کی خوبیوں کو مان کر اس پر عملدرآمد شروع کرنا چاہئے- جس|قدر بڑے بڑے علوم ریاضی‘ ہندسہ‘ جغرافیہ‘ علم الافلاک‘ صرف و نحو وغیرہ ہیں ان سب کی ابتداء اول فرض پر ہے- پھر اس پر ہی انسان ترقی کر کے بڑے بڑے عظیم الشان نتائج پر پہنچ جاتا ہے- ایک پولیس مین کے کہنے پر فرضی طور پر ایک گھر کی تلاشی لی جاتی ہے- اگرچہ صرف ظنی امر ہوتا ہے مگر بسااوقات مال بھی برآمد ہو جاتا ہے- پس مومن کو چاہئے کہ نبی کریم کی تعلیم سے اور سابقہ راستبازوں کے تجربہ کی بناء پر دعا کو ذریعہ بناوے اور اپنی کمزوری کی آگاہی کے لئے بھی دعا ہی کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ دعا کیسی عجیب اور ضروری شے ہے- دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ نے صبر کی بھی تعلیم دی ہے کیونکہ بعض وقت مصلحت الٰہی سے جب دعا کی قبولیت میں دیر ہوتی ہے تو انسان اللہ تعالیٰ پر سوء ظن کرنے لگتا ہے اور نفس دعا کی نسبت اسے شکوک اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے استقلال اور جناب الٰہی پر حسن|ظن رکھے-
جو آیت میں نے پڑھی ہے وہ ثمرہ دعا ابراہیمؑ ہے اور اس میں ظاہر فرمایا ہے کہ ایک رسول ہونا چاہئے جو کہ تیری آیات پڑھے اور پڑھائے اور لوگوں کو مزکی اور مطہر کرے- یہ تین باتیں ہیں جو کہ اس دعا کے ذریعہ چاہی گئی ہیں- اب ہم دیکھتے ہیں کہ اول دو باتیں تعلیم اور تعلم تو اب تک موجود ہیں- بچہ بچہ اور عورتیں اور مرد اور حفاظ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں اور عالموں اور واعظوں کے ذریعہ سے لوگوں کو قرآن شریف کے اسرار و حقائق کا بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے- اور دونوں سلسلوں نے اب تک جاری رہ کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نے قبولیت کا شرف دوتہائی حصہ حاصل کر لیا ہے- لیکن کیسے افسوس کی بات ہو گی اگر ہم یہ مان لیں کہ اس دعا کی جزواعظم‘ دوسروں کو مزکی و مطہر بنانے کا کوئی سلسلہ نبی کریم کی طرف سے موجود نہ ہو- رسول کی بعثت کی علت غائی اور دعا کا مغز اور لب لباب تو یہی تھا- اور پھر اگر یہی نہیں رہا تو دعا کی قبولیت کیا ہوئی- خدا تعالیٰ کو چونکہ علم تھا کہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کہ اس دعا کی قبولیت کی نفی کریں گے اس لئے اس نے اپنے پاک کلام میں وعدہ فرمایا- انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون- )الحجر:۱۰( اور دوسری جگہ فرمایا وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم )النور:۵۶( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جانشین لوگوں کو مزکی اور مطہر بناتے رہیں گے- و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم )النور:۵۶( جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اس میں طاقت پیدا کر دیں گے اور ایسی مقدرت عطا کریں گے جس سے نفوس کا تزکیہ ہو- و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً )النور:۵۶( ان کو مشکلات بھی پیش آویں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی پناہ ہو گا-
مشکلات پیش آنے کا یہ باعث ہوا کرتا ہے کہ انسانی طبائع کسی کا محکوم ہونے میں مضائقہ کیا کرتے ہیں- چنانچہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ لوگ طوعاً اور کرہاً مانتے ہیں- پس جب خدا کی حکومت کا یہ حال ہے تو پھر جب انبیاء علیہم السلام کی حکومت ہوتی ہے اس وقت لوگوں کو اور بھی اعتراضات سوجھتے ہیں اور کہتے ہیں- لو لانزل ھٰذا القراٰن علیٰ رجل من القریتین عظیم )الزخرف:۳۲( کہ وحی کا مستحق فلاں رئیس یا عالم تھا- اس سے ظاہر ہے کہ لوگ رسول کی بعثت کے لئے خود بھی کچھ صفات اور اسباب تجویز کرتے ہیں جس سے ارادہ الٰہی بالکل لگا نہیں کھاتا- علیٰ ہذا القیاس- جب رسول کے خلیفہ کی حکومت ہو‘ تب تو ان کو مضائقہ پر مضائقہ اور کراہت پر کراہت ہوتی ہے- اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا- ا ھم یقسمون رحمت ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم )الزخرف:۳۳( کہ کیا یہ لوگ الٰہی فضل کی خود تقسیم کرتے ہیں؟ حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وجہ|معاش میں ہم نے ان کو خود مختار نہیں رکھا اور خود ہم نے اس کی تقسیم کی ہے- پس جب ان کو علم ہے کہ خدا کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے تو پھر انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب بھی اس کے ارادہ سے ہونا چاہئے-
سورۃ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ان فیکم رسول اللہ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم )الحجرات:۸( کہ تم میں محمدﷺ~ خدا کا رسول ہے- اگر تمہاری رائے پر چلے تو تمہیں مشکلوں اور دکھوں کا سامنا ہو- یہ خدا کا ہی انتخاب ہے جو کہ اپنا کام کئے جا رہا ہے- یہ اسی کا فعل ہے کہ امام بناوے‘ خلیفہ بناوے- تمہاری سمجھ وہاں کام نہیں آ سکتی- ’’رموز سلطنت خویش خسرواں دانند‘‘- اگر اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہمارے کہنے سے مامور کر دے اور اس کے اخلاق ردی ثابت ہوں‘ ظالم‘ خود غرض‘ کینہ|پرور نکل آوے تو دیکھو کس|قدر مشکل پڑے- اسی لئے لوگوں کو انجمنوں اور سماجوں میں اپنے منتخب کردہ پریذیڈنٹوں کو منسوخ کرنا پڑتا ہے یا وہ لوگ خود الگ ہو جاتے ہیں- انسان جب سے پیدا ہوا ہے اپنے جسم کو چیر پھاڑ رہا ہے اور زمین کا ایک ایک روڑا الٹ دیا ہے- صرف اس لئے کہ اس کے بچائو کا سامان نکل آوے مگر دیکھ لو کہ کچھ پیش نہیں گئی- فن جراحی میں کمال کر دیا- ہر ایک مرض کے جرم معلوم ہو گئے ہیں مگر پھر بھی بیماریاں ہیں- موت کا بازار گرم ہے- اس نے زمانہ سے ۳ لاکھ سال پیشتر تک کا پتہ دیا ہے کہ یہ تھا- لیکن کل کیا ہو گا یا چند منٹوں کے بعد کیا پیش آنے والا ہے؟ اس کا اسے علم نہیں- پھر کیسی نادانی ہے کہ اس قدر عظیم الشان کام کے انتخاب کو اپنے ذمہ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ نبی اور مامور ہمارے کہنے سے ہو-
پس سوچنے کا مقام ہے کہ جب تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ اس دعا کے مطابق ختم نہیں ہوا تو پھر تزکیہ|نفس کا سلسلہ یعنی مامورین الٰہی کا وجود کیوں ختم ہو جاوے؟ اور جیسے رسولوں کی رسالت کسی کی رائے اور کہنے پر نہیں ہوتی تو خلافت کسی کے کہنے سے کیوں ہو؟ جو مامور اور مرسل آتے ہیں وہ خدا ہی کے انتخاب سے آتے ہیں- مخالفت صرف اس لئے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہو اور وہ بتلاوے کہ یہ ہمارا انتخاب اور ہمارے ہاتھ کا پودا ہے- اسی لئے ان لوگوں کے بیرونی اور اندرونی دشمن پیدا ہو جاتے ہیں جن کو یہ لوگ بڑے زور سے چیلنج دیتے ہیں- اعملوا علیٰ مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون من تکون لہ عاقبۃ الدار )الانعام:۱۳۶( کہ تم اپنی جگہ کوئی دقیقہ میری تباہی اور ناکامی کا ہرگز نہ چھوڑو اور کام کئے جائو اور میں بھی اپنا کام کر رہا ہوں- انجامکار خود پتہ لگ جاوے گا کہ مظفرومنصور کون ہے؟ علی اللہ توکلت فاجمعوا امرکم و شرکائکم ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ ثم اقضوا الی و لاتنظرون )یونس:۷۲( کہ میرا بھروسہ خدا پر ہے- تم سب جمع ہو کر جو حیلہ چاہو کر لو اور ایسا کرو کہ تم کو اپنی کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہ رہے اور کوئی مفر میرے لئے نہ رہنے دو- پھر دیکھ لو کہ تم ناکام اور میں بامراد ہوتا ہوں کہ نہیں- پس ایسے ایسے موقعوں پر خدا تعالیٰ اپنے مرسلوں کے دشمنوں کو بیدست و پا کر کے بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا محافظ ہوں کہ نہیں اور یہ ہمارا مرسل ہے کہ نہیں- غرضیکہ انبیاء کی بعثت میں ایک سر ہوتا ہے کہ ان کے ذریعہ سے الٰہی تصرف اور اقتدار کا پتہ لگتا ہے-
بیعت کے معنے اپنے آپ کو بیچ دینے کے ہیں اور جب انسان کسی کو دوسرے کے ہاتھ پر بیچ دیتا ہے تو اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا- صحابہ کرامؓ نے اپنے نفسوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں پر بیچ کر آپ کی اطاعت کو کہاں تک مدنظر رکھا ہوا تھا‘ اس کا حال دو حکایتوں سے معلوم ہوتا ہے جن کا ذکر میں کرتا ہوں- جمعہ کے روز خطبہ ہو رہا تھا اور لوگ کھڑے ہوئے تھے- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ بیٹھ جائو- عبد اللہ ابن مسعودؓ ایک صحابی اس وقت مسجد کی گلی میں آ رہے تھے- آپ کو بھی یہ آواز پہنچ گئی اور جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے- لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میں نے سمجھا کہ خدا معلوم مسجد جانے تک جان ہو گی یا نہ- یہ حکم سنا ہے- اسی وقت اس کی تعمیل کر لوں-
دوسرا واقعہ ایک صحابی کعب نامی کا ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی اور دولتمند آدمی تھا- آپﷺ~ نے جب غزوئہ تبوک کی تیاری کا حکم جماعت کو دیا تو ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ تیاری کرنے لگا اور کعب نے خیال کیا کہ چونکہ میں ایک امیر آدمی ہوں اس لئے جس وقت چاہوں گا ہر ایک سامان مہیا کروں گا- چونکہ بستی کوئی بڑی نہ تھی کہ افراط سے ہر ایک شے موجود ہوتی‘ اس لئے لوگ تو طیاری کرکے روانہ ہو گئے اور کعب پیچھے رہ گیا- جب وہ بازار میں گیا تو اسے کچھ بھی نہ ملا- اس کاہلی اور سستی کا اور کیا نتیجہ ہوتا- آخر کار شمولیت سے محروم رہا- جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے تو کعب ایک حدیث میں خود بیان کرتا ہے مجھے غم نے تنگ کیا اور میں جھوٹ بولنے کا ارادہ کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ ایسی بات کہوں کہ آپﷺ~ کے غصہ سے بچ جائوں اور اپنی برادری کے ہر عقلمند سے اس میں اعانت کا طلبگار ہوا- جب خبر لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اس وقت مجھ سے یہ کذب دور ہو گیا اور میں نے جان لیا کہ آپﷺ~ کے روبرو جھوٹ بولنے سے مجھے کبھی نجات نہ ہو گی- پس میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی الصباح مدینہ میں آ پہنچے- اور جب آپﷺ~ سفر سے تشریف لایا کرتے تھے تو اول مسجد میں نزول فرمایا کرتے تھے- آپ نے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی اور لوگوں کی ملاقات کے لئے وہاں ہی بیٹھ گئے- پس مختلف لوگ آتے اور سو گند کھا کھا کر اپنے تخلف کے عذر آپ کے سامنے بیان کرتے تھے اور یہ لوگ اسی آدمی سے کچھ زیادہ تھے- رسول|اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا عذر قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ان کے باطن اللہ تعالیٰ کے سپرد فرمائے- جب میں خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر غضبناک آدمی کی طرح تبسم فرمایا اور مجھے کہا آ گے آ- میں سلام کہہ کر آپﷺ~ کے آگے بیٹھ گیا- پھر آپﷺ~ نے مجھے فرمایا کہ تو کس سبب پیچھے رہ گیا- کیا تو نے سواری خرید نہیں کی تھی؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم‘ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اگر آج میں آپ کے سوا کسی دنیادار آدمی کے روبرو ہوتا تو خدا تعالیٰ نے مجھے کلام میں ایسی فصاحت عطا کی ہے کہ آپ دیکھتے کہ میں عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے صاف نکل جاتا- لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر میں آج جھوٹ بول کر آپ کو خوش بھی کر لوں گا تو عنقریب خدا تعالیٰ آپ کو مجھ پر غضبناک کر دے گا- مگر خدا تعالیٰ سے مجھے عافیت کی امید ہے- خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ مجھے کوئی عذر نہ تھا اور میں تخلف کے وقت پہلے سے بھی قوی اور خوش گذران تھا- )میری عرض سن کر( آپ نے فرمایا- بیشک اس نے سچ کہا )اور مجھے فرمایا( اٹھ کھڑا ہو اور چلا جاتا کہ خداتعالیٰ تیرے حق میں فیصلہ کرے)میں اٹھ کھڑا ہوا( اور بنی سلمہ میں سے کچھ آدمی میرے پیچھے ہو لئے اور مجھے کہتے تھے- خدا تعالیٰ کی قسم ہے‘ ہم نہیں جانتے کہ تو نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو- آج تو نے رسول|اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو ایسے ہی عذر کیوں نہ کئے جیسے دوسرے متخلفوں نے کئے تھے- تیرے گناہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا استغفار کافی تھا- مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ وہ لوگ ایسے میرے پیچھے ہوئے کہ ان کے کہنے سے میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنی پہلی تقریر کی تکذیب کروں- پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اس کام میں میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے )یعنی کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے میری جیسی تقریر کی ہو-( انہوں نے کہا ہاں دو آدمیوں نے تیری جیسی تقریر کی ہے اور ان کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا ہے جیسا تجھے فرمایا ہے- میں نے کہا وہ دونوں کون کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ایک مرارہ بن ربیعہ عامری اور دوسرا ہلال بن امیہ واقفی- وہ کہتا ہے کہ لوگوں نے ایسے دو آدمی صالح کا نام لیا کہجو بدر میں حاضر ہوئے تھے اور جن کا اقتدا کرنا چاہئے تھا- کہتا ہے جب انہوں نے میرے روبرو ان دونوں کا ذکر کیا تو میں چلا گیا اور لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلی تقریر کی تکذیب کرنے نہ گیا- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ متخلفین میں سے ان تین آدمی سے کوئی کلام نہ کرے- کہتا ہے کہ لوگ ہم سے اجتناب کر گئے یا کہا کہ لوگ ہم سے متغیر ہو گئے کہ وہ زمین بھی مجھے اوپری معلوم دینے لگی- گویا وہ زمین ہی نہ تھی جس کو میں پہچانتا تھا- پس ہم پچاس رات اسی حال میں مبتلا رہے- میرے ان دونوں یاروں نے عاجز ہو کر اپنے گھروں میں بیٹھ کر رونا شروع کیا- اور میں جوان دلیر تھا- بازاروں میں پھرتا تھا اور نماز میں حاضر ہوتا تھا- مگر مجھ سے کوئی کلام نہ کرتا تھا اور میں نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آن کر سلام کہتا اور دیکھتا کہ سلام کے جواب میں آپﷺ~ کے لب مبارک نے حرکت کی ہے کہ نہیں- پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب کھڑا ہو کر نماز پڑھتا اور آنکھ چرا کر آپ کی طرف
دیکھتا- جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف نظر کرتے اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا تو آپﷺ~ منہ پھیر لیتے- جب مسلمانوں کی کڑائی مجھ پر بہت ہو گئی تو ایک دن میں ابوقتادہ کے باغ کی دیوار پھاند کر جو میرا چچازاد بھائی تھا اور میری اس سے بہت محبت تھی باغ میں گیا- میں نے اس کو السلام علیکم کہا مگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا- میں نے کہا- اے ابوقتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ تجھے معلوم ہے کہ میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھتا ہوں- وہ خاموش رہا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا- میں نے پھر اس کو قسم دے کر کہا- وہ خاموش ہی رہا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا- میں نے پھر تیسری دفعہ جب قسم دے کر کہا تو اس نے اس|قدر کہا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خوب جانتے ہیں- یہ سنتے ہی میرے اشک جاری ہو گئے اور اسی طرح سے دیوار پر سے ہو کر وہاں سے نکل آیا- میں بازار میں چلا جاتا تھا کہ ایک آدمی شام کے لوگوں میں سے جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے کو آئے تھے کہتا پھرتا تھا کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتلاوے- لوگوں نے میری طرف اشارہ کر دیا- اس نے مجھے غسان کے حاکم کا خط دیا اور چونکہ میں لکھا پڑا تھا میں نے وہ خط پڑھا- اس میں لکھا تھا- امابعد! ہم کو خبر پہنچی ہے کہ تیرے صاحب نے تجھ پر ظلم کیا اور خدا تعالیٰ نے تجھے ذلیل و ضائع نہیں کیا- تو ہمارے پاس چلا آ‘ ہم تیری پرورش کریں گے- خط پڑھ کر میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بھی ایک بلا آئی- )کفار کو ہماری طرف طمع ہو گئی( میں نے اس خط کو تنور میں جلا دیا- جب اس حال کو چالیس روز ہو گئے تو ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بھیجا ہوا آیا اور مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجھے فرمایا ہے کہ تو اپنی عورت سے علیحدہ ہو جا- میں نے کہا کہ آپ نے طلاق دینے کو فرمایا ہے یا کیا؟ اس نے کہا طلاق کو نہیں فرمایا- مجامعت سے منع فرمایا ہے اور دوسرے دونوں میرے یاروں کو بھی یہی کہلا بھیجا ہے- میں نے اپنی عورت کو کہا کہ جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کا حکم نہیں آتا تو اپنے ماں باپ کے گھر چلی جا- اور ہلال بن امیہ کی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ بوڑھا ناکارہ ہے- اس کا خادم کوئی نہیں- کیا آپ اس کی خدمت کرنے سے مجھے منع فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں‘ بلکہ وہ تجھ سے مقاربت نہ کرے- اس نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ کی قسم ہے وہ اس کام کے لائق ہی نہیں- واللہ! وہ جس روز سے اس حال میں مبتلا ہوا ہے آج تک دن رات روتا ہی رہا ہے- بعضے لوگوں نے مجھے کہا کہ تو بھی اپنی عورت کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کر جیسے ہلال کی عورت نے آپ سے اس کی خدمت کرنے کا اذن لے لیا ہے- میں نے کہا اگر میں اس امر میں آپﷺ~ سے عرض کروں‘ معلوم نہیں آپ کیا جواب دیں اور میں جوان آدمی ہوں )یعنی عورت کے پاس ہوتے مجھے صبر کرنا مشکل ہے-( یہاں تک کہ دس رات اور گذر گئیں اور ہمارے اس حال کو پچاس راتیں ہو گئیں- پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر پڑھ کر اسی حالت میں بیٹھا تھا جیسے خدا تعالیٰ نے قرآن میں ہماری خبر دی ہے اور میرا دم بسبب غم کے بند ہو رہا تھا اور زمین باوجود کشائش کے مجھ پر تنگ ہو رہی تھی کہ میں نے ایک آدمی کی آواز سنی کہ پہاڑ سلع پر باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! تجھے بشارت ہو- میں سنتا ہی سجدہ میں گر پڑا اور جان گیا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کشائش آئی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز پڑھتے ہی لوگوں کو ہماری توبہ کے قبول ہونے کی خبر کر دی- لوگ ہم کو بشارت دینے شروع ہو گئے اور دونوں میرے یاروں کے پاس بھی بشارت دینے والے پہنچے اور ایک گھوڑا دوڑا کر میری طرف آیا اور ایک آدمی نے بنی اسلم میں پہاڑ پر چڑھ کر آواز کی- آواز گھوڑے کی سوار سے نیچے پہنچی جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر بشارت کے عوض میں اس کو پہنا دیئے- مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس روز میرے پاس وہی کپڑے تھے جو دے دئیے اور میں نے دو کپڑے عاریتاً لے کر پہن لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کر کے چلا- راستہ میں لوگ مجھے ملتے تھے اور توبہ کی قبولیت کی تہنیت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تجھے مبارک ہو کہ اللہ|تعالیٰ نے تیری توبہ قبول فرمائی حتیٰ کہ میں مسجد میں پہنچا- وہاں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد مجتمع تھے- طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور تہنیت دی- واللہ! مہاجرین میں سے اس سے سوا دوسرا میری خاطر کوئی کھڑا نہیں ہوا- کعب طلحہ کے اس کام کو ہمیشہ یاد کیا کرتا تھا- کعب کہتا ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا اس وقت آپ کا چہرئہ مبارک خوشی سے دمکتا تھا- آپﷺ~ نے فرمایا- تجھے بشارت ہو ایسے دن کی‘ جب سے تو ماں سے پیدا ہے‘ اس دن سے بہتر کوئی دن تجھ پر نہیں آیا- میں نے گذارش کی کہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟ فرمایا‘ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرئہ مبارک خوشی کے وقت ایسا روشن ہو جایا کرتا تھا کہ گویا چاند کا ٹکڑا ہے- اور ہم اس حالت کو خوب جانتے تھے- میں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر گذارش کی کہ یا رسول اللہ! میری توبہ میں سے ہے کہ میں اپنا مال صدقہ کر دوں- رسول|اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کچھ مال اپنے لئے رکھ لے کہ یہ تیرے حق میں بہتر ہے- میں نے عرض کی کہ خیبر کی غنیمت میں سے جو مجھے حصہ ملا تھا وہ میں اپنے لئے رکھتا ہوں- میں نے پھر عرض کی- یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے میرے صدق کے سبب مجھے نجات دی ہے- یہ بھی میری توبہ میں سے ہے کہ آئندہ میں اپنی زندگی میں سچ کے سوا کوئی بات نہ کروں گا- مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ جس دن سے میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی ہے اس دن سے کسی مسلمان پر اللہ تعالیٰ نے ایسا انعام نہیں کیا جیسا صدق کے باعث مجھے انعام کیا ہے اور اس دن سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں کہا- اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا-
اب دیکھو کہ فرمانبرداری اس کا نام ہے کہ جماعت سے ایک شخص الگ کیا جاتا ہے- بیوی کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس نہ جاوے اور دشمن کی طرف سے دلداری اور امداد کا وعدہ ملتا ہے مگر سرمو فرق نہیں آتا- غرضیکہ فرمانبرداری میں اپنے آپ کو دیتے وقت یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کسی شیطان کی بیعت تو نہیں کرتے- اس لئے کثرت سے استغفار اور لاحول کرنی چاہئے کہ کہیں سابقہ بدیاں اور غلطیاں ٹھوکر کا موجب نہ ہوں- یہ خدا ہی کا دست قدرت ہوتا ہے جو کہ ایک نبی کا قائمقام کسی کو بناتا ہے- ان پر مشکلات آتی ہیں مگر خدا بدلہ دیتا ہے- ان لوگوں میں تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ دونوں کمالات ہوتے ہیں- خدا کی کاملہ صفات کے یہ لوگ گرویدہ ہوتے ہیں اور مخلوق کی بے ثباتی اور لاشے ہونا ان کو بتلاتا ہے کہ خدا کا شریک کوئی نہیں ہے- اگر مزکی ہونا انسان کی اپنی طاقت کا کام ہوتا تو عقلمند اور مادی علوم کے محقق اعلیٰ درجہ کے پارسا ہوتے- مگر اسی قسم کے لوگ گمراہ خبث ہو کر خدا سے دور چلے جاتے ہیں- اس لئے مزکی ہونے کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی آدمی جس میں کشش اور جذب کی طاقت ہو‘ آوے- اس قسم کے انسان آتے ہیں لیکن لوگوں کے اندر جو غلط|کاریاں ہوتی ہیں ان سے بعد ہو جاتا ہے- ان غلط کاریوں کی ایک بڑی اصل کبر ہے جس کا ذکر اللہ|تعالیٰ نے قرآن شریف کے اول تواریخی واقعہ میں کیا ہے ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین )البقرہ:۳۵-( اس سے ظاہر ہے کہ اول انکار اور کبر ہی ایک ایسی شے ہے جو کہ فیضان الٰہی کو روک دیتی ہے- طاعون کے گذشتہ دورہ میں جو الہام حضرت اقدس کو ہوا تھا اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی تھی کہ انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علوا باستکبار )تذکرہ-( کبر تزکیہ نفس کی ضد ہے اور دونوں چیزیں ایک جا جمع نہیں ہو سکتیں-
دوسری بات جو کہ انسانی ترقی کی سدراہ ہوتی ہے وہ اس کا نفاق ہے کہ جب کوئی دکھ ہوتا ہے تو خدا سے لمبے چوڑے وعدے کرتا ہے کہ اگر یہ دکھ مجھ سے دور ہو جاوے تو میں فلاں فلاں کام کروں گا- تیری عبادت کروں گا- صدقہ دوں گا- دین کی خدمت کروں گا- وغیرہ وغیرہ- اور ایسے مواقع لوگوں کو بے|روزگاری‘ تنگی معاش‘ کمی تنخواہ‘ اپنی اور بال بچوں کی بیماری وغیرہ میں پیش آتے ہیں- لیکن جب مشکل کا پہاڑ ٹل جاتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں- اس کا نتیجہ یہ کہ منافق ہو کر مرتے ہیں- اس کا ذکر اللہ|تعالیٰ فرماتا ہے- فاعقبھم نفاقاً )التوبہ:۷۷( ابائ‘ استکبار‘ بدعہدی یعنی نفاق‘ یہ تین باتیں ہوئیں- چوتھی جھوٹ کی عادت ہے جو کہ انسان کو فیض الٰہی سے محروم رکھتی ہے- پس چاہئے کہ ہمیشہ اپنا اندرونا ٹٹولتے رہو کہ ان عیبوں میں سے کوئی ہمارے اندر تو نہیں ہے- ایک طرف محرومی کے اسباب پر غور کرے- دوسری طرف توبہ و استغفار سے کام لے- ورنہ یاد رکھو کہ بڑے خطرہ کا مقام ہے- موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ایک قوم نکلی تھی اور موسیٰؑ نے ان کو الٰہی ارادوں سے اطلاع بھی دے دی تھی کہ وہ تم پر انعام کرنا چاہتا ہے اور جتلا دیا تھا کہ اگر تم حکم نہ مانو گے تو خائب و خاسر ہو گے مگر قوم نے عذر تراشے- نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال جنگل میں بھٹکتے رہے اور ترقی کی رفتار روک دی گئی- اس سے ظاہر ہے کہ بعض وقت لوگوں کے اعمال ایک مامور کو بھی مشکل میں ڈالتے ہیں- اس لئے تم لوگوں کو فکر چاہئے کہ ایک شخض مامور مرسل تم میں موجود ہے- تم نے اپنی برادری اور قوم اور خویش و اقارب کی پروا نہ کر کے اس کے ہاتھ پر خود کو فروخت کر دیا ہے- اگر تم میں وہی بلائیں اور ظلمتیں موجود ہیں جو کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ والوں میں تھیں تو تم اس کے راستہ میں روک ڈالتے اور خود فیض سے محروم رہتے ہو- جو دنیا میں تو اسے قبول کر کے ناپسندیدہ بن گئے مگر اب خدا کے نزدیک نہ بنو-
انسانی ترقی کا بڑا ذریعہ انسان کے ذاتی اخلاق ہوتے ہیں جن سے وہ واحد شخص خود اپنے نفس میں سکھ پاتا ہے اور امن اور آرام کی زندگی بسر کرتا ہے- مثلاً اگر وہ کسی کی نعمت دیکھ کر حسد نہیں کرتا تو اس سوزش اور جلن سے محفوظ رہتا ہے جو کہ حاسد کے دل کو ہوتی ہے- اگر کوئی دوسرے کو دیتا ہے تو یہ طمع نہیں کرتا تو اس عذاب سے بچا رہتا ہے جو کہ طمع کرنے سے ہوتا ہے- ایسے ہی جو لوگ اخلاق فاضلہ حاصل کرتے ہیں وہ جزع فزع‘ شہوت اور غضب کے تمام دکھوں اور آفتوں سے محفوظ رہتے ہیں- اور اس سے ظاہر ہے کہ ذاتی سکھ کے ذرائع اخلاق فاضلہ ہیں- یہ بھی فضل کی ایک قسم ہے جو کہ انسان کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس سے وہ نتائج مرتب نہیں ہوتے جو اکٹھا ہونے سے ہوتے ہیں- یاد رکھو کہ الٰہی فضل کی بہت قسمیں ہیں- اکیلے پر وہ فضل نہیں ہوتا جو کہ دو کے ملنے پر ہوتا ہے- اس کی ایک مثال دنیا میں موجود ہے کہ اگر مرد اور عورت الگ الگ ہوں اور وہ اس فضل کو حاصل کرنا چاہیں جو کہ اولاد کے رنگ میں ہوتا ہے تو وہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں نہ ملیں اور ان تمام آداب کو بجا نہ لاویں جو کہ حصول اولاد کے لئے ضروری ہیں- اسی طرح ایک بھاری جماعت پر جو فضل الٰہی ہوتا ہے وہ چند آدمیوں کی جماعت پر نہیں ہو سکتا- ایک گھر کی آسودگی اور آرام کا فضل اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو جب ہی ہو گا کہ اسے مامائیں‘ خدمتگار اور سونے‘ کھانے‘ پینے‘ نہانے وغیرہ کے الگ الگ کمرہ اور ہر ایک کا الگ الگ اسباب ہونے کی مقدرت ہو- ایسے ہی اگر ترقی کرتے جائو تو بادشاہت اور سلطنت کے فضل کا اندازہ کر سکتے ہو- اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک تم لوگوں میں باوجود اختلاف کے ایک عام وحدت نہ ہو گی اور ہر ایک تم میں سے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں نہ لگا رہے گا تو تم خدا کے اس فضل عظیم کو حاصل نہ کر سکو گے جو ایک بھاری مجمع پر ہوتا ہے- و الف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم و لٰکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم )الانفال:۶۴( میں اسی کی طرف اشارہ ہے- وحدت کی روح کو جو کہ صحابہ کرام میں پھونکی گئی تھی اس کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر کیا ہے- اس وحدت کے پیدا ہونے کے لئے چاہئے کہ آپس میں صبر اور تحمل اور برداشت ہو- اگر یہ نہ ہو گا اور ذرا ذرا سی بات پر روٹھو گے تو اس کا نتیجہ آپس کی پھوٹ ہو گا- اسی وحدت کی بنیاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا- اطیعوا اللہ و رسولہ و لاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین )الانفال:۴۷( یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو- اور ان کی اطاعت اسی حال میں کر سکو گے جبکہ تم میں تنازع نہ ہو- اگر تنازعات ہوں گے تو یاد رکھو کہ قوت کی بجائے تم میں بزدلی پیدا ہو گی- اور جو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہو گی وہ نکل جاوے گی- یہ بات تم کو صبر اور تحمل سے حاصل ہو سکتی ہے- ان کو اپنے اندر پیدا کرو- تب خدا کی معیت تمہارے شامل حال ہو کر وحدت کی روح پھونکے گی- پس اگر تم کوئی طاقت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہو اور مخلوق کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہو تو صبر اور تحمل سے کام لو اور تنازع مت کرو- اگر چشم پوشی سے باہم کام لیا جاوے تو بہت کم نوبت فساد کی آتی ہے- مجھے افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بیماریوں کے لئے تو علاج اور دوا تلاش کرتے ہیں لیکن روح کی بیماری کا فکر کسی کو بھی نہیں ہے- اس وقت مسلمانوں کی حالت کی مثال ایک جنم کے اندھے کی سی ہے کہ اس سے اگر بینائی کی خوبی اور لذت دریافت کی جائے تو وہ اسے جانتا ہی نہیں ہے اور اسی لئے اس کے آگے بینائی کی قدر بھی نہیں کیونکہ اس نے اس لذت کو پایا نہیں- پس اس وقت کے موجودہ مسلمان بھی اس طاقت کی خوبی کو جو کہ قومی اتحاد اور وحدت سے پیدا ہوتی ہے نہیں پہچانتے- اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطنت ان کے ہاتھ سے جا چکی ہے اور اسی لئے انہیں اس طرف توجہ بھی نہیں کہ دوسرے کو اپنے ماتحت کس طرح کیا کرتے ہیں- آج کل اگرچہ ریفارمیشن کے مدعی تو سینکڑوں ہیں لیکن وہ کیا ریفارمیشن کریں گے جبکہ خود ہی بغضوں اور کینوں میں گرفتار ہیں- دعویٰ تو ہے مگر سمجھ نہیں کہ یہ خدا کے مامور ہی کا کام ہے جو کر سکتا ہے-
پس اے عزیزو اور دوستو! اپنی کمزوری کے رفع کے لئے کثرت سے استغفار اور لاحول پڑھو اور رب کے نام سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہاری ربوبیت یعنی پرورش کرے- تم کو مظفر و منصور کرے تاکہ تم آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نیک نمونہ بن سکو- یہ نہ ہو کہ خدا نخواستہ *** اختھا )الاعراف:۳۹( کے مصداق بنو )جب دوزخیوں کا ایک گروہ دوزخ میں داخل ہو گا تو جو اس میں اول موجود ہوں گے وہ ان پر *** کریں گے کہ ہم نے تو کچھ نہ کیا تم ہی کرتے تھے( جیسے آجکل کے رافضی ہیں- اس کا بچائو ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سچی اتباع کرو- اپنے استنباط اور اپنے اجتہاد جس سے تم نفس کے دھوکہ میں آ جاتے ہو‘ دور کرو- آپس میں خوش معاملگی اور احسن سلوک برتو- رنج‘ بخل‘ حسد‘ کینہ سے بچو کہ خداتعالیٰ کے وعدے کے موافق جو کہ اس نے اپنے مرسل کی جماعت سے کیا ہے انا لننصر رسلنا و الذین اٰمنوا فی الحیٰوۃ الدنیا )المومن:۵۲( پورا ہو کر رہے- مطلق انسان کی کوشش سے کامیابیاں حاصل نہیں ہوا کرتیں- کیونکہ یہ سارے علل اسباب سے آگاہ نہیں ہو سکتا- دیکھو ایک سال کی جانکاہ محنت سے زمیندار خرمن جمع کرتا ہے مگر جسے اتفاق کہتے ہیں اس سے آگ لگ کر سارے کا سارا خاک ہو جاتا ہے- اگر اسے کامل علم ہوتا اور کامل اسباب حفاظت پردہ احاطہ کر سکتا تو کیوں یہ بربادی دیکھتا- یہی حالت انسان کے اعمال کی ہے- اگرچہ وہ بڑے بڑے اعمال کرتا ہے لیکن ایک مخفی گند اندر ہوتا ہے جس سے وہ تمام برباد ہو جاتے ہیں- اس کا علاج وہی ہے جو کہ ذکر کیا کہ دعا اور استغفار اور لاحول سے کام لو- پاک لوگوں کی صحبت میں رہو- اپنی اصلاح کی فکر میں مضطر کی طرح لگے رہو کہ مضطر ہونے پر خدا رحم کرتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے- دوسرے کی تحقیر مت کرو کہ اس سے خدا بہت ناراض ہوتا ہے اور دوسرے کو حقیر جاننے والے لوگ نہیں مرتے جب تک کہ اس گند میں خود نہ مبتلا ہوں جس کی وجہ سے دوسرے کو حقیر جانتے ہیں-
)اس تقریر کے بعد حضرت حکیم الامت بیٹھ گئے اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا(
آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیا ہے- یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ایام تھے جبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لئے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی- راتوں کو اٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدقہ اس مہینہ کی برکات میں سے ہے- آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبرگیری کرے- دو بک گیہوں کے یا چار جو کے ہر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے پیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا ہے وہ زیادہ دیویں- اس جگہ مختلف ضرورتیں ہیں کہ جن کے لئے لوگوں کے خیرات کے روپیہ کی ضرورت ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اس قسم کا کل روپیہ ایک جگہ جمع ہوتا تھا اور پھر آپﷺ~ اسے مختلف مدوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے- ایک یہاں مدرسہ ہے اور اس وقت اسے بڑی ضرورت امداد کی ہے- مہمانوں کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں- بعض وقت دیکھا گیا ہے کہ ان بیچاروں کا سفر خرچ کسی گناہ کے باعث یا کسی مصلحت الٰہی سے جاتا رہتا ہے- مثلاً کسی نے چرا لیا یا گر گیا وغیرہ- پھر غور کرو کہ مسافرت اور اجنبیت میں کس قدر تکلیف ہوتی ہے- ایسے ہی ایک گروہ مساکین کا رہتا ہے- تو ان سب کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے-
یہاں رہنے والے تین طرح کے لوگ ہیں- ایک تو وہ جو حصول ایمان کے لئے رہتے ہیںاور ان کو متواتر تجربہ سے علم ہو گیا ہے کہ ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خبرگیری کرتا ہے- بعض لوگ ملازم ہیں اور ان کی معاش کی سبیل قائم ہے- اور ایک گروہ وہ ہے جو صرف محبت کی وجہ سے رہتا ہے مگر اپنی ضرورتوں کو رفع نہیں کر سکتا- پس میری رائے یہ ہے کہ تم میں سے ایک جماعت قائم ہو جو ان سب کی خبرگیری کیا کرے اور اس قسم کے صدقہ اور خیرات کے روپیوں کو مناسب مقام پر تقسیم کر دیا کرے- بعض طالب علم مدرسہ کے اور بعض ہمارے پاس بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے خبرگیری کی ضرورت ہوتی ہے- پس اگر جماعت قائم ہو تو وہ اس کی بھی خبر لے سکتی ہے- انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون کے بہت برکات اور افضال ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر وعدہ فرماتا ہے- اللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ )احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۲۷۴-(
میں چونکہ یہاں رہتاہوں اور پھر سارے دن باہر رہتا ہوں اس لئے مجھے ان ضرورتوں کا علم ہے اور میری نسبت دوسروں کو کم ہے- خدا ہی ان کا سرانجام دینے والا اور مجھے بھی وہی دیکھنے والا ہے- ایسے امور کے لئے آپ سعی کریں اور دوسرے بھائیوں تک بھی پہنچا دیویں- جیسے ہمارے سردار صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور کوئی فوجی کمانڈر تھا- کوئی کاتب تھا- کوئی قرآن پڑھانے ولا تھا- کوئی اخوت کی بہتری کی فکر کرنے والا تھا- کوئی بادشاہوں کے پاس خطوط پہنچاتا تھا- کوئی نیک تحریکیں کرنے والا تھا- ایسے ہی اگر مختلف مدیں مختلف لوگوں کے سپرد ہوں اور ایک کمیٹی قائم ہو کر ان سب امور کی ترتیب کیا کرے تو امید ہے کہ بہت کچھ انتظام ہو جاوے- خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو عملدرآمد کی توفیق عطا فرماوے-
اس کے بعد حکیم صاحب موصوف نے حضرت اقدس علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور دعا فرماویں کہ ہم سب کو نیکی اور عملدرآمد کی توفیق عطا ہو- خصوصاً مجھ کو کہ لوگوں کو تو سناتا ہوں‘ کہیں خود ہی اس پر عملدرآمد سے نہ رہ جائوں- حضرت اقدس علیہ السلام نے دعا فرمائی- ۲~}~
) الحکم جلد۹ نمبر۱ ۔۔۔ ۱۰ / جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۱-۱۲(
و
) الحکم جلد۹ نمبر۲ ۔۔۔ ۱۷ / جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۹-۱۱(
* ۔ * ۔ * ۔ *
‏KH1.18
خطبات|نور خطبات|نور
۱۶ / فروری ۱۹۰۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ - قادیان

خطبہ عید الاضحیٰ
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
و من یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ و لقد اصطفینٰہ فی الدنیا و انہ فی الاٰخرۃ لمن الصالحین- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العٰلمین- و وصیٰ بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب یٰبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون )البقرہ:۱۳۱ تا ۱۳۳(
یہ ایک موقع ہے مسلمانوں کے اجتماع کا اور اس طرح کا موقع سال میں صرف دو دفعہ ہی آیا کرتا ہے- ایک تو یہی ہے اور دوسرا اس وقت ہوا کرتا ہے جب کہ لوگ رمضان شریف کے روزوں سے فارغ ہو کر ان انوار اور برکات سے متمتع ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک ماہ میں رکھے ہیں- اس کا نام عید الفطر ہے- اس میں خوشی کا موقع یہ ہے کہ اس ماہ میں تقویٰ کے مراتب طے کر نے کا اور قرب الٰہی کے حاصل کرنے کا‘ پھر سحری کے وقت بذریعہ نوافل اور دعائوں کے خدا کے فضل کو طلب کرنے کا موقع ملتا ہے- اس لئے اس خوشی میں لوگ صدقہ فطر کے ذریعہ غریب لوگوں کو خوش کیا کرتے ہیں-
اللہ تعالیٰ نے اصل اسلام کے اجتماع کے مختلف اوقات مقرر کیے ہیں جن میں وہ باہمی ملاپ سے خداتعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور ایک محلہ کی مسجد میں اس محلہ کے آدمی پانچ وقت جمع ہوتے ہیں- پھر ہر ہفتہ میں جمعہ کے روز شہر کے آدمی مل کر شہر کی کسی بڑی مسجد میں اس قومی اجتماع کو قائم کرتے ہیں- پھر یہ عیدین کے ایام ہیں کہ جن میں علاوہ شہر کے باہر کے آدمی بھی آجاتے ہیں جیسے کہ اس وقت بھی بعض دوست مختلف مقامات سے یہاں آئے ہوئے ہیں- چونکہ آج کی تقریب کو حضرت ابراہیم علیہ|السلام کے فعل سے ایک خاص مناسبت ہے اس لئے میں نے ان آیات کو پڑھا ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے- حضرت ابراہیمؑ ایک ایسا انسان گذرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات ہونے کی وجہ سے اپنی قوم اور قریبی اور بعیدی رشتہ داری کے تعلقات کی پرواہ نہ کی تھی اور اپنے ’’اب‘‘ یعنی چچا سے بھی باوجود اس کے کہ ان کے تعلقات اس سے بہت تھے مباحثہ کیا تاکہ بدرسوم کا استیصال ہو- اس مقام پر ’’اب‘‘ کے معنوں میں محققین کا اختلاف ہے لیکن میرے نزدیک اس کے معنے اس جگہ حقیقی باپ کے ہر گز نہیں ہیں-
ایسا ہی ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ وقت سے بھی مقابلہ کیا اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی عظمت کے قائم کرنے کے لئے کیا گیا تھا- اس مباحثہ میں احیاء اور اماتت کی بھی ایک بحث تھی جہاں ابراہیم علیہ|السلام کا قول ربی الذی یحی و یمیت )البقرۃ:۲۵۹( درج ہے اور جو کہ توحید باری تعالیٰ کے متعلق ایک عجیب فقرہ ہے جس کو ہمارے زمانہ سے بڑا تعلق ہے- کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی مردے زندہ کئے تھے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کا یہ استدلال کوئی قابل|وقعت شے نہیں ہو سکتا اور ان کا یہ کام اور کلام سب خاک میں مل جاتا ہے- ہاں ایک معنے کی رو سے انبیاء بھی احیاء کرتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ لیس کمثلہ شی| )الشوریٰ:۱۲( ہے اس لئے اس کا احیاء بھی لیس کمثلہ شی| ہی ہوگا اور انبیاء کا احیاء اس سے کوئی لگا نہ کھائے گا- یہ بالکل سچ ہے کہ احیاء موتیٰ صرف ’’رب‘‘ کا ہی کام ہے اور وہ بھی کسی اور عالم میں- انبیاء کے احیاء کے یہ معنے ہیں کہ بعض شریر لوگ جو کہ ان کی پاکیزہ مجالس میں آئے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض اپنی کسی فطری سعادت کی وجہ سے جو کہ ان کے نطفہ میں آئی ہوتی ہے ہدایت پا جاتے ہیں ان کی کفر اور فسق کی حالت کا نام موت ہوتا ہے اور ہدایت پا جانے کو احیاء سے تعبیر کرتے ہیں-
حضرت ابراہیمؑ کے عملدرآمد اور ان کی تعلیم کا خلاصہ قرآن شریف نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے کہ جیسا اس کے رب نے اسے کہا اسلم کہ تو فرمانبردار ہو جا تو ابراہیمؑ نے کوئی سوال کسی قسم کا نہیں کیا اور نہ کوئی کیفیت دریافت کی کہ میں کس امر میں فرمانبرداری اختیار کروں؟ بلکہ ہر ایک امر کے لئے خواہ وہ کسی رنگ میں دیا جاوے اپنی گردن کو آگے رکھ دیا اور جواب میں کہا اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲( کہ میں تو رب العالمین کا تابعدار ہو چکا- ابراہیم علیہ السلام کی یہی فرمانبرداری اپنے رب کے لئے تھی جس نے اسے خدا کی نظروں میں برگزیدہ بنا دیا- وہ لوگ جو ابراہیمؑ کا دین یعنی ہر طرح اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا اختیار نہیں کرتے‘ غلطی کرتے ہیں اور اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو سفیہ قرار دیتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا- پس وہ لوگ جو کہ دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں وہ غور کریں کہ خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں- ہر ایک قسم کی عزت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ سب کچھ اسلمت کا نتیجہ ہے-
و وصیٰ بھا ابراھیم بنیہ )البقرۃ:۱۳۳( ابراہیم علیہ السلام نے اولاد کو بھی یہی سکھایا کہ جب تک خدا تعالیٰ حکم دے تب تک ہی تم اس کی اطاعت کرتے رہو- وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے کلام کے منکر ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے کرنا تھا کر چکا اس مقام پر سوچیں کہ اگر یہ سلسلہ بند ہو چکا تھا اور ابراہیم علیہ السلام کے بعد اور کوئی احکام ضرورت زمانہ کے لحاظ سے نازل نہ ہونے تھے تو پھر اسلم کی آواز کی اطاعت کے لئے کیوں ابراہیمؑ نے اولاد کو تاکید کی- پھر صرف ابراہیم ہی نہیں بلکہ اس کا پوتا حضرت یعقوب علیہ السلام بھی اپنی اولاد کو یہی حکم دیتا ہے فلاتموتن الا و انتم مسلمون )البقرۃ:۱۳۳( کہ اے میری اولاد! تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دین )ابراہیمی( پسند فرمایا ہے کہ تم ہر وقت خدا کی فرمانبرداری میں رہو حتیٰ کہ تمہاری موت بھی اس فرمانبرداری میں ہو- یہ فرمانبرداری جو کہ ہر ایک کامیابی اور ترقی کا چشمہ ہے انسان اس سے کس طرح محروم رہ جاتا ہے؟ اس کا باعث قرآن شریف میں تواریخی واقعات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے- پہلا نافرمان جس کی تاریخ ہمیں معلوم ہے ابلیس ہے- وہ کیوں نافرمان بن گیا؟ اس کی خبر بھی قرآن شریف نے بتلائی ہے کہ اس نے اباء اور استکبار کیا یعنی اس میں انکار اور تکبر تھا جس کی وجہ سے وہ اسلم کی تعمیل نہ کر سکا- اس وقت بھی بہت لوگ ہیں کہ اس اباء اور استکبار کی وجہ سے اسلم کی تعمیل سے محروم ہیں- کسی کو عقل پر تکبر ہے‘ کسی کو علم پر‘ کسی کو اپنے بزرگوں پر جو کہ ان کے نقصان کا باعث ہو رہا ہے اور جب کبھی خدا کے مامور آتے رہے ہیں یہی اباء اور استکبار ان کی محرومی کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں- انسان جب ایک دفعہ منہ سے ’’نہ‘‘ کر بیٹھتا ہے تو پھر اسے دوبارہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگوں سے شرم کی وجہ سے وہ اپنی ہٹ پر قائم رہنا پسند کرتا ہے- اس کا نتیجہ پھر کھلم کھلا انکار اور آخرکار و کان من الکافرین )البقرۃ:۳۵( کا مصداق بننا پڑتا ہے-
چونکہ مامورین الٰہی کا سلسلہ تو برابر انسانوں اور زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ہے اور اپنی قدیم سنت کے لحاظ سے خدا نے نبی اور رسول معبوث کرنے تھے اس لئے قرآن شریف کے اول رکوع میں ہی تعلیم دی ہے کہ انسان کو انکار کا پہلو حتی الوسع اختیار ہی نہ کرنا چاہئے- قرآن شریف کے اول رکوع میں ہی اس کا ذکر ہے- ان الذین کفروا سواء علیھم ا انذرتھم ام لم تنذرھم لا یومنون )البقرۃ:۷-(چونکہ وہ لوگ اول انکار کر چکے تھے اس لئے سخن پروری کے خیال نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھنے اور آپ کی باتوں پر غور کرنے نہ دیا اور انہوں نے آپ کے انذار اور عدم انذار کو برابر جانا- اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ لا یومنون یعنی ہمیشہ کے لئے ایمان جیسی راحت اور سروربخش نعمت سے محروم ہو گئے- یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے انذار اور عدم انذار کی پروا نہیں کرتے- ان کو اپنے علم پر ناز اور تکبر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتاب الٰہی ہمارے پاس بھی موجود ہے- ہم کو بھی نیکی بدی کا علم ہے- یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں- ان کمبختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہود کے پاس بھی تو تورات موجود تھی- اس پر وہ عمل درآمد بھی رکھتے تھے- پھر ان میں بڑے بڑے عالم‘ زاہد اور عابد موجود تھے پھر وہ کیوں مردود ہو گئے؟ اس کا باعث یہی تھا کہ تکبر کرتے تھے- اپنے علم پر نازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اسلم کے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہتھی- ابراہیم کی طرزاطاعت ترک کر دی- یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السلام اور اس رحمہ|للعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے سے جس سے توحید کا چشمہ جاری ہے ماننے سے باز رکھا-۱~}~
یہودیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور وحی پر ایمان لانے سے جو چیز مانع ہوئی وہ یہی تکبر علم تھا- فرحوا بما عندھم من العلم- )المومن:۸۴( انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے پاس ہدایت کا کافی ذریعہ ہے- صحف انبیاء اور صحف ابراہیمؑ و موسیٰؑ ہمارے پاس ہیں- ہم خدا تعالیٰ کی قوم کہلاتے ہیں- نحن ابناء اللہ و احباوہ )المائدۃ:۱۹( کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم عربی آدمی کی کیا پروا کر سکتے ہیں- اس تکبر اور خودپسندی نے انہیں محروم کر دیا اور وہ اس رحمہ~ن۲~ للعالمین کے ماننے سے انکار کر بیٹھے جس سے حقیقی توحید کا مصفی اور شیریں چشمہ جاری ہوا-
غرض محرومی کا سب سے پہلا اور بڑا ذریعہ اباء )انکار( ہے اور پھر تکبر ہے- آہ! اس سے بڑھ کر کسی شخص کی بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایک ہادی‘ معلم اور مزکی کو معزز بنا کر بھیجتا ہے اور یہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتا اور ان فیضانوں اور برکات سے جو اس کی معیت اور صحبت سے ملنے والے تھے محروم رہ جاتا ہے- فرمانبرداری‘ ہاں خدا کی فرمانبرداری ایسی راحت بخش اور زندہ جاوید بنانے والی دولت ہے جس نے آج تک اور ابدالآباد تک ابراہیم کو زندہ رکھا- آج ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی یادگار تم ہر ایک گھر میں دیکھ سکتے ہو- ایک غریب سے غریب آدمی بھی قربانی کا گوشت کھاتا ہے جو اس کی یادگار کو تازہ رکھتا ہے- یہ قربانی بتاتی ہے کہ ابراہیمؑنے اپنی جان اور مال تک سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دریغ نہیں کیا- پس جب تک انسان ابراہیمی رنگ اختیار نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے عزیز مال اور جان تک کو‘ جو دراصل اس کا بھی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ ہی کا ہے‘ نثار کر دینے کے لئے شرح صدر سے تیار نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک وہ ان برکات اور فیضانوں کو پا نہیں سکتا جو ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملے-
خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کا انکار سلب ایمان کا موجب ہوتا ہے- یہ انکار بہت ہی خطرناک چیز ہے اس لئے ہمیشہ اس سے بچو- اپنی عقل‘ اپنی تدبیر اور رائے‘ اپنے علم و تجربہ کو خدا کے راستباز کے سامنے ہیچ سمجھ لو اور بالکل خالی ہو جائو- تب وہ تم میں راستبازی اور حقیقی علوم کی روح نفخ کرے گا-
یہ اباء مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہوتا ہے- کبھی زبان سے اقرار کرتا ہے لیکن دل اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتا جس کا نتیجہ نفاق ہوتا ہے اور یہ نفاق آخرکار کفر تک بھی لے جاتا ہے- اس لئے دل اور زبان کو ایک کرنے کے لئے کوشش کرو اور خدا تعالیٰ سے توفیق اور فضل چاہو- بعض لوگوں کے لئے ان کا مال و دولت‘ خدمت گزاری اور نیکی کا خیال بھی اس امر سے روک دیتا اور ان کے لئے سد راہ ہو جاتا ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ضرورت نہ تھی تو خدا تعالیٰ نے اس کو نازل کیوں فرمایا؟ وہ اس پر نہیں‘ خدا تعالیٰ کے فعل و فضل پر ہنسی کرتے اور اس کے پر حکمت فعل کو لغو ٹھہراتے ہیں )معاذ اللہ-( اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ نفس اور شیطان کے اس دھوکا سے ہمیشہ بچیں- اپنی کسی بات پر تکبر نہ ہو- کیونکہ وہی تکبر پھر کسی اور رنگ و صورت میں انکار کا باعث ہو جاوے گا- یہ بہر حال زہر ہے- اس سے مطمئن ہو رہنا عقلمندی نہیں ہے-
بعض نادان‘ ناحق|شناس‘ مامور اور مرسلوں کے آنے پر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ لن نومن حتیٰ نوتیٰ مثل ما اوتی رسل اللہ )الانعام:۱۲۵( یعنی اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی فیض اور فضل نہ دیا جاوے جو رسولوں کو دیا گیا ہے- یہ بھی محرومی کا بڑا بھاری ذریعہ ہے- جو لوگ ایمان کو مشروط کرتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرتا- ہاں خدا تعالیٰ کسی کو خالی نہیں چھوڑتا- جو اس کی راہ میں صدق و ثبات سے قدم رکھتا ہے وہ بھی اس قسم کے انعامات سے بہرہ وافر لے لیتا ہے- جیسے فرمایا nsk] gat[ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملٰئکۃ )حم السجدۃ:۳۱( جن لوگوں نے اپنے قول و فعل سے بتایا کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے‘ پھر انہوں نے اس پر استقامت دکھائی ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں- اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ سے پہلے دو باتیں ضروری ہیں- ربنا اللہ کا اقرار اور اس پر صدق و ثبات اور اظہار استقامت-
ایک نادان سنت اللہ سے ناواقف ان مراحل کو تو طے نہیں کرتا اور امید رکھتا ہے اس مقام پر پہنچنے کی جو ان کے بعد واقع ہے- یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے- اس قسم کے شیطانی وسوسوں سے بھی الگ رہنا چاہئے- خدا تعالیٰ کی راہ میں استقامت اور عجز کے ساتھ قدم اٹھائو- قویٰ سے کام لو- اس کی مدد طلب کرو- پھر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث ہو جائو اور حقیقی رئویا اور الہام سے حصہ پائو-
اللہ تعالیٰ کے ہاں تو کسی بات کی کمی نہیں و ان من شی الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم )الحجر:۲۲-( پھر سوال ہوتا ہے کہ اس قسم کے شیطانی اوہام اوروسوسوں سے بچنے کا کیا طریق ہے؟ سو اس کا طریق یہی ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار پڑھو- استغفار سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ طوطے کی طرح ایک لفظ رٹتے رہو- بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ استغفار کے مفہوم اور مطلب کو ملحوظ رکھ کر خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور وہ یہ ہے کہ جو انسانی کمزوریاں صادر ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بدنتائج سے محفوظ رکھے اور آئندہ کے لئے ان کمزوریوں کو دور کرے اور ان جوشوں کو جو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں دبائے رکھے‘ پھر لاحول پڑھے‘ پھر دعائوں سے کام لے اور جہاں تک ممکن ہو راستبازوں کی صحبت میں رہے- اگر اس نسخہ پر عمل کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ تمہیں محروم نہ کرے گا-
پھر محرومی کا ایک اور سبب بھی ہوتا ہے- وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان مشکلات اور مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ کر لیتا ہے کہ یااللہ! اگر میرا فلاں کام ہو جاوے اور فلاں دکھ سے مجھے رہائی اور نجات ہو تو میں یہ فرمانبرداری کا کام کروں گا- اللہ تعالیٰ اسے ان مشکلات سے نجات دیتا ہے لیکن وہ اپنے وعدوں کو بھول جاتا ہے- اس کا نتیجہ پھر خطرناک ہوتا اور اسے محروم کر دیتا ہے- میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنے کے برابر ہی وہ معاہدہ ہے جو انسان اپنے امام و مرشد کے ہاتھ پر کرتا ہے- جیسا کہ ہم نے کیا ہے کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘- کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس کے معانی پر غور کرو کہ کس قدر وسیع ہیں- حی علی الصلٰوۃکی آواز آتی ہے اور یہ سنتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ بہت سے ضروری کام کرنے کو ہیں اور ان سے اگر ذرا سی بھی لاپروائی کی تو حرج ہو گا- اس لئے فرض تنہاہی میں ادا کر لوں گا- یہ خیالات دل میں ایک طرف ہیں- دوسری طرف حی کا لفظ بتاتا ہے کہ جلدی کرو اور ادھر یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا- اب اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت مقدم کرتا اور حی علی الصلٰوۃ کی آواز پر مسجد کو چلتا ہے تو بیشک اس معاہدہ کو پورا کرنے والا ٹھہرتا ہے لیکن اگر تساہل کرتا ہے تو اس معاہدہ کو توڑتا ہے-
اسی طرح دنیا کے ہر کاروبار میں اس قسم کے امتحان اور مشکلات پیش آتے ہیں- ایک طرف بیوی بچوں کے لئے خرچ کی ضرورت ہے- ادھر قرآن کریم میں پڑھتا ہے لاتسرفوا )الاعراف:۳۲( اور ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین )بنی اسرائیل:۲۸( اور ایک طرف دین مال و عزت اور جان خرچ کرانی چاہتا ہے- اس وقت اپنے اندرونہ کا معائنہ کرے اور اپنے فعل سے دکھائے کہ کیا دین کو مقدم کرتا ہے یا دنیا کو-
غرض ہر حکم الٰہی میں اس کو سوچنا پڑتا ہے کہ دین کو مقدم کرتا ہوں یا دنیا کو- کسی تقریر اور چالاکی سے کام لے رہا ہوں یا سچے اخلاص سے- اپنے ہر قول اور فعل کی پڑتال کرے کہ کیا واقعی خدا تعالیٰ کے لئے ہے یا دنیوی اغراض اور مقاصد پیش نظر ہیں- پس اپنے اس بڑے عظیم الشان معاہدہ کو اپنے پیش نظر رکھو- یہ معاہدہ تم نے معمولی انسان کے ہاتھ پر نہیں کیا- خدا تعالیٰ کے مرسل مسیح و مہدی کے ہاتھ پر کیا ہے- اور میں تو یقین سے کہتا ہوں کہ خدا کے مرسل ہی نہیں خدا کے ہاتھ پرکیا ہے کیونکہ ید اللہ فوق ایدیھم )الفتح:۱۱( آیا ہے-
دیکھو اور اپنے حالات خود مطالعہ کرو کہ کیا جس قدر تڑپ‘ کوشش اور اضطراب دنیوی اور ان ادنیٰ ضروریات کے لئے دل میں ہے کم از کم اتناہی جوش دینی ضروریات کے لئے بھی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر دین کو دنیا پر تقدم تو کہاں‘ برابری بھی نصیب نہ ہوئی- ایسی صورت میں وہ معاہدہ جو امام کے ہاتھ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کیا ہے کہاں پورا کیا- میں نے خود تجربہ کیا ہے- ہزاروں خطوط میرے پاس آتے ہیں جن میں ظاہری بیماریوں کے ہاتھ سے نالاں لوگوں نے جو جو اضطراب ظاہر کیا ہے میں اسے دیکھتا ہوں لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ظاہری بیماریوں کے لئے تو اس قدر گھبراہٹ ظاہر کرتے ہیں مگر باطنی اور اندرونی بیماریوں کے لئے انہیں کوئی تڑپ نہیں-
باطنی بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہی بدظنی‘ منصوبہ بازی‘ تکبر‘ دوسرے کی تحقیر‘ غیبت اور اس قسم کی بدذاتیاں اور شرارتیں‘ شرک‘ ماموروں کا انکار وغیرہ- ان امراض کا وہ کچھ بھی فکر نہیں کرتے اور معالج کی تلاش انہیں نہیں ہوتی- میں جب ان بیماریوں کے خطوط پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں یہ اپنے روحانی امراض کا فکر نہیں کرتے-۲~}~
نفس کو کبھی توکل اور صبر کے مسائل پیش کر دیتا ہے لیکن جب ظاہری بیماریاں آ کر غلبہ کرتی ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے اور تردد کرتا ہے- لیکن جب روحانی بیماریوں کا ذکر ہو تو توکل کا نام لے دیتا ہے- یہ کیسی غلطی اور فروگذاشت ہے- ان دونوں نظاموں کو مختلف پیمانوں اور نظروں سے دیکھتا ہے- یعنی باطنی اور روحانی امور میں تو کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور ظاہری امور میں اس کا نام شدید|البطش رکھا ہے- یہ نادانی اور غلطی ہے- خدا تعالیٰ دونوں امور میں اپنی صفات کی یکساں جلوہ نمائی کرتا ہے- پس جو لوگ امور دنیا میں تو سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور منشائ|اعظم سمجھتے ہیں اور دین کو بالکل چھوڑتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں- خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی صفات پر غور نہیں کرتے- اسلم کے معنے تو یہ تھے کہ فرمانبردار ہو جا اور فرمانبردار ہی رہو- پھر وجہ کیا ہے کہ مامور کے ہاتھ پر جو خدا کا ہاتھ کہلاتا ہے یہ وعدہ کر کے کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ اس وعدہ کا کچھ بھی پاس نہ ہو- ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ و السلام کس قدر چھوٹے لفظ سے کام لیتے ہیں اور وہ کس قدر وسیع ہے- یہ زمانہ الفاظ کا ہے- چنانچہ بڑی بڑی لمبی تقریریں لوگ کرتے ہیں لیکن جب ان کے معانی اور مطالب پر نظر کرو تو بہت ہی چھوٹے اور تھوڑے- لیکن برخلاف اس کے ہمارے امام علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بہت ہی مختصر الفاظ اختیار کئے مگر ان کا مفہوم اور منشاء بہت ہی وسیع اور محیط ہے-
مثلاً الفاظ بیعت میں سے ایک یہ جملہ بھی ہے ’’جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتا رہوں گا‘‘- بظاہر یہ ایک موٹی اور چھوٹی سی بات ہے لیکن غور کرو اس کا مفہوم کس قدر وسیع ہے- ایسا اقرار کرنے والے کو یہ الفاظ کیسا محتاط بناتے ہیں کہ وہ اپنے ہر قول و فعل میں‘ ہر حرکت و سکون میں اس امر کو مدنظر رکھے کہ کیا میرا یہ قول و فعل‘ یہ حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہے اور گناہ کے کسی شعبہ میں تو داخل نہیں؟ جب انسان ان امور پر نظر کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی اپنا مقصد بنا لیتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اس کی مدد فرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو آسان کر دیتا ہے- یقیناً یاد رکھو فرمانبرداری بڑی دولت ہے- یہی دولت ابراھیم علیہ السلام کو ملی جس نے اس کو اسقدر معظم و مکرم بنا دیا- خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فیض اور فیضان اسی فرمانبرداری پر نازل ہوتے ہیں مگر تھوڑے ہیں جو اس راز کو سمجھتے ہیں-
اس وقت خدا تعالیٰ پھر ایک قوم کو معزز بنانا چاہتا ہے اور اس پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا- وہ کیا؟ سچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری- اس کو اپنا شعار بنائو اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا پر مقدم کر لو- دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھائو- پھر خدا تعالیٰ کی نصرتیں تمہارے ساتھ ہوں گی- اس کے فضلوں کے وارث تم بنو گے-
یاد رکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کے محروم ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے کچھ وعدے کرتا ہے لیکن جب ان وعدوں کے ایفاء کا وقت آتا ہے تو ایفاء نہیں کرتا- ایسا شخص منافق مرتا ہے- چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم الیٰ یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ )التوبہ:۷۷-( اس سے ہمیشہ بچتے رہو- انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے- اس وقت وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا ملجا و ماویٰ تصور کرتا ہے اور فی الحقیقت وہی حقیقی پناہ ہے- اس وقت وہ اس سے وعدے کرتا ہے- پس تم پر مشکلات آئیں گی اور آتی ہیں- تم بہت وعدے خدا تعالیٰ سے نہ کرو اور کرو تو ایفاء کرو- ایسا نہ ہو کہ ایفاء نہ کرنے کا وبال تم پر آئے اور خاتمہ نفاق پر ہو )خدا ہم کو محفوظ رکھے- آمین(
اور ہم کو بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ ہم سب ایک عظیم الشان وعدہ کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور جہاں تک طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتے رہیں گے- اس وعدہ کو ایفاء کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر خدا تعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد چاہو- کیونکہ وہ مانگنے والوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے-
پھر ایک اور عیب بتایا ہے جو منافق میں ہوتا ہے‘ وہ جھوٹ بولنا ہے- عام جھوٹ بولنا وہ بھی ہے جو ایک حدیث میں ہے کفیٰ بالمرء کذباً ان یحدث بکل ماسمع )صحیح مسلم- باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع( یعنی یہ بھی جھوٹ ہی ہے کہ انسان جو کچھ سنے بلا سوچے سمجھے اسے بیان کر دے-
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک ارشاد میں بڑی بڑی برائیوں سے روکنے کا نسخہ بتایا گیا ہے- خود داری سکھائی ہے اور سخن سازی سے بچایا ہے- یہ عام قاعدہ ہو رہا ہے کہ دو تین آدمی جب مل کر بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آئو ذرا مجلس گرم کریں- وہ مجلس گرم کرنا کیا ہوتا ہے؟ کسی کی تحقیر شروع کر دی- کسی کے لباس پر‘ کسی کی زبان پر‘ کسی کے قد و قامت پر‘ کسی کے علم و عقل پر‘ غرض مختلف پہلوئوں پر نکتہ چینی اور ہنسی اڑانا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتے یہ ناپاک اور بے ہودہ کلام مذمت‘ غیبت اور دروغ گوئی تک جا پہنچا- پس تمہیں مناسب ہے کہ ایسی مجلسوں کو ترک کر دو جہاں سے تم بغیر *** کے اور کچھ لے کر نہ اٹھو- خدا تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے- کونوا مع الصادقین )التوبہ:۱۱۹( صادقوں کے ساتھ رہو- کیونکہ وہاں تو بجز صدق کے اور کوئی بات ہی نہ ہو گی- ایسی تمام مجلسوں سے الگ ہو جائو جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ذکر نہیں ہے-
اور یہ بھی یاد رکھو کہ سوء ظن بہت بری چیز ہے- اس سے بہت بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں- غیبت اور دروغ گوئی یہ اسی سوء ظن سے پیدا ہوتی ہیں- اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا- ایاک و الظن فان الظن اکذب الحدیث )بخاری- کتاب الوصایا( سوء ظن سے انسان بہت جھوٹا ہو جاتا ہے اور ظنون بجائے خود بھی جھوٹے ہوتے ہیں- میں نے دیکھا ہے کہ اس جھوٹ اور بدظنی سے بڑی ٹھوکریں لگتی ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے- اس سے بچو! پھر بچو!! اور پھر بچو!!! اس معاملہ میں عورتوں اور مردوں میں ایک تفاوت ہے اور ان کے مراتب مختلف ہیں- عام طور پر عورتیں ناقصات العقل والدین کہلاتی ہیں- ایک عظیم|الشان عورت کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے‘ میں کھول کر بتادوں- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بعض نے سوئ|ظنی کی- اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی تطہیر فرمائی اور ان بدظنی کرنے والوں کے لئے حکم آیا- لو لا اذ سمعتموہ )النور:۱۷( یعنی جب عائشہ صدیقہ کی نسبت کوئی بات تم نے سنی تھی تو کیوں تم نے سنتے ہی نہ کہا کہ یہ بات تو منہ سے نکالنے ہی کے قابل نہیں- بلکہ تم یہ کہتے- سبحانک )النور:۱۷( پاک ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے- مگر ھٰذا بھتان عظیم- )النور:۱۷( یہ تو بہت ہی بڑا بہتان ہے- پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یعظکم )النور:۱۸( اللہ تعالیٰ تمہیں وعظ کرتا ہے کہ ایسا پھر نہ کرنا- یہ ابد کے لئے حکم ہے کہ جب کسی کی نسبت کوئی ایسی بات سنو تو کہو کہ بہتان ہے- بدظنی کرنی شروع نہ کر دو- پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بلائوں میں گرفتار ہوتے ہیں یعنی دوسرے کو متہم کرتے ہیں وہ ہرگز نہیں مرتے جب تک خود اس اتہام کا شکار نہ ہو لیں- اس لئے یہ بڑے ہی خوف اور خطرے کا مقام ہے- افسوس ہے لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی ضروری امور ہیں- جہاں|تک تم سے ہو سکے سعی کرو اور خدا تعالیٰ سے توفیق مانگو کہ وہ تمہیں سوء ظنی سے محفوظ رکھے- پھر اس کے بدنتائج غیبت‘ دروغ گوئی‘ دوسرے کی تحقیر‘ بہتان وغیرہ سے بچائے-
غرض خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان فیوضات و برکات سے محروم رکھنے کے اسباب مختصر طور پر یہ ہیں- ابائ‘ تکبر‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ اور پھر اس کی خلاف ورزی‘ پھر جھوٹ- دیکھو تم جو احمدی کہلاتے ہو تمہاری ذمہ داری بہت بڑھی ہوئی ہے- تم نے وعدہ کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا- تمہیں ہر وقت یہ وعدہ نصب العین رہنا چاہئے- کیسی وعدہ خلافی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا وعدہ ہوا اور پھر سنتے ہی سوء ظنی پیدا ہو- اس کی ذرا بھی پروا نہ ہو کہ ان الظن اکذب الحدیث- میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل دستگیری نہ کرے تو ایسے لوگ جو سوء ظنی کے مرض میں گرفتار ہیں وہ خود ان سوء ظنیوں کا نشانہ ہو کر مرتے ہیں- پس خدا سے ڈرو اور اپنے اس وعدہ کا لحاظ کرو جو تم نے خدا کے مامور کے ہاتھ پر کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا- انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں معزز اور محترم بنے لیکن حقیقی عزت اورسچی تکریم خدا تعالیٰ سے آتی ہے- وہی ہے جس کی یہ شان ہے تعز من تشاء و تذل من تشاء )اٰل عمران :۲۷( اور پھر حقیقی عزت انبیاء و رسل اور ان کے سچے اتباع کو دی جاتی ہے- و للٰہ العزۃ و لرسولہ و للمومنین )المنافقون:۹( ساری کی ساری عزتیں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں اور سچے مومنوں کے لئے ہیں- ابراہیم علیہ السلام اسلام کی وجہ سے دنیا میں معزز اور مکرم ہوئے- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲( پھر وہ ابراہیم الذی وفیٰ )النجم:۳۸( جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق|ووفا کا پورا نمونہ دکھایا- اذ جاء ربہ بقلب سلیم )الصافات:۸۴‘۸۵(
پس اس سے نتیجہ نکال لو کہ اللہ تعالیٰ تم سے کیا چاہتا ہے- سچی فرمانبرداری‘ صدق|ووفاداری اور قلب سلیم- ان باتوں کے ساتھ وہ راضی ہوتا ہے- یہی باتیں ہیں جو اسلام تم کو سکھاتا ہے- انہیں کے احیاء کے لئے اس وقت خدا تعالیٰ نے تم میں اپنا مہدی اور مسیح نازل کیا ہے- ایسے دین میں ہو کر محرومی کے اسباب سے بچو- ان اسباب کا علم قرآن مجید میں موجود ہے جو قرآن|شریف پر تدبر کرنے سے آتا ہے اور اس کے ساتھ تقویٰ کی بھی شرط ہے- میں سچ کہتا ہوں کہ یہ باتیں درس تدریس سے نہیں آتیں- یہ علوم جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں درس تدریس سے آ ہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقویٰ اور محض تقویٰ سے ملتے ہیں- و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۳۸۳( اگر محض درس تدریس سے آ سکتے تو پھر قرآن مجید میں مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار )الجمعہ:۶( کیوں ہوتا-۳~}~
اس بارہ میں میں خود تجربہ کار ہوں- کتابوں کو جمع کرنے اور ان کے پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے- میرے مخلص احباب نے بسا اوقات میری حالت صحت کو دیکھ کر مجھے مطالعہ سے باز رہنے کے مشورے دئے مگر میں اس شوق کی وجہ سے ان کے دردمند مشوروں کو عملی طور پر اس بارہ میں مان نہیں سکا- میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہو جاوے اس کے فضل اور مامور کی اطاعت کے بغیر نہیں ملتی-
ان کتابوں کے پڑھ لینے اور ان پر ناز کر لینے کا آخری ڈپلومہ کیا ہو سکتا ہے- یہی کہ فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴(
میرے ایک شیخ تھے- وہ فرمایا کرتے تھے کہ غایۃ العلم حیرۃ- غرض وہ بات جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے جس سے وہ راضی ہوتا اور اپنے فضلوں سے انسان کو بہرہ مند کرتا ہے‘ وہ نہ بہت باتوں سے مل سکتی ہے‘نہ بہت کتابوں کے پڑھنے سے- بلکہ وہ بات تعلق رکھتی ہے دل سے- وہ اس کی ایک کیفیت ہے جس کو عام الفاظ میں وفاداری‘ اخلاص اور صدق کہہ سکتے ہیں- اور یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ماموروں کی اطاعت سے اور سچی پیروی سے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲( خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے- اس فیصلہ کے بعد اور کیا چاہتے ہو- فماذا بعد الحق الا الضلال )یونس:۳۳( ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام جس کی نسل سے ہونے کا آج سب سلطنتیں فخر کرتی ہیں اس نے اس راہ کو اختیار کیا- اس نے صدق دل سے اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲( کہا اور اسی ایک امر کی اولاد کو وصیت کی- نتیجہ کیا ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے ایسا معزز و مکرم بنایا کہ اس کی اولاد کی گنتی تک نہیں ہو سکتی- وہ بادشاہ جو اس کے مقابلہ میں اٹھا آج کوئی اس کا نام تک بھی نہیں جانتا-
یقیناً سمجھو اللہ تعالیٰ کسی کااحسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا- وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس|قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے- دیکھو! ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر قدر کی- اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا- حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک اونٹ چرانے والے کو کس وسیع ملک کا خلیفہ بنایا- جناب علیؓ نے خدمت کی- اس کی اولاد تک کو مخدوم بنا دیا- غرض میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق و اخلاص سے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی ہزاروں گنا بدلہ پاتی ہے- وہ تھوڑی سی بات کا بہت بڑا اجر دے دیتا ہے- پھر جو اس کے ساتھ سچا رشتہ عبودیت قائم کرتا ہے‘ اس کے عظمت و جلال سے ڈر جاتا ہے‘ دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے جیسا کہ تم نے اپنے مرشد و مولیٰ مہدی و مسیح کے ہاتھ پر اقرار کیا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت میں ایسا لگ جاتا ہے کہ
بر کسے چوں مہربانی می کنی
از زمینی آسمانی می کنی
کا اسے سچا مصداق بنا دیتا ہے- اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم سچ مچ وہ نمونہ دکھائو جو ابراہیم علیہ السلام نے دکھایا- کہنے والوں کی آج کمی نہیں- تم سے تمہارا امام عمل چاہتا ہے- عملی حالت درست ہو گی تو خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام و اکرام تمہارے شامل حال ہو جائیں گے- وہ ہزاروں ہزار ابراہیم بنا سکتا ہے- تم ابراہیمؑ بنو بھی- خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم اور اس کے خاندان نے یہ مجرب نسخہ بتایا کہ تمہاری موت ایسی حالت میں ہو کہ تم مسلمان ہو- موت کا کیا پتہ ہے کہ کب آ جاوے- ہر عمر کے انسان مرتے ہیں- بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ ادھیڑ- موسم میں جو تغیر ہو رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انذار ہے- شروع سال میں زمینداروں سے سنا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اس قدر غلہ ہو گا کہ سمانہ سکے گا مگر اب وہی زمیندار کہتے ہیں کہ سردی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے- آئندہ کے لئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں- اس لئے یہ وقت ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے صلح کر لو اور اس ایک ہی مجرب نسخہ کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ فلاتموتن الا و انتم مسلمون )البقرۃ:۱۳۳( موت کی کوئی خبر نہیں- اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو- یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا- نہیں‘ خدا تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا- فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ )الزلزال:۸(
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ میں جب کافر تھا تو اللہ کی راہ میں خیرات کیا کرتا تھا- کیا اس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہو گا؟ فرمایا اسلمت علیٰ ما اسلفت )مسلم کتاب الایمان( تیری وہی نیکی تو تیرے اس اسلام کاموجب ہوئی-
خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لائو اور اس کی سچی فرمانبرداری کے نمونے سے ثابت کرو- ٹھیک یاد رکھو کہ ہر نیک بیج کے پھل نیک ہوتے ہیں- برے بیج کا درخت برا پھل دے گا-:
گندم از گندم بروید جو ز جو
از مکافات عمل غافل مشو
مسلمان بنو- اسلم کی آواز پر اسلمت کا جواب عمل سے دو- دوست‘ احباب‘ رشتہ داروں اور عزیزوں کو نصیحت کرو کہ اسلام اپنے عمل سے دکھائو- تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت عمدہ موقع دیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے وقت پر آیا جو راست بازوں کا پورا نمونہ ہے اور تم میں موجود ہے- وہ تم سے بھی چاہتا ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو- اس پر عمل کرو گے تو نا کام نہ رہو گے- مومن کبھی ناشاد نہیں رہ سکتا بلکہ سدا ہی بہشت میں رہتا ہے- اس کو دو بہشت ملتے ہیں- دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی-
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ان باتوں پر عمل کریں- کثرت کے ساتھ استغفار کرو اور لاحول پڑھو- دعائوں میں مصروف رہو‘ پھر خیرات دو- خیرات بھی ہدایت کا ایک بڑا ذریعہ ہے-
قرآن شریف عمل کے لئے ہدایت نامہ ہے- نبی کریم کی سنت موجود ہے- امام خود نمونہ ہے- وہ حکم ہو کر آیا ہے پس اس کے حکم کو مانو کہ تمہارا بیڑا پار ہو-
ان لوگوں کے لئے جو یہاں رہتے ہیں اور احتیاجیں رکھتے ہیں‘ نظر کرو- ان کی مدد کرو- ان ضرورتوں کو جو سلسلہ کی ضرورتیں ہیں جن کو ’’فتح اسلام‘‘ میں حضرت امام نے ظاہر کیا ملحوظ رکھو- مختلف وقتی ضرورتیں بھی پیش آ جاتی ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے-
میں آخر میں حضرت امام کے حضور درد دل سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور کرے- سب سے زیادہ میں دعا کا حاجت مند ہوں- اس لئے کہ اکثر لوگوں کو سناتا رہتا ہوں- پس اگر میرا ہی نمونہ اچھا نہ ہوا تو بہتوں کو ٹھوکر لگ سکتی ہے- اس لئے میرے لئے خاص طور پر دعا فرماویں- اس کے بعد حضرت اقدس نے دعا کی-
خطبہ ثانیہ میں آپ نے قربانی کے متلق مختصر احکام بیان فرمائے- ۴~}~
۱~}~ )الحکم جلد۹ نمبر۷ ۔۔۔۔ ۲۴ / فروری ۱۹۰۵ء صفحہ۷( ۲~}~ )الحکم جلد۹ نمبر۱۲ ۔۔۔۔ ۱۰ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۶(
۳~}~ )الحکم جلد۹ نمبر۱۶ ۔۔۔۔ ۱۰ / مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵( ۴~}~ )الحکم جلد۹ نمبر۱۷ ۔۔۔۔ ۱۷ / مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۶(
* * * *
‏KH1.19
خطبات|نور خطبات|نور
۲۱ / مئی ۱۹۰۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
حضرت حکیم نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں بعد نمازظہر باغ میں مندرجہ ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا-سید محمد ابن سید حامد شاہ‘ سید عبد الحمید ابن سید حامد شاہ‘ سید عبد السلام ابن سید محمود شاہ-
تشہد‘ تعوذ اور آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:
سنی‘ شیعہ‘ مقلد‘ غیر مقلد‘ اسلام کے تمام فرقوں کے درمیان یہ ایک متفق علیہ امر ہے کہ خطبہ نکاح کے وقت الحمد للٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ پڑھا جاتا ہے- اس میں اول جناب الٰہی کی حمد ہے جس نے فسق و فجور‘ زناکاری‘ بدکاری سے ہم کو بچایا- جس طرح مرد پیدا کئے اسی طرح عورتیں بھی پیدا کیں اور زن و شوئی کا تعلق ان کے درمیان رکھ دیا- جو لوگ نکاح نہیں کرتے وہ حقیقی طور پر عورتوں کی بلکہ تمام نسل انسانی کی خیر خواہی نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں- نکاح انسان کو بہت سی بدیوں سے بچاتا ہے- لیکن یہ نعمت بغیر فضل الٰہی کے حاصل نہیں ہو سکتی- اس واسطے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ضروری ہے- کیونکہ یہ امر استعانت حق کے سوا حاصل نہیں ہو سکتا- پھر ان معاملات میں انسان کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں- بعض دفعہ بیوی مرد کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی یا مرد ایسا ہوتا ہے کہ یہ تعلق ہمیشہ کے واسطے بیوی کے لئے ایک دکھ اور تکلیف کا موجب بن جاتا ہے- اس واسطے اس موقع پر استغفار کا سبق دیا گیا ہے- بعض غلطیوں کے بدنتائج کے سبب وہ اغراض پورے نہیں ہوتے جن کے واسطے یہ تعلقات پیدا ہوئے ہیں- ان سب کا علاج استغفار ہے- جناب الٰہی میں استغفار کرنا تمام انبیاء کا ایک اجماعی مسئلہ ہے- استغفار تمام انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ غلطیوں کے بدنتائج سے بچاوے اور آئندہ غلطیوں میں پڑنے سے بچائے- خدا تعالیٰ نے اس تعلق کی حفاظت کے لئے بڑی تاکید فرمائی ہے-
نکاح کے تعلقات میں اگرچہ احباب نے حضرت امام علیہ السلام کے منشاء کے مطابق پورے طور پر کارروائی شروع نہیں کی پھر بھی بعض بہت ہی اخلاص رکھنے والے دوست ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کے نکاح حضرت امام کی موجودگی میں اس جگہ قادیان میں پڑھے جائیں تاکہ آپ کی دعاء و برکت سے یہ تعلقات ثمرات خیر کا باعث ہوں- چنانچہ ایسے ہی مخلص دوستوں میں سید حامد شاہ صاحب اور ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب اور سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم ہیں جن کی اولاد کے نکاح اس وقت آپ صاحبان کے سامنے باندھے جاتے ہیں-
سید حامد شاہ صاحب کے لڑکے محمد کا نکاح سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی رفعت نام کے ساتھ کیا گیا- لڑکے کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب وکیل ہیں اور لڑکی کی طرف سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر- )۲( سید حامد شاہ صاحب کے لڑکے عبد الحمید کا نکاح سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی مریم کے ساتھ کیا گیا- لڑکے کی طرف سے وکیل مولوی عبد الکریم صاحب اور لڑکی کی طرف سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر ہیں- )۳( سید حکیم حسام الدین صاحب کے پوتے عبدالسلام پسر سید محمود شاہ صاحب مرحوم کا نکاح سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی فضیلت کے ساتھ کیا گیا-
آپ دعا کریں کہ جس غرض سے یہ نکاح اس جگہ کئے گئے ہیں وہ حاصل ہو اور میاں بیوی کے تعلقات میں برکت ہو- نیک اولاد آگے ہو جس سے لاکھوں صلحا آگے پیدا ہوں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السلام اور دیگر احباب نے دعا کی اور پھر چھوہارے تقسیم کئے گئے-
)اس امر کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ لڑکیاں اور لڑکے اور ان کے ولی بعض وجوہات سے خود قادیان میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے لیکن ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ نکاح قادیان میں ہو اور ایسے جلسہ میں ہو جس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السلام موجود ہوں- چنانچہ یہ درخواست سیالکوٹ سے یہاں حضرت کی خدمت میں آئی(-
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ شرعی مسئلہ ہے- بذریعہ تحریر اجازت کے بعد اس جگہ نکاح ہو سکتا ہے- چنانچہ اس کے مطابق نکاح ہوا- حسن اتفاق سے مکرمی مخدومی شیخ رحمت اللہ صاحب بھی اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں- شیخ صاحب موصوف کو سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ ایک خاص محبت و اخلاص کا تعلق تھا- خدا نے یہ عجیب اتفاق پیدا کر دیا کہ وہ ان کی لڑکیوں کی طرف سے وکیل بنے-
) بدر جلد۱ نمبر۷ ۔۔۔ ۱۸ تا ۲۴ / مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۶ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۷ / اپریل ۱۹۰۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے سورۃ آل عمران کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں-
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم و اللہ غفور رحیم- قل اطیعوا اللہ و الرسول فان تولوا فان اللہ لایحب الکٰفرین- ان اللہ اصطفیٰ اٰدم و نوحاً و اٰل ابرٰھیم و اٰل عمران علی العٰلمین- ذریۃ بعضھا من بعض و اللہ سمیع علیم- اذ قالت امرات عمرٰن رب انی نذرت لک ما فی بطنی محرراً فتقبل منی انک انت السمیع العلیم- فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثیٰ و اللہ اعلم بما وضعت و لیس الذکر کالانثیٰ و انی سمیتھا مریم و انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم- فتقبلھا ربھا بقبول حسن و انبتھا نباتاً حسناً و کفلھا زکریا کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقاً قال یٰمریم انیٰ لک ھٰذا قالت ھو من عند اللہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب]01 [p )اٰل عمران:۳۲تا۳۸-(
اے سامعین! قرآن مجید ایک ایسی زندہ کتاب ہے کہ اس کے برکات اور فیوض قیامت تک باقی رہیں گے اس لئے اس کی نسبت فرمایا گیا ہے انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون )الحجر:۱۰-( اور اس کی مثال اس طرح پر فرمائی گئی ہے ضرب اللہ مثلاً کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء توتی اکلھا کل حین باذن ربھا )ابراھیم:۲۵-( پس سراسر جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دروازہ مکالمات الٰہیہ و الہامات ربانیہ کا امت محمدیہ پر بند کیا گیا ہے- خواہ آیات قرآن مجید کی الہام ہوں یا دوسری عبارات ہوں‘ ہرگز یہ دروازہ بند نہیں ہوا- و للٰہ الحمد- ہمارا اعتقاد ہے کہ قرآن|مجید زندہ کتاب ہے‘ دین اسلام زندہ مذہب ہے‘ نبی کریم زندہ نبی ہیں اور جو قﷺ قرآن|مجید میں بیان فرمائے گئے ہیں ان کے نظائر و امثال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بھی موجود ہوئے اور قیامت تک ان کے نظائر اسلامی دنیا میں واقع ہوتے رہیں گے- یعنی اللہ|تعالیٰ کسی کو اتباع اپنے حبیب سے اپنا محبوب بنا لیتا ہے- کسی کو آدم صفت‘ نوح صفت‘ ابراہیم صفت اور انبیائے آل ابراہیم کی صفت‘ آل عمران یعنی مریم اور عیسیٰ کی صفت کر دیتا ہے اور کسی کو مثیل زکریا گردانتا ہے حتیٰ کہ جری اللہ فی حلل الانبیاء کا لقب عطا فرما دیتا ہے- اور یہ سب امور قرآن مجید کے احکام کی فرمانبرداری اور اتباع کامل نبی کریم سے حاصل ہوتے ہیں- و نعم ما قیل ~}~
‏ils] g[ta برکسے چوں مہربانی میکنی
از زمینی آسمانی میکنی
لیکن بغیر اتباع کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا- فان اللہ لایحب الکافرین )اٰل عمران:۳۳(
واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت یہود بڑے بڑے دعاوی کرتے تھے حتیٰ کہ کہتے تھے کہ نحن ابناء اللہ و احباوہ )المائدۃ:۱۹-( ان کے حق میں یہ آیت زیر تفسیر نازل ہوئی ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم! ان یہودیوں سے تم کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا تم دعویٰ کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو کہ اللہ بھی تم کو اپنا دوست کر لیوے گا اور تمہارے گناہ معاف کردیوے گا کیونکہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے-
فائدہ-: اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے بندئہ متبع کے ساتھ یہ ہے کہ جو منافع دین و دنیا کے اس بندہ کے لئے ضروری ہوں یا اس کے لئے جو فوائد دارین کے مناسب ہوں ان کو پہنچاتا رہے اور جو لوگ اس کی اتباع میں حارج ہو کر طرح طرح کے ضرر پہنچانا چاہتے ہیں خود انہیں کو معرض مضار اور مورد ذلت اور رسوائی کا کر دیوے- چنانچہ جن صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پورا اتباع کیا ان کے مخالفین ذلیل و رسوا ہو کر ہلاک اور تباہ ہو گئے اور متبعین کاملین حسب الحکم آیت مذکورہ دین اور دنیا کے مالک کہلائے گئے- چونکہ آیت ہذا میں جو پیشین گوئی مندرج ہے وہ پورے طور پر واقع ہوئی لہذا یہ آیت ایک نشان نبوت کا ہو گئی- اور یہی آیت حضرت مسیح موعود کو الہام ہوئی تھی جس کو مدت تخمیناً چوبیس سال کی ہو گئی ہے- دیکھو اس وقت کو اور اس وقت کو کیسی کیسی نصرتیں اس کے شامل حال ہوئی ہیں اور ہوتی ہیں اور مخالف اس کے کیسے کیسے ذلیل دخوار ہوتے جاتے ہیں- ایک طرف تو نظارہ یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲( کا نظر آ رہا ہے اور دوسری طرف فان اللہ لایحب الکافرین )اٰل عمران:۳۴( کا نظارہ موجود ہے ~}~
رحمت اللہ ایں عمل را در وفا
*** اللہ آں عمل را در قفا
بعض منافقین نے اس حکم تاکیدی اتباع پر یہ شبہ پیدا کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت قرار دیتے ہیں اور اپنی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کہتے ہیں- اس سے تو لازم آتا ہے کہ جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا قرار دے رکھا ہے یہ بھی اپنے تئیں الٰہ قرار دینا چاہتے ہیں- جواب یہ دیا گیا کہ اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے- مگر اس کی اطاعت کیونکر ہو سکتی ہے؟ اس کا طریق یہ ہے کہ کوئی ایسا واسطہ موجود ہو کہ ایک لحاظ سے ہم جیسا بشر ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو ایسا قرب حاصل ہو کہ رسالت اس کے احکام کی کر سکے جس کو دوسرے لفظوں میں رسول کہتے ہیں- تو اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ میری متابعت بحیثیت رسول ہونے کے تم پر واجب ہے‘ نہ اس حیثیت سے جس طرح نصاریٰ حضرت عیسیٰ کی نسبت کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں رسول ہوں- اس لئے واسطے اطاعت اللہ تعالیٰ کے میرا اتباع تم پر لازم ہے- اگر اس فہمائش اور ہدایت کو بھی نہ مانیں اور روگردانی کریں جو موجب کفر ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کو دوست نہیں رکھتا- چنانچہ اس عدم محبت کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مکذبین اور کافرین آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں ہی یا تو تباہ اور ہلاک ہو گئے یا جن کی قسمت میں تھا اسلام میں داخل ہو گئے- علیٰ ہذا القیاس ھلم جراً- مسیح موعود کے زمانہ تک کہ بحکم حدیث صحیح مسلم لایحل لکافر ان یجد ریح نفسہ الا مات کے اس کے مکذبین اور مکفرین بھی رسوا اور تباہ ہو گئے اور ہو رہے ہیں- پس بلحاظ اس کے کہ یہ پیشین گوئی لطیف مندرجہ آیت پوری ہوئی‘ اب آگے اہل کتاب کا وہ استبعاد رفع کیا جاتا ہے جو ان کو حضرت خاتم|النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بارہ میں تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں پر آدمؑ اور نوحؑ اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو چن لیا ہے- کیونکہ یہ سب اولاد آدم کی ہیں کہ بعض ان کے بعض کی نسل سے ہیں اور اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے-
فائدہ - مراد یہ ہے کہ یہ امر تمہارے نزدیک مسلمات سے ہے کہ حضرت آدمؑ جس طرح پر ابوالبشر ہیں اسی طرح ابوالانبیاء بھی ہیں- یعنی نور اصطفا کا اولاً ان میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور چونکہ لائق اولاد اپنے باپ کی وارث ہوتی ہے اس لئے ضروری ہوا کہ نور نبوت کا ان کی اولاد لائق کو بھی پہنچے- چنانچہ ایسا ہی کچھ ہوا کہ آدم کی اولاد میں شیثؑسے لے کر حضرت ادریسؑ تک وہ نورنبوت منتقل ہوتا لائق اولاد میں چلا آیا- اور اصطفا سے ہم نے نورنبوت اس لئے مراد لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انی اصطفیتک علی الناس برسٰلٰتی )الاعراف:۱۴۵-( یا حضرت ابراہیمؑ اور اسحاقؑ و یعقوبؑ کے بارہ میں فرماتا ہے و انھم عندنا لمن المصطفین الاخیار )ص:۴۸-( پس مراد اصطفا سے وہی نور نبوت اور رسالت کا ہے جو آدم ثانی حضرت نوح کو بھی حاصل ہوا- حتیٰ کہ حضرت نوحؑ سے ابراہیم کو مرحمت ہوا- بعدہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں حضرت اسمعیلؑ و اسحاقؑ کو ملا جو آل ابراہیمؑ سے ہیں- حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں یعقوبؑ ہوئے یعنی اسرائیل جس کی اولاد میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے اور حضرت عیصؑ بھی یعقوبؑ کی اولاد میں ہیں جن کی ذریت میں کثرت سے بادشاہ ہوئے- بالاخر چونکہ عہد عتیق میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیلؑ اور اسحاقؑ دونوں سے تورات میں وعدہ کیا تھا لہذا وہ وعدہ پورا ہوتا ہوا بنی اسرائیل میں چلا آیا حتیٰ کہ بالآخر بموجب وعدہائے تورات کے بنی اسمعیل میں سے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ نورنبوت|تامہ اور نیز خلافت|عامہ کا مرحمت ہوا اور کیونکر نہ ہوتا کہ حضرت اسمعیلؑ بھی آل|ابراہیم میں داخل ہیں اور آل ابراہیم کے لئے وعدہ ہو چکا ہے- پس اس دلیل سے جو مسلمہ اہل|کتاب ہے لازم آیا کہ بنی اسمعیلؑ میں بھی وہ وعدہ اصطفا اس شان سے پورا ہووے کہ تدارک|مافات کا کر دیوے- اور مافات یہ ہے کہ جس طرح سے من ابتدائے حضرت یعقوبؑ تا عیسیٰ کثرت سے انبیاء بنی اسرائیل میں ہوتے چلے آئے اور بنی اسمعیلؑ میں کوئی نبی اولوالعزم پیدا نہیں ہوا تو بنی اسمعیلؑ میں ایک ایسا نبی عظیم الشان سید المرسلین و خاتم|النبیین پیدا ہووے جو سب انبیاء بنی اسرائیل پر فائق ہو جاوے- چنانچہ اس وعدہ کے پورا ہونے سے ان وعدوں مندرجہ تورات کی تصدیق ہو گئی جو بڑے زور و شور سے تورات میں اب تک موجود ہیں- یہ ایک بڑی حجت ہے آنحضرتﷺ~ کی تصدیق نبوت پر‘ جس کا جواب اہل|کتاب سے ہرگز نہیں ہو سکتا ہے- قال اللہ تعالیٰ ربنا و ابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایٰاتک و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و یزکیھم انک انت العزیز الحکیم )البقرۃ:۱۳۰(
سوال - اصطفائے آل عمران کو آخر میں بیان کرنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی کیونکہ آل عمران یعنی حضرت عیسیٰؑ اور مریمؑ بنی اسرئیل میں سے ہیں جو آل ابراہیم میں داخل ہو چکے ہیں- پھر آل عمران کو مکرر آخر میں کیوں بیان کیا گیا؟
جواب - اس تکرار میں ایک سر یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے بھی آخر زمانہ میں ایک مثیل عیسیٰؑ اور نیز مثیل مریمؑ علم الٰہی میں پیدا ہونے والے تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور مثل کے مومنوں کے لئے سورہ تحریم میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے-
و مریم ابنت عمرٰن التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا و صدقت بکلمٰت ربھا و کتبہ و کانت من القانتین )التحریم:۱۲‘۱۳-( چنانچہ اس زمانہ|آخری میں عیسیٰؑ اور مریمؑ کے نام سے ایک مجدد عظیم الشان پیدا ہوا- پس اس لئے آل عمران یعنی عیسیٰؑ اور مریم کو باوجود داخل ہونے کے بنی|اسرائیل میں دوبارہ جو آل ابراہیم سے ہیں آخر میں ذکر فرمایا گیا- اور اسی لئے حضرت مریمؑ اور عیسیٰ کی نسبت فرمایا گیا ہے کہ و جعلناھا و ابنھا ایٰۃ للعالمین )الانبیائ:۹۲-( اس آیت میں اگر تھوڑا غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسیٰؑ اور مریمؑ نہ اپنے زمانہ میں ایٰۃ للعالمین ہوئے اور نہ بعد اپنے زمانہ ایٰۃ للعالمین ہونا ان کا ظاہر ہوا‘ ہاں البتہ ان کا ایٰۃ للعالمین ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں نازل ہوا تھا- اس لئے کلام نبوت میں عیسیٰؑ موعود کے نزول کی پیشگوئی آخر زمانہ کے لئے بیان فرمائی گئی اور اس زمانہ آخری میں اپنے وقت پر ایک مجدد بنام عیسیٰؑ و مریمؑ پیدا ہوا جس کے سبب سے حضرت عیسیٰؑ اور مریمؑ کا نام نامی تمام عوالم میں روشن ہو گیا اور جو شرک اور بدعت حضرت عیسیٰؑ یا مریمؑ کے نام سے دنیا جہان میں پیدا ہو گیا تھا جس کے سبب ان کے آیت ہونے میں بھی شبہات پیدا ہوئے تھے اس عیسیٰ موعودؑ نے اس سب کا محو کر دینا چاہا ہے تاکہ عیسیٰؑ و مریمؑ جو بندگان مقبول الٰہی میں سے تھے ایٰۃ للعالمین ہو جاویں- پس یہ سر تھا آل عمران کوآخر میں مکرر ذکر فرمانے کا- و ھٰذا ما الھمنی ربی و الحمد للٰہ رب العالمین- ]txet [tag اور یہی معنی ہیں اس شعر کے جو کہا گیا ہے ~}~
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
مطلب یہ ہے کہ ایک مرد کامل امت محمدیہ کے طفیل سے حضرت عیسیٰ کا نام دنیا جہان میں روشن ہو گیا ورنہ اہل کتاب نے جو یہود و نصاریٰ ’’بدنام کنندہ نکونا مے چند‘‘ ہیں‘ بسبب اپنے کفر و شرک کے اور اپنی بداعمالیوں کے سبب حضرت عیسیٰ کا نام تو میٹنا ہی چاہا تھا بلکہ میٹ چکے تھے مگر ایک غلام احمد نے ان کے نام کو دنیا جہان میں روشن کر دیا- پس ایک فرد کامل امت محمدیہ میں سے ان کے نام کے ساتھ مبعوث ہوا اور اس سے امت محمدیہ کو کوئی فخر حاصل نہیں ہوا بلکہ حضرت عیسیٰ کو اس بعثت مسیح موعود سے فخر حاصل ہوا ہے- و الحمد للٰہ- قال اللہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تومنون باللہ )اٰل عمران:۱۱۱-( اسی لئے آگے اس کے حضرت مریمؑ کی ولادت اور دیگر قﷺ متعلق اس کے بیان فرمائے جاتے ہیں اور تاکیداً ارشاد ہوتا ہے کہ ان قصوں کو یاد کرتے رہو ایسا نہ ہو کہ بھول جائو کہ عمران کی زوجہ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے تیری نذر کیا- دنیا کے کاموں سے آزاد کیا گیا-
پس اے پروردگار میرے! تو میری طرف سے یہ نذر قبول فرما- بے شک تو ہے سب کچھ سنتا- سب کی نیتوں کو جانتا ہے-
فائدہ-: بنی اسرائیل میں یہ دستور تھا کہ ماں باپ اپنے بعض لڑکوں کو اپنی خدمتوں سے آزاد کر کر اللہ|تعالیٰ کی نذر کر دیتے تھے اور تمام عمر دنیا کے کاموں میں نہیں لگایا کرتے تھے- ہمیشہ مسجد میں عبادت کے لئے یا مسجد کی خدمت کرنے کے لئے اور دینیات کے درس کرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے- عمران کی زوجہ حنا کو جب حمل ہوا تو اس نے حالت حمل ہی میں واسطے خالص رضامندی اللہ تعالیٰ کے اول ہی سے یہ نذر کر لی تھی تاکہ مادرزاد ولی پیدا ہو مگر حالت حمل سے ہی شریعت اسلام میں یہ دستور تو نہیں ہے- لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ خود کسی شخص کو برگزیدہ کر کر خالص خدمت دین ہی کے لئے چن لیتا ہے اور اس کی فطرت اور جبلت ہی ایسی پیدا کرتا ہے کہ دنیا کے کاموں کی طرف اس کو رغبت ہی نہیں ہوتی جیساکہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے- nsk] [tag ان اللہ یبعث لھٰذہ الامۃ علیٰ راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا )سنن ابوداود کتاب الملاحم و الفتن( اور یہی مراد ہے مولانا روم کے اس شعر سے ~}~
اولیاء را کار عقبیٰ اختیار
اشقیاء را کار دنیا اختیار
انبیاء در کار دنیا جبر یند
اشقیاء در کار عقبیٰ جبر یند
حضرت مریم کی والدہ نے حالت حمل ہی میں یہ نذر کر کر یہ دعا کی کہ فتقبل منی -]txet [tag اس میں سر یہ تھا کہ ان کی تمنا دلی یہ تھی کہ وہ بچہ پیٹ ہی میں اللہ تعالیٰ کا مقبول اور محبوب ہو جاوے جس کو عرف میں مادرزاد ولی کہتے ہیں- اسی لئے انہوں نے دو صفتوں سمیع و علیم کا بیان کیا کہ جس اخلاص سے میں نے تیری جناب میں یہ دعا کی ہے تیرے سوا اور کوئی اس کا سننے والا نہیں اور جو میری تمنائے دلی ہے اس کاعلیم و خبیر تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے- یہ قصہ حضرت مریم کی والدہ کے نذر کرنے کا اس لئے یاد دلایا گیا کہ وہاں تو حضرت حنا کی دعا سے مریم کو پیدا کیا تھا اور امت محمدیہ میں حسب الحکم آیت سورہ تحریم کے ہم خود ایک ایسا غلام احمد پیدا کریں گے کہ مریم صفت ہو کر دین محمدی کا ایسا خادم ہو گا کہ دنیا کے کاموں سے بالکل آزاد اور محرر ہو گا اور اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقبول ہو گا- اس لئے الہامات میں اس مسیح موعود کا نام مریم بھی آیا ہے- معنی مریم کے کتب لغات میں خادم کے ہی لکھے ہیں- یعنی خادم احمد یا غلام احمد‘ یہ دونوں جو قریب المعنی ہیں- اب فرمایا جاتا ہے کہ پس جبکہ جنا اس کو- کہا- اے رب میرے تحقیق میں نے جنا اس کو لڑکی اور اللہ کو بہتر معلوم ہے جو کچھ جنی- اور بیٹا نہیں ہے مانند اس بیٹی کے اور تحقیق میں نے نام رکھا اس کا مریم اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے-
فائدہ-: حنا والدہ مریم کو یہ خیال تھا کہ میرے شکم میں لڑکا ہی ہے اور لڑکا ہی محرر کیا جاتا تھا جبکہ ان کے لڑکی پیدا ہوئی تو ان کو یہ خیال آیا کہ شاید میری نذر قبول نہ ہوئی کیونکہ لڑکی واسطے خدمت بیت|المقدس کے یا دیگر خدمات دینیہ کے لئے محرر نہیں ہو سکتی- اس لئے جناب باری میں یہ عذر کیا یا بسبب حسرت کے یہ مقولہ کہا ہو- مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کی قدر و عزت خوب جانتا ہے اور لڑکا اس لڑکی کی برابری نہیں کر سکتا- تفسیر کبیر وغیرہ میں اس کی دو توجیہیں لکھی ہیں- اول تو یہ کہ تفضیل لڑکے کی لڑکی پر مراد الٰہی ہے- دوسرے یہ کہ تفضیل اس لڑکی کی لڑکے پر مقصود ہے- پس کلام|الٰہی دونوں توجیہوں کو متحمل ہے- یہ کلام جو ذوالوجہین فرمایا گیا اس میں سر یہ ہے کہ امت محمدیہ میں جو خیرالامم ہے ایک مجدد عظیم الشان بنام مریم علم الٰہی میں مذکر آنیوالا تھا جو دین محمدی کو زندہ کرے گا- لہذا ایسا کلام ذوالوجہین فرمایا گیا کہ دونوں وجہوں پر صادق آ سکے- ہاں اس قدر فرق ہے کہ وہاں تو والدہ مریم نے ہی لڑکی کا مریم نام رکھا تھا اور یہاں پر اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ الہام کے اس مجدد عظیم الشان کا نام مریم رکھا اور چونکہ یہ مجدد ایک لڑکی کے ساتھ توام پیدا ہوا اور وہ لڑکی توام انہیں ایام میں وفات پا گئی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فعل سے بھی یہ شہادت دی کہ اب دین عیسوی باقی نہ رہے گا- )جس میں محض مادہ اناث ہے کیونکہ عیسیٰ صرف مریم کے مادہ ہی سے پیدا ہوئے تھے اور مرد کا اس میں کچھ دخل نہیں تھا( بلکہ دین محمدی اس لڑکے سے زندہ کیا جاوے گا اور مادہ اناث فوت ہو جاوے گا- کیونکہ لیس الذکر کالانثیٰ )اٰل عمران:۳۷( اور یہی مراد ہے اس شعر سے جو حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ~}~
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
لیکن ہاں چونکہ حضرت اقدس بنی اسرائیل میں سے ہیں لہذا دعا حضرت حنا کی اس لڑکی کے حق میں بھی‘ جس کا نام خود اللہ تعالیٰ نے مریم رکھا ہے‘ قبول فرمائی گئی اور کیونکر قبول نہ فرمائی جاتی کہ یہاں پر تو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی نام اس کا مریم رکھا ہے- معنی مریم کے خادمہ کے ہیں یعنی خادمہ دین اور پھر دیکھو دوسری قدرت اللہ تعالیٰ کی کہ والدین سے جو اس کا نام اللہ تعالیٰ نے رکھوایا وہ بھی ہم معنی مریم کے رکھوایا یعنی غلام احمد قادیانی جس میں اس کے سن بعثت کی تاریخ کا پتہ بھی بتلا دیا گیا- اور پھر اس مریم اور اس مریم میں ایک اور فرق بین ہے- پہلی مریم تو خادمہ مسجد ہی تھیں اور یہ مریم جو غلام احمد ہے خادم دین اللہ الاسلام اور مجدد دین احمد علیہ السلام ہے- و شتان بینھما و لنعم ما قیل-
حج زیارت کردن خانہ بود
حج رب البیت مردانہ بود
پہلی مریم تو صرف خانہ خدا کی خدمت کے لئے پیدا کی گئیں اس لئے وہ انثیٰ رہی اور دوسرے مریم جو غلام احمد ہے دین اللہ کی خدمت اور تائید اسلام کے لئے مبعوث ہوئے اس لئے وہ مردانہ ہوئے- پہلی مریم نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد نہیں ڈالی تھی بلکہ صرف خادمہ تھیں- لیکن غلام احمد نے قادیان میں مسجداقصیٰ کی بنیاد قائم کی- پہلی مریم نے اپنی ذریت کے لئے مخلصاً للٰہ دعا کی تھی تب قبول ہوئی تھی اور غلام احمد کی ذریت کے ’’انبات حسن‘‘ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود الہاماً اس کو اطلاع دی- چنانچہ فرمایا جاتا ہے- ’’پس اس کے پروردگار نے مریم کو خوشی سے قبول فرما لیا اور اگایا اس کو اچھا اگانا‘‘ یعنی اس کی ذریت میں سے ایک فرزند کامل پیدا کیا-
فائدہ-: یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو پیدا کیا اور یہاں پر نفخ روح کر کر خدا نے اسی مریم کی ذات کو عیسیٰ کر دیا و جعلناک المسیح ابن مریم-اور پھر علاوہ اس پر اس کی اولاد میں سے ایک فرزند کامل مکمل پیدا کیا جس کی نسبت الہامات تمام دنیا میں شائع ہو چکے ہیں-
تنبیہ-: جس طرح پر کہ اولاد صالح سے دنیا میں نام نیک مشہور ہوتا ہے اسی طرح پر سنت الٰہی یہ ہے کہ کسی کامل مکمل کے نام پر کسی زمانہ آخری میں کسی شخص کو اللہ تعالیٰ مبعوث فرماتا ہے تاکہ دوبارہ اس کو زندگی بخشے اور اس پہلے شخص کا نام دنیا میں نیک نامی کے ساتھ مشہور اور روشن ہو جاوے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک فرد کامل کو امت محمدیہ میں سے بنام مسیح و مریم اس آخر زمانہ میں مبعوث فرمایا تاکہ جس قدر شرک اور بدعات کفر جو ان کی طرف اقوام|عیسائیاں یا دیگر اقوام منسوب کرتے ہیں ان سے ان کو تطہیر فرما دیا جاوے- کما قال اللہ تعالیٰ یٰا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ )اٰل عمران:۵۶-( اور یہی سر تھا اس آیت کے الہام ہونے کا جو مدت سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے- و لنعم ما قیل~}~
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت یادگار
اور اب یہ الہام قرآنی ذیل کا بھی پورا ہو گیا کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی نسبت جو فرمایا گیا ہے و جعلناھا و ابنھا ایٰۃ للعٰلمین )الانبیائ:۹۲-( سبحان اللہ! یہ کلام الٰہی کیسا صادق اور مصدوق ہوا ہے ورنہ کوئی مخالف ہی ہم کو بتا دے کہ حضرت عیسیٰؑ باوجود اس کے کہ مدتہائے دراز سے ان کے نام کے ساتھ تمام دنیا میں شرک کیا جا رہا ہے‘ وہ کیونکر تمام عالموں کے لئے آیت اللہ ہو سکتے ہیں-
آگے فرمایا جاتا ہے کہ حضرت زکریا کو مریم کا خبرگیر اور تربیت کنندہ کر دیا- جب ان پر زکریا محراب میں داخل ہوتے پاتے ان کے پاس رزق- کہتے کہ اے مریم کہاں سے آیا تیرے پاس یہ رزق؟ تو مریم کہتیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہے- تحقیق اللہ رزق دیتا ہے جس کو چاہے بے حساب-
فائدہ-: پس وہاں پر حضرت مریم حضرت زکریا کی کفالت میں کی گئیں- یہاں پر یہ مریم یعنی غلام|احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کفالت تربیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے گئے~}~
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمد
فتبارک من علم و تعلم- وہاں تو حسب روایات مفسرین کے غیر موسم کے میوہ جات ہی آتے تھے یہاں پر علاوہ ان میوہ جات غیر موسمی کے میوہ جات غذائے روحانی اور ثمرات نورانی و فرقانی جن سے تمام حقائق اور معارف اسلام کے منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں‘ متواتر آ رہے ہیں- وہاں تو اقلام احبار میں سے صرف زکریا کا قلم فائق رہنے سے حضرت مریم ہی حضرت زکریا کی کفالت میں کی گئی تھی کہ و ما کنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم )ال عمران:۴۵‘( اور یہاں پر اس کے اقلام کے ذریعہ سے وہ کلمات اللہ‘ جن کی نسبت وارد ہے کہ و لو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام و البحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر ما نفدت کلمٰت اللہ )لقمان:۲۸-( کل دنیا میں سات سمندروں پار تک پہنچائے جاتے ہیں کیونکہ ظہورالقلم اس کے لئے حدیث میں موجود ہے- وہاں پر مریمؑ کے پاس اگر جسمانی رزق صرف مریمؑ کے لئے بے حساب آتا تھا یہاں پر علاوہ اس رزق جسمانی بے حساب کے رزق|روحانی و قرآنی بے حساب تمام عالم کو پہنچایا جاتا ہے کہ یاتیک من کل فج عمیق و یاتون من کل فج عمیق )براہین احمدیہ-( اب خلاصہ~ن۲~ المقال یہ ہے کہ اگر یہ مسیح موعود بنام عیسیٰؑ و باسم مریم اس آخر زمانہ میں مبعوث بنی اسرائیل میں سے نہ ہوتا تو اصطفا آل عمران کا جو بنی اسرائیل میں سے ہیں کل عالمین پر کیونکر ثابت ہوتا اور پھر اصطفا بنی اسمعیل کا جو آل ابراہیم سے ہیں اس وقت کل عالمین پر کیونکر واضح ہوتا- پس ثابت ہوا کہ اصطفا آل عمران کا حسب بیان مذکور مستلزم ہے اصطفا بنی اسمعیل و بنی اسرائیل کو- اور اصطفا دونوں کا مستلزم ہے اصطفا آل ابراہیم کا- نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جملہ اصطفا مستلزم ہیں اصطفا محمد رسول اللہ‘ خاتم النبیین‘ رحمہ~ن۲~ للعالمین کو- و ھو المدعا~}~
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بنگر ز غلمان محمد
اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید-
) الحکم جلد۱۰ نمبر۱۷ ۔۔۔۔ ۱۷ / مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ تا ۱۰ (
* - * - * - *

۴ / مئی ۱۹۰۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ آل عمران کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں-
الحق من ربک فلاتکن من الممترین- فمن حاجک فیہ من بعد ما جائ|ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین- ان ھٰذا لھو القصص الحق و ما من الٰہ الا اللہ و ان اللہ لھو العزیز الحکیم- فان تولوا فان اللہ علیم بالمفسدین- قل یٰاھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ و لانشرک بہ شیئاً و لایتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون )اٰل|عمران:۶۱تا۶۵-(
اور پھر فرمایا -:
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس سورئہ مبارکہ کا نام آل عمران ہے- وجہ تسمیہ اس کی اس نام کے ساتھ یہی ہے کہ اس سورۃ متبرکہ میں آل عمران کا اصطفا قریب اسی آیتوں میں بیان فرمایا گیا ہے اور جو نزاع اور اختلاف درمیان اہل کتاب یہود اور نصاریٰ کے واقع تھے ان کا فیصلہ مسلمات اہل کتاب سے بدلائل بینہ کیا گیا- اور حق الامر کے دلائل دیتے ہوئے استدلال کا وہ اسلوب حسن اختیار کیا گیا ہے کہ آئندہ زمانوں میں قیامت تک جو نزاع دربارہ آل عمران یعنی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے واقع ہو اس کا فیصلہ بھی انہیں دلائل مندرجہ آیات سے بخوبی ہو سکتا ہے- فالحمد للٰہ-
ان آیات سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ وعدہ فرمایا ہے کہ تم کو صلیب کی موت سے جو بموجب حکم تورات کے *** موت ہے بچایا جاوے گا اور تمہاری موت توفی کی موت ہو گی جس میں تم کو رفع الی اللہ یعنی قرب الٰہی حاصل ہو گا اور منکرین کے الزامات بیجا سے تم کو پاک کیا جاوے گا اور تمہارے مخالفین کافرین کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب شدید کے ساتھ معذب کیا جاوے گا اور تمہارے موافقین مومنین اور متبعین کو مانند تمہارے رفع اور فوقیت مخالفین کافرین پر عطا کی جاوے گی- جس طرح پر کہ حضرت آدم کو یہ مراتب بشری یا اصطفا کے ہماری طرف سے عنایت ہوئے تھے اسی طرح تم کو بھی حاصل ہوں گے وغیرہ وغیرہ جو اوپر کی آیات میں مفصلاً مذکور ہے- اب ان آیات میں فرمایا جاتا ہے کہ یہ سب ادلہ اور جملہ امور جو حضرت عیسیٰ ؑ کے بارہ میں مذکور کئے گئے حق اور ثابت شدہ صداقتیں ہیں تیرے رب کی طرف سے جو تیری تربیت کا ذمہ وار اور تعلیم کنہ اشیاء کا متکفل ہے- اس لئے شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا-
سوال - انبیاء علیہم السلام کو وحی الٰہی میں کب شک ہوا کرتا ہے خصوصاً حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو شک کیونکر ہو سکتا ہے جس کی نہی فرمائی گئی؟
الجواب - بادشاہ کا جو خطاب سپہ سالار فوج کو امر یا نہی ہوا کرتا ہے مراد اس خطاب سے غالباً اس سپہ سالارکی فوج اور لشکر ماتحت اس کا ہوتا ہے- اسی طرح پر اگرچہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے مگر اس خطاب سے مراد آپ کی امت ہے اور ایسے خطاب میں ایک عجیب نکتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان امور مذکورہ میں شک کرنا مذموم اور محذور میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جس شخص سے اس میں شک کرنے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا اس کو بھی نہی فرمائی گئی چہ|جائیکہ اس شخص کے جس کو شک کرنے کے لئے شیاطین الجن و الانس سامان و اسباب شک کرنے کے مہیا کرتے رہتے ہوں- اور آنحضرت کی نسبت امکان شک کا نہ ہونا اس امر سے ظاہر ہے کہ باوجودیکہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ اناجیل اور طالمود سے طرح طرح کی روایات اپنے اپنے مذہب کی تائید میں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو پیش کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امر حق پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپ مباہلہ کے لئے مستعد ہو گئے- جیسا کہ اس زمانہ آخری میں بھی مسیح موعود کے مخالفین پیچھے پڑے اور تکفیر نامے لکھے اور شورقیامت برپا کر کر ان کے روبرو احادیث موضوعہ اور روایات کاذبہ اپنے مذہب کی تائید میں پیش کی گئی ہیں- مگر نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ذرہ بھر شک پیدا ہوا اور نہ مسیح موعود کو کسی طرح کا شک|وشبہ اپنے دعاوی میں پیدا ہوا- اسی لئے مسیح موعود نے بھی یہ آیت مباہلہ حسب درخواست مخالفین کے پیش کر دی ہے- اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بھی ایک عالم پر اس الحق من ربک کی حقیقت منکشف ہو گئی تھی اور اس زمانہ آخری میں بھی حقیقت ان دعاوی مسیح|موعود کی جو مضمون آیات ما سبق کی موید اور مبین ہیں‘ ایک عالم پر واضح ہوتی چلی جاتی ہے لہٰذا یہ آیت بسبب وقوع اپنے مضمون کے ایک نشان نبوت کا بھی ہو گئی الحمد للٰہ- اور چونکہ تفسیر کبیر وغیرہ میں اس آیت کی ترکیب میں یہ بھی لکھا ہے و قال اٰخرون الحق رفع باضمار فعل ای جائ|ک الحق اندریں صورت یہ آیت ایک صریح پیشین گوئی ہو گئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بھی واقع ہوئی اور اس زمانہ آخری میں بھی بڑے زورشور سے واقع ہو رہی ہے- اس لئے یہ آیت بہمہ وجوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے اثبات کے لئے ایک بڑا نشان ہے-
اب بعد اتمام حجت کے جو دلائل علمیہ سے بیان فرمائے گئے اور دلائل علمیہ کا بیان انتہا درجہ کو پہنچ گیا تب بھی مخالفین نے تسلیم نہ کیا‘ تو فرمایا جاتا ہے کہ جو شخص اس کے بعد عیسیٰ کے بارہ میں کٹ|حجتی کرتا رہے تو آخری فیصلہ یہ ہے کہ ان سے کہہ دو کہ آجائو- ہم اپنے بیٹوں کو بلاویں اور تم اپنے بیٹوں کو بلائو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو شریک کریں اور تم اپنے نفسوں کو- پھر ہم سب مل کر تضرع اور زاری کے ساتھ دعا کریں- پس جھوٹوں پر خدا کی *** ڈالیں-
فائدہ -: یہ قصہ مباہلہ کا نصاریٰ نجران کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش آیا تھا جن میں ساٹھ سواروں کا وفد مع لاٹ پادری سید اور عاقب کے جو بڑے
ذی رائے تھے موجود تھا- جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مناظرہ فرما کر بخوبی ان پر اتمام حجت فرمایا تب بھی انہوں نے امر حق اور صداقت ثابت شدہ کو تسلیم نہ کیا- تب بالآخر مجبور ہو کر مباہلہ کی آیت پیش کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیار ہوئے اور اپنے اہل بیت یعنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا اور ہر دونوں بیٹوں حسنین کو اور حضرت علی داماد کو لے کر مباہلہ کے لئے موجود ہوئے کیونکہ نصاریٰ نجران نے حضرت کا بہت پیچھا کیا تھا- آغاز سورۃ آل عمران کا قریب اسی آیتوں کے اسی مناظرہ اور مباہلہ کے بیان میں نازل ہوا ہے- یہ مناظرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ایک بڑا عظیم الشان مناظرہ واقع ہوا تھا جس کی نوبت بالآخر مباہلہ تک پہنچی تھی مگر نصاریٰ نجران اس مباہلہ سے ایسے خوف زدہ ہو گئے کہ جو ان میں بشپ اور لاٹ پادری مسمی عاقب و سیدوغیرہ موجود تھے انہوں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا جن میں قریب ساٹھ سواروں کے بھی تھے کہ یا معشرالنصاریٰ! یہ تو وہی سچے نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی نبوت کی خبر عہدعتیق اور عہدجدید میں موجود ہے اور جو دلائل انہوں نے پیش کئے ہیں وہ منقوض نہیں ہو
سکتے- اندریں|صورت اگر ہم مباہلہ کریں گے تو بالضرور ہم ہلاک اور تباہ ہو جاویں گے- اگر تم کو اپنے ہی دین کی محبت ہے تو لوٹ چلو اور ان سے کچھ تعرض مت کرو اور نہ ان سے لڑو- یہ دونوں پادری بڑے ذی|رائے تھے- اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اہل بیت مذکورین سے فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا- اس وقت ان کے بشپ لاٹ پادری نے اپنے ہمراہیوں سے یہ بھی کہا کہ میں ان لوگوں کے چہرے ایسے دیکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پنج تن کسی پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹلا دینا بھی اللہ تعالیٰ سے چاہیں گے تو وہ پہاڑ بھی ٹل جاوے گا- فلاتباھلوا فتھلکوا- غرضیکہ ان نصاریٰ نجران نے پھر تو نہ مباہلہ کرنا چاہا اور نہ لڑنا چاہا بلکہ بالآخر جزیہ دینا قبول کیا- سال بھر میں دو مرتبہ یعنی ماہ صفر میں ایک ہزار حلہ اور ماہ رجب میں ایک ہزار حلہ اور خالص لوہے کی عمدہ تیس ذرہ- اگرچہ اس قوم نصاریٰ نجران سے مباہلہ واقع نہیں ہوا مگر یہ واقعہ جو اس آیت اور احادیث میں مذکور ہے آپ کی حقیت نبوت کے لئے مفسرین ایک بڑی دلیل|مثبت لکھتے ہیں- روایات میں یہ بھی واقعہ ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اہل|نجران|نصاریٰ سے عذاب بہت قریب ہو گیا تھا- اگر وہ مباہلہ کرتے تو ان پر عذاب نازل ہو جاتا- و لما حال الحول علی النصاریٰ کلھم حتیٰ یھلکوا )بخاری کتاب مناقب انصار-(
اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود جو حضرات عیسائیوں کو مدت دراز سے اسلام کی طرف دعوت کر رہے ہیں لیکن کوئی عیسائی صاحب خواہ بشپ ہو یا لاٹ پادری اس میدان لق و دق میں قدم رکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جانتے ہیں کہ ہم اہل اسلام کے مقابلہ مباہلہ میں ہرگز ہرگز کامیاب نہ ہوویں گے اور اللہ|تعالیٰ کی طرف سے ہمارے مذہب کی پردہ دری ہو جاوے گی- مگر اس امتناع کے لئے ایک عذر بارد یہ بنا لیا ہے کہ ہمارے مذہب میں مباہلہ جائز نہیں ہے- ہاں یہ فیصلہ الٰہی ہے اور وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے اور خود آپ بڑا زبردست عزیز و حکیم اور علیم بالمفسدین ہے- وہ تو فیصلہ صادق ہی کے حق میں کرے گا نہ کاذب کے حق میں- جیساکہ اس نے ان آیات مباہلہ کے آگے ان صفات کا ذکر اسی لئے فرمایا ہے-
سوال -: اگر کہا جاوے کہ بعض کفار نے تو خود چاہا تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دعاوی میں حق پر ہیں تو ہم مکذبین پر یااللہ! عذاب نازل فرما‘ تب بھی کوئی عذاب نازل نہیں ہوا تو پھر مباہلہ پر کیونکر عذاب نازل ہوتا- کما قال اللہ تعالیٰ حکایتاً عنھم اللھم ان کان ھٰذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء او ائتنا بعذاب الیم- و ما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم و ما کان اللہ معذبھم و ھم یستغفرون )انفال:۳۳‘۳۴-( پس ان دونوں آیتوں میں توفیق کیا ہو گی؟
الجواب -: آیات مباہلہ اور ان آیات مندرجہ میں کچھ بھی منافات نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں ایک خاص عذاب کے نزول کے لئے دعا کی گئی تھی یعنی آسمان سے مثل بارش کے پتھروں کا برسنا جس سے عام ہلاکت بلکہ استیصال عام متصور ہے- دوسرا عذاب اس عذاب سے بھی زیادہ تر مولم مانگا تھا- سو قدیم سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ قبل قیامت ایسے عذاب دنیا میں فوری نازل فرمادیوے کیونکہ ایسے عذابوں کے انزال میں خواہ کفار کی درخواست سے ہوویں یا کسی فرضاً مامور من اللہ کی دعا سے ہوویں ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہیں رہ سکتی اور مع ہٰذا ایسے عذاب کے انزال سے اجبار اور اکراہ اور الجا لازم آتا ہے جو دین اسلام میں ہرگز موجود نہیں ہے لا اکراہ فی الدین )البقرۃ:۲۵۷-( ہاں کسی کاذب پر *** کا پڑنا جس سے ذلت یا رسوائی ہو اور ایمان بالغیب کی حکمت تلف نہ ہووے اور اکراہ والجا بھی لازم نہ آوے‘ ہوا کرتا ہے- چنانچہ مخالفین انبیاء پر ایسے عذاب ذلت واقع ہوتے رہے ہیں اور ہوویں گے- حتیٰ کہ کاذب کی موت بھی مباہلہ میں شرط نہیں ہے کیونکہ منشا اہل مباہلہ کا صرف کاذب پر وقوع *** کا ہے خواہ کسی طرح سے ہو- یہ اس علیم و خبیر کے اختیار میں ہے کہ بقدر تکذیب و تشددمخالفین کے وہ *** کسی عذاب مہلک سے ہی واقع ہو- موت ہو یا قتل وغیرہ- پس ایک خاص عذاب|کذائی کی نفی اور *** الٰہی کے ثبوت میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ ایمان بالغیب کی حکمت کے مانع نہیں اور اجبار بھی اس میں نہیں ہو سکتا- چنانچہ سرداران مکہ میں سے ایک شخص مسمی نضربن حارث تھا اور نیز ابوجہل جس نے یہ دعا کی تھی کہ nsk] ga[t اللٰھم ان کان ھٰذا ھو الحق )انفال:۳۳-( تو دیکھو جنگ|بدر میں ابوجہل تو عذاب قتل میں مبتلا ہوا بسبب اپنے تشدد کے اور نضر بن حارث باوجودیکہ قیدیوں میں قید ہو کر آیا تھا- دوسرے قیدی تو فدیہ لے کر چھوڑ دئے گئے تھے مگر نضربن حارث بایں وجہ قتل کیا گیا کہ قرآن مجید کی شان میں بڑی بڑی گستاخیاں کیا کرتا تھا اور سخت معاند تھا- تو یہ دونوں منجملہ ستر مقتولوں کے عذاب قتل میں اس لئے مبتلا ہوئے کہ یہ بھی اہل اسلام کے قتل کے درپے تھے ورنہ مباہلہ میں کاذب کا قتل ہو جانا‘ مر جانا شرط نہیں- صرف وقوع *** الٰہی کا ہی ہو خواہ کسی طرح ہو- اور عذاب|قتل جو بموجب پیشین گوئی ملہم ربانی کے واقع ہو جس میں دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا قتل کرنا بطور ذب کے چاہتا ہے ایسا عذاب نہیں ہے جس میں ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی ہو یا اجبار لازم آوے- الحاصل‘ مباہلہ میں کاذب پر *** کا وقوع ضروری ہے خواہ کسی رنگ میں ہو- مباہلہ میں ایسا عذاب جس میں مثل بارش کے آسمان سے پتھر برسنے لگیں یا اس سے بھی زیادہ مولم ہو جس میں کوئی متنفس نہ بچ سکے نازل نہیں ہوتا کہ سنت اللہ کے خلاف ہے- اسی لئے ان دونوں آیتوں کے آگے ہی دوسرے عذابوں کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ و مالھم ان لایعذبھم اللہ و ھم یصدون عن المسجد الحرام )انفال:۳۵( یعنی اور کیا ہے واسطے ان کے کہ نہ عذاب کرے گا ان کو اللہ اور وہ روکتے ہیں مسجدحرام سے- اور پھر اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ قید لگائی کہ و انت فیھم وہ بھی ایسے ہی عذاب|کذائی کے عدم نزول کی طرف اشارہ کر رہی ہے یعنی جبکہ ایسا عذاب نازل ہووے گا تو پھر اس کا اثر تم کو بھی پہنچے گا- لہذا ایسے عذاب کا نازل کرنا ہماری سنت قدیمہ کے خلاف ہے-
اس آیت مباہلہ کی مناسبت ساتھ زمانہ مسیح موعود کے عجیب و غریب اسلوب سے واقع ہوئی ہے- نبی|کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بھی یہ مباہلہ حضرت عیسیٰ ہی کے بارہ میں واقع ہوا- رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بعد اتمام|حجت اور اتمام مناظرات کے یہ مباہلہ واقع ہوا تھا- یہاں پر بھی بعد مناظرات اور تمام حجت کے واقع ہوا- نصاریٰ نجران کے خوف زدہ ہو کر مباہلہ پر آمادہ نہ ہوئے‘ یہاں پر بھیاوائل میں شیخ الکل معہ اپنی جماعت کے مباہلہ نہ کر سکے بلکہ مولوی محمد حسین صاحب بھی مباہلہ پر مستعد نہ ہو سکے- اور اگرچہ آیت ہذا مباہلہ کی نصرانیان نجران کے حق میں وارد ہوئی تھی مگر دیگر اقوام قریش مثل ابوجہل وغیرہ سے بھی آپ کا مباہلہ واقع ہوا- دیکھو کتب سیر کو- اسی طرح پر مسیح موعود کا مباہلہ بھی علاوہ طرفداران عیسیٰؑ کے دیگر اقوام سے بھی حسب درخواست مخالفین کے واقع ہوا ہے جیسا کہ لیکھرام وغیرہ- اور جنہوں نے خود درخواست کر کر مباہلہ کیا وہ بقدر اپنے اپنے تشدد اور سختی کے *** الٰہی میں مبتلا ہوئے‘ خواہ ذلت و رسوائی ہو یا ہلاکت ہو-
جس طرح پر مفسرین نے اس مباہلہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا اثبات کیا ہے اسی طرح پر ان مباہلوں سے مسیح موعود کے دعاوی کا اثبات ہوا کیونکہ نتیجہ ان مباہلوں کا حسب دعاوی مسیح|موعود کے واقع ہوا و الحمد للہ- اور اگر کوئی مخالف ان مباہلوں کو بعد وقوع نتائج کے بھی نہ مانے تو وہ بتاوے کہ پھر صادق اور کاذب میں کیا مابہ الامتیاز رہے گا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ثبوتوں میں سے ایک بڑا ثبوت‘ جس کو قرآن مجید میں بڑی عظمت شان سے بیان فرمایا گیا ہے‘ ضائع ہو جاوے گا بلکہ چند آیات کریمہ قرآن مجید کی متعلق مباہلہ کے‘ نعوذ باللہ‘ لغو ہو جاویں گی و تعالیٰ شان کلامہ تعالیٰ عن ذٰلک علواً کبیراً- اور ناظرین کو خوب معلوم رہے کہ ان مباہلوں کا نتیجہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں واقع ہوا تھا یا بعثت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوا ہے- اس تیرہ سو برس میں کسی مجدد کے وقت میں ایسے مباہلات واقع نہیں ہوئے اور نہ اس کے نتائج- پس ان آیات کا نشانات واسطے نبوت خاتم النبیین کے ہونا بھی ثابت ہوا ثم الحمد للٰہ-
اب فرمایا جاتا ہے کہ جو دلائل اور مضامین اوپر مذکور ہوئے‘ وہی اخبار اور قﷺ حقہ ہیں جو پے در پے بیان کئے گئے ہیں- اور سوائے اللہ کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک اللہ ہی البتہ زبردست اور حکمت والا ہے- حال میں چراغ دین جموں پر بموجب پیشین گوئیمندرجہ ’’دافع البلا‘‘ کے اس ابنا اور سنا یعنی دختر اور خود اس کے نفس پر پورا اثر واقع ہوا اور کوئی کلمہ آیت مباہلہ کا خالی نہ گیا- فائدہ ذکر کرنے صفت عزیز و حکیم کا یہ ہے کہ جو روایات اسرائیلی یا اکاذیب مخالف علم الٰہی ہیں‘ وہ محض غلط ہیں اور عیسیٰؑ میں کوئی صفت یا صفات مختصہ الٰہیہ میں سے موجود نہیں تھے کیونکہ پھر تو اللہ تعالیٰ کی عزت اور عزیز ہونے میں فرق آ جاوے گا اور شان عیسوی‘ حضرت ابوالبشر اور خاتم النبیین سے بھی بڑھ جاوے گی جو خلاف مقتضائے|حکمت اس حکیم برحق کے ہے- اب باوجود اس قدر اتمام حجت کے جس کی نوبت مباہلہ تک پہنچ گئی ہے اگر اب بھی اس حق کے قبول کرنے سے وہ لوگ اعراض کریں تو سمجھ لو کہ ان کی نیتوں میں فساد ہے- دوسروں کے عقائد حقہ کو بھی فاسد کونا چاہتے ہیں- اندریں صورت اللہ سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں کیونکہ مفسدوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یعنی ان کے فسادوں کی ضرور سزا دیوے گا- چنانچہ وہ سزا مفسدین کے لئے دنیا میں بھی واقع ہوئی جو نشان نبوت صادقہ کا ہے- اب چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان لانے پر کمال درجہ کے حریص تھے باوجودیکہ تمام مدارج تبلیغ اور مناظرات کے مباہلہ تک ختم فرما چکے تھے تو بھی ان کی تبلیغ یا فہمایش و ہدایت نہ کرنا آپ کا قلب|مبارک گوارا نہ کر سکتا تھا- اس لئے اللہ تعالیٰ حسب خواہش آپ کے جو علیم بسرائر الضمائر ہے‘ ایک دوسرا طریق تبلیغ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم مباہلہ پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تو اے اہل کتاب! آئو ایسی بات کی طرف رجوع کرو جو ہمارے تمہارے درمیان میں برابر مسلم ہے- ایک تو یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں- دوسرے یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراویں- تیسرے یہ کہ خدا کے سوا بعض ہمارا بعض کو رب نہ قرار دیوے- پس اگر ایسی سیدھی سچی بات فریقین کی متفق علیہ سے بھی روگردانی کرو تو اے مسلمانو! تم کہہ دو کہ تم تو بالضرور دین اسلام سے جو دین اللہ ہے خارج ہو گئے- گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان فرمانبردار ہیں تاکہ یہ گواہی تمہاری باعث ہماری نجات کا اور موجب تمہاری ہلاکت کا ہو جاوے- چنانچہ مسلمون بالآخر کامیاب ہو گئے اور یہ آیت بھی ایک نشان کامل نبوت کا ہو گئی-
ان آیات میں بتدریج تمام عجیب طرح سے ارشاد و ہدایت میں مبالغہ فرمایا گیا ہے- اولاً حضرت عیسیٰؑ کے حالات اور جو ان پر واردات واقع ہوئی تھی ان کو بیان فرمایا کیونکہ وہ تمام حالات منافی الوہیت کے ہیں- اور پھر توحید اسلامی پر دلائل قاطعہ بیان فرمائے گئے- لیکن طرف مخالف سے بجز عناد کے تسلیم|وانقیاد کا کہیں نشان نہ پایا گیا- تب مباہلہ کی نوبت پہنچی لیکن انہوں نے مباہلہ سے بھی عاجز ہو کر جزیہ دینا قبول کیا- پھر بالآخر ایسے تین امور کی طرف دعوت کی گئی ہے کہ وہ تینوں امر متفق علیہ فریقین کے ہیں- تاہم ایسے مفید ہیں کہ اگر وہ تینوں امر قبول کر لئے جاویں تو تمام نزاعات رفع ہو سکتے ہیں- امر اول یہ ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی غیر اللہ کی عبادت نہ کی جاوے جس کی طرف تورات|واناجیل اور قرآن|مجید بالاتفاق ہدایت فرما رہے ہیں- یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر اس کو بصدق دل قبول کر لیا جاوے تو تمام اختلافات بیرونی و اندرونی کا اس سے فیصلہ ہوا جاتا ہے-
دوسرا امر یہ ہے کہ اللہ کی ذات‘ صفات اور افعال میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا جاوے- یہ امر دوم بھی ایسا ایک کلیہ ہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے اور چونکہ یہ تمام شرکیہ عقائد یا اعمال و اقوال بدعیہ جو دنیا میں جاری ہیں‘ ان کا بڑا سبب یہ ہے کہ اقوال علماء کے جو بدعیہ ہیں اور افعال احبار کے جو شرکیہ ہیں‘ ان کے ساتھ تمسک کیا جاتا ہے‘ جس سے ایک خلقت گمراہ ہو گئی ہے لہذا تیسرا امر فیصلہ کن یہ ہے کہ علماء اور احبار کو اپنا رب نہ قرار دیا جاوے- اس طرح پر کہ ان کے اقوال اور اعمال اور روایات کا ذبہ کے تقلید واجب سمجھی جاوے- کیونکہ علماء اور احبار کے اقوال یا اعمال کی تقلید واجب سمجھنا بموجب|حدیث ذیل عدی بن حاتم کے ان کو اپنا رب قرار دینا ہے- تفسیر ابو السعود وغیرہ تفاسیر اور کتب|احادیث میں یہ حدیث لکھی ہوئی ہے کہ لما نزلت اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ قال عدی بن حاتم ما کنا نعبدھم یا رسول اللہ فقال علیہ السلام الیس کانوا یحلون لکم و یحرمون فتاخذون بقولھم قال نعم قال علیہ السلام ھو ذاک سبحان اللہ- یہ تینوں کلیے جو ان آیات میں مذکور ہوئے ہیں‘ اگر کوئی انسان ان تینوں کو اپنا متمسک گردان کر دستور العمل اپنا قرار دے لیوے تو تمام بدعات اور عقائد باطلہ شرکیہ اور اعمال بدعیہ سے نجات پا کر صراط مستقیم پر لگ جاوے- اس مسیح موعود کے جو مخالفین ہیں‘ انہوں نے بھی ان کلیات سہ گانہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے- اس لئے فی کل واد یھیمون )الشعرائ:۲۲۶( کے مصداق ہو رہے ہیں اور لطف یہ ہے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ بھی اسی ترتیب سے واقع ہوئی ہے جو سورۃ آل عمران میں واقع ہوئی ہے اور یہ بھی ایک ثبوت ہے اس کے مریم اور عیسیٰ موعود ہونے کا کیونکہ مریم اور عیسیٰ آل عمران سے تھے‘ ان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ و جعلناھا و ابنھا ایٰۃ للعالمین )الانبیائ:۹۲-( لیکن ظاہر ہے کہ یہ پیشین گوئی مندرجہ آیت کی کہ تمام عوالم کے لئے ان دونوں کا وجود ایک نشان ہو جاوے گا‘ پہلے زمانہ میں تو واقع نہیں ہوئی- اول تو ان دونوں کو یہود نے تہمت ناجائز کے ساتھ متہم کیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کو تین روز تک ملعون قرار دیا- پھر تمام عالم میں ان کے بارہ میں شرک شائع ہو گیا حتیٰ کہ وہی شرک اہل اسلام میں بھی سرایت کر گیا- پھر وہ دونوں تمام عالموں کے لئے نشان الٰہی کیونکر ہو گئے- مگر علم الٰہی میں ضروری تھا کہ تمام عالموں کے لئے یہ ایک نشان ہو جاویں گے لہذا حسب وعدہ الٰہی ان کے نام کے ساتھ نامزد ہو کر امت|محمدیہ میں سے ایک ایسا مجدد عظیم الشان آیات و نشانات کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا کہ ان کے نام کو تمام دنیا میںاور ان کی عظمت اور کرامت کو مع توحید الٰہی اور تکریم|حضرت رسالت پناہی کے روشن کر رہا ہے- صدق اللہ تعالیٰ و جعلناھا و ابنھا ایٰۃ للعٰلمین- اور یہی سر ہے اس آخر زمانہ پرفتن میں ایک مجدد کے مبعوث ہونے کا بنام عیسیٰؑ بن مریم- ورنہ مخالفین ہم کو اس آیت کے معنی بتاویں کہ حضرت مریم اور عیسیٰؑ تمام عالموں کے لئے کیونکر آیت اللہ ہو سکتے ہیں- مگر ان کی قطعیت|وفات ملحوظ رہے-
) الحکم جلد۱۰ نمبر ۱۶ ۔۔۔ ۱۰ / مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۹ تا ۱۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *
‏KH1.20
خطبات|نور خطبات|نور
۱۱ / مئی ۱۹۰۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ الاعراف کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں-
و اتل علیھم نبا الذی اٰتینٰہ ایٰٰتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطٰن فکان من الغٰوین- و لو شئنا لرفعنٰہ بھا و لٰکنہ اخلد الی الارض و اتبع ھویٰہ- فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث ذٰلک مثل القوم الذین کذبوا بایٰٰتنا فاقصص القصص لعلھم یتفکرون- ساء مثلان القوم الذین کذبوا بایٰٰتنا و انفسھم کانوا یظلمون- من یھد اللہ فھو المھتدی و من یضلل فاولٰئک ھم الخٰسرون- )الاعراف:۱۷۶تا۱۷۹(
اور پھر فرمایا-:
واضح ہو کہ تکذیب کے دو درجے ہیں- اول درجہ تکذیب کا تو یہ ہی ہے کہ انسان اپنی فطرت صحیحہ کو کھو بیٹھے جو عطیہ الٰہی ہے اور اس کو محض بیکار کر دیوے کیونکہ ہر ایک انسان ذوالعقل کی بناوٹ اللہ|تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ بغیر پہنچنے رسولوں کی رسالت کے بحکم کل مولود یولد علی الفطرۃ )بخاری- کتاب الجنائز( کے اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت خالصہ کو سمجھ سکتا ہے- ورنہ اس کی کیا وجہ کہ فونوگراف کا بنانیوالا یہ تو یقیناً جانتا ہے کہ بغیر کاریگر کے فونوگراف خود بخود نہیں بن سکتا‘ پھر یہ کیوں|کر ہو سکتا ہے کہ انسان حیوان ناطق‘ جس کو اپنے وجود اور تربیت میں ہر لحظہ اور ہر آن میں ایک خالق اور رب کی سخت ضرورت ہے‘ وہ خود بخود موجود ہو گیا ہو اور خود بخود اس نے تمام مراتب تربیت|انسانیت کے حاصل کر لئے ہوں؟ دیکھو جس وقت انسان محض نطفہ تھا‘ مع ہذا اس میں یہ تمام قویٰ ظاہری اور باطنی اور اعضائے جسمی موجود تھے جو اب پیدا ہو گئے ہیں- پس وہ نطفہ ہی بزبان حال گواہی دے رہا ہے کہ ایک خالق اور رب اس کا بالضرور ایسا موجود ہے جس نے اس نطفہ میں یہ تمام اعضائے|جسمی اور قوائے ظاہری اور باطنی‘ ہاں اسی میں مرکوز رکھے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت الست بربکم قالوا بلیٰ )الاعراف:۱۷۳( میں اس امر کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے- پس جبکہ فطرت انسانی ہی اس طرح کی واقع ہوئی ہے جو ابتدائی حالت نطفگی سے ایک خالق و رب کا وجود ضروری سمجھتی ہے تو اسی فطرت صحیحہ کی طرف رجوع نہ کرنا اور اس کی شہادت کو دوبارہ توحید اور ربوبیت خالصہ الٰہی کے قبول نہ کرنا یہ بھی تکذیب ہے اور اس تکذیب پر بھی کوئی عذر انا کنا عن ھٰذا غافلین )الاعراف:۱۷۳( کا مسموع نہ ہو وے گا اور نہ تقلید آباء و اجداد کی کہ انما اشرک اٰباونا من قبل و کنا ذریۃ من بعدھم )الاعراف:۱۷۴( عذر ہو سکے گا- دوسرے درجہ کی تکذیب جو اس سے قباحت میں بہت بڑھ کر ہے یہ ہے جو ان آیات مذکورہ میں بیان فرمائی گئی ہے کہ اے پیغمبر! ان لوگوں پر اس شخص کاحال بھی تلاوت کرکر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیات اور نشانات بھی دیئے تھے- پس وہ ان آیات سے جدا ہو گیا جیسا کہ مثلاًبکرے سے کھال علیحدہ کر لی جاوے- پس شیطان اس کے پیچھے جا لگا تو وہ سخت گمراہوں میں سے ہو گیا-
مفسرین میں اس شخص کی نسبت بڑا اختلاف ہے کہ یہ کون شخض تھا؟ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’یعنی بلعم باعور کہ کتب الٰہی خواندہ بود بعد ازاں باغوائے زن خود ایذائے حضرت موسیٰ قصد کرد و ملعون شد-‘‘تفسیر کبیر میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ابتدائی بعثت کے وقت میں ایک شخص امیہ بن ابی الصلت تھا جس کو کتب سابقہ کے علم سے یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ اس وقت میں ایک رسول عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے اور اس کو یہ گمان بھی تھا کہ وہ رسول میں ہی ہوں گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دعویٰ|رسالت فرمایا تو اس کو بڑا رشک اور حسد پیدا ہو گیا اور کمبخت کافر ہی مرا- یہ شخص وہی امیہ بن ابی الصلت ہے جو عرب میں بڑا مشہور شاعر تھا اور جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اٰمن شعرہ و کفر قلبہ )صحیح مسلم- کتاب الشعر( یعنی شعر تو اس کا ایمان لے آیا تھا مگر دل اس کا کافر ہی رہا- یہ اس لئے فرمایا کہ یہ شخص اپنے شعروں میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کیا کرتا تھا اور توحید الٰہی کے دلائل بھی دیا کرتا تھا اور بیان اعمال صالحہ اور احوال آخرت یعنی جنت و نار کا ذکر بھی ان شعروں میں کیا کرتا تھا اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت ابو عامر راہب کے حق میں نازل ہوئی ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فاسق کا لقب دیا تھا-
غرضیکہ اس آیت کا مصداق کوئی ہو‘ خواہ بلعم باعور ولی مستجاب الدعوات ہو یا امیہ بن ابی الصلت شاعر موحد ہو یا ابو عامر راہب ہو جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دنیا کو ترک کر دیا تھا یا اور کوئی ہو‘ بہرحال اس آیت سے صریح یہ امر معلوم ہوتا ہے کہ مامور من اللہ کی مخالفت میں سب مخالف مردود ہو جاتے ہیں- اس کے مقابلہ میں نہ کسی کی ایسی ولایت ہی مقبول ہوتی ہے جو مستجاب الدعوات کے مرتبہ پر پہنچ گئی ہو جیسا کہ بلعم باعور ولی حضرت موسیٰؑ کے وقت میں تھا یا کوئی شخض فصیح و بلیغ شاعر ہو جو توحیدالٰہی کو اپنے قصائد اور اشعار میں نظم کرتا ہو‘ مقبول ہو سکتا ہے اور نہ کوئی راہب اور زاہد مخالف مامور من اللہ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرسبز ہو سکتا ہے- بلکہ مامور من اللہ کا مکذب اور مخالف خائب|وخاسر‘ نامراد اور مردود درگاہ الٰہی ہی ہو جاتا ہے جیساکہ یہ تینوں شخص باوجود ہونے صاحب ولایت کاملہ کے اور باوجود ہونے موحد عابد زاہد کے مردود ہو گئے جیسا کہ آیت زیر تفسیر میں عبرت حاصل کرنے کے لئے ان کا قصہ ارشاد ہوا ہے- اور اگر غور کیا جائے تو وہ شخص جو صدہا آیات و نشانات کی دنیا میں تبلیغ بھی کر چکا ہو بلکہ اپنی زبان اور قلم سے ان صدہا نشانات کی دنیا میں تبلیغ بھی کر چکا ہو‘اس کی تکذیب موجب|عذاب ہونے میں سب سے زیادہ بڑھ کر ہو گی- دیکھو اہل کتاب کو جو حافظ اور مفسر تورات وغیرہ کے تھے انہیں کو اولٰئک ھم شر البریۃ )البینہ:۷( فرمایا گیا ہے اور احادیث میں مولویان مکذبین مسیح|موعود کے لئے علماوھم شر من تحت ادیم السماء )مشکوٰۃ کتاب العلم( کلام نبوت میں وارد ہوا ہے-
پھر آیت ہٰذا کے الفاظ پر غور کرو- اول تو لفظ انسلاخ کا فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم ایک جاندار کی کھال کا ادھیڑا جانا ہے- دیکھو جس ذی روح کو کہ منسلخ کیا جاوے اس کو کس قدر تکلیف ہو گی اور وہ حیوان منسلخ کیسا مکروہ اور قبیح معلوم ہوتا ہے- اس جگہ انسلاخ اسی لئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نشانات الٰہیہ کو دیکھ کر پھر بھی ان کا مکذب ہو جانا ایسا ہے جیسا کہ جاندار کی کھال ادھیڑی جاوے اور اس سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ ایسا مکذب پھر مصدق بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جبکہ کسی جانور کی کھال ادھیڑ لی جاوے تو پھر وہ کھال اس ذی جان کے جسم میں دوبارہ نہیں لگ سکتی اور یہ بھی مفہوم ہوا کہ قبل انسلاخ کے اس کھال کو اس جاندار کے ساتھ کمال اتصال تھا- مع ہذا پھر بعد انسلاخ کے مبائنت تامہ ہو گئی- پھر ایسا مکذب کیوں کر مصدق ہو سکتا ہے- الا من شاء اللہ-
دوسری مذمت ایسے مکذب کی یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اب اس کے پیچھے شیطان ایسا لگ گیا کہ وہ خود شیطان بن جاوے گا کیونکہ ایک قرات میں فاتبعہ الشیطان باب افتعال سے بھی آیا ہے- یعنی شیطان اس کا متبع ہے اور وہ شیطان کا بھی باپ یعنی متبوع ہے- دیکھو اللہ تعالیٰ کو ایسے مکذب کی کس قدر مذمت منظور ہے- پھر تیسری مذمت ایسے مکذب کی فرمائی گئی کہ وہ غویٰ اور غاوی ہو چکا یعنی سخت گمراہ ضدی ہو گیا- کیونکہ غاوی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی ہو اور لفظ غوغا کا مادہ بھی یہی غوایہ ہے جو جنگ و جدال اور شور و شر پر دال ہے بخلاف لفظ غبی کے کیونکہ اس کے مفہوم میں صرف سادگی اور بے وقوفی داخل ہے- لاغیر- دیکھو صراح‘ صحاح وغیرہ کو- چوتھی مذمت ایسے مکذب کی یہ فرمائی گئی ہے کہ وہ زمین ہی میں لگ گیا یعنی دھنس گیا اور چپک گیا- تفسیر کبیر وغیرہ میں لکھا ہے کہ قال اصحاب العربیۃ اصل الاخلاد اللزوم علی الدوام و کانہ قیل لزم المیل الی الارض و منہ یقال اخلد فلان بالمکان اذا لزم الاقامۃ بہ- پانچویں مذمت اس کی یہ فرمائی گئی ہے کہ کتے کے ساتھ اس کو تشبیہ دی گئی جو اخس الحیوانات ہے- چھٹی مذمت ایسے مکذب کی یہ ارشاد ہوئی کہ کتے کی اس حالت کے ساتھ اس کی حالت مشابہ ہے جو بدترین حالت ہے یعنی زبان نکال کر ہانپتے رہنا- وہ بھی ہر ایک حال میں خواہ اس کو کسی شکار کرنے کے لئے دوڑایا جاوے یا نہ دوڑایا جاوے مگر زبان نکال کر وہ ہانپتا ہی رہتا ہے- پھر خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے افعال ذم کے ساتھ اس مثل کی مذمت فرمائی کہ یہ مثل ایسے مکذبین کی بہت ہی بری مثل ہے وغیرہ وغیرہ- اس بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ انبیائے اولوالعزم کے وقت میں بھی ایسے مکذب گزرے ہوئے ہیں جو سب طرح کے نشانات دیکھ کر بلکہ خود ان نشانوں سے مامور من اللہ کی حقیقت کو ثابت کر کر تصدیق کر چکے تھے جس پر الفاظ اٰتیناہ ایٰاتنا )الاعراف:۱۷۶( دال ہیں پھر بھی وہ مکذب ہو گئے ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس قدر مذمت فرمائی ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور مکذب کی شاید ہی فرمائی ہو اور یہ سنت اللہ قدیم سے جاری ہے-
اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں موافق اسی سنت اللہ کے کوئی ایسا فردکامل مکذبوں کا بھی موجود ہے یا نہیں؟ جواب اس کا یہی ہے کہ کئی شخص موجود ہو گئے ہیں- دور کیوں جاتے ہو- دیکھو ایک تو وہ جس نے ریویو براہین احمدیہ کا لکھا اور تائید و تصدیق میں کوئی دقیقہ اس نے فروگذاشت نہیں کیا تھا- یہ شعر بھی اسی ریویو میں لکھا ہوا ہے کہ ~}~
سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
دوسرا شخص وہ ہے جس نے ایک بڑی تفسیر طول طویل لکھی تھی جس تفسیر میں کثرت سے آیات|اللہ کو تائید وتصدیق مسیح موعود میں تحریر کیا تھا اور اٰتیناہ ایٰاتنا )الاعراف:۱۷۶( کا مصداق تھا وہ بھی مکذب ہو چکا ہے جس کی تکذیب اخبار بدر وغیرہ میں طبع ہو چکی- یہ مضمون میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی صاحب یہ وہم اپنے دل میں نہ لاویں کہ ایسے لوگوں کا بدل جانا اس مسیح موعود سے اس کی صداقت اور حقیقت میں کچھ فرق پیدا کرتا ہے- حاشا و کلا- بلکہ یہ تو سنت اللہ ہے جو قدیم سے ہوتی چلی آتی ہے اور قیامت تک رہے گی- اسی لئے یہاں پر لعلھم یتفکرون )الاعراف:۱۷۸( وغیرہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ لوگ ہمیشہ غور اور فکر کرتے رہیں کہ ایسی تکذیب سے صداقت اور حقیقت صادق میں کسی طرح کا فرق نہیں آ سکتا بلکہ ایسے امور میں تفکر کرنے سے ایک طرح کی صداقت پیدا ہوتی ہے- کیونکہ جب حضرت موسیٰؑ کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جیسا کہ احوال بلعم باعور اور امیہ بن ابی الصلت سے واضح ہو گیا تو کارخانہ نبوت میں ایسے مرتدین کا وجود واسطے ظہور نشانات کے بھی سنت اللہ میں داخل ہو گیا- و لنعم ما قیل ~}~
در کارخانہ عشق از کفر ناگزیر است
آتش کرا بسوزد دگر بولہب نباشد
اور جو ایسا مکذب ہو جاوے وہ مامور من اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا- بلکہ و انفسھم کانوا یظلمون )الاعراف:۱۷۸( کا مصداق ہو جاتا ہے- ~}~
جو کوئی اس امر کا منکر ہوا
اپنا کچھ کھویا کسی کا کیا گیا
اب فرمایا جاتا ہے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں آیات کی تصدیق کی برکت سے اس کا مرتبہ بلند کرتے مگر اس نے دنیا کی ذلت اور پستی کو اپنے لازم حال کر لیا اور اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے لگ گیا تو اس کی مثل کتے کی سی مثل ہے کہ اگر اس پر دوڑنے جھپٹنے کا بار ڈالو تب بھی زبان کو باہر نکال کر ہانپتا رہتا ہے اور اگر اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے ہانپتا رہتا ہے- یہ ہے مثل ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں اور نشانوں کو جھٹلایا- تو اے پیغمبر! یہ قصے بیان کرتے رہو تاکہ یہ لوگ کچھ سمجھیں سوچیں-
ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیات الٰہی کی تصدیق کرنا اور ان کے بموجب عملدرآمد کرنا باعث رفع درجات کا ہے اور تکذیب آیات اللہ کی اور ان سے اعراض کرنا موجب ذلت اور پستی کا ہے- چونکہ انبیاء آیات اللہ کے مبلغ ہوتے ہیں تو ان کا رفع بطریق اولیٰ ہوا کرتا ہے اور ان کے متبعین کا رفع بہ|سبب اتباع مقتضیٰ ان آیات کے ان کو حاصل ہوتا ہے اور ان کے مکذبین کو دنیا اور آخرت میں بجز عذاب شدید کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا- چنانچہ یہ تینوں امر اللہ تعالیٰ نے آیت یٰا عیسیٰ انی متوفیک )اٰل عمران:۵۶( میں بیان فرما دیئے ہیں- رفع عیسیٰ کا‘ فوقیت متبعین کی‘ کافروں اور مکذبین کو عذاب شدید دنیا اور آخرت میں- اٰتیناہ ایٰاتنا سے معلوم ہوتا ہے کہ بالضرور علم آیات الٰہیہ اس کو دیا گیا تھا خواہ وہ آیات اللہ اور حجج دربارہ توحید کے ہوں یا اسم اعظم یا الہامات یا اجابت دعا وغیرہ ہو جیسا کہ تفاسیر میں لکھا ہے- بہر حال علم|الٰہیات کا بخوبی اس کو حاصل تھا پھر بھی ایک نبی کی مخالفت سے مردود درگاہ ہو گیا- قصہ آدم اور ابلیس کا جو متعدد جگہ پر قرآن شریف میں مختلف اسلوبوں سے بیان فرمایا ہے اس کا لب اور خلاصہ بھی یہی ہے-
یہ آیات اہل علم کے لئے بلکہ ان لوگوں کے لئے جو ملہم بھی ہیں‘ بڑی عبرت دلانے والی ہیں کہ مامور من اللہ کے مقابلہ اور مخالفت میں جو ان کے الہامات ہوں یا علمی شبہات ہوں‘ ان کا اتباع صرف اتباع|ہوا کا ہے‘ لاغیر- کیونکہ ان کے الہامات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حفاظت نہیں ہوتی ہے بلکہ شیطانی دخل ان الہامات میں اکثر ہو جاتا ہے جس کا نام اتباع ہوا ہے اور اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا- بخلاف مامور من اللہ کے الہام کے کہ ان کے الہاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی حفاظت کی جاتی ہے- کما قال اللہ تعالیٰ فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ رصداً )الجن:۲۸( یعنی اللہ تعالیٰ چلاتا ہے مامور من اللہ کے الہامات کے پیچھے چوکیداروں کا پہرہ تاکہ اس میں شیطانی دخل نہ ہونے پاوے- اور اس مسئلہ الہامات کو ہم نے کتاب ایٰات الرحمٰن لنسخ ما یلقی الشیطان ]text [tag میں ایسا بیان کر دیا ہے جس سے درمیان الہامات عوام غیر مامورین اور الہامات مامورین من اللہ کے ایک مابہ الامتیاز حاصل ہو جاوے-
اور متکلمین کا یہ مسئلہ بڑا ہی حق ہے کہ مطلقا الہام حجت|شرعی نہیں ہے جب تک کہ اس کے ثبوت پر قطعی دلائل موجود نہ ہوویں اور نشانات آسمانی و زمینی اس کے ثبوت میں قائم نہ ہو لیویں اور سر اس میں کہ غیر مامورین میں بھی استعداد الہامات اور رویاء کی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے‘ یہ ہے کہ کارخانہ نبوت کی ایک نظیر ان میں موجود ہوتا کہ اس نظیر پر قیاس کر کر کارخانہ نبوت کی تصدیق کریں اور ان پر اتمام|حجت ہو جاوے اور یہ عذر نہ کر سکیں کہ انا کنا عن ھٰذا غافلین )الاعراف:۱۷۳( یعنی فی اصل الفطرۃ فلم یوثر فینا اقوال الرسل- اور پھر ایسا مکذب جو بعد پہنچ جانے آیات اللہ کے تکذیب کرے اس کا ہدایت پر آنا معلوم نہیں ہوتا- کیونکہ ایسے شخص کے لئے اتباع اپنے ہوا و ہوس کا مانند طبعی امور کے ہو جاتا ہے جیسا کہ کتے کی حالت ہوتی ہے کہ ہر حالت میں زبان نکال کر وہ ہانپتا رہتا ہے یعنی یہ ہانپنا کتے کا ایک طبعی امر اس کا ہے جو اس سے جدا نہیں ہو سکتا- سر اس میں یہ ہے کہ سوائے کتے کے اور کسی جانور میں ایسی حالت نہیں پائی جاتی ہے- مگر ہاں بوقت وقوع مشقت اور تعب کے البتہ ایسی حالت اور حیوانات میں بھی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ کتے کا قلب کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ اندر کی ہوائے گرم کو باہر نکالنے کی قوت اس میں بہت ضعیف ہے- علی ہذا القیاس باہر سے ہوائے بارد کے جذب کرنے کی قوت بھی اس میں بہت ضعیف ہے- اس لئے نہ تو ہوائے باردکو باہر سے پوری طور پر جذب کر سکتا ہے اور نہ ہوائے گرم کو اندر سے باہر بکمال نکال سکتا ہے- اور جو شخص اپنی ہواوہوس کا اتباع کرتا ہے اس کا بھی ایسا ہی حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے اندر موادہائے فاسدہ اور حادہ فضلات واجب الاخراج ہیں جو باعث پیدا ہونے اخلاق ردیہ کے ہیں‘ نہ ان کو بہ سبب اتباع اپنی ہوا کے باہر نکال سکتا ہے جس سے روح|انسانی کو تفریح حاصل ہو اور نہ باہر سے اہل|حق کے نصائح کو جو مثل ہوائے بارد کے ممد حیات|روحانی ہیں‘ اخذ کر سکتا ہے- دیباچہ گلستان میں کیا عمدہ بات لکھی ہے کہ ’’ہر نفسے کہ فرد میرد و ممد حیات است و چوں برمی آید مفرح ذات پس در ہر نفسے دو نعمت موجود است و بر ہر نعمتے شکرے واجب-‘‘ اسی لئے ایسا مکذب مامور من اللہ کا بہت جلد رسوا اور تباہ اور ہلاک ہو جاتا ہے- کیونکہ نہ اس کو تفریح روح انسانی کی حاصل ہوتی ہے اور نہ امداد حیات یابی کی میسر ہوتی ہے- اسی لئے تاکیداً آگے فرمایا جاتا ہے کہ کیسی بری مثل ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا- وہ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں‘ نہ مامور من اللہ پر- و لنعم ما قیل ~}~
حملہ بر خود میکنی اے سادہ مرد
ہمچوآں شیرے کہ بر خود حملہ کرد
دیکھو چراغ دین کو‘ اس نے اپنی تکذیب سے مامور من اللہ کا کیا بگاڑا- جو کچھ اس نے تکذیب کر کر ظلم کیا وہ اپنی ہی اولاد یعنی فرزندان و دختر اور اپنے نفس پر کیا- چراغ دین کے گھر کا بے چراغ ہو جانا بڑی عبرت کا مقام تھا- جس پر بعض کو توجہ نہ ہوئی- تفسیر ابو السعود وغیرہ میں بلعم باعور کے حالات میں لکھا ہے کہ جب اس نے حضرت موسیٰ کی تکذیب کی اور ان پر واسطے بد دعا کرنے کے مشغول ہوا تو اس کو ایک قلبی مرض ایسا عارض ہو گیا کہ مثل کتے کے اس کی زبان نکل آئی اور مثل کتے کے ہانپتے ہانپتے ہی مر گیا- یہ مرض بعید نہ سمجھو کیونکہ امراض کا کیا ٹھکانا ہے اور ان کو کون شمار میں محدود کر سکتا ہے- مولوی روم فرماتے ہیں ~}~
بازکن طب را بخواں باب العلل
تا بہ بینی لشکر تن را عمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جملہ ذرات زمین و آسماں
لشکر حق اند گاہ امتحاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاک قاروں را چو فرماں در رسید
با زر و تختش بقعر خود کشید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موج دریا چوں بامر حق بتاخت
اہل موسیٰ را ز قبطی وا شناخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آتش ابراہیم را دنداں نزد
چوں گزیدہ حق بود چونش گزد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہود گرد مومناں خطے کشید
نرم می شد باد کانجا می رسید
اب آگے یہ فرمایا جاتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی روبراہ ہوتا ہے اور جس کو وہ بھٹکا دیوے‘ وہی لوگ ہیں ٹوٹا پانے والے-
مطلب صرف یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت لائے ہیں اس کے مضبوط پکڑنے سے ہی انسان روبراہ ہوتا ہے اور اپنے خیالات اور ہواوہوس کی اتباع سے منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اس نے اپنی ہواوہوس کو معبود قرار دے لیا نہ اللہ تعالیٰ کو- کما قال اللہ تعالیٰ- افرء یت من اتخذ الٰھہ ھواہ )الجاثیہ:۲۴-( بلکہ ایسے لوگوں کو بجز خسر الدنیا و الاٰخرۃ کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا- اور چونکہ ذرائع ہدایت کے یعنی قرآن مجید اور رسول کریم خاتم النبین اور فطرت صحیحہ کو اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کے لئے دنیا میں بھیجا ہے جس کی اتباع سے اھتدا حاصل ہوتا ہے اور نیز قوائے نفسانی و شہوانی و غضبانی بھی انسان میں اسی اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں جن کی پیروی سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے- یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کواپنے افعال|اختیاریہ میں کچھ دخل ہی نہ ہووے اور محض مجبور ہی ہو- حاشا و کلا- ورنہ پھر انہیں آیات )یعنی سورہ اعراف کی آیات ۱۷۶تا۱۷۸( میں فانسلخ- اخلد الی الارض- کذبوا بایٰاتنا یظلمون وغیرہا کا اسناد انسان کی طرف کیوں کیا گیا ہے؟ یعنی جبکہ انسان سے یہ امور قبیح وقوع میں آ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضلال یعنی منزل مقصود کو نہ پہنچانا ہی ظہور میں آتا ہے اور اگر بندہ اتباع ہدایات الٰہیہ میں سعی و کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے انہیں آیات کے قبل یہ فرمایا گیا ہے کہ و الذین یمسکون بالکتٰب و اقاموا الصلوٰۃ انا لانضیع اجر المصلحین 10] p[ )الاعراف:۱۷۱-(
) بدر جلد۲ نمبر۲۱ ۔۔۔۔۔ ۲۴ / مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۹ تا ۱۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۹ / اکتوبر ۱۹۰۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ البقرہ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی-
شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدی للناس و بینٰت من الھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضاً او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لایرید بکم العسر و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علیٰ ما ھدیٰکم و لعلکم تشکرون- )البقرہ:۱۸۶(
تلاوت کے بعد آپ نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا-:
ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے- در
انحالیکہ تمام لوگوں کے لئے وہ بڑا ہدایت|نامہ ہے اور روشن حجتیں ہیں- ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والے دلائل ہیں- پس جو تم میں سے پاوے اس مہینہ کو تو اس کو چاہئے کہ اس میں روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو اور دنوں میں گن کر روزے رکھ لے- خدا تعالیٰ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور دشواری کو نہیں چاہتا اور تاکہ تم پوری کر لو گنتی قضا شدہ روزوں کی اور تاکہ بڑائی بیان کرو اللہ کی اس پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم شکر کرو-
واضح ہو کہ یہ آیت دوسرے پارہ کے رکوع میں واقع ہے اور تتمہ ہے ان آیات کا جو اس سے پہلے فضیلت صیام میں بیان فرمائی گئی ہیں- یٰایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون- ایاماً معدودٰت فمن کان منکم مریضاً او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیراً فھو خیر لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون ]01 )[pالبقرہ:۱۸۴‘ ۱۸۵-( احادیث میں فضائل روزہ رکھنے کے بہت کثرت سے مکتوب ہیں جن کو محب صادق کسی قدر بدر میں شائع فرما رہے ہیں- لہذا میں اس وقت بحولہ و قوتہ تعالیٰ صرف قرآن مجید ہی سے کچھ فضائل صیام و ماہ رمضان کے بیان کروں گا- الا ما شاء اللہ- لیکن واسطے تفقہ ان آیات کے اولاً چند امور کا بیان کر دینا ضروری ہے امید کہ ان کو بتوجہ سنا جاوے گا-
) ۱ ( - اس آیت سے پہلی آیات میں اگر صیام سے مراد الٰہی رمضان شریف ہی کے روزے لئے جاویں تو تشبیہ بلفظ کما بخوبی چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ امم سابقہ پر رمضان شریف کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے بلکہ مختلف ایام کے روزوں کا رکھنا بغیر کسی خاص تعین کے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ ایاماً معدودات بھی اسی کی طرف ناظر ہیں- دیکھو کتاب خروج کا باب ۳۴ اور کتاب دانیال کا باب دہم جس میں تین ہفتہ کے روزوں کا رکھنا حضرت دانیال کا ثابت ہوتا ہے اور کتاب سلاطین ۱۹:۸ چالیس دن کا روزہ رکھنا معلوم ہوتا ہے اور اعمال کے ۲|:|۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے ایاماً معدودات رکھا کرتے تھے- غرض کہ تعین ایک ماہ رمضان کا کتب بائیبل سے روزوں کے لئے نہیں پائی جاتی- ہاں صرف ایاماً معدودات کے روزے بغیر تعین شہر رمضان کے معلوم ہوتے ہیں- اور اگر یہاں پر صرف ایک ادنیٰ امر میں ایجاب میں ہی حرف کما تشبیہ کے لئے تسلیم کر لیا جاوے تو دوسرا امر یہ ہے کہ و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین سے رمضان کے روزے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار ثابت ہو گا- ہاں البتہ صرف ایک فضیلت ہی روزہ رکھنے کی ثابت ہوسکتی ہے- کما قال تعالی و ان تصوموا خیر لکم- لیکن در صورتیکہ مراد کتب علیکم الصیام سے رمضان کے ہی روزے ہونویں تو یہ مخالف ہے آگے کی آیت کے‘ جو بصیغہ امر فلیصمہ وارد ہے اور نیز مخالف ہے و لتکملوا العدۃ کے‘ کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تم عدت صیام شہر رمضان کا
اکمال کر لو‘ نہ یہ کہ صیام اور فدیہ کے درمیان تم کو اختیار ہو- اور اگر یطیقونہ کے پہلے لا مقدر مانا جاوے جیسا کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے تو اس طرح سے محذوفات کے ماننے میں مخالف کو بڑی گنجائش مل جاوے گی کہ جس آیت کو اپنے خیال کے مطابق نہ پایا اس کو اپنے خیال کے مطابق کوئی کلمہ محذوفات کا مان کر بنا لیا- ہاں البتہ اس امر کا انکار نہیں ہو سکتا کہ قرائن سے جملہ کلاموں میں اور نیز قرآن مجید میں اکثر محذوفات مان لئے جاتے ہیں اور اگر ہمزہ باب افعال کا سلب کے لئے کہا جاوے تو اطاق یطیق کا محاورہ بمعنی عدم طاقت کے عرب عرباء سے ثابت کرنا ضروری ہو گا- مختار الصحاح میں تو لکھا ہے- و الطوق ایضاً الطاقۃ و اطاق الشی|ء اطاقۃ و ھو فی طوقہ ای فی وسعہ- اور یہی محاورہ مشہورہ ہے- پس ہمزہ سلب کے لئے اس میں ماننا غیر مشہور ہے اور الفاظ قرآن مجید کے معانی حتی الوسع مشہور ہیں یعنی مناسب ہیں نہ غیر مشہور اور اگر یہ سب کچھ تسلیم بھی کر لیا جاوے تو nsk] [tag ان تصوموا خیر لکم اس کے منافی ہے کیونکہ اس کا مفہوم صرف روزے رکھنے کی فضیلت ہے نہ لزوم روزوں کا- حالانکہ رمضان کے روزے فرض و لازم ہیں نہ غیر لازم یا اختیاری- جیسا کہ فلیصمہ اور و لتکملوا العدۃ سے ثابت ہوتا ہے- اور اگر یطیقونہ کی ضمیر فدیہ کی طرف راجع کی جاوے تو بلاوجہ توجیہ کے اضمار قبل الذکر لازم آوے گا اور اگر پھر اضمار قبل الذکر بھی تسلیم کر لیا جاوے تو ضمیر مذکر کی لفظ فدیہ کی طرف جو مونث ہے راجع ہو گی پھر اس میں تاویل در تاویل یہ کرنی پڑے گی کہ مراد فدیہ سے چونکہ طعام ہے اس لئے ضمیر مذکر لائی گئی اور یہ سب امور تکلفات سے خالی نہیں ہیں-
تیسرا امر یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا حکم پہلے ایک مرتبہ بیان ہو چکا ہے- پھر آیت شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن کے آگے اس کا مکرر لانا کس فائدہ کے لئے ہے- اگر کہا جاوے کہ واسطے تاکید کے‘ تو اس پر کہا جاوے گا کہ یہاں پر مقصود تاکید کب ہے- کیونکہ اول تو ’’بین|الفدیہ|و|الصیام‘‘ اجازت دی گئی ہے اور ثانیاً و ان تصوموا خیر لکم فرما کر صرف روزے کی فضیلت بیان فرمائی ہے نہ لزوم جس کی تاکید کے لئے فعدۃ من ایام اخر دوبارہ فرمایا جاتا- اندریں صورت تکرار بے سود لازم آتا ہے اور اگر مکرر ہی فرمانا تھا تو و علی الذین یطیقونہ کو بھی مکرر لایا جاتا- خلاصہ یہ کہ ایک جگہ تو فعدۃ من ایام اخر کے آگے و علی الذین یطیقونہ بھی فرمایا گیا اور ان تصوموا خیر لکم بھی ارشاد ہوا اور دوسری جگہ پر فعدۃ من ایام اخر کے آگے و لتکملوا العدۃ ارشاد ہوا- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں دو قسم کے روزے ہیں جن کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے- یہ بیان تو اس صورت میں تھا کہ مراد الصیام سے صیام رمضان ہی ہووے-
شق دوم- اور اگر پہلی آیت سے علاوہ رمضان کے دوسرے روزے مراد لئے جاویں مثلاً ایام بیض کے روزے یا ستہ شوال وغیرہ جن کی فضیلت بھی کتب معتبرہ احادیث میں لکھی ہوئی ہے اور علماء و فقہاء نے ان روزوں کی فضیلت میں یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے رمضان اور ستہ شوال کے روزے رکھے اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لئے اور اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک نیکی کا ثواب وہ اللہ‘ رحمن|ورحیم دس گنا عطا فرماتا ہے- کما قال اللہ تعالیٰ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا )الانعام:۱۶۱( یعنی جو شخص ایک نیکی بجا لاوے گا تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا- تو تیس روزوں کا ثواب تین سو روزوں کا ثواب ہوا اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ روزوں کا ثواب ہوا اور سال تمام کے قمری دن بھی تین سو ساٹھ )۳۶۰( ہی ہوتے ہیں- علیٰ ہذا القیاس اگر ایام بیض کے تین روزے دس ماہ کے لئے جاویں تو بھی تیس روزے ہوتے ہیں جس کے تین سو ہوئے اور پھر ستہ شوال بھی لیا جاوے جس کے ساٹھ ہوئے‘ تو بھی تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہو گیا اور صیام فرض رمضان کے اس پر علاوہ رہتے ہیں- اور صرف دس ماہ ہی کے ایام بیض اس واسطے لئے گئے کہ ایک ماہ رمضان کا علیحدہ رہا اور چونکہ ستہ شوال کا بھی لے لیا گیا ہے لہذا اس حساب میں شوال کے ایام بیض بھی نہیں لئے گئے بلکہ صرف دس ماہ کے ایام بیض لے لئے گئے ہیں- الحاصل اندریں صورت چونکہ کتب علیکم الصیام )البقرہ:۱۸۴( سے ان کی فرضیت مفہوم ہوتی ہے حالانکہ یہ روزے ایام بیض وغیرہ کے لازم نہیں ہیں- اس لئے اس شق کی صورت میں مفسرین اس آیت کو دوسری آیت فلیصمہ اور یا و لتکملوا العدۃ سے منسوخ قرار دیتے ہیں- مگر ایک کلام کے سلسلہ میں ایسا ناسخ و منسوخ ماننا عظمت|شان|کلام|الٰہی کے بالکل منافی ہے- چہ جائیکہ بموجب مسلک ان مفسرین کے جو کسی آیت قرآنی کو منسوخ مانتے ہی نہیں- پھر ایک ایسے کلام کے سلسلہ میں جو متصل ہے ناسخ منسوخ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے- اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کوئی ایسی توجیہ صرف نظم قران مجید سے ہی پیدا کرنی چاہئے جس سے نہ تو کوئی محذوف ماننا پڑے‘ نہ اضمار قبل الذکر لازم آوے‘ نہ ضمیر مذکر کی مونث کی طرف راجع ہو‘ نہ ناسخ منسوخ کا ماننا پڑے‘ نہ کسی قسم کا تخالف آیات مذکورہ کے مفہومات میں لازم آوے اور نہ عدم فرضیت روزوں رمضان کے مفہوم ہووے کیونکہ عدم فرضیت صیام رمضان کی ادلہ شرعیہ کے محض خلاف ہے- اگر کسی توجیہ سے یہ تکلفات رفع ہو جاویں تو البتہ ثلج صدر ان آیات کے تفقہ میں حاصل ہو سکتا ہے- اب اس جلسہ خطبہ میں صرف ایک توجیہ بیان کی جاتی ہے- اگر اہل علم حاضرین جلسہ کے نزدیک یہ پسند آ جاوے تو زہے عزوشرف ورنہ وہ خود بعد خطبہ کے بیان فرماویں اور اگر بعد خطبہ کے کسی صاحب نے اہل علم میں سے کوئی تطبیق اور توجیہ دیگر بیان نہ فرمائی تو یہی ثابت ہو گا کہ یہ ہی تطبیق ان کو پسند ہے اور وہ تطبیق یہ ہے کہ اسلام میں دو قسم کے روزے ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں- ایک لازم اور دوسرے غیر لازم- چونکہ روزہ جو بہ|نسبت دیگر عبادات کے ایک عمدہ عبادت ہے جس سے مومن متبع انوار الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے اور مکالمات الٰہی کا تجلی گاہ ہو سکتا ہے جیسا کہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے کہ الصوم لی و انا اجزیٰ بہ )بخاری- کتاب الصوم( یعنی بصیغہ مجہول ترجمہ روزہ مومن کا خاص میرے ہی لئے ہوتا ہے جس میں ریا وغیرہ کو کچھ دخل نہیں اور اس کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں- یا انا اجزی بہ بصیغہ معروف کہ میں بلا وساطت غیرے خود اس کی جزا دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ من الاحادیث الصحیحہ- یہ احادیث اس امر پر صریح دال ہیں اور سر اس میں یہی ہے کہ انسان روزے میں فجر سے لے کر شام تک تینوں خواہشوں‘ کھانے‘ پینے‘ جماع سے رکا رہتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنے آپ کو ذکرالٰہی‘ تلاوت‘ نماز‘ درودشریف کے پڑھنے میں مشغول رکھتا ہے تو پھر اس کی روح پر عالم غیب کے انوار کی تجلی اور ملاء اعلیٰ تک اس کی رسائی کیونکر نہ ہو گی- اور یہ جو احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رمضان شریف میں شیطان زنجیروں میں بند کئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ملہم غیبی آواز دیتا ہے کہ اے طالب نیکی کے! اس طرف کو آ اور اے برائی کے کرنے والے! کوتاہی کر- یہ سب ایسی احادیث اسی امر لطیف کی طرف اشارہ کر رہی ہیں- پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے لئے روزہ سے بہتر اور افضل کوئی عبادت نہیں اور انوار و مکالمات الٰہیہ کی تحصیل کے لئے روزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں- اور حضرت موسیٰؑ نے جب کوہ طور پر تیس بلکہ چالیس روزے رکھے تب ہی ان کو تورات ملی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے غار حرا کے اعتکاف میں روزوں کا رکھنا ثابت ہے جس کے برکات سے نزول قرآن کا شروع ہوا اور خود قرآن مجید بھی اسی طرف ناظر ہے کہ شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن- اور مسیح موعود نے بھی چھ ماہ یا زیادہ مدت تک روزے رکھے ہیں جن کی برکات سے ہزاروں الہامات کے وہ مورد ہو رہے ہیں - بدیں وجوہ موجہ قرآن اور اسلام نے جو جامع تمام صداقتوں اور معارف کا ہے دونوں قسم کے روزوں کو واسطے حاصل ہونے مزید تصفیہ قلب کے ثابت و برقرار رکھا- ہاں دونوں قسموں کے حکم جداگانہ فرما دیئے گئے- صیام غیر لازم کا حکم تو یوں فرمایا کہ و علی الذین یطیقونہ اور صیام لازم کا حکم یوں ارشاد ہوا کہ فلیصمہ اور و لتکملوا العدۃ- آگے رہا لفظ کتب‘ جس کے معنے مفسرین فرض لکھتے ہیں- اس کی نسبت یہ گزارش ہے کہ کچھ ضروری نہیں کہ اس کے معنی فرضیت ہی کے لئے جاویں بلکہ جو حکم شرعی لازم یا غیر لازم ہو‘ اس کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرع اسلام میں مکتوب یا لکھا ہوا ہے خواہ وہ حکم لازم ہو یا غیر لازم- یہ اصطلاح علما ہی کی ہے نہ قرآن|مجید کی اصطلاح‘ کیونکہ لفظ کتاب یا اس کی مشتقات قرآن مجید میں صدہا جگہ آئے ہیں‘ تاہم وہاں پر مرادالٰہی فرضیت نہیں ہے- کما قال تعالیٰ ولیکتب بینکم کاتب بالعدل )البقرہ:۲۸۳( ایضاً یکتبون الکتاب بایدیھم )البقرہ:۸۱( و غیر ذٰلک من الایٰات الکثیرۃ- آگے رہا حکم
شیخ فانی‘ مرضعہ‘ پیر ضعیف یا جوان نہایت لاغر و نحیف وغیرہم کا جن پر روزہ رکھنا نہایت درجہ پر شاق معلوم ہوتا ہے- سو یہ سب لوگ بایں شرط مشقت حکم مریض میں داخل ہیں کیونکہ تعریف مریض کی ان پر صادق آتی ہے کہ ان کے جملہ قویٰ کے افعال اپنی حالت اصلی پر باقی نہیں رہے- اگر یہ لوگ فدیہ بھی دیویں تو من تطوع خیراً فھو خیر لہ پر قیاس کئے جا سکتے ہیں مگر فدیہ بھی اسی شخص پر ہے جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہو- ورنہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا روزہ افطار کرنے والے نے خود الٹا ساٹھ مسکینوں کا طعام فدیتاً لے لیا ہے کما فی المشکوٰۃ اور خود قرآن مجید ہی فرماتا ہے کہ یرید اللہ بکم الیسر و لایرید بکم العسر )البقرہ:۱۸۶( اور لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا )البقرہ:۲۸۷( وغیرہ وغیرہ من الآیات-
اس توجیہ سے وہ تکلفات جو مذکور ہوئے نہیں لازم آتے و اللہ اعلم بالصواب- اب واضح ہو کہ جس قدر احکام شرع اسلام میں مقرر ہیں ان میں اسرار عجیبہ اور لطائف غریبہ غور کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں- مثلاً یہاں پر جو شھر رمضان واسطے صیام کے اللہ تعالیٰ کے کلام میں مخصوص فرمایا گیا اس میں ایک عجیب سر یہ ہے کہ یہ مہینہ آغاز سنہ ہجری سے نواں )۹( مہینہ ہے- یعنی ۱- محرم ۲-صفر ۳-ربیع|الاول ۴-ربیع الثانی ۵-جمادی الاول ۶-جمادی الثانی ۷-رجب ۸-شعبان ۹-رمضان- اور ظاہر ہے کہ انسان کی تکمیل جسمانی شکم مادر میں نو ماہ میں ہی ہوتی ہے اور عدد نو کا فی نفسہ بھی ایک ایسا کامل عدد ہے کہ باقی اعداد اسی کے احاد سے مرکب ہوتے چلے جاتے ہیں‘ لاغیر- پس اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہوا کہ انسان کی روحانی تکمیل بھی اسی نویں مہینے رمضان ہی میں ہونی چاہئے اور وہ بھی اس تدریج کے ساتھ کہ آغاز شہور ہجری سے ہر ایک ماہ میں ایام بیض وغیرہ کے روزے رکھنے سے بتدریج تصفیہ قلب حاصل ہوتا رہا- جیسا کہ شیخ نے کہا ہے کہ ~}~
صفائی بتدریج حاصل کنی
تامل در آئینہ دل کنی
حتیٰ کہ نواں مہینہ رمضان شریف کا آ گیا تو اس کے لئے یہ حکم ہوا کہ nsk] gat[ فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ )البقرہ:۱۸۶-( یہاں تک کہ مومن متبع کو روزے رکھتے رکھتے آخر عشرہ رمضان شریف کا بھی آگیا- پس اب تو ظلمات جسمانیہ اور تکدرات ہیولانیہ سے پاک وصاف ہو گیا تو عالم ملکوت کی تجلیات بھی اس کو ہونے لگیں اور طاق تاریخوں میں مکالمات الٰہیہ کا مورد ہو گیا اور یہی حقیقت ہے لیلہ~ن۲~ القدر کی جو آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اس لئے شارع اسلام نے تعیین لیلہ~ن۲~ القدر کی ۲۷ شب مقرر فرمادی کیونکہ در صورت ۲۹ دن ہونے شہر رمضان کے وہی ۲۷ شب آخری طاق شب ہو جاتی ہے‘ جس میں تکمیل|روحانی انسان متبع کے حاصل ہو سکتی ہے- اس لئے یہ شب ۲۷ کی ایک عجیب مبارک شب ہے جس میں قرآن مجید بھی نازل ہوا- کما قال اللہ تعالیٰ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر و ما ادریٰک ما لیلۃ القدر لیلۃ القدر خیر من الف شھر )القدر:۲-۴-( ایضاً قال تعالی - انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ )الدخان:۴-( اور چونکہ یہ شب مبارک اور لیلہ~ن۲~ القدر دونوں رمضان شریف ہی میں ہوتی ہیں لہذا ان تینوں آیتوں میں کوئی اختلاف بھی باقی نہیں رہا- اور انا انزلناہ فی لیلۃ القدر میں ضمیر مذکر غائب کا مرجع اس لئے مذکور نہیں ہوا ہے کہ جملہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے اشد درجہ منتظر تھے کیونکہ تمام کتب میں آپ کی بشارات اور صفات حمیدہ موجود تھیں اور اب تک موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام آپ کے منہ میں ڈالا جانا بھی بائیبل میں اب تک پایا جاتا ہے- اس لئے اس کلام الٰہی کے نزول کا بھی ان کو سخت انتظار تھا اور نیز مشرکین عرب اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آتے تھے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے بنی اسمعیل میں ایک نبی عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے- لہذا جملہ اہل مذاہب اور اہل کتاب کو اس نبی آخر الزمان اور نزول کلام الٰہی کا انتظار تھا اور ان میں آپ کی بعثت کا ذکر خیر رہتا تھا جیسا کہ سورہ|بینہ کی ہماری تفسیر سے واضح ہے- اس لئے انزلناہ کے مرجع کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ مرجع کے ذکر کرنے میں وہ نکتہ حاصل نہ ہوتا تھا جو اس کے عدم ذکر کرنے میں ایک لطیفہ حاصل ہوا- اس لئے مرجع ضمیر ’’انزلناہ‘‘ کا ذکر سابق میں نہیں کیا گیا- کیونکہ اس کا ذکر تو کل اہل کتاب اور مشرکین عرب میں موجود ہے-
اسی طرح پر االہام انا انزلناہ قریباً من القادیان )براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۴۹۸ حاشیہ درحاشیہ نمبر۳( میں بھی مرجع کا ذکر نہیں فرمایا گیا- چونکہ اب بھی کوئی فرقہ مذہبی اس قرن میں ایسا موجود نہیں ہے جو ایک مصلح کامل کا منتظر نہ ہو- اہل کتاب یہود و نصاریٰ بھی مسیح اور الیاس کے نزول کے منتظر ہیں اور اہل|اسلام بھی مہدی معہود اور مسیح موعود کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں اور ہنود بھی کلنکی اوتار کرشن علیہ|السلام کی آمد کے لئے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں اور تمام عقلاء اور علماء کی انجمنیں ایک مصلح کامل کو بلا رہی ہیں- اس لئے مرجع کے ذکر کرنے کی یہاں پر بھی ضرورت نہیں بلکہ ذکر کرنے مرجع میں کلام الٰہی عالی مقام بلاغت سے نیچے اتر جاتا ہے- واضح ہو کہ یہ پیشین|گوئی براہین احمدیہ میں مندرج ہے جس کو مدت پچیس یا چھبیس سال کے منقضی ہو گئے ہیں اور اب اس الہام کا منجاب اللہ ہونا ایسا ثابت ہو گیا‘ جس میں سخت معاند بھی کوئی اعتراض پیدا نہیں کر سکتا- کیوں کہ جس وقت میں یہ الہام ہوا ہے اس وقت میں کوئی کتاب متضمن معارف اور حقائق قرآن|مجید کی قادیان سے دنیا میں بکثرت شائع نہیں ہوئی تھی- لیکن اگر اس وقت سے لے کر اس وقت تک نظر کی جاوے تو ہر ایک اہل بصیرت پر مشاہدہ ہو گا کہ ہزاروں معارف قرآن مجید کے من ابتدائے اشاعت براہین احمدیہ لغایت اشاعت حقیقہ~ن۲~ الوحی قادیان سے تمام دنیا میں شائع ہو چکے ہیں اور حقیقت قرآن مجید اور نبوت محمدیہ کی حجت جملہ اہل مذاہب پر خواہ یہود ہوں یا نصاریٰ‘ آریہ ہوں یا سناتن دہرم‘ سکھ ہوں یا نیچری‘ کل پر پوری کر دی گئی ہے اور کی جاتی ہے اور کی جاوے گی- انشاء اللہ تعالیٰ- اگر اس پچیس چھبیس برس کی کتابوں کو جمع کیا جاوے تو ایک بڑے مکان میں بھی وہ نہ سما سکیں گی- پس اگر یہ الہام منجانب اللہ نہیں تھا تو کیوں پورا ہوا؟ قادیان کوئی بڑی بستی نہیں تھی جس سے مانند مصر و یونان کے‘ چشمے علم و حکمت کے جاری ہو جاتے اور علم و حکمت بھی وہ جو مصداق ہو یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و یزکیھم )البقرہ:۱۳۰( کا- کیا اچھا کہا ہے حالی نے جو قادیان کے بھی حسب حال ہے- اب حالی صاحب کو بھی حال قادیان سے غیرت پکڑنا چاہئے-
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ|گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
مع ہذا- اگر یہ الہام من جانب اللہ نہ ہوتا تو پھر ایسی چھوٹی سی بستی سے یہ چشمے معارف|قرآنی اور حقائق اسلامی کے تمام دنیا میں کیونکر جاری ہو سکتے تھے کہ جن کی نہریں تمام دنیا امریکہ- یورپ یعنی جرمن‘ فرانس- روس- جاپان وغیرہا میں جاری ہو چلی ہیں- دیکھو کارخانہ ریویو آف ریلیجنز‘ الحکم‘ بدر‘ تعلیم الاسلام اور تشحیذ الاذہان وغیرہا کو- اور قریباً من القادیان اس لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ معارف اور حقائق قرآنی جو مصداق ھدی للناس و بینات من الھدیٰ و الفرقان )البقرہ:۱۸۶( کے ہیں‘ ان میں اور قادیان کے لوگوں میں ایک پردہ غلیظ واقع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے فی القادیان نہ فرمایا گیا- اور فی الحقیقت عموماً حال یہ ہے کہ جو شخص مامور من اللہ ہو کر دنیا میں آتا ہے اس میں اور دوسرے لوگوں میں کسی نہ کسی قدر پردہ ضرور ہی ہوا کرتا ہے اور اس پردہ اور حجاب کے رفع کرنے میں سخت دشواریاں پیش آتی ہیں- کما قال اللہ تعالیٰ و جعلنا من بین ایدیھم سداً و من خلفھم سدا فاغشینٰھم فھم لایبصرون )یٰس:۱۰-( ہاں اگر کوئی طالب صادق ہوتا ہے اور ظلمات‘ عناد اور تعصب سے دور ہو جاتا ہے تو پھر ان انوار معارف سے ایسا شخص منور اور بہرہ ور بھی ہو جاتا ہے- لہذا بلحاظ اس پردہ و حجاب کے قریباً من القادیان فرمایا گیا نہ فی القادیان- اور یہ امر تو ظاہر ہے کہ بستی سے مراد بستی والے بھی ہوا کرتے ہیں- کیونکہ یہ ایک محاورہ ہے جو ہر ایک زبان میں جاری ہے- اور یہ بھی واضح ہو کہ شریعت اسلام میں تمام اوقات عبادات اور ازمنہ روحانیات کو ایک دور کے ساتھ قائم کیا ہے جس طرح پر جسمانیات اور زمانیات میں بھی یہ دور مشاہدہ ہو رہا ہے- دیکھو فصل بہار کو کہ ہر ایک سال دورہ کرتی رہتی ہے اور نظر کرو تمام ثمار اور غلہ جات وغیرہ کو کہ اپنے اپنے وقت پیداوار پر دورہ کرتے رہتے ہیں اور غذائے انسان و حیوانات ہوتے ہیں- اسی طرح پر نظام روحانی کا انتظام منجانب اللہ فرمایا گیا ہے- دیکھو ایک ہفتہ ہی کو کہ یوم جمعہ ہمیشہ دورہ کرتا رہتا ہے جس کی برکات سے مومنین کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور ہفتہ بھر کی خطیئات کا کفارہ ہو جاتا ہے- پھر دیکھو رمضان شریف اور موسم حج کو اور لیلہ~ن۲~ القدر وغیرہ کو کہ ہر سال ایک مرتبہ ان کا دورہ ہو جاتا ہے- یہ کیوں؟ اسی لئے کہ مومنین کا ایمان ان کی برکات سے تازہ ہوتا رہے اور تجلیات الہیہ کا ورود جن میں مکالمات الہیہ ہیں‘ مومن متبع پر ہوتا رہے- اسی طرح پر ہر ایک صدی پر واسطے تجدید دین اسلام کے مجددین کا دورہ ہوتا رہتا ہے کما فی الحدیث الصحیح- چنانچہ اس چودہویں صدی میں دورہ مسیح موعود کا ہو رہا ہے- یہ مسیح موعود عنداللہ قمر بھی ہے اور ایک لحاظ سے شمس بھی ہے- کما ثبت فی محلہ- text] g[ta یہ شمس و قمر کا دورہ رمضان شریف کے ساتھ بڑی مناسبتیں رکھتا ہے- یعنی جس طرح پر رمضان شریف میں ایک قسم کی نفس|کشی بسبب امساک کے اکل و شرب سے اور جماع سے کی جاتی ہے اسی طرح پر اس دور قمر میں مومنین متبعین کو کسی قدر صعوبتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں برداشت کرنی پڑتی ہیں- بلکہ بعض متبعین کو ترک اکل و شرب|وجماع کا بھی تائید اسلام اور تبلیغ دین حق کے لئے کرنا پڑا ہے کہ اکثر جگہ پر ازواج میں باہم تفریق واقع ہو گئی اور مخالفین اکثر مخلصین کے اکل و شرب میں بھی حارج ہوئی- دوسری مناسبت رمضان کو اس دور قمر کے ساتھ یہ ہے کہ جو معارف قرآنی بذریعہ اس شمس و قمر کے دنیا پر منکشف ہوئے وہ پچھلی صدیوں میں نازل نہیں ہوئے تھے اور رمضان کی خصوصیات سے ضروری ہے کہ ھدی للناس و بینات من الھدیٰ و الفرقان )البقرہ:۱۸۶( کا نزول ضرور ہو- یہ تینوں امور نزول قرآن مجید کے لئے اس لئے ضروری ہیں کہ ایک تو ہدایت عام ہوتی ہے تمام آدمیوں کے لئے- دوسرے اس ہدایت کے دلائل|قطعیہ اور شواہد یقینیہ کا ہونا بھی ضروری ہے- اس کا مصدق کسوف|وخسوف ماہ رمضان ۱۳۱۱ھ اور دیگر بینات واقع ہوئے- تیسرے اس ہدایت عامہ کے لئے الفرقان ہونا چاہئے جیسا کہ واقعہ لیکھرام اور چراغ|دین کے اس کے شواہد ہیں وغیرہ وغیرہ‘ جو اس خطبہ میں مفصل بیان نہیں ہو سکتے- پس جب ان ہر سہ امور کا نزول اس دورشمس|وقمر میں ہم کو مشاہد ہو رہا ہے تو پھر ہم کیونکر تسلیم نہ کریں کہ زمانہ بعثت اس مسیح موعود کو ساتھ شہررمضان کے بالضرور ایک مناسبت قوی ہے کما قال اللہ تعالیٰ شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدی للناس و بینات من الھدیٰ و الفرقان- پس اگر یہ زمانہ مسیح|موعود کا شہر رمضان کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتا تو پھر یہ نزول قرآن یعنی رد شبہات تمام فرق باطلہ کا قرآن مجید سے کیوں ہو رہا ہے؟ ہر ایک اہل بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ علت کے وجود سے معلول کا وجود سمجھا جاتا ہے اور معلول کے وجود سے علت کا وجود سمجھ میں آ جاتا ہے اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ بعثت کا ایک عظیم الشان لیلہ~ن۲~ القدر تھا کما قال اللہ تعالیٰ و ما ادریٰک ما لیلۃ القدر )القدر:۳(- اسی طرح پر یہ آخری زمانہ یعنی دور شمس و قمر کا زمانہ ایک قسم کی لیلہ~ن۲~القدر ہے کہ اس میں بھی اس مسیح|موعود علیہ السلام پر نزول ملائکہ اور روح یعنی جبرائیل کا ہو رہا ہے جس کو کوئی مخالف نہیں ٹال سکتا کیونکہ باذن ربھم )القدر:۵( ہے- اور اسی لئے یہ مسیح موعود سلامتی کا شہزادہ ہے کما فی الالھام و کما قال اللہ|تعالیٰ سلٰم ھی حتیٰ مطلع الفجر )القدر:۶-( چونکہ معارف الہامات مسیح|موعود کے بے|نہایت ہیں‘ اس لئے میں اب اس خطبہ کو یہیں ختم کرتا ہوں- بارک اللہ لنا و لکم فی القراٰن العظیم و نفعنا و ایاکم بالایٰات و الذکر الحکیم انہ تعالیٰ جواد قدیم کریم ملک رئ|وف رحیم-
یہاں پر ایک رئویا کا درج کرنا جو بتاریخ ۱۲ / اکتوبر ۱۹۰۶ء کو بمقام امروہہ خاکسار کو ہوئی تھی بحکم تحدیث بالنعمہ~ن۲~ کے ضروری ہے- ۱۲ / تاریخ کی شب کو میں نے دیکھا کہ میں کسی شہر میں ہوں اور ایک مکان میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہوں- کچھ لوگ تخت سے نیچے بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ تخت کے اوپر بھی ہیں اور میں بڑے زور و شور سے صرف ایاک نعبد و ایاک نستعین )الفاتحہ:۵( کی تفسیر سے مسلک|احمدیہ اور دعاوی حضرت مسیح موعود کو ثابت کر رہا ہوں- تمام مضمون کلام تفسیری مجھ کو یاد نہیں رہا مگر ماحصل اس مضمون کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو یہ آیت تعلیم فرمائی ہے‘ اس سے مقصود الٰہی یہ ہے کہ نمازہائے پنجگانہ کی ہر ایک رکعت میں ہم بصدق دل اس آیت کا اقرار بجناب|باری ادا کرتے ہیں اور خارج نماز سے مدام اس اقرار پر ہمارا عمل درآمد بھی رہے- تب یہ عبادت مقبول ہو گی اور ہماری استعانت پر اللہ تعالیٰ کی اعانت بھی ہم کو پہنچے گی- اب یہ تو ظاہر ہے جو شخص مامور من اللہ ہو کر دنیا میں مبعوث ہوتا ہے اس کے لئے بعد نمازہائے پنجگانہ کے سب عبادات سے عظیم ترین عبادت تبلیغ ما انزل اللہ الیہ ہوتی ہے کما قال تعالیٰ بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ و اللہ یعصمک من الناس )المائدہ:۶۸-( اب اس چودہویں صدی میں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ حسب وعدہ الٰہی مندرجہ قرآن مجید و بموجب حدیث صحیح کے کوئی مجدد اس سر صدی پر بھی پیدا ہوا ہے یا نہیں؟ تو مانند شمس نصف النہار کے بڑی شہرت کے ساتھ اس دعویٰ اور مدعی کو موجود پاتے ہیں کہ ایک شخص معظم یعنی حضرت اقدس مرزا غلام احمد اس عبادت تبلیغ کو بعد نمازہائے پنجگانہ کے ایسی جان توڑ کوشش کے ساتھ ادا کر رہے ہیں کہ تمام اقطار ارض میں ان کی تبلیغ پہنچ گئی ہے اور ان کی تبلیغ سے نہ یورپ محروم اور نہ امریکہ‘ نہ روس اور نہ جاپان- پھر ہم نظر ثانی کرتے ہیں کہ ان کی استعانت پر جناب باری سے ایسی اعانت بھی پہنچ رہی ہے کہ اس کی نظیر بصیغہ قلمی اور دعا کے ذریعہ اس مدت اسلامی تیرہ سو سال میں ہم کو نہیں ملتی- پس جبکہ یہ عبادت تبلیغ اور اعانت الٰہی کی اس شخص میں ہم مشاہد پاتے ہیں تو ثابت ہوا کہ یہ شخص بالضرور مامور من اللہ ہے اور جو اس کے دعاوی ہیں‘ یہ سب صادق اور مصدوق الٰہی ہیں‘ ورنہ پھر مضمون ایاک نعبد و ایاک نستعین کا صادق نہ رہے گا- و نعوذ باللہ منہ- کیونکہ اس آیت کا مضمون جو اس طرف صریح اشارہ کر رہا ہے کہ جو شخص مدعی ماموریت کا عبادت تبلیغ کی بجالا رہا ہے اور وہ جناب باری میں مقبول بھی ہو گئی ہے کیونکہ اس کی استعانت پر اعانت الٰہی برابر پہنچ رہی ہے تو وہ مدعی بالضرور صادق|ومصدوق ہے خواہ اس دلیل کو دلیل لمی کے طور پر مانو یا بطور دلیل انی کے اس کو سمجھ لو- مدعا ہر حال میں ثابت ہے یعنی خواہ آفتاب کے وجود سے دن کا موجود ہونا سمجھ لو یا دن کے موجود ہونے سے آفتاب کا وجود تسلیم کر لو‘ مطلب بہر حال حاصل ہے- ھٰذا ما الھمنی ربی و الحمد للٰہ الذی ھدانا لھٰذا و ما کنا نھتدی لو لا ان ھدانا اللہ-
)الحکم جلد۱۰ نمبر ۳۸ ۔۔۔۔ ۱۰ / نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ تا ۵ (
*۔*۔*۔*
‏KH1.21
خطبات|نور خطبات|نور
۱۵ / نومبر ۱۹۰۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ

خطبہ نکاح
)جو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ۱۵ / نومبر ۱۹۰۶ء کو بعد نماز عصر صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کے نکاح کے موقع پر پڑھا(
الحمد للٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم-
یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء و اتقوا اللہ الذی تساء لون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۲-(
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً- یصلح لکم اعمالکم و یغفر لکم ذنوبکم و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً )الاحزاب:۷۱‘۷۲-(
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون )الحشر:۱۹-(
خطبہ نکاح میں ان آیات کا پڑھنا مسنون ہے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا اس پر عملدرآمد چلا آیا ہے- ان آیات میں تقویٰ کا حکم ہے- تقویٰ سے مراد اول عقائد کی اصلاح ہے- اللہ تعالیٰ کا نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے‘ نہ صفات میں کوئی شریک ہے اور نہ افعال میں کوئی شریک ہے- عبادت میں اس کا کوئی شریک بنانا ناجائز ہے- یہ عقائد میں مرتبہ اول ہے- دوم- ملائکہ پر ایمان لانا ہے- ملائکہ ہمارے دلوں پر نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں- جو شخص اس تحریک کو قبول کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور پھر ملائکہ زیادہ سے زیادہ نیک تحریکات کا سلسلہ اس کے دل کے ساتھ لگائے رکھتے ہیں- جو لوگ شیطان کی تحریک بد کو قبول کرتے ہیں ان کا تعلق شیطان کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور جو لوگ ملائکہ کی تحریک نیک پر عمل درآمد کرتے ہیں ان کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے- بیٹھے بیٹھے بغیر کسی بیرونی محرک کے جو انسان کے دل میں ایک نیک کام کرنے کا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرف توجہ ہو جاتی ہے وہ فرشتے کی تحریک ہوتی ہے- اور جو بدخیال دل میں اچانک پیدا ہو جاتا ہے وہ شیطان کی تحریک ہوتی ہے- جس طرف انسان توجہ کرے اسی میں ترقی کر جاتا ہے- ملائکہ پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے کہ جب کسی کے دل میں نیک تحریک پیدا ہو تو فوراً اس نیکی پر عملدرآمد کرے- برخلاف اس کے جب بدخیال دل میں آئے تو لاحول پڑھنا اور اعوذ پڑھنا اور بائیں طرف تھوکنا شیطان کی شرارت سے بچانا ہے- کیونکہ شیطان طرف راست سے نہیں آتا- وہ راستی کا دشمن ہے- بلکہ ہمیشہ طرف چپ سے آتا ہے- جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور ملائکہ کی نیک تحریکات سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کتاب کو تدبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور مرسلین کا نیک نمونہ اختیار کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ صراط مستقیم پر قدم مارنے کی توفیق دیتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرتے ہوئے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کی نعمت کے حصول تک پہنچ جاتے ہیں- خدا تعالیٰ کی توحید اور ملائکہ پر ایمان کے بعد تیسری بات ایمان بالآخرۃ ہے- جزاء و سزا کا عقیدہ انسان کے واسطے ترقی کا موجب ہے- اور اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو یہ ترقی بتدریج انسان حاصل کر سکتا ہے-
اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ترقی کے واسطے بہت سے سامان باآسانی مہیا کر دیئے ہیں- دیکھو خدا تعالیٰ کا مامور ہمارے سامنے موجود ہے اور خود اس مجلس میں موجود ہے- ہم اس کے چہرے کو دیکھ سکتے ہیں- یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے- پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزار اس زمانہ کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مامور کا چہرہ دیکھتے‘ پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا - یہ وہ زمانہ ہے کہ عجیب در عجیب تحریکیں دنیا میں زورشور کے ساتھ ہو رہی ہیں اور ایک ہل چل مچ رہی ہے - عربی زبان دنیا میں خاص طور پر ترقی کر رہی ہے - کتابیں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں - وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانہ میں لوگ خوف کھاتے تھے آج خود عیسائی قومیں اس مذہب کے عقائد سے متنفر ہو کر اس کے برخلاف کوشش میں ایسی سرگرم ہیں کہ یخربون بیوتھم بایدیھم )الحشر:۳( ]ttex [tag کے مصداق بن رہے ہیں اور شرک کے ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصول کی طرف اپنا رخ کر رہے ہیں جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے- یہ سب واقعات قرآن|شریف کی اس پیشگوئیکی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون )الحجر:۱۰( تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں جیسا کہ الفاظ کی حفاظت یاد کرنے والوں اور لکھنے والوں کے ذریعہ سے ہوئی اور ہو رہی ہے- یہ سب کچھ موجود ہے مگر خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے- جذبات نفس پر قابو رکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے- مساکین اور یتامیٰ کو مال دیوے- قسم قسم کے طریقوں سے رضاء جوئی اللہ تعالیٰ کی کرے- ایک وقت کا عمل دوسرے وقت کے عمل سے بعض دفعہ اتنا فرق رکھتا ہے کہ اول مہاجرین نے جہاں ایک مٹھی جو کی دی تھی‘ بعد میں آنے والا کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا دیتا تھا تو اس کی برابری نہ کر سکتا تھا- سائل کو دو‘ دکھی کو دو‘ ذوی القربیٰ کو دو- نماز سنوار کر پڑھو- مسنون تسبیح اور کلام شریف اور دعائوں کے بعد اپنی زبان میں بھی عرض معروض کرو تاکہ دلوں پر رقت طاری ہو- غریبی میں‘ امیری میں‘ مشکلات میں‘ مقدمات میں‘ ہر حالت میں مستقل رہو اور صبر کو ہاتھ سے نہ دو- تقویٰ کا ابتداء دعا‘ خیرات اور صدقہ سے ہے اور آخر ان لوگوں میں شامل ہونے سے ہے جن کی نسبت فرمایا ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا )حم السجدہ:۳۱( جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت دکھلائی-
تقویٰ کرنے کے متعلق حکم کے بعد یہ حکم ہے کہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد- چاہئے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے؟ انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے جو ہر وقت متبدل ہے کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے- جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے اور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہئے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جوابدہی لازم ہے- اس آنی‘ فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے کاش کہ اتنا فکر اس کے نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے- ان اللہ خبیر بما تعملون اللہ|تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے- اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرت انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے-
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات بولو تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوریوں کو معاف کرے گا اور تمہاری غلطیوں کی سنوار اور اصلاح ہوجائے گی- انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے اعمال کی اصلاح میں کوشش کرتا رہے- جب مرنے کا وقت قریب آتا ہے تو انسان کے حقیقی اعمال جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پسند یا غیر پسند ہوں‘ پیش ہوتے ہیں نہ کہ وہ اعمال جو لوگوں کے سامنے وہ دکھاتا اور ظاہر کرتا ہے-
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس سے بہت مخلوق پھیلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و البرکات پر اس کا خاص فضل ہوا اور ابراہیم کو اس قدر اولاد دی گئی کہ اس کی قوم آج تک گنی نہیں جاتی- اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمارے امام کو آدم کہا ہے اور بث منھما رجالاً کثیراً کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے- میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں- کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس سے مکالمات سے مشرف ہوں گے- مبارک ہیں وہ لوگ- مگر یہ باتیں بھی پھر تقویٰ سے حاصل ہو سکتی ہیں اور تقویٰ ہی کے ذریعہ سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں کیونکہ خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے- مجھے سب سے بڑھ کر جوش اس بات کا ہے کہ میں مسیح موعود کے بیوی بچوں‘ متعلقین اور قادیان میں رہنے والوں کے واسطے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو رجالاً کثیراً اور تقویٰ اللہ والے کے مصداق بنائے-
آج کی تقریب ایک خاص خوشی کا موقع ہے اور خاص خوشی خانصاحب نواب محمد علی خاں کے لئے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی قسمت میں یہ بات کر دی کہ وہ اس تعلق میں شمولیت حاصل کریں- آج یہ تقریب ہے کہ ہمارے امام آدم وقت کے اس شریف لڑکے کا نکاح نواب صاحب کی اکلوتی بیٹی زینب کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کا مہر وہی ایک ہزار روپیہ مقرر کیا جاتا ہے جو کہ حضرت کے دوسرے لڑکوں کا مقرر ہوا ہے- کیا آپ کو )نواب صاحب کی طرف توجہ کر کے( منظور ہے- )نواب صاحب نے کہا منظور ہے- پھر صاحبزادہ شریف احمد سے پوچھا گیا انہوں نے بھی کہا منظور ہے-( اس کے بعد حضرت نے بمعہ جماعت دعا کی-
) بدر جلد۲ نمبر۵۰ ۔۔۔۔۔۔۔ ۱۳ / دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ ‘ ۹(
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۴ / جنوری ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادیان


خطبہ کسوف
۱۴ / جنوری ۱۹۰۷ء کو مدینہ~ن۲~المسیح میں نماز کسوف پڑھی گئی- یہ وہ نماز ہے جس کی نسبت دیہات میں تو کسی کو بھی معلوم نہیں کہ پڑھنی سنت ہے یا نہیں بلکہ پڑھنے والے تو کہتے ہیں ہمارے دین سے نکل گیا- یہ بھی ہمارے بعض حنفی بھائیوں کی خاص مہربانیوں سے ہے جو وہ بعض سنن رسول مقبول کی نسبت کرتے رہتے ہیں- خیر‘ یہ سلسلہ احمدیہ تو جاری ہی اسی لئے ہوا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں کو جاری کرے- اس لئے یہاں دارلامان میں کسوف شروع ہوتے ہی نماز کی تیاری شروع ہو گئی اور ساڑھے دس بجے کے قریب حکیم|الامت سلمہ ربہ نے نماز باجماعت جہری قرات سے پڑھائی- پہلی رکعت میں سورۃ السجدہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سورۃ الاحقاف پڑھی اور پھر رکوع کیا- دوسری رکعت میں پہلے سورۃ محمد کو پڑھ کر رکوع کیا اور پھر رکوع سے سر اٹھا کر انا فتحنا )الفتح( پڑھی اور پھر رکوع کیا- غرض ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے- اسی طرح زیادہ بھی رکوع کر سکتے ہیں- یہ نماز ایک گھنٹہ میں ختم ہوئی- حدیث شریف میں آیا ہے کہ بعض صحابہؓ کو اس نماز میں طوالت قرات کے سبب غشی ہو جاتی تھی- نماز ختم ہونے کے بعد مولوی صاحب مکرم نے خطبہ پڑھا جو نہایت ہی لطیف تھا-
آپ نے فرمایا کہ -:
دو کارخانے ہیں جسمانی اور روحانی- پہلے اپنی حالت کو دیکھو کہ دل سے بات اٹھتی ہے تو ہاتھ اس پر عمل کرتے ہیں جس سے روح و جسم کا تعلق معلوم ہوتا ہے- غمی و خوشی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے مگر اس کا اثر چہرہ پر بھی ظاہر ہوتا ہے- کسی سے محبت ہو تو حرکات و سکنات سے اس کا اثر معلوم ہو جاتا ہے- انبیاء علیہم السلام نے بھی اس نکتہ کو کئی پیرایوں میں بیان کیا- مثلاً حدیبیہ کے مقام پر جب سہیل آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سھل الامر )بخاری کتاب الشروط فی الجھاد و المصالحۃ( اب یہ معاملہ آسانی سے فیصل ہو جائے گا- دیکھو بات جسمانی تھی نتیجہ روحانی نکالا- اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کی طرف خیال کرو کہ پاخانے جاتے وقت ایک دعا سکھائی- اللٰھم انی اعوذبک من الخبث و الخبائث )بخاری - کتاب الدعوات باب الدعاء عند الخلائ( یعنی جیسے پلیدی ظاہری نکالی اسی طرح باطنی نجاست کو بھی نکالنے کی توفیق دے- پھر جب مومن فارغ ہو جائے تو پڑھے غفرانک- اس میں بھی یہ اشارہ تھا کہگناہ کی خباثت سے جب انسان بچتا ہے تو اسی طرح کا روحانی چین پاتا ہے- نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکٰوۃ‘ سب ارکان اسلام میں جسمانیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کا خیال رکھا ہے اور نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں- مثلاً وضو ظاہری اعضاء کے دھونے کا نام ہے مگر ساتھ ہی دعا سکھلائی ہے اللٰھم اجعلنی من التوابین و اجعلنی من المتطھرین )سنن ترمذی ابواب الطھارۃ( کہ جیسے میں نے ظاہری طہارت کی ہے مجھے باطنی طہارت بھی عطاء کر- پھر قبلہ کی طرف منہ کرنے میں یہ تعلیم ہے کہ میں اللہ کے لئے سارے جہان کو پشت دیتا ہوں- یہی تعلیم رکوع و سجود میں ہے- وہ تعظیم جو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسمانی اعضا سے ظاہر کی جا رہی ہے- زکٰوۃ روحانی بادشاہ کے حضور ایک نذر ہے اور جان و مال کو فدا کرنے کا ایک ثبوت ہے جیسا کہ ظاہری بادشاہ کے لئے کیا جاتا ہے- اور حج کے افعال کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پیش نظر رکھئے کہ جیسے کوئی مجازی عاشق سن لیتا ہے کہ میرے محبوب کو فلاں مقام پر کسی نے دیکھا تو وہ مجنونانہ وار اپنے لباس وغیرہ سے بے خبر اٹھ کر دوڑتا ہے‘ ایسا ہی یہ اس محبوب لم|یزل کے حضور حاضر ہونے کی ایک تعلیم ہے- غرض جسمانی سلسلہ کے مقابل ایک روحانی سلسلہ بھی ضرور ہے اور اس کو نہ جاننے کے لئے بعض نادانوں نے اس سوال پر بڑی بحث کی ہے کہ مرکز|قویٰ قلب ہے یا دماغ؟ اصل بات فیصلہ کن یہ ہے کہ جسمانی رنگ میں مرکز دماغ ہے- کیونکہ تمام حواس کا تعلق دماغ سے ہے اور روحانی رنگ میں مرکز قلب ہے- انبیاء علیہم السلام چونکہ روحانیت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس لئے وہ ظاہری نظارہ سے روحانی نظارہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے سراجاً منیراً )الاحزاب:۲۹( فرمایا ہے اور آپ سراج منیر کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ نے دعا فرمائی اللٰھم اجعل فوقی نوراً و شمالی نوراً و اجعلنی نوراً )بخاری کتاب الدعوات و ترمذی کتاب الدعوات( )یہ بڑی لمبی دعا ہے-( خیر‘ جب اس حقیقی سورج نے دیکھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا یعنی کچھ ایسے اسباب پیش آ گئے جن سے سورج کی روشنی سے اہل زمین مستفید نہیں ہو سکتے تو اس نظارہ سے آپ کا دل پھڑک اٹھا کہ کہیں میرا فیضان پہنچنے میں بھی کوئی ایسی ہی آسمانی روک نہ پیش آجائے- اس لئے آپ نے اس وقت تک صدقہ‘ دعا‘ استغفار‘ نماز کو نہ چھوڑا جب تک سورج کی روشنی باقاعدہ طور سے زمین پر پہنچنی شروع نہ ہو گئی-
اب چونکہ ہر ایک مومن شخص بھی بقدر اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نور رکھتا ہے جیسے باپ بیٹے کا اثر- چنانچہ اسی لئے فرمایا ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین )الاحزاب:۴۱( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جسمانی بیٹا نہیں تو روحانی بیٹے بے شمار ہیں- اس لئے ہر مومن بھی ایسے نظارہ پر گھبراتا ہے اور گھبرانا چاہئے کہ کہیں ایسے اسباب پیش نہ آ جائیں جن سے ہمارا نور دوسروں تک پہنچنے میں روک ہو جائے- اس لئے وہ ان ذرائع سے کام لیتا ہے جو مصیبت کے انکشاف کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی صدقہ خیرات کرتا ہے‘ استغفار پڑھتا ہے اور نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی مشکل کے وقت نماز میں کھڑے ہو جاتے- آخر اللہ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں آتا ہے اور جیسے وہاں حرکت و دور سے وہ اسباب ہٹ جاتے ہیں جن سے سورج کی روشنی باقاعدہ زمین پر پہنچنی شروع ہو جاتی ہے اسی طرح دعا و استغفار سے مومن کے فیضان پہنچنے میں جو روکیں پیش آ جاتی ہیں دور ہو جاتی ہیں- شیشے پر سیاہی لگا کر یا برہنہ آنکھ سے اپنی آنکھوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تماشے کے طور پر اس نظارہ کو دیکھنا مومن کی شان سے بعید ہے- تم سراج منیر کے بیٹے ہو- پس اپنے انوار کو دوسروں تک پہنچانے میں تمام مناسب ذرائع استعمال کرو-
چونکہ آپ نے ان آیات پر وعظ شروع کیا تھا جن میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سراج منیر کہا گیا ہے اس لئے اس ضمن میں بعض اور باتیں بھی بعض الفاظ کی تشریح میں آ گئی تھیں- ایک بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے جو سبحوا )السجدۃ:۱۶( کی تفسیر میں فرمائی کہ مشرک لوگوں نے ظاہری سلسلہ پر نظر کر کے کہ بادشاہ کے پاس سوائے وسیلہ کے نہیں جا سکتے‘ اللہ تعالیٰ تک اپنی عرض لے جانے کے لئے پیرپرستی شروع کر دی اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ گو مر چکے ہیں مگر ہماری عرضیں انہیں کی راہ سے اوپر پہنچتی ہیں- یہ خطرناک غلطی ہے- خدائے پاک کے حضور عرض کرنے کا وہی طریق ہے جو کتاب اللہ میں ہے- اسی پر کاربند رہو-
)الحکم جلد۱۱ نمبر۴ -- ۳۱ / جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ۶‘۷(
* - * - * - *

۱۷ /جون ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
حضرت مولوی نور الدین صاحب نے مکرم مولوی غلام نبی صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا جو مولوی حبیب|اللہ صاحب مدرس چہیٹی گاڑہ کی بیٹی کے ساتھ ہوا-خطبہ مسنونہ کے بعد آپ نے فرمایا-:
اس مسنونہ عجائبات و اغراض و منافع نکاح کا بیان ہے- الحمد للہ کہہ کر عسر یسر ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی رضا پر سر تسلیم خم کرنے کا تہ دل سے اقرار ہے- پھر چونکہ انسان میں ضعف ہے اور ذمہ داری اس کی بھاری‘ چنانچہ یہی نکاح کا معاملہ ہے- کوئی ہزار کوشش کرے پھر بھی کئی مشکلات پیش آ جاتی ہیں- اپنی طرف سے لڑکا یا لڑکی اچھی تلاش کر کے پیوند کیا جاتا ہے مگر نتیجہ خلاف امید نکلتا ہے- اس لئے اس مشکل کے حل کے لئے خدا سے مدد مانگی جاتی ہے-اسی کی توفیق سے سب کچھ ہو سکتا ہے- مہر میں کئی شرائط کی تو جا سکتی ہیں مگر ان کا پورا کرنا بھی خدا کے فضل سے ممکن ہے- مثلاً یہی ہمارے مولوی صاحب کی شرط بھی )گویا بنظر حالات ظاہری کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو گا( اسی قبیل سے ہے جس کے لئے خاص ذمہ|داری نہیں ہو سکتی- دیکھو جب نوح علیہ السلام کو کہا گیا کہ جس کا علم نہ ہو اس کی نسبت سوال مت کر تو آپ نے عرض کیا رب انی اعوذبک ان اسئلک ما لیس لی بہ علم )ھود:۴۸-(یہ نہیں کہا کہ میں نہیں کروں گا- پھر میں یہ کہتا ہوں کہ وعدہ خلافی کا نتیجہ بطور عقوبت نفاق ہوتا ہے جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم الیٰ یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ )التوبہ:۷۷-(پس ہم ایسی شرطوں سے ڈرتے ہیں- پھر چونکہ ارادوں میں ناکامیاں اپنی ہی کمزوریوں اور بدعملیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اس لئے اس خطبہ میں ہے کہ نستغفرہ- اور پھر اخیر میں نعوذ باللہ من شرور انفسنا- چونکہ تدبیر سے کام لے کر پھر اللہ پر توکل اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دینا چاہئے اس لئے نومن بہ و نتوکل علیہ فرمایا-
) الحکم جلد۱۱ نمبر۲۲ ۔۔۔۔ ۲۴ / جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۳ / اگست ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏]txet [tag

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی -:
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ حق تقٰتہ و لاتموتن الا و انتم مسلمون- و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لاتفرقوا و اذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً و کنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا کذٰلک یبین اللہ لکم ایٰٰتہ لعلکم تھتدون- و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولٰئک ھم المفلحون- و لاتکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ما جائ|ھم البینٰت و اولٰئک لھم عذاب عظیم- )اٰل عمران:۱۰۳تا۱۰۶-(
اور پھر فرمایا-:

تم نے سنا ہو گا جب کبھی میں کوئی خطبہ پڑھتا ہوں وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا‘ مضمون ہو یا لیکچر یا کوئی اور نصیحت ہو‘ تو میری عادت ہے کہ اس کے شروع میں میں اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ پڑھ لیتا ہوں- گو میری یہ عادت نہیں کہ اپنی ہر ایک حرکت اور بات کو بلند آواز سے ظاہر کروں مگر جب کوئی لمبی بات یا دردمند دل کی بات کرنی ہو تو میں اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ اس کے اول ضرور پڑھتا ہوں اور میری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو میری نصیحت سنتے ہیں اس بات کے گواہ رہیں جو میں خدا کو واحد لاشریک اس کی ذات اور صفات میں مانتا ہوں اور میں حضور قلب سے‘ یقین سے‘ استقلال سے یہ بات کہتا ہوں کہ میں اس کی قدرتوں کو بیان کرتے ہوئے کبھی شرمندگی نہیں اٹھاتا- میں اسے اپنا محبوب مانتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب انبیاء کا سردار اور فخر رسل سمجھتا ہوں اور میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے اس کی امت سے مجھے بنایا- اس کے محبوں سے بنایا- اس کے دین کے محبوں سے بنایا-
اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مر جائوں گا- ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بڑی بیمار پرسی کی- تمام رات جاگتے تھے- ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستار شاہ صاحب ہیں- بعضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خدا کی غفور رحیمیاں ہیں‘ ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی- اور یاد رکھو کہ اگر میں مر جاتا تو اسی ایمان پر مرتا کہ اللہ واحد لاشریک ہے اپنی ذات اور صفات میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے سچے رسول اور خاتم الانبیاء اور فخر رسل ہیں- اور یہ بھی میرا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب مہدی ہیں‘ مسیح ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے غلام ہیں- بڑے راستباز اور سچے ہیں- گو مجھ سے ایسی خدمت ادا نہیں ہوئی جیسی کہ چاہئے تھی اور ذرہ بھی ادا نہیں ہوئی‘ میں آج اپنی زندگی کا ایک نیا دن سمجھتا ہوں- گو تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے- مگر اب میں ایک نیا انسان ہوں اور ایک نئی مخلوق ہوں- میرے قویٰ پر‘ میرے عادات پر‘ میرے دماغ پر‘ میرے وجود پر‘ میرے اخلاق پر جو اس بیماری نے اثر کیا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک نیاانسان ہوں-
مجھے کسی کی پروا نہیں- میں ذرا کسی کی خوشامد نہیں کر سکتا- میں بالکل الگ تھلگ ہوں- میں صرف اللہ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں- وہی میرا رب ہے- بعضوں نے مجھے پوچھا بھی ہے اور میری بیمار پرسی بھی کی ہے اور میرے ساتھ ہمدردی بھی کی ہے- مگر کتنے ہیں جنہوں نے پوچھا تک نہیں اور بہت ہیں جو کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جائے‘ ہمیں کیا؟ کیونکہ میں خوب سمجھتا ہوں کہ آئندہ ہفتہ تک میری زندگی بھی ہے کہ نہیں- ایسا ایسا دکھ درد اور تکلیف مجھے پہنچی ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ اب دوسرا سانس آئے گا کہ نہیں- اس لئے میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدا فرماتا ہے تقویٰ اختیار کرو اور اپنے باطن کو ایسا پاک صاف کر لو جیسا کہ چاہئے- خدا بڑا پاک‘ قدوس اور سب سے بڑھ کر مطہر ہے- اس کی جناب میں مقرب بھی وہی ہو سکتا ہے جو خود پاک ہے- گندا آدمی قبولیت حاصل نہیں کر سکتا-
دیکھو ایک پاک صاف اور عمدہ لباس والا آدمی ایک پیشاب والی گندی جگہ پر نہیں بیٹھتا- اسی طرح ایک پاک اور قدوس خدا ایک گندے کو اپنا مقرب کس طرح بنا سکتا ہے؟ اسی واسطے اس نے سعیدوں کے واسطے بہشت اور شقیوں کے لئے دوزخ بنایا ہے- ایک ناپاک انسان تو بہشت کے قابل بھی نہیں ہوتا- اللہ تعالیٰ کے قرب کے لائق کب ہو سکتا ہے-
تنہائی میں بیٹھ کر اگر ایک شخص کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایسا مکان ہو‘ ایسا لباس ہو‘ ایسا بسترہ ہو‘ ایسے ایسے عیش و عشرت کے سامان موجود ہوں‘ اس اس طرح کے خوشکن آواز میسر آ جاویں تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہو سکتی- مومن اور مسلمان انسان کی تو ایسی حالت ہو جانی چاہئے کہ مرتے وقت کوئی غم اور اندیشہ نہ ہو- اسی واسطے فرمایا لاتموتن الا و انتم مسلمون )اٰل|عمران:۱۰۳( یعنی فرمانبردار ہو کر مریو- کس کو خبر ہے کہ موت کے وقت اس کی ہوش بھی قائم ہو گییا نہیں- کئی مرنے کے وقت خراٹے لیتے ہیں- دہی بلونے کی طرح آواز نکالتے ہیں اور طرح طرح کے سانس لیتے ہیں- کئی کتے کی طرح ہاہا کرتے ہیں- جب یہ حال ہے اور دوسری طرف خدا بھی کہتا ہے کہ مسلمان ہو کر مریو‘ ایسے ہی رسول نے بھی کہا- تو یہ کس کے اختیار میں ہے جو ایسی موت مرے جو مسلمان کی موت ہو‘ گھبراہٹ کی موت نہ ہو- اس کا ایک سر ہے کہ جب انسان سکھ میں اور عیش|وعشرت اور ہر طرح کے آرام میں ہوتا ہے سب قویٰ اس میں موجود ہوتے ہیں- کوئی مصیبت نہیں ہوتی- اس وقت استطاعت اور مقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظ نفس کو پورا کرے اور کچھ دیر| کے لئے اپنے نفس کو آرام دے لے- پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اس کے احکام کو نگاہ رکھے تو اللہ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے- اگر وہ اس وقت مرے گا جب کہ من ثقلت موازینہ )القارعہ:۷( یعنی جب اس کی ترازو زور والی ہو گی تو وہ بامراد ہو گا اور مسلمان کی موت مرے گا- ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ میں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے دس خاں میں کون ہاں؟ تیسری پوچھتی ہے دسو خاں جی میں کون ہاں‘ اور اسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے-
اس کے بعد اللہ کریم فرماتا ہے و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً- ہر مدرسہ میں ایک رسہ ہوتا ہے- کچھ لڑکے ایک طرف سے پکڑتے ہیں اور کچھ دوسری طرف سے اور آپس میں کھیلتے ہیں- کبھی وہ فتح پالیتے ہیں اور کبھی وہ اور کبھی رسہ بھی ٹوٹ جاتا ہے- مگر اللہ کریم فرماتا ہے ہم نے بھی ایک رسہ بھیجا ہے مگر سب مل کر ایک ہی طرف کھینچو- تفرقہ‘ بغض اور عداوت کو بالکل چھوڑ دو- ایسی کوئی بات تم میں نہ پائی جاتی ہو جس سے تفرقہ پیدا ہو- دیکھو تم طالب علموں میں سے کسی کا باپ اعلیٰ عہدہ پر ہے- کوئی خوبصورت ہے- کسی کے پاس مال و دولت بہت ہے- کوئی عقلمندی کا دعویٰ کرنے والا ہے- کوئی طاقت والا ہے مگر ان پر ناز مت کرو اور بھول میں مت پڑو- یاد رکھو اللہ ایک دن میں تباہ کر دیا کرتا ہے- بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں کے بچوں کو میں نے بھیک مانگتے اور بھیک مانگ کر مرتے دیکھا ہے اور بعضوں کو میں نے اپنے والدین کو گالی نکالتے دیکھا ہے کہ انہوں نے یہ پختہ حویلیاں اور در و دیوار بنائے ہیں اور ایسے محل بنا کر مر گئے ہیں کہ ہم آسانی سے بیچ بھی نہیں سکتے-
خدا کے فضل اور رحمت کے امیدوار ہو- دیکھو ہم کس قدر بیٹھے ہیں- ایک ]nsk [tag لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے چھوٹے سے کلمہ طیبہ نے ہم سب کو اکٹھے کر دیا ہے اور ایسے ملاپ کر دینے صرف اللہ|کریم کا ہی کام ہے- انسانی کوشش سے یہ کام نہیں ہوا کرتے- خدا کے فضل سے ہی ہم اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس طرح سے ہی بچ سکتے ہیں- کسی کی شکل پر‘ حرکات پر‘ غرض افعال اور اقوال پر کوئی چھیڑچھاڑ کی بات نہ کرو اور یہ اچھی طرح سے یاد رکھو کہ جو چڑ بناتے ہیں اور تفرقہ ڈالتے ہیں وہ عذاب عظیم میں مبتلا ہوتے ہیں- یقیناً یاد رکھو کہ بدی کا انجام ہمیشہ بد ہوتا ہے اور سرخروئی اللہ کریم کی رحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے- یہ خدا کی باتیں ہیں جو ہم نے تم کو پڑھ کر سنا دیں- اللہ ظلم نہیں چاہتا- اللہ کریم ہم سب کو عمل کی توفیق دے-
)اس پر حضرت حکیم الامت نے دوسرا مسنونہ خطبہ پڑھنا شروع کیا- شروع کرنا ہی تھا کہ ایک دو شخص شاید وضو کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور پھر انہیں کی دیکھا دیکھی بھیڑ چال کی طرح بیسیوں اور اٹھ کھڑے ہوئے(-
اس پر حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ دوسرا خطبہ بھی نصیحت ہی ہوتی ہے- اس وقت اٹھ کھڑے ہونا درست نہیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب دوسرا خطبہ ہو تو ہلنے جلنے لگ جائو- دیکھو میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا- ان اجری الا علیٰ رب العالمین )الشعرائ:۱۱۰( کوئی خوشامد نہیں- تمہارے سلام کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں- تمہاری دعائوں کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں- کوئی نصیحت جو ہم کرتے ہیں تو محض اللہ کے لئے کرتے ہیں- میرے دل میں جوش تو بہت تھا اور چند نصائح بھی میں کہنی چاہتا تھا مگر اب موقع نہیں رہا-اتنا ہی یاد رکھو کہ دوسرے خطبہ میں بھی انتظار واجب ہوتا ہے اور تقویٰ تمام نیکیوں کی جڑ ہے-
) الحکم جلد۱۱ نمبر۳۱ ۔۔۔ ۳۱ / اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱-۱۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۳ / ستمبر ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
سید عبد الرحیم سیالکوٹی کا نکاح منشی عبد الرحمن صاحب کپور تھلوی کی دختر نیک اختر امہ~ن۲~اللہ نام سے یک صد روپیہ مہر پر پڑھا گیا- اللہ تعالیٰ اس نکاح کو مبارک کرے-
تشہد و تعوذ اور آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اسلامیوں کی ہر ایک کتاب‘ ہر ایک سبق‘ ہر ایک تصنیف اور خطوط وغیرہ میں ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اللہ جل شانہ کی بزرگی‘ عظمت‘ بڑائی اور کبریائی کا بیان ہو- ہر ایک تحریر اور تقریر سے پہلے اسی کی صفات کا تذکرہ اور اسی کی حمد و ستائش کو مقدم رکھا گیا ہے- یہاں تک کہ ہر ایک سبق سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جاتا ہے- غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ انسان کے اقوال ہوں یا افعال ہوں ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو مدنظر رکھنا چاہئے اور ہر ایک کام میں خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں‘ خدا کی عظمت کا خیال رکھا جاوے- یہاں تک کہ پاخانہ جانے کے لئے بھی دعائیں سکھائی ہیں- الٰہی! جیسے ظاہری طور پر گندگی دور کرنے کا مجھے تقاضا ہوا ہے ویسے ہی روحانی طور پر بھی گندگی دور کرنے کا تقاضا ہو اور جیسے یہ گندگی دور ہو گئی ہے ویسے ہی میری روحانی گندگی اور میل کچیل بھی دور ہو- ایسے ہی کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کرنا چاہئے اور ختم کرتے وقت الحمد للٰہ رب العالمین جیسی دعا سکھائی ہے- ایسے ہی بیوی کے ساتھ محبت کرنے کے لئے بھی دعائیں سکھائی ہیں اور پھر فراغت کے لئے بھی دعائیں بتائی ہیں- یہاں تک کہ بازاروں میں جانے کی بھی دعائیں ہیں اور واپس آنے کی بھی دعائیں ہیں- مسجدوں کے اندر داخل ہونے کی بھی دعائیں ہیں اور مسجدوں سے باہر نکلنے کی بھی دعائیں ہیں- اور مطلب ان کا یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی عظمت و رضامندی کا خیال ہر دم کر لیا جاوے- اس کے انعاموں کو یاد کر کے اور فضلوں کا امیدوار بن کے ہر ایک کام کو کرنا چاہئے-
بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے- اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو- حسب نسب میں اعلیٰ ہو- مال اس کے پاس بہت ہو- حکومت اور جلال ہو- خوبصورت اور جوان ہو-مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے- اور چونکہ حقیقی علم‘ اخلاق‘ عادات اور دینداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے‘ جلدی سے پتہ نہیں لگ سکتا اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو- اور صرف ناطہ کی رسم رکھی ہے اور نکاح کی نسبت اللہ کریم فرماتا ہے کہ اس سے غرض صرف مستی کا مٹانا ہی نہ ہو بلکہ محصنین غیر مسافحین )المائدہ:۶( کو مدنظر رکھے اور ہر ایک بات میں اس خدا کے آگے جس کے ہاتھ میں مال‘ جان‘ اخلاق و عادات اور ہر ایک طرح کا آرام ہے بہت بہت استغفار کرے اور بے|پرواہی سے کام نہ لے خواہ وہ انتخاب لڑکوں کا ہو یا لڑکیوں کا- کیونکہ بعد میں بڑے بڑے ابتلائوں کا سامنا ہوا کرتا ہے اور ابتلا کئی طرح کے ہوا کرتے ہیں-
۱ - راستبازوں اور اولوالعزم نبیوں پر بھی ابتلا آتے ہیں جیسے و اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ )البقرہ:۱۲۵-(
۲ - بدذاتوں‘ بے ایمانوں‘ کافروں اور مشرکوں پر بھی ابتلا آتے ہیں نبلوھم بما کانوا یفسقون )الاعراف:۱۶۴-(
۳ - ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اور گروہ بھی ہے ان پر بھی آتے ہیں جیسے فرمایا و بلونٰھم بالحسنٰت و السیاٰت لعلھم یرجعون )الاعراف:۱۶۹-(
۴ - اور کبھی ابتلا ترقی مدارج کے لئے بھی آتے ہیں- جیسے فرمایا و لنبلونکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرٰت و بشر الصٰبرین- الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للٰہ و انا الیہ راجعون- اولٰئک علیھم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ھم المھتدون- )البقرہ:۱۵۶تا۱۵۸-(
انسان کا نکاح اصل میں ایک نیا رشتہ ہوتا ہے- ایک اجنبی عورت سے تعلقات شروع ہو جاتے ہیں- بعض ملکوں میں تو عورت کو مرد کا یا مرد کو عورت کا پتہ تک بھی نہیں ہوتا اور ان کا آپس میں نکاح شروع کر دیتے ہیں- عورتیں حقیقت میں فطرتاً ناقص العقل اور ناقص|الدین ہوتی ہیں اور پھر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو عورتیں کچھ پڑھی لکھی بھی کم ہوتی ہیں- لوگوں کی غفلت ‘سستی اور کاہلی کے سبب سے بہت ہی کم عورتیں تعلیم یافتہ ملیں گی- اور پھر بے پرواہی اور غفلت کے سبب سے عورتوں کی تعلیم میں بہت کم توجہ کی جاتی ہے اور ایسے ضروری کام میں بہت بے توجہی سے کام لیا جاتا ہے- مرد فطرتاً چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے رنگ میں رنگین ہو جاوے اور ہر طرح سے میرے مذاق کے مطابق بن جاوے- اس لئے بعض وقت خفا ہو کر اور غصہ میں آکر طعن اور تشنیع دیتا ہے- اتنا نہیں سوچتا کہ مجھے تو دنیا کے سرد و گرم کی واقفیت بڑے بڑے تجربہ کاروں کی صحبت کے اثر اور عمدہ عمدہ مجلسوں کی اعلیٰ اعلیٰ باتوں کے باعث ہے اور اس بیچاری کو اتنی خبر ہی کہاں ہے اور ایسا موقع ہی کب میسر آ سکتا ہے- اور پھر عورت مرد کے تعلق کی آپس میں ایسی خطرناک ذمہ داری ہوتی ہے کہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر حسن|وجمال کا خیال بھی نہیں رہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نہج میں ناپسند ہو جاتی ہیں اور ان کے کسی فعل سے کراہت پیدا ہوتے ہوتے کچھ اور کا اور ہی بن جاتا ہے- اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے و عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسیٰ ان تکرھوا شیئاً و یجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً )النسائ:۲۰-(
پس عزیزو! تم دیکھو اگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو- اللہ فرماتا ہے ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے- ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بری معلوم ہوتی ہو-
کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ مجھ پر حملہ کرتا ہے- میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتا- بلکہ مجھے شروع سے ایک دردمند دل دیا گیا ہے- پس چاہئے کہ اپنے اقوال اور افعال کا بہت مطالعہ کرو-
اب میں وہ آیات پڑھتا ہوں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اوقات نکاحوں کے وقت پڑھا کرتے تھے-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ حق تقٰتہ )ال عمران:۱۰۳( مومن کو چاہئے کہ تقویٰ کے لئے بیاہ کرے- بیاہ سے غرض صرف تقویٰ ہو- ہر ایک چیز کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ اخلاق پر اس کا کیا اثر ہو گا؟ خدا اس سے راضی ہو گا کہ نہیں ہو گا- مخلوق کو کوئی نفع پہنچے گا کہ نہیں پہنچے گا-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً یصلح لکم اعمالکم و یغفرلکم ذنوبکم و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً )الاحزاب:۷۱‘۷۲( نکاحوں کے معاملات میں بعض لوگ پہلے بڑے لمبے چوڑے وعدے دیا کرتے ہیں کہ ہم ایسا کریں گے اور تم کو اس طور پر خوش کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ کریں گے‘ وہ کریں گے مگر جب یہ نیا معاملہ پیش آ جاتا ہے تو پھر بہت مشکلات پیش آ جاتی ہیں اور بدعہدی کرنی پڑتی ہے- اسی واسطے اللہ|کریم نے فرمایا ہے کہ پہلے ہر ایک بات کو اچھی طرح سے سوچ لو اور بڑا سوچ سمجھ کر نکاح کا معاملہ کیا کرو اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں تبدیلی اور اصلاح کرے گا- اور جو شخص اللہ کی اطاعت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کہا مانتا ہے اصل میں وہی اچھی طرح سے بامراد اور کامیاب ہوتا ہے-
یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء و اتقوا اللہ الذی تسائ|لون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۲( نکاح کے اصل اغراض یہ ہیں کہ انسان کو ایک قسم کا آرام حاصل ہو اور بہت سی حاجات رفع ہوں اور صالح اولاد حاصل ہو- جیسے دعا سکھائی رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ )اٰل عمران:۳۹-( ایک دفعہ الحکم کے ایڈیٹر شیخ یعقوب علی نے اولاد کے حصول کے واسطے بڑے بڑے اشتہار مجھے دکھائے اور کہا کہ آپ کے اولاد نہیں ہوتی- دیکھو یہ کتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے- آپ ضرور اس اشتہار پر عمل کریں- میں نے اسے یہی جواب دیا تھا کہ ایسی اولاد کی مجھے ضرورت ہی نہیں- نفس اولاد چیز کیا ہے؟ مجھے تو سعادت مند روح کی ضرورت ہے- اور رشد اور سعادت کا پتہ غالباً اٹھارہ برس کی عمر تک لگ ہی سکتا ہے- اگر اس طرح کی اولاد کا کوئی ٹھیکہ اٹھاوے تو ہم اس کے اشتہار پر عمل کر سکتے ہیں- تب اس نے جواب میں کہا کہ ایسا تو وہ نہیں کر سکتے- پھر میں نے جواب دیا کہ مجھے دس روپیہ والی اولاد کی ضرورت ہی نہیں- ایسی اولاد کا فائدہ ہی کیا ہے- نہ ہو تو بہتر ہے- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہت نکاح کرو تاکہ میری امت بڑھے- یہ تو نہیں کہا کہ انسان بہت سارے ہوں- یہی کہا ہے کہ میری امت بہت ہو- غرض مومن کو چاہئے کہ اپنی بیوی سے تعلقات میں اور اپنے اقوال اور افعال میں بھی تقویٰ کو مدنظر رکھے اور ہر فعل میں خدا کی رضامندی کا خواہاں رہے- خدا کرے کہ تمہارے تقویٰ میں ترقی ہو- آمین- )الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ ۔۔۔۔۔ ۳۰ / ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۵-۶ (
۱۸ / اکتوبر ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
‏]c42head [tagخطبہ جمعہ
تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی -:
یٰایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم و لاتجسسوا و لایغتب بعضکم بعضاً ا یحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ و اتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم )الحجرات:۱۳(
اور پھر فرمایا -:
‏text] [tag بعض گناہ ہوتے ہیں کہ وہ اور بہت سے گناہوں کو بلانے والے ہوتے ہیں - اگر ان کو نہ چھوڑا جائے تو ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے بتوں کو تو توڑا جائے مگر بت پرستی کو اس کے دل سے دور نہ کرایا جاوے- اگر ایک بت کو توڑ دیا تو اس کے عوض سینکڑوں اور تیار ہو سکتے ہیں- مثلاً صلیب ایک پیسہ کو آتی ہے- اگر کسی ایک کی صلیب کو توڑ ڈالیں تو لاکھوں اور بن سکتی ہیں- غرض جب تک شرارتوں اور گناہوں کی ماں اور جڑ دور نہ ہو تب تک کسی نیکی کی امید نہیں ہو سکتی اور تاوقتیکہ اصلی جڑ اور اصلی محرک بدی کا دور نہ ہو فروعی بدیاں بکلی دور نہیں ہو سکتیں- جب تک بدیوں کی جڑ نہ کاٹی جاوے تب تک وہ اور بدیوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور دوسری بدیاں اپنا پیوند اس سے رکھیں گی- مثلاً شہوت بد ایک گناہ ہے- بدنظری‘ زنا‘ لواطت‘ حسن پرستی‘ سب اسی سے پیدا ہوتی ہیں- حرص اور طمع جب آتا ہے تو چوری‘ جعلسازی‘ ڈاکہ زنی‘ ناجائز طور سے دوسروں کے مال حاصل کرنے اور طرح طرح کی دھوکہ بازیاں سب اسی کی وجہ سے کرنی پڑتی ہیں- غرض یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ بعض باتیں اصل ہوتی ہیں اور بعض ان کی فروعات ہوتی ہیں- جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ کوئی حقیقی اور سچی نیکی ہرگز نہیں کر سکتے اور وہ کسی کامل خلق کا نمونہ نہیں دکھا سکتے کیونکہ وہ کسی صحیح نتیجہ کے قائل نہیں ہوتے- میں نے بڑے بڑے دہریوں کو مل کرپوچھا ہے کہ کیا تم کسی سچے اخلاق کو ظاہر کر سکتے ہو اور کوئی حقیقی نیکی عمل میں لا سکتے ہو تو وہ لاجواب سے ہو کر رہ گئے ہیں- ہمارے زیر علاج بھی ایک دہریہ ہے- میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا تو وہ ہنس کر خاموش ہو گیا تھا- ایسے ہی جو لوگ قیامت کے قائل نہیں ہوتے وہ بھی کسی حقیقی نیکی کو کامل طور پر عمل میں نہیں لا سکتے- نیکیوں کا آغاز جزا سزا کے مسئلہ سے ہی ہوتا ہے- جو شخص جزا سزا کا قائل نہیں ہوتا وہ نیکیوں کے کام بھی نہیں کر سکتا- ایسے ہی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اس قسم کے الفاظ سے مجھے رنج پہنچتا ہے وہ کسی کی نسبت ویسے الفاظ کیوں استعمال کرنے لگا- یا جو شخص اپنی لڑکی سے بدنظری اور بدکاری کروانا نہیں چاہتا اور اسے ایک برا کام سمجھتا ہے وہ دوسروں کی لڑکیوں سے بدنظری کرنا کب جائز سمجھتا ہے- ایسے ہی جو اپنی ہتک کو برا خیال کرتا ہے وہ دوسروں کی ہتک کبھی نہیں کرتا-
بہر حال یہاں اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کا ایک گر بتایا ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم ایماندارو ! ظن سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں- اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث )بخاری کتاب الوصایا-( ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے- لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے- اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑا- تب محض ظن کی بنا پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہئے تھی‘ عداوت کا بیج بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں- کئی لوگوں سے میں نے پوچھا ہے کہ جب تم نے میرا نام سنا تھا تو میری یہی تصویر اور موجودہ حالت کا ہی نقشہ آپ کے دل میں آیا تھا یا کچھ اور ہی سماں اپنے دل میں آپ نے باندھا ہوا تھا- تو انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ جو نقشہ ہمارے دل میں تھا اور جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ نقشہ نہیں پایا- یاد رکھو بہت بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے- میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرمادی کہ بات اس کے خلاف نکلی- میں اس میں تجربہ کار ہوں اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوئ|ظنیوں سے بچو- اس سے سخن|چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے- اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے و لاتجسسوا text] gat[تجسس نہ کرو- تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے- جب انسان کسی کی نسبت سوء ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا‘ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے-
اور پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے- جیسے فرمایا اللہ کریم نے و لایغتب بعضکم بعضاً- غرض خوب یاد رکھو کہ سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے- اور چونکہ آجکل ماہ رمضان ہے اور تم لوگوں میں سے بہتوں کے روزے ہوں گے اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے- اگر ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا ا یحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ- اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے- اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بدآدمی ہوتا ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے- مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا- ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی- تب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بو بھی آتی تھی-
یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں- یہ واقعات ہیں- جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں وہ نہیں مرتے جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے- اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو- بغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلی پرہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو- اس سے بڑا فائدہ ہو گا- میری نہ کوئی جاگیر مشترکہ ہے‘ نہ کوئی مکان مشترکہ ہے- میرا کوئی معاملہ دنیا کا کسی سے مشترکہ نہیں- اسی طرح میں اوروں پر قیاس کرتا ہوں کہ وہ بھی یہاں آ کر الگ تھلگ ہوں گے اور اگر کچھ معمولی سی شراکت ہو گی بھی تو کوشش کرنے سے بالکل الگ رہ سکتے ہیں- انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسا لیتا ہے ورنہ بات سہل ہے- جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا- اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خدا تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرو کہ وہ اس کی غلطی نکال دیوے اور اپنے فضل سے اس کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دیوے- یاد رکھو اللہ کریم تواب رحیم ہے- وہ معاف کر دیتا ہے- جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا- بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جائو- خوب یاد رکھو کہ ایک چوہڑی یا لوہار کی بھٹی یا کسی عطار کی دوکان کے پاس بیٹھنے سے ایک جیسی حالت نہیں رہا کرتی- ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جائو کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا- اور اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جائو کہ اس سے غیبت تک پہنچ جائو گے- اور یہ ایک بہت بری بداخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے-
و اتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم )الحجرات:۱۳( تقویٰ اختیار کرو اور پورے پورے پرہیزگار بن جائو- مگر یہ سب کچھ اللہ ہی توفیق دے تو حاصل ہوتا ہے- ہم تو انباروں کے انبار ہر روز معرفت کے پیش کرتے ہیں- گو فائدہ تو ہوتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ بہت فائدہ ہو اور بہتوں کو ہو- خدا تعالیٰ توفیق عنایت فرماوے- آمین-
) الحکم جلد۱۱ نمبر۳۹ ۔۔۔ ۳۱ / اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۸-۹ (
* - * - * - *
‏KH1.22
خطبات|نور خطبات|نور

یکم نومبر ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





خطبہ جمعہ~ن۲~ الوداع
تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدی للناس و بینٰت من الھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضاً او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لایرید بکم العسر و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علیٰ ما ھدیٰکم و لعلکم تشکرون- و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی و لیومنوا بی لعلھم یرشدون- احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم ھن لباس لکم و انتم لباس لھن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم و عفا عنکم فالئٰن باشروھن و ابتغوا ما کتب اللہ لکم و کلوا و اشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی الیل و لاتباشروھن و انتم عاکفون فی المسٰجد تلک حدود اللہ فلاتقربوھا کذٰلک یبین اللہ ایٰٰتہ للناس لعلھم یتقون- و لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون- )البقرہ:۱۸۶تا۱۸۹-(

اور پھر فرمایا-:
رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں- اب یہ گذرنے کو ہیں- یہ دن پھر ہم کو اسی رمضان میں نہیں آئیں گے- نہیں معلوم آئندہ رمضان تک کس کی حیاتی ہے اور کس کی نہیں- اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص احکام دیئے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے- جو لوگ مسافر ہیں یا بیمار ہیں ان کو تو سفر کے بعد اور بیماری سے صحت یاب ہو کر روزے رکھنے کا حکم ہے مگر دوسرے لوگوں کو دن کے وقت کھانا پینا اور بیوی سے جماع کرنا منع ہے- کھانا پینا بقائے شخص کے لئے نہایت ضروری ہے اور جماع کرنا بقائے نوع کے لئے سخت ضروری ہے- اس مہینہ میں خدا تعالیٰ نے دن کے وقت ایسی ضروری چیزوں سے رکے رہنے کا حکم دیا تھا- ان چیزوں سے بڑھ کر اور کوئی چیزیں ضروری نہیں- بے شک سانس لینا ایک نہایت ضروری چیز ہے مگر انسان اس کو چھوڑ نہیں سکتا- اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اس واسطے بنایا ہے کہ جب انسان گیارہ مہینے سب کام کرتا ہے اور کھانے پینے‘ بیوی سے جماع کرنے میں مصروف رہتا ہے تو پھر ایسی ضروری چیزوں کو صرف دن کے وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک ماہ کے لئے ترک کر دے- اور پھر دیکھو جہاں ایک طرف ان ضروری اشیاء سے منع کیا ہے دوسری طرف تدارس قرآن‘ قیام رمضان اور صدقہ وغیرہ کا حکم دیا ہے اور اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جب ضروری چیزیں چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کو خدا کے حکم سے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے برخلاف غیر ضروری چیزوں کو حاصل کیا جاتا ہے- رمضان کے مہینہ میں دعائوں کی کثرت‘ تدارس قرآن‘ قیام رمضان کا ضرور خیال رکھنا چاہئے- حدیث شریف میں لکھا ہے من قام رمضان ایماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ )بخاری- کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان(
مگر افسوس کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے- اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں- سحر گی کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دوپہر تک بدہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پری کی کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور سستی پر سستی آنے لگی- اتنا خیال نہیں کرتے کہ روزہ تو نفس کے لئے ایک مجاہدہ تھا‘ نہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ پر کر کے کھایا جاوے-
یاد رکھو اسی مہینہ میں ہی قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے- اسی کی ہدایت کے بموجب عمل درآمد کرنا چاہئے- روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دنیا کے کاموں میں سکھ حاصل کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں- آرام تو یا مر کر حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر حاصل ہوتا ہے اس لئے روزہ سے بھی سکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قرب حاصل کر سکتا اور متقی بن سکتا ہے- اور اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی و لیومنوا بی لعلھم یرشدون یعنی میں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں- چاہئے کہ پہلے وہ ان احکام پر عمل کریں جن کا میں نے حکم دیا اور ایمان حاصل کریں تا کہ وہ مراد کو پہنچ سکیں- اور اس طرح سے بہت ترقی ہو گی-
بہت لوگ اس مہینہ میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے مگر خدا تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ قوی آدمی ایک مہینہ تک صبر نہیں کر سکتا اس لئے اس نے اجازت دے دی کہ رات کے وقت اپنی بیویوں سے تم لوگ صحبت کر سکتے ہو- بعض لوگ ایک مہینہ تک کب باز رہ سکتے ہیں اس لئے خدا نے صبح صادق تک بیوی سے جماع کرنے کی اجازت دے دی- بدنظری‘ شہوت پرستی‘ کینہ‘ بغض‘ غیبت اور دوسری بدباتوں سے خاص طور پر اس مہینہ میں بچے رہو-
اور ساتھ ہی ایک اور حکم بھی دیا کہ رمضان میں اس سنت کو بھی پورا کرو کہ رمضان کی بیسویں صبح سے لے کر دس دن اعتکاف کیا کرو- ان دنوں میں زیادہ توجہ الی اللہ چاہئے-
اور پھر رمضان کے بعد بطور نتیجہ کے فرمایا و لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون یعنی ناحق کسی کا مال لینا ایسا ضروری نہیں جیسے کہ اپنی بیوی سے جماع کرنا یا کھانا پینا- اس لئے خدا تعالیٰ سکھاتا ہے کہ جب تم خدا کی خاطر کھانے پینے سے پرہیز کر لیا کرتے ہو تو پھر ناحق کا مال اکٹھا نہ کرو‘ بلکہ حلال اور طیب کما کر کھائو- اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب تک رشوت نہ لی جاوے اور دغا‘ فریب اور کئی طرح کی بددیانتیاں عمل میں نہ لائی جاویں روٹی نہیں ملتی- یہ ان کا سخت جھوٹ ہے- ہمیں بھی تو ضرورت ہے- کھانے پینے‘ پہننے سب اشیا کی خواہش رکھتے ہیں- ہماری بھی اولاد ہے- ان کی خواہشوں کو بھی ہمیں پورا کرنا پڑتا ہے- اور پھر کتابوں کے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دھت اور ایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے- گو اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اور دوسری کتابوں کا خرید کرنا اتنا ضروری نہیں مگر میرے نفس نے ان کا خرید کرنا ضروری سمجھا ہے اور گو میں اپنے نفس کو اس میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہونے دیتا مگر پھر بھی بہت سے روپے کتابوں پر ہی خرچ کرنے پڑتے ہیں- مگر دیکھو ہم بڈھے ہو کر‘ تجربہ کار ہو کر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت سے زیادہ دیتا ہے- بد سے بد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھوٹ بولا جا سکتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جا سکتا ہے- ایک راکھ کی پڑیا دیکر طبیب کہہ سکتا ہے کہ یہ سونے کا کشتہ ہے- فلانی چیز کے ساتھ اسے کھائو- اور ایسے ہی طرح طرح کے دھوکے دیئے جا سکتے ہیں- جس طبیب کو پوری فہم نہیں‘ پوری تشخیص نہیں اور دوائیں دے دے کر روپیہ کماتا ہے تو وہ بھی بطلان سے مال کماتا ہے- وہ مال طیب نہیں بلکہ حرام مال ہے- اسی طرح جتنے جعلساز‘ جھوٹے اور فریبی لوگ ہوتے ہیں اور دھوکوں سے اپنا گزارہ چلاتے ہیں وہ بھی بطلان سے مال کھاتے ہیں- ایسا ہی طبیبوں کے ساتھ پنساری بھی ہوتے ہیں جو جھوٹی چیزیں دے کر سچی چیزوں کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو طرح طرح کے دھوکے دیتے ہیں اور پھر پیچھے سے کہتے ہیں کہ فلاں تھا تو دانا مگر ہم نے کیسا الو بنا دیا- ایسے لوگوں کا مال حلال مال نہیں ہوتا بلکہ وہ حرام ہوتا ہے اور بطلان کے ساتھ کھایا جاتا ہے- مومن کو ایک مثال سے باقی مثالیں خود سمجھ لینی چاہئیں- میں نے زیادہ مثالیں اس واسطے نہیں دی ہیں کہ کہیں کوئی نہ سمجھ لے کہ ہم پر بدظنیاں کرتا ہے- اسی واسطے میں نے اپنے پیشہ کا ذکر کیا ہے- میں اسے کوئی بڑا علم نہیں سمجھتا- میں اسے ایک پیشہ سمجھتا ہوں- طبیبوں سے حکماء لوگ ڈرے ہیں اس لئے انہوں نے اس پیشہ کا نام صنعت رکھا ہے- یاد رکھو یہ بھی ایک کمینگی کا پیشہ ہے- اس میں حرامخوری کا بڑا موقع ملتا ہے- اور طب کے ساتھ پنساری کی دوکان بنانا اس میں بہت دھوکہ ہوتا ہے- نہ صحت کا اندازہ لوگوں کو ہوتا ہے‘ نہ مرض کی پوری تشخیص ہوتی ہے- اور پھر نہایت ہی
معمولی سی جنگل کی سوکھی ہوئی بوٹی دے کر مال حاصل کر لیتے ہیں- یہ بھی سخت درجہ کا بطلان کے ساتھ مال کھانا ہے- وہ جو میں نے اپنے جنون کا ذکر کیا ہے‘ چند روز ہوئے ایک عمدہ کتاب بڑی خوشنما‘ بڑی خوبصورت اور دل لبھانے والی اس کی جلد تھی جس پر رنگ لگا ہوا تھا اس کو جو کہیں رکھا تو اور چیزوں کو بھی اس سے رنگ چڑھ گیا جس سے ہمیں بہت دکھ پہنچا- پس جلد کرنے جلد کی جو قیمت لی ہے حقیقت میں وہ حلال مال نہیں بلکہ بطلان سے حاصل کیا ہوا ہے- اسی طرح اور بھی پیشے ہیں مگر ان کا ذکر میں اس واسطے نہیں کرتا کہ کسی کو رنج نہ پہنچے-
اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکام تک مال نہ پہنچائو- بعض لوگ یونہی لوگوں کو وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ناجائز طور پر پھنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں- اس لئے بعض لوگ ان سے ڈر جاتے ہیں اور نقصان اٹھا لیتے ہیں-
غرض روزہ جو رکھا جاتا ہے تو اس لئے کہ انسان متقی بننا سیکھے- ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا- پانچ سات روزے باقی رہ گئے ہیں- ان میں بہت کوشش کرو اور بڑی دعائیں مانگو- بہت توجہ الی اللہ کرو اور استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو- قرآن مجید سن لو‘ سمجھ لو‘ سمجھا لو- جتنا ہو سکے صدقہ اور خیرات دے لو اور اپنے بچوں کو بھی تحریک کرتے رہو- اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں توفیق دے- آمین-
)الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ ۔۔۔ ۱۷ / نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ - ۶ (
* - * - * - *

۸ / نومبر ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبہ عید الفطر
عید کے خطبہ میں آپ نے بعد کلمہ تشہد اور استعاذہ قرآن شریف کی آیت یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس و الحج و لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا و لٰکن البر من اتقیٰ و اتوا البیوت من ابوابھا و اتقوا اللہ لعلکم تفلحون- )البقرۃ:۱۹۰( پڑھ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن|شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو تقویٰ میں ایک ریاضت کرائی جاتی ہے کہ جب مباح چیزیں انسان خدا کی خاطر چھوڑتا ہے تو پھر حرام کو کیوں ہاتھ لگانے لگا- پھر فرمایا کہ ایک وقت تو خدا تعالیٰ کی صفت رحم اور درگذر کی کام کرتی ہیمگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب دنیا کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے- پھر بھی ایسے وقت میں ایک سمجھانے والا ضرور آتا ہے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجو ہے اور اس زمانہ میں بائیبل کی کثرت اشاعت جو ہوتی ہے باوجودیکہ عیسائی اپنے عقائد میں اس کو قابل عمل نہیں جانتے- پھر کروڑوں روپے اس پر خرچ کرتے ہیں- اس میں بھی یہی حکمت|الٰہی ہے کہ توحید اور عبادت الٰہی اور اعمال صالح کا وعظ اس کے ذریعہ سے بھی تمام دنیا پر ہو رہا ہے- صحابہؓ نے اھلۃ کے متعلق جو سوال کیا وہ اس واسطے تھا کہ جب رمضان کی عبادت کے برکات انہوں نے دیکھے تو ان کو خواہش ہوئی کہ ایسا ہی دوسرے مہینوں کی عبادت کا ثواب بھی حاصل کریں- اس واسطے انہوں نے یہ سوال پیش کیا- فرمایا دو بڑے نشان آسمان پر دکھائے گئے- سورج گہن اور چاند گہن- ماہ رمضان میں ایسا ہی دو نشان زمین پر ہیں- قحط اور طاعون-
فرمایا- حج کے متعلق حضرت ابراہیم کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ اذن فی الناس )الحج:۲۸( تب سے آج تک یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے- جس طرح کبوتر اپنے کابک کو دوڑتے ہیں اس طرح لوگ حج کو جاتے ہیں- زمانہ جاہلیت عرب میں رسم تھی کہ سفر کو جاتے ہوئے کوئی بات یاد آتی تو دروازے کے راہ سے گھر میں نہ آتے- اس سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا اور اس میں ایک اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ہر ایک کام میں اس راہ سے جائو اور اس دروازے سے داخل ہو جو خدا نے مقرر کیا اور اس کے رسول نے دکھایا اور رسولﷺ~ کے خلفاء اور اس زمانہ کا امام بتلا رہا ہے- خدا چاہتا تو اپنیرسولﷺ~ کے واسطے اپنے خزانے کھول دیتا اور تمہیں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی مگر پھر تمہارے واسطے کوئی ثواب نہ ہوتا- جب خدا کسی قوم کو عزت دینا چاہتا ہے تو یہی سنت اللہ ہے کہ پہلے اس سے اللہ کی راہ میں مالی‘ جانی‘ بدنی خدمات لی جاتی ہیں- اس زمانہ میں غلام کے چھوڑانے کا ثواب مقروض کے قرضہ کے ادا کرنے سے ہو سکتا ہے اور دو خاص مقروضوں کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا جن کے واسطے چندہ کی ضرورت ہے- ان لوگوں کے واسطے بھی خرچ کرنا چاہئے جو دینی علوم کے حصول میں )طلبائ( یا دینی خدمات میں مصروف ہونے کے سبب احصروا فی سبیل اللہ کے مصداق ہیں اور ایسے لوگوں کو بھی دینا چاہئے جو سوال کے عادی نہ ہونے کے سبب کسی ضابطہ کی پابندی میں نہیں آ سکتے-
خطبہ جمعہ -: جمعہ کے خطبہ میں آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ جب تک انسان محنت مشقت نہ اٹھائے‘ خدا کی راہ میں ابتلائوں کی برداشت نہ کرے وہ انعام و اکرام نہیں پا سکتا- خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف اتنا منہ سے کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے- نہیں- بلکہ ان پر وہ ابتلا ضرور آئیں گے جو پہلوں پر آئے- یہ وقت ہے کہ جناب الٰہی کو راضی کر لو-
) بدر جلد ۶ نمبر ۴۶ ----- ۱۰ / نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ۱ (

۲۰ / دسمبر ۱۹۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






خطبہ جمعہ
تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
انما المومنون الذین اٰمنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرتابوا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ اولٰئک ھم الصادقون )الحجرات:۱۶-(
اور پھر فرمایا-:
قرآن میں بہت جگہ پر اس قسم کا ذکر پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کے بھی ہوا کرتے ہیں کہ زبان سے تو وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں دکھاتے- زبان سے وہ ایسی ایسی باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جن کو ان کے دل نہیں مانتے- چنانچہ قرآن کریم کے شروع میں ہی لکھا ہے و من الناس من یقول اٰمنا باللہ و بالیوم الاٰخر و ما ھم بمومنین )البقرہ:۹( ایسے لوگ اللہ پر ایمان لانے اور آخرت پر ایمان لانے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے دل مومن نہیں ہوتے- اسی لئے باوجود اس کے کہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مومنوں میں سے نہیں سمجھتا- وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم کو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہے مگر خداتعالیٰ فرماتا ہے و ما ھم بمومنین کہ وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں-
ایسے ہی ایک اور جگہ قرآن کریم میں لکھا ہے- اذا جائ|ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ و اللہ یعلم انک لرسولہ و اللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون )المنافقون:۲( کہ بہت سے آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں- لیکن اللہ|تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! تو ہمارا رسول ہے لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں تو یہ صریح جھوٹے ہیں اور منافق ہیں کیونکہ ان کا عمل|درآمد ان کے دلی ایمان کے خلاف ہے- اور جو باتیں یہ زبان سے کہتے ہیں ان کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے- اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
انما المومنون الذین اٰمنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرتابوا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ اولٰئک ھم الصادقون کہ مومن وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور ایمان لاتے ہیں اللہ کے رسول پر- اور اگر ان پر کچھ مشکلات آ پڑیں تو کوئی شک و شبہ نہیں لاتے بلکہ جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں- لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ کسی اور کی کمائی سے یا کسی اور کا مال حاصل کر کے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ پھر ان کو کہاں سے دوں گا؟ اس لئے وہ خود کما کر اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں-
آج کل قحط کا زور ہوتا جاتا ہے- مومن کو چاہئے کہ اپنی روٹی کا ایک حصہ کسی ایسے شخص کو دے دیا کرے جس کے پاس روٹی نہیں- اگر اس میں سے نہیں دے سکتا تو کوئی پیسہ ہی سہی کہ وہ بیچارہ خرید کرکے ہی کھا لے- مومن آدمی کو تو خدا کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا- دیکھو آجکل سردی کا موسم ہے کسی مفلس کو اوڑھنے کے لئیکپڑا دینے سے تم کو دریغ نہیں کرنا چاہئے- مومن کو جوں جوں ضرورتیں پیدا ہوتی رہیں سب میں شرکت لازمی ہے- اسی واسطے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان ہوتا ہے اور وہ اپنے مال اور جانیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خرچ کرنا ضائع نہیں جائے گا- اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک بھی صادق اور سچے مومن ہوتے ہیں-
اور پھر اس کے آگے فرمایا قل ا تعلمون اللہ بدینکم )الحجرات:۱۷( کہ کیا تم لوگ زبانی دعوے کرنے سے اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری جتلانی چاہتے ہو؟ اللہ کے نزدیک تو تب ہی صادق ٹھہر سکو گے جب عملی طور پر دکھوں‘ دردوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہو گے اور اپنے مالوں اور جانوں سے دوسروں کی غمخواری کرو گے اور محتاجوں اور غریبوں کی امداد کرو گے- یاد رکھو دوسروں کی غمخواری بہت ضروری ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی ہی توفیق سے ہو سکتا ہے- اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے- آمین-
ایک اور ضروری بات جو اس زمانہ کے لئے نہایت ضروری ہے میں بیان کرنی چاہتا ہوں کہ حضرت|صاحب نے ایک دفعہ بہت سے زمینداروں کو اکٹھا کر کے بتایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اس ملک پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے اور پودے لگانے والوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ طاعون کے پودے ہیں- آخر وہ پودے لگے اور لوگوں نے اس کے پھل بھی کھائے- اب حضرت صاحب نے پھر فرمایا ہے اور پے در پے الہامات ہوئے ہیں کہ عنقریب طرح طرح کی نئی نئی بلائیں‘ وبائیں اور بیماریاں پھیل جائیں گی اور عالمگیر قحطوں اور زلزلوں سے دنیا پر سخت درجہ کی تباہی آئے گی اور شدت سے طاعون اور دوسری آفات دنیا کو گھیر لیں گی اور وہ وقت نہایت ہی قریب ہے جبکہ اس قسم کے خطرناک مصائب دنیا کو بدحواس اور دیوانہ سا بنا دیں گے- اب دیکھو چار بلائوں کا مقابلہ دنیا کو کرنا پڑے گا- ایک تو خاص وبائیں- دوسرے شدت سے ایک نئی قسم کی طاعون- تیسرے سخت زلزلے- چوتھے قحط شدید- اوروں کو جانے دو ان میں سے ایک قحط کو ہی لو- گو بچے تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے مگر وہ لوگ جن کے کنبے ہیں خوب سمجھتے ہیں کہ کن کن تکلیفات کا سامنا ہو رہا ہے- آگے ربیع کا موسم آیا ہے اس میں اور بھی مشکلات نظر آتے ہیں- اور پھر اس کے ساتھ ہی وبائیں ہیں‘ طاعون ہے‘ زلزلے ہیں-
اس لئے چاہیے کہ استغفار اور لاحول اور الحمد اور درود شریف بہت پڑھو اور صدقہ اور خیرات بہت دو اور دعائوں میں کثرت سے لگے رہو- مگر افسوس کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ’’او! کیا ہے- مرنا تو ہے- کیا تم نے نہیں مرنا؟ آخر سب نے ہی مر جانا ہے- بات ہی کیا ہے‘‘- مگر خوب یاد رکھو کہ جس کے گھر پر مصیبت آتی ہے وہی جانتا ہے کہ اس قسم کی باتیں کس موقع پر انسان منہ سے نکالا کرتا ہے- افسوس کہ اکثر لوگوں میں بدظنی کا مادہ بہت بڑھ گیا ہے- مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کی بدظنیوں سے کسی کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر ان کو نقصان پہنچ گیا- میرا کام کہنا ہے سو وہ تو میں کسی نہ کسی صورت میں کہہ ہی دوں گا- اکثر آدمی کہہ دیتے ہیں کہ ’’میاں! یہ سب باتیں کہنے کی ہوا کرتی ہیں- ان کو دیکھا ہوا ہے- ہمیشہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں- کیا انہوں نے مر کر دیکھا ہوا ہے- اس قسم کے وعظ کرنے کی تو ان کی ایک عادت ہے-‘‘ مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم میں لکھا ہے- و لقد ارسلنا الیٰ امم من قبلک فاخذنٰھم بالباساء و الضراء لعلھم یتضرعون- فلولا اذ جاء ھم باسنا تضرعوا و لٰکن قست قلوبھم و زین لھم الشیطان ما کانوا یعملون-فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شی حتیٰ اذا فرحوا بمااوتوا اخذنٰھم بغتۃ فاذاھم مبلسون- فقطع دابرالقوم الذین ظلموا و الحمد للٰہ رب العالمین )الانعام:۴۳ تا۴۶ (
سو میں نہایت ہی درد بھرے دل سے کروڑوں دفعہ تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو اور صدقہ اور خیرات بہت کرو اور رو رو کر خداسے دعائیں مانگو کہ ربنا لاتجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین )یونس:۸۶-(یہ نہایت ضروری باتیں ہیں جو میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں- دیکھو چار بلائیں سامنے ہو رہی ہیں- قحط کو تو خود تم بھی محسوس کر رہے ہو- اگر انسان بڑی محنت بھی کرے گا تو کسقدر کما لے گا- عام لوگ تو آٹھ یا نو روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں کما سکتے- آجکل چھ سیر روپیہ کا آٹا بکتا ہے اور ہر ایک چیز گراں ہو گئی ہے- اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ بدصحبتوں سے کنارہ کش رہو- بعض صحبتوں میں بیٹھ کر انسان پھر انھیں کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے اور بعض طبعیتیں ہوتی ہیں کہ وہ دوسروں کا اثر جلدی قبول کرلیتی ہیں- کسی نے نظم سنائی تو‘ اور اگر کسی نے نثر سنائی تو‘ کسی نے نکتہ چینی کی تو‘ اور اگر کسی نے غیبت شروع کر دی تو‘ ایسی طبیعتوں کے لوگ سب کے شریک ہو جاتے ہیں- بقدر طاقت اور مقدرت کے انسان کو چاہئے کہ ایسی صحبتوں سے کنارہ کش رہے جن کا اس پر برا اثر پڑتا ہو- حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہت لحاظ رکھو- میں یہ اللہ کے لئے نصیحت کرتا ہوں- نمازوں میں بہت دعائیں کرو- میں خود بھی مانگتا ہوں اس لئے تمہیں بھی کہتا ہوں کہ تم بھی مانگو- خداتعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کر نے کی توفیق عنایت کرے- آمین-
)الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۶ ۔۔۔ ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱- ۱۲(
* - * - * - *

۱۵ / جنوری ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبہ عید الاضحیٰ
لن ینال اللہ لحومھا و لا دماوھا و لٰکن ینالہ التقویٰ منکم )الحج:۳۸-(
اللہ تعالیٰ کی کتاب کو غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ بہت پسند ہے- اگر انسان اللہ کے ساتھ سچا معاملہ نہ کرے تو اس کے ظاہری اعمال کوئی حقیقت نہیں رکھتے- انسان فطرتاً چاہتا ہے کہ کوئی اس کا پیارا ہو جو ہر صفت سے موصوف ہو- سو اللہ سے بڑھ کر ایسا کوئی نہیں ہو سکتا- یہ پیارے تو آخر جدا ہوں گے- ان کا تعلق ایک دن قطع ہونے والا ہے مگر اللہ کا تعلق ابدالآباد تک رہنے والا ہے- دنیا کی فانی چیزیں محبت کے قابل نہیں کیونکہ یہ سب فنا پذیر ہے- کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو بقارکھتی ہے؟ ہرگز نہیں- پس اس کی رحمت اور اس کے فضل کا سہارا پکڑو اور اسی کو اپنا پیارا بنائو کہ وہ باقی ہے- متقی کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ان اللہ یحب المتقین )اٰل|عمران:۷۷-( جب ایک ادنیٰ ساہوکار یا معمولی حاکم کسی سے محبت کرے تو انسان جامہ میں پھولا نہیں سماتا- جب تقویٰ کے سبب اللہ جلشانہ محبت کرتا ہے تو تقویٰ کیسی عظیم الشان چیز ہے جو خدا کا محبوب بنا دیتی ہے- یقیناً سمجھو کہ سب ذرات عالم اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں- جس سے وہ پیار کرتا ہے تمام ذروں کو اس کے تابع کر دیتا ہے-
جو معجزات کے منکر ہیں وہ مانتے ہیں کہ سب ذرے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں- پس سارے معجزوں کا دارومدار اللہ کی قدرت سے وابستہ ہے- جب وہ کسی سے پیار کرے تو ضرور ہے کہ اس کے لئے اپنی قدرت نمائیاں طرح طرح کے عجائبات کے رنگ میں کرے- چنانچہ اس نے ایسا کیا-
انسان کو بہت ضرورت ہے اس بات کی کہ کھائے‘ پیئے اور پہنے- اللہ تعالیٰ متقی کے لئے فرماتا ہے و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً و یرزقہ من حیث لایحتسب )الطلاق:۳‘۴( انسان جب متقی بن جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا- پس اگر کوئی رزق کا طالب ہے تو اس پر واضح ہو کہ رزق کے حصول کا ذریعہ بھی تقویٰ ہے-
۲ - انسان جب مصیبت میں حوادث زمانہ سے پھنس جاتا ہے اور اس کی بے علمی اسے آگاہ نہیں ہونے دیتی کہ کس سبب سے تمسک کر کے نجات حاصل کرے تو وہ خبیر جو ذرہ ذرہ کا آگاہ ہے فرماتا ہے متقی کو ہم تنگی سے بچائیں گے-
۳ - یسر کو بھی انسان بہت پسند کرتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و من یتق اللہ یجعل لہ من امرہ یسراً )الطلاق:۵-( گویا سکھ بھی متقی ہی کا حصہ ہے- تاریخ کے صفحوں کو الٹ جائو اور دیکھو کہ متقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ‘ باریک درباریک تدبیریں کرنے والے‘ مال خرچ کرنے والے‘ جتھوں والے آئے مگر وہ بھی ان متقیوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے- فرعون کی نسبت قرآن مجید میں مفصل ذکر ہے- حضرت موسیٰؑ کے بارہ میں کہا و ھو مھین و لایکاد یبین )الزخرف:۵۳( ایک ذلیل )اور ہینا( آدمی ہے- میرے سامنے بات بھی نہیں کر سکتا- اور اس کی قوم کو غلام بنا رکھا- مگر دیکھو آخر اس طاقتوں والے‘ شان و شوکت والے‘ جاہ و جلال والے فرعون کا کیا حال ہوا؟
اغرقنا اٰل فرعون و انتم تنظرون )البقرہ:۵۱( تنظرون میں ایک خاص لذت ہے- دشمن کو ہلاک تو کیا مگر آنکھوں کے سامنے- دشمن تو مرا ہی کرتے ہیں- مگر آنکھوں کے سامنے کسی دشمن کا ہلاک ہونا ایک لذیذ نظارہ ہے جو آخر اس متقی کو نصیب ہوا-
۴ - اسی طرح متقی کو عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں اور ذات پاک سے اس کے خاص تعلقات ہوتے ہیں- قرآن مجید میں اولٰئک ھم المفلحون )البقرہ:۶( بھی متقیوں کے لئے آیا ہے یعنی اگر مظفر و منصور فتح مند ہونا ہو تو بھی متقی بنو-
یہ دن بھی ایک عظیم الشان متقی کی یادگار ہیں- اس کا نام ابراہیمؑ تھا- اس کے پاس بہت سے مویشی تھے‘ بہت سے غلام تھے اور بڑھاپے کا ایک ہی بیٹا تھا فلما بلغ معہ السعی قال یٰبنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تریٰ )الصافات:۱۰۳-( سو برس کے قریب کا بڈھا‘ ایک ہی بیٹا‘ اپنی ساری عزت‘ ناموری‘ مال‘ جاہ و جلال اور امیدیں اسی کے ساتھ وابستہ- دیکھو متقی کا کیا کام ہے- اس اچھے چلتے پھرتے جوان لڑکے سے کہا- میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کروں- بیٹا بھی کیسا فرمانبردار بیٹا ہے- قال یٰابت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللہ من الصٰبرین )الصافات:۱۰۳( اباجی! وہ کام ضرور کرو جس کا حکم جناب الٰہی سے ہوا- میں بفضلہ تعالیٰ صبر کے ساتھ اسے برداشت کروں گا- یہ ہے تقویٰ کی حقیقت- یہ ہے قربانی- قربانی بھی کیسی قربانی کہ اس ایک ہی قربانی میں سب ناموں‘ امیدوں‘ ناموریوں کی قربانی آ گئی-
جو اللہ کے لئے انشراح صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں اللہ بھی ان کے اجر کو ضایع نہیں کرتا- اس کے بدلے ابراہیم کو اتنی اولاد دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ابراہیم کی اولاد صحیح تعداد کی دریافت سے مستثنیٰ ہے- کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہوئیں- کیا کیا انعام الٰہی اس پر ہوئے کہ گننے میں نہیں آ سکتے- ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی ابراہیم کی اولاد سے ہوئے-
پھر اس کے دین کی حفاظت کے لئے خلفاء کا وعدہ کیا کہ انہیں طاقتیں بخشے گا اور ان کو مشکلات اور خوفوں میں امن عطا کرے گا- یہ کہانی کے طور پر نہیں- یہ زمانہ موجود‘ یہ مکان موجود‘ تم موجود‘ قادیان کی بستی موجود‘ ملک کی حالت موجود ہے- کس چیز نے ایسی سردی میں تمہیں دور دور سے یہاں اس مسجد میں جمع کر دیا؟ سنو! اسی دست قدرت نے جو متقیوں کو اعزاز دینے والا ہاتھ ہے- اس سے پہلے پچیس برس پر نگاہ کرو- تم سمجھ سکتے ہو کہ کون ایسی سخت سردیوں میں اس گائوں کی طرف سفر کرنے کے لئے تیار تھا- پس تم میں سے ہر فرد بشر اس کی قدرت نمائی کا ایک نمونہ ہے- ایک ثبوت ہے کہ وہ متقی کے لئے وہ کچھ کرتا ہے جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں ہوتا- یہ باتیں ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں- یہ قربانیوں پر موقوف ہیں- انسان عجیب عجیب خوابیں اور کشوف دیکھ لیتا ہے- الہام بھی ہو جاتے ہیں- مگر یہ نصرت حاصل نہیں کر سکتا- جس آدمی کی یہ حالت ہو وہ خوب غور کر کے دیکھے کہ اس کی عملی زندگی کس قسم کی تھی؟ آیا وہ ان انعامات کے قابل ہے یا نہیں؟ یہ مبارک وجود نمونہ ہے- اسے جو کچھ ملا ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس نے خدا وند کے حضور گزاریں- جو شخص قربانی نہیں کرتا جیسی کہ ابراہیمؑ نے کی اور جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کے لئے نہیں چھوڑتا تو خدا بھی اس کے لئے پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے-
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے مگر وہ خدا جس نے انا لننصر رسلنا و الذین اٰمنوا فی الحیٰوۃ الدنیا )المومن:۵۲( فرمایا اس نے سب پر فتح دی- صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا تم اپنے بھائیوں کا جتھا نہ چھوڑو- ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے- اس پر صحابہؓ سے ایک خطرناک آواز سنی اور وہ ہکا بکا رہ گیا- یہ حضرت نبی کریمﷺ~ کے اللہ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں نثار مرید ملے- اور وہ جو باپ بنتے تھے‘ جو تجربہ کار تھے‘ ہر طرح کی تدبیریں جانتے تھے‘ ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے- اور وہ خدا کے حضور قربانی کرنے والا متقی نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ خلفاء راشدین کے لئے بھی وعدہ لے لیا- چنانچہ فرمایا وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً )النور:۵۶-(
دنیا میں کئی نبی جن میں بعض کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور بعض کا نہیں‘ اپنے ساتھ خارق عادت نشان لے کے دنیا میں آئے‘ مگر ان محسنوں‘ ان ہادیوں کے لئے کوئی دعا نہیں کرتا بلکہ انہیں معبود سمجھ کر دعا کا محتاج ہی نہیں سمجھتے- یہ شرف صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہے کہ رات دن کا کوئی وقت نہیں گزرتا جس میں مومنوں کی ایک جماعت درد دل سے ]ksn [tag اللٰھم صل علیٰ محمد نہ پڑھ رہی ہو- زمین گول ہے اس لئے مغرب و عشائ‘ ظہر و عصر کا وقت یکے بعد دیگرے دن رات کے کسی نہ کسی حصہ میں کسی نہ کسی ملک پر ضرور رہتا ہے اور مسلمان سچے دل سے خاص رحمتوں کا نزول اپنے ہادی برحق کے لئے مانگتے ہیں- اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ آپ کے مدارج میں ہر آن ترقی دیتا ہے- آپ کو جو کتاب بخشی وہ کیسی محفوظ- پھر آپ کا دین کیسا محفوظ ہے کہ ہر صدی کے سر پر )یہ عام سنت جماعت کا مذہب ہے- بعض کے نزدیک ہر پچاس بلکہ پچیس برس کے بعد( اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو سچے راہوں کی طرف کھینچنے والے بھیجتا رہتا ہے تا کہ تم مخلص متقی بنو- اسلام دنیا سے اٹھ جائے گا‘ اس بات کا مجھے کبھی خطرہ نہیں ہوا- کیونکہ اس دین کا بھیجنے والا ’’سلام‘‘ ہے- پھر مکہ دارالسلام- پھر مدینہ دارالسلام فتنہ دجال سے- نبی کریمﷺ~ کے لئے بھی یعصمک من الناس )المائدہ:۶۸( آ چکا ہے- اس دین کا نتیجہ بھی دار السلام- پس اسلام ہر طرح سلامت رہے گا- فکر ہے تو یہ کہ ہم لوگوں میں سے نکل کر اوروں میں نہ چلا جائے-
اس کا طریق کونوا مع الصادقین )التوبہ:۱۱۹( ہے یعنی راستبازوں کے حضور میں رہنا‘ متقیوں کی جماعت میں شامل ہونا- پھر ہر سال میں دیکھنا کہ جیسے ہم ایک جانور پر جو ہماری ملک اور قبضہ میں ہے جزوی مالکیت کے دعوے سے چھری چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے مولیٰ کے حضور جو ہمارا سچا خالق ہے اور ہم پر پوری اور حقیقی ملکیت رکھتا ہے اپنی تمام نفسانی خواہشوں کو اس کے فرمانوں کے نیچے ذبح کر دینا چاہئے- قربانی کرنے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا گوشت اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس سے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی فرمانبرداری کا نظارہ مقصود ہے تا تم بھی قربانی کے وقت اس بات کو نظر رکھو کہ تمہیں بھی اپنی تمام ضرورتوں‘ اعزازوں‘ ناموریوں اور خواہشوں کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے- جس طرح ان جانوروں کا خون کراتے ہو ایسا ہی تم بھی خدا کی فرمانبرداری میں اپنے خون تک سے دریغ نہ کرو- انسان جب ایسا کرے تو وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا- دیکھو! ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا نام دنیا سے نہیں اٹھا- ان کی عزت و اکرام میں فرق نہیں آیا- پس تمہاری سچی قربانی کا نتیجہ بھی بد نہیں نکلے گا-
و لٰکن ینالہ التقویٰ )الحج:۳۸( تقویٰ خدا کو لے لیتا ہے- جب خدا مل گیا تو پھر سب کچھ اسی کا ہو گیا- معجزوں کی حقیقت بھی یہی ہے- جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو اس کو تمام ذرات عالم پر ایک تصرف ملتا ہے- اس کی صحبت میں ایک برکت رکھی جاتی ہے- اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ایک انسان کے اخلاق کا اثر دوسرے کے اخلاق پر پڑتا ہے- بعض طبائع ایسی بھی ہیں جو نیکوں کی صحبت میں نیک اور بدوں کی صحبت میں بد ہو جاتی ہیں- قرآن کریم میں ایسی فطرتوں کا ذکر آیا ہے سمٰعون للکذب سمٰعون لقوم اٰخرین )المائدہ:۴۲-( بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہمارے پاس بیٹھ کر ہماری باتوں کو پسند کرتے ہیں- جب دوسروں کے پاس جا بیٹھتے ہیں تو پھر ان کی باتیں قبول کر لیتے ہیں- ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متقیوں کی صحبت میں رہیں اور وقت نہ ملے تو استغفار‘ لاحول اور دعا کریں- دعا کی حقیقت سے لوگ کیسے بے خبر ہیں-
افسوس ہے میں تمہیں کیا سنائوں- سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایمان ثریا پر چلا جائے گا- دو مولویوں کا ذکر سناتا ہوں- ایک مولوی میرے پاس بڑے اخلاص و محبت سے بہت دن رہا- آخر ایک دن مجھے کہا- معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاسکوئی تسخیر کا عمل ہے جو آسائش کی تمام راہیں آپ کے لئے کھلی ہیں اور اتنی مخلوق خدا آپ کے پاس آتی ہے- میں نے کہا عمل تسخیر کیا ہوتا ہے؟ خدا نے تو فرما دیا کہ سخر لکم ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض )لقمان:۲۱( سارا جہاں تمہارے لئے مسخر ہے- اس سے بڑھ کر اور کیا تسخیر ہو سکتی ہے- انسان کو چاہئے کہ دعا کرے- دعا کی عادت ڈالے- اس سے کامیابیوں کی تمام راہیں کھل جائیں گی- میری یہ بات سنکر وہ ہنس دیا اور کہا- یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں- کوئی عمل تسخیر بتلائو-
ایک اور مولوی تھا- اس نے مجھ سے مباحثہ چاہا- میں نے اسے سمجھایا تم لوگوں کی تعلیم ابتدا ہی سے ایسی ہوتی ہے کہ ایک عبارت پڑھی اور پھر اس پر اعتراض- پھر اس اعتراض پر اعتراض- اسی طرح ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے- اس سے کچھ اس قسم کی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی کے سمجھانے سے کچھ نہیں سمجھتے- میں تمہیں ایک راہ بتاتا ہوں- بڑے اضطراب سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو- اس نے بھی یہی کہا کہ یہ تو جانتے ہیں-
غرض دعا سے لوگ غافل ہیں- حالانکہ دعا ہی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے- دیکھو قرآن شریف کی دعا بھی دعا ہی سے ہوتی ہے- انسان بہت دعائیں کرنے سے منعم علیہ بن جاتا ہے- دکھی ہے تو شفا ہو جاتی ہے- غریب ہے تو دولتمند- مقدمات میں گرفتار ہے تو فتحیاب- بے اولاد ہے تو اولاد والا ہو جاتاہے- نماز روزہ سے غافل ہو تو اسے ایسا دل دیا جاتا ہے کہ خدا کی محبت میں مستغرق رہے- اگر کسل ہے تو اسے وہ ہمت دی جاتی ہے جس سے بلند پروازی کر سکے- کاہلی سستی ہے تو اس سے یہ بھی دور ہو جاتی ہے- غرض ہر مرض کی دوا ہر مشکل کی مشکل کشا یہی دعا ہے- اسباب کو مہیا نہ کر سکنا یہ عجز ہے اور مہیا شدہ اسباب سے کام نہ لینا یہ کسل ہے- اس کے لئے دعا سکھلائی گئی اللٰھم انی اعوذبک من العجز و الکسل )بخاری کتاب الدعوات-( جب انسان منعم علیہ بن جائے اور اسے آسودگی ملے بلحاظ اپنے مال کے‘ اپنی قوت کے‘ اپنی اولاد کے‘ اپنی عزت و جبروت کے‘ اپنے علم و معرفت کے‘ تو پھر کبھی کبھی اعمال بد کا نتیجہ یہ ہو جاتا ہے کہ غضب آ جاتا ہے- وہ اپنی آسودگی کو اپنی تدابیر کا نتیجہ سمجھ کر انہی تدابیر کو معبود بنا لیتا ہے اور برے عملوں میں پڑ جاتا ہے- اس لئے دعا سکھائی گئی کہ غیر المغضوب علیھم و لا الضالین )الفاتحہ:۷( میں منعم علیہ بن کر تیرا مغضوب نہ بنوں- مغضوب کی دو علامات ہیں- )۱( علم ہو عمل نہ کرے- )۲( کسی سے بے جا عداوت رکھے- ضالین وہ بھولا بھٹکا انسان جو کسی سے بے جا محبت کرے اور سچے علوم سے بے خبر ہو- پس انسان کو چاہئے کہ یہ دعا کرے کہ )اللہ اسے( اپنا منعم علیہ بنا لے مگر ان انعام کئے گیوں )میں( سے کہ جن پر نہ تیرا غضب کیا گیا ہو‘ نہ وہ بھولے بھٹکے ہوں-
قرآن کی انتہا دعا پر ہے قل اعوذ برب الناس )الناس:۲-( اول البشر آدمؑ نے بھی دعا کی ربنا ظلمنا انفسنا )الاعراف:۲۴( ہمارے نبی کا آخری کلام بھی دعا ہی ہے اللٰھم الحقنی بالرفیق الاعلیٰ )بخاری کتاب المراضی باب مرض النبی و وفاتہ-( جو لوگ دعا کے ہتھیار سے کام نہیں لیتے وہ بدقسمت ہیں- امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعائوں سے بے خبر ہیں- امن یجیب المضطر اذا دعاہ )النمل:۶۳( سے پتہ ملتا ہے کہ اگر یہ لوگ اضطراب سے‘ تڑپ سے‘ حق طلبی کی نیت سے‘ تقویٰ کے ساتھ دعائیں کرتے کہ الٰہی! اس زمانہ میں کون شخص تیرا مامور ہے تو میں یقین نہیں کر سکتا کہ انہیں خدا تعالیٰ ضائع کرتا- میں کبھی کسی مسئلہ اختلافی سے نہیں گھبرایا کہ میرے پاس دعا کا ہتھیار موجود ہے اور وہ دعا یہ ہے- اللٰھم فاطر السمٰوٰت و الارض عالم الغیب و الشھادۃ انت تحکم بین عبادک فی ما کانوا فیہ یختلفون )الزمر:۴۷( اور حدیث اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الیٰ صراطمستقیم )ترمذی کتاب الادب-( سچا تقویٰ حاصل کرنے کے لئے بھی دعا ہی ایک عمدہ راہ ہے- پھر قرآن کریم کا مطالعہ- اس میں متقیوں کی صفات اور راستبازوں کی صفات موجود ہیں- اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے - فہم و فراست بخشے- یاد رکھو کہ پاک اخلاق ایک نعمت ہے- اس سے انسان کا اپنا دل خوش رہتا ہے- بی بی نیک ملے تو سارے گھر میں خوشی رہتی ہے- اولاد نیک ہو تو پیچھے بھی آرام رہتا ہے- یہ سب دعا سے ملتا ہے- قوم میں اخلاص و محبت سے پیش آئو- حسن ظن سے کام لو- اٰمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر بنو- دعا کرو کہ خدا راستبازوں کے ساتھ زندہ رکھے- انہی کے ساتھ ہمارا حشر کرے- اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو اپنا انعام کیا‘ مسیح موعودؑ‘ اس کی اتباع‘ فرمانبرداری‘ اس کی موجودگی نعمت سمجھو- بہت سی مخلوق آئے گی جو پچھتائے گی کہ ہم کیوں اس کے زمانے میں اس کے فرمانبردار نہ ہوئے- اخلاص و محبت سے زندگی بسر کرو اور دعا کرتے رہو- یہ دعا کا ہتھیار دنیا کی تمام قوموں سے چھین لیا گیا ہے- یہ ہتھیار تمہارے قبضے میں ہے‘ اس سے مسلح ہو جائو- دوسرے سب اس سے محروم ہیں- دنیا چند روزہ جگہ ہے- ہمیشہ ساتھ نہیں رہے گی- دنیا کی صحت‘ دنیا کی محبت‘ دنیا کی عزت‘ اس کے دشمن اور دوست سب یہیں رہ جائیں گے- صرف اللہ کی رضامندی اور عمل صالح تمہارے ساتھ جائیں گے-
قربانی کے لئے نبی کریم کو وہ نر بکرے پسند تھے‘ جن کے منہ اور پائوں میں سیاہی ہو- والا خصی کا ذبح بھی شرعاً جائز ہے- جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے- ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے- علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی-
مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے- ضروری بات ہے تو یہ ہے کہ انسان ان سب باتوں میں تقویٰ کو مدنظر رکھے اور قربانی کی حقیقت سمجھے- دو چار روپے کا جانور ذبح کر دینا قربانی نہیں- قربانی تو یہ ہے کہ خود اپنے نفس کی اونٹنی کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے ذبح کر دے-
) بدر جلد۷ نمبر۳ ۔۔۔۔ ۲۳ / جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ تا ۱۰ (
* ۔ * ۔ * ۔ *
‏KH1.23
خطبات|نور خطبات|نور
۱۷ / فروری ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ






خطبہ نکاح
) حضرت حکیم الامت نے صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ۱۷ / فروری ۱۹۰۸ء کو ۵۶|ہزار )روپیہ( مہر پر نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے مسجداقصیٰ میں پڑھا- ) ایڈیڑ (
الحمد للٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ- اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
نکاح نام ہے اس تقریب کا جب کسی عورت یا لڑکی کا کسی مرد کے ساتھ رشتہ یا عقد کیا جاتا ہے- اس میں اولاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی دیکھ لی جاتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہے یا نہیں؟ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ضابطہ اور عملدرآمد کے موافق ہے یا نہیں؟ پھر لڑکیوں کے ولی کی رضامندی ضروری ہے- اگر ولی رضامند نہ ہوں اور پھر کوئی نکاح ہو تو ایسے نکاح بدیوں میں مل جاتے ہیں اور ان کے نتائج خراب اور ناگوار ہوتے ہیں- ایسا ہی لڑکوں اور لڑکیوں کی رضامندی بھی ضروری ہے- ان پانچ رضامندیوں کے بعد گویا نکاح ہوتا ہے اور اگر ان میں کسی ایک کی بھی نارضامندی اور مخالفت ہو تو پھر اس میں مشکلات پیدا ہوتے ہیں- یہ پانچ رضامندیاں کیا ہیں؟ حق سبحانہ تعالیٰ کی اجازت- یعنی ان رشتوں میں )سے( نہ ہو جن کی ممانعت کی گئی ہے- مہبط وحی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عملدرآمد- ولیوں اور طرفین کی رضامندی کے بعد جب ایک فریق منظور کرتا ہے اور دوسرا اس کو قبول کرتا ہے تو یہ نکاح ہوتا ہے- قسم قسم کی بدیوں اور شرارتوں کو روکنے کے لئے اعلان اور خطبہ نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی- اعلان نکاح میں دوست دشمن کو خبر ہو جاتی ہے اور اس سے جہاں ایک دوسرے کی غلطیوں سے آگاہی ہو جاتی ہے وہاں وراثتوں اور جائدادوں کے جھگڑوں میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوتی-
اور خطبہ کے کئی اغراض ہیں- ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ عربی زبان کی حفاظت- سو یہ زبان ایسی زبان ہے جس کے ساتھ دین‘ رسول اور قوم رسول کا تعلق ہے- خدا تعالیٰ کی کتاب اسی زبان میں ہے- اس کتاب کی حفاظت کے مختلف سامان اور ذریعے ہیں- ان میں سے ایک اس زبان کی حفاظت بھی ہے- اس لئے اس کو مسلمانوں کے تمام عظیم الشان کاموں سے تعلق ہے- ان کے دینی عظیم الشان کام نماز‘ اقرار باللسان‘ حج‘ روزہ‘ زکٰوۃ ہیں- سوشل معاملات میں نکاح سب سے بڑا کام ہے- تمدنی امور میں تجارت‘ زراعت بھی اعلیٰ کام ہیں-
ان سب امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم‘ صحابہ‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ ائمہ دین‘ اولیاء امت‘ سلف صالحین اور حضرت امام الزمان نے کچھ نہ کچھ الفاظ عربی زبان کے لازمی قرار دیئے ہیں- مثلاً اقرارباللسان میں لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
امام صاحب جب بیعت لیتے ہیں تو بہت سے عربی الفاظ بیان فرماتے اور معاہدہ لیتے ہیں- عربی کے الفاظ کی سنت متوارثہ کو مجددالوقت نے بیعت کے الفاظ اور معاہدات میں لازم رکھا ہے- عورتوں کی بیعت میں بھی میں نے سنا ہے ایسا ہی کرتے ہیں اور مردوں کی بیعت میں تو دیکھا ہے-
اقرار باللسان کے بعد اعلیٰ شان کی چیز نماز ہے- اگر کسی نے ضائع کی تو اس نے اپنا دین ضائع کیا- اور سچ تو یہ ہے کہ کفر اور اسلام کا تفرقہ اسی میں واقع ہوا ہے- اس کا سارا ہی حصہ دیکھ لو- سوائے اس حصہ کے جو انسانی ضرورتوں‘ حاجتوں اور مشکلات کے لئے دعائوں کا ہے‘ اس کے لئے امام نے اجازت دی ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں مانگ لو- اور اس سے پہلے امام ابوحنیفہ~رح~ نے بھی اجازت دی ہے- مگر پھر بھی اگرچہ ضرورتاً اپنی زبان میں دعائوں کی اجازت تو دی ہے لیکن مسنون دعائوں کے ساتھ عربی کو ضائع نہیں کیا- یہ اجازت نہیں دی کہ نماز اپنی زبان میں پڑھو- ایسا ہی حج میں لبیک اللٰھم لبیک لاشریک لک )بخاری کتاب الحج باب التلبیہ( وغیرہ کلمات عربی میں ہیں- جمعہ کے خطبے‘ عیدین کے خطبے تم نے سنے ہیں- ایک حصہ عربی میں ہوتا ہے- اسی طرح روزہ کے متعلق جو دعائیں ہیں وہ عربی میں ہیں- اسی طرح ہر ایک کام میں یہاں تک کہ بول و براز کے وقت کے لئے بھی ایک حصہ عربی کا رکھا ہے- ایسا ہی خطبہ نکاح جو جوانوں‘ بڈھوں کے لئے لازمی ہے‘ اس میں بھی عربی کا ایک حصہ رکھا ہے- بنوامیہ نے عربی زبان کی وسعت اور حفاظت میں بڑی کوشش کی کہ انہوں نے اپنی سلطنت میں اس کو مادری زبان بنا دیا یہاں تک کہ الجزائر‘ مراکش‘ فارس میں اس کو مادری زبان ہی بنا دیا- مشرق میں البتہ یہ دقت رہی کہ درباری زبان فارسی کو بڑھاتے بڑھاتے اصل زبان کا درس تدریس مشرق سے مفقود ہو گیا- میں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اگر عام مسلمان اور خاص کر ہمارے امام کی جماعت روزمرہ کے کاموں کے عربی الفاظ کو یاد کر لے تو اسے قرآن شریف کا ایک حصہ یاد ہو جاوے- لیکن افسوس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرف بہت کم توجہ ہے اور جو یہاں رہتے ہیں وہ بھی پوری توجہ نہیں کرتے- لغات القرآن جو یہاں چھپی ہے ایک مفید اور عمدہ کتاب ہے‘ جو بڑی محنت سے لکھی گئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ حضرت امامؑ نے بھی اس کی تعریف کی ہے- لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی- اس کتاب سے فائدہ اٹھایا جاوے تو قرآن شریف کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے-
غرض قرآن مجید کی حفاظت کا ایک ذریعہ عربی زبان کی حفاظت بھی ہے اور اس کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہئے اور خصوصاً ہماری جماعت کو بہت متوجہ ہونا چاہئے-
میں نے اس نکاح کی تقریب پر اسی سنت متوارثہ پر عمل کرنے کے لئے عربی زبان میں خظبہ پڑھا ہے- مگر طرفین ہی ایسے ہیں کہ نہ خطبہ سننے کی ضرورت‘ نہ کہنے کا موقع- ایک طرف حضرت امام علیہ الصلوٰۃ|والسلام ہیں- ان کو ہم سنانے نہیں آئے بلکہ ان سے سننے آئے ہیں- پس اگر میں تصریح کروں تو میرا نفس مجھے ملامت کرتا ہے- ہاں جو کچھ میں عرض کروں گا یا کہا ہے یہ محض حضرت امامؑ کے حکم کی تعمیل ہے- عربی زبان کی تائید میں اس لئے کہا ہے کہ اس متوارث سنت کو تمہارے کانوں تک پہنچائوں جس سے رسول کی زبان محفوظ رہے اور تم قرآن کریم کی ارفع‘ اطیب زبان میں ترقی کرو-
اب اس کے بعد میں ان کلمات کا آسان ترجمہ سناتا ہوں جو ابھی میں نے پڑھے ہیں-
اللہ جلشانہ چونکہ رب ہے اور بے مانگے اس نے نعمتیں دی ہیں اور پھر مقدرت‘ قوت اور استطاعت بھی اس نے دی ہے اور اس امکان سے جو لیمکنن میں وعدہ دیا ہے اس قدرت سے جو پاک نتیجے مترتب ہوں اس کے فضل سے ہوتے ہیں- ہاں اسی کے فضل سے ہوتے ہیں- اس کی ربوبیت|عامہ‘ رحم‘ فضل وسیع اور بلامبادلہ ہے اور وہ رحم جو بالمبادلہ ہے وہ مالکیت چاہتی ہے- ان سب نوازشوں اور مہربانیوں پر نگاہ کر کے بے اختیار دل سے نکلتا ہے الحمد للٰہ یعنی سب تعریف اللہ|تعالیٰ ہی کے لئے ہے- مومن تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے- کیا بلحاظ اس کے کہ اس کو پیدا کیا ہے- اور یہ ایک عظیم الشان انعام انسان پر ہے کیونکہ ساری خوشیاں اور خوشحالیاں اس کے بعد ملتی ہیں کہ پیدا ہو- پھر پیدا بھی اپنے رب کے ہاتھ سے ہوا جو بتدریج کمالات تک پہنچاتا ہے- چونکہ وہ فی|الواقعہ حمد کا مستحق ہے اس لئے ہم بھی نحمدہ کہتے ہیں- یعنی ہم بھی ایسے رب کی حمد میں دلی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں- بہت سی وجوہات ہیں جو ہم پر حمد الٰہی کو فرض ٹھہراتے ہیں- منجملہ جناب|الٰہی کی حمدوں کے یہ ہے کہ انسان کا حوصلہ ایسا وسیع نہیں کہ وہ ساری دنیا سے تعلق رکھے اور محبت کر سکے- نبیوں اور رسولوں کو بھی جب تباہ کار‘ سیہ روزگار شریروں نے دکھ دیا تو آخر ان میں سے ایک بول اٹھا رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً )نوح:۲۷-( فی الحقیقت ان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شریر نفوس کی حیاتی بھی پسند نہیں کرتے- اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کا اتنا حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ سارے جہان سے اس کا مخلصانہ تعلق ہو- پس اس سلسلہ کو وسیع کرنے کے باوجود محدود کرنے کے لئے نکاح کا ایک طریق ہے جس سے ایک خاندان اور قوم میں ان تعلقات کی بناء پر رشتہ|اخلاص اور محبت پیدا ہوتا ہے-
نکاح میں جو تعلق خسر کو داماد سے ہوتا ہے یا فرزندانہ تعلقات داماد کو خسر سے ہوتے ہیں وہ دوسرے کو نہیں ہوتے- یہ سچی بات ہے کہ وہ تعلق جو صلبی اولاد اور داماد کے ساتھ ہو سکتا ہے اس میں سارا جہان کبھی شریک نہیں ہو سکتا- مگر اللہ تعالیٰ نے شعوب اور قبائل بنائے ہیں اور قوم در قوم بنا کر محبت کے تعلق اور سلسلہ کو وسیع کر دیا ہے- اسی لئے جو لوگ نکاح نہیں کرتے احادیث میں ان کو بطال کہا گیا ہے کیونکہ ان کے تعلقات نوع انسان کے ساتھ سچے تعلقات نہیں ہو سکتے- مگر جن کے تعلقات سچے اور اسلام پر مبنی ہیں وہ جانتے ہیں کہ رشتہ کے سبب سے مخفی در مخفی محبت کا تعلق بڑھتا جاتا ہے- اور پھر اولاد کی وجہ سے یہ تعلقات اور بھی بڑھتے ہیں اور اس طرح پر یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے- ایسا ہی رنج‘ مصیبت میں یار‘ غمگسار اور ایسے احباب کی ضرورت ہے
جو اس میں شریک ہو کر اسے کم کریں- ان صورتوں میں اس قسم کے تعلقات اور روابط مفید ہیں- ان ساری باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پھر بے اختیار نحمدہ کہتے ہیں-
اس حمد کے بھی مختلف رنگ ہیں- یہاں ہی دیکھو کہ کچھ لڑکے ہیں- وہ صرف اسی لئے جمع ہیں کہ کچھ چھوہارے ملیں گے- ان کا الحمد اپنے ہی رنگ کا ہے- یہ بھی ایک مرتبہ ہے اور عوام اور بچوں کا یہیں تک علم ہے- ایک وہ ہیں جنہوں نے الحمد ہی سے نبوتوں کو ثابت کیا اور مذاہب|باطلہ کا رد کیا ہے- تین مرتبہ میں نے حضرت صاحب کی تفسیر الحمد پڑھی ہے- ایک براہین میں‘ پھر کرامات میں اور پھر اعجاز المسیح میں- اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ الحمد کا اعلیٰ مقام وہ ہے جہاں یہ پہنچے ہیں- یہ بھی الحمد کے ایک معنے ہیں اور ایک متوسط لوگ ہیں- میں بھی ان میں ہی ہوں- یہ اپنے رنگ میں الحمد کے معنے سمجھتے ہیں اور ان کی حمد اپنے رنگ کی ہے- یہاں ناطے رشتے ہوتے ہیں اور ان تقریبوں پر مجھے حضرت امامؑ کے حکم سے موقع ملتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں- اس لئے میں اس فضل پر ہی حمد الٰہی کرتا ہوں- میں یوں تو عجیب عجیب رنگوں میں حمد کرتا ہوں مگر اس وقت کے حسب حال یہی وجہ ہے جو میں نے بیان کی ہے اور یہ معمولی فضل نہیں ہے مگر یہ توفیق اور فضل اللہ ہی کی مدد سے ملتا ہے- اس لئے نستعینہ ہم اسی کی مدد چاہتے ہیں- خداتعالیٰ کی مدد ہی شامل حال ہو تو بات بنتی ہے ورنہ واعظ میں ریائ‘ سمعت‘ دنیاطلبی پیدا ہو سکتی ہے- اور وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو اپنا معبود اور محبوب بنا لیتا ہے جب اس کے دل میں مخلوق سے اپنے کلام اور وعظ کی داد کی خواہش پیدا ہو- واعظ کے لئے یہ امر سخت مہلک ہے- پس میں خدا کی حمد کرتا ہوں اور اسی کے فضل سے حمد کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل‘ ہاں اپنے فضل ہی سے مجھے مخلوق سے مستغنی کر دیا ہے-
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کب ملتی ہے؟ یہ مدد اس وقت ملتی ہے جب انسان میں بدی نہ ہو- بدکار ایک وقت نیکی بھی کر سکتا ہے مگر نیکی اور بدی کی میزان اور ہر ایک کی کثرت اور قلت اسے نیک یا بد ٹھہراتی ہے- نیکیاں بہت ہوں تو نیک اور بدیاں زیادہ ہوں تو بدکار کہلاتا ہے- بدی چونکہ بدی ہے اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اس لئے جب حمدالٰہی کی توفیق اور جوش پیدا نہ ہو یا اللہ|تعالیٰ کی مدد اور نصرت نہ ملے تو ایسی حالت میں ڈرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ بدیاں بڑھ گئی ہیں- اس کا علاج کرنا چاہئے اور وہ علاج کیا ہے؟ استغفار- اس لئے فرمایا ]ksn [tag نستغفرہ- اللہ تعالیٰ کے وسیع قانون اور زبردست حکم اس قسم کے ہیں کہ انسان بعض بدیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے بڑے بڑے فضلوں سے محروم رہ جاتا ہے- جب انسان کوئی غلطی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کسی حکم اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل اور انعام سے محروم کیا جاتا ہے- اس لئے اس محرومی سے بچانے کے لئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو- استغفار انبیاء علیہم السلام کا اجماعی مسئلہ ہے- ہر نبی کی تعلیم کے ساتھ استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ )ھود:۴( رکھا ہے- ہمارے امام کی تعلیمات میں جو ہم نے پڑھی ہیں استغفار کو اصل علاج رکھا ہے-
استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمداً ہوں یا سہواً‘ غرض ما قدم و ما اخر جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے‘ اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو ما اعلم و ما لا اعلم کے نیچے رکھ کر آئندہ کے لئے غلط کاریوں کے بدنتائج اور بداثر سے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان بدیوں کے جوش سے محفوظ فرما- یہ ہیں مختصر معنی استغفار کے-
پھر ایک اور بات بھی قابل غور ہے- حضرت امامؑ نے اس زمانہ کو امن کے لحاظ سے نوح کا زمانہ کہا ہے- حضرت نوحؑ نے جب اپنی قوم کو وعظ کیا اور خدا تعالیٰ کا پیغام اسے پہنچایا تو کیا کہا؟ استغفروا ربکم انہ کان غفاراً- یرسل السماء علیکم مدراراً- و یمددکم باموال و بنین و یجعل لکم جنٰت و یجعل لکم انھاراً )نوح:۱۱تا۱۳-(
استغفار کے برکات اور نتائج ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام نے انسانی ضروریات کی جہت سے بیان فرمائے ہیں- غور کر کے دیکھ لو کیا انسان کو انہیں چیزوں کی ضرورت دنیا میں نہیں ہے؟ پھر ان کے حصول کا علاج استغفار ہے-
امن کے زمانہ میں چیزوں میں گرانی ہوتی ہے اور یہ امن کے لئے لازمی امر ہے- نادان کہتا ہے ایک وقت روپیہ کا من بھر گیہوں ہوتا تھا اور پانچ سیر گھی- وہ نہیں سمجھتا کہ وہ امن کا زمانہ نہ تھا- اس لئے تبادلہ تجارت کے لئے لوگ گھر سے مال نکال نہ سکتے تھے- اور جب امن ہوتا ہے تو تبادلہ اشیاء کی وجہ سے اموال بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی فضولیاں بھی بڑھتی ہیں-
غرض استغفار ایسی چیز ہے جو انسان کی تمام مشکلات کے حل کے لئے بطور کلید ہے- اس لئے خداتعالیٰ کی حمد اور اس کی استعانت کے لئے استغفار کرو- مگر استغفار بھی اس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو- اس لئے فرمایا- و نومن بہ اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے- وہ اپنی ذات میں‘ اپنی صفات میں‘ اسماء اور محامد اور افعال میں وحدہ لاشریک ہے- وہ اپنی ذات میں یکتا‘ صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لیس کمثلہ شی )الشوری:۱۲( اور بے نظیر ہے- اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی رضامندی اور نارضامندی کی راہوں کو ظاہر کرتا رہا ہے اور ملائکہ کے ذریعہ اپنا کلام پاک اپنے نبیوں اور رسولوں کو پہنچاتا رہا ہے- اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں میں آخری کتاب قرآن شریف ہے جس کا نام فضل‘ شفائ‘ رحمت اور نور ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو خاتم النبیین ہیں اور اب کوئی نبی اور رسول آپﷺ~ کے سوا نہیں ہو سکتا- اس وقت بھی جو آیا وہ آپ کا خادم ہو کر آیا ہے- اللہ تعالیٰ پر ایمان کا یہ خلاصہ ہے-
ایمان باللہ جب کامل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو‘ اس لئے یہ تعلیم دی و نتوکل علیہ اور ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں- توکل سے یہ مطلب ہے کہ ہم میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ|تعالیٰ نے جو چیزیں جس مطلب اور غرض کے لئے بنائی ہیں وہ اپنے نتائج اور ثمرات اپنے ساتھ ضرور رکھتی ہیں- اس لئے اس پر ایمان ہونا چاہئے کہ لابد ایمان کے ثمرات اور نتائج ضرور حاصل ہوں گے اور کفر اپنے بدنتائج دیئے بغیر نہ رہے گا- انسان بڑی غلطی اور دھوکا کھا جاتا ہے جب وہ اس اصل کو بھول جاتا ہے- اعمال اور اس کے نتائج کو ہرگز ہرگز بھولنا نہیں چاہئے- سعی اور کوشش کو ترک نہیں کرنا چاہئے-
یہ سب کچھ بھی ہو مگر اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں پر پوری اطلاع نہیں رکھتا اور اندرونی بدیوں میں ایسا مبتلا ہو جاتا ہے جو حبط اعمال ہو جاتا ہے اور اصل مقصد سے دور جا پڑتا ہے- شیطان انسان کو عجیب عجیب راہوں سے گمراہ کرتا ہے اور نفس ایسے دھوکے دیتا ہے اس لئے یہ تعلیم دی نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا )مسلم- ترمذی کتاب النکاح باب خطبۃ النکاح( یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں- بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے جو ساری قوتوں اور قدرتوں کا مالک ہے اور ہر نقص سے پاک اور ہر کامل صفت سے موصوف ہے- کس بات سے پناہ چاہتے ہیں؟ nsk] gat[ من شرور انفسنا انسان کی اندرونی بدیاں اور شرارتیں اس کو ہلاک کر دیتی ہیں- مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا ہے اور ترک عفت کرتا ہے- بدنظری اور بدکاری کا مرتکب ہو جاتاہے- رحم کو چھوڑتا ہے اور غضب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی قناعت کو جو سچی خوش حالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے‘ چھوڑ کر حرص و طمع کا پابند ہوتا ہے- غرض یہ نفس کا شر عجب قسم کا شر ہے- اس کے پنجہ میں گرفتار ہو کر انسان بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی بنا لیتا ہے اور ہر شخض کو اس کے حسب حال دھوکا دیتا ہے- مولویوں کو ان کے رنگ میں اور میرے جیسے انسان کو اپنے رنگ میں- غرض عجیب عجیب امتحان ہوتے ہیں- تعوذ ایسا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو تعوذ پر ختم فرمایا ہے- اس لئے کبھی اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے-
نفس کا شر اور اعمال کا شر اس کے بدنتائج ہوتے ہیں- اگر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان نہ آجاوے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور پھر کوئی اسے بامراد نہیں کر سکتا اور نہ بچا سکتا ہے- اسی طرح اخلاص اور نیکی کے ثمرات نیک ہوتے ہیں- ایسے شخص کو جب وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا- اس لئے فرمایا من یھدہ اللہ فلامضل لہ و من یضللہ فلاھادی لہ-
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے- و نشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و نشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
یہ خلاصہ اور اصل عظیم الشان اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنا معبود‘ محبوب اور مطاع نہ بنائو- اور زبان‘ آنکھ‘ کان‘ ہاتھ‘ پائوں غرض کل جوارح اور اعضاء اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہوں- کوئی خوف اور امید مخلوق سے نہ ہو-
اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں اور اس کے حکم کے مقابل کسی اور حکم کی پروا نہ کریں- فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے- ایک طرف قوم اور رسم و رواج بلاتا ہے‘ دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے- اگر قوم اور رسم و رواج کی پروا کرتا ہے تو پھر اس کا بندہ ہے- اور اگر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہے اور یہی عبودیت ہے- قرآن مجید نے اسلام کی یہی تعریف کی ہے من اسلم وجھہ للٰہ و ھو محسن )البقرہ:۱۱۳-( سچی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے- اس کی آرزوئیں اور امیدیں‘ اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں- میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا‘ چلنا پھرنا‘ سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے-
خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور رضامندی کی راہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں- چونکہ ہر شخص کو مکالمہ الہیہ کے ذریعہ الٰہی رضامندیوں کی خبر نہیں ہوتی‘ اگر کسی کو ہو بھی تو اس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی وحی کی ہوتی ہے اور خصوصاً سرورانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی کہ جس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں- اس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں اور وہی مقتدا اور مطاع ہیں- پس ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے نیچے ہو-
اس کے بعد میں نے کچھ آیتیں پڑھی ہیں- ان میں عام لوگوں کو نصیحت ہے کہ نکاح کیوں ہوتے ہیں اور نکاح کرنے والوں کو کن امور کا لحاظ رکھنا چاہیئے؟
مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے معدوم سے بنایا ہے اور یہ شان ربوبیت ہے- نکاح بھی ربوبیت کا ایک مظہر ہے- اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ )النسائ:۲-(
یہ ایک سورۃ کا ابتداء ہے- اس سورۃ میں معاشرت کے اصولوں اور میاں بیوی کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے- یہ آیتیں نکاح کے خطبوں میں پڑھی جاتی ہیں اور غرض یہی ہوتی ہے کہ تا ان حقوق کو مدنظر رکھا جاوے- اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے یٰایھا الناس سے شروع فرمایا ہے- الناس جو انس سے تعلق رکھتا ہے تو میاں بیوی کا تعلق اور نکاح کا تعلق بھی ایک انس ہی کو چاہتا ہے تا کہ دو اجنبی وجود متحد|فی الارادہ ہو جائیں- غرض فرمایا- لوگو! تقویٰ اختیار کرو- اپنے رب سے ڈرو- وہ رب جس نے تم کو ایک جیسے بنایا اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں- خلق منھا زوجھا سے یہ مراد ہے کہ اسی جنس کی بیوی بنائی-
اس آیت میں اتقوا ربکم جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی اصل غرض ’’تقویٰ‘‘ ہونی چاہئے اور قرآن مجید سے یہی بات ثابت ہے- نکاح تو اس لئے ہے کہ ’’احصان‘‘ اور ’’عفت‘‘ کی برکات کو حاصل کرے- مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ وہ دولتمندی‘ حسن و جمال اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا علیک بذات الدین )بخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین-( بہت سے لوگ خدوخال میں محو ہوتے ہیں جن میں جلدتر تغیر واقع ہو جاتا ہے- ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہی نہیں رہتا- مگر عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ عمر اور حوادث کے ماتحت خدوخال میں تغیر ہوتا رہتا ہے اس لئے یہ ایسی چیز نہیں جس میں انسان محو ہو- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کی اصل غرض تقویٰ بیان فرمائی- دیندار ماں باپ کی اولاد ہو- دیندار ہو- پس تقویٰ کرو اور رحم کے فرائض کو پورا کرو- میں تمہارے لئے نصیحتیں کرتا ہوں- یہ تعلق بڑی ذمہ داری کا تعلق ہے- میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے نکاح جو اغراض حب پر ہوتے ہیں ان سے جو اولاد ہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی جو اس کی روح اور زندگی کو بہشت کر کے دکھائے- ان ساری خوشیوں کے حصول کی جڑ تقویٰ ہے اور تقویٰ کے حصول کے لئے یہ گر ہے کہ اللہ|تعالیٰ کے ’’رقیب‘‘ ہونے پر ایمان ہو- چنانچہ فرمایا- ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۲( جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے بچو گے-
دوسری آیت یہ ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱-( اس میں بھی اللہ تعالیٰ تقویٰ کی ہدایت فرماتا ہے اور ساتھ ہی حکم دیتا ہے کہ پکی باتیں کہو- انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گاہے مومن اور گاہے کافر بنا دیتی ہے- معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے- اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکا لو خصوصاً نکاحوں کے معاملہ میں- اس معاملہ میں پوری سوچ بچاراور استخاروں سے کام لو اور پھر مضبوطی سے اسے عمل میں لائو- جب تم پوری کوشش کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا یصلح لکم اعمالکم )الاحزاب:۷۲( تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جائیں گے- تمہاری غلطی کو جناب الٰہی معاف کر دیں گے- کیونکہ جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ وار اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے- اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے- ان معاملات نکاح میں عجیب در عجیب کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور دھوکا دیا جاتا ہے- خدا تعالیٰ ہی کا فضل ہو تو کچھ آرام ملتا ہے- ورنہ چالاکی سے کام کیا ہو اور دنیا میں بہشت نہ ہو-۱~}~ پھر فرمایا ہے- بہت لوگ پاس ہونے کے لئے تڑپتے ہیں- وہ یاد رکھیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مطیع ہوتا ہے وہ ہی حقیقی بامراد ہوتا اور یہی حقیقی پاس ہے-
پھر اس معاملہ میں تیسری آیت یہ ہے- یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد )الحشر:۱۹-(
اس تیسری آیت میں بھی تقویٰ کی تاکید ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا؟ جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں- اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہو گا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا- لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمرثمرات|حسنہ بنا دیتا ہے- یہ سب باتیں تقویٰ سے حاصل ہوتی ہیں-
۱~}~ نقل مطابق اصل
اس وقت جو مجمع ہے میں اس کی خوشی کا اظہار کروں تو بعض نادان بدظنی کریں گے مگر بدظنیاں تو ہوتی ہی ہیں مجھے ان کی پروا نہیں اور میں کسی رنگ میں مخلوق کی پروا کرنا اپنے ایمان کے خلاف یقین کرتا ہوں- یہ امر اخلاص اور اسلام کے خلاف ہے- پس میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ اس تقریب کی وجہ سے مجھے بہت ہی خوشی ہے اور کئی رنگوں میں خوشی ہے- نواب محمد علی خاں میرے دوست ہیں- یہ نہ سمجھو کہ اس وجہ سے دوست ہیں کہ وہ خانصاحب یا نواب صاحب یا رئیس ہیں- میں نے کسی دنیوی غرض کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفہ کے لئے کبھی ان سے دوستی نہیں کی- وہ خوب جانتے ہیں اور موجود ہیں- مجھے ان کے ساتھ جس قدر محبت ہے محض خدا کے لئے ہے- کبھی بھی نہ ظاہری طور پر اور نہ باطنی طور پر ان کی محبت میں کوئی غرض نہیں آئی- ایک زمانہ ہوا میں نے ان سے معاہدہ کیا تھا کہ آپ کے دکھ کو دکھ اور سکھ کو سکھ سمجھوں گا اور اب تک کوئی غرض اس معاہدہ کے متعلق میرے واہمہ میں نہیں گزری- ان کا یہ رشتہ کا تعلق حضرت امام علیہ السلام سے ہوتا ہے- یہ سعادت اور فخر ان کی خوش|قسمتی اور بیدار بختی کا موجب ہے- ان کے ایک بزرگ تھے شیخ صدر جہاں )علیہ الرحمہ~ن۲‘(~ ایک دنیادار نے ان کو نیک سمجھ کر اپنی لڑکی دی تھی- مگر یہ خدا تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے اور اس کی نکتہ|نوازی ہے کہ آج محمد علی خاں کو سلطان دین نے اپنی لڑکی دی ہے- یہ اس بزرگ مورث سے زیادہ خوش قسمت ہیں- یہ میرا علم‘ میرا دین اورایمان بتاتا ہے کہ حضرت صدر جہاں سے زیادہ خوش قسمت ہیں-
میں نہیں جانتا کہ میری قوم کیا ہے؟ مگر میرا علم بتاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد ہوں- حضرت عمرؓ میرے جدامجد بڑے مہروں کو پسند نہیں کرتے تھے- مگر ایک مرتبہ جب ایک عورت نے کہا- القناطیر المقنطرۃ )ال عمران:۱۵( بھی مہر ہو- خدا نہیں روکتا تو عمرؓ کون روکنے والا ہے- اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ عمر سے تو مدینہ کی عورتیں بھی افقہ ہیں- پس ایک فاروقی کے منہ سے اس وقت ۵۶ ہزار کے مہر کو خفیف سمجھنا ضرور قابل غور ہے- کیا میرے جیسے آدمی کا مہر اتنا باندھا جا سکتا ہے جس نے آیا تو کھا لیا‘ کپڑا مل گیا تو پہن لیا- اس کا مہر تو اسی حیثیت کا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر ایک صحابی کو کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں- پھر آپﷺ~ نے فرمایا کہ اچھا! لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ- جب اس نے اس سے بھی انکار کیا اور کہا کہ صرف تہ بند ہے تو اس کا مہر بما معک من القراٰن )بخاری کتاب النکاح باب السلطان ولی( فرمایا- فقہاء نے اس پر اختلاف کیا ہے- بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تیری قرآن دانی کے بدلے اور بعض کہتے ہیں کہ قران کی تعلیم دینے کے لئے- بہر حال مہروں کا اندازہ انسان کے حالات پر ہوتا ہے- چار سو درہم یا دو سو درہم یا پانچ سو ٹکا سلطانی یہ کوئی شرعی حدود یا قیود نہیں ہیں- پس جو لوگ کل کی بات کو غور سے سوچتے ہیں ان کو اور بھی مشکلات ہوتے ہیں- بہر حال حضرت صاحب نے تمام امور کو مد نظر رکھ کر ۵۶ ہزار تجویز فرمایا ہے اور میری اپنی سمجھ میں یہ مہر ان حالات کے ماتحت جو خوانین کے ہاں پیش آتے ہیں کچھ بھی نہیں اور بہت تھوڑی رقم ہے- تاہم حضرت صاحب نے بڑی رضامندی سے اس مہر پر مبارکہ بیگم کا نکاح کر دینا قبول فرمایا- اس سے یہ اجتہاد نہیں ہو سکتا کہ نور دین جیسے کا بھی یہی مہر ہو- مہر حالات کے لحاظ سے ہوتا ہے-
اس کے بعد ایجاب و قبول ہوا اور حضرت اقدسؑ نے دعا فرمائی-
) الحکم جلد۱۲ نمبر۱۵ ۔۔۔ ۲۶ / فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۱تا۵ (
) بدر جلد۷ نمبر۹ ۔۔۔ ۵ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۳ تا۶ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۶ / مارچ ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور مسنون دعائوں کے بعد فرمایا-:
یہ اذان جو اس وقت تم نے سنی ہے یہی جناب الٰہی کی طرف سے ایک فرشتہ کے ذریعہ اسلام کو سکھائی گئی ہے اور یہ ایسے پاک کلمات ہیں کہ سارے اسلام کا نچوڑ ہیں- جس طرح سے عبادت الٰہی نماز‘ روزہ اور حج وغیرہ کے طریق ہمیں بڑی حفاظت اور تواتر سے پہنچائے گئے ہیں- ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تواتر سے ہمیں اذان کے الفاظ پہنچے ہیں- بڑے بڑے بلند مقامات پر مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے پورے زور اور طاقت سے پانچ وقت ان الفاظ سے اسلام کی منادی ہوتی چلی آئی ہے- جہاں تک میری سمجھ‘ علم اور طاقت پہنچ سکتی ہے میں جانتا ہوں کہ اس اذان میں بڑے اسرار ہیں- ایک انگریز جس کے ذریعہ سے میں نے عیسائیت کے متعلق اس|قدر معلومات پیدا کیں‘ کیونکہ وہ عیسائیت کی بہت سی کتابیں مجھے بھیجا کرتا تھا اس نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ بڑی ترقی کا زمانہ ہے- امریکہ اور یورپ بہت ترقی کے معراج پر پہنچ گئے ہیں- میں نے اس سے کہا کہ یورپ اور امریکہ بے چارہ کیا دینی ترقی کرے گا اور کیا ترقی اس نے کی ہے- ۱۹۰۰ برس گزر گئے- ہر اتوار کے دن گھنٹوں اور گھڑیالوں کی شور و پکار ہوتی ہے- نہیں معلوم کیوں اور کس غرض کے لئے یہ بجائے جاتے ہیں- کسی کو بلانے کے واسطے بجائے جاتے ہیں یا کہ شوقیہ- اگر بلانے کو بجائے جاتے ہیں تو کس مطلب‘ کس غرض و غایت کے واسطے بلایا جاتا ہے؟ اس بلانے میں کوئی حقیقت نہیں- اس میں دنیا کو کوئی وعظ نہیں‘ تبلیغ نہیں- برخلاف اس کے اسلام کی منادی کو دیکھو کس طرح جرات اور دلیری سے اپنے پاک اصولوں کی پنج وقتہ تبلیغ کرتے ہیں- کس بلند آوازی سے اور کیسے بلند مقامات پر سے اور کیسی حقیقت ان الفاظ میں بھری ہے- اول اپنے مذہب کے اصل الاصول بیان کیے جاتے ہیں پھر بلانے کی غرض و غایت- اور پھر آنا بے فائدہ نہیں‘ کسی کھیل تماشے کے واسطے نہیں‘ کوئی لہو و لعب‘ کوئی خدا سے غافل کرنے والا یا بے حقیقت بچوں کا کھیل نہیں بلکہ اس کا نتیجہ فلاح ہے- بھلا اس طرز دعوت اور اپنے طرز دعوت کا مقابلہ تو کر کے دیکھو پھر کہنا کہ ترقی کس نے کی ہے-
اسلامی اذان میں سارا اسلام کوٹ کوٹ کر بھرا ہے- غور کرنے والا غور کرے اور سوچنے والا دل گہری سوچ کے بعد بتائے کہ بھلا اپنے مذہب کی تبلیغ اور خدا کے جلال اور اس کی عظمت اور جبروت کے اظہار کی اس سے بہتر بھی کوئی تجویز ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں- یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلی جوش‘ ان کے سچے ارادوں اور ولولوں کا ایک سچا فوٹو ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ اذان میں بیان کیا اور ان الفاظ کی تہ میں گویا صحابہ کرام کے سارے اغراض و مقاصد کا سچا نقشہ جناب الٰہی سے فرشتہ کی معرفت بھیج کر بتایا گیا ہے-
یہ قاعدہ کی بات ہے اور انسانی فطرت میں یہ امر مرکوز ہے کہ انسان اپنے سے بڑے کی بات کو مان لیتا ہے- آج کل کا کوئی نادان لڑکا اپنی بے ہودگی کی وجہ سے اپنے بڑے بزرگوں کی نہ مانے تو یہ اس کی بے|ہودگی ہے- انسانی صحیح فطرت میں روز ازل سے یہی رکھا گیا ہے- بڑے علم والوں‘ تاجروں‘ فلاسفروں‘ تجربہ کاروں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سب اپنے سے بڑوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں اور یہی سلیم فطرت کا تقاضا ہے- اگر کسی کی فطرت مسخ ہو گئی ہے تو اس کا ہم ذکر نہیں کرتے-
چنانچہ اذان میں بھی اول اللہ کے نام سے ابتدا کی ہے- سارے محامد سے متصف‘ ساری صفات کاملہ رکھنے والا اور سارے نقائص اور عیوب سے مبرا و منزہ ذات اس کا نام اللہ ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور پھر وہ اکبر ہے- جامع جمیع صفات کاملہ اور ہر قسم کے نقائص سے منزہ ہونے کے ساتھ وہ اکبر بھی ہے یعنی بہت بڑا- اس کے یہ معنی ہوئے کہ اب اپنے کاروبار‘ یاروں دوستوں غرض ہر ایک کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آ جائو- اور چونکہ وہ سب سے ہر رنگ میں بڑا ہے‘ اب اس کا حکم آنے پر دوسروں کے احکام کی پرواہ مت کرو- ایک طرف خدا کا بلاوا آ جاوے‘ دوسری طرف کوئی یار دوست آشنا بلاویں یا کوئی دنیا کا کام بلاوے تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو ترک کر دو- کیونکہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑے کی بات کو مان لینا تمہاری فطرت میں رکھا گیا-
حتیٰ کہ ماں باپ جن کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خدا نے سخت تاکید فرمائی ہے خدا کے مقابلہ میں اگر وہ کچھ کہیں تو ہر گز نہ مانو- فرمانبرداری کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے کہ آیا فرمانبردار اللہ کا ہے یا کہ مخلوق کا- ماں باپ کی فرمانبرداری کا خدا نے اعلیٰ مقام رکھا ہے اور بڑے بڑے تاکیدی الفاظ میں یہ حکم دیا ہے- ان کے کفر واسلام اور فسق و فجور یا دشمن اسلام وغیرہ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی اور ہر حالت میں ان کی فرماں برداری کا تاکیدی حکم دیا ہے مگر ہر مقابلہ کے وقت ان کے متعلق یہی فرما دیا کہ ان جاھدٰک لتشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما )العنکبوت:۹( اگر خدا کے مقابلہ میں آ جاویں تو خدا کو مقدم کرو‘ ان کی ہر گز نہ مانو-
اولی الامر حاکم وقت کی فرماں برداری کا بھی بہت تاکیدی حکم ہے- فان تنازعتم فی شیی|ء فردوہ الی اللہ والرسول )النسائ:۶۰(کہہ کر بتا دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے پیش کرو- پھر جیسا کہ حکم ہو کرو-
غرض نفس ہو یا دوست ہوں‘ رسم ہو یا رواج ہو‘ قوم ہو یا ملک ہو‘ ماں باپ ہوں یا حاکم ہوں جب وہ خدا کے مقابلہ میں آ جاویں یعنی خدا ایک طرف بلاتا ہے اور یہ سب ایک طرف‘ تو خدا کو مقدم رکھو-
یہاں اس وقت ہمیں ایک اعتراض یاد آیا ہے- ایک ہمارے دوست نے ہم سے یہ اعتراض بیان کیا کہ چار شہادتوں کا مہیا ہو نا صرف زنا کے بارہ میں ہی آیا ہے ورنہ اور کسی امر میں چار گواہیاں نہیں- اس وقت اذان کے الفاظ سے ہی یہ بھی حل ہوا ہے کہ اذان میں بھی اللہ اکبر کے بعد کلمات شہادت کے متعلق بھی چار بار بیان کرنے کی روایات ہیں جس کا نام اذان ترجیع رکھا ہے- غرض موذن بھی ہمیشہ چار ہی شہادت دیتا ہے- اور یہ حد کمال شہادت ہے-
اللہ اکبر کی شہادت اپنی کامل حد تک ادا کر چکنے کے بعد موذن لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہے یعنی کوئی بھی بجز اللہ تعالیٰ قابل عبادت اور واجب الاطاعت وجود نہیں ہے- پس خدا کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی فرمانبرداری کرنا‘ سجدہ کرنا‘ رکوع کرنا‘ دعا کرنا‘ کسی پر بھروسہ رکھنا اللہ کے سوا بالکل جائز نہیں ہے-
بعض لوگ جو کم فرصتی کی شکایت کر کے اذان کی چنداں پرواہ نہیں کرتے وہ بھی اسی ذیل میں ہیں جو ایمان کی حقیقت اور اذان کے سچے معنوں سے ناواقف ہیں- پھر چونکہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کے واسطے اس کے احکام اوامر و نواہی کا ہونا بھی ضروری ہے پس جس انسان کے ذریعہ سے وہ احکام اوامر و نواہی ہمیں پہنچے ہیں وہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں- چونکہ لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور بغیر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بتانے کے ہمیں اللہ کے اوامر و نواہی کی اطلاع نہیں ہو سکتی- اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہراتم ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کا یقین ہوا ہے اور آپ کا وجود خدانما وجود ہے اس واسطے اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ لازم ملزوم کر دیا-
پھر چونکہ شکریہ کا کامل ذریعہ‘ عبادت کا کامل ذریعہ‘ اپنے مطالب کے حصول کا کامل ذریعہ‘ حق سبحانہ تعالیٰ کی تعظیم کا اعلیٰ مقام‘ انسانی ترقیات کا انتہائی نتیجہ جس کا نام معراج ہے‘ گناہ اور گندوں سے پاک ہونے کی سچی راہ صرف صرف نماز ہی ہے اس واسطے بلانے کی وجہ بتائی کہ نماز کی طرف بلاوا ہے- پھر نماز میں اھدنا الصراط المستقیم کیسا پاک کلمہ ہے- نبی‘ شہید‘ صدیق اور صالحین جیسے عظیم الشان محسنوں کی راہ جن کے احسانات کی کوئی قیمت ہی نہیں بجز اس کے کہ کوئی جان ہی فدا کر دے ان کی راہ پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور ان کے رنگ میں رنگین ہونے کی خواہش کرتا ہے اور ان کے واسطے دعائیں کرتا ہے‘ سلام بھیجتا ہے- پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو سردار انبیاء ہیں عجیب طرح سے گداز ہو ہو کر درد دل سے ان کے واسطے کہتا ہے اور دل میں محبت کا ایسا جوش پیدا کرتا ہے کہ گویا ان کے احسانات کے باعث ان کو اپنے تصور میں سامنے لے آتا ہے اور کہتا ہے السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ-
غرض اذان ایک اعلیٰ قسم کا کامل و اکمل طرز دعوت ہے جس میں خلاصہ اسلام بیان کر دیا ہے- دعوت کیوجہ بیان فرمائی گئی ہے اور پھر نتیجہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ حی علی الفلاح -
فلاح کے معنے ہیں کامیاب ہو جانا- دشمنوں کے مقابلہ میں مظفر و منصور ہو جانا- اسی واسطے حکم ہے کہ ان الصلٰوۃ تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر )العنکبوت:۴۶( نماز تمام بدیوں اور بدکاریوں سے بچا لیتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ فلاح ہے-
پھر بعد اذان کے جوش میں آ کر کہتا ہے اور دعوت کو ختم کرتا ہے- لا الٰہ الا اللہ فرمایا کہ اذان کے معنی سوچو اور ان پر غور کرو-
خطبہ ثانیہ
فرمایا الحمد للٰہ ایسا پاک کلمہ ہے اور اس میں ایسے سمندر حکمت الٰہی کے بھرے ہوئے ہیں کہ جن کا خاتمہ ہی نہیں- میں بعض اوقات نماز میں الحمد للٰہ پڑھنے کے بعد ٹھہر جاتا ہوں- اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ان کے معانی میں غور و خوض کرتا ہوا غرق ہو جاتا ہوں- دیکھو بعض وقت مجھے بھی سخت سے سخت مشکلات اور تکالیف پہنچی ہیں کہ ان سے جان جانے کا بھی اندیشہ ہوا ہے- مگر میں نے جب قرآن شریف کو شروع کیا ہے اور اس میں اول ہی اول الحمد للٰہ سے شروع ہوا ہے اور میں نے اس آیت پر غور کیا ہے تو دل میں بسا اوقات جوش آیا ہے کہ بتائو تو سہی اب الحمد للٰہ کا کیا مقام ہے؟ ان مصائب اور دکھوں کے سمندر میں کس طرح سے الحمد للٰہ کہو گے- اور ممکن ہے کہ کسی دوسرے مومن کے دل میں بھی آیا ہو- کیونکہ میرے دل میں ایسا بارہا آیا ہے-
تو اس کے واسطے میں نے غور سے دیکھا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں واقعی اللہ تعالیٰ کی ذات سات طرح سے الحمد للہ کہے جانے کے لائق ذات ہے-
ہر بلاکیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
) ۱ ( - اول تو اس لئے کہ مصائب اور شدائد کفارئہ گناہ ہوتے ہیں- سو یہ بھی اس کا فضل ہے- ورنہ قیامت میں خدا جانے ان کی سزا کیا ہے- اس دنیا ہی میں بھگت کر نپٹ لیا-
) ۲ ( - اس لئے کہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ممکن ہے- اس کا فضل ہے کہ اعلیٰ اور سخت مصیبت سے بچا لیا-
) ۳ ( - مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں دینی اور دنیوی- ممکن ہے کہ گناہ کی سزا میں انسان کی اولاد مرتد ہو جاوے یا یہ خود ہی مرتد ہو جاوے- سو اس کا فضل ہے کہ اس نے دینی مصائب سے بچا لیا اور دنیوی مشکلات ہی پر اکتفا کر دیا-
) ۴ ( - مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اجر ملتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر انا للٰہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر یہ دعا مانگو- اللٰھم اجرنی فی مصیبتی و اخلفنی خیراً منھا )مسلم و ابن ماجہ کتاب الجنائز-(
اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اجر کا وعدہ ہے- و بشر الصابرین- الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للٰہ و انا الیہ راجعون- اولٰئک علیھم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ھم المھتدون )البقرہ:۱۵۶تا۱۵۸( یعنی مصائب پر صبر کرنے والوں اور انا للٰہ کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں-
) ۵ ( - صلوات ہوتے ہیں ان پر اللہ کے-
) ۶ ( - رحمت ہوتی ہے ان پر اللہ کی-
) ۷ ( - اور آخر کار ہدایت یافتہ ہو کر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے-
اب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسانوں کو ان انعامات کا تصور آ جاوے جو اس کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت مصیبت رہ سکتی ہے اور غم غم رہتا ہے؟ ہر گز نہیں- پس کیسا پاک کلمہ ہے الحمد للٰہ اور کیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے- یہ نہایت ہی لطیف نکتہ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات- یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اسی آیت سے شروع ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام خطبات کا ابتدا بھی اسی سے ہوا ہے-
) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ ۔۔۔۔ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۱-۲(
* - * - * - *
‏KH1.24
خطبات|نور خطبات|نور
۱۳ / مارچ ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ

خطبہ جمعہ
تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا- التحیات للٰہ والصلوٰت و الطیبات السلام علیک ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین- اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید- اللٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید پڑھا اور پھر فرمایا -:
یہ وہ فقرات ہیں جو ہر مسلمان ہر دو رکعت کے بعد پڑھتا ہے- جو شخص دن رات میں چالیسرکعت نماز ادا کرتا ہے وہ ان فقرات کو بیس مرتبہ پڑھتا ہے- تین رکعت والی نماز میں بھی یہ کلمات دو مرتبہ پڑھے جاتے ہیں- فرائض‘ سنن اور نوافل سب میں ان کا پڑھا جانا ضروری ہے-
قرآن شریف میں اور احادیث میں بھی نماز کو سنوار کر اور سمجھ کر پڑھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے حتیٰ کہ سوچ سمجھ کر نہ پڑھنے والوں کی نماز‘ نماز ہی نہیں کہلاتی اور نہ اس کو قبولیت کا درجہ عطا کیا جاتا ہے- طوطے کی طرح الفاظ کا رٹتے رہنا اور حقیقت سے بے خبر ہونا مفید نہیں ہے اور نہ ہی یہ خدا اور اس کے رسول کا منشاء ہے- متوالوں کو جو حالت نشہ میں ہوں مسجد میں آنے سے بھی منع کیا گیا ہے- غرض قرآن|شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل و قول میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے واسطے نماز کے مطالب خوب اچھی طرح سے ذہن نشین ہونے لازمی رکھے گئے ہیں- پس ہر انسان کو لازمی ہے کہ نماز کے مطالب اور معانی کے سمجھنے کی کوشش کرے-
تحیہ - عربی میں کسی کی تعریف‘ مدح‘ ستائش‘ بڑائی اور اس کی مہربانیوں اور انعامات کے بیان کرنے میں اور اس کی شکر گزاری کے واسطے اس کے حسن و احسان کو یاد کر کے اس کے گرویدہ ہونے کے بیان کرنے کو کہتے ہیں اور بعض نے قولی عبادت بھی اس کا ترجمہ کیا ہے- عبادت فرمانبرداری اور تعظیم کا نام ہے- اس واسطے زبان سے جو کچھ عبادت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا جاتا ہے اس کا نام تحیہ ہے -
چونکہ کل انعامات اور فیوض کا سچا اور حقیقی سرچشمہ اللہ تعالٰی ہی ہے اور بجز اس کے خاص فضل کے ہم دنیا و ما فیہا کے کل سامان آرام وآسائش سے متمتع نہیں ہو سکتے اس لئے صرف اسی کی حمد و ستائش کے گیت گانے اور اس کی فرمانبرداری کو سب پر مقدم کرنا چاہئے- دیکھو! اگر کوئی ہمارا محسن ہمیں ایک اعلیٰ درجہ کی عمدہ اور نفیس گرم پوشاک دے مگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو اور ہمیں سخت محرقہ تپ ہو تو وہ لباس ہمارے کس کام آ سکتا ہے اور اگر ہمارے سامنے اعلیٰ سے اعلیٰ مرغن کھانے قسم قسم رکھے جاویں مگر ہم کو قے کا مرض لاحق حال ہو تو ہم ان کھانوں کی لذت کیسے اٹھا سکتے ہیں؟
غرض غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آسائش و آرام کے کل سامانوں کے مادے پیدا کرنا بھی جس طرح اللہ ہی کا کام ہے اسی طرح سے ان سے متمتع اور بارور ہونا بھی محض اللہ کے فضل پر موقوف ہے- صحت عطا کرنا‘ قوت ذائقہ بخشنا‘ قوت ہاضمہ کا بحال رکھنا سب اللہ کے فضل پر موقوف ہے- اس لئے حکم ہے کہ و اما بنعمۃ ربک فحدث )الضحی:۱۲-( تحدیث نعمت کرنا اور خدا کے انعامات کا شکر ادا کرنا ازدیاد انعامات کا باعث ہوتا ہے- لئن شکرتم لازیدنکم )ابراھیم:۸-( پس اس طرح سے تحدیث نعماء اور عطایا الٰہی اور شکر کا اظہار زبان سے کرنے کا نام ہے تحیہ-
صلوٰۃ اس تعظیم اور عبادت کا نام ہے جو زبان‘ دل اور اعضاء کے اتفاق سے ادا کی جاوے- کیونکہ ایک منافق کی نماز جو کہ ریا اور دکھلاوے کی غرض سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے- نماز بھی ایک تعظیم ہے جس کا تعلق بدن سے ہے- بدن کا بڑا حصہ دل اور دماغ ہیں- چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے توجہ الی اللہ کرنے میں اور ظاہری اعضاء ہاتھ پائوں وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم کے ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم ہے اس لئے بدنی عبادت کا نام صلٰوۃ ہے-
دل و دماغ خدا کی بزرگی اور حق سبحانہ کی عظمت کا جوش پیدا کرتے ہیں بذریعہ اس کے انعامات اور حسن و احسان میں غور کرنے کے- اور پھر اس جوش کا اثر زبان پر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کلمات|تعریف|وستائش کہنے شروع کر دیتی ہے اور پھر اس کا اثر اعضا اور ظاہری جوارح پر پڑتا ہے اور ادب|وتعظیم کے لئے کمربستہ ہونا‘ رکوع کرنا‘ سجود کرنا وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم بجالاتے ہیں- پھر یہ اثر اسی جگہ محدود نہیں رہتا بلکہ انسان کے مال پر بھی پڑتا ہے اور اس طرح سے انسان اپنے عزیز اور طیب مالوں کو خدا کی رضاجوئی اور خوشنودی کے واسطے بے دریغ خرچ کرتا ہے اور اپنے مال کو بھی اپنے دل و دماغ‘ زبان اور ظاہری اعضا کے ساتھ شامل و متفق کر کے عبادت الٰہی میں لگا دیتا ہے تو اس کا نام ہے الطیبات جس کو بالفاظ دیگر یوں بیان کیا گیا ہے- مالی عبادات اور یہ بھی صرف اللہ جل شانہ ہی کا حق ہے-
غرض التحیات - الصلوات - الطیبات - تینوں طرح کی عبادت فقط اللہ جل شانہ ہی کا حق ہے- کسی قسم کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں- اللہ تعالیٰ اس بات سے غنی ہے کہ کوئی اس کا شریک اور ساجھی ہو-
السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ- قاعدہ کی بات ہے کہ ہر محسن اور مربی کی محبت کا جوش انسان کے دل میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے- اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم پر کیسے کیسے احسان ہیں- وہی ہیں جن کے ذریعے ہم نے خدا کو جانا‘ مانا اور پہچانا- وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہمیں خدا کے اوامر و نواہی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی راہیں بذریعہ قرآن شریف معلوم ہوئیں- وہی ہیں جن کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کا اعلیٰ سے اعلیٰ طریقہ اذان اور نماز ہمیں میسر ہوا اور وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک ترقی کر سکتے ہیں حتیٰ کہ خدا سے مکالمہ و مخاطبہ ہو سکتا ہے- وہی ہیں جن کے ذریعہ سے لا الٰہ الا اللہ text] [tagکی پوری حقیقت ہم پر منکشف ہوئی اور وہی ہیں جو خدا نمائی کا اعلیٰ ذریعہ ہیں- غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم پر اتنے احسانات اور انعامات ہیں کہ ممکن تھا کہ جس طرح سے اور قومیں اپنے محسنوں اور نبیوں کو بوجہ ان کے انعامات کثیرہ کے غلطی سے بجائے اس کے کہ ان کو خدا نمائی اور خداشناسی کا ایک آلہ سمجھتے انہی کو خدا بنا لیا اور توحید سکھانے والے لوگوں کو واحد و یگانہ مان لیا اور ان کی تعلیمات کو جو کہ نہایت خاکساری اور عبودیت سے بھری ہوئی تھیں بھول کر ترک کر دیا اور ان ہی کو معبود یقین کر لیا- ہم مسلمان بھی‘ ممکن تھا کہ ایسا کر بیٹھتے مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اور اس امت مرحومہ پر رحم کرنے اور ایسے خطرناک ابتلا سے بچانے کی غرض سے محمداً عبدہ و رسولہ کا فقرہ ہمیشہ کے واسطے توحیدالٰہی لا الٰہ الا اللہ کا جزو بنا|کر مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے شرک سے بچا لیا-
بلکہ اسی باریک حکمت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر بھی مدینہ منورہ میں بنوائی‘ مکہ|معظمہ میں نہیں رکھی- کیونکہ اگر مکہ معظمہ میں آپ کی قبر ہوتی تو ممکن تھا کہ کسی کے دل میں خیال|پرستش آ جاتا یا کم از کم دشمن اور مخالف ہی اس بات کا اعتراض کرتے- مگر اب مدینہ میں قبر ہونے سے جو لوگ مکہ معظمہ میں جانب شمال سے جانب جنوب منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو ان کی پیٹھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی طرف ہوتی ہے- اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے یہ ایک راہ آپ کی قبر کے نہ پوجا جانے اور مسلمانوں کے شرک میں مبتلا نہ ہونے کے واسطے بنا دی- غرض اسی طرح سے جن باتوں میں اس بات کا وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی انسان آپ کو خدا بنا لے گا یا آپ کے شریک فی الذات یا صفات ہونے کا گمان بھی جن باتوں سے ممکن تھا ان کا خود اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچی اور پاک تعلیم میں ایسا بند و بست کر دیا کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسلمان اس امر کا مرتکب ہو-
مگر چونکہ محسن سے محبت کرنا اور گرویدہ احسان ہونا انسانی فطرت کا تقاضا تھا اس واسطے ایک راہ کھول دی کہ ہم آپﷺ~ کے لئے دعا کیا کریں اور اس طرح سے آنحضرتﷺ~ کے مدارج میں ترقی ہوا کرے- چنانچہ ہر مسلمان نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ کا پاک تحیہ پیش کرتا ہے اور درد دل سے گداز ہو ہو کر گویا کہ آپ کے احسانات اور مہربانیوں کے خیال سے آپﷺ~ کی ایسی محبت پیدا کر لیتا ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے سامنے موجود ہیں- آپﷺ~ کے حسن|واحسانات کے نقش اور مہربانیوں سے آپﷺ~ کا وجود حاضر کی طرح سامنے لا کر مخاطب کے رنگ میں دعا کرتا ہے السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ-
برکہ عربی میں تالاب کو کہتے ہیں- اس نشیب کا نام ہے جہاں ادھر ادھر کا پانی جمع ہو جاتا ہے- مبارک بھی اسی سے نکلا ہے اور برکت بھی اسی میں سے ہے- مطلب یہ کہ آنحضرت کی امت میں ہمیشہ کچھ ایسے پاک لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو آنحضرتﷺ~ کے اصلی اور حقیقی مذہب اور تعلیم توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی امتداد زمانہ کی وجہ سے اسلام میں راہ پا جاویں ان کا قلع قمع کرتے رہیں گے- اور یہ ضروری ہے کہآپ کی سچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہے جو امت مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں- چنانچہ قران شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو الفاظ ذیل میں بیان کیا گیا ہے- وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً یعبدوننی لایشرکون بی شیئاً و من کفر بعد ذٰلک فاولٰئک ھم الفاسقون )النور:۵۶-( اسی طرح سے السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے دین کے سچے خادموں جو صحابہ‘ اولیائ‘ اصفیائ‘ اتقیاء اور ابدال کے رنگ میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے ان کے واسطے بھی بوجہ ان کے حسن خدمات کے جن کی وجہ سے انہوں نے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہم پر بہت بڑے بھاری احسانات اور انعامات کئے ان کے واسطے بھی دعا کرے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی مخالفت کرے گا اور اس کو نظر عزت سے نہ دیکھے گا اور ان کے احکام اور فیصلوں کی پرواہ نہ کرے گا تو وہ فاسق ہو گا- بلکہ وہاں تک جہاں تک تعظیم الٰہی اور تعظیم کتاب اللہ اور تعظیم رسول اللہ اجازت دیتی ہو اس گروہ کا ادب و عزت کرنی اور اس خیل پاک کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم قرآن|شریف سے ثابت ہے- چنانچہ آیت ذیل میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہو الذین جاء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا و لاخواننا الذین سبقونا بالایمان و لاتجعل فی قلوبنا غلاً للذین اٰمنوا ربنا انک رئوف رحیم )الحشر:۱۱-( غرض اپنے پہلے بزرگوں اور خادمان اسلام و شریعت محمدیہ کے واسطے دعائیں کرنا اور ان کی طرف سے کوئی بغض و کینہ‘ غل و غش دل میں نہ رکھنا‘ یہ بھی ایمان اور ایمان کی سلامتی کا ایک نشان ہے- پس انسان کو مرنج و مرنجان ہونا چاہئے اور خدا کی باریک در باریک حکمتوں اور قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے اور کسی سے بھی بغض و کینہ دل میں نہ رکھنا چاہئے- خدا کی شان|ستاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا چاہئے- کیونکہ ممکن ہے کہ جن کو تمہاری نظریں برا اور بدخیال کرتی ہیں اسے توبہ کی توفیق مل جاوے- اللہ افرح بتوبۃ العبد خدا اپنے بندوں کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے اس سے بھی بڑھ کر جس کا کسی ویران اور بھیانک وسیع جنگل میں سامان خور و نوش ختم ہو جاوے اور اس لئے اسے ہلاکت کا اندیشہ ہو مگر پھر اسے سامان میسر آ جاوے- جس طرح وہ شخص خوش ہو گا اس سے بھی کہیں بڑھ کر خدا اپنے بندوں کی توبہ سے خوش ہوتا ہے- پس کسی کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو- خدا نکتہ نواز بھی ہے اور نکتہ گیر بھی- ممکن ہے کہ جسے تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اسے توبہ کی توفیق مل جاوے اور دوسرا اپنے کبر کی وجہ سے راندئہ درگاہ اور ہلاک ہو جاوے- بعض بدیاں حبط|اعمال کا موجب ہو جاتی ہیں او بعض اعمال جہنم میں لے جاتے ہیں- تمام صالحین کے واسطے دعائیں کرتے رہنا چاہئے- ان کے احسانات اسلام اور مسلمانوں پر بہت کثرت سے ہیں- غور کا مقام ہے کہ انہوں نے یہ دین اور یہ کتاب‘ یہ سنت‘ یہ نماز و روزہ ہم تک پہنچانے کے واسطے کس طرح اپنی جانیں خرچ کر دیں- خون پانی کی طرح بہا دیئے- اپنے نفسوں پر آرام اور نیند حرام کر لی- کتنے بڑے بڑے سفر پاپیادہ اس مشکلات کے زمانہ میں کئے- ایک ایک حدیث کی تحقیقات اور اس کے راوی کے منہ سے سننے کے واسطے سینکڑوں کوسوں کے ناقابل گزر اور دشوار گزار سفر انہوں نے کئے- پس ان کے احسانات‘ ان کی مساعی جمیلہ‘ کوششوں‘ محنتوں اور جانفشانیوں کو نظر کے سامنے رکھ کر ان کے واسطے دردمند دل سے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرو- اگر ان کی ایسی محنتیں اور کوششیں نہ ہوتیں اور وہ بھی ہماری طرح سست| اور کاہل ہوتے تو غور کرو کہ کیا اسلام موجودہ حالت میں ہو سکتا تھا اور ہم مسلمان کہلانے کے مستحق ہو سکتے تھے؟ ہرگز نہیں- پس ان کے واسطے دعائیں کرنا اور نماز میں ان کے حقوق ادا کرنے کا جزو ہونا بھی لازمی اور ضروری تھا بلکہ از بس ضروری تھا- کیونکہ من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ )ابودائود- کتاب الادب-( خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ سبحانہ کی عبادت کرنے والا اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی پرواہ نہ کرنے والا ہونا اور پھر نبوت اور کتب پر ایمان لانے والا بننا چاہئے-
خطبہ ثانیہ
اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید- اللٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید-
یہ الفاظ جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں ان کا نام ہے درود- واقع میں اگر ہم اللہ کے پورے بندے اور عابد اور تعظیم کرنے والے ہیں اور مخلوق پر شفقت اور رحم کرنے والے علوم اور عقائد سے خوشحال ہوں تو یہ سب فیضان اور احسان حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا ہے- آپﷺ~ کے دل کے درد اور جوش نہ ہوتے تو قرآن کریم جیسی پاک کتاب کا نزول کیسے ہوتا- آپ کی مہربانیاں اور توجہات اور محنتیں اور تکالیف شاقہ نہ ہوتے تو یہ پاک دین ہم تک کیسے پہنچ سکتا- آپﷺ~ نے یہ دین ہم تک پہنچانے کی غرض سے خون کی ندیاں بہا دیں اور ہمدردی خلق کے لئے اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا- تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب ادنیٰ ادنیٰ محسنوں سے ہمیں محبت پیدا ہو جانا ہماری فطرت سلیم کا تقاضا ہے تو پھر آنحضرت کی محبت کا جوش کیوں مسلمان کے دل میں موجزن نہ ہو گا-
درود بھی درد سے ہی نکلا ہوا ہے یعنی خاص درد‘ سوز و گداز اور رقت سے خدا کے حضور التجا کرنی کہ اے مولا ! تو ہی ہماری طرف سے خاص خاص انعامات اور مدارج آنحضرت کو عطا کر- ہم کر ہی کیا سکتے ہیں اور کس طرح سے آپ کے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں بجز اس کے کہ تیرے ہی حضور میں التجا کریں کہ تو ہی آپ کو ان سچی محنتوں اور جانفشانیوں کا سچا بدلہ جو تو نے آپ کے واسطے مقرر فرما رکھا ہے اور وعدہ کر رکھا ہے‘ وہ آپ کو عطا فرما- انسان جب اس خاص رقت اور حضور قلب اور تڑپ سے گداز ہو ہو کر آپﷺ~ کے واسطے دعائیں کرتا ہے تو آنحضرت کے مدارج میں ترقی ہوتی ہے اور خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے اور پھر اس دعاگو درودخواں کے واسطے بھی اوپر سے رحمت کا نزول ہوتا ہے اور ایک درود کے بدلے دس گنا اجر اسے دیا جاتا ہے- کیونکہ آنحضرت کی روح اس درودخواں اور آپ کی ترقی مدارج کے خواہاں سے خوش ہوتی ہے اور اس خوشی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کو دس گنا اجر عطا کیا جاتا ہے- انبیاء کسی کا احسان اپنے ذمے نہیں رکھتے- فقط-
) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ ۔۔۔ ۲ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۳-۴ (
* - * - * - *

۲۰ / مارچ ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ و لاتموتن الا و انتم مسلمون- و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لاتفرقوا و اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً و کنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا کذٰلک یبین اللہ لکم ایٰاتہ لعلکم تھتدون )اٰل عمران:۱۰۳-۱۰۴-(
اور پھر فرمایا-:
‏ils] [tag
قرآن کریم کی ان آیات میں اصل|الاصول اس آخری فیضان کا جو آخری حد اور کمال پر پہنچا ہوا ہو بیان کیا گیا ہے- نیکی کا نتیجہ خدا کا فیضان ہوتا ہے- سو ان آیات میں نیکی اور پھر اس کے فیضان کے اصل|الاصول کا بیان ہے- اللہ تعالیٰ ایمان کے بابرکت بنانے کے واسطے انسان کو یوں خطاب کرتا ہے کہ تقویٰ کرو اور تقویٰ بھی ایسا کہ جو حق تقویٰ ہو اور مومن منتہی بن جائو- ایمان اور تقویٰ کی سچی بنا اور اصلی جڑ عقائد صحیحہ ہیں- سو انسان کا فرض ہے کہ تکمیل ایمان اور تقویٰ کے لئے ان عقائد صحیحہ کی تلاش اور جستجو کرے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ نے قران شریف کی ایک آیت میں بیان فرما دیئے ہیں جہاں فرمایا ہے لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب )البقرہ:۱۷۸( تقویٰ کی جڑ اور بنیاد سچے عقائد ہیں- اور ان کی جڑ کی بھی جڑ کیا ہے اٰمن باللہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کہ وہ ہر بدی سے منزہ اور کل صفات کاملہ کا مالک اور حقیقتاً وہی معبود‘ مقصود اور مطلوب ہے- اس کے اسمائ‘ افعال‘ اور صفات پر کامل ایمان لانا- اور کہ وہ نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہو کر نیکی کے عوض انعامات اور بدیوں پر سزا دینے والا اور قادر مقتدر ہستی ہے- وہ رب ہے‘ رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ مالک یوم الدین ہے- غرض انسان اس طرح سے جب حقیقی طور سے اللہ کی صفات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر کامل ایمان لاتا ہے تو پھر ہر بدی سے بچنے کے واسطے اس کو جناب|الٰہی سے ایک راہ عطا کی جاتی ہے جس سے بدیوں سے بچ جاتا ہے- فطرت انسانی میں یہ امر روز ازل سے ودیعت کر دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کو اپنے واسطے یقیناً مضر جانتا ہے اس کے نزدیک تک نہیں جاتا- بھلا کبھی کسی نے کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالتے یا آگ کے انگارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے- یا کوئی شخص اس حالت میں کہ اس کو اس امر کا وہم ہی ہو کہ اس کے کھانے میں زہر کی آمیزش ہے‘ اس کھانے کو کھاتے دیکھا ہے؟ یا کبھی کسی نے ایک کالے سانپ کو حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس کے دانت نہیں توڑے گئے اور اس میں زہر اور کاٹنے کی طاقت موجود ہے‘ کسی کو ہاتھ میں بے|خوف پکڑنے کی جرات کرتے دیکھا ہے؟ یاد رکھو کہ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جائے گا- کیونکہ یہ امر فطرت انسانی میں مرکوز ہے کہ جس چیز کو یہ ضرر رساں یقین کرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا اور حتی|الوسع اس سے بچتا رہتا ہے- تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب انسان خدا پر کامل یقین رکھتا ہو اور اس کی صفات سے خوب آگاہ ہو اور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ خدا نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہوتا ہے اور سخت سے سخت سزا دینے پر قادر ہے اور سزا دیتا ہے اور یہ کہ گناہ حقیقت میں ایک زہر ہے اور خدا کی نافرمانی ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے اور اس کو آگ کے جلانے پر اور زہر کے ہلاک کر دینے پر اور سانپ کے کاٹنے سے مر جانے پر جیسا ایمان ہے اگر ایسا ہی ایمان خدا کی نافرمانی اور گناہ کرنے پر خطرناک عذاب اور ہلاکت و عذاب کا یقین ہو تو کیونکر گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور کیونکر خدا کی نافرمانی کے انگارے کھائے جا سکتے ہیں- دیکھو انسان اپنے مربی‘ دوست‘ یار‘ آشنا اور کسی طاقتور با اختیار حاکم کے سامنے کسی بدی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور گناہ کر تا ہے تو چھپ کر کرتا ہے‘ کسی کے سامنے نہیں کرتا- تو پھر اگر اس کو خدا پر اتنا ایمان ہو کہ وہ غیب در غیب اور پوشیدہ در پوشیدہ انسانی اندرونہ اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے اور یہ کہ کوئی بدی خواہ کسی اندھیری سے اندھیری کوٹھڑی میں جا کر کی جاوے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ انسان کا بڑا مربی‘ رب‘ محسن‘ اور احکم الحاکمین ہے تو پھر انسان کیوں گناہ کی جگرسوز آگ میں پڑ سکتا ہے-
پس ان باتوں میں غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کو خدا اور اس کی صفات اور افعال اور علیم و خبیر اور ہر بات سے واقف ہونے اور قادر مقتدر اور منتقم‘ شدیدالبطش ہونے پر ایمان نہیں- ہر بدی خدا کی صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے-
صفات الٰہی پر ایمان لانے کی کوشش کرو- انسان اگر خدا کے علیم‘ خبیر اور احکم الحاکمین ہونے پر ہی ایمان لاوے اور یقین جانے کہ میں اس کی نظر سے کسی وقت اور کسی جگہ بھی غائب نہیں ہو سکتا تو پھر بدی کہاں اور کیسے ممکن ہے کہ سرزد ہو- غفلت کو چھوڑ دو کیونکہ غفلت گناہوں کی جڑ ہے- ورنہ اگر غفلت اور خدا کی صفات سے بے علمی اور بے ایمانی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا کو قادر مقتدر اور احکم|الحاکمین‘ علیم و خبیر اور اخذ شدید والا مان کر اور اور یقین کر کے بھی اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں- حالانکہ اپنے معمولی دوستوں‘ آشنائوں‘ حاکموں اور شرفا کے سامنے‘ جن کا نہ علم ایسا وسیع اور نہ ان کی طاقت اور حکومت خدا کے برابر‘ ان کے سامنے بدی کا ارتکاب کرتے ہوئے رکتا ہے اور خدا سے لاپرواہ ہے اور اس کے سامنے گناہ کئے جاتا ہے- اس کی اصل وجہ صرف ایمان کی کمی اور صفات الٰہی سے غفلت اور لاعلمی ہے-
پس یقین جانو کہ اللہ اور اس کے اسماء اور صفات پر ایمان لانے سے بہت بدیاں دور ہو جاتی ہیں- پھر انسان کی فطرت میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنی ہتک اور بے عزتی سے ڈرتا ہے اور جن باتوں میں اسے اپنی بے عزتی کا اندیشہ ہوتا ہے ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے- پس غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس کا دائرہ بہت تنگ ہے- زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں یا محلے میں یا گائوں یا شہر میں یا اگر بہت ہی مشہور اور بہت بڑا آدمی ہے تو ملک میں بدنام ہو سکتا ہے- مگر قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین‘ خدا کے کل انبیائ‘ اولیا‘ صحابہ اور تابعین اور کل صالح اور متقی مسلمان بزرگ‘ باپ دادا و پڑدادا وغیرہ اور ماں‘ بہن‘ بیوی‘ بچے غرض کل اقرباء اور پھر خود ہمارے سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں تو ذرا اس نظارے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس ہتک اور بے عزتی کا خیال تو کرو اور اس نظارے کو ہمیشہ آنکھ کے سامنے رکھو اور پھر دیکھو تو سہی کیا گناہ ہونا ممکن ہے؟ جب انسان ذرا سی بے عزتی اور معدودے چند آدمیوں میں ہتک کے باعث ہونے والے کاموں سے پرہیز کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میری ہتک نہ ہو جاوے تو پھر جس کو اس نظارے کا ایمان اور یقین ہو جس کا نام یوم الآخرۃ ہے تو بھلا اس سے بدی کہاں سرزد ہو سکتی ہے؟ پس یوم الآخرۃ پر ایمان لانا بھی بدیوں سے بچاتا ہے-
تیسرا بڑا ذریعہ نیکی کے حصول و توفیق اور بدی سے بچنے کا ایمان بالملائکہ ہے- ہر نیکی کی تحریک ایک ملک کی طرف سے ہوتی ہے- اس تحریک کو مان لینے سے اس ملک کو اس ماننے والے سے انس اور محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور اس طرح سے ملائکہ کے نزول تک نوبت پہنچ جاتی ہے- پس چاہئے کہ انسان کے دل میں جب کوئی نیکی کی تحریک پیدا ہو تو فوراً اس کو مان لے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور اس پر اچھی طرح سے کاربند ہو جاوے- ورنہ اگر اس موقع کو ہاتھ سے دے دے گا تو پچھتانا بے سود ہو گا- بعض لوگ پچھتاتے ہیں کہ فلاں وقت اور موقع کیسا اچھا تھا- یہ کام ہم نے کیوں اس وقت نہ کر لیا- پس نیکی کی تحریک کا موقع فرصت اور وقت مناسب اور نیک فال سمجھ کر فوراً مان لینا چاہئے- اس طرح سے نیکی کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اور انسان بدیوں سے دور ہوتا جاتا ہے-
پھر اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ صرف کتب الٰہی اور انبیاء ہیں- خدا کے مقدس رسولوں کی پاک تعلیم اور کتب الٰہیہ کی سچی پیروی کے سوا خدا کی رضامندی ممکن ہی نہیں- خدا کی پہچان اور اس کی ذات‘ صفات اور اسماء کا پتہ خدا کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے بغیر لگ ہی نہیں سکتا- خدا کے اوامر و نواہی اور عبادت و فرمانبرداری کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ کتب الٰہیہ ہی ہیں جو خدا کے پاک رسولوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں-
غرض انسان کے عقائد درست ہوں تو فروعات خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں- انسان کو لازم ہے کہ اصل الاصول پر توجہ کرے- فروعات تو ضمنی امور ہیں- اور اصول کے ماتحت غور کر کے دیکھو کہ جس انجمن‘ جس کمیٹی اور سوسائٹی نے صرف فروعات میں کوشش کی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی- دیکھو اگر جڑ ہی خشک ہو تو پتوں کو پانی میں تر کرنے سے کیا فائدہ- جڑ سیراب ہونی چاہئے‘ درخت مع اپنے تمام شاخوں اور پتوں کے خود بخود سرسبز و شادات ہو جاوے گا اور ہرا بھرا نظر آنے لگے گا- ورنہ اگر جڑ ہی قائم نہیں تو پتوں اور شاخوں کو خواہ پانی میں ہی کیوں نہ رکھو وہ ہرگز ہرگز ہری بھری نہ ہوں گی بلکہ دن بدن خشک ہوتی جاویں گی-
پس تم عقائد کی طرف توجہ کرو- دیکھو امام صاحب کے دل میں جماعت کی خیر خواہی اور بہتری کے ہزاروں ہزار خیالات بھرے ہیں- ساٹھ یا ستر کے قریب کتب موجود ہیں مگر سامنے جو بات پیش کی ہے وہ صرف ایک مختصر اور پر معانی چھوٹی سی بات ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا- حضرت امام علیہ السلام نے بھی اسی قرآنی اصول کو ہاتھ میں رکھ کر یہ مختصرسا فقرہ تمہارے سامنے رکھا ہے- اگر اصل قوی ہاتھ میں آجاوے تو فروعات خود سنور جاتے ہیں اور انسان ہر قسم کی نادانی‘ جہالت‘ گناہ اور بدکاری سے مضائقہ کرنے لگ جاتا ہے- ہر کام میں سوچے گا کہ آیا میں دین کو مقدم کر رہا ہوں یا دنیا کو- حکام کے سامنے مقدمات میں بڑے بڑے گھبرا دینے والے مصائب ہیں‘ شادی میں‘ غم میں‘ رسم میں‘ رواج میں‘ خویش و اقارب میں‘ دوستی میں‘ دشمنی میں‘ لین میں‘ دین میں غرض اپنے کل کاموں میں دیکھنا پڑے گا کہ آیا میں دنیا کو دین پر تو مقدم نہیں کر رہا؟ تو اس طرح سے ہر بدی دور ہو جاوے گی اور دین مقدم ہو جاوے گا جو سراسر رشد اور سرتاپا نور ہے-
دیکھو اگر کسی کے چہرے پر ذرا سا نشان پھلبہری کا نمودار ہو جائے تو اس کے والدین‘ خویش‘ اقارب یا دوستوں کو کیسے کیسے فکر لگ جاتے ہیں- علاج کے واسطے کہاں سے کہاں تک پہنچتے ہیں- کتنا روپیہ خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں- خرچ برداشت کرتے ہیں- وقت صرف کرتے ہیں- مشکل سے مشکل تکالیف برداشت کرتے ہیں- مگر کیوں؟ صرف اس لئے کہ تا اس چند روزہ دنیوی زندگی میں تکلیف نہ ہو- لیکن اگر فکر نہیں اور بے فکری اور لاپرواہی ہے تو کس بات کی؟ صرف دین کی- نہیں خرچ کرتے تو کس کے لئے؟ دین کے لئے- مرتد ہو جاوے‘ نماز نہ پڑھے‘ خدا سے غافل نہ ہو‘ منکر ہو اس کی پرواہ نہیں- چند روزہ زندگی کے واسطے تو اتنی فکر ہے- فکر نہیں تو کس کا؟ لازوال اور ابدالآباد زندگی کا-
پس یہ زمانہ بلحاظ اپنی پرفتن حالت کے اسی امر کا متقاضی تھا کہ کوئی مرد خدا ایسا آتا جو دین کو مقدم کرنے کا عہد لیتا- اس مرض کی یہ دوا تھی اور اس وقت کے مناسب حال یہی تعلیم-
میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ تم قرآن شریف بھی پڑھا کرو آخر وہ بھی خدا کی ایک چٹھی ہے- تو جواب میں بلاتامل یوں کہا کہ پھر کوئی نہایت اعلیٰ قسم کی عمدہ اور میری شان کے شایان حمائل عطا کر دیجئے- جائے غور ہے کہ آخر اپنی دیگر ضروریات دنیوی کے واسطے بھی تو ہزاروں روپے خرچ کرتا تھا اگر ایک یا دو روپے خرچ نہیں کر سکتا تھا تو کس کے لئے؟ دین کے لئے-
غرض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک اصل ہے جو حضرت امامؑ نے ہمارے ہاتھ میں دیا ہے- کام میں‘ کاج میں‘ سونے میں‘ جاگنے میں‘ کھانے میں‘ پینے میں‘ لباس میں‘ پوشاک میں‘ گھر میں‘ باہر میں‘ عادات میں‘ رسم و رواج میں‘ شغل میں اور بے کاری میں‘ شادی میں‘ غم میں‘ لین دین میں غرض اپنے کل کاروبار میں اسی اصل کو نصب العین رکھو اور جانچتے رہو کہ دنیا مقدم ہے یا کہ دین - پھر ولایت کا کونسا درجہ ہے جس کو تم حاصل نہیں کر سکتے-
دیکھو تم جو اس وقت اس جگہ موجود ہو عمروں میں مختلف ہو- بلحاظ قوم کے آپس میں بڑے بڑے اختلاف ہیں- رسوم و رواج‘ عادات‘ تعلیم و تربیت‘ خیالات‘ امنگیں بالکل مختلف ہیں-عزت اور مرتبوں کے لحاظ سے مختلف ہیں- پھر باوجود ان اختلافات کے گرمی ہے اور پھر قحط کی مصیبت ہے- ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے پھر ایک بگل بجنے سے تم کیسے یکدم جمع ہو گئے ہو- ذرا اس میں غور تو کرو- اسی طرح سے و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے واسطے بھی اس طرح یکجا کوشش کرو- دعا کرو کہ باوجود ہر قسم کے اختلاف کے وحدت کی روح پھونکی جاوے اور بغض‘ کینے‘ عداوتیں سب دور ہو کر باہمی محبت اور ملاپ پیدا ہو جاوے- تکلیف میں صبر اور استقلال نصیب ہو جاوے- سوء ظنی آپس میں اور خدا کی ذات پر دور ہو جاوے- مصائب اور شدائد میں خدا کے ساتھ صلح ہو جاوے- غرض دعائوں سے کام لو اور وحدت مانگو تا وحدت کے فیوض سے بھی مستفید ہو سکو-
و اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم دیکھو قادیان کی زبان‘ یہاں کا لباس‘ یہاں کا کوئی منظر یا کوئی فضااس نواح کے لوگوں کے اخلاق وعادات یا رسم و رواج کچھ بھی ایسا دلچسپ ہے جس سے لوگ اس طرح اس کے گرویدہ ہو کر اور دور سے اس طرح سمٹ آتے جیسے پروانے شمع پر؟ ہر گز نہیں- بلکہ میرے خیال میں تو یہ بھی ایک وادی غیر ذی زرع ہے- اس وادی غیر ذی زرع میں زبان کا کمال تو تھا مگر یہاں تو وہ بھی نہیں- وہاں جتھا تھا جو ایک خوبی ہے‘ یہاں یہ بھی تو نہیں- صرف ایک آواز ہے جو خدا کے ایک برگزیدہ انسان نے خدا سے نصرت اور تائید کے الہام پا کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی دلکش دلآویز اور سریلی راگنی گائی اور تم نے اس کو سن کر قبول کیا- پس اسی طرح اپنی آخرت کے واسطے بھی زاد راہ تیار کرنے میں سر توڑ کوششیں کرو- اور اس کے واسطے دعائوں اور ہاں دردمندانہ دعائوں سے سامان مہیا ہوں گے اور توفیق عطا کی جاوے گی- ][ دیکھو قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب کسی امام سے یا پیرو مرشد سے تعلق کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ مجھے اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اور اس کو مجھ سے کیا نفع ہوا؟ سو اگر ان لوگوں کے ساتھ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں اگر اول ہی اول بڑے بڑے لوگ شامل ہو جاویں تو وہ جب غور کریں کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا تو معاً ان کے دلوں میں یہ خیال آجاتا ہے کہ ہمیں تو جو فائدہ ہوا سو ہوا مگر اس پر ہمارے بڑے بڑے احسان ہیں- ہماری وجہ سے اس کو عزت ملی‘ ہمارے مالوں سے اس کے سارے کام نکلے‘ ہماری وجہ سے اس کو شہرت نصیب ہوئی-
غرض اس طرح سے وہ سلسلہ پر اپنا احسان رکھتے ہیں- اس واسطے خدا جو کہ قادر مقتدر ہستی اور رب العالمین ہے اس نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ مامورین اور مرسلوں کے ساتھ ابتداء میں معمولی اور غریب لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں اور جتنے اکابر اور بڑے بڑے مدبر کہلانے والے ہوتے ہیں وہ ان کے مقابل میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی سفلی کوششیں ان کے نابود کر دینے میں صرف کر لیں اور اپنے سارے زوروں سے ان مرسلوں کی بیخ کنی کے منصوبے کر لیں- پھر ان کو ذلیل اور پست کر دیا جاتا ہے اور خدا کے بندوں کی فتح اور نصرت ہوتی ہے اور وہی آخرکار کامیاب اور مظفر و منصور ہوتے ہیں- اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ کوئی خدائی سلسلہ پر احسان نہ رکھے- بلکہ خدا کی قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کا ایک بین ثبوت ہو کر ان مومن ضعفاء کے دلوں میں ایمانی ترقی ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے عطایا‘ اس کی قدرتوں اور کرموں کے گن گانے کے جوش پیدا ہوں-
پس تم اس خیال کو کبھی بھی دل میں جگہ نہ دو کہ اکابر اور بڑے بڑے مالدار اور رئوساء عظام تمہارے ساتھ نہیں ہیں- اگر تم ذلیل ہو تو تم سے پہلے بھی کئی گروہ تمہاری طرح کے ذلیل گزرے ہیں مگر آخرکار کامیابی کا تمغہ ایسے پاک اور مومن ذلیلوں ہی کو عطا کیاجایا کرتا ہے-
دیکھو موسیٰؑ کے مقابلہ میں فرعون کیسا زبردست اور جبروت والا بادشاہ تھا مگر خدا نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین )القﷺ:۶( کس طرح سے ان ضعیف اور کمزور لوگوں کو اپنے احسان سے امام اور بادشاہ بنا دیا- دیکھو یہ باتیں صرف کہنے ہی کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ہیں- عمل کے اصول کے واسطے کہنے والے پر حسن ظن ہونا ضروری اور لازمی امر ہے- اگر دل میں ہو کہ کہنے والا مرتد‘ فاسق و فاجر ہے‘ منافق ہے تو پھر نصیحت سے فائدہ اٹھانا معلوم اور عمل کرنا ظاہر- بعض اوقات شیطان اس طرح سے بھی حملہ کرتا ہے اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے کہ دل میں نصیحت کرنے والے کے متعلق بدظنی پیدا کر دیتا ہے- پس اس سے بچنے کے واسطے بھی وہی ہتھیار ہے جس کا نام دعا‘ دردمند دل کی اور سچی تڑپ سے نکلی ہوئی دعا ہے-
عقائد صحیحہ کے ساتھ مال کا انفاق بھی ضروری ہے- خیرات کرنا‘ قریبیوں‘ رشتہ داروں پر- یتیم بچوں کو دینا- مسکینوں اور مسافروں کو دینا- سوالیوں کو اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرنا- اعلاء کلمہ~ن۲~ اللہ کے لئے مال عزیز خرچ کرنا- نمازیں باقاعدہ اخلاص اور ثواب کے ماتحت ادا کرنی اور ایک مقررہ حصہ اپنے مال میں سے الگ کرنا جس کا نام زکٰوۃ ہے- رنج میں‘ مصائب میں‘ شدائد میں‘ مقدمات میں‘ غربت میں‘ صبر اور استقلال سے قدم رکھنے والے یہی خدا کو پیارے ہیں- انہی کا نام خدا نے صادق رکھا ہے- اور یہی متقی ہیں-
ایک ہو جائو اور وحدت کا رنگ چڑھ جاوے- یہاں آنیوالوں کے واسطے نہایت ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ کریں- پتہ مقام دریافت کریں- نام و نشان پوچھیں اور آپس میں تعارف حاصل کریں- یہ بھی ایک راہ ہے وحدت کے پیدا ہونے کی-
اور اگر کوئی کہے چلو جی! ہمیں کیا ہم تو ہیں پنجاب کے اور یہ ہیں ہندوستان کے اس سرے کے‘ ہم تو آپس میں ملیں بیٹھیں‘ اوروں سے کیا غرض و غایت؟ تو وہ نادان نہیں سمجھتا کہ یہ امر وحدت کے متضاد ہے- بلکہ چاہئے کہ ہر ایک یہاں کے آنیوالے کے نام و نشان سے بخوبی واقفیت اور آگاہی ہو- اور ایک دوسرے کے حالات پوچھے جاویں- اسی طرح سے تعلق ہو جاتے ہیں- خدا کی طرف سے آنیوالے وحدت چاہتے ہیں- اخوان کے معنے اور مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والے ہوں- تعارف کو بڑھانا چاہئے-
خدا تمہاری محنتوں‘ محبتوں‘ جانفشانیوں کو رحم سے دیکھے اور قبول کرے اور آخر تک استحکام اور استقلال بخشے- یہاں تک کہ کوچ کا وقت آ جاوے اور تم اپنے اقرار کے پورے پکے رہنے والے ہو اور اللہ کی رضا کے حاصل کرنے والے اور مقدم کرنے والے بنو- آمین-
‏]c02dahe [tagخطبہ ثانیہ
بات کا موقع تو کم ہے- آپ لوگوں کے آج یہاں پر آ جانے کا تو ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا- اللہ ہی نے یہ ایک موقع نکال دیا ہے اور یہ اس کی خاص حکمت ہے- میں فروعات کے جھگڑوں کو پسند نہیں کرتا- مجھے ایک بات آپ سے کہنی ہے اور وہ یہ ہے کہ سننے والے اس وقت میرے سامنے کچھ بچے ہیں‘ کچھ جوان‘ کچھ ادھیڑ ہیں اور کچھ بوڑھے ہیں- سب کو یہ بات سناتا ہوں کہ میرا بھی تجربہ ہے اور محبت اور بھلائی کی خاطر اور بہتری کی امید سے میں نے مناسب سمجھا کہ سنادوں-
یاد رکھو کہ ابتدا کی عادات لڑکپن اور جوانی کی بدعادتیں ایسی طبیعت ثانی بن جاتی ہیں کہ آخر ان کا نکلنا دشوار ہو جاتا ہے- پس ابتداء میں دعا کی عادت ڈالو اور اس ہتھیار سے کام لو کہ کوئی بدعادت بچپن میں نہ پڑ جاوے- بڑے بڈھے اپنی اولاد کے واسطے دعائیں کریں اور لڑکے اور جوان اپنے واسطے آپ کریں کہ ابتدا میں عادات نیک ان کو نصیب ہوں- بعض وقت دیکھا ہے کہ بڑے بڑے عباد‘ زہاد اور صلحاء کے ساتھ ساتھ وہ بچپن کی عادات چلی جاتی ہیں-
دیکھو! جھوٹ بولنا‘ چوری کرنا‘ بدنظری کرنا‘ بے جا ہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنا غرض کل بدعادتیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دعا سے کام لینا چاہئے- جوں جوں عمر پختہ ہوتی جاتی ہے توں توں بدعادات بھی راسخ ہوتی جاتی ہیں- بعض اوقات دل میں ایک شیطانی وسوسہ آ جاتا ہے کہ چلو جی جہاں اور اتنی نیکیاں ہیں ایک بدی بھی سہی- خبردار اور ہوشیار ہو جائو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے- اس کے فریب میں مت آنا اور ابتدا ہی سے ان بدیوں کے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش اور سرتوڑ سعی کرتے رہنا چاہئے اور ان باتوں کے واسطے عمدہ علاج دعا‘ استغفار‘ لاحول اور الحمد شریف کا پڑھنا اور صحبت صالحین ہے-
) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ ۔۔۔۔ ۲۶ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ تا ۷ (
* - * - * - *

۲۵ / مارچ ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ نکاح
خطبہ مسنونہ کی آیات پڑھنے کے بعد فرمایا:
یہ چند آیتیں اس غرض کے لئے پڑھی گئی ہیں کہ ان کا پڑھا جانا خطبہ نکاح کے موقع پر ایک سنت متوارثہ ہے- میں نے بارہا اس امر کا ذکر بوضاحت کیا ہے کہ ہر مسلمان کا عربی زبان کے ساتھ کسی قدر تعلق نہایت ضروری اور لازمی ہے- دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو کتاب تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے لائے وہ بھی عربی میں ہے- یعنی خدائی احکام اور ہمارے مولا کی چٹھی جس میں اس نے ہمارے کل دینی اور دنیوی امور کا مفصل ذکر فرما دیا ہے اور اپنی خوشنودی اور رضا کی راہیں بھی اس میں درج فرمائی ہیں وہ بھی عربی میں ہے- پھر وہ آواز جس کے ذریعہ سے ہمیں نماز کی طرف بلایا جاتا ہے یعنی اذان وہ بھی عربی میں ہے- نماز جو کہ عبادت الٰہی کا ایک مکمل اور بے نظیر طریقہ ہے اور جس میں شفقت علیٰ خلق|اللہ کا پورا سبق موجود ہے اور گویا کہ وہ معراج المومنین ہے اس کا بھی بڑا حصہ عربی زبان میں ہی ہے- اگرچہ ماثورہ دعائوں کے بعد اور دعائوں کے واسطے ہر زبان میں اجازت ہے- الحمد شریف کا پڑھا جانا ہر نماز میں نہایت ضروری اور لازمی لکھا گیا ہے اور وہ بھی عربی زبان میں ہے- خطبہ نکاح میں بھی چند آیات اور فقرے عربی زبان کے لازمی طور سے رکھے گئے ہیں- تو ان باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ~ کے دل میں جہاں وحدت کی
روح پھونکنے کے واسطے اور ذرائع کا استعمال کرنا تھا وہاں منجملہ ان ذرائع کے تعلیم عربی بھی تھی- بہت سے اختلاف صرف عربی زبان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں- غرض وحدت قومی کے پیدا کرنے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ زبان عربی سے واقفیت حاصل کرنا بھی ہے- میں نے دیکھا ہے کہ اگر انسان صرف اتنے حصہ زبان کے الفاظ کو ہی اچھی طرح سمجھ لے جو مسلمانوں میں روز مرہ کے بول چال مین مروج ہیں تو بھی ایک حصہ قرآن شریف کا جوذکر کے متعلق ہے اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے- مگر خدا جانے کیا وجہ ہے کہ کیوں لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے؟ انگریزی جیسی دور دراز ملک کی زبان اور پشتو جیسی جوشیلی زبان‘ پنجابی جیسی مشکل اور کشمیری جیسی نرم زبان سے کہہ لیتے ہیں مگر نہیں سیکھنے کی کوشش کرتے اور نہیں دلچسپی پیدا کرتے تو کس زبان سے؟ قرآن اور رسول پاک کی پیاری اور دلربا زبان سے-
اب چونکہ نماز ظہر کا وقت ہے اور نیز بارہا ایسے مضامین سننے کا آپ لوگوں کو موقع ملتا رہا ہے اس واسطے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے-
نکاح کی اجازت بابو غلام حسن صاحب نے جو کہ لڑکی کے والد اور ولی ہیں مجھے بذریعہ ایک خط کے دی ہے جس میں انہوں نے لڑکی کی طرف سے بھی قبولیت بذریعہ تحریر بھیجی ہے- اس طرح کی تحریر سے ان کے اس شوق کا اظہار ہوتا ہے جو ان کو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے واسطے ہے- چوہدری حاکم علی صاحب بھی اور بابو غلام حسن صاحب بھی‘ جہاں تک میرا علم ہے‘ دونوں حضرت اقدس کے بہت بڑے مخلص اور خادم ہیں- مبارک ہیں وہ نکاح جو حضرت مسیح کے حضور پڑھے جاویں اور جن کی بہتری اور بابرکت ہونے کے واسطے مسیح موعود کے ہاتھ خدا کے حضور میں التجا کے واسطے پھیلیں- ایجاب و قبول اور دعا کی گئی-
) الحکم جلد ۱۲ نمبر۲۳ ۔۔۔۔ ۳۰ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ *
‏KH1.25
خطبات|نور خطبات|نور
۳ / اپریل ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ جمعہ
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد-
اللٰھم انی اعوذ بک من الھم و الحزن و اعوذ بک من العجز و الکسل و اعوذ بک من البخل و الجبن و اعوذ بک من غلبۃ الدین و قھر الرجال اللٰھم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغننی بفضلک عمن سواک )ترمذی کتاب الدعوات-(
متواتر کئی جمعوں سے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ انسان کو نماز کس طرح سے سنوار کر پڑھنی چاہئے- چنانچہ آج بھی نماز کے آخر میں جو دعا ہے اس کا ذکر کرتا ہوں- حدیث شریف سے ثابت ہے کہ درود شریف کے بعد یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جایا کرے-نماز کے پہلے مراتب اذان سے لے کر اس دعا سے پہلے تک پیشتر کے جمعوں میں بیان کیے جا چکے ہیں- بعض ائمہ ایسے بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اس دعا کا پڑھا جانا مستحب یا مسنون کے درجہ سے بڑھ کر واجب قرار دیا ہے اور اسی پر ان کا عمل ہے-
انسان بہت بڑے بڑے ارادے کرتا ہے- بچپنے سے نکل کر جب جوانی کے دن آتے ہیں اور جوں جوں اس کے اعضا نشو و نما پا کر پھیلتے ہیں اور قویٰ مضبوط ہوتے ہیں اس کے ارادے بھی وسیع ہوتے جاتے ہیں- ایک بچہ رونے اور ضد کرنے کے وقت ماں کی گود میں چلے جانے یا دودھ پی لینے سے یا تھوڑی سی شیرینی یا کسی تماشے کھیل سے خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بہلانے کے واسطے بہت تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے یا یوں کہو کہ ایک بچے کی خوشی اور خواہشات کا منزل مقصود بہت محدود ہوتا ہے- مگر جوں جوں وہ ترقی کرتا اور اس کے قویٰ مضبوط ہوتے جاتے ہیں توں توں اس کے ارادوں اور خواہشات کا میدان بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے- حتیٰ کہ قرآن شریف کی اس آیت او لم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر و جاء کم النذیر )فاطر:۳۸( کا مصداق بن جاتا ہے- اس دور کا پہلا درجہ اٹھارہ سال کی عمر ہوتی ہے- اس وقت انسان میں عجیب عجیب قسم کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں- ایسے وقت میں جبکہ انسان کے قویٰ بھی مضبوطی اور استویٰ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے ارادے بھی بہت وسیع ہو جاتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نمازی کو جن میں یہ لڑکا بھی داخل ہے طول امل اور ہموم و غموم سے پناہ مانگنے کے واسطے حکم دیا ہے-
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چار کونہ شکل بنائی اور اس کے وسط میں ایک نقطہ بنا کر فرمایا کہ یہ نقطہ انسان ہے اور دائرہ سے مراد اجل ہے یعنی انسان کو اجل احاطہ کیے ہوئے ہے- اور پھر انسانی امانی اور آرزوئیں اس سے بھی باہر ہیں- یہ سچی بات ہے کہ انسان بڑے بڑے لمبے ارادے کرتا ہے جو سینکڑوں برسوں میں بھی پورے نہیں ہو سکتے مگر اس کی اجل اسے ان ارادوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا لیتی ہے-
غرض انسان چونکہ بہت لمبے ارادے کر لیتا ہے اور پھر ان میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس ناکامی کی وجہ سے انسان میں ’’ہم‘‘ یعنی غم پیدا ہو جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ انسان کو لمبے ارادے کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اعوذ بک من الھم کے یہی معنے ہیں کہ اے خدا! میں ان موجبات سے ہی تیری پناہ مانگتا ہوں جو ’’ہم‘‘ کا باعث ہوتے ہیں-
پھر بعض اوقات انسان ناکامی کے وجوہات تلاش کرتے کرتے گزشتہ امور میں غور کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں آج سے دوسال پہلے یا چار سال پیشتر اس طرح سے عمل درآمد کرتا تو آج مجھے اس ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا- اگر ایسا ہوتا تو میں کامیاب ہو جاتا- اس طرح کے غم کا نام جو گزشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے شریعت نے حزن رکھا ہے اور اس سے پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی ہے- حدیث شریف میں وارد ہے بئس المطیئۃ لو- لو )اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہو جاتا اور یوں ہوتا تو یوں ہو جاتا( بہت بری چیز اور نقصان رساں لفظ ہے- اس طرح اللٰھم انی اعوذ بک من الھم و الحزن کے یہ معنی ہوئے کہ یا الٰہی! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان بواعث اور موجبات سے جن کا نتیجہ ’’ہم‘‘ اور حزن ہوتا ہے- یعنی نہ تو مجھ میں بے جااور لمبے لمبے ارادے پیدا ہوں اور نہ میں ’’کاش‘‘ اور ’’لو‘‘ کا استعمال کروں- مطلب یہ کہ نہ مجھے موجودہ ناکامی کی وجہ سے کوئی غم ہو اور نہ گذشتہ کسی تکلیف کا خیال مجھے رنجیدہ اور ستانے کا باعث ہو سکے-
اس دعا کے سکھانے سے غرض اور انسان کے واسطے سبق یہ مدنظر ہے کہ انسان بہت طول امل سے پرہیز کرتا رہے اور گزشتہ مصائب کو یاد کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالے- کیونکہ جب انسان ہم اور حزن میں ڈوب جاتا ہے تو آئندہ ترقیوں کی راہیں بھی اس کے واسطے بند و مسدود ہو جاتی ہیں- ہم اور حزن سے فرصت ملے‘ نہ یہ حصول خیر اور دفع شر کے لئے کوئی تجویز سوچے-
پس اسی لئے انسان کو پھر یہ دعا سکھائی گئی کہ اعوذ بک من العجز و الکسل- عجز کہتے ہیں اسباب کا مہیا نہ کرنا- جو سامان اللہ تعالیٰ نے کسی حصول مطلب اور دفع شر کے واسطے بنائے ہیں ان کا مہیا نہ کرنا اور ہاتھ پائوں توڑ کر رہ جانے کو عجز کہتے ہیں- بقدر طاقت‘ بقدر امکان‘ بقدر فہم اور علم کوشش ہی نہ کرنا اور تدبیر ہی نہ کرنا یہی عجز ہے- توکل اسے نہیں کہتے- دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو کہ اعلم الناس‘ اخشیٰ للٰہ اور اتقی الناس تھے‘ ان سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی انسان ہو سکتا ہے- تو ان کو بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ شاورھم فی الامر )اٰل عمران:۱۶۰( آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک اور بے لوث زندگی جو ہمارے واسطے قرآن شریف اور اس کے کل احکام کا ایک عملی اور زندہ نمونہ موجود ہے- اس میں غور کرنے سے ہرگز ہرگز ایسا کبھی ثابت نہیں ہو گا کہ آپ نے بھی کبھی توکل کے یہ معنے کئے ہوں جو آج کل بدقسمتی سے سمجھے گئے ہیں- توکل کے غلط معنوں کی وجہ سے ہی تو مسلمانوں میں سستی اور کاہلی گھر کر گئی- اور ان میں سے بعض ہاتھ پائوں توڑ کر لوگوں کا محنت اور جانفشانی سے کمایا ہوا مال کھانے کی تدابیر سوچنے لگے-
ہندوستان میں بارہ ریاستیں ہمارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو گئی ہیں- کئی معزز گھرانے مرتد اور بے دین ہو گئے ہیں- اسلام پر اعتراضات کا آرا چلتا ہے مگر کسی کو گھبرا نہیں- اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ لوگ اپنے اپنے نفسانی ہم و حزن میں مبتلا ہیں اور سچے اسباب اور ذرائع ترقی کی تلاش سے محروم و بے نصیب ہیں- پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عجز سے بچاوے اور بقدر فہم و فراست تکیہ اسباب کرنا ضروری ہے- اور پھر اس کے ساتھ مشورہ کرنا چاہئے- قرآن شریف کا حکم ہے کہ امرھم شوریٰ بینھم )الشوری:۳۹-( مشورہ کرنا ایسا پاک اصول ہے کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور برکت عطا ہوتی ہے اور انسان کو ندامت نہیں ہوتی- مگر خود پسندی اور کبر ایسی امراض ہیں کہ انہوں نے شیطان اور انسان دونوں کو ہلاک کر دیا ہے- دیکھو ہر انسان ایسی پختہ عقل اور فہم رسا کہاں رکھتا ہے کہ خود بخود اپنی عقل سے ہی ساری تدابیر کر لے اور کامیاب ہو جاوے- یہ ہر ایک انسان کا کام نہیں- اسی واسطے مشورہ کرنا ضروری رکھا گیا- ناتجربہ کار تو ناتجربہ کار ہی ہے مگر اکثر اوقات بڑے بڑے تجربہ کار بھی مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے سخت سے سخت ناکامیوں میں مبتلا ہو کر بڑی بڑی ندامتیں برداشت کرتے ہیں-
پس خود کو موجودہ ناکامیوں کے بہت فکروں میں ہلاک نہ ہونے دو اور نہ گذشتہ کاہلیوں اور فروگذاشتوں کے خیال سے اپنے آپ کو عذاب میں ڈالو بلکہ سچے اسباب کی تلاش کرو اور مشوروں سے کام لو-
الکسل- کسل عربی میں کہتے ہیں کہ اسباب موجود ہوں مگر ان سے کام نہ لیا جاوے- سامان مہیا ہیں مگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا جاوے- مثلاً کتاب موجود ہے- مدرس اور مولوی پڑھانے کے لئے موجود ہیں مگر علم کا حاصل نہ کرنا کسل ہے- یا مثلاً اگر علم ہو پر عمل نہ کیا جاوے- آنکھ خدا نے دی ہے مگر حق کی بینا نہیں‘ نہ اس سے کتاب اللہ کو پڑھے اور نہ نظر عبرت سے عبرت خیز نظاروں کو دیکھے- کان دیئے ہیں مگر وہ حق کے شنوا نہیں- زبان خدا نے دی ہے مگر وہ حق کی گویا نہیں-
غرض عجز تو کہتے ہیں اسباب کا مہیا ہی نہ کرنا- اور کسل کے معنے ہیں کہ مہیا شدہ اسباب سے کام نہ لینا- اور یہ دونوں قسم کے اخلاق رذیلہ اور کمزوریاں نتیجہ ہوتی ہیں ہم اور حزن کا- کیونکہ جب انسان ہم|وحزن میں ڈوب جاتا ہے تو اسے پھر نہ تو آئندہ کسی ترقی اور خوشی کے حصول کے اسباب مہیا کرنے اور شر سے بچنے کی کوشش کرنے کی توفیق اور وقت و فرصت ملتی ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کے خوشی|وراحت کے اسباب سے کام لے کر نتیجہ اور پھل کا وارث بن سکتا ہے-
اسی واسطے شریعت اسلام جو کہ عین فطرت انسانی کے مطابق خالق فطرت خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس میں اس دعا کے ذریعہ سے ان رذائل سے بچنے کی کوشش کرنے اور پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے اور سکھایا گیا ہے کہ کسی ایک ناکامی سے ایسا متاثر ہونا اور اسی کے ہم و حزن میں مبتلا اور قید ہو کر ایسا رہ جانا کہ آئندہ کوئی ترقی ہی نہ کر سکے نہ اسلام کا منشاء ہے اور نہ مسلمانوں کی راہ- بلکہ مسلمان ایسی بودی روکوں اور کچی رکاوٹوں کی پرواہ نہ کر کے nsk] gat[ الخیر فی ما وقع کے پاک مقولہ کی یاد سے شاد ہوتا ہوا آئندہ ترقیوں کی تدابیر میں بڑی بلند پروازی اور اطمینان سے کوشاں ہو جاتا ہے- اور مومن ایسا ہوشیار ہوتا ہے کہ کامیابی کے کل وسائل اور پاک اصول کو وہ خود مہیا کرتا اور پھر ان سے کام لینے کا کوئی بھی دقیقہ اور کسر باقی نہیں رہنے دیتا-
غرض اس دعا کی تہ میں ایک باریک قسم کی تعلیم ہے جو مسلمانوں کو حد درجہ کا ہوشیار‘ چالاک اور شجاع بناتی اور سستی اور کاہلی سے نفرت دلاتی ہے-
میں ان لوگوں کو جو حضرت اقدس علیہ السلام کی اتباع میں ہمارے ساتھ شامل ہیں خصوصیت سے تاکید کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم لوگوں نے اپنا ملک چھوڑا‘ وطن چھوڑے‘ خویش و اقارب‘ یاردوست چھوڑے‘ قوم سے الگ ہوئے اور ان کے سخت سے سخت فتووں کے نیچے آئے‘ بے دین‘ کافر‘ مرتد‘ ضال‘ مضل کہلائے ہو- اگر تم بھی علم میں اور پھر عمل میں‘ دین میں اور ایمان میں اپنا اعلیٰ نمونہ نہ دکھائو اور بین ثبوت نہ دو کہ واقعی تم نے خدا کی طرف قدم اٹھائے ہیں‘ بے نظیر ترقی کی ہے اور تمہارے افعال‘ تمہارے اقوال‘ تمہارے ظاہر‘ تمہارے باطن‘ تمہاری زندگی کی موجودہ روش‘ لباس‘ پوشاک‘ خوراک اس امر کی پکار کر گواہی نہ دے اٹھیں کہ واقعی تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور تمہارے اعمال کی حالت پاکیزگی تمہارے ایمان کے نہایت مضبوط اور غیر متزلزل ہونے اور تمہارے معتقدات کے صحیح ہونے پر شاہد ناطق نہ ہو اور تم میں اور تمہارے غیروں میں ایک نور اور مابہ الامتیاز پیدا نہ ہو جاوے تو بڑے ہی افسوس اور شرم کا مقام ہے-
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو کہ اعلم الناس تھے ان کو حکم ہوتا ہے کہ رب زدنی علماً )طٰہٰ:۱۱۵(
کی دعا کیا کرو- تو پھر کون امتی ایسا ہے جو دعویٰ کرے کہ مجھے علم کی‘ عمل کی‘ مشورہ کی‘ سیکھنے کی سننے کی اور صحبت پاک کی ضرورت نہیں ہے- یاد رکھو کہ یہ غلط راہ ہے اور بالکل غلط طریق ہے- اس سے پرہیز کرنا چاہئے-
و اعوذ بک من البخل و الجبن - ظاہر ہے کہ جب انسان اپنی مصیبتوں کے رونے روتا رہے اور نہ کام کرے نہ کاج‘ نہ کوشش کرے‘ نہ سامان مہیا کرے اور نہ ان سے کام لے بلکہ ہاتھ پائوں توڑ لنگڑے لولوں کی طرح بے دست و پا نکھٹووں‘ سست اور کاہلوں کی زندگی بسر کرنے کا عادی ہو جاوے تو آسودگی‘ خوشحالی اور مال و دولت جو کہ کمانے سے‘ محنت اور کوشش کرنے سے انسان کو ملتی ہیں اس کے پاس کہاں سے آ جاوے گی- اور یہ صاف بات ہے کہ جو آگ کھاوے گا انگار ہگے گا- جیسا کرے گا ویسا پاوے گا- جو بوئے گا سو کاٹے گا- ایسا انسان جو کچھ کرتا ہی نہیں‘ روپیہ کمانے اور روپیہ آنے اور امیر بننے کی جو راہیں خدا نے بنائی ہیں ان کا علم ہی حاصل نہیں کرتا اور ان کی پرواہ ہی نہیں کرتا تو اس کے پاس روپیہ اور مال و دولت کہاں سے آوے گا- ظاہر ہے کہ وہ مفلس اور محتاج ہو گا اور افلاس اور احتیاج کا نتیجہ اسے بھگتنا پڑے گا جو کہ لازماً بخل اور جبن ہوتا ہے-
یاد رکھو کہ ہم اور حزن کا نتیجہ عجز اور کسل ہوتا ہے- اور عجز اور کسل کا نتیجہ افلاس اور احتیاج کی معرفت بخل اور جبن ہوا کرتا ہے-
پس کیسی عجیب راہ مسلمانوں کو بتائی گئی ہے کہ اللہ کے حضور دعا کیا کریں اور قبولیت دعا اور جذب|فیضان کے واسطے چونکہ انسان کو خود بھی حتی المقدور کوشش اور سعی کرنا اور خدا کی بتائی ہوئی راہوں پر کاربند ہونا لازمی ہے لہٰذا خود بھی ان رذائل سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کرے اور پھر نتیجہ کے واسطے خدا کے حضور التجا کرے-
بخل سے مراد مالی بخل‘ خیالات پاکیزہ کے اظہار کا بخل‘ علم و عمل کا بخل‘ غرض کسی کو نفع نہ پہنچانا خواہ وہ کسی ہی رنگ میں ہو بخل کہلاتا ہے-
جبن - بزدلی جو کہ انسان میں فطرتاً کسی نہ کسی قسم کی کمزوری یا نقص ہونے کی وجہ سے پائی جاتی ہے-
آج اس زمانہ میں علاوہ مالی بخل اور جبن کے اظہار خیالات کے مادہ اور طاقت کا نہ ہونا‘ علم جو کہ ایک طاقت اور جرئات کا بڑا بھاری باعث اور موجب ہوتا ہے اس کا نہ ہونا‘ مئوثر پیرایوں میں اپنے عندیہ کو مدلل اور مبرہن نہ کر سکنا‘ قوت بیانی کا نہ ہونا‘ ان سب کا نام ہے بخل- اور پھر ان کے عدم کی وجہ سے انسانی حالت جو کہ فطرتاً اس کمی اور کمزوری کی وجہ سے اپنے اندر ہی اندر ایک قسم کا ضعف محسوس کرتی ہے اور مخالف خیالات کے لوگوں سے مقابلہ کرنے سے پرہیز کرتی ہے‘ اس حالت کا نام جبن یعنی بزدلی ہے-
ورنہ اب کوئی تیر و تلوار کی لڑائی تو ہے نہیں- اور ان جنگوں کے واسطے بھی جس جرئات اور بہادری اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی انہی صفات کے ماتحت ہوتی ہے- وہاں بھی علم کی ضرورت ہے جو کہ ایک طاقت ہے-
غرض ہم نے تو بارہا اس نقص کے رفع کرنے کے واسطے کوششیں کی ہیں- بلکہ انجمن تشحیذالاذہان میں اس قسم کے طلباء کے واسطے انعامات بھی مقرر کیے ہیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو بولنے کی عادت ہو اور ان میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جاوے جس سے وہ آزادی اور صفائی سے اپنا عندیہ اور خیالات کا اظہار دوسروں پر کر سکیں اور ان کو حق کے پہنچانے اور تبلیغ دین کے لئے مئوثر پیرایوں سے طاقت بیانیہ حاصل ہو جاوے اور خاص مضمون پر لیکچر دینے اور اسی کے حدود کے اندر تقریر کرنے کی طاقت ہو جاوے مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے-
یاد رکھو کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس وقت تیر و تفنگ اور بندوق توپ اور قواعد جنگ و فنون حرب سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں- اس زمانہ کے مناسب حال ہتھیار یہی ہے کہ کامل اور صحیح علم کی زبردست طاقت اور تقریر اور قوت بیان اور عجیب در عجیب پیرایوں سے اپنے خیالات کو مدلل اور مبرہن کر کے اپنے دشمنوں پر حجت پوری کرنے کے زبردست اور تیز ہتھیاروں کی ضرورت ہے- فتدبروا-
و اعوذ بک من غلبۃ الدین و قھر الرجال- صاف بات ہے کہ جب انسان میں افلاس ہو گا‘ ضرورتیں مجبور کریں گی- قحط‘ گرانی اشیا‘ کپڑا‘ غلہ‘ دال‘ گوشت‘ دودھ‘ تعلیم‘ سب چیزیں گراں ہوں گی تو انسان جس کا گزارہ ان کے سوا ہو نہیں سکتا مجبور ہو گا کہ کسی سے قرض لے اور طرح طرح کی تدابیر حصول قرض کے واسطے اسے عمل میں لانی پڑیں گی اور اس طرح سے وہ قرض کی مصیبت میں مبتلا ہو جاوے گا- پھر چونکہ آمدنی کے ذرائع تو محدود ہیں اور آمد خرچ سے کم ہے قرض کے ادا کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آوے گی- قرض|خواہ لوگ تنگ کریں گے- سختی کریں گے- مقدمات کریں گے- ڈگریاں کرائیں گے- قرقیاں ہوں گی- لوگ گلے میں کپڑا ڈالیں گے- غرض اس طرح سے حالت بہت خطرناک اور نازک ہو جاوے گی- اس واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا ان سب باتوں سے بچاوے اور ہم و حزن سے محفوظ رکھے- سچے اسباب مہیا کرنے اور پھر ان سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ بخل اور جبن اور پھر ان کے بدنتائج قرض اور قہر الرجال سے حفاظت میں رکھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مومن متقی کی مثال اس پرند کی ہے کہnsk] ga[t تغدو خماساً و تروح بطاناً اپنے گھونسلے میں دانہ جمع نہیں رکھتا- مگر وہ بیکار اور بے دست و پا ہو کر بھی اپنے ہاتھ پائوں توڑ کر نہیں بیٹھ رہتا- باہر جاتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آشیاں میں آتا ہے- پس مومن کے واسطے بھی اس میں ایک سبق رکھا ہے اور توکل کے معنے بتائے گئے ہیں- جس طرح سے پرندہ کے گھر میں دانہ جمع نہیں ہے مگر وہ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ بھی نہیں رہتا بلکہ گھونسلے سے باہر جاتا ہے‘ محنت مشقت کرتا ہے اسی طرح انسان کو بھی محنت کرنی چاہئے تا کہ اس کی ضرورتیں اس کے واسطے بھی مہیا کی جاویں-
وہ کاہل اور سست انسان جو کہ توکل کے جھوٹے معنے گھڑ کر توکل کی آڑ میں ایسا کرتے ہیں سوچیں اور غور کریں-
پس ایسے انسان جبکہ ان کی ضرورتیں ان کو مجبور کرتی ہیں‘ مکان‘ لباس‘ خوراک اور بیوی بچوں کی ضروریات ان کو مجبور کرتی ہیں تو وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ کوئی الو مل جاوے اور ان کا کام ہو جاوے- کسی کی کمائی ان کو مفت میں مل جاوے- غرض اس طرح سے ناجائز طریق سے کوشش کر کے قرض لیتے اور پھر جب ادا ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو کتی کے کان کاٹ کر بلی کے اور بلی کے کاٹ کر کتی کے لگاتے پھرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکا دیتے اور ایک سے لے کر دوسرے کو اور دوسرے سے لے کر تیسرے کو دیتے ہیں- ایسی ایسی چالاکیاں ان کو کرنی پڑتی ہیں-
غرض یہ بہت خطرناک حالت ہے- پس تم کوشش کرو- حق پہنچائو اور ضرور پہنچائو- ہم|وحزن سے کچھ نہیں ہوتا- کوشش سے کچھ ہوتا ہے‘ کوشش کرو اور خدا سے دعائیں کرتے رہو- اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور فضل کرے- آمین-
خطبہ ثانیہ
اللہ تعالیٰ کو جتنا جتنا تم یاد کرو گے وہ بھی تمہیں یاد کرے گا اور تمہاری عزت اور بزرگی بڑھائے گا- اگر تم اعلاء کلمہ~ن۲~ اللہ میں دل و جان سے کوشش کرو گے‘ خدا کی باتیں لوگوں کو پہنچائو گے تو یہ قاعدہ کی بات ہے کہ حق گو اور حق کے پہنچانے والوں کے لوگ دشمن ہو جایا کرتے ہیں- قسما قسم کی تہمتیں اور الزام لگائے جاتے ہیں- اصل میں یہ سب اس واسطے ہوتا سے کہ شیطان کو فکر پڑ جاتی ہے کہ اس طرح میرا کام بگڑ جائے گا- لہٰذا وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے اور حق گو کے مقابلے کے واسطے اپنے پورے ہتھیاروں سے آ موجود ہوتا ہے تاکہ حق ظاہر نہ ہو- مگر آخرکار حق غالب آ جاتا ہے اور سچائی کی فتح ہوتی ہے اور شیطان ہلاک اور ذلیل ہو جاتا ہے- پس تم بھی کوشش کرو کہ حق کے پہنچانے والے بنو اور پھر ان مشکلات پر صبر کرنیوالے ہو جائو جو حق کے پہنچانے میں لازمی ہوتے ہیں-
اللٰھم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغننی بفضلک عمن سواک- مالی مشکلات کے وقت انسان کیا کچھ نہیں کرتا- حلال|وحرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان پروا نہیں کرتا کہ آیا میں جائز ذریعہ سے پیٹ بھر رہا ہوں کہ ناجائز طریق سے- غرض فقر و فاقہ ایک ایسی مصیبت ہوتی ہے کہ انسان کو حلال|وحرام میں فرق بھی نہیں کرنے دیتی- حدیث میںآیا ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی- حدیث شریف میں آیا ہے کہ انسان پر اگر ایک بڑے پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو جاوے تو اللہ|تعالیٰ اس دعا کے ذریعہ سے اس کے ادا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے اور اس طرح سے انسان قرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے-
پس اگر انسان سے خطا پر خطا اور چوک پر چوک ہی ہوتی گئی ہے اور یہ ابتدائی مشکلات سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکا اور ہم|وحزن کے نتائج کا خمیازہ اٹھا کر عجز و کسل میں اور عجز و کسل کے نتائج بد بھگتنے کے لئے بخل اور جبن اور آخرکار قرض کی مصیبت میں مبتلا ہو ہی گیا ہے تو بھی اس کے واسطے ایک ذریعہ بچائو کا اور ہے اور وہ دعا ہے- اگر انسان کو دعا اپنے تمام لوازم اور شرائط کے ساتھ نصیب ہو جاوے تو انسان کی خوش قسمتی ہے اور مصائب سے نجات پاجانے کی ایک یقینی راہ ہے-
نیز موجودہ زمانے میں دنیا طلبی اور دنیا کمانے کی کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ جس کو دیکھو اسی دھن میں لگا ہے اور جسے ٹٹولو اسی فکر میں حیران و سرگردان ہے- کوئی محکمہ‘ کوئی سوسائٹی ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک‘ ماتحت سے افسر تک‘ حاکم سے بادشاہ تک جسے دیکھو دنیا کی فکر میں لگا ہے- ضروریات کے وقت جائزوناجائز کی بھی پروا نہیں کی جاتی بلکہ بلا امتیاز حلال و حرام اکٹھا کرنے کی کوشش اور فکر کی جا رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے حضرت امام علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بھی اس امر کو محسوس کر کے اس زمانہ کے مناسب حال اقرار لیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا-
پس آخرکار ان مشکلات کے واسطے اس دعا میں ہی یہ راہ بتائی کہ دعا کرے اور بات بھی یہی حق ہے کہ دعا ہی سے بیڑا پار ہوتا ہے-
قرآن شریف سنو اور عمل کی غرض سے سنو- نفس کا دخل مت دو اور خدا سے دعائیں کرتے رہو- اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اعمال صالحات کی اور شر اور گناہ سے بچنے کی- آمین-
)الحکم جلد۱۳ نمبر ۲۶ ۔۔۔ ۱۰ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ۵تا۸(
* - * - * - *

۱۰ / اپریل ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
قل یٰایھا الکافرون- لا اعبد ما تعبدون- و لا انتم عٰبدون ما اعبد- و لا انا عابد ما عبدتم- و لا انتم عٰبدون ما اعبد- لکم دینکم ولی دین- )الکافرون:۲تا۷(
اور پھر فرمایا-:
نماز کے اختتام پر سلام پھیر کر معاً ہی حکم ہے کہ انسان کم از کم تین بار استغفار پڑھے- اور حدیث میں تو یوں بھی آیا ہے کہ نماز کے بعد ۳۳ بار سبحان اللہ‘ ۳۳ بار الحمد للہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھے- یہ بھی نماز کے بعد کے وظائف میں سے ایک ضروری وظیفہ ہے- مگر اس کا ہم انشاء اللہ توفیق ہوئی تو آئندہ کبھی اس کے موقع پر بیان کریں گے- سلام پھیرتے ہی معاً تین بار استغفر اللہ- استغفر اللہ- استغفر اللہ )ترمذی کتاب الدعوات( کہنے کا جو حکم ہے اس میں بھید کیا ہے؟ اور اس کی وجہ کیا؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان بڑا کمزور‘ ناتواں اور سست ہے- علم حقیقی سے بہت
دور ہے- آہستگی سے ترقی کر سکتا ہے- ہم تم تو چیز ہی کیا ہیں؟ اس عظیم الشان انسان‘ علیہ الف الف صلٰوۃ و السلام‘ کی بھی یہ دعا تھی رب زدنی علماً )طٰہٰ:۱۱۵-( تو جب خاتم الانبیاء افضل البشر کو بھی علمی ترقی کی ضرورت ہے جو اتقی الناس- اخشی الناس- اعلم الناس ہیں اور ان کے متعلق الرحمٰن علم القراٰن )الرحمن:۲‘۳( وارد ہو جانے کے باوجود بھی ان کو ترقی علم کی ضرورت ہے تو ماوشما حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ہم علمی ترقی نہ کریں- اگر میں کہہ دوں کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق ہے اور میرے پاس اللہ کے فضل سے کتابوں کا ذخیرہ بھی تم سب سے بڑھ کر موجود ہے اور پھر یہ بھی اللہ کا خاص فضل ہے کہ میں نے ان سب کو پڑھا ہے اور خوب پڑھا ہے اور مجھے ایک طرح کا حق بھی حاصل ہے کہ ایسا کہہ سکوں- مگر بایں )وجہ( میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے علم کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے بھی ترقی علم کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے- علم سے میری مراد کوئی دنیوی علم اور ایل- ایل- بی یا ایل- ایل- ڈی کی ڈگریوں کا حصول نہیں ہے- لاحول و لاقوۃ الا باللہ- بلکہ ایسا تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسی میری کبھی اپنی ذات یا اپنی اولاد کے واسطے خواہش ہوئی ہے- عام طور پر لوگوں کے دلوں میں آج کل علم سے بھی ظاہری علم مراد لیا گیا ہے اور ہزارہا انسان ایسے موجود ہیں کہ جن کو دن رات یہی تڑپ اور لگن لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح وہ بی- اے یا ایم- اے یا ایل- ایل- بی کی ڈگریاں حاصل کر لیں- ان لوگوں نے اصل میں ان علوم کی دھن ہی چھوڑ دی ہے جن پر سچے طور پر علم کا لفظ صادق آسکتا ہے- پس ہماری مراد ترقی علوم سے خدا کی رضامندی کے علوم اور اخلاق فاضلہ سیکھنے کے علوم‘ وہ علوم جن سے خدا کی عظمت اور جبروت اور قدرت کا علم ہو اور اس کے صفات‘ اس کے حسن و احسان کا علم آ جاوے- غرض وہ کل علوم جن سے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ کا علم آ جاوے‘ مراد ہیں- انسان چونکہ کمزور ہوتا ہے اور اس کا علم اپنے کمال تک نہیں پہنچا ہوتا اور بعض اوقات اپنی کمزوریوں اور سستیوں کی وجہ سے نماز کو کبھی وقت سے بے وقت‘ کبھی بے توجہی سے پڑھتا ہے اور کبھی نمازوں میں اس کا خیال کہیں کا کہیں چلا جاتا اور پورا حضور قلب اور خضوع جو نماز کے ضروری ارکان ہیں ان کے ادا کرنے میں سستی ہو جاتی ہے یا نماز تدبر سے نہیں پڑھی جاتی یا کبھی اصلی لذت اور سرور سے محروم رہ جاتا ہے اور باریک در باریک وجوہ کے باعث نماز میں کوئی نہ کوئی کمی یا نقص رہ جاتا ہے- اس واسطے حکم ہے کہ نماز کا سلام پھیرنے کے ساتھ ہی معاً استغفار پڑھ کر اپنی کمزوریوں اور نماز میں اگر کوئی نقص رہ گیا ہے تو اس کی تلافی خدا سے چاہے اور عرض کرے کہ یاالٰہی! اگر میری نماز کسی باریک|درباریک کمی یا نقص کی وجہ سے قابل قبول نہیں تو میری کمزوریوں پر پردہ ڈال کر بخشش فرما اور میری عبادت کو قبول فرما لے- ہم تیرے عاجز بندے ہیں- ہم تیری اس کبریائی‘ عظمت اور جلال کو جو تیری ذات پاک کے شایاں اور مناسب حال ہے کہاں جان سکتے ہیں- اس واسطے ان کمیوں پر چشم پوشی فرما اور عفو کر- گزشتہ غلطیوں کو معاف فرما اور آئندہ کے واسطے توفیق عطا فرما کہ ہم تیری عبادت بطریق احسن اور ابلغ کرنے کے لائق ہوں-
نماز کی کمی اور نقائص کی تلافی کے واسطے ماثورہ اوراد کے علاوہ ایک ایک مقررہ تعداد رکعات سنن کی بھی ضروری ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے- فرائض کی تکمیل کے واسطے سنن کا پڑھنا نہایت ہی ضروری ہے- جو لوگ سنتوں کے ادا کرنے میں سستی یا کاہلی کرتے ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے-
میں ہمیشہ اس بات سے ڈرتا رہتا ہوں کہ حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ و السلام کے اس عمل سے کہ آپ نماز فرائض کے بعد فوراً اندر تشریف لے جاتے ہیں کوئی ٹھوکر کھائے اور خود بھی فرائض کے بعد فوراً مسجد سے باہر بھاگنے کی کوشش کرے اور ادعیہ ماثورہ اور سنن کی پرواہ نہ کرے- یاد رکھو کہ حضرت|اقدس ان سب باتوں کے پورے پابند ہیں اور اکثر گھر میں نوافل میں بھی لگے رہتے ہیں- بلکہ بعض اوقات آپ سنن مسجد میں بھی ادا کر لیتے ہیں- غالباً یہی خیال آ جاتا ہو گا کہ کوئی ٹھوکر نہ کھائے- حدیث|شریف میں آیا ہے کہ نماز سے گھر بابرکت ہو جاتے ہیں- چنانچہ میرا خود بھی اسی پر عمل ہے- اکثر سنن اور نوافل گھر میں ادا کرتا ہوں مگر اسی خیال سے کہ کسی بیمار دل کو ٹھوکر نہ لگے بعض اوقات مسجد میں بھی ادا کر لیتا ہوں اور خدا سے یہ دعا عرض کر دیتا ہوں کہ گھر میں تو ہی برکت دے دیجیو- رسول|اکرم کا عمل بھی اسی طرح پر ہے- شام کے نوافل کے متعلق آنحضرت کا مسجد میں ادا کرنے کا بھی ایک اثر موجود ہے- غرض یہ ہے کہ سنن کی پابندی نہایت ضروری ہے خواہ گھر میں ہوں اور خواہ مسجد میں-
قرآن شریف کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتیں جن میں چاروں قل بھی ہیں نماز میں بھی اور نماز کے بعد کے اوراد ماثورہ میں بھی داخل ہیں- لہذا ان کے متعلق بھی کسی قدر بیان کر دینا ضروری ہے- مسلمان انسان میں غیرت اور حمیت ہونی چاہئے اور ہر حالت میں لازمی ہے کہ ایماندار انسان بے|غیرت ہونے کی حد تک ذلیل نہ ہو جاوے- دیکھو حضرت نبی کریمﷺ~ کی ابتدائی تیرہ سالہ مکہ کی زندگی کیسی مشکلات اور مصائب کی زندگی ہے مگر بایں کہ آپﷺ~ بالکل تنہا اور کمزور ہیں خدا تعالیٰ آپ کی زبان سے اہل مکہ کے بڑے بڑے اکابر قریش اور سرداران قوم کو جو اپنے برابر کسی کو دنیا میں سمجھتے ہی نہ تھے‘ یوں خطاب کراتا ہے قل یٰایھا الکافرون- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمزوری کی حالت میں بھی خدائی تائید اور نصرت کی وجہ سے جو آپ کے شامل حال تھی اور اس کامل اور سچے علم کی وجہ سے جو آپ کو خدا کے وعدوں پر تھا‘ آپﷺ~ میں ایسی قوت اور غیرت و حمیت موجود تھی کہ آپ تبلیغ|احکام|الٰہی میں ان کے سامنے ہرگز ہرگز ذلیل نہ تھے بلکہ آپ کے ساتھ خدا کی خاص نصرت اور حق کا رعب اور جلال ہوا کرتا تھا- پس اس سے مسلمانوں کو یہ سبق لینا چاہئے کہ حق کے پہنچانے میں ہرگز ہرگز کمزوری نہ دکھائیں اور دینی معاملات میں ایک خاص غیرت اور جوش اور صداقت کے پہنچانے میں سچی حمیت رکھیں-
کافر کا لفظ عرب کے محاورے میں ایسا نہیں تھا جیسا کہ ہمارے ملک میں کسی کو کافر کہنا گویا آگ لگا دینا ہے- وہ لوگ چونکہ اہل زبان تھے خوب جانتے تھے کہ کسی کی بات کا نہ ماننے والا اس کا کافر ہوتا ہے اور ہم چونکہ آپ کی بات نہیں مانتے اس واسطے آپ ہمیں اس رنگ میں خطاب کرتے ہیں- قرآن شریف میں خود مسلمانوں کی صفت بھی کفر بیان ہوئی ہے جہاں فرمایا ہے یکفر بالطاغوت )البقرہ:۲۵۷-( معلوم ہوا کہ کفر مسلمان کی بھی ایک صفت ہے مگر آج کل ہمارے ملک میں غلط سے غلط بلکہ خطرناک سے خطرناک استعمال میں آیا ہے- کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ دست و گریبان ہوا-
اصل میں کافر کا لفظ دل دکھانے کے واسطے نہیں تھا بلکہ یہ تو ایک واقعہ کا اظہار و بیان تھا- وہ لوگ تو اس لفظ اور خطاب کو خوشی سے قبول کرتے تھے-
قل یٰایھا الکافرون کے معنی ہوئے کہ وے اے کافرو! ہوشیار ہو کر اور توجہ سے میری بات کو سن لو- لا اعبد ما تعبدون میں ان بتوں کی‘ ان خیالات کی‘ ان رسوم|و|رواج کی اور ان ظنوں کی فرمانبرداری نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو-
ان لوگوں میں اکثر لوگ تو ایسے ہی تھے جو رسم و رواج‘ عادات اور بتوں کی اور ظنوں اور وہموں کی پوجا میں غرق تھے- ہاں بعض ایسے بھی تھے کہ جو دہریہ تھے مگر زیادہ حصہ ان میں سے اول الذکر لوگوں میں سے تھے- خدا کو بڑا خدا جانتے تھے اور خدا سے انکار نہ کرتے تھے- بعض ایسے بھی کافر تھے جو خدا کو بھی مانتے تھے اور بتوں سے بھی الگ تھے- رسم و رواج میں بھی نہ پڑے تھے- آنحضرتﷺ~ کے پاس آنے کو اور آپﷺ~ کی فرمانبرداری کرنے میں اپنی سرداری کی ہتک جانتے تھے اوران کے واسطے ان کا کبر اور بڑائی ہی حجاب اور باعث کفر ہو رہی تھی-
و لا انتم عابدون ما اعبد ]text [tag اور نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کرتے نظر آتے ہو- و لا انا عابد ما عبدتم اور نہ ہی میں کبھی تمہاری طرز عبادت میں آئوں گا-
و لا انتم عابدون ما اعبد اور نہ ہی تم اپنے رسم و رواج‘ جتھے اور خیالات‘ اپنے بتوں اور مہنتوں کو چھوڑتے نظر آتے ہو- تو اچھا پھر ہمارا تمہارا یوں فیصلہ ہو گا کہ لکم دینکم و لی دین میرے اعمال اور عقائد کا نتیجہ میں پائوں گا اور تمہارے بدکردار اور عقائد فاسدہ کی سزا تم کو ملے گی- پھر اس وقت پتہ لگ جاوے گا کہ کون صادق اور کون کاذب ہے؟ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ دنیا جانتی ہے- ہر ایک نے سن لیا ہو گا کہ آنحضرتﷺ~ دنیا سے کس حالت میں اٹھائے گئے اور آپﷺ~ کے اتباع کو دنیا میں کیا کچھ اعزاز اور کامیابی نصیب ہوئی اور آپﷺ~ کے وہ دشمن کہاں گئے اور ان کا کیا حشر ہوا؟ کسی کو ان کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں- پس یہی نمونہ اور مابہ الامتیاز ہمیشہ کے واسطے صادق اور کاذب میں خدا کی طرف سے مقرر ہے- فقط-
) الحکم جلد۱۲ نمبر۲۸ ۔۔۔ ۱۸ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ۱۴- ۱۵ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۷ / اپریل ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
قل ھو اللہ احد- اللہ الصمد- لم یلد و لم یولد- و لم یکن لہ کفواً احد- )الاخلاص:۲-۵( ][ تمام تر نماز کے بعد جو وظائف مقرر ہیں ان میں سے چاروں قل‘ آیت الکرسی‘ اور تسبیح‘ تحمید اور تکبیر کے اذکار بھی ہیں- قل یٰایھا الکافرون )الکافرون:۲( کے متعلق پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ہم بیان کر چکے ہیں- آج اس مختصر سورۃ کے معانی سنائے جاتے ہیں- اس سورۃ کے فضائل میں سے ایک یہ بھی حدیث صحیح سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ثواب میں قرآن شریف کے تیسرے حصہ کے برابر ہے- یہ بات بالکل سچی اور بہت ہی سچی ہے- اس واسطے کہ قرآن شریف مشتمل ہے اللہ تعالیٰ کی ذات|وصفات کے مضامین‘ دنیوی امور یعنی اخلاقی‘ معاشرتی‘ تمدنی اور پھر بعد الموت یعنی قیامت کے متعلقہ مضامین پر- اس سورۃ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے صفات اور اس کی ذات کے متعلق ہی ذکر ہے اس طرح سے بلحاظ تقسیم مضامین یہ سورۃ قرآن شریف کے ایک تہائی کے برابر ہے- یعنی قرآن کریم کے تین اہم اور ضروری مضامین میں سے ایک مضمون کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے- دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ|تعالیٰ کی کتاب سورۃ فاتحہ سے جو کہ قرآن شریف کی کلید اور ام الکتاب ہے شروع ہوئی ہے اور یہ ام الکتاب‘ ضالین پر ختم ہوئی ہے- ضال کہتے ہیں کسی سے محبت بے جا کرنے کو یا جہالت سے کام لینے اور سچے علوم سے نفرت اور لاپرواہی کرنے کو- صرف دو شخص ہی ضال کہلاتے ہیں- ایک تو وہ جو کسی سے بیجا محبت کرے- دوسرا وہ جو سچے علوم کے حصول سے مضائقہ کرے-
انسان ہر روز علم کا محتاج ہے- سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے- پس جو علم نہیں سیکھتا اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے جس سے انسان اچھے اور برے‘ مفید اور مضر‘ نیک اور بد‘ حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکتا- حدیث میں آیا ہے کہ ضال نصاریٰ ہیں- دیکھ لو انہوں نے اپنی آسمانی کتاب کو کس طرح اپنے تصرف میں لا کر ترجمہ در ترجمہ- ترجمہ در ترجمہ کیا ہے کہ اب اصل زبان کا پتہ ہی نہیں لگتا- صاف بات ہے کہ ترجمہ تو خیال ہے مترجم کا- غرض علوم الٰہی اور کتب سماوی میں انہوں نے ایسا تصرف کیا اور جہالت کا کام کیا ہے کہ وہ اصل الفاظ اب ملنے ہی محال ہیں-
دوسری طرف حضرت مسیح کی محبت میں اتنا غلو کیا ہے کہ ان کو خدا ہی بنا لیا- اور اس سورۃ میں اس قوم نصاریٰ کا ذکر ہے اور یہ سورۃ قرآن شریف کے آخر میں ہے- اور یہ ضال کی تفسیر ہے اور ضال کا لفظ ام الکتاب کے آخر میں ہے- پس اس طرح سے ام الکتاب کے آخر کو قرآن کے آخر سے بھی ایک طرح کی مناسبت ہے-
ایک صحابیؓ جو کہ میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً وہ عیسائیوں کے پڑوس میں رہتا ہو گا وہ اس سورت کا ہر نماز میں التزام کیا کرتا تھا- بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے- چنانچہ آپﷺ~ صبح کی سنتوں میں غالباً زیادہ تر قل یٰایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد ہی پڑھا کرتے تھے- مغرب کی نماز )جو کہ جہری نماز ہے( میں بھی اول رکعت میں قل یٰایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد اکثر پڑھا کرتے تھے- وتروں میں بھی آنحضرتﷺ~ کا یہی طریق تھا- چنانچہ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ‘ text] [tagدوسری میں قل یٰایھا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد بہت پڑھا کرتے تھے- غرض نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ اوراد میں اس سورۃ شریفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے-
قل ھو اللہ احد تو کہہ دے )وہ جو اس کا کہنے والا ہے( اللہ ہے اور وہ احد ہے- ساری ہی صفات|کاملہ سے موصوف اور ساری بدیوں سے منزہ ذات بابرکات ہے-
یہ پاک نام اور اس کے رکھنے کا فخر صرف صرف عربوں ہی کو ہے- اللہ کا لفظ انہوں نے خالص کر کے صرف صرف خدا کے واسطے خاص رکھا ہے- اور ان کے کسی معبود‘ بت‘ دیوی‘ دیوتا پر انہوں نے یہ نام کبھی بھی استعمال نہیں کیا- مشرک عربوں نے بھی اور شاعر عربوں نے بھی بجز خدا کی ذات کے اس لفظ کا استعمال کسی دوسرے کے حق میں نہیں کیا خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور واجب التعظیم ان کا کیوں نہ ہو- یہ فخر بجز عرب کے اور کسی ملک اور قوم کو میسر نہیں-
زبان انگریزی سے میں خود تو واقف ہوں نہیں مگر لوگوں سے سنا ہے کہ اس زبان میں بھی کوئی مفرد لفظ خاص کر کے خالصا للٰہ نہیں ہے- ہر لفظ جو وہ خدا کے واسطے بولتے ہیں وہ ان کی زبان کے محاورے میں اوروں پر بھی بولا جاتا ہے-
سنسکرت میں تو میں علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ اول ہی اول جو ان کی کتابوں میں خدا کا نام رکھا گیا ہے وہ اگنی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگنی آگ پر بھی بولا جاتا ہے- علیٰ ہذا القیاس اور اور جو نام بھی ویدوں میں پرمیشر پر بولے ہیں وہ سارے کے سارے ایسے ہی ہیں کہ جن کی خصوصیت خدا کے واسطے نہیں بلکہ وہ سب کے سب اور دیوی دیوتائوں وغیرہ پر بھی بولے جاتے ہیں- یہ فخر صرف اسلام ہی کو ہے کہ خدا کا ایسا نام رکھا گیا ہے کہ جو کسی معبود وغیرہ کے واسطے نہیں بولا جاتا-
احد وہ اللہ ایک ہے- نہ کوئی اس کے سوا معبود اور نہ اس کے سوا کوئی تمہارے نفع و ضرر کا حقیقی مالک ہے- کاملہ صفات سے موصوف اور ہر بدی سے منزہ اور ممتاز و پاک ذات ہے-
اللہ الصمد اللہ صمد ہے- صمد کہتے ہیں جس کی طرف ان کی احتیاج ہو اور خود نہ محتاج ہو- صمد سردار کو کہتے ہیں- صمد اس کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر سے نہ کچھ نکلے اور نہ اس میں کچھ گھسے- یہ ایسا پاک نام ہے کہ انسان کو اگر اللہ تعالیٰ کے اس نام پر کامل ایمان ہو تو اس کی ساری حاجتوں کے لئے کام کافی اور سارے دکھوں سے نجات کے سامان ہو جاتے ہیں- میں خود تجربتاً کہتا ہوں اور اس امر کی عملی شہادت دیتا ہوں کہ جب صرف اللہ ہی کو محتاج الیہ بنا لیا جاتا ہے تو بہت سے ناجائز ذرائع اور اعمال مثلاً کھانے‘ پینے‘ مکان‘ مہمانداری‘ بیوی بچوں کی تمام ضروری حاجات سے انسان بچ جاتا ہے اور انسان ایسی تنگی سے بچ جاتا ہے جو اس کو ناجائز وسائل سے ان مشکلات کا علاج کرنے کی ترغیب دیتی ہے- جوں جوں دنیا خدا سے دور ہو کر آمدنی کے وسائل سوچتی ہے اور دنیوی آمد میں ترقی کرتی جاتی ہے توں توں قدرت اور منشاء الٰہی ان آمدنیوں کو ایک خرچ کا کیڑا بھی لگا دیتا ہے- گھر کی مستورات سے ہی لو اور پھر غور کرو کہ اس قوم نے کس طرح محنت کرنا اور کاروبار خانگی سے دست برداری اختیار کی ہے- چرخہ کاتنا یا چکی پیس کر گھر کی ضرورت کو پورا کرنا تو گویا اس زمانہ میں گناہ بلکہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے- کام کاج )جو کہ در اصل ایک مفید ورزش تھی جس سے مستورات کی صحت قائم رہتی اور دودھ صاف ہو کر اولاد کی پرورش اور عمدہ صحت کا باعث ہوتا تھا( تو یوں چھوٹا- اخراجات میں ایسی ترقی ہو گئی کہ آجکل کے لباس کو دیکھ کر مجھے تو بارہا تعجب آتا ہے- ایسا نکما لباس ہے کہ دس پندرہ دن کے بعد وہ نکما محض ہو کر خادمہ یا چوہڑی کے کام کا ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرت کہ پھر وہ چوہڑی بھی اس سے بہت عرصہ تک مستفید نہیں ہو سکتی- وہ کپڑے کیا ہوتے ہیں؟ وہ تو ایک قسم کا مکڑی کا جالا ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ شکار کرتی ہے-
پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خطرناک گھن لگا ہوا ہے- وہ یہ کہ اشیاء خوردنی کا نرخ بھی گراں ہو رہا ہے- ہر چیز میں گرانی ہے- اگر آمدنی کی ترقی ہوئی تو کیا فائدہ ہوا؟ دوسری طرف خرچ کا بڑھائو ہو گیا- بات تو وہیں رہی-
ہمارے شہر کا ذکر ہے کہ ایک قوم دو آنے روز کے حساب سے ایک زمانہ میں مزدوری کیا کرتی تھی- ایک دفعہ انہوں نے مل کر یہ منصوبہ کیا کہ بجائے ۸ دن کے ۵ دن میں روپیہ لیا کریں اور جو شخص ہم میں سے اس کی خلاف ورزی کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کی عورت کو طلاق- مگر خدا کی قدرت وہ کام نہ چل سکا اور آخر مجبوراً ان کو فتویٰ لینا پڑا کہ اب کیا کریں- ملاں کے پاس گئے تو اس نے کہہ دیا کہ ہماری مسجد میں چند روز مفت کام کرو- جواز کی راہ نکال دیں گے- غرض ایک تو وہ وقت تھا اور ایک اب ہے کہ وہ روپیہ روز یا بعض سوا روپیہ روزانہ کماتے ہیں- اور عجیب بات یہ ہے کہ کام بھی اس وقت کے برابر عمدہ اور مضبوط نہیں اور مقدار میں بھی اس وقت سے کم ہے- اس وقت وہی لوگ اسی مزدوری میں انجینئرنگ اور نقشہ کشی کرتے تھے اور وہی عمارت کا کام کرتے تھے مگر اب ان کاموں کے واسطے الگ ایک معقول تنخواہ کا ملازم درکار ہے-
میرے والد صاحب ایک قسم کی لنگی )کھیس( پہنا کرتے تھے اور وہ کپڑا گھر کا بنایا ہوا ہوتا تھا- اس میں تلا ضرور ہوتا تھا- ہماری بہنوں کو فخر ہوا کرتا تھا کہ ہم اپنے والد صاحب کے پہننے کی لنگی اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں-
غرض ایک وہ وقت تھا کہ آمدنیاں اگرچہ کم تھیں مگر بوجہ کسب حلال ہونے کے بابرکت تھیں- اور ایک یہ زمانہ ہے کہ در اصل اگر غور کیا جاوے تو آمدنیاں کم مگر خرچ زیادہ ہیں- آمدنی بڑھی تو خرچ بھی ساتھ ہی ترقی کر گئے- کیونکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے لوگ اکثر ادھر ادھر سے آمدنی کے بڑھانے کے واسطے بہت قسم کے ناجائز و سائل اختیار کرتے ہیں- اکثر یہی کوشش دیکھی گئی ہے کہ روپیہ آ جاوے- اس بات کی پروا نہیں کہ وہ حلال ہے یا حرام- یہی وجہ ہے کہ وہ بے برکت ہوتا ہے-
تعلیم کا حال دیکھ لو کیسی گراں ہو گئی ہے- حتیٰ کہ گورنمنٹ جو ترقی تعلیم کی از بس مشتاق اور حریص تھی اسے مشکلات آ گئے کہ اب وہ لڑکوں کے پاس کرنے میں مضائقہ کرتی ہے اور اس فکر میں ہے کہ کسی طرح یہ سلسلہ کمی پر آ جاوے- اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گی اور ضرور ہو گی- کیونکہ خدا کو جب تک ان کی سلطنت منظور ہے تب تک ان کی نصرت بھی کرے گا-
غرض یہ کہ اگر اپنی چالاکی اور ناجائز تدابیر اور ناجائز ذرائع سے مالوں کو بڑھانے کی کوشش کرو گے تو دوسری طرف خدا اس کو خاک میں ملاتا جاوے گا- اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے کہ ایک شخص نہایت خوبصورت صندوق جس میں مختلف قسم کے رنگارنگ کوئی سرخ‘ کوئی سفید‘ کوئی زرد قسم کے ٹکڑے کانچ کے تھے ایک رئیس کے پاس لایا اور پیش کیا کہ آپ اس کو خرید لیں- مگر وہ رئیس بڑا عقل|مند تھا- اگرچہ مشرک تھا اور مشرک عقل مند نہیں ہوتا مگر ایک قسم کی جزوی عقل تھی- وہ بات کو سمجھ گیا اور کہا کہ یہ شخص شریر تو نہیں ہے اس کو دھوکہ لگا ہے- اگر شریر ہوتا تو اس کو میرے پاس آنے کی اس طرح جرئات نہ ہوتی- یہ سوچ کر اس سے کہا کہ میں ان کو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا- البتہ یہ ایک ہزار روپیہ تم کو دیا جاتا ہے اس بات کے بدلے کہ تم نے ایسی نایاب چیز ہمیں دکھائی- وہ شخص بہت خوش ہو گیا- رئیس نے اس سے یہ بھی کہہ دیا کہ تم چند روز یہیں ٹھہر جائو- پھر ایک دو دن بعد بلوا کر پوچھا کہ تم نے یہ صندوق کہاں سے لیا- اس نے سارا ماجرا کہہ دیا کہ جب دلی کے غدر کے موقع پر افراتفری پڑی تو میں نے سنا ہوا تھا کہ بادشاہ اپنے پاس اس قسم کا ایک مختصر صندوقچہ رکھا کرتے ہیں کہ وقت ضرورت کام آوے- تو میں سب سے پہلے قلعہ میں کودا اور یہ صندوقچہ لے بھاگا- رئیس کو یقین آ گیا کہ واقعی یہی بات ہے- مگر اس شخص کے ساتھ کہیں دھوکا کیا گیا ہے- اس نے پوچھا تو پھر سارا ماجرا بیان کرو کہ یہاں آنے تک اور کیا کیا باتیں پیشں آئیں- تو اس پر اس شخص نے بیان کیا کہ رستے میں ایک اور شخص بھی میرا ہم سفر ہوا اور اس کے پاس بھی ایک صندوق تھا اور وہ یہی تھا- اثنائے راہ میں وہ گاہ|گاہ مجھے کھول کر
اپنا صندوقچہ دکھایا بھی کرتا تھا اور ذکر کرتا تھا کہ میں نے بھی دلی کی افراتفری میں حاصل کیا ہے- مگر چونکہ اس کا صندوقچہ میرے سے عمدہ تھا اور اس کامال بھی میرے مال سے اچھا تھا اور پھر وہ گاہ گاہ میرے حوالہ کر کے چلا بھی جاتا تھا اور میرا اعتبار کرتا تھا‘ میں اس کا اعتبار نہ کرتا اور نہ ہی صندوقچہ اسے کھول کر بتاتا- آخر ہوتے ہوتے مجھے اس کا صندوقچہ پسند آیا- میں نے موقع پا کر اپنا تو پڑا رہنے دیا اور اس کا صندوقچہ لے بھاگا جو میرے خیال میں میرے والے بکس سے عمدہ اور عمدہ مال والا تھا-
اور یہ وہی صندوقچہ ہے جو میں نے اس شخص کا حاصل کیا اور اپنا اس کے واسطے چھوڑا- یہ سارا واقعہ سننے کے بعد اس رئیس نے اس سے کہا کہ اب وہ ہزار روپیہ تو ہم تمہیں دے چکے اور وہ تمہاری محنت کا پھل تھا جو تمہیں مل گیا- مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ معمولی جھاڑ فانوس کے ٹکڑے ہیں چاہو ان کو رکھو اور چاہو پھینک دو‘ یہ کسی کام کے نہیں ہیں- اور روشنی کے داروغہ کو بلوا کر اسے ویسے ہزاروں ٹکڑے بتا دیئے- یہ دیکھ کر اس بے چارے کی آنکھیں کھلیں اور اپنے کئے پر پچھتایا- رئیس نے کہا کہ خدا رحیم کریم ہے- اس نے تمہاری محنت بالکل ضائع بھی نہ کی اور سزا بھی دے دی کہ تم نے چالاکی سے عمدہ مال حاصل کرنا چاہا تھا- الٹا اس حرص سے ایک گناہ بھی کیا اور اصل مال بھی برباد کیا- اس کا جو حال ہوا ہو گا اس کا ہمیں علم نہیں-
غرض انسان چاہتا ہے کہ میں چالا کی اور دھوکہ سے کامیاب ہو جائوں مگر خدا اس کو عین اسی رنگ میں سزا دیتا ہے اور ناکام کرتا ہے جس رنگ میں خدا کو ناراض کر کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے- یہ قصہ کہانی نہیں بلکہ ایک واقعہ کا بیان کیا گیا اور عقل مند اس سے عبرت پکڑتے ہیں- میں نے یہ ایک بات کہی ہے- تم اس سے اصل حقیقت کی طرف چلے جائو-
اللہ الصمد حقیقت میں وہی محتاج الیہ ہے-
لم یلد اس کا کوئی بچہ نہیں کیونکہ وہ صمد ہے اور بچہ لینے کے واسطے بیوی کی حاجت ہوتی ہے- پس وہ لم یلد ہے کیونکہ وہ صمد ہے- خدا کا ولد ماننے میں نہ تو خدا کی صفت صمد ہی رہتی ہے اور نہ صفت احد ہی قائم رہ سکتی ہے- کیونکہ بچے کے واسطے بیوی کی حاجت لازمی ہے اور پھر بیوی اسی جنس اور کفو کی چاہئے تو احد بھی نہ رہا- غرض یہ بالکل سچ ہے کہ لم یلد ہے وہ ذات پاک-
و لم یولد اور وہ خود بھی کسی کا بیٹا نہیں- کیونکہ اس میں بھی والدین کی احتیاج لازمی اور کفو ضروری ہے- پس وہ احد ہے- صمد ہے- لم یلد ہے اور لم یولد text] g[taاور لم یکن لہ کفواً احد ذات ہے-
دیکھو میں پھر کہتا ہوں اور درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ صمد ہے- اسی کو اپنا محتاج الیہ بنائے رکھو- کھانے‘ پینے‘ پہننے‘ عزت‘ اکرام‘ صحت‘ عمر‘ علم‘ بیوی‘ بچے اور ان کی تمام ضروریات کے واسطے اسی کی طرف جھکو- میں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب انسان خدا کو اپنا محتاج الیہ یقین کر لیتا ہے اور اس کا کامل ایمان ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی انسان کو کسی انسان کا محتاج نہیں کرتا- میں اپنا ہر روزہ تجربہ بیان کرتا ہوں کہ اللہ صمد ہے- اسی پر ناز کرو- خدا کو چھوڑ کر اگر مخلوق پر بھروسہ کرو گے تو بجز ہلاکت کچھ حاصل نہ ہو گا- میں نصیحت کے طور پر تم کو یہ باتیں درد دل سے اور سچی تڑپ سے کہتا ہوں کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور ہر ایک ذرہ اس کے اختیار اور تصرف میں ہے-
لم یکن لہ کفواً احد کوئی رسول ہو خواہ نبی ولی ہو یا کوئی غوث و قطب‘ کوئی بھی اس کے لگے کا نہیں- کوئی بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا- سب اسی کے محتاج ہیں اور اسی کے نور سے روشنی حاصل کرنے والے ہیں اور اسی سے فیض پا کر دنیا کو پہنچاتے رہتے ہیں- وہی ان سب کے کمال و فضل اور حسن و احسان کے انوار کا منبع اصلی ہے- پس جب ایسا خدا موجود ہے تو پھر ایک مومن انسان کو کیا غم ہے اور کونسی خوشی اس کی باقی رہ گئی ہے؟
حضرت اقدس فرمایا کرتے ہیں کہ کسی کو اپنے مال پر خوشی ہوتی ہے‘ کسی کو یار دوستوں پر‘ مگر مجھے یہ خوشی کافی ہے کہ میرا خدا قادر خدا ہے- مگر یہ باتیں ایمان‘ یقین‘ فکر اور تدبر کو چاہتی ہیں اور اس بات کو چاہتی ہیں کہ انسان ہمیشہ رہنے کے واسطے نہیں بنایا گیا- کسی کو کیا علم ہے کہ میں کل رہوں گا یا نہیں- اس واسطے میں جب کبھی وعظ کرنے کھڑا ہوتا ہوں تو ہمیشہ آخری وعظ سمجھ کر کرتا ہوں- خدا جانے پھر کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں- اللہ تعالیٰ توفیق دے عمل کی- آمین-
خظبہ ثانیہ
ایک دوست نے کل پوچھا تھا کہ صلٰوۃ اور برکات تو سمجھے مگر یہ جو قرآن شریف میں آیا ہے کہ سلموا تسلیماً )الاحزاب:۵۷( سلام اور تسلیم کیا ہوا؟
اس کے واسطے یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرتﷺ~ ایک دین لائے تھے جس کا نام اسلام ہے اور وہ حقیقی خوشی‘ راحت اور خوشحالی کی جڑ اور سرچشمہ ہے- اس کی تعلیم پر چلنے سے انسان ہر دکھ سے نجات پاتا اور ہر سکھ اسے میسر ہوتا ہے- دیکھو میں بہت بڑی عمر پا چکا ہوں اور اب بڈھا ہو گیا ہوں اس لئے میری شہادت اس امر میں کافی ہے-
قاعدہ ہے کہ ہر انسان کو ضرورتیں ہوتی ہیں اور کچھ اس کے ارادے اور خواہشات ہوتی ہیں- کبھی کبھی انسان کو ان کے پورا کرنے کی کوششوں میں غلط کارروائی کی وجہ سے تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں اور بجائے نفع کے نقصان بھگتنا پڑتا ہے- جتنی جتنی کوئی چیزنازک اور عظیم الشان ہوتی ہے اتنا ہی اسے نقصان کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے- دیکھو اسلام بڑا نازک اور عظیم الشان مذہب ہے اس لئے اسے نقصان کا اندیشہ بھی زیادہ ہے- خود قوم کی حالت اور نمونے کا اس پر اثر ہوتا ہے- افراد کی حالت سے قیاس کر لیا جاتا ہے- مسلمان کیسے ذلیل‘مفلس اور محتاج ہیں- پھر بایں کیسے کیسے منصوبے کرتے ہیں- ان میں حد درجے کی کمزوریاں اور سستیاں اور کاہلی موجود ہے- فاسق فاجر اور بدمعاش اچکے ان میں بھرے پڑے ہیں- جیل ان سے بھرے ہوئے ہیں- پھر بھی جھوٹا فخر‘ تکبر‘ بڑائی اور شیخی ایسی کی جاتی ہیکہ گویا تیس مارخان یہی ہیں- ذرا سی بات میں وحشی بن جاتے ہیں اور جھوٹے فخر کرتے ہیں کہ تمام دنیا نے جو کچھ سیکھا ہے اسلام سے سیکھا ہے- اچھا اگر دنیا نے اسلام سے سیکھ لیاتو تم نے کیوں نہ سیکھا؟
غرض ان بداخلاقیوں اور افراد کے رذائل اور ردی حالت سے خود اسلام پر اعتراض اور دھبہ آتا ہے اور دشمنوں کے حملے ہوتے ہیں اور اور قوموں کو ایسے برے نمونے سے نفرت پیدا ہوتی ہے- اسی واسطے مسلمان کو حکم ہے کہ آپ کے واسطے تسلیم مانگے کہ آپ کا دین‘ آپ کے ارادے اور آپ کی تمام آرزوئیں ہر طرح سے محفوظ و مصئون رہیں اور کبھی کسی میں کوئی نقص یا کمزوری اور دھبہ نہ آوے- آمین-
)الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ ۔۔۔ ۲۲ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ تا ۷(
* - * - * - *
‏KH1.26
خطبات|نور خطبات|نور
۲۴ / اپریل ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
قل اعوذ برب الفلق- من شر ما خلق- و من شر غاسق اذا وقب- و من شر النفٰثٰت فی العقد- و من شر حاسد اذا حسد- )الفلق:۲تا۶-(
اور پھر فرمایا-:
چار قل جو نماز میں اور نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں ان میں سے یہ تیسرا قل ہے- قل اعوذ برب الفلق- قرآن شریف میں فلق کا لفظ تین طرح پر استعمال ہوا ہے- فالق الاصباح )الانعام:۹۷( فالق الحب و النویٰ )الانعام:۹۶-( پس خدا فالق الاصباح‘ فالق الحب اور فالق النویٰ ہے- دیکھو رات کے وقت خلقت کیسی ظلمت اور غفلت میں ہوتی ہے- بجز موذی جانوروں کے عام طور سے چرند پرند بھی اس وقت آرام اور ایک طرح کی غفلت میں ہوتے ہیں- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت تاکیدی حکم دیا ہے کہ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کر لیا کرو- کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک کر رکھا کرو خصوصاً جب اندھیرے کا ابتدا ہو- اور بچوں کو ایسے اوقات میں باہر نہ جانے دو کیونکہ وہ وقت شیاطین کے زور کا ہوتا ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی تصدیق جو کہ آج سے تیرہ سو برس پیشتر ایک امی بیابان عرب کے ریگستانوں کے رہنے والے کے منہ سے نکلا تھا آج اس روشنی اور علمی ترقی کے زمانہ میں بھی نہایت باریک در باریک محنتوں اور کوششوں کی تحقیقات کے بعد بھی ہو رہی ہے- جو کچھ آپﷺ~ نے آج سے تیرہ سو برس پیشتر فرمایا تھا آج بڑی سرزنی اور ہزار کوشش کے بعد بھی کوئی سچا علم یا سائنس اسے جھوٹا نہیں کر سکا- اس نئی تحقیقات سے جو کچھ ثابت ہوا ہے وہ بھی یہی ہے کہ کل موذی اجرام اندھیرے میں اور خصوصاً ابتداء اندھیرے میں جوش مارتے ہیں مگر لوگ بباعث غفلت ان امور کی قدر نہیں کرتے-
رات کی ظلمت میں عاشق اور معشوق‘ قیدی اور قیدکنندہ‘ بادشاہ اور فقیر‘ ظالم اور مظلوم سب ایک رنگ میں ہوتے ہیں اور سب پر غفلت طاری ہوتی ہے- ادھر صبح ہوئی اور جانور بھی پھڑ پھڑانے لگے- مرغ بھی آوازیں دینے لگے- بعض خوش الحان آنے والی صبح کی خوشی میں اپنی پیاری راگنیاں گانے لگے- غرض انسان‘ حیوان‘ چرند‘ پرند‘ سب پر خود بخود ایک قسم کا اثر ہو جاتا ہے اور جوں جوں روشنی زور پکڑتی جاتی ہے توں توں سب ہوش میں آتے جاتے ہیں- گلی کوچے‘ بازار‘ دوکانیں‘ جنگل‘ ویرانے‘ سب جو کہ رات کو بھیانک اور سنسان پڑے تھے ان میں چہل پہل اور رونق شروع ہو جاتی ہے- گویا یہ بھی ایک قسم کا قیامت اور حشر کا نظارہ ہوتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فالق الاصباح میں ہوں-
حب - گیہوں‘ جو‘ چاول وغیرہ اناج کے دانوں کو کہتے ہیں- دیکھو کسان لوگ بھی کس طرح سے اپنے گھروں میں سے نکال کر باہر جنگلوں میں اور زمین میں پھینک آتے ہیں- وہاں ان کو اندھیرے اور گرمی میں ایک کیڑا لگ جاتا ہے اور دانے کو مٹی کر دیتا ہے- پھر وہ نشو و نما پاتا‘ پھیلتا پھولتا ہے اور کس طرح ایک ایک دانہ کا ہزار در ہزار بن جاتا ہے-
اسی طرح ایک گٹک )گٹھلی( کیسی ردی اور ناکارہ چیز جانی گئی ہے- لوگ آم کا رس چوس لیتے ہیں‘ گٹھلی پھینک دیتے ہیں- عام طور سے غور کر کے دیکھ لو کہ گٹھلی کو ایک ردی اور بے فائدہ چیز جانا گیا ہے- مختلف پھلوں میں جو چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے وہ کھائی جاتی ہے اور گٹھلی پھینک دی جاتی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں فالق الحب و النوٰی )الانعام:۹۶( ہوں- اس چیز کو جسے تم لوگ ایک ردی سمجھ کر پھینک دیتے ہو اس سے کیسے کیسے درخت پیدا کرتا ہوں کہ انسان‘ حیوان‘ چرند‘ پرند سب اس سے مستفید ہوتے ہیں- ان کے سائے میں آ رام پاتے ہیں- ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں- میوے‘ شربت‘ غذائیں‘ دوائیں اور مقوی اشیاء خوردنی ان سے مہیا ہوتی ہیں- ان کے پتوں اور ان کی لکڑی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہو- گٹھلی کیسی ایک حقیر اور ذلیل چیز ہوتی ہے مگر جب وہ خدائی تصرف میں آ کر خدا کی ربوبیت کے نیچے آ جاتی ہے تو اس سے کیا کا کیا بن جاتا ہے-
غرض اس چھوٹی سی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ فلق کے نیچے باریک در باریک حکمتیں رکھی ہیں اور انسان کو ترقی کی راہ بتائی ہے کہ دیکھو جب کوئی چیز میرے قبضہء قدرت اور ربوبیت کے ماتحت آ جاتی ہے تو پھر وہ کس طرح ادنیٰ اور ارذل حالت سے اعلیٰ بن جاتی ہے- پس انسان کو لازم ہے کہ اللہ|تعالیٰ کی ان صفات کو مدنظر رکھ کر اور اس کی کامل قدرت کا یقین کر کے اور اس کے اسماء اور صفات|کاملہ کو پیش نظر رکھ کر اس سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے بڑھاتا اور ترقی دیتا ہے-
مجھے ایک دفعہ ایک نہایت مشکل امر کے واسطے اس دعا سے کام لینے سے کامیابی نصیب ہوئی تھی- ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور گیا- میرے آشنا نے مجھے ایک جگہ لے جانے کے واسطے کہا اور میں اس کے ساتھ ہو لیا- مگر نہیں معلوم کہ کہاں لے جاتا ہے اور کیا کام ہے؟ اس طرح کی بے علمی میں وہ مجھے ایک مسجد میں لے گیا جہاں بہت لوگ جمع تھے- قرائن سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کسی مباحثہ کی تیاری ہے- میری چونکہ نماز عشا باقی تھی میں نے ان سے کہا کہ مجھے نماز پڑھ لینے دو- یہ مجھے ایک موقع مل گیا کہ میں دعا کر لوں- خدا کی قدرت! اس وقت میں نے اس سورۃ کو بطور دعا پڑھا اور باریک در باریک رنگ میں اس دعا کو وسیع کر دیا اور دعا کی کہ اے خدائے قادر و توانا! تیرا نام فالق الاصباح‘ فالق الحب و النویٰ ہے- میں ظلمات میں ہوں‘ میری تمام ظلمتیں دور کر دے اور مجھے ایک نور عطا کر جس سے میں ہر ایک ظلمت کے شر سے تیری پناہ میں آجائوں- تو مجھے ہر امر میں ایک حجت نیرہ اور برہان|قاطعہ اور فرقان عطا فرما- میں اگر اندھیروں میں ہوں اور کوئی علم مجھ میں نہیں ہے تو تو ان ظلمات کو مجھ سے دور کر کے وہ علوم مجھے عطا فرما اور اگر میں ایک دانے یا گٹھلی کی طرح کمزور اور ردی چیز ہوں تو تو مجھے اپنے قبضہء قدرت اور ربوبیت میں لے کر اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا- غرض اس وقت میں نے اس رنگ میں دعا کی اور اس کو وسیع کیا جتنا کہ کر سکتا تھا- بعدہ میں نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کی طرف مخاطب ہوا- خدا کی قدرت کہ اس وقت جو مولوی میرے ساتھ مباحثہ کرنے کے واسطے تیار کیا گیا تھا وہ بخاری لے کر میرے سامنے بڑے ادب سے شاگردوں کی طرح بیٹھ گیا اور کہا یہ مجھے آپ پڑھاویں- وہ صلح حدیبیہ کی ایک حدیث تھی- حضرت مرزا صاحب کے متعلق اس میں کوئی ذکر نہ تھا- لوگ حیران تھے اور میں خدا تعالیٰ کے تصرف اور قدرت کاملہ پر خدا کے جلال کا خیال کرتا تھا- آخر لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں تو مباحثہ کے واسطے ہم لائے تھے‘ تم ان سے پڑھنے بیٹھ گئے ہو- اگر پڑھنا ہی مقصود ہے تو ہم مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کر دیتے- ان کے ساتھ جموں چلے جائو اور روٹی بھی مل جایا کرے گی-
وہی شخص ایک بار پھر مجھے ملا اور کہا کہ میں اپنی خطا معاف کرانے آیا ہوں کہ میں نے کیوں آپ کی بے ادبی کی؟ میں حیران تھا کہ اس نے میری کیا بے ادبی کی؟ حالانکہ اس|وقت بھی اس نے میری کوئی بے|ادبی نہ کی تھی-
غرض یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا قادر خدا ہے اور اس کے تصرفات بہت یقینی ہیں- اس وقت تم لوگوں کے سامنے ایک زندہ نمونہ رب الفلق کے ثبوت میں کھڑا ہے- اپنے ایمان تازہ کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سچی تڑپ اور درد دل کی دعا کو ہر گز ہر گز ضائع نہیں کرتا-
من شر ما خلق مخلوق الٰہی میں بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انسان کے واسطے مضر ہو جاتی ہیں- ان سے بھی اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا ہی کے قبضہء قدرت میں ہیں-
و من شر غاسق اذا وقب اور اندھیرے کے شر سے جب وہ بہت اندھیرا کر دیوے- ہر اندھیرا ایک تمیز کو اٹھاتا ہے- جتنے بھی موذی جانور ہیں مثلاً مچھر‘ پسو‘ کھٹمل‘ جوں‘ ادنیٰ سے اعلیٰ اقسام تک کل موذی جانوروں کا قاعدہ ہے کہ وہ اندھیرے میں جوش مارتے ہیں اور اندھیرے کے وقت ان کا ایک خاص زور ہوتا ہے-
ظلمت بھی بہت قسم کی ہے- ایک ظلمت فطرت ہوتی ہے- جب انسان میں ظلمت فطرت ہوتی ہے تو اس کو ہزار دلائل سے سمجھائو اور لاکھ نشان اس کے سامنے پیش کرو وہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکتے- ایک ظلمت جہالت ہوتی ہے- ایک ظلمت عادت‘ ظلمت رسم‘ ظلمت صحبت‘ ظلمت معاصی‘ غرض یہ سب اندھیرے ہیں- دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سب سے محفوظ رکھے-
و من شر النفٰثٰت فی العقد اس قسم کے شریر لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں- میں نے اس قسم کے لوگوں کی بہت تحقیقات کی ہے اور اس میں مشغول رہا ہوں اور طب کی وجہ سے ایسے لوگوں سے مجھے واسطہ بھی بہت پڑا ہے کیونکہ اس علم کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی میرے پاس آنے کی ضرورت پڑی ہے اور میں نے ان لوگوں سے دریافت کیا ہے- ان لوگوں کو خطرناک قسما قسم کے زہر یاد ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے بعض امراض انسان کے لاحق حال ہو جاتی ہیں- وہ زہر یہ لوگ باریک در باریک تدابیر سے خادمائوں یا چوہڑیوں کے ذریعہ سے لوگوں کے گھروں میں دفن کرا دیتے ہیں- آخرکار ان کے اثر سے لوگ بیمار ہو جاتے ہیں- پھر ان کے چھوڑے ہوئے لوگ مرد اور عورتیں ان بیماروں کو کہتی ہیں کہ کسی نے تم پر جادو کیا ہے‘ کسی نے تم پر سحر کیا ہے- لہذا اس کا علاج فلاں شخص کے پاس ہے- آخر مرتا کیا نہ کرتا- لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں- اور یہ لوگ اپنی مستورات کے ذریعہ سے‘ چونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ زہر کہاں مدفون ہے اور ان کے پاس ایک باقاعدہ فہرست ہوتی ہے‘ وہ زہر مدفون نکال کر ان کو بتاتے ہیں اور اس طرح سے ان بیماروں کا اعتقاد اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے- پھر ان لوگوں کو چونکہ ان زہروں کے تریاق بھی یاد ہوتے ہیں ان کے استعمال سے بعض اوقات تعویذ کے رنگ میں لکھ کر پلوانے سے یا کسی اور ترکیب سے ان کا استعمال کراتے ہیں اور ان سے ہزاروں روپیہ حاصل کرتے ہیں- اس طرح سے بعض کو کامیاب اور بعض کو ہلاک کرتے ہیں- ایک تو یہ لوگ ہیں جو لوگوں کو اپنے فائدے کی غرض سے قسما قسم کی ایذائیں پہنچاتے ہیں-
دوسری قسم کے وہ شریر لوگ ہیں جو مومنوں کے کاروبار میں اپنی بدتدابیر سے روک اور حرج پیدا کرتے ہیں اور اس طرح سے پھر مومنوں کی کامیابی میں مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں- مگر آخر کار وہ ناکام رہ جاتے ہیں اور مومنین کا گروہ مظفر و منصور اور بامراد ہو جاتا ہے-
و من شر حاسد اذا حسد کسی کی عزت‘ بھلائی‘ بڑائی‘ بہتری‘ اکرام اور جاہ و جلال کو دیکھ کر جلنے والے لوگ بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں- کیونکہ وہ بھی انسانی ارادوں میں بوجہ اپنے حسد کے روک پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں- غرض یہ سورۃ مشتمل ہے ایک جامع دعا پر- رسول اکرمﷺ~ نے اس سورۃ کے نزول کے بعد بہت سی تعوذ کی دعائیں ترک کر دی تھیں اور اسی کا ورد کیا کرتے تھے- حتیٰ|کہ بیماری کی حالت میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سورۃ کو آپ کے دست مبارک پر پڑھ پڑھ کر آپ کے منہ اور بدن پر ملتی تھیں- مگر افسوس کہ مسلمانوں نے عام طور سے اب ان عجیب پرتاثیر اوراد کو قریباً ترک ہی کر دیا ہے-
انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو اسے دوسرے کے واسطے بھی تیار رہنا چاہئے- کیونکہ ایک گناہ دوسرے کو بلاتا ہے- اور اسی طرح ایک نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے- دیکھو بدنظری ایک گناہ ہے- جب انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے تو دوسرے گناہ کا بھی اسے ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور زبان کو بھی اس طرح شامل کرتا ہے کہ کسی سے دریافت کرتا ہے کہ یہ عورت کون ہے‘ کس جگہ رہتی ہے وغیرہ وغیرہ-
اب زبان بھی ملوث ہوئی اور ایک دوسرا شخص بھی اور جواب سننے کی وجہ سے کان بھی شریک گناہ ہو گئے- اس کے بعد اس کے مال اور روپیہ پر اثر پڑتا ہے اور اس گناہ کے حصول کے واسطے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے- غرض ایک گناہ دوسرے کا باعث ہوتا ہے- پس مسلمان انسان کو چاہئے کہ ایسے ارادوں کے ارتکاب سے بھی بچتا رہے اور خیالات فاسدہ کو دل میں ہی جگہ نہ پکڑنے دے اور ہمیشہ دعائوں میں لگا رہے- انسان اپنی حالت کا خود اندازہ لگا سکتا ہے- اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو دیکھتا رہے کہ کیسے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہے اور کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کی ہے- اگر اس کے یار آشنا اچھے ہیں اور جن کو اس نے چھوڑا ہے ان سے بہتر اسے مل گئے ہیں جب تو خوشی کا مقام ہے ورنہ بصورت دیگر خسارہ میں- دیکھنا چاہئے کہ جو کا م چھوڑا ہے اور جو اختیار کیا ہے ان میں سے اچھا کون سا ہے- اگر برا چھوڑ کر اچھا کام اختیار کیا ہے تو مبارک ورنہ خوف کا مقام ہے- کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کو اور ہر بدی دوسری بدی کو بلاتی ہے-
اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو توفیق دے کہ تم اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکو اور نیکی کے قبول کرنے اور بدی کے چھوڑنے کی توفیق عطا ہو-
)الحکم جلد۱۲ نمبر۳۷ ۔۔۔ ۶ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ۳-۴(
* - * - * - *


بعد از خلافت

۵ / جون ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاول ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل ایات کی تلاوت فرمائی-:
‏]ils [tag
یٰایھا الذین اٰمنوا استعینوا بالصبر و الصلٰوۃ ان اللہ مع الصابرین- و لاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لٰکن لا تشعرون- و لنبلونکم بشی ء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصابرین- الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للٰہ و انا الیہ راجعون- اولئک علیھم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولئک ھم المھتدون )البقرۃ:۱۵۴تا۱۵۸-(

اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ کے یہ کلمات جو میں نے تم کو اس وقت سنائے ہیں معمولی وعظ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے متعلق کچھ بیان کرنا آج میرا مقصد تھا- یہ ایک علم ہے اور الٰہی علم ہے جو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں- کلام خدا کا ہے‘ انسان کا کلام نہیں- خدا کی پاک اور مجید کتاب کی سچی تعلیم ہے‘ وہی کتاب جس کے واسطے اب اور پہلے بھی تم سب نے امام صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ کامل کتاب ہے- چنانچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتاہے او لم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلیٰ علیھم )العنکبوت:۵۲-(
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی وفات کے وقت قلم دوات منگائی اور چاہا کہ میں تم کو ایسی بات لکھ دوں کہ لن تضلوا )بخاری کتاب المرضی( کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو- جن لوگوں کی عقل باریک اور سمجھ مضبوط اور علمکامل تھا وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی طرف متوجہ کیا- اور جس کی زبان پر حق چلتا تھا اس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ آپ جو بات بھیلکھنا چاہتے تھے وہ یہی پاک کتاب تھی- چنانچہ اس نے صاف کہا کہ حسبنا کتاب اللہ- یہ ایک نکتہ|معرفت ہے جو ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولا تھا- آنحضرتﷺ~ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں کہ میں ایسی بات لکھ دوں کہ لن تضلوا-پس تطابق سے صاف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن ایک کافی کتاب ہے-
آج یہ جو دو آیات میں نے تمہارے سامنے پڑھی ہیں یہ میرے کسی خاص ارادے‘ غور و فکر کا نتیجہ نہیں اور نہ میں نے کوئی تیاری قبل از وقت اس مضمون اور ان آیات کے متعلق آج خطبہ جمعہ میں سنانے کی کی تھی- وعظ کا بیشک میں عادی ہوں مگر یہ آیتیں محض اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے دل میں ڈالی گئیں-
اس کا مطلب سمجھنے کے واسطے میں پہلے تمہیں تاکید کرتا ہوں- توجہ سے سنو اور یاد رکھو- جب تمہیں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو پہلے دائیں طرف تھوک دو‘ پھر لاحول پڑھو اور ان باتوں کو کثرت سے استعمال کرو- دعا کرو- پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ ہتھیار بند ہو جائو- کمریں کس لو اور مضبوط ہو جائو- وہ ہتھیار کیا ہیں؟ یہی کہ دعائیں کرو- استغفار‘ لاحول‘ درود اور الحمد شریف کا ورد کثرت سے کرو- ان ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لو اور ان کو کثرت سے استعمال کرو- میں ایک تجربہ کار انسان کی حیثیت سے اور پھر اس حیثیت سے کہ تم نے مجھ سے معاہدہ کیا ہے اور میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تم کو بڑے زور سے اور تاکیدی حکم سے کہتا ہوں کہ سر سے پائوں تک ہتھیاروں میں محفوظ ہو جائو اور ایسے بن جائو کہ کوئی موقع دشمن کے وار کے واسطے باقی نہ رہنے دو- بائیں طرف تھوکنا‘ لاحول کا پڑھنا‘ استغفار‘ درود اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ کرنا ان ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ان آیات کا مضمون سن لو-
تم نے سنا ہو گا اور مخالفوں نے بھی محض اللہ کے فضل سے اس بات کی گواہی دی ہے اور تم میں سے بعض نے اپنی آنکھ سے بھی دیکھا ہو گا کہ حدیث شریف میں آیا- المبطون شھید )بخاری کتاب|الجھاد( وہ جو دستوں کی مرض سے وفات پاوے وہ شہید ہوتا ہے- مبطون کہتے ہیں جس کا پیٹ چلتا ہو یعنی دست جاری ہو جاویں- اب جائے غور ہے کہ آپ کی وفات اسی مرض دستوں سے ہی واقع ہوئی ہے- اب خواہ اسی پرانے مرض کی وجہ سے جو مدت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ایک نشان کے آپ کے شامل حال تھا یا بقول دشمن وہ دست ہیضہ کے تھے‘ بہر حال جو کچھ بھی ہو یہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ آپ کی وفات بصورت مبطون ہونے کے واقع ہوئی ہے- پس آپ بموجب حدیث صحیح کہ مبطون جو مرض دست سے‘ خواہ کسی بھی رنگ میں کہو‘ وفات پانے والا شہید ہوتا ہے- پس اس طرح سے خود دشمنوں کے منہ سے بھی آپ کی شہادت کا اقرار خدا نے کرا دیا-
یقتل فی سبیل اللہ سے مراد لڑائی اور جنگ ہوتی ہے- لڑائی اور جنگ ہی میں صلح ہوتی ہے- خدا نے آپ کو پیغام صلح دینے کے بعد اٹھایا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جنگ کا خاتمہ ہونے کو ہے کیونکہ اب صلح کا پیغام ڈالا گیا ہے- مگر خدا کی حکمت اس میں یہی تھی کہ آپ کو حالت جنگ ہی میں بلا لے تا آپ کا اجر جہاد فی سبیل|اللہ کا جاری اور آپ کو رتبہ شہادت عطا کیا جاوے- یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس صلح کی کارروائی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے جبکہ ابھی زمانہ‘ زمانہ جنگ ہی کہلاتا تھا اٹھا لیا-
عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے اس سے کئی سال پہلے ایک دفعہ کل شہر کو بلا کر شیخ میراں بخش کی کوٹھی میں جو کہ عین شہر کے وسط میں واقع ہے ایک فیصلہ سنایا اور اس کا نام آپ نے فیصلہ آسمانی رکھا- عزیز عبد الکریم مرحوم کو کچھ تو اس خیال سے کہ ان کی آواز اونچی اور دلربا بھی تھی‘ شاید ان کو خود ان کی اپنی آواز پر بھی کچھ خیال ہو گا اور کچھ اس جوش سے جو عموماً ایسے موقعوں پر ہوا کرتا تھا اس امر کی درخواست کی کہ میں یہ مضمون سنائوں- مگر آپ نے بڑے جوش اور غضب سے کہا کہ اس مضمون کا سنانا بھی میرا ہی فرض ہے- غرض ہزاروں ہزار مخلوق کے مجمع میں ایک مضمون آپ نے بیان کیا اور آپ نے دعاوی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا- پھر اس کے بعد دوسرے موقع جلسہ اعظم مذاہب میں آپ کے بے نظیر اور پر حقایق لیکچر کے سنائے جانے سے دنیا پر حجت قائم ہو گئی- پھر آپ نے میلہ رام کے مکان پر ایک پر زور لیکچر تحریری اور تقریری دیا-
پھر اس کے بعد آپ نے ہم لوگوں کو حکم دیا کہ آریہ قوم پر بھی حجت قائم کر دی جاوے اور اس غرض کے پورا کرنے کے واسطے آپ نے ایک مضمون دیا جو کہ شہادت کے طور پر سنایا گیا اور جس میں آپ کا حقیقی مذہب اور سچا اعتقاد‘ دلی آرزو‘ سچی تڑپ اور خواہش تھی- وہ دے کر ہمیں بھیجا اور ہمارے آنے جانے کے کثیر اخراجات کو برداشت کیا- غرض اس طرح سے بھی آپ نے لاہور جیسے دارالحکومت میں لوگوں پر اپنی حجت ملزمہ قائم کر دی- پھر اس کے بعد آخری سفر میں بھی تمام امراء کو دعوت دیکر ان کو اپنے دعاوی‘ دلائل‘ اعتقاد اور مذہب پہنچا دیا-
آپ نے اپنے پیغام رسالت کو جس شان اور دھوم سے دارالسلطنت میں بار بار پہنچایا‘ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اب بھی کوئی یہ کہہ دے کہ آپ جس کام کے واسطے آئے تھے وہ ابھی پورا نہیں ہوا یا ناتمام رہ گیا- اب آخرکار اس گرمی کے موسم میں حالت سفر میں اور جنگ میں آپ نے پیغام صلح دیا- مگر قبل اس کے کہ وہ صلح اپنا عملی رنگ پکڑے خدا نے آپ کو اٹھا لیا تا آپ حالت جنگ میں وفات پانے کا غیرمنقطع اجر پاویں-
اب اللہ تعالیٰ کہتا ہے یٰایھا الذین اٰمنوا استعینوا بالصبر و الصلٰوۃ ان اللہ مع الصٰبرین- و لاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لٰکن لاتشعرون ہم سناتے ہیں- ذرا غور سے‘ توجہ سے اور خبردار ہو کر سن لو- اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ تم ان لوگوں کے حق میں یہ کبھی بھی مت کہیو- جو خدا کی راہ میں جان خرچ کر گئے ہیں اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں کیا مت کہیو؟ یہ مت کہیو کہ وہ مر گئے ہیں- وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں- آپ نے خدا کی راہ میں تبلیغ احکام الٰہیہ میں‘ خدا کی راہ میں حالت سفر میں وفات پائی ہے- پس یہ خدا کا حکم ہے اور کوئی بھی اس بات کا مجاز نہیں کہ آپ کو مردہ کہے- آپ مردہ نہیں‘ آپ ہلاک شدہ نہیں‘ بل احیاء بلکہ زندہ ہیں- یاد رکھو کہ یہ نہی الٰہی ہے- ہم وجوہات نہیں جانتے کہ ایسا کیوں حکم دیا گیا بلکہ اس جگہ ایک اور نکتہ بھی قابل یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ اور جگہ جہاں شہداء کا ذکر کیا ہے وہاں احیاء عند ربھم کا لفظ بھی بولا ہے مگر اس مقام پر عند ربھم کا لفظ چھوڑ دیا ہے- دیکھو انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزا متفرق ہو جاتے ہیں- مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ اس نے حضرت مرزاصاحب کی جماعت کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء کے اور اجزا کے تھی اس تفرقہ سے بچا لیا اور اتفاق اور اتحاد اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیات ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دنیا میں ظاہر کر دیا- صرف تخم ریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے منہ پر خاک ڈال کر وحدت کو قائم کر دیا-
دیکھو! یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہے المبطون شھید-اور دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجوڑ کر کہا ہے کہ مردہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ احیائ- یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی- ہم نے خود دم نکلتے دیکھا- غسل دیا‘ کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے گاڑ دیا اور خدا کے سپرد کیا- پھر یہ کیسے ہو کہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں- مگر دیکھو اللہ فرماتا ہے کہ تمہارا شعور غلطی کرتا ہے- میں یہ مسئلہ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر غیرت پیدا کریں اور سچے جوش جو حق اور راستی کے قبول کرنے سے ان میں موجود ہو گئے ہیں ان کا اظہار کریں اور ہمیں دکھا دیں کہ واقعی ان میں ایک غیرت اور حمیت ہے اور ان مخالفوں سے پوچھیں کہ دشمن جو کہتا ہے کہ ہیضہ سے مرے ہیں- اچھا مان لیا کہ دشمن سچ کہتا ہے- پھر ہیضہ سے مرنا شہادت نہیں ہے؟ پیغام صلح جنگ کو ثابت کرتا ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ واقعی آپ کی وفات عین جہاد فی سبیل اللہ میں واقع ہوئی ہے- دشمن نے خود بھی ہر طرح سے مورچہ بندی کی ہوئی تھی اور اپنے پورے ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کے سامان کرنے کی فکر میں لگ رہا تھا- اراکین اور امراء کو دعوت دیکر آپ نے اپنے تمام دعاوی پیش کئے تھے یا کہ نہیں ؟ پس ان سب لوازم کے ہوتے ہوئے بھی اگر دشمن آپ کے احیاء کے قائل نہیں تو جانور ہیں-
مانا کہ یہ رنگ ہمارے واسطے ایک ابتلائی رنگ ہے- صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی وفات اور پھر خود حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ و السلام کا کوچ کرنا واقعی اپنے اندر ضرور ابتلاء کا رنگ رکھتے ہیں مگر اس سے خدا ہم کو انعام دینا چاہتا ہے- انعام الہی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو- خوف کس کا؟ خوف اللہ کا‘ خوف دشمن کا‘ خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا‘ مگر وہ بہت تھوڑا ہو گا- یہ ایک پیشگوئی ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے
و لنبلونکم بشی ء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات- خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا‘ کچھ جوع ہو گی- جوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے- مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو اور یا اس رنگ میں جوع اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے- اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں- اور جانوں کو بھی اسی کی راہ میں خرچ کرو- علیٰ ہذا پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو- و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للٰہ و انا الیہ راجعون اور ایسے لوگوں کو جو مصائب اور شدائد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں اور نیکی پر ثبات رکھتے ہیں خدا کو نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ ہم سب الٰہی رضا کے واسطے ہی پیدا ہوئے ہیں- جس طرح وہ راضی ہو اس راہ سے ہم اس کے حضور اس کو خوش کرنے کے واسطے حاضر و تیار اور کمربستہ ہیں- ہم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے- پس جس کے حضور انسان نے ایک نہ ایک دن حاضر ہونا ہے وہ اگر اس سے خوش نہیں تو پھر اس ملاقات کے دن سرخروئی کیسے ہو گی؟ پس تم خود ہی پیشتر اس کے کہ خدا کی طرف سے تم پر خوف‘ جوع اور نقص اموال اور ثمرات کا ابتلا آوے خود اپنے اوپر ان باتوں کو اپنی طرف سے خدا کی خوشنودی کے حصول کے واسطے وارد کر لو تاکہ دوہرا اجر پائو اور یہ قدم خدا کے لئے اٹھائو تاکہ اس کا بہتر بدلہ خدا سے پائواور یہ مصائب دینی نہیں بلکہ صرف معمولی اور دنیوی ہوں گے- زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ دشمن برا بھلا کہہ لے گا- کوئی گندہ گالیوں کا بھرا اشتہار دیدیگا- یا خفگی اور ناراضگی کے لہجہ میں کوئی بودا سا اعتراض کر دے گا- مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لن یضروکم الا اذی )اٰل عمران:۱۱۲( یہ تکلیف ایک معمولی سی ہو گی‘ کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہو گی- دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچا لیا کہ تفرقہ سے بچا لیا- اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رسی میں پروئے نہ جاتے اور تم تتر بتر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک ابتلا- مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے- اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہو گی بھی تو یہیں ہو گی- اس کا مابعدالموت سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ مابعدالموت کو باعث|اجر اور رحمت|الٰہی ہو گی- اور اس تھوڑی سی مشکل پر صبر کرنے اور مستقل رہنے اور سچے دل سے انا للٰہ و انا الیہ راجعون کہنے کا بہتر سے بہتر بدلہ دینے کی قدرت اور طاقت رکھنے والا تمہارا خدا موجود ہے- وہ خاص رحمتیں جو کہ ورثہ انبیاء اور شہداء ہوتی ہیں وہ بھی تمہیں عطا کرے گا اور عام رحمتیں تمہارے شامل|حال کرے گا اور آئندہ ہدایت کی راہیں اور ہر مشکل سے نجات پانے کی‘ ہر دکھ سے نکلنے‘ ہر سکھ اور کامیابی کے حصول کی راہیں تم پر کھول دے گا- دیکھو میں یہ اپنی طرف سے نہیں کہتا- بلکہ بلوح خدا ہمیں است- خدا کے اپنے وعدہ سے ہیں اور خدا اپنے وعدے کا سچا ہے-
آج کا مضمون اور اس کی تحریک محض خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے دل میں ڈالی گئی ہے ورنہ میں نے نہ اس کا ارادہ کیا تھا اور نہ اس کے واسطے کوئی تیاری کی تھی- پس یہ خدا کی بات ہے میں تم کو پہنچاتا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ ایسے اوقات میں تم کثرت دعا‘ استغفار‘ درود‘ لاحول‘ الحمد شریف کا ورد کیا کرو- میں بھی دعا کرتا ہوں- اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم )الانفال:۶۴-( دیکھو دو کو ایک کرنا سخت سے سخت مشکل کام ہے- تو پھر ہزاروں کا ایک راہ پر جمع کرنا اور ان میں وحدت اور الفت کا پیدا کر دینا خدا کے فضل کے سوا کہاں ممکن ہے؟ دیکھو تم خدا کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے ہو- اس نعمت کی قدر کرو اور اس کی حقیقت کو پہچانو اور اخلاص اور ثبات کو اپنا شیوہ بنائو-
خطبہ ثانیہ میں فرمایا-:
الحمد للٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ ایک تو خدا کی حمد کیا کرو- وہ اشارہ الحمد شریف کی طرف ہے‘ اس کا کثرت سے ورد کرو- استعانت بھی اسی سے چاہو- ایاک نعبد و ایاک نستعین )الفاتحہ:۵( کی طرف اشارہ ہے- استغفار کی الگ باربار تم کو تاکید کر دی گئی ہے- ایمان اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کے سچے مفہوم اور حقیقت پر کار بند ہونے کا نام ہے- اسی پر توکل کرو اور ہمیشہ پچھلے گناہوں کے بدنتائج سے بچنے کے واسطے دعائوں میں مصروف رہو- جمعہ کے دن کثرت درود اور درد دل سے درود پڑھنا اللہ کی جناب میں اکسیر کا کام کرتا ہے- اللہ کو یاد کرو- جتنا جتنا تم خدا کو یاد کرو گے اتنا ہی وہ بھی تم کو یاد کرے گا اور تمہاری دعائوں کو قبول فرمائے گا- فقط-
)الحکم جلد۱۲ نمبر ۳۸ ۔۔۔۔۔ ۱۴ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ۷-۸ (
* - * - * - *

۴ ستمبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
) خلاصہ (
حضرت خلیفہ~ن۲~ المہدی و المسیح نے خطبہ کے شروع میں مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
کیف تکفرون باللہ و کنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون- ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الی السماء فسوٰھن سبع سمٰوٰت و ھو بکل شی ء علیم )البقرۃ:۲۹‘۳۰(
اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ ان آیات میں اپنے احسانات یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے احسان کرنے والے کا شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنا اپنا فرض جانتا ہے- پس اللہ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ تم خدا کے ناشکرے کس طرح بنتے ہو- اپنا حال تو دیکھو- تم مردہ تھے- بے|جان ذرات تھے- تمہارا نام و نشان نہ تھا- خدا نے تمہیں زندہ جاندار بنایا- پھر تم مرجائو گے- پھر زندہ کئے جائو گے اور خدا کی طرف پھیرے جائو گے- پھر احسان الٰہی کو یاد کرو کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء تمہارے فائدہ کے واسطے بنائیں- پھر تم زمین سے لے کر آسمان تک بلکہ عرش تک نگاہ ڈالو- ہر امر میں خدا تعالیٰ کے تمام کاموں کو حق و حکمت سے پر پائو گے- کوئی بات ایسی نہیں ہے جس میں کوئی کمزوری یا خرابی نگاہ میں آ سکے- اور خدا سب باتوں کا علیم ہے- وہ تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے اور ان سے باخبر ہے-
اس خطبہ میں حضرت موصوف نے بالخصوص طلباء مدرسہ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ خدا نے ان کو نیکی کے حاصل کرنے میں اور تقویٰ کی راہوں پر اپنے آپ کو مستقل کرنے کے لئے عمدہ موقع عطا کیا ہے- آگے چل کر کالجوں میں ان کے واسطے بہت مشکلات ہوں گے کیونکہ وہاں ایسی نیک صحبت اور دیندار استادوں کا ملنا مشکل ہو گا- جس نے ایسے وقت میں اصلاح نہ کر لی وہ آگے کیا کرے گا-
فرمایا- استادوں کو بھی چاہئے کہ ان بچوں کے واسطے دردمند دل کے ساتھ دعائیں مانگیں کہ خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کرے- اگر ایک آدمی بھی تمہارے ذریعہ سے ہدایت پا جائے تو تمہارے واسطے ایک بڑی نعمت ہے-
)بدر جلد۷ نمبر۳۵ ---- ۱۷/ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲(
* - * - * - *

۱۱ /ستمبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین نے و اذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض پر خطبہ پڑھا- پہلے آپ نے پچھلے رکوعوں سے ربط کے سلسلہ میں فرمایا-
سورۃ الحمد میں دو گروہوں کا ذکر ہے- منعم علیہم‘ مغضوب علیہم - منعم علیہم کو متقین فرمایا اور بتایا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں- نماز پڑھتے‘ اپنے مال و جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وحی کا سلسلہ ابتدائے خلق آدم سے تاقیامت جاری ہے- یہ لوگ ہدایت کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور مظفر و منصور ہوں گے- دوم‘ وہ لوگ ہیں جن کے لئے سنانا نہ سنانا برابر ہے اور جو شرارت سے انکار کرتے ہیں‘ مغضوب علیہم ہیں‘ ایسے ہی منافق- سوم‘ وہ جو غلطی سے گمراہ ہیں یا بدعہدیوں کی وجہ سے‘ یہ ضال ہیں-
اب ایک منعم علیہ کی مثال دے کر سمجھاتا ہے- اللہ نے فرشتوں سے مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں اطلاع دی )یہ اطلاع دینا خدا کا خاص فضل ہے جو بعض خواص پر ہوتا ہے( کہ میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں- خلیفہ کہتے ہیں گذشتہ قوم کے جانشین کو یا جو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑے- بادشاہ کو- )گویا یہ لفظ( ظاہری|وباطنی سلطنت کو شامل ہے-
یہ ملائکہ وہ تھے جن کے متعلق عناصر کی زمینی خدمات ہوتی ہیں اور یہ ثابت ہے اس آیت سے استکبرت ام کنت من العالین )ص:۷۶( جس سے معلوم ہوا کہ عالین اس حکم کے مکلف نہیں تھے- صوفیوں نے لکھا ہے تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے- ہر عنصر پر ایک فرشتہ ہوتا ہے- وہ اپنی اپنی متعلقہ شے کی ماہیت کو جانتے تھے- وہ سمجھے کہ یہ تمام عناصر جب ملیں گے ضرور ان میں اختلاف ہو گا مگر انہیں معلوم نہ تھا- خدا انسان کو مجموعہ کمالات بنانا چاہتا ہے- واقعی ہماری غذا بھی عجیب ہے- کچھ اس میں پتھر )نمک( ہے‘ کچھ نباتات‘ کچھ حیوانات- پس وہ بول اٹھے کہ وہ فساد کرے گا اور خونریزی‘ مگر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں- تیری ذات کو اس بات سے منزہ سمجھتے ہیں کہ تیرا کوئی کام حکمت اور نیک نتیجہ سے خالی ہو- فرشتے جو اعتراض کر رہے تھے دراصل وہی ان پر وارد ہوتا تھا کہ وہ بنی آدم کی پیدائش اور اس کی نسل کی نسبت چاہتے تھے کہ نہ ہو- گویا سفک دماء کرتے تھے اور یہ بھی فساد تھا- ایک دفعہ کسی شخص نے مجھے کہا- بہت علماء تمہارے مرزا صاحب کو خلیفہ~ن۲~ اللہ نہیں مانتے- میں نے کہا یہ تعجب نہیں- خلفاء پر فرشتوں نے اعتراض کئے ہیں- یہ علماء فرشتوں سے بڑھ کر نہیں مگر فرشتوں اور دوسرے لوگوں کے اعتراض میں فرق تھا- فرشتوں نے نحن نسبح بحمدک اور سبحٰنک لا علم لنا الا ما علمتنا کہہ کر اپنے اعتراض واپس لے لئے- حضرت صاحب کی خدمت میں کسی نے خط لکھا کہ اب تو خدا بھی آئے تو میں یہ بات نہ مانوں- فرمایا دیکھو یہ کیسے متکبر اور بے پرواہ لوگ ہیں- شعیب نبی کو جب لوگوں نے کہا او لتعودن فی ملتنا )الاعراف:۸۹( تو انہوں نے جواب دیا- و ما یکون لنا ان نعود فیھا الا ان یشاء اللہ ربنا )الاعراف:۹۰( یعنی ہم تو کبھی تمہارے مذہب میں نہ آئیں گے- پھر فرمایا ہاں اگر خدا چاہے تو‘ کیونکہ اس کا ارادہ زبردست ہے- یہ پاس ادب ہے جو آج کل کے گستاخوں سے جا چکا ہے- دیکھو ایک ناممکن بات پر پیغمبر نے خدا کی عظمت اور جبروت و جلال کا ادب کیا ہے تو افسوس اس انسان پر جو بلا سوچے سمجھے کہتا ہے کہ یہ کام یوں ہو جائے گا اور میں یوں نہ کروں گا-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم‘ جب کوئی بادل آتا تو مضطربانہ اندر باہر پھرنے لگتے- حضرت عائشہ نے عرض کی- عرب کا ملک تو ابر دیکھ کر خوش ہوتا ہے- آپ نے فرمایا عائشہ کیا معلوم کہ اس بادل میں کوئی خدا کا عذاب ہو- بدر کی جنگ میں باوجود وعدہ نصرت الٰہی کے آپ نے ایک جھونپڑی ڈال لی اور اس قدر عاجزی سے دعا کی کہ آپ کی چادر گر گئی- اس پر ابوبکر بول اٹھے کہ بس کیجئے- خدا کا وعدہ ہے کہ میں فتح دوں گا- اس پر صوفیوں نے لکھا ہے کہ ابوبکر کو خدا کی نسبت اتنا علم نہ تھا جتنا نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو تھا- وہ خدا کی غناء ذاتی کو جانتے تھے-
فرشتوں کے سوال سے انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے‘ جسے نہ تو خدا کی صفات کا علم ہے نہ صفات سے پیدا شدہ فعل کا- بلکہ فعل کا اثر کچھ دیکھا ہے- پس وہ کس بات پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرتا ہے- مامور من اللہ کی نسبت کہتا ہے یہ نہیں چاہئے تھا وہ چاہئے تھا-
)بدر جلد ۷ نمبر ۳۶- ۲۴ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۲(
* - * - * - *

۱۸ ستمبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے آیت قرآنی و علم اٰدم الاسماء کلھا )البقرہ:۳۲( پر خطبہ ارشاد فرمایا جو درج ذیل ہے-
اللہ تعالیٰ لیس کمثلہ شی ء )الشوریٰ:۱۲( ہے- اس کی ذات وصفات کی ماہیت کی دریافت انسان نہیں کر سکتا- صفات سے جو افعال پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی حقیقی علم نہیں- ہاں افعال کا نتیجہ ہم نے دیکھا- ما اشھدتھم خلق السمٰوٰت والارض )الکھف:۵۲-( اس صورت میں اشیاء کے ذوات کا علم بھی بغیر تعلیم الٰہی نہیں ہو سکتا- اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مختلف کاموں کے لئے بنایا ہے اور ہر ایک کو ایک خدمت سپرد کی ہے- بس اسی کی نسبت اس کو علم ہے- چنانچہ مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کو جب آگ میں ڈالا گیا تو فرشتے نے کہا کہ میں امداد کروں؟ فرمایا اما الیک فلا یہ توحید کا اعلیٰ درجہ ہے- ایسا ہی جب ہماری سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے تو وہاں کے بدمعاشوں نے مخالفت کی اور شرارت سے پتھر پھینکے جن سے آپ کے جسم مبارک کو لہولہان کر دیا- بارہ میل آپ دوڑتے آئے- انگور کا ایک باغیچہ تھا‘ وہاں ٹھہر گئے- مالک نے نوکر کے ہاتھ چند انگور بھیج دیئے اور اسے کہا دیکھو! تم اس کی باتیں نہ سننا- آپ نے انگور کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی- وہ متعجب ہوا کہ بت پرستوں کے شہر کا رہنے والا توحید کے اس درجہ پر ہو- ملک الجبال آپ کے پاس آیا- عرض کیا کہ اگر آپ فرما دیں تو پہاڑ ان پر گرا دوں- فرمایا- نہیں‘ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مدد سے صالح پیدا کرے گا- غرض ہر کام کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہے- چنانچہ جہنم کے لئے الگ فرشتے ہیں علیھا تسعۃ عشر )المدثر:۳۱‘( جنت کے لئے رضوان- ایک ہاروت ماروت جو بابل کے نبیوں پر کلام لائے- ان تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے- گویا انسان ان تمام علوم کا جامع ہے اور اسی حقیقت کو اس آیت میں بتایا گیا ہے- اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب آدم کو پہلے تعلیم دی گئی تو پھر فرشتوں پر فوقیت کیا ہوئی- نادانوں نے یہ نہیں سمجھا کہ ثابت صرف یہ کرنا تھا کہ اللہ جسے علم دیتا ہے اس کو آتا ہے- چنانچہ اس نے آدم کو پڑھا دیا- اسے جامع علوم )ذوات الاشیائ( بنا دیا اور فرشتوں کو اس ڈھب کا نہ بنایا-
دوسرے خطبہ کی نسبت فرمایا عباد اللہ رحمکم اللہ ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ و ینہیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون اذکروا اللہ یذکرکم و ادعوہ یستجب لکم ولذکر اللہ اکبر- یہ عمر بن عبدالعزیز نے ذاتی معلومات کی بجائے بڑھایا جس کی مقبولیت ہو گئی- مجھے بھی پسند ہے- ایک تو اللہ کا کلام ہے- دوم صالح آدمی نے قائم کیا- اچھے لوگ ہمیشہ بدی کو دور کرنے کے لئے ایسی پاک تدبیریں کیا کرتے ہیں- جھگڑوں میں نہیں پڑتے-
)بدر جلد۷ نمبر ۳۷ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲(
* - * - * - *

۲۵ ستمبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین نے سورۃ البقرہ کی آیات ۳۶ تا ۴۰ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
خدا تعالیٰ آدم علیہ السلام کا ذکر کر کے ان کی اولاد کو سناتا ہے کہ اے آدم! تو اور تیری عورت اس جگہ رہو اور اس درخت سے کچھ نہ کھانا- درخت کے معنوں میں بڑا اختلاف کیا ہے- چونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا نام نہیں لیا اس واسطے میں اس کی تشریح غیر ضروری خیال کرتا ہوں- صرف حکم ہے کہ اس کا پھل نہ کھائو- میں طبیب ہوں- بعض لوگوں کو آم کھانے سے روکتا ہوں‘ بعض کو امرود سے‘ بعض کو دوسرے پھلوں سے- خدا تعالیٰ نے ایسے ہی آدم کو منع کیا کہ اس پھل کو نہ کھائو- یہ دکھ دینے والی چیز ہے- کیونکہ وہ علیم وحکیم خدا اس کے مضرات کو جانتا ہے-
خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اپنے آپ کو تکلیف اور دکھ میں ڈالنا ہے- تکالیف کے اسباب میں سے گناہ بھی ایک سبب ہے‘ تم اس سے بچو- گو خدا تعالیٰ نے و یعفو عن کثیر )المائدۃ:۱۶( کہا ہے- مگر نبلوھم بما کانوا یفسقون )الاعراف:۱۶۴( اور بلونٰھم بالحسنات و السیاٰت )الاعراف:۱۶۹( text] g[ta اور ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں لکھا ہے اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن )البقرۃ:۱۲۵-( ابراہیم علیہ السلام نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا- ہم کو بھی حکم ہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تومنون باللہ )اٰل عمران:۱۱۱-( آدم|علیہ|السلام کو بتایا یہ احکام ہیں اور یہ نواہی- اوامر کو بجا لائو اور نواہی سے باز آئو-
فازلھما الشیطان عنھا شیطان نے ان کو پھسلانے کی کوشش کی- اھبطوا بعضکم لبعض عدو بعض لوگ آپس میں لڑا دینے کے لئے مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں- کبھی کہتے ہیں کہ یہ تو آپ ہی تھے جو ایسی باتیں سنتے رہے‘ ہم سے تو برداشت نہیں ہو سکتی- کہتے ہیں کہ آپ نے اتنی باتیں سن کر ہم کو بے عزت کر دیا کیونکہ آپ کے دوست تھے- فتلقیٰ اٰدم من ربہ کلمٰت خدا تعالیٰ نے آدم کو کچھ کلمات‘ دعائیں سکھلائیں- ]ksn [tag فاما یاتینکم منی ھدی جو لوگ ہدایت پانے کی کوشش کرتے ہیں خدا ان کا معاون ہوتا ہے-
ہمارے آدم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض درختوں سے منع کیا- مثلاً شراب‘ عرب میں مشرکوں کا مذہب‘ یہود‘ مجوس‘ نصاریٰ کا مذہب- یہ مذہب خطرہ میں ہیں سوائے صحابہ کے مذہب کے- مسلمان چار طرح کے نظر آتے ہیں- )۱( دنیا کی عزت آبرو کے لئے ہی زندہ رہنا چاہتے ہیں جیسا کہ رومی تھے- )۲( بعض مجوس کی طرح کہ ہم فلاں کی اولاد ہیں- )۳( بعض رسومات کی طرح مذہب کو مان لیتے ہیں- )۴( بعض مذہب سے ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں- خدا تمہارے اندر وحدت کی روح پھونک دے- میرا دل دردمند بنایا گیا ہے- میں تمہاری بہتری اپنی اس آخری عمر میں دیکھنا چاہتا ہوں- ورنہ مجھ کو تم سے کوئی ظاہری دنیاوی امید نہیں- میرا قادر مالک خدا ہے جو ہر طرح سے میری مدد کرتا ہے اور میں خدا کے فضل سے تم میں سے کسی کا محتاج نہیں- قوم میں وحدت پیدا ہونا سوائے خدا کے فضل کے ہو نہیں سکتا- لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم )الانفال:۶۴( خدا فضل کرنے کے لئے تیار ہے- تم اس کا فضل لینے کے لئے تیار ہو جائو- مجھے اس بات کا فکر نہیں کہ اسلام دنیا سے اٹھ جائے گا- اگر ہے تو یہ کہ بعض گھروں سے-
)بدر جلد۷ نمبر۳۸ --- ۸ اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲(
* - * - * - *
‏KH1.27
خطبات|نور خطبات|نور
یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
حضور نے آیت قرآنییٰبنی اسرائ|یل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و اوفوا بعھدی اوف بعھدکم و ایای فارھبون )البقرۃ:۴۱( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
‏ils] ga[t
قرآن سنانے والوں کو یہودیوں عیسائیوں میں قرآن سنانے کا کم موقع ملتا ہے-پس جہاں یہ ذکر ہے وہاں مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے- پس مسلمان کو چاہئے کہ جن ناپسند کاموں کی وجہ سے یہودی عیسائی عذاب پانیوالے ہوئے ان سے بچے اور جن پسندیدہ کاموں کے سبب انعام پائے وہ کرے-
اس قوم کے مورث اعلیٰ کا نام نہیں لیا بلکہ لقب بیان کیا ہے- اس سے ان کو شرم اورجوش دلانا مقصود تھا- عربی زبان میں اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی- اس نام سے یہ غیرت دلائی کہ تم بھی اللہ کے بہادر بنو- ہماری سرکار سیدالابرار سے بڑھ کر اور کون اللہ کا پہلوان ہے- پس اتنے بڑے انسان کی امت اور اولاد ہو کر ہم نفس و شیطان کے مقابلہ میں بزدلی دکھائیں تو ہم پر افسوس ہے- مگر افسوس کہ بعض مسلمانوں کی بہادری اسی پر رہ گئی ہے کہ جب کسی عورت سے زنا کر لیا تو پھر اپنے ہم جولیوں میں لگے شیخیاں بگھارنے کہ دیکھو! ہم نے فلاں قلعہ مار لیا ہے- *** ہے ایسی شجاعت پر-
نعمتی التی انعمت علیکم وہ نعمت کیا تھی؟ دوسری جگہ فرمایا کہ تم میں سے انبیائ|و|ملوک بنائے اور وہ کچھ دیا جو دوسروں کو نہ دیا گیا-
اب اے مسلمانو! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم پر بھی یہ انعام ہو چکے ہیں-
اس کتاب پر ایمان لائو کیونکہ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تمام نصائح کی جامع ہے- اگر کسی اگلی کتاب میں تحریف ہو چکی ہے تو یہ اسے صاف کرتی ہے-
اول نمبر کے کافر نہ بنو یا پہلا برا نمونہ تم نہ بنو کہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور سب کا گناہ تمہارے ذمہ ہو گا- کلام الہی کی بے ادبی نہ کرو- جس شخص نے بہاردانش لکھی ہے اس سے کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا- ان کیدکن عظیم )یوسف:۲۹( کی تفسیر کر رہا ہوں- راگ والی کتاب کسی نے بنائی اور اوپر لکھ دیا یستمعون القول فیتبعون احسنہ )الزمر:۱۹-(یہ سب لا تشتروا بایٰٰتی ثمناً قلیلاً )البقرۃ:۴۲( کی خلاف ورزی ہے-
) بدر جلد ۸ نمبر ۳ ۔۔۔ ۲۶ / نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ۳ (
* - * - * - *

‏]thtex [tag۸ / اکتوبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حصور نے آیت قرآنیو لاتلبسوا الحق بالباطل و تکتموا الحق و انتم تعلمون )البقرۃ:۴۳( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
دنیا میں ایک فرقہ ایسا بھی ہے کہ راستبازی ان کی فطرت میں داخل ہوتی ہے- ایک فرقہ وہ ہے جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر اپنے تئیں سچا ثابت کرنے کے لئے حق کو چھپا دیتا ہے- بچے کا حال بیج کی مانند ہے کہ تخم اچھا ہو‘ پر زمین اچھی نہ ہو- زمین اچھی ہو تو آبپاشی نہ ہو- آبپاشی ہو تو حفاظت نہ ہو- پس خوش قسمت انسان کو نیک ماں باپ‘ نیک ہم نشین‘ عمدہ تربیت و نگرانی حاصل ہوتی ہے-
اقیموا الصلٰوۃ )البقرۃ:۴۴( نماز کو قائم کرو- بعض کام روز مرہ کی عادت بن جاتے ہیں پھر ان کا لطف نہیں رہتا- دیکھا گیا ہے کہ زبان سے اللٰھم صل علیٰ ہو رہا ہے مگر قلب کی توجہ کام کی طرف ہے-
پس نماز کو سنوار کر پڑھو اور جو معاہدہ نماز میں کرتے ہو عملی زندگی میں اس کا اثر دیکھو- زبان سے کہتے ہو ایاک نعبد )الفاتحہ:۵( ہم تیرے فرمانبردار ہیں مگر کیا فرمانبرداری پر ثابت قدم ہو؟ پھر واعظوں کو ڈانٹا ہے کہ تم دوسروں کو نیکی کی نسبت کہتے ہو اور اپنے تئیں بھلاتے ہو- پس تم دونوں سنانے والے اور سننے والے ثابت قدمی سے کام لو اور دعا کرو- نماز پڑھو کہ یہ دونوں کام خاشعین پر گراں نہیں- جب مذکر و مئونث دونوں جمع ہوں تو عربی قواعد کے لحاظ سے ضمیر|مئونث کی طرف جاتی ہے- انگریزی میں بھی مرد و عورت میں سے عورت کو پہلے مخاطب کرتے ہیں- جن کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین ہو وہی حقیقی خشوع کر سکتے ہیں-
) بدر جلد ۸ نمبر ۵ ۔۔۔ ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۲۵ / دسمبر ۱۹۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
اولٰئک الذین اشتروا الحیٰوۃ الدنیا بالاٰخرۃ فلایخفف عنھم العذاب و لاھم ینصرون- و لقد اٰتینا موسی الکتاب و قفینا من بعدہ بالرسل و اٰتینا عیسی ابن مریم البینات و ایدنٰہ بروح القدس افکلما جائ|کم رسول بما لاتھویٰ انفسکم استکبرتم ففریقاً کذبتم و فریقاً تقتلون )البقرۃ:۸۷‘۸۸-(
فرمایا -: یہ آیات اس سلسلہ درس قرآن سے ہیں جو میں ہر جمعہ یہاں سنایا کرتا ہوں- پس میں اس وقت کوئی ایسا وعظ نہیں کروں گا جو اس اجتماع|۱~}~ کی خصوصیت سے وابستہ ہے- اس کے لئے خدا کے فضل و توفیق سے کل کا دن ہے-
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نصیحت کرتا ہے بایں طور کہ جو اگلی قوموں کی برائیاں اور خوبیاں ہیں ان کا بیان کرتا ہے تا کہ مسلمان ان برائیوں سے بچیں- اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ان عذابوں سے محفوظ رہیں
۱~}~ اجتماع سے مراد جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ہے جو ۲۶ دسمبر سے شروع ہوتا ہے- ]1 [rtf
گے جو ان برائیوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوئے اور ان خوبیوں کو اختیار کریں جن کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے-
ان آیات میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ بہت سے لوگ ورلی زندگی کو پسند کرتے ہیں- وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے- پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لطف دے اور وہ نظارہ ان کے مرغوب خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہو- لیکن اس سچے سرور کی پروا نہیں کرتے جو دائمی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی-
ایسے لوگوں کے لئے بھی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ‘ ہر گھڑی ان کو دکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا- چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بعد میں ہوتے ہیں جو عذاب ہے- وہ اس سے معذب ہوتے ہیں- لیکن اس قسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں- یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے تاکہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو-
دیکھو! وہ قوم جس میں آج اچھے لڑکے نہیں ان پر کبھی وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ ان میں اچھے لڑکے پیدا ہوں- وہ قوم جن میں زور آور نہیں ایک وقت ان پر آتا ہے کہ ان میں زور آور پیدا ہوں- اگر ان کے پاس آج سلطنت نہیں تو اس زمانہ کی امید کی جا سکتی ہے جب ان میں بھی امارت آجائے- ہندوئوں کی حالت گزشتہ و موجودہ پر غور کرو- جب ہم بچے تھے تو یہ ہندو اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے کہ معلم بن سکیں اسی لئے اکثر مسلمان معلمین نظر آتے تھے- پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تعلیم میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ اب معلم ہیں تو ان میں سے‘ افسر ہیں تو ان میں سے- وہ اپنی طاقت پر اب یہاں تک بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہم کو اس ملک سے نکال دینے یا گورنمنٹ پر دبائو ڈال دینے پر تلے بیٹھے ہیں- اس بات کا ذکر میں نے صرف اس لئے کیا ہے کہ قوموں میں جہالت کے بعد علم آ جاتا ہے- زوال کے بعد ترقی ہو سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے- مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک قوم ہے )یہود( جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ|و|سلم کا مقابلہ کیا تھا- ہم نے ان کو یہ سزا دی کہ اور قوموں میں تو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی اور ان کا کوئی ناصر و مددگار نہ ہو گا- چنانچہ یہودیوں کی کوئی مقتدرانہ سلطنت روئے|زمین پر نہیں- چپہ بھر زمین پر بھی ان کا تسلط نہیں- اگر ان کو تکلیف دی جاوے تو کوئی نہیں جو ان کی حامی بھرے- تیرہ سو برس سے خدا کا یہ کلام سچا ثابت ہو رہا ہے-
پس ہمیں اس سے یہ سبق لینا چاہئے کہ خدا کے خلاف جنگ نہ کریں اور ہرگز ہرگز ورلی زندگی کو مقدم نہ کر لیں ورنہ لاینصرون کی سزا موجود ہے-
میرا حال اب دیکھتے ہو- صحت ٹھیک نہیں‘ عمر کے انتہائی درجے کو پہنچ چکا ہوں- پس میں جو کچھ کہتا ہوں خلوص دل سے کہتا ہوں اور یہ کسی قیاس سے نہیں بلکہ اس کلام الٰہی کی بنا پر جس کی تہ تک پہنچ کر میں نے یقین کر لیا کہ دنیا کی زندگی اختیار کرنا اپنے پر عذاب وارد کرنا ہے- یہ مضمون بہت لمبا ہے اور بعض ضروری امور خطبہ کو مختصر کرنے کے متقاضی ہیں-
آگے فرمایا و لقد اٰتینا موسی الکتاب ہم نے تو ان لوگوں کی بہتری کے لئے موسیٰ کو کتاب دی پھر اور رسول بھیجے- اخیر میں عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات کے ساتھ مبعوث کیا اور اسے اپنے کلام پاک سے مئوید کیا- پھر بھی اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اس نے ان کی خواہشوں کے خلاف کہا تو یہ اکڑ بیٹھے- پھر بعض کی تکذیب کی اور بعض کے قتل کے منصوبے کرنے لگے- مگر اس کا انجام ان کے حق میں اچھا نہیں ہوا-
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو فہم عطا کرے- عاقبت اندیشی دے- یہ دنیا چند روزہ ہے- سب یار و آشنا الگ ہونے والے ہیں- ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دنیا|و|آخرت میں ساتھ ہیں- ان کی نسبت فرمایا الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین )الزخرف:۶۸-( پس تمہارے دوست ہوں مگر وہ جن کو اللہ نے متقی فرمایا- اگر وہ تم سے پہلے مر گئے تو تمہارے شفیع ہوں گے اور اگر ہم ان سے پہلے وفات پا گئے تو ان کی دعائیں تمہارے کام آئیں گی-
) بدر جلد۸ نمبر ۷‘۸‘۹ ۔۔۔۔ ۲۴ - ۳۱ / دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

یکم جنوری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
و قالوا قلوبنا غلف بل لعنھم اللہ بکفرھم فقلیلاً ما یومنون- و لما جائ|ھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جائ|ھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنۃ اللہ علی الکافرین )البقرۃ:۸۹ - ۹۰-(

فرمایا-:
بہت سے لوگ فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴( پر نازاں ہوتے ہیں اور نئی ہدایت کے ماننے سے پس و پیش کرتے ہیں- وہ کہتے ہیں قلوبنا غلف یعنی ہمارے دل نامختون ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان پر *** پڑ گئی ہے-
انبیاء کے ماننے میں پچھلوں کے لئے تو بہت آسانی ہے کیونکہ ان کے پاس نمونہ موجود ہے مگر پہلوں کے لئے بہت مشکل تھی- دیکھو! جس قدر مشکل حضرت آدم و نوح علیہما السلام کے وقت میں تھی وہ نبی|کریمﷺ~ کے وقت میں ہرگز نہ تھی کیونکہ یہود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے انبیاء جو لائے ہیں‘ نبی کریمﷺ~ ان کے خلاف کچھ نہیں فرماتے- تعظیم لامر اللہ- شفقت علی خلق اللہ- یہی تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ ہے- پھر ہمارے لئے مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے میں تو بہت ہی آسانیاں ہیں- اولیاء میں جو کچھ بطور امر مشترک موجود تھا وہ ہمارے امام میں بھی تھا- آپ جو تعلیم لائے اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں-
کلمئہ شہادت ہے- اب اس کے ماننے میں کسے عذر ہو سکتا ہے؟ پھر یہ اقرار کس شرع اسلام کے خلاف ہے کہ میں تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور امر معروف میں بقدر امکان کوشش کروں گا؟ آپ کے کل وظیفے کسی کو معلوم نہیں مگر سبحان اللہ‘ سبحان اللہ تو ان کی زبان سے سننے والے ہم میں بھی موجود ہیں- پھر مسیح کی وفات ہے‘ یہ بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں- جتنے رسول آئے سب ہی فوت ہوئے- کسی نے اپنے سے پہلے نبی کی حیات کا دعویٰ نہیں کیا- نبی کریم کی وفات پر یہ مسئلہ پیش آیا تو و ما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل )اٰل عمران:۱۴۵( سے ابوبکرؓ کی مشکل آسان ہو گئی- باوجود اس صاف اور سیدھی تعلیم کے پھر بھی کوئی نہ مانے اور کہے کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا تو یہ *** کا نشان ہے- سب سے پہلے آدم کے زمانہ میں مسئلہ خلافت پر بحث ہوئی- پھر دائود کو خلیفہ بنایا گیا- پھر نبی کریمﷺ~ کے زمانہ میں یہی مسئلہ پیش آیا- مگر ہمیشہ خدا کا انتخاب غالب رہتا ہے- یہ عیب چینی کی راہ بہت ہی خطرناک راہ ہے- عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا‘ نقصان اٹھایا- ایک نبی کی معصومیت کے ثبوت کے لئے سب کو گنہگار قرار دیا- پھر آریہ نے یہی طریق اختیار کیا- وہ بھی دوسرے مذاہب کو گالیاں دینا جانتے ہیں- پھر شیعہ ہیں وہ بھی خلفائے راشدین پر تبرا بھیجنے کے گناہ میں پڑ گئے-
ایک دفعہ امرتسر میں میں نے ایک شخص کو قرآن کی بہت ہی باتیں سنائیں- میرا ازار بند اتفاق سے ڈھیلا ہو گیا- آخر اس نے مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارا پاجامہ ٹخنوں سے کیوں نیچا ہے؟ میں نے کہا- اتنے عرصہ سے جو تم میرے ساتھ ہو تمہیں کوئی بھلائی مجھ میں نظر نہیں آئی سوائے اس عیب کے اور یہ عیب جو تم نے نکالا یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ حدیث میں جر ثوبہ خیلاء )بخاری کتاب فضائل الصحابہ( آیا ہے اور یہاں اس بات کا وہم تک نہیں-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قالت الیھود لیست النصاریٰ علیٰ شی و قالت النصاریٰ لیست الیھود علیٰ شی و ھم یتلون الکتاب کذٰلک قال الذین لایعلمون )البقرۃ:۱۱۴( گویا اس طرح کہنا ’’لایعلم‘‘ لوگوں کا دستور ہے- عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا ٹھیک نہیں- کچھ اپنی اصلاح بھی چاہئے- ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتباع|رسول پر کہاں تک قدم مارا اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے- ایک عیب کی وجہ سے ہم کسی شخص کو برا کہہ رہے ہیں- کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہوتا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں برا معلوم ہوتا یا نہیں؟
حضرت صاحب کے زمانہ میں کسی نے ایک شخص کو جھوٹا کہہ دیا- اس پر وہ بہت جھنجھلایا کہ اوہ! ہم جھوٹے ہیں؟ فرمایا کیا اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا جو اتنا ناراض ہو رہا ہے- اسے چاہئے تھا کہ اپنی پچھلی عمر کا مطالعہ کرتا اور دیکھتا کہ آخر کبھی تو میں نے جھوٹ بولا اور خدا نے ہمیشہ ستاری کی ہے- پس اب کسی کے کہنے پر میں کیوں اتنا ناراض ہو رہا ہوں-
لوگ من گھڑت اصول بنا لیتے ہیں اور پھر ان پر کسی کی صداقت کو پرکھتے ہیں- مثلاً یہ کہ ہم فلاں شخص کی پیٹھ کے پیچھے ہو کر درود پڑھیں گے- اگر ولی ہوا تو ضرور اپنی پیٹھ پھیر بیٹھے گا- حالانکہ یہ ان کی صریح غلطی ہے- اس طرح تو کوئی ولی امام صلٰوۃ نہیں بن سکتا بلکہ صف اول میں کھڑا نہیں ہو سکتا کیونکہ لوگ اس کی پیٹھ کے پیچھے درود پڑھیں گے-
میں نے ریل میں کسی کو نکتہ معرفت سنایا مگر اس نے توجہ نہ کی بلکہ کہا کہ آپ کو قرآن شریف نہیں آتا- مطلب یہ تھا کہ علم تجوید و قرات کے مطابق آیت کو نہیں پڑھا-
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ معائب کی طرف خیال نہ کرو بلکہ خوبیوں کو دیکھو- ہمارے بیانوں کاقرآن مہیمن ہے- اس کے اخیر میں قل اعوذ برب الفلق )الفلق:۲( ہے کہ ایسا نہ ہو کسی طرح ابتلاء آ جائے اور کوئی بات ہمیں بے ایمان کر دے- فاذا قرات القراٰن فاستعذ باللہ )النحل:۹۹( سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ختم کے بعد معوذتین پڑھ لینی چاہئے اور بعض کہتے ہیں ابتداء میں پڑھنی چاہئے- بہر حال مقصد حاصل ہے جو یہ ہے کہ قرآن کے پڑھتے وقت اگر ہم نے کوئی غلطی کی یا بے سمجھی‘ تو اس سے یا ایسی لغزش کے آئندہ واقع ہونے سے ہمیں بچا لے اور کلمہ~ن۲~ الحکمت سے مستفید کر-
) ۲ ( اللہ کو بہت یاد کرو- ہر وقت دعا میں لگے رہو اور اپنی حالت میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرو- تم اس وقت دوسری قوموں کے لئے نمونہ ہو- پس اپنے تئیں نیک نمونہ بنائو- امام ابوحنیفہ~رح~ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے- ایک لڑکے کو دیکھا جو کیچڑ میں دوڑا جا رہا ہے- آپ نے اسے فرمایا کہ دیکھو میاں لڑکے کہیں پھسلتے ہو- لڑکے نے کہا آپ اپنا خیال رکھیے- کیونکہ میں پھسل گیا تو خیر‘ صرف مجھے تکلیف پہنچے گی مگر آپ کے پھسلنے سے ایک جہان پھسلے گا- امام ابوحنیفہ~رح~ کہتے ہیں اس سے بہتر کسی کی نصیحت نے مجھ پر اثر نہیں کیا- اور یہ ہے بھی سچ اذا فسد العالم فسد العالم- اسی طرح تمہاری لغزش کا اثر صرف تمہیں تک محدود نہیں بلکہ دور تک جاتا ہے- پس سوچ سوچ کر قدم اٹھائو-
حضرت صاحب کے زمانہ میں آپ کے سامنے کسی نے کہا کہ فلاں آدمی میں یہ یہ عیب ہے- فرمایا کیا تو نے اس کے لئے چالیس روز رو رو کر دعا کر لی ہے جو مجھ سے شکائت کرتا ہے- میرا دوست اگر ملے اور اس نے شراب بھی پی ہو تو میں اسے خود اٹھا کر کسی محفوظ مکان میں لے جائوں پھر آہستہ آہستہ اس کی اصلاح کروں-
عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا- کسی کا عیب بیان کیا اور اس نے سن لیا‘ وہ بغض|وکینہ میں اور بھی بڑھ گیا- پس کیا فائدہ ہوا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہو جاتے ہیں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جائو ہم یونہی کریں گے-
امر بالمعروف کرتے ہوئے کسی نے ایک بادشاہ کا مقابلہ کیا- بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم دیا- اس پر ایک بزرگ نے کہا کہ امر بالمعروف کا مقابلہ گناہ تھا مگر ایک مومن کا قتل اس سے بھی بڑھ کر سخت گناہ ہے-
واعظ کو چاہئے کہ ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ )النحل:۱۲۶( پر عمل کرے اور ایسی طرز میں کلمہ حکمت گوش گذار کرے کہ کسی کو برا معلوم نہ ہو-
تم لوگ جو یہاں باہر سے آئے ہو اگر کوئی نیک بات یہاں والوں میں دیکھتے ہو یا یہاں سے سنتے ہو تو اس کی باہر اشاعت کرو اور اگر کوئی بری بات دیکھی ہے تو اس کے لئے درد دل سے دعائیں کرو کہ الٰہی! اب لکھوکھہا روپے خرچ ہو کر یہ ایک قوم بن چکی ہے اور یہ قوم کے امام بھی بن گئے ہیں‘ پس تو ان میں اصلاح پیدا کر دے-
) بدر جلد۸ نمبر۱۴ ۔۔۔ ۲۸ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۹-۱۰ (
* - * - * - *

۳ / جنوری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید اضحیٰ
تکبیرات اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للٰہ الحمد اور کلمہ شہادت کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
و من یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ و لقد اصطفیناہ فی الدنیا و انہ فی|الاٰخرۃ لمن الصالحین-اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۱-۱۳۲(
اور پھر فرمایا-:
آج کا دن عید کا دن ہے- یہ قربانیوں کا دن ہے- قربانیوں کی لمبی تاریخیں ہیں- قرآن|کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے- چنانچہ ایک مقام پر ذکر ہے و اتل علیھم نبا ابنی اٰدم بالحق اذ قربا قرباناً فتقبل من احدھما و لم یتقبل من الاٰخر قال لاقتلنک قال انما یتقبل اللہ من المتقین )المائدہ:۲۸( جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد آدم )یہاں اس امر سے بحث نہیں کہ کتنے آدم گزرے ہیں بہرحال ایک آدم کی اولاد( نے قربانی کی-
’’قربانی‘‘ کہتے ہیں اللہ کے قرب کے حصول اور اس میں کوشش کرنے کو- میرا ایک دوست تھا- اسے کبوتروں کا بہت شوق تھا- شاہجہانپور سے تین سو روپے کا جوڑا منگوایا- اسے اڑا کر تماشا کر رہا تھا کہ ایک بحری نے اس پر حملہ کیا اور اسے کاٹ دیا- میں نے کہا کہ دیکھو یہ بھی قربانی ہے- باز ایک جانور ہے‘ اس کی زندگی بہت سی قربانیوں پر موقوف ہے- اسی طرح شیر ہے‘ اس کی زندگی کا انحصار کئی دوسرے جانوروں پر ہے- بلی ہے‘ اس پر چوہے قربان ہوتے ہیں- پھر پانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ مچھلیوں میں بھی یہ طریق قربانی جاری ہے- ویل مچھلی پر ہزاروں مچھلیوں کو قربان ہونا پڑتا ہے- اسی طرح اژدہا ہے کہ جس پر مرغا قربان ہوتا ہے- غرض اعلیٰ ہستی کے لئے ادنیٰ ہستی قربان ہوتی رہتی ہے- اسی طرح انسان کی خدمت میں کس|قدر جانور لگے ہوئے ہیں- کوئی ہل کے لئے‘ کوئی بگھیوں کے لئے‘ کوئی لذیذ غذا بننے کے لئے- پھر اس سے اوپر بھی ایک سلسلہ چلتا ہے‘ وہ یہ کہ ایک آدمی دوسروں کے لئے اپنے مال یا اپنے وقت یا اپنی جان کو قربان کرتا ہے- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں میں ادنیٰ اعلیٰ پر قربان ہوتے ہیں- سپاہی قربان ہوتے جائیں مگر افسر بچ رہے- پھر افسر قربان ہوتے جائیں مگر کمانڈر انچیف کی جان سلامت رہے- پھر کئی کمانڈر انچیف بھی ہلاک ہو جاویں مگر بادشاہ بچ رہے- غرض قربانی کا سلسلہ دور تک چلتا ہے- اس پر بعض ہندو جو ذبح اور قربانی پر معترض ہیں ان سے ہم نے خود دیکھا کہ جب کسی کے ناک میں کیڑے پڑ جاویں تو پھر ان کو جان سے مارنا کچھ عیب نہیں سمجھتے بلکہ ان کیڑوں کے مارنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں- شکریہ کے علاوہ مالی خدمت بھی کرتے ہیں- پھر اس سلسلہ کائنات سے آگے اگلے جہان کے لئے بھی قربانیاں ہوتی رہتی ہیں- اگلے زمانہ میں دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرتا تو اس کے ساتھ بہت سے معززین کو قتل کر دیا جاتا تا اگلے جہان میں اس کی خدمت کر سکیں-
حضرت ابراہیم علیہ السلام جس ملک میں تھے شام اس کا نام تھا- وہاں آدمی کی قربانی کا بہت رواج تھا- اللہ نے انہیں ہادی کر کے بھیجا اور اللہ نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا- حضرت ابراہیمؑ نے رویاء میں دیکھا جبکہ ان کی ننانوے سال عمر تھی کہ میں بچہ کو قربان کروں- ایک ہی بیٹا تھا- دوسری طرف اللہ کا وعدہ تھا کہ کبھی مردم شماری کے نیچے تیری قوم نہ آئے گی- ادھر عمر کا یہ حال ہے اور بچہ چلنے کے قابل ایک ہی ہے‘ اسے حکم ہوتا ہے کہ ذبح کر دو- رئویاء کا عام مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی بجائے کوئی بکرا وغیرہ ذبح کر دے- اسی طرح یہاں لوگوں کو کہا کہ میں بیٹے کو ذبح کرتا ہوں مگر وحی الٰہی سے حقیقت معلوم ہوئی کہ دنبہ ذبح کرنا چاہئے- پس لوگوں کو سمجھایا کہ اے لوگو! تمہارے بزرگوں نے جو کچھ دیکھ کر یہ قربانی انسانی شروع کی اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ آدمی کی قربانی چھوڑ کر جانور کی قربانی کی طرف توجہ کرو- اس کی برکت یہ ہوئی کہ ہزاروں بچے ہلاک ہونے سے بچ گئے- کیونکہ انہیں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا سبق پڑھا دیا گیا- یہ قربانی کا سلسلہ پرندوں‘ چرندوں‘ درندوں میں بھی پایا جاتا ہے- پھر دنیوی سلطنتوں میں بھی‘ پھر دینی سلطنتوں میں بھی- حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے امن کا وعظ شروع کیا- ربک فکبر )المدثر:۴( اور ربک الاکرم )العلق:۴( سے اس کی ابتدا ہوئی- پھر لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ کی تعلیم بھی و الرجز فاھجر )المدثر:۶( سے مشتق ہے- یہ سیدھی اور صاف تعلیم تھی اور ساتھ ساتھ کہا جاتا تھا- یوتکم اجورکم و لایسئلکم اموالکم )محمد:۳۷( یعنی ہمیں تمہارے مال نہیں چاہئیں بلکہ ہم خود بدلہ دیں گے- اسی واسطے نبی کریمﷺ~ نے بھی فرمایا لا اسئلکم علیہ اجراً )الشوری:۲۴-( ہاں کیا مانگتاہوں؟ الا المودۃ فی القربیٰ )الشوری:۲۴( یعنی نیکیوں میں یا باہم جو رشتے ہیں ان میں محبت قائم کرو- ابتدائی تعلیم میں بھی مالوں کا کہیں ذکر نہیں- پھر اس تعلیم میں جب ترقی ہوئی تو فرمایا- حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم )الحجرات:۸( لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم )الانفال:۶۴( و کرہ الیکم الکفر و الفسوق و العصیان )الحجرات:۸-( پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سبق دیا- پھر یہ رحم کیا کہ صحابہ کرامؓ میں الفت کا بیج بو دیا- اور یہ باہمی محبت حاصل نہ ہو سکتی تھی خواہ تمام زمین کے خزانے اس پر خرچ کر دیتے- اس آیت کی رو سے مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس آیت کے نزول تک جس قدر صحابہ تھے وہ آپس میں بھائی بھائی تھے- اور یہ شیعہ کے خلاف نص صریح ہے- پھر ان کی تعلیم جب یہاں تک پہنچ گئی تو پھر ان سے مال کی قربانی طلب ہوئی- پھر مال سے ترقی کر کے جانوں کی قربانی شروع ہوئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر قوم میں اس کی نظیریں موجود ہیں- قرآن کریم فرماتا ہے لکل امۃ جعلنا منسکاً ھم ناسکوہ )الحج:۶۸(-]txet [tag
میرا ایک دوست ہے- اسے مجھ سے بہت محبت ہے- محبت کے دنوں میں وہ مجھے دیکھتا کہ میں اکثر وقت اپنا حدیث کے پڑھانے میں خرچ کرتا ہوں- وہ چونکہ مجھے زیادہ خوشحال دیکھنا چاہتا تھا اس لئے اس نے مجھے کہا کہ جتنا وقت آپ حدیث پڑھاتے ہیں اگر طب میں اس کا اکثر حصہ لگائو تو آرام پائو- اس وقت میں نے سوچا کہ دو محبوبوں کا مقابلہ ہے- ایک جس کا کلام حدیث میں پڑھاتا ہوں اور ایک یہ جو حدیث سے منع کرتا ہے- میں نے اسے کہا تم سمجھتے ہو گے میں مان جائوں گا- دیکھو! ہم قربانی کا مسئلہ پڑھے ہوئے ہیں اس لئے تمہاری محبت کو اس محبوب کی محبت پر قربان کرتے ہیں-
ادنیٰ محبوبوں کو اعلیٰ محبوبوں پر قربان کرنے کا نظارہ ہر سال دیکھتا ہوں اس لئے ادنیٰ محبت کو اعلیٰ محبت پر قربان کرتا ہوں- مثلاً سڑک ہے جہاں درخت بڑھنے کا منشاء ہوتا ہے وہاں نیچے کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں- پھر درخت پر پھول آتا ہے اور وہ درخت متحمل نہیں ہو سکتا تو عمدہ حصے کے لئے ادنیٰ کو کاٹ دیتے ہیں-
میرے پاس ایک شخص سردہ لایا اور ساتھ ہی شکایت کی کہ اس کا پھل خراب نکلا- میں نے کہا کہ قربانی نہیں ہوئی- چنانچہ دوسرے سال جب اس نے زیادہ پھولوں اور خراب پودوں کو کاٹ دیا تو اچھا پھل آیا-
لوگ جسمانی چیزوں کے لئے تو اس قانون پر چلتے ہیں مگر روحانی عالم میں اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اصل غرض کو نہیں دیکھتے-
علم کی اصل غرض کیا ہے؟ خشیت اللہ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹-(علم پڑھو اس غرض کے لئے کہ لوگوں کو خشیت اللہ سکھائو- مگر علم کی اصل غرض خشیت‘ تہذیب النفس تو مفقود ہو گئی- ادھر کتابوں کے حواشی پڑھنے میں سارا وقت خرچ کیا جا رہا ہے مگر ان کتابوں کے مضمون کا نفس پر اثر ہو‘ اس کی ضرورت نہیں-
میں رام پور میں پڑھتا تھا- وہاں دیکھتا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں صبح کی نماز پڑھ لیتے اور مسجد کے ملاں کو نہ جگاتے کہ رات بھر مطالعہ کرتے رہے ہیں‘ انہیں جگانے سے تکلیف ہو گی- علم تہذیب|نفس کے لئے تھا مگر لوگوں نے اسے تخریب|نفس‘ کاہلی اور سستی میں لگا دیا- دوسروں کی اصلاح کے دعویدار ہیں مگر خود اپنی اصلاح سے بے خبر- بات کرتے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں مگر ساتھ ہی جھوٹوں پر *** بھی بھیجتے جاتے ہیں- ایک اشتہار دیتے ہیں کہ دیکھو اشتہار والوں نے لوٹ لیا- پر ہم جو کچھ کہتے ہیں یہ سب سچ ہے اور پھر اس پیرایہ میں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں-
پھر واعظوں کا بھی یہی حال ہے- میں اپنے اندر بھی ایک مصیبت دیکھتا ہوں- میرے لئے بھی دعا کرو- اپنے لئے بھی اگر کسی بھائی کا کوئی عیب دیکھتے ہو تو تھوڑی سی قربانی کرو- چالیس دن دعائوں میں لگائو پھر کسی سے شکایت کرو- خدا تعالیٰ نے صریحاً فرما دیا لن ینال اللہ لحومھا )الحج:۳۸( قربانی کے سلسلہ میں خدا گوشت کا بھوکا نہیں بلکہ خدا کو پانے کے لئے تقویٰ ہے- وہ ہمیں اپنے تک پہنچنے کا ایک طریق سکھاتا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دو- تقویٰ جبھی حاصل ہوتا ہے کہ مدح و ثناء میں غلو کو چھوڑ دو- علم کو حاصل کرو مگر عمل کو مقدم رکھو- میں صرف طالب علموں کو نہیں کہتا بلکہ یہاں جتنے آئے ہیں وہ سب طالبعلم ہیں- یہ خطبہ ہی ایک تعلیم ہے- دیکھو خدا نے ابراہیم کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور فرماتا ہے کہ ابراہیمؑ کے دین کو کوئی نہیں چھوڑ سکتا مگر وہی جو سفیہ ہو- ابراہیم کو خدا نے برگزیدہ کیا- یہ سنوار والے لوگوں میں سے تھا- تمام محبتوں‘ عداوتوں اور تمام افعال میں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا لحاظ رکھو پھر تمہیں ابراہیمؑ سا انعام دیں گے- فرمانبرداروں کی راہ اختیار کرو- میں تو حضرت صاحب کی مجلس میں بھی قربانی ہی سیکھتا رہتا تھا- جب وہ کچھ فرماتے تو میں یہ دیکھتا تھا کہ آیا یہ عیب مجھ میں تو نہیں-
جناب الٰہی میں محبوب بننے کے لئے اتباع رسول کی سخت ضرورت ہے ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲-( ساری دنیا کو قربان کر دو- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع پر دیکھو- حضرت ابراہیمؑ نے کیسی قربانی کی اور آخر اسی قربانی کے وسیلے سے وہ اس وجاہت پر پہنچا کہ خدا کے محبوبوں میں ایک ممتاز محبوب نظر آیا -
جو قربانی کرتا ہے اللہ اس پر خاص فضل کرتا ہے- اللہ اس کا ولی بن جاتاہے- پھر اسے محبت کا مظہر بناتا ہے- پھر اللہ انہیں عبودیت بخشتا ہے- یہ وہ مقام ہے جس میں لامحدود ترقیاں ہو سکتی ہیں- چنانچہ حضرت ابراہیم کو بھی کہا گیا اسلم‘ تو انہوں نے فوراً کہا ]kns [tag اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲-(خیر‘ جب یہ عبودیت کا تعلق مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر اس میں عصمت پیدا ہوتی ہے اور خدا اسے تبلیغ کا موقع دیتا ہے پھر اس کو ایک قسم کی دھت ہو جاتی ہے- خواہ کوئی مانے یا نہ مانے اس میں ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور وہ قول موجہ سے لوگوں کو امربالمعروف کرتا ہے- پھر وقت آتا ہے جب حکم ہوتا ہے کہ لوگوں سے یوں کہو- جوں جوں ترقی کرتا جاتا ہے خدا کا فضل اور درجات بڑھتے جاتے ہیں-
قربانی کا نظارہ عقلمند انسان کے لئے بہت مفید ہے- اپنے اعمال کا مطالعہ کرو- اپنے فعلوں میں‘ باتوں میں‘ خوشیوں میں‘ ملنساریوں میں‘ اخلاق میں غور کرو کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے ترک کرتے ہو یا نہیں؟ اگر کرتے ہو تو مبارک ہے تمہارا وجود- عیب دار قربانیاں چھوڑ دو- تمہاری قربانیوں میں کوئی عیب نہ ہو‘ نہ سینگ کٹے ہوئے‘ نہ کان کٹے ہوئے- قربانی کے لئے تین راہیں ہیں- )۱( استغفار )۲( دعا )۳( صحبت|صلحائ- انسان کو صحبت سے بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں- صحبت صالحین حاصل کرو- قربانی کے لئے تین دن ہیں- پر روحانی قربانی والے جانتے ہیں کہ سب ان کے لئے یکساں ہیں-
میں تمہیں وعظ تو ہر روز سناتا ہوں‘ خدا عمل کی توفیق دیوے-
) بدر جلد۸ نمبر۱۳ ۔۔۔ ۲۱ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۷-۸ (
۱۵ / جنوری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
قل من کان عدواً لجبریل فانہ نزلہ علیٰ قلبک باذن اللہ مصدقاً لما بین یدیہ و ھدی و بشریٰ للمومنین- من کان عدواً للٰہ و ملٰئکتہ و رسلہ و جبریل و میکٰل فان اللہ عدو للکافرین- و لقد انزلنا الیک ایٰات بینات و ما یکفر بھا الا الفاسقون- او کلما عٰھدوا عھداً نبذہ فریق منھم بل اکثرھم لایومنون- و لما جائ|ھم رسول من عند اللہ مصدق لما معھم نبذ فریق من الذین اوتوا الکتاب کتاب اللہ وراء ظھورھم کانھم لایعلمون- و اتبعوا ما تتلوا الشیاطینعلیٰ ملک سلیمٰن و ما کفر سلیمٰن و لٰکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر و ما انزل علی الملکین ببابل ھاروت و ماروت و مایعلمان من احد حتیٰ یقولا انما نحن فتنۃ فلاتکفر فیتعلمون منھما مایفرقون بہ بین المرء و زوجہ و ماھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ و یتعلمون ما یضرھم و لاینفعھم و لقد علموا لمن اشتریٰہ ما لہ فی الاٰخرۃ من خلاق و لبئس ما شروا بہ انفسھم لو کانوا یعلمون- )البقرۃ:۹۸تا۱۰۳(
اور پھر فرمایا-:
میں نے بارہا سنایا کہ ملائکہ پر ایمان لانے کا منشاء کیا ہے؟ صرف وجود کا ماننا تو غیر ضروری ہے- اس طرح تو پھر ستاروں‘ آسمانوں‘ شیطانوں کا ماننا بھی ضروری ہو گا- پس ملائکہ پر ایمان لانے سے یہ مراد ہے کہ بیٹھے بیٹھے جو کبھی نیکی کا خیال پیدا ہوتا ہے اس کا محرک فرشتہ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے- کیونکہ جب وہ تحریک ہوتی ہے تو وہ موقع ہوتا ہے نیکی کرنے کا- اگر انسان اس وقت نیکی نہ کرے تو ملک اس شخص سے محبت کم کر دیتا ہے پھر نیکی کی تحریک بہت کم کرتا ہے اور جوں جوں انسان بے پرواہ ہوتا جائے وہ اپنی تحریکات کو کم کرتا جاتا ہے اور اگر وہ اس تحریک پر عمل کرے تو پھر ملک اور بھی زیادہ تحریکیں کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس شخص سے تعلقات محبت قائم ہوتے جاتے ہیں بلکہ اور فرشتوں سے بھی یہی تعلق پیدا ہو کر تتنزل علیھم الملائکۃ )حٰم السجدۃ:۳۱( کا وقت آ جاتا ہے-
یہاں خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے- ان میں ایک کا نام جبرائیل ہے- دوسرے مقام پر اس کے بارے میں فرمایا ہے- انہ لقول رسول کریم- ذی قوۃ عند ذی العرش مکین- مطاع ثم امین )التکویر:۲۰تا۲۲( یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزت والا‘ طاقتوں والا‘ رتبے والا اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں- اللہ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے- پس جب یہ امر مسلم ہے کہ تمام دنیا میں ملائکہ کی تحریک سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے اور ملائکہ کی فرمانبرداری مومن کا فرض ہے تو پھر ملائکہ کے اس سردار کی تحریک اور بات تو ضرور مان لینی چاہئے- چونکہ یہ تمام محکموں کا افسر ہے اس کی باتیں بھی جامع ہیں- پس ہر ایک ہدایت کی جڑ یہی جبرائیل ہے جس کی شان میں ہے فانہ نزلہ علیٰ قلبک text] ga[tیعنی اس کی تمام تحریکوں کا بڑا مرکز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب ہے-
پس ہمہ تن اس کے احکام کے تابع ہو جائو کیونکہ یہ جامع تحریکات جمیع ملائکہ ہے اور اسی لحاظ سے قرآن شریف جامع کتاب ہے- جیسا کہ فرماتا ہے فیھا کتب قیمۃ )البینہ:۴-(تو گویا جو جبرائیل کا منکر ہے وہ اللہ کا دشمن ہے- پھر اللہ کے کلام کا کافر ہے پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مخالف ہے- پھر ایک اور ملک کا ذکر فرمایا ہے- جہاں تک میں نے سوچا ہے حضرت ابراہیم کی دعا ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار )البقرۃ:۲۰۲( سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ انسان کو دو ضرورتیں ہیں- ایک جسمانی جیسے عزت‘ اولاد‘ ان کے اخراجات‘ کھانے کے لئے چیزیں- ایک روحانی- جبرائیل کے بعد ایسی تحریکوں کا مرکز میکائیل ہے- اللہ نے دین بنایا‘ دنیا بھی بنائی- یہ جہان بھی بنایا‘ وہ جہان بھی- دونوں تحریکوں کا مرکز ہمارے نبی کریمﷺ~ کا قلب مبارک تھا- اسی لئے فرمایا اوتیت جوامع الکلم )بخاری کتاب التعبیر- مسلم کتاب المساجد-( قرآن شریف میں دنیا و دین دونوں کے متعلق ہدایتیں ہیں-
بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اللہ کی پاک آیات کو واہیات بتاتے ہیں- بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو انسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر‘ اللہ غفور رحیم ہے- اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدم کر لیتا ہے- حضرت سلیمانؑ کے عہد میں جب لوگوں کو امن حاصل ہوا اور مال ثروت کی فراوانی ہوئی تو ان میں نئی نئی تحریکیں ہونے لگیں- آسمانی کتب کا جو مجموعہ ان کے پاس تھا اس سے طبیعت اکتا گئی تو کسی اور تعلیم کی خواہش ہوئی مگر وہ تعلیم ایسی تھی جو خدا سے دور پھینکنے والی تھی- نقش سلیمانی وغیرہ اسی تعلیم کی یادگار بعض مسلمانوں میں مروج ہے- بنی|اسرائیل نے جب خدا کی کتاب سے دل اٹھایا تو ان لغو باتوں میں پڑ گئے جو بعض شیطانی اثروں کے لحاظ سے دلربا باتیں بن گئیں- خدا تعالیٰ نے فرمایا- یہ سب اس زمانہ کے شریروں کی کارروائی ہے- سلیمان علیہ السلام نے ان کو یہ تعلیم نہیں دی بلکہ از خود یہ باتیں انہوں نے گھڑ لیں اور ایسی دلربا باتوں کی اشاعت کی-
) بدر جلد۸ نمبر ۱۵ ۔۔ ۴ / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ (
* - * - * - *
‏KH1.28
خطبات|نور خطبات|نور
۲۲ / جنوری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-:
و ما انزل علی الملکین ببابل ھاروت و ماروت و ما یعلمان من احد حتیٰ یقولا انما نحن فتنۃ فلاتکفر فیتعلمون منھما مایفرقون بہ بین المرء و زوجہ و ماھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ و یتعلمون ما یضرھم و لاینفعھم و لقد علموا لمن اشتریٰہ ما لہ فی الاٰخرۃ من خلاق و لبئس ما شروا بہ انفسھم لو کانوا یعلمون )البقرۃ:۱۰۳-(
اور پھر فرمایا-:
انسان میں عجیب در عجیب خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں- جب وہ بچہ ہوتا ہے‘ پھر جب ہوش سنبھالتا ہے‘ پھر جب جوان ہوتا ہے‘ پھر جب بری صحبتوں میں پھنستا ہے‘ جب اچھی صحبتوں میں آتا ہے‘ جب کامیاب زندگی بسر کرتا ہے‘ جب ناکام ہوتا ہے تو اس کے حالات میں تغیر پیش آتے رہتے ہیں- میں نے ایک خطرناک ڈاکو سے پوچھا کہ کبھی تمہارے دل نے ملامت کی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ تنہائی میں تو ضرور ضمیر ملامت کرتا ہے مگر جب ہماری چاریاری اکٹھی ہوتی ہے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ یہ افعال برے لگتے ہیں- یہ سب صحبت|بد کا اثر ہے- قرآن کریم میں کونوا مع الصادقین )التوبہ:۱۱۹( کا اسی واسطے حکم آیا ہے تاکہ انسان کی قوتیں نیکی کی طرف متوجہ رہیں اور نیک حالات میں نشوونما پاتی رہیں-
غرض انسان کے دکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں‘ سکھوں میں اور- کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے‘ ناکام ہو تو اور طرز- طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں- اللہ|تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا- یٰایھا الذین اٰمنوا اذا تناجیتم فلاتتناجوا بالاثم و العدوان و معصیت الرسول و تناجوا بالبر و التقویٰ و اتقوا اللہ الذی الیہ تحشرون- انما النجویٰ من الشیطان لیحزن الذین اٰمنوا و لیس بضارھم شیئاً الا باذن اللہ )المجادلہ:۱۰تا۱۱-(
ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم کوئی منصوبہ کرتے ہو‘ انجمنیں بناتے ہو- مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بنائو تو گناہ‘ سرکشی اور رسول کی نافرمانبرداری کے بارے میں نہ ہو بلکہ نیکی اور تقویٰ کا مشورہ ہو-
بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا- پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسیٰ علیہ|السلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے اور وہ اپنے تئیں نحن ابناء اللہ و احباوہ )المائدۃ:۱۹( سمجھنے لگے- لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی‘ ان میں بہت ہی حرامکاری‘ شرک اور بدذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اللہ|تعالیٰ نے ان پر مسلط کیا- فاذا جاء وعد اولٰھما بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باس شدید فجاسوا خلال الدیار و کان وعداً مفعولاً )بنی اسرائیل:۶-( ستر برس وہ اس بلاء میں مبتلا رہے- آخر جب بابل میں دکھوں کا زمانہ بہت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتیٰ کہ دانیالؑ‘ عزراؑ‘ حزقیلؑ‘ ارمیاؑ‘ ایسے برگزیدہ بندگان خدا پیدا ہوئے اور انہوں نے جناب الٰہی میں ہی خشوع خضوع سے دعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہوا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہو چکی اب ہم ان کی خبرگیری کرتے ہیں-
اللہ کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں- ایک تو ایسے کہ ان میں انسان کو مطلق دخل نہیں- مثلاً اب سردی ہے اور آفتاب ہم سے دور چلا گیا ہے- پھر گرمی ہو جائے گی اور آفتاب قریب آ جائے گا- یہ کام اپنے ہی بندوں کی معرفت کرایا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بادشاہ اب ہلاک ہونے والا ہے- پس تم میدوفارس کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ عنقریب یہ دکھ دینے والی قوم اور ان کی سلطنت ہلاک ہو جائے گی- پس اللہ نے دو فرشتے ہاروت ماروت نازل کئے- ہرت کہتے ہیں زمین کو مصفا کرنے کو اور مرت زمین کو بالکل چٹیل میدان بنا دینا- گویا یہ امر ان فرشتوں کے فرض میں داخل تھا کہ یہ لوگ برباد ہو جائیں اور بنی اسرئیل نجات پا کے اپنے ملک میں جائیں-
پس وہ ہاروت ماروت نبیوں کی معرفت ایسی باتیں سکھاتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت کرتے تھے کہ ان تجاویز کو یہاں تک مخفی رکھو کہ اپنی بیبیوں کو بھی نہ بتائو کیونکہ عورتیں کمزور مزاج کی ہوتی ہیں اور ممکن بلکہ اغلب ہے کہ وہ کسی دوسرے سے کہہ دیں - پس اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لحاظ سے میاں بی بی میں بھی افتراق ہو جاتا تھا یعنی میاں اپنی بی بی کو اس راز سے مطلع نہ کرتا تھا- اور پھر یہ بات جب پختہ ہو گئی تو مید و فارس کے ذریعہ بابل تباہ ہو گیا اور خدا نے بنی اسرائیل کو بچا لیا مگر جتنا ضرر دشمنوں کو پہنچایا گیا چونکہ اللہ کے اذن سے تھا‘ اسی واسطے وہ اس میں کامیاب ہو گئے-
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو مکہ والوں کو بڑا غیظ و غضب پیدا ہوا- پس انہوں نے یہودیوں سے دوستی گانٹھی اور یہودی وہی پرانا نسخہ استعمال کرنے لگے کہ آئو کسی بادشاہ سے ملکر اس محمدی سلطنت کا استیصال کریں- اسی واسطے ایرانیوں سے توسل پیدا کیا- یہ ایک لمبی کہانی ہے- ایرانیوں کے گورنر عرب کے بعض مضافات میں بھی تھے- انہوں نے اپنے بعض آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کرنے کے لئے بھی بھجوائے مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی- اس کی وجہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آگے تو تم اے یہودیو! خدا کے حکم سے ایسے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے- اب تم چونکہ یہ نسخہ اللہ کے رسول کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہو اس لئے ہرگز کامیاب نہ ہو گے- چنانچہ چند آدمی شاہ فارس کی طرف سے گرفتار کرنے آئے- آپﷺ~ نے ان کو فرمایا میں کل جواب دوں گا- صبح آپﷺ~ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے اس کے بیٹے نے اسے قتل کر دیا ہے- وہ یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے )بات میں بات آ گئی ہے- ہر چند کہ وہ ایسی عظیم الشان نہیں ہے- وہ یہ کہ جب وہ ایلچی نبی کریمﷺ~ کے حضور آئے تو صبح صبح داڑھیاں منڈوا کر آئے- آپ نے فرمایا یہ تم کیا کرتے ہو- ہم اس امر کو کراہت کے ساتھ دیکھتے ہیں- جہاں اوپر کا قصہ لکھا ہے وہاں یہ بات بھی ہے- خیر( اور خائب و خاسر واپس پھرے-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب یہ یہودی ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دیتی ہیں- ان کے حق میں بالکل مفید نہیں ہیں- جو اب یہ کرتے ہیں آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں- ہاروت ماروت نے جو سکھایا تھا وہ چونکہ نبیوں کے حکموں کے ماتحت تھا اس لئے کامیابی کا موجب ہوا- لیکن اب چونکہ نبی کی نافرمانی میں وہ ہتھیار چلتا ہے اس لئے کچھ کام نہ دے گا- کیا اچھا ہوتا کہ وہ ایسی بری شے کے بدلے میں اپنی جانوں کو نہ بیچتے بلکہ اب تو یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایمان لائیں- متقی بن جاویں تو اللہ کے ہاں بہت اجر پائیں-
) بدر جلد۸ نمبر ۱۵ ۔۔۔ ۴ / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳-۴ (
* - * - * - *

۲۹ / جنوری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
یٰایھا الذین اٰمنوا لاتقولوا راعنا و قولوا انظرنا و اسمعوا و للکافرین عذاب الیم- مایود الذین کفروا من اھل الکتاب و لا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم و اللہ یختص برحمتہ من یشاء و اللہ ذوالفضل العظیم- ما ننسخ من ایٰۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا الم تعلم ان اللہ علیٰ کل شی|ء قدیر- الم تعلم ان اللہ لہ ملک السمٰوٰت و الارض و ما لکم من دون اللہ من ولی و لا نصیر- ام تریدون ان تسئلوا رسولکم کما سئل موسیٰ من قبل و من یتبدل الکفر بالایمان فقد ضل سواء السبیل- ود کثیر من اھل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفاراً حسداً من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق فاعفوا و اصفحوا حتیٰ یاتی اللہ بامرہ ان اللہ علیٰ کل شی|ء قدیر- و اقیموا الصلٰوۃ و اٰتوا الزکٰوۃ و ما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ ان اللہ بما تعملون بصیر )البقرۃ:۱۰۵تا۱۱۱(
اللہ جل شانہ نے ان آیات میں چند باتیں بطور نصیحت فرمائی ہیں-
پہلی بات -: بہت سے لوگ جن کے دلوں میں کینہ اور عداوت ہوتی ہے تو اپنے حریف کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جن میں ایک پہلو بدی کا بھی ہوتا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرپوک ہوتے ہیں- کھل کر کسی کو برا نہیں کہہ سکتے-
راعنا - ایک لفظ ہے- اس کے کئی معنے ہیں- یہ رعونت‘ بڑائی‘ خودپسندی‘ حماقت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ آپ ہماری رعایت کریں-
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھایا ہے کہ ایسا لفظ اپنے کلام میں اختیار نہ کرو جو ذو معنی ہو بلکہ ایسے موقعہ پر انظرنا کہا کرو- اس میں بدی کا پہلو نہیں ہے-
ایک شخص نے مجھ سے اصلاح کا ثبوت قرآن مجید سے پوچھا- میں نے یہی آیت پڑھ دی- اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرما کر متنبہ کرتا ہے کہ جو لوگ انکار پر کمر باندھے ہیں اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں وہ دکھ درد میں مبتلا رہتے ہیں- اس سے آگے عام کافروں کا رویہ بتایا ہے کہ یہ اہل کتاب اور مشرکین تمہارے کسی سکھ کو محض از روئے حسد دیکھ نہیں سکتے- اس حسد سے ان کو کچھ فائدہ سوا اس کے کہ جل جل کر کباب ہوتے رہیں نہیں پہنچ سکتا-
یہ حسد بڑا خطرناک مرض ہے‘ اس سے بچو- اللہ تعالیٰ کے علیم و حکیم ہونے پر ایمان ہو تو یہ مرض جاتا رہتا ہے- دیکھو ململ کا کپڑا ہے- کوئی اسے سر پر باندھتا ہے- کوئی اس کا قمیص بناتا ہے- کوئی زخموں کے لئے پٹی- سب جگہ وہ کام دیتا ہے اور سبھی جگہ واقعہ میں اس کی ضرورت ہے- اسی طرح اگر انسان سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے عجائبات قدرت سے جو کام ہو رہے ہیں وہ بلا ضرورت و حکمت کے نہیں تو معترض کیوں ہو؟ اگر خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو اپنی رحمت خاصہ کے لئے چن لیا ہے تو یہ کیوں جلتے ہیں- یہ تو عام قانون قدرت ہے کہ آج ایک درخت بغیر پھول اور پھل پتوں کے باکل سوختنی ہیئت میں کھڑا ہے- اب بہار کا موسم آیا تو اس میں پتے لگنے شروع ہوئے- پھر پھول پھر پھل- اسی طرح قوموں کا نشوونما ہے- ایک وقت ایک قوم برگزیدہ ہوتی ہے لیکن جب وہ انعامات کے قابل نہیں رہتی تو خدا تعالیٰ دوسری قوم کو چن لیتا ہے اور وہ پہلی قوم ایسی مٹ جاتی ہے کہ بالکل بھلا دی جاتی ہے یا اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے- غرض اس جہان میں اس طرح بہت تغیر ہوتے رہتے ہیں- ایک شریعت دی جاتی ہے پھر اس کی بجائے دوسری- اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کوئی نشان قدرت نہیں بدلتے اور نہ اسے ترک کرتے ہیں مگر کہ اس کی مثل یا اس سے اچھالاتے ہیں- کیا تم کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے- اسی کا راج آسمانوں اور زمینوں میں ہے- وہ حق و حکمت سے ایسی تبدیلیاں کرتا رہتا ہے- اس پر کسی کا بس نہیں چلتا- اس کے سوا کسی کو مددگار اور کارساز نہ پائو گے-
) بدر جلد۸ نمبر۱۶ ۔۔۔ ۱۱ / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۱۲ / فروری ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی -:
‏ils] ga[t
و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ و سعیٰ فی خرابھا اولٰئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی و لھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم- و للٰہ المشرق و المغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم- و قالوا اتخذ اللہ ولداً سبحٰنہ بل لہ ما فی السمٰوٰت و الارض کل لہ قانتون- بدیع السمٰوٰت و الارض و اذا قضیٰ امراً فانما یقول لہ کن فیکون )البقرۃ:۱۱۵تا۱۱۸-(
اور پھر فرمایا-:
اس سے پہلے رکوع میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ نے علم‘ طاقت اور آبرو دی ہے تو اس کے شکریہ میں اس کی جو اس نعمت سے متمتع نہیں‘ مدد کرے نہ یہ کہ اس پر تمسخر اڑائے‘ یہ منع ہے- چنانچہ اس نے فرمایا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم )الحجرات:۱۲-( مگر افسوس کہ لوگ اگر ذرا بھی آسودگی پاتے ہیں تو مخلوق الٰہی کو حقارت سے دیکھتے ہیں- اس کا انجام خطرناک ہے- ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے- ایسا کر کے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے- بارہویں صدی تک اسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سنی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں- پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اب تو کوئی حساب ہی نہیں- ان لوگوں کو یہ شرم نہ آئی کہ مکہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہی- قرآن بھی ایک‘ نبی بھی ایک‘ اللہ بھی ایک‘ پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں؟ ان کو چاہئے کہ مسجدوں میں خوف الٰہی سے بھرے داخل ہوتے-
صرف اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہو تو وقار اور سکینت سے آئے اور ادب کرے جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے- لیکن وہ اگر خوف الٰہی سے کام نہیں لیتے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے- یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے- اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجد مبارک میں گرجہ کرنے کی اجازت دے دی-
)اللہ تعالیٰ( صحابہ کرام کو تسلی دیتا ہے کہ اگر )کوئی( تمہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکتا ہے تو کچھ غم نہ کرو‘ میں تمہارا حامی ہوں- جس طرف تم گھوڑوں کی باگیں اٹھائو گے اور منہ کرو گے اسی طرف میری بھی توجہ ہے- چنانچہ جدھر صحابہ نے رخ کیا فتح و ظفر استقبال کو آئی- یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کہ کسی کو عبادت گاہ سے نہ روکو اور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو- مگر اس سے یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں امربالمعروف نہ کرو- ہرگز نہیں- بلکہ صرف حسن سلوک اور سلامت روی سے پیش آئو- جو کسی کی غلطی ہو اس کی فوراً تردید کرو- مثلاً عیسائی ہیں- جب وہ کہیں کہ خدا کا بیٹا ہے تو ان کو کہو خدا تعالیٰ اس قسم کی احتیاج سے پاک ہے- جب آسمان و زمین میں سب کچھ اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں تو اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے؟ ) بدر جلد۸ نمبر ۱۷ ۔۔۔ ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۵ / مارچ ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے و من یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ )البقرۃ:۱۳۱( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
‏text] gat[ رشک ) غبطہ ( تمام انسانی ترقیات کی جڑ ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رشک کرنا ہے تو ابراہیمؑ سے کرو- دیکھو! اس نے اپنے اخلاص و وفا کے ذریعے کیسے کیسے اعلیٰ مدارج پائے-
ابراہیم کی ملت سے کون بے رغبت ہو سکتا ہے مگر وہی جس کی دینی‘ دنیوی عقل کم ہو- اس کی ملت کیا تھی؟ بس حنیف ہونا- حنیف کہتے ہیں ہر امر میں وسطی راہ اختیار کرنے والے کو- عربی زبان میں جس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوں اسے احنف کہتے ہیں- اس واسطے حنیف کے معنے میں بعض لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے- حالانکہ ایسے شخص کو احنف بطور دعا و فال نیک کہتے ہیں- ہمارے ملک میں ’’ہرچہ|گیرد|علتی|شود‘‘ کے مریض سیدھے کے معنے بھی الٹے ہی لیتے ہیں- جس آدمی کو سیدھا کہا جاوے گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ تم بڑے بیوقوف ہو-
ابراہیم کی راہ یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچے رہنا- کسی کی طرف بالکل ہی نہ جھکنا بلکہ دین و دنیا دونوں کو اپنے اپنے درجے کے مطابق رکھنا- چنانچہ ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار 10] )[pالبقرۃ:۲۰۲( ایک ہی دعا ہے-
رابعہ بصری ایک عورت گذری ہے- ایک دن کسی شخص نے ان کے سامنے دنیا کی بہت ہی مذمت کی- آپ نے توجہ نہ فرمائی لیکن جب دوسرے دن‘ پھر تیسرے دن بھی یونہی کہا تو آپ نے فرمایا- اس کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ یہ مجھے کوئی بڑا دنیا|پرست معلوم ہوتا ہے جبھی تو اس کا باربار ذکر کرتا ہے-
پس ایک وسطی راہ اختیار کرنا جس میں افراط و تفریط نہ ہو ابراہیمی ملت ہے- مومن کو یہی راہ اختیار کرنی چاہئے اور میں خدا کی قسم کھا کر شہادت دیتا ہوں کہ ابراہیم کی چال اختیار کرنے سے نہ تو غریب|الوطنی ستاتی ہے‘ نہ کوئی اور حاجت- نہ انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے‘ نہ آخرت میں- چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے و لقد اصطفیناہ فی الدنیا و انہ فی الاٰخرۃ لمن الصالحین )البقرۃ:۱۳۱( وہ دنیا میں بھی برگزیدہ لوگوں سے تھا اور آخرت میں بھی- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں خواہ کیسی ذلت ہو‘ آخرت میں عزت ہو- اور بعض آخرت میں کسی عزت کے طالب نہیں یا تھوڑی چیز پر اپنا خوش ہو جانا بیان کرتے ہیں- چنانچہ ایک دفعہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ کوئی بزرگ لکھتے ہیں کہ ہمیں تو بہشت میں پھونس کا مکان کافی ہے اور دنیا کے متعلق لکھا ہے کہ یہاں کفار کوٹھیوں میں رہتے ہیں- مسلمانوں کے لئے کچے مکانوں میں رہنا اسلامیوں کی ہتک ہے- اب میں پوچھتا ہوں کہ جب اس دنیا میں وہ اپنی ہتک پسند نہیں کرتا تو اس عالم میں اپنا ذلیل حالت میں رہنا اسے کس طرح پسند ہے؟ یہ خیال ابراہیمی چال کے خلاف ہے-
ابراہیمؑ نے جن باتوں سے یہ انعام پایا کہ دنیا و آخرت میں برگزیدہ اور اعلیٰ درجہ کا معززانسان ہوا‘ وہ بہت لمبی ہیں- مگر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں سب کو بیان فرما دیا کہ اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲-(پھر انسان کو اپنی بہتری کے ساتھ اپنی اولاد کا بھی فکر ہوتا ہے- مسلمانوں میں کئی قسم کے لوگ گزرے ہیں- بعض کو اپنی اولاد کا اتنا فکر ہوتا ہے کہ دن رات ان کے فکر میں مرتے ہیں اور بعض ایسے کہ اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں-
قاری کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ آپ پڑھا رہے تھے- گھر سے غلام نے آ کر کہا کہ آپ کا بیٹا مر گیا- آپ نے فرمایا انا للٰہ و انا الیہ راجعون )البقرۃ:۱۵۷-(اچھا فلاں کو کہہ دو کہ قبر نکلوا کر اسے دفن کرادے- اس کے بعد آپ پڑھانے میں مشغول ہو گئے-
خیر ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کی بہتری چاہی تو اس کے لئے ایک وصیت کی یٰبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلاتموتن الا و انتم مسلمون )البقرۃ:۱۳۳( اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لئے ایک دین پسند فرمایا- پس تم فرمانبرداری کی حالت میں مرو- کئی لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر توبہ کر لیں گے- مگر یہ غلطی ہے کیونکہ عمر کا کچھ بھروسہ نہیں-
خطبہ ثانیہ
و نعوذ باللہ من شرور انفسنا- میں تمہیں ایک عام شر کی طرف توجہ دلاتا ہوں‘ وہ بدظنی ہے- جن لوگوں نے اس مرض کے علاج بتائے ہیں ان میں ایک امام حسنؓ بصری بھی ہیں- آپ حضرت عمرؓ کی خلافت میں پیدا ہوئے تھے- آپ کے اجداد عیسائی تھے- یہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دجلہ کے کنارے پر گیا- کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ ایک عورت ہے بڑی حسین- ان کے درمیان شراب کا مشکیزہ پڑا ہے- وہ اسے پی رہے ہیں اور بعض وقت عورت اس نوجوان کو چوم بھی لیتی ہے- میں نے اس وقت کہا کہ یہ لوگ کیسے بدکار ہیں- باہر سر میدان بدذاتی کر رہے ہیں- اتنے میں ایک حادثہ ہو گیا- ایک کشتی آ رہی تھی وہ ڈوب گئی- عورت نے اشارہ کیا تو وہ نوجوان کودا اور چھ آدمیوں کو باہر نکال لایا- پھر آواز دی کہ او حسن! ادھر آ- تو بھی ایک کو تو نکال- نادان! یہ تو میری ماں ہے اور مشکیزہ میں دریا کا مصفی پانی ہے- ہم بھی تیری آزمائش کو یہاں بیٹھے تھے کہ دیکھیں تم میں سوئ|ظنی کا مرض گیا ہے یا نہیں؟ امام حسنؓ بصری فرماتے ہیں اس دن سے میں ایسا شرمندہ ہوا کہ کبھی سوئ|ظن نہیں کیا- سو تم بھی اس سے بچو-
) بدر جلد۸ نمبر۲۴ - ۲۵ ۔۔۔ ۸ - ۱۵ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۱۴ / مئی ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب و لٰکن البر من اٰمن باللہ و الیوم الاٰخر و الملائکۃ و الکتاب و النبین و اٰتی المال علیٰ حبہ ذوی القربیٰ و الیتٰمیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرقاب و اقام الصلٰوۃ و اٰتی الزکٰوۃ- )البقرۃ:۱۷۸( کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا-:
لوگوں کی عجیب عادت ہے کہ وہ بڑی باتوں کا ذکر نہیں کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے لڑائی کرتے ہیں- یہ ایک مرض ہے- میں نے اس مرض کا تماشا دو جگہ دیکھا- ایک بڑا عہدیدار ہمارے ڈیرے پر آ گیا- اس نے جو شلوار پہنی ہوئی تھی وہ ٹخنوں سے نیچی تھی- میں وہاں موجود نہیں تھا- ایک میرے داماد تھے- انہوں نے چھوٹی سی چھڑی جو ان کے ہاتھ میں تھی اس رئیس کے ٹخنے پر لگا کر کہا ما اسفل من الکعبین فی النار )بخاری- کتاب اللباس( یہ بہت بری بات ہے- وہ اس سلوک سے آگ ہی تو ہو گیا- اس نے کہا نالائق انسان! تجھے تو یہ بھی خبر نہیں کہ مذہب اسلام کو بھی مانتا ہوں یا نہیں- میرا طریق کیا ہے- یہ حدیث بھی صحیح ہے یا نہیں- اگر میں تمہارا مقابلہ کروں تو تجھے ایسا ذلیل کروں کہ پھر کبھی ایسا کرنے کا نام نہ لے-
اسی طرح میں ایک دفعہ امرتسر تھا- صبح کی نماز میں ایک صاحب آ گئے اور وہ میرے ساتھ دس بجے تک پھرتے رہے- میں نے قرآن شریف کی بہت سی باتیں سنائیں- اتفاق سے میرا پاجامہ نیچا ہو گیا تو اس نے جھٹ اعتراض کر دیا- میں نے کہا بدبخت! تجھے میری خوبی تو کوئی نظر نہ آئی- کہا میں تو عیب چینی کی نیت سے ہی ساتھ شامل ہوا تھا-
اسی طرح میں ریل میں تھا- ایک امیر شخص کی خاطر میں نے اسے ایک دو نکات قرآنی سنائے- اس نے کہا کوئی طبابت کی بات کیجئے- قرآن تو آپ کو آتا نہیں- میں نے کہا یہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا؟ کہا آپ نے آیت علم قرات کے مطابق نہیں پڑھی-
میں نے یہ بات اس لئے تمہیں سنائی تا تمہیں معلوم ہو کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو تو پکڑتے ہیں مگر بڑی باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتے- گھر میں آئے ہیں- بی بی نماز کی سست ہے- شرک میں گرفتار ہے-اس سے کوئی پرخاش نہیں‘ کوئی لڑائی نہیں لیکن اگر ہانڈی میں تھوڑا سا نمک بھی زیادہ پڑ گیا تو گھر والوں کی شامت آ گئی- دیکھو یہ کیسا ظلم ہے- اسی طرح میں نے گائوں میں دیکھا- لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر رفع|یدین اور آمین پر ڈانگوں سے لڑتے ہیں- میں نے ایسے لوگوں سے کہا کہ تم میں سے کئی ہیں جو نمازوں کے سست ہیں تو وہ کہنے لگے نماز کیا ہوتی ہے؟ اس کے نہ پڑھنے سے تو گنہگار ہی ہوتے ہیں مگر رفع یدین اور آمین میں تو ایمان کے جانے کا خطرہ ہے-
غرض لوگ آپس میں عجیب عجیب طور سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں اور بڑے نقصانوں کا کچھ خیال نہیں کرتے- جب میں بہت ہی چھوٹا تھا تو ہمارے شہر میں غالباً صرف دو ہندئووں کے گھر تھے جن کا زمیندارہ تھا- باقی سارے شہر کا زمیندارہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا جو تعداد میں بارہ ہزار ہوں گے اور ہندو چھ ہزار- ہندئووں کو حقارت سے کراڑ کہتے تھے مگر آج وہی کراڑ ہیں کہ مسلمانوں کی تقریباً ساری زمینوں کے مالک ہیں- بجائے اس کے کہ مسلمان انہیں کراڑ کہیں اب شاہ جی کہتے ہیں جو اس سے پہلے سیدوں کو کہتے تھے- پھر مسلمانوں میں باہمی اس قدر عناد ہے کہ میونسپلٹی میں جب رائے لی گئی تو مسلمانوں نے بھی ہندئووں کے حق میں رائے دی- یہ حالت کیوں ہوئی؟ میں نے دیکھا جو شخص آسودہ ہو وہ خودپسند اور خودرائے ہو جاتا ہے- کسی کو مانتا نہیں- جو کچھ دل میں آتا ہے وہی سچ سمجھتا ہے- تکبر کا یہ حال ہے کہ جسے چند روز صحت یا جتھا مل جاوے یا مقدمہ میں کامیاب ہو جائے اور تدبیریں مفید پڑ جائیں وہ خدائی کا دعویٰ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے-
دیکھو! عرب کے لوگوں میں قریشی سادات کہلائے- ان کا بچہ بچہ سید کہلاتا- قریش ایک جانور کا نام ہے جو کئی جانوروں کو کھا جاتا ہے- چونکہ یہ ساری دنیا کو کھا گئے اس لئے قریش ان کا نام ہوا- مگر جب ان میں آسودگی آئی تو یہ ایسے بگڑے کہ جس قدر بدکاریاں‘ بدعتیں‘ بدمعاشیاں‘ نماز روزہ کی سستیاں‘ قرآن سے بے توجہیاں ہیں ان کی جڑ انہی گھروں میں ہے- پھر میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑا سا رزق ملتا ہے تو اکڑباز بن جاتے ہیں- حالانکہ غور کرو تو وہ اتنا سامان ہوتا ہے کہ جس سے بمشکل قحط کے دنوں میں پیٹ کا دوزخ بھرا جا سکے- مگر کہتا ہے او ہم فلانے کو کیا سمجھتا ہے- نہ تو مسلمانوں میں باہمی ہمدردی ہے‘ نہ قومی جوش ہے‘ نہ خلوص ہے- یہ تو دنیا کا حال ہے- دین کے معاملات میں بھی اتفاق نہیں- سنی شیعہ کی مسجدیں کچھ مدت سے الگ ہوئی ہیں- مقلدوں اور غیر مقلدوں کی مسجدیں میرے دیکھتے دیکھتے الگ ہو گئیں- اب مرزائیوں کا تسلط ہو جائے تو وہ غیر مرزائیوں کو نماز نہ پڑھنے دیں تو یہ بات مجھے پسند نہیں- دیکھو یہاں نہ تو کوئی ہندو ہے نہ سکھ نہ آریہ- میں تمہیں سناتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ میں نے بھیرہ کی بات کوئی اپنا وطن سمجھ کر نہیں سنائی- مدت ہوئی میں بھیرہ کا خیال بھی چھوڑ چکا- اب نہ میری زبان وہاں کی ہے‘ نہ لباس‘ نہ میرے بچوں کا وہ طرز ہے- میں نے صرف تمہیں ایک واقعہ سنایا تا تم عبرت پکڑو- تمہاری خودآرائیاں‘ خودپسندیاں‘ دوسروں کی پروا نہ کرنا‘ صبر کو اختیار نہ کرنا‘ یہ مجھے پسند نہیں- میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ جب تک پاک نمونہ نہ بنو گے کامیاب نہ ہو سکو گے-
میں ایک جگہ مدرس تھا- میرے ایک مہمان آیا- اس شہر کا پانی کھاری تھا- عورتیں صبح دریا سے بھر لاتی تھیں- دریا کا راستہ مدرسہ کے مشرق کی طرف تھا- مجھے اس نے بلایا ذرا باہر آئو- جب میں گیا تو مجھے کہا دیکھو مسلمان عورتیں‘ گھڑوں پر کاہی جم رہی ہے‘ میل سے ایسے بھرے ہیں کہ دیکھ کر گھن آتی ہے- ہوا چل رہی تھی- کہا دیکھو یہ مسلمان عورتیں تہ بند باندھے ہوئے ہیں اور کیسی بے پرد ہو رہی ہیں- ان کے بعد ہندو عورتیں گزریں- گلبدن کے پاجامے پہنے ہوئے‘ سروں پر گاگریں جو مانجھ مانجھ کر ایسی شفاف بنائی ہوئیں کہ نظر نہ ٹھہر سکتی تھی- مجھے کہنے لگا کہ تم مسلمانی لئے پھرتے ہو- اب اگر کوئی اجنبی یہاں آئے تو اسے کونسا مذہب اختیار کرنے کی تحریک ہو سکتی ہے- کیا یہ پچھلیاں ان اگلی عورتوں کا نمونہ دیکھ کر مسلمان ہو سکتی ہیں؟ افسوس تم لوگ عملی حالت اچھی نہیں بناتے- رنڈیوں کے بازاروں کو دیکھو- سب مسلمانوں سے بھرے پڑے ہیں- پوچھو کہ مسلمان ہیں‘ تو کہیں گے شکر الحمد للٰہ محب اہل بیت ہیں- لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ- ہر قسم کے شہدے‘ گنڈے‘ جعلساز‘ جھوٹی قسم کھانے والے مسلمانوں میں موجود ہیں- اب تم بتائو کہ آریہ‘ عیسائی کیا دیکھ کر مسلمان ہوں- کیا قیامت کو؟ قیامت تو مرکر دیکھیں گے- تم مرنے سے پہلے بھی انہیں کچھ دکھائو- دیکھو صحابہ کرامؓ نے کیا پاک نمونہ دکھایا- ہمت‘ استقلال‘ جان نثاری‘ توحید کے لئے مال‘ جان‘ وطن چھوڑ دیا- اپنے آقاﷺ~ کی اطاعت میں محویت پاکبازی تھی- ان میں خودپسندی‘ خودرائی نہ تھی- وہ حرام خور نہ تھے- حلال طیب کھاتے تھے- اس رکوع کے ابتداء میں فرماتا ہے- تم مشرق مغرب کو فتح کر رہے ہو یہ نیکی نہیں- نیکی تو اس وقت ہو گی جب اس فتحمندی کے ساتھ اللہ پر تمہارا ایمان ہو گا- اگر اللہ پر ایمان نہیں تو پھر تمہاری ہستی کیا ہے- پھر یوم آخرت پر ایمان ہو- جو لوگ کہتے ہیں ’’دنیا کھائیے مکر سے روٹی کھائیے شکر سے‘‘ وہ بے|ایمان ہیں- دیکھو جب تک خشیت اللہ نہ ہو‘ آخرت پر ایمان نہ ہو‘ حرامخوری سے نہیں رک سکتے-
میں نے ریاستوں میں رہ کر دیکھا‘ وہاں نوشیروانی ہوا کرتی تھی- ایک شخص عرضیاں سنایا کرتا تھا- ایک اہل غرض نے اس عرضیاں سنانے والے کو سو روپیہ دیا کہ تم یہ عرضی اس ترتیب سے سنا دینا- چنانچہ اس نے عرضی بڑی عمدگی سے سنائی اور کہا حضور! بڑی قابل توجہ ہے اور ساتھ سو روپیہ رکھ دیا کہ اس نے مجھے رشوت کا دیا ہے- رئیس کے دل میں عظمت بیٹھ گئی کہ یہ کیسا ایماندار آدمی ہے- میں اسے جانتا تھا کہ وہ بڑا حرامخور ہے- میں نے کہا یہ کیا؟ کہا مولوی صاحب آپ نہیں جانتے- یہ سو روپیہ ظاہر کر دیا- اس سے پچھلا تو ہضم ہو جائے گا اور آئندہ کے لئے راہ کھل جائے گا- یہ راجہ لوگ تو الو ہوتے ہیں- ہم نے اس حیلہ سے اپنا الو سیدھا کر لیا-
دیکھو میرے جیسا شخص اگر خائن ہو جائے تو ہزاروں روپے کما سکتا ہے- مگر آخرت پر ایمان ہے جو اس بات کا وہم تک بھی آنے نہیں دیتا- مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ فاتح ہونے میں بڑائی نہیں بلکہ ایمان باللہ و ایمان بالیوم الآخر میں بڑائی ہے- پھر ملائکہ پر ایمان ہو جو تمام نیک تحریکوں کے مرکز ہیں- پھر اللہ کی کتابوں پر اور اللہ کے نبیوں پر ایمان ہو- پھر خدا کی راہ میں کچھ دے- میں نے تجربہ سے آزمایا ہے جو کنجوس ہو وہ حق پر نہیں پہنچتا- بعض دفعہ سخاوت والے انسان کے لئے کسی محتاج کے دل سے دعا نکلتی ہے- ’’جا تیرا دونوں جہان میں بھلا‘‘ اور پھر وہ عرش تک پہنچتی ہے اور اسے جنت نصیب ہو جاتا ہے-
ایک یہودی تھا‘ وہ بارش کے دنوں میں چڑیوں کو چوگا ڈالا کرتا- بزرگ ملاں تھا اس نے حقارت سے دیکھا- اور یہ ملاں بڑی بدبخت قوم ہوتی ہے ایسا ہی گدی|نشین- ملا نمبردار کے ماتحت ہوتا ہے اور گدی|نشین کو تو سب کچھ حلال ہے- رنڈیاں ان کے دربار کی زینت ہیں- نماز روزہ کو جواب دے رکھا ہے- بزرگوں کے نام سے کھاتے ہیں- خیر! ایک وقت آیا کہ وہ یہودی مسلمان ہوا- وہ حج کو گیا- وہاں ملاں بھی حج کر رہا تھا- اپنا روپیہ کب خرچ کیا ہو گا- کرایہ کا ٹٹو بنکر گیا ہو گا- یہودی نے کہا- دیکھا وہ چوگا ڈالنا ضائع نہ گیا-
ایک واقعہ رسول کریمﷺ~ کے زمانے میں بھی ایسا ہوا کہ کسی نے سو اونٹ دیئے تھے- پوچھا کیا وہ اکارت گئے؟ فرمایا نہیں- اسلمت علیٰ ما اسلفت )صحیح مسلم- کتاب الایمان( اسی سے تو تمہیں اسلام کی توفیق ملی-
پس فرماتا ہے کہ مال دو باوجود مال کی محبت کے- غیروں کو دیتے ہیں مگر رشتہ داروں کو دینے میں مضائقہ ہوتا ہے- فرمایا ان کو بھی دو اور یہ نہ کہو کہ اس کے باپ کے دادا کو ہمارے چچا کے نانا سے یہ دشمنی تھی- پھر فرمایا یتیموں کو‘ مسکینوں کو‘ مسافروں کو‘ اللہ کے نیک کاموں‘ اسلام کی اشاعت میں خرچ کرو- مشکلات کے تین وقت آتے ہیں- ایک قرض‘ سو اس میں بھی امداد کرو- ایک غریبی جس میں انسان بہت سی بدیوں کا ارتکاب کر گزرتا ہے- ایک بیماری- فرمایا ان سب میں استقلال سے کام لو- اللہ|تعالیٰ تمہیں توفیق دیوے-
) بدر جلد۸ نمبر۴۰ ۔۔ ۲۹ / جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۴ / جون ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضور نے سورۃ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی و لیومنوا بی لعلھم یرشدون- احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم ھن لباس لکم و انتم لباس لھن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم و عفا عنکم فالئٰن باشروھن و ابتغوا ما کتب اللہ لکم و کلوا و اشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی الیل و لاتباشروھن و انتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللہ فلاتقربوھا کذٰلک یبین اللہ ایٰٰتہ للناس لعلھم یتقون- و لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون )البقرۃ:۱۸۷تا۱۸۹-(
اور پھر فرمایا-:
‏text] ga[t روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے- الصوم لی )بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم( روزہ میرے لئے ہے کیونکہ روزے میں خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ ہے- جس طرح خداتعالیٰ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ اس کی کوئی عورت ہے- ایسا ہی روزہ دار بھی تھوڑے وقت کے واسطے محض خدا کی خاطر بنتا ہے- استعینوا بالصبر )البقرۃ:۴۶( میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے گئے ہیں- روزے کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو- جیسا کہ لباس میں سکون‘آرام‘ گرمی سردی سے بچائو‘ زینت‘ قسما قسم کے دکھ سے بچائو ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے- جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی‘ ایسا ہی مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں- اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں- اس کا نتیجہ رضائے الٰہی اور نیک اولاد ہے- عورتوں کے ساتھ حسن|سلوک چاہئے اور ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے-
اس زمانہ میں ایک بڑا عیب ہے کہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی- مجھے ایک شخص کے خط سے نہایت دکھ پہنچا- جس نے کہا کہ ’’پنجاب‘ ہندوستان کے مرد تو بڑے بے غیرت ہیں- عورت کی اصلاح کیا مشکل ہے- اگر موافق طبیعت نہ ہوئی تو گلا دبا دیا- میں تو آپ کا مرید ہوں- جو آپ فرماویں گے وہی کروں گا- مگر طریق اصلاح یہی ہے-‘‘ یہ حال مسلمانوں کا ہو رہا ہے- خدا رحم کرے- نبی کریمﷺ~ اور صحابہؓ تو عورتوں کو جنگوں میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے- اور اب لوگوں کا یہ حال ہے کہ عورتوں کو ساتھ نہیں رکھتے اور ایسے نکمے عذر کر دیتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے مگر جھوٹے ہیں- دراصل احکام الٰہی کی عزت اور منزلت ان کے دلوں میں نہیں- قرآن شریف کو نہیں پڑھا جاتا ہے- ایک دیوار کسی کی ٹوٹتی ہو تو ہزار فکر کرتا ہے- مگر قیامت کا پہاڑ جو ٹوٹنے والا ہے اس کا فکر کسی کو نہیں- قیامت میں نبی کریمﷺ~ کا بھی اظہار ہو گا کہ اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا- اللہ تعالیٰ رحم کرے اور نیکیوں کی توفیق دیوے- آمین-
) بدر جلد۸ نمبر۳۳‘۳۴ ۔۔۔ ۱۷ / جون ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

‏۲۵ 3] [stf / جون ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضور نیقل اعوذ برب الناس- ملک الناس- الٰہ الناس- من شر الوسواس الخناس- الذی یوسوس فی صدور الناس- من الجنۃ و الناس )الناس:۲تا۷( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس سورۃ کو اخیر میں لانے میں یہ حکمت ہے کہ قرآن کو ختم کر کے اور شروع کرتے ہوئے اعوذ پڑھنا چاہئے- چونکہ یہ طریق مسنون ہے کہ قرآن کریم ختم کرتے ہی شروع کر دینا چاہئے اس لئے نہایت عمدہ موقع پر یہ سورۃ ہے- بخاری صاحب نے اپنی کتاب کو انما الاعمال بالنیات سے شروع کیا ہے تاکہ سامعین لوگ اور معلم اور متعلم اپنی اپنی نیتوں پر غور کر لیں- یاد رکھو جہاں خزانہ ہوتا ہے وہیں چور کا ڈر ہے- قرآن مجید ایک بے بہا خزانہ ہے- اس کے لئے خطرہ شیطانی عظیم الشان ہے- قرآن کی ابتدا میں یضل بہ کثیراً )البقرۃ:۲۷( پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے- اپنی رسومات کے ادا کرنے کے لئے تو مکان بلکہ زمین تک بیچنے سے بھی نہیں ڈرتے مگر خدا کے لئے ایک پیسہ نکالنا بھی دوبھر ہے- ایک قرآن پر عمل کرنے سے پہلو تہی ہے اور خود وضع داری و تکلف و رسوم کے ماتحت جو کچھ کرتے ہیں اس کی کتاب بنائی جاوے تو قرآن سے دس گنا حجم میں ضخیم ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ غفور رحیم ہے- اس کو ہماری عبادت کی ضرورت کیا ہے؟ حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی بدپرہیزیوں سے اور حکام کی خلاف ورزی سے دکھ ضرور پہنچتا ہے- پس گناہ سے اور احکم الحاکمین کی خلاف ورزی سے کیوں سزا نہ ملے گی- ان تمام اقسام کے وسوسوں اور غلط فہمیوں سے جو اضلال کا موجب ہیں بچنے کے لئے یہ سورۃ سکھائی گئی ہے- عوذ ان چھوٹے پودوں کو کہتے ہیں جو بڑے درختوں کی جڑ کے قریب پیدا ہوتے ہیں- ہر آدمی کو ایک رب کی ضرورت ہے- دیکھو انسان غذا کو گڑبڑ کر کے پیٹ میں پہنچا لیتا ہے- اب اسے دماغ میں‘ دل میں ‘ اعضاء رئیسہ میں بحصہ رسدی پہنچانا یہ رب کا کام ہے- اسی طرح بادشاہ کی ضرورت ہے- گائوں میں نمبردار نہ ہو تو اس گائوں کا انتظام ٹھیک نہیں- اسی طرح تھانیدار‘ تحصیلدار نہ ہو تو اس تحصیل کا‘ ڈپٹی کمشنر نہ ہو تو ضلع کا‘ کمشنر نہ ہو تو کمشنری کا‘ اسی طرح بادشاہ نہ ہو تو اس ملک کا انتظام درست نہیں رہ سکتا- پس انسان کہ عالم صغیر ہے اس کی مملکت کے انتظام کے لئے بھی ایک ملک کی حاجت ہے- پھر انسان اپنی حاجتوں کے لئے کسی حاجت روا کا محتاج ہے- ان تینوں صفتوں کا حقیقی مستحق اللہ ہے- اس کی پناہ میں مومن کو آنا چاہئے تا چھپے چھپے‘ پیچھے لے جانے والے‘ مانع ترقی وسوسوں سے امن میں رہے- اسلام کی حالت اس وقت بہت ردی ہے- ہر مسلمان میں ایک قسم کی خودپسندی اور خودرائی ہے- وہ اپنے اوقات کو‘ اپنے مال کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ نہیں کرتا- اللہ نے انسان کو آزاد بنایا پر کچھ پابندیاں بھی فرمائیں بالخصوص مال کے معاملہ میں- پس مالوں کے خرچ میں بہت احتیاط کرو- اس زمانہ میں بعض لوگ سود لینا دینا جائز سمجھتے ہیں- یہ بالکل غلط ہے- حدیث میں آیا ہے- سود کا لینے والا‘ دینے والا‘ بلکہ لکھنے والا اور گواہ‘ سب خدا کی *** کے نیچے ہیں-
میں اپنی طرف سے حق تبلیغ ادا کر کے تم سے سبکدوش ہوتا ہوں- میں تمہاری ایک ذرہ بھی پروا نہیں رکھتا- میں تو چاہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جائو- تم اپنی حالتوں کو سنوارو- خدا تمہیں عمل کی توفیق دے- آمین-
) بدر جلد۸ نمبر۳۹ ۔۔ ۲۲ / جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۳۰ / جولائی ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ]10 [p )اٰل عمران:۳۲( کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا-:
اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو اور اس سے سچے تعلقات محبت پیدا کرنے کے خواہشمند ہو تو رسول|کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت کرو- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ کے محبوب بن جائو گے - اس اصل سے صحابہؓ نے جو فائدہ اٹھایا ہے ان کے سوانح پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے- آج میں تمہیں خلاف معمول حدیث کا خطبہ سناتا ہوں- چند احادیث بطور اصول ہیں-
) ۱ ( - لایومن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ- )صحیح بخاری کتاب الایمان( یہ حدیث عظیم الشان تعلیم کا رکن ہے- کوئی بھی تم میں سے مومن نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے بھائی کے لئے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنی جان کے لئے پسند کرتا ہے- اس کا ترجمہ کسی فارسی مصنف نے کیا ہے-:
آنچہ بر خود مپسندی بر دیگراں مپسند
اب اس پر تم اپنے ایمان کو پرکھو- کیا تمہارے معاملات دوسروں سے ایسے ہی ہیں جیسے تم اپنے ساتھ کسی دوسرے سے چاہتے ہو؟ دیکھو کوئی نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ دھوکہ کرے یا مجھے فریب دے یا میرا مال کھائے یا میری ہتک کرے یا میرا لڑکا بدصحبت میں بیٹھے- پس دوسروں کے لئے یہ بات کیوں پسند کی جائے-
) ۲ ( - من حسن اسلام المرء ترکہ ما لایعنیہ- )ترمذی کتاب الزھد(
انسان دیکھے کہ جو کام میں نے صبح سے شام تک کیا ہے کیا اپنے مولیٰ کو بھی راضی کیا ہے؟ کیا ایسی خواہشیں تو اس میں نہیں جو قابل توجہ نہیں؟ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جو بات قابل توجہ نہیں اسے چھوڑ دے-
) ۳ ( - الراحمون یرحمھم الرحمٰن تبارک و تعالیٰ- )ترمذی کتاب البر(
یہ حدیث میرے عنایت فرما استاد نے مجھے اولیت کے رنگ میں سنائی اور اس کا سلسلہ اولیت رسول|کریمﷺ~ سے برابر چلا آتا ہے- جو رحم کرنے والے ہیں ان پر رحمن رحم کرتا ہے جو بہت برکتوں والا بلند شان والا ہے- تم سب پر رحم کرو- ماں باپ کے لئے بھی رحم کا ذکر ہے ارحمھما کما ربیٰنی صغیراً )بنی اسرائیل:۲۵-( بی بی کے لئے بھی
مودۃ و رحمۃ)الروم:۲۲( ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء )ترمذی کتاب البر( اس حدیث کی تفصیل ہے- تم اپنی جان پر بھی رحم کرو- جو گناہ کرتا ہے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے- ڈاکہ مارنے‘ جھوٹ بولنے‘ چوری کرنے کے لئے اور لوگ تھوڑے ہیں! تم ہی کم از کم خدا کے لئے ہو جائو-
) ۴ ( -انما الاعمال بالنیات و انما لکل امری ما نویٰ )صحیح بخاری باب کیف بدء الوحی( text] [tagہے- یہ امر تو واقعی ہے کہ جو افعال مقدرت انسانی کے نیچے ہیں وہ تمہاری نیت|و|دلی قصد کے تابع ہیں- پس جیسے جیسے اعمال میں نیات ہیں ویسے ویسے پھل ملتے ہیں- اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرو اور خدا کے ہو جائو پھر یہ دنیا بھی تمہاری ہے- من کان للٰہ کان اللہ لہ-
جے توں اس دا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو
) بدر جلد۸ نمبر۴۱ ۔۔ ۵ / اگست ۱۹۰۹ء صفحہ۲(
* - * - * - *
‏KH1.29
خطبات|نور خطبات|نور
۱۳ / اگست ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الٰہ الا اللہ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ اشھد ان محمداً رسول اللہ اشھد ان محمداً رسول اللہ حی علی الصلٰوۃ حی علی الصلٰوۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ-
فرمایا-:
اذان میں اسلام کی پاک تعلیم کا خلاصہ ہے- مگر افسوس کہ دن رات باوجود پانچ بار یہ ندا سننے کے پھر بھی‘ عام مسلمانوں کو تو جانے دیجئے ان کے لیڈروں کی یہ حالت ہو رہی ہے- گدی نشینوں کو دیکھو- خواہ کسی مذہب کا آدمی ہو اور اس کے اعمال کیسے خراب ہوں لیکن اگر ان کے آگے نذرانہ رکھ دے تو بس یہ ان کا عزیز فرزند ہے- علماء ہیں تو ان میں مطلق تقویٰ و خدا ترسی نہیں رہی حتیٰ کہ ان کے درس میں بھی کوئی کتاب خشیت اللہ کے متعلق نہیں رہی- امراء ہیں تو ان کے نزدیک مذہب محض ملانوں کے لئے ہے- وہ بالکل اباحت کے رنگ میں آ گئے ہیں- اس کی وجہ زیادہ تر یہ ہے کہ ان کے ہادی خود ان کے محتاج ہیں-
اس کے بعد آپ نے اذان کا ترجمہ سنایا کہ اللہ اکبر چار بار کہا جاتا ہے گواہی کی حدود تک- ہاں‘ زنا کے ثبوت کے لئے چار کی ضرورت ہے- پس یہ شہادت کس قدر قوی ہے کہ خدا مستجمع جمیع|صفات|کاملہ‘ تمام قسم کے نقصوں‘ عیبوں سے منزہ ذات سب سے بڑی ہے- اب ہم کو دیکھنا چاہئے کہ ہم کہاں تک خدا کی آواز مخلوق کی آواز پر مقدم کرتے ہیں-
پھر حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی شہادت ہے کہ ہمارے کام اس کی گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق ہوں گے- پھر نماز کے لئے آنے کی تاکید ہے- افسوس کہ مسلمان بہت کم اس کی پروا کرتے ہیں- اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں تو باجماعت کی پابندی نہیں- حالانکہ رسول کریمﷺ~ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب نماز قائم ہو جاوے تو جماعت میں شامل نہ ہونے والوں کے گھر جلادوں- امیر وضع کی پابندی پر مرتے ہیں- مسجد میں آنا ہتک سمجھتے ہیں- شاہ عبد العزیز کی مجلس میں ایک شخص داڑھی منڈا بیٹھا تھا- کسی نے پوچھا کہ شاہ صاحب کے وعظ کا کچھ اثر نہیں ہوا؟ کہا‘ ہوا ہے مگر وضع|داری اجازت نہیں دیتی- نماز پر آنا‘ فلاح پر آنا یعنی تم مظفر و منصور ہو گے-
) بدر جلد۹ نمبر۸ ۔۔۔۔ ۱۶ / دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۳ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۰ / اگست ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد اور تعوذ کے بعد فرمایا-:
میں اپنے پیشہ طبابت میں دیکھتا ہوں- ایک شخص آتا ہے کہ آپ کی دوا نے بہت فائدہ پہنچایا- دوسرا آکے کہتا ہے کہ بہت ہی نقصان پہنچایا- پس میں نہ پہلی بات پر خوش ہوتا ہوں نہ دوسری پر غمناک‘ بلکہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا کام ہمدردی ہے- دوائیں خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں- پس میں ان کو دیتا ہوں- جس کے لئے وہ چاہتا ہے نافع بنا دیتا ہے اور جس کے لئے وہ چاہتا ہے مضر- ایک خطرناک قریب المرگ مریض کو دو دن میں اچھا کر دیتا ہے اور ایک معمولی مریض کو ایک دو دن میں خلاف امید مار دیتا ہے اور میں الگ رہتا ہوں-
اس نکتہ نے مجھے روحانی طبابت میں بھی حوصلہ اور صبر دیا ہے- میں نے سلسلہ درس کو قطع کر کے ان چند بیماریوں کے متعلق جو تم لوگوں میں دیکھیں خصوصیت سے وعظ کیا- اب جن کو خدا نے فائدہ پہنچانا تھا ان کو پہنچا دیا- جن کو نہیں پہنچانا تھا یعنی جنہوں نے فضل الٰہی کے جذب کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کیا اور بدپرہیزی نہیں چھوڑی‘ نسخہ استعمال نہیں کیا‘ ان کو فائدہ نہیں ہوا-
پھر آپ نے یسئلونک عن الاھلۃ )البقرۃ:۱۹۰( پڑھ کر فرمایا کہ صحابہؓ نے رمضان کے مہینے کی برکات سن کر دوسرے چاندوں کی نسبت بھی پوچھا- اصل میں تمام عبادتیں چاند سے متعلق ہیں اور دنیاداروں کی تاریخیں سورج سے- اس میں یہ نکتہ ہے کہ چاند کے حساب پر عبادت کرنے کی وجہ سے سورج کی کوئی تاریخ خالی نہیں رہتی جس میں امت محمدیہ کے افراد نے روزہ نہ رکھا ہو یا زکٰوۃ نہ دی ہو یا حج نہ کیا ہو- کیونکہ قریباً گیارہ روز کا ہر سال فرق پڑتا ہے اور ۳۶ سال کے بعد وہی دن پھر آ جاتا ہے-
پھر قاتلوا فی سبیل اللہ )البقرۃ:۱۹۱( کی تفسیر میں فرمایا کہ اسلام کے دشمن اسلام کے خلاف کوشش کرتے رہتے ہیں- مسلمانوں میں نہ تعلیم ہے‘ نہ روپیہ‘ نہ وحدت‘ نہ اتفاق‘ نہ وحدت کے فوائد سے آگاہ‘ نہ یکجہتی کی روح‘ نہ اپنی حالت کا علم- ملاں کی ذلیل حالت دیکھ کر مسجدوں میں جانا تک چھوڑ دیا- تم سنبھلو اور ان کوششوں کے خلاف دشمن کا مقابلہ کرو مگر حد سے نہ بڑھو-
اپنے مومن بھائیوں سے حسن ظنی کرو- ایک نے مجھے کہا تھا حسن ظنی کر کے کیا کریں- اس میں سراسر نقصان ہے- میں نے کہا کم از کم اپنی والدہ کے معاملہ میں تو تم کو بھی حسن ظنی سے کام لینا پڑے گا ورنہ تمہارے پاس اپنے باپ کے نطفہ سے ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام پر قائم رہو- یہ وہ مذہب ہے جس کا ماننے والا کسی کے آگے شرمندہ نہیں ہوتا- اس کا اللہ تمام خوبیوں کا جامع ہے-
‏ref] g)[ta بدر جلد۸ نمبر۴۵ ۔۔ ۲ / ستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱ (
* - * - * - *

۱۰ / ستمبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی سل بنی اسرائیل کم اٰتینٰھم من ایٰٰۃ بینۃ و من یبدل نعمۃ اللہ من بعد ماجائ|تہ فان اللہ شدید العقاب ]01 [p )البقرۃ:۲۱۲( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
بنی اسرائیل کو کس قدر کھلے کھلے نشان دیئے- ان کے دشمن کو ان کے سامنے اسی بحر میں جس سے وہ صحیح سلامت نکل آئے‘ ان کے دیکھتے دیکھتے ہلاک کیا- ان کے املاک کا وارث کیا اور پھر یہ کہ بنی|اسرائیل سب کے سب غلام تھے- حضرت موسیٰؑ خود فرماتے ہیں و تلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل )الشعرائ:۲۳-( خدا نے ان پر یہاں تک فضل کیا کہ غلامی سے بادشاہی دی‘ نبوت دی- تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت دی- چنانچہ فرماتا ہے اذ جعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکاً و اٰتٰکم ما لم یوت احداً من العالمین )المائدۃ:۲۱-( لیکن جب بنی اسرائیل نے ان انعامات|الٰہی کی کچھ قدر نہیں کی تو بائ|و بغضب من اللہ )البقرۃ:۶۲( اور ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ )البقرۃ:۶۲( کا فتویٰ ان پر چل گیا- وہی یہود جو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے دنیا میں ان کے رہنے کے لئے کوئی اپنی سلطنت نہیں- جدھر جاتے ہیں بندروں کی طرح دھتکارے جاتے ہیں- یہ کیوں؟ و من یبدل نعمت اللہ من بعد ما جائ|تہ فان اللہ شدید العقاب-
اب یہاں بنی اسرئیل نہیں بیٹھے- سب مسلمان ہی ہیں- مسلمانوں پر خدا نے بنی اسرائیل سے بڑھ کر انعامات کئے- ان کو نہ صرف بنی اسرائیل کے ملکوں کا وارث کیا بلکہ جبل|الطارق پر یہی حکمران تھے- مشرق میں کاشغر‘ بخارا سے چائنا تک پہنچے- لیکن جب مسلمانوں نے خدا کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو جبل|الطارق جبرالٹر بن گیا- کاشغر وغیرہ پر روس کی حکومت ہو گئی- گنگا کا کنارا اور سندھ انگریزوں کے قبضہ میں آیا- ایسا کیوں ہوا؟ جو بنی اسرائیل نے کیا وہی مسلمانوں نے کیا- خدا نے ان کو ایسا دین دیا جو کل دینوں سے بڑھ کر ہے- ایسی کتاب دی جو کل کتب الٰہیہ کی جامع ہے- ایسا نبی دیا جو تمام انبیاء کا سردار ہے )احمدیوں کو تو وہ امام دیا جو تمام اولیاء کا سردار ہے-( بنی اسرائیل کے فرعون کو تو سمندر میں غرق کیا مگر ہمارے نبی کریمﷺ~ کے فرعون )ابوجہل( کو‘ باوجودیکہ ہم کتابوں میں یہی پڑھتے آتے تھے اما ان لایکون فی البحر اما ان یغرق‘ خشکی میں غرق کر کے دکھا دیا- کس قدر افسوس ہے کہ مسلمان ان نعمتوں کی بے قدری کر رہے ہیں- اس کتاب کی جس کو ذٰلک الکتاب فرمایا یعنی اگر کوئی کتاب ہے تو یہی ہے‘ کچھ پروا نہیں کی جاتی- اس میں اس قدر علوم ہیں کہ شاہ عبد العزیز~رح~ فرماتے ہیں کتابیں جمع کرنے کے لئے تین کروڑ روپیہ چاہئے- یہ ان کے زمانے کا ذکر ہے- اب تو اس قدر کتابیں ہیں کہ کئی کروڑ روپے بھی کافی نہ ہوں- لیکن کئی مسلمان ہیں جو اس کے معمولی معنے بھی نہیں جانتے- پھر خودپسندی‘ خود رائی کا یہ حال ہے کہ نہ قرآن سے واقف‘ نہ حدیث سے آگاہ- نہ حفظ نفس‘ حفظ مال‘ حفظ اعراض کے اصول سے باخبر- مگر اپنی رائے کو کلام الٰہی پر ترجیح دینے کو تیار- قرآن کو امام و مطاع نہیں بناتے- تم لوگوں نے دین کے لئے اپنے گھربار‘ اپنے خویش و اقارب‘ اپنے احباب وغیرہ کو چھوڑا ہے- اگر تم بھی قرآن کی تعلیم حاصل نہ کرو تو افسوس ہے- )چونکہ بارش شروع ہو گئی تھی اس لئے خطبہ یہیں ختم کرنا پڑا-(
) بدر جلد۸-۹ نمبر۴۶ - ۴۷ ۔۔ ۹ / ‘ ۱۶ / ستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱ (
* - * - * - *

۱۵ / اکتوبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الفطر
حضرت امیرالمومنین نے کلمہ شہادت کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھی اور پھرفرمایا-:
قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی تفسیر سنائوں چند ضروری باتیں سنانا چاہتا ہوں- وہ یہ کہ جنہوں نے روزہ رکھا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدقہ~ن۲~ الفطر دیں- یہ حکم قرآن مجید میں ہے- چنانچہ فرمایا- و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین )البقرۃ:۱۸۵( اور جو لوگ اس فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ طعام مسکین دیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین رنگوں میں اس کی تفسیر فرمائی ہے- اول یہ کہ انسان عید سے پہلے صدقہ~ن۲~ الفطر دے- دوم‘ جو روزہ نہ رکھے وہ بدلے میں طعام مسکین دے- دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا یا حاملہ یا مرضعہ‘ ان سب کے لئے یہ حکم ہے- سوم یہ کہ یہ الٰہی ضیافت کا دن ہے- پس مومن کو چاہئے کہ کھانے میں توسیع کر دے اور غرباء کی خبرگیری کرے- ہر قوم میں کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرور ہوتا ہے جس میں عام طور سے خوشی منائی جاتی ہے- بہت عمدہ لباس پہنا جاتا ہے اور عمدہ کھانا کھاتے ہیں- چنانچہ حدیث میں بھی ہے لکل قوم عید فھٰذا عیدنا )بخاری کتاب|العیدین( ہر قوم کی ایک عید ہے ہماری بھی ایک عید ہو تو مناسب ہے-
‏0] [stfوعظ کی دقتیں
دوسری بات جس کے لئے کئی وقت میں گھبراتا رہا ہوں یہ ہے کہ مجھے دن میں پانچ وقت وعظ کرنا پڑتا ہے- وعظ کے متعلق بڑی دقتیں ہوتی ہیں- ایک واعظ کو‘ ایک اسے جسے وعظ کیا جائے- واعظ کی دقتیں سات قسم کی ہیں-
) ۱ ( - حدیث میں آیا ہے قیامت کے دن بعض آدمیوں کو دوزخ میں لے جائیں گے اور انہیں کے سامنے بعض کو بہشت میں- بہشت میں جانے والے تعجب کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو انہی دوزخ میں جانے والوں کے وعظ سننے کے سبب اور اس پر عمل کرنے کے ذریعہ سے بہشت میں جاتے ہیں‘ پھر یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ کہیں گے کہ ہم عمل نہیں کرتے تھے- دیکھو واعظ کے لئے کس قدر اشکال ہیں-
) ۲ ( - پھر واعظ کے لئے یہ دقت ہے کہ بعض واعظ پہلے بڑی بڑی مشاقی کرتے ہیں- عجیب عجیب لفظ سوچے جاتے ہیں- بعض کو داد کے لئے مقرر کرتے ہیں- گویا یہ وعظ ریاء کے لئے ہوتا ہے- اسی کی نسبت آتا ہے- یرائ|ون الناس )النسائ:۱۴۳-(
) ۳ ( - پھر وعظ سمعہ~ن۲~ کے لئے بھی کیا جاتا ہے- یعنی وعظ محض اس ارادے سے کیا جاوے کہ لوگ سنیں اور کہا جائے کہ فلاں بڑا مقرر ہے- بڑا بولنے والا ہے-
) ۴ ( - واعظ کے لئے وہی مشکل ہے جو شاعر کے لئے بھی ہے- اگر اور کوئی شعر پچھلا سنا دیا تو یہ کہا جاتا ہے یہ تو پہلے بھی سنا چکے ہو- )ب( مضمون کسی سے مل جائے تو پھر کہا جاتا ہے فلاں کا چرایا ہوا ہے- )ج( مذاق کے مطابق نہ ہو تو کہہ دیا پھیکا ہے- )د( اور اگر پسند بھی آ گیا تو سوائے اس کے کہ معمولی ہاہا ہو گئی نتیجہ کچھ بھی نہیں- اول تو جدت کا آنا ہی مشکل ہے کیونکہ جس واعظ کو ہر روز ایک تنگ دائرے میں کھڑے ہو کر وعظ کرنا پڑے اس میں جدت کہاں سے آئے-
) ۵ ( - پانچواں اشکال سنت کی اتباع کے متعلق ہے کہ صحابہ کرامؓ فرماتے تھے روز وعظ نہیں کرنا چاہئے تا بات معمولی نہ سمجھی جاوے-
) ۶ ( - اس سے بڑھ کر ایک اور بات ہے- کل ہی ایک سجادہ نشین نے مجھے خط لکھا ہے کہ مرزا صاحب کی طرف بلانے کا تو ہی واسطہ تھا- اب ان سے گمراہ کرنے والا بھی تو ہی ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کان رس ہوتا ہے‘ بعضوں کو آنکھ رس- وہ واعظ کے وعظ اپنے خیالات پر کستے رہتے ہیں- اگر ذرا بھی اپنے ذوق کے خلاف پائیں تو بگڑ بیٹھتے ہیں- میں نے اسے لکھا کہ تمہارا خط میری انتہائی راحت کا موجب ہوا کیونکہ قرآن شریف کی صفت میں بھی یہی آیا ہے یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً )البقرۃ:۲۷-(پس اگر میں اور قرآن وعظ میں ایک مقام پر ہو گئے تو پھر اس دنیا میں مجھ سا خوش نصیب اور کامیاب کوئی نہیں-
) ۷ ( - ایک اور مشکل جو واعظ کے ساتھ لگی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض بہادر اس کی طرف ہمیشہ نکتہ|چینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی نگرانی ہوتی رہتی ہے- اگرچہ انہوں نے ’’نوشت است پند بر دیوار‘‘ وغیرہ کہہ کر بہت کچھ اپنے تئیں چھڑایا ہے مگر معترضین نے پیچھا نہیں چھوڑا- وہ جو معرفت کے خزانے اگلتا ہے اس کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے اور نکتہ|چینی کرنے پر تلے رہتے ہیں-
غرض اسی قسم کے چھپن دکھ ہیں- جن میں سے میں نے بہت کم تم لوگوں کو سنائے ہیں کیونکہ یہ بھی آیا ہے- ما سلم المکثار بہت بولنے والا غلطی سے محفوظ نہیں رہتا-
اسی طرح سننے والوں کو بھی مصیبتیں ہیں- میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ آج قرآن شریف کا درس کہاں سے ہو گا؟ تو اس نے کہا- میں گو دس برس سے سنتا ہوں مگر مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے مجھے معلوم نہیں- دوسرا جو پاس بیٹھا تھا جب اس سے پوچھا تو وہ بھی کہنے لگا کہ و علی ہذاالقیاس- مجھے خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا- خوشی اس لئے کہ بہت سی مخلوق ایسی بھی ہوتی ہے جو ینظرون الیک و ھم لایبصرون )الاعراف:۱۹۹( اور قالوا سمعنا و ھم لایسمعون )الانفال:۲۲( کی مصداق ہے-
غرض بعض تو ایسے ہیں جو سن کر بھی نہیں سنتے اور بعض سامعین ایسے ہیں کہ انہیں مجلس وعظ میں محض کسی کی دوستی یا کوئی ذاتی غرض لاتی ہے- بعض نکتہ چینی کے لئے جاتے ہیں- ان کا خیال واعظ کی زبان کی طرف رہتا ہے- بس جونہی کوئی انگریزی یا سنسکرت یا عربی لفظ اس کے منہ سے غلط نکل گیا تو یہ مسکرائے- بس ان کے سننے کا ماحصل صرف یہی ہے کہ وہ گھر میں آ کر واعظ کی نقل لگایا کریں-
پھر ایک اور مشکل ہے- وہ یہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا- واعظ ایک بات کتاب اللہ سے پیش کرتا ہے- اب اگر سننے والے میں بھی وہی عیب ہے جو اس واعظ نے بتایا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو سنا سنا کر یہ باتیں کرتا ہے اور گویا مجھے طعنے دے رہا ہے حالانکہ واعظ کے وہم میں بھی یہ بات نہیں ہوتی- غرض دو|طرفہ مشکلات ہیں- ایک طرف واعظ کو اور ایک طرف سامعین کو- فطرت کا خالق چونکہ اس بھید کو سمجھتا ہے اس لئے اس نے فرمایا- یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً )البقرۃ:۲۷-(
الفاظ کے گرے ہوئے معانی
عجیب عجیب غلط فہمیاں الفاظ سے پھیلتی ہیں اور جب کسی قوم میں ادبار آتا ہے تو اس کی اصطلاحات بھی بدل جاتی ہیں- دیکھو مغل‘ ترک‘ قریشی‘ پٹھان یہ چار قومیں باہر سے آئیں- یہ فاتح بھی تھے لیکن جب ادبار کا وقت آیا اور ان میں بدی پھیلی تو ’’قلعہ فتح کرنا‘‘ آہ! پنجاب میں نہایت برے معنوں میں لیا جانے لگا- جب کسی عورت سے ناجائز تعلق ہوا اور وہ ان کے قابو آئی تو یہ بول آٹھے کہ اے لو! فتح ہو گیا- اسی طرح علم کا لفظ ہے- انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )فاطر:۲۹( اس کی شان میں آیا- مگر علم کے ذریعہ لوگ اکڑباز ہو جاتے ہیں اور یہ حجاب اکبر بن گیا-
میں نے ایک شخص کو ریل میں معرفت کا ایک نہایت اعلیٰ نکتہ سنایا مگر اس نے مجھے کہا کہ تم کوئی طب کی بات کرو- قرآن شریف تمہیں نہیں آتا- میں حیران ہوا- آخر اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ وہ علم|قرات پڑھا ہوا تھا- چونکہ میں نے لفظ قرآن کو اس ترتیل و تجوید کے اصول کے مطابق ادا نہ کیا اس لئے وہ بگڑ گیا اور وہ نکتہ نہ سن سکا- اس طرح پر اس کا علم بجائے خشیت کے تکبر کا موجب ہو گیا-
اسی طرح غنیمت کا لفظ ہے- عرب میں ایک بچہ کو بھی رخصت کرتے ہیں تو ماں باپ کہتے ہیں سر سالماً غانماً-
جا! اللہ تجھے سلامتی کے ساتھ واپس لاوے- حدیث میں ہے لہ غنمہ و علیہ غرمہ )ابودائود باب اللقطہ:) جس سے ثابت ہے کہ غنیمت کے معنے ہیں مفاد کا حصول- مگر ہماری زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا ’’لوٹ-‘‘ اب چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غنیمت کا مال حاصل کیا اس لئے ان کا نام )نعوذ باللہ( لٹیرا رکھ دیا- یہ غلطی کیوں ہوئی؟ محض الفاظ کے غلط معنی کرنے سے- اس لئے ضرورت ہے کہ لفظوں کے بولنے اور سمجھنے میں احتیاط سے کام لیا جاوے اور ان لوگوں کی بات مان لی جاوے جن کو خدا نے اپنے فضل و کرم سے فہم عطا کیا ہے اور یہ عطیہ الٰہی ہے- چنانچہ فرمایا ففھمنٰھا سلیمان )الانبیائ:۸۰( ہم نے سلیمان کو فہم عطا کیا-
سورۃ فاتحہ
اس قدر تمہید کے بعد میں سورۃ فاتحہ کی طرف تم لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے- ایک انعمت علیھم )۲( ایک مغضوب علیھم ]text )[tag۳( ایک ضالین-میرا اعتقاد ہے کہ تمام قرآن سورۃ الحمد کی تفسیر ہے اور اس میں ایک خاص ترتیب سے انہی تینوں گروہوں کا ذکر ہے- چنانچہ سورۃ بقرہ ہی کو لو کہ ھدی للمتقین )البقرۃ:۳( میں منعم علیہم کا ذکر ہے- ان الذین کفروا )البقرۃ:۷( میں مغضوب علیہم کا اور اولٰئک الذین اشتروا الضلالۃ بالھدیٰ )البقرۃ:۱۷( میں ضالین کا-
خاتمہ قرآن
یہ ابتداء کا حال ہے- اب جہاں قرآن ختم ہوتا ہے وہاں سورۃ نصر اذا جاء نصر اللہ و الفتح )النصر:۲( میں منعم علیہم کا بیان ہے اور تبت یدا ابی لھب )اللھب:۲( میں مغضوب علیہم کااور ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد و لم یولد )الاخلاص:۲تا۴( میں ضالین کی تردید ہے- اس واسطے ہم کو چاہئے کہ بہت فکر کریں اور اپنا آپ محاسبہ کریں- اپنے اعمال کو دیکھیں کہ ہم کس فریق کے کام کر رہے ہیں- آیا منعم علیہم کے یا مغضوب علیہم کے یا ضالین کے؟
کچھ اپنی حالت کا ذکر
میں جو کچھ تمہیں کہتا ہوں صاف صاف کہتا ہوں- میں منافق نہیں- جو کچھ میری عمر ہے وہ آجکل کی عمروں کے مطابق انتہائی زمانہ ہے- ستر برس سے تجاوز ہے- اب اتنی عمر مجھے اور پانے کی امید نہیں اور اگر ہو بھی تو یرد الیٰ ارذل العمر )النحل:۷۱( ]txet [tagکی مصداق ہے- پھر وہ قویٰ نہیں مل سکتے جو پہلے تھے- پھر میری اولاد ایسی نہیں جو میری خدمت کرے اور مجھے بھی اس بات کی فکر نہیں کہ میری اولاد میرے بعد کس طرح گزارہ کرے گی- کیونکہ جب میں نے اپنے باپ دادا کے مال سے پرورش نہیں پائی تو میں بڑا مشرک ہوں اگر اپنی اولاد کی نسبت میں یہ خیال کروں کہ ان کا گزارہ میرے مال پر موقوف ہے- حالانکہ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے و لاتقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم و ایاھم )الانعام:۱۵۲-( text] gat[جب رزق دینے کا خدا وعدہ کرتا ہے تو مجھے کیا فکر ہے- پس اگر مجھے فکر ہے تو یہ کہ قبر اور قیامت میں میرے ساتھ جانے والا کوئی نہیں- پس میں تم کو وعظ کرتا ہوں تو کیا اپنے تئیں بھلا دوں؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا-
منعم علیہم
تم ان تین گروہوں کے اوصاف پر غور کرو- منعم علیہم گروہ کے لئے سب سے پہلی صفت بیان کرتا ہے کہ یومنون بالغیب )البقرۃ:۴-( ایمان بالغیب ایسا ضروری ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس کے بغیر نہیں ہوتا- پہاڑے‘ مساحت‘ اقلیدس‘ طبعیات‘ سب کے لئے فرضی بنیاد پر کام ہوتا ہے یہاں تک کہ پولیس بھی ایک بدمعاش کے کہنے پر بعض مکانوں کی تلاش شروع کر دیتی ہے- تو کیا وجہ کہ انبیاء کے کہنے پر کوئی کام نہ کیا جائے جس کا تجربہ بارہا کئی جماعتیں کر چکی ہیں- پھر فرمایا- یقیمون الصلٰوۃ )البقرۃ:۴( دعائوں میں‘ نمازوں میں قائم رہتے ہیں- وہ مالوں کو خرچ کرتے ہیں- بما انزل الیک )البقرۃ:۵( اور من قبلک )البقرۃ:۵( اور آخرت پر ان کا ایمان ہوتا ہے-
مغضوب اور ضالین
پھر دوسرے گروہ کی صفات بیان کیں کہ ان کے لئے تذکیر و عدم تذکیر مساوات کا رنگ رکھتی ہے- وہ سنتے ہوئے نہیں سنتے- ان میں عاقبت اندیشی نہیں ہوتی- صم بکم )البقرۃ:۱۹( ہوتے ہیں- پھر انہی کی نسبت اخیر قرآن میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ما کسب یعنی جتھا اور مال دونوں پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے مگر خدا تعالٰی دونوں کو غارت کر دیتا ہے- پھر تیسرے گروہ ’’ضالین‘‘ کا ذکر فرمایا کہ ان کو صفات الٰہی کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان میں نہ تو قوت فیصلہ ہوتی ہے نہ تاب مقابلہ- قرآن شریف کے ابتدا کو آخر سے ایک نسبت ہے- پہلے المفلحون )البقرۃ:۴( فرمایا ہے تو اذا جاء نصر اللہ و الفتح )النصر:۲( میں اس کی تفسیر کر دی اور مغضوب علیہم کی تبت یدا ابی لھب )اللھب:۲( میں اور ضالین کا رد قل ھو اللہ احد )الاخلاص:۲( میں کر دیا ہے- غرض عجیب ترتیب سے ان تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے- ان سب کی صفات بیان کر کے میں تمہیں مکرر نصیحت کرتا ہوں کہ تم سوچو منعم علیہم میں سے ہو یا مغضوب علیہم میں یا ان لوگوں میں جن کو ضالین کہا گیا ہے؟
خاتمہ بالخیر کی امید
میں نے تمہیں بہت کچھ کہہ دیا ہے اور گول بات ہرگز نہیں کی- میں مومن ہو کر مرنا چاہتا ہوں- میں اللہ سے اس کی رحمت کا امیدوار ہوں- جیسے اس نے اس عمر تک میری تربیت کی اور میری ہدایت کا موجب ہوا اسی طرح میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میرا خاتمہ بھی بالخیر کرے گا اور میری موت قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کی حالت میں کرے گا-
ضرورت وحدت
میں اس سے بھی کھول کر تم کو سنانا چاہتا ہوں کہ کوئی قوم سوائے وحدت کے نہیں بن سکتی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی انسان سوائے وحدت کے انسان نہیں بن سکتا- کوئی محلہ سوائے وحدت کے محلہ نہیں بن سکتا اور کوئی گائوں سوائے وحدت کے گائوں نہیں بن سکتا اور کوئی ملک سوائے وحدت کے ملک نہیں بن سکتا اور کوئی سلطنت سوائے وحدت کے سلطنت نہیں بن سکتی- دیکھو میری آنکھ تو کہتی ہے کہ یہ زہر ہے- اب ہاتھ کہے کہ مجھے آنکھ کی پروا نہیں اور وہ اٹھا کر وہ زہر کھا لیتا ہے تو اس کا نتیجہ ہلاکت ہے- اسی طرح گھر کی بات ہے کہ اگر بچہ اپنے مربی‘ اپنے باپ‘ اپنی ماں کی بات نہیں سنتا تو اس کی تعلیم و تربیت کا ستیاناس ہو جائے- اسی طرح محلہ‘ ملک اور سلطنت کا حال ہے- اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں میں نے مرزا صاحب سے سنا ہے کہ اھدنا میں نااس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ سوائے جماعت کے اللہ تعالیٰ سے بعض خاص فضل کوئی انسان نہیں لے سکتا- جماعت کی بڑی ضرورت ہے یہاں تک کہ اگر جمع نہ ہو تو خدا کے اس فضل کے جاذب نہیں ہو سکتے-
حسن معاشرت
اسی جماعت میں سے چند عورتیں اجڑ کر ہمارے پاس آئیں- ہم نے ان کے خاوندوں سے خط|و|کتابت کی- بعض تو ہمارے سمجھانے میں آ گئے اور بعض نے پرواہ نہ کی یہاں تک کہ رجسٹرڈ خطوط کی رسید نہ دی- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ظالم طبع لوگ بھی ہماری جماعت میں ہیں مگر الحمد للہ کہ اکثر سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں- ایک عورت کے خاوند نے مجھے لکھا ہے کہ ہندوستان پنجاب تو سب دیوثوں کا بنا ہوا ہے- جو کچھ میری عورت کہتی ہے اگر مجھے موقع ملے تو گلا ہی گھونٹ دوں- میں نے اسے لکھا کہ پہلا دیوث تو نعوذ باللہ وہ ہوا جس پر تم ایمان لائے اور جس نے یہ احکام دیئے کہ عورت سے معاشرت میں نرمی کرو- خیر‘ وہ سعید تھا سمجھانے سے سمجھ گیا اور توبہ نامہ بھیج دیا- خیر‘ میں پھر کہتا ہوں کہ جب تک وحدت نہ ہو گی تم کوئی ترقی نہیں کر سکتے-
چودہ سو سے کئی لاکھ
حضرت صاحب کے زمانے میں میں نے چودہ سو کارڈ چھپوائے تھے کہ چودہ سو آدمیوں کی جماعت ہو کر ہم حضرت صاحب سے بیعت کریں گے اور اس فضل سے حصہ لیں گے جو جماعت سے مختص ہے- خدا نے خلوص نیت کو نوازا اور چودہ سو سے کئی لاکھ اس جماعت کو بنا دیا- اب ضرورت ہے اس جماعت میں اتفاق‘ اتحاد اور وحدت کی اور وہ موقوف ہے خلیفہ کی فرمانبرداری پر-
خلفاء کا مقام
ایک خلیفہ آدم تھا- اس کی نسبت فرمایا ہے انی جاعل فی الارض خلیفۃ )البقرۃ:۳۱-( اب خود ہی اس کے بارے میں ارشاد ہے عصیٰ اٰدم ربہ فغویٰ )طٰہٰ:۱۲۲( لیکن جب فرشتوں نے کہا من یفسد فیھا و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک )البقرۃ:۳۱( تو ان کو ڈانٹ پلائی کہ تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے؟ پس ]kns [tag فاسجدوا لاٰدم )البقرۃ:۳۵( تم آدم کو سجدہ کرو- چنانچہ ان کو ایسا کرنا پڑا- دیکھو خود عاصی اور غوی تک کہہ لیا مگر فرشتوں نے چوں کی تو اس کو ناپسند فرمایا- میں نے کسی زمانے میں تحقیقات کی ہے کہ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کے لئے تو بالکل ہی لازمی نہیں- دیکھو! آدمؑ‘ پھر دائودؑ کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آئے- میں اس قسم کا قصہ گو واعظ نہیں کہ تمہیں عجیب عجیب قصے ان کے متعلق سنائوں مگر فاستغفر ربہ و خر راکعاً و اناب )ص:۲۵( سے یہ تو پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو تھا جس کے لئے یہ الفاظ آئے- تیسرا خلیفہ ابوبکرؓ ہے- اس کے مقابلہ میں شیعہ جو کچھ اعتراض کرتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ تیرہ سو برس گزر گئے مگر وہ اعتراض ختم ہونے میں نہیں آئے- ابھی ایک کتاب میں نے منگوائی ہے جس کے سات سو چالیس صفحات میرے پاس پہنچے ہیں- اس میں صرف اتنی بات پر بحث ہے کہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بہتر ہے یا ابوبکرؓ؟ پھر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ پیشگوئی نہیں فرمائی- چوتھا خلیفہ تم سب ہو- چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ثم جعلنٰکم خلٰئف فی الارض )یونس:۱۵( اگلی قوموں کو ہلاک کرکے تم کو ان کا خلیفہ بنا دیا- لننظر کیف تعملون )یونس:۱۵( اب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہیں- چار کا ذکر تو ہو چکا- اب میں تمہارا خلیفہ ہوں- اگر کوئی کہے کہ الوصیت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں ایسا ہی آدمؑ اور ابوبکرؓ کا ذکر بھی پہلی پیشگوئیوں میں نہیں-
الوصیت کی تفہیم
حضرت صاحب کی تصنیف میں معرفت کا ایک نکتہ ہے وہ میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں- جس کو خلیفہ بنانا تھا اس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کر دیا اور ادھر چودہ اشخاص کو فرمایا کہ تم بہیئت مجموعی خلیفہ~ن۲~ المسیح ہو- تمہارا فیصلہ قطعی فیصلہ ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی وہی قطعی ہے- پھر ان چودہ کے چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرا دی کہ اسے اپنا خلیفہ مانو اور اس طرح تمہیں اکٹھا کر دیا- پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا- اب جو اجماع کا خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے- چنانچہ فرمایا و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ و نصلہ جھنم و سائ|ت مصیراً )النسائ:۱۱۶-(
میں نے الوصیت کو خوب پڑھا ہے- واقعی چودہ آدمیوں کو خلیفہ~ن۲~ المسیح قرار دیا ہے اور ان کی کثرت|رائے کے فیصلہ کو قطعی فرمایا- اب دیکھو کہ انہی متقیوں نے جن کو حضرت صاحب نے اپنی خلافت کے لئے منتخب فرمایا اپنی تقویٰ کی رائے سے‘ اپنی اجماعی رائے سے ایک شخص کو اپنا خلیفہ و امیر مقرر کیا اور پھر نہ صرف خود بلکہ ہزارہا ہزار لوگوں کو اسی کشتی پر چڑھایا جس پر خود سوار ہوئے- تو کیا خداتعالیٰ ساری قوم کا بیڑا غرق کر دے گا؟ ہرگز نہیں- پس تم کان کھول کر سنو- اگر اب اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم )التوبہ:۷۷( کے مصداق بنو گے- میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا؟ اس لئے کہ تم میں بعض نافہم ہیں جو باربار کمزوریاں دکھاتے ہیں- میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھ سے بڑھ کر جانتے ہیں-
خدا پر بھروسہ
خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا- اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جائو تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا- خدا کے مامور کا وعدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہے کہ وہ اس جماعت کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا- اس کے عجائبات قدرت بہت عجیب ہیں اور اس کی نظر بہت وسیع ہے- تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو-
میرا ایک دوست مجھے کہتا تھا کہ تم آگوں کو دباتے ہو بجھاتے نہیں- میں نے کہا کہ جلدباز بھلا میرا وزیر ہو سکتا ہے؟ ہم نے آگوں کو دبا کر بھی بجھاتے دیکھا ہے- میری ماں دھکتے ہوئے کوئلے ایک گڑھے میں ڈال کر بند کر دیتی تھی- تھوڑی دیر میں سب بجھ جاتے- دیکھو! میں نے پانی کے لحاظ سے تو وعظ کیا ہے اور دبانے کے لئے کوشش میں ہوں- ہم اور تم سب مر جائیں گے- اگر کچھ نقار ہم میں باقی ہیں تو پچھلی قوموں میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ ہم پر لعنتیں کریں گی- مجھے کہیں گے کہ کس خبیث نے یہ گندا بیج بو دیا- دیکھو تم میرے حق کو بجا لائو- میں نے کبھی اپنی بڑائی نہیں کی- مجھے ضرورتاً کچھ کہنا پڑا ہے- اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہارا ساتھ دوں گا- مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں- تم اپنے پہلے معاہدہ پر قائم رہو ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جائو- اگر تم مجھ میں کوئی اعوجاج دیکھو تو اس کی استقامت کی دعا سے کوشش کرو مگر یہ گمان نہ کرو کہ تم مجھ بڈھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے- اگر میں گندہ ہوں تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اٹھا لے- پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹی پڑتی ہے-
توبہ کرو
توبہ کرو اور دعا کرو اور پھر دعا کرو- میں فروری گویا نو ماہ سے اس دکھ میں مبتلا ہوں- اب تم اس بڈھے کو تکلیف میں نہ ڈالو- اس پر رحم کرو- اگر میں نے کسی کا مال کھایا تو میں دس گنا دینے کی طاقت رکھتا ہوں- اگر میں نے کسی سے طمع کیا ہے تو میں *** کر کے کہوں گا کہ ایسا آدمی ضرور بول اٹھے- میں اپنے آپ کو *** سمجھوں گا اگر میں نے تمہارے مالوں میں کچھ لینے کا خیال کیا ہو- اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان سے پہلوں کو بھی امیر بنایا ہے- حضرت مجدد الف ثانی‘ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی‘ فرید الدین شکرگنج میرے خاندان کے لوگ ہیں- اور اب پھر بھی اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری اولاد پر فضل کروں گا-
طاعت در معروف
ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے- یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بھی آیا ہے و لایعصینک فی معروف )الممتحنہ:۱۳-( اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے- اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے- اس میں ایک سر ہے- میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں- میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے-
وجہ اختلاط
پھر مجھے کہتے ہیں کہ لوگوں سے اختلاط کرتا ہے- اس کا جواب تمہارے لئے جو میرے مرید ہیں یہی کافی ہے کہ تم میرے آمر نہیں بلکہ مامور ہو- کیا مجھ پر بال بچے کی پرورش فرض نہیں- بیشک وہ مجھے مخفی طور پر رزق دیتا ہے مگر اس ستار نے پردہ پوشی کا رنگ بھی رکھا ہے- میں اس کی شان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا-
ستاری
کہتے ہیں امام حسن بصری~رح~ اور حبیب عجمی~رح~ ایک دفعہ سیر کو نکلے- راستہ میں دریاآ گیا- حبیب~رح~ نے کہا چلو- حسن~رح~ نے جواب دیا ٹھہرو‘ وہ کشتی آ لے- اس پر حبیب~رح~ نے کہا حسن! ابھی تک تم مشرک ہی ہو- یہ کہہ کر وہ تو چلتے ہوئے- اس زمانے کے نیچری تو نہیں مانتے مگر میں مانتا ہوں کہ وہ کنارے پہنچ گئے- ادھر حسن~رح~ جب کشتی آئی تو پیسہ دے کر سوار ہوئے اور دیر کے بعد پہنچے تو حبیب~رح~ بولے- ترا کشتی آورد مارا خدا- حسن~رح~ نے فرمایا- سنو! دونو کو خدا ہی لایا- کشتی کو خدا تعالیٰ چاہتا تو غرق کر دیتا- تو نے صرف اپنا بچائو ڈھونڈا مگر میرے ساتھ کئی اور آدمی بھی آئے- تیرا ایمان ناقص ہے- تو خدا کی صفت ستاری کا عالم نہیں-
نصیحت
پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں- پھر نصیحت کرتا ہوں- پھر نصیحت کرتا ہوں- پھر نصیحت کرتا ہوں- پھر نصیحت کرتا ہوں- پھر کرتا ہوں- پھر کرتا ہوں- پھر کرتا ہوں- پھر پھر پھر کرتا ہوں کہ آپس کے تباغض|و|تحاسد کو دور کر دو- یہ مجتہدانہ رنگ چھوڑ دو- جو مجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرنا ہے وہ دعا میں خرچ کرو اور اللہ سے اس کا فضل چاہو- تمہارے وعظوں کا اثر مجھ بڈھے پر نہیں ہو گا- ادب کو ملحوظ رکھ کر ہر ایک کام کو کرو اور یہ میں اپنی بڑائی کے لئے نہیں کہتا بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لئے کہتا ہوں- جس طرح دکاندار صبح اپنی دکان کو کھولتا ہے اسی طرح میں بھی اپنی دکان کھولتا ہوں اور بیماروں کو دیکھتا ہوں- میں تمہارے ابتلاء سے بہت ڈرتا ہوں- اس لئے مجھے کمانے کا زیادہ فکر ہوتا ہے- بمب کے گولے اور زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو-
جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا بہت آسان ہے مگر اس کا نگلنا بہت مشکل ہے- بعض لوگ کہتے ہیں ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں- مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ ابوبکر اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے- میں تم پر بڑا حسن ظن رکھتا ہوں- میں نے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کبھی تمہارے محرروں سے بھی دریافت نہیں کیا کہ تم لوگ کس طرح کام کرتے ہو- مجھے یقین ہے کہ تم تقویٰ سے کام کرتے ہو- باقی رہا میں‘ سو میری نسبت تحقیق کر لو- جس طرح چاہو نگرانی کر لو- مخفی در مخفی راہوں سے کر لو- مجھے ایک دفعہ شیخ صاحب نے کہا تھا کہ اب میں نے یہاں سکونت اختیار کر لی ہے- میں تمہاری نگرانی کروں گا- تو میں نے کہا تھا بسم اللہ- دو فرشتے میرے نگہبان پہلے ہی سے مقرر ہیں- ایک تم آ گئے- میں آج کے دن ایک اور کام کرنے والا تھا مگر خداتعالیٰ نے مجھے روک دیا ہے اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں- تم میں جو نقص ہیں ان کی اصلاح کرو- عورتوں سے جن کا سلوک اچھا نہیں‘ قرآن کے خلاف ہے‘ وہ خصوصیت سے توجہ کریں- میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں‘ پھر سمجھ جائیں‘ پھر سمجھ جائیں- ایسا نہ ہو کہ میں ان کی ٹھوکر کا باعث بنوں- میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض و تحاسد کا رنگ چھوڑ دو- کوئی امر امن یا خوف کا پیش آ جاوے عوام کو نہ سنائو- ہاں جب کوئی امر طے ہو جائے تو پھر بیشک اشاعت کرو-
اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑیں گی‘ طوعاً و کرہاً اور آخر کہنا پڑے گا‘ اتینا طائعین )حٰم السجدۃ:۱۲-( جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں- اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں راہ|ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے- آمین-
) بدر جلد۸ نمبر۵۲ ۔۔۔ ۲۱ / اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۹ تا ۱۲ (
* - * - * - *

۲۹ / اکتوبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:

ان الذین اٰمنوا و الذین ھاجروا و جاھدوا فی سبیل اللہ اولٰئک یرجون رحمت اللہ و اللہ غفور رحیم- یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس و اثمھما اکبر من نفعھما و یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو کذٰلک یبین اللہ لکم الایٰٰت لعلکم تتفکرون- فی الدنیا و الاٰخرۃ و یسئلونک عن الیتٰمیٰ قل اصلاح لھم خیر و ان تخالطوھم فاخوانکم و اللہ یعلم المفسد من المصلح و لو شاء اللہ لاعنتکم ان اللہ عزیز حکیم- و لاتنکحوا المشرکٰت حتیٰ یومن و لامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ و لو اعجبتکم و لاتنکحوا المشرکین حتیٰ یومنوا و لعبد مومن خیر من مشرک و لو اعجبکم اولٰئک یدعون الی النار و اللہ یدعوا الی الجنۃ و المغفرۃ باذنہ و یبین ایٰاتہ للناس لعلھم یتذکرون )البقرۃ:۲۱۹تا۲۲۲ -(
اور پھر فرمایا-:
ان چار آیتوں میں جو پہلی آیت ہے اس میں ایک غلطی کی اصلاح ہے جو نہ صرف چھوٹوں میں پائی جاتی ہے بلکہ بڑوں میں بھی اور وہ یہ ہے کہ ’’مستحق کرامت گناہ گارانند‘‘ کا مصرعہ زبان پر رہتا ہے جس نے بہت لوگوں کو بے باکی کا سبق دیا- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولٰئک یرجون رحمۃ اللہ رحمت الٰہی کے مستحق تو وہ لوگ ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں- اول ایمان باللہ یعنی یہ یقین ہو کہ تمام خوبیوں سے موصوف اور تمام نقصوں سے منزہ ذات اللہ کی ہے- پھر ملائکہ پر ایمان ہو یعنی ان کی تحریک پر عمل کیا جاوے- پھر کتب اللہ پر ایمان ہو- نبیوں پر ایمان ہو- یوم آخرت پر ایمان ہو- صرف عذاب القبر حق ہی نہ کہے بلکہ رحمۃ القبر حق بھی- تقدیر )یعنی ہر چیز کے اندازے اللہ تعالیٰ نے بنا رکھے ہیں( پر ایمان ہو- پھر اس ایمان کے مطابق عملدرآمد بھی ہو- عیسائیوں نے دھوکہ دیا ہے اور وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے یا ایمان سے یا عمل سے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ نجات فضل سے ہے کیونکہ قرآن شریف میں ہے احلنا دار المقامۃ من فضلہ )فاطر:۳۶-( مگر اس فضل کا جاذب ایمان ہے اور جیسا کسی کا ایمان مضبوط ہے اسی کے مطابق اس کے عمل ہوتے ہیں- اسی واسطے یہاں اٰمنوا کا ذکر فرما دیا کیونکہ اعمال ایمان کے ساتھ لازم ملزوم ہیں- چنانچہ اس ایمان کا ایک نشان ظاہر کیا ہے کہ تمام مقدمات کی بناء تو زمین ہے مگر جب انسان ایمان میں کامل ہو جاتا ہے تو پھر وہ خدا کے لئے اس زمین کو بھی چھوڑ دیتا ہے یعنی ہجرت- کیونکہ کسی چیز کو اللہ کے لئے چھوڑ دینا بہت بڑا عمل صالح ہے- پھر فرمایا- ایمان کا مقتضی اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ کیا؟ جاھدوا فی اللہ )الحج:۷۹( یعنی اس کا دن‘ اس کی رات‘ اس کا علم‘ اس کا فہم‘ اس کی محبت‘ اس کی عداوت‘ اس کا سونا اور اس کا جاگنا‘ غرض کردار‘ گفتار‘ رفتار سارے کے سارے اس کوشش میں ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے- یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ قدوس ہے- اس کا مقرب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو- انسان بے شک کمزور ہے اس لئے وہ غلطیوں کو بخشنے والا ہے مگر اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے- مومن میں استقلال و ہمت ضروری ہے- یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اس وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا- حضرت نوحؑ کے جتھے کا کیا حال تھا؟ ما اٰمن معہ الا قلیل )ھود:۴۱( جب آپ کو مقابلہ کی ضرورت پڑی تو ایک جملہ سے وہ کام لیا جو کل دنیا کی فوج نہیں کر سکتی- یعنی لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً )نوح:۲۷-( حضرت موسیٰ کیسی حالت میں تھے‘ فرعون نے کہا ھو مھین و لایکاد یبین )الزخرف:۵۳-( ان کی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروا لیا- و اشدد علٰی قلوبھم فلایومنوا حتیٰ یروا العذاب الالیم )یونس:۸۹-( نبیوں کو‘ خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پروا ہے- انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے- میں تمہیں دعائوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں- تم یوں سمجھو کہ دعائوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور یہی دعائیں تمہارے سب کام سنواریں گی-
) بدر جلد۹ نمبر۱ ۔۔۔ ۴ / نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *
‏KH1.30
خطبات|نور خطبات|نور
۱۲ / نومبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین نے آیت قرآنی یٰایھا الذین اٰمنوا لایسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم و لانساء من نساء )الحجرات : ۱۲( text] g[taکی تلاوت کے بعد فرمایا-:
جب بعض آدمیوں کو آرام ملتا ہے‘ فکر معاش سے گونہ بے فکری حاصل ہوتی ہے تووہ نکمے بیٹھنے لگتے ہیں- اب اور کوئی مشغلہ ہے نہیں- تمسخر کی خو ڈال لیتے ہیں- یہ تمسخر کبھی زبان سے ہوتا ہے‘ کبھی اعضاء سے‘ کبھی تعریف سے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تمسخر کا نتیجہ بہت برا ہے- وحدت باطل ہو جاتی ہے- پھر وحدت جس قوم میں نہ ہو وہ بجائے ترقی کے ہلاک ہو جاتی ہے-
حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا کہ nsk] g[ta زنیت سرقت )بخاری کتاب الانبیائ- مسلم کتاب الحدود( تو نے زنا کیا‘ تو نے چوری کی- ایک سننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعا کی کہ الٰہی! میری اولاد ہی نہ ہو- گود میں لڑکا بول اٹھا کہ الٰہی! مجھے ایسا ہی بنائیو کیونکہ اس عورت پر بدظنی کی جا رہی ہے- یہ واقعہ میں بہت اچھی ہے- اسی طرح ایک اور کا ذکر ہے کہ ماں نے دعا کی الٰہی! میرا بچہ ایسا ہی ہو- مگر بچہ نے کہا- الٰہی! میں ایسا نہ بنوں-
غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہو سکتی ہے- ہر ایک معاملہ خدا کے ساتھ ہے- ممکن ہے کہ ایک شخص ایسا نہ ہو جیسا اسے سمجھا جاتا ہے- لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہو مگر خدا کے نزدیک مقرب ہو- مگر الاعمال بالخواتیم )بخاری کتاب القدر( کے مطابق ممکن ہے جس سے تمسخر کیا جاتا ہے اس کا انجام اچھا ہو-
و لانساء من نساء آیت میں آیا ہے- یہاں عورتیں بیٹھی ہوئی نہیں مگر آدمی کا نفس بھی مونث ہے- ہر ایک اس کو مراد رکھ سکتا ہے- دوم‘ اپنے اپنے گھروں میں جا کر یہ بات پہنچا دو کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے اور اس سے ٹھٹھا نہ کرے- تم ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو اور نام نہ رکھو- تم کسی کا برا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا- مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھانا بہت ہی بری بات ہے-
یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنی سے- اس لئے فرماتا ہے اجتنبوا کثیراً من الظن )الحجرات:۱۳( بدگمانیوں سے بچو- حدیث میں بھی آیا ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث )بخاری کتاب الوصایا-( اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے-
میں نے ایک کتاب منگوائی- وہ بہت بے نظیر تھی- میں نے مجلس میں اس کی اکثر تعریف کی- کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہو گئی- مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا کہ کسی نے اٹھا لی ہے- پھر جب کچھ عرصہ نہ ملی تو یقین ہوگیا کہ کسی نے چرا لی- ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے- جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ پیچھے جا پڑی- اس وقت مجھ پر دو معرفت کے نکتے کھلے- ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی؟ دوم‘ میں نے صدمہ کیوں اٹھایا؟ خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیزاور عمدہ میرے پاس موجود تھی-
اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ تہیں ہوں گی- ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا- ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی- اسے اس کام کا بہت شوق تھا- اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی- تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی- مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی‘ نہ میرے بچوں کے سر پر- مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آ گئی ہو گی- مدت گزر گئی- اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہ میں سے نکل آئی- دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے- اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری رہنمائی کی- اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے-
اس بدظنی کی جڑ ہے ’’کرید‘‘ خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی- اس لئے فرماتا ہے و لاتجسسوا )الحجرات:۱۳( اور پھر اس تجسس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے-
ان آیات میں تم کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ گناہ شروع میں بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے- جیسے بڑ کا بیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہے لیکن پھر بعض بڑیں ایک ایک میل تک چلی گئی ہیں- میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور بدی کو اس کی ابتداء میں چھوڑ دو-
) بدر جلد۹ نمبر۳ ۔۔۔ ۱۸ / نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۴ / دسمبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید الاضحیٰ
۲۴ / دسمبر ۱۹۰۹ء بروز جمعہ ہم نے عید الاضحیٰ ۱۰ بجے کے قریب پڑھی- حضرت امیرالمومنین نے نماز|عید پڑھانے کے بعدتشہد‘ تعوذ‘ بسم اللہ اور تکبیر کے بعد فرمایا-
ہر قوم میں میلوں کا دستور
ہر ایک قوم میں کچھ دستور‘ رسمیں اور عادات ہوتے ہیں- منجملہ ان کے میلے بھی ہیں جن کا متمدن اور غیر متمدن دونوں قوموں میں رواج ہے- میلے کے دن خوراک‘ لباس‘ میل و ملاقات میں خاص اور نمایاں تبدیلی ہوتی ہے- یہ فطرتی چیز تھی مگر اس میں بڑھتے بڑھتے ہوا و ہوس کو بہت دخل ہو گیا-
بہت سے میلے تجارت کی بنیاد پر قائم ہیں- میں نے ہندوستان میں تجارت کے ایسے میلے دیکھے ہیں- چنانچہ ہر ہفتے کسی نہ کسی گائوں میں میلہ ہوتا ہے اور اسے گزری کہتے ہیں- وہاں دس دس بارہ بارہ کوس کی چیزیں جمع کر لیتے ہیں- بعض میلوں میں جانوروں کو جمع کرتے ہیں جسے منڈی کہتے ہیں- بعض ان میلوں کی تہ میں عجیب عجیب مقاصد کام کر رہے ہیں-
بعض تو اپنے گزارے کے لئے میلہ لگاتے ہیں- بعض خاص چندے یا نذر و نیاز کے حصول کے لئے اور بعض محض اپنی عظمت و جبروت کے اظہار کے لئے-
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک احسان
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جہاں بڑے بڑے احسانات ہیں ان میں میلوں کی اصلاح بھی ہے- چونکہ یہ ایک فطرتی بات تھی اس لئے ان کو ضائع نہیں کیا‘ صرف اصلاح کر دی- اور وہ یوں کہ جہاں ہر رسم و رواج کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے نیچے رکھ لیا وہاں ان میلوں میں بھی یہی بات پیدا کر دی-
عیدین میں تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ
مثلاً عید کا میلہ ہے- آپ نے اس میں اول تو تکبیر کو لازم ٹھہرایا اور خدا کی تعظیم کے اظہار کے لئے وہ لفظ مقرر کیا جس سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں- صفات میں اکبر سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں اور جامع|جمیع|صفات کاملہ ہونے کے لحاظ سے اللہ سے بڑھ کر اس مفہوم کو کوئی ظاہر نہیں کر سکتا-
مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے رمضان کی عید میں صدقہ~ن۲~ الفطر کو لازم ٹھہرایا- یہاں تک کہ نماز میں جب جاوے تو اس کو ادا کر لے اور پھر یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرے تاکہ مساکین کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی-
پھر یہ عید ہے- اس میں مساکین وغیرہم کے لئے سید الطعام لحم )ابن ماجہ- کتاب الاطعمۃ( یعنی گوشت کی مہمانی کی ہے-
پس کیا ہی مستحق ہے صلٰوۃ و سلام کا وہ رسول جس نے ہمیں ایسی عمدہ راہ دکھائی - یہ چیزیں صرف اسی بات کے لئے تھیں کہ اللہ کی نسبت فرائض جو انسان کے ہیں اور جو فرائض مخلوق کی نسبت ہیں ان کو پورا کریں- مگر دنیا کے کسی میلے کو دیکھ لو ان میں یہ حق و حکمت کی باتیں نہیں جو عیدین میں ہیں-
عیدین کی حکمت
عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گائوں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے- وحدت کا مسئلہ بھی خوب سکھایا ہے- پہلے تو ہر محلے کے لوگوں کو پانچ بار مسجد میں اکٹھے ہو کر دعا مانگنے کا حکم دیا- پھر ہفتہ میں ایک دفعہ تمام گائوں کے لوگوں کو جمع ہو کر دعا کرنے کا ارشاد کیا- پھر سال میں عیدین ہیں جن میں مومنوں کا اجتماع لازم ٹھہرایا- پھر ساری دنیا کے لئے مکہ مقرر فرمایا جہاں کل جہان کے اہل استطاعت مسلمان مل کر دعا کریں-
قربانی کی فلاسفی
قربانی جو عید اضحیٰ کے دن کی جاتی ہے اس میں بھی ایک پاک تعلیم ہے اگر اس میں مدنظر وہی امر رہے جو جناب الٰہی نے قرآن شریف میں فرمایا- لن ینال اللہ لحومھا و لا دماوھا و لٰکن ینالہ التقویٰ منکم )الحج:۳۸( -
قربانی کیا ہے ؟ یہ ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم پڑھ سکتے ہیں- خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں- وہ یطعم و لایطعم )الانعام:۱۵( ہے- ایسا پاک اور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے‘ نہ گوشت کے چڑھاوے اور لہو کا بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہو جائو جیسے ادنیٰ اعلیٰ کے لئے قربان ہوتا ہے-
کل دنیا میں قربانی کا رواج ہے اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلے میں قربان کی جاتی ہے- یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے-
)۱( - ہم بچے تھے تو یہ بات سنی تھی کہ کسی کو سانپ زہریلا کاٹے تو وہ انگلی کاٹ دی جاوے تاکہ کل جسم زہریلے اثر سے محفوظ رہے- گویا انگلی کی قربانی تمام جسم کے بچائو کے لئے کی گئی-
)۲( - اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آ جاوے تو جو کچھ ہمارے پاس ہو اس کی خوشی کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے- گھی‘ آٹا‘ گوشت وغیرہ قیمتی اشیاء اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتیں-
)۳( - اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے‘ مرغیاں حتیٰ کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کئے جاتے ہیں- اس سے بڑھ کر گائے اور اونٹ تک بھی عزیز مہمان کے لئے قربان کر دئے جاتے ہیں-
)۴( - میں نے اپنی طب میں دیکھا ہے کہ وہ قومیں جو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو وہ بھی اپنے زخموں کے کئی سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پر قربان کر دیتی ہیں-
)۵( - اس سے اوپر چلیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کے لئے قربان کیا جاتا ہے- مثلاً چوہڑے ہیں- آج عید کا دن ہے مگر ان کے سپرد وہی کام ہے بلکہ صفائی کی زیادہ تاکید ہے- گویا ادنیٰ کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی-
)۶( - ہندو گئو رکھشا بڑے جوش سے کرتے ہیں- لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے کیونکہ یہ بچھڑوں کا حق ہے اور یہاں کے ہندو تو دھوکہ دے کر دودھ لیتے ہیں مگر پھر بھی اس سے اور اس کی اولاد سے سخت کام لیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے کاموں کے لئے انہیں مار مار کر درست کرتے ہیں- یہ بھی ایک قسم کی قربانی ہے-
)۷( - ادنیٰ سپاہی اپنے افسر کے لئے اور وہ افسر اعلیٰ افسر کے لئے اور اعلیٰ افسر بادشاہ کے بدلے میں قربان ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے اس فطرتی مسئلہ کو برقرار رکھا اور اس قربانی میں تعلیم دی کہ ادنیٰ اعلیٰ کے لئے قربان کیا جاوے-
)۸( - محبت میں انسان بے اختیار ہوتا ہے- مگر اس میں بھی قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے- چنانچہ محب بھی بتدریج محبوبوں کے مراتب رکھ کر ایک کو دوسرے پر قربان کرتا رہتا ہے- اپنا پیسہ یا جان محبوب ہے مگر دوسرے محبوب پر اسے قربان کر دینے میں عذر نہیں- انسان کو مال کی محبت ہے‘ بی بی کی محبت ہے‘ بچوں کی محبت ہے‘ یار و آشنا کی‘ امن و چین کی محبت ہے- اللہ کی کتابوں‘ اللہ کے رسولوں سے محبت ہے- سچے علوم سے بھی محبت ہے- ان تمام محبتوں کے مراتب ہیں اور ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے- بات لمبی ہو گئی-
|الحمد میں قربانی کی تعلیم
میں نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں اللہ کا نام ہے- رحمن کا نام ہے اور رحیم کا نام ہے- اللہ تعالیٰ نے اس ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کو ایک سو چودہ دفعہ قرآن شریف میں بیان کیا ہے- ہر مسلمان کو اس کلمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے- ایک بار اللہ‘ رحمن‘ رحیم فرما کر پھر تفصیل کے لئے اللہ کے ساتھ رب اور رحمن‘ رحیم کے ساتھ مالک بڑھا دیا ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ ان قربانیوں کی طرف اشارہ فرما رہا ہے-
اللہ کا لفظ معبود کے لئے ہے- معبود عبادت کو چاہتا ہے- اور عبادت کیا ہے؟ پرلے درجے کی محبت‘ پرلے درجے کا تذلل‘ پرلے درجہ کی اطاعت اور ان باتوں کا پتہ مقابلہ میں لگتا ہے- ایک شخص ایک طرف حکم کرتا ہے اور دوسری طرف خدا‘ تو اب جو شخص خدا کے حکم کی طرف سبقت کرے گا اس نے گویا خدا کی اطاعت پر دوسروں کی اطاعت کو قربان کر دیا-
انسان محتاج ہے کھانے پینے کا‘ مکان کا‘ غرض ذرے ذرے میں خدا کے حضور اس کی احتیاج ہے- چنانچہ اس نے فرمایا کہ انتم الفقراء الی اللہ و اللہ ھو الغنی )فاطر:۱۶( حقیقی غنی اللہ کی ذات ہے اور سراپا احتیاج انسان- جو احتیاج میں ہے اس کے برابر کوئی ذلیل نہیں- اسی لئے اسے حکم ہے خدا کے حضور تذلل کا- پھر انسان اپنے وجود میں‘ اپنے بقاء میں‘ دفع امراض میں‘ رنج و راحت‘ عسر و یسر‘ غرض ہر حالت میں اللہ کا محتاج ہے-
اللہ کے لفظ میں قربانی کی تعلیم
پس اللہ کا نام انسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ حقیقی معبود‘ حقیقی مطاع‘ حقیقی غنی وہی ذات ہے اور حقیقتاً محتاج‘ حقیقتاً ذلیل‘ حقیقتاً مطیع وہ انسان ہے جس کو اللہ نے پیدا کیا اور جو اپنی بقا میں ہرآن اس کے فضل کا محتاج ہے- اس فضل کے جذب کے لئے اطاعت فرض ہے-
اب اس کی اطاعت کی راہیں معلوم کرنے کے واسطے نبی کی ضرورت ہے- کیونکہ جب ایک انسان دوسرے انسان کی رضامندی کی راہیں معلوم نہیں کر سکتا تو اس وراء الوراء ذات کی رضامندی کی راہیں کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں سوا اس کے کہ وہ خود ہی بتائے- چنانچہ اس نے نبوت کا سلسلہ قائم کیا جس کے لمبے کارخانے ہیں- اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے عام مخلوق کی محبت انبیاء کی محبت پر قربان کی جاتی ہے اسی طرح انبیاء کی محبت اللہ کی محبت پر قربان کرنی پڑتی ہے- تمام انبیاء نے الوہیت کے مسئلہ پر بڑا زور دیا ہے مگر میں نے اکثر واعظوں کو دیکھا ہے کہ وہ خدا کی عظمت اور جبروت کے اظہار کے لئے وعظ نہیں کرتے بلکہ ان میں سے بعض کا منشاء تو یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو رلاویں- بعض اس بات میں اپنا کمال سمجھتے ہیں کہ ایک روایت سے رلائیں اور دوسری سے ہنسا ویں-
ابتدائی زمانے میں ایک کتاب میرے پاس تھی جس کا نام تھا ’’بحر ظرافت-‘‘ ایک مولوی واعظ ہمارے ہاں آئے- انہوں نے مجھے کہا یہ کتاب مجھے دیدو- میں نے کہا اسے آپ کیا کریں گے؟ اس میں تو محض تمسخر ہے- آپ نے کہا کہ وعظ میں ایک کمال ہنسانے کا ہے جو اس کے ذریعے پورا ہو جائے گا-
بعض وعظ کا کمال اس میں سمجھتے ہیں کہ ان کے وعظ کے اخیر میں کوئی شخص اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ان کے مذہب میں شامل ہو جائے- مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یتلوا علیھم ایٰٰتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ )اٰل عمران:۱۶۵-( وعظ میں عبودیت کا رنگ ہو‘ اللہ کی کتاب پڑھی جاوے‘ اس کی حقیقت بتائی جاوے اور پھر اس کی تعلیم سے دل اس قسم کے پیدا ہوں جو اس تعلیم کے ساتھ مطہر و پاک ہو جاویں- ایک بھی ہزار لوگوں میں سے ایسا پیدا ہو جاوے تو غنیمت ہے بلکہ اکسیر احمر ہے-
بہت سے لوگ ہیں جو امیر ہیں- بہت سے لوگ اخلاص ظاہر کرتے ہیں- چندے بھی دیتے ہیں- بہت سے خوشامد کرتے ہیں اور ایسے ایسے بھاری لقب دیتے ہیں جو شاید ہماری نسل میں سے کسی کو نہ دیئے گئے ہوں- مگر وہ آدمی جو فرمانبرداری میں غرق اور کسی بات کی پروا نہ کرے وہ ملے تو بے نظیر و اکسیر ہے- فرمانبرداری بڑی اعلیٰ صفت ہے- ہاں یہ سمجھ لے کہ جو حکم دیا گیا ہے وہ مال‘ عزت‘ دین کو نقصان پہنچانے والا تو نہیں- یا قرب الٰہی سے دورکرنے والا تو نہیں- ایسے شخص کے پاس بھی ہرگز نہ بیٹھنا چاہئے- ہمارے بزرگوں میں سے ایک شعر پڑھا کرتے تھے-
با ہر کہ نشستی و نشد جمع دلت
و از تو نہ رہید صحبت آب و گلت
زنہار زصحبتش گریزاں می باش
یعنی جس کی صحبت میں بیٹھ کر جمعیت تامہ اور سچی طمانیت حاصل نہ ہو اور اعلیٰ اغراض کے لئے ادنیٰ اغراض کی قربانیوں کی توفیق نہ ملے تو اس کی صحبت کی اجازت نہیں- چنانچہ کہا ہے-
ورنہ نہ کند روح عزیزان بحلت
ربوبیت
اسی طرح اس سے آگے ربوبیت کا درجہ ہے- ہم نہ تھے- اس نے ہمیں وجود بخشا‘ زندگی دی‘ بیان سکھایا‘ قویٰ دیئے- میں اپنے قویٰ پر خود ہی حیران ہوں اور میرا دل رقص میں آ جاتا ہے کہ اس نے مجھے کان کیسے دیئے ہیں- آنکھیں کیسی کیسی عطا کی ہیں- زبان کیسی دی ہے- دماغ کیسا دیا- دل کیسا دیا ہے کہ ساری دنیا قربان ہو جاوے پر میرے مولیٰ کی بڑائی ہو جاوے- رسول اللہ سے ایسی محبت بخشی ہے کہ میرے کسی گوشہ میں آپ کی تعلیم‘ آپ کی اولاد‘ آپ کی آل سے ذرا بھی بغض نہیں رہا- میں نے اتنی تاریخیں پڑھی ہیں خارجی‘ شیعہ‘ رافضی کی مگر پھر بھی کسی صحابی سے مجھے رنج نہیں- نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی سے‘ نہ کسی آل و اولاد سے رنج ہے اور یہ خدا کا فضل ہے اور اسی کی ربوبیت کی شان سے ہے-
حضرت صاحب یعنی ہمارے مرزا صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ میں نے چاہا جیسے اور صوفیوں نے کتابیں لکھی ہیں میں بھی لکھوں- ان میں سے بہت بڑی کتاب امام شعرانی کی ہے- بڑی دلچسپ کتاب ہے- اس کا ترجمہ اختصاری رنگ میں اپنے مذاق کے لحاظ سے نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی کیا ہے- چنانچہ میں نے ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر خدا کے انعامات کی اتنی برسات میں نے دیکھی کہ شرم سے میرا قلم رک گیا- فرمایا کہ اگر برسات کے قطروں کو گن سکتا ہے تو خدا کے احسانات کو بھی گن سکے گا- چنانچہ خدا نے فرمایا ان تعدوا نعمۃ اللہ لاتحصوھا )ابراھیم:۳۵-(ان احسانات میں سے ایک وحدت بھی ہے جس کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر ساری زمین سونے چاندی کی بھر کر دے دو تو بھی یہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی- اس کا میں نے بھی تجربہ کیا ہے- ایک زمانہ میں میرے پاس بڑا روپیہ آتا تھا اور مجھے روپے کی محبت ہرگز نہیں- میں اپنی تعریف نہیں کرتا بلکہ اس کے فضل کا اظہار- یہ لوگ جو بطور شاگرد میرے پاس رہتے ہیں اگرچہ بعض لوگ ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے اردگرد بیٹھے رہتے ہیں اور احداث میں خلا ملا رکھتا ہے‘ ان سے پوچھ لو کہ مال میں میرا مولیٰ کیسا متکفل ہے اور میں اس معاملہ میں اس کی ربوبیت کے بہت سے عجائبات دیکھ چکا ہوں- اسی ربوبیت کے چشمے کا فیضان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا نبی ہم میں آیا- پھر وہ مذہب ملا جس کی حمایت و نصرت کے لئے ہر صدی میں یقیناً امام آئے جن کی تعلیم دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیسے قدم بہ قدم چلایا ہے- اماموں کے متعلق ایک مذہب ہے کہ پچاس برس کے بعد ایک امام آتا ہے- دوسرا مذہب ہے کہ پچیس برس کے بعد وہ تعلیم رسالت|پناہ کو محفوظ رکھتا ہے- خیر یہ بھی اسی کی ربوبیت کا تقاضا ہے-
غرض اس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا‘ وجود سے بقا‘ پھر عقل و فہم و ذکا‘ پھر اعضاء صحیحہ عطا کئے- پھر ہمیں توفیق دی کہ ہم مسلمان ہوئے- میں نے بڑے بڑے ذہین اور ہوشیار آدمی اسلام سے متنفر دیکھے ہیں جن کو میں نے عجیب عجیب طور سے قائل کیا ہے مگر اسلام کی توفیق نہیں ملی- پس توفیق بھی نعمت ہے جناب الٰہی سے- ہم نے دیکھا ہے بعض کو دین کا شوق نہیں اور اگر ہے تو ذہن اس قابل نہیں یا ذہن تو ہے مگر سامان نہیں‘ سامان ہے تو صحت نہیں‘ صحت تو ہے کوئی اور مشکل ہے- مثلاً دنیوی علائق کی وجہ سے فرصت نہیں‘ جو فرصت ہے تو پھر یہ دقت ہے کہ کتابیں سچی نہیں ملیں- بعض کو توفیق ملتی ہے مگر ارادے میں ثبات نہیں- آج نماز کا شوق چرایا ہے‘ زندگی وقف کرنے پر تلے بیٹھے ہیں مگر تھوڑے دن بعد کچھ بھی نہیں- حالانکہ قول بلاعمل کیا ہستی رکھتا ہے- غرض سب باتیں موقوف ہیں فضل الٰہی پر جو ربوبیت کی صفت سے فیض لینے پر حاصل ہوتی ہیں-
‏]r02dahe [tagمختصر نصیحت
میں تمہیں مختصر نصیحت کرتا ہوں- بعض لوگ ہیں جو نماز میں کسل کرتے ہیں اور یہ کئی قسم ہے- )۱( وقت پر نہیں پہنچتے- )۲( جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے- )۳( سنن و رواتب کا خیال نہیں کرتے- کان کھول کر سنو! جو نماز کا مضیع ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں-
زکٰوۃ - بعض لوگ زکٰوۃ کے حکم کی تعمیل میں کسل کرتے ہیں- وہ اس بات کی تہ کو نہیں پہنچتے کہ صلٰوۃ کے ساتھ ہی زکٰوۃ کا ذکر بھی قرآن مجید میںکیوں ہے؟ دراصل تعظیم لامر اللہ کے ساتھ شفقت علیٰ|خلق بھی ضروری ہے-
اگر کسی کے پاس نئی جوتی ہے تو کیا حرج ہے کہ وہ پرانی جوتی کسی مسکین کو دیدے- یہ کہنا کہ پرانی کیچڑ کے لئے رکھ لی ہے‘ حد درجے کی سفیہانہ بات ہے- اسی طرح میں نے پرانے کپڑوں‘ پرانے لحافوں کی نسبت بارہا توجہ دلائی ہے- یہی حکم علم کا ہے کہ اگر خدا نے تمہیں علم بخشا ہے تو اس کی زکٰوۃ ہے کہ دوسروں کو پڑھا دیں- مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ اس زکٰوۃ میں مضائقہ کرتے ہیں- ایک شخص کو میں نے پڑھانے کی نسبت کہا- اس نے بڑی جلدی اور شوق سے منظور کر لیا مگر ساتھ ہی بتا دیا کہ ڈیوٹیوں کا حساب آپ جانتے ہوں گے- یہ زکٰوۃ کا طرز نہیں- میرے نزدیک ہر شخص پر زکٰوۃ فرض ہے- یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں نصاب کا ذکر نہیں- امام حسن بصری سے کسی نے زکٰوۃ کا مسئلہ پوچھا- آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو زکٰوۃ یہ ہے کہ کسی کے پاس چالیس ہوں تو وہ اکتالیس بھر دے اور علماء کی زکٰوۃ یہ ہے کہ چالیس ہوں تو ایک دے-
غرض ہر ایک کو زکٰوۃ دیتے رہنا چاہئے مگر یہ موقوف ہے توفیق پر جس کے حصول کاگر دعا ہے- میرے بھائی سلطان احمد تھے- انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ’’سوف سوف‘‘ نہ کریو کیونکہ موت کا وقت آجاتا ہے اور کام پورے نہیں ہوتے- اس لئے جب توفیق ملے اسی وقت وہ نیک کام کر دے- یہ میرا اپنا صحیح تجربہ ہے- شریعت اجازت نہیں دیتی کہ کام کو دوسرے وقت پر ڈالا جاوے- یحول بین المرء و قلبہ )الانفال:۲۵( کے علماء نے یہی معنے لکھے ہیں کہ جب وقت ملے اسی وقت کام کرے ورنہ روک پیدا ہو جاتی ہے-
میں تمہیں بہت کچھ سنانا چاہتا تھا مگر جمعہ بھی ہے اور اس میں بھی میں نے ہی بولنا ہے )ناظرین اس فقرہ سے سمجھ گئے ہوں گے جو مضمون اللہ اور رب کے اسماء کی تفسیر اور اس میں قربانی کی تعلیم پر چل رہا تھا بوجہ تنگی وقت ودیگر مصالح وہیں مختصر بات پر روک دیا گیا- ایڈیٹر( اس لئے اسی مختصر بات کے ساتھ کچھ اور نصائح ایزاد کرتا ہوں کہ تمہارے کاموں میں تعظیم لامر اللہ ہو اور شفقت علیٰ خلق اللہ ہو کیونکہ فرمایا- اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض )الرعد:۱۸-( جو مضر وجود ہوتے ہیں وہ خود بھی سکھ نہیں پاتے‘ دوسروں کو بھی سکھ نہیں کر لینے دیتے- آپ بھی دوزخ میں رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں- پس تم مضر نہیں بلکہ نافع|الناس وجود بنو- سب سے بھاری مسئلہ یہ ہے کہ وقتوں کی حفاظت کرو- دعا سے کام لو- صحبت صلحاء اختیار کرو- صحبت صلحاء بڑھائو- محبت کا اصول یہ ہے کہ جبلت القلوب علیٰ حب من احسن الیھا- میری فطرت میں یہ بات ہے کہ جو کام کسی کو بتائوں اور وہ نہ کرے تو میری اس کے ساتھ محبت نہیں رہ سکتی- خدا کی محبت کا بھی یہی حال ہے- وہ اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے-
قربانی کے مسائل
قربانی میں دو برس سے کم کوئی جانور نہیں چاہئے‘ یہی میری تحقیق ہے- )۲( جس کے سینگ بالکل نہ ہوں وہ جائز ہے- )۳( خصی جائز ہے- )۴( مادہ بھی جائز ہے- نبی کریم ~صل۲~ ہمیشہ چھترا قربانی دیتے جس کا منہ‘ آنکھیں‘ پیٹ‘ پائوں سیاہ ہوتے- جو بالکل دبلا ہو وہ جائز نہیں- اگر جانور موٹا ہو‘ خواہ اسے خارش ہو تو بھی اسے جائز رکھا ہے- )۵( لنگڑا مناسب نہیں-
تم قربانیاں کرو اس یقین کے ساتھ کہ ان میں تصویری زبان کے ذریعے تمہیں فرمانبرداری کی تعلیم ہے اور یہ کہ تم بھی ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے قربان کرنا سیکھو- اللہ تمہیں توفیق بخشے- آمین-
)بدر جلد ۹ نمبر ۱۰ ۔۔۔۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱ تا ۳(
* - * - * - *

۲۴ دسمبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کے جمعہ کا خطبہ
حضرت امیر المومنین نے یٰایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلٰوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الیٰ ذکر اللہ )الجمعہ:۱۰( پڑھ کر فرمایا کہ ہر جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کوئی شخص تم کو وعظ سنائے اور اتنا وقت ہو کہ نماز سے پہلے سن لو- اس کے بعد نماز پڑھو- نماز کے بعد تم کو اختیار ہے کہ دنیوی کاموں میں لگ جائو- میں اس کے حکم کے مطابق تم کو نصیحت کرتا ہوں-
اللہ نے ہم کو کچھ اعضاء دئے ہیں اور ان اعضاء پر حکومت بخشی ہے اور پھر انسان کو اپنی صفات کا مظہر بنایا- چونکہ خدا مالک ہے اس لئے انسان کو بھی مالک بنایا اور اس کو بہت بڑا لشکر دیا جن میں سے دو چار نوکروں کا میں ذکر کرتا ہوں-
حضرت نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ )بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ( سب کے سب بادشاہ ہو اور تم سے اپنی رعایا کے متعلق سوال ہو گا- )۲( الامام راع و ھو مسئول عن رعیتہ- )بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ( امام بھی راعی ہوتا ہے اور اس سے رسول کی رعایا کی نسبت سوال ہو گا- )۳( عورت کے بارے میں بھی فرمایا کہ عن بیت زوجھا )بخاری کتاب الاحکام-( میں ان بادشاہوں کا ذکر نہیں کرتا جو ملکوں پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ ان کا ذکر کرتا ہوں جو تم سب اپنے اپنے اعضاء پر حکمران ہو- ان سب میں سے بڑی چیز دل ہے جس کے کچھ فرائض ہیں‘ کچھ محرمات‘ کچھ مکروہات‘ کچھ مباحات-
دل کے فرائض بتاتا ہوں- )۱( اس کا عظیم الشان فرض ہے کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لائے- جب تک دل اس فرض کو ادا کرنے والا نہ ہو ہلاکت میں ہے- یعرفونہ کما یعرفون ابنائ|ھم )البقرۃ:۱۴۷( اور جحدوا بھا و استیقنتھا انفسھم )النمل:۱۱۵( سے پتہ لگتا ہے کہ دل یقین کر چکے ہیں- پس اس یقین کے ساتھ عملی رنگ بھی ضروری ہے- )۲( اس کے بعد فرض ہے حضرت محمد رسول اللہ ~صل۲~ کو اللہ کا رسول یقین کرنا- جب اللہ معبود ہوا اور محمد رسول اللہ ~صل۲~ رسول تو اللہ کے بالمقابل اب اور کسی کا حکم نہیں اور رسول کی اطاعت کے بالمقابل کوئی اطاعت نہیں- یہ واجبات سے ہے-
دل کے محرمات میں سے ہے- )۱( اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا )۲( کبرو نخوت )۳( بغض وحسد )۴( ریاء وسمعہ~ن۲~ )۵( نفاق کرنا- شرک کی نسبت تو اللہ فرماتا ہے کہ معاف کروں گا- اور کبر وہ فعل ہے جس کا نتیجہ شیطان اب تک *** اٹھا رہا ہے- اور ریا کہتے ہیں اس عمل کو جو دکھاوے کے لئے کیا جاوے- اور نفاق یہ ہے کہ دل سے نہ مانے اور اوپر سے اقرار کرے- اس کے کچھ اور شعبے بھی ہیں- )۱( جب بات کرے جھوٹ بولے- )۲( امانت میں خیانت کرے- )۳( معاہدہ میں غداری کرے- )۴( سخت فحش گالیاں دے-
دل کے فرائض سے نیچے یہ بات ہے کہ دل کو اللہ کی یاد سے طمانیت بخشے- آدمی پر مصائب کا پہاڑ گر پڑتا ہے- کسی کی صحبت خطرے میں ہے‘ کسی کی عزت‘ کسی کی مالی حالت- کسی کو بیوی کے تعلقات میں مشکلات ہیں‘ کسی کو اولاد کی تعلیم میں- ان تمام مشکلات کے وقت خدا کی فرمانبرداری کو نہ بھولے-
ایک شخص دہلی میں ہیں جو ہمارے خیالات کے سخت مخالف ہیں- انہوں نے ایک کتاب ’’الحقوق|والفرائض‘‘ لکھی ہے- میں نے اسے بہت پسند کیا ہے- حق بات کسی کے منہ سے نکلے‘ مجھے بہت پیاری لگتی ہے- دوسرے کے منہ سے نکلے تو پھر اور کیا چاہئے- حقوق وفرائض کا ہر وقت نگاہ میں رکھنا مومن کے لئے مستحب کام ہے- مصائب میں اللہ پر ایسا بھروسہ ہو کہ ان مصائب کی کچھ حقیقت نہ سمجھے- اس کی تہ کے اندر جو حکمتیں‘ رحمتیں‘ فضل ہیں ان تک انا للٰہ کے ذریعے پہنچے-
ایک دفعہ میں جوانی میں الحمد پڑھنے لگا- ان دنوں مجھ پر سخت ابتلاء تھا‘ اس لئے مجھے جہراً پڑھنے میں تامل ہوا کیونکہ جب دل پورے طور پر اس کلمہ کے زبان سے نکالنے پر راضی نہیں تھا تو یہ ایک قسم کا نفاق تھا- اللہ تعالیٰ نے میری دستگیری کی اور معاً مجھے خیال آیا کہ جو انا للٰہ و انا الیہ راجعون )البقرہ:۱۵۷( اور اللٰھم اجرنی فی مصیبتی )مسلم کتاب الجنائز( پڑھتا ہے ہم اس کی مصیبت کو راحت سے بدل دیتے ہیں-
انسان پر جو مصیبت آتی ہے‘ کبھی گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے- اس لئے انسان شکر کرے کہ قیامت کو مواخذہ نہ ہو گا- دوم- ممکن تھا اس سے بڑھ کر مصیبت میں گرفتار ہوتا- سوم- مالی نقصان کی بجائے ممکن تھا جانی نقصان ہوتا جو ناقابل برداشت ہے- چہارم- یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ خود زندہ رہے کیونکہ خود زندہ نہیں تو پھر تمام مال واسباب وغیرہ کی فکر لغو ہے-
یہ سب مضمون جب میرے دل میں آیا تو بڑے زور سے الحمد للہ پڑھا- قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ مومن کو خوف وحزن ہوتا ہے وہ تو لایخاف و لایحزن ہوتا ہے-
زبان کے فرائض
زبان کا سب سے بھاری فرض ہے- )۱( کلمہ توحید پڑھنا- )۲( نماز میں الحمد بھی فرض ہے- تو گویا اتنا قرآن پڑھنا بھی فرض ہوا- )۳( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی زبان کا ایک رکن ہے- اس کے محرمات ہیں- غیبت‘ تحقیر‘ جھوٹ‘ افترائ- اس زبان کے ذریعے عام تلاوت قرآن وتلاوت احادیث کرے اور عام طور پر جو معرفت کے خزانے اللہ ورسول کی کتابوں میں ہیں پوچھ کر یا بتا کر ان کی تہ تک پہنچے-
معمولی باتیں مباح ہیں- پسندیدہ باتیں اپنی عام باتوں میں استحباب کا رنگ رکھتی ہیں-
کان کے فرائض
لو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحاب السعیر )الملک:۱۲( اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے؟ اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سننا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے- سماع کے متعلق صوفیاء میں بحث ہے- میرے نزدیک سماع قرآن وحدیث ضروری ہے- مگر ایک شیطانی سماع ہے کہ راگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو‘ یہ ناجائز ہے-
ناک کے فرائض
ہمیں حکم ہے کہ جس پانی کی بو خراب ہو اس سے وضو نہ کریں- اس واسطے پانی کا سونگھنا اس وقت فرض ہو گیا خصوصاً جب نجاست کا احتمال ہو-
عید کے دن عطر لگانا مستحبات میں داخل ہے- ہاں اجنبی عورت کے کپڑوں اور بالوں کی خوشبو کا سونگھنا حرام ہے- اسی طرح آنکھ اور دوسرے اعضاء کے فرائض ہیں-
خطبہ ثانیہ
اذکروا اللہ یذکرکم زبان کے فرائض میں سے شکر بھی ہے- ناشکری کا مرض مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے- کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ حقارت کرتا ہے- اس سے نعمت بڑھتی نہیں- اگر انسان شکر کرے تو نعمت بڑھتی ہے-
مال کی حرص بھی بہت بڑھ گئی ہے- جس کی پانچ تنخواہ ہے وہ چاہتا ہے دس ہو جائے اور جس کی سو ہے وہ دو سو کے لئے تڑپ رہا ہے- طالب علموں میں بھی یہ مرض ہے- اگر کوئی ان میں سے پاس ہو گیا تو پوچھنے پر شکر نہیں کرے گا بلکہ یہی کہے گا کہ خاک پاس ہوئے ہیں- ہم چاہتے تھے کہ فسٹ ڈویژن میں نکلتے‘ وظیفہ لیتے-
کسل وکاہلی بھی ایک گندی صفت ہے جو مسلمانوں میں بڑھ رہی ہے- آنحضرت ~صل۲~ نے ایک دعا فرمائی ہے‘ جس کو تشہد میں بعض ائمہ نے فرض لکھا ہے- اللٰھم انی اعوذبک من العجز و الکسل )بخاری کتاب الدعوات( اسباب کو مہیا نہ کرنا اور کسل اسباب مہیا شدہ سے کام نہ لینا- رسول|اللہ کی جماعت تھی کہ ان میں سے کئی لکڑیاں جنگل سے لا کر بیچتے اور اس میں سے چندے دے دیتے اور رات کو قرآن شریف یاد کرتے-
معاملہ کی صفائی بھی بہت کم رہ گئی ہے- روپیہ کسی کے قبضے میں آجاوے تو اس کا دل نہیں چاہتا کہ واپس دوں- تم میں یہ بری باتیں نہ رہیں- اللہ تعالیٰ تمہیں نیکیوں کی توفیق دے- آمین-
)بدر جلد۹ نمبر ۱۰ ---- ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳‘۴(
* - * - * - *

۳۱ / دسمبر ۱۹۰۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضور نے آیت قرآنی ان الشرک لظلم عظیم ) لقمان : ۱۴ ( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
‏text] [tag تین بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ شرک کیا چیز ہے؟ اس سوال سے مجھے رنج بھی ہوا‘ تعجب بھی‘ افسوس بھی-
قرآن کریم سارا اسی کے رد سے بھرا ہوا ہے- پھر شرک کے سب سے بڑے دشمن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت سے شرک کا پتہ لگ سکتا ہے-
شرک وہ بری چیز ہے کہ اس کی نسبت خدا نے فرما دیا ہے ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذٰلک )النسائ:۴۹-( سب سے پہلا کلام جو انسان کے کان میں بوقت پیدائش و بلوغ ڈالا جاتا ہے وہ شرک کی تردید میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے- یہ ایک بحث ہے کہ کان بہتر ہیں یا آنکھیں؟ مولود کے کان میں اذان کہنے کی سنت سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے- اگر یہ لغو فعل ہوتا تو کبھی رسول کی سنت موکدہ نہ بنتا- یقظہ نومی جو بیماری ہے اس کے عجائبات سے بھی اس کی حکمتیں معلوم ہو سکتی ہیں-
غرض پہلا حکم کانوں کے لئے نازل ہوا اور انبیاء بھی اسی لا الٰہ الا اللہ کی اشاعت کے لئے آئے اور خدا کی آخری کتاب نے بھی اسی کلمہ کی اشاعت کی اور جس کتاب سے میں نے دینی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ کی اس میں بھی اسی پر زیادہ تر بحث ہے-
چونکہ بعض لوگ حکیموں کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کے کلمہ کا ان کی طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے اس لئے یہاں ایک حکیم کی نصیحت کو بیان کیا ہے- اور یہ بھی مسلم ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو وہی بات بتاتا ہے جو بہت مفید ہو اور مضر نہ ہو-
شرک عربی زبان میں کہتے ہیں سانجھ کرنے کو‘ کسی کو کسیکے ساتھ ملانے کو - تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو جوڑی نہ بنائو- ایک مقام پر فرمایا ہے ثم الذین کفروا بربھم یعدلون )الانعام:۲-( کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے برابر اس کی ذات میں کسی دوسرے کو بھی مانتا ہو‘ یہ شرک میں نے کسی سے نہیں سنا- ثنوی ایک فرقہ ہے جو کہتے ہیں کہ دنیا کے دو خالق ہیں- ایک ظلمت کا‘ ایک نور کا- مگر برابر وہ بھی نہیں کہتے-
خدا نے فرمایا کہ من خلق السمٰوٰت و الارض )لقمان:۲۶( تو کفار مکہ جو بڑے مشرک تھے انہوں نے بھی کہا- اللہ- اسی طرح ان کے جاہلیت کے شعروں میں اللہ کا لفظ کسی اور پر نہیں بولا گیا-
پھر شرک کیا ہے جس کے واسطے قرآن شریف نازل ہوا؟ سنو! دوسرا مرتبہ صفات کا ہے- اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے- سب چیزوں کا خالق ہے- وہ غیرمخلوق ہے- پس یہ صفات کسی غیر کے لئے بنانا شرک ہے-
آریہ قوم نے پانچ ازلی مانے ہیں- )۱( اللہ قدیم ازلی ہے- )۲( روح ازلی ہے- )۳( مادہ ازلی ہے- )۴( زمانہ ازلی ہے- )۵( فضا ازلی ہے جس میں یہ سب چیزیں رکھی ہیں- اس واسطے یہ قوم مشرک ہے-
عیسائی قوم نے کہا ہے کہ بیٹا ازلی ہے- باپ ازلی ہے- روح القدس ازلی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثۃ )المائدۃ:۷۴(
ایک قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں اور تصرف میں کسی مخلوق کو بھی شریک بناتی ہے- بدبختی سے مسلمانوں میں بھی ایسا فرقہ ہے جو کہ پیرپرست ہے- حالانکہ رسول کریمﷺ~ سے بڑھ کر کوئی نہیں اور وہ فرماتا ہے- لا اعلم الغیب )الانعام:۵۱( اور لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر و ما مسنی السوء )الاعراف:۱۸۹-( پس کسی اور ولی کو کبھی یہ قدرت حاصل ہو سکتی ہے کہ اسے جانی جان کہا جاوے اور یہ سمجھا جاوے کہ وہ حاضر و غائب ہماری پکار سنتے ہیں؟ یہ جواب جو دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو علم غیب یا تصرف دے دیا ہے‘ صحیح نہیں- کیونکہ شرک کے معنے ہیں ساجھی بنانا- خود بن جاوے یا دینے سے بنے- یاد رکھو اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا- جو نشان اللہ|تعالٰی نے اپنی الوہیت کے لئے بطور نشان رکھے ہیں وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہئیں- بڑا نشان تذلل کا ہے سجدہ‘ اس سے بڑھ کر اور کوئی عاجزی نہیں- زمین پر گر پڑے- اب آگے اور کہاں کدھر جاویں؟ فرماتا ہے لا تسجدوا للشمس و لا للقمر و اسجدوا للٰہ الذی خلقھن )حٰم السجدۃ:۳۸-( پس جو غیر کو سجدہ کرے وہ مشرک ہے-
ہاتھ باندھ کر بہیئت صلٰوۃ کسی کے سامنے کھڑے ہونا اور امید و بیم کے لحاظ سے اس کی وہ تعریفیں‘ جو خدا تعالیٰ کی کی جاتی ہیں‘ کرنا بھی شرک ہے اور کسی سے سوائے اللہ کے دعا مانگنا بھی- ہاں دعا کروانا شرک نہیں ہے-
زکٰوۃ -: بھی عبودیت کا ایک نشان ہے- پس مال خرچ کرنا کسی غیر کے نام پر بامید و خوف‘ نفع و ضرر بھی شرک ہوا-
صوم -: ایک محبت الٰہی کا بڑا نشان ہے روزہ- آدمی کسی کی محبت میں سرشار ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بیوی کے تعلقات اسے بھول جاتے ہیں- یہ روزہ اسی حالت کا اظہار ہے- یہ بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں-
حج -: عاشق جب سنتا ہے کہ میرا محبوب فلاں شخص کو نظر آیا اور فلاں مقام پر ملا تو وہ دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور اسے تن بدن کا کچھ ہوش نہیں رہتا- نہ کرتے کی خبر ہے نہ پاجامہ کی- پھر وہاں جا کر دیوانہ وار مکانوں میں گھومتا ہے- بعینہ یہ عبادت حج کا نظارہ ہے- یہ بھی کسی غیر کے لئے جائز نہیں- ایک شخص نے مجھے کہا وہاں مکہ میں جا کر کیا لینا ہے؟ علی گڑھ حمایت الاسلام کا جلسہ کافی ہے- اس کو معلوم نہیں تھا کہ خدا کیا ہے؟
قربانی -: ایک اور نشان عبودیت ہے اور وہ قربانی ہے- اس میں یہ تعلیم ہے کہ جس طرح انسان کے سامنے جانور خاموش ہو کر اپنی جان دیتا ہے‘ اسی طرح خدا کے حضور میں مومن قربان ہو جاوے-
محبت الٰہی -: قرآن شریف نے ایک اور شرک کی طرف بھی توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ یحبونھم کحب اللہ و الذین اٰمنوا اشد حباً للٰہ البقرۃ:۱۶۶( یعنی جیسا پیار اللہ سے کرتے ہو یہ کسی اور سے کرنا خدا کا شریک بنانا ہے- و من الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً )البقرۃ:۱۶۶( ند ]ttex [tagبنانا یوں ہے کہ مثلاً ایک طرف آواز آرہی ہے حی علی الفلاح اور دوسری طرف کوئی اپنا مشغلہ جس کو نہ چھوڑا تو یہ بھی شرک ہے-
ریاء -: اسی سلسلہ میں آخری شرک کا نام لیتا ہوں اور وہ ریاء ہے- اس سے بچنا چاہئے- حضرت|صاحب سے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے پوچھا تو آپ نے فرمایا- جیسا تم لوگوں کو کسی گھوڑی وغیرہ کے سامنے ریاء نہیں آ سکتا اسی طرح ماموران الٰہی کو لوگوں کے سامنے ریاء نہیں آتا- ان تمام شرکوں کا رد اسی کلمہ طیبہ میں ہے جو بہت چھوٹا ہے مگر ہے بہت عظیم- اور میرا ایمان ہے کہ افضل الذکر لا الٰہ الا اللہ )ابن ماجہ کتاب الادب( اور اس لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ توحید کامل نہ ہوتی اگر اس کے ساتھ محمد رسول اللہ نہ ہوتا- کیونکہ دنیا نے ہادیوں کو خدا کہنا بھی شروع کر دیا- چنانچہ حضرت عیسیٰؑ جیسے عاجز اور خاکسار انسان کو خدا بنایا گیا- کرشن جیسے خدا کے محبکو بھی ایسا ہی سمجھا گیا- ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے جہاں ہم پر اور احسان کئے وہاں یہ بھی کیا کہ لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ عبدہ و رسولہ رکھ دیا تاکہ آپ کی امت کبھی اس ابتلاء میں نہ پڑے اور جب آپﷺ~ بندے تھے تو آپﷺ~ کے خلفاء و نواب پر کب خدائی کا گمان ہو سکتا ہے-
اللہ تعالیٰ تمہیں نیک عملوں کی توفیق دے - آمین -
) بدر جلد۹ نمبر۱۲ ۔۔ ۱۳ / جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲ (
* - * - * - *
‏KH1.31
خطبات|نور خطبات|نور
جنوری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ خطبہ نکاح میں یہ تین آیات ضرور پڑھی جاتی ہیں-:
یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء و اتقوا اللہ الذی تساء لون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۹۲-(
یٰایھا الذین امنوا تقوا اللہ و لتنظر نفس ماقدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون )الحشر:۱۹-(
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱-(
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل الاصول تقویٰ ہے- کہیں رہو- جنگل میں یا شہر میں- گھر میں یا سفر میں- جو کچھ بھی کرو‘ دکان داری یا کوئی حرفت یا ملازمت‘ متقی بنے رہو- جس قدر احکام شریعت میں ہیں ان کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ تقویٰ حاصل ہو- اسی واسطے جو چیزیں تقویٰ بگاڑنے والی ہیں‘ ان سے منع کیا- شراب‘ قماربازی اسی لئے منع ہے-
نکاح بھی تقویٰ کے حصول کے لئے ہے- لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میاں بی بی دونوں کو ناول خوانی نے ڈبو دیا ہے- خدا تو فرماتا ہے لتسکنوا الیھا )الروم:۲۲( اور مودۃ و رحمۃ )الروم:۲۲( مگر مسلمانوں کی بدقسمتی سے ان کے گھر اضطراب‘ دشمنی اور غضب کے مظہر بن رہے ہیں- جس کی وجہ مجھ سے پوچھو تو یہی ہے فنسوا حظاً مما ذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ و البغضاء )المائدہ:۱۵-(قرآن کی تعلیم کو مسلمانوں نے چھوڑا توآرام بھی ان کے گھروں سے رخصت ہو گیا- خدا تو فرماتا ہے- لاتخرجوھن من بیوتھن )الطلاق:۲( ]ttex [tagاور و لایخرجن )الطلاق:۲( کہ طلاق کے بعد بیبیوں کو نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں- مگر نہ میاں اس پر عمل کرتا ہے نہ بی بی- نکاح میں جلدبازی سے کام لیاجاتا ہے پھر طلاق میں اس سے بھی زیادہ جلدی- مگر خدا نے فرمایاو لتنظر نفس ما قدمت لغد )الحشر:۱۹( پہلے تم یہ تو دیکھ لو کہ کل کیا ہو گا اور ہمارے اس فعل کا انجام کیا ہو گا؟ پس قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱( تم جو بات کرو اور پھر نکاح کے معاملہ میں پختہ بات کرو‘ اس سے تمہارے اعمال متنور ہو جائیں گے- تمہاری کمزوریاں دور ہو جائیں گی- چنانچہ دیکھ لو- مسلمانوں میں پالیٹکس کی کوئی کتاب نہیں جس سے ثابت ہے کہ اسلام کو پالیٹکس سے کوئی تعلق نہیں- بعض کتابیں جو امن قائم رکھنے کے لئے اور باہمی تعلقات کی عمدگی کے لئے ہیں ان کو سیاست کی سمجھ لیا گیا ہے- یہ بھی ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمانوں میں پالیٹکس نہیں کیونکہ وہ اس کی تعریف نہیں جانتے-
) بدر جلد۹ نمبر۱۳ ۔۔۔۔ ۲۰ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۴ / جنوری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین نے کمال مہربانی سے جناب اکمل صاحب کی درخواست کو شرف|قبولیت عطا فرما کر جمعہ کے خطبہ میں تصوف پر تقریر فرمائی جو ناظرین کے فائدہ کے واسطے درج ذیل ہے-
حضور نے آیات قرآنی الرٰ کتٰب انزلنٰہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور باذن ربھم الیٰ صراط العزیز الحمید- اللہ الذی لہ ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض و ویل للکافرین من عذاب شدید )ابراھیم:۲-۳( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
تصوف کیا چیز ہے ؟ یہ آیت میں نے اسی نقطہ خیال پر پڑھی ہے- یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالنے والا فرمایا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا گزرتا ہے کہ اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وعظ موجب بنتا ہے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کا- مگر ایک اور جگہ پر فرمایا ہے اللہ ولی الذین اٰمنوا یخرجھم من الظلمٰت الی النور )البقرۃ:۲۵۸-( گویا وہی نسبت جو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف فرمائی پھر اللہ نے وہی کام اپنی طرف منسوب فرمایا- یہ بات قابل غور ہے-
حضرت جبرائیلؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لوگوں کو دین سکھانے کے لئے آئے اور پہلا سوال یہی کیا کہ یا محمد اخبرنی عن الاسلام )بخاری کتاب الایمان-( اسلام نام ہے فرمانبرداری کا- سارے جہان کو تو موقع نہیں کہ اللہ کی باتیں سنے- اس لئے پہلے نبی سنتا ہے پھر اوروں کو سناتا ہے- سو پہلا مرتبہ یہی ہے کہ نبی کی صحبت میں رہے اور اس سے فرمانبرداری کی راہیں سنے اور سیکھے- چنانچہ اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سمجھایا کہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲( یعنی سردست تم میرے تابع ہو جائو- اس کی تعمیل میں اسلام لانے والوں نے جیسا انہیں نبی کریمﷺ~ نے سمجھایا‘ کیا-
کلمہ سکھایا‘ کلمہ پڑھ لیا- نماز سکھائی تو نماز پڑھ لی- روزہ‘ حج‘ زکٰوۃ جس طرح فرمایااسی طرح ادا کیا- یہ اسلام ہے- چنانچہ جبرائیل کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں-
الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ و تقیم الصلٰوۃ و توتی الزکٰوۃ و تصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیلاً )بخاری کتاب الایمان- باب سوال جبریل النبی عن الایمان و الاسلام(
مگر چونکہ منافق لوگ بھی ایسی باتوں میں شریک ہو سکتے ہیں اس لئے اس سے اوپر ایک اور مرتبہ ہے- وہ یوں کہ جب انسان یہ اعمال کرتا ہے اور ان کے فوائد و ثمرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر عقائد اس کے دل میں گڑ جاتے ہیں- یہ ایمان کا مرتبہ ہے-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگ آتے تو آپکی باتیں سنتے اور آہستہ آہستہ وہی باتیں دل کے اندر گڑ جاتیں اور اس طرح پر انکو اسلام سے ایمان کا رتبہ ملتا اور وہ کئی ظلمات سے نکل کر نور میں آ جاتے- پہلی ظلمت تو کفار کی مجلس تھی جس کو چھوڑ کر وہ حضور نبوی میں آئے- صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم-
میں نے کئی ڈاکوئوں سے پوچھا ہے کہ تمہیں کبھی رحم نہیں آتا- تم کیسے حیرت انگیز بے رحمی کے کام کرتے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں رحم آتا ہے مگر تنہائی میں- لیکن جب ہم اپنے ہمجولیوں میں بیٹھتے ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے- یہ ان کی صحبت کی ظلمت کا اثر ہے- مواعیظ نبوی آہستہ آہستہ اثر کرتے رہے- پھر اللہ کے احکام کی تعمیل کا شوق پیدا ہوتا ہے اور چونکہ احکام الٰہی کے مظہر اول ملائکہ ہوتے ہیں اس لئے ان پر ایمان لاتا ہے جو اس کے دل میں پاک تحریکیں کرتے ہیں تو یہ ان کی تحریکات کی فرمانبرداری کرتا ہے- پھر اس کے بعد چونکہ ملائکہ کا تعلق شدید نبی سے ہوتا ہے اس لئے اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور ان کی تعمیل کرتا ہے- وہ نبی کو تو پہلے بھی دیکھتا تھا مگر وہ دیکھنا در اصل نہ دیکھنا تھا- چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ینظرون الیک و ھم لایبصرون )الاعراف:۱۹۹-(
اس کے بعد اس کی معرفت بڑھتی ہے اور وہ نبی کو اس کی نبوت کی حیثیت سے پہچانتا ہے تو اس کی کتاب کو پڑھتا ہے- پھر جزا و سزا کے مسئلہ پر ایمان لاتا ہے اور اس طرح اس کا ایمان آہستہ آہستہ بڑھتا ہے- چنانچہ جبرائیلؑ کے سوال ما الایمان کے جواب میں نبی کریمﷺ~ نے فرمایا- ان تومن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الاٰخر و تومن بالقدر خیرہ و شرہ )بخاری کتاب الایمان-( غرض جب مومن کفر و شرک کی ظلمات سے‘ قوم کے رسوم‘ قوم کے تعلقات‘ بزرگوں کی یادداشتوں کی ظلمات سے صحبت نبوی کی برکات کے ذریعے نکلتا ہے اور اس کے دل سے حب لغیر اللہ اٹھتی جاتی ہے تو پھر وہ اللہ جل شانہ کے سارے احکام کو شرح|صدر سے مانتا ہے- اس کے لئے تمام ماسوی اللہ کے تعلقات کو توڑ دیتا ہے اور محض اللہ ہی کا ہو جاتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے جسے احسان کہتے ہیں- اور یہ مومن کی اس حالت کا نام ہے جب اسے ہر حال میں اپنا مولیٰ گویا نظر آنے لگتا ہے اور وہ مولیٰ کی نظر عنایت کے نیچے آ جاتا ہے اور وہ غالباً اس کی رضامندی کے خلاف کوئی حرکت و سکون نہیں کرتا- چنانچہ جبرائیل کے سوال اخبرنی عن الاحسان کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک )بخاری کتاب الایمان( تو اللہ کی فرمانبرداری ایسی کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو یہ سمجھے کہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے- مثال کے طور پر یہ دیکھ لو- جب انسان کسی امیر یا بادشاہ کو اپنا محسن|ومربی سمجھے تو پھر اس کے سامنے اور سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس کے مقابل میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا یا مثلاً بعض لوگ مکان بناتے ہیں تو اس کی تعمیر کی فکر میں ایسے مبہوت ہو جاتے ہیں کہ گویا مکان میں فنا ہو گئے ہیں-
مومن کو چاہئے کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاوے یہاں تک کہ اس کے بغیر اسے کوئی خیال نہ رہے- اس درجہ احسان کو دوسرے لفظوں میں تصوف کہتے ہیں اور ان کا نام صوفی ہے- لصفاء اسرارھم و نقاء احفارھم ان کے دلی خیالات صاف ہوتے ہیں- ان کے اعمال میں کوئی کدورت نہیں ہوتی- ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ صاف ہوتا ہے- وہ خدا کے حضور احکام کی تعمیل کے لئے اول صف میں کھڑے ہونے والے ہوتے ہیں- وہ اس دار الغرور میں دل نہیں لگاتے- چنانچہ تصوف کی تعریف میں فرمایا- التجافی من دار الغرور والانابۃ الیٰ دار الخلود صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے کہ موت نازل ہو- ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ تجارت|وبیع اس کو اللہ|تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی رجال لاتلھیھم تجارۃ و لابیع عن ذکر اللہ )النور:۳۸-( اصحاب|صفہ انہی لوگوں میں سے تھے- یہ لوگ دن بھر محنت و مشقت کرتے‘ اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن شریف کا مشغلہ-
یہ قوم کس طرح تیار ہوئی؟
صحابہ میں تین گروہ تھے- بعض ایسے کہ حضور نبویﷺ~ میں آئے‘ کچھ کلمات سنے‘ کچھ مسائل پوچھے پھر چلے گئے اور بس- نماز پڑھ لی‘ زکٰوۃ دی‘ روزہ رکھا‘ بشرط استطاعت حج کیا اور معروف امور کے کرنے اور نواہی سے رکنے میں حسب مقدور کوشاں رہے-
اور بعض ایسے جو اکثر صحبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بیٹھے رہتے- اس مخلوق کے اندر ایمان رچا ہوا تھا- سخت سے سخت تکلیف‘ مصیبت اور دکھ اور اعلیٰ درجہ کی راحت‘ آرام اور سکھ میں ان کا قدم یکساں خدا کی طرف بڑھتا تھا-
انہی لوگوں میں سے ایسے خواص تیار ہو گئے کہ خدا ان کا متولی ہو گیا- مجھے اس موقع پر ایک شعر یاد آ گیا-: ~}~
قوم ھمومھم باللہ قد علقت
وہ ایسے لوگ ہیں کہ سارا خیال ان کو اللہ کا رہ جاتا ہے اور اس کے بغیر کسی کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں رکھتے- نبی کی اتباع وہ کرتے ہیں مگر اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا- بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں تو اسی لئے کہ اللہ نے حکم دیا- بیوی بچوں سے نیک سلوک بھی اسی لئے کرتے ہیں- وہ دنیا کے کاروبار کرتے ہیں‘ چھوڑ نہیں بیٹھتے مگر یہ سب باتیں‘ یہ سب کام ان کے للہ ہوتے ہیں- چنانچہ فرمایا~}~-
فمطلب القوم مولاھم و سیدھم
باحسن مطلبھم للواحد الصمد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تصوف کی طرف توجہ دلاتے تھے؟
سو اس بارے میں میں بتا چکا ہوں کہ پہلے اسلام سکھاتے تھے‘ پھر ایمان بڑھتا جاتا تھا اور اخیر میں احسان کا درجہ تھا- چنانچہ فرماتا ہے یتلوا علیھم ایٰٰتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ )اٰل|عمران:۱۶۵( یعنی پہلے لوگوں کو احکام الٰہی سنائے جاویں- ان کو کتاب و حکمت سکھائی جاوے- پھر ان کا تزکیہ ہو- تین مرتبے ہیں- یتلوا- یعلمھم- یزکیھم- حدیث میں ان کو اسلام‘ ایمان‘ احسان سے تعبیر فرمایا گیا ہے-
تزکیہ کس رنگ میں فرماتے؟
رسول کریمﷺ~ جب اپنا فرمانبردار کسی کو دیکھتے تو پھر اس کے لئے دعائیں کرتے اور اسی طرح پر اللہ کا فضل خصوصیت سے اس پر نازل ہوتا اور خدا تعالیٰ خود اس کا متولی ہو جاتا- صحابہ میں بھی تین قسم کے لوگ تھے- ایک معلم‘ چنانچہ ابوہریرہؓ- عبد اللہ بن عمرؓ- انس بن مالکؓ- یہ جس قدر لوگ ہیں احکام سناتے رہے-
صحابہ میں سے بعض خواص ایسے تھے جو بہت کم احادیث سناتے جیسے خلفاء راشدین بالخصوص حضرت ابوبکرؓ مگر جو حدیثیں انہوں نے سنائیں وہ ایسی جامع ہیں کہ ان سے بہت سے احکام نکل سکتے ہیں-
بعد اس کے جب لوگوں میں کمی آ گئی تو صحابہ کے آخری اور تابعین کے ابتدائی زمانے میں بادشاہ الگ ہو گئے اور معلم لوگ الگ- جو معلم اسلام کے تھے وہ فقہاء کہلائے- گویا ایک طرف بادشاہ تھے اور ایک طرف فقہاء جن کے ذمے تعلیم کتاب اور تزکیہ یا احسان کا کام تھا- یہی اہل اللہ تھے- چونکہ ایک وقت میں دو خلفاء بیعت نہیں لے سکتے اس لئے ان لوگوں نے بجائے بیعت کے کچھ نشان اپنی خدمت گزاری کے مقرر کر لئے-
مشہور پیر قافلہ جنید بغدادی~رح~ ایک دفعہ‘ بچے ہی تھے کہ مکہ معظمہ اولیاء کرام کی صحبت میں چلے گئے جہاں محبت الٰہی پر مکالمہ ہو رہا تھا- ان لوگوں نے کہا- کیوں میاں لڑکے! تم بھی کچھ بولو گے؟ تو انہوں نے بڑی جرئات سے کہا- کیوں نہیں- اس پر انہوں نے کہا-
لہ عھد ذاھب عن نفسہ متصل بذکر ربہ قائم باداء حقہ ان تکلم فباللہ و فی اللہ و ان تحرک فبامر اللہ و ان سکن فمع اللہ )تذکرۃ الاولیاء فارسی فی ذکر جنید بغدادی( جس کے مختصر معنی یہ ہیں کہ صوفی وہ ہے جو اپنا ارادہ سب چھوڑ دے- کام کرے مگر خدا کے حکم سے- ہر وقت خدا کی یاد سے اس کا تعلق وابستہ رہے- وہ بیوی سے صحبت کرے مگر اس لئے کہ عاشروھن بالمعروف )النسائ:۲۰( کا حکم ہے- کھانا کھائے مگر اس لئے کہ کلوا خدا کا حکم ہے- یہ بڑا سخت مجاہدہ ہے- میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے- آٹھ پہر میں انسان اس میں کئی بار فیل ہو جاتا ہے الا من عصمہ اللہ- غرض وہ شخص اللہ کے تمام احکام ادا کرتا ہے- جب بولتا ہے تو خدا کی تعلیم کے مطابق- ہلتا ہے تو اللہ کے حکم سے- ٹھہرتا ہے تو اللہ کے ارشاد سے- یہ سن کر سب چیخ اٹھے کہ یہ عراقی لڑکا تاج العارفین نظر آتا ہے- ان کے اتباع بہت لوگ نظر آتے ہیں-
غرض معلمین میں سے ایک گروہ تو فقہاء کا تھا- چنانچہ امام ابوحنیفہ‘ شافعی‘ مالک‘ احمد بن حنبل‘ دائود‘ امام بخاری‘ اسحاق بن راہویہ رحمھم اللہ یہ سب لوگ حامی اسلام گزرے ہیں- انہوں نے بادشاہوں کا ہاتھ خوب بٹایا-
دوسرا گروہ متکلمین کا ہے- جن میں امام ابوالمنصور الماتریدی‘ الامام ابوالحسن الاشعری‘ ابن حزم‘ امام غزالی‘ امام رازی‘ شیخ تیمیہ‘ شیخ ابن قیم رحمھم اللہ ہیں-
تیسرا گروہ جنہوں نے احسان کو بیان کیا ہے- ان میں سید عبدالقادر جیلانی~رح~ بڑا عظیم الشان انسان گزرا ہے- ان کی دو کتابیں بہت مفید ہیں- ایک فتح الربانی‘ دوم فتوح الغیب- دوسرا مرد خدا شیخ شہاب الدین سہروردی~رح~ ہے جنہوں نے ’’عوارف‘‘ لکھ کر مخلوق پر احسان کیا ہے- تیسرا آدمی جس کے بارے میں بعض علماء نے جھگڑا کیا ہے مگر میں تو اچھا سمجھتا ہوں‘ شیخ محی الدین ابن عربی~رح~ ہے- پھر ان سے اتر کر امام شعرانی~رح~ گزرے ہیں- پھر محمد انصاری~رح~ ہیں-
ہزار سال کے بعد شاہ ولی اللہ~رح~ صاحب ہیں‘ مجدد الف ثانی~رح~ ہیں- ان لوگوں نے اپنی تصنیف پر زور دیا ہے مگر صرف روحانیت سے- ہندوستان میں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام سکھایا ہے ان میں حضرت معین|الدین چشتی ہیں‘ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہیں‘ حضرت فرید الدین شکر گنج ہیں‘ حضرت نظام|الدین محبوب الٰہی ہیں‘ حضرت نصیر الدین چراغ دہلی رحمھم اللہ ہیں- یہ سب کے سب خدا کے خاص بندے تھے- ان کی تصانیف سے پتہ لگتا ہے کہ ان کو قرآن شریف و احادیث سے کیا محبت تھی- نبی کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ کیا تعلق تھا- یہ بے|نظیر مخلوقات تھیں- بڑا بدبخت
ہے وہ جو ان میں سے کسی کے ساتھ نقار رکھتا ہو- یہ باتیں میں نے علیٰ وجہ البصیرت کہی ہیں-
ایک نکتہ قابل یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رک نہیں سکا- وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمہ~ن۲~ اللہ علیہ کو دیکھا- ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا- ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے- اٹھہتر برس تک انہوں نے خلافت کی- بائیس برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے- یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے-
) بدر جلد۹ نمبر۱۴ ۔۔ ۲۷ 3] fts[ / جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۸-۹ (
۲۱ / جنوری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضور نے و العصر- ان الانسان لفی خسر- الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر )العصر:۲تا۴( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
دو صحابی آپس میں ملتے تھے تو کم از کم اتنا شغل کر لیتے تھے کہ اس سورۃ کو باہم سنا دیں- سو اس نیت سے کہ‘ و الذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ )التوبۃ:۱۰۰( کے ماتحت رضامندی کا حصہ مجھے بھی مل جاوے‘ میں بھی تمہیں یہ سورۃ سناتا ہوں-
’’ عصر ‘‘ کہتے ہیں زمانہ کو جو ہرآن گھٹتا جاتا ہے- دیکھو میں کھڑا ہوں- جو فقرہ بولا اب اس کے لئے پھر وہ وقت کہاں ہے؟ قسم ہمیشہ شاہد کے رنگ میں ہوتی ہے- گویا بدیہیات سے نظریات کے لئے ایک گواہ ہوتا ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی عمر گھٹ رہی ہے جیسے کہ زمانہ کوچ کر رہا ہے- عصر کی شہادت میں ایک یہ نکتہ معرفت بھی ہے- زمانہ کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں جیسا کہ بعض قوموں کا قاعدہ ہے- فارسی لٹریچر میں خصوصیت سے یہ برائی پائی جاتی ہے- اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے لاتسبوا الدھر )مسند احمد بن حنبل-( خدا جس کو گواہی میں پیش کرے وہ ضرور عادل ہے- زمانہ برا نہیں- ہمارے افعال برے ہیں جن کا خمیازہ زمانہ میں ہم کو اٹھانا پڑتا ہے-
’’ عصر ‘‘ سے مراد نماز عصر بھی ہے- اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جیسے شریعت اسلام میں نماز عصر کے بعد کوئی فرض ادا کرنے کا وقت نہیں اسی طرح ہر زمانہ عصر کے بعد کا وقت ہے جو پھر نہیں ملے گا- اس کی قدر کرو-
’’ عصر ‘‘ کے معنے نچوڑنے کے بھی ہیں- گویا تمام خلاصہ اس صورت میں بطور نچوڑ کے رکھ دیا ہے- غرض عصر کو گواہ کر کے انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ایک برف کا تاجر ہے- جو بات لڑکپن میں ہے وہ جوانی میں نہیں- جو جوانی میں ہے وہ بڑھاپے میں نہیں- پس وقت کو غنیمت سمجھو-
ائمہ نے بحث کی ہے کہ جو نماز عمداً ترک کی جاوے اس کی تلافی کی کیا صورت ہے؟ سو سچی بات یہی ہے کہ اس کی کوئی صورت سوائے استغفار کے نہیں- اسی واسطے اللہ تعالیٰ اس ’’خسر‘‘ کی تلافی کے لئے فرماتا ہے کہ ایک تو ایمان ہو جس کا اصل الاصول ہے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ- اسی واسطے میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں کہ وہ اسلام کا خلاصہ ہے- ایمان کیا ہے؟ اللہ کو ذات میں بے ہمتا‘ صفات میں یکتا‘ افعال میں لیس کمثلہ )الشوریٰ:۱۲( ]text [tagیقین کیا جاوے- چونکہ اس کے ارادوں کے پہلے مظہر ملائکہ ہیں اس لئے ان کی تحریک کو تسلیم کیا جاوے-
برہمو جو قوم ہے یہ بڑے بری زبان کے لوگ ہیں- اسلام کے سخت دشمن ہیں- میں حیران ہوتا ہوں جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑے اچھے ہوتے ہیں- یہ تو تمام انبیاء کو مفتری قرار دیتے ہیں- اس سے بڑھ کر اور کوئی گالی کیا ہو سکتی ہے کہ خدا کے راستبازوں کو مفتری سمجھا جاوے- چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے و من اظلم ممن افتریٰ علی اللہ کذباً )الانعام:۲۲-( text] ga[tایک برہمو سے میں نے انبیاء کے دعواے وحی حق کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا- ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس قوم کو انبیاء کی نسبت کیسا گندہ خیال ہے- یہ لوگ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت یرسل رسولاً )الشوریٰ:۵۲( اور اس کے متکلم ہونے کے قائل نہیں اور ملائکہ ماننا شرک ٹھہراتے ہیں- حالانکہ خدا نے انہیں عباد مکرمون )الانبیائ:۲۷( فرمایا ہے- اور جن پر وہ نازل ہوتے ہیں ان کی نسبت فرمایا nsk] gat[ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ )النسائ:۸۱-(
پھر جزا سزا کا ایمان ہے جو بہت سی نیکیوں کا سرچشمہ ہے- ایک شخص نے مجھے کہا کہ آپ تو ابدالآباد غیر منقطع عذاب کے قائل نہیں- اس کا مطلب یہ تھا کہ آخر ہم بھی تمہارے ساتھ آملیں گے- بازار میں جا رہے تھے- میں نے کہا کہ روپے لو اور دو جوت کھا لو- نہ مجھے کوئی جانتا ہے نہ تمہیں- اس نے قبول نہ کیا کہ میری ہتک ہوتی ہے- میں نے کہا پھر جہاں اولین آخرین جمع ہوں گے وہاں یہ بے عزتی کیسے گوارا کر سکو گے؟
پھر ایمان بالقدر تمام انسانی بلند پروازیوں کی جڑ ہے- کیونکہ جب یہ یقین ہو کہ ہر کام کوئی نتیجہ رکھتا ہے تو انسان سوچ سمجھ کر عاقبت اندیشی سے کام کرتا ہے- دیکھو اماطۃ الاذیٰ عن الطریق )مسلم|کتاب|الایمان( بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے اور اس سے انگریز قوم نے خصوصیت سے فائدہ اٹھایا ہے- پشاور سے کلکتہ تک رستہ صاف کیا تو کیا کچھ پایا- مسلمان اگر مسئلہ قدر پر ایمان مستحکم رکھتے تو ہمیشہ خوشحال رہتے- پھر جیسا ایمان ہو اسی کے مطابق اس کے اعمال صالحہ ہوں گے- نماز‘ زکٰوۃ‘ روزہ‘ حج‘ اخلاق|فاضلہ‘ بدیوں سے بچنا‘ یہ سب ایمان کے نتائج ہیں-
پھر اسی پر مومن سبکدوش نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ جو حق پایا ہے اسے دوسروں کو بھی پہنچائے اور اس حق پہنچانے میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرے اور صبر کی تعلیم دے- صوفیاء میں ایک ملامتی فرقہ ہے- وہ بظاہر ایسے کام کرتا ہے جس سے لوگ ملامت کریں- رنڈیوں کے گھروں میں کسی دوست کے سامنے چلے جائیں گے- وہاں جا کر پڑھیں گے قرآن شریف اور نماز مگر رات وہیں بسر کریں گے- حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر خود ملامتی فرقہ ہوتا ہے- جب مومن کسی کو بری رسوم و عادات کی ظلمت سے روکے گا تو تاریکی کے فرزندوں سے ملامت سنے گا- میرا حال دیکھ لو- کیا ملامتی فرقے والے مجھ سے زیادہ بدنام ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں- پس مومن کو کسی فرقے میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ حق کا مبلغ اور اس پر مستقل مزاجی اور استقامت سے قائم رہے- پھر وہ ہر قسم کے دنیا و آخرت کے خسران سے محفوظ رہے گا-
) بدر جلد ۹ نمبر ۱۵ ۔۔ ۳ / فروری ۱۹۱۰ء صفحہ۱-۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ * ][
۵ /فروری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
گذشتہ یوم الاحد کو علی الصبح بعد نماز فجر حضرت ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی دختر نیک اختر مسمات مہر النساء بیگم کے عقد نکاح حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم - اے کے ساتھ کا اعلان ہوا- حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ نے خطبہ پڑھا- عورتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ -:
جیسا کہ میں مردوں کو باربار تاکید کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کیا کریں ایسا ہی میں عورتوں کو بھی خاوندوں کے حقوق کے متعلق وعظ کیا کرتا ہوں- عورت اور مرد کے درمیان بہت محبت کے تعلقات ہونے چاہئیں جن سے مومنوں کے گھر نمونہ بہشت بن جائیں-
خدا تعالیٰ نے میرے اندر محبت کی بہت خاصیت رکھی ہے جس کا اظہار میں کم کرتا ہوں- میرے دل میں کسی کے واسطے بغض اور عداوت ہرگز نہیں- اگر کسی پر میں ناراض ہوتا ہوں تو وہ ایک وقتی بات اور تھوڑی سی بات ہوتی ہے جسے دوسرے کی خیر خواہی کے واسطے درد دل کے ساتھ ظاہر کرنا پڑتا ہے ورنہ عموماً میں اپنے دل میں محبت کا ایک جوش پاتا ہوں-
) مہر ایک ہزار روپے مقرر ہوا- بعد اعلان دعا کی گئی- (
) بدر جلد۹ نمبر۱۹ ۔۔۔۔ ۱۰ /فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۷ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۸/فروری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا -:
انسان کو اپنے خالق و رازق و محسن سے محبت ہوتی ہے مگر محبت کا نشان بھی ہونا چاہئے- اس لئے فرمایا ہے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲( یعنی کہہ دے اگر تمہیں اپنے مولیٰ سے محبت کا دعواے ہے تو اس کی پہچان یہ ہے کہ میری اتباع کرو- پھر تم محب کیا‘ اللہ کے محبوب بن جائو گے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اتباع کے لئے آپ کے کچھ حالات‘ جو قبل از دعویٰ|نبوت تھے‘ وہ ان کی محرم راز بی بی نے بیان کئے ہیں- مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے سید و مولیٰ کی عادات کی پیروی کریں کیونکہ ان خصائل والا ذلیل نہیں ہوتا اور دنیا میں کون ہے جو عزت نہیں چاہتا- ذلت کے کئی اسباب ہیں)۱-( ایسی بدنماشکل ہو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں )۲-( محتاج ہو‘ سائل بن کر جانا پڑے )۳-( اولاد پر کوئی صدمہ گزرے )۴-( ننگ و ناموس پر حملہ کیا جاوے- غرض ایسی تمام ذلتوں سے بچنے کا یہی گر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حالات سے واضح ہوتا ہے-
آپ کی بی بی فرماتی ہیں- انک لتصل الرحم )بخاری کیف کان بدء الوحی-(پہلی بات تو تم میں یہ ہے کہ جہاں ماں کا تعلق ہو یا بی بی کا‘ اس کا تو بہت لحاظ رکھتا ہے- ماں کے سبب سے بھائیوں سے محبت ہوتی ہے‘ دادی کے سبب چچوں کے ساتھ- جو لوگ رحم کا لحاظ رکھتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں ان کو اللہ ذلت سے بچاتا ہے- )۲-( و تحمل الکل کسی بیچارے کے دکھ کو برداشت کر لیتا ہے- کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتا اور اس کا بوجھ ہلکا کرتا ہے- )۳-( و تقری الضیف نووارد کی مہمان نوازی کرتا ہے )۴-(و تعین علیٰ نوائب الحق اور جو ضرورتیں وقتاًفوقتاً قوم و دین کے لئے پیش آئیں تو ان ضرورتوں کے لئے جان مال سے مدد کرتا ہے- )۵-( و تصدق الحدیث جو بات منہ سے نکالتا ہے وہ سچ ہوتی ہے- افسوس کہ آجکل لوگ معاہدات کا خلاف کرتے ہیں اور جھوٹ بولنا معمولی بات سمجھتے ہیں اور امانت میں خیانت کرتے ہیں- )۶-( و تکسب المعدوم جو پاک فضیلتیں اور سچائیاں معدوم ہو گئی ہیں ان کو تو ازسرنو رواج دیتا ہے-
مومن کو چاہئے کہ ایسی صحبتوں کو حاصل کرے جن میں بیٹھ کر اس کی اصلاح ہو- تم بھی یہ نیکیاں حاصل کرو- یاد رکھو کہ ہر ایک نیکی و بدی بمنزلہ بیج کے ہے اور ابتداء میں نیک یا بد کام بہت خفیف ہوتا ہے مگر بڑھتے بڑھتے بڑا عظیم الشان ہو جاتا ہے- بدنظری ایک خفیف بات معلوم ہوتی ہے مگر یہی بڑھتے بڑھتے زنا تک پہنچتی ہے- پس تم اپنے اعمال کا محاسبہ کرو کہ بدی کو ابتداء میں روکو اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کے حاصل کرنے میں بھی دیر نہ لگائو- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دیوے- آمین-
) بدر جلد۹ نمبر۸ -- ۲۴/فروری ۱۹۱۰ء صفحہ۲ (
* - * - * - *

۲۵ / فروری ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا-:
التحیات للٰہ و الصلوات و الطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین )جامع|الصغیر( ہر دو رکعت کے بعد پڑھا جاتا ہے- جس قدر کوئی احسان کرے اسی قدر اس سے محبت بڑھتی ہے اور ایثار پیدا ہوتا ہے- نبی کریمﷺ~ نے فرمایا جبلت القلوب علیٰ حب من احسن الیھا )جامع الصغیر(اللہ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہیں- معدوم تھے‘ وجود دیا‘ پھر وجود بھی انسانی دیا- پھر مسلمان پیدا کیا اور مسلمانوں میں بھی اس مذہب پر چلایا جو کسی صحابی کو برا نہیں کہتا- میں نے تاریخ کی بڑی بڑی کتابیں پڑھی ہیں‘ تشیید المطاعنبھی- مگر ان کے مطالعہ کے بعد بھی میرے دل میں صحابہ کی محبت کے سوا کچھ نہیں- پھر ہم مسلمانوں کے اس فرقے سے ہیں جو اہل بیت سے سچی محبت رکھتے ہیں- پھر اس نے مجھ پر تو یہ غریب نوازی بھی کی کہ میں وہ گروہ جو اہل اللہ‘ صوفیاء اور اولیاء کا ہے ان کے اقوال کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں- سہروردی‘ چشتی‘ قادری‘ نقشبندی‘ حضرت خواجہ عثمان~رح‘~ خواجہ معین الدین~رح‘~ حضرت فرید الدین شکر گنج‘ حضرت نظام الدین اولیائ~رح‘~ حضرت چراغ دہلوی~رح‘~ حضرت بہائو الدین زکریا~رح‘~ حضرت نقشبند خواجہ باقی باللہ~رح‘~ حضرت مجدد سرہندی~رح‘~ حضرت سید عبدالقادرجیلانی~رح‘~ حضرت ابوالحسن شاذلی~رح‘~ حضرت احمد رفاعی~رح‘~ یہ تمام گروہ ہی مجھے محبوب نظر آتا ہے- پھر اس مولیٰ نے یہ احسان کیا کہ مجھے کسی کا محتاج نہیں کیا اور ہر ضرورت کے موقع پر میری دستگیری کی- ایک دفعہ ایک امیر کے لئے میں نے عظیم الشان تحفہ تیار کیا اور اس کے پیش کیا- مگر اس نے میری روٹی بھی نہ پوچھی- ایک ہتھیار میں نے ایک امیر کے پیش کیا- دیکھ کر کہنے لگا پسندیدہ ہے- آپ ہی رکھیئے- پس کیا ہی محسن ہے میرا مولیٰ جو بلا مانگے مجھ پر اتنے احسان کرتا ہے-
التحیات للٰہ کے یہ معنے ہیں کہ زبان سے اگر ہم تعریف کریں‘ ثناء کریں‘ غرض تمام شکر گزاریاں جو زبان کے ذریعہ سے ادا ہو سکتی ہیں وہ خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کے لئے ہونی چاہئیں- اسی طرح بدن کے ذریعہ کوئی شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور جو عبادت بدن ادا کرتا ہے مثل سجدہ‘ حج‘ روزہ‘ نماز تو وہ بھی اللہ ہی کے لئے ہے- اسی طرح کل مالی عبادتیں بھی اسی اللہ کے لئے ہیں- رزق ہماری ضرورت سے پہلے پیدا ہوتا ہے- ہم ابھی ماں کے پیٹ سے باہر نہ آئے تھے کہ چھاتیوں میں دودھ آیا- جو نمک ہم آج سالن میں کھاتے ہیں وہ مدت ہوئی کہ کان سے نکل چکا ہے‘ پھر وہاں سے بڑے شہر میں پہنچا‘ پھر اس گائوں کی دکانوں میں آیا‘ پھر ہمارے حصہ کا الگ ہو کر گھر آیا‘ پھر ہانڈی میں سب کے لئے تھا تو لقمہ کے ساتھ لگ کر میرے منہ میں آیا- اسی طرح کپڑے کا حال ہے- غرض کیا کیا احسان ہیں اس مولیٰ کے- پس مالی شکریہ بھی اسی کے لئے ہونا چاہئے- یہ غلط ہے کہ خدا نے کسی کو مال دینے میں بخل کیا بلکہ اس نے تو فرما دیا ہے و اٰتاکم من کل ما سالتموہ )ابراھیم:۳۵-(پھر اس کے غلط استعمال یا اپنی شامت اعمال نے لا توتوا السفھاء اموالکم )النسائ:۶( کے ماتحت کسی کے لئے اس میں تنگی پیدا کر دی- پھر دوسرے درجہ پر محسن ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم- کیا کیا تڑپ تڑپ کر دعائیں مانگی ہوں گی- کیا سوز دل سے التجائیں کی ہوں گی تب یہ دین اسلام ہم تک پہنچا- پس السلام علیک ایھاالنبی
میں ہم اس کے لئے سلامتی کی دعا مانگتے ہیں کہ دین اسلام سلامت رہے- قیامت کے دن اس کی عزت میں فرق نہ آئے- وہ سیدالاولین و الآخرین ثابت ہو- پھر اس چشمہ کو السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین میں اور بھی بڑھایا ہے- جس قدر مخلوق میں اولیاء ہیں‘ خلفاء ہیں‘ نواب ہیں‘ مبلغین ہیں ان سب کے لئے سلامتی چاہی ہے- میں نے دیکھا کہ ایسی دعا سے بعض وقت آسمان میں شور پڑ جاتا ہے- ) بدر جلد۹ نمبر۱۹ ۔۔۔ ۳ / مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۲ (

۲۵/ مارچ ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد ‘ تعوذ ‘ تسمیہ اور سورۃ العصر کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
تمام خطبے جو دنیا میں پڑھے جاتے ہیں رسول اللہ کے زمانہ سے اس زمانہ تک‘ ان سب کی ابتداء کلمہ|شہادت سے ہوتی رہی ہے- پہلا جملہ لا الٰہ الا اللہ ہے- اس کے تین فائدے ہیں-
)۱-( پہلا فائدہ - جو شخص بآواز بلند اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کہہ لیتا ہے ہم اس کو مسلمان سمجھتے ہیں-
)۲-( دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ جب اس کو حقیقی طور پر ایمان آتا ہے تو دنیا کے تمام ذرائع واسباب میں‘ جو حصول مقاصد کے لئے مفید وبابرکت ہو سکتے ہیں‘ یقین کرتا ہے کہ سب تاثیر میرے مولیٰ کی ہے-
)۳-( تیسرا فائدہ اس کا یہ ہے جس کی شہادت کے لئے تمام انبیاء اولیاء یک زبان ہیں کہ جب اس کی کثرت کی جاوے اور بار بار اس کو دہرایا جاوے تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے جتنے پردے ہیں بتدریج سب کے سب اٹھ جاتے ہیں-
اس کلمہ کے دو حصے ہیں- ایک میں لا الٰہ دوسرے میں الا اللہ ہے- پہلا حصہ انسان کے گناہوں کے دور کرنے کا اور دوسرا حصہ نیکیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے- اس کلمہ کے ساتھ حضرت نبی کریم ~صل۲~ نے اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کا جملہ اس لئے لگایا کہ زمانہ گزشتہ میں آپ نے دیکھ لیا تھا کہ پہلے ہادیوں کو لوگوں نے معبود بنا لیا تھا اس لئے رسول اللہ ~صل۲~ نے اس توحید کی تکمیل کے لئے کہ خدا کی معبودیت میں کوئی دوسرا شریک نہ کیا جاوے بلکہ مجھے عبد سمجھیں‘ یہ کلمہ بڑھا دیا تا میری قوم وہ نہ کرے جو پہلی قوموں نے کیا-
میں اس جزو کو اس توحید کا متمم یقین کرتا ہوں اور یہ سچ ہے کہ اس جزو کے سوا حقیقت میں مومن کامل نہیں بن سکتا-
جب اللہ تعالیٰ پر انسان ایمان لاتا ہے جو لا الٰہ الا اللہ کا منشاء ہے تو اسماء الٰہی کا مطالعہ کرنے سے ملائکہ‘ انبیائ‘ تقدیر‘ حشر نشر‘ پل صراط‘ جنت ونار پر ایمان لانا لازم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خدا کی صفات ہیں کہ تقدیر اس نے بنائی- جنت ونار کو بنایا-
پس جو کوئی لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے لابد ہے کہ خدا کے اسماء وصفات پر ایمان لائے- تب اس کو انبیائ‘ حشر ونشر‘ ملائکہ‘ کتب پر ایمان لانا ضروری ہو جاتا ہے-
قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا و الذین یومنون بالاٰخرۃ یومنون بہ و ھم علیٰ صلاتھم یحافظون )الانعام:۹۳-( انسان جب اللہ پر ایمان لاتا ہے تو آخرت پر ایمان لے آتا ہے اور جزاو سزا کے اعتقاد کے بعد ضرور ہے کہ قرآن اور رسول کریم ~صل۲~ پر ایمان لائے جس کے ساتھ ملائکہ وکتب کا ایمان بھی آگیا اور پھر مومن نماز کا پابند ہو جاتا ہے-
پس جو لا الٰہ الا اللہ کا دعویٰ کرے بایں ہمہ نماز کا تارک رہے اور قرآن شریف کی اتباع میں سستی کرے‘ حقیقت میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے دعویٰ میں سچا نہیں جیسا کہ یہ آیت )یومنون بہ( ظاہر کرتی ہے کیونکہ حضرت نبی کریم کا تذکرہ اس کلمہ میں موجود ہے-
اب ہم کو ضرورت پڑی کہ ہم کوئی ایسا لفظ کہیں کہ رسول اللہ ~صل۲~ کس درجہ کا انسان تھا- رسول|اللہ ~صل۲~ کے درجہ کا پتہ لگانا‘ اس کے واسطے یہ آیتیں سامنے رکھنی چاہئیں- )۱( انک لعلیٰ خلق عظیم )القلم:۵( اور دوسری میں فرماتا ہے- و کان فضل اللہ علیک عظیماً )النسائ:۱۱۴( اللہ|تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کو عظیم فرماتا ہے اور ان پر جو فضل ہوا اسے بھی عظیم فرمایا- اب خیال کرو کہ جس کو خدا تعالیٰ نے عظیم کہا وہ کس قدر عظیم ہو گا- اب جو رسول اس شان کا ہے اس کے بغیر ہم کو کسی اور کے مقتدا بنانے کی ریج بھی کیا ہوئی-
جو کتاب اللہ جلشانہ نے اس کامل انسان پر نازل کی ہے اس کے لئے دو گواہیاں ہیں-
)۱( انا لہ لحافظون )الحجر:۱۰( اور )۲( لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ )حم السجدۃ:۴۳(
اس کتاب کا محافظ حضرت حق سبحانہ ہے جس کے لئے آئندہ پیشگوئی ہے کہ اس کتاب کی باطل کرنے والی آئندہ بھی کوئی چیز نہیں بھیجیں گے-تو پھر ہم کو سائنس یا بیرونی خطرناک دشمن سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے جب کہ ہم کو ایسی کتاب دی گئی ہے کہ جس کا خدا حافظ ہے اور جس کی باطل کرنے والی کوئی چیز فطرت کے خالق نے پیدا ہی نہیں کی-
پس جیسا ہمارا رسول کامل ہے ویسے ہی ہماری کتاب کامل ہے- یہ کتاب تو قیامت تک رہے گی مگر ایسی کامل کتاب ہمارے گھروں سے نکل کر دوسرے گھروں میں چلی گئی تو ہمارے بزرگوں کی روح کو کیا خوشی ہو گی- پس خوف ہے تو یہ کہ ہمارے گھروں سے یہ کتاب نہ نکلے اور ہم اس کی اتباع سے محروم نہ رہیں- اور میں دیکھتا ہوں کچھ امراء ہیں ‘ کچھ سجادہ نشین اور کچھ وہ لوگ ہیں جو قوم کے لئے آئندہ کالجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں- یہ لوگ اگر سست ہوں تو عوام مخلوقات کا کیا حال ہو سکتا ہے- اس واسطے میں نے یہ سورۃ عصر پڑھی تھی- میرا مقصد اس کے پڑھنے سے یہ بتانے کا ہے کہ زمانہ جس طرح کی تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں بھی گزر رہی ہیں- یعنی عصر کا آناً فاناً گزرنا ہماری عمروں پر اثر ڈال رہا ہے-
اللہ نے اس کا یہ علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہ ہو‘ اگر ہمارا حکم مان لو- وہ حکم یہ ہے کہ مومن بنو اور عمل صالحہ کرو- دوسروں کو مومن بنائو اور حق کی وصیت کرو اور پھر حق پہچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو-
یہ وہ سورۃ ہے کہ صحابہ کرام جب باہم ملتے تو اس سورۃ کو پڑھ لیا کرتے- تم اور ہم بھی آج ملے ہیں اس لئے اسی سنت کریمہ کے مطابق میں نے بھی اس کو پڑھا ہے-
اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں تم میرے دل کو چیر کر نہیں دیکھ سکتے‘ نہ اس کا لکھا پڑھ سکتے ہو- البتہ میری زبان کے اقرار سے پوچھے جائو گے اور اس سے اگر نفع اٹھائو تو تمہارا بھلا ہو گا-
میں جس ایمان پر قائم ہوں وہ وہی ہے جس کا ذکر میں نے لا الٰہ الا اللہ میں کیا ہے- میں اللہ کو اپنی ذات میں واحد‘ صفات میں یکتا اور افعال میں لیس کمثلہ شی ء )الشوری:۱۲( اور حقیقی معبود سمجھتا ہوں- میں اللہ تعالی کے ملائکہ پر ایمان لاتا ہوں جو اللہ نے پیدا کئے ہیں- اور تمام ان رسولوں اور کتابوں پر جو اللہ تعالی نے بھیجیں ایمان رکھتا ہوں- میرا یقین ہے کہ تمام انبیائ‘ تمام اولیاء اور تمام انسانی کمالات کے جامع لوگوں میں ایک ہی ہے جس کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے- میرے واہمہ کے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ کوئی اور ہو- حضرت صاحب کا ایک شعر یاد آگیا-
اے در انکار و شکے از شاہ دیں
خادمان و چاکرانش را بہ بیں
ہم جب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کیسے پاک گروہ تھے اور مجدد کیسے- یہ تو قصے کہانی بات ہو جاتی- لیکن تمہارا وجود اس گائوں میں گواہی ہے کہ احمد کا غلام بننے سے کیا فضل آتا ہے- میں تم کو اب اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ میرے پھر تقریر کرنے تک تمہیں کوئی بات سنائے یا تقریر کرے تو یاد رکھو ہمارا معیار یہ ہو گا کہ ان مذکورہ بالا عقائد کے موافق کوئی بات ہو یا اس کی تفصیل ہو تو ہماری طرف سے ہے اور اگر اس کے خلاف کسی کے منہ سے نکلے تو وہ ہمارے عقائد کے مطابق نہیں-
اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے آیا ہے جیسا کہ اس سورۃ شریف سے ظاہر ہے اس لئے جہاں دین کی بہت سی باتیں پہنچانی پڑتی ہیں وہاں ہم تم کو دنیا کے متعلق بھی ایک مختصر سی بات سناتے ہیں- اور وہ بھی دراصل دین ہی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا کام امن پر موقوف ہے اور اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہو سکتا- جس قدر امن ہو گا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا- اس لئے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امن کے ہمیشہ حامی رہے- آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے- اس زندگی کے فرائض سے امن ہے- اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین|ودنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے- اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں امن بڑھانے کی کوشش کرو- اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے‘ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے- میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو-
اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو- اللہ سے اس کا بدلہ مانگو- اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے-
میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کے قائم کرنے میں کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ہم کو ضرور دے گا اور اگر ہم خلاف ورزی کریں گے تو اس کے بد نتیجے کا منتظر رہنا پڑے گا-
دوسری بات جو سمجھاتا ہوں وہ یہ ہے کہ باہم محبت بڑھائو اور بغضوں کو دور کردو اور یہ محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو اور یاد رکھو صبر والے کے ساتھ خدا خود آپ ہوتا ہے- اس واسطے صبر کنندہ کو کوئی ذلت وتکلیف نہیں پہنچ سکتی-
تیسری بات جو میں کہنی ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب نے ’’فتح اسلام‘‘ میں پانچ شاخوں کا ذکر کیا ہے اور ان پانچ شاخوں میں چندہ دینے کی تاکید کی- مثلاً آپ کی تصانیف کی اشاعت‘ اشتہارات کی اشاعت‘ آپ کے لنگرخانہ کو مضبوط کرنے کی تاکید اور مہمان خانہ کی ترقی کی طرف توجہ اور آمد|و|رفت پر بعض وقت جو خرچ پڑتے ہیں- ان کے لئے مکان بنانے پڑتے ہیں-
ان میں انفاق کرنے کی تاکید آپ نے فرمائی ہے- میں اس تاکید پر تاکید کرتا ہوں کہ ہمارا مہمان اور دینی مدرسہ بہت کمزور رنگ میں ہے- ہمارے بھائیوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ ان دونوں امور کی طرف بہت کوشش کریں اور انفاق سے کام لیں- پھر یہ بھی تاکید کرتا ہوں جو کتابیں بیچتے ہیں اور بہت اخلاص سے کام لیتے ہیں ان کی کتابوں میں دوآنہ‘ چار آنہ کی امداد دینے سے دریغ نہ کریں-
ایک ہمارے دوست مولوی حسن علی صاحب نے اخلاص سے ’’تائید حق‘‘ نام لکھی ہے- حضرت|صاحب کے زمانہ میں اس کو شائع کیا ہے لیکن اس کی کئی سو جلدیں یہاں پڑی ہیں وہ بھی خرید لیں-
میں یہ باتیں اس لئے بتاتا ہوں کہ تم کو دین اور دنیا دونوں کا وعظ کروں- یہ نہیں کہ مجھے دنیا کی غرض ہے کیونکہ میری عمر کا بہت بڑا حصہ اللہ کے فضل سے گزرا ہے- یہ تھوڑے دن جو باقی ہیں‘ میں مخلوق سے سوال کرنے میں اپنی ہمت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا-
)بدر جلد۹ نمبر۲۳ ----- ۳۱ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۴ - ۵ (
* - * - * - *
‏KH1.32
خطبات|نور خطبات|نور
۲۶ / مارچ ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۶ مارچ ۱۹۱۰ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک نکاح کا اعلان فرمایا- اس سلسلہ میں آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ ذیل میں درج کیاجاتا ہے-
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ عورتوں کے حقوق کی خصوصیت سے نگہداشت کرو اور ان پر رحم کرو- ان کے قصوروں سے درگزر کرو کہ جس قدر گرم و سرد زمانہ تم نے دیکھا ہے‘ انہوں نے کب دیکھا- جس قدر تبادلہ خیالات کا موقع تمہیں مل سکتا ہے ان کو کب ملتا ہے-
آدم کا بیٹا آدم ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے یٰاٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ )البقرۃ:۲۶-( پس تم اپنی بیبیوں کے ساتھ ایسے شیروشکر ہو کر رہو کہ تمہارا گھر جنت بن جاوے اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپس میں پیار و محبت‘ عفو‘ درگذر ہو- چنانچہ تاکیداً فرماتا ہے و لاتقربا ھٰذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین )البقرۃ:۳۶-(شجرہ‘ شجر سے دوسرے مقام پر ہے- حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم )النسائ:۶۵( جس کے معنی جھگڑے کے ہیں- پس جھگڑے سے بچو ورنہ اپنے تئیں سخت مصیبت میں ڈالنے والے ہو گے-
بی بی کے نکاح کا مقصد ہے لتسکنوا الیھا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ )الروم:۲۲-(اگر نکاح سے یہ باتیں حاصل نہیں تو حیف ہے تمہاری زندگی پر!
لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عورت ناپسند ہے- میں کہتا ہوں کہ تم اس ناپسند و مکروہ کو خدا کے لئے پسند کر لو‘ اللہ اس میں خیر کثیر کر دے گا اور اسی تعلق میں تمہارے لئے بہت سے سکھ بہم پہنچاوے گا- چنانچہ فرماتا ہے فان کرھتموھن )النسائ:۲۰( فعسیٰ ان تکرھوا شیئاً و ھو خیر لکم )البقرۃ:۲۱۷-(
اسی موقع پر میں تمہیں عربی زبان کے سیکھنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں- نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عربی کی طرف بہت توجہ دلائی کیونکہ ہمارے دین کی کتاب عربی میں ہے- جمعہ کے خطبہ میں عربی‘ نماز میں عربی‘ گھر سے نکلتے وقت‘ بازار میں جاتے حتیٰ کہ پاخانہ سے نکلتے اور داخل ہونے کے واسطے بھی عربی دعائیں ہیں- روزہ کے افطار کے واسطے عربی )دعا( ہے- یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے اور دنیا کے کسی حصہ میں کوئی مسلمان ہو اسے کچھ نہ کچھ عربی بولنی ہی پڑتی ہے- پس تم عربی سیکھو-
میں تمہیں اعلیٰ زبان دان ہونے کی سفارش نہیں کرتا کہ فیضی‘ ابن سینا‘ متنبی‘ ابوالعلاء معری بڑے زبان دان تھے مگر لوگ ان پر ناراض ہیں-
اس کے بعد آپ نے بیعت لی اور فرمایا کہ میں نے چار بزرگوں کی بیعت کی- ایک بزرگ تھے بخارا کے‘ دوسرے عبد القیوم بھوپال کے رہنے والے‘ تیسرے شاہ عبد الغنی مہاجر اور چوتھے اس وقت کے امام مرزا غلام احمد مسیح مہدیؑ-
میں نے بقدر اپنی طاقت کے ان کی سچی فرمانبرداری میں کوشش کی- ان سب کی روحوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بادل ہوں-
تین وظیفے ہیں- استغفار لاحول‘ درود‘ الحمدللہ- قرآن پڑھو- مخلوق کو پہنچائو- اللہ تمہیں توفیق بخشے-
) بدر جلد۹ نمبر۲۴ ۔۔۔۔ ۷ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۶ - ۷ (
* - * - * - *

۸ / اپریل ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ باوجود ضعف و نقاہت و علالت کے مسجد میں تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا-
تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی ان اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون )النحل:۱۲۹(
اور پھر فرمایا-:
جب میں بچہ تھا میں نے اپنے شہر میں اس آیت کریمہ کا وعظ سنا تھا- تین چار مہینے اس کا وعظ ہوتا رہا- ان اللہ مع الذین اتقوا متقیوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے- کسی کے ساتھ کسی کا باپ ہے- کسی کے ساتھ باپ اور ماں دونوں ہیں- کسی کے ساتھ اس کے بھائی ہیں- کسی کے ساتھ اس کے دوست- کسی کو اپنے جتھے پر ناز ہے- غرض معیت کے سوا انسان خوشحال نہیں ہو سکتا- میں نے دیکھا ہے بیوی ہو تب انسان خوش ہوتا ہے- حاکم ہو‘ فوج ہو‘ مال و اسباب ہو جب جا کر خوشی حاصل ہوتی ہے- معیت کا انسان متوالا ہے- میری طبیعت میں محبت کا مادہ ہے- میں نے دیکھا ہے کہ محبت بھی معیت کو چاہتی ہے- بطال لوگوں میں محبت کا مادہ ہو تو وہ بھی معیت کے متوالے ہوتے ہیں- صوفیوں میں ان بطال لوگوں کے متعلق بحث یہی ہے- مگر اس سے انکار نہیں کہ معیت کی تڑپ سب میں ہے- انسان جب سرد ملکوں میں جاوے تو گرم کپڑوں کی معیت- ریل کاسفر کرے تو پیسوں کی معیت چاہیے-
غرض انسان معیت کے بغیر کچھ بھی نہیں- مگر خدا کی معیت سے بڑھ کر کوئی بھی معیت نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت موجود ہے- سوتے‘ جاگتے- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری معیت چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو- تقویٰ میں تمام عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ آ جاتے ہیں- چنانچہ اس کے ساتھ ہی ’’محسنون‘‘ فرمایا اور احسان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی عبادت کرنا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے-
میں اس وقت بڑی مشکل سے یہاں آیا ہوں- میرے سر میں ایسا درد ہے جیسا کوئی سر پر کلہاڑی چلاتا ہے- میں نے اس مرض میں اپنی اور تمہاری حالت کا بہت مطالعہ کیا ہے- بعض اوقات مجھ کو اپنی آنکھوں کا بھی ڈر ہوا ہے- بعض اوقات العین حق )بخاری کتاب الطب( کا بھی خیال آیا ہے- غرض عجیب عجیب خیالات گزرے ہیں- ان میں سے ایک بات تمہیں سناتا ہوں- میرا ارادہ تھا کہ میں صرف عربی اشھد ان لا الٰہ الا اللہ text] [tagکہہ کر بیٹھ جائوں- مگر قدرت ہے جو مجھ کو بلاتی ہے- اس واسطے یوں ہی سمجھ لو کہ یہ میرا آخری کلمہ ہے- یوں بھی سمجھ لو کہ یہ آخری دن ہے- تم لوگ بھی یہاں اکٹھے ہوئے تھے- گوروکل‘ انجمن حمایت الاسلام ‘علی گڑھ والے بھی اکٹھے ہوئے ہیں- وہاں بھی رپورٹیں پڑھی گئی ہیں‘ یہاں بھی- ہمارے رپورٹر نے بھی رپورٹ پڑھ دی کہ اتنا روپیہ آیا‘ اتنا خرچ ہوا- پر میں سوچتا رہا ہوں کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے- یہ روپیہ تو بذریعہ منی آرڈر بھی بھیج سکتے تھے اور رپورٹ چھپ کر ان کے پاس پہنچ سکتی تھی- میرے اندازہ میں جو آدمی یہاں آئے تین ہزار سے زیادہ نہ تھے- پھر جو لوگ عمائد تھے وہ اگر مجھ سے علیحدہ ملتے تو میں ان کے لئے دعائیں کرتا‘ انہیں کچھ نصیحتیں دیتا- لیکن افسوس کہ اکثر لوگ اس وقت آئے کہ لو جی! سلام علیکم یکہ تیار ہے- تم یاد رکھو میں ایسے میلوں سے سخت متنفر ہوں- میں ایسے مجمعوں کو جن میں روحانی تذکرہ نہ ہو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں- یہ روپیہ تو وہ منی|آرڈر کر کے بھیج سکتے تھے بلکہ اس طرح بہت سا خرچ جو مہمانداری پر ہوا وہ بھی محفوظ رہتا- یہاں کے دکانداروں نے بھی افسوس! دنیا کی طرف توجہ کی اور کہا کہ جلسہ باہر نہ ہو‘ شہر میں ہو‘ ہماری چیزیں بک جاویں- میں ایسے اجتماع اور ایسے روپے کو جو دنیا کے لئے ہو‘ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں- جو سن رہا ہے وہ یاد رکھے اور دوسروں تک یہ بات پہنچاوے- میں اسی غم میں پگھل کر بیمار بھی ہو گیا- کیا اچھا ہوتا کہ تم میں سے جو تمہاری باہر کی جماعتوں کے سکرٹری و عمائد آئے تھے وہ مجھ سے علیحدہ ملتے- میں ان کو بڑی نیکیاں سکھاتا اور بڑی اچھی باتیں بتاتا- لیکن افسوس کہ ہماری صدر انجمن نے بھی ان کو یہ بات نہ بتائی- اس لئے مجھ کو ان سے بھی رنج ہے- کیا آیا‘ کتنے روپے جمع ہوئے‘ ہم کو اس سے کچھ بھی غرض نہیں-
ہم کو تو صرف خدا چاہئے
مجھ کو نہیں معلوم کہ کیا جمع ہوا‘ کیا آیا؟ مجھ کو اس کی مطلق پروا نہیں- پھر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو مقدم کرو- ہماری کوششیں اللہ کے لئے ہوں- اگر یہ نہ ہو تو ہائی سکول کیا حقیقت رکھتا ہے اور اس کی عمارتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں- ہمیں تو ہمارا مولیٰ چاہیئے- اپنے احباب کو خط لکھو اور ان کو تنبیہہ کرو- میں تو لاہور اور امرتسر کے لوگوں کا بھی منتظر رہا کہ وہ مجھ سے کیا سیکھتے ہیں لیکن ان میں سے بھی کوئی نہ آیا- میں چاہتا تھا کہ لوگ میری زندگی میں متقی اور پرہیزگار ہی بنیں اور دنیا اور اس کی رسموں کی طرف کم توجہ کریں-
) بدر جلد ۹ نمبر۲۴‘۲۵‘۲۶ ۔۔۔ ۷ ‘ ۱۴ ‘ ۲۱ /اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۹ / اپریل ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے و لتنظر نفس ما قدمت لغد )الحشر:۱۹(کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
آج کل لوگوں کے یہ بات ذہن نشین کی جاتی ہے کہ آدمی آزاد ہے مگر جب پوچھا جاوے کہکیا چور بھی آزاد ہے؟ زانی بھی آزاد ہے؟ تو حیرت زدہ ہو کر عجیب عجیب طور پر جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنے طور پر کچھ حدبندیاں کرنے لگتے ہیں- گویا اپنے قول کی آپ ہی تردید کر لیتے ہیں- میں نے آج کل کے تعلیم یافتوں سے پوچھا ہے کہ جیسے تم آزاد بنتے ہو اگر تمہارے ماں باپ بھی اسی قسم کی آزادی اختیار کر لیں تو تم کیسی مشکلات میں پڑتے- ماں پرورش ہی نہ کرتی اور یوں کہتی کہ چلو مجھے کیا پڑی ہے اس کا بول براز سنبھالوں اور یہ سوئے اور میں راتوں جاگوں‘ تیمارداری میں جان تک ہلکان کر دوں- باپ کہے چلو ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اسے خرچ دیں- غرض سب کے دماغ میں آزادی کی ہوا سما جائے تو یہ کارخانہ دم میں تباہ ہو جائے-
ایسے ہی ایک دہریہ خیالات سے‘ جس کا قول تھا کہ اسلام کے اس قدر احکام کی پابندی مشکل ہے‘ میں نے پوچھا کیا تم میونسپلٹی کے قانون کی متابعت نہیں کرتے؟ پولیس کے قانون کو نہیں مانتے؟ ضابطہ|فوجداری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ سوسائٹی کے رول کی قدر نہیں کرتے؟ کیا تم طبی قوانین کا لحاظ نہیں رکھتے؟ اور کیا ان کا مجموعہ قرآن مجید سے بہت بڑا نہیں ہے؟ تو وہ بہت نادم ہوا- عیسائیوں کے دماغ میں آزادی سمائی تو شریعت کو *** قرار دیا مگر ان کی سوسائٹی کے رول اس قدر ہیں کہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے-
ایک عالم کے منہ سے ایک بات نکلی جو میرے لئے نکتہ معرفت ہو گئی کہ پہلے تو میں اللہ سے ڈرتا تھا مگر جوں جوں علم بڑھتا گیا تو یہ خشیت کم ہوتی گئی- یہ اس لئے کہ ایسی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں جن سے خشیت بڑھے-
مدارس کے بارے میں تو یہ بحث پیش آ گئی کہ کس مذہب کی کتاب پڑھائی جاوے- میں کہتا ہوں انجیل کا ابتداء اور انتہاء اور قرآن مجید کا ابتدء اور انتہاء ہی دیکھ لو اور ان کا مقابلہ کرو- ایک میں الحمد ایسی جامع دعا ہے کہ دنیا اس کی مثل سے عاجز ہے اور اخیر تمام دکھوں سے بچنے کی راہ بتائی- دوسری میں ایک نسب نامہ ہے جو اخلاق و روح کے لئے کچھ مفید نہیں اور اخیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ پھانسی دے دیا گیا- غرض
علماء میں تو خشیت نہیں اور عوام کالانعام ان کے تابع ہوئے- گدی نشینوں کی حالت اس سے ناگفتہ بہ- امراء اپنی دولت میں مست- پھر اخبار نویس ہیں وہ دوسروں کی اصلاح پر تو تیار ہیں مگر اپنی اصلاح کے لئے کوئی کہہ دے تو لڑنے کو تیار ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تم کسی ناصح کی نصیحت کی قدر نہیں کرتے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اپنی نصیحت کو منوائو-
پس میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ الٰہی حد بندیوں کو نگاہ رکھو اور ہر وقت نفس کا محاسبہ کرتے رہو کہ کل کے واسطے تم نے کیا تیاری کی ہے؟
) بدر جلد۹ نمبر۲۷-۲۸ ۔۔۔ ۵ / مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

یکم جولائی ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے و یقول الانسان ء اذا ما مت لسوف اخرج حیاً )مریم:۶۷( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اگر کامل یقین ہو کہ فلاں بات کا یہ نتیجہ ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ انسان فکر مند نہ ہو- برسات آنے والی ہو تو سب کو لپائیوں کا فکر پیدا ہو جاتا ہے- پھر لوگ بیج بونے کی تیاریاں‘ باوجود ان خوفوں کے کہ کھیتی شاید ہو یا نہ ہو یا پھر اس کے بعد اٹھانی یا کھانی نصیب ہو یا نہ ہو‘ کر لیتے ہیں- امتحان قریب ہو تو لائق سے لائق لڑکا کچھ نہ کچھ تیاری کر لیتا ہے- یہ اس لئے کہ اسے یقین ہوتا ہے کل امتحان ضرور ہو گا- تو پھر اگر قیامت کا یقین پیدا ہو تو انسان کیوں گناہ اور لوگوں کی حق تلفیاں اور اکل مال بالباطل کرے- ایسے ایسے برے کام کر کے وہ زبان حال سے جتاتا ہے کہ اسے یوم الحساب کا یقین نہیں- اگر یقین ہو تو اس کے متعلق تیاری بھی کرے-
اس کے بعد ایک دلیل بیان کرتا ہے کہ انسان کچھ نہ تھا- ہم نے اسے اپنی صفت ربوبیت کے ماتحت بتدریج اس حالت میں پہنچایا- یہ پورا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہم اسے پھر اٹھائیں گے اور حسب اعمال جنت یا دوزخ میں پہنچائیں گے- اس کی تفصیل فرماتا ہے کہ متقیوں کو بچائیں گے اور ظالموں کو دوزخ میں بھجوائیں گے- اس وقت معلوم ہو گا کہ یہ ظاہری دکھلاوے کاساز و سامان کہاں تک کسی کے کام آنے والا ہے- یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی یہ چیزیں ان کو حقیقی عزت نہیں دے سکیں-
ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا کہ آپ کے قرآن میں نمرود‘ حضرت ابراہیمؑ کے مقابل کا ذکر ہے حالانکہ وہ کوئی شخص نہیں ہوا- میں نے کہا یہی تو اعجاز قرانی ہے کہ اس مدمقابل کا نام نہیں لیا- گویا بتلا دیا کہ یہ ایسا بے نشان کیا جاوے گا کہ ایک زمانہ میں اس کی ہستی سے بھی انکار کیا جائے گا- اس کے خلاف حضرت ابراہیم کو دیکھو کہ مجوس‘ عیسائی‘ یہودی‘ مسلمان‘ سب ہی اس کا نام عزت سے لیتے ہیں اور اس کی اولاد تمام روئے زمین پر موجود ہے- حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام نامی پانچ بار تو چھتوں پر با آواز بلند پکارا جاتا ہے اور پھر کس عزت کے ساتھ- مگر کیا کوئی عتبہ‘ ربیعہ‘ شیبہ‘ ابوجہل اور پھر امام حسینؓ کے مقابل یزید کی اولاد ہونے کی طرف بھی اپنے تئیں منسوب کرتا ہے-
یاد رکھو آرام کی زندگی کے لئے یہ چالاکیاں‘ یہ سازوسامان کی حرص مفید نہیں بلکہ قرآن مجید کی سچی فرمانبرداری کرو- میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے- جس باغ میں میں رہتا ہوں اگر لوگوں کو خبر ہو جاوے تو مجھے بعض دفعہ خیال گزرتا ہے کہ میرے گھر سے قرآن نکال کر لے جاویں- مسلمانوں کے پاس ایسی مقدس کتاب ہو اور پھر وہ تکالیف میں اور مشکلات میں پھنسے ہوں‘ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا-
)بدر جلد۹ نمبر۳۷ ---- ۷ /جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ۱ (
* - * - * - *

۲۶ / اگست ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادیان

خطبہ نکاح
حضور نے ۲۶ اگست ۱۹۱۰ء بعد نماز مغرب اپنی نواسی کے نکاح کا جو ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے ۵۰۰ روپیہ مہر پر ہوا‘ اعلان فرمایا-
باوجود ضعف اور ممانعت کلام کے آپ نے خود خطبہ پڑھا- یہ پہلا موقع تھا اور خود حضور نے فرمایا کہ ساری عمر میں یہ پہلا موقع ہے کہ میں بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہوں- خطبہ کا آغاز آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا لیکن ابھی چند الفاظ ہی فرمائے تھے کہ ضعف نے کھڑے نہ رہنے دیا اس لئے بیٹھ گئے- مگر تھوڑی دیر کے بعد جوش تبلیغ سے اٹھے اور قریباً پون گھنٹہ تک کھڑے ہو کر خطبہ دیا- اس خطبہ کا نہایت ضروری حصہ اپنے الفاظ میں دیا جاتا ہے- )ایڈیٹر(
فرمایا-:
میں بیمار ہوں اور طبی طور پر مجھے بولنے کی ممانعت ہے- مگر میں نہیں جانتا کہ مجھے کس وقت موت آجاوے اس لئے میں اس حق کو جو میرے پاس ہے تمہیں پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ میں اس کے ادا کے بوجھ سے سبکدوش ہو جائوں-
بیاہ کے معاملہ میں ایک بڑی غلطی ہو رہی ہے- اور مجھے افسوس ہے کہ یہ میرے گھر میں بھی ہوئی ہے اس لئے کہ مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اس کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ بہت استخارہ کئے جاویں اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جاوے- ہم انجام سے بے|خبر ہوتے ہیں- مگر اللہ تعالیٰ تو عالم|الغیب ہے- اس لئے اول خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو- اور پھر اس کو یاد رکھو کہ کوئی نکاح بدوں ولی کے نہیں ہو سکتا- میں نے آں|حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاواسطہ خود پوچھا ہے اور آپ نے اس کو سخت ناپسند فرمایا کہ بدوں ولی کوئی نکاح کیا جاوے- میں نے خود ایک نکاح کرنا چاہا تھا اور بعض علماء مثل مولوی نذیر حسین اور محمد حسین صاحب وغیرہ سے دریافت کیا اور مجھے بعض نے اجازت دی- مگر میں ترساں تھا- آخر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس مسئلہ کو حل کر دیا-
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رئویا میں دیکھا- اور آپ نے مجھے بتا دیا کہ بدوں ولی نکاح نہیں ہوتا اور آپ نے سخت ناپسندگی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک مجھ پر ظاہر ہوا کہ جو شخص ایسی جرات کرتا ہے- وہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک اور آپ کی مونچھ مونڈ ڈالتا ہے- پس یہ بڑی خطرناک بات ہے اس کو خوب یاد رکھو کہ بدوں ولی نکاح کبھی نہ ہو-
پھر ایک اور غلطی ہوتی ہے کہ نکاح کے معاملہ کو عورتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے- عورتوں کو ولی مت بنائو- یہ مردوں کا کام ہے- قرآن مجید میں الرجال قوامون علی النساء آیا ہے- اس لئے کبھی ایسی جرئات نہ کرو جس سے قرآن مجید کی اس آیت کی ہتک لازم آوے- خدا سے ڈرو اور توبہ کرو-
میں پھر کہتا ہوں- عورتوں کو ولی نہ بنائو- عورتوں کو ولی نہ بنائو- عورتوں کو ولی نہ بنائو- اس کے بعد آپ نے حسب معمول عورتوں کے حقوق پر وعظ فرمایا اور شادی کی خصوصیتوں کو جو اسلام نے رکھی ہیں بیان کیا کہ محض تقویٰ کے لئے ہو اور کوئی غرض شادی کی نہیں-
یہ خطبہ آپ نے نہایت رقت اور جوش اور درد دل سے پڑھا- میں نے اس سے پہلے متعدد مرتبہ اس امر کے متعلق بحث کی ہے کہ رشتہ اور ناطوں کے معاملات کلیتاً حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح کے ہاتھ میں دے دینے چاہئیں اس لئے کہ آپ سے بڑھ کر کون ہمدرد اور سچا خیرخواہ ہو گا- اس خطبہ میں ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ خلیفہ بن کر مجھ پر بہت بڑا بوجھ پڑا ہے اگر خداتعالیٰ ہی کا فضل نہ ہوتا اور اس کی غریب نوازی میری دستگیری نہ کرتی تو میں اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل نہ تھا- مگر اس نے اپنے فضل سے مجھے قوت دی جس کا ایک بیٹا بیمار ہو اس کی حالت کا اندازہ مشکل ہوتا ہے پھر جس کے لاکھوں بیٹے ہوں اور مختلف حاجتوں اور بوجھوں سے ان کی حالت اس کے لئے درد کا باعث ہو- اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اسے کس|قدر تکلیف ہو سکتی ہے مگر اللہ ہی کا فضل ہے جو میں دل کے باغ میں رہتا ہوں- پس اس قسم کی ہمدردی کا احساس کرنے والا دل پہلو میں رکھنے والا انسان دنیا کو خدا کے فضل کے بدوں میسر نہیں آتا اس لئے عاقبت اندیشی اور اپنی اولاد کی خیرخواہی اور اس کے اس بوجھ سے سبکدوشی اسی میں ہے کہ اس کے سپرد کریں- اور اگر اس ضرورت کی طرف توجہ نہ کی گئی تو آخر پچھتانا پڑے گا-
) الحکم جلد۱۴ نمبر۳۱ ۔۔۔۔ ۲۸ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۴ (
* - * - * - *

۵ / اکتوبر ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادیان

خطبہ عید الفطر
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ درج ذیل ہے-
آدمی کو اللہ نے بنایا ہے اور اس کے لئے دو قسم کی چیزیں ضروری ہیں- ایک جسم جو ہمیں نظر آتا ہے- اس کے لئے ہوا کی ضرورت ہے- کھانے پینے‘ پہننے‘ مکان کی ضرورت ہے- کوئی اس کا یار و غمگسار ہو‘ اس کی ضرورت ہے- دور دراز ملکوں کی‘ دریائوں کے اس پار اس پار جانے کی ضرورت ہے- زمیندار کو کھیت کی ضرورت ہے- کیا زمین انسان بنا سکتا ہے؟ پھر ہل کے لئے لکڑیاں چاہئیں- مضبوط درخت ہو تب جا کر ہل بنتے ہیں- ہل کے لئے لوہے کی بھی ضرورت ہے- پھر اوزار بھی لوہے کے ہوتے ہیں- لوہے کا بھی عجیب کارخانہ ہے- لوہا کانوں سے آتا ہے جس کے لئے کتنے ہی مزدوروں کی ضرورت ہے- پھر اور کئی قسم کی محنتوں اور مددوں کے بعد ہل بنتا ہے- مگر یہ ہل بھی بے کار ہے جب تک جانور نہ ہوں- پھر جانوروں کے لئے گھاس چارہ وغیرہ کی ضرورت ہے- پھر اس ہل چلانے میں علم‘ فہم اور عاقبت|اندیشی کی ضرورت ہے- چنانچہ انہی کی مدد سے چھوٹے چھوٹے جتنے پیشے بنتے ہیں وہ عالی|شان بنتے ہیں- مثلاً چکی پیسنا ایک ذلیل کسب تھا- علم کے ذریعے ایک اعلیٰ پیشہ ہو گیا- یہ جو بڑے بڑے ملوں کے کارخانے والے ہیں دراصل چکی پیسنے کا ہی کسب ہے اور کیا ہے- ایسا ہی گاڑی چلانا کیا معمولی کسب تھا- گاڑی چلانے والا ہندوستان میں لنگوٹ باندھے ہوتا تھا- اب گاڑی چلانے والے کیسے عظیم الشان لوگ ہیں- یہ بھی علم ہی کی برکت ہے-
حجام کا پیشہ کیسا ادنیٰ سمجھا جاتا ہے- یہی لوگ مرہم پٹی کرتے اور ہڈیاں بھی درست کر دیتے ہیں- اسی پیشے کو علم کے ذریعے ترقی دیتے دیتے سرجری تک نوبت پہنچ گئی ہے اور سرجن بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے-
میں نے تاجروں پر وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ سر پر بوجھ اٹھائے دیہہ بدیہہ پھر رہے ہیں- رات کسی مسجد میں کاٹ رہے ہیں مگر اب تو تجارت والوں کے علیحدہ جہاز چلتے ہیں-
وہ حکومت بھی دیکھی ہے کہ دس روپے لینے ہیں اور ایک زمیندار سے دھینگا مشتی ہو رہی ہے- یا اب منی آرڈر کے ذریعے مالیہ ادا کر دیتے ہیں- سنسان‘ ویران جنگلوں کو آباد کر دیا گیا ہے- یہ بھی علم ہی کی برکت ہے کہ اس سے ادنیٰ چیز اعلیٰ ہو جاتی ہے- لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جسم کے علاوہ کچھ اور بھی عطا کیا ہے- یہ آنکھیں نہیں دیکھتیں جب تک اندر آنکھ نہ ہو- زبان نہیں بولتی جب تک اندر زبان نہ ہو- کان نہیں سنتے جب تک اندر کان نہ ہوں- مگر یہ تو کافر کو بھی حاصل ہے- اس کے علاوہ ایک اور
آنکھ و زبان و کان بھی ہیں جو مومن کو دیئے جاتے ہیں- یہ وہ آنکھ ہے جس سے انسان حق و باطل میں تمیز کر سکتا ہے- حق و باطل کا شنوا ہو سکتا ہے- حق و باطل کا اظہار کر سکتا ہے- اگر انسان حق کا گویا|و|شنوا|و|بینا نہ ہو تو صم بکم عمی )البقرۃ:۱۹( کا فتویٰ لگتا ہے-
اللہ جل شانہ جس کو آنکھ دیتا ہے وہ ایسی آنکھ ہوتی ہے کہ اس سے خدا کی رضا کی راہوں کو دیکھ لیتا ہے- پھر ایک آنکھ اس سے بھی تیز ہے جس سے مومن اللہ کی راہ پر علیٰ بصیرت چلتے ہیں- پھر اس سے بھی زیادہ تیز آنکھ ہے جو اولوالعزم رسولوں کو دی جاتی ہے- ان حواس کے متعلق اللہ اپنے پاک کلام میں وعظ کرتا ہے- دیکھو آج لوگوں نے کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا ہے- غسل کیا ہے- لباس حتیٰ المقدور عمدہ و نیا پہنا ہے- خوشبو لگائی ہے- پگڑی سنوار کر باندھی ہے- یہ سب کچھ کیوں کیا؟ صرف اس لئے کہ ہم باہر بے عیب ہو کر نکلیں- بہت سے گھر ایسے ہوں گے جہاں بیوی بچوں میں اسی لئے جھگڑا بھی پڑا ہو گا اور اس جھگڑے کی اصل بناء یہی ہے کہ بے عیب بن کر باہر نکلیں-
جس طرح فطرت کا یہ تقاضا ہے اور انسان اسے بہر حال پورا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا مربی‘ میں تمہارا محسن ہوں- جیسے تم نے اپنے جسم کو مصفیٰ و مطہر‘ بے عیب بنا کر نکلنے کی کوشش کی ہے ویسے ہی تم اپنے رب کے نام کی بھی تسبیح کرتے ہوئے نکلو اور دنیاوالوں پر اس کا بے|عیب ہونا ظاہر کرو- ادنیٰ مرتبہ تو یہ ہے کہ مومن اپنی زبان سے کہے سبحان اللہ و بحمدہ سبحان ربی العظیم )بخاری کتاب الدعوات-( پھر وہ کلمات جن سے میں نے اپنے خطبہ کی ابتداء کی- اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر و للٰہ الحمد ان میں بھی اس کی کبریائی کا بیان ہے- پھر اس سے ایک اعلیٰ مرتبہ ہے- وہ یہ کہ یہ تسبیح دل سے ہو کیونکہ یہ جناب الٰہی کے قرب کا موجب ہے- کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان الی الرحمٰن سبحان اللہ و بحمدہ‘ سبحان اللہ العظیم )بخاری کتاب الدعوات-( اور فرماتا ہے کہ
و لٰکن ینالہ التقویٰ منکم )الحج:۳۸-( پس ضرور ہے کہ یہ تسبیح جو کریں تو دل کو مصفا کر کے کریں-
تیسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کے فعل پر ناراض نہ ہوں اور یہ یقین کریں کہ جو کچھ خدا کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے اور جو کچھ کرے گا وہ بھی ہماری بھلائی و بہتری کے لئے کرے گا- ہمارے مربی و محسن پر اللہ رحم فرمائے کہ اس نے میرے کانوں میں اچھی آواز پہنچائی اور مجھے مشق کے لئے یہ شعر لکھ کر دیا-
سر نوشت ما ز دست خود نوشت
خوشنویس است و نخواہد بد نوشت
پس ہمیں چاہئے کہ اس اللہ کو جس کی ذات اعلیٰ اور تمام قسم کے نقصوں و عیبوں سے بالاتر ہے رنج و راحت‘ عسر و یسر میں بے عیب یقین کریں اور یہ یقین رکھیں الشر لیس الیک و الخیر کلہ فی یدیک- میں دیکھتا ہوں کہ ایک جمعہ میں میں نے اپنی طرف سے الوداعی خطبہ پڑھا کیونکہ میری حالت ایسی تھی کہ تھوک کے ساتھ بہت خون آتا- اندر ایسا جل گیا تھا کہ خاکستری دست آتے اور میں رات کو جب سوتا تو یہی سمجھتا کہ بس اب رخصت- اسلمت نفسی الیک )بخاری کتاب الوضوئ-( گھر والے بعض وقت ہمدردی سے مجھے ملامت کرتے کہ تم پرہیز کرتے- بہت وعظ کرتے ہو‘ سبق بدستور پڑھائے جاتے ہو- تو میں کہتا بے شک جس قدر نقص و عیب ہیں میری طرف منسوب کر لو- میرا مولیٰ تو جو کچھ کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے- سچ ہے و الخیر کلہ فی یدیک-
غرض تم زبان سے سبحان اللہ کا ورد کرو تو اس کے ساتھ دل سے بھی ایسا اعتقاد کرو اور اپنے دل کو تمام قسم کے گندے خیالات سے پاک کر دو- اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ مالک ہماری اصلاح کے لئے ایسا کرتا ہے-
پھر اس سے آگے اللہ توفیق دے تو اللہ کے اسماء پر‘ اللہ کے صفات و افعال پر‘ اللہ کی کتاب پر‘ اللہ کے رسول پر جو لوگ اعتراض کرتے اور عیب لگاتے ہیں ان کو دور کرو اور ان کا پاک ہونا بیان کرو-
ہمارے ملک میں اس قسم کے اعتراضوں کی آزادی حضرت جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں شروع ہوئی ہے کیونکہ اس کے دربار میں وسعت خیالات والے لوگ پیدا ہو گئے- اس آزادی سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور مطاعن کا دروازہ کھول دیا- ان اعتراضوں کو دور کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کوشش کی ہے- چنانچہ شیخ المشائخ حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ~ن۲~ اللہ علیہ نے بھی بہت کوشش کی ہے- جلال الدین اکبر نے جب صدر جہان کو لکھا کہ چار عالم بھیجیں جو ہمارے سامنے ان اعتراضوں کے جواب دیا کریں تو یہ بات حضرت مجدد صاحب کے کان میں بھی پہنچی- انہوں نے صدر کو خط لکھا کہ آپ مہربانی سے کوشش کریں کہ بادشاہ کے حضور صرف ایک ہی عالم جائے‘ چار نہ ہوں- خواہ کسی مذہب کا ہو مگر ہو ایک ہی- کیونکہ اگر چار جائیں گے تو ہر ایک چاہے گا کہ میں بادشا کا قرب حاصل کروں اور باقی تین کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا- اگر چاروں گئے تو بجائے اس کے کہ دین کا تذکرہ ہو ایک دوسرے کو رد کر کے چاروں ذلیل ہو جاویں گے اور یہ لوگ اپنی بات کی پچ میں بادشاہ کو ملحد کر دیں گے-
یہ تو اس وقت کا ذکر ہے جب اسلام کی سلطنت تھی- اسلام کے متوالے دنیا میں موجود تھے- اس وقت کا بیج بویا ہوا اب تین سو برس کے بعد ایک درخت بن گیا ہے- کیسے دکھ کا زمانہ ہے کہ نبی کریمﷺ~ کے سوانگ ڈراموں میں بنائے جاتے ہیں - عجیب عجیب رنگوں میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں جس سے متاثر ہو کر بعض لڑکوں نے غنیمت کی آیت پر لکھ دیا- محمد لٹیرا تھا- اگرچہ اس کا جواب مجھے دیا گیا کہ نقل اعتراض تھا‘ مگر یہ داغ مٹتا نہیں- اور میں سربان القضاء کا مسئلہ خوب جانتا ہوں- اسی کی ماتحت اس کو لاکر اس کا ذکر کرتا ہوں-
پس میری سمجھ میں یہ وقت ہے کہ جہاں تک تم میں کسی سے ہو سکے‘ اللہ کے اسمائ‘ صفات‘ افعال‘ اللہ کی کتاب‘ اللہ کے رسول‘ اللہ کے رسول کے نواب و خلفاء کی پاکیزگی بیان کرے اور ان پر جو اعتراض ہوتے ہیں انہیں بقدر اپنی طاقت کے سلامت روی و امن پسندی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کرے-
یہ مت گمان کرو کہ ہم ادنیٰ ہیں- وہ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں ادنیٰ سے اعلیٰ بنا دے- چنانچہ وہ فرماتا ہے خلق فسویٰ و الذی قدر فھدیٰ )الاعلیٰ:۳‘۴-(جو ان پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال چلن سے خدا کی تنزیہہ کریں- یعنی اپنے طرز عمل زندگی سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے‘ پاک کتاب کے ماننے والے‘ پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم|الشان مجدد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں-
ضعف بہت ہے اور مجھے زیادہ بولنے سے تکلیف بڑھ جانے کا احتمال ہے اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں- اللہ تعالیٰ تمہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی زبان و دل و قلم سے توفیق دے-
) بدر جلد۹ نمبر۴۸-۴۹ ۔۔۔ ۱۳ / اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۸ - ۹ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۸ / نومبر ۱۹۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتاء ذی القربیٰ و ینھیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی )النحل:۹۱( پر تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عدل ایسی ضروری چیز ہے کہ شیعہ نے بھی‘ باوجود اللہ کی تمام صفات سے بے پرواہی کرنے کے‘ اسے ارکان اربعہ )توحید- عدل- نبوت- امامت( میں شمار کیا ہے-
عدل کیسا اچھا ہے‘ اس کا اندازہ شاید تم لوگ نہ کر سکو کیونکہ تم میں سے کم ہیں جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا جب کہ حکام کو بھی ننگ و ناموس کا خیال نہ تھا- رعیت کے کسی فرد کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کس چیز کا مستحق ہوں اور بادشاہ کس کا؟ باپ کا بدلہ نہ صرف بیٹوں سے بلکہ ملک والوں سے بھی لیا جاتا تھا مگر اب امن کا راج ہے اور عدل ہو رہا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر چاہئے-
ہر شخص اپنے نفس پر غور کرے کہ وہ نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کو کوئی دکھ دے یا ان کے ساتھ بے جا سختی کرے- پس وہ آپ بھی کیوں کسی کے بیٹے یا بیٹی کو دکھ دے یا اکل مال بالباطل کرے یا کسی کی حق تلفی کا مرتکب ہو- نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا- لایومن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ )بخاری کتاب الایمان( کہ مومن ہی نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے کرتا ہے- ہم اپنے غلام سے جیسا کام لینا چاہتے ہیں مناسب ہے کہ ہم بھی جس کے نوکر ہیں ویسا ہی کام کریں- میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام تعلقات میں‘ مخلوق سے ہوں یا خدا سے‘ عدل مدنظر رکھو اور میری آرزو ہے کہ میں تم میں سے ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ|تعالیٰ کی محب ہو- اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی متبع ہو- قرآن سمجھنے والی ہو-
میرے مولا نے مجھ پر بلا امتحان اور بغیر میری محنت کے بڑے بڑے فضل کئے ہیں اور بغیر میرے مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں جن کو میں گن بھی نہیں سکتا- وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے- وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے- وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے- وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے- اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے‘ بیوی بچے دیئے‘ مخلص اور سچے دوست دیئے- اتنی کتابیں دیں اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے- پھر مطالعہ کے لئے وقت‘ صحت‘ علم اور سامان دیا- اب میری آرزو ہے‘ اور میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا‘ کہ تم میں سے اللہ کی محبت رکھنے والے‘ اللہ کے کلام سے پیار کرنے والے‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھنے والے‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کلام سے محبت رکھنے والے‘ اللہ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم|النبیین کے سچے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو-
دیکھو ! میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا- نہ تمہارے نذر و نیاز کا محتاج ہوں- میں تو اس بات کا امیدوار بھی نہیں کہ کوئی تم میں سے مجھے سلام کرے- اگر چاہتا ہوں تو صرف یہی کہ تم اللہ کے فرمانبردار بن جائو- اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متبع ہو کر دنیا کے تمام گوشوں میں بقدر اپنی طاقت و فہم کے امن و آشتی کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ پہنچائو-
) بدر جلد۱۰ نمبر۵ ۔۔۔ یکم دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۱۷/فروری ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
فرمایا -:
میں نے بہت عرصہ پہلے خواب میں دیکھا کہ خدا کا غضب بھڑک اٹھا ہے اور زمین تاریک ہو چلی ہے- پہلے طاعون پھیلا ہے پھر اس کے بعد ہیضہ پڑا ہے- چند خاص دوستوں کو میں نے یہ خواب سنا بھی دیا اور دعا شروع کی کہ الٰہی! تو اپنے فضل و کرم سے احمدی جماعت‘ پھر خصوصیت سے قادیان کی جماعت پر اپنا رحم فرما- پھر چند روز ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ملک میں خطرناک طاعون ہے اور ایک عظیم الشان محل ہے جس میں ہم لوگ ہیں- گویا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ انی احافظ کل من فی الدار- اب صرف اتنی بات ہے کہ ہم اپنے تئیں اس محل میں رہنے کے اہل ثابت کریں- پھر کچھ دن ہوئے میں نے دیکھا کہ انہی ہماری دوکانوں پر شیر حملہ کر رہا ہے- پس میں ڈر گیا اور بہت دعا کی اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ طریق نجات کیا ہے؟ تو مجھ پر کھولا گیا کہ خدا کے حضور کھڑے رہنا اور دعائیں- طوفان میں ایک کشتی ہے جو ٹوٹی ہوئی ہے مگر دعائوں سے جڑ سکتی ہے- پھر میں اس بات پر غور کر رہا تھا کہ ملک میں وبا کیوں پھیلتی ہے تو ایک ملک نے ابھی رستے میں آتے ہوئے مجھے تحریک کی کہ ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )الذٰریٰت:۵۷-(
ہر شخص فائدے کے لئے کوئی چیز بناتا ہے- مثلاً باغبان درخت لگاتا ہے- اب جب تک وہ چیز مثلاً درخت فائدہ دے اسے نہیں اکھیڑا جاتا لیکن جب وہ غرض جس کے لئے وہ شے بنائی گئی پوری نہ کرے تو پھر اس شے کو توڑ دیا جاتا ہے- ادنیٰ سے ادنیٰ عقل کا زمیندار بھی اسی اصل پر عمل پیرا ہے- پس خدا جو حکیموں میں سے بڑا حکیم ہے وہ بے فائدہ کسی چیز کو کیوں رکھے- جب انسان اس اصلی غرض کو پورا نہیں کرتا یعنی عبادت جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تو پھر لامحالہ تباہ ہوتا ہے- ایسا ہی جو اپنے نمونہ سے یا دیگر حالات سے دوسروں کو خدا کی عبادت سے روکتا ہے اسے بھی ہلاک کیا جاتا ہے- خدا کے مامور دنیا میں بھلائی پھیلانے کے لئے آتے ہیں- وہ غافلوں کو بیدار کرتے ہیں مگر شریر لوگ بہرصورت اعتراض کرتے ہیں- اگر کوئی نئی بات سنائے تو کہتے ہیں یہ وہ باتیں سناتا ہے جو پہلوں نے نہیں سنائیں اور اگر وہی اگلی باتیں سنائے تو کہتے ہیں کوئی نئی بات نہیں پیش کرتا- نادان یہ نہیں سمجھتے کہ جب بدیاں باربار کی جاتی ہیں اور شیطان اپنا وعظ ہر وقت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ خود انسان کے اندر اس کے نفس کو بطور سفیر چھوڑ رکھا ہے تو کیا خدا اپنی طرف سے کوئی واعظ باربار وہی نیکیاں سمجھانے کے لئے پیدا نہ کرے؟ تیرہ سو برس سے تو قرآن مجید کا وعظ ہو رہا ہے اور اس سے پہلے بھی کئی نبی آئے اور سب نے توحید کا وعظ کیا تو کیا ساری دنیا توحید پر قائم ہو گئی؟ پس ضرور ہے کہ توحید کا ذکر باربار کیا جاوے-
یاد رکھو خدا نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا تھا کہ اگر لوط کی قوم میں سے پانچ چھ بھی نیک ہوں تو میں ان پر سے عذاب ہٹا لوں گا- مگر جب اس اندازے پر بھی نیک نہیں رہتے تو پھر عذاب الٰہی آتا ہے- تم لوگ احمدی ہو اور احمدیت جہاں عذابوں سے بچاتی ہے وہاں سب سے پہلے ملزم بھی ہمیں ہی گردانتی ہے کیونکہ ہم لوگوں نے ایک مامور کو مانا- اس کے ہاتھ پر خدا و رسول کی اطاعت کا عہد کیا- اب اس کو توڑیں گے تو سب سے پہلے عذاب کے مستحق‘ اعاذنا اللہ منھا‘ ہم ہیں-
پس تم خدا کی طرف متوجہ ہو اور عبادت میں لگے رہو اور دعائیں کرتے رہو کیونکہ دعا عبادت کا مغز ہے- جب مغز عبادت تم حاصل کرو گے تو پھر تم بلائوں سے محفوظ رہو گے- ایک باغبان بھی پھل والی شاخ کو نہیں کاٹتا- پس تمہارا خداجو ارحم الراحمین ہے تمہیں ہلاک نہیں کرے گا- یونس کی قوم کافر تھی- صرف گڑگڑانے سے ان پر سے عذاب ٹل گیا- تو کیا تم جو ایک نبی‘ ایک مامور کے ماننے والے ہو تمہاری دعائوں میں اتنا بھی اثر نہ ہو گا کہ عذاب الٰہی ہٹا لیا جائے؟ یونسؑ تو چند ایک بستیوں کی طرف رسول ہو کر آئے تھے مگر تمہارے نبی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں تمام جہان کی طرف مامور ہو کر آئے تھے- پس تم اس کے پیرو ہو- دعائوں سے کام لو‘ صدقہ دو‘ استغفار کرو اور خدا کی تسبیح|وتقدیس کرو- اپنے دلوں کو پاک بنائو کہ جب ایک شریف آدمی اروڑی پر نہیں بیٹھتا تو خدا تمہارے دلوں میں کس طرح نزول فرما ہو سکتا ہے جبکہ ان میں طرح طرح کے گند بھرے ہوئے ہوں- اپنی اصلاح کر لو اور عذاب کے نازل ہونے سے پہلے خدا کے حضور گڑگڑائو- عذاب کے وقت تو فرعون بھی چلا اٹھا تھا مگر اس چلانے نے فائدہ نہ دیا- میں نے اپنا فرض تبلیغ ادا کر دیا- اب تمہارا فرض ہے کہ اپنی اصلاح کر لو اور راتوں کو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو ہو کر گڑگڑائو تا بچائے جائو- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے-
) بدر جلد۱۰ نمبر۱۸ ۔۔ ۲]3 /[stfمارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ (
* - * - * - *
‏KH1.33
خطبات|نور خطبات|نور
۱۹ / مئی ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا خطبہ بعد علالت
تشہد ‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون )الحشر:۱۹(
اور پھر فرمایا-:
چھ مہینے گزر گئے ہیں- چھ ماہ کے بعد ساتواں شروع ہے جو مجھے پھر یہ موقع ملا ہے- ان چھ ماہ میں میں نے خوب تجربہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے کام نہیں آتا- میرے دوستوں نے میرے لئے زور لگائے‘ محنتیں اور خدمتیں کی ہیں- مگر میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہوتا- یہ زخم ہے- )ہاتھ لگا کر دکھایا- ایڈیٹر( بارہا آواز آئی کہ اب دو دن میں اچھا ہو جائے گا- چار دن میں یا چھ دن میں اچھا ہو جاوے گا مگر چلتا ہی ہے- میں نے بہت ہی غور کیا ہے- خدا کے فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا- اور یہ میں اپنے یقین اور تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اللہ کو اپنا بنائو- جب وہ ہمارا ہو جائے گا تو سب ہمارا ہی ہے- اور وہ تقویٰ اور صرف تقویٰ سے اپنا بنتا ہے- اس لئے اگر چاہتے ہو کہ اللہ تمہارا ہو جاوے تو تم تقویٰ اختیار کرو- تقویٰ ایسی دولت ہے کہ اس سے بڑی بڑی مرادیں حاصل ہوتی ہیں- ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہو اور وہ عظیم الشان ہو- متقی کے لئے اللہ|تعالیٰ کا وعدہ ہے ان اللہ مع المتقین )البقرۃ:۱۹۵-( پس اللہ کی معیت سے بڑھ کر اور کیا چاہئے؟ پھر ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ کوئی عظیم الشان اس سے محبت کرے- اور اللہ تعالیٰ متقی سے آپ محبت کرتا ہے جیسا کہ فرمایا یحب المتقین- )اٰل عمران:۷۷-( جو اللہ تعالیٰ کامحبوب ہو جاوے اسے کسی اور کی حاجت کیا؟
پھر ہر شخص کو ضرورت ہے کہ اسے رزق ملے اور وہ کھانے پینے ‘دوا‘ علاج اور تیماردار‘ غرض بہت سی ضروریات کا محتاج ہے- مگر اللہ تعالیٰ متقی کو بشارت دیتا ہے یرزقہ من حیث لایحتسب )الطلاق:۴( متقی کو ایسے طریق پر رزق ملتا ہے جو اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا- پھر انسان مشکلات میں پھنستا ہے اور ان سے نجات اور رہائی چاہتا ہے- متقی کو ایسی مشکلات سے وہ آپ نجات دیتا ہے یجعل لہ مخرجاً )الطلاق:۳( ہر قسم کی تنگی سے وہ آپ نجات دیتا ہے- یہ متقی کی شان ہے- پھر اللہ تعالیٰ متقی کو آپ پڑھا دیتا ہے- اگرچہ ہمارے ایک دوست ان معنوں کو پسند نہیں کرتے مگر میں نے غور کیا ہے تو یہ بالکل درست ہے و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳-( پھر ہر قسم کے دکھوں کو سکھوں سے تقویٰ ہی بدل دیتا ہے یجعل لہ من امرہ یسراً )الطلاق:۵-( پھر جب متقی انسان ان ثمرات کو پاتا ہے تو میرے دوستو! سب کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے- رزق کے لئے‘ تنگی سے نجات کے لئے تقویٰ کرو- سکھ کی ضرورت ہے تقویٰ کرو- محبت چاہتے ہو تقویٰ کرو- سچا علم چاہتے ہو تقویٰ کرو- میں پھر کہتا ہوں تقویٰ کرو- تقویٰ سے خدا کی محبت ملتی ہے- وہ اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے- دکھوں سے نکال کر سکھوں کا وارث بنا دیتا ہے- علوم صحیحہ اسی کے ذریعہ ملتے ہیں-
میں نے اس بیماری میں بڑے تجربے کئے ہیں اور ان سب تجربوں کے بعد کہتا ہوں- اللہ کے ہو جائو- اللہ کے سوا کوئی کسی کا نہیں- یہ میری وصیت ہے-
پس تقویٰ کرو- و لتنظر نفس ما قدمت لغد مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے- گالی نکالتا ہے مگر وہ سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس اصل کو مدنظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی- نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو- اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ و اللہ خبیر بما تعملون جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے- انسان اگر یہ یقین کر لے کہ کوئی خبیر علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری‘ دغا‘ فریب‘ سستی‘ اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بچ سکتا ہے- ایسا ایمان پیدا کرو- بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض‘ نوکری‘ حرفہ‘‘ مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں- ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا- اللہ|تعالیٰ سب کو تقویٰ کی توفیق دے- اب میں اس سے زیادہ کھڑا نہیں ہو سکتا-
دوسرے خطبہ میں من شرور انفسنا کے متعلق فرمایا کہ انسان کو دکھ اور مصیبتیں آتی ہیں‘ اس کی اپنی ہی خطائوں کا نتیجہ ہوتی ہیں-
) الحکم جلد۱۵ نمبر۱۹‘۲۰ ۔۔۔۔ ۲۱‘۲۸ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۵ - ۲۶ (
*۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔*

۲۶/مئی ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح کا دوسرا خطبہ بعد علالت
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس قدر جوش حضرت امیر المومنین کے دل میں ہے کہ باوجود اس قدر شدید گرمی اور ضعف کے آپ ۲۶ مئی کے جمعہ میں جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور مندرجہ ذیل خطبہ پڑھا- )ایڈیٹر(
لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب و لٰکن البر من اٰمن باللہ و الیوم الاٰخر و الملٰئکۃ و الکتاب و النبین و اٰتی المال علیٰ حبہ ذوی القربیٰ و الیتٰمیٰ و المسٰکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرقاب و اقام الصلٰوۃ و اٰتی الزکٰوۃ و الموفون بعہدھم اذا عاھدوا و الصابرین فی الباساء و الضراء و حین الباس اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک ھم المتقون )البقرہ:۱۷۸-(

انسان پر جناب الٰہی نے بڑے بڑے کرم‘ غریب نوازیاں اور رحم کئے ہیں- اس کے سر سے لے کر پائوں تک اس قدر ضرورتیں ہیں کہ یہ شمار نہیں کر سکتا- اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان تعدوا نعمۃ اللہ لاتحصوھا )ابراھیم:۳۵( اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور غریب نوازیوں کا مطالعہ کرو تو کیا گن سکتے ہو؟ ایک بال جوان کا سفید ہو جائے تو گھبرا اٹھتا ہے اور حجام بلا کر نوچ ڈالتا ہے- اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسی نعمت ہے- پھر کھانے پینے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھانا غریب سے غریب آدمی کے سامنے بھی جو آتا ہے تو دیکھو کہ وہ پانی‘ غلہ‘ نمک کہاں کہاں سے آیا ہے اور اگر دال‘ گوشت‘ چاول بھی میز پر آجاوے تو دیکھو کہاں کہاں کی نعمت ہے اور ہر ایک کا جدا جدا مزا ہے- پھر ہوا‘ روشنی وغیرہ کوئی ایک نعمت ہو تو اس کا شمار اور ذکر ہو- کسی نے مختصر ترجمہ کیا ہے-:
ابر و باد مہ و خورشید ہم درکار اند
تا تو نانے بکف آری و غفلت نکنی
سورج‘ چاند کو دیکھتے ہیں- بادل اور ہوا کو دیکھتے ہیں- یہ سب تیری روٹی کے فکر میں ہیں- پھر جس کا کھائیں اور حکم نہ مانیں تو یہ نمک ّ*** ہوئی یا کچھ اور؟ کوئی کسی کا نوکر ہو‘ اگر وہ آقا کی فرمانبرداری نہیں کرتا تو وہ نمک حرام کہلاتا ہے- پھر کس قدر افسوس ہے انسان پر کہ اللہ تعالیٰ کے لاانتہا انعام واکرام اس پر ہوں اور وہ غفلت کی زندگی بسر کرے- دو قسم کے لوگ دنیا میں ہیں- ایک کامیاب ہوتے ہیں‘ فاتح اور ملکوں کے بادشاہ ہوتے ہیں- صحابہ پر بھی وہ وقت آیا- اس لئے فرمایا لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغربtext]- ga[tآجکل جو مشرق و مغرب کی طرف منہ کر رہے ہو جدھر توجہ کرتے ہو جناب الٰہی دستگیری کر رہا ہے اور خدا کی توجہ بھی اسی طرف ہے- پس یاد رکھو ہماری مہربانیوں سے آرام پاتے ہو اگر وہ باتیں جو ہم بیان کرتے ہیں تو تمہارا فاتح ہونا اور دلدار ہونا کچھ کام نہیں آئے گا- ۱~}~ و لٰکن البر من اٰمن باللہ نیک تو وہ شخص ہے یا نیکی تو اس شخص کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو- ایمان کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی کامل صفات کو مان لینا- پھر جب انسان کامل طور پر اللہ|تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے اور اپنے آپ کو اسی کے قبضہ قدرت میں یقین کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اسی کا ہو جاتا ہے- من کان للٰہ کان اللہ لہ- کسی چیز پر ایمان‘ وہ بری ہو یا بھلی اس کی پہچان کیا ہے؟ بھلی چیز پر ایمان ہو تو اس کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتا- مثلاً کھانا آتا ہے اور بھوک ہو تو اس کے لینے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے- لیکن اگر بجائے کھانے کے آگ سامنے رکھ دی جاوے تو ہر چند بھوک ہو مگر چونکہ جانتا ہے کہ یہ آگ ہے‘ ہاتھ اس کی طرف اٹھتا ہی نہیں- میرے جیسی فطرت تو آگ کو تاپنا

۱~}~ نقل مطابق اصل
بھی پسند نہیں کرتی- بارہا میں نے سنایا ہے کہ اگر پانچ سو اونٹ کی قطار ہو تو ایک لڑکا بھی ان کی نکیل پکڑ کر لئے جاتا ہے- لیکن اگر اسے کنوئیں میں دھکیلنا چاہو تو پانچ سو آدمی بھی ایک اونٹ کو پکڑ کر کھینچیں تو وہ آگے نہیں بڑھتا- پس اسی طرح پر اگر انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیسی قادر‘ رحیم‘ علیم‘ خبیر‘ رب‘ رحمان‘ رحیم اور مالک یوم الدین اور وہ شہنشاہ احکم الحاکمین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر وقت یہ خواہش نہ ہو کہ اسے راضی کیا جاوے- پھر اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بتا دیا ہے کہ وہ کسی بدی پر راضی نہیں- میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص ایمان حقیقی رکھ کر سب نبیوں کی مشترکہ تعلیم کی خلاف|ورزی کیوں کرتا ہے؟ کیا کسی بھی نبی کی تعلیم ہے کہ جھوٹ بولیں‘ دنیا کے حریص ہوں‘ کاہل بدمعاشوں سے تعلق پیدا کریں؟ خدا تعالیٰ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا اور ان تمام بدیوں سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ پر ایمان ہو-
پس جو شخص من اٰمن باللہ کا مصداق ہو وہ تمام نیکیوں کا گرویدہ اور بھلائیوں کا پسند کرنے والا ہو گا- اگر اس طرح یہ سمجھ نہیں آتا تو ایک اور راہ ہے جس پر چل کر انسان بدیوں سے بچ سکتا ہے- و الیوم الاٰخر یوم آخرت پر ایمان ہو کہ بدیوں کی سزا ملے گی اور نیکیوں کا بدلہ نیک ملے گا- اگر انسان جزائے اعمال کو مانتا ہو اور اسے ایمان ہو تو وہ بدیوں سے بچ جاتا ہے- ایک شریف الطبع انسان کو کہہ دیں کہ دو روپیہ دیتے ہیں‘ بازار میں دو جوتے لگا لینے دو‘ وہ کبھی پسند نہیں کرے گا- پھر یوم آخرت میں کب کوئی گوارا کر سکتا ہے- پس اس پر ایمان لا کر بدی نہیں کر سکتا- میں جانتا ہوں کہ ایک نوکر اپنے فرض|منصبی میں سستی کر کے تنخواہ پا سکتا ہے- ایک اہل حرفہ دھوکہ دے کر قیمت وصول کر سکتا ہے- ایک شخص دوست کو دھوکہ دے کر آئو بھگت کرا سکتا ہے- یہ ممکن ہے لیکن اگر آخرت پر ایمان ہو کہ اللہ|تعالیٰ کے حضور جا کر ان اعمال کی جوابدہی کرنا ہے تو ایسا عاقبت اندیش بدی کا ارتکاب نہیں کر سکتا- ایک لڑکا جو قلاقند کھاتا ہے اور باپ کو کہتا ہے کہ نب لئے تھے یا کاپی لی تھی‘ وہ سوچ لے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ ایسا ہی جو لڑکا اپنے ہاتھوں سے اپنے قوائے شہوانی کو تحریک دیتا ہے‘ اس کا نتیجہ لازمی ہے کہ آنکھ اور دماغ خراب ہو جاوے- ہر ایک کام کے انجام کو سوچو!
پھر نیکی کی تحریک کے لئے ملائک بڑی نعمت ہیں- وہ انسان کے دل میں نیکی تحریک کرتے ہیں- اگر کوئی ان کے کہنے کو مان لے تو اس طبقہ کے جو ملائکہ ہیں‘ وہ سب اس کے دوست ہو جاتے ہیں- قرآن|مجید میں فرمایا- نحن اولیٰئکم فی الحیٰوۃ الدنیا )حم السجدہ:۳۲( ایسی پاک مخلوق کسی کی دوست ہو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے؟ پھر ایمان بالکتاب ہے اللہ کے فرمان اور حکم نامہ سے بڑھ کر کیا حکم نامہ ہو گا- بہت سے افعال ہیں جن کی بابت لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ قانون‘ قاعدہ اور تحریر کے خلاف ہے- یہاں سے کیسی نصیحت ملتی ہے کہ جب قوم‘ برادری اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی اچھے نتائج پیدا نہیں کرتی تو اللہ تعالی کی کتاب‘ اس کے قوانین اور قواعد کے خلاف کر کے انسان کب سرخرو ہو سکتا ہے؟ یہ تمام امور انسان کے عقائد کے متعلق ہیں-
جب عقائد کی اصلاح ہو جاوے تو انسان کی عملی حالت پر اس کا اثر پڑتا ہے- فرمایا و اٰتی المال علیٰ حبہ )البقرۃ:۱۷۸( مال کو دے کہ اس کو محبت ہے یا خدا کی محبت کے لئے رشتہ|داروں کو دے- رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بڑے بہادروں اور پاک بندوں کا کام ہے- کہیں شادی غمی‘ ناطہ رشتہ اور سلوک بدسلوک میں رنج پیدا ہو جاتا ہے- پھر بہت سے مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں- اس واسطے ان سے سلوک بڑا بھاری کام ہے- پھر یتامیٰ سے سلوک کرو- مساکین جو بے دست وپا ہیں ان کی خبر گیری کرے- ایک جلد ساز ہے اس کے پاس تراش نہیں یا اور ضروری سامان نہیں- موچی کے پاس چمڑا نہیں- لوہار کے پاس ہتھوڑا نہیں- یہ سب مساکین میں داخل ہیں- و ابن السبیل مسافروں کو دو- پھر سائلین کو دو- کیا خبر ہے ان کے پاس ہے یا نہیں‘ تم انہیں دو- و فی الرقاب غلاموں کے آزاد کرنے میں خرچ کرو- دیوانی کے مقدمات میں قیدی ہو جاتے ہیں‘ ان کو چھوڑانے میں خرچ کرو-
اس کے بعد اقام الصلٰوۃ اور اٰتی الزکٰوۃ ہے- نماز مومن کا معراج ہے- نماز اللہ کی تسبیح|وتحمید ہے- اللہ کے حضور دعا ہے- اس کے حضور جھک کر عرض کرنا ہے- اپنے محسن مربی خصوصاً خاتم|النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے لئے دعا ہے- پھر زکٰوۃ ہے- پھر وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں- پہلا اقرار تو قالوا بلیٰ )الاعراف:۱۷۳( میں ہوا ہے- جب اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتا ہے تو چوری کیوں کرتا ہے؟ بدذاتی کیوں کرتا ہے؟ جاہل ہے‘ پھر مسلمان کہلا کر اسلام کے دعویٰ سے تمام نیکیوں کا اقرار کرتا ہے- الباساء انسان کو بیماری میں مشکلات آتے ہیں- مجھ پر تو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا ہے- مجھے تو پتہ بھی نہیں لگا- گویا سویا ہوا تھا بیدار ہو گیا- مومن اور نیک مرد وہی ہیں جو بیماری‘ غریبی میں نافرمان نہیں ہوتے- مقدمات میں سچائی کو ہاتھ سے نہیں دیتے- یہی لوگ راستباز اور متقی ہوتے ہیں- اللہ تعالیٰ تمہیں متقی کرے- جس قدر مجلس میں بیٹھے ہیں خدا ان سے راضی ہو اور ناراض نہ ہو- تم بھی خدا تعالیٰ سے راضی ہو اور وہ دستگیری کرے- کبھی اس کا شکوہ نہ کرو-
خطبہ ثانیہ
ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان انصاف کرو یہ اللہ کا حکم ہے- دیکھو اگر تم کسی کو روپیہ دو اور وہ دھوکہ دے کر لے‘ کیا تم پسند کرتے ہو کہ کوئی تمہارے ساتھ دھوکہ کرے؟ تم کسی کو ملازم رکھو اور وہ سستی سے کام کرے تو کیا تم پسند کرتے ہو؟ اگر نہیں تو پھر تم دوسروں کے ساتھ کیوں بدی کرتے ہو؟ میں نے دیکھا ہے سردی کا موسم ہے اور سرد ہوا چل رہی ہے- بوندا بوندی ہو رہی ہے- ایک مزدور چوکیدار کہتا ہے- خبردار ہوشیار- وہ باہر پھرتا ہے- پھر کیسی افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ وہ چند پیسوں کے لئے اتنا محتاط اور اپنے فرض کو ادا کرتا ہے اور ہم خدا کے بے انتہا فضلوں کو لے کر بھی تہجد کے لئے نہ اٹھیں- پھر کوئی ہمیں گالی دے‘ بہتان باندھے تو ناپسند کرتے ہیں-پھر دوسروں پر کیوں بہتان باندھیں- دوسروں کے گھر کی فحش باتیں کیوں سنتے ہو؟ پھر تاکید ہے ایتای ذی القربیٰ- بھائی ہے‘ بہن ہے‘ چچا ہے‘ ماں باپ اور بیوی کے رشتہ|دار- ینھیٰ عن الفحشاء جو بدیاں تمہاری ذات میں ہیں یا دوسروں پر اثر کرتی ہیں‘ ان سے رکو- پھر بغاوت سے منع کیا- بادشاہوں اور حکام کی مخالفت نہ کرو- یہ باتیں کیوں سکھاتا ہے؟ لعلکم تتقون )البقرہ:۲۲-(
تم جانتے ہو کہ میں کس تکلیف سے آیا ہوں- صرف تمہاری بھلائی چاہتا ہوں- تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا- جس کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہوں وہی بہتر بدلہ دینے والا ہے- اللہ تعالیٰ نے میری طبیعت تو ایسی بنائی ہے کہ تمہارے اٹھنے اور سلام کا بھی روادار نہیں ہوں- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم متقی بنو- آمین
)الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۱‘۲۲ ----- ۷‘۱۴ / جون ۱۹۱۱ء صفحہ۶(
* - * - * - *

۹ / جون ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ و ینھیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون )النحل:۹۱(
میں بڑے ارادہ سے آیا ہوں- بڑے اخلاص کے ساتھ دردمند دل لے کے یہاں کھڑا ہوں- ایک طرف پائوں مضبوطی سے کھڑا نہیں ہوتا‘ دوسری طرف بات کہنے کو جی چاہتا ہے- بیماری میں ساتواں مہینہ ختم ہونے کو ہے مگر اللہ تعالیٰ نے زبان کو محفوظ رکھا ہے- بہکی بہکی باتیں کبھی نہیں کیں- ڈاکٹروں سے پوچھا ہے- انہوں نے شہادت دی ہے کہ کلوروفارم سونگھنے کی حالت میں بھی کوئی بہکی بات میرے منہ سے نہیں نکلی- پس اس وقت بقائمی ہوش و حواس تمہیں چند باتیں کہتا ہوں جو تم میں سے مان لے گا اس کا بھلا ہو گا اور جو نہ مانے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے-
ان اللہ یامر بالعدل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انصاف کرو- تم میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو چاہتا ہے یا پسند کرتا ہے کہ مجھے کوئی گالی دے یا میری کوئی ہتک کرے یا میرے ننگ و ناموس میں فرق ڈالے یا نقصان کرے یا بدی سے پیش آئے یا تحقیر کرے؟ میرا ملازم سستی سے کام لے؟ جب تم نہیں چاہتے تو کیا یہ انصاف ہے کہ تم کسی کا مال ضائع کرو یا کسی کو نقصان پہنچائو یا کسی کے لڑکے یا لڑکی کو بدنظری سے دیکھو؟ تم عدل سے کام لو اور وہ سلوک کسی سے نہ کرو جو خود اپنے آپ سے نہیں چاہتے- اسی طرح جس سے پانچ دس روپے تنخواہ لیتے ہو اس کی فرمانبرداری کرتے ہو- پس جس نے آنکھیں دیں جن سے ہم دیکھتے ہیں‘ کان دیئے جن سے ہم سنتے ہیں‘ زبان دی جس سے ہم بولتے ہیں‘ ناک دیا‘ پائوں دیئے جن سے ہم چلتے ہیں‘ عقل‘ فہم‘ فراست دی‘ اتنے بڑے محسن‘ اتنے بڑے مربی‘ اتنے بڑے خالق رزاق کی نافرمانی کریں تو کیا یہ عدل ہے؟ بس میں تمہیں بھی چھوٹا سا فقرہ ان اللہ یامر بالعدل سنانے آیا ہوں اور میں تمہیں دوسری دفعہ‘ تیسری دفعہ‘ چوتھی دفعہ تاکید کرتا ہوں کہ خدا کے معاملہ میں‘ اپنے معاملہ میں‘ غیروں کے معاملہ میں عدل سے کام لو- پھر اس سے ترقی کرو اور مخلوق الٰہی سے احسان کرو- اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا مطالعہ کر کے اس کی فرمانبرداری میں بڑھو-
حلال روزی کمائو- حرام خوری سے نیکی کی توفیق نہیں ملتی- شاہ عبدالقادر صاحب اپنا جوتا مسجد کے باہر اتارا کرتے اور شاہ رفیع الدین اندر لے جاتے پھر بھی ضائع ہو جاتا- شاہ عبدالقادر صاحب نے بتایا کہ ہم باہر جوتا اتار کر یہ نیت کر لیتے ہیں کہ جو لے جائے اس کے لئے حلال- چونکہ چور کمبخت کے نصیب میں رزق حلال نہیں اس لئے اس کو اسے اٹھانے کا موقع ہی نہیں ملتا- غرض اکل مال بالباطل نہ کرو اور بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئو- بیوی‘ بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اٹھاتی ہے- مرد کو اس کا ہزارواں حصہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں- ان کے حقوق کی نگہداشت کرو- و لھن مثل الذی علیھن )البقرۃ:۲۲۹-( ان کے قصوروں سے چشم|پوشی کرو- اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا-
خطبہ ثانیہ
دوسرے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بے حیائیوں سے اور ان امور سے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور وہ منع کرے یا شریعت منع کرے اور بغاوت کی راہوں پر چلنے سے منع کرنا چاہتا ہے- وہ سننا کس کام کا جس کے ساتھ عمل نہ ہو- سنو! دل کو اس کے ساتھ حاضر کرو- القی السمع و ھو شھید- پھر اس پر عمل کرو- اگر عمل نہیں تو کوئی نیکی‘ کوئی ایمانداری‘ کوئی وعظ کسی کام نہیں-
) الحکم جلد۱۵ نمبر۲۳‘۲۴ ۔۔۔ ۷‘۱۴ / جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ (

۲۳ / جون ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
فرمایا- میری حالت یہ ہے کہ پانچ وقت کی نماز بیٹھ کر پڑھتا ہوں- سجدہ زمین پر کرنا مشکل ہے- التحیات میں پائوں کی حالت بدلانی پڑتی ہے- باوجود اس ضعف کے چونکہ دردمند دل رکھتا ہوں اس لئے تمہیں کچھ سنانا چاہتا ہوں-
زمانہ میں آزادی کی ہوا چل رہی ہے- اکثر انگریزی خوان اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی بھی ضرورت میں کچھ متامل ہیں اور کچھ ہنسی اور پرانی جہالت یقین کرتے ہیں- پس ایسے وقت نصیحت کرنا مشکل امر ہے- تاہم درد مند دل والا کیا کرے گا- وہ تو کہے گا اور جس کو کہنے کی دھت ہے وہ رک نہیں سکتا- کہے گا کہ شاید کسی کو فائدہ پہنچے- پس تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کرو- تقویٰ کی راہوں پر چلتے چلتے اس حد تک پہنچ جائو گے کہ تمہاری موت فرمانبرداروں کی موت ہو- اور یہ حالت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان پہلے ہی تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرے-
اس وقت سب سے بڑا مرض جو اسلامیوں میں ہے وہ باہمی تفرقہ ہے- ہماری آوازیں مختلف ہیں‘ لباس مختلف‘ کام مختلف‘ کھانا پینا مختلف- باوجود اس اختلاف کے ہم میں وحدت کی ایک بات ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر خدا کی خادم جماعت بن جائیں- سو لوگوں کا اس طرف تو کچھ خیال نہیں اور بیہودہ بحثیں لے بیٹھتے ہیں جن سے سوائے اس کے کچھ فائدہ نہیں کہ تفرقہ بڑھے-
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تفرقہ ڈالنے اور تفرقہ بڑھانے والی باتیں چھوڑ دیں- ایسی لغو بحثوں سے جن سے نہ دین کا فائدہ نہ دنیا کا‘ منہ موڑ لو اور سب سے مل کر و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً )اٰل عمران:۱۰۴( حبل اللہ‘ قرآن مجید کو محکم پکڑو- دیکھو! لڑکوں میں ایک رسے کا کھیل ہے- اگر ایک طرف کے لوگ اور باتوں میں لگ جاویں تو وہ رسے میں کس طرح جیت سکتے ہیں- اسی طرح اگر تم اور بحثوں میں لگ جائو گے تو قرآن مجید تمہارے ہاتھوں سے جاتا رہے گا-
بعض آدمی ایسی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں کہ مثلاً مسیح کا باپ تھا یا نہ تھا- ایسی بحثوں سے کوئی دینی دنیوی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا- ایسا ہی بعض لوگ صدر انجمن احمدیہ کے انتظامات پر اعتراض کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں- سو تم سن لو کہ میرے اور صدرانجمن کے تعلقات دوستانہ اور پیری مریدی کے رنگ میں ہیں- میں ان کا پیر ہوں اور وہ میرے مرید ہیں- وہ محبت اور اخلاص کے ساتھ میرے فرمانبردار ہیں- ہم ان پر حکمران ہیں‘ جو چاہیں منوا لیتے ہیں- جو لوگ اس بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں- انہیں چاہئے کہ ان باتوں کو چھوڑ دیں کیونکہ ان کے واسطے یہ بحث فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دینے والی ہے- کیا انجمن تمہاری مرید ہے اور کیا اس تدبیر سے وہ تمہارے فرمانبردار ہو جاویں گے؟
نیز سن رکھو- دین اسلام میں بہت توسیع ہے- صحابہ کرامؓ آمین بالجہر بھی کہہ لیتے- آمین بالاخفاء بھی کر لیتے- سینہ پر بھی ہاتھ باندھتے اور ناف کے نیچے بھی- بسم اللہ جہرا" بھی پڑھتے اور سرا" بھی اور بعض تابعین ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے رہے- ایسے اختلافات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں- صرف ان مباحث سے بے ہودہ تفرقہ پیدا ہوتا ہے- دل اللہ سے ڈرنے والا مانگو- بہت بولنے کی عادت کم کرو کہ بہت بولنے سے دل مر جاتا ہے- اور سب کے سب مل کر اتحاد و اتفاق سے کام کرو- خدا کا شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ آیا اور اس نے مختلف مذاہب والوں کو اختلاف کی آگ سے نکال کر بھائی بھائی بنا دیا-
) بدر جلد۱۰ نمبر ۳۵ ۔۔۔ ۲۹ / جون ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۱ / جولائی ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی- انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر- و ما ادریٰک ما لیلۃ القدر- لیلۃ القدر خیر من الف شھر- تنزل الملٰئکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر- سلٰم ھی حتیٰ مطلع الفجر- )القدر:۲ تا۶(
اور پھر فرمایا -:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب تشریف لائے تو اس وقت ان کی بعثت کی بڑی ضرورت تھی- لوگ نہ اسماء الٰہی کو جانتے تھے‘ نہ صفات الٰہی کو - نہ افعال سے آگاہ تھے‘ نہ جزا و سزا کے مسئلہ کو مانتے تھے - انسان کی بدبختی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے مالک‘ اپنے خالق کے نہ اسماء کو جانے‘ نہ صفات کو- غرض لوگ اس کی رضامندی سے آگاہ تھے نہ اس کے غضب سے- ایسا ہی انسانی حقوق سے بے خبر-
سب سے بڑا مسئلہ جو انسان کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ جزا و سزا کا مسئلہ ہے- اگر شریف|الطبع انسان کو معلوم ہو کہ اس کام کے کرنے سے میری ہتک ہو گی یا مجھے نقصان پہنچے گا تو وہ کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا بلکہ ہر فعل میں نگرانی کرتا ہے- مختلف طبائع کے لوگ اپنے مالک کے اسمائ‘ صفات کے علم اور جزاء سزا کے مسئلہ پر یقین کرنے سے نیکیوں کی طرف توجہ کرتے اور بداعمالیوں سے رکتے ہیں-
چنانچہ ملک عرب میں شراب کثرت سے پی جاتی اور الخمر حماء الاثم صحیح بات ہے- پھر فرمایا النساء حبائل الشیطان- سوم ملک میں کوئی قانون نہیں تھا- ایسا اندھیر پڑا ہوا تھا- جن سعادتمندوں نے نبی کریم~صل۲~ کے ارشاد پر عمل کیا وہ پہلے بے خانماں تھے پھر بادشاہ ہو گئے- خشن پوش تھے حریر پوش بن گئے- نہ مفتوح تھے نہ فاتح‘ مگر اس اطاعت کی بدولت دنیا میں فاتح قوموں کے امام‘ خلفائے راشدین اور اعلیٰ مرتبت سلاطین کہلائے-
یہ سب اس کتاب کی برکت تھی جسے اللہ نے ایسی اندھیری رات میں جسے لیلہ~ن۲~ القدر سے تعبیر کیا گیا ہے اپنے بندے پر نازل کیا- جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی حالات میں ہم میں ایک مجدد کو بھیجا- نبی|کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں شرک کا زور تھا- سو اس کی تردید میں آپ نے پوری کوشش فرمائی- قرآن|مجید کا کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں- اس زمانے میں لوگوں میں یہ مرض عام تھا کہ دنیاپرستی غالب ہے‘ دین کی پروا نہیں- اس لئے آپ نے بیعت میں یہ عہد لینا شروع کیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا- کیونکہ دنیا پرستی کا یہ حال ہے کہ جیسے چوہڑے کا چھرا حلال حرام جانور دونوں پر یکساں چلتا ہے‘ اسی طرح لوگوں کی فکر اور عقل حرام حلال کمائی کے حصول پر ہر وقت لگی رہتی ہے- فریب سے ملے‘ دغا سے ملے‘ چوری سے ملے‘ سینہ زوری سے ملے‘ کسی طرح روپیہ ملے سہی- ملازم ایک دوسرے سے تنخواہ کا سوال نہیں کرتے بلکہ پوچھتے ہیں بالائی آمدنی کیا ہے؟- گویا اصل تنخواہ آمد میں داخل نہیں-
مسلمانوں پر ایک تو وہ وقت تھا کہ اپنی ولادت‘ موت تک کی تاریخیں یاد اور لکھنے کا رواج تھا- یا اب یہ حال ہے کہ لین دین شراکت تجارت ہے مگر تحریر کوئی نہیں- اگر کوئی تحریر ہے تو ایسی بے ہنگم جس کا کوئی سر پیر نہیں- نہ اختلاف کا فیصلہ ہو سکتا ہے‘ نہ اصل بات سمجھ آ سکتی ہے- ہمارے بھائیوں کو چاہئے کہ وہ امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا-‘‘ پس وہ دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ خدا بھول جاوے-
پھر فرمایا کہ جھوٹے قصے اپنے وعظوں میں ہرگز روایت نہ کرو‘ نہ سنو- مخلوق الٰہی کو قرآن مجید سنائو- ہدایت کے لئے کافی ہے-
سلیمان کی انگشتری اور بھٹیاری کا بھٹ جھونکنے کا قصہ بالکل لغو اور جھوٹ ہے- اگر
ایک پتھر میں جو جمادات سے ہے اتنا کمال ہے تو کیا ایک برگزیدہ انسان میں جو اشرف المخلوقات ہے یہ کمال نہیں ہو سکتا؟ انبیاء کی ذات میں کمال ہوتے ہیں- اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ )الانعام:۱۲۵(
پس تم خوب یاد رکھو کہ انبیاء دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوتے جیسے کہ سلیمان کی نسبت شیاطین نے دنیا میں مشہور کیا- اگر دنیا میں کوئی کسی کی شکل بن سکتا ہے تو امان ہی اٹھ جائے- مثلاً ایک نبی وعظ کرنے لگے- اب کسی کو کیا معلوم کہ یہ نبی ہے یا نعوذ باللہ کوئی برا آدمی ہے؟ خدا نے ایسی باتوں کا رد فرما دیا ہے کہ ما کفر سلیمان و لٰکن الشیاطین کفروا )البقرۃ:۱۰۳-( تم ایسی باتوں سے توبہ کر لو- اگر کوئی ایسا وعظ سنائے تو صاف کہہ دو کہ انبیاء کی ذات جامع کمالات ایسے افترائوں سے پاک ہے-
) بدر جلد۱۰ نمبر۳۹ ۔۔۔۔ ۲۷ / جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲(
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۵ / ستمبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

) خطبہ عید الفطر کے بعد وعظ (
فرمایا-:
میاں صاحب )صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد( نے آج عید کا خطبہ پڑھا ہے اور گزشتہ جمعہ کے دن بھی انہوں نے لطیف سے لطیف وعظ تمہیں سنایا تھا اور اگر تم لوگ غور کرتے تو وہ بہت ہی الطف بات ہوتی- میں نے اس خطبہ کی بہت قدر کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں- وہ اپنے اندر نکات معرفت رکھتا تھا- میں امید کرتا ہوں کہ بہت سے شریف الطبع لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہو گا- مگر بعض بلید|الطبع‘ گندے‘ نابکار اور پلید طبع لوگ ہوتے ہیں- میں ہنوز اس خطبہ کی لذت میں تھا اور اس سے مجھے فرصت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ میرے سامنے ایک خبیث طبع شخص نے ایک لمبا شکایتی رقعہ کسی کی غیبت میں پیش کر دیا- آہ! ان معرفت کے نکتوں نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا- خدا کے کلام کی عجیب در عجیب باتوں سے بھی ایسے لوگ کچھ حاصل نہیں کرتے تو ہم انہیں کیا کہیں- یہ گندے بیمار ہیں- لطیف غذا بھی ان کے منہ میں جا کر گندی ہو جاتی ہے-
میں نے تم سے معاہدہ لیا ہے کہ شرک نہ کرو- شرک کی باریک در باریک راہیں ہیں- بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہر حال ان کا کام کرا دوں گا- خوب یاد رکھو- میں ایجنٹ نہیں ہوں- میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں- میری ماں اعوان قوم کی ایک عورت تھی- خدا کے فضل نے اسے علم عطا کیا تھا- میرا باپ ایک غریب محنتی آدمی تھا جو مختصر سی تجارت سے اپنا گذارا کر لیتا تھا- میں ایجنٹ نہیں ہوں- ہاں اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی کرنا میرا کام ہے- خدا نے عجیب در عجیب رنگوں میں دعا کرنا مجھے سکھایا ہے- دعائوں میں تڑپنا اور قسم قسم کے الفاظ میں دعا کرنا مجھے بتایا گیا ہے- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے یہ تعلیم دی ہے- میں ان دعائوں میں کبھی کبھی قبولیت کے اثر بھی دیکھتا ہوں- مگر جماعت کے بعض لوگ دعا کرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں- یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں- کوئی تمہارا کارساز نہیں- میں علم غیب نہیں جانتا- نہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے- اللہ ہی تمہارا معبود ہے- اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں‘ کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں- اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے- وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے- اس کا ایک نظارہ اس امر میں دیکھو کہ تم بھی مرزا کے مرید ہو اور میں بھی مرزا کا مرید ہوں- مگر اس نے تمہیں پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا- اس میں نہ میری خواہش تھی اور نہ مجھ پر کسی انسان کا احسان ہے- میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی اور نہ یہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے- دیکھو میں بیمار ہوا- ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے بچنے کی امید نہیں- مگر میں زندہ بولتا موجود ہوں- خدا ہی کا علم کامل ہے‘ اس کا تصرف کامل ہے- اسی کے آگے سجدہ کرو‘ اسی سے دعا مانگو- روزہ‘ نماز‘ دعا‘ وظیفہ‘ طواف‘ سجدہ‘ قربانی اللہ کے سوا دوسرے کے لئے جائز نہیں- بے ایمان شریروں نے لوگوں کے اندر شرک کی باتیں گھسا دی ہیں- کہتے ہیں قبروں پر جائو اور قبروالے سے کہو کہ تو ہمارے لئے خدا کے آگے عرض کر- اسلام نے ہم کو اس طرح کی دعا نہیں سکھائی-
سو تم شرک کو چھوڑ دو اور چوری نہ کرو- جو شخص نوکر ہے اور اپنے فرائض منصبی کو ادا نہیں کرتا وہ چور ہے- جو شخص تجارت کرتا ہے اور اپنے لین دین کا حساب صاف نہیں رکھتا اور اس کا معاملہ صاف نہیں‘ وہ چور ہے- اس کے مال میں چوری کا حصہ شامل ہو جاتا ہے- تم شراکتیں کرتے ہو- بعد میں تمہارے درمیان جوت چلتے ہیں- اس کا سبب کیا ہے؟ یہی کہ حلال کھانے کی طرف توجہ کم ہے- کسب والا جو اپنے کسب میں شرارت کرتا ہے‘ جعل ساز‘ ٹھگ‘ یہ سب چور ہیں- کیونکہ وہ اکل بالباطل کرتے ہیں-
تم شرک نہ کرو‘ چوری نہ کرو‘ بدکاری نہ کرو- بدکاری آنکھ کی بھی ہوتی ہے‘ بدکاری کان کی بھی ہوتی ہے اور بدکاری زبان کی بھی ہوتی ہے- کسی بدکاری کے بھی نزدیک نہ جائو- کسی پر بہتان نہ باندھو-
ابودائود میں ایک حدیث آئی ہے- حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم نے فرمایا کہ تمہاری طبائع‘ خواہشات‘ چال چلن‘ لباس‘ خوراک‘ تربیت‘ پرورش‘ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لئے تم لوگوں میں اختلافات ہوتے ہیں- تم ایسے اختلافات کو مجھ تک نہ پہنچایا کرو- ان سے میرا دل دکھی ہوتا ہے- پس تم کو میں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ ایسی باتیں مجھ تک نہ پہنچائو- مگر تم پہنچاتے ہو اور میرا دل دکھاتے ہو- تم میں بعض شریر‘ گندے اور ناپاک لوگ ہیں وہ تمہیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں- ان میں بغض اور کینہ کا مرض ہے- وہ بدقسمت ہیں- وہ بہت بدقسمت ہیں- انہیں چاہئے کہ توبہ کریں اور جلد توبہ کریں- تم لوگ تفرقہ کو چھوڑ دو اور جھگڑے سے منہ موڑ لو- کوئی تمہارا اختلافی مسئلہ نہیں جس کا اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم اور اس کی تعلیم سے میں فیصلہ نہیں کر سکتا- تم اکثر جاہل ہو- خدا نے مجھے علم دیا ہے- اللہ تعالیٰ نے مجھے نیکی کی راہ پر آگہی دی ہے- تم میں گندے باہم لڑانے والے بھی ہیں اور وہ سخت گندے ہیں- وہ اس حکم الٰہی سے غافل ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و لاتنازعوا )الانفال:۴۷( اور آپس میں جھگڑا نہ کر- فتفشلوا )الانفال:۴۷( پس بودے ہو جائو گے- و تذھب ریحکم )الانفال:۴۷( اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی- تم نے مجھے دکھ دیا ہے- تمہاری تحریریں میں نے پڑھی ہیں اور ان سے مجھے سخت رنج پہنچا ہے- تم میں سے بعض چھوٹے چھوٹے لڑکے مجھ بڈھے کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں- ان سے خبردار رہو- اور وہ آپ خود بخود بلا اجازت مخلوق کے واعظ بنتے ہیں اور جوش بھرے کلمات منہ سے نکالتے ہیں- ان سے میرا دل بہت رنجیدہ ہے کیونکہ انہوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے- غرض آپس میں لڑائیاں چھوڑ دو- کینے چھوڑ دو- اگر دوسرا کوئی تمہیں کچھ کہے تو اس کی باتوں پر صبر کرو- ایسا نہ کرو کہ وہ تمہیں ایک ورق لکھے تو تم اس کے جواب میں چار ورق لکھو- صبر کے سوائے کبھی لڑائی ختم نہیں ہوتی- میں نہیں جانتا کہ میرا مرید کون ہے- میرا مرید وہی ہے جو ان معاہدات پر عمل کرتا ہے جو اس نے میرے ساتھ کئے ہیں- میرا مرید وہی ہے جو ان باتوں پر عمل کرے جو حضرت صاحب نے حکم دیئے تھے- بعض لوگ صرف تماشا کے طور پر باتیں سنتے ہیں وہ بدقسمت ہیں-
مجھے کوئی غیب کا علم نہیں- میرا زخم باجرے کے دانہ کے برابر ہے- میرے گیارہ دوست ڈاکٹروں نے بڑے بڑے زور سے علاج کیا ہے مگر وہ اب تک اچھا نہیں ہوا- میں بچپن سے شرک سے بیزار‘ |لاالٰہ الا اللہ کا بدل معتقد اور زبان سے قائل ہوں- اللہ تعالیٰ اس خاندان پر رحم کرے جس سے میں نے یہ پاک تعلیم پائی- محمد رسول اللہ کا اعتقاد لا الٰہ الا اللہ کا متمم جزو ہے- اس کو بھی میں نے ابتدا سے پایا ہے و الحمد للٰہ رب العالمین|-
کوئی میری باتوں کو پسندیدگی سے لے یا ناپسندیدگی سے‘ مجھے نہ اس کی پرواہ ہے نہ اس کی- میرا کام اس وقت تبلیغ ہے- ہاں میرے دل میں ایک جوش ہے- میں چاہتا ہوں کہ تمہارے درمیان جو تنازعات ہیں وہ دور ہو جائیں- تم ان جھگڑوں کو چھوڑ دو- ورنہ یاد رکھو کہ تم دنیا سے نہیں جائو گے جب تک کہ دکھ نہ پالو- لڑائی تنازع نہ کرو- توبہ کرو- جو حاضر ہے وہ سن لے - جو نہیں اس کو حاضرین سنا دیں- جو تم میں ان باتوں پر عمل کرنے والا ہے اس کا بھلا ہو گا اور جو نہیں مانتا اس کو میں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں- والسلام علیکم-
) بدر جلد ۱۰ نمبر۴۴ ‘ ۴۵ ۔۔ ۵ / اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۶‘۷(
* - * - * - *
‏KH1.34
خطبات|نور خطبات|نور
۲۷ / اکتوبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی- خطبہ میں آپ نے فرمایا-
انسان کی فطرت ہے کہ اپنے سے زیادہ طاقت والے کی ہمیشہ اطاعت کرتا ہے- عقلمندوں کا یہی کام ہے- اور جو ایسا نہ کرے لوگ اسے ملامت کرتے ہیں- اسی فطرت انسانی کو نگاہ رکھ کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبارک الذی بیدہ الملک )الملک:۲( بہت برکت والا وہ رب ہے جس کے ہاتھ میں سب بادشاہی ہے- سارا جہان اسی کے قبضئہ قدرت میں ہے- وہ جسے چاہتا ہے بڑا بناتا ہے اور جس گھرانے کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے- اسی طرح وہ ملکوں کو بڑھاتا ہے پھر انہیں زوال دیتا ہے- سب راج جس کے ہاتھ میں ہے وہ اللہ ہے- اگر تمہارا دل چاہتا ہے کہ کسی طاقتور کے ساتھ تمہارا تعلق ہو‘ اگر تمہاری خواہش ہے کہ کسی حکومت والے کے ساتھ تمہاری دوستی ہو‘ اگر تم پسند کرتے ہو کہ کوئی دولت والا تمہارا اپنا ہو تو یاد رکھو ہم بڈھے ہیں- معلوم نہیں کس وقت موت آ جائے- ہماری بات یاد رکھو- اگر خدا کے ساتھ تمہارا تعلق ہے تو سب کچھ تمہیں حاصل ہے ورنہ کچھ بھی نہیں- میں نے بڑی بڑی ظاہری طاقتوں والے دیکھے کہ ان کے نام و نشان مٹ گئے- اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی بابرکت نہیں- وہ مٹی سے انسان کو بناتا ہے اور وہ بڑوں کو خاک میں ملا دیتا ہے- سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے- یہ ایک نکتہ معرفت ہے- خدا کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرنا- بعض لوگ یہی تجویزیں کرتے رہتے ہیں کہ ہم کس سے اور کس طرح روپیہ حاصل کریں اور پھر اسی میں مر جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی محبت اور اپنی کتاب کی محبت اور اپنے رسول کی محبت عطا کرے-
سن رکھو کہ مجھے اللہ نے تین محبوب بخشے ہیں- سب سے پہلا میرا محبوب اللہ ہے- پھر اس کی کتاب ہے- پھر میرا محبوب وہ جامع کمالات انسانی ہے جس کے ذریعہ سے ان دو کا پتہ ملا- وہ خاتم الرسل ہے- اور میری دعا ہے کہ اسی پر اللہ تعالیٰ ہمارا انجام کرے- آمین
) بدر جلد۱۱ نمبر۱ ۔۔۔ ۲ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ (
* - * - * - *

۱۰/نومبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا-
قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے- جس طرح خدا تعالیٰ کی کوئی حدوبسط نہیں‘ اسی طرح اس کے کلام کی بھی کوئی حدوبسط نہیں- لہذا کلام الٰہی کی تفسیر کو ہم کسی خاص معنی میں محدود نہیں کر سکتے- قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے- بظاہر چاہئے تھا کہ خدا ہی اس کی کوئی تفسیر کر دیتا مگر خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب کی کوئی تفسیر نازل نہیں فرمائی- پھر نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن شریف کی کوئی تفسیر نہیں کی- ان کے بعد خلفائے راشدین کا حق تھا انہوں نے بھی کوئی تفسیر نہیں کی- پھر فقہ کے ائمہ اربعہ گزرے ہیں- حضرت امام ابوحنیفہ ۸۴ ہجری میں ہوئے- بہت قریب وقت میں تھے- صحابہ کو دیکھا مگر کوئی تفسیر قرآن شریف کی نہ لکھی- پھر امام شافعی ہوئے- امام مالک ہوئے- امام احمد حنبل ہوئے- مگر کسی نے قرآن شریف کی تفسیر نہ لکھی- پھر محدثین بخاری‘ ترمذی‘ ابودائود بڑے شاندار لوگ گزرے ہیں- پر انہوں نے بھی کوئی تفسیر نہیں لکھی- صوفیائے کرام میں خواجہ معین الدین‘ شہاب الدین سہروردی‘ حضرت مجدد شاہ نقشبند‘ حضرت سید عبدالقادر جیلانی بڑے عظیم الشان لوگ ہوئے- علم ظاہر کے ساتھ علم|باطن بھی رکھتے تھے- مگر کسی نے کوئی تفسیر نہیں لکھی- حضرت شیخ شہاب|الدین کی ایک تفسیر ہے- مگر اس میں انہوں نے اپنی کوئی تحقیقات نہیں لکھی- میں نے بھی ایک تفسیر لکھی تھی اور لوگوں نے اصرار کیا کہ جلد چھپوائو- مگر میں نے سوچا کہ میری تفسیر کو دیکھ کر بعد میں آنے والے لوگ ان معنوں پر حصر کرنے لگیں گے کہ یہی معنے ہیں اور بس- اور اس طرح قرآن شریف کے حقائق ومعارف کا دروازہ آئندہ کے لئے اپنے اوپر بند کریں گے- یہ مولا کریم کی کتاب ہے- ہر زمانہ کے مباحثات کا اس میں جواب ہے- اور ہر زمانہ کے لئے شفاء لما فی الصدور )یونس:۵۸( ہے- اس کو محدود نہیں کر دینا چاہئے- ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تفسیر میں لغت عرب سے باہر نہ نکلیں- اللہ تعالیٰ کے اسماء جو قرآن شریف میں ہیں‘ ان سے باہر نہ جائیں- چودہ ضروریات اسلام ہیں- کلمئہ|شہادت‘ نماز‘ روزہ‘ زکٰوۃ‘ حج‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ یہ سات ہوئے- ایسا ہی سات عقائد ہیں- اللہ تعالیٰ پر ایمان‘ فرشتوں پر‘ کتب الٰہیہ پر‘ انبیاء پر‘ تقدیر پر‘ جزاء وسزا پر‘ جن میں جنت ونار شامل ہیں- یہ کل چودہ باتیں ہیں جو تمام مسلمانوں میں مشترکہ ہیں اور ان کا منکر اسلام سے باہر ہے- یہ چودہ علوم ہیں- ان کے خلاف نہ کسی کا قول‘ نہ کسی کا فعل جائز ہے- کوئی تفسیر ان کے خلاف نہ ہو- سوم‘ تعامل کے برخلاف جو بات کوئی پیش کرے‘ وہ ماننے کے قابل نہیں- تفسیر کے وقت ان باتوں کو نگاہ میں رکھنا چاہئے اور اس کے بعد جس طرح خدا کے عجائبات بے انتہاء ہیں اسی طرح اس کے کلام کے معارف بھی بے انتہاء ہیں- قرآن|شریف ایک سمندر ہے-
)بدر جلد۱۱ نمبر ۴‘۵ ------- ۱۶ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ۲(
* - * - * - *

۸ / دسمبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
‏]txet [tag تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے فرمایا-:
و من یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ و لقد اصطفینٰہ فی الدنیا و انہ فی الاٰخرۃ لمن الصٰلحین- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العٰلمین- و وصیٰ بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب- یٰبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلاتموتن الا و انتم مسلمون- ام کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الٰھک و الٰہ اٰبائک ابراھیم و اسمٰعیل و اسحٰق الٰھاً واحداً و نحن لہ مسلمون )البقرہ:۱۳۱ تا ۱۳۴(
دنیا کی بڑی بڑی قومیں اہل اسلام‘ تمام عیسائی‘ تمام یہودی‘ سارا یورپ‘ سارا امریکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی تعظیم سے یاد کرتے ہیں اور سب ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان انسان ہونے کے معتقد ہیں- ابراہیم علیہ السلام میں اس قدر خوبیاں اور برکتیں تھیں کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ابراہیم! اگر تمام آسمان کے ستارے اور زمین کے ذرات گن سکتا ہے تو گن- اسی قدر تیری اولاد ہو گی- مکہ معظمہ میں جہاں جہاں حضرت ابراہیم کھڑے ہوئے‘ جہاں جہاں چلے پھرے اور جہاں جہاں دوڑے ہیں یہ سب حرکات اللہ تعالیٰ نے عبادات میں داخل کر دیں- اخیر عمر میں ایک شہزادی بھی آپ کے نکاح میں آئی- ننانوے سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ایک صالح اور نیک لڑکا عطا فرمایا- مال مویشی کثرت سے تھے اور بیبیاں اور بچے بھی تھے- دنیوی دلجمعی کے اسباب بھی سارے مہیا تھے- جب مہمان آیا تو معاً عجل حنیذ بھنا ہوا گوشت مہمان کے سامنے لا حاضر کیا- اگر اسباب مہیا نہ ہوتے تو معاً یہ تیاری ناممکن تھی-
وہ گر جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو یہ دین و دنیا کی برکتیں عطاء کی تھیں وہ کیا تھا؟ جو سارے پیغمبر موسیٰؑ دائودؑعیسیٰؑ ساروں کو ابرہیمؑ کی ہی برکت سے حصہ ملا تھا اللٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم اور کما بارکت علیٰ ابراھیم میں بھی اسی مماثلت کی دعا سکھلائی ہے- جڑ ان برکتوں کی اور گر ان تمام نعمتوں کا کیا تھا؟ بس یہی ایک گر تھا اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین جب کہا اس کو اس کے رب نے کہ تو فرماں|بردار ہو جا- عرض کیا کہ میں فرمانبردار ہو چکا- تو تو رب العالمین ہے- تیری فرمانبرداری سے کون اعراض کرے سوائے اس کے جو کہ بے وقوف ہو- اللہ اللہ! رب العالمین اور اس کی سچی فرمانبرداری! اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے-
یہ گر دینی و دنیوی برکتوں کا نہ صرف اپنے ہی لئے ابراہیم علیہ السلام نے تجویز کیا بلکہ اپنے بیٹوں کے لئے اور ان بیٹوں نے ابراہیمؑ کے پوتوں کے لئے بھی یہی اسلمت لرب العالمین )البقرۃ:۱۳۲( سے سبق حاصل کر کے استحضار موت کے وقت وصیتیں کیں-وصیٰ بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب یابنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلاتموتن الا و انتم مسلمون- ام کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الٰھک و الٰہ اٰبائک ابراھیم و اسمٰعیل و اسحٰق الٰھاً واحداً و نحن لہ مسلمون-میں بھی تم کو تمام خوشحالیوں کا گر بتاتا ہوں کہ تم بھی رب|العالمین کے فرمانبردار بن جائو- کسی میں تکبر فرمانبردار بن جانے میں حجاب ہوتا ہے- کسی میں کسل فرمانبرداری کے لئے حجاب ہوتا ہے- کسل کو دور کرو اور اتباع نبوی کا التزام رکھو- اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے-قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )اٰل عمران:۳۲-(دوسری جگہ فرمایا ہے اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون )البقرۃ:۳۹-( مگر مشکل یہ ہے کہ یا تو کسل ہوتا ہے یا اپنی ہی اٹکل سے کاموں کے وقت اپنا ایک مذہب بنا لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ متبع ہو جائو اور فرمانبردار بن جائو- آمین
) بدر جلد۱۱ نمبر۱۱ ۔۔ ۱۴ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲(
* - * - * - *

۱۵ / دسمبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
انا اعطیناک الکوثر- فصل لربک و انحر- ان شانئک ھو الابتر )الکوثر:۲ تا۴( کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا-:
میں اس بات میں خوش ہوں کہ ہر روز مجھے دن میں چار مرتبہ روحانی غذا پہنچتی ہے- صبح مستورات میں درس قرآن شریف سناتا ہوں- دوپہر کو حدیث شریف باہر پڑھاتا ہوں- سہ پہر کو بھی درس تدریس ہی رہتا ہے- شام کو مغرب سے پہلے پھر درس قرآن شریف ہوتا ہے- ان چھوٹے دنوں میں روح کی ان بار بار کی غذائوں کا میں بھی محتاج ہوں-
کوثر کے معنی خیر کثیر کے ہیں- پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا میں تنہا تھے- بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا کچھ خیر کثیر دیا اور دیتا جا رہا ہے- سکھوں کا مذہب صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ کو ایک مان لو اور دعا کر لو- کوئی زیادہ قیدیں اس مذہب میں نہیں- مگر باوجود اس آسانی کے پھر بھی اس مذہب میں کوئی ترقی نہیں- بخلاف اسلام کے کہ اس میں بہت ساری پابندیاں ہیں- نماز کی‘ روزہ کی‘ حج کی‘ زکٰوۃ کی اور دیگر عبادات کی‘ معاملات کی‘ مگر باوجود ان تمام پابندیوں کے اسلام میں روز بروز ترقی ہے- یہ کیسا خیر کثیر ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا ہو رہا ہے- ایک ملا تو کہے گا کہ اعطینا صیغہ ماضی کا بمعنی مضارع ہے- آخرت میں آپ کو حوض کوثر عطا ہو گا- اسلمنا- اس میں کلام نہیں کہ آخرت میں حوض کوثر آپ کو عطا ہو گا- مگر اس میں کیا شک ہے کہ دنیا میں جس کثرت سے آپ پر عطایات الٰہی ہوئے وہ بے|حدوبے|مثل ہیں- کوثر کا لفظ کثیر سے مشتق ہے- پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک ایک صحابی بیس‘ چالیس‘ بلکہ ساٹھ پر فاتح ہوا- خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقام مقبلانہ ایسا تھا کہ جس کی نظیر نہیں- پنجوقت نماز آپ خود پڑھاتے تھے- سارے قضایا آپ خود ہی فیصلہ کرتے تھے- بیویاں جس قدر آپ کی تھیں ان کی خاطرداری اس قدر تھی کہ سب آپﷺ~ سے خوش تھیں- لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ کی عورتوں کی پوزیشن ہی کچھ ایسی تھی کہ زیادہ تکلفات نہ تھے- مگر عورتوں کی جبلت کا بیان یوں فرمایا ہے کہ مرد کی عقل کو چرخ دینے والی عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی مخلوق میں نے نہیں دیکھی کہ عقلمند مرد کی عقل کو کھو دیتی ہیں-
عورتوں پر ہر بات میں تشدد مت کرو- لڑکوں کو بھی مارنے اور سزا دینے کا میں سخت مخالف ہوں- حضرت صاحب بھی لڑکوں کو مارنے سے بہت منع کیا کرتے تھے- میں تو انگریزی پڑھا نہیں- سنا ہے کہ یونیورسٹی کی بھی یہی ہدایت ہے کہ استاد طلباء کو نہ مارا کریں- باوجود ان تاکیدوں کے لوگ بچوں کے مارنے سے باز نہیں آتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارا فرض منصبی ہے- وہ جھوٹ کہتے ہیں- بہت لوگ ہیں کہ وعظ کرنا تو سیکھ لیتے ہیں مگر خود عمل درآمد نہیں سیکھتے- تمہارے ہاتھوں میں اب سلطنت نہیں رہی- اگر تم اچھے ہوتے تو سلطنتیں تم سے نہ چھینی جاتیں-
) بدر جلد۱۱ نمبر۱۲ ۔۔۔ ۲۱ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ (
* - * - * - *

۲۵ / دسمبر ۱۹۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبل دوپہر - قادیان

خطبہ نکاح
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے مفتی فضل احمد صاحب کا نکاح میاں اللہ دتا ساکن جموں کی دختر|نیک اختر سے پڑھا- اس موقع پر حضور نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ ایڈیٹر کے الفاظ میں درج ذیل ہے-
نکاح ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں انسان کا تعلق ایک اور وجود کے ساتھ ہوتا ہے اور انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں جان سکتا کہ یہ تعلق مفید اور بابرکت ہو گا یا نہیں- بعض اوقات بڑے بڑے مشکلات پیش آ جاتے ہیں یہاں تک کہ انسان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودۃ کا باعث ہو‘ وہ پیدا ہوتی ہے-
سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذات الدین ہو- حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب و نسب اس کے محرکات نہ ہوں- پہلے نیت نیک ہو- پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو اور دعائیں کرو-
دعائوں اور استخاروں کے بعد جب نکاح کا موقع آتا ہے تو جو خطبہ اس وقت پڑھا جاتا ہے وہ یہ ہے-
الحمد للٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیاٰت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ و لاتموتن الا و انتم مسلمون- )اٰل عمران:۱۰۳( یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء و اتقوا اللہ الذی تسائ|لون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیباً )النسائ:۲-( یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و قولوا قولاً سدیداً- یصلح لکم اعمالکم و یغفر لکم ذنوبکم و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً )الاحزاب:۷۱‘۷۲-(
ترجمہ -: سب تعریفیں واسطے اللہ کے- ہم حمد کرتے ہیں اور ہم مدد چاہتے ہیں اور ہم استغفار کرتے ہیں اور پناہ مانگتے ہیں اپنے نفسوں کے شر سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے- جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ قرار دے اسے ہدایت کرنے والا کون؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ~ اس کا بندہ اور رسول ہے- اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا تقویٰ کرنے کا حق ہے- اور تم ایسے محتاط رہو کہ تمہاری موت فرمانبرداری کی حالت میں ہو- اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی قسم سے اس کا زوج پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں- اور جس کا آپس میں واسطہ دیتے ہو- اور ناطے والوں کے حقوق کی محافظت کرو- اللہ تم پر نگہبان ہے- اے ایماندارو! اللہ سے ڈرو اور سچی بات کہو- سنوار دے تمہارے کام اور بخش دے تمہارے گناہ- اور جو اطاعت کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی پس وہ بڑا کامیاب ہوا-
اس خطبہ میں بھی اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ان دعائوں سے کام لے اور اپنے اعمال و افعال کے انجام کو سوچے اور غور کرے- پھر نکاح کی مبارکباد کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا سکھائی بارک اللہ لک و بارک علیک و جمع بینکما فی خیر )جامع ترمذی کتاب النکاح باب ماجاء للتزوج( یعنی اللہ|تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تم دونوں پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو نیکی پر جمع کرے- پھر مباشرت کے وقت بھی دعا سکھائی- ایسے وقت میں کہ انسان جوش میں بے خود ہوتا ہے اس وقت میں بھی دعا کی طرف متوجہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال کی دلیل ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے کتنا عظیم تعلق ہے- یہ بات ہر شخص نہیں سمجھ سکتا- اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طہارت قلب اور باخدا زندگی کا پتہ لگتا ہے- ایسے وقت میں کہ انسان کی شہوانی قوتیں ہیجان میں ہوں اسے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنا معمولی امر نہیں ہو سکتا- مگر آپ نے حکم دیا کہ اس وقت انسان دعا کریبسم اللہ اللٰھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا)بخاری کتاب الدعوت باب مایقول اذا اتی اھلہ( اللہ کے نام سے یا اللہ! ہم کو شیطان سے دور رکھ اور اس وجود کو بھی شیطان سے بچائیو جو تو نے ہم کو عطا کیا- یعنی اس تعلق سے جو اولاد پیدا ہو اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھیو-
اس دعا میں عجیب فلسفہ ہے- موجودہ دنیا میں یہ طبی انکشاف ہوا ہے کہ جماع کے وقت بلکہ اس سے بھی پہلے ایک سال تک کے خیالات کا اثر بچے پر ہوتا ہے- مگر دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر کیسی دور تک گئی ہے- آپ نے نکاح کے پاک تعلق سے بھی پہلے ایسی تربیت شروع کی کہ دعائوں میں انسان نشو و نما پائے- اب جس شخص نے دعائوں اور استخاروں کے بعد نکاح کیا اس کے خیالات اور ارادوں کی کیفیت معلوم ہو سکتی ہے- پھر جب جماع کے وقت وہ شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا کرے گا تو تم سوچو کہ بچے میں ان کا کیسا پاک اثر پڑے گا- اور پھر جس تربیت کے نیچے بچے کو آئندہ رکھا جاتا ہے وہ جدا امر ہے-
غرض انسان دعائوں سے بہت کام لے- اگر کسی شخص سے یہ کوتاہی ہو گئی ہو کہ کوئی اس طریق پر نکاح نہ کر سکا ہو اور اسے دعائوں کا یہ موقع نہ رہا ہو تو پھر بھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے- اس کے لئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک احسان ہم پر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ سچے دل سے یہ پڑھیںانا للٰہ و انا الیہ راجعون اللٰھم اجرنی فی مصیبتی و اخلف لی خیراً منھا )جامع مسلم کتاب الجنائز-(میرا ایمان ہے اگر کوئی شخص سچے دل سے یہ دعا پڑھے اور استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ ان غلطیوں کے برے نتائج سے اسے محفوظ رکھے گا- غرض نکاح میں ان امور کو مدنظر رکھو اور ضرور رکھو- ان باتوں کو دوسرے لوگوں تک پہنچا دو-
) الحکم جلد ۱۶ نمبر ۱ ۔۔۔ ۷ / جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۹(
* - * - * - *
۱۹ /اپریل ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے اس جمعہ کے خطبہ میں قوم کو اپنے عہد پر جو ان کے دست مبارک پر کیا ہے ثابت قدم رہنے اور اپنے میں نیک نمونہ بنانے کی تاکید فرمائی کیونکہ عہدشکنی کا نتیجہ نفاق ہے- فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم الیٰ یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ و بما کانوا یکذبون )التوبۃ:۷۷-(
اور فرمایا کہ -:
بدظنی سے اور بدنام ہونے سے بچو- خدا تعالیٰ کا اٹل قانون ہے و اللہ مخرج ما کنتم تکتمون )البقرۃ:۷۳( جو کچھ تم چھپاتے ہو اللہ اسے ظاہر کرنے والا ہے- جو شخص ایک انسان کے سامنے تو بدی کرنے سے جھجکتا ہے مگر خدا کو حاضر ناظر جان کر پھر بدی کرتا ہے‘ اس نے خدا کو نہیں پہچانا- اللہ تعالیٰ تمہیں نیک اعمال کی توفیق بخشے- ) الحکم جلد ۱۶ نمبر۱۵‘۱۶ ۔۔۔۔ ۲۱ ‘ ۲۸ / اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۹ (
* - * - * - *

۲۷ / ستمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ قادیان

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں سورۃ ن و القلم و ما یسطرون- ما انت بنعمۃ ربک بمجنون )القلم:۲‘۳( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
دنیا میں انسان ایک عجب معجون ہے- اس نے زمین کو پھاڑا- پہاڑوں کو چیرا- سمندر کی تہ سے موتی نکالے- ہوا‘ سمندر‘ روشنی پر حکومت کرتا ہے- باوجود اس کمال کے کسی اور کے نمونہ کو اختیار کرنا چاہتا ہے- تاجر کسی بڑے تاجر‘ سپاہی کسی بڑے کمان افسر کی طرح بننا چاہتا ہے- راولپنڈی کے ایک دربار میں پرنس آف ویلز کی شان و شوکت دیکھ کر ایک احمق نے مضمون لکھا کہ کاش میں ہی پرنس ہوتا- ایک میرا دوست مرض جذام میں گرفتار یہاں آیا- مجھے کہنے لگا عقل مند نہیں معلوم ہوتے- آپ مجھے اجازت دیں میں کوشش کروں- فوراً آپ کو زمین کے بڑے مربعے دلا سکتا ہوں- آپ بادشاہ بن جائیں گے- میں نے اسے کہا تم نہیں جانتے- خوشی اور شے ہے- تم مجھے زمین دلواتے ہو- خود تو بڑے زمیندار ہو- مگر دیکھو تم میں ایسی بیماری ہے کہ تمہارے رشتہ دار بھی تم سے نفرت کرتے ہیں- پھر وہ زمین کس کام-
غرض ہر شخص کسی نمونہ کو سمجھنے کا خواہشمند ہے- کوئی حسن و جمال کا شیدا‘ کوئی ناموری چاہتا‘ کوئی حکومت کو پسند کرتا‘ کوئی کسی اور بڑائی کا حریص ہے- اس واسطے اللہ تعالیٰ ان کے واسطے ایک نمونہ پیش کرتا ہے- دوات اور قلم ہو اور اس سے جو کچھ لکھا جا سکتا ہے- سیاسی لوگ سیاست پر کتب لکھتے‘ ناولسٹ ناول لکھتے اور مختلف لکھنے والے مختلف اشیاء پر لکھتے- اور ان کی تحریریں جمع کرو- یہ ثابت ہو گا کہ محمد رسول مجنون نہیں تھا- اس نے جو کچھ خلقت کے سامنے پیش کیا وہ حق و حکمت سے پر اور اس نے جو تحریر پیش کی ہے اس کا مقابلہ کوئی تحریر دنیا بھر کی نہیں کر سکتی- تمام تعلیمات جن پر عمل کر کے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے وہ سب اس کتاب میں جمع ہیں- دلیل یہ ہے کہ مجنون کے نہ رونے کی کسی کو پرواہ ہے- نہ اس کے ہنسنے کی کسی کو خواہش ہے- نہ اس کی طاقت کی قدر ہو سکتی ہے- وہ سارا دن سوئے 'جاگے‘ بیٹھے- سردی میں ننگا‘ گرمی میں لحاف لئے- اس کی محنت کا بدلہ نہیں- لیکن اے نبی! تیری محنتوں کا ثمرہ غیرممنون ہے- اس کا خاتمہ نہیں- ہم نے خود تجربہ کیا ہے- آنحضرت کے ہر کام کا پھل ہمیشہ قائم ہے-
پھر مجنون کے اخلاق نہیں ہوتے- وہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا لیتا ہے- لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بڑے اخلاق اعلیٰ رکھتے تھے- حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن لائف آف محمد ہے خلقہ القراٰن-
پھر فرمایا- دیکھو اے مخالفو! اس کے مقابلہ میں کسی کا زور نہ چلے گا- یہ بھی دیکھے گا اور تم بھی دیکھو گے کہ کون فتحمند ہوتا ہے؟ عرب اور عجم کوئی اس کے بالمقابل کامیاب نہ ہو سکے گا- یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے-
اگر تم کوئی نمونہ اعلیٰ چاہتے ہو اور وعدہ خداوندی فمن تبع ھدای سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ علم کیلئے قرآن شریف اور عملی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عملدرآمد بس ہے-
آج سمت۱۹۰۹ ہے- اس سے پیچھے جائو تو میری یادداشت میں سمت۱۹۰۲ کی باتیں موجود- سمت۱۹۰۳ میں مجھے خوب یاد ہے کہ ایک ڈاکو پکڑا گیا تھا اور سکھوں نے اس کا سرکاٹ کر بھیرہ کے دروازہ چٹی پلی پر لٹکا دیا تھا- مجھے خوب یاد ہے- غرض اس وقت سے لے کر آج تک جس نسخہ کو بہت آزمایا اور سچا پایا ہے وہ یہی کہ فتح اور نصرت اور کامیابی کے حصول کا ایک ہی نسخہ قرآن شریف ہے-
) بدر جلد ۱۲ نمبر ۱۵ ۔۔ ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ (
* - * - * - *

۱۱ / اکتوبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
یٰایھا المدثر- قم فانذر- و ربک فکبر )المدثر:۲تا۴-(
اور پھر فرمایا-:
یہ سورۃ المدثر کا ابتدا ہے- یہاں فرمایا ہے- کس نے فرمایا ہے؟ تمہارے رب‘ محسن‘ مربی‘ منعم اور بڑے بادشاہ نے فرمایا ہے- اس مولا نے جس نے تم کو ہاتھ‘ ناک‘ کان دئیے- ایسا محسن‘ مربی اپنی پاک کتاب میں فرماتا ہے- nsk] [tagیٰایھا المدثر- ہوا اور کھانے پینے کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہوتا مگر اب بھی ایسی قومیں ہیں کہ وہ کپڑے وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں- بنارس میں ایک سادھو تھا- وہ ننگا رہا کرتا تھا- لوگ اس کی بڑی قدر کرتے تھے- افریقہ میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بیویوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں وحشت ہے اور ننگے رہتے ہیں- خدا تعالیٰ اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ کو لباس پہنایا-
قم فانذر اس لئے کھڑا ہو جا اور کھڑے ہو کر‘ جو لوگ بدکار ہیں‘ نافرمان ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتے‘ ان کو ڈرائو- میرا خیال ہے کہ جو حکم کوئی بادشاہ کسی جرنیل یا بڑے حاکم کو دیتا ہے‘ اس کی تعمیل اس کی سپاہ اور رعایا پر بھی فرض ہو جاتی ہے- یہ حکم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اس لئے یہ ہم پر بھی فرض ہے- بہت سارے لوگ ایماندار بھی بنتے ہیں اور پھر شرک بھی کرتے ہیں- اکثر لوگوں کا اگر تم حکم مانو گے تو وہ تم کو گمراہ کر دیں گے- خدا کا حکم مانو-
بادشاہ اور بڑے بڑے حکام لوگوں کی اصلاح کے لئے کیسے کیسے قانون بناتے ہیں اور دو تین برس اس کی نگرانی کرتے اور پھر اس کو جاری کرتے ہیں- پھر اس پر نظر ثانی کر کے اصلاح کرتے ہیں- پھر اس کو شائع کرتے ہیں- غرض مقنن اور تجربہ کار لوگ کیسی کیسی تکلیفیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برداشت کرتے ہیں- لیکن لوگ اس کی بھی نافرمانی کرتے ہیں- دیکھو! پولیس کیسی کوشش لوگوں کے امن وامان کے لئے کرتی ہے- اگرچہ پولیس میں بھی بعض بدکار پیدا ہو جاتے ہیں- لیکن تاہم وہ لوگوں سے چوری بدکاری چھڑانے میں کوشاں رہتی ہے- لیکن جس قدر نئے نئے قانون وضع ہوتے ہیں اسی قدر شریر| لوگ شرارت کی راہیں نکال لیتے ہیں-
اس لئے ہر ایک شخص کو تم میں سے چاہئے کہ وہ اٹھ کر ہر روز لوگوں کو سمجھائے- اگر کوئی کسی کی بات نہیں مانتا تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں- لوگ بادشاہوں‘ حکام اور دیگر اپنے بہی خواہوں کی نافرمانی کرتے ہیں‘ اس لئے خدا کا حکم ہے کہ تمہارا کام سمجھانا اور ڈرانا ہے- تم اپنا کام کئے جائو- لوگوں کو سمجھاتے جائو اور ڈراتے جائو- اور اس ڈرانے میں یہ کوشش کرو کہ و ربک فکبر و ثیابک فطھر یعنی خدا تعالیٰ کی عظمت جبروت کا ذکر ہو اور اپنی غلطیوں کی بھی اصلاح کرو- چوری‘ بدنظری‘ بدکرداری اور دیگر تمام بدیوں کو پہلے خود چھوڑ دو- اور یہ وعظ اس لئے نہ ہو کہ بس آپ کھڑے ہوئے یہ کہو کہ میرے لئے کچھ پیسے جمع کرو- بلکہ محض اللہ کے لئے کرو-
میں سال سائل کے لئے پکا تھا- مگر معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الٰہی کچھ اسی طرح تھا- یہ بڑا معرفت کا نکتہ ہے جو میں نے تمہیں سنایا ہے- دوسروں کو ضرور ہر روز نصیحت کرو- اس سے تین فائدے ہوتے ہیں- اول خدا کے منکر نہی عن المنکر کی تعمیل ہوئی ہے- دوسرے ممکن ہے کہ جس کو نصیحت کی جائے اس کو نیک کاموں کی توفیق ملے- تیسرے جب انسان اپنے نفس کو مخاطب کرتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے اور اس کی بھی اصلاح ہوتی ہے- تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور اس کی قدرت وتصرف کاذکر ہو- اس کا تین طرح دنیا میں مقابلہ ہوتا ہے- بعض لوگ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ نہ ہم مانتے ہیں اور نہ ہم سننا چاہتے ہیں- اور بعض سنتے ہیں مگر عمل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے- اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ قسم قسم کے وجوہات نکال کر واعظ میں نکتہ چینی کرتے ہیں مگر واعظ کو چاہئے کہ اللہ کے لئے صبر کرے اور اپنا کام کرتا چلا جائے- )بدر جلد ۱۲ نمبر ۱۸ ---- ۳۱/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳(
۱۸ / اکتوبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
یٰایھا المزمل- قم الیل الا قلیلاً- نصفہ او انقص منہ قلیلاً- او زد علیہ و رتل القراٰن ترتیلاً- انا سنلقی علیک قولاً ثقیلاً- ان ناشئۃ الیل ھی اشد وطاء و اقوم قیلاً- ان لک فی النھار سبحاً طویلاً- و اذکر اسم ربک و تبتل الیہ تبتیلاً- رب المشرق و المغرب لا الٰہ الا ھو فاتخذہ وکیلاً- و اصبر علیٰ ما یقولون و اھجرھم ھجراً جمیلاً- )المزمل:۲تا۱۱(
اور پھر فرمایا-:
ہماری سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم وحی الٰہی کی عظمت اور جبروت کو دیکھ کر بہت گھبرائے- بدن پر لرزہ تھا- گھر میں تشریف لائے اور اپنی بی بی سے کہا دثرونی )بخاری باب تفسیر سورہ المدثر( کہ میرے بدن پر کپڑا ڈھانک دو- انہوں نے اوڑھائے- اس حالت کا نقشہ کھینچ کے جناب|الٰہی فرماتے ہیں کہ تمہارا کام سونے کا نہیں- اٹھو اور نافرمان لوگوں کو ڈرائو اور اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور جبروت کا ذکر ہو- اور قبل اس کے کہ دوسروں کو سمجھائو اپنے آپ کو بھی پاک و صاف بنائو- اس سور~ہ~ میں یوں فرمایا کہ رات کو اٹھ‘ مگر کچھ حصہ رات میں آرام بھی کرو- رات کو قرآن شریف بڑے آرام سے پڑھو- میری اپنی فطرت گواہی دیتی ہے کہ جب کسی عظیم الشان انسان کو کوئی حکم آ جاتا ہے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی نہ ہو تو چھوٹے لوگ بطریق اولیٰ اس حکم کے محکوم ہو جاتے ہیں-
دنیا میں ایک وہ لوگ ہیں جو خود کپڑا پہننا نہیں جانتے- وہ دوسروں کو لباس تقویٰکیا پہنائیں گے- پہلے لباس تو پہننا سیکھو- جب شرم گاہوں کو ڈھانک لو گے تو تم پر رتل القراٰن ترتیلاً کا حکم جاری ہو گا- عام طور پر مسلمانوں کو یہ موقع ملا ہوا تو ہے مگر وہ اس کو ضائع کر دیتے ہیں- مسلمان عشاء کے وقت تو سوتے ہی نہیں- مگر اس کو بھی ضائع ہی کر دیتے ہیں- اگر توبہ و استغفار کریں تو اچھا موقع ہے- پھر اگر عشاء کے بعد ہی سو جائیں تو چار بجے ان کو تہجد اور توبہ کا موقع مل جائے- بڑے بڑے حکم الٰہی آتے ہیں- مگر مزا ان میں تبھی آتا ہے جب ان پر عمل درآمد بھی ہو- انگریزی خوان تو تین تین بجے تک بھی نہیں سوتے- پھر بھلا صبح کی نماز کے لئے کس طرح اٹھ سکتے ہیں- او کپڑے پہننے والو! تم اتنا کام تو ہمارے لئے کرو کہ ہماری کتاب کے لئے کوئی وقت نکالو-
میرے بچے نے کہا کہ ہم کو لمپ لے دو- ہم رات کو پڑھا کریں گے- میں نے اس کو بھی کہا کہ رات کو لمپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں- اس کے لیے دن ہی کافی ہوتا ہے- رات کو قرآن شریف پڑھا کرو-
رات کو اگر تم جناب الٰہی کو یاد کیا کرو تو تمہاری روح کو جناب الٰہی سے بڑا تعلق ہو جائے- مومن اگر ذرا بھی توجہ کرے تو سب مشکلات آسانی سے دور ہو جائیں- و اذکر اسم ربک و تبتل الیہ تبتیلاً اللہ تعالیٰ کا نام لو اور رات کو جہان سے منقطع ہو جائو-
مومن کو حضرت یوسفؑ کے بیان میں پتہ لگ سکتا ہے کہ جس شخص کا کسی چیز سے محبت و تعلق بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے محبوب کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر کر ہی دیتا ہے- میں جن جن شہروں میں رہا ہوں اپنی مجلس میں مجھے ان کی محبت سے کبھی نہ کبھی ذکر کرنا پڑتا ہے-
حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مجلس میں دو شخص آئے اور کہا کہ ہم نے ایک خواب دیکھی ہے- اس کی تعبیر بتلا دو- آپ نے فرمایا- کھانے کے وقت سے پہلے ہم آپ کو تعبیر بتلا دیں گے- پھر آپ نے کہا کہ دیکھو ہم کو علم تعبیر کیوں آتا ہے‘ تم کو کیوں نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے شرک کو چھوڑا- تم بھی چھوڑ دو- دیکھو دو گھروں کا ملازم ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے- کام کے وقت ہر ایک یہ کہتا ہے کہ کیا تو ہمارا ملازم نہیں- لیکن تنخواہ دینے کے وقت کہتے ہیں کہ کیا دوسرے کا کام نہیں کیا؟ اس لطیف طریقہ سے حضرت یوسف علیہ السلام نے شرک کی برائیاں بیان کیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انبیاء پر ایمان لانا اور خدائے واحد کو ماننا ضروری ہے-
ان لک فی النھار سبحاً طویلاً- کے یہی معنے ہیں کہ انسان دن میں ذکر الٰہی سے غافل نہ رہے-
و اذکر اسم ربک رات کو علیحدگی میں اپنے مالک کو یاد کرو- اگر تم کو یہ خیال پیدا ہو علیحدہ رہنے سے کیا فائدہ ہو گا تو یاد رکھو کہ رب المشرق و المغرب لا الٰہ الا ھو فاتخذہ وکیلاً پس یاد رکھو کہ جس پاک ذات نے تجھ کو علیحدگی اختیار کرنے کو کہا ہے وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے- اس کو اپنا کارساز سمجھو‘وہ تم کو سب کچھ دے گا-
پس میرے بھائیو! غور کرو- تم نے دن میں بہت کام کیا ہے- رات ہو گئی- سونا اور مرنا برابر ہے- ایسے وقت میں سوچو کہ تم نے جناب الٰہی کی کس قدر یاد کی ہے-
) بدر جلد۱۲ نمبر۲۲ ۔۔۔ ۲۸ / نومبر ۱۹۱۲ء (
* - * - * - *
‏KH1.35
خطبات|نور خطبات|نور

۲۵ /اکتوبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نوح کی ابتدائی آیات پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا-:
استغفار اور توجہ الی اللہ سے کام لو- نوح نے اپنی قوم کو عذاب سے پہلے ڈرایا تھا- میں بھی تمہیں ڈراتا ہوں- اپنی اصلاح کرو- نوح کی قوم نے اس دعوت الی الحق کی قدر نہیں کی تو اس کا نتیجہ جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے- ایسا نہ ہو اس دعوت کو بے پروائی سے سننے کا بدلہ تم کو بھگتنا پڑے-
چونکہ اول مخاطب آپ کی قادیان کی جماعت تھی اور ہے اس لئے انہیں ان کی کمزوریوں سے مطلع کیا اور جو جو فروگذاشتیں مہاجرین قادیان سے ہوتی تھیں ان پر انہیں متنبہ کر کے ترقی کرنے کی ہدایت فرمائی-
) الحکم جلد۱۶ نمبر۳۳ --- ۲۸ / اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۱۰ (
* - * - * - *

۲۸ / اکتوبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجداقصیٰ - قادیان

خطبہ نکاح
سید شاہ امیر صاحب نائب تحصیلدار کا نکاح سید امیر حیدر صاحب کی لڑکی سے مورخہ ۲۸/اکتوبر۱۹۱۲ء کو بعد از درس مسجد اقصیٰ میں پڑھا گیا-
تشہد اور مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا-:
یہ بات میں نے کئی مرتبہ سنائی ہے کہ ہمارے رسول‘ قرآن اور عقل کا منشاء ہے کہ ہر مسلمان کچھ عربی بھی سیکھے- نماز ہماری عربی میں ہے- تمام دعائیں ہماری عربی میں ہیں- پھر اگر ہم عربی نہیں جانتے تو ہم نے نماز ہی کو کیا سمجھا- ہماری ملاقات کا ذریعہ السلام علیکم بھی عربی میں ہے- اسی طرح نکاح میں‘ غمی میں‘ بچہ کی پیدائش کے وقت کان میں اذان دینے میں- غرضیکہ ہمارے ہر کام میں عربی کو دخل ہے- پس معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو عربی کا سیکھنا ضروری ہے-
نکاح ایک مدرسہ ہے جس میں نوجوان ایک نئی تعلیم کے لئے داخل ہوتا ہے- اگر وہ کہیں پردیس میں چلا جاتا تو کسی کے دکھ سکھ میں شریک نہ ہوتا- نکاح کے بعد ایک عورت جس نے کبھی چڑیا کا بچہ بھی نہ دیکھا ہو وہ ایک اجنبی سے مخلیٰ بالطبع ہو جاتی ہے- پھر وہ دونو ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں باوجودیکہ ایک دوسرے کے اخلاق سے اطلاع نہیں ہوتی-
جناب الٰہی نے نکاح کے سات اغراض رکھے ہیں- لتسکنوا الیھا )الروم:۲۲( بیاہ کے بعد اگر خدا چاہے تو انسان کو آرام ملتا ہے- انسان کی آنکھ‘ ناک‘ کان وغیرہ بدی کی طرف راغب نہیں ہوتے- سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے- نکاح آرام کے لیے ہوتا ہے‘ بے آرامی کے لیے نہیں ہوتا-
میں نے خود کئی بیاہ کئے- ہر بیاہ میں مجھے بڑا آرام ملا- و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ )الروم:۲۲(
عورتوں کو ہمارے ملک میں کوئی تعلیم نہیں دیتا- مناظر قدرت میں ان کو جانے کی اجازت نہیں- میرے نزدیک یہ گندا طریق ہے- انسان اگر غور سے دیکھے اس قدر موقع تعلیم کا اس کو حاصل ہے‘ عورتوں کو کہاں ہے- مگر بعض نادان چاہتے ہیں کہ ہمارے ہی جیسی عادات و عقل رکھنے والی عورتیں ہوں- بھلا بلاتعلیم کیسے ممکن ہو سکتا ہے- وہ اعضاء میں بہت نازک ہوتی ہیں- دماغ ان کا بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لئے جو بہت نازک چیز ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے بھی رحمت کے علم اور دعا|و|احتیاط کی نہایت ضرورت ہے-
و عاشروا ھن بالمعروف )النسائ:۲۰( تم عورتوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کا برتائو کرو- فان کرھتموھن )النسائ:۲۰( اور اگر تمہیں ان کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم ہماری سفارش کو مان لو اور یاد رکھو کہ ہم ہر ایک امر پر قادر ہیں- ہم تمہیں بہتر سے بہتر بدلہ دیں گے-
ایک لڑکے کی نسبت میں نے سنا کہ وہ اپنی بیوی سے بداخلاقی سے پیش آتا ہے- میرے سسرال کا گھر ہمارے شہر میں ہمارے گھر سے دور تھا- بیوی تو میرے گھر ہی ہوتی تھی مگر میں اکثر اپنے سسرال میں جایا کرتا تھا- راستہ میں وہ لڑکا مجھے مل گیا- میں نے اسے کہا میں نے ایک نسخہ لکھا ہے- وہ میں تم کو بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے و عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسیٰ ان تکرھوا شیئاً و یجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً- )النسائ:۲۰-( اس کے دل پر ہماری اس نصیحت کا بجلی کی طرح سے اثر ہوا- میں تاڑ گیا کہ اس پر خوب اثر ہوا ہے- مجھے کہنے لگا مجھے ایک کام ہے- اجازت دیجئے- وہاں سے سیدھا بی|بی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھ! تجھے معلوم ہے کہ میں تیرا کیسا دشمن ہوں- اس نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے- اس لڑکے نے کہا کہ میں آج نورالدین کی نصیحت کو آزمانے کے لئے تیرے ساتھ سچی محبت کرتا ہوں- پھر اس نے اس سے جماع کیا- ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا‘ پھر اور پیدا ہوا‘ پھر اور پیدا ہوا‘ پھر اور پیدا ہوا-
و لھن مثل الذی علیھن )البقرۃ:۲۲۹( عورتوں کے ذمہ بھی کچھ حقوق ہیں- تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے-
عورت پسلی کی طرح ہے- اس سے اسی طرح سے فائدہ اٹھانا چاہئے- اگر سیدھی کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی-
و اتقوا اللہ الذی تسائ|لون بہ و الارحام )النسائ:۲( شادی کے بعد لڑکی کے تمام رشتہ دار تمہارے اور تمہارے رشتہ دار لڑکی کے ہو گئے-
آج ہی ’’بخاری‘‘ کے سبق میں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ کسی ملک کی زبان پڑھانے کے لیے اس ملک کا جغرافیہ بھی ضرور معلوم ہونا چاہئے-
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب خیبر کو فتح کیا تو آپﷺ~ نے فرمایا کہ صفیہ )جو اس فریق کے سردار کی بیٹی تھی( سے میرا نکاح کر دو- مسٹر میور (MUIR) نے اعتراض کیا- مگر وہ جانتا نہ تھا کہ ملک عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یا بیوی سے ملک میں امن و امان قائم کرنے اور اس ملک کے مقتدر لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لیے شادیاں کیا کرتے تھے- تمام رعایا اور شاہی کنبہ والے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب کوئی کھٹکا نہیں- چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تمام یہود نے وہیں رہنا پسند کیا-
اسی طرح مالک بن نویرہ کی بی بی سے جب خالد بن ولید نے نکاح کیا تو وہ تمام لوگ مطمئن ہو گئے-
شاہ امیر ایک شخص ہیں- ہمارے سید محمد حسین شاہ صاحب کے بھائی- ان کا نکاح میر حیدر کی لڑکی مسماۃ شہزادی سے ایک ہزار مہر کے عوض کرتا ہوں-
) بدر حصہ دوم- کلام امیر ۔۔۔ ۵ / دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۹-۹۰(
‏cent] g*[ta - * - * - *

یکم نومبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضرت خلیفت المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
لا اقسم بیوم القیامۃ- و لا اقسم بالنفس اللوامۃ- ا یحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ- بلیٰ قادرین علیٰ ان نسوی بنانہ- بل یرید الانسان لیفجر امامہ- یسئل ایان یوم القیامۃ- فاذا برق البصر- و خسف القمر- و جمع الشمس و القمر- یقول الانسان یومئذ این المفر- کلا لاوزر- الی ربک یومئذن المستقر- ینبو الانسان یومئذ بما قدم و اخر- بل الانسان علیٰ نفسہ بصیرۃ- و لو القیٰ معاذیرہ-
)القیامہ:۲تا ۱۶(
اور پھر فرمایا-
‏]ttex [tag اس سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ ایک فطرت کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے- قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے- مطلب یہ کہ تمہاری فطرت میں سب قسم کی نیکیوں کے بیج بو دیئے تھے- ان کو یاد دلانے اور ان کی نشو و نما کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا- وہ جو فطرتوں کا خالق ہے اس نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے-
مسیحی لوگوں کو ایک غلطی لگی ہے- پولوس کے خط میں ہے کہ یہ شریعت اس وجہ سے نازل ہوئی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تم شریعت کی پابندی نہیں بجالا سکتے- گویا شریعت کو نازل کر کے انسان کی کمزوری کا اس پر اظہار کرنا تھا- اس لئے پلید تعلیم دی گئی کہ نجات کی راہ شریعت کو نہ مانو بلکہ کسی اور شے کو مانو- میں نے بعض مشنریوں سے پوچھا ہے کہ جب شریعت کی پابندی تم سے نہیں ہو سکتی تو تمہارے جو اور قوانین ہیں ان کی پابندی تم کیسے کرتے ہو؟ ہر ایک انسان جب بدی کرتا ہے تو اس بدی کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے یہ کام اچھا نہیں کیا-
میں نے لوگوں سے اور اپنے نفس سے بھی پوچھا ہے- چنانچہ جواب اثبات میں ملا- چور کو چوری کے بعد ایسی ملامت ہوتی ہے کہ وہ چوری کے اسباب کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا- اسی طرح ڈاکہ ڈالنے والے اور قاتل دونوں ارتکاب جرم کے بعد کہیں بھاگنا چاہتے ہیں- اسی طرح جھوٹا آدمی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کے بعد اس کو ملامت ہوتی ہے کہ یہ بات ہم نے جھوٹ کہی- غرض ہر بدی کے بعد ایک ملامت ہوتی ہے- جس بدی کو انسان کرتا ہے اس بدی کے متعلق اگر اس سے تفتیش کی جائے تو ایک حصہ میں چل کر وہ منکر ہو جاتا ہے- میں نے بعض چوروں سے پوچھا کہ اعلیٰ درجہ کی چوری میں مال پر ہاتھ تو مشکل سے پہنچتا ہے- پھر کسی کے ہاتھ سے نکلواتے ہو‘ کسی کے سر پر رکھتے ہو‘ کسی سنار کو دیتے ہو کہ وہ زیورات وغیرہ کی شکل و ہیئت کو تبدیل کر دے- اس نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم سنار کو سو روپے کی چیزیں پچھتر روپے میں دیتے ہیں- میں نے کہا کہ اگر وہ سو روپے کی چیز ساٹھ روپے میں رکھ لے تو پھر تم کیا کرو- تو مجھے جواب دیا کہ ایسے حرامزادے‘ بے|ایمان کو ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے- میں نے کہا کہ وہ بے ایمان بھلا کیسے ہو؟ کہنے لگا کہ چوری ہم کریں‘ مصیبت ہم اٹھائیں اور مال وہ کھا جائے تو پھر بھی اگر بے ایمان نہ ہوا تو اور کیا ہو گا- میں نے کہا اچھا! وہ سنار تو صرف تمہاری اتنی ہی سی مشقت برداشت کی ہوئی دولت کو غبن کر کے بے ایمان اور حرامزادہ ہو گیا‘ مگر تم جو اوروں کی برسوں تک مصیبت اٹھا اٹھا کر جمع کی ہوئی دولت کو چرا لاتے ہو بے ایمان اور حرامزادے نہیں؟ اس کا جواب مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا-
اسی طرح میں نے ایک کنچن سے پوچھا کہ تم اس پیشے کو برا نہیں سمجھتے- کہا کہ نہیں- میں نے کہا کہ اپنی بیوی سے زنا کر سکتے ہو- کہا کہ غیر کی لڑکی کو خراب کرنا اچھا نہیں- میں نے کہا کہ تم نے خراب کا لفظ بولا ہے- بھلا یہ تو بتائو جو لوگ تمہارے یہاں زنا کرنے کے لئے آتے ہیں کیا ان کے نزدیک وہ غیر کی لڑکی نہیں ہوتی؟
قیامت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و لا اقسم بالنفس اللوامۃ )القیامۃ:۳-( اگر جزاء سزا نہ ہوتی تو نفس لوامہ تم کو ملامت ہی کیوں کرتا؟ نفس لوامہ قیامت کا ثبوت ہے-
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکتے؟ اور ہڈیاں تو الگ رہیں ہم تو پوروں کی ہڈیوں کو بھی جمع کر دیں گے بلیٰ قادرین علیٰ ان نسوی بنانہ- ]txte [tag ہر ایک آدمی جب بدی کرتا ہے تو وہ اس کو بدی سمجھتا ہے تب ہی تو اس کو غالباً چھپ کر کرتا ہے-
ایک شہر میں ایک بڑا آدمی تھا- مجھ سے اس کی عداوت تھی- مجھے خیال آیا‘ میں اس کے پاس گیا- وہاں لوگ جمع تھے- جوں جوں لوگ کم ہوتے جاتے‘ میں آگے بڑھتا جاتا تھا- جب سب لوگ چلے گئے اور دو آدمی‘ ایک اس کا منشی اور ایک شخص جو کہ میرے دوست تھے‘ رہ گئے تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا آج آپ کیسے آ گئے؟ میں نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کو نصیحت کرنے والا کوئی نہیں- کوئی ناصح تو آپ کو نصیحت نہیں کر سکتا کیونکہ آپ بڑے آدمی ہیں- مگر ہر ایک بڑے آدمی کے لئے اس کے شہر میں کھنڈرات اس کے لئے ناصح ہوتے ہیں- کیا آپ کے پاس کوئی ایسی یادگار نہیں- اس نے کہا کہ مولوی صاحب! میرے آگے آئیے- میں بہت آگے بڑھا- وہ مجھ کو اس کھڑکی کے بالکل پاس لے گیا جس میں بیٹھا کرتا تھا- مجھے کہنے لگا کہ اور آ گے ہو جائیے- میں اور آگے بڑھا- اس نے پھر کہا کہ اور آگے ہو جائیے- اور آگے تو کیا ہوتا- میں نے اس کھڑکی میں اپنے سر کو بہت قریب کر دیا- اس نے کہا کہ یہ جو آپ کے سامنے ایک محراب دار دروازہ نظر آتا ہے اس کا مالک میری قوم کا آدمی تھا اور وہ اتنا بڑا شخص تھا کہ ایک قسم کی سرخ چھتری جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر چلا کرتا تھا تو اس کے اوپر لگا کرتی تھی اور میں سیاہ بھی نہیں لگا سکتا- اب اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازمہ ہے- یہ بھی سن لیجئے کہ میں اپنے اس تخت کو چھوڑ کر‘ جو آپ کے سامنے پڑا ہوا ہے‘ ہمیشہ اس کھڑکی میں بیٹھا کرتا ہوں- مگر اس تخت کو چھوڑنے اور اس کھڑکی میں بیٹھنے کی حقیقت مجھے آج ہی معلوم ہوئی ہے- پھر جب کچہری کا وقت ہو گیا میں اسی جوش میں کچہری گیا- رئیس شہر اکیلا تھا- میں نے وہی بات کہی تو رئیس نے مجھے ایک قلعہ دکھلایا اور کہا کہ یہ اس شہر کے اصل مالک کا ہے جواب کسی ذریعہ سے ہمارے قبضہ میں آ گیا ہے- پھر اس نے کہا کہ یہ پہاڑ جو آپ کے سامنے موجود ہے اس کا نام دھارا نگر ہے- اس پر اتنا بڑا شہر آباد تھا کہ ہمارے شہر کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ تھی- یہ مجلس بھی میرے لئے ہر وقت نصیحت ہے اور جہاں ہم راج تلک لیتے ہیں وہاں تمام اردگرد کچے مکانات اصل مالکوں کے ہیں اور یہ تین ناصح ہر وقت نصیحت کے لئے میرے سامنے موجود رہتے ہیں- میں نے کہا کہ آپ خوب سمجھے-
جب خدا پکڑتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا- یاد رکھو جیسے گناہ کرتے ہو ان کی سزا پانے والے تمہاری آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں‘ پھر بھی تم نہیں سمجھتے-
ہمارے یہاں تمہارے جھگڑے فیصلہ نہیں پاتے- کچھ لوگوں نے عذر کیا ہے اور کچھ ابھی باقی ہیں-
) بدر حصہ دوم- کلام امیر۔ ۲۸ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۵ تا ۸۷(
* - * - * - *

۸ / نومبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
الحاقۃ- ما الحاقۃ و ما ادریٰک ما الحاقۃ- کذبت ثمود و عاد بالقارعۃ-
)الحاقۃ:۲تا۵(
اور پھر فرمایا-
سارا جہان یہاں تک کہ درخت بھی قانون الٰہی کے سب پابند ہیں - گائے‘ بھینس‘ بیل‘ بکری وغیرہ کو دیکھو کہ وہ گھاس کو جھٹ پٹ اپنے دانتوں سے کاٹ کر نگل جاتے ہیں- پھر آرام سے بیٹھ کر اس کو اپنے پیٹ سے نکال کر چباتے اور پھر نگلتے ہیں اور اسی طرح سے وہ جگالی کرتے ہیں اور اسی طرح آرام کر کے پیشاب اور گوبر کرتے ہیں- یہ ان کے ساتھ ایک سنت ہے- اگر اس کے خلاف کوئی جانور کھاتا ہی چلا جائے اور جگالی اور آرام وغیرہ بالکل نہ کرے تو وہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا-
اسی طرح بچوں کی حالت ہے- اگر بچہ اور بچے کی ماں کوئی بدپرہیزی کریں تو دونوں کو تکلیف ہوتی ہے- اگر کوئی شخص کھانا کھانے کی بجائے روٹی کانوں میں ٹھونسنے لگے تو کیا وہ بچ جائے گا؟ اسی طرح بہت سے قانون ہیں- جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو جاتے ہیں- جھوٹے جھوٹ بولتے ہیں مگر ایک زمانہ کے بعد اگر وہ کبھی سچ بھی بولیں تب بھی کوئی ان کا اعتبار نہیں کرتا یہاں تک کہ اگر وہ قسمیں کھا کر بھی کوئی بات کہیں تو تب بھی کوئی یقین نہیں کرتا- اسی طرح سست آدمی اپنی آبائی جائیداد تک بھی فروخت کر کے کھا جاتا ہے-
الحاقۃ ما الحاقۃ تم جانتے ہو کہ ہونے والی باتیں ہو کر رہتی ہیں- اور کس طرح ہو کر رہتی ہیں؟ مثل کی طرح سنو- کذبت ثمود جن لوگوں نے حق کی مخالفت کی‘ ان کو خدا نے ہلاک کر دیا- ثمود قوم نے تکذیب کی- اس کا انجام کیا ہوا؟ ہمارے ملک میں سلاطین مغل‘ پٹھان‘ سکھ وغیرہ تھے- جب انہوں نے نافرمانی کی تو خدا نے ان کو ٹھونک ٹھونک کر ٹھیک کر دیا- پیارو! اگر تم بدی کرو گے تو تم کو بدی کا ضرور نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا- یاد رکھو بدی کے بدلہ میں کچھ سکھ نہیں مل سکتا- عاد قوم بڑی زبردست تھی- اس کو اللہ تعالیٰ نے ہوا سے تباہ کر دیا- سات رات اور آٹھ دن متواتر ہوا چلی- سب کا نام و نشان تک اڑا دیا- بڑے بڑے عمائد قوم گرے جس طرح کھوکھلا درخت ہوا سے گر جاتا ہے- بتائو تو سہی اب کہاں ہے رنجیت سنگھ اور ان کی اولاد‘ ان کے بیٹے پوتے اور پڑ پوتے؟ اس کا بیٹا ایک ہوٹل میں ایسی کس مپرسی کی حالت میں مرا کہ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کون تھا؟
و جاء فرعون و من قبلہ )الحاقۃ:۱۰( فرعون اور اس کی بستیوں کو الٹ کر پھینک دیا- ایک میرے بڑے دوست شہزادہ تھے- وہ بچارے خود کپڑا سی کر گزارہ کیا کرتے تھے- اور ایک اور میرے دوست تھے- وہ ان کو سینے کے لیے کپڑے لا دیا کرتے تھے اور خود دے آیا کرتے تھے- انہوں نے ہی مجھے کہا کہ تم اس سے کپڑے سلوایا کرو- خود دار بھی وہ ایسے تھے کہ کسی کو اس کی خبر تک ہونا گوارا نہیں کرتے تھے- خود کبھی کسی سے کپڑا نہیں لیتے تھے اور اس عالم میں بھی ان کی مزاج سے وہ شاہانہ بو دور نہیں ہوئی تھی- خمرے رکھا کرتے تھے-
کوئی اپنے حسن پر مغرور ہے- کوئی اپنے علم پر اتراتا ہے- کوئی اپنی طب پر اکڑتا ہے- حالانکہ یہ سب غلط ہے- جب تک خدا کا فضل نہ ہو کچھ بھی نہیں ہو سکتا- سچ مچ یہ بات ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے- خدا رحم کرے میری ماں پر- وہ کہا کرتی تھی کہ جو آگ کھائے گا وہ انگار ہگے گا-
ثمود نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا- ہم نے بھی ایسا پکڑا کہ کہیں نہ جانے دیا- جانتے ہو کہ نوح کی قوم کو کس طرح غرق کیا؟ تم کو چاہئے تھا کہ اس سے عبرت حاصل کرتے- دار السلام میں سولہ لاکھ آدمی قتل کر دیئے- وہ جو بادشاہ تھا اس نے اپنی بیوی کا نام ’’نسیم سحر‘‘ رکھا ہوا تھا- جس طرح صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے آدمی کو نیند آتی ہے اسی طرح اس کو اپنی بیوی کی صحبت خوشگوار معلوم ہوتی تھی- جب اس ’’نسیم سحر‘‘ کو قتل کیا تو کسی گلی کے کتے ہی چاٹتے تھے- کسی نے کفن تک نہ دیا- جب بادشاہ نے قید میں پانی مانگا تو فاتح بادشاہ نے سپاہ کو حکم دیا کہ اس کے محل میں سے تمام لعل|و|جواہرات لوٹ لائو- وہ وحشی لوگ فوراً گئے اور تمام محل کی آرائش کو لوٹ کھسوٹ کر لے آئے تو اس کے سامنے ایک تھالی میں نہایت قیمتی قیمتی جواہرات بھر کر بادشاہ بغداد کے سامنے پیش کئے گئے کہ لو! ان کو پیو- اور پھر گالی دے کر کہا کہ بد ذات! تو فوج کو تنخواہ نہ دیتا تھا اور تیرے گھر میں اس قدر مال تھا- یہ کہہ کر اس کا سر اڑا دیا گیا-
تم اپنی جان پر رحم کرو- یاد رکھو کہ کسی کا حسن نہ کام آئے گا اور نہ کسی کا مال کام آئے گا‘ نہ جاہ|وجلال نہ علم نہ ہنر-
) بدر حصہ دوم- کلام امیر۔۔ ۷ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۵۸-۵۹ (
* - * - * - *

۱۱ / نومبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
یہ آیتیں میں نے تم کو بہت دفعہ سنائی ہیں- وقت اجازت نہیں دیتا کہ اب کچھ سنائوں- تاہم کچھ سناتا ہوں- جس کام کے لئے اب میں کھڑا ہوا ہوں وہ بیوہ کا نکاح ہے- بیوہ کا نکاح کرنا بڑا ثواب کا کام ہے- مگر لوگوں نے نافہمی کی وجہ سے اس کو برا سمجھا- سیدوں کو دیکھو کہ ان کی نانی جان پہلے دو خاوند کر چکی تھیں اور تیسرے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تھے-
مغلوں میں نورجہاں بیگم کیسی عظیم الشان عورت تھی- اس نے دوبارہ نکاح کیا- لوگوں نے مسلمان بادشاہوں سے نفرت دلانے کے لئے جہانگیر پر یہ اتہام لگائے کہ وہ نور جہاں پر عاشق تھا اور اس نے نورجہاں کے خاوند کو مروا کر اس سے نکاح کر لیا- اگر جہانگیر نے اس کے میاں کو مروایا ہوتا تو چونکہ وہ بادشاہ تھا اس کو چاہئے تھا کہ فوراً ہی نکاح کر لیتا- اس نے چھ سال کے بعد اس کو بیوہ سمجھ کر نکاح کر لیا-
اکبر خاں کی ایک لڑکی بیوہ ہے- آج میں اس کا نکاح مدد خاں صاحب سے کرتا ہوں- یہ آدمی اچھے معلوم ہوتے ہیں- کیونکہ پہلے دو عورتوں سے ان کا سلوک ہم اچھا دیکھتے رہے ہیں- سب لوگ دعا کریں- خدا خیر و برکت سے انجام کو پہنچائے-
) بدر حصہ دوم- کلام امیر ۔ ۵ / دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۹۴- ۹۵ (
* - * - * - *

۱۵ / نومبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئاً مذکوراً- انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ فجعلناہ سمیعاً بصیراً- انا ھدیناہ السبیل اما شاکراً و اما کفوراً- انا اعتدنا للکافرین سلاسلا و اغلالاً و سعیراً- ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافوراً- عیناً یشرب بھا عباد اللہ یفجرونھا تفجیراً-
)الدھر:۲تا۷-(
اور پھر فرمایا-
ہر آدمی غور کرے کہ یہ دنیا میں نہ تھا اور اس کو کوئی نہیں جانتا تھا- ضرور ایک وقت انسان پر ایسا گزرا ہے کہ اس کو کوئی نہیں جانتا تھا- اللہ تعالیٰ نے عناصر پیدا کئے- اگر وہ ہم کو پتھر بنا دیتا یا حیوانات میں ہی پیدا کرتا مگر کتا یا سئور بنا دیتا- پھر اگر انسان ہی بناتا پر چوہڑوں یا چماروں میں پیدا کر دیتا- پھر اگر وہ ایسے گھر میں پیدا کر دیتا جہاں قرآن دانی کا چرچا نہ ہوتا- پھر اگر کسی اچھے گھر میں پیدا ہونے پر جوانی میں مر جاتے تو آج تم کو قرآن سنانے کا کہاں موقع ملتا- اس نے کیسے کیسے فضل کیے- فجعلناہ سمیعاً بصیراً ہم نے اپنے فضل سے اس نطفہ کو جس میں ہزاروں چیزیں ملی ہوئی تھیں‘ سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا-
اب مسلمان کہتے ہیں کہ تجارت ہمارے ہاتھ میں نہیں- کبھی کہتے ہیں حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں- صرف سو برس کے اندر ہی اندر انہوں نے سب کچھ اپنا کھو دیا-
شرک کا کوئی شعبہ نہیں جس میں مسلمان گرفتار نہیں- نماز‘ روزے‘ اعمال صالحہ میں‘ قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں نہایت ہی سست ہیں- کوئی ملاں ہواور وہ خوب شعر سنائے تو کہتے ہیں کہ فلاں مولوی نے خوب وعظ کیا-
کسی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ فلاں عورت ایک عرس میں گئی تھی- وہ کہتی تھی کہ سبحان اللہ! ہر طرف نور ہی نور برس رہا تھا- میں نے کہا وہ کیا تھا؟ کہنے لگی کہ وہ کہتی تھی کہ اندر بھی‘ باہر بھی مراثی ڈھولک بجا رہے تھے اور خوب خوش الحانی سے گا رہے تھے-
ریل میں مجھے ایک کنچنی ملی- میں نے اس سے کہا کہ تو کہاں گئی تھی؟ کہا کہ سبحان اللہ! فلاں حضرت کے یہاں گئی تھی- انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ہماری فقیرنی آ گئی ہے اور اپنے خادم سے کہا اس کو تین سو روپیہ دے دو- میں تو ایک دم مالا مال ہو گئی-
مسلمانوں میں تکبر بڑھ گیا- سستی ہے- فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کے ساتھ تکبر بھی از حد بڑھ گیا ہے- اپنی قیمت بہت بڑھا رکھی ہے- سمجھتے ہیں کہ ہم تو اس قدر تنخواہ کے لائق ہیں-
ہم نے انسان پر بڑے فضل کئے- فجعلناہ سمیعاً بصیراً یہاں تک کہ انسان کو دیکھنے والا‘ سننے والا بنایا- پھر قرآن کے ذریعہ سے اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں انا ھدیناہ السبیل- پر کسی نے قدر کی اور کسی نے نہ کی اما شاکراً و اما کفوراً-
کوئی مسلمان کہتا ہے کہ جھوٹ جائز ہے- کوئی مسلمان کہتا ہے کہ تکبر اور فضول اور قسم قسم کی بدکاریاں جائز ہیں- برائی سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ قدر نہیں کرتے- دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے-
ایک عورت کا میاں شراب پیتا تھا- اس کو میں نے کہا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے- تم اس سے شراب چھڑا دو- اس نے کہا میں نے ایک روز اس کو کہا تھا تو اس نے مجھے جواب دیا کہ یہ تجھے نور الدین نے کہا ہو گا- جب میں اس کی عمر کا ہو جائوں گا تو چھوڑ دوں گا- پھر اس کو میری عمر تک پہنچنا نصیب نہ ہوا- پہلے ہی مر گیا-
تم برے اعمال چھوڑ دو- لین دین میں لوگ بڑے نکمے ہو گئے ہیں- توبہ کرو‘ استغفار کرو- اللہ تعالیٰ بڑے سخت لفظ استعمال فرماتا ہے کہ کوئی تو ہماری بتائی ہوئی ہدایت کا شکر گزار ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا- اما شاکراً و اما کفوراً-
انا اعتدنا للکافرین سلاسلا و اغلالاً و سعیراً- ہم نے تو بے ایمانوں کے لئے بڑے بڑے عذاب تیار کر رکھے ہیں- ہم ان کو زنجیروں میں جکڑیں گے
ان الابرار اچھے لوگوں کو خدا تعالیٰ ایک شربت پلانا چاہتا ہے اور وہ ایسا شربت ہے کہ ان کو اپنی بدیوں کو دبانا پڑتا ہے- ابرار انسان تب بنتا ہے جب وہ اپنے اندر کی بدیوں کو دباتا ہے- نفس کے اوپر تم حکومت کرو- بہت سے لوگ ہیں جو اپنے نفس پر حکومت کرنے سے بے خبر ہیں-
عیناً یشرب بھا عباد اللہ اللہ کے بندے ایسے شربت پیتے ہیں‘ وہ ان کو بھاتے ہیں‘ دوسروں کو بھی پلانا چاہتے ہیں- میں نے تم کو بہت سا پلایا ہے- تم عمل کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو-
‏ref] g)[ta بدر حصہ دوم- کلام امیر ۔۔۔ ۵ / دسمبر ۱۹۱۲ء - صفحہ ۹۳‘۹۴(
* - * - * - *

۲۰/نومبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ عید اضحیٰ
حضرت خلیفت المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰/نومبر ۱۹۱۲ء کو نماز عید مسجد اقصیٰ قادیان میں پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ ایڈیٹر کے الفاظ میں درج ذیل ہے-
آپ نے ایک نوجوان تعلیمیافتہ کا ذکر کیا کہ آپ اس کو قرآن مجید کے احکام کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ مسلمانوں کی ترقی اور بحالی دین کی راہ سے ہو گی- وہ دین اسلام کے سچے متبع ہوں گے- اللہ تعالیٰ ان کی ہر قسم کی ذلتوں اور مصیبتوں کو دور کر دے گا- مگر اس جنٹلمین نے کہا کہ آپ ہم کو تیرہ سو برس پیچھے لے جا رہے ہیں- گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے جو اصول عملدرآمد کے تیرہ سو برس پہلے دیئے تھے اس کی نظر میں آج وہ نعوذ باللہ کار آمد نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ترقی کی رو کو تیرہ سو برس پیچھے ہٹانا ہے- آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے خیالات ایک دو نہیں‘ بہتوں کے دلوں میں ہیں-
پھر آپ نے بتایا کہ یہ تو قرآن مجید اور اسلام کے حدود و شرائع کو باطل کرنے کی ایک کوشش تھی- نمازوں کے ترک کے لئے پہلی کوشش یوں شروع ہوئی کہ وہ اپنی ہی زبان میں ادا کی جایا کرے- قرآن|مجید کا پنجابی ترجمہ اس میں پڑھا جایا کرے- ایسا ہی دوسری زبانوں میں اصل قرآن نہ پڑھا جاوے- مجھ سے جس شخص نے ذکر کیا میں نے اس کو کہا کہ پھر نثر سے نظم میں ہو گا- پھر وہ نظم کسی ٹھمری کی شکل اختیار کرے گی اور رفتہ رفتہ اس کے ساتھ ڈھولک وغیرہ ساز ہوں گے اور یہ اچھاخاصہ تماشا ہو وے گا اور مسلمانوں میں جو چیز مشترک تھی )عربی زبان اور قرآن‘( وہ جاتی رہے گی اور نہ نماز کی حقیقت پیدا ہو گی-
پھر اس پر ترقی ہوئی تو میرے کانوں میں آوازیں آئیں کہ کرسیوں پر بیٹھ کر سامنے بنچ یا میز ہوں اور نماز کے لئے لوگ جمع ہو جایا کریں تو خدا تعالیٰ کی حمد میں کوئی گیت گائے- جہاں کسی کے دل میں جوش پیدا ہووے وہ اس مقام پر یعنی میز پر ذرا سر جھکا دیا کرے- اس قسم کی آوازیں میرے کانوں میں ترک|نماز کے لئے آئیں- پھر روزہ کے متعلق کہا کہ بھوکا رہنا بالکل بے فائدہ ہے- اگر روزہ رکھنا ہی ہو تو اس میں اخروٹ‘ میوہ جات کھا لئے جایا کریں-
یہ تو تعلیم یافتہ لوگوں کی توضیح تھی- بعض دوسرے لوگوں نے کہہ دیا کہ جو غریب ہو وہ روزہ رکھ لے اور امراء صرف فدیہ دے دیا کریں-
پھر حج کے لئے کہا گیا کہ قومی کانفرنس علی گڑھ میں شمولیت سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے اور کافی ہے کہ لوگ وہاں شامل ہو جایا کریں اور زکٰوۃ کے بدلے قومی کاموں میں چندہ دے دیا- اب میرے کانوں میں قربانی کے روکنے کی آوازیں آتی ہیں-
یہ تمام باتیں مسلمانوں کی بدقسمتی کی ہیں- ان کو چھوڑ کر یہ ترقی نہیں کر سکتے - اگر اسلام ہی ان کے ہاتھ میں نہ رہا تو یہ کچھ بھی نہ ہوں گے-
پھر آپ نے قربانی کے متعلق‘ اس کی حقیقت اور فلسفہ پر مختصر سی تقریر فرمائی اور بتایا کہ کس طرح پر قدرت نے قربانی کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے- آپ قربانی کی حقیقت بتا رہے تھے کہ ضعف غالب ہو گیا اور تقریر کا سلسلہ بند کرنا پڑا- اس لئے دعا پر خطبہ کو ختم کر دیا-
)بدر جلد۱۲ نمبر۲۲ -- ۲۸/نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ۷(
* - * - * - *

‏]txeth [tag۶ / دسمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
و الفجر- ولیال عشر- و الشفع و الوتر- و الیل اذا یسر- ھل فی ذٰلک قسم لذی حجر- الم تر کیف فعل ربک بعاد- ارم ذات العماد- التی لم یخلق مثلھا فی البلاد- و ثمود الذین جابوا الصخر بالواد- و فرعون ذی الاوتاد- الذین طغوا فی البلاد- فاکثروا فیھا الفساد- فصب علیھم ربک سوط عذاب- ان ربک لبالمرصاد- فاما الانسان اذا ما ابتلٰہ ربہ فاکرمہ و نعمہ فیقول ربی اکرمن- و اما اذا ما ابتلٰہ فقدر علیہ رزقہ- فیقول ربی اھانن- کلا بل لاتکرمون الیتیم- و لاتحٰضون علیٰ طعام المسکین- )الفجر:۲تا۱۹(
اور پھر فرمایا-
قرآن کریم میں کوئی بہت بڑا عظیم الشان مضمون جیسے اللہ جل شانہ کی ہستی کا ثبوت‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ‘ اللہ تعالیٰ کے افعال‘ اللہ تعالیٰ کی عبادتیں‘ یہ چار باتیں جناب الٰہی کے متعلق ہوتی ہیں-
ملائکہ‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول‘ اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں ان کو روکنا‘ جزا و سزا‘ کتب الٰہی پر ایمان‘ یہ بڑے مسائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں آتے ہیں- ان دلائل میں سے بڑی عظیم الشان بات اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کریمہ میں فرمائی ہے کہ ہر ملک میں کوئی نہ کوئی قوم بڑی سخت ہوتی ہے- جس شہر میں میرا پرانا گھر تھا وہاں پر ایک سید کی زیارت ہے- اس شہر میں ان کی قبر پر جا کر قسم کھانا بڑی قسم ہے- اسی طرح بعض زمیندار جھوٹی قسم کھا لیتے ہیں مگر دودھ پوت کی قسم نہیں کھاتے- اسی طرح ہندو گائے کی دم پکڑ کر قسم نہیں کھا سکتے- غرضیکہ ہر قوم اپنے ثبوت کے لئے کسی نہ کسی عظیم الشان قسم کو جڑھ بنائے بیٹھی ہے-
عرب کے لوگ ہر ایک جرم کا ارتکاب کر لیتے تھے لیکن مکہ معظمہ کی تعظیم ان کے رگ و ریشہ میں بسی ہوئی تھی یہاں تک کہ جن ایام میں مکہ معظمہ میں آمدورفت ہوتی تھی- کیا مطلب! ذی قعد‘ ذی|الحج اور رجب میں وہ اگر اپنے باپ کے قاتل پر بھی موقع پاتے تھے تو اس کو بھی قتل نہیں کرتے تھے-
تم جانتے ہو کہ جب شکاری آدمی کے سامنے شکار آ جاتا ہے تواس کے ہوش وحواس اڑ جاتے ہیں- لیکن عرب میں جب حدود حرم کے اندر شکار آ جاتا تھا تو اس کو نہیں چھیڑتے تھے- پھر دس راتیں حج کے دنوں کی بڑے چین و امن کا زمانہ ہوتا تھا- ان دنوں میں بدمعاش لوگ بھی فساد اور شرارتیں نہیں کرتے تھے- اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ ان امن کے دنوں میں تم اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی باوجود قابو یافتہ ہونے کے قتل نہیں کرتے تھے- تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اب تم لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کو ان دنوں میں بھی نہیں چھوڑتے- اور کیا تم کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو عرب سے باہر آئے ہیں مثلاً مصر کے ملک میں فرعون تھا اس کے پاس رسول آیا یعنی فرعون کو سزا دی‘ جو خدا کے رسول موسیٰؑ کے مقابلہ میں تھا- پھر ہم نے عاد اور ثمود کی اقوام کو سزائیں دیں جو ہمارے رسولوں کے مقابل کھڑی ہوئیں-
اور تم تو مکہ میں اور پھر حج کے دنوں میں بھی شرارت کرتے ہو اور نہیں رکتے تو تمہیں انصاف سے کہو کہ آیا تم سب سے زیادہ سزا کے مستحق ہو کہ نہیں؟
نیکی ہو یا بدی‘ بلحاظ زمان و مکان کے اس میں فرق آ جاتا ہے- ایک شخص کا گرمی کے موسم میں کسی کو جنگل ریگستان میں ایک گلاس پانی کا دینا جبکہ وہ شدت پیاس سے دم بہ لب ہو چکا ہو‘ ایک شان رکھتا ہے- مگر بارش کے دنوں میں دریا کے کنارے پر کسی کو پانی کا ایک گلاس دینا وہ شان نہیں رکھتا- یہ بات میں نے تم کو کیوں کہی؟ تم میں کوئی رسول کریمﷺ~ کے صحابہ مکہ میں تو بیٹھے ہوئے ہیں ہی نہیں- میں تم کو سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا- یاد رکھو جو امن اور اصلاح کے زمانے میں فساد اور شرات کرتا ہے‘ وہ سزا کا بہت ہی بڑا مستحق ہے-
میرا اعتقاد ہے- جہاں کوئی پاک تعلیم لاتا ہے‘ جہاں لوگ سفر کر کے جاتے ہیں‘ وہاں مکانوں کی تنگی‘ کھانا سادہ ملتا ہے یا نہیں ملتا- ایسی مصیبتیں جو لوگ اٹھا کر یہاں آئے ہیں اور وہ دن رات قرآن سیکھتے ہیں‘ یہاں اگر کوئی فساد کرے تو وہ اصلاح کا کیسا خطرناک دشمن ہے- nsk] g[ta فاکثروا فیھا الفساد فصب علیھم ربک سوط عذاب- مجھ کو یقین ہے کہ جہاں بڑے بڑے لوگ ہیں وہاں بڑے بڑے سامان بہت سے مل سکتے ہیں- ان مکانوں کو چھوڑ کر جب کوئی یہاں آتا ہے تو وہ ہم کو بطور نمونہ کے دیکھتا ہے- ابھی ایک شخص بنگالہ سے یہاں آئے تھے- اتفاق سے ان کو مہمان خانہ میں کوئی داڑھی منڈا موچھڑیالہ شخص مل گیا- انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ قادیان میں فرشتے ہی رہتے ہیں - یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں- تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بھی آ گیا جس کی شکل سے مجھ کو بھی شبہ ہوا کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو- میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں؟ کہنے لگا کہ میں بیمار ہوں- علاج کرانے کے لئے یہاں آیا ہوں-
الغرض جب لوگ یہاں آتے ہیں تو تم کو بہت دیکھتے ہیں- اب تم کو سوچنا چاہئے کہ اگر تم اصلاح کے لئے آئے ہو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں امن اور اصلاح ہو وہاں فساد اور شرارت بری بات ہے- جہاں کوئی مصلح آیا ہو وہاں فساد کیسا؟ اب تم ہی بتائو کہ اگر تم یہاں فساد کرو تو فصب علیھم ربک سوط عذاب text] [tag کے سب سے بڑھ کر مستحق ہو یا نہیں؟ میں تمہارے سامنے یہ بطور اپیل کے پیش کرتا ہوں- جناب الٰہی مکہ والوں کو فرماتے ہیں کہ تمہیں انصاف کرو- ھل فی ذٰلک قسم لذی حجر کیا کوئی عقلمند ہے جو ہماری بات کو سمجھ جائے اور تہ کو پہنچ جائے؟ باہر تم گند کرو تو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر یہاں پہنچا سکتے ہو- جناب الٰہی فرماتے ہیں فاما الانسان اذا ما ابتلٰہ ربہ فاکرمہ و نعمہ فیقول ربی اکرمن بعض کو آسودگی سے ابتلا میں ڈالتے ہیں- وہ جناب الٰہی کے فضل کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں ربی اکرمن- جب تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ربی اھانن کہ ہماری بڑی اہانت ہوئی- میں تم کو اور اپنے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کو یہ تعلیم ناپسند ہے اور یہاں تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو تمہارے یہاں سے چلے جانے میں کوئی ہرج نہیں- کلا بل لاتکرمون الیتیم و لاتحٰضون علیٰ طعام المسکین یتیموں کا تم لحاظ کرو وہ میرے پاس آتے ہیں- میرے میں اتنی گنجائش نہیں- میری اتنی آمدنی نہیں کہ سب کا خرچ برداشت کر سکوں- مسکینوں کے کھانے کی فکر کرو-
یہاں مدرسہ میں ایک طالب علم آیا تھا- ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ یہاں جھوٹ بڑا بولتے ہیں- لنگرخانہ میں تو پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار خرچ کرتے ہوں گے- مگر باہر سے ہزاروں روپیہ منگاتے ہیں- میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا مدرسہ میں کس قدر خرچ ہوتا ہے؟ کہا‘ دس روپیہ ماہوار اکیلے کا خرچ ہے- آخر وہ یہاں سے چلا گیا- تم نیک نمونہ بنو- اگر غلطیاں ہوتی ہیں تو لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین )الانبیائ:۸۸( پڑھو- جناب الٰہی رحم فرمائیں گے-
) بدر جلد۱۲ نمبر۲۶ ۔۔۔ ۲۶ / دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ - ۵ (
* - * - * - *

۱۳ / دسمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد ‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
و المرسلٰت عرفاً فالعٰصفٰت عصفاً و النٰشرٰت نشراً- فالفٰرقٰت فرقاً- فالملقیٰت ذکراً- عذراً او نذراً- انما توعدون لواقع- فاذا النجوم طمست- و اذا السماء فرجت- و اذا الجبال نسفت- و اذا الرسل اقتت- لای یوم اجلت- لیوم الفصل- و ما ادریٰک ما یوم الفصل- ویل یومئذ للمکذبین )المرسلات:۲تا۱۶-(

اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ اس سورۃ شریف میں ایک عجیب نظارہ دکھلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ سوچو! بہار کی لطیف ہوا کیسی فرحت بخش ہوتی ہے- ایک نوجوان اس وقت سڑک پر چلتا ہو تو اس کی زبان سے بھی ایک فقرہ ضرور نکل جاتا ہے- و المرسلٰت عرفاً وہ ہوائیں جو دل کو خوش کرنے والی ہوتی ہیں تم جانتے ہو کہ بعض وقت ہوا کا ایک لطیف جھونکا چلتا ہے کہ اس لطیف جھونکے سے دل خوش ہو جاتا ہے- پھر وہی ہوا آہستہ آہستہ چلتی اور روح و رواں کو خوش کرنے والی یکدم ایسی بڑھ جاتی ہے کہ ایک تیز آندھی بن جاتی ہے- میں نے ایسی آندھیاں دیکھی ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سو جھائی نہیں دیتا- بہت سے جانور دریائوں میں گر جاتے ہیں- بہت سے پرند درختوں سے گر جاتے ہیں اور دریا وغیرہ کے درخت جو سرو کی قسم سے ہیں‘ اس طرح گرتے اور اڑتے ہیں کہ نیچے بیٹھے ہوئے آدمی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا-
و النٰشرٰت نشراً- ایسی بھی ہوائیں ہوتی ہیں کہ پانی کو اٹھاتی ہیں‘ بادل لاتی ہیں- پھر ایسی ہوائیں بھی ہوتی ہیں کہ
و الفٰرقٰت فرقاً وہ فرق کر دیتی ہیں- بادلوں کو اس طرح اڑا کر لے جاتی ہیں جیسے روئی کا گالا-
خدا تعالیٰ کا کلام بھی انسان کے کان میں ہوا ہی کے ذریعہ سے پہنچتا ہے- ہوا کی لہریں بھی دماغ کے پردوں کو متحرک کر دیتی ہیں- وہ ہوائیں المرسلت ہوتی ہیں اور وہی آوازیں بھی کان میں پہنچاتی ہیں- اور وہ آوازیں کبھی خوشی کی ہوتی ہیں‘ کبھی رنج کی ہوتی ہیں جو عاصفات کا رنگ پیدا کر دیتی ہیں- مومن کی شان میں ایک ایسا لطیف فقرہ ہے- دنیا میں کوئی دکھ کو پسند نہیں کرتا- قرآن شریف میں ہے فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون )البقرۃ:۳۹-( اگر تم مومن ہو اور سکھ چاہتے ہو تو اس کتاب کی اتباع کرو-
اب دور دراز سے خبریں آتی ہیں کہ مسلمانوں کو یوں شکست ہوئی‘ یوں تباہ ہوئے- ایک شخص کا میرے پاس خط آیا- وہ لکھتا ہے کہ مجھ کو دہریہ نام کا مسلمان ملا- وہ کہنے لگا خدا تعالیٰ تو اب مسلمانوں کا دشمن ہو گیا ہے- لہذا ہم اسلام سے ڈرتے ہیں کہ کہیں خدا ہمارے پیچھے بھی نہ پڑ جائے- اس لئے ہم تو اسلام کو چھوڑتے ہیں- بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ اس نے مسلمانوں جیسے کتنے کام کیے- مسلمان اپنے اعمال کو ٹھیک کرتے اور پھر دیکھتے-
فالملقیٰت ذکراً- ہوائوں میں وہ ہوائیں بھی ہیں کہ تم کو یاد دلانے کے لیے چلاتے ہیں- یعنی لوگوں کے منہ سے تم کو سنواتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو- ایک بڑا حصہ مسلمانوں کا ایسا ہے کہ اس کو اسلام کی خبر بھی نہیں اور اگر خبر ہے تو عامل نہیں-
میں تم کو بہت مرتبہ قرآن سناتا ہوں- بعض کہتے ہیں کہ ہزاروں مرتبہ تو سن چکے ہیں‘ کہاں تک سنیں-
عذراً او نذراً- ہم تو اس واسطے تم کو قرآن سناتے ہیں کہ کوئی عذر باقی نہ رہے اور تم میں سے کوئی تو ڈرے-
زمینداروں‘ دکانداروں کو فرصت کہاں! میں نے صرف ایک شہر ایسا دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن بازاروں کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سب جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں- کوئی مسلمان بازار میں نہیں پھر سکتا اور وہ شہر مدینہ ہے- مکہ میں بھی ایسا نہیں- یہ بھی چالیس پچاس برس کی بات ہے- اب کی کیا خبر ہے؟ دکاندار‘ حرفہ والے‘ ملازم اپنے کاموں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں- عورتیں اور بچے جاتے ہی نہیں- آج کل لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں کہ جمعہ کوئی ضروری چیز نہیں-
عالمگیر نے ایک ایسی کتاب لکھوائی تھی- اس میں عجیب عجیب ڈھکونسلے ادھر ادھر کے بھر دیئے ہیں- اس کے سبب لوگوں میں سستی ہوئی اور اب تو صاف صاف جمعہ کی مخالفت میں کتابیں چھپنے لگیں- کوئی لکھتا ہے کہ قربانی کی ضرورت نہیں- ایک اخبار نے لکھا تھا کہ حج میں روپے خرچ کرنے کی بجائے کسی انجمن میں چندہ دے دے- ایک شخص نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے اور روزوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر امیر ہو تو کھانا دے دے- غریب کو تو ویسے بھی معاف ہی ہے- ایک شخص لکھتا ہے کہ و ذروا البیع )الجمعۃ:۱۰( ہر قسم کا بیع چھوڑ دو- پس ہر قسم کی بیع ہونی چاہئے- جہاں ہر قسم کی بیع نہ ہو وہاں جمعہ ضروری نہیں- میں نے کہا کہ ہر قسم کی بیع تو لنڈن میں بھی نہیں ہوتی-
اذا النجوم علماء یوں تباہ ہو رہے ہیں- قرآن کے حقائق یوں کھل جائیں گے اور بڑی بڑی سلطنتیں بھی قائم ہو جائیں گی-
ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سمجھ لیا ہے- دیکھو خوشی کی خبریں غم سے یوں مبدل ہو جاتی ہیں جیسے ’’مرسلات‘‘ ’’عاصفات‘‘ سے- نفس کو اس کا مطالعہ کرائو-
شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے- وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے- ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سن سکے- ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے- پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان‘ کان‘ آنکھ‘ ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کریں-
ایک حضرت شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی گزرے ہیں- ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بہشت میں جائیں گے تو کیا کام کریں گے؟ فرمایا ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے پاس حوریں آئیں- ہم نے ان سے کہا جائو بیبیو! قرآن پڑھو- قرآن خدا کی کلام اور اس کی کتاب ہے-
جس قدر کوئی اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھے گا اسی قدر جناب الٰہی اس کو پکارے گا تو اس کی بات فوراً سنی جائے گی- ) بدر حصہ دوم- کلام امیر ۹ جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳(
‏KH1.36
خطبات|نور خطبات|نور
۲۵ / دسمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ

جلسہ سالانہ ۱۹۱۲ء کے پہلے دن کی تقریر
جلسہ کے موقع پر یہ حضرت صاحب کی پہلی تقریر ہے جسے مخدومی اخویم محمد اکبر شاہ خاں صاحب نے ساتھ ساتھ لکھا تھا اور اب صاف کیا ہے- چھپنے سے قبل حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح کو اس کا مسودہ دکھلا لیا گیا ہے اور میں خان صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے ایسا عمدہ اور صحیح لکھا ہے کہ حضرت نے بہت کم کہیں درست کیا ہے- ) ایڈیٹر(
)اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم-( یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ و لا تموتن الا و انتم مسلمون- واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا و اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً و کنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا کذالک یبین اللہ لکم ایٰٰتہ لعلکم تھتدون- ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولٰئک ھم المفلحون- )اٰل عمران:۱۰۳ تا ۱۰۵-(
یہ آیات شریفہ جن کو میں نے پڑھا ہے چوتھے پارہ اور سورۃ آل عمران میں ہیں- میرے خیال میں اس وقت ان آیات کے پڑھنے کی ضرورت ہے اور ان میں ایک علاج لکھا ہے- اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے- اس ضرورت کے خیال پر میں نے بھی ان آیات کریمہ کو پڑھا ہے- یہ بات تو تم جانتے ہو کہ پاک مقدس نیک آدمی کبھی ناپاک اور غیرمقدس کے ساتھ تعلق نہیں رکھ سکتا- پلید اور پاک کا تعلق محال ہے- خدا تعالی ہر ایک عیب‘ ہر ایک نقص اور ہر ایک بدی سے پاک ہے- پس جہاں تک کوئی نقصوں کو دور کرتا چلا جائے اسی قدر بے نقص سے قرب حاصل کر سکتا ہے- وہ انسان جو تندرستی کا طالب ہے ایسی جگہ کو جو نشیب اور رطوبت والی ہو اور جہاں موذی جانور بہت رہتے ہوں چھوڑنا ضروری سمجھتا ہے- نشیب میں بیماریاں بہت ہوتی ہیں- اسی طرح جہاں موذی جانور بہت رہتے ہوں وہاں بھی بیماریاں بہت ہوتی ہیں- اسی طرح جہاں ہوا کا گذر کم ہے یا جو مکان تنگ و تاریک ہے بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے- اس کے لئے مختصر‘ ضروری‘ متفق علیہ علاج اونچی جگہ جہاںہوا مصفا ہو‘ موذی جانوروں کا گذر کم ہو‘ رطوبت کم ہو‘ روشنی خوب ہو- یہ بڑے ضروری امور ہیں- موٹی سی ایک مثال اس وقت میرے خیال میں آئی ہے- میں نے اپنے گھر کے بہت سے حصہ میں پکا فرش رکھوایا ہے- جن کوٹھوں میں اور مکان کے جس حصہ میں میں زیادہ تر رہتا ہوں وہاں پکا فرش ہے گو دیواریں کچی ہیں- میں اکثر ان کو صاف کرتا رہتا ہوں مگر ہر روز ایک حصہ مٹی کا جس کو ہمارے یہاں کلر کہتے ہیں جھاڑو دینے والی نکالتی ہے- میں نے اس سے سوال کیا یہ کہاں سے آجاتا ہے؟ اس نے کہا ہر ایک چیز اسی طرح ہو جاتی ہے- اسی مٹی کو جب تنگ وتاریک جگہ سے نکال کر کھیت میں ڈالتے ہیں جہاں عمدہ ہوائیں چلتی ہیں‘ چار پانچ روز کے بعد وہ ایسی عمدہ زمین ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات دل چاہتا ہے کہ اللہ! تیرے آگے سجدہ کروں اور یہاں میں نماز پڑھ لوں- وہی جگہ ایک ہفتہ پہلے ایسی ناپاک تھی کہ اس کے پاس سے بھی گزرنا ناگوار تھا- یہ کیسی سیدھی مثال ہے- اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ مرغیوں‘ بطخوں کے رہنے کے مقام اور جہاں ہمارے گھریلو جانور گائے‘ بھینس‘ گھوڑے وغیرہ رہتے ہیں وہاں قسم قسم کی نجاستیں جمع ہو جاتی ہیں- جہاں مصفا ہوا اور کھلے میدان میں اس کو رکھا وہی حصہ بڑا عمدہ بن جاتا ہے- اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس قدر کوئی عمدہ چیز سے تعلق پیدا کرتا جاتا ہے اس کا نقص گھٹتا جاتا ہے- قرآن کریم میں جناب|الٰہی نے جب انسان کی بناوٹ پر ذکر فرمایا ہے تو فرمایا ہے خلقنا الانسان من سلالۃ )المومنون:۱۳( یعنی تم کو خلاصہ در خلاصہ بنایا ہے- جب انسان کھانا کھاتا ہے اس میں سے بڑا حصہ ناپاکی کا علیحدہ کیا جاتا ہے- پیشاب الگ کیا جاتا ہے- قسم قسم کی بھاپ‘ پسینے‘ کان‘ آنکھ‘ ناک‘ منہ|وغیرہ سے فضلے نکل کر کہیں کا کہیں خلاصہ بن کر آدمی کا نطفہ بنتا ہے- پھر ماں کے پیٹ میں بڑے تغیرات آتے ہیں- پھر وہ بچہ بنتا ہے‘ انسان کا بچہ بنتا ہے- پھر ممکن ہے کہ وہ مسلم ہو اور ممکن ہے کہ وہ کافر ہو- دہریہ ہو- پھر کیسا عظیم الشان بن جاتا ہے- دریائوں کے چیرنے کی طاقت رکھتا ہے- پہاڑوں کو اڑانے کی طاقت رکھتا ہے- ویل مچھلی کو قابو میں لاتا ہے- میں نے اپنی آنکھ سے وہ لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے شیروں کو اس طرح قابو کیا ہے کہ شیر کو بھوکا رکھ کر اس کے منہ میں حلق تک اپنا ہاتھ ڈال دیا- بھلا مجال ہے کہ منہ بند کرے- میں نے اس شخص سے کہا کہ کمال کیا ہے- اس نے کہا کمال کیا‘ انسان ہی ہے جو ہاتھی کو انگوٹھے کے اشارے سے چلاتا ہے- اونٹوں کو نکیل کے ذریعہ سے‘ بھینسے اور بیل کو قابو میں لا کر ناک میں رسی ڈال دی ہے- مجال ہے جو ہل سکے- یہ انسان کی حالت ہے- لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم )التین:۵( کیسا قوام بنایا ہے اور کیسی طاقت دی ہے- اب انسانوں میں کیسا تفاوت ہے- یہاں بہت تھوڑے سے آدمی ہیں- مگر دیکھ لو آواز‘ چہرے‘ بال‘ پگڑی‘ لباس‘ خوراک سب کی جدا جدا ہے- اللہ کی شان ہے اور یہ اس کا نشان ہے کہ تمہاری زبان اور رنگ کا آپس میں اختلاف ہے- قرآن|کریم میں ہے و من ایٰٰتہ خلق السمٰوات والارض و اختلاف السنتکم و الوانکم )الروم:۲۳-( پھر فرماتا ہے- کان الناس امۃ واحدۃ)البقرۃ:۲۱۴( اس کا ترجمہ میری سمجھ میں یہی ہے کہ سب آدمی ایک جماعت ہیں- جس طرح تمام دنیا کی اشیا کی جماعت بندی ہے انسان بھی ایک جماعت ہے- اس میں مومن‘ کافر‘ مسلمان‘ شریر سب ہی ہیں- صلح جو بھی ہیں- شرارت پیشہ بھی ہیں- رسول|اللہ ~صل۲~ نے ایک جگہ فرمایا ہے قریش میں امام ہیں- شریروں کے شریر و خیار کے خیار- نبی کریم ~صل۲~ جیسا سمجھانے والا- ابوجہل جیسا انکار کرنے والا- نبی کریم ~صل۲~ کی زبان مبارک سے تیرہ برس تک کیسے کیسے دلائل اور سلطان سنے مگر اس کے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا- ایک دفعہ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا کہ میں مصر جانا چاہتا ہوں تا کہ وہاں جا کر عربی سیکھوں اور پھر دین سیکھوں کیونکہ ہمارا دین عربی میں ہے اور بغیر عربی کے دین نہیں آسکتا- میں نے کہا تم ابوجہل سے بڑھ کر زبان دان نہیں بن سکتے- مصر جائو‘ روم میں جائو یا شام میں- ابوجہل کو جیسی عربی زبان آتی تھی ویسی تم کو نہ آئے گی لیکن ابوجہل مسلمان نہ ہوا- یہ دنیا کے عجائبات ہیں- سب لوگ ایک جماعت ہیں- پھر باوجود یکتائی کے کس قدر تفاوت اور فرق ہے کوئی اس کو بیان نہیں کر سکتا- خدا تعالیٰ کے منکر بھی دنیا میں موجود ہیں- لاہور میں ان کی ایک باضابطہ جماعت ہے- ایک اخبار بھی نکلتا ہے- ایک مذہب ایسا ہے وہ کہتے ہیں پتہ نہیں لگتا کہ دنیا کیا ہے؟
لاہور میں حضرت صاحب سے سیدمٹھا میں ایک شخص مباحثہ کرنے آیا- اس نے کہا مجھ کو کوئی شخص ہرا نہیں سکتا کیونکہ تم جو دلائل دیتے ہو ہم ان دلیلوں کے بھی قائل نہیں- میں بھی دور سے سنتا تھا- تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھا- میں نے باہر جا کر اس سے کہا کہ آپ جیسے آدمیوں کے عقائد کا حال میں نے کتابوں میں پڑھا ہے مگر کوئی آدمی دیکھا نہیں تھا- اب آپ کو دیکھ کر میں خوش ہوا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں لیکن معلوم نہیں آپ کا دفتر کہاں ہے؟ میرا جی چاہتا تھا کہ اس کو ابھی ہلاک کر دوں- اس نے کہا کوڑی باغ میں ہمارا دفتر ہے- کوئی آدمی انار کلی سے سیدھا فلاں سمت کو چلا جائے تو وہاں پہنچ جاتا ہے- میں نے اپنے دل میں سمجھا کہ یہ احمق ہے- میں نے اس سے کہا کہ آپ وہاں کتنے بجے جاتے ہیں؟ کہنے لگا کہ میں وہاں دس بجے جاتا ہوں- میں نے سوچا کہ اب اس کو آگے چلانے کی ضرورت نہیں- تب میں نے کہا بابو صاحب! جیسے دس بجے دن کے ویسے دس بجے رات کے- جیسے دن کے بارہ بجے ویسے رات کے- جیسے انار کلی جیسے راوی کا دریا- جیسا شاہدرہ جیسا کوڑی باغ- کیا آپ ہم لوگوں کی ہی طرح دس بجے نکلتے ہیں؟ کیوں آپ انار کلی سے کوڑی باغ میں ہی جا کر ٹھیرتے ہیں؟ کبھی راوی کی طرف جا کر شاہدرہ جا کر ٹھہرا کریں- ایک ہی ہے نا! مجھ کو دیکھ کر کہنے لگا میں آپ سے پھر ملوں گا- میں نے کہا کس جگہ ملو گے؟ پس پھر تو وہ شرمندہ ہو گیا اور چل ہی دیا- میں نے دیکھا کہ عملدرآمد کرنے میں وہ ہماری طرح چلتا ہے-
لاہور کا ایک بڑا پنڈت میرے پاس آیا- اس کا بچہ بیمار تھا- کوچہ بندی تک وہ اپنے بیٹے کی تکلیف بیان کرتا ہوا میرے ساتھ گیا- اس سے پہلے وہ بیان کر چکا تھا کہ اعتبار کے قابل کوئی چیز بھی نہیں- مسیح کے قتل کا فتویٰ جب یروشلم میں دیا گیا تو یروشلم میں اتفاق تھا- اب اس کو ظلم سمجھتے ہیں- ہم نہیں جانتے کہ وہ ظلم تھا یا یہ ظلم ہے؟ سقراط کو جب زہر کا پیالہ پلایا گیا تو کوئی نہ بولا- اب اس کو اچھا نہیں جانتے- ہم نہیں جانتے وہ سچے تھے یا یہ سچے ہیں؟ میں نے کہا پنڈت جی! آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ کہا میرا بیٹا بیمار ہے- میں نے کہا جب قوم کی بات کا آپ کو اعتبار نہیں تو آپ کی بات کا ہم کیسے اعتبار کریں- کہنے لگا- بیٹا کہتا ہے- میں نے کہا اچھا اب آپ دو ہو گئے پھر ۔۔۔۔۔۔ فبھت الذی کفر )البقرہ:۲۰۹-( معلوم ہوا خدا تعالیٰ کی بات تو بڑی ہے- نفس مخلوق پر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں- ایک شخص نے مجھ سے کہا مخلوق ہر آن میں تباہ ہو جاتی ہے- میں نے اس سے بہت باتیں پوچھیں مگر کوئی حقیقت تک پہنچانے والی بات اس کے منہ سے نہ نکلی-
اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ انسانی جماعت میں اس پاک گروہ کے بھی لوگ منکر ہیں جن کو انبیائ|علیہم|السلام کہتے ہیں اور جن کے سبب سے دنیا میں بڑے بڑے عیش اور امن اور راحتیں قائم ہیں- برہمو لوگ انبیاء کی پاک جماعت کے منکر ہیں- ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ دیکھو ہم بڑے پریم اور نرمی سے بات کرتے ہیں- میں نے کہا تم بڑے ظالم ہو- کہا کبھی آریوں کو بھی سنا ہے؟ میں نے کہا آریہ تم سے بہت نرم ہیں- کہا مسلمان؟ میں نے کہا وہ تو تمہاری نسبت بہت ہی نرم ہیں- کہنے لگا ہماری پلیدی بتائو؟ میں نے کہا سچائی پھیلانے اور سچ قائم کرنے کے لئے دنیا کے ہر پردہ پر نبی آئے ہیں اور انہوں نے صداقت کو قائم کرنے کے لئے اپنی جانیں ہلاکت میں ڈالیں اور بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں- تم نے ایسا غضب ڈھایا کہ ان کو کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے باتیں نہیں کرتا- کیسا ظلم ہے کہ تم کہتے ہو یا انہوں نے )انبیاء نے( جھوٹ بولا یا دھوکا کھایا یا دوسروں کو الو بنایا یا مصلحت عامہ کا خیال کیا- میں نے کہا تم نے نبیوں کے حق میں جھوٹ بولنے‘ دغا بازی کرنے‘ دھوکا دینے کے الزام لگائے اور پھر کہتے ہو ہم بڑے نرم ہیں- کہنے لگا پہلے تو ہم نے کبھی اس باریک بات کا خیال ہی نہیں کیا- میں نے کہا اب خیال کر لو- کہا ہاں بات تو زبردست ہے- میں نے کہا اچھا اب مانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں- بات کچھ ایسی ہی ہے- میں نے کہا تم ملائکہ کے ماننے کو شرک سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ ملائکہ کا ماننا مشرکانہ اعتقاد ہے حالانکہ ملائکہ کا ماننا بڑا پاک اعتقاد ہے- وہی راستباز اور پاک جماعت کہتی ہے کہ ہم سے ملائکہ نے باتیں کیں- ملائکہ ہم سے ملے- ملائکہ نے ہم کو فائدے پہنچائے- اور تم ان کو جھوٹا کہتے ہو-
ایمان بالملائکہ کا ایک نکتہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے- میں نے بارہا اپنے دوستوں کو سمجھایا ہے لیکن لوگ بھلی بات کی طرف توجہ کم کرتے ہیں- کوئی وقت اور موقع نیکی کا ہوتا ہے- اس وقت فرشتہ انسان کو نیکی کی تحریک کرتا ہے اور بدکاروں کو فرشتہ کبھی بدکاری کے وقت ملامت کرتا ہے- اسی واسطے بعض بدکاروں کے کبھی بڑی نیک اولاد پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ ملامت کے ساتھ ہوتی ہے- اگر انسان ملک کی اس تحریک کو مان لے تو ملک کو اس سے تعلق ہو جاتا ہے- وہ فرشتہ اپنے حلقہ کی تمام نیکیاں تحریک کرتا ہے- پھر وہ ایک دوسرے فرشتہ سے جو اس کا قریب کا ہوتا ہے تعلق کراتا ہے کہ تم بھی اس کو تحریک کرو- یہاں تک کہ ایک حدیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ~صل۲~ نے فرمایا ہے کہ جب کسی آدمی کا اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جاتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرو- اس طرح جبرائیلی رنگ کی مخلوق سے تعلق اور قبولیت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے- اب وہ قصہ ایک کہانی کی طرح ہو گیا- بدظنی مت کرو- بڑائی‘ شیخی اور فخر کے لئے نہیں‘ تحدیث کے لئے کہتا ہوں کہ میں نے خود ایسے فرشتوں کو دیکھا ہے اور انہوں نے ایسی مدد کی ہے کہ عقل‘ فکر‘ وہم میں نہیں آسکتی اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ دیکھو ہم کس طرح اس معاملہ میں تمہاری مدد کرتے ہیں-انبیائ‘ اولیائ‘ غوث‘ ابدال کی پاک جماعت کا فرمانا اس معاملہ میں خلاف ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں- جس طرح گندا کوڑا|کرکٹ اعلیٰ مقامات میں جا کر اچھا ہو جاتا ہے اسی طرح اچھی صحبت میں گندا انسان اپنی حالت کو تبدیل کر لیتا ہے- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کونوا مع الصادقین- )التوبہ:۱۱۹( راستبازوں کا ساتھ ہونا کوئی معمولی بات نہیں- وہ خشن پوش عرب جو سوائے اونٹ چرانے کے کچھ نہیں جانتے تھے جب انہوں نے دنیا میں اسلام کا نور پھیلایا تو کس طرح خدا تعالیٰ نے ان پر فضل وکرم فرمایا اور انہوں نے کیسی عزت حاصل کی- وہ صحبت کا نتیجہ تھا- یہ نہ کہو کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے خزانے خشک ہو گئے- یہ جناب الٰہی پر بدظنی ہے- خدا تعالیٰ کے فضل ورحمت میں کبھی کوئی نقص نہیں- قرآن کریم میں جہاں کہیں نیک آدمی کا ذکر آتا ہے آگے فرماتا ہے و کذالک نجزی المحسنین- ہر ایک محسن کے لئے ایسی ہی جزا ہے- خدا|تعالیٰ کی رحمت کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں‘ کوئی دریغ اور مضائقہ قطعاً نہیں- اور نا امیدی خود بڑا خطرناک گناہ ہے-
طالبعلمی میں ہمارے ایک دوست تھے- ہم کو ان پر بڑا حسن ظن تھا- جتنے ہم ان کے ساتھ پڑھتے تھے ان کو بہت ہی نیک خیال کرتے تھے- حضرت صاحب کے دعوے کے وقت وہ مجھ کو ملے- میں نے کہا آپ نے مرزا صاحب کی آواز سنی ہے؟ کہنے لگے ہاں‘ وہ کہتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتا ہوں- پھر کہا کہ آپ مجھ کو جانتے ہیں- میں نے کبھی کوئی بدی نہیں کی اور ساری عمر نہیں کی لیکن مجھ کو کبھی الہام نہیں ہوا اور مرزا صاحب کو الہام ہو گیا- میں یہ سن کر کچھ دیر چپ رہا اور دعا مانگتا رہا کہ مولا! اس کو کیا جواب دوں؟ پھر میں نے عرض کیا کہ آپ ہم میں کیسا نیک نمونہ ہیں کہ ہم آپ کے لنگوٹیا یار ہیں اور پھر بھی آپ کا کوئی عیب نہیں بتا سکتے- اب بتائیں آپ نے کبھی نماز میں الحمد شریف پڑھی ہے؟ کہا روز- میں نے کہا اس میں آپ نے اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم پڑھا؟ انہوں نے کہا ہاں- میں نے کہا کیا کوئی منعم علیہم ہیں؟ کہا ضرور ہیں- میں نے کہا اللہ تعالیٰ ان سے باتیں کرتا تھا اور آپ سے نہیں کرتا؟ کہنے لگے بھلا ہم بدکاروں سے اللہ تعالیٰ کب بات کرتا ہے؟ میں نے کہا تو آپ بدکار ہیں؟ ہم کو تو علم نہیں تھا؟ کہا بندہ گنہگار سیہ کار ہے- میں نے کہا تو آپ ایسے بدکار اور سیہ کار ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے باتیں نہیں کرتا- آپ نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی کی اور یہ کہ آپ نے تمام نیکیاں کیں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ نہیں بولا- گویا وہ ظالم ہے- آپ نے تو بڑا ظلم کیا کہ اللہ|تعالیٰ پر بدظنی کی‘ پھر وہ کس طرح بولتا- کہا ہاں یہی سبب ہے- میں نے کہا تو پھر قصور تو آپ ہی کا ہے-
ملائکہ اسباب الٰہی میں سے ایک سبب ہیں اور کتب الٰہیہ انسان کو آگاہ کرنے کے لئے بھیجی گئی ہیں اور انسان کو سچائی سمجھانے کے لئے نازل ہوئی ہیں-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقواللہ حق تقاتہ ولا تموتن الا و انتم مسلمون حق تقویٰ کا ادا کرو- اللہ|تعالیٰ کی ذات پاک‘ مقدس‘ مطہر‘ عیب سے بری ہے- وہ یکتا ہے- اپنے اوصاف ومحامد میں بے ہمتا ہے- اللہ جل|شانہ کے افعال وعبادات وتعظیمات میں کوئی بھی شریک نہیں- وہ وحدہ‘ لاشریک ہے- میری تحقیقات اور سمجھ نے جہاں تک کام دیا ہے قرآن کریم جیسی کتاب میں نے نہ دیکھی‘ نہ سنی اور نہ کسی منہ سے کوئی چیز ایسی مجھ تک پہنچی-
ایک مشہور برہمو یہاں آئے- میں نے ان سے کہا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ کہا کہ ہر ایک مذہب کی اچھی بات ہم لے لیتے ہیں- میں نے کہا بڑا اعلیٰ سے اعلیٰ اصل آپ کا کیا کیا ہے؟ کہا دعا‘ اور یہی تمام مذاہب میں بڑی اعلیٰ چیز ہے- میں نے کہا آپ نے تمام مذاہب کی دعائوں کا انتخاب کیا ہے- ان میں اتفاق|رائے سے جو سب سے اعلیٰ دعا ہو وہ مجھ کو سنائو- کہنے لگے آپ اپنی دعا سنائیں- میں نے کہا آپ نے تو تمام مذاہب کی دعائوں کا انتخاب کیا ہے- تعجب ہے کہ اسلام کی دعائوں کو نہیں جانتے- کہا ہاں یہ غلطی تو ہے- پھر کہنے لگا کہ جنرل بوتھ نے دس گھنٹے دعا مانگی اور میرے سامنے مانگی- میں نے کہا کہ اس دعا کا کوئی فقرہ آپ دس سیکنڈ میں سنا دیں- کہنے لگا دور سے آواز نہیں آتی تھی- میں نے کہا ممکن ہے وہ شراب کے نشہ میں سورہا ہو- غرض وہ ادھر نہ آیا- یہی کہتا رہا وہ بڑی جماعت کا مقتدا ہے- میں نے کہا کہ اس نے کوئی دعا نہیں کی ورنہ ایک فقرہ ہی سنائو- میں نے کہا ہمارے نبی کریم ~صل۲~ جب نماز پڑھتے تھے تو ایک آیت اونچی پڑھ دیتے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ فلاں سورۃ پڑھتے ہیں- انجیل میں مسیح کی آخری دعا تو یہی ہے کہ ایلی ایلی لما سبقتٰنی او خدا! تو نے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا- میں نے اس کو بہت ہی مجبور کیا کہ اپنی دعا مجھ کو سنائو- لیکن اس نے کہا- پہلے آپ سنائیں‘ پیچھے میں سنائوں گا- میں نے کہا اچھا آئو ہماری ہی دعا سنو- پھر میں نے سورہ فاتحہ انہیں )ہندئوں کی( زبان میں جو مجھ کو کچھ آتی ہے ترجمہ کر کے سنائی- سن کر فوراً نوٹ بک نکال کر کہنے لگا کہ اس کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیں- اس جیسی تو کوئی دعا ہو ہی نہیں سکتی- میں نے کہا اب تم سنائو- کہا کہ مجھ کو تو اب ان تمام دعائوں سے شرم آتی ہے- اس دعا کے مقابلہ میں ہرگز کوئی دعا سنانے کے قابل ہے ہی نہیں- ہم پر کیا احسان ہوا ہے-
کیا شان ہے اس کتاب کی جس کی تعریف ہے لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید)حم:۴۳( اس کے آگے پیچھے بطلان آسکتا ہی نہیں- سب تحقیقاتوں کے مقابلہ میں یہی قرآن ہے- آئندہ جو ہوں گی ان کے لئے بھی یہی قرآن ہے- رب العالمین کی یہ تنزیل ہے- بہت سے لوگ انجمنیں بناتے ہیں- وہ کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصل الاصول میں لا الٰہ الا اللہ text] [tag کو نہیں رکھتے- کوئی ہمدردی حیوانات‘ کوئی موت فنڈ‘ کوئی زندگی کا بیمہ- اگر سب سے مقدم خدا تعالیٰ کو کر لیتے تو خدا تعالیٰ ان کو مقدم کر لیتا- و لا تموتن الا وانتم مسلمون تم فرمانبردار ہو کر مرو-
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً- اللہ تعالیٰ نے الزام کے طور پر ہر مدرسہ میں رسہ کھینچنے کا ایک انتظام کیا ہے- یہ رسہ میری سمجھ میں اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس آیت کی طرف توجہ ہو- یہ جناب الٰہی کا رسہ قرآن کریم آگیا- ایک طرف تمام دشمنان خدا اور اعداء نبی کریم اس کو کھینچنا چاہتے ہیں- کوئی تاریخی طور پر‘ کوئی سائنس اور مشاہدہ کے ذریعہ سے الزام لگانا چاہتا ہے- کوئی اس کوشش میں ہے کہ اس کے اسباب کے نتائج کا خلاف کیا جائے- خدا تعالیٰ اور اس کے نبیوں کے منکر ایک طرف کھینچتے ہیں- تمام مسلمانوں کو حکم ہے کہ تم ایک دم اپنا سارا زور لگائو- کیونکہ اس میں تمہارا بچائو ہے- اس میں تو اتفاق کر لو- و لا تفرقوا تفرقے چھوڑ دو- آپس میں محبت بڑھائو- اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان محبت ڈالی ہے- اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل ہوا ہے- تم لوگ کس طرح آپس میں عداوت رکھتے تھے- جناب الٰہی نے تم میں الفتیں پیدا کر دی ہیں- اندرونی مذاہب میں شیعہ تمام اصحاب کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور خوارج اہل|بیت کو- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان الفتیں پیدا کر دی ہیں- تو کم سے کم سورۃ آل|عمران کے زمانہ میں جس قدر صحابہ تھے وہ تو سب ضرور آپس میں محبت رکھتے تھے- جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ قرآن کریم کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے- الف کے بعد اخواناً فرمایا ہے کیونکہ کبھی کبھی بھائیوں میں کدورتیں بھی ہو جاتی ہیں- اس جماعت صحابہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت معزز کیا ہے- اگر ان میں اختلاف ہوتا تو تمام بلاد کے فتوحات کس طرح ہوتے؟ اگر وہ ایک نہ ہوتے تو لا الٰہ الا اللہ کے خلاف ہوتا- میں نے اپنے ایک دوست سے کہا بھلا تم کلینی تو پڑھ کر دیکھو- کہا اپنی تردید کے لئے یہی کافی ہے- خدا تعالیٰ کے اس فضل کو یاد کرو کہ رسول اللہ ~صل۲~ کے دربار میں کون کون لوگ تھے؟ حبشیوں میں بلال‘ رومیوں میں صہیب‘ حسن بصری جیسے بصرہ کے- یہ اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے لئے ہم نے عرب وعجم کی مخلوق ایک کر دی ہے-
کنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار تم ایک آگ کے گڑھے پر تھے- اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ باتیں اس لئے سنائی ہیں کہ تم ہدایت پائو- اب بھی دیکھو لوگ باہم کس قدر نقار میں تھے- مقلد‘ غیر مقلد‘ شیعہ‘ خارجی‘ ایک گائوں قادیان میں ہم کو اللہ تعالیٰ نے جمع کر دیا- نمونے دکھا دئیے- اب بھی وہی بن سکتے ہو جو پہلے صحابہ کرام بنے- یہ باتیں کیوں سناتا ہے؟ لعلکم تھتدون-
‏text] g[ta اب تم سوچو حضرت صاحب کیوں آئے تھے؟ کیا غرض تھی؟ کیا کام تھا؟ کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ بہت سے لوگ یہ کہہ دیں گے- وفات مسیح کا مسئلہ حل کر دیا- وفات مسیح کے سارے صحابہ‘ سارے ائمہ قائل ہیں- بیشک بطور غلطی کے یہ مسئلہ بھی تھا- ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر فوت ہوئے- ایک مسیح علیہ السلام بھی فوت ہو گئے تو کیا ہوا- حضرت صاحب ایک خاص غرض کے لئے آئے تھے- وہ غرض دین کو دنیا پر مقدم کرنا تھی- لوگوں نے دنیا کو دین پر مقدم کیا ہے اور ایسا مقدم کیا ہے کہ قرآن شریف کو کچہریوں میں جھوٹی قسمیں کھانے کا آلہ بنایا گیا ہے- دھوکا دینے کے لئے قرآن شریف کو ذریعہ بنایا گیا ہے- ایک شخص کی کوہاٹ میں بدلی ہوئی- بڑا موٹا قرآن شریف اور ایک بڑی سی رحل اس نے خریدی- لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو قرآن کریم سے بڑی محبت ہے- کہنے لگا کہ سفر میں تو یہ میری گاڑی کا پائدان ہو گا اور وہاں جا کر رحل پر رکھ دوں گا- سرحدی لوگ مجھ کو بڑا دیندار سمجھیں گے- میں قرآن|شریف کو مانتا نہیں ہوں-
اگر خشیتہ اللہ ہو‘ اگر تقویٰ ہو‘ اگر انسان کا خدا تعالیٰ پر ایمان ہو‘ اگر مرنے کا اس کو خیال ہو تو یہ جھوٹ‘ یہ دغا‘ یہ فریب‘ یہ جعلسازیاں‘ یہ بدمعاشیاں‘ یہ لین دین میں بدمعاملگی کیوں ہو- تم خوب یاد رکھو کہ صرف منہ سے مسلمان تو منافق بھی بن سکتا ہے- تقویٰ اور عمل سے آدمی مومن بن سکتا ہے- اگر دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہو‘ اگر اپنے اغراض کو پورا کرنے کے لئے دغا‘ فریب اور بدمعاشیوں کو روا رکھتے ہو تو یہ کوئی عقلمندی نہیں- ہمارے بزرگوں کے مکانات عرب میں بھی ہوں گے کیونکہ وہ عرب سے آئے تھے- پھر انہوں نے بلخ میں کابل میں مکانات بنائے- پشاور اور یوسف زئی کے علاقہ میں وہ رہے- پھر لاہور میں قصور میں مکانات بنائے- پھر کھنی وال )علاقہ بہاولپور( اور میانوالی سکونت اختیار کی- بھیرہ میں خود میں نے اپنے ہاتھ سے مکانات بنائے- ان سب مقامات میں ہمارے مکانات تھے- پھر کیا ان مکانوں کو میں سر پر اٹھا کر لے جائوں گا؟ مومن دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے- دنیا کو مقدم نہیں کرتا- یہ معاہدہ کرنا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘ اور جب معاملہ پڑے یا کوئی مقدمہ آجائے تو دنیا کو مقدم کر لیا‘ بھلا یہ معاہدہ ہی کیا ہوا-
قرآن شریف میں ورثہ کا بیان فرماتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے تلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ یدخلہ ناراً خالداً فیھا و لہ عذاب مھین )النسائ:۱۴-۱۵( یہ میری حد بندی ہے- جو میری حد بندی پر نہ چلے گا میں اس کو ذلیل کر دونگا- اب اپنے اپنے گائوں کے حالات پر غور کرو- عورتوں کو حقوق کس قدر دئیے جاتے ہیں- تم لوگ اکثر عورتوں کو حصہ نہیں دیتے- عورت کی بھلائی کا قانون سوائے قرآن کریم کے اور کہیں دنیا میں ہے ہی نہیں- میں نے بڑے بڑے واقف کاروں سے پوچھا ہے- لنڈن میں بھی عورتوں کی بھلائی کا کوئی قانون نہیں نکلا- ایک خاوند نہ چھوڑنا چاہے‘ نہ رکھنا چاہے- اب عورت مجبور ہے- زیادہ سے زیادہ یہ کہ نان ونفقہ کی ڈگری حاصل کرے- پھر اس ڈگری کا اجرا کرانا دشوار- میں نے بڑی کوشش اور تلاش کے بعد بھی کوئی قانون ایسا نہیں دیکھا جس میں عورتوں کے حقوق کا لحاظ کیا گیا ہو- قرآن کے قاعدے خود مسلمانوں ہی نے چھوڑ دئیے ہیں- لھن مثل الذی علیھن )البقرہ:۲۲۹( عورت کی بہتری کے سامان اسی قدر ہیں جس قدر تمہارے-
ایک عورت مجھ سے کہنے لگی آپ کے قاعدے کے موافق آدھا مال خاوند کا ہے اور آدھا بیوی کا مگر اب تو تمام گھر کی مالک میں ہی ہوں- میں نے کہا کبھی تمہارے میاں تم پر ناراض بھی ہوئے ہیں- کہا ہاں‘ ایک مرتبہ ناراض ہوئے تھے- چوٹی پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا- میں نے کہا کبھی تم نے بھی اس کو گھر سے نکال دیا ہے یا تم صرف حفاظت ہی کرتی ہو اور دخل کچھ بھی نہیں- کہنے لگی ہاں اب سمجھ گئی ہوں- ہمارے ملک والوں نے عورت کا نام جوتی رکھا ہے- حق وراثت میں کوئی حصہ اس کے لئے قائم نہیں-
ایک عورت نے مجھ کو خط لکھا کہ مہدی بھی آیا‘ مسیح بھی آیا- بتائو ہم کیوں مانیں؟ اس نے ہمارا کیا کام کیا؟ میں نے اس کو لکھا کہ مسیح علیہ السلام قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہیں- اس نے لکھاکہ میرا خاوند قسم کھاتا ہے کہ میں تم کو کبھی سکھ کی حالت میں نہ دیکھوں گا- میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا- آپ ہنس پڑے اور کہا کہ لوگ قرآن مانیں- میں نے اس عورت کو لکھ دیا کہ تم چالیس دن سچی استغفار اور توبہ کرو- یا وہ مر جائے گا یا تمہارا چھٹکارا ہو جائے گا- اللہ جل|شانہ نے تمہارے لئے ایسا واعظ بھیجا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو- ہم نے لوگوں کے کفر کے فتوے بھی اپنے اوپر لئے- پھر بھی اگر تمہارے معاملات صاف نہیں تو تم نے دین کو دنیا پر مقدم کہاں کیا؟
ایک اور مشکل پیش کرتا ہوں- وہ یہ کہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جو لوگ معاہدہ کر کے خلاف کرتے ہیں ہم نے ان کی یہ سزا رکھی ہے کہ وہ منافق ہو کر مرتے ہیں- اب ہم نے بھی تو اتنا بڑا معاہدہ )قرار بیعت( کیا ہے- میرا دل نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں منافق ہوں- میرا جی چاہتا ہے کہ میری بات کے سننے والے عمل کرنے والے ہوں- یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ منافق اکٹھے ہو جائیں-
میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا- مااسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علیٰ رب العٰلمین )الشعرائ:۱۱۰-( بلکہ اس عہدہ پر آکر مجھ کو خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے جو پہلے نہیں ہوتا تھا- ایک سائل آتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ابھی جاتا ہوں اور میرے پاس خرچ سفر نہیں- اب میں اس سے یہ کہاں کہہ سکتا ہوں کہ میری چٹھی بنام انجمن لے جائو- انجمن کہے گی مہینہ کے بعد ہمارا اجلاس ہو گا- پھر بڑے اہلکار چھوٹے اہلکاروں کے نام حکم لکھیں گے اور اس طرح اس کی تعمیل میں مہینے گزر جائیں گے اور وہ فوراً رخصت ہونا چاہتا ہے- میں نے اس دکھ کو بڑا محسوس کیا ہے- جب دنیا کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے تم کو نمبردار بنایا ہے‘ آپ کا ماہوار خرچ کیا ہو گا؟ میں نے کہا اے مولیٰ! تو نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں بنایا اور موت کے قریب بندوں کا محتاج بناتے ہو! مجھ کو بڑا مزا آیا جب کہ میں نے ایک آدمی سے کچھ مانگا- چند عرصہ کے بعد اس نے کہا- میں تو بھول ہی گیا- میرا ایمان بہت بڑھ گیا- اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کیا ہے اور وہاں سے رزق دیا جہاں سے میرا وہم وگمان بھی نہ تھا- باقی یہ کہ میں دو چار عربی کے فقرے اور ضرب|المثلیں بیان کروں‘ اس کی ضرورت نہیں- میں چاہتا ہوں کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو- لالچ‘ دغا‘ شرارت بالکل نہ کرو-
قرآن کا سمجھنا بڑا ضروری ہے- سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور جناب الٰہی سے دعا مانگنا کہ اسی پر خاتمہ بالخیر ہو- یورپ میں بہت کتابیں نکلی ہیں کہ اگر نمونہ کے طور پر صرف ان کے ٹائیٹل پیج کیا اگر ان کے ناموں کی فہرست بھی پڑھنا چاہیں توطاقت نہیں- ان سب کے بالمقابل قرآن شریف کو پڑھو- یہ سب پر غالب اور سب سے بڑھ کر رہے گا- اس کتاب قرآن کریم کا ایک نمونہ دنیا میں آیا- اس کا نام محمد رسول اللہ ~صل۲~ تھا- اس نے قرآن کریم پر عمل کر کے دکھا دیا کہ اس پر عمل کرنا انسان کی طاقت سے باہر نہیں- پھر آپ ہی عمل نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین سے بھی عمل کرا کر دکھا دیا- حضرت عبداللہ بن مسعود کا مسجد کے قریب سے گزر ہوا- اس وقت حضور نبی کریمﷺ~ خطبہ پڑھ رہے تھے- آپ نے لوگوں کو فرمایا بیٹھ جائو- حضرت عبداللہ بن مسعود نے گلی میں اس آواز کو سنا- وہیں بیٹھ گئے- کسی نے پوچھا یہ کیا کیا؟ آپ نے کہا شاید مسجد میں جانے تک جان نکل جائے اور حکم کی تعمیل رہ جائے- کیا فرمانبرداری تھی! پھر اس فرمانبرداری کے ساتھ ایک دعویٰ بھی ہے ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )آل عمران:۳۲( اگر تم اللہ تعالیٰ کے پیارے بننا چاہتے ہو تو تم میرے تابع ہو جائو- اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا- اللہ تعالیٰ کا محبوب بن کر انسان کو ذلت ورسوائی اور ناکامی نہیں ہو سکتی اور آدمی ذلیل|ترین کبھی نہیں بن سکتا- اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا اتباع نبی کریم پر منحصر ہے اور وہ اتباع انسان کر سکتا ہے- اس اتباع کے لئے صحابہ کرام کا نمونہ موجود ہے اور تم سب کر سکتے ہو-
میں نے بارہا قرآن کریم اس غرض سے پڑھا ہے کہ اس میں کوئی ایسا بھی حکم ہے جس پر ہم عمل نہیں کر سکتے مگر میں نے کوئی قرآنی حکم ایسا نہیں دیکھا جس پر عمل کرنا دشوار ہو- قرآن کریم کے خلاف عمل کرنے میں روپیہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے- قرآن کریم کی فرمانبرداری میں روپیہ بھی زیادہ خرچ نہیں ہوتا- امریکہ جانے کا خرچ‘ پیرس‘ جرمن‘ لنڈن جانے کا خرچ اور اس کے مقابلہ میں مکہ جانے کا خرچ دیکھو- نماز کے خرچ اور ۔۔۔۔۔۔۔ کے خرچ کا مقابلہ کرو‘ روزے اور شراب کے خرچ کا مقابلہ کرو پتہ لگ جائے گا- محمد ~صل۲~ کی اتباع میں انسان جناب الٰہی کا محبوب بن سکتا ہے- مجھ کو آج تک کوئی بات ایسی نظر نہیں آئی کہ جناب الٰہی یا نبی کریم ~صل۲~ کی فرمانبرداری میں تکلیف ہو-
ابھی چند روز ہوئے میں نے ایک کتاب پڑھی- اس میں چوہڑوں کا نام حلال خور پڑھ کر قریب تھا کہ میری چیخ نکل جاتی- چونکہ مسلمان سودخوار‘ جعلسازی سے حرام کھانے والے‘ جھوٹ سے حرام کھانے والے ہر قسم کے حرام خور بن گئے اور وہ تو ایک ہی حرام کھاتے ہیں اس لئے ان کا نام حلال خور رکھا- دین|مہر کے ایک مقدمہ میں وکیل نے مہر معجل کی جگہ مہر موجل اور موجل کی جگہ معجل پڑھ کر قانون میں دکھا دیا- انگریزی پڑھے ہوئے آدمی دونوں لفظوں میں مشکل سے فرق سمجھ سکتے ہیں- آخر جج دھوکا کھا گیا اور غلط فیصلہ لکھ دیا- باہر نکل کر ایک آدمی نے اس وکیل سے کہا کہ یہ تو تم نے بڑا دھوکا دیا- وہ کہنے لگا یہی تو ہمارا کمال ہے-
ایک شخص میرے پاس آکر کہنے لگا کہ فلاں خاندان میں مقدمات ہونے والے ہیں- آپ کوشش کر دیں کہ فلاں وکیل فلاں جانب پیروی کرے- میں نے مقدمات کا حال سنا کہ ماں بیٹے میں جھگڑا ہونے والا ہے- میں نے کہا کہ جب ماں بیٹے کا معاملہ ہے تو مقدمات کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ مقدمہ تو ہم ضرور کرا دیں گے مگر اندیشہ صرف اس قدر ہے کہ محنت تو ہم کریں اور پھل کوئی اور کھا جائے- میں نے کہا کہ بس اب پھر میرے پاس نہ آنا- کہنے لگا کہ یہ تو ہم شرط باندھ کر کہتے ہیں کہ ضرور لڑا دیں گے-
دیکھو تو سہی کیسے مشکلات ہیں- دین کو دنیا پر مقدم کرنا کس قدر دشوار ہے- نفاق کس قدر بڑھ گیا ہے- میرا ایک دوست تھا- میں اس کے مکان پر اس سے ملنے گیا- وہ پہلے سے ایک شخص کو کچھ نصیحت کر رہا تھا- میرے پہنچنے پر اس شخص نے کہا- اچھا اب رخصت ہوتا ہوں- میرے اس دوست نے کہا کہ اچھا رخصت مگر ہماری نصیحت کو بھولنا نہیں- وہ چلا گیا تو میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا نصیحت کی ہے؟ کہا میں نے اس کو سمجھایا ہے کہ تم جہاں تبدیل ہو کر جاتے ہو وہاں سب سے ملنا اور دل میں کینہ رکھنا- فلاں فلاں اشخاص سے خوب دوستی پیدا کر کے ان کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دینا- میں نے کہا یہ آپ نے خوب نصیحت کی یعنی نفاق کی تعلیم دی- کہا یہ پالیسی ہے- میں نے کہا آپ عالم فاضل ہیں- ذرا پالیسی کے معنے بتا دیجئے کہ پالیسی اور نفاق میں کیا فرق ہے؟ کہا آپ نہیں جانتے- دنیا میں غفلت بہت بڑھ گئی ہے-
میرا ایک دوست اور شاگرد تھا- اس نے ایک انگریزی دان شخص سے کہا کہ ہم کو بھی اپنی سوسائٹی میں شریک کر لو- وہ انگریزی دان انگریزوں کی سوسائٹی میں شامل تھا- ان میں ایک برات تھی- اس نے ان مولوی صاحب سے کہا کہ آپ ایک سوٹ باقاعدہ بنوائیں تو آپ کو برات میں شریک کریں گے- ان کے پاس ستر روپیہ تھے- وہ اس کو دے دئیے- اس نے ستر روپیہ میں ان کو ایک باقاعدہ سوٹ بنوا دیا اور اپنے ہمراہ برات میں لے گیا- جب برات پہنچی تو وہاں شکار کے لئے سب لوگ گئے- مولوی صاحب سے کہا کہ آپ شکار کا سوٹ پہن لیں- انہوں نے کہا میرے پاس تو وہی ستر روپیہ تھے- اور تو کوئی سوٹ نہیں- اسی طرح وہاں فٹ بال کا علیحدہ سوٹ چاہئے تھا- کھانے کا علیحدہ سوٹ تھا- ان کے دوست نے کہا کہ مولوی|صاحب آپ بیمار بن جائیں اور لحاف اوڑھ کر لیٹ جائیں- وہاں تین دن برات ٹھہری اور مولوی|صاحب بیمار بنے پڑے رہے- جب برات رخصت ہوئی تو مولوی صاحب تندرست ہو گئے اور ان کا وہ سوٹ کام آیا- افسوس ان کو جھوٹ ہی بولنا پڑا-
اسلام پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا- جو لوگ کراچی‘ بغداد‘ دیار بکر‘ جرمن‘ آسٹریا وغیرہ ہوتے ہوئے لنڈن پہنچے اور پھر فرانس ہوتے ہوئے مصر کی سیر کرتے ہوئے گھر آئے ہیں میں نے ان سے حالات پوچھے ہیں اور دریافت کیا ہے کہ رستہ میں کوئی آواز سنی ہے کہ مکہ بھی ایک شہر ہے؟ کہا کچھ خیال ہی نہیں آیا- افسوس! کس قدر غفلت اور نفاق ہے اور کس قدر مداہنت ہے- سود کے رسالے لکھے ہیں کہ جائز ہے- ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ اگر سود نہ لینے کا تیرا مسئلہ مان لیا جائے تو دنیا برباد ہو جائے- میں نے کہا تیرہ سو برس سے تو دنیا برباد ہوئی نہیں‘ اب برباد ہو جائے گی؟ ایک مرتبہ ہمارے بورڈنگ کے بعض لڑکوں نے عرضی دی کہ آپ ہم کو اجازت دیں کہ صبح کی نماز تیمم سے پڑھ لیا کریں یا نماز معاف ہی کرا دیں- میں نے کہا پانی گرم ہو سکتا ہے- جواب دیا کہ وضو سے نکٹائی خراب ہو جاتی ہے- آجکل جھوٹا گواہ بنا لینا ایک معمولی سی بات ہے- ایک واعظ آسٹریلیا تک تو جاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ لااسئلکم علیہ اجراً- حالانکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک کوڑی خرچ کرنے سے کروڑوں حاصل ہوتا ہے- حضرت علی کرم اللہ وجہ کے والد ماجد نے اگر نبی کریم کی کوئی خدمت کی ہے تو یہی کہ نبی کریم کی دس بارہ برس مشکلات میں مدد کی- آج کوئی دیکھے کہ ایک سیدانی کے پیٹ سے بچہ نکلتے ہی سید کہلاتا ہے اور قیامت تک کے لئے یہ فخر حاصل ہے-
قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ تم میں اختلاف کیوں ہے؟ فنسوا حظاً مماذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ و البغضاء الیٰ یوم القیامۃ )المائدہ:۱۵( جب ہمارے حکم کو بھول گئے تو ہم نے ان کے درمیان بغض ڈال دیا- اپنے گھروں کو دیکھو- اپنی برادری کو دیکھو اور دکھ سے کہتا ہوں کہ بعض بعض احمدیوں کو بھی دیکھو کہ ان میں بغض اور کینہ موجود ہے- ابھی تم کچھ ہوئے بھی نہیں‘ پھر بھی تم میں وہی فساد ہے جو پہلے تھا- جب اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو بغض اور عداوت پیدا ہو جاتا ہے- اگر تمہارے اندر بغض اور عداوت ہے تو تم نے اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں کو چھوڑ دیا- ایک جگہ آتا ہے کہ کفار کو فجار کے عذاب دینے کے لئے ہم نے پیدا کیا- تمہارے مکان کی ذرا سی زمین تمہارے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے تو تمہاری جان نکل جاتی ہے لیکن ملکوں پر ملک تمہارے قبضہ سے نکلتے چلے جاتے ہیں- سمرقند- بخارا- دہلی- لکھنو- مصر- مسقط- زنجبار- مراکش- ٹیونس- طرابلس- ایران وغیرہ بارہ سلطنتیں مسلمانوں کی میرے دیکھتے دیکھتے تباہ ہوئیں اور اب قسطنطنیہ پر بھی دانت ہے- یہ کیوں ہوا؟ قرآن میں اس کا سبب لکھا ہے ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم )الانفال:۴۷( باہم جھگڑے چھوڑ دو- تم |سست ہو جائو گے- تمہاری ہوا بگڑ جائے گی- یہ سب کچھتم نے دیکھ لیا ہے- تم کہو گے ہم نے طرابلس میں چندہ دیا- بیشک نیک کام کیا لیکن اصل چیز تو خشیتہ اللہ تھی- تمہارے دل میں خشیتہ اللہ پیدا ہوئی؟ تم نے قرآن کے جوئے کے نیچے اپنی گردن کو رکھا؟ اس کا جواب نہیں- میرے ڈیرے میں لوگ بعض اوقات گھبرائے ہوئے آتے ہیں کہ میری بیوی بیمار ہے- میرا بچہ بیمار ہے- میرا بھائی بیمار ہے- جب ان کو دیکھتا ہوں تو بے دین- میں نے بہتوں سے پوچھا ہے کہ تم کو ان کی بے دینی کا بھی غم ہے؟ کہا اس کے بے دین ہونے کا فکر نہیں مگر اس کے درد کا فکر ہے- جسمانی امراض- لباس- خوراک- مکانات کا تو فکر ہے لیکن روحانی امراض کا مطلق فکر نہیں- کیا انبیاء علیہم السلام دنیا میں عبث آئے تھے؟ شکر کے مقام میں ہر جگہ شکر ادا کرو اور صبر سے بھی کام لیا کرو- ہر جگہ خدا تعالیٰ پر ہی دعویٰ کرتے ہو کہ ہمارے ساتھ یہ نہیں کیا‘ یہ نہیں کیا- اس کے احسانات وانعامات کو سوچو-
اب مجھ کو خطرہ ہو رہا ہے کہ لوگ صبح سے لیکچر سن رہے ہیں- بہت سے لوگوں کو پیشاب پاخانے کی بھی حاجت ہو گی- اس وقت آیت کو پورا نہیں کر سکا- اس کا قاعدہ آگے بتاتا ہے کہ تم مفلح کس طرح ہو سکتے ہو- ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولٰئک ھم المفلحون- کچھ آدمی بنائو جو نیکی کی طرف لوگوں کو بلائیں- جب تک ایسی جماعت تم میں نہ ہو کچھ فائدہ نہیں- تم کو ملامت نہ ہو اس واسطے اس تقریر کو ادھورا ہی چھوڑتا ہوں- اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کی توفیق دے کہ قرآن کریم تمہارا دستور العمل ہو- اللہ تعالیٰ کو رضا مند کرنے میں خوب کوشاں رہو- تمہارا خاتمہ اسی میں ہو- مجھ کو کوئی دنیا کی غرض نہیں- تم کو بہت درد سے سمجھاتا ہوں- اگر وقت اور ہوتا تو یہ رکوع پورا کرتا-
ہاں! ایک بات اور بھی ہے- میں نے سنا ہے کہ لاہور میں لیکچر ہوئے ہیں- عیسائیوں نے اس پر زور دیا ہے کہ ہماری سلطنت بڑھنے کا سبب اتباع انجیل ہے- میں نے انجیل کو دیکھا ہے- اسی میں یہ نکتہ حل کیا ہوا ہے کہ شیطان نے حضرت مسیح سے کہا کہ اگر تم مجھ کو سجدہ کرو گے تو میں تم کو دنیا کی تمام سلطنتیں دیدوں گا- حضرت مسیح نے کہا کہ میں نہیں لیتا- تو دور ہو جا- معلوم ہوتا ہے کہ یورپ والوں نے اس نکتہ کو سمجھ لیا ہے اور شیطان کے آگے سجدہ کر کے وہ سلطنتوں کے مالک ہو گئے ہیں- پھر انجیل میں لکھا ہے کہ اونٹ اگر سوئی کے ناکے سے نکل جائے تو یہ ممکن ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں دولتمند کا گزر ہو- پھر ایک اور جگہ مسیح نے فرمایا کہ تم اپنا خزانہ زمین پر نہ رکھو- آسمان پر سارا خزانہ رکھو- وغیرہ- ان یورپین نے دیکھا کہ یوں تو بات نہیں بنتی- شیطان کو سجدہ کرنے سے کام چل جاتا ہے- مسیح کی تعلیمات کے خلاف تمام معاہدات کو توڑ کر عمل کرنا شروع کر دیا- انجیل کی اسی قسم کی چند آیتیں جمع کر کے ایک چھوٹا سا ٹریکٹ نکل جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا-
) بدر جلد ۱۲ نمبر ۲۸‘۲۹‘۳۰ ---- ۳۰ جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ تا ۸ (
* - * - * - *

۲۶ دسمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد اقصیٰ

‏]c4head2 [tagجلسہ سالانہ ۱۹۱۲ء کے دوسرے دن کی تقریر
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہٰ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
)اس موقع پر کسی شخص نے ایک کارڈ پر پنسل سے یہ الفاظ لکھے ہوئے آپ کے سامنے پیش کئے- ’’کچھ لوگوں کا منشاء ہے کہ آپ کچھ قرآن پڑھیں-‘‘ اس تحریر پر کسی کا نام نہ تھا اور چونکہ دست بدست کئی واسطوں سے پہنچی اس لئے فرمایش کنندہ کا حال معلوم نہ ہوا کہ کون تھے؟ وہ کارڈ اس وقت موجود ہے( کوئی مجھے کہتا ہے کہ تم قرآن شریف سنائو- قرآن شریف سنانا اور خوش آوازی سے پڑھنا تو جوانوں اور قاریوں کا کام ہے- میں جو کچھ سناتا ہوں درد مند دل لیکر سناتا ہوں- میں ایک درد دل رکھتا ہوں- مجھ کو کن رس باتوں سے دلچسپی نہیں- دل رس باتوں سے دلچسپی ہے- مگر قدرت کی بات ہے کہ اس وقت جو منشاء ظاہر کرنا تھا اس میں بھی تلاوت کا ہی لفظ آتا ہے- )اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم(- اتل ما اوحی الیک من الکتٰب و اقم الصلٰوۃ ان الصلٰوۃ تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر و لذکر اللہ اکبر و اللہ یعلم ما تصنعون- ولا تجادلوا اھل الکتٰب الا بالتی ھی احسن الا الذین ظلموا منھم و قولوا اٰمنا بالذی انزل الینا و انزل الیکم و الٰھنا والٰھکم واحد و نحن لہ مسلمون- و کذٰلک انزلنا الیک الکتٰب فالذین اٰتینٰھم الکتٰب یومنون بہ و من ھٰولاء من یومن بہ و ما یجھد بایٰٰتنا الا الکٰفرون- و ما کنت تتلوا من قبلہ من کتٰب و لا تخطہ بیمینک اذاً لارتاب المبطلون- بل ھو ایٰٰت بینٰت فی صدور الذین اوتوا العلم وما یجھد بایٰٰتنا الا الظٰلمون- و قالوا لولا انزل علیہ ایٰٰت من ربہ قل انما الایٰٰت عند اللہ و انما انا نذیر مبین- اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتٰب یتلیٰ علیھم ان فی ذٰلک لرحمۃ و ذکریٰ لقوم یومنون )العنکبوت:۴۶تا۵۲( کل کی تقریر پر ہی میں بقیہ بیان کرنا چاہتا تھا- اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی‘ فہم‘ فراست‘ وقت‘ زبان‘ صحت عطاء ہوئی تو میں اس حصہ کے پورا کرنے کا اب بھی ارادہ رکھتا ہوں- لیکن اس وقت کسی نے کہا قرآن پڑھ کر سنائو- اللہ|تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دی اور کہا- اتل ما اوحی الیک من الکتٰب میری کتاب پڑھ دو- اللہ تعالیٰ کی کتاب ایسی ہے لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ )حم:۴۳( نہ آئندہ اس کو کوئی چیز باطل کرنے والی پیدا ہو گی‘ نہ پہلے کوئی ایسی چیز پیدا ہوئی ہے جس سے یہ باطل ہوتی ہو- ایسی کتاب کے پڑھنے میں ہم کو کوئی شرم نہیں آتی- جو مذہب ہم نے پیش کیا ہے اس کے پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہو سکتا- میرے دل میں کامل ایمان اور یقین سے یہ بات ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف پر مجھے ایمان اور اس سے کامل محبت ہے اور اس کے کسی ایک حرف پر بھی مجھ کو کبھی اعتراض ہوا ہی نہیں- محبوب کی ساری کی ساری ہی ادائیں دلربا ہوتی ہیں- کوئی کہتا ہے-
ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می|کشد کہ جا اینجاست
قرآن کریم میں جہاں دیکھتے ہیں دلربا بات موجود ہے- میں نے اس کتاب کے سمجھنے میں دھوکا نہیں کھایا- میں نے اس کے سمجھنے میں جلد بازی نہیں کی- میں نے قرآن کریم سے محبت کرنے میں عاقبت اندیشیوں سے کام لیا ہے- ایک سہل بات بتاتا ہوں- اس کتاب پر عمل کر کے صحابہ کرامؓ دنیا میں کیسے عظیم الشان ہوئے- صحابہ نے اس پاک کتاب کی اتباع سے دنیا میں زلزلہ ڈال دیا- بڑے بڑے بہادر سورما ان کے سامنے کس طرح ذلیل ہوتے تھے- یہ نتیجہ اسی بات کا تھا کہ وہ اس کتاب پر عملدرآمد کرتے تھے- اس کتاب کو پڑھ کر ہزاروں غوث بن گئے- قطب‘ ولی بن گئے- اس کتاب کی طفیل لوگوں نے خداتعالیٰ سے باتیں کیں اور خداتعالیٰ نے ان سے کیں- یہ کہنا کہ ہم سائنس پڑھیں تب اس سے نفع اٹھائیں‘ غلط بات ہے- تم جانتے ہو وہ غوث‘ قطب‘ نبی‘ ولی جو کروڑوں مخلوق کے ہادی بنے کیا وہ سائنس پڑھ کر بنے؟ سائنس والے آج ایک بات پر زور دیتے ہیں‘ دوسرے دن اسی کو جھوٹ ٹھہرا دیتے ہیں- ایک یقین پر کبھی ٹھہرتے ہی نہیں- پرانے لوگ کہتے ہیں زمین ساکن ہے‘ آسمان متحرک ہے- اب کہتے ہیںآسمان ساکن ہے‘ زمین متحرک ہے- یہ ان کا حال ہے- بڑا مسئلہ ان کے نزدیک مادہ کا تھا- مادہ کی حقیقت بیان کرنے میں اگلے پچھلے سب حیران ہیں کہ وہ ہے کیا؟ اسی واسطے اس قوم کی کوئی جماعت دنیا میں قائم نہیں ہوئی- پھر خشیتہ اللہ کا حصہ‘ پاک عادات کا حصہ‘ خداتعالیٰ سے مکالمہ کا حصہ‘ خدا تعالیٰ کی جناب میں دعائوں کی قبولیت کا حصہ ان کو نصیب ہی نہیں ہوا- اس کتاب یعنی قرآن کریم کو ماننے والے کئی گروہ ہو سکتے ہیں- ایک عامی لوگ اگر اس کو مانیں اور اس پر عامل ہوں تو مکالمہ الہی سے مشرف ہو سکتے ہیں- سچی خوابیں آتی ہیں- فرشتے باتیں کرتے ہیں- اگر کوئی اس بات کو نہ پہنچا ہو تو کم سے کم اس کی نسبت یہ تو ضرور کہا جاتا ہے کہ یہ نیک آدمی ہے- خدا پرست آدمی ہے- یہ دغا باز آدمی نہیں- یہ بدمعاش آدمی نہیں- یہ قابل اعتماد انسان ہے- جو جھوٹ نہیں بولے گا‘ فریب نہیں کرے گا‘ دنیا کو دین پر مقدم نہیں کرے گا‘ کوئی جعلسازی نہ کرے گا‘ کسی کا حق نہیں رکھے گا- تو ایسی کوئی قوم نہیں کہ اس کو کہے کہ یہ برا آدمی ہے- پس قرآن کا عمل ہر شخص کے لئے بڑا دلربا ہے- ایک وہ لوگ ہیں جو صرف و نحو اور اس کی فصاحت وبلاغت کی طرف متوجہ ہیں- کوئی معانی وبیان وبدیع کی طرف متوجہ ہے- یہ تو دنیا میں اعلیٰ|ترین مخلوق ہوئی- ایک وہ ہیں کہ ان کی فراست اور ان کے عملدرآمد کے قانون کے لئے قرآن کریم کافی کتاب ہے-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری کتاب ہے- پڑھ کر سنا دو اتل ما اوحی الیک من الکتٰب و اقم الصلٰوۃ ان الصلٰوۃ تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر و لذکر اللہ اکبر- اس کتاب سے نفع وہ اٹھاتے ہیں جو نماز کو بڑا مضبوط کرتے ہیں- نماز تمام بے|حیائیوں سے روک لیتی ہے- جو شخص سارے جہان کو چھوڑ کر ایاک نعبد و ایاک نستعین کہے گا وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کب کر سکے گا- قرآن|کریم میں ایک سورۃ کو خاص کیا ہے- اس میں بار بار فرمایا و لقد یسرنا القراٰن للذکر فھل من مدکر- )القمر:۱۸( ہم نے تو بڑی آسان کتاب بھیجی ہے- عملدرآمد کے لئے بڑی سہل ہے- کوئی تم میں ہے جو قرآن شریف پر عمل کرنے کا نفع اٹھائے؟ قرآن کو تو بڑا ہی آسان بنایا ہے- کوئی تم میں ہے جو اس بات کو سمجھے؟ میرا جی چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے-
پھر فرمایا کہ اپنے افعال‘ حرکات‘ سکنات‘ عملدرآمد میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھا کرو اور حضرت حق سبحانہ تعالیٰکی مخالفت نہ کرو- پھر دیکھو ہم تم کو کتنا بڑا بنا دیں گے- اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا ہے و لذکر اللہ اکبر- اس کے پاس پہنچنے والا بھی اکبر ہوا- یہ اکبر ہونے کی کنجی ہے کہ اس یقین کو پیدا کرو- و اللہ یعلم ماتصنعون-
باقی مباحثہ کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں- اول ان اپنے مذاہب سے تامہ واقفیت ہو جن کی طرف سے یا جن کے ساتھ مباحثہ کرنا ہے- اپنی واقفیت تامہ کے بعد جس کو خطاب کرنا ہے وہ عیسائی ہو‘ یہودی ہو‘ مجوسی ہو‘ ویدوں کا ماننے والا‘ گیتا کا پیرو‘ مہا بھارت کا پیرو ہو‘ جینیوں کی پہاڑیوں کو جانتا ہو‘ چار واک کو سمجھتا ہو- غرض کوئی ہو‘ اس کی کتاب کا علم بھی جب تک نہ ہو گا تم مباحثہ نہیں کر سکتے- ہماری جماعت کا ہر ایک آدمی مختلف مذاق پیدا کرے- جس فن میں اللہ تعالیٰ یمن وبرکت دے اس میں مباحثہ کرے- ایسا نہ ہو کہ دوسرا کہدے کہ تم تو واقف ہی نہیں- یا پاس والے کہدیں کہ تم تو اسلام سے بھی واقف نہیں- اپنے ڈھکو سلوں سے مقابلہ نہ کرو- ظالم سے اعراض کرو- پرواہ ہی نہ کرو- اس کے سامنے کہہ دو الٰھنا و الٰھکم واحد )العنکبوت:۴۷( ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے- تم جھگڑتے کیوں ہو؟ الو کے پٹھے سے آدمی کہاں مقابلہ کر سکتا ہے-
ایک دفعہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ یہ معمولی سنن الھدیٰ میں سے ایک مسئلہ ہے- چونکہ اس کے دل میں شرارت تھی‘ وہ شرارت سے کہنے لگا کہ لوگو! سنت رسول تو سنتے رہے تھے- اب سنت خدا سن لو- سنن الہدیٰ کو اس نے سنن خدا کہدیا- منکر کو کوئی کیا سمجھائے گا- وحدت دنیا میں نبیوں سے ہوئی نہیں- آج سائنس کا ایک مسئلہ آگیا‘ اس کے مطابق کیا- کل کو اس کی بجائے دوسرا مسئلہ سائنس نے نکالا تو پھر اس کے مطابق آیت چاہئے- ایسے پارہ مزاج سائنس دانوں کے ساتھ تم کہاں تک مقابلہ کر سکتے ہو- اپنے فہم کے مطابق مباحثہ کرو- ہر شخص کو کہاں مجال ہے کہ مباحثہ کرے- ما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب فرمایا- شہر مکہ میں کوئی یونیورسٹی نہیں جس میں تو پڑھا ہو- یہاں کوئی لائبریری بھی نہ تھی- کوئی ترجمہ کا محکمہ بھی نہیں- ینابیع الاسلام کے لکھنے والوں نے اور بھی حضرت محمد ~صل۲~ کی صداقت کو پختہ کر دیا- قرآن کریم کو حضرت محمد رسول اللہ ~صل۲~ نے کسی کے مشورہ سے بنایا؟ کوئی تمام زبانوں کا جاننے والا مکہ میں تھا؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- تو نے تو کسی کتاب کو پڑھا ہی نہیں- یہ مبطل کیا اعتراض کرتے ہیں؟ علم والے اس بھید کو سمجھتے ہیں اور ظالم تو انکار ہی کرتے ہیں- محمد رسول اللہ ~صل۲~ کیسا پاک انسان تھا کہ اپنی پاک قوتوں سے‘ اپنی پاک تاثیرات سے عرب میں وحدت پھیلا دی- جناب|الٰہی کے نام کو ایسا بلند کیا کہ بلند میناروں پر چڑھ چڑھ کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں-
ایک گارڈن پادری تھا- مجھ سے بہت ملا کرتا تھا اور احمق اتنا تھا کہ ہر مرتبہ اس کو یقین ہوا کرتا تھا کہ نوردین اب کی مرتبہ ضرور بپتسمہ لے لے گا- ہمارے گھر کی باسی روٹیاں بھی کھا لیتا تھا- مجھ سے کہنے لگا یورپ نے کیسی ترقی کی ہے- میں نے کہا ہم نے تو کوئی ترقی نہیں دیکھی- کہا آپ نے نہیں دیکھی؟ میں نے کہا ترقی یورپ کر ہی کیا سکتا ہے؟ میں نے کہا تو تو عالم اور پادری آدمی ہے- میں کہتا ہوں کہ یورپ نے نہ ترقی کی ہے‘ نہ آئندہ کر سکتا ہے- کہنے لگا یہ بات کیا ہے؟ میں نے کہا نادان انسان! تو خداوند مسیح کو ماننے والا‘ بتا تو سہی کہ اکبر کے پرے کیا نام تجویز کر سکتے ہو؟ اکبر کے بعد ترقی کر کے کیا دکھلا سکتے ہو؟ اور اس اکبر کو جس طرح ہم مسجد کے میناروں پر چڑھ کر سناتے ہیں تم کیا سنائو گے؟ تم سوائے گھنٹے بجانے کے اور کیا جانتے ہو- اکبر کے لفظ نے ترقی روک دی- کہنے لگا- دیکھو کپڑے کیسے بناتے ہیں؟ میں نے کہا جولاہے بنے- کہنے لگا کیسے کیسے جہاز بنائے؟ میں نے کہا لوہار بنے- وہ رک گیا- میں نے کہا پادری! دنیوی ترقی کو مسیح نے کب الٰہی قرب کی ترقی فرمایا ہے؟ میں نے کہا انجیل موجود ہے- دیکھ لو- اکبر کے پرے کوئی لفظ نہیں- قلم تو ٹوٹ گیا- تواضع میں تم ہماری ہمسری نہیں کر سکتے- ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں- اب اس سے نیچے اور کہاں جائیں- جہاں تک ہماری طاقت تھی ہم نیچے گر گئے- اس سے زیادہ تم کیا کرو گے- پھر ہمارے الفاظ کو دیکھو- سبحان ربی الا علیٰ- سبحان ربی العظیم- سبحان سے آگے پاکیزگی کے لئے کونسا لفظ ہو سکتا ہے- وہ سن سن کر بھوچکا سارہ گیا- فبھت الذی کفر- یاد رکھو جو کچھ دین اسلام نے ہم کو سکھایا ہے وہ ایسا ہے کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرا ٹھہر ہی نہیں سکتا- نیوگ کی باریکی اور اس کی ضرورت کہاں مجلسوں میں بیان کی جا سکتی ہے- عیسائیوں کے خدا کی یہ حالت ہے کہ یہودیوں نے پکڑ کر سولی چڑھا دیا اور خدا کی خدائی غارت کر دی- پھر وہ مجھ سے نبی کریم کے معجزات کے متعلق کچھ کہنے لگا- میں نے معجزات آنکھوں کے سامنے دکھلا دئیے- اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلیٰ علیھم- کیا ابھی ان کو یہ کتاب میری کافی نہیں جو ان کو کھول کر سنائی جاتی ہے- اللہ تعالیٰ رحم کرے- میرا ایک بچہ ہے- اس کو ایک آریہ نے پکڑا کہ مباحثہ کر لے- اس نے کہا کر لے- میرے بچہ کے ہاتھ میں کتاب اللہ تھی- کہا یہ ہماری کتاب ہے- اگر عربی نہیں آتی تو نیچے اردو ترجمہ لکھا ہے- تمہارے وید تو لحافوں میں چھپے ہوئے ہیں- وہ کبھی باہر نکلے ہی نہیں- پھر اس آریہ سے کہا اچھا! تو یہ بتا کہ تو نے وید کو پڑھا؟ اس نے کہا نہیں- کیا ان کو سمجھا- کہا نہیں- یہ تو کافی کتاب ہے- یتلیٰ علیھم چھپی ہوئی نہیں- جہان کے سامنے پڑھی جاتی ہے-
ان فی ذٰلک لرحمۃ و ذکریٰ لقوم یومنون- میں ساری رحمتیں دینے کو تیار ہوں- میری بات کو مان لو- بڑے سے بڑا بنانے کو تیار ہوں- ایمان دار بنو اور میرے خط کو پڑھو- اب دیکھ لو بڑا حصہ زمینداروں کا ہے- وہ قرآن کو کتنا پڑھتے ہیں؟ بڑا حصہ تاجروں اور پیشہ والوں کا ہے- وہ کتنا قرآن پڑھتے ہیں؟ پھر بڑا حصہ نوکر چاکر لوگ ہیں- نو بجے تک سوئے ہوئے اٹھے‘ دس بجے دفتر گئے‘ وہاں سے چار بجے آئے تو چور ہو کر آئے- پھر ہوا خوری کی‘ پھر دوست آگئے‘ باتیں ہونے لگیں‘ رات کے بارہ بج گئے یا گپیں لگاتے ہوئے دو بج گئے- قرآن کس وقت پڑھا جائے؟ کوئی موقع نہیں- قرآنی عربی زبان ایسی آسان زبان ہے کہ ابتداء سے انتہا تک میں نے بعض اشخاص کو چار ماہ میں پڑھا دی- اب خوب پڑھ لیتے ہیں-
پھر میں نے ان سے پوچھا کہ انگریزی کم سے کم کتنے دنوں میں پڑھ سکتے ہو؟ کہا دس برس میں- میں نے کہا عربی سہل ہوئی یا تمہاری انگریزی زبان؟ اور قرآن کریم اس سے تین مرتبہ سہل ہے کیونکہ ایک حصہ زیر زبر کے لئے ہے‘ وہ لگے ہوئے ہیں- پھر وہ الفاظ جن کے معنے سیکھنے ہیں دو ہزار کے قریب قریب ہیں- میری اصل زبان ضلع شاہ پور کی ہے مگر وہ اب مجھ سے بولی نہیں جاتی- کئی ہزار الفاظ مجھ کو اردو زبان کے یاد ہو گئے ہوں گے- قرآن|کریم میں صرف آٹھ سو لفظ ہیں جو کہ نئے ہیں- اگر انسان اس کو بھی نہ سمجھے تو لا یلو من الا نفسہ- ایک ہمارے دوست کا بچہ سامنے آگیا ہے- وہ اپنے باپ سے کہنے لگا کہ مولوی صاحب عالم ہیں مگر قرآن تو غلط ہی پڑھتے ہیں- یہ حافظ وقاری باپ کا بیٹا ہے- قرآن کریم خاص رحمت ہے- مومن کے لئے کافی ذخیرہ ہے- ہم تو جب سے پیدا ہوئے ہم کو کوئی شبہ وتردد کبھی ہوا ہی نہیں-
ایک وقت میں نے حضرت مرزا صاحب سے دریافت کیا تھا کہ مقابلہ کے وقت قرآن کے بعض مشکلات ہوتے ہیں- ان کا کیا کیا جائے؟ کہنے لگے تم نے کیا سوچا؟ میں نے کہا یا تو ان کا ذکر ہی چھوڑ دیا جائے یا الزامی جواب دیکر ٹال دیا جائے- ہنس کر کہنے لگے کہ جو بات خود نہیں مانتے دوسروں کو کیوں منواتے ہو- پھر فرمایا ہم تم کو ایک گر بتائیں- جو سوالات تم کو نہیں آتے ان کو خوشخط لکھ کر جہاں تمہارا زیادہ گزر ہے وہاں لٹکا دو تا کہ بار بار اس پر نظر پڑے- خدا تعالیٰ خود ہی سمجھا دے گا- میں نے اس کا مطلب صوفیانہ رنگ میں لے لیا کہ دل میں لٹکاتے ہیں یعنی ان سوالات کا ہر وقت تصور رکھیں گے- مجھے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سب سوالات سمجھا دئے جو میری تصانیف میں بھی موجود ہیں- مجھ کو خدا|تعالیٰ نے دو علم بخشے ہیں- ایک قرآن کا علم اور دوسرا طب- اب تو میری بیوی نے بھی طب سیکھ لی ہے- اب ہم دو کمانے والے ہو گئے- ۴۵- ۴۶ برس میں نے طب کے پیشہ کو کیا- طب کا ۲/۱ حصہ میرے حصہ میں آیا پھر بھی معقول گزارہ ہم کو مل جاتا ہے- اس ۴۶ برس میں ایک بھی نسخہ مجھ کو ایسا نہیں ملا جس کے چھپانے کی ضرورت ہوئی ہو- کوئی نسخہ ملا ہی نہیں جس کو حیض کی طرح چھپائوں- ہاں کسی خاص بیمار سے خاص وقت میں ایک نسخہ چھپانا اور بات ہے- اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن مجھ کو دیا- اس میں بھی کوئی چھپانے والی بات نہیں- پھر جو گر مجھ کو حضرت صاحب نے بتایا وہ میں کہہ آیا ہوں- میں نے دل پر خوشخط لکھ کر لٹکا لیا- کچھ دنوں کے بعد ایسا انشراح ہوا کہ و الفجر- و النجم اذا ھویٰ کی تفسیر میری کتابوں میں دیکھو‘ اسی ترکیب کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہے- پھر اس کے بعد مجھ کو خداتعالیٰ نے الہام کیا کہ اگر کوئی منکرقرآن‘ قرآن پر تجھ سے اعتراض کرے اور تجھ کو نہ آتا ہو تو ہم اسی وقت تجھ کو اس کا مطلب بتا دیں گے- ہمارا معلم خدا تعالیٰ ہے- ہمیں کس کا ڈر ہو سکتا ہے-
دھرمپال نے جب ’’ترک اسلام‘‘ کتاب لکھی تو اس میں اس نے مقطعات قرآنیہ پر اعتراض کیا ہے- میں چھوٹی مسجد میں مغرب کی سنتیں پڑھ رہا تھا- ایک سجدے سے سر اٹھایا- میں نے کہا- مولا! گو وہ سامنے نہیں مگر کتاب تو اس نے بھیجی ہے- پس دوسرے سجدے میں جانے سے پہلے پہلے یعنی دونوں سجدوں کے درمیانی وقفہ میں سارے مقطعات قرآنی کا علم مجھ کو دیا گیا- میں نے جب لکھا تو میں خود بھی حیران تھا کہ میں نے اس کا ایسا جواب لکھا کہ کسی نے آج تک ایسا نہیں لکھا- میں تکبر نہیں کرتا- ریا نہیں کرتا- یہ *** کا کام ہے- میری غرض تم کو سمجھانے کی ہے- قرآن کو کبھی مشکل نہ سمجھو- اگر دشمن کوئی اعتراض کرے تو اس کو لکھ کر لٹکا لو- خداتعالیٰ ایسا علم عطا کرے گا کہ وہ دشمن لا جواب اور خاموش ہو جائے گا-
جموں میں مجھ سے ایک آدمی نے حدیث نزول الرب کی بابت سوال کیا کہ زمین گول ہے اور کہیں نہ کہیں رات ہر وقت ہوتی ہے تو نزول رب بھی ہر وقت ہوا- پھر الرحمٰن علی العرش استویٰ )طٰہٰ:۶( سے کیا مطلب ہوا؟ میں نے کہا پانچ سات روز کے بعد جواب دیں گے- اس نے کہا اچھا سات روز کے بعد ہی آپ جواب دیں- جوں جوں دن گزرتے میرا دل دھڑکتا بلغت القلوب الحناجر )الاحزاب:۱۱( قبل از روز مقرر یاغستان کے ملک سے بذریعہ ڈاک میرے پاس ایک کتاب آئی- اس کو کھولا تو وہ اسی حدیث کی شرح تھی اور بڑے ہی فلسفیانہ مذاق کی تھی- میں نے اس کو پڑھا تو اس معترض کے تمام سوالات اڑ گئے- وہ معترض آیا کہ کیوں صاحب تیار ہو گئے؟ میں نے کہا ہاں تیار ہیں- تم بھی تیار ہو جائو- میں نے جب اس کے سامنے بیان کرنا شروع کیا تو ابھی اس کتاب کا دو تین ہی صفحہ کا مضمون ادا ہوا تھا کہ وہ کہنے لگا بس! میری تسلی ہو گئی- اب آپ اور زیادہ بیان نہ فرمائیں- میں نے کہا میں تو بڑا لمبا بیان کرنے کو تھا- بعد میں میں نے وہ کتاب چھپوا دی- میں نے یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل کو بیان کرنے کے لئے کہی ہے- خدا تعالیٰ بڑا قادر ہے- وہ جب بندے کو سکھاتا ہے دیوار سے آواز آ جاتی ہے‘ ستون سے آواز آجاتی ہے-
ایک مرتبہ میں ایک شہر میں تھا- میرے پاس ایک پیسہ تک نہ تھا اور بھوک بھی بہت لگی- عشا کا وقت ہو گیا- میں نماز کے لئے مسجد کو چلا- ایک سپاہی نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ ہمارے آقا بلاتے ہیں- میں نے کہا میں تمہارے سردار کے پاس اس وقت تو نہیں جا سکتا- اس نے کہا کہ میں تو سپاہی آدمی ہوں- میرے آقا نے آپ کو بلایا ہے- آپ خوشی سے نہ جائیں گے تو میں جبراً لے جائوں گا- خیر‘ میں اس کے ساتھ اس کے آقا کے پاس چلا گیا- وہاں بہت سی جلیبیاں رکھی تھیں- اس امیر نے کہا کہ آپ ان کو کھائیں- ہندوستان کا ایک حلوائی آگیا ہے- اس نے بنائی ہیں- میں نے اس لئے آپ کو بلایا کہ آپ ہی ان کو خوب پہچان سکتے ہیں- میں نے کہا نماز کا وقت ہے- اس نے کہا میرا آدمی مسجد کے دروازے پر کھڑا رہے گا- جس وقت تکبیر ہو گی وہ فوراً اطلاع دیدے گا- آپ اطمینان سے کھانا شروع کریں- چنانچہ میں نے کھانی شروع کیں اور جب میں خوب سیر ہو چکا تو فوراً اس کے آدمی نے اطلاع دی کہ تکبیر اقامت ہو رہی ہے- چنانچہ میں جلدی سے مسجد کو چلا گیا- دوسرے دن پھر سامان کوئی نہ تھا- روٹی کا فکر نہ تھا- میں نے اس وقت تک کبھی کوئی نقدی گری ہوئی نہیں پائی- میں تو فارغ آدمی تھا- تم یاد رکھو- میں چٹائی جھاڑ کر بچھانے لگا- چٹائی اٹھائی تو ایک اشرفی پڑی ہوئی نظر آئی- میں نے کہا- یہاں کسی دوسرے آدمی کی آمدورفت ہے ہی نہیں- میرا یہ مکان ہے- میں اب کس سے پوچھوں کہ یہ اشرفی کس کی ہے؟ پھر میری سمجھ میں آیا کہ رات میں نے جلیبیاں کھائی ہیں- اب یہ اللہ تعالیٰ نے بھجوائی ہے- اللہ تعالیٰ دینے پر آئے تو اس طرح دے دیتا ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرہ:۲۸۳( تم تقویٰ اختیار کرو- ہم علم دیں گے- قرآن میں کوئی اشکال ہے ہی نہیں- اگر اتفاق سے کوئی مشکل آپڑے تو اس کو خوشخط لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دو کہ بار بار پیش|نظر ہو سکے- اللہ تعالیٰ اس کا حل تمہارے دل میں ڈال دے گا- یہ ایسا گر ہے کہ ہر مشکل کے وقت تم کو مدد دے گا- اگر یہ جھوٹی بات ہوتی تو میں تم کو سناتا ہی نہیں- ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ بڑے بڑے عالم اعتراض کرتے ہیں- میں نے کہا کہ وہ خود ہی ناقص ہیں- قرآن کریم کی مشکل کو اسی طرح حل کرو- مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ کو آزمانے کے لئے نہیں بلکہ ضعیف ہو کر‘ محتاج ہو کر‘ فقیر ہو کر سائل بنو اور خداتعالیٰ کا امتحان نہ کرو- ورنہ وہ پرواہ نہیں کرے گا-
ایک مرتبہ میں وزیر آباد کے سٹیشن پر پہنچا- وہاں ایک وکیل ملا جو اس طرف کا رہنے والا تھا- مجھ سے کہنے لگا کہ کیا قرآن پڑھنا بہت ہی ضروری ہے؟ میں نے کہا ہاں- کہا کہ ہم بچوں کی طرح قرآن پڑھیں؟ ہم سے اب صرف ونحو نہیں پڑھی جاتی؟ میں نے کہا کہ قرآن میں قول نہیں پہلے ہی قال موجود ہے- یقول نہیں یقول پہلے ہی موجود ہے- صرف کی ضرورت نہیں- کہنے لگا نحو؟ میں نے کہا قرآن کریم میں زیر وزبر پہلے ہی سے لگے ہوئے ہوتے ہیں- کہنے لگا لغت؟ میں نے کہا کہ قرآن کے لغت مشکل نہیں- تم کوئی مشکل لغت پوچھو- اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس کی زبان پر یہ جاری کیا قولوا قولاً سدیداً )الاحزاب:۷۱-( میں نے کہا یہ تو بڑی سیدھی بات ہے- تمہارے جموں کی زبان میں ’’گلائو گل سدھی-‘‘ کہنے لگا تسلیمات- میں ضرور قرآن پڑھوں گا-
حضرت صاحب کے پاس ایک آدمی آیا- بڑی جلدی جلدی اس کی زبان چلتی تھی- حضرت صاحب سے کہنے لگا کہ جیسی انگریزی زبان ہے ایسی اچھی آپ کی زبانیں نہیں- یہ بھی کہا کہ انگریزی زبان جیسی مختصر ہے آپ کی زبانیں اس قدر مختصر بھی نہیں- حضرت صاحب نے کہا ’’میرا پانی‘‘ کی انگریزی کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا مائی واٹر WATER) -(MY حضرت صاحب نے کہا کہ صاحب! ہماری زبان میں صرف ’’مائی‘‘ سے کام چل جاتا ہے- واٹر کی ضرورت نہیں- آپ کی زبان میں پورا ایک لفظ زیادہ بولنا پڑتا ہے- اگر تمہارے دل میں کسی نے یہ وہم ڈالا ہو کہ قرآن کریم پر سائنس کے حملے ہوتے ہیں تو تم اس سے وہ اعتراض جو وہ بیان کرتا ہے دریافت کر کے خوشخط لکھ کر سامنے لٹکا لو- اللہ تعالیٰ تم کو سمجھا دے گا- جو عام لوگ ہیں ان کو مباحثہ کی ضرورت نہیں-
و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف بلائے- بدی سے تم کو بچائے- قرآن کریم نے ہر ایک نیکی کو پسند کیا اور ہر ایک بدی کو ناپسند ٹھہرایا ہے- یہاں ایک مدرسہ ہے- وہ مدرسہ احمدیہ کہلاتا ہے- اس میں لڑکوں کو جمع تو کر لیا ہے مگر ان کے کپڑوں کا‘ ان کی روٹی کا کوئی بندوبست نہیں- ان کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں- سردی کا موسم آیا تو انہوں نے میرے کپڑے اتارنے شروع کئے- وہ کب تک اس قابل بنیں گے اور واعظ ہونگے- ہم تو نہ ہونگے- اگر ہماری عمر کے بعد بنے تو ہم کو کیا خوشی- تم میں سے عقلمند ایسا کرتے- جب تک میرے پٹھے درست ہیں‘ میری زبان جب تک چلتی ہے‘ میرا دماغ کام کرتا ہے‘ میرا دل جب تک اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا ہے مجھ سے قرآن کریم پڑھتے- میں تین چار مہینے میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں- ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ مجھ جیسے کو بھی آپ اتنی مدت میں قرآن شریف پڑھا دیں گے؟ میں نے کہا ہاں- وہ چار ماہ کی چھٹی لے کر آیا اور مجھ سے قرآن پڑھا- کہنے لگا کہ اب میں کسی سے نہیں ڈرتا- ایک چھوٹی سی جماعت ہو خواہ پانچ سات آدمی ہوں- میں بعض کو تین ماہ میں پڑھا سکتا ہوں- قرآن کریم کو میں سمجھتا ہوں اور خوب سمجھتا ہوں- مجھ کو قرآن کریم سے محبت ہے- میں نے قرآن کریم پر ہونے والے اعتراض بھی بہت سنے ہیں لیکن مجھے کسی نے گھبرایا نہیں- تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہئے جو نیکی کی ترغیب دے اور بدی سے منع کرے- و اولٰئک ھم المفلحون وہ مظفر ومنصور ہو جائیں گے-
میں نے کل خواجہ صاحب کی تقریر کا آخری حصہ سنا ہے- میں اس کو ذرا بھی مشکل نہیں سمجھتا- روپیہ اس قدر کہاں سے آئے گا؟ مجھ کو اس کی مطلق فکر نہیں- سائنس کا معاملہ میں لغو سمجھتا ہوں- اگر سارا یورپ بھی ہمارے سامنے آئے تو توپ ان کے پاس ہو گی لیکن وہ انجیل کو ہمارے سامنے نہیں لا سکتے- میرے دوستو! تم میں سے ضرور کچھ نہ کچھ قرآن کے ماہر ہوں- سب کا تو میں نہیں کہہ سکتا مگر ہاں کچھ نہ کچھ خرچ کا میں بھی متحمل ہو سکتا ہوں- ہمارے دوستوں کو واجب ہے کہ کوئی بات تو ہماری بھی مان لیں- دیکھو تیسرا سال ہے- میں بیمار تھا- آنکھ کے قریب اب بھی ناسور ہے- کل تھوڑا سا لکھا تو تھک گیا- اب بھی کبھی یہ پائوں رکھتا ہوں‘ کبھی دوسرا‘ کبھی ٹیک لگاتا ہوں- یہ سب کمزوری کی بات ہے- ورنہ میں پانچ پانچ گھنٹہ برابر کھڑے ہو کر بولتا رہا ہوں-
تم کچھ صبر کرو اور شکر کرنا سیکھو- اگر تم شکر گزار ہو تو اللہ تعالیٰ نعمت کو بڑھائے گا- لئن شکرتم لازیدنکم )ابراھیم:۸( اگر شکر کے عادی بنو گے تو ایک پیسے سے بیس پیسے‘ بیس سے سو‘ سو سے دو سو ہو جائیں گے- صبر بھی بہت کرو- تقویٰ اختیار کرو- قناعت اختیار کرو- سخاوت اختیار کرو- اللہ تعالیٰ کا خوف‘ حسن|خلق‘ سچائی اختیار کرو- کس قدر مقدمات میں جھوٹ بولا جاتا ہے؟ مقدمات سے بہت بچو- اخلاص اختیار کرو- خدا تعالیٰ کے احسانات دیکھو- آنکھ‘ ناک‘ کان‘ زبان‘ اس کی نعمتوں کو کوئی شمار کر سکتا ہے؟ میں تو اتنا روپیہ نہیں رکھتا کہ تم کو چائے پلائوں- تمہاری ضیافت کردوں- ابھی اگر بارش ہو جائے تو میرے درس کے لئے کوئی مکان نہیں- سچائی‘ اخلاص‘ اللہ تعالیٰ سے خوف ورجا رکھو- یہ دعوت ہے جو میں تمہاری کرنا چاہتا ہوں- اگر ایک لقمہ بھی اس دعوت سے کھا لو تو پھر مجھ کو خط لکھو کہ تم کو اس سے نفع ہوا یا نقصان-
ایک مرتبہ ایک عورت نے علاج کے معاوضہ میں مجھ کو سکھوں کے زمانہ کا ایک پیسہ دیا- میں نے سمجھا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے دیا ہے- میں نے کہا مولیٰ! میں اس کو تیری راہ میں دیدوں تو اس کے سات سو پیسے بن جائیں- میں نے وہ پیسہ بڑے شکر کے ساتھ لے لیا- پھر مجھ کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں روپیہ دئیے -
شکر کرو- سخاوت کرو- نعمت بڑھنے کا نسخہ ہے- تم اللہ تعالیٰ کے بن جائو- اللہ تعالیٰ تمہارا ہو گا- ہمیشہ اپنے آپ کو جناب الٰہی کا محتاج سمجھو- مخلوق کی تعریف کی پروا نہ کرو- مخلوق ہستی ہی کیا رکھتی ہے- ہم نے بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی- اس میں لکھا ہے- من نمانم ایں بماند یاد گار- اب میں دیکھتا ہوں خداتعالیٰ نے اس کی بھی جڑ کاٹ دی کہ تم اس کو یاد گار بناتے ہو- یاد گار ہوتی کیا ہے؟ ہمارے کس قدر دوست حکیم ہیں- کس قدر ڈاکٹر ہیں- سوئی کے ناکے کے برابر زخم ہے- تین سال سے وہ اچھا نہیں ہوا- مسلمانوں کو کبریائی اور تکبر نے بڑا نقصان پہنچایا ہے- ان کا رہ ہی کیا گیا ہے- لایعنی باتوں پر بہت غور کرنا‘ فخر کرنا‘ یہ سب غلطیاں ہیں- دیکھو کسی کے ماں باپ کو بے ادبی کا کلمہ کہا جائے تو کس قدر جوش آتا ہے- مگر خدا ورسول کی بے ادبی ہوتی ہے ان بے ادبوں کے سامنے‘ ایسا غیظ وغضب تم کو نہیں آتا- تم میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہئے جو نیکی کی طرف بلائے اور بدی سے روکے- یہ بھی یاد رکھو بدظنی کا کوئی علاج نہیں- ایک آدمی کے دل میں میری تقریر سن کر یہ خیال آئے کہ یہ ریا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے- تم ہمارے اعمال کے اور ہم تمہارے اعمال کے ذمہ دار نہیں- ہمارا یہ کام ہے کہ ہم بھلی بات تم کو بتا دیں اور بتانے میں دھوکا نہ دیں- تم بڑی دور سے آئے ہو- ہمارے معتقد ہو- بعض نہیں بھی ہیں- میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان رکھو- خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی پیارا محبوب نہ ہو- لا الٰہ الا اللہ کے حقیقی معنے یہی ہیں کہ بندہ ہر آن میں اللہ تعالیٰ کا اس قدر محتاج ہے کہ ان محتاجی کی چیزوں کو گن بھی نہیں سکتا- اللہ تعالیٰ کو راضی کرو- کتابوں میں قرآن شریف بے نظیر‘ پاک اور بے|عیب کتاب ہے- محمد رسول اللہ ~صل۲~ کی اتباع کرو- اس کی اتباع میں یہ شان ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے- قرآن شریف سیدھی سادی کتاب ہے- قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرے تو اس کے مقابلہ میں ذب کرنے والا بڑا نفع اٹھاتا ہے- اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ ~صل۲~ پر کوئی اعتراض کرے تو اس کاذب کرنے والا بہت نفع پاتا ہے- جزا|و|سزا‘ مر کر بدلہ ملے گا- ہمارے اعمال تولے جائیں گے- ہر ایک چیز کی میزان ہوتی ہے- تم بھی میزان سے غافل نہ رہو- تمہارے اعمال کی میزان ہو گی- تم نے ہمارے ساتھ بھی تعلق پیدا کیا ہے- افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لین دین کے کچے‘ زبان کے کچے- ذرا ذرا سی بات پر وہی فساد کرتے ہیں جو قبل احمدیت انہوں نے کئے تھے- اللہ|تعالیٰ کی تعظیم کرو- اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت کرو- ہماری پیاری پیاری باتیں سن کر ان کی قدر کرو- عمل کرو- اللہ تعالیٰ کو راضی کرو- اللہ تعالیٰ تم کو راضی کرے گا- اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو- )پھر دعا ہوئی(
) بدر جلد۱۳ نمبر۲ ------ ۱۳ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ تا ۱۴ (
* - * - * - *
‏KH1.37
خطبات|نور خطبات|نور
۲۷/ دسمبر ۱۹۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد نور قادیان

خطبہ جمعہ
جو حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے ایام جلسہ کے جمعہ میں مسجد نور میں پڑھا-
تشہد‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-
و العصر- ان الانسان لفی خسر- الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر- )العصر ۲ تا ۴-(
اور پھر فرمایا-
بہت سے ہمارے دوست آج غالباً رخصت ہوں گے- اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار ہو گا جو ہم آئندہ سال ملیں گے- اب کے تیسرا برس ہے- میں اپنے حالات کو نگاہ کرتا ہوں- ہمیشہ رات کو یقین نہیں ہوتا کہ صبح کو اٹھوں گا- خدا تعالیٰ کے فضل سے تم ہم اکٹھے ہو گئے ہیں اس لئے تم سب کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں اور سب کے لئے جو رخصت ہوں گے دعا کرتا ہوں- استودع اللہ دینکم و ایمانکم و خواتیم عملکم و زودکم اللہ التقویٰ و غفر ذنبکم و شکر سعیکم و اللہ معکم اینما کنتم و اوصیکم بتقوی اللہ و قد فاز المتقون- ان اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون- اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دین کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں- وہ اپنی امانتوں کو ضائع نہیں کرتا-تمہارے دین کو‘ ایمان کو‘ تمہارے خاتمہ کو‘ سب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں- پھر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں- و زودکم اللہ التقویٰ- اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں متقیوں کے ساتھ رہوں گا- متقی خدا تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے- متقی کو علم دیا جاتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- متقی کو رزق دوں گا- متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے- میں تم سب کے لئے دعا کرتا ہوں- تم متقی جماعت بنو- پھر میں تم سب کے لئے دعا کرتا ہوں- خدا تعالیٰ تمہارے قصوروں کو معاف کر دے- تم جہاں جہاں رہو اللہ تعالیٰ تمہارا حامی ومددگار رہے-
پھر میں خوشی کی خبر سناتا ہوں کہ ابھی تار آیا ہے- ہمارے میاں صاحب ۲۵ دسمبر کو جدہ سے جہاز پر سوار ہو گئے ہیں- یہ مبارک خبر ہے- میں بہت خوش ہوں- تم اس خبر سے خوش ہو گے- ہمارے میاں|صاحب جس جہاز پر سوار ہوئے ہیں اس کا نام منصورہ ہے- نصرت ان کے شامل حال ہو-
دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ مجھے پسند ہیں کیونکہ آدمی کھڑے کھڑے پڑھ سکتا اور نفع اٹھا لیتا ہے اور معلوم نہیں کہ کب کس پر اثر ہو جائے- مگر چھوٹے چھوٹے رسالوں کے سبب حضرت مسیح موعود کی کتابوں کی خریداری کم ہو گئی ہے- ان میں جو درد ہے وہ اوروں میں ملنا مشکل ہے- میں اس قرضہ سے یوں سبکدوش ہوں- میں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی- اگر میں کوئی کتاب لکھتا تو تم لوگ اسی کو خریدتے اور میں نے نہیں چاہا کہ اس طرح حضرت صاحب کی کتابوں کی اشاعت پر اثر پڑے-
یہ سورۃ )العصر( میں نے بارہا لوگوں کو سنائی ہے- چھوٹی سے چھوٹی سورۃ جو ہر شخص کے لئے بابرکت ہو خدا تعالیٰ کی کتاب میں میرے خیال میں اس کے سوا اور نہیں آئی- قرآن کریم کے ہر ایک فقرہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور محض فضل سے سارے جہان کی تعلیم وتربیت اور پاک تعلیم وتربیت حاصل اور ضرور حاصل ہو سکتی ہے- مگر صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کی عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تھے تو اس سورۃ کو پڑھ لیتے تھے- ممکن ہے کہ میری آواز سب لوگوں کے کان میں نہ پہنچے کیونکہ میں بیمار ہوں- صبح سے اب تک خطوط پڑھتا تھا- تھک گیا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں- جو لوگ دور ہیں اور ان کے کانوں میں میری آواز نہیں پہنچ سکتی ان کے کانوں میں وہ لوگ جو سنتے ہیں پہنچا دیں اور کوشش کریں کہ سب کے کانوں تک اس سورۃ کی آواز ضرور پہنچ جائے- جو سنتے ہیں وہ اس شکریہ میں دوسروں تک پہنچائیں-
یہ بڑی مختصر سورۃ ہے- پہلی بات اس سورۃ شریفہ میں یہ ہے کہ و العصر- عصر ایک زمانہ کو کہتے ہیں- ہر آن میں پہلا زمانہ فنا اور نیا پیدا ہوتا جاتا ہے- ہر وقت زمانہ کو فنا لگی ہوئی ہے- کل کا دن ۲۶ دسمبر ۱۹۱۲ء اب کبھی نہیں آئے گا- ۲۷ دسمبر ۱۹۱۲ آج کے بعد کبھی دنیا میں نہ آئے گا- آج کی صبح اب کبھی نہ آئے گی- یہ زمانہ بڑا بابرکت ہے- یہ جو آریہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ زمانہ مخلوق نہیں اور جو قدیم ہے وہ فنا نہیں ہوتا‘ و العصر کا لفظ ان کے لئے خوب رد ہے- میں جس زمانہ میں بولا وہ اب چلا بھی گیا اور جس میں آگے بولوں گا وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا- زمانہ کو غیر مخلوق ماننے والوں کے لئے کیسا عمدہ رد ہے- زمانہ کو جہاں تک لئے جائیں ایک حصہ مرتا جاتا ہے‘ ایک حصہ پیدا ہوتا جاتا ہے- اس مرنے اور پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں-
ایک فائدہ | عصر | میں یہ ہے کہ ہر ایک وقت جو انسان پر گزرتا ہے اس کو فنا لازم ہے- اسی طرح انسان کے اجزا بھی ہر آن میں فنا ہوتے ہیں اور ہر آن نئے اجزاء پیدا ہوتے ہیں- اس طرح ایک نئی مخلوق بن کر انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے- جب میں جوان تھا میرے سب بال سیاہ تھے- آج کوئی بال سیاہ نہیں- جب ہم نئی حالت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں- لا الٰہ الا اللہ کے معنی ہیں کہ ہر آن میں تم ہمارے محتاج ہو- اگر میرا فضل وکرم نہ ہو تو تم کچھ بھی نہیں-
ایک بات عصر میں یہ ہے کہ لوگ زمانہ کو برا کہتے ہیں- شاعروں نے تو یہ غضب کیا کہ دنیا کا ہر ایک دکھ اور مصیبت زمانہ کے سر تھوپ دیا- خدا تعالیٰ کا نام ہی درمیان سے نکال دیا- گردش|روزگار کی اس قدر شکایت کی ہے کہ جس کی حد نہیں- گویا ان کا دارومدار‘ ان کا نافع اور ضار سب کچھ زمانہ ہی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہیزمانہ کی شکایت نہ کرو- یہ بھی قابل قدر چیز ہے- عصر کے بعد پھر کوئی وقت نہیں ہوتا جو ہم فرض نماز ادا کریں-
میرا یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد غرض ہے کہ اب قرآن شریف جیسی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا رسول جس کے جانشین ہمیشہ ہوتے رہیں گے اب دنیا میں نہ آئے گا- عصر سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشینوں کا زمانہ ہے- اب اور کے لئے زمانہ نہیں رہا یہاں تک کہ دنیا کا زمانہ ختم ہو-
ان الانسان لفی خسر جس طرح زمانہ گھاٹے میں ہے اسی طرح انسان- ایک شخص مجھ سے کہنے لگا کہ زمانہ قدیم ہے- میں نے کہا جب تم ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ میں تھے وہ وقت اب ہے اور جب تم مروگے وہ زمانہ اب موجود ہے؟ کہا- نہیں- میں نے کہ ایک موجود ہے‘ وہ معدوم ہے- وہ موجود ہو گا- انسان کا جسم ایک برف کی تجارت ہے- اسی طرح زمانہ ہے-
الا الذین اٰمنوا- گھاٹے میں تو سب ہیں مگر ایک شخص مستثنیٰ ہے- وہ کون؟ ایماندار کہ اس کو گھاٹا نہیں- ایمان کیا ہے؟ غیب الغیب ذات پر ایمان رکھنا- اس کو مقدم سمجھنا- اس کی نافرمانی سے ڈرنا اور یہ یقین کرنا کہ اگر ہم نافرمان ہوں تو اس پاک ذات کا قرب حاصل نہیں کر سکتے- نماز پڑھنا اور سنوار کر پڑھنا- لغو سے بچنا- زکٰوۃ دینا- اپنی شرمگاہوں کو محفوظ کرنا- اپنی امانتوں اور عہود کا لحاظ کرنا- اللہ تعالیٰ کی ذات پاک‘ صفات‘ افعال‘ اسمائ‘ اس کے محامد اور اس کی عبادات میں کسی کو شریک نہ کرنا- ملائکہ کی نیک تحریک کو ماننا- انبیاء کی باتوں اور کتابوں کو ماننا-
قرآن کریم تمام انبیاء کی پاک باتوں اور کتابوں کے مجموعہ کا خلاصہ ہے- فیھا کتب قیمۃ )البینہ:۴( قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے- اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے- اس کتاب )قرآن|کریم( کو اپنا دستور العمل بنانا‘ اس کو پڑھنا‘ سمجھنا‘ اس پر عمل کرنا‘ خداتعالیٰ سے توفیق مانگنا کہ اس پر خاتمہ ہو‘ جزا سزا پر یقین کرنا‘محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم|کمالات نبوت ورسالت اور خاتم کمالات انسانیہ یقین کرنا- دنیا میں جس قدر ہادی ان کے بعد آئیں گے سب انہیں کے فیض سے آئیں گے- ہمارے مسیح آئے‘ مگر غلام احمد ہو کر آئے- وہ فرماتے ہیں-
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
یہ حضرت صاحب کا سچا دعویٰ ہے اور اسی پر عملدرآمد تھا- ایک نقطہ بھی دین اسلام سے علیحدہ ہونا ان کو پسند نہ تھا-
تم خداتعالیٰ کی تعظیم کرو- اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرو- ’’مخلوق‘‘ کا لفظ میں نے بولا ہے- تم ایسے بنو کہ درختوں‘ پہاڑوں‘ جانوروں‘ سب پر تمہارے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو- مخلوق الٰہی پر شفقت کرو- انسان پر جب تباہی آتی ہے تو اس کی وجہ سے سب پر تباہی نازل ہوتی ہے- ع
از زنا افتد وبا اندر جہات
جناب الٰہی نے جس طرح حکم دیا اس پر عمل کرو- گھاٹ پر پاخانہ پھرنے سے‘ درختوں کے نیچے اور راستوں پر پاخانہ پھرنے سے ہماری شریعت نے منع فرمایا ہے- ایمان کے ساتھ اعمال بھی نیک ہوں- جس میں بگاڑ ہے وہ خدائے تعالی کا پسندیدہ کام نہیں- پھر ان سچے علوم کو میری زبان سے تم نے کچھ سنا ہے- اپنے گزشتہ امام سے سنا ہے اور اس کی پاک تصانیف میں دیکھا ہے-
و تواصوا بالحق پاک تعلیم یعنی حق کو دوسری جگہ پہنچائو- بہت سے لوگ ہم سے ملنا چاہتے ہیں اور ہم سے محبت اور اخلاص چاہتے ہیں مگر ایمان کے حاصل کرنے اور ایمان کے مطابق سنوار کے کام کرنے اور پھر دوسروں تک پہنچانے میں متامل ہیں- بہت سے لوگ یہاں بھی آئے ہیں اور مجھ سے ملے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ ہم سے بالکل مل جائیں تو ہم آپ کے ہو جاتے ہیں- میں نے کہا ہماری تعلیم پر عمل کرو گے؟ تو کہتے ہیں تعلیم تو ہماری آپ کی ایک ہی ہے- میں نے کہا جب کہ تم ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے جی چراتے ہو تو پھر ہم تم ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سن کر شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں- یہ سب کے سب منافق طبع لوگ ہوتے ہیں- ایسے منافق بہت ہیں- یہ سب ہم کو دھوکا دینا چاہتے ہیں- تم حق کو پہنچائو اور حق کے پہنچانے میں علم وحکمت اور عاقبت اندیشی سے کام لو- جو عاقبت اندیشی سے کام نہیں لیتے وہ بعض اوقات ایسے الفاظ کہہ دیتے ہیں جن سے بڑا نقصان ہوتا ہے-
کسی شخص نے مجھ کو خط لکھا کہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں میرے لئے دعا کرنا- احمدی نے سن کر کہا کہ مکہ مدینہ کا کیا کوئی الگ خدا ہے؟ اس پر اس شخص کو بڑا ابتلا پیش آیا- اگر نرمی سے کہا جاتا تو نتیجہ خطرناک نہ ہوتا- اس طرح کہ مکہ مدینہ بیشک قبولیت دعا کے مقام ہیں- پھر کہتا ہوں کہ خدا یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے- تم دونوں جگہ دعا مانگو یعنی یہاں بھی دعا ضرور مانگو- خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر سے کہا تھا کہ میرے لئے عرفات میں دعا کرنا- میرے خسر کا بیٹا جو ان کے ہمراہ حج میں موجود تھا اب موجود ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے باپ نے عرفات میں دعا مانگی اور میں آمین آمین کہتا جاتا تھا-
مگر انسان سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں- ان غلطیوں کے دور کرنے کے لئے میں نے کہا تھا کہ میں تین مہینہ میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی ایک جماعت ہو- قرآن کے لئے بھی دعا مانگنی چاہئے- و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ )البقرۃ:۲۸۳( جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو خدا سکھاتا ہے- قرآن پڑھو- سیکھو- اس کے علم میں ترقی کرو- اس پر عمل کرو- قرآن سے تم کو محبت ہو-
و تواصوا بالصبر حق کے پہنچانے میں کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہے- اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے دوسرے کو صبر سکھائو اور خود بھی صبر کرو- یہ سورۃ اگر تم نے سمجھ لی ہے تو دوسروں کو بھی سمجھائو اور برکت پر برکت حاصل کرو- میں چاہتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو- اس کے ملائکہ سے‘ نبیوں اور رسولوں سے محبت کرو اور کسی کی بے ادبی نہ کرو- تم کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمت عطا کی ہے- حضرت صاحب کا دنیا میں آنا معمولی بات نہیں- اس طرح یہاں بیٹھے ہو- یہ انہیں کی دعائوں کا نتیجہ ہے- دعائیں بہت کرو- اللہ تعالیٰ تم کو دوسروں تک حق پہنچانے کے لئے توفیق دے- یہ مسجد میرے نام بنی ہے مگر میں دیکھتا ہوں یہ کس قدر تنگ ہے- اس مسجد نور کو بڑھائو- مگر نیکی کے لئے اس میں مدرسہ بنائو مگر قرآن شریف کا- ایک مدرسہ یہاں ہے اس کی طرف تو ہمارے دوستوں کی بھی بہت توجہ ہے- گورنمنٹ بھی مدد دیتی ہے- اس کے لئے ہر قسم کا سامان اور مکان بھی اچھا ہے مگر مدرسہ احمدیہ کے لئے کوئی نگرانی تک بھی نہیں- کوئی اس طرف توجہ نہیں کرتا- لڑکوں کی کتابوں اور کپڑوں تک کی بھی پرواہ نہیں کرتا- مگر کچھ لوگ چلے آتے ہیں- وہ رات کے کپڑے‘ قرآن‘ سب سے محروم رہتے ہیں- چند روز بھٹک کر تم کو بددعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں- میں نے چند آدمیوں سے ایک دن کہا تھا کہ اس قسم کے آوارہ لوگوں کے لئے کوئی تجویز کرو- انہوں نے ایک کمیٹی بنائی مگر صرف مجھ کو خبر پہنچانے کے لئے کہ ہم نے کمیٹی بنائی ہے‘ عمل کرنے کے لئے نہیں- دعا کرو کہ یہاں کے رہنے والوں کے دل دردمند ہوں- جو یہاں آئیں وہ ابتلاء میں نہ آئیں-
یہاں تین قسم کے طالب علم آتے ہیں- اول مدرسہ انگریزی کے طالب علم- ان کے لئے مکان‘ کتاب ہر قسم کا انتظام ہے- دوسرے مدرسہ احمدیہ کے لئے- ان کی تعداد مدرسہ انگریزی کے مقابلہ میں بہت کم ہے مگر ان کا انتظام کچھ نہیں- تیسرے سب سے کم وہ جو آوارگی کے لئے یہاں آجاتے ہیں- تم سے کہنے کا منشاء ان کی شکایت نہیں بلکہ مدعایہ ہے کہ تم ہمت کرو گے تو کام نکلے گا- حضرت صاحب کی کتابوں کی اشاعت کرو- ایک شخص مکان بنانا چاہتا ہے- اس کے لئے بھی میں کہتا ہوں- خدا تعالیٰ کسی کا قرضہ نہیں رکھتا- وہ تمہارا محتاج نہیں- تم سے جو کام لیا جاتا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ تم کو نفع زیادہ حاصل ہو- صحابہ کرام نے جو کچھ خرچ کیا وہ اب تک واپس کیا جا رہا ہے اور قیامت تک واپس ہوتا رہے گا-
میں تمہارے لئے دعائیں کر چکا ہوں اور کرتا رہتا ہوں- تم بھی دعائوں کی بہت عادت ڈالو- دعائیں بہت کرو مگر خداتعالیٰ کو آزمانے کے لئے دعائیں نہ کرو-
خطبہ ثانیہ میں فرمایا-
یہ ایک بڑا گر ہے- جس قدر تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تعظیم کرو گے تمہاری تعظیم ہو گی- اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرو گے تو وہ تم پر رحم کرے گا- دعائیں بہت کیا کرو‘ وہ قبول کرے گا- اللہ تعالیٰ کی یاد بہت بڑی چیز ہے- تم اس کے ہو جائو وہ تمہارا ہو جائے گا-
) بدر جلد ۱۲ نمبر ۳۱‘ ۳۲‘ ۳۳ ----- ۲۷/ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ۳ تا ۵ (
* - * - * - *

یکم مارچ ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ و ینھیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون- )النحل:۹۱-(
اللہ تعالیٰ جو حکم کرتا ہے وہ سب انصاف پر مبنی ہوتا ہے- وہ تم کو بھی کہتا ہے کہ صراط مستقیم پر چلو کیونکہ نہ اس میں زیادتی ہوتی ہے نہ کمی ہوتی ہے-
کسی کو دیوانہ پاگل سٹری اسی وقت کہتے ہیں جب کوئی حد سے تجاوز کر جائے- جو شخض سارا دن بولتا چلا جائے یا نمازوں میں لگ جائے کہ صبح کی نماز شروع کی اور عصر کا وقت کر دیا تو ایسا شخص اگرچہ نماز پڑھتا ہے مگر دیوانہ ہے- اسی طرح ایک شخص کی پانچ روپیہ تنخواہ ہو اور اس میں وہ چاہے کہ بیوی کا زیور بھی بن جائے‘ مکان بھی تیار ہو جائے اور ہم کو کسی کی محتاجی بھی نہ کرنی پڑے تو ایسے شخص کو پاگل ہی کہا جائے گا-
میں نے ایک چھوٹی لڑکی کو کسی بات پر خوش ہو کر ایک روپیہ دیا- اس نے کہا کہ ایک تو یہ ہو گیا- ایک اور ہو گا تو دو ہو جائیں گے- پھر اسی طرح اس نے پچاس تک حساب لگا لیا- میری بیوی نے ہنس کر کہا کہ تم نے اس کو ایک ہی روپیہ دیا ہے اور وہ تو پچاس روپے کا خرچ سوچ بیٹھی ہے- میں نے کہا کہ یہ کنجوس ہے- کسی کو بھی کچھ نہیں دے سکتی- اگر کوئی اس سے کچھ مانگے گا تو یہ سوچے گی کہ میرے ایک روپیہ کا نقصان نہیں بلکہ پچاس کا ہوتا ہے-
اپنی آمدنیوں کے مطابق اپنے اخراجات رکھو- کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد خراب ہو- کیا کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص اس کے لڑکے یا لڑکی کو بدی سکھائے‘ خراب کرے‘ بدکار بنائے- میرے بھی لڑکی ہے- اس وقت میں اپنے آپ کو مخاطب کر رہا ہوں- جب کوئی یہ نہیں چاہتا تو پھر دوسروں کی اولاد کو جو تمہارے سپرد ہے کیوں خراب ہونے کا موقع دیتے ہو- کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت نافرمان ہوں- جب یہ نہیں چاہتا تو کیوں نافرمانی کرتے ہو؟ یہ لڑکے جو اپنے آفیسروں‘ استادوں کی نافرمانی کرتے ہیں اور طرح طرح کی بدعتیں کرتے ہیں‘ اگر یہ صاحب اولاد ہوں اور ان کی اولاد بدی‘ نافرمانی کرے تو ان کو معلوم ہو کہ کس قدر دکھ ہوتا ہے- جب ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو چاہئے کہ جس کے ہم ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہوں- کیا کوئی چاہتا ہے کہ ہمارا مال کوئی شخص دھوکہ سے کھا لے-
ہم یہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہم کو دھوکہ دے یا ہم کسی کا دھوکہ کھائیں- اس لئے ہم کو بھی چاہئے کہ کسی کو دھوکہ نہ دیں- جہاں کسی کے دھوکہ کھانے کا موقع ہو وہاں اپنے آپ کو بچائیں-
ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ و ینھیٰ عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون- اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے- جو بات تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کے لئے کیوں پسند کرتے ہو؟ وہ تم کو برائیوں سے روکتا ہے اور ہر قسم کی بغاوت سے روکتا ہے- تم کو وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو-
) بدر جلد۱۳ نمبر۱ ۔۔۔ ۶ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۸ (
* ۔ * ۔ * ۔ *

۲۴ / اپریل ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ نکاح
مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں تو باتیں سناتا ہوں اور درد سے سناتا ہوں- میں تم سے بعضوں پر اس لئے ناراض ہوں کہ میری ایسی ایسی درد بھری نصائح کو سن کر بھی تمہارے دل نہیں پسیجتے- مجھے کوئی راہ ایسی نظر نہیں آتی جس سے تم سمجھ جائو- دنیا کے ہر ایک کام میں عربی زبان کا تعلق پایا جاتا ہے- دیکھو جب کوئی کسی سے ملتا ہے تو السلام علیکم کہتا ہے جس میں دوسرے کے لئے ایک نہایت لطیف دعا ہے اور اگلا آدمی بھی و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتا ہے- کسی چیز کا انکار کرنا ہو تو’’لا حول‘‘ پڑھا جاتا ہے- کوئی عظمت کی بات نظر آتی ہے تو ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ہیں- غرض کہ روزہ‘ حج‘ زکٰوۃ اور انسان کے لئے نشست و برخاست‘ حرکات و سکنات اور چلنے پھرنے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ ہر ایک کام میں عربی کا ایک حصہ مدنظر رکھنا ضروری ہے- مگر افسوس ہے کہ ایسی بہت سی مفید باتوں کو غالباً آٹھویں صدی سے مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے- پھر کس قدر مصیبت کی بات ہے- ہر ایک کام میں عربی زبان کا ایک حصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مشترکہ زبان اگر کوئی ہے تو محض عربی ہے- خطبہ نکاح بھی عربی میں ہے- حدیث میں تم نے پڑھا تھا کہ شادی لوگ کیوں کرتے ہیں؟ بعض اس لئے کہ عالی خاندان لڑکی ملنے سے اس کے ساتھ بہت سا مال آئے گا اور بعض لوگ مال کی پرواہ نہیں کرتے- جمال پر لٹو ہوتے ہیں- بعض قومیت پر مرتے ہیں- ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ میری شادی کرا دیں- میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم شادی کیوں کرتے ہو؟ کہنے لگا گھر بند رہتا ہے- عورت گھر ہو گی تو دروازہ کھلا رہے گا- اسی طرح ایک اور سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ محض روٹی پکانے کی خاطر شادی کرنا چاہتا ہے- بعض کسی رنج پہنچنے سے رنج پہنچانے والے کی لڑکی سے شادی کر کے اپنا دل شاد کرنا چاہتے ہیں- بعض اپنی لڑکی اس لئے دوسروں کو دیتے ہیں کہ اپنی لڑکی کے ذریعہ دوسروں کو گزند پہنچائیں-
غرض کہ بیسیوں قسم کے لوگ ہیں جو کسی خاص اپنے مطلب کو مدنظر رکھ کر شادی کرتے ہیں جن کو دینی اغراض سے بالکل ہی پرواہ نہیں ہوتی- حالانکہ رسول کریمﷺ~ اور قرآن مجید کا منشاء صرف یہ ہے کہ شادیاں دینی اغراض پر مبنی ہوں- شادی ہونے سے ایک مدرسہ کھل جاتا ہے- لڑکی لڑکے کو ایسے ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جن کی ان کو قبل از شادی ہرگز بھی خبر و واقفیت نہیں ہوتی- پھر لڑکی کو تو ایسی جگہ جانا پڑتا ہے جہاں کے حالات سے وہ بالکل
ناواقف ہوتی ہے- ہندوستان میں لوگ عورتوں کو فرائض|شادی|و|نکاح کے علم نہیں سکھاتے- یہاں تک کہ حیض و نفاس تک کے امراض کی عورتوں کو خبر نہیں ہوتی کہ یہ کیا بلا ہے اور کس بلا کا نام ہے؟ تعلیم و تربیت عورتوں کی بہت کم رہ گئی ہے- مرد چاہتا ہے کہ جیسا میں نے ہومر اور شیکسپئر اور اور لوگوں کے ناول پڑھے ہیں‘ میری بیوی بھی ایسی ہی ہو اور ایسے ہی ناز و نخرے میری عورت کو بھی آتے ہوں جیسے کہ اکثر ناولوں میں پڑھ چکا ہوں-
ہمارے مولا کو چونکہ یہ سب باتیں معلوم تھیں‘ اس لئے اس نے لتسکنوا الیھا )الروم:۲۲( فرمایا ہے یعنی شادی سے تم کو بڑا آرام ہو گا- اور چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم|و|ترس سے کام لیا جائے اور ان سے خوش خلقی اور حلیمی برتی جائے- مجھے پنجاب اور ہند کی عورتوں پر خاص کر ترس آتا ہے کہ یہ بیچاری ہر ایک کام سے ناواقفیت رکھتی ہیں- عرب کی عورتیں بڑی آزاد ہوتی ہیں اور وہ اپنے حقوق طلب کرنے میں بڑی ہشیار ہوتی ہیں-
پھر باوجود ان کے بہت ہی بے باک اور بے دھڑک ہونے کے کسی کو جرئات نہیں کہ ان کو کوئی کچھ کہہ سکے یا ان پر کوئی حرف لا سکے- اور فرمایا کہ عاشروھن بالمعروف )النسائ:۲۰( جہاں تک ہو سکے ان سے بھلائی کرو- تم ان سے نیکی کرو پھر اللہ تعالیٰ تم کو اس کے عوض بہتر سے بہتر اجر دے گا- چونکہ میرا مطالعہ بہت ہے اور مرد عورتوں کو اکثر درس دینے کا مجھے موقع ملا ہے اس لئے مرد اور عورتوں کی طبائع کا مجھے خوب علم ہے اور ان کی فطرت سے خوب واقف ہوں- میرے خیال میں عورتیں چشم|پوشی اور ترس کی مستحق ہیں-
بیاہ کے سبب دو عظیم الشان جماعتوں میں ربط و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے اور کئی بھائی بہنیں نئی پیدا ہو جاتی ہیں- میدان رشتہ داری وسیع ہو جاتا ہے- زیادہ کیا کہوں یہ کہانی بڑی دردناک ہے اور میرے دل میں اس قدر کام ہیں کہ دم بھر کی بھی فرصت بڑی مشکل سے ملتی ہے- میرے روز مرہ کے سارے کاموں کا پورا ہونا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر دارومدار رکھتا ہے-
پھر طرفین کے لڑکے اور لڑکی اور ان کے سر پرستوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب کی لڑکی مسماۃ جنت بی بی کا نکاح منشی عبدالرزاق صاحب کے لڑکے مسمیٰ خلیل الرحمن کے ساتھ بمہر ایک ہزار روپیہ قرار پایا ہے- آپ سب لوگ دعا کریں کہ یہ تعلق دونوں کے واسطے اللہ کریم بابرکت کرے- ہمارا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ لڑکیاں بھی ایک طرف ہوا کریں مگر مسلمانوں نے ابھی تک ترقی نہیں کی اس لئے ہمارا دل یہ بات کہنے سے ڈرتا ہے- خدا تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے- آمین
) بدر جلد۱۳ نمبر۹ ۔۔۔۔ یکم مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ (
* - * - * - *

۱۳ / جون ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ][

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی -:
و لاتقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم و ایاکم ان قتلھم کان خطاً کبیراً- و لاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشۃ و ساء سبیلاً-و لاتقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیہ سلطٰناً فلایسرف فی القتل انہ کان منصوراً- و لاتقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن حتیٰ یبلغ اشدہ و اوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولاً- و اوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذٰلک خیر و احسن تاویلاً- و لاتقف ما لیس لک بہ علم ان السمع و البصر و الفواد کل اولٰئک کان عنہ مسئولاً- و لا تمش فی الارض مرحاً انک لن تخرق الارض و لن تبلغ الجبال طولاً- کل ذٰلک کان سیئہ عند ربک مکروھاً- ذٰلک مما اوحیٰ الیک ربک من الحکمۃ و لاتجعل مع اللہ الٰھاً اٰخر فتلقیٰ فی جھنم ملوماً مدحوراً-
)بنی اسرائیل:۳۲تا۴۰(
اور پھر فرمایا-:
حق اللہ تعالیٰ کا‘ حق ماں باپ کا‘ حق ذوی القربیٰ کا‘ حق مسکینوں کا‘ حق مسافروں کا‘ حق کل مخلوق کا‘ جناب الٰہی بیان فرماتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں کہ و لا تقتلوا اولادکم اولاد کو قتل مت کرو- قتل میں نے بہت طرح سے دیکھا ہے- بعض عورتیں اس قسم کی دوا کھاتی ہیں کہ آئندہ اولاد نہ ہو- بعض کچے حمل گروا دیتی ہیں- پھر میں نے دیکھا ہے کہ آپ بھی ساتھ ہی مر جاتی ہیں- بعض ایسے ہیں کہ لڑکی پیدا ہو تو اسے مار دیتے ہیں- بعض ان کا علاج نہیں کرتے- بعض اس کی تربیت خوب نہیں کرتے- بعض اپنی اولاد کے لیے پاک صحبت کا انتظام نہیں کرتے- یہ نہیں سوچتے کہ ان کے لئے کونسا علم نافع ہو گا اور ان کی اولاد کا میلان طبع کس طرف ہے؟ ہزاروں لاکھوں کتابیں بنی ہوئی ہیں- ہرملک کے لوگ اپنے خیال کے مطابق پڑھانے چلے جاتے ہیں- نہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا خیال کرتے‘ نہ لغو‘ ناقص اور اہم و مفید میں کوئی فرق کرتے ہیں- میری سمجھ میں یہ سب قتل اولاد کی قسم میں سے ہے-
پھر ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ بدکاریوں کے نزدیک بھی نہ جائو- نزدیکی کبھی آنکھ سے ہوتی ہے‘ کبھی کان سے‘ کبھی زبان سے‘ کبھی ہاتھ سے‘ کبھی روپے سے- غرض ابتدا انہی باتوں سے ہوتی ہے- تم ان سے بچو- گندی صحبتوں سے نفرت رکھو- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو- یہ بڑی بے|حیائی اور بدچلنی کا کام ہے- ناحق کسی کو قتل نہ کرو- مظلوم کو خدا تعالیٰ ضرور مدد دیتا ہے- وہ بدلہ لینے میں خطا نہ کرے- یتیموں کے مال کے نزدیک بھی نہ جائو سوائے اس طریق کے جو ان کے حق میں بہتر ہو- اپنے عہدوں میں وفاداری کرو- ہم سے بھی تم نے عہد کئے ہیں- ماپنے اور تولنے میں سیدھا معاملہ کرو- انجام|بخیر ہو گا-
جس چیز کا علم نہ ہو اسے منہ سے مت بولو- اس کے درپے نہ ہو- کانوں اور آنکھوں اور قویٰ کے مرکزوں سے یہ باتیں اٹھتی ہیں- ان سب سے باز پرس ہو گی- اکڑبازی سے ملک میں مت چلو- تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو‘ نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو- خدا کو یہ باتیں ناپسند ہیں- ان کو چھوڑ دو- اللہ نے اس کتاب میں بڑی حکمت کی اور پکی باتیں بتائی ہیں- ان پر عمل کرو- اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بنائو- مشرکوں کی سزا جہنم ہے- ) الفضل جلد۱ نمبر۱ ۔۔۔ ۱۸ / جون ۱۹۱۳ء صفحہ۱ (
* - * - * - *

۲۰ / جون ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیات ۲۸۵ تا ۲۸۷ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس سورۃ میں بہت سی باتیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کو بتائی ہیں- پہلے یہ بتایا کہ یہ کتاب تمہارے لئے ہلاکت نہیں بلکہ ہدایت ہے- ایمان لائو- نمازیں ٹھیک کرو- اللہ کی راہ میں دو- منافق نہ بنو- خدا کے تم پر بہت احسان ہیں- اگر وہ ناراض ہو گا تو پھر تمہارا نہ کوئی سفارشی ہو گا‘ نہ ناصر و مددگار- نہ جرمانہ دے کر چھوٹ سکو گے- پھر فرماتا ہے بہت سے لوگ ہیں جن پر ہم انعام کرتے ہیں مگر وہ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بارگاہ ایزدی سے بہت دور لے جاتے ہیں- یہ بیان کر کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو اللہ|تعالیٰ کا بڑا فرمانبردار ہے- اس ضمن میں جناب الٰہی نے فرمایا کہ تم متوجہ الی اللہ رہو- یکجہتی حاصل کرو- پھر حج کے احکام‘ روزے کے احکام‘ گھر کے معاملات کے متعلق ضروری مسئلے بتاتے ہوئے صدقہ خیرات کی طرف متوجہ کیا- لین و دین کے مسائل بیان کئے- بیاج اور سود سے منع کیا- پھر فرمایا تم سمجھتے بھی ہو زمین و آسمان میں ہماری سلطنت ہے- تم ہماری شریعت کی خلاف ورزی کر کے سکھ نہیں پا سکتے- دیکھو ہم جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے خوب جانتے ہیں اور اس کا حساب تم سے لیں گے- بہت سے لوگ ہیں جن کو روپیہ مل جائے وہ تیس مارخان بن بیٹھتے ہیں- ان کو واضح رہے کہ حساب ہو گا اور ضرور ہو گا-
ذرا تم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سہی‘ آج تک اپنے نفس کے عیش و آرام کے لیے کس قدر کوشش کی ہے اور اپنی بیوی بچوں کے لیے کیسے کیسے مصائب جھیلے ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا- سوچو! اپنے ذاتی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الٰہی احکام کی نگہداشت کس حد تک کرتے ہو-
)ایک مخلص لڑکا پنکھا کر رہا تھا اسے فرمایا( کہ چھوڑ دو- اس طرح سننے میں حرج ہوتا ہے- ایسی باتوں کا مجھے خیال تک نہیں ہوتا اور میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ خدا کے فضل سے تمہارے سلام کا‘ تمہاری نذرونیاز کا‘ تمہاری تعظیم کا ہرگز محتاج نہیں- میری تو یہ حالت ہے کہ میں جمعہ کے لئے نہا رہا تھا- نفس کا محاسبہ کرنے لگا اور اس خیال میں ایسا محو ہوا کہ بہت وقت گزر گیا- آخر میری بیوی نے مجھے آواز دی کہ نماز کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے- وقت کا یہ حال اور ہم ہیں کہ ننگ دھڑنگ بیٹھے للٰہ ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض و ان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ )البقرۃ:۲۸۵( کا مطالعہ کر رہے ہیں- اگر میری بیوی مجھے یاد نہ دلاتی تو ممکن تھا اسی حالت میں شام ہو جاتی-
غرض تم لوگ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتیں جانتا ہے اور ایک دن تمہارا حساب ہو گا- خود حساب دینا ہی ایک خطرناک معاملہ ہے- پاس کرنا اور ناکام رہنا تو دوسری بات ہے- جو تقویٰ کی راہ پر چلا اسے بخش دے گا اور جو گمراہ ہیں ان کو عذاب ہو گا- ہمارا رسول اور دوسرے مومن تو اس طریق پر چلتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں- فرشتوں کی نیک تحریکیں مانتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں کرتے- یعنی یوں نہیں کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا- پھر ان کی گفتار‘ ان کے کردار سے کیا نکلتا ہے؟ )قالوا کے معنے بتایا زبان سے یا اپنے کاموں سے( سمعنا و اطعنا ثابت کرتے ہیں- نہ صرف وہ اپنی زبان بلکہ اپنے اعمال سے دکھاتے ہیں کہ باتیں سنیں اور ہم فرمانبردار ہیں- تیری مغفرت طلب کرتے ہیں- تیرے حضور ہم نے جانا ہے- اے مولا! تو ہی ہمیں طاقت عطا فرما اور ہمارے نسیان و خطا کا مواخذہ نہ کر- ہم پر وہ بوجھ نہ رکھ جو ہم سے برداشت نہ ہو سکیں-
یہ دعا مومنوں کی ہے- تم یہی مانگا کرو- اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا- ہر وقت جناب|الٰہی سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اسی کو اپنا والی اور ناصر جانو- بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو سمجھانے والے کے سمجھانے کی برداشت نہیں- وہ اپنے خیالات کے اندر ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے- اسی قسم کی بے پرواہی اور تکبر کا نتیجہ ہے کہ کفار نے تمہاری سلطنتیں لے لیں- اگر تم پورے غور سے خدا کی بادشاہت اپنے اوپر مان لیتے اور مومن بنتے تو کفار کے قبضہ میں نہ آتے- اللہ بڑا بے پروا ہے- اسے فرمانبرداری پسند ہے- خد تعالیٰ آسودگی بخشے تو متکبر نہ بنو- لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے- حالانکہ ان کے اپنے گھروں میں بیٹیاں ہیں جو دوسرے گھروں میں جانے والی ہیں- جو سلوک تم نہیں چاہتے کہ ہم سے ہو وہ غیروں سے کیوں کرو- اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور خدا کے فرمانبردار بننے کی کوشش کرو- اللہ تمہیں توفیق بخشے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲ ۔۔۔ ۲۵ / جون ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۲۷ / جون ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے خطبہ ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان و ایتای ذی القربیٰ )النحل:۹۱( پر پڑھا- فرمایا عدل ایک صفت ہے اور بہت بڑی عجیب صفت ہے- عدل ہر شخص کو پیارا لگتا ہے اور بہت پیارا لگتا ہے- عادل ہر ایک شخص کو پسند ہے اور بہت پسند ہے- کان رس کے طور پر بھی عدل کا لفظ پیارا ہے- اپنی ذات کے متعلق بھی جب آدمی کو ضرورت پڑے اسے عدل بہت پیارا لگتا ہے- مگر نہایت تعجب ہے باوجود اس کے کہ عدل نہایت پسندیدہ چیز ہے جب دوسرے کے ساتھ معاملہ پڑے تو انسان عدل بھول جاتا ہے-
عجائبات جو میں نے دنیا میں دیکھے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اللہ کو بھی مانتے ہیں اور پھر پتھر کے بت‘ پانی کے دریا‘ پیپل اور بڑ کے درخت‘ جانوروں میں سانپ اور گائے کی پرستش کرتے ہیں- مجھے بڑا تعجب آتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان ذات کو چھوڑ کر ادنیٰ چیز کو کیوں اختیار کرتے ہیں- اسی طرح عدل کے معاملہ میں بھی کئی سو تعجب دنیا میں مجھے ہوا ہے- ایک تعجب ہے کہ انسان عدل کو اپنے لئے‘ اپنے دوستوں کے لئے‘ اپنے خویش و اقارب کے لئے بہت پسند کرتا ہے مگر جب دوسرے کے ساتھ معاملہ پیش آئے پھر عدل کوئی نہیں- کسی کا بھائی باوا یا بہن یا ماں یا بیٹی مقدمے میں گرفتار ہو جائے تو وہ کہتا ہے اس سے بڑھ کر میرا کون ہے- ان کے چھڑانے کی کوشش میں اگر میری جان بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں- اس وقت بعض لوگ جھوٹی گواہی‘ جعلسازی‘ رشوت دینے تک تیار ہو جاتے ہیں- گویا خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر یہ کام کرتے ہیں- مگر سوچو جس نے ایسا کیا اس نے عدل نہیں کیا- کیونکہ وہ ہمارا رحمن‘ ہمارا رحیم‘ ہمارا مالک‘ ہمارا رازق‘ ہمارا ستارالعیوب ہے- اس کی صفات کو چھوڑ کر کہتا ہے کہ بس جو کچھ ہے میرا یہی بیٹا ہے یا یہ بیوی ہے یا ماں ہے- دیکھو وہی عدل جو بڑا پسند تھا اس وقت بھلا دیا-
یہاں دو لڑکوں میں ایک گیند کا مقدمہ ہوا- دونوں مجھے عزیز تھے- اب میں حیران ہوا کہ کس کو دلائوں؟ میرے پاس پیسے ہوتے تو میں مدعی کو گیند لے دیتا مگر قدرت کے عجائبات ہیں کہ بعض اوقات نہیں ہوتے- ایک نے گواہی دی کہ یہ گیند اس لڑکے کا ہے کیونکہ اس کے لئے ایک شخص نے میرے سامنے امرتسر کے اسٹیشن سے خریدا تھا- میں نے کہا سچ کہتے ہو- اس نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ تب میں نے گیند دوسرے لڑکے کو دلایا- تھوڑے دن گزرے تو گواہی دینے والا اس لڑکے کے ساتھ غالباً لڑ پڑا تو یہ راز ظاہر ہوا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تھی- دیکھو اس نے عدل نہ کیا اور ظاہرداری کے لیے خدا کو ناراض کر دیا- میں نے اس لڑکے کو دیکھا ہے- بڑا خوبصورت تھا- جان نکل گئی- بس یہ انجام ہوتا ہے- یاد رکھو ہر بدی کا انجام برا ہوتا ہے- جناب الٰہی کا حکم مان لو- فرماتے ہیں- عدل کرو- ہم تمہارے خالق‘ ہم تمہارے مالک‘ رحمن‘ رحیم‘ تمہارے ستار‘ تمہارے غفار‘ ہماری بات ماننے میں مضائقہ اور اپنے کسی پیارے کی بات ہو تو جان تک حاضر- یہ عدل نہیں-
اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ ہر افسر اپنے ماتحت سے چاہتا ہے کہ جان توڑ کر خدمت کرے- میں جو تنخواہ دیتا ہوں تو یہ روپیہ ضائع نہ کرے- لیکن آپ جس کا نوکر ہے اس کی نوکری میں اگر جان توڑ کر محنت نہیں کرتا تو یہ عدل نہیں-
اس وقت ایک بات یاد آ گئی- کسی امیر کی چوری ہو گئی اور اس چوری کے برآمد کرانے والے کے لئے بڑا انعام مشتہر ہوا- افسر پولیس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا اور کہا- لو بھئی اب تو عزت کا معاملہ ہے- ایک میرا رشتہ دار بھی اس کے ماتحت تھا- اس نے مجھے بتایا کہ میں نے ایسی شدید محنت کی کہ مال برآمد کرا لیا- مجرموں سے اقرار بھی کروا لیا- اس آفیسر نے سولہ روپے جیب سے نکال کر دیئے کہ لے بیٹا! تم یہ لو- وہ انعام تو خدا جانے کب ملے گا- پھر ایک مفصل رپورٹ لکھی جس میں دکھایا کہ کس طرح اس مقدمہ کی تفتیش میں نے محنت سے کی اور بعض اوقات اپنی جان کو خطرے میں ڈالا- غرض وہ ساری کارگزاری اس غریب کی اپنی کر کے دکھائی اور انعام خود ہضم کر لیا بلکہ ترقی کی درخواست دی- دیکھو ادھر عدل کے لئے کتنا زور دیا کہ میں نے ایسی محنت کی‘ مجھے ترقی ملے‘ وہ انعام ملے اور دوسری طرف کیسی بے انصافی کی کہ اپنے ماتحت کا حق خود ضبط کر لیا-
رات دن میں یہ حال دیکھتا ہوں- ایک شخص کے گھر میں بہو آتی ہے- وہ اسے نہایت حقیر سمجھتا ہے مگر اپنی لڑکی کے لئے ہرگز یہ گوارا نہیں کرتا کہ کوئی اسے میلی آنکھ سے بھی دیکھے- پہریداروں کو دیکھا گرم بستر گھر میں موجود‘ سردی کے موسم میں سرد ہوا کی پروا نہ کر کے وہ آدھی رات کو چند ٹکوں کی خاطر خبردار! خبردار! پکارتا پھرتا ہے مگر جن کو خدا نے ہزاروں روپے دیئے اور عیش و عشرت کے سامان‘ وہ اتنا نہیں کر سکتے کہ پچھلی رات اٹھ کر تہجد تو درکنار استغفار ہی کریں- یہ عدل نہیں-
پس میرے عزیزو! تم خدا کے معاملہ میں‘ مخلوق کے معاملہ میں عدل سے کام لو- ایک طرف جناب|الٰہی ہیں‘ ایک طرف محمد رسول اللہ ہیں- محمد رسول اللہ کی دعائیں اپنے حق میں سنو- آپ کا چال و چلن سنو پھر یہ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا- اپنے تئیں جان جوکھوں میں ڈالا- ایسے مخلص مہربان صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری اپنے دوست کی فرمانبرداری کے برابر بھی نہ کرو تو کس قدر افسوس کی بات ہے-
بعض تاجروں کو میں نے دیکھا ہے- وہ رستے میں چلتے ہیں اور حساب کرتے جاتے ہیں- معلوم ہوتا ہے اپنے فکر میں مست ہیں اور یہ خیال نہیں کہ جس نے یہ تمام نعمتیں دیں اس کا شکر بھی واجب ہے- دیکھو! اس وقت میں کھڑا ہوں اور محض خدا کے فضل سے کھڑا ہوں- پرسوں میری ایسی حالت تھی کہ میں سمجھا کہ میرا آخری دم ہے- اسی کا فضل ہوا جو مجھے صحت ہوئی- اسی نے مجھے عقل و فراست دی- اپنی کتاب کا علم دیا- رسولوں کی کتابوں کا فہم دیا- اگر یہ انعام نہ ہوتے تو جیسے اور بھنگی ہمارے شہر کے ہیں میں بھی ہو سکتا تھا- میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ عدل کرو- روپیہ جس آنکھ سے لائے ہو اسی سے ادا کرو- مزدور کو مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دو- خدا کے ساتھ معاملہ صاف رکھو- پھر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے کہ عدل سے بڑھ کر احسان کرو- پھر فرماتا ہے احسان میں تو پھر احسان کا خیال آ جاتا ہے- تم دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسے اپنے بچوں کے ساتھ بدوں خیال کسی بدلے کے کرتے ہیں- میرا منشا تمام رکوع کا تھا مگر ضعف غالب ہے اس لئے بیٹھتا ہوں-
خطبہ ثانیہ
فرمایا-: دعا کے سوا مجھے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی جو بدیوں سے بچائے‘ کامیابی دکھائے- ابھی ایک لڑکا تھا- اس کو ابھی ہوش نہ تھا کہ میرے پاس لایا گیا- بڑے بڑے رنگوں میں اس کے ساتھ میں نے سلوک کیا- مجھے بڑے بڑے خیال تھے- خدا اسے یہاں تک پہنچاوے- مگر آخر اسے عیسائیوں کا گھر پسند آیا- دل جو ہوتے ہیں ان کا نام قلب اسی لیے رکھا ہے کہ بدلتے رہتے ہیں- اس واسطے میری عرض ہے کہ تم دعائوں میں لگے رہو- تمہارے بھلے کے لئے کہتا ہوں ورنہ میں تو تمہارے سلاموں‘ تمہارے مجلس میں تعظیم کے لیے اٹھنے کی خواہش نہیں رکھتا اور نہ یہ خواہش کہ مجھے کچھ دو- اگر میں تم سے اس بات کا امیدوار ہوں تو میرے جیسا کافر کوئی نہیں- اس بڑھاپے تک جس نے دیا اور امید سے زیادہ دیا وہ کیا اب چند روز کے لئے مجھے تمہارا محتاج کرے گا؟ سنو! بچے کی شادی تھی- میری بیوی نے کہا- کچھ جمع ہے تو خیر‘ ورنہ نام نہ لو- میں نے کہا خدا کے گھر میں سبھی کچھ ہے- آخر بہت جھگڑے کے بعد اس نے کہا اچھا پھر میں سامان بناتی ہوں- میں نے کہا میں تمہیں بھی خدا نہیں بناتا- میرے مولا کی قدرت دیکھو کہ شام تک جس قدر سامان کی ضرورت تھی مہیا ہو گیا- یہ میں نے کیوں سنایا تا تمہیں حرص پیدا ہو اور تم بھی اپنے مولا پر بھروسہ کرو- پھر میری بیوی نے کہا- عبد الحی کا مکان الگ بنانا ہے تو اس کے لئے بھی خدا نے ہی سامان کر دیا- ان فضلوں کے لیے عدل کا اقتضا ہے کہ میں سارا خدا کا ہی ہو جائوں- قویٰ بھی اسی کے‘ عزت و آبرو بھی اسی کی-
میری پہلی شادی جہاں ہوئی وہ مفتی ہمارے شہر کے بڑے معظم و مکرم تھے- ایک دن میری بیوی کو کسی نے کہا- ’’چبارے دی اٹ وہنی وچہ جا لگی ایں‘‘ مگر کہنے والے نے جھوٹ کہا- اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے فضل کئے- پھر ہمیں ایسے موقع پر ناطہ دیا کہ تم تعجب کرو- جموں کا رئیس بیمار تھا- اس نے بہت دوائیں کیں- کچھ فائدہ نہ ہوا تو فقرا کی طرف متوجہ ہوا- جب ہندو فقراء سے فائدہ نہ ہوا تو مسلمان فقرا کی طرف توجہ کی اور ان سب فقرا کو بڑا روپیہ دیا- ایک میرا دوست جو اس روپے کے خرچ کا آفیسر تھا اس نے ذکر کیا کہ تین لاکھ تو خرچ ہو چکا- اب ایک فقیر سنا ہے جسے بلانے کے لئے آدمی گیا اور اس کے لئے اتنے ہزار روپے تھے مگر اس کا خط آیا- اس میں لکھا تھا میرا کام تو دعا کرنا ہے- دعا جیسی لدھیانہ میں ہو سکتی ہے ویسی کشمیر میں- دونوں جگہ کا خدا ایک ہے- وہاں آنے کی ضرورت نہیں- ہاں ایک بات ہے- اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں تو اس کے افراد بد دعائیں دے رہے ہوں گے تو میں ایک دعا کرنے والا کیا کر سکتا ہوں- باقی رہے روپے‘ سو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہو سکتا- اس آفیسر نے کہا کہ میں نے نہ ایسا آدمی ہندووں میں دیکھا ہے‘ نہ مسلمانوں میں- میں نے کہا سردار صاحب! ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہو تو پھر کیا بات ہے- سنو! عبدالحی کی ماں اسی بزرگ کی بیٹی ہے- خدا تعالیٰ میری خواہشیں تو یوں پوری کرتا ہے- اب میں غیر کا محتاج بنوں تو یہ عدل نہیں- میں نے نیکوں سے اخلاص کے ساتھ تعلق چاہا تو خدا کو بھی پسند آیا- ہمارے گھر میں باغ لگا دیا- فرط دیئے- عقلمند بھی دیئے- اس واسطے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تمہارا ہتھیار دعا ہو جائے- دعا بڑی نعمت ہے-
) الفضل جلد۱ نمبر۳ ۔۔۔ ۲ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵-۱۶ (
* - * - * - *

۴ / جولائی ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے سورۃ الفرقان کی آیات ۶۲ تا ۷۸ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میری نیت اس رکوع کے سنانے میں یہ ہے کہ کسی کو اس پر عمل نصیب ہو جائے اور وہ اسے اپنا دستور العمل بنائے-
اس میں بتایا ہے کہ رحمن کے پیارے‘ رحمن کے پرستار کون ہیں؟ دیکھو اس وقت تم بیٹھے ہو- سب کی آوازوں میں اختلاف- لباسوں میں اختلاف- مکانوں میں اختلاف- صحبتوں میں اختلاف- مذاقوں میں اختلاف‘ غرض اختلاف ایک فطری امر ہے- اب خدا ہی کا فضل ہے کہ تم ایک وحدت کے نیچے آ گئے- میں کبھی گھبرایا نہیں کرتا کہ فلاں شخص کو کیوں ہمارا خیال نہیں کیونکہ میرے مولیٰ کا ارشاد ہے و لایزالون مختلفین- الا من رحم ربک )ھود:۱۱۹‘۱۲۰-( پس جس پر فضل ہوا وہ اختلاف سے نکل کر وحدت ارادی کے نیچے آ جائے گا-
اس رکوع میں اللہ نے ان باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جن پر چل کر انسان اختلاف سے بچ سکتا ہے-
گالی کا جواب گالی‘ یہ جوانمردی کی بات نہیں- جو ایک گالی پر صبر نہیں کرتا اسے آخر پھر گالیوں پر صبر کرنا پڑتا ہے- اختلاف تو بیشک ہوتے ہیں کیونکہ ہماری فطرتوں میں اختلاف ہے مگر عباد الرحمن کا طریق یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی روش سکینت‘ وقار کی رکھتے ہیں- تکبر و تجبر و عصیان سے کام نہیں لیتے- بھاری بھرکم رہتے ہیں- وہ ہر معاملہ میں صبر‘ عاقبت اندیشی سے کام لیتے ہیں- کیونکہ اختلافوں سے بچنے کی راہ ھون ہے-
میرا ایک استاد تھا- اس نے مجھے نصیحت کی کہ دنیا میں سکھی رہنا چاہتے ہو تو اپنے تئیں ایسا نہ بنائو کہ اپنے خلاف ہونے سے گھبرا جائو اور دوسروں سے لڑنے لگو-
رحمن کے پرستار‘ رحمن کے پیارے وہ ہیں جو سخت بات سننے پر سلامتی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں-
دوم- وہ رات عبادت میں گزار دیتے ہیں- کبھی کھڑے ہو کر جناب الٰہی کو راضی کرتے ہیں‘ کبھی سجدہ میں پڑ کر-
سوم- راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں- اپنے مولیٰ کے آگے گڑ گڑاتے ہیں-
چہارم- وہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو روپیہ ہاتھ لگنے پر جھٹ ناجائز جگہ پر خرچ کر دیتے ہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ضرورت حقہ پر درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں-
پنجم- وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں جانتے اور اپنے تئیں ہلاکت میں نہیں ڈالتے اور نہ قتل کرتے ہیں- نہ زنا کرتے ہیں کیونکہ جو ایسا کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے- رحمن کے پیارے تو ایسے افعال|شنیعہ سے بچتے رہتے ہیں اور سنوار والے کاموں میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں-
خطبہ ثانیہ
دوسرے خطبہ میں فرمایا-
مسلمانوں سے حمد اٹھ گیا- وہ کبھی اپنی حالت پر راضی نہیں ہوتے اور نہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں- جب سے حمد و شکر اٹھا‘ خدا تعالیٰ کا انعام بھی اٹھ گیا- وہ لئن شکرتم لازیدنکم )ابراھیم:۸( کو نہیں سمجھے- تم اللہ تعالیٰ کی بہت حمد کیا کرو- ہماری کتاب بھی الحمد للہ سے شروع ہوتی ہے- ہمارے خطبے بھی الحمد سے شروع ہوتے ہیں- اس خطبہ میں دو بار الحمد ہے الحمد للٰہ نحمدہ- اور اس کے لئے اسی سے مدد طلب کرو اور اللہ کو ہر حال میں یاد رکھو- وہ تمہیں یاد رکھے گا-
) الفضل جلد۱ نمبر۴ ۔۔۔ ۹ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (

۱۱ / جولائی ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے سورہ الفرقان کی آیات ۷۱ تا ۷۸ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
بعض لوگ تو بالکل کافر ہوتے ہیں اور بعض منکرین نہیں ہوتے- اللہ پر‘ اس کی کتابوں پر‘ جزاء و سزا کے مسئلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر پھر بھی جرائم پیشہ ہوتے ہیں- جرائم پیشہ کئی قسم کے ہیں- ایک وہ جن پر پولیس کا قبضہ ہو سکتا ہے- ایک وہ جو پولیس کی نظر سے بچے رہتے ہیں- ان میں سے مدارس کے بعض لڑکے بھی ہیں جو شہوت سے اندھے ہو کر نا کردنی حرکات کرتے ہیں- تاجروں اور حرفہ پیشوں میں بھی جرائم پیشہ ہیں- قسم قسم کے عناد‘ جعلسازیاں اور دھوکے وہ دن رات سوچتے رہتے ہیں- پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو خود تو کوئی جرم نہیں کرتے مگر دو شخصوں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں- غرض بہت سی مخلوق جرائم پیشہ ہے- ان کے لئے یہ علاج فرمایا کہ وہ توبہ کریں- اللہ پر ایمان لائیں- برے کام چھوڑ کر سنوار والے کا م کریں- بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو ملانوں کے وعظ کے دھوکے میں آ کر جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں-
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم بالاخانہ پر رہتے تھے اور نیچے کے کمرے میں ہمارا کتب خانہ تھا- میرے بھائی|صاحب کتب خانہ میں گئے- کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ملاں کتابوں کی گٹھڑی باندھ رہا ہے- وہ حیران سے رہ گئے کیونکہ اس پر ان کا بہت نیک گمان تھا- اتنے میں وہ گٹھڑی چھوڑ کر بھاگ گیا- تھوڑی دیر کے بعد ایک کتاب لایا جس میں لکھا تھا- کوئی ہزار چوری کرے‘ ڈاکے ڈالے‘ قتل کر دے‘ زنا کا مرتکب ہو‘ یہ کلام پڑھ لے تو سب کچھ معاف ہو جاتا ہے- اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’’ہر کہ دریں شک آرد کافر گردد-‘‘ جو اس مسئلہ کے موافق ہونے میں شک کرے گا وہ کافر- ملاں نے کہا بے شک میں آپ کی کتابوں کی گٹھڑی چوری لے چلا تھا اور اس سے پہلے بھی کئی کتابیں چرائی ہیں- مگر یہ کلام‘ یہ دعا میں ہر روز کئی بار پڑھ لیا کرتا ہوں- اب اس میں میرا کیا قصور ہے؟
اسی طرح بعض لوگ جب خدا کی رحمت اور مغفرت کی بعض بے سروپا روائتیں سن لیتے ہیں تو دلیر ہو جاتے ہیں- مگر سب کا یہ حال نہیں - میں نے بڑے بڑے نیک لوگ دیکھے ہیں - ان میںسے ایک بزرگ کا ذکر ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کاشت کرتے تھے- خدا رسیدہ تھے- جب کوئی حکام سے سفار ش کے لئے کہتے تو اپنی سادگی سے جس حال میں ہوتے چل پڑتے- ایک دفعہ کسی غریب نے سفارش کے لئے عرض کیا- اس وقت کھیت کو پانی دے رہے تھے- اسی طرح ’’کہی‘‘ کندھے پر رکھے‘ پائوں گھٹنوں تک کیچڑ سے بھرے ہوئے کچہری میں چلے گئے- تحصیلدار جس کے پاس گئے تھے اس نے بدگمانی سے کام لیا- وہ سمجھا یہ مکار آدمی ہے- اس نے جھڑک دیا- آپ نے کہا اچھا! اب تم نے غصہ تو نکال لیا- سفارش قبول کر لو- تحصیلدار نے پرواہ نہ کی- بلکہ کہا جائو جی تم جیسے کئی دیکھے ہیں- آپ واپس چلے گئے- ایک مولوی صاحب پاس بیٹھے تھے- انہوں نے تحصیلدار کو یقین دلایا کہ یہ ایسا ویسا آدمی نہیں- اس کے کہنے سننے سے تحصیلدار نے کہا اچھا بلا لائو- وہ گئے اور عرض کیا- میاں صاحب! آپ کو پہچانا نہیں- فرمایا- اب تو یہ معاملہ عرش تک پہنچ گیا- اب وہاں سے موڑنا میرا کام نہیں- انہوں نے کہا پھر کیا ہو گا؟ کہنے لگے تیسرے دن دیکھ لو گے- آخر یوں ہوا کہ وہ ایک مقدمہ میں گرفتار ہو گیا- تین برس بامشقت قید کی سزا ہوئی- جیل خانہ سے تبدیل ہوئے- اونٹ پر سوار کرایا گیا- گرا اور ہڈیاں ٹوٹ گئیں-
غرض نیکوں کو نیکی کی جزا اور بدوں کو بدی کی سزا ملتی ہے- جزاء و سزا کا مسئلہ بر حق ہے- جو اللہ اور رسول کو مان کر پھر بھی جرائم پیشہ ہیں وہ توبہ کر لیں تو اللہ ان پر اپنا فضل کرے گا-
رحمن کے پیارے جھوٹ اور لغو باتوں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں اور جب ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر نہیں سنتے- میرا جی نہیں چاہتا کہ تم اندھے بہرے بنو- ہم تمہیں بہت قرآن مجید سناتے ہیں اور اللہ جانتا ہے تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے- بلکہ ہم تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمیں تمہارے سلاموں کی‘ تمہاری تعظیم کی بھی ضرورت نہیں- ہمیں ہمارا مولیٰ بڑھ بڑھ کر رزق دیتا ہے اور ایسی جگہ سے دیتا ہے کہ تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو- اور یہ پیری مریدی کا روپیہ تو میں ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہیں رکھتا تھا بلکہ فوراً مولوی محمد علی کو بھیج دیتا- مگر گزشتہ سے پیوستہ سال کا ذکر ہے- مجھے کسی نے کہا ہم تمہاری نگرانی کریں گے- تب میں نے کہا اچھا! لوگ کہاں تک اور کتنی نگرانی کر سکتے ہیں- ایک ہزار کسی نے دیا- میں نے گھر میں رکھ لیا- پھر ایک شخص نے پانچ سو دیا وہ بھی میں نے رکھ لیا اور خوب تحقیقات کی کہ آیا کسی کو معلوم ہے؟ ہرگز کسی کو کچھ پتہ نہ تھا- تب میں نے ایک شخص کو بتلایا کہ ڈیڑھ ہزار روپیہ میرے پاس ہے- وہ تم لے جائو- مگر کوئی تحقیق کر کے بتائے تو سہی کہ روپیہ کس نے دیا اور کہاں سے آیا؟ مجھے خوب معلوم تھا دینے والا کبھی ذکر نہیں کرے گا- غرض اللہ ہی نگرانی کر سکتا ہے-
رحمن کے پیارے دعائوں میں لگے رہتے ہیں اور اپنی بیوی‘ اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں- اور دعا کیوں نہ کریں- حکم ہوتا ہے- اگر تم دعائوں سے کام نہ لو تو اللہ کو تمہاری کیا پروا ہے اور تم ہو ہی کیا چیز؟
آج میرے نفس نے اجازت نہ دی کہ میں جمعہ پڑھانے آئوں کیونکہ مجھے تکلیف ہو گئی تھی- پھر میں نے سوچا کہ شاید یہی جمعہ آخر کا جمعہ ہو- اللہ تمہیں دعائوں اور اعمال حسنہ کی توفیق دے-
) الفضل جلد۱ نمبر۵ ۔۔۔ ۱۶ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۱۸ / جولائی ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے سورۃ الاعلیٰ تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا-
ہر اس شخص پر جو قرآن پر ایمان لایا‘ جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مانا‘ جو اللہ پر ایمان لایا‘ اس کی کتابوں پر ایمان لایا‘ فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ کے کسی نام پر کوئی آدمی اعتراض نہ کرنے پائے- اگر کرے تو اس کاذب کرے- اس لئے ارشاد ہوتا ہے سبح جناب الٰہی کی تنزیہ کر- اس کی خوبیاں‘ اس کے محامد بیان کر-
تسبیح کے کیا معنے ہیں؟
میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے- جب جناب الٰہی اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں‘ اور وہ سزا اسی کی شامت اعمال سے ہی ہوتی ہے جیسے فرمایا و ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم )الشوریٰ:۳۱‘( تو وہ شکایت کرنے لگتے ہیں- مثلاً کسی کا کوئی پیارے سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الراحمین کو ظالم کہتے ہیں- بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں اور اگر بارش زیادہ ہو تب بھی خدا تعالیٰ کی کامل حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں- اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس و تسبیح کرے- آپ کے کسی اسم پر کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے- اب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں کوئی برا کہے یا تمہارے ماں باپ یا بھائی بہن یا محبوب کو سخت |سست| کہہ دے تو تمہیں بڑا جوش پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہو- لیکن جس وقت اللہ کے کسی فعل پر کہ وہ بھی اس کے کسی اسم کا نتیجہ ہیکوئی نادان یا شریر اعتراض کرتا ہے تو تم کہتے ہو- جانے دو‘ کافر ہے- بکتا ہے- اس وقت تمہیں یہ جوش نہیں آتا- حالانکہ جن کے لئے تم نے اتنا جوش دکھایا‘ ان میں تو کچھ نہ کچھ نقص یا عیب و قصور ضرور ہو گا- مگر اللہ تو ہر برائی سے منزہ‘ ہر حمد سے محمود ہے- ہر وقت تمہاری ربوبیت کرتا ہے- اب جو اس کے اسماء کے لئے اپنے تئیں سینہ سپر نہیں کرتا وہ نمک حرام ہی ہے اور کیا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوئی پڑھے ہوئے ہیں جو لوگوں سے مباحثے کرتے پھریں- تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی ان کے ماں باپ یا بھائی بہن کو یا کسی دوست کو یا خود ان کو برا کہہ دے تو وہ ناخواندگی یاد نہیں رہتی اور سنتے ہی آگ ہو جاتے ہیں اور پھر جس طریق سے ممکن ہو اس کا دفاع کرتے ہیں- مگر جناب الٰہی سے غافل ہیں- اسی طرح خدا کے برگزیدوں پر طعن کرنا دراصل خدا تعالیٰ کی برگزیدگی پر طعن رکھنا ہے- اس کے لئے بھی مومنوں کو غیرت چاہئے- بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے شیعہ محلہ میں رہتے ہیں- ان کے تبرے سنتے سنتے کچھ ایسے بے غیرت ہو جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں صحابہؓکو برا کہنا معمولی بات ہے- حالانکہ ان کی برائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہے جس نے ان کو تیار کیا-
اسی طرح عیسائی مشنری بڑی بداخلاق قوم ہے- عیسائی مشنریوں کے اخلاق! کوئی خلق ان میں ہے ہی نہیں- ایک شخص نے کہا ان کی تعلیم میں تو اخلاق ہے اور ایک نے کہا ان میں بڑا خلق ہے- ایسا کہنے والے نادان ہیں- ان کے ہاں ایک عقیدہ ہے نبی معصوم کا‘ جس کے یہ معنے ہیں کہ ایک ہی شخص دنیا میں ہر عیب سے پاک ہے- باقی آدم سے لے کر اس وقت تک کے کل انسان گنہگار اور بدکار ہیں- ان لوگوں نے یہاں تک شوخی سے کام لیا ہے کہ حضرت آدمؑ کے عیوب بیان کئے- پھر حضرت نوحؑ کے‘ حضرت ابراہیمؑ کے‘ حضرت موسیٰؑ کے- الغرض جس قدر انبیاء اور راستباز پاک انسان گزرے ہیں ان کے ذمہ چند عیوب لگائے ہیں- پھر ہماری سرکار ہے- احمد مختار صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تو ان کو خاص نقار ہے اور دھت ہے ان کو گالیاں دینے کی- باوجود اس گندہ دہنی کے پھر بھی ایسے لوگوں کو کوئی بڑے اخلاق والا کہتا ہے تو اس کی غیرت دینی پر افسوس- ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے اور تم کو آ کر کہتا ہے میاں! تم بڑے اچھے بڑے ایماندار‘ آئیے تشریف رکھئے- باپ تمہارا بڑا ڈوم‘ بھڑوا‘ کنجر‘ بڑا حرامزادہ‘ سئور‘ ڈاکو‘ بدمعاش تھا- تم بڑے اچھے آدمی ہو اور ساتھ ساتھ خاطرداری کرتا جائے تو کیا تم اس کے اخلاق کی تعریف کرو گے؟
تمام جہان کے ہادیوں کو‘ جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے اور میرا تو اعتقاد ہے‘ ان کو کوئی نہیں گن سکتا‘ بدکار گنہگار کہنے والا‘ ایک شخص کی مزورانہ خاطرداری سے خوش|اخلاق کہلا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کی تو ہتک کرتے ہیں اور تم ان کی نرمی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرو‘ حد درجے کی بے غیرتی ہے-
عیسائی خدا کی شریعت کو *** کہتے ہیں
یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ شریعت کی کتابیں *** ہیں‘ پرانی چادر ہیں- ان کتابوں کو جو حضرت رب العزت سے خلقت کی ہدایت کے لئے آئیں *** کہنا کسی خوش اخلاق کا کام ہو سکتا ہے؟ دیکھو گلتیوں کا خط کہ اس میں شریعت کو *** لکھا ہے-
خدا تعالیٰ کے متعلق عقیدہ
پھر خدا سے بھی نہیں ٹلے- کہتے ہیں اس کا بیٹا ہے تکاد السمٰوٰت یتفطرن منہ و تنشق الارض و تخر الجبال ھدا ان دعوا للرحمٰن ولداً )مریم:۹۱‘۹۲-( پھر اس بیٹے پر اس غضب کی توجہ کی ہے کہ اپنی دعائیں بھی اسی سے مانگتے ہیں- بیٹے پر ایمان لانے کے بدوں کسی کو نجات نہیں- خدا کسی کو علم نہیں بخش سکتا- یہ تو روح القدس کا کام ہے نہ اللہ تعالیٰ کا-
عیسائی مشنریوں کے بداخلاق
غرض اس درجہ بداخلاقی سے کام لینے والوں کو خوش خلق کہنا محض اس بنا پر کہ جب کوئی ان کے پاس گیا تو مشنری نے انجیل دے دی‘ کسی کو روپیہ دے دیا‘ کسی کی دعوت کر دی‘ حد درجے کی بے غیرتی ہے- ان ظالموں نے ہمارے سب ہادیوں کو برا کہا- تمام کتب الٰہیہ کو برا کہا- جناب الٰہی کے اسماء و صفات کو برا کہا- اسے سمیع الدعا‘ علم دینے والا نہ سمجھا- پھر اخلاق والے بنے ہیں- توبہ توبہ- ان کے کفارہ کا الو ہی سیدھا نہیں ہوتا جب تک یہ تمام جہان کے راستبازوں کو اور تمام انسانوں کو گنہگار‘ بدکار اور *** نہ کہہ لیں- ان میں خوش اخلاقی کہاں سے آ گئی-
مومن کا فرض اپنے رب کی تسبیح ہے
ان حالات میں مومن کا فرض ہے کہ جناب الٰہی کی تسبیح کرے- اس کے اسماء کی تسبیح میں کوشاں رہے- اس کے انتخاب شدہ بندوں کی تسبیح کرے- ان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں‘ جو عیوب ان کی طرف شریر منسوب کرتے ہیں ان کا دفاع و ذب کرے اور سمجھائے کہ جنہیں میرا رب برگزیدہ کرے وہ بدکار اور *** نہیں ہوتے- ان کی تسبیح خدا کی تسبیح ہے- یہ معنے ہیں سبح اسم ربک الاعلیٰ )الاعلیٰ:۲( کے-
الذی خلق فسویٰ )الاعلیٰ:۳(
تمہارا خدا تو ایسا ہے کہ اس کی مخلوقات سے اس کی تسبیح و تقدیس عیاں ہے- اس نے خلق کیا اور پھر تمہارے اندر نسل انسانی کو ایسا ٹھیک کیا کہ سب کچھ اس کے ماتحت کر دیا- آگ ‘پانی‘ ہوا سب عناصر کو تمہارے قابو میں کر دیا-
و الذی قدر فھدیٰ )الاعلیٰ:۴(
پھر چونکہ سارے جہان سے اس نے کام لینا تھا اس لئے ہر مخلوق کو ایک ضابطہ و قانون کے اندر رکھا تاکہ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکے اور خدمت لے سکے- مثلاً یہ عصا ہے- میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں- اگر بجائے ٹیک کا کام دینے کے یہ یکدم چھوٹا ہو جائے یا مجھے دبائے یا اپنی طرف کھینچ لے تو میرے کام نہیں آ سکتا- پس اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا- یعنی جس ترتیب سے وہ چیز مفید و بابرکت ہو سکتی ہے اس ترتیب سے اس نے بنا دیا اور پھر انسانوں کو اس سے کام لینا سکھایا-
و الذی اخرج المرعیٰ- فجعلہ غثاء احویٰ )الاعلیٰ:۵‘۶(
پھر ان چیزوں پر غور کریں تو ان کا ایک حصہ ردی اور پھینک دینے کے قابل بھی ہوتا ہے یا ہو جاتا ہے- مثلاً کھیتی ہے- پہلے پھل دیتی ہے- لوگ مزے سے کھاتے ہیں- مگر اس کا ایک حصہ جلا دینے کے قابل ہوتا ہے- اسی طرح انسانوں میں سے جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور انبیاء اور ان کی پاک تعلیم سے روگردانی کرتے ہیں وہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے- ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ پڑھاتا ہے اور وہ یاد رکھتا ہے- جس قدر اللہ چاہے اس میں سے بھول بھی جاتاہے- غرض اس نے اپنی پاک راہوں کو دکھانے کے لئے اپنی تعلیم بھیج دی ہے اور بتا دیا ہے-
انہ یعلم الجھر و ما یخفیٰ )الاعلیٰ:۸(
نیکی سیکھنے اور اس پر چلنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ کو دانائے آشکار و غیب جانے- دیکھو میں اس مقام پر کھڑا ہوں- یہ مقام چاہتا ہے کہ میں گند نہ بولوں- بدی کی راہ نہ بتائوں- نیک باتیں جو مجھے آئیں تمہیں سنا دوں- ہاں ایک امر مخفی بھی ہے وہ یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑا ہوں یا ریاء و حرص کے لئے- جیسا کہ کشمیر میں واعظ کرتے ہیں- گھنٹوں منبر پر کھڑے رہتے ہیں- ایک شخص آ کر کہتا ہے- حضرت! اب بس کرو- جمعہ کا وقت تنگ ہو گیا- وہ کہتے ہیں- بس کیا خاک کریں‘ ابھی تو دو آنے کے پیسے بھی نہیں ہوئے- تب ایک شخص اٹھتا ہے اور چندہ کرتا ہے اور اسی طرح اس سے رہائی حاصل کرتے ہیں- اسی طرح تم کو کیا خبر میرے دل میں کیا درد ہے اور کتنی تڑپ ہے- دوسری طرف تم یہاں جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دلوں کی کیا خبر کہ ان میں کیا ہے؟ کیونکہ آخر تمہیں میں سے ہیں جو میری مخالفتیں کرتے ہیں- میری ہی نہیں میرے گھر تک کی بھی- گو نادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں- سنبھل کر کام کرو- ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جائے- ایک جگہ اخفیٰ کو سر کے مقابلہ میں رکھا ہے- چنانچہ فرماتا ہے یعلم السر و اخفیٰ )طٰہٰ:۸-( وہاں منشاء باری تعالیٰ یہ ہے کہ میں ان خیالات کو بھی جانتا ہوں جو آج سے سال یا دو سال یا اس سے زیادہ مدت بعد تمہارے اندر پیدا ہوں گے اور اب خود تمہیں بھی معلوم نہیں- ایسے نگران علیم و خبیر‘ لطیف و بصیر خدا سے ڈر جائو اور نافرمانی نہ کرو-
فذکر ان نفعت الذکریٰ )الاعلیٰ:۱۰(
ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں- اور اللہ فرماتا ہے کہ نصیحت کرتے رہو- نصیحت ضرور سودمند ہوتی ہے- میرا جی چاہتا ہے کہ تم باہر والوں کے لئے نمونہ بنو- تمہارا لین دین‘ تمہاری گفتار‘ رفتار‘ تمہارا چال|و|چلن‘ )تمہارا سر و علن( تمہارا اٹھنا بیٹھنا‘ تمہارا کھانا پینا‘ ایسا ہو کہ دوسرے لوگ بطور اسوہ حسنہ اسے قرار دیں- میں افسوس کرتا ہوں کہ یہاں بدمعاملگی بھی ہوتی ہے- بدزبانی بھی ہوتی ہے- بدلگامی بھی ہوتی ہے اور اس سے مجھے رنج پہنچتا ہے- تم اللہ کو علیم و خبیر‘ بصیر مان کر اپنے آپ کو بدیوں سے روکو- یہ بھی ایک قسم کی تسبیح ہے- جب تم ایسا کرو گے تو دوسرے لوگوں کا ایمان بھی بڑھے گا- اللہ توفیق دے-
) الفضل جلد۱ نمبر۶ ۔۔۔۔ ۲۳ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۲-۱۳ (
* - * - * - *
‏KH1.38
خطبات|نور خطبات|نور
۲۵ / جولائی ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی تلاوت کی اور پھر فرمایا-:
ایک دفعہ میں لاہور میں تھا- بڑی مدت کی بات ہے- وہاں ٹھنڈی سڑک پر ہم تین آدمی جا رہے تھے- ایک نے کہا- قرآن میں تو لکھا ہے کہ و لقد یسرنا القراٰن )القمر:۱۹( مگر قرآن تو بہت مشکل ہے- میں نے کہا یہ بہت سچا کلمہ ہے- قرآن کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ بھی سچائیاں اور الٰہی صداقتیں‘ جن میں خدا تعالیٰ کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت اور اس کے قوانین و اصول ہو سکتے ہیں‘ وہ سب قرآن میں موجود ہیں- اگر یہ تمام صداقتیں دیگر آسمانی کتب سے خود جمع کرنی پڑتیں تو کس قدر مشکل بات تھی اور پھر مزید برآں یہ کہ مدلل و مفصل موجود ہیں- چنانچہ دوسرے موقع پر فرماتا ہے- nsk] [tag لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب و المشرکین منفکین حتٰی تاتیھم البینۃ- رسول من اللہ یتلوا صحفاًمطھرۃ- فیھا کتب قیمۃ )البینہ:۲تا۴( ساری مضبوط تعلیمات اور ہدایات کی جامع کتاب حضرت قرآن ہے جس نے تمام اگلی صداقتوں کو بھی بہتر سے بہتر اور عمدہ سے عمدہ رنگ میں فرمایا ہے-
اس قرآن کے بارے میں فرماتا ہے کہ سنو! میں اللہ علم والا ہوں- یہ وہ کتاب ہے جس میں ہلاکت کی راہ نہیں- کتاب کے لفظ پر علم اشتقاق میں بڑی بحث ہے- چھ لفظ جو اس مادہ سے مشتق ہیں ان میں جمعیت کے معنے پائے جاتے ہیں- کتیبہ لشکر کو کہتے ہیں- پس یہ کتاب ہزارہا شبہات کے مقابلہ کے لئے کافی ہے- کیا ہی پاک روح تھی وہ جس کے منہ سے نکلا حسبنا کتاب اللہ- اس فقرے پر ایک قوم رنجیدہ ہے- اس کے ایک فرد نے مجھ پر بھی اعتراض کیا تو میں نے اس سے پوچھا آپ حسبنا کے کیا معنی کرتے ہیں؟ اس نے کہا کافیک- میں نے کہا یہ تو قرآن مجید ہی کا قول ہے- وہ فرماتا ہے او لم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلیٰ علیھم ان فی ذٰلک لرحمۃ و ذکریٰ لقوم یومنون )العنکبوت:۵۲( کیا ان کے لئے یہ کتاب کافی نہیں جو ہم نے ان پر اتاری- یہی حضرت عمرؓ نے کہا- ذٰلک الکتاب سے ظاہر ہے کہ یہی ایک کتاب ہے اور کوئی ہے ہی نہیں- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تو یہاں تک ادب کیا ہے کہ اپنی آنکھ سے کوئی کتاب دیکھی ہی نہیں- ہاں‘ ایک دفعہ موقع فاتوا بالتوراۃ فاتلوھا )اٰل عمران:۹۴( سے نکلا تھا مگر تورات بھی آپﷺ~ کے سامنے کوئی نہ لایا-
ریب کے معنے شک اور ہلاکت کے ہیں- ہلاکت کی کوئی تعلیم قرآن کریم میں نہیں جس سے انسان کا دین و دنیا تباہ ہو جائے- ایسا ہی شک کی کوئی بات نہیں- شک اگر ہو گا تو اس شخص کے دل میں ہو گا جو قرآن کا مخالف ہے- غرض قرآن میں کوئی شک نہیں- پھر اس کو ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا )البقرۃ:۲۴( میں کھول دیا ہے-
یہ کتاب ہر ایک قوم کے لئے جو متقی ہو چکی ہے یا ہو گی یا اس وقت ہے‘ ہدایت نامہ ہے- اس کے مبادی میں ایمان بالغیب شرط ہے- کیونکہ دنیا میں بھی جس قدر علم صحیح ہیں سب کا مدار فرض یا غیب پر ہے- علم ہندسہ ہے- اس میں جمع اور تفریق ہی ہے کیونکہ ضرب کیا ہے؟ امثال کی جمع- تقسیم کیا ہے؟ امثال کی تفریق- اور اس جمع تفریق کی بنا فرض ہے- چار روپے دس آنہ- دو ہزار پانچ روپے دو پائی- غرض کوئی روپیہ ہو وہ اس وقت کہاں ہوتا ہے- فرضی طور پر جمع یا تفریق کیا جائے گا- اسی طرح علم|مساحت‘ انجنیرنگ‘ ڈاکٹری‘ تجارت‘ زراعت میں پہلے ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے- کاشتکار بیج کو زمین میں سپرد خاک کرتا ہے- اسے کیا معلوم کہ یہ بیج کیسا ہو گا اور کتنا پھل لائے گا؟ پولیس بھی ایماندار ہو تو اپنی کارروائی پہلے غیب پر شروع کرے گی پھر صحیح نتیجہ پر پہنچے گی- اسی طرح ایک مبتدی پہلے اللہ پر‘ ملائکہ پر‘ کتب پر‘ حشر و نشر پر ایمان بالغیب لائے گا پھر اس کتاب کے ذریعہ ہدایت پاکر وہ ان سب کا علم|الیقین حاصل کر لے گا- مگر یہ ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو دعا مانگنے کا عادی ہو- صدقہ و خیرات کرتا ہو-
صدقہ و خیرات کی ترغیب کے لئے کیا عمدہ فرمایا مما رزقنٰھم )البقرۃ:۴( کہ جس چیز سے خرچ کے لیے کچھ ارشاد کرتے ہیں‘ وہ تمہاری نہیں بلکہ ہماری دی ہوئی ہے- پھر سب نہیں مانگتے بلکہ اس میں سے کچھ- پھر یہ رزق عام ہے‘ صرف مال مراد نہیں-
جو لوگ ان نیکیوں میں بڑھتے بڑھتے پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور جو کچھ تیرے پر نازل ہوا‘ اسے مانتے ہیں اور اس کے بعد جو وحی ہو اس پر بھی ایمان لانے کو تیار ہیں وہ ہدایت پر گویا سوار ہیں- کفر گیرد کاملے ملت شود- دیکھو مکہ کی طرف سجدہ دین بن گیا کیونکہ یہ ایک کامل کا فعل ہے-
برخلاف اس کے جو یکدم انکار ہی کر بیٹھے- اور ان کا حال جملہ معترضہ سواء علیھم ئ|انذرتھم ام لم تنذرھم )البقرۃ:۷( میں بتا دیا کہ ان کے لیے انذار اور عدم انذار مساوی ہے یعنی حق کی پرواہی نہیں- وہ نہ حق بات سنتے ہیں‘ نہ حق دیکھتے ہیں‘ نہ اس پر غور کرتے ہیں- اسی سزا میں ان پر مہر لگا دی گئی- ’’آہنے را کہ زنگ خورد از مصقلہ صاف نہ گردد-‘‘ یہ فتویٰ لایومنون )البقرۃ:۷( سب کے حق میں نہیں- اس لئے یہ اعتراض صحیح نہیں کہ پھر بعض کافر ان میں سے مسلمان کیوں ہو گئے؟ چنانچہ سورۃ یٰس میں فرمایا- لقد حق القول علیٰ اکثرھم فھم لایومنون ) یس : ۸ ( یعنی اکثر پر ایسا فتویٰ لگتا ہے جس کی وجہ بھی بتا دی کہ سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون- ہدایت تو وہ پاتے ہیں جن میں ایمان بالغیب‘ صدقہ و خیرات اور حق کی شنوائی‘ حق کی بینائی ہو- انما تنذر من اتبع الذکر و خشی الرحمٰن بالغیب فبشرہ بمغفرۃ و اجر کریم )یٰس:۱۲|(
) الفضل جلد۱ نمبر۷ ۔۔۔۔ ۳۰ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

یکم اگست ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏]c42dahe [tagخطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
الحمد ام القرآن ہے
یہ ایک سچی اور پکی بات ہے- الحمد شریف کے اندر تمام قرآن اللہ نے درج فرمایا ہے- الحمد شریف گویا خلاصہ ہے قرآن مجید کا-
اللہ تمام اسماء حسنیٰ کا جامع ہے
جیسا کہ اللہ کے جس قدر نام ہیں اللہ کے ماتحت ہیں‘ اللہ کا لفظ بیان فرما کر پھر صفات کاملہ کا بیان ہوتا ہے- اس واسطے اللہ کے معنوں کے نیچے ایک تو یہ بات ہے کہ وہ ساری خوبیوں کا جامع ہے- جہاں تنزیہ کا ذکر ہے وہاں اللہ کا ذکر لا کر یہ ذکر کرتا ہے کہ ہر عیب سے پاک ہے- ان دو باتوں کے بعد فرماتا ہے لاتسجدوا للشمس و لا للقمر و اسجدوا للٰہ الذی خلقھن- )حٰم السجدۃ:۳۸-( چونکہ وہ سارے محامد کا جامع اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے اس لئے اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں- پھر اللہ کی صفت صمد ہے- صمد کے معنے خود ہی دوسرے مقام پر کھول کر بتائے ہیں - انتم الفقراء الی اللہ و اللہ ھو الغنی الحمید )فاطر:۱۶( تم سب محتاج ہو- غیر محتاج صرف اللہ کی ذات ہے- غرض اللہ کے لفظ کے جو معنی ہیں کہ ساری خوبیوں والا اور ساری برائیوں سے منزہ اور پاک‘ معبود|حقیقی‘ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ناجائز ہے- یہ خلاصہ ہے تمام کلام الٰہی کا اور اسی کا ذکر ہر رکوع بلکہ ہر آیت میں ہے-
بعض کتابوں میں اللہ کا ذکر تک نہیں ہوتا
بخلاف اس کے دیگر کتابیں ہیں کہ ان کے صفحے کے صفحے پڑھ جائو‘ ان میں خدا کا نام تک نہ نکلے گا- بائبل میں ایک کتاب ہے- اس میں اللہ کا ذکر ضمیر کے رنگ میں بھی نہیں حالانکہ اسے بھی کتب مقدسہ میں سے سمجھتے ہیں- مگر قرآن مجید میں تو کوئی رکوع ایسا نہیں جہاں عظمت الٰہی کا ذکر نہ ہو-
الحمد میں تین قوموں کا ذکر
الحمد میں تین قوموں کا ذکر فرمایا ہے- ایک منعم علیہم- دوم مغضوب علیہم- مغضوب کا فاعل نہیں بیان کیا- کیونکہ ان پر خالق بھی غضبناک ہے اور مخلوق بھی- سوم ضالین کا- اب اس کی تفصیل میں پہلے رکوع میں منعم علیہم کا بیان کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں- مقیم|الصلٰوۃ ہوتے ہیں- منفق فی سبیل اللہ ہوتے ہیں- مومن بما انزل الیک و من قبلک ہوتے ہیں اور مومن بالآخر- اس کے بعد مغضوبوں کا ذکر کیا کہ ان کے دل حق کے شنوا‘ زبان حق کی گویا نہیں ہوتی اور بہرے‘ اندھے تکالیف کے لحاظ سے عذاب میں ہوتے ہیں- اس لئے فرمایا و لھم عذاب الیم )البقرۃ:۸-( اب فرماتا ہے کہ ضال لوگ کس طرح ہوتے ہیں؟ یہ بیان دو رکوع میں ہے- چنانچہ اولٰئک الذین اشتروا الضلالۃ بالھدیٰ )البقرۃ:۱۷( فرما کر بتا دیا کہ یہ ضالین کا بیان ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت کو مول لیا ہے- اور اس سے اگلے رکوع میں یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً و ما یضل بہ الا الفٰسقین )البقرۃ:۲۷-( فرمایا کہ ضالین وہ ہیں جو بدعہد ہیں- غرض انعمت علیھم کا نام متقی‘ مغضوب کا نام لایومن- ضالین کا ذکر ان دو رکوعوں میں ہے-
اب ایک اور بات قابل سمجھنے کے ہے- بہت سے لوگ پڑھے ہوئے یا ان پڑھ ایسے ہیں کہ انہوں نے غضب ڈھایا ہے کہ وہ عمل کو جزو ایمان نہیں مانتے- وہ کہتے ہیں عمل ہو یا نہ ہو عقیدہ تو اچھا ہے- بعض لوگوں نے تو یہاں تک اس میں غلو کر لیا ہے کہ وہ دعویٰ ایمان باللہ و بالآخرۃ کا کرتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے- ’’ما‘‘ کے بعد جو ’’ب‘‘ آئے تو معنے بالکل کے ہوتے ہیں- یعنی بالکل مومن نہیں-
اب تم اپنی اپنی جگہ غور کرو کہ تمہارے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم مومن ہیں‘ ہم احمدی ہیں‘ ہم مرزائی ہیں‘ دلائل کیا ہیں؟ ایسا نہ ہو کہ تم کہو- اٰمنا باللہ و بالیوم الاٰخر )البقرۃ:۹( اور خدا تعالیٰ فرمائے- و ما ھم بمومنین )القبرۃ:۹-(
دیکھو! ایسے لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ ان کے افعال کو دیکھیں تو اللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں- کہیں مخلوق کا لحاظ ہے‘ کہیں رسم و عادت کا‘ کہیں دم نقد فائدے کا- مگر انہوں نے اللہ کو کیا چھوڑنا ہے اپنے تئیں محروم کیا ہے- فان اللہ غنی عن العالمین )اٰل عمران:۹۸( اور اس کا وبال ان کی اپنی جان پر ہے- ہمارے نبی نے تو تصدیق کو بھی اعمال سے گنا ہے- فرمایا النفس تمنیٰ و تشتھی و الفرج یصدق )بخاری- کتاب القدر( انسان کا نفس کچھ خواہشیں کرتا ہے جن کا علم کسی کو نہیں ہوتا اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے- گویا عمل کا نام بھی تصدیق ہے- غرض اعمال ایمان کا جزو ہیں-
فی قلوبھم مرض
صرف زبانی دعویٰ کرنے والوں کے دلوں میں‘ جنہیں نہ قوت فیصلہ‘ نہ تاب مقابلہ‘ مرض ہے- اللہ اس مرض کو بڑھائے گا اس طرح پر کہ جوں جوں اسلام کے مسئلے بڑھیں گے ان کے دل میں شبہات بڑھیں گے یا یہ عملی طور پر انکار کریں گے- پھر یہ چھوٹی سی جماعت کے مقابل میں گیدی ہیں تو بڑوں کے سامنے کیا کچھ بزدلی نہ دکھائیں گے یا تھوڑے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت سے مسائل کا فیصلہ کیا کریں گے؟ چونکہ انہوں نے جھوٹا دعویٰ ایمان کا کیا اس لئے ان کو دکھ دینے والا عذاب ہے- ایسی مخلوق کو جب واعظ وعظ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ خطرناک ہے‘ تم دنیا میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ توبہ‘ ہم فسادی ہیں؟ ہم تو ’’با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام‘‘ کے اصل پر چل کر سب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں اور بڑی سنوار والے ہیں- اللہ فرماتا ہے الا انھم ھم المفسدون )البقرۃ:۱۳( یہی بڑے مفسد لوگ ہیں کہ دعوے زبان سے کچھ ہیں‘ ہاتھ سے کچھ کرتے ہیں- ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں- حضرت نبی کریمﷺ~ نے فرمایا- میرا جی چاہتا ہے کہ جب تکبیر ہو جائے تو میں دیکھوں کون کون جماعت میں نہیں آیا اور ان کے گھر جلادوں- مگر باوجود اس کے کئی لوگ جو نماز باجماعت نہیں پڑھتے‘ تم ان میں سے نہ بنو- منافق اصل میں بڑا مفسد ہوتا ہے- اس میں شعور نہیں ہوتا- خدا تمہیں سمجھ دے- جو میں نے کہا ہے اسے سمجھو-
) الفضل جلد۱ نمبر۸ ۔۔۔ ۶ / اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۸ / اگست ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ رکوع دوم کی تلاوت کے بعد فرمایا-
ایک زمانہ ایسا بھی اسلام پر گذرا ہے جب علماء نے کہا کہ اب دو ہی قسم کے آدمی ہیں- کافر یا مومن- منافق نہیں- اب اس زمانے کا حال دیکھ کر تعجب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں- زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر مومن نہیں- کیونکہ ان کے عقائد سے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں- عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کس طرح ہوتی ہے؟ اور میں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور خدا کے اس فضل کو ایمان کھینچتا ہے- اس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے- پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیز نہیں- حالانکہ کون دنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے- پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاس لگنے پر اس سے پیاس نہ بجھائے- ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جب ایمان ہے پانی پیاس بجھاتا ہے تو پیاس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے- پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قرآن مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزاء سزا ضروری ہے اور پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو- بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے مقابل میں دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچے ہیں- منہ سے بہت باتیں بناتے ہیں مگر عملدرآمد خاک بھی نہیں-
ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں- مگر اپنے شیاطین‘ اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں- ان کو حقیر سمجھتے ہیں- استہزا ھز ء سے نکلا ہے- ہلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جا سکتا ہے اس لئے استہزاء تحقیر کو کہتے ہیں-
اللہ ان کو ہلاک کرے گا کسی کو جلد‘ کسی کو دیر سے- اللہ تو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حدبندیوں کی پرواہ نہیں کرتے- حدبندی سے جوش نفس کے وقت یوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آ کر کناروں سے باہر نکل جائے- ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں- یہ تجارت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیں- ان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے میں نے طب میں دیکھا ہے کہ بعض وقت نرم کھچڑی شدت صفرا کی وجہ سے نہایت تلخ معلوم ہوتی ہے- یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرض قلبی کے آگاہ نہیں- پس ایسے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لئے- جیسے کوئی آدمی جنگل میں آگ جلائے تو اس سے یہ فائدہ اٹھا لیتا ہے کہ شیر‘ چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے- اسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اقرار کر کے مصائب سے عارضی طور پر بچائو کر لیتا ہے لیکن بعد میں بلائیں ‘جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں- اس کا نفاق کھل جاتا ہے- پھر کچھ سوجھ نہیں پڑتا- غرض اپنا ظاہر کچھ‘ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اٹھاتے ہیں-
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے پر ٹھٹھا نہ کرو- بدظنی سے کام نہ لو- مسلمانوں میں بدظنی بڑھتی جاتی ہے- واعظ بھی وعظ کرتا ہے تو کہتے ہیں باتیں بنا رہا ہے- ایسے لوگوں میں سے نہ بنو- یہ لوگ خطرناک راہ پر چل رہے ہیں- بہرے ہیں‘ کان رکھتے نہیں کہ کسی رہنما کی آواز سنیں- اندھے ہیں‘ آنکھیں رکھتے نہیں کہ خود نشیب و فراز دیکھ لیں- گونگے ہیں‘ زبان رکھتے نہیں کہ کسی سے رستہ پوچھ لیں- پس وہ کسی موذی چیز سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟
منافقوں کی مثال اس شخص کی مثال ہے جس پر مینہ برستا ہو‘ گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا رہا ہو- جب ذرا بجلی چمکی تو آگے بڑھے ورنہ وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے- جب کوئی فائدہ پہنچا تو اسلام کے معتقد بنے رہے- جب کوئی ابتلاء پیش آیا تو جھٹ انکار کر دیا- ایسے لوگ بیوقوف ہیں- جیسے بعض نادان بجلی کی کڑک سن کر پھر کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں حالانکہ روشنی کی رفتار آواز سے تیز ہے اور بجلی اس کڑک سے پہلے اپنا کام کر چکتی ہے-
تم بہت دعائیں کرو- بہت دعائیں کرو- تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے- استغفار بہت کرو- بدظنی چھوڑ دو- تمسخر چھوڑ دو- مسلمانوں کی سلطنتیں آجکل برباد ہو رہی ہیں- انہیں چاہئے کہ سچے دل سے اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لائیں تاکہ اللہ کی نظر شفقت ان پر ہو-
) الفضل جلد۱ نمبر۹۔۔۔۔ ۱۳ / اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۱۵ / اگست ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیات ۲۲-۲۳ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
انسان کی فطرت میں اللہ نے ایک عجیب صفت رکھی ہے کہ جس وقت کوئی شخص اس سے نیکی کرتا ہے تو نیکی کرنے والے کی محبت اس کے دل میں ضرور ہوجاتی ہے- یہ بات انسان تو کیا‘ درندوں اور پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے- میں نے باز کو دیکھا ہے کہ وہ میرباز کے ہاتھ سے اڑ کر اتنی دور تک اوپر چلا جاتا ہے جہاں کسی بادشاہ‘ کسی وزیر‘ کسی حاکم کی دسترس نہیں ہو سکتی مگر وہ احسان کا گرویدہ ایسا ہوتا ہے کہ بلانے پر فوراً واپس چلا آتا ہے- جس وقت وہ شکار پر جھپٹتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ اس کا پنجہ تو شکار پر ہوتا ہے مگر آنکھ مالک کی طرف ہوتی ہے کہ دیکھ میں نے کیسا کام کیا ہے-
’’ بیا ‘‘ کیا چھوٹا سا جانور ہے- جو لوگ ان کو سدھاتے ہیں‘ ان سے احسان کرتے ہیں‘ ان کے ایسے مطیع فرمان ہوتے ہیں کہ وہ دونی کنوئیں میں پھینکتے ہیں تو رستہ میں ہی سے جھپٹ کر واپس لے آتے ہیں- توپ کی آواز کیسی شدید ہوتی ہے- میں نے طوطے کو توپ چلاتے دیکھا ہے- چیتے اور شیر کو دیکھا ہے کہ وہ مالک کی آنکھ کے اشارے پر چلتے ہیں- سرکس میں تم لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ جانور کس طرح اپنے مالک کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں- حالانکہ اس مالک نے نہ جان دی ہے‘ نہ وہ کھانے پینے کی چیزیں پیدا کی ہیں- جب ایک معمولی احسان سے اس کی اس قدر اطاعت کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم پر فدا نہ ہو‘ جس نے اسے حیات بخشی‘ رزق دیا‘ پھر قیام کا بندوبست کیا- اس لئے فرمایا کہ منافقو! تم معمولی فائدہ کے اٹھانے کے لئے جہان کا لحاظ کرتے ہو مگر کیوں اس سچے مربی کے فرمانبردار نہیں ہوتے جو تمام انعاموں کا سرچشمہ ہے؟ کم عقلو! اس نے تمہیں پیدا کیا- پھر تمہارے باپ دادا کو بھی پیدا کیا- پھر فرمانبرداری کرنے میں اللہ کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ تم ہی دکھوں سے بچو گے اور سکھ پائو گے- دیکھو اس نے تم پر کیسے کیسے احسان کئے ہیں- تمہارے لئے زمین بنائی جو کیسی اچھی آرامگاہ ہے- پھل پھول اور طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی ہے جسے تم کھاتے ہو- پھر آسمان کو بنایا جیسے ایک خیمہ ہے- وہ زمین کے ساتھ ساتھ چلتا ہے- پھر بادلوں سے پانی اتارا- اس سے رنگارنگ کے پھل اگائے- یہ فضل ہوں اور پھر تم اس کا ند بنائو‘ بڑے افسوس کی بات ہے-
ند بنانا کیا ہے؟ سنو! یہ کہنا کہ دوست آ گیا تھا‘ اس کی خاطر تواضع میں نماز رہ گئی- بچوں کے کپڑوں‘ بیوی کے زیوروں کی فکر تھی‘ نماز میں شامل نہ ہو سکا- رات کو ایک دوست سے باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی‘ اس لئے صبح کی نماز کا وقت نیند میں گزر گیا- غور کرو اس دوست یا اس شخص نے جس کے لئے تم نے خدا کے حکم کو ٹالا‘ ویسے احسان تمہارے ساتھ کئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے تم سے کئے؟ اسی طرح آجکل مجھے خط آ رہے ہیں کہ بارش ہو گئی ہے- تخم ریزی کا وقت ہے- اگر آپ اجازت دیں تو روزے پھر سرما میں رکھ لیں گے- یہ خدا تعالیٰ کے احکام کا استخفاف ہے- اس سے توبہ کر لو- یہ اپنے دنیاوی کاموں کو خدا کا ند بنانا ہے جو کفران نعمت ہے-
اس کا سب سے بڑا انعام تم پر یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی- اگر تم کو یہ شک ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ بناوٹی ہے اور انسانی کلام ہے تو تم بھی کوئی ایسی کتاب لائو بلکہ اس کتاب کے ایک ٹکڑے جیسا ٹکڑا بنا کر دکھائو- ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قرآن کو توڑ موڑ کر اپنے مطلب کا ترجمہ کر لیتا ہے- میں کہتا ہوں جیسا تمہارا سنانے والا ہے ایسا کوئی سنانے والا لائو- میں تمہیں کہتا ہوں جھوٹ نہ بولو- کیا تم کوئی ایسا مترجم لا سکتے ہو جو کہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ جھوٹ بولا کرو- میں کہتا ہوں بدمعاملگی چھوڑ دو تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا‘ بدمعاملگی کیا کرو؟ میں کہتا ہوں تم راستباز بنو- لڑائی چھوڑ دو- آپس کا فساد چھوڑ دو- تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا لڑائی کیا کرو؟ فساد مچایا کرو؟
غرض نہ تو قرآن جیسی کتاب بنا کر لاتے ہو اور نہ اس سے بہتر بنا سکتے ہو تو پھر ڈرو اور بچائو اپنے آپ کو اس آگ سے جس کا ایندھن یہ شریر لوگ اور جس کے بھڑکنے کا موجب یہ معبودان باطل ہیں- جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اعمال صالحہ کئے وہ باغوں میں ہوں گے- جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں- ایمان تو جنات کے رنگ میں متمثل ہو گا اور اعمال صالحہ اس کی نہریں ہیں- جو پاک تعلیم کے نیچے آتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اور پاک آرام میں آتا ہے- ہرآن میں اسے یقین آتا ہے کہ کیا عظیم الشان اور کیا پاک اس کا کلام ہے-
جس نے فسانہ عجائب لکھی ہے جہاں میں طب پڑھتا تھا وہ بھی پڑھتا تھا- میں نے اسے کہا فسانہ|عجائب مجھے پڑھا دو-اس نے کہا اچھا- میں نے فسانہ عجائب آگے رکھ دیا اور اس نے سبق پڑھایا- اس میں ایک فقرہ یہ بھی آ گیا کہ ادھر تو مولوی ظہور اللہ اور ملا مبین اور ادھر قبلہ و کعبہ فلانے مجتہد صاحب- میں نے کہا کیا آپ سنی ہیں؟ اس نے کہا کیونکر؟ میں نے کہا اس ادھر ادھر سے معلوم ہو گیا- حیران ہو کر کہنے لگا یہ نیا نکتہ تم نے بتایا-
اس نے مجھ سے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا اور اس بات پر مجھے فخر ہے کہ شاہ|صاحب کی باتیں مجھے ایک واسطے سے پہنچی ہیں- فرمایا قرآن پڑھو- حق ظاہر ہو گا- عرض کیا‘ عربی نہیں جانتا- فرمایا ہمارے بھائی رفیع الدین نے ترجمہ لفظی لکھ دیا- اگر کچھ شبہ ہو تو کسی مذہب کے عالم سے صرف اس لفظ کا ترجمہ پوچھ لو - پھر مذہب حقیقی کا پتہ لگ جائے گا- میں تو دور تک پہنچا- بس وہ سبق تو فسانہ عجائب کے دوسرے صفحہ تک رہ گیا اور ہمیں قرآن شریف کی بڑی محبت ہو گئی- پھر میں نے دیکھا کہ قرآن شریف میں دو باتیں مخالف و متضاد ہرگز نہیں- یعنی یہ نہیں کہ ایک جگہ کچھ کہتا ہو‘ دوسری جگہ کچھ ہو- میرے دوستو! قرآن مجید جیسی کوئی کتاب نہیں بلکہ اور کوئی کتاب ہی نہیں- اس کی اتباع کرو-
خدا تعالیٰ تمہیں اپنی محبت بخشے- نیکیوں کی توفیق دے- قرآن مجید پر عمل کرو اور خاتمہ بالخیر-
) الفضل جلد۱ نمبر۱۰۔۔۔ ۲۰ / اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۲۲ / اگست ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏text] gat[

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے تیسرے رکوع کی تلاوت کی اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ کے کارخانے بڑے باریک در باریک ہیں اور جو ان کارخانوں کا مطالعہ کرتے ہیں وہ بڑے فائدے اٹھاتے ہیں- ہمارے ملک میں ہمارے گھروں میں کئی ردی چیزیں نکلتی ہیں مگر جو عقل مند ہیں ان کے نزدیک کوئی ردی چیز نہیں- میں دیکھتا ہوں کہ کھلونے ردی ٹکڑوں کے بنتے ہیں- پھر جنہوں نے اس نظارہ قدرت میں اور بھی غور کی ہے وہ جانتے ہیں کہ تین لاکھ کوس ایک سیکنڈ میں بجلی کی لہر جاتی ہے- اسے ذریعہ خبررسانی کا بنا لیا ہے- اسی طرح پانی اور ہوا کی لہروں سے کام لیا ہے- لاکھوں کروڑوں من اسباب ریلیںاٹھا کر لے جاتی ہیں- یہ صرف پانی اور آگ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے- پھر دیکھو! ہم کس قدر بیٹھے ہیں اور ہر سال کتنا روپیہ مکان‘ خوراک‘ پوشاک‘ خط و کتابت پر خرچ کرتے ہیں اور یورپ بھیجتے ہیں- ایسا کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ یورپ والوں کو ایک علم ہے- جب ایک تھوڑے سے علم کی خاطر ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ایک مومن کی‘ جسے دینی علم دیا گیا ہے‘ کس قدر قدر ہونی چاہیے-
اللہ تعالیٰ نے مومن کو ایک نعمت بخشی تھی- تعجب ہے کہ مسلمانوں نے صرف منہ سے کہہ دینا‘ کہ ہم تو مومن ہیں‘ کافی سمجھا ہے- ایک رنڈی بھی کہتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں- کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ غور کرو تم نے مسلمان کہلا کر جھوٹ سے اپنے آپ کو کس|قدر بچایا- تکبر سے‘ فضولی سے کتنی دوری اختیار کی- آجکل کی تعلیم پر کتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور ایک موہوم کامیابی کی امید پر- اور اس کے مقابل میں دین پر کیا خرچ کرتے ہیں جس میں کامیابی یقینی ہے-
میرے پاس ایک معزز پادری آئے- دیسی تھے- ان کو مشورہ طبی کی ضرورت تھی- بیٹا جوان تھا- جب میں نے نسخہ بتایا تو ساتھ ہی میں نے کہا کہ چونکہ آپ پادری ہیں اور ہر چیز کھا لیتے ہیں اس لئے کچھ پرہیز بھی بتاتا ہوں- کہنے لگے آپ نے ہمیں سمجھا کیا ہے؟ میں نے کہا میں آپ کو جانتا ہوں کہ آپ عیسائی ہیں- اس پر وہ کہنے لگے ہم تو ہندو ہیں- ہمارے بچے بہت ہیں- ان کی تعلیم کا خرچ کہاں سے لائیں؟ اس لیے مصلحتا ہم سب کے سب عیسائی کہلاتے ہیں ورنہ ہم تو ماس بھی نہیں کھاتے- لڑکوں کے پڑھانے کے واسطے روپیہ مل جاتا ہے اس لئے پادری کہلاتے ہیں- میں نے کہا ان کے مذہب سے کچھ سروکار نہیں؟ کہا ہرگز نہیں- ان کی یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی-
ہماری پاک کتاب میں لکھا ہے کہ انسان اگر متقی بن جائے‘ مومن ہو‘ فضولی نہ کرے‘ سنوار والے کام کرتا رہے تو اللہ وعدہ کرتا ہے کہ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ مکان‘ طیب سے طیب رزق دے گا- پس اس پادری کی طرح فریب و دغا کی کیا ضرورت تھی؟ دنیا کے آرام کے لئے بھی سچا مومن بن جانا کافی ہے-
ان نعماء جنت کا بیان کر کے فرماتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں کی مثال تو ان کے مقابل میں مچھر کی سی ہے- یعنی دنیا کی چیزوں کی بہشت کی نعمتوں کے سامنے ایک پشہ کی برابر بھی حقیقت نہیں- ایسی مثالوں سے مومن حق کو پا لیتا ہے- اور کافر کہتا ہے تمثیلوں سے کیا فائدہ- بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں جو فاسق ہوں- فاسق کس کو کہتے ہیں؟ جو اللہ کے حکموں کو‘ جو بڑی مضبوطی سے دیئے گئے‘ توڑ دیتا ہے- جن سے خدا کہتا ہے تعلق کرو‘ ان سے قطع کرتا ہے- اور جن سے کہتا ہے بے|تعلق رہو‘ ان سے تعلق جوڑتا ہے- مسلمانوں میں بھی میں نے بہت دیکھے ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے بے|تعلق‘ پڑوسیوں سے جھگڑتے ہیں مگر غیروں سے محبت رکھتے ہیں- اپنے اساتذہ‘ اپنے بزرگوں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں مگر ایک اجنبی شخص کو جس کا کوئی تعلق نہیں اپنی جان تک دینے کو حاضر رہتے ہیں- زمین میں فساد پھیلاتے ہیں- یہ لوگ خاسرون‘ گھاٹا پانے والے ہیں-
میرے پیارو! مولا کا تم پر بڑا فضل ہوا- تم کچھ نہ تھے- مولیٰ کریم نے تم کو حیات دی- اسی نے طاقت دی- اسی نے ایمان کی راہیں بتائیں- نبی کی اتباع کی توفیق دی- پھر تم زندہ ہو گئے- پھر موت آنے والی ہے- پھر زندگی ہو گی- پھر حضرت حق سبحانہ کے دربار میں حاضر ہو گے-
اللہ نے تمہارے سکھ‘ تمہارے آرام کے لئے ہر چیز پیدا کی- یہاں تک کہ جو کوڑا کرکٹ باہر پھینکتے ہو وہی جب زمین میں جاتا ہے تو کیا لہلہاتا ہوا کھیت بنا دیتا ہے- گھر میں جو ردی پھینکتے ہو ولایت والے اس سے بھی عجیب عجیب چیزیں بناتے ہیں اور نفع اٹھاتے ہیں- غرض جو کچھ زمین میں ہے ہمارے آرام کے لئے ہے- سب نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں جو اپنے تخت حکومت پر بے عیب قائم ہے- اس نے سات آسمان بنائے- سات کا عدد بڑا کامل عدد ہے- اس کے اجزا میں طاق بھی ہیں‘ جفت بھی ہیں- پھر جو کمال انسان پیدا کرتا ہے چھ مراتب پورے کر کے حتیٰ کہ آجکل کی تعلیم کے مراتب بھی چھ ہیں اور یہ لوگ منکر قرآن ہیں- مگر چونکہ کمال چھ مراتب کے بعد ہونا قانون قدرت ہے اس لئے انھوں نے بھی پرائمری‘ مڈل‘ انٹرنس ‘ ایف اے‘ بی اے‘ ایم اے‘ چھ درجے بنائے- پھر ساتواں درجہ وہ ہے جس کام میں انسان کمال پیدا کرے- زمین کو درست کرنا‘ پھر پانی دینا‘ پھر بیج ڈالنا‘ اسی طرح چھ دن کے بعد اس کی کونپل نکلتی ہے-
دنیا میں تمام قوموں نے بھی سات ہی دن بنائے ہیں باوجود اتنے بڑے مذہبی و قومی و ملکی اختلاف کے- پس اللہ نے سمجھایا کہ فلکی نظام بھی اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے- اس کا بنانے والا ہر چیز کا عالم ہے- اس کی کتاب کی اتباع کرو گے سکھ پائو گے- اسے ناراض کر کے دکھ اٹھائو گے- اس کو راضی کرنے کی یہ تدبیر ہے کہ ہر کام کے کرنے سے پہلے دیکھ لو کہ یہ اس کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں؟ تم اس کی بادشاہت سے نکل کر کہیں جا نہیں سکتے- ’’ رہنا دریاواں وچ تے مگرمچھاں نال ویر -‘‘ جب ایک معمولی حکم کی مخالفت بھی عیش کو تلخ کر دیتی ہے تو اس احکم الحاکمین کی مخالفت میں ضعیف البنیان انسان کیونکر آرام پا سکتا ہے؟
اللہ تمہیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق دے- ہم بہت قرآن‘ بہت نکتے معرفت کے سناتے ہیں مگر بیمار کو تو عمدہ سے عمدہ کھانا بھی کڑوا لگتا ہے- اس لئے ایسے لوگ ہماری ان باتوں پر بھی اعتراض کر دیتے ہوں گے کہ یہ نقص ہے- اللہ نیکی اور عمل کی توفیق بخشے-
خطبہ ثانیہ
الحمد للٰہ نحمدہ- میں اللہ ہی کا شکر کرتا ہوں جس نے حق سنانے کے لئے اتنے آدمی جمع کر دیئے- اس کا منشاء نہ ہوتا تو میں جمع نہ کر سکتا تھا- باقی تم ہمارا کہنا مان لو اور اس کے مطابق عملدرآمد اللہ کی مدد سے ہو سکتا ہے- جو مشکلات درپیش ہوں وہ سب اپنے اعمال کا نتیجہ ہے- اس کا علاج تمام انبیاء نے استغفار بتایا ہے- و نستغفرہ نفس کی شرارتوں سے اللہ ہی بچا سکتا ہے- جب اللہ کی راہوں پر چلو گے وہ دستگیری کرے گا اور اگر اس کا قانون توڑو گے تو کوئی رہنمائی نہیں کر سکتا- خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کو تم یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا اذکروا اللہ یذکرکم-اللہ سے بہت دعائیں مانگو- وہ دعائیں قبول کرتا ہے-
ایک ہمارے دوست ہیں- دور دراز سفر کو جانے والے‘ تم سب ان کے لئے دل سے دعا کرو- وہ دین کا خادم بنے- صحت و عافیت سے پہنچے- اس ملک میں دین کا کام کرے- دین کا خادم بنے اور دین کے خادم بنائے-
کچھ ہمارے بہت پیارے مصر میں بھی گئے ہیں- ان کے لئے بھی دعا کرو- اللہ انہیں دین کا خادم بنائے- اللہ ان پر راضی ہو- وہ دین اسلام کے خیر خواہ ہوں- ان کے کلمات کو اللہ تعالیٰ بابرکت بنائے- ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور بیش در بیش توفیق بخشے- قرآن کے خادم ہوں- محمد رسول اللہ کے خادم ہوں- اللہ کو راضی کرنے والے ہوں- کچھ پیارے مصر میں آگے بھی ہیں- ان کے لئے بھی دعا کرو- پھر تین‘ چھ‘ نو لنڈن میں بھی ہیں- ان کے لئے دعا کرو- ان کے وجودوں کو بابرکت بنائے- ان کے کلام میں برکت ڈالے- دین کی خدمت کریں- ان لوگوں میں سے کچھ پڑھتے ہیں‘ کچھ کام کرتے ہیں‘ کچھ تبلیغ کے لئے ہیں‘ سبھی مجھے پیارے ہیں- خواجہ کا نام تو تم جانتے ہو- فتح محمد ہے- نور احمد ہے- یہ تو ایک جماعت ہے- ملک عبدالرحمن ہے- ظفر اللہ ہے- عباد اللہ ہے- محمد اکبر ہے- ایک بزرگ دوست کی اولاد ہے- اللہ ان سب کو پسند کرے- دین کی جماعت بنائے- چائنا میں بھی ہمارے ایک دوست گئے ہیں- ان کے لئے بھی دعا کرو- ) الفضل جلد ۱ نمبر۱۱ ۔۔۔۔ ۲۷ / اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۱۲ / ستمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح نے و اذ قال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ )البقرۃ:۳۱( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
دنیا میں خلیفے پیدا ہوئے‘ ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے- چار قسم کے آدمیوں پر تصریح کی ہے- جناب الٰہی نے ایک حضرت آدم کو فرمایا- انی جاعل فی الارض خلیفۃ ہم نے آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا- ایک حضرت دائود کو فرمایا- یٰداود انا جعلنٰک خلیفۃ فی الارض )ص:۲۷( اے دائود! ہم نے تجھے خلیفہ بنایا- ایک سارے جہان کے آدمیوں کو خلیفہ کا لقب دیا- ثم جعلنٰکم خلائف فی الارض من بعدھم لننظر کیف تعملون )یونس:۱۵( ہر انسان کو فرماتا ہے تم کو خلیفہ بنایا- اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوں گے؟
ایک دفعہ جب میرا بیٹا پیدا ہوا‘ اگر وہ نہ ہوتا تو اس وقت ایک شخص تھا جس کا خیال تھا میں ہی وارث ہو جائوں گا‘ تو کسی نے اس شخص سے بھی ذکر کر دیا- اس کو بڑا رنج ہوا اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ بدبخت کہاں سے پیدا ہو گیا- میری تو ساری امیدوں پر پانی پھر گیا- مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل لاولد ہے- نہ لڑکی نہ لڑکا اور پھر خدا کا ایسا فضل ہے کہ اک باغ لگا دیا-
سو کسی قسم کا خلیفہ ہو اس کا بنانا جناب الٰہی کا کام ہے- آدم کو بنایا تو اس نے- دائود کو بنایا تو اس نے- ہم سب کو بنایا تو اس نے- پھر حضرت نبی کریمﷺ~کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے وعد اللہ الذین اٰمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً )النور:۵۶-(
جو مومنوں میں سے خلیفے ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ ہی بناتا ہے- ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خدا تعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے- جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تو اللہ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے- جو ان کا منکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے-
جناب الٰہی نے ملائکہ کو فرمایا کہ میں خلیفہ بنائوں گا کیونکہ وہ اپنے مقربین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے- ان کو اعتراض سوجھا جو ادب سے پیش کیا- ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے کہا- حضرت صاحب نے دعویٰ تو کیا ہے مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں- میں نے کہا وہ خواہ کتنے بڑے ہیں مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں- اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا اور کہا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء )البقرۃ:۳۱( کیا تو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خونریزی کرے؟ یہ اعتراض ہے‘ مگر مولیٰ! ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں- تیری حمد کرتے ہیں- تیری تقدیس کرتے ہیں-
خدا کا انتخاب صحیح تھا مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پا سکتی تھیں- حضرت نبی کریمﷺ~ کے وقت بھی جھگڑا ہوا- ما کان لی من علم بالملا الاعلیٰ اذ یختصمون )ص:۷۰-( ادھر مکہ والوں نے کہا لو لا نزل ھٰذا القراٰن علیٰ رجل من القریتین عظیم )الزخرف:۳۲( ]txet [tagیہ دستار فضیلت کسی بڑے نمبردار کے سر پر بندھتی- اللہ نے اس کے رد میں ایک دلیل دی ہے- ا ھم یقسمون رحمت ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیٰوۃ الدنیا- )الزخرف:۳۳( ان امیروں کو امیر کس نے بنایا؟ عظماء کو عظیم کس نے کیا؟ آخر کہو گے خدا نے- پس اسی طرح یہ کام بھی خدا نے اپنی مرضی و مصلحت سے کیا-
پھر فرمایا- دو قسم کے غلام ہوتے ہیں- احدھما ابکم لایقدر علیٰ شی ء و ھو کل علیٰ مولاہ اینما یوجھہ لا یات بخیر )النحل:۷۷( گونگا کسی چیز پر قادر نہیں- جہاں جائے کوئی خیر نہ لائے- دوم وہ جو یامر بالعدل و ھو علیٰ صراط مستقیم )النحل:۷۷( عدل پر چلتا- عدل کا حکم کرتا ہے اور صراط مستقیم پر ہے- اب ان میں سے وہی پسند ہو گا جو مولیٰ کا خدمت گزار ہو گا-
میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ رسالت کے بار اٹھانے کے قابل کون ہے- اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ )الانعام:۱۲۵-( تم علم میں اور ہر امر میں ہمارے محتاج ہو- لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون- )الانبیائ:۲۴( تمہارا کوئی حق نہیں کہ ہمارے کاموں پر نکتہ گیری کرو- کیونکہ تمہیں علم نہیں اور مجھے علم ہے- اس کا ثبوت بھی لے لو- ہم آدم کو چند اسماء سکھا دیتے ہیں تم کو نہیں سکھاتے- دیکھیں کہ بغیر ہمارے بتانے اور سکھانے کے تم بھی وہ اسماء بتا سکو- فرشتوں نے عرض کیا- بیشک ہمیں کوئی ذاتی علم نہیں- علم وہی ہے جو آپ کسی کو بخشیں- معلوم ہوتا ہے ملائکہ~ن۲|~اللہ جو ہیں ان کو اپنی جماعت کے بھی اسماء معلوم نہ تھے- جب گھر کے ممبروں کی خبر نہیں تو دنیا کے کاموں میں دخل کیا دے سکیں گے-
تم سب لوگ اپنے اندر مطالعہ کرو- میں تو عالم الغیب نہیں- تم سوچو- کیا تم میں سے کبھی کسی نے جھوٹ بولا ہے یا نہیں- کسی کو چکمہ دیا ہے یا نہیں- کسی نے کسی سے فریب یا دھوکہ کیا ہے یا نہیں- بدمعاملگی کی ہے یا نہیں- بدنظری کی ہے یا نہیں کی- پھر خدا تو علیم و حکیم ہے- کیا وجہ ہے اس نے تو تم سے کہا- یغضوا من ابصارھم )النور:۳۱( کونوا مع الصادقین )التوبۃ:۱۱۹( و *** اللہ علیٰ الکاذبین )اٰل عمران:۶۲( لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل- )البقرۃ:۱۸۹( تم نے ان احکام کی کہاں تک تعمیل کی جو دوسروں کو کہتے ہو-
تو کار زمیں کے نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
اپنی حالت کو مطالعہ کرو- پچھلی حالت پر غور کر کے دیکھو- جہاں پر اعتراض کرتے ہو پہلے اپنے آپ کی تو خبر لے لو اور اصلاح کرو- میں تم سب کو السلام علیکم کہتا ہوں- عید کی نماز کے بعد میری ایسی حالت ہو گئی کہ اب تک مسجد میں نماز کے لئے نہیں آ سکا- اب بھی میں جانتا ہوں کہ میری کیا حالت ہے- اپنے نفسوں کی اصلاح کرو- اپنے نامہ اعمال کو سیاہ ہونے سے بچائو- دوسرے کو جب کہو کہ پہلے خود سیدھے ہو لو- ) الفضل جلد ۱ نمبر۱۴۔۔۔ ۱۷ / ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *
‏KH1.39
خطبات|نور خطبات|نور
۱۹ / ستمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے و اذ قلنا للملٰئکۃ اسجدوا لاٰدم فسجدوا الا ابلیس ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین )البقرۃ:۳۵( text] ga[tکی تلاوت کے بعد فرمایا-:
بندے دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک بڑے زیرک‘ باریک بات کو پہنچنے والے- دوسرے بالکل موٹی عقل کے‘ اجڈ- وہ ان باریک بینوں اور سخن شناسوں کے متبع ہوتے ہیں-
پھر یہ بھی دو قسم ہیں- ایک تو وہ جو دین کی باریک در باریک باتیں جانتے ہیں- دوسرے وہ جو دنیا کی باریک درباریک باتیں جانتے ہیں- یہ دنیا کے باریک بین انگریز ہیں- کیا سلطنت کا طرز ہے- کیا تجارت‘ صنعت اور حرفت میں کمال ہے- تم جس قدر بھی یہاں بیٹھے ہو کوئی تم میں ہے جس نے سال بھر میں انگریزوں کو کچھ نہ دیا ہو؟ ہرگز نہیں- آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ ان کو کمانے کا علم آتا ہے اور انہیں دنیا میں کمال حاصل ہے- دیکھو! سلطنت کی ہے تو کیسی زبردست- پھر کسی اور فن کی طرف متوجہ ہوئے ہیں تو اس میں بھی حد ہی کر دی ہے-
میں ایک طبیب تھا- اس حالت میں میں نے عجیب عجیب تماشے دیکھے ہیں- ایک پنساری تھا جموں میں- وہ بڑے اخلاص سے‘ بڑی محبت سے میرے لئے پستے لے آیا- میں تو اس وقت کتاب پڑھ رہا تھا- نکما بیٹھنے کی میری عادت نہیں اور مطالعہ کے وقت مجھے بہت استغراق ہو جاتا ہے- اس لئے میں بغیر دیکھنے کے وہ دانے کھاتا گیا حتیٰ کہ چند دانے کھانے کے بعد آگ لگ گئی- جب میں نے دیکھا کہ پستوں میں جمال گوٹے کے دانے مل گئے ہیں تو مجھے بڑی تکلیف ہوئی- اس پنساری کو میں نے بلایا- وہ گھبرا گیا اور منت سماجت کرنے لگا- میں نے کہا- تسلی رکھ‘ تجھے گرفتار نہیں کرواتا- مگر یہ سب نتیجہ غفلت کا ہے-
ہمارے ہاں کوئی علم نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ فلاں دوائی‘ فلاں دوائی کے ساتھ ملا کر نہ رکھنی چاہئے بلکہ نزدیک بھی نہیں لے جانی چاہیے- مثلاً ہینگ اور افیون ‘ ہینگ اور مشک اکٹھی ہوں تو دونوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے- سرکہ اور شہد بھی ایک دوسرے کے پاس نہیں ہونے چاہئیں- مگر کیا کیا جائے- ہمارے ملک میں یہ علم نہیں‘ نہ کوئی پڑھتا ہے- جب حالت یہ ہو تو لوگ خاک ہماری خدمت کریں- اب دیکھو انگریزوں میں دوائوں کا کیسا انتظام ہے - ہر قسم کی دوائوں کے لئے مختلف رنگ کی شیشیاں ہیں- کسی کا بندھن کانچ کا ہے‘ کسی کا لکڑی کا- میں نے ایک دوائی منگوائی جو ربڑ کی شیشی میں تھی- میں نے تعجب کیا- ایک شخص نے مجھے کہا اگر آپ اسے کانچ یا چینی کی شیشی میں رکھیں تو سوراخ کر کے نکل جائے گی- پھر شیشیوں کے اوپر سرخ لیبل لگاتے ہیں اور کالے حرفوں سے لکھتے ہیں- زہر ہسپتال میں الگ رکھنے کا حکم ہے جس کی چابی آفیسر کے پاس رکھنے کا حکم ہے- دیکھو کیسی احتیاط ہے- اب ان اصفیٰ|و|اعلیٰ دوائوں کو چھوڑ کر کوئی ہماری دوائیں کیوں لے- میں نے سنگ بصری‘ گائودنتی‘ کافور‘ بھیم سینی- ان دوائوں کو جب منگوایا نئی ہی نکلیں- بڑے بڑے طبیبوں سے میں نے کہا- وہ کہتے ہیں کون تحقیقات کرے اور اتنا روپیہ کون خرچ کرے؟
میری غرض اس تمام بیان سے یہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے باریک علم ہیں- جو ان علوم کو حاصل کرتے ہیں وہ مرجع خلائق ہوتے ہیں- اسی طرح دین کے باریک علوم ہیں جو نبیوں کو آتے ہیں- انبیاء کے بڑے بڑے معجزے ہوئے- پہلی قوموں کے نبیوں کو ایسے معجزے دیئے گئے جن کو موٹی عقل والے سمجھ سکیں- پھر ہمارے بادشاہ کو سب کچھ دیا جس کا بھاری معجزہ قرآن ہے- یہ ایسا معجزہ ہے کہ جس|قدر کسی کا باریک فہم ہو اس سے نفع اٹھائے اور پھر موٹی عقل والا بھی برابر فائدہ اٹھا سکتا ہے- موسیٰ کے سانپ پر تو آجکل شبہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح بن گیا؟ مگر ہماری سرکار کا معجزہ ایسا ہے کہ ہر زمانے میں اس کا معارضہ کسی سے نہیں ہو سکتا-
جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس پر غور کرو- کسی انسان کو کچھ سکھلایا- جب اسے سکھلایا تو پھر تمام لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی فرمانبرداری کرو- یہ ہمارا تعلیم یافتہ ہے- یہاں تک کہ فرشتوں کو کہا کہ تم بھی فرمانبرداری کرو- وہ سعید الفطرت تھے‘ تابع ہو گئے مگر ابلیس نہ ہوا- اس نے انکار و استکبار سے کام لیا- اور ہم نے آدم کو حکم دیا کہ تو اور تیرا ساتھی آرام سے رہو- پھر انہیں کسی چیز سے منع کر دیا جیسے ہماری سرکار کو بعض درختوں سے ممانعت تھی- ایک شخص رسول|اللہ کے حضور ایک ٹوکری لایا جس میں لہسن‘ پیاز و گندنا تھا- آپﷺ~ نے فرمایا یہ کیا چیز ہے‘ اسے اٹھا لو- میں تو اسے نہیں کھاتا-
اسی طرح ایک دن میں نے نماز پڑھی- میرے ساتھ ایک شخص ایسا کھڑا ہو گیا جو حقہ پی کر آیا تھا- میرا دل اس کی بدبو سے متلی کرنے لگا- نماز کے بعد میں نے اسے کہا کہ مہربانی فرما کر آپ ایسی حالت میں گھر نماز پڑھ لیا کریں-
غرض آدم کو ایک درخت سے منع کیا- ایک موذی جانور ان کے پیچھے پڑ گیا- بحالت نسیان اس نے بد راہ کیا تو جس مزے میں تھا وہ مزا جاتا رہا- لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں معاف کر دو- حالانکہ معاف کر دینے والا تو اللہ ہے- ایک شخص آتشک یا سوزاک لایا ہے- اب وہاں میری معافی کیا کر سکتی ہے- اللہ ہی فضل کرے تو شفا دے- جن لوگوں نے فضولیاں کر کے دکھ اٹھایا ہے وہ مجھے آ آ کر کہتے ہیں کہ معاف کر دو- معاف تو کر دیا مگر اس فضولی کا اثر تو جب جائے کہ وہ فضولی چھوڑ دیں- ابلیس اسے کہتے ہیں جواپنی ذات میں شریر ہو اور جب اس کی شرارت دوسروں تک پہنچاتی ہو تو وہ شیطان کہلاتا ہے- اس نے پھسلانا چاہا اور اللہ نے آدم و حوا کو اس حالت سے نکال کر دوسری میں کر دیا اور فرمایا کہ بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں- میں نے دیکھا ہے بعض کو بعض سے عداوت ضرور ہوتی ہے-
پاخانہ کے کیڑے کے پاس اگر کستوری رکھ دو وہ مر جائے گا- اسی طرح بعض لوگ پاک تعلیم سے چڑتے ہیں- میں یہاں کھڑا وعظ کر رہا تھا- ایک کہنے لگا‘ جو نصیحت کرتے ہو اس پر کوئی عمل بھی کر سکتا ہے؟ پس نصیحت بیکار ہے- میں نے کہا- کیا قرآن بیکار ہے؟ مسلمان تھا‘ ڈر گیا- اسی طرح ایک شخص نے مجھے کہا- کہ آپ کے درس میں اس لئے نہیں آتا کہ وہاں جن گناہوں کا لڑکوں کو علم نہیں ہوتا وہ بھی معلوم ہو جاتے ہیں- میں نے اسے بھی کہا کہ پہلا اعتراض تیرا قرآن پر ہے کیونکہ اس میں سب گناہوں کا ذکر ہے- غرض بعض بعض کے خلاف ہیں- اور یہ دشمنی کا بیج اس لئے ہے کہ بڑے ہوشیار ہو کر لوگ گزارہ کریں-
آدمؑ نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے اور اس پر فضل ہوا- اور اللہ نے حکم دیا کہ اب جب کبھی ہماری ہدایت پہنچے جو اس کے تابع ہو گا‘ اس پر کسی قسم کا خوف و حزن طاری نہ ہو گا اور جو حکم کی خلاف|ورزی کرے گا اسے نقصان پہنچے گا- تم سب دل میں سوچو- کیا تمہارا جی چاہتا ہے کہ تمہیں غم ہو‘ خوف ہو- غموں سے‘ خوفوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے- وہ یہ کہ ہدایت کی اتباع کرو- اگر نہیں کرو گے تو دکھ اٹھائو گے-
) الفضل جلد ا نمبر۱۵ ۔۔۔ ۲۴ / ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۲۶ / ستمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کے پانچویں رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی اولاد کو‘ بنی اسرائیل کو‘ بہادر سپاہی کے بیٹوں سے خطاب کیا- مسلمانوں کو عبرت چاہئے کہ تم بھی کسی بہادر سپاہی کی قوم ہو- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہارا امام تھا- صحابہ کرامؓ اور تابعین~رح~ کی اولاد ہو- تمہیں یاد ہے کہ تم پر کیا کیا فضل ہوئے- پہلا فضل تو یہی ہے کہ تم کچھ نہ تھے‘ پیدا ہوئے‘ پھر مسلمان ہوئے- قرآن جیسی کتاب تمہیں دی گئی- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا خاتم النبیین رسول عطا فرمایا- تمہیں سمجھانے کے لئے‘ متنبہ کرنے کے لئے دوسروں کے حالات سناتا ہے کہ ایک قوم کو ہم نے بڑی نعمتیں دیں- فکفرت بانعم اللہ )النحل:۱۱۳( اس قوم نے اللہ کی نعمتوں کی کچھ قدر نہ کی تو ہم نے ان کو بھوک کی موت مارا-
بھوک کی موت بہت ذلت کی موت ہے‘ دکھ کی موت ہوتی ہے- میں نے ان اپنی آنکھوں سے بھوک کی موت مرتے لوگ دیکھے ہیں- دودھ ان کے منہ میں ڈالیں تو بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا- کشمیر میں خطرناک قحط پڑا- کافر تو سئور بھی کھاتے ہیں- ان کے باورچی خانہ کے اردگرد لوگ جمع ہو جاتے کہ شائد کوئی چھچھڑا مل جائے- یہ حالت اضطراری تھی اس لئے مسلمان معذور تھے- پندرہ بڑے بڑے غرباخانے تھے اور رئیس چار سیر گیہوں خرید کر سولہ سیر کے حساب سے دیتا مگر پھر بھی خدا ہی دے تو بندہ کھائے- بندے کی کیا طاقت ہے کہ اتنی دنیا کی رزق رسانی کر سکے-
غرض اللہ تعالیٰ ایک قوم کو نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے- اوفوا بعھدی اوف بعھدکم )البقرۃ:۴۱( مجھ سے جو عہد کیا تھا وہ پورا کرو تو میں وہ عہد پورا کروں گا جو تم سے کیا تھا- اس کا ذکر پہلے آ چکا ہے- چنانچہ فرمایا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لاھم یحزنون )البقرۃ:۳۹( یعنی تم میری ہدایت کے پیرو بنو تو میں تمہیں لا خوف علیھم و لاھم یحزنون زندگی دوں گا-
اس وقت کیسی مصیبت کے دن ہیں- سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں- چھ کروڑ کے کان میں قرآن بھی نہیں گیا- ایک کروڑ ہو گا جو یہ سنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں- پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید باترجمہ پڑھتے ہیں- اب یہ دیکھو کہ عمل درآمد کے لئے کس قدر تیار ہیں- میں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا میں بھی شاگرد تھا- وہ ایک پرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے- ساری عمر اس میں گزار دی اور قرآن مجید نہ سنایا- حالانکہ علم تھا‘ فہم تھا‘ ذہین و ذکی تھے‘ نیک تھے‘ دنیا سے شاید کچھ بھی تعلق نہ تھا- پھر ان کی اولاد کو بھی میں نے دیکھا- وہ بھی اسی خطبہ پر اکتفا کرتی- میں نے آنکھ سے روزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا- ان بعض ملکوں میں یہ دیکھا ہے کہ کسی فقہ کی کتاب کی عبارت عشاء کے بعد سنا دیتے ہیں- پس میں تمہیں مخاطب کر کے سناتا ہوں- اللہ فرماتا ہے- ہمارے فضلوں کو یاد کرو اور میرے عہدوں کو پورا کرو- میں بھی اپنے عہد پورے کروں گا- کبھی ملونی کی بات نہ کیا کرو اور گول مول باتیں کرنا ٹھیک نہیں- حق کو چھپایا نہ کرو بحالیکہ تم جانتے ہو-
قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں- ایک تعظیم لامر اللہ- لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ اس کلمہ توحید کی تکمیل کے لئے ہے- دوم- شفقت علیٰ خلق اللہ- اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو- آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں- حرفت پیشہ کو فرصت نہیں- زمیندار صبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں- ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں-
پھر واعظوں اور قرآن سنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو- علمائ‘ فقرائ‘ گدی نشین‘ سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو- منافق نہ بنو- حق میں باطل نہ ملائو- وفادار بنو تاکہ بے خوف زندگی بسر کرو- دوسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو- اگر تبلیغ میں کوئی مشکل پیش آ جائے تو استقلال سے کام لو- بدیوں سے بچو- نیکیوں پر جمے رہو- نمازیں پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اللہ کے پاس جانا ہے-
زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں- میں نے ایک شخص کو دیکھا- بادشاہ کے پاس قلم و کاغذ لے کر گیا- ادھر پیش کیا‘ ادھر جان نکل گئی- ایک اور شخص تھا‘ بڑے شوخ گھوڑے پر سوار- میری طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا- میں نے کہا آپ کا گھوڑا بڑا شوخ ہے- کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے- میں ادھر گھر پہنچا کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ مر گیا- غرض یہ دوست‘ یہ احباب‘ یہ آشنا‘ یہ اقربا‘ یہ مال‘ یہ دولت‘ یہ اسباب‘ یہ دوکانیں‘ یہ سازو سامان‘ سب یہیں رہ جائیں گے- آخر ’’کار باخداوند-‘‘ اللہ تم پر رحم کرے-
) الفضل جلد۱ نمبر۱۶ ۔۔۔ یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۳ / اکتوبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏]txet [tag

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین نے سورۃ بقرہ کے پانچویں رکوع )یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم )البقرۃ:۴۷(( کی تلاوت کے بعد فرمایا-
قرآن کریم عجیب عجیب پیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے- بہادر سپاہی کی اولاد! تم بھی غور کر لو- کوئی اپنے آپ کو سید سمجھتا ہے- وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے- کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیدوں کو اپنی جزء قرار دیتا ہے- اسی طرح کوئی مغل ہے‘ کوئی پٹھان‘ کوئی شیخ‘ غرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کو کسی بڑے آدمی سے منسوب کرتے ہیں- مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا؟ اپنے اعمال سے- پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو؟ ہرگز نہیں- جو بہادری انسان کو بڑا بنا سکتی ہے کیا اس بہادری کا ترک کر دینا انسان کو بزدل نہیں بنا سکتا-
مجھے ہمیشہ بڑا تعجب آتا ہے کہ انسان بڑوں کی بڑائی پر فخر کرتا ہے مگر اپنی طرف غور نہیں کرتا کہ میں اپنے خاندان کو بڑا بنا رہا ہوں یا اس کے غرق کرنے کے درپے ہوں- ایک چھوٹا آدمی ہمارے شہر بھیرہ میں بڑا بن گیا اور بڑا ذلیل ہو گیا- وہ جو ذلیل ہو چکا تھا ایک دن اس بڑا بننے والے کی تحقیر کرنے لگا- میں نے اسے کہا- کیا تمہاری طاقت ہے کہ اس کے برابر بیٹھو یا جیسا گورنمنٹ میں اس کا اعزاز ہے اور وہ کرسی نشین ہے‘ کیا تم بھی کسی حاکم کے سامنے جانے کے قابل ہو- وہ تم سے کئی درجے اچھا ہے- کیونکہ اس نے نابود کو بود بنا دیا اور تم نے بود کو نابود کیا- اب بتائو کہ تم بڑے ہو یا وہ؟
پس میرے پیارو ! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو اور خدا نے تمہیں تیرہ سو برس سے عزت دی تو بڑوں کے کاموں کو نابود کرنے والے نہ بنو- تم خود ہی بتائو کہ وہ شرک کرتے‘ جھوٹ بولتے‘ دھوکا کرتے‘ دوسروں کو دکھ دیتے تھے؟ ہرگز نہیں- تو کیا تم ان افعال کے مرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو؟ بنی|اسرائیل کو تو خدا نے شام میں بڑائی دی تھی مگر اسلام نے یہاں تک معزز کیا کہ تمہیں سارے جہان میں عظیم الشان بنا دیا- اس نعمت کا شکر کرو- کیونکہ یہ آیت اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین )البقرۃ:۴۸( text] [tagتمہیں انعامات الٰہی یاد دلانے کے لئے نازل ہوئی ہے- اگر تم انعام الٰہی کی ناقدری کرو گے تو اس کا وعید تیار ہے- کیونکہ جس طرح نیکی کا پھل اعلیٰ درجے کا آرام ملتا ہے ایسا ہی بدی کا پھل بھی ذلت و ادبار کے سوا کچھ نہ ہو گا-
یہود کو کفران نعمت کی سزا میں پہلے مدینہ سے نکالا گیا تو لئن اخرجتم لنخرجن معکم و لانطیع فیکم احداً ابداً و ان قوتلتم لننصرنکم )الحشر:۱۲( کہنے والے کچھ کام نہ آئے- پھر جب مدینہ سے نکالے گئے تو ان کا کوئی مددگار نہ ہوا- اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی معاملہ ہوا- سپین سے ایک دن میں نکال دیئے گئے- لاکھوں لاکھ تھے جنہوں نے جانے سے ذرا چوں و چرا کی ان کو عیسائی بنا لیا گیا- اب سیاحوں سے پوچھو- اسلام کا وہاں نام نشان تک نہیں- مسجدیں ہیں اور چند عدالت کے کمرے- وہ تمہارے رلانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں-
اسی طرح مراکش ہے- پھر طرابلس میں کئی لاکھ کا کتب خانہ تھا- بنوامیہ کی اتنی بڑی سلطنت تھی کہ ایک طرف چین اور ایک طرف فرانس سے اس کے حدود ملتے تھے- مگر اب یہ حال ہے کہ کوئی اپنے بیٹے کا نام یزید یا معاویہ نہیں رکھتا- یعنی جن کی مدح سرائی ہوتی تھی اب ان کا نام تک رکھنے کے روا دار نہیں- پھر عباسیوں کی سلطنت تھی- ایک دفعہ محمود غزنوی سے ان کی کچھ رنجش ہو گئی- محمود غزنوی نے اس خلیفہ کو لکھا کہ میں ہندوستان کا فاتح ہوں اور میرے پاس اتنے ہاتھی ہیں- خلیفہ نے اس کے جواب میں الم الم نہایت خوبصورت لکھوا کر بھیج دیا- محمود کے دربار میں تو سب فارسی دان ہی تھے- چنانچہ اس زمانے کی یادگار صرف شاہنامہ ہی باقی ہے- وہ تو کچھ سمجھے نہیں- آخر محمود نے کہا کہ خلیفہ نے الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل )الفیل:۲( یاد دلائی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ہاتھی ہیں تو ہمارا وہ رب جو اصحاب فیل کو ہلاک کر چکا ہے- بہت ڈر گیا اور معذرت کی جس پر تعلقات درست ہو گئے- مگر پھر بغداد کا حال ہمیں معلوم ہے- وہ محمود غزنوی جو خلیفہ کی الم الم سے ڈر گیا تھا اسی پایہ تخت کو ہلاکو اور چنگیز نے تباہ کر دیا- ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعویٰ کا گمان تھا ان سب کو دیوار میں چن دیا- وہ بی بی جس کا نام نسیم السحر رکھا تھا ایک گلی میں اس حالت میں دیکھی گئی کہ کتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے-
بے شک اللہ کے انعام بہت ہیں مگر اللہ کی پکڑ اس سے بھی زیادہ سخت ہے- بنی اسرائیل کو فرعونیوں کا ظلم اور پھر اس سے نجات پانا یاد دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ فرعونی تمہیں طرح طرح کے عذاب دیتے تھے- تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو ذلت کے لئے زندہ رکھتے یا ان کا ننگ و ناموس تباہ کرتے- پھر ہم نے تمہارے لئے دریا کو جدا کیا اور تمہیں بچا لیا مگر فرعونیوں کو غرق کر دیا- میرا استاد تھا پٹھان- قال اقول پڑھاتا- اس میں ایک جگہ آتا ہے کہ زید دریا میں غرق ہوا- اگر دریا نہ ہو تو غرق بھی نہ ہو- میں نے اپنی سمجھ کے موافق یہ اعتراض کیا تھا کہ ہمارا فرعون ابوجہل تو جنگل ہی میں غرق ہو گیا تھا- غرض اگر بنی|اسرائیل کو یہ احسان یاد دلایا ہے تو مسلمانوں کے فرعون کو خشکی میں غرق کر کے اس کے بعد کئی انعامات ان پر کئے ہیں- اب اگر وہ ناشکری کریں گے تو سزا پائیں گے- جس طرح حضرت موسیٰ کو چالیس روز خلوت میں رکھا اسی طرح ہماری سرکار بھی غار حرا میں رہے- و یتحنث )یتعبد( فیھا لیالی ذوات العدد-
ہماری سرکار پر ایسے ایسے انعام ہوئے کہ ہمیں مالا مال کر دیا- بے شک اللہ کے بڑے بڑے احسان ہم پر ہیں مگر نبی کریمﷺ~ کے احسان بھی ہم پر بے شمار ہیں- صرف دعا ہی کو لو کہ کس کس موقع پر سکھائی- نکاحوں کے لئے استخارہ‘ پھر بی بی کو گھر لانے پر ایک دعا ہے- پھر پاس جانے کی ایک دعا ہے- پھر بچوں کے پیدا ہونے کی ایک دعا ہے- غرض حد ہی کر دی ہے- حضرت موسیٰ کو کتاب اور فرقان عنایت فرمائی تو حضرت محمد رسول اللہ کو بھی ایک نور|مبین‘ فیھا کتب قیمۃ )البینۃ:۴( کتاب عطا فرمائی- حضرت موسیٰ کو فرقان بخشا تو ہمارے سید بادشاہ کا فرقان بدر کی جنگ میں ظاہر ہوا- یہ اس لئے کہ ہدایت پائو- پس مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ غفلت کو چھوڑ دیں اور لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃ )البقرۃ:۸۱( کہنے والے نہ بنیں کیونکہ خدا کسی قوم کا رشتہ دار نہیں- نیکی کرو گے تو نیک جزا پائو گے-
) الفضل جلد ۱ نمبر۱۷ ۔۔۔ ۸ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵(

۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی و اذ قال موسیٰ لقومہ یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبوا الیٰ بارئکم فاقتلوا انفسکم ذالکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم انہ ھو التواب الرحیم )البقرۃ:۵۵( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
ہر شریف الطبع آدمی دوسرے کو کسی مصیبت میں مبتلا پا کر عبرت پکڑتا ہے- شریف مزاج لڑکوں کو جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو کسی اور کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کام کیا تو یہ سزا پائی- اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر ایک شریف انسان دوسرے سے عبرت پکڑتا ہے- ہم کس قدر دکھیاروں کو دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کے مطابق ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم )الشوریٰ:۳۱( ہر ایک کو اپنے کئے ہوئے کی سزا ملتی ہے- جو کچھ تم کو مصیبت آئی‘ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تم کو ملی- میں نے کبھی کسی مومن کو نمبر دس )۱۰( کا بدمعاش نہیں دیکھا‘ نہ ہی نیک اعمال والے کو آتشک کاشکار ہوتے دیکھا ہے- اسی طرح ہر قسم کی بیماریوں اور مصیبتوں کا یہی حال ہے-
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایک استاد صاحب سے ایک جذامی علاج کروایا کرتا تھا- اس کی تنخواہ ماہوار تیس ہزار روپے تھی- گویا ایک ہزار روپیہ یومیہ وہ پاتا تھا- ایک دن وہ استاد|صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور نے بیسن کی روٹی کھانے کے لئے فرمایا ہے وہ نگلنی مشکل ہے- اگر حکم ہو تو کچھ لقموں کے بعد ایک ڈلی مصری کی بھی کھا لیا کروں- میرے استاد صاحب نے بڑے زور سے فرمایا کہ نہیں‘ ہرگز نہیں ہو سکتا- وہ آدمی بڑا مہمان نواز تھا- مگر اس وقت وہ روپیہ اس کے کام نہ آ سکا- اسی طرح دیکھتے ہیں کہ مسلول و مدقوق کی حالت جب ترقی کر جاتی ہے تو دوسرے آدمی پاس بیٹھنے‘ کھانے پینے وغیرہ سے مضائقہ کرتے ہیں- یہ جسمانی بیماری کا حال ہے- اسی طرح روحانی بیماری کا حال ہے- سننے والو! ظاہر کو باطن سے تعلق ہوتا ہے اور باطن کوظاہر سے رشتہ ہے- غور کرو- میں دیکھتا ہوں- ایک دوست کو دیکھ کر میرے دل کو سرور ملتا ہے اور دیکھتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے- اس کا دیکھنا جو ظاہری ہے اس نے باطن میں جا کر دخل پایا- اسی طرح ایک دشمن کو دیکھ کر میں خوش نہیں ہوتا بلکہ اس وقت میرے دل کی حالت کچھ اور ہوتی ہے- یہ اس باطن کی رنجیدگی سے ظاہر پر اثر ہوتا ہے اور اس کے آثار میرے چہرہ پر اور میرے ہر عضو پر بھی نمودار ہوتے ہیں- پھر غصہ میں آ کر اسے کچھ نہ کچھ ناگوار لفظ بول دیتے ہیں- اس سے یہ قاعدہ نکلا کہ باطن کو ظاہر کے ساتھ اور ظاہر کو باطن کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا ہے- تو یہ معاملہ صاف ہے کہ انسان کا اندرونہ اور بیرونہ کچھ عجائبات سے باہم پیوست ہوتا ہے-
میں نے ایک کنچنی سے پوچھا کہ کیا تو زنا کو حلال جانتی ہے؟ تو کہا- ہاں- پھر میں نے پوچھا کہ کیا مسلمان ہے؟ کہنے لگی الحمد للہ‘ مسلمان ہوں- اگر پوچھا جاوے کہ اسلام کے کوئی احکام جانتی ہو تو کہہ دیں گی کہ جی‘ ہم جاہل ہیں‘ ہمیں کیا علم ہے- دنیا کے معاملات میں بندوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بھی سچ بول لیتے ہیں- ان کے شرفا میں بھی ایسے ہیں جو ڈاکہ چوری جھوٹ وغیرہ وغیرہ کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس کو برا سمجھتے ہیں- ان میں خدا ترس بھی ہیں کہ لوگوں کے آرام کے لئے انہوں نے جنگلوں میں درخت‘ کنویں اور بڑی بڑی عمارتیں بنوائی ہیں- لوگوں کے آرام کے واسطے نہیں بلکہ جانوروں کے آرام کے واسطے بھی ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر دیتے ہیں- برعکس اس کے جب کسی مسلمان سے سوال کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی شہادت اس قدر نہیں دے سکتے جتنا کہ ایک ہندو دے سکتا ہے- وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں- وہ قومی چندے دینے میں جان کا بھی دریغ نہیں کرتے- ہم تاریخ عرب‘ یاغستان اور افغانستان کے متعلق بڑے بڑے عجائبات پاتے ہیں-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الحج اشھر معلومات )البقرۃ:۱۹۸( ہر سال میں چار مہینے ہیں اور یہ بڑے متبرک مہینے ہیں- ذیقعد‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب- ان مہینوں کی زمانہ جاہلیت میں اتنی عزت ہوتی تھی کہ اگر باپ کا قاتل‘ بیٹے کا قاتل یا کسی عزیز کا قاتل بھی ان مہینوں میں مل جاتا تو اسے علی العموم قتل نہ کرتے- لیکن اب وہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں جو حاجیوں کو ایام حج میں لوٹ مار کر کے قتل کر دیتے ہیں- مجھے میرے ایک دوست نے سنایا کہ میں ذرا الگ ہو کر پاخانہ کرنے گیا- ایک عرب نے جو دیکھا کہ یہ اکیلا ہے- وہ جھٹ آیا اور ایک سوٹا مار کر مجھے بیہوش کر دیا- اس نے چھٹتے ہی روپوں پر ہاتھ صاف کیا اور رفوچکر ہو گیا- یہ ہمارے عرب مسلمانوں کا حال ہے جو یہ اربعۃ حرم )التوبۃ:۳۶( کی عزت کرتے ہیں-
اب ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال سنئے- میں ایک دفعہ جیل خانہ کو دیکھنے گیا- ایک جیل کا افسر میرا بڑا دوست تھا- اس نے مجھے اپنے ساتھ لے کر تمام جیل کی سیر کروائی- میں نے دیکھا کہ وہاں کل تین سو پینتیس قیدی تھے جن میں سے تین سو بائیس مسلمان اور کل تیرہ ہندو جو مقدمات دیوانی میں مقید ہوئے تھے- باقی سب کے سب مسلمان تھے- یہ دیکھ کر میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور مجھے بڑا قلق ہوا- یہ وہی بات ہے کہ ظاہر کا باطن پر اثر پڑتا ہے- مجھے اس سے محبت تو تھی ہی‘ میرا دوست جھٹ تاڑ گیا اور میری تسلی کے لئے کہنے لگا- حضور! بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے- اس لئے مسلمان قیدی زیادہ ہیں- میں نے کہا آپ نے خوب فقرہ سنایا- میری ان باتوں سے تسلی نہیں ہو سکتی- اگر ضلع کے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے تو بھیرہ میں ایک سکول ہے جہاں چودہ سو لڑکے تعلیم پاتے ہیں- میں نے مدرسہ کو دیکھا ہے جس میں صرف چودہ مسلمان لڑکے تعلیم پاتے ہیں- اگر آبادی کا لحاظ تھا تو وہاں بھی مسلمان زیادہ چاہئیں تھے- مسلمان اپنے تنزل پر ہمیشہ قسم قسم کی باتیں بتلاتے ہیں- پردہ کا ہونا‘ سود کا رواج نہ ہونا‘ انہی اسباب میں سے بتلائے جاتے ہیں- میں کہتا ہوں کہ اگر پردہ تنزل کا باعث ہے تو کنچنیاں‘ چوہڑے‘ چمار‘ یہ قومیں کیوں ترقی نہ کر گئیں‘ بلکہ عام زمیندار ہل چلانے والے ان میں بھی پردہ نہیں ہے- یہ کیوں نہ ترقی کر گئے- اور اگر سود کا رواج نہ ہونا تنزل کا باعث تھا تو ہندو سود|خور زیادہ تباہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ جو لوگ بنکوں میں روپیہ جمع کرواتے ہیں روپیہ بڑھنے کے لئے رکھتے ہیں مگر جب بنکوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے تو پھر ان کا کیا حال ہوتا ہے یمحق اللہ الربٰو و یربی الصدقات )البقرۃ:۲۷۷( خدا سود خوروں کو تباہ کرتا ہے- سود کھانے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے-
بڑے تعجب کی بات ہے کہ لوگ شرارتیں کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں- موسیٰؑ نے اپنی قوم کو کہا یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل تم نے بچھڑے کو خدا بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کیا حالانکہ خدا کے تم پر بڑے بڑے احسان ہیں- فتوبوا الیٰ بارئکم اپنے پروردگار کی طرف توجہ کرو- اور اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑے بڑے فضل و احسان کئے ہیں- اس کے قابو میں خدا نے ہر ایک چیز کر دی ہے- ہاتھی جیسا بڑا جانور انگوٹھے کے اشارہ پر چلتا ہے- اونٹ کو ایک نکیل کے اشارہ سے چلا لیتا ہے- اسی طرح پر ہزاروں کام جانوروں سے نکالتا ہے- طوطے سے توپ بندوق چلوا لیتا ہے-
بعض لوگ احسن تقویم )التین:۵( کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاہ رنگ اور بدصورت بھی ہوتے ہیں- بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابو میں کر دیا- سرکس میں کسی نے تماشہ دیکھا ہو گا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں- یہ سب اللہ کے احسان ہیں- ہر قوم میں غریب سے غریب اور امیر سے امیر لوگ موجود ہیں- لیکن امراء کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم پر بڑا احسان ہوا ہے- اس زمانہ کا بڑا بچھڑا روپیہ ہے- جس کے پاس یہ ہوا اس کی بڑی عزت|وتوقیر ہوتی ہے- اگر وہی روپیہ والا انسان غریب ہو جاوے تو اسے پوچھتا بھی کوئی نہیں- روپے کے پیچھے خواہ نماز‘ روزہ‘ حج جائے مگر کوئی پرواہ نہیں-
اس زمانہ میں نمازیوں کا نام ’’قل اعوذی‘ کھڑکنے‘‘ وغیرہ وغیرہ برے لفظوں سے بلاتے ہیں- امام بننا جو ایک زمانہ میں بادشاہ کا کام ہوتا تھا آجکل جلا ہوں اور غریب قوم کے لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے اور خود اس سے سبکدوش ہو گئے ہیں- پھر کہتے ہیں کہ ہم ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں؟ یہ تو ان کی حالت ہے-
موسیٰؑ نے اپنی قوم کو فرمایا کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم توبہ کر لو اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنو اور اس میں اللہ کے فرمانبردار بن کر داخل ہو اور کہو حطۃ پس ہمارے گناہ معاف کر دے- پچھلی بدیوں سے استغفار کر لو اور آئندہ بدیوں سے پرہیز کرو- اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو- نغفر لکم خطایاکم پھر وہ بدیاں معاف ہو جاویں گی- و سنزید المحسنین اور ان نیکیوں کے بدلے بڑھ|چڑھ کر احسان ہوں گے- جو آدمی تکبر کرتا ہے اور بغض اور کینہ میں بڑھتا رہتا ہے آخر پھر اس کو اللہ|تعالیٰ سے بغض پیدا ہو جاتا ہے- پھر ایسوں پر عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھے-
) الفضل جلد۱ نمبر۱۸ ۔۔ ۱۵ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

‏]txeth [tag۱۷ / اکتوبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کے ساتویں رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس رکوع شریف میں ہم لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کس طرح ذلیل ہوتے ہیں‘ کس طرح مسکین بنتے ہیں اور کس طرح خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتے ہیں- کس طرح ابتدا اور انتہا ہوتی ہے- بہت سے لوگ دنیا میں ہیں- جب وہ بدی کرنا
چاہتے ہیں تو اگر وہ نیکوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں یا کسی نیکی کی کتاب پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں تو پہلے پہل ان کو حیاء مانع ہوتا ہے اور وہ بدی کرنے میں مضائقہ کرتے ہیں- پہلے چپکے سے ایک چھوٹی سی بدی کر لی پھر اس بدی میں تکرار کرتے ہیں پھر بدی میں ترقی کرتے ہیں- رفتہ رفتہ بدیوں میں کمال پیدا کر لیتے ہیں- کل جہان میں دیکھو- بدی اسی طرح آتی ہے- کبھی یکدم نہیں آتی- حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو- انہوں نے جواب دیا یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا- نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوا؟ ذلیل اور مسکین ہو گئے- پہلے چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کیں‘ پھر بڑی بڑی بدیوں تک نوبت پہنچ گئی-
مجھے تم سے محبت ہے- نہ میں تمہارے سلام کا محتاج‘ نہ تمہارے اٹھنے بیٹھنے کا اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا محتاج ہوں- میں تم سے کچھ نہیں چاہتا- صرف تمہاری بہتری چاہتا ہوں- تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ سوائے امام کے ترقی نہیں ہوتی- انگریزوں کی چھوٹی چھوٹی مجلسوں کے بھی پریذیڈنٹ ہوتے ہیں- مسلمان قوم آگاہ رہے کہ سوائے امام کے ترقی نہیں ہو سکتی- کسی نے کہا آجکل جہاد ہوتا ہے- میں نے کہا کہیں نہیں ہوتا- جہاد یہ ہے کہ ان کا امام ہو اور وہ حکم دے- اس کے ماتحت کام کریں- آجکل عام مسلمانوں میں کوئی امام نہیں- نہ ایران نہ چین نہ مراکو نہ ٹرکی نے ترقی کی- میں تم کو نصیحت کرتا ہوں- اللہ‘ رسول‘ فرشتوں کو گواہ کر کے تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں- وہم بھی نہ کرنا- نہ کسی طمع و غرض کے لئے کہتا ہوں ورنہ گنہگار ہو جائو گے- یہاں کے بعض رہنے والے باہر کے آنے والوں کے کانوں میں باتیں بھرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں اختلاف ہے- کوئی موجود خلیفہ کے بعد کسی کو تجویز کرتا ہے اور کوئی کسی کو- ان بے حیائوں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی باتیں کرتے ہیں- ان کو کیا خبر ہے کون خلیفہ ہو گا؟ ممکن ہے ہمارے بعد بہتر خلیفہ ہو- اللہ تعالیٰ اس کی کیسی کیسی تائید کرے- جب تم اس قدر بے علم ہو تو ایسی ایسی باتیں کیوں کیا کرتے ہو- کیا تمہارا انتخاب کردہ منتخب ہو گا؟ کیا موجودہ خلیفہ تمہارے انتخاب سے خلیفہ ہوا ہے کہ وہ تمہارے انتخاب سے ہو گا؟ یہ کام تمہارا نہیں- خدا کا کام خدا کے سپرد کرو- یونہی نفاق ڈالنے کے لئے کانوں میں کر کر کرتے ہو- میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم کو اس کا وبال نہ بھگتنا پڑے- تم میں ایک امام ہے- اس کا نام نورالدین ہے- کیا تم اس کی حیاتی کے ذمہ دار ہو؟ پیش از مرگ واویلا کرتے ہو- اگر تم حیادار ہو تو ایسی باتیں کبھی نہ کرو- تم میں بدظنی ہے- خواجہ کمال الدین منافقانہ کام نہیں کرتا- صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہے- یہ میرا یقین اس کی نسبت ہے- ہاں معلوم نہیں غلطیاں کر سکتا ہے- میں اس کے کاموں سے خوش ہوں- اس کے کاموں میں برکت ہے- اس کی نسبت بدظنیاں پھیلانے والے منافق ہیں- میرے اور میاں صاحب کے درمیان کوئی نقار نہیں- جو ایسا کہتا ہے وہ بھی منافق ہے- وہ میرے بڑے فرمانبردار ہیں- انہوں نے مجھ کو فرمانبرداری کا بہتر سے بہتر نمونہ دکھایا ہے- وہ میرے سامنے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے- انہوں نے فرمانبرداری میں کمال کیا ہے- میرے اور ان کے درمیان کوئی مخالفت نہیں- میں نے امام بننے کی کبھی خواہش تک نہیں کی- اللہ تعالیٰ نے تم سب کو گردنوں سے پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا- دیر کی بات ہے میں نے ایک رویاء دیکھی تھی کہ میں کرشن بن گیا- اس کا نتیجہ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا- یہ مطلب ہے ذالک بما عصوا و کانوا یعتدون )البقرۃ:۶۲( کا- پہلے انسان ادنیٰ نافرمانی کرتا ہے پھر ترقی کرتا کرتا حد سے بڑھ جاتا ہے- تم میں سے بعض کہتے ہیں کہ فتح محمد کو کمال الدین کی جاسوسی کے لئے بھیجا ہے- یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں- حد سے مت بڑھو- حد سے بڑھ جائو گے تو ہماری آیتوں کے کافر بن جائو گے- پھر نبیوں کے قتل پر آمادہ ہو جائو گے- نہ تمہیں علم ہے‘ نہ تمہیں عقل ہے- تم محتاج ہو- ہم محتاج ہیں- جو فرمانبردار ہو گزرے ہیں وہ ائمہ کا مقابلہ نہیں کرتے تھے- پہلے لوگوں میں یہ بات نہیں پھیلاتے تھے- اولاً امیر کو بات پہنچاتے- وہ اس میں سے نیک نتیجہ نکال لیتا- اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو تم میں سے بہت سے شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہو کر گمراہ ہو جاتے-
حضرت موسیٰ کی قوم باوجود کمزور ہونے کے پانی تک کے لئے اجازت مانگتی ہے- حضرت موسیٰؑ نے خدا سے دعا کی- حکم ہوا پہاڑ پر جائو- وہاں پانی بہتا ہے‘ پیو- ایک کھانے پر بس نہیں کی- کہنے لگے دعا کریں- ہم کھیتی باڑی کریں- ترکاری‘ ککڑیاں‘ لہسن‘ مسور اور پیاز کھائیں- موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا- یہ بڑی غلطی ہے- یہ ادنیٰ چیزیں ہیں- یہ تو تمہاری محنت سے مل سکتی ہیں- کم|عقلو! چھوٹے کاموں میں لگ جائو گے تو حکومت کس طرح کرو گے؟ ان میں سے جو کمزور تھے ان کو حکم دیا- جائو‘ کسی گائوں میں جا کر آباد ہو-
فومھا )البقرۃ:۶۲( کا ترجمہ بعض نے گندم کیا ہے- یہ غلط ہے- میں کبھی نہ کروں گا- میں نے ایک کتاب دیکھی- اگرچہ وہ مجھے ناپسند آئی مگر میں نے اس کو خرید لیا- رات کو مجھے رئویا ہوا کہ ایک بازار ہے- اس میں بہت خوبصورت پیاز اور لہسن خرید لیا- جب جاگ آئی تو زبان پر فومھا تھا تو سمجھ آئی کہ لہسن پر خوب ہاتھ مارا- فرمانبرداری کرو- اللہ تمہیں توفیق دے-
) الفضل جلد۱ نمبر۱۹ ۔۔۔ ۲۲ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۳۱ / اکتوبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و النصاریٰ و الصابئین من اٰمن باللہ و الیوم الاٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم و لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون )البقرۃ:۶۳( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
یہ ایک رکوع کا ٹکڑا ہے- میں بہت سوچ سوچ کر تھک جاتا ہوں کہ میں اپنی بات کن لفظوں میں کہوں جو دل میں اثر کرے- میں دیکھتا ہوں بہت لوگ ایسے ہیں گویا ہماری بات سنتے ہی نہیں اور ان کے کان حق سے کبھی آشنا نہیں ہوئے- میں نے ایک لڑکے سے پوچھا- سبق کہاں سے شروع ہو گا؟ اس نے کہا- دس برس ہوئے- میں درس میں آتا ہوں مگر کبھی سنا نہیں- اس کے پاس ایک اور بیٹھا تھا- اس سے پوچھا تو اس نے کہا و علیٰ ہذا القیاس- میں نے کہا خیر‘ عربی تو تمہیں آتی ہے-
تم تو شاید اس دور کو نہیں سمجھ سکتے مگر میں خوب سمجھتا ہوں- مگر کوئی باپ لڑکے کو دس برس تک نصیحت کرے اور وہ اس کے جواب میں ایک دن کہہ دے کہ میں نے آپ کی کوئی بات نہیں سنی- خیر‘ میرا کام سنانا ہے-
یہاں تین باتوں کا ذکر آیا ہے- ایک تو یہ کہ اسلام کے بعد دوسروں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں؟ دوم‘ ایمان کے بعد ہمارا عملدرآمد کیسا ہو؟ سوم یہ کہ اگر کہا نہ مانو گے تو حال کیا ہو گا؟
فرماتا ہے جو لوگ کسی قسم کے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں خواہ دہریہ ہی ہوں‘ غرض پابند ہوں کسی چیز کے‘ کسی اصل کے‘ پھر وہ خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی‘ جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے-
ان دو باتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ایمان کی جڑ اللہ پر ایمان ہے اور ایمان کا منتہیٰ آخرت پر ایمان ہے- اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کا نشان بھی بتا دیا کہ و الذین یومنون بالاٰخرۃ یومنون بہ و ھم علیٰ صلاتھم یحافظون )الانعام:۹۳-( وہ ایک تو تمام قرآن|مجید پر ایمان لاتا ہے- دوم‘ اپنی صلٰوۃ کی محافظت کرتا ہے- آج ہی ایک نوجوان سے میں نے پوچھا- نماز پڑھتے ہو؟ اس نے کہا- صبح کی نماز تو معاف کرو- )بھلا میرا باوا معاف کرنے والا ہے( باقی پڑھتا ہوں- یہ مومن کا طریق نہیں ہے- ایک مقام پر فرمایا افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض )البقرۃ:۸۶-(
پس تمام کتاب پر ایمان و عمل موجب نجات ہے- اس آیت میں اللہ نے بتا دیا ہے کہ ایک ہندو ایک عیسائی‘ ایک چوہڑا‘ ایک چمار جب لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتا ہے اور یوم|آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے اور پھر تم سب ایک ہو جاتے ہو- یہ اخوت اسلام کے سوا کسی مذہب میں نہیں- میں نے دیکھا ہے کہ شرفائ‘ حکمائ‘ غربائ‘ ایک صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں- اس فرمانبرداری کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ وہ لا خوف و لایحزن زندگی بسر کرتا ہے-
ایک پہاڑی پر جس کا نام حراء ہے ہماری سرکار سے بھی اللہ نے کلام کیا- ایسا ہی حضرت موسیٰؑ سے بھی ایک پہاڑ پر کلام ہوا جس کا نام طور ہے- رفعنا فوقکم الطور )البقرۃ:۶۴( کے معنے ہیں کہ اس کے دامن میں سب قوم کو کھڑا کیا- جیسے بولتے ہیں لاہور شہر راوی کے اوپر ہے- ایسا ہی ہجرت کی ایک حدیث میں ہے- فرفع لنا الجبل )جامع الصغیر( تو اس کے یہ معنے نہیں کہ مکہ پہاڑ اکھیڑ کر نبی کریم~صل۲~ کے اوپر رکھ دیا گیا-
خذوا ما اٰتیناکم بقوۃ )البقرۃ:۶۴( جیسے بنی اسرائیل کو تورات محکم پکڑنے کا حکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآن مجید کے بارے میں حکم ہے- اگر مانو گے تو فائدہ ہو گا اور اگر نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے- عورتوں کا بڑا حصہ تو قرآن سنتا ہی نہیں- امیر بھی بدبختی سے قرآن نہیں سن سکتے‘ نہ باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں- زمینداروں کو فرصت نہیں- فصل خریف سے فراغت پا کر کماد پیڑنے کا موسم آ جائے گا- پھر ہم سے سوال کئے جاتے ہیں کہ سفر میں روزہ معاف ہے تو کٹائی کے موقع پر بھی کر دیجئے- حالانکہ میں ایسا مجتہد نہیں- تمہیں دنیا میں خبر ہے یہود نے کیا کیا؟ انہوں نے سبت )خواہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کا اس کے معنی کرو‘ خواہ آرام کے معنی لو( میں بے اعتدالی کی - آرام میں‘ آسودگی میں انسان اپنے مولیٰ‘ اپنے حقیقی محسن کو بھول جاتا ہے- میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی دولت کی دعا نہیں کی- اس اعتداء کی پاداش میں ان کو ایسا ذلیل کیا جیسے بندر کہ قلندر کے نچانے پر ناچتا ہے- یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے- ان کا اپنا کچھ بھی نہیں- انگریزوں کے نچانے پر ناچتے ہیں- جو لباس ان کا ہے وہی یہ اختیار کرتے ہیں- جو فیشن وہ نکالتے ہیں‘ جو ترقی کی راہ بتلاتے ہیں بلا سوچے سمجھے اس پر چل پڑتے ہیں- ایسی حالت میں کب لا خوف و لایحزن ہو سکتے ہیں- یہ حالت کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا-
میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو- اس پر عمل کرو- اس سے زیادہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا- بہت زور مارا ہے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۱ ۔۔۔ ۵ / نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *
‏KH1.40
خطبات|نور خطبات|نور
۷ / نومبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے و اذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ قالوا اتتخذنا ھزواً قال اعوذ باللہ ان اکون من الجٰھلین )البقرہ:۶۸( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
بعض لوگ ہمارے وعظ میں نہیں آتے حالانکہ یہاں رہتے ہیں- دریافت پر کہا- نور الدین ہماری نسبت ہمارے عیوب ظاہر کرتا ہے گو اشارہ سے ہو- ایک اور سے دریافت کیا کہ بھئی کیوں نہیں آتے؟ کہنے لگا کہ جو گناہ ہمارے وہم میں بھی نہیں ہوتے وہ تم بتلاتے ہو اور ہم اپنے زیرنظر لڑکوں کو نہیں بھیجتے- اسی طرح ایک اور شخص سے پوچھا- کہنے لگا کہ تمہارے درس میں ہوتا ہی کیا ہے؟ جو کہتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں- میں نے قرآن دیا کہ تم پڑھ کر ہی یہ مقام سنا دو- میں تم سے معنے نہیں پوچھتا- مگر وہ پڑھ ہی نہ سکا- اسی طرح جب واعظ وعظ کرتا ہے کئی لوگ اس کی حقیقت کو پہنچ جاتے ہیں اور اس کے رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں- ہمارے ننھال میں چوہڑے مصلی کہلاتے ہیں- نمازیں پڑھتے ہیں‘ مسجدیں بناتے ہیں‘ نام فضل دین عبد اللہ رکھتے ہیں- میں نے اپنے شہر میں دیکھا- کثرت آبادی مسلمانوں کی ہے- تین چوتھائی حصہ مسلمان ہیں- چوہڑے مشترک ہیں- نام مسلمانوں جیسے اور کچھ رسومات ہمارے اور کچھ ہندووں کے ادا کرتے ہیں- سکھوں کے علاقہ کے چوہڑے کیس رکھتے ہیں اور نام نتھا سنگھ رکھ لیتے ہیں- سنی‘ شیعہ‘ ہندو‘ سکھ سب اکٹھے رہتے ہیں- مذہبی غیرت اٹھ گئی- لڑائی کہاں ہونی تھی جب غیرت ہی نہ رہی-
ایک میرا استاد ہندو پنڈت تھا- کہنے لگا کہ ہندو‘ مسلمان تو دو مذہب ہوئے‘ مسیحی کہاں سے نکل آئے؟ میں ہنس پڑا- انہوں نے کہا کہ کیوں ہنس پڑے؟ میں نے کہا کہ مسلمان‘ عیسائی تو ملتے جلتے ہیں- یہودی‘ مجوس قوم قدیم ہے- کہنے لگا کہ شاید یہ لوگ چھپے ہوئے ہوں گے کسی ملک میں- مذہب تو دو ہی چلے آتے ہیں- اب یہ تیسرے لوگ ہیں- گویا ان کے خیال میں مسیحی جدید قوم تھی- ان کو کوئی خبر نہ تھی- یہ ناواقفی کا سبب ہے- تھا تو میرا واقعی استاد‘ اب بھی ان کو استاد کہتا ہوں - یہاں پر ہندو تو ہے ہی نہیں- خیر‘ میں حیرت میں رہا اور جواب دے دیا- یہاں پر ذکر اس لئے کیا کہ فرعون جو تھا اس کے آبائواجداد گائو کی پرستش کرتے تھے-
اسکندریہ میں ایک لائبریری تھی- اس کو بروچیم کہتے تھے- بروچیم بیل کا نام ہے- اس لائبریری کے آگے ایک بیل بنا ہوا تھا لائبریری کی حفاظت کے لئے- مورخوں کا اس میں اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں ڈھائی سو سال رہے یا چار سو سال- خیر یہ تمہاری دلچسپی کی بات نہیں اور فرعون کے سر کا تاج بھی گئو موکھی کا تھا اور اس کا بڑا ثبوت قرآن سے یوں ملتا ہے کہ جب بنی اسرائیل وہاں سے آئے تو بار بن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیر اثر تھے- سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی- گائو کو تو پہلے ہی مانتے تھے- میں نے ایک ہندو سے پوچھا کہ گئو ماتا کا تو اس قدر ادب کرتے ہو- اس کے خاوند )بیل( کی پرستش کیوں نہیں کرتے بلکہ بیل کو تو سارا دن جو تتے ہو- انبیاء کو تو شرک سے نفرت ہی ہوتی ہے- موسیٰ علیہ السلام کو بچھڑے کی پرستش بری لگی- اس کا ذکر کسی خطبہ میں ہو چکا ہے- یہاں مرض شرک کے علاج کا ذکر ہے- سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ گائو کی قربانی کرو- عادت بڑی بری بلا ہے- لگے ایچ پیچ بنانے- سیدھی بات تھی- گائے ذبح کر دیتے- ہمارے ایک شیخ المشائخ گزرے ہیں- ان کا نام شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہتھا- سرہند ریاست پٹیالہ میں ہے- ہمارے ہم قوم تھے- وہیں پیدا ہوئے- وہیں وفات پائی- انہوں نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ امرائ|وبادشاہ سب مل کر گائے کی قربانی کریں ورنہ مشکلات میں رہیں گے- اب دیکھو ہندو گائے کی قربانی بند کرانا چاہتے ہیں- ایسا کیوں ہوا؟ مسلمان بادشاہوں کی غفلت- و الا ہندو رسومات کا پابند نہیں- مثلاً جیسے گائو کا ذبح کرنا برا جانیں ایسا بکرے اور مرغ کو ذبح کرنا-
موسیٰؑ اتنا بڑا اولوالعزم نبی تھا- کتنے نشان دکھلائے- فرعون کی غلامی سے بچایا‘- یدبیضاء ‘عصائ‘ جراد‘وبائ‘ قمل‘ طوفان‘ وغیرہ وغیرہ دکھائے- فرعون غرق ہوا- اسی دریا سے بنی اسرائیل بچ کر نکل آئے- ان کے دل میں کوئی ادب معلوم نہیں ہوتا اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہنسی کرتے ہیں؟ کہا ]ksn [tagاعوذ باللہ- یہ تو جاہلوں کا کام ہے- ہماری سرکار نے فرمایا‘ صلی اللہ علیہ و سلم‘ کہ میں تم سے بڑا عالم اور متقی ہوں- ٹھٹھا یا مخول کرنا عالم کا کام نہیں- مجھے یاد نہیں کہ کبھی درس میں یا طب میں ٹھٹھا کیا ہو- وہ بدمعاش خوب سمجھتے تھے کہ سیدنا موسیٰ کی کیا غرض تھی مگر رسم کے خلاف کرنا بھی مشکل تھا- اس لئے ’’خوئے بد را بہانہ ہا بسیار-‘‘ کہتے ہیں کہ ادع لنا ربک یبین لنا ما ھی )البقرۃ:۶۹-( یہ تمسخر ہے- جو اب ملا- گائے ہے- نہ بچھیا ہے اور نہ بڑھیا ہے اور جوان ہے- جو حکم ہوا ہے اس کی تعمیل کرو- شریر‘ پابندرسوم|و|عادات بھلا کیسے جلد سیدھا ہو- لگے پوچھنے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ علاج تو یہ تھا کہ دو جوت لگا دیتے- مگر انبیاء رحیم کریم ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ زرد رنگ اور شوخ ڈہڈھا رنگ ہے یعنی گوڑھا‘ گورا- خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو- کیا معنے؟ درشنی گائو ہے- ہندو ایسی عمدہ گھروں میں رکھتے ہیں اور ان کو گندھا آٹا کھلاتے ہیں- اب یہ بدبختی پیچھا نہیں چھوڑتی- کہتے ہیں کہ حضور گائیں بہت ہیں- گوریاں بھی ہیں- ذرا تفصیل سے پوچھو‘ ہم کو تو شبہ پڑ گیا ہے- پھر تاڑ گئے کہ یہ شرک کو تو پسند نہ کرے گا- اور فرمایا کہ وہ ذلیل نہیں ہے- وہ تو کھا کھا اتنی موٹی ہوئی ہے کہ وہ زمین پر کھر مارتی ہے- کبھی کھیتی میں نہیں لگائی گئی- اس میں کلا کوئی نہیں اور نہ داغ ہے- مجبور ہو گئے- آخر ذبح کرنی پڑی- آخر انبیاء علیہ السلام کے حضور کیا پیش جاتی-
ایک اور بات سناتا ہوں کہ جب انسان کسی جگہ کو آگ لگاتا ہے تو پہلے دیا سلائی کو جلاتا ہے- پھر چیتھڑے اور کاغذ وغیرہ کو آگ لگاتا ہے- ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے
کھنڈ تباہ کر دیں- اسی طرح قومی افساد کے لئے بعض لوگ ایک امر کو دینی اور مذہبی امر تجویز کر کے اس سے افساد شروع کرتے ہیں اور شاید ان کی اتنی عقل ہوتی ہے یا یہ ان کی بدعادت ہے- اس کو پورا کرنے کو ایک ایمانی امر تجویز کرتے ہیں- اس لئے میں اول اپنا ایمان ظاہر کرتا ہوں- ہمارے ایمان میں جو کچھ ہے یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ اور گواہ رہیو- قیامت کے دن پوچھے جائو گے کہ کوئی معبود برحق ‘محبوب‘ مطلوب حقیقی جس کے آگے کامل اطاعت کریں‘ تذلل اختیار کریں‘ اللہ ہے- اس کے مقابل میں کوئی نہیں- رب‘ رحمن‘ رحیم‘ مالک یوم الدین‘ اس کی صفتیں ہیں- لاکھوں فرشتے اس نے بنائے ہیں- یہ اس کے کارخانہ میں اس کے حکم کے تحت کارکن ہیں- ان کی معرفت حکم الٰہی آتا ہے اور بالواسطہ بھی آتا ہے اور جن کے پاس آتا ہے اگر وہ مامور ہوں تو وہ رسول کہلاتے ہیں اور سب کے سردار نبی کریم ~صل۲~ ہیں- اس کے بعد دوزخ‘ جنت‘ پل صراط‘ قیامت برحق ہیں- میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور خوب سمجھ کر پڑھی ہیں- مجھے قرآن کے برابر پیاری کوئی کتاب نہیں ملی- اس سے بڑھ کر کوئی کتاب پسند نہیں ہے- قرآن کافی کتاب ہے- او لم یکفھم انا انزلنا )العنکبوت:۵۲-( ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں اور آتے رہیں گے-
میں نے اپنے زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب کو دیکھا ہے- سچا پایا اور بہت ہی راستباز تھا- جو بات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منواتا تھا- اس نے بھی ہم کو یہی حکم دیا کہ قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو اور فرمایا کہ قرآن کے بعد اگر کوئی کتاب ہے تو بخاری ہے- اس نے تین دعوے کئے- اول حضرت عیسیٰؑ مر گئے- اس کے دلائل و اصول بتائے اور قرآن سے ثابت ہوئے کہ واقعی مر گئے جیسے فیھا تحیون و فیھا تموتون و منھا تخرجون )الاعراف:۲۶( الم نجعل الارض کفاتاً احیاء و امواتاً )المرسلات:۲۶‘۲۷-( دوئم ایک عیسیٰ کی آمد ہے اور فرمایا کہ وہ میں ہوں- ہم نے اس کو نشانوں سے مانا اور میں خود بھی نشان ہوں اور میرا گھر بھی نشانوں سے بھرا پڑا ہے- تیسرا‘ جو طبعی موت سے مر جاتے ہیں وہ پھر اس دنیا میں نہیں آتے- اس کو بھی ہم نے واضح طور سے اور بالکل قرآن کریم کے مطابق پایا- باقی مسئلہ کوئی ایسا نہ تھا- اگر کوئی ان سے مسئلہ پوچھتا تو اکثر میرے پاس بھیج دیتے کہ نورالدین سے پوچھ لو-
ایک دفعہ میں نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خواب یا کشف میں دیکھا- میں نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ اور آپ کی فضیلت کامسئلہ دنیا میں پیچ دار ہو رہا ہے- اس کا اصل کیا ہے؟ فرمایا- انسان کی فضیلت موقوف ہے اس تعلق پر جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہے- دلوں کے حالات کو علیم بذات الصدور )اٰل عمران:۱۲۰( text] g[ta کے سوا کون جانتا ہے-
اب ایک اور سوال ہے- خواجہ کمال الدین کون ہے اور نور الدین کون ہے؟ یہ عیار لوگوں کا کام ہے- نہ نماز سے مطلب‘ نہ حج کا فکر‘ نہ روزہ کا خیال- ایک نے سوال کیاہے کہ آپ نے کہا ہے-
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت کمال دیں بودے
حالانکہ یہ مصرعہ ہی غلط ہے- )اکبر شاہ خانصاحب کو استشہاد شاعری کے لئے کھڑا کیا- بتائیے یہ مصرعہ صحیح ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بالکل غلط-( میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ تم فساد ڈلواتے ہو- کہتے ہیں کہ قاضی حبیب اللہ ہے- دو شخص اور ہیں- ہم نہیں جانتے- جب وہ ہمارے سامنے آتے ہیں تو وہ مخلص اور فرمانبردار ہی معلوم ہوتے ہیں- پھر وہ کہتا ہے کہ دیوث کہا ہے- وہ شریرالنفس ہیں- وہ بار بار لکھتے ہیں کہ الفضل جھوٹ لکھتا ہے اور تم جھوٹ بولتے ہو- اور ہم کہتے ہیں کہ تم ہماری اصلاح کے لئے یہاں نہیں آئے- اگر تم کو ہماری مجلس بہت گند سکھاتی ہے تو مہربانی کرکے اپنے گھر تشریف لے جائو- اگر تم کو بلائیں تو جھوٹے- میں نے سوائے اس غرض کے کبھی قرآن|شریف نہیں سنایا کہ تم اس سے کچھ فائدہ اٹھائو- سو اگر تم قرآن سیکھنے آئے ہو تو سیکھو- میں دنیا کا محتاج نہیں- میں نے مکان بیٹے کے لئے بنوایا- میں نے کسی سے نہیں کہا کہ دعا کرو یا روپیہ دو- نہ دل میں نہ ارادہ میں- میری ایک دکان ہے- خوب کماتا ہوں- اگر قرآن کے لئے آئو تو قرآن سیکھو- میں لڑائی کو پسند نہیں کرتا- کمال دین اچھا ہے- وہ نیک کام میں ہے- اگر کوئی غلطی اس سے ہو تو قدوس تو خدا تعالیٰ ہی ہے- اس کے سوا کوئی پاک نہیں- وہی ہر عیب سے پاک‘ کمزوریوں اور نقصوں سے منزہ‘ مستجمع جمیع صفات ہے- وہ ایک نیک کام میں لگا ہوا ہے- تم میں سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر رہا- غلطی کو رہنے دو- نیکی کو لے لو- وہ بار بار مجھ کو ’’مطاع مطاع‘‘ لکھتا ہے- پھر اگر ایک شریر النفس آدمی باوجود اتنی تصریح کے یقین نہیں کرتا تو میرا اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد کرو- خود فیصلہ ہو جائے گا-
باوجود ان باتوں کے لڑائی سے باز نہیں آتے- کمال دین اپنی ذاتی غرض سے وہاں نہیں گیا- اس کو اپنے بال بچوں تک کی پرواہ نہیں- کسی نے لکھا ہے کہ کمال الدین کی ڈاڑھی کا صفایا ہوا ہوا ہے- میں نے اگلے روز کمال الدین کی تصویر دیکھی ہے- ڈاڑھی موجود ہے- میرے نزدیک اگر ڈاڑھی منڈواتا بھی تو جس کام کے لئے گیا ہے اس کو تو اچھا کہوں گا- اگر کوئی غلطی ہے تو میں خود چشم پوشی کرتا ہوں- کوئی نہیں جس سے غلطی نہیں ہوتی- ہم آدمکی اولاد سے ہیں- اس کے لئے عصیٰ اٰدم ربہ فغویٰ )طٰہٰ:۱۲۲( رکھا ہوا ہے-
ہماری قوم روافض نہیں جنہوں نے اڑھائی مسلمان کو مان کر باقی صحابہ اور بیسیوں تک کو منافق کہا ہے- خوارج نے بھی حد کر دی ہے- گواہ رہو میں لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوں- مرزا صاحب کو دعویٰ میں راستباز یقین کرتا ہوں- بعض مجھ کو منافق کہتے ہیں کہ لڑواتا ہے- میں منافق نہیں ہوں- منافق میں تین عیب ہوتے ہیں- اول نہ تاب مقابلہ رکھتا ہے‘ نہ قوت فیصلہ‘ اور ڈرپوک ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ نے مجھے ان تینوں سے بہت محفوظ کیا ہے- قرآن کو کتاب اللہ سمجھتا ہوں- مسلمان اس پر عمل کریں- باقی جو چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں‘ میں انہیں شیطان کا اغوا کہتا ہوں- اس میں فائدہ کیا ہے )اس کے بعد حضور بیٹھ گئے- ضعف طاری ہو گیا- پھر اٹھے اور فرمایا(- کمال الدین جو کرتا ہے تم میں سے کوئی ہے؟ اس میں غلطی ہے تو کون سی بات ہے- وہ ہزاروں روپے کمانے والا آدمی ہے- ہم قرآن پڑھاتے ہیں- کئی نئے نکتہ معرفت سوجھتے ہیں تو کیا معلوم ہم نے بے ایمانی سے پڑھایا تھا- پہلے بھی نیک نیتی سے پڑھایا تھا اور اب بھی-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۲ ۔۔ ۱۲ / نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - *

۱۴ / نومبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے و اذ قتلتم نفساً فادٰرء تم فیھا و اللہ مخرج ما کنتم تکتمون )البقرۃ:۷۳( کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں نے بچوں کو کھیلتے دیکھا ہے اور ان کی کھیلوں پر بڑا غور کیا ہے- بعض بچوں کو بڑی عمدہ چیز منگوا کر دی- وہ پہلے تو اسے اچھی طرح دیکھتا ہے اور اس سے کھیلتا ہے- پھر تھوڑی دیر کے بعد اس کو پتھر لے کر اچھی طرح کوٹتا ہے اور اسے کچل دیتاہے- پھر اسے دیکھتا ہے- پھر دیکھتا ہے کہ ابھی اس کا مطلب حل نہیں ہوا تو اسے پھر پتھر سے کوٹتا ہے اور اس کا اچھی طرح کچومر نکالتا ہے-
میں جب نماز کو آرہا تھا تو میرے پاس دو شیشیاں تھیں جن میں الگ الگ دوائیں پڑی تھیں جن کا آپس میں ملانا بالکل ناجائز تھا- میرے بچے نے ان کو لے کر پہلے تو ان کا منہ کھولا پھر ان کو آپس میں ملانے لگا- میں نے کہا کیا کرتا ہے؟ مگر وہ کہاں ٹلتے ہیں‘ چاہے چیز بگڑ جاوے- انسان یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے؟
اسی طرح بعض لوگ کتابیں لکھتے ہیں- پھر ان پر حاشیے چڑھاتے ہیں- پھر ان پر حاشیہ در حاشیہ در حاشیہ اور ان کی شرحیں ہوتی ہیں-
میری طالب علمی کا زمانہ بڑا دکھ کا زمانہ گزرا ہے- بڑا معرکتہ الآراء مسئلہ کہ بچہ کو کیسی تعلیم دینی چاہئے‘ اس کا کوئی فکر نہیں- رامپور میں میں نے طلباء کو دیکھا جن کی عمر تیس سال سے لے کر ساٹھ سال تک کی ہو گئی تھی-
ایک ملتانی بوڑھا آدمی میری پنجابی سن کر مجھے ملنے کو آیا- ان دنوں میں ایک بہت ہی خبیث کتاب ’’ملاحسن‘‘ پڑھا کرتا تھا- اس سے میں نے دریافت کیا کہ تم کیا پڑھا کرتے ہو؟ اس نے کہا ’’قاضی|مبارک-‘‘ وہ جب آیا تو میرا انشراح صدر ہو گیا- میں نے کہا کہ میں ’’قاضی مبارک‘‘ خوب جانتا ہوں- اس نے کہا مجھے پڑھا دو- اتفاق سے جس جگہ کو میں نے پڑھایا وہ مجھے خوب آتی تھی- اس کی عمر میرے خیال میں ستر برس کی تھی- میں نے اسے پنجابی میں وہ جگہ پڑھائی- وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ تو خوب جانتے ہیں- پھر اس نے کہا کہ مجھے قاضی پڑھا دو- میں نے کہا اس شرط پر کہ پہلے ایک سبق مشکٰوۃ کا پڑھ لیا کرو- اس نے ہاتھ کو کھڑا کر کے دیکھا اور کہا کہ ابھی تو مضبوط ہوں- )تم مجھے دیکھتے ہو- میں کیسا کمزور ہوں- وہ مجھ سے بھی زیادہ کمزور تھا( پہلے فلسفہ پڑھ لوں پھر مشکٰوۃ بھی پڑھ لوں گا- میں نے اس کو پڑھانے سے انکار کر دیا- یہ ایک دکھ ہے جو بڑا ہے-
میں نے اس آیت پر غور کیا ہے- و اذ قتلتم نفساً )البقرۃ:۷۳( یہ ایک سیدھی آیت ہے- اس کے معنے تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا- آدمی کو تو مارا ہی کرتے ہیں- یہ ترجمہ اس کاصحیح نہیں- اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم نے ایک جی )یا جان( کو مارا- پھر اپنے آپ سے ہٹانے لگے کہ تم نے نہیں مارا- معلوم ہوا کہ وہ جان ایسی نہ تھی جس کا وہ بہادری کا کام سمجھ کر اقرار کرتا-
کعب بن اشرف مارا گیا- اس کے قاتل کا پتہ پوچھنے پر نبی کریم~صل۲~ نے فرمایا- میں نے مارا ہے- ابورافع مارا گیا- اس کے لئے بھی نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا کہ ہم نے اس کو مارا ہے-
کشت و خون جیسا کہ آجکل سرحدیوں‘ وزیریوں اور محسودیوں وغیرہ میں ہے ایسا ہی عرب میں تھا-
سب کے نزدیک عورت کا مارنا بہت معیوب ہے- ابوسفیان نے کہا تھا کہ آپ اس لڑائی میں عورتوں کو بھی مقتول پائیں گے مگر میں نے یہ حکم نہیں دیا-
میں ایک دفعہ ایک رئیس کے ساتھ جس کے ساتھ انگریز بھی تھے‘ سئور کے شکار پر گیا- سامنے سے ایک سئور آیا- اس کا گھوڑا اس سے ڈر گیا- وہ جھک کر گھوڑے کو ایک طرف دوڑا کر لے گیا- ایک مسخرا انگریز بھی ان میں تھا‘ اس نے اس رئیس کو کہا کہ واہ آپ کا گھوڑا سئور سے ڈر گیا- تو اس رئیس نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں میں جھکا تھا- میں نے دیکھا کہ وہ سئور کی مادہ سورنی تھی- ہم سپاہی مادہ کو نہیں مارا کرتے- تو اس انگریز نے دوسرے انگریزوں کو کہا- شکر ہے ہم نے اس کو نہیں مارا ورنہ ہماری تو بدنامی ہوتی-
اس آیت میں جس نفس کا ذکر ہے‘ وہ عورت ہے- مرد کو اگر مارتے تو کچھ حرج نہ تھا- تحقیقات کرنے پر انہوں نے اس کو ایک دوسرے پر تھوپا- آخر نبی کریم ~صل۲~ نے مدینے کے سارے بدمعاشوں کو جمع کیا اور اس عورت کے آگے سب کو پیش کیا- وہ بول تو نہ سکتی تھی مگر قوت ممیزہ اس میں تھی- جب قاتل کو اس کے سامنے لایا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ یہی ہے- اس کو نبی|کریم~صل۲~ نے کئی پیچوں سے اس عورت پر پیش کیا مگر وہ اس کو پہچان لیتی- اس کا ذکر بخاری|شریف میں ہے- اس بدمعاش نے اس عورت کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا- کچھ زیور کے لالچ سے- و اللہ مخرج ما کنتم تکتمون )البقرۃ:۷۳( اللہ اس بات کو نکالنے والا تھا- آخر وہ بات نکل آئی- فقلنا اضربوہ ببعضھا )البقرۃ:۷۴( تب ہم نے اس قاتل کو مارنے کا حکم دیا- اور یہ اس کے بعض کا بدلہ تھا- اس نے پہلے بھی کئی بدمعاشیاں کیں اور آگے بھی وہ کرتا- اس لئے یہ سزا اس کے بعض کی ہے-
اور جگہ فرمایا- و لکم فی القصاص حیٰوۃ )البقرۃ:۱۸۰( بدلہ لینے میں تمہارے لئے حیات ہے- یحیی کا لفظ رکھا ہے- یہ ان کی بے حیائی ہے کہ عورت کو مارا- عورت کو مارنا کوئی بہادری نہیں-
میں اس آیت کو سنا کر افسوس کرتا ہوں- مسلمانوں کوبتلایا تھا کہ تم ایسا کام نہ کرنا- مگر تم صدہا قتل کرتے ہو- ڈرتے نہیں-
ثم قست قلوبکم )البقرۃ:۷۵( تمہارے دل سخت ہو گئے- بعض پتھروں سے نہریں چلتی ہیں اور ان سے نفع پہنچتا ہے- مگر تم تو ان پتھروں سے بھی بدتر ہو- تم جس قدر ہو تم میں سے ندیاں اور نہریں جاری ہوتیں- اور کچھ نہیں تو پانی
نکلتا- میں تمہارا خیرخواہ ہوں- میں نے تمہیں سمندر کے سمندر سنائے مگر تم بھی بہادر ہو- بعض ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہی نہیں- قست قلوبکم- خدا ساری قوم کو برا نہیں کہتا- بعض نیک بھی تو ہوتے ہیں جو ان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ )البقرۃ:۷۵( کے مصداق ہوتے ہیں- منھا میں جو ضمیر ہے اس میں اختلاف ہے- بعض پتھروں کی طرف پھیرتے ہیں‘ بعض قلوب کی طرف- جیسے موسیٰ کے بارے میں فرمایا-
ان اقذ فیہ فی التابوت فاقذ فیہ فی الیم )طٰہٰ:۴۰( موسیٰ کو صندوق میں ڈال دو اور صندوق کو دریا میں ڈال دو یا موسیٰ کو دریا میں ڈالو-
غرض تمام ایسے نہیں- تم میں سے بعض میرے خیرخواہ اور فرمانبردار بھی ہیں- ایک آدمی کو میں نے دعا کرتے سنا کہ الٰہی! میرا وجود تو کوئی نافع نہیں- میری عمر نور الدین کو دے دے‘ اگر اس کی عمر پوری ہو گئی ہے کیونکہ یہ مفید انسان ہے- تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے دل خشک ہیں- وہ خدا کا ڈر نہیں کرتے جیسے غیر احمدی نہیں مانتے-
ان کے پاس قرآن و حدیث کی کتابیں ہیں- وہ ان کو نہیں مانتے تو تمہارا کیوں ماننے لگے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۳ ۔۔۔ ۱۹ / نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۲۱ / نومبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
‏nsk] [tagو اذا لقوا الذین اٰمنوا قالوا اٰمنا و اذا خلا بعضھم الیٰ بعض قالوا ا تحدثونھم بما فتح اللہ علیکم لیحاجوکم بہ عند ربکم افلاتعقلون )البقرۃ:۷۷-(
اور پھر فرمایا-:
انسان کے ذمے تین طرح کے حقوق ہیں-
اول اللہ تعالیٰ کے- دوم اپنے نفس کے- سوم مخلوقات کے- ان حقوق کے متکفل قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں- جناب الٰہی کے حقوق کون بیان کر سکتا ہے- عقل میں تو نہیں آ سکتے- جس طرح وہ وراء الوراء ہستی ہے‘ اس کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں- جب انسان ایک دوسرے انسان کی رضامندی کے طریقے کو اچھی طرح نہیں جان سکتا تو خدا تعالیٰ کی رضامندی کے رستوں کو کب کوئی پا سکتا ہے- اور جب انسان کے حقوق کو نہیں سمجھ سکتے تو خدا کے حقوق کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں- مثلاً میں یہاں کھڑا ہوں- تم میری رضامندی کی راہ کو نہیں جانتے تو وہ ذات جو لیس کمثلہ شی ء )الشوریٰ:۱۲( ہے اس کے حقوق کیونکر انسان سمجھ سکتا ہے- اسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں- انسان بہت کچھ غلطیاں کر جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک قانون بنایا ہے-
ایک صحابی دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے- وہ حضرت سلمان فارسیؓ کے دوست بھی تھے- ایک دفعہ سلمان ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی بیوی کا لباس خراب تھا- انہوں نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ بھاوجہ صاحبہ! آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کپڑوں کی حالت کیونکر اچھی ہو- تمہارے بھائی کو تو بیوی سے کچھ غرض ہی نہیں- وہ تو دن بھر روزے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے ہیں- حضرت سلمانؓ نے کھانا منگوایا اور اس دوست کو کہا کہ آئو کھائو- انہوں نے جواب دیا کہ میں تو روزے دار ہوں- تو حضرت سلمانؓ نے ناراضگی ظاہر کی- تو مجبوراً اس صحابی نے آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا- پھر حضرت سلمانؓ نے جب رات ہوئی تو چارپائی منگوا کر ان کو کہا کہ سو جائو- انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ میں رات کو عبادت کیا کرتا ہوں- تو پھر حضرت سلمان نے ان کو زبردستی سلا دیا- صحابہ ایسے نہ تھے کہ اذا جائ|ھم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ )النسائ:۸۴( جب کوئی امن و خوف کی بات ہوتی تو اسے پھیلا دیتے تھے- تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بات سنی تو فوراً اس کو پھیلا دیتے ہیں- آخر ان کا معاملہ حضرت نبی کریم ~صل۲~ کے پیش ہوا تو آپ نے اس صحابی کو فرمایا کہ تمہارے متعلق ہمیں یہ بات پہنچی ہے- تو انہوں نے یہ عرض کیا کہ بات تو جیسے حضور کو کسی نے پہنچائی ہے وہ صحیح ہے- تب نبی کریم ~صل۲~ نے ان کو فرمایا- ان لنفسک علیک حقاً و لزوجک علیک حقاً- text] gat[ یہ بھی فرمایا- و لعینیک علیک حقاً )بخاری کتاب الصوم( تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں- تیری بیوی کے بھی حقوق ہیں- اس نے عرض کیا- یا رسول اللہ! اس کی مراد اس سے یہ تھی کہ میں تو خوب مضبوط ہوں- آپ مجھے کچھ تو اجازت دیں- تو نبی کریم صلعم نے فرمایا کہ اچھا ایک مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو )چاند کی ۱۳- ۱۴- ۱۵-( اس نے پھر کہا- یارسول اللہ! مطلب یہ تھا کہ میں بہت طاقتور ہوں- آپ مجھے اور زیادہ اجازت دیں تو نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا- اچھا دو دن افطار کر کے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو- اس نے پھر عرض کیا- یارسول اللہ! تو نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا- اچھا سب سے بڑھ کر تو صوم دائودی تھا )بخاری کتاب الانبیاء فی ذکر داود علیہ السلام-( تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو- پھر کہا یارسول اللہ! مطلب یہ تھا کہ مجھے قرآن کریم کے روزانہ ختم کرنے کی تو اجازت فرما دیں- تو نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا کہ ہفتے میں ایک ختم کر لیا کرو- تو اس نے پھر عرض کیا یارسول اللہ! تو نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا- اچھا قرآن کریم کا ختم تین دن میں کر لیا کرو- اس سے جلدی کی بالکل اجازت نہیں-
جب وہ بوڑھے ہو گئے تو پھر ان کو اس سے تکلیف ہوئی اور اب نبی کریم ~صل۲~ تو فوت ہو گئے ہوئے تھے- اب لگے رونے اور پچھتانے کہ میں نے نبی کریم کی اجازت کو اس وقت کیوں نہ مانا- جب ایسے ایسے صحابہ کو رضامندی کا پتہ نہیں لگ سکا تو تم کو کیونکر لگ سکتا ہے؟
ہم بیمار ہو جاتے ہیں یا ہمیں کوئی خوشی ہوتی ہے تو تم میں سے بعض ایسے ہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ ہماری رنج و راحت میں بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہمیں پوچھتے تک نہیں-
و اذا خلا بعضھم الیٰ بعض اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو تم نے فلاں بات جو تم کو سمجھ آ گئی وہ کیوں بتلائی؟ اب وہ تم کو خدا کے روبرو ملزم ٹھہرائے گا- او لایعلمون ان اللہ یعلم ما یسرون و ما یعلنون )البقرۃ:۷۸( کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے چھپے اور ظاہر اور ان کے سب بھیدوں کو جانتا ہے تو وہ پھر چھپاتے کس سے ہیں؟
میں تم کو قرآن پڑھاتا ہوں- میں نے عربی کی کتابیں پڑھی ہیں- مجھے تو کوئی سمجھ میں نہیں آیا کہ میں قرآن کریم کے سوا اور کس قسم کا وعظ کروں- جمعے کے خطبے ہوتے ہیں- اس میں کوئی بات کہہ دیتا ہوں- مجھے تو قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب نظر نہیں آتی- میں نے کتابوں کو اس قدر پڑھا ہے‘ وہ کتابیں میرے پڑھنے کی خود گواہی دے سکتی ہیں کیونکہ ان پر میں نے بڑی محنت سے یادداشتیں لکھ دی ہوئی ہیں- تو مجھے تو قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی کتاب پسند نہیں آئی- قرآن سے ہی وعظ و نصیحت کرتا جاتا ہوں- میں نے دکان کھولی ہوئی ہے- خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا فہم دیا ہوا ہے کہ صرف قرآن کریم سے ہی میں علاج کرنا جانتا ہوں- پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ بعض کو ہماری تعلیم سے کچھ نفرت بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ کسی حالت میں بھی شریک نہیں ہوتے- یہ تو پڑھے ہوئوں کا حال ہے- بعض ان میں سے ان پڑھ بھی ہیں- ان کے پاس کوئی کتاب نہیں مگر اٹکل بازی سے کام لیتے ہیں- میرے خیال میں عیسائی مذہب بھی ایسا ہی ہے- وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم کلام الٰہی کے خادم ہیں- کوئی گورمکھی‘ کوئی اردو‘ کوئی ہندی میں لکھ کر ان سب کو کلام الٰہی کہہ دیتے ہیں- لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃ )البقرہ:۸۱( اس پر دعویٰ کہ ہم کو آگ نہ چھوئے گی- وہ جھوٹ کہتے ہیں- ہم جناب الٰہی کا قاعدہ بتلاتے ہیں بلیٰ من کسب سیئۃ و احاطت بہ خطیئتہ )البقرۃ:۸۲( جنہوں نے بدیاں کیں اور ان کوان کی بدیوں نے گھیر لیا تو وہی دوزخی ہیں- اور و الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات )البقرۃ:۸۳( جو لوگ ایمان لاتے اور عمل صالح کرتے ہیں ان کیلئے دنیا میں بھی جنت اور آخرت میں بھی جنت ہے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۴ ۔۔۔ ۲۶ / نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
۲۸ / نومبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی-
و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ و بالوالدین احساناً و ذی القربیٰ و الیتٰمیٰ و المسٰکین و قولوا للناس حسناً و اقیموا الصلٰوۃ و اٰتوا الزکٰوۃ ثم تولیتم الا قلیلاً منکم و انتم معرضون )البقرۃ:۸۴-(
اور پھر فرمایا-:
خلاصہ دین انبیاء کیا ہے؟ تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا ہے لاتعبدون الا اللہ - لا الٰہ الا اللہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی- بس یہی خلاصہ ہے تمام دینوں کا اور یہی لا الٰہ الا اللہ کے معنے ہیں-
عبادت کسے کہتے ہیں؟ لوگوں کو اس کے معنی نہیں آتے- بعض اس کے معنی بندگی کرنے کے کرتے ہیں اور بعض پرستش اور پوجا کے کرتے ہیں- اس کے کئی ارکان ہیں- اللہ تعالیٰ کی بے نظیر تعظیم‘ جیسی اس کی تعظیم کرے اور کسی کی نہ کرے- مثلاً ہاتھ باندھنے- اس کے آگے جھکنا )رکوع-( اس کے آگے سجدہ میں گر جانا- حج کرنا- روزے رکھنا- اپنے مال میں سے ایک حصہ اس کے لئے مقرر کر دینا- اٹھنے بیٹھنے میں اسی کا نام لینا- آپس میں ملتے وقت اس کا نام لینا جیسے السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور اس کی تعظیم میں قطعاً دوسرے کو شریک نہ کرنا-
دوسرا رکن- اس کی محبت کے مقابلہ میں کسی دوسرے سے محبت نہ کرنا-
تیسرا رکن- اپنی نیازمندی اور عجز و انکساری کامل طور پر اس کے آگے ظاہر کرنا-
چوتھا رکن یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری میں کمال کر دے- ماں باپ‘ محسن و مربی‘ بھائی بہن‘ رسم|ورواج اس کے مقابلہ میں کچھ نہ ہوں- لا تجعلوا للٰہ انداداً )البقرۃ:۲۳( الا تعبدوا الا اللہ )ھود:۳( اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں-
بعض روپیہ سے محبت کرتے ہیں- جو لوگ چوری‘ جھوٹ‘ دغا سے کماتے ہیں وہ اللہ سے نہیں بلکہ روپیہ سے محبت کرتے ہیں- کیونکہ اگر اس کے دل میں خدا کی محبت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتا-
اس سے اتر کر ماں باپ کے ساتھ احسان ہے- بڑے ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے- باپ کی رضامندی کو میں نے دیکھا ہے- اللہ کی رضامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں- افلاطون نے غلطی کھائی ہے- وہ کہتا ہے ہماری روح جو اوپر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے- وہ جھوٹ بولتا ہے- وہ کیا سمجھتا ہے روح کیا ہے؟ نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفے کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے- نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے بڑی مشقت سے- حملتہ امہ کرھاً و وضعتہ کرھاً )الاحقاف:۱۶( اسے مشقت سے اٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے- اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے- رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بسترے کی گیلی طرف اپنے نیچے کر لیتی ہے اور خشک طرف بچے کو کر دیتی ہے-
انسان کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ‘ یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ورنہ باپ کا حق اول ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہئے‘ سے بہت ہی نیک سلوک کرے- تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کے ایک یا دونوں وفات پا گئے ہیں‘ وہ ان کے لئے دعا کرے- صدقہ دے اور خیرات کرے-
ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا- وہ جھوٹے ہیں- ان کو غلطی لگی ہے- میرے نزدیک دعا‘ استغفار‘ صدقہ‘ خیرات بلکہ حج‘ زکٰوۃ‘ روزے‘ یہ سب کچھ پہنچتا ہے- میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے-
ایک صحابی نبی کریم ~صل۲~ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے- اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی- اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ تو نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا- ہاں- تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا‘ صدقہ کر دیا-
میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو اس وقت میں بخاری پڑھا رہا تھا- وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی- میں نے اس وقت کہا- اے اللہ! میرا باغ تو یہی ہے- تو میں نے پھر وہ بخاری وقف کر دی- فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے-
و ذی القربیٰ پھر حسب مراتب قریبیوں سے نیک سلوک کرو اور یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرو-
قولوا للناس حسناً قال کا لفظ عربی زبان میں فعل کے برابر لکھا ہے بلکہ اس سے وسیع لکھا ہے- اس سے کم ضرب کا لفظ لکھا ہے- لوگوں کو بھلی باتیں کہو- بدمعاملگیاں چھوڑ دو- بدمعاملگیوں سے باز آجائو-
و اقیموا الصلٰوۃ و اٰتوا الزکٰوۃ نمازیں پڑھو اور زکٰوۃ دیا کرو-
ثم تولیتم و انتم معرضون تم پھر جاتے ہو- باز نہیں آتے- اگر کسی کا روپیہ ہاتھ میں آ گیا تو اسے شیرمادر سمجھ لیا اور اسے دینے میں آتے ہی نہیں- اللہ تم پر رحم کرے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۵ ۔۔۔ ۳ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *

۵ / دسمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت پڑھی-
و اذ اخذنا میثاقکم لاتسفکون دمائ|کم و لاتخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقررتم و انتم تشھدون )البقرۃ:۸۵-(
اور پھر فرمایا-:
اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل رحمانیت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے- اس کا نام قرآن ہے- میں نے اس کو سامنے رکھ کر بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے اور ژند اور اوستا کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے- وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے- قرآن بڑا آسان ہے- میں ایک دفعہ لاہور میں تھا- ایک بڑا انگریزی خوان‘ اس کے ساتھ ایک اور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا- ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے- اس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے و لقد یسرنا القراٰن )القمر:۱۸( مگر قرآن کہاں آسان ہے؟ میں نے کہا آسان ہے- ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے تو پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل- پھر اس کی تفسیر کون کرتا- قرآن کریم نے دعویٰ کیا ہے- فیھا کتب قیمۃ )البینۃ:۴( جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے- باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے-
قرآن کریم میں اتنی خوبیاں ہیں- پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے اور جو ضروریات موجودہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا- اس کے سوا جتنے مضامین ہیں اللہ کی ہستی‘ قیامت‘ ملائکہ‘ کتب‘ جزاء سزا اور اخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں‘ ان کو بیان کیا-
جیسے کہ کوئی بدکار ہمارے مذہب پر ناپاک حملہ کرے تو اس کے مقابلے کے لئے فرمایا کہ ان کو گالیاں مت دو- فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم )الانعام:۱۰۹( پھر وہ اللہ کو اپنی نادانی کے سبب گالیاں دیں گے- کذالک زینا لکل امۃ عملھم )الانعام:۱۰۹( ہر ایک امت کے لئے وہ اعمال جو اس کے کرنے کے قابل تھے وہ اس کے سامنے خوبصورت کر کے پیش کئے گئے تھے- مگر پھر اندھوں کے لئے روشنی کا کیا فائدہ؟ میں نے اس کا مقابلہ دوسری کتابوں سے کیا ہے- انجیل کو دیکھو وہ تو اس سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں بیٹا فلاں کا اور فلاں بیٹا فلاں کا- مگر قرآن کریم الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے- اور انجیل کے اخیر میں لکھا ہے کہ پھر اس کو یہودیوں نے پھانسی دے دیا- ہماری کتاب کے آخر میں قل اعوذ برب الناس ملک الناس )الناس:۲‘۳( لکھا ہے-
بڑا افسوس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسی اعلیٰ کتاب ہے مگر وہ عملدرآمد کے لئے بڑے کچے ہیں- حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی کسی کی انگل بھر زمین ظلم سے لے لے گا تو قیامت کے دن سات زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہے- اسی طرح معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات بھر سوچتا رہتا ہے کہ کسی کے گھر روپیہ ہو تو اس سے کسی طریقہ سے لیا جاوے- پھر اگر کسی نہ کسی طریقہ سے لے لیتے ہیں تو پھر واپس دینے میں نہیں آتے- اسی طرح زنا‘ لواطت‘ چوری‘ جھوٹ‘ دغا‘ فریب سے منع کیا گیا تھا مگر آجکل نوجوان اسی میں مبتلا ہیں- اسی طرح تکبر اور بے جا غرور سے منع فرمایا تھا- لیکن اس کے برخلاف میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کو کوئی عمدہ بوٹ مل جاوے تو وہ اکڑتا ہے اور دوسروں کو پھر کہتا ہے 'اوبلیک مین‘ -(O,blackman!) دوسروں کی تحقیر کرتا ہے اور بڑا تکبر کرتا ہے-
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے مدینہ کو تشریف لے گئے تو مکہ میں تو آپ کو بہت سی سہولتیں تھیں- مکہ میں آپﷺ~ کے چھوٹے‘ بڑے‘ بوڑھے‘ ادھیڑ ہر قسم کے رشتہ دار بھی تھے اور آپ کے حمایتی بھی وہاں بہت تھے- مکہ میں آپﷺ~ کے دوست غم خوار بھی تھے اور آپ دشمنوں کو خوب جانتے تھے اور ان کی منصوبہ بازی کا آپ کو خوب علم ہو جاتا تھا اور آپﷺ~ ان کی چالاکیوں اور اپنے بچائو کے سامان کو جانتے تھے- تو جب آپﷺ~ مدینہ شریف میں تشریف لائے تو آپ کو اس دشمن کی شرارت کا کچھ علم نہ ہوتا تھا اور پھر آپﷺ~ کے یہاں اور بھی دشمن تھے- بنوقینقاع اور بنوقریظہ اور بنونضیر آپﷺ~ کے دشمن تھے اور پھر جہاں آپ اترے تھے وہاں ابوعامر راہب جو بنی عمرو بن عوف میں سے تھا اس کا جتھا آپﷺ~ کا دشمن تھا- یہود چاہتے تھے کہ ایران کے ساتھ مل کر ان سے آپکو ہلاک کروا دیں اور عیسائی قیصر کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ غطفان اور فزارہ کو بھی ملا لیا تھا- یہ نو مشکلات آپ کو تھیں-
اس سے بڑھ کر یہ کہ یہاں منافقوں کا ایک گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا- ان منافقوں نے عجیب عجیب کارروائیاں کیں- وہ آپﷺ~ کے پاس بھی آتے تھے اور آپﷺ~ کے دشمنوں کے پاس بھی جاتے تھے-
اور بارہویں بات جو اس سے بھی سخت تھی وہ یہ کہ مکہ والے ان پڑھ تھے اور وہ بے قانون تھے- ان کا مقابلہ صرف عقل سے ہی تھا- مگر یہاں تمام اہل کتاب پڑھے لکھے ہوئے تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی کتابیں تھیں- تورات اور انجیل اور اس کے سوا اور بھی کتابیں ان کے پاس تھیں-
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سوچا کہ مدینہ میں مشکلات بہت ہیں اس لئے آپﷺ~ نے عیسائیوں اور مشرکوں سے معاہدہ کروا لیا کہ لاتسفکون دمائ|کم آپس میں خونریزی نہ کرنا- و لاتخرجون انفسکم من دیارکم ایک دوسرے کو اپنے ملک سے نکالنا نہیں- ثم اقررتم تم نے اقرار تو کیا- و انتم تشھدون اور تم گواہی دیتے ہو-
جیسے تم نے ہمارے ہاتھ پر اقرار کیا- کہنا تو آسان تھا- مگر معاملات میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھلانا )مشکل( ثم انتم ھٰولاء تقتلون انفسکم پھر تم وہی ہو کہ تم نے وعدہ تو کیا مگر ایفاء نہ کیا اور تم خونریزی کرتے ہو- و تخرجون انفسکم اور تمہیں اس سے منع کیا تھا کہ کسی کو اپنے گھر سے نہ نکالنا مگر تم ان کو ان کے گھروں سے باہر نکالتے ہو- تظاھرون علیھم ان کی پیٹھ بھرتے ہو ظلم اور زیادتی سے- کبھی کبھی کوئی نیک کام بھی کر لیتے ہو- ]ksn [tag و ان یاتوکم اسٰریٰ تفٰدوھم- اگر کوئی قیدی آ جائے تو اسے چھڑا دیتے ہو حالانکہ تمہیں اس سے منع کیا گیا تھا ا فتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کتاب کے بعض حصے پر تو ایمان لاتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو- فماجزاء من یفعل ذالک منکم الا خزی تم تو دنیا کی عزت بڑھانے کے واسطے ایسا کرتے ہو مگر پھر ایسوں کی جزاء یہ ہے کہ وہ ذلیل ہوں گے- آخرت کی ذلت تو ہو گی ہی-
وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور سخت ذلت اٹھائیں گے اور ان کو سخت سے سخت عذاب ملے گا اور آخرت میں بھی ان کو سخت عذاب میں دھکیلا جائے گا-
و ما اللہ بغافل عما تعلمون- اللہ تمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہے-
اولٰئک الذین اشتروا الحیٰوۃ الدنیا ورلی زندگی کو آخرت میں پسند کرتے ہو-
فلا یخفف عنھم العذاب تم سے عذاب کی تخفیف نہ ہو گی اور تمہیں مدد الٰہی بھی نہیں ملے گی-
غور کر لو- فکر کر لو- اپنی بہتری کے لئے سوچ لو-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۶ ۔۔ ۱۰ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵ (
* - * - * - *
‏KH1.41
خطبات|نور خطبات|نور
۱۲ / دسمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
و لقد اٰتینا موسیٰ الکتاب و قفینا من بعدہ بالرسل و اٰتینا عیسی ابن مریم البینات و ایدناہ بروح القدس ا فکلما جاء کم رسول بما لاتھویٰ انفسکم استکبرتم ففریقاً کذبتم وفریقاً تقتلون )البقرۃ:۸۸-(
اور پھر فرمایا-:
کیسا اللہ کا فضل اور اس کا رحم اور اس کی غریب نوازی ہے کہ ہمیشہ اپنا پاک کلام ہماری تہذیب کے لئے بھیجتا رہتا ہے- اگر کسی آدمی کے نام وائسرے یا حاکم یا کسی امیر کا خط آ جائے تو وہ اس سے بڑا خوش ہوتا ہے اور اس کی تعمیل کو بہت ضروری سمجھتا ہے اور اس کی تعمیل کرتا ہے- مگر قرآن کریم جو رب|العالمین اور تمام جہان کے مالک و خالق کا حکم|نامہ ہے اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے اور ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے ہیں-
کوئی موسیٰؑ پر ہی مدار نہ تھا- و قفینا من بعدہ بالرسل اس کے بعد بھی رسول آتے رہے- سلیمانؑ‘ دائودؑ بھی اس کے بعد ہی آئے- عیسیٰ بن مریم کو بھی کھلے کھلے نشانات اور تعلیمیں جن پر کوئی اعتراض نہ آتا تھا دیئے- وہ اخلاقی تعلیم تھی‘ مان لیتے تو کیا حرج تھا-
پھر جب تعلیم آئی ]ksn [tag بما لاتھویٰ انفسکم استکبرتم تم اسے پسند نہیں کرتے اور اسے اپنے مناسب حال بناتے ہو- ففریقاً کذبتم ایک کو تو تم نے جھٹلایا و فریقاً تقتلون اور ایک کو اب بھی قتل کرنا چاہتے ہو-
و قالوا قلوبنا غلف )البقرۃ:۸۹-( عربی زبان میں نامختون کو غلف کہتے ہیں اور عرب لوگ نامختون کو اچھا نہ جانتے تھے مگر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ کے لئے اس لفظ کو بھی اپنے لئے پسند کیا اور کہا کہ ہمارے دل نامختون ہیں- اللہ تعالیٰ نے فرمایا بل لعنھم اللہ بکفرھم )البقرۃ:۸۹( یہ تمہارے کفر کے سبب تم پر *** ہوئی-
و لما جاء ھم کتٰب من عند اللہ )البقرۃ:۹۰( جب ان کے پاس اللہ کی کتاب آئی جو اس کتاب کی اور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہیں- تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد آمد کی خبر دے رہے تھے- جیسا میں نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مہدی کے لئے رو رو کر دعا ئیں کرتے تھے مگر وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر کسی کو خبر نہ ہوئی- اس کے مریدوں میں بھی طرح طرح کی بدمعاملگیاں اور فریب‘ دھوکہ بازی اور چالاکیاں ہیں- یہ کیا ایمان ہے؟ اصل بات یہ ہے فلما جاء ھم ما عرفوا کفروا بہ )البقرۃ:۹۰-( آئے پر انکار ہی ہوتا ہے- پھر دل *** ہو جاتے ہیں- ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا- میں نے دیکھا ہے- دکاندار غلطیاں کرتے ہیں اور فریب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے پیچ کیا اور اس کا نتیجہ عمدہ ہو گا اور ہمیں نفع ہو گا- مگر وہ ان کے لئے اچھا نہیں ہوتا|اور وہ ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا-
میرا جی چاہتا ہے کہ تم اب بھی توبہ کر لو مگر ایسی توبہ نہیں کہ اگر پھر کبھی ارغد عیش مل گیا تو پھر وہی خراب حالت کر لی اور کہا کہ پھر توبہ کر لیں گے- کسی نے خوب اس کے مناسب حال مصرع کہا ہے- ع
معصیت را خندہ می آید ز استغفار ما
ہماری استغفار ایسی ہے کہ گناہ بھی اس سے ہنستے ہیں- انگریزوں کی سالہا سال سے کمپنیاں چل رہی ہیں- وہ کیسے اتفاق سے کام کرتے ہیں- مگر تم میں سے دو آدمی بھی مل کر اتفاق سے دکان نہیں کر سکتے- اللہ کی مدد طلب کرنا اور استغفار بہت کرنا چاہئے- مگر استغفار کا مطلب تو یہ ہے کہ میں یہ کام پھر کبھی نہیں کروں گا-
میں ابھی اور بولنا چاہتا تھا- مگر سرد ہوا سے کھانسی شروع ہو گئی ہے اور اب مجھے تکلیف ہوتی ہے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۷ ۔۔ ۱۷ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ (
* - * - * - *

۱۹ / دسمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطبہ جمعہ
تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی-
و لما جائ|ھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنۃ اللہ علی الکافرین ]10 )[pالبقرۃ:۹۰(
اور پھر فرمایا-:
انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلا تا ہے- وہ مرض عادت‘ رسم و رواج اوردم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے- یہ چار چیزیں- میں نے دیکھا ہے چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف‘ تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا-
میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے- ان کو کسی برائی یا بدعادت سے منع کیا جاوے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتنی نیکیاں کرتے رہتے ہیں- یہ بدعادت ہوئی تو کیا- معلوم ہوتا ہے وہ بدی ان کو بدی نہیں معلوم ہوتی-
انبیاء اور خلفاء اور اولیاء اور ماموروں کی مخالفت کی یہی وجہ ہے- یہ قرآن کریم آیا اور اس نے ان کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہی پہلے لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے- مگر جب قرآن شریف آیا کفروا بہ انہوں نے اس کا انکار کر دیا- فلعنۃ اللہ علی الکافرین تو اللہ سے وہ بعید ہو گئے- ایک آدمی جب جھوٹ بولنے لگتا ہے تو پہلے تو مخاطب کو کہتا ہے کہ میری بات کو جھوٹانہ سمجھنا- میں تمہیں سچ سچ بتاتا ہوں- میں تو جھوٹے کو *** سمجھتا ہوں- مگر ہوتا در اصل وہ خود ہی جھوٹا ہے- بئسما اشتروا بہ انفسھم )البقرۃ:۹۱( یہ بہت بری بات ہے- وہ اللہ کا انکار کرتے ہیں صرف بغاوت کی وجہ سے-
دائودؑ و سلیمانؑ کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی اس وجہ سے ان پر *** پڑی اور وہ تتر بتر ہو گئے- ہسپانیہ میں اللہ کی مخالفت ہوئی- ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا- مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا- صرف عمدہ عمدہ کتابیں لے جانے کی اجازت دی گئی- مگر ان کتابوں کے تینوں جہاز جو انہوں نے بھرے تھے بمع آدمیوں کے غرق کر دیئے گئے- بغداد میں احکام الٰہی کا مقابلہ کیا گیا تو ان کا نام و نشان اٹھا دیا- لھم دار السلام عند ربھم )الانعام:۱۲۸( کے تفاول پر اس کا نام دارالسلام رکھا گیا تھا-
یہودیوں نے مسیح کی مخالفت کی- ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور ان پر غضب پر غضب نازل ہوا- ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر تم آخری نبی کو مان لو گے تو تم کو اجر ملے گا اور تم کو نجات دی جاوے گی- مگر انھوں نے نہ مانا اس لئے ان کو عذاب مہین ہو گا-
و اذا قیل لھم اٰمنوا بما انزل اللہ )البقرۃ:۹۲( اور جب ان کو کہا جاوے کہ اس کتاب کو مانو جس کو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اوپر اتاری گئی- حالانکہ وہ بھی ایک حق ہے-
فرمایا اگر تم اس کو ماننے والے ہوتے تو تم نبیوں کا مقابلہ کیوں کرتے؟ وہ اگر کہیں کہ ہم ان کو نبی نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ موسیٰؑ بھی تو توحید لائے تھے- تم نے ان کا کیوں انکار کیا اور ان کے پیچھے بچھڑا بنا لیا- اور اگر وہ کہیں کہ موسیٰؑ چلے گئے تھے‘ ہمیں غلطی لگ گئی تو فرمایا و اذ اخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطور )البقرۃ:۹۴( کہ ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا جس کو تم نے توڑ دیا- اچھا اگر تم عاقبت کو اپنے لئے سمجھتے ہو تو لڑائی میں اس کا پتہ لگ سکتا ہے- آئو لڑائی کر کے دیکھ لو-
یہ لڑائی کو کبھی پسند نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی کرتوتیں جانتے ہیں اور یہ بہت لمبی لمبی عمریں چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ہزار ہزار سال کی عمریں دی جاویں-
کشمیر میں میں نے دیکھا ہے کہ دعا دیتے وقت ’’یک صد و بست سال زی‘‘ کہتے ہیں اور ایرانی ’’ہزار سال بزی-‘‘ اور پنجابیوں نے تو حد ہی کر دی- یہ کہتے ہیں ’’رب کرے توں لکھ سو ورہیاں جیوندا رہیں-‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عمریں کس کام کی ہیں- لمبی عمر ہو جانے سے انسان دوزخ سے نہیں بچ سکتا- و اللہ بصیر بما تعملون )البقرۃ:۹۷( اللہ تو تمہارے اعمال کا واقف ہے- ان رسموں‘ عادتوں اور ان دم نقد ضرورتوں اور خیالی ضرورتوں کو اللہ کے نام پر قربان کر دو- یہ کیا چیز ہیں؟ شہوت والا کیا کر سکتا ہے؟ ہم نے طب میں دیکھا ہے- طب والوں نے اس کے لئے اوسط پچیس منٹ رکھی ہے- صرف پچیس منٹ کی خاطر خدا کو ناراض کر دینا!
بدمعاملگیاں ترک کردو- وقت کو ضائع نہ کرو- اللہ تم پر رحم کرے-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۸ ۔۔ ۲۴ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ (
* - * - * - *

۲۶ / دسمبر ۱۹۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد نور قادیان

خطبہ جمعہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کے رکوع ۱۲ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
قرآن کریم میری غذا ہے- اس واسطے میں نے سوچا کہ ہر جمعہ کو میں ایک رکوع قرآن مجید کا سنا دیا کروں اور اسی طرح پر ایک درس پورا ہو سکے- یہ رکوع جو میں نے آج پڑھا ہے اسی سلسلہ میں ہے- تم لوگ دور سے آئے ہو- دعوت تمہاری واجب تھی- اگر خدا نے تندرست رکھا اور بولنے کی طاقت بخشی تو کل اور پرسوں اس دعوت کا ارادہ ہے- فی الحال اسی سے نفع اٹھالو-
خدا تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں کئی کام ہیں- ان میں سے ایک رسولوں اور نبیوں کو ملائکہ کے ذریعہ پیغام پہنچانا ہے- ان ملائکہ کے افسر کا نام جبریل ہے- ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھی جبریل ہی اللہ کی کتاب لاتا رہا- اور رزق کے لئے جو ملائک مقرر ہیں ان کے آفیسر کا نام میکائیل ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- جبریل ہماری مخلوق ہے- وہ ہمارے حکم سے ہمارے پیغام پہنچاتا ہے- چنانچہ اے نبی! اس نے تجھ پر یہ قرآن اتارا ہے اور یہ قرآن ان عظیم الشان باتوں کی‘ جو اگلے پیغمبر کہہ گئے ہیں‘ تصدیق کرتا ہے- ان باتوں کا اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ کی تعظیم اور اللہ کی مخلوق پر شفقت- ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے متعلق تمام انبیاء سے اللہ نے عہد لیا- چنانچہ انہوں نے آپ کے ظہور کی پیشگوئیاں کی ہیں- یہ پیشگوئیاں تصدیق طلب تھیں- رسول اللہ کے آنے سے ان کی تصدیق ہو گئی- پھر جو علوم الٰہیہ دنیا میں آئے تھے اور ان میں غلطیاں پڑ گئی تھیں‘ غلطی دور کر کے صحیح کو صحیح طور پر ہمیں پہنچا دیا- بلکہ کچھ اور نئی باتیں بھی ہیں اور وہ باتیں مدلل ہیں- غرض کھلی کھلی باتیں بتائیں- بدعہد ان باتوں کو ناپسند کرتے ہیں- دیکھو! تم لوگوں نے بھی اپنے اللہ سے بہت سے عہد کئے ہیں- سب سے بڑا عہد تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں- یعنی اے مولیٰ! ہم تیرے فرمانبردار رہیں گے- ایک عہد کا ذکر الحمد میں آتا ہے جسے پڑھ کر میرے جیسا آدمی تو غش کھا جائے- وہ اقرار یہ ہے کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین- جس وقت تم یہ کلمہ منہ سے نکالتے ہو‘ ذرا اپنے دن رات کے اعمال پر نظر ثانی کرو کہ آیا ہمارے دن رات کا چال|و|چلن اس کے مطابق ہے؟ میرے منہ سے جب یہ کلمہ نکلتا ہے تو مجھے شرمندہ کر دیتا ہے- غرض عملی طور پر بہت لوگوں نے ان باتوں کو چھوڑ دیا ہے- جب خدا کا رسول آیا تو انہوں نے بجائے متنبہ ہونے کے اللہ کی کتاب کو ایسا پھینکا کہ خبر نہیں-
مسلمان اپنی حالت پر غور کریں- کتنے ہیں جو قرآن سنتے ہیں- پھر کتنے ہیں جو سن کر سمجھتے بھی ہیں- پھر کتنے ہیں جو سمجھ کر عمل بھی کرتے ہیں- اللہ کی کتاب چھوڑنے کی وجہ کیا ہے؟ غیر اللہ سے محبت کہ اس کی محبت میں سب کچھ بھول کر پھر خدا کی کتاب تک نہیں سنتے اور دوسری عداوت- عداوت میں لگے ہوئے انسان کو فرصت نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب سوچے سمجھے- سمجھے تو جب کہ اسے توجہ ہو اور توجہ جب ہو کہ فارغ البال ہو- بے جا عداوت‘ بے جا محبت میں گرفتار انسان کتاب اللہ کب سمجھ سکتا ہے- وہ تو اور ہی دلربا باتوں کے نیچے پڑا ہوا ہے- ایک طالبعلم سے مدرسے کا کورس ہی ختم نہیں ہوتا- وہ قرآن کس وقت پڑھے- اسی طرح ما انزل علی الملکین )البقرۃ:۱۰۳( یہ ایک علم تھا جس کے ذریعے بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دی تھی-
دوستوں کو چاہئے کہ جس چیز سے محبت رکھیں ایک حد تک رکھیں اور جس سے عداوت رکھیں ایک حد تک رکھیں- خدا کی کتاب کو بھول نہ جائیں-
) الفضل جلد۱ نمبر۲۹ ۔۔۔ ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲ (
……


بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبت اسلام
میں راستی سے کہتاہوں کہ ایمان کے لحاظ سے ،اعمال سے دنیامیں کوئی مذہب اسلام سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔مگرمیں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گاکہ اسلام ہودعویٰ اسلام نہ ہو۔
(خطبات نور۔ص9)
آنحضور ﷺ سے عشق
ایک مشہوربراہمولیکچرارنے نہایت جوش سے اپنے لیکچرمیں کہاکہ اے خدا!میں ہندوستانیوں کوتیرے پاس جاناچاہتاہوںمگروہ نہیں آتے۔ ایک شخص کہتاہے کہ اس کایہ فقرہ سن کرمیں دعامیں گرگیااوردعاکی کہ اے خدا!تو میرے دل کو کھول دے ۔پھر میں استقلال سے اوپر آیا اور کہا کہ میں ایک عرض کرنی چاہتا ہوں کہ آپ یقینایقینا مجھے اس کے حضور پہنچادیں گے ؟چونکہ اس کا انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان نہ تھا ،گھبراگیااوربولاکہ آج تک کی تحقیقات کے بھروسے پرپہنچاسکتاہوں۔مگرکل معلوم نہیں کیاجدیدبات پیش آوے لہٰذایقینا نہیںاس پرمیںنے کہ ایک شخص ایک دعوے اورکامل شعوراوربھروسے سے کہتاہے کہ میں خداتعالیٰ کے حضوریقیناپہنچاسکتاہوںتوپھراس کی طرف رجوع کرناچاہیے یاآپ کی طرف؟اس کوشرمندہ ہوکرکہناپڑاکہ ہاں!اس کوہی مانو!!وہ شخص جوکامل بھروسے اورپورے یقین اورشعورسے خداتعالیٰ تک پہنچانے کادعویٰ کرتاہے اوراس نے پہنچادیااورپہنچاتاہے اورپہنچادے گاوہ محمدرسول اللہ ﷺ ہیں۔
(خطبات نورص11)
عشق قرآن
قرآن کریم سے بڑھ کردنیاکیلئے کوئی نور،شفا،رحمت،فضل،اورہدایت نہیں ہے اورقرآن کریم سے بڑھ کرکوئی مجموعہ سچی کتابوں کانہیں ہے۔یہ سچ اوربالکل سچ ہے ۔اصدق الحدیث کتاب اللہ ۔
(خطبات نورص 45)
یہ صرف اسی پاک ذات کیلئے سزاوارہے کہ وہ دنیاکی اصلاح اورفلاح کیلئے مامورہواجس کاپاک نام ہی ہے محمدواحمدﷺ ،جس نے اپنی پاک تعلیم،اپنی مقدس ومطہرزندگی اوربے عیب چال چلن اورپھراپنے طرزعمل اورنتائج سے دکھادیاکہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (ال عمران:32)میں اپنے اللہ کامحبوب ہوںتم اگراس کے محبوب بنناچاہوتواس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اتباع کرو۔جب کہ میں اپنے خداکامحبوب ہوں۔
(خطبات نورص65)
خودشناسی/عاجزی
میں تمہیں اپنی بات سنائوں۔تمہاراکنبہ ہے ،میرابھی ہے۔تمہیں ضرورتیں ہیں مجھے بھی آئے دن اورضرورتوں کے علاوہ کتابوں کاجنون لگارہتاہے ۔مگراس پربھی تم کووقت نہیںملتاکہ یہاں آئو۔موقع نہیں ملتاکہ پاس بیٹھنے سے کیاانوارملتے ہیں۔فرصت نہیں ،رخصت نہیں۔ سنو!تم سب سے زیادہ کمانے کاڈھب بھی مجھے آتاہے ۔شہروںمیں رہوں توبہت ساروپیہ کماسکتاہوںمگرضرورت محسوس ہوتی ہے بیمارکو۔ ظھرالفسادفی البروالبحر۔کازمانہ ہے ۔میرے لئے تویہاں ایک دم بھی باہرجاناموت کے برابرمعلوم ہوتاہے ۔
(خطبات نورص73)
تربیت اولاد
اولادکیلئے ایسی کوشش کروکہ ان میں باہم اخوت ،اتحاد،جرأت ،شجاعت،خوداری،شریفانہ آزادی پیداہو۔ایک طرف انسان بنائودوسری طرف مسلمان۔
(خطبات نورص75)
خودشناسی/عشق قرآن
میں سچ کہتاہوںکہ قرآن شریف میں انبیاء ورسل کے مخالفوںکے اعتراضوں کوپڑھ کرمجھے بڑی عبرت ہوئی ہے ۔اورخداکے فضل سے میں اس مقام پرپہنچ گیاہوںکہ میرے سامنے اب کسی نشان یااعجاز کی ضرورت میرے ماننے کیلئے نہیں رہی۔
(خطبات نورص90)
اطاعت/ہمددیٔ خلق/خودشناسی
اب میں پھرتمہیں کہتاہوں کہ اس بات پرغورکروکہ تمہیں وعظ کرنے والاکیساہے ۔اورتم کیسادل لے کربیٹھے ہو؟میرادل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضروناظرہے جوبات میری سمجھ میں مضبوط آئی ہے اسے سناناچاہتاہوںاورخداکیلئے ۔پھرمجھے حکم ہواہے تم مسجد میں جاکرنماز پڑھادو۔ اس حکم کی تعمیل کیلئے کھڑاہوتاہوںاورسناتاہوں۔
(خطبات نورص135)
عشق قرآن
باطنی دولت کایہ حال ہے کہ تیرہ سوبرس کی تومیں جانتانہیں،اپنی بات بتاتاہوں۔جس قدرمذاہب ہیں میںنے ٹٹولاہے ۔ان کوپرکھ پرکھ کردیکھاہے ۔ قرآن کریم کے تین لفظوںسے میںان کوردکرنے کی طاقت رکھتاہوں۔کوئی باطل مذہب اسلام کامقابلہ نہیں کرسکتامیںنے تجربہ کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ کی کتاب اورطرز انسان کے پاس ہوتوباطل مذاہب خواہ وہ اندرونی ہوںیابیرونی ،وہ ٹھہرنہیں سکتے ۔
(خطبات نورص138)
خودشناسی
میںیہاں کس لئے آیاہوں دیکھوبھیرہ میںمیرامکان پختہ ہے اوریہاں میںنے کچے مکان بنوالئے اورہرطرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاںمل سکتی تھی مگرمیںنے دیکھاکہ میں بیمارہوں اوربہت بیمارہوں۔محتاج ہوں اوربہت محتاج ہوں۔لاچارہوںاوربہت لاچارہوںاوربہت لاچارہوں۔پس میں اپنے ان دکھوںکے دورہونے کیلئے یہاں آیاہوں۔اگرکوئی شخص قادیان اس لئے آتاہے کہ وہ میرانمونہ دیکھے یایہاںآکرکچھ کچھ عرصہ رہ کریہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تویہ اس کی غلطی ہے اوراس کی نظردھوکاکھاتی ہے کہ وہ بیماریوں کوتندرست خیال کرکے کاامتحان لیتاہے۔یہاں کی دوستی اورتعلقات ،یہاں کاآنااوریہاں سے جانااوریہاں کی بودوباش ،سب کچھ لاالہ الااللہ کے ماتحت ہونی چاہیے ،ورنہ اگرروٹیوں اورچارپائیوں وغیرہ کیلئے آتے ہوتوبابا!تم میںاکثروں کے گھرمیںیہاں سے اچھی روٹیاںوغیرہ موجودہیںپھریہاں آنے کی ضرورت کیا؟
(خطبات نور۔ص160)
کتابوں /مطالعہ کاشوق
اس بارہ میں میں خودتجربہ کارہوں ۔کتابوں کوجمع کرنے اوران کے پڑھنے کاشوق جنون کی حدتک پہنچاہواہے ۔میرے مخلص احباب بسا اوقات میری حالت کودیکھ کرمجھے مطالعہ سے باز رہنے کے مشورے دئے مگرمیں اس شوق کی وجہ سے ان کے دردمندمشوروں کوعملی طورپراس بارہ میں مان نہیں سکا۔میںنے دیکھاہے کہ ہزاروںہزارکتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہوجاوے ۔ اس کے فضل اورمامورکی اطاعت کے بغیرنہیں ملتی۔
ان کتابوںکے پڑھ لینے اوران پرنازکرلینے کاآخری ڈپلومہ کیاہوسکتاہے یہی کہ فرحوابماعندھم من العلم (المومن ۔184)
(خطبات نور۔ص192)
عاجزی
میں آخرمیں حضرت امام کے حضوردرددل سے عرض کرتاہوں کہ وہ ہمارے لئے دعاکریںکہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوںکودورکرے ۔سب سے زیادہ میںدعاکاحاجتمندہوں۔اسلئے کہ اکثرلوگوںکوسناتارہتاہوں۔پس اگرمیراہی نمونہ اچھانہ ہواتوبہتوں کوٹھوکرلگ سکتی ہے۔ اسلئے میرے لئے خاص طورپردعافرماویں۔
(خطبات نور۔ص 194)
رؤیاوکشوف
یہاں پرایک رؤیادرج کرناجوبتاریخ 12اکتوبر1906ء کوبمقام امروہہ خاکسارکوہوئی تھی بحکم تحدیث بنعمۃ کے ضروری ہے 12تاریخ کی شب کومیںنے دیکھاکہ میں کسی شہرمیںہوںاورایک مکان میں ایک تخت پربیٹھاہواہوں کچھ لوگ تخت کے نیچے بیٹھے ہیں اورکچھ لوگ تخت کے اوپربھی ہیںاورمیں بڑے زوروشورسے صرف ایاک نعبد وایاک نستعین۔(فاتحہ :5)مسلک احمدیہ اوردعاوی حضرت مسیح موعود ؑ کو ثابت کررہاہوں تمام مضمون کلام تفسیری مجھ کویادنہیں رہامگرماحاصل اس مضمون کایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جوہم کویہ آیت تعلیم فرمائی ہے اس سے مقصودالٰہی یہ ہے کہ نماز ہائے پنجگانہ کی ہرایک رکعت میں ہم بصدق دل اس آیت کااقرار بجناب باری اداکرتے ہیں اورخارج نماز سے مدام اس اقرارپرہماراعمل درآمدبھی رہے۔تب یہ عبادت مقبول ہوگی اورہماری استعانت پراللہ تعالیٰ کی اعانت بھی ہم کوپہنچے گی۔اب یہ توظاہرہے جوشخص مامورمن اللہ ہوکردنیامیںمبعوث ہوتاہے کہ اس کیلئے بعدنمازہائے پنجگانہ کے سب عبادات سے عظیم ترین عبادت تبلیغ ماانزل اللہ الیہ ہوتی ہے کماقال تعالیٰ بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فمابلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس۔(مائدہ : 68)اب اس چودھویں صدی میں ہم دیکھناچاہتے ہیں کہ حسب وعدہ الٰہی مندرجہ قرآن کریم وبموجب حدیث صحیح کے کوئی مجدد اس سرصدی پربھی ہوا ہے یانہیں؟تومانند شمس نصف النھارکے بڑی شہرت کے ساتھ اس دعویٰ اورمدعی کوموجود پاتے ہیں کہ ایک شخص معظم یعنی حضرت اقدس مرزاغلام احمداس عبادت تبلیغ کوبعد نماز ہائے پنجگانہ کے ایسی جان توڑکوشش کے ساتھ اداکررہے ہیں کہ تمام اقطارارض میں ان کی تبلیغ پہنچ گئی ہے اوران کی تبلیغ سے نہ یورپ محروم نہ امریکہ نہ روس اورنہ جاپان۔
(خطبات نور۔ص236،235)
عقائد وایمان
ا س کے بعد میں یہ کہتاہوںکہ تم نے دیکھاہوگاکہ میں سخت بیمارہوگیاتھااورمیں نے کئی دفعہ یقین کیاتھاکہ میںاب مرجائوں گا۔ایسی حالت میں بعض لوگوںنے میری بڑی بیمارپرسی کی تمام رات جاگتے تھے۔ ان میں سے خاص کرڈاکٹرستارشاہ صاحب ہیں بعضوںنے ساری ساری رات دبایااوریہ سب خداکے غفوررحیمیاںہیں،ستاریاں ہیںجوان لوگوںنے بہت محبت اوراخلاص سے ہمدردی کی ۔اوریادرکھوکہ اگرمیںمرجاتاتواسی ایمان پرمرتاکہ اللہ واحد لاشریک ہے اپنی ذات اورصفات میں اورحضرت محمدﷺ اس کے سچے رسول اورخاتم الانبیاء اورفخررسل ہیںاوریہ بھی میرایقین ہے کہ حضرت مرزاصاحب مہدی ہیںاورمحمدرسول اللہ ﷺ کے سچے غلام ہیں بڑے راستبازاورسچے ہیں گومجھ سے ایسی خدمت ادانہیںہوئی جیسی کہ چاہیے تھی اورذرابھی ادانہیںہوئی میں آج اپنی زندگی کاایک نیادن سمجھتاہوں گوتم یہ بات نہیں سمجھ سکتے مگرمیں اب ایک نیاانسان ہوں۔ اورایک نئی مخلوق ہوں۔میرے قویٰ پرمیرے عادات پرمیرے دماغ پرمیرے وجودپرمیرے اخلاق پرجواس بیماری نے اثرکیا۔میںکہہ سکتاہوں کہ میں ایک نیاانسان ہوں۔
(خطبات نور۔ص249)
عاجزی
گومجھ سے ایسی خدمت ادانہیںہوئی جیسی کہ چاہیے تھی اورذرابھی ادانہیںہوئی میں آج اپنی زندگی کاایک نیادن سمجھتاہوں
(خطبات نور۔ص249)
دنیاسے بیزاری
مجھے کسی کی پرواہ نہیں میں ذراکسی کی خوشامدنہیں کرسکتامیں بالکل الگ تھلگ ہوں میں صرف اللہ کواپنامعبودسمجھتاہوں وہی میرارب ہے بعضوں نے مجھے پوچھابھی ہے اورمیری بیمارپرسی بھی کی اورمیرے ساتھ ہمدردی بھی کی مگرکتنے ہیں جنہوںنے پوچھاتک نہیں اوربہت ہیں جوکہتے ہیںکہ مرتاہے تومرجائے ہمیں کیا؟کیونکہ میں خوب سمجھتاہوںکہ آئندہ ہفتہ تک میری زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ایساایسادکھ درد اور تکلیف مجھے پہنچی ہے کہ میں سمجھتاتھاکہ اب دوسراسانس آئے گاکہ نہیں۔
(خطبات نور۔ص 250)
استغناء
دیکھومیں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا۔ان اجری الاعلیٰ رب العالمین۔(الشعرائ:110)کوئی خوشامد نہیں۔تمہارے سلام کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔تمہاری دعائوں کی بھی ہمیںکوئی ضرورت نہیں۔کوئی نصیحت جوہم کرتے ہیں تومحض اللہ کیلئے کرتے ہیں۔میرے دل میں جوش توبہت تھااورچندنصائح بھی کہنی چاہتاتھامگراب موقع نہیںرہا۔
(خطبار نور۔ص251,252)
سنت پرعمل کاشوق
ایک دفعہ الحکم کے ایڈیٹرشیخ یعقوب علی نے اولاد کے حصول کے واسطے بڑے بڑے اشتہارمجھے دکھائے اورکہاکہ آپ کی اولاد نہیں ہوتی ۔ دیکھویہ کتنابڑادعویٰ کرتاہے ۔آپ ضروراس اشتہارپرعمل کریں۔میں نے اسے یہی جواب دیاتھاک ایسی اولادکی مجھے ضرورت ہی نہیں ۔ نفس اولاد چیزکیاہے ؟مجھے توسعادت مندروح کی ضرورت ہ اورراشد اورسعادت کاپتہ غالباًاٹھارہ برس کی عمرتک لگ ہی سکتاہے ۔ اگراس طرح کی اولاد کاکوئی ٹھیکہ اٹھاوے توہم اس اشتہارپرعمل کرسکتے ہیں ۔تب اس نے جواب میں کہاکہ ایساتووہ نہیں کرسکتے ۔پھرمیںنے جواب دیاکہ مجھے دس روپیہ والی اولاد کی ضرورت ہی نہیں۔ایسی اولادکافائدہ ہی کیاہے ۔ نہ ہوتوبہترہے ۔حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہت نکاح کروتاکہ میری امت بڑھے ۔یہ تونہیں کہاکہ انسان بہت سارے ہوں ۔یہی کہاہے کہ میری امت بہت ہو۔غرض مومن کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے تعلقات میں اوراپنے اقوال اورافعال میں بھی تقویٰ مدنظررکھے ۔اورہرفعل میں خداکی رضامندی کاخواہاںرہے ۔ خداکرے کہ تمہارے تقویٰ میں ترقی ہو۔ آمین۔
(خطبات نور۔ص256)
حسن ظنی
میںنے اگرکبھی سوء ظن کیاتواللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرمادی کہ بات اس خلاف نکلی۔میں ا س میں تجربہ کارہوں اس لئے نصیحت کے طورپر کہتاہوںکہ اکثرسوء ظنیوں سے بچو۔اس سے سخن چینی اوعیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے ۔
(خطبات نور۔ص259)
غیرشرعی امورسے نفرت
اکثرلوگ یہی کہتے ہیں کہ جب تک رشوت نہ لی جاوے اوردغا،فریب اورکئی طرح کی بددیانتیاں عمل میں نہ لائی جاویں ۔روٹی کھانے کو نہیں ملتی ۔ یہ ان کاسخت جھوٹ ہے ۔ہمیں بھی توضرورت ہے کھانے ،پینے ،پہننے سب اشیاء کی خواہش رکھتے ہیں ۔ہماری بھی اولاد ہے ۔ ان کی خواہشوں کوبھی پوراکرناپڑتاہے ۔اورپھرکتابوںکے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دھت اورایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ گواللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اوردوسری کتابوں کاخرید کرنااتناضروری نہیں مگرمیرے نفس نے ان کاخرید کرناضروری سمجھاہے ۔ اورگومیں اپنے نفس کواس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیتامگرپھربھی بہت سے روپے کتابوں پرہی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مگر دیکھوہم بڈھے ہوکر،تجربہ کارہوکرکہتے ہیں کہ خداتعالیٰ انسان کواس کی ضرورت سے زیادہ دیتاہے ۔
(خطبات نور۔ص263,264)
کتابوں کے جمع کرنے کاشوق
کتابوںکے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دھت اورایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ گواللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اوردوسری کتابوں کاخرید کرنااتناضروری نہیں مگرمیرے نفس نے ان کاخرید کرناضروری سمجھاہے ۔ اورگومیں اپنے نفس کواس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیتامگرپھربھی بہت سے روپے کتابوں پرہی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
(خطبات نور۔ص263,264)
سومیں نہایت دردبھرے دل سے کروڑوں دفعہ تاکیدکے ساتھ کہتاہوں کہ استغفاراورلاحول کثرت سے پڑھواورصدقہ اورخیرات بہت کرو اورروروکرخداکے حضوردعائیں مانگو۔ربنالاتجعلنافتنۃ اللقوم الظالمین۔(یونس:86)یہ نہایت ضروری باتیں ہیں جومیں تمہیں پہنچادیتا ہوں۔دیکھوچاربلائیں سامنے ہورہی ہیں۔قحط کوتوخودتم محسوس کررہے ہو۔اگرانسان بڑی محنت بھی کرے گاتو کس قدکمالے گاعام لوگ توآٹھ یانوروپیہ ماہوارسے زیادہ نہیں کماسکتے آجکل چھ سیررپیہ کاآٹابکتاہے اورہرایک چیزگراں ہوگئی ہے ۔اسلئے میں تمہیں نصیحت کرتاہوںکہ بد صحبتوںسے کنارہ کش رہوبعض صحبتوںمیں بیٹھ کرانسان پھرانہی کے رنگ میں رنگین ہوجاتاہے اوربعض طبیعتیں ہوتی ہیں کہ وہ دوسروں کااثرجلد ی قبول کرلیتی ہیں ۔کسی نے نظم سنائی تواگرکسی نے نثرسنائی توکسی نے نکتہ چینی کی تو،اوراگرکسی نے غیبت شروع کردی تو،ایسی طبیعتوں کے لوگ سب کے شریک ہوجاتے ہیں ۔بقدرطاقت اورمقدرت کے انسان کوچاہیے کہ ایسی صحبتوںسے کنارہ کش رہے ۔ جن کااس پربراثرپڑتاہو۔حقوق اللہ اورحقوق العباد کابہت لحاظ رکھو۔ میںیہ اللہ کیلئے نصیحت کرتاہوں۔نمازوں میں بہت دعائیں کرومیں خودبھی مانگتاہوں اس لئے تمہیں بھی کہتاہوں کہ تم بھی مانگو۔خداتعالیٰ ہم سب کواس پرعمل کرنے کی توفیق عنائیت کرے۔ آمین
(خطبات نور۔ص271)
خدمت خلق
’’واتقوااللہ ان اللہ توا ب الرحیم‘‘(الحجرات:13)تقویٰ اختیارکرواورپورے طورپرپرہیزگاربن جائو۔مگریہ سب کچھ اللہ ہی توفیق دے تو حاصل ہوتاہے ۔ہم توانباروں کے انبارہرروزمعرفت کے پیش کرتے ہیں۔گوفائدہ توہوتاہے مگرہم چاہتے ہیں کہ بہت فائدہ ہواوربہتوں کوہو۔خداتعالیٰ توفیق عنائیت فرماوے۔آمین
(خطبات نور۔ص260)
دعاپرتوجہ
ایک اورمولوی تھا۔اس نے مباحثہ چاہا۔میںنے اسے سمجھایاتم لوگوںکی تعلیم ابتداء ہی سے ایسی ہوتی ہے کہ ایک عبارت پڑھی اورپھراس پراعتراض ۔پھراس اعتراض پراعتراض ۔اسی طرح ایک لمباسلسلہ چلاجاتاہے۔اس سے کچھ اس قسم کی عادت ہوجاتی ہے ۔ کہ کسی کو سمجھانے سے کچھ نہیں سمجھتے ۔میںتمہیں ایک راہ بتاتاہوں ۔بڑے اضطراب سے خداتعالیٰ کے حضوردعاکرو۔اس نے بھی یہی کہاکہ یہ تو جانتے ہو۔
(خطبات نور۔ص277)
اطاعت امام/فضل الٰہی کاشکر
اس حمدکے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں یہاں ہی کچھ لڑکے ہیں ۔وہ صرف اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ کچھ چھوہارے ملیں گے ۔ان کاالحمداپنے ہی رنگ میں کاہے۔ یہ بھی ایک مرتبہ ہے اورعوام اوربچوں کایہیں تک علم ہے۔ایک وہ ہیںجنہوںنے الحمدہی سے نبوتوںکو ثابت کیااورمذاہب باطلہ کاردکیاہے۔تین مرتبہ میںنے حضرت صاحب کی تفسیرالحمدپڑھی ہے ۔ایک براہین میں،پھرکرامات میں اورپھر اعجازالمسیح میں۔اسے پڑھ کرمعلوم ہوتاہے ۔کہ الحمدکااعلیٰ مقام وہ جہاں یہ پہنچے ہیں ۔یہ بھی الحمدکے ایک معنی ہیں اورایک متوسط لوگ ہیں ۔ میںبھی ان میں ہی ہوں۔ یہ اپنے رنگ میں الحمدکے معنی سمجھتے ہیں۔اوران کی حمداپنے رنگ کی ہے ۔یہاں ناطے رشتے ہوتے ہیںاوران تقریبوں پرمجھے حضرت امامؑ کے حکم سے موقع ملتاہے کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرکروں۔اس لئے میں اس فضل پرہی حمدالٰہی کرتاہوں میں یوں توعجیب عجیب رنگوں میں حمدکرتاہوں مگراس وقت کے حسب حال یہی وجہ ہے جومیںنے بیان کی ہے ۔ اوریہ معمولی فضل نہیںہے مگریہ توفیق اورفضل اللہ ہی کی مددسے ملتاہے ۔
(خطبات نور۔ص284)
حصول علم کاشوق/کتابوں کاشوق
اگرمیںکہہ دوںکہ مجھے کتابوں کابہت شوق ہے اورمیرے پاس اللہ کے فضل سے کتابوں کاذخیرہ بھی تم سے بڑھ کرموجودہے ۔ اورپھریہ بھی اللہ کاخاص فضل ہے کہ میںنے ان سب کوپڑھاہے اورخوب پڑھاہے اورمجھے ایک طرح کاحق بھی حاصل ہے کہ ایساکہہ سکوں ۔ مگربایں (وجہ)میںنہیں کہہ سکتاکہ مجھے علم کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے بھی ترقی علم کی ضرورت ہے اورسخت ضرورت ہے ۔
(خطبات نور۔ص326)
اللہ تعالیٰ سے محبت/یقین
دیکھو میںپھرکہتاہوں اوردرد دل سے نصیحت کرتاہوں کہ اللہ صمدہے ۔اسی کواپنامحتاج الیہ بنائے رکھو۔کھانے ،پینے ،عزت،اکرام،صحت،عمر علم ،بیوی ،بچے اوران تمام ضروریات کے واسطے اسی کی طرف جھکو۔میں اللہ کے نام کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ جب انسان کواپنامحتاج الیہ یقین کرلیتاہے اوراس کاکامل ایمان ہوجاتاہے تواللہ تعالیٰ بھی انسان کامحتاج نہیں کرتامیں اپناہرروزہ تجربہ بیان کرتاہوں۔کہ اللہ صمدہے ۔اسی پرناز کرو۔خداکوچھوڑکراگرمخلوقپربھروسہ کروگے توبجزہلاکت کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔میں نصیحت کے طورپرتم کویہ باتیں درددل سے اورسچی تڑپ سے کہتاہوں کہ وہ سب کچھ کرسکتاہے اورہرایک ذرہ ا س کے اختیاراورتصرف میںہے ۔
(خطبات نور۔ص335تا336)
قبولیت دعا
مجھے ایک دفعہ نہایت مشکل امرکے واسطے اس دعاسے کام لینے سے کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ ایک دفعہ کاذکرہے کہ میں لاہورگیا۔میرے ایک آشنانے مجھے ایک لے جانے کے واسطے کہااورمیںاس کے ساتھ ہولیا۔مگرنہیں معلوم کہ کہاں لے جاتاہے اورکیاکام ہے ؟اس طرح کے بے علمی میں وہ مجھے ایک مسجدمیںلے گیا۔ جہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔قرائن سے معلوم ہواکہ یہ کسی مباحثہ کی تیاری ہے ۔میری چونکہ نمازعشاء باقی تھی۔ میںنے ان سے کہاکہ مجھے نماز پڑھ لینے دو۔یہ مجھے موقع مل گیاکہ میں دعاکرلوں۔خداکی قدرت !اس وقت میںنے اس سورۃ (سورۃ الفلق)کوبطوردعاپڑھااورباریک درباریک رنگ میں اس دعاکووسیع کردیااوردعاکی کہ اے خدائے قادروتوانا! تیرانام فالق الاصباح ،فالق الحب والنویٰ ہے میں ظلمات کے شرسے تیری پناہ میں آجائوں ۔تومجھے ہرامرمیں ایک حجت نیرہ اوربرہان قاطعہ اورفرقان عطافرما۔میں اگراندھیروں میں ہوں اورکوئی علم مجھ میں نہیں ہے ۔توتوان ظلمات کومجھ سے دورکرکے وہ علوم مجھے عطافرما اوراگرمیںایک دانے یاگھٹلی کی طرح کمزورہوں اورردی چیز ہوں توتومجھے اپنے قبضہ قدرت اورربوبیت می لے کراپنی قدرت کاکرشمہ دکھا۔غرض اس وقت میںنے اس رنگ میں دعاکی اوراس کووسیع کیاجتناکرسکتاتھا۔بعدہ میں نماز سے فارغ ہوکران لوگو ں کی طرف مخاطب ہوا۔خداکی قدرت کہ اس وقت جومولوی میرے ساتھ مباحثہ کرنے کے واسطے تیارکیاگیاتھاوہ بخاری لے کرمیرے سامنے بڑیء ادب سے شاگردوں کی طرح بیٹھ گیااورکہایہ مجھے آپ پڑھادیں ۔وہ صلح حدیبیہ کی ایک حدیث تھی۔حضرت مرزاصاحب کے متعلق اس میں کوئی ذکرنہ تھا۔لوگ حیران تھے اورمیں خداتعالیٰ کے تصرف اورقدرت کاملہ پرخداکے جلال کاخیال کرتاتھا۔ آخرلوگوںنے اس سے کہا کہ یہاں تومباحثہ کے واسطے ہم لائے تھے،تم ان سے پڑھنے بیٹھ گئے ہو۔اگرپڑھناہی مقصود ہے توہم مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کردیتے ۔ان کے ساتھ جموں چلے جائواورروٹی بھی مل جایاکرے گی۔ وہی شخص ایک بارپھرمجھے ملااورکہاکہ میں اپنی خطامعاف کرانے آیاہوںکہ میں نے کیوں آپ کی بے ادبی کی؟میں حیران تھاکہ اس نے میری کیابے ادبی کی؟حالانکہ اس وقت بھی اس نے میری کوئی بے ادبی نہ کی تھی۔
(خطبات نور۔ص340،341)
خداتعالیٰ سے محبت/عشق قرآن ورسول/خاتمہ بالخیرکی امید
میں نے تمہیں بہت کچھ کہہ دیااورگول بات ہرگزنہیںکی میں مومن ہوکرمرناچاہتاہوں۔میں اللہ سے اس کی رحمت کاامیدوارہوںجیسے اس نے اس عمرتک میری تربیت کی اورمیری ہدایت کاموجب ہوااسی طرح میں امیدرکھتاہوں کہ وہ میراخاتمہ بھی بالخیرکرے گا۔ اورمیری موت قرآن اوررسول کریم ﷺ کی فرمانبرداری کی حالت میں کرے گا۔
(خطبات نور۔ص416)
ہمددیٔ خلق /جماعت سے محبت
پس میں تم کونصیحت کرتاہوں پھرنصیحت کرتاہوںپھرنصیحت کرتاہوںپھرنصیحت کرتاہوںپھرنصیحت کرتاہوںپھرکرتاہوںپھرکرتاہوںپھر کرتاہوںپھرپھرپھرکرتاہوںکہ آپس کے تباغض اورتحاسدکودورکردویہ مجتہدانہ رنگ چھوڑدوجومجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرناہے وہ دعامیں خرچ کرواوراللہ سے اس کافضل چاہوتمہارے واعظوں کااثرمجھ بڈھے پرنہیں ہوگا۔ ادب کوملحوظ رکھ کرہرایک کام کوکرواوریہ میں اپنی بڑائی کیلئے نہیں کہتابلکہ تمہارے ہی بھلے کیلئے کہتاہوں جس طرح دکاندارصبح اپنی دکان کوکھولتاہے اسی میں بھی اپنی دکان کھولتاہوں اوربیماروں کودیکھتاہوں۔میں تمہارے ابتلاء سے بہت ڈرتاہوں اس لئے مجھے کمانے کازیادہ فکرہوتاہے ۔ بمب کے گولے اورزلزلے سے بھی زیادہ خوف ناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو۔
(خطبات نور۔ص421,422)
حسن ظنی
جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنابہت آسان ہے مگراس کانگلنابہت مشکل ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کے بارے کی نسبت بحث کرتے ہیں ۔ مگرتمہیں کیامعلوم کہ وہ ابوبکراورمرزاصاحب سے بھی بڑھ کرآئے ۔ میں تم پربڑا حسن ظن رکھتاہوں میںنے لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کبھی تمہارے محرروں سے بھی دریافت نہیں کیاکہ تم لوگ کس طرح کام کرتے ہو۔مجھے یقین ہے کہ تم تقویٰ سے کام کرتے ہو۔ باقی رہامیں ،سومیری نسبت تحقیق کرلو۔جس طرح چاہونگرانی کرلو۔مخفی درمخفی راہوں سے کرلو۔ مجھے ایک دفعہ شیخ صاحب نے کہ اب میںنے یہاں سکونت اختیارکرلی ہے اب میں تمہاری نگرانی کروں گا۔تومیں نے کہاتھابسم اللہ ۔ دو فرشتے میرے نگہبان پہلے ہی مقررہیں ایک تم آگئے ۔ میں آج کے دن ایک اورکام کرنے والاتھامگرخداتعالیٰ نے مجھے روک دیا۔ اورمیں اس کی مصلحتوں پرقربان جاتاہوں۔
(خطبات نور۔ص422)
ابتلائوں پرصبر
ایک دفعہ میںجوانی میںالحمدپڑھنے لگا۔ان دنوں مجھ پرسخت ابتلاء تھا،اس لئے مجھے جہراًپڑھنے میں تامل ہواکیونکہ جب دل پورے طوپراس کلمہ کے زبان سے نکالنے پرراضی نہیںتھاتویہ ایک قسم کانفاق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میری دستگیری کی ۔اورمعاًمجھے خیال آیاکہ جو’’اناللہ واناالیہ راجعون (البقرہ:157)اور’’اللھم اجرنی فی مصیبتی‘‘(مسلم کتاب الجنائز)پڑھتاہے ہم اس کومصیبت کوراحت سے بدل دیتے ہیں ۔ انسان پرجوبھی مصیبت آتی ہے ،کبھی گناہوںکاکفارہ ہوجاتی ہے اس لئے انسان شکرکرے کہ قیامت کومواخذہ نہ ہوگا۔ ممکن تھااس سے بڑھ کرمصیبت میں گرفتارہوتا۔ سوم مالی نقصان کی بجائے خودزندہ نہیںتوپھرتمام مال واسباب وغیرہ کی فکرلغوہے۔یہ سب مضمون جب میرے دل میں آیاتوبڑے زورسے الحمدللہ پڑھا۔قرآن میں کہیں نہیں آیاکہ مومن کوخوف وحزن ہوتاہے ۔وہ تولایخاف ولایحزنون ہوتا ہے۔
(خطبات نور۔ص439،440)
محبت الٰہی
ہروقت خداکی یادے اس کاتعلق وابستہ رہے ۔وہ بیوی سے صحبت کرے مگراس لئے کہ ’’عاشروھن بالمعروف‘‘(النساء :20)کاحکم ہے ۔ کھاناکھائے مگراس لئے کہ کلواخداکاحکم ہے ۔یہ بڑاسخت مجاہدہ ہے ۔ میںنے خود تجربہ کرکے دیکھاہے ۔آٹھ پہرمیں انسان کئی بارفیل ہو جاتاہے’’ الامن عصمہ اللہ ‘‘
(خطبات نور۔ص452)
رؤیاوکشوف
ایک نکتہ قابل یادسنائے دیتاہوں کہ جس کے اظہارسے میں باوجودکوشش کے رک نہیں سکا۔وہ یہ ہے کہ میںنے حضرت خواجہ سلیمان ؒکو دیکھا۔ ان کوقرآن شریف سے بڑاتعلق تھا۔ ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے ۔ اٹھہتربرس تک انہوںنے خلافت کی بائیس برس کی عمرمیں وہ خلیفہ ہوئے تھے۔ یہ بات یادرکھوکہ میں نے کسی خاص مصلحت اورخالص بھلائی کیلئے کہی ہے۔
(خطبات نور۔ص453)
ہمدردیٔ
خداتعالیٰ نے میرے اندرمحبت کی بہت خاصیت رکھی ہے ۔ جس کااظہارمیں کم کرتاہوں ۔میرے دل میں کسی کے واسطے بغض اورعداوت ہرگزنہیں۔اگرکسی پرمیں ناراض ہوتاہوں تووہ ایک وقتی بات اورتھوڑی سی بات ہوتی ہے جسے دوسرے کی خیرخواہی کے واسطے درد دل کے ساتھ ظاہرکرناپڑتاہے ۔ ورنہ عموماًمیں اپنے دل میں ایک جوش پاتاہوں۔
(خطبات نور۔ص457,458)
رؤیاوکشوف
میںنے بنی کریمﷺ کورؤیامیں دیکھا۔اورآپ ؐنے مجھے بتادیاکہ بدوں ولی نکاح نہیں ہوتااورآپ نے مجھے بتایادیاکہ بدوں ولی کے نکاح نہیں ہوتااورآپ نے سخت ناپسندگی کااظہارکیابلکہ یہاں تک مجھ پرظاہرہواکہ جوشخص ایسی جرأت کرتاہے وہ نعوذباللہ آنحضرت ﷺکی ریش مبارک اورمونچھ مونڈ ڈالتاہے ۔پس یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ اس کوخوب یادرکھوکہ بدوں ولی نکاح کبھی نہ ہو۔
(خطبات نور۔ص478)
محبت الٰہی /خداتعالیٰ کے احسانوں کاتذکرہ /خداتعالیٰ کافضل
میرے مولوانے مجھ پربلاامتحان اوربغیرمیری محنت کے بڑے بڑے فضل کئے ہیں اوربغیرمیرے مانگنے کے بھی عجیب عجیب انعامات دیئے ہیںجن کومیں گن بھی نہیں سکتا۔وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کاآپ ہی کفیل ہواہے ۔وہ مجھے کھاناکھلاتاہے اورآپ ہی کھلاتاہے ۔ وہ مجھے کپڑا پہناتاہے اورآپ ہی پہناتاہے ۔ وہ مجھے آرام دیتاہے اورآپ ہی آرام دیتاہے ۔اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے ،بیوی بچے دیئے، مخلص اورسچے دوست دئے ۔اتنی کتابیں دیں اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کرہی چکرکھاجائے۔ پھرمطالعہ کیلئے وقت ،صحت ،علم اورسامان دیا۔اب آرزوہے ،اورمیںاپنے مولیٰ پربڑی بڑی امیدیں رکھتاہوں کہ وہ یہ بھی آرزوبھی پوری کرے گا،تم میںسے اللہ کی محبت رکھنے والے ،اللہ کے کلام سے پیارکرنے والے ،محمدرسو ل اللہ کے کلام سے محبت رکھنے والے ،محمدرسول اللہ کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ کے فرمانبرداراوراس کے خاتم النبین کے سچے متبع ہوں اورتم میں ایک جماعت ہوجوقرآن مجید اورسنت نبوی ﷺ پرچلنے والی ہواورمیں دنیاسے رخصت ہوں تومیری آنکھیںٹھنڈی ہوںاورمیرادل ٹھنڈاہو۔دیکھومیں تم سے کوئی اجرنہیں مانگتا۔ نہ تمہارے نذرونیاز کامحتاج ہوں ۔میں تواس با ت کاامیدواربھی نہیںکہ کوئی تم میں سے مجھے سلام کرے ۔اگرچاہتاہوں توصرف یہی کہ تم اللہ کے فرمانبرداربن جائو۔ اس کے محمدرسول اللہ ﷺ کے متبع ہوکردنیاکے تمام گوشوں میں بقدراپنی طاقت وفہم کے امن وآتشی کے ساتھ ’’لاالٰہ الا اللہ ‘‘پہنچائو۔
(خطبات نور۔ص486)
محبت الٰہی
چھ مہینے گذرگئے ہیں چھ ماہ کے بعد ساتواں شروع ہوچکاہے ۔جومجھے پھریہ موقع ملاہے ۔ان چھ ماہ میں میںنے خوب تجربہ کیاہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی کسی کے کام نہیں آتا۔میرے دوستوں نے میرے لئے زورلگائے ،محنتیںاورخدمتیں کی ہیں۔مگرمیں نے دیکھاہے کہ اللہ تعالیٰ کافضل نہ ہو۔توکچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ زخم ہے ۔بارہاآوازآئی۔کہ اب دودن میں اچھاہوجائے گا۔چاردن میںیاچھ دن میں اچھاہو جاوے گامگرچلتاہی ہے۔ میںنے خوب غورکیاہے ۔خداکے فضل کے سواکچھ نہیں ہوسکتا۔اوریہ میںاپنے یقین اورتجربہ کی بناء پرکہتاہوں کہ اللہ کواپنابنائو۔جب وہ ہماراہوجائے گاتوسب ہماراہی ہے ۔ اوروہ تقویٰ اورصرف تقویٰ سے اپنابنتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس بیماری میں بڑے تجربے کئے ہیں اوران سب تجربوں کے بعدکہتاہوں۔اللہ کے ہوجائو۔ اللہ کے سواکوئی کسی کانہیں۔یہ میری وصیت ہے۔
(خطبات نور۔ص490,491)
عاجزی وانکساری
میں نے تم سے معاہدہ لیاہے کہ شرک نہ کرو۔شرک کی باریک درباریک راہیںہیں۔بعض لوگ دعاکے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویامیں خداکاایجنٹ ہوں اوربہرحال ان کاکام کرادوںگا۔خوب یادرکھومیں ایجنٹ نہیں ہوںمیں اللہ کاایک عاجزبندہ ہوں۔میری ماںاعوان قوم کی ایک عورت تھی۔ خداکے فضل نے اسے علم عطاکیاتھا۔میراباپ ایک غریب محنتی آدمی تھاجونہایت مختصرسی تجارت سے اپنا گذاراکرلیتاتھامیں ایجنٹ نہیں ہوںہاں اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی کرنامیراکام ہے خدانے مجھے عجیب درعجیب رنگوںمیں دعاکرنامجھے سکھایاہے ۔دعائوں میں تڑپنااورقسم قسم کے الفاظ میں دعاکرنامجھے بتایاگیاہے ۔ محمدرسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ تعلیم دی ہے ۔میں ان دعائوں میں کبھی کبھی قبولیت کے اثردیکھتاہوں۔مگرجماعت کے بعض لوگ دعاکرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں ۔یاد رکھوکہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی تمہارامعبودنہیں ۔کوئی تمہاراکارسازنہیں میں علم غیب نہیں جانتا۔نہ میں فرشتہ ہوں۔اورنہ میرے اندرفرشتہ بولتا ہے ۔اللہ ہی تمہارمعبودہے اسی کے تم ہم سب محتاجہیں ،کیامخفی اورکیاظاہررنگ میں ۔اس کی طاقت بہت وسیع ہے ۔ اوراسکاتصرف بہت بڑا ہے ۔وہ جوچاہتاہے کردیتاہے ۔ اس کاایک نظارہ اس امرمیں دیکھوکہ تم بھی مرزاکے مریدہواورمیں بھی مرزاکامریدہوں۔مگراس نے تمہیں پکڑ کرمیرے آگے جھکادیاہے اس میں نہ میری خواہش تھی ۔ اورنہ مجھ پرکسی انسان کااحسان ہے ۔میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔اورنہ یہ تمہاری کوششوںکانتیجہ ہے۔دیکھومیں بیمارہوا۔ڈاکٹروںنے کہاکہ اس کے بچنے کی امیدنہیں ۔مگرمیں زندہ بولتاہوں۔ خدا ہی کاعلم کامل ہے ،اس کاتصرف کامل ہے ۔ اسی کے آگے سجدہ کرو،اس سے دعامانگو۔روزہ ،نماز،دعا،وظیفہ،طواف ،سجدہ،قربانی اللہ کے سوادوسرے کیلئے جائز نہیں ۔بے ایمان شریر وںنے لوگوںکے اندرشرک کی باتیں گھسادی ہیں ۔کہتے ہیں کہ قبروں پرجائواورقبروالے سے کہوکہ ہمارے لئے خداکے آگے عرض کرو۔اسلام نے ہم کویہ دعانہیں سکھائی۔
(خطبات نور۔ص506)
خودشناسی
پس میںبھی تم کواسی طرح کہتاہوں کہ ایسی باتیں مجھ تک نہ پہنچائو۔مگرتم پہنچاتے ہواورمیرادل دکھاتے ہو۔تم میں بعض شریر ،گندے ،اور ناپاک لوگ ہیں وہ تمہیں آپس میں لڑاناچاہتے ہیں ۔ان میں بغض اورکینہ کامرض ہے ۔ وہ بدقسمت ہیں۔وہ بہت بدقسمت ہیں انہیں چاہیے کہ توبہ کریں اورجلد توبہ کریں ۔تم لوگ تفرقہ چھوڑدواورجھگڑے سے منہ موڑلو۔ کوئی تمہارااختلافی مسئلہ نہیں جس کااللہ تعالیٰ کے محض فضل وکرم اوراس کی تعلیم سے میں فیصلہ نہیںکرسکتا۔تم اکثرجاہل ہو۔خدانے مجھے علم دیاہے ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے نیکی کی راہ پرآگاہی دی ہے ۔ تم میں گندے باہم لڑنے والے بھی ہیں۔اوروہ سخت گندے ہیں ۔وہ اس حکم الٰہی سے غافل ہیں۔جواللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔’’ولاتنازعوا ‘ (الانفال:47)
(خطبات نور۔ص507)
وسعت حوصلہ
’’ولاتنازعوا‘‘(الانفال:47)اورآپس میں جھگڑانہ کرو۔’’فتفشلوا‘‘(الانفال:47)پس بودے ہوجائوگے۔ ’’وتذھب ریحکم‘‘ (الانفال :47)اورتمہاری ہواجاتی رہے گی۔ تم نے مجھے دکھ دیاہے ۔تمہاری تحریریں میں نے پڑھی ہیں اوران سے مجھے سخت رنج پہنچاہے ۔ تم میں سے بعض چھوٹے چھوٹے لڑکے مجھ بڈھے کوسکھانے کی کوشش کرتے ہیں ان سے خبرداررہو۔اوروہ آپ خودبخودبلااجازت مخلوق کے واعظ بنتے ہیںاورجوش بھرے کلمات منہ سے نکالتے ہیں ۔ان سے میرادل بہت رنجیدہ ہے کیونکہ انہوںنے مجھے بہت دکھ دیاہے ۔ غرض آپ کی لڑائیاں چھوڑدو۔کینے چھوڑدو۔اگردوسراکوئی تمہیں کچھ کہے تواس کی باتوں پرصبرکرو۔ایسانہ ہوکہ وہ تمہیں ایک ورق لکھے توتم اس کے جواب میں چارورق لکھو۔صبرکے سوائے کبھی لڑائی ختم نہیں ہوتی۔
(خطبات نور۔ص507)
شرک سے بیزاری
میرے گیارہ دوست ڈاکٹروںنے بڑے بڑے زورسے علاج کیاہے مگروہ اب اچھانہیں ہوا۔میں بچپن سے شرک سے بیزار،لاالٰہ الااللہ کابدل معتقداورزبان سے قائل ہوں ۔اللہ تعالیٰ اس خاندان پررحم کرے۔ جس سے میں یہ تعلیم پائی ۔محمدرسول اللہ کااعتقادلاالٰہ الا اللہ کامتمم جزوہے ۔ اس کوبھی میںنے ابتداسے پایاہے ۔ والحمدللہ رب العالمین۔
(خطبات نور۔ص507,508)
ہمدردیٔ خلق
کوئی میری باتوں کوپسندیدگی سے لے یاناپسندیدگی،مجھے نہ اس کی پرواہ ہے نہ اس کی۔ میراکام اس وقت تبلیغ ۔ہاں میرے دل میں ایک جوش ہے میں چاہتاہوں۔کہ تمہارے درمیان جوتنازعات ہیں وہ دورہوجائیں۔تم ان جھگڑوں کوچھوڑدوورنہ یادرکھوکہ تم دنیاسے نہیں جائو گے جب تک کہ دکھ نہ پالو۔لڑائی تنازع نہ کرو۔توبہ کرو۔جوحاضرہے وہ سن لے ۔ جونہیں اس کاحاضرین سنادیں جوتم میں ان باتوں پرعمل کرنے والاہے ۔ اسکابھلاہوگا۔ اورجونہیں مانتااس کومیں اللہ کے حوالہ کرتاہوں۔والسلام علیکم
(خطبات نور۔ص508)
عشق قرآن
سن رکھو۔ کہ مجھے اللہ نے تین محبوب بخشے ہیں سب سے پہلامیرامحبوب اللہ ہے ۔پھراس کی کتاب ہے ۔پھرمیرامحبوب وہ جامع کمالات انسانی ہے جس کے ذریعہ سے ان دوکاپتہ ملا۔وہ خاتم الرسل اورمیری دعاہے کہ اسی پراللہ تعالیٰ ہماراانجام کرے ۔(آمین)
(خطبات نور۔ص510)
عشق ِقرآن وحدیث /درس وتدریس سے شغف
میں اس بات میں خوش ہوں کہ ہرروز مجھے دن میں چارمرتبہ روحانی غذا پہنچتی ہے ۔ صبح مستورات میں درس قرآن شریف سناتاہوں۔ دوپہرکوحدیث شریف باہرپڑھاتاہوں۔ سہ پہرکوبھی درس تدریس ہی رہتاہے ۔ شام کومغرب سے پہلے درس قرآن شریف ہوتاہے ۔ ان چھوٹے دنوں میں روح کی ان باربارغذائوں کامیں بھی محتاج ہوں۔
(خطبات نور۔ص516)
شق قرآن
اگرتم کوئی نمونہ اعلیٰ چاہتے ہو۔ اوروعدہ خداوندی ’’فمن تبع ھدای ‘‘سے فائدہ اٹھاناچاہتے ہو۔ تویادرکھوکہ علم کیلئے قرآن شریف اورعملی زندگی کیلئے آنحضرت ﷺ کاعملدرآمدبس ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے خوب یادہے ۔غرض اس وقت سے لے کرآج تک جس نسخہ کوبہت آزمایااور سچاپایاہے ۔وہ یہی ہے کہ فتح اورنصرت اورکامیابی کے حصول کاایک ہی نسخہ قرآن شریف ہے۔
(خطبات نور۔ص523)
عشق قرآن
میرے بچے نے کہاکہ ہم کولمپ لے دو۔ ہم رات کوپڑھاکریں گے ۔میں نے اس کوبھی کہاکہ رات کولمپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کیلئے دن ہی کافی ہوتاہے ۔ رات کوقرآن شریف پڑھاکرو۔
(خطبات نور۔ص527)
اصلاح بین الناس
ایک لڑکے کی نسبت میںنے سناکہ وہ اپنی بیوی سے بداخلاقی سے پیش آتاہے میرے سسرال کاگھرہمارے شہرمیں ہمارے گھرسے دورتھا۔ بیوی تومیرے گھرہی ہوتی تھی۔مگراکثراپنے سسرال جایاکرتاتھا۔راستہ میں وہ لـڑکامجھے مل گیا۔ میںنے اسے کہامیںنے ایک نسخہ لکھاہے وہ میں تم کوبتاناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ۔’’وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسیٰ ان تکرھواشیئا ویجعل اللہ فیہ خیران کثیرا۔‘‘(النساء :20)اسکے دل پرہماری نصیحت کابجلی کی طرح اثرہوا۔میں تاڑگیاکہ اس پرخوب اثرہواہے مجھے کہنے لگاکہ مجھے ایک کام ہے اجازت دیجئے ۔وہاںسے سیدھابی بی کے پاس گیا۔اوراس سے کہاکہ دیکھ!تجھے معلوم ہے کہ میں تیراکیسادشمن ہوں ۔اس نے کہاہاں مجھے معلوم ہے ۔ اس لڑکے نے کہاکہ میں آج نورالدین کی نصیحت کوآزمانے کیلئے تیرے ساتھ سچی محبت کرتاہوں ۔ پھراس نے اس سے جماع کیا۔ ایک بڑاخوبصورت لڑکاپیداہوا،پھراورپیداہوا،پھراورپیداہواپھراورپیداہوا،پھراورپیداہوا۔ پھراورپیداہوا۔
(خطبات نور۔ص531)
عشق قرآن
۔۔۔۔۔مگرانسان سے اس قسم کی غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔ان غلطیوں کودورکرنے کیلئے میںنے کہاتھاکہ میں تین مہینہ میں قرآن شریف پڑھاسکتاہوں بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی ایک جماعت تیارہو۔قرآن کیلئے بھی دعامانگنی چاہیے۔ ’’واتقوااللہ یعلمکم اللہ ‘‘(البقرہ :283)جوتقویٰ اختیارکرتاہے اس کوخداسکھاتاہے ۔ قرآن پڑھو،سیکھو۔اس کے علم میں ترقی کرو۔اس پرعمل کرو۔قرآن سے تم کومحبت ہو۔
(خطبات نور۔ص558)
دعائوں پرتوجہ
میں تمہارے لئے دعائیں کرچکاہوں اورکرتارہتاہوں ۔تم بھی دعائوں کی بہت عادت ڈالو۔دعائیں بہت کرومگرخداتعالیٰ کوآزمانے کیلئے دعائیں نہ کرو۔
(خطبات نور۔ص559)
نصائح
پھر ہم تم کونصیحت کرتے ہیں کہ بدکاریوںکے نزدیک بھی نہ جائو۔ نزدیکی کبھی آنکھ سے ہوتی ہے ،کبھی کان سے ،کبھی زبان سے ،کبھی ہاتھ سے ،کبھی روپے سے ،غرض ابتداء انہی باتوں سے ہوتی ہے ۔ تم ان سے بچو۔گندی صحبتوں سے نفرت رکھو۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ زناکے قریب بھی نہ پھٹکو۔یہ بڑی بے حیائی اوربدچلنی کاکام ہے ۔ ناحق کسی کوقتل نہ کرو۔مظلوم کوخداتعالیٰ ضرورمدددیتاہے ۔وہ بدلہ لینے میں خطا نہ کرے۔یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جائوسوائے اس طریق کے جوان کے جوان کے حق میں بہترہو۔اپنے عہدوں میںوفاداری کرو ہم سے بھی تم نے عہدکئے ہیں ماپنے اورتولنے میں سیدھامعاملہ کرو۔انجام بخیرہوگا۔جس چیزکاعلم نہ ہواسے منہ سے مت بولو۔اس کے درپے نہ ہو۔ کانوں آنکھوں اورقویٰ کے مرکزوں سے یہ باتیں اٹھتی ہیں ۔ان سب سے باز پرس ہوگی۔ اکڑبازی سے ملک میں مت چلو۔تم نہ زمین کوپھاڑسکتے ہو،نہ لمبائی میںپہاڑوں کوپہنچ سکتے ہو۔ خداکویہ باتیں ناپسندہیں۔ان کوچھوڑدو۔اللہ نے اس کتاب میں بڑی حکمت کی اورپکی باتیں بتائیں ہیں ان پرعمل کرواللہ کے سواکسی کومعبودنہ بنائو۔مشرکوں کی سزاجہنم ہے ۔
(خطبات نور۔ص567)
مندرجہ بالاپیراگراف میں حضور نے جوبھی نصائح فرمائی ہیں وہ سب قرآن کریم کاخلاصہ ہیں۔یہ سب کچھ ان قرآنی آیات میںہیں بلکہ حضور نے ان کاسادہ زبان میں ترجمہ میں ان کاترجمہ کیا۔
ہمدردیٔ خلق اورتائید الٰہی
دعاکے سواکوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔جوبدیوں سے بچائے،کامیابی دکھائے،ابھی ایک لڑکاتھا۔اس کوابھی ہوش نہ تھاکہ میرے پاس لایا گیابڑے بڑے رنگوں میں اس کے ساتھ میںنے سلوک کیا۔مجھے بڑے بڑے خیال تھے۔ خدااسے یہاں تک پہنچاوے۔مگرآخراسے عیسائیوں کاگھراسے پسندآیا۔دل جوہتے ہیں ان کانام قلب اسی لئے رکھاہے ۔ کہ بدلتے رہتے ہیں ۔اس واسطے میری عرض ہے کہ تم دعائوں میں لگے رہو۔تمہارے بھلے کیلئے کہتاہوںورنہ میں توتمہارے سلاموں،تمہارے مجلس میں تعظیم کیلئے اٹھنے کی خواہش نہیں رکھتااور نہ یہ خواہش کہ مجھے کچھ دو۔اگرتم سے اس بات کاامیدوارہوں تومیرے جیساکافرکوئی نہیں اس بڑھاپے تک جس نے دیااورامیدسے زیادہ دیاوہ کیااب چندروزکیلئے محتاج کرے گا؟سنو!بچے کی شادی تھی ۔میری بیوی نے کہا،کچھ جمع ہے توخیرورنہ نام نہ لو۔میںنے کہامیں تمہیں بھی خدانہیں بناتا۔میرے مولاکی قدرت دیکھوکہ شام تک جس قدرسامان کی ضرورت تھی مہیاہوگیا۔ یہ میںنے کیوں سنایاتاتمہیںحرص پیداہواورتم بھی اپنے مولاپربھروسہ کرو۔پھرمیری بیوی نے کہا۔عبدالحئی کامکان الگ بناناہے ۔تواس کیلئے بھی خدانے ہی سامان کردیا۔ان فضلوں کیلئے عدل کااقتضاہے ۔ کہ میں ساراخداکاہی ہوجائوں۔قویٰ بھی اسی کے ،عزت وآبروبھی اسی کی۔
(خطبات نور۔ص574)
نصائح
میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ ایک دوسرے پرٹھٹھانہ کرو۔بدظنی سے کام نہ لو۔مسلمانوں میں بدظنی بڑھتی جاتی ہے ۔ واعظ بھی وعظ کرتاہے تو کہتے ہیں باتیں بنارہاہے ۔ ایسے لوگوں میں سے نہ بنو۔یہ لوگ خطرناک راہ پرچل رہے ہیں ۔بہرے ہیں،کان رکھتے نہیںکہ کسی راہنما کی آوازکی سنیں ۔اندھے ہیں،آنکھیں رکھتے نہیں کہ خودنشیب وفرازدیکھ لیں۔گونگے ۔ہیں،زبان رکھتے نہیںکہ کسی سے رستہ پوچھ لیں۔پس وہ موذی چیزسے کیونکربچ سکتے ہیں؟
(خطبات نور۔ص595)
عشق قرآن
میرے دوستو!قرآن مجید جیسی کوئی کتاب نہیںبلکہ اورکوئی کتاب ہی نہیں ۔اس کی اتباع کرو۔خداتعالیٰ تمہیں اپنی محبت بخشے ۔نیکیوں کی توفیق دے ۔قرآن مجیدپرعمل کرواورخاتمہ بالخیر۔
(خطبات نور۔ص599)
عشق قرآن
اس کاسب سے بڑاانعام تم پریہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی۔ اگرتم کوشک ہے کہ قرآن خداکی کتاب نہیں ہے اوریہ بناوٹی ہے اورانسانی کلام ہے توتم بھی کوئی ایسی کتاب لائوبلکہ اس کتاب کے ایک ٹکڑے جیساٹکڑابناکردکھائو۔ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہاکہ یہ قرآن کوتوڑموڑکراپنے مطلب کاترجمہ کرلیتاہے ۔میں کہتاہوں جیساتمہاراسنانے والاہے ایساکوئی سنانے والانہیںمیں تمہیں کہتاہوںجھوٹ نہ بولو۔کیاتم کوئی ایسامترجم لاسکتے ہوجوکہے کہ قرآن میں لکھاہے کہ جھوٹ بولاکرو۔میں تمہیںکہتاہوں کہ بدمعامگلی چھوڑدوتوکیاکوئی ایسامترجم آئے گاجوکہے گا،بدمعامگلی کیاکرو؟میں کہتاہوںتم راستبازبنو،لڑائی چھوڑدو۔آپ کافسادچھوڑدو۔توکیامترجم آئے گاجوکہے گا لڑائی کیاکرو؟فسادمچایاکرو؟غرض نہ توقرآن جیسی کتاب بناکرلاتے ہواورنہ بناسکتے ہوتوپھرڈرواوربچائواپنے آپ کواس آگ سے جس کا ایندھن یہ شریر لوگ اورجس کے بھڑکنے کاموجب یہ معبودان باطل ہیں۔
(خطبات نور۔ص598،599)
رؤیاوکشوف
میںنے ایک کتاب دیکھی ۔اگرچہ وہ مجھے ناپسندآئی مگرمیںنے اس کوخرید لیا۔رات کومجھے رؤیاہواکہ ایک باز ارہے اس میں بہت خوبصورت پیاز اورلہسن خرید لیا۔جب جاگ آئی توزبان پرفومھاتھاتوسمجھ آئی کہ لہسن پرخوب ہاتھ مارا۔
(خطبات نور۔ص623)
عشق قرآن
میرے پیارو!تم خداکی کتاب پڑھواس پرعمل کرو۔
(خطبات نور۔ص626)
عشق قرآن
میںنے اپنے زمانہ میں میرزاغلام احمدقادیانی کودیکھا۔سچاپایا۔اوربہت ہی راستبازتھاجوبات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منواتا تھااس نے بھی ہم کویہی حکم دیاکہ قرآن پڑھو۔اوراس پرعمل کرواورفرمایاکہ قرآن کے بعدکوئی کتاب ہے توبخاری ہے ۔
(خطبات نور۔ص630)
حضرت مسیح موعودؑ سے عشق
میںنے اپنے زمانہ میں میرزاغلام احمدقادیانی کودیکھا۔سچاپایا۔اوربہت ہی راستبازتھاجوبات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منواتا تھااس نے بھی ہم کویہی حکم دیاکہ قرآن پڑھو۔اوراس پرعمل کرواورفرمایاکہ قرآن کے بعدکوئی کتاب ہے توبخاری ہے ۔ اس نے تین دعوے کئے ۔اول حضرت عیسیٰ ؑ مرگئے ۔جیسے ’’فیھاتحیون وفیھاتموتون ومنھاتخرجون‘(الاعراف:26)’’الم نجعل الارض کفاتااحیاء وامواتا‘ (المرسلات:26,27)دوئم ایک عیسیٰ ؑ کی آمدہے وہ میں ہوں۔ہم نے اس کونشانوں سے مانااورمیں خود بھی نشان ہوں اورمیراگھربھی نشانوں سے بھراپڑاہے ۔تیسرا،جوطبعی موت سے مرجاتے ہیں وہ پھراس دنیامیں نہیں آتے اس کوبھی ہم نے واضح طورسے قرآن کریم کے مطابق پایا۔باقی مسئلہ کوئی ایسانہ تھا۔اگرکوئی مسئلہ پوچھتاتواکثرمیرے پاس بھیج دیتے کہ نورالدین سے پوچھ لو۔
(خطبات نور۔ص630)
رؤیاوکشوف
ایک دفعہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ کوخواب یاکشف میں دیکھا۔میںنے آپ سے سوال کیاکہ حضرت ابوبکرؓ اورآپؓ کی فضیلت کامسئلہ دنیا میںپیچ دارہورہاہے ۔اس کااصل کیاہے ؟فرمایا۔انسان کی فضیلت موقوف ہے اس تعلق پرجوانسان کواللہ تعالیٰ سے ہے۔ دلوں سے حالات کو’’علیم بذات الصدور‘‘(ال عمران :120)کے سواکون جانتاہے ۔
(خطبات نور۔ص630)
عشق قرآن
میں تم کوقرآن پڑھاتاہوں میںنے عربی کی کتابیں پڑھی ہیں ۔مجھے توکوئی سمجھ میں نہیں آیاکہ میں قرآن کریم کے سوااورکس قسم کاوعظ کروں جمعے کے خطبے ہوتے ہیں ۔اس میںکوئی بات کہہ دیتاہوں۔مجھے توقرآن کریم سے بڑھ کرکوئی اورکتاب نظرنہیں آتی ۔ میںنے کتابوںکواس قدرپڑھاہے وہ کتابیں میرے پڑھنے کی خودگواہی دے سکتی ہیں کیونکہ میںنے ان پرمیںنے بڑی محنت سے یاداشتیں لکھ دی ہوئی ہیں ۔تو مجھے قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی کتاب پسند نہیں آئی ۔قرآن سے ہی وعظ ونصیحت کرتاجاتاہوں۔میںنے دکان کھولی ہوئی ہے ۔ خداتعالیٰ کانے مجھے ایسافہم دیاہواہے کہ صرف قرآن کریم سے ہی علاج کرناجانتاہوں۔پھربھی میں دیکھتاہوں کہ بعض کوہماری تعلیم سے کچھ نفرت بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ کسی بھی حالت میں شریک نہیں ہوتے ۔
(خطبات نور۔ص639)
ماں باپ سے محبت
میری والدہ کی جب وفات کی تارمجھے ملی تواس وقت میں بخاری پڑھ رہاتھا۔وہ بخاری بڑااعلیٰ درجہ کی تھی۔ میںنے اس وقت کہا۔اے اللہ ! میراباغ تویہی ہے ۔تومیںنے پھروہ بخاری وقف کردی۔فیروزپورمیں فرزند علی کے پاس ہے ۔
(خطبات نور۔ص642)
عشق قرآن
قرآن کریم میری غذاہے ۔اس واسطے میں نے سوچاکہ ہرجمعہ کومیں ایک رکوع قرآن مجیدسنادیاکروں اوراس طرح پرایک درس پوراہو سکے گا۔
(خطبات نور۔ص653)
 
Top