• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1994

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1994

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ یکم رمضان المبارک
12 فروری 1994ء
(ابتدا کے چند جملے نشریاتی رابطے میں خرابی کے باعث ریکارڈ نہیں ہوسکے۔ ان کے لئے جگہ چھوڑی جارہی ہے)
… امسال پاکستان سے خصوصیت سے اور بعض دوسرے ممالک سے یہ اصرار ہوا ہے کہ ہم پورا رمضان درس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور چونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں جو وقت درس سننے کا ہے وہ رخصت ہی کا وقت ہے۔ سب فارغ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے مسلسل جاری رکھا جائے۔ بہرحال ان درسوں کے بعد جو سورۃ فاتحہ سے تعلق رکھتے تھے پھر ہم نے آل عمران کا درس شروع کیا۔ کیونکہ اس کے متعلق بھی باہر ہی سے یہ تجاویز آرہی تھیں کہ درس وہاں سے شروع کیا جائے۔ جہاں تفسیر کبیر کا پہلا حصہ ختم ہوتا ہے۔ اور وہ سارا قرآن کریم کا وہ حصہ تمام تر حصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی مجبوری سے یا کسی حکمت کے پیش نظر بعد میںدرس کیلئے رکھا ہوا تھا اور ایک حصہ چھوڑ کر پھر بعد کے حصے سے نئے درس کا آغاز کردیا تھا۔ تو ہمارے احمدی دوستوں کا یہ اصرارتھا کہ اس حصے پر میں اگر درس دینا شروع کروں تو یہ تو پورا ہوجائیگا۔ چنانچہ اس مشورے کے پیش نظر جو سورۃ فاتحہ کے بعد کے درس تھے۔ وہ سورۃ آل عمران سے ہی شروع ہوئے اور اب تک آل عمران ہی جاری ہے۔ پہلے یہ درس انگریزی میں ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ زیادہ تر مخاطب احباب اور خواتین یورپ کے رہنے والے تھے جو براہ راست انگریزی میں درس سننا پسند کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے یہ خیال کیا کہ اردو میں شروع کئے جائیں تو بہت احتجاج ہوا۔ اورجو دوست انگریزی درس کے عادی تھے (امریکہ سے لیکر یورپ کے ممالک تک) سب نے اصرار کیا کہ آپ یہ خیال چھوڑ دیں اور ہمیں بھی کچھ ہماری زبان میں براہ راست خطاب چاہئے اور ترجموں میں وہ بات نہیں رہتی جو براہ راست خطاب میں ہوتی ہے۔ اس لئے انگریزی کا درس کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اب جبکہ عالمی ٹیلی ویژن ٹرانسمیشن کے ذریعے وہ تمام علاقے جو زیادہ تر اردوسمجھنے والے ہیں اور ان کی بھاری اکثریت انگریزی میں اگر کچھ شدھ بدھ رکھتی بھی ہے تو اتنی دسترس نہیں رکھتی کہ درس کے مضمون کو انگریزی زبان میں سمجھ سکیں۔ ان کی خاطر اور اس خاطر بھی کہ جرمنی سے بارہا یہ اصرار ہوتا رہا کہ اگرچہ ہم مغربی ملک میں بس رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہمارا یہاں بسنا اتنا لمبا نہیں ہوا کہ ہم اپنی زبان بھول کر دوسری زبانیں سیکھ چکے ہوں۔ اس لئے ہماری بھاری اکثریت ایسی ہے جو ابھی تک اردو ہی کو بہتر سمجھتی ہے۔تو آپ اگر اردو درس دیں تو ہم میں مرد عورتیں بچے بہت سی خواتین ایسی ہیں جوایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں جانتے تو ان کی خاطر آپ اردو درس شروع کردیں۔تو اب آج سے یا غالباً پچھلے سال سے بھی شروع ہو گیا تھا؟ یا پچھلے سال سے گزشتہ سال ہی سے اردو میں درس شروع ہوگیا تھا۔ لیکن امسال یہ اضافہ ہوا ہے کہ اس درس کا عرصہ بڑھا کر دو دن کے بجائے تمام دنوں پر پھیل جائیگا۔ سوائے جمعہ کے دن کے۔ جمعے کے دن کی معذرت ہے کیونکہ جمعے سے پہلے جو مصروفیتں ہیں، خاص جمعہ کے دن کی تعلق رکھنے والی مصروفیتیں ہیں وہ مانع ہیں کہ اس دن درس بھی دیا جائے۔ اس لئے جمعہ کے دن کی رخصت ہوا کرے گی۔ باقی دنوں میں انشاء اللہ ہم اکٹھے بیٹھیں گے۔
پہلے یہ بھی دستور تھا کہ اتوار کے دن سوال و جواب کا وقفہ رکھا جاتا تھا یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ درس اور نصف گھنٹہ سوال و جواب کیلئے اور بعض دفعہ اس وقفے کو بڑھا بھی دیا جاتا تھا۔ کیونکہ سوال و جواب زیادہ ہوجاتے تھے۔ اس لئے یہ فیصلہ ابھی مشکل ہے کہ امسال سوال و جواب کیلئے کتنا وقفہ مناسب رہے گا۔ یہ بات منحصر اس بات پر ہے کہ دوستوں کے جو سوال اب آئیں گے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اندازہ لگایا جائیگا کہ کتنے عرصے میں ان سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے تو پھر انشاء اللہ اور آئندہ اس کے متعلق اعلان کردیا جائیگا۔
رمضان المبارک میں چونکہ دوسری مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کردیا تھا انشاء اللہ رمضان المبارک میں یا تو درس کا پروگرام ہوگا یا پھر تلاوت قرآن کریم کا پروگرام ہوگا جس کومختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائیگا۔ یہ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور ابتداء ً نسبتاً تھوڑی یعنی چند زبانیں ہی ترجمے کے ساتھ پیش کی جائینگی۔ چند زبانوں کا ہی ترجمہ تلاوت کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ بعد میں جوں جوں تیاری مکمل ہوگی انشاء اللہ اور زبانوںکو بھی داخل کیا جائیگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم کا 20 وا ںحصہ 118 زبانوںمیں ترجمہ ہوچکا ہے اور ان حصوں کو اگر ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے تو ہر پارے کو 118 مرتبہ پڑھنا ہوگا۔ اور یہ اتنا زیادہ وقت ہے کہ ہمارا وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے جو تیاری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اس میںایک فائدہ بھی مضمر ہے۔ ابھی ہمارے پاس ایشیا کیلئے متبادل چینلز یعنی بیک وقت مختلف صوتی پروگرام پیش کرنے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ وڈیو میں اس وقت تک ایشیا کیلئے دو پروگرا م پیش کرنے کی سہولت ہے۔یعنی ایک تو وہ پروگرام ہے جو نظر آرہا ہے سب کو۔ اور اس کے ساتھ جو زبان چلتی ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے۔ دوسرا پروگرام جو نظر آرہا ہے ۔ وہ تو وہی مشترک ہے لیکن آپ چاہیں تو زبان دوسری بھر دیں۔ یہ سہولت ابھی تک مہیا ہے۔ اس لئے غالباً آپ کو شروع میں 2 زبانوں پر مشتمل پروگرام ہی دکھائے جائیں گے۔ لیکن جیساکہ میں نے بیان کیا تھا وہ کمپنی جس کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے انہوں نے وعد ہ کیا ہے کہ ہم مارچ تک آپ کو بیک وقت 8زبانوں کی سہولت مہیا کردیں گے۔ اور یورپ میں بھی بیک وقت آٹھ زبانوں کی سہولت مہیا ہے تو جب بھی یہ پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ بیک وقت یورپ میں آٹھ یورپین زبانیں پیش کی جارہی ہونگی۔ اس لئے اگر مکمل ترجمہ قرآن مختلف زبانوں میں پیش کرنا ہو تو 52 زبانوںمیں ہوچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورۃ کو اگر 6.5 مرتبہ پڑھا جائے تو 52 زبانیں جن کے ترجمے ہم شائع کرچکے ہیں وہ ساری پیش ہوجایا کرینگی۔ لیکن ان 52 میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کا تعلق یورپ سے نہیں ہے۔ یورپین زبانیں غالباً 16 ہیں یا کچھ زائد 18 ہیں شاید۔ جن میں ترجمے ہوچکے ہیں تو ان کے لئے ہر سورۃ کی 2 دفعہ کی تکرار کافی ہوگی۔
یعنی ایک دفعہ ایک سورۃ کو پڑھیں تو ساتھ آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا۔ دوسری دفعہ اسی حصہ کو پڑھیں تو آٹھ مزیدزبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا اور پھر 2 باقی رہ جائینگی۔ ان کو بیچ میں کہیں پھر شامل کرلیں گے بعد کے پروگراموں میں۔ تو یہ ہے آئندہ کیلئے پروگرام ۔ لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں بھی ابھی بہت محنت کرنی ہے۔ بہت ہی توجہ طلب کام ہے۔ اچھے قاری کی تلاش۔ اس کی تلاوت کی نوک پلک درست ہوں اور تمام قواعد جو تلاوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر پوری اترنے والی قراء ت ہو۔ پھردل پر گہرا اثر کرنے والی ہو۔ پر شوکت آواز ہو جو ٹیلی ویژن کی لہروں پر پھیلے تو جہاں جہاں پہنچے روح پر وجد طاری کردے۔ یہ ایک الگ مرحلہ ہے۔ پھر اس کے مطابق ہر زبان میں ایسا پڑھنے والا ڈھونڈنا جو اس زبان میں قرآن پڑھنے کا حق ادا کرسکے۔یہ ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اب تک جو تاخیر ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوئی ہے کہ بہت سے ایسے تراجم جو ساتھ پڑھے گئے تھے۔ہم نے انہیں منظور نہیں کیا ، قبول نہیں کیا۔ وہ قبول نہیں ہوئے کیونکہ طبیعت نے ان کو قبول نہیں کیا تھا اور مشوروں کے بعد یہی سوچا کہ کسی اور تلاش کیا جائے۔ پھر اگر وہ بھی پورا نہ اترے تو پھر کوئی اور تلاش کیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح تلاوت سے دلوںپر اثر پڑ رہا ہے دوسری زبان میں وہ اثر بیچ میں ہی نہ گر جائے اور وہ پھسپھسی نہ دکھائی دے نہ سنائی دے۔ پس اس پہلو سے چونکہ بہت دقت طلب تو نہیں مگرمحنت طلب کام ہے اور صبر آزما ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے احباب جماعت کو میںیہ بایتں سنا رہا ہوں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے وعدہ کیا اور پورا نہیں کررہے اور دیر ہوگئی۔ بہت لمبی محنت اور احتیاطوں کا کام ہے۔ پھر بعض تراجمہ کی از سر نونگرانی بھی ہورہی ہے۔ بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن میں تراجم ہوئے۔ شائع کردیئے گئے انہوں نے زیادہ تر انحصارحضرت مولوی شیر علی صاحب کے ترجمہ پر رکھا۔ یا پھر ملک غلام فرید صاحب کے ترجمے پر انحصار رکھا۔ بعض دوسرے تراجم جووہ سمجھتے تھے ان کو بھی ساتھ شامل کیا۔ یہ ایک لمبا سلسلہ تھا۔ جس میں ہم نے حتی المقدور ایسے احمدی سکالرز کو داخل کیا جو عربی کا علم بھی رکھتے تھے اور ان زبانوںکا بھی۔ لیکن اس معیار کی زبان نہیں تھی کہ وہ از خود ترجمہ کرسکیں۔ لیکن سمجھتے ضرور تھے کہ یہ جو ترجمہ ہورہا ہے۔ یہ قرآن کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ ان تمام احتیاطوں کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ بہت سی جگہ خلا رہ گئے ہیں اور اگر ہم دنیا کے سامنے صوتی طریق پر تراجم پیش کرینگے تو ہوسکتا ہے کہ پوری طرح قرآن کا حق ادا کئے بغیر بعض مضامین ہم بیان کردیں جن کو ترجمہ کرنے والا اچھے طریق پر بیان نہیں کرسکتا تو اس کے دو حل تجویز ہوئے جو زیر عمل ہیں۔ ایک یہ کہ تمام ایسی آیات جن میں قاری کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ اس قاری کو بھی بعض دفعہ جو عربی اچھی طرح جانتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اردو تراجم میں ان آیات کے سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے اور وہ ایسی غلطی ہے کہ اگر اس کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ لوگ جو اس مترجم کو اچھا بھی سمجھتے ہوں وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرینگے بلکہ سمجھ جائیں گے کہ ہاںیہاں کچھ تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے۔ کچھ سقم پیدا ہوگیا ہے۔پس ایسی تمام جگہوں کا از سر نو ترجمہ ضروری تھا۔ تو ہم نے دوسری زبانوں کے ترجمے کی حقیقت سمجھنے کیلئے ان تمام آیات کا انتخاب کرکے اور یہ کافی بڑا انتخاب تھا۔ احتیاط کے طور پر جہاں بھی خیال پیدا ہوا کہ ایک براہ راست عربی نہ جاننے والا کوئی غلطی کرسکتا ہے۔ ان کا دوبارہ انگریزی میں ترجمہ کروایا اور اگر وہ انگریزی ترجمہ اس زبان سے بالکل درست تھا تو پھر ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں رہتی اور اگر اس ترجمے میں ابہام تھا تو یا تو ترجمہ کرنے والے نے اس زبان سے صحیح ترجمہ نہیں کیا یا پہلا ترجمہ ہی غلط ہوگا تو اس پہلو سے پوری احتیاط کرنے کے بعد اس پر کام شروع ہوا اور جو جو انگریزی ترجمے میں غلطی نظر آئی اس کو درست کرکے اہل زبان کے سامنے وہ آیات وہ ترجمے دونوں رکھے گئے اور پوچھا گیا کہ بتائو جو پہلا ترجمہ ہے وہ اس کے عین مطابق ہے یا نہیں ہے؟ اور جو سقم سامنے آیا ہے۔ اس نئے ترجمے میں وہ دور ہوا ہے کہ نہیں؟ پس اس تسلی کے بعد ان کو مختلف ملکوں میں بھجوادیا گیا ۔ ان تصحیح شدہ تراجم کو اور تراجم کے اوپر ان کی چیپیاں وہاں لگادی گئیں کہ اصل یہ ترجمہ درست تھا یا زیادہ واضح تھا اور اس کے مطابق اب تمام دنیا کی زبانوں کے تراجم یک رنگ ہورہے ہیں۔ بعض تراجم میں اگر غلطی نہیں بھی تھی تو ایک ترجمے میں ایک طرز اختیار کی گئی ہے ۔ دوسرے میں دوسری اختیار کی گئی ہے بعد میں محققین کہیں گے کہ جماعت احمدیہ نے جو ترجمہ پیش کیا یہاں کچھ اور کیا وہاں کچھ اورکیا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عربی زبان میں یہ تمام امکانات موجود رہتے ہیں۔یعنی اس میں وہ گنجائش ہے وہ لچک ہے کہ بعض مترجم اگر ایک ترجمے کو پسند کریں وہ کرلیں بعض دوسرے کو پسند کریں وہ کرلیں اور ان میں تضاد نہیں ہے۔ بلکہ دو پہلو ہیں تاہم ہم نے کوشش یہی کی ہے کہ تمام دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں۔ ان میں تضاد کا تو سوال ہی نہیں ہے لیکن مضمون پیش کرنے میں جہاں تک ممکن ہو ایک ہی طرز اختیار کی جائے اور ایک ہی ترجمے کو اختیار کیا جائے جو سب سے زیادہ واضح اولیت رکھنے والا ترجمہ ہے۔ اب اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب آپ کے سامنے بعض ترجمے پیش کئے جاتے ہیں یعنی اب کئے جارہے ہیں (انشاء اللہ) آج شروع ہوچکے ہونگے اب تو اس میں۔ اس کے پس منظر میں کتنی محنت‘ کتنی توجہ اور کتنے لمبے گہرے وقت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب خداتعالیٰ بات میں برکت دیتا ہے تو یہ کام ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جب باقی سب دنیا کی جماعتیں بھی اس مضمون کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے دعا سے مدد کرینگی تو انشاء اللہ کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور بھی زیادہ سہولت نصیب ہوگی۔
تراجم کے سلسلے میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے ایک الگ ٹیم بنادی ہے نوجوانوں کی‘ جو خاص طور پر مترجم تلاش کرنے اور تراجم کے سلسلے میں مرکزی کارکنان کی مدد کررہی ہے۔ یہ مخلص نوجوان ہیں جو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے یا پڑھ رہے ہیں اور ان کویہ جو ظاہری تحقیق کی جو احتیاطیں ہیں۔ اتنا علم بہرحال ضرور ہے۔ ہمارے ہاں نفس مضمون پر تو بہت زور دیا جاتا ہے۔ لیکن بعض تکنیکی احتیاطیں ہیں وہ ہم اختیار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے مغرب کی نظر میں ہماری تحقیق کا معیار کمزور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جو طلباء جن کی میں بات کررہا ہوں جن کی ٹیم یہاں بنائی گئی ہے ان کو ہم اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام باتیں بتاتے ہیں جو زیر نظر رہنی چاہئیں اور مغربی طریقہ تحقیق سے وہ کچھ پہلے واقف ہیں کچھ اور ان کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ ان کے سپرد مختلف زبانوں کے کام کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے اور وہ باقاعدہ اپنی رپورٹیں لیکر مجھ سے ملتے ہیں اور اس وقت کی صورت حال بیان کرتے ہیں۔ ایک دقت جو سردست پیش آرہی ہے جس کا ابھی تک پوری طرح حل نہیں ہوا۔ وہ یہ ہے کہ مختلف مترجمین کی قیمتیں الگ الگ ہیں وہ اجرتیں جو طلب کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ناں ! کہ ہر ملک میں الگ الگ ہو ہی جایا کرتی ہے لیکن میں یہ بات کررہا ہوں کہ بعض ملکوں میں اگر 100 ہے تو بعض میں 5 ہے ۔ اور اتنا زیادہ فرق ہے کہ ہم آنکھیں بندکرکے 100 والے کی آفر کو قبول نہیں کرسکتے۔ اس کی پیشکش لینے کے بعد پھر تلاش کرتے ہیں کہ شاید اس سے اچھی پیشکش کسی اور جگہ سے مل جائے اور یہاں معیار کے فرق کی وجہ سے نہیں ہے یعنی علم کے معیار میں کمی کی وجہ سے قیمت نہیں گرتی بلکہ اقتصادی نظام میں قیمتوں کے گرنے سے یہ قیمت گرتی ہے۔ پس وہ ایسے تمام علاقے جہاں مغرب کے مقابل پر اقتصادی نظام ہے وہ نسبتاً ادنیٰ مقام پر ہے۔ اور اس کے مطابق پر قیمتیں بھی کم ہیں ۔ ان علاقوں میں ایسے علماء کی تلاش کرنی چاہئے اگر موجود ہوں اور یہ علماء جو ہیںاس قسم کے ہر جگہ پھیلے پڑے ہیں۔ اب روس سے یا روس نہیں کہنا چاہئے جو رشین ریپلک کی تھی USSRکی، جس میں روسی غیر روسی سب قومیں شامل ہیں ان میں موجودہ زمانے میںبہت حد تک باہر جاکربہتر ذرائع معیشت ڈھونڈنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔وہ پاکستان بھی پہنچ گئے۔ انڈیا بھی پہنچ گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی جارہے ہیں اور ان میں بڑے صاحب علم لوگ ہیں۔ علم کا معیار اللہ کے فضل کے ساتھ USSR میں بہت اونچا ہے۔ کیونکہ ان کوگویا جس طرح کیڑیاںکام پہ لگی رہتی ہیں۔ اس طرح مختلف علمی اداروں میں جھونک دیا گیا اور کسی چیز کو ہوش ہی نہیں رہی۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد ایسے علماء کی آپ کوروس میں ملتی ہے جو اپنے اپنے مضمون میں بڑے ماہر ہیں بلکہ اس کے علاوہ دوسرے مضامین میں بھی بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ زبانوں کے بڑے بڑے ماہر وہاں موجود ہیں اور وہاں ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ روس میں اگر ان تک پہنچا جاسکے تو ٹھیک ہے۔ لیکن آج کل روس میں مقیم باشندوں کو امریکن ڈالر بہت دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے جب کوئی باہر والا ان سے پوچھتا ہے تو اپنی موجودہ قیمت سے 50 ۔ 100 گنا بڑھا کر بتاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں جو بھی باہر سے آتا ہے امریکن ڈالر لے کے آتا ہے۔
اس لئے یہ جو باہر جاچکے ہیں ان ملکوںمیں انہوں نے جو اپنے نئے معیار ذھنی طور پر قائم کرلئے ہیں کہ ہماری محنت کا یہ پھل ملنا چاہئے۔ وہاں اچھے لوگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے ان پر نظر رکھیں۔ اسی طرح عرب دنیا میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں۔ ہمیں اچھے عربی دانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ترکی زبان کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن ہر زبان کے ماہرین میں شرط یہ ہے کہ انہیں ایک دوسری زبان اچھی طرح ضرور آتی ہو۔ یا عربی یا اردو یا انگریزی کیونکہ زیادہ تر ہمارے تراجم یا ہماری کتب انہیں زبانوںمیں ہیں۔ اسی طرح اس وقت French میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تیاری ہوچکی ہے۔ جرمن زبان میں بھی ہے تو اگر دوسری زبانیں نہ آتی ہوں تو یورپ کی بعض دوسری زبانوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو قرآن کریم کے تراجم پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے از سر نو بہت احتیاط کی نظر ڈالنے کی خاطر ہمیں ان ماہرین کی ضرورت پیش آرہی ہے اور یہ ضرورت بڑھے گی اور اس کا تعلق صرف یورپ سے نہیں افریقہ میںبھی بہت سی غلطیاں،بہت سی نہیں تو کئی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں اور ان کی درستی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جب میں نے قرآن کریم طبع ہونے کے بعد دوبارہ نگرانی کروائی ۔ پیشتر اس کے کہ ان کی اشاعت کی جائے تو بعض تراجم ایسے تھے کہ جن کے متعلق یہی فیصلہ کیا گیا کہ ان کو نہ تقسیم کیا جائے جو اشاعت طباعت کا نقصان ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے مقابل پر کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کا کسی جگہ غلط تاثر پیدا ہوجائے۔ اس کے بدلے پھر نئے تراجم بھی کرائے گئے ہیں۔ پھر بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ بعض علماء جلدی سے جماعت احمدیہ کے تراجم پر حملے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں آپکو بتادوں کہ جہاں تک اس قسم کی انسانی کمزوری کی غلطیا ںہیں وہ ہمارے تراجم میں بہت کم ہیں میں جب انہیں بڑھا کر بیان کررہا ہوں تو آپ یہ نہ سمجھ لیںکہ دیگر تراجم ان باتوں سے پاک ہیں اور ہمارے تراجم میںیہ غلطیاں ہیں۔ دیگر تراجم اس قسم کی بے اختیار غلطیوں سے بھی پُر ہیں اور دانستہ غلطیوں سے بھی پُر ہیں۔ یعنی قران کریم کی بعض آیات کا ایسا خوفناک ترجمہ کیا جاتا ہے کہ جس سے جوغیر مسلم ہیں۔وہ قرآن کی طرف مائل ہونے کے بجائے اس سے بِدکتے ہیں اور اسلامی تعلیم سے متاثر ہونے کے بجائے اس سے بھاگتے اور متنفر ہوتے ہیں اور بعض تراجم ایسے ہیں کہ جس کی کچھ سمجھ نہیں آئی کسی کو کہ یہ ہے کیا ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے اسی طرح کردیئے گئے ہیں۔ بعض تراجم ایسے ہیں جو اس زمانے کی غلطیوں کی طرف لے جاتے ہیں جو بائبل کا زمانہ تھا اور بائبل کے زمانے کے بگڑے ہوئے عالمی تصور کو قرآن کی طرف منسوب کرکے نعوذ باللہ من ذالک اس کواس زمانے میں لے آئے ہیں۔ جبکہ بائبل پر تنقید ہونی چاہئے تھی نہ کہ قرآن پر۔ لیکن بائبل سے ایک مضمون اٹھایا ہے جسکو قرآن نے بیان ہی نہیں کیا اور زبردستی قرآن کی بعض آیتوں کی طرف منسوب کردیا ۔تو یہ چیز ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے جب میں اپنے اوپر تنقید کررہا ہوں تو یہ تنقید خالصتاً تقویٰ پرمبنی ہے۔ اپنی ذات کے اوپر اگر آپ تنقید نہ کریں اور صرف دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنائیں توکبھی آپ ترقی نہیں کرسکتے۔ آپ کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر اس تنقید سے کوئی دشمن غلط معنی نہ نکالے۔ یہ نہ سمجھ لے کہ ہم نے اقرار کرلیا ہے کہ ان کے تراجم تو بہترین ہیں۔ ہمارے تراجم میں غلطیاں ہیں۔ اول تو مقابلہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جتنے تراجم ہم کر بیٹھے ہیںاللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گزشتہ چودہ سو سال میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اتنے تراجم کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ اس لئے بہت سارے حصے تو ہیں ہی بغیر مقابلے کے۔ لیکن جہاں مقابلہ ہے وہاں ہر پڑھنے والا جانتا ہے اور تمام اہل علم ابھی تک ہمارے ترجموں پر یہ تبصرے کرچکے ہیں کہ ہم نے جو موازانہ کرکے دیکھا ہے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔بہت واضح ہے مثلاً چینی زبان میں جو ترجمہ ہے اس میں بہت سے علماء نے ایسے مثبت تبصرے لکھے ہیں وہ کہتے ہیں اب ہم پر قرآن کی شان روشن ہوئی ہے۔ تو یہ جو میرا اقرار ہے اور اعتراف ہے کمزوری کا، یہ تو ویسا ہے جیسے قرآن کریم کا حکم ہے اور انبیاء بھی ہمیشہ اعتراف گناہ کرتے رہے جبکہ گناہ نہیں بھی کیا تھا۔ مگر ہم سے تو کمزوریاں ظاہر ہوئی ہیں اس لئے یہ اعتراف ہم پر لازم ہے اور اس اعتراف کے نتیجے میں حسن عطا ہوگا اور ہمارا کام بہتر ہوگا جیسا کہ اُن آیات میں اس مضمون کا ذکر ملتا ہے جو اب میں آپ کے اب سامنے پیش کرنے لگا ہوں۔
مَا کَانَ قَوْلَھُم ْاِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّناَ اغْفِرْ لَناَ ذُنُوْبَناَ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْنَ O سورۃ اٰلِ عمران 148 آیت
اُن کا قول اس کے سوال کچھ نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں بخش دے۔ کیا بخش دے؟ ’’ذُنُوْبَناَ‘‘ ہمارے ذُنُوْب بخش دے۔ ذنوب کیا ہوتے ہیں اس کی گفتگو میں ابھی کروں گا۔ اس پر میں ابھی گفتگو کروں گا عام طور پر اس کا ترجمہ گناہ کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ بڑا وسیع ہے گناہ عمد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور انسانی بشری کمزوریوں پربھی اطلاع پاتا ہے اور ایک انسان کی بے بسی پر بھی اطلاق پاتا ہے اگر وہ اس کا مرتبہ بے اختیاری کی حالت میں بھی ردّی مرتبہ ہے۔ وہ ایسی جگہ سے قوم سے آیا ہے جسے کوئی فضیلت حاصل نہیں تو اس پر بھی یہ لفظ اطلاق پاتا ہے۔ پس ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ ’’ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ ‘‘ اور ہمارے معاملات میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف فرما۔ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ اور ہمارے قدمو ںکو ثبات بخش۔ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْن۔ اور ہمیںکافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
اس میں سب سے پہلے تو لغت کے حوالے سے بعض الفاظ کے زیادہ وسیع معنے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔تاکہ آپ کو علم ہو کہ قرآن کریم کی زبان میں جو لفظ مستعمل ہیں ان کا دائرہ اثر کتنا وسیع ہے۔ اور ان سب معانی کو پیش نظر رکھا جائے جو ترجمے کے علاوہ معانی پائے جاتے ہیں جو سیدھا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ تو قرآن کریم کے مضمون میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ وسعت تو ہے پہلے ہی۔ قرآن کریم کے مضمون کو سمجھنے میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔
ذَنْب’‘ : سب سے پہلے اس کا سادہ ترجمہ میں مفردات راغب کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب اس لفظ کا ’’ن‘‘ ساکن ہو تو اس کے معنے گناہ کے ہوتے ہیں اور اس کی جمع ذُنُوْب آتی ہے ’’ذال‘‘ کی پیش کے ساتھ۔ذَنوب نہیں بلکہ ذُنوب مفردات امام راغب میں ’’ یُسْتَعْمَلْ فِی کُلّ فِعْلٍ یْسْتَوخَمُ عُقْبَاہُ‘‘
بیان ہوا ہے یعنی ہر وہ فعل جس کا نتیجہ خراب ہو ذَنْب’‘کہلاتا ہے۔ یعنی قطع نظر اس کے کہ وہ گناہِ عمد ہے کہ نہیں ہے۔ ہر وہ فعل جو نتیجہ کے لحاظ سے ناقص ہو۔ اور کوئی نقصان ظاہر کرنے والا ہو ہر اس فعل کو ذَنْب کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا
’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘ (آل عمران آیت نمبر ۱۲)
پھر فرمایا
فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ (العنکبوت آیت نمبر 41)
ذنب ان کا ترجمہ یہ ہے اَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوبِھِمْ ......کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا ان کے ذنوب کے سبب سے۔
’’ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَاب‘‘ اور اللہ پکڑ میں بہت سخت ہے۔ میں نے کہا کہ یہ آیت نکالیں۔ آل عمران آیت۱۲
پھر عنکبوت آیت 41 میں فرمایا ہے۔پھر اللہ نے ان کو ان کے ذنوب کی وجہ سے پکڑ لیا نہ دوسری جگہ فکلا اخذنا بذنبہ
’’ ہم نے سب کو ان کے ذَنْب کی وجہ سے پکڑ لیا‘‘
امام راغب لکھتے ہیں کہ ’’ذَنَب’‘ ‘‘ یعنی نون کے اوپر زبر کے ساتھ جب پڑھا جائے تو اس کے معنے دُم کے ہوتے ہیں اور پیچھے رہنے والا اور ذلیل کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع ’’اَذْناَب‘‘ آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ھُمْ اَذْنَابُ القومِ‘‘
یعنی وہ قوم کے نوکر اور ذلیل لوگ ہیں۔استعارہ کے طور پر ’’مَذَانِبُ الطّلاَئِ‘‘
ٹیلوں سے پانی بہنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور دم کی گیلی جگہ کو کہتے ہیں۔ یعنی وہ نچلا حصہ جہاں پانی کا اثر دیر تک رہتا ہے اس کا اثر۔ اور نمی اوپر کے حصوں سے بہتے بہتے نچلی راہوں پر اکٹھی ہوجاتی ہے جہاں سے پانی بہہ کر گزرتا ہے۔ اور وہ آخر تک گیلا رہتا ہے۔ تو کسی اثر کے لمبا ہونے کو اور اس کے آخری حصے کو گویا ’’ذَنَب‘‘ کہا جاتا ہے۔کہاں ہے وہ آیت؟
٭کَدَابِ آلِ فِرْعَوْنَ والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا۔
٭’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘
یہاں فرمایا گیا ہے ’’اسی طرح فرعو ن کی قوم کے طریق پر جو انہوں نے اختیار کیا بدی کا اور گناہ کا۔ والذین من قبلھم اور اُن لوگوںکے طریق پر جو اس سے پہلے تھے۔ ’’ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا‘‘ ان لوگوں نے بھی ہمارے نشانات کو جھٹلادیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مخاطب ہیں انہوں نے فرعون کی پیروی کی ہے اور آلِ فرعون کی یا ان بدوں کی جو ان سے پہلے گزرے تھے۔ پس ان کو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا تھا۔ ان کو کیوں چھوڑے گا؟
جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار میں ان بدکرداروں کے کردار کی پیروی کرتے ہیں۔ پس یہاں ذَنْب سے مراد ہر قسم کے وہ گناہ جو انبیاء کے مخالفین کرتے ہیںوہ ہیں وہ اس لفظ کے اندر داخل ہیں اس لئے ذَنْب کا یہ ترجمہ کرنا کہ ’’ہماری انسانی کمزوریاں‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ صرف اس موقع پر درست ثابت ہوتا ہے جب ایک ایسے شخص پرذَنْب کا لفظ بولا جائے جس کا معصوم ہونا دیگر دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہو۔ جس کے متعلق قرآن دوسری جگہ گواہی دیتا ہو کہ یہ شخص معصوم ہے۔ جیسا کہ انبیاء علیھم السلام پس وہاں ذَنْب کا سب سے ہلکا معنیٰ لینا ہوگا اور ذنب کا سب سے ہلکا معنی یہ ہے کہ وہ کمزوریاں جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ گناہ تو نکل گیا اس کی دُم ضرور باقی رہ جاتی ہے۔
پس وہ دم جو آخر پر پیچھے رہ جائے اس کو ذَنْب کہا جاسکتا ہے۔ پس ایک نبی کیسا ہی پاک ہو۔ کچھ نہ کچھ بشری کمزوری کچھ ’’ذھول‘‘ اس میں ضرور داخل ہوتا ہے۔ پس جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’اَسْتَغْفِرْاللّٰہَ رَبّیِ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ فرمایا کرتے تھے یا خداکے حضور عرض کرتے تھے تو نعوذ باللہ یہ مطلب تو نہیں کہ ایک عام گناہ گار انسان اپنے گناہ یاد کررہا ہے جن کا دائرہ ہی بہت وسیع ہے۔ اکثر بھول بھی چکا ہوتا ہے پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں گناہ کربیٹھاہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب آتا ہے تو وہ باریک ترین پہلو ذنب کے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔ جن پر غیر کی نظر تو نہیں مگر آپ کی اپنی نظر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر نتیجہ فلاں صورت میں نکل سکتا تھا۔ معصومیت کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ایسی کمزوریوں سے جو بغیر گناہ کے ہیں جن میں عدم اطاعت کا کوئی شائبہ بھی نہیں ان سے بھی پاک ہے۔ پس معصومیت کا معنیٰ سمجھ جائیں تو ذنب کا معنیٰ زیادہ واضح ہوجائے گا۔ مثلا" حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دفعہ نماز کی رکعت میں بھول جاتے تھے اور بعض دفعہ صحابہ کو یاد دلانا پڑتا تھا۔ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کے۔ ثابت ہے کہ بعض دفعہ نماز کے بعد بیٹھ کر مُڑ کے پوچھتے تھے کہ کیا غلطی ہوئی تھی بتائو؟ وہ بتاتے تو پھر اس کو قبول فرماتے یا رد فرماتے جیسی بھی صورت تھی۔اور اس کی تصحیح فرمادیتے۔ تو اسی طرح کے معاملات ذھول کے اور اس سے ملتے جلتے ……
(نوٹ: یہاں پھر رابطے میں خرابی کے باعث چند جملے Miss ہیں)
پس جب انبیاء کی بات کرتے ہیں تو ان کی شان کے مطابق بات ہوتی ہے اور موقعہ اور محل کے مطابق ترجمہ ہونا چاہئے۔ پس اس پہلو سے یہ جوآیت زیر نظرہے اس میں ذَنْب کا وہ معنیٰ جو شدید ہے ان لوگوںکے متعلق لیاجائیگا۔ کیونکہ سارے اعتراف کررہے ہیںجنہوں نے واقعی گناہ کئے تھے اور وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔ اور سب سے ہلکا معنیٰ ان لوگوں کے متعلق لیا جائیگا جو اپنی معمولی بشری کمزوریوںکو بھی جو خدا کی نظر میں ہرگز گناہ نہیں ہیں۔ انکو بھی گناہ سمجھ کر پیش کئے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں ۔ اے اللہ ! ہمیں معاف فرمادے اور اس بھُول چُوک کے نتیجے میں اگر کچھ غلط اثرات ظاہر ہوجائیں تو ان کے لئے بخشش مانگنا ضروری ہے محض انکسارکی بات نہیں ہے۔
ایک ڈرائیور ہے وہ جان بوجھ کر تو ایکسیڈینٹ نہیں کرتا، غلطی ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوسکتا ہے۔ اتنا بھیانک کہ بعض دفعہ بالعمد غلطی کرنے والے سے بھی بعض دفعہ ایسا خطرناک نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا۔ جو ایک معصوم غلطی کرنے والے سے ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ بھی کہنا درست نہیں کہ وہ محض انکساری کے طور پر ایک بے ضرورت بات کرتے ہیں کیونکہ انبیاء کی طرف بے ضرورت بات بھی منسوب نہیں ہوسکتی۔ یہ بات توارادے کے ساتھ کررہے ہیں۔ اس لئے اس میں حکمت ہے۔ اور حکمت یہ ہے کہ بغیر گناہ کے انسانی غلطیاں بعض خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتی ہیں۔ ان کا نتیجہ خطرناک نکل سکتاہے۔ اس لئے انبیاء کا اپنے لئے بخشش طلب کرنا۔ جاہل لوگ نہیں سمجھتے کہ ساری قوم کیلئے بھلائی مانگنے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا کر بعض جاہلوں کی نظر میں اپنے آپ کو بہت کمزور اور غلطیوں سے پُر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جانتے ہیںکہ اس کے نتیجے میں لوگ طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں گے۔ قرآن آگے اس بات کو خوب کھول رہا ہے۔ لیکن جانتے ہیں یہ بھی جانتے ہیںکہ اگر ہم خدا کے حضور گریں گے اوران غلطیوں کے متعلق معافیاںمانگیں گے جو ہم نے جان کرنہیں کیں۔ تو وہ قادر مطلق ہے اسکے اختیار میں ہے کہ اس کے بدنتائج سے اس قوم کو محفوظ رکھے جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک محض انکساری کا معاملہ یاایک ذاتی معاملہ نہیں رہتا۔ایک قومی فریضہ بن جاتا ہے جو ہر لیڈر کیلئے لازم ہے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں ہرشخص ایک لیڈر بھی ہے اور جواب دہ بھی ہے۔
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوْل’‘ عَنْ رَعِیَتِہٖ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ’’تم میں سے ہر شخص ایک گڈرئیے کی طرح ہے جس کے سپرد کسی کی بھیڑیں کی گئی ہوںاور ان بھیڑوںکا حساب طلب کیا جائیگا۔ ایک تو مالک ہے اس کی بھیڑیں ہیں وہ کوئی کھاجائے نہ کھائے وہ خود جانتا ہے کسی کو جواب نہیں دیتا۔ لیکن یہاں جو ہم مالک ہیں یہ عارضی ہیں۔ اس لئے ہر وہ چیز جو ہمارے سپرد ہے ہمارے پاس امانت ہے وہ اللہ کی امانت ہے۔ اس سلسلے میں جواب دہ ہونگے۔ پس یہ مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے فلاح حاصل کرنی ہے اور عظیم الشان کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو جس جس دائرے میں خواہ وہ چھوٹا دائرہ ہی کیوں نہ ہوہمارے سپرد کوئی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہاں یہ نہ دیکھیںکہ ہم سے تو کوئی ایسی غلطی نہیں ہوئی کہ ہم پکڑے جائیں یا ہم سے کوئی پوچھے۔ اور بہت سے دنیا کے لوگ ہیں بھاری اکثریت جو اسی خیال میں مگن زندگی گزار دیتے ہیں کہ ہم نے کونسی غلطی کی ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن قرآن کا مضمون بہت ہی لطیف ہے۔ انبیاء سے استغفار کا معنیٰ سیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ آپ سے جو غلطیاں ہوتی ہیں اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے بد نتائج کو ٹال دے گا اور اس برکت سے محرومی کی حالت میں بدنصیب دنیا کی اکثریت اپنی عمریں ضائع کردیتی ہے اور اپنے گرد و پیش اپنے ماحول اور ان لوگوں کو جو انکے پیچھے چلتے ہیں ان کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جبکہ ارادہ نہیں تھا۔ پس یہ ہے ذَنْب کا معنی جو قرآن کے مطالعہ سے اور انسانی فطرت کے مطالعہ سے اُبھرتا ہے۔
اب میں بعض دوسرے مفسرین کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔ یا عربی لغت کے حوالے سے بات بڑھاتا ہوں۔ ’’غریب القرآن فی لغات الفرقان‘‘ میں بنو ھندیل کے متعلق لکھا ہے کہ انکی لغت میں ذَنُوْب بمعنیٰ عذاب مستعمل ہے۔ لفظ ذُنوب نہیں بلکہ ذَنوب دُموں کی بجائے ذَنُوب عذاب کو کہتے ہیں۔ مگر اس کا یہاں سرِدست کوئی تعلق نہیںہے۔اس کا اطلاق نہیں ہوتا
اِسراف’‘:اسراف سے کیا مراد ہے ؟ دعا میں یہ آتا ہے کہ
’’ربَّنا اغفرلنا ذنوبنا ذنوب کے بعد آتا ہے و اسرافنا فی امرنا ‘‘
اور ہمارے اپنے معاملات میں ہم نے جو اسراف کیا ہے۔ اگر ذنب کا وہ معنیٰ یہاں نہ لگتا ہو جو میں نے بیان کیا تھا تو اسراف یہاں بے محل اپنی Position کے لحاظ سے بے محل دکھائی دیتا ہے۔ اسراف کا مطلب ہے ہم نے زیادتی کی ہے اور عدل سے ذرا ہٹ گئے ہیں۔ یہ جو دعا ہے ’’اسرافنا فی امرنا‘‘ اس میں بھی دو پہلو ہیں۔ ایک معصومیت کا اور ایک بلارادہ عدل سے ہٹنے کا۔ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تو یہ ضمانت دی ہے کہ وہ عدل سے کبھی نہیں ہٹے۔ کیونکہ آپ کو ایک ایسے رسول کے طور پر پیش کیا ہے جس کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’لاَعِوَجَ لَہُ‘‘ اور عدل سے ہٹنے کا مضمون عِوَجْ کا مضمون ہے۔کوئی ٹیڑھا پن داخل ہوجائے تو عدل سے ہٹ جاتا ہے اور عدل دراصل صراط مستقیم ہی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی ایسی راہ اختیار کی جائے جو ہر قسم کے بل اور فریب سے کلیتہً پاک ہو۔ پس اس معنیٰ میں تو یہ لفظ انبیاء پر اطلاق پا ہی نہیں سکتا۔ خصوصاً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیونکہ آپ کے متعلق قرآن کریم گواہی دیتا ہے ’’لا عِوَج لہُ‘‘ وہ ایسا رسول ہے جس میں کوئی عدل سے ہٹی ہوئی بات تم نہیں دیکھو گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ ’’لَا شَرْقِیَّۃً وَّلَا غَرْبِیَّۃ‘‘اس میں تو اتنا بھی عدل سے ہٹا ہوا میلان نہیں کہ کچھ زائد مشرقیوںکی طرف ہوجائے۔ یا کچھ مغرب سے متاثر ہوکر مغرب کی طرف جھک جائے۔ وہ ایسا نور ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان اسی طرح یکتا ہے اور دونوں کے درمیان اسی طرح مشترک ہے جیسے سورج چمکتا ہے۔ تو مشرق پر بھی ویسا ہی چمکتا ہے جیسا مغرب پر چمکتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کا نور ہے اس لئے اللہ کا نور سمتوں میں تفریق نہیں کیا کرتا۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جب بھی ان دعائوں پر غور کریں گے تو آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم پر اطلاق پانے والا وہ معنیٰ لیا جائیگا جو قرآن کی دوسری آیات کے مطابق ہو۔ ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ ہر معنیٰ محل کے مطابق ہونا چاہئے اور اس کی گنجائش ہوتی ہیں۔ اب میںپہلے اسراف کی بات کرلوں پھرآگے چلتا ہوں۔قرآن کریم نے اس لفظ کو انہی معنوں میں استعمال کیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں یعنی عدل سے ہٹی ہوئی بات یا ایک ہوجانا یا دوسری طرف ہوجانا۔
’’ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا‘‘
جب وہ لوگ خرچ کرتے ہیں مومن تو اسراف نہیں کرتے یعنی وہ حد سے زیادہ بے محل خرچ نہیں کرتے۔
’’ولا تاکلوھا اسرافا و بدارا‘‘
یہاں بھی لفظ اسراف انہی معنوں میں آیا ہے کہ اسے حد سے زیادہ ضرورت سے زیادہ‘ جواز سے زیادہ طریق پر نہ کھائو۔
’’ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ‘‘
یہ ترجمہ بھی مفردات راغب میں ملتا ہے کہ سفیان نے کہا ہے کہ اس کاحقیقی معنیٰ یہ ہے کہ
ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ فھو سرف و ان کان قلیلاً
کہ جو کچھ بھی اللہ کی اطاعت سے ہٹ کر خرچ کیا جائے چاہے وہ خواہ تھوڑا بھی ہو اسراف کہلاتا ہے۔
ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین
اور تم اسراف نہ کرو۔اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔
فلا یسرف فی القتل ۔ (یہ بنی اسرائیل کی آیت 34)
اس میں عام طور پر مفسرین اس کا معنی یہ لیتے ہیںکہ اس میں ایک عرب جاہلانہ رسم کی طرف اشارہ تھا طریق کی طرف اشارہ تھا کہ جب ان کی قوم کو کسی اور کا کوئی آدمی قتل کردیا کرتا تھا تو بجائے اس کے کہ وہ قاتل کے قتل کا مطالبہ کریں وہ ا ن میں سے شریف آدمی پر انگلی رکھتے تھے کہ یہ ہے ہمارا قاتل۔ تو اس کو اسراف فی القتل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ وہ بے ہودہ رسم ہے جو عرب سے نہیں بلکہ جہالت سے تعلق رکھتی ہے۔ آج جو تیسری دنیا کے ممالک ہیں ان میں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ روزمرہ کا دستور ہے کہ کہیںکوئی قتل ہوا تو نام مشوروں کے بعد لکھوائے جاتے ہیں کہ جی اب موقعہ ہے اب اپنے مخالف سے بدلے اتار لو بعض دفعہ عمداً قاتل کو جانتے ہوئے اس کو چھوڑ کر اپنے ایسے دشمنوں کا نام لکھوایا جاتا ہے۔ جو انکے نزدیک زیادہ اس بات کا اہل ہے کہ اسے برباد کیا جائے۔چنانچہ چوٹی کے ان لوگوں کے شرفاء کے نام اور جہاں ان کا بس چلے احمدیوں کے نام بھی بیچ میں داخل کردیتے ہیں کہ اچھا چلو اس… میں وہ بھی ساتھ ہی نکل جائیں ۔ یہ جہالت کی رسمیں ہیں اور قرآن کریم اس کی شدت سے مناہی فرماتا ہے۔
ولا تسرفوا فی القتل
اگر تم مومن ہو۔ اگر حقیقت میں اسلام سے تعلق ہے تو ہر گز قتل کے معاملے میں کوئی اسراف نہ کیا کرو۔
یہ دونوں باتیں امام راغب کے نزدیک عربوںمیں رائج تھیں پس آج کی دنیا خواہ وہ کسی مذہب کی طرف منسوب ہورہی ہو۔ دراصل اس مشترک مذہب کی طرف لوٹ رہی ہے جسے جہالت کا مذہب کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ وہ یہودی ہوں خواہ وہ ہندو ہوں جب بھی وہ ان رسموں کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ ایک مشترکہ مذہب ہے جس کو قرآن کریم جاہلیت کہتا ہے اور جہالت کا مذہب سب سے گندا مذہب ہے اور اس کے نام مختلف ہوجاتے ہیں۔ اب پاکستان میں مسلمان کہلاتے ہیںلیکن کرتے وہ ہیں جو بھاری تعداد سب نہیں ،مفردات غریب القرآن کے اس بیان کے مطابق ہیں۔
وہ جاہل عرب شریف کو قتل کیاکرتے تھے یا قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرتے تھے۔
یعنی یا قوم کا شریف آدمی مانگتے تھے اپنے قتل کے مقابل پر ۔ یا بالکل کسی اور کا نام لے لیا کرتے تھے جس کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ بظاہر ایک ہی بات ہے لیکن ایک بات نہیں ہے۔ جب کہتے تھے ’’شریف‘‘ تو پتہ ہوتا تھا کہ قاتل کون ہے اور مطالبہ کرتے تھے سب سے اونچے آدمی کا اور بعض دفعہ پتہ نہیں ہوتا تھا تو پھر کسی کا نام لے دیتے تھے کہ کچھ تو ملے گا اور اس بیچارے کو خوامخواہ بے گناہ قتل کروادیا کرتے تھے۔
اَسْرَفَ فِی کَذَا کے معنی ہیں جَاوَزَ الْحَدَّ : اس نے حد اعتدال سے تجاوز کیا۔ اَخْطَاَئَ ۔ جَھِلَ۔ غَفَلَ یہ اقرب الموارد میں مختلف معنی لکھے ہیں۔
سُرْفَۃ’‘ : سرخ جسم ‘ سیاہ سر والا کیڑا جو درخت کے پتے کھاتا ہے اس کو ’’سُرْفَہ‘‘ کہتے ہیں۔اور عام طور پر عربی میں لفظ کو خواہ کسی صورت میں ڈھالا جائے اس میں بنیادی معنے شامل رہتے ہیں۔پس وہ درخت کے ساتھ اسراف کرتا ہے۔ اس کی ساری شان و شوکت اور بہار کو کھا جاتا ہے اور اسے پھل کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اس لئے اس کیڑے کو جس کا کام ہی پتے چرنا ہے اس کو اس درخت کا سُرفہ کہتے ہیں۔
’’اَسْرَفَ عَلیٰ ‘‘کسی فعل میں حد سے گزر جانا۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ
تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
یہاں وہ دوسرا معنیٰ ہمارے سامنے آیا ہے جس کا تعلق دوسروں سے اسراف سے نہیں ہے جو گناہ ہے۔ بعض لوگ اپنے نفس سے اسراف کرتے ہیں اور ان معنوںمیں ان کا اسراف ایک نیکی بن جاتا ہے لیکن اس کے بداثرات کچھ نہ کچھ نفس پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت سی اس سے تکلیفیں نکلتی ہیں۔ اس لئے وہ لوگ جو خداکے پاک بندے ہیں جو گناہ کی خاطر اسراف نہیں کرتے بلکہ نیکی کی خاطر اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ان کے لئے بھی قرآن کریم میں لفظ اسراف استعمال ہوا ہے۔
قُل یعبادی الذین کتنے پیار سے اپنی طرف ان کو منسوب فرمایا ہے۔
بارے میں اپنے کہہ دے اے میرے بندو ! الذین اسرفوا علی انفسھم جنہوں نے اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی سختی کی راہ اختیار کی کہ گویا اپنے نفس کے ساتھ عدل نہیں کرسکے۔ ان سے کہہ دو کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور یہ تم سختیاں جس کی خاطر کرتے ہو وہ ان کو بخشنے والا ہے۔ دوسرا معنیٰ گناہ کا بھی اس میں شامل ہے۔ اور عام طور پر مترجمین یا مفسرین کی نظر اس دوسرے معنے کی طرف ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے نفس کے خلاف اسراف کا مطلب ہے گناہ کرنا اور گناہ کرکر کے اس مقام تک پہنچ جانا جہاں بخشش کا کوئی سوال باقی نہ رہے یا باقی دکھائی نہ دے۔ اس معنے کی رو سے یہی لفظ اسراف بجائے اس کے کہ انسان کی نیکی بنے وہ انسان کا گناہ بن جاتا ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ معنے نہیں ہیں کیونکہ جو اصل غور طلب بات ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے۔
اول : جو پہلی آیات تھیں ان میں اسراف اور ذنوب کا اعتراف جمع کے صیغے میں کیا گیا ہے اور جمع کے صیغے میں قوم کا لیڈر بھی اور اسکے متبعین سب شامل ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہمیں دعا سکھائی گئی ۔ ’’ایاک نعبدو و ایا ک نستعین‘‘ اھدنا الصراط المستقیم O صراط الذین انعمت علیھم O غیرالمغضوب علیھم والالضالین O
یہ مغضوب علیھم اور والضالین کا احتمال انبیاء اور بزرگوں کے حق میں کیسے ہوسکتا تھا۔ پس جو جمع کی دعا ہے وہ بتاتی ہے کہ اس جمع کی دعا کا اطلاق متفرق قسم کے لوگوں پر ہورہا ہے اور وہ شخص جو سب کی بخشش چاہتا ہے جو سب کی مدد چاہتا ہے۔ جب وہ کچھ بات طلب کرتا ہے تو یہ مرادنہیںکہ پہلے وہ اس کا مصداق ہے پھر دوسرے ہیں بلکہ ہر قسم کی قوم کے لوگ اس کی دعا کی وسعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور انہی معنوں میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا گیا۔ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔پس اگر سب جہانوں کیلئے بخسش کی دعا نہیں کرتے تھے تو رحمت کیسے ہوگئے سب کیلئے۔
فرشتے جو معصوم ہوتے ہیں انکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ عرش پر خداکے ان بندوں کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جو دنیا میںکمزوری دکھا رہے ہیں۔ کئی قسم کی ان سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو کیا فرشتے نعوذ باللہ اس کے نتیجے میں گناہ گار ہوجاتے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استغفار خواہ اسکے بعد کے الفاظ اس استغفار کا تعلق بڑے گناہوںسے بھی دکھانے والے ہوں۔ ایک ایسے رہنما کا استغفار ہے جسے تمام دنیا کا رہنما بنایا گیا ہے۔ اولین اور آخرین کا سردار بنایا گیا ہے۔ اس پر فرض ہے اور اس کے حسن خلق کا ویسے بھی تقاضاہے کہ وہ ان سب کیلئے دعا میںمصروف رہے۔ جو اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں بلکہ منکرین کے حق میں بھی وہ غم فکر محسوس کرے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو کردار ہمارے سامنے قرآن میں ابھرتا ہے اور قرآن میں ابھرنے والا کردار وہی ہے بعینہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا کردار تھا۔ یہاں تک کہ گندے سے گندے دشمن بھی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ جب قرآن ایک کردار پیش کرتا ہے تو چونکہ اس پر سارے گواہ تھے اپنے بھی اور غیر بھی مومن بھی اور غیر مومن بھی۔ اس لئے ناممکن تھا قران کیلئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کردار پیش کرے اور وہ آپ کی ذات پر اطلاق نہ پارہا ہو۔ پس اس پہلو سے میں یہ آپ کے سامنے گذارش کررہا ہوں کیونکہ دشمن اسلام، لفظ ذنب پر اور لفظ اسراف وغیرہ کے اوپر طرح طرح کی زبانیں دراز کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بناتا ہے۔ اسلئے آپ کے لئے لازم ہے کہ اس مفہوم کی تمام وسعت پر حاوی ہوں اور اسے اس وسیع دائرے میںدیکھیں جس وسیع دائرے میں اس مضمون کو سمجھنے کا حق ہے۔ میں مثال دیتا ہوں جو :-
So Called Rev. E.M. Wherry
ہیں جن کو میں کہا کرتا ہوں کہ یہ ویری یا بیری ہیں۔ دونوں معنوں میں اسلام کے دشمن ہیں یہ
A Comprehensive Commentry on the Quran
میں لکھتے ہیں:-
" This verse clearly disproves the popular doctrine that the Prophets were sinless."
کہتا ہے کہ یہ تو اب قطعی طور پربات ثابت ہوگئی کہ یہ جو خیال ہے مسلمانوں کا کہ انبیاء گنہ گار نہیں تھے۔ یہ 100 فیصد غلط ثابت ہوگیا۔ اصل میں ان عیسائیوں کویہ شوق ہے کہ ہر دوسرے انسان میں کیڑے ڈالیں۔ سوائے مسیح کے۔ اور مسیح خود جو اپنی کمزوریوںکا اعتراف کرتا ہے اس سے یہ صرف نظر کرجاتے ہیں۔مسیح کی اپنی کمزوریاں جو بائبل میں دکھائی دیتی ہیں اور موجود ہیں لکھی ہوئی۔ اس سے آنکھیں بند کرکے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو ! ہر شخص گناہ گار ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لئے وہ گنہ گار ہے۔ اور چونکہ وہ گنہ گار ہے اس لئے دوسرے کی بخشش کا حق دار ہی نہیں ہے۔ اس بخشش کی خواہش بھی رکھے تواپنی بخشش پہلے کروالے۔ جو آپ گنہ گار ہے اس نے دوسرے کا بوجھ کیا اٹھانا ہے۔ کہتے ہیں اس لئے کوئی نبی دنیا میں کسی کی مغفرت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مسیح ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ سب نبی گنہ گار ایک مسیح تھا جو بے داغ کردار کا مالک تھا اور جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس پر وہ دو دلیلیں قائم کرتے ہیں۔ اول وہ دلیل جو گناہ کے آغاز کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے جو غلطی ہوئی تھی جسے اللہ نے معاف فرمادیا تھا وہ ایسی پکی سیاہی سے اس کے کردار میں لکھی گئی کہ کروڑہا ارب ہا انسان بعد میںپیدا ہوئے اورہزاروں ہزار، ہزارہا سال کے بعد وہ پیدا ہوئے لیکن وہ سیاہی نہیں مٹی۔
وہ مسلسل نقش ہے اور ہر انسان بے اختیار ہے۔ اپنی پیدائش کے معاملے میں۔ اور لازماً گناہوںکا رجحان لیکر پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن کا مضمون یہ ہے کہ ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مضمون پر روشنی ڈالی ہے قرآن کا یہ واضح بیان ہے کہ ہر بچہ معصوم اور پاک پیدا ہوتا ہے اور اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے جو اللہ کی فطرت ہے۔ بائیبل خود، مسیح خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ جب یہ بیان کیا جاتا ہے عیسائیوں کی طرف سے کہ انسان کو اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو ان کا وہ عقیدہ کہاں باقی رہ گیا کہ ہر انسان گنہ گار پیدا ہوتا ہے۔ اگر اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس بات کا اطلاق کہ وہ گنہ گار پیدا ہوتا ہے مسیح پراول طور پر ہوگا۔ کیونکہ مسیح اللہ کی شکل پر پیدا ہوا اور و ہ آدم کے بچے جو آدم سے گناہ لیکر اللہ کی شکل پر پیدا ہوئے وہ سارے ہی گنہ گار ہیں۔ مسیح کو الگ کیسے کرلیں گے اس گنہ گاری سے۔
دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ہم معصوم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نعوذ باللہ مسیح کے گناہ تلاش کررہے ہیں اور اسے داغدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارا تو عقیدہ ہی یہی ہے کہ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور پاک صاف وجود لیکر دنیا میں آتا ہے۔ جیسا کہ کل جمعے میں بھی میں نے آنحضرت صلی اللہ ولی وآلہ وسلم کی وہ حدیث پیش کی تھی کہ وہ شخص جو گناہ سے تائب ہوجاتا ہے اور سچی توبہ کرتا ہے اور رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے رمضان میں سے گزرتا ہے وہ رمضان کے آخر تک اس طرح گناہوں سے پاک صاف ہوچکا ہوتا ہے جیسے نوزائیدہ بچہ۔ تو نوزائیدہ بچے کا معصوم ہونا تو ہر پہلو سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ انکو جو شوق ہے مسیح کو معصوم بنانے کا وہ کفارہ کے عقیدے کے سہارے کی خاطر ہے۔ پس یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا اور وہ بہت پکی سیاہی کے ساتھاس کے خلیوں میں ہمیشہ کیلئے لکھ دیا گیا۔ جو قطعاً سائنس کے شواہد کے خلاف دعویٰ ہے۔ کلیۃً جھوٹ ہے۔ اس کا اس فطرت سے کوئی بھی تعلق نہیں جسے خود ان عیسائیوں نے پڑھا اور سمجھا اور اپنی تحقیقات میں ثابت کیا کہ آج آپ کوئی غلطی کرتے ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ آپ کی نسل میں داخل ہوجائے۔
نسل میں داخل ہونے کا جو طریق ہے وہ بہت ہی لمبا اور بہت ہی گہرا ہے اور اس مضمون پر ابھی سائنس احاطہ نہیں کرسکی۔لیکن یہ بات تو قطعی ہے کہ آج آپ نے کچھ کیا تو وہ آپ کے خلیوں میںداخل نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو استغفار کیوں داخل نہیں ہوگا۔ گناہ داخل ہوگا تو جو گناہ کے بعد کا پانی جو داغ کو دھونے والا تھا اس کو بھی داخل ہونا چاہئے۔ پس خدا کی بخشش کو بھی داخل ہونا چاہئے ۔ اس لئے یہ عقیدہ ہے ہی نہایت جاہلانہ اس کا کوئی بھی نہ عقل سے تعلق ہے نہ ان سائنسزسے یہ سچا ثابت ہوتا ہے ان علوم سے سچا ثابت ہوتا ہے جو خود عیسائی دنیا نے بہت گہری تحقیق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔ مگر بہرحال ان کا یہ شوق ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خون میں گناہ لکھا گیا۔ تو بائبل تو کہتی ہے کہ اول گناہ اس نے، حوا نے کیا تھا۔ آدم بے چارہ تو اس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شیطان نے پہلا شکار حوا کو کیا تھا۔ تو دوسرا پہلو ان کا یہ ہے مسیح کے متعلق کہ چونکہ وہ انسانی باپ کا بیٹا نہیں اس لئے اس نے گناہ ورثے میں نہیں پایا لیکن اس کا جسم کلیتہً انسانی تھا۔ اور انسانی ماں سے وہ وجود میں آیا اور گناہ میں اولیت عورت نے کی ہے پہلا کام عورت نے کیا ہے تو حضرت مریم کا گناہ پھر مسیحؑ کی طرف کیوں منتقل نہ ہوا۔ اور اس کی انسانی حیثیت تو بہرحال گنہ گار ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کا یہ تصور ہے روح خدا کی گویا اتری ہے اور دو قسم کی کا ملغوبہ ہے مسیح دوچیزوں کا۔ ایک جیسے کسی پر جن آکر بیٹھ جائے اور اس کا اپنا بھی ایک ضمیر سا رہتا ہے اور جن اس پر قبضہ کرکے بھولتا ہے۔ تو دو صورتوں میں سے ایک عیسائی تصور ہے۔ بہر حال۔ یا تو یہ کہ اس بچے کی اپنی روح ہی کوئی نہیں تھی وہ Still Birth تھی۔ اور جسم انسان کا اور شعور خدا کا تھا۔ جب یہ ترجمہ کیا جائے تو کچھ ا نکو فائدہ دیتا ہے مگر پھر وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ جب ہم مسیح کی بعض غلطیاں دکھاتے ہیں مثلاً انجیر کے درخت پر اس وقت ہاتھ مارنا جبکہ انجیر کا موسم ہی نہیں ہے۔ اور جب اس نے پھل نہیں دیا بے چارے درخت نے، اس بے چارے کا کیا قصور تھا، اس پر *** ڈالی کہ *** پڑے تجھ پر مجھے انجیر کی ضرورت تھی ۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ تونے انجیر نہیں دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ غلطی دکھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو وہ ایک پہلو سے بشر تھا اور دوسرے پہلو سے خدا تھا۔ اس وقت اس کا بشر بول رہا تھا۔ پس اگر بشر بول رہا تھا تو بشر کا شعور اسے حاصل تھا۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ بشر کا شعور نہیں تھا۔ پس اس صورت میں مسیح کی ذات ایک ایساملغوبہ بن کے دکھائی دیگی جس پر دو روحوں کا قبضہ ہے۔ ایک اس کی بشر کی روح موجود ہے۔ کبھی کبھی جب اس کا زور لگے وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرجاتی ہے۔
یعنی ان کے عیسائیوں کے قول کے مطابق ۔ اور جب خدا کی روح غالب آجائے تو پھر وہ پاکی کی باتیں کرتا ہے۔ اس لئے یہ بگڑا ہوا تصور ہے۔ اس کا مسیح کے پاک وجود سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ مسیح پاک تھا اور خدا کے سارے انبیاء پاک ہوتے ہیں۔ ان جاہلوںکو نہ عربی کا مضمون معلوم۔ نہ عرفان ہے کسی بات کا۔ روحانیت سے پوری طرح کورے ہیں۔ یہ خشک خالی بجنے والے برتن ہیں۔ عربی کا ایک ظاہری سا علم سیکھ لیا ہے اور پھر اس ارادے سے داخل ہوتے ہیں قرآن کی دنیا میں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اس میں فساد کیا جائے۔ اس کے مضمونوں کو بگاڑا جائے۔ اسے دنیا کی نظر میں متہم اور ملزم کرکے دکھایا جائے۔ پس یہ ویری صاحب ہیں جن کوپتہ ہی کوئی نہیں ہے کہ گناہ کیا ہوتا ہے۔ بخشش کس کو کہتے ہیں اور انکسار کیا ہوتا ہے۔ انبیاء کی دنیا کیا ہے اور گنہ گاروں کی دنیا کیا ہے۔ ان دونوں دائروں میں کتنا فرق ہے۔ ان ساری نفسیاتی کیفیتوں سے نا آشنا اس بات پر تُلے بیٹھے کہ جب تک جہاں تک زور لگے قرآن میںکوئی نہ کوئی رخنہ نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور انبیا ء میں کیڑے ڈالے جائیں۔ یہ ان کی زندگی کا ماحاصل تھا۔ پس یہ کہنا کہ پوری طرح یہ ثابت ہوگیا کہ انبیاء گنہ گار ہی تھے یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے۔
قرآن یہ بیان نہیں فرما رہا۔ قرآن اسراف کے معنوں میں بھی جہاںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے اورجبکہ الگ نہیں پیش کرتا بلکہ سارے انبیاء کو شامل کرکے کہتا ہے۔
ویری صاحب کو یہ بات نہیںبھولنی چاہئے کہ اس فہرست میں حضرت مسیح ؑ شامل ہیں۔ جو اعتراف کی فہرست ہے۔ اس میں حضرت مسیح بھی شامل ہیں۔ پس ان کو نکال کر وہ کیسے ثابت کچھ کرینگے۔ پس اگریہ غلط ہے کہ انبیاء معصوم تھے قرآن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ معصوم نہیں تھے تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قطعاً ثابت ہوجاتی ہے کہ مسیحؑ بھی معصوم نہیں تھے پھر تم اپنا مقصد پھر بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس مضمون کو کھول کر بیان کیا ہے۔ انبیاء قوم کے رہنما ہوتے ہیں وہ اپنی ا ن غلطیوں کی بھی بخشش مانگتے ہیں جن کی طرف عام انسان کی غلطی کے طور پر نظر ہی نہیں پڑتی۔اس کوپتہ ہی نہیںہوتا کہ مجھ میں کیا کمزوریاں ہیں۔اور ان غلطیوں کی بخشش طلب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی بالارادہ خدا کے کسی حکم کے خلاف نہیںکی ہوتیں بلکہ حکم کی پیروی کے نتیجے میں ہورہی ہیں۔ اگر قوم کی طرف سے یہ حکم ملے کہ فلاں جگہ جانا ہے ۔ فلاں مہم پر سارے جتنے بھی قابل لوگ ہیں وہ اکٹھے ہوجائیں ۔ ان میں کمزور بھی آجاتے ہیں ان میںہر قسم کے ہوتے ہیں اور وہ جو ٹھوکریں کھاتے ہیں یا ان کی غلطی کی سے بعض دفعہ اگر مہم میں کوئی نقصان پہنچے تو وہ بالارادہ ان کی طرف سے نقصان نہیں بلکہ ان کی قربانی ہے۔ کمزوری کے باوجودجو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ اسلئے ان کو مُتہّم نہیںکیا جاسکتا۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتے۔ یہ ان کی شرافت تھی کہ جو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملات سرزد ہونے تھے۔ جو ان کو توفیق تھی۔ تو اس مضمون کے پیش نظر انبیاء جو قوم کا بہترین حصہ ہیں۔ وہ ہر وقت اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ہم سے کہیں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔ اورا ن کا اسراف اپنے نفس کے خلاف ان معنوں میں بھی ہے جو میں نے بیان کئے ہیں۔کہ وہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کو خصوصیت سے حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات میں قرآن کریم نے اطلاق کرکے دکھایا ہے۔ وہ آیت جس میں یہ بیان فرمایا گیا کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی بالائی اور نچلی‘ سب طاقتوں نے اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جو آخری اور کامل امانت تھی یعنی قران کی وحی۔ اس کے لئے کون آگے آیا۔ فرماتا ہے۔
انا عرضنا الامانۃعلی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا۔
ہم نے اس عظیم امانت کو جو قرآن ہے آسمانوں کے سامنے بھی پیش کیا اور زمین کے سامنے بھی پیش کیا اورپہاڑوں کے سامنے بھی یعنی وہ جو روحانی رفعتیں رکھنے کے دعویدار تھے۔ ان کے سامنے بھی پیش کیا گیا وہ جو زمینی علوم کے دعویدار تھے۔ انکے لئے بھی یہ موقعہ تھا۔ کہ وہ اس کا بوجھ اٹھاتے۔ پھر ان میں جو بڑے بڑے پہاڑ قائم ہوئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو علم و عرفان کا دنیاوی اور روحانی پہاڑ سمجھتے ہیں۔ انکو بھی دعوت تھی کہ چاہو تو قبول کرو۔ اب انہوں نے انکار کردیا۔
’’ ان یحملنھا ‘‘
کہ وہ اس کو اٹھالیں اور وہ ڈر گئے۔ پھر کون آگے آیا۔
’’ حملھا الانسان‘‘
یہ ہے انسان یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی انسان ہے تو یہ ہے واشفقن ہاں وہ ڈر گئے (وہ حصہ کہتے ہیں) واشفقن منھا اور وہ اس سے ڈر گئے اس امانت سے فحملھا الانسان اسے اس انسان نے انسان کامل نے اس نے اٹھایا۔ جو حقیقت میں انسان ہے تو وہی ہے۔ انسان کا مضمون اپنے کمال کے ساتھ اگر کسی پر اطلاق پاتا ہے تو وہ یہ وجود ہے۔ آگے پھر تعریف کیا فرمائی۔
انہ کانا ظلوما جھولا ‘‘
بڑا سخت ظلم کرنے وال ہے اور نعوذ باللہ بڑا جاہل ہے جو عام ، عرف عام میں معنی کریں تو جاہل ہے۔ اب سوچیں ذرا کہ اتنی عظیم تمہید باندھی اور نتیجہ کیا نکالا۔ ظلوماً جھولاً ۔ جو دنیاوی علم رکھنے والے یا دنیا کا رجحان رکھنے والے مولوی ہیں وہ تویہاں بیچ میں ایک سکتہ ڈال دیتے ہیں کہتے ہیںکہ اس آیت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔وہ بعدوالے حصے سے تعلق ہے۔ یعنی یہ بات بے نتیجہ چھوڑ دی گئی اور اس آیت کے آخر پر داخل کردی گئی کہ قرآن میں نعوذ باللہ ایک نقص داخل ہے۔ پس وہاں ان کے قران کریم میںلکھا ہوگا کہ یہاں رکنا لازم ہے۔ اس آیت کو دوسری آیت کے ساتھ پڑھو۔ اور ان کے قاری بغیر رکے فٹافٹ ۔ جس طرح ریل گاڑی پر بیٹھے ہوں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور اگر رکیں بھی تو پھر دوبارہ اسے ملا کراگلی آیت سے ملا کر پڑھتے ہیں۔
انہ کان ظلوما جھولا O لیعذب اللّہ المنفقین والمنفقت و المشرکین و المشرکت.....
تاکہ ظلم اور جہالت کا منافقین اور مشرکین سے تعلق قائم ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کیا خراج تحسین پیش کیا گیا …آپ کا کونسا حسن اورآپ کا کونسا کمال ہمیں دکھایا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس مضمون سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا۔ ظلوم یہاں یہ معنے رکھتا ہے جیسے ’’اسرفوا علی انفسہم‘‘ محمدﷺرسول اللہ نفس پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ ظلم کرنے والے تھے۔ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر۔ اتنی قربانی کرنے والے تھے۔ اپنی جان پر اتنا ظلم کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ
لعلک باخئع نفسک علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاO
اور دوسری جگہ آتا ہے۔
’’لعلک باخئع نفسک الا یکونوا مومنین ‘‘
تو وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے ۔ آپ ان کو دیکھتے ہیں۔ آپ کی بھی تبلیغیں ہوتی ہیں۔ کتنے ہیں جو اس غم میںاپنے آپ کوہلاک کرلیتے ہیں۔ نفس پرظلم اس کو کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ جو مومن نہیں ہے اس پر غصے کرو اس کو کافراور جہنمی اور برے سے برے نام سے یاد کرو۔ کہو جائو جہنم میں‘ تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کا یہ عالم تھا کہ اپنے نفس کو انکے غم میں ہلاک کرتے تھے ۔ اگر یہ ظلوماً نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔ اتنا ظلم اپنے نفس پر کہ ظالموں کے غم میں خود ہلاک ہورہے ہیں۔ اور جہولاً کا مطلب ہے عواقب سے بے پرواہ جو سر پہ گزرے گزر جائے اس کام سے میں نے پیچھے نہیں ہٹنا اور یہ وہی مضمون ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجب روکا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ اس وقت بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔
یہاں تک کہ اپنے چچا نے بھی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو چاہو کرو۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں ہے کہ کوئی میرے ساتھ رہتا ہے یا نہیں رہتا یا قوم مجھ سے کیا بدسلوکی کریگا۔ میں تو جس رستے پر چل پڑا ہوں یہ توحید کا رستہ ہے۔ اس ایک قدم میں نہ پیچھے ہٹوں گا نہ اس رستے کو بدلوں گا۔
اسی راہ پر قائم ثبات قدم کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں گا۔ تو یہ ہے جہولاً کا مطلب۔ پس اس لئے اَسْرَفَ کا لفظ جو وہاں استعمال ہوا ہے۔ اس کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ اگر اس کا معنی صرف ’’ بالعمد گناہ‘‘ بھی لینے والے موجود ہوںتو ان کا جواب یہ ہے کہ یہ جمع کا صیغہ ہے اور ساری قوم کی طرف سے قوم کا رہنما بخشش طلب کررہا ہے حالانکہ خود اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بالعمد غلطی کبھی نہیں ہوئی۔ مگر جو بالعمد غلطی کرنے والے ہیں انکی طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتا ہے جھکتا ہے۔ روتا ہے راتوں کو اٹھتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے جن سے بھی اسراف ہوا ان سب کو معاف فرما اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کا اسراف بعض دفعہ قوم پر وبال بن جاتا ہے۔ اور یہ موقعہ اور محل ہے ہی وہی۔ جبکہ جنگ احد میں (یہ مضمون وہاں سے چل رہا ہے) بعض مسلمانوں کی غلطی سے جن سے اسراف ہوا تھا۔ ساری قوم نے سزا پائی اور دکھ میں مبتلا ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت ہی پاکیزہ اور پیارے نتیجے اللہ تعالیٰ نے نکالے۔
لیکن یہ الگ مضمون ہے مگر موقعہ اور محل یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غلطی نہیں ہوئی تھی ۔ اگر وہ اس دعا میں شامل تھے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسرو ںکی غلطی اپنے سر منڈھ رہے ہوں۔ غلطی تو ان سے ہوئی تھی جنہوں نے آپ کے حکم کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی اور اس بات پہ جھگڑا کیا۔ پس ان جھگڑنے والوں کی طرف اس مضمون کا خصوصیت سے اشارہ ہے۔ جو اس درے پر قائم کئے گئے تھے جو مسلمانوں کی پشت پر میدان جنگ میںایک گھاٹی کے طور پر تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسا رستہ تھا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوتا تو مسلمانوں کی پشت محفوظ نہ رہتی۔ چونکہ وہ گروہ جن کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر اس ہدایت کے ساتھ وہاں مقرر فرمایا تھاکہ تم کچھ بھی دیکھو ! تم نے جگہ نہیں چھوڑنی۔ جو کچھ ہوناہے ہوجائے۔اگر تم دیکھو ! کہ ہم لوگ وہاں بری طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔اور بظاہر شکست کھا رہے ہیں۔ یہ دیکھو کہ ہم غالب آگئے ہیں کسی صورت میں جب تک میں نہ بلائوں تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا جب غلبہ عطا ہوگیا۔ خدا نے وعدہ پورا فرمادیا۔ دشمن کے پائوں اکھڑے دشمن کو انکی عورتوں کو سراسیمگی کی حالت میں درے والوں نے دوڑتے ہوئے دیکھا تو بعض لوگوں نے ان میں سے بلکہ اکثر نے کہا کہ اس حکم کا اطلاق اس وقت تک تھا جب کہ جنگ پوری طرح ختم نہ ہوجاتی اس لئے ہمارے نزدیک یہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور حکم کا دائرہ کار جنگ تک ہی ہے۔ انکے سردار نے کہا : کہ سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ظاہری الفاظ جو ہیں میں ان کے پیچھے چلوں گا۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم جنگ ختم سمجھ رہے ہو یا نہیں سمجھ رہے ہو۔ اس لئے میں اپنے آقا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرونگا۔ آپکے ساتھ کچھ اور دوست بھی شامل ہوگئے۔ اور جب عقب سے خالد بن ولید کے سواروں نے حملہ کیا ہے تو وہ وہیں شہید ہوگئے اور اپنے عہد پر پورا اترے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے حکم کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں غلطی کی تھی اور قران کریم فرماتاہے انہوں نے اس بارے میں اختلاف کرتے ہوئے بحث کی تھی۔ ان کا وبال دیکھو ! کیسا قوم پر پڑا ہے۔ اور کس طرح معصوم وہاں شہید کئے گئے۔ وہ جن سے نصرت کا وعدہ تھا ان کی نصرت کا وعدے کا ایک حصہ پورا ہوچکا تھا دوسرے حصہ میں تاخیر پڑ گئی۔ اور بہت ہی خطرناک حالات پیدا ہوگئے۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شان ہے کہ ان کے اسراف کے متعلق اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہے ہیں تاکہ قوم کو ان کے بد اثرات سے بچائیں۔ وہ بداثرات جن کا آگے ذکرملے گا کچھ اس وقت پیدا ہوئے کچھ آئندہ پیدا ہوسکتے تھے۔ پس اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو کہہ رہے ہیں کہ اے خدا ! میں نے تیرے حکموں کی نافرمانی کی ہے۔ اس لئے ہمیں بخش دے۔ عرض کررہے ہیں جنہوں نے نافرمانی کی اور یہ دعا سب مومنوں کی دعا ہے۔ بلکہ تمام انبیاء شامل ہیں اس دعا میں۔یہ سب نیک لوگ اسی طرح دعائیںکیا کرتے تھے تو اسراف کرنے والے اور ہیں اور انکی طرف سے بخشش طلب کرنے والے اور ہیں۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدم پیوست کردے۔یہ قدموں کا پیوست ہونا ظاہری طور پر ایک درخت کا منظر دکھاتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوں۔ کلمہ طیبہ کی مثال قرآن کریم نے دی ہے۔ ’’کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء ‘‘ ایسا درخت جس کی جڑیں بہت گہری زمین میں پیوستہ ہوں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ یہ اس میں مفہوم بتایا گیا ہے۔ (پہلے بھی ایک دفعہ میں جماعت کو بتا چکا ہوں لیکن چونکہ نئے شامل ہونے والے ہوتے رہتے ہین اس لئے بعض باتوں کو دہرانا مفید رہتا ہے) ۔
مراد یہ ہے کہ اگر تم رفعتیں چاہتے ہو تو ثبات اتنا ہی زیادہ ضروری ہے جتنی گہری زمین میں پیوست ہوگے اتنا ہی زیادہ بلندی اختیارکرسکتے ہو۔ اگر زمین میںپیوستگی نہیں ہوگی یعنی انکسار نہیں ہوگا اور اپنے عقائد پر گہرائی سے قائم نہیں ہوگے۔ مضبوطی سے قائم نہیں ہوگے تو اسی نسبت تمھیں رفعتیں بھی کم ملیں گی۔ ذرا اپنے …سے گئے تو کوئی آندھی بھی تمہیں گرا سکتی ہے۔ پس یہاں مضبوطی ارادے کی ہے نہ کہ ایک جگہ کھڑا ہونا مراد ہے۔ ثبات قدم سے جو نقشہ بظاہرابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک درخت زمین میں پیوستہ ہے۔ جیسا کہ قران کریم کی آیت میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔
مگر یہاں ارادے کی ایسی مضبوطی ہے جس سے ہر قدم جو اُٹھتا ہے وہ ثبات قدم کہلاتا ہے۔ آگے بڑھنا اس میں شامل ہے۔ اور ثبات قدم بلندیوںکی طرف محو پرواز ہونے کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک سمت میں ایک قبلے کی طرف مسلسل آگے بڑھنے کو بھی ثبات قدم کہا جاسکتا ہے ۔ اپنے ارادے پر ہمیشہ غیر متزلزل طورپر قائم رہنے کو بھی ثبات قدم کہا جاتا ہے۔ پس فرمایا:-
وثبت اقدامنا : پھر تم یہ دعا کرو کہ اے خدا ! ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ یعنی وہ تمام طاقت عطا کر جو اس سفر میںہمارے قدموں کیلئے ضروری ہے ۔ پھر فرمایا:-
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیںکافروں پر نصرت عطا فرما۔یہ کافروں پر نصرت سب سے آخر پر رکھی ہے اور مختلف مفسرین نے اس کے بہت سے معانی کئے ہیں مگر جو بنیادی بات ہے جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ ترتیب ظاہر و باھر ہے اس ترتیب کو کوئی بدل سکتا ہی نہیں۔ جو مرضی زور لگالیں اس سے بہتر ترتیب ہو ہی نہیں سکتی۔
ذنوب سے بات شروع ہوئی۔ یعنی وہ غلطیاں جو ارادہ رکھتی ہی نہیں۔ وہ بھی شامل ہیں۔ ذنوب کے اندر۔ پھر بالارادہ غلطیوںکا ذکر ہوا جن کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے تھا جو میں بیان کرچکا ہوں۔ پھر فرمایا گیا کہ ہمیں ثبات قدم عطا کر۔ اگر ذنوب سے بخشش مل جائے تو ثبات قدم ملا کرتا ہے ورنہ مل ہی نہیں سکتا۔ ورنہ آپ کی جو سابقہ غلطیاں ہیں وہ اگلی غلطیوں میں ممد ہوتی ہیں ان کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ایک بچہ بھی جب سکول میں بچپن میںایک مضمون میں غلطی کرجاتا ہے۔ اسے نہیں سمجھ سکتا پوری طرح تو آگے جتنا مرضی ترقی کرجائے۔ وہ خلا اس کا ہمیشہ اس کے لئے ایک الجھن کا موجب بنا رہتا ہے اور اس کی مزید ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ پس ثبات قدم سے پہلے ان کمزوریوں کا دور کرنا ضروری تھا ان خلائوں کا بھرنا ضروری تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ دعا کے ذریے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ ان کمزوریوںکو خلائوں کو بھر لو پھر تمہارے لئے ثبات قدم کی دعا برمحل ہوگی۔ پھر تم حق رکھتے ہوگے کہ اب اللہ سے دعا مانگو کہ ’’اب ہمیں ثبات قدم عطا فرما۔ اور ثبات قدم ہو تو پھر نصرت ملتی ہے۔ بلکہ نصرت اس کا طبعی نتیجہ ہے۔ یہ نصرت کی دعا یہ مضمون ظاہر کررہی ہے کہ ہم اب نصرت کے مضمون میں داخل ہوگئے ہیں۔ نصرت تو ملنی ہی چاہئے مگر اے ہمارے خدا۔ ہمیں اس دھوکے میں مبتلانہیں رہنا چاہئے کہ ہماری نصرت تھی۔ یہ نصرت تجھ سے ہی عطا ہوئی ہے اور تجھ سے ہی عطا ہوگی۔فانصرنا علی القوم الکفرین : پس ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
(السلام علیکم ورحمۃ اللّہ)

بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن10 رمضان المبارک
21 فروری 1994 ء
ماشاء اللہ یہ عالمی مجلس درس لگ گئی ہے ۔اس وقت جاپان میں بھی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت پاکستان کے مختلف دیہات میں۔ربوہ‘ کراچی ‘ لاہور اور سارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں ان کو دیکھ بھی رہا ہوں اور دیکھتا بھی ہوں کبھی کبھی۔ویسے تو خیالات میں دوسرے کاموں میں لگ کر ذہن ادھر چلا جاتا ہے مصروف ہوجاتا ہے لیکن خیال آتا رہتا ہے کہ اس وقت کون بیٹھا کس طرح دیکھ رہا ہوگا مجھے آج صبح یہ خیال آرہا تھا کہ عجیب اللہ کی شان ہے ہم نے پوری طرح سے ابھی تک اس عظیم اعجاز کو پوری گہرائی سے محسوس نہیں کیا ۔ یعنی محسوس کر رہے ہیں لوگ لکھ رہے ہیں کہ عجیب خواب کی سی کیفیت ہوگئی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے قرآن کریم کا عالمی درس پہلی دفعہ جاری ہواہے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔اور یہ جو پیشگوئی ہے لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘اس کی بنیاد اللہ نے احمدیوں کے ذریعے رکھوائی ہے یہاں آج یعنی اس زمانے میں ۔اور ثابت کردیا کہ کن غلاموں سے کام لینا ہے محمدؐ کے دین کو پھیلانے کیلئے ورنہ اتنی دنیا بستی تھی کسی کو توفیق نہیں ملی ۔اور پھر قرآن کا عالمی ہونا ثابت ہوگیا قطعی طور پر کوئی دنیا کی کتاب نہیں ہے جسکا عالمی درس دیا گیا ہو نہ بائبل کا نہ کسی اور کتاب کا ۔اتنی بڑی بڑی قومیں ۔ اتنی دولتوں کی بھرمار ۔پہاڑ لگے بیٹھے ہیں لیکن کسی کو توفیق نہیں ملی تو اس لئے یہ جو دن ہیں گہرے شکر کے دن ہیں ۔کیونکہ جب تکلیفیں پہنچتی ہیں تو انسان کی توجہ تکلیفوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے لیکن شکر سے ذرا نظر ہٹ جاتی ہے یہ دور ایسا ہے کہ اس میں صبر تو بہت نیچی سطح پر بیٹھا ہوا ہے اس وقت اصل تو شکر کا مضمون ہے جو اس وقت ساری جماعت پر ایک عالمی کیفیت کے طور پر طاری ہو چکا ہے تو میں امید رکھتا ہوں احباب اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعا بھی کریں گے فتنے بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ حسد جگہ جگہ پھوٹ رہے ہیں بڑے پیمانے پر بعض کوششیں ہو رہی ہیں کہ اس پروگرام کو بند کروایا جائے۔ مگر اللہ نے جاری فرمایا ہے کون بند کر سکتا ہے ؟انشاء اللہ آپ دعائیں کرتے رہیں خدا تعالی کے فضل سے یہ سلسلہ جاری رہے گا وہ جو کل میں نے ’’سردار دست نہ دار ‘‘ کی بات کی تھی یہ شیعہ محاورہ ہے اور بڑے جائز فخر کے ساتھ حضرت حسین ؓکے متعلق وہ یہ پیش کرتے ہیں شعروں میں بھی ذکر ہے اور نثر میں بھی ۔ تو کل جب یہ بات سن رہے تھے تو عبیداللہ علیم صاحب چھپا کر کچھ کر رہے تھے ۔مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کر رہے ہیں بعد میں مجھے عزیزم لقمان نے بتایا کہ وہ شعر یاد آرہا تھا ان کو اور پوری طرح آ نہیں رہا تھا تو لکھ رہے تھے جس میں یہ درج ہے ۔اب انہوں نے مجھے لکھ کے بھیجا ہے
شاہ ھست حسین بادشاہ ھست حسین
دیں ھست حسین دیں پناہ ھست حسین
سردار نہ دار دست در دست یزید
حقًا کہ بنائے لا الہ ھست حسین
حق یہی ہے سچ یہی ہے کہ لاالہ الااللہ کی بنیاد حسین ؓہیں اور یہ روح ہے کہ غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا ۔یہ مبالغہ نہیں ہے بالکل سچی بات ہے یہ جو روح ہے کہ کسی قیمت پر غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہے سب کچھ جاتا رہے وہ سر کاٹا جاسکتا ہے جھک نہیں سکتا ۔یہ کربلا کی روح ہے اسی لئے میں نے کل شاید بار بار یہ ذکر کیا تھا کہ خدا کے واسطے !روح کربلا کو کیوں بھول رہے ہو؟ اسی میں تمہاری ساری عظمت اور شان ہے ۔اس روح کو زندہ رکھنے میں پس یہ وہ شعر ہے جس میں یہ حوالہ موجود ہے جو میں نے کل پیش کیا تھا ۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ بما تعملون بصیر o
(آل عمران 156-157)
کل اس آیت پر گفتگو ہورہی تھی پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ پھریاد دیانی کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یقینا وہ لوگ جو اس وقت پیٹھ دکھا گئے جبکہ دو لشکروں کا ٹکرائو ہوا۔ انما استزلھم الشیطن : بلاشبہ اس وقت ان کو شیطان نے کوشش کرکے پھسلایا تھا۔ اور جو حربے اس کے پاس تھے وہ حربے استعمال کرتے ہوئے بڑی کوشش سے آخر ان کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ببعض ماکسبوا : اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ وہ کافر تھے یا بے دین تھے بلکہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو ان کے اندر تھیں ۔ شیطان اس حربے میںکامیاب ہوا لیکن وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔جن سے اللہ تعالیٰ صرف نظر نہ فرماتا۔ اور وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں جو ان کے وجود کا دائمی حصہ بن چکی تھیں۔ اس لئے ولقد عفا اللہ عنھم : اور سن لو کہ اللہ ضرور ان سے صرف نظر فرما چکا ہے۔ ان کو معاف فرما چکا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ایک تو اللہ ’’غفور‘‘ بہت بخشنے والا ہے۔ دوسرے حلیم ہے۔ اور حلیم تحمل کے ساتھ اس غلطی کو نظر انداز کردیا کرتا ہے جس کے بعد اصلاح کی توقع ہو۔اور فیصلے میں جلدی نہیں کرتا۔ تو اس میں ان لوگوں کے نیک انجام کی طرف خوشخبری کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ لوگ جن سے غلطی ہوئی ان غلطیوں کو خواہ مخواہ اچھالتے نہ پھرنا۔ورنہ اپنی عاقبت خراب کرو گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما چکا ہے بوجہ غفور ہونے کے اور بوجہ حلیم ہونے کے۔
کل جب یہ درس ختم ہوا تو بعض ایسے بچے ملے جو یہاں پیدا ہوئے ہیں اردو دان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اردو ان کی کچھ سطحی اور کمزور سی ہے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کچھ پتہ چل رہا تھا درس کا ؟ تو بڑے دلچسپ جواب ملے۔ بعضوں نے صاف یہ کہا کہ بعض جو اصطلاحیں آپ نے استعمال کی تھیں۔ انکی سمجھ نہیں آئی۔ اس لئے بہتر ہو کہ کچھ ان پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیں اور ایک نے کہا کہ ایک کان میں مَیں نے انگریزی والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے اور دوسرے کان میں اردو والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے۔ میں نے کہا یہ کیوں ؟
کہتا : اس لئے کہ مجھے اردو کچھ سمجھ آتی ہے اور جب نہیں آئے تو میں انگریزی کی ٹوٹی والے کان کی طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ میں نے کہا : بیک وقت کیوں ؟
کہتا ہے : جو ترجمہ ہے اس کا مزہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں بہت کوشش کرتے ہیں محنت کرتے ہیں لیکن جو اصل کی بات ہے وہ ترجمے میں پیدا ہو نہیں سکتی ان کی مجبوری ہے۔ اس لئے میں اکثر وقت تو ذہن اس کان پر رکھتا ہوں جہاں اردو کی ٹوٹی لگی ہوئی ہے اورجب وہ سمجھ نہ آئے بات تو پھر میں اس طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ تو بڑے بڑے دلچسپ تجربے آرہے ہیں یہ یہیں کا پلا بڑھا نوجوان ہے تو ان کی خاطر میں بعض اصطلاحوں کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کرتاہوں کہ وہ کیا چیز ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ تقیہ کیا ہوتا ہے؟ اور پھر تبرا کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کے بعد انشاء اللہ اس مضمون کو وہاں سے شروع کریں گے جہاں ہم نے چھوڑا ہے۔
تقیہ کی ایک اصطلاح تو وہ ہے جو بہت اچھی ہے اور اس پہ تقویٰ کے ساتھ اگرغور کیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا= اورایک وہ معنیٰ ہے جو عملاًاس وقت ساری شیعہ قوم میں رائج اور نافذ ہوچکا ہے اور اس معنے کے حوالے بھی مختلف کتب میں ملتے ہیں۔
وہ تعریف جو میں بیان کررہا ہوں جس پر کوئی وجہ اعتراض نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ
جو مومن باطمینان قلب موافق شرع کے رہ کر بخوف دشمن دین فقط ظاہرمیں موافقت کرے دشمن دین کی تو وہ دین دار رہے گا۔
یہ حصہ تو ایسا ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ایک ایسا شخص جو کسی دشمن دین کے خوف سے اپنی کمزوری اور مجبوری کی حالتمیں یہ طاقت نہ پائے کہ کھل کر اس کی مخالفت کرسکے یا اپنے حق کا اظہار کرسکے۔ مگر شرط یہ ہے کہ شرع کے اندررہتے ہوئے ایسا کرے قانون شریعت سے باہر نہ نکلے اور شریعت کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ اگر یہ معنیٰ ہیں تقیہ کے تو درست ہے۔ مگر یہ ادنیٰ ایمان کی تعریف ہے یاد رکھئے ! کیونکہ جو حوالے آگے یہ دیں گے اپنی تائید میں اس میں وہی آیت پیش نظر زیادہ تر رکھتے ہیں۔ جس میں ایک ادنیٰ ایمان والے مومن کی مثال دی گئی ہے نہ کہ اعلیٰ ایمان والے کی۔لیکن آگے سنئے تقیہ کو پھر کیا بنا لیا گیا اور حضرت امام جعفر صادق کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب ہوئیں اور بعض دوسرے ائمہ کی طرف کہ اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ طبیعت میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بلند مرتبہ والے ائمہ اور اتنے مقدس وجود ایسی باتیں کرتے ہوں جو آج کل کے شیعوں کے مزاج کے زیادہ موافق ہیں بنسبت ان کے مزاج کے۔
اس آیت کی تفسیر میں
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا : قال بما صبرو علی التقیتہ ویدرء ون بالحسنتہ السیتہ : قال الحسنتہ : التقیتہ و السیتہ الاضاعہ
قال ابوعبداللہ علیہ السلام یا ابا عمیر ان نسعتہ اعشار الذین فی التقیتہ ولا دین لمن لا تقیتہ لہ و التقیتہ فی کل شی ئٍ الا فی النبیذ و المس علی الخفین۔
(الاصول من الجامع الکافی۔ کتاب الایمان و الکفر)
کہتے ہیں کہ آیت کریمہ
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ یہ دو دفعہ اپنا اجر دیئے جائینگے۔ ان کا اجر ان کو دو مرتبہ دیا جاتا ہے یادیا جائیگا کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو دفعہ ان کواس لئے جزا دی جائیگی کہ انہوں نے تقیہ پر صبر کیا ہے۔
بما صبروا کا مطلب یہ ہے کہ تقیہ اختیار کیا اور پھر اس تقیہ کو چمٹ کر بیٹھ رہے۔ اور کسی حالت میں تقیہ کو نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں اس لئے ان کو دہری جزا دی جائیگی یعنی کمزور ایمان کا مظاہرہ کیا اور اس کو پکڑ کر بیٹھ رہے۔ اگلی منزل کی طرف قدم نہ بڑھایا۔ یہ صبر ہے ! کیونکہ صبر کی تو یہی تعریف ہے کہ کسی حالت پر انسان جم کر بیٹھ جائے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنی یہ بات پسند آتی ہے کہ فرماتا ہے کہ میں ان کو دہرا اجر دوں گا لیکن آگے لکھتے ہیں کہ دیکھو اے ابو عمیر ! دین کے اگر دس حصے کئے جائیں تو نو حصے دین کا تقیہ ہے۔ ایک حصہ باقی دین ہے۔ اور اس کا کوئی دین نہیں جو تقیہ پر عمل نہیں کرتا۔
یہ تقیہ ہے۔ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے خوف سے انسان حق کا اظہار نہ کرسکے تو اسے یہ اجازت ہے کہ خاموش رہے مگر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرے یہ تقیہ کی تعریف ہے اور وہ مجبور ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف فرمادے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی مضمون نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ تقیہ تو اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جو تقیہ کرے اور پھر اس کو چمٹ کر بیٹھ رہے اس کا ساتھ نہ چھوڑے عمر بھر تقیہ پر قائم رہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ دہرا اجر عطا فرمائے گا عام مومنوں سے جو کھل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرتے اور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ اسکی خاطر عمر بھر تکلیفوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں ان کو ایک اجر اور تقیہ کرنے والے کو دو اجر۔ اور پھر فرمایا گیا نو حصے دین کے تقیہ ہے ایک حصہ باقی ساری باتیں۔تقیہ کرتے رہو بس۔ یہی کافی ہے۔ باقی ایک حصہ باقی عبادتیں وغیرہ حقوق العباد یہ ساری چیزیں۔ یہ سب اس دس میں سے ا یک حصے کے اندر شامل ہیں۔ آگے پھرلکھتے ہیں:
قال ابوعبداللہ علیہ السلام التَّـقیّۃُ من دین اللہ
کہ ابو عبداللہ جعفر صادق کہتے ہیں کہ تقیہ دین کا حصہ ہے اور اس کے فضائل میں یہ لکھا ہے۔
واللہ ما علی وجہ الارض شی ئ’‘ احب الی من التقیتہ (انا للہ) اب یہ ایسی خبریں اپنے آئمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کوئی ان کو حیا نہیں آتی۔ کوئی شرم نہیں آتی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؟اور اتنے بزرگ ائمہ جن کی بزرگی اور تقویٰ کے متعلق کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ بہت ہی خدا رسیدہ لوگ تھے ان کی طرف ایسی لغفو باتیں منسوب کرنے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے امام جعفر صادق نے فرمایا کہ
خدا کی قسم ! روئے زمین پہ مجھے تقیہ سے یادہ اور کوئی چیز پیاری نہیں ہے۔ تمام روئے زمین پر اپنے ایمان کو چھپا لینے سے زیادہ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔
پھر فرمایا ! اے حبیب ! جو تقیہ کرے گا خدا اس کو بلند مرتبہ دے گا۔ اور اے حبیب ! جو تقیہ نہ کرے گا۔ اللہ اس کو پست کرے گا۔ جو تقیہ سے کام نہ لے گا۔ یعنی کھُل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرے گا وہ ذلیل اور رسوا کردیا جائیگا۔ اے حبیب ! اس زمانے میں مخالفین سکون فراغت میں ہیں۔ ہاں جب ظہور حضرت حجت ہوگا تو اس وقت تقیہ ترک ہوگا۔اگر اتنی اعلیٰ چیز ہے تو اس وقت ترک کیوں ہوگا؟ عجیب بات ہے ! اتنی عظیم الشان چیز امام مہدی کے وقت میں ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ اب دو کشتیوں میں سے ایک پہ پائوں رکھو ! یا تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قرآن کریم کے حکم کے مطابق سب سے اعلیٰ چیز جو تمہیں دی گئی وہ تقیہ تھی جو دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ تھا۔ جس پر عمل کرنے سے درجات کی بلندی نصیب ہوتی تھی۔ جس کو ترک کرنے سے تم ادنیٰ کی طرف لوٹائے جاتے تھے۔ یہ وہ شاندار چیز تھی جو تمہیں نعمت ملی اور امام مہدی تشریف لائے اور تقیہ کا قلع قمع کردیا۔
عجیب بات ہے اتنا عظیم الشان امام جو ظاہر ہو۔مگر کیا کرنے آئے گا؟ تقیہ کو منسوخ کرنے۔ جو اتنی عظیم الشان چیز۔ یعنی دین کے نو حصے منسوخ کردے گا اورایک حصہ رہنے دے گا۔ عجیب تصور ہے !
یا دوسری صورت میں یہ ادنیٰ حالت تھی۔اعلیٰ حالت وہی ہے جو کھلے ایمان کی بات ہے اور ابھی تک وہ زمانہ نہیں آیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر امام مہدی تک تو اسلام اپنی ادنیٰ حالت میں تھا اور جب وہ امام ظاہر ہوگا تو پھر اصل شان اسلام کی ظاہر ہوگی۔ یعنی وہ ایک جو ہے۔ وہ دس میں سے ایک وہ باقی تمام دین کے حصوں پر غالب آجائیگا اور وہ ہے تقویٰ اور خدا ترسی اور کھل کر خدا کی خاطر دنیا کے خوف سے بے نیاز ہوکر اپنے عقائد کا اظہار۔ تو یہ اب جو نئی نسل ہے اس کے لئے مجھے لفظ تو آسان نہیں ملے مگر امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ آپ جب دو تین دفعہ بات کو دہراتے تھے تو ہمیں پتہ لگ جاتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ لفظوں کے ترجمے ہم بعد میں گھر جاکر پوچھ لیتے ہیں۔ اب سنئے ! اور اس ضمن میں حوالے۔
ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں۔ علیہ السلام کی اصطلاح یہ اپنے تمام ائمہ کے متعلق بلکہ بعض دوسرے بزرگوں کے متعلق بھی استعمال کرتے ہیں ) اپنے دین میں پختگی اختیار کرو اور تقیہ کے ذریعے اس کو چھپائو کیونکہ جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ مومن نہیں رہتا‘‘
تقیہ کے بغیر تم مومن رہ نہیں سکتے۔ پھر
ابی جعفر من قول اللہ عزوجل لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ قال الحسنتہ : التقیتہ ۔ والسیئتہ الاضاعتہ ۔
آیت کریمہ لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ کی نسبت ابوجعفر کا قول ہے کہ حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیہ سے مراد اس کا افشا کرنا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
’’لاتستوی الحسنتہ ولا السیئتہ‘‘
کہ نیکی اور بدی برابر نہیںہوسکتی۔ تو کہتے ہیں نیکی سے مراد تقیہ ہے اپنے ایمان کو چھپانا ہے اوربدی سے مراد اس کو ظاہر کرنا ہے۔ تو کہتے ہیں کیسے برابر ہوسکتی ہیں دو باتیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک نیکی کے ذریعے دوسری بدی کو دھکیل کہ باہر کردو تو وہ کیا بات ہے؟ کہتے ہیں
’’ادفع بالتی ھی احسن السئتہ‘‘
اس میں احسن سے مراد تقیہ ہے
’’و ابی اللہ عزوجل لنا ولکم فی دینہٖ الا التقیتہ ‘‘
(الاصول من الجامع الکافی کتاب الایمان و الکفر صہ 483)
کہ اللہ عزوجل نے ہمارے دین میں تقیہ کے سوا ہر دوسری چیز کو ناپسند فرمایاہے۔ وہ جو ایک حصہ رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ دس میں سے ایک رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ چھٹی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ۔ نہیں ! مجھے تقیہ ہی پسند ہے۔ کیا بات ہے تقیہ کی ! تو امام مہدی جب آکر تقیہ کا ہی قلع قمع کردے گا تو ایک بھی گیا۔ کچھ بھی رہا باقی دین میں پھر۔ بڑی ناپسندیدہ باتیں کریگا ۔ (نعوذ باللہ من ذلک) امام مہدی ایسی باتیں کرے گا جو خدا کو بہت ناپسند ہیں (بقول ان کے نعوذ باللہ یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی ایسی بات کرے)
تقیہ کے دلائل سُن لیجئے اب !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقیہ کیا۔ پہلی دلیل۔ کیسے کیا؟ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ اور بسم اللہ کا لفظ کاٹ دیا ۔ یہ تقیہ تھا۔ اگر یہ تقیہ ہے تو تقیہ جائز ہے 100 فیصدی ہم اس سے متفق ہیں۔ اگرچہ یہ دین کے نو حصے نہیں ہے بلکہ ایک ایسا حصہ ہے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسندیدگی سے جس کو قبول کیا۔اور ایسی مجبوری تھی جس قرآنی تعلیمات کے پیش نظر کوئی جس کا کوئی اور حل نہیں تھا۔ قرآن عدل کی تعلیم دیتا ہے دین چھپانے کی نہیں۔ یہاں دین چھپانے کی کوئی بحث ہی نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے۔ بحث یہ تھی کہ دشمن کی طرف سے ایک وفد آیا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاہدہ کرنے کیلئے۔ اس معاہدے کے اوپر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لکھا جارہا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی تھی اورلا الہ اللہ کی شھادت بھی تھی اللہ کے رسول ہیں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی شہادت تھی دشمن نے کہا کہ ہم تو اس سے یہ دستخط نہیں کرینگے کیونکہ جب دونوں نے دستخط کئے تو دونوں نے معاہدے کے ہر لفظ کی تصدیق کردی۔ تو یہ کیسا انصاف ہے کہ تم اپنے دین کو ہماری طرف منسوب کرکے ہمیں مجبور کررہے ہو کہ اس کی تصدیق ساتھ کردیں۔ یہ نہیں ہوگا !
حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے عدل کا مقام دیکھیں صحابہ ناراض تھے کہتے تھے یہ نہیں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا نہیں ! یہی ہوگا۔ اس کو عدل کہتے ہیں۔ جب دشمن کے عقائد اپنے ہیں تم اپنے عقائد اپنے پاس رکھو۔انکا اعلان کرو۔ اعلان سے منع نہیں فرمایا۔ یہ تو نہیں کہا کہ ہم توبہ کرتے ہیں اس اقرار سے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ یہ تو نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مضمون غلط ہے۔ فرمایا ان کا عقیدہ یہ نہیں ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں۔اور چونکہ دونوں نے دستخط کرنے ہیں اس لئے اس کو کاٹ دیا جائے۔ اب دیکھیں اس میں وہ تقیہ کہاں سے آگیا جو ان کا تصور ہے یہ تو ایک عظیم الشان عدل کی تعلیم کا ایک نمونہ دکھایا جارہا ہے۔ اور اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لی جارہی۔ یہ ہے مراد۔الٹ مضمون ہے۔ اپنی قربانی نہیںدے رہے۔ اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لے رہے۔
پھر یہ کہتے ہیں دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہے۔
’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان‘‘
کہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جو بھی من کفر باللہ من بعد ایمانہاللہ کا انکار کردے ایمان لانے کے بعد وہ کیا ہے جہنمی ہے سوائے اسکے کہ کسی کو مجبور کردیا جائے اور وہ بے بس ہوجائے۔ جبکہ اس دل پوری طرح ایمان پر مطمئن ہو۔
ایسے صحابہ بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںبھی پیدا ہوئے اور ان کی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایمان کا پہلا حصہ ہے یا ادنیٰ ،سب سے آخری حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کا سب سے ادنیٰ حصہ ہے جس کی بحث ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان کے دل میں پورا اطمینان نہ دیکھیں اور اکراہ کی وجہ نہ دیکھیں یہ قطعی طور پر ثابت نہ ہو وہ لوگ بے اختیار تھے۔ انکی نفسیاتی کمزوری۔ ا نکی جسمانی کمزوری، ان کے دل کی کمزور حالت یہ چیزیں ایسی تھیں جو ان بے چاروں کی برداشت سے باہر تھیں جس طرح ٹارچر کرکے کسی سے کوئی بیان لیا جاتا ہے یہ اس کی بحث ہورہی ہے۔ اُکرہ کا مطلب یہاں یہ بنے گا۔ ان کو ٹارچر (Torcher) کیا گیا۔ ان سے زبردستی بیان لیا گیا۔ جس طرح بعض احمدی آج بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ مسجدوں میں جاکر ہار پہن لیتے ہیں۔ ہار پہننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بات کردیتے ہیں کہ چلو مجھے معاف کرو۔ تو وہ لوگ جوپہلے جوتیاں مار رہے ہوتے ہیں ان کو وہ پھر ہار پہنا دیتے ہیں وہ بعد میں آکر روتے ہیں۔ سالہا سال تک معافیوں کے خط لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں دعا کرو اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یہ ہے اکرہ کی مثال۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک صحابی ؓ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے سخت مجبور کیا گیا۔ بہت تکلیف پہنچائی گئی تھی یہاں تک کہ آپ کی ذات کے خلاف مجھے سے کوئی ناپاک کلمات کہے گئے۔ کہتے ہیں میری زندگی جہنم بنی ہوئی اس وقت سے۔ ایک عذاب میں مبتلا ہوں۔ میری کوئی بخشش کی صورت ہوسکتی ہے؟ یہ ہے اس آیت کا مطلب کہ مجبور کردیئے گئے ہوں۔ اور بے اختیارہوں۔ ان کی جسمانی طاقتوں سے باہر کی بات ہو۔ اس جبر کو برداشت کرنا۔ لیکن دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو۔ اطمینان پکڑ چکا ہو۔ اس کے متعلق اللہ فرماتا ہے میں اس کو سزا نہیںدونگا۔ جزا دینے کاوہاں بھی کوئی ذکر نہیں۔ سزا کی بحث ہے سزا دے گا یا نہیں دے گا۔ کہتے ہیں یہ دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا۔ جو تقیہ ثابت ہوا وہ ٹھیک ہے لیکن ایمان کا بہت ہی ادنیٰ حصہ ہے اور ایسا جہاں خطرہ ہے کہ ذرا بھی انسان ایک ذرا بھی زیادہ کمزوری دکھادے تو وہ جہنم میں بھی جا پڑ سکتا ہے یہ اللہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ حقیقت میں مجبوری پوری تھی بھی کہ نہیں ! اور اطمینان قلب نصیب تھا بھی کہ نہیں۔
پھر اس کی ایک اور مثال یہ دیتے ہیں
قال رجل مومن من آل فرون یکتم ایمانہ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینت من ربکم و ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ و ان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب۔ (المومن ۲۹)
کہ آل فرعون میں سے ایک ایسا شخص بھی تھا جو ایمان لے آیا مگر ایمان کو چھپاتا پھرتا تھا۔ (یہ کہتے ہیں دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا) اس نے کہاکہ اے لوگو ! کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے مارتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ’’اللہ میرا رب ہے‘‘ اور تمہارے رب کی طرف سے نشانات بھی لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ (یہ وہی آیت ہے جس پر میں کل گفتگو کرچکا ہوں)
تو سوال یہ ہے کہ اگر یہی مثال ہے تقیہ کی تو یہ ایسی مثال تو نہیں ہے کہ جس میں اس کے ایمان چھپانے کو اللہ تعالیٰ نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہو۔ تحسین کی بات تو وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دیکھو اتنا با غیرت تھا کہ ایمان چھپانے کے باوجود وہ خطرہ مول لے لیا۔ اور جس پر ایمان لایا تھا اس کو تکلیف دینے کا جو پروگرام بنایا جارہا تھا اس پر برداشت نہ کرسکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کیسی عقل کی بات کی ہے تو ادنیٰ ایمان والے کا بھی اس کا ذکر فرمایا جو ابتلاء کے وقت پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے آگیا اور جو کچھ چھپایا ہوا تھا اسکو ظاہر کردیا۔ لیکن یہ ایمان کی ادنیٰ حالت ہے۔ اعلیٰ حالت نہیں ہے۔ وہ مومن جو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے بنانا چاہتا ہے ان کی مثال قرآن کریم میں یہ نہیںدی گئی۔ یہ سابقہ مومنوں کی مثالیں ہیں۔ وہ مومن جو محمد رسول اللہ کی امت کے مومن ہیں۔ ان کی مثالیں دو عورتوں سے دی گئی ہیں۔ ایک فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے۔ فرعون کی بیوی کی مثال یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جابر بادشاہ جو اپنے زمانے میں جبر و استبدار میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ کوئی مثال نہیں تھی۔ اس کے گھر میں ہوتے ہوئے ایمان ظاہر کردیا اور ایمان پر قائم رہی۔ اللہ سے دعائیں مانگتی رہی کہ اے اللہ ! تو مجھے توفیق بخش! اور جنت میں مجھے گھر عطا کر۔ یہ ایمان کی ادنیٰ مثال ہے یعنی مومن کے ایمان کی جو محمد رسول اللہ ؐ پرایمان لانے والا ہے۔ اتنی کمزور حالت۔ ایک ایسے جابر بادشاہ کے گھر بے اختیار پڑی ہو اورپھر موسیٰ ؑ پر ایمان ے آئے اور کھل کر اظہار کرے کہ ہاں میں مومن ہوں یہ سچا ہے۔ اس طرف کیوں نہیں جاتی شیعوں کی نظر؟ وہ دوسرا آدمی پکڑ لیا ہے جوایمان چھپائے پھرتا تھا۔ مگر اس کا بھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ جب وقت آیا تواس کو چھپا گیااور حضرت موسیٰؑ پر زیادتی برداشت کر گیا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کہا بالکل غلط کہہ رہے ہو تم میں اس کی تائید کبھی نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی بڑے بااثر لوگوں میں سے شخص تھا جو فرعون کے عزیزوں میں یا قریبوں میں سے ہوگا اور حضڑت آسیہ فرعون کی اہلیہ جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے ان کے زیر اثر وہ ایمان لے آیا ہوگا۔ اس عورت میں جرائت تھی مگر اس میں اتنی جرائت نہیں تھی مگر آخر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی برکت کے طور پر وہ جرأت بھی بخش دی تواس کی مثال کیوں نہ دی قرآن کریم نے اس آدمی کی۔ آسیہ کی کیوں دی؟
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ کی امت سے کم سے کم اتنی توقع تو رکھتا ہوں کہ موسیٰ کی امت کی ایک کمزور عورت سے آگے ہوں پیچھے نہ ہوں کسی طرح بھی۔ اور اپنی کمزوری کے باوجود وہ اپنے ایمان کی حفاظت کررہی تھی اور دعائیں کررہی تھی۔
دوسری مثال مریم کی دی ہے۔ وہ بھی عورت کی مثال ہے۔ عجیب لگتا ہے کہ امت میں دو مثالیں اللہ تعالیٰ نے دیں۔ وہ بھی عورتوں کی دیں۔ کیونکہ عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ جذبات سے بھی اور خواہشات سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں اور خوف سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں تو فرمایا ایک عورت بھی اگر مجھ پر ایمان لانے یا اپنے وقت کے نبی پرایمان لانے کے معاملے میں کمزوریاں نہیں دکھاتی تو محمد رسول اللہ کے مردوں کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنے مقام کو اتنا گرادیں۔
دوسرا نفسانی خواہشات کے نتیجے میںبہت سے لوگ اپنے مراتب بنانے لگ جاتے ہیں اور بڑی بڑی اپنے زعم میں اپنے اعلیٰ روحانی مقامات کی باتیں سوچتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو بعض دفعہ خوابیں بھی آجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میںان کو بعض دفعہ بظاہر ایسے تجربات ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مرتبہ واقعی بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مریم کی مثال ہے۔ مریم کی سوچ ہر ناپاکی سے پاک تھی۔ ہر نفسانی تمنا سے آزاد تھی۔ وہ خالصتاً اللہ کیلئے وقف تھی۔ پس جو بیٹا خدا نے اس کو عطا کیا۔ وہ اس کی ذاتی تمنائوں کے نتیجے میں نہیں تھا ۔ وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا۔
کیوں ؟
اس لئے کہ ماں کی تمنائیں‘ اس کے خیالات ‘ اس کے جذبات۔ وہ اپنی نفسانی مجبوریوں سے کلیتاً آزاد اور ان سے باہر تھے۔ اور خالصتہً اللہ کیلئے ہوچکے تھے۔ پس فرمایا : پھر ہم نے اس میں روح پھونکی اور یہاں اس آیت کریمہ میں اس عورت میں روح پھونکی نہیں فرمایا ! ہم نے اس بچے میں روح پھونکی جو اس عورت کے پیٹ میں تھا۔ اور وہاں مرد کی مثال دی گئی ہے۔ تو فرمایا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مثال تو تمہاری آسیہ کی سی ہے۔ اپنے ایمان کی ہر حالت میں حفاظت کرو۔ اوراگر تم ایسا کرو گے تو آخری مرتبہ ایک اور عورت کا حاصل ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں جو بھی بلند مرتبے عطا کرے بلند مقامات بخشے تمہارے نفس کی خاطر نہیں ہوگا۔ تمہاری نفسانی تمنائیں تمہارے سامنے تمہارے مراتب کے روپ نہیں ڈھالیں گی‘ بلکہ یہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ تمہیں نئے درجے عطا ہونگے۔ جیساکہ مریم کو ایک اور مرتبہ جو مسیحی مرتبہ ہے وہ عطا کیا گیا ۔ مسیح کی مثال کیوں نہ دی مریم کی کیوں دی؟
اس لئے کہ مریم سے مسیحیت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ مریمی حالت ہی ہے جو ترقی کرتے ہوئے مسیحی حالت میں تبدیل ہوتی ہے۔یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے متعلق جب فرمایا کہ میری پہلی حالت مریمی حالت تھی۔ یہ بڑے دکھوں اور تکلیف کی حالت اور بے اختیاری کی حالت ہے۔ پھر اسی حالت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عیسوی روح عطا کی۔ تو۔یہ لوگ ہنستے ہیں۔ یہ آج کل کے جہلاء تمسخر کرتے ہیں کہ دیکھو جی ! پہلے وہ عورت بن گئے تھے اورپھر بعد میں مرد بنے۔ تو قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر مومن کو پہلے عورت بننا پڑا ہوگا اگر یہی عورت ہے تو ! دو ہی عورتیں ہیں۔ ان کا رستہ اختیار کئے بغیر تم امت محمدیہؐ کے مومن نہیں بن سکتے۔ یا تمہیں اپنے ایمان کی کم از کم اتنی حفاظت کرنی ہوگی جتنی آسیہ نے کردکھائی۔ یا پھراپنی خواہشات اور تمنائوں کو کلیتاً نفس کی آلودگی سے ویسے پاک کرنا ہوگا جیسے مریم نے پاک کیا۔ پھر تمہیں وہ روحانی مرتبے عطا ہونگے جو اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خدا کی طرف سے روح پھونکی جاتی ہے۔ تو یہ ہے قرآن کا حقیقی معنیٰ جو روح کی پہنائیوں تک اتر جاتا ہے اور ہرایک وجود میں سرایت کر جاتا ہے۔ اور کہاں یہ دیکھئے ! تقیہ نکالنا اس سے کہ چونکہ ایک مثال اس کی آگئی ہے اس لئے ہم اپنے سب سے بزرگ اور بہادر اور متقی بزرگوں کی طرف جن کے مراتب بہت بلند ہیں ان کی طرف یہ ادنیٰ ایمان منسوب کرتے ہیں۔ بڑی گستاخی ہے حضرت علیؓ کی۔ ایسی گستاخی کہ میں حیران ہوجاتا ہوں سوچ کے۔ دل کانپنے لگتا ہے کہ کوئی ان کو خدا کا خوف ذرا بھی نہیں آتا۔ ایمان چھپانے والے مومن کی مثال حضرت علیؓ پر لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں دیکھو ! کیسا شاندار تقیہ کیا اور پہلے پھرکیا کرتے تھے؟ جب وہ میدان جنگ میں اور ہر میدان جنگ میں ۔ جہاںموت کی چکی بڑی شدت سے گھوم رہی ہوتی تھی وہاں جاتے تھے اور موت کے دانت کھٹے کردیا کرتے تھے ۔ ان کی تلواریں توڑ دیتے تھے جو تلواریں اٹھتی تھیں اور علیؓ کی تلوار کے قصے تم بھول چکے ہو۔ وہ کیا کیا جوہر دکھاتی رہی ہے ! اس وقت کیوں نہ تقیہ کرلیا۔ ساری زندگی کی گواہی کو بھی حضرت علیؓ کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے بعض صورتوں میں ایمان کو چھپانے کی خدا اجازت دیتا ہے مگر بعض شرائط کے ساتھ۔ اور ایک ناپسندیدہ حالت ہے۔ جس کے متعلق خطرہ رہتا ہے کہ اللہ چاہے توپکڑ بھی لے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دے۔ یہ ناپسندیدہ حالت اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کررہے ہو؟
یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو بھیجا تجارت کیلئے کیونکہ وہ دنیا میںدلچسپی نہیں لیتا تھا خاص۔ تو انہوں نے کہاکہ تجارت کا ایک قافلہ جارہا ہے اس سے اسے تجربہ ہوجائے گا‘ شوق پیدا ہوگا۔ تو کچھ مال و دولت دیا اور تجارتی قافلے کے ساتھ بھیج دیا۔اس تجارتی قافلے کا ایک جنگل میں پڑائو ہوا اور یہ بھی ایک درخت کے نیچے آرام کررہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک شیر آیا ہے جس نے کسی جانور کا شکار کیا ہوا ہے اور اس کو گھسیٹتا ہوا ایک جھاڑی میں لے آتا ہے اور یہ اس کو دیکھتا رہا۔ اس نے خوب اس کو اپنی چاہت کے مطابق اپنی پسند کے مطابق کھایا دل نکالا جگر کھایا۔ دوسری چیزیں اور بقیہ جانور کو آئندہ کیلئے بچا کر جھاڑی کے ایک کونے میں چھپا دیا اور آپ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بیمار لگڑ بھگڑ اپنی ٹانگیں گھسیٹتا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا وہاں پہنچا اور شیر کا پس خوردہ جو بچا ہوا وہاں پڑا تھا اس سے اس نے بھی اپنا پیٹ بھر لیا۔
یہ واقعہ دیکھا تو یہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا۔ واہ ! اللہ کی شان دیکھو۔ وہ تو سب کا رازق ہے۔ میں خواہ مخواہ اس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ یہ دنیا کمانے کیلئے اتنی محنتیں کروں۔ جب خدا نے ذمہ لے لیا ہے رزق کا تو چھوڑو اس کو۔ وہاں سے واپس آیا۔ جو پیسہ تھا غریبوں میں تقسیم کیا۔ گھر اکیلا خالی ہاتھ آکر بیٹھ رہا۔ باپ نے جب دیکھا تواس نے کہا یہ کیا کیا تم نے؟ میں نے تو تمہیں تجارت پر بھیجا تھا۔ اس نے کہا گیا تو تھا تجارت پر ‘ پر یہ واقعہ دیکھا ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے۔ باپ نے کہا تم سچ کہتے ہوگے لیکن میری خواہش اور تھی۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم وہ لگڑ بھگڑ بنو جو شیروں کے پس خوردہ کھا کر زندہ رہو۔ میں چاہتا تھا تم وہ شیر بنو جس کے پس خوردہ لگڑ بھگڑ کھایاکریں۔ تو حضرت علیؓ تو شیر خدا ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں وہ شیر خدا تھے۔ ان کو لگڑ بگھڑ کی مثال دیتے ہو؟ کوئی حیا نہیں آتی؟ تمہارا ایمان کہاں جاتا ہے؟ کچھ خدا کا خوف کیوںنہیں کرتے؟
جسے خدا نے شیر بنایا تھا جس کا پس خوردہ دنیا کھاتی تھی تم اسے دنیا ک یپس خوردہ کھانے والا بنا بیٹھے ہو۔ اور عملاً یہی کرلیا ہے۔ کہتے ہوکہ اپنا حق ‘ حق خلافت غصب ہوتے دیکھا۔ خدا نے جو حق میں وصیت کی تھی اس وصیت کو چاک ہوتے دیکھا۔ تمام روحانی مراتب آپ سے غصب کرکے چھین کر۔ ایک ظالم ان کی کرسی پر جا بیٹھا اور دنیا کی منفعفت کیلئے اس کے دربار میں حاضری دیتے رہے۔ باغ کیلئے التجائیں کرتے رہے مگر اپنے منصب کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ایک دفعہ بھی نہیں۔ ساری شیعہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ان کی اپنی تحریریں مطالعہ کرلیں۔ میں کسی سنی حوالے کی بات نہیں کررہا کسی شیعہ تاریخ میںیہ ذکر نہیں ہے۔ کسی کتاب میں‘ کسی ان کی حدیث میں کہ حضرت علیؓ کو اچانک خیال آیا ہو اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور کاہ ہو کہ اے ابوبکر ؓ ! پہلے میرا حق تو مجھے دے جو خدا نے عطا کیا ہے۔ پھر باقی باتیں بعد میںدیکھیں گے۔ تو یہ ہے شیر خدا کو (نعوذ باللہ من ذلک) اس سے بالکل برعکس حالت میںتبدیل کردینا اور ان کا جو مرید ہیں جو محبت کے دعویدار ہیں جو عشق کے دعویدار ہیں۔ جن کے دعوے یہ ہیں بعض جگہ بعض شیعوں کے کہ وہ علیؓ خدا تھے اور محمدؐ اس کے بندہ تھے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ہیں انکے عقیدے۔
اس سے بھی بھیانک عقیدے دنیا میں موجود ہیں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے یہ جاہلانہ بات ہے کہ ان باتوں کو بیان کرکے طبیعتوں میں اشتعال پیدا کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی تو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے اور کرشن کو خدا بنایا ہوا ہے۔ کس کس سے تم دنیا میں لڑتے پھرو گے؟ اس لئے جو تمہارے اختیار میں چیزیں نہیں ہیں ان کو اپنے اختیارمیں نہ لو۔ یہ اللہ کے معاملے ہیں۔ پس میں جب یہ باتیں بیان کرتا ہوں تو شیعوں کے خلاف نعوذ باللہ کسی اشتعال انگیزی میں مبتلا نہیں ہوتا نہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں۔ یہ بے چارے راہ سے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں ان کو سمجھائو۔ عقلی دلیلیں دو۔ جسطرح بن سکے ان کو ان گمراہیوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ یہی ہے جو ہمیں اختیار ہے۔
’’انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر‘‘
یہی وہ مرتبہ ہے جو محمد رسول اللہ کا مرتبہ ہے اس سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارا کام نصیحت کرنا ہے ہم ان پر داروغہ نہیں بنائے گئے کہ ہم انہیںپکڑیں اورسزائیں دیں اور قیدوں میں مبتلا کریں یا پھانسیوں پر چڑھائیں پس یہ تعلیم غلط ہے جو آج کل پاکستان میں دی جارہی ہے۔ مگر یہ درست ہے کہ شیعہ عقائد ایسے ہیںکہ جس کے نتیجے میں ایک مومن کا دل لرزنے لگتا ہے۔ طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ یہ کیا کررہے ہیں۔یہ ہے تقیہ۔جس کی میں بات کررہا تھا۔ اب تبرا کی بات سُن لیجئے !
تبرا کس چیز کو کہتے ہیں؟
اس کے متعلق بہت سے حوالے ہیں۔ میں ایک چُن کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ کل انہوں نے میر احمد علی صاحب نے Revilde کے لفظ کے اندر (جو میں نے کل حوالہ پڑھا تھا) تبرا کا ہی ذکر کیا ہے کیونکہ Revile کرنا اور تبرا کرنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
کہتے ہیں تبرا ہم پر لازم نہ تھا اگر صرف محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ بے وفائی کرتے اور یہ سب کچھ کرتے۔ بھاگے پھرتے بکریوں کی طرح پہاڑوں پر پتھر سے پتھر پر اور چٹان سے چٹان پر چھلانگیں مارتے پھرتے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علیؓ کی خلافت پر قابض ہوگئے پھر ناقابل برداشت ہے پھر تو ہم پر تبرا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اور تبرا ہے کیا؟ یہ سنئے ! حق الیقین مصنفہ محمد باقر مجلسی فصل نمبر 18 صہ 519 مطبوعہ ایران اس کا ترجمہ ہے۔ یعنی اصل عبارت بھی موجود ہے مگر میں ترجمہ پڑھ کر سناتا ہوں۔
برأت کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ چار بتوں سے بیزاری برأت کا بنیادی حصہ ہے؟ وہ یہ ہیں) ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ عثمانؓ اور معاویہ ؓ۔
کہتے ہیں یہ چار بت ہیں جن سے بیزاری کا اظہار دین کا بنیادی حصہ ہے اور اسی کا نام تبرا ہے اور چار عورتوں سے بیزاری یعنی عائشہ ‘ حفضہ ‘ ہندہ اور ام حکم اور ان کے تمام ساتھیوں اور متبعین سے بیزاری چاہیں۔
چار مردوں سے حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمان ؓ ‘ اور معاویہ سے اور چار عورتوںسے حضرت عائشہ صدیقہؓ ‘ حضرت حفصہ ؓ ‘ ہندہ اور ام حکم سے بیزاری کریں۔ اور ان سے نہیں ان کے تمام ساتھیوں سے۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
حضرت حفصہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
کوئی حیا نہیں۔ کوئی سوچتے نہیں کہ کیا بات کہہ رہے ہیں۔ یہ تلوار کی زد کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ یہ یقین رکھتے ہیں
’’نیز ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ لوگ خدا کی بدترین مخلوق ہیں‘‘
یہ مسلمان ہیں۔ ہم نہیں ہیں جن کا دل خون ہوتا ہے ۔ ان باتوں کو سن کر۔ جو عشق صحابہؓ میں سر تاپا لبریز ہیں۔ یہ غیر مسلم ہیں پاکستان کی تعریف کے مطابے اور یہ مسلمان ہیں۔ جن کا اعتقاد یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ خداکی بدترین مخلوق ہیں۔
’’اور ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جب تک خدا‘ رسول اور ائمہ کے دشمنوں سے بیزاری نہ کی جائے۔ اس وقت تک خدا رسول اور آئمہ کی سچائی کا اقدار مکمل نہیں ہوسکتا۔‘‘
(اردو ترجمہ از فارسی عبارت حق القین مصنفہ محمد باقر مجلسی)
فصل نمبر 18‘ صہ 519‘ مطبوعہ ایران
پھر اس موضوع پر مختلف حوالے ہیں مگر چونکہ درس قرآن میں ضمناً یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ اس لئے میں مستقل اسے شیعہ سنی debate میں یا مناظرے میں تو تبدیل نہیں کرسکتا مگر چونکہ یہ باتیں قرآن کی طرف منسوب کررہے ہیں اور جو آیتیں زیر بحث ہیں ان سے استنباط کررہے ہیں۔ اس لئے بالکل مجبوری ہے۔ انکے غلط عقائد یا قرآن کریم کی آیت کے ۔۔۔۔بطلان کو نظر انداز کرکے کیسے میں آگے بڑھ سکتا ہوں۔
شیعہ عقیدہ کیا ہے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ پنجتن پاک اور چھ دیگر صحابہ کے سوا آنحضرت صیل اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ بشمولیت خلفاء راشدین ثلاثہ ابوبکر‘ عمر اورعثمان (ہم جن کو رضوان اللہ علیھم کہتے ہیں) سب کے سب اسلام سے برگشتہ ہوچکے تھے۔ اور عیاذاً باللہ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء غاصب تھے ان پر تبرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔
یہ خلاصہ ہے شیعہ مذہب کا۔ جو اسلام کا ایک لازمی ستون ہے۔ ان 72 فرقوں میں سے ایک ہے جن کے اسلام پر حکومت پاکستان نے اور پاکستان کو Constituion نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔۔۔۔اب بتائیے کہ یہ ایک لازمی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ نہیں؟ کہ پاکستان کی Constituion کے مطابق یہ تمام عقائد رکھنا اسلام کے دائرے کے اندر ہے اور کوئی نہیں جو ان عقائد کے رکھنے والوں کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ بتائیے اس نتیجے سے مفر کسے ہوسکتا ہے۔ Constituion کی مہر لگی ہوئی ہے۔
تمام شیعہ اپنے تمام عقائد سمیت دائرہ اسلام میں داخل اور اسلام کا ایک اہم ستون ہیں۔ یعنی ایک ستون اگر اہل سنت ہیں تو دوسرا ستون شیعہ ہیں۔ کون ہے جو انکو اسلام سے باہر قرار دے سکے۔ پس انکے تمام عقائد اس حد تک قابل قبول ہیں کہ انکو رکھنے کے باوجود انسان غیر مسلم نہیں بن سکتا اور اسلام کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتا تو تمام سنّیوں نے پاکستان کے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھنے کے نعوذ باللہ من ذالک چار مرد وہ جن کا بیان ہوا ہے اور چار عورتیں یہ کلیتاً فاسق فاجر دین سے باہر اورخدا تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین مخلوق ہیں۔ یہ اسلام ہے۔ کون ہے جو ان کو یہ کہ سکے کہ نہیں ہے۔
اور یہ عقیدہ رکھے کے اگر ہم یہ عقیدے نہ رکھیں تو ہمارا اسلام نہیں بن سکتا ۔ اور ہم پر لازم ہے ان سب کو گالیاں دیں اور بد ترین زبان انکے خلاف استعمال کریں۔ یہ جائز ہی نہیں بلکہ دین کا حصّہ اور فرض ہے۔ جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جو ان کا حق ہے جو تسلیم کرتا ہے سو بسم اللہ۔ وہ 72 کے تھیلے میں آرام سے زندگی گزارے ۔ کون ہے جو اسکو میلی آ نکھ سے دیکھ سکے؟ لیکن جو ان کے عقیدوںکے خلاف آواز اُٹھائے گا وہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اسلام کے اندر۔
اب یہ تبّرا کی مثالیں بہت ہی مکروہ مثالیں ہیں میں صرف چند مجبوری کی حالت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک تو ایسی خبیثانہ بات ہے کہ آدمی کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی مسلمان یہ بات لکھے اور دوسرے مسلمان آرام سے کہیں کہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تم ہو تو مسلمان ہی ناں ! جو مرضی کہتے پھرو تو نعوذ باللہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ (ناقابل بیان بات ہے) کسی سے عشق ہوگیا تھا۔ اور اسکی رقابت میں حضرت علیؓ سے دشمنی ہوئی اتنی ناپاک بات ہے اتنی خبیثانہ بات۔ ایسے قابل احترام وجود پر جو خاتونِ جنت ہیں جو تمام عورتوں کی سردار ہیں جنّت میں ۔ اپنی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ یہ بکواس کر کیا رہے ہیں؟
(کتاب کامل بھائی اور کتاب خلافت شیخین 41ـ؎ پھر حضرت عمر ایسے ناپاک مرض میں مبتلا تھے کہ جسکے بغیر انہیں چین نہیں آتا تھا ( یعنی روحانی بیماری ۔ وہ مرض بھی اپنا بیان نہیں کر سکتا )
(الزھراء بحوالہ شیعہ سنی اتحاد ص 4سے یہ حوالہ لیا گیا ہے)
کہتے ہیں حضرت ابوبکرؓ سے منبرنبویؐ پر مسجد نبویؐ میں سب سے اول بیعت خلافت شیطان نے کی تھی۔
حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پہ منبر نبوی پر پہنچ کر شیطان پہلے پیش ہوا ۔ ہاتھ بڑھایا کہ حضور پہلے میری بیعت لے لیجئے۔ پھر باقی صحابہؓ نے ۔ پھر حضرت علیؓ نے دیکھا کہ سب کر بیٹھے ہیں میں بھی کرلوں۔ اب کیا باقی رہنا ہے تو نعوذ باللہ سب شیطان کے چیلے بن گئے۔ اور اس کے پیچھے قدم رکھتے ہوئے۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے اے شیطان !
حضرت علیؓ نے کہا کہ میں اکیلا بیٹھا باہر کیا کرونگا۔ یہ دین ہے۔ لیکن اسلام ہے۔ پاکستان کی Constituion اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ لکھا ہوا ہے۔ مہر لگی ہوئی ہے اوپر۔ حکومت کی مہر ہے ، ہے یہ اسلام !
کوئی تقویٰ کا اشارہ بھی ملتا ہے ا ن باتوں میں ؟
یہ سیاستیں ہیں جن کو دنیا میں مشتہر کررہے ہیںکہ دیکھو پاکستان حکومت نے۔ پاکستان کی Constituion نے‘ پاکستان کے دانشوروں اور علماء نے مل کر کچھ دیکھا تھا تو یہ فتویٰ دیا کہ احمدی کافر ہوگئے ہیں کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی آگیا۔
یہ جرم ہے۔ اور کہتے ہیں کہ امام مہدی کا منصب امتی نبی کا منصب ہے جو قرآن کے پوری طرح اور کامل طور پر تابع ہوگا۔ اور محمد رسول اللہ ؐ کا غلام ہوگا۔ یہ کہتے ہیں۔ ایسی گستاخی کی جرأت۔ یہ تو نبوت پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ امام مہدی امتی نبی: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسلام میں یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں یہ بے شک برداشت کرلو کہ وہ چار کون ہیں؟ اور وہ چار کون تھیں؟ اور ان سے خدا کا کیا سلوک ہوگا؟ اور دنیا کی بدترین مخلوق کس کو کہتے ہیں؟ اورکن پر تبرا دین میں فرض ہے۔ اور شیطان نے سب سے پہلے بیعت کس کی کی تھی؟
کہتے ہیں یہ سب اسلام کے اندر ہے۔ اس سے تمہیں کیا تکلیف پہنچتی ہے؟ ہمارا اپنا معاملہ ہے۔ ہم جو مرضی کریں اسلام کا۔ اسلام تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے نعوذ باللہ من ذالک۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں شیطان کا ذکر آتا ہے۔
وقال الشیطن: وہاں وہی ثانی مراد ہے۔ اب یہ تقیہ کیا گیا ہے۔ مراد حضرت عمرؓ ہیں اور تمام شیعہ جانتے ہیں کہ کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں وہاں خلیفہ ثانی مراد ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
توجہاںجہاں یہ آتا ہے قرآن میں وقال الشیطا ن : وہاں حضرت عمرؓ مراد ہیں اور یہی ہمارا دین ہے۔
(بحوالہ القرآن امامیہ صہ 512)
حضرت ابوبکرؓ‘ عثمانؓ اور عمر کافر فاسق تھے۔
(حیات القلوب مجلسی باب 51)
سوائے چھ (6) اصحاب کے باقی جمیع اصحاب رسول مرتداور منافق تھے ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف چھ صحابہ باقی بچے تھے۔ باقی تمام مرتد اور منافق ہوچکے تھے۔ یہ تبرا کی تعلیم ہے کن پر تبرا بھیجنا ضروری ہے ۔ وہ یہ لوگ ہیں۔
اب پہلے تو حضرت علی ؓ کے منصب کے متعلق بات کی تھی پھر بھی دہرا رہا ہوں کہ حضرت علیؓ کا کیا باقی رہنے دیا ان لوگوں نے۔ جو سب سے شجاع تھا۔ جو سب سے دین میں بہادر تھا اسے نعوذ باللہ من ذلک سب سے بزدل کے طور پر پیش کرکے اور پھر منافق کے طور پر پیش کرنا۔ اس سے تو زیادہ ظلم حضرت علیؓپر ہو ہی نہیں سکتا۔
سر بچالیا اور ہاتھ نعوذ باللہ من ذلک فاسق فاجر دنیا کی بدترین مخلوق والے آدمی کے ہاتھ میں دے دیا۔ ان کے ہاتھ میں جن کے ہاتھ پر شیطان ان سے پہلے سبقت لے جاچکا تھا اور پہلے بیعت کر بیٹھا تھا‘ کیا باقی رہا حضرت علی ؓ کا؟
وہ علیؓ قرآن میں جس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ وہ اور علی ؓ ہے۔ وہ علیؓ جو محمد رسول اللہ ؐ کا وفادار تھا اور اسلام کا وفادار تھا اور ظاہر و باطن میں ہر طرح سے سچا تھا۔ نہ اس کا ظاہر جھوٹا تھا نہ اس کا باطن جھوٹا تھا۔ جو ظاہر تھا وہی اسکا باطن تھا۔ وہ علی ؓ تھا جس نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ نہ کہ وہ علی جس کی تم نے ایسے ناپاک الزام لگا لگا کر شکل بگاڑ دی ہے۔ پہچانی نہیں جاسکتی۔
اور حضرت محمد ؐ رسول اللہ کا تصور ۔ پہلے کہا کرتے تھے مسلمان۔ عیسیٰ علیہ السلام آئے ساری زندگی زور لگایا۔ صرف 30 ہی چھوڑے ناں پیچھے ماننے والے؟ ان میں سے بھی دو (2) نے *** کردی یا ایک نے *** کی اور دوسرا ویسے پھر گیا تو محمد رسول اللہؐ کا بڑا شور تھا۔ خاتم الانبیائؐ آنے والا ہے۔ ایسا آنے والا ہے جس کے متعلق فرمایا۔
’’یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ‘‘
وہ ان پر آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔دلائل بعد میں آتے ہیں۔
لیکن ایسا پاک وجود ہے کہ فوراً ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔
و یعلمھم الکتب والحکمتہ و ان کانوا من قبل یفی ضلال مبین
اور پھر تزکیہ کرنے کے بعد پاک دلوں کو تعلیم دیتا ہے۔ وہ کیا تزکیہ تھا؟ ساری عمر کی کمائی 6 مومن! اور لاکھوں منافق!! جن میں سے ان کے کہنے کے مطابق ہر دل ناپاک تھا اور دنیا کی بدترین مخلوق ان کی سرداری کررہی تھی۔ محمد رسول اللہؐ کا کیا باقی چھوڑا؟ جو تمام دنیا کا نبی بن کے آیا۔ اس کی زندگی کا ماحصل تو بس یہ منافق ہی رہ گئے لیکن بدنصیبی اور ہے ابھی ختم نہیں ہوئی! جو 6 باقی رہ گئے تھے وہ بھی پھر منافق بن گئے نعوذ باللہ من ذلک‘ انہوں نے بھی بیعتیں کرلیں۔ ان کی جو منافقوں کے سردار تھے۔ گویا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ محمد رسول اللہؐ کی زندگی کا ماحصل ایک منافق گروہ کے بعد ایک دوسرا منافق گروہ پیدا کرنا بن گیا۔ یہ ہے اسلام کا خلاصہ جو ان شیعہ عقائد سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام دلائل کو ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صہ ۱۸۹۲
اور بڑی شان کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ حضرت علیؓ کی سچائی کا دفاع فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ ساری باتیں اور وہی سارے دلائل جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ الحمد للہ کے میری نظر جب حضرت مسیح موعودؑ کے اس اقتباس پر پڑی تو میں حیران رہ گیا کہ ایک بھی بات نہیں ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہو اور مسیح موعودؑ نے بیان نہ فرمائی ہو۔ ہر دلیل مسیح موعود علیہ السلام نے خود دی ہے اور آخر پر حضرت علیؓ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ نعوذ باللہ وہ ان صحابہ سے جا ملا جو مرتد ہوگئے تھے۔ اس نے کیوں اپنی فصاحت و بلاغت کو استعمال نہ کیا۔ کیوں ان کو نہ سمجھایا ؟ کہتے ہیں کہ وہ تو بڑا قادر الکلام انسا ن تھا، بہادر بھی تھا۔ بہادری پر تم نے ضرب لگادی۔ اب اسے گنگ کردیاکہ وہ تین خلافتوں پہ خاموش بیٹھا رہا۔ اور کچھ کسی کو نہ سمجھایا کہ حقیقت حال کیا ہے؟
فرماتے ہیں
’’پس اُس پر یہ بلا کیا نازل ہوئی کہ اس نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میںبلاغت اور فصاحت سے کام نہ لیا اور دلوں کو اپنی طرف پھیرنے میں اپنے حسن بیان کو نہ دکھلایا بلکہ نفاق اور تقیہ کی طرف جھک گیا اور نفاق کو دشمنوںکیلئے مثل افسوں کے سمجھا۔ کیا یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افترا ء ہے علی ؓ تو جامع فضائل تھا اور ا یمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ ------- نفاق کو اختیار نہیں کیا۔‘‘
یہ ہیں حضرت علی ؓ ‘ وہ مقدس وجود جن کے نام سے دشمن کا پتہ پانی ہوا کرتا تھا جن کو حیدر جرار اور حیدر کرار کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود کی زبان سے سنیں۔ میں آئندہ اور بھی بعض حوالے ایک اور موقع پر آپ کے سامنے رکھوں گا۔ کیسا پیارا کلام ہے۔ کیسا عمدہ حضرت علیؓ کا تعارف کراویا گیا ہے۔
’’یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افتراء ہے۔ علیؓ تو جامع فضائل تھا‘‘ تمام خوبیاں‘ تمام نیکیاں جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔ فضائل اُن نیکیوںکو نہیں کہتے جو ادنیٰ حالتیں ہوںپس ایمان کی ادنیٰ حالت فضیلت سے نیچے قابل قبول بھی ہو تو وہ علیؓ کی شان نہیں تھی علیؓ کے حصے میں تو فضائل اپنے درجہ کمال تک پہنچی ہوئی نیکیوں کی صورت میں موجود تھے۔ پھر فرمایا اور ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ بہت ہی پیارا کلام ہے۔ حضرت علیؓ کو ایسا خراج تحسین میرا خیال ہے کبھی کسی نے نہیں دیا ہوگا۔ ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ جس طرح ہم شکل جڑواں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور پہنچانا نہیں جاتا ایک ‘ دوسرے سے الگ۔ تو کہتے ہیں تم علیؓ کے ایمان کی بات کررہے ہو۔ وہ تو ایمانی قوتو ںکے ساتھ توام پیدا ہوا تھا۔ ایک کو دوسرے سے الگ دکھایا ہی نہیں جاسکتا۔
پس اس نے کسی جگہ نفاق کو اختیار نہیں کیا!
اب یہ سوال ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت علیؓ اور دیگر ائمہ کی طرف جو یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔ انہیں پیش کرنے کا اب کوئی فائدہ باقی رہے گا یا نہیں !
یہ کہ دیںگے کہ جی تقیہ ہورہا تھا۔ ہم جب ان کے حوالے اب دینگے تو ان حوالوں کو شیعہ کس طرح دیکھیں گے؟ جہاں تک عامۃ الناس کا تعلق ہے ان میں تو اکثر لاعلم ہیں انہیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا دین ہے کیا۔ یہ دین تو ایک خاص گروہ ہے شیعہ علماء کا انکے قبضے میں ہے۔ وہ ان کو عوام کو بتاتے رہتے ہیں۔ سالانہ مجلسوں کے وقت یا بعد ازاں کبھی کبھی کہ تمہارا دین ہے کیا؟ انکو کچھ پتہ نہیں بیچاروں کو۔
شیعہ دین کے متعلق میں اپ کو ایک بات سمجھا دوں پھر شاید بھول نہ جائوںبعد میں۔ شیعہ دین کی بنیاد بہت پیاری ہے۔ یعنی اہل بیت کی محبت۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایک محبت کے جذبے کو بعض ظالموں نے ہانک کر غلط رستے پر ڈال دیا اور غلط نتائج پیدا کئے یہ ظلم ہے! پس جہاں تک اہل بیعت کی محبت کا تعلق ہے اس پر کسی شریف انسان کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اعتراض کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے میدان میں شیعوں سے آگے بڑھ کر اہل بیت سے محبت کرنی چاہئے۔ حضرت محمدؐ رسول اللہ کے اہل بیت وہ تھے جو ایماناً بھی اہل بیت تھے اور جسمانی طور پر بھی اہل بیت تھے۔ ان میں آپ کی روحانیت کا خون بھی دوڑ رہا تھا اور آپ کی جسم کا خون بھی دوڑ رہا تھا۔
پس نور’‘ علیٰ نورٍ کی سی کیفیت تھی۔ ان کو نظر انداز کردینا اور ان پر ظلم کو برداشت کرلینا۔ یہ بے دینی کی بات ہے یہی احمدیت کا عقیدہ ہے۔ ان سے محبت کرنا ایمان کے اعلیٰ مراتب کو چھونا ہے۔ لیکن یہاں تک بات رہے۔ پاکوں کی محبت میں پاکوں پر ظلم کرنا۔ یہ ایسا خوفناک تصور ہے جس کو عقل بھی رد کرتی ہے اور نقل بھی رد کرتی ہے۔ نہ اس کی کوئی مثال سچوں کے کلام میں ملتی ہے نہ سچوں کے اعمال میں ملتی ہے۔ نہ عقل اسے قبول کرسکتی ہے کہ ایک سچائی کی خاطر دوسری سچائی کا منہ کالا کرتے پھرو۔ اور جب تم ایسا کرتے ہو تو اپنی سچائی کا گلا گھونٹتے ہو۔ اپنی سچائی کو داغدار کرتے ہو۔ اگر محمد رسول اللہؐ کی محبت کی وجہ سے یہ سب کچھ تھا تو محمد رسول اللہ ؐ کے غلاموں پر اس طرح زبان طعن دراز کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ صرف 6 پیچھے چھوڑے باقی سب منافق چھوڑ گئے۔ اور جو 6 تھے وہ بھی نعوذ باللہ من ذلک بعد میں انہوں نے کہا کہ ہم نے کیا باہر رہنا ہے۔ ہم بھی بن جاتے ہیں۔
یہ کوئی دین نہیںہے۔ خدا کا خوف کرو۔ تقویٰ اختیار کرو۔ اہل بیت کی محبت میں ان پر درود و سلام بھیجو۔ ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے جو غم ہوتا ہے مصنوعی طور پر اسے ابھار کر سینہ کوبی میں تبدیل نہ کرو ۔ انبیاء کی سنت کے مطابق راتوں کو کھڑے ہوکر ان پر درود و سلام بھیجو ۔ ان کے لئے روئو۔یہ نیکی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بعض دوسرے نیکوںپر گند اچھالنا۔ خبیثانہ زبانیں استعمال کرنا۔ یہ پہلی نیکی کو کاٹ دینے والی بات ہے کیونکہ دو تضاد اکٹھے نہیں رہ سکتے یہ ناممکن ہے۔ مگر بہرحال وہ حوالے موجود ہیں جو میں آپ کے سامنے ابھی کچھ رکھتا ہوں تفسیر قمی میں سورۃ التحریم کی تفسیر کے ضمن میں یہ درج ہے اور یاد رکھئے کہ تفسیر قمی شیعہ تفسیر ہے۔ اس لئے یہاں کسی تقیہ کی بحث نہیں ہونی چاہئے۔ جب انہوں نے ایک تفسیر لکھی ہے اور خود اپنے ائمہ کے کلام کو نکالا ہے اور اجاگر کرکے سامنے پیش کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک سچی بات تھی جو وہ کررہے تھے کیونکہ کسی آیت کا جو مفہوم یہ سمجھ رہے ہیں اس کی تائید میں حوالے دے رہے ہیں۔ اس کی تائید میں نعوذ باللہ من ذلک منافقانہ حوالے تو نہیں پیش کرسکتے پھر۔ تفسیر قمی میں لکھا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے فرمایا میرے بعد ابوبکر ؓ خلافت پر متمکن ہونگے اور ان کے بعد تیرے والد (یعنی عمرؓ) اس پر حضرت حفصہؓ نے آنحضرتؐ سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے؟ توآپؐ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر ذات نے یہ خبر دی ہے۔
یہ خبر دی تھی کہ نعوذ باللہ منافقوں کے سردار‘ بدترین مخلوق میرے بعد دین پر قابض ہونے والی ہے۔
شرح نہج البلاغہ (یہ شیعہ تفسیر کی کتاب ہے) جز 6 ‘ صہ 293 یعنی حضرت علیؓ کے کلمات کی اس میں تشریح کی گئی ہے بہت حد تک اس میں لکھا ہے۔
فلما صلی ابو بکر الظھر اقبل علی الناس ثم قام علی فعظم من حق ابی بکر وزکر فضلہ و سابقتہ ثم مضیٰ الی ابی بکر فبایعہ فاقبل الناس الی علی وقالوا احسنت۔
پس جب حضرت ابوبکر ؓ ظہر کی نماز پڑھ چکے تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت اور اسلام میں مسابقت کا ذکر فرمایا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی اس پر لوگوں نے آپ سے کہا کہ درست فعل کیا ہے اور احسن کام اچھا کام کیا ہے۔پھر شرح نہج البلاغہ ہی میں دو حوالے درج ہیں۔ یہ دراصل ایک ہی عبارت ہے جس کے دو حوالے دیئے گئے ہیں۔
ایک شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد 2‘ صہ 219
اور دوسری شرح نہج البلاغہ ابن ہشیم مطبوعہ تہران جلد 3
ان دونوں کتب میں وہی حوالہ درج ہے جس کی عبارت میں ابھی آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں ۔
وکان افضلھم فی الاسلام کما زعمت و انسہم للہ و رسولہ الخلیفتہ الصدیق و خلیفتہ الخلیفتہ الفاروق ‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا اور جیسے کہ تیرا دعویٰ ہے ان میں سے اسلام میں افضل اور اللہ اور رسول کے سب سے زیادہ خیر خواہ خلیفہ صدیق ہیں اور پھر خلیفۃ الخلیفۃالفاروق ہیں ۔ میری عمر کی قسم ! ان دونوں کا مرتبہ اسلا م میں عظیم الشان ہے۔ اور بے شک ان دونوں کی موت سے اسلام کو سخت زخم پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں پر رحم فرمائے اور ان دونوں کو ان کے اچھے اعمال کی جزا عطا فرمائے۔ اس میں ایک نقطہ قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ صدیق کو تو خلیفتہ الرسول فرمایا گیا ہے اور حضرت عمرؓ کو خلیفتہ ابی بکر فرمایا گیا ہے اس حساب سے جب حضرت علیؓ کی باری آئے گی تو آپ کو کیا کہا جائیگا ؟ خلیفتہ عثمان ؓ ! اس پہ بھی تو شیعہ غور کریں کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جواب میں بتا دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ کی مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ ابوبکرؓ کے خلیفہ تھے۔
اگر یہ مراد ہو تو پھر آپ کی خلافت بھی کاٹی جاتی ہے۔ مراد صرف یہ ہے بعد میں آنے والا کیونکہ خلیفہ کا ایک معنیٰ یہ ہے ان کے بعد منصب پر بیٹھنے والا تو فرمایا تاریخی نقطہ نگاہ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پہلے ابوبکرؓ منصب خلافت پر بیٹھے۔ پھر آپ کے بعد منصب خلافت پر بیٹھنے والے عمرؓ تھے۔ یہ مراد ہے۔ اس لئے وہ جو میں نے اعتراض اٹھایا ہے شیعوں کی طرف اس کا جواب بھی خود دے رہا ہوں کہ یہ اصل جواب ہے۔ ورنہ اگر تمہیں یہ جواب تسلیم نہیں تو پھر حضرت علیؓ رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں رہتے بلکہ عثمان ؓ کے خلیفہ بن جاتے ہیں۔
اب حضرت علیؓ کی ایک اور روایت سن لیجئے !کترالعمال جلد ۱۳ ‘ صہ ۱۰۔۹ از علامہ علی المتقی متوفی ۹۷۵؁ھ -- ۱۵۶۷؁ء المطبعتہ العربیۃ حلب ۔
اس میں حضرت علیؓ کی یہ روایت درج ہے۔ اس امت کے نبی کے بعد اس کے افضل ترین لوگ ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ تمہارے لئے تیسرے کا نام بھی بیان کروں تو میں اس کا نام بھی بتاتا ہوں۔ اور کہاکوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر ترجیح نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔
یہ اس زمانے کی روایت ہے جب آپ خلیفہ ہوچکے تھے۔ منصب خلافت پر فائز ہوچکے تھے۔ جبکہ خود شیعہ تشریح کے مطابق تقیہ کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اگر نعوذ باللہ پہلے تھی۔ ہم تو اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔ تو جب خود منصب خلافت پر بیٹھ چکے تھے پھر تقیے کا کونسا موقعہ تھا؟
فرماتے ہیں افضل ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور کوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔ اب یہ بھی ہمارے میر صاحب (Mir Ahmad Ali) شکر کریں کہ اس زمانے میں نہیں پیدا ہوگئے۔ پتہ نہیں کیا حال ہونا تھا۔ جو یہ باتیں کہہ چکے ہیںان پر تو چمڑی ادھیڑ دی جاتی ساری اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں۔ پھر فرماتے ہیں’’آخری زمانے میںایک قوم ایسی بھی ہوگی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرینگے اور ہمارا گروہ ہونگے لیکن وہ اللہ کے شدید بندے ہونگے جو ابوبکرؓ اور عمرؓ کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ تو وہ شیر خدا نے کیسا الٹایا ہے؟ اور حضرت علیؓ کی زبان سے الٹا دیا۔وہ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کو ’’شرالناس‘‘ کہتے تھے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ تم شر الناس ہو۔ جو ان خدا کے پاک بندوں کو شرالناس کہہ رہے ہو۔
پھر حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔ یہ منار الھدیٰ صہ۲۷۳ سے روایت لی گئی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا۔
’’جب ابوبکرؓ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عمرؓ کو بلا کر انہیں خلیفہ مقرر کیا۔ پس ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور خیر خواہی کی۔ اور حضرت عمرؓ امر خلافت کے والی ہوئے۔ پس آپ کی سیرت نہایت پسندیدہ اور آپ کی خلافت حد درجہ بابرکت تھی۔‘‘
یہ ہیں خدا کے متقی لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہیں کرتے بلکہ محبت کرتے ہیں۔ اور حضرت علیؓ کی زبان سے آپ کسی شیعہ کتاب میں آپ کوئی حوالہ نہیں پڑھیں گے کہ انہوں نے نعوذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے خلاف تبرا کیا ہو۔ یہ بدبخت رسم اس زمانے کی ہے ہی نہیں۔ یہ بعد کی باتیںہیں۔ شیعہ عوام الناس بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے ہمارے ساتھ۔یہ مجلسی لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں اور اپنا دین تو ناپاک بناتے ہی ہیں ۔عوام الناس کا بوجھ بھی ان پر پڑے گا۔ یہ بار بھی ان کی گردنوں پر ہوگا جب یہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونگے۔کشف الغمہ کا اب ایک حوالہ سنئے ! بڑا فیصلہ کن حوالہ ہے۔ اوریہ چوتھے امام ہیں۔ حضرت امام زین العابدینؒ۔
حضرت علیؓ پہلے امام۔ حضرت امام حسن ؓ دوسرے امام حضرت امام حسینؓ شہید کربلا تیسرے امام اور چوتھے امام جن کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ شیعہ عقائد میںحضرت امام زین ؒ العابدین ہیں۔ کشف الغمہ میں ہے۔
سعید بن مرجانہ نے کہا کہ میں ایک دن علی بن حسین امام زین العابدین کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ اہل عراق مین سے آپ کے پاس آئے ۔ تو انہوں نے ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں (یعنی حضرت امام زین ؒ العابدینکے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے حضرت ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں ) جب وہ اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو امام زمین العابدین نے فرمایا:کیا تم مجھے نہیں بتائو گے کہ آیا قرآن میں جو لکھاہے کہ تم وہ مہاجرین اولین ہو جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکالے گئے۔ وہ اللہ کی بخشش اور رضامندی چاہتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے رہے اور یہی لوگ سچے ہیں۔ کیا تم وہی ہو ؟ باتیں بنانے والے۔ کیا تم اس گروہ سے تعلق رکھتے ہو جو اس طرح خدا کی خاطر اولین مہاجرین میں سے پیدا ہوئے جنہوں نے رسولؐ کا ساتھ دیا جن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ وہ ان سے راضی ہوا۔ ان کے ساتھ یہ سلوک فرمائے گا۔ تم وہ تو نہیں ہو ناں؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو نہیں ! ہم تو بعد کے پیدا ہونے والے لوگ ہیں وہ کیسے ہوگئے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ایسا نہیںہے ہم تو ان مہاجروں میں سے نہیں ہیں۔کہا: اچھا تو کیا تم ا ن لوگوں میں سے ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ مدینہ میں یعنی مہاجرین کے آنے سے پہلے رہتے تھے اور ان کے آنے سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور وہ ان سے محبت رکھتے تھے۔ جو ان کے پاس ہجرت کرکے آئے اور اپنے دلوں میں اس مال کی نہ رکھتے تھے جس سے ان کو دیا گیا۔ اور اپنے نفسوں پر مہاجرین کو ترجیح دیتے تھے خواہ خود ان پر تنگی ہو۔
پوچھا : کیا تم وہ انصار ہو۔ جنہوں نے آنے والوں کیلئے ایسی ایسی قربانیاں پیش کی تھیں۔ کہ بعض حاضر ہوئے رسول اللہؐ کی خدمت میں کہ ہمارے بعض بھائی غیر شادی ہیں ہماری ایک سے زائد بیویاں ہیں اگر حکم ہو تو ہم ان کو طلاقیں دے دیتے ہیں تاکہ ان کی ان سے شادیاں کروادیں۔ اور ہم اپنے گھر پیش کرتے ہیں اور اپنے مال پیش کرتے ہیں۔ نصف نصف کردیں ان کو جہاں سے چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ خدا کی خاطر ان کے مال لوٹے گئے۔
امام صاحبؒ نے فرمایا : بتائو کہ تم وہ انصارؓ ہو جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے یا کچھ اور لوگ ہو؟
انہوں نے کہا : نہیں نہیں ہم وہ تو نہیں ہیں۔
پھر حضرت امام زین ؒ العابدین نے فرمایا : آگاہ رہو تم نے دونوں گروہوں میں سے ہونے کی برأت کردی ہے۔ یعنی قرار کرلیا ہے کہ ان دونوں گروہوں مین سے تم نہیںہو مان بیٹھے ہو۔ اپنے اوپر فرد جرم قائم کرلی ہے۔ اب اگلی بات سن لو اور میںیہ گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخری حصہ میں فرمایاکہ جو لوگ ان کے زمانے کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے۔ ان مہاجرینؓ کو بھی بخش دے۔ ان انصارؓ کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مومنوں کاکینہ نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب! توبہت مہربان اوربے انتہا کرم کرنے والاہے۔ کتنی عظیم الشان دلیل ہے اور کیسے علم کیساتھ ان بدبختوں کو جواب دیا گیا ہے۔ پہلے پوچھا تم مہاجرینؓ تو نہیں ہو ناں؟ کہا نہیں نہیں۔ انصارؓ؟ نہیں نہیں انصارؓ ہم کیسے ہوگئے۔ کہا تم نے دو گواہیاں دے دیں۔ اب میری گواہی سن لو کہ اس آیت میں جن نیک لوگوں کا ذکر ہے کہ ان پہلوںپر سلامتیاںبھیجتے اور دعائیں کرتے تھے اوریہ عرض کیا کرتے تھے اللہ سے ،خدا سے کہ اے خدا ! کبھی ان کا کینہ نہ ہمارے دل میں پیدا ہونے دینا۔ میں گواہی دیتا ہوں تم وہ نہیں ہو۔ تم کینہ ور لوگ ہو۔ اٹھ جائو اور میری مجلس سے الگ ہوجائو۔ یہ کونسا تقیہ کا موقع تھا اس وقت ؟ اور دلیل اتنی مضبوط ہے کہ تقیہ اور غیر تقیہ کا سایہ بھی اس آیت پہ نہیں پڑ سکتا کوئی۔ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان چڑھا ہواسورج ہے،
٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 11 رمضان المبارک
آج 157 آیت سے شروع کرنا ہے نا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین کفروا ……… و استغفرلھم و شاور ھم فی الامر ج فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ط ان اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران160-157)
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو ان کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے انکار کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا اذا ضربوا فی الارض جب وہ زمین میں سفر پر نکلے یا غزوے کے لئے سفر اختیار کیا‘ او کانوا غزی۔ لوکانوا عندنا ماماتوا۔ اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تو کبھی نہ مرتے وما قتلوااور نہ قتل کیے جاتے لیجعل اللہ ذٰلک حسرۃفی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ بات ان کے دلوں میں یہ ہمیشہ حسرت بنائے رکھے واللہ یحی و یمیت جبکہ اللہ ہی ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے واللہ بما تعملون بصیر اور اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔ سورہ آل عمران آیت 157۔
کل جو بحث گذری تھی جس میں میں نے حضرت امام زین العابدین کی ایک روایت بیان کی تھی کہ ایک آیت کے حوالے سے انہوں نے بعض ایسے بد زبانی کرنے والوں کی سرزنش کی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہ کے خلاف بد زبانی کرنے والے تھے۔ اس میں وہ پوری آیت یکجائی صورت میںپڑھ کرنہیں سنائی تھی۔ تو اب میں آپ کو سنا دیتا ہوں۔ وہ تین حصوں میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ تینوں ایک ہی آیت سے تعلق رکھنے والے مختلف حصے ہیں جن سے حضرت امام زین العابدین نے استنباط فرمایا۔ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار و الذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم O لیکن اس میں اگلی جو دعائیہ تھی؟ دوسری آیت؟ نہیں یہ۔ وہ کہاں ہے یہ تو وہ نہیں ہے۔ اکٹھی کیوں نہیں رکھی؟ پھر یہ بات ہے ناظاہر کرنے والی اسی لئے میں نے کہا تھا کھول کر بیان ہوجانا چاہئے ریفرنس ایک ہی آیت کا دے رہے ہیں یا دو آیتوںکا دے رہے ہیں۔ دو آیتوں کا الگ الگ دے رہے ہیں۔ یہ آیت …والی نکالیں ناں وہ جو دوسری آیت ہے حشر کی۔یہ پوری لکھی ہوئی ہے؟ پوری ہے اچھا۔ ایک آیت سے دو استنباط انہوں نے فرمائے۔ دو حصوں میں۔ ایک مہاجرین سے متعلق اور ایک انصار سے متعلق اور وہ یہ آیت تھی جس کی میں نے تلاوت کی ہے۔ تیسرا حصہ جو استنباط کا ہے اس کا اس آیت سے تعلق نہیں بلکہ ایک اور آیت سے وہ استنباط فرمایا۔ وہ آیت سورہ حشر کی نویںاور پھر گیارھویں لکھا ہوا ہے؟ ایک آیت نو اور گیارہ کس طرح ہوگئی۔ نو دو گیارہ تو ہوسکتا ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ ایک ہی آیت میںسارامضمون ہے۔ یہ اس میں سارا نہیں آجاتا اس آیت میں،میں ابھی آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ پھر دیکھیں گے کہ آیا دوالگ الگ آیتوں سے مضمون لیا گیا تھا یا کہ ایک ہی آیت کے مختلف حصے ہیں یا اوپرتلے آنے والی آیات سے۔ کونسا ہے یہ؟ یہ تین آیتیں ہیں اوپر تلے ایک ہی سورۃ کی، اس سے تین استنباط فرمائے گئے ہیں۔ اس ایک آیت میں دو جگہ دو باتیںاکٹھی ہوگئیں اس لئے غلطی سے وہ آیت پیش کردی گئی ہے ۔اصل جو تین آیات ہیں جو اوپر تلے مسلسل چل رہی ہیں ان کو چھوڑ کر دو الگ الگ جگہوں سے آیتیں ڈھونڈنے کا مطلب ہی کوئی نہیں۔ یہ ہے اصل۔ جہاں سے میں پڑھ کے سناتا ہوں۔
للفقراء المھجرین الذین ……………… ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاللذین امنوا ربنا انک رؤف’‘ رحیم O
اس کا مطلب یہ ہے۔ مضمون یہ چل رہا ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو کبھی غنیمت حاصل ہوتی ہے یا اور اس قسم کے فوائد پہنچتے ہیں ان کے مصارف میں ایک مصرف یہ ہے کہ مہاجرین پر بھی اس کو خرچ کیا جائے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو پانچواں حصہ کیا جاتا تھا۔ یہ خیال بالکل جھوٹا اور باطل ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر استعمال کرکے اس حصے کو خالصتہً اپنے لئے وقف کرلیتے تھے۔ بلکہ اس کے مختلف مصارف تھے جن میں سے اپنے اوپر کم سے کم تھا اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں اور محتاجوںکے لئے جن کی فہرست قرآن کریم نے خود مرتب فرمائی ہے۔ اس ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ للفقرآء المھاجرین الذین ساخرجوا من دیارھم ان مہاجروں کے لئے بھی ہیں جو فقراء ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ اخرجوا من دیارھم جو اپنے گھروں سے نکالے گئے واموالھم اور اپنے مالوں سے جدا کئے گئے۔ان سے اموال چھین لئے گئے یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا ً لیکن ایسے فقیر نہیں ہیں کہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ باوجود اس کے کہ انکے پاس کچھ بھی نہیں رہا صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ اسی سے دنیاکے فضل بھی طلب کرتے ہیں اور اسی سے اس کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ وینصرون اللہ و رسولہ اولئک ھم الصادقون اور جو کچھ بھی ان کے پاس ہے یا نہیں ہے‘ جس حالت میں بھی وہ ہیں وہ ہمہ وقت اللہ اور اس کے رسول کی مدد پر تیار رہتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو صادق کہلاتے ہیں جو سچے لوگ ہیں یہ ہیں وہ مہاجرین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یا بعد میں آئے اور ان سب میں وہ سب بزرگ شامل ہیں جن کے اوپر میر احمد علی صاحب نے زبان دراز کی ہے اور دیگر شیعہ بھی بہت سے ‘ اللہ کرے کہ سب نہ ہوں ا نکو گالیاںدینا اوران پر لعنتیں ڈالنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور قرآن یہ فرما رہا ہے اسی طرف حضرت زین العابدین نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ ان آیات کی طرف کہ پڑھو یہ آیت کہ تم خود وہ مہاجرہو ایسی باتیں کررہے ہو بیہودہ۔ جن کے متعلق خدا نے یہ فرمایا تھا۔ یہ بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے مطلب یہ ہے کہ تم وہ نہیں ہو جن سے خدا راضی ہوا تھا۔ تم وہ ہوکہ جن سے خدا راضی ہوا ان کے متعلق بکواس کررہے ہو پھر دوسری آیت یہ ہے۔
والذین تبوء و ا الدار و الایمان من قبلھم وہ لوگ جو تبؤ و الدار والایمان جنہوں نے اپنے گھر تیارکئے والایمان اور ایمان من قبلھم ان سے پہلے ہی۔مطلب یہ ہے کہ ان کے آنے سے پہلے۔ مہاجرین کے مدینہ پہنچنے سے پہلے کچھ ایسے نیک لوگ مدینے میں تھے جنہوں نے ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنے گھر بھی تیار کئے اور اپنے ایمانوں کو بھی سجایا اور بہت خوبصورت اندازمیں ان کی مہمان نوازی کے لئے تیار ہوئے یحبون من ھاجر الیھم وہ ہراس شخص کو جو ان کی طرف ہجرت کرکے آتا تھا اس کووہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس سے بہت پیار کرتے تھے اپنے اوپر چٹی نہیں سمجھتے تھے۔ ولا یجدون فی صدور ھم حاجۃًمما اوتوا اور کبھی ان کے دل میں اس چیز کی تمنا پیدا نہیں ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی۔ یعنی مہاجرین پرجو خدا نے فضل نازل فرمائے بعد میں کئی طرح کے ان کو بھی خداتعالیٰ نے تجارتوں کے موقعے دیئے دولتمند ہوئے۔ اپنا سب کچھ ان کیلئے حاضر کردیا لیکن ان کے مال میں کبھی حرص کی نظر نہیں ڈالی۔ نہ دل میں تنگی محسوس کی کہ یہ لوگ کیوں اتنے امیر ہورہے ہیں اور اتنے اللہ تعالیٰ ان پر فضل نازل فرما رہا ہے۔ مما اوتوا میں یہ بھی مراد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی ان کے لئے کچھ مال الگ کیا ان پر کچھ خرچ کیا اس وجہ سے کہ وہ سب کچھ گنوا بیٹھے تھے اس پر ان کے دل میں کوئی جلن پیدا نہیں ہوئی یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے ۔ ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃکہ ایسے پاک باز لوگ ہیں کہ باوجود سخت تنگی کے خود بھی شدید مالی بحران کا شکار ہوں۔ تب بھی دوسروں کو اپنے نفسوںپر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی خاطر ان پر خرچ کرنے والے ہیں۔ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون اور سچ بات تو یہی ہے کہ جو دل کی کنجوسی سے بچایا جائے وہی ہے جو کامیاب ہونے والا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں۔
والذین جاء وا من بعدھم ۔ یہ آیت پڑھ کر یعنی اس آیت کا مضمون بیان کرکے حضرت زین العابدین یہ دوسرا حصہ بیان کرکے فرماتے ہیں۔ اعتراض کرنے والوںسے پوچھتے ہیں کہ تم وہی ہو جن کی یہ کیفیت تھی کہ مہاجرین پر جانیں نچھاور کرنے والے مال لٹانے والے ان کو جو خدا نے فضل دیئے ان سے قطعاً دل میں کوئی بوجھ محسوس نہ کرنے والے اورباوجود سخت تنگی پھر ان کی خاطر کے اپنے نفسوںکا حق مار کر ان پر اموال خرچ کرنے والے کیا تم وہی لوگ ہو؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو وہ لوگ نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تم ان پر بھی زبانیںدراز کررہے ہو۔ جنہوں نے یہ قربانیاں کی تھیں پھر ایسے لوگ بھی تھے جو بعدمیں آئے ان کی تعریف کیا بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے۔ و ہ کیسے پاک لوگ تھے جو ان کے بعد آئے۔ لیکن پھر بھی خدا کے ہاں پاک بازوں کی فہرست میںلکھے گئے۔ وہ ہیں والذین جاء وا من بعدھم پھروہ لوگ جو ان کے بعد آئے یقولون ربنا اغفرلنا و لاخواننا وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے الذین سبقونا بالایمان جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے وہ پہلے لوگ جوپہلی نسل سے تعلق رکھنے والے ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا اور اے خدا ان ایمان لانے والوں کے خلاف ہمارے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ داخل ہونے دینا۔عجیب پاک تعلیم ہے۔ کبھی ہمارے دل میں کوئی کینہ ان کے متعلق داخل نہ ہونے دینا۔ ربنا انک رؤف رحیم ۔ اے اے خداتو تو بہت ہی مہربان اور بار بار رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت زین العابدین نے ان ظالموں کو مخاطب کرکے پوچھا آخر پہ کہ تم تو وہ تو نہیں تھے بہرحال وہ صحابہؓ تھے پہلے کے۔ تم ان میں ہو؟ تم تو ان میں بھی نہیں ہو۔ لیکن یہ کہنے کی بجائے فرماتے ہیں پہلی دو گواہیاں تو تم نے دیدیں کہ نہ تم مہاجرین میں سے ہو نہ انصار میں سے ہو۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اے بدبختو ! تم ان میں سے بھی نہیں ہو۔ کیونکہ تم نے ان کے خلاف زبانیں دراز کیں اور اپنے دلوں میں کینے پالے۔ یہ پاک مسلک ہے جس کے اوپر امت محمدیہ آج اکٹھی ہوسکتی ہے اس کے سوا کوئی مسلک نہیں ہے جس پر امت محمدیہ اکٹھی ہوسکے پس جو پہلے بزرگ گزر گئے ہیں ان کے متعلق یہ بحثیںبیہودہ اور لغو ہیں چھوڑ دو ان بحثوں کو کہ کس کا کیا قصورتھا۔مجھ سے تو جماعت احمدیہ میںکئی دفعہ سوال جواب کی مجالس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے مجالس میں‘ میں ان کو یہ کہتا ہوں کہ تم ان لغو باتوں میں پڑو ہی نہ۔ کبھی اچھا لگتا ہے کہ بچے بیٹھ کے ماں باپ کے متعلق باتیں کررہے ہوں کسی کی کیا غلطی تھی‘ کسی نے کیابیہودہ بات کی تھی‘ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ وہ بزرگ ہیں سارے جو خدا کے حضور حاضر ہوچکے ہیں‘ اورقیامت کے دن فیصلہ اللہ نے دینا ہے نہ کہ تم نے یا میں نے۔ ہم میں سے تو کوئی نہیں بلایا جائے گا ۔ پھر تاریخ کے ایک ایک صدی کا ایک پردہ حائل ہے جس میں کئی پردے اور بھی ایسے ہیں‘ جن سے باتیں مشتبہ ہوگئی ہیں تو چودہ سو سال کے ایسے پردے ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہیں‘ اس میں کئی قسم کی مشتبہہ روایات ہیں‘کئی قسم کی‘ کے شبہات ارادۃً بھی داخل کئے گئے‘ کئی ایسے ہیں جو بغیر ارادے کے داخل ہوگئے۔ تو ساری تاریخ کے پردوں میں سے گزر کر ہم آج عالم الغیب و الشہادۃ بنتے ہوئے یہ فتوے دینا شروع کریں ان لوگوں کے متعلق ‘ جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے کہ انہوں نے یہ ظلم کیا انہوں نے وہ ظلم کیا‘ ان کو گالیا ں دینا‘ ان پر لعنتیں ڈالنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ یا کسی کے ایمان کا حصہ ہے ‘ یہ حد سے بڑی جہالت اور ایمانی خود کشی ہے۔پس اخلاقاً بھی یہ بات زیب ہی نہیں دیتی قطع نظر اس کے کہ کوئی غلطی تھی کہ نہیں تھی۔ ان بزرگوں کے معاملات اللہ کے سپرد کردیں‘ اور ابتدائی اختلافات کو اس طرح نہ چھیڑیں کہ آپ حکم بن کر لوگوں کے خلاف فتوے دینے شروع کریں۔ کئی لوگ فتویٰ مانگتے ہیں جنگ صفین میں کیا ہوا؟ جنگ جمل میں کیا ہوا؟ کس کو تم کیا کہو گے؟ میں کہتا ہوں میں کسی کو کچھ نہیں کہوںگا۔ میرے نزدیک تو وہ ان گروہوں میں سے تھے جن کا ان تین آیات میں ذکر ملتا ہے۔ اللہ مالک ہے وہ جس سے چاہے بخشش کا سلوک فرمائے گا۔ جس سے چاہے اس سے سرزنش فرمائے گا مگر ہمارا نہ کام ہے نہ ہم اس بات کے اہل ہیں‘ نہ ہماری مجال ہے کہ ان بزرگوں کے متعلق آج بیٹھ کر فتوے دینا شروع کریں اور عدالت کی کرسی جمائیں اور ان کو اپنے سامنے فریقین بنا کرحاضر کریں۔ پس یہ وہ معصوم موقف ہے جو میں جماعت احمدیہ کو سمجھاتا ہوں کہ اس کو چمٹے رہنا چاہئے۔ ہاں جب گفتگو بحثوں میں چل پڑتی ہے‘ ایک دوسرے کے جواب دینے کے لئے‘ جب بعض ظالم بعض پاک لوگوں پر حملہ کرتے ہیں‘ تو ان کے دفاع کی خاطر محض دفاعی حد تک جہاد کرنا فرض ہے۔ مگر دفاع سے آگے بڑھ کر دوسرے بزرگوں کو کے اوپر ‘ کو حرف تنقید کا نشانہ بنانا یہ درست نہیں وہاں رک جایا کریں۔ جہاں دفاع ہوا وہاں بات ختم ہوگئی۔ کبھی انسان جذبات سے مجبور ہوکر کوئی غلطی کر بھی بیٹھے تو استغفار کرنا چاہئے ۔ مگر دفاع تک ہمارا حق بھی ہے‘ فرض بھی ہے۔ اس سے زیادہ آگے بات کو بڑھانا جائز نہیں۔ یا بعض لوگ بڑی جلدی کردیتے ہیں‘ ہاں پھر اس صورت میں حضرت عائشہؓ نے یہ کیا ہوگا پھر‘ یہ فتویٰ لگے گا ان کے اوپر‘ یا حضرت علیؓ کے اوپر یہ فتویٰ لگے گا نعوذ باللہ من ذلک‘ کیونکہ ان کے مقابل‘ خارجیوں کے مقابل پر نعوذ باللہ من ذلک ‘ یہ غلطی کر بیٹھے‘ یہ غلطی کر بیٹھے بعد میں حضرت عثمانؓ کے قاتلوںکو سزا دینے کی بجائے‘ یعنی کئی قسم کے الزامات لوگ لگاتے رہتے ہیں یہ سب بے ہودہ‘ لغو بحثیں ہیں‘ جماعت احمدیہ کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے‘ سوائے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفاعی لوازم کے پیش نظر جو ہم پر فرض ہوجاتے ہیں‘ ہمیں کچھ نہ کچھ اب بزرگوں کا دفاع کرنا پڑے گا‘ اپنے بزرگوں پر حملہ نہیں کرنا۔ یہ تھی وہ ‘ وہ تین آیات تھیں‘ جن کے حوالے سے حضرت امام زین العابدین نے بات فرمائی اور حضرت امام باقرکے متعلق بھی ایسی ہی روایت ملتی ہے کہ آپ نے بھی انہی سے استنباط کرتے ہوئے بعض مخالفین کے دانت کھٹے کئے تھے۔
اب میں اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں۔لیجعل اللہ ذلکیہ پورا پڑھ چکا ہوں میں۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجہاں تک لفظ ضرب کا تعلق ہے یہ خاص طور پر قابل ذکر بات ہے کہ جو عیسائی مستشرقین ضرب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس کے معنے لکھتے ہیں۔جو ایسا سفر جو تجارت کی غرض سے کیا جائے اور دوسرے سفر معنیٰ نہیںدیتے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے سفر صرف دو تھے اور کوئی غرض ہی نہیں تھی یا وہ تجارت کے لئے نکلتے تھے یعنی مال و دولت کے لئے یا لوٹ مار کے لئے جہاد کرنے کیلئے‘ تیسری کوئی ان کی غرض نہیں تھی اور اس کا لغوی معنیٰ ضرب کا صرف یہی دیتے ہیں کہ مالی اغراض کے لئے سفر اختیار کرنا۔ویری صاحب کہاں گئے؟ Bell ہیاعر یہ ہیں۔ یہ نہیںہیں اس میں کہاں ہیں حوالے؟ اچھا وہ دوسری آیت میں دکھادئیے ہیں میں نے‘ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ساری جگہیں پھول بیٹھا تب آپ کو یاد آیا۔
‏ Watt کہتا ہے منٹگمری واٹ
When the journey for trade is probebly implied just as expeditions or race for booty.
کہتا ہے جس طرح ظاہر ہے غزوات سارے bootyکی خاطر تھے یعنی لوٹ مار کے لئے۔ اسی طرح یہ Trade کا مطلب بھی بالکل واضح ہے کہ صرف اموال کی مال و دولت کی خاطر سفر رہا‘ اور کوئی سفر مراد نہیںہوسکتا۔ یہ Watt صاحب ہیں جن سے عرب شہزادے بڑے فخر سے پڑھنے آتے ہیں اور ان کا یہ بڑا شہرہ ہے کہ وہ منصف مزاج نئی generation کے مستشرق ہیں۔
اور ویری صاحب جو ہیں یہ کہتے ہیںwith a view to merchandiseیہ ترجمہ ہے اس کے سوا کوئی ترجمہ ہی نہیں۔اب ایک اور دلچسپ بات ظاہر ہوئی اس تحقیق میں۔ میں نے جب عربی لغات کا مطالعہ کیا تو مجھے‘ جن کے سپرد میں نے کیا تھا انہوں نے کہاکہ اب ڈکشنریاں تو یہی دیتی ہیں کہ trade کی غرض سے سفر۔ میںنے کہا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے۔ کون سی ڈکشنریاں دیتی ہیں‘پتہ لگا دونوں عیسائی ڈکشنریاں ہیں۔ Lane اور منجد دونوں عیسائیوں کی ڈکشنریاں ہیں اور عجیب ظلم ہے کہ یہ اپنے مستشرقین کو تقویت دینے کے لئے باوجود اس کے کہ بڑے مستند سمجھے جاتے ہیں‘ ان معنوں کوغائب کرجاتے ہیں جن معنوں کو انہوں نے عمداً غائب کیا ہے اور جو مسلمان مصنفین اور بڑے بڑے چوٹی کے علماء کی ڈکشنریاں ہیں ان میں کھل کر سارے معنے بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک یہ بھی ہے اور دوسری اغراض بھی ہیں سب۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ منجد اور lane دونوں ان معنوں کو کھا جاتے ہیں یعنی ان معنوں کو پیش کرتے ہیں کہ تجارت کی غرض سے سفر ہے اور دوسرے معنوں کو کھا جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری ڈکشنریاں جن میں سب سے نمایاں حضرت امام راغبؒ ہیں مفردات راغب‘ وہ بڑی تفصیل سے بحث کرتے ہیں کہ ضرب کا مطلب کسی قسم کا سفر بھی ہے۔ بلکہ ایک بہت ہی عمدہ نکتہ اس سلسلے میں حضرت امام رازیؒ نے بھی اٹھایا ہے وہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا اور اقرب الموارد ہے وہ لکھتی ہے
ضرب فی الارض ضربا و ضربانا ای خرج تاجرا او غاز یا او ا سرع او ذھب۔ اسرع الذھاب فی الارض: فراراً من الفتنکہتا ہے کہ سفر جو ہے ضرب کے تابع سفر کا مضمون اس میں تاجر کی‘ تجارت کی غرض سے سفر بھی شامل ہے۔اور جہاد کی غرض سے سفر بھی شامل ہے اور اسرع اور تیزی سے کسی طرف روانہ ہوا او ذھب یا ویسے ہی چلا گیا ۔اور اسرع الذھاب جب کہتے ہیں تو مراد ہے فتنوں سے بچنے کے لئے تیزی سے اپنی جگہ چھوڑی اور دوسری جگہ چلا گیا ۔ پس وہ تمام مہاجرین جنہوں نے سفر اختیار کیا ‘فتنے سے بچنے کے لئے ‘وہ بھی ذھاب ہے کسی مال ودولت کی خاطر تو نہیں ‘مال و دولت قربان کرکے سفر اختیار کیا ہے ۔مال و دولت تو گھر چھوڑ آئے تھے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں Cliqueان کے یعنی دشمنان اسلام کی جو سازش ہے بہت گہری ہے ۔اس کو اب مسلمان اب پتا نہیں کیوں سمجھتے نہیں ۔آرام سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس ضمن میں میں نے ایک دفعہ غور کیا تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ آج تک کبھی کسی مسلمان کو یہ توفیق نہیں ملی کہ بائبل کی Commentary لکھے جب کہ انہوں نے قرآن کی Commentaryکے اوپر بغض کی وجہ سے ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور ان کی Commentaries کو ہر جگہ Quoteبھی کیا جاتا ہے لیکن کوئی مسلمان مفسر ان کا جواب نہیں لکھتا پھر ۔بڑی دردناک حالت ہے اسلام کی ۔اسلام کے دفاع کے لئے خداتعالی نے احمدیوں کو چنا ہے ‘اور احمدی ہی ہیں جو جواب دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ہمیشہ انشاء اللہ ۔ اس پر جب میں نے جائزہ لیا تو عجیب بات لگی کہ کسی نے کبھی نہ ہندو نے نہ بدھ نے نہ زرتشی نے نہ کنفیوشس کے ماننے والے نے ان کی کتابوںپر کمنٹریاں لکھی ہیں اور انھوں نے ان کی کتابوں پر لکھی ہیں یعنی یہ جو ایک خاص دور تھا کالونی ازم کا ‘ Imperialismجب دنیا پر غالب ہوا تھا تو یہ اس کا ‘اس کیPlan کا ‘اسکی سکیم کا ایک حصہ تھا کہ جن جن علاقوں میں جاتے ہو ‘ان کے مذاہب پر حملے کرو اور ان کو عیسائیت کا غلام بنائو ۔اس غرض سے ان لوگوں نے بہت محنتیں کی ہیں ۔مگر نیتیں گندی تھیں ہر جگہ نیتیں Imperialismکو تقویت دینا تھا اور عیسائیت کا فروغ ‘ اس لئے تاکہ ان کے سیاسی عروج کو تقویت حاصل ہو ۔اور مسلمانوں نے خصوصًا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کس قدر بے حسی کا نمونہ دکھایا ہے کہ مقابل پر آگے بڑھ کر ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو یہ ہم سے کر رہے تھے جب کہ بہت زیادہ گنجائش ہے ۔اس لئے میں نے یہاں ایک ٹیم تیار کرنی شروع کی ہے احمدی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ‘جن سے میں ریسرچ کے کام لے رہا ہوں اس وقت ۔بہت سے حوالے جو مختلف مستشرقین کے ملتے ہیں وہ ان بچوں اور بچیوں نے تیار کر کے مجھے دیے ہیں اور بہت سی پروجیکٹس شروع کی ہوئی ہیں اور ‘ اور Bible Study Projectsبہت سی ایسی ہیں جن میں یہ بہت اخلاص سے حصہ لے رہے ہیں ۔بیسیوںاحمدی لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو تیار ہو رہے ہیں ان کو میں نے یہ بتایا ہے کے بالآخر میں نے تمہیں بائبل کی Commentaryلکھنے کے لئے تیار کیا ہے ۔میں Specialiseکروں گا مختلف حصوں میں اور اگر خدا کے کے نزدیک میرا یہاں کچھ عرصہ اور ٹھرنا مقدر ہو تو انشاء اللہ اپنی نگرانی میں یہ کام شروع کروا دوں گا ۔ جہاں تک بائبل کی Commentaryکا تعلق ہے یہ خیال آج کا نہیں ہے بلکہ پارٹیشن کے بعد جب ہم ربوہ آئے تو شروع دنوں ہی میں ‘میں نے یہ کام شروع کردیا تھا ۔وقف جدید میں ‘میں ان دنوں میں ہوتا تھا وہ خالد مسعود جو آجکل ناظر صاحب امور عامہ ہیں ‘ان سے بھی مدد لیتا رہا ہوں دوسرے علماء سے بھی ‘مولوی بشیر صاحب قادیانی کو بھی ایک دفعہ اس کام پر لگایا تھا تو ان سب سے مدد لیتے ہوئے وہ آیتیں اکٹھی کرواتا رہا جن کے مقابل پر کچھ بائبل کے بیان ہیں اور ان کو آمنے سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔اور جو بات سامنے ابھری ہے بڑی کھل کر ‘جس کو آئندہ تمام تحقیقات انشاء اللہ ہمیشہ تقویت دے گی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی بائبل کے کسی حوالے کو گویا سامنے رکھتے ہوئے بات کی ہے کبھی بھی وہاںنقل نہیں اتاری ۔بلکہ بائبل کے حوالے میں جہاں تائید کی ہے وہ صرف وہی ‘اتنی جگہ ہے جس کو عقل تسلیم کرتی ہے ۔اور جس حصے کو چھوڑ دیا ہے اس کو قابل ذکر ہی نہیں سمجھا اور ہر معقول آدمی سمجھے گا کہ ہاں یہ قابل ذکر بات ہی نہیں ۔اور جہاں اختلاف کیا ہے وہاں ہمیشہ نامعقول بات پر اختلاف کیا ہے ۔اور نامعقول بات کو اللہ کی طرف منسوب نہیں فرمایابلکہ بائبل پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ ہے اللہ کا کلام ‘جس کی ہم تصدیق کرتے ہیں ۔جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور تاریخ بھی اس کے حق میں گواہی دیتی ہے ۔یہ ہے ناقابل ذکر فضول باتیں جو لوگوں نے بیچ میں داخل کر دیں ‘لیکن کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں ۔اور یہ وہ بات ہے جس کی درستی ضروری ہے اللہ نے یہ کہا تھا یہ نہیں کہا تھا ۔اور بعض لکھنے والوں نے یا بعد میں باتیں بنانے والوں نے یہ باتیں بائبل کی طرف منسوب کردیں ‘تو بائبل کی تائید کی یہ مراد ہے ۔اس کے حق کی تائید نہ کہ اس کے ناحق کی تائید ۔اس کے طرف جو جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں ان سے بائبل کی صفائی کرنا یہ ایک عظیم الشان خدمت ہے جو بائبل کی کی گئی ہے اور اس پہلو سے جب تحقیق کو میں نے آگے بڑھایا تو جہاں تک میں پہنچ سکا ‘ہمیشہ بلا استثناء ان تینوں محرکات میں سے ایک موجود پایا ۔اور اس بناء پر یہ تحقیق لازم ہے ان کو دکھایا تو جائے کہ تم ہو کون لوگ ۔تم کیا ظلم کرتے آئے ہو اپنی کتابوں سے ۔اور بائبل کی حقیقت کیا ہے اسے قرآن بہتر سمجھتا ہے تم سے اور ایسا بہتر سمجھتا ہے کہ روز روشن کی طرح قرآنی بیان ظاہر اور کھل جاتا ہے اور خود بخود دلوں کو تسلیم کراتاہے ۔تو اس پہلو سے یہ سٹڈی ہوگی ۔میں یہ اعلان یہاں اس لئے کرنا چاہتا ہوںاس غرض سے کررہا ہوں دراصل کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ جہاں عیسائیوں نے بہت کام کئے ہوئے ہیں اور بائبل پر جب سٹڈی ہوگی تو ان سب کی‘ بڑا وسیع کام ہے‘ ان سب کی جو بائبل کی تحقیق ہے اس کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں ‘ مفسرین کی بھی بڑی سٹڈی کی ہے‘ ان کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن ایک فرق ہے اور اس فرق کی طرف بھی میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جو مسلمان تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے اس میں بلا استثناء ہمیشہ ان کو چنا ہے جو خواہ اعتماد میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتی ہوں مگر اسلام کی طرف عجیب و غریب اوٹ پٹانگ خیالات منسوب کرنے میں پیش پیش ہوں‘اور تواریخ میں سے ان کو چنا ہے جن میں ہر قسم کا رطب و یا بس مل جاتا ہے‘ اچھی باتیں بھی ہیں اور لغو اور بے ثبوت باتیں بھی جیسے واقدی ہے۔ اور وہاں آپ پہنچ کر یہ پھر اپنی مرضی سے جو چاہیں اس پٹار خانے سے نکال لیں۔ یہ ان کا طریق ہے۔ احمدی محققین کو تقویٰ کا طریق اختیار کرنا پڑے گا پوری طرح تحقیق کریں اور جو سچ بات ہو اس کو پکڑیں اور بے ہودہ لغو اعتراضات میں اپنا وقت اور ایمان ضائع نہ کریں۔ اس لئے ان کو یہ بھی سکھانا ہے کہ تحقیق ہوتی کیا ہے۔ یہ نہیں کہ ان سے ان کی تحقیق کے رنگ سیکھ کر‘ خواہ وہ بے ہودہ اور خبیث رنگ ہوں‘ انہیں ہم بھی اختیارکرلیں۔ اور دوسرا ‘دوسری وجہ جو بات جو میںیہاں تمام دنیا کے احمدیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ضمن میں جیسا کہ میں نے کہا تھا‘ مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں مستشرقین پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان میں عرب ممالک بھی داخل ہیں۔ Egypt میں بہت بڑا کام ہوچکا ہے۔اور عیسائیوںنے وہاں اڈے بنانے کیلئے غیر معمولی‘ گہری سوچ کے ساتھ مہم جاری کی تھی‘ پھر فلسطین کے علاقے میںبھی اور Syria میں بھی‘ انہوں نے بہت کام کئے ہیں۔ ہندوستان کے بعد اگر وہ دو جگہیں جہاں غیر معمولی طور پر عیسائیت کو تقویت دینے کے لئے اسلام کے خلاف تحقیق ہوئی ہے یا عیسائیت کے متعلق تحقیق ہوئی ہے وہ یہ جگہیں ہیں نمایاں طور پر ۔ مصر ہے فلسطین ا ور شام اور یہ ایک زمانے میں ایک ہی چیز کے دو نام تھے‘ اس لئے جب Greater Syria کہا جائے اس میں فلسطین شامل ہوجاتا ہے یا Greater Palestine کہہ دیں تو Syria داخل ہوجائے گا۔ یہاں جو احمدی بستے ہیں‘ ان کو بھی اپنی ٹیمیں بنانی چاہئیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان خواہ ان کا یہ مضمون ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہاں جو میں نے دوست چُنے ہیں‘ رفیق حیات صاحب ماشاء اللہ اس معاملے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں ٹیمیں بنانے میں اور اب وہ صدر تو نہیں لیکن کیونکہ تجربہ ان کو کافی ہوچکا تھا اس لئے ان سے میں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے ذریعے سے ٹیمیں حاصل کیں اور لڑکیوں میں نویدہ شاہ ہیں‘ انکو اللہ نے خاص ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ بچیوں کا دل موہ لیتی ہیں۔ان کو اپنے ساتھ دینی کاموں میں شامل کرتی ہیں۔ اس طرح یہ ٹیمیں بنائی گئی ہیں اور ٹیمیں صرف ان لوگوں سے نہیں چنی گئیں جو دینی علوم کی‘ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں کسی قسم کی‘ یا عربی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں‘ کوئی Scientist ہے ‘کوئی کمپیوٹر کا Specialist ہے کوئی کسی اور دنیا کی سائنس میں ماہر ہے کوئی Accounts کاماہر ہے۔مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ہیں۔ ان کو تربیت دی جاتی ہے خاص Projects دے کر کہ تم نے اس Project پر سٹڈی کرنی ہے۔ بائبل کی Authenticity کیا ہے ۔ کب یہ تحریرمیں آئی اور خود ان لوگوں نے کیا ثابت کیا ہے کہ کس حد تک ہم اس پر اعتماد کرسکتے ہیں‘ ان کی Sources دیکھتے جائو۔ چنانچہ عجیب و غریب دلچسپ چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ اور بہت سی اور Projects ہیں جو ہم قریباً دو سال سے ان کے اوپر محنت کررہے ہیں اور بعض دفعہ تو ہر ہفتے دو تین ملاقاتیں ان گروپوں سے ضرور ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ Projects پیش کرتے ہیں پھر ان کے اوپر گفتگو ہوتی ہے ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ ا ب یہ راستہ اختیارکرو‘ یہ راستہ اختیار کرو وغیرہ وغیرہ۔ تو اس طرح کی Projects اکثر بڑے بڑے ملکوں میں جہاں ان کو چلاناممکن ہے‘ شروع کردینی چاہئیں‘ یورپ میںخصوصیت سے ہمیں دقت یہ پیش آتی ہے کہ جرمن محققین نے عیسائیت پر بھی بہت تحقیق کی ہوئی ہے اور اسلام پر بھی بعضوں نے‘ اور بعضوں نے نہایت معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ جب تک اصل جرمن زبان میں وہ کتابیں پڑھنے کی اہلیت نہ ہو‘ حقیقت میں تحقیق کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ تو جرمن احمدی نوجوان جو خدام کے تابع ہوں اور بچیاں جو لجنہ کے تابع ہوں‘ اس قسم کی ٹیمیں بنا کر ریسرچ ورک شروع کردیں اور وقتاً فوقتاً ان کے خلاصے مجھے بھجواتے رہیں۔ تاکہ میں ان کو شروع سے ہی بتادوں کہ تم صحیح نہج پہ چل رہے ہو یا غلط یا یہاں یہ بہتری کی گنجائش ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح فرنچ میںبہت کام ہوا ہے اور اسلام کے خلاف انتہائی خبیثانہ حملے کرنے والوں میں بھی فرانسیسی مصنفین پیش پیش ہیں اور اسی طرح ان میں نسبتاً نیک مزاج لوگ بھی ہیں‘ اچھے محقق بھی ہیں اور عیسائیت پر بھی بڑی گہری تحقیق ہوئی ہے فرانس میں اور اس پر اسلام پر بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اٹلی ہے‘ اٹلی میں بھی بہت بڑے کام ہوئے ہیں۔ پھر روس کی لائبریری ماسکو کی‘ ساری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ جو ابتدائی اہم کلاسیکل کتابیں ہیں علمی‘ ان میں غالباً ماسکو کی لائبریری کا کوئی جواب نہیں ہے دنیا میں۔ وہاں جو ہمارے احمدی ہوئے ہیں یا اس وقت باہر سے آکر زبانیں سیکھ رہے ہیں‘ ان کا فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے وہاں جائیں اور تحقیق کریں‘ بہت سے تحقیقات کے شعبے ہیں مثلاًبہائیت پر جو تحقیق ہوئی ۔ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ بہائیت کا آغاز روسی انٹیلی جینس کی نگرانی میں ہوا ہے اور اس کا تعلق مغرب سے نہیں تھا یا روس کے علاوہ دوسرے مغربی یورپ سے نہیں تھا بلکہ وہاں ایک ایمبیسی میںایک شخص Posted تھا باقاعدہ اس غرض سے‘ اور مسلسل اس کی رہنمائی اور اس کی ہدایت میں یہ تحریک آگے بڑھتی رہی ہے اور اس میں جو شروع ہی میںہی افتراق پیدا ہوا ہے‘ اس میں بھی اس روسی نمائندہ کے افتراق کے نتیجے میں پھر دو گروہ بن گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یحیی جس کو نقطہ کہا جاتا ہے اور بہاء اللہ جسے اللہ کی بہاء کہا جاتا ہے‘ خدا کا دوسرا نام بہاء کہا جاتا ہے‘ ان دونوں میں جو بہائیوںمیں جو اختلاف ہوا ہے‘ اس میں اس نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ پھر اس نے روس جاکر روسی زبان میں اپنی ایک رپورٹ بھی پیش کی‘ جو اس زمانے میں ان کے رسالوں میں شائع ہوگئی اور وہ اب ہمارے علم میں آئی ہے‘ تحقیق کے دوران‘ اسی ‘ انہی گروہوں نے تحقیق جب شروع کی‘ تو بعض پرانے مقالے نکالے‘ ان میں بعض حوالے دیکھے‘ ان میں اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے پس روس میں جو ان لائبریریوں تک دسترس رکھتے ہیں ہم نے مربی کو بعض حوالے بھجوادیئے ہیں‘ ان کا فرض ہے وہ ان خاص امور کی طرف بھی توجہ کریں اور خصوصی تحقیق کریں۔ کیونکہ محض الزام کافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جائز نہیں ہے کہ محض الزام پر بناء کرتے ہوئے کسی کو کچھ‘ کسی پہلو سے رد کردیا جائے۔ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر الزام کی پوری تحقیق ہو۔ یہاں تک کہ آخر تک پہنچا جائے اور استنباط اس کوکہتے ہیں۔ قرآن کریم جو فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس کیوں نہیں وہ معاملہ پیش کرتے‘ جنہیں خدا نے اس بات کی صلاحیت بخشی ہے کہ تقویٰ اور عقل کے ساتھ کسی چیز کا استنباط کریں۔ تو وہ آپ کو میںدیکھنا چاہتا ہوں جو قرآن نے مومنوں کا تصور پیش کیا ہے۔ اس پہلو سے جو لوگ روس میں میری بات سن رہے ہوں گے ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں لائبریریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تحقیق کو آگے بڑھائیں۔ Spanish میں بھی مل جائے گا لیکن کم۔ کیونکہ Spanish نے تو اسلام کا اپنی طرف سے صفایا کرکے چھٹی کردی تھی ۔ لیکن زیادہ تر جو بعدمیں علمی کام ہوئے ہیں‘ وہ اس دور کی پیداوار ہیں جب کہ سپین سے بھاگنے والے یہودی اسلامی دور کے علوم لے کر مغرب میں پہنچے ہیں اور Sale بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر پر‘ یہ انخلائ‘ سولہویں صدی کے آخر پر بڑا انخلاء ہوا ہے یہود کا۔ 1692ء میں جب کہ کثرت کے ساتھ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا‘ اس سے پہلے مظالم تو جاری تھے لیکن رفتہ رفتہ نکلتے رہے۔ وہ ایک قسم کا Exodus ہوا ہے ان کا وہاں سے۔ اس کے بعد اسلام کی روشنی یعنی جو مسلمان علماء نے روشنی حاصل کی تھی قرآن سے اور دیگر علوم کے مطالعہ سے ‘ وہ ان یہودیوں اور دیگر بھاگنے والوں کے ذریعے فرانس میں داخل ہوئی ہے۔ پھر فرانس سے انگلستان اور جرمنی وغیرہ‘ یہ آہستہ آہستہ اس کا انتشار ہوا ہے۔ اسی دور میں اسلام کے ساتھ شدید عناد رکھنے والے مستشرقین پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ ان کو یہ خطرہ تھا کہ جس سے ہم نے روشنی پائی ہے‘ پہلے تو ہم ان کو ‘ جاہل انگریزوں کی پیداوار سمجھتے تھے‘ یہ تو بڑی‘ بڑے قابل لوگ ہیں۔ اور ان کا کہیں یورپ پر اچھا اثر نہ پڑ جائے۔ پس اس شدید ردعمل کے اظہار پر‘ کے طور پر پادریوں نے پھر اسلام کے خلاف سازشیں بنائی ہیں اور جو بھی مستشرق اس دور میں پیدا ہوئے ہیں‘ وہ چرچ کے پیدا کردہ تھے۔ تو یہ ساری باتیں ابھی تحقیق طلب ہیں مزید۔ تو اس ضمن میں چونکہ یہ ذکر چل رہا تھا‘ میں نے کہا میں اس وقت یہ بھی نصیحت کردوں کہ آپ لوگ اب ہر جگہ کمر ہمت کس لیں‘ وہ جوابی حملے جو ہم نے کرنے ہیں جو مقدر ہیں کہ ہمارے ذریعے ہونگے ‘ ان کا وقت آگیا ہے کہ پوری شدت سے کئے جائیں۔
آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور تن تنہا کیا‘ حیرت انگیز۔ اتنا مقابلہ کیا ہے غیروں کا کہ یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی زندگی اتنا کچھ پیدا کرسکتی ہے۔انت المسیح الذی لا یضاع وقتہیہ الہام ہے‘ اس کا معنیٰ اب سمجھ آتا ہے کہ تو وہـــ‘ اچھاانت الشیخ المسیح الذی لا یضاع و قتاے‘ تو وہ بزرگ مسیحؑ ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ ایک ایک لمحہ خدمت میںخرچ تھا‘ پس اس بزرگ ‘ بزرگ مسیح کے غلام ہو۔ان تحریکات کو جس کو اس نے اکیلے آگے بڑھایا تھا‘ اب چھوڑنا نہیں بلکہ اس نئے دور میں داخل کردینا ہے جہاں بڑی کثرت سے وسیع پیمانے پر ان تمام ملکوںمیں جہاں اسلام کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں‘ ان کی جوابی کارروائیاں شروع کی جائیں اور ہماری نئی نسلیں ان میں جھونک دی جائیں اور ہمارے تربیتی مسائل کا بھی یہی حل ہے۔ کیونکہ یہ توسب بچے اور بچیاں ہیں اگر ان کو اس طرح سنبھالا نہ جاتا تو وہ خود کہتے ہمیں پتہ نہیں ہم نے کیا کرنا تھا اور کیا ہوتے۔ لیکن اب تو ایک نشہ سوار ہوگیا ہے تربیت کا۔ یہاں جب دوسرے اس عمر کے نسل کے لڑکے اور لڑکیاں وہ Drugs سے نشے لے رہے ہیں‘ اور وہ خدمت دین کے نشے میں غرق ہورہے ہیں اور عملاً حالت یہ ہے کہ وہ سب دوسرے کام چھوڑ کر صرف یہ کہہ دیا کرتی ہیں کبھی کبھی بعض بچیاں کہ ہمارے پاس ہونے کی دعا ساتھ کرتے رہنا‘ کیونکہ ہمیںاپنی تعلیم کی کوئی ہوش نہیں رہی۔ تو وہ جذبہ ہے جو خدا کے فضل سے انگلستان کے نوجوانوں نے دکھایاہے اور اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کے نوجوانوں کو بھی چاہئے وہاں بہت گنجائش ہے۔ یہ ویری صاحب جو ہیں‘ جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہ امریکہ کے ہیں۔ ان کا میں یہاں کھوج لگاتا رہا خواہ مخواہ ‘ ہر طرف دیکھا کہیں ان کا نشان نہیں ملتا تھا‘ بعدمیںپتہ چلا کہ امریکہ نے اس زمانے میں بھیجے تھے اور تقریباً 45 سال وہاں رہ کر ہندوستان میں مختلف علاقوں میں رہ کر انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اور نہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں۔انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اورنہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عظیم جہاد اسلام کی تائید میں شروع کیا ہے‘ اب اسے بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوںکہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ فرمائیں گے۔ خواہ ان کاکوئی بھی علم ہو‘ ہم نے دیکھا تھاجامعہ میںعیسائیت کے متعلق مواد وغیرہ‘ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی پیداوار تھی بس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بڑھا کام۔ بہت ہے تو معمولی شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنے طورپر کوئی تحقیق کرلی لیکن یہ ایسی تحقیق نہیں ہے جسمیں ایک آدمی کی تحقیق کافی ہوجائے۔
بے شمار ایسے ایونیوز (avenues) ہیں۔ ایوان ہیں جن میں ٹیموں کی ٹیمیں ہر وقت مصروف کار رہنی چاہئیں۔پس جرمن محققین کو جرمن احمدی سنبھال لیں‘ فرنچ محققین کوفرنچ احمدی سنبھال لیں یعنی عیسائی محققین کو ‘ اور دونوں پہلوئوںسے کام کرنا ہے۔ ایک بائبل کی Study کے متعلق‘جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ہم ان کو ان کی زبان میں سمجھائیں کہ تفسیر ہوتی کیا ہے اور دوسرے قرآن پر جہاں حملے ہوئے ہیں ان کو نوٹ کریں۔ اس ضمن میں مجھ سے رابطے کریںاورمیںپھر ان کو بتائوں گا۔ انشاء اللہ کہ ان کا جواب کس نہج کا دینا چاہئے۔اور کس کس جگہ سے اس جواب کی جستجو ہونی چاہئے یعنی ان میں تحقیق کرو گے تو وہاںجواب مل جائے گا۔
اب یہ بات کہاں سے شروع ہوگئی تھی کہاں چل پڑی ‘ کہاںپہنچی مگر ضروری تھی بہرحال۔ یہ بھی ضرب ہے ایک قسم کی ‘ سفر ہے۔ لیکن مالی اغراض کی خاطر نہیں۔ اسی دروازے سے میں باہر نکلا تھا‘ آپ کویہ بتاتے ہوئے کہ جھوٹے ہیں‘ سازشی ہیں۔ ان کے بغض والے بھی شامل ہوجاتے ہیں‘ ان کے محققین بھی ایکا کرلیتے ہیں اور ایک لفظ کا ایک ہی معنیٰ بیان کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے متعلق یہ تاثر بڑھتا رہے کہ یہ سوائے لٹیرنے کے‘ یا اموال کی غرض رکھنے والے کے‘ رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں تھے انکے سب سفر ‘ یا لوٹ مار کی غرض سے تھے یا تجارت کی غرض سے تھے‘ اورکوئی مقصد نہیں تھا‘ اور قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہسیرو افی الارض
تحقیق کرو دنیا میں‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ کائنات کا مطالعہ کرو ‘ کس طرح زمین و آسمان پیدا کیا گیا ہے۔ زندگی کس طرح پیدا ہوئی ہے۔ اس کو سمجھنا ہے تو دنیا میں سیر کرو اور پھرو۔ قرآن کی یہ تعلیم ہے اور یہ منسوب کیا باتیں کررہے ہیں قرآن کی طرف۔بہرحال یہ میںنے بتایا تھا کہ ضرب کی بحث میں (کہاں گئے وہ ‘ ہیں..... I,m sorry‘ یہ بعد میں آئے گی۔)
غزی‘ غزوًا‘ ضرب کا معاملہ تو حل ہوا۔ غزی غزوًا‘ کسی چیز کا ارادہ کیا‘ کسی چیز کا قصدکیا‘ اسے طلب کیا۔ اس کے بنیادی معنے قصد اور طلب کے ہیں۔ اور جب اسلامی اصطلاحوں میں اس پر غور کیا جائے تو اس سے مراد وہ جہاد ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شرکت فرمائی۔ اسے غزوہ کہا جاتا ہے اور وہ جہاد جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء اور ہدایت پر کیا گیا‘ مگرحضورؐ خود شامل نہ ہوئے‘ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اس کو سریہ کہا جاتا ہے۔ پس سرایا سے مراد صحابہ رضوان اللہ علیہم کی وہ جہادی کوششیں ہیں یا دشمن سے قتال ہے۔ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود شامل نہیں تھے اور قصد سے مراد کیا ہے۔ قصد سے مراد ‘ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔ جہاد ہے ہی وہ جو طلب رضا کے لئے کیا جاتا ہے اور یہ رضا جوئی خواہ تم غالب آئو خواہ بظاہر مغلوب ہوجائو‘ قتل کئے جائو‘ ہر صورت میںاس خالص نیت سے ‘ پر مبنی ہے کہ تم نے سفر کیوں کیا تھا۔ ہر سفر کاآغاز نیت پر مبنی ہے اور غزوہ سے مراد حصول رضائے باری تعالیٰ ہے ‘ اس کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔
مفردات راغب قتل کی بحث میں لکھتے ہیں۔ قتل کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ‘ کسی کو کسی ذریعے سے مار دینا‘ اس پر موت وارد کردینا۔ موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ قتل ایسی موت کو کہتے ہیں جو انسان کے ہاتھوں واقع ہوئی ہو۔ اور اس کے علاوہ موت کی جتنی بھی قسمیں ہیں۔ انہیں قتل نہیں کہا جاتا‘ موت کہا جاتا ہے ۔ مگر قتل کے اور بھی استعمال ہیں‘ قتلت الخمر‘ خمر المائ‘ میں نے شراب کو پانی ملا ملا کر قتل کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ بہت پانی ملایا کہ شراب کی بات جاتی رہی۔ یہ ہمارے ہاں بعض لوگ چائے میں بھی پانی ملا کر اسے قتل کرتے ہیں تو کہتے ہیں بڑھالو ‘ اور مہمان زیادہ آجائیں تو شوربے کو بھی قتل کردیا جاتا ہے اورذلیل کرنے کو بھی قتل کرنا کہتے ہیں ۔ قتلت فلانا قتّلتہ کہ میں نے اسے ‘ اس کا ستیاناس کردیا‘ بہت ذلیل و رسوا کیا۔ پھرایک بہت دلچسپ معنیٰ یہ پیش فرماتے ہیں۔وما قتلوہ یقیناوہ آیت جو ہمارے اور غیرازجماعت علماء کے درمیان مبحث ہے‘ اس کے ‘ اس میںآخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وما قتلوہ یقینااور انہوں نے اسے یقینا قتل نہیں کیا۔اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ یہ یقینی بات ہے کہ انہوںنے اس کو قتل نہیں کیا۔ لیکن آیت کے سیاق و سباق میں چونکہ شک کی بات ہورہی ہے کہ وہ شک میں مبتلا تھے۔ اس لئے یقینا کو اس انداز میں پیش فرمایا ہے کہ جس سے وہ معنیٰ بھی لازماً نکلتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام راغب نے اس معنے کو اس طرح پیش کیا ہے۔وما قتلوہ یقینایعنی انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام یقینا قتل نہیں کیا‘ انہیںمسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا یقین نہیں تھا‘ یہ مطلب بنتا ہے کہ جو کچھ بھی تھا‘ وہ ہمیشہ شک میں ہی رہے کہ پتہ نہیں و اقعتا مار بھی سکے کہ نہیں۔ اور یہی قرآن ثابت کرنا چاہتا ہے کہ تم جسکو سمجھتے ہو کہ یہ مر گیا ہے‘ جھوٹ ہے یہ‘ جو موقعے کے گواہ تھے ‘ ان کو تو پتہ نہیں کہ مر گیا ہے‘تمہیںکس طرح پتہ چلا کہ مر گیا ہے۔ وہ تو شک ہی میں پڑے رہے۔ اور فریقین شک میں پڑے رہے۔ قرآن نے یہ صرف یہود کی طرف منسوب نہیں فرمایا۔
ان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ
یعنی یہود اور عیسائی دونوںموقعے کے گواہ اس بارے میں شک میں تھے مسیح علیہ السلام کے اوپر کیا گزری۔ پس باقی جتنی باتیں ہیں وہ خیالات ہیں ڈھکوسلے ہیں‘ یقینی اور قطعی علم تمہیں نہیںہے۔ حسرۃ ً کا لفظ ایک استعمال ہوا ہے اس آیت میں‘ حسرت سے مراد ‘ حسر ننگا کرنے کو بھی کہتے ہیں اور پردہ ہٹانے کو بھی کہتے ہیں۔ عملاً ایک ہی مضمون ہے۔ حسرت عن الزراع میں نے بازو سے کپڑا ہٹایا‘ اٹھایا‘ جس طرح ٹیکہ لگانے کے لئے‘ ڈاکٹر ودود صاحب خاص طور پرسر مار رہے ہیں یہاں‘ میں کرتا ہوں اس طرح ہی‘ ڈاکٹر صاحب ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں آپکے ڈاکٹر مسعود صاحب امریکہ سے آئے ہوئے‘ اتفاق سے دونوںاکٹھے ہوگئے ہیں۔تو ٹیکہ لگانے کے لئے ڈاکٹر جب وہ اٹھاتے ہیں نایوں کپڑا‘ اس کو بھی حسر کرنا کہتے ہیں۔ حسرت کے معنے بھی پائے جاتے ہیں‘ وہ بیچارہ جس کو ٹیکہ لگ جائے دیکھتا رہ جاتا ہے‘ میرے غریب سے کیا ہورہا ہے‘ ہیں؟ اور ننگے سر والے کو بھی حاسر کہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے یہاں اب رواج اٹھ گیا ہے سوائے ایک کے‘ ان کی ٹوپی بھی ہے ویسے اب انہوں نے رکھ لی ہے سر پہ۔ اب تو یہاں اللہ کے فضل سے بچے بھی چھوٹے چھوٹے مسجدوں میں آتے ہیں تو سر ڈھانپ کے آتے ہیں تو کوئی ان میں حسرت والا نہیں رہا۔ایک حسر کا معنیٰ ہے تھکاوٹ کا۔ بہت تھکا ماندہ ہوجائے کوئی انسان۔ اس کو حاسر کہتے ہیں۔ یہاں جو قرآن کریم میں سورۃ مُلک میں جو بیان فرمایا ہے وہ ینقلب الیک البصر خاسئًا و ھو حسیرo ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا و ھو حسیرo
کہ تم کائنات پر دوبارہ نظر ڈال کر دیکھ لو‘ کہیں کوئی فتور‘ کہیں کوئی رخنہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر ڈال لو نظر‘ تمہاری نظر تمہارے پاس تھکی ماندی حسرت زدہ ہوکے لوٹ آئے گی۔ تو حسرت کا معنیٰ جو ہم عام‘ ہمارے ہاں رائج ہے‘ یہ کسی چیز نہ کرسکنے کے نتیجے میں تکلیف ‘ کچھ حاصل نہ کرنے کے نتیجے میں تکلیف‘ اس کا اس تھکاوٹ سے تعلق ہے۔ انسان کی کچھ پیش نہ جائے۔تھکا ہارامایوس ہوکر بیٹھ رہے‘اور اپنے مطلب کو نہ پاسکے۔ تو جو دل کی کیفیت ہوتی ہے اسے حسرت کہا جاتا ہے۔قالوا الاخوانھم والے مضمون کی طرف آنے سے پہلے اب میں ان مضامین کی روشنی میں دوباہر اس آیت کو پڑھتا ہوں۔ اور اس کے بعض مطالب پر روشنی ڈالتا ہوں۔
یایھاالذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض اوکانوا غزی لو کانوا عندنا ماما توا وما قتلوا لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم واللہ یحییٖ و یمیت ط واللہ بما تعلمون بصیر O
اس میں جو قابل غور باتیں ہیں جو ‘ جو زیر بحث لائی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہو‘ جنہوں نے کفر کیا۔وقالو ا الاخوانھم اور اپنے بھائیوں سے کہا
پہلی بحث تو مفسرین نے یہ اٹھائی ہے کہ کفر کیا سے مراد صرف منافقین ہیں یا کافر بھی ہیں اور منافقین بھی ہیں یا خاص منافقین ہیں اور عام منافقین نہیں۔ یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی۔ جہاں تک کفر والا حصہ ہے‘ میرے نزدیک سیاق و سباق یہ بتاتا ہے یہاں کافر‘ دوسرے کافر مراد نہیں ہیں۔ بلکہ منافقین ہی ہیں۔ کیونکہ کافر یہ نہیں کہا کرتے تھے ان کوکہ تم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے تو امن میںرہتے۔ مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے اور اپنے مقصد‘ میں بے یقینی پیدا کرنے کے لئے جو ہتھیار منافق استعمال کرسکتے تھے‘ وہ اگر کافر کرتے تھے تو منافق بن کر کرتے تھے‘ یعنی بحیثیت کافر کے باہر رہتے ہوئے باتیں نہیں کیا کرتے تھے‘ اس لئے کافر تو ہیں ہی وہ‘ منافق بھی تو کافر ہی ہے۔ مگر کافر کی ایک خطرناک صورت ہے جو اندر آکر مختلف قسم کے وساوس پھیلاتا ہے اور اس کواندر سے وار کرنے کا ایک موقعہ مل جاتا ہے ۔پسکالذین کفروا وقالو ا لاخوانھم میں ایک معنیٰ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اخوان سے مراد ان کے ساتھی ہیں‘ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ جو ان کے ساتھی ہوں یا ہیں‘ وہ تو شہید نہیں ہوئے‘ وہ تو قتل نہیں ہوئے ان معنوںمیں جن معنوں میں ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں‘ تو پھر یہ معنے کرنے پڑیں گے نعوذ باللہ من ذلک کہ جو قتل ہونے والے تھے اور شہید ہونے والے تھے‘ وہ انہی کے بھائی… تھے۔ یہ معنے درست نہیں ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس وسیع معنے کو اختیار کیا ہے‘ یہی درست ہے کہ یہاں اخوان سے مراد دینی بھائی یا طینت کے بھائی نہیں ہیں۔ سرشت کے لحاظ سے ان میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے بھائی نہیںکہا جارہا۔ بلکہ وہ بھائی بنتے ہیں اور بھائی اس لئے بنتے ہیں کہ قبیلہ یا گروہ کے طور پر وہ ان کے بھائی ہیں۔ قران کریم میں اس کی مثال ملتی ہے‘ اور وہ میںآپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ہودؑ کے متعلق آتا ہے۔
والی عاد اخاھم ھوداًاور ہم نے عاد قوم کی طرف اس کا بھائی ہودعلیہ السلام بھیجاو الی ثمود اخاھم صالحااور ثمود قوم کی طرف اس کا بھائی صالح علیہ السلام بھیجا۔پس بھائی سے مراد اگر دینی بھائی مراد لیا جائے تو نعوذ باللہ من ذلک یہ تو ہمارے بزرگ انبیاء پر بڑا حرف آتا ہے۔ مراد قومی بھائی ہے اور اس پہلو سے یہ لوگ جن لوگو ںمیں باتیں کرتے تھے ان کو‘ انکی واضح نشان دہی فرما دی گئی ہے۔ کیونکہ قومی بھائی کے طور پر یہ مہاجرین کے بھائی نہیں تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھی مہاجرین کو اپنا بھائی نہیں کہہ سکتے‘ ان سے تو یہ بغض رکھتے تھے ان سے حسد رکھتے تھے‘ تکلیف تھی کہ وہ باہر سے آکر ہمارے شہر کی سیاست پر قابو ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس لئے اپنے بھائیوں سے مراد اہل مدینہ ہیں۔ مدینہ میں جو انصار تھے‘ خالص انصار‘ انکے اوپر تو ان کا کوئی زور نہیں تھا ‘وہ تو اللہ کے بندے تھے ‘شیطان کا ان پر کوئی عمل دخل نہیں تھا ‘مگر وہاں کچھ کمزور ایمان والے بھی تھے کچھ ایسے تھے جو معاہدے کے لحاظ سے پابند تھے مسلمانوں کی تائید کرنے پر ‘تو ان سب میں بد دلی پھیلانے کے لئے جو باتیں کرتے تھے ان کے متعلق فرمایا گیا
وقالو الا خوانھم وہ اپنے بھائیوں سے یہ کہتے تھے اذاضربو افی الارض اوکانو اغزی او کانو عند نا ماما توا یہاں میں نے استنباط کیا تھا ‘پہلے ایک مستشرق کے حملے کے جواب میں کہ یہ خیال کہ میدان جنگ میں یہ باتیں ہو رہی تھیں اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ ان کے خلاف ‘ان سے بغاوت کا خطرہ تھا ‘یہ بالکل درست نہیں ہے میدان جنگ میں کچھ شامل تھے ضرور ‘جنہوں نے باتیں کی ہیں مگر اس وقت جب وہ واپس پہنچے ہیں اور ان منافقوں کے سردار وں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان کمزور ایمانداروں نے بھی ان کی ہاں میںہاںملائی ہے ۔ لیکن موقعہ اس کا میدان احد نہیں ہے موقعہ اس کا مدینے کی گلیاں ہی ہیں ۔ پس یہ آیت یہ کہہ رہی ہے۔
وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزی
یہاں اَوْ جس طرح وائو کے قریب لکھا ہوا ہے‘ پہلے بھی ایک دفعہ غلطی سے لو پڑھ گیا تھا‘ لیکن پھر فوراً سمجھ آجاتی ہے کہ غلط ہے۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجب وہ سفر اختیارکرتے ہیں زمین میں‘یا غزوہ پر نکلتے ہیں لوکانو اعندنا ماما توااگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے۔وہ تو یہ نہیںکہہ سکتے تھے میدان جنگ میں کہ اگر ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے‘ وہ تو میدان میں موجود تھے۔ اس لئے اس آیت میں تو قطعاً وہ شامل ہی نہیں ہیں لیکن دوسری آیت میں وہ شامل ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کا وہ قول مدینے میں جاکرہے‘ مدینے میں جاکر انہوں نے کہا‘ یہ بات کہی ہے نہ کہ میدان جنگ میں۔قل ان الامر کلہ للہ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک یقولون لوکان لنا من الامر شییء ماقتلنا ھہنا قل لوکنتم فی بیوتکم لبرزالذین کتب علیھم القتل الی مضا جعھم ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے میدان جنگ میں یہ کہا ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے۔تو کہہ دے کہ تمام تر فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک ‘ یہ اپنے سینوںمیںچھپا رہے ہیں۔ وہ بات جو تجھ پر ظاہر نہیں کررہے‘ یعنی میدان جنگ میں اگر کچھ وساوس تھے بھی تو مخفی حالت میں تھے اور ان کو کھل کر انہوںنے پیش نہیں کیا۔جب مدینے میں لوٹے ہیں تو ان سرداروںکی وجہ سے جو وہاں یہ باتیں کیاکرتے تھے‘ وہ یہ کہنے لگ گئے لو کان لنامن الامر شی ء ما قتلنا ھہنا پھر کہا ہے لیکن وہاں واپس جانے کے بعد کہا ہے۔ ’’ہم یہاں‘‘ سے مراد میدان جنگ ہی یہاں ہے لیکن وہاں موقعے پر نہیں کہا گیا یہ محاورۃً ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے مراد وہاں ہے دراصل۔ کیونکہ وہاں شامل بھی تھے اس لئے یہاں بھی کہہ سکتے تھے وہ اس کوما قتلنا ھہنا قل لو کنتم فی بیوتکمکہہ دے کہ تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو وہ جن پر قتل کے ذریعے موت مقدر ہوچکی ہے وہ اپنے بچھونے سے اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے مقاتل کی طرف آگے بڑھ جاتے‘ مقاتل کی طرف خود چل پڑتے۔
اب میں واپس اسی آیت پہ آیا ہوں جو اس وقت زیر نظر ہے۔ آیت ۱۵۷۔یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لااخوانھم انہوں نے اپنے بھائی بند سے کہا‘ ترجمہ کیا جاتا ہے‘بعض دفعہ‘ یہ مراد نہیں ہے بلکہ اپنی ہم قوم لوگوں سے کہا۔جیسا کہ انبیاء کی مثال میں میں بیان کرچکا ہوں۔ ثمود کی قوم کے تھے حضرت صالحؑ‘ انکے دین میں بھائی نہیں تھے۔اذا ضربوا فی الارضجب انہوںنے کوئی سفر اختیار کیا۔او کانوا غزییا غزوہ میںگئے ۔
میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا محاورۃً غزوہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی شرکت سے کہلاتا ہے مگر یہ عام عربی معنیٰ نہیں ہے۔ عربی معنی صرف کسی مقصد کے لئے نکلنا ہے۔ پس یہاں یہ وہ اصطلاح مراد نہیں ہے۔ بلکہ غُزًی سے مراد سفر اور جہاد کی غرض سے سفر ہے۔ لیکن امام رازی ؒ نے ایک بہت عمدہ بات پیش فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ضرب بھی اللہ کی خاطر جہاد کی نیت سے ہوسکتا ہے۔ضرب فی الارض ۔ اور اس میں اور غزوہ میں فرق یہ ہے کہ غزی چھوٹے سفر کو کہتے ہیں ‘ یا ‘ غزی چھوٹے سفر کو نہیں‘ غزی تو وہ سفر ہے جو خالصتہً جہاد کی نیت سے کیا گیا ہے۔ لیکن ضرب چھوٹے سفر کو نہیں کہتے ہیں۔ بلکہ لمبے سفرکو کہتے ہیں۔ تو وہ ہی امام رازیؒ سمجھتے ہیںکہ قرآن کریم نے ایک ہی مضمون کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے‘ گویا یہ مطلب ہے کہ خواہ تمہارا جہاد تھوڑے سفر کا ہو جیسا کہ احد کا جہاد تھا‘ یا لمبے سفر کا ہو جیسا کہ تبوک کی طرف تم روانہ ہوئے۔ دونوں صورتوں میں جہاد ہی کی نیت ہے‘ خدا ہی کی خاطر گھر سے نکلے ہو۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مرتے اورقتل ہوتے ہیں ۔ ورنہ تاجر کہاں قتل کئے جاتے ہیں۔ تو یہ بات نہایت معقول ہے اور برمحل ہے کہ مراد دونوں طرح غازی ہی ہیں جو خداکی خاطر غزوہ پر نکلے ہیں‘ خواہ وہ چھوٹے سفر پرہوں یا لمبے سفر پرہوں۔ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ وہ مرتے نہ وہ قتل ہوتے۔ اب مرنے کو جوڑا گیا ہے ضرب فی الاض سے اور قتل کو جوڑا گیا ہے غزوہ سے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں موت کے ذکر کو اسکے ساتھ کیوںباندھا ہے۔ کیا ان کا یہ خیال تھاکہ وہ جب سفر پہ نکلتے ہیں تو کبھی نہیںمرتے۔ مراد اس کی یہ ہے کہ لمبے تھکا دینے والے مصیبت کے سفرجب یہ اختیار کرتے ہیں تو بیچ میںمارے جاتے ہیں۔ شدید دقتیں پیش آتی ہیں ۔ اسلامی جہاد کے سفروں میں ‘ اور جیسا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفروں کی تاریخ پر غور کرتے ہیں‘ بہت شدید مصیبتوں میں مبتلا ہوئے‘ بڑی لمبی بھوکوں سے آزمائے گئے‘ بغیر پانی کے ان کو گرمیوں میں سفر کرنے پڑے تو مراد یہ ہے کہ ان کی کہ وہ اگرچہ لڑائی میں نہ بھی مارے گئے‘ لیکن ان سفروں کی مشقتوں نے ان کو مار دیا۔اگر گھر پر آرام سے بیٹھے رہتے تو نہ مرتے۔لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو ان کے دلوں میں حسرت بنادے۔ اب مفسرین پر میں نے نظر ڈالی ہے اور سارے اس مسئلے میں الجھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ حسرت کا کیا تعلق بنائیں یہاں۔ یہ بات جو وہ کہتے ہیں یہ کیسے حسرت بن جائے اور میرے علم میں کوئی اب تک ایسی توجہیہ نہیں آئی جو قابل قبول ہو اس پہلو سے۔ دراصل حسرت ا نکو اس بات کی رہے گی کہ ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں گی۔ اللہ انکو کہنے دیتا ہے ‘ کہتے رہو‘ پھیلاتے رہوا فواہیں جو زور لگتا ہے لگالو‘ لیکن جو خدا کے بندے اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں‘ ان کو تم نہ غزوہ سے روک سکو گے نہ خدا کی خاطر سفر اختیار کرنے سے روک سکو گے۔ یہ حسرت تھی ان کے دل میں‘ اسی لئے تو کہتے تھے۔ بس یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ان کو یہ چھٹی دیتے ہیں‘ ان باتوں ‘ ایسی باتیں کرنے کی‘ تاکہ ہمیشہ حسرت سے دیکھتے وہ جائیں اور ان کا کوئی بھی وار خدا کے بندے پر نہ چلے۔ اور جہاںتک ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ نہ مرتے نہ زندہ رہتے وغیرہ اس کا جواب دیتا ہے۔واللہ یحییٖ و یمیتاللہ ہی ہے جو زندہ بھی رکھتا ہے ‘ مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے باخبر ہے ان پر نظر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔اس کے علاوہ کوئی ایسی بات مجھے نظر نہیں آئی جو مفسرین نے کہی ہو اور خاص طور پر قابل ذکر ہو‘ زیادہ تروہ لفظی بحثوںمیں ہی پڑے ہیں‘ غزی کا کیامطلب ہے‘ قتل سے کیامراد ہے؟ حسرۃ کے متعلق مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حسرت سے مراد یہاں یہ ہے کہ مقتول کے رشتے دار جب اس کلام کو سنتے ہیں تو ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہرایک اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر وہ اسے سفر کرنے یا غزوہ پر جانے سے منع کردیتا ہے تو وہ ضرور بچ جاتا‘ یہ بالکل غلط ہے۔ بالکل بے بنیاد بات ہے اس کا کوئی بھی سچائی سے تعلق نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی جو غزوہ پر نکلے اور شہید ہوئے‘ ان کے تو پس ماندگان توبڑے فخر سے ہمیشہ نسلاً بعد نسلٍ یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ ہمارے آبائو اجداد تھے جنہوں نے یہ کام کئے۔ ان منافقوں کے کہنے پہ ان کے دلوں میں کہاں سے حسرت پیدا ہوجاتی تھی۔ نامراد رہے ہیں ان باتوں میں۔ اور وہ جو جھوٹے … بہانے والے پہنچا کرتے تھے۔ ان کو وہ رد کر کے مردود کرکے دور پھینک دیا کرتے تھے۔ کبھی ان کی باتوں میں نہیں آئے۔ بلکہ جو اسلام کی طرف سے ان سے ہمدردی کرتے تھے ان کو بھی یہ سمجھاتے تھے اور صبرکی تعلیم دیتے تھے‘ کہتے تھے ہم خوش ہیں اور یہ وہ تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جارہی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو ماضی میں جاکر کھوج لگائو۔ آج جماعت احمدیہ میں جو شہید ہورہے ہیں ان کے بزرگوں اور ان کے ساتھیوں‘ ان کے تعلق والوں کا بعینہٖ یہ حال ہے۔ ایک بھی ایسا نہیں جس پر ا ن بدبخت وساوس نے اثر کردیا ہو۔
مجھے کل ہی چٹھی ملی ہے پاکستان سے اپنی ایک عزیزہ‘ بہن کی۔ کہ جب ہم شہداء کی تعزیت کے لئے لاہور گئے۔ کہتی ہیں ناقابل بیان ہے‘ میں بیان نہیں کرسکتی‘ جو ہمارے دل کی کیفیت ہوئی۔ ہم اس والدہ کو تسلی دے رہے تھے جن کا بیٹا شہید ہوا ہے۔اور وہ ہمارے آنسوپونچھ رہی تھی۔ کہتی تھی کیاہوگیا ہے بی بی آپ کو‘ آپ کیوں غم کرتی ہیں۔ ہمارا غم کرنے والا خلیفہ موجود‘ ہمارا خداموجود جو ہم پر پیارکی نظرکر رہا ہے۔ آپ کو کیاہوگیا ہے میں تو بہت خوش ہوں۔ میرے پانچ بیٹے ہیں‘ سارے خدا کی خاطر ذبح ہوجائیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ یہ ان کا ردعمل ہے۔ انکے متعلق یہ کہنا نعوذباللہ من ذلک کہ وہ شہادت کے بعد اپنے عزیزوں کے متعلق یہ کہتے تھے کہ یہاں‘یہ ہوتا تو یوں نہ ہوتا‘ یوںنہ ہوسکتا‘ یوں ہوتا تو کہتے ۔ یوںنہ ہوتا۔ یہ ساری باتیں لغو‘ بے معنی ہیں اور شہداء کے عزیزوںپر الزام ہے جس میں کوئی حقیقت نہیںہے۔ میں نے اپنی زندگی میںجتنے شہداء احمدیت میں دیکھے ہیں‘ خلافت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘ ان میں سے کسی ایک عزیز کا بھی یہ ردعمل نہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو ان سے سیکھی ہیںیہ باتیں۔ ہم تو ان کے چلائے ہوئے رستوں پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پس آج ہم گواہ ہیں اور خدا کی قسم ہم گواہ ہیں کہ صحابہؓ پر یہ الزام جھوٹ ہے۔ انکے اعزّہ اور اقرباء ہر گز یہ سوچیں نہیںسوچا نہیں کرتے تھے۔
حسر ت ان منافقوں کے دلوں میں تھی کہ ہم زور لگا بیٹھتے ‘ جو چاہیں کر لیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان میں سے کوئی شخص ٹوٹ کر ہماری طرف آئے اور ہاں میں ہاں ملائے کہ ہاں ہمارے عزیز نہ مارے جاتے اگر یہ ہوتا تو۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات میں بطور وضاحت کے کردینا چاہتا ہوں۔ بعض دفعہ منافق بھی مارے گئے ہیں۔ میں نے کل یہ جو کہا تھا کہ کوئی منافق نہیں مارا گیا۔ جنگ احد میں‘ تو اس تاریخ پر نظر ڈال کر جوہمارے سامنے ہے‘ میرے علم میں کسی منافق کا ذکر نہیں ملتا کہ جو جنگ احد میں مارا گیا ہو اور وہ ‘ وجہ اس کی یہ ہے کہ 300 بڑے منافقین جو عبداللہ بن ابی ابن سلول کے ساتھ چلے تھے وہ تو پہلے ہی رستے میں سے واپس جاچکے تھے۔ دوسرے بعض منافقین اس حد تک نہیں تھے جس حد تک خدا ان سے ناراض ہوکر انہیں منافقین کے زمروں میں شمار کرکے باہر پھینک دے۔ ان کے دل کی کمزوریاں تھیں کچھ وہ باہر نکلی ہیں اور اللہ نے ان کو معاف فرمادیا۔ پس منافق تو وہاں کوئی حقیقت میں موجود ہی نہیںرہا تھا تووہ شہید کیسے ہوتا۔ اورمنافق تو شہید ہوا بھی نہیں کرتا۔ میں نے جو یہ کہا تھا اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ کبھی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی غیر مومن اسلامی جنگ میں نہ مارا گیا ہو۔ قطعی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ ایک دفعہ ایک بہت بڑا ایک پہلوان ایک جری انسان اسلامی جہاد میں چپکے سے داخل ہوگیا اور شامل ہوگیا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ایسے شخص کو اجازت ہی نہیں دیا کرتے تھے جو ‘ جس کے متعلق قطعی علم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے یا مشرک ہے۔ ہاںجو کہہ دیتا تھا کہ میں ہوں‘ اس کی بات مان لیتے تھے‘ دل میں نہیں اترا کرتے تھے خود بخود۔ جیساکہ آج کا مولوی اترتاہے‘کہتا ہے نہیں تم منہ سے جھوٹ بول رہے ہو‘ اندر سے تم یہ کہہ رہے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عجیب اسوہ ہے کہ کوئی کہتا تھا کہ میں کافر ہوں‘ میں شامل ہونا چاہتا ہوں جہادمیں‘ فرماتے نہیں سوال ہی نہیں۔ تو مشرک ہے مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں ہے مدد کی۔ شدید ضرورت کے وقت اور بحران کے وقت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رد فرمادیاہے۔ اس نے کہا میں مومن ہوتا ہوں ۔ کہنے لگے ہوجائو۔ ٹھیک ہے آجائو شامل ہوجائو۔ یہ نہیں کہا کہ تم دھوکہ دے رہے ہو۔ ایک منٹ میں تم کس طرح مومن ہوگئے۔ یہ ہے پاک صداقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ منہ سے جس نے کہا‘ اس حد تک اس کو تسلیم کرلیا‘ یہ نہیںکہا کہ دل میں تم کچھ اور کہتے ہو۔ لیکن ایسے لوگوں کو بعض دفعہ آزمایا جاتا تھا۔ لیکن ان کے اسلام کا انکار کرکے نہیں‘ تسلیم کرکے۔ وہ ایک الگ مضمون ہے۔ دیکھا جاتا تھا کہ کس حد تک یہ لوگ درست ہیں۔ مگر اپنے اعمال سے وہ پہچانے جاتے تھے۔ پس ایسا ہی واقعہ ایک تاریخ میں درج ہے‘ قطعی طور پر ثابت ہے کہ ایک مشرک بہت زبردست پہلوان اسلام کی طرف سے‘ یا مشرک تھا تو پتہ نہیں تھا اس طرح۔ ایک منافق حالت میں تھا‘ اس نے اسلام کی طرف سے جنگ میں شمولیت کی اور بہت ہی غیر معمولی طور پر عظیم کارنامے دکھائے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ اور اسکے تذکرے ہونے لگے کہ وہ ہے اصل مجاہد اس طرح وہ اس لڑائی میں شہید ہوا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں‘ وہ شہید نہیں ہوا۔ وہ تو اپنا ایک‘ اپنے ایک مرے ہوئے کا انتقام لینے کی خاطر ہماری طرف سے شامل ہوا تھا‘ کیونکہ جس قبیلے نے اس کے بھائی یا کسی عزیز کو مارا تھا‘ وہ ہمارا مخالف ہوکر آج‘ ہم سے لڑنے آیا تھا۔ پس اس ذاتی بدلے کی خاطر وہ مارا گیا‘ وہ شہید تو نہیں ہوا۔ پس یہ فیصلہ اللہ اوراس کا رسول ہی کرسکتے ہیں‘ جب خدا اپنے رسول کو بتاد ے۔ اس کے علاوہ یہ کہہ دینا بھی غلط ہے کہ کسی اسلامی جنگ میں کوئی منافق نہیں مارا جاسکتا۔ اس کی اس سے بڑی اور کیا شہادت ہوگی کہ مارا گیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے اس کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنازے پڑھنے تھے‘ دعائیں دینی تھیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمادیا اور جنگ احد کے متعلق ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہو کہ یہ شخص منافق تھا‘ بحیثیت منافق کے اس جنگ میں مارا گیا ہو۔واللہ بما تعملون بصیراس کے متعلق کوئی نہ لغت میں نہ کسی تفسیری بحث میں کوئی ایسی بات نظر آئی ہے جو میں تبصرے کیساتھ آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ صرف ایک عمومی اظہار ہے ۔ اوروہ ہماری روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔فرماتا ہے
واللہ یحیی و یمیت واللہ بما تعملون بصیر
اللہ ہی ہے جو موت بھی دیتا ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ موت بھی دیتا ہے‘ یحییٖ و یمیت‘ زندہ بھی رکھتا ہے اور مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ا ن اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔یہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ جو منافق کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہوتے تو نہ مرتے نہ قتل ہوتے‘ ا ن کو توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ End All نہیں ہے۔انسان خواہ مرے یا قتل ہو‘ یہ کیا‘ کس بحث میں تم پڑ گئے ہو اگر نہ بھی ہوتے قتل تو اس وقت کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کی موت کا وقت نہیں دیکھتا اس کے نیک اعمال یا بد اعمال پر نظر رکھتا ہے۔ پس یہ دعا مانگنی چاہئے اور یہ خواہش کرنی چاہئے کہ ہم چاہے مارے جائیں یا قتل ہوں ہم اللہ رضا پر مارے جائیں اور اللہ کی رضا پر قتل ہوں کیونکہ اگرہمارے بد اعمال ہوں اور عمر لمبی ہو جائے تو وہ عمر لمبی ہماری ہلاکت کا موجب ہو گی۔ کسی فائدے کے موجب نہیںہو سکتی پس واللہ بما تعملون بصیر میں یہ اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بحث لغو اور بے معنی سمجھتا ہے…… کب مارا اور کس طرح مارا گیا۔ یہ بحث ہے… بد اعمال مارا گیا۔ پس اپنے اعمال کی فکر کرو۔ یہ End all نہیں ہے ۔ یہ انجام آخری نہیں ہے ۔ یہ مرنے کے بعد پھر محاسبہ ہوگا۔ اس وقت اللہ تمھیں بتائے گاکہ تم کیسے اعمال کیا کرتے تھے۔ اس آیت اور کچھ باقی ہوا تو شامل کرلوں گا۔ ورنہ دوسری آیت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے گھڑی دیکھ رہو ہوں دو منٹ رہ گئے ہیں۔بہرحال میں نے آپ کو خوب اچھی طرح دیکھا رہا ہے کہ یہ مستشرقین ہیں۔ یہ کس طرح ظلم کرتے ہیں اور ایکا کرتے ہیں سازش کر کرکے ایک دوسرے کے ساتھ۔ یعنی لفظاً بول کر کر سازش نہ بھی کریں اندر سے ان کے مزاج سازشی ہیں جہاں دیکھے کہ ایک مستشرق نے ایک بات ایک خاص طور پر اسلام پرحملہ کرنے کے لئے کی ہے اس کی تائید میںویسے ہی ترجمے شروع کر دیتے ہیں۔ ویسی ہی لغت کی کتابیں بنا کر شروع کردیتے ہیں۔ پس merchandise والی جوبحث ہے ان کی۔ اس کا تعلق اس پہلے الزام سے ہے کہ جنگ میں ہمیشہ لوٹ مار کی خاطر نکلتے رہے۔ اور booty ان کی زندگی کیا مقصد تھا اس حصہ کو میں ابھی نہیں چھیڑتاکیونکہ میں نے اس کے متعلق بعد میں گفتگو کرنی ہے مختلف حوالوں سے ثابت کروں کہ بہت جھوٹے اور لغو بے معنی الزام ہیں…ان کے بغض کے اور کسی چیز کی نشان دہی نہیں کرتے بہرحال ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اس عظیم جہاد میںتقویت دے۔ ہمارے نصرت فرمائے اور کثرت سے احمدی اس جہادکے لئے آگے آئیں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس صدی میں عیسائیت کے لئے حملے کو کلیۃً پسپا کر دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 12 رمضان المبارک
23 فروری 1994ء
ان الذین تولوا منکم ............ا ن اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران 156تا160)
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیںان میں سے اکثر آیات تو ایسی ہیں جن کا ترجمہ بھی پہلے پیش کیا جاچکا ہے اور تفسیر بھی ہوچکی ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ آج آیت ایک سو انسٹھ (159) پر پہلے گفتگو ہوگی۔ پھر بعد میں ایک سو ساٹھ پر ‘ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون O
اور اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کیے جائو یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ تو اللہ کی طرف سے مغفرت بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔ جو بہتر ہے اس سے جو یہ جمع کرتے ہیں۔ ولئن متم او قتلتم اور یاد رکھواگر تم مرجائو یا قتل کئے جائو لالی اللہ تحشرون۔ تو ہر صورت میں اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائو گے یا اکٹھے کئے جائو گے۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم اوریہ اللہ کی خاص رحمت کے سبب سے ہے کہ تو ا ن پر مہربان ہے۔ ان کیلئے نرم گوشتہ رکھتا ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو بد اخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا اور سخت دل ہوتا۔ لا نفضوا من حولک ‘ یہ تجھے چھوڑ کر بکھر جاتے۔ فاعف عنھم پس ان سے عفو کا سلوک کر۔ درگذر فرما۔ واستغفر لھم اور انہیں بخش دے۔ وشاورھم فی الامر‘ اوران سے اہم معاملات میں مشورہ کیا کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘ پس جب تو فیصلہ کرلے (یعنی مشورہ کے باوجود فیصلہ تیرا ہوگا) تو پھر اللہ پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین ۔ یقینا اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آج کی گفتگو سے پہلے ایک مجھے حوالہ دیا گیا ہے۔ کل میں نے ذکر کیا تھا کہ حسرت کا معنے جس پر میرا دل اٹکا ہے۔ وہ میرے ذہن میں نہیں کہ باقی مفسرین میں سے کسی نے یہ بات کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ جتنا چاہیں زور لگائیں۔ مومنوں کے دل پھیرنے کی کوشش کریں اُن کو اللہ اور رسول سے بدظن کرنے کی کوشش کریں۔ مگر ہر صورت میں ناکام رہیں گے۔ اور ہمیشہ یہ حسرت ان کے دل میں رہے گی کہ کاش کوئی تو ہماری بات مانتا۔ کوئی تو ایسا ہوتا جسکا ایمان ہماری باتیںسن کر کمزور ہوجاتا۔ اس پر مجھے عبدالمومن صاحب نے تفسیر کبیر رازی کا یہ حوالہ پیش کیا ہے کہ امام رازی کا بھی یہی خیال ہے کہ حسرت کااصل معنے یہی ہے۔ یہ لوگ اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام رہیں گے اور ہمیشہ اس بات کی حسرت ان کے دل میں رہے گی۔ لئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃ خیر مما یجمعون۔ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہو۔ یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ ور رحمۃ خیر مما یجمعون۔ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور اس کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو لفظی بحثیں ہیں۔ ان کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ساری پہلے گزر چکی ہیں۔بار ہاگزر چکی ہیں۔
لفظقتلکے متعلق کل بھی گفتگو ہوچکی ہے اورصرف جو قابل توجہ امر ہے بعض مفسرین نے اٹھایا ہے وہ یہ ہے۔ یہاں قتلتم پہلے رکھا ہے اور متم بعد میں رکھا ہے۔لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون۔ اس میں قتل کو پہلے کیوں کیا گیا ہے اور موت کو بعد میں کیوں رکھا گیا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ خداکی راہ میں شہید ہونا چونکہ زیادہ بڑا مرتبہ ہے۔ اور مرتبے کی فضیلت کے اعتبار سے قتل کو پہلے کرلیا گیا ہے اور موت کو بعدمیں رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی پیش نظر ہوسکتا ہے۔ لیکن اصل وجہ اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ جنگ میں طبعی موت مرنا تو ایک بہت بعیدکی بات ہے۔ اور شہادت بدرجہ اولی میسر آتی ہے۔ اس لئے جو اہمیت ہے وہ واقعاتی اہمیت ہے کہ جب خدا کی راہ میں جہاد کیلئے نکلے ہو تو ظاہر ہے کہ قتل کیلئے تیار ہوکر جارہے ہو۔ اس لئے موت کا کوئی سوال نہیں ہے بظاہر۔ لیکن پھر موت کا ذکر کیوں کردیا۔ اس لئے کہ اس سے پہلے ضربتم فی الارض میں دونوں صورتیں پیش فرمائی جاچکی ہیں اور پچھلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب تم خداکی راہ میں نکلتے ہو سفر پر۔ اور متم کا الزام کہ اس غلطی کی وجہ سے تم نے موت قبول کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے۔ جو دشمنوں نے لگایا تھا۔ جسکامطلب یہ ہے کہ بعض سفر میں شامل لوگ لڑائی کے بغیر بھی سفر کی مشقتوں کی برداشت نہ لا کر مشقتوں سے مغلوب ہوکر دم توڑتے رہے اور بڑے بڑے سخت حالات مسلمانوں کو ان سفروں میں پیش آئے ہیں۔ پس اسی پہلو سے ان کا بھی مرتبہ دراصل شہید ہی کا ہے اور ان شہداء کے بعد جن کو قتل کے ذریعہ شہیدکیا گیا۔ ان شہداء کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اللہ کی خاطر سفر میں کسی وجہ سے مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مربیان اور واقفین زندگی کو بھی ایک قسم کا شہید شمار کرتے ہیں۔ جو قتل نہ بھی کئے گئے ہوں۔ مگر اللہ کی راہ میں جب اس کی خاطر جہاد کیلئے دوسرے ملکوں میں گئے ہوں۔ لمبے سفرپر گئے ہوں۔ وہاںموت آجائے تو اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے۔ ان کو بھی ایک گو نہ شہادت کا درجہ دیا جاتا ہے اصل اجر تو اللہ تعالیٰ نے دینا ہے۔ مگر ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ ان شہداء میں شمار فرمائے گا۔ جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ملتا ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃخیر مما یجمعون۔ اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ یہاں مفسرین اکثر جمع کی بحث کی طرف زیادہ توجہ کررہے ہیں اور یہ بھی بحث اٹھائی گئی ہے کہ مغفرت کو پہلے رکھا گیا ہے اور رحمت کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کیا جوڑ ہے۔ کس معاملہ میں مغفرت ہے کس بارہ میں رحمت ہے۔ یہ جو بحثیں ہیں ان کو تفاسیر کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ علامہ رازی اس آیت پر مجموعی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس میں منافقوں کے شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ موت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انسان کیلئے موت یا قتل کے سوا کوئی جائے فرار نہیںیعنی اس نے لازماً یا قتل ہونا ہے یامرنا ہے۔ جب یہ موت یا قتل اللہ کی راہ میں میسر آجائے۔ تو اس سے بہتر ہے کہ اسے دنیا کی لذات طلب کرتے ہوئے حاصل کیا جائے۔ پس وہ موت بھی شہادت ہی ہے۔ کیونکہ خدا کی راہ میں میسر آئی۔ یہ وہ لذات ہیں جن کا اس دنیا کے بعد کوئی فائدہ نہیں۔ اس جواب میں قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان جہاد کی طرف توجہ کرتا ہے۔ تواس کا دل دنیا سے اعراض کرنے والا اور آخرت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب مارا جاتا ہے تو گویا اس نے دشمن سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ اور اسے محبوب وصال میسر آیا۔ اور وہ دوسرا شخص جب گھر میں بیٹھا ہے۔ اسے مرنے کا خوف اور دنیا کی تڑپ فکرمند کئے ہوئے ہیں۔ جب وہ مرجاتا ہے تو گویا وہ اپنے معشوق سے دور کرلیا جاتا ہے (یعنی دنیا اور دنیا کی لذتیں) گوشئہ گمنامی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب کچھ شک نہیں کہ پہلا شخص سعادت میں کامل اور دوسرا شخص شقاوۃ میں یعنی بدبختی میں کامل ہے۔ نافع حمزہ کسائی نے متم کو میم کی کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے۔ یعنی مِتُم اور دوسروں نے میم کی ضمہ سے بھی جیسے مُتُماس پر ایک ضمنی گفتگو ہے وہ توجہ کے لائق نہیں
لمغفرۃ ابن عطیہ نے کہا ہے۔ لمغفرۃ کے لفظ سے اشارہ ہے۔ موت یا قتل کی طرف۔ اس موت اور قتل کو مغفرت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ دونوں مغفرت سے وابستہ ہیں۔ امام رازی نے کہا ہے کہ مغفرت سے اس کی سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ اور رحمت سے حصول ثواب کی خاطر عبادت کی طرف اشارہ ہے۔ ابن عطیہ نے جویہ فرمایا ہے کہ لمغفرۃ کے لفظ سے موت اور قتل دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اس طرح نہیں کہ مغفرت کا قتل سے تعلق ہو۔ اور رحمت کا موت سے۔ بلکہ دونوں لفظوں کا قتل سے بھی تعلق ہے اور موت سے بھی تعلق ہے اکٹھے۔ اور مغفرت کا قتل اور موت سے بھی تعلق ہے گو پوری وضاحت نہیں کی۔ لیکن بات یہ وہ بیان فرما رہے ہیں کہ جب انسان قتل ہو یا مرے تو سب سے پہلا سوال اس کے لئے مغفرت کا اٹھتا ہے اگر مغفرت ہی نہ ہو تو پھر رحمت کا کیا سوال ہے؟ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ مرنے کے بعد مغفرت کا اٹھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کی مغفرت کا وعدہ فرمادیا۔ کہ اس راہ میں خواہ تم قتل کے ذریعے مرو یا طبعی موت مر جائو۔ دونوں صورتوں میں میں تم سے مغفرت کا وعدہ کرتاہوں۔ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے۔ لیکن اس سے زیادہ رحمت ہے اس کے بعد پھر رحمت کا لامتناہی مضمون ہے اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔امام رازی نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ مغفرت کا ذکر سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ بظاہر اس آیت میںیہ مضمون پیش نظر دکھائی نہیں دے رہا۔ یہاں عبادت کی بحث ہی نہیں ہے۔ یہاں تو جہاد کی بات ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو عبادت مغفرت کے خوف سے کرتے ہیں ان کی جزاء مغفرت ہے اور کچھ وہ ہیںجو رضاء الہی کے حصول کیلئے عبادت کرتے ہیں ان کی جزاء رحمت ہے۔ یہ اپنی جگہ مضمون اچھا ہے مگر یہ دراصل امام رازی نہیں ہیںمیں حیران تھا امام رازی ..... مگر منسوب امام رازی کی طرف کیاگیا ہے تفسیر بحر محیط ابو الحیان اندسی کا حوالہ ہے بہرحال کسی تفسیر سے لیا گیا ہو انہوں نے منسوب امام رازی کی طرف کیا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آئی کہ پھر امام رازی کی اپنی تفسیر میں کیوں اس کا ذکر نہیں یہ حوالہ نکالنے والے نے کچھ کہیں کوئی کوتاہی کی ہے۔ ہمارے پاس ہے امام رازی کی تفسیر آج ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ چیک کریںاس کو دوبارہ اس آیت کے متعلق تفسیر القاسمی میں لکھا ہے۔ پہلی آیت میں قتل کو موت پر مقدم رکھا کیونکہ یہ زیادہ ثواب والا اور اللہ کے نزدیک زیادہ عظیم مرتبہ رکھتا ہے اور مغفرت اور رحمت کا اس پر زیادہ انحصار ہے۔ دوسری آیت میں موت کو مقدم کیا۔ کیونکہ یہ کثرت سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ حکم الٰہی اور جنگ سے تم مت فرار ہو۔ بلکہ اس کی پکڑ اور اس کے عذاب سے فرار اختیار کرو۔ اب ا ن باتو ںکے متعلق جو ابھی آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قتل کا ذکر پہلے اور موت کا بعد میں۔ یہ تو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ مغفرت کا تعلق قتل سے ہے اور رحمت کا تعلق بھی قتل سے ہے۔ اسی طرح موت سے بھی ان دونوں کا تعلق ہے۔ یہ بات بھی کھل گئی ۔ لیکن دوسری آیت میں ولئن متم او قتلتم میں فوت کو پہلے کیوں کردیا۔ اور قتل کو بعد میں کیوں کردیا۔ اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے شہداء کیلئے۔ اللہ کی خاطر جہاد میں شرکت کی غرض سے سفر کرنے والے یا جہاد میں شرکت کے نتیجہ میں شہید ہوجانے والوں کا ذکر ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ۔ اور دوسری آیت میں سبیل اللہ کاذکر نہیں ہے وہ عام ہے اور عام حالات میں موت کا وارد ہونا ایک طبعی امر ہے۔ جو غیر معمولی طور پر زیادہ لوگوں پر چسپاں ہوتی ہے اور قتل شاذ ہوتا ہے۔ تو جہادمیں قتل اکثر ہوتا ہے اور موت شاذ ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نسبت سے بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس ترتیب کو دوسرے موقعہ پر بدل دیا۔ جہاں عام انسانوں کا ذکر چل رہا ہے۔فرمایا ولئن متم او قتلم یہاں سب انسان بحیثیت انسان مخاطب ہیں۔وہ جوموت سے ڈرتے اور ڈراتے تھے ان کو کہا جارہا ہے کہ خواہ کسی طرح بھی تم مرو قتل ہو یا مارے جائو۔ یہ یاد رکھنا کہ پہنچو گے وہیں جہاں تم نے بالآخر پہنچنا ہے تو اللہ ہی کے حضورسب اکٹھے کئے جائو گے۔ مما یجمعون کی بحث میں تفسیر بحر محیط میں لکھا ہے کہ یجمعون کی طرف اشارہ اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ جو دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ دراصل دنیا کی حرص و ہوا کی خاطر رہتے ہیں اور یہاں جمع کرنا شروع کردیتے ہیں مال و دولت۔ اور دنیا کی نعمتوں کو تو ان کو بتایا گیا ہے کہ تم آخریہ چھوڑ کر جانے والے ہو۔ الیٰ اللہ تحشرون ۔ اس سارے اندوختے کا کیا فائدہ۔جو کچھ بھی جمع کرو گے بہر حال ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس لئے جلد یا بدیر ان سے جدا ہونا مقدر ہے اور وہاں تم خالی ہاتھ جائو گے۔ سوائے اس کے کہ نیک اعمال تمہارے دامن میں ہوں۔ وہی تمہارا ذخیرہ ہے جو تمہیں آخرت میں کام آسکتا ہے۔ پس یہ معنی ہے یجمعون کا۔اب میں آیت ایک سو ساٹھ (160) یہ تو میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے۔ ان دونوں آیات کا مضمون بالکل واضح اور کھلا ہوا ہے۔ جو دو تین باتیں قابل ذکر تھیں۔ ان پر میں گفتگو کرچکا ہوں۔)
اب آیت ایک سو ساٹھ (160) میں ہم داخل ہوتے ہیں۔
فبما رحمۃٍمن اللّٰہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک‘
پس یہ اللہ کی عظیم رحمت ہے۔ بما رحمۃ کا مطلب ہے غیر معمولی اور عظیم رحمت یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃللعلمین ہونا ظاہر فرمایا گیا ہے اور یہ آپ کی ایک مستقل جاری حالت تھی۔یہ کسی حادثے کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی۔ قرآن کریم فرماتا ہے ہم نے تجھے نہیں بنایا الا رحمۃ للعلمین۔ مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ صرف مومنوں کیلئے نہیں‘صرف عربوں کیلئے نہیں۔ بلکہ دنیا کی ہر قوم کیلئے اور ہر زمانے کیلئے اور ہر جہان کیلئے۔ عالمین میں یہ سارے مضمون داخل ہیں۔ پس کوئی بہت ہی جاہل ہوگا جو اس لفظ ’’رحمت‘‘ کو جنگ احد کے موقعے سے خاص کردے گا اور ایسے جاھل موجود ہیں دنیامیں یا مرچکے ہیں۔ ان کا میں ذکر کرنے والا ہوں۔ اس رحمت کی وجہ سے جو غیر معمولی رحمت تجھے عطا ہوئی تو ان پر مہربان ہے۔ اب رحمت کے ساتھ لنت کا لفظ جوجوڑا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف مومنوں پرمہربانی کا ذکر نہیں۔ منافقوں پر بھی کافروں پر بھی سب پر مہربان ہے ۔ کیونکہ رحمۃ للعلمین کا مضمون سارے جہان پر ہر کس و ناکس پر حاوی ہے۔ اس پہلو سے لنت کا جو مفعول ہے وہ یہ سب لوگ شامل ہیں اس میں۔ تو ہر ایک سے نرمی کا سلوک فرماتا ہے یہ تیری عادت ہے یہ ‘تیری فطرت میں داخل ہے۔ ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ اگر تو بداخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا۔ ’’فظ‘‘ کہتے ہیں اس کھاری پانی کو جس میں بو بھی ہوتی ہے اور کچھ معدے کا گند بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔جو اونٹ کی اوجڑی میں اس وقت تک رہتا ہے کہ جب سب پانی کسی مسافر کے ختم ہوچکے ہوں اور کوئی رستہ نہ ہو زندگی بچانے کیلئے کہیں سے پانی ڈھونڈنے کا۔ تو وہ پانی جو اونٹ کی اوجڑی میں خدا تعالیٰ نے انتظام فرما رکھا ہے۔ آخر وقت تک محفوظ رہتا ہے۔ اس وقت پھر مجبور ہوکر یہ اونٹ کی اوجڑی سے وہ پانی نکالتے تھے اور وہ دیر کا جما ہوا پانی اور اس اوجڑی میں پھر جما ہوا پانی‘ اس میں بدبو بھی ہوتی تھی۔ اس میں کئی قسم کی تیزابتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ آخری زندگی بچانے کا ذریعہ تو تھا مگر پسندیدہ ذریعہ نہیں تھا۔ پس اس رکے ہوئے تیزابی پانی کی مثال اخلاق سے دی جاتی ہے عرب میں۔ جس شخص کا خلق ایسا ہو‘ جس سے وہ سڑا بسہ اور تیزابی اور جس کا مارا ہوا پانی جو اونٹ کی اوجڑی سے نکلتا ہے جان تو بچا دیتا ہے۔ کچھ گذارا ایسے آدمیوں کاچلتا ہے گرد و پیش باتوں میں۔ لیکن لوگ اس سے بھاگتے ہیں۔ اور وہ پانی جس طرح جب تک اشد ضرورت پیش نہ آئے۔ کوئی آدمی پینے پر تیار نہیں ہوا۔اس طرح اس آدمی سے معاملے پر سوائے اس کے کہ کوئی بچارا گیا گذرا مجبور ہی ہو کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں اس بداخلاق سے کہ جہاں مجبوری ہو وہاںپیش آگئے بس اس کے بعد اس سے زیادہ نہیں۔صاحب سلامت دور کی اچھی ہے ان سے اور بہت ہی مجبوری ہو تو پھر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ فرمایا ! اگر تونعوذباللہ من ذلک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کے بدلے یہ ہوتا یعنی دو الگ الگ کنارے دکھائے گئے ہیں۔ ایک رحمت کا کنارہ ہے جو اپنے انتہا میںایک طرف پہنچا ہوا ہے۔ دوسرا ہے فظاً کا کنارہ جو بد اخلاقی میں دوسری انتہا کو ہے۔ اگر تو فظا غلیظ القلب ہوتا۔ اور سخت دل ہوتا۔ غلیظ قلب سخت دل جو فرمایا گیا ہے اس کا بداخلاقی سے ایک فرق ہے۔ بعض قومیں مزاج کی سخت ہوتی ہیں۔ ان کے با اخلاق بھی سخت دل ہوتے ہیں اور بعض قومیںمزاج کی نرم ہوتی ہیں اور ان میں بعض سخت دل بھی‘ بد اخلاق بھی مل جاتے ہیں۔ دل کی نرم ہوتی ہیں قومیں مگر ۔ اور خوش اخلاق بھی اکثر ملتے ہیں۔ تو آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کئی قومیں ہیں جو پتھریلے علاقے میں رہنے والی ۔ اور اسی طرح ریگستانوں میں سخت زندگی بسر کرنے والی‘ جن کے دلوںمیں سختی موجود ہے‘ فرمایا اگر تویا بد اخلاق ہوتا یا دل کی سختی تجھ میں پائی جاتی باوجود اس کے کہ بظاہر ایک سخت دل قوم سے تیرا تعلق ہے۔ یعنی اہل عرب شدید تھے اپنی دشمنیوں میں بھی‘ اپنے جذبات میں بھی‘ ان کے دلوں میںایک خاص قسم کی سختی پائی جاتی تھی تو پھریہ تجھ سے دور بھاگ جاتے۔ اب سوال ایک یہ اٹھتا ہے کہ رحمت کے مقابل پر اتنی دور کی بات کیوں فرمائی گئی۔ یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اگر رحمت تجھ میں نہ ہوتی۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کی وجہ محض اخلاق نہیں تھی۔ بلکہ آپ میں دوسری خوبیاں‘ انسانی خوبیاں اور علمی خوبیاں اور تقویٰ کی دوسری خوبیاں اتنی زیادہ اور کثرت سے پائی جاتی تھیں کہ کوئی اتنا ہی بد اخلاق ہوتا کہ لوگ اس سے بھاگتے ورنہ نہیں بھاگ سکتے۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جاذبیت پائی جاتی تھی۔ ہر طرف سے وہ اتنی شدید تھی کہ کسی کے بھاگنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ فرمایا ایک ہی صورت بھاگنے کی ہوسکتی تھی کہ تو اخلاق میں اتنا سخت ہوتا اور کہ لوگ جس عام آدمی سے متاثر ہوکر دور ہٹ جاتے اور پھر دل بھی تیرا سخت ہوتا تب جاکر کہیں یہ بچارے تجھ سے الگ ہوتے۔ مگر اس کے برعکس تو تو رحمت کا مجسم ہے۔ کل عالم کے لئے رحمت ہے اور ہمیشہ ان پرجھکا رہتا ہے۔ اسلئے تجھ سے یہ بھاگ کیسے سکتے ہیں۔ یہ مضمون بعض بدبختوں نے بالکل اورطرح سمجھا ہے ۔میں اس کا ذکر بعد میں کرونگا۔ مگر پہلے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار آپ پر کرنے کے لئے کتنی عظیم شان یہاں بیان ہورہی ہے یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ موقعہ ہے ان لوگو ںکے ذکر کا جو آپ کو چھوڑکر چلے گئے تھے۔ کیسے ہوا یہ واقعہ ؟ یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ کوئی شدید مجبوری پیش آئی ہے۔ کوئی بے اختیاری کی صورت ہے۔ ورنہ تجھے چھوڑ کر بھاگ کہاں سکتے ہیں۔ تو مجسم رحمت تو مجسم خُلق۔ تم میں ادنیٰ اخلاق کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ اور دل کا ہمیشہ سے نرم۔ کہ تجھ جیسے انسان کو چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اُن کی بے اختیاری کا نقشہ ہے جو کھینچا جارہا ہے۔ فاعف عنہم و استغفرلھم اس کے بعد طبعا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پس ان سے بخشش کا سلوک فرما۔ کوئی بہت بڑی بدبختی نہیں کی گئی۔ حالات ایسے پیش آگئے تھے کہ مجبوراً بچاروں کے پائوں اکھڑے ہیں اور ریلوں میں ایسا ہوجایا کرتا ہے بعض دفعہ۔تجھ سے بے رغبتی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ تیری ناقدری کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اگر یہ ہوتا تو اس تمہید کے بعد یہ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ فاعف عنہم و استغفرلھم کتنا تضاد ہے ان دو باتوں میںیہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ ایک طرف یہ فرمایا جارہا ہو کہ تو ایسا ہے۔ اور اس کے بعد یہ کہا جارہا ہو کہ انہوں نے تیری قدر نہیں کی۔ تجھے نہیںپہچانا۔ ان سب باتوں کے باوجود عمداً تجھے چھوڑا ہے۔ اس لئے تو ا ن سے مغفرت کر یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی نامعقول بات کسی شیعہ مصنف کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ یا عیسائی Wherry کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ کسی شریف النفس معقول انسان کے ذہن میں اس بات کے داخل ہونے کی گنجائش ہی نہیں اس آیت نے چھوڑی۔ مگر آیت پر غور نہیں کرتے۔ اپنے نفس کے بغض اچھالنے کیلئے ان آیتوں کو بہانہ بنا رکھا ہے۔ اب میں بعد میں اس طرف پھر آئوں گا۔ مزیداس آیت کے ذکر میں بتاتا ہوں۔ فاعف عنہم و استغفرلھم۔ فاعف کا ایک مطلب ہے۔ بالکل تختی صاف کردے دھوڈال کہ نشان باقی نہ رکھ۔
عفت الدیار محلھا و مقامھا
جس طرح بعض شہر مٹ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اس لئے ان کے متعلق کسی قسم کی رنجش کا کوئی پہلو بھی نہیں۔اللہ سے ان کی بخشش طلب کر۔ واستغفرلھم یعنی تونے تو معاف کردیا۔ اللہ سے بھی بخشش مانگ۔ آخر کار واقعہ بڑا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے چھوڑ دینا۔ خواہ کتنی ہی مجبوری کے پیش نظر۔اپنی ذات میں بہت بڑا واقعہ ہے اور جن پر یہ گزرا ہے ان کے دل جانتے ہوں گے مدت تک ترستے ہونگے اس بات پر کہ کاش ہم نہ ہوتے تو ان کی تسلی کیلئے یہ آیت رکھی گئی ہے کہ تیرا دل تو صاف ہوجائے گا۔ تو تو کردے گا۔ تیری تو عادت ہی یہ ہے۔ لیکن اللہ سے بخشش طلب کر ورنہ ا ن کے دل کو سکو ن نصیب نہیں ہوگا اور پھر فرمایا ! وشاورھم فی الامر۔ اور ان سے مشورہ جاری رکھ۔ ان کو دور نہ پھینکنا۔ تمام اہم امور میں ان سے مشورہ کرتا رہ۔ جاری رکھ کا معنی میں اس لئے کررہا ہوں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہمیشہ سے دستور تھا۔ ہمیشہ مشورہ کیا کرتے تھے۔ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ وہ جو باغی ہوئے جاتے ہیں اور تونے انکا مشورہ نہیں مانا اس لئے آئندہ سے میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ ان سے ضروری مشورہ کرلیا کرو۔ ورنہ یہ تمہیں چھوڑ کے چلے جائیں گے۔ یہ بعض بدبختوں نے معنے کیا ہوا ہے۔ اسکے پیش نظر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ اس معنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ جنگ احد کا آغاز ہی مشورہ سے ہوا ہے اور ان کا مشورہ ماننے کے نتیجہ میں تکلیف پہنچی ہے۔ پس یہاں یہ نہیں فرمایا جارہا کہ آئندہ سے مشورہ کیا کر۔ یہاںیہ فرمایا جارہا ہے کہ آئندہ سے مشورہ کر تو اپنی مانا کرنا۔ ضروری نہیں کہ ان کا مشورہ مان۔ فرمایا ہے فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جواس جنگ واقعہ گزرا تھا۔ وہ تو یہ تھا یہ نہیں تھا کہ مشورہ نہیں کیا تھا۔ مشورہ کیا تھا اور اس مشورہ کو دل نے پسند نہیں کیا اور اس کے خلاف اظہار فرمایا اور جب ان لوگوں نے اصرار کیا جو مشورہ دینے والے تھے۔ تو ان کی خاطر اتنا نرم دل ہے لنت لھم میں یہ مضمون ہے رحمت میں دل سے مجبور ہوگئے کہ اچھا یہ میرے خدام‘ عشاق اتنا زور دے رہے ہیں۔ تو میں مان ہی لیتا ہوں۔ یہ پس منطر ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور بہت سے نوجوان ایسے تھے جو بعد میں ابھرے ہیں اور باہر سے آکے شامل ہوئے ہیں نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ جنگ بدر کے واقعات سنتے تھے تو سخت دل ان کا چاہتا تھا کہ ہم بھی لڑیں۔ جب احد کی لڑائی ہوئی ہے اس سے پہلی رات مشورے ہورہے تھے کہ ہم مدینہ میں قلعہ بند ہوکر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کر احد کے میدان میں دشمن سے ٹکرائیں۔ اس وقت بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ زور دیتے تھے کہ باہر نکل کر لڑیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اس کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس موقعہ پر بہترین دفاع قلعہ بند ہونے میں ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس صورت میں مدینہ والے پابند ہوجاتے معاہدے کی رو سے کہ وہ بھی مسلمانوں کی مدد کریں۔ یہ کوئی احسان نہ ہوتا۔ پھر اپنے گھر بھی بچانے تھے انہوں نے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کا بھی یہی مشورہ تھا کہ مدینہ میں ہم لڑیں تو ہمارے عورتیں بچے سارے ہمارا پرانا تاریخی مسلک یہی رہا ہے کہ ہم شہر کے اندر لڑتے ہیں۔ تاکہ پھر عورتیں‘ بچے ‘ مرد سب شامل ہوتے ہیں۔ پتھر اوپر اکٹھے کرلیتے ہیں اور کئی قسم کے ہتھیار اور گھروں کی چھتوں سے گلیوں میں داخل ہونے والوںکو مارتے ہیں اور عبداللہ بن سلول کہتا تھا کہ کبھی مدینے کو شکست نہیںہوئی۔جب اہل مدینہ نے مدینہ کے اندر لڑائی کی ہے کبھی آج تک تاریخ میں ان کو شکست نہیںہوئی۔پس یہ الگ بات ہے کہ اس کا بھی یہی مشورہ تھا۔ مگر یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صائب الرائے ہونے کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ واضح کیا گیا ہے اس بات کو کہ تونے مشورہ کیا ٹھیک ہے اور ان کی بات مان لی نرم دلی سے لیکن اس واقعہ کے بعد ہم تجھے حکم دیتے ہیں۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ فیصلہ تونے خود کرنا ہے آخر پر اور جب تو فیصلہ کرلے تو لوگوں پر نہیں بلکہ اللہ پر توکل ہوگا۔ کیونکہ اللہ کے حکم کے تابع تو فیصلہ کررہا ہے اور یہ جو ہے امر کا معاملہ یہ یہاں حل ہوگیا۔ یہ اس سے پہلے ذکر ہورہا تھا۔ ہمارے پاس کوئی امر ہے کہ نہیںجواب تھا تو کہہ دے الامر کلہ للہ امر تو سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔تو یہ اس کے منافی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ! اللہ کے ہاتھ میں امر ہے تو عوامی فیصلے میں کیسے ہم لازماً اللہ کی پسند شامل کرلیں گے۔ امکان ہے کہ عوامی فیصلہ درست ہو۔ لیکن اللہ کے امر کا فیصلہ اسے یقینا نہیں کہا جاسکتا۔ وہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کا رسول اس فیصلے میں بدل و جان شامل ہو۔ اور اس کا دماغ بھی یہ کہہ رہا ہو کہ ہاں یہی فیصلہ درست ہے۔ اس فیصلے کو اللہ کا فیصلہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر سارے ایک طرف رہ جائیں اور رسول کا فیصلہ دوسری طرف ہو۔ تو اللہ فرماتا ہے امراللہ کی خاطر کیونکہ امر اللہ کا ہے اور تو مجاز بنایا گیا ہے ان کے فیصلے کو ترک کردے اور کوئی پرواہ نہ کر۔ پھر اللہ پر توکل کر۔ یہ تیرے کسی کام نہیں آئیں گے مگر اللہ تیرے کام آئے گا۔ اور اسکی خاطر جو تو فیصلے کرے گا وہ لازماً ان کی تائید میں تیری پشت پر کھڑا ہوگا۔ یہ ہے مضمون جو بالکل واضح اور عین آیات کے سیاق و سباق کے مطابق ہے اور بعد میں اس کا حلیہ کیا بگاڑا گیا تھا۔ وہ میں بتاتا ہوں آپ کو۔ ان اللہ یحب المتوکلین O اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی صرف ایک معاہدے کی بات نہیںہے۔ اقرار کی بات نہیں ہے۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ توکل کا حکم دیا گیاہے اس لئے محبت کا مضمون بطور خاص اول طور پر ان کے حق میں صادق آتا ہے۔ فرمایا ہے تو جب فیصلہ کرنے والے ہو اللہ کی خاطر‘ اور جب تو توکل کرے تو پھر صرف یہ بات نہیں ہے کہ تونے ایک ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کام کیا ہے۔ تو تو میرا محبوب ہے۔ محبوب کو کو ن چھوڑا کرتا ہے۔ اس لئے صرف توکل کی بحث نہیںہے ۔اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ خاص طور پر توکل کرنے والوں کے سردار سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہاں پہلے واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔’’ توکلوا ‘‘ نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اگرچہ جماعت کا ذکر ہے مگر اول طور پر متوکل ہی مراد ہے حس کو یہ فرمایا گیا۔ ’’فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جب یہ فیصلہ کرے کوئی‘ مشورہ سُن لے ‘ درست ہے۔ فیصلہ تیرا ہوگا۔ جب تو فیصلہ کرلے تو تو اللہ پر توکل کر۔ اس لئے متوکلین کی محبت میں سرفہرست وہ وجود ہے جس کو واحد کے صیغہ میں توکل کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اب ہم اس آیت کی تفسیر میں داخل ہوتے ہیں۔کتنا ڈیڑھ گھنٹہ وقت کے لحاظ سے آج بھی کچھ منٹ زیادہ رکھے گئے ہیں یا اتنا ہی ہے جتنا روز ہوتا ہے۔ ٹائم زائد ہے ناں۔ چند منٹ یہ لیٹ آئے تھے۔ اس کی کسر نکل جائے گی۔ انشاء اللہ
’’لنت‘‘ اقرب الموارد اور منجد سے اس کی جو لغاتی بحث ہے وہ یہ ہے۔ لان لہ ولا طفہ یقال لئن اصابک ولا تخا شمھمکہ تو نرم گوشہ رکھ اپنے دل میں کسی کیلئے‘ اپنے ساتھیوں کیلئے ‘ پس لان کا مفہوم مختلف طریق پر انہوں نے چھیڑا ہے سب کا قدر مشترک وہی ہے کہ کسی سے نرمی کا سلوک کرنا۔ ملاطفت کا سلوک کرنا‘ نرم گیری سے پیش آنا۔ فظاً بدمزاج شخص کو۔ یہ فِظاًّسے مستعار ہے۔جس کے معنے اونٹ کی اوجڑی میں جمع رہنے والا پانی ہے جو سخت ضرورت کے وقت بادل نخواستہ پیا جاتا ہے۔ ’’مفردات امام راغب‘‘ اس کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ غلظ علی سخت ہونا‘ مضبوط ہونا۔یایھا النبی جاھدا الکفار و المنافقین واغلظ علیھم توبہ آیت نمبر 73 میں اس کی مثال ہے۔ غلیظ القلب کا مطلب ہے‘ سخت دل‘ شقی القلب‘ غلظہسختی کو کہتے ہیں۔ استغلظ جب پودا مضبوط ہو جائے اس وقت لفظ استغلظ استعمال ہوتا ہے۔باقی سب یہی معنے ہیں۔ ایک لفظ تھا فظ جو ’’ظ‘‘ کے ساتھ ہے جس کی پہلی بحث گزر چکی ہے۔
’’لانفضوا من حولک‘‘ ’’ض‘‘ کے ساتھ ہے۔ اس لئے جب ہم اس کو انفضکہیں گے تو ’’د‘‘ سے نہیں ہے ’’ض‘‘ سے ہے اور بعض لوگ اس کو ’’ظ‘‘ کی طرح پڑھتے ہیں۔ اس لئے میں فرق بتانا چاہتا ہوں کوئی۔ پہلے ہے۔ ’’فبما رحمت من اللہ لنت لھم و لو کنت فظْا غلیظ القلب‘‘ ’’ظ‘‘ کو جب ادا کیا جاتا ہے تو زبان تھوڑی سی دانتوں سے آگے نکلتی ہے اور اس طرح ’’ظ‘‘ کی آواز صحیح مخرج سے ادا ہوتی ہے اور ’’ض‘‘ میں زبان زرا سابل کھا کر بائیں طرف ہٹتی ہے اور ’’د‘‘ اور ’’ذ‘‘ کے درمیان کی آواز نکلتی ہے۔ ’’دواد‘‘ حس طرح یہ کہا جاتا ہے ۔ اس پر پوری طرح مجھے عبور نہیں ہے ۔ اس لئے عرب جب یہ سنیں تو میں ان سے معافی چاہتا ہوں۔ مگر قریب ترین جو میں آواز نکال سکتا ہوں وہ یہ ہے۔ آپ کو سمجھانے کیلئے۔ یہاں ’’ض‘‘ آیا ہے۔ انفض ‘ ینفض کسی چیز کو توڑنا اور ریزہ ریزہ کرنا۔ فض ختم الکتاب۔ خط کی مہر کو توڑنا کہ وہ پارہ پارہ ہوکر بکھر جائے اور فضۃ چاندی کو بھی کہتے ہیں۔انفض القوم کا محاورہ چلا ہے۔ امام راغب کے مطابق جس کے معنے ہیں متفرق اور منتشر ہوجانا۔ لیکن یہی مضمو ن جب صلہ بدل جائے تو اور معنے پیدا کردیتا ہے۔ واذا را وا تجارۃ اولھو ا انفضوا الیھا و ترکو ک قائما۔ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جب تجارت کو دیکھتے ہیں یا کسی کھیل کود کی بات کو تو تجھے چھوڑ دیتے ہیں ۔کھڑا ہوا خدا کے حضور یا خطبہ دیتے ہوئے جو بھی شکل ہے۔ اصل میں عبادت کے وقت نہیںہے خطبہ کے وقت مراد ہے۔ یہ روایات ملتی ہیں‘ لا نفضوا من حولک‘ او رمن حولک تجھ سے فضو ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تجھ سے بکھر کر دوسری طرف دوڑ پڑتے ہیں تجھ سے جدا ہوکر دوسری طرف دوڑنا۔ حالانکہ وہاں مجتمع ہورہے ہیں تو بظاہر فض کا اصل بنیادی مفہوم وہاں شامل نظر نہیں آتا۔ اس کا تو مطلب ہے بکھر جانا۔ تو جب منہ کہا جائے تو اس سے بکھر جاناتو مراد یہ ہے کہ اس سے پراگندہ ہوجاتے ہیں۔ اس اجتماع کو چھوڑ دیتے ہیںاور کسی اور جگہ جاکر جمیعت اختیار کرلیتے ہیں۔
شاور کا جو بنیادی لفظ ہے وہ ہے شہد نچوڑنا۔’’ شاورھم فی الامر ‘‘ شاور کا لفظ چھتے سے شہد کو نکالنا اور پھر شہد کو صاف کرکے اسے موم وغیرہ سے جدا کرکے خالص کردینا ہے۔یہ بہت ہی پیارا اور بامعنی عجیب معنے رکھنے والا لفظ ہے۔ جس کا استعمال قرآن کریم نے اس کے معنے کی تہہ تک اتر کر کیا ہے۔ ایک شہد کی مکھی بھی ایک قسم کا مشورہ لے رہی ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی زبان پر کسی پھول کا عرق اٹھاتی ہے۔ تو وہ صرف اس کو اسی طرح جمع نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے لعاب سے اس میں کچھ تبدیلیاں کرکے اس کی خاصیتوں میں اضافہ کرتی ہے پھر وہ شہد بنتا ہے۔ اس کے بغیر نہیں بنتا۔ تو جس کو مشورہ دیا جاتا ہے اگر وہ من و عن اسی طرح آنکھیں بند کرکے چلنے والا ہوتو اس پر درحقیقت لفظ شاور اطلاق ہی نہیں پاتا۔ اس میں مشورہ لینے والے کا عمل دخل لازماًہونا چاہئے۔ پھر جو شہد نچوڑتے ہیں وہ بھی ہر دوسری چیز چھوڑتے ہیں اس میں سے اچھی چیز عرق اور خاص جوہر کو تلاش کرکے اس کونکالتے ہیں اور جب نچوڑ لیا جاتا ہے تو ایک دفعہ پھر اس کی صفائی ہوتی ہے۔ تو مشورہ کا مطلب ہے کسی سے کچھ اس کی رائے معلوم کرنا۔ لیکن من و عن قبول نہ کرنا۔ اس کو اپنی عقل کے ساتھ پرکھنا اور اسکے بہترین حصہ کو قبول کرلینا اورپھر اسکے بعد اس کی جگالی کرتے رہنا اور آخر پر جب وہ تیار ہوجائے تو پھر بھی اس کی صفائی کی طرف توجہ دینا اور ایسی صورت میں اس کو استعمال کرنا کہ اس میں غیر کی ملونی باقی نہ رہے۔ اس مضمون میں جو شہد اکٹھا کرنے والا ہے خواہ وہ پھولوں سے لینے والا ہو پہلے یا بعد میں بنے ہوئے شہد کو اپنے لئے اختیار کرنے والا ہو۔ وہ اصل میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ تو شاور ھم فی الامرمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا ہے ۔ ان آخری معنوں میں۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوںکہ یہ وہ معنی ہیں جو اپنے انتہا تک اطلاق پا رہے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی رائے ہر طرف سے تجربے کے بعد اہمیت تو رکھتی ہے لیکن جب تک تیری رائے شامل نہ ہو تو وہ فیصلے میں شفاء شامل نہیںہوگی۔جب تک ترا اختیار بیچ میں شامل نہ ہوجائے اس وقت تک اس مشورے کو وہ اہمیت حاصل نہیںہوسکتی۔ اس لئے ’’شفاء للناس‘‘ کہا جاسکے۔ ایک غیر معمولی شان اس میں پیدا ہوجائے پس ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو یہ عمل کر اور ان سب مشوروں کو سننے کے بعد اپنے ذہن میں ان کو دہرا اور غور کر اور پرکھ اور پھر فیصلہ وہ کر جس پر تیرا دل راضی ہو‘ اور پھر اس فیصلے پر عمل دلیری سے کر۔ کوئی پرواہ نہ کر۔ کہ کوئی کیا کہتا ہے اور یقین رکھ کہ تیرا فیصلہ درست ہوگا۔ کیونکہ اللہ پر توکل کیاہے تونے۔ پس اللہ پر توکل کیا جائے تو وہ فیصلہ رائیگاں نہیں جاتا۔ اور پھر تجھ سے محبت بھی ہے تو کل کے بعد محبت بھی تو ہے۔ اب بتا تجھے کیا خوف ہے کیوں تو خواہ مخواہ لوگوں کی خاطر‘ ان کی دلداری کی خاطر بعض امور میں ضرورت سے زیادہ ان کی طرف جھک جاتا ہے۔ ’’شاورھم‘‘ کے متعلق ایک ’’نور العرفان‘‘ کتاب صفحہ111پر لکھا ہے کہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے بعض شیعہ روایتیں اپنے متعلق بنائے جاتے ہیںکہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ فلاں کے متعلق نازل ہوئی یہ قرآن کو بے وجہ محدود کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ سب اختلافی باتیں ہیں۔ اصل قرآن کو سمجھنا ہے تو اس کے سیاق و سباق کو سمجھیں۔ اور آیات خود ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح گہرا ربط رکھتی ہیں۔ ایک مضمون کو چلاتی ہیں اور دوسری آیت اگلا لفظ اس کو مزید اٹھاتا ہے اور نکھارتا ہے یہاں تک کہ ایک بار بط مضمون اس طرح کھلتا ہے جیسے پھول کھل رہا ہو اور اس میں کوئی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے اور کوئی آیت بھی اپنے سمجھنے کے لحاظ سے کسی مزیدشان نزول کی محتاج نہیں۔ سوائے ان آیات کے جن کا تعلق کسی اہم معروف تاریخی واقعہ سے ہو۔ اس صورت میںضرور ہے کہ شان نزول کی تحقیق کی جائے مگر یہ جو ہے مضمون یہ تو ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا ہے اور محل کے مطابق نہیں ہے محل تو میں نے بیان کردیا۔ اس سے تو بات خوب کھل گئی کہ مشورہ کیوں ہوگا اور آخری صورت میں مشورہ کی کیا شکل نکلے گی۔ اس میںحضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض سنیوں نے بدلہ اتارنے کیلئے شیعوں کو کہا اچھا تم روایتیں بناتے ہو ہم بھی بنا سکتے ہیں‘ ’’عزم‘‘ عزم کس کو کہتے ہیں لفظ ہے عزم جدفی امرہٖ اپنے کام میں جیت گیا اور کوشش کی۔ قرء العزائم دم کرنے والوںنے منتر پھونکے۔ گویا عزم فلان علی رجل ‘ اقسم علیہ و فی الکتاب الجامع ای اقسمت علیک۔ کسی پر قسم کھا کر کوئی بات کرنا۔ وہ ضرور یہ کام کرے گا۔’’فاذا عزمت‘‘ کا اس لغوی معنے سے کیا تعلق ہے۔ یہ بحث ہے مراد یہ ہے کہ جس طرح قسم کھانے والا اپنے فیصلے کو قوی بتاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں کسی قیمت پر اس کو توڑنے والا نہیں تو ایسا فیصلہ پھر کر کہ گویا تو قسم کھا بیٹھا ہے اور کسی طرح وہ ٹوٹنے والا نہیں۔ ایک تو فیصلہ رسول کا اور پھر یہ بھی ایسا جیسے قسم کھا بیٹھا ہو۔اس کے کسی ٹوٹنے یا بدلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تو بعد میں پھر جو مرضی کرنا۔ بعد میں پھر متردد نہیں ہونا۔ جو فیصلہ کرلے توکل کر اور پھر پوری قوت سے اس فیصلے پر عملدرآمد کرا۔ باقی ساری جو ہیں بحثیں وہ انہیں مضامین کے گرد گھوم رہی ہیں جو میںبیان کرچکا ہوں۔ اگر کوئی خاص بات اس مطالعہ کے دوران نظر آئی تو میں آپ کو بتادوں گا۔ بعض کہتے ہیں کہ شاورھم کی ضرورت کیا ہے۔ جب نبی کا خدا سے تعلق ہے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتا ہے تو شاور ھم کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس بحث کوکیوں چھیڑ اگیا ہے۔ تو اس پر ایک دلچسپ بات امام شافعیؒ نے یہ لکھی ہے۔ ان کے مسلک میں کنواری سے مشورہ لینا اس کی شادی کے متعلق یہ دلداری کی خاطر ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو انہوں نے یہ فقہی مسئلہ بھی ساتھ حل کرلیا۔ کہتے ہیں یہاں بھی ویسا ہی معاملہ ہے کہ جس کو پنجابی میں ’’پوچا پاچی‘‘ کہتے ہیں۔ اوپر اوپر سے دلداری کیلئے بات کرلے۔ ویسے مشورہ کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مشورے کامضمون آپ غور سے دیکھیں۔ تومراد ہے کہ یہ تیری شہد کی مکھیاں‘ یہ تیری عاشق‘ یہ تیری تابع فرمان جگہ جگہ سے اپنے تجربوں سے حکمت کے موتی چنتی ہیں اور جوہر اکٹھی کرتی ہیں۔ ان سے لے لیاکر‘ لیکن پر کھاتو خود کر‘ اور اچھی طرح جب ترا دل اطمینان پاجائے۔ جب تیری رائے پوری طرح شامل ہوجائے تب یہ قابل قبول بات ہوگی اور ایک دفعہ ایسا ہو تو پھر توکل کر۔ اس لئے مشورے کا اگر صرف یہ مراد ہو۔ اگر کسی کو پتہ ہو کہ ’’کچی میٹی ہے۔ تو لوگ توویسے ہی بد دل ہوجائیں۔ مضمون تو ان کواکٹھا کرنے کا ہے۔ وہ تو لوگ بھاگ جائیں گے کہ یہ اچھا ہے‘ ہم جب چھوٹے ہوتے کھیلا کرتے تھے‘ ’’کچی میٹی‘‘ کا مضمون مجھے یاد آتا ہے۔ بعض بچوں کوجو چھوٹے ہوتے تھے ناں۔ ا نکو کہتے تھے کہ تمہیں کھیل میں شامل نہیں کریں گے اور جب ضد کرتے تھے تو کہتے تھے اچھا بھئی آجائو۔ ’’کچی میٹی‘‘ اگر ہار بھی گئے توکوئی شکایت نہیں۔ ہاتھ لگ جائے اسکو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ مرے نہ مرے ایک ہی برابر ہے۔ یہ عجیب مشورہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور پھر خدا کہہ رہا ہے کہ کوئی بات نہیں ’’کچی میٹی‘‘ ہیں یہ ان سے بات کرلے۔ پرواہ نہ کر۔ مقصد یہ نہیں ہے صرف پہنچانا مراد ہے۔ پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتا ہے کہ تو اللہ کی رحمت سے ان کی طرف نرمی کرنے والا‘ شفقت کرنے والا ہے۔ وہ تیرے عشاق ہیں۔ اور شاور میں بھی شہد کی مکھیوں کا مضمون انسان کے سامنے ابھر آیا ہے اس لئے یہ سب باتیں یونہی چٹکلے ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کہتے ہیں مکاتب وقتادہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ عمل عربو ں کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ عرب سرداروں سے جب مشورہ نہیں لیا جاتا تھا یہ امر ان پر گراں گذرتا تھا۔ تو ان کی دلجوئی کی خاطر یہ فیصلہ ہوا۔ تعجب ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا کب تھا۔ موقعہ کونسا ہے یہ کہنے کا۔ آپ نے تو مشورہ کیا اور بار بار مشورہ کیا اور مشورہ قبول کرلیا اور اس قبول کرنے میں کچھ ایسے خطرات شامل ہوگئے جن کی پیش بندی آپ نے فرمائی لیکن بعض لوگوں کی غلطی سے وہ جو اس میدان میں جانے کے خطرے تھے وہ حقیقی بن گئے ۔ یعنی اگر وہ درے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پچاس سوار اور تیر اندازوں کو مامور نہ فرماتے تو باہر نکلنے کا فیصلہ بڑا غلط تھا پھر۔ وہ خطرے کا مقام تھا۔ آپ نے اپنی عظیم فراست سے پہچان لیا اور اس خطرے کو بند کردیا۔ اس کی راہ بند کردی۔ تو جو نقصان پہنچا وہ مشورہ مان کر ہوا ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کیسے فرما سکتا ہے کہ پھر بھی مشورہ کر۔ پوری طرح نہیں نقصان ہوا ’’نعوذ باللہ‘‘مزید مشورے کر۔ یہ معنی ہے کہ مشورے کر لیکن مان اپنی۔ غور کے بعد اچھی بات مل جائے تو بے شک قبول کر۔ لیکن نرمی اور شفقت اور رحمت کی وجہ سے دلداری کی خاطر ان لوگوں کی بات مان لینا۔ آئندہ سے تو اس سے پرہیز فرما۔ یہ کام نہیں پھر کرنا۔ اختیار آپ سے لے کر دوسروں کو نہیں دیا جارہا۔ دوسروں سے لے کر آپ کو دیا جارہا ہے۔ جس کا بالکل برعکس مضمون بعض مستشرقین ا ور بعض دوسرے ظالم سمجھے ہیں۔ باقی سب وہی
امام رازی کہتے ہیں فض اور غلیظ القلب میں فرق کیا ہے۔ کہتے ہیں فض جو ہے وہ بداخلاقی کو ظاہر کرتا ہے۔غلیظ القلب دل کی ایک مستقل سختی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ میں پہلے ہی گفتگو کرچکا ہوں۔ ایک نیا نقطہ تفسیر روح المعانی نے بیان کیا ہے جس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ کہ فضاً سے مراد وہ بداخلاقی ہے جو ظاہری اقوال اور افعال میں کی جاتی ہے جبکہ غلیظ القلب میں باطنی امور میں بد اخلاقی مراد ہے یہ درست نہیںہے۔ یہ زبردستی کی تقسیم ہے۔ حضرت امام رازی والی بات ہی درست ہے کہ دل کی سختی ایک مستقل حالت کا نام ہے اور بعض قوموں میں پائی جاتی ہے اور جو اخلاق کی خرابی اور بد مزاجی جو ہے یہ ایک عام حالت ہے جو کسی جگہ بھی پائی جاسکتی ہے ۔ عارضی بھی ہے اور مستقل بھی بن سکتی ہے۔ بحر محیط نے ایک عمدہ معنی یہ پیداکیا ہے یا معلوم کیا ہے جو موجود تھا وہ کہتے ہیں فاعف عنھم و استغفرلھم کے بعد شاور ھم بہت ہی برمحل کلام ہے کیوں کہ وہ لوگ جن سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پوری طرح صاف ہوچکا ہو۔ اور ان کے لئے بخشش کی دعا مانگ چکے ہوں۔ ان میں مشورہ دینے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ متقی لوگ ہیں جو خدا کی رضاء کے تابع ہوگئے ہیں اس لئے اب وہ اس لائق ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ دوسروں سے مشورہ نہ کر۔ ا ن پاک لوگوں سے مشورہ کر جن کے متعلق تیرے دل میں کوئی کدورت نہ ہو۔ اور جن کے متعلق توخدا سے ان کیلئے بخشش طلب کرتاہو۔ یہی اس بات کے اہل ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے ۔ یہ بحر محیط میں درج ہے بہت ہی پیارا معنی ہے۔ جو انہوں نے پیش کیا ہے۔بعض لوگوں نے فی الامر سے مراد صرف جنگ لی ہے کہ جنگ کے معاملات میں یہ درست نہیں ہے یہ وہی شان نزول کے ساتھ بہت دیر سے باندھنے والی ہے مضمون کو۔ یہ ہمیشہ جاری مضمون ہے قرآن کریم کا اور ساری دنیا کی مختلف صورتوں پر اطلاق پانے والا ہے۔ اس لئے اس کو صرف ایک شان نزول سے باندھ دینا۔ یہ درست نہیں ہے۔بعض کہتے ہیں کہ یہاں صرف دین کے معاملات میں مشورہ مراد ہے۔
چنانچہ محاسن التاویل از محمد جمال الدین قاسمی میں یہ درج ہے کہ دین کے معاملے میں مشورہ اس لئے ہم مراد لے رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ کو ایک موقعہ پر فرمایا۔ ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ دنیا کے معاملات میں تم زیادہ جانتے ہو۔ یہ غالباً اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جبکہ کھجوروں کے جن کی نرسری تیار کی گئی تھی۔ بعض صحابہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کررہے تھے۔ جو دستور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ بڑے پیارے پیارے خوبصورت دکھائی دینے والے پودے تھے آپ نے فرمایا کیا ضرورت ہے یہاں سے اٹھا کے کیوں وہاں بدل رہے ہو اور انہوںنے سمجھا کہ بس اسی میں کوئی برکت ہے۔ اور چھوڑ دیا اور یہ تھوڑی سی جگہ ہے۔ اتنے پودے پل ہی نہیں سکتے تھے۔ جب بڑے ہوئے تو قلت ہوا قلت غذا‘ قلت آب کی وجہ سے جل گئے۔ تو وہ شکایت لے کر آئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا فیصلہ تھا۔ ہم نے مان لیا یہ نتیجہ نکلا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ میں تو رسول ہوں اللہ کا۔ دین کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ یہ زراعت کے معاملات تمہارے ہیں۔ تم بہتر جانتے ہو۔ مطلب تمہیں کہہ دینا چاہئے تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات یوں نہیں یوں ہے۔ بعض احمدیوں کو بھی میں نے دیکھا ہے اس معاملے میں بعض دفعہ غلو کرجاتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی بات کے سارے پہلو سامنے نہیںہوتے۔ دنیاوی ایک مشورہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان کو میں ان حالات کے مطابق مشورہ دے دیتا ہوں بجائے اس کے کہ مجھے یہ بتائیں بعد میں کہ یہ حالات بدل گئے ہیں یا ان میں یہ وسعت تھی۔ جو ہم نے پیش نہیں کی۔تو اس طرح رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ایسا شاذ ہوا ہے مگر ہوا ہے۔تو میں ان سب کو یہ کہتا ہوں کہ جب مشورہ کیا کرو۔ تو سارے پہلو سامنے رکھا کرو اور دنیاوی امورمیں جو مشورہ ہے۔ اگر اس کو ماننے پر طبیعت آمادہ نہ ہو اور کوئی دلیل اس کے خلاف موجود ہو توپیش کرنی چاہئے۔ باوجود دل میں ایک الجھن کے کہ غالباً یہ بات درست نہیں۔ فلاں امر کو نظر انداز کرکے کی گئی ہے اورپھرچُپ کرکے اُس پر بیٹھ رہنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مستقل حکم انجمن میں لکھوایا ہے اس بات پر کہ بعض دفعہ میں ایک فیصلہ کرتا ہوں یعنی یہاں دنیاوی نہیں بلکہ دینی امور میں بھی یہ مضمون کسی حد تک صادق آتا ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں ہوتا کہ اس سے ملتے جلتے حالات میں میں نے ایک اور فیصلہ کیا تھا جو مختلف تھا اور اس کی کوئی وجہ تھی اور تمہیں علم بھی ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے اور تم بغیر اس کے کہ مجھے بتائو کہ پہلے ایسی بات گذر چکی ہے تم چپ کرکے یہ بات مان لیتے ہو۔ اورپھر ایک تضاد کی شکل ہوجاتی ہے۔ اس لئے میں مستقلاً حکم دیتا ہوں کہ جب بھی میرا کوئی حُکم ایسا ہو ۔ جس میں تم یہ سمجھو کہ کسی وجہ سے یہ نظر ثانی کا محتاج ہے تو وہ وجہ پیش کرکے دوبارہ مجھ تک پہنچائو۔ جب تک میں دوبارہ فیصلہ نہ کردوں۔ اس وقت تک آنکھیں بند کرکے اس پر فوری عمل نہ کرو۔سوائے اس کے کہ بعض احکامات میں زیادہ تاخیر سے عمل کرنا ضائع کرناہوتاہے ایسی صورت میں عملدرامد اگر مجبوری ہے تو شروع کردیا جائے اور جلد از جلد رابطہ کرکے صورت حال پیش کردی جائے تویہی مضمون ہے جو ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ میں ہے۔ مگر یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک انکسار کا اندازہے۔ یہ جو امور دنیا ہیں ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے عظیم الشان حکمت پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ اس لئے جہاں بظاہر مقابلہ ہے کہ مستشرق امور دنیا میں زیادہ عالم ہو۔ یہ مراد نہیں ہے۔ فیکٹس (Facts)کا علم ہے مراد۔ یعنی تمہیں بعض حقائق زراعت کے معلوم ہیں روزمرہ کے تجربات کی وجہ سے۔ اور و ہ حقائق میرے علم میں نہیں ہیں اس لئے یہ فیصلہ غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر حقائق ایک جیسے سامنے ہوں تو ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مقابل پر کسی اہل دنیا کا فیصلہ دنیاوی امور میں بھی آپ سے بہتر ہو۔ پس حقائق کا علم نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے اور یہاں اعلم سے مراد صرف یہی ہے۔بعض نے کہا ہے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے تجھ سے اعراض کیا ہے شکست کھانے کے بعد تیرے پاس آئے ان کے لئے ہے کہ تو ان سے نفرت کا سلوک کر ۔ یہ درست نہیں ہے۔ خواہ مخواہ آیت کے وسیع اطلاق کو محدود کرنے والی بات ہے۔ محمد جمال الدین قاسمی ناسخ التاریخ میں یہی بات لکھتے ہیں جو میں بیان کرچکا ہوں کہ نئے طورپر مشورے کا مضمون شروع ہی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں آپ تو ہمیشہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ جنگ بدر میں مشورے کئے۔ ہر دوسرے اہم امر میں مشورہ فرماتے تھے اوراپنی ازواج سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا وہ حوالہ دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں تمہیں یاد نہیں کہ جب بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا تھا تو مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کریہ کہا تھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم وہ لوگ نہیں ہیں جیسے موسیٰ کی قوم کے لوگ تھے۔ انہوں نے موسیٰ سے کہا تھا اذھب انت و ربک فقاتلا ‘‘ جا توُ اور تیرا رب لڑتے پھرو ’’وانا ھھنا قاعدون‘‘ ہم تو یہیں بیٹھ رہیں گے۔ بلکہ ہم تو وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں بھی لڑیں گے۔ اور دشمن کی مجال نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے مگر اس صورت میں کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے۔ وہ کہتے ہیں دیکھو وہ مشورہ ہی تو تھا۔ مشورے کے نتیجے میں یعنی یہ بات تو نہیں لکھی۔ لیکن ایک برکت مزید حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کا جو حکم ہے۔ اس میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ایک تو فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی حکم اور ایک یہ بتانے کیلئے کہ یہ دائمی امر ہے۔ امت محمدیہ میں مشورہ کا نظام ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہ عارضی بات نہیں ہے۔ مشورے سے یہ تقویت ملتی ہے کہ دلوں کے وہم نکلتے ہیں۔ غلط خیالات میں سے باطل نکال دیئے پاک ہوجاتے ہیں۔ ایک انسان کمزور رائے رکھتا ہے۔ اس کو کھنگالنے کا موقعہ نہیں ملا۔ جب مجلس میں مشورہ کیا جاتا ہے تو ایک آدمی کہتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ وجہ ہے دوسرا کہتا ہے کہ نہیں یہ پہلو بھی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیا جائے تو سب لوگو ںکے دلوں سے جو انفرادی وہم ہیں وہ نکل جاتے ہیں اور ایک اجتماعی سوچ بڑی قوت کے ساتھ ابھرتی اور اس سے لوگوں کو قوت عمل ملتی ہے۔مزید طاقت نصیب ہوتی ہے۔ مزید یقین ہوتا ہے اپنے مطلب کا۔ پس یہ جو واقعہ گذرا ہے جنگ بدر میں اسے ایک مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا۔ اس سے عجیب دلوں کی کیفیت پیدا ہوگئی ہوگی۔ اندازہ کریں اس سے ان کے عزم میں کیسی مزید قوت پیدا ہوگئی تھی اور کسطرح یقین پریقین دل پر جم گیا ہوگا۔ اس میں دلوں میں جا گزیں ہوچکا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک اور کہنے والے نے یہ کہا‘ کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان سے مشورہ مانگتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کہیں تو ہم سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیں گے اور کوئی جان کی پرواہ نہیں کریں گے یہ میں اس لئے بیان کررہا ہوں کہ بعض بدبخت بعد میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر یہ بھی الزام لگائیں گے کہ بکھرنے والے کمزور‘ ڈرپوک ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جانے والے تھے۔ یہ بالکل جھوٹے الزام ہیں۔ یہ سارے لوگ جن کے اوپر یہ الزام گندے لگائے ہیں جنگ بدر میں شامل تھے۔ اس وقت ان کو جان پیاری نہیں تھی؟ اگر جان پیاری ہونے کی وجہ سے بھاگتے تو اس سے پہلے تو آزمائے جاچکے ہیں۔ اس لئے یہ سب بدبختی کے الزام ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت بھی نہیں ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ترجمہ اس کا یہ فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو اُن پر نرم ہوا‘ اگر تو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اس ضمن میں ایک بات یہ فرمائی ہے آپ نے بہت ہی اہم ’’ توکل ایک طرف سے توڑ اور ایک طرف جوڑ کا نام ہے۔ فاذا عزمت فتوکل ‘ مراد یہ ہے کہ مشورے کی حد تک تیرا جوڑ انسانوں سے تھا جب فیصلہ کرلیا تو تیرا انسانوں سے تعلق خداکی طرف منتقل ہوگیا اور توکل کے یہ معنی ہیں۔ ایک طرف سے جوڑ کاٹ کر دوسری طرف جوڑ باندھ دیا۔ یہ بہت ہی پیارا معنے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل پر اپنے کمال کے ساتھ صادق آتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توکل کے مضمون پر بہت پیاری لمبی گفتگو فرمائی ہے اور اس میں اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال بھی دی ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملنے آیا اور باہر گلی میں اونٹ چھوڑکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جب باہر نکلا تو اونٹ جا چکا تھا۔ وہ واپس آیا یہ شکوہ کرتے ہوئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے ملنے آیا اور توکل کیا کہ اس مقدس زیارت کی برکت سے میرا اونٹ وہیں کھڑا رہے گا توپھر بھی چلا گیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔توکل یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ یعنی سبب کو اپنے آخری مقام تک پہنچا دو۔ اسباب کو ترک کرنا توکل نہیں ہے۔ اور اس کے بعد وہموں میں مبتلا ہونا یہ بھی توکل نہیں ہے۔ کہ یہ نفس کی الجھنیں ہیں ان میں کوئی بھی توکل کہنا ہی اس کو غلط بات ہے۔ خدا نے جو توفیق دی وہ کرلو۔اس کے بعد پھر معاملہ خدا پہ چھوڑ دے۔ اور خدا پر چھوڑنے کے بعد اگر کوئی نقصان پہنچے تو پھر اس کو اس طرح برداشت کرو جیسے مالک کا فیصلہ ہے۔ توکل سے یہ نیا مضمون ابھرتا ہے اور اس سے دلوں کو بہت تسکین ملتی ہے۔ آپ کا کوئی عزیز بیمار ہو اس کیلئے جو چارے ہیں وہ ضرورکریں لیکن اگر توکل چاروں پر نہیں ہوگا اور خداپر ہوگا تو چاروں سے جوڑ کٹ جائے گا اور اللہ سے جوڑ بندھ جائے گا۔ جو نقصان پہنچتا ہے تو اللہ سے کس طرح شکوہ کرسکتے ہیں آپ۔ وہ تو مالک ہے۔لیکن جن کا توکل بندوں پر ہو اور اسباب سے جڑے رہیں ان کا یہ جوڑ کٹتا نہیں ہے اور اس کا جو یقینی اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے کہ جب ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو روتے اور پیٹتے اور بے صبری دکھاتے اورکہتے ہائے ہم پر یہ کیا ہوگیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ توکل ان کا اسباب پر ہی تھا۔ اسباب سے مایوس ہوگئے ۔ تو شکووں کا حق ہے۔ مگر اللہ سے تو شکووں کا کوئی حق نہیں ۔ مومن کو جو تعلیم دی گئی ہے اس میں ہر قسم کے نقصان پر صبر کا ایک سلیقہ سکھا دیا گیا ہے اور صبر حاصل کرنے کا ایک گُر بتادیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ایک چھوٹے سے فقرے میں مضمون بیان فرمایا ۔ عظیم الشان مضمون ہے۔ توکل کہتے ہیں ایک طرف سے جوڑ کاٹنا اور دوسری طرف منتقل کرکے وہا ںجوڑ باندھ دینا۔
اُحد کے میدان میں جنگ کا مشورہ دینے والوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے۔ اس لئے شیعوں کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک بھی اور قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے بعض اکابر نے بھی مشورہ دیا تھا۔ (شروع الحرب ترجمہ فتوح العرب صہ ۸۸۲ مولفہ محمد بن عمرو اقدی)
اس میں سے لیا گیا حوالہ
اب آئیے مستشرقین کی طرف : Richard Bell لکھتا ہے۔
Can hardly has beenmeant for publication.
160 کی آیت جو ہے۔ عجیب ہی پاگل آدمی ہے میںنے Wherry سے زیادہ خبیث دشمن اور جھوٹا اور مکار اور نہیں دیکھا مستشرقین میں اور Bell سے بڑا گدھا نہیں دیکھا۔یہ ایسے لگا جیسے گدھے کے گلے میں bell باندھ دو۔ کہ گدھا چل رہا ہے اور ٹن ٹن کی آواز میں پتہ لگے کہ گدھا آرہا ہے بڑا ہی بے وقوف آدمی ہے کہتا ہے۔ Hardly meant for publication
غلطی سے آگئے مراد یہ تھی کہ مختص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کو بتا کر اپنے پاس ہی رکھتے۔
‘‘it suare how delicate the situation was after defeat at Ohad. It is address to the Prophet. His first impulse had been to speak roughly to his followers.
‎ آیت کچھ اور کہہ رہی ہے۔ کہتے ہیں جو صاف ظاہر ہے اس آیت سے کہ آپ کی پہلی impulse یہ تھی پہلا ردعمل کہ خود سختی کریں ان لوگوں پر ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ کہتا ہے۔
First followers but by the Mercy of Allah he has been and spoken milaly.
اللہ کی رحمت ہوگئی جو بولے۔ ورنہ دل کے تو سخت تھے۔ مزاج میں سختی پرانی تھی۔ یہ مراد لے رہا ہے۔ آیت بالکل برعکس بات کہہ رہی ہے۔ عجیب ہی پاگل قوم ہے یہ جن سے ہمیں واسطہ پڑا ہے۔
He is now consult to forgive them.
کہتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ ان کو (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم) مشورہ دے رہا ہے کہ معاف کردے۔
and even to promise to cunsult them in future operation.
کہتا بڑی غلطی ہوگئی کہ ان سے مشورہ نہیں کیا۔ اس لئے سارا نقصان پہنچا۔ کہتا اس لئے promise کر ان سے کہ آئندہ میں تجھ سے مشورہ کیا کروں گا۔ یہ میں نے آپ کے سامنے حالات کھول دیئے ہیں۔ اس کے بعد دیکھیں کس قدربکواس ہے۔ جھوٹ اوربہتان ہے اور جہالت کتنی ٹپک رہی اس شخص سے۔ اس لئے دشمنی میں اول نمبر Wherry اور حماقت میں اول نمبر Bell ۔ ان کی مثال ہی اور کہیں مستشرقین میں نظر نہیں آتی۔ Wherry کو سُن لیجئے۔
اس سے پہلے والے gentle بات کرنے والے صاحب جو ابھی زندہ ہیں۔ مسٹر منٹگمری واٹ
وہ نسبتاً اپنے آپ کو gentle ناقدین میں شمار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔gentle address to Muhammad Personly. یعنی یہ جو gentle کا لفظ ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو Personaly مخاطب کرکے کہا گیا ہے۔
But the exact refrence is not clear.
سمجھ نہیں آتی کیا بات ہورہی ہے۔
Perhaps it was his attitude to the hypocirates.
ہوسکتا ہے hypocirates کی طرف ان کے attitude کی طرف اشارہ ہو۔ اوربات کچھ clear نہیں۔ بات کو آگے چھوڑجاتا ہے۔ اس سے زیادہ واضح کیا بات ہوگی۔ فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم‘ مستشرق بنے ہوئے ہیں عربی کے ماہر۔کئی سال وہاں فلسطین میں یہودیوں کے ساتھ بیٹھ کے اس نے عربی سیکھی ہے اور کہتا ہے مجھ پر بات واضح نہیںہوئی۔ قرآن فرماتا ہے۔ فبما رحمتہ من اللہ لنت لھم ‘ تجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحمت عطا فرمائی ہوئی ہے۔ تجھے رحمۃٍ للعلمین ‘ بنایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے تو ان سے ہمیشہ نرم رہتا ہے اور اب بھی نرم ہوا ان سے۔ ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو سخت دل ہوتا‘ بد مزاج ہوتا تو پھر یہ ہوجانا تھا۔ وہ کہتے پتہ نہیںلگ رہا کیا کہہ رہے ہیں (پتہ نہیں لگ رہا تو ہم کیا بتائیں تجھے) بیوقوف بڑے ہیںیہ لوگ۔
اب Wherry کو سُن لیجئے۔
The policy of Muhammad in dealing with his followers is here distinctly announced.
کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے ماننے والوں سے جو حکمت عملی ہوسکتی تھی ۔ وہ یہاں خوب کھل کر کھلے لفظوں میں بیان کی جارہی ہے۔ آئندہ کے لئے گویا کہ ایک حکمت عملی ہے۔
They had certainly merited severe punishment.
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کو بڑی سخت سزا ملنی چاہئے تھی اور اس کا تمام جواز موجود تھا۔
But there were powerful adversaries in Madina.
یعنی اس کا کیا کیاجاتا مدینے میں بہت بڑے سخت مخالف‘ بڑے طاقت ور مخالف موجو د تھے۔ یہ مدینے کی تاریخ انہوںنے پڑھی نہیں۔ جو طاقت ور مخالف تھے وہ سارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھکنے پر مجبو ر ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے میثاق مدینہ لکھا جاچکا تھا۔ اس پر سب نے متفق طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سردار مان لیا تھا۔ دنیا کے امور میں بھی اور اگر ان کی ایسی طاقت تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر تو پھر منافق پھر کیوں تسلیم کرتا کوئی۔ بار بار کہتا وہ منافقین تھے۔ تو منافق تو ہوتا ہی وہ ہے جو ڈر کر چھپاتا ہے اپنے آپ کو۔ بہادر اور بے خوف آدمی جس کو اپنے غلبے کا یقین ہو وہ منافق کیوں خواہ مخواہ بنتا پھرے گا۔ اس لئے یہ نہایت ہی بے وقوفوں والا تبصرہ ہے۔لیکن آگے چلیں ابھی تو اور آگے آتے ہیں۔ کہ
but there were powerful adversaries in Madina. Who would have taken advantage of any attempt to enforce punishment of a severe nature.
کہتا اگر سختی کرتے تو بڑا سخت انہوں نے ردعمل دکھانا تھا۔ کیسے برداشت کرتا۔
Besides, no slight shock to the new faith had been felt owing to the defeat, and it became a matter of the utmost importance to establish that faith. Hence the mild words, and the forgiveness so freely bestowed.
کہتا بات یہ ہے کہ اپنے دین کو انہوں نے وہاں نافذ کرنا تھا اور کوئی معمولی shock نہیں پہنچا تھا اس دین کو۔ ان کو جنگ اُحد میں اتنا شدید صدمہ پہنچ چکا تھا۔ دین کو گویا سارے منحرف ہونے کو پھرتے تھے ایسے وقت میں اس کے سوا پالیسی ہوکیا سکتی تھی کہ انکو کہا گیاکہ دیکھو دیکھو ! نرمی کرنا ‘ آہستہ بولنا ‘ آئندہ سے۔ کوئی سختی کا کلام ان سے نہیں کرنا۔ گویا کہ پہلے تو ہمیشہ سے سخت ہوکر آیا ہے اور حالات تھے اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب سے پالیسی یہ ہے تو نرم ہو۔اب جس نے قرآن کریم کی آیت پڑھی ہو۔ وہ جانتا ہو اس کا ترجمہ جیسے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کیا کہے گا ایسے بدبخت آدمی کے متعلق ۔ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے یا آگ میں جل رہا ہے۔ اصل میں جنگ احد کے اوپر بڑے لوگوں کو آگ لگی ہے کچھ لوگوں کی آگ کا میں کل ذکر کرچکا ہوں۔ کچھ کا اب پھر بھی کروں گا۔ ان میں آگ لگنے والوں بھی یہ بھی ہیں۔ بڑی شاندار فتح ہوئی دشمنوں کو عرب۔ وہ کہتے ہیں مکے کے شہزادوں کو۔ اور ہوا کیا کچھ بھی نقصان نہ ہوا۔ اور عالم اسلام اسی طرح دندناتا رہا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر دوسری عظیم فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔ یہ ہے تکلیف کہ مٹا کیوں نہ دیا۔ ایک ہی تو موقعہ ہاتھ آیا ساری تاریخ میں ۔جبکہ معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا ۔وہ پاگل اسی طرح مڑ گئے کچھ بھی نہ ہوا اس پر مزا صرف لوٹتے ہیں اس کو عظیم فتح کہہ کر اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہے عظیم فتح کے بعد میں جو رونما ہو نے والے فضائل ہیں ان سے وہ سارے کلیۃًمحروم رہتے ہیں لیکن کہتا ہے ۔
Let it be observed that all these mild words and expression of forgiveness are set forth as coming from the mouth of God and yet the same divinity commends the mildness of the Prophet اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے حالانکہ وہ دوسری بات جو ہے وہ ہے ہی نہیںاس میں ایک ہی بات ہے اب آئیے میر احمد علی صاحب ؎غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
The deserters in Ohad actually deserved to be punished but even in view of the grant of parden to them there remains no room for the recipients of the parden to say that they actually deserved it or that they had been honourably acquitted of the changes against them. It is only that the punishment has been offered to be condoned and not the wiping out of the charge. The blot of conviction remains there.
کہتا دیکھو معافی تو مل گئی ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں ان کو یہ سمجھنے کا کوئی حق نہیں ملا کہ ہمارے دل سے ہر قسم کے لغزش کے اثرات صاف ہوچکے ہیں۔ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے معافی تو دی ہے لیکن وہ داغ جو دل پر لگایا گیا ہے۔ اس کو قائم رکھا ہے اور اس کو کوئی دنیا میں مٹا نہیں سکتا۔ وہ کہاں سے داغ لیا ہے انہوں نے۔ ان کے اپنے دل کا داغ ہے۔ نفرت اور بغض کا داغ ہے۔ جو ابھر رہا ہے۔ اور بالکل یوں لگتا ہے جس طرح ایک طرف عیسائی اس موقعے پر شدید بے چین ہیں کہ فتح ہوئی بھی دشمن کو لیکن فوائد سے محروم رہا۔ یہ کہتے ہیںیہ موقعہ تھا ۔ جب خدا کی طرف سے ان سب کو کلیتہً ہمیشہ کیلئے دائرہ اسلام سے خارج کرکے باہر پھینک دینا چاہئے تھا۔ اس سے غلطی ہوگئی یہ نہیں ہوا۔ اس کو پیٹ رہے ہیں۔ اتنا غصہ کس بات کا معافی پر۔ اس بات کا غصہ ہے کہ یہ موقعہ تھا ا نکو باہر نکال کر اللہ تعالیٰ باہر پھینک دیتا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیچھا چھوٹنا۔ اور پہلی خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل جاتی۔ یہ ترکیب ہمیں تو آئی ہے اور اللہ کو نہ آئی اور ہم مجبور ہیں بچارے ہم کیا کریں اب اس لئے ایک ہی رستہ کہ گالیاں دے کر بغض نکالو۔ اور کیا رستہ رہ گیا ہے۔ جتنی گالیاں دے سکتے ہو دیتے چلے جائو۔ تاکہ کسی طرح دل کا بوجھ کچھ ٹھنڈا ہو۔ دل کی آگ کچھ ٹھنڈی ہو۔ لیکن یہ ٹھنڈی ہونے میں آ نہیں رہی۔ آگے سنئیے۔
The people certainly deserved other treatment, but owing to the mercy of God which does not want to leave the sinner till all has been done for him, the Prophet was made lean-hearted towards them.
یعنی یہ بھی یہ مانتے اس وقت گویا کہ بنایا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حالت نہیں ہے۔ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ تمام کرنے کی خاطر معافی دی گئی ہے اور بھی ان سے گناہ سرزد ہونے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ہے اور اس وقت اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کیلئے نرم دل بنایا گیا۔ تاکہ کچھ اور موقعہ دے دیا جائے۔ اصلاح کرلی تو ٹھیک ورنہ ہم ان کو پکڑ لیں۔ یہ مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے۔
else the people would not have cared to stay around him and the whole scheme of guidance and salvation of mankind would have come to an end.
ساتھ یہ بھی ساتھ لگادیا کہ نرم دل بتایا ہے اگر یہ نہ ہوتے تو سب دنیا بھاگ جاتی اور ٹیم جو تھی خداتعالیٰ کی طرف سے مانگ تانگ کیلئے وہ ہاتھ سے نکل جاتی۔ تو اب اس پر غور کریں اس کا مطلب کیا بنایا ہے انہوں نے۔ مطلب ان کے ذہن میں یہ ابھرا ہے کہ منافقوں سے بخشش اس کے باوجود کہ وہ منافق رہیں گے اس لئے تھی کہ مجبوری تھی خدا کی۔ اگر وہ یہ نہ کرتا تو ان سب نے بھاگ جانا تھا۔ اور پیچھے کتنے رہ جاتے؟ چھ۔ تو یہ سکیم کیسے پوری ہوتی۔ تو دنیا کی سب سے عظیم الشان رحمت اور پاکیزہ کرنے کی سکیم ۔ تزکیہ نفس کرنے کی سکیم منافقوں کے بل پر چلائی گئی ہے۔ ان کے بل بوتے پر آگے بڑھائی گئی ہے۔ اس سے بڑی جہالت ہوسکتی ہے کوئی؟ ایسی جاھلانہ سکیم اللہ کی طرف سے تو آ نہیں سکتی۔ ناممکن ہے یہ ا نکے دلوں کی بے وقوفیاں اور جہالتیں ہیں۔ جو یہ بہانے ڈھونڈتے رہے۔ کیوں آخر ہوا کوئی سچا بہانہ ملتا نہیں۔ یونہی اس قسم کی جاھلانہ باتیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجبور تھا۔ دیکھتے نہیں تم کہ یہ چھوڑتے تو پیچھے رہ کیا جاتا۔ گنتی کے چھ آدمی؟ ان سے اتنی عظیم الشان دنیا کی اصلاح کی سکیم کیسے چلائی جاتی۔ اللہ نے یہ کہا مجبوری ہے۔ میںبھی کیا کروں۔ پھر منافقوں سے ہی کام لے لیتے ہیں۔ کہتا ہے۔
the verse in important as showing that the general kind behaviour of the Prophet to the ``sahabas,,. (the word sahabas is mentioned here) in spite of their most vicious conduct, as in the case of Khalid and others his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth about them, but they were sought to be reclaimed in the long run is another matter whcih history alone can decide and of which this offers no guarantee whatever.
عجیب سا فقرہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے وہ کہتے ہیں۔
‏the verse is important کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا behaviour دکھایا گیا ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف۔
in spite of there most vicious conduct.
باوجود اس کے کہ نہایت ہی بدکرداری کا عمل ان سے ظاہر ہوا اور نہایت ہی ناپاک معاملہ انہوں نے کیا۔ in the case of Khalid and Others, جیسا کہ Khalid and others کے کیس میں ہوا اور Khalid and Others کے کیس سے مراد یہ مطلب ہی ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقع مل گیا اور وہ حملہ اور وہ اورپھر توجہ ان کی طرف نہیں رہنے دی۔ جن کی وجہ سے خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقعہ ملا۔ بلکہ ضمناً ذکر کرکے توجہ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی طرف پھیر دیتا ہے۔
his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth.
٭٭٭٭٭٭٭
درس القرآن 24-2-94
بمطابق 13 رمضان المبارک
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالو الاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزے لو کانوا عندنا ماما توا…………… افمن اتبع رضوان اللہ کمن با ء بسخط من اللہ … ھم درجت عند اللہ ط واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 157 تا 164)
یہ آیات جن کی تلاوت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ گذر چکی ہیں۔کچھ آنے والی ہیں۔ سردست ہم جس آیت پر گفتگو کررہے ہیں وہ ایک سو ساٹھ ہے جس کا ترجمہ ایک دفعہ پھر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے کہ تو ان پر مہربان ہوا کہ تو ان کے لئے مہربان اور نرم گوشہ رکھتا ہے اور اگر تو بدمزاج ہوتا اور شقی القلب ہوتا (سخت دل ہوتا) تولوگ تجھے چھوڑ کر ادھر ادھر بکھر جاتے۔ پس ان سے عفو کا سلوک کر اوران کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرتا رہ۔ اور اہم معاملات میں ’’الامر‘‘ یا قومی معاملات میں ان سے مشورہ بھی کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ لیکن جب تو فیصلہ کرلے تو اللہ ہی پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس آیت پر اکثر جو اہم حصے تھے ان پر گفتگو ہوچکی ہے لیکن کچھ حصہ ابھی شیعہ مفسر میر احمد علی صاحب کے الزامات کاباقی ہے۔ جس سے متعلق میں آج کچھ معروضات پیش کروں گا اور کچھ حوالے نئے آپ کے سامنے رکھوں گا۔ یہ مفسر لکھتے ہیں۔
consider the position those who turned their back against the enemies at Ohad and ran away diverting Holy Prophet in the midst of the overwhelning forces of the enemy. And disapeared for days together. These authorties like (Tabree, Tareehk-ul-Khamees, Tafseer-i-Kabeer, Minhaj Nabuwah), Early history of Islam) by S.Hussain.
Which say, the compainions like Abu Bakar, Omar, Osman, and Abu-Ubaidah were also among those who took flighy at Ohad and Hunain.
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے حال کا اندازہ کرو جنہوں نے احد کے میدان میں پیٹھ دکھائی اور حضرت Holy Prophet کو یعنی رسول اللہ صلعم کو عین جنگ کے دوران دشمنوںکے درمیان گھرا ہوا چھوڑکر بھاگ گئے۔ اور دنوں تک غائب رہے۔ اس سلسلے میں اہم تاریخی اسناد جو تمہارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ ان میںطبری کی گواہی ہے‘ تاریخ الخمیس کی گواہی ہے۔ تفسیر کبیر امام رازی کی گواہی ہے‘ منہاج نبوۃ کی اور اسی طرح early history of Islam میں کوئی صاحب S.Hussain ہیں جنہوں نے یہی بات لکھی ہے اور وہ کہتے ہیں یہ الزام ہے اور یہ سب کہہ رہے ہیں۔
the compainion like Abu Bakar, Omer, Osman, and Abu abaidah, were also among those who took flight at Ohad and Hunain.
یہ بالکل جھوٹ ہے۔ بالکل جھوٹ۔ایسے خبیثانہ بات کا دعوی کیا ہے جو کہیں ہمیں نہیں ملتی انہوں نے لکھا کہ یہ دونوں بھاگ گئے تھے اس کے برعکس دوسرے حوالے ملتے ہیں اور جس طرح یہ حوالے دیتے ہیں اور جس طرح ان کا جھوٹ حوالوں کے تتبّع سے ثابت ہوجاتا ہے اس کے مَیں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں بات یہ ہے کہ اس وقت جب کہ بہت سخت ہنگامہ پیدا ہوا تھا اور افراتفری کا عالم تھا اس وقت جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے ناممکن ہے کہ کسی ایک راوی نے سب جہاد کرنے والوں کو اکٹھا دیکھ لیا ہو ۔اسی لئے روایتوں کا اختلاف ہے جو روائتیں بھاگنے والوں کا ذکر کرتی ہیں معین طور ۔ان میں ایک ایسی روایت ہے جس نے معین طور پرکہا ہے کہ پانچ بھاگے تھے وہ میں آپ کے سامنے پہلے رکھ چکا ہوں ۔باقی روایتیں ہیں کسی روایت میں کسی ایک کا ذکر نہیں ہے کسی میں دوسرے کا ذکر نہیں ہے ان سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھاگ گئے تھے جن کا ذکر نہیں ہے ۔یہ جھوٹ ہے ۔ اور یہی دھوکہ ہے۔ جسے یہ شیعہ مفسرین استعمال کرتے ہیں اور پھر جنگ احد میں تو بعض ایسے عظیم الشان شہداء کا ذکر ملتا ہے۔ جو اسی ہنگامے کے دوران لڑتے لڑتے شہید ہورہے تھے اور وہ تیس نام یا چودہ نام یا متفرق نام جو تاریخ میں ملتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جو نہیں بھاگے۔ ان میں اُن کا ذکر نہیں۔ حالانکہ الگ قطعی شواہد سے ثابت ہے کہ اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اور اس موقعہ پر شہید ہوئے۔ تو اس لئے کسی روایت میں کسی کا ذکر نہ ملنا ہر گز یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بھاگ گیا تھا۔ مگر اس کے علاوہ انہی کتابوں میں جہاں یہ کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ بھاگ گئے تھے۔ ان کے نہ بھاگنے کا ذکر ملتا ہے۔ اب بتائیے کیا جواز ان کے پاس رہ جاتا ہے۔ یہ حوالے دینے کا ۔ غزوہ احد سے ہم بات شروع کرتے ہیں۔ حنین سے بھی بات آئے گی۔ میر احمد علی صاحب نے طبری کا بھی ذکر کیا ہے کہ دیکھ لو طبری پڑھ لو۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ دونوں جنگوں سے یہ سب بھاگ گئے تھے۔ طبری نے روایت یہ لکھی ہوئی ہے۔ غزوہ احد کے باب کے نیچے۔ گھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب ‘ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبید اللہ ‘ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العوا م اور حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن اسمہ کھڑے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے کس طرح وہ کیا مجھے سمجھ نہیں آسکتی۔
یہ روایت ہے طبری کی۔ اتنا جھوٹ اور جو بچارے نادان معصوم اس جھوٹ سے متاثر ہوکر دل میں ان پاک لوگوں کے متعلق بدخیالات پیدا کریں گے۔ اس میں ان کو بھی تو پورا حصہ ملے گا۔ ’’میر صاحب کو‘‘ اور اس کے برعکس۔ ان کے اس دعویٰ کے برعکس جو قطعی بخاری کی شہادت ہے اس کو یہ پیش نہیں کرتے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بخاری کی حدیث ہے کہ نہ صرف یہ نعوذ باللہ وہ بھاگے نہیں بلکہ وہ صحابہ کی ایک جماعت جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ احد کے معاً بعد تیار کیا کہ دشمن کا پیچھا کرکے دیکھے کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔ اس ستر کی جماعت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے شامل فرمایا۔ یہ ہیں جو دنوں بھاگے رہے تھے۔ مُڑ کے شکل نہیں دکھائی۔ حدیث ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواحد کے دن جو صدمہ پہنچنا تھا۔ پہنچ چکا۔ اور مشرکین مکہ میدان جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آنحضرت کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ آجائیں۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ کافروں کا تعاقب کون کرے گا۔ اس ارشادکی تعمیل جن ستر صحابہ نے کی ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اب یہ دیکھ لیں۔ نہ صرف یہ کہ کامل وفادار رہے بلکہ وفاداروں میں بھی سرفہرست ۔ کہ اس حالت میں محض ستر کی ایک جماعت اتنے بڑے لشکر جرار کا تعاقب کررہی ہے دیکھنے کے لئے۔ اگر ان کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارے پیچھے کوئی آرہا ہے تو ان کے بچنے کے شاذ کے طور پر ہی امکان تھے۔ مگر یہ بخاری کی یہ روایت یہ سب روایتیں نظر انداز کردیتے ہیں اب آگے دیکھئے۔
شرح مواہب الدینۃ میں لکھا ہے علامہ محمد بن عبدالباقی تحریر کرتے ہیں کہ محمد بن سعد نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چودہ اصحاب تھے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مختلف روایتیں ہیں۔ مختلف تعداد بیان کی جارہی ہیں ان میں سات مہاجرین میں سے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف‘ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو عبید ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اب دیکھیں اس میں جو سات مہاجرین تھے۔ ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام تو ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نہیں ہے۔ تو کیا یہ ثابت ہوا کوئی کہہ سکتا ہے میر صاحب نے یہ کیوں نہیں کہا کہ شرح مواھب الدنیہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ کیونکہ یہاں ان کا نام نہیں ہے۔ اس روایت میں۔ کسی روایت میںہے کسی میں نہیں کہ آپ جہاد میں اس وقت مصروف ہونگے۔ دیکھنے والے نے نہیںدیکھا۔ تو میر صاحب کی طرح‘ اپنی طرف سے کیسے بات بنا لیتا وہ پاک باز لوگ تھے۔ جو دیکھا وہی بیان کیا جو نہیں دیکھا کہانی نہیں گھڑی۔ آگے صحیح بخاری کی دوسری روایت سُن لیجئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر شہید احد کے آخری کلمات۔ اب یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کا ذکر ان میں نہیں ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کے متعلق بخاری گواہی دیتی ہے کہ جب احد کے دن ہوا اور مسلمان بھاگے تو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کہنے لگے یا اللہ میں تیری درگاہ میں اس کا عذر کرتا ہوں۔ جو مسلمانوں نے کیا اور جو مشرکوں نے کیا۔ اس سے بھی میں بے زار ہوں۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ واقعہ اس فرار والے واقعہ کے معاً بعد کا ہے ۔ اُن صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف سے خدا کے حضور یہ عذر پیش کررہے ہیں یہ کہہ کہ تلوار لے کر آگے بڑے۔ راستہ میں انہیں سعدؓ بن معاذ ملے۔ انس نے کہا کیوں سعد کہاں جاتے ہو۔ ’’انی اجد ریح الجنۃ دون احد‘‘ مجھے تو اس احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔یہ کہہ کر انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان میں گئے اور شہید ہوگئے۔ ان کو اتنے زخم تھے کہ ان کی لاش پہچانی نہ جاتی تھی۔ ان کی بہن نے ایک تل یا انگلی کی پور دیکھ کر ان کو پہچانا ۔ اسّی (80)سے کچھ زائد زخم بھالے‘ تلواروں اور تیروں کے ان کے جسم پر لگے تھے۔ اب ان کا ذکر ان چودہ میں نہیں ہے‘ کیا کہیں گے میر صاحب کہ قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ان میں نہیں ملتا۔ اور ان کے متعلق یہ روایت ہے جب اچانک جنگ کی حالت بدلی‘یہ بھی یہی وقت ہے جس وقت وہ کہتے ہیں۔ کہ سب چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ تو یہ بھی کفار کے نرغے میںپھنس گئے۔ اس وقت مشرکین کے شہسوار ابن قمیّہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا۔ جس سے ان کا داہنا ہاتھ شہید ہوگیا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ یہ وہ تھے جن کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم اسلامی کہنا چاہئے یا اسلام کا جھنڈا خود سپرد فرمایا تھا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل‘ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جبکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہاد ت کی خبر اڑائی جاچکی تھی اور اس وقت یہ آیت ان کو یاد آئی۔ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم ہوگیا۔ آپ نے دونوں بازوئوں کا حلقہ بنا کر علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ اس نے تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ مارا۔ اس کی انّی ٹوٹ کے سینے میں رہ گئی اور اسلام کا یہ فدائی اس وار سے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔ طبقات الکبریٰ لابن سعد۔ اب ان میں ان کا ذکر اُس میںنہیں ہے تویہ جہالت کی حد ہے۔تمام صحابہ جن کا نا م بنام ذکر کسی ایک روایت میں نہ ہو ان کے متعلق یہ لکھنا کہ دیکھ لو وہاں ثابت ہوگیا قطعاً کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ بے وقوفی کی بھی حد ہے اور ظلم اور تعصب کی حد ہے۔ یہ محض شرارۃً ان کے بھاگنے کا مضمون ثابت کرنے کی خاطر ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کا کوئی ذکر اس میں نہیں ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی خبر لائو وہ کہاں ہیں۔ وہ کہاں ملے تھے۔ میر صاحب کہیں گے صاف پتہ چلا بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے ملتے کہاں ہیں۔ایک شخص نے کہا حضور کہ میں حاضر ہوں۔ پھر وہ مقتولین میں چکر لگانے لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا بات ہے۔ انہوں نے کہا حضور نے مجھے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔مقتولین کی بجائے زخمیوں میں وہ ملے۔ یعنی مقتولین کے ڈھیر میں کہیں ملے ہیں۔ تو انہوں نے دیکھا ان کو گھومتے ہوئے اور پوچھاکیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور کے پاس جائو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرو اور بتائو کہ مجھے بارہ نیزے کے زخم آئے ہیں اورمیرا خیا ل ہے کہ میری اجل آگئی ہے اور تم اپنی قوم کو بتانا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا ۔ تو خدا کے حضور تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا‘ اوراپنی قوم سے یہ بھی کہنا کہ خدا کا واسطہ دے کر تمہیں کہتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ سے عقبہ کی رات جو عہد باندھا تھا ’’ہم آپ کی حفاظت کریں گے‘‘ خدا کی قسم اگر حضور کوکچھ ہوگیا تو تمہارا کوئی عذر قبول نہیںہوگا جبکہ تم میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو تلاش کیلئے نکلے تھے۔ اس کے فوراً بعدہی انہوںنے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ میں حضور کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خدا رحم کرے۔ وہ جیتے جی اور مرتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے رسول کا مخلص اور وفادار رہا۔ یہ ہیں بھاگنے والے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بکریوں کی طرح چھلانگیں مارتے ہوئے چٹان پر سے چٹان پر سے ہوتے ہوئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے ان مخلصین کی طرف کوئی نظر نہیں ہے۔ صاف پتہ چل رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا روایتوں میں ذکر ہی نہیں ہے ۔ میں نے موازانہ کرکے دیکھا ہے۔ ان روایتوں میں جو پیش کی جارہی ہیں۔ ان میں ان کا نام نہیں ہے کہ یہ بھی ان میں موجود تھے جو پیچھے رہے پس جنگ کے ہنگامے میں کیسے ممکن ہے کہ وہ راوی ہرطرف نظر ڈال کر یہ دیکھ لے آرام سے کھڑا کہ کون کہاں ہے اور کون کہاں ہے۔اس نے جن کو لڑتے ہوئے دیکھا یا قریب دیکھا ا نکا ذکر کردیا۔ جو نظر نہیں آئے ان کا ذکر بعد میں تاریخ نے دوسری روایتوں میں محفوظ کردیا۔ حضرت امام رازی کا ذکر بھی ملتاہے کہ امام رازی نے یہ روایت کی ہے کہ یہ سارے بھاگ گئے تھے‘ حضرت امام رازی کی روایت بھی یہ ہے کہ جو سات آدمی جن کے مہاجرین میں سے تھے جن کے متعلق ایک روایت ہے۔ اس روایت میں جو نام امام رازی کو پہنچے۔ بھاگنے والے نہیں رہنے والے جو پیچھے موجود تھے ۔ چودہ آدمی جیسے روایت پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں سے سات مہاجرین بھی تھے۔ امام رازی کو جو روایت ملی ہے‘ اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام شامل ہیں اس لئے یہ کہنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام اس میں نہیں ہے اس روایت میں اس لئے اول تو یہ کہنے کا کوئی حق نہیںکہ چونکہ اس راوی نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان نہیں کیا اس لئے ثابت ہوگیا کہ امام رازی کے نزدیک وہ بھاگ گئے تھے۔ یہ جھوٹ ہے ۔ حضرت امام رازی تو مختلف روایتیں اکٹھی کردیتے ہیں اور یہی مفسرین کا حال ہے۔ یہاں سے پکڑی وہاں سے پکڑی۔ یہ اب کسی متقی کا کام ہے کہ وہ سب روایات کا جائزہ لے کر۔ پھر صحیح صورت حال کا اندازہ لگائے مگریہ تو قطعاً جھوٹ ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی ان میں شامل ہے جو امام رازی کے نزدیک بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے قطعی طور پر اس کے برعکس بھی شہادت موجود ہے
وہ روایتیں کہاںہیںدوسری جن میں جنگ احد والی۔ وہ کہیں غائب کردی وہ جن میں تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ ایک سے زیادہ روایتیں ہیں؟ زیادہ پسند آگئیں ہیں آپ کو معلوم ہوتا ہے
بعض نے ستر صحابہ کی روایت پیش کی ہے۔ بخاری میں ہی۔ یہ روایت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیچھے رہنے والے ستر تھے۔ کہیں تیس آیا ہے کہیں چودہ آیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ روایت قطعی یہ شاید میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری کی روایت میں پہلے پڑھ چکا ہوں کہ گھاٹی میں یہ سب موجود تھے یہ دیکھ لوں گایہ تو ان کے جھوٹ کے نمونے ہیں صرف اچھا جی غزوہ حنین کے متعلق بھی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ غزوہ حنین میں بھی بھاگ گئے تھے۔ میر صاحب کا استنباط یہ ہے کہ ایک دفعہ تو ہم معاف کرسکتے ہیں مگر دوسری دفعہ کا گناہ معاف نہیں کرسکتے۔ ان پر لازماً اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر اسطرح تم بھاگو گے تو تمہارا انجام جہنم ہے وہ کہتے ہیں ان کے نعوذ باللہ من ذلک۔ جو پہلے تین خلفاء ہیں ان کا جہنمی ہونا قرآن سے ثابت ہوگیا۔ یہ استنباط ہے اس کے متعلق جو وہ جنگ حنین کی روایات درج کرتے ہیں۔ ان کا حال سن لیجئے۔ جو جو ساتھ رہے اور نہیں بھاگے۔ ان کا ذکر میں بتاتا ہوں قطعی طور پر۔ ایک ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے خچرّ کی لگام پکڑی ہوئی تھی۔اور ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے قدم تھامے ہوئے تھے۔ اس وقت ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ فتح الباری میں روایت ہے۔ پھر جن چار صحابہ کا ذکرہے کہ وہ خدمت میں حاضر رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے علاوہ بھی سو افراد ایسے تھے جو ساتھ رہے ہیں۔ ویسی صورت نہیں تھی جیسے جنگ احد میں ہوئی تھی بلکہ سو کی جماعت ایسی تھی جو آپ کے اردگرد تھی ۔ ترمذی ابواب الجہاد کا یہ حوالہ ہے۔ پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابن مسعود کا چشم دید واقعہ بیان ہوا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً اسی 80 صحابہ اس وقت موجود تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ1
بیہقی نے حارثہ بن نعمان سے روایت کی ہے کہ سو (100) آدمی تھے ۔ زرقانی جلد 3 صفحہ 22 ابو نعیم نے دلائل میں لکھا ہے کہ ان سو میں سے تیس سے کچھ زائد انصار تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ23 بعض کے نزدیک یہ تعداد300 سیرۃ النبی جلد اول صفحہ 317تا 332جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ جن کو یقینا دیکھا گیا ہے ساتھ اب ان کا ذکر میں بتاتا ہوں مہاجرین میں سے جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ ان میں سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور آپ کے اہل بیعت ہیں جو لوگ ثابت قدم رہے وہ یہ ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب اہل بیت میں سے ۔جو لوگ ثابت قدم رہے وہ ہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عباس بن عبدالمطلب ‘ ابوسفیا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ،ابوسفیان کو بھی اہل بیت میں داخل کیا گیا ہے۔ یا اصل میں ان کے بیٹے کا ذکر ہے۔ غالباً ابوسفیان تو تھے ہی۔ ابوسفیان بن حارث ہاں اور ان کے بیٹے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دونوں۔لکھنے والے نے ابن ہشام نے اہل بیت کے ذکرمیں ان کو داخل کرکے لکھا ہے۔ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث‘ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اورایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ جو اسی روز شہید ہوئے۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ’’طبقات ابن سعد ‘‘میں کہ آپ کے ہمراہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب‘ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس‘ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ‘ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب ‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مسلسل ثابت قدم رہے اور وہ جنگ حنین سے بھاگے نہیں۔ اب یاد رکھیں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام کس صفائی اور وضاحت کے ساتھ بار بار یہاں لیا جارہا ہے اور کسی ڈھٹائی سے وہ لکھتے ہیں کہ ان کتب سے ثابت ہے کہ وہ ان دونوں جنگوں میں برابر دونوں بھاگ گئے تھے۔ پھر یہ طبری کی طرف روایت منسوب کرتے ہیں۔ جنگ حنین کے متعلق بھی۔ لکھا ہے کہ طبری پڑھ کے دیکھ لو۔جنگ اُحد میں بھی یہ کہتی ہے۔ بھاگ گئے دونوں۔ یہ سب ۔ اور جنگ حنین میں بھی بھاگ گئے۔ طبری کا جنگ احد کا حوالہ میں پڑھ چکا ہوں اس میں بھاگنے کی بجائے ان کے ثابت قدم ہونے کی گواہی موجود ہے اور حنین کے متعلق طبری یہ گواہی دیتا ہے۔ ’’قد بقی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفر من المھاجرین والانصار و اھل بیتہ ممن سبق معہ من المہاجرین ابی بکر و عمر و من اھل بیتہ علی بن ابی طالب وغیرہ وغیرہ کہتا ہے کہ طبری (جلد سوئم صفحہ نمبر 128) کہ وہ لوگ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور باقی رہے نفر من المھاجرین والانصار وہ مہاجرین کی بھی ایک جماعت تھی اور انصار کی بھی ایک جماعت تھی اور اہل بیت بھی اس میں شامل تھے ان میں سرفہرست جو نام لکھتا ہے۔ طبری‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ا ب بتائیے کتنا واضح جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ تفسیر قرآن کے نام پر بیٹھے جھوٹ بنا رہے ہیں اور روایتیں یہ ایسی ایسی عجیب گھڑتے ہیں پھر کہ میں آپ کوایک روایت سنائوں گا۔اب سمجھ نہیں آئی کہ اس پر آدمی روئے یا ہنسے کچھ اور کرے وہاں بیٹھ کے یا پیٹے ان کے دماغ کو۔
اب دیکھئے تاریخ الاسلام کا حوالہ ہے۔ حافظ شمس الدین زہری کی کتاب ہے۔ اس میں وہ جنگ حنین کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ مہاجرین میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر تک ثابت قدم رہے ہیں ان میں ابوبکرؓ اور عمر ؓ بھی تھے۔ ابن خلدون مشہور مؤرخ ہیں یہ لکھتے ہیں جلد نمبر ۲ صفحہ ۴۶
ناشر موسسہ جمال للطباعۃ و النشر بیروت 1989ئ؁
وثبت معہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ و علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں شامل تھے اور ان سب کا نام ان دونوں کا نام ان سب روایتوں میں سرفہرست ہے۔ ھذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الیمین و معہ نفر قلیل منہ ابوبکر و عمر و علی و عباس۔ یہ روایت ہے السیرۃ الحلبیۃ سے اس میں صاف طور پر اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ان مخلصین میں سرفہرست درج ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں وفا کرتے رہے۔ وفا دکھاتے رہے۔ آخر وقت تک ثابت قدم رہے۔ اس کے برعکس شیعوں نے بعض روایتیں گھڑی ہوئی ہیں وہ میں آپ کوابھی سناتا ہوں۔پہلے تو میں آپ کو نمونے بتاتا ہوں۔ کہ یہ لوگ کس طرح روایتوں کا حلیہ بگاڑتے ہیں اور اگر یہی ان کا تقیہ ہے تو یہ ایک بڑا ملعون طریق ہے اس کو کسی دنیا کے سچے مذہب میں قبول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ناممکن ہے کہ کسی سچائی کے ساتھ بھی تقیہ کا یہ تصور اکٹھا قائم رہ سکے۔ مذہب تومذہب عام دنیا کے سچائی کے معیار کے مطابق بھی یہ تقیہ ،تقیہ نہیںجھوٹ ہے جو یہ اختیار کرتے ہیں۔ اب نمونے دیکھیں ان کی روایتوں کے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جب بھی آپ شیعہ کتب میں کچھ روایتیں دیکھتے ہیں ۔ حوالے دیکھتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ اصل کتاب کا تتبع کریں اور مطالعہ کرکے خود معلوم کریں کہ کیا لکھا گیا ہے ورنہ ایک سرسری قاری جس طرح بہت سے انگریزی پڑھنے والے اس روایت سے گذر جائیں گے۔ ا نکو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کس جھوٹ کا مطالعہ سندوں کے حوالے سے کررہے ہیں۔ ان اسناد میں تو ا ن باتوں کا کوئی ذکر نہیں جو بیان کی جارہی ہے۔ نمونہ آغا محمد سلطان مرزا محمد دہلوی صدر شیعہ مجلس اوقاف دہلی‘ اپنی کتاب البلاغ المبین صفحہ166 پر یہ درج کرتے ہیں۔ حدیث جس کا اَخرجہ الترمذی کہتے ہیں یہ جو ہم حدیث بیان کررہے ہیں اس کو ترمذی نے نکالا ہے۔ اخرج کا مطلب ہے اس نے درج کیا۔ وہاں سے لی ہے میں نے۔ حدیث ہے عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتضیٰ میں چار صفات ایسی ہیں جو ان کے سوا کسی اور میں نہیں ہیں۔ وہ عرب و عجم میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز اسلام کی پڑھی۔ دوسری یہ کہ ہر ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ا ن کے ہاتھ میں تھا ۔ ہر ایک جنگ میںحالانکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کسی اور کو دیا تھا وہاں اُحد میں۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کسی جنگ میں فرار نہیں کیا۔حالانکہ تمام صحابہ اکثر جنگ سے بھاگ گئے۔ اب احد اور حنین کا قصہ ہی نہیں رہا باقی۔ترمذی کی حدیث یہ ساتھ لکھ رہے ہیں ثابت کررہی ہے کہ علی کی خصوصیات میںیہ ہے کہ کسی میں نہیںبھاگے۔ ہر جنگ میں علم ہاتھ میں تھا اور جبکہ اکثر صحابہ تمام جنگوں سے بھاگ گئے۔ چوتھی یہ کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور قبر میں اتارا۔ ان کی کتاب کا حوالہ ہے۔ البلاغ المبین حصہ اول صفحہ ۱۶۶ ناشر امامیہ کتب خانہ موچی دروازہ لاہور۔ یہ موچی دروازے سے ہی چھپی ہوئی سجتی ہے ۔یہ کتاب۔ اب اصل حدیث ملاحظہ ہو کہ ترمذ ی میں صرف یہ الفاظ ہیں۔ یہ تو ترمذی کی حدیث وہ دیکھ لی ہے ساری۔چھان بین کے بعد بتا رہا ہوں۔
ترمذی میں جو حدیث ہے وہ یہ ہے عن ابن عباس قال اول من صلی علی ابن عباس سے روایت ہے کہ جو پہلا شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مراد ہے نماز پڑھی تھ وہ علی تھے بس ۔یہ ساری باقی روایت جو اپنی طرف سے گھڑ کے داخل کی گئی۔ یہ ان کی روایتوں کا حال ہے بیٹھے بنائے جارہے ہیں تاویلیں کرتے چلے جاتے ہیں اور تقیہ میں پناہ مانگ رہے ہیں غالباً اپنے لئے ۔ پھر دوسرا نمونہ ان کے دجل اور فریب کا دیکھ لیجئے۔ ایک صاحب ہیں علامہ کہلاتے ہیں علامہ سید غلام علی شاہ صاحب ان کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا۔ جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں1923ء میں۔ حضرت عمر کے مزعومہ فرار غزوہ احد کے ثبوت میں۔انہوں نے علی اعلان در منثور للسیوطی جلد نمبر2صفحہ28 اور صفحہ80 کا ذکر کیا کہ دیکھووہاں تو صاف لکھا ہوا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مان رہا ہے کہ میں بھاگ گیا تھا اور تم لوگ ابھی ضد کررہے ہو کہ نہیں بھاگے۔ وہ کہتا ہے میں بھاگ گیا تم کہتے ہو نہیںبھاگے۔ اب جو اصل عبارت ہے وہاں وہ یہ ہے۔ روایت کرنے والا کہتا ہے اصل الفاظ میںبتاتا ہوں تفرقنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم احد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک موقعہ آیا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچھڑ گئے۔ یعنی ہلہ اتنا تیز تھاکہ اس میں صحابہ بکھر گئے ہیں ادھر ادھر۔ اب یہاں فرار کا کہاں ذکر ہے کہ میں بھاگ گیا چھوڑ کر۔ یہ اپنی طرف سے بات بنالی اور اس طرح ان کی روایتیں چلتی ہیں۔ کوئی اصل کوئی بنیاد ہوتی نہیں وہاں اور اپنی طرف سے قصے گھڑ گھڑ کر روایتیں منسوب کرتے اور پھر پوری روایت لکھتے نہیں ہیں صرف اشارہ کردیتے ہیں۔ یا لکھتے وہ ہیں جیسے کہ میں نے بیان کیا سب فرضی کہانی۔ کوئی اس کا وجود نہیں ہے۔تفرقنا کا معنی فرار آپ دنیا کی ڈکشنریاں اٹھا کے دیکھ لیں۔ کہیں نہیں ملے گا آپ کو۔کسی شیعہ نے کوئی ڈکشنری لکھی ہے کہ نہیں۔ دیکھنے والی ہوگی۔
تیسرا نمونہ شیعہ لیڈر ابو عرفان سید عاشق حسین صاحب نقوی اپنی کتاب اصحاب رسول کی کہانی میں لکھتے ہیں۔ ابوبکر جنگ احد کو یاد کرکے رو پڑتے تھے کہتے تھے کہ غزوہ احد سے جب میں بھاگا تھا تو سب سے پہلے لوٹ کر بھی میں ہی آیا تھا۔ کیسی کیسی کہانیاں گھڑتے ہیں یہ مجلسی لوگ۔ جو سُنی ہیں ان کے دل نرم کرنے کیلئے وہ بھی مجلس میں نہ آئے بیٹھے ہوں۔کسی طرح ادب سے ذکر کرتے ہیں۔ اوہو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیچارے ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے کہ جب میں بھاگا تھا ناں تو پھر میں واپس بھی میں ہی آیا تھا پہلے اور حوالہ تاریخ الخمیس کا دیا ہے۔ یہ وہی حوالہ ہے جو میر صاحب نے بھی دیا ہے کہ کتاب الخمیس سے بھی ثابت ہوگیا کہ یہ احد میں بھی بھاگ گئے اور حنین میںبھی بھاگ گئے وہ روایت یہ ہے ’’قال ابوبکر لما صرف الناس یوم احد عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کنت اول من جاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجعلت انظر الی رجل خلفی بین یدیہ یقاتل عنہ و یحمیہ وجعلت اقول کن طلحۃ فداک ابی و امی مرتین۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں وہی بات کہ جب اچانک جنگ احد میں لوگ بکھرے ہیں صرف الناس اپنے بھاگنے کا کوئی ذکر اشارہ بھی نہیں ہے۔تو میں جو پہلا آدمی جولپکا ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف وہ میں تھا۔ جب لوگ بھاگ رہے تھے تو میں آنحضور کی طرف دوڑ رہا تھا۔ اور اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک شخص بڑے اخلاص اور فدائیت کے ساتھ آپ کا دفاع کررہا ہے۔آپ کو بچا رہا ہے میں نے کہا کن طلحۃ میں جانتا تھا کہ طلحہ میںیہ جذبہ ہے میں نے کہا اے تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو جا۔ یعنی تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہو۔ دیکھا تو وہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھا۔ یہ روایت ہے یہ میر صاحب اور یہ مجلسی لوگ حسین نقوی وغیرہ کہتے ہیں۔دیکھ لو اصحاب رسو ل کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر یاد کرتے تھے رو پڑتے تھے۔ کہتے جب میں بھاگ گیا تھا توپھر لوٹ کے بھی تو میں ہی پہلے آیا تھا۔ بڑا ہی جھوٹ بولتے ہیں اللہ ہی رحم کرے۔
چوتھا نمونہ جلال پور جٹاں کے مناظرے میںہی سید غلام علی شاہ صاحب کہتے ہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے بھاگنے کا اقرار کرلیا۔ کہتے ہیں راوی کا بیان کہتے ہیں۔
فلحقت عمر فقلت مابعض الناس قال امر اللہ عز و جل ثم رھبوا وجلس۔ یہ ہے اصل روایت جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے فرار ہونے کا اقرار کر لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق جو روایت ہے و ہ صرف اتنی ہے کہ کسی نے ۔کون ہے وہ راوی ؟اس میں میں دیکھ کے بتاتا ہوں آپ کو۔بہرحال جو بھی راوی ہے ۔ اس کے الفاظ صرف اتنے ہیں کہ میں نے عمر کو میں ایک دفعہ عمر سے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ لوگوں کا کیاحال ہے کیا ہو رہا ہے یا کیا ہوا۔ قال امر اللہ عزو جل ثم رھبوا وجلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رھبوا کی طرف ضمیر ہے اور جلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی ہوگی جلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا ان سے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے انہوں نے فرمایا ! اللہ کا حکم ہے اللہ کی تقدیر تھی ویسا ہی ہوگیا۔ اس کے بعد لوگ لوٹ آئے پھر وہ واپس بھی آئے ہیں۔ پھر جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ یہ روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بس۔ اب چونکہ روایت کوئی نہیں ملتی تھی انہوں نے ایک عجیب و غریب روایت خود گھڑ لی۔ جس کی نہ کوئی بنیاد بتاتے ہیں نہ موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھاگنے کا قصہ ثابت کرنے کیلئے جو یہ ایک نصیبہ کی روایت انہوں نے بتائی ہے۔ عجیب دلچسپ روایت ہے سننے کے لائق ہے۔ کہتے ہیں کعب کی بیٹی نصیبہ وہاں ایک طرف کھڑی تھی اور جنگ حنین سے صحابہ بھگدڑ دوڑے چلے جارہے تھے۔ بھاگتے ہوئے ان کو ہوش نہیں تھی۔ اور وہ رستے میں کھڑی ان پر مٹی پھینکتی جاتی تھی۔ منہ پر کہ خاک پڑے تم پر کہ تم کیا کررہے ہو خاک پڑے تم پر اور وہاں ہی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا بھاگتے ہوئے۔ تو نصیبہ نے آپ کے منہ پر بھی مٹی ڈالی۔ اور کہا کیا ہوگیا ہے۔ کہنے لگے اللہ کی تقدیر ہے اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کوئی بنیاد نہیں۔ سر سے پائوں تک جھوٹا حوالہ بھی نہیں دیا اس لئے۔ اگر دیا ہے تو اپنی کسی تفسیر صافی وغیرہ کا دیا ہے ۔ جس کی آگے کوئی اصل نہیں ہے۔ کوئی آگے روایت نہیں ۔کہاں سے پکڑی گئی ۔ کسی مصنف نے لکھتے لکھتے ایک آیت لکھ دی ہے۔ یہ ہے ان کا مبلغ علم اور یہ ہے ان کی سچائی کا معیار۔ یہ کیا ہے۔ ہاں۔ اب دیکھئے آخری بات اس ضمن میں قطعی طور پر جو قابل ذکر ہے جس کو نہ شیعہ بیان کرتے ہیں نہ ہی مستشرقین بیان کرتے ہیں۔ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن دراصل تان اس پر ٹوٹتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق یہ الزام کہ وہ جان بچانے کیلئے عمداً بزدلی سے بھاگے تھے اور پھر یہ مستشرقین کے دعوے کہ یہ جنگ جو تھی یہ آخری طور پر دشمنوں کی فتح پر منتج ہوئی ہے اوروہ فتح مند لوٹے ہیں ان دونوں باتوں کو جھٹلانے کیلئے حمراء الاسد۔ کا واقعہ ہمیشہ ہمیش کیلئے تاریخ میں ان الزام لگانے والوں کو جھوٹا ثابت کرتا رہے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے دوسرے روز ہی صبح ہی دوبارہ دشمن کے تعاقب میں چل پڑتے ہیں۔ اور تمام ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو شرکت کررہے تھے۔ وہ بھاگے یا نہ بھاگے ان سب کو ارشاد ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اور اس وقت کوئی احد کا پہاڑ ان کے پیچھے نہیں تھا۔ ان کی حفاظت کیلئے۔ مدینے سے آٹھ میل دور جہاں دشمن نے پڑائو کیا ہوا تھا۔ اور یہ ارادے باندھ رہا تھا کہ اب واپس جا کر مدینہ پرحملہ کریں اور اپنی فتح سے وہ فوائد حاصل کریں جو ہم حاصل نہ کرسکے۔ ایسے دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے یہ زخمی اور تھکاوٹ سے چور صحابہ رضی اللہ عنھم کی جماعت تھی جس کو لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان سب کو ساتھ رہنے کا حکم ہے اور یہ حکم ہے کوئی اور شخص نہیں جائے گا۔ جس نے اس پہلی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
مستشرقین کہتے ہیں کہ لوگ بغاوت پر تیار بیٹھے تھے اسلئے اللہ نے حکم دے دیا کہ نرمی کرو رنہ بڑی سخت بغاوت ہو جائے گی اسلام کا کچھ باقی نہیںرہے گا۔ اور یہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ باغی تھے۔ ان کے ساتھ چلنے کا عالم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں اور میرا بھائی دونوں اتنے زخمی تھے اور ہمارے پاس سواری کوئی نہیں تھی کہ ہم نے سوچا کہ ہم کیسے چلیں تومیں چونکہ نسبتاً کم زخمی تھا میںنے فیصلہ کیا کہ کبھی کبھی میں اس کو پیٹھ پر اٹھ لیا کرونگا۔ یہ سواری بنے اوروہ زخمی بھائی پیٹھ پر تھے۔ یہ ہیں وہ بزدل صحابہ نعوذ باللہ من ذلک جو بکریوں کی طرح چٹانوں سے چٹانوں پر ہوتے ہوئے چھلانگیں مارتے جارہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرمایا ہے۔ یا اللہ نے معاف فرمایا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ عمداً جرم کے طور پرنہیںبھاگے۔ مجرم بنتے ہوئے نہیں بھاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیوفائی کرتے ہوئے نہیںبھاگے۔ بعض دفعہ جنگ کے ریلوں میں ہوجاتا ہے اور انسان کا بس نہیں رہتا۔ اس سے بڑا ثبوت ان کے اخلاص کی تائید میں اور تاریخ عالم میں کہیں آ پکو دکھائی نہیں دے گا۔ کہ کبھی کسی قوم کے اخلاص کے حق میں ایسا ثبوت پیش کیا گیا ہو ۔ یہ گئے ہیں اور وہاں جاکر تین دن تک پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ انہی زخموںکی حالت میں اورایک بھی ایسا نہیں جس نے نافرمانی کی ہو۔ اور وہ پیچھے ہٹا ہو۔ اور دشمن سامنے پڑائوکئے ہوئے بیٹھا تھا قریب ہی وہ ایک دوسرے کی رات کو جلتی ہوئی آگیں دیکھتے تھے اور دشمن کو یہ موقعہ نہیں ملا۔ یہ جرأت نصیب نہیںہوئی۔ کہ باہر آئے ہوئے قریب پہنچے ہوئے۔ ان کمزوروں کے اوپر دوبارہ ہلہ بول کر ان سب کو ملیا میٹ کردیتا۔ یہ وہ رعب والا واقعہ ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ میں اپنے اس مضمون کے آخر پر بیان کروں گا۔ قرآن کریم نے وہاں جو رعب کی وجوہات بیان فرمائی ہیں ۔ یہ بات خاص میں نے کہا تھا تعجب کے لائق ہے یا قابل غور ہے کہ یہاں مومنوں کی شان بیان نہیں کی رعب کیلئے بلکہ شرک کی اندرونی کمزوریاں بیان فرمائی ہیں کہ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیںکہ تمہیں ایک اور بھی نمونہ رعب کا دکھائیں گے۔ اور وہ نمونہ یہ ہوگا کہ تمہاری طاقت سے مرعوب نہیں ہوگا دشمن۔ لیکن شرک کے اندر اندرونی انکی تعمیر میںجو خرابی مضمر ہے وہ خرابی ان کے اوپر خوف طاری کردے گی اور وہ ڈر جائیں گے اور ثابت ہوگا کہ توحید کے بغیر کوئی قوم دنیا میں سچی بہادر نہیںہوا کرتی۔ پس وہ جو رعب کا وعدہ تھا وہ اب پورا ہورہا ہے حمراء الاسد کے حوالے کے بغیر وہ بات ہی نہیں بنتی۔ تبھی مستشرقین کہتے ہیں۔ آگے ہوگئی ہوگی پیچھے ہوگئی ہوگی۔ سمجھ نہیں آتی وہ کونسا رعب تھا وہاں تو ان پہ رعب پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور وہ وعدہ ہے مستقبل کا ماضی کی بات ہی نہیں ہے۔اس وعدے کے معاً بعد یہ فرما رہا ہے اس سے پہلے یہ سب کچھ گذر چکا ہے۔ تو جب فرما چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اس سے پہلے جنگ احد میں جو واردات گذریں سب گذر چکی تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے اوپر اس رعب کے وعدے کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔وہ یہ موقعہ ہے تین دن رات وہاں پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ دشمن کی فوج پوری طرح تازہ دم تھی کل 9 توان میں سے مارے گئے تھے ان میں بڑے بڑے سوار موجود تھے خالدبن ولید جیسے کہنہ مشق۔ اس وقت توکہنہ مشق نہیںہونگے۔ مگر ابھرتے ہوئے ایک فوجی جرنیل تھے وہ بھی ان میں موجود تھے اور ان کو جرأت نہیں ہوئی تاریخ دانوں نے بہت سی روایتوں کی طرف توجہ دی ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ کیوں رعب پڑا۔ ایک ایسے قبیلے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جن کے سردار وہاں سے گذرے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ رئیس مبعد خزاعی چونکہ قبیلہ خزاء کا سردار تھا کہتے ہیں وہ گذرا تھا اور وہ وہاں سے ہوکر پھر وہ ابوسفیان کے پاس گیا ہے اور اس کو اس نے ڈرایا اور اس لئے وہ ڈر گیا یہ عجیب بات ہے کہ قران کریم کی واضح گواہی کو چھوڑ کر ان روایتوں پر انحصار کیا جارہا ہے سبب خدا نے جو بھی پیدا کیا۔ اس سے بحث نہیں ہے۔ قرآن کھلا کھلا صاف بتا رہا ہے کہ اس روک کی وجہ شرک کی اندرونی کمزوری ہے۔ بت پرستی میں ایک بزدلی نہاں ہے جو اس موقعہ پر ابھرے گی اور ہم تمہارا رعب ان کے شرک کی وجہ سے ان پر ڈالیں گے۔ پس آخری جو فیصلہ کن بات جنگ احد کی ہے وہ یہ ہے کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی ہے۔ ورنہ تاریخ عالم میں کوئی مثال نکال کے دکھائو۔ مشرق و مغرب شمال و جنوب جو چاہو مطالعہ کرلو۔ ایک مثال ایسے واقعہ کی دکھائو۔ اس طرح فوج بظاہر مار کھا کر بدکی ہوئی دوڑتی پھرتی ہو اور دشمن اور معاندیہ آوازیں کس کس کے چسکے لے رہا ہو کہ بکریوں کی طرح چٹانوں پر سے ہوتے ہوئے دوسری چٹانوں پر چھلانگیں مارتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ سب نے بے وفائی کی سب نے پیٹھ دکھا دی۔ صرف ایک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جن کا ایک رعب باقی رہا اور کوئی رعب والا باقی نہیں تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں لیتے وہاں۔ اور وہ رعب کیا تھا وہ میں نے بتادیا ہے وہ کھڑے اسی طرح دندنا رہے تھے کسی نے کوئی اس رعب کا ذکر نہیں کیا اور عجیب بات یہ ہے ۔ جومجھے تعجب میں ڈالتی ہے کہ مورخین نے بعد میں خالد بن ولید سے کیوں نہیں پوچھا کسی پوچھنے والے نے۔ ابوسفیان جو حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے کھڑا تھا اس سے کیوںنہیں پوچھا۔ وہ تو لشکر کا سردار تھا۔تویہ شیعہ ان کی روایات کیوں نہیں بیان کرتے۔اگر یہ روایت سچی ہوتی کہ آسمان سے آواز آئی تھی۔ جبرائیل کی کہ ’’لاسیف الا ذوالفقار ولا فتی الا علی‘‘ تو ان لوگوں کو سنانے کیلئے ڈرانے کے لئے تو آواز آئی تھی حضرت خالد بن ولید نے کہیں اشارۃً بھی اس کا ذکر نہیں کیا ۔ اتنی عمر زندہ رہے۔ اتنی دیر اسلام کی خدمت کی۔ اتنے لشکروں کی کامیاب جرنیلی کے فرائض کامیاب قیادت کی اور سیادت کی۔ اس حال میں بستر پر جان دی کہ اپنے بدن سے کپڑا اٹھایا اور رو رہے تھے کہ دیکھو کوئی ایک انگلی رکھنے کی جگہ نہیںہے جہاں مجھے خدا کی خاطر زخم نہ پہنچے ہوں۔ مگر افسوس میری شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔ اور آج میںبستر پر جان دے رہا ہوں۔ اس گواہی تک ایک بھی گواہی نہیں۔ کہ ہم جنگ احد میں کامیاب ہونے کے باوجود جنگ کے فوائد سے فائدہ اٹھائے بغیر کیوں واپس لوٹ گئے۔ فتح کے جو طبعی فوائد ہیں وہ ہم نے کیوں حاصل نہ کئے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اس روایت کی کوئی بنیادہی نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے اور نہ ان کی ادائیں رعب والی نظر آتی ہیں۔ اگر رعب ایسا تھا تو جیسا کہ احمد علی صاحب نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ وہاں رکے بغیر سیدھا مکے پہنچ کے کیوں نہیں دم لیا۔ میر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ بھاگے ایسا بھاگے وہاں سے یہ آواز سن کر حضرت جبریل کی کہ سیدھا پھر جا کے مکے پہنچ کے دم لیا ہے۔ اس آواز کو سن کر وہ مسلمان کیوں نہیں ہوگئے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ سہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیتے۔ پھر یہ جنگ احزاب کا واقع کیوں پیش آیا۔ عجیب و غریب روایت ہے اور رعب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنے کی کوئی تک کوئی بنیاد ہی نہیں بنتی۔ لیکن یہ رعب ہے جو میںبتا رہا ہوں۔ حمراء الاسد پھر پہنچتے ہیں۔ یہی زخمیوں والا قافلہ آتا ہے۔ وہاں تین دن تک پڑائو پکڑتا ہے۔ انتظار کرتا ہے کہ دشمن واپس لوٹے۔ ہم پھر اس کا مقابلہ کریں اور وہ بغیر حملہ کئے واپس چلا جاتا ہے۔ یہ وہ رعب کی فتح تھی جس رعب کا اس آیت میں وعدہ دیا گیا تھا اور ان تمام صحابہ کے اوپر جو بزدلی اور فرار کے داغ لگے تھے۔ اس واقعہ نے ان کو دھو دیا ہے۔ کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتا۔ ورنہ یہ ہمیشہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتے۔ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھیں۔ کتنے عظیم الشان جرنیل ہیں۔ خدا سے جو فتح و نصرت کے وعدے تھے وہ تو اپنی جگہ لیکن آپ کی جو سیادت اور قیادت کی شان ہے وہ عجیب شان ہے۔ اگر جرنیلی کے طور پر بھی دیکھا جائے تو دنیا کے پردے میں ایسے جرنیل آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ ایسے عظیم الشان آپ نے جنگی حربے استعمال کئے ہیں۔ ایسی عمدگی سے میدان جنگ کو سجایا ہے اور بتایا کہ کہاںکس نے ٹھہرنا ہے۔ ایک ایک آدمی کو ساتھ جاکے بٹھایا کرتے تھے۔تم نے یہاں رہنا ہے تم نے وہاں رہنا ہے یہ تاریخ حرب آپ پڑھ کے دیکھ لیں دنیاکی آپ کو کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی اس نے کارلائل (Carlyle) نے تو لکھا ہے He was the prophet یعنی Hero and Hero worship میں وہ مختلف مثالیں چنتا ہے اور نبی کی مثال کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولیتا ہے۔ مگر میں نے غور جو کیا ہے ہر اعلیٰ انسانی خوبی میں اگر کوئی کتاب Hero and Heroes worship کی لکھی جائے تو ہر فہرست میں سر فہرست حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہوگا۔ ایک دانش ور کے طور پر۔ ایک عظیم سیاست کی فہم رکھنے والے کے طور پر۔ حربی فنون میںایک بے مثل جرنیل کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکبھی دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شیعہ الزام ہے۔ وہ بہت ہی خوفناک ہے اور اس کا ذکر میں بعد میں کرکے اس کا جواب دونگا۔جہاں وہ روایت ہے کہ اہل بیت بس یہی تھے اور ان کے سوا کوئی پاک نہیں رہا تھا۔ اب میں اس کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام کا حقیقی مقام کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے عشق کا جیسا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میںہے۔ اس کی اور آپ کو مثال کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ لیکن شیعہ یہ شرارت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو پیش کرتے ہیں۔ تاکہ شیعوں میں احمدیت کے خلاف بغض و عناد پھیلے اور یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی بڑی سخت ہتک کی ہے اس میں جو ان کے الزام میں سب سے نمایاں طور پر جو شعر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے۔ (دیکھتا ہوں‘ بتاتا ہوں‘ اچھا ٹھیک ہے)
فھذا علی الالسلام احدی المصائب
لدی نفحات المسک قزر المقنطر
شعر کا ترجمہ یہ ہے پس اسلام کے اوپر مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کستوری کی خوشبوکے پاس گندگی کا ڈھیر لگا دیتے ہیں یہ سارا قصیدہ توحید کی تائید میں شرک کے خلاف ایک جہاد پر مشتمل ہے اور اس ضمن میں ذکر فرماتے ہیں کہ دیکھو تم نے بھی بہت بڑے پاک لوگوں ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ وغیرہ پر۔ دراصل شرک کا بہتان باندھ دیا ہے۔ جب تم ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو۔ ان سے منتیں مانگتے ہو۔ تو شرک میں مبتلاء کرتے ہو۔ اور نعوذ باللہ ان کو جھوٹا خدا بنا لیتے ہو۔ اب یہ بہت بڑا ظلم ہے ان کی پاک ذات پر اور اسلام پر یہ بڑا بھاری ظلم ہے۔ کہ ایک طرف توحید اور ایک طرف شرک ۔ توحید کی خوشبو کو مشک کی خوشبو سے تشبیہ دی ہے۔ اور شرک کو گندگی سے۔ کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے جانتے ہوئے کیوں کہ اس قصیدے میں اس کی کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں ہے جو یہ بات بنا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت حسین علیہ السلام کوگندگی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آپ کی زندگی میں آئی ہے اور اس کے رد میں جو آپ نے فرمایا ہے میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں۔ اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ ہے ۔بعض ایسی روایات ملتی ہیں کہ جہاںکسی شیعہ کے پاس احمدی کا کیس ہو۔ تواس کو پیچھے پیچھے کان میں جا کر پھونکتے ہیں کہ ان کے حق میںفیصلہ کرو گے یہ دیکھو یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ اب اس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اصل حقیقت کیا ہے اس سے تعصب میں مبتلا ہوکر بعض دفعہ وہ ظالمانہ فیصلے کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الزام کے جواب میں فرمایا ! میں نے اس قصیدے میںجو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ دونوں وہی مضمون ہیںکہ وہاں بھی شرک کرتے ہوئے ان دونوں پاک بزرگوں پر تم نے معبود ان باطلہ بننے کا الزام لگادیا ہے گویا وہ بھی اس بات میں شریک ہیں یہ ہے طرز استدلال۔ فرماتے ہیں ’’ میں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں ہے۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بد زبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ (مطلب ہے روحانی موت ہے اس کے لئے) اور وعید من عادی ولیا لی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے (یہ جو وعید ہے کہ جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اسکا دشمن بن جاتا ہوں) پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
ضمیمہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحہ ۱۴۹
یہ ہے اس کا جواب اس جھوٹے الزام کا۔ اور کئی دفعہ آج کل اس زمانے میں بھی پاکستان سے بعض بچے بچارے مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق دیواروں پہ لکھا جار ہا ہے سکول میں ہمیں تکلیف دینے کیلئے یہ مشہور کرتے ہیں کہ دیکھو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ لکھ دیا اور لوگ ہمیں طعنے دیتے اور مارتے اور گالیاں دیتے ہیں تو یہ سب اُن کے افتراء کی باتیں ہیں اس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں فرماتے ہیں! ملفوظات جلد نمبر ۶صفحہ ۲۸۲ ’’حضرت عیسیٰ اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا لیں مگر ان کے اصل رتبہ اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔ یہ جھوٹا الزام ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا وہ بلا شبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل تھے لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں ہم تو صرف یہ گفتگو کرتے ہیں کہ تم آل کی اعلیٰ قسم کو نظر انداز کردیتے ہو۔ جو روحانی آل ہے اور محض جسمانی آل پر زور دیتے ہو اور روحانی آل والوں کو اس مضمون سے ہی باہر نکال پھینکتے ہو۔ تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسن اور حسین کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی۔ جس کی رو سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ روحانی وراثت لازم و ملزوم نہیں ہے۔
یہ ہے گفتگو جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ان معنوں میں اٹھایا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے مرتبہ اور مقام کی بات میں بتا رہا ہوں۔ یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ شیعوںنے نعوذ باللہ پہلے تین خلفاء پر الزامات عائد کئے ہیں اور ظلم توڑے ہیں۔ اس لئے کس طرح بھی نعوذ باللہ من ذلک حضرت علی کیلئے دل میں کہیں کوئی میل کا ایک معمولی سا شائبہ بھی آپ کے دل پہ طاری ہوجائے۔ اگر اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آپ کے دل پر میل آئے تو یہ ہلاکت کی نشانی ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قطعاً کوئی ادنیٰ بھی حصہ اس میں نہیں ہے کہ پہلے تین خلفاء کے اوپر بدزبانی کی جائے‘ گالیاں دی جائیں۔ آپ نے جب بھی ذکر فرمایا محبت اور احترام سے ذکر فرمایا‘ جب تک ان کی بیعت میں رہے اور ہمیشہ رہے۔ آخر دم تک رہے ان کے ساتھ کامل وفا کی ہے۔ ان کے ہر اشارے پر لبیک کہا ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ پر الزام ہے اور ہر گز ان پر کوئی حرف کسی قسم کا نہیں ہے۔ بعض سنی بعض دفعہ زیادتی کرتے ہوئے۔ بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب الزامات کو بھی پیش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آپ سے اس طرح رسول اللہ صلعم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچا۔ آپ پر شادی کے معاملہ میں یہ الزام لگا وہ ہوا یہ ناپاک طریق ہیں۔ میں اس کو جماعت میں بالکل پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاک وجود پر کسی قسم کا اتہام دوسرے کی روایت کے طورپر بھی پیش کرنا۔ مناسب نہیںہے۔ ورنہ آپ کے دل میں آہستہ آہستہ ایک بغض کا اثر پڑناشروع ہوجائے گا۔ اور آپ دور ہونا شروع ہوجائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ ہیں سُنیے!۔
’’آپ بڑے تقوی شعار پاک باز تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو رحمان خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں قوم کے چنیدہ لوگوں میں سے اور سادات میں سے تھے‘ خدا کے غالب شیر اور اس کے مہربان دردمند جوان تھے بڑے سخی اور پاک دل تھے‘ بے مثل شجاع تھے میدان میں جس جگہ جم جاتے اس جگہ سے ہر گز نہ ٹلتے خواہ دشمن کی فوجیں مقابل پر آجائیں۔ تمام عمر پر مشقت زندگی بسر کی۔ زہد میں نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ مال و دولت دینے حاجت و تکلیف کو دور کرنے‘ یتیموں‘مسکینوں اور ہمسائیوںکی خبر گیری میں اول درجے کے انسان تھے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے۔ (کیسا خوبصورت کلام ہے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے) نئے نئے ابواب کا اضافہ ہوتا تھا۔ معرکوں کی تاریخ میں اور تیر و تلوار کی جنگ میں مظہر عجائب تھے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ‘ شیریں بیان فصیح اللسان تھے۔ آپ کی بات سننے والے کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ اپنی گفتگو سے دلوں کا زنگ دور کردیتے تھے اور اپنی تقریر کو نور برہان سے منور کرتے تھے۔ ہر طرح کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو اس میدان میں آپ کا مقابلہ کرتا تھا وہ اسی طرح اپنی بے بسی کا اور شکست کا اعتراف کرتا جس طرح ایک مغلوب شخص کرتا ہے۔ یعنی جس کو شکست نصیب ہوجائے ۔ آخر ماننا پڑتا ہے ہر خیر میں اور فصاحت و بلاغت کے میدان میں فرد کامل تھے۔ اب یہاں فرد کامل ایک عظیم داد تحسین ہے میں نہیں جانتا مرد کامل تھا یا فرد کامل۔ یہاں فرد کامل لکھا ہے۔ دونوں مضمون اپنی جگہ اپنی شان رکھتے ہیں۔ مرد کامل کہا جائے تو ایسے موقع پر اس کی بہادری اور جواں مردی کی ایک بہت ہی پیاری تصویر ہے اور فرد کامل کا مطلب ہے اس کی کوئی مثال اور نہیں۔ جو آپ کے کمالات کا انکاری ہو تو جان لو کہ اس نے بے حیائی کی طرز اختیار کی۔ مصیبت زدہ اور لاچار کی ہمدردی کی ترغیب دیتے تھے تنگ دستی پر قانع اور پریشان حال افراد کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے۔ اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اور ان باتوں کے ساتھ ساتھ فرقان مجید کے معارف کے دودھ کا پیالہ پینے میں۔ سابقین میں سے تھے۔ دقائق قرآنیہ کے ادراک میں آپ کو فہم عجیب عطا کیا گیا تھا۔ میں نے آپ کو عین بیداری کی حالت میں دیکھا نہ کہ نیندمیں۔ آپ نے مجھے خدائے علام کی کتاب کی تفسیر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ جو اب تمہیں عطا کی جاتی ہے۔ پس میں اس تفسیر کے ملنے پر خوش ہوا۔ تب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے وھاب و کبیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو نہایت مضبوط جسم والا اور گہرے اعلیٰ اخلاق والا‘ عاجز منکسر المزاج روشن اور پر نور چہرے والا پایا اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محبت اور الفت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی۔ سر الخلافۃ صفحہ ۴۴ یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تصور۔ تصور نہیںایسا بیان جو لفظاً لفظاً حقیقت پر مبنی ہے کوئی مبالغہ آمیزی نہیں۔ کوئی تحریر کی سجاوٹ کا خیال شامل نہیں۔ یہ آپ کے مقدس ‘ مطہر دل نے محسوس کیا۔ جو جانا جو علم آپ کو کشفاً عطا کیا گیا۔ اس کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ تصویر کھینچی ہے پس اس جہالت میں کبھی مبتلا نہ ہوں کہ اگر کسی خلیفہ پر شیعہ زبان طعن دراز کرے تو مقابل پر آپ نعوذ باللہ من ذلک۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمزوریاں ڈھونڈ کر اپنی دلیل کو طاقت دینے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا موقعہ ہے جہاں جیسا کہ میں نے پہلے آیت قرآنیہ کے حوالے سے آپ کو سمجھایا تھا۔وہاں زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ سب بزرگ خدا کے پاک بندے تھے۔ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ ان کے متعلق قرآنی گواہی یہ ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دم تک یہ گواہی ہے کہ یہ پاک لوگ ہیں۔ ورنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کی امامت پہ کیسے کھڑا کردیتے۔پس ایسے موقعے پر اگر تکلیف بھی ہے تو برداشت کرلو‘ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ یا آپ کے صحابہ اور ساتھی اور آل کے متعلق کوئی میلا خیال دل میں نہ آنے دو۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ طاہر اور مطہر تھا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ حسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا۔ اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے‘جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اورایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے۔ اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے او ر ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تو شاذ اشارے ملتے ہیں۔ مناظروںمیں۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تو بعض شیعوں نے بعض سنیوں نے ایسا ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ ان کے مقابل پر یزید کو حضرت یزید کرکے لکھا گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی غلطیاں ظاہر کی گئیں اور یہ بتایا گیاکہ ایسی صورت میں نعوذ باللہ من ذلک حضرت یزیدکے پاس اس کے سوا چارہ نہیں تھا جو انہوں نے کرکے دکھایا۔ یہ نہایت ہی خبیثانہ حرکت ہے۔ اور جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ ہم سنی العقیدہ ہونے کے باوجود ایک امتیاز رکھتے ہیں۔ ہمیں وقت کے امام نے ایک روشن دماغ او ر روشن دل عطا کیا ہے اور ہمارے دل کوحقیقی‘ سچ کے نور سے بھر دیا ہے۔ اس نور سے جو خدا سے آپ نے پایا پس شیعوں کے مقابل پر جو ہمارا موقف تھا۔ میں نے کھول کر بیان کردیا۔ کوئی اس میںبات لپٹی نہیں۔ کھول کر بتایا کہ یہ موقف ہے جو سچا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان سنیوں کے ساتھ شامل ہیں جو جواباً نعوذ باللہ من ذلک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر بھی حملے کردیتے ہیں اور آپ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں۔ ’’ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔ جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش ہو۔ یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نقوش کو اسی طرح اپنے دل پر قبول کریں کہ وہ آپ کے دل میں جلوہ گر ہوجائیں۔ جیسے ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی۔ کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیرکرتا ہے اور کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلشانہ اس شخص کا دشمن ہوجاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروںکا دشمن ہے۔
مجموعہ اشتہارات جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۴۳
’’افاضۂ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ (افاضہ انوار الٰہی میں ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوروں کے پہنچنے میں۔ یعنی نوروں کو تم تک پہنچایا جاتا ہے۔ جو اس میں کون کونسے محرکات و موجبات شامل ہوتے ہیں) فرمایا! محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میںایک تھوڑی سی غیبت حس سے جو خفیف سے نشہ سے مشابہہ تھی جیسے ہلکا سا طبیعت میں ایک نشہ سا آجائے ۔یعنی اس میں لطف بھی تھا ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پائوں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ او رمقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھم اجمعین۔ اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرمہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اسکے ایک کتاب مجھ کودی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علی (رضی اللہ عنہ) وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔
(براھین احمدیہ ہر چہار حصص حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ص ۵۹۸‘ ص ۵۹۹)
یہ روایت میں نے خاص طور پر اس لئے یہاں چنی ہے کہ احمدیوں پر جو ظلم کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اُن میں بعض خبیث فطرت لوگ اس روایت کو بھی بگاڑ کر عوام الناس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گندے الزامات لگاتے ہیں اور یہ الزام دراصل ان پر ہی الٹتا ہے۔ ان کا خبث باطن ہے جو ایسی ناپاک بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کااس روایت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیںہے۔ کوئی وہم و گمان بھی کوئی شریف انسان نہیںکرسکتا کہ اس روایت میں کوئی ایسا مضمون بیان ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھڑے ہی حالت میں ایک کشفی نظارہ ہے۔ جن پانچ بزرگوں کے آنے کا ذکر ہے اس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے موجود ہیں۔ اور آپ کو ایک بچے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ورنہ اگر اپنے زانوں سے سر لگاتیں تو ایک بڑے آدمی کا سر تو زانوں کے ساتھ نہیں لگ سکتا ہے۔ صاف پتہ چلا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں ان سب بزرگوں کو قد آور دیکھا ہے اوراپنے آپ کو ان کے مقابل پر ایک چھوٹا بچہ دیکھا ہے اور تبھی جس طرح ماں بچے کا سر اپنی ران کے ساتھ لگاتی ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کشف میں جب آپ کا سر اپنی ران کے ساتھ لگایا تو وہ ران کے برابر تھا۔ یہ تو نہیں کہ دوہرا کر ہے الٹا کر نیچے لے جایا گیا۔ ایسا کوئی نقشہ تو اس عبارت سے ظاہر نہیں ہورہا ۔ ایک نہایت پاکیزہ کشف ہے مادر مہربان کا لفظ موجود ہے۔ ایک مادر مہربان کی طرح اور منظر کیا ہے باپ موجود ہے خاوند موجود ہے بچے موجود ہیں اور یہ ناپاک اور کمینے لوگ یہ گند اچھالتے ہیں اور حیاء نہیں کرتے کہ حضرت فاطمہ ؓ کے اوپر یہ بکواس کررہے ہیں۔ جب یہ ایسا گنداخیال اس سے نکالتے ہیں جو نکالتے ہیں تو الزام لگانے والے یہ ہیں اور بے حرمتی کرنے والے یہ ہیں۔ اس عالم کشف میں تو اس کا دور کا بھی اشارہ موجود نہیں۔ جو یہ بکواس حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے کی خاطر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر کرتے ہیں اسلئے میں یہ کھول کر بتا رہا ہوں کہ یہ جو پاکستان کی دیواریں اس قسم کی گندگیوں سے کالی کی جاتی ہیں یہ ان مولویوں کے دل کے گند ہیں۔ اور یہاں شیعہ سنی سب اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ گند اچھالنے میں اورحیاء نہیں کرتے کہ کس کے متعلق کیا بات کررہے ہیں۔ پھر یہ کہ جان کر حوالہ وہ دیتے ہیں جومختصر حوالہ ہے۔
جب ۱۹۸۴ئ؁ میں جماعت احمدیہ کو موقعہ ملا اور ان کو زبردستی بلایا گیا کہ نیشنل اسمبلی کے سامنے پیش ہوں اور ہم تم پر الزام لگائیں اور تم ان کو جواب دو ۔ (تو ۱۹۷۴ئ؁ میں ۸۴ء میں نہیں) حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ اور مجھے یاد ہے یہ الزام بھی ان الزامات میں شامل تھا۔ لیکن حوالہ براہین احمدیہ کا دینے کی بجائے ایک بعد کی کتاب کا دیا جس میں مختصر ذکر تھا اس کا۔ حالانکہ ان کی انہوںنے باقاعدہ علماء کی ٹیمیں بٹھا رکھی تھیں اور نہ صرف مذہبی امور کی وزارت بلکہ امور قانون کی وزارت بھی کئی مہینوں سے دن رات کام کررہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے کوئی قابل اعتراض بات نکالی جائے۔ اوربراہین احمدیہ بھی ان کے مطالعہ میں تھی ۔ جان کے اس کو چھوڑ کر جس میں پوری تشریح موجود ہے اس مختصر حوالے کو لے لیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ لگے کہ کیا بات کہی جارہی ہے۔ یہ ہے مادر مہربان والا حوالہ جس سے انہوںنے سارا طوفان کھڑا کیا اور جب وہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ نے براہین احمدیہ سے پڑھ کر دکھایا سنایاکہ یہ ہے تو مولویوں کے منہ دیکھنے والے تھے۔ اور سارا حال جو دوسرا تھا ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ یہ تھا حوالہ۔ وہ ریکارڈ تو ہوگئی ہے ساری کارروائی۔ لیکن افسوس ہے کہ وڈیو نہیں ہوسکی ۔ ورنہ آپ دیکھتے مولویوںکے چہرے اور دیکھتے کس طرح ہال میں موجود ممبران کی اکثریت اس موقعہ پر مولویوںکی طرف دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھی۔ لو جی آگیا جواب آپ کا۔ لیکن حیاء نہیں۔ پھر وہی بات کئے چلے جاتے ہیں۔
ازالہ اوہام میں ائمہ اثنا عشری کے متعلق لکھاہوا ہے۔ آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ا ن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف تو یہ ہے کہ نہ صرف اہل بیت جسمانی اہل بیت تھے بلکہ روحانی اہل بیت بھی تھے اور اس پہلو کو زیادہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کے دل میں بھی اہل بیت بننے کی طمع پیدا ہوگی۔ ورنہ جو جسمانی اہل بیت ہیں۔ ان کا لاکھ ذکر کرتے رہو کوئی دوسرا بن ہی نہیں سکتا۔ وہ بے چارہ بیٹھا کیا سنتا رہے گا۔ فرمایااس طرف بلائو جس طرف لوگ بھی آسکتے ہیں اور جیسا بنانے کیلئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ پھر اہل بیت کی محبت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام ائمہ کے متعلق آپ نے ایک نہایت ہی پاک کلام میں ان کی محبت اور ان کے تقویٰ کے اوپر مہر ان کی محبت میں سرشار ہوکر ان کے تقویٰ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ سارے ائمہ صاف اور پاک لوگ تھے اسی لئے میں نے آئمہ کا حوالہ دیا تھا۔ کہ ائمہ خود ان باتوں کو ناپسند کرتے اور مردود قرار دیتے ہیںجو یہ الزام لگاتے ہیں ۔ اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ عرض کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں ۔
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آل محمد است
دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکان ندائے جلال محمد است
ایں چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دھم
یک قطرئہ ز بحر کمال محمد است
ایں آتشم ‘ ز آتش مہر محمدی ست
ویں آب من ز آب زلال محمد است
اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم۔
٭٭٭٭

بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 15 رمضان المبارک
26 فروری 1994ء
جاپان سے ایک ہمارے دوست ہیں ملک رفیع احمد انہوں نے دیکھ کر کہ کس طرح بیٹھا جاتا ہے یہاں تو ایک جاپانی کرسی بھیجی ہے جو زمین پہ بیٹھنے والی کرسی ہے۔ مجھے ان کی Fax ملی تو میں نے ان کو Fax کی کہ آپ بالکل نہ بھیجیں فوراً روک لیں۔ لیکن پھر Fax آئی کہ میں بھیج چکا ہوں۔ میں نے کہا پھر جو آئی ہے تو ضرور استعمال کرنی پڑے گی۔حضورنے حاضرین میں سے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی خاص چیز ہے یہ ؟ انہوں نے کہا کہ : حضور یہ جاپان میں استعمال ہوتی ہے۔ حضور نے پوچھا: آپ استعمال کرتے رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ بڑی آرام دہ ہے اس سے کمر کو تھکان نہیں ہوتی ۔
حضور نے فرمایا :مر کی تھکان کی تو میں نے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ صرف ٹانگ کے سونے کا تھا۔ تو ٹانگ نہیں سوتی اس سے؟
انہوں نے کہا : پتہ نہیں یہ تو دیکھنے کی بات ہے۔
حضور نے فرمایا :آپ کی تو ویسے ہی نہیں سوتی میرا خیال ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان ینصرکم اللہ فلا غالب ....................واللہ بصیر’ بما یعملون O
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے گا یا مدد کرے گا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون : پس چاہئے کہ مومن اللہ ہی پر توکل کریں اور یہ ممکن نہیں کسی نبی کیلئے کہ وہ خیانت سے کام لے اور جو بھی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس چیز کو ظاہر کردے یا لے آئے گا جس سے متعلق اس نے خیانت کی تھی۔ پھر ہر شخص کو پورا پورا بدلہ اس کا دیا جائیگا جو اس نے کمایا اور وہ وہاں ہر گز ظلم نہیں کئے جائینگے۔جو بھی اللہ کی رضا کی پیروی کرے کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جو اللہ کی ناراضگی اور غضب کے ساتھ لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔ھم درجٰت عنداللہ : یہ لوگ مختلف مراتب مختلف درجوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اللہ کے حضور۔واللہ بصیر’‘ بما یعملون : اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح دیکھ رہا ہے جو یہ کام کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
یہ آیات ہیں جن میں سے جہاں تک ہوسکا آج کے درس میں ان کے متعلق گفتگو ہوگی۔پہلی آیت ہے ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اگر اللہ تمہاری مددفرمائے تو کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے۔
خذل کا معنی ہے چھوڑ دینا خذلہ ای ترک نصرتہ و اعانتہ یعنی اس کی اعانت اور مدد چھوڑ دی پس خذولاً کے معنے ہونگے۔ مدد اور نصرت کو چھوڑ دینے والا۔ یہ اقرب الموارد میں لکھا ہے۔ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اس میں استفہام انکاری ہے استفہام انکاری اسکو کہتے ہیں کہ سوال کیا جائے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا طبعی قدرتی جواب ہے کہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔اور یہ جواب اتنا طاہر و باہر ہو کہ سوال کے اندریہ تو ظاہر بات ہے اس سوال کا انکار شامل سمجھا جائے۔ اس کو کہتے ہیں استفہام انکاری تو یہ لکھتے ہیں ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم من ذالذی ینصرکم من بعدہ یہ جو حصہ ہے آیت کا کہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے یہ سوال ‘ جواب پوچھنے کی خاطر نہیں بلکہ اس کا جواب اس میں مضمر ہے کہ کوئی بھی نہیں جو ایسا کرسکے۔باقی سب مفسرین نے توکل کامضمون اس آیت کے ساتھ جوڑ کر وہی باتیں کہی ہیں جو پہلے بھی بیان ہوچکی ہیں کوئی ایسی خاص قابل ذکر بات تفسیروں میں نظر نہیںآتی۔ جس کو آج گفتگو کیلئے اختیار کیا جائے اس لئے عمومی طورمیںپر اس آیت سے متعلق بعض دوسری باتیں رکھ کر جو روایات ہیں ۔ بددیانتی اور خیانت والی ان پر میں خصوصیت سے توجہ دونگا۔
ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : کہ اللہ اگر تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔
وان یخدلکم : یہاںیہ جو ’’چھوڑنے‘‘ کے معنے لئے گئے ہیں بعض مفسرین کی طرف سے تجویز ہوئے ہیںاس سے مراد کہ یہاں مدد چھوڑنا ہے یہ درست نہیں ہے۔ یعنی ’’مدد چھوڑنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے ان معنوں میںیہ یہ غلط نہیں ہے لیکن یہاں کسی کو چھوڑ دینا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چھوڑ دے اسی کی مدد چھوڑا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو چھوڑا نہ ہو اور پھر خالی مدد چھوڑ دے تو مراد یہ ہے کہ اصل جو بات ہے قابل غور وہ یہ ہے کہ تمہیں خدا نے چھوڑ تو نہیں دیا۔ اگر تمہیں خدا نے چھوڑ دیا تو پھر کوئی نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکے اور پھر ہر دوسرے کو تم پر غلبہ نصیب ہوجائے گا۔ پس وقتی طور پر جو نقصان پہنچا ہے یہاں یہ آیت جہاں انذار کے پہلو رکھتی ہے وہاں ایک خوشخبری کا پہلو بھی رکھتی ہے کہ بظاہر تمہیں مدد نہیں ملی اس وقت لیکن تم چھوڑے ہوئے لوگوں میں سے نہیں اور جس کو خدا نہ چھوڑے اس کے لئے کوئی غم نہیں ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو بعد کا حصہ تقویت دیتا ہے’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ان کو اللہ پر توکل رکھنا چاہئے۔ ا ن کو علم ہونا چاہئے کہ وہ ایسی جماعت نہیں ہیں جنہیں خدا ترک کردے کیونکہ اگر اللہ ترک فرمادے تو پھر کوئی نہیں ہے جو ایسی جماعت کی مدد کرسکے۔ یہاں ’’بعد‘‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ یہ لفظ اکثر ہمارے علم کلام میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ’’بعد‘‘ سے مراد محض زمانہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اور بھی معنے ہیں اور جب بھی اللہ کے تعلق میں لفظ ’’بعد‘‘ آتا ہے تو اس کا معنیٰ زمانے کے لحاظ سے لیا جانا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ خدا کے بعد تو کوئی نہیں ہے۔ تو جب قرآن کریم فرماتا ہے کہمن ذاالذی ینصرکم من بعدہ کہ اللہ کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد فرماسکے ؟ اس کا مطلب اگر زمانی بعد لیا جائے تو مومنوں کو چھوڑنے کی بحث نہیں ہوگی خدا کے گویا گزر جانے کی گفتگو شروع ہوگی کہ جب اللہ چلا جائیگا۔ اللہ ہی نہیں رہے گا۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ اس کے بعد پھر کون تمہاری مدد کرے گا؟ اس لئے ’’بعد‘‘ کا جو عربی محاورہ ہے اس سے مراد ہے اس کو چھوڑ کر۔ اس کے علاوہ اس کے سوا۔ اس سے باہر‘ اس کی مخالفت میں‘ چنانچہ مختلف اہل علم نے ان تمام معانی کو پیش نظر رکھ کر مختلف مواقع پر بعد کے معنی کئے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی ۔مجھے اس وقت قطعی یاد نہیں لیکن وہ حوالے دیکھ لیں نکال دیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بعد سے مراد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان کو چھوڑ کر۔ ان کی مخالفت میں ان کی شریعت سے باہر۔یہ مراد ہے اور یہ حدیث آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے۔ یہ میں ضمناً آپ کو بتا رہا ہوں کہ بعد کا لفظ اللہ کے متعلق صرف یہیں نہیں بعض اور آیات میںبھی استعمال ہوا ہے اور ایک دوسری آیت کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے یہ استنباط فرمایا ہے کہ دیکھ لو اللہ کا بعد تو زمانی لحاظ سے ممکن ہی نہیں ہے۔مگر اللہ کو چھوڑ کر اس کے علاوہ اس کی مخالفت کے معنے یہ ہر ایسی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں جہاں ’’بعد اللہ‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘ میں وہ شیعہ مفسر کے الزام کا جواب بھی آگیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ مومن علیؓ پر توکل کرتے ہیں۔ یہ فرمایا ہے مومن اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں اور وہ جو پہلا حوالہ گزر چکا ہے اس پر بحث ہوچکی ہے۔ اس میں تو وہ کہتے تھے صرف علیؓ تھے جن پر صرف عام مومنوں کا ہی نہیں محمد رسول اللہؐ کا بھی توکل تھا۔ اگر علیؓ نہ بچاتے تو پھر کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ اور یہ اعلان ہوا ہے اُس وقت ’لافتی الا علی ‘۔
آج کے دن مومنوں کی حفاظت کرنے والا محمد رسول اللہؐ کو بچانے والا علیؓ کے سوا کوئی باقی نہیں رہا اور جبرئیل اس وقت تک بیٹھے رہے ہیں جب تک بچا نہیں لیا۔ دخل نہیں دیا کوئی۔ غالباً ان کے نزدیک جبرئیل کو وہاں پر چلانے کی مجال نہیں تھی۔ وہ دیکھتے رہے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جب حضرت علی ؓ نے بچا لیا تو پھر دیکھیں آکے کتنی ہمدردی کی ہے کہ یا رسول اللہ ؐ! دیکھا آپ نے اس کو کہتے ہیں ہمدردی۔ اس کو کہتے ہیں مواسات۔ یعنی اُنس اور قربت کا اظہار۔ تو جبرئیل بیٹھے کیا کررہے تھے اُس وقت؟
یہ علماء لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا گیا تو حضرت جبرئیل کے متعلق ان کا جو تصور ہے مکانی وہ عجیب و غریب ہے۔ فرشتوں کا وہ لاہوتی تصور نہیں مانتے۔ وہ مکان کے ساتھاس طرح ان کو پابند کردیتے ہیں جس طرح انسانی وجود یا مادی وجود مکانوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ تو اس پہلو سے ان کا تصور بھی فرشتوں کا یہی ہے اور حضرت جبرئیل کے متعلق کہتے ہیں اُس وقت ساتویں آسمان پر تھے۔ اب یہ مجھے علم نہیں کہ کس کتاب میںلکھا ہے لیکن مجھ سے خود ایک بڑے عالم دین نے جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور لاہو رجاتے ہوئے میرے سفر میں ہمراہ تھے۔ انہوں نے گفتگو کے درمیان یہ فرمایا کہ تم آج کل کی سائنس کی کیا بات کرتے ہو۔ یہ تیز رفتاریاں وغیرہ جو ایجاد ہورہی ہیں سب کچھ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں۔ تم یہ دیکھو ! کہ جب حضرت یوسف ؑ کوبھائیوں نے پھینکا ہے اندھے کنویں میں تو جبرئیل علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے اور پیشتر اس کے کہ وہ زمین کو چھُوتے۔ اللہ نے حکم دیا وہ نیچے اترے اور اپنے پروں پر ان کو لے لیا۔ اور اس طرح چوٹ نہیں لگی۔ تو میںیہ کہہ سکتا ہوں یہ ہے مواسات۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ سے کوئی مواسات نہیں جبرئیل کی۔ یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ کوئی انصاف ! کوئی خدا کا خوف کرو !!
اللہ تعالیٰ گویا کہ حضرت علی ؓ کے بغیر کلیتاً بے اختیار ہو بیٹھا تھا۔ نہ وہ کچھ کرسکتا تھا نہ جبرئیل کچھ کرسکتے تھے۔ دیکھتے رہے کہ کیا ہورہا ہے ۔ جب سب کچھ ہوگیا تو پھر حضرت جبرئیل اتر آئے اور فرمانے لگے کہ دیکھو ! یہ ہوتی ہے مواسات۔ مگرخدا اس کو جھٹلا رہا ہے اس سارے مضمون کی تردید فرما رہا ہے۔ فرماتا ہے۔’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘اگر تم مومن ہو تو پھر صرف اللہ پر توکل کرنا ہے اور توکل کے مضمون میں محمد رسول اللہ ؐ کو بھی شامل نہیں فرمایا کیونکہ محمد رسول اللہؐ کا توکل بھی اللہ پر ہی تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ انسان پر توکل کرتے تھے نہ فرشتوں پر توکل کرتے تھے۔ یہ جو نصرت کی باتیں ہیں فرشتوں کے ذریعے۔ اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ جنگ بدر کے حوالیمیں کھول دیا ہے۔ وہ بحث آگر کوئی موقعہ بعد میں ہوا تو اُس وقت میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ توکل کی جب بات ہورہی ہو تو اللہ کے سوا کسی کا کوئی تصور بیچ میں نہیں آنا چاہئیے اور یہی توحید کامل ہے۔پس ’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ میں یہ فرمایا گیا ہے اللہ پر توکل کرو۔
اب جنگ احد کے حوالے سے اس توکل کے یہ معنے بنیں گے کہ تم یہ خیال بھی نہ کرو کہ خدا نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ جو چھوڑ دے اس پر تو توکل نہیں کیا جاتا۔جس کے متعلق کامل یقین ہو کہ کبھی نہیں چھوڑے گا اس پر توکل کیا جاتا ہے۔ تو عارصی طورپر جو نقصان پہنچا ہے اس سے خدا تعالیٰ نے کس طرح صرف نظر فرمایا۔ کس طرح بخشش فرمائی۔ اس کا مزید بیان ہے گویا کہ یہ کہ دیکھو ! خدا نے تمہیں کیسا معاف فرمادیا۔ کیسا تمہاری غلطی کو کالعدم قرار دے دیا کہ اب تمہیں بُلا رہا ہے کہ مجھ پر کامل توکل رکھو !میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں !! یہ مضمون ہے جو دراصل اس آیت میں بیان ہورہا ہے۔وما کان لنبی ان یغل و من یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون O
کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ وہ خیانت کرے اور جو بھی خیانت کرے گا (نبی تو کر ہی نہیں سکتا ) وہ قیامت کے دن اس خیانت کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے گا پھر ہرشخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کے مطابق بدلہ دیا جائیگا اور وہ ظلم نہیں کئے جائینگے۔
یہاں غَلَّ کے جو مختلف معنی ہیں وہ پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ کیونکہ ہر لفظ کا اطلاق موقعہ اور محل کے مطابق ہونا چاہئے اور ہر لفظ کے مختلف معنے تمام تر نہ اکٹھے ایک جگہ چسپاں ہوسکتے ہیں ۔اور نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’اتر گیا ہے‘‘
اس سے دل اتر گیا ہے۔
کوئی پہاڑ سے اتر گیا ہے۔
اور کسی کی عزت اتر گئی۔
مختلف اترنے کے معنے ہیں۔ دلوںپر اللہ اترتا ہے۔کلام الٰہی اترتا ہے۔ بارش اترتی ہے۔ لوہا اتارا گیاہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے مضمون اترنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر جگہ الگ الگ معنے ہیں اور نہ ہر جگہ یہ سارے معنے مراد لئے جاسکتے ہیں نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے الگ الگ بھی۔ اس لئے غَلَّ کے مختلف معنے دیکھئے جہاں رسول کے متعلق لفظ غَلَّ استعمال ہوگا وہاں رسول کے شایان شان معانی ہونگے۔ جہاں دوسرے انسانوں کے متعلق غَلَّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں ان کی حیثیت کے مطابق معنے چسپاں ہونگے۔ لیکن معنے وہی ہونے چاہئیں جن کو لغت اور قرآن کریم کا استعمال دوسری جگہوں سے ان کو تقویت دے ان کو سہارا دے۔ ان کے حق میں گواہی دے۔ اس کے بغیر اپنی طرف سے معنے نہیں بنا سکتے آپ۔
چنانچہ غریب القرآن لغات الفرقان میں جو مختلف آیتیں غَلَّ کے ساتھ دی گئی ہیں ان سے ان کے معنے خود بخودظاہر ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کو سناتا ہوں۔غَلّ کے معنے خیانت کرنا۔ یہاں غریب القرآن نے یہی آیت دی ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘
مگر یہ تشریح نہیں کی نہ ہوسکتی تھی کہ خیانت سے مراد مال میں خیانت ہے یا کسی اور چیز میں پس غَلَّ کا یہ اطلاق عمومی ہے مراد ہے کوئی امانت کسی کے سپرد کی جائے اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے یہ عام معنے ہیں اور نبی کے تعلق میں یہ وسیع تر معنے پیش نظر رہیں گے۔ یہاں کسی ایک چوری کے الزام کی طرف اشارہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ نبی کی شان سے یہ بات بہت بلند ہے۔ ہاں جو ذمہ داریاں اس کو سونپی جاتی ہیں ان ذمہ داریوں میں ادنیٰ سی کوتاہی بھی نہیں کرتا یہ مراد ہے۔ اور اس مضمون کو قرآن کریم کی وہ آیت تقویت دیتی ہے۔ بہت زور کے ساتھ کھول کر بیان کرتی ہے کہ یہاں نبی کی امانت میں عام روزمرہ کی چوری چکاری کی کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ امانت سے مراد قرآن کریم اور پوری شریعت ہے اور ان معنوں میں وسیع تر معنے غَلَّ کے استعمال ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ امانت سے سب جب ڈر گئے جب ہم نے امانت پیش کی تو سب لوگ ڈر گئے۔
’’فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا ‘‘
انہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکا رکردیا اور ڈر گئے ’’فحملھا الانسان ‘‘ تب یہ انسان کامل آگے بڑھا اور اس نے اس امانت کو اٹھا لیا تو نبی کے متعلق جب کہا جاتا ہے کہ وہ خیانت نہیں کرتا اس سے مراد اس کی وہ امانت ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ نہ ادنیٰ میں خیانت کرتا ہے نہ اعلیٰ میں خیانت کرتا ہے۔ کسی حالت میں‘ خواہ ابتلا کتنا ہی بڑھ چکا ہو۔ جو امانت خدا نبی کے سپردکرتا ہے کبھی بھی وہ اس امانت میں خیانت نہیں کرتا اور اس میں تمام انبیاء شامل فرمادئیے گئے ہیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ کیونکہ ’’لِنبیٍ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان معنوں کو نظر انداز کرکے بعد میں ہم دیکھیں گے کہ بہت سے مفسرین بھی اور دشمنان اسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگنے والے ایک نہایت ذلیل اور بے ہودہ اور لغو الزام کی بحث میں پڑ جاتے ہیں گویا کہ وہ مراد ہے حالانکہ یہاں ہر نبی سے خیانت کی نفی فرمائی گئی ہے۔
دوسرے معنے ہیں باندھنا ۔ غَلَّ کا مطلب باندھنا بھی ہے۔
’’ خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ‘‘ (الحاقہ ۳۲۔۳۱)
کہ اس کو پکڑو اور اس کو خوب باندھو۔ یعنی جہنم کے فرشتوں کو حکم ہے کہ ان گنہ گاروں کے ساتھ جو ظالم لوگ ہیںیہ سلوک کرو۔
ثم الجحیم صلوہ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔یعنی جکڑ کر ان کو وہاں پھینکا جائے۔
غِلُّ : چھپی دشمنی کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
’’و نزعنا ما فی صدورھم من غل تجری من تحتھم الانھار‘‘ ہم نے ان کے سینوں میں چھپے ہوئے غلوں کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ پس یہ وہ مثال ہے جس کے پیش نظر میں نے آپ کو توجہ دلائی کہ ہر معنیٰ ہر شخص پر اطلاق نہیںپاتا۔ کسی نبی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ اس کے سینے میں کچھ کینے چھپے ہوئے ہوں اور ان کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہو۔ اس لئے وہ معنے غِلّ کے نبی پر اطلاق نہیں پا سکتے کینے کے لحاظ سے اور ذمہ داری کے مضمون میں کینوں کی بحث ہے ہی نہیں ! کینے کا مضمون تو بہت ادنیٰ ہے۔ کینہ تو گھٹیا لوگ رکھتے ہیں دل میں اس لئے غلّ کے تصور میں غِلّ کے اس تصور کے ساتھ اس مضمون کو نہیں باندھا جاسکتا کہ
’’ما کان لنبی ‘‘
اور غُلّ کہتے ہیں جس کی جمع اغلال ہے طوق۔گردن کا طوق تو گردن کے طوق کی بھی کوئی بحث ہی نہیں ہے اس مضمون کا اطلاق دوسرے ادنیٰ آدمیوں پر ہوسکتا ہے لیکن نبی کی بحث میں اس کا ذکر بھی جائز نہیں ہے۔ پھر ہاتھوں کا بندھا ہوا ہونابمعنیٰ کنجوسی کے۔ یہ مضمون بھی مغلول میں شامل ہے۔
’’وقالت الیھود ید اللہ مغلولتہ‘‘ (المائدۃ آیت ۶۵)
یہود نے کہا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ جو ہیں مغلول ہیں۔ بندھے ہوئے ہیں ۔ (یہاں Single واحدمیں استعمال ہوا ہے کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے) ہاتھ بندھا ہونے کا کیا مطلب لیتے تھے یہود۔ یہاں صرف یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کچھ خرچ نہیں کرسکتا کچھ دے نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ جو نبوت اس نے کسی کو دینی تھی وہ دے چکا ہے اور آئندہ کسی کو نہیں دے گا۔ یہ ہے اللہ کے ہاتھ باندھے ہونے کے معنے۔ چنانچہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد ان کی قوم نے یہ عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ آپ کے بعد کبھی کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تو یہاں یداللہ مغلولتہ میں یہود کا اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب آئندہ روحانی نعمتیں کسی کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا ہاتھ باندھا گیا ہے۔ خواہ اس نے خود باندھ لیا ہو یا ویسے ہی ہاتھ میں کوئی نقص پیدا ہوگیا ہو۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنی عطا سے عاری ہوگیا ہے اور پابند ہے کہ اب کسی کو وہ نعمت عطا نہ کرے۔ یہ معنے جو ہیں۔ یہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہیں اسی طرح نبی کی شان کے بھی خلاف ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو اسی طرح اس غَلّ کا کوئی تعلق نہیں جس طرح خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر اللہ کے ہاتھ نہیں بندھ سکتے اوراس کی عطا ہمیشہ کیلئے جاری ہے تو اس رسولؐ کے ہاتھ بھی باندھے نہیں جاسکتے جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور اس کے بعد کسی اور کا کوئی زمانہ نہیں مگر اُسی کا اور اُسی کے تابع۔پس محمد ؐ رسول اللہ کا فیض بھی اُسی طرح جاری رہے گا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فیض ہمیشہ کیلئے جاری ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات میں خدا نے ایک جاری فیض فرمادیا ہے۔
’’ ولا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
یہ نبی اسرائیل میں تمام مومنوں کو مخاطب فرمایا گیا ہے مگر واحد کے صیغے میں ہے اصل میں۔ نصیحت ہے۔ یہ اھل علم اور اہل عقل کی وہ نصیحت ہے جس کو خدا تعالیٰ Quote کرتا ہے اور تمام مومنوں کیلئے یہ ایک نصیحت بن جاتی ہے۔ یہ جو ہے کہ اپنے ہاتھ کو
’’ لا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک‘‘
یعنی اپنی گردن کے ساتھ یوں سمیٹ نہ لیا کر
’’ ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
اور یوں کرکے پورا کھول بھی نہ دے ان کے درمیان کی راہ اختیار کر ! ہاتھ کو سمیٹ کر گردن کے ساتھ چمٹا لینے کا مطلب یہ ہے کہ فیض نہ پہنچے اور اتفاقاً بھی کوئی ہاتھ سے چیز لے نہ سکے۔ اور دوسرے کھول دینے کا مطلب ہے کہ اتنا دور رکھو کہ تمہارا کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ جو چاہے اس میںسے جو چیز اچک لے یا خود تم پھینکتے چلے جائو۔ تو ایک طرف سخاوت کے نام پر حد سے زیادہ اسراف جائز نہیں اور دوسری طرف احتیاط کے نام پر لوگوں کو اپنے فیض سے کلیتاً محروم کرنا بھی جائز نہیں۔
یہ مختلف استعمالات قرآن کریم میں ملتے ہیں۔ یہ ایک بات میں آپ کو بتائوں کہ بعض دفعہ ایک ہی منظر ہے لیکن برعکس معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ہاتھ کو اپنے گردن کے ساتھ ملا دینا اور سینے کے ساتھ چمٹا دینا کنجوسی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہ روحانی عطا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ عموماً اس طرف عموماً لوگوں کی نظرنہیں جاتی۔ حضرت موسیٰ ؑ کا جو معجزہ ہے اس میں یہ فرمایا گیا آپ کو کہ اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنی جیب میں ڈال لے کہیں اپنے ساتھ چمٹا لے اپنے بدن کے ساتھ چمٹا لے اس کو۔ کئی طرح کے محاورے استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر وہ روشن ہوجائیگا اس سے کیا مراد ہے ؟ایک تو ظاہری معجزہ لوگ سمجھتے ہیں اور اسی پر بات ٹھہر جاتی ہے حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ نبی کے قریب آتے ہیں نبی کے دست و بازو اس کے صحابہ۔ اس کے خدام اس کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں جن کو وہ اپنے ساتھ چمٹاتا ہے وہ روشن ہوجاتے ہیں اور نبی کے نور سے نور پا جاتے ہیں اور اس کے فیض سے فیض حاصل کرتے ہیںپس وہی مضمون جو ایک جگہ تو انتہائی کنجوسی کے اظہار کیلئے بیان ہوا ہے وہی نقشہ۔ وہی نقشہ ایک اور موقعے پر نبی کے ساتھ تعلق رکھنے کے سلسلے میں فیض اورعطا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اظہار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پس نبی کا قرب ہے جو روشنی بخشتا ہے اور اس سے دُوری اس روشنی کو ہٹا دیتی ہے پس وہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چمٹ جائو مضبوطی سے اس کو چھوڑنا نہیں۔ عروہ و ثقی ٰ پہ ہاتھ پڑ گیا ہے تمہارا۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے ہمیشہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظاہری قرب تو ہم لوگوں کیلئے ممکن نہیں۔ جسمانی دوری اور زمانے کے فاصلے کے لحاظ سے مگر اگر ہم روشنی چاہتے ہیں تو آپ کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جس طرح موسیٰ ؑ کا ہاتھ خدا کے ارشاد پر ان کی گردن کے ساتھ حمائل ہوجایا کرتا تھا یا سینے میں ساتھ پیوستہ ہوجایا کرتا تھا اور اس سے پھر وہ روشنی پاتا تھا۔ پس مثال کے طور پر ایک معجزہ ظاہری صورت میں بھی دکھایا گیا لیکن حقیقی معنوں کو نظر انداز نہیں کرنا مراد یہ تھی کہ ایک مری ہوئی قوم جس میں کوئی نور نہیں ہے وہ موسیٰ ؑ سے نور پاجائے گی اور موسیٰ ؑ سے اُن کے اندھیرے روشن کردیئے جائیں گے پس دیکھیں وہاں عطا کا مضمون ہے اور یہاں خصاصت اور کنجوسی کا مضمون ہے اور نقشہ ایک جیسا ہی کھینچا گیا ہے۔
امام رازی ؒ لکھتے ہیں الغلول ھوا الخیانتہ ۔ غلول خیانت کو کہتے ہیں و اصلہ اخذ الشی ء فی الخفیۃ : اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز دوسروں سے چھپا کر لی جائے۔
یقال اغل الجزر و السالق : اذا ابقی ٰ فی الجلد شی ء ’‘ من اللحم علیٰ طریق الخیانۃ (یعنی) جب کہیں اغل الجازر تو مطلب ہے قصاب یا چمڑی اتارنے والے نے کسی کی بھیڑ بکری ذبح کی مگر جلد اتارتے وقت مالک سے چھپا کر کچھ گوشت جلد کے ساتھ چمٹا رہنے دیا تاکہ جلد کے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔
الغل : الحقد :
تو پورا نقشہ کھینچ کے ‘ کہ کسی طریق پر بھی اگر نبی کے ساتھ اس مضمون کا تعلق جوڑا جائے تو مراد یہ ہے کہ نبی اتنی بھی خیانت نہیں کرتا۔ جتنا ایک قصاب بے احتیاطی کے ساتھ یا بدنیتی کے ساتھ جب کھال کو بکری کے جسم سے الگ کرتا ہے تو کوئی چربی اس کے ساتھ لگی رہ جاتی ہے اور ہم نے دیکھا ہے عموماً ۔ قصاب اس زمانے میںپتہ نہیں کیسے تھے۔ ہم نے تو اپنے ہاں کئی دفعہ قربانیاں کی ہیں ربوہ میں ہمیشہ ہوتی رہیں۔ کبھی ایسا قصاب نہیں دیکھا جواس طرح بکری کے گوشت اور چربیوں کو ساتھ جوڑتا ہو۔ کھال کے ساتھ لگا رہنے دیتا ہو۔ اور کھال تو ایسی صاف ہوتی ہے کہ اس میں کوئی اشارہ بھی نہیں ہوتا کسی گوشت کا کسی جگہ۔ کہیں کوئی قصاب کا بچہ آجائے بعض دفعہ جس کو کوئی مہارت نہیں ہوتی تو بعض دفعہ کہیں کہیں تھوڑاتھوڑاگوشت کا چھچڑا چپٹا رہ جاتا ہے ورنہ بالکل صاف کھال ہوتی ہے تو اس لحاظ سے معنے یہ ہونگے کہ اتنا بھی نبی کے ساتھ غیر کا مال وابستہ نہیں رہتا جتنا غلطی سے ایک غیر مشاق قصاب جب جانور کی کھال کو اس کے جسم سے الگ کرتا ہے تو اس کی غلطی سے کچھ حصہ گوشت کا یا چربی کا لگا لگا ساتھ کھال کے ساتھ چلا جاتا ہے۔
الغل : الحقد : الکامن فی الصدر وہ کینہ جو سینے میں چھپا ہوا ہو۔
غلالہ اس کپڑے کو بھی کہتے ہیں جس کو ہم انگریزی میں under wear کہتے ہیں۔ وہ کپڑے جو کپڑوں کے اندر پہنے جائیں ان کو غلالہ کہتے ہیں۔ بنیان وغیرہ۔ یہ سب اس میں آجاتے ہیں۔
غلہ فلان کا مطلب ہے خاموشی سے اٹھایا اور اپنے سامان میںچھپا لیا۔
باقی سارے وہی معنے ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
غل البعیر غلۃ میں کہے ہیں اونٹ کی پیاس کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اونٹ جس کی پیاس نہ بجھے اس کے لئے کہتے ہیں غَلَّ کہ پیاتو ہے اُس نے لیکن اس کی پیاس نہیں بجھ سکی۔ یعنی سینے میں کوئی چیز کھولتی ہوئی باقی رہ گئی ہے۔ جب پیاس نہ بجھے تو سینے میں ایک تھوڑی سی آگ سی بھڑکی رہ جاتی ہے۔ انسان کا دل چاہتا ہے کہ بجھ جائے لیکن نہیں بجھتی۔ تو اونٹ کی پیاس کے متعلق کہتے ہیں کہ عرب استعمال کرتے ہیں جب وہ پانی پی لے لیکن ابھی اس کو مزید کی طلب ہو تو کہتے ہیں غَلَّ ہوا ہے اس کے ساتھ۔ یعنی غَلَّ کا مضمون اس پہ صادق آتا ہے۔
اب سنئے ! یہ مضمون عام تھا جس کا ذکر یہاں چلا کہ کسی نبی کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کو سونپی ہے۔ جنگ احد کے دوران اس کے ذکر کی کیا ضرورت پیش آئی۔ عام مفسرین یہ بات اٹھاتے ہیںکہ دراصل یہ آیت جنگ بدر کے بعد اُس موقعے پر اتری تھی جبکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بدبخت منافق نے یہ الزام لگایا تھاکہ آپ نے ایک سرخ رنگ کا ریشمی کپڑا جسے بعض روایتوں میں چادر کہاگیا ہے۔ مگر مستشرقین نے کہیں سے روایت اٹھائی ہے اور اُسے ریشمی دمشقی قالین کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا لیا تھا تو مفسرین بالعموم ان روایتوں سے متاثر ہوکر ایک تو اس کی شان نزول یہ بتاتے ہیں۔ اس آیت کی کہ اس کا بدر سے تعلق تھا وہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔ پھر وہاں سے اٹھا کر جنگ احد کے واقعہ میں کیوں جڑی گئی ؟
اس کا عذر تلاش کرنے کیلئے ایسی دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ کہتے ہیں دراصل وہ جو درہ چھوڑ کر بھاگنے والے تھے ان کو یہ بات یا دآگئی ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو یہ الزام لگ چکا ہے پہلے ہی اور ایک اور بات بھی یاد آگئی کہ ایک موقعے پر آپ ؐ نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو کسی مقصد کیلئے باہر بھجوا دیا۔ اس عرصے میں پیچھے لڑائی ہوئی اور جب وہ آئے تو ان کو مال غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جو غازیوں نے میدان جنگ میں جیتا تھا۔ تو اُن کو یہ شبہ بھی پڑ گیا کہ یہ نہ ہو کہ کہیں ہمارا حصہ مارا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ تم تو درے پر بیٹھے ہوئے تھے اس لئے تمہیں حصہ نہیں ملے گا۔ یہ ساری روایتیں اور اس پر جس طرح مستشرقین نے اپنے کینے کا اظہار کیا ہے اُن پر یہ لفظ غَلَّ خوب لگتا ہے۔ اب کس طرح ایسے موقعوں پر ان کے چھپے ہوئے کینے سینوں سے باہر آجاتے ہیں۔ وہ میں بعد میں ذکر کرونگا۔پہلے میں اس فرضی روایت اور اس فرضی کہانی کے متعلق مختصر عقلی بحث کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جنگ احد میں جب وہ چھوڑ کر جانے والے اپنی جگہ چھوڑ کر آئے ہیں تو اس سے پہلے ایک لمبی بحث کا قرآن ذکر فرماتا ہے اور تنازع کہتے ہیں ایسی بحث کوجو کھینچا جائے جو طُول پکڑے۔ کافی عرصہ تو وہ اپنے امید سے بحث میں پڑے رہے ہیں اور پھر اس کا فاصلہ کتنا تھا میدان جنگ سے ان کے درے کا فاصلہ کتنا تھا ؟ یہ کسی نے نہیں دیکھا اور ان کو اتنی جلدی تھی کہ سارا مال غنیمت لُوٹا جائے گا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کہہ دیں گے کہ تم وہاں نہیں تھے۔ ایسے خبیثانہ خیالات ہیں کہ اسلام کا دشمن Wherry بھی ان کو رد کررہا ہے۔ کہتا ہے یہ بہت دور کی کوڑی ہے یہ نہیں مان سکتا میں کہ اس وقت ان درے والوں کو یہ خیال آگیا ہو کہ اوہو ! یہ نہ ہوجائے کہ ہم اسطرح مارے جائیں۔ یہ ایک طبعی ایک بے اختیار کیفیت تھی۔ کہتا ہے ‘ دوڑے وہ ضرور مال غنیمت کیلئے ہی ہیں لیکن اس وقت یہ سوچنا ان کا بیٹھے کہ اوہو !! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو پہلے بھی الزام لگے ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور پھر یہ بعض اموال غنیمت سے باہر رہنے والوں کو محروم کردیا کرتے تھے۔ یہ سوچ قابل اعتنا نہیں قابل توجہ نہیں بالکل رد کرنے کے لائق ہے۔
اور اب آگے سنئے ! وہاں پہلے کچھ بحث کرتے رہے اوربحث کے دوران جتنا مال تھا وہ لوٹا جاچکا ہوگا اور پھر کتنا لمبا انہوں نے فاصلہ طے کیا ہے اور جب وہاں پہنچے ہیں تو یہ Scenario یعنی یہ منظر۔ تناظر یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت تک ابھی دشمن نے پلٹا نہیں کھایا تھا اور جوابی حملہ انہوں نے شروع نہیں کیا تھا۔ اتنی دیر لگ چکی ہے۔ اور جب وہاں پہنچے ہیں اور امن کی حالت ہے تو ایسی کوئی روایت کیوں نہیں ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ کے واپس بھیجا ہو کہ تم یہاں کیا کرنے آگئے ہو؟ اور پھر یہ ذکر ہو کہ پھر انہوں نے کچھ مال لوُٹ لیا اور کچھ شامل ہوئے اور باقی سب نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کوئی روایت نہیں۔ اور جب دشمن نے پلٹ کر حملہ کیا ہے تو اس وقت تو پھر کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا تھا ان کا کسی قسم کا۔ اسلئے یہ ساری فرضی باتیں ہیں کہانیاں بنائی جاتے ہیں لوگ۔ ایک روایت کہیں سے مل گئی ہے اس سے خود بخود کہانی بُنتے چلے جاتے ہیں کہ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُواگا ہوگا۔ قرآن کریم جو مضمون بیان فرماتا ہے جس کے متعلق بات کرتا ہے اس کی شان کے مطابق بر محل بر موقع بات ہونی چاہئے جو وہاں چسپاں ہوتی ہو اس شخص کی شان کے خلاف نہ ہو۔
سب یہاں نبی ٍ کا لفظ ایک عام لفظ ہے
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں ہیں۔ دفاع رسول اللہ کا نہیں صرف بلکہ تمام انبیاء کا دفاع ہے۔ اور موقعہ ہے جنگ احد کا۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو ! خدا جس کے سپرد امانت کرتا ہے وہ اس کا ایسا حق دار ہوتا ہے کہ کسی دبائو کے تحت بھی۔ ادنیٰ بھی اُس امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ یہ خراج تحسین ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبات قدم کو اور یہ بتاتا ہے کہ یہ محمدؐ رسول اللہ کے ثبات قدم کا فیض تھا کہ ایک ہاری ہوئی جنگ ایک جیتی ہوئی جنگ میں تبدیل ہوئی ہے۔ آپ نے خیانت نہیں کی۔ تم میں سے بعض لوگ اپنی ذمہ داری کو نبھا نہیں سکے۔ اگر کچھ خیانت ہوئی ہے تو ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر گز کسی پہلو سے بھی اس موقعے پر کوئی خیانت نہیں ہوئی۔ آپؐ کی نیت بھی پاک رہی مسلسل آپ کا عمل بھی۔ آپؐ کا عزم محکم متزلزل نہیں ہوا ایک ذرہ بھی اور عظمت کا پہاڑ بنے ہوئے آپؐ وہاں کھڑے رہے ہیں اور یہ جو امانت کا حق آپ نے ادا فرمایا ہے۔ اسکے بعد فرماتا ہے۔
’’ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ ‘‘
کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی ‘ محمد رسول اللہ کا مقام تو بہت بلند ہے۔ فرماتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی اس بات سے بے خبر ہو کہ قیامت کے دن اس سے کیا ہوگی۔ وہ تو سب سے زیادہ خدا کی طرف سے محاسبے سے ڈرتا ہے اور محمد رسول اللہ کے اوپر تویہ مضمون سب سے زیادہ روشن تھا پس ان کے پیش نظر تو ہمیشہ خدا کے حضور جواب دہی رہتی تھی۔ قیامت تو بعد کی بات ہے زندگی بھر ہر نبی اسی خوف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
تو فرمایا کہ نبی کی طرف خیانت کا تصور منسوب کرنا بھی جہالت ہے۔ کسی قسم کی خیانت کا تصور۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ امانت اُسی کے سپردکرتا ہے جو امانت کا حقدار ہو اور یہاں تمام انبیاء کی معصومیت کا اعلان ہے۔
اور Wherry صاحب یا ان کے ساتھی جو یہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ انبیاء کے گنہ گار ہونے کو تسلیم کیا گیا ہے یہ آیت اس کو رد کرتی ہے۔ کیونکہ نبی کا گنہ گار ہونا اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے جو اس کے سپرد ہوتی ہے اور وہ امانت بہت وسیع ہے۔ اس کی ساری شریعت سے اس کے تمام اوامر سے اس کے تمام نواھی سے تعلق رکھتی ہے۔ تو جو شخص اللہ کا نبی ہو اور عمداًکسی امر کی اطاعت سے انکار نہ کرے کسی نہی کی طرف منہ نہ مارے تو ایسا شخص امین کہلائے گا اور سب انبیاء اس سے پاک ہیں۔ ایک نبی ایک ایسا رہ جاتا ہے۔جس کے متعلق یہ بات محل نظر دکھائی دیتی ہے یعنی سرسری طورپر ۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ اُن کے متعلق یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا کہ ان کو شجرہ ممنوعہ کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر وہ امین تھے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں جو امانت میں خیانت کرے تو پھر انہوں نے کیوں ایسا کیا؟
جہاں تک خطا کا تعلق ہے وہ عصمت کے خلاف نہیں ہے اور خیانت میں ارادہ شامل ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
ولم نجد لہ عزما
ہم نے ان کو معاف فرمایا ہے تو بے وجہ نہیں معاف کیا۔ اس گناہ میں جو بھی جس کو تم گناہ کہتے ہو۔ اُس میں آدم کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ اس سے بلا ارادہ غلطی ہوئی ہے۔ اور نیکی کے نام پر بعض دفعہ ایک انسان ایک قدم نیک کام سمجھ کر اٹھا لیتا ہے بعد میں ثابت ہوتا ہے کہ وہ نیک کام نہیں تھا تو ایسا شخص خیانت کرنے والا تو نہیں شمار ہوگا لیکن غلطی خوردہ ضرور ہوگا۔ اور نیکی کے نام پر بھی دیانت داری سے جو غلطی ہو اس کے بعد بھی ایک شریف النفس انسان ضرور پچھتاتا ہے۔ اب غلطی سے گولی لگ جائے آپ کسی کو شکار سمجھ رہے ہوں وہ انسان نکلے اور ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں تو کثرت سے یہ باتیں ہوتی ہیں۔ ہر سال ہی کہ ہرن سمجھ کے مار دیا وہ آدمی تھا کوئی اور بعد میں جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہ ان کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہتے ہیں کوئی غلطی نہیں ہے یعنی کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا دی جائے اور ایسے موقعے پر Man Slaughter کا کیس بھی نہیں چلتا سوائے اس کے کہ قطعی طورپر بالارادہ بے احتیاطی ہو۔ تو گناہ بھی بالارادہ ہو اوربے احتیاطی بھی بالارادہ ہو تب ایک شخص پکڑ کے نیچے آتا ہے ورنہ کوئی پکڑ نہیں۔ مگر جس سےآدمی مارا جائے وہ تو پچھتاتا رہتا ہے عمر بھر۔ اگر وہ شریف النفس ہے تو وہ توبہ کرے گا استغفار کرے گا یہی حالت حضرت آدمؑ کی ہوئی تھی اُن سے اللہ فرماتا ہے نادانستہ غلطی ہوئی مگر انکا ضمیر ان کو چھوڑتا نہیں تھا اوروہ چھپتے پھرتے تھے حیا سے استغفار میں چھپتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پھر ان کو فرمایاکہ میں تجھے معاف کرتا ہوں اوران کی بریت فرما دی کہ ان کے عمل کے پیچھے کوئی بد ارادہ شامل نہیں تھا۔ پس عیسائیوں کا اگر کوئی اعتراض تھا جس کا کوئی جواز ہو تو وہ یہاں پڑتا تھا یعنی حضرت آدم ؑ پر اور اس کی نفی قرآن کریم نے فرما دی ہے۔ پس یہ آیت عام ہے اس میں کوئی استثناء نہیں۔
کسی نبی کیلئے یہ ممکن نہیںکہ وہ کسی طرح کی بددیانتی سے کام لے۔
ابن عباس ؓ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جسکے اوپر یہ سارا طُوفان بے تمیزی کھڑا کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ من ذلک کسی مال میں بددیانتی یعنی آپ کے اوپر الزام لگا تھا کہ آپؐ نے کسی چیز میں بددیانتی کی ہے۔ اس ذکر کوجس طرح مفسرین نے یہاں باندھ دیا ناحق‘ بڑا بھاری ظلم ہے۔ ایک وسیع عام مضمون تھا اور یہ بات ہی عجیب لگتی ہے کہ بدر کی آیت اٹھا کر وہاں نہ رہنے دی۔ یہاں لاکر رکھ دی۔ عجیب طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم نازل فرما رہا ہے۔ جس موقعے کی بات ہے ۔ وہاں رہنے ہی نہیں دیتا اور ایک دوسرے موقعے پر جہاں اطلاق نہیں پاتی وہاں رکھ دی۔ اور اطلاق ڈھونڈنے کی خاطر ان بے چارے بھاگنے والوں کی طرف نیتیں منسوب کی جانے لگیں کہ ضرور انہوں نے سوچا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فلاں وقت بھی الزام لگا تھا اس لئے وہ بھاگے ہونگے۔ اتنی جاہلانہ بات ہے کہ کوئی معقول انسان اس کو کسی پہلو سے قبول نہیں کرسکتا۔ سوچنے کے لئے بھی انسان اس کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر غو ر کیا جائے‘ مگر چونکہ دشمن نے الزام لگائے ہیں اس لئے ہمیںغور کرنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں۔ ایک ابن عباس ؓ کی روایت ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘ یہ ایک سرخ چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدرکے دن گُم ہوگئی تھی ‘‘
یہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت لی گئی ہے۔بعض لوگوں نے کہا کہ شاید یہ چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں ہے اور خود امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔ اور ایک سند میں یہ ’’غیر مرفوع‘‘ ہے۔ اور ابن عباس ؓ کا نام ہی اُس میں شامل نہیں بلکہ خسیف نے مقسم سے روایت کی ہے پس یہ غریب ہی نہیں ناقابل قبول ہے۔
ابودائود ‘ عبد ابن حمید‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بھی یہی روایت کی ہے۔ ان تمام روایتوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعض منافقین کی طرف یہ الزام منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے الزام لگایا تھا ۔ یہ سارے ان بحثوں میں مفسرین الجھے ہوئے ہیں۔ کہ تھا تو پھر یہاں اٹھا کے کیوں رکھ دیا اور وہاں ضرور کوئی ایسی بات کسی کے دل میں آئی ہوگی کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح امین نہیں ہیں۔
تفسیر قُمی جو شیعہ تفسیر ہے وہ ایک ایسی تفسیر ہے جو اس روایت کے اوپر ایک اور روایت رکھتی ہے۔
تفسیر قمی میں لکھا ہے ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا کہ فلاں شخص نے وہ چادر چُرائی ہے۔ یعنی چادر چُرانے کے واقعہ کو ماننے کے بعد ایک اور روایت پیش کرتی ہے۔ تفسیر قمی کہ یہ واقعہ ختم ہوچکا کیونکہ وہ چور پکڑا بھی گیا تھا۔ پس اگر چور پکڑا گیا تھا اور بات ختم ہوگئی تو پھر اس آیت کوخواہ مخواہ ایک الزام کے سائے کے طور پر باقی رکھنا یہ ویسے ہی قرین قیاس نہیں ہوسکتا ۔ ایک فرضی بات ہے مگریہ روایت بھی تفسیر قیمی کی ہے اورکوئی ایسی مرفوع روایت نہیں ہے جسے انسان قابل غور سمجھے مگر روایت بڑی تفصیلی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ جب یہ پتہ لگا تو پھر اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجے جہاں اس نے یہ چھپائی ہوئی تھی تو کھودا اس کو تو وہاں سے نکل آئی۔ اب تعجب ہے کہ اس روایت کا تمام دوسرے مفسرین کو جو اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں انکو علم ہی نہیں ہے مگر بہرحال ایک کوشش انہوں نے ضرور کی ہے اس بات کو ختم کرنے کیلئے اور اس بحث کو چکانے کیلئے۔
اب ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ یہ الزام منافقین نے لگایا تھا طبرانی اور ابو یعلیٰ بھی اس کی روایت کرتے ہیں۔
ساری تفسیریں اس بحث سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔
تفسیر بیصاوی ‘ تفسیر جلالین‘ اور Wherry نے جو حوالہ دیا ہے وہ تفسیر جلالین کا دیا ہے اور ایک اور تفسیر کا ذکر ہے ’’رو ئوفی وہ ہمیں نہیں مل سکی۔
’’و نزلت لما فقدت قطیفۃ ‘‘
جب وہ چادر قطیفہ اس چادر کو کہتے ہیں جو بدن پر اوڑھ لی جاتی ہے۔ وہ غائب ہوگئی یعنی فاعل اس فعل کا وہ قطیفہ بنتی ہے
قطیفۃ حمراء یوم بدر فقال بعض الناس
لعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذھا
تو بعض لوگوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لے لی ہو۔ یہ روایت بہت ہی غیر محتاط الفاظ میں پیش کی گئی ہے۔ حالانکہ جو تفسیر بیضاوی کی روایت ہے اس میں واضح طور پر منافقین کا ذکر ہے اور ’’بعض الناس‘‘ سے یوں لگتا ہے جیسے گویا مسلمانوں میں یہ عام نعوذ باللہ چرچا ہوگیا تھا۔
پس Wherry نے ان روایتوں کو جو تفسیر بیضاوی اور دوسری تفاسیر میں منافقین کی طرف اس بات کو منسوب کرتی ہیں وہ چھوڑ کر ’’جلالین‘‘ اور ’’روئوفی ‘‘ کو چنا ہے جس میں یہ عمومی ذکر ہے کہ بعض لوگوں نے کہا۔ اس سے وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بات اتنی ہلکی پھلکی نہیں کہ آسانی سے اسے رد کردو یہ عام چرچا ہوگیا تھا کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو اٹھالیا ہے اور پھر وہ چادر ہمیشہ کیلئے نظر سے غائب ہوگئی۔
تمام تفاسیر تعجب ہوتا ہے اس بات کو لئے ہی چلی جاتی ہیں او رکہتی چلی جاتی ہیں۔ کان پک جاتے ہیں آدمی کے یہ سنتے سنتے اور آنکھیں دُکھنے آجاتی ہیں دیکھ دیکھ کر کہ کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں خواہ مخواہ۔ اور ایک آیت کو جس کا تعلق ہی وہاں نہیںہے۔ کسی اور جگہ کسی اور مضمون میں بیان ہورہی ہے اس کو سواری بنادیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزام لے جانے والی اُس پر سوار کرکے یہ الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا رہے ہیں نعوذ باللہ من ذلک تفسیر روح المعانی میں لکھا ہوا ہے:-
یہ آیت تیر اندازوں کے اس خدشہ کو دور کرنے کیلئے کہ شاید ہمیں حصہ نہ ملے یہ جنگ بدر کے بجائے اُس موقعے پر وہاں رکھ دی گئی۔
اب عجیب بات ہے خدا تعالیٰ تیر اندازوں کے خدشہ کو دور کرنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام کا شبہ قائم فرما دیتا ہے اور وہ خدشہ جو تیر اندازوں کو تھا ہی نہیں ۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
آگے تفسیر کبیر رازی نے بھی اس کا ذکرکیا ہے کہ تیر اندازوں کو یہ خدشہ ہوا تھا ۔ مگر ساتھ ہی امام رازی دوسری روایات بھی بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ
جنگ حنین کے روز جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوازن کے غنائم رکھے گئے تو ایک آدمی نے سوئی اٹھالی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے سوئی کیوں اٹھائی ہے؟ جبکہ خدا کے رسول کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ادنیٰ سی بھی خیانت کرے۔ تووہ سوئی اٹھانا جو ہے یہ بھی مرکوز ہے تو جب روایتیں اسی قسم کی آرہی ہیں تو ان روایتوںکا اعتماد ہی کوئی نہیں رہتا۔
امام رازی صرف اتنا ضرور لکھتے ہیں کہ یہ نفی اگر یہ اُس الزام سے تعلق ہے تو مبالغہ کی حد تک الزام کو دُور کررہی ہے۔ مبالغہ کے معنے کیا ہیں یہاں ؟ غالباً ان کی مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام انبیاء کو شامل کرکے ان معنوں میںمبالغہ کیا ہے کہ اگرایک عام نبی کی شان کے بھی خلاف ہے تو محمد رسول اللہ کی شان کے کیوں نہ خلاف ہوگا۔ بدرجہ اولیٰ آپ کی شان کے خلاف ہے۔ پس اگر یہ کسی طرح بھی کسی الزام سے تعلق رکھتی ہے یہ آیت تو اس کی نفی بھی پھر پوری شان سے کررہی ہے۔ یہ معنیٰ حضرت امام رازی نے کیا ہے اور اگر اس تعلق میں رکھنا ہے تو پھر یہ سب سے اچھا معنیٰ ہے۔ کہتے ہیں یہ ایسی ہی نفی ہے جیسے فرمایا:-
’’ماکان للہ ان یتخذ ولداً‘‘
بہت سے مفسرین نے اس آیت کے حوالے کے ساتھ ایک حدیث پیش کی ہے جو صحیحین میں ہے اور صحیحین سے مراد ہے حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم دونوں اس کو درج کرتے ہیں۔ ایسی حدیث جو ان دونوں کتب میں ہو اس کی صحت کا مرتبہ کافی بلند ہوجاتا ہے۔ پس یہ کہتے ہیں اس حدیث میں جو تفصیل سے یہ بیا ن کرتی ہے کہ قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کسی نے گردن پر اونٹ اٹھایا ہوگا۔ کسی نے بکری۔ کسی نے بھیڑ‘ کسی نے کچھ اورچیزیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کیلئے پکاریں گے اور آپ فرمائیں گے کہ نہیں ! تمہارے لئے آج کوئی مدد نہیں کیونکہ نبی نہ خیانت کرتا ہے نہ خائن کی مدد کرتا ہے تو یہ وہ خیانتیں ہونگی جو وہ اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے اس دن حاضر ہوجائینگے۔ یہ روایت ابو ھریرہ ؓ کی ہے۔ اول تو اس روایت کوظاہری طور پر چسپاں کرنا کہ اونٹ اٹھائے ہونگے اور چیزیں اٹھائی ہونگی۔ یہ اُس جنت اور جہنم کے اور حساب کتاب کے تصور سے متناقض ہے اور متصادم ہے۔ جس کا قرآن کریم کی مختلف آیات میں مجموعی طور پر نقشہ کھینچا گیا ہے۔وہا ںان بھیڑ بکریوں کا وہاں پہنچ جانا اور اُن جسموں سمیت اٹھا کر اُن روحوں کا اپنی گردنو ںپر اٹھانا یہ تصور بعض معافی رکھتا ہے اور ظاہری حقیقت نہیں رکھتا۔
معانی صرف اس کے یہ ہیں کہ اُن کا بوجھ اُن کے ضمیرپر پڑے گا اور تصویری زبان میں ان کو دکھایا گیا ہے اور پھر یہ ان کی بددیانتیاں علامتی طور پر خدا ظاہر فرمادے گا اور ہر بددیانت کی بددیانتی اس کے اوپر ظاہر ہوگی اور وہ دیکھ لے گا۔ اب اگر اٹھانے کی بات ہے تو جو لوگ روز مرہ کسی کی ایکٹر زمین دبا جاتے ہیں یا بعض دفعہ غاصب ہوتے ہیں تو لاکھوں ایکٹر کے اوپر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ تو یہ نقشہ بھی پھر ذہن میں آنا چاہئے کہ لاکھوں ایکٹر زمین سر پہ اٹھائی ہوئی ہو اس لئے جو لوگ ظاہری معنوں پر جاتے ہیں ان کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی۔ امر واقعہ ہے کہ یہ تمثیلات ہیں اور ان کے معنے اُسی طرح سمجھنے چاہئیں۔ یعنی قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قیامت کے دن ان کی بددیانتیاں ظاہر کردی جائینگی اور ان کے لئے ایک عام ذلت اور رسوائی لکھ دی جائے گی۔
اس آیت کے ساتھ اس حدیث کو باندھا گیا ہے اور مفسرین اس حدیث کی طرف بکثرت اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اُس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن یہ ہوتا ہے اگر کوئی بددیانتی کرے گا پس اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بددیانتی ممکن نہیں کہ آپ کو یہ پتہ تھا کہ یہ ہونا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن سے ہی امین تھے۔ جب آپ چھوٹے سے بچے تھے اس وقت سے امین کہلاتے تھے اور نبوت تک سارا عرب جو بھی آپ کو جانتا تھا امین ہی کہتا تھا تو تعجب ہے کہ مسلمان مفسرین اس کی طرف کیوں اشارہ نہیں کرتے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا امانت دار ہو اور امین ہو۔اس کے اوپر ایسے الزام کا ذکر کردینا اور اس کی صفات حسنہ کا بیان نہ کرنا جو اس پر عائدہونے والے الزام کو کلیتاً رد اور پارہ پارہ کردیتی ہیں ان کا کوئی وجود پیچھے نہیں چھوڑتیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بددیانتی ہے۔ یہ وہ امانت جوہمارے سپرد ہے اُس میں خیانت ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ ہم سب پر امین ہیں لیکن آپ کے تقدس کی ایک امانت ہم پر بھی ہے اگر ہم ایسے ذکر کرتے ہیں اور اس کا موثر جواب نہیں دیتے تو اس امانت میں خیانت کرنے والے ہونگے۔ اب میں آپ کو مفسرین میں سے جو مستشرقین ہیں ان کے بعض حوالے دکھاتا ہوں کہ ان باتوں میں کس طرح وہ مزے لے لے کر باتیں بیان کرتے اور کیا کیا لکھتے ہیں !
وقت بچانے کیلئے ترجمہ کردوں یا اصل الفاظ بھی پڑھ دیتا ہوں ۔
‏ Sale لکھتا ہے
This Passage was revealed as some say on the division of the spoils at Badr and Some other soldiers suspected Muhammadؐ of having privately taken a searlet carpet, made all of silk, and very rich, which was missing.
(Al Bedhawi- Jalalud Din)
آپ نے بیضاوی بھی دیکھ لی ہے میں نے حوالہ پڑھا ہے
(نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے کٹ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۹)
اس میں تو یہ کسی Carpetکا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ذکر اُس چادر کا ہے اور پھر یہ کہتا ہے۔
Other Suppose the archers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them the due share in the booty etc.
اور پھر یہ یہاں بیضاوی کا حوالہ دیتا ہے اس جگہ ۔ رئووفی کا حوالہ اُس نے دیا تھا Wherry نے۔
‏ Bell صاحب لکھتے ہیں
Traditions says that Muhammadؐ was accused of having concealed for himself cloak from the spoils of Badar.
یہ ترجمہ نسبتاً بہتر ہے۔ قریب تر ہے کہ اپنے لئے ایک کلوک (Cloak) لے لیا تھا۔
کیا کہتا ہے
BD(شاید بیضاوی کا مخفف ہوگا )
BD takes this as repudiation of the charges or as a prohibition of--- what he did on an other occasion when those who were absent on duty were leftout of the distribution.
یہاں دیکھیں ایک شرارت کہتا ہے یہاں تو بیضاوی کے نزدیک یہ repudiation ہے یعنی اس الزام کی نفی کی ہے "Or As A ProhibitionOf What he did on Another Occasion ,,
‏Prohibition میں نفی مراد نہیں ہوتی۔ مطلب ہے کہ ایک دفعہ پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذلک ایک حڑکت کرچکے تھے۔ اُس سے منع فرمایا ہے گویاکہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنی۔
As enlighted played its part in the defeat it might possibly be another self reproach on his part.
کہتا ہے جنگ احد میں جو شکست کے بعد نفسیاتی حالت تھی اُس وقت پرانے زخم بھی یاد آجاتے ہیں اور اس حالت میںہوسکتا ہے کہ اپنا ضمیر جاگ اٹھا ہو اوریاد آرہا ہو کہ اوہو ! میں ایک دفعہ پہلے بھی ایسی غلطی کر بیٹھا ہوں۔ تو اس لئے آپ نے یہ آیت بنالی۔ اب یہ ہیں Bell صاحب ! میں بتائوں گا کہ میں ابھی ان کے متعلق کیوں نہیں کچھ کہہ رہا آگے جاکے بتائونگا۔
واٹ صاحب لکھتے ہیں منٹگمری واٹ ۔ 162
In the context of the dishonesty which is mentioned here, fraudulent, some accusation of unfair treatment had been made against Muhammad, it is said but it isnot likely that the archers left their places because they suppose.
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام بڑی زور سے لگادیتا ہے اور نفی Archers کے بہتان کی کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ کے الزام کی نہیں کرتا۔ جو لوگ یہ پڑھتے ہیں ان لوگوں سے آپ اندازہ کریں کس طرح ان کے دلوں میں زہر بھرتے ہیں اور کانوں میں زہر پھونکتے ہیں۔ جو ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ دفاع کیا ہے تو جس کا دفاع ہونا چاہئے اس کا دفاع نہیں کرتابلکہ Archers کا دفاع کرکے گویا یہ ہمدرد اور اسلام کا ساتھی ہے کہتا ہے یہ بات لغو ہے یہ نہیں میں مان سکتا کہ Archers نے سوچا ہو لیکن یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو یہ تو خیر ہوسکتا ہے اس لئے میں اس کادفاع نہیں کرونگا۔مودودی صاحب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے۔ بڑے آرام سے حوالہ دے جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ الزام لگا تھا اور بس آگے نکل گئے۔
‏ Rodwell کہتا ہے اس کا ترجمہ کہتا ہے غَلَّ کا کہ
`` To act dishonestly, it is not the Prophet who will defraud you, Muhammadؐ have been accuses of having secretly approvpriated a portion of the Spoil.
یہاں یہ بھی اس سے دھوکہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تھا الزام۔
‏ The Holy Quran Version of the Ahle Bait میں آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی صاحب اسی طرح اس الزام کا ذکر کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔
‏ Rev. Wherry اپنی Comprehensive Commentary میں لکھتا ہے
``It is not the part of Prophet to defrand.
یعنی ما کان لنبی کا ترجمہ کرتا ہے کہ
It is not the part of a Prophet to defraud, Sale says on the authority of Bedhawi and Jalal ud din that this Passage was revealed as some say on the divisionof the spoils of Badr when some of the soldier suspected Muhammadؐ of having Privately taken a searlet carpet made all of silk and very rich which was missing.
Other suppose the ardchers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them their share of the plunder because as it was related he once sent out a party as an advanced guards and in the mean time attacking the enemy took some spoils which he divided among those who were with him in the action and gave nothing to the party that was absent on duty.
ترجمہ اس کا لفظاً لفظاً توکرنے کی ضرورت نہیں وہی بے ہودہ سرائی ہے جو پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ Sale کی طرف منسوب کرکے بات کو اور بھی زیادہ بڑھا کر پیش کرتا ہے کہ ایک نہایت ہی عالیشان ریشمی Carpet تھا جو بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نعوذ باللہ غصب کے طورپر رکھ لیا تھا اور اس کی طرف اشارہ ہے اور پھر اس طرف بھی کہ جو Archers تھے وہ اس لئے بھاگے تھے کہ جانتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتماد نہیں ہیں اور پہلی جنگ میں ایسی باتیں کرچکے ہیں۔ اس لئے اگر ہم نے دیر کردی تو یہ ہمارا مال ہاتھ سے جاتا رہے گا اور جس بحث کا قرآن کریم میں اشارہ ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وہ تنازعہ اگر یہ تھا تو یہ بحث کیوں نہ وہاں چلی ؟
کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے۔ روایت موجود ہے کہ یہ گفتگو تھی۔ عبداللہ کے ساتھ جو جھگڑا چلا ہے ان لوگوں کا۔
قرآن کریم نے اس کو ایک نزاع کے طور پر پیش فرمایا اور تاریخ نے اس کو محفوظ کیا ہے۔ اس میں اشارۃً اور کنایتہ بھی یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذلک ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بدظنی کی ہو۔ اب یہ محققین جوبنتے ہیں انکے علم میں ہیں ساری باتیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عمداً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو داغدار دکھانے کی خاطر بڑے مزے مزے لے کر یہ ذکر کرتے ہیں اور مسلمان مفسرین ان کے بیان میں اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ بات کرتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔
‏ Wherry پھر لکھتا ہے۔
The Tafseer e Raufi Says the passage was occasioned by certain of the companions desiring a larger share of the booty than their weaker brethren. God here signifies that all are to be treated alike, and that partiality in the division of booty would be dishonest.
اب میں آپ سے اس سلسلے میں کچھ اور گفتگو کروں گا۔ جس رسول پر یہ اس طرح اشارۃً الزام لگا رہے ہیں اس کا ایک ایسا کردار ہے جو نبوت سے پہلے کا بھی ہے اور نبوت سے بعد کا بھی ہے اور اُس کردار کو نظر انداز کرکے یہ بحث چلانا اور اُس کا ذکر نہ کرنا یہ بددیانت ہے جو قیامت کے دن ان پر بوجھ بنے گی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرضی بددیانت کی بات کرتے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ عین اس وقت جب یہ گفتگو کررہے ہوتے ہیں یہ بددیانتی کررہے ہیں اور خیانت کرتے ہیں اور ایک ایسے پاک وجود کے متعلق دفاع میںوہ نہیں کہتے جو ان کو سب کو معلوم ہے اور ادنیٰ معمولی عقل کا انسان بھی ایسے وجود کے متعلق اس الزام کو جسکو کہتے ہیں Entertain کرنا۔ کسی طرح بھی در خود اعتنا نہیں سمجھتا اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر کسی طرح غور ہی کیا جائے اس پر توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہتا ہوں کہ جہاں الزام کی بات ہورہی ہے وہاں یہ جب حضرت مسیح ؑ کے متعلق Commentary لکھتے ہیں تو وہاں یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کی ماں پر یہ الزام لگا تھا اور یہ یہ الزام لگائے گئے اور یہود نے یہ کہا اور بعض عیسائی محققین نے جنہوں نے اس الزام کی تائید کی ہے ان کے حوالے پھرکیوں نہیں دیتے اور آج کل تو نئی کتابیں ایسے شائع ہورہی ہیں جیسے نیوزی لینڈ کے ایک پادری نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں کھلم کھلا حضرت مسیح ؑ پر لگنے والے اس الزام کی تائید بھی کی ہے۔ یہ نئی generation میں ایسے پاگل پیدا ہورہے ہیں لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ ذکر کرتا چلا جائے اور الزام کی نفی نہ کرے تو بڑی بے حیائی ہوگی۔ یہ الزام لگانے والے اس قدر ناشکرے اور بے حیائی سے کام لینے والے ہیں کہ قرآن جب اس الزام کا ذکر کرتا ہے تو سلیقہ بتاتا ہے کہ جب پاکوں پر الزام لگیں تو فرض ہے کہ اُس وقت اُس کی نفی کی جائے۔
قرآن فرماتا ہے
’’وقولھم علی ٰ مریم بھتاناعظیما‘‘
کہ یہود پر ہم نے *** کی اس لئے کہ انہوں نے ایک بہت ہی ظالمانہ الزام مسیح ؑ کی پاک ماں پر لگا دیا تھا اور اس ما ںکے متعلق فرمایا کہ وہ صدیقہ تھی۔
’’و امہ صدیقتہ ‘‘
تم کہتے ہو وہ ناپاک تھی ! ہم کہتے ہیں کہ پاک عورتوں میں بھی اس کا ایک عظیم عالیشان مقام تھا۔ تو قرآن کا تو یہ رویہ ہے ان لوگوں کے بزرگوں سے۔
اگر قرآن یہ طریق اختیار نہ کرتا تو مسلمانوں کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس الزام کی نفی کرتے۔ حالانکہ ان کے پاس ہے۔مسلمانوں کے پاس اس لئے وجہ نہیں تھی کہ حضرت مریم ؑ کے کردار کا انہیں کیا پتہ ؟ ساری زندگی نظر سے اوجھل ہے۔ وہ قوم الزام لگا رہی ہے جس میں آپ نے زندگی بسر کی تھی۔ جب بچے کو اٹھا کر لاتی ہیں تو وہ قوم آپ کے گرد وپیش میں بسنے والی۔ ابھی بچہ نبوت کا دعویدار بھی نہیںہوا اس لئے نبوت کی دشمنی شامل نہیں ہے۔ عام تاثر ہے۔ اور ساری قوم متفقہ طور پر الزام لگاتی ہے اور ملزم گردانتی ہے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
اگر اسلام حضرت مریم ؑ کی بریت نہ کرتا تو کسی مسلمان‘ کسی صاحبِ ہوش انسان کیلئے کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ اس الزام کو درست تسلیم نہ کرتا کیونکہ اس کا نتیجہ عجیب و غریب بظاہر خلاف قدرت ہے۔ یعنی الزام قبول کرنے کے جتنے بھی مواجع ہوسکتے ہیں۔ جتنے بھی موجبات ہوسکتے ہیں وہ تمام تر موجود ہیں اور وہ قرآن جو محمد رسول اللہ ؐ کے دل پر نازل ہوا ہے اس کی عظمت کو دیکھیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دیکھیں کہ آپ نے کس شان کے ساتھ اُس الزام کی نفی فرمائی اور اُن الزام لگانے والوں کو مردود اور ملعون قرار دیا۔ حالانکہ ظاہری صورت میں اگر ایسا واقعہ آج بھی ہوجائے تو ایک آدمی یہ الزام لگا سکتا ہے۔ اُن کو ملعون قرار دینے کے اندر ہی دراصل یہ بریت فرما دی گئی ہے کہ جس مریم ؑ کو وہ جانتے تھے اس مریم ؑ پر الزام کا ان کو حق نہیں بنتا کیونکہ اُس مریم کا کردار پاک تھا۔اور ’’اُمہ صدیقتہً‘‘ کہہ کر بتادیا کہ ہم *** کیوں ڈال رہے ہیں ! یہ کوئی جبری فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس مریم ؑکا کردار جس نے اُن میں پل کے زندگی گزاری تھی وہ کردار ایسا عظیم الشان تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ان کوالزام کا کوئی حق نہیں تھا پس قرآن کریم نے ایک ایک لفظ کے اندر وہ ساری کہانی‘ وہ پس منظر بیان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کو عقل نہیں آتی۔ وہ کردار تو ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے نہ ان کی نظر کے سامنے ہے کوئی عیسائی اس کردارکی تائید میں‘ اس کی پاکی کی تائید میں کوئی تاریخی گواہیاں پیش نہیں کرسکتا کہ مریم ؑ اس طرح پاک صاف تھی جبکہ ساری قوم الزام لگانے والی ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا ہے جو دشمن کے سامنے بھی کھُلا تھا اور ماننے والوں کے سامنے تو ایسا کھُلا تھا جیسے دل کے نور کے اوپر آسمان کا نور اتر چکا ہو اور سارے ماحول کو منور کردیاہو۔ پس جب تک آپ ؐ نے دعویٰ نبوت نہیں فرمایا تمام قوم آپ کو امین کہتی رہی اور جب دعویٔ نبوت فرمادیا تو پھربھی کسی نے غیر امین ہونے کا الزام نہیںلگایا۔ اب یہ دیکھیں کتنی عظیم الشان کردار کی گواہی ہے۔ اُس وقت کہہ دیتے کہ غیر امین ہے۔
(کیوں جی وقت ختم ہوگیا ہے ؟ اتنی جلدی ! اچھا کل سہی پھر۔ اچھا السلام علیکم ! خدا حافظ ۔
باقی انشاء اللہ کل ۔ یہاں سے ہی شروع کریں گے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 16 رمضان المبارک
27 فروری1994 ء
وما کان لنبی…… واللہ بصیر بمایعملون O (آل عمران 162-164)
ابھی ہم کل جس آیت پہ گفتگو کررہے تھے اس کا کچھ حصہ باقی تھا اس لئے میں وہیں سے شروع کرتا ہوں۔
یہ اسلام کے دشمن جو نقشہ جنگ احد کی مختلف آیات کے حوالے میں کھینچتے ہیں اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک لٹیروں کی جماعت ہے جسے دنیاوی مال و دولت کی حرص کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہے اور ان میںحضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بار بار اس الزام کو دہراتے ہیں جس کے متعلق بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ کبھی منافقین نے کوئی الزام لگایا تھا۔اور یہ تاثر قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کو مزید تقویت دیتے چلے جاتے ہیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ لڑنے والے دنیاوی مال و متاع کے حریص تھے۔ کوئی روحانی اور کوئی خدا کی رضاکی غرض اس میں شامل نہیں تھی ان کے جہاد میں یا غزوات وغیرہ وغیرہ میں۔
اس ضمن میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر الزام دہرایا جارہا ہے میںبیان کررہا تھا کہ اس میں کوئی بھی ایک ذرہ اس بات کا بھی جواز نہیں ملتا کہ یہ بدبخت لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کُشی کی کوشش بھی کریں کیونکہ آپ کے کردار کا آغاز نبوت سے بہت پہلے سے بچپن سے اس زمانے سے ہوچکا ہے۔ جس پر تمام دشمن گواہ بیٹھے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحدی کے ساتھ یہ چیلنج دینے کا ارشاد فرمایا۔
فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون
کہ میں تو تم سے پہلے پوری عمر تم میں گزار چکا ہو ںکیوں عقل نہیں کرتے۔ اور اس کے جواب میںکبھی ایک دشمن نے بھی۔ شدید سے شدید معاند نے بھی یہ نہیں بتایا کہ نبوت سے پہلے تیرے کردار میں یہ داغ تھا یا وہ داغ تھا۔ اس لئے 40 سال تک جس کا عرصہ بچپن اور جوانی کا اس وقت تک جب وہ بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے ۔ کلیتاً بے داغ رہا ہو۔ اس کے متعلق کسی الزام کو Entertain کرنا یعنی اس کو قابل توجہ سمجھنا۔ یہ اس کا نام جو مرضی رکھ دیں۔ میں سخت لفظ بولوں گا تو بعض لوگ کہیں گے کہ زیادہ سختی کی ہے مگر بغیر سخت لفظ کے اس کا نام رکھا جا نہیں سکتا۔ جو چاہیں سوچ لیں مگر شرافت کی حدود میں ایسے شخص پر الزام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی اجازت نہیں ہے۔جہاں تک اموال کی محبت کا تعلق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ سے جب شادی ہوئی تو وہ عرب کی متمول ترین خواتین میں سے تھیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ قریش میں سب سے امیر خاتون تھیں اور پہلی رات ہی آپ نے جب حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال و دولت آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔کہ اب یہ آپ کا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اچھا یہ میرا ہے۔میرا ہے تو ہاں پھر میں اسے خود تقسیم کرونگا اوروہ تمام مال دولت غرباء میں تقسیم کردیا۔ یہ ہے اس شخص کا کردار جس نے جنگ بدر کے موقعے پر ان کے کہنے کے مطابق ایک چادر چھپالی تھی اور چادر بھی ریشمی تھی جس کے متعلق حکم تھا کہ کوئی نہیںپہنے گا۔ اور بعض نے اس کو پھر قالین بنایا۔ ایک عظیم الشان قالین ۔ اور وہ چھپائے پھرتے تھے۔ یہ ایسی حیرت انگیز کہانی ایسی ظالمانہ کہانی ہے کہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ وہ کن قالینوں پہ سونے والا انسان تھا۔ یہ ذکر سنیے۔
حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ بیمار تھے۔ حضورؐ ایک قطوانی چادر پر لیٹے ہوئے تھے اور تکیہ ایسا تھا جسمیں اذخر گھاس بھری ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی۔ حضو ر! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ قیصر و کسریٰ تو ریشمی گدوں پر آرام کریں اور حضور اس حالت میں ہوں۔ یہ سُن کر حضور نے فرمایا۔اے عمر ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ اُن کے لئے یہ چیزیں اس دنیا میں ہیں اور تم لوگوں کیلئے آخرت میں ہوں گی۔یہاں جہاںپہلے لفظ چادر استعمال کیا گیا ہے دوسری روایت میں اس کا زیادہ تفصیل کے ساتھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ یہ ہے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سو رہے تھے۔ جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلوئے مبارک پر نظر آئے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے ایک نرم سا گدیلا نہ بنادیں ؟ یا گدیلا بنادیں تو کیا یہ اچھا نہ ہو؟آپؐ نے فرمایا : مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق۔ میں اس دنیا میں اُس سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے سستانے کیلئے اُترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا۔ یہ ہے حضرت اقدس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار۔ترمذی کتاب الزہد صفحہ 60
جہاں تک بیت المال کے اموال کا تعلق ہے۔جہاں تک قومی اموال کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق آپ ؐکا رویہ کیا تھا؟ محمد بن زیاد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا : حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کخ کخ ! یعنی تھُو تھُو ! تاکہ وہ اس کھجور کو پھینک دے۔پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ! پھرایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب …الصدقۃ من یومھا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عموماً ٹھہر ٹھہر کر پڑھایا کرتے تھے لیکن ایک نماز ذرا جلدی میں پڑھائی اور بڑی تیزی کے ساتھ نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے تو بعد میں صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ !یہ کیا بات تھی ؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے یاد آگیا نماز کے دوران کہ جو مال میں نے غرباء میں تقسیم کرنا تھایعنی قومی مال اس میں سے ایک سونے کی ڈلی ابھی گھر پڑی ہوئی تھی تو میں نے یہ پسند نہ کیا کہ میں اسے رات بھر گھر میں رکھوں اس لئے میں جلدی سے گھر واپس گیا ہوں۔ اور پھر وہ ڈلی باہر لے کے آئے اور اُسے تقسیم فرمادیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاکے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی تھی اور گٹے پڑ گئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ مل سکے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ے پاس پیغام بھیج دیا کہ میرے لئے میرے باپ ؐ سے یہ سفارش کروکہ میرے لئے کچھ اس کا انتظام کریں۔یعنی کچھ مال آئے ہوئے تھے باہر سے۔ ان میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر آئے اس کے جواب میں۔ ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ حضور کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے۔ آپ نے فرمایا نہیں ! لیٹے رہو حضورؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے پر محسوس کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا : میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتائوں؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو۔ 33 بار سبحان اللہ اور 33 بار الحمداللہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے۔
مطالبہ یہ تھا کہ جو غلام آئے ہیں ان میں سے ایک غلام ہمیں دے دیا جائے تاکہ وہ پیسا کرے۔ وہ چکیاں کیسی ہوتی تھیں۔ وہ نعمتیں کیا تھیں؟ اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضورؐ کے وصال کے بعد جب ایران کی فتوحات وغیرہ کے زمانے میں باہر سے نرم آٹا آیا تووہ آٹا لونڈی نے اس کی روٹی بنا کر پیش کیا تو حضرت عائشہ ؓ کے گلے سے وہ لقمہ اترتا نہیں تھا۔ سخت تکلیف میں تھیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لونڈی نے تعجب سے پوچھا کہ میںکیا دیکھ رہی ہوں۔ یہ تو بہت ہی اچھا آٹا ہے۔کیوں انکے گلے سے لقمہ اتر نہیں رہا۔آپ نے فرمایا کہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو آٹا کھایا کرتے تھے اس زمانے کی چکیاں ایسی تھیں کہ موٹے موٹے اس کے دانے ہوتے تھے اور جنگ اُحد کے تعلق ہی کی یہ بات ہے کہ آپ ؐکے دانت شہید ہوچکے تھے اور اس کی وجہ سے تکلیف باقی تھی۔ اور آپ ؐ سے وہ آٹا چبایانہیں جاتا تھا۔ اب ہم نرم آٹے کھا رہے ہیں۔
یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے۔ جن کے متعلق یہ بدبخت لوگ کس طرح زبانیں دراز کرتے ہیں۔ پس کوئی حیا نہیںہے یا تو یہ بالکل ایسے جاہل مطلق ہوں کہ اسلام کی تاریخ پر ا نکی کوئی نظر نہ ہو۔ بڑی تفصیل سے انہوں نے کریدا ہے۔ ہر قسم کی کتب کا مطالعہ کیا ہے مگر نظر چونکہ محض اعتراض ڈھونڈنے پر وقف رہی ہے۔ اس لئے کوئی اچھی بات کہیں بھی ان کو نظر آتی ہے تو تکلیف پہنچتی ہے۔ اس سے صرف نظر کرکے آگے گزرتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیسے کھوج ان لوگوں نے لگائے۔ کیسی کیسی راتوں کو چراغ انہوں نے جلائے۔ اس لئے کہ اپنے ذہن اور اپنی روح کو اور بھی زیادہ تاریک کرلیں۔ اس کے سوا ان کی تاریخ دانی کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ جہاں تک جنگی اموال اور ان پر قبضہ کرنے کا تعلق ہے۔ آپ کو کتنی حرص تھی اس کی۔ اس کے متعلق سنئے ! وہ بنو ہوازن جنہوں نے جنگ حنین میں سب سے زیادہ تکلیف آنحضرت ؐ اور آپ کے غلاموں کیلئے پیدا کی۔ ان کے متعلق جب مفتوحین قیدیوں کی صورت میں وہاں حاضر ہوئے تو چونکہ حضرت حلیمہ‘ آپ کی دائی بنو ہوازن میں سے تھیں انہوں نے بنو ہوازن نے حلیمہ دائی کا واسطہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھلانے والی Dry Nurse یا Wet Nurse،Wet nurseہی تھیں غالبا،ہاں دودھ پلانے والی تھی وہ تو ہمارے قبیلے سے تھیں تو کیا آپ اس کے نتیجے میں ہم پر احسان نہیں فرمائیں گے۔ آپ ؐنے یہ جواب نہیں دیا کہ تم جب تیر برسا رہے تھے ہمارے سینوں پر اس وقت وہ رشتہ کہاں تھا؟لیکن آپ ؐ نے فرمایا کہ اچھا میں اور یہ جو ہمارا خاندان ہے بنو ہاشم کا ہم اس کو آزاد کرتے ہیںاپنے حصے کے غلاموں کو۔ ابوطالب اور ان کی اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور سارے جتنے بھی اس خاندان سے خونی رشتہ رکھتے تھے جس خاندان پر حلیمہ دائی کا احسان تھا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فراست بھی دیکھیں کہ اس موقعے پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اہل ایمان پر اس کا احسان ہے ۔ اسلام پر کوئی احسان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے جو اس نے بچے کے طور پرجوپالا تھا۔ اس خاندان کے بچے کے طور پر پالا تھا تو زیادہ سے زیادہ حق ان کا ہم پر بنتا ہے۔ میں باقی مسلمانوں کے قیدی کیسے آزاد کرسکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لے جاؤہمارے حق کے جو غلام ہیں وہ سب آزاد ہیں۔ جب یہ خبر صحابہ رضوان اللہ علیھم کو پہنچی تو انہوں نے بے اختیار کہا کہ اے ہمارے آقا ما کان لنا فھو لرسول اللہ جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی تو آپ ہی کا ہے۔ اس لئے سارے قیدی آزاد ہوگئے۔ یہ وہ حریص ڈاکہ ڈالنے والے ۔ مال غنیمت کے خواہاں لوگ ہیں جن کا نقشہ یہ Wherry اور اس کے ساتھی کھینچتے ہیں کیا اُن کی ان حالات پر نظر نہیں تھی؟ یقینا تھی ! لیکن بددیانت لوگ ہیں۔ تقویٰ سے کلیتاً عاری۔ ایک غلط تصور اسلام اور رسول ؐ اسلام کا پیش کرنے کی خاطر ہر بہانہ تلاش کرتے ہیں اور جہاں جواز نہ بھی ہو وہاں بھی حملے کرتے ہیں۔ وہ جگہ جہاں حملے کے جواز کی گنجائش ہی نہیں ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے اور آپکے صحابہ کا کردار ہے لیکن اس کو یہ ترک کردیتے ہیں اس سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔
لیکن ایک اور واقعہ یہ گزراکہ بنو طئی کے قیدیوں کو بھی آپ نے آزادفرمانے کا حکم دیا۔ عرب کاایک مشہور سخی حاتم طائی کے نام سے مشہور ہے۔ جس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے سارے اہل عرب پر احسان کے ہوئے تھے۔ کسی نہ کسی رنگ میں عرب کا کوئی نہ کوئی قبیلہ اس کے زیر احسان آگیا تھا۔ حاتم طائی کی بیٹی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ میںاس کومیں آزاد کرتا ہوں یہ حاتم طائی کی بیٹی ہے۔ بہت بڑا محسن تھا اس کے خیر کا بدلہ اس طرح ہم دیتے ہیں تو حاتم طائی کی بیٹی نے کہا کہ میں تو نہیں آزاد ہونگی جب تک میرا سارا قبیلہ آزاد نہ ہو۔ آخروہ اسی باپ کی بیٹی تھی جس کے سب پر احسان تھے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہاں بنو عبدالمطلب کی کوئی شرط نہیں رکھی جہاں پہلے بنو عبد المطلب اور ابو طالب وغیرہ کی اولاد کی شرط تھی۔ سب کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔اب یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلے اور پہلے فیصلے میں جو لطیف فرق ہے وہ ظاہر ہوتا ہے۔ پہلے محسن صرف آپ کے خاندان کا محسن تھا۔ اب ایسے محسن کی بات ہورہی ہے جو سارے عرب کامحسن تھا۔ تو وہاں آپ نے فرمایا ھل جزاء الاحسان الا الاحسان یعنی یہ مضمون ہے۔ اب تم سب پر فرض ہے کہ اس احسان کا بدلہ اتارو۔یہ ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ ناپاک لوگ ناپاک حملے کرتے ہیں۔
جہاں تک نعوذ باللہ من ذلک لٹیرے صحابہ کا حال ہے۔ وہ تو وہ تھے جو گھروں سے نکالے گئے۔ جن پر تلوار پہلے اٹھائی گئی۔اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علی نصرھم لقدیر الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حقیہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ سارے مستشرقین جانتے ہیں کہ قطعاًکوئی ایک بھی وجہ ان کے مال چھیننے اور ان کو گھروں سے نکالنے کی موجود نہیں تھی اور ایک بھی اگر ان میں سے اپنے دین سے تائب ہوجاتا تو نہ صرف یہ کہ اس کو اپنے اموال اور گھروں سے محروم نہ کیا جاتا بلکہ اس پر اور بھی مال نچھاور کرنے پر تیار بیٹھے تھے تو یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی کمائیوںپر بلکہ عمر بھر کے اندوختوں پر لات ماری ا ور ایک پائوں کی ٹھوکر سے انہیں دھتکار دیا اور خدا کی خاطر ننگے ہاتھ ہوکر وہاں سے چل پڑے۔ کیسی بدبختی ہے کہ ان پر یہ الزام ہے کہ یہ Marauders ہیں۔ یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کو تو صرف مال غنیمت سے غرض تھی اور کسی چیز سے غرض نہیں تھی۔ ایسے لوٹ مار کرنے والے کہیں نکال کے دکھائو تو سہی تاریخ میں جن سے محض خدا سے ان کے خدا سے تعلق کے نتیجے میں ان کے گھربار لوٹ لئے گئے۔ انکو مارا گیا۔ ان کو قتل کیا گیا۔ انکو اپنے وطنوں سے بے وطن کیا گیا اور پھر ان پر حملہ کرنے کیلئے دشمن چڑھ دوڑا اور ان کا ذکر پتہ ہے کس طرح کرتا ہے جنگ اُحد کے ذکر ہیں؟ کہتا ہے ’’Makkan Princes‘‘ یہ مکے کے شہزادے تھے۔ جو حملہ کررہے تھے۔ ان ڈاکوئوں اور لٹیروں پر۔ اس سے زیادہ بدبختی کیا ہوسکتی ہے۔ اور اب میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ ایک احمدی خاتون نے بڑا احتجاج کیا ہے کہ تم بعض دفعہ اتنا سخت لفظ بول جاتے ہو ان لوگوں کے متعلق کہ زیب نہیں دیتا خلیفہ وقت کو ایسی زبان استعمال کرنا میں اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا کہ یہ قصہ کیا ہے؟وہ کہاں گیا موادسارا؟تو یہ تو ہے جہاں تک صحابہ یہ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کا تعلق ہے
جہاں تک جواب میں سختی کا تعلق ہے اس سلسلے میں جب مجھے یہ نصیحت پہنچی تو میرا ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کی اُن تحریرات کی طرف منتقل ہوا۔ جن میں بعض دفعہ پڑھتے ہوئے ہمیں خود بھی بچپن میں لگتا تھا کہ بہت زیادہ سختی کی گئی ہے۔ بڑا سخت جوابی حملہ ہے۔ اور انہی سختیوں کو لیکر آج کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مسلمانوں کو اس طرح بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں تو نبیوں کی عزت ہی کوئی نہیں۔ دیکھو ! حضرت عیسیٰؑ پر ایسا جوابی حملہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسی سخت زبان عیسائیو کے متعلق یا جو پادری کے متعلق جو ہندوستان میںیلغار کررہے تھے۔ انکے متعلق استعمال ہوئی ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ میں اس وقت اُس مضمون کو تفصیل سے نہیں لے سکتا مگر یہ درست ہے کہ بعض جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلامکے کلام میں جواباً سختی ملتی ہے۔ مگر کن باتوں کے جواب میں؟ اگر یہ اُن پادریوںکی تحریریں پڑھیں جو Wherry کے زمانے ہندوستان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف لکھ رہے تھے تو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اس کو پڑھنا۔ یعنی خون بھی کھولنے لگ جاتا ہے غصے سے ۔ اور انسان غم سے پگھل بھی جاتا ہے۔ پوری طرح دل گداز ہوجاتا ہے اور آستانہ الوہیت میںبہتا ہے کہ اے خدا ! یہ کیا ظلم ہورہا ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں۔ یہ Wherry کے پالے ہوئے لوگ یا اس قسم کے دوسرے پادری جو اس زمانے میں وہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے دراصل کالوں کو عیسائی بنا کر انکو پھونکیں دے دے کر پاگل بنایا ہوا تھا۔ان کو کہتے تھے کہ تم بادشاہ کے بھائی بن گئے ہو۔ محاورہ بنا ہوا تھا ’’عیسائی بادشاہ کے بھائی‘‘۔اب تم ہم میں سے ہوگئے ہو گویا کہ ۔ اور پھر ان پر خرچ کئے ان کی تربیت کیلئے انہوں نے بہت سے وہاں اسکول کھولے اور باہر بیٹھے آپ تو جیسی بھی تہذیب تھی وہ خود ا نکی زبانوں سے بھی پھُوٹ رہی ہے مگر پھر بھی کسی حد تک تہذیب کے پردے میں پیچھے بیٹھے رہے اور ان دیسیوں سے وہ وہ گند اچھالا ہے۔ جن میں سے کچھ پہلے مسلمان مولوی تھے پھر وہ عیسائی ہوئے۔ کچھ ہندوئوں میں سے آئے کوئی دوسرے لوگوں میں سے اور نہایت ہی غلیظ اسلام کے خلاف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کردار کُشی کی مہم شروع کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے وہ سب باتیں تھیں وہ پڑھتے تھے تو آپؑ کا دل خون ہوتا تھا۔ آپؑ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی زبان استعمال کی جائے اس سے زیادہ میں یہ برداشت کرسکتا ہوں کہ میرے بچے میرے عزیز ایک ایک کرکے میرے سامنے ذبح کردیئے جائیں مگر جو تکلیف مجھے محمد رسول اللہ ؐ کی کردار کُشی سے پہنچتی ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔یسی صورت میں انسان بے اختیار ہوجاتا ہے وہاں منصب کی بحث نہیں رہتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم وکان اللہ سمیعا علیما O ان تبدوا خیراً او تخفوہ او تعفوا عن سُوئٍ فان اللہ کان عفواً قدیراً۔ (نساء آیت ۱۵۰ ۔ ۱۴۹)
لایحب اللہ الجھر بالسوئاللہ تعالیٰ سخت کلامی کا پبلک اظہار پسند نہیں فرماتا
جھر بالسوء : یعنی سخت کلامی کو کھلے بندوں کیا جائے بازاروں میں یا عوام کے سامنے سخت کلامی کی جائے یہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔
الا من ظلم : مگر جس پر ظلم کیا جائے اس کو اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ سمجھتا ہے۔
وکان اللہ سمیعا علیما : اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام پر یا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانیاںکی جائیں اور کوئی جواز ادنیٰ بھی اس کا موجود نہ ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ ایک موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور پھر صبر کی تلقین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یعنی یہ بظاہر ایک عجیب سا تضادنکلتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
گالیاں سُن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
دوسری طرف یہ جو سخت کلامی ہے بعض موقعو ںپر اس میں کیا جوڑ ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ بدکلامی اپنے متعلق برداشت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق برداشت ہوتی نہیں تھی۔ یہ ایک بے اختیاری کا معاملہ ہے پس اپنے متعلق جب بھی کوئی شخص سختی کرتا تھا جواب میں تواس کو روک دیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صاحب تھے جو پروفیسر کہلاتے تھے۔ وہ خاص عقل کی باتیں اس قسم کی کیا کرتے تھے۔ کالج میں پروفیسر نہیں تھے مگر اپنی دانشوری کی وجہ سے پروفیسر کہلاتے تھے اور بہت مخلص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق تھے۔ ایک موقعے پر ایک شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے خلاف بدزبانی کی اس کو انہوں نے بہت سنائیں۔کھری کھری سنائیں آگے سے۔ خواجہ صاحب اس وقت یہ دیکھ رہے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سے یہ شکایت کی کہ دیکھیں آپؑ تو منع فرماتے ہیں ایسی بدکلامی سختی نہیں کرنی چاہئے اور ایک شخص نے آپ کے متعلق بد زبانی کی تھی تو پروفیسر صاحب نے آگے سے اس کو کھری کھری سنائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پروفیسر صاحب کو بلایا اور فرمایا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو۔ خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سمجھا رہے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ برداشت کرتے کرتے سُرخ ہورہا تھا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں کہ بظاہر تو گستاخی کی بات تھی لیکن وہ عشق کا معاملہ تھا۔ آخر وہ برداشت نہ کرسکے اور پھوٹ پڑے۔
آپ کے پیر محمد رسول اللہ کو کوئی کہے تو آپ مباہلوں کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو کوئی گالیاںدے تو چپ رہو۔ یہ عشق کے قصے ہیں۔ یہاں جاکر تعلیمیں پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ ناقابل برداشت کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جہاں جا کے وہ آیت عمل دکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم کہ اللہ تعالیٰ سخت کلامی کے عام اظہار کو پسند نہیں فرماتا کھلے بندوں اظہار کو پسند نہیں فرماتا مگروہ جو ظلم کیا گیا ہو اس پر کوئی حرف نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
دیکھو ! جو آل رسول ؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے۔یہ ان کے پروردہ لوگ ہیں۔ Wherry اور اس کے ساتھیوں کے۔
’’جو آلِ رسولؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کرلیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دکھا ہے۔ پس کیا ابھی اُس آخری مصیبت کا وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ تو بھائیو ! تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو !! اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اوربیرونی اوراندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔‘‘
یہ ہے جواب اُس نصیحت کا جو مجھے کی گئی لیکن اس کے باوجود جہاں تک قوت برداشت کو بڑھانے کا تعلق ہے یہ اچھی بات ہے۔ جو کچھ بھی گزرے انسان کو اپنی زبان پر جہاں تک مقدور ہو ضبط کرنا چاہئے اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے اگرچہ انسان کو تکلیف زیادہ ہوتی ہے لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے جن کے سامنے وہ تحریریں نہیں ہیں جن سے مجبور ہوکر ایک آدمی سخت کلامی پر اتر آتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہے اور یہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور بعض دوسرے لوگ جن کو ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ ہوسکتا ہے اس سے بداثر لیکر بدک جائیں تو اس غرض سے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے اگرچہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں جس طرح مجھے لکھا گیا ہے کہ دنیا والے کیا کہیں گے۔ قطعاً مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ اللہ کی نظر میں مجھ سے ایسی غلطی نہ ہوگئی ہو جو خدا کو ناپسندیدہ ہو۔ اور اگرچہ وہ آیت کریمہ مجھے سہارا دے رہی ہے مگر پھر بھی یہ صرف ایک خوف ہے اس کے سوا کوئی خوف نہیں ہے۔ نہ ان کے جوابی حملے کا خوف۔ نہ کہ دنیا کیا سمجھے گی میری زبان کیسی تھی۔ ایک ذرہ بھی پرواہ نہیںہے کیونکہ وہ ایک بے اختیاری کا معاملہ تھا جو بے اختیار زبان سے دل کے جذبات پھوٹے ہیں اور کوئی صورت اور نظر نہیں آتی تھی ۔ مجھے کوئی لفظ ملتے نہیں تھے۔ تاہم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس حکمت کے پیش نظر میرا فیصلہ یہی ہے کہ آئندہ جب یہ دوبارہ یہ درس دکھائے جائیں گے۔ Video میںاتنے حصے میں تھوڑا سا خلا ڈال دیا جائے اور یہ ظاہر کردیا جائے کہ یہاں کچھ زیادہ سخت لفظ تھے اور درس دینے والے کی ہدایت کے مطابق اس حصے کو کاٹ دیا گیا ہے اور جب وہ چھپے گا تو پھر چھپتے وقت بھی یہ آجائے کیونکہ ورنہ پھر یہ تاریخ بدلنے والی بات ہوگی۔ جو نکل چکا ہے منہ سے۔ اسے اب واپس تو نہیں لے سکتے مگر اس کے متعلق یہ اصلاحی کارروائی کرسکتے ہیں کہ دوسرے ایڈیشن میں اس کو نہ ظاہر کریں مگر ذکر کردیں کہ یہاں کچھ سخت کلامی تھی جسے بعد میں یہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔میں نے کہا وقت ! کل کی طرح نہ ہو بتا دیں مجھے ابھی کافی وقت ہے۔
ہاں ! تہمینہ قریشی نے جو چوہدری اعجاز احمد صاحب کی بیٹی ہیں انہوں نے توجہ دلائی ہے کہتی ہیں میں پرانا جو درس تھا جس میں مختصر بہائیت کا بھی ذکر آیا تھا تحقیق کے سلسلے میں وہ کیسٹ سے سن رہی تھی کیونکہ میں اس دن موجود نہیں تھی تو وہاں آپ نے لفظ ’’نقطہ‘‘ کو مرزا یحییٰ کی طرف منسوب کیا ہے جو بہاء اللہ کا بڑا بھائی تھا ۔ تو یہ درست ہے ؟وہ دراصل یہ یاد دلانا چاہتی ہیں کہ درست نہیں ہے۔ بات ہے کہ نقطہ کا جو لقب ہے یہ خود بہاء اللہ کا لقب تھا اس کے بھائی کا نہیں تھا اور نقطہ سے مراد ان کی یہ ہے کہ ساری کائنات کے مقاصد سمٹ کر اس ایک ذات میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ یہی تمام سچائیوں کا مرکز ہے۔ اس لحاظ سے بہاء اللہ کو نقطہ کہا جاتا تھا یہ بھی ریکارڈ ہوجانا چاہئے کہ غلطی سے میںنے کسی اور کے متعلق کہہ گیا تھا لفظ نقطہ۔
افمن اتبع رضوان اللہ ……واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 163-164)
یہ دو آیتیں ہیں مگر مضمون اس طرح ملا جلا ہے کہ ان کو الگ الگ آیت کے طور پر لینے کے بجائے دونوں کا اکٹھا درس ہوگا۔لفظ بئس کے متعلق لغوی بحث ہے میرا خیال ہے اس کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ جب استعمال ہوتا ہے تو مخصوص بالذم کس کو کہتے ہیں ۔ فاعل کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اتنی سی بات سمجھنی کافی ہے کہ بس چیز کے متعلق ’’بئس ‘‘ کہا جائے اس کے متعلق یہ اظہار ہے کہ ’’کیا ہی برا ہے‘‘۔ ’’کیسی بُری چیز ہے‘‘۔ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے اور متوجہ کرنے کیلئے یہ چیز خصوصیت کے ساتھ برائی رکھتی ہے بئس کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
المصیر: اس کا ہم نے کہیں ٹھکانہ ترجمہ کردیا کہیںلوٹنے کی جگہ وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ مختلف معانی جو اس ایک لفظ میں موجود ہیں ان کی رو سے یہ سب قسم کے ترجمے جائز ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے میں تفصیل سے سمجھا دوںکہ ’’مصیر‘‘ کس کو کہتے ہیں۔صار کسی چیز کے کسی خاص حالت تک پہنچنے کو کہاجاتا ہے۔ صار الرجل فلانافلاں شخص یہ ہوگیا۔ تو ایک کیفیت سے کسی دوسری کیفیت کی طرف منتقل ہونے کیلئے لفظ ’’صار‘‘ استعمال ہوتاہے۔
(نوٹ: یہاں پر دو تین جملے نشریاتی رابطہ میں خرابی کی وجہ سے Miss ہوگئے ہیں)
........ اسی لئے تاج العروس اورمحیط نے اس کا ترجمہ جمع ہونے کی جگہ بھی کردیا ہے ۔اس نسبت سے کہ وہاں سب پانی اکٹھے ہوگئے یعنی سب چیزیں وہاں جمع ہوگئیں۔ابن فارس نے کہا ہے کہ اس کے بنیادی معنے مآل اور مرجع کے ہیں یعنی لوٹنا اور انجام۔ پس جب ہم کہتے ہیں بہت ہی بری لوٹنے کی جگہ ہے تو یہ بھی درست ہے۔ یعنی مرجع یہ ہے آخر کار وہاں پہنچنا ہے۔
راغب نے کہا ہے اور یہ بڑی تفصیل گہرائی سے اس مــضمون کی نوعیت اس کی کنہ بتاتے ہوے سمجھاتے ہیں کہ یہ کیوں استعمال ہوتا ہے اور اس میں کیا حقیقت ہے۔ فرماتے ہیں ۔ صار سے مراد چونکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا ہے اس لئے المصیراس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز انتقال حرکت کے بعد پہنچ کے ختم ہوجاتی ہے۔ آگے پھر کوئی حرکت نہیں ہے۔ پس جب کہتے ہیں بئس المصیرتومراد ہے۔ جس کا انجام کار آخری رخ جہنم کی طرف ہو اور اس کے بعد پھر آگے کوئی اور چلنے کی جگہ باقی نہ رہے۔ وہاں پہنچ کر ٹھہر جانا جس کے مقدر میں ہو وہ بڑا ہی بدنصیب انسان ہے۔ پس وہ آخری مقام ان لوگوں کا مصیر کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور رخ نہیں۔ ان کے تمام رخ ایسی جہنم کی طرف ہیں جو ان کی آخری منزل ہے۔ اس سے آگے پھر کوئی منزل نہیں ہے۔
شان نزول کی بحث جیساکہ میں نے دیکھا ہے اکثربہت اس کا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کی شان نزول تو ساری انسانیت ہے اور انسانی مسائل ہیں۔ اور وہ مسائل دنیا کے کسی وقت ‘ کسی زمانے‘ کسی مقا م اور کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں وہ قدر مشترک ہے انسانیت کی۔ اس لئے قرآن کریم کی شان نزول پر ایسا زور دینا کہ بعض خاص واقعات سے باندھ دینا یہ مناسب نہیں ہے۔ قرآن کی شان کے خلاف ہے۔ یہ تو سب دنیا کیلئے کتاب ہے اور ہرزمانے کیلئے ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ اگر یہ قطعی طور پر علم ہو کہ آیت ایسے وقت نازل ہوئی جب ایک واقعہ رونما ہوا تھا تو اس واقعہ کی تشریح میں ہمیں مدد ملے گی لیکن واقعہ قرآن کی تشریح کو محدود نہیں کرسکتا۔ اس احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے بے شک شان نزول کی بات کیا کریں۔ یعنی شان نزول سے مرادیہ صرف قرآن کے تعلق میں لی جائے گی کہ اگر کوئی واقعہ اس وقت ایسا ہوا ہے جس کے متعلق آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا تھی تو جو آیات اس عرصے میں نازل ہوئی ہیں ان کی روشنی میں اس واقعہ کی حقیقت کو پرکھیں۔ درست ہے لیکن آیت کے معنی کو یا آیات کے معانی کو اس واقعہ سے باندھ کر محدود کردینا یقینا غلط ہے۔ اور نہ ہی اس واقعہ کا ترتیب پر کوئی اثر ہے۔ اور یہ خصوصیت سے پیش نظر رکھنے والی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ پر مختلف اوقات میں آیات نازل ہوئی ہیں لیکن آپ نے اس ترتیب کو آخری ترتیب قرار نہیں دیا بلکہ جبرئیل علیہ السلام جب تشریف لاتے تھے حاضر ہوتے تھے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں تو بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اوراس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اور جب قرآن کریم کو مرتب کیا گیا آخری صورت میں تو ہر آیت کے متعلق گواہیاں لی گئی ہیں۔ حضرت عثمان ؓ جن کے متعلق یہ شیعہ نعوذ باللہ بڑی سخت بد کلامی کرتے ہیں۔ ان کا یہی احسان امت پر ایک عظیم الشان احسان ہے اور اُس کی ان کو تکلیف بھی بڑی ہے۔ کہتے ہیں یہ وہ قرآن نہیں ہے نعوذ باللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بعینہٖ وہ نہیں ہےTruth but not the whole truthکہتے ہیں ہے تو سہی Truth لیکن Whole Truth نہیں ہے اور بہت سی آیتیں عمداً نکالی گئیں تاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں گواہی نہ ہو۔تو وہ کلام جس کے متعلق فرمایا لاریب فیہاس کو ان ذاتی اختلافات کے پیش نظر ایسی کتاب بنا دیا جس میں ریب کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ کوئی پتہ نہیں کہاں سے کوئی آیت نکالی گئی کہاں سے اٹھائی گئی اور اسی لئے دشمنان اسلام کو یہ موقعہ ملا جیساکہ Bell کوملا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ جو قرآن کریم کی ترتیب ہوئی ہے۔ یہ توبالکل انسان نے اپنے طورپر جو چاہا اٹھا کر ادھر سے وہاں رکھ دیا اور وہاں سے اٹھا کر ادھر رکھ دیا۔ اور اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کوئی وحی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ آگے بڑھتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے نزدیک تو قرآن مکے میں نازل ہی نہیں ہوا۔ کہتا ہے اس کا آغاز ہی مدینہ سے شروع ہوتا ہے۔ اب یہ اتنی بڑی جہالت کی بات جس کو سارے مستشرقین رد کررہے ہیں اس کی وجہ کیا بنی؟ اسکی وجہ یہ شان نزول اور تفسیر میں بعض آیات کے غلط معنی ہیں مثلاً
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآنرمضان میں قرآن اتارا گیا اور یہ کہتا ہے کہ رمضان شروع ہوا ہے مدینے میں اس لئے جب مدینے میں رمضان شروع ہوا تو قرآن بھی رمضان ہی میں شروع ہوا تو یہ جتنے بھی اعتراض کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد مفسرین کی بے احتیاطیوں میں ہے اس لئے آپ کو بڑی ہوشمندی کے ساتھ ان باتوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ قرآن کریم نے جہاں خود اپنی شان کو بیان فرمایا ہے اس کا کسی شان نزول سے ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں ہے کہ اُس قرآنی آیت کے مفہوم کو پابند کررہی ہو۔’’فیہ‘‘ کا مطلب یہ بھی تو ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ رمضان کی برکات جتنی بھی ہیں وہ تمام تر قرآن سے تعلق رکھتی ہیں اور قرآن جو تزکیہ نفس کا پروگرام آپ کے سامنے رکھتا ہے وہ سارا پروگرام رمضان میں دہرایا جاتا ہے۔اس لئے تاریخی حقائق کو نظر انداز کر کے............
بہرحال اب میں شان نزول کی باتیں ان کی شروع کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوںکو احد کے دن باہر نکلنے کا حکم دیا تو ایک جماعت منافقین کی بیٹھ گئی اور بعض مومنوں نے ان کی پیروی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔یہاں پر ذکر یہ ہے کہ خدا کی ناراضگی حاصل کرنے والا جہنمی ہے خدا کی راۃ میں جب آیت پر واپس جاؤں گاپھر میں نارضگی کی بات کروں گا بتاؤں گا اب تفصیلی بحث سے پہلے میں اس کا عام ترجمہ جیسا کہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں اس مضمون کی حقیقت بیان کرتا ہوں۔یہ آیت واقع ہوئی ہے اس آیت کے معاً بعد جہاں نبی کے بددیانتی نہ کرسکنے کا ذکر ہے یعنی اس بات کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کہ محمد رسول اللہ تو محمد رسول اللہؐ‘ کوئی اور نبی بھی امانت میں خیانت کرے اور وہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کے سپرد فرمائی اور وہ امانت تمام امور دینیہ سے تعلق رکھتی ہے خواہ وہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے ہوں۔ اس کے بعد اس کا اگلا قدم اٹھایا گیا ہے۔افمن اتبع رضوان اللہوہ وجود جس کی ساری زندگی اللہ کی رضا جوئی میں صرف ہوئی ہو۔ اسے کوئی دنیا کی طلب نہ ہو اس کا اٹھنابیٹھنا۔ جاگنا سونا اس کا زندہ رہنا اس کا مرناسب کچھ خدا تعالیٰ کیلئے ہوچکا ہو۔ کیا اس کو ایسے شخص سے برابر کرتے ہو۔کمن باء بسخط من اللہ ‘‘جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹنے والا ہو۔ یہ مضمون وہی دیانت اور بددیانتی کا مضمون چل رہا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے مدارج کا ذکر ہے۔ پہلے نفی ہے جو سبحان کا رنگ رکھتی ہے اور دوسری آیت حمد سے تعلق رکھتی ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے اندر نقصان تلاش کرو گے ‘ خرابیاں ڈھونڈو گے تو تمہاری نظریں تھکی ہوئی واپس لوٹ آئیں گی۔ تمہیں اس پاک ذات میں خیانت کا کوئی شائبہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا۔ لیکن آگے چلو اس کی ساری زندگی تو رضا جوئی میں صرف ہوئی ہے اللہ کی رضا ڈھونڈتے گزری ہے۔ اس کا اُس سے کیا تعلق‘ اس شخص سے جو خدا کے غضب لیکر لوٹنے والا ہو۔ یعنی بددیانت ہو اور خیانت کرنے والاماوٰہ جھنماور ایسے شخص کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔وبئس المصیر اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ یا بہت بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔ بہت برا مقام ہے جہاں جب تم پہنچو گے تو اس کے بعد اور تمہارا کوئی مقام نہیں ہے۔ پھر وہیں ٹھہر جائو گے۔ھم درجٰت عنداللہیہ دونوں گروہ ایسے ہیں جن کے اپنے اپنے درجے ہیں۔واللہ بصیر بما یعملوناور اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے اس کو جو وہ کرتے ہیں۔یہاں درجات کے متعلق مختلف مفسرین نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی درجات کی بحث کی ہے اپنے نوٹس میں۔ درجات کے متعلق فرماتے ہیں کہ درجہ سے مراد اہل درجہ بھی ہوتا ہے ........ کوئی چیز اگر مجسم ہوجائے تو اس کا اسم بنانے کی بجائے اسم مصدر پیش کیا جاتا ہے یعنی وہ صفت پیش کردی جاتی ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ذکراً رسولاًیعنی مجسم ذکر الٰہی ۔ مراد ہے ذکر کرنے والا۔ تو ھم درجاتسے مراد ہے وہ لوگ مختلف درجوں والے ہیں۔ایک معنٰی تو یہ ہے ۔ دوسرا ٰ یہ ہے کہ مختلف درجوں میں تقسیم لوگ ہیں۔ ان کے مختلف مراتب ہیں۔ ایک جیسے نہیں ہیں۔ پہلے انبیاء کا ذکر تھا کہ انبیاء ہر طرح سیغل کے ظلم سے اور اس کی ناپاکی سے پاک اور بری ہیں۔جہاںسبحان کا تعلق ہے وہ سب میں قدر مشترک بن گئی ہر نبی پاک ہے۔ جہاں رضوان کی بات ہورہی ہے۔ کیا سارے برابر اللہ کی رضوان والے ہیں؟ تو فرمایا نہیں یہاں فرق ہے۔ھم درجاتکوئی اس درجے پر ہے کوئی اس درجے پر ہے۔ اور محمد رسول اللہﷺ ان سب سے اعلیٰ اور افضل درجے پر فائز ہیں تو وہاں ان کو برابر نہ سمجھنا ہر ایک اپنا اپنا درجہ رکھتا ہے اور اسی حوالے سے ظلی طور پر یہ مضمون صحابہؓ پر بھی صادق آتا ہے کہ صحابہ کرام بھی اپنے اپنے درجے کی رضوان طلب کرتے رہے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اللہ کی رضا جوئی کرتے رہے اور پھر ان کے بھی پھر آپس میں درجے ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نمازکے ظاہر سے اس کو نہ پہنچانو کیونکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پڑھتا کیسے ہے اور اس کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔پس اس کی ایک نماز دوسروں کی 70 نمازوں سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ تویہ مراد ہے درجات سے۔ اور یہ درجات جو ہیں یہ اللہ کے علم میں ہوتے ہیں یا اللہ والوں کے علم میں ہوتے ہیں۔ پھر درجات کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہے جوباء بسخط من اللہ وماونہ جھنمایسے شخص کے درجات بھی ہوتے ہیں مختلف جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لیکر لوٹا ہو اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو۔و بئس المصیر ‘‘اور کیا ہی بُری لوٹ کر ٹھہر جانے کی جگہ ہے۔
اب میں مفسرین کی طرف پھر واپس آتا ہوں۔ ان سب نے الا ماشاء اللہ میرے علم میں تو جتنے ہیں انہوں نے اس مضمون کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رجحان ہے شان نزول ہی سے باندھ رکھا ہے۔ آگے نہیں بڑھتے۔ اور کہتے ہیں کہ یہاں جنگ میں شامل ہوکر دیانت داری کرنے والے اور جنگ میں شامل ہوکر بددیانتی سے کام لینے والے والے مراد ہیں۔
قرطبی کہتا ہے افمن اتبع رضوان اللہ کمن باء بسخط من اللہ ۔۔۔۔الایۃیعنی خیانت ترک کرنے والے اور جنگ میں ثابت قدمی دکھانے والے اور کافر خائن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگ کے دوران ساتھ چھوڑ دینے والا برابر نہیں ہوسکتا۔ یعنی یہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ نہیں بلکہ دوسری قسم کے لوگ اگر توبہ نہ کریں تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ یہ انہوں نے توبہ کی شرط اس لئے لگادی کہ خود قرطبی کو یہ یقین ہی نہیں آسکتا تھا کہ وہ صحابہؓ جن کے پائوں اُکھڑے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ میں بخش چکا ہوں۔ان کا ترجمعہ اگر درست ہو ان کی تفسیر اگر درست ہو تو وہ سارے جہنمی بنتے ہیں تو ان کو جہنم سے بچانے کیلئے یہ نہیں کہتے کہ اگر یہ وہی ہیں تو ان کے متعلق تو خدا فرما چکا ہے کہ میں معاف کرچکا ہوں ‘ یہ ہو ہی نہیں سکتے وہ ! یہ کہتے ہیں کہ توبہ کی شرط ہے کہ ابھی خطرے میں ہیں اگر توبہ نہ کی تو پھر ٹھکانہ جہنم ہوگا۔اب یہ جو تفسیر ہے یہ وہی تفسیر ہے جو آگے شیعہ علماء کرتے ہیں اور اس میں پھر بڑی شدت اختیار کرجاتے ہیں۔
‎ جہاں تک Wherry کا تعلق ہے وہ لکھتا ہے۔کہThere should be degrees this explain ....of Verse163:God will reward his servants in accordance with their works. The brave companions See note Verse 162 need not be troubled by an equal division of the booty. God will reward, for "God seethwhat he do."
ابھی تک دماغ میںbootyسوارہے اس شخص کے بوٹ کا ایک مطلب جوتی بھی ہوتا ہے۔ پر میں یہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ہماری جو خاتون ہیں ان کی دلآزاری ہوگی۔ یہ Booty ایسی دماغ پر سوار ہے کہ کہتا ہے کہ اس آیت میں بھی Booty کا ہی ذکر چل رہا ہے سارا۔ کہتا ہے جو Booty والے ہیں وہ برابر نہیں ہوسکتے ان کے جو بغیر Booty والے ہیں۔ لیکن کہتا یہ ہے کہ ان کو تسلی دلائی گئی ہے کہتا ہے۔Bootyوالے ایسے تھے رسول اللہﷺنے جب سب برابرتقسیم کردیایہ بھی مان گیا ہے کہ وہ جو شبہ تھا اوپر والوں کا وہ جھوٹا نکلا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو برابر مال تقسیم کردیا۔ اب جب برابر تقسیم کردیا تو پھر جنہوں نے زیادہ جنگ میںحصہ لیا تھا ان کے دل میں شکوہ ہوسکتا تھا کہ لڑے تو ہم ہیں اور مال سب کو برابر جارہا ہے۔ تو ان کی تسلی کیلئے یہ اللہ تعالیٰ نے کہا یعنی ساری توجہ اس طرف ہے کہ کوئی بات نہیں ہم آگے جاکے تمہیں دے دیں گے۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اب سنئے !
The Holy Quran version of the Ahlul Bait and Special comments from Aayatuallh Agha Haji Mirza Mahdi Poya Yazdi.
1998 ء میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ٹائٹل یہ بتاتا ہے Tehrik-e-Tarsil-e-Quran Incorporated کی طرف سے ۔ سورۃ آل عمرا ن152 سے لیکر 172 آیات تک کہتا ہے ان کا ایک ہی ٹائیٹل ہوگ
The faithful identified from the hypocrates of the battle of Uhad,
کہ جو وفادار تھے جنگ احد میں وہ منافقین سے ممتاز کرکے الگ دکھا دئیے گئے اور وہ کتنے تھے اور کون تھے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
ترجمہ پہلے یہ ہے 163 کا
Is he who follow the pleasure of Allah like him who draws on himself the wrath of Allah and whose abode is hell and an evil retreat it is, the one who stood by the Holy Prophet fighting in the cause of God to the end, and he who has made himself deserving ofthe wrath of God must naturally be those who flud away from the battle field.
کہتا ہے وہ ایک شخص جو رسول اللہ ﷺکے ساتھ رہا آخر تک ایک شخص کا تو میں نے حال کھول دیا ہے۔ بتادیا ہے کہ ہے ہی جھوٹ۔ اور جن صحابہ کو کہتا ہے کہ بھاگ گئے تھے خلفاء وغیرہ۔ وہ موجود تھے قطعی گواہیاں موجود ہیں۔ لیکن میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑتا۔ میں ان کی ذرا سوچ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ کہتا ہے۔
‏The one who stood by the Holy Prophetیہاں "The one" کا مطلب کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر ان کے One سے مراد ایک ہے صرف۔ کہتے ہیں۔
It is quite abvious that this verse intends clearing the unique position of Ali in context to that of others who claim to be superior to him.
تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ خلافت دوسروں کو کیوں مل گئی؟ اور یہ جو جرم ہے یہ تو معاف ہو ہی نہیں سکتاکسی قیمت پر۔ تو "One" سے مراد وہ لیتا ہے ایک علیؓ محمد رسول اللہ ؐ کو تمام صحابہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اور ایک علیؓ باقی رہا اور ان تمام صحابہ کے متعلق فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔بئس المصیر : اور ان کا وہ ٹھکانہ ہے جس سے آگے پھر ان کا نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہے۔قطعی گواہی یہ قرآن کریم کی پیش کررہے ہیں کہ اب بتائو ان کو کس طرح بچائو گے؟ نعوذ باللہ من ذلک تمہارے بغض کی جہنم سے؟ اس کے متعلق میں بعد میں بات کرتا ہوں لیکن قطعاً جھوٹ۔ بہتان قرآن کریم کی آیات کو توڑ مروڑ کر فرضی معنے بیان کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔ سیاق و سباق سے جو مضمون بنتا ہے وہ میں نے نکال کے دکھا دیا ہے اور اس پر ایسی بات منسوب کرنا اور پھر اس کے متعلق تمہیں حق کیسا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔عفا اللہ عنھماللہ فرماتا ہے میں نے معاف کردیا ہے شیعہ کہتے ہیں ہم نے نہیں کیا اس لئے جہنم میں ڈال کے دکھائیںگے۔ تم کہاں سے ڈال سکتے ہو جہنم میں؟ تمہیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے کہ تم کہاں کے انسان ہو۔ وہ تین آیات جن کا میں نے ذکر کیا تھا اُن تین آیات میں تو تم لوگوں کا ذکر نہیں ہے۔ تبرا کرنے والوں کا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے نجات کی خوشخبری دی ہے۔اس لئے صحابہ کرام کو جہنم میں جھونکنے کی بجائے اپنی فکر کرو۔ اور اس سے زیادہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن آگے جاکے میں ان کی دلیلیں لیتا ہوں اور ان کا جواب دیتا ہوں۔
There could be little or no purpose at all in calling attention to a most abvious thing unless it is precautionary measure or a warning before hand against those who have earned the wrath of God being prefered to the personality so abviously superior to the others.
کہتا ہے : یہ تو کھلی کھلی بات ہے کہ حضرت علی ؓ کے سوا سب صحابہ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی ایک بھی نہیں رہا تھا اور نرغے میں گھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کیلئے حضرت علی ؓ کبھی ایک طرف چلے جاتے تھے اور دشمن انتظار کرتا رہتا تھا کہ واپس آئیں تو پھر ہم رسول اللہ ﷺپر حملہ شروع کریں اور پھر جب وہاں سے فارغ ہوکے واپس آتے تھے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اب یہ آ رہے ہیں ان کو پکڑہ تو پھر ان کی طرف نکل جاتے تھے، اور باقی انتظار کرتے تماشا دیکھ رہے ہوتے تھے کہ علیؓ واپس آجائے گا تو پھر ہم حملے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پھر ایک اور طرف سے خطرہ پیش آجاتا وہاں چلے جاتے تھے علیؓ ۔ موقعہ ہی نہیں ملا دشمن کو کہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوں اورحملہ کرسکیں ہم۔ یہ ہے ان کا تناظر جس میں یہ جنگ احد کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑی جہالت ہو ہی نہیں سکتی۔دنیا کی باتیں چھوڑو کوئی دنیا کا کم سے کم فہم والا انسان بھی اگر تعصب کے ساتھ بالکل پاگل نہ ہوچکا ہو۔ یہ تصور باندھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن خیر ! یہ انہوں نے تصور باندھا کہتے ہیں ۔ ہوا کیوں ؟ یہ تو ظاہر بات تھی ایک ہی تھا۔ تو خدا کو توجہ دلانے کی ضرورت کیا تھی؟کہتے ہیں یہ وارننگ (Warning ) تھی کہ دیکھو ! اگر کوئی خلافت کا حق دار ہے تو علیؓ ہے ! اور یہ سارے نعوذ باللہ من ذلک جہنمی لوگ ہیں جن کے متعلق ہم نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جہنم میں جانے والے ہیں تم ان کو اپنا سردار نہ بنا بیٹھنا۔ یہ نصیحت تھی۔لیکن ظلم کی حد ہے۔ جس کے حق میں یہ نصیحت تھی اس کو سمجھ نہیں آئی۔ Pooya صاحب کو سمجھ آگئی۔ حضرت علیؓ نے انہی کے ہاتھ پہ جاکے بیعت کرلی۔
وہ سب سے بڑا جو نعوذ باللہ من ذلک۔ نعوذ باللہ من ذلک جہنم کا سردار تھا۔ پہلے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا پھر کہا کہ ابھی پوری گرمی نہیں ائی پھر دوسرے نعوذ باللہ جہنمی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ دیا ۔ پھر کہا ابھی بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تیسرے کے نیچے ہاتھ رکھ دیا۔ یہ حضرت علیؓ کا کردار ہے تمہارے نزدیک۔ پہلے آقا بھی وہ چُنے جن کے متعلق تمہارا فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی تھے اور مرید بھی وہ اختیار کرلیا جو سارے جہنمی تھے تمہارے نزدیک۔قرآن نے دعا سکھائی تھی۔ حضرت علیؓ قرآن کے مفسر ۔ عظیم الشان اور گہرا علم رکھنے والے۔ ان کو یہ پتہ نہیں تھاکہ قرآن کہتا ہے یہ دعا کیا کرو۔واجعلنا للمتقین امامااے ہمارے رب ہمیں متقیوں کا امام بنا نا! فاسقوں فاجروں‘ منافقوں کا امام نہ بنانا ۔ تو اگر حضرت علیؓ متقی تھے واقعتاجیسا کہ ہم سب مانتے ہیں تو ابوبکرؓ کی دعا تو سنی گئی۔ عمرؓ کی دعا سنی گئی۔ عثمانؓ کی دعا سنی گئی کہ اس متقی نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی امامت کا مرتبہ بلند کرکے دکھا دیا اور انہیں متقیوں کا امام ثابت کردیا نہ کہ منافقوں کا امام۔ اور علیؓ کن کے امام بن بیٹھے جو سارے منافقوں کے گروہ تھے۔ ان سب کو کہا آئو میری بیعت کرلو۔ اب ٹھیک ہے۔ اور انہوں نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ جو اول تھے۔ ان کو اول کہتے رہے۔ اب یہ ہے مضمون جس کو یہ پتہ نہیں سوچتے نہیں غور نہیں کرتے یا تعصب کی راہ سے دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے فرضی کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں۔
اب ایک اور بہت اہم سوال ہے جس پر میں ابھی آتا ہوں۔ عام بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے بڑے بہانے‘ بڑے طریق اختیار کر رکھے ہیں عامۃ الناس مسلمانوں کو دھوکے میں مبتلا کرنے کیلئے اور مولوی بھی اتنا بے وقوف ہے بے چارہ اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے۔ سپاہ صحابہ بنائی تو وہ بھی غلط رستے پر جس کی قرآن اجازت نہیں دیتا۔ اختلاف مذھب ہو اس میں گالی گلوچ ہو۔ قرآن تو یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس نے نعوذ باللہ سب سے ذلیل قرار دیا تھا۔ اس کے خلاف بھی تم خود سزا کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ کے دیکھیں۔ اس کا جواب صرف اتنا خدا تعالیٰ دیتا ہے کہ عزت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہارے کہنے سے نہیں بنے گا۔ اس نے جس کو عزت دینی تھی اللہ نے وہ دے دی ہے۔ تم جو مرضی منہ سے بکواس کرتے رہو کوئی فرق نہیں پڑتایہ جواب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ قتل و غارت کردو اس کو۔ لیکن ان لوگوں نے مسلک بھی پکڑا تو وہ بھی غلط کہ صحابہ پر جو بدکلامی کرتے ہیں ان کو قتل و غارت کرو۔ لیکن وہ جب ان سے ہوشیاری سے کام لیتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ کیا ہوشیاری ہوگئی ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان میں بڑا چرچا تھا اس گانے کا ’’دمادم مست قلندر‘ علیؓ دا پہلانمبر‘‘گلی گلی بچے گاتے پھرتے تھے۔ان پاگلوں کو پتہ ہی لگا لفظ پاگل پھر غلطی ہو گئی معاف کرنا۔ ا ن سادہ مزاج لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کہہ کیا رہے ہیں؟ یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عمر ؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عثمانؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ علی ؓ کا پہلا نمبر تھا۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں گھر میں آیا تو میری بچیاں چھوٹی چھوٹی تھیں ۔ اتنا اس کا چرچہ تھا اس زمانے میں کہ انہوں نے کہا۔’’دمادم مست قلندر علیؓ دا پہلا نمبر‘‘میں نے کہا۔ ناں ! تم یہ کہا کرو۔’’ علی ؓ دا چوتھا نمبر‘‘پھر پڑھو ! پھر انہوں نے یہی پڑھنا شروع کردیا۔
’’دمادم مست قلندر علیؓ دا چوتھا نمبر‘‘
میں نے کہا اس عام جو ہردلعزیز رو ہے اس سے میں ہٹا کر تو ان کو نہیں الگ کرسکتا تو درست کرکے اسی رو پر چلنے دیتا ہوں۔ بے شک گانے گاتی پھریں۔تو یہ حال ہے۔یہ کہتے ہیں کہ جب تک حضرت علیؓ خلیفہ نہیں بنے۔ اس سے پہلے تمام تر جہالت کا دور تھا اور منافقین اور منافقین کے سردار جہنمی وہ امور خلافت پر قابض ہوئے بیٹھے تھے۔
ایک دفعہ ایک شیعہ دوست سے میری گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ بیعت کی تھی لیکن بیعت کی تھی تقیہ کے طور پر۔ مجبوری تھی۔ اس کا میں جواب دے چکا ہوں۔ ایک اور بات میں نے ان سے پوچھی۔ میں نے کہا آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ جو شخص امام وقت کو نہ پہچانے۔من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ۔کہ وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔ کہا : ہاں یہ درست ہے۔ میں نے کہا : پھر حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ تو نعوذ باللہ من ذلک کسی منافق کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور اپنا ہاتھ بیعت کیلئے آگے نہیں بڑھایا اور امام وہ تھے۔ تو وہ بے چارے جو مر گئے اس عرصے میں اُن کا کیا قصور؟ ان کی جاہلیت کی موت مرنے میں کس کا قصور ہے؟ جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا چوتھی خلافت تک وہ ہم سمجھ گئے کہ چلو خدا تعالیٰ نے بچالیاان کو۔ لیکن جو پہلے گئے ان کا کیا حال ہوا؟ کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں۔ امام موجود تھا اور غائب رہا۔ تو ان کا غیبت امام کا مضمون جو ہے اس وقت سے چلا ہوا ہے۔ یعنی موجود امام بھی غائب تھا جو ویسے ہی غائب تھا اس بے چارے نے کہاں حاضر ہونا تھا۔
‎اب سنئے ! میر احمد علی صاحب فرماتے ہیں۔
He who tenaciously follows the pleasure of God must necessarily in all arguments of logic be the one described in Chapter 2-208.و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد۔ and a mankind is he who sell himself seeking the pleasure of God and God hath compassion on his born men. 228.
COMMENTRY ON 228.The Sunni commentators suc has the Thalib, Ghazali and the authors of and all the sheeaah.
Commentators are unanimous saying that this verse was revealed in the Praise of Ali, when he readily slept in the bed of the Holy Prophet Muhammad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly migrate from Makka to Madina.
اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ کیا کہتا ہے کہتا ہے کہ یہ جو Verse ہے 163 جس پر ہم گفتگو کررہے ہیں اس میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ افمن اتبع رضوان اللہوہ جس نے اللہ کی رضا کی ہر حالت میںپیروی کی ہے۔ اس سے مراد حضرت علیؓ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں گویا کہ اور اس کے ثبوت میں یہ وہ ایک آیت پیش کرتا ہے جس میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ بعض سُنّی تفاسیر سے ایک دو حوالے اٹھاتا ہے اور اب میں بتائونگا آپ کو کہ کیا حال کرتے ہیں ان تفاسیر کا اور کتنی بددیانتی سے کام لیتے ہیں اُن تفسیر کے حوالوں میں یہ ابھی بعد میں چلے گا مضمون۔ اور اس کے بعد Unanimous کا لفظ اس طرح بولتا ہے گویا سب Unanimous ہیں۔ اور شیعہ تفاسیر سب Unanimous ہیں۔
شیعہ تفاسیر Unanimous ہیں اس آیت کے متعلق جو دوسری سورت کی 208 آیت ہے۔ لیکن دلیل اس کی کیا ہے؟ کوئی دلیل نہیں۔ ایک تفسیر ہے۔ اور جو عام کلام ہے۔ اللہ کا اس کو ایک شخص پر محدود کردیا۔ کسی انسان کو کیا حق ہے رحمتہ للعالمین کی رحمت کو جس کا اظہار قرآن کریم میں ہوا ہے۔ کسی ایک شخص سے باندھ دینا اور کہنا کہ کسی اور پر اس رحمت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔عام مضمون ہے۔ معمولی سی عقل والے آدمی کو بھی سمجھ آجاتی ہے کہ یہاں یہ مراد ہورہی ہے کہ جو شخص بھییشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اللہ کی مرضی کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو بیعت کے تعلق میں قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔
ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم و اموالھم بان لھم الجنۃ۔
اب بتائیے یہ وہ ہے کہ نہیںمضمون۔اس آیت کا اس سے تعلق دکھائی دیتا ہے کہ نہیں؟ کتنا صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے یہاں فرمایا ہے۔من یشری نفسہجو اپنا نفس بیچتا ہے۔ وہ آیت کہتی ہے کہ وہ سارے مومنین جو ایمان لائے ہیں وہ اپنی جانیں بھی بیچ دیتے ہیں اور مال بھی بیچ دیتے ہیں۔’’بان لھم الجنتہ‘‘ کیونکہ اس کے بدلے میں اللہ کی طرف سے انہیںجنت عطا ہوگی۔تو یہ عام سودا ہے بیعت کا سودا ۔ اسے صرف حضرت علیؓ سے خاص کرنے کے شوق میں اس آیت کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور اس بحث میں اس کو لانے کے بعد پھر کہتے ہیں کہ
Revealed in the praise of Ali when he readily slept in the bed of the Holy Prophetؐ Muahmmad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly Migrate from Mecca to Madina.
اب آگے سنئے !خیال آتا ہے کہ ہجرت کے وقت تو حضرت ابوبکرؓ ساتھ تھے اور ابوبکرؓ پہ حملہ کئے بغیر حضرت علیؓ کی فضیلت بیان ہو نہیں سکتی۔ تو بڑے مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ تو بستر پر لیٹے تھے اور سفر پہ ساتھ کون گیا تھا؟ وہ خطرات کس نے مول لئے تھے؟ اور سب سے بڑا خطرہ تو تھا ہی وہی۔اگر آپ اس بات کو یاد رکھیں کہ حضرت علیؓ کا بستر پر لٹانا اس لئے نہیں تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ تھا کہ میری جگہ یہ قتل ہوجائے۔ آپ کو کامل یقین تھا کہ دشمنی مجھ سے ہے اور جب میری جگہ یہ علیؓ کو دیکھیں گے تو چھوڑ دیں گے اور یہی ہوا۔ کوئی گزند نہیں پہنچی۔ کسی نے ایک چٹکی بھی نہیں کاٹی حضرت علیؓ کو۔ کہتے ہیں کہ دیکھو ! یہ اتنا عظیم الشان خطرہ علیؓ نے اپنے ذمے لے لیا۔ اگر خطرہ تھا بھی یعنی بعید نہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست نے وہ خطرہ محسوس نہیں کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اگر یہ نتیجہ نکالتی کہ علیؓ کو قتل کر دیں گے تو کبھی ایسا نہ ہونے دیتے۔ ویسے ڈمی بنا کے بھی تو چھوڑی جاسکتی تھی مگر بہرحال دور سے دیکھتے تھے کہ کوئی سویا جب انہوں نے جاکر دیکھا تو علیؓتھے رسول اللہ ﷺ نہیں تھے ان کوتے تو چھوڑ دیا۔ پیچھے پڑے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور وہ اس خطرے میں حضرت ابوبکرؓ ساتھ رہے ہیں یہ تکلیف ہے چونکہ اس لئے اس کو اپنے رنگ میں پیش کرنے کیلئے لکھتے ہیں۔
After leaving his residence the Holy Prophet proceeded out of the township to take his way to Madina when he found Abu Bakr Standing.......
اتفاقاً وہاں کھڑے نظر آگئے حالانکہ پہلے سے پروگرام طے شدہ تھا حضرت ابوبکرؓ کو نصیحت تھی کہاں پہنچیں۔ کس طرح آئیں۔ کیا لیکر آئیں۔ اور اس ساری بات کا ذکر کرنے کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ رستہ چلتے جارہے تھے کہ راستے میں ابوبکرؓ کھڑے مل گئے۔ وہ اس آدھی رات کو وہاں کھڑے کر کیا رہے تھے؟
کہتے ہیں
Leter the second caliph who according to the order issued by the Holy Prophet to all his followers had not have left his residence.
اب یہ کنفیوژن ہے ابوبکرؓ تو پہلے خلیفہ ہیں۔ یہاںLater the Second Caliphکہہ دیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کیا اس میں غلطی ہے۔ Type کرنے والے نے کیا ہے یا یہ حضرت عمرؓ کے ذکر کو بیچ میں داخل کر بیٹھے ہیں۔
However the Holy Prophetؐ took Abu Bakr with him ....
یہ مانتے ہیں۔
and took refuge into a cave in a mountain. When the enemy approached the mouth of the cave and their voices were heard, into the cave Abu Bakr got frightened and began to cry aloud saying that they were lost.
کہتے ہیں یہ تو خطرے کا موجب بن گیا ۔ اونچی آواز سے بولا جس کی آواز باہر چلی گئی۔ یہ ظاہر کررہے ہیں۔ کیسا ناپاک جھوٹا ‘ کمینہ حملہ ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ وہ کھڑے باتیں کرتے رہے ان کی آواز پہنچ رہی تھی نیچے سے کوئی آواز نہیں آئی۔اگر آواز آئی ہوتی تو وہ پاگل تھے واپس چلے جاتے وہاں سے؟ انہوں نے تو وہ کبوتری کا انڈہ دیکھا ایک تنے ہوئے جالے کے اوپر اور کہا کہ کہ وہ غار میں گئے ہوں پھر جالا بھی تنا جائے اور کبوتری انڈہ بھی دے دے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔اور یہ فیصلہ دے رہے تھے اور جو کھوجی تھا وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس کے سوا کہیں اور ہوں۔ میں جانتا ہوں۔ میں ماہر ہوں اس فن کا۔ یا تو یہاں ہیں یا پھر آسمان اٹھا کر لے گیا ہے اور کہیں نہیں ہوسکتے۔ اس وقت آواز بھی سُن لی انہوں نے ابوبکرؓ کی۔ کافی اونچی بولے ہیں چیخ کے۔ کہ مارے گئے ہم تو پکڑے گئے! کہتے ہیں یہ حال ہے ابوبکرؓ کا۔ یہ ساتھی چنا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکن آگے سنئے !
Got frightened and began to cry aloud saying that they were lost. The Holy Prophet had to console him saying.لاتحزن ان اللہ معنا fear not God is with usپھرکہتے ہیں A bu Bakr is being mentioned as one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprose here is that he was not included as a recipient of tranguility from God while in the other places where Holy Quran mentions the transquillity of God includes the belivers along with the Holy Prophetؐ.
It is obvious that those of the belivers are meant who use to remain with the Holy Prophetؐ even in the worst of the circumstances calm and undistubed in the fighting for the cause of God and well coming or longing to be martyred for it.
یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا تعالیٰ نے اس تسکین میں شامل نہیں فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری۔ اس سے پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابوبکرؓ ان میں سے نہیں تھا اور باہر کا تھا۔ اور جو آیت خود quote کرچکے ہیں وہ عمداً بھُلا رہے ہیں۔
حضرت موسیٰؑ نے تو یہ کہا تھا کہ ان معی ربی سیھدین کہ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضرور ہدایت دے گا۔وہ باقی نہیں بچائے گئے تھے؟ نبی جب اپنے متعلق ایک کلام کرتا ہے تو اس کے ساتھ شامل سب لوگ اس برکت سے فائدہ اٹھانے والے ہوتے ہیں اور یہ طرز کلام یہ بتاتی ہے کہ اصل برکت اس کی ہے اور اس وجود کے فیض سے دوسرے بھی حصہ پائیں گے تو یہ بات بھول گئے قرآن کریم کا استعمال کہ حضرت موسیٰؐ جب فرعون کی قوم کے پیچھے سے بچتے ہوئے پیچھا کرتی ہوئی قوم سے بچتے ہوئے جب Fiord میں داخل ہوئے ہیں تو اس وقت جب قوم نے بے قراری کا اظہار کیا۔ جب دیکھا پیچھے سے فرعون کا لشکر داخل ہورہا ہے تو حضرت موسیٰؑ نے یہ جواب دیا ۔ میرے رب میرے ساتھ ہے اور مجھے ضرور صحیح رستے کی ہدایت دے گا۔تو اس میں وہ سارے شامل تھے لیکن برکت موسیٰ علیہ السلام کی تھی۔ اس لئے تسکین رسول پر اتاری تو اس کا مطلب ہے کہ رسول کی برکت سے ابوبکر کو تسکین ملی ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔لاتحزن ان اللہ معنا تو معلوم ہوتا ہے وہ تسکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوچکی تھی۔ یہ مضمون ہے۔ ابوبکرؓ نے بے چینی کا اظہار فرمایا ہے۔ اللہ نے تسکین کی خوشخبری دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ لاتحزن ان اللہ معنا‘‘
لیکن ’’معنا‘‘ فرمایا ہے معی نہیں فرمایا۔ موسیٰؑ کی طرح یہ نہیں کہا کہ میرا رب میرے ساتھ ہے۔ فرمایا۔ ہمارے ساتھ ہے۔ تو جس کا ساتھ ہمیشہ ہمیش کیلئے خدا تعالیٰ نے محمدؐ رسول اللہ کے ساتھ کردیا ہے۔ یہ شیعہ اس کو کاٹ کر الگ کیسے کرسکتے ہیں؟ قیامت تک یہ آیت ان کے جھوٹ پر گواہ کھڑی رہے گی!یہ کہیں گے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ نہیں تھے یہ آیت کہے گی۔لا تحزن ان اللہ معنا‘‘محمد رسول اللہ ﷺفرما رہے تھے کہ ہر گز غم نہ کر۔اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اول طور پر شامل ہیں متکلم کے صیغے میں۔
ہاں ! یہ چیک کرلیا ہے ۔ کہتے ہیں یہ میراحمد علی صاحب ہی نے لکھا ہے۔ ہم نے دوبارہ تحقیق کرلی ہے۔ یہ جو یہاں تحقیق کیلئے تیار کئے ہیں لڑکوں اور لڑکیوں کے تو میر احمد علی کے پیچھے لڑکیوں کو ڈالا ہوا ہے کہ میں نے کہا یہ ان کا کھوج نکالیں۔ تو وہ بچی جو تحقیق کررہی ہے وہ لکھتی ہے کہ میںنے دوبارہ چیک کیا ہے۔ "2nd Caliph" یہ میری غلطی نہیں ہے تحریر کی بلکہ میر احمد علی ہی کا فقرہ ہے۔ اب وہ کیوں لکھتا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے بس کی بات تو نہیں۔اچھا : کہتا ہے۔
‏Abu Bakr is being mentioned as one one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprise here is that he was not included as a recipient of tranquillity from God while in the other places جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں پہلے۔ آگے کہتا ہے اول تو یہ کہ Surprise کیسی ؟ تم تو ہر وقت تاک میں بیٹھے رہتے ہو کہ حضرت ابوبکرؓ کے خلاف کوئی چیز ملے تو Surprise کا ذکر کر دیا یہ بھی جھوٹ ہے۔ جہاں Surprise ملنی چاہئے وہ بات نوٹ ہی نہیں کی کہ ان اللہ معناSurprise والی وہ جگہ تھی۔ جہاں خدا نے تمہیں Surprise دی۔ وہ تم نے نظر انداز کردی۔یہاں Surprise کی بات نہیں ہے ایک طرز کلام ہے جیسا کہ موسی نے بھی کی تھی اور مراد یہ ہے کہ اس برکت میں سارے ساتھی شامل ہونگے۔ وہاں تمہیں۔ Surprise مل جاتی ہے۔
کہتے ہیں۔
ٍ کہتا ہے وہ جنہوں نے desert کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کی معیت کی خوشخبری میں ہر گز شامل نہیں کئے جائیں گے۔
though for accepting the honour abu Bakr had, in being the only occupant in the cave with the Holy Prophet he had not the honour of having the tranquillity, while Ali on that event full night sleeping in the Holy Prophet's bed had the same tranquillity which the Holy Prophet had in the cave which was appriciated and honoured by God in Chapter 2,195.
وہاں حضرت علیؓ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ یعنی اس تمام ہجرت کے دور میں جو خدا تعالیٰ قابل ذکر واقعہ بیان فرماتا ہے جو نام لیتا ہے وہ صرف ایک صحابی کا ہے۔ حضرت ابوبکرؓکا۔ عمومی Tranquillity کی ایک آیت ہے۔ جس میں سارے مومن ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ اس کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے وہاں علیؓ کا ذکر فرمایا تھا۔ اپنی طرف سے جو مرضی کہتے پھرو !جو موقع تھا وہاں تو نہیں فرمایا۔ابوبکرؓ کا نام لے دیا تھا علیؓ کا بھی ساتھ نام لے دیتا کیا فرق پڑنا تھا؟لیکن اس واقعہ کا اشارہ بھی نہیں فرماتا کہ خدا کا رسول پیچھے کس کو چھوڑ کے آیا تھا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین کے ساتھ حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑا تھا کہ ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے ان لوگوں کو اور ان سے کسی قسم کا تعارض نہیں کریں گے۔ مگر یہ کہتا ہے کہ اُس آیت میں ذکر ہے۔ وہ آیت کونسی ہے؟نکالیں جی وہ آیت 2-195وہاں حضرت علی کا کیا ذکر ہے
سورۃ بقرہ کی آیت 194 میں ہے۔وقاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ ۔حضرت علی کا یہ ذکر ہے کہ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ مطلب سمجھ آگئی ؟اکثر کو مطلب نہیں شاید پتہ لگا !
اس آیت میں لکھا ہے اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک یہ جبر کا فتنہ ختم نہ ہو۔ یہ جو دین میں مداخلت کررہے ہیں۔ تمہارے خلاف تلوار اٹھا رہے ہیں۔ جب تک یہ ختم نہ ہو۔ویکون الدین للہاور دن خالصتاً اللہ کی خاطر رہ جائے۔کسی انسان کے جبر یا اس کے خوش کرنے یا اس کے خوف کے نتیجے میں دین پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔ یہ وہ آیت ہے۔ 194لیکن آگے ہے اگلی 195 194- اس لئے لی ہے میں نے وہ بھی ساتھ شامل کر لی ہے کہ چونکہ ہم ’’بسم اللہ‘‘ کو شمار کرتے ہیں اس لئے ہوسکتا ہے انہوں نے 195 کو 194 لکھ دیا ہو۔ لیکن دراصل 195 آیت پیش نظر ہے۔195 میں لکھا ہوا ہے جہاں حضرت علی ؓ کا ذکر ملتا ہے ان کے نزدیک الشھر الحرام بالشھر الحرام و الحرمات قصاصکہ جو پاک مہینے ہیں عزت والے جن میںخون خرابہ وغیرہ حرام قرار دے دیا گیا ہے ان کی اگر یہ بے حرمتی کریں گے تو پاک مہینوں میں تم بھی ویسے اقدام کرسکتے ہو۔ شھر حرام کی بے حرمتی کے نتیجے میں تم ان سے ویسا ہی بدلہ شہر حرام میں لے سکتے ہو۔ والحرمات قصاص : اور اس طرح حرمات قصاص کا مضمون حاصل کرلیتے ہیں۔ قصاص سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک قوم نے کسی قوم کا ایک آدمی مار دیا اور قتل کرنے والا پکڑا نہ گیا۔ اس طرح کوئی قوم جو کسی رستے پر قابض ہو آدمی مارتی چلی جائے گی۔ اس کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی۔تو قصاص کہا جاتا ہے ایسے طریق کو جس میں ذمہ داری قوم پر ڈالی جاتی ہے جیسا کہ انگریزوں نے یہاں آزاد قبائل میں اسی قسم کا قصاص جاری کیا تھا اور انہوں نے رستے کے امن کا ان سے وعدہ کیا ہوا تھا۔ پس کابل جاتے ہوئے افغانستان جاتے ہوئے جو انگریزی عملداری سے لوگ اُس غیر علاقے سے گزرتے تھے اگر وہاں کسی کو نقصان پہنچے کوئی مارا جائے تو اس کا تاوان اس پر ڈالا جاتا تھا۔ یہ ہے قصاص۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حرمات کی حفاطت کی خاطر قصاص ضروری ہے۔ اگرچہ حرمات کی حفاظت ‘مہینوں کی عزت اور قیام کی خاطرتم ان مہینوںمیں لڑو تو بظاہر عجیب بات لگتی ہے۔ مگر ان کو سمجھانے کی خاطر کہ اگر ان مہینوں سے Surprise کا فائدہ اٹھا کر تم اچانک ہم پر حملے کرسکتے ہو تو ہم بھی انہی مہینوں میں تمہیں ویسا ہی مزہ چکھا سکتے ہیں۔یہ مراد ہے۔فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہجو بھی تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو مگربمثل ما اعتدیٰ علیکم انصاف سے کام لینا۔ اتنی ہی کرو جتنی تم پر کی گئی ہے۔واتقو اللہ واعلموا ان اللہ مع المتقیناور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ تقویٰ کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔اور اگلی سن لیجییو انفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ و احسنوا ان اللہ یحب المحسنین Oاور خدا کی راہ میں جو کچھ خدا نے عطا فرمایا ہے خرچ کرو۔ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔واحسنوا : احسان کا سلوک کروان اللہ یحب المحسنین یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
کہتے ہیں دیکھ لو کتنا واضح ذکر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا۔ وہاں لیٹے ہوئے تھے اور بڑی قربانی دی۔ اور ابوبکرؓ کے ذکر میں تو اس کو رد کردیا ناں کہ اس پر سکینت نہیں اتاری۔ اور قرآن کہتاہے بالکل واضح لکھا ہوا ہے کہ حضرت علیؓ بڑی سکینت کے ساتھ وہاں آرام سے لیٹے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سکینت اتاری گئی وہ آپؓ پر بھی اتاری جارہی تھی۔عجیب بات ہے اس کو کیا کوئی کہے گا؟کیسے حضرت علیؓ کا ذکر ہوا اس میں اور کسی طرح انہوں نے مطلب نکالا اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس بحث کو میرا خیال ہے طول دیئے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہوں میں یہاں۔
پھر میر احمد علی صاحب آخر فرماتے ہیں۔
But what a pitty that such unsurpassed merits of Ali the praise of which even providence thank of no awail to the message of the muslims in guiding them to the right man for them, to follow after the departure of the Holy Prophet Muhammad and the ignorant world refer to Ali, those who have not the courage or the faith to stand by the Holy Prophet in the Prime timeof the battle fought for the faith and fled to their own lieve leaving the Holy Prophet amidst his blood thirsty enemies, and Ali.
کہتا ہے کتنا جاہل ہے زمانہ۔ اتنی کھلی کھلی نصیحتیں قرآن نے فرمائیں۔ سب کچھ سمجھا دیا مگر سارے کے سارے مسلمان بلا استثناء انہی کوخلیفہ بنا بیٹھے جن کے خلاف خدا تعالیٰ نے گواہی دی تھی کہ نعوذ باللہ یہ جہنمی لوگ ہیں ایسا نہ کرنا۔اور ایک علیؓ جس کے حق میں سب گواہیاں تھیں کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو بچا ہو۔ اور یہاں جوش میں آکر اہل بیت جن کو وہ خود معصوم مانتے ہیں ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ صرف علیؓ کا ذکر ہے۔ اس کی خاطر کائنات بنی تھی۔ اس کو چھوڑ دیا اور ان کو خلیفہ بنالیا جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے۔ یہ تو جہنمی لوگ ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور انہوں نے بڑے سخت ظلم کمائے ہوئے ہیں۔ ان کے قریب نہ جانا اس کو چُننا۔ اس کو چھوڑ دیا۔
اب سوال یہ ہے آخری بات جو اس سلسلے میں۔ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں کہ پہلے میں نے آپ سے بیان کیا تھا کہ کوئی ایسا مضمون جو ایک ثابت شدہ حقیقت کے خلاف ہو وہ اگر قرآن سے توڑ مروڑ کر نکالنے کی کوشش کی جائے یا حدیثوں سے نکالنے کی کوشش کی جائے قابل رد ہے۔ مثلاً قرآن سے کوئی اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ توحید غلط ہے اور شرک درست ہے جیسا کہ بعض بدبخت قرآن سے شرک بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ ایک مجلس میں… نے مجھے کہا کہ تم کیا بات کر رہے ہو قران میں تو اللہ تعالی !بہاء اللہ کے متعلق جب میں نے کہا کہ دیکھو یہ تو شرک ہے۔ تم کہتے ہو کہ بہاء اللہ مجسم خدا تھا تو کہتا ہے کہ دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہ
وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی انما یبایعون اللہ‘‘دوسری جگہ آتا ہے۔
تو وہی شرک ہے۔ حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز اشارۃًبھی یہ دعویٰ نہیں فرمایا جو اس بدنصیب کے حصے میں آیا بہاء اللہ کے حصہ میں ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ میں قبول ہی نہیں کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہورہی ہے کہتا ہے میں خدا جو ہوں میں جو بول رہا ہوں تمہارے اندر بیٹھا ہوا اور یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے کہا لفظاً لفظاً خدا کا کلام تھا۔ یہاں تک وہ خدا بنایا گیا کہ کہتے ہیں جب قبلہ پوچھا گیا۔ قبلہ کونسا ہے؟ تو بہاء اللہ کہتا ہے : میں قبلہ ہوں۔ جہاں جہاں میں جائوں وہاں وہاں اس طرف منہ کرلیا کرو۔ اور اس لئے زندگی بھر جہاں جہاں بہاء اللہ مارا مارا پھرتا رہا وہ قبلہ اس طرف مڑتا رہا اور یہ بھی مانتے ہیں وہ بیوی کے پاس بھی گیا بچے بھی پیداکئے۔ اجابت کیلئے غسل خانے میں بھی جایا کرتا تھا۔ تو بے چارے اُن مومنین کا قبلہ کدھر کدھر رسوا ہوا ہے؟کیا کیا رخ اختیار کرتا رہا؟اللہ رحم کرے ان عقل سے عاری لوگو ںپر۔ پھر جب مر گیا تو اس قبر کو قبلہ بنالیا۔ یعنی خدا قبلہ نہیں خدا کی قبر قبلہ ہے۔اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا۔ اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے؟
یہ ایک اور اصلاح آگئی ہے کہتے ہیں نقطہ وہ بھی نہیں تھا نقطہ باب تھا علی محمد باب ۔لیکن اس نقطے کو چھوڑیں جس نکتے میں ہم لگے ہوئے ہیں وہ زیادہ اہم ہے
ہاںتو یہ جو شرک ہے اس کو قرآن سے ثابت کرنا بالکل جہالت ہے۔ ظاہر ہے اس کو ہر معقول آدمی رد کردیگا۔ معمولی عقل والا بھی پھینک دے گا ایک طرف۔ محمد رسول اللہ ﷺکی طرف کوئی ظالمانہ بددیانتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی ثابت کرچکا ہوں۔ جس کا کردار اس کو دھکے دے رہا ہے۔ کوئی توڑ مروڑ آپ کا عقلی نکتوں کا اس کو قابل قبول بنا سکتا ہی نہیں ہے۔ جتنی مرضی آیتیں پڑھ جائیں۔ جتنی مرضی حدیثیں پڑھ جائیں۔ کردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکرا کر وہ تمہارے غلط معنے پار ہ پارہ ہوکر گر پڑیں گے۔ کوئی ان کی حیثیت نہیں رہتی۔ حضرت علیؓ کا کردار میں نے پیش کیا تھا۔ ایک کردار علیؓ ہے اس کی طرف ایسی منافقت منسوب کرنا کہ نعوذ باللہ من ذالک سب سے پہلے شیطان نے بیعت کی تھی اور پھر اس کے کچھ عرصہ بعد اُس نے بھی اُسی شخص کی بیعت کرلی جو منافقوں کا سرادر تھا اور مسلسل ایک کے بعد دوسری مرتبہ یہ غلطی کرتا چلا گیا۔ جو نفاق سے پاک تھا وہ نفاق کا بیج بونے والا بن گیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے عقیدے میں داخل کردیا کہ نفاق عین ثواب ہے اور مجبوری کی خاطر جھوٹ بولنا جائز بلکہ ضروری ہے اور اس کے بڑے بڑے مراتب بیان ہوئے ہیں۔ کسی وقت اگر موقع ملا آئندہ تو آپ کو بتائوں گا تقیہ کے جو مراتب ہیں بعض جگہ تو ایسے عظیم الشان مراتب ہیں کہ عمر بھر کی نیکیاں اور حج اور دعائیں ایک طرف اور دشمن کے خوف سے جھوٹ بول دینا اس کے مقابل پر۔ میں اس سے پہلے بتا چکاہوں دین کے 9 حصے اس جھوٹ میں ہے اور ایک حصہ باقی سارا دین ہے۔ اس لئے اس کو جو مرضی کر لیںجہاں سے مرضی آیتیں توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطلب نکالیں کوئی انسان بھی جس میں ادنیٰ بھی شائبہ عقل کا ہے۔ علی ؓ کے کردار کے خلاف اس پر الزام لگانے والوں کی بات کو قبول نہیں کرسکتا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے کردار کے خلاف اب دیکھئے یہ جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا بنتی ہیں !ہم بڑے فخر کے ساتھ اور شیعہ اس میں شامل ہیں۔ تمام دنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں میں ایسے نبی آئے جو زمانی بھی تھے اور قومی بھی تھے اور ایک نبی آخر پیدا ہوا جو تمام جہان کیلئے رحمت تھا۔ یہ ہے شان مصطفویؐ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا بنیادی نکتہ یہ ہے۔ اور قرآن کریم فرماتا ہے۔لا شرقیۃ ولا غربیۃعظیم الشان نبی تھا۔ اس کا رحم اس کا فیض نہ مشرق کیلئے رہا نہ مغرب کیلئے۔ سب جہان کیلئے جیسے سورج برابر چمکتا ہے اس طرح اس کا فیض تمام جہانوں پر برابر چمکتا رہا۔پہلے نبی کیا تھے جو محدود وقت کیلئے آئے۔ محدود وقت کیلئے آئے ہونگے محدود قوموں کیلئے ! مگر محض اپنے خاندان کیلئے نہیں آئے تھے۔ ان کے ہاں رحمتہ اللعالمین کا تصور یہ ہے کہ یہ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ جو تمام جہانوں کیلئے رحمت تھا۔ آج تک کبھی دنیا کے کسی نبی نے منافقوں کی اتنی بڑی جماعت پیچھے نہیں چھوڑی جتنی اس شخص نے چھوڑی ! یہ حاصل میر احمد علی صاحب اور Pooya صاحب کا۔
کہتے ہیں دیکھو کس شان کا نبی آیا ہے۔ سارے جہانوں کیلئے رحمت لیکن کر کیا گیا ؟ ایک علیؓ کے سوا اور چند دوسرے اُس کے عزیزوں کے سوا سارے جہانوں کیلئے منافقین کی ایک جماعت تیار کر گیا۔ اور سارے کے سارے جہنمی !یہ جہنم پیدا کرنے کیلئے نبی آیا تھا؟اس کو رحمتہ للعالمین کہتے ہو؟اور یہ رحمت ایسی ہے جو سارے جہانوں کیلئے عام لیکن اپنے ایمان لانے والو ںکو بھی حصہ نہیں لینے دیا۔ ان سے بھی چھین لی۔ اور کہایہ ’’رحمۃ اللعالمین‘‘کا مطلب ہے صرف میرے بچوں کے لئے عزیزوں کیلئے صرف میرے بچوں کیلئے اور میرے داماد کیلئے خاص ہے۔ باقیوں کو نہیں دینی۔ یہ ہے ان کا رحمتہ للعالمین کا تصور !تو اب بتائیں قرآن محمد رسول اللہ کے جس کردار کو پیش کرتا ہے ۔اس کردار کُشی کیلئے جتنے چاہیں بہانے بنالیں۔ ہزار آیتیں اکٹھی کردیں لیکن محمد رسول اللہ ؐ کی ذات ان معنوں کو رد کریگی اور دھتکار دے گی۔ اور ان معنوں کے پیش کرنے والوں کو مردود قرار دے گی۔ پس محمد رسول اللہ رحمتہ للعالمین ہی تھے۔ آپؐ نے جتنے پاک لوگوں کی جماعت پیچھے چھوڑی ہے۔ ایسی کبھی کسی نبی نے ایسی پاک جماعت نہیں چھوڑی۔ اور قرآن جگہ جگہ ان کے حق میں گواہیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک کے بعد دوسری آیت بتاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور فدائی خالص تھے اور پاک لوگ تھے اور مومنین کی تعریف کثرت کے ساتھ قرآن کریم میں ملتی ہے۔
ان سب آیتوں سے منہ موڑ کے یہ آپ کو یہ یقین دلانے کی کوسش کرتے ہیں۔کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے چار آدمیوں کیلئے تھے۔ اور اگلی آیت میں جب اس کی بحث آئے گی پھر میں آپ کو بتائوں گا کہ اس کے حق میں جو دلیلیں دیتے ہیں اس کا کیا جوا ب ہے۔ صرف یہ دلیل نہیں جو میں پیش کررہا ہوں کہ کردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دلیلوں کو توڑ کر پارہ پارہ کررہا ہے۔ قرآن سے بھی میں ایسی قطعی دلیلیںان کے خلاف میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور احادیث سے اور تاریخ سے اور عقل سے کہ ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔یہ ذوالفقار علی ؓ کی بات کرتے ہیں۔
آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھوں میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا!! جس طرف سے آئیں۔ جس بھیس میںآئیں ان کے مقدار میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے!!!
کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں آج یہ ذمہ داری مسیح موعود ؑ کی غلامی میں میرے سپرد ہے۔ اس لئے جب تک میںحق ادا نہ کروں ان آیات پہ ٹھہرا رہوں گا۔ یہاں تک کہ آپ پر اور سب پر ‘ ہر ذی عقل پر ثابت ہوجائیگا کہ یہ جھوٹے عقیدے ہیں ان کا قرآن اور حدیث اور تاریخ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 17 رمضان المبارک
28 فروری 1994ء
لقد من اللہ علی المومنین ………اللہ ولیعلم المومنین O(ال عمران 165تا167)
یہ تین آیات جنکی میں نے تلاوت کی ہے ۔شاید آج پہلی آیت پر گفتگو ختم ہو جائے مگراحتیاطاً میں نے دو آیات کو بھی شامل کر لیا ہے۔ لقد من اللّہ علی المومنین یقینا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت احسان فرمایا ہے اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم جب اس نے انہیں میں سے ایک رسول بنا کر بھیجا جو ان پر اس کی یعنی اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ اور انہیں پاک کردیتا ہے اور ان کی تمام خوبیوں کو نشوونما عطا کرتا ہے اور انہیں کتاب سکھاتا ہے اور حکمت بھی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ تو پھرکیاجب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے گی اور ایسی مصیبت جو اس سے پہلے تم دوسروںپر ڈال بھی چکے ہو۔یعنی ایسی تکلیف جو اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا۔ تم کہتے رہو گے کہ یہ کیوں ایسا ہوا ؟مراد یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر جتنا نقصان مسلمانوں کے ہاتھوں کفار مکہ کو ہوا تھا تقریباً اسی قدر نقصان جنگ احد میں فتح کے بعدجب تبدیلی واقع ہوئی تواس وقت صحابہ کو پہنچا۔ مراد یہ ہے کہ اس سے پہلے تم خود بھاری نقصان دوسروں کو پہنچا چکے ہو۔ جب اپنے آپ کو پہنچا تو تم نے کہا یہ کہاں سے آگیا۔ اس کا جواب یہ ہے قص ہو من عند انفسکم یہ تمھاری طرف سے تھا ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر لیکن اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو نہ نقصان پہنچتا۔ اللہ چاہتا تو اس تقدیر کو بدل دیتا۔ مگر اس میں کچھ حکمت تھی جس کی وجہ سے ایسا ہونے دیا گیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین۔ اور جو نقصان تمہیں اس وقت پہنچا جب کہ دو گروہوں میں تصادم ہوا تو اللہ کے حکم سے تھا ولیعلم المومنین اور تاکہ مومن حقیقت حال کو جان لیں (نقل مطابق اصل) اب بظاہر ان دو باتوں میں‘ اول اور دوسری آیت کے دعاوی میں ایک تضاد ہے اسے دور کرنے کے لئے بیچ میں میں نے ایک چھوٹی سی بات داخل کی تھی جس کے کوئی تضاد نظر نہیں آتا اور نہ ہے۔ تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی دکھائی دینے والا تضاد یہ ہے کہ قُل ھومن عندانفسکم تو کہہ دے کہ یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے۔ جو بھی تمہیں نقصان پہنچا تم ذمہ دار ہو۔ اور اگلی آیت کہتی ہے کہ اللہ نے اجازت دی تھی۔ اللہ کے حکم سے ایسا ہواہے تو پھر من عندانفسکم اور باذن اللہ میں جو بظاہر ایک تصادم دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ بیچ میں جو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹا سا آیت کا ٹکڑا رکھ دیا۔ ان اللہ علی کل شئی قدیر اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمہاری غلطیوں کے باوجود تمہیں نقصان نہ پہنچتا۔ مگر کسی حکمت کے پیش نظرخدا نے ایسا ہونے دیا۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہونے دیا پس اسے اللہ ٰ کی طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جہاں تک نقصان اور تکلیف کا پہلو ہے‘ اس کے تم خود ذمہ دار ہو۔جہاں تک اس میں مخفی حکمتوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کسی خاص حکمت کے پیش نظر ایسا ہونے دیا۔ اور تم جان لو گے ولیعلم المومنین مومنوں پر وہ حکمت ظاہر ہوجائیگی۔ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں جو بعد میں ظاہر ہونگے۔یہ ہیں وہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی۔ اب میں اول آیت سے شروع کرکے تفسیر شروع کرتا ہوں۔ من اللہ علی المومنین۔ من کہتے ہیںانعام کو اور احسان کو بھی۔ عدلہ مافعلہ۔ اور بدلہ دینے کو بھی من کہتے ہیں۔یہ اقرب الموارد میں ہے۔ یہاں جو لفظ من ہے یہ عام طور پر تو محض‘ جیسا کہ میں نے بیان کیا انعام کے طور پر یا احسان کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اھل لغت یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسا احسان جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔ اس میں کسی رشتے کا کوئی دخل نہ ہو۔ کسی عصبیت کا کوئی دخل نہ ہو۔ تعصب ان معنوں میں نہیں کہ کسی کے خلاف بغض ہو۔ بلکہ تعصب یہاں ان معنوں میں ہے کہ کسی رشتے داری کے لحاظ کی وجہ سے احسان ہو۔ یہ نہیں ہے بلکہ خالص احسان جو ہر قسم کے دوسرے تعلق سے آزاد ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے لفظ من کو انہیں معنوں م میں استعمال فرمایا ہے۔ ولا تمنن تستکثر۔ کہ ہر گز اس نیت سے احسان نہ کیا کرو کہ تم اپنے مال بڑھالو اس کے نتیجے میں۔ یا جس پر احسان کررہے ہو۔ اس سے فائدہ اٹھا کر خدمتیں لو اور اپنی قوت کو بڑھاؤ تو من میں ہر قسم کا دوسرا تصور ممنوع ہے احسان کے تصور کے سوا وہ ایک ہے جو من کو من رہنے دیتا ہے۔ باقی سب جگہ مٹ جاتا ہے۔ چنانچہ من کا لفظ قرآن کریم میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے۔ مختلف احتمالی صورتوں کی نفی کرتا ہے۔ اس لئے نہیںمن کرنا‘ اس لئے نہیںمن کرنا۔ اس لئے نہیں کرنا اسی لئے نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ کہتے ہیںکہ ہم اسلام لے آئے‘ احسان جتاتے ہیں تو ان سے کہہ لاتمنوا علی اسلامکم تم ہم پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کیونکہ یہ اللہ کا احسان ہے تم پر اور وہ بغیر کسی اجرت کے بغیر کسی رشتہ داری قرابت کے خدا نے احسان فرمایا ہے۔ اس لئے یکطرفہ احسان کا رخ ہماری طرف سے تمہاری طرف ہے۔ یہ تم آگے سے کیا کہہ رہے ہو اپنے اسلام کا احسان ........
یہ من کا پہلو ۔ آگے ہے لفظ یزکی۔ یزکی بھی قابل توجہ لفظ ہے زکا۔ زکی یزکی وغیرہ وغیرہ اس میں جو مختلف معانی اہل لغت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔ عمدہ نشوونما پاتا۔ زکا میں عمدہ نشوونما شامل ہے اور اسی طرح وہ پھل جو تیار ہوجائے اس کا وہ رس جو نچوڑ کر پیا جاتا ہے۔ اس کا بہترین حصہ جو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کے نکالنے کو بھی لفظ یزکی سے ظاہر کرتے ہیں۔ ارض زکیہ طیبتہ یعنی پاکیزہ زرخیز زمین۔زکی کا مطلب یہ ہوگا اصلح اس کو درست کردیا اصلاح فرمائی۔ منجد میں اس کا معنی ہے ۔ بڑھنا‘ زیادہ ہونا‘ بڑھانا‘ پاک کرنا‘ اصلاح کرنا۔ پس یہاں یہ مطلب ہوگا کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا۔ مومنوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا جبکہ ان میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو انہیں میں سے ہے۔ یتلو علیھم ایتہ یزکیھم وہ اللہ کی آیات کی ان پر تلاوت فرماتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے۔ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ ان کی نشوونما کا موجب بنتا ہے اور ہر قسم کی برکات ان کو عطا کرتا ہے۔ جس سے ان کی اعلیٰ صلاحیتیں بڑھیں اور نشوونما پاجائیں۔ کیونکہ لفظ ذکیٰ غلط چیزوں کی نشوونما کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ جب کھیتی اور پھلوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو مراد ہے کہ ان کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوکر ابھر آئیں اور ان کو قوت ملے۔ ویعلمھم الکتاب و الحکمۃ یہاں تعلیم کتاب اور حکمت کا بیان ہے۔ یہ بارہا گفتگو ہوچکی ہے۔ اس کی لغت میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جب آیات نازل ہوں تو ان کا تین طرح سے اُن لوگوں سے تعلق ہے۔ جن کی خاطر ‘ جن کی اصلاح کیلئے آیات کا نزول ہوتا ہے۔ پہلا جو مقصد ہے وہ اس قوم کی اصلاح ہے اور دوسرا مقصد اس کی تعلیم ہے اور تیسرا مقصد تعلیم کی حکمتیں بیان کرنا یعنی مذہب کا فلسفہ ان کے سامنے رکھنا اور تعلیم کے ہر پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالنا کہ اس کا یہ مقصد ہے۔ محض اس لئے نہ مانو کہ خدا کا حکم ہے بلکہ اس یقین کے ساتھ مانو کہ اللہ کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اور جہاں جہاں تمھیں اس معاملے میں تمہاری اپنی عقل کی رسائی نہیں یہ رسول وہ حکمت کی باتیں تمہارے سامنے کھول کر بیان کرے گا اور تمہیں کامل یقین ہوجائے گا کہ یہ ایک حکمت والے خدا کا کلام تھا جو رسول پر نازل ہوا۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی یا جہالت کی حالت میں تھے۔ یہ مضمون جو تزکیہ کا ہے یہ علم کتاب اور حکمت کتاب سے پہلے رکھ دیا گیا ہے اور یہ بات بارہا میں پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور یہاں خصوصیت سے اس کا دہرانا اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ تھوڑی دیر بعد جب مختلف مفسرین کی تفسیریں آپ کے سامنے آئیں گی تو پتہ لگے گا کہ یہاں وہ حکمت کیا ہے جس کی وجہ سے تزکیہ کو پہلے رکھا گیا ہے اور باقی باتو ںکو بعد میں۔ اور بہت سی غلط تفسیریں اس کی روشنی میں خود اپنے آپ کو اپنی کمزوری کو طاہر کردیں گی یعنی قرآن کریم کی طرف ایک ایسی بات منسوب کرنے کی کوشش کی جائے گی‘میں دکھائوں گاآپ کو جو قرآن کا مقصود نہیں ہے اور یہاں جب اچھی طرح آپ اس آیت کو سمجھ لیں گے تو ذہنی طور پر ان غلط تفسیرات کو رد کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ خاص طور پر قابل توجہ امر یہاں یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بہت قبل حضرت ابراہیم کے زمانے میں آپ کی بعثت کا سب سے پہلے ذکر واضح طور پر قرآن میں ملتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکے کو آباد کرنے کا آغاز کیا یعنی بیت اللہ کے گرد تعمیر شروع کی تو اس وقت اللہ سے ایک دعا کی اور اس دعا کے الفاظ یہ تھے۔
وابعث فیھم رسولاً منھم یاد رکھیں کتنی ملتی جلتی دعا ہے۔وہی الفاظ ہیں۔ اے خدا ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو۔ یتلو ا علیھم ایتہ وہ تیری ان پر ’’اٰیاتک‘‘یہاں مخاطب اللہ تعالیٰ ہے آیات کی تلاوت کرے۔ اب یزکیھم یہاں سے غائب ہے۔اس دعا میں یزکی کے ذکر کے بغیر یہ بات شروع ہوتی ہے۔ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اور وہ انہیں تلاوت کے بعد کتاب سکھائے یعنی کتاب کا علم دے اور پھر ان کی حکمتیں بھی سمجھائے ویزکیھم اور پھر ان کا تزکیہ کرے۔ یہ نہ صرف انسانی سوچ کے مطابق دعا ہے بلکہ ایک انتہائی سلجھی ہوئی نبی کی سوچ کے مطابق ہے جس نے اپنی عمر بھر کے تجربے میںیہی دیکھا کہ اللہ کی طرف سے جب تعلیم ملتی ہے۔ عطا ہوجاتی ہے پھر نبی اس تعلیم کو عام کرتے ہیں۔ اس کی حکمتیں سکھاتے ہیں تو ساتھ ساتھ تزکیئہ نفس بھی جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے۔ پس انہوں نے تزکیہ کو پہلے نہیں رکھا بلکہ بعد میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں جب یہ بتاتا ہے کہ ہم نے اس دعا کو قبول کرلیا تو اس ترتیب کو بدل دیتا ہے چنانچہ وہ ترتیب جو قرآن کریم میں ملتی ہے۔ سورہ جمعہ میں بھی اور یہاں بھی۔ یہ وہ بدلی ہوئی ترتیب ہے جس کی طرف میں آپ کو پھر متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا یہاں مومنین کی بات تھی وہاں امیین کی بات ہے۔ ان دونوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اس لئے میں وہ آیت پہلے پڑھوں گا پھر دوبارہ اس کی طرف واپس آئوں گا۔ فرمایا ھوالذی فی بعث الامین رسولا وہی اللہ ہے وہی ذات ہے جس نے امیین میں رسول بھیجا۔ امیین سے مراد حقیقت میں تمام دنیا کے جہلاء ہیں جو دینی علوم سے بے بہرہ ہیں اور محض ظاہری تعلیم کی بحث نہیں ہورہی تو فرمایا کہ ایسا وجود آیا ہے جس نے نہ کوئی دینی تعلیم خود حاصل کی نہ ان لوگوں میں آیا جہاں دینی تعلیم کے چرچے تھے بلکہ ایسے لوگوں میں نازل فرمایا جو دینی تعلیم سے بے بہرہ تھے اور یہ خود بھی انہیں میں سے تھا۔ یتلوا علیھم ایتہ اس کی شان دیکھوکہ یہ تلاوت قرآن کرتا ہے جو آیات نازل ہوتی ہیں وہ بیان کرتا ہے اور پھر تعلیم سے پہلے ان کو پاک کرنا شروع کردیتا ہے۔ ویزکیھم۔ پس حضرت ابراہیم والی ترتیب جس ترتیب سے وہ دعا مانگی گئی تھی اسے قبولیت کے وقت تبدیل کرکے اس میں ایک عظیم مضمون داخل کردیا گیا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی بالاتر حقیقت بلند تر حقیقت دکھانے والا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ابراہیم کے علم میں بھی اس دعا کے وقت محمد رسول اللہ ؐ کی شان پوری طرح روشن نہیں تھی۔ اس کو کیا پتہ تھا کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔ اس نے تو ایسا رسول مانگا تھا جو باقی رسولوں کی طرح جیسا کہ ہمیشہ سے دنیا کا تجربہ ہے پہلے تلاوت کرے گا پھر علم دے گا پھر حکمتیں سکھائے گا۔ پھر وہ تعلیم اور حکمت مل کر ان کا تزکیہ کریں گے۔ فرمایا یہ رسول ایسا نہیں ہے۔ اس کا سارا وجود مزکی ہے۔ ایسا پاک کرنے والا انسان ہے کہ اس کی تلاوت کے ساتھ ہی تزکیہ شروع ہوجاتا ہے اور علم و حکمت ان لوگوں پر یہ ظاہر کرتا ہے۔ان لوگوں کو دیتا ہے جو پاک نفس ہوچکے ہیں۔ نفس زکیہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اب کہاں علم و حکمت کا عمل ان فطرتوں پر جن میں کجیاں باقی ہوں‘ جن میں ٹیڑھے پن ہوں۔ جو ابھی پاک نہ بنائے گئے ہوں۔ اور زور لگا کر علم و حکمت کے بل بوتے پر ا نکو پاک کیا جارہا ہو۔ کہاں علم و حکمت ان لوگوں پر اثر دکھاتا ہے جو پاک ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان پر جب علم و حکمت کی بارش ہوتی ہے تو ایک نئی قسم کی نباتات اس سے وجود میں آتی ہے۔ نئی قسم کی نشوونما پانے والی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور یہ مضمون ہے جس کا قرآن کریم کے آغاز سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔تومتقی ہونا پہلے شرط رکھ دی پھر ہدایت ہے۔یعنی یہ مضمون اس مضمون سے بالا ہے جو پہلے دنیا نے نبوت کے تعلق میں دیکھا تھا۔ نبی آتے تھے اور براہ راست اپنی صحبت سے یک دفعہ لوگوں میں پاک تبدیلی نہیں پیدا کیا کرتے تھے بلکہ تعلیم و محنت کے ساتھ رفتہ رفتہ بالآخر ان کو پاک کیا کرتے تھے اور یہ پاک بناتا ہے اور یہاں سے اس کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے اس مدرسے کے اگلے مراحل آئیں گے۔ یعنی ایسا ہی ہے جیسے سکول سے یونیورسٹی کا مضمون شروع ہوجائے ۔ پہلے یہ تزکیہ کرتا ہے اور پاک لوگ ہی ہوتے ہیں جو ہدایت پاسکتے ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جس کو قرآن کریم دوسری جگہ یوں فرماتا ہے۔ لایمسہ الا المطھرون کہ یہ وہ کلام ہے جسے مطھرین کے سوا کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔یعنی ایسا پاک کلام ہے جسے سمجھنے کے لئے مطھر ہونا ضروری ہے تو اگر آیات نازل ہوجائیں اور مطھر نہ بنایا جائے تو علم و حکمت لاکھ بیان کرتے رہو ان کو سمجھ ہی کچھ نہیں آئے گی۔ اور آج کل بھی آپ دیکھ لیں ان لوگوں کے سامنے لاکھ قرآن کریم کی حکمتیں پیش کریں کچھ پلے نہیں پڑتا چکنے گھڑے کی طرح ۔ سارا علم ساری حکمت باہر ہی پڑا رہ جاتا ہے۔ ساری مغربی دنیا کا یہ حال ہے۔ دنیا کے اور بظاہر دانشور کہلانے والے خود مسلمانوں میں ایسے ہیں کہ قرآن کریم کی علم و حکمت سے عملاً بے بہرہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے ساتھ یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ مطھر کے بغیر کسی کو اس کے معانی تک رسائی نہیں ہوگی اور تقویٰ کے بغیر کوئی اس سے ہدایت نہیں پائے گا اور جب تک محمد رسول اللہ سے تزکیہ حاصل نہیں کرتا اس تزکیہ کے بغیر علم و حکمت کے مفاہیم اس کی دسترس سے باہررہیں گے۔
بیان بھی کرتے رہو تب بھی وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پس حضرت ابراہیم ہی کی دعا ہے جسے ان مختلف آیات میں پیش نظر رکھ کر اس میں کچھ ترمیمات فرمائی گئی ہیں۔قبولیت کی ترمیمات ہیں اور یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ بن مانگے دینے والا بھی ہے اور جب دعائیں قبول فرماتا ہے تو یہ طریق ہے اس کی دعا قبولیت کا۔ آپ بعض دفعہ اپنے لئے نسبتاً ادنیٰ چیز مانگ رہے ہوتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو نہیں ملتی آپ کہتے ہیں دیکھو قبول نہیں ہوئی ۔ حالانکہ اللہ کیونکہ بے انتہا احسان کرنے والا اور فضل اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ اگر قبول کرتا ہے تودعائوں کی نوعیت میں پہلے تبدیلی پیدا کرتا ہے ان کو بہتر بنادیتا ہے گویا یہ مانگا گیا تھا۔ اور پھر جو مانگا جانا چاہئے اس کے مطابق عطا کرتا ہے۔ وہاں ذکر تھا امیین کا اور اکثر مفسرین کا ذہن عرب کے امیین کی طرف گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو رحمۃ للعلمین ہو اسے عرب کے امیین سے کیوںباندھ دیا گیا۔ اسکا تو تعلق تمام دنیا کے امیین سے ہونا چاہئے اور اس آیت میں عرب کے امیین کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ منھم آتا ہے۔ تو چونکہ عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے اس لئے طبعی طور پر تمام مفسرین کا ذہن اس طرف گیا کہ یہاں عرب مراد ہیں اور انہی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے حالانکہ قرآن کریم میں عرب لفظ کا اشارہ بھی یہاں نہیں ملتا۔ فرمایا امیین کی طرف آیا امیین ہی میں سے تھا۔ تو امی لفظ تو ساری دنیا کے لئے عام ہے۔ تمام دنیا کے انسان جو دینی علوم سے بے بہرہ ہوں وہ امیین کہلاتے ہیں۔ اب اس آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ روشن اور واضح فرمادیا اور بتادیا کہ امیین سے کوئی قوم مراد نہیں تھی ۔ فرمایا لقد من اللّہ علی المومنین اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے۔ اب مومنین تو عرب عجم کے سب برابر ہیں اور ہر زمانہ کے مومن ایک جیسے ہیں مومن مومن ہی ہے خواہ وہ افریقہ میں پیدا ہو یا انگلستان میں پیدا ہو یا جرمنی میں پیدا ہو یا جاپان میں یا چین میں۔ جہاں مرضی ہو اس کا عرب ہونا تو ضروری نہیں۔ اس لئے مومن کے لفظ نے واضح کردیا کہ حضرت اقدس ،محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں میں سے ہیں وہ کون ہیں۔ ایک تو یہ تخصیص فرمائی کہ امیین سے ہونے کا مطلب متقی امیین ہے غیر متقی مراد نہیں کیونکہ مومنین نے ظاہر کردیا کہ وہ امیین جو ایمان لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلے تو ایمان نہیں لائے تھے پھر ان میں سے کیسے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو وہ ایمان لائے۔ پیغام سنا تو ایمان لائے تو یہاں مومنین Potential کے اعتبار سے مزکور ہے۔ وہ امیین جن میں ایمان لانے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ جن کے اندر یہ استعدادیں تھیں اور یہ سعادت تھی کہ جب بھی وہ حق کی آوازکو سنیں گے تو وہ لبیک کہیں گے ایسے مومنین میں سے محمد رسول اللہ ؐ بھی ہیں۔ چنانچہ اس مضمو ن کو قرآن کریم کی ایک اور آیت مزید تقویت دیتی ہے۔ امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ پہلے رسول ایمان لاتا ہے۔امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ دیکھو یہ رسول اس پر ایمان لے آیا۔ جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اتارا گیا۔ والمومنون پھر مومنین کا سلسلہ شروع ہواہے۔ اول المومنین محمد رسول اللہ ہیں۔ پس یہ مضمون ہے لقد من اللہ علی المومنین۔ مومنین پر کتنا بڑا احسان ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اب یہ رسول ؐ ا ن کی طرف منسوب ہورہا ہے اور یہاں کسی عرب عجم کسی قوم کی طرف کوئی ادنیٰ بھی اشارہ نہیں۔ کسی خاندان کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ عظمتیں ایمان میں ہیں اور ایمان میں اول محمد رسول اللہ ہیں۔ منھم ہونے کے باوجود ان میں افضل ان میں سب سے پہلے ہیں اور باقی علامتیں وہی بیان فرمائیں یعنی ترتیب کو درست فرما کر فرمایا۔ من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ اس کو پہلے رکھ دیاہے۔ ویزکیھم۔ وہ تلاوت کرتا ہے اور پھر تعلیم کا انتظار کئے بغیر اس تلاوت پاک سے اور اپنے وجود کی برکت سے ان کو پاک کردیتا ہے اور پھر ان پاکیزہ نفوس پر جب تعلیم اور حکمت اثر دکھاتے ہیں تو نور علی نور کا منظر پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ الٰہی عرفان کے شربت پیتے ہیں اور ساری دنیا کو پھر الٰہی عرفان کے شربت سے سیراب کرتے اور الٰہی رموز سے ان کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ مضمون ہے و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر اللہ کے پاس سے ہدایت نہ آتی تو دینی علوم وغیرہ سے وہ بے بہرہ تھے۔ یہ آیت اس بات کی بھی نفی کرتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفروں کے دوران شام سے یا کسی اور علاقے سے عیسائیوں سے کچھ تعلیم حاصل کی کچھ یہود مذھب کے متعلق واقفیت حاصل کی اور پھر یہ مذھب گھڑ لیا ۔ یہ ایک جھوٹا الزام مستشرقین کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بالکل جھوٹ ہے۔ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین وہ سارے ایمان لانے والے ‘ محمد رسول اللہ بھی انہیں میں سے تھے‘ اس سے پہلے دینی علوم سے بے بہرہ تھے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیات مکی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں تو عیسائیت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اسی لئے بعض مستشرقین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ مدنی دور میں جاکر جب عیسائیوں سے واسطہ ہوا پھر سیکھا اور اس سے پہلے چونکہ قرآن کریم میں بنیادی طور پر اس تعلیم کا بیج موجود ہے جو مکے میں نازل ہوا تھا جو بعد میں ظاہر ہونے والی تھی اس میں تمام آئندہ کے دعاوی کی بنیادیں ڈالی جاچکی ہیں۔ وہ جب ان کے سامنے آتی ہیں تو پھر بہت بے چینی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دو طرح سے ان کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو ان آیات کو مکی آیات مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں ہو ہی نہیں سکتا۔ چونکہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ نے خود تعلیم دی تھی۔ یہ کتاب بنائی تھی۔اس لئے کہتے ہیں یہ ضرور مدنی آیات ہونگی اور جب ماننا پڑتا ہے‘ جب کوئی چارہ نہیں رہتا تو کہتے ہیں یہ وہی تعلیم ہے جومحمد رسول اللہ نے بچپن کے زمانے میں‘ آغاز جوانی میں وہاں کے سیریا وغیرہ کی طرف شام کی طرف تجارتی دورے کرتے ہوئے وہاں سے سیکھی تھی۔ اول تو ویسی ہی بڑی جاہلانہ بات ہے۔ جو سیکھی تھی اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ کسی سے آکے بات ہی کوئی نہیں کی۔ خاموش رہے ہیں۔ اور پھر جب تک اہل کتاب سے تصادم نہیں ہوا۔ اور ان کی اصلاح براہ راست درپیش نہ ہوئی۔ اس وقت تک قرآن کریم میں تفصیل سے وہ مضامین بیان نہیں ہوئے۔ تو وہ یادداشت میں چھپائے رکھے رہے ہیںاس وقت تک ۔ اور تیرہ سال مکی زندگی میں خاموش رہتے ہیں ان کے نزدیک‘ اور ہمارے نزدیک بھی تفصیل سے بیان نہیں کرتے لیکن بنیادیں اس کی ضرور موجود ہیں۔ تو باشعور طور پر ایک انسان جب کسی دوسرے سے ایک تعلیم سیکھتا ہے اور اس پر اپنی تعلیم کی بناء رکھتا ہے تو وہ آغاز ہی میں بڑی کھل کھل کر باتیں کرتا ہے اور جتنا دور ہٹتا ہے پھر وہ مدھم پڑتا جاتا ہے۔ یہاں الٹ مضمون ہے اور پھر مدنی دور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم نہ حاصل کرنے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہے کہ تیرہ سال سے وہ چیلنج ہوچکا تھا۔ ایک دعویدار یہ دعویٰ کررہا تھا کہ میں خدا سے علم پاکر پھر بیان کرتا ہوں۔ اور اس میں کسی بندے کا کوئی دخل نہیں۔ جب مدینے میں داخل ہوئے ہیں تو اہل کتاب تو آپ کے پہلے ہی دشمن ہوچکے تھے۔ ان سے سیکھتے تھے؟ قرآن کریم تو کہتا ہے لائو اپنی کتاب دیکھو اس میں یہ موجود ہے۔ تم جھوٹ کہتے ہو کہ نہیںہے وہ تو چھپاتے پھرتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بارہا ان کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اللہ نے مجھے خبر دی ہے ۔ یہ موجود ہے۔ جیسا کہ اسرائیل کا اپنے اوپر حرام کردینے والا واقعہ۔ وہاں شاید مجھے کسی نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے غلطی سے بنی اسرائیل کا لفظ بول دیا تھا۔ اصل میں قرآن کریم کی آیت بتاتی ہے کہ تورات کے نزول سے پہلے اسرائیل نے جو کھانے اپنے اوپر حرام خود کئے تھے۔ ممنوع کردیئے تھے وہ کھانے جو تم پر ممنوع رہے اسرائیل کی وجہ سے ۔ یہاں حضرت اسحاق مراد ہیں اسرائیل سے اور بنی اسرائیل نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے میرے منہ سے اس وقت غلطی سے لفظ نبی نکل گیا تھا۔ مگر بہرحال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اسحاق کے متعلق یہ دعویٰ کرنے کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ دیکھو۔ پڑھو اپنی تورات تمہیں ملے گا۔ وہاں یہ مضمون اب محمد رسول اللہ کو کس نے وہاں یہ سکھایا تھا۔ وہ تمام حوالے جو مدنی آیات میں ملتے ہیں ان سے قطعی طور پر اندرونی شہادت بتا رہی ہے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونہ کسی نے سکھایا نہ کوئی سکھانے والا وہاں موجودتھا۔ اور نہ کوئی ایسا سکھانے والا قریب آتا تھا۔ بلکہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ یہودپہلے آپس میں مشورے کیا کرتے تھے کہ یہ بات نہ کرنا اس سے ان کوپتہ لگ جائے گا۔ یہ بات نہ کرنا اس سے وہ یہ سمجھ جائیں گے اور تمہارے رب کے سامنے تم سے جھگڑیں گے بحثیں ہونگی۔ اس لئے بہت احتیاط سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال تیار کیا کرتے تھے کہ اشارہ بھی نہ ہوسکے پھر یہ لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارۃً بھی یہ علم نہ ہو کہ اصل میں بائیبل کیا کہتی ہے۔ بعض دفعہ جب وہ بائبل لاکر پیش کیا کرتے تھے تو بعض حصوں پر ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے اور لفظاً بھی ایسا ہوتا تھا صرف معناً نہیں۔ چنانچہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہاتھ اٹھائو اور اس کے نیچے سے پھر وہی آیت نکلی جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرتی تھی۔ تو ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین میںجیساکہ پہلی آیت میں بالکل واضح ہے ھوا الذی بعث فی الامیین رسولا منھم ۔ امیین میں سے تھا خود بھی امی تھا۔یہ مراد ہے کہ امی ان معنوں میں کہ کسی سے کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور ان امور سے جو دنیا کی دی ہوئی تعریف ہے۔ کلیۃبے بہرہ تھا جس طرح دوسرے سب لوگ تھے۔ اس کے باوجود یہ تلاوت آیات کرتا ہے اور تزکیہ کرتا ہے اور کتاب کا علم سکھاتا ہے اور اس کی حکمت بھی وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین یہ مراد ہے۔پس یہ آیت ہے آج زیر بحث اس سلسلے میں جو متفرق مفسرین نے باتیں کی ہیں ان میں ایک دو بحثیں ایسی ہیں جو قابل توجہ ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ بعث فیھم رسولا من انفسھم سے بعض لوگوں نے یہ مراد لی ہے کہ یہاں اھل مکہ اھل عرب مراد ہیں۔ یہ بالکل غلط اور اس آیت کے منطوق کے بالکل مخالف معنی ہے کیونکہ لقدمن اللہ علی العرب نہیں فرمایانہ عجم۔ فرمایا علی المومنین اور مومن تو سب دنیا میں ایک قدر مشترک سے تعلق رکھنے والی قوم ہیں۔ ایمان اور کسی قومی یا عصبی تعلق کا کوئی دور کا بھی اشارہ لفظ المومنین میں نہیں ملتا۔ پس فرمایا کہ یہ تم مومنین کا آدمی ہے یہ نہ سمجھنا کہ اھل عرب میں سے ہے یا قریش خاندان میں سے ہے یا بنوھاشم کی اولاد میں سے۔ ان سے تعلق نہیں ہے اس کا۔ اس کا ایمانی رشتہ ہے اور ہر مومن سے تعلق ہے المومنون اخوۃ مومن سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک نئی قوم دنیا میں پیدا ہورہی ہے جس کا عصبیتی رشتوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ صرف ایمان کے رشتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک ملت وجود میں آرہی ہے اور محمد رسول اللہ اس ایمانی ملت کے اول ہیں۔ اس کا آغاز کرنے والے اور سب سے افضل۔ دوسری بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ بعض روایات میں انفسھم کی بجائے انفسھم آتا ہے اور یہ سیل نے بھی بیان کیا ہے اور حوالہ دیا ہے بیضاوی کا۔ اب دیکھیں قرآن کریم جو کھلا کھلا ایک مضمون خود پیش فرما رہا ہے اس کی آیات کے ساتھ اس طرح کھیل کرنا کہ کسی کو روایت یہ بھی ملتی ہے یہ درست نہیں ہے۔ بالکل قرآن کریم کے معانی اور مضمون بگاڑنے والی بات ہے۔ اور یہاں تک یہ بات عجیب ہے کہ ویری کہتا ہے کہ میں نے تحقیق کی ہے۔ وہ اسلام کا دشمن ہے وہ بھی مانتا ہے۔ کہتا ہے میں نے خود تحقیق کی ہے اور مجھے ایک بھی نسخہ ایسا کہیں دکھائی نہیں دیا جس میں انفسھم کی بجائے انفسھم بیان کیا گیا ہو یعنی ’’ف‘‘پر پیش کی بجائے زبر ڈالی گئی ہو اگر اسے انفسھم پڑھا جائے تو یہ مطلب بنے گا کہ ان میں سے من انفسھم ایسا رسول بھیجا ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ اعلیٰ لوگوں میں سے ہے اگر تو مومنین کی طرف یہ ضمیر جاتی ہے تو پھر تو مضائقہ کوئی نہیں اگرچہ درست طریق نہیں ہے۔ قرآن کریم کا واضح طور پر جو متن ہمارے سامنے ہے وہی کافی ہے۔ کسی اور چیز کی احتیاج نہیں ہے کیونکہ اس طرح پھر رفتہ رفتہ شکوک کے رستے کھلتے ہیں اور یہ طریق درست نہیں۔ قرآن کریم سے وفاکا تقاضا ہے کہ ان باتوں میں نہ الجھا جائے سوائے اس کے کہ کوئی ایسی روایت ہو جو اس مضمون کو تقویت دیتی ہو جو متن میں موجود ہے۔ ان دو باتوں کا فرق ہے۔ میں ابھی آپ کے سامنے یہ مضمون اس حوالے سے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آ ئندہ جب آپ کے سامنے اس قسم کی الجھنیں آئیں تو ایک واضح کھلے روشن اصول کے تابع اپنے لئے فیصلہ کرسکیں۔ مختلف قسم کی روایات ملتی ہیں جن میں ملتا ہے کہ یہاں پیش کے ساتھ تلاوت متن میںلکھی ہوئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زبر کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں زبر کے ساتھ لکھی گئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زیر کے ساتھ بھی ہے۔ جیسا کہ خاتَم النبیین کے مضمون میں بعض علماء یہ حوالہ دیتے ہیں کہ خاتم کے ساتھ ایک ’’ت‘‘ کی زیر کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ ’’خاتِم‘‘ اور اس پر جماعت احمدیہ نے بھی گفتگو کی ہوئی ہے لیکن اسی حد تک قابل قبول ہونگی یہ روایتیں جس حد تک متن میں ظاہر کئے ہوئے لفظ کے مضمون کو تقویت دیتی ہوں ان سے ٹکراتی نہ ہوں۔ جہاں ٹکرا ئیں گی وہاں یا وہ روایات جھوٹی یا تمہارا استنباط جھوٹا۔ اس واضح اصول کے تابع اب دوبارہ اس آیت کی طرف آتے ہیں تو انفسھم کا صرف یہ ترجمہ جائز ہے کہ مومنین کی طرف اس کی ضمیر جائے اور مراد یہ ہو کہ مومنین میں سے جو بہترین ہیں۔ The noblest among them کیونکہ انفس سے مراد Noble ہیں تو پھر تو کوئی حرج نہیں بے شک اور روایتیں ہوں ہمیںان پہ کوئی اعتراض نہیں مگر اگر اس کا مضمون قابل قبول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں انفسھم سے مراد قریش مکہ ہیں اور ان میں سے بھی Noblest House اب کیسا لغو مضمون بدلا جائے جیسا کہ مفسرین بعض بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی طرح بن جاتا ہے۔ قرآن محمد رسول اللہ کو عصبیتوں سے نکال کر کلیۃً الگ دکھا کر تمام جہانوں کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور ہر زمانے کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور یہ فقط ڈھونڈ رہے ہیں مکے کے ان نعوذ باللہ من ذلک معززین سے جن پر قرآن لعنتیں ڈالتا ہے کہ انہوں نے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچائے‘ ہر طرح کے عذاب مومنین پر وارد کئے اور خدا کی ناراضگی کا موجب بنے۔ قرآن گویا یہ فخر کررہا ہے کہ دیکھو محمد رسول اللہ ؐ ان شرفاء میں سے ہیں پس نہایت جاہلانہ خیال ہے چاہے بزرگ مفسرین نے بھی لکھا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض دفعہ ایک بزرگ سے بھی ایسی کوتاہی ہوجاتی ہے جس سے قرآن پر حرف آتا ہے اوروہ قابل قبول نہیں ہے‘ کسی قیمت پر۔ جو قرآن کو عزت دیتا ہے وہی ہے جو عزت پائے گا۔ پس قطع نظر اس کے کہ کس نے کیا کہا ہے‘ جہاں قرآن کی عظمت اور اس کی طہارت پر حرف آتا ہو وہاں آپ کو وہ معنی قبول کرنے کی کوئی خدا کی طرف سے اجازت نہیں ہیں۔ پس انفسھم اگر ہے تو صرف یہ معنی ہیں کہ مومنین میں سے‘ عام النفس نہیں بلکہ ان کے بہترین میں سے یہ وجود تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ہے۔ یتلوا علیھم ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ۔ یہ جو معنی ہیں مومنین کے تعلق میں کہ یہ عام ہوا ہے۔ مجھے یہ خیال تھا کہ جو میں نے تفسیریں دیکھی ہیں ان میں کہیں اس عمومیت کا اس طرح ذکر نہیں کہ اس کا عربوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ساری دنیا میں سے ہے اور دماغ میں انسان کے بعض دفعہ ایک چھوٹا سا کیڑا پیدا ہوجاتا ہے کہ دیکھو یہ تفسیر جو تھی یہ پہلی دفعہ سمجھ میں آئی۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ تفسیر سروری میں حضرت مولانا سرور شاہؒ نے بعینہٖ یہ بات لکھی ہوئی ہے اور بہت مجھے لطف آیا۔ تفسیر سروری میں نے ساری تو نہیں پڑھی۔ کبھی کبھی اس کے جو حوالے سامنے آتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مولوی سرور شاہ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فہم قرآن عطا فرمایا تھا اور بہت سی باتیں جو دیگر مفسرین نہیں پیش کرسکے حضرت مولوی سرور شاہؒ کا ذہن اس طرف جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ ٹھیک لکھا ہے‘ اگر میں کہوں تو غلط ہوتا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں سوچی۔ کیونکہ حضرت مولوی سرور شاہؒ سوچ چکے ہیں ۔ لیکن مولوی سرور شاہؒ نے بجا لکھا ہے کہ مجھ سے پہلے یہ اللہ کا خاص احسان ہے کہ کسی کا اس مضمون کی طرف خیال نہیں گیا جو ہے ہی ایک ہی مضمون قابل قبول‘ اور کوئی مضمون قابل قبول ہی نہیں ہے۔ کیونکہ عربوں کی بحث میں مبتلا رہے اسی لئے وہ مومنین کا ترجمہ بھی عرب کرلیا حالانکہ اس کا وہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آج کے مومن بھی اس میں شامل ہیں کل کے مومن بھی شامل ہونگے۔ امریکہ افریقہ جاپان سب مومن شامل ہیں۔ اور سب پر یہ اللہ کا احسان ہے۔ ورنہ رحمۃ للعالمین کیسے ہوگئے۔ اگر صرف عربوں پر احسان ہے کہ محمد رسول اللہ ان میں سے تھے تو پھر رحمۃ للعالمین کس طرح ہوئے رحمۃ العرب ہوگئے۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ شیعہ مفسرین اس سے بھی دائرے کو تنگ کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں مومنین پر احسان سے مراد اھل بیت پر احسان ہے بس اور کسی پر نہیں۔ اور اھل بیت صرف ان پر نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے آگے چلے ہیں۔ آپ کی اولاد میں سے یعنی بیٹی کی طرف سے آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ بلکہ مفسرین اس عظمت کو عبدالمطلب کے گھر کی طرف منسوب کرتے ہیں‘ ابو طالب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ ہیں اصل میں شان والے لوگ جن میں سے محمد رسول اللہ تھے اور انفس کے اوپر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں انفس سے مراد معزز اور شرفاء ہیں۔ مومنین میں کہاں سے مل سکتے ہیں۔ معزز اور شریف لوگ تو کفار مکہ میں ملیں گے۔ اس لئے وہاں سے بات چلانی چاہئے اور کہتے ہیں وہ دیکھو House of Abu Hashim‘ House of Abu Talib, House of Abu Muttelib یہ وہ انفس ہیں جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ انفس من المومنین؟ وہ مومنین کہاں سے تھے؟ ان میں سے انفس کیسا ہوگیا؟ یعنی اتنا واضح تضاد ہے آیت کے مضمون میں اور ان کے دعاوی میں کہ کوئی معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس کو فوراً پہچان سکتا ہے۔ لیکن مفسرین کی عادت ہے کہ وہ نئے نکتے کوئی نظر آئیں بغیر سوچے بعض دفعہ صرف لطف کے طور پر کہ ذوقی نکتہ یہ بھی ہے وہ سب رائیں اکٹھی کرلیتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ ہر رائے سے وہ متفق ہوں ۔ اس سے بعض دوسرے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو مستشرقین ہیں انہوں نے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ امام رازیؒ کہہ دیا یا کسی اور کی طرف حوالہ دے دیا۔ جلا لین میں یوں لکھا ہوا ہے۔واقدی نے یہ لکھا حالانکہ وہ لوگ ہر قسم کی بعض دفعہ روایات اکٹھی کرلیا کرتے تھے۔ تاریخ میں واقدی کو اس فن میں کمال حاصل ہے کہ زیادہ سے زیادہ امکانی روایات جو ایک مضمون سے تعلق رکھتی ہیں وہ ایک جگہ اکٹھی کرلیتا ہے اور بعض دفعہ کھل بتادیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ قابل قبول ہیں اور یہ سب باتیں قابل رد ہیں۔ اس حصے کو چھوڑ دیتے ہیں مستشرقین اور جو سب سے زیادہ اسلام پر حملہ کرنے کے لئے ممد روایت ہو اسے اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہتے ہیں واقدی۔ بالکل یہی طریق شیعوں کا ہے آگے جاکے میں آپ کو دکھائوں گا حوالے دیتے ہیں۔ بعض کتب کے کہ اس سے ثابت ہوگیا دیکھ لوہم جو کہہ رہے ہیں۔ بالکل قطعی طور پر ثابت ہوگیا۔ اسی کتاب میں اس کے رد میں زیادہ قوی حدیثیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ تو یہ جو طریق ہے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور تحقیق کے جو مسلمہ تقاضے ہیں ان کے خلاف ہے۔ روایات میں سے دونوں پہلوئوں کا ذکر کرنا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ اگر ہم رد کرتے ہیں ایک کو تو کیوں کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں آپ کو۔ شیعہ روایات نے تو انفس کا زیادہ تر معنی وہی لیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں۔ اور یہ روایت جو ہے روح المعانی میں علامہ الوسی نے پیش کی تھی کہ انفس کی بھی ایک قرأت ملتی ہے۔ امام رازی نے ایک یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ یہاں اس آیت کا اسیاق و سباق سے ایک تعلق ہے۔ اس پہلو سے بھی حضرت امام رازی کو اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی ذہنی اور قلبی روشنی عطا کی تھی۔ باقی مفسرین اس طرح سیاق و سباق کی بحث میں نہیں پڑتے جس طرح حضرت امام رازی بیان کرتے ہیں اور اکثر حکمت کی بات بیان فرماتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کا سیاق و سباق سے یہ تعلق ہے کہ اس سے پہلے‘ میں ان کے الفاظ میں بتاتا ہوں۔ غلول اور خیانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی تھی اور اس آیت میں زور دیا گیا ہے اس بات پر کہ تم میں سے ہے تم جانتے ہو اس کو۔ یعنی وہ بات جو میں پہلے عقلی دلائل کے طورپر میں بیان کرچکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس بات کو رد کرتی ہے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ مضمون اس آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ کو دیکھو تم لوگوں میں سے تھا اور تم اس کو اچھی طرح جانتے ہو پھر اس کا بددیانتی اور خیانت کا تصور بھی کیسے تم اس کی طرف منسوب کرسکتے ہو۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد نعمت کا ذکر فرمایا کہ خائن تو بہت ہی نقصان کا موجب بنا کرتا ہے۔ تمہارا سردار تو ایسا ہے جوتم پر سراسر احسان ہی احسان ہے۔ من اللہ میں یہ مزید بات پیدا کی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ اس رسول کو جس تم جانتے ہو۔ کیسا امین تھا اور امین ہے۔ اس کی طرف ایسے بے ہودہ خیالات منسوب کرتے ہو لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ تو سراسرتم پراحسان ہے۔ ایسا رسول ہے حقیقت میں۔ جو قوموں کے لئے شرف کا موجب بنتا ہے اور اس پر اس قسم کے ناپاک الزام کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اب آیات کے سیاق و سباق کے لحاظ سے دوبارہ دیکھتے ہیں کہ یہ آیت یہاں پہلی سے کیا تعلق رکھتی ہے۔یہ پہلے دو درجے میں کل بیان کرچکا ہوں۔ پہلے تھا ماکان لنبی ان یغلکہ کسی نبی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کی خیانت کرے۔ اس میں محمد رسول اللہ کی تخصیص نہیں بلکہ نبوت کے منصب کے خلاف بات ہے۔ اس لئے جب ادنیٰ نبی بھی خیانت سے مبرا ہیں تو نبیوں کا سردار کیسے خیانت میں ملوث ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ دلیل ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کے حق میں۔ پھر دوسری آیت آئی۔ افمن اتبع رضوان اللہ تم نے دیکھا عمر بھر تو یہ اللہ کی رضا جوئی کرتا رہا ہے۔ اس کو چادر ہی ایک چاہئے تھی وہ بھی اس کپڑے کی جو منع کرچکا ہے اور پہن کے پھرتا کیسے باہر؟ ایک طرف یہ مشہور کردیا کہ چوری ہوگئی دوسری طرف چادر لیکے نکلتے اور وہ توجبہ کہتے ہیں۔ تو جبہ پہن کے کہیں نکلنا تو تھا لوگ پہچان نہ لیتے۔ یہ ایسی جاہلانہ بات ہے جس کو قرآن کریم اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس پر تفصیل سے بات کرے۔ لیکن اصولی باتیں جو کلیتہً ہر قسم کے الزام کو دھتکار رہی ہیں ان کی بات کررہا ہے۔ کہتا ہے اس کی تو رضوان باری تعالیٰ کی جستجو میں زندگی کئی اس کو کیسے تم ان لوگوں میں ملاتے ہو جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹا کرتے ہیں؟ وہ بھی کئی درجوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور خدا کی رضاجوئی حاصل کرنے والے بھی بڑے مختلف مدارج سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور ان میں یہ سرفہرست ہے اور خاتم النبین ہے۔ تو جو پاک لوگوں میں رضا جوئی کرنے والے لوگوں میں خدا کے نزدیک سب سے بلند مرتبے پر فائز ہو۔ اس پر ایک دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں والا ایک گھٹیا الزام تم لگا رہے ہو۔ کوئی اس بات کا کسی قسم کا کسی پہلو سے جواز دکھائی نہیں دیتا پھر فرمایا۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم۔ کہتے ہیں تم اس بات کو بھول نہ جائو کہ اللہ نے تم پر اس رسول کے ذریعہ ایک خاص احسان فرمایا ہے۔ پہلے رسول تو تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے تزکیہ کیا کرتے تھے۔ اس کا وجود پاک کرنے والا ہے۔ پس جس کا وجود پاک کرنے والا ہو اس پر یہ الزام نعوذ باللہ من ذلک۔ اس کا تو کوئی کسی پہلو سے دور و نزدیک کے کسی پہلو سے بھی ایک ادنیٰ بھی جواز نہیں ہے۔ پھر اپنے محسن پر تم ایسی باتیں کرتے ہو؟ کتنا بڑا احسان ہے کہ خدا نے تم لوگو کی طرف اے مومنو! اے محمد ؐ رسول اللہ کے زمانے کے مومنین تم پر احسان فرمایا کہ ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جس کو تمہاری طرف منسوب کردیا۔ یہ تمہارا رسول ہے جب کہ پہلے انبیاء ترستے رہے کہ ہم ان میں سے ہوں جو محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے ہوں۔ اسی مضمون کی ایک روایت ملتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی اور خدا سے تمنا کی ‘ جب پتہ لگا مقام محمدؐ آپ پر روشن فرمایا گیا کسی حد تک جس حد تک سمجھ سکتے تھے تو انہوں نے کہا اے خدا مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ یعنی یہ حضرت موسیٰ کو بھی پتہ تھا کہ اس امت میں کوئی رسول آنے والا ہے۔ مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ اس کا جواب خدا یہ نہیں دیتا۔ حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ الفاظ مختلف ہونگے مگر مضمون بعینہٖ وہی ہے جو میں بیان کررہا ہوں۔ خدا یہ نہیں جواب دیتا کہ وہ تو خاتم النبین ہے۔ اس کی امت میں تو رسول آنا ہی کوئی نہیں تو میں تمہیں ایسے کیسے بنادوں۔ فرمایا نہیں۔ اس کی امت ان کا رسول انہی میں سے ہوگا۔ منھم۔ تم ان میں سے نہیں ۔ تمہیں کیسے بنایا جائے تو حضرت موسیٰ ؑ رسالت چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں یہ عرض کریں گے پھر کہ مجھے اس کے مومنین میں سے بنادے۔ ان لوگوں میں سے بنادے جو اس کے امتی ہیں۔ اس امت میں شامل فرمادے۔ اللہ فرماتا ہے تم پہلے ہو وہ بعد میں آئیں گے۔ یہ ممکن نہیں۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانی آغاز جب تک شروع نہیں ہوتا۔ اس وقت سے پہلے کے مومنین آپ کی امت میں شمار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایمان کا مرتبہ بڑھ گیا ہے۔ ایمان کے تقاضے بلند ہوگئے ہیں۔ اور تزکیہ کامضمون ایک نئی شان سے ایک نئی منزل میں داخل ہوچکا ہے۔ وہاںپہلے تزکیہ ہوگا پھر تعلیم کتاب اور حکمت کتاب ہوگی۔ تو فرماتا ہے کہ یہ اللہ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا کہ تم مومنین جو محمدؐ کے مومنین ہو جو محمدؐ رسول اللہ کے زمانے کے بعد کے آنے والے ہو۔ ان کی طرف منسوب فرمادیا کہ یہ ان میں سے ہی ہے۔ بڑی بے حیائی ہے کہ اتنے بڑے محسن کے متعلق ایسی ادنیٰ بات سوچ رہے ہو۔ دراصل یہ مومنین کی طرف تو تنبیہہ ہے مگر اشارہ منافقین کی طرف ہے۔ مومنین کو سمجھایا گیا ہے کہ تم ایسے ناپاک خیال کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ اور مومنین شامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ کسی ایک بدبخت کی بات ہوتی تھی اس کو اٹھا کر پھیلا دیتے ہیں یہ لوگ حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مومنین تھے ان کی بالکل مختلف شان تھی چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے لوٹ رہے تھے مدینے کی طرف فتح مکہ کے بعد کچھ عرصہ قیام فرما کر تو جو کچھ اس وقت تک مال غنیمت ہاتھ آیا تھایا پہلی جنگوں میں بھی جو کچھ ملا تھا آپ نے جاتے ہوئے تمام تر مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کے ایک شخص نے جس کے متعلق نقشہ بھی بڑا بھیانک سا ہے بڑی مکروہ صورت اورایک منافق مزاج کا آدمی تھا اس نے یہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال و دولت اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ اس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اے انصار سنو ! تم نے یہ کہا ہے۔ جب یہ فرمایا تو اس طرح ان کی حالت زار ہوئی کہ جیسے بکریاں ذبح ہوگئی ہوں۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ہم نے نہیں کہا۔ ہم میں سے کسی بدبخت نے کہا ہے۔ لیکن آپ ان کی بات سن کر اس کو نظر انداز فرماتے اور یہ کہتے تھے ساتھ فرمایا دیکھو تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے اس رسول نے بھیڑ بکریاں اور دنیا کا اموال تو اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے اور خود مدینے والوں کے ساتھ واپس لوٹ گیا اور اپنے گھروں کی کوئی پرواہ نہ کی اپنے شہر کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ بھی تو سوچ سکتے تھے؟ یہ بات جب بیان فرمائی تو راوی کہتے ہیں اس طرح صحابہ ؓ کی خاص طور پر انصار کی حالت تھی کہ وہ دیکھی نہیں جاسکتی تھی بیان کے لائق نہیں۔ اور وہ انہوں نے یہ نہیں کیا تھا۔ یہ ہے شان ان مومنین کی جن کے متعلق یہ دشمنان اسلام خواہ باہر کے ہوں یا اندر کے ہوں زبانیں دراز کرتے اور بڑھ بڑھ کے حملے کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ ان مومنین میں سے تھے۔ جو یہ بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس یہاں مومنین کو مہتم نہیں کیا جارہا یہ دماغ سے خیال نکال دیں کہ یہاں مومنین کو کہہ کر ان کو تنبیہہ کی جارہی ہے۔ مومنین کو ا نسے پاک کرکے الگ دکھایا جارہا ہے یہ۔ مومنین مطلب ہے سوچ بھی نہیں۔ جہاں تک مومنین کا تعلق ہے ان کو پتہ ہے محمد رسول اللہ کا‘ اللہ کا احسان ہے ان پر محمدؐ کو انہیں سے پیدا کیا انہیں میں شامل کردیا۔ ان کے ذکر میں محمدؐ کا ذکر چلادیا۔ اتنا بڑا احسان ہے وہ کیسے سوچ سکتے ہیں ان باتوں کو۔ اس لئے اگر کوئی سوچتا ہے تو یقینا وہ دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جو منافقین کا اور مکروہ باتیں سوچنے والوں کا گروہ ہے۔ اب تفسیر کے دوسرے حصوں کی طرف آتا ہوں۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ اسماعیل کا نام اسرائیل تھا؟ جب ہم کہتے ہیں بنو اسرائیل تو بنو اسماعیل اور بنو اسرائیل دوالگ الگ ہیں بالکل۔ پتہ نہیں ان کے دماغ کو کیا سوجھی ہے۔ کسی حوالے میں یہ نکلتا ہوگا۔ مگر اسرائیل سے مراد بائیبل میں واضح،اسحاق ہیں (نقل بمطابق اصل)
جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے بیٹے تھے۔ اسرائیل سے مراد اصل میں پہلوان ہے۔ ان کے متعلق بائیبل میں آتا ہے کہ ساری رات خدا سے کشتی کی تھی اور کشتی میں ہارے نہیں اللہ سے نعوذ باللہ من ذلک۔ اور وہ پہلوان ہے جس سے ان کا نام اسرائیل پڑا اور بنو اسرائیل سے مراد حضرت اسحاق کی اولاد ہے۔ وہ خود تو اسرائیل تھے آپ کی اولاد اسرائیل ہے، اب انہوں نے ایک روایت بھیجی ہے پیدائش باب 35 کو اسماعیلؑ کا نام اسرائیل تھا۔ یہ پتہ نہیں کونسی بحث ہے مجھے اس سے غرض نہیں ہے یہ مسلمہ بات ہے ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بنی اسرائیل کہتے ہیں تو بنی اسماعیل سے الگ ان کو دیکھتے ہیں اور جب کہتے ہیں کہ ان کے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کیا تو وہاں بنی اسماعیل کی بات شروع ہوجاتی ہے اور حضرت محمد ؐرسول اللہ کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے بھائیوں میں سے یعنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے……
وہ آیت جو میں نے کل پڑھی تھی شاید اس میں پڑھنے میں کوئی غلطی ہوئی تھی؟ کہتے ہیں کلا ان معی ربی سیھدین یہ لفظ ہیں ہوسکتا ہے مجھ سے آگے پیچھے ہوگیا ہویہ ۔ یاد رکھ لیں کل جو میں نے ایک آیت کی طرف حوالہ دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے متعلق۔ تو کسی نے بہت اچھا کیا ہے۔ جرمنی سے حافظ محمد سلیمانؐ نے لکھ کر بھیجا ہے کہ اس کی درستی کروادیںوہ۔ یادداشت میں بعض دفعہ غلطی ہوجاتی ہے۔ اصل قران کریم کے الفاظ ہیں کلا ان معی ربی سیھدین۔ ایسے موقعوں پہ وصل میںفوراً قرآن کریم دیکھ لیا کریں تاکہ بجائے اس کے کہ کل یا پرسوں کوئی درستی ہو فوراً درستی ہوجایا کرے۔ اچھا اب دیکھتے ہیں۔ ہم دوسرے مفسرین کی بات۔ Bell نے ایک کمنٹری کی ہے۔ اب بتائیں اگر میں اس کو گدھا نہ کہوں تو کیا کہوں۔ کہتا ہے کہ اس Verse سے ثابت ہوگیا کہ
‏ The muslims had not yet been quite forgiven۔ اللہ تعالیٰ احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کبھی کسی قوم پر اتنا بڑا احسان نہیں کیا۔ جیسا تم پر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے صاف پتہ لگا Muslims were not quite followers۔ ا ب دوسری بات بیان کردوں میں۔ کل تو میں نے غلطی سے توبہ کرلی تھی۔ ایک خاتون نے مجھے لکھا تھا کہ آپ زیادہ سخت لفظ بول جاتے ہیں اور یہ ٹھیک نہیں اور یہ نہیں اور وہ نہیں تو اصولاً تو یہ بات درست ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور خواہ کیسا ہی کسی کے جذبات کو کچلا جائے حتی المقدور زبان سے کوئی سخت بات نہیں کہنی چاہئے لیکن جہاںعشق کے مضامین ہوں وہاں بے اختیاری ہوجاتی ہے اور جہاں جہاں بھی میرے منہ سے سخت لفظ نکلے ہیں بے انتہا اور اچانک کچلے ہوئے آدمی کے دل سے جس طرح بات نکلتی ہے۔ کسی کے پائوں میں کون (Corn) ہو اس پہ کسی کا پائوںپڑے وہ یہ نہیںدیکھتا کہ ابا کا پڑا ہے یا امی کا۔ پہلے دھکا ہی دیتا ہے اس کو۔ بے اختیار ہوتا ہے۔ بعد میں کہتا ہے اوھو معاف کرنا آپ تھے‘ تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کس کو دھکا دے دیا تھا۔ تو یہاں تو دشمن نے ارادۃً پائوں کچلنے کے لئے پائوں رکھا ہے اور پائوں کچلنے کے لئے نہیں دل کچلنے کے لئے دل پر قدم رکھا ہے۔ اس کو اگر دھکا دے دے کوئی آدمی تو کسی دوسرے کی دل آزاری ہوجائے کہ اوھو یہ تو بڑی سختی ہوگئی۔ یہ جائز نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے کہ ایک احتجاج وہ آیا تھا اور واپس آکے رات گئے تک دوسرے احتجاج ملنے شروع ہوئے جو سب متفق تھے کہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ خدا کے واسطے جس طرح آپ دیتے ہیں اسی طرح دیں درس جاری رکھیں۔ آپ کا ایک قدرتی ردعمل ہے۔ جس طرح ظاہر ہو ہمیں منظور ہے اور آپ جب کوئی سخت کلامی کرتے ہیں تو ہم سب کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ ہمیں زبان دیتے ہیںتو کسی اور کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری زبان نوچ لے اس لئے آپ ہماری زبان بنے رہیں اور۔ اسی طرح بات کریں جیسے دل سے آپ کی آواز اٹھتی ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔ بچپن میں ہم کھیلتے ہوئے تھوماری کیا کرتے تھے۔ کھیل میں کوئی بات پہلے طے ہوئی اور اب یہ کہ نہیں یہ ٹھیک نہیں تو تھوماری کردیتا ہے۔ تو میری تھو ماری۔ وہ خاتون اپنا مشورہ اپنے گھر رکھیں اور باقی ساری جماعت نے جس بات کا اظہار کیا ہے میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا اور آپ بھی اس میں تھے اس لئے یہ جزاک اللہ میں جو خاص شوکت دی نا وہ اس لئے ہے کہ ۔ احتجاج کرنے والوں میں عبید اللہ علیم صاحب بھی شامل تھے۔ باقاعدہ رات ملاقات کا وقت لے کر آئے اور کہا کہ بس یہ کام نہیں کرنا۔ دوسرے یہ کہ جو ان لوگوں نے بغض کا اظہار کیا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے حقیقت میں۔ چند باتیں ہم بیان کردیتے ہیں۔ جو باتیں نہیں بیان کرتے یا کرسکتے۔ اتنے ظالمانہ حملے ہیں قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مومنین پرشیعوں کی طرف سے کہ بعض جگہ وہ الفاظ برداشت ہی نہیں ہوسکتے اور ان کو زبان پر لانا ہی ممکن نہیں انسان کے لئے۔ جس طرح حضرت عمرؓ کے اوپر تبرا کیا گیا ہے حضرت ابوبکرؓ پر تبرا کیا گیا ہے۔ ان کے اوپر جس جس طرح نعوذ باللہ من ذلک لعنتیں ڈالی گئی ہیں۔ ان کی تصویریں بڑی خوفناک بنا کر دکھائی گئی ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا ذکر ایسی مجلسوں میں زیب ہی نہیں دیتا کہ ان کو کھل کر بیان کیا جائے۔ اشارۃً ذکر ٹھیک ہے۔ تو وہ جس نے پڑھا ہو اس کا دل تو کچلا ہوا ہے۔ اس سے ایک بات نکل جائے تو کیا ہے کبھی اللہ معاف فرمائے گا۔ لیکن بے اختیاری کا حال ہے۔ ایک شعر ہے الٹ مضمون کا۔ اس میں لفظ بدلنا پڑے گا۔ لیکن ہے دلچسپ کہ مقدور بھر تو ضبط کروں…… اور کیا ہے آگے؟ تو کیا ہے آگے ایک لفظ مجھے یاد تھا بھول گیا ہے۔ منہ سے نکل ہی جائے ہے بات پیار کی۔ مقدور بھر تو ضبط کروں ہوں پر۔ کیا کروں نہیں کچھ اور لفظ ہے۔ کہ میں وعدے پہ قائم ہوں ضبط کرتا ہوں مقدور بھر لیکن کبھی بے اختیاری میں پیار کی بات نکل ہی جاتی ہے۔ تو احتجاج کا کلمہ بے اختیار نکل ہی جاتا ہے کبھی۔ جذبات پر جو اختیار ہے اس کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اس مضمون کو ایک اور شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ جو اس مضمون سے براہ راست تعلق نہیں۔ کہ روکے ہوئے ہیں ضبط و تحمل کی قوتیں دلائیں رگ رگ پھڑک رہی ہے دل ناصبور کی۔ تو جو کچھ میں نے کہا ہے روکے روکے کہا ہے جو اندر رگ پھڑک رہی ہوتی ہے۔ اس کا پورا بیان نہیں کرتا۔ اس لئے جو کل کہا تھا وہ ٹیپیں اسی طرح رہیں گی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ساری جماعت کو میں جنہوں نے احتجاج بعد میں بھی کرنے ہیں کچھ رستے میں ہوگے۔ ان کو میںتسلی دلا رہا ہوں۔اب سنیئے وہ باتیں جو دل کہنے کو نہیں چاہتا مگر کرنی پڑتی ہیں۔ The Holy Quran Version of Ahlul bait. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کرنا ان باتوں کو بڑا ظلم ہے۔اول تو یہی بڑی تکلیف دہ ہے۔ دیکھتے ہی کو غصہ آجاتا ہے کہ تم کو ن ہو ۔ اہل البیت کے دل کی باتیں کرنے والے اور اہل بیت کے قرآنی فہم کا دعویٰ کرنے والے کہ ہم ہیں نمائندہ ان کے اور ہم بتاتے ہیں کہ اہل بیت کی سوچ کیا ہے ان باتوں میں۔ اوربالکل جھوٹ ہے۔ لیتے ہیں یہ ہے پویا صاحب کی کمنٹری ۔ آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی 1988ء پبلشرز تحریک ترسیل قرآن (Incorporated) سورہ آل عمران 165۔ اس کا ترجمہ ہے ہاں اس عنوان میں نے پہلے بھی بتایا تھا 157سے 172تک اکٹھا تبصرہ کیا ہے انہوں نے اور اس مضمون کاعنوان یہ رکھا ہے۔ The faithful Identified from the hypocrates at the battle of Uhad. ۔ احد کے میدان میں احد کی جنگ کے دوران مومن غیر مومنوں سے الگ کرکے امتیازی شان کے ساتھ دکھا دیئے گئے اور اس تقسیم کے وقت ایک طرف حضرت علیؓ رہ گئے اور باقی طرف سب دوسرے چلے گئے۔ تمام صحابہ جو جنگ احد میں رسول ﷺ کے ساتھ تھے وہ منافقین کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور حضرت علیؓ اکیلے ایک طرف رہ گئے یہ ہے جو مضمون کا عنوان باندھا گیا ہے۔ اب اس پرسنئے۔لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا۔
Indeed God has confered his favour upon the believers when he raised up an apostle Muhammad among them from their ownselves to rehearsen to them his signs to purify them (see foot note). And to teach them the book Quran and Wisdom though before this they were in manifest error (foot note).
‎ آیت میں جو باتیں ہیں ترجمہ اس میں وہ فٹ نوٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فٹ نوٹ پڑھو گے تو بات سمجھ آئے گی۔ کہتا ہے۔Ahlul bait not Included for they peurified by God Himself.
کہتا ہے یہاں جو فرمایا ہے کہ خدا نے ایک رسول مبعوث کیا جو مومنین ہی میں سے تھا وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ یہاں غلطی سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اھل بیت بھی محمد رسول اللہؐ کے زیر احسان ہیں۔ ان پر کوئی احسان نہیں محمدؐ کا۔ان کا خدا نے براہ راست تزکیہ کیا ہے۔ اس لئے اہل البیت اگنرامپٹڈ (Exampted) اس آیت سے جب Exampt ہونگے تو مومنین سے بھی تو Exampt ہوجائیں گے۔ یہ نہیں سوچا انہوں نے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین میں سے محمد رسول اللہﷺ ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے تو مومنین میں اگر شامل ہیں تو تزکیہ کے نیچے آپ ہی آجائیں گے۔ اگر نہیں تو مومنوں کی فہرست سے ہی باہر نکل جائیں گے۔ مگر وہ اس کا یہ جواب دیدیں گے کہ مومنین میں سے ایک استثناء کیا گیا ہے اگرچہ اس آیت نے کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ استثناء کا حق بھی شیعہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے استثناء نہ فرمایا ہو اور جہاں استثناء بیان کرنے کیا موقعہ ہے وہاں کوئی استثناء بیان کیا ہو تو شیعہ کہتے ہیں۔ ہمیں حق ہے جس طرح اہل بیت کی نمائندگی کرتے ہیں خدا کی بھی نمائندگی کریں اور دنیاکو بتائیں یہاں استثناء موجود ہے اگرچہ مذکور نہ ہو۔ یہ آیت اس کی مثال ہے اور ایک اور آیت اس بات کی مثال ہے جس میں وہ شیعہ مفسر احمدیوں پر حملہ کرتے ہیں وہ جو آیت ہے وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ اس آیت پر بحث کرتے ہوئے شیعہ مفسر جن کی یہی ذہنیت ہے۔ میر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت سے یہ تو ثابت ہے اور واضح طور پر ثابت ہے کہ محمد رسول اللہ سے پہلے تمام انبیاء گذر چکے ہیں۔ مرچکے ہیں۔ یہ بات مانتا ہے۔ لیکن احمدی مفسرین کی عقلیں دیکھو کہ وہ اس میں استثناء نہیں مانتے جبکہ عیسیٰؑ کا واضح استثناء موجود ہے۔ اور وہ کہاں ہے؟ اس کا ذکر نہیں۔ اور چونکہ اس بات کی کوئی دلیل پاس نہیں ہے کہ استثناء ہے اس لئے کہتے ہیں کہ احمدی اس لئے استثناء نہیں مانتے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ کسی کو غیر طبعی عمر تک زندہ رکھ سکے۔ اب جہالت کی حد ہے۔ نہیں ہے ا نکو عادت ہے‘ جھوٹ دوسروں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں مانتے کہ جس نے بیان فرمایا وہ استثناء کرتا تم کون ہوتے ہو استثناء کرنے والے اس کی طرف سے؟ اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں رکھا۔ مامحمد الا رسول قد خلت من قلہ الرسل۔ اور اتنا ماننا پڑا ہے۔ اس مفسر کو کہ الرسل چونکہ جواز کوئی نہیں۔ اس لئے احمدیوں کی طرف ایک غلط بات منسوب کردی اور دلیل کا رخ موڑ دیا۔ کیونکہ اس بات کو بھی مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے کہتا ہے کہ خدا کو قادر مطلق نہیں سمجھتے۔ احمدی خدا کو قادر مطلق سمجھتے ہیں اور بات پر بھی قادر سمجھتے ہیں کہ جہاں استثناء بیان کرنا ہو وہاں استثناء بیان فرما دیا کرتے اور تمھیں قادر مطلق نہیں سمجھتے کہ جہاں اللہ نے استثناء بیان کیا ہو وہاں تم قادر مطلق بن کر اس کی طرف سے استثناء بیان کردیا کرو۔ یہ بیت ان مومنین میں شامل نہیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کیونکہ اہل بیت کو تو خود خدا نے پاک کیا تھا اور خود پاک کرنا تھا۔ محمد رسول اللہ کا ان پر کیا احسان ہے تو اب ایک اور بات سوچئے ۔ جنگ احد میں کیا واقعہ ہوا ہے علیؓ کے سوا باقی سارے تو منافق ثابت ہوگئے نا۔ ایک علیؓ تھا اس کو محمد رسول اللہ ؐ نے پاک نہیں کیا وہ بھی ہاتھ سے گیا پیچھے کیا چھوڑا۔ جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے اس خبیث عقیدے کے مطابق وہ سب سے بڑا پاک کرنے والا وجود ایک بھی وجود کو بھی پاک نہیں کرسکا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اہل بیت کے سوا کوئی پاک رہا ہی نہیں۔ جو محمد کے سپرد کام تھا صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ایسا ناکام رہا کہ کبھی کوئی نبی اس طرح ناکام نہیں ہوا اور جو چند پاک مل گئے وہ پاک وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے خود کرلیا۔ اس نے کہا محمد رسول اللہؐ تو میں نے بھیجا تھا تزکیہ کرے اور نعوذ باللہ غلطی سے میں کہہ بھی بیٹھا ہوں کہ تزکیہ کرتا ہے۔ لیکن جنگ احد نے تو ثابت کردیا کہ بالکل غلط خیال تھا۔ نہ تونے تزکیہ کیا نہ ہم نے صحیح سمجھا‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے‘ جوایک آدمی پاک نکلا وہ توتیرا پاک کیا ہوا ہے ہی نہیں۔ وہ تو ہم نے براہ راست پاک کیا تھا۔ اور اہل بیت دوسرے بھی سارے اللہ نے براہ راست پاک کئے تھے تو حضرت محمد رسول اللہ کے کھاتے میں کیا رہ گیا باقی؟ نعوذ باللہ من ذلک۔ منافقین کے سوا اور کون رہے؟ اور یہ ہے نبیوں کا سردارؐ ‘ خاتم النبین‘ رحمۃ للعلمین۔ تمام نبیوں سے بالا اور افضل اور ایسا کہ نبی اس کی غلامی میںفخر کریں وہ اپنی نبوتوں کو الگ پھینکنے پر آمادہ ہوجائیں اور کہیں کہ اے خدا ہمیں ان کی امت میں سے بنادے۔ کس امت میں سے؟ منافقین کی امت میں سے؟ یہ موسیٰؑ کی دعا تھی؟ اتنا ناپاک حملہ ہے کہ مسلمانوں کو ہوش ہی نہیں‘ عقل ہی کوئی نہیں۔ پاکستان میں بیٹھے احمدیوں کے متعلق فتوے دیئے جارہے ہیں۔ نعوذ بالہ من ذلک۔
حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ کے عشاق میں احمدیت نے جو عشاق پیدا کئے ہیں اس شان کے نکال کے تو دکھائو اور کہیںسے۔ ساری دنیا میں حضرت محمد رسول اللہؐ کے عشق میں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور خدا کی محبت میں سارے کام جاری ہیں جو احمدیت کی طرف سے چل رہے ہیںدنیا بھر میں۔ محمد رسول اللہؐ کے عشق میں میں نے پہلے کہہ دیا پہلے کیوںکہنا چاہئے تھا۔ اللہ کے عشق میں اور اس کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کے عشق میں یہ سارے کام جاری ہیں۔ ان کے متعلق تو ظلم یہ ہے کہ اگر یہ حضرت محمد رسول اللہ کی حقانیت کا اعلان کردیں تو ان پر پاکستان میں فتوے دیئے جاتے ہیں کہ انہوں نے گستاخی کی ہے محمد رسول اللہؐ کی۔ ان کو سچا کہہ دیا اور ان کی سزا قتل ہے اور مرتد کی سزا۔ مرتد نہیں۔ یہاں ہتک رسول کرنے والے کی سزا موت کے سوااور کچھ نہیں اس لئے ان کو تختئہ دار پر چڑھا دو۔حال ہی میں اب تک 112 آدمیوں کے خلاف محمد رسول اللہؐ کی تائید میں کلمات کہنے کے جرم میں موت کی سزا کے مقدمے درج کئے جاچکے ہیں۔ 112 نہیں 120 اور یہ تو ہر وقت بڑھ رہا ہے یہ معاملہ اور ان لوگوں کو جو جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں قرآن کی تلاوت سے روکا جارہاہے۔ ان کے ہاتھوں سے قرآن چھین کے لے لئے گئے ہیں۔ وہ روزے دار یہ بھی مجاز نہیں کہ قرآن پڑھیں جبکہ ساری دنیا میں دشمن عیسائی‘ ہندو ‘ سکھ ہر قسم کے مذھب کے آدمی کو یہ اختیار ہے وہ قرآن پڑھے جہاں مرضی بیٹھ کر پڑھے۔ یہ جو دشمنی ہے یہ آج تک تاریخ عالم میں ایسی جہالت کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ عصبیت اپنی انتہاء کو پہنچی ہے اور اتنے پاگل ہوئے ہیں لوگ۔ یہ ملاں جو یہ سب کچھ کروا رہا ہے اس کی شان اب سمجھ آئی ہے کہ اس کی شان میںخدا تعالیٰ کے رسول نے یہ فرمایا تھا۔
شر من تحت ادیم السماء کہ آسمان کی جلد کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے۔اس سے زیادہ بدترین مخلوق کا تصور اور کیا ہوسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ کی تائید کرو اس پہ غصہ آجائے ہے۔ محمد رسول اللہ کو سچا کہو تمہیں غصہ آجائے۔ اگر تم دشمن اسلام ہوتے اور جیسا کہ ہو‘ ظاہر کررہے ہو تو پھر یہ ٹھیک تھا۔ بلال پر غصہ آتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کا اعلان کیوں کرتا۔ مگر کفار کو آتا تھا۔ مومنوں کو تو نہیں آیا کرتا تھا۔ تو یہ مضمون بہرحال آج تو ختم نہیں ہوسکے گا۔ کل ان شاء اللہ اس کو ختم کریں گے…!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن یکم مارچ 1994ء
18رمضان المبارک
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ ج و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ………… واللہ اعلم بما یکتمون O (سورہ آل عمران رکوع 17 آیت نمبر 165 تا نمبر 168)
اللہ تعالیٰ نے مومنوںپر احسان فرمایا جبکہ ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا۔ یتلوا علیھم ایاتہٖ جو ا ن پر اپنے اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا چلا جاتا ہے اور ان کو کتاب کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس کی حکمتیں بھی سکھلاتا ہے۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میںیا لاعلمی کی حالت میں تھے۔
اولما اصابتکم مصیبۃ ۔ کیا جب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے جبکہ اس سے پہلے تم اس سے دگنی مصیبت دشمن پر ڈال چکے ہو۔
قلتم انی ھذا۔ تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کیسے آئی یہ کہاں سے آئی۔
قل ھو من عند انفسکم کہہ دے کہ یہ تمہاری ہی طرف سے ہے۔
ان اللہ علی کل شئی قدیر اور اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔
وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ اور جو تمہیں اس د ن تکلیف پہنچی جس دن دو بڑے گروہوں میں تصادم ہوا تو یہ اللہ کے اذن سے ایسا ہوا تاکہ وہ مومنوں کو جان لے۔
ولیعلم الذین نافقوا اور ان کو بھی پہچان لے جنہوں نے نفاق کیا وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ اور ان سے کہا گیا تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ ا واد فعوا ۔ آئو خدا کی راہ میں قتال کرو اور یا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لا تبعنکم اگر ہمیں قتال کرنے کا فن آتا‘ ہمیں علم ہوتا کہ قتال کیسے کیا جاتا ہے ہم ضرور تمہاری پیروی کرتے تمہارے پیچھے پیچھے آتے۔
ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ وہ اس دن ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔
یقولون بافواھھم ما لیس فی قلوبھم ۔ وہ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
واللہ اعلم بما یکتمون۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے‘ سب سے زیادہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔ ان آیات کی تلاوت بھی پہلے ہوچکی ہے۔ پہلی آیت پر درس جاری ہے۔
اس ضمن میں مجھے بتایا گیا ہے کہ کل کے ترجمہ میں میں نے لیعلم المومنین کا ترجمہ یہ کردیا تھا تاکہ مومن جان لیںیہ ایسی سہو ہے جو بعض دفعہ نظر کی سہوہو جاتی ہے بعض دفعہ زبان سے بھی سہواً ایک کلمہ نکلتا ہے جو علم میں مختلف ہوتا ہے۔ علم کے اعتبار سے ذہن میں مختلف ہوتا ہے لیکن زبان سے مختلف ادا ہوجاتا ہے تو اسی لئے میں نے دوبارہ اس کا ترجمہ کردیا ہے۔ مومنین مفعول بہ ہے ظاہر بات ہے اس کا ترجمہ یہ ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ مومنوںکو جان لے یعنی اللہ تعالیٰ جان لے تو اس وقت دوبارہ نظر لفظ مومن پر نہیں پڑی۔ ترجمہ زبانی جب میں کررہا تھا تو اس میں یوں ترجمہ ہوا گویا کہ مومنین لکھا ہوا ہے۔ اگر المومنون لکھا ہوتا تو پھر اس کا یہ ترجمہ بنتا ہے تاکہ مومن جان لیں کہ اس کے نیتجہ میں کیا کیا اثرات ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہاں مومنین ہے اس لئے میں وضاحت سے بتا رہا ہوں دوبارہ تاکہ کل کا ترجمہ وہ دوبارہ اسی طرح سناجائے گا تو اس کی اچھی طرح وضاحت درج ہوجائے۔ بات یہ ہے کہ یہ درس جو جاری ہیں یہ کوئی ایسے درس نہیں ہیں جو اتفاقاً اسی زمانے میں رہ جائیں گے یہ آئندہ تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔ اس لئے کوتاہی خواہ سرسری ہو خواہ گہری ہو خواہ علمی ہو یا زبان کی لغزش کے نتیجہ میں ہو ہر قسم کی ایسی بات جو خطا کے نتیجہ میں ان درسوں میں راہ پاجائے لازم ہے کہ اس کی درستی کی جائے۔اس ضمن میں ایک اور درستی بھی ضروری ہے وہ بھی ایسی بات ہے جس میں عمداً یا علمی غلطی کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہو ا بلکہ بعض دفعہ میری زبان ایک ایسا نام ادا کررہی ہوتی ہے جو ذہن میں نہیں ہوتا۔ذہن میں ایک اورشخص ہے اور نام کسی اور کا میں لے لیتا ہوں اور یہ غلطیاں مجھ سے کئی دفعہ سرزد ہوچکی ہیں۔ میں نے جب غور کیا ہے تو پتہ چلا ہے کہ اس کی کوئی ایسوسی ایشن کی غلطی ہے۔ میں جہاں تک مضامین کا تعلق ہے ان کو تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسوسی ایشن کے ذریعہ یاد رکھتا ہوں۔ ابھی کل ہی ایک حوالہ جاحظ کا مجھے یاد تھا وہ میں نے نکلوایا۔ پنتالیس سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی لیکن پتہ تھا کہ فلاں جگہ یہ حوالہ موجود ہے لیکن ناموں میں مجھے بچپن سے ہی کمزوری ہے یاد رکھنے میں۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ناموں کی یادداشت اور اسی طرح چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ناموں کی یادداشت حیرت انگیز تھی لیکن یہاں جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ ایسوسی ایشن کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حضرت اسماعیل کے مقابل پر ذہن میں سب سے پہلے حضرت اسحاق کا نام آتا ہے اور بعض دفعہ حضرت یعقوب کی بجائے میرے منہ سے اسحاق لفظ منہ سے نکل جاتا ہے حالانکہ ذہن میں حضرت یعقوب ہی ہوتے ہیں۔ کل میں نے جس لڑائی کا ذکر کیا تھا کہ خدا سے کشتی ہوتی رہی وہ حضرت یعقوب کی تھی اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے سب اہل علم کو یا سرسری علم رکھنے والوں کو بھی علم ہے کہ حضرت یعقوب سے یہ سلسلہ بنی اسرائیل کا چلا ہے آپ کے بارہ بیٹے بارہ قبیلوں کے سردار بنے اور ان کی بنیادیں قائم ہوئیں تو ذہن میں واقعہ یعقوب کا تھا اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا اور یہ ایسی غلطی ہے ایک دفعہ پہلے بھی سوال و جواب کی مجلس میں سرزد ہوچکی ہے ذہن میں یعقوب تھے اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا کیونکہ حضرت اسماعیل کے مقابل پر میرا ذہن ہمیشہ پہلے اسحاق پر پہنچتا ہے کیونکہ سلسلہ پھر شروع ہوا ہے تو یعقوب کے نام کی بجائے اسحاق کا نام ادا ہوجاتا ہے بہرحال یہ میں اپنی وضاحت آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ ایسی غلطی نہیں تھی جو علمی لحاظ سے مجھ سے سرزد ہوئی ہو میں واقعتا حضرت اسحاق ہی کو اسرائیل سمجھتا ہوں یہ درست نہیں ہے یعقوب ہی اسرائیل تھے اور یعقوب کی اولاد ہی بنی اسرائیل کہلاتی ہے مگر یہ حضرت اسحاق سے پھوٹنے والا درخت ہے جو آگے جاکے بہت سی شاخوں میں تبدیل ہوا ہے ایک اور چھوٹی سی بات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اپنی ذات میں کوئی اہم نہیں ہے لیکن جس وجہ سے میں نے یہ درستیاں کی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ درستی بھی لازم ہے میںنے مرزا یحي کو جو اس کاباب کے بعد ان کا جانشین بنا اس کونقطہ کہا تھا اور بعد میں اس کی درستی کردی تھی کہ وہ نقطہ نہیں تھا نقطہ خود باب کہلاتا تھا لیکن میں نے تحقیق کی ہے کہ کیوں آخر مجھ سے یہ غلطی ہوئی نقطہ اس کو کیوں کہا گیا تو اس ضمن میں ایک دلچسپ بات جو سامنے آئی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور اس پہلو سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس کو درست کرلیجئے۔ باب نے پہلا ٹائٹل اپنا باپ بنایا یعنی دروازہ وہ دروازہ جس کے متعلق کہا گیا کہ اس لئے باب بنا کہ اس سے ایک نئے دین کا رستہ کھلے گا اور نعوذ باللہ من ذلک اسلام دین اس دروازے سے پیچھے رہ جائے گا اس کے بعد اپنی زندگی ہی میں باب نے سب سے پہلے نقطہ کا ٹائٹل اختیار کرلیا اور کہا کہ میں وہ نقطہ ہوں جس پر ساری پیشگوئیاں جمع ہوتی ہیں اور جس نقطہ سے از نسر نو ایک نئی روحانی کائنات کا آغاز ہونے والا ہے۔ جب اس نے نقطہ ٹائٹل اختیار کرلیا تو اس کے پہلے مرید ملاں حسین نے باب اپنے لئے لے لیا اس طرح ا ن کے ٹائٹل تقسیم ہوتے تھے اس نے کہا باب کو خالی کردیا انہوں نے نقطہ پرجاپہنچے ہیں تو اس لئے میں باب بن گیا ہوں اب۔ تو وہ باب ہوگئے اور یہ باب صاحب خود جن کا نام ہے علی محمد باب یہ نقطہ بن گئے۔ اب ان کی وفات کے بعد جو ان کو شوٹ کیا گیا تھا Execution ہوئی تھی باقاعدہ۔ اس کے بعد سب سے پہلے ان کے جو جانشین بنے ہیں وہ مرزا یحیٰی ہیں اس لئے مرزا یحییٰ کو میں نے نقطہ کہا ہے کہ جب یہ باب کی execution ہوگئی تو اس کے بعد ان کے جانشین مرزا یحییٰ بنے تو اس سے پہلے باب کا ٹائٹل تو ان سے جھڑ کر ان کے مرید ملاں حسین کے قبضے میں جاچکا تھا۔ اس لئے دراصل ان کو نقطہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ جس حالت میں باب مرا ہے جس ٹائٹل کو چھوڑ کر مرا ہے وہ نقطہ کا ٹائٹل تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ان کے مرید لازم ان کو باب ہی کہتے رہے ہیں باب ہی کا جانشین قرار دیتے رہے ہیں لیکن ٹائٹل کیا تھا؟ یہ تفصیلاً مجھے معلوم نہیں نقطہ والی بحث کو میں یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ یہ ذکر چل پڑا تھا اس لئے لازمی سمجھا کہ اس کا پس منطر بتادوں اس سے زیادہ اس موقعہ پر اس کی ضرورت نہیں ہے اگر آئندہ کبھی موقعہ ملا۔ بہاء اللہ اور با ب وغیرہ پہ گفتگو کا وہاں انشاء اللہ میں تفصیل سے ان تمام امور پر روشنی ڈالوں گا۔
اب میں واپس ان آیات کے درس کی طرف آتا ہوں ہم اس آیت پر گفتگو کررہے تھے کہ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم ایاتہ و یزکیھم ویعلھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل ضلل مبین۔ اس ضمن میں شیعہ مفسرین نے جو کچھ کہا ہے وہ اس وقت زیر نظر ہے شعبہ مفسرین نے جو کچھ کہا پہلے میں وہ پڑھ کر سناتا ہوں۔ اس کے نکات جتنے بھی ہیں ایک ایک لے کر کے ان کے متعلق میں آپ کو بتائوں گا کہ کیوں وہ غلط کہہ رہے ہیں ان کے پاس قطعاً کوئی جواز نہیں ہے ان دعاوی کا جو اس میں کررہے ہیں اور قرآن اور سنت اور تاریخ کی رو سے عقل و حکمت کی رو سے ان کی باتیں زیادہ بے حقیقت ہیں۔ 165- Continues میر احمد علی صاحب اس Commentry میں لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham, happens to be the probable person included inthe address of Ahlul bait.
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wives of the Holy Prophet in the term of Ahlul bait have said that since Sarah, the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33:34 relating to the purity and the excellence of the word Ahlulbait of the Holy Prophet Mohammad Sallalaho Alaihay Wasllum.
ایک یہ پوائنٹ ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے اس کا جواب میں باقاعدہ الگ اکٹھا دونگا دوسرا اس کا ترجمہ یہ ہے یا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم اہل بیت کی اصطلاح کو محدود کرتے ہیں حضرت علیؓ‘ حضرت فاطمہؓ‘ حضرت حسن ؓ ‘ حضرت حسین ؓ پر تو بعض سنی اس شوق میں کہ کسی طرح جیسے بھی بن پڑے ازواج النبیؐ کو بھی اہل بیت میں شامل کرلیں اس کے جواب میں ہماری توجہ ایک ایسی آیت کی طرف پھیرتے ہیں جس آیت میں قرآن کریم ہمیںبتلاتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت سائرہ کو مخاطب کرتے ہوئے اہل بیت کے لفظ سے مخاطب کیا وہ کہتا ہے یہ ان کی ایک بے کار کوشش ہے اس سے وہ بات ثابت نہیں ہوگی جو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر اس کے خلاف وہ دلیلیں دیتا ہے اس کو میں الگ زیر بحث لائوں گا اس کے بعد وہ کہتے ہیں ایک اور آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ حضرت نوح والی آیت ہے۔ وہ آیات یہ ہیں۔ ونادیٰ نوح ربہ فقال رب ان بنی من اھلی و ان وعدک الحق و انت احکم الحاکمین O قال ینوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح فلا تسئلن مالیس لک بہ علم انی اعظک ان تکون من الجاھلین ۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور جب نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے میرے رب میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور ان وعدک الحق اور تیرا وعدہ سچا ہے یعنی حضرت نوح ؑ کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ تیرے اہل بیت کی میں حفاظت کرو ں گا تو کہتے ہیں مجھے تعجب ہے یہ بات بھی درست ہے کہ تیرا وعدہ سچا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میرے اہل میں شامل ہے۔ وانت احکم الحاکمین اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ میں نے تو صرف ایک خیال عرض کردیا ہے کوئی بحث نہیں یہ تضاد مجھے دکھائی دے رہا ہے لیکن فیصلہ تونے ہی کرنا ہے۔ قال ینوح انہ لیس من اھلک اللہ نے فرمایا کہ اے نوح ؑ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ انہ عمل غیر صالح کیونکہ وہ بداعمال انسان ہے اور کوئی بدعمل شخص نبی کا اہل بیت نہیں کہلا سکتا فلا تسئلن مالیس لک ایک خط میں لکھ دیں مجھ سے ایسی باتوں میں سوال نہ کر جن کا تجھے کوئی علم نہیں۔ ضمناً میں بتادوں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے کہ یہاں بظاہر ایک عجیب بات دکھائی دے رہی ہے کہ جس بات کا علم نہیں اس پر سوال نہ کر حالانکہ سوال کیا ہی ا ن باتوں پر جاتا ہے جن کا علم نہ ہو تو مراد یہ ہے کہ یہ جو دائرہ گفتگو ہے یہ ایسا ہے جس کی گہرائی پر تیری نظر نہیں ہے۔ میں اہل بیت کیسے بناتا ہوں اس کو مبحث نہ بنائو تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بداعمال شخص ہے۔ اس لئے تیرے اہل بیت کی فہرست سے خارج ہے۔ انی اعظک ان تکون من الجاھلین میں تجھے یہ نصیحت کرتا ہوں اس لئے تجھے یہ نصیحت کررہا ہوں تاکہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے یعنی ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ تجھے علم نہیں جب بات کا اس میں سوال نہ کیا کر دوسری طرف یہ کہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے حضرت نوحؑ کے حوالے سے یہ چھوٹا سا جو ایک الجھن والا سوال اٹھتا ہے اس کا مختصر جواب دے کر پھر میں مضمون کی طرف لوٹوں گا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ایک واقعہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے بیٹا ا ن سے جدا ہوکر اور قریب تھا کہ غرق ہوجائے اور پھر ایک لہر آتی ہے اور ان کے اور بیٹے کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اور ا ن کے ذہن میں یہ خدا کا وعدہ تھا کہ تیرے اہل بیت بچالئے جائیں گے تبھی وہ حضرت نوحؑ اس کو اپنی طرف بار بار بلا رہے تھے۔ کیونکہ اپنے ذہن میں وہ اس کو شامل سمجھتے تھے جب درمیان میں موج حائل ہوگئی اور وہ غرق ہوگیا۔ تب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اب یہاں علم اور لاعلمی کی کیا بحث ہے یہ ہے سوال جس کو میں پیش نظر رکھتے ہوئے آپ سے بات کررہا ہوں ۔ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا بحیثیت نبی یہ فرض تھا کہ خدا کی تقدیر کے تابع اس مسئلے پر غور کرتے اور خدا سے یہ سوال نہ اٹھاتے کیونکہ ایسے سوال کے جوابات بعض دفعہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں اور کئی قسم کے احتمالات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے معاملات میں سوال نہیں کرنا چاہئے جن کے نتائج بعض بدتر بھی نکل سکتے ہیں اس لئے خاموشی بہتر تھی۔ تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ خدا کی تقدیر کو خاموشی سے قبول کرلیا جاتا اگرچہ نبی متقی ہوتا ہے لیکن بہت ہی بعض باریک ایسے رستے آتے ہیں جہاں وہ تقویٰ میں لغزش سی دکھائی جھول دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن نبی ٹھوکر نہیں کھاتا تو بعد میں جب یہ فرما دیا کہ تاکہ تو جاہلوںمیں سے نہ ہوجائے۔ صاف بتا رہا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت نوح ؑ کے ذہن میں جو سوال اٹھا تھا وہ خطرے کے مقام پر تو تھا لیکن ٹھوکر نہیں کھائی جاہلین میں سے نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تجھے اس لئے نصیحت کررہا ہوں کہ اگر اس قسم کے سوالات میں تو آگے بڑھ جاتا یا کوئی شخص آگے بڑھ جائے تو اس کا انجام یہ ہونا تھا کہ وہ اہل علم سے نکل کر جہلا میں شمار ہوجاتا پس بہت ہی باریک ٹھوکر تھی اس کا اشارہ کرکے حضرت نوح ؑ کی بریت بھی خود ہی فرمادی کہ میں نے دیکھ لیا تھا تو کیا کہہ رہا ہے میں تجھے نصیحت کررہا ہوں تاکہ آئندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ خطرہ ہے کہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجائے یعنی حضرت نوح ؑ کا شمار اس سوال کے نتیجہ میں ا ن لوگوں میں نہیں ہوا جو ٹھوکر کھا گئے ہیں ان لوگوں میں ہوا جو ایسی جگہ قدم رکھ رہے تھے جہاں ٹھوکر کا احتمال تھا یہ وضاحت حضرت نوح ؑ کی بریت کے لئے ضروری تھی اس لئے میں نے کی ہے اب یہاں ان کا تبصرہ سنئے۔ فرماتے ہیں۔
The supplication of Noah aimed to clear the doubt in the mind of the followers of subsequent ages that the mere birth of any other without the spiritual offinity with the prophets would not justify the application of the term which precise the relationship implies the merit. Therefore the term Ahlul bait is restricted only to the deserving member of the house of the Holy Prophet and the same restriction is applicable to the terms of relatives which does not mean relationship in blood or in matrimoney. Besides this means close affinity and the chracter and spiritual attainment.
یہاں بات تو انہوں نے سیدھی سادھی وہی کہی ہے جو نتیجہ نکلنا چاہئے کہ اہل بیت محض خون کے تعلق سے نہیں بنا کرتے بلکہ اس کے لئے روحانی رشتہ ہونا بھی ضروری ہے اور یہ کہنے کے بعد بیچ میں یہ فساد کا جملہ داخل کردیا کہ (Relatives) سے بھی نہیں بنا کرتے اہل بیت Which does not mean relationship in blood or in matrimoney اس لئے یہ جو ازدواجی رشتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اہل بیت میں داخل نہیں ہوا کرتا۔ بات یہ ہورہی ہے کہ رشتہ ہو اور کوئی بدکردار ہو تو نکلتا ہے نتیجہ یہ نکال رہے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ رشتوں کااہل بیت بنانے میںکوئی تعلق نہیں یعنی ازدواجی رشتے سے بھی انسان خواہ نیک ہو اہل بیت نہیں بنتا۔ یہ اس سے کیسے نتیجہ نکلتا ہے بحث تو نیکی اور بدی کی ہے۔ اب اس کا جواب میں آگے پھر دوں گا لیکن میں صرف نقطہ بنقطہ بتا رہا ہوں آپ کو کہ یہ چیزیں ہیں جو بحثیں آج اٹھائی جائیں گی۔ آگے پھر یہ میر صاحب فرماتے ہیں۔
Indeed God hath conferred his favour upon the belivers when he raired up an …… Muhammadؐ among them from their own selves to reherse unto them their sign.
یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔ کہتا ہے-
Ahlul bait not included for they were purified by God Himself
یہ کل سوال اٹھایا جاچکا تھا اس پر بھی گفتگو ہوگی۔ پھر یہ کہتے-
It is reported that one day the Holy Prophetؐ was lying under his mantle therein entered Aliؓ, Hassanؓ, Hussainؓ, and Fatimaؓ. This verse was rerealed. Verily God intendeth but to keep off from you every kind of uncleanliness Oye people of the house and purify you with a through purification. (Surah 33 Verse 34).
اس کے پھر وہ حوالے دیتے ہیں بہت سے پھر مزید اس بات میں لکھتے ہیں۔
Ummulmomineen Ayesha says that the verse was revealed when the above five were under the mantle.
ایک روایت حضرت عائشہؓ کی دیتے ہیں اور وہاں ا نکو ام المومنین لکھ رہے ہیں۔ یاد رکھئے اب اس موقعہ پر حضرت عائشہ ؓ صدیقہ چونکہ انکو اپنے حق میں بات کرتی دکھائی دے رہی ہیں اسلئے ام المومنین بن گئیںآخر اور اگر مومن حضرت علیؓ ہی تھے اور یہ چند بزرگ تھے۔ جن کا ذکر ہے تو ان کی ماں بن جاتی ہیں تو اس ماں کے متعلق کیا کیا گستاخیاں کرتے ہیں وہ میں بعد میں سنائوں گا آپ کو۔
When Hazrat Ayeshaؓ herself says that only the above five holy ones were there under the mantle and she was out of it. Some of our brothern not knowing her actual position unwarrented claim her inclusion in the Ahla bait interpreting the verse of the Holy Quran in their own way. Hazrat Ummay Salmaؓ reports that on the above occasion she was there and desired hereself to join the holy five but the Holy Prophetؐ refused her entry saying thou art of my wires and thou art rightous but this is not the place for thee. Thou are not of my Ahlul bait.
پھر کہتے ہیں:
There is no loophole left for anyone olse besides the decleared personnel to be counted among the Ahulbait i.e. beside the holy ones the Holy Prophetؐ, Aliؓ, Fatimaؓ, Hassanؓ, Hussain and the mine imams in the …… of Hussainؓ.
اب میں باری باری ان تمام امور کو لیتا ہوں تاکہ ایک دفعہ اہل البیت کا مضمون خوب واضح ہوجائے اور کھل جائے اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے بات پتہ لگے کہ اہل البیت ہوتے کیا ہیں کن کو کہا جاتا ہے ان میں کون کون لوگ داخل تھے اور شیعوں نے اپنی مطلب براری کی خاطر کیا کیا ظلم کئے ہیں روایات کے ساتھ سب سے پہلے تو یہ جو چادر والا قصہ ہے یہ بیان کرتا ہوں مگر اس سے پہلے وہ آیت پوری تلاوت کرکے بتانا چاہئے جس سے یہ نکال رہے ہیں۔ میرا خیال ہے پہلے وہ لانی چاہئے۔ وہ کہاں ہے آیت؟ (اس کے نیچے......) کیونکہ جب تک یہاں سے بات شروع نہ ہو۔ اس وقت تک یہ مضمو ن سننے والوں پہ پوری طرح روشن نہیں ہوگا۔ ابھی تک اکثر آپ میں سے نہیں سمجھ سکے ہونگے کہ بات ہے کیا کسی آیت کی گفتگو ہے کیا کھینچا تانی ہورہی ہے۔ اس لئے میںپوری وضاحت سے اس کا پس منظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ قرآن کریم میں سورہ الاحزاب آیت 32 تا 35 حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات مخاطب ہیں۔ ان کے متعلق ذکر چل رہا ہے۔ ا ن کا مضمون بیان ہورہا ہے۔ ومن یقنت منکن للہ و رسولہ وتعمل صالحانوتیھا اجرھا مرتین و اعتد نا لھا رزقا کریما O کہ تم میں سے اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی خدا کی خاطر اپنے یقنت کا مطلب ہے اپنے آپ کو روک کر عاجزی کے ساتھ گزارا کرے گی (لفظی ترجمہ کیا ہے.فرمانبرداریکے ساتھ عاجزی شامل نہیں خیر چھوڑ دیں) منکن للہ ورسولہ جو اللہ اور رسول کے سامنے کامل اطاعت اور میں سمجھتا ہوں عاجزی کا مضمون بھی اس میں شامل ہے اور عجز کے ساتھ معاملہ کریں گی جو ان کی فرمانبردار رہیں گی اور ادب کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمانبردار رہیں گی اور ونعمل صالحا اور جو ان میں سے نیک اعمال کرے گی نوتھا اجرھا مرتین ہم اس کا اجر دہرا دیں گے۔ عام مومنوںکے اجر کے مقابل پر دگنا اجر دیں گے یہ مرتبہ بیان ہورہا ہے۔ ازواج النبیؐ کا۔ واعتدنا لھا رزقا کریما اور ہر ایسی زوجہ کے لئے ہم نے بہت ہی معزز رزق تیار کر رکھا ہے۔ ینساء النبی اے نبی کی بیویو ! لستن کاحد من النساء تم عورتوں میں سے عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ تمہارا بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔ ان اتقیتن اگر تم اختیار کرو فلا تخضعن بالقول اور اپنے قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس سے کشش جس میں کشش پائی جائے لوگوں کے لئے۔ فیطمع الذی فی قلبہ مرض جس سے خطرہ ہو کہ اس لحن میں ایسی نرمی ایسی دلکشی پائی جائے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہیں ان میں کسی قسم کی دلوں میں طمع پیدا ہوجائے۔ وقلن قولا معروفا اور ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم نے ایسا نہیں کرنا۔ لاتخضعن کا مطلب ہے ہر گز قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس کے نتیجہ میں بیمار دلوں میں طمع کا خطرہ پیدا ہو ۔ طمع پیدا ہونے کا خطرہ ہو وقلن قولا معروفا لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ سخت کلامی کرتی پھرو۔ قول معروف اختیار کرو۔ برمحل موقعہ پر جو نرم گفتگو‘ مہذب گفتگو ہونی چاہئے اس سے احتراز نہیں کرنا۔ مگر قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرنا جس سے غیر معمولی کشش پیدا ہوجائے وقرن فی بیوتکن اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاہلیت کے زمانے میں عورتیں جیسے سنگھار پٹار کرتی تھیں ویسا سنگھار پٹار نہ کرو۔ جاھلیۃ اولیٰ یعنی اسلام سے پہلے کی جو جاہلیت کا زمانہ تھا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو واطعن اللہ ورسولہ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ یقینا اللہ تعالیٰ چاھتا ہے تاکہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کردے۔ اے اہل بیت ! ویطھرکم تطھیرا اور تمہیں بہت پاک و صاف کردے۔ واذ کر ن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ اور یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام من ایات اللہ۔ اللہ کی آیت میں سے جو کچھ تمہارے ہاں تلاوت کی جاتی ہے۔ والحکمۃ اور جو حکمت کی باتیں وہاں پڑھی جاتی ہیں۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا O یقینا اللہ تعالیٰ بہت ہی لطیف اور بہت ہی خبر رکھنے والا ہے۔ یہاں لطیف کا تعلق خبیر سے ایک طبعی اور گہرا تعلق ہے۔ جو چیز جتنی لطیف ہو اتنا سرائت کرنے کا مادہ رکھتی ہے جو سب سے زیادہ لطیف ہو وہ ہر جگہ ہوگی۔ چنانچہ سائنسدان بھی جب یہ بحث اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں نیوٹرینوں سے نجات نہیں مل سکتی وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں سب سے زیادہ لطیف ہیں اور کثیف سے کثیف مادے سے بھی نکل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا لطافت کا تصور اس کائنات کے تصور سے پرے کا تصور ہے۔ وہ ایسا لطیف ہے کہ کوئی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی اور جو لطافت کی وجہ سے ہر جگہ پہنچتا ہو ہر جگہ موجود ہو اس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لئے فرمایا وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ اب یہ ہیں آیات کریمہ جن کے حوالے بار بار آپ کو شیعہ لٹریچر میںوہ ملیں گے اور جن سے وہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں اہل بیت سے مراد حضرت علی‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت امام حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم ہیں اور اور کوئی نہیں ہے اب آپ نے یہ آیات سن لی ہیں کتنا واضح ہے ان کا منطوق کہ ایک لمحہ کے لئے بھی انسان اس مضمون کو ازواج نبی کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا۔ آیت میں جس کا ذکر ہورہا ہے اسی کی بات ہورہی ہے بیچ میں اور کوئی کہاں سے آگیا۔ وقرن فی بیوتکن اے ازواج نبی ؐ ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔بے وجہ لوگوں کے گھروں میں چکر نہ لگایا کرو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاھلیت کے طریق کے سنگھار نہ کیا کرو۔ جو پہلے گزر گیا گزر گیا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو ۔ اے نبی کی بیویو ! واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو۔ واطعن اللہ و رسولہ ۔ اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور آیت جاری ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔ اللہ نے فیصلہ فرمالیا ہے۔ ارادہ کرلیا ہے کہ تم سے ہر قسم کی گندگی کو دور کردے گا۔ یہ خطاب کہتے ہیں ازواج نبیؐ سے ہٹ گیا اور اچانک اس میں دوسرے بیچ میں مخاطب ہوگئے۔ یہ طرز تخاطب تو ایک عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا بلکہ یقینا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو کلام کا سلیقہ ہی نہیں ہے۔ بات کسی اور کی چل رہی ہے۔ پہلی آیت سے ہی چل رہی ہے اور بات کرتے کرتے جب پوری طرح مضمون واضح کردیا اور مضمون کا تعلق ہی تطھیر سے ہے ان کی روحانی پاکیزگی سے اس مضمون کا تعلق ہے جب یہ آخری نقطہ تک پہنچتا ہے۔ مضمون اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان کی وجہ کیا ہے عام لوگوں پر تو ایسی پابندیاں نہیں اس لئے کہ ہم چاہتے ہیں تم کو خو ب پاک و صاف کریں تو کہتے ہیں یہاں اچانک بیویاں نظر سے غائب اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ اور دو صاحبزادے آجاتے ہیں بیچ میں۔ اتنی حیرت انگیز یہ ان کا منطق ہے کہ کوئی معقول آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی بنیاد انہوں نے ایک حدیث پر رکھی ہوئی ہے۔ اور وہ حدیث من گھڑت حدیث ہے۔ حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ اپنی ایک کتاب میں اس کے خوب پرخچے اڑائے تھے کہ مسلمان علماء پتہ نہیں کیوں خواہ مخواہ اس کو قابل توجہ سمجھتے ہیں اس کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں جو حدیثیں وہ پیش کررہے ہیں ان کا اندرونی تضاد بتا رہاہے کہ یہ من گھڑت قصہ ہے کساء والی ایک بات پیش کرتے ہیں کہ یہ ایک چادر تطہیر ہے نہ قرآن میں کسی چادر کا ذکر نہ چادر تطہیر کا کوئی تصور سارے قرآن میں ملتا ہے۔ جو تصورہے تطہیر کا وہ بالکل واضح ہے۔ ان آیات میں اس چادر کو کہاں سے یہ گھسیڑ لائے ہیں وہ کہتے ہیں اس کی روایت حضرت عائشہ ؓ ام المومنین کی روایت ہے اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی ہے۔ اب میںآپکو بتاتا ہوں ان روایات کا قصہ ! درمنثور وغیرہ درمنثور فی التفسیر بالماثور از جلال الدین سیوطی کا حوالہ ہے اور پھر ام سلمہؓ کی روایات چل رہی ہیں پھر تفسیر در منثور از جلال الدین سیوطی میں ام سلمہؓ کی روایت پھر آتی ہے پھر کچھ روایتیں ہیں جن کو یہ شیعہ چھوڑ دیتے ہیں اور در منثور ہی میں موجود ہیں۔ ان روایات کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ ان روایات کی رو سے حضرت ام سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ یہ آیت جو پڑھی جاچکی ہے۔ یہ میرے گھر میں نازل ہوئی تھی اور اس وقت میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی تھے اور آپ نے مجھے بھیجا ۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ وغیرہ کو بلانے کے لئے یہ آیت نازل ہوچکی ہے۔ اس لئے میں اپنی چادر میں ان کو لے لوں جن کی تطہیر کا وعدہ ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی اپنا سر بیچ میں داخل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے نے روک دیا۔ یہ روایت کے مطابق اور کہا دو دفعہ کہا تو نیک ہے پہلے ہی نیک ہے تجھے ضرورت نہیں تو باہر ہی ٹھہر۔ اب یہ روایتیں ایک طرف ہیں دوسری طرف یہی شیعہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہ درج ہے کہ یہ آیات میرے گھر نازل ہوئی تھیں۔ ام سلمہ ؓ کے گھر نازل ہی نہیں ہوئیں اور میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پھر ایک روایت اوربھی انہوں نے گھڑی ہوئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ فرما رہی ہیں کہ گویا اس وقت رات کو یہ اہل بیت جن کو یہ بیان کررہے ہیں یہ سارے وہاں موجود تھے اور اگر موجود نہیں تھے تو بلائے گئے اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے گھر اب ان روایات کا تضاد تو دیکھیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کی طرف منسوب بات کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کا جاکر بلا لانا اور کہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بلا لانا اول تو یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ بلانے گئیں یا نہیں گئیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ آیات نازل ہی ہوئی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تھے اور آپ نے سب کو اکٹھا کرلیا۔یہ ہے روایات کا حال اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا والی روایت جو ہے۔ اس کے متعلق شیعوں نے ایک روایت کے لفظ صحیح درج کئے ہیں لیکن وہ بھی بنی ہوئی گھڑی ہوئی ہے۔ لیکن ان کو الفاظ پسند نہیں آئے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے اپنی طرف سے پھر مناسب حال کیا ہے۔آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں بھی اپنا سر داخل کرلوں۔ وہی بات۔ جو ام سلمہ ؓ نے کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ تم نیک ہو تم بھلی ہو تم بھلی ہو۔ تو کیا مطلب نکلتا ہے کہ پھر ان کو ضرورت تھی۔ جن میں نیکی نہیں تھی؟ اس سے تویہی نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ترجمہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ عائشہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی سے کہا ہٹ پرے ہٹ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اتنا جھوٹ گھڑتے ہیں۔اول اگر جھوٹی روایت تو اس کا ترجمہ مزید جھوٹا یعنی کریلے کو بھی نیم پر چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ یہ ہے ان کی روایات کا حال متضاد روایتیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرانے والی کوئی ان کی روایت کو بیان کر رہاہے کہ یہ تو مباھلہ سے تعلق رکھنے والی روایات ہیں۔ نہ سر نہ پیر۔ ایسا پودا جس کو جڑیں ہی قائم نہیں ہیں اس پر بناء کرتے ہوئے قرآن کریم میں یہ تصرف کرنا چاہتے ہیں ۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم تو کسی قیمت پہ تصرف کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ فرمارہا ہے۔ وقرن فی بیوتکن ایک ہی آیت ہے دو آیتیں نہیں ہیں۔ غور سے سُن لیجئے۔ تم اے نبی کی بیویو ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ قبل از وقت کی پہلے دور کی جاہلیت کے سنگھار نہ کیا کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ۔ اے اہل بیت اللہ تم سے رجس کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ اے محمدؐ تجھ سے یہ پاک نہیں ہوں گے۔ جو اہل بیت ہیں میرے ان کو میں خود پاک کروں گا۔ تیرے سپرد باقی مومن اور میرے سپرد یہ اہل بیت۔ اس لئے ان کو میں پاک کروں گا اور جب یہ کہا جاتا ہے پاک کروں گا اور ان میں کوئی برائی نہیں رہنے دوں گا تو اس سے یہ بھی تو نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت تک پاک نہیں تھے اور کچھ برائیاں موجود تھیں۔ ورنہ پاک کو پاک کیسے کرے گا اور خود شیعہ عقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ پیدائشی پاک ہیں۔ پس وہ لوگ جو پیدائشی پاک ہیں ان کو خدا دوبارہ کیسے پاک کرے گا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ ایک کاٹھی گھوڑے پر ڈال دی جائے توکہے دوبارہ ڈال دو۔ دوسری کاٹھی کیسے پڑ جائے گی۔ جو لوگ پاک و صاف ہوں ان کے متعلق یہ وعدہ کہ میں کروں گا اور پھر ایسا پاک کرو ںگا کہ کوئی برا پہلو کسی قسم کا کوئی داغ ا نکے جسم پر ان کے روحانی جسم پر باقی نہ رہے۔ یہ صاف بتا رہا ہے کہ کمزوریاں دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ جو کمزوریاں پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ جاہلیت کا مضمون ہے۔ فرمایا ہے کہ تم نے بہت سی رسمیں پرانے زمانوں میں سیکھی تھیں۔ اس طرح عورتیں سنگھار پٹار کیا کرتی تھیں۔ اس طرح نخرے سے کلام کیا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو چھوڑ دو۔ تمہیں زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ تم محمد رسول اللہ کے عقد میں آگئی ہو اور اس گھر کی پاکیزگی کے تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں پر تمہیں چلنا پڑے گا اور اس کے نتیجہ میں تم عام اہل بیت نہیں رہو گی تمہارا مرتبہ خدا کے نزدیک اتنا بڑا ہوجائے گا کہ عام مومنوں کے مقابل پر تمہیں دگنے اجر دیئے جائیں گے اور شرط وہی ہے کہ نیکی۔ تو حضرت نوح ؑ والی آیت سے اس آیت کا ٹکرائو کہاں سے ہوگیا کوئی یعنی اس مضمون کا جو حضرت امہات المومنین ؓ کے تعلق میں یہاں بیان ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ مزید تقویت ملتی ہے۔ اس بات کو کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اہل بیت کے طور پر مخاطب فرمایا ہے اور پرانی رسمیں ترک کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ نیک بننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ساتھ ہی یہ وعدہ فرمادیا کہ اگر تمہارے بس میں یہ کام نہ ہو تو ہم وعدہ کرتے ہیں ہم کرکے دکھائیں گے اس سے بڑا پختہ وعدہ کسی کی تطہیر کا اور کیا ہوسکتا ہے اگر وہ ارادہ ظاہر کرتیں اور کہتیں ہاں سرتسلیم خم ہم کرلیں گی تو شک کیا جاسکتا تھا۔ شیعہ کہہ دیتے کہ نیک ارادہ ہوگا۔ لیکن کر نہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں اس کام میں تمہاری مدد کروں گاا ور ایسا پاک صاف کروں گا کہ اس کی مثال نظر نہ آئے کوئی داغ کسی قسم کا تمہارے چہروں پر تمہارے جسم پر باقی رہنے نہیں دوں گا یعنی روحانی چہرہ اور روحانی جسم۔ اب میں باقی اور بعض باتیں یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں یہ جو استنباط کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کا ذمہ خود لے لیا اور باقی رسول اللہ صلعم کے سپرد کردیئے اس ضمن میں ایک اور آیت کا حوالہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تمام صحابہ ؓ کے متعلق اللہ نے خود تطہیر کا وعدہ فرمایا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج یہ آیت کا ٹکڑا ہے جس میں وضوء وغیرہ کے احکام ہیں اور پاک بازی کے احکام ہیں اس کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج اللہ تمہیں کسی تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ بعینہ وہی مضمون ہے جو امہات المومنین ؓ کے والی آیات میں درج ہے کہ بظاہر بڑی سختی کی تعلیم ہے یہ کرو وہ کرو اس سے باز رہو مگر مقصد تم پر مزید احسان کرنا ہے تمہیں تنگی میں ڈالنا نہیں تو جہاں تطہیر کے احکامات عام مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کے لئے تھے وہاں خدا نے یہ وضاحت فرمادی۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔ یہاں بھی لفظ یرید استعمال ہوا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ ہر گز نہیں کہ تم پر کسی قسم کی تنگی وارد فرمائے۔ ولکن یرید لیکن اللہ یہ چاہتا ہے لیطھر کم تاکہ وہ تمہاری تطہیر فرمائے۔ ولیتم نعمتہ تطہیر ہی نہیں ولیتم نعمتہ اور تم پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچا دے علیکم یعنی مخاطب ہیں تمام صحابہ ؓ اور متبعین لعلکم تشکرون تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہی مراد ہے کہ میرا شکرادا کرو۔ تو اللہ کی بات ہو رہی ہے اس لئے میں نے کہہ دیا اللہ کا شکر ادا رکرو لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرو اصل میں یہاں ن کے اوپر زبر لکھی ہوئی ہے زیر نہیں ہے۔ اگر زیر ہوتی تو ’نی‘ سے کی طرف اشارہ ہوتا اس لئے یہاں محض شکر ہے کسی کی طرف اشارہ نہیں ہے میں نے غور سے دیکھا ہے تو یہ مطلب بنتا ہے لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرنے والے ہوجائوا ور شکر نعمتوں کے نتیجہ میں ہونا چاہئے۔ یہ لازم ہے مطلب یہ ہے کہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو تمہارے حق میں پورا ہوگا۔ وہ پورا فرمائے گا۔ وہی تمہیں پاک و صاف کرے گا۔ اس لئے وہ جو تقسیمیں تھیںدو انکا تو کوئی وجود باقی نہ رہا ہ کچھ رسول کریم ؐ کے سپرد تطہیر کے لئے کئے گئے کچھ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھ لئے یہ آیت بتا رہی ہے کہ سارے ہی اللہ کے ہاتھ میں تھے اور محمد ؐ کا ہاتھ بھی تو اللہ ہی کا ہاتھ تھا۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس ہاتھ کے نیچے ہاتھ پڑے ہوئے تھے اور بیعتیں ہی بیعتیں ہورہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہاتھ کے متعلق فرمایا یداللہ فوق ایدیھم اللہ کا ہاتھ تھا جو ان کے ہاتھ پر ہے تو تطہیر محمدؐ تطہیر خدا ہے یعنی وہ تطہیر جو محمدؐ سے رونما ہوتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اللہ ہی کی تطہیر ہے۔ جو وہ خود فرما رہا ہے۔ اس لئے اللہ اور رسول میں جو لوگ تفریق کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں الگ بڑا سخت انداز موجود ہے کہ تم میرے رسول ؐ کو مجھ سے کاٹ کر الگ نہ کرنا اور وہ آیات اس وقت میرے ذہن میں مضمون کے طور پر ہیں۔ میں ان کو لفظاً نہیں دھرا سکتا لیکن بہت سختی سے اس رجحان کو خدا تعالیٰ نے رد فرمایا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ہر گز ایسی جہالت میں مبتلاء نہ ہونا کہ خدا اور رسولؐ میں تفریق کردو۔ الگ الگ کردو۔ پس یہ شیعہ علماء خدا اور رسول ؐ میں اس طرح تفریق کرتے ہیں کہ ایک تطہیر اللہ کی ایک تطہیر رسول کی اور آیات قرآنی اس مضمون کو کلیتہً رد اور مردود قرار دیتی ہیں۔ پھر آیت تطہیر کے تعلق میں یہی خدا کی طرف ضمیر کا جانا کہ میں نے پاک کرنا ہے۔ میں نے یہ کرنا ہے ایک اور آیت ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی ایک آیت کا حصہ ہے۔ آل عمران آیت 195,196‘ ہے یہ فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لا کفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھار ثوابامن عنداللہ و اللہ و عندہ حسن الثوابO کہ یاد رکھو وہ لوگ یعنی کثرت سے (ایک ہجرت کرنے والے کا ذکر نہیں ہے) وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی واخرجوا من دیارھم اور اپنے گھروں سے نکالے گئے واوذوا فی سبیلی اور جن کو میری راہ میں تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ یہ ہیں صحابہ ؓ کرام جن کے اوپر نفاق کا فتویٰ عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان سے کیا ہوگا وقاتلوا وقتلوا انہوں نے قتال کیا اور شہید کئے گئے۔ لاکفرن عنھم سیاتھم میں خود لازما ضرور بالضرور ا ن کی برائیاں دور کردوں گا۔ ایک تاکید کا حکم ہے یہ جب کسی فعل سے پہلے آئے تو اس سے تاکید پیدا ہوجاتی ہے اور نون خفیفہ بھی تاکید کے لئے آتا ہے۔ اگر اکفر کی بجائے اکفرن ہوتا تو اسے نون خفیفہ کہتے ہیں اس کا مطلب ہے مزید تاکید پیدا ہوگئی۔ اور نون ثقیلہ اس نون کو کہتے ہیں جو یہاں استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لازماً ہر صورت میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو کوئی دنیا کی طاقت تبدیل کر ہی نہیں سکتی۔ ایسا فیصلہ میں نے پختہ کر رکھا ہے کہ ان صحابہ ؓ اور ان قربانی کرنے والوں سے ان کی برائیاں ضرور دور کروں گا ولا دخلنھم اور ضرو ران کو جنات میں داخل کروں گا۔ جن کویہ بدبخت جہنمی کہہ رہے ہیں ان کو خدا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھ لیجئے اور ضمیر اپنی طرف لے کے جارہا ہے ہر بات کی ۔ ایسی جنات میں لازماً داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ثواباً من عنداللہ یہ اللہ کی طرف سے ثواب ہے۔ واللہ عندہ حسن الثواب اور اللہ کے پاس تو بہت ہی حسین بہت دلکش ثواب ہے یعنی صرف ثواب کی بات نہیں بہت پیارے پیارے اجران کے لئے مقدر ہوچکے ہیں۔ یہ ہے اس آیت کا مضمون جو قرآن کریم کی دوسری آیات سے قطعی طور پر کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اب میں ا ن کی بعض دوسرے دلائل کی بات کرتا ہوں۔ ایک شیعہ مفسر صاحب مولوی فرمان علی صاحب نے غور کیا ہے معلوم ہوتا ہے ان کو یہ تکلیف ہے کہ ایک ہی آیت کے اندر یہ مضمون آگیا ہے۔ اور صاف پتہ لگ رہا ہے کہ جن کا ذکر چل رہا ہے۔ انہی کے متعلق ہوگا تو اس مشکل سے وہ کس طرح باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے والا معاملہ ہے۔ نام ہے ا نکا مولوی فرمان علی صاحب ۔ یہ کہتے ہیں اس عذر انہوں نے یہ تراشا ہے اگر ازواج مقصود ہوتے تو جس طرح ماقبل اور مابعد کی آیت میں ضمیر جمع مونث حاضر تھی اس میں باقی رہتی کہتے ہیں پہلاسمندر تو یہ ہے کہ اگر ازواج مطہرات پیش نظر ہوتیں تو ضمیر مونث کی بجائے ضمیر مذکر میں ان کو مخاطب نہ کیا جاتا اور آیت کا یہ جو ٹکڑا ہے۔ یہ تانیث کا صیغہ چھوڑ کر اچانک تذکیر کے صیغے میں داخل ہوجاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ وہ جن کا ذکر چل رہا ہے وہ نہیں کوئی اور لوگ آگئے ہیں بیچ میں اچانک۔ اس کے متعلق آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اہل بیت کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال ہوتا ہے اور حضرت سائرہ کے متعلق جب اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا تو وہ بھی مذکر ہی استعمال ہوا ہے اور ایک عورت کو مخاطب کرتے ہوئے اہل البیت کہا گیا ہے مذکر کہا گیا ہے تین جگہ یہ آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے ایک یہی آیت تطہیر ہے جس میں فرماتاہے لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا کہ اے اہل بیت اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ ’’یرید اللہ ‘ وہی ’’یرید‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ فیصلہ فرما چکاہے۔ اللہ تعالیٰ اور یہ ارادہ رکھتا ہے کہ ضرور تم سے و ہ ہر قسم کی برائی کو دور فرمادے گا۔ ہر قسم کے داغ دھو دے گا۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ وحرمنا علیہ المراضع من قبل فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ ۔ حضرت موسیٰؑ کی بہن حضرت موسیٰ کے ساتھ ساتھ جب وہ بہتے ہوئے جارہے تھے دریا میں کنارے پر چلتی رہیں دیکھ لیا کہ کنہوں نے پکڑ لیا ہے وہ بچہ اور جب پتہ چل گیا تو ان کو انہوں نے ان سے یہ سوال کیا ہے مشورے کے طور پر کہ کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کی خبر نہ دوں جو اس کی پرورش کریں۔ دودھ دودھ پلائیں اور خیال رکھیں تو کس مذکرکا وہاں ذکر تھا؟ لیکن صیغہ مذکر ہی کا استعمال ہوا ہے۔ اہل بیت اور مراد حضرت موسیٰؑ کی والدہ ہیں تو دو عورتیں واحد کے ایک ایک عورت ہے جن کی طرف اشارہ جارہا ہے اور اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قالو اتعجبین یہ دوسری نہ وہ پہلے تو تھا نہ جمع جمع کا صیغہ نساء النبیؐ ہیں مراد اور میں نے کہا آپ ذرا ایک طرف ہی ہٹ جائیں کیونکہ ان کی جو بدلتی کروٹیں ہیں وہ آپ کو بار بار مجبور کررہی ہیں آگے آجائیں ہاں ٹھیک ہے اس سے آپ کو تو کوئی تکلیف نہیں آپ کی ورزش ہو رہی ہے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں جب بار بار نظر پھیراتا ہوں نا الجھن پیدا ہوتی ۔ تین آیات میں دومیں ایک ایک عورت پیش نظر قالوا اتعجبین من امراللہ سورہ ھود کی آیت 74‘ فرشتوں نے کہا اے مخاطب اے ایک خاتون تعجبین کیا تو اللہ کے معاملات میں تعجب کرتی ہے۔ اللہ کے فیصلوں پر تعجب کرتی ہے۔ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم یہاں مخاطب بھی مردوں والے صیغے میں لیا گیا ہے علیکم تم پر رحمت ہو اللہ کی اور اس کی برکات اہل البیت ‘ اے اہل بیت یعنی سائرہ۔ تو اس لئے ایک واحد خاتون سامنے ہے اور مذکر کا صیغہ استعمال ہورہا ہے تو جہاں جمع کی صورت میں خواتین موجود ہیں وہاں اس میں کیا اعتراض ہے شیعہ صاحبان کو۔ یہ طرز کلام ہے قرآن کریم میں ہر جگہ اہل بیت کو مذکر ہی استعمال کیا ہے اس پر کوئی گنجائش نہیں ہے کسی اعتراض کی۔
اس کے بعد ایک اور اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہتے ہیںیہ تو ہے ہی آیت یہاںکی ہے نہیں ۔ دل میں اس مولوی صاحب کو پھر بھی کسی تھوڑی سی جو کوئی نیکی رہ گئی تھی اس نے چٹکی لی ہے۔ ایسی چٹکی بھری ہے تکلیف ہوئی ہے کہ میں کہہ تو دیا ہے مگر پتہ ہوگا کہ ہر جگہ اہل بیت مذکر ہی استعمال ہوتا ہے پھر کیا کروں۔ یہاں تو صاف نظر آرہا ہے کہ امہات المومنین مراد ہیں اور ان کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کہتے ہیں بات یہ ہے اس آیت کو درمیان سے نکال دو او رماقبل اور مابعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی یہ ٹکڑا جو بیچ میں آیا ہے اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت اس مقام کی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے۔ ان اللہ ۔ قرآن ہاتھ سے چلا جائے مگر اپنی بیہودہ سرائی ہاتھ سے نہ جائے ۔ اپنے لغو تصورات کو ثابت کرنا ہے چاہے قرآن کا کچھ بھی باقی نہ چھوڑا جائے۔ اس حد تک یہ لو گ متعصب اور غالی لوگ ہیں اور اس قدر دشمنی ہے۔ ازواج مطہراتؓ سے کہ وہ دشمنی جگہ جگہ اگلتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح زہرا گلتا ہے سانپ اس طرح یہ زہر اگلتے ہیں ازواج نبی ؐ پر اور ابھی یہ متقیوں میں شمار ہورہے ہیں۔ قرآن کا متعلق کہتے ہیں یہ تحریف ہوگئی ہے۔ ہم مانتے نہیں۔ اس آواز نے ثابت کردیاکہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سارے دلائل جھوٹے اور بے معنی ہیں۔ اگر کوئی وزن ہوتا تو یہ آخری بات نہ کہتے۔ سب کچھ کہنے کے بعد سب کچھ سننے کے بعد دل نے پھر یہی فیصلہ دیا کہ یہ بات بنتی نہیں ہے۔ جو مرضی کرلو۔ یہاں ازواج ؓ نبی ؐ کے سوا کوئی مخاطب ہو ہی نہیں سکتا تو اس ٹکڑے کو نکال دو۔ پھر مضمون صاف ہوگا۔ اس کا کیا تعلق ہے یہاں؟ یہ تحریف ہوگئی ہے اور پھر اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہیں کہتے ہیں اگر ازواج نبیؐ شامل ہوتیں تو ان کی تعداد نو تھی اور ان حضرات کی چار۔ ان میں بھی ایک عورت ہی ہے پس مجموعاً تیرہ ہوئے۔ دس عورتیں تین مرد پھربھی غلبہ عورتوں ہی کا رہا۔ کہتا ہے غلبہ عورتوں کا رہا اس لئے مخاطب مذکر کے صیغے میں بھی کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ جو آیت میں نے حضرت سائرہ والی پیش کی ہے اس میں دو دفعہ ایک خاتون کو مذکر کے صیغے میں استعمال کیا۔ پہلے علیکم کے طورپر رحمت اور برکات کی خوش خبری دی اور پھر اہل بیت قرار دیتے ہوئے۔ تو قرآن کے اسلوب کو یہ کیسے بدل دیں گے؟ اللہ تعالیٰ کو عربی سکھا رہے ہیں؟ پھر آگے ایک سوال اٹھایا ہے۔ اہل بیت کیسے کہتا ہے ہوسکتے ہیں یہ تو آج ہیں کل طلاق دی الگ ہوگئیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا نے صدقہ حرام کیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ صدقہ کن کن پر حرام ہوا تھا۔ اس میں حضرت ابوطالب کی اولاد بھی شامل ہے تو اس طرح پھر اہل بیت کا دائرہ ا ن پر بھی ممتد کرنا پڑے گا۔ جنہوں نے ایک حصہ اسلام سے باہر صرف کیا اور جنگ بدر میں اس لشکر میں شامل ہوئے جو اسلام پر حملہ آور ہوا۔ جن میں حضرت عباسؓ بھی تھے ا ن کو ساری رات ایک ستون سے باندھا گیا مشکیں کس کے اور ا نکے کراہنے کی آواز ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اوریعنی کراہنے کی آواز بند ہونے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھیں عدل و انصاف کی۔ ان کے کراہنے کی آواز سے نیند نہیں آرہی تھی تکلیف سے جب کراہنے کی آواز بند ہوئی تو بے چینی کم نہیں بڑھ گئی پہلے ذاتی رشتے کی تکلیف تھی اب عدل کے مقام پر حرف آرہا تھا اس لئے اس خطرہ سے ایک دم گھبراہٹ سے باہر نکل آئے کہ کسی نے میرے رشتے کے تعلق سے آپ کی مشکیں ڈھیلی نہ کردی ہوں۔ وہی بات تھی۔ حضرت عباسؓ کے متعلق اس خیال سے کہ ان کی آواز سے تکلیف نہ پہنچے۔ بعض صحابہ ؓ نے مشکیں ڈھیلی کردیں آپ نے فرمایا کہ اگر یہی کیا ہے تو سب کی کرو تمام قیدیوں کو آرام کی نیند سلا کر پھر جاکے سوئے ہیں۔ پس یہ کہتے ہیں کہ صدقہ حرام جن پر ہے۔ وہ اہل بیت ہیں۔ پہلے وہ چادر والے کے لئے جب وہاں بات نہیں بنتی تو صدقہ حرام کی طرف چلے گئے اور وہاں حضرت ابوطالب سے پھر یہ ساری برکتیں شروع ہوتی ہیں۔ محمد رسول اللہ سے شروع ہی نہیں ہوتیں۔ ابو طالب کی اولاد ہی ہے جو خدا کے نزدیک اہل بیت ہے اور وہ اگر اہل بیت ہیں تو ان میں کبھی کوئی خرابی نہیں آئی تھی اس سے پہلے جو کفر کی حالت میں موجود رہے اور اس لشکر میں شامل ہوئے جس میں پکڑے گئے اور قیدی بنائے گئے۔ تو ان ساری باتوں کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔ بالکل لغو قصے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی کوئی بنیادنہیں۔ قرآن کریم کے واضح احکامات سے مقابل پر کچھ حدیثیں گھڑتے ہیں جب ان حدیثوں سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان میں تضاد‘ الجھنیں کوئی حقیقت نہیں ‘ کوئی سند نہیں تو پھر قرآن پر حملہ کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں یہاں تحریف ہوچکی ہے۔ اب کہتے ہیں اب یہاں ام سلمہ کی تعریف سنئے۔ چونکہ اپنے حق میں ایک روایت ان کی طرف منسوب ہوئی ہوئی ہے او را نکی طرف منسوب کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ سنی مانتے ہی نہ اگر کوئی اور روایت ہوتی تو وہ کہتے ہیں اب سنئے ! جس وقت حضرت ام سلمہؓ نے جن کے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی وہ خود نہایت ممدوح اور پکی ایماندار بی بی تھیں جب چادر کا کونہ اٹھا کر ا نمیں داخل ہونا چاہا تو حضرت رسول ؐ نے کونہ ہاتھ سے کھینچ لیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ تم نیکی پر ہو مگر اہل بیت میں شامل نہیں ہو بلکہ ازواج میں ہو۔ یہ روایت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود گھڑی ہوئی ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دوسری روایات سے کھلم کھلا ٹکراتی ہے اور اس کے برعکس کچھ ایسی روایات ہیں جن کو یہ نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ در منثور میں ہی موجود ہیں۔ میں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تفسیر در منثور جلد 5 صفحہ 198 از علامہ جلال الدین سیوطی۔ ابن عباس سے روایت ہے۔ یہ روایت جوبھلاا دیتے ہیں ذکر بھی نہیںکرتے۔ ابن عباس سے راویت ہے کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس خاص طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے بارہ میں اتری ۔ عکرمہ کے نزدیک یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں اتری عکرمہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم والرجس اھل البیت سے وہ مراد نہیں جو تم گمان کرتے ہو بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں کچھ اور مراد ہیں۔ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں حضرت عروہ سے روایت ہے کہ آیت یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت سے مرادحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں اور یہ آیات حضرت عائشہ ؓ کے گھر نازل ہوئی تھیں اور حضرت عائشہؓ کی روایت خود ام المومنین کے حوالے سے جو پیش کررہے ہیں وہاں بھی یہ بات ہے کہ وہاں نازل ہوئی تھیں تو اپنی باتوں کو تو ایک دوسرے سے کاٹ لیا۔ ان کا کچھ باقی نہیں چھوڑا جو روایات باقی رہ گئی ہی جن میں تضاد نہیں وہ پیش نہیں کرتے وہ یہ ہیں۔
ابن جریر اور ابن مردویہ کے حوالے سے عکرمہ کا بیان ہے اور طبقات ابن سعد کے حوالے سے عروہ کی روایت ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج النبی ؐ ہیں اور یہ آیت حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں نازل ہوئی اور ابن عسا کرنے‘ ابن ابی حاتم‘ ابن عسا کرنے عکرمہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ سے نازل ہوئی وقال عکرمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ من شاء باھلتہ انھا نزلت فی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جو اس کے خلاف چاہتا ہے میں اس سے مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہوں وہ مباہلہ کیوں نہ قبول کیا پھر سامنے آکے ایسے مباھلے کی باتیں کرتے ہیں جس کی روایات کو خود تم نے مشکوک کر رکھا ہے وہ عکرمہ نے جب مباھلہ کا چیلنج دیا تھا تو تم لوگ اس وقت کہاں تھے۔ وہ کہتے ہیں بالکل قطعی بات ہے جیسے جیسا کہ میں نے تلاوت کی ہے آیات کی ترجمہ سنایا ہے۔ اس کے سوا معنی بن ہی نہیں سکتا۔ ناممکن ہے صرف وہی ایک شیعہ مولوی کی بات ہے کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جب تک اس آیت کے ٹوٹے کو نکالا نہ جائے شیعوں کی بات بنتی نہیں اور وہ کون ہے جو نکال سکے۔ اب سنئے آگے مزید یہ جو ہمارے مہربان لوگ ہیںمفسرین یہ آیت تطہیر نہ حضرت سارہ کے متعلق کہ سارہ کے متعلق یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل بیت ہو اس کا جواب لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies
اول تو انگریزی in the mercy سمجھ ہی نہیں آتی بات غلط ہے۔ in شاید زائد لکھا گیا ہے۔the mercy مراد ہے۔
applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham happens to be the probable person included in the address Ahlulbait happens to be the probable person.
ایک یہاں سے بھی ایک نجات کا رستہ نکالنے کی کوشش کی ہے احتیاطاً۔ کہتے ہیں غالباً مراد ہے ہوسکتا ہے قطعی طور پر مراد نہیں ہے۔
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wivesؓ of the Holy Prophetؐ in the term of Ahlulbait have said that since Sarah the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33,34 relating to the purity etc.
کہتے ہیں اس سے بعض سنیوںCommentators نے بہت کوشش کی ہے یہ ثابت کرنے کی کہ اگر ایک نبی کی بیوی کے لئے اہل بیت کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے تو دوسرے نبی محمد رسول اللہ ؐ کی ازواج کے لئے کیوں استعمال نہیںہوسکتا۔ کہتا ہے۔
The Commentators intentionally or un-intentionally ignore the fact and the significance of the address by the angles. If Sarah was one of the addressees of the angels it was not as the wife of Abraham but as she was going to be the mother of Issac.
کہتے ہیں اس لئے نہیں تھا کہ ابراہیم کی بیوی تھی اس لئے کہ اسحاق کی ماں بننے والی تھی اور یہ وہ مضمون ہے اس نے ان کو ایک اور جہالت کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ دیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ کی جو جدہ امجد بننے والی والدہ ماجدہ اوپر کی سیڑھی کی بننے والی تھی۔ حضرت ھاجرہ ان کو تو مخاطب کرکے کہیں نہیں ملتا۔ ذکر کیا فرشتوں نے اہل البیت قرار دیا ہو۔ اس لئے کہتے ہیں کہ دراصل ابراہیم کی بیوی کے طور پر ان کو اہل بیت نہیں قرار دیا گیا بلکہ اسحاق کی بیوی کے طور پر اسحاق کی ماں کے طور پر وہی غلطی اسی قسم کی دوبارہ ہوئی ہے۔ اسحاق کی ماں کے طور پر اس کا مطلب ہے کہ جو عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ متبرک نسل جس کے ساتھ برکتوں کا وعدہ ہے وہ اسحاق کی ماں کی نسل ہے۔ جو اسحاق کی ماں سائرہ کی نسل آگے چلی ہے وہی متبرک ہے۔ یہ اپنا مضمون ثابت کرنے کیلئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ یعنی آخری صورت میں حضرت ہاجرہؓ سے برکتوں کا سامان اٹھا لیتے ہیں اور عیسائیوں کی تائید کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ بات تھی اور اس پہلو سے عیسائی سچے نکلتے ہیں۔ محمد رسول اللہ کی والدہ تو ایسی نہیں تھی جن کو فرشتے کہتے کیونکہ وہ صرف ابراہیم ؑ کی بیوی تھی یہ مضمون ہے۔ ابراہیم کی بیوی سے ا نکو کیا فرق پڑ جانا تھا۔ آج ہیں کل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مضمون باندھا گیا ہے۔ ازواج تو لکھتے ہیں آج اس کی کل کسی اور کی، لیکن اس میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حضرت علی جس وجہ سے برکت پانے والے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلعم کی اولاد کے والد کہلاتے ہیں۔ وہ بھی تو حضرت فاطمہ سے شادی کے نتیجہ میں ہوئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی بیویوں کے ذکر میں تو یہ کہہ دیتے ہیں آج اس کی اور کل اس کی اور شدید گستاخی کاکلمہ ہے ہم یہ حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق نہیں کہہ سکتے مگر ان بے حیائوں کو سوچنا تو چاہئے کہ کہہ کیا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا عواقب سے بے خبر جہالت کی باتیں پتہ ہی نہیں کہ کس گڑھے میں گرنے والے ہیں اور ایسی دلیل دیتے ہیں جو آگے ان کے گڑھا کھودیتی ہے اور اس میں لازماً گرنا پڑتا ہے ان کو۔مگر ان کو سوچنا چاہئے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگلی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق مزید یہ کہتے ہیں اور یہ سننے والی بات ہے یہ اس کا حوالہ میں پڑھ کر سنادوں۔
It is only circumstantial which can at any moment be given up. A wife would be with one and after a moment be given up. A wife would be with one and after a divorce would go to another.
یہ بیہودہ سرائی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کے حوالے سے یہ پیش کررہے ہیں اپنے مضمون کو ثابت کرنے کیلئے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی اور نبی کے متعلق تو کہا گیا یا نہ کہا گیا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد رسول اللہ کے متعلق قرآن نے واضح فرما دیا ہے کہ اس نبی کے بعد اب دوبار ہ کسی سے شادی نہیں کرنی اور ان کو امہات المومنینؓ کہہ کر ہمیشہ ہمیش کیلئے ان کا ایک ایسا رشتہ خدا نے قائم فرمادیا ماں اور بچوں کا جس کے بعد شادی کا تصور کسی کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بھول جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں یہ نہیں ملتا اسیلئے اس گستاخی کا ان کو موقعہ مل گیا ہے وہاں۔ اب چلیں ایک دلیل تو ان کی کافی نہیںہوئی۔ ان کو دل میں چور ہے کہ یہ بات پوری بنتی نہیں ہے۔ ابراہیم کی Wife تھی معزز تھی اس پہلو سے۔ اور نبی سے ہی عورتیں برکت پاتی ہیں۔ اپنے رشتے کی مگر یہ کہتے ہیں نہیں۔ Besides Sarah the wife of Abraham was a cousin of Abraham خاص طور پر یہ بات پیش نظر رکھو علاوہ ازیں ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ اس کی کزن تھی اور
being a daughter of his uncle
اس کے چچا کی بیٹی تھی اس لئے کتنی معزز عورت تھی اس چچا سے برکتیں پانے والی ہے ابراہیمؑ
سے نہیں۔ سن لی دلیل آپ نے اور کس طرح بچاری حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نکال کے باہر کردی گئیں وہی بدبخت عقیدہ جو عیسائی محمد رسول اللہ پر حملے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ وہی باتیں اپنی تائید میں اپنے بے ہودہ خیال کو تقویت دینے کی خاطر پوری طرح عیسائی عقیدوں سے متفق ہوجاتے ہیں اورپھر ان سے آگے بڑھ جاتے ہیں عیسائی یہ نہیں کہتے تھے کہ سارہ نے تارح سے برکت پائی ہے یا آذر سے برکت پائی یہ کہتے ہیں نہ ۔ نہ۔ ابراہیم ؑ سے کیسے برکت مل گئی اس کو تو اپنے باپ سے برکت ملی تھی جو ابراہیم ؑ کے چچا تھے اور جہاں تک بائبل گواہ ہے وہ تو چچا تھا ہی نہیں وہ تو باپ تھے خود۔ بائبل تو عجیب و غریب بات بیان کرتی ہے۔ قرآن کریم چچا کا ذکر کرتا ہے لیکن باپ کے تابع لفظ کے تابع اور مراد چچا ہے نام دوسرا ہے آذر نام ان کے باپ کا نہیں تھا یہ مسئلہ بھی میں آپ کو سمجھا دوں کہ یہ کیا ہے تاکہ اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
بائبل کے نزدیک حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بہن سے شادی کی تھی جو دوسری ماں سے تھیں مگر ایک ہی باپ سے تھیں۔ بائبل کہتی ہے اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے ہم تو حضرت سارہ کو آذر کی بیٹی یا کسی اور کی بیٹی سمجھتے ہیں واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ آذر کی بیٹی تھیں مگر آذر حضرت ابراہیم کے چچا تھے اور جو خباثت اور مخالفت میں اور انتہائی اس دشمنی میں پیش پیش تھے وہ وہی تھے لیکن ان کی طرف قرآن کریم اب کے لفظ سے حوالہ دیتا ہے اس لئے یہ امکانات موجود ہیں۔ یہ سارے میں آپ کے سامنے امکانات کے طور پر رکھتا ہوں کہ قرآن کریم نے چچا کے لئے بھی لفظ اب استعمال کیا ہے چونکہ عربی میں ایسا ممکن ہے۔ بعض دفعہ اپنے چچا کو ہم بھی یہاں ابا کہہ دیتے ہیں مگر ایک اور مراد بھی ہوسکتی ہے کہ بائبل کی غلطی کی اصلاح اس طرح فرمائی گئی ہو کہ تارح کی بیٹی یہ تو ہیں یعنی حضرت سارہ لیکن ابراہیم تارح کے بیٹے نہیں تھے وہ آذر کے بیٹے تھے تو دونوں امکانات ہیں جو کھلتے ہیں اور دونوں پر کوئی اعتراض وارد نہیںہوتا ۔ بائبل کہتی ہے ’’اور یہ تاریح کا نسب نامہ ہے تاریخ سے ابراھام اورنحور اور حاران پیدا ہوئے اور ابراھام کی بیوی کا نام سارہ ہے اور نحور کی بیوی کا نام ملکہ تھا جو حاران کی بیٹی تھی اور سارہ بانجھ تھی اس کے کوئی بال بچہ نہ تھا اور خدا نے ابراھام سے کہا کہ سارہ جو تیری بیوی ہے سو اس کو ساری نہ پکارنا اس کا نام سارہ ہوگا اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یعنی اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے۔ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے متعلق فرمایا اور فی الحقیقت یہ جو پیدائش باب ۲۰ آیت ۱۲‘۱۳ اور فی الحقیقت وہ میری بہن بھی ہے کیونکہ وہ میرے باپ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں پھر وہ میری بیوی ہوئی۔‘‘ تو بائبل کاجو جاھلانہ تصور ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اور سارہ کے متعلق وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم بھی تار ح کے بیٹے تھے حضرت سائرہ بھی تارح کی بیٹی تھیں اور انہوں نے اپنی بہن سے جو باپ سے بہن تھی اور ماں سے الگ الگ تھی شادی کی اور اس لئے بہن کہا۔ قرآن اس عقیدہ کو رد کرتا ہے اور حضرت ابراہیم کے باپ کے نام کے طور پر آذر کا نام پیش کرتا ہے اس سے پتہ چلا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ بھی مفسرین یہ لکھتے ہیں عام طور پر ایک دفاعی طور پر اور میرے نزدیک اس دفاع کے مقابل پر جو میں مسلک پیش کرتا ہوں زیادہ معقول اور مضبوط ہے اس سے دونوں مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ کا لفظ چونکہ چچا کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے اس لئے جو بائبل یعنی اہل کتاب کے گروہ جو اسلام پر حملے کرتے ہیں دیکھو غلط بات کہہ دی یہ ہے تو تاریح کے بیٹے ہی لیکن محاوۃً آذر کا بیٹا قرار دے دیا اگر یہ مانو تو پھر تارح کی بیٹی اپنی بہن سے شادی بھی لازماً ماننی پڑے گی۔ اس کے برعکس جو دوسرا پہلو ہے بائبل غلط کہتی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ناموں وغیرہ کی اور جو فیملی فیز بیان ہوئے ہیں۔ شجرہ نسب بیان ہوا ہے اس میں بے شمار غلطیاں ہیں اور اس پر جو ہمارا ریسرچ گروپ ہے۔ انشاء اللہ جب وہ بائبل کی Commentory لکھے گا تو اس مضمون کو خوب وضاحت سے دنیا کے سامنے کھولا جائے گا ۔ سردست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کے بیان کو لفظاً کیوں نہ قبول کریں۔ آذر کے بیٹے تھے۔ کیونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہوں نے یہ عہد کہا تھا وعدہ کیا تھا اپنے باپ سے کہ میں تیرے لئے بخشش کی دعا طلب کروں گا۔ اے اللہ تو انہیں بخش دے مغفرت کی دعا کروں گا یا استغفار کروں گا تیرے حق میں اس لئے آپ نے دعا کی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ یہ دشمن ہے اور خدا کا دشمن ہے تو ابراہیم ؑ نے اس کے بعد توبہ کی اور کہا اب میں کبھی دعا نہیں کروں گا یعنی یہ خدا نے روک دیا ا نکو کہ وہ دعا نہ کریں یہ ہے پہلو پیش نظر اس سے آپ اندازہ کریں کہ سارہ نے برکت کہاں سے حاصل کی ہے وہ تار ح کی بیٹی تھی یا آذر کی بیٹی تھی جسکی بھی تھی مشرکین کے سردار کی بیٹی تھی اس کی بیٹی تھی جو خدا کا دشمن تھا اور ان لوگوں کی بیٹی تھی جس ساری قوم کو خدا نے رد کرکے ان پر *** ڈالی اوران کے لئے دعائوں سے بھی منع کردیا گیا۔ اہل تشیع کے یہ امام یہ بزرگ فرماتے ہیں کہ مسلمان Commentator ازواج النبی ؐ کو اہل بیت میں داخل کرنے کے شوق میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سارہ کی عظمت اس خاندان سے وابستہ تھی۔ جس میں آذرپیدا ہوئے جس کے بڑوں میں تارح کا شمار ہوتا تھا۔ سارہ کی عظمت ان لوگوں میں تھی جنہوں نے ابراہیم ؑ کے لئے آگ جلائی جو سر تاپا مشرک ہوتا تھا۔اور ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال کر اپنے خود اپنے نسل کے بچے کو اپنے بیٹے یا اپنے بھتیجے کو آگ میں پھینک کر ان کو دل کا سکون ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کردیا۔ یہ جاہل مسلمان سنی مفسرپاگلوں کو پتہ ہی کچھ نہیں کہ سارہ کی عظمت تو ان کے ساتھ تھی۔ ابراہیم ؑ سے کہاں سے عظمت ہوگئی۔ وابستہ اتنی دشمنی ہے۔ ازواج النبی ؐ سے۔ ایسے خبیثانہ بغض ہیں کہ وہ جب گندا پھوڑا پھٹتا ہے اس طرح پھٹتے ہیں اور ساری فضاء کو عفو نت سے بھر دیتے ہیں یہاں جاکر اہل بیت کا مضمون بالکل ہی بگاڑ کے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا اور یہ بات ان کو فائدہ دیتی ہے کیونکہ بعد میں اہل بیت میں انہوں نے ابو طالب کی اولاد کو بھی داخل کرنا ہے اور برکتیں وہاں سے لینی ہیں چنانچہ ابو طالب علیہ السلام لکھتے ہیں۔ حالانکہ ابو طالب کے متعلق کوئی قطعی روایت ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے بیعت کی ہو اور رسول اللہ صلعم کے ہاتھ پر مشرک با سلام ہوئے ہوں۔ ان کے متعلق یہ تو ملتا ہے کہ پناہ سے ہاتھ کھینچنے کی بات کی کہ اے محمد ؐ ! بس اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ میں اپنی قوم کا دبائو برداشت کروں۔ میں اپنی پناہ کا ہاتھ اٹھانے والا ہوں۔تجھ سے آپ نے فرمایا جو چاہے کر مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ ان سے بزرگی شروع ہوتی ہے اہل بیت کی۔ پس یہ ہے اصل راز ا ن کی سوچ فکرو ںکے بگاڑ کا کہ کفر اور شرک سے عزتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلعم سے عزتیں حاصل کرنا ان کے نزدیک حرام ہے اور بیویوں کو بھی کوئی برکت نہیں مل سکتی۔
٭٭٭٭٭

بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 19 رمضان المبارک
2 مارچ1994 ء
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہٖ و یزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین O اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انیٰ ھذا قل ھوا من عند انفسکم ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
(آل عمران 165تا 168)
ا ن آیات کی پچھلے دو تین روز سے تلاوت ہورہی ہے۔ لیکن ابھی تک ہم پہلی آیت نمبر ۱۶۵ پر ہی گفتگو ختم نہیں کرسکے۔ آج اس مضمون کا بقیہ حصہ بیان کرنا ہے۔ جو شیعہ مفسرین نے بحث چھیڑی ہے اور اُن کا نقطہ بہ نقطہ میرے آگے رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کل مجھے عزیزم لقمان احمد نے بتایا کہ ان کا بھی یہی تاثر ہے اور بعض دوسروں کا بھی کہ وہ جو آذر اور تارح والی بحث اٹھائی گئی تھی وہ اکثر سننے والوں کیلئے اتنی اجنبی تھی کہ وہ سمجھ نہیں سکے۔ کیونکہ اُن کو اس کا تاریخی پس منظر معلوم نہیں اس لئے مزید وضاحت کردیں کہ قرآن کیا کہتا ہے بائبل کیا کہتی ہے اور مفسرین کے نظریے کیا ہیں؟ اور آپ کا اپنا نظریہ کیا ہے؟ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن پر کچھ مزید روشنی چاہئے۔ کیونکہ اکثر ذہنوں میں یہ الجھائو نظر آتا ہے۔ اُن کے اپنے ذہن میں تو تھا بہرحال جب میں نے اُن سے بات کی اس لئے مختصراً میں اسی بات کو دوبارہ لیتا ہوں۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں آپ کے والد کا نام آذر بتایا ہے۔ اور ایک موقعہ پر آپ نے اپنے والد کیلئے جو دعا کی ہے اس کا ذکر ملتا ہے۔ اور ایک دوسرے موقعہ پر یہ ذکر ملتا ہے کہ ابراہیم نے یہ دعا اس لئے کی تھی کہ اس نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ میں تیری مغفرت کیلئے ضرور دعا کروں گا۔ لیکن جب خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ بات کھول دی کہ تیرا باپ خدا کا دشمن تھا تو وہ اس بات سے تائب ہوگیا۔ اورپھر کبھی گویا کہ طرز بیان سے لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے یہ خیال ہی نکل گیا۔ لیکن وہ وعدہ پورا کرچکے تھے۔ اس سے مختلف مفسرین کو کچھ الجھائو بھی پیدا ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک دفعہ عید کے موقعہ پر خطبہ میں بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا خاص پیار کا تعلق ہے۔ جس کا اظہار ہورہا ہے۔ اللہ پہلے بھی روک سکتا تھا۔ خدا کو علم تھا کہ یہ ہوگا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ دعا اس وقت کی ہے۔ جب وہ فوت ہوچکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دعا میں کافی تاخیر ہے یہ خانہ کعبہ کے تعمیر کے وقت کی دعا لگتی ہے اور اس سے پہلے وہ اُن کو ’’پچھلوںکو‘‘ چھوڑ آئے تھے اور بہت بڑے ابتلاء برپا ہوچکے تھے اور دعا مشرک کیلئے زندگی میں تو ہے ہی جائز۔ کیونکہ تمام مشرقین کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے۔ ’’اللہ ان کو ہدایت دے‘‘ دعا ہی تو تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا۔ تو جس دعا کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ذکر مل رہا ہے۔ وہ وفات کے بعد کی دعا ہے کیونکہ مشرکین کے متعلق زندگی میں دعا کرنا کہیں ممنوع نہیں ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قطعی طور پر ثابت شدہ دعائیں ہیں۔ اُن لوگوں کے حق میں۔ جیسے ابوجہل کہ ’’اللہ اس کو ہدایت دے‘‘ یہ ثابت ہے ساری قوم کیلئے دعا کرتے تھے اور اس وقت طائف کے موقع پر مشہور دعا جو وہ کی کہ ’’اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون۔پھر یہی دعا دوبارہ پھر ثابت ہے آپ کی طرف سے انہیں الفاظ میں۔ پس مشرکوں کیلئے دعا کرنے سے مناہی ان کی زندگی تک نہیں۔ زندگی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور مرنے کے بعد ہدایت کی دعا کر ہی نہیںسکتے آپ۔ اس لئے ایک ہی دعا رہ جاتی ہے۔وہ مغفرت کی دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ میرے حضور حاضر ہوچکے ہوں مشرک ۔اور زندگی بھر اُن کو توبہ کی توفیق نہ ملے۔ تو پھر تم اُن کیلئے دعا نہ کرو۔ اللہ کا معاملہ ہے اپنے بندوں سے جو چاہے فیصلہ کرے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا کی تھی اپنے باپ کیلئے۔ جس کو قرآن کریم آپ کا باپ قرار دیتا ہے وہ انکے مرنے کے بعد کی دعا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ خاص رحمت اور شفقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے۔ کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ وہ دشمن تھا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے دشمنوں کیلئے اور دوسرے مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا کو پسند نہیں فرماتا۔ اس کے باوجود انتظار فرمایا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا وعدہ پورا کرچکے۔ جب وعدہ پورا کرلیا تو پھر کہا کہ وہ تو دشمن تھا۔ یہ ہے سارا مضمون جو میں تفصیل سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اس بحث کا پس منظر معلوم ہوجائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعا کے تعلق میں باپ کے حوالے سے ذکر کرتا ہے۔ اور آذر کا نام بطور باپ کے معین طور پر بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھئے۔
بائیبل میں جو کل میں نے حوالہ آپ کے سامنے رکھا تھا۔ اس میں آذر کی بجائے تارح نام بتایا گیا کہ آپ کے باپ کا نام تارح تھا اور تارح کے اس ذکر کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شادی اپنی ہی سوتیلی بہن سے ہوئی یعنی باپ کیطرف سے وہ تارح کی بیٹی تھی۔ لیکن ماں کی طرف سے دوسری ماں کی بیٹی تھی۔ یہ ہے سارا الجھائو جس کو دور کرنے کیلئے میں نے مختلف باتیں آپ کے سامنے رکھی تھیں۔ مفسرین کا تو یہی رجحان ہے کہ بائیبل کا جو تارح والا بیاں ہے۔ وہ درست ہے اور ابراہیم تارح کے ہی بیٹے تھے۔ اور حضرت سارا کے متعلق یہ اندازے پیش کئے جاتے ہیں کہ وہ ماموں کی بیٹی تھیں لیکن یا صرف کزن کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس کیلئے کوئی قطعی شہادت پیش نہیں کی جاتی۔ جہاں تک بائیبل کا تعلق ہے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے کہ وہ اُن کی دوسری والدہ سے بہن تھیں۔ اور باپ کی طرف سے ایک تھی۔ اب اس کا حل کیا ممکن ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر میں بھی میں نے مختلف جگہوں سے یہ ذکر دیکھا ہے۔ حضرت مصلح موعود بعض جگہ ایک امکان پیش کرتے ہیں۔ بعض جگہ دوسرا امکان پیش کرتے ہیں۔ لیکن طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری تسلی نہیں ہوئی اور رحجان آخر یہی ہے کہ تارح ہی نام تھا۔ جس کا بگڑا ہوا عربی نام آذر بنا۔ اور اس میں مشکل یہ درپیش ہے کہ آذر کا تارح کے بھائیوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا اور تارح کا ذکر ہے اور اس کے بعد نہ بہن بھائیوں کا کہیں اس حوالہ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اس لئے ہمارے مفسرین کیلئے یہ دقت پیش آئی کہ اور کسی کو تلاش کریں۔ ایک حل یہ بھی پیش کیا گیا۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے کہ باپ تارح ہی ہوگا لیکن بچپن میں فوت ہوگیا ہوگا اور بطور یتیم کے آذر نے آپ کی پرورش کی ہوگی۔ اس لئے اس کو باپ کہنا دوہرے رنگ میں جائز ہے۔ ایک تو چچا کو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے اگر اس کے گھر میں پرورش ہوئی تو پھر وہ باپ کہلا سکتا ہے۔
لیکن بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تارح زندہ رہا ہے بہت بعد تک۔ یہاں تک کہ پہلی ہجرت میں جو اُور سے کی گئی ’’تارح‘‘ ساتھ تھا۔ اس لئے یہ بات تو پھر ٹکرا رہی ہے بائیبل سے۔ اگر بائیبل سے تصادم دور کرنے کیلئے ہی یہ عذر تلاش کیا جائے تو ایک اور جگہ تصادم ہوجائے گا۔ تصادم سے تو بچ نہیں سکتے۔ اس لئے میں نے جو نظریہ پیش کیاتھا۔ میں ابھی بھی اس پر بڑی شدت سے قائم ہوں اور میرے دل میں کامل یقین ہے کہ قرآن نے جو بات بیان فرمائی ہے۔ بعینہٖ اُسی طرح درست ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آذر تھا۔ تارح نہیں تھا اور تارح کے اور بھی بہت سے بھائی تھے۔ وہ بھائی جو تھے ان میں آذر بھی ایک بھائی تھا۔ اسکا ثبوت کیااور بھائی تھے؟ وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ تارح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جانا تو ثابت ہے ۔ آذر کا ساتھ جانا ثابت نہیں۔ اور جہاں تک آذر نام کا تعلق ہے خود Sale یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک نام آذر کا بھی ملتا ہے۔ جو ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طورپر اور ایک مشہور مؤرخ جو مؤرخین میں سے بہت ہی قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نام Jose Phus ہے یا Eusebius کہتے ہیں لیکن Jose Phus نام بھی اسی کانام ہے The father of ecciesiatical history Eusbius gives
‏"Athar" as the name of Abrahams father. (Sale)
کہتا ہے کہ تارح کی بجائے Ecclesiatical History اس کا وہ سب سے بڑا جد امجد سمجھا جاتا ہے مورخین میں۔ Sale اس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ :۔
‏"Gives Ather as the name of Abrahams father''
* جو زیفنس یہودی مورخ ہے قریباً حضرت مسیحؑ کا ہم عصر۔ یو سیبیس عیسائی مورخ ہے چوتھی صدی عیسوی کا )۔۔۔۔۔
جو کہ آذر کے بالکل مشابہہ ہے۔ اس پر میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں۔ اصل مل جائے۔ یہ حوالہ ہم نے لیا ہے ملک غلام فرید صاحب کی یہ جو Commentary نوٹس "Commentated Quran Kareem,, ہے۔
گویا تفصیلی تو نہیں لیکن نوٹ بڑے اچھے ہیں۔ ان میں یہ ذکر ملا ہے۔ جو میں نے تلاش کرایا۔ ابھی تک مجھے Sale کا اصل حوالہ نہیں ملا۔ لیکن میں انشاء اللہ Sale کا بھی اصل حوالہ دیکھوں گا۔ اور اس کتاب میں سے History کا جو اصل جہاں ذکر موجود ہے۔ وہ پڑھ کے پھر انشاء اللہ آپ کے سامنے دوبارہ رکھ دوں گا بات۔ ایک بات تو بہرحال قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ مستشرقین جو قرآن پر اعتراض کرتے ہیں۔ خود انہوں نے ہی مسلمانوں کی مدد کردی ہے۔ یہ حوالہ تلاش کرکے اور قرآن کا بیان آذر والا سچا ثابت ہوتا ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ اسے ہم تبدیل کریں اور اسے چچا کے حکم میں شمار کریں۔ اس طرح دونوں مسائل حل ہوجاتے ہیں ، حضرت سارہ کیلئے الگ باپ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تارح کی بیٹی بنی رہے اور پھر تارح کا آپ کے ساتھ سفر کرنا۔ اپنی بیٹی کی نسبت سے زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے اور آذر چونکہ حد سے زیادہ دشمن تھا۔ اس لئے اس نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ آپ کے ساتھ سفر کرے۔ یا اس وقت تک مرچکا ہوگا۔ مگرجب دعا کی گئی ہے اس وقت تارح زندہ تھا اور آذر مرچکا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر یاد رکھیے۔ اب دیکھیں کہ تارح کی عمر کتنی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جب پیدا ہوئے اُن کی عمر کتنی تھی اور اُن کے دادا کی عمر کتنی تھی۔ بائیبل سے یہ حوالے اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تارح کی پیدائش کے وقت نحور کی عمر ۲۹ سال تھی۔ نحور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا کا نام ہے اور بھائی کا نام بھی ہے وہاں یہ نام کثرت سے آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ آج کل بھی رواج ہے۔ دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ تو بائیبل کہتی ہے کہ نحور کی عمر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت 29 سال تھی۔ گویا نحور کی کل عمر اس حساب سے ایک سو اڑتالیس سال بنتی ہے۔
یاد رکھیں ہم نے حساب بائیبل سے کرلیا ہے۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس سال ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت انتیس سال تھی۔ یعنی تارح کی عمر ستر سال تھی جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے واضح ہوگئی بات تارح ستر سال کا تھا جب ابراہیم پیداہوئے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق اور ابراہیم کے پیدا ہونے کے اٹھتر سال بعد دادا فوت ہوتا ہے۔ جب ہجرت کرچکے ہیں۔ پچھتر سال کی عمر میں آپ نے ہجرت کرلی تھی۔ تو چھوڑ چھاڑ کے چلے گئے تھے۔ ابھی دادا زندہ تھا۔ اس وقت ان کے دادا اگر ’’تارح کے باپ کی بات میں کررہا ہوں‘‘ اگر تارح کے بیٹے نہیںبھی تھے۔ کسی اور کے ہی بیٹے تھے۔ تارح کے بھائی کے بھی تھے تو دادا بہرحال بائیبل کے بیان کے مطابق ایک سو اڑتالیس سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اور وہ ہجرت کے بعد تک زندہ رہا۔ یہ حوالہ ہے پیدائش باب نمبر 11 آیت نمبر 22 تا 32۔
اب سنیئے ایک اور روایت جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ بائیبل میں کتنے Confusions ہیں۔ اورکتنا زیادہ الجھائو ہے بعض بیانات میں۔ اور بہت سے نام محض عموماً ذکر میں ملتے ہیں۔ تفصیل سے نہیں ملتے۔ اس لئے یہ سمجھ لینا کہ تارح ایک ہی تھا۔ اور اس کے بھائی بند فوت ہوچکے تھے یہ درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق غورسے سنیئے حوالہ کہ تارح کے اور بہن بھائی کتنے تھے؟ اور ا نکی کیا کیفیت تھی؟ بائیبل میں لکھا ہے اور سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔ اور نحور کی پیدائش کے سروج دوسو برس اور جیتا رہا۔ اب پڑدادا بھی زندہ بنتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا بھی ہجرت تک زندہ بنتے ہیں۔ اتنی لمبی لمبی عمریں بائیبل میںبیان کردہ ۔سروج تیس برس کا تھا جب نحور پیدا ہوا۔ اور نحور انتیس برس کا تھا جب تارح پیدا ہوا۔ تو اگر تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ ہیں تو Fifty nine برس کا تھا پڑدادا اور دادا انتیس برس کا تھا۔ سمجھ گئے ہیں؟ Just a minute میں دوبارہ بتاتا ہوں۔
ابراہیم علیہ السلام تو بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی عمر تو ستر سال کی تھی۔ میں آپ کو تارح کے متعلق بتانے لگا ہوں۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس بنتی ہے۔ جو تارح کا باپ بتایا گیا۔ ٹھیک ہے؟ اور نحور کے باپ کا نام سروج تھا جو تارح کا دادا تھا۔ یہ بات واضح ہوگئی۔ اب دوبارہ چلتے ہیں اس اعداد و شمار میں۔ سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔نحور کی پیدائش کے بعد سروج دو سو برس اور جیتا رہا۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا کی بات ہورہی ہے۔ سروج حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پڑدادا تھا۔ نحور دادا تھا۔ جب دادا پیدا ہوئے تو سروج تیس برس کا تھا اور اس کے بعددو سو سال مزید زندہ رہا۔ تو اب نحور کی عمر کے ساتھ ہم اس کو ملا لیں۔ دو سو سال کو تو پتہ چلا کہ نحور اگر ایک سو اڑتالیس ہی زندہ رہا جیسا کہ لکھا ہے تو اس کے Fifty two سال ’’باون سال بعد‘‘ تک نحور کا باپ بھی زندہ رہا۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا بالآخر ایک سو اڑتالیس سال کی عمر کو پہنچ کے فوت ہوتے ہیں تو اس کے بعد مزید باون سال تک آپ کے پردادا زندہ رہتے ہیں۔ یہ بائیبل کے بیانات ہیں جن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ دو سو انتیس سال کا دادا ساتھ پھر رہا ہے۔ اس زمانے میں۔ اور یہ ابھی تعجب کی بات نہیں۔ آٹھ آٹھ سو سال عمریں ہزار ہزار سال کی عمریں بھی بائیبل میں لکھی ہوئی ہیں ۔ اگر ان سب باتوں کو مان جائیں تو ایک جگہ میں نے حساب کرکے دیکھا تھا کہ حضرت نوح کے زمانہ میں بڑے پرانے انبیاء سب زندہ موجود نظر آتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت نوح زندہ ہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔دادا پہ کیا تعجب کرتے ہیں آپ؟ جب نوح کی عمر پہ آئیں گے تو آپ حیران ہونگے یہ پڑدادا صاحب ہی نہیں بلکہ حضرت نوح بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد زندہ رہتے ہیں اور بچپن سال بعد تک زندہ رہتے ہیں یا پچاس سال بعد تک (تھوڑا سا روایات کا اختلاف ہے) یہ بائیبل ہے جس پر اتنا اعتماد کیا جارہا ہے کہ قرآن کریم کے مضمون کیلئے تاویلیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔ اس کی کوئی عقلی گنجائش نہیں۔ اب آگے Confusion دیکھیں کتنا ہے۔ نحور انتیس برس کا تھا جب اس سے تارح پیدا ہوا اور تار ح کی پیدائش کے بعد نحور ایک سو انیس برس اور جیتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک یہ زندہ رہا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت پیدا ہوئے جب تارح ستر برس کا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اور بھی بچے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پہلے بھی مسلسل ہوتے رہے ہیں تو ان کو صرف تارح تک محدود کرلینا بالکل بائیبل کی اپنی گواہی کے خلاف ہے۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک مسلسل ان کے والد کے اولاد ہوتی رہی ہے اور بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی۔ اس لئے خواہ مخواہ یہ جھگڑا شروع کردینا کہ آذر کا نام ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ آذر کا اگر نام ملتا ہے تو باپ کے طور پر ملتا ہے بائیبل میں۔ اور تارح والی روایت کو وہ روایت جھٹلا رہی ہے اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خُسر باپ ہوں اور حضرت سارہ کے والد ہوں۔ ان کے متعلق اس شدت سے بُت پرستی کی حمایت نظر نہیں آتی۔ لیکن آذر نام کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ بُت پرستی کی حمایت نظر آتی ہے اور اس کا پتہ چلتا ہے اس کی اپنی بتو ںکی دکان بھی تھی۔ تو ابراہیم علیہ السلام کو اگر قرآن آذر کا بیٹا قرار دیتا ہے توکوئی عقلی وجہ اس بات کی نظر نہیں مجھے آتی کہ اس آیت کی تاویل کرکے تارح کو باپ بنایا جائے یا کوئی اور باپ ڈھونڈا جائے۔ اور آذر کافی دیر تک زندہ رہا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کیلئے دعا ہوئی ہے اور تارح اس کے بعد پھر زندہ رہا۔ اور تارح کے مرنے کے بعد اس کا دادا بھی زندہ رہا۔ یہ ہے سارا خلاصہ بائیبل کا اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے۔ تارح سے ابرام اور نحور اور ہرام پیدا ہوئے۔ اور ہرام سے لوط پیدا ہوا۔ اب انہوں نے باقی سب بچوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ حالانکہ دوسری جگہ میں نے بتایا ہے ۔ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ بڑی کثرت سے اور بچے تھے۔ اس لئے نام اگر تفصیل سے نہ بھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
‏ Sale کا حوالہ ہماری جو Research team کی بچیاں ہیں انہوں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ ماشاء اللہ ۔ صوفیہ صفی لکھ رہی ہیں کہ:۔
Abrahams fath is also called "Zarah" in the Talmud. And Ather by eusebius. (Page 136 Sale)
تو Sale نے دو نام بتائے ہیں ایک Atherجو آذر سے ملتا ہے اور ایک Zarah اس لئے شاید تارح کا شبہ پڑا ہے۔ ’’ذر‘‘ نام بیچ میں پایا جات ہے اور اس کا ایک Pronunciation Zarah Azar کی بجائے Zarea بھی بیان ہوا ہے۔ تو تارح سے Zarear اتنا قریب ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے پھر خود بائیبل لکھنے والوں کو دھوکہ لگ گیا۔ اور انہوں نے تارح نام کے حوالہ سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تین ذکر ملتے ہیں جو مستشرقین کو بھی تسلیم ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اس بحث پہ۔ شیعہ مفسرین کے میں کچھ حوالے پہلے پیش کرچکا ہوں۔وہ یہ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کررہے ہیں۔ وہ آیت قرآنی جس میں کھلم کھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کو وہاں سے نکال دیں کسی طرح۔آیت سے نہیں نکلتے تو اور بہانے تلاش کریں اور یہ ثابت کریں کہ اہل بیت میں سے آپ نہیں تھے۔کچھ روایات دُرِ منثور کی میں نے آپ کے سامنے رکھیں۔ اُن کا سہارا لے کر گویا خود حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے اقرار نامے کو پیش کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں۔ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شمار نہیں کیا۔ اور وہ چادر کی فرضی روایت ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور جوش میں ایک سے زیادہ روایتیں بنا بیٹھے ہیں اور جب جوش میں آکر زیادہ روایتیں بنا بیٹھے تو اُن کا تضاد ہوگیا۔ اور جب تضاد ہوگیا تو بغیر تضاد کے بھی قرآن سے کوئی روایت نہیں ٹکرا سکتی۔ تضاد والی روایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمہ اصول ہے تمام اہل اللہ کا۔ تمام سچے‘ صادق مفسرین کا کہ قرآن سے اگر کوئی حدیث ٹکراتی ہے۔ خواہ کتنی بڑی اس کی سند ہو۔ یا تو اس کا معقول حل پیش کرو۔ جس سے ثابت کرسکو کہ یہ ٹکراتی نہیں ہے۔ ورنہ پھر اس حدیث کو چھوڑ دو۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ پس ٹکراتی بھی وہ حدیثیں ہیں جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لئے اس کو مزید قابل توجہ سمجھنا ہی بالکل لغو بے معنی بات ہے۔ دوسرے انہوں نے سہارے ڈھونڈے ہیں۔ ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روایات کے تعلق میں کہ قرآن کریم نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیا۔ اس پر میںبات ختم کرچکا ہوں۔ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ کسی کو طاقت نہیں ہے کہ وہاں سے حضرت سارہ کو اہل بیت کہتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے طور پر اہل بیت نہ مانیں۔ اس سے سوا اور کوئی معنے بنتے ہی نہیں۔ تارح کی بحث اس لئے چلی تھی۔ اب میں دوبارہ یاد دہانی کرادوں کہ وہاں سے اتنے سارے حوالے کے انحراف کیلئے۔ ان کو بہت سی بنیادی باتوں سے انحراف کرنا پڑا۔ اول یہ کہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیتے ہیں۔ تارح کی برکت سے نہ کہ ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے وہ اتنی عزت پا گئی ہو۔ وہ تو خاندان بڑا معزز تھا۔ آذر کا خاندان‘ تارح کا خاندان۔ اس کی بیٹی تھی اس لئے اہل بیت ہے‘ اور پھر آگے اتر گئے کہ ابراہیم کو بیچ میں سے چھوڑ دیا۔ چھلانگ لگا کے اگلی نسل میں چلے گئے۔ توپھردیکھو اسحاق کی ماں وہ تھی۔ تو حضرت ہاجرہ کا کیا قصور تھا۔ وہ کیوں اہل بیت نہ بنی۔ وہ آذر کی اولاد تو نہیں تھیں۔ الحمد اللہ۔ نہ تارح کی اولاد تھیں مگر وہ اسماعیل علیہ السلام کی ما ںتھیں کہ نہیں۔ انہیں کیوں چھوڑ دیا خدا نے پھر۔ اہل بیت اگر اولاد سے بنتے ہیں تو پھر حضرت ہاجرہ کا بھی تو حق تھا اور سب سے زیادہ حق تھا۔ کیونکہ اس اولاد سے انسانیت کا مقصود پیدا ہونا تھا۔ جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا۔ وہ آخری پھل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہاجرہ کی اولاد سے پیدا ہونا تھا۔ پھر بھی وہ ام المومنین نہ بن سکیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے تو سوال ہی نہیں کہ کوئی ام المومنین بن سکے۔ نبی کی برکت کیا ہوتی ہے۔ نبی کی ! بیٹے کی ہوسکتی ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کیا جائے تو پھر تمام انبیاء کی مائوں کو اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس میں پھر آگے مضمون میں کئی قسم کی الجھنیں بھی پیدا ہونگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں اور پھر حضرت نوح بھی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا تو خیر خراب ہوگیا۔ (اولاد کی خرابی کا تو کوئی ذکر نہیں) لیکن اُن کی ماں کو پھر اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس کے رستے میں کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان کی مثال اچھی نہیں دی۔ اسی طرح اور بھی ایسی دقتیں ہیں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اصول بنیادی طور پر ویسے بھی رد کے لائق ہے کہ مائوں کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں* اہل بیت ہوتے ہیں وہ جو اس گھر کی مالکہ ہو۔ جس گھر میں کوئی مالک بستا ہے۔ خاوند ہے اس کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں۔ یا پھر اس کی اولاد ‘ اہل بیت بنتی ہے۔ بیٹوں کے حوالے سے تو سراسر شرارۃً اور عناد کے طور پر حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت صفیہ وغیرہ وغیرہ ان کو اہل بیت کی فہرست سے نکالنے کی خاطر ایک بہانہ بنایا گیا کہ کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بحث گذر چکی ہے۔ مزید اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک دقت بھی آکھڑی ہوئی۔انہوں نے آخری نتیجہ یہ نکالنے کی کوشش کی کہ خونی رشتہ تو بہرحال ضروری ہے۔ اگر ساتھ ایمانی رشتہ ہوجائے تو پھر اہل بیت بن سکتا ہے۔ لیکن خونی رشتے میں چونکہ بیویاں شامل نہیں اس لئے وی بیویاں اس فہرست سے نکل جائیں گی۔ اور خونی رشتے میں وہی بیویاں شامل ہونگی۔ اگرشامل ہوں۔ جن کا باپ کی طرف سے خونی رشتہ ثابت ہو۔ یہ تمام کہانی انہوں نے بنالی اب تک۔ آگے ایک اور دقت آکھڑی ہوئی۔ حضرت سلمان فارسی کی بحث۔ حضرت سلمان فارسی کو جنگ خندق کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف بلایا۔ اور اہل بیت میں کھڑا کردیا۔ اور فرمایا ! سلمان منا اھل البیت‘‘ سلمان ہمارا ہے اہل بیت ہے۔ اب شیعوں نے اس روایت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ سو فیصدی متفق ہیں کہ یہ بات درست ہے اور مصیبت میں پڑ گئے کہ ہم تو کہتے تھے کہ روحانی رشتہ کافی نہیں۔ خونی رشتہ ضروری ہے۔ سلمانؓ بیچ میں کہاں سے آگئے۔ وہ کیسے اہل بیت بن گئے۔اگر وہ ثابت ہوجائے تو پھر ازواج والی بحث ختم ہوجاتی ہے کلیۃً۔اب اس پر ان کو جو مصیبت ہے۔ اس کا میں بتاتا ہوں کہ
( * نہ اولاد کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں)
کس کس طریقہ سے انہوں نے بچنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے تو میں تفسیر صافی سے یہ حوالہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ کاشانی کی کتاب ہے الصافی تفسیر القرآن جلد اول صفحہ ۸۹۰ عیاشی کی روایت ہے۔ اور ترجمہ اس کا یہ ہے۔ عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ شیعہ تاریخ یہ ہے کہ اگر کسی امام تک روایت کو پہنچا دیں تو اس کو مرفوع سمجھتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ آگے امام کا مرتبہ اتنا بلند ہے۔ اسے یہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں نے کس سے سُنا۔ اور اس نے کس سے سُنا۔ امام تک بات پہنچا دو۔ خواہ وہ دو سو سال بعد پیدا ہوا ہو۔ اس کی روایت ویسی سمجھی جائے گی جیسے کوئی روایت متصل ہوتے ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچے۔ تو اس لئے امام صادق کا جب ذکر آگیا۔ وہاں روایت ختم۔ لیکن اس کی سند انتہائی قطعی اور یقینی ہوگئی۔ کہتے ہیں عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ ’’آپ نے فرمایا۔ جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی وہ ہم اہل بیت میں سے ہے۔‘‘
آئمہ بہت ہی پاکباز اور بہت ہی بزرگ وجود تھے۔ شیعوںکے عقائد جتنے مرضی بگڑ جائیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون جن نسلوں میں جاری رہا ہے۔ وہ مدتوں تک ایسا پاکیزہ جوہر دکھاتا رہا ہے کہ ان کے آئمہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے تھے۔ اُن کے متعلق جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے‘ بہت ہی پاکباز‘ متقی اور مرد صادق تھے۔ اُن کی طرف جھوٹی روایات اگر کوئی منسوب کردے تو اُن کا قصور نہیں۔ ایسی روایتوں کی چھان بین ضروری ہے۔ اور وہ آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ کیونکہ دوسری قطعی روایتیں ان کو جھٹلا رہی ہیں۔ لیکن آئمہ کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی قسم کی نفسانی خواہشات کے پیش نظر اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی بات گھڑ سکتے تھے۔ تقویٰ سے مرد میدان بن کر مخالفانہ جب مؤقف کو بھی سُنا اگر وہ درست تھا تو اُسے قبول کیا ہے۔ اور قطعاً پرواہ نہیں کہ کہ ان کے مرید اس سے کیا نتیجہ نکالیں گے۔ یہاں حضرت امام باقر کے متعلق روایت ہے یا امام جعفر صادق کے متعلق۔ آپ نے فرمایا !
’’جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی۔ وہ ہم اھل بیت میں سے ہے۔ کہا گیا کہ آپ اھل بیت میں سے؟ فرمایا ! ہاں ہم اہل بیت میں سے۔‘‘
امام باقر سے مروی ہے ’’کہ جس نے ہم سے محبت کی۔ وہ اہل بیت میں سے ہے کہا گیا آپ میں سے؟ فرمایا ہاں ہم میں سے۔ خدا کی قسم کیا تم نے قول ابراہیم نہیں سُنا کہ ’’ جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے۔‘‘
اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے ’’کہ جس نے میری نافرمانی کی تو توُ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ روایت ہے آئمہ کا مسلک کہ اہل بیت کیلئے کسی خونی رشتے کی ضرورت نہیں۔تقویٰ کا رشتہ سب سے اہم ہے۔ اور جو متقی ہو اور نیک لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہو۔ اس کا شمار اہل بیت میں ہوگا۔
تفسیر مجمع البیان شیعہ تفسیر میں لکھا ہے۔
’’ان المراد بقولہ ’’لیس من اھلک ‘‘ ای انہ لیس علیٰ دینک‘‘
کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت نوح کے بیٹے کے متعلق جب یہ فرمایا گیا کہ ’’لیس من اھلک‘‘ سے صرف اتنی مراد ہے کہ تیرے دین پر نہیں ہے‘‘ وہ تو حضرت نوح کو بھی پتہ تھا میرے دین پر نہیں ہے۔ جھگڑا تو تھا ہی اہل بیت کا۔ وعدہ تو اہل بیت کی حفاظت کا تھا۔ اس تعلق سے حضرت نوح کو یہ خیال تھا کہ اس میںدینی اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دو وعدے ہیں۔ ایک وہ جو نوح کے ساتھ ہیں اور آپ کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لازماً بچائے جانا تھا۔ وہ سب کشتی میں تھے ایک وعدہ تھا اور وہ بلا استثناء پورا ہوا۔ ایک وعدہ تھا کہ تیرے اہل کو میں بچائوں گا اس لئے حضرت نوح کے وہم میں تو کوئی شائبہ بھی اس بات کا نہیں تھا کہ دین والے تو بچانے ہی جانے ہیں۔ دین سے باہر ہوتے ہوئے بھی ان کو خیال تھاکہ اہل کے اندر میری اولاد آسکتی ہے تو بحث دین کی ہے ہی نہیں۔ بحث اہل کی ہے یہاں۔ یہ کہتے ہیں کہ نہیں انہ لیس من اھلک سے مراد ہے کہ حضرت نوح کو یہ بتایا گیا کہ وہ تیرے دین پر نہیں ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ چھوڑ کے باہر بیٹھا ہوا۔ دوڑے پھرتا تھا۔ حضرت نوح کو نہیں پتہ لگا کہ وہ میرے دین پر نہیں ہے۔ یہ شیعوں کو پتہ چل گیا کہ خدا نے یہ کہا تھا۔ لغوبات ہے بالکل اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ وہاں جچتی ہی نہیں یہ بات۔ لیکن بہرحال یہ کہتے ہیں۔
انہ لیس علی دینک فکان کفرہ اخرجہ ان یکون لہ احکام اھلہ عن جماعۃ من المفسرین و ھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
’’سلمان منا اھل اللبیت ‘‘ اب یہاں آکے بات درست کی ہے۔ کہتے ہیں دراصل سلمان کو بھی جو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ وہ دینی رشتے کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے۔ آپ اہل بیت میں سے نہیں ہیں آپ یہ یاد رکھیے یہ بات۔ آگے میںبتاتا ہوں۔
مجمع البیان جلد نمبر ۱۲ صفحہ ۱۷۰ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ شیعہ تفسیر منھج الصادقین کے مصنف فتح اللہ کا سانی لکھتے ہیں۔
’’مراد بقولہ انہ لیس من اھلک۔ انہ لیس علی دینک اس سے زیادہ اس کی کوئی مراد نہیں۔
کہ یہ مراد ہے یعنی حضرت نوح کے حوالے سے کہتے ہیں۔ انہ لیس من اھلک انہ لیس علی دینک ۔ کہ تیرے دین پر نہیں ہے بس۔
’’ایں کفر او را بیرون کردد۔۔۔ ۔ زود ازآں کہ احکام اھل تو برو جاری شود و این قول جمیع المفسران است‘‘
وھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ! سلمان منا اھل البیت ۔ ای علی دینا۔ صرف اتنا مطلب ہے کہ ہمارے دین پر ہے۔ اب سنیئے اگلی روایت۔
’’حدثنا مصعب ابن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ ۔ اس کی تفصیل کیا ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ سیرت ابن ہشام نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہتے ہیںکہ جنگ خندق کے موقعہ پر مہاجرین نے کہا ’’سلمان منا‘‘ اور انصار نے کہا کہ ’’سلمان منا‘‘۔
حضرت سلمان فارسی قومی لحاظ سے نہ مہاجرین میں شمارہوسکتے تھے اور نہ انصار میں شمار ہوسکتے تھے۔ عرب تھے ہی نہیں فارس کے رہنے والے تھے۔وہاں سے ہجرت کرکے آئے تھے تو کس کے ساتھ کھڑا کیا ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پارٹیاں تقسیم فرمادیں۔ انصار ایک طرف کردئیے مہاجرین ایک طرف کردئیے اور اپنے خاندان کے افراد کو ایک طرف کھڑا کردیا۔ اس وقت کیا جھگڑا ہوا۔ سب نے اپنی طرف بلانے کی کوشش کی۔ مہاجرین نے کہا کہ سلمان تو ہمارا ہے۔ ہمارے ساتھ آجائے۔ انصار نے کہا سلمان ہمارا ہے ہمارے ساتھ آجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قول کے مطابق کیا فرمایا ! ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ یعنی سلمان ہمارا ہمارے دین پر ہے تمہارے دین پر نہیں۔ نہ انصار کے دین پر نہ مہاجرین کے دین پر صرف ہمارے دین پر۔اس سے زیادہ احمقانہ تشریح کوئی سوچی جاسکتی ہے؟ بتائیے ؟ کہاں کا موقعہ اور کہاں کی بات ان کو سوجھی ہے۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھتی ہے ان کو اس سے بھی پرے کی سوجھی ہے ’’دو قدم آگے! موقعہ یہ ہے کہ انصار کہتے ہیں ہمارا ہے۔ مہاجرین کہتے ہیں ہمارا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں ہمارا ہے اہل بیت میں سے ہے۔ اور شیعہ کہتے ہیں مراد صرف دین ہے کہ جھگڑا سارا دین کا تھا۔ مہاجرین کے دین پر یا انصار کے دین پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔ یہ نتیجہ نکلا اس بحث کا۔ اور آگے چلئے سید محمدباقر مجلسی صاحب آخر حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اسی لئے کہ شیعہ ائمہ بہت صادق القول ہیں۔ بہت متقی بزرگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسائل الدرجات میں فضل بن عیسیٰ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد یعنی عیسیٰ اور فضل دونوں فضل کے والد عیسیٰ تھے۔ حضرت صادقؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میرے پیر بزرگوار نے عرض کی کہ کیا یہ صحیح ہے کہ جناب رسول خدا تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ حضرت نے فرمایا ! ہاں۔ میرے والد صاحب نے کہا کیا وہ عبدالمطلب کی اولاد سے ہیں؟ وہی جو ذہن میں کھٹکا سا تھا اس کو دور کرنے کے لئے توجہ دلائی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔کیا اہل بیت سے یہ مراد ہے۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا ۔ اس کے اعتراض کو قطعاً نظر انداز کردیا۔ میرے والد نے عرض کی۔ کیا ابو طالب کی اولاد سے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ’’تقویٰ‘‘ کیسے بڑے بڑے بزرگ تھے ان کے آئمہ‘‘ اور ا ن موجودہ مولویوں نے کیا بدبختی اختیار کرلی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ میرے پدر نے عرض کی۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! پھر یہ سمجھ لو کہ وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں اس سے زیادہ نہیں حیاۃ القلوب از علامہ سید محمد باقر مجلسی جلد دوئم صہ ۹۵۴ ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور۔
اس سے سارا مضمون کھل جاتا ہے۔ قطعی طور پر قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت کے لئے یہ شرط لازم نہیں کہ خونی رشتہ ہو اور صلب سے کوئی ہو۔ دو باتیں ہیں جو ان کو مجبوراً ماننی پڑرہی ہیں صلب سے ۔ اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اور بعد میں آپ کی نسل کو شامل کرلیں۔ خونی رشتہ اس لئے کہ حضرت علیؓ کو شامل کرنا لازم ہے۔ ورنہ داماد کے طور پر خالی نہیں ہوسکیں گے اور اس کے علاوہ بعض جن پر صدقہ حرام والی اصطلاح ہے۔ اس میں حضرت عقیل اور عباس وغیرہ سب کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ تو اس میں خونی رشتہ آگیا۔ پھر دین کی شرط ہوگئی کہ دین پر ہونا بھی ضروری ہے۔یہ دونوں تصورات ایک طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ کو خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا اہل بیت کے طور پر مخاطب کرنا دوسری طرف۔ ثابت ہوا کہ زوجہ نبی اہل بیت ہوسکتی ہے۔ لیکن خونی رشتے کی بحث ابھی بھی انہوں نے اٹھا دی۔ کہ خونی رشتہ تھا۔ ا ب آیت زیر نظر پر آجاتے ہیں وہاں ازواج النبی ؐ کا ذکر چل رہا ہے۔ اس سے کھلا ازواج نبیؐ کا ذکر اور کہیں تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ ساری بات ان کی ہورہی ہے۔ ان کو نصیحت کی جارہی ہے۔ ان کی پاکی کی باتیں ہورہی ہیں۔ تم یہ کرو تو خدا کے ہاں مرتبے پائو گی۔ دوہرے اجر حاصل کروگی اور پھر وعدہ ہے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور کسی تیسرے کا ذکر بھی کوئی نہیں۔ تو خونی رشتے کی شرط یہ ہوئی ساتھ۔ اور نبی کی پاک صحبت اور دینی تعلق کی شرط قائم ہوگئی۔ اس شرط کو مزید تقویت ملی سلمان والی روایت میں۔ جو تمام شیعوںکو مسلم ہے۔ وہاں کسی خونی رشتے کا سوال ہی کوئی نہیں ۔ ہم قوم بھی نہیں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اہل بیت قرار دے دیا۔ یعنی قطعی طور پر یہ ثابت فرمادیا کہ اہل بیت کے لئے خونی رشتہ بھی ضروری نہیں۔ باہر سے آکر بھی کوئی اگر تقویٰ اختیار کرے اور میرے دین پر میرا ہم مزاج بننے کی کوشش کرے۔ اور مجھ سے محبت رکھتا ہو۔ وہ اہل بیت میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ جو حدیث ہے اس کا تعلق اس پیش گوئی سے بھی ہے۔ جس میں آنے والے امام کو حضرت سلمان فارسیؓ کے لوگوں میں سے شمار فرمایا گیا۔ وہ ایک اور موقعہ تھا۔ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی ہے تو اس کی آیات کی تشریح کے سلسلہ میں لمبی بحث ہے۔ پہلے میں کئی دفعہ ذکر کرچکا ہوں۔ اشارۃً آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب تمام عرب بیٹھے ہوئے تھے پاس۔ بحث یہ تھی کہ وہ آنے والا کون ہوگا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں مل رہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلما ن فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا !
لوکان الایمان عندالثریا لنا لہ رجل یا بعض روایتوں میں ہے رجال من ھؤلاء ۔ ایک عظیم انسان یا بعض عظیم انسان اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان لوگوں میں سے ہونگے۔ ان کی نسل نہیں فرمایا۔ یہ عجیب بات ہے۔
من ھؤلاء ان لوگوں میں سے ہونگے۔جو آسمان سے اُس نور کو دوبارہ کھینچ لائیں گے۔ اور بعض جگہ اہل بیت ہونا کا ذکر ملتا ہے کہ آنے والا اہل بیت میں سے ہوگا۔ تو حضرت سلمان کو اہل بیت میں داخل کرکے جبکہ کسی اور غیر رشتہ دار کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت میں داخل کرنا ثابت نہیں بتاتاہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات ہر فعل انتہائی گہری روحانی فراست پر مبنی تھا۔ اور اس کو سرسری طور پر الگ الگ آپ کی باتوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ آپس میں مربوط ہیں۔ ایک دوسرے سے گہرا تعلقات ہیں۔ پس سلمان ہی کو چننا اہل بیت کیلئے بتاتا ہے کہ وہ چاہے میرا رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ خونی تعلق یا قومی تعلق ہو یا نہ ہو۔ جس شخض کو میں کہتا ہوںکہ اہل بیت میں سے ہے۔ تو جو میرا ہے وہ اہل بیت میں سے ہوگا۔ یہ بحث اٹھانے کا تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس کا جسمانی رشتہ کیا ہے۔ یہ مضمو ن ہے جو قطعی طور پر اس سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مجھے وہ روایت یادآجاتی ہے‘ جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے پہلی دفعہ میں نے آپ کے خطبے کے دوران سُنی تھی۔ کہتے ہیں کہ روس کا ایک بادشاہ زار زَارْ Title تھا اُن کا روس کے بادشاہوں کا۔ وہ ایک دفعہ بیٹھا کسی نہایت ہی اہم کام میں مصروف تھا‘ اس نے اپنے سپاہی کو یا فوجی افسر کو یہ ہدایت دی ۔یہ سپاہی تھا فوجی افسر نہیں تھا۔ آگے روایت سے پتہ چلتا ہے‘ یہ سپاہی تھاکہ دروازے کے باہر کھڑے ہوجائو اور کسی شخص کو کسی قیمت پر اندر نہیں آنے دینا۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دخل انداز ہو اس وقت۔ اس کا ،زار کا اپنا بیٹا آگیا ۔ شہزادہ۔ اُس نے کہا آگے سے ہٹو میں اندر جانا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا نہیں۔ زار کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا۔ اُس نے کہا۔ میں بیٹا ہوں۔ اس نے کہا مجھے کوئی استثناء کا علم نہیں۔ مجھے اتنا حکم ہے کہ کسی کو نہیں جانے دینا۔ اس نے سانٹا نکالا اور مارنا شروع کیا۔ جب مارچکا پھر اس نے پوچھا اب بتائو ؟ اس نے کہا نہیں اندر نہیں جانے دینا۔ بار بار ایسا ہوا۔ مارتے مارتے ہلکان کردیا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضبط کرتا رہا ہے۔ کیونکہ آخر زار تک بھی کوئی اس کی آواز جا پہنچی۔ وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ یہ حال ہورہا ہے۔ اس نے پوچھا کیا بات ہے۔ کیوں مار رہے ہو اس کو۔ اُس نے کہا مجھے اندر نہیں جانے دیتا۔ بدتمیزی کررہا ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں اندر آنے دیتا تھا۔ کہتا تھا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ پھر تم کیوں اندر آنے کی کوشش کررہے تھے۔ جب میرا حکم تھا تو۔ اس کو کہا ’’سپاہی کو‘‘کہ یہی سانٹا پکڑو۔ اور میرے بیٹے کو مارو۔ اس بیچارے کے اطاعت کا غلام تھا دل تو نہیں چاہتا ہوگامگر اس نے اٹھا لیا۔ تو بیٹے نے آگے سے جواب دیا کہ سلطنت روس میں یہ پرانا قانون چلا آرہا ہے کہ کوئی سپاہی اپنے سے بلند عہدے کے آدمی پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا اور میرا یہ مرتبہ ہے اور یہ ایک عام سپاہی ہے۔ اس لئے اس قانو ن کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ زار نے کہا ٹھیک ہے یہ قانون ہے اس کا احترام ہوگا۔لیکن اس نے کہا اس کو مخاطب کرکے اس کے رینک کا جرنیل بناتے ہوئے اُسی وقت کہ اے جرنیل فلاں یہ کوڑا اٹھا اور میرے بیٹے کو مار۔ اس پر شہزادے نے کہا۔ کہ ایک اور بھی قانون ہے کہ کوئی غیر شہزادہ خواہ کتنا بڑا افسر ہو کسی شہزادے پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ہے تو اس نے اس کو کہا۔ مخاطب کرکے کہ اے شہزادے اُٹھ‘ اُٹھا یہ کوڑا اور میرے بیٹے کو مار۔ تب اس نے کوڑے مارے۔ تو ایک زار کو ایک دنیا کے ادنیٰ بادشاہ کو تو یہ اختیار ہے کہ جسے چاہے بادشاہ بنادے۔ جس کو چاہے شاہی خاندان کا فرد بنادے۔ ان بدبختوں کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حق نہیں ہے اور آپ کے ساتھ ساری زندگی کی صحبت میںبھی کوئی شہزادی نہیں بن سکتی۔حد سے زیادہ جہالت ہے۔ ساری دنیا کی زمام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اور آپ کے اس قول سے کہ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ با اختیار تھے۔ جس کو چاہیں اھل بیت قرار دیں۔ جس کو چاہیں نہ قرار دیں۔ اور اہل بیت کیلئے شرائط کیا مقرر ہیں۔اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو شرائط سامنے رکھی ہیں۔ کسی طرح وہ شیعوں کی ساری دلیلوں کو پارہ پارہ کردیتی ہیں۔ فرماتا ہے!
یا یھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی و جعلنکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ط ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ان اللہ علیم خبیر O ’’الحجرات آیت نمبر۱۴‘‘
اے بنی نوع انسان ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ ایک مرد اور ایک عورت سے۔ وجعلناکم شعوباً وقبائل۔ ہم نے تمہیں مختلف قبیلوں اور گروہوں میں تفریق کردیا۔ پھیلا دیا۔ بانٹ دیا۔ محض اس غرض سے تاکہ تم ان قبائل اور ان قوموں کے حوالے سے ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔ یاد رکھو تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے۔ کسی خاندان کا تعلق کسی کو معزز نہیں بنا سکتا۔ اور کسی خاندان سے عدم تعلق اس کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں باتیں بیان ہیں۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔ یہ قانون جاری و ساری ہے۔ ہمیشہ سے یہی رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کہ معزز وہی ہے اور سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘ تو جس حوالے سے عزتیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ ہے۔ سب سے زیادہ متقی تو خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس لئے نہیں ہوئے کہ وہ ابوہاشم کی اولاد تھے۔ اس لئے ہوئے کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز متقی ہونے کی وجہ سے بنے۔ ان اللہ علیم خبیرتمہیں کیا پتہ ہے ان باتو ںکا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ متقی کون ہے اور معزز کون ہے۔ تو عزتوں کے حوالے سے اگر اہل بیت کی گفتگو ہورہی ہے تو قرآن نے تو اس مضمون کو ہمیشہ کیلئے صاف کردیا ہے ‘ پاک کردیا ہے‘ یہ جھگڑا ہی چکا دیا ہے۔ امامت ہو‘ نبوت ہو جس پر مرضی آپ بات کرلیں۔ اس کا آخری فیصلہ کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کہاں سے اس نے رسالت کو ڈھونڈنا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو فضل عطا کرنا ہے۔ جسکو چاہتا ہے اپنا فضل عطا فرماتا ہے اور کوئی نہیں ہے جو اس کے ہاتھ روک سکے۔ پس یہ جھگڑے ہی نہایت جاھلانہ اور لغو اور اسلام سے قبل کی جاہلیت کے تعصبات ہیں جن کو تم لے کر اب اسلام میں آگے بڑھ رہے ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں شروع کیوں ہوئیں۔ اب میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں کہ دراصل پرانے‘ ایرانی شاہی تصورات ہیں اور وراثتی تصورات ہیں جن کو اسلام میں کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا اسلام سے انتقام ہے۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک مسلسل ان کی شہنشاہی جاری رہی ہے۔ وہاں سے میں بتاتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک جب پے درپے ایران کو شکستیں ملی ہیں۔ تقریباً تیرہ سو سال تک مسلسل ان کی بادشاہت بغیر انقطاع کے جاری رہی ہے۔ کبھی ایک خاندان آیا کبھی دوسرا خاندان آیا مگر ان کے شاہی تسلسل میں کوئی روک نہیں پیدا ہوئی۔ اسی بات کو Neitzscueلکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ جس نے وہ مشہور کتاب اپنی لکھی "Thus Spake Zarathust" کہ مجھے ۔۔۔۔سے محبت اس لئے پیدا ہوئی کہ میں نے دیکھا کہ ایرانی تہذیب اور ایرانی شہنشاہیت سالم حالت میں جو ہمیں ملتی ہیں یہ قدیم ترین ہے۔ اس کے بعد اسلام نے ان کی حکومت کو پارہ پارہ کردیا۔ اور یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہواہے۔ تمام عظیم فتوحات جو ایران کے خلاف مسلمانوں کو نصیب ہوئیں ہیں یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہیں۔ ایسے حیرت انگیز معرکے ہوئے ہیں کہ آج تک مورخین کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہوکیسے سکتا ہے۔
چھ چھ لاکھ کی خوب تربیت یافتہ فوج اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح نئی قسم کی ایجادات سے آراستہ اور سامنے سے صرف ساٹھ ہزار مسلمان عرب نکلتے ہیں اور فوج کے چھکے چھڑا دیتے ہیں نہ رستم کی کچھ پیش جاتی ہے اور نہ سہراب کی۔ اور بڑے بڑے سورما ان کے میدان میں آکے مارے جاتے ہیں۔ یہ جو دور ہے تاریخ کا۔ آج تک کوئی مورخ اس کا حل پیش نہیں کرسکا۔ یہ کیسے ہوا ہے اور یہ سب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ہے۔ پس ایران کے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت وجود آکر بن سکتا تھا تو حضرت عمرؓ بن سکتے تھے اور یہی ہواہے۔ ان کیلئے انتقام لینے کا اس کے سوا اور کوئی بہانہ نہیں تھا کہ آپ کو خلفاء کو اس لئے غاصب قرار دیا جائے کہ ایرانی تصور کے مطابق بادشاہت نسلاً بعد نسل وراثت میں منتقل ہواکرتی ہے۔ اس لئے روحانیت کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ وہ تعصبات ہیں جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے اور بھیس مذہبی اوڑھ رکھا ہے (بنا رکھا ہے) لبادہ مذھبی اوڑھ رکھا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ قدیم تاریخی انسانی تعصبات ہیں جو اس سارے عمل میں کارفرما ہیں۔ اس لئے حضرت سارہ کے متعلق عزت ڈھونڈی ہے تو تارح سے جاکے ڈھونڈی ہے۔ ابراہیم سے عزت نہیں ملی ان کو۔ اگران کی نظر ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم پر ہوتی تو یہ کہتے کہ سارہ کی ساری عزت ابراہیم علیہ السلام کی صحبت سے تھی۔ اور اسی طرح یہی عزت ہاجرہ کی قسمت میں بھی لکھی گئی۔ کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ پھر سارا مضمون صاف ہوجاتا ہے۔ تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ سے جو ان کی دشمنیاں ہیں۔ آج کل کے شیعہ سمجھتے نہیں ان باتوں کو۔ یہ تعصبات ہیں جنہوں نے اس وقت عمل دکھایا ہے جبکہ معاویہ کی حکومت تھی اور ایران میں یہ ساری سازشیں پلیں۔ اور انہوں نے جو Strategy اختیار کی۔ وہ یہی تھی جو اب شیعہ مذھب کا بنیادی جزوبن گئی ہے کہ ورثہ خون سے چلتا ہے۔ نسل سے چلتا ہے روحانیت سے نہیں چلتا۔ قرآن سے مجبور ہوکر یہ بھی بیچ میں شرطیں لگا دیں۔ بعض دفعہ کہ خون تو لازم ہے۔ لیکن روحانیت ہو تو پھر خون سے رشتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ ان دو شرطوں پر محدود کرکے اہل بیت کا چشمہ ہے اس کو محدود پیمانے پر آگے چلایا ہے اور آگے بڑھایا ہے اور اس حوالے سے عربوں میں جو اشتعال انگیزیاں پیدا کی گئیں۔ اور بعض فتنے پھیلانے گئے ہیں یہ مرکز سے پھوٹ کر باہر جاتے ہوئے نظر نہیں آتے کہیں بھی۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔ باہر سے مرکز کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ پس یہ فتنے اس اسلامی حکومت کے Bordery پر جنم لیتے رہے، وہیں پرورش پاتے رہے ۔ جس طرح ٹڈی دَل آبادیوں سے دور صحرائوں میں پرورش پاتی ہے۔ پھر جب حملہ کرتی ہے تو پھر کوئی سبزی باقی نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح ان فتنوں نے ایران کی سر زمین میں جو مرکز اسلام سے دور تھی۔ وہاں پرورش پائی اور بالآخر اپنا انتقام لیا۔ لیکن جن کے نام پر یہ تحریک شروع ہوئی ان کو پھر بھی کچھ نہ ملا۔ علویوں کی حکومت قائم نہ ہوسکی۔ حضرت علیؓ کے مقدس نام پر اور آپ کے اہل بیت کے مقدس نام پر یہ حکومت کا تختہ الٹانے کی جو سازشیں کی گئیں۔ ان کا فائدہ عباس کی اولاد اٹھا گئی۔ اور عباسی سلطنت پر فائز ہوگئے۔ اب بتائیے جن کے حق میں Propaganda تھا۔ ان کا تو کچھ بھی نہ بنا اور اسکے بعد جب ایران نے اپنی حکومت واپس لی ہے اور دو سو سال کے تعطل کے بعد عربوں سے آخر ایران نے آزادی حاصل کی تو اگر ان کا مسلک تقویٰ پر مبنی ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو ایران کے بادشاہ بنادیتے۔ وہ تھا ہی جھوٹ۔ محبت نہیں تھی۔ ایرانی عصبیت تھی۔ جو کارفرما تھی۔ پرانی dynastics دوبارہ بحال ہوئیں ہیں ایرانیوں نے پھر ایران پر حکومت کی ہے یا دوسروں نے۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کو انہوں نے دعوت نہیں دی۔ اور ان کو اپنے اوپر بادشاہ بنا کر نہیں بٹھایا۔ پس یہ سارا پس منظر ہے اس جھگڑے کا جو آپ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سورۃ کی تفسیر کے دوران یہ ضمنی سوال اٹھا تھا اور مجبور ہوکر چونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ پر اور صحابہ ؓ پر حملے کئے ۔ میں نے یہ بحث چھیڑ دی۔ ورنہ اصل جو دھارا ہے سورۃ احد کا وہ اور طرح سے رواں دواں ہے میں اس میں واپس جانے لگا ہوں۔ لیکن ایک حوالہ پڑھنے کے بعد۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے متعلق آپ نے مصنف تفسیر اہل بیت جوکہ (کیا نام ہے اس کا) (کہا گیا دوسرا حوالہ۔ غائب ہوگیا ۔ نہیں نہیں وہ تو یہیں اس کے بعد رکھنا تھا۔ لے آئیں اس تعلق میں ہے۔ حوالہ میں آپ کو بعد میں لکھوادوں گا۔ بات اب بیان کرتا ہوں۔ میں نے کہا تھا۔شیعہ مصنف میر احمد علی صاحب نے جہاں حضرت عائشہ کی طرف یہ روایت منسوب کی ہے۔ وہ بھی غلط منسوب کی ہے وہ میں آپ کو دوبارہ دکھائوں گا۔ اصل حوالوں سے وہاں ان کو حضرت ام المومنین لکھ دیاکہ حضرت ام المومنین نے یہ فرمایا اور ام المومنین کا مرتبہ اور مقام کیا سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ان ازواج کو تم اہل بیت میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہو؟ جن میں وہ بھی تھی جس کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ سخت اذیت کا منہ دیکھنا پڑا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا وہ الزام کتنا خبیثانہ ملحدانہ الزام ہے۔ ایسا ناپاک الزام ایسی معصوم عورت پر۔ صرف ایک دفعہ پہلے لگایا گیا تھا اور وہ حضرت مریم علیہا السلام پر تھا۔ اس کی نفی کرنے والا تو موجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)تھے اور خدا نے وحی کے ذریعہ آپ کی بریت فرمائی۔ اور عیسائی بدبخت ان پر یہ حملے کررہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ واقعہ دوہرایا گیا ہے اور آپ کی زوجہ محترمہ پر ایسا ہی ناپاک الزام لگایا گیا۔ اور پھر خدا نے بریت فرمائی۔ اور یہ کہتے ہیں مصنف صاحب کہ دیکھو ان کو تم ازواج مطہرات لکھتے ہو؟ یہ اہل بیت میں سے ہوسکتی ہیں؟ جنہوں نے نعوذ باللہ من ذلک اپنی کسی حرکت کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ اتنی اذیت دی ہے۔ یہاں تک کہ وہ سورۃ نازل ہوگئی۔ سورۃ میں کیا بتایا؟ یہ بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں۔ سورۃ نے کچھ اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیکاٹ کی وجہ سے اور اس بات کو اتنی اہمیت دینے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنھا تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کے بعد حضرت عائشہ کے گھر میں پہنچے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ شکریہ نہیں ادا کیا کہ شکرہے آپ مان گئے ہیں۔ اب کیا فائدہ۔ اب میرے خدا نے میری بریت کی ہے تو آپ آئے ہیں چل کے اور اس عرصے میںتو عذاب میں مبتلا رہی ہوں۔ اس کی معافی کاآپ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے اللہ نے بریت فرمائی ہے۔ یہ ہے مضمون جو قرآن کے حوالے سے اور حدیث کے حوالے سے ہمیں حقیقت کے طور پر دکھائی دے رہا ہے اور یہ ام المومنین کہنے والے مائوں کا یہ نقشہ کھینچ رہاہے ۔ بڑے ہی ناپاک حملے ہیں۔ خون کھولنے لگتا ہے۔ مگر کیا کریں۔ صبر کی تعلیم ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ مجھے رحم آتا ہے۔ ان بچارے شیعہ معصوم لوگوں پر جن کو کچھ پتہ نہیں دین ہے کیا ہم نہ ان کو قرآن کا علم نہ حدیث کا علم ۔ وہ اپنے ان مولویوں کو ہر سال سنتے ہیں تبرا کرتے ہوئے اور کئی قسم کی باتوں میں انہیں کو خدا کا نمائندہ سمجھے بیٹھے ہیں اورسر دھنتے اور اپنی چھاتیاں پیٹتے۔ لیکن یہ پتہ نہیں کہ پیٹنا کس بات پر چاہیے۔ یہ باتیں ہیں سر پیٹنے والی اور چھتیاں پیٹنے والی۔ یہ ظلم ہیں جو ان لوگوں نے توڑے ہیں ایک روحانی کربلا کو انہوں نے وجود دیا ہے۔ پس جہاں اس جسمانی کربلا کو پیٹتے ہیں۔ زیادہ حقدار ہو اس بات کے کہ اس روحانی کربلا پربھی تم ماتم کروکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں اور آپکے انبیاء پر کس قسم کے ظلم توڑے ہیں اور آپ کے صحابہؓ پر کیسے کیسے ظلم توڑے گئے ہیں۔ ’’میںنے وہ کہا تھا ہے تفصیلی بحث ازواج ؓ والی۔ ہے ناں۔ وہ بعدمیں کریں گے حوالے اکٹھے کرکے۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی مگر کہا میں نے ہی تھا لیکن سمجھے نہیں۔‘‘ اب جو حوالہ میں نے بتایا ہے میر احمد علی صاحب "Verse no.165 Sura Hud verse no.74"‘
کا حوالہ دے کر اس پر بحث کررہے ہیں کہتے ہیں:۔
The conduct of the some of wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history.
یعنی اسلامک ہسٹری میں وہ خبیثانہ الزام کی بات نہیں کررہے ان بدبختوں کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھ پہنچایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی۔ کہتے ہیں:-
The conduct of some of the wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history. As to who were ----those of his wives with whom the Holly Prophet was pleased and who were those who teased him and used to give him the headache by their behaviour with him. Which necessitated their being discaraou for about a month until sura 16 was revealed.
اس میں دیکھنے والی بات (ایک بات ابھی تحقیق طلب ہے شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے اس حوالہ کو الگ الگ لکھوادیا۔
اس سورۃ میں دو واقعات ملتے ہیں۔ (مجھے ابھی تک قطعی طور پر اس حوالے کے متعلق یہ یقین نہیں ہے یہ احتمال تھا جس کا میں نے ذکر کیا تھا)
ایک واقعہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کا دنیا کی تنگی کا شکوہ ہے تو تم ان سے یہ کہہ دو (اپنی بیویوں سے) کہ تمہارے لئے اختیار ہے۔ چاہو تو میں تمہیں ہر قسم کے آرام اور نعمتیں دے کر رخصت کردیتا ہوں۔ میرے گھر سے چلی جائو۔ اور چاہو تو اس تنگی کے ساتھ رہو۔ جس تنگی کو میں نے اپنے لئے گوارا کیا۔ اور خدا کی خاطر صبر سے برداشت کرو اس کے بعد آپ کچھ دیر الگ رہے۔ لیکن میں اس سے اس لئے دوسری باتوں کی طرف جارہا ہوں کہ کسی صورت کے نتیجہ میں آپ واپس نہیں آئے ہیں۔بلکہ آپ کی تمام ازواج مطہرات نے خوب غور کے بعد خود عرض کردیا تھا کہ یا رسول اللہ کہ ہمیں آپ کے ساتھ رہنا منظور ہے۔ خواہ کیسی ہی تنگی ہو۔ کیسی ہی تکلیف ہو۔ ہمیں دنیا کی نعمتیں نہیں چاہئیں۔ اگر اس واقعہ کی طرف (مجھے یہ وہم پیدا ہوا یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ نہ کیا گیا ہو۔ لیکن میں دوبارہ چیک کرکے آپ کو بتادونگا) اس واقعہ کی طر ف اشارہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ان کی بریت میں تو کوئی سورۃ نازل نہیں ہوئی۔ وہ تو خود ازواج مطہرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ ہمیں یہ زندگی منظور ہے آپ کے ساتھ اور دوسری زندگی منظور نہیں۔ توآپ نے دوبارہ اپنے تعلقات کو بحال فرمالیا۔
اس لئے یہ اشارہ اب جب سورۃ دیکھیںگے (سورۃ نکالیں نہ ذرا) اس سے پتہ چلے گا کہ کس طرف اشارہ ہے۔ ابھی چیک کرلیں اس کو۔ اب میں تب تک اگلی آیات شروع کرتا ہوں۔
’’اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ قلتم انی ھذاقل ھو من عند انفسکم۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقے الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
اس کے ساتھ اگلی آیت ہے۔ ولیعلم الذین نافقوا۔ کیونکہ اس کا اس سے تعلق ہے اس لئے میں یہ بھی شامل کردیتا ہوں۔ وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ سوال ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں؟ کیا یہ واقعہ درست نہیں؟ کہ جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی جس سے دوگنی مصیبت تم ان کو ڈال چکے تھے۔ خود قلتم ۔ تم نے یہ کہا انیٰ ھذا۔ یہ کیسے ہوگیا۔ ایک تو یہ معنے بن سکتے ہیں۔ اور ایک وہ طرز بیان ہے جو میں نے پہلے اختیار کی تھی۔ کہ کیا ہمیشہ جب بھی تمہیں ایسی مصیبت پہنچے جو تم اس سے زیادہ ڈال چکے ہو۔ اس واقعہ کے بعد تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کہاں سے آگئی۔ یہ استمرار کا مضمون ضمناً نکلتا ہے حقیقۃ ً جو معنے ہیں وہ یہی ہیں۔ دوسرے معنے لفظاً درست بیٹھتے ہیں۔ مگر یہ طرز بیان ایسی ہے جس سے میرے ذہن میں ضمناًکے مضمون کا جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ مطلب ہے ایسے جب بھی کبھی مواقع پیش آئیں کہ جب تمہارے سے کسی دشمن کو تکلیف پہنچ چکی ہو۔ تو تمہیں بھی پہنچ جائے تو کیا تم یہی کہتے رہو گے ہمیشہ کہ ہمیں کیوں پہنچی۔ یہ بنیاد ہے نفسیاتی لحاظ سے جو اس مضمون کو جاری کردیتی ہے۔ ورنہ مثلیھا کا واقعہ تو ایک ہی دفعہ ہوا تھا۔ اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ترجمہ ایک ہی دفعہ کی صورت میں کیا ہے۔ کہ کیا یہ واقعہ درست نہیں ہے کہ جب تم خود دوسروں کو دوہری تکلیف پہنچا چکے تھے۔ پھر جب تمہیں پہنچی تو تم نے یہ کہا ’’قل ھو من عند انفسکم‘‘ اس کا جواب یہ دے دے کہ یہ تمہارے اپنی طرف سے پہنچی ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اب میں اس کی حل لغات میں پہلے داخل ہوجائوں۔ اور پھر میں واپس تفسیر کی طرف آئو ںگا۔
صاب یصوب صوبا و مصابا۔ صاب المطر ای انصب و نزل یعنی بارش برسی یا نازل ہوئی۔ صاب میں نازل ہونا‘ گرنا وغیرہ کے مفہوم داخل ہیں۔ اس لئے مصیبت اس کو کہتے ہیں جو اچانک آپڑے ۔ٹوٹ پڑے‘ بنیادی طور پر یہ معنی اوپر سے اترنے یا گرنے کے ہیں۔
وہاں سے لیا گیا ہے۔ صاب السھم نحو الرمیۃ۔ اس کا مطلب ہے تیر سیدھا جاکر نشانے پر لگا۔ اصابتکم اصاب السھم تیر کا ٹھیک نشانے پر لگنا۔المصیبۃ البیۃ و الداعیۃ و الشدۃ و کل امر مکروہ۔ مصیبت بلائ‘ صدمے‘ ناگہانی آفت‘ شدت۔ اور ہرناپسندیدہ بات کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ التقیٰ سے مراد ہے جنگ میں مڈبھیڑ، ایک دوسرے سے ٹکرا جانا۔ جہاں تک شان نزول کی بحث آئی ہے وہ تو مفسرین اٹھاتے ہیں شان نزول کی بحث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا ! ’’جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔‘‘
(کیوں جی‘ نکالی‘ کونسی آیت؟ وہ آیت یا ایھا النبی قل لازواجک )وہی جو میں نے دوسری آیت میں بیان کیا تھا۔ لیکن اس میں۔ دوسری آیت کونسی ہے وہ کہاں ہے۔ یہ تو حوالہ ہی نہیں دے رہا۔ حوالہ یہ دے رہا ہے۔ کہ حضرت عائشہ کے ضمن میں ایک نہایت ذلیل الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر میں کہتا ہے کہ ان کی حمایت تم کررہے ہو جن کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور ان کے ایک غلط Behaviour کی وجہ سے یہ لفظ ہے یہاں تک کہ قرآن میں بعد میں ایک مہینہ کے بعد ایک ذکر آیا ہے تو پھر یہ قصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دورہوئی۔ اس کا اس دوسرے واقعہ سے تعلق ہی کوئی نہیں ہے۔ میں نے چونکہ اس سورۃ کا حوالہ دیکھا نہیںتھا۔ اس لئے احتیاطاً کہہ دیا تھا کہ شاید کہیں اس کے دماغ میں یہ بات آگئی ہو۔ وہ نہیں ہے۔ جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہاں ذکر ہی کوئی نہیں۔ (وہ کونسی آیت ،نکالیں،ابھی پتہ لگ جائے گا)
کہتا ہے یہاں تک کہ Sura sixteen نازل ہوئی۔
(وہ تو توبہ میں ہے۔ وہ سورۃ نور میں ہے۔ سورۃ نور کا نمبر کیا ہے۔ ٹھیک ہے دیکھیں اس کے لکھنے میں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو) مہینے کے بعد خدا کی طرف سے حضرت عائشہ کی بریت قرآن سے ثابت ہے۔ اور یہ مہینے کے بعد کسی سورۃ کا ذکر کررہاہے جہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہی کوئی نہیں۔ پہلے بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے۔ آپ کو میں نے دکھائی تھی آیت۔ جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہاں کوئی دور کا بھی ذکر نہیں ملتا۔بیٹھے بیٹھے حوالے بنائے جارہے ہیں (وہ چوبیس ۲۴ ہے سورۃ نور۔ لیکن وہ حوالہ اپنی ذات میں ظاہر و باہر ہے۔ خلاصہ اس کا یہی بنتا ہے جب تک خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا دکھ دور نہیں کیا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت کی وجہ سے نعوذ باللہ من ذلک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھ میں مبتلا رہے۔ اور اگر وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت تھی ہی نہیں۔ اور خدا نے یہی فرمایا ہے تو تمہیں اس بدبختی کا کیا حق؟ کہ اشارۃً یا کنایتہ بھی اس بات کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوں یہ حال ہے بغض میں پڑرہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں۔ اور میں پھر کہتا ہوں کہ عوام الناس شیعہ پر بڑا سخت ظلم ہے۔ ان کو چاہئے کہ یہ ساری باتوں کو سنیں غور سے اور سمجھیں کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے ان کے پاک معصوم آئمہ کے اور ان کے درمیان یہ مولوی حائل ہیں اور یہی مولویوںکا کردار سنیوں میں بھی چل رہا ہے۔ صداقت کے بیچ میں آکے کھڑا ہوجاتے ہیں اور ایسے تاریک ہیں کہ آگے سے روشنی گزرنے ہی نہیں دیتے۔ اب آگے (بچارے) روشنی پہنچے کہاں سے عوام الناس میں۔ عوام الناس کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ انہیں اگر روشنی پہنچے تو ان کا مزاج مولویانہ نہیں ہے۔ جاھل ہوتے ہیں لیکن مولوی نہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا۔ پڑھے لکھوں سے زیادہ روشن دماغ ہے عوام الناس کیونکہ سادہ مزاج ہے اور پڑھائی کے چکر میں پڑے کے ان کو ایچ پیچ نہیں آتے۔ اور مسائل جب بھی ہمارے زیر بحث آئے ہیں مختلف پاکستان میں مجالس میں مَیں شامل ہوتا رہا ہوں۔ بہت چکر لگائے ہیں پاکستان کے جگہ جگہ سوال و جواب کی مجالس لگا کرتی تھیں۔ بڑے بڑے انکے مولوی بھی آتے تھے اور عوام بھی۔ اور میرا تجربہ ہے کہ بات سن کر مولوی اپنی جگہ اٹکارہتا تھا اور عوام تائید میں کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔ تو ہمیں عوام الناس تک پہنچنا ہے۔ ایک طرف اس نور کے آغاز اور عوام کے درمیان یہ حائل ہیں۔ دوسری طرف نور کی تکرار جو اس دور میں ہوئی ہے اس کے اور عوام کے درمیان حائل کھڑے ہیں اور ہمارے پیغام رسانی کے سارے رستے بند کر بیٹھے تھے۔ اب اگر اللہ نے آسمان سے فضل نازل نہ کیا ہوتا تو ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا عوام الناس تک پہنچنے کا۔ اب پہنچ رہے ہیں اللہ کے فضل سے۔ اور اتنی جلدی جلدی اس اثر پڑتا ہے کہ پرسوں ایک احمدی دوست یہاں اپنے ایک غیر احمدی دوست کو یہاں درس میں لے آئے۔ اور پرسوں والے درس سننے کے بعد فوراً بعد انہوں نے کہا میری ابھی بیعت لو۔ میں نہیں باہر رہ سکتا۔ یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم عوام الناس تک پہنچیں۔ بنیادی طور پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے نناوے 99 فیصدی لوگ شریف ہیں۔ ایک فیصد ہے جنہوں نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ مگر شریف تو ہیں مگر ساتھ جاہل بھی تو ہیں۔ وہ ہاں اگر پتہ چلے جاہل آدمی کو مصیبت یہ ہوتی ہے ۔ شرافت کے باوجود اگر کوئی بات دل میں گڑ جائے تو چاہے وہ غلط ہی ہو لاعلمی کی وجہ سے اسکی خاطر جان دے دیتے ہیں اور پڑھے لکھوں کو یہ توفیق نہیں ہے۔اس لئے فساد ہمیشہ عوام الناس کی طرف سے ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھو ںکی طرف سے نہیں ہوتے۔ اور ایک رنگ میں ان کی شرافت کی دلیل ہے۔ وہ بیچارے ہیں سچے۔ جھوٹی بات بھی ان کے دماغ میں ڈالی جائے گی۔ تو اس کی خاطر جان دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ ملک کے امراء اور تعلیم یافتہ لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوئے یہ آگیںلگا کر جلنے کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اب میں امید رکھتا ہوں کہ کثرت سے شیعہ عوام تک احمدی ان باتوں کو پہنچائیں گے تو دیکھیں اللہ کے فضل سے ا نکا ردعمل یقینا صحابہ ؓ اور ازواج مطہرات کے حق میں ہوگا۔ اور بڑی شدت کے ساتھ وہ غلطی کو محسوس کرکے ان بزرگوں کی توہین سے باز آئیں گے۔ اور ان کی عزت و شرف کے قائل ہونگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
اچھا اب میں پھر دوبارہ واپس آرہا ہوں اسی آیت کی طرف " 166-167 شان نزول: فرمایا ! کہ جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوںپر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔ اب یہ عجیب سی روایت ہے۔ اسباب نزول میںیہ کسی تفسیر نے یہ بات پیش کی ہے۔ اور اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اس سے۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کریں جو قران کے واضح بیان کے خلاف ہو۔ قرآن یہ فرما رہا ہے کہ مصیبت اس لئے ٹوٹی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمائی ہوئی اور ایک وقت پر تم نے وہ بات نہیں مانی اور اس کے نتیجہ میں ساری مصیبت ٹوٹی ہے۔ اس کو بدر کے ساتھ جاکے منسلک کردینا اور یہ کہنا کہ فدیہ لیا تھا۔ فدیہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا۔ تو نافرمانی کرنے والوں سے الزام اتار کر خدا کے کامل فرمانبردار بندے کی طرف منتقل کرنا ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ نام جو مرضی ہے دیدیں۔ یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ قرآن سے ٹکرا رہی ہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ٹکرا رہی ہے۔
اصابتکم مصیبۃ اصبتم مثلیھا کی بحث میں مستشرقین نے بھی یہ بات لکھی ہے اور مسلمان مفسرین نے بھی کہ جنگ بدر میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے ’’دشمن کے‘‘ ۔ جنگ احدمیں ستر صحابہ شہید ہوئے ہیں تو مثلیھم سے کیا مراد ہے کہ دوہرا نقصان کیسے پہنچایا۔ وہ تو مثل بہ مثل نقصان ہے۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی قیدی نہیں بنایا گیا یہاں۔ ایک بھی قیدی نہیں بنا۔ جب کہ ان کے ستر مارے گئے اور ستر قیدی بنالئے۔ تووہ ستر بھی تمہارے رحم و کرم پرآگئے یعنی ایک سو چالیس کو تم نے زک پہنچائی ہے۔ اس کے مقابل پر تمہارے صرف ستر کو بظاہر نقصان پہنچا۔ لیکن وہ بھی شہادت کی عظمت پاگئے اور سعادت پاگئے۔ تو یہ مراد ہے ’’مثلیھا ‘‘سے۔
اذن کا معنے ان مفسرین نے عموماً قضاء الہی لے لیا ہے۔ جس میں ایک قسم کا جبر کا تصور پایا جاتا ہے۔ اذن کا مطلب اجازت بھی ہوتا ہے۔’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا‘‘ میں اجازت کا مفہوم ہے اور دوسری جگہ بھی اذن کا لفظ اجازت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں اگر سورۃ حج میں قتال کے تعلق میں اگر اذن سے مراد حکم بھی لے لیا جائے تو یہ معروف ہے اس کا استعمال۔ اذن کے معنے اجازت دینا بھی ہوتا ہے ۔ کسی کی اذن سے انسان داخل ہوتا ہے۔ کسی کے کمرے میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوتا یہ وہی معنے ہیں پس میں اس بات پر ہی مصر ہوں کہ یہاں باذن اللہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے سے فیصلہ کر رکھا تھا۔ ایک جبری تقدیر تھی جو ضرور پوری ہوتی تھی۔ بلکہ اس واقعہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قدیر ہونے کا ذکر ہے۔ علی کل شیئٍ قدیر۔ فرماتا ہے اس کا بد نتیجہ ہوسکتا تھا تمہیں نہ پہنچے۔ اگر اللہ ایسا فیصلہ کردیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے پیش نظر اجازت دی کہ تمہاری غلطی کا تم خمیازہ بھگتو۔ اور اس کے نتیجہ میں کئی اور بہت سے ایسے مصالح تھے جو پیش نظر تھے فلما اصابتکم مصیبۃ میں یہ میں سارے مفسرین پر نظر ڈال رہا ہوں۔ وہی بحث ہے ستر مسلمانوں کو شہید کیا گیا‘ ستر مشرکوں کو قتل کیا ستر کو قیدی بنایا گیا۔ اور سارے ہی اسی بات کو دوہرا رہے ہیں۔
امام رازی اس بات کو رد کرتے ہیں کہ بدر کی وجہ سے تھی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں ذکر ہے کہ مصیبت ان کے گناہ اور خود ان کے اپنے نفوس کے باعث پہنچی۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ یہ مصیبت انہیں اور وجہ سے پہنچی اور وہ یہ کہ مومن اور منافق کے درمیان تمیز قائم ہو۔ یہاں امام رازی جو بیان فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن میں تضاد نہیں ہے ۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ زائد حکمت اس میں یہ بات تھی اور اس کا اس مضمون سے تعلق ہے جو اذن کے معنے اجازت لینے سے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بے حکمت یہ تکلیف نہیں پہنچنے دی۔ اس کا ایک مقصد تھا۔ اور وہ مقصد تھا کہ اس موقعہ پر سچے مومن اور منافق میں تفریق ہوجائے۔ لیکن اس مضمون کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے نہیں ہے صرف ۔ یہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ محض تکلیف سے ہے۔ تکلیف کیوں پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ کیونکہ آگے جاکر قران کریم اس بات کو خوب کھول رہا ہے کہ تکلیف نہ پہنچانے کے نتیجہ میں جو مومنوں اور منافقوں میںتفریق ہوئی ہے اس تفریق میں وہ منافق شامل ہیں جو جنگ احدمیں شامل ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور قرآن خود آگے بتائے گا۔ جب وہاں پہنچیں گے پھر میں آپ پر وضاحت کردونگا کہ کیوں میں اس بات کو سختی کے ساتھ درے والے واقعہ سے نہیں باندھنا چاہتا۔ کیونکہ جنگ احد میں جو کچھ ہوا۔ اس میں ایک اور حکمت بھی پیش نظر تھی۔ اس میں حکمت ایک پیش نظر یہ تھی کہ اس جنگ کے بعد منافق مومنوں سے الگ ہوکر ممتاز دکھائی دینے لگیں۔ یہ اصل مضمون ہے جومیں سمجھتا ہوں درست ہے اور میں اس کی تائید میں آگے بات کروں گا۔ اس لئے امام رازی اذن کا معنے حکم نہیں لیتے بلکہ بعلمہلیتے ہیں جیسا کہ فرمایا! و اذان من اللہ یہ اعلان ہے اللہ کی طرف سے اور وہ اجازت والی بات یہ علم کہتے ہیں لیکن مفہوم امام رازی بھی اجازت والا بیان فرما رہے ہیں اور اذان تو اس سے اجازت تو نہیں ہوتی وہاں اعلان ہے مگر حکم نہیں ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں کہ وہاں معنے اجازت کے لئے جاسکیں۔ سورۃ توبہ میں یہ جو اعلان ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے لفظ اذن ہے اور اذان بھی اسی سے نکلی ہے اعلان کے معنوں میں۔ ایک اعلان عام ہے چاہو تو قبول کرو چاہو تو نہ کر۔ اس لئے اختیار کی بات اس میں شامل رہتی۔ اور پھر کہتے ہیں جیسے فرمایا۔ ’’اذناک مامنا عن شہید اور پھر فرمایا ! فاذنوا بحرب من اللہ۔ ان سب سے مراد علم ہے فاذنوا بحرب من اللہ پس حکم نہیںہے کہ تم ضروراللہ سے لڑائی کرو۔ اللہ سے لڑائی کیلئے تیار ہوجائو۔ تمہیں اختیار ہے چاہو تو لڑائی کا طریق اختیار کرو۔ چاہو تو توبہ کرلو۔ تو اختیار کے معنے یہاں ایک رنگ میں ضرور پائے جاتے ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں اذن سے مراد اللہ کی قضا ء اور اس کا حکم ہے کہتے ہیں یہ معنے اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر مسلمان تسلی پاجاتے ہیں کہ چلو گویا تقدیر ہی سہی چلو ٹھیک ہے۔ مگر یہاںمیں امام رازی سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم اس قسم کی باتوں سے تسلی نہیں دیا کرتا۔ بہت گہری حکمت کی باتیں بیان فرماتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قضاء کے موقعہ پر آکے انسان سر تسلیم خم کردے مگر دل کے وسوسے تو قائم رہتے ہیں اور تکلیف پھر بھی رہتی ہے۔اب یہ چلو اللہ کی رضا تھی تو ہم مان جاتے ہیں۔ مگر اگر حکمت بیان کی جائے کہ کیوں ایسا واقعہ ہوا تھا۔ پھر سچی تسلی ملتی ہے۔ اس لئے یہاں تقدیر کا معنے کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ جبکہ آگے وجہ خود اور بیان فرما رہا ہے اللہ تعالیٰ۔
اذن کہہ کے حکمت اور بیان فرما رہاہے تو اذن کا معنی اگر تقدیر لیا جائے تو اس سے حکمت کی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔یہ کہتے ہیں۔ تفسیر محاسن میں علامہ محمد جلال الدین القاسمی لکھتے ہیں کہ قدرت کے ذکر میں یعنی قدیر کے ذکر میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ یہ معاملہ جو گذرا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے اور اس کی تقدیر کے ماتحت ہوا ہے۔ یعنی اگر وہ چاہتا تو اس کو تم سے ہٹا دیتا ہے۔ پس تم اس قسم کے مصائب قبول کرنے کے لئے کسی غیر پر بھروسہ نہ کرو۔ اور کسی غیر سے مدد نہ مانگو۔ تو یہاں وہی معنے بیان کررہے ہیں اس کے قریب تر جو میں نے بیان کیا تھا کہ قدیر کہنے میںحکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قدرت تھی کہ چاہتا تو ہٹا دیتا اور کسی جبری تقدیر کے نتیجہ میں یہ نہیں ہوا۔ تمہاری غلطی سے ہوا۔اور خدا نے ہونے دیا یہ معنی بنے گا۔
یہ کہتے ہیں کہ شیعہ تفسیر میں تو یہ لکھا ہواہے۔بالآخر میر احمد علی صاحب بھی یہ بات کھول کر بیان کرتے ہیں۔ سارا خلاصہ ان کی بات کا یہ بنتا ہے کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے اور اس سے پہلی آیات سے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ احد کی تکلیفوںکو مومن اور منافق کی پہچان کے لئے۔ خود وارد فرمایاعائد فرمایا اور یہ مصیبت اس لئے مسلمانوں پر توڑی گئی تاکہ مومن (سچوں) اور منافقین میں ایسی تفریق ہوجائے کہ اس کے بعد پھر کبھی کوئی شبہ نہ رہے۔ کہتے ہیں وہ تفریق ہوگئی اور حضرت علیؓ اکیلے مومن کے طور پر ابھرے ہیں اور باقی تمام کیلئے جنگ احد منافقوں کا مقبرہ بن گئی اور ہمیشہ ہمیش کیلئے یہ کلیہ طے ہوگیا کہ مو من کون تھے اور مانفق کون تھے۔یہ اس آیت کا اور اس سے پہلے سارے مضمون کا منطوق ہے جو شیعہ مفسرین پیش کررہے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن کریم کیا بیان فرما رہا ہے۔ وہ سُنئیے! لیعلم الذین نافقواسے اگلی آیت میں ہے۔و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ قالوا لو نعلم قتالاً لا تبعناکم۔تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو بھی پہچان لے اور منافقوں کو بھی پہچان لے۔ اور خدا نے منافقوں کو کیسے پہچانا۔ یہ ذکر بھی ہے۔ و قل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان کو کہا گیا تھا آؤ اللہ کی راہ میں قتال کرویا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لاتبعناکم۔اگر ہمیںلڑائی کرنی آتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ یہ سارے جنگ احد میں شامل ہونے والے یہ لوگ تھے۔ خدا تو خود بتا رہا ہے یہ کون لوگ تھے۔ ہم نے مومنین کو بھی پہچان لیا اور منافقین کو بھی پہچان لیا اور تفریق کی علامت یہ ہے کہ یہ بدبخت منافق وہ تھے جو آئے نہیں اور واپس مڑ گئے اور کہتے۔ ہمیں نہیں آتا لڑنا۔ یہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی ہیں۔ جن کا واضح ذکر ہے قالوا لونعلم قتالاً لا تبعناکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ یہ آج ایمان کے مقابل پر کفر کے زیادہ نزدیک ہیں۔ یقولون بافوھھم ما لیس فی قلوبھم۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کررہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بما یکتمون۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چھپاتے ہیں۔ پھر ان کا ذکر آتا ہے اس کے بعد اگلی آیت میں۔وہ خدا کے حضور جنگ احد میں مارے گئے ہیں۔ ان کو فرمایا گیا۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عندربھم یرزقون۔ لیکن یہ بحثیں انشاء للہ بعد میں اٹھائیں گے۔
(میں دیکھ رہا ہوں) میں ضمناً اشارۃً کررہا ہوں مجھے پتہ ہے وقت ختم ہونے میں ابھی شاید آدھا منٹ باقی ہے صرف۔ اس لئے انشاء اللہ کل جم کر ان آیات پر گفتگو ہوگی تو پھر ساری باقی باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔۰۰۰۰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ 2 رمضان المبارک
13) فروری 1994ئ(
اعوذ باللّہ من الشیطن الرجیم Oبسم اللّہ الرحمن الرحیم O
وما کان قولھم الا ان قالوا........... واللّہ یحب المحسنین O (آل عمران 148‘149)
کل ہم نے پہلی آیت کی تفسیر تقریباً مکمل کرلی تھی۔ جب میں یہ کہتا ہوں اور آئندہ جب بھی کہوں گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ کسی آیت کی تفسیر مکمل ہوسکتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنا حصہ میں نے اپنے لئے تیار کیا تھا وہ تقریباً ختم کرلیا تھا لیکن کچھ حصے ابھی باقی ہیں۔تو ان سے میں آج ....
دوبارہ ترجمہ آپ کو سنادوں تاکہ وہ جن کوترجمہ نہیں آتا وہ بار بار ترجمہ سنیں تو کچھ ان کے ذہن میں ترجمعہ ذہن نشین ہوتا چلاجائے۔
وما کان قولھم الا ان قالوا ربنا اغفرلنا ذنوبنااور ان کا قول اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں ہمارے گناہ یعنی ذنوب جنکی تشریح پہلے ہوچکی ہے وہ بخش دے۔
و اسرافنا فی امرنا :اور اپنے نفس پر جو زیادتیاں ہم کرچکے ہیں وہ بھی معاف فرمایا۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت دے۔وانصرنا پر علیٰ‘‘ کا جب آتا ہے صلہ ۔ تو مراد ہے فتح۔ ویسے تو نصرسے مراد نصرت ہے لیکن ’’نصر علیہ‘‘ اسکے خلاف مدددے یعنی ان پر فتح مند فرما۔یہاں لفظ قدم کی بحث ہے تھوڑی سی جو باقی تھی۔القدم : الْرِّجْلُ : قدم پائوں کو کہتے ہیں اور اس پائوں کی نسبت سے پھر اس کے اور بھی معنی رائج ہوجاتے ہیں۔ ایک قدم ‘ دو قدم جیسے اردو میں کہا جاتا ہے یعنی پورا ایک قدم سے دوسرے قدم کے فاصلے کو بھی ہم قدم کہہ دیتے ہیں اور بہت سے مضامین ہیں جو بنیادی طور پر قدم کے معنوںسے جڑے ہوئے ہیںان سے وابستہ ہیں اور پھر آگے اورمضامین پیداکردیتے ہیں۔ السابقۃ فی الامر خیراً کان اؤُ شرًاً : کسی چیز میں کمال حاصل کرلینا۔ اس کو بھی السابقۃکہتے ہیں۔ یعنی کمال حاصل کرنے کیلئے بھی لفظ قدم استعمال ہوتا ہے اور اس لحاظ سے قدم معززین کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو قوم کے بڑے لوگ ہیں چنانچہ آگے اس کی تشریح پھرچندفقروںکے بعدآئے گی۔کہتے ہیں لفلان فی کذا قدم صدق او قدم سوئٍ
کہ فلاں شخص کو اس بات میں کمال حاصل ہے یایہ کہناہوتو اگر اچھی بات میں کہنا ہو مثلاً سچائی میں تو کہیں گے اسے قدم صدق حاصل ہے۔ اُسے اس معاملے میں سچائی کا قدم حاصل ہے۔ اور اگر بری بات میں کہنا ہو تب بھی لفظ قدم استعمال ہوگا کہ اُسے اس معاملے میں برائی کا قدم حاصل ہے۔ الرجل لہ مرتبۃً فی الخیر : قدم اس شخص کو بھی کہتے ہیں جسے کسی بھلائی میںایک بڑا مرتبہ حاصل ہو
الشجاع : قدم بہادر کو کہا جاتا ہے۔ اور یہاں مرد اور عورت کی تفریق نہیں کی جاتی۔ اگرچہ لفظ قدم بظاہر مذکر ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس میں جب تعریف کے رنگ میں کہا جائے تو مرد ہو یا عورت دونوں کیلئے قدم کا لفظ استعمال ہوگا۔
وضع القدم فی امرہ۔ یعنی اس نے اس میں پائوں رکھ دیا اردو میں بھی اس کا ہم محاورہ بعینہ یہی ترجمہ ہے اس نے اس مضمون میں پاؤں رکھ دیا۔ اس عمر میں پائوں رکھ دیا۔ یعنی ابھی اس نے آغاز کیا ہے کسی چیز کا۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور ایک اور مفسر نے بھی یہ مضمون بیان کیا ہے کہ اس آیت کا پہلی آیت سے ایک تعلق ہے۔ پہلی آیت میں جو تین باتیںکمزوریاں ایسے گروہ کی طرف منسوب کی گئی تھیں جو دشمن کے سامنے کمزور ہو اور عاجز آجائے لیکن مومنوں سے ان کی نفی فرمائی گئی تھی کہ مومنوں میں یہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ دعا رکھ دی گئی ہے۔ پس وہ تین کمزوریاں جن کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے مقابل پرجب ہم اس آیت میں مذکور دعا کو لفظاً بہ لفظاً پہلے لفظوں کے ساتھ باندھیں گے تو اس کو لفّ و نشرمرتب کہتے ہیں یعنی جس ترتیب سے پہلی آیت میں جولفظ ہیں اسی ترتیب سے بعد میں آنے والی آیت کے الفاظ کا تعلق بنتا جائیگا۔ تو بات یوں بنے گی۔
قرآن کریم مومنوں کو نصیحت فرماتا ہے۔
وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر
اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ساتھ مل کر اللہ والوں نے مل کر قتال کیا فما وھنوا : انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔
وھن کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے۔ کس قسم کی کمزوری اس میں مراد ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے درس میں تفصیل سے میں نے وھن کے لفظ پر روشنی ڈالی تھی۔ مثلاً ایک پرندہ جب بہت کھالے اور بوجھل ہوجائے تو اس وقت بھی لفظ وھن اس پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گدھیں مردار کھا کر بوجھل ہوجاتی ہیں۔ تو وھنوا کا معنی بہت وسیع ہے۔مراد یہ ہے کہ مومن اپنے اندر اندرونی کمزوری کوئی نہیں رکھتے۔ یعنی ایسی کمزوری جو …پید ہو ان کی ذات کے اندر مخفی ہو۔ ان کے اندر اس کمزوری کا خمیر داخل ہو۔ ان سب چیزوں سے مومن پاک ہوتا ہے۔ تو فرمایا۔ وہ خدا کے پاک نبی جن کے ساتھ بڑے خداوالوں نے جہاد کئے اور قتال کئے۔ ان کے اندر کوئی اندرونی کمزوری نہیں تھی۔ پس ایمان کی ادنیٰ کمزوری بھی ایسے موقع پر ایک ظاہری کمزوری میں تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ پس وھن کا تعلق ان سب کمزوریوں سے ہے جو انسان کی ذات میں یا اس کے جسم میں یا اس کے تصورات میں یا اس کے عقاید میں داخل ہوں لیکن اس کے علم میں نہ بعض دفعہ علم میں بھی ہوسکتی ہیں مگربہت سی مخفی بھی رہتی ہیں۔
لما اصابھم : یعنی کمزوری ایسی کمزوری جو نفس کی اندرونی کمزوری ہے وہ اکثر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انسان سے چھپی رہتی ہے لیکن جب مصائب کے وقت آتے ہیں جب آزمائش کا دور شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ کمزوریاںاچھل اچھل کر باہر آنے لگتی ہیں۔ مثلاً جنگ احزاب سے پہلے جو لوگ مومن ہی سمجھے جاتے تھے لیکن اندر انکے ایمان کی کمزوری تھی۔ جب خطرے کے وقت آئے تو ان کی آنکھیں پھرنے لگیں۔ جیسے موت کی غشی طاری ہوگئی ہو۔ تو جب زلازل کا وقت آئے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کوئی عمارت مضبوطی سے زمین میں گڑی ہوئی ہے کہ نہیں۔ پس وھن کا تعلق ’’اصاب‘‘ کے ساتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اندرونی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ تمہیں کیا پتہ ! جب تک آزمائش میں پڑ کر تم یہ ثابت نہ کردو کہ تمہارے اندر تک مضبوطی ہے اور تمہارے ایمان میں کوئی مخفی کمزوری بھی نہیں ہے۔ اس وقت تک تمہارا صدق ثابت نہیں ہوسکتا۔ پھر فرمایا : وما ضعفوا : اور انہوں نے کوئی ضعف نہیں دکھایا۔ اس کے متعلق عموماًمیں نے پہلے تفصیل سے بیان کیا تھا۔ اب میں اشارۃً دوبارہ بیان کررہا ہوں پھر۔وما ضعفوا : جسمانی کمزوری کیلئے پر زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔ اور بشری کمزوریاں بھی اس میں داخل ہیں مثلاً بوڑھے آدمی کو ضعیف کہا جاتا ہے ۔ اور وہ ایسی کمزوری ہے جس میں اُس کا کوئی اختیار نہیں ہے بیچارا۔
تو پھر وماضعفوا میں بالارادہ کمزوری سے کیا مراد ہے؟
مراد یہاںیہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کمزور تھے بھی۔ ظاہری طور پر ان میں بوڑھے کمزوربچے بھی تھے۔ لیکن دشمن کے مقابل پر انہوں نے ایسی ہمت سے کام لیا ہے کہ ان کی کمزوری کوئی ظاہر نہیںہوئی اور اگر تھی تو اپنی ذات پر لے لی ہے۔ لیکن غیر معمولی جوش کے ساتھ انہوں نے اپنی کمزوری پر غلبہ پالیا ہے۔ یہ مضمون ویسا ہی جیسے بعض دفعہ پاگل آدمی کو بعض دفعہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ طاقت مل جاتی ہے۔ اور بعض کمزور بھی ہوں تو وہ لوگ جو پاگلوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ایک معمولی طاقت کا پاگل بعض دفعہ بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض کمزوریاں انسان کے اندر مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض طاقتیں بھی انسان کے اندر مخفی رکھی ہیں اور ان کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان ان سے استفادہ نہیںکرتا۔ لیکن اگر اعتماد اور یقین ہو اور اس کا تعلق اعتماد اور یقین سے ہے عقل سے نہیں ہے۔ عقل اگر استعمال کرے گا تو پتہ لگے گا کہ میں تو کمزور ہوں میں تو اتنا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ جیسے روزوں میں لوگ بہانے بنا لیتے ہیں مگر اگر ایمان اور یقین ہو تو یہ ساری مخفی طاقتیں ابھر کر باہر آجاتی ہیں۔ تو وھن کے مقابل پر ضعف میں یہ ایک نمایاںمقابل کا مضمون پایا جاتا ہے۔
وما ضعفوا : اگرچہ وہ کمزور بھی تھے لیکن انہوں نے حیرت انگیز ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک مجنونانہ طاقت حاصل کرلی اور کوئی کمزوری دشمن پر ظاہر نہیںہوئی۔ یہ مضمون گہرا نفسیاتی مضمون ہے اور اس کا ایمان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس کے بغیر انسان کی مخفی طاقتیں ابھرا نہیں کرتیں۔
وما استکانوا : اور دشمن کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں ہوگئے۔ گھٹنے نہیں ٹیک دیئے۔ سر نہیں جھکایا۔ اور ضعفوا سے اگلا قدم یہ ہے ۔ اگر کمزور آدمی اپنی انتہا تک اپنے طاقت کے خزائن کو استعمال کرلے اور کچھ باقی نہ رہے۔ توپھر بھی وہ سر نہیں جھکائے گا۔ یہ مومن کا آخری مقام اور مرتبہ ظاہر فرمایا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود کسی قیمت پر کسی حال میں انہوں نے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا اور گرے نہیں اور عاجزی اختیار نہیں کی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوسری آیت جو اب ہمارے زیر غور ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق اس طرح باندھا ہے کہ ہر دعا کے ساتھ پہلے لفظ کا تعلق جو وہاں ظاہر کیا گیا تھااور دوسری کے ساتھ دوسرے کا۔ اب اس پہلو سے دوبارہ ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ کیا مضمون سامنے آتا ہے۔
قالو ا ربنا اغفرلنا ذنوبنا : اے اللہ ! ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ اب وہ کمزوریاں جو اندرونی ہیں اور ہمیں علم نہیں۔ اور مومن کی شانکے خلاف ہیں۔ جیسا کہ پہلے بزرگوں نے اور مومنوں نے ابتلاء کے موقع پر کوئی کمزوری ظاہر نہیں کی۔ اس لئے اگر ہمارے اندر کوئی کمزوری تھی اور ہمیں علم نہیں ہے تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اپنی ستاری فرما اور بخشش کا ستاری سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بخشش کا مضمون محض کردہ گناہوں کو معاف کرنے سے تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ ستاری سے اس کا اول تعلق ہے۔ کیونکہ غَفَر کا مطلب ہوتا ہے ڈھانپ دینا۔ استغفر کا مطلب ہے اپنے آپ کو چھپانے کی دعا کرنا۔یا استدعا کرنا۔ کہ اے اللہ ! اگر کچھ ہے بھی تو ڈھانپ دے۔ جیسے ایک جانور مٹی میں گھس جاتا ہے اور چھپ جاتا ہے۔ یہ مضمون ہے مغفرت کا اور آدم کا پتے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا بھی اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت آدمؑ نے بخشش طلب کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے وہ ستاری مانگی تھی جس کے بغیر اس کے عیوب چھپ نہیں سکتے تھے۔ پس یہاں اس مضمون کا تعلق یوں ہوگا۔
واغفرلنا ذنوبنا : ہمارے اندر اگر کوئی مخفی چھپی ہوئی اندرونی کمزوریاں ہیں جو ابتلا کے موقع پر ظاہر ہوجایا کرتی ہیں اور اب بڑی آزمائش کے دن ہیں۔ پس تیری مدد کے بغیر ہم پر پردہ نہیںپڑ سکتا۔ ہماری ستاری نہیں ہوسکتی۔ آج ہو سکتا ہے ہمارا ننگے ہونے کادن ہو۔ پس اے خدا ! ہماری کمزوریاں ڈھانپ لے۔ اور ہمیں دشمن کے سامنے ننگا نہ ہونے دے۔ دوسرا مضمون ہے ’’و اسرافنا فی امرنا ‘‘ اور ہم نے اپنے اوپر جو زیادتیاں کی ہیں۔ اگر کی ہیں تو وہ بھی ہمیں بخش دے اور معاف فرمادے۔ اپنے خلاف۔ اپنے مفاد کے خلاف انسان بعض دفعہ ایسی باتیں کرتا ہے مثلاً زندگی کی روزمرہ، روزمرہ کی طرز میں انسان اگرسستی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ غفلت کرتا ہے۔ تو وہ طاقتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو عطا ہوئی ہیں۔ وہ کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں اور بہت سی بدنی کمزوریاں روزمرہ کی زندگی کے سہل دستور سے تعلق رکھتی ہیں۔ تن آسانیوںسے تعلق رکھتی ہیں۔ پس بہت سی ایسی طاقتیں خدا نے انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ جو اس کے اندر موجود ہیں۔ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اول تو ان کاپورا استعمال ‘ پورے یقین اور خدا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسرے اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے اپنے مفاد کے خلاف ہم نے جو سابق میںحرکتیں کی ہیں۔ گزشتہ زندگی میں۔ اس کا ہماری بدنی طاقتوں پر یا ہماری ذہنی طاقتوں پر جو بد اثر پڑا ہے۔ ہم اس کے خلاف تجھ سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اور بخشش کی تمنا رکھتے ہیںالتجا کرتے ہیں۔
تیسرا مضمون ہے۔ ’’وثبت اقدامنا‘‘ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ اس کا ’’وما استکانوا ‘‘ سے تعلق ہے۔ ’’استکانوا‘‘ میں دشمن کے سامنے گر جانا ہے۔ اور ثبات قدم کا بعینہٖ اس کے برعکس معنیٰ ہے۔ کہ کسی قیمت پر بھی قدموںمیں لغزش نہ ائے۔ اور مرو تو سربلند مرو۔ لیکن جھک کر نہیں مرنا۔ ویسا ہی مضمون ہے جیسے سلطان ٹیپو کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ آخر اکیلا انگریزوں کی فوج سے لڑنے کیلئے چل پڑا تو اس کے ساتھیوں نے اسکو سمجھایا۔ روکا۔ اس نے اس کے جواب میںکہا جو آج تک ہمیشہ سلطان ٹیپو پر اور ہندوستان کی تاریخ پر لکھنے والے بڑے نمایاں قلم سے لکھتے ہیں۔ جلی قلم سے کہ’’ شیر کی آدھے گھنٹے کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اس لئے میں اکیلا ہوں۔ مجھے پتہ ہے میں مارا جائوں گا۔ ان میں ضعف ہوچکا ہے۔ ہماری فوج ضعیف ہوگئی ہے لیکن ’’استکانت‘‘ نہیں دکھائونگا۔میں مرونگا تو سربلند مروں گا۔ چنانچہ اس چیز کو قرآن کریم نے ’’مااستکانوا‘‘ سے ظاہر فرمایا یہ جو انبیاء اور ان کے ساتھ بزرگ اور خدا والے لوگ لڑنے والے تھے انہوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔دشمن کے مقابل پر جھکے نہیں اوران کی عزت نفس اسی طرح قائم رہی۔ اگر یہ ہوجائے تو ایسا شخص کبھی شکست نہیں کھایا کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی موت بھی فتح بن جاتی ہے۔ یہ و ہ لوگ ہیں جن کو بعد میں دشمنوں کے مورخین بھی سر سے ٹوپی اتار کے داد تحسین پیش کرتے ہیں کہ تھا تو دشمن مگر کمال کا ایک شخص تھا۔ اسی طرح وہ جرنیل جس نے سپین (Spain) میں آخری دم تک لڑ کر پھر سفید گھوڑے پر چھلانگ لگائی۔ دریا میں اور غرق ہوگیا۔ اس کے متعلق بھی دشمن سے دشمن مورخ اسطرح ذکر کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی عزت قائم و دائم اور زندہ رہے گی اور اس پر کوئی حرف نہیںآئے گا۔ تو اصل غلبہ یہ غلبہ ہے کہ جس حالت میں کوئی مرے اپنے سر کو بلند رکھتے ہوئے عزت کے ساتھ دشمن کے سامنے نہ جھکتے ہوئے اور اپنی عظمت کردار کو قائم رکھتے ہوئے مرے۔ یہ ثبات قدم ہے۔ ثبات قدم کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مار ہی نہ کھائے۔ ثبات قدم دکھانے والے کئی دفعہ میدان جنگ میں بہت بری طرح ذلیل ورسوا تو نہیں مگر ناکام اس طرح کردیئے جاتے ہیں کہ ان کو صفحہء ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ وہ قدموں پر قائم رہتے ہوئے مرتے ہیں۔ گھٹنوںکے بل نہیں مرتے۔ یہ مضمون ہے استکانوا کا۔
تو فرمایا ہے کہ ہمیں ثبات قدم عطا فرما ! ہمیں ظاہری طور پر بھی مضبوط قدم رکھ اور ہمارے نفس کے لحاظ سے، عزت نفس کے لحاظ سے بھی ہمارا سربلند رکھنا۔ یہ چیزیں جب کسی چیز، کسی قوم میں آجائیں تو نصرت اس کا طبعی نتیجہ بن جاتی ہے۔ وانصرنا علی القوم الکفرین اور ہمیں کافروں پر نصرت عطا فرما۔ تو یہ ایک طبعی نتیجہ ہے اور یہ دعا ان ساری باتوں کے بعد اگر قبول ہوجائے پہلی باتوں میں یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر نصرت کا مانگنا گویا کہ ایک منطقی نتیجہ ہے۔ پھر تو نصرت آنی ہی آنی ہے اور غلبہ جب اللہ کی طرف سے آئے یعنی نصرت جب اللہ کی طرف سے آئے تو اسی کو غلبہ کہا جاتا ہے۔ پس میں نے جب اس کا ترجمہ کیا کہ ’’غیروںپر ہمیں غلبہ عطا فرما‘‘ تو ظاہراً تو نصرت سے مراد غلبہ نہیں ہے۔ ایک کمزور کی نصرت حاصل بھی ہوجائے تو غلبہ نہیں ہواکرتا۔ لیکن جب اللہ سے نصرت آتی ہے تووہ لازماً غلبے میں تبدیل ہوتی ہے۔یہ جو آثار تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کے چہروں پر یہی آثار دیکھ کر جنگ بدر میں اس شخص نے جو جائزہ لینے کیلئے آیا تھا واپس جاکر جب بیان کیا کہ کتنا لشکر تھا کس قسم کے لوگ تھے۔ وہ ایک ہزار سوار جوان جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے وہ بڑی دلچسپی سے یہ سن رہے تھے اور بڑی تحقیر سے دشمن کو دیکھ رہے تھے کہ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آناً فاناً ہم ان کو نیست و نابود کردیں گے۔ جب ساری باتیں وہ ختم کرچکا کہ ان میں اتنی کمزوری ہے۔ اس قسم کے لوگ ہیں اور ظاہری طور پر کچھ بھی حیثیت نہیں۔ بعضوںکے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں تو پھر اس نے آخر پر کہا ’’لیکن ایک بات میں تمہیںبتادیتا ہوں کہ جیتیں گے وہ اور ہارو گے تم !‘‘ وہ حیران رہ گئے۔ یہ کیا مطلب ہے۔ تم نقشے کھینچ رہے ہو حد سے زیادہ کمزوری کے: اور نتیجہ ایسا بے معنی اور لغو نکال رہے ہو۔ اس نے کہا تم سمجھتے نہیں۔ میں 313 زندہ آدمی نہیں دیکھ کے آیا۔ میں 313 موتیںدیکھ کے آیا ہوں ۔ ان میں سے ہر ایک اس عزم کے ساتھ آیا ہے کہ جو کچھ گزر جائے ہم دشمن کے سامنے جھکیں گے نہیں اور کوئی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ تو اسکے جواب میں اس نے کہا کہ دیکھو ! زندوں کو لوگ مارا کرتے ہیں۔ موتوں کو نہیں مارا کرتے ۔ پس میرا نتیجہ عقلی اور طبعی ہے کہ تمہیں آج ان پر غلبہ نہیں نصیب ہوسکتا۔
اور یہی ہوا۔ پس یہ وہ مضمون ہے اور اس مضمون کا دعا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جتنی انسان میں دشمن کے مقابل پر کمزوری ہو۔ ظاہری طور پر۔ اتنا ہی دعا کے ذریعے ساتھ ان تینوں کمزوریوں کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مددمانگنی چاہئے۔ اورپھر نصرت غیب سے آتی ہے۔ اس کے جواب میں آگے جو آیت ہے وہ ذکر کرنے سے پہلے ’’قدم‘‘ کے لفظ پرکچھ اور ایک دو پہلو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وثبت اقدامنا : کی دعا میں ایک مضمون یہ بھی ہے کہ قدم صدق انسان کو نصیب ہونا چاہئے۔ وہی لوگ یہ دعا کرنے کے مجاز ہیں جن کا قدم سچائی پہ پڑتا ہو۔ اور سچائی پر قدم پڑے بغیر انسان نہ یہ دعا دل سے مانگ سکتا ہے۔ نہ اسکی یہ دعا قبول ہوسکتی ہے۔ پس وہ جو قدم صدق کا مضمون عربی میں اس تعلق میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بعینہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں پر صادق آتا تھا۔ یہاں قدم قوم کے سردار کو بھی کہتے ہیں لیکن میں ایک اور معنیٰ بھی اس میں پاتا ہوں۔ جو میں آپ کے سامنے آج رکھنا چاہتا ہوں۔ سردار تو کہتے ہیں سر والے کو اور سید کہتے ہیں اس کو جو سب بلند اور اونچا ہو۔ تو قدم کے اصل معنے کیا بنیں گے پھر۔ قدم اور سر ایک چیز کے نام تو نہیںہیں۔ دراصل قدم سے مراد قوم کا نچلا حصہ ہے۔ اور قوم کا نچلا حصہ جسے لوگ معمولی سمجھتے ہیں یعنی عوام الناس ۔ اگر اُن میں سچائی آجائے۔ اگر وہ ثبات اختیار کرجائیں تو پھر ایسی قوم کو دنیا میں کوئی طاقت مغلوب نہیںکرسکتی۔ پس میں اس سے یہ سبق سمجھا ہوںکہ اپنے عوام کی طرف توجہ کرو۔ اگر تم میںسے کچھ سردار نیک بھی ہوں بزرگ بھی ہوں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بھی ہوں تو تب بھی تم اس بات پر راضی نہیں ہوسکتے اور تمہاری فتح کی کوئی ضمانت نہیں جب تک کہ تمہارے ’’عامۃ الناس‘‘ کا معیار بلند نہ ہو اور وہ صدق نہ بن جائیں۔ ان کے سچے ہوئے بغیر تمہیں قدم صدق نصیب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس اسی مضمون کو قران کریم نے امامت کی دعا کے ساتھ باندھتے ہوئے یوںفرمایا ہے کہ
’’و اجعلنا للمتقین اماما ‘‘
اے خدا ! امامت جب تک متقیوںکی نہ ہو بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ پس ہمیں امامت کا کوئی شوق نہیں: متقیوں کی امامت ہو تو پھر ہم اس لائق ٹھہریں گے کہ ہم تجھ سے بھلائی کی توقع رکھیں اور عظمتیں ہمیں نصیب ہوں اور رفعتیںعطا ہوں۔ یہ سب کچھ امامت کی باتیں ہیں۔مگربشرطیکہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے چلنے والے ہیں وہ متقی ہوں۔ پس قدم کا تعلق اس سے ہے اور قدم سے سر کو عزت ملتی ہے۔ یہ مضمون ہے۔ اگر عوام متقی ہیں تو امام کے تقویٰ کو تقویت ملے گی۔ اور وہ سربلند ہوگا۔ اور امام کی رفعتیں۔ عوام کی رفعتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ الٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ امام کی سربلندی سے عوام کو رفعت ملتی ہے لیکن یہ دونوں ایسے مضمون ہیں جن کو ہم لازم ملزوم کہہ سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو عظمت ملی اس عظمت سے آپ کے غلاموں نے حصہ پایا۔ اور جب غلاموں نے حصہ پایا تو آپ کا قدم ’’قدم صدق‘‘ کہلایا۔ ایسا پائوں جو سچائی کا پائوں تھا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر اسلام کیلئے کوئی لغزش کا سوال نہیں تھا۔ پس دونوں طرف یہ مضمون چلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا ہے کہ
ہم ہوئے خیرِ ُامم تجھ سے ہی اے خیر رُسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یہ وہی قدم ہے جو امت کا قدم ہے۔ لیکن امت کا قدم آگے بڑھا تو شان ِ مصطفویؐ زیادہ شوکت کے ساتھ اُبھری ہے۔ اور سب دنیا کے سامنے وہ نمایاں ہوئی ہے۔ پس اس قوم کے سردار کو عزت نہیں ملا کرتی۔ جو قوم سردار کو چھوڑ دے اور پیچھے رہ جائے۔ پس یہ مضمون لازم و ملزوم ہے۔
اب حضرت موسٰیؑ کو دیکھیں۔حضرت موسیٰ کی قوم نے جب ان سے یہ کہا
’’اذھب انت و ربک فقاتلا وانا ھھنا قاعدون ‘‘
جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیںبیٹھ رہیں گے۔
تو حضرت موسیٰؑ کو کون سی سروری نصیب ہوگئی۔ کونسی عزت عطا ہوئی۔ وہ تو 40 سال بعد میں بھی ان کیساتھ بھٹکتے رہے۔ پس اس مضمون کو جماعت احمدیہ کو خوب ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہاں ثبات قدم سے اول مراد میرے نزدیک کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں ہورہی وہ تو ثبات قدم کا ایک مجسمہ تھے یہاں ا ن اصحابہ کی بات زیادہ ہورہی ہے جن میں سے بعض نے کمزوری دکھائی تھی۔ اور وہ مضمون چل رہا ہے۔ تو اس لئے اگرآپ کمزوری، عوام الناس کمزوری دکھائیں گے تو امام کا اس دکھ میں شامل ہونا ضرور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے متعلق جو حسن ظن ظاہر فرمایا ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ:-
’’میں ساری دنیا کو اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں۔‘‘
اپنی سچائی کے قدم کے نیچے تمام دنیا کو دیکھتا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پر جو غلبہ ہے وہ سچائی کا غلبہ ہوگا۔ اور وہ محض ظاہری غلبہ نہیں ہوگا۔ ورنہ ظاہری غلبے کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ اور یہ غلبہ تب نصیب ہوگا اگر ساری جماعت کا قدم صدق پر ہو۔ اور عامۃ الناس کا معیار تقویٰ کا بلند ہو۔
پھر آپ دیکھیں کہ کس قدر تیزی سے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو فتوحات عطا فرماتا ہے۔ تفسیر رازی میں یہی مضمون اپنے رنگ میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس آیت کا موقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابل پر تو مومنوں کو غلبے کے وعدے دیتا ہے اس لئے ظاہری طور پر جو جنگ اُحد میںایک شکست کی صورت پیدا ہوئی وہ چونکہ غلطی کے نتیجے میںہوسکتی ہے اللہ کی طرف سے نہیں ہوسکتی۔ اس لئے خصوصیت سے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
علامہ محمد بن یوسف الحیان نے بھی تفسیر بحر المحیط میں بھی پہلی آیت کے ساتھ ان تین دعائوں کا تعلق باندھا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میں لکھا ہوا ہے یہاں وہیری کا ایک حوالہ قابل ذکر ہے۔ وہ اسی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
Victory over the infidels. The marked difference between the teaching of the Quran and the Bible as to the condition of the people of the Lord in this world is worthy of note. The Quran evereywhere teaches that though they had trials similar to those endured by Muhammad and the Muslims of Makkah and Madina, yet in the end they were manifestly triumphant over the infields in this world. The Christain need not be told that this is very far from the teadhing of the Bible. Final time is certain, but is may be wrought out on the cross or admidst the laggots and instruments of persecution and death.
یہ جو ان کا تبصرہ ہے یہ بتارہا ہے کہ اس آیت کی سّچائی پر کیسے کیسے بَل کھاتا رہا ہے دشمن ؛ اور کیسا کیسا اندر کھولتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ جو فتح کے وعدے تھے یہ کیوں پورے ہوئے اور کیوںہر دفعہ اور بالآخر لا زمًا اُنہیںفتح نصیب ہوئی اگر ہر دفعہ ان معنوں میں نہیں کہ وقتی طور پر کوئی کمزوری ظاہر ہو گئی جیسا کہ بات ہو رہی ہے اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ یہ بات سّچی ہے کہ آخری فتح مومنوں ہی کی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوںکی ہوئی ہے اس کے اس complex احساس کمتری میںمبتلاہو کر وہ عیسائیوںکو تسلّی دلا رہا ہے کہتا ہے دیکھو ہمارے اور ان کے تصوّرات میں فرق ہے جو ہمارا تصوّر ہے وہ بہت بلند تر ہے اور ان کا ادنی تصوّر ہے ۔یہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کے مقابل پر آخری فتح نصیب ہو جائے تویہی اللہ کی رحمت کی نشانی ہے ۔ یہی عظمت ہے اور بائبل جس فتح کو پیش کرتی ہے وہ سولی پر چڑھ جانے کی فتح ہے اور مختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا ہونے کی فتح ہے۔جیسا کہ عیسائیوں کو مختلف اذیتیں پہنچائی گئیں اگر باقی باتوںکو چھوڑئیے تو صاف ظاہر ہے کہ اسلام کے فلسفے کے مقابل پر اس کو کوئی نہیں رکھ سکتا اگر ادنیٰ سا بھی اُس میں شعور ہو تقویٰ ہو تو ایسی بیہودہ بات نہیں کرسکتا۔ کیونکہ قرآن کریم تو شہادت کو ایک عظیم فتح کے طورپر پیش کرتا ہے اور محض ظاہری فتح پر مومنوں کے غلبے کی بناء نہیں رکھتا بلکہ ایسے شہید تھے جو جب شہید ہوتے تھے تو کہتے تھے فزت برب الکعبۃ یا فزتُکہ میں خدا کی قسم کامیاب ہوگیا ،رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ تمام شہداء کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ایک عظیم کامیابی کے طورپر ہوا ہے۔ پس یہ بات ہی جھوٹی ہے کہ گویا اسلام اس قربانی کو جو عیسائیت بھی پیش کرتی ہے قبول نہیں کرتا اور اسے رد کردیتا ہے اور محض ظاہری فتح کو قبول کرتا ہے۔ اسلام یہ پیش کرتا ہے کہ جہاں تک انفرادی معاملے کا تعلق ہے ہر وہ شخص جو اس عظیم جہاد میں مارا جاتا ہے فتح سے پہلے وہ بھی فتح مند ہے لیکن اس کا انجام بد نہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہو نہیں سکتاکہ کوئی خدا کی خاطر کوئی یہ قربانیاںدکھائے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے آخری فتح نصیب نہ کرے۔ یہ مضمون ہے جسے وہ سمجھتا نہیں ہے۔ یا جان کے اس سے آنکھیں بند کرتا ہے یا اس عذاب میں مبتلا ہوکر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ وعدے سب سچے نکلے تو ہم عیسائیوں کوکیا منہ دکھلائیں کیا کہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا سولی پہ چڑھ جانا تو کہتے ہیں کہ دراصل سولی پر چڑھنا ہی فتح تھی اور یہ عیسائی نظریہ ہے جو قرآن کے مقابل ہے۔اگر یہ فتح تھی تو حضرت مسیحؑ کی یہ دعا کیا تھی کہ ’’ایلی ایلی لماشبقتانی‘‘ اے خدا مجھے کیوں فتح دے رہا ہے۔ اٹھالے اس فتح کو مجھ سے اور وہ دعا کیا تھی کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے مجھ سے ٹال دے یعنی خدا فتح کی طرف لے جارہا تھا اور بتا رہا تھا کہ ہمارے نزدیک یہ فتح ہے اورحضرت مسیح کہتے تھے کہ خدا اب تو تیری خاطر میں عرض کرتا ہوں ۔ اے باپ آسمانی باپ مجھے فتح نہیں چاہئے۔مجھے شکست دے دے اور فتح کو ٹال دے۔ یہ ایسے جاہل لوگ ہیں نہ ان کو قرآن کا پتا نہ اپنی کتاب کاپتا نہ اپنے امام کا پتا کہ وہ کیا تھا اورکیا چاہتا تھا لیکن غیظ و غضب میں گھلتے کھولتے ہوئے جہاں موقع ملے اسلام پر اعتراض ضرور کرتے ہیں۔ اس درس کے دوران یعنی ان درسوں کے دوران میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو عیسائی محققین یا so called محققین، نام نہاد محققین ان کے متعلق میں آپ کو تفصیل سے بتائونگا کہ یہ کیسے شروع ہوئے کون لوگ تھے۔ کس علم کے ساتھ اس میدان میں کُودے ہیں کیا ارادے تھے کس طرح ان کی Cliques بنی ہوئی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو ناحق تقویت دیتے ہیں اور عربی معنوں کو یا سمجھتے نہیں یا عمداً بگاڑتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین سے منحرف کرنے کیلئے یہ ساری یونیورسٹیاں قائم ہیں جن میں مسلمانوں کویہ عیسائی لوگ اسلام سکھاتے ہیں۔ اور مسلمان سادہ لوح بیچارے وہ ان سے اسلام سیکھنے کیلئے ہزار ہا پائونڈ ہر سال خرچ کرکے اور ان پر قربان کرکے اپنا دین ان پر نچھاور کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ لمبی کہانی ہے اس سے پردہ اٹھنا چاہئے اور میں نے پچھلی مرتبہ منٹگمری واٹ کے متعلق بتایا تھا کہ ان کا علمی آغاز کیسے شروع ہوا آخر ایک مُلاں ہی تھے وہ۔ ایک پادری تھے اورباقاعدہ اسلام کے خلاف ڈسنے کی تربیت حاصل کی ہے اور لمبے عرصے تک اُن یہود علماء میں بھی جاتے رہے ہیں جن کا بظاہر عیسائیت کے ساتھ ایک مقابلے کا تعلق ہے معاندانہ تعلق ہونا چاہئے۔ دوستی کا تعلق تو نہیں تھا لیکن اسلام کے خلاف بغض سیکھنے کیلئے یا مزید حربے حاصل کرنے کیلئے ایک لمبا عرصہ یروشلم میں بھی جاکر رہے۔ مگر یہ باتیں میں پچھلے درس میں بیان کرچکا ہوں۔ آئندہ آپ کو وہیری صاحب کے متعلق بھی بتائونگا۔ سیل صاحب کے متعلق بھی بتائوں گا۔ ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور موجودہ دور کے جو علماء ہیں ان کا طرز عمل۔ اور S.O.S میں کیا ہورہا ہے کیا تعلیم دی جاتی ہے۔ بے چارے مسلمانوں کو۔ ان باتوں پر خود ان کی بیان کردہ تاریخ کے حوالے سے میںمزید وضاحت سے روشنی ڈالوں گا۔ تو سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں کیونکہ ابھی کچھ مضمون کے پہلو تشنہء تکمیل ہیں۔
‏ BELL ہے۔ بیل کے متعلق میں نے کچھ حوالے اکٹھے کرلئے ہیں۔ یہ منٹگمری واٹ کے استاد ہیں اور زہر فشانی میں اور جہالت میں ان کا کوئی ثانی مستشرقین میں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جب میں بعدمیں حوالے پیش کرکے یہ ثابت کرونگا کہ یہ بات جو میں دعویٰ کررہا ہوں یہ درست ہے۔ اس وقت یہ سجے گی۔ اس لئے سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں۔
فاتھم اللّہ ثواب الدنیا و حسن ثواب الآخرۃ واللّہ یحب المحسنین O
تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جن کی دعا کا ذکر ابھی گزرا ہے۔ ثواب الدنیا دیا۔ وحسن ثواب الاخرۃ ‘‘ اور آخرت کا بہترین ثواب عطا کیا۔ واللّہ یحب المحسنین اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کیا کرتا ہے۔ محبت کرنے والا ہے۔ یا محبت رکھتا ہے جس طرح بھی چاہیں ترجمہ کرلیں۔
آل عمران آیت 149
لفظ احسن کا مطلب ہے کسی چیز کو اچھا کیا۔ یا کسی چیز سے بھلائی کی۔ دونوں مضمون بنیادی ہیں اور اس سے اسم فاعل بنا ہے۔المحسن : یعنی کسی سے بھلائی کرنے والا یا کسی کو اچھا بنانے والا احسن الیہ و بہٖ کے معنی ہیں عمل حسنا و اتاہ الحسنۃکسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ نیز اتیٰ بالحسن یعنی نیکی کے ساتھ اس سے معاملہ کیا۔
امام راغب فرماتے ہیںکہ احسان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے (جیسا کہ میں نے ابھی ظاہر کیا ہے خود بھی) اول یہ کہ دوسروں پر انعام کرنا۔ کسی قسم کے احسانات کرنا۔ اسی سے لفظ احسان ہماری اردو میں بھی رائج ہے اور دوسرا یہ کہ اپنے کاموں میں حسن پیدا کرنا اور یہ حسن حسن علم اور حسن عمل دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس محسنین کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک غیروں کا تعلق ہے وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ اور ان پر انعام کرتے ہیں۔ ان سے نرمی کا برتائو کرتے ہیں۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے وہ اپنے اعمال سنوارتے ہیں اور یہ نرمی کا برعکس مضمون ہے۔ پس جیسے ظلم میںایک حسن کا پہلو تھا جیسے کہ میں نے کل بیان کیا یہاں اس حسن میں ایک ظلم کاپہلو بھی ہے۔ کوئی شخص جو اپنی ذات پر رحم کرنے والا ہو۔ اوراپنی کمزوریوں سے پردہ پوشی کرنے والا ہو۔ وہ اپنے اعمال سنوار نہیںسکتا۔ وہ تو دن بدن بگڑتا ہی چلا جائیگا۔ پہلی جرائت یہ چاہئے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو دیکھے اور شناخت کرے۔ اور پہلا ظلم نفس پر وہ ہوتا ہے۔ جب انسان کہتا ہے ’’ہاں میں بُرا ہوں‘‘۔ اور پھر اس ظلم کے بعد ایک ظلموں کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ اس غرض سے پہچاننا ہے کہ ڈھٹائی نہ آئے۔ اس غرض سے کمزوری کو پہچاننا ہے کہ اس کو دور کرنا ہے۔ تو سب دنیا جانتی ہے کہ ایک کمزوری کو دور کرنے کیلئے کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ بعض دفعہ کمزوری انسانی ذات کے ساتھ پیوستہ ہوکر اس کا حصہ بن چکی ہوتی ہے اور اسے اکھیڑ کر باہر نکالنا بڑا ظلم چاہتا ہے۔ پس یہاں حسن ظلم کے معنوں میں ہے اگر اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ تو اپنی کمزوریوں کو پہنچانتے چلے جاتے ہیں۔ان کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر انہیں اکھیڑ پھینکتے ہیں۔ اور کوئی کمزوری قرآنی فلسفے کے مطابق اکھیڑی نہیں جاسکتی۔ جب تک اس سے بہتر چیز اس جگہ لگانے کیلئے موجود نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
’’ ادفع بالتی ھی احسن السیّۃ ‘‘
یہ وہی مضمون ہے کہ اپنی ذات میں وہ محسن کیسے بنتے ہیں۔ خوبصورت چیزیں ہی ایسی چیزیں ہیں جو بدیوں کو اکھیڑنے میں مدد ہوسکتیںہیں اور حسن وہ ہے جس کی طرف طبیعت از خود مائل ہوتی ہے۔
پس فرمایا کہ تم اپنی ذات کو حسین بنا ہی نہیں سکتے۔ جب تک کہ پہلے بدیوں کو اکھیڑنے کیلئے کسی حسن کے گرویدہ نہ ہو۔ کسی حسن پر تمہارا دل مائل ہوگا تو پھر تمہیں اپنی بدی نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے گی۔ ورنہ دکھائی بھی نہیں دیتی۔ پھر تم اس حسن کی مدد سے اپنی بدی کو اکھاڑ کر پھینک دو گے۔ اور اسکی جگہ خوبصورت چیز لگا دوگے۔ اگر غریب کے گھر ٹاٹ بچھا ہو اور قالین میسر نہ ہو تو وہ پاگل ہوا ہے کہ ٹاٹ کو اٹھا کر باھر پھینک دے۔ اس کو خیال بھی نہیں آئے گا۔ کوئی کہے کہ میاں گندا ٹاٹ ہے پھینکو۔ وہ کہے گا جائو اپنے گھر جائو ! ہمیں یہی بہت ہے۔ لیکن اگر قالین مل جائے خوبصورت سا تو پھر اس کا سر تو نہیں پھرا ہوا کہ اس ٹاٹ کو گھر میں رکھے۔ پس قرآن کریم نے یہ گہرا نکتہ بیان فرمایا ہے بدیوںکو دور کرنے کا کہ پہلے ایک حسن پر نظر رکھو۔ وہ اگر تمہارے قلب کو واقعتہً گرویدہ کرلے۔ تمہیں سچا عاشق بنالے۔ پھر بدیاں دور کرنا معمولی بات ہوجائیگی۔ پس احسن کا مضمون یہاں یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے اس کے حسن کو مستعار لیتے ہیں۔ اس کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے عاشق ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایک خوبی کے مقابل پر جب ایک بدی اپنے اندر پاتے ہیں تو چونکہ وہ خوبی اوروہ بد ی بیک وقت انسانی ذات میں اکھٹے نہیں ہو سکتے اس لئے اس بدی کو اس حسن کی طاقت سے دھکیل کر باہر پھینک دیتے ہیں اور جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ محسن ہیں۔
’’واللّہ یحب المحسنین ‘‘ : وہ لوگ خواہ کسی بھی منزل تک پہنچے ہوں ضروری نہیں ہے کہ وہ آخری منزل تک پہنچ ہوں کیونکہ اس سفر کی آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ احسان کا مضمون تو جاری و ساری مضمون ہے۔
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
والی بات ہے۔ اور وہ جو میں نے پہلے ایک دفعہ اس مضمون میں بیان کیا تھا کہ
’’اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں ‘‘
تو جہاں اللہ کے حسن سے مستعار لینا ہو۔ اس کی نقل اتارنی ہو۔ وہاں آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ تو جو لوگ بھی مریں گے وہ اپنی منزل سے پہلے مر جائیںگے۔ وہ اس مضمون میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ تو محسنین سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے حسن تام حاصل کرلیا ہو۔ محسنین سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حسین تر بنانے کی جدوجہد میں زندگی گزار رہے ہوں۔ پس جس لمحہ بھی ان پر موت آئے گی خدا کے نزدیک وہ محسن کہلائیں گے۔ اب دیکھئے اس آیت کا کتنا گہرا تعلق گزشتہ آیت سے ہے۔ اور ان الزامات کو کیسے رد کرتی ہے جو جنگ احد میں مومنوںپرکئے گئے تھے۔ بعض …سے کمزوریاں سرزد ہوئیں۔ لیکن ان کے دل کی کیفیتیں وہی تھیں جو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے۔
پس ان دعائوں کے ساتھ انہوں نے ان کمزوریوں کو دور فرمایا اور بعض قلبی کیفیات ایسی ہونگی جن کا بیان ہمیں نظر نہیں آتا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو معاف فرمادیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ بغیر کسی قلبی درد کے یونہی تو معاف نہیں فرماتا۔ مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اور مضطر وہ ہوتا ہے جو مجبور اور بے اختیار ہو۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدم جن کے لئے اکھڑے ہیں ایسی حالت میں اکھڑے ہیںکہ وہ بے اختیار اور مجبور تھے۔ اور دعائیں کرتے تھے۔ خدا سے کہ انہیں طاقت نصیب ہو۔ ان کی یہ کمزوریاں دور ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ ان اعتراف جرم کرنے والوں کو جنکا بظاہر یہی نظر آتا ہے ہم نے یہ کیا اپنے اوپر ہم نے یہ ظلم کیا۔ ہم نے یہ ظلم کیا ۔ ہمیں تومعاف فرمادے۔ بغیرجرم کے تو معافی نہیں فرمایا کرتا کوئی۔ جنہوں نے ظلم نہیں کیا تھا وہ بھی معافیاں مانگ رہے تھے۔ یہ وہ دعا ہے جو انبیاء کی اور انکے ساتھیوں کی مشترکہ دعا ہے۔ ہمیشہ سے یہی ان کا اسلوب رہا ہے۔ ہمیشہ ایسی دعائیں کرتے آئے ہیں تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں محسن قرار دیتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو بدترین کہہ رہے ہیں۔ ان کو اللہ محسن کہہ رہا ہے۔ تومحسن بننے کا راز سکھادیا گیا۔ محسن وہ نہیں ہوا کرتا جو اپنے آپکو خوبصورت بناکر دکھائے۔ محسن وہ ہوا کرتا ہے جو اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے اور احتیاطاً اپنی بعض کیفیتوں کو کمزوریاں ہی سمجھے۔ بعض دفعہ احتیاطاً کہا جاتا ہے بعض دفعہ اس لئے کہ درحقیقت وہ اندرونی کیفیات جن کو آج ہم کمزوری نہیں سمجھ رہے کل ایسی کیفیت میں داخل ہوسکتے ہیں کہ انہیں کمزوریاں سمجھنے لگیں۔ کیونکہ آج کے ماحول میں اور آج کے شعور میں بعض باتیں ہمیں کمزوریاں دکھائی نہیں دیتیں۔
مثلاً گندے ماحول میںپلنے والے لوگ ہیں گندے معاشروں میںپلنے والے لوگ ہیں۔ انکو جب ماں باپ سمجھاتے ہیں تو وہ پلٹ کے کہتے ہیں کہ کیا بات کررہے ہو یہ تو کوئی کمزوری نہیں۔ ٹھیک ٹھاک ہے۔ بالکل اچھی بات ہے۔ توان کو حسن نہیں عطا ہوسکتا۔ وہ محسن بن ہی نہیں سکتے۔ پس کمزوریوں کی پہچان ان کو بعد میں ہو بھی جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو پھر میں عملاً جانتا ہوں کہ ان سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور بعد میں بڑی گریہ و زاری سے خط لکھتے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آیا ۔ ہم اندھے ہوگئے ۔ ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔ ہمیں معاف کیا جائے۔ جماعت میں پھر داخل کیا جائے۔ اور اس قسم کے مضمون۔ تو یہ کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پس ہر انسان کا کمزوری کا احساس اس کے شعور کی لطافت سے تعلق رکھتا ہے۔ جوں جوں معیار بلند ہوگا جوں جوں شعور لطیف ہوگا۔ جوںجوں ذوق لطیف ہوگا۔ وہ چیزیں جو پہلے حسن دکھائی دیتی تھیں وہ بدیاں دکھائی دینے لگیں گی۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت ہمارے لئے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کہ ان لوگوں میں جو دعائیں کرتے تھے ایسے بھی شامل تھے۔ جن سے کوئی غلطیاں سرزد نہیں ہوئی تھیں۔ اور کسی جاہل کا یہ کہنا کہ یہ اعتراف ہے اس بات کا کہ سارے انبیاء گنہ گار تھے یہ بالکل ایک جہالت کی بات ہے۔اس میں محض ایک ظالم کی بڑ ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اتنے لطیف اور اعلیٰ مضامین اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو دکھائی دیتا تو عاشق ہوجاتا۔
اندھے نے کیا عشق کرنا ہے۔ اندھا تو اپنے تعصب سے سنی سنائی بات کو مانتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو سنی سنائی نفرتوں کو اپنے دلوں میںپال رہے ہیں۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ مسلسل ایک ایسی جدوجہدمیں مشغول ہیں کہ کمزوریاں ان کو ایک کے بعد دوسری دکھائی دیتی چلی جارہی ہیں اور وہ محسن ہونے سے ہٹتے ہی نہیں کبھی۔ یعنی جاری و ساری مضمون ہے۔ جو انکی زندگی پر اطلاق پا رہا ہے۔ ایک کمزوری کو دور کرتے ہیں دوسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری کو دور کرتے ہیں تیسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ جسے اچھا کرکے ایک طرف رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد دیکھتے ہیں اوہو ! یہ تو کمزوری ہے۔ جیسے بعض لوگ داغ دور کرتے ہیں کپڑوں سے تو جس جگہ سے داغ دور کرتے ہیں وہ صاف ہو جاتی ہے باقی جگہ ساری داغدار دکھائی دینے لگتی ہے اس کو صاف کریں تو کہیں کوئی اور داغ دکھائی دینے لگتا ہے۔ تو محسن کا مضمون ساری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے شعورکی لطافت لازم ہے۔
’’ثواب الدنیا ‘‘ کیلئے حسن کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ ثواب الآخرۃ کیلئے ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ فرمایا ہے۔اس میںمتفرق مفسرین نے مختلف وضاحتیں کی ہیں۔قاضی مثلاً لکھتے ہیںیہ
علامہ رازی کی تفسیر میں سے ہی لیا گیا ہے حوالہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ شاید محسنین یا ’’حسن ثواب‘‘ جو ہے اس کا تعلق شہداء سے ہو اور یہ آیت عام نہ ہو۔ ثواب الدنیا کا تعلق عام سے ہو اور دوسرا شہداء سے ہو یہ مضمون قابل قبول نہیں ہے بلکہ یقیناً رد کرنے کے لائق ہے۔ وجہ یہ ہے جو دوسرے تھے شہیدنہیں ہوئے اور غازی بنے۔ ان کا کیا قصور تھا کہ ان کو صرف دنیا کا ثواب دیا جائے اور حسن ثواب الآخرۃ سے وہ محروم کئے جائیں۔ پس اس میں دراصل لامتناہی ترقیات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہر جزا آگے حسین تر ہوتی چلی جائیگی۔
حسن ثواب الآخرۃ سے مراد یہ ہے جیسے اس آیت میں آنحضرت ﷺکو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ۔
’’ وللآخرۃ خیر لک من الاولیٰ‘‘
جب آخرت پہلی سے بہتر ہوگی تو اس کے مقابل پر اسے حسین تر قرار دیا جائیگا۔ پس وہی مضمون ہے کہ ان لوگوں کو جو جزائیں ملیں گی وہ ان کو جو پہلے پہلی جزائیں ملی ہیں ویسی ہی نہیں ملیں گی پھر۔ ان کو بہتر سے بہتر جزا ملتی چلی جائیگی۔ اس رنگ میں اس مضمون کو سمجھیں تو دیکھئے محسنین کے مضمون کے ساتھ کس طرح انطباق پاتا ہے۔ اس پر کس طرح صادق آتا ہے۔ محسن سے مراد یہ ہے کہ ہر لحظہ وہ اپنے حسن میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی خوبیوں کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اور خدا اگر صرف ثواب الدنیا ہی دے دے ان کو پہلا ثواب جوانکو ملنا چاہئے اور آخرت میں بھی ثواب ہی ہو صرف ویسا ہی ثواب جیسا دنیا میں ملا ہے اس کو یا پہلے مل گیا۔ تو مومن کا دن بدن حسین تر ہونے کیساتھ تو اس ثواب کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ یہ تو تبھی بنے گا کہ اگر جس طرح مومن حسین سے حسین تر ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ثواب کو بھی حسین سے حسین تر بناتا چلا جارہا ہے۔ تو آخرۃ سے مراد صرف بعد کی زندگی کا ثواب نہیں ہے یہ غلط فہمی ہے۔ قران کریم نے لفظ ’’آخرۃ‘‘ کو دنیا کے نیک انجام سے بھی جوڑا ہے۔ پس آنحضرتﷺکے متعلق جب فرمایا۔
’’وللآخرۃ خیر لک من الاولی‘‘
تو من الدنیاکا لفظ عمداً استعمال نہیں فرمایا۔ ’’اولی‘‘ فرمایا ہے۔ تاکہ جیسا کہ بعض مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت سے مراد صرف یوم آخرت ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے۔ آخرت سے مراد انجام ہے یا بعد میںآنے والی ہر گھڑی کو ہم آخرت کہہ سکتے ہیں۔ پس جس طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد؛ تیرا ہر لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائیگا۔ اور یہ ہمارا وعدہ ہے۔ اسی طرح ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ سے مراد یہ ہوگی کہ ’’وہ میرے بندے جو میری خاطر دن بدن بہتر سے بہتر ہورہے ہیں ۔ ان سے میرا وعدہ یہ ہے کہ ان کی ہر گھڑی پچھلی سے بہتر ہوگی۔ پس ثواب دنیا اور ثواب آخرت سے مراد دنیا اور آخرت کا موازنہ نہیں۔ وہ بھی ہوسکتا ہے ! لیکن اول موازنہ جو میرے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں جو ثواب ملیں گے وہ وہاں رکیں گے نہیں۔ بعد میں آنے والے ثواب پہلوں سے بڑھتے چلے جائیں گے۔ اسکے بعد آنے والے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ اب اس مضمون کو پیش نظر رکھیں تو اسلام کے اس دور کی فتوحات کی سمجھ آنے لگتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں آتی۔
بعد ازاں مسلمانوں میں لشکروں میں ایسے لشکر تھے جن کے مقابلے بڑی بڑی سلطنتوں کے لشکروں سے ہوئے ہیں۔اسلام کی جنگیں تو عربوںکے درمیان ہی تھیں ناں ! یعنی آغاز میں جو خالصتہً دفاعی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ جن کو اعلیٰ درجے کا جہاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ وہ تھیں جن میں آنحضرتﷺکے دین کو جبراً تبدیل کرنے کے لئے تلوار اٹھائی گئی۔ اور ان لوگوں نے نہایت کمزوری کی حالت میں مقابلے کئے ہیں۔ اور ثبات قدم ان کو نصیب ہوا۔ ان سے وعدہ یہ ہے کہ تم نے جو دعائیں ابھی کی ہیں یہ دعائوںکا سلسلہ اس فتح پر رکے گا نہیں جو ہم نے تم کو عطا کردی ہے بلکہ یہ جاری و ساری مضمون ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والی قبولیت دعا ہے جس کے نظارے آئندہ تمہاری نسلیں دیکھیں گی۔ اور ان کا ان دعائوں کے نتیجے میں تمہارے اعمال کے حسین تر ہوتے چلے جانے کے نتیجے میں آئندہ نسلوںمیں بھی بڑی سے بڑی عظیم الشان سے عظیم الشان تر فتوحات نصیب ہوتی چلی جائینگی۔
اب اس مضمون کو دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ بعد میں جب ایران کی فوجوں سے ٹکر ہوئی ہے تو بعض ایسے مواقع بھی آئے کہ چھ سات لاکھ کی فوج کے مقابل پر 20 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔ یا 30 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔
ایسے دن بھی ان لڑائیوں کے دوران آئے کہ 60 ہزار کے لشکر کے مقابل پر عمداً مسلمانوں کے جرنیل نے صرف 60 سوار بھیجے۔ اور وہ چوٹی کے سوار چُن کر بھیجے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صبح سے شام تک وہ جس طرف بھی جاتے تھے وہاں مقتولین کے انبار لگادیتے تھے۔لیکن ان تک ‘ اُن میں سے بہت کم لوگ تھے جو پہنچ سکے۔ اور الا ما شاء اللہ زخمی تو ہوئے مگرشہید بہت کم ہوئے۔ اور اکثر خیر و عافیت سے رات کو واپس لوٹے۔ اسکے نتیجے میں ایک رعب طاری ہوا دشمن پر اور بعد میں جب عام جنگ کا طبل بجایا گیا ہے تو یہ یادیں تھیں جن یادوں نے ان کو مرغوب اور مبہوت کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ بڑا بھاری لشکر بھی شکست کھانے پر مجبور ہوا۔ تو حسن ثواب الآخرۃ جو ہمیں وہاں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انکی اپنی خوبیوں سے اتنا تعلق نہیں رکھتا۔ جتنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کی دعائوں کی قبولیت سے تعلق رکھتا ہے۔
پس یہ وعدہ جو حسن آخرت کا ہے اگرچہ حسین تر ہونے کا وعدہ ہے یہ صرف آخرت سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی گہرا بلکہ لازم تعلق رکھتا ہے۔
بعض مفسرین نے اس کو اس طرف جوڑا ہے کہ من یرد ثواب الدنیا نوتیہ منھا۔ ومن یرد ثواب الآخرۃ نوتہ منھا۔
یہ بالکل بے محل بات ہے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کے حوالے سے وہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیںکہ وہ چند تیر انداز جن کو درے پر مقرر فرمایا گیا تھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی درے کو نہ چھوڑیں۔ انہوں نے ثواب الدنیا کی خاطر یعنی لالچ اور حرص میںکہ مال غنیمت لوٹا جارہا ہے دوڑ کر جلدی کرکے۔ نافرمانی کرتے ہوئے اس مال میں حصہ لے لیا۔ تو ان کو ثواب الدنیا بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دنیا چاہی انکو نے دنیا مل گئی اور باقی جو لوگ تھے ان کو حسن ثواب الآخرۃ ملے گا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔
ان لوگوں نے اگر کچھ مال حاصل کیا تو اس کو ثواب کے تابع قرار دینا ہی بے وقوفی ہے۔ اگر بے وقوفی سخت لفظ ہے تو سادگی کہہ لیں۔ لیکن اس کا ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مضمون ہی الگ ہے وہ مضمون ہی الگ ہے۔
یہ جو مضمون ہے کہ وہ کمزوریاں بیان کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو محسن قرار دے رہا ہے ۔ اس کا امام رازی نے بھی یہی تعلق باندھا ہے کہ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے۔ کہ انہوں نے ربنا اغفرلنافی امرناکہہ کر اپنے خطاکار ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تو جب انہوں نے یہ اعتراف کرلیا تو خدا نے ان کا نام محسن رکھ دیا۔ پس کمزوریوں کے اعتراف سے انسان گنہ گار ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ محسن بننے کیلئے اس رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ رستہ ہے جو تکبر کے برعکس ہے اور جس رستے سے لوگ جنت میں داخل ہونگے۔ یہ چھوٹا ہونے کا رستہ ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے بھی کہا تھا۔ اور Wherry کو شاید مسیح کے کلمات یاد نہیں رہے کہ ایسے لوگ جو متکبر ہوں۔ دولت مند ہوں۔ وہ جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر ہوجائے جنت میں داخل نہیںہوسکتے۔ پس کون ہے جو اعتراف گناہ کے بغیر جنت میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ یہی وہ آخری عجزہے اور انکساری ہے جس کے نتیجے میں آدمی محسن قرار پاتا ہے۔ پس سب انبیاء نے اگر اعتراف کیا ہے تو یہ ان کی شان ہے۔ اور اس رستے سے وہ جنت میں داخل ہونے کے اہل قرار پائے ہیں۔ ورنہ باقی سارے جو سمجھتے ہیں کہ ہم گنہ گار ہی نہیں ہیں۔ ان کا معاملہ اللہ سے ہے ۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ تکبر کی راہ سے ایسا کیا گیا یا کسی اور وجہ سے مگر جہاں تک حضرت مسیح ؑ کا تعلق ہے۔ Wherry کا یہ کہنا کہ مسیح ؑ نے اعترافِ گناہ نہیں کیا۔ ایک جھوٹا الزام ہے۔ ایسا واضح جھوٹ ہے۔ جو کھل کر اس پر بولا گیا جسے وہ خدا کا بیٹا اور اپنا آقا کہتا ہے۔ کیونکہ جب مسیح کو نیک کہا گیا تو مسیح نے بڑی شدت اور سختی سے انکار کیا۔ مجھے نیک مت کہو۔ ایک ہی ہے وہ نیک جو آسمان پر ہے۔ اور اعتراف گناہ کیا ہوتا ہے؟ یعنی میں نیک ویک کوئی نہیں ہوں۔ میری کمزوریوں پر اللہ نے پردہ ڈالاہوا ہے۔ تمہیں کیا پتہ؟ اس لئے خدا کے سوا کوئی پاک نہیںہے۔ مجھے پاک قرار نہ دو۔ اگر اسے اعتراف گناہ نہیں کہا جاتا تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس کے لئے لغت میں اور کونسا لفظ ہوگا۔ باقی سب تفاسیر میں جو مختلف باتیں ہیں وہ عام مضامین ہیں جن کا کوئی خاص ایسا مرتبہ نہیں ہے کہ انہیں بیان کیا جائے۔(یہ سب ہو چکا ہے یہ رکھیں شاید ضرورت پڑ جائے )
____ _____ ____
یا ایھا الذین امنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علیٰ اعقابکم فتنقلبوا خسرین O بل اللّہ مولکم وھو خیر النصرین O (آل عمران 150-151)
یہ دونوں آیات اکٹھی کرلی گئی ہیں کیونکہ دراصل دوسری آیت میں پہلی آیت کا نتیجہ ہی نکالا گیا ہے اور چھوٹی چھوٹی ہیں ان کو ایک ہی جگہ میں اکٹھا کر کے انشاء اللہ اکٹھا اس پر گفتگوکروں گا۔
اس میں ایک لفظ آیا ہے۔ رَدَّ۔ یردوکم علی اعقابکم ۔ لیکن پہلے تو ترجمہ کرلوں۔ میں ترجمہ کرنا بھول گیا تھا۔
’’اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو۔ اگر تم ان لوگوں کی پیروی کروگے جنہو ںنے کفر کیا ہے۔ تمہیں وہ اپنی ایڑیوں کے بل لوٹادیں گے۔ فتنقلبوا خسرین O تو تم نقصان اٹھانے والوں میںسے ہو جائو گے۔بل اللّہ مولکم :دیکھو ! اللہ تمہارا مولاہے۔ سچ بات یہی ہے۔ ’’بل‘‘ اس لئے آتا ہے کہ تم ہر دوسرے خیال کو ردکردو۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر حقیقت ہے تو اس بات میں ہے کہ تمہارا مولا اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی مولا نہیں۔ ’’وھو خیر الناصرین ‘‘ اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ یعنی اس کی ہر مدد فتح پر منتج ہوتی ہے۔
رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا و مَرْدُوْدًا : اس کے معنیٰ ہیں رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا عن کذا: جب عن کا صیغہ استعمال ہوگا اس کے ساتھ عن کا لفظ تو مطلب یہ بنے گا کہ کسی چیز سے رخ موڑ لیا۔
رَدّ عَنْہ‘ : کا مطلب ہے پیٹھ پھیر لی۔ یا منہ موڑ لیا۔ دوسری طرف ہوگیا۔ اسکو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔ یا اسے واپس کردیا۔ کوئی چیز کسی کو پیش کی جائے تو وہ اسے رد کردے۔ اور یہ اچھے مفہوم میں بھی ہوتا ہے اور برے مفہوم میں بھی۔ اچھے مفہوم میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر کوئی تمہیں تحفہ دے۔ تو اگر تم اس سے بہتر نہیں دے سکتے اس سے بہتر چیز اس کو پیش نہیں کرسکتے تو اس جیسی ہی اس کو دے دواور یہاں واپس کرنے کا مفہوم بھی ہے۔ جو بعض صورتوں میں بعض معاشروں پر صادق آتا ہے بعض صورتوں میں نہیں آتا۔ لیکن وسیع مضمون ہے اس وقت میں اس کی گفتگو نہیں کرتا۔ کسی چیز کو واپس کردینا بھی رَدَّ کے اندر داخل ہے۔ کسی کی حالت بدل دینا۔ یعنی کیفیت بدل دی جائے کسی چیز کی اس کے لئے بھی رَدَّ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک عرب شاعر لکھتا ہے۔
’’فَرَدَّ شعور ھن السُّود بیضاً ‘‘
کہ ان عورتوں بے چاریوں کے اس غم نے کالے بال سفید کردیئے۔ تو ضمیر غم کی طرف ہے جس کا پہلے مصرعے میں ذکر ہے کہ یہ ایسا غم تھا کہ جس سے ان عورتوں کے کالے بال سفید ہوگئے یعنی غم نے رد کردیا اس کو۔ تو ردَّ معنیٰ حالت میں تبدیلی، حالت میں انقلابی تبدیلی۔ سیاہ سفید ہوجائے۔ اسی مضمون کا تعلق لفظ مرتد سے ہے۔
اِرْتَدّ الشیء : رَدَّہ ‘ طَلَبَ رَدَّہ‘ عَلَیْہِ وَ اسْتَرْھَبَہ‘
اس نے چیز کو واپس کردیا۔ دوسرے معنے ہیں اس نے کہا اس کی چیز واپس کردی جائے۔ کسی کو دے کر کوئی چیز مانگی جائے تو اس کے لئے بھی لفظ ارتدَّ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میرا دین مجھے واپس کردو۔ چنانچہ ایک جاہل عرب بے چارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ اور مسلمان ہوگیا تو جاتے جاتے کہنے لگا آخر پر کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ میرا واپس کردو دَین۔ وہ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضے میں رکھا ہوا تھا۔ تو کہنے لگا کہ بس ہوگئی۔ مجھے واپس چاہئے۔ تو آپ نے اسے رخصت کیا تم پہ کوئی جبر نہیں کہ تم اپنا دین لیکر نکلو یہاں سے۔ تو ارتد کا معنیٰ اسی طرح کسی چیز کو دے کر واپس لے لینا بھی ہے۔
اِرْتَدَّ عَلیٰ اَثْرِہٖ او عن طریقہ : رجع
و ارتَدَّ عَنْ دینہ : رجع و حاد
ارتد علی اثرہ اوعن طریقہ کا مطلب ہے وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا۔
وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا یہ کچھ عجیب وغریب سا مفہوم ابھر رہا ہے ۔ ارتد عن دینہ۔ سے مراد ہے وہ اپنے سابقہ دین سے منحرف ہوگیا۔
یہ دونوں ترجمے بعض ڈکشنریوں نے اس طرح ہی کئے ہوئے ہیں مگر امام راغب نے اس مضمون کو بڑے واضح طور پر یوں بیان فرمایا ہے کہ
اِلارتداد او الرِدَّۃ :۔ کا بنیادی معنیٰ ہے کہ جس طریق سے آیا ہو اسی طریق سے پھر واپس چلا جائے۔ یہ معنیٰ ہیں اصل۔ پس وہ دوسری لغات نے جو معنے کئے ہیں وہ بے معنی سے معنے ہیں۔امام راغب جو معنے بیان کررہے ہیں انہی معنوں میں یہ لفظ ساری امت میں معروف ہے اور یہی معقول معنے دکھائی دیتے ہیں کہ جس رستے سے آیا اسی رستے پہ واپس چلا گیا اور سابقہ مگر اس کا تعلق ......................
------ ------ -------
ضروری نوٹ : اس سے آگے کچھ دیر کا درس باقی ہے لیکن نشریاتی رابطہ منقطع ہوجانے کی وجہ سے وہ ریکارڈ پر نہیں آیا۔ اور باقی ہے۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 20 رمضان المبارک
3 مارچ 1994ء
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عندانفسکم ان اللہ علی کل شی قدیرO ……………یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل و ان اللہ لا یضیع اجر المؤمنینO
(آل عمران آیات 166 تا 172)
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا : پس جب تم پر کوئی ایسی مصیبت ٹوٹی جس سے دوگنی تم دشمن کو پہنچا چکے تھے تم نے کہہ دیا یا تم کہنے لگے انی ھذا یہ کیسے ہوگیا ؟ کہاں سے آئی قل ھو من عندانفسکم کہہ دے یہ تمہارے اپنے ہی نفوس کی طرف سے ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر ہاں اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یعنی تمہارے نفوس کی تکلیف سے بھی تمہیںبچا سکتا تھا۔ اگر چاہتا تو۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ پس جو مصیبت اس دن جب کہ دو گروہوں کا تصادم ہوا تمہیں پہنچی یہ اس پہلو سے اللہ کے حکم سے بن جاتی ہے کہ اس نے وہ مصیبت پہنچنے دی۔ چاہتا تو اسے روک سکتا تھا۔ ولیلعم المومنین اور یہ بھی مقصد تھا کہ وہ مومنوں کو پہنچان لے اور جانچ لے۔ و لیعلم الذین نافقوا اور ساتھ ہی منافقوں کو بھی پہچان لے۔ وقیل لھم تعالوا قاتلو فی سبیل اللہ۔ یہ جو ہے و لیعلم الذین نافقوا یہاں سے آگے پھر نفاق کی علامتوں کا ذکر چلتا ہے۔ جو اگلی چند آیات تک ممتد ہے۔ یعنی یہ فرمانے کے بعد کہ منافقوں کو بھی پہچان لے پھر لوگوں کی قیاس آرائیوں پر بات نہیں چھوڑی کہ وہ کہیں کہ فلاں صحابی نعوذ باللہ منافق تھا۔ فلاں مخلص‘ فدائی‘ منافق تھا‘ اللہ نے پھر منافقوں کے حالات خوب کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ ایک ادنیٰ بھی گنجائش کسی بدنصیب کو پاک صحابہ رضی اللہ عنہم پر حملہ کرنے کی نہ ملے۔ و لیعلم الذین نفقوا و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان سے جب کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں قتال کرو یا دفاع کرو قالوا لو نعلم قتالا لا اتبعنکم اگر ہمیںقتال آتا تو ہم تمہاری پیروی نہ کرتے۔ اس کی طرف میں دوبارہ واپس آئوں گا۔ اس ترجمہ کی طرف‘ اس کے دو اور بعض نے تین ترجمے بھی امکاناً پیش کئے ہیں۔ عام طور پر مفسرین کا رجحان اس ترجمہ کی طرف ہے کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو ہم ضرور شامل رہتے۔ لیکن ہمارا خیال تو تھا کہ لڑائی ہونی کوئی نہیں اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منافقین کے ایک الزام کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے۔ اس لئے مفسرین نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ یعنی بہت سے مفسرین نے ۔ وہ کہتے ہیں وہ یہ بات کہا کرتے تھے ‘ وہ یہ بات پھیلا رہے تھے کہ ہیں تو رشتے دار ہی اپنے‘ مکے سے آنے والے بھی تو اپنے رشتے دار ہیں اور عزیز ہیں اور ان سے رعایت کا سلوک کریں گے۔ اس لئے لڑائی وڑائی کوئی نہیں ہونی ۔ اور یہ عجیب بات ہے اس دلیل میں کوئی منطق مجھے تو کوئی دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ مکے سے آنے والے تین ہزار ہیں اور یہاں سے جانے والے ہزار ہیں جن میں سے تین سو واپس آجاتے ہیں اور اس لئے واپس آتے ہیں کہ یہ ان تین ہزار پر رحم کر جائیں گے اور ان سے نرمی کا سلوک کرکے نہیں لڑیں گے۔ یہ تو الٹ ہونا چاہئے تھا۔ وہ جو مکہ سے رشتہ داری کے باوجود حملہ کرنے کیلئے چڑھ دوڑے تھے ان کا کام تھا وہ طاقت ور تھے وہ بڑی دور سے بڑے بد ارادے لیکر نکلے تھے ان کو چاہئے تھا کہ خون کا خیال کرتے اور رشتہ داریوں کا خیال کرتے۔ یہ منافقوں کی بات اگر یہ درست ہے روایت تو عجیب سی ہے لیکن اسے قبول کرتے ہوئے اس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے جو میں بتا رہا ہوں کہ نعلم قتالا سے مراد ہے کہ اگر ہمارے علم میں یہ ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو پھر ہم ضرور لڑتے۔ لا تبعنکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان جس دن وہ یہ باتیں کررہے تھے وہ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں یا کرتے تھے۔ مالیس فی قلوبھم جو ان کے دلوں میں نہیں واللہ اعلم بما یکتمون اور اللہ خوب جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو۔ یہ باقی ترجمہ انشاء اللہ اس موقعہ پر پہنچیں گے تو شروع کریں گے۔ اب میں باقاعدہ ایک ایک آیت کرکے اس مضمون کو لیتا ہوں۔
یہ جو پہلی تین آیات ہیں ان تینوں پر اکٹھے نوٹس میں نے رکھے ہیں ان پر تفسیری گفتگو اکٹھی چلے گی۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ یہ بات پہلے چل رہی تھی (جب ہمارا درس ختم ہوا ہے) میں نے یہ کہا تھا کہ بہت سے مفسرین کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ جنگ بدر میں چونکہ ستر ۷۰ ہی کفار مقتول ہوئے تھے اور ستر کو قیدی بنایا گیا تھا اس لئے دوگنے کا مضمون آگیا۔ بعض مفسرین نے یہ نکتہ اٹھایا ہے اور امام رازی نے بھی اس کا تحسین سے ذکر کیا ہے کہ دراصل مثلیھا سے مراد یہ ہے کہ پہلے تم بدر میں بھی شکست دے چکے تھے ایک ان کو اور پھر احد میں بھی ایک شکست دے چکے تھے اور دو شکستیں اوپر تلے دے بیٹھے تھے پھر اپنی غلطی سے اس شکست کو جو دشمن کی شکست تھی اپنی شکست بنا بیٹھے اور ابھی شکوہ ہے‘ ابھی باتیں یہ ہورہی ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد نہیں کی۔ کیوں ہمیں دشمن کے ہاتھوں گزند پہنچی۔ تو ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر قلتم انی ھذا یہ کہہ دیا قل ھو من عندانفسکم کہہ دو کہ یہ دوسری بات جو ہے تمہاری تکلیف کی‘ یہ تمہیں اپنی طرف سے پہنچی تھی۔ لیکن اس کا برعکس جو ہے وہ کیا ہے؟ دونوں فتوحات اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں۔ یہ پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہاں من انفسکم کہہ کے فی الحقیقت فتوحات کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ جو تم نے دشمن کو تکلیف پہنچائی وہ تمہاری طرف سے نہیں تھی۔ تمہارے بس کی بات نہیں تھی، تمہاری طاقت نہیں تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے تھی۔ اس لئے خداکی مدد کے وعدے پر تم کیا بات کرسکتے ہو۔ یہ منافقین مراد ہیں یہاں۔ کیا باتیں کرتے ہو؟ تمہاری کوئی حیثیت تھی دشمن کو شکست دینے والی؟ اس کے باوجود دو مرتبہ تمہیںدیکھ لیا اور حیرت انگیز طور پر ایک طاقتور دشمن کے تم نے چھکے چھڑا دئیے۔ پس وہ تمہاری وجہ سے نہیں تھا۔ ہاں جب مار پڑی ہے وہ تمہاری وجہ سے تھا۔ تم خدا کے اس وعدے کی امان سے باہر نکل آئے جس میں یہ وعدہ تھا کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے گا وہاں جودرے پر فائز لوگ تھے انہوں نے نہ تقویٰ سے کام لیا نہ صبر سے کام لیا۔ اس کے نتیجہ میں یہ تکلیف پہنچی ہے۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ۔ اب یہاں اُسی مضمون کو اللہ کی طرف منسوب فرمادیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو اُس تکلیف کو بھی تم سے دور کرسکتا تھا۔ لیکن اللہ کے اذن سے ایسا ہوا ہے جیسا کہ میں نے امام رازی کے حوالے پیش کئے تھے‘ وہ یہاں اذن سے مراد علم لیتے ہیں اور کئی روایات میں سے یہ ملتا ہے مضمون۔ لیکن اللہ کے علم سے ہی میں اجازت کے معنی نکالتا ہوں۔ علم سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں‘ ایک واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور میں اسے روکتا نہیں ہوں لیکن بالارادہ میرے کہنے کے نتیجہ میں وہ واقعہ رونما نہیں ہورہا۔ یہ معنے ہیں جو حضرت امام رازی بار بار پیش فرما رہے ہیں کہ یہاں حکم یہ نہیں تھا خدا کی طرف سے سکہ انکو مارو‘ علم تھا کہ یہ ماررہے ہیں‘ تو باذنہ سے مراد ہے خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہوئے اُس نے دخل نہیں دیا۔ تو جس کو ہم اجازت کہتے ہیں۔ اُس کا یہی مفہوم ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے اُن کو اجازت نہ ہوتی کہ یہ کرتے رہیں تو کبھی ان کو طاقت نہیں تھی کہ ایسے کرسکتے۔ باوجود اس کے کہ لفظ اجازت امام رازی نے استعمال نہیں فرمایا۔ جن معنوں میں علم کی بات کرتے ہیں میری اصطلاح میں اسی کا نام اجازت ہی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے مثال سے ثابت کیا ہے یہی معنی بنتے ہیں۔ پس لفظاً اذن کا معنی اجازت کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اگر علم کرنا جائز ہے تو اجازت کا مفہوم اس سے خود بخود نکل آتا ہے۔
پھر وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ یہ کہنے کے بعد فرمایا ولیعلم المومنین تاکہ وہ مومنوں کو پہچان لے۔یہ جو اجازت دینے میں حکمت ہے یہ وہ بیان شروع ہورہا ہے۔ اگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور محض تکلیف پہنچتی۔صحابہ کو تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی اجازت نہ دیتا۔ اس میں کچھ فوائد بھی مضمر تھے۔ اور وہاں منافق اور مومن کی بہت بڑی تفریق ہوئی ہے اور یہ مصیبت کے نتیجہ میں تفریق ہوئی ہے۔ یہاں لفظ مصیبت کا اطلاق بہت سے مفسرین اس گھاٹی والے واقعہ کے متعلق میں بیان کرتے ہیں کہ جو کچھ ان درہ چھوڑنے والوں کی غلطی سے بعد میں رونما ہوا ہے۔ وہاں سے مصیبت کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم جن معنوں میں لفظ مصیبت استعمال فرما رہا ہے۔ اس سے مراد عام جو واقعات درپیش آئے ان میں پہلی مصیبت تو اس وقت ظاہر ہوئی جب منافقین کے سردار نے ایک ہزار کے لشکر سے تین سو اپنے ساتھی الگ کئے اور واپس گھر چلا گیا۔ اگر وہ واقعہ مصیبت کے ضمن میں شمار کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ اس جنگ والی‘بعد والی مصیبت کو اس طرف منسوب نہ کرتا۔ اس کا ذکر اس ذیل میں نہ کرتا لیکن آگے جیسا کہ آیات میں آپ پڑھتے چلے جائیں گے۔ اس واقعہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مصیبت کے ذیل میں شمار فرمایا ہے۔ پس محض ان درہ چھوڑنے والوں کی طرف بار بار اس مصیبت کو منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ یہ وسیع تر معنی میں قرآن کریم میں استعمال ہورہا ہے اور اس مصیبت کے ذیل میں پھر وہ منافقین الگ ہوئے۔ اب یہ قطعی بات ہے کہ وہ منافقین درے والے واقعہ سے پہلے الگ ہوچکے تھے۔ درے والے واقعہ نے ان کی مزید شناخت کروا دی ہے۔ یہ درست ہے۔ لیکن اپنی شناخت تو خود انہوں نے ظاہر کردی تھی۔ اس لئے یہ سارا ماحول جو ہے جنگ احد کا اور اس کے بعد ظاہر ہونے والے واقعات جو چنددن بعد تک رونما ہوتے رہے وہ سارے ان آیات میں پیش نظر ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دو مقاصد ہیں اول مومنوں کو پہچان لے اور اگلی آیت میں پھر ذکر ہے کہ منافقوں کو بھی پہچان لے و لیعلم الذین نافقوا اب لفظ مصیبت کا لغوی ترجمہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ اس سے کیا مراد ہے؟ صاب یصوب صوباً و مصاباً ۔ صاب المطر ای انصب و نزل یعنی بارش برسی یا نازل ہوئی۔ صاب سے مراد اوپر سے کسی چیز کا گرنا اور اس میں عموماً اچانک کے معنی بھی لئے جاتے ہیں۔ کوئی چیز اچانک آجائے جس کی عام حالات میں توقع نہ ہو۔ اصابتکم میں اصابت انسھم کا حوالہ دے کر یہ مضمون بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح تیر نشانہ پر بیٹھے تو اسے کہتے ہیں اصاب تیر نشانہ پر بیٹھا۔۔۔۔۔ (یہ بیان کردیئے تھے؟ اچھا پھر غلطی ہوگئی مجھ سے‘ معاف کرنا اب اگلا مضمون شروع کرتا ہوں۔ اصاب کے سارے معنی گذر چکے ہیں؟۔۔۔ٹھیک ہے) علی کل شی ئٍ قدیر کے متعلق بھی میں بتا چکا ہوں مختلف مفسرین نے اس کے مختلف معنی لئے ہیں۔ وہ ساری باتیں جو میںپہلے کہہ چکا ہوں اس کے علاوہ اگر کوئی مجھے بات مفسرین کی تفسیروں میں نظر آئی تو میں آپ کو بتادوں گا۔
تفسیر کبیر رازی نے یہی لفظ مصیبت زیادہ وسیع معنوں میں لینے کی ایک دلیل یہ قائم کی ہے کہ اس کا اشارہ اس درے والے واقعہ کی طرف نہیں بلکہ اس واقعہ کی طرف ہے کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشورہ نہیں مانا کہ مدینہ سے نکل کر لڑنا ٹھیک نہیں‘ مدینہ میں رہ کر لڑنا ٹھیک ہے تو اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے تو وہ مضمون جومیں بیان کررہا ہوں وہ اس کے دائرے میں آسانی سے داخل ہوجاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اگرچہ ٹالا نہیں گیا۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جب ایک نبی جو اللہ تعالیٰ سے نور یافتہ ہے وہ اپنے منشاء کو کھول کر بیان کرچکا ہے تو پھر اس کے خلاف مشورے دینا یہ ایک قسم کی گستاخی ہے۔ اگر وہ اپنے مافی الضمیر کو کھول کر بیان نہ فرما دیتا بلکہ بار بار نہ یہ کہتا کہ بہتر یہی ہے حکمت اس میں ہے کہ ہم مدینہ میںرہ کر قلعہ بند ہوکر اپنا دفاع کریں اور تم اصرار سے یہ سننے کے باوجود بار بار یہ نہ کہتے کہ ہمیں باہر جاکر لڑنا چاہئے تو یہ مصیبت نہ ٹوٹتی۔ اس لئے مصیبت کا آغاز اس نافرمانی کے شائبہ سے شروع ہوتا ہے جسے عام اصطلاح میں نافرمانی نہیں کہا جاتا لیکن نبی کے ساتھ جو ادب کا مضمون وابستہ ہے اُس دائرے میں آکر یہ نافرمانی ہی کہلائے گی۔
وہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں امام رازی اذن کی تفسیر میں بہت سی مثالیں دیتے ہیں کہ مراد علم ہے نہ کہ واضح قطعی حکم کہ اس معاملے میں تمہیں دشمن مارنا شروع کریں اور تم پر غالب آجائیں۔ دوسرا میں ذکر کرچکا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اذن کا معنی اگر تقدیر لیا جائے تو اس لحاظ سے یہ معنی اچھا لگتا ہے کہ جب مسلمان کو یہ پتہ لگ جائے کہ تقدیر الٰہی تھی تو پھر وہ سر جھکا دیتا ہے۔
شیعہ تفاسیر میں سے ہم ایک تفسیر تو (میر احمد علی صاحب کی) بار بار پیش کرچکے ہیں۔ایک تفسیر کا حوالہ بار بار گذرا ہے منھج الصادقین اس کے علاوہ بھی تفسیر قمی بھی غالباً شیعہ تفسیر ہی ہے۔ تو ایک صرف تفسیر نہیں کہ چونکہ میر احمد علی نے اپنی بے باکی کی وجہ سے زیادہ نمایاں حیثیت اختیار کرلی۔ اس لئے ا نکا نام بار بار لینا پڑتا ہے ورنہ دوسری شیعہ تفاسیر پر بھی اس دوران نظر رکھی گئی ہے ان میں منہج الصادقین کا بھی بار بار ذکر ملتا ہے۔ اس موقعہ پر میں منہج الصادقین سے یہ مضمون بیان کررہا ہوں۔
وہاں لکھا ہے کہ عارضی شکست اور شدید نقصان اس بات کی سزا کے طور مسلمانوں کو پہنچا کہ انہوں نے مال غنیمت کیلئے درہ چھوڑ دیا حالانکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حال میں درہ نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ کے واضح حکم کے باوجود درہ چھوڑا گیا جس کی پاداش میں یہ نقصان اٹھانا پڑا۔جنگ احد کیلئے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے مگر صحابہ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مدینہ سے باہر آکر دشمن سے لڑنے کو ترجیح دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ یہ دونوں باتیںانہوں نے لکھی ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی ایسی بات نہیں جو کسی پہلو سے قابل تنقید ہو لیکن صحابہ کی تیسری نافرمانی گنواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدر کے دن قیدیوں کے بارہ میںبھی صحابہ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اور مرضی کو مدنظر نہ رکھا تھا۔ یہاں یہ ہے ۔ جس کی وجہ سے میں خاص طور پر یہ چیز پیش کررہا ہوں۔ وہاں بے وجہ اس مضمو ن کو داخل کردیا ہے۔ جنگ احد کے ضمن میں دو باتیں ہی ہیں جن کے اوپر گفتگو ہوسکتی ہے ایک درہ چھوڑنے والوں کا ذکر‘ ایک آغاز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے یعنی قطعی رحجان کو معلوم کرنے کے باوجود مشوروں پر اصرار کرنا۔ یہ دو باتیں تو جائز ہیں۔ یعنی بیان کی جاسکتی ہیں اس ضمن میں لیکن یہ اب ایک بہت دور کی کوڑی لا رہے ہیں۔ کہتے ہیں یہی صحابہؓ ہیں پرانی نافرمانی کی عادت ہے اور اصل میں جنگ بدر کے بعد جب قیدیوں کو فدیہ لیکر آزاد کیا گیا ہے تو یہ اللہ کے واضح حکم کی نافرمانی تھی۔ اللہ نے اس کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔ اللہ کا حکم تھا انہیں قتل کردو۔ وہ کہاں تھا وہ کہیںذکر نہیں ملتا۔ اور ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس حکم کا علم نہیں تھا۔ یہاں تک کہ حضرت عباسؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گفتگو فرمائی اور اصرار کیا کہ میں تمہیں بھی فدیہ کے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے جب کہا کہ میرے پاس توبس یہی تھوڑا سا ہے۔ میرے پاس تو کافی ہے ہی نہیں تو اللہ آپ کو خبردے چکا تھا کہ ام فضل یہ کوئی تھیں جو مکہ میں جن کے پاس یہ اپنے پیسے رکھوا کے آئے ہوئے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عباسؓ تم تو کہتے ہو میرے پاس کچھ نہیں۔ وہاں کیا رکھوا کے آئے ہو؟ اور وہ رقم اتنی کافی تھی اس سے آسانی سے آپ کا اور آپ کے عزیزوںکا فدیہ دیا جاسکتا تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اب یہ حملہ کرتے ہوئے صحابہؓ پر اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ سوچتے ہی نہیں کہ یہ حملہ کہاں تک پہنچے گا۔اور پھر قتل پر جو زور ہے ان کے کئی اہل بیت بیچ میں ختم ہوجاتے ہیں جنہوں نے بعد میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے۔ صحابہؓ کے اوپر تنقید ہوجائے کسی طرح چاہے اُس تنقید کے دوران اپنوں پر بھی حملے ہوجائیں اور زخم پہنچیں۔ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔مگر صحابہؓ نے فدیہ کی لالچ میں انہیں قیدی بنایا تاکہ فدیہ حاصل کرکے مالی فائدہ اٹھائیں۔ پس اس حکم کی مخالفت کی وجہ سے انہیں احد کے دن ان قیدیوں کی تعداد کے برابر جانی نقصان اٹھانا پڑا۔اب کیسی دور کی کوڑی ہے۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بچا کر رکھی دل میں بات۔ اب میں انکو بتائوں گا۔ کس طرح پہ میرے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے خدا نے کہا اچھا اب لو بدلہ۔ اور اس سے پہلے ان کو فتح کیوں دے دی خواہ مخواہ؟ اس وقت خدا بھول گیا تھا کہ یہ ظالم لوگ ہیں جو میری نافرمانی کرتے رہے ہیں؟ اُن کو فتح کیوں دی اس وقت۔ اور وہ فتح ،اگر یہ واقعہ نہ ہوتا جس کا ذکر ملتا ہے تو ،ایک دائمی فتح تھی۔ اس کے بعد دشمن کے لوٹنے اور دوبارہ حملہ کرنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں تھا۔ چنانچہ منہج الصادقین کے مصنف لکھتے ہیں علامہ فتح اللہ کاشانی کہ
اذن درایں مقام بمعنی عقوبت است
کہ اذن کا معنی اس موقعہ پر خدا تعالیٰ کی پکڑ اور سزا ہے۔ بس جو کچھ ہوا نہ صرف یہ کہ تقدیر الٰہی سے بلکہ تمہیں سزا کی خاطر اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کروایا۔ اور اُس سزا میں نعوذ باللہ من ذلک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شامل ہوئے۔ آپؐ کے دانت شہید ہوئے‘ جو دکھ اٹھایا اور جو دکھ سارے صحابہؓ نے ساتھ مل کر اٹھایا وہ بھی سب موجود ہے۔ تو سب کو اُسی تلوار سے ذبح کررہے ہیں اورصرف ایک ہے وجود جس کو کوئی سزا نہیں ملی۔ وہ آپ جانتے ہیں کون تھا۔
یہ ایک ایسا موقعہ ہے یہاں میر احمد علی صاحب تنقید سے بچ کے نکل گئے ہیں۔ مطلب ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں جو واضح طور پر گستاخی والی ہو۔ اس لئے کوئی حق نہیں ہمارا کہ اُن پر بے وجہ تنقید کریں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت پر بہت سے دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا طریق یہ تھا کہ باریک اشاروں میں بات کرتے تھے اور بعض واقعات اپنے ذاتی تجارب بیان کرکے اس مضمون پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ کئی دفعہ بعض لوگوں کو سمجھ نہیں آتی تھی اس کا اس مضمون سے تعلق کیا ہے۔ لیکن سوال کو پسند نہیں فرمایا کرتے تھے۔ کہتے تھے غور کرو۔ خود پہنچو وہاں تک۔ اب اس آیت کی تفسیر میں جو باتیں بیان ہیں ساری نہ سہی ۔ میں ایک دو باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
ولما اصابتکم مصیبۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قدیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ المؤمنین۔ یہ ساری آیت کہتے ہیں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ جنہیں دنیا کے کاموں میں تکلیف پہنچتی رہتی ہے مگر اس کام کو چھوڑ نہیں دیتے لیکن اگر دین میں کوئی تکلیف پہنچے تو بہت جلدی بے دلی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ طبعی رحجان ہے۔جس کی وجہ سے میں نے اس آیت کو استمرار میں لیا تھا لیکن ظاہر بات ہے کہ ترجمے کے لحاظ سے وہ ترجمہ نہیں کیا جاسکتا مگر استمرار کا مضمون ضرور اس سے اُبھرتا ہے اور حضرت خلیفتہ المسیح الاول اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس انسانی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں جو مرضی مصیبتیں اٹھاتے پھرو دین کے کاموں میں جہاں تکلیف پہنچی وہاں بایتں شروع ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر باتیں بنانے لگتے ہو۔ اس کے بعد یہ واقعہ لکھتے ہیں۔
میں ایک بزرگ سے پڑھتا تھا جو ہمیشہ سفر میں رہتے تھے۔ جب وہ کہیں جاتے مجھے بھی ساتھ جانا پڑتا۔ (یہ اس بزرگ کا نام لیکر آگے ایک قصہ سنا رہے ہیں۔ وہ سارا میں لمبا نہیںپڑھتا۔ خلاصہ بتادیتا ہوں)۔
کہتے ہیں ایک شخص کی بھینس چوری ہوگئی۔ چوروں کا پتہ لگ گیا کو نہیں۔ ان بزرگ صاحب کا اثر تھا اُن پر تو وہ اُن بزرگ صاحب کو ساتھ لیکر چور وں کو سمجھانے کیلئے نکلے اور میں بھی ساتھ چل پڑا کیونکہ مجھے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ وہاں وہ مان گئے۔ انہوں نے کہا آپ آئے ہیں۔ آپ کے احترام میں بھینس ملے گی لیکن وہ نہیں۔ دوسری بھینس دیں گے۔یہ چوروں کا خاص انداز ہے جو آج تک قائم ہے اسی طرح۔ جھنگ میں ہماری بھینسیں بھی ایک دفعہ چوری ہوئی تھی تو چور یہی اصرار کررہے تھے کہ ہم دوسری بھینس دے دیں گے۔ چنانچہ میں نے کہا سوال ہی نہیں مجھے بھینس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تم سے چوری نکلوانی ہے اس لئے وہی لوں گا اور آخر وہ ان کو دینی پڑی۔ تو یہ ہے ان کا قصہ جو پرانے زمانے سے اسی طرح چل رہا ہے۔ تو کہتے ہیں وہاں یہ جھگڑا چل پڑا۔ انہوں نے کہا سوال ہی نہیں آپ بزرگ اپنی جگہ ہمیں احترام ہے لیکن بھینس کوئی اور دیں گے۔ کہتے ہیں میرے ساتھ ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا۔ غالباً یہ اُسی کی بھینس کی چوری تھی۔اس نے کہا یہ بزرگوں کے بس کی بات نہیں میں جانتا ہوں ان کا طریقہ اور میں ان سے نکلواتا ہوں۔ اور طریقہ یہ بتایا کہ کل جب تم آئو گے وہاں گفت و شنید میں تو تم کہنا آج اور میں کہوں گا نہیں کل۔ تم کہنا آج میں کہوں گا نہیں کل۔ تو کہتے ہیں میں نے کہا یہ کیا مطلب انہوں کا مطلب میں بتاتا ہوں تمہیں۔ جب کوئی پوچھے گا یہ کیا باتیں کررہے ہو۔ تم کہتے ہو آج‘ وہ کہتا ہے نہیں کل‘ تو میںبتائوں گا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ قریشی ہے اور یہ کہتا ہے میں نے تمہارے گھر آج اذان دینی ہے جاکے اور میں کہتا ہوں نہیں آج رہنے دو تھوڑی دیر اور انکو اصلاح کا موقعہ دے دو کل جاکر اذان دے دینا۔ چنانچہ کہتے ہیں یہی ہوا۔ میں نے کہا آج یہ کہتے ہیں نہیں نہیں کل۔ میں نے کہا آج کہ نہیں کل۔ وہ سب حیران ہوئے انہوں نے کہا یہ کیا کہہ رہے ہو؟ آج یا کل تو وہ بولا کہ یہ قریشی ہے کہتا ہے میں نے تمہارے گھر کوٹھے پر چڑھ کر آج اذان دینی ہے۔ میں کہتا ہوں خدا کے واسطے اتنا نہ مروائوں ان کو ابھی ٹھہرجائو۔ کل تک مہلت دو۔ وہ کہتے ہیں ڈر گئے۔ کانپنے لگ گئے۔ لڑکا دوڑا اپنے باپ کی طرف جلدی سے بھینس نکالو وہ اذان دینے آرہے ہیں اور کہتے ہیں وہاں ان کے ہاں یہ بات مشہور تھی۔ پہلے جو مولوی تھا وہ مسجد کا امام تھا اور اذان دیا کرتا تھا۔ اور وہ قریشی تھا۔ کہتے ہیں کہ قریشی نے ایسی اذانیں دیں کہ ساری مسجد برباد اور ویران کردیں۔ اور اردگرد کے گھر بھی ویران ہوگئے۔ تو اذان سے ڈرتے ہیں۔ اب یہ واقعہ بظاہر اور ہے لیکن درحقیقت اُس بنیادی انسانی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اپنی چوری چکاری کی نحوست کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور ناحق اور بے وجہ خدا اور خدا والو ںکی باتوں کی طرف نحوستیں منسوب کرتے ہیں۔ اب اذان سے کیسے نحوست ہوسکتی ہے۔ لیکن جب دماغ پاگل ہوجائیں۔ٹیڑھے ہوجائیں تو پھر اذانیں بھی نحوست کا ذریعہ قرار دی جاتی ہیں۔ یہ ہے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی تفسیر کی طرز۔ پھر لکھتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے پیر خود بھی لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کسی پر ناراض ہوں اور اتفاق سے کوئی حادثہ پیش آجائے تو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اپنا رعب قائم کرنے کیلئے کسی سے ناراض ہوں‘ اُس پر اتفاقاً کوئی مصیبت ٹوٹ جائے کہتے ہیں دیکھ لو اور مقابلہ کرو تو اس کی وجہ سے دہشت پھیلتی جاتی ہے اور نیکی بجائے اس کے کہ لوگ کے دلوں کیلئے جاذب بنے اُن کو کھینچے اُن کے اوپر محض ایک خوف طاری کردیتی ہے۔
پھر فرماتے ہیں من عندانفسکم کی تفسیر ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ مصیبت تمہاری نافرمانی کا نتیجہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو سزا ملتی ہے۔
کہتے ہیں کہ حال یہ ہے کہ قرآن کریم سیدوں اور قریش کے گھر سے نکلا اور اس وقت تویہ تھا کہ ان سے دنیا کو ملا۔ آج کل کی حالت یہ ہے کہ گھر سے نکل ہی چکا ہے اور چھٹی کر گیا ہے اور بعض ایسے ہیں جو قرآن پڑھنا ہی چھوڑ بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بڑے آدمی سے میں نے کہا آپ پڑھتے کیوں نہیں۔ تو بڑے جوش میں آکر کہنے لگا کیوں ہم کوئی بندر ہیں۔ سیکھتے تو بندر ہیں۔شیر بھی کبھی سیکھتے ہیں؟ تو یہ مثالیں اوٹ پٹانگ دیکر تو شریعت سے باہر نکلنے کے انہوں نے رستے نکال رکھے ہیں ۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ میں نے صرف اتنا جواب دیا کہ باز سیکھا کرتے ہیں کوے نہیں سیکھا کرتے۔ یہ بھی تو ایک مثال ہے۔ تو مثالیں دیکر عذر تلاش کرنا ایک لغو بات ہے۔ ہر قسم کی مثالیں مل جاتی ہیں۔پھر آخر پر فرماتے ہیں میری والدہ بڑی فہمیدہ عورت تھیں اور وہ ان کی تفسیر اس کی یہی تھی ہمیشہ کہ جیسا کرو ویسا بھرو۔ جوکچھ تم اپنے اعمال کی پاداش میں خود اُس کا نتیجہ دیکھتے ہو اس کے اصل ذمہ دار تم ہو باقی مثال دیا کرتیں تھیں کہ اگر کوئی تھانیدار کسی کو پکڑ کر (قیدی کو پکڑ کر) لے جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تھانیدار نے کیا لیکن جس جرم کی وجہ سے گیا ہے وہ اس کی ذمہ داری تو اسی شخص پر عائد ہوتی ہے۔ تو اس طرح اس مضمون کو‘ تقدیر والے مضمون کو بڑی عمدگی سے آخر پر کھول دیا۔
اور اگر کوئی دلچسپ بات ہو تو بتاتا ہوں۔۔۔ حضرت مصلح موعود نے بھی یہی بیان فرمایا ہے کہ من عندانفسکم میں یہ مراد ہے‘ اپنی غلطی اور شرارت کی وجہ سے سزا پاتے ہو اور اذن اللہ سے مراد ہے کہ نتائج اللہ تعالیٰ پھر پیدا فرماتا ہے۔ اس کے قوانین جو ہیں وہ پھر طبعی نتیجے ظاہر کرتے ہیں۔ سیل نے اس جگہ
It was the consequence of disobeying the ordrs of the Prophet and abandoning your post for the sake of plunder.
یہ معنی لئے ہیں وہی Plunder کا مضمون بار بار۔
Instead of applying this verse to Badar it is associated with Ohad.
‏ Rodwell یہ لکھ رہا ہے کہ بدر پر applyکرنے کی بجائے اس کا تعلق احد سے ہے it is associated یعنی ملا دیا گیا ہے۔
میر احمد علی صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں۔
There were many half hearted converts to Islam who began waver after the disaster of Ohad. Their faith resembles that of those who followed Moses. Who doubted and returned to infidelity at the slightest outward happening or as a facing any defficult situation. The disaster was due to their doliquency and love of booty. All those who had joined the ranks of the muslims were not sincere.
یہ وہی صحابہ کو کوسنے کیلئے ایک لپیٹی ہوئی زبان اختیار کی ہے اوربات تان اُسی پہ ٹوٹتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ شامل ہوئے تھے۔ وہ سارے نیک لوگ نہیں تھے۔ بھاری اکثریت گویا اُن کی بدتھی اور اُن کی بداعمالیوں کی وجہ سے یہ سزا دیکھی۔ پھر وہ میر صاحب تفصیل سے ا ن صحابہ کا نام گنواتے ہیں جو پہلے بھی ابھی ذکر کرچکا ہوں کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نام کے مسلمان ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر بنی اسد کے قبیلے کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے فوائد کیلئے آگے آجایا کرتے تھے۔ جب ساتھ چلنے کا حکم ہوا۔ وہ جو Prophet on pilgrimage جب وہ واقعہ ہوا ہے صلح حدیبیہ والا۔ اس وقت جو Pilgrimage اُن کو کہا گیا ساتھ چلو تو انہوں نے انکار کردیا تھا۔
یہ ساری باتیں بیان کرنے کے بعد پھر وہ کافر مومن میں تفریق کا ایک معیار مقرر کرتے ہیں اور اُس کے بعد لکھتے ہیں۔
The same was the case with most of the campanions of the Holy Prophet who accompanied him to enjoy all the privilages attached to be near and close to him and who deserted him. And the ranks of the Muslims in the battle fields. When ever there was a risk of their lives leaving the Holy Prophet and others belivers in the jaws of death.
کہتا ہے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا یہ حال تھا۔ شاذ تھے جو اس سے بچے ہوئے تھے کہ اپنے فوائد کیلئے تو وہ اردگرد اکٹھے رہتے تھے اور جہاں خطرے کے مواقع پیش آئے وہاں محمد رسول اللہ اور سچے مسلمانوں کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جاتے رہے۔ اسی لئے اس نے حضرت موسیٰؑ والی مثال دی ہے کہ ان کے دل کی کیفیت تو یہ تھی کہ وہی بات کہا کرتے تھے جو موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہی کہ جائو تم اور تمہارا رب لڑتے پھرو ہم تو یہاں بیٹھ رہیں گے۔ اس کے متعلق کافی پہلے میں بتا چکا ہوں کہ کس قدر جھوٹا الزام ہے اور ناپاک الزام ہے۔ صحابہ جو فوائد کیلئے اکٹھے ہوئے تھے اپنا سب کچھ چھوڑ کے تو ڈیرے لگا بیٹھے تھے محمد رسول اللہ کی خدمت میں وہ جو اصحاب الصفہ تھے ان کے متعلق بھی یہ کچھ خیال آرائی فرماتے کہ وہ کن فوائد کی وجہ سے وہاں مسجد میں بیٹھے رہتے تھے۔ بھوک سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہوجایا کرتے تھے۔ لوگ انکو یہ سمجھ کر کہ مرگی کا دورہ پڑا ہے بعض جوتیاں مارتے تھے بعض جوتیاں سونگھاتے تھے اور اس غرض سے بیٹھے ہوئے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی قول، کوئی فرمان ایسا نہ رہے کہ وہ آپ فرما رہے ہوں اور ہم اس وقت موجود نہ ہوں۔ ہمارے علم کے بغیر نہ رہے۔ جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے دودھ اتارا گیا،جن کے متعلق یہ واقعہ ہے اُس آیت کی تفسیر میں یوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃکہ وہ اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خواہ کیسی ہی تکلیف محسوس کررہے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ زبانیں دراز ہورہی ہیں کہ اپنے فوائد کی خاطر جمگھٹ کرکے اکٹھے ہوجاتے تھے جب بھی خطرات ہوتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ ویری صاحب کہتے ہیں۔
In the Battle of Badar where he slew seventy of the enemy equalling the number of those who lost their lives in Ohad and also took as many prisoners.
پھر وہ کہتا ہے
The purpose to plunder and destroy their enemies is sanctified by excuting it in the way of Lord.
اس قد رجاہل آدمی ہے کہ اب انسان کیا کرے۔ پھر وہی بکواس Plunder دماغ سے اترتی ہی نہیں۔ سوچیں ذرا کہ خدا کے نام پر کہتا ہے ان کو کہنا چاہئے تھا Plunder کی خاطر وہ نکلے تھے اپنے دماغ کیلئے Plunder کی خاطر وہ تین ہزار حملہ آوروں سے لڑنے کی خاطر تاکہ اُن کے مال لوٹیں یہ سات سو نکلے تھے۔ کوئی تک کوئی منطق ہے اس بات میں؟ وہاں مانتا ہے کہ تین سو انیس تھے جنگ بدر کے موقعے پر اور یہ مانتا ہے کہ ایک ہزار آزمودہ کار سپاہی بہت ہی ماہر فن وہ اُن کے مقابل پر آئے ہوئے تھے اور مانتا ہے کہ شکست ایسی ہوئی ہے اُن کی کہ اُس کی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیسے ہوگئی۔ یہ سب کہنے کے باوجود وہ تعصب جو دل میں ہے وہ پھر بول پڑتا ہے۔ کہتا ہے کہ دیکھو بہت بُری شکست ہوئی لیکن یہ عام بات ہے‘ معمولی بات ہے کوئی خاص ایسی بات نہیں۔ ایسا ہوجایا کرتا ہے تو جہاں اللہ کا ہاتھ نظر آتا ہے وہاں یہ آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ جہاں اس کا شیطان کوئی کارروائی اس کو دکھاتا ہے وہاں یہ خوب آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے کہ شیطان میرے دل میں کیا وسوسے ڈال رہا ہے۔ تو کہتا ہے کہ دراصل purposeتو Pluder ہی تھا نا۔ اور Purpose‘ Plunderہو اور کہا جائے خدا کے نام پر تو کہتا ہے کہ
santified by excuting it in the way of the Lord and in amidion to the
commands of the prophet.
پھر آگے چل کر لکھتا ہے۔
The miracle here meant the victory by Mohammad at Badar. Mohammad forces consisted of no more than three hundred and ninteen men.
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ محمد رسول اللہ کے ساتھی تین سو انیس سے زیادہ نہیں تھے۔
But the enemies army of nearly thousand not with standing which adds he put them to flight having killed seventy of the principal Quariash and taken as many prisoners with the lose of only fourteen of his own men.
کہتا ہے یہ ہے واقعہ جس کی طرف اشارہ ہواہے۔
This was the first victory obtained by the prophet and though it may seem no very sonsiderable action.
کہتا ہے اگرچہ صاف پتہ چلتا ہے کوئی خاص بات نہیں ہے۔ عجیب جہالت ہے حد ہی ہوگئی ہے۔ صاف ظاہر و باہر بات ہے۔ خاص ایساکوئی کمال نہیں ہوگیا یہ۔
‏ Yet it was a great advantage to him.
کہتا ہے واقعہ تو کوئی خاص نہیں ہے۔ قابل ذکر لیکن فائدہ بہرحال پہنچ گیا ہے۔ پھر یہ ویری صاحب فرماتے ہیں۔ کہتا ہے اپنی باتیں جو ہیں وہ خدا کی طرف منسوب کرنے کی گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گویا عادت ہے۔ وہ مٹھی خود پھینکی اور بعد میں یہ آیت آگئی کہ وہ اصل میں خدا نے پھینکی تھی اور اس کا جو اثر ہے اس کو پی گیا ہے کہ جس وقت رسول کریم ؐ نے مٹھی چلائی ہے اُس وقت ایک تیز آندھی آپ کی سمت سے دشمن کی سمت کی طرف چلنے والی ظاہر ہوئی ہے جس سے بہت سے کنکر جو اس میدان میں موجود تھے اُڑ اُڑ کے دشمن کی آنکھوں پر پڑتے تھے اور یہ بڑی وجہ بنی ہے شکست کی۔ پس اُس مٹھی کو خدا کی مٹھی کہنا اس سے بہتر اور کوئی description اس کی ہو نہیں سکتی۔ اللہ کی مٹھی نے وہ کام کیا ہے جو محمد رسول اللہ صلعم کی مٹھی تھی۔ یہ محاورہ ہے جس کے اوپر اس کو تکلیف ہے تو کہتا ہے۔ (یہاں یہ لفظ احمدی ٹرانسلیشن جو لکھا ہوا ہے یہ مجھے شک ہے کہ ...... اس کا چیک کریں۔ یہ ویری نے ہی لکھا ہوا ہے یا غلطی سے آگیا اس میں Where Ahamdi translation۔۔۔
میرا خیال ہے یہ نوٹ شاید لکھنے والے نے اپنی طرف سے داخل کردیا ہے‘ جس نے ٹائپ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ویری کا یہ ترجمہ ہے Where Ahmadi Translation...... اس کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی۔ مجھے نہیںپتہ کہ احمدی ٹرانسلیشن کیا ہے) پھر اب آخر پر آکر طعن کرتا ہے۔ جنگ بدر کے موقعے پر جو شدید دشمن کو ہزیمت اٹھانی پڑی اس کی تکلیف تو ہے۔ اب اس کا بدلہ اس طرح لیتا ہے۔ کہتا ہے باتیں کرتے ہیں فرشتے آئے ہوئے تھے اور فرشتوںنے وہ جنگ لڑی ہے ان کے لئے۔ تو کہتا ہے۔
Considering the number of angels called in to assist the Muslims on this ocassion on would infer that the angelic hosts of Islam were not highly gifted in the art of war.
کہتا ہے کم سے کم یہ تو ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے جو فرشتے آتے ہیںمدد کیلئے ان کو خاص لڑائی کا سلیقہ نہیں آتا۔ کیونکہ اگر انکو لڑائی کا سلیقہ آتا تو ستر نہ وہ سارے ہی برباد ہوجاتے اُس وقت۔ تو دراصل اس میں کچھ قصور مسلمان مفسرین کا بھی ہے۔ وہ لفظوں پہ چل کے اُن کو بہت زیادہ ظاہری معنی پہناتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم اسی مضمو ن کے آگے بیان فرما چکا ہے کہ فرشتوں کا ذکر تمہارے دلوں کی تقویت کیلئے کیا جارہا ہے۔ وما النصر الامن عنداللہ مدد تو اللہ ہی کی ہوتی ہے۔ اُسی ہی کی طرف سے آتی ہے۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھو تو اس بات کو بھلا کر مفسرین نے عجیب و غریب نقشے کھینچے ہوئے ہیں۔ جن کو بعض دوسرے علماء نے رد کیا ہے اور کہا ہے یہ روایتیں محض کہانیوں کے طور پر راہ پاگئی ہیں ایسے واقعات یوں نہیں ہوئے تھے۔ مگر چونکہ ایسی باتیں مفسرین کی کتابوں میں ملتی ہیں یا تاریخ کی کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔ اس لئے دشمن کو یہ طعن اور تضحیک کا موقعہ مل گیا۔ پانچ ہزار فرشتے اگر اس طرح یہ مراد ہو کہ باقاعدہ وہ ہتھیار بند ہوکر اُترے تھے اور گھوڑوں پر سوار حملے کیے جارہے تھے اور بعض سفید لباس میں تھے اور ایک عام ہنگامہ تھا وہاں اُن کے دوڑنے کا اور لوگوں کو پتہ نہیں لگتا تھا کہ کون حملہ آور ہوا ہے تو بعد میں باتیں کرتے تھے کہ یہ فرشتے ہی تھے۔ یہ بات پھر واقعی ویری کا حق ہے کہ یہ اعتراض کرے کہ اتنے بڑی تعداد میں ایک ہزار کے مقابل پر پانچ ہزار نکلے اور اس طرح میدان جنگ میں وہ گھوڑے دوڑاتے اور دشمن کو قتل و غارت کرتے رہے آخری نتیجہ صرف یہ نکلا کہ ستر قتل ہوئے۔ تو کہتا ہے کہ ان فرشتوں کو خاص فنون جنگ کی مہارت نہیں تھی۔ زیادہ واقفیت نہیں تھی۔ تو یہ دراصل خود ہمارے مسلمان مفسرین کے لفظی معنوں کے زور دینے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے واقعہ یعنی یہ اعتراض۔
اب میں دوبارہ اس آیت کے ایک حصہ کی طرف آتا ہوں۔ جہاں ترجموں کے مختلف امکانات کا ذکر میں نے کیا تھا۔
ولیعلم الذین نافقوا وقیل لھم تعالوا قاتلو فی سبیل اللہ اود فعوا قالوا لو نعلم قتا لا لا اتبعنکم ۔
میں نے یہ ترجمہ کیا تھاانہوں نے کہا اگر ہمیں قتال آتا تو ہم ضرور تمہارے پیچھے پیچھے ساتھ جنگ اُحد کے مقام تک پہنچتے۔ مفسرین میں سے اکثریت اس طرف گئی ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ واقعتہً قتال ہوگا تو ہم تمہارے ساتھ چلتے۔ اب ان دونوں معنوں پر بھاری اعتراض وارد ہوتے ہیں جو میں نے معنی پیش کیا تھا اُس جواب میں بعد میں دوں گا کہ کیوں اُس پر اعتراض نہیں پڑے گا لیکن ظاہری اعتراض ضرور پڑتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ تو (قتال) اچھا بھلا لڑنا جانتے تھے اور اُنہیں میں سے تھے جو انصار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑنے کے لئے نکلے تھے اور یہ ان عر ب کیلئے باعث شرم بات تھی کہ وہ یہ کہہ دے کہ مجھے لڑنا نہیں آتا۔ اس لئے یہ انکی طرف بات منسوب کرنا قرین عقل نہیں ہے۔ یعنی یہ اعتراض ہے جو میرے والے ترجمے پہ پڑ رہا ہے ۔ میں آپ کو بتا رہا ہوںکہ بظاہر بڑا سنگین اعتراض ہے۔ اس کا جواب میں بعد میں دوں گا۔ دوسرے ترجمہ پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر ان کو پتہ تھا کہ لڑائی ہونی نہیں تو گھر سے نکلے ہی کیوں تھے۔ کہاں تک جا پہنچے۔ اور یہی اعتراض میرے والے ترجمہ پر بھی (یعنی ترجمے دونوں مفسرین نے بھی بیا ن کئے ہوئے ہیں) یعنی پہلے ترجمے پر بھی پڑتا ہے۔ کہ اگر قتال نہیںآتا تھا تو آدھے رستے میں پتہ چلا کہ ہمیں قتال نہیں آتا۔اس لئے اس کا کیا جواب ہے؟ میرے نزدیک اصل پہلے والا ترجمہ ہی درست اس کا جواب اس آیت کے پہلے حصہ میں موجود ہے۔ جس طرف عموماً لوگوں کی توجہ نہیںگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ او ادفعوا۔ دو باتیں تھیں جن کی طرف اُن کو بلایا گیا تھا۔اور فیصلہ اُن کے حق میں رکھا گیا تھا۔ یا قتال کرو باہر نکل کر۔ یہاں قتال سے مراد محض لڑائی نہیں ہے۔ مدینے سے باہر جاکر کھلے میدان میں لڑائی کرو۔ اوادفعوا سے مراد ہے مدینے میں رہ کر دفاع کرو ورنہ قتال تو تھا ہی دفاعی۔ اس لئے اَوکے لفظ نے جب دونوں مضمونوںکو الگ کیا ہے تو ہمیں کھول کر ان کا صحیح تصور الگ الگ قائم کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر اگلے حصہ کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ تو میں اس مضمون کو اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو فرمایا کہ آئو قتال کرو یا دفاع کرو۔ چونکہ اہل مدینہ سے یہ میثاق ہوچکا تھا۔ اگر دشمن حملہ آور ہو تو ہم تمہیں باہر نکل مسلمانوں کی تائید میں لڑنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایسے موقعہ پر عہد کے اپنے حصے پر قائم رہتے تھے اور چاہے دشمن بھول بھی چکا ہو آپ کواپنے والا حصہ کبھی نہیں بھولا ۔ پس اُن سب کو یہ کہنا کہ اس معاہدے کے باوجود تم میرے ساتھ ضرو رباہر نکلواور لڑو یہ درست نہیں تھا۔پس آپ نے فرمایا تعالواآئو اگر تم قتال میں شامل ہونا چاہتے ہو یعنی مدینے سے باہر نکل کر تو آئو ہم چلتے ہیں اور اگر تم اپنے اس فیصلے پر قائم ہو کہ دفاع کرو گے تو پھر یہاں ٹھہرے رہو اور دفاع کرو۔ یہی بات وہ کہتا تھا عبداللہ بن ابی سلول۔ اور لو نعلم قتالاً کا جو میں نے سوال اٹھایا تھا کہ وہ تو کہا کرتے تھے کہ ہم اچھا لڑتے ہیں اور اُن کیلئے یہ شرم کی بات تھی کہ ہمیں لڑائی نہیں آتی۔ یہ کہنا یہ اقرار۔ لیکن یہاں عبداللہ بن ابی سلول کا یہ اقرار History میں درج ہے اور ریکارڈ ہے کہ وہ یہ کہتا تھا کہ ہم لوگوں کو (اہل مدینہ) باہر نکل کر کھلے میدان میںلڑنے کی مہارت نہیں۔ اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ شہر کے اندر قلعہ بند ہوکر لڑنا ہمیں ایسا اچھا آتا ہے کہ عرب کی ساری تاریخ میں ایک بھی واقعہ نہیں کہ مدینے پر کوئی حملہ آور ہوا ہو۔ اور مدینے میں رہ کر ہم نے دفاع کیا ہو اور پھر اس نے ہمیں شکست دیدی ہو۔ جب بھی واقعہ ہوا ہے دشمن نامراد لوٹا ہے تو یہ اس کی قطعی دلیل تھی۔ اور یہاںقتال کے مقابل پر دفاع کا مضمون تھا جو زیر بحث تھا۔ قتال سے وہ مراد لے رہے تھے مدینے سے باہر جاکر لڑنا۔ اور اس فن میں جو انصارؓ ہیں وہ اپنے آپ کو واقعتہً ماہر نہیں سمجھتے تھے۔ جنگ بدر کے موقعہ پر بھی دیکھیں آپ کو یاد ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار سوال اٹھایا تھا کہ مجھے مشورہ دو۔ اور مہاجر جب بات کرتے تھے تو آپ توجہ نہیں دیتے تھے۔ مراد پھر یہی آخر پہ نکلی اور ظاہر ہوگئی۔ آپ اہل مدینہ کو اس عہد نامے کا حوالہ دے کر مشورہ مانگ رہے تھے کہ تمہیں حق ہے واپس لوٹنے کا۔ پس عین بیچ میں جو وہ واپس لوٹے ہیں۔ اس میں کہا تو یہ ہے۔ ہمیں باہر نکل کر لڑنا نہیں آتا۔ ہم نے سوچ لیا ہے اور یہی فیصلہ درست تھا کہ ہم پیچھے رہتے ۔ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ سفر کے دوران انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ ہم نے مشورے کئے ہیں اور آخر یہ بات نکلی ہے کہ ہمیں جو فن آتا ہے جس کے ہم ماہر ہیں وہ قلعہ بند ہوکر دفاع ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ عذر پیش کرتے ہوئے کفر کے زیادہ قریب ہیں ایمان کی نسبت۔ یقولون بافوھھم ما لیس فی قولبھم ان کے دلوں میں کچھ اور بات ہے اور وہ جو منہ سے کہہ رہے ہیں وہ اور بات ہے۔واللہ اعلم بما یکتمون اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اس بات کو جانتا ہے۔ اُن کے دلوں میں کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عمداً دھوکے کی خاطر انہوں نے یہ عذر وہاں پیش کیا۔ آغاز ہی سے بدنیتی سے چلے تھے ‘ اس بات کا بھی جواب آگیا کہ بعد میں پتہ لگا ہے اُن کو۔تواللہ تعالیٰ نے اُن کے اس عذر کو جھوٹا کہہ کر رد کیا۔ فرماتا ہے کہ اُن کی نیت بد تھی۔ اُن کی نیت یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر خوف وہراس پھیل جائے۔ اور بد دلی پیدا ہوجائے اور وہ کہیں کہ پہلے بھی ہم ہزار تھے۔ 1/3 حصہ تھے دشمن کے مقابل پر اور اوپر سے یہ تین سو بھی ساتھ چھوڑے جاتے ہیں اور اس سے جو ہر اس پھیل جاتا ہے اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچے۔ تو یہ مراد ہے کہ اُن کے دل میں یہ بات تھی اور منہ سے یہ کہہ رہے تھے۔ الذین قالوا لا خوانھم و قعدوا لو اطاعونا ماقتلوا۔ قل فادرؤا عن انفسکم الموت ان کنتم صدقین۔ یقینا وہ لوگ ۔ الذین قالو الاخوانھم یقینا وہ نہیں۔الذین یہ وہی لوگ ہیں یعنی منافقوں کی بات ہورہی ہے کہ اللہ منافقوں کو پہچان لے۔ تو منافقوں کی تشریح اگلی آیات فرما رہی ہیں۔ ہم تمہیں بتا دیتے ہیں۔یہ یہ علامتیں ہیں جن میں پائی جاتی ہیںوہی منافق ہیں۔ اُن سے باہر نکل کر تم کو کسی کو منافق قرار دینے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے بھائیوں بھائی بندوں سے کہنا چاہئے اخوان سے مراد اپنے بھائی بندوں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ انصار سے مراد ہے لیکن جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص‘ فدائی انصار تھے۔ اس سے تو یہ نہیں کرسکتے تھے تو بھائی بند کا ترجمہ غالباً زیادہ مناسب ہے۔ اپنے جیسے ہم پیالہ اور ہم مشرب لوگ۔
انہوں نے کہا قعدوا لو اطاعونا کہا اور بیٹھ گئے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ امام رازی ؒلکھتے ہیں کہ ایک مفسر نے وائوکو حالیہ قرار دیا ہے اور اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جنہوں نے یہ کہا جب کہ وہ خود بیٹھ رہے تھے یہاں قعد جب جنگ کے موقعہ پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہوتا ہے گھر میں بیٹھ رہنے والے۔ جو قتال کیلئے آگے قدم نہ بڑھائیں اور گھر بیٹھ رہیں۔ تو اُن کا یہ ترجمہ ہے۔ وقعدوا وہ ایسی حالت میں انہوں نے یہ بات کی جبکہ وہ جنگ سے گریز کرتے ہوئے گھروں میں بیٹھ رہے تھے۔ لو اطاعونا ماقتلوا۔ اگر وہ ہماری اطاعت کرتے تو مقتول نہ ہوتے۔ یا قتل نہ کئے جاتے۔ لیکن اس کا ایک اور بھی معنی بن سکتا ہے ۔ الذین قالوا لا خوانھم وقعدوا لو اطاعونا۔ یعنی کہا اور بیٹھ گئے۔ مگر اگر یہ ترجمہ کیا جائے تو سامنے موجود ہونے چاہئیں آدمی کہ اُن کو کہا اور پھر بیٹھ گئے تو اس لئے یہ ترجمہ امکاناً تو ہوسکتا ہے لیکن حالات پر اطلاق نہیں پاتا۔ اس لئے وہ ترجمہ جس کی طرف امام رازیؒنے اشارہ فرمایا ہے۔ وہی زیادہ معقول اور مناسب ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جبکہ وہ گھر بیٹھ رہے تھے۔ لو اطاعونا ماقتلوا اگر یہ ہماری بات مانتے تو میدان جنگ میں قتل نہ کئے جاتے۔ فادر ء وا عن انفسکم الموت۔ پس تم اپنے نفسوں سے تو موت کو ہٹاکر دیکھو ان کنتم صدقین۔ اگر تم سچے ہو۔ یہ جو دلیل ہے اس کے متعلق مختلف مفسرین نے سوال اٹھایا ہے کہ اس دلیل کے سمجھنے میںکچھ دقت آرہی ہے۔ دقت پیش ہورہی ہے‘ قتل اور چیز ہے اور موت الگ چیزہے۔ یہ تو وہ نہیں کہتے تھے کہ نہ ہم ہر قسم کی موت کو ٹال سکتے ہیں۔ وہ تو کہتے تھے کہ لڑائی کے متعلق ہم نے مشورہ دیا ہے۔ تم گئے تو مارے گئے نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا۔ قُل فادرء وا عن انفسکم الموت۔ بات قتل کی ہورہی تھی۔ خدا موت کی طرف بات کو لے گیا اور یہ فرمایا کہ تم موت کو ٹال کر دکھائو۔ اس مضمون کے اوپر میں دوبارہ واپس آئو ںگا۔ پہلے میں وہ مفسرین کی توجیہات آپ کے سامنے رکھتا ہوں
اقرب الموارد میں ویسے قعد کے مضمون میں بیان فرمایا ہے کہ یہاں لفظ قعد اُن کی حماقت اور بے وقوفی کی طرف بھی گویا اشارہ کرتا ہے۔ یعنی کھل کر نہیں کہا۔ مضمون اس طرح بیان کیا۔ کہتے ہیں۔ القعدۃ ۔ الحمار یعنی قعدۃ گدھے کو بھی کہتے ہیں۔ جو بیٹھ ہی رہتا ہے۔ بعض دفعہ گدھا جب بیٹھے تو پھر اٹھایا نہیں جاتا۔ جن کو تجربہ ہے گدھوں کے اصطبلوں کا۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ بڑی بیوقوف اور ضدی قوم ہے۔ جس موقعوں پر ایک دفعہ بیٹھ جائے اٹھتا نہیں وہاں سے۔ تو گویاکہ ایک ہلکا سا اشارہ اس بات کا بھی ملتا ہے کہ وہ گدھوں کی طرح وہاں بیٹھ رہے تھے۔ اور ہلنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ پھر اقعاد یا والقعاد بیماری کو کہتے ہیں۔ جیسے گٹھیا وغیرہ۔ یہ گھٹیا ہوتا ہے اور گھنٹیا بھی کہلاتا ہے۔شاید گھٹیا تو ہے ہی ناں۔ بعض لوگ گھنٹیا بھی لکھتے ہیں۔یہ درست ہے یا غلط ہمیں تو خطوں میں اکثر ملتا ہے۔ مجھے گھنٹیا کا مرض ہے دوائیں مانگتے وقت۔ ہاں امکان ہے دونوں شاید ہوں۔ گھٹیا تو بہرحال ہے ہی۔ فادر ء وا کا ترجمہ ہے دھکا دینا۔ بڑی شدت سے سختی سے کسی بڑی چیز کو دھکیل کر پرے کردینا اور اس کا معنی پھیلا دینے کے بھی ہیں اور اچانک ٹوٹ پڑنے کے بھی ہیں۔ تو فادر ئوا عن انفسکم الموت سے مراد یہ ہے کہ اپنے سے موت کو دفعہ کردینا‘ پھینک کے پرے کر دو۔ گویا کہ ٹال دو موت کو اگر یہ تمہیں اختیار ہے تو تمہیں طاقت ہے تو۔
امام رازی ؒ نے مختلف معنے اس کے لئے ہیں جو خاص یا مزید بات اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ امام رازیؒ نے لکھے ہیں کہ واحدی کہتے ہیں کہ جو وائو آئی ہے وہ حال کیلئے آئی ہے۔ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ یہ علامہ واحدی ہیں جنہوں نے اس کو وائو حالیہ قرار دیا۔ امام رازی یہ بحث اٹھاتے ہیں کہ کفار کے قول لو اطاعونا ماقتلوا کے جواب میں ہے۔ خدا قل فادر ء وا عن انفسکم الموت ان کنتم صدقین کیوں فرمایا۔ جن کو ترجمہ نہیں آتا۔ ان کی آسانی کیلئے تاکہ اس مضمون میں وہ ساتھ ساتھ رہے دوبارہ ترجمہ کردیتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دشمن کا قول بیان ہوا۔ لو اطاعونا ماقتلوا کہ اگر یہ جنگ احد میں شہید ہونے والے ہماری بات مان لیتے۔ اور گھروں میں بیٹھ رہتے۔ تو یہ وہاں قتل نہ ہوتے۔ امام رازی ؒ کہتے ہیں کہ اس کے جواب میں خدا نے یہی کیوں فرمایا۔ قل فادر ء و اعن انفسکم الموت۔ تو ان کو جواب دے کہ اپنے آپ سے موت کو ٹال کر دکھائو اگر تم سچے ہو۔ اس کا پہلی آیت سے کیا تعلق ہے۔ یہ سوال خود اٹھاتے ہیں۔ جواب یہ دیتے ہیں۔ یہ دلیل جو اللہ نے پیش فرمائی ہے۔ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتی۔ سوائے اس کے کہ ہم قضاء اور قدر کے معترف ہوجائیں۔ یہ اس لئے کہ جب ہم کہتے ہیں ۔ کوئی چیز بھی وجود میں نہیں آئی جب تک اللہ کی قضاء اور قدر نہ ہو۔ پس ہم اس لحاظ سے بات مان لیتے ہیں کہ کافر جب مسلمان کو شہید کرتا ہے تو اللہ کی قضاء کے تحت کرتا ہے اس طرح قتل اور موت کے مابین کوئی فرق نہ رہا۔ اور استدلال صحیح ٹھہرا۔ انہوں نے پناہ لی ہے عقیدہ تقدیر میں امام رازی نے۔
کہتے ہیں اس کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آتی اس اعتراض کے حل کی۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ قران کریم یہ فرما رہا ہے کہ موت خواہ بذریعہ قتل ہو‘ خواہ کسی اور ذریعہ سے آئے‘ ہر صورت میں وہ معین تقدیر کے تابع آتی ہے اور تقدیر کو تم ٹال نہیں سکتے خواہ وہ قتل کی موت ہو یا دوسرے ذرائع سے موت واقعہ ہو۔
منھج الصادقین میں بھی یہ بات لکھی ہے کہ نہ تو موت کا واحد ذریعہ قتل ہے نہ گھر میں بیٹھ رہنا موت سے نجات کا ذریعہ ہے۔ موت کے قتل کے علاوہ بھی بہت سارے سبب ہیں اور بعض دفعہ جہاد یا جنگ میں جانے والا تو بچ رہتا ہے اور گھر میں بیٹھ رہنے والا مرجاتا ہے۔ اس لئے منافقوں کا یہ کہنا کہ لو اطاعونا ماقتلوا۔ اگر ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرز عمل کی پیروی کرتے تو قتل ہونے یا مرنے سے بچ رہتے بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ یہ ا نکی دلیل درست نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے امام رازی ؒ نے جو سوال اٹھایا بڑا معقول اور مدلل ہے اس لئے اس بہانے سے یہ اعتراض ٹالنا یہ کوئی معقول بات نہیں۔ اس پر تفسیر روح البیان میں اور بحر محیط میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کو جھٹلایا اور فرمایا کہ قتل موت کی ایک قسم ہے۔ اگر تو اپنے اختیار سے موت کو اپنے سے دور کرسکتے ہو تو کرکے دکھائو۔ اب یہ بھی کوئی عذر بنتا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ قتل موت کی ایک قسم ہے۔ اگر تو اپنے اختیار سے موت کو اپنے سے دور کرسکتے ہو تو کرکے دکھائو۔ اب یہ بھی کوئی عذر بنتا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ قتل موت کی قسم ہے اس لئے موت ٹال کے دکھائو یہ بالکل بے محل جواب نظر آرہا ہے۔ جب تک اس کی حکمت کو آپ نہیں سمجھیں گے۔
اس وقت تک دل مطمئن نہیں ہوسکتا۔ اس جواب پر وہ سیدھی سادھی وہ بات کہہ رہے تھے کہ جنگ اُحد میںہمار ی نافرمانی کرتے ہوئے ہمارے مشورے کو رد کرتے ہوئے یہ لوگ نکلے اور دیکھ لو کیا ہوا۔ ہماری بات مانتے تو گھر بیٹھے رہتے۔ ہم بھی زندہ موجود ہیں۔ تو انہوں نے عملاً قتل کے ذریعہ موت کو دفع کر بھی دیا۔ جو گئے وہ مارے بھی گئے بظاہر اس لئے یہ دلیل بنتی نہیں ہے۔
زمخشری کہتے ہیں ’’فادرء و ا عن انفسکم الموت ‘‘ استہزاء کے رنگ میںہے۔ جوابی حملہ ہے۔ یہ تو قتل ہوئے تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم اتنے ہی قادر مطلق بنے ہوئے ہو۔ تو پھر اپنے آپ سے موت کو ٹال کے دکھائو۔کچھ اس میں معنے معقولیت کے آجاتے ہیں کہ اُن کے قتل پر ہنس رہے ہو۔ مرنا تم نے بھی ہے بالآخر۔ اور اتنے ہی تم قادر ہو موت کے اوپر توپھر قتل کی موت سے تو بچ گئے دوسری موت سے بچ کے بھی دکھادو۔ یہ معنے ہیں۔
حضرت مصلح موعود نے یہاں ایک اور معنے لئے ہیں۔ موت سے اور مصلح موعود کے جو قلمی نوٹ ہیں۔قاضٰ اکمل صاحب نے جو محفوظ کیے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ منافقوں کے مرنے اور تباہ ہونے کی پیشگوئی ہے اور فرمایا کہ تمہاری موت اور تباہی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہاں موت سے مراد عام روزمرہ کا مرنا نہیں۔ بلکہ وہ کہتے تھے مسلمان مارے گئے اور اُن کو جواب اللہ تعالیٰ دے رہا ہے کہ تم مارے جائو گے یہ ایک تقدیر ہے جو تمہارے خلاف لکھی جاچکی ہے۔ اس کو ٹال سکتے ہو تو ٹال کے دکھا دو۔ مضمون کے لحاظ سے درست ہے۔ مگر جو ظاہر سوال اٹھتا ہے وہ اس کا جواب اس لئے نہیں آتا کہ وہ ظاہری سوال پہلے اٹھے گا پھر اس کے بعد مزید نکات کی گفتگو ہوگی۔ سیدھا سادھا موقعہ پر تو یہ بات ہورہی تھی کہ یہ قتل کیوں ہوئے اس کا جواب میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت میں نہیں بلکہ اس سے اگلی آیت میں تھا اور اس طرف پتہ نہیں کیوں مفسرین کی توجہ نہیں گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیائٌ عندربھم یرزقون‘‘ کہ تم جو خدا کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُن کو مرد ہ نہیں کہہ سکتے۔ وہ مرے ہیں ہی نہیں۔ ’’بل احیائٌ عندربھم ‘‘ وہ تو اللہ کے حضور زندہ موجود ہیں۔یرزقون رزق دیئے جاتے ہیں تو اس آیت کے ساتھ ملا کر یہ دلیل مکمل ہوتی ہے۔ کہتے ہیں دشمن کہتا ہے کہ قتل ہوئے قتل کا کیا مطلب ہے مر گئے یہی مراد ہے نہ یہ قتل کے ذریعے مر گئے۔ تو جن کو وہ کہتے ہیں مر گئے وہ تو زندہ ہیں اور تم ہو جو مرنے والے ہو۔ اور تمہاری موت ایک دائمی موت ہوئی۔ جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ اور ان کی ظاہری موت جن کو تم موت کہہ رہے ہو۔ وہ ہمیشہ کی زندگی ہے ایک سے زیادہ معنوں میں وہ زندگی ہے۔ یہ ہے اصل دلیل جس کے بعد کسی عقلی اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ تو چونکہ مفسرین کی نظر اسی آیت کے دائرہ میں رہی ہے اور وہیں سے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس لئے اُن کی توجہ اس طرف نہیں مبذول ہوئی۔ کہ قرآن کریم کے بیان مربوط ہیں۔ ایک آیت کے بعد دوسری آیت اسی مضمون کو اٹھاتی ہے اس کی مزید تفصیلات بیان فرماتی ہے۔ نئے زاویوں سے پہلی آیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ ‘‘ اب ہم اس آیت میں داخل ہورہے ہیں۔’’امواتاً بل احیاء عندربھم یرزقون‘‘ جو لوگ اللہ کی را ہ میں قتل ہوئے۔ اُن کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ عندربھم یرزقون‘ اپنے رب کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں۔ ’’فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ ‘‘ وہ خوش ہیں۔ اُن کی خوشی دائمی ہے۔جو کچھ انہوں نے اللہ کے فضلوں کی صورت میں اپنے اوپر برستا دیکھا ہے اس سے وہ بہت راضی ہیں۔ و یستبشرون بالذین لم یلحقوبھم۔ اور ا نکے متعلق بھی خوشخبریوں کی توقع رکھ رہے ہیں جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ان کے پیچھے ہیں ۔ الاخوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ کہ اُن پر کوئی غم خوف نہیں ہوگا۔ اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔ ’’یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل و ان اللہ لا یضیع اجر المؤمنین ۔ وہ اللہ سے نعمت کی خوشخبریاں پاتے ہیں۔ و فضل اور اُسی کے فضل کی ۔ و ان اللہ لا یضیع اجر المومنین‘‘ اور یہ سارا مضمون یہ معنے رکھتا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر صغیر میں جو اس کا ترجمہ ہے وہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ کچھ تھوڑا سا ابہام ہے اس وقت۔ بہرحال اب میں بتاتا ہوں آپ کو عمومی تعارف سے پہلے اس آیت کے متعلق مزیدگفتگو سے پہلے۔ پہلے کچھ دیر ہم اس کی لغوی بحث میں جاتے ہیں۔ موت کے متعلق تو جیسا کہ عام فہم‘ سب عام فہم مضمون ہے سب جانتے ہیں کہ زندگی کے برعکس کو موت کہا جاتا ہے پھر موت میں اس کے علاوہ بہت سے مضامین داخل ہوجاتے ہیں۔ جیسے مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے اس کی مثال قرآن کریم سے دیتے ہوئے۔ غالباً امام راغب فرماتے ہیں۔ انک لا تسمع الموتیٰ‘ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ یہاں صرف قبروں میں پڑے ہوئے مردے مراد نہیں۔ بلکہ ان کی مثال دیتے ہوئے زندہ مردوں کی بات ہورہی ہے کہ جیسے قبروں میں دفن ہوئے تمہاری بات نہیں سنتے۔ جو جیتے جی مر جاتے ہیں اُن کو بھی تم کوئی بات سنا نہیں سکتے۔ یعنی سمجھا نہیں سکتے۔ پھر و یاتیہ الموت من کل مکان وما ھوبمیت ‘‘ کہ اُسے ہر طرف سے موت گھیرے میں لے لیگی۔ ہر طرف سے اس پر موت حملہ آور ہوگی ۔ وما ھو بمیت۔ لیکن پھر وہ مرے گا نہیں۔ لیکن گویا کہ اس کا وجود ہر وقت موت میں گھرا رہے گا۔ موت کے مزے چکھ رہا ہوگا۔ لیکن وہ موت نصیب نہیں حوگی۔ جو ان تکلیفوں سے نجات بخش دیتی ہے‘ پھر موت بمعنی نیند کا محاورہ عام ہے۔ ’’النوم موت خفیف و الموت نوم ثقیل‘‘ النوم اخت الموت کا محاورہ بھی عربوں میں رائج ہے کہ نیند موت کی بہن ہے۔ یہ کہتے ہیں موت نیند تعریف یہ کی جاتی ہے۔ نیند تو ہلکی موت ہے۔ اور جو مر جانا ہے اس سے مراد ہے بھاری موت۔ یتوفکم بالیل والی آیت کا حوالہ دے کر پھر اسی مضمون کو دہرایا گیا ہے‘ اس کے بعد بہت سی روایات ہیں جو مختلف مفسرین بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا۔ کہ جو شہداء ہیں ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر داخل ہوجاتی ہیں۔ اور وہ سبز پرندے اس طرح وہاں جنت میں پانی پیتے ہیں کوثر سے یا دوسری جگہوں سے۔ وہ تفصیل ہے ساری۔ وہ تمثیلات ہیں ساری۔ ان تمثیلات کو ظاہر پر معمول کرنے کی قرآن کریم اجازت نہیں دیتا۔ فرماتا ہے ’’ننشئکم فی ما لا تعلمون‘‘ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تمہیں اٹھائیں ایک ایسی صورت میں جس کا تمہیں کوئی علم نہیں۔ پس انہیں پرندوں کی صورت میں بیان کرنا ایک ظاہری طور پر تمثیل ہے۔ جیساکہ نعماء جنت سب تمثیلات ہیں۔ اس لئے بعض دفعہ مفسرین نے ان باتوں کو سُن کر عملاً یہی سمجھ لیا ہے کہ واقعتہً وہاں سبز پرندے ہیں۔ اُن میں روحیں بند ہوگئی ہیں تو وہ عجیب سی زندگی ہے ان بے چاروں کی۔ اچھے پھلے انسان کہلاتے تھے اور وہاں جاکے پرندے بن گئے۔ اور پرندوں کی طرح اُن کے پیٹ میں بیٹھ کر اُڑتے پھرتے ہیں اور پرندہ اپنی ذات میں الگ پرندے کے طور پر قائم ہے اور وہ اس کے پیٹ میں گویا قید ہیں۔ تو یہ ایسے شخص کے کلام کو جو بے حد فصیح و بلیغ ہے۔ اس کو ظاہر پر معمول کرنے کے نتیجہ میں نقصانات ہیں جو پہنچتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ سلم کا کلام کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ افصح و بلیغ ہے۔ پرندے میں اڑنے کا مادہ پایا جاتا ہے۔ بلند پروازی کی مثال کے طور پر پرندوں کی بات کی جاتی ہے۔ اور سبز لفظ میں تسکین اور آرام کے معنے پائے جاتے ہیں۔ یہ سبز رنگ کے اندر کچھ ایسی خصوصیات ہیں جنہیں دنیا کے سائنسدانوں نے بھی محسوس کیا ہے چنانچہ جو آنکھوں کے اور نظر کے ماہرین ہیں۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ اگر کائنات کیلئے جو زمین کیلئے کوئی رنگ چننا ہوتا کہ یہ رنگ دیا جائے اور انسان جو پوری طرح اس بات پر اس علم پر دسترس رکھے وہ چنتا تو سبز کے سوا کوئی نہ چن سکتا۔ کیونکہ آنکھ کا طبعی فوکس سبز رنگ پر ہے۔ اور جب وہ سبزے کو دیکھتی ہے تو جو طراوت محسوس کرتی ہے۔ اس لئے کہ اس وقت آنکھ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ کوئی جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ جو طبعی حال میں جیسا کہ آنکھیں بند کرنے کے وقت Relax حالت میں آنکھ پڑی رہتی ہے۔ اس پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ جب سبز رنگ کو دیکھتی ہے تو اس پر کوئی بوجھ نہیں۔ ہر دوسرے رنگ سے کچھ نہ کچھ بوجھ پڑتا ہے۔ تو سبز رنگ لینا تسکین کی علامت ہے۔ اور سبز کا روحانیت سے بھی تعلق بیان کیا جاتا ہے اور سبز پوش کے متعلق ہمارے لٹریچر میں بھی حوالے ملتے ہیں۔ بزرگ نیک شخص سبز لباس میں دکھائی دیتے ہیں حضرت خضر کو بھی سبز پوش قرار دیا جاتا ہے۔ تو وہاں پرندے سے مراد ہے۔ یہ لوگ بہت رفعتیں پانے والے ہیں اور اڑتے پھرتے ہیں گویا کہ اور دوسری طرف ان کو انتہائی تسکین میسر ہے اور یہ جو مضمون ہے یہ قرآن کریم کی آیت سے مطابقت کھاتا ہے۔ فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ۔ فرح کا مطلب ہوتا ہے ’’انشرح صدرہ و سرہ ‘ کوئی شخص کسی شخص کا سینہ کسی بات پرکھل جائے اور وہ اسے شرح صدر نصیب ہوجائے۔ اس سے فارح اور فرح کے الفاظ بھی نکلتے ہیں ۔ کسی لذت پر خوش ہونے والا۔ اور فرحین منفی معنوں میں بھی قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔ ایسے لوگ جو اتراتے پھرتے ۔ چھوٹی سی خوشی کی بات پہنچے تو اچھلتے کودتے ہیں یہ جو اچھلنا کودنا ہے یہ اس طبعی Relaxation اور تسکین کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔مومن کو بھی یہ تسکین نصیب ہوتی ہے اور چھوٹے دل والے لوگوںکو ۔ دنیا والوں کو بھی یہ تسکین ملتی ہے لیکن مومن باوزن اور باوقار ہوتا ہے۔ اسے جب دل کو تسکین ملتی ہے تو یوں اچھلتا نہیں پھرتا آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ اور جو دوسرے ہیں وہ غباروں کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ جہاں ہلکے ہوئے وہاں قابو سے بھی نکل گئے۔ تو اس معنے میں اس میں منفی معنی پائے جاتے ہیں‘ اس طریق پر اس میں منفی معنے پائے جاتے ہیں مگر ایک خاص Contact میں تھوڑ دے لوگوں کیلئے جب لفظ فرح استعمال ہوگا تو مراد یہ ہے کہ وہ چھوٹی خوشی پر بہت اچھلنے والے ہیں اور مومنین کیلئے جب استعمال ہوگا۔ تو ان کے وقار کے پیش نظر اس کے معنے یہ ہونگے کہ وہ اپنے آپے میں رہتے ہیں۔ اپنے وجود کو حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے دل پوری طرح تسکین پا جاتے ہیں۔ یستبشرون بنعمۃ من اللہ۔ کہتے ہیں ضیع اضاع الشیئٍ۔ اضاع کی بحث کیوں اٹھائی گئی ہے یہاں۔ جو ان سے ضائع ہوگا۔ ان معنوں میں؟ لا یضیح اجرھم میں۔ یستبشرون کی بحث اقرب کے حوالے سے اقرب کی روایتیں دی گئی ہیں مگر یستبشرون کا ذکر کرنے کی بجائے وہ یضاع والے حصے کو لا یضیع اجر المومنین۔مومنوں کا اجر وہ ضائع نہیں کرتا۔ اس پر حوالے دے دیئے گئے ہیں۔ لیکن ان کی ۔ (جسوال صاحب کی انگلی اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ایک منٹ کی ایک انگلی۔ اس لئے اب میں اجازت چاہوں گا) انشاء اللہ یہ ذرا تسکین ہم بھی ایک فرح کی حالت میں داخل ہوگئے ہیں۔ مستشرقین اور بعض ہمارے مسلمان بھائیوں کی طرف سے جو سخت دُکھ پہنچتا رہا ہے‘ تھوڑی دیر کیلئے ہمیں امن مل گیا ہے۔ یہ فرح کی حالت ہے۔ (انشاء اللہ کل پھر باقی گفتگو کریں گے)۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 22 رمضان المبارک
5 مارچ 1994 ء
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً ……………………فاخشوھم فزاد ھم ایمانا و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل O (آل عمران ۔ آیت 170 تا 174)
جولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ خیال نہ کرو۔ہرگز مردہ گمان نہ کرو۔
بل احیاء : بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ اپنے رب کے حضور انکو رزق دیا جاتا ہے۔
فرحین بما اتھم اللہ: اس سے بہت خوش ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا اپنے فضل کے ساتھ اور ان لوگوں کے متعلق بھی خوش توقعات رکھتے ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملے اور بعد میں آنے والے ہیں یا پیچھے رہ گئے ہیں۔
الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون:
کہ ان کے لئے کوئی خوف نہیںہے اور وہ کوئی غم نہیں کرینگے۔
یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل : وہ اللہ تعالیٰ سے نعمت اور فضل کی خوشخبریاں پاتے ہیں۔ یا توقعات رکھتے ہیں۔ و ان اللہ لا یضیع اجرا المومنین : اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کبھی مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔
وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا۔ من بعد ما اصابھم القرح : اس کے بعد کہ ان کو زخم پہنچے تھے۔ یا زخم لگ چکا تھا۔
للذین احسنوا منھم و اتقوا اجر عظیم: ان کے لئے جنہوں نے ان میں سے بہت اچھے اچھے کام کئے۔اور خدا کا تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔
یعنی وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے لئے لوگ اکٹھے ہوچکے ہیں۔ جمعیت بنا کر آچکے ہیں۔ پس ان سے ڈر جائو۔ فزادھم ایماناً: اس بات نے انکے ایمان کو اور بھی بڑھا دیا اور انہوں نے کہا:
حسبنا اللہ و نعم الوکیل : ہمارے لئے اللہ بہت کافی ہے اور ہمارا بہترین خیال رکھنے والا ہے اور بہترین نگران ہے۔
یہ جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ کیا ہے اس کے اوپر گفتگو کل شروع ہوچکی تھی۔
’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا‘‘
حسب کا لفظ جو ہے یہ حساب کے معنی رکھتا ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں محاسب حساب کرنے والا۔ اور ’’حسبان کے معنی ہیں حساب کے طور پر۔ یا حساب کیلئے ایک ذریعہ بننا کسی چیز کا جیسا کہ چاند اور سورج کے متعلق حسباناً کا لفظ استعمال ہوا ہے اور جب کہتے ہیں ’’تحسب‘‘ تو مراد یہ نہیں ہے کہ علم ہوجائے کسی بات کا۔ حسابی اندازے کو ’’تحسب‘‘ کہتے ہیں جس میں غلطی کا امکان بھی موجود ہے۔ بعض دفعہ ایک انسان ایک چیز کو گمان کرتا ہے۔ اور وہ ہوتی کچھ اور ہے۔ یعنی خیال میںکوئی اور چیز ہے۔ اس کے لئے بھی لفظ تحسب استعمال ہوتا ہے۔ یعنی تو یہ گمان کرتا ہے کہ یوں ہے حالانکہ یہ نہیں ہے۔
’’وتری الجبال تحسبھا جامدۃ و ھی تمر مر السحاب‘‘
موت کے متعلق کہتے ہیں کہ جو زندگی کا برعکس ہے اسے موت کہا جاتا ہے۔ قوت عاقلہ کے زائل ہونے کو بھی موت کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا تھا کل ہی کہ
’’انک لا تسمع الموتیٰ‘‘
تو مُردوں کو بات نہیں سنا سکتا۔
اموات : میت کی جمع ہے یعنی مُردے۔
اس کیلئے اور بھی کئی امکانات ہیں جو اس لفظ موت کے اندر داخل سمجھے جاتے ہیں جن کی بحث سردست یہاں بے تعلق ہے۔
فرحین کی بات ہوچکی ہے۔
یضیع : اضاع یضیع : ضاع یضیع ضیعا: فقد ھلک و تلف یعنی گم ہوگیا۔ ہلاک ہوگیا اور بے کار ہوگیا۔
اضاع الشیء : اھلکہ و اتلفہ : یعنی اسے ہلاک کردیا تلف کردیا۔
اضاع الرجل اضاعتہً: کثرت ضیاعہ یعنی اس کا بہت زیادہ نقصان ہوگیا۔ کسی شخض نے بہت نقصان اٹھالیا۔ اس کو بہت بہت نقصا ن ہوگیا۔ اس کے لئے اضاع کے Infinitive کو پھر دہرایا جاتا ہے۔
اس آیت کے متعلق بالعموم مفسرین اس روایت کو بیان کرتے ہیں جو جابر بن عبداللہ کی اپنے باپ کی شہادت سے متعلق ہے۔ اور اس کے علاوہ شہدائے احد کے متعلق اور بھی بعض روایات بیان کی جاتی ہیں۔ وہ جو روایت ہے اس میں جبرائیل عرض کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے میں تیرے باپ کے متعلق نہ بتائوں۔ پہلے تو پوچھا کہ تم پریشان کیوں ہو؟ میں تمہیں پریشان دیکھتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے والدؓ اھل و عیال اور قرض چھوڑ کر شہید ہوگئے ہیں۔ یعنی ایسی حالت میں شہید ہوئے کہ قرض تو رہ گیا اور بوجھ بھی رہ گیا باقی۔ اور ان کے دور ہونے کی صورت ہاتھ سے جاتی رہی۔ یہ اشارہ تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تجھے اس بات کی خوشخبری نہ دوں جو خداکی طرف سے مجھے ملی ہے۔ کہ جس طرح اللہ نے تیرے باپ سے ملاقات کی۔
میں نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ !
آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جس سے بھی گفتگو کی پردے کے پیچھے سے کی۔ لیکن تیرے والد کو زندہ کرکے بے حجاب گفتگو کی۔ اور فرمایا ! اے میرے بندے ! تمنا کر میں تیری تمنا پوری کرونگا۔ انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ مجھے زندہ کر تاکہ دوبارہ تیرے راستے میں جام شہادت نوش کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ وہ واپس نہیں جائیں گے یعنی روحیں واپس نہیں جائیں گی۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً۔
اس آیت کی شان نزول کہتے ہیں یہ ہے پہلے یہ واقعہ ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گویا ایک کشفی نظارے کے طور پر یہ بات دکھائی جاچکی تھی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ہے اس سے ان کی زندگی کے معنے سمجھ آتے ہیں کہ کن معنوں میں زندہ ہیں۔ منھج الصادقین میں یہ لکھا ہوا ہے جو شیعہ تفسیر ہے کہ اس آیت کی شان نزول حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی شہادت ہے جو غزوہ موتہ میں ہوئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رائیتہ لہ جناحان یطیر بھما مع الملائکۃ فی الجنۃ ‘‘
یعنی میں نے دیکھا ہے کہ جعفرؓ کے دو پر ہیں اور ان کے ذریعے وہ جنت کے باغات میں اڑتے پھرتے ہیں۔
تو دوسرے صحابہؓ کے متعلق جہاں موقعہ ہے جو واضح شہادتیں ملتی ہیں ان کو چھوڑ کر یہ ضرور کھینچتے ہیں دوسری طرف اور یہ محض رحجان ہے ان کا جو ظاہر ہوتا ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک اور روایت میں یہی الفاظ ملتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ میںتجھے خوشخبری نہ بتائوں۔ آپؐ نے جابرؓ بن عبداللہ سے کہا۔ کیا میں تمہیں اس معاملہ سے آگاہ نہ کروں جو اللہ تعالیٰ نے تیرے والدؓ سے متعلق فرمایا ہے۔ جو روایت میں نے پہلے پڑھی تھی اس میں اللہ نے فرمایا کے الفاظ نہیں تھے مگر میں نے بیان میں یہ شامل کئے تھے۔اس لئے نہیں کہ اس روایت میں اضافہ کررہا تھا۔ ان روایات کا مجموعی تاثر ہے جو میں آپ کو بتارہا ہوں۔ اور ویسے بھی عقلی بات ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات از خود منسوب کر ہی نہیں سکتے۔ جب بھی کوئی ایسی حدیث ہو جس میں خدا تعالیٰ کا فرمان شامل ہو تو یہ لفظ بیچ میں مذکور ہوں یا نہ ہوں۔ہمیں لازماً ترجمے میں یہ داخل کرنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ کو اس بات کی خبر دی تھی۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا ........یرزقونO
کہا گیا ہے کہ اس سے مراد احد کے مقتول ہیں۔ یہ تفسیر البحر المحیط میں ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بئر معونہ کے شہداء مراد ہیں۔ مولانا فرمان علی صاحب جو شیعہ مفسر ہیں قرآن کریم کے۔ وہ لکھتے ہیں یہ شہداء راہ خدا کا ذکر ہے۔ پھر ان کا وسیلہ چاہنا مردوں سے وسیلہ چاہنا کب ہوا؟ اس کے علاوہ متبرک اور مقرب بارگاہ الٰہی مردوں کو وسیلہ قرار دینے میں کیا نقصان ہے؟ خصوصاً پیغمبر یا امام جو ھادیان دین تھے۔
وہ اس آیت سے شرک کا پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ شیعوں میں ان علماء نے غلط ترجمے کرکے اور غلط معنی احادیث کے کرکے شرک رائج کردیا ہے۔ اور اپنے ائمہ سے یہ اس طرح مانگتے ہیںجیسے سامنے بیٹھے ہوئے کسی شخص سے مانگا جارہا ہے اور شہداء کے متعلق جو یہ آیت نازل ہوئی ہے اس سے یہ استنباط کرتے ہیں اور یہی حال بریلویوں کا ہے۔ اس معاملے میں بریلوی اور شیعہ مسلک بالکل ایک جیسا ہی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے جب ثابت ہوگیا کہ وہ زندہ ہیں تو پھر تمہارا یہ کہنا کہ ان سے کیوں مانگتے ہو؟ یہ شرک ہے! یہ بالکل غلط ہے ہر زندہ آدمی سے جیسے تم مانگے ہو ایک دوسرے کو مخاطب کرکے ویسے ہی ہم مانگ رہے ہیں۔ اس میں کونسا شرک ہوگیا۔ حالانکہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ
’’عندربھم ‘‘ کے لفظ نے بتادیا کہ وہ دنیا سے تعلق کاٹ چکے ہیں اور اللہ کے حضور حاضر ہوچکے ہیں اور ان کا تمہارے ساتھ معاملہ نہیں رہا۔جو جابر ؓ بن عبداللہ والی روایت ہے اس نے اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے اس روایت کو یہ بیان نہیں کرتے نہ اس کی بحث میں پڑتے ہیں۔ حالانکہ وہ نہایت قطعی روایت ہے اور اس میں کسی قسم کے کوئی شک شبہ کی گنجائش ہی کوئی نہیں۔ اسی لئے غالباً اس مضمون کو وہا ںسے ہٹا کر حضرت جعفرؓ کی طرف کھینچ کر لے گئے ہیں۔ حالانکہ موقعہ جنگ احد کا ہے۔ وہاں کے شہداء کی باتیں ہورہی ہیں۔ وہاں سے کسی اور غزوہ کی طرف لے کے جانا یہ کوئی معقول بات نہیں ہے۔ کوئی عقلی گنجائش ہی نہیں اس نے بات کی۔ وہاں ان کے اس دعوے کی تردید موجود ہے۔ یہ کہتے ہیں میر احمد علی صاحب نے بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ دیکھو جی ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم شرک کرتے ہیں۔ مقتولوں سے اور شہیدوں سے مانگ کر لیکن داراصل شہید کہتے ہی فوراً پھر ائمہ کا ذکر شروع کردیتے ہیں۔ بات شہادت کی چلتی ہے اور اسی سانس میں جیسا کہ آپ دوسری جگہ بھی شیعوں کی تفسیروں میں دیکھیں گے کہ یہاں سے سند لی اور پینترا بدلا اور مضمون کو شہداء کی بجائے ائمہ پر چسپاں کردیا۔ گویا کہ یہ آیت ائمہ کے متعلق نازل ہوئی ہے اور وہ بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح شہداء زندہ ہیں خواہ وہ شہید ہوئے ہوں یانہ ہوئے ہوں۔ یہ استنباط اس سے کیا جاتا ہے جس کی کوئی عقلی گنجائش نہیں۔ لیکن اس روایت میں جابر ؓبن عبداللہ والی روایت ہے اس میں یہ بات خاص طور پر ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ میں تجھ سے بہت راضی ہوں اور بے حجاب گفتگو فرمائی۔ تو یہ پوچھا کہ بتا تو کیا چاہتا ہے؟ میں تیری رضا تجھ کو دوں گا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا ! میری رضا یہ ہے کہ میں دوبارہ زندہ کیا جائوں اور میں پھر قتل کیا جائوںاور اسطر ح چلتا رہے تو اللہ تعالیٰ نے جبکہ عمومی وعدہ فرما لیا تھا اس کے باوجود اس دعا کو قبول کرنے سے انکار فرمادیا۔ یہ کہہ کر کہ ’’انھم الیہ لا یرجعون‘‘کہ وہ لوگ جو میری خدمت میں حاضر ہوگئے ہیں۔ وہ کبھی واپس اس دنیا کی طرف نہیں لوٹائے جائیںگے۔ اب ’’یرجعون‘‘ والی جو آیت ہے یہ صرف شہداء کیلئے خاص نہیں۔ بلکہ اکثر و بیشتر اس کا اطلاق عام مردوں پر ہوتا ہے۔ وہ قریہ جس کے اہل ہلاک کردئیے گئے۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے لکھ چھوڑا ہے۔ فرض کردیا ہے کہ وہ کبھی دوبارہ ان کی طرح واپس نہیں جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انکی زندگی کی نوعیت پر روشنی ڈال دی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات خوب کھول دی کہ ان کے زندہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنیا میں آتے جاتے رہیں گے اور رابطے رکھیں گے۔ بلکہ وہ ہیں زندہ روحانی معنوں میں مگر دنیا سے بہر حال قطع تعلق ہو چکے ہیں اور یہ خیال نہ کرنا کہ تم میں وہ گھومتے پھرتے رہیں گے جس طرح زندہ پھرتے ہیں۔ تو اس لئے یہ بہانہ کہ اس آیت سے مردوں سے مانگنا ثابت ہوتا ہے۔ بالکل جھوٹ ہے اور بے بنیا دہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے اس سے کیوں یہ استنباط نہ کیا انہوں نے کیوں مُردوں سے نہ مانگا۔ حضرت علیؓ نے حضرت رسول کریم ؐ سے کیوں نہ مانگا۔ کیونکہ سب سے زیادہ زندہ نبی تو محمد رسول اللہ ہیں۔ سب شہداء سے بڑھ کر زندہ ہیں۔لیکن ایک ادنیٰ سی روایت بھی نہیں ملتی کہ حضرت علیؓ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ہو۔ جب مانگا خدا سے مانگا اور بعد میں جتنے صحابہؓ آئے ہیں ان کا بھی یہی دستور تھا۔ ان کے ائمہ نے کبھی۔ جہاں تک میری نظر ہے۔ ہو سکتا ہے کہیں انہوں نے کوئی روایت جھوٹی داخل کرلی ہو تو الگ بات ہے مگر ان کے ائمہ نے کہیںنہ حضرت علیؓ سے مانگا نہ کسی اور سے مانگا۔ نہ آپس میں ایک دوسرے سے مانگا۔ اللہ سے مانگا ہے۔ یہ توحید خالص ہے اور شہادت جو ہے وہ توحید خالص کی گواہی ہے اصل میں۔ توحید خالص کی گواہی سے شرک نکال لینا یہ ظلم کی انتہا ہے۔ شہید تو اس کو کہتے ہیں جو گواہ بن جائے کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ساری دنیا میں ’’لا الہ‘‘ کا مضمو ن سمجھنے کے بعد اس کو ترک کردیا گیا اور ’’الا اللہ‘‘ کہہ کر اللہ کی طرف لوٹ گئے۔ اسی لئے ان کو شہید کہا جاتا ہے۔ یقین تھا کہ خدا ہے بلکہ دیکھ رہے تھے سامنے۔ اور دنیا کو تج کے دوسری طرف چلے گئے۔ اس آیت سے جو ’’شہادت توحید‘‘ ہے شرک کا معنیٰ نکالنا میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں حد سے زیادہ ظلم اور تاریکی ہے۔
باقی بہت سے مفسرین ہیں وہ جو سبز پرندوں والی روایات ہیں وہ اُن میں ہی الجھے ہوئے ہیں گویا روحیں اس طرح رزق دی جائیں گی کہ وہ خود نہ کچھ پی سکیں گی ۔ تواُن پرندوں کے پیٹوں میں رکھ دی جائیں گی جو پئیں گے۔حالانکہ یہ استعارے ہیں سارے اور ان کی پاکیزگی۔ ان کی بلند پروازوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن کی توجیہات لازم ہیں کیونکہ جو مادی تصور یہاں ملتا ہے وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔ اور اس کو اگر مادی بنانے کی کوشش کی جائے گی تو بہت سی الجھنیں اسلامی عقائد کے متعلق ہم سہیٹر بیٹھیں گے۔ اور پھر ان کا حل کوئی نظر نہیں آئے گا اور اسی لئے یہ دشمن اسلام اسی قسم کے رحجانات سے فائدہ اٹھا کر ہمیشہ اسلام پر حملے کرتا آیا ہے۔
یہ وہی روایتیں مل رہی ہیں ابن عباسؓ سے کوئی روایت ہے اس کو لیکر اکثر مفسرین کا رحجان یہی ہے کہ وہ سبز پرندوں میں پہلے بند کئے جائیں گے اور پرندے اڑتے پھریں گے اور وہ پھل کھائیں گے اور پانی پئیں گے۔ تو گویا یہ روحیں تو خود نہیںپانی پی سکیں گی۔ پرندوں کا پانی پینا ان کا پانی پینا ہوجائیگا۔ حالانکہ پرندے تو انہوں نے کھانے ہیں وہاں۔ کیونکہ قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے۔ ’’ولحم طیرمما یشتھون‘‘ کہ ان کو وہاں پرندوں کے گوشت ملیں گے اور جو وہ چاہیں گے اس کے علاوہ تو یہ سارے روحانی معنے ہیں لیکن جو ظاہر پرست ہیں ان کو میں پوچھ رہا ہوں۔ کہ وہ پرندے جب جنتیوں کیلئے ذبح ہونگے تو اندر سے کیا شہیدوں کی روحیں نکلیں گی؟
یہ احادیث کے معانی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اور ظاہر پرستی کے نتیجے میں یہ مشکلات ہیں جو اسلام کے لئے پیدا کرتے ہیں۔ اوروہ کیا کھائیں گے؟ اندر بیٹھے وہ ان کا گوشت کھا سکتے ہیں وہ بے چارے جو پرندوں میں بند ہیں۔ اُن کا کھانا اِن کا کھانا ہوگیا۔ اُن کا پینا اِن کا پینا ہوگیا۔ یہ بحر محیط کے مفسر ابوحیان لکھتے ہیں کہ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شہداء کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ وہ جنت میں رزق پاتے ہیں یہ بالکل برمحل ہے۔ وہ جسمانی طور پر تو واقعی مر گئے۔ اور ان کے جسم مٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی انہوں نے کھول دیا ہے کہ یہ تصور بالکل باطل ہے کہ ہماری تمہاری طرح زندہ ہیں اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے جسم مٹی ہوگئے مگر بالکل ممکن ہے کہ ان کی روحیں دوسرے مومنوں کی طرح زندہ ہوں اور جنت میں ان کو رزق دیا جاتا ہو۔ اس وقت سے لیکر جس وقت سے وہ مقتو ل ہوئے انہیں خلود حاصل ہوگیا۔ اس طرح گویا انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی انہیں ہمیشہ کی زندگی نصیب ہوگئی۔ یہ ایک معنے ہیں دنیاوی لحاظ سے بھی۔ حالانکہ جو تشریح کررہے ہیں اس میں تو کوئی دنیاوی لحاظ دکھائی نہیں دیتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے۔جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہورہا ہے۔
’’ولا تحسبن الذین قتلوا .........من فضلہ ‘‘
یاد رہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء ‘‘
یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندہ ہیں۔ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کی نسبت یہ گمان مت کرو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو رزق ملتا ہے۔‘‘
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا ہے کہ جلد زندہ کئے جاتے ہیں۔ اس کا اشارہ ایک حدیث نبوی کی طرف ہے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث ہیں ایک ہی نہیں کہ جب ایک انسان مرجاتا ہے تو اس کی روح کا خدا کی طرف لوٹنا کتنی دیر میں ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو انبیاء اور دوسری ایسی پاک روحیں جن کا دنیا سے تعلق کٹ چکا ہوتا ہے۔ تو ان کا تین دن کے اندر صعود ہوتا ہے۔ اور باقی جو مومنین ہیں ان کا چالیس (40) دن تک کے عرصے میں صعود ہوتا ہے۔
یہ حدیث اور بعض دوسری احادیث ہیں اور بعض آیات قرآنیہ ہیں جو اس مضمون پر روشنی ڈالنے والی ہیں۔ ان کی روشنی میں جب اس مسئلے کو دیکھا جائے کہ شہداء سے کیا ہوتا ہے؟ تو معاملہ سمجھنا اتنا آسان نہیں رہتا بلکہ بہت سی اس میں پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس موضوع پر کچھ مزید تفصیل سے آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں۔ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جب ’’صور‘‘ پھونکا جائیگا تو مردے جی اٹھیں گے۔ اور قبروں کو پھاڑتے ہوئے وہ تیزی کے ساتھ اس آواز پر دوڑیں گے جو ان کوجگانے کی یعنی دوبارہ زندگی عطا کرنے کی آواز ہوگی۔ ایک یہ بات ہے جو پیش نظر رکھنی چاہئے۔ اور یہ مضمون بڑی قطیعت کے ساتھ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ دوسری طرف یہ آیت جو شہداء کی معاً زندگی کی بات کرتی ہے ۔ یعنی مرنے کے بعد معاً بعد گویا وہ زندہ ہوگئے۔ تیسری طرف وہ حدیث جس میں انبیاء کی روحوں کے صعود کا ذکر ملتا ہے اور زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری سے تین دن بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو معاً کی بجائے چند دن ترجمہ فرمایا ہے وہ یہی حکمت ہے کہ جو آیات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں ان کا بہتر اور صحیح ترجمہ آپ ہی جانتے تھے۔ آپ ہی کوپتہ تھا کہ اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
پس جب کہا جاتا ہے کہ انکو مردے شمار نہ کرو وہ زندہ ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ وہ آیت کب نازل ہوئی ہے؟ جب یہ آیت نازل ہوئی ہے اس وقت قطعی طور پر وہ روحانی زندگی اختیار کرچکے تھے جس کا ذکر ملتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مزید آپ کو بات بتائوں کہ میر احمد علی صاحب کا خیال ہے کہ احمدی مفسرین یہاں پہنچ کر بالکل خاموش ہوجاتے ہیں ۔ ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ کچھ نہیں کہتے کیونکہ اس کے وہ روحانی معنے کر ہی نہیں سکتے۔ اس کا لفظی ترجمہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لئے اب بولتے کچھ نہیں۔
بولتے تو ہیں۔ تمہیں سنائی نہیں دیتا۔ کان کھول کے توجہ کرو تو شروع سے ہی جماعت احمدیہ کا یہی مسلک ہے کہ جب شہداء کی زندگی کی بات کی جاتی ہے تو وہ ان معنوں میں نہیں ہے جن معنوں میں عام انسان کی زندگی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتاکہ:-
’’عندربھم یرزقون‘‘
وہ اللہ کے حضوررزق دیئے جاتے ہیں بندوں میں کوئی رزق ان کو نہیں ملتا۔ ورنہ وہ لوگوں میں بھی آکر کھاتے پیتے ۔ اور مانگتے اور بیٹھ کر گپ شپ لگاتے۔ اور پھر ان کا وجود بھی مختلف ہے۔ ان کا جسم مٹی ہوا قبروں کے نیچے پڑا ہے۔ اس لئے احمدی شروع سے ہی ہمیشہ سے بلا استثنائ،بلا خوف یہی مسلک رکھتے ہیں کہ روحانی زندگی کی باتیں اور مرنے کے بعد کی باتیں اکثر انسان کی فکر کی پہنچ سے دور کی باتیں ہیں۔ اور جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ ہم تمہیں ایسی صورت میں اٹھائیں گے اور اس بات پر قادر ہیں کہ تمہیں اٹھائیں ۔ جس کا تمہیں کوئی شعور نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ پھر جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قرآن کریم میں کہ
’’عرضھا السمٰوٰت والارض‘‘
اس کا دائرہ اس کا محیط زمین و آسمان ہے۔ تو یہاں کونسی جنت یہ دیکھتے ہیں اگر ظاہری ترجموں پر اصرار ہے۔ تو ہماری آج کل کی یہ دنیا جو انسانوں نے جہنم بنائی ہوئی ہے یہی جنت بھی ہے۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم سمجھتے نہیں۔ صحابہ کو بھی یہ غلط فہمی ہونے لگی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور فرمادی۔ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ ! اس جنت کا عرض اور اس کا محیط تمام کائنات کے برابر ہے۔ آپؐ نے فرمایا : ہاں یہی قرآن کریم فرما رہا ہے۔ تو انہوں نے کہا پھر جہنم کہاں ہوگی؟آپ نے فرمایا یہیں ہوگی تمہیں شعور نہیں ہے۔ تو وہ باتیں جن کو قرآن اور حدیث کھول کر بیان کررہی ہیں کہ ان کو ظاہر پر محمول نہ کرو۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو تمہارے حواس خمسہ کی پہنچ سے باہر کی باتیں ہیں۔ ایسی کائنات کی باتیں ہورہی ہیں جن کی Dimensions مختلف ہیں۔ اس لئے تم ا نکو سوچ بھی نہیں سکتے جیسا کہ میں نے مثال دی تھی ایک اندھے کو لاکھ سمجھائیں آپ کہ سفید اور سرخ میں فرق کیا ہے؟ اور کالے اور گورے میں کیا تمیز کی جاتی ہے۔ کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ ساری عمر تقریریں کرتے رہیں اس کوکچھ سمجھ نہیں آئے گی۔ حالانکہ بڑے بڑے ذہین اندھے ہوتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے ان کی ذہانت پر۔ ان کی تیزی پر۔ ان کی یادداشت کی تیزی اور پختگی پر لیکن جو خدا نے بات ودیعت نہیں فرمائی وہ بندے کے اختیار سے باہر ہے۔ پس یہ بات ہے۔ وہاں کچھ اور ایسے حواس انسان کو عطا ہونگے جن کے نتیجے میں وجود کا تصور بدل جائیگا۔ لیکن جو بھی ہے اس بات پر ایمان لازم ہے کہ ’’عندربھم یرزقون‘‘۔
وہ زندہ ہیںان معنوں میں کہ انہیں ہوش آچکی ہے اور اپنے رب کے حضور وہ رزق دیئے جاتے ہیں۔ اب رہا باقی معاملہ کہ آیات قرآنی سے یہ جو ثابت ہے کہ مردے قبریں پھاڑ کر نکلیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جبکہ ان کو آخری صور کے ذریعے بلایا جائے گا۔ اور قرآن کریم یہاں تک فرماتا ہے کہ وہ جب اٹھیں گے تو یہ گمان کریں گے کہ ہم ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہے ہیں اور پھر آپس کی گفتگو بھی قرآن کریم نے محفوظ فرمائی ہے کہ ان کی باتوں سے یوں لگے کا کہ وہ پوچھیں گے کہ بھلا کتنے دن رہے؟ تو بعض کہیں گے چند دن۔ بعض کہیں گے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ۔ اور یہ بھی درست نہیں۔اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنا عرصہ رہے۔ تو یہ ساری باتیں ایک طرف۔ دوسری طرف شہداء کا اچانک زندہ ہوکر ان کے مانگنے پر عطا کردینا کچھ۔ یہ بالکل متضاد تصورات ہیں۔ اس مضمون کے متعلق میں نے تفصیل سے بعض دفعہ سوال و جواب کی مجالس میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن اس آیت کے ذکر میں مختصراً میں پھر آپ کو بتاتا ہوں کہ جو قرآن کریم کے مطالعہ سے مجھ پر مضمون کھلا ہے وہ یہ ہے اس میں اور بھی آیات ہیں جو پیش نظر رکھنی ہونگی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ولا خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ‘‘
کہ تمہاری پیدائش اور تمہاری بعثت دوبارہ جی اٹھنا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک نفس واحدہ پیدا ہوتا ہے۔ اس پر غور کرو۔ اس پر جب ہم غور کرتے ہیں تو شعور کے مختلف مدارج ہمارے سامنے ابھرتے ہیں اور ان مختلف مدارج کی روشنی میں شعور کی اتنی زیادہ سطحیں قائم ہوجاتی ہیں کہ اگر ایک سطح سے شعور کی ادنیٰ سطحوں کی طرف دیکھا جائے تو وہ لاشعوری کی حالت دکھائی دیگی۔ اور نچلی سطح سے اوپر کی سطح کی طرف دیکھا جائے تو جو دیکھنے والا ہے اس کو سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ شعور ہوتا کیا ہے نفس واحدہ کی مثال پر غور کریں پھر سارا مضمون کھُل جائیگا۔ نفس واحدہ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ ایک ماں کے پیٹ میں باپ اور ماں کے نطفے کے ملنے سے امتزاج سے ایک زندگی کی شکل ظاہر ہوتی ہے اور اس زندگی کی شکل میں اور اس بچے کی شکل و صورت اور تکمیل میں جو پیدا ہورہا ہے۔چیختا چلاتا‘ ٹانگیں مارتا باہر آگیا ہے۔ اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اتنا نمایاں فرق ہے کہ آدمی جتنا چاہے دماغ کو گھما کر دیکھ لے اس کو کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ اتنی بڑی تبدیلی ! یعنی وہ ذرہ حقیر اور ایسی چیز جس کو خوردبین سے دیکھو تب بھی اس میں کچھ دکھائی نہ دے۔ اس میں سے وہ چیز پیدا ہوگئی جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے ’’سمیعاً بصیراً‘‘ وہ اچانک سننے والا اور دیکھنے والا وجود نکل آتا ہے۔ تو ان دونوںکے درمیان کتنا بڑا بُعد ہے۔اور اس کے باوجود یہ قطعی بات ہے کہ وہی آغاز کی چیز اس نیک انجام کو پہنچی ہے۔ سوا ل یہ ہے کہ اگر بچے کی طرف سے دیکھا جائے تو اس آغاز کی چیز کا کچھ بھی شعور نہیں ہے لیکن اگر سائنس کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس چیز کا جواندر پل رہی ہے، ماں کے پیٹ میں پل رہی ہے۔ ہر لمحہ ایک شعوری لمحہ ہے۔ کچھ نہ کچھ احساس اس کا موجود ہے۔ جو ردعمل دکھاتا ہے۔ اور ہر بات جو ماں پر گزرتی ہے اور جو تبدیلیاں اس کے خون میں پیدا ہوتی ہیں اس کا اثر اس پر پڑتا ہے اور وہ اُس کے نتیجے میں ردعمل بھی دکھاتا ہے۔ یہ شعور رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے یعنی شعور کا اگربیج نہ ہو تو بڑھ سکتا ہی نہیں۔ موت تو ایک دم شعور نہیں بنتی۔ یہاں شعور سے آغاز ہوچکا ہے۔ اور وہ شعور رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہوا یہاں تک ترقی کرجاتا ہے کہ ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا چندمہینے پیدا ہونے میں باقی ہیں تو ماں جو غصے کی بات سنتی ہے بچہ اُس کا ردعمل دکھاتا ہے۔ چیخم چہاڑا پڑ رہا ہے کوئی خوف کا مقام ہے۔ تو بچہ ٹانگیں مارتا ہے اور بے چین ہوتا ہے اور پُرسکون باتیں سنتی ہے۔ محبت اور پیار کی باتیں سنتی ہے۔ تو وہ بچہ اس کا بہت ہی پیارا ردعمل دکھاتا ہے اسے تسکین آجاتی ہے۔ وہ آرام سے گویا Relax ہوگیا ہے۔ یہ تصویریں سائنسی آلوں کے ذریعے کھینچی جاچکی ہیں۔ یہ اب فرض کی باتیں نہیں رہیں۔ اس کے متعلق پوری گہری تحقیق ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ بعض مائیں جوپہلے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتیں اوراپنے بچوں سے باتیں کیا کرتی تھیں۔ ان کو لوگ پاگل سمجھتے تھے لیکن اب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ اسی لئے ماحول کو پاک صاف رکھنا چاہئے۔ میاں بیوی کو آپس میںلڑنا نہیں چاہئے۔ گندے خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور تربیت پیدائش سے پہلے شروع کردینی چاہئے۔مگر جو فرق ہے وہ میں آپ کو دکھا رہا ہوں کہ شعور موجود ہے لیکن جو اگلی بات قابل غور اور لطیف بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری نئی تخلیق کی مثال بچے سے دے کر ہمیں یہ سمجھایا کہ جس کو تم شعور سمجھ رہے ہو وہ پوری طرح بیدار بھی ہو تو اس شعور کے مقابل پر جو آئندہ جاکر تمہیں نصیب ہوگا۔ اس کی حیثیت بالکل ایسی ہے جیسی ایمبریو کی پہلی سٹیج یعنی بچے کی اپنی ابتدائی شکل اختیار کرلینے کی حالت کا فرق اس حالت سے ہے جو بچہ پیدا ہورہا ہے جو سمیعاً بصیراً کے طور پر پیدا ہورہا ہے۔ اب اس کو بھی شعور کہہ رہا ہے خداتعالیٰ۔ تمہارا مرنے کے بعد جو آغاز ہے۔ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تمہیں محسوس ہوگا تم موجود ہو۔ اگر یہ نہ ہو توپھر وہ حدیثیں کوئی معنے نہیں رکھتیں۔ جن میں عذاب قبر کی۔ یا قبر میں جنت کی کھڑکیوں کے کھلنے کی بات فرمائی گئی ہے۔ اگر احساس ہی نہ ہو اور اُس طرح کے مردے ہوں جیسے تصور کئے جاتے ہیں تو پھر تو وہ کسی چیز کو بالکل محسوس ہی نہیں کرسکتے۔ سوال کیسے پیدا ہوتا ہے کہ مرے ہوئے جسم ہیں اور جنت سے لطف اٹھا رہے ہیں یاہواؤں سے، جہنم کی گرمی کا دکھ محسوس کررہے ہیں۔ پس وہ جو بعثت ثانیہ ہے۔ وہ صُور جو پھونکا جائیگا اس پر جو شعور انسان کو نصیب ہوگا اُس کی کوئی تشبیہہ اس شعور سے نہیں دی جاسکتی اور وہ ایسے ہی ہوگا جیسے مردے زندہ ہوگئے ہوں۔ جس طرح بچہ جب پیدا ہوکر چیختا ہے اور ٹانگیں مارتا۔ اور مائیں اس سے کھیلتی اور لوگ اس کو اٹھاتے ہیں اور دلاسے دیتے ہیں۔ وہ کیفیت اور و ہ پہلے دن کے حمل کی جو شکل ہے وہ اگر اسقاط ہوجائے اس کا مقابلہ کرکے دیکھیں۔ اسے گلے لگا کر چمکار سکتے ہیں اس سے پیارکی باتیں کرسکتے ہیں اس کو تو کچھ پتہ نہیں اس کے مقابل پر۔ تو قیامت کے دن جی اٹھنا۔ اس نئے شعور کے ساتھ جی اٹھنا ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے۔
’’فبصرک الیوم حدید‘‘
یعنی ایسے شخص کو جس کو عذاب دیا جائیگا۔ اسے مخاطب کرکے فرمایا جائیگا۔ ’’اب دیکھ تیری نظر تیز کردی گئی ہے‘‘ یہ بھی ایک الجھائو والی بات ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے۔ ’’ومن کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الآخرۃ اعمیٰ‘‘ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اُس دنیا میں بھی اندھا اٹھایا جائیگا۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ اب پہچان لے کہ تو کیا کرتا رہا ہے۔ ’’فبصرک الیوم حدید‘‘
تیری نظر بہت تیزی کردی گئی ہے۔ جو پہلے تو نہیں دیکھ سکتا تھ وہ اب دیکھ سکتا ہے اور اسکی تکلیف محسوس کرسکتا ہے ان دو میں بھی بظاہر تضاد نظر آتا ہے۔ جو مرنے کے بعد کی باتیں ہیں ان کو اس طرح قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے تو ہم اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کا ایک اور معنیٰ لے لیتے ہیں۔ دوسرے پہلو پر روشنی ڈالتا ہے تو اس کا اور معنیٰ لے لیتے ہیں۔ اندھا جب کہا جاتا ہے تو اس سے مراد روحانی کیفیات سے لذت نہ حاصل کرنا ہے یعنی وہ تمام روحانی لذات جن کا رویت سے تعلق ہے خداتعالیٰ کی ہستی اس کی صفات۔ انکے حقیقی جلوے سے تعلق ہے۔ ان باتوںمیں کوئی شخص یہاں اندھا ہے تو وہاں بھی اندھا ہی اٹھے گا۔ یعنی اللہ کی رویت۔ اس کا جلوہ قریب آنے کی وجہ سے اس کو کوئی لذت نہیں پہنچا سکے گی۔ لیکن جہاں تک اپنی گندی باتوں کو دیکھنے کا تعلق ہے۔ اس دنیا میں بھی تو دیکھتا تھا ۔ ایسا اندھا تو نہیں تھا کہ اپنی غلیظ باتیں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اچھی باتیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ گندی باتیں دیکھنے کی اس کی نظر اور تیز ہوجائیگی وہاں۔ اور ان کا دکھ محسوس کریگا اور نیک باتیں دیکھ کر تکلیف محسوس کریگا کیونکہ اس کی لذت ان چیزوں میں نہیں ہے۔ پس اندھا ہونے کے معنی روحانی رویت سے اس دنیا میں استفادہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھنا اور اُس دنیا میں بھی مرنے کے بعد اس صلاحیت سے محروم اٹھنا۔ یہ مراد ہے۔ اور جہاں نظر کی تیزی کا تعلق ہے وہاں عذاب کے تعلق میں وہ چیزیں جو پہلے اس کو دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ جب دکھائی دینگی تو اس کے عذاب میں اضافہ ہوگا۔ اور وہ چیزیں اگر اچھی بھی ہیں تو جب انکا اچھا ہونا اس کو نظر آئے گا تو پھر اس کی تکلیف بڑھ جائیگی ان معنوں میں وہ اندھا نہیں ہے۔ اس لئے کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ دو مختلف حالتیں بیان ہورہی ہیں۔
’’آپ نے مجھے کہا تھا کہ ٹانگ سو جائے تو ٹیک لگالوں۔ دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نے بھی وہاں سے Fax بھیجی تھی کہ یہ جو ٹانگیں سونا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ ٹیک لگائی جائے۔ اس سے دبائو کم ہوجاتا ہے شریانوں پر۔ تو یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لیتے ہیں.......‘‘
حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی تفصیل سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے مگر ان کا مطالعہ میرا خیال ہے صرف ملک غلام فرید صاحب کے نوٹس تک ہوگا : کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ احمدی بالکل خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ اُن کے مطلب کی بات اس سے نہیں نکلتی۔ اور ہم جو ظاہر پرست ہیں اور ظاہری ترجمہ کرتے ہیں ان کو یہ آیت تقویت دے رہی ہے۔ یہ مضمون ہے جو وہ بیان کررہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہاں قومی زندگی کی بحث بھی ہو رہی ہے۔
’’ولا تحسبن الذین قتلوا ........ عندربھم یرزقون‘‘
کہ یہ شہداء ہی ہیں جن کی وجہ سے قومیں زندہ رہتی ہیں۔ او رجو لوگ دنیا کی موت مرجاتے ہیں۔ وہ خود بھی ہمیشہ کیلئے فنا ہوجاتے ہیں اور ان کی قومیں بھی مٹنے لگتی ہیں اگر یہ رحجان قوموں میں پایا جائے۔ لیکن جو اعلیٰ مقاصد کیلئے جانیں دیتے ہیں ان کے نام ہمیشہ زندہ رہتے ہیںاور ان کی برکتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ وہ اپنے آنے والوں کی نعمتوں میں زندگی پا رہے ہوتے ہیں اور اسی لئے حضرت مصلح موعودؓنے خلف والی آیت کا ترجمہ شہداء کا نہیں فرمایا بلکہ جس طرح دوسرے مفسرین نے بھی لکھا ہے اس سے مراد پیچھے رہنے والے لوگ خواہ وہ بعد میں شہید ہوں یا نہ ہوں وہ سب ہیں تو یہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیر فرمائی ہے اپنے نوٹس میں جس کومیں develope کررہا ہوں کہ مراد یہ ہے کہ ان شہداء کو دو خوشخبریاں ملتی ہیں۔ ایک وہ خوشخبری جس میں وہ خود لذتیں پارہے ہیں اور ان کا شعور یہاں کے شعور سے کم نہیں ہوا۔ اگرچہ وہ آخری شعور جس کی میں بات کررہا ہوں وہ بہت بعد میں نصیب ہوگا ۔ اتنا بعد میں نصیب ہوگا کہ جب وہ شعور نصیب ہوگا اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو ان کو یوں لگے گا کہ جیسے دنیا ایک روزہ یا اس سے بھی تھوڑی تھی۔ چند گھنٹے کی زندگی تھی یا چند ساعتوں کی زندگی تھی۔ اس سے آج اور اس وقت کے درمیان فاصلے کی نشاندہی ہورہی ہے۔ آپ پرانی باتوں کو اپنی یادداشت میں ڈھونڈ کر دیکھیں۔ گزرے ہوئے زمانے پر نظر ڈالیں۔ جتنی دیر کی بات ہوگی اتنا ہی وہ وقت چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور ہماری یادداشت بھی اس وقت کے متعلق سکڑتی جاتی ہے ساتھ ساتھ۔ اب بچپن کا زمانہ اتنا مزیدار ہمارے بچے ہمارے سامنے گزار رہے ہیں لیکن جب یہ بڑے ہونگے تو انکو بچپن کی تھوڑی سی باتیں یاد ہونگی اور وہ بچپن کا سارا زمانہ یوں چُٹکی میں گزر گیا ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اتنی بعد کی بات ہے کہ وہ لوگ جب گزشتہ عمروں کو دیکھیں گے اور اس دنیا میں اپنے وہ جو دور انہوں نے کاٹا اس پر نظر ڈالیں گے توان کو اتنا چھوٹا دکھائی دے گا جیسے عظیم ستارے چھوٹے چھوٹے ایک مٹھی بھر یا اس بھی چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ تو یہ فاصلوں کی بات ہے خواہ وہ زمانے کا فاصلہ ہو یا مکان کا فاصلہ ہو۔ جو جتنی دور چیز ہو اتنی چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ تو شہداء کے متعلق بھی یہ مضمون پیش نظر رکھ کر اب میں واپس حضرت مصلح موعود ؓ کی بیان فرمودہ تفسیر کی طرف آتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیںکہ قوموں کی زندگی شہداء کی زندگی سے وابستہ ہے اور ان کو ایک خوشخبری نہیں ملتی بلکہ دوسری خوشخبری بھی ملتی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ تم ہو جن کی وجہ سے پچھلوں کے خوف دورکئے گئے ہیں۔ تم ہو جن کی وجہ سے تمہارے پچھلوں کو امن نصیب ہوا ہے۔ اگر یہ شہید راہ حق میں جانیں نہ دیتے تو ان کے پچھلے رہنے والوں کیلئے کوئی امن کی جگہ نہیں تھی۔ وہ دنیا سے نیست و نابود کردیئے جاتے۔ پس ان کی زندگی کا فیض‘ عظیم فیض ہے کہ جوان کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان کو بھی پہنچ رہا ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور وہ دراصل اُن کے دم قدم سے زندہ ہیں۔ بہت ہی اہم۔ بہت ہی گہرا۔ بہت ہی لطیف معنیٰ ہے جس کی طرف حضرت مصلح موعودؓ نے توجہ دلائی ہے۔ اور ایسا راز ہے جس کا تمام قوموں کی زندگی سے تعلق ہے۔ یعنی صرف دینی پس منظر میں ہی نہیں بلکہ دنیاوی پس منظر میںبھی قوموں کی زندگی کا راز اس میں ہے کہ جو زندہ ہیں وہ ان کو زندہ رکھنے کیلئے جو ان کے پیچھے ہیں اپنی جانیں قربان کردیں۔ ان کو تو کوئی دوسرا اجر نہیں ملتا مگر اس دنیا کا اجر ان کو مل جاتا ہے۔ ’’فی الدنیا حسنۃ‘‘ وہ ضرور پا جاتے ہیں۔ ان کے نام بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کی قربانیوں سے انکے پیچھے رہنے والے زندگی پا جاتے ہیں یہ تو درست ہے لیکن مومن کو آخرت کا اجر بھی ہے۔ اس لئے دو دفعہ اس ’’تبشیر‘‘ کا ذکر ہے۔ ایک دفعہ اپنے لئے۔ دوسری دفعہ پیچھے رہنے والوں کیلئے۔
اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین و عن الشمال قعید O
کہ جب دو ریکارڈ کرنے والے فرشتے جو ہر انسان کا اعمال نامہ ریکارڈ کرتے ہیں: عن الیمین وعن الشمال۔ یعنی اس کے دائیں طرف سے بھی یعنی اس کی نیکیاں بھی ریکارڈ کی جاتی ہیں اور اس کی بائیں طرف سے بھی یعنی اس کی بدیاں بھی ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ وہ جب اس کام پر قعید یعنی مستعد بیٹھے ہونگے۔
’’ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘
کوئی بھی وہ شخص ۔ کوئی جان کوئی روح ایسی بات نہیں کرتی مگر اس کے پاس اسکے نگران بیٹھے ہوئے ہیں ہروقت۔
و جاء ت سکرۃ الموت ذلک ما کنت منہ تحید :
پھر موت کی غشی کا وقت آجائے گا جبکہ موت کی غشی طاری ہوتی ہے اور یہ یقینا حق ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ذلک ما کنت منہ تحید یہ وہ چیز ہے جس سے تو اپنے آپ کو بچاتا پھرتا اور الگ رہتا تھا۔
یعنی تحید کا مطلب ہے کسی ڈر سے ہٹ کر کسی ایک کونے میں چھُپ جانا ‘ الگ ہوجانا۔ فاصلہ پیدا کرنا۔
’’و نفح فی الصور ذلک یوم الوعید‘‘
اب یہاں سے وہ صور والی بات شروع ہوگی۔ صُور پھونکا جائیگا اور یہ وہ وعید ہے جس میں خدا کے دشمنوں کو یاکافروں کو ان کے اعمال کی سزا دی جائیگی۔ اور اس کا وعدہ کیا گیا ہے اُن سے۔
’’وجا ء ت کل نفس معھا سائق و شہید‘‘
اور ہر آدمی کے ساتھ اس کا سائق جو پیچھے سے ہانک رہا ہے اس کو۔ وہ بھی آرہا ہوگا اور شہید اور اس کے گواہ بھی ساتھ چلیں گے یعنی آخرت کا جو نقشہ ہے اُس میں جیسے ان کو پیچھے سے ہانک کرلے جایا جارہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ گواہی دینے والے بھی چل رہے ہیں۔
لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطا ء ک فبصرک الیوم حدید O
یہ وہ آیت ہے جس کی طرف میں اشارہ کررہا تھا۔ کہ تو اس بارے میں پہلے غفلت میں تھا فکشفنا عنک غطا ء ک: ہم نے تیری آنکھ کا پردہ ہٹادیا۔ دُور کردیا۔فبصرک الیوم حدید اور تیری نظر اب بہت تیز کردی گئی ہے۔
یہ میں بتا رہا ہوں کہ اس کا تضاد ومن کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الآخرۃ اعمیٰ‘‘ سے نہیں ہے۔بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ روحانی لذتوں سے جیسے اس دنیا میں اندھے ہیں ویسے ہی آخرت میںبھی اندھے رہیںگے۔مگر عذاب کے معا ملے میں اس دنیامیںپورا انکو پتہ نہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں اور اس کے عذاب کی ’’کُنہ ‘‘سے غا فل ہیں۔اس کی ماہیت سے غا فل ہیں۔ان کی نظر تیز کی جائیں گی۔وہاں اُس بارے میں اندھے نہیں ہونگے وہ اس معاملے میں ان کی نظریںتیزکردی جائینگی۔آنکھوںسے پردے اتارے جائیں گے۔اوروہ جہنم‘ جہنم کے طور پر دکھائی دیگی جبکہ اس سے پہلے ایک نیم ابہام کی صورت میں دکھائی دیتی تھی۔ کہ شاید ہو شاید نہ ہو۔ تو یہ ہے وہ آخرت کا مضمون جس میں کئی جگہ مختلف مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے اگر اکٹھا ان پر غور نہ کیا جائے تو بعض دفعہ لوگوں کو تضاد دکھائی دیتا ہے۔
’’فرحین بما آتھم اللہ ولا ھم یحزنون ‘‘: یہ کہ وہ اپنے پچھلے رشتہ داروں سے خوش ہیں کہ اُن پر کوئی خوف اور حزن نہیں۔ یہ حضرت مصلح موعودؓ نے ترجمہ کیا ہے ’’پچھلے رشتہ داروں سے‘‘ لیکن اس آیت کے سیاق و سباق سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ دوسرا ترجمہ بھی جائز ہے کہ وہ اُن لوگوں کے بارے میں خوشخبریاں حاصل کرتے ہیں جو شہید ہوکر بعدمیںاُن سے ملنے والے ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نے تین ترجمے اس کے پیش کئے ہیں ۔یہ کہ وہ اپنے پچھلے رشتہ داروں کے متعلق خوش ہیں کہ اُن کے مرنے کے بعد ان پرحقیقت کھل گئی ہے۔ان کے پچھلوں پر کوئی غم یا ترقیات حاصل کریں گے مرنے کے بعد ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کو آئندہ بھی بہت سی فتوحات حاصل ہونگی۔ تو خلف سے مراد وہ سارے لوگ اور اُن کی آئندہ آنے والی نسلیں ہیں۔مرنے سے پہلے ان کو اتنا وضاحت کے ساتھ ان کے نیک انجام کی خبر نہیں تھی۔ شہادت کے بعد ان کو خوش کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ ان کے آئندہ حالات اُن پر روشن فرمائے گا اور یہ مضمون ایسا ہے جیسے کسی کو غم پہنچے تو اس کو تسلی کی خاطر انسان اچھی چیزوں کی طرف اس کی توجہ مبذول کرتا ہے۔ یہ اپنے پیچھے عزیز چھوڑ کے آئے ہیں اور بہت سے پیارے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اُن کا اُن کو لازماً احساس ہوگا اگر ان کا شعور بیدا رہے یا پہلے سے کچھ بڑھ کر بیدار ہوگیا ہے۔ تو انکی تسلی کیلئے بتایا جارہا ہے کہ جن کو تم پیچھے چھوڑ کے آئے ہو وہ اللہ کی حفاظت میں ہیں۔ ان کا خدا نگران ہے اور یہ مضمون حضرت جابر بن عبداللہؓ کے سوال کا جواب معلوم ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ نے آنحضرت ؐ سے یہ عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ! وہ شہید ہونے والا اپنے پیچھے بہت سے بچے چھوڑ گیا ہے اور قرضے چھوڑ گیا ہے۔تو ان کو جو خوشخبری دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ اُس خوشخبری کے علاوہ قرآن کریم نے کچھ اور باتیں اس سلسلے میں بیان فرمائیں اور یہ بیان کیا ہے کہ وہ جو تم سمجھتے ہو کہ پچھلے جو رہ گئے ہیں ان کا کہ کون پُرسان حال ہوگا۔ ان کا پُرسان حال اللہ ہے۔ اور اُن جانے والوں کو تسلی دے چکا ہے۔ اور وہ بہت خوش ہورہے ہیں کہ ہمارے بعد ان کے حال ہماری موجودگی کی نسبت بہتر ہوجائیں گے اور یہ وہ امر واقعہ ہے جس کا تعلق انفرادی اور خاندانی دائروں سے بھی ہے اور وسیع تر قومی دائرے سے بھی ہے۔ وہ لوگ جو پیچھے شہیدچھوڑ کے جاتے ہیں اگر وہ واقعتہً شہید ہیں اللہ کی راہ میں تو ان کے خاندانوں پر بڑے فضل نازل ہوتے ہیں۔ احمدی شہداء کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے خاندانوں نے کتنی ترقیات کی ہیں۔ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اور بہت سے اُن میں سے ایسے ہیں جو جانتے ہیں کہ یہ فیض ہمارے بزرگوں کی شہادت کا ہے جو ہم کھا رہے ہیں اور اس بارے میں جب بھی اُن سے کبھی کوئی بات ہو یا کبھی خط و کتابت میری چلتی ہے تو ہمیشہ اس بیدار شعور کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اوران کیلئے بھی دعائیں کرتے ہیں جن کی شہادت کا فیض وہ کھا رہے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ؓ صاحب شہید۔ ان کے خاندان کے اکثر افراد سے میری ان سے خط و کتابت بھی ہے۔ تعلقات ہیں۔ اُن میں بہت شدت کے ساتھ جذبہ بیدار ہے کہ جتنی برکتیں ہمیں ملی ہیں وہ اُسی شہادت کی ہیں۔ اور یہی ہے جو آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ اُن شہیدوں کی زندگی کی تم بات کرتے ہو وہ تو پچھلوں کو بھی زندہ کر گئے ہیں۔ خود تو زندہ ہیں ہی اپنے پچھلوں کو بھی زندہ کر گئے اور ان کا فیض جو ان کو پہنچے گا ۔ خدا ان کو بتا چکا ہے کہ تمہارا فیض ہے جو پچھلی نسلوں کوپہنچنے والا ہے جوپہلے سے بہت بہتر حال میں ہوجائیں گے۔ اس لئے ان کے بارے میں کوئی غم نہ کرو۔
قومی لحاظ سے اس طرح کہ قومیں بھی شہادتوں کے پھل کھاتی ہیں اور جو اسلام کو ترقیات نصیب ہوئی ہیں۔ آنحضرت ؐ کے وصال کے بعد اُن میں تیزی آئی ہے۔ بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ بعد کی جو جنگیں ہیں وہ بہت اچھی جنگیں ہیں۔ قادسیہ کی جنگ میں یہ ہوا اور فلاں جنگ میں یہ ہوا۔ حالانکہ یہ آیت ہمیں بتا رہی ہے کہ ان زندوں کے فیض ہیں جو خدا کے حضور میں حاضر ہوئے ہیں۔ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی جانیںپیش کرکے قوم کو زندہ کرگئے اور وہ جو زندگی ہے اس کا رزق ان کو وہاں ملتا ہے اور اس دنیا میں جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کو یہاں رزق ملتا ہے اور قومی لحاظ سے بھی زندگی کا راز اسی بات میں ہے۔ اسی تعلق میں یہ ضروری ہے کہ شہداء کے خاندانوں کا خیال رکھا جائے۔ جماعتی طور پر ایسا ہو۔ کیونکہ جب خدا کہتا ہے کہ میں ذمہ دار ہوں تو خدا کی جماعت بھی ذمہ دار ہے اور اس کا فرض ہے کہ پیچھے رہنے والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ لیکن اس ضمن میں بعض دفعہ کچھ تکلیف دہ تجربے بھی ہوتے ہیں۔ جماعت کا یہی مسلک ہے اور ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہاں تک کہ احمدیوں کے علاوہ بھی جو نظر آتا ہے کہ نیکی کے کام میں شہید ہوئے ہیں اور خدا کی خاطر مارے گئے ہیں ۔ خواہ وہ اس معاملے میں بے اختیار بھی ہوں یعنی ان کا مرنا اس وجہ سے ہوا کہ وہ بھاگ ہی نہیں سکتے وہ مجبور ہیں۔ تب بھی جماعت اُن پسماندگان کا خیال رکھتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو علماء نے اُبھارا اور Excite کرکے جانیں دینے پر آمادہ کردیا۔ وہ جب مرگئے بیچارے یا شہید ہوگئے تو انکے پسماندگان کا کچھ حال ہی نہیں پوچھا۔ جماعت اللہ کے فضل سے ان تک بھی پہنچتی ہے اور کشمیر میں جو خدمت ‘ جماعت سرانجام دے سکتی ہے وہ یہاں ۔۔ تک ہے اور بمبئی (Bombay) کے فسادات میں بھی جماعت نے ایسا کیا۔ بہار کے فسادات میں بھی ایسا کیا اگرچہ اس کا بدلہ الٹ دیا گیا۔ اور بمبئی میں جہاں جماعت نے تنہا یہ خدمت کی کہ پسماندگان کو جب جاکے پوچھا تو انہوں نے کہا تم کہاں سے آگئے ہو؟
جن کے نام پر ہم مارے گئے تھے انہوں نے پوچھا ہی نہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارا حال کیا ہے؟ لیکن ایک دن جب یوم تبلیغ منایا تو بڑا اس پر مولویوں نے اشتعال دلایا۔ احمدیوں کو اغواء کرکے ان کو اتنا مارا گیا کہ گویا مردہ کرکے چھوڑ گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو نئی زندگی بخشی۔ اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں تو ان کو ملے گی ہی ! تو یہ میں بتا رہا ہوں کہ ہمارا جو یہ فعل ہے یہ بندوں کی خاطر نہیں ہے۔ ہمیں تجربہ ہے ایسے ہوتا ہے۔
کشمیر میں بھی جو ان کے کیمپ ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولوی سے نظر بچا کر جس حد تک ممکن ہے ہم خدمت کررہے ہیں اور ایسی جگہوں سے بھی ان کو مدد پہنچا رہے ہیں کہ اس کا وہاں ذکر ہی کوئی نہیں ملتا۔ وہاں کی تاریخ میں وہ لکھی نہیں جائیگی بات۔ مولوی کی نظر بچانا کیوں ہے؟ اس لئے نہیں کہ ہم مولوی سے ڈرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ مولوی کے شر سے اُن کو بچانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ واقعات بھی بارہا گزر چکے ہیں۔ کراچی میں ہمارے خدمت خلق کے موبائل ہسپتال ایسی جگہوں پر پہنچے جہاں اُن لوگوں کو پوچھتا کوئی نہیںتھا۔ جب وہاں جماعت نے وہاں خدمت کا کام شروع کیا تو کچھ دیر کے اندر اندر مولویوں کی Vans حرکت میں آئیں ان کو روکنے کیلئے اور جماعت کے خلاف اشتعال پھیلانے کیلئے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ تو کہتے رہے کہ ہماری خدمت کرو‘ مگر مولویوں نے حالات ایسے کردیئے کہ حکومت نے مجبور کرکے جماعت کی وہ خدمتیں روک دیں۔تو ہمیں جو ڈر مولوی کا ہے وہ صرف مولوی کے شر سے انکے ساتھیوں کو بچانے کاڈر ہے ورنہ مولوی کا ڈر تو کوئی نہیں! مولوی توجو مرضی کرلے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھانا ہی بڑھانا ہے !!!
اور اللہ کے فضلوں کی راہ تو مولوی نہیں روک سکتا۔ ابھی حال ہی میں اس کی ایک مثال ہے۔ بوسنیا میں جو خدمت کی گئی ۔ اس وقت بھی یہ خطرے کا تھا کہ یہ پروگرام سنتے ہی مولوی دوڑیں گے اُس طرف۔ اور کچھ نہ کچھ فتنہ مچائیں گے چنانچہ ابھی ہفتہ دس دن پہلے کی بات ہے وہاں سے تفصیلی خبر ملی ہے کہ ہمارے جانے کے بعد اُن کیمپوں میں جہاں کسی کی نگاہ ہی نہیں پڑتی تھی کبھی۔ اُن کیمپوں میں بہت سے مدد کرنے والے پہنچے ۔کوئی سعودیہ کی طرف سے کوئی کسی اور کی طرف سے اور انہوں نے ہلہ بول دیا اُن کیمپوں پر مدد کا۔ بعضوں کے باقاعدہ ہفتہ وار وظیفے مقرر کردیئے اور اس ساری بات پر یہ ہنستے رہے اور ان Bosnians نے ہمیں یہ اطلاع کی ہے۔ کہ ہم نے کہا اچھا ہوا احمدیوں کی مدد سے ان کو بھی تو ہوش آئی۔
(بیچ میں چند جملے ریکارڈ نہیںہوئے)
ان کی قربانیوں کا فیض ہی تھا جو کشمیر میں ایک نیا انقلاب برپا ہوا ۔ جس سے ڈوگرہ راج کے مسلمانوں کو نجات ملی۔ وہ تحریک ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے تھی ۔ اس پہلو سے اس میں پاکستان اور ہندوستان کی بحث نہیں ہے۔ خالصتہً اسلام کی خاطر تھی۔ مجبور مسلمانوں کے دفاع میں تھی اور حقیقی معنوں میں جہاد کا رنگ رکھتی تھی۔ اب بھی جہاں تک حقوق انسانی کا تعلق ہے۔ جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے وہ اگر اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں تو اسے ملک سے بے وفائی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہندوستان کی حکومت جو چاہے کر لے جو چاہے معنے کر لے اس بیان کے۔ مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حق کی خاطر ‘ صداقت کی خاطر جو انسان کوشش کرتا ہے جو جدوجہد کرتا ہے ۔ اس کے مختلف دائرے ہوسکتے ہیں۔ مختلف شکلیں بن سکتی ہیں مگر اگر وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد ہو تو اُسے ملک میں فساد نہیں کہہ سکتے۔ اگر قانون سے باہر نکل کر جدوجہد ہو تو وہ فساد بن جاتا ہے۔ تبھی ہجرت کا حکم ہے اس لئے اس بات کو بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ کہ ہجرت کا حکم جن آیات میںہم پڑھتے ہیں مہاجرین اور انصار وغیرہ ۔ ہجرت کا حکم ضروری کیوں ہے؟ جبکہ ملک کے اندر رہتے ہوئے ان کو یہ بھی تو کہا جاسکتا تھا کہ تم تقیہ کرلو۔ اور اندر بیٹھ کر فسادات کرو اور تخریبی کارروائیوں کے گروہ بنائو۔ کہیں قرآن کرم نے اس کی اجازت نہیں دی۔فرمایا اگر تم وہاں رہ سکتے ہو صبر کے ساتھ تو قربانیاں کرتے ہوئے رہو۔ لیکن جب خدا تعالیٰ نے رسول کو ہجرت کا حکم دے دیا تو جو تم میں سے ہجرت کرسکتا ہے وہ ہجرت کرجائے اور ہجرت کے بعد پھر تم آزاد ہو۔ ناحق کیلئے پھر بھی آزاد نہیں۔ حق پر رہتے ہوئے جائز بدلہ جو تم لے سکتے ہو تمہیں حق ہے تم بے شک لو۔ یہ میں اس لئے بھی بیان کررہا ہوں کہ مجھے درس کے دوران جرمنی سے ایک خط ملا ہے جس میں جنگ احد کے ذکر میں یہ پوچھا گیا ہے کہ آپ پھر یہ کیوں نہیں کہتے کہ جہاد کرو اور ان سے لڑو۔ کیونکہ قرآن کریم سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ جن کے حق مارے جائیں اُن کو لڑائی کا حکم ہے۔
بات یہ ہے کہ لڑائی کا حکم بھی ہے۔ صبر کا حکم بھی ہے اور مختلف ادوار ہیں۔ دونوں حکموں پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرکے دکھایا۔ مکی دور 13 سالہ تھا اور مدنی دور 10سالہ تھا۔ اور مکی دور میں کسی دفاعی کارروائی کی اجازت نہیں تھی اور مدنی دور میں صرف دفاعی کارروائی کی اجازت تھی۔ جارحانہ کارروائی کی اجازت نہیں تھی۔ اور پھر قانون میں رہتے ہوئے۔ معاہدوںکی حدود کے اندر رہتے ہوئے۔ پس آپ تو ہر طرف معاہدوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی وفاداری اور اس کے قانون کے تابع رہنے کا آپ عملاً معاہدہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ اسلام کے تابع ہیں اس سے آپ باہر نہیں نکل سکتے۔یہ جو قومیں آپ کو پناہ دیتی ہیں ان کے ساتھ آپ کا عملاً معاہدہ ہے کہ ہم آپ کی قانون شکنی کرکے کوئی کارراوئی نہیں کریں گے ۔ پس کہاں سے یہ اپنی جوابی کاروائی شروع کریں گے۔ اس لئے جوابی کارروائی کا تصور ہی ناممکن ہے۔ نمبر 2 اگر ہو بھی تو امام کا کام ہے وقت کے حالات کے مطابق فیصلہ کرے کہ کیا بہتر ہے؟ اور میں نے جو ربوہ سے نکلتے ہوئے ربوہ اور پاکستان والوں کو نصیحت کی تھی میں اب تک اس پر بڑی پختگی سے قائم ہوں کہ ہمارے لئے یہ صبر کا دور ہے اوریہاں 13 سالہ مکی دور کی جو مثال ہے وہ 13 سال تک ہی اطلاق نہیں پائیگی بلکہ 130 سال تک بھی اطلاق پاسکتی ہے۔ یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے بعد سے 130 سال تک بھی یہ زمانے چل سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان کے زیادہ مظہر ہیں جو ’’احمد‘‘ شان تھی اور جس کا تعلق جیسا کہ قرآن سے پتہ چلتا ہے مسیحیت سے زیادہ ہے بجائے موسویت کے۔ اور مسیحیت کو 300 سال تک صبر کی تلقین ہوئی ہے۔ پس 13 سال کے حوالے سے آپ بات نہیں کرسکتے کیونکہ 13 سال کا صبر محمد رسول اللہ ؐ کو آخری دور میں لمبا کرنے کا ارشاد ہوا اور یہ اس طرح ہوا کہ اول مثال دے دی آخری دور کی مسیحیت کے ساتھ کہ مسیح ؑ نے تمہاری یہ پیشگوئی کی تھی۔ کہ ’’احمد‘‘ اس شان سے ظاہر ہوگا۔ اور وہ شان نرم اور نازک کونپلوں کا پھُوٹنا۔دشمن کا ان کو روندنا۔ ان کو دکھ پہنچانا۔ اورپھر بھی تقویت پاتے چلے جانا۔ یہ صبر کی مثال ہے اور صبر کے نتیجے میں خدا کے نازل ہونے والے فضلوں کی مثال ہے اس لئے یہ دور تو لمبا ہوگا کیونکہ مسیحیت کا دوسرا پہلو تکلیفوں پر صبر کرنے میں ایک صدی کے بعد دوسری صدی میں داخل ہوجانا اور پھر بھی صبر کاپیمانہ ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔
صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔اس لئے ہمارا جو صبر ہے وہی ہمارا ذریعہ ہے جس سے ہم لڑیں گے اور اس کو لازماً برکت ملے گی اور جتنا ہم صبر پر قائم رہیں گے یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نہیں اس کے عین مطابق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔ پھر اُس حدیث کو بھی پیش نظر رکھیں جس میں مسیح کی آمد ثانی کے وقت آنحضرت ؐ خبر دیتے ہیں کہ وہ ارادہ کریں گے دشمنان اسلام سے لڑنے کا یعنی سوچیں گے تو اللہ تعالیٰ وحی فرمائے گا کہ اب ہم نے دو ایسی قوتیں نکال دی ہیں جن سے لڑنے کی کوئی مجال نہیں کسی کو اس لئے دعا سے لڑو۔ اور پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ۔ اس کا معنیٰ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں ۔ کئی نئے سننے والے آج شامل ہونگے ان کو میں سمجھا رہا ہوں کہ صبر کا دعا کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور جب دعا کی طرف توجہ دلائی ہے اور خواہش یہ ہورہی تھی کہ لڑ کر اپنی جانیں بے شک قربان کردیں تو صبر کا مضمون تو داخل ہوگیا۔
یعنی تم اس قدر بے قرار ہو دشمن کے ظلم و ستم سے کہ جی چاہتا ہے کہ جانیں نچھاور کردو۔ جو کچھ ہے وہ سر پہ گزر جائے مگر اب ہم نے رکنا نہیں۔ اُس وقت فرمایا : دعا کرو ! تو بعض تو شاعر کہتے ہیں کہ
کوئی دوا نہ دے سکا مشورہ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد کا دل بڑھا دیا
کہ موقعہ تھا مصیبت کا ‘ اور تکلیف کا‘ دوا تو کوئی نہ دے سکے مشورہ دعا دے رہے ہیں۔
چارہ گروں نے اور بھی در دکا دل بڑھا دیا
ہمارے درد کو اور بھی زیادہ حوصلہ بخش دیا۔ تو یہ جو وحی ہے یہ تو اس شعر کی مصداق معلوم ہوتی ہے کہ مسیح کو حالت ایسی بے چینی کی ہوگی کہ اسلام کی فتح کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کردے اور جانیں بھی فداکردے اور فرشتہ نازل ہوگا اور کہے گا نہیں ! رک جائو !! خدا فرماتا ہے یہ وقت وہ نہیں ہے تم دعا سے مقابلہ کرو۔ تو ایسی دعا جو اس بے اختیاری کے جذبے میں کی جائے وہ صبر کی دعا ہے۔ اور اسے صبر سے تقویت ملتی ہے۔
پہاڑ سے مرادکیا ہے؟ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں۔ قرآن کریم میں آنحضرت ؐ پر نازل ہونے والی وحی کی شوکت کو پہاڑ کے مشابہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ ایسی وحی جو پہاڑ سے بھی زیادہ قوت والے دل پر نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ وحی جب حضرت موسیٰ ؑ نے مانگی تو اللہ نے فرمایا دیکھ ذرا ! میں پہاڑ پر ایسا جلوہ دکھاتا ہوں مراد یہ تو نہیں تھی کہ شریعت اترے گی مگراس کی شوکت کا اظہار مقصود تھا۔ دیکھ اگر پہاڑ قائم رہ گیا تو پھر تیرا دل بھی اس کو برداشت کرلے گا لیکن پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسیٰ غش کھا کر جا پڑے ۔ تو مراد یہ ہے کہ ،پہاڑ کی جو میں مثال دے رہا ہوں، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تو بلند تر پہاڑوں سے بھی بلند تر اور زیادہ مضبوطی سے قائم رہنے والا دل ہے۔ اس لئے وہ وحی جسے موسیٰ کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ جسے طُور کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ قلب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ پس پہاڑوں میں سے مضبوط ترین پہاڑ آپ کا دل تھا۔ تو ’’پہاڑ کی پناہ میں آجا‘‘ سے مراد ہے۔ اس وحی کی پناہ میں آجا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پرنازل ہوئی اور سنت محمد مصطفی ؐ کی پناہ میں آجا۔ اور یہاں بیٹھ کر دعائوں کی جنگ شروع کر !
تو یہ ہے میرا جوا ب اُن کو جو جنگ احد کے ضمن میں مجھے یہ لکھ رہے ہیں کہ آپ بھی اعلان کیوں نہیں کردیتے۔ اب کہ تلوار پکڑو اور لڑائی کرو۔ تو میں نے ساری وجوہات بیان کردی ہیں کہ ہم اس کے مجاز نہیں ہیں۔ ہم معاہدوں کے پابند ہیں اور قرآن کی پناہ میں کیسے رہیں گے اگر قرآن شکنی کرکے لڑائی شروع کریں گے۔ پس صبر ہی ہے جس میں ہماری نجات ہے اور صبر کے ساتھ دعا جو صبر سے قوت پاتی ہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ۔ آپ کی شریعت میں اور آپ کی سنت میں پناہ۔ اس کے سوا ہمارے لئے کوئی نجات کی راہ نہیں ہے۔ اس پر مضبوطی سے قائم رہیں۔
پس شہادت کے مضمون سے بات چل رہی تھی۔قوموں کو زندگی انہی شہداء سے ملتی ہے ۔ اس لئے مضمون بہت وسیع اور بلند تر ہے۔ اور ان باتوں کے ہوتے ہوئے میر صاحب (Mir Ahmad Ali) فرما رہے ہیں کہ احمدی مفسر خاموش ہوجاتے ہیں۔ کہاں چپ ہوئے ہیں؟ نہ میں چپ ہوا نہ مجھ سے پہلے کوئی چُپ ہوئے۔ سب نے کھول کر اس مضمون کو بیان کیا ہے اور بڑی شان کے ساتھ اتنے عظیم معانی نکالے ہیں اس سے کہ اس سے پہلے تم لوگوں کا تصور بھی اس طرف نہیں گیا۔(یہاں حضور نے ایک غلطی کے متعلق وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ درستی کروانا ادب کا تقاضا ہے نہ کہ نہ درستی کرانا ادب کا تقاضا ہے )
یہ تو جماعت کی قربانیاں ہیں امت محمدیہ کیلئے درد دل اور ساری دنیا میں اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے ہم سب کچھ نچھاور کررہے ہیں اور اس کے برعکس پاکستا ن حکومت کا جماعت سے یہ سلوک ہے کہ وہ سارے جو اس وقت امت مسلمہ کے حصہ کے طور پر قانوناً تسلیم شدہ ہیں وہ جو چاہیں حضرت محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے اقرباء پر اور آپ کی ازواج پر اور آپ کے صحابہ پر زبان طعن دراز کریں۔ سب منظور ہے یہ ساری اسلام کی عزت افزائی ہے۔ اور ہم اگر درود بھیجیں ۔ ہم اگر ’’لا ا لہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کا ورد کریں تو یہ شدید گستاخی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ کی۔ پاکستان کے ملک میں۔ اتنی شدید کہ برداشت نہیں ہوتی ان سے۔ ہمارے ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب‘ مرزا محمد الدین صاحب ناز‘ آغا سیف اللہ صاحب‘ محمد ابرہیم صاحب یہ سب ہمارے الفضل اور ہمارے دیگر اشاعتی رسالوں وغیرہ سے منسلک ہیں اور قاضی منیر احمد صاحب ان سب پر یہ مقدمہ بنایا گیا کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شعائر اسلامیہ کی ہتک کی ہے۔ ’’الفضل‘‘ میں بعض ایسی باتیں کہیں ہیں جن سے لگتا ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان بنا رہے ہو۔ حالانکہ سیفی صاحب کے متعلق پہلے بہت سے لوگ یہ الزام لگاتے تھے کہ اتنا ڈرتے ہیں کہ جہاں اسلام کا نام آئے۔ جہاں قرآن کی آیت آئے وہاں خالی نقطے ڈال دیتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں۔ ایک جلسے کے موقعے پر میں نے وضاحت کی تھی اور انکی طرف سے دفاع کیا تھا کہ میں جانتا ہوں ’’یہ بزدل تو نہیں ہیں۔ یہ تمہاری خاطر اس لئے ایسا کررہے ہیں کہ کسی طرح بھی ’’الفضل‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کا موقعہ نہ ملے اور یہ فیض کا چشمہ جو جاری ہے یہ بند نہ ہوجائے۔ اس لئے ہر گز ان پر بزدلی کاالزام نہ لگائو۔ میں جانتا ہوں ان کو یہ بہادر آدمی ہیں ! اور یہی بات ثابت ہوئی۔ چنانچہ آخر انہوں نے ایک عذر تلاش کرہی لیا ان پر ہاتھ ڈالنے کا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ’’حضور‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اب حضور کی بات تو یہ ہے کہ وہاں ٹانگے والا ہر مسافر کیلئے ’’حضور‘‘ کا لفظ استعمال کرتا پھرتا ہے گلیوں میں۔ اور وہ جو جج ہیں‘ شیعہ ۔ جنہوں نے یہ فتوٰی دیا ہے انہوں نے اس بناء پر وہ مقدمہ جو 298-C کا تھا۔ اسے 295 میں تبدیل کروادیا۔ او رکہتے ہیں تم 298 سے ضمانت مانگ رہے ہو۔ حضور کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کے متعلق ؟
میرا دل چاہتا تھا کہ ان کو لکھوں کہ اگر آپ ثابت کردیں کہ لفظ ’’حضور‘‘ آنحضرتؐ کیلئے خاص ہے تو حج کا ثواب نذر کرونگا حضور کی ۔ کیسی جاہلانہ بات ہے ! مگر ہمارے علماء بھی بے چارے ایسے ہی ۔ ہمارے منصفوں کے بھی یہی حال ہوگیا ہے غریبوں کا ! ان کو اردو نہیں آتی تو دین کیا سکھائے آدمی ان کو ؟ گلیوں میں پھریں دکانوں میں جائیں حضور حضور کہہ کر مخاطب ہورہے ہوںآپ سے سارے اور یہ زبان ہر جگہ استعمال ہورہی ہے ۔ اور یہ وہاں گستاخیٔ رسول ؐ دکھائی نہیں دیتی۔ حضرت مسیح موعود ؑکے متعلق حضور کا لفظ استعمال کردیا جائے تو کہتے ہیں گستاخی ہے’’آنحضور‘‘ کا محاورہ اور ہے۔ ’’آنحضور‘‘ کا محاورہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے متعلق استعمال ہوتا ہے کثرت سے۔ مگر یہ بھی غلط ہے کہ صرف آنحضورؐ ہی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض دوسرے ایسے وجود بھی ہیں جو آنحضور کہلانے کے مستحق نہیں مگر امت مسلمہ کے لٹریچر میں ان کے لئے آنحضور کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور کسی نے کوئی اس پرپکڑ نہیں کی۔ کسی نے اُس پر تکلیف محسوس نہیں کی۔
پس یہ وہ مظلوم ہیں جن کو پاکستان میں دشمن اسلام کے طورپر بھیانک سزائیں دی جارہی ہیں۔ ا نکو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے ان کو قیدوںمیں پھینکا جارہا ہے۔
نہایت سرانڈ والے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے ۔سیفی صاحب کی طرف سے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے پیغام ہے جو میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔
’’ہم خدا کے فضل سے حضور پرنور کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ ہمارا Morale بلند ہے اور خدا تعالیٰ پر ہمارا ایمان لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے۔ اور یہ بات ہماری زندگی کو روشن سے روشن تر کررہی ہے۔ اور ہماری روح کی تازگی کا باعث ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر مشکل سے ذہنی ہو یا جسمانی ہو ہر گز نہیں گھبراتے۔ اور ہر بات کیلئے تہہ دل سے تیار ہیں۔ مراد ہے کہ اگر اس راہ میں جان دینی پڑے تو بالکل فکر نہ کریں ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہادتوں کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ زندہ رہیں تب بھی شہید ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی خاطر جماعت کی نمائندگی میں ہمیں بظاہر یہ تکلیف دی جارہی ہے۔ لیکن یہ تکلیف ہماری روحانی راحت کا باعث ہے۔ یہ بات ہمارے لئے اثاثہ ہے جس پر ہماری نسلیں بھی فخر کریں گی۔ ہم ایک دفعہ پھر حضور پُرنور کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ہر مشکل کو خوش دلی اور صبر کے ساتھ برداشت کریں گے۔ ساری دنیا کے احمدیوںکو ہماری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 23 رمضان المبارک
6 مارچ 1994 ء
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا…الذین قال لھم الناس ان الناس قد……ھم ایمانا و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل O (آل عمران ۔ آیت 170 تا 174)
کل ہم سورۃ آل عمران کی آیت 170 پر بحث کررہے تھے۔
لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربھم یرزقونO
کہ جو لوگ خداکی راہ میں مارے جاتے ہیں ‘ ان کو مردہ نہ کہو۔
اس کے ساتھ ہی دو اور آیات کی بھی تلاوت تھی اور تینوں پر دراصل اکٹھی بات ہوئی تھی۔
فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ
جو اللہ نے ان پر فضل فرمایا ہے اس پر بہت خوش ہیں۔ اور
یستبشرون بنعمۃ
اور اللہ نے جو ان کو نعمت عطا فرمائی ہے اس پر بھی وہ بہت خوش ہورہے ہیں۔
یہ خلاصہ ہے ان دو آیات کا۔ اس میں ابھی ایک دو پہلو ایسے تھے جو‘ جن پر بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس لئے میںدوبارہ اسی آیت کی طرف آتا ہوں۔
یہاں دو معانی لئے گئے ہیں۔ لم یلحقوا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ لم یلحقوا بھم من خلفھم کہ لم یلحقوابھم من خلفھم سے کیا مراد ہے‘ کون لوگ مراد ہیں؟
اکثر مفسرین نے اس سے مراد وہ صحابہؓلئے ہیں جو ابھی شہید نہیں ہوئے۔ لم یلحقوابھم سے مراد یعنی ابھی تک صحابہؓ سے نہیں ملے‘ (جو) جن کی روحیں ان کے متعلق خوشی محسوس کررہی ہیں کہ انہیں بھی یہ انعام ملنے والا ہے۔ اس لئے لم یلحقوا سے مراد وہ‘ وہ صحابہؓ لیتے ہیں جن کے مقدر میں شہادت لکھی جاچکی ہے‘ مگر ابھی تک شہید نہیں ہوئے۔ کچھ دوسرے ہیں جو یہ معنے لیتے ہیں کہ اس سے مراد پیچھے رہنے والے سب ہیں اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی اسی طرف رجحان ہے اور آپ کی تفسیر میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔
صرف ایک پہلو ایسا ہے جس کا میں نے ذکر نہیں کیا تھا۔ دو طرح سے لفظ لم اور لما‘ دو لفظ لم اور لما مستقبل کے مضمون کو ماضی یا مضارع کو ماضی بنانے میں استعمال ہوتے ہیں اور ساتھ ہی نفی کے معنے بھی پیدا کردیتے ہیں۔ جیسا کہ ہماری جماعت میں یہ آیت بہت معروف ہے۔
لما یلحقوا بھم ۔ واخرین منھم لما یلحقوا بھم میں لفظ لما کا استعمال ہوا ہے۔ یلحقوا مستقبل کا یعنی مضارع کا صیغہ ہے۔ اور لما مضارع کو ماضی میں تبدیل کرتا ہے۔ اور لم بھی مضارع کو ماضی میں نفی کے معنے دے کر تبدیل کرتا ہے۔ دونوں میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ لیکن ایک فرق ہے۔ لما جب استعمال ہوتا ہے تو ماضی میں استمرار کے معنے پیدا کردیتا ہے۔ یعنی جس طرف یہ بات کہی جارہی ہے اس وقت تک کا سارا ماضی اور بعید ماضی سب اکٹھے ہوجاتے ہیں سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن لم جو ہے مطلق ماضی کے معنی پیدا کرتا ہے اور استمرار کا معنی شاید لے لیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مگر لم کے استعمال میں لازماً داخل نہیں ہے۔ مثلاً اسی آیت کو اگر ہم (یوں) اس طرح پڑھیں۔ اگر ہم کہیں۔ لما یلحقوا بھم تو ویسی ہی‘ ویسی ہی آیت بن جائے گی جیسی کہ واخرین منھم لما یلحقوا بھم میں مضمون بیان ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنے گاوہ اب تک جب کہ یہ بات ہورہی ہے ان سے نہیں ملے۔ یہ امکان روشن ہوجاتا ہے کہ اب تک نہیں ملے تو کل شاید مل جائیں گے …اس کو کہتے ہیں یہ لما کا استعمال ماضی میں استمرار داخل کرتا ہے اور نفی کے معنے بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے یہاں لم یلحقوا کا لفظ استعمال‘ کا محاورہ استعمال فرمایا ہے۔یہ ان سے نہیں ملے۔ اس میں یہ مضمون لازماً داخل نہیں ہے کہ وہ ملنے والے ہیں یا اب تک نہیں ملے اور کل کو شاید آملیں گے۔ اس لئے جن کا رجحان جن مفسرین کا رجحان عمومیت کی طرف ہے کہ وہ شہید بھی اس میں داخل ہوں گے مگر و ہ سب شامل ہیں جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ میں بھی انہی کی تائید میں میرا بھی یہی رجحان ہے اور جیساکہ حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر میں تفصیلاً میں ذکر ہوچکا ہے‘ وہ عظیم قومی فوائد جو شہداء کی قربانیوںسے تعلق رکھتے ہیں وہ صرف ا ن لوگوں کے لئے تو نہیں ہیں جو بعد میں شہید ہوں گے۔ وہ تو ساری قوم کے لئے بعض دفعہ نسلاً بعد نسل ظاہر ہونے والے فوائد ہیں۔ اس لئے جہاں قرآن کریم نے عمومیت رکھی ہے وہاں اس کو محدود کردینا چند لوگوں تک‘ یہ قرآن کے فیض کو محدود کرنے والی بات بن جاتی ہے۔ اور وہی بہتر اور اس آیت کے انداز کے مطابق ہیں۔وہی معنے کہ وہ تمام لوگ جو ان شہداء سے پیچھے رہ گئے ہیں‘ ان سب کے متعلق وہ خوشخبریوں کی امیدیں رکھتے ہیں اور بہت خوش ہیں اس بات پر کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا مقدر فرما رکھا ہے۔ یہاں نعمۃ من اللہ و فضلہ دیکھ لوںکیا لفظ ہیں Exactly
و یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل
وہ خوش ہورہے ہیں اللہ کی نعمت سے اور س کے فضل سے۔ اب بہت سے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہے کہ نعمت سے کیا مراد ہے اور فضل سے کیا مراد ہے؟ بظاہر یہ دونوں ملتی جلتی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ نعمت سے بھی خوش ہیں اور فضل سے بھی خوش ہیں۔ اس لئے اس مضمون سے متعلق بعض آراء آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
زجاج نے کہا ہے کہ نعمت سے اعمال کا بدلہ مراد ہے اور فضل سے اس کی طرف سے مزیدانعام مراد ہے۔ یعنی فضل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو زائد از اکتساب ہو۔ جو تم نے کمائی نہیں ہے اس کے علاوہ دے دی گئی ہے۔ تو کہتے ہیں نعمت ہی کا مضمون ہے۔ لیکن نعمت بڑھانے کا مضمون ہے۔ جو نعمت ان کو عطا ہوگی کچھ تو ایسی ہوگی جو انہوں نے نیک اعمال کے ذریعے گویا کمالی۔ لیکن کچھ ایسی ہوگی جو اس کے علاوہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوگی۔ تو اس زائد نعمت کو جو اعمال کی کمائی سے اوپر شروع ہوتی ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ فضل کے نام سے یاد فرماتا ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے ایک اور مضمون یہ بیان کیا ہے کہ یہ بھی کہا گیا ہے‘ یعنی یہ زجاج کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ تفسیر محیط والوں نے اس طرح ذکر کیا ہے‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فضل سے مراد جنت کے اندر نعماء کی وسعتیں ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نعمتیں جو ان کو عطا ہوں گی کیونکہ جنت کا ذکر چل رہا ہے اس لئے جنت میں نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور فضل سے مراد لامتناہی نعمتوں کا سلسلہ ہے جو جنت میں وسعت پذیر ہوگا‘ پھیلتا چلا جائے گا بڑھتا چلا جائے گا۔
یستبشرون وہ خوش ہیں کہ اللہ نے ان کے اجر کو ضائع نہیں کیا۔ بعض نے یہ معنیٰ لئے ہیں کہ اجر کو ضائع نہیں کیا۔ یہ تو عجیب سے معنے ہیں۔ اللہ کب اجر کو ضائع کرتا ہے کب مومنوں نے دیکھا کہ اجر ضائع ہورہے ہیں۔ جس سے ا نکو یہ خوف تھا ۔ اوپر جاکے پتہ چلا کہ نہیں اللہ اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس لئے جو امکانی معنے ذہن میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مفسرین لکھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیںکہ ہر بات مانی جائے۔
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اس لئے یہ جو مفسرین ہیں بہت اچھی اچھی باتیں بھی ان کو سوجھتی ہیں بعض یونہی برسبیل تذکرہ فرماد یتے ہیں کہ ان باتوں کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نعمت اور فضل میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اس گفتگو میں آیات میں آپ کے سامنے کچھ رکھتا ہوں۔
قران کریم سے پتہ چلتا ہے کہ نعمت کا لفظ عام ہے۔ جو دنیا کی نعماء کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آخرت کی نعماء کے متعلق بھی اور خصوصیت کے ساتھ جب اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو روحانی مدارج کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان سب معنوں میں ہمیں سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے۔
الذین انعمت علیھم
ہمیں وہ صراط مستقیم عطا فرما اس پر ڈال دے جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے انعام فرمائے۔ تو یہ جو انعام کا مضمون ہے اس کا خصوصیت کے ساتھ نزول شریعت اور نبوت اور درجہ بدرجہ ان تمام انعاموں سے ہے جو نبوت کے نیچے مختلف روحانی مدارج سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس اس پہلو سے بعض مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جی؟ نہیں مجھے پتہ ہے۔ میں سمجھا نعمت والی بحث میں۔ وہ وہاں لکھی ہوئی تھی‘ ہاں۔ تبھی میں حیران تھا بے چین کیوں ہورہے ہیں۔ یہ جو لفظ نعمت کی بحث میں نے لکھی تھی‘ اپنے ہاتھ سے جو نوٹ لکھے تھے وہ ایک اور آیت میں فضل کے نیچے نعمت اور فضل کے فرق کو ظاہر کرنے کے لئے لکھ دیئے تھے۔ ابھی ہم اس آیت تک نہیں پہنچے۔ لیکن بحث پہلی آیت میں آچکی ہے۔ اس لئے یہ مجھے توجہ دلا رہے تھے شاید میں غلطی سے کررہا ہوں۔ وہ آیت زیر بحث نہیںہے۔ مگر نعمت تو زیر بحث ہے بہرحال اس لئے اس کے نوٹ کہیں بھی لکھے ہوں وہ میں آپ کو سنائوں گا۔ چاہے مجھے روکنے کی کوشش کی جائے۔ اچھا جی ! اب آیتوں کے نمبر میں دیکھ لوں۔ 72,170 پہ گفتگو ہورہی تھی ۔ ہاں
نعمۃ من اللہ و فضل
نعمت بہت وسیع لفظ ہے ۔اور اس کابہت‘سا تعلق شریعت سے ہے۔چنا نچہ قرآن کریم میںاتمام نعمت کا لفظ جہاں استعمال ہوتاہے۔وہاںنبوت کی عطا ہے۔یعنی نعمت کی انتہا کیا ہے۔ جہاں جا کے نعمت کا مل ہو جا تی ہے۔وہ نبوت کا کمال ہے جوکسی بندے کو عطا ہو جا تا ہے۔چنا نچہ اس کے اس ضمن میں بہت سی آیات اس طرف اشارہ کر تی ہیںان میں مثلاًحضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام‘ حضرت اسحاقؑ ‘حضرت یعقوب ؑاورآپ ؑکی اولاد میںجہاںنبوت کے تسلسل کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے اسے اتمام نعمت کے طور پر یاد فرمایا ہے کہ یاد کرو جب ہم نے اپنی نعمت کو تمہارے اوپر کمال تک پہنچا دیا اور انہی معنوں میں قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا ذکر ملتا ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا
یہاں دو لفظ ہیں اکمال اور اتمام ۔ اکمال نعمت کیا ہے اور اتمام نعمت کیا ہے؟ جہاں تک اتمام نعمت کا تعلق ہے اس سے مراد یہ ہے انسانی صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ نے ترقی کی ‘ انسانی صلاحیتوں میں ترقی کی جو آخری حد ہے وہاں تک پہنچا دینا۔ پس نعمت سے مراد وہ تمام صلاحیتیں ہیں جو انسا ن کو عطا ہوتی ہیں اور قرآن کریم میں اس مضمون پر اور بھی شواہد ملتے ہیں کہ نعمت انسانی تخلیق میں جو صلاحیتیں مضمر ہیں‘ ان کی طرف بھی اشارہ ہے نعمت سے۔ پس نبوت کے تعلق میں چونکہ نعمت اس درجہ کمال کو کہتے ہیں جہاں صلاحیتیں پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس سے آگے جا نہیں سکتیں۔ اس کو اتمام نعمت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ
اتممت علیکم نعمتی
کا مضمون حضرت محمد رسول اللہ ؐ کے تعلق میں بعینہٖ یہ مضمون نہیں ہے جو اس سے پہلے انبیاء کے تعلق میں بیان ہوا ہے کیونکہ یہاں شخص مذکور کی صلاحیت کا نعمت کے اتمام سے ایک گہرا رشتہ بن جاتا ہے۔ یعنی یہ کہنا درست نہیں ہے کہ جیسے حضرت ابراہیمؑ اور آپؑ کی اولاد کو اتمام نعمت ہوا بعینہ اسی شان کا اتمام نعمت‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ہوا۔ کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلاحیتیں ان گذشتہ انبیاء کی صلاحیتوں سے بہت زیادہ تھیں۔ اس لئے موقع اور محل دیکھ کر بات کی جاتی ہے۔
دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
جب حضرت محمد رسول اللہ کا ظرف وسیع ہے تو اس میں اتمام نعمت کا مضمون بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے۔ اور اس کا مرتبہ بہت بلند ہوجاتا ہے۔ محمد رسول اللہ کی نعمت کو اتمام تک پہچانا بہت بڑا کام ہے تو فرمایا تمہارے لئے ہم نے اتمام نعمت کردی۔محمد رسول اللہﷺ کی ذات میں جتنی صلاحیتیں تھیں ان سب کو اپنے آخری مقام تک پہنچا دیا۔ اس بات کا ثبوت کہ اس کے نتیجے میں کچھ ایسی چیز حاصل ہوئی جو پہلے انبیاء کو حاصل نہیں ہوئی وہ ہے۔
اکملت لکم دینکم
اکمال دین کا لفظ پہلے انبیاء پر استعمال نہیں ہوا۔ اتمام نعمت کا استعمال ہوا ہے۔ تو ان کی صلاحیتیں جب اپنے آخری منتہیٰ کو پہنچیں تو اس کے باوجود اکمال دین نہ ہوسکا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اکمال دین ہوا ہے تو اس کا اتمام نعمت سے ایک تعلق تھا۔ پس اکمال دین کا مضمون بیان کرتے ہی توجہ اتمام نعمت کی طرف پھیر دی۔
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا
کہ آج کے دن ہم نے اپنی شریعت کو کامل کردیا ہے اور یہ کمال شریعت محمد رسول اللہ کے اتمام نعمت سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی اور نبی کی حد استطاعت میں نہیںتھا۔ اس لئے ہم نے محمد رسول اللہ کی نعمت کے ساتھ تمہارے دین کے اکمال کو جوڑ دیا ہے۔ اور اس سے زیادہ ممکن نہیں کیونکہ یہ آخری دین ہے۔ اکمال دین میں Perfection کا ذکر آگیا۔ جب Perfection ہوجائے تو Perfection سے آگے چیز بن نہیں سکتی۔ پس یہ وہ آیت ہے جو حضرت محمد رسول اللہ کی خاتمیت پر بھی دال ہے۔ آپ ؐ کیوں آخری صاحب شریعت نبیؐ ہیں اور کیوں آخری سردار نبیؐ ہیں جن کی بات کوئی شخص ٹال نہیں سکتا۔ جو آئے لازماً آپ کی غلامی میں اور آپ کی اطاعت میں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو ہی باتیں ہیں جن کے نتیجے میں یہ فیصلہ ہوسکتا ہے۔
اول یہ کہ کم صلاحیتوں والا شخص ہو۔ جس کی صلاحیتوں میں ترقی کی گنجائش ہو۔ نمبر دو اس کا دین ابھی اپنے کمال کے تمام مدارج طے نہ کرسکا ہو۔ تو ان دونوں باتوں کا جواب مل گیا ہے۔ محمد رسول اللہ کا دین اپنی ترقی کے تمام مدارج طے کرچکا ہے اور Perfection تک پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اس کے بعد کسی نئی شریعت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اور کسی آزاد نبی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا‘ چاہے وہ اس دین میں ہی ہو۔ کیونکہ اتمام نعمت جو محمد رسول اللہ پر ہوا ہے اس کے بعد جو بھی نعمت حاصل ہوگی اس کی غلامی سے حاصل ہوگی۔ اس کے سوا اپنے طور پر کوئی نعمت حاصل کر نہیں سکتا۔ پس ان دونوں باتوں کے جوڑ سے یہ مضمو ن پیدا ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور ان معنوں میںآخری ہیں کہ ان کے سوا کسی اور آزاد نبی کا کسی اور شریعت کا کسی اور ایسے کلام کا جو خدا کی طرف سے نازل ہو اور نئی باتیں پیدا کردے‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور ان معنوں میں آپؐ خاتَم ہیں۔یعنی خاتَم کا معنیٰ ایک یہ ہے کہ وہ جو اپنے درجہ کمال کو پہنچ جائے۔ جس سے اوپر متصور نہ ہو۔ آخری اپنے کمال کے لحاظ سے‘ آخری اپنے حسن کے لحاظ سے‘ اپنی خوبیوں کے لحاظ سے۔ پس خَاتَم کا یہ معنیٰ اس آیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھنا ہے۔ اس آیت کے ساتھ دو آیتوں کا تعلق ہے یعنی
اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا
اس کے دو پہلو ہیں۔ایک ہے محمد ؐ رسول اللہ کی آخری شان۔ اس شان کا اظہار لفظ خاتم میں ہوا کہ وہ جس کے اوپر دین کامل ہوا۔ جس کی صلاحیتیں سب سے بڑھ کر تھیں۔ اور آخری نقطہ عروج تک پہنچ گیا۔ اُس شخص میں تمام کمالات ختم ہوگئے‘ تمام خوبیاں ختم ہوگئیں۔ شریعت کے لحاظ سے اس کی شریعت اکمال کو پہنچی تو شریعت کے لحاظ سے تمام خوبیاں ختم ہوگئیں اس سے آگے بہتر شریعت کا تصور نہیں ہوسکتا۔ اور شخصی سرداری کے لحاظ سے‘ قیادت کے لحاظ سے یہ وجود اپنے آخری نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اب کسی اور کا نئی نعمت پانا ممکن نہیں رہا۔ ان دونوں کے جوڑ کے نتیجے میں طبعی طور پر خاتَم کالفظ ابھرتا ہے۔ جس کے معنے تصدیق کے بھی ہیں اور آخری حد کو پاجانے والے کے بھی ہیں۔ آخریت کے معنے پائے جاتے ہیں مگر اپنے کمال کے اعتبار سے۔ جہاں تک تصدیق کے معنے ہیں وہ اس طرح پیدا ہوئے ہیں کہ جس شخص پر کمالات نبوت اپنی انتہاء کو پہنچے ہیں وہی جانتا ہے کہ نبوت کیا ہے۔ اور وہی اس بات کا مجاز ہے کہ کہہ سکے کہ فلاں میں نبوت کی شان پائی جاتی ہے کہ نہیں۔ کون اس کے انداز کے قریب‘ اس کے مطابق ہے‘ کون اس کے اسلوب کے مطابق ہے کون اس کی تعلیم کے مطابق ہے۔ پس نبوت کی پہچان محمد ؐ رسول اللہ سے ہوگی۔ جو خاتَم ہیں یعنی نبوت میں آخری مقام تک پہنچ گئے۔ پس جو ا ن سے ملتا جلتا آپ ؐ کے نیچے دکھائی دے گا‘ خواہ نیچے ہی ہو مگر ملتا جلتا ہو اور آپ کی کسی رسم سے مخالف نہ ہو۔ یعنی اس میں مہر میں ہر قسم کی رسوم پائی جاتی ہوں۔ بعض دفعہ پتہ لگتا ہے تو بعض نہیں ہوتیں مگر اگر جو ہیںوہ مخالف ہوجائیںمہر کے تو یہ جھوٹی چیز ہے۔وہ اس مہر کا عکس نہیں ہے۔ پس اس معنوں میں آپ یہ سمجھ لیں کہ پہلے انبیاء میں بھی نبیوں کی علامتیں سب پائی‘ نبیوں کی علامتیں پائی جاتی تھیں مگر وہ سب علامتیں نہیں پائی جاتی تھیں جو ان میں‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہیں۔ کچھ کم تھیں مگر ایک بھی مخالف نہیں تھی۔ پس محمد رسول اللہ ؐ کی پہچان تما م انبیاء کی پہچان بن گئی۔ جس نبی نے رسول اللہ صلعم کی صفات حسنہ اور آپؐ کے کمالات کے مخالف کوئی بات ہو وہ یقینا جھوٹا ہے اور جو اس کے مطابق ہے اگر وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچ سکا تو وہ پہنچ سکتا ہی نہیں تھا‘ اس کی صلاحیت میں بھی نہیں تھا۔ اس لئے اس کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ اس پر مہر تصدیق محمد رسول اللہ صلعم کی لگ جائے گی کہ جو کچھ بھی تم نے پایا اسی راستے پر پایا جس پر میں نے پہنچ کر‘ چل کر تم سے زیادہ پالیا۔ دوسرا کنارہ اس کا ہے کوئی اور بھی اس مہر سے استفادہ کرسکے گا کہ نہیں۔ یہاں ضمناً میں آپ کو بتادوں‘ اگرچہ ایک زائد بحث ہے اس آیت سے ذرا سی ہٹ کر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن لفظ انعام کے تابع لفظ انعام کا مفہوم سمجھانے کیلئے یہ بات چل پڑی ہے تو اسے آگے بڑھاتا ہوں۔بعض لوگوں نے شروع کردیا ہے یہ پروپیگنڈہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہر ہونا ایسے معنے رکھتا ہے یہ جو باتیں ہیں اس کو آج کل انگریزی دان مولوی وہ انگریزی علاقوں میں پھیلا رہے ہیں‘ انگریزی دان علاقوں میں بات کو پھیلا رہے ہیں اور امریکہ میں بھی اشتہار چل رہے ہیں اور انگلستان وغیرہ میں بھی پھیلائے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ سمجھیںیہ مولویت صرف غیر انگریزی دانوں تک محدود نہیں‘ ہم بھی جانتے ہیں انگریزی کیا ہوتی ہے؟ اوران لوگوں کو بھی اب ہم سمجھائیں گے‘ ایسی زبان میں جو وہ سمجھ سکیں۔ زبان کیا استعمال کی ہے کہتے ہیں دیکھو مہر اس وقت لگتی ہے جب آخر پر تصدیق مراد ہو اور جس لفافے پر مہر لگ جائے اس کو پھر توڑا نہیں جاتا۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا ہوگیا۔ جو اس میں سے نکالا جانا تھا نکالا جاچکا۔ اب یہ بات اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اس مہر کے بعد اگر اندر کے مضمون میں کوئی اضافہ کرے گا تو وہ جھوٹا ہے۔ اور اس میں سے کچھ نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ جھوٹا ہے۔ تو اس بات کو خوب کھولنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم النبین ہونا ان معنوں میں ثابت ہوا کہ سب نبیوں پر آپ کی مہر لگ گئی اور اب ان میں نہ کوئی داخل ہوسکتا ہے نہ کوئی نکل سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے۔ اور مجھے پوری طرح تسلیم ہے میں اقرار کرتا ہوں۔ لیکن یہ بھی ساتھ بتاتا ہوں کہ مہر جب یہ کام کر بیٹھتی ہے تو پھر لفافے میں داخل ہوکے بند نہیںہوجاتی ‘ وہ باہر رہتی ہے۔ پس ایک فیض ِ رساں نبی باہر رہا۔ وہ سارے جن پر مہر لگی تھی وہ لفافے کے اندر چلے گئے اور یاد رکھو کہ اس میں نہ داخل ہوسکتی ہے کوئی چیز نہ نکل سکتی ہے‘ تم اقرار کر بیٹھے ہو۔ تو عیسیٰؑ علیہ السلام کو کہاں سے نکال لائو گے۔ وہاں تو خاتَم کی مہر لگ گئی۔ صرف داخل پہ ہی اعتراض ہے نکالنے پر بھی تو غور کرو۔ اس سے نکل کچھ نہیںسکتا۔ تو حضرت عیسیٰ ؑ کو مہر توڑے بغیر کیسے باہر نکال لاؤ گے‘ اب یہ جواب دو‘ جہاں تک حضرت محمدؐ رسول اللہ کی خاتمیت کا تعلق ہے‘ میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا ایک دوسرا کنارہ ہے کہ اس سے فیض آگے چل سکتا ہے کہ نہیں۔ وہ ایک اور آیت ہے جو اس دوسرے کنارے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ؐ کے فیض کے جاری ہونے کے مضمون کو بیان کرتی ہے اور وہ سورۃ نساء کی آیت ہے۔
ومن یطع اللہ و الرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین و الشھداء والصالحین و حسن اولئک رفیقا۔
کہ اوپر کا جو آخری مرتبہ تھا اس پر تو محمد رسول اللہ ؐ کا کامل قبضہ ہے۔ لیکن کیا اس قبضے کا یہ مطلب ہے کہ اب آپ فیض بھی‘ تمام تر آپؐ نے اپنی ذات میں محدود کرلئے اور سمیٹ لئے اور فیضوں کے آگے جاری ہونے کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا‘ تو یہ جھوٹ ہے اور غلط ہے۔ یہ ایسا فیض رساں نبیؐ آیا ہے‘ اب اس مضمون کوآپ پہلے مضمون سے جوڑ کر دیکھیں تو پھر ایک نیا معانی کا جہان آپ کے سامنے ابھرے گا۔ پہلے انبیاء پر تو مہر لگ گئی نہ ان میں کوئی جاسکے نہ ان سے کوئی نکل سکے۔ تو فیض کے سب چشمے بند ہوگئے نا‘ وہ سارے فیض پہنچانے کے لئے آتے تھے۔ نبی کوئی نعوذ باللہ *** تو نہیں کہ جسے بند کرکے ہم خوشی کے شادیانے بجائیں کہ الحمداللہ اس مصیبت سے آخر چھٹکارا مل گیا۔ تمام انبیاء کو نعمت کہا جارہا ہے۔ یہ مضمون نعمت کا ہے جومیں سمجھا رہا ہوں آپ کو۔ نعمت میں سب سے اعلیٰ نعمت نبوت ہے۔ اور جب قرآن یہ اعلان کرتا ہے کہ پرانے سارے انعام یافتہ کے راستے ہم نے کلیتہً Block کردیئے ہیں‘ بند کردیئے ہیں‘ مسدود ہوگئے ہیں‘ اب وہ نہیں آسکتے یہاں‘ ان کا فیض کیسے آگے نکلے گا پھر؟ جس فیض رساں وجود نے ان کے راستے بند کئے ہیں‘ وہ فیض روکنے کی خاطر نہیں کئے بلکہ اس لئے کہ بہتر اور زیادہ عظیم الشان فیض جاری کرنے والا وجود آچکا ہے‘ اور اس فیض روکنے کا ادنیٰ سا نقصان بھی بنی نوع انسان کو نہیں پہنچے گا۔ وہ کونسا فیض ہے کہ جو تم ان کی چوکھٹ سے مانگنے جاتے تھے‘ جو محمد رسول اللہ ؐ کی چوکھٹ سے بہتر صورت میں نہیں مل سکتا۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے سورۃ نساء کی یہ آیت اس پہ روشنی ڈالتی ہے یعنی خوب کھول کے بیان کرتی ہے۔
ومن یطع اللہ والرسول
اب رسل کا ذکر نہیں ہے جہاں ایمان کی بات تھی وہاں سارے رسولوں پر ایمان لازم ہے۔ اب کے بعد اطاعت میں سوائے محمد رسول اللہ ؐ کے کسی کا ذکر نہیں مل رہا آپ کو۔
ومن یطع اللہ والرسول
اب کے بعد جو اعلان ہے جو انقلابی اعلان کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اور یہ رسول محمد رسول اللہ ؐاطاعت کے لحاظ سے بس یہی کافی ہیں۔ تمہیں کوئی پرواہ نہیں کہ موسیٰ ؑ کی اطاعت کرنی ہے یا عیسیٰ ؑ کی کرنی ہے یا ابراہیمؑ کی کرنی ہے کہ نوحؑ کی کرنی ہے‘ سب کی اطاعتیں ختم۔ اس رسول کی اطاعت میں داخل ہوجائو۔ یعنی مومنوں کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے اللہ۔
ومن یطع اللہ والرسول
تم میں سے جو بھی‘ یا بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت میں داخل ہوگا‘ اس پر فیض کے دروازے بند نہیں ہوں گے بلکہ وسیع کئے جائیں گے۔ اب کسی اور نبی کی اطاعت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
من یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم
اب اولئک حصر کا مضمون بیان کرتا ہے۔ اب بس یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ انعام فرمائے گا۔ لیکن یہاں
مع الذین انعم اللہ علیھم
فرمایا ہے من الذین نہیں۔
اس پہ علماء بعض دفعہ ایک اعتراض اٹھاتے ہیں کہ دیکھو خدا نے مع کہا ہے‘ جس کا مطلب ہے ان میں سے نہیں ہوں گے‘انعام یافتہ لوگوں میں سے یہ نہیں ہوں گے جو محمد رسول اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ہاں انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ جب کہا ساتھ ہوں گے انعام نہیںپائیں گے تو یہ تو بڑا عجیب مضمون بن جاتا ہے کہ پہلے نبیوں کی اطاعت میں تو انعام مل جایا کرتے تھے۔ اس رسول کی اطاعت میں انعام والوں کی صحبت نصیب ہوجائے گی۔ انعام نہیں ملیں گے۔ یہ تو بہت ہی بات ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بات ہے مع کا لفظ کیوں استعمال فرمایا؟ اس لئے کہ پہلے دور میں سے تو یہ ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ تو دور ختم ہوگیا اس پر تو مہر لگ چکی ہے۔ ویسے ہوں گے وہ سارے انعام اس سے ملتے جلتے اب اطاعت محمد رسول اللہ ؐ سے ملا کریں گے۔یہ نئے لوگ ہوں گے۔ مگر جہاں تک نبیوں کا تعلق ہے ہوں گے ان میں سے ہی۔ مع النبین نہیں فرمایا۔
فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم
جو پہلے انعام یافتہ لوگ تھے‘ انہی کے گروہ میں یہ بھی شامل ہیں مگران میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ محمد رسول اللہ کی امت میں سے ہونا اس کی شان اور ہے‘ ان میں سے ہونا اور بات ہے۔ فرمایا ! مگر نبوت پانے والوں میں ہوں گے۔ من النبین ‘ یہاں مع النبین نہیں فرمایا۔ اگر مع کا فائدہ وہی تھا جو علماء بیان کرتے ہیںکہ نبیوں میں داخل نہ ہو سکے‘ ان کی صحبت پاجائے تو قرآن نے اس معنے کو رد کردیا ہے۔
کیونکہ مع الذین انعم اللہ علیھم
فرما کر یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر پہلے انعام فرما چکا ہے یعنی درجے میں لیکن کن معنوں میں؟
من النبیین
نبیوں میں سے۔ اب یہا ںمَع َکی تکرار کیوں نہ فرمائی صاف پتہ چلتا ہے کہ جو فرضی معنیٰ سابقہ علماء بیان کرتے ہیں‘ بالکل جھوٹ ہے اس کا اس آیت کے منطوق سے کوئی تعلق نہیں۔
من النبیین ای من النبیین
یعنی نبیوں میں سے‘ والصدیقین اور صدیقوں سے‘ والشھدآء ِاورشھداء میں سے‘ والصالحین اور صالحین میں سے‘ یہ لوگ ان میں سے ہیں۔ مگر ایک نئی نسل جاری ہوئی ہے ایمان پانے والوں کی‘ جو محمد رسول اللہ کی اطاعت اور غلامی کے ذریعے جاری ہوئی ہے۔
و حسن اولئک رفیقا
اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔اب یہاں جو میں مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں وہ اس کے بالکل برعکس ہے جو مولوی بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں محمد رسول اللہ کے غلام آپؐ کی کامل اطاعت کرنے والے یا درجہ درجہ اطاعت کرنے والے وہ انعام تو نہیں پاسکیں گے جو پہلوں کی اطاعت کے نتیجے میں ملے‘ مگر ا نکے ساتھ ہوجائیں گے اور یہی رتبہ انکے لئے بہت ہے۔ یہاں
حسن اولئک رفیقا
میں محمد رسول اللہ ؐ کی اور آپؐ کے ساتھیوں کی رفاقت مراد ہے اور Compliment پہلوںکو نہیں ان کو دیا جارہا ہے۔ پہلی معیت میں ان کی معیت کا ذکر تھا۔کہ ان جیسے ہوں گے یہ بھی ‘ ان سے باہر نہیں شمار ہوسکتے۔ مگر چونکہ ایک نیا دور ہے انعام یافتہ لوگوں کا۔ اس لئے ان میں سے نہیں کہاجاسکتا۔ اب یہ نیا دور جو انعام یافتہ لوگوں کا ہے‘ ان کا پہلوں سے کیا تعلق ہے۔ مولوی کہتے ہیں۔
حسن اولئک رفیقا
کہ پہلو ںکا جو ذکر کرکے محمد رسول اللہ کے غلاموں کو ان کے ساتھ ملایا گیا ہے یہ بڑی تعریف کی بات ہے کہ دیکھو محمد رسول اللہ کے غلام بھی آخر زیادہ سے زیادہ وہی پاسکے جو پہلوں نے پالیا تھا۔ میں کہتا ہوں یہ جو آیت کا منطوق ہے بالکل اس کے برعکس ہے۔
حسن اولئک رفیقا
میں یہ لوگ ہیں جن کا ذکر ہم کررہے ہیں۔ یہ رفیق کے طور پر بہترین ہیں۔ یعنی معیت میں پہلوں کو خراج تحسین نہیں ان کو خراج تحسین دیا جارہا ہے۔ پس حسن اولئک میں اولئک کی ضمیر اس فہرست کی طرف پہلے جائے گی جس کا ذکر چل رہا ہے۔ وہ پہلے کہاں سے آگئے ۔ یہاں مراد۔ فرمایا یہ و ہ لوگ ہیں جو محمد ؐ رسول اللہ کی غلامی میں نبوت کو پاجائیں گے‘ صدیقیت کو شہادت کو اور صالحیت کو۔ اور یہی لوگ ہیں جن کی معیت قابل رشک ہے اور قابل فخر ہے اور جن کو ان کی رفاقت نصیب ہوگئی وہ تو ان کی تو موجیں ہوگئیں۔ پس وہی جو حدیث جو میں نے پہلے ہی پڑھ کر سنائی تھی‘ حضرت موسیٰؑ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ہونے کی تمنا کی تھی یہ
من النبیین
مراد ہے۔مجھے اس امت کا نبی بنادے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اس امت کے لوگ انہی میں سے ہوں گے۔ اس امت کے نبی انہی میں سے ہوں گے‘ یہ مراد ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا اچھا ! مجھے نبوت نہیں چاہئیے۔ رفاقت دے دو مجھے۔ یہ وہ رفاقت ہے جس کا ذکر قرآن فرما رہا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ نہیں۔ تم پہلے ہو وہ بعد میںہیں۔ یہ نعمت ان کو ملے گی۔ جو پہلوں کو نہیں مل سکتی توو حسن اولئک رفیقاکا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ انبیاء یہ تمنا کریں گے کہ ہم سے نبوت لے لی جائے مگر محمد رسول اللہ ؐ کے غلاموں کی رفاقت عطا کردی جائے اور اللہ کہے گا کہ نہیں جو پہلے تھے وہ پہلے ہیں‘ اب جو آئیں گے انہی کے لئے یہ نعمت مقدر ہے۔ پس نعمت سے مراد اول طور پر روحانی نعمت ہے جس کا آخری کنارہ نبوت ہے اور اس نبوت کا آخری کنارہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس طرح اتمام نعمت کا مضمون اپنے کمال کو پہنچتا ہے اور خاتَم کا یہی معنیٰ ہے کہ آپؐ کے بعد اس نعمت سے یا آپؐ سے پہلے اس نعمت سے کسی نے اس حد تک فائدہ نہیں اٹھایا‘ کسی کو نعمت اس درجہ کمال تک نہیں ملی جس درجہ کمال تک محمد رسول اللہ ؐ کو نعمت عطا ہوئی اور آپؐ کا فیض آگے پھر بطور نعمت کے جاری رہے گا۔
یہ مضمون میں نے سورۃ نساء کے حوالے سے بتادیا ہے اور سورۃ فاتحہ کے حوالے سے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی جس کا یہ مطلب بنتا ہے۔
اھدنا الصراط المستقیم
اے خدا ہمیں سیدھے راستے کی طر ف ہدایت دے۔
صراط الذین انعمت علیھم
اس راستے کی طرف ہدایت دے‘ جن پر وہ لوگ چلے جن پر تو نے انعام فرمایا۔ اور چونکہ حضرت محمد رسول اللہ کی امت کے غلام یہ دعا کررہے ہیں اس لئے انعمت میںان کی نظر پہلوں پر نہیں جو شروع میں مردود نظر آتے ہیں۔ بلکہ آخری اس قافلے کے سردار پر نظر پڑتی ہے جو محمد رسول اللہ ہیں۔ ان معنوں میں وہ آخری ہیں سب سے دور دکھائی دے رہے ہیں۔ ان سے آگے کوئی چلنے والا نہیں۔ تو اللہ نے ہمیں یہ سکھایا کہ اے خدا ہمیں یہ نعمت کا راستہ دے مگر ا ن لوگوں کا راستہ جن پر وہ لوگ چلے جن کے سربراہ جن کے قائد‘ جن میں سب سے آگے چلنے والے حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اور اس سے پیچھے پھر نعمت پانے والوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ پھر اگر وہ قافلہ ختم ہوتا ہے نبیوں کا‘ آخری نبی زمانے کے لحاظ سے‘ جو بھی آیا ہے‘ وہاں تک پہنچ جاتے ہیں اور دعا چلتی ہے کہ ان میں سے ہمیں بنا دے‘ یعنی جو رسول اللہ صلعم سے پہلے قافلہ اپنی تعداد کے لحاظ سے مکمل ہوا ہے‘ اس میں داخل ہونے کا رستہ آپ دیکھیںہے کہ نہیں۔ یہ دعا سکھاتی ہے کہ ہم داخل ہوسکتے ہیں ۔ اگر اس طرف سے چلیں جس طرف سے انہوں نے یہ منزلیں طے کیں اور یہ سفر اختیار کیا‘ تو ہمیں بھی اے خدا ان میں شامل فرما دے۔
یطع اللہ
کا مضمون ہے دراصل جو یہاںصادق آرہا ہے۔ اگر اتنا نہیں تو پھر اور نعمتیںپانے والے بھی تو ہیں !
من النبین و الصدیقین و الشھداو الصالحین
کچھ تو بنا۔صالحین سے نیچے نہ رکھنا۔ نیچے رکھو گے تو خوف و خطر ہے۔ وہ خوف شروع ہوجاتا ہے یہاں سے صالحین سے نیچے‘ جن میں ہر قسم کے بدبخت لوگ داخل ہوجاتے ہیں۔
مغضوب علیھم ولاالضالین
مغضوب بھی ان میں بڑی کثرت سے شامل ہیں جن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔اور ضالین جو راہ حق پانے کے باوجود پھر اس راہ کو چھوڑ بیٹھے اور بھٹک گئے۔
تو نعمت کا برعکس غضب اور ضلالت ہے ان معنوں میں لیکن فضل کا پھر کیا تعلق ہوا۔ یہاں روحانی نعمتیں وہ ہیں جن میں کچھ نہ کچھ حصہ انسان کی محنت کا ضرور ہے۔ اس لحاظ سے جس مفسر نے یہ کہا‘ میں نے اس کا وہ قول پسند کرتے ہوئے آپ کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں نعمت میں کچھ عمل کا دخل ہے اور عمل کے دخل سے کچھ نہ کچھ ثواب لازم ہوجاتا ہے یعنی متوقع ہوجاتا ہے لیکن صرف اتنا ہی جتنا عمل ہوا اتنا ثواب ملے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد فضل کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی اپنے مراتب کا ذکر فرمایا ہے اسے فضل سے منسوب فرمایا ہے۔ یعنی میری صلاحیتوں کا درجہ کمال تک پہنچنا اپنی ذات میں مضمون کو مکمل نہیں کرتا‘ خدا کا فضل جب اس میں شامل ہوجائے تو اس مضمون کو لامتناہی ‘ لا انتہا کردیتا ہے‘ کوئی حدیں باقی نہیں رہتیں۔
پس حضرت محمد رسول اللہ سے اتمام نعمت اللہ کے فضل کے ساتھ ہوا ہے‘ اور اس کے فضل‘ اس کا فضل ہمیشہ شامل حال رہا۔ اور ہمیشہ شامل حال رہے گا۔ پس اس آیت کریمہ میں
فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضل
یہ بعد کی آیت ہے ۔ اب میں واپس آتا ہوں۔ 172 کی بات ہورہی تھی نا ؟ 173, 172۔
یستبشرون بنمعۃ من اللہ و فضل و ان اللہ لا یضیع اجر المومنین
میں اب کیا مضمون بیان ہوا ہے۔وہ بہت خوش ہورہے ہیں۔ یستبشرون میں خوش ہونا اور خوشی کی توقع رکھنا دونوں باتیں شامل ہیں۔ خوشی کی خواہش رکھنا اور خوشی کی تمنا رکھنا اور بہت خوش ہونا‘ یہ سب چیزیں اس باب استعفال کی وجہ سے اس میں داخل ہوجاتی ہیں۔
بنعمۃ من اللہ و فضل
کہ وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ نے ہمیں نعمتوں میں سے ایک نعمت عطا کردی ہے یعنی شہادت ‘ اسی طرح کی نعمتیں ہمارے پچھلوں کو بھی عطا ہوں گی و فضل اور اس سے بڑھ کر۔ اُن نعمتو ںپر صرف اکتفا نہیں ہوگی بلکہ اللہ اور بھی نعمتیں عطا کرے گا۔
و ان اللہ لا یضیع اجر المومنین
اور یہ بات تو بہرحال پختہ ہے کہ مومنوں کے اجر کو خدا ضائع نہیں کیا کرتا۔یہ ان معنوں میں بیان ہوا ہے کہ ہم تو ‘ جو باتیں کررہے ہیں نعمت اور فضل کی‘ وہ سوچ کیسے سکتے ہیںکہ ان کے اجر ضائع ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اجر سے بڑھ کر عطا کرنے والا موجود ہے۔ اس لئے آئندہ آنے والوں کے لئے یا پیچھے رہنے والوں کے لئے بھی وہ یہی توقع رکھتے ہیں جس کو انہوں نے اپنی ذات میں پورا ہوتے دیکھ لیا۔
یہاں Sale‘ جو مضمون ہے شہادت کا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات کا‘ وہاں پتہ نہیں کس ضد میں آکر ایک بات کر بیٹھا ہے جو دراصل ایک بہت بڑا خراج تحسین ہے۔
وہ کہتا ہے کہ یعنی Compare کرتا ہے۔
In this verse to the Bibical verse in the relation which is 6,2 New Testament.
وہ جو کتاب ہے یوحنا کی‘ مکاشفہ یوحنا جسے کہتے ہیں۔ اس میں اکثر و بیشتر یا قریباً تمام تر ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سورۃ فاتحہ کے حوالے سے ہے۔ اور اس مضمون پر اس کو خدا تعالیٰ نے جو بھی راز بتائے وہ ا نکو کھول رہا ہے‘ اس کا نام مکاشفہ ہے یعنی Revelation۔ اس کی توجہ اس طرف گئی ہے۔ کہتا ہے کہ وہ ذکر کررہا ہے رسول اللہ صلعم کے ساتھیوں اور صحابہؓ کا‘ اس میں مجھے وہ آیت یاد آتی ہے جو مکاشفہ کی چھٹے باب کی دوسری آیت ہے۔
Then I watched as the Lamb broke the first of the seven seals; and I heard one of the four living creatures say in a voice like thunder, come And there before my eyes was white horse, and its rider held a bow. He was given a crown, and he rode forth conquering and to conquer.
یعنی حضرت محمد رسول اللہ ؐ کے متعلق اس آیت میں پیشگوئی سے مشابہت اس کو دکھائی گئی ہے۔ تبھی اس کا ذہن اس طرف چلا گیا ہے۔ کہتا ہے مکاشفہ میں بھی تو ایک پیشگوئی تھی۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ Sale نے بات کو کھولا نہیں ‘ لیکن اپنے دل میں پیدا ہونے والے خیال کو محفوظ کردیا ہے۔ اس کو پسند آیا ہے یہ خیال‘ تو کہتا ہے۔
Then I watched as the Lamb broke the first of the seven seals:
لفظ Lamb کا مطلب وہ بھیڈو بھی ہے لیکن عموماً جانور ایک جانور کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جو انکو کشف میں دکھایا گیا تھا۔ کہتا ہے پھر میں نے دیکھا کہ اس میں سات Seals جو تھیں یعنی سات مہریں‘ ان میں سے پہلی مہر کو توڑا۔ اور مجھے Four Creatures میں سے ایک کی‘ یا Four‘ I Heard one of the four ہاں‘ چار جو عجیب و غریب قسم کی مخلوقات مجھے دکھائی گئی تھیں‘ ان میں سے ایک کی آواز Thunderکی طرح سنائی دی۔جو بڑی پُرشوکت تھی۔ اور وہ کیا تھی۔
Come! And there before my eyes was white horse.
اس آواز نے کہا آئو ! پھر میں تمہیں کیا دکھاتی ہوں۔ اور وہاں میری آنکھوں کے سامنے ایک سفید گھوڑا نمودار ہوا۔
and its rider held a bow
اور اس کا جو سوار تھا‘ اس کے ہاتھوں میں ایک کمان تھی
He was given a crown
اسے بادشاہی عطا ہوئی۔ اور اس کے سر پر بادشاہت کا تاج رکھا گیا۔
and he rode forth conquering and to conquer.
اور وہ آگے‘ وہ سوار آگے بڑھتا چلا گیا۔ کس لئے ؟ علاقے فتح کرتا ہوا‘ اور آئندہ فتح کرنے کے لئے ۔ یعنی محمد رسول اللہ کے زمانے میں جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگا وہ جاری رہنے والا سلسلہ ہے۔ جو آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ پس Sale نے یہاں ایک اچھی بات پیدا کردی ہے اور ایک مکاشفہ کی ایک ایسی آیت کی طرف اشارہ ہے جس کا واقعتہً اس سے تعلق ہے۔
اب سنیے میر احمد علی صاحب ۔ اتنی اچھی اچھی باتوں کے بعد دل تو نہیں چاہتا مگر مجبوری ہوئے۔ کہتا ہے۔
This Verse establishes beyond all doubt the mortality of those who lay down their lives in the way of God.
So far so Good
پھر کہتا ہے
The Ahmadi commentator has quietly passed over this verse without any interpretation for the meaning is too obvious and plain to bear any interpretation.
لیکن میں اس پہ بات کرچکا ہوں۔ کل میں نے حوالہ دیا تھا۔ یہ اس لئے رکھا تھا کہ آپ کو بتادوں کہ یہ بات کہاں اس نے کہی ہے۔ یہ بات اس نے کہی ہے 157 سے 172 تک کی آیات کو اس نے ایک ہی عنوان کے تابع لیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں سچے اور جھوٹوں میں تمیز ہوگئی۔منافق اور مومنوں میں تمیز ہوگئی جنگ اُحد کے میدان میں اور باتیں سب میں بیان کرچکا ہوں۔ اس سے کیا مراد ہے۔ ضمناً یہ احمدیوں کے متعلق یہ بات کررہا ہے۔
اب یہاں سے وہ شرک والا مضمون میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ ایک مولوی نے لکھا ہے ان کے مولوی فرمان علی نے کہ ہم پر کیا یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم اپنے شھداء سے یا نیک لوگوں سے جو بظاہر مرچکے ہیں۔ ان سے مانگتے ہیں۔یہ تو عام بات ہے۔ قرآن سے ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کا خوب آنا جانا ہے ۔ ہمارے اندر اور بے تکلف باتیں ہوتی ہیں۔ اسی مضمون کو احمد علی صاحب بھی یوں بیان فرماتے ہیں۔
The souls of departed ones somehow exist and can communicate and can be communicated with by us and can established theiridentity beyond all reasonable doubt.
یہاں ایک بات میں کھول دوں کہ جماعت احمدیہ اس بات کے مخالف نہیں ہے کہ روحوں سے کوئی تعلق قائم ہوجائے لیکن یہ تعلق ان کی موجودہ صورت کے ساتھ بعینہٖ اُسی طرح ممکن نہیں ہے۔ نہ یہ مراد ہے کہ وہ روحیں اپنے نقطہء معراج سے اتر کر ان dimensions کو چھوڑ کر جن میں وہ بس رہی ہیں ہماری عارضی dimensionsمیں داخل ہوتی ہیں اور ہماری طرح ہوجاتی ہیں۔ یہ درست نہیں ہے اور دلائل کے سوا اس میں ایک قطعی طور پر میں نے یہ بات پیش کی تھی وہ روحیں جب دکھائی دیتی ہیں تو جسم کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ مراد یہ ہے کہ نظر آنے والا وجود بالکل اُسی طرح تھا جس طرح پہ ہم دیکھتے ہیں آنکھ سے۔ لیکن یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا روشن فرما چکے ہیںکہ وہ روحیں جو ہم سے جدا ہوجاتی ہیں‘ یا دنیا سے جدا ہوجاتی ہیں۔ ان کی شکل و صورت اس طرح کی نہیں ہے جیسے ہماری ہے۔ ان میں عجیب انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی آنکھ سے بیان کرنا یہ مراد نہیں ہے کہ گویا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا یا کشف قبور کی بات ہوئی اور بعض بزرگوں کو دیکھا کہ نکل کے باہر آئے ہیں تو گویا واقعتہً اُسی جسم سمیت وہ اٹھے تھے‘ ہر گز اشارۃً بھی یہ مراد نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب وہ دکھائی دیتے ہیں تو ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم اپنی گویا اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں اور ایسا دکھائی دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ وہ نہیں ہیں بلکہ ان کی شبیہہ ہے۔ کیونکہ ان کی وہ شبیہہ اب نہیں ہے جو پہلے تھی۔ تو جب اس شبیہہ میں دکھائی دیتے ہیں تو ثابت ہوگیا کہ یہ وہ نہیں ہیں بجائے اس کے کہ ثابت ہو کہ وہی ہیں۔ اس بات کو میں کھول دوں تاکہ احمدیوں کے ذہن میں ان‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تحریرات کے کوئی غلط معنے نہ بیٹھ جائیں۔ اس کے سوا اور کوئی معنے نہیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے۔ اور باقی تحریرات اس پر گواہ بیٹھی ہوئی ہیں۔ میر صاحب وہ بات نہیں کررہے۔ میں یہ بات کھولنا چاہتا ہوں۔ میر صاحب نے اس بیان سے پہلے لمبے Perapsychological experiences وغیرہ کے حوالے دیئے ہیں۔ اور روحوں کو بلانے کے قائل ہیں اور یہ مانتے ہیں اور یہی بتانا‘ سمجھانا چاہتے ہیں سب کو کہ دیکھو آج کل تو سائنس کی دنیا سے بھی ثابت ہوگیا۔ Spiritualist جو ہیں وہ روحوں کو بلاتے ہیں اور وہ حاضر ہوجاتی ہیں۔ تو یہ ہم پر کیا اعتراض کررہے ہیں یہ جاہل لوگ کہ ہم تو شرک بنا رہے ہیں جب عام دنیا میں یہ معلوم اور معروف حقیقت بن چکی ہے تو ہمارے بزرگوںکا تو آنا بدرجہ اولیٰ ممکن ہے۔ جب اتنا پھیلا دیا اس مضمون کو تو باقی بزرگوں کا کیا قصور ہے وہ کیو ںنہیں آسکتے۔ وہ کہاں گئے اور پھر اپنا تجربہ نہیں یہ بتاتے کہ میںنے خود حضرت امام حسینؑ سے بات کی ہے‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بات کی ہے یا یہ میرے تجارب ہیں‘ اشارۃً بھی اس کاذکر نہیں ملتا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصوۃ والسلام بات فرماتے ہیں تو ان تجارب کی بات کرتے ہیں۔ مضمون کھول کر بیان کرتے ہیں۔ میں نے یوں دیکھا میں نے یہ دیکھا۔تو یہ سب سنی سنائی بات ہے اور انکا رجحان وہ جو Spiritualist یہاں کے کسی زمانے کے لوگ ہوتے تھے‘ ان کی ‘ ان کے تصور کی طرف ہے زیادہ تر۔میں نے پہلے بھی آپ کے سامنے ایک دفعہ بتایا تھا حضرت مصلح موعودؓ جب یہاں 1924ء میں تشریف لائے تو ایسی ہی ایک association کے متعلق club کے متعلق آپ نے معلومات لیں اور وقت لیا اور اُن سے کہا کہ میں‘ میںبھی کسی کو بلانا چاہتا ہوں۔ اب میر صاحب جو واقعات بیان کررہے ہیں‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بالکل ٹھیک‘ جیسا کہ ہے واقعہ ویسی ہی چیز آجاتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کا تجربہ سُن لیجئے۔ آپؓ نے کہا کہ جب مجھے اُس نے اس‘ وہ عورت تھی شاید نگران وہاں کی۔ اس نے کہا کہ ہم تیار ہیں‘ اب آپ بتائیے کس کی روح کو بلانا چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا ! محمد رسول اللہ ؐ کی روح سے اور زیادہ مجھے کیا چاہیے ؟ اگر اس کی زیارت ہو جائے تو کمال ہو۔ تو کچھ دیر کے بعد اُس نے کہا کہ حاضر ہوگئی‘ نعوذ باللہ من ذلک۔ محمد رسول اللہ کی روح آگئی۔ تو آپ ؓ نے عرض کیا یعنی بظاہر یہ بتا کے کہ محمد رسول اللہ سے مخاطب ہیں کہ یا رسول اللہ اگر آپؐ ہی ہیں تو سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرما دیجئے۔ بس اتنی گزارش ۔ تو جواب ملا کہ مجھے نہیں آتی۔ تو یہ حال ہے میر صاحب کی روحوںکا۔ یہ آ بھی گئی ہے تو کس کام کی۔ پس یہ محض لغویات ہیں‘ قصے کہانیاں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔کشوف ہوتے ہیں وہ اپنے پیچھے بعض ‘ صداقتوں کے ثبوت چھوڑ جاتے ہیں۔یہ نظارے کشفی ہوتے ہیں اور وہ بے معنی نظارے نہیں ہوتے بلکہ عام لوگوں کے جو نفسیاتی تجارب کے نظارے ہیں ان سے ممتاز کرنے والی باتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں یہ ذکر فرمائے ہیں وہاں کچھ انعامات ایسے ہیں جن کی خوشخبریاں دی گئیں اور وہ انعامات آپ کے ہاتھ سے جاری ہوگئے۔ اورسب دنیا دیکھ رہی ہے‘ ان سے فائدے اٹھا رہی ہے۔ تو ایسے تجارب اپنے اندر قطعی ثبوت رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ذکر کردیا ہم نے یہ دیکھا اور آپ مان جائیں کہ ہاں دیکھا ہوگا۔ اول تو یہ بات ابھی تک تحقیق طلب ہے کہ ہر ایک کے دیکھنے والی‘ دیکھی ہوئی شکل ایک جیسی تھی بھی کہ نہیں۔ اگر کوئی کسی پولیس آرٹسٹ کے پاس جاکر یہ بتانا شروع کرے کہ جو میں نے دیکھا تھا وہ یہ تھا تو وہ لوگ جو ایک ہی وجود کے متعلق کہتے ہیں ہم نے دیکھا ۔اس کی اتنی مختلف شکلیں پولیس آرٹسٹ بنادے گا ان کے بیان کے مطابق کہ ان کو شناخت کرنے کا کوئی ذریعہ ممکن نہیں رہے گا۔ پس یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن پر عقل کے ساتھ عقل سلیم کے ساتھ غورہونا چاہئے۔ تو ہاں روحوں سے تعلق قائم ہوتا ہے۔ مگرایسے مواصلاتی نظام کے ذریعے جس کی ہمیں کوئی سمجھ نہیں ہے۔ اس مواصلاتی نظام کے ذریعے جو تعلق قائم ہوتا ہے ۔ اس میں روح اپنے اس مرکز کو نہیں چھوڑتی جو اس کے لئے مقدر ہے وہ وہیں فائز رہتی ہے۔ لیکن دو طرفہ گفت و شنید کا انتظام اللہ تعالیٰ اس مواصلاتی سیارے کے ذریعے‘ سیارہ نہیں مواصلاتی ذرائع سے فرما دیتا ہے کہ واقعتہً جو بات وہ کہہ رہا ہے وہ وہاں پہنچائی جاتی ہے۔ جو جوازوہ روح دیتی ہے وہ یہاں پہنچا دی جاتی ہے۔ اور اس میں روح کا‘ اپنی اصل صورت میں ظاہر ہونا ہرگز مراد نہیں ہے۔ اور اس کا پھر ثبوت ہونا چاہئے۔ پس وہی واقعات قابل قبول ہوں گے۔ جہاں روحیں ایسے پیغام دیں جن کی بندے کو خبر نہ ہو۔اور بعد کے حالات انہیں سچ ثابت کر دکھائیں۔ ایسی بعض باتیں Parasychology کی کتابوں میں بھی ملتی ہیںکہ روح نے کہا اور وہ بات سچی نکلی۔ وہ واقعات اکثر جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے‘ ایسے دائروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انسانی فطرت کی ایک بے قرار آواز ہے ‘ جو ان لوگوں کے لئے ہے جن کو کوئی خطرہ درپیش ہے۔ اس صورت میں ان کی آواز کو خدا کا ان کے پاس پہنچا دینا وہ اس کی نعمت اور اس کا فضل ہے‘ یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ’’حقیقتہ الوحی‘‘ میں یہ مضمو ن بھی خوب کھول دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی‘ کشف وغیرہ کا حصول لازم نہیں ہے کہ صرف نیک کو عطا ہو۔ بلکہ نمونتہً خدا تعالیٰ کی رحمت کا چھینٹا کُل عالم پر جب پڑتا ہے تو کہیں کہیں کسی ایسے شخص پر بھی پڑتا ہے جو ان باتوں کا گواہ بنایا جاتا ہے کہ یہ سچی باتیں ہیں۔ ورنہ دنیا میں نیکوں کے سوا باقی سارے لوگ ان کی بات مانیں ہی نا۔ اب جو اتنی بڑی تحقیقیں ہوئی ہیں اس میں Parasychologyیعنی ما بعد الطبیعات تجارب۔ ایسے تجارب جن کا معروف سائنسوں کے ذریعے استخراج ممکن نہیں یا ان کی تحقیق ممکن نہیں۔ وہ سارے تجارب جن کو کہتے ہیں Parasychological یا Paranormal یعنی انسانی نفسیات سے باہر یا Normal یعنی وہ سائنس جن کے ذریعے ہم تحقیق کرتے ہیں‘ ان سائنسوں کے دائرہ اختیار سے باہر کی بات ہے۔ فزکس ‘ کمیسٹری وغیرہ ان کو پہچانا نہیں جاسکتا پر کھا نہیں جاسکتا۔ یہ وہ سارے تجارب ہیں جن میں بڑے واضح طور پر اس بات کے ثبوت ملتے ہیںاور انہوں نے نوٹ کئے ہیں کہ ایک آدمی بالکل سچی بات کہہ رہا ہے بتا دیتا ہے کہ یہ بات یوں ہوگی اور ویسے ہوجاتی ہے۔ ویسے ہی ایک Prophicus کہلاتی ہے Woonga جو اس میں۔کونسی جگہ تھی؟ بلغاریہ‘میں وہ عورت ابھی تک زندہ ہے میں نے ایک دفعہ وہاں کے جو Embassador ہیں یا High Commissioner ایک دفعہ میری ملاقات ان سے ہوئی تھی‘ ان سے میں نے کہا بھی تھا کہ میرے لئے بتائیں راستہ‘ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تجارب کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا تھا ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ controlledملاقاتیں ہوتی ہیں اور بالعموم اس بات کو encourage نہیں کرتے کہ باہر سے لوگ آکر ملیں۔ لیکن اگر آپ نے کبھی آنا ہو تو میںکوشش کروں گا کہ سہولت مہیا ہوجائے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے کنٹرول نہیں چاہئے۔ کھلی گفتگو کا موقعہ ملنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو تم نے کہا ہے وہی پوچھوں اس سے زیادہ نہ پوچھوں ورنہ دلچسپی کوئی نہیں ہے۔ تو ایسے لوگ موجود ہیں ابھی بھی زندہ جن کے متعلق سائنسدانوںکی تحقیق ہے کہ ان کو بعض ایسی باتوںکا علم دیا گیا جو وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک روح ظاہر ہوئی۔ اس نے یہ خبر دی۔ یا ویسے ان کو اللہ تعالیٰ نے کسی ذریعے سے روحانی ذریعے سے خبر دی اور وہ پوری ہوجاتی ہیں۔ تو ا ن باتو ںکا ہونا ناممکن نہیں ہے اور ان کا تعلق اسی مضمون سے ہے کہ خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کو اپنی نعمتوں پر یقین کرنے کیلئے اس طرح بھی تیار کرتا ہے کہ نعمت والوں کے علاوہ لوگوں کو بھی بطور نمونہ کچھ نہ کچھ عطا ہوجاتا ہے تاکہ جب دنیا انکو جھٹلاتی ہے کہ یہ ناممکن ہے تو اسی دنیا کے لوگ اٹھ کر ان کی تائید میں یہ آواز دے دیتے ہیں کہ یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے ایسا ہوچکا ہے۔
اس کے بعد یہ ہے؟ اچھا ۔ یہ لے لیں۔
الذین استجابوا للہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح …… قد جمعوا لکم فاخشوھم فزاد ھم ایماناًO وقالوا احسبنا اللہ و نعم الوکیلO
یقینا وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہا‘ استجابواللہ والرسول اور سول کی دعوت پر لبیک کہا‘ باوجود اس کے کہ ان کو زخم پہنچے ہوئے تھے۔ من بعد ما اصابھم، من بعد کا معنی ہے۔ بعد اسکے یا باوجود اس کے کہ وہ زخمی تھے۔ للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم O یقینا‘ الذین احسنوا‘ جنہوں نے ان میں سے اچھے کام کئے ہیں واتقوا اجر عظیم اور تقویٰ اختیار کیا ہے‘ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ للذین احسنوا منھم سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ جنہوں نے لبیک کہہ دیا وہ سارے ہی نیک نہیں ہیں۔ بلکہ علماء تفسیراس من کو بیانیہ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے انہی کی تصریح‘ انہی کی مزید تعریف اور توصیف فرمائی جارہی ہے کہ و ہ لوگ ایسے ہیں تو اس لئے من یہاں تخصیص کا من نہیں کہ صرف وہ لوگ اچھے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا جن کو خدا جزا دے گا جو ان میں سے احسان کرنے والے ہیں۔بلکہ مراد یہ ہے کہ سارے ہیں جو احسان کرنے والے ہیں۔ یہ سارے ہیں اور جن کے تقویٰ کی اللہ گواہی دیتا ہے ورنہ وہ ایسی حالت میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر اس طرح لبیک نہیں کہہ سکتے تھے۔
الذین پھر ایک اور آیت ہے اس کے معاً بعد
الذین قال لھم الناس
یہ وہی لوگ ہیں جن لوگوں نے کہا
ان الناس قد جمعوا لکم
کہ تمہارے لئے لوگ اکٹھے ہورہے ہیں تمہارے خلاف
فاخشو ھم۔ پس ان سے ڈرو ۔ فزاد ھم ایمانا تو ڈرنے کی بجائے اس بات نے ا نکے ایمان کو اور بھی تقویت دے دی۔
وقالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
اور انہوں نے کہا کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور بہت ہی اچھا نگران اور ایسا ہے کہ جس کے سپرد اپنے معاملات کردیئے جائیں۔ وکیل اس کو کہتے ہیں جس کے سپرد اپنا معاملہ کردیا جائے تو آج کل بھی وکالت کے یہی معنے ہیں۔
ال عمران آیات 173 اور 174۔
الجواب کے اصل معنیٰ مفردات راغب کے نزدیک کو در زمین کو طے کرنے کے ہیں۔ پھر ہر قسم کی مسافت طے کرنے پر بھی بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ کو در جو ہے یہ فارسی لفظ ہے‘ فارسی انگریزی ڈکشنری اس پر لکھتی ہے۔
The Skirt of a mountain or a skirt of a mountain
‏ Skirt ہے لفظ۔ کہ ایک پہاڑ کے گرد جو پہاڑی سلسلوں کی ایک دیوار سی بنی ہوتی ہے۔ اُسے Skirt کہہ سکتے ہیں۔ اس کے گرد پھیلی ہوئی۔ اس علاقے اس جگہ کو دَر کہتے ہیں۔ تو ایسی بلند جگہ جو پہاڑ کا دامن ہو اس کی مسافت کو بالخصوص الجرب کہا جاتا ہے۔ اور ہر قسم کی مسافت کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ الجابتہ پھیلنے والی خبر کو بھی کہتے ہیں۔ الاستجابہ کے معنے ہیں اجابت ‘ یعنی بات کو قبول کرلینا۔ اور اللہ تعالیٰ (انہی) اسی ضمن میں فرماتا ہے۔
استجیبوا اللہ وللرسول
اللہ اور رسول ؐ کی بات کو قبول کرلیا کرو جب وہ تمہیں بلاتا ہے۔ اس کا تعلق جوب سے کیا ہے؟ یہ ہے اہم بات۔ دراصل ایسی بات کو قبول کرنا جس پر طبیعت خود مائل ہو۔ استجابت نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ وہ انسان اپنی نفسی تمنا اور خواہش اور آسانی کے ساتھ از خود کرنے پر تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسی بات قبول کرنا جس میں کچھ محنت کا دخل ہو اور نسبتاً بلندیوں کی طرف بلانے والی ہو۔ اس کے لئے لفظ استجابت استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ یہ قابل تعریف نہیں ہے۔ پس جوب کے ساتھ اس کا یہ تعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاںپہاڑی سلسلوں کے اردگرد جو سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان تک پہنچنا بھی محنت چاہتا ہے اور مراد یہ بھی بن جاتی ہے کہ بلانے والا اچھی چیز کی طرف بلائے۔ جسکی راہ میں کچھ مشکلات بھی حائل ہوں۔ تو اس کے بلانے پر جو شخص کہتا ہے۔ میں حاضر ہوں‘ اس کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ استجابتہ ۔ اور استجابۃ کامعنٰے اس کے برعکس قبولیت دعا بھی ہے۔ یعنی ایک طرف بندہ استجابت کرتا ہے اور دوسری طرف اللہ اس استجابت کا جواب استجابت کی صورت میں دیتا ہے۔ اسے قبول فرمالیتا ہے۔اس کی باتیں مان جاتا ہے اور پہلے مضمون کے ساتھ اس کا تعلق پھر یہ بن سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ مراتب عطا کردیتا ہے جن کابلندیوں سے تعلق ہے۔ اسے اس کی دعا کے نتیجے میں وہ چیزیں اپنے فضل سے عطا کردیتا ہے خواہ وہ ان تک خود پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
جاب کا مطلب چیرنا ہے پھاڑنا۔ جیب اسی لئے اس سوراخ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے آپ بیچ میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور اندر چیزیںرکھتے ہیں۔ جیب گریبان کو بھی کہتے ہیں جہاں سے یہ قمیص پھاڑی جاتی ہے۔ عمداً تاکہ اس میں سر داخل کیا جاسکے۔ تو جاب کا معنٰے چیرنا پھاڑنا ہے۔ اب ان معنوں میں بھی قرآن کریم نے لفظ جاب کو استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ۔ ہاں
وثمود الذین جابوا الصخر بالواد
اور ثمود یعنی وہ لوگ جنہوں نے وادی میں چٹانوںکو چیر دیا اور چٹانیں چیر کر اپنے لئے مکان وغیرہ بنائے۔ یعنی پہاڑ ی قومیںیہ چٹانیں چیر کر وہاں اپنے مسکن بناتی ہیں۔
مجیب کہتے ہیں سوال کو پورا کرنے والا۔
ولقد نادٰنا نوح فلنعم المجیبون
نوح ؑ نے جب ہمیں پکارا‘ فلنعم المجیبون ہم کیا ہی اچھا جواب دینے والے ہیں۔
اب آئیں اس آیت پر
الذین استجابواا للہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح
لیکن اس سے پہلے قرح کی بحث ہوجائے۔ دو لفظ ملتے ہیں ملتے جلتے‘ ایک قَرْحَ اورایک قُرْحَ۔
القَرْح کہتے ہیں بیرونی زخم کو جو انسان کے جسم پر لگایا جائے۔ اور قُرْح کہتے ہیں اس اندرونی زخم کو جو اس زخم کے نتیجے میں یا ویسے ہی کسی تکلیف کے نتیجے میں دل پر لگ جائے۔ تواردو میں تو ہم دل کا زخم ہو یا باہر کا زخم ہو‘ اس کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ‘ الگ الگ لفظ استعمال نہیں کرتے یعنی ایک ہی زخم ہر جگہ اطلاق پائے گا۔ عربی چونکہ بہت ہی لطیف زبان ہے اور الہامی زبان ہے‘ اس لئے اس میں حیرت انگیز فرق ملتے ہیں تو قَرْح اس زخم کو کہتے ہیں جو باہر سے لگے اورقُرْح اس زخم کی تکلیف کو کہتے ہیں اور ہر ایسے دکھ کو جو جسم کے اندر ہو‘ جس کا دل سے اور احساس سے تعلق ہو‘ اور وہ اگر ہمیشہ جاری رہے گا تو لفظقُرْح ہی کہا جائے گا اس کے متعلق۔ تو اس آیت میں یا اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح
تمہیں اگر زخم پہنچا ہے تو قد مس القوم قرح ایک اور قوم ‘ اس قوم کو بھی جو تمہارے مخالف ہے اس کو زخم پہنچ چکا ہے‘ مثلہ اس جیسا۔
اب ہے اخشوھم
خشی کا معنیٰ اول ہے اندیشہ ۔ کسی چیز کا اندیشہ ہونا۔ اور دوسرا معنیٰ ہے خطرہ ‘ خطرہ اور‘ خطرہ نہیں خوف‘ اندیشہ اور خطرہ کے تو ایک جیسے معنے ہیں۔ کسی چیز سے ڈر جانا۔یہاں اندیشے کی بحث نہیں ہوتی مگر اس کے پس منظر میں اندیشہ کام کررہا ہوتا ہے۔ دراصل ہے اندیشہ ہی لیکن اھل لغت نے اس کو تقسیم کرکے بتایا ہے۔ کسی چیز کے متعلق اگر آپ کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ ہو نہ جائے اس کے لئے بھی لفظ خشئی استعمال ہوتا ہے۔ اور ہوجائے‘ اس کے لئے بھی لفظ خشئی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اگر ایسا اندیشہ ہو جس کے متعلق یہ خوف ہو کہ کہیں ہو نہ جائے وہ اندیشوں میں زیادہ داخل ہوگی بات۔ اپنے پیاروں کو کوئی حادثہ نہ پہنچ جائے۔ کہیں یہ نہ ہوجائے کہیں وہ نہ ہوجائے۔ اور ایک ہے یہ ڈر کہ ہوجائے گا۔ کہیں ہو نہ جائے میں تمنا ہے کہ نہ ہو۔ لیکن اپنے پیاروں کے متعلق ایک بات کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ نہ ہو‘ اس کا دوسری طرف‘ میں دوسری بات کہنا چاہتا تھا۔ ایک خشی اس بات پہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ بات ہو مگر ڈر ہے کہ شاید نہ ہو۔ یہ اس کے برعکس ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے مگر اور قسم کا۔ اور ایک اندیشہ ہے اپنی ذات کے متعلق کہ کسی آدمی سے انسان ڈر جائے کہ مجھے وہ مارے گا۔ اس لئے اس ڈر کو یعنی اہل لغت نے الگ کرکے بیان کیا ہے۔ اس کا نام ڈر اور خوف رکھتے ہیں۔ اس کی الگ مثالیں دیتے ہیں۔ جیسا کہ اسی مثال میں قرآن کریم کی آیت علامہ راغب نے پیش فرمائی ہے۔
و ان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ
کہ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کی خشیت سے خوف سے زمین پہ جا پڑتے ہیں اور جو بھی مضمون ہے اس سے تعلق رکھنے وہ جاری ہوجاتا ہے۔تو یہاں اللہ کا خوف یہ عمومی خوف ہے۔ یہاں خدا کی ناراضگی کا خوف ہے اور یا اس کی ہیبت کے لئے بھی لفظ خوف کا استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن دوسری آیت جو میں پہلے بیان کررہا ہوں مضمون‘ ان میں امام راغب یہ پیش کرتے ہیں۔
فخشینا ان یرھقھما طغیا نا و کفرا
اور ہم اس بات کا‘ ہمیں خوف تھا اندیشہ تھا کہ ان دونوں کو طغیاناً و کفرا یعنی یہ طغیان میں‘نافرمانی میں‘ یا حد سے گزرنے میں طغیان اصل میں تو حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔ اور نافرمانی کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے۔ و کفراً اور انکار۔ کہیں وہ ان دونوںکو طغیان اور کفر نہ آلے‘ اس میں وہ مبتلا نہ ہوجائیں۔ پھر سورہ طٰہٰ سے یہ آیت پیش کی گئی ہے۔
انی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل و لم ترقب قولی
یہاں حضرت ہارون ؑ نے جو حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے عذر پیش کیا ہے وہ لفظ خشی سے پیش فرمایا ہے‘ وہ کہتے ہیں مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تو کہیں یہ نہ مجھے آکے کہہ دے کہ تونے میرے اور میری قوم کے درمیان میں تفرقہ ڈال دیا۔ یعنی میں ضرورت سے زیادہ سختی کرجاتا اور قوم باغی ہو کر ہٹ جاتی یعنی یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ میرے لئے اسکے سوا چارہ نہیں تھا۔ مجھے ڈر تھاکہ اگر میں نے توقع سے بڑھ کر جو ان سے توقع کی جاسکتی ہے انپر دبائو ڈالا تویہ تجھے بھی چھوڑ دیں گے۔ مجھے بھی چھوڑ دیں گے۔ اس لئے اس خوف سے میں خاموش رہا۔ انتظار کرتا رہا کہ تو آئے تو خود سنبھال لے۔ تو بہرحال خشئی میںیہ سارے مضمون پائے جاتے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔حسبنا‘ اصل میں اس کا تعلق حساب سے ہے۔ اس کا جو با محاورہ معنیٰ ہے وہ ہے ہمارے لئے کافی ہے۔ اور انہی معنوں میں قرآن کریم میں مختلف جگہ استعمال ہوا ہے۔ حسب لیکن حسابی اندازے سے حساب لا کے کسی چیز کا اندازہ کرنا‘ جسے اربہ لگانا کہتے ہیں‘ اس کو بھی حسب کے لئے‘ اس مضمون کو بھی لفظ حسب بیان فرماتا ہے‘ بیان کرتا ہے۔
حاسب ‘ و کفی بنا حاسبین
حساب لینے والا۔ اور حساب کے جو‘ روز جزا سوال جواب ہوگا اسکے لئے بھی حساب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
وھو
اور اس دنیا میں بھی روز جزا تو استعمال ہوا ہے‘ دنیا میں بھی خدا تعالیٰ بعض دفعہ کسی قوم کے متعلق ایک انذاری فیصلہ فرما دیتا ہے تو اس کے متعلق ایک انذاری فیصلہ فرما دیتا ہے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
وھو سریع الحساب
وہ فیصلہ کرلے تو مرنے کے بعد کا انتظار نہیں کرے گا وہ اس دنیا میںبھی فیصلے فرما دیا کرتا ہے۔ پھر
یرزق من یشاء بغیر حساب
جس کو چاہتاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ گن گن کے نہیں دیتا۔ جتنا چاہے جب چاہے عطا فرما دے۔ اور
یرزقہ من حیث لا یحتسب
یہاں حساب والا مضمون کھل کر بیچ میں شامل ہوگیا ہے۔ وہ اس طرح بھی‘ ایسی جگہ سے بھی عطا کرتا ہے جہاں اس کا حساب پہنچ نہیں سکتا۔ ایک انسان جب اپنے مستقبل کی آمدکے متعلق غور کرتا ہے یا اپنے متعلق یہ سوچتا ہے کہ شاید یہاں سے مجھے فائدہ پہنچے وہاں پہنچ جائے‘ ان سب کا تعلق حساب سے ہے۔ تمام معروف معلوم چیزیں اس کے کمپیوٹر‘ ذہنی کمپیوٹر میں داخل ہوجاتی ہیں۔ کہتا ہے اس سے شاید یہ فائدہ پہنچ جائے اس سے یہ فائدہ پہنچے اس سے یہ فائدہ پہنچ جائے‘ یہ سب کچھ حاصل ہوجائے تو میری سختی کے دن کٹ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جب دیتا ہوں بغیر حساب تو اس طرح ‘ ایک تو میں حسا ب نہیں کرتا‘ دوسرے تمہارا حساب بھی نہیں چلتا۔یہ بغیر حساب کا مضمون ہے۔ جو دونوں جگہ اطلاق پاجاتا ہے کہ میں بھی حساب نہیں کرتا اور تمہارا حساب بھی نہیں چلنے دوں گا۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں سے آجائے گا اور اچانک آسمان پھٹتا ہے اور وہ چیز تمہارے لئے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اس کا تعلق بھی کچھ نہ کچھ اکتساب فیض سے ہے کیونکہ میرے تجربے میں روزمرہ ایسے تجارب‘ ایسی باتیں آتی ہیں کہ احمدی لکھتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی خاطر ایک کڑے وقت میں جب کہ لگتا تھا کہ یہ قربانی ہم سے ہو نہیں سکے گی‘ یہ فیصلہ کرلیا کہ کرنی ہے جو سر پہ گزر جائے گزر جائے۔ اوربعضوں نے اپنی وہ ضروری رقمیں جو کسی اور مقصد کے لئے رکھی تھیںوہ خرچ کردیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں سے عطا کیا جہاں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کوئی ذکر نہیں تھا‘ کسی مضمون میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا تھا اور اچانک وہ آگیا۔ لیکن یہاں حساب کا ایک دلچسپ تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ ہماری عطا تمہاری اس نیکی سے متعلق ہے بعینہ اتنی ہی رقم ملی جتنی ہم نے خرچ کی تھی یا بعینہ اتنی رقم ملی جتنی ہمیںضرورت تھی۔ تو اس کو بغیر حساب میں کس طرح شا مل کریں گے۔ میرے نزدیک یہ بھی بغیر حساب میں شامل ہے مگر اس کا دوسرا کنارہ ہے کہ تمہارا‘ تم احتساب نہیں کرسکتے تھے۔
من حیث لا یحتسب
اس جگہ سے دونگا جہاں تم حساب نہیں کرسکتے۔ مگر میں اس لئے حساب کر رہا ہوں تاکہ تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہے یہ فضل بھ اللہ کا‘ یہ تمہاری کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے‘ کسی اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہے
حسبان کا اک معنیٰ ہے تیز ہوائیں اور یہ بھی بعض لغات ہیںیہ مذکور ہے اور ایک معنیٰ ہے آسمان سے ٹھنڈی ‘ ٹھنڈ اترنابہت تیز ٹھنڈاترنا‘ اور یہ لغت حمیر میں معروف معنیٰ ہے اور قرآن کریم کی ایک آیت انہی معنوں کی طرف اشارہ کررہی ہے انہی پر مشتمل ہے۔
و یرسل علیھا حسبانا من السماء فتصیح صعیدا زلقا
اور وہ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے حسبان اتار دیتا ہے ‘ جن کو سزا دینا چاہتا ہے‘ ا نکی کھیتی جب پھل پکا لیتی ہے اور وہ انتظار کرتے ہیں کہ اب آج یا کل ہم اسے کاٹ کے گھر لے آئیں گے تو اچانک آسمان سے ایک حسبانا اترتی ہے اور وہ ان کے سارے سال کی محنت کو یکدم تلف کردیتی ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس کا تعلق بھی یوم حساب ہی سے ہے دراصل‘ حسبان ان معنوں میں ایک ایسی سرد ی کو کہیں گے جو زمیندار کو سزا دیتی ہے اور اس کا حساب چکاتی ہے وہ ظاہری طور پر اپنے کسی گناہ کے ساتھ اس کو باندھ سکے یا نہ باندھ سکے۔ مگر معلوم ہوتا ہے لغت میں یہ معنی اس لئے رہ گیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے یہاں انہیں معنوں میں حسبان کے لفظ کو استعمال فرمایا ہے انکا حساب چکانے کے لئے ایک قسم کا حسبان ان پر اترتا ہے جو شدید یخ اور بعض دفعہ ژالہ باری لے کرآتا ہے اور آناً فاناً ان کے کھیتوں کو تباہ کردیتا ہے۔
وکیل ۔ وکل ۔ وکلا و وکولا وہ شخص جس پر بھروسہ کیا جائے یہ میں بیان پہلے پڑھ چکا ہوں۔
اب اس کی شان نزول کی بحث ہے وہ آیت نکالیں جہاں روز کا وعدہ تھا جس کو میں نے کہا تھا کہ اس کا حمراء الاسد سے تعلق ہے۔
الذین استجابواا للہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح ۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور سول کی بات کا جواب دیا۔ ہاں میں جواب دیا جبکہ ایسا جواب دینا مشکل تھا استجاب میں یہ معنی پائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کو زخم پہنچ چکا تھا للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم ان میں سے جن لوگوں نے یہ کمال حسن کا مظاہرہ کیا ہے اور تقویٰ اختیار کیا ہے ان کے لئے اجر عظیم ہے۔ اس مضمون کے متعلق اختلاف ہے بعض کہتے ہیں یہ حمراء الاسد سے تعلق رکھنے والا واقعہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے اور بعض کے نزدیک وہ دوسری جگہ ہے میں بتاتا ہوں آپ کو، وہ کہاں ہے وہ۔ وہ نام دوسرا جو بدر صغری کی جگہ کا نام میں پوچھ رہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا یہاں کہیں ہاں مر الظہران ۔ مر الظہران جسے عسفان بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والا واقعہ ہے۔ ایک واقعہ تو میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں۔ حمر اء لاسد پہ کیا واقعہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد کے معاً بعد دوسرے دن یہ اعلان کیا کہ اب سب تیار ہوجائو وہ سب جو میرے ساتھ احد پہ نکلے تھے یعنی جہاد کی خاطر وہ سارے میرے ساتھ دوبارہ چلو اور ہم دشمن کا پیچھا کریں گے اور یہ فیصلہ آپ نے اس لئے فرمایا بعض مورخین کے نزدیک کہ آپ کویہ اطلاعیں ملی تھیں کہ دشمن وہاں پہنچ کر انتظار کررہا ہے اس بات کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اطلاعیں ملیں تھیں اور میرے نزدیک ایسی کوئی روایت قابل اعتماد نہیں۔ کہیں بھی نظر نہیں آئی مجھے ،میں نے ڈھونڈا ہے کہ یہ پتہ چلا ہو آپ کو کہ کسی نے آکر خبر دی ہو کہ یہ ہوگیا ہے۔ غالباً ایک روایت میں اس کا ذکر مجھے ہلکا سا یادپڑتا ہے کہیں تھا لیکن گزشتہ سال میںیا اس سے پہلے کی بحث میں میں نے اس کو اس امکان کو رد کیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ تھا اور اللہ ہی نے آپ کو اطلاع دی تھی اور یہ اتفاقی اطلاع کے نتیجے میں ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس علاج کی مومنوں کو ضرورت تھی اور مومنوں کے دفاع کے لئے اور ان کے تقویٰ اور حسن ایمان کے جلوے دکھانے کے لئے ان سب دشمنوں کے منہ بند کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت تھی جنہوں نے صحابہ پر زبان طعن دراز کی ہے کئی قسم کی لغو باتیں صحابہ کے متعلق کہیں ہیں بہت سی تکلیف دہ باتیں حقیقت میں کہی گئی ہیں ان کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں تو یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور ایک ایسا واقعہ ہے جس میں بدر کے واقعہ کو ایک تکلیف دہ شکست کے بجائے ایک ایسی فتح میں تبدیل کردیا ہے جس کی کوئی مثال سارے عالم میں دکھائی نہیں دے گی نظر دوڑا کے دیکھ لیں اس شان کی کوئی فتح آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی اور میں نے کیا کہہ دیا تھا بدر؟ بدر نہیں I'm sorryبس وہی بات میں نے کہا تھااچھا کیا آپ نے فوراً بتا دیا میری زبان بعض دفعہ وہ ناخن لیتی ہے میں بچپن میں جب گھڑ سواری کا مجھے بہت شوق تھا ایک میری گھوڑی تھی وہ میں چلاتا کسی اور طرف تھا وہ ٹھوکر لے کر کسی اور طرف چل پڑتی تھی تو یہ کوئی کمزوری ہے زبان کی بعض دفعہ ذہن میں ایک اور نام ہے لیکن کسی اورطرف چلا جاتا ہے یہ بدر کی طرف اس لئے مان گیا ہے۔ ایسوسی ایشن سے اس کا تعلق ہے تو یہ بعض مفسرین ان آیات کو بدر ثانی کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ تو یہ ذہن کے پردے پرتھا ، نام اس لئے اس وقت بدر کا نام نکل گیا تو احد کے میدان میں جو واقعہ ہوا ہے اس کلیتہً کالعدم کرکے اس کے بالکل برعکس نتیجہ ظاہر فرمایا گیا ہے اور ایسی شان کا واقعہ ہے۔ حمراء الاسد کا کہ اسکی کوئی مثال جیسے کہ میں نے کہا کہیں دکھائی نہیں دیتی خلاصتہً یہ واقعہ پھر بتادوں کہ حضور نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو اور وہ زخمی جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی اور اکثر کے پاس نہیں تھی ان کا یہ حال تھا کہ سب کے سب چل پڑے بعض زخمی بھائی بتاتے ہیں کہ ہم اپنے دوسرے زخمی بھائی کو جگہ جگہ اٹھا لیتے تھے جب مزید چلنا ممکن نہیں رہتا تھا اور مدینے سے آٹھ میل دور گئے ہیں کہ جہاں سے بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور ایک ایسے فتح یاب بظاہر فتح یاب لشکر کا تعاقب ہورہا ہے جس کے متعلق لوگ سمجھتے تھے۔ کہ وہ رحم کرکے چھوڑ گیا ہے ورنہ چاہتا تو تباہ کردیتا۔ سب مستشرقین یہی لکھتے ہیں کہ ان کے رحم و کرم پر پڑے ہوئے تھے ۔ جب چاہتا ان کو تباہ کرتا اور ان کا بہت معمولی نقصان ہوا صرف چودہ آدمی مارے جاتے ہیںان کے، اور تین ہزار کا لشکر ہے۔ ان تین سو زخمی اور اس نفسیاتی زخمی حالت میں پہنچے ہیں جن پر قَرْح بھی تھا اورقُرْح بھی تھا۔ ظاہری زخم بھی تھا اوراس زخم نے ایک گہرے نفسیاتی زخم ان کے دلوں پر لگادئیے تھے اور ان زخموں میں یہ زخم بھی تھا کہ ہمارے پائوں اکھڑ گئے جس پر ہماری جانیں فدا ۔ ظاہری طور پر ہم اس سے بے وفائی کر بیٹھے ہیں یہ ہو کیسے گیا ان ساری باتوں کا علاج اس میں تھا اس لئے کیسے اسے اتفاقی اطلاع کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے ۔ یہ تقدیر الٰہی تھی ایسا ہونا تھا اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ ہدایت ملتی کہ چل پڑو اب اور ایسی جگہ لے کے جاؤ جہاں کوئی دشمن بدبخت سے بدبخت بھی یہ نہ کہہ سکے کہ ان کو یہ خیال تھا کہ شاید اس طرح ہم بچ جائیں۔کوئی خیال نہیں تھا اگر اطلاع والی بات ٹھیک ہے۔ تو یہ اطلاع تھی کہ وہ حملہ کرنے والا ہے ان معنوں میں وہ اطلاع درست ہوسکتی ہے کہ وہاں پہنچی ہو کوئی خبر لیکن فیصلہ اس کی بناء پر نہیں فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے نزدیک وحی پر ہے اسکے سوا اس کی اور کوئی بنیاد نہیں پس اگر کوئی ایسی اطلاع پہنچی تھی توشامل ہونے والوں کے لئے اور بھی مشکل کہ وہ تو بیٹھا ہوا واقعتہً انتظار کررہا ہے اور حملہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے پھر بھی چل پڑے اور میں پہلے یہ بیان کرچکا ہوں کہ اس کا تعلق اس آیت کریمہ سے ہے۔ جس میں جس کو بعض مستشرقین کہتے ہیں۔ یہ Out of place ہے اس کی جگہ یہاں بنتی نہیں اس کی جگہ وہاں بنتی ہے اور یہ آیت اس کے تعلق کو بہت کھول کر واضح فرما رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اس کی جگہ وہیں تھی اس کے سوا کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ آیت ہے سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب بما اشرکوا باللہ مالم ینزل بہ سلطانا ومأ وھم النار و بئس مثوی الظالمین۔ کہ یہ واقعہ تو ہوا جو جنگ احد میں تمہیں نقصان پہنچا ہے لیکن ہم تم سے ایک وعدہ کرتے ہیں سنلقی ہم عنقریب ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے کفر کیا ہے ایک رعب ڈالنے والے ہیں اوراس رعب کا تعلق ان کے شرک سے ہوگا۔ تمہاری کسی جمیعت کے نتیجے میں وہ رعب ان پر طاری نہیں ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بئس مثوی الظالمین جو آیت ہے۔ میں نے یہ بیان کیا تھا کہ اس کا تعلق حمراء الاسد سے ہے اور یہ واقعہ دشمنوں کے منہ بند کرنے اور ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ہے اس کی تائید میں اب یہ دیکھیں کیسا عمدہ حوالہ ایک ہاتھ آیا ہے جس سے وہ دشمن جو جنگ احد پہ ہنستے تھے وہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیںکہ یہ واقعہ اسی طرح ہوا ہے اور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے دشمنوں کے دلوں میں Terror تھا۔ وہ رعب ان کے دلوں پر طاری تھا یہ میں آپ کو سناتا ہوں۔ مسٹر ویری صاحب کی بات وہ پہلے Sale کی طرف زیادہ تر Sale ہی کی طرف یہ بات منسوب کررہا ہے لیکن Saleکی طرف دو باتیں منسوب کررہا ہے دوسری بات کا ابھی میں نے آپ سے ذکر نہیں کیا۔ اس لئے میں وہ بھی سمجھا دوں پھر اس کے بعد اس طرف آئوں گا۔ وہ یہ ہے کہ بعض لوگو ںکے نزدیک اس کا تعلق بدر ثانی سے ہے یعنی وہ جو کونسی جگہ تھی پھر وہ نام ذہن سے اتر گیا ہے ہاں مر الظہران یا غسفان جگہ جہاں جانے ‘ سے پہلے ابوسفیان یعنی اس حمراء لااسد کے واقعہ سے پہلے جنگ احد کے میدان سے رخصت ہونے سے پہلے یہ اعلان کرگیا تھا کہ ہم جا تو رہے ہیں مگر یہ آخری نہیںہے ہم پھر آئیںگے تمہیں سزا دینے کے لئے اور اس دفعہ بدر کے میدان میں بدر کا بدلہ وہاں موقعہ پر لیا جائے گا۔یہ مراد تھی کہ ابھی ہمارے انتقام کے جذبے ٹھنڈے نہیں ہوئے بدر کا بدلہ ہوگا ہم نے کچھ لیا ہے یہاں مگر اصل تو مزا اس وقت آئے گا جب بدر کے میدان میں بدر کا بدلہ لیا جائے گا اور ہم وہاں آئیں گے اس لئے اور آئندہ سال آئیں گے وقت بتا گیا تھا کس وقت آنا ہے سب باتیںطے کرگیا تھا یہ کہتے ہیں اگلے سال اسی وقت اسی تاریخ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میدان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔اور ابو سفیان نہیں آیا و ہ کیوں نہیں آیا اس لئے کہ وہ رعب والی آیت دوبارہ پھر اسی بدر اسی احد کے نتائج کے طور پر اس آیت نے عمل دکھانا تھا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ وہ عمل دکھائے گی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بدر ثانی کے موقعہ پر خود یہ فرمایا کہ یہ رعب تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس کے نتیجے میں وہ دشمن نہیں آیا پس وہ واقعہ دوسرا ہے جو ایک سال کے بعد رونما ہوا اس واقعہ کی تفصیل میں بعد میں بیان کروں گا اب میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ان واقعات کی بحث ہے جو Sale نے اٹھائی ہے اول یہ کہ یہ آیت حمراء الاسد کی طرف اشارہ کرتی ہے عسفان والے واقعہ کی طرف نہیں دوسرا یہ کہ بعض کے نزدیک عسفان والے واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہے اور Saleکہتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ عسفان والی روایت زیادہ قومی ہے یہ مضمون ہے جس پر اب گفتگو ہوگی۔ وہیری کہتا ہے۔
When news was brought to Muhammadؐ’ after the battle of Ohad, that the enemy, reputing of their retreat, were returning towards Madina he called about him those who had stood by him in the battle and marched out to meet the enemy as for as Hamara al Asad, about eight miles from that town, ... that they were forced to be carried.
آگیبہت لمبا فقرہ ہے میں ٹکڑوں میں پڑھتا ہوں پھر ترجمہ کرتا جاتا ہوں۔ کہتا ہے جب محمد رسول اللہ کو یہ خبرپہنچائی گئی the battle of Ohad after احد کی جنگ کے بعد کہ دشمن اس بات پر پچھتا رہا ہے کہ وہ کیوں بغیر اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے واپس لوٹ گیا ہے۔ Retreat اختیار کر گیا ہے۔ وہ اب دوبارہ مدینہ کی طرف رخ موڑ رہا ہے returning towards Madiana اس وقت He called about him اس نے اپنے لوگوں کو جمع کیا بلایا انہوں Called about him کا مطلب ہے اپنے اردگرد جمع ہونے کے لئے آواز دی Those who had stood by him in the battle ان لوگوںکو جوجنگ احد میں اس کے ساتھ وفادار رہے مراد یہ نہیں ہے کہ جب ہلہ بولا گیا ہے اس وقت چند رہ گئے تھے وہ سارے جنہوں نے احدمیں آپ کے ساتھ شرکت کی تھی ۔ یہی ثابت شدہ حقیقت ہے کہتا ہے marched out to meet the enemy as far as Hamrau al Asad وہ پیچھا کرتے ہوئے حمراء الاسد تک جا پہنچے جو مدینے سے آٹھ میل دور تھا۔ and they were forced to be carried اور ان میں ایسے بھی تھے جن کے زخموں سے یہ حالت تھی کہ ان کو اٹھا کر وہاں لے جایا گیا ہے اب یہاں They were forced to be carried میں اس نے جان کے ایک ایسا محاورہ استعمال کیا ہے۔ جس کے دو الگ معنی بن سکتے ہیں بجائے اس کے کہ خراج تحسین ہو کہ وہ اپنی خواہش کی وجہ سے جو روایات میں ملتا ہے اپنی خواہش کی وجہ سے ایسے مجبور تھے کہ ان کو اٹھا کر بھی لے جانا پڑا تو وہ اٹھا کر لے جائے گئے اوران کے کہنے پر اس کے سوا کوئی روایت نہیں ملتی لیکن forced to be carriedکا مطلب ہے کہ جبراً ایسے زخمیوں کو بھی اٹھا کر لے جایا گیا جو خواہش نہیں رکھتے تھے کہا نہیں تمہیں زبردستی لے کے جانا ہے ایک بھی واقعہ ایسا نہیں لیکن چونکہ اس کے دونوں معنی ہیں اس لئے وہاں اس نے پناہ ڈھونڈلی ہے کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو میں کہوں میں نے تو یہ کہا ہے کہ forced to be carried اپنے زخموں کی وجہ سے مجبور تھے اس لئے وہ اٹھا کر لے جائے گئے ،آگے سنئے اس کا اعتراف
but a panic fear having seized the army of the Quraish, they changed their resolution and continued their march home.
لیکن ایک panic fear نے انکو پکڑ لیا ایک ایسا دل ہلا دینے والا رعب ان پر طاری ہوا۔ جس نے انہیںلرزہ براندام کردیا اور اس رعب کے نتیجے میں یہ واپس مدینہ جانے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے سوا ا نکے لئے چارہ کوئی نہ رہا اب یہ وہ دشمن اسلام جو ابھی تھوڑی دیر پہلے تک فتح قریش یا اھل مکہ کی فتح کے شادیانے بجارہا تھا اور کہتا ہے اس طرح ذلیل و رسوا کیا اس طرح ان کو تہس نہس کردیا کچھ بھی انکا باقی نہیںبچا ان کے پر تھے اگلے سانس میںیہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ حمراء الاسد میں ایک اور واقعہ ہوگیا ہے۔ اس دشمن کی ڈر کے مارے جان نکلی ہوئی تھی۔ جن کے پیچھے زخمی پہنچے تھے جن کو force کرکے وہاں پہنچایا گیا تھا یہ کیسا رعب ہے یہ اسی آیت کا رعب ہے۔ سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب بما اشرکوا۔ میں وعدہ کرتا ہوں خدا فرماتا ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ عنقریب ان پر ہم رعب طاری کریں گے اس لئے تمہارے سب زخم دھل جائیں گے۔ جو ظاہری زخم ہیں وہ تو اچھے ہونے ہی ہیں تمہاریقُرْح بھی جاتی رہے گی اس کی تکلیف بھی جاتی رہے گی کیونکہ اس کے جواب میں پھر جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ واقعہ ہوگیا ہے تو فرماتاہے للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم ہم نے تو معافی کا ذکر کیا تھا اس بات کے بعد تو یہ اس شان کے مستحق ہیںکہ ان کے حسن عمل اور حسن ایمان کی تعریف کی جائے اور ان کے تقویٰ کومثال کے طورپر پیش کیا جائے اور یہ وعدہ کیا جائے کہ انکے لئے اجر عظیم مقدر ہے یہ ہے وہ واقعہ حمراء الاسد جس کے متعلق وہیری لکھتا ہے یہ اسکو بھیquote کررہا ہے پہلے
but a panic fear having seized the army of the Quraish, they changed their resolution, and continued their march home of which Muhammad having received intelligence he also went back to Madina: and according to some commentators the Quran have approves the faith and courage of those who attended the prophet on this occasion.
کہتے ہیں کہ قریش جب یہ اطلاع محمد رسول اللہ ؐ کو پہنچ گئی کہ وہ دشمن جگہ چھوڑ چکا ہے اور روانہ ہوگیا ہے۔ تب آپ واپس آئے ہیں اس سے پہلے واپس نہیں آئے یعنی محض دھمکانے اور ڈرانے کے لئے کوئی شوبزنس نہیں تھا کہ ان کو کہا جی ہم آگئے پیچھے پیچھے انتظار فرماتے رہے ہیں اس کو موقعہ دیا ہے تین دن رات تک وہیں پڑائو کئے رکھا جب یقینی علم ہوگیا کہ دشمن جا چکا ہے تب آپ ؐ نے واپسی کا قصد فرمایا اور واپس آگئے کہتا ہے Some commentators - Some commentators کیا سب ہی اس بات کو دیکھ رہے ہیںوہ جانتے ہیں کہ وہ بہت ہی تعریف کا مقام ہے یہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر ان سب صحابہ کی تعریف فرمائی گئی۔
کیوں جی وقت ختم ہوگیا ہے ‘ ہیں۔ اچھا بڑی جلدی ختم ہوگیا ہے پھر باقی کل انشاء اللہ لوگ بعض شکایت کررہے ہیں کہ آپ ایک دم ختم کردیتے ہیں حالانکہ میں ایک دم ختم کرتا ہوں مگر آپ کے کہنے پر مجبور ی یہ ہے کہ وقت۔ ان کو یہ اصل میں یہ ہاتھ آگیا ہے وہ کہتے ہیں اس کے بعد بھی تو باتیں کرتے رہتے ہیں تو ان باتوں کو کم کردیا کریں اور یہ جو ختم ہے اس میں اس کو کچھ نرم کردیں۔ آہستہ آہستہ جس طرح طریق ہے کہ جائیں جی اب یہ ختم ہو گیاہے ۔اب فلاں بات کی طرف متوجہ ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ گئے ہیں۔ اچھا جی !
السلام علیکم !
٭٭٭٭٭

بسم اللہ الرحمن الرحیم
القرآن 25 رمضان المبارک
8 مارچ 1994 ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولا تحسبن الذین قتلو ا فی سبیل الہ اموتاً ………ا یجعل لھم حظاً فی الآخرۃ ولھم عذاب عظیمO (آل عمران ۷۷ا۔۷۰ا)
آج ہم نے 174۔173 پر ہی بات کرنی ہے جو اس کا آخری حصہ تھا یہ رہ گیا تھا۔
یقینا وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا باوجود اسکے کہ ان کو زخم پہنچ چکا تھا۔ للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم وہ جنہوں نے بہت اچھے کام کئے۔ نیک نمونے دکھائے اور اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کیاانکے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم: وہ جنہیںلوگوں نے کہا کہ لوگ تو تمہارے لئے جمع ہوگئے ہیں فاخشوا ھم۔ پس ان سے ڈرو فزاد ھم ایمانا تو ڈرنے کے بجائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا حسبنا اللہ ونعم الوکیل ۔ اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور بہت ہی اچھا پاسبان اور کارساز ہے۔
اس میں میں بیان کر رہا تھا کہ اختلاف پایا جاتا ہے بعض لوگوں کی تشریح میںیعنی اسکے سمجھنے میںبعض کہتے ہیں کہ یہ جو آیات پڑھ کر تلاوت کی گئی ہیں کا تعلق بدر ثانی سے ہے اور حمراء الاسد سے نہیں بعض کہتے ہیں کہ حمراء الاسد سے بھی ہے بدر ثانی سے بھی ہے۔
دو آیات ہیں اول کا حمراء الاسد سے تعلق ہے اور وہ مضمون ظاہر و باہر حمراء الاسد ہی سے تعلق رکھتا ہے اور دوسری آیت کا بدر ثانی سے تعلق ہے اور اس آیت میں ہی وہ بات بڑی واضح ہوجاتی ہے۔ میرا اپنا بھی رجحان بلکہ قطعی رجحان یہی ہے کہ ان دو آیات میں احد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دونوں واقعات کا ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ دونوں واقعات صحابہ ؓ کی عظمت کردار پر گواھی دیتے ہیں اور انکی وفا پرگواہی دیتے ہیں۔ اسلئے لازم تھا کہ احد کے مضمون کو انکے متعلق صفائی پیش کئے بغیر ختم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ان سے عفو کا سلوک کرچکا ہوں۔ اور وہ معاملہ ختم کرچکا ہوں۔ اور پھر حلیم کہتا ہے اپنے آپکو میں نے سمجھایا تھا کہ حلیم کی صفت یہاں یہ معنے دے رہی ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ اچھے ہیں۔ آئندہ ان کے نیک نتیجے ظاہر ہونگے۔ انکے اعمال اتنے زخمی نہیں ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک ہمیشہ کیلئے ان کو رد کردیا جائے۔ بعض اعمال کے نتیجے میں کچھ نقصان پہنچا لیکن اللہ جب معاف فرما چکا ہے تو اللہ حوصلہ رکھتا ہے اور برداشت رکھتا ہے کہ انتظار کرے یہاں تک کہ ان کی اصل حقیقت ظاہر ہوجائے۔ یہ معنی ہے حلم کا پھر وہ اصل حقیقت دو موقعوں پر ظاہر فرمائی گئی۔ایک حمراء الاسد کے موقعے پر اور ایک بدر ثانی کے موقعے پر اور دونوں جگہ اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ رعب نے اپنے کام دکھائے ہیں اور حیرت انگیز طریق پر یہاں تک کہ دشمن اسلام بھی جو کل تک ہنس رہا تھا کہ رعب کی کیا بات کر رہے ہیں ۔ کہاں رعب ہے ؟ وہ بھی ماننے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ میر احمد علی صاحب بھی ایک ہی دفعہ ہے جہاں حضرت علی ؓ کا ذکر کئے بغیر رعب مان گئے ہیں کہ اللہ کا علی ؓ کے بغیر بھی رعب پڑسکتا ہے ۔ اور یہ وہ دونوں باتیں ہیں جو اس ترتیب کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور ان پر جب اجتماعی طور پر غور کیا جائے تواسکے سوا کوئی قابل قبول بات دکھائی نہیں دیتی۔ پس یہ بحثیں فضول ہیں کہ یہ جو دونوں واقعات فلاں واقعہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک اتنا کھلا کھلا مضمون ہے کہ ان بحثوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں مگر بعض دفعہ بڑے بڑے علماء اور بزرگوں نے بھی اس بحث میں پڑ کر کچھ نتیجے نکالے ہیں۔ انکی کچھ حکمتیں ہونگی ۔ مجھے علم نہیں کہ کیوں ان لوگوں نے اس بحث کو قابل اعتنا سمجھا ہے حالانکہ جیسا کہ میں نے بات کھول دی ہے بدر کے نتائج کے طور پر یہ دونوں واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور دونوں الگ الگ نتیجہ ظاہر کر رہے ہیں اور ان دونوں کو جوڑنے کے بعد مجموعی شکل ظاہر ہوتی ہے۔ اس پہلو سے اب میں آپ کے سامنے جیسا کہ کل یا پرسوں کی بات ہے ریورنڈ وہیری کا حوالہ پڑھ رہا تھا وہیں سے بات شروع کرتا ہوں وہ پہلے تو SALE کے متعلق بتاتا ہے کہ SALE کا کیا خیال ہے؟ پہلے کو STORY NO:1
دیتا ہے سیل اور پھر STORY NO: 2 دیتا ہے ۔
‏STORY NO:1 میں لکھتا ہے کہ when news--یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں غالباً میں۔ یا پورا نہیں پڑھا پھر چلیں چند سطریں پھر پڑھ دیتا ہوں
When news was brought to Muhammad, after the battle of ohad, that the enemy,repenting of their retreat, were returning towards Madina, he called about him those who had stood by him in the battle and marched out to meet the enemy as for as Humra aul Asad, about 8 Miles from the town, that they were force to be carried; but a panic fear having seized the army of the Quraish, They changed their resolution, and continued their march home.
لیکن پہنچے تو اس حال میں تھے کہ بعضوں کو بعض زخمیوں نے اٹھایا ہوا تھا اور نتیجہ یہ نکال رہا ہے کہ قریش پر ایک بخار چڑھ گیا خوف و ہراس کا۔یعنی رعب بھی ایسا زبردست کہ گویا کہ وہ تھر تھر کانپنے لگے اور اسکے نتیجے میں وہ بھاگ گئے ہیں وہاں سے اور اس سے پہلے میر صاحب یہ لکھ چکے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے متعلق جب یہ اعلان ہوا اور جبرائیل نے اعلان کیا کہ
لا فتی الا علی ولا سیف الا ذوالفقار
تو ایسے چھکے چھوٹے ہیں کہ کفار کے کہ سیدھا مکے جاکے دم لیا ہے۔ پس یہ رعب رعب علی ؓ ہی تھا اسکے سوا کوئی رعب نہیں تھا۔ اور آگے جب میں حوالہ ان کا پڑھوں گا تو وہ بھی بات ماننے پر مجبور ہیں کہ وہاں ٹھہرے تھے حمراء الاسد میں۔
آنحضرت ؐ اور آپکے زخمی ساتھی بھی ساتھ تھے اور دشمن پر رعب پڑا ہے۔ اور اس موقعے پر حضرت علی ؓ کے رعب کا وہاں ذکر نہیں ملتا اچھا پھر یہاں سے ہے۔
Change the revolution and continued their march home; of which Muhammad having received intelligence, he also went back to Madina ; and according to Some commentators the Quran here approves the faith and courage of those who attended the prophet on this occasion.
STORY NO: 2
Others Says that the persons intended in the passage were those who want with Muhammad the next year to meet Abu Sufian and the Quraish, according to their Challenge, at Badr, where they waited some time for the enemy, and then returned home; for the Quraish, though they set out from Makkah, yet never came so far as the place of appointment, their hearts failing them on their march;
پھر یہاں رعب کی تکرار ہے۔ کہتا ہے وہ چل پڑے لیکن پھر دل جواب دے گئے انکے اور ہمت نہیں پڑی کہ آگے بڑھیں۔
Now Wherry this after coating Sale
یہ پوری بات سیل کی لکھ کر Wherry کہتا ہے۔
``The first story of the commentators given by Sale seems to be borne out by the statement, they who hearkened unto God and his apostle after a wound had be fallen them''.The following verse applies better to the second story. It is possible that two distinct revelations have been here blended together by the compilers of the Quran.
یہ وہ دو باتیں اس میں اس نے کہی ہیں اول یہ کہ اس کے نزدیک قطعی طور پر یہ جو آیت زیر نظر ہے۔
الذین استجابوا للہ و للر سولِ ....... عظیم تک
کہتا ہے کہ یہ آیت تو قطعی طور پر حمراء الاسد سے تعلق رکھتی ہے۔ اور دوسری آیت جو ہے کہتا ہے اسکے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بدر صغری سے تعلق رکھتی ہے۔
لیکن ساتھ ہی چونکہ عادت ہے taunt کرنے کی اور کچھ نہ کچھ ڈنگ لگانے کی۔ اسلئے کہہ دیتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے Compile کیا تھا قرآن انہوں نے دونوں باتوں کو Mix کردیا ہے۔ حالانکہ Mix کہاںہوا ہے۔ دونوں آیتیں الگ الگ ہیں۔ یہ سمجھ رہا ہے کہ ایک ہی آیت میں دونوں مضمون بیان ہوئے ہیں۔ یعنی کہنے کا یہ طریق ہے حالانکہ یہ جانتا ہے کہ وہ الگ آیت ہے یہ آیت الگ ہے۔ پہلے مان چکا ہے۔ پھر Mix کیسے ہوگیا؟ترتیب کے مطابق ہے۔ ایک واقعہ فوری طور پر حمراء الاسد کا جنگ احد کے معاً بعد ہوا ہے۔ وہ پہلی آیت میں درج ہے۔ دوسرا واقعہ ایک سال کے بعد ہوا۔وہ دوسری آیت میں درج ہے۔ اسلئے Mixing کا کونسا موقعہ ہے یہاں؟
It is possible that two distinct revelations have been blended together by the compliers of the Quran.
عجیب ہی حالت ہے ان لوگوں کی بے چاروں کی میر صاحب کا میںنے ذکر کیا تھا اب وہ لکھتے ہیں۔
The muslims persude the makkan Army to about 8 miles away to a place ``Humra ul Asad''. The Makkans inspit of their over whelming numbers dared not encounter the muslims. This could not be but for the heavenly awe called for the purpose.
یہاں پہنچ کر سارے مسلمانوں کو اس Compliment میں شامل کرنے پر یہ بھی مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ کوئی ان کو ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملی جس سے یہ نتیجہ نکال سکتے کہ یہاں بھی حضرت علی ؓ کا رعب تھا۔ لیکن جو بدر ثانی ہے اسکے متعلق ان کا جو بیان ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔
یہ میں آپ کو سُنا چکا ہوں ’بدرِ ثانی‘ کا واقعہ ؟
مرالظھران جو تھا میں نے اسکی تفصیل نہیں بتائی؟
بدرِ ثانی کا وقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا احد سے روانہ ہوتے وقت ابو سفیان نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم پھر آئینگے۔ اوربدر کے میدان میں ا تنی بات تو مجھے یاد ہے کہ میں نے بتائی تھی کہ اسکے دل میں یہ بات کھول رہی تھی کہ مار تو ہم کو بدر میں پڑی ہے تو بدلہ بھی وہیں لینا چاہئے اسلئے اس نے بدر کے میدان کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم دوبارہ آئینگے۔
آنحضرت ؐ تیار ہوئے اور اپنے صحابہ کو بھی ساتھ چلنے کا ارشاد فرمایا لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس موقعہ پر
" الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم"
الذینیہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے گزرا ہے۔ ان کو لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے لئے اکٹھ کر گئے ہیںتمھارے خلاففاخشو ھم فزا دھم ایماناً: پس ان کا خوف محسوس کرو تو بجائے خوف کے ان کا ایمان بڑھ گیا اور وقالو حسبنا اللہ ونعم الوکیل: انہوں نے کہا : اللہ ہی ہمارا محافظ ہے۔ ہمارا توکل اللہ پر ہی ہے اور وہی ہمیں کافی ہے حسبنا کے معنی میں کافی ہے اورہمارا توکل اللہ پر ہے۔ اس واقعہ کے متعلق یہ کون لوگ تھے جنہوں نے کہا؟اسکے متعلق لوگ عموماً نعیم بن مسعود کا ذکر کرتے ہیں۔یہ اشعری قبیلے سے تھا۔ اسکے متعلق بتایا جاتا ہے کہ جب ابو سفیان بدر کا قصد کرکے روانہ ہوگیا تو رستے میں اس خوف نے اسکو گھیر لیا جسکا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے " کہ ہم ضرور انکے دلوں میں خوف طاری کردینگے" اور اس پر اس نے کوئی بہانہ تلاش کر رہا تھاکہ واپس کیسے جائوں ؟کیونکہ اگر وہ ویسے ہی واپس چلا جاتا تو مکہ میں لوگوں نے اسکو جینے نہیں دینا تھا کہ بزدل ڈر کے مارے واپس گئے ہو اور صحابہ بھی کہتے کہ دیکھو آیا ہی نہیں۔
اس نے یہ ترکیب سوچی کہ مسلمانوں کو ڈرایا جائے وہ بھی نہ چلیں۔ نہ ادھر سے چلیں نہ ہم یہاں سے پہنچیں۔ تو بات برابر ہوجائیگی۔ تو ایک شخص نعیم بن مسعود اشعری وہاں اپنے سفر پر آیا ہوا تھا اسکو اس نے دس اونٹوں کی لالچ دی اس نے کہا دس اونٹ ٗ وہ بھی جو دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں ہوتی ہیں جنکی عرب میں بہت قدر کی جاتی ہے۔وہ میں تمہیں انعام دونگا اگر تم میرا یہ کام کردو۔ تو نعیم بن مسعود دمدینے پہنچا اور اس نے جاکر وہاں ایسی باتیں مشہور کردیں کہ میں تو دیکھ کے آیا ہوں وہ تو بہت خوفناک ارادے لیکر نکلے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ اب ہم نے ایک بھی باقی نہیں چھوڑنا۔ اور بڑے جنگجو اور خوفناک لوگ ہیں جو تمہارا قصد کرکے نکل چکے ہیں تو امان اسی میں ہے کہ بھاگنے کی کرو جس طرح بھی ہو اپنی جان بچائو یعنی مدینے میں بھی نہ ٹھہرو وہاں سے بھی نکل بھاگو۔ یہ باتیں تھیں جنکا ذکر کہتے ہیں کہ قرآن میں ہے لیکن " الناس" کا لفظ عمومی ہے۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ اس نے بات کی ہو تو عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھیوں نے اس بات کو اٹھالیا ہو۔ اور وہاں عام چرچے ہورہے ہوں۔ اس روایت کے بعد ایک یہ بھی روایت ملتی ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی بھی اور نہیں جائیگا تو میں اکیلا جائونگا۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اس عہد کو پورا نہ کریں ہمارا ایک معاہدہ ہوچکا ہے ہم وعدہ کرچکے ہیں۔ ہم ضرور آئینگے۔ اور پھرپڑھی یہ آیت یہ اعلان کیا کہ " حسبُنا اللہ و نعم الوکیل" کہ اللہ ہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین پاسبان وہی ہے۔ یہ روایت بھی ہے کہ اس موقع پر 70 صحابہ تیار ہوئے اور آپ 70 کے قافلے میں وہاںروانہ ہوئے اور وہ 70 کے 70 جب روانہ ہوئے تو یہی نعرے لگارہے تھے کہ " حسبنا اللہ ونعم الوکیل ُ۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ُ- اور بڑی پر شوکت آواز بلند ہورہی تھی ان سب مجاہدین کے سینوں سے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ وہی ہمارا بہترین ساتھی ہے۔لیکن یہ 70 والی بات قابل قبول نہیں ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ جب میں نے 70 والی روایتیں پڑھیں اسوقت میرے سامنے یہی تھیں تو مجھے یقین اسلئے نہیں آیا کہ قرآن کریم کا بیان اسکے مخالف ہے۔ قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ صحابہ میں سے بعض نے بہادری کا نمونہ دکھایا اور یہ اعلان کیا۔قرآن کریم یہ فرماتاہے کہ صحابہ کہ یہ کیفیت تھی کہ وہ جتنا ڈراتے تھے انکا ایمان بڑھتا جاتا تھا اسلئے اس قرآنی بیان کے مقابل پر بعض ضعیف روایتوں کو لے لینا کہ جی 70 صرف نکلے تھے یہ محض لغو بات ہے۔ یہ 70 والے کچھ راوی ہیں معلوم ہوتا ہے ۔ کہیںبیچ میں داخل ہوگئے ہیں۔انہوں نے "حمراء الاسد" کو بھی 70 بنایا تھا۔ یہ وہ راوی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ صحابہ کی پوری بریت نہ ہو۔ کوئی نہ کوئی بیچ میں ایسا آدمی داخل ہوا ہوا ہے۔ کیونکہ وہاں بھی باوجود اسکے کہ صحابہ کی دشمنی میں میراحمد علی صاحب کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے وہ راوی لیکن وہ بھی مانتے ہیں کہ سارے ہی پہنچے تھے یعنی شیعوں کو بھی تسلیم ہے کہ وہ سب کے سب پہنچ گئے تھے۔ جنہوں نے جنگ احد میں حصہ لیا ہے۔ تو 70 کی روایت وہاں بھی کسی ایسے بے وقوف آدمی کی طرف سے داخل کی گئی ہے اور یہاں بھی 70 کی روایت ! تو جب تحقیق کی گئی ہمارے پاس زیادہ کتب تو اسوقت موجود نہیں تھیں حضرت میاںبشیر احمدؓ صاحب کی کتاب خاتم النبیین میں یہ حوالہ مل گیا۔’’ غزوہ بدر الموعد یعنی بدر صغریٰ‘‘اس بدر کا غزوہ جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بدر صغریٰ کہتے ہیں اسے۔شوال کے مہینہ 4 ھ کے آخر پر آنحضرت ؐ ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے۔اب کہاں 70 کہاں ڈیڑھ ہزار؟اور یہ حوالہ ہے ابن ھشام ٗ ابن سعد (سیرت خاتم النبیین)
اسلئے یہ قطعی بات ہے کہ سب صحابہ تیار تھے۔ کمزور جو پہلے تھے وہ بھی آگے بڑھ گئے اور وہ کمزوریاں سب ان کی جھڑ گئیں۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیھم کے اوپر سے تمام الزامات کی بریت کس شان سے ہوئی ہے کہ ایک دفعہ نہیں بدر کے فوائد ٗ اسکا فیض دو مرتبہ پہنچا ہے۔ اور ایک کی بجائے دوہرا نقصان جسکا پہلے ذکر ملتا ہے۔ یہ بات ذکر اورتوجہ لائق ہے۔بدر میںیہ کہا گیا تھا کہ ان کو تم نے دُوہرا نقصان پہنچایا۔اب تمہیں آدھا پہنچا ہے تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ کہاں سے آگیا ؟اب اللہ فرماتا ہے میں ہاتھ میں لیتا ہوں معاملہ۔تمہاری میں نے بریت فرماری ہے۔ اب میری طرف سے مشرکین پر انکی بدکرداریوں کے نتیجے میں ایک رعب اٹھے گا۔ انکے دل سے اٹھے گا۔ اور انہی کو مغلوب کردے گا اور وہ دُہرے والی بات اب یہاں پھر پوری ہوگی۔ اسلئے دو دفعہ صحابہ کی بریت ہوئی ہے اور دو دفعہ رعب نے جلوہ دکھایا ہے۔کسی منافق کیلئے کوئی گنجائش نہیں باقی چھوڑی کہ اب ان صحابہ کو متہم کرسکے اوران پرکسی قسم کا الزام لگائے۔ انکی تائید میں اللہ تعالی نے ایسا شاندار جلوہ دکھایا اور ان کو استقامت بخشی اور توفیق عطا کی کہ ایک بھی ان میں سے دوبارہ پھر کمزوری نہ دکھائے۔ یہ وہ ہے مضمون۔اور دوہری گزند ان کو اسطرح پہنچادی کہ جنگ احد میں ایک دفعہ وقتی طور پر انہوں نے صحابہ کو گزند پہنچایا تو اسکے مقابل پر دو دفعہ ان کو گزند پہنچی یا گزند پہنچاہی ہے نا؟
اچھا اب یہ سن لیجئے بہرحال ابو نعیم تھا یا جو بھی تھا قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ عام طور پر یہ صحابہ کا ردعمل بلا استثناء قرآن کے مطابق ایمان بڑھنے کا تھا ایمان کم ہونے کا نہیں تھا۔اب میں نے رعب کا اقرار انکی طرف سے بھی دکھادیا ہے۔Wherry کی طرف سے بھی ٗ میراحمد علی صاحب کی طرف سے بھی دکھلا دیا ہے آپکو کہ مانتے ہیں کہ رعب ایک دفعہ نہیں دو دفعہ پڑا ہے۔اور اب سنئے کہ سیل ؔکہتا ہے کہ یہ نعرہ" حسبنا اللہ و نعم الوکیل"یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے مارا تھا۔ اور یہ فرضی بات اس نے گھڑ لی ہے کہ اس لئے لگایا تھا کہ صحابہ Disspirit سے ہوگئے تھے۔ حالانکہ قرآن کھلم کھلا بتارہا ہے کہ ان سب صحابہ نے آگے سے یہ جواب دیا ہے۔ آیت دیکھیں اس میں ایک شخص کے جواب کا نہیں ہے۔" قالو حسبنا اللہ ونعم الوکیل"ڈرنے کی بجائے انکے ایمان بڑھے۔ اور ان سب نے یہ نعرہ لگایا ۔" حسبنا اللہ و نعم الوکیل"پس جو 70 کی روایت بیان کرتے ہیں وہ بھی 70 کے 70 کی طرف یہ بات منسوب کر رہے ہیں مگرسیل کو معلوم ہوتا ہے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ لیکن وہ یہ کہتا ہے
Upon which Muhammad, Seeinghis followers a little dispirited
‏A Little کا لفظ Add کردیا تاکہ حوالہ نہ دینا پڑے ..... تھوڑا سا تھے کچھ بے چارے
So that he would himslef though not one of them went with him.
کہ ........He would خواہ اور کوئی جائے نہ جائے
And accordingly he set out with Seventy horsemen
یہاں 70 کو اس نے لے لیا ہے
‎حسبنا اللہ" every one of them crying out God is our Support..
تو اس تھوڑی سی کجی کے بعد یہ مانتا ہے کہ جتنے بھی گئے تھے سب نعرہ لگارہے تھے۔
ویری agree کرتا ہے حمراء الاسد پر جب کفار just a minuteہاں ہاں حمراء الاسد کی بات نہیںیہ کہہ رہا ہے مدینے میں یہ واقعہ ہواتھا اس کی آیت کی تفسیر میں وہ لکھتا ہے کہ میر صاحب لکھتے ہیں؟ اور میر صاحب کیا کہتے ہیں؟ میر احمد علی صاحب ان کا حوالہ کہاں گیا میر صاحب کا؟ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ صرف حضرت علی نے نعرہ مارا تھا وہ میرے پاس کہیں پڑا ہوا ہے کاغذات میں پھر آپ کو دکھا دوں گا۔ کہ ان سے مدینے میں جب قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب ان کو ڈرانے کی کوشش کی گئی تو انکے ایمان بڑھ گئے اور مومنوں نے یہ نعرہ لگایا کہ " حسبنا اللہ و نعم الوکیل"تو بات یہ ہے کہ جب منافقین یا شر پھیلانے والوں نے یہ بات کی تو صرف علی ؓ تھے جنہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا۔اور کوئی نہ تھا نہ محمدؐ رسول اللہ ٗ نہ دوسرے سا تھی۔ صرف اکیلے علیؓ آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے کہا۔"حسبنا اللہ و نعم الوکیل"اب اسکی کوئی جھوٹی روایت بھی پیش نہیں کر رہا۔ محض گھر بیٹھے کہانی بنتے رہتے ہیں اور اس وقت خدا نے انکے منہ سے بات نکلوائی نہیں جو میںنے بات بتائی تھی رعب والی ایسا دماغ سے نکلا ہے۔ کیونکہ خدا یہ اقرار کروانا چاہتا تھا کہ سب صحابہ ہیں جن کو میرا فیض پہنچا تھا۔ احسان پہنچا تھا اور ایک یا دو کی بات نہیں ہورہی۔اب ہم اگلی آیت میں داخل ہوتے ہیں۔یہ آپ حوالہ لے لینا میں نے الگ کر کے رکھا ہوا تھا وہ کہیں رہ گیا ہے۔
فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء واتبعو رضوان اللہ ۔ واللہ ُ ذُو فضل عظیمOسو وہ اللہ کی طرف سے نعمت اور فضل لے کر لوٹے۔لم یمسسھم سُو ء ۔ انہیں کوئی کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی۔ واتبعو رضوان اللہاور انہوں نے خالص اللہ کی رضا کی خاطریہ سفر اختیار کیا تھا۔واللہ ذو فضل عظیم:۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ یہاں ہے ٗ اسکے بعد آئیگا وہ غالباًانما ذٰلکم الشیطن یخوف اولیاء ہ فلا تخا فوھم وخافون ان کنتم مومنینO ممکن ہے یہاں وہ حوالہ درج ہو اب آئے گا تو میں دکھا دوں گا آپ کواب سر دست اس پہ چلتے ہیںنعم کے متعلق گفتگو ہوچکی ہے تفصیل سے۔ رضوان: رضائے باری تعالی کو کہتے ہیں یہ ایک عام محاورہ ہے ہر آدمی سمجھتا ہے کہ کسی انعام کی بجائے محض اللہ کی خوشنودی چاہنا۔ ایسے کام کرنا جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ اللہ ان کو پیار سے دیکھے اور یقین ہوجائے کہ خدا نے بات کو پسند فرمایا ہے۔ ہمیں قرب عطا ہوا ہے۔مفردات راغب کہتے ہیں کہ رضوان کا لفظ رضائے باری تعالی کیلئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ قرآن میں اسکے سوا اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ خواہ رضوان اللہ کہا جائے یا نہ کہا جائے رضوان کا تعلق ہی رضائے باری تعالیٰ سے ہے۔یخوف کا اظہار ہوا ہے قرآن کریم میں کہ شیطان اپنے اولیا کے متعلق لکھاہے یخوف اولیاء ہ ’’ ذٰ لکم الشیطٰنُ یخوف اولیاء ہُ‘‘ یہ وہ شیطان ہے جو اپنے اولیاء سے ڈراتا ہے یا اولیاء کو ڈراتا ہے۔ یہ مفعول بہ ہے۔اسکے متعلق علامہ رازی نے بڑی تفصیلی بحث اٹھائی ہے کہ یہ وہ لفظ ہے جو فعل ہے جو دو مفعول بہ کو چاہتا ہے۔ جس طرح اردو میں ہم کہیں گے کہ فلاں شخص کسی کو جنوں سے ڈراتا ہے تو بجائے اسکے کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص اسکو جنوں ڈراتا ہے۔اردو میں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے لیکن عربی انداز ایسا ہے جس میں دونوں مفعول بہ بن جاتے ہیں اورDative بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی کسی حرف کے ذریعے ایک کی دوسرے سے تفریق کرنے کی ضرورت نہیںپڑتی۔پس جب ہم کہتے ہیں ۔ فلاں شخص فلاں کو ڈراتا ہے ٗ تو جسکو ڈرایا گیا وہ مفعول بہ ہوگیا اور جس سے ڈرایا گیا اسکو لفظ " سے " ظاہر کردیتی ہے کہ اس سے ڈرایا اسکو ڈرایاٗ لیکن عربی میں یہ فعل دونوں کو مفعول بہ بیان کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ بیچ میں من کا لفظ داخل کیا جائے۔ اگرچہ من کا لفظ داخل ہوسکتا ہے تو اس پر یہ بحث اٹھی ہے کہ کیا مراد ہے؟
اولیاء ہُ: چونکہ مفعول بہ ہے۔ یہ مفعول بہ ثانی ہے ان معنوں میں کہ اپنے اولیاء سے ڈراتا ہے اور ڈراتا مومنین کو ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اپنے اولیاء کو ڈراتا ہے اور کوئی دوسرا مفعول نہیں ہے۔ صرف ایک ہی مفعول ہے۔ تو اس بحث میں عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے۔ سب کے نام پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ تمام مفسرین نے عام یہ بحث اٹھائی ہے کہ یہاں ایک لفظ محذوف ہے اور وہ یہ ہے
" یخوفکم اولیاء ہُ"
شیطان تمہیں ڈراتا ہے۔ اپنے اولیاء سے۔
لیکن امام رازی کا اپنا رجحان یہ ہے کہ یہاں ایک ہی مفعول بیان ہوا ہے اور اولیاء کو ڈراتا ہے۔ یہ زیادہ بہتر اور مناسب حال مضمون ہے اور اس میں کوئی حذف ماننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔حضرت مصلح موعود ؓ نے بھی اسی معنے کو اختیار کیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ دیکھو۔ شیطان اپنی طرف سے تو مومنوں کو ڈرارہا تھا جان اپنے دوستوں کی نکلی پڑتی ہے۔ان کا برا حال ہے ڈر ڈر کے ۔تو یہ مضمون ہے جو قرآن بیان فرمانا چاہتا ہے۔ شیطان اپنے دوستوں کو کیوں ڈراتا ہے؟ یہ سوال ہے کہ اپنے دوستوں کو کیا ضرورت ہے اس کو ڈرانے کی ؟
اسکی دو توجیہات ہیں ایک تو وہ جو حضرت مصلح موعود ؓ نے بیان فرمائی کہ ڈرانا چاہتا تھا محمد رسول اللہﷺ اور آپکے ساتھیوں کو اور جان نکلی ہوئی ہے اپنے دوستوں کی یعنی جو کمزور تھے وہ ڈر گئے اور جو مومن تھے انکے ایمان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوگیا۔
دوسری تو جیہہ جو دوسرے مفسرین نے بھی پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو ڈراتا ہے کم بخت ۔ جو اسکے ساتھی نہیں اسکی بات کہاں مانتے ہیں ؟ اور اپنے ساتھیوں سے ہمیشہ بے وفائی کرتا ہے۔ اور جو اسکے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں " لائی لگ" لوگ ان کو یہ کہتا رہتا ہے اور وہ ڈرتے رہتے ہیں خواہ مخواہ۔ اور بعد میں وہ پیچھے ہٹ جایا کرتا ہے کہتا ہے میں نے تو یونہی بات کی تھی تم تو سچ مچ ہی مان گئے۔ تو شیطان سے بدی ہی پہنچتی ہے۔ضرہی پہنچتا ہے۔اسکے اپنوں کو بھی ضر ہی پہنچتا ہے۔
بلکہ اپنوں ہی کو پہنچتا ہے اور جو اللہ کے عباد ہیں وہ تو شیطان کے تصرف سے بالکل بالا اور بری ہیں کلیۃً۔ ان کو کبھی بھی گزند نہیں پہنچتا ۔ تو شیطان کی دوستی گھاٹے ہی کی دوستی ہے۔ ان معنوں میں یہاں ایک ہی مفعول کا معنے ٰ زیادہ موزوں ہے کہ ذٰ لکم الشیطان ُ: یہ ہے وہ تمہارا شیطان یخوفُ اولیاء ہُ: یہ اپنے ساتھیوں کو ڈرا رہا ہے۔ پس اے محمد رسول اللہﷺ کے ساتھیو ۔ لا تخافوھم۔ تم ان سے نہ ڈرو۔
اب یہاںھم کی ضمیر پھر اولیاء کی طرف چلی گئی۔ اب یہ ایک بحث پیدا ہوگی نئی کہ اگر اولیاء (جیسا کہ بعض مفسر ین نے لیا ہے اور میں نے بھی یہی رجحان ظاہر کیا ہے کہ اولیاء سے مراد شیطا ن کا اولیا ء کو ڈرانا ہے تو فلا تخا فو ھم وخافو ن
میں ’’ھم‘‘ سے کیا مراد ہے؟ یہاں ھم سے مراد وہ دشمن ہے۔میں " ھم " سے کیا مراد ہے یہاں ھم سے مراد وہ دشمن ہے جنکے حوالے سے شیطان ڈرارہا ہے۔ اولیاء سے ڈرنے والی بات یہاں نہیں ہے۔
اللہ تعالی ٰ یہ فرماتا ہے کہ اولیاء کو ڈراتا ہے تو آخر کیا ڈراتا ہے؟
یہ ڈراتا ہے کہ بڑا بھاری دشمن تمہیں نیست و نابود کرنے کیلئے چل پڑا ہے۔ تم یہاں بھی نہ ٹھہرو۔ مدینے سے بھی بھاگ نکلو ورنہ برباد ہو جائوگے۔ تو اللہ تعالی کہتا ہے شیطان ڈراتا اپنے ساتھیوں کو ہے۔ اے محمد رسول اللہﷺ کے ساتھیو ۔ تمہیں زیب نہیں دیتا کہ اس سے متاثر ہو۔ اور متاثر ہو کے۔’’تخافوھم‘‘ جن سے وہ شیطان کہہ رہا ہے کہ ڈرو ۔ یعنی کفار مکہ ان سے تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم اس سے بری ہو۔ وخافون مجھ سے ڈرو ان کنتم مومنیناگر تم سچے مومن ہوبنعمۃ من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء یہاں پہلے حمراء الاسد کا واقعہ گزر چکا ہے اب ہم بدر صغریٰ میں آتے ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تعالی فرماتا ہے۔فانقلبوا بنعمۃ من اللہ و فضلوہ اللہ کا فضل کم نہیں ہورہا ۔ دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔حمراء الاسد میں تو کچھ تکلیف صحابہ کو ضرور پہنچی تھی کہ زخمی حالت میں اپنے بدن گھسیٹتے بڑی تکلیف کے ساتھ وہاں پہنچے تھے اسلئے اللہ نے فضل فرمایا کہ دشمن پر رعب طاری کردیا مگر کچھ تکلیف ضرور تھی۔ مگر یہ وہ موقعہ ہے جب کہ ہر قسم کی تکلیف سے اللہ تعالی نے ان کو نجات بخشی۔ یہ گئے ہیں۔ دندناتے ہوئے گئے ہیں۔ پہلے سے دگنی تعداد میں گئے ہیں۔ اور دشمن کو حوصلہ نہیں ہوا کہ وہاں پہنچے۔ اور پھر اسکے علاوہ وہاں دوسرے فوائد بھی ان کو حاصل ہوگئے۔ یعنی جنگ جب کامیاب ہو تو مالِ غنیمت ہاتھ آتا ہے تو اس عظیم فتح پر خدا نے کچھ مال غنیمت بھی تو دینا تھا۔ وہ اس طرح دیا کہ وہاں ایک قافلہ آیا ہوا تھا تجارتی قافلہ اور چونکہ لڑائی کرنے والا کوئی آیا نہیں ہوا تھا یہ تجارتوں میں لگ گئے اور کہتے ہیں اتنا منافع ہوا کہ انکی یاد داشت میں کبھی ایسا منافع نہیں تھا۔ جو سودا کیا وہ فائدہ کا ہوا۔ تو اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ ہم ان کو مال غنیمت دے رہے تھے اور یہ جھوٹ ہے کہ وہ مال غنیمت کی نیت سے نکلا کرتے ہیں۔واتبعوارضوان اللہ: انہوں نے تو یہ سفر صرف رضائے باری تعالی کی خاطر کیا تھا کوئی دوسری نیت شامل نہیں تھی۔مگر ہمارا سلوک دیکھو ۔ کہ ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کوئی بدنی نقصان نہیں ہوا۔ آرام سے چھوٹا سا سفر طے کیا اور وہاں جاکر اللہ نے ان کو اس جنگ کا مال غنیمت دے دیا جو لڑی ہی نہیں گئی تھی۔ یہ ہے اللہ کی نعمت۔ نعمت سے مراد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ نعمت دراصل اپنی اعلیٰ شان میں نبوت کو کہتے ہیں تو محمد ؐ رسول اللہ کی وفا نصیب ہوگئی۔ انکے ساتھ وفاداری کی مہر لگ گئی تمہارے اوپر کہ تم وفاداروں میں شامل ہو اور پھر فضل اسکے علاوہ۔اب لفظ فضل کے متعلق یاد رکھیں کہ یہ زائد کو بھی کہتے ہیں اور دنیا کے فوائد کو بھی فضل کہا جاتا ہے۔ نعمت کا زیادہ تر تعلق اخروی فوائد اور دینی فوائد سے ہے جبکہ فضل کا تعلق دنیاوی فوائد سے بھی ہے اوردنیاوی فوائد کا جب ذکر کرنا ہو تو فضل کے ذریعے ہی ذکر کیا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ
کہ جب جمعہ کی نماز پڑھ چکو ختم ہو جائے تو پھر دوبارہ ان تجارتوں کی طرف چلے جائو جو تم نے چھوڑی ہوئی تھیں۔ اور وابتغوا من فضل اللہ۔تو اگر روحانی فضل مراد ہوتی تو وہ تو جمعے میں مل رہا تھا۔ وہاں سے جاکر کہاں ملنا تھا۔ وہاں نعمت مل رہی تھی ۔ اور وہاں سے جب واپس پہنچے ہیں اپنے کاروبار میں تو وہاں خدا کا فضل ان کا انتظار کر رہا تھا ان کو فوائد اور کئی قسم کی برکتیں ملنی تھیں۔ تو یہاں فضل کامعنی زائد کے بھی ہوسکتے ہیں اور دنیوی فوائد کے بھی ہوسکتے ہیں۔ تو نعمت لے کر لوٹے یعنی محمد رسول اللہ کا قرب ان کو نصیب ہوا اور نبوت کے فیض ان کو نصیب ہوئے۔ اور دنیا کے فوائد بھی ان کو پہنچے حالانکہ واتبعوا رضوان اللہیہاں وائو کو میں حالیہ کے طور پر پڑھتا ہوں کیونکہ مضمون حالیہ والا ہی ہے یہ نہیں کہا جاسکتا اور اللہ کی رضوان اگر " اور اللہ کی رضوان"پڑھیں گے تو یوں ہوگا کہ " اور انہوں نے اللہ کی رضوان کی پیروی کی" تو یہ بعد میں تو نہیں پیروی کی۔ اسلئے وائو میں حالیہ کے معنے ہی پائے جاتے ہیں" جبکہ وہ " حالانکہ وہ " کسی فضل کی تمنا دنیاوی فائدے کی تمنا لیکر نہیں نکلے تھے بلکہ خالصتہ ً رضائے باری تعالیٰ کیلئے نکلے تھے۔واللہ ذوفضل عظیم اب یہاں فضل کے تمام معنی آگئے ہیں۔فضل کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ جتنا کمایا ہے۔ جتنا حق ہے اس سے بہت زیادہ خدا دے دے۔ تو فرماتا ہے ۔ " اللہ تو بہت ہی بڑے فضلوں والا ہے۔ یہ تو ایک معمولی سا فضل کا تمہیں اک لقمہ چکھایا گیا ہے۔ خدا کے ہاں تمہارے لئے بہت بڑے بڑے فضل ہیں۔اس کے بعد یہ کہنے کے بعد فرمایا ہے۔
" انما ذٰلکم الشیطن یخوف اولیاء ہُ"
اب عجیب بات ہے۔ بظاہر یہ آیت پہلے ہونی چاہئے تھی۔ اور انکا نکلنا اور فضلوں کے ساتھ لوٹنے کا مضمون بعد میں آنا چاہئے تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ" یہ وہ شیطان ہے جو تمھیںاپنے اولیاء کو ڈراتا تھا" یہ معنی ہیں اصل میںمراد یہ ہے کہ شیطان کی ناکامی کا ذکر اب فرمایا گیا ہے ۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو شیطانی لوگ تھے وہ محمد رسول اللہﷺ اس کے قافلے میں داخل نہیں ہوئے۔ وہ وہیں رک گئے ہیں۔ اور یہ خاص ان پاکبازوں اور قدوسیوں کا قافلہ تھا جن پر شیطان کی دسترس نہیں تھی اسکی پہنچ سے بالا اور باہر تھے۔تو یہ Compliment مزید ان کو دیا جارہا ہے۔ وہ جو نعمت اور رضوان اور فضل لیکر لوٹے ہیں وہ کتنی خوش نصیب جماعت تھی کہ ان میں کوئی شیطان کا دوست نہیں تھا۔ خالصۃً پاک لوگ تھے۔
" پس تم ہمیشہ مجھ سے ہی ڈرا کرو"
وہ وقت تو گزر چکا ہے۔
" فلا تخا فوھم و خافون"
پس ’’ ھُم ‘‘سے یہاں ایک اور معنیٰ پیدا ہوجائیگا کہ ایسے لوگ جو شیطانی مزاج کے لوگ ہوں یا اسکے ساتھی یا دشمن۔ اب تم یہ سبق سیکھ لو کہ اللہ کا ہی خوف ہے جو فائدہ دیتا ہے اور تمہیں کوئی دوسری چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی۔
اب میں دیکھوں اگر اس میں کوئی بات قابل ذکر رہ گئی ہو تو میں آپکو بتادیتا ہوں۔ وہی خوف وغیرہ کی بحث زیادہ تر چلی ہے تمام مفسرین یہی بتارہے ہیں کہ خوف کس کا تھا؟ اور نعمت اور فضل کے فرق پر گفتگو ہے۔ وہی ہے سب گفتگو امام رازی نے خوف کے لفظ کے بہت سے حوالے قرآن کریم کی دوسری آیات سے دئیے ہیں۔ آخری نتیجہ وہی نکالتے ہیں کہ اس جگہ کچھ بھی حذف نہیں ہے بلکہ اولیاء سے مراد منافق اور کمزور ایمان والے ہیں نہ کہ مومن۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بھی یہی معنے لئے ہیں کہ یخوف اولیاء ہ اس کا اثر اسی کے دوستوں پر پڑتا ہے۔حضرت مصلح موعود ؓ کے نوٹس میں ہے کہ دراصل تو وہ مومنوں کو ڈرانا چاہتا ہے مگر جان نکلی جارہی ہے منافقوں کی۔ولیم میور یہ داد تحسین دینے پر مجبور ہوا ہے لیکن اس کو یہ اچھا نہیں لگا ۔ اس لئے اپنی طرف سے اس نے ایک بات داخل کردی ہے وہ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے وہاں نہ آنے کا علم ہوچکا ہو۔ اس لئے گئے تھے ورنہ نہ جاتے۔اب اپنی طرف سے یہ ڈھکوسلے گھڑ گھڑ کے منسوب کرتے رہتے ہیں۔ ایسے موقعے پر یہ بات یقینی ہے کہ تکلیف ان کو پہنچی ہے اور محمد رسول اللہﷺ کی فتح ہوئی ہے کوئی۔ تو جہاں یہ زیادہ تیزی سے زبانیں چلاتے ہیں یاد رکھیں وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح کا کوئی نشان ملتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ ان کا رجحان یہ ہے کہ اگر کھلم کھلی بات ہو تو پھر زبانیں اتنی تیز نہیں چلا سکتے مگر جنگ احد پر تو پھر بھی تیز ہی چلائی تھیں اس لئے وہ بات بھی درست نہیں۔موقعے کی بات ہے۔ موقعہ ملے نہ ملے تیز زبانوں سے زخمی انہوں نے ضرور کرنا ہے۔اورWherry تو qoute کرتا ہے۔ Sale کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ یہاں آکر خاموش ہوجاتا ہے بالکل۔ہاں وہ حوالہ مل گیا ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا۔ میر احمد علی صاحب فرماتے ہیں:-
While retreating Abu Sufian the Chief of the Makkan Army had challenged to attack next year at Badr. The challange was accepted by "Ali" saying "God is sufficiet for us" at the appointed time the Holy Prophet went out.
یعنی Challange accept کیا تھا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چل پڑے تھے ساتھ؟ کیسی بے ہودہ بات ہے۔ یہ ا س موقعے کی بات ہی نہیں ہے۔ جنگ احد کا حوالہ نہیں ہے یہاں تویہ ہے کہ جب لوگ ڈرانے والے بعد میں پہنچے ہیں اور دوبارہ ان کے ساتھ ایک جنگ لڑنے کے ارادے سے مسلمان نکلنے لگے تھے۔ تمام روایات اس آیت کو اُسی سے منسلک کرتی ہیں۔ بعض پہلی آیت کو بھی ادھر کردیتی ہیں مگر اس کو دوسری جگہ نہیں پہنچاتیں۔ لیکن میر صاحب پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں؟ کہتے ہیں کہ وہ ’’حسبنا اللہ ‘‘ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب مومنوں نے کہہ دیا تھا۔ کوئی نہیں ڈرا تھا۔ کہتے ہیں اللہ کو نہیں پتہ تھاپورا میں جانتا ہوں۔ صرف علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور کسی نے نہیں کہا ’’ حسبنا اللہ ‘‘ اب آیات یہ ہیں:-
ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر انھم لن یضرو االلہ شیئًا یرید اللہ ان لا یجعل لھم حظا فی الاخرۃ ولھم عذاب عظیم O
اور تجھے اُن لوگوں کی کوششیں جو کفر میں سعی کرتے ہیں۔وہ تجھے غمگین نہ کریں یا کسی فکر میں مبتلا نہ کریں۔ یحزن کا لفظ دونوں معنوں میں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور عربی میں بھی۔
اس کا جو پہلا ہے حَزِنَ بھی ہوتا ہے اور حَزَنَ بھی (یعنی اس کا ماضی) ع کلمہ زیر سے بھی آتا ہے اور زبر سے بھی آتا ہے۔ اور مفسرین نے بعضوں نے تو کہا ہے کوئی فرق نہیں ہے مگر بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ اس میں فرق یہ ہے کہ بعض دفعہ یعنی ایک صورت میں یہاں مثلاً زیر کے ساتھ آیا ہے اور زبر کے ساتھ آیا ہے ان دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ ایک جگہ محض غم مراد ہے۔ کھوئے ہوئے کا غم جو ہاتھ سے جاتا رہا۔ اور ایک جگہ آئندہ کا خوف مراد ہوتا ہے۔ اس میں کچھ غم کی کیفیت بھی ہوتی ہے لیکن خطرہ آئندہ کا ہوتا ہے۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار ثور میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا!
’’لا تحزن ان اللہ معنا ‘‘
تو نقصان تو کچھ ہوا نہیں تھا تو غم کس بات کا تھا؟ یہاں فکر نہ کرو ! آئندہ کے اندیشے نہ کرو ! تو لفظ حُزن میں غم کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے اور آئندہ کا خطرہ یا اندیشہ کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے۔ پس اس موقعے پر یہ ہے کہ
’’ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر ‘‘
دونوں معنے مفسرین نے بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ کفار جو کفر پھیلانے میں کوشش کررہے ہیں تیری مخالفت میں اس پر تو غمگین نہ ہو ! دوسرا معنیٰ ہے کہ تجھے کسی قسم کے خوف کی ضرورت نہیں ہے!
غمگین کی سند وہ اس بات سے لیتے ہیں کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کفار پر بھی رحم کی وجہ سے بے حد دردمند ہوجاتے تھے جو آپ کی بات کا انکار کرکے ہدایت سے محروم رہ جاتے تھے۔دو دفعہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا !
’’فلعلک باخع نفسک‘‘
کیا تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کررہا ہے کہ یہ لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔یعنی اتنی زیادہ ہمدردی ! اس لئے اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا ! یہ اس آیت کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ یہاں وہی مضمون بیان ہوا ہے۔
’’لا یحزنک الذین یسارعون ‘‘
جو کفرمیں غیر معمولی سعی کرتے ہیں وہ تو ظاہر ہے کہ ہلاک ہوگئے پس ان کے غم میں اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا۔ اتنا غمگین نہ ہو!
دوسرا معنیٰ ہے کہ ان کی کوششوں سے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ کر ! کرتے پھریں جو کررہے ہیں!! کوئی نقصان تمہیں نہیں پہنچا سکیں گے۔ اللہ کے کامو ںکو !!! میرے نزدیک یہاں یہ دوسرا معنیٰ سیاق و سباق کے مطابق اطلاق پارہا ہے۔ وہ مضمون الگ ہے۔ الگ جگہ بیان ہوگیا ہر جگہ یحزن کے ساتھ وہی مضمون تو نہیں باندھا جاسکتا۔ یہاں معاً بعد اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔’’انھم لن یضروا اللہ شیئًا‘‘وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔توصاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں حزن بمعنی غم نہیں بلکہ حزن بمعنی فکر ہے۔ خوف تو نہیں مگر اندیشوں کا مضمون ہے کہ اندیشوں میں مبتلا نہ ہو۔ جو مرضی کرتے پھریں ۔ وہ خدا کے کاموںکو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ پس اس پہلو سے آج جماعت احمدیہ پاکستان کے دل جو بہت زیادہ محزون ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ نئی ایک دشمنوں کی شرارتوں کی کارروائی جاری ہے اور جو بڑے بڑے فتنوں پر منتج ہوسکتی ہے۔ بہت بڑے بڑے ابتلائوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اور اس لئے کچھ دل ہیں جو پریشان ہیں۔ غم زدہ بھی ہیں ان کے ان نقصانوں پر جو پہنچ چکے ہیں اور آئندہ کیلئے فکر مند ہیں۔ اس ضمن میں اس آیت کا پیغام ہے جو میں اُن کو پہنچاتا ہوں کہ وہی خدا جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا تھا کہ تم ان کی تمام تر کوششوں دیکھنے کے باوجود بالکل یہ اندیشہ دل میں نہ لانا کہ خدا کے کام رُک سکتے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو نقصان نہیں پہنچ سکتا ! وہ بہرحال جاری رہینگے !! اور یہاں پھر حزن کا دوسرا مضمون ان معنوں میں داخل ہوجائیگا کہ اللہ کے کاموں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تم میں سے بعض کو اگر کچھ صدمہ پہنچ جائے تو اس پر غم نہ کرنا کیونکہ اللہ کی خاطر جو صدمے پہنچتے ہیں۔ وہ فیض اور برکت اور سعادت کا موجب بنتے ہیں اور جن لوگوں کو پہنچتے ہیں وہ بڑی بہادری سے کہتے ہیں کہ ہمارا غم نہ کرو۔ ہم بہت خوش ہیں! ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔
پس اہل پاکستان جماعت احمدیہ کو میں یہی پیغام دیتا ہوں کہ اس آیت کریمہ سے سبق سیکھیں۔ جو پہلے ہی تم سیکھ چکے ہو اور بارہا سیکھ چکے ہو لیکن اسے دوبارہ یاد کرو کہ اللہ کے کاموں کو یہ کبھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ تمام جمعیتیں ان کی۔ تمام پیادے اور تمام سوار تم پر چڑھ دوڑیں تب بھی خدا کے کام نہیں رکیں گے۔ ہر ابتلا کے بعد تم پہلے سے بڑھ کر شان اور قوت کے ساتھ باہر نکلو گے اور مقدر یہی ہے کہ تمہیں غلبہ نصیب ہوگا اور ان کی ہر کوشش تمہیں ضعف پہنچانے کی ناکام ہوجائیگی۔ تم پہلے سے بڑھ کر طاقت پاکر نکلو گے ! یہ تاریخ کوئی پرانی تو نہیں ۔ آج کل دہرائی جارہی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی تاریخ آج آخرین میں دہرائی جارہی ہے۔ تم دیکھ رہے ہو۔ گواہ ہو۔ کیا کوشش کی تھی۔ 74ئ؁ میں اور پھر 84ئ؁ میں اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟
اور اُن کوششوں نے جماعت کو کہاں کمزور کیا ہے؟ اس شان کے ساتھ جماعت آگے بڑھ رہی ہے کہ اس سے پہلے احمدیت کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ بلکہ تاریخ مذاہب میں بھی اگر آپ غور کرکے دیکھیں۔ اس شان اور قوت کے ساتھ دندناتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوئی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے ہی مقدر میں تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے غلاموں کے اب دوبارہ مقدر میں ہے کہ وہ تیزی سے آگے بڑھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی تاریخ آخرین میں ان معنوں میں دہرائی جارہی ہے۔ دیکھیں شروع میں اسلام کے پھیلنے کی رفتار ہلکی تھی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پھر وہ دور آیا ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور۔ جس میں پھر اس تیزی کے ساتھ اسلام پھیلا ہے اور ظاہر و باہر اور اندرونے کے لحاظ سے بھی ایک پاک انقلاب اس نے برپاکردیا۔ پس ہم اس دور میں سے گزر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل کے ساتھ اس لئے کسی بات میں حزن کی ضرورت نہیں۔ نہ فکر کے معنوں میں۔ نہ غم کے معنوں میں۔
’’انھم لن یضروا اللہ شیئًا‘‘
یہ تو مقدر ہے جو ٹالا نہیں جاسکتا۔ بدل نہیں سکتا۔ کبھی کسی قیمت پر بھی وہ خدا کے کاموں کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
’’یرید اللہ ان لایجعل لھم حظاً فی الآخرۃ‘‘
یہ بہت ہی عظیم کلام ہے ۔ دیکھیں کیسے پیارے نکات ایک بات سے نکلتے ہیں۔ پھر دوسری بات میں انہی نکات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں بظاہر ایک سرسری نظر سے دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر قرآن کریم کا کلام مربوط ہے۔ اس میں جتنے معنے ہیں سب کا ایک تعلق اگلے معنوں سے چلتا چلا جاتا ہے۔
’’یضرو االلہ شیئًا‘‘
میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ ان کو کچھ موقع مل سکتا ہے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا۔ مگر اللہ کے کاموں کو وہ نہیں روک سکتے۔ اس لئے یہ کہنا کہ دنیا میں ان کی کوششوں کا ان کچھ بھی نہیں ملے یہ درست نہیں۔ ان کی کوششیں کچھ نہ کچھ تمہیں تکلیف پہنچا سکتی ہیں مگر انجام کار نہیں۔ اس قطعی وعدے کو کہ خدا اور اس کے ساتھی لازماً غالب آتے ہیں اس کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ اب فرمایا!
’’یرید اللہ ان لایجعل لھم حظاً فی الآخرۃ‘‘
اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہ رہے۔ یہاں دنیا کے حصے کی کلیتاً نفی نہیں فرمائی۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ نتیجہ نہ نکال لینا کہ اللہ کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ ان کو اس دنیا میں کچھ بھی فتح نہیں نصیب ہوگی۔
کوئی مزہ بھی شرارت کا نہیں چکھیں گے یعنی اپنے حق میں۔ تھوڑی سی تکلیفیں پہنچائیں گے۔ بعض مظلوموں کو قید کریں گے۔ دفعہ 295-C لگادیں گے۔ کچھ لوگوں کو ماریں کوٹیں گے۔ بے چاروں کو جیلوں میں ٹھونسیں گے کہ تم نے یہ کیوں کہہ دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہیں۔ ہم نہیں برداشت کرسکتے۔ یہ کہتے چلے جائیں گے اور اس پر وہ فخر بھی کریں گے اور سمجھیں گے کہ نے دنیا میں ایک فتح کا حصہ پالیا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو یہ کرنے دینگے تاکہ ان کے دنیا کے حصے پورے ہوجائیں اور پھر قیامت میں ان کے لئے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
’’ولھم عذاب عظیم ‘‘
اگر کچھ باقی رہے تو وہ ایک بہت بڑا عذاب ہے جو ان کا انتظار کررہا ہے۔
ان الذین اشتروا الکفر بالایمان لن یضرو ا اللہ شیئًا و لھم عذاب الیم O
یقینا وہ لوگ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر خرید لیا ہے اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ ’’ولھم عذاب الیم‘‘ اور انکے لئے دردناک عذاب ہے۔
یہ و ہ موقعہ ہے ان دو آیات کے تعلق میں جس پر مفسرین نے بہت کچھ خیال آرائیاں فرمائی ہیں۔ بہت کچھ وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشکل ان کو یہ درپیش ہے کہ جہاں پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا!
’’انھم لن یضرو اللہ شیئًا‘‘
وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے پھر اس تکرار کی کیا ضرورت تھی؟ کہ
’’ان الذین اشتروا الکفر بالایمان لن یضرو اللہ شیئًا‘‘
وہ لوگ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر خرید لیا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ تو یہ جو تکرار ہے۔ یہ کیا معنے رکھتی ہے؟ مفسرین کہتے ہیں کہ ایک جگہ منافقین مراد ہیں اور ایک جگہ کفار مراد ہیں۔ کھلے کھلے کفار اور دوسرے جو پہلے کافر تھے پھر مومن ہوئے طھر دنیا کی لالچوں میں پڑ کر یا کی وجہ سے وہ کافر ہو گئے۔ یہ سودا ان کو موافق نہیں آئیگا۔ ان کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس لئے تکرار ہے۔ اور میں یہ آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ سارا مضمون ہی تکرار کا چل رہا ہے۔ دو دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی دشمنوں کے سامنے پیش ہوئے ہیں اور دونوں دفعہ ادنیٰ سے نقصان کے باوجود سوائے اس بدنی تکلیف کے جو حمراء الاسد پہنچنے کا دکھ تھا تکلیف بدنی تکلیف۔ان کو خدا تعالیٰ نے عظیم فتح عطا فرمائی اور دشمن نہ اس موقعے پر نقصان پہنچا سکا نہ اس موقعے پر نقصان پہنچا سکا۔ تو قرآن کی فصاحت و بلاغت بھی ہے کہ ایک مضمون کی تکرار کرتا ہے تو اس سے پیچھے واقعات کی طرف اشارہ کرتا چلا جاتا ہے۔کہ دیکھو ! اللہ تو بار بار فضل لے کر آرہا ہے۔ بار بار تمہارے بدلے اتار رہا ہے۔ بار بار ثابت ہورہا ہے کہ خدا کے کاموں کو یہ نقصان نہیں پہنچا سکے نہ پہنچا سکیں گے۔ اس کے علاوہ اس میں وہ مضمون بھی داخل ہے جو مفسرین نے بیان فرمایا ہے کہ کچھ کفار ہیں جو کوشش کررہے ہیں ان کی کوشش کے نتیجے کی نفی فرمائی گئی ہے۔ کچھ منافقین ہیں جو کوشش کررہے ہیں ان کے نتیجے کی نفی فرمائی گئی۔ یہاں غالباً یعنی آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار سے اشارہ ہے اھل مکہ کی طرف اور ’’الذین اشتروا الکفر بالایمان‘‘ اس میں ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جو مدینے میں تھے اور مدینے کے اردگرد بستے تھے۔ فرمایا کہ نہ وہ حملہ آور کوئی نقصان پہنچا سکیں گے۔ نہ اندرونی فتنہ پرداز تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکیں گے تو یہاں تکرار ایک اور رنگ میں کی گئی ہے ۔ اس لئے اسے تکرار نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ موقعہ دوسرا ہے۔ یعنی اُس موقعے پر بھی ان کو فائدہ کوئی نہیں ہوگا اور تمہیں کوئی نقصان نہیںاس موقعے پر بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا اوران کوکوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
دوسراے تکرار بعض دفعہ قوت کے معنے پیدا کرتی ہے۔ یعنی محض اتفاقاً ایک چیز کو نہیں دہرایا جاتا بلکہ کامل یقین کیلئے ’’ایسا نہیں ہوگا‘‘ ایسا نہیں ہوگا‘‘ اور ہر زبان میں یہ مضمون چلتا ہے تو یہاں چونکہ موقعہ بہت اہم ہے اور دشمن کی شرارتیں اتنی بڑھ گئی تھیں۔بیرونی اور اندرونی طور پر کہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندیشوں میں ضرور مبتلا تھے کہ اس سے کہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اللہ کے کاموں کے متعلق تو آپ کو اندیشہ ہو نہیں سکتا تھا۔ یہ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ میرے ساتھیوں اور پیاروں کو کوئی تکلیف نہ زیادہ پہنچ جائے۔ تو اس تکلیف کو دور کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تکرار اس لئے بھی فرمائی کہ یہ وہم ہی دل سے نکال دو۔ ناممکن ہے کہ یہ ہو۔ خدا تمہارے ساتھ ہے اور خدا کے کاموں کو کوئی دنیا کی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ خدا کے کاموں کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ تکرار ہے۔ اوریہی تکرار آج بھی ہماری ڈھارس بندھانے والی ہے اور یہ تکرار یہ معنے بھی رکھتی ہے کہ جس طرح اولین میں کبھی دشمن کی کوششوں نے خدا کے مقابل پر کامیابی حاصل نہیں کی۔ آخرین میں بھی یہی ہوگا انشاء اللہ۔ کہ دشمن کی ہر کوشش ناکام اور نامراد ٹھرے گی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولا یحسبن الذین کفروا انما نملی لھم خیر لا انفسہم۔
ہاں یہاں میں یہ بھی بتادوں کہ اس سے پہلے جو آیت میں اس کا تعلق کیا ہے؟ پہلی آیت سے یخوف اولیاء کا مضمون چل رہا تھا۔ لاتخافوھم و خافون کی نصیحت تھی اس تعلق میں پھر آگے اس مضمون کو کھو ل کر بیان کرنے کی ضرورت تھی کہ خوف کس کا خوف؟ کیسا خوف؟
جن کے متعلق خدا ایک دفعہ نہیں دو دفعہ کہہ رہا ہے کہ ناممکن ہے کہ یہ خدا کے کاموں کو نقصان پہنچائیں۔اس لئے شیطان کے ساتھی شیطان کے دھوکے میں آکر ڈرتے پھریں تمہارا ان سے کیا تعلق ہے؟ خدا تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔
’’ولا یحسبن الذین کفروا انما نملی لھم خیرلاانفسہم‘‘
اور ہر گز وہ لوگ جو کافر ہوئے یہ گمان نہ کریں۔ یہ وہم بھی نہ کریں۔ انما نملی لھم خیر لانفسہم یہاں نملی لھم کا تعلق حظاً فی الآخرۃ والے مضمون سے ہے۔ نملی کا مطلب ہے مہلت دینااور رسی ڈھیلی کردینا۔ پس جب کسی اونٹ یا جانور کی رسی اس غرض سے ڈھیلی کردی جاتی ہے کہ وہ ذرازیادہ کھُل پھر کر چر سکے تو اس کے لئے بھی عرب یہی لفظ استعمال کرتے تھے۔ پس ’’نملی‘‘ کا مطلب ہے ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں۔ اس سے ان کو یہ وہم نہ آئے کہ ان کے لئے بہتر ہے۔ یہ مہلت ان کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان کے لئے خیر کا موجب نہیں ہے۔’’انما نملی لھم لیزدا دوا اثما‘‘ہم اس لئے مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ میں او رعصیان میں ترقی کرتے جائیں۔ یعنی اپنی اس حد تک پہنچ جائیں جس حد تک ان کے اندر گناہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور اس مضمون کازادوالے مضمون سے تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ان کو ڈرایا گیا تو کیا ہوا؟ زاد والی آیت
فرماتا ہے:-الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایماناً
کہ ڈرانے کے نتیجے میں مومنوں کے تو ایمان بڑھے ۔تو تمہارا کیا بڑھے گا۔ اس کا بھی تو جواب چاہئے۔ فرمایا ہم جب تمہیں مہلت دیتے ہیں تو تمہاری بے ایمانی بڑھتی ہے۔ اور تمہارے گناہ کی صلاحیت اپنے درجہ کمال تک جا پہنچتی ہے۔ جس حد تک بدی کی تمہیں توفیق ہے۔اس حد تک تم بدی کرچکتے ہو۔ تو خدا کے حضور ایسے وقت میں آتے ہو جب تمہارے اوپر کلیۃً حجت تمام ہوچکی ہوتی ہے۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔یہ جو ’’نُملی‘‘ والی آیت ہے اس کے متعلق دوسری آیت قرآن کریم میں ہے نا؟ نملی لھم ان کیدی متین وہی مضمون دوسری جگہ بیان فرمایا ہے۔
میں انہیں مہلت دیتا ہوں لیکن میری پکڑ جو ہے ۔ میری تدبیر یا میری ترکیب جس سے میں ان کو پکڑتا ہوں وہ بہت قوی ہے اور بہت طاقتور ہے۔ اور اس میں کوئی بھی … نہیں ہے۔ مہلت کے نتیجے میں بعض دفعہ لوگ بھاگ جاتے ہیں لیکن اگر تدبیر مکمل ہو تو مہلت سے بھاگ کر نکل جانے کا فائدہ نہیں پہنچتا۔
عام دنیا کے تجربے میں ہم نے دیکھا ہے۔ بلی جب چوہے کو مہلت دیتی ہے تو اس یقین کے ساتھ دیتی ہے کہ نکل سکتا ہی نہیں ہے! جو مرضی کرلے وہ آخر بلی کا پنجہ اس پر آجاتا ہے۔ تو اللہ کی مہلت تو اس سے بہت زیادہ باتدبیر مہلت ہے۔ اور ایک غالب اور قدرت والے خدا کی عطا کردہ مہلت ہے۔ فرماتا ہے کہ یہ نہ تم خوف کرنا کہ میری مہلت کے نتیجے میں یہ بھاگ جائیں گے پکڑ سے۔ بھاگ ہی نہیں سکتے۔ اول تو ہر حالت میں ان کا واپس لوٹنا وہیں ہے۔ دوسرے اس دنیا میں بھی یہ جب اپنے انجام کوپہنچیں گے اور سزا کا وقت آئیگا تو’’لات حین مناص‘‘پھر بھاگنے کا اور پیچھے ہٹنے کا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ لازماً پکڑے جائینگے۔ یہ مہلت والے مضمون کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا میں نے ایک دفعہ ذکر کیا تھا۔ آپ نے اس بات پر غور فرمایا یہ حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ہے یا وہ خان جو بزرگ ساتھ تھے ان کا ہے مجھے تو حضرت اول کا یا د ہے لیکن یہ لفظ جو ہیں ان کی اس وقت اہمیت نہیں ہے کہ کس کا واقعہ ہے؟ یہ قطعی واقعہ جماعت احمدیہ کی اس تاریخ کا حصہ ہے۔جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان سے پیار اور محبت کے سلوک فرماتا تھا۔ کس طرح ان کے سوالات کے جواب دیتا تھا ہمارے اس بزرگ کا جس کا میں ذکر کررہا ہوں میرے خیال میں حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ تھے۔ انہوں نے ایک بھی ہے اس پر غور کیا کہ اللہ تعالیٰ مہلت کیوں دیتا ہے خواہ مخواہ ؟ اور مہلت دیکر پھر آخر پر ہے کہ ’’کیدی متین‘‘ بھی ہے توکچھ پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔ اس پر کشفی حالت طاری ہوئی اور خدا تعالیٰ تمثیلاً ایک خوبصورت عورت کے طور پر ظاہر ہوا جس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا اور وہ رقص کررہی تھی۔ اور اس پیالے میں تھوڑی سے شراب تھی جو نیچے پیندے میں تھی۔ تو وہ جب رقص کرتی تھی تو یہ آیت پڑھتی تھی کہ :-
املی لھم ان کیدی متین
املی لھم ان کیدی متین
کہ میں انہیں مہلت دیتا ہوں اور میری تدبیر بہت ہی قوی اور پختہ ہے۔ اور ہر دفعہ وہ اس کا تھوڑا سا اس کے اندر جو بھی چیز تھی پانی یا شراب جو بھی کہہ لیں وہ تھوڑا سا اس کا Level اونچا ہوجاتا تھا اور پھر اس طرح کرتے کرتے وہ حرکت دیتی تھی۔ پیمانہ چھلکتا نہیں تھا لیکن ہر لمحے کے ساتھ ساتھ اس کا Level اونچا ہوتا چلا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ پیالہ لبالب بھر گیا اور پھر جب اس نے کہا کہ
’’املی لھم ان کیدی متین‘‘
تو پیالہ چھلک گیا۔
معاً بعد عام حالت کی طرف آپ لوٹے تو پھر ان کو پتہ لگا کہ مجھے میری بات کا کیسا خوبصورت جواب دیا گیا ہے کہ ہر شخص کو پکڑنے کیلئے اس کی صلاحیتوں کو پوری مہلت ملنی چاہئے کہ جو کچھ کرسکتا ہے کر گزرے۔ اور اس کے دو فوائد ہیں۔ اول یہ کہ ان کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ خدا کے خلاف ابھی ہمارے پاس اور بھی بہت کچھ باقی تھا جلدی بات ختم کردی گئی۔ ورنہ ہم نے توابھی پورا زور لگایا نہیں تھا۔یہ نہ کہہ سکیں وہ۔ اللہ تعالیٰ ان کو کہے گا تمہارے اندر جتنی صلاحیتیں ہیں ساری بروئے کار لے آئو۔ وقت چاہتے ہو؟ ہم تمہیں دیتے چلے جاتے ہیں! لیکن اس تقدیر کو نہیں بدل سکتے کہ ’’میں اور میرے رسول بہرحال غالب رہیں گے‘‘اور دوسرے یہ کہ استطاعت جب تک پوری طرح استعمال نہ ہو اس وقت تک پکڑ کا پورا مزہ نہیں آتا۔اور تیسرا مضمون اس میں یہ ہے کہ انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ ابھی تو کچھ حصہ باقی تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ جیسے یہ اونچا ہورہا تھا اس کا لیول نیچا ہونا شروع ہوجاتاتو جلدی پکڑ لیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری استطاعت کی مقدور تک جب تم گناہ کروگے یعنی قومی طور پر یہ مراد ہے ہر شخص انفرادی مراد نہیں ہے تو اس وقت تمہیں یہ کہنے کی پھر کوئی گنجائش نہیں ہوگی کہ ہم ہوسکتا ہے باز آجاتے ! ہوسکتا ہے رک جاتے۔ پر رکتے کہاں؟ تم تو جو کچھ کرسکتے تھے کر بیٹھے اب تو وقت نہیں ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’الْئنَ؟ ا بوقت ہے توبہ کا ؟ اب تو وقت گزر گیا جتنی تمہاری استطاعت تھی توفیق تھی وہ ساری استعمال کر بیٹھے ہو ایک کے بعد دوسرا نشان دکھایالیکن تم نے توبہ نہیں کی اور اپنی استطاعت کے مطابق تم ان معصوموں اور مظلوموں کو دکھ پہنچاتے رہے ہو۔ اور آخر حد کردی تھی یہ آخری بات تھی جو کر بیٹھے ہو۔ اس کے بعد اور کیا کرسکتے تھے۔ تو اب تو توبہ کا وقت نہیں ہے۔ تو مراد یہ ہے کہ پھر ا نکے لئے توبہ کا کوئی بھی بہانہ باقی نہیں رہتا۔ اور فخر کی کوئی بات ان کے ہاتھ میں نہیں رہتی۔ پس ان معنوں میں ہے۔
’’انما نملی لھم لیزدادوا اثماً‘‘
ہم انہیں مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور بدکرداریوں میں بڑھتے چلے جائیں۔ ولھم عذاب مھین : اورانکے لئے رسوا کرنے والا عذاب مقدر ہے۔ بعض رسوائیوں کا مہلت سے تعلق ہے اور جو عذاب ہے جو اچانک پکڑ لیتا ہے۔ بلائوں میں لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس میں اہانت کا کوئی ایسا واضح مضمون نظر نہیں آتا۔ کیونکہ سارے کے سارے مٹ جاتے ہیں۔ کس کی رسوائی کس کے سامنے؟ مگر وہ لوگ جو مہلت پاتے ہیں جن کی رسی دراز کی جاتی ہے۔ وہ پھر لوگوں کے سامنے اہانت کی صورت میں ذلیل ہو کر یعنی اہانت کا مطلب ہے ذلیل اور رسوا ہوکر ایک عبرت بن جاتے ہیں۔
یہی حال مولوی ثناء اللہ صاحب کا ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جب ان کے ساتھ مباہلے کی گفتگو چلی تو لمبی بحثوں کے بعد۔ کبھی مولوی ثناء اللہ صاحب ایک عذر رکھتے کبھی دوسرا۔
آخرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری طرف سے یہ مباہلے کی تحریرہے۔ اب تمہارے اختیار میں ہے جو چاہو اس کے نیچے لکھ لو ! اور اس پر بات ختم ہوجائیگی۔مولوی جو آج کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کررہے ہیں۔وہ اتنی بات بیان کرتے ہیںاگلی بات بیان نہیں کرتے۔
اس طرح بعض حصوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بعض حصوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو لو! مرزا صاحب نے تو کہا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر لازماً ہلاک ہوجائو گے اور جو سچا ہے اس کی زندگی میں جھوٹا مارا جائیگا۔ تو پھر دیکھ لو کون پہلے مرا؟ یہ بات کہتے ہیں۔
یہ بات نہیں بیان کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تمہارے اختیار میں ہے۔ اس میں جو چاہو ترمیم کرلو ! اور وہ ترمیم جو اس نے اپنے ہاتھ سے کی: اس نے کہا ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مارا جاتا ہے۔ جھوٹے کی رسی دراز کی جاتی ہے (یہ وہ آیت ہے جس کا حوالہ ہے) دیکھو ! مسیلمہ کذاب بھی تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مرا تھا۔ اس لئے ہم تو اسی بات پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی ہمارا فیصلہ ہے۔ یہ تحریر اس کے حاشئیے پر انہوں نے لکھ دی۔ اب دیکھیں رسی کیسی دراز ہوئی؟Partition تک وہ زندہ رہے پھر Partition کے بعد سرگودھاپہنچے۔ اور ان کی موت کے بعد ان کے اپنے بیٹے کا جو اقرار نامہ شائع ہوا ہے وہ ایسا دردناک ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے پڑھ کے۔ کہتا ہے کہ جب امرتسر میں حملے ہورہے تھے تو مولوی صاحب کی جوجائیداد۔ساری عمر کے اثاثے۔ ساری کمائیاں۔ تمام دینی جو انہوں نے اپنی طرف سے کتب اکٹھی کی تھیں یا تحریریں لکھی تھیں۔وہ آپ کے سامنے جلاکر خاکستر کی جارہی تھیں اور کچھ بھی پیش نہیں گئی۔ اور وہ جو عبارت ہے وہ بڑی ہی حسرت ناک عبارت ہے کہ اس حالت میں وہ یہاں پہنچے ہیں۔ پھر کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ کسی نے پوچھا نہیں! پاکستان میں آکر مرے ہیں سرگودھامیں اور آپ نے کہیں ان کی برسی نہیں سنی ہوگی۔کوئی ان کاذکر نہیں ملتا۔ حسرت زدہ زندگی میں پور ی طرح اپنے دوستوں کی طرف سے چھوڑ دیئے گئے تھے۔ تو یہ مطلب ہے۔’’ولھم عذاب مھین‘‘ایسے لوگ جو مہلت پاتے ہیں ان کے لئے رسوا کن عذاب ہوتاہے۔پس وہ لوگ جو اب زندہ ہیں۔ مولوی جیسا کہ منظور چنیوٹی وغیرہ وغیرہ یہ فخر کررہے ہیں کہ دیکھو ہمیں اتنی لمبی عمر مل گئی۔ وہ کس لئے ملی ہے؟ عذاب مھین تو ان کو پہنچ رہا ہے۔ اس وقت۔ یہ جو ردعمل اس وقت اتنا خوفناک کہ بے چارے معصوم احمدیوں پر دوبارہ چڑھ دوڑو۔ ان کو قیدوں میں ڈالو۔ ان کو موت سے ڈرائو۔ ان پر ہتک عزت کے مصنوعی مقدمے جاری کرکے پھانسی کے تختے پر لٹکا دو۔ یہ کس بات کی تکلیف ہے؟ کیا واقعہ ہوا ہے؟
یہ جو ٹیلی ویژن کے ذریعے تمام دنیا میں بلکہ خود پاکستان میں گھر گھر میں احمدیت کا پیغام پہنچنے لگ گیا ہے۔ یہ عذاب مھین ہے۔ کرلو جو کرنا ہے۔ تم رسوا ہوچکے ہو۔ دھتکارے جاچکے ہو۔ تمہاری ساری کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ چنانچہ اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر شائع کرچکے ہیں اوررنگیخت کررہے ہیں کہ وہ دیکھو جس کو ہم نے گھر سے نکالا تھا آج ہمارے گھروں میں داخل ہوگیا ہے اور ایک مولوی کے متعلق کسی نے بھیجا کہ وہ بے چارہ گھر آیا تو اس کے بیوی بچے گھر میں بیٹھے ہوئے یہ TV دیکھ رہے تھے۔ اُس نے کہانی بنائی ہے یا اللہ بہتر جانتا ہے مگر ایسے واقعات ایک نہیں کئی ہوئے ہونگے۔کیونکہ جو بھی پاکستان سے آدمی آتا ہے وہ بتا رہا ہے کہ خدا کے فضل کے ساتھ بعض جگہ تو کھلم کھلا احمدیہ ٹیلی ویژن دیکھنے کا ایسا رجحان ہوا ہے کہ بازاروں میں بعض … اپنے ساتھ رکھتے ہیں ٹیلی ویژن وغیرہ۔ انہوں نے یہ ٹیلی ویژن لگائی ہوتی ہے۔ کھلی اور کوئی نہیں روک سکتا ان کو۔ پس یہ ہے عذاب مھین اور پھر جب عالمی بیعت ہوئی تھی دو لاکھ سے اوپر کی تو ا نپر کیا گزری ہوگی ؟ آپ تصور تو کریں ! اور آئندہ بھی آنے والی ہے ایک اور انشاء اللہ اس کے بعد بھی آنے والی ہے۔ اور دیکھیں۔ میری دعا ہے اور میری امید ہے کہ اللہ کے فضل سے ہر سال جماعت کو اللہ تعالیٰ اور ترقی عطا فرماتا رہے گا۔ تو ان کی عمریں جو لمبی ہوئی ہیں یہ عارضی فتح کے بعد آخری شکست کی ذلت دیکھنے کیلئے لمبی ہوئی ہیں اور قرآن کریم آج بھی اسی طرح اطلاق پارہا ہے جیسے پہلے دن پایا تھا۔ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں جو کچھ ہوا وہی محمد رسول اللہﷺ کی برکت سے۔ ان وعدوں کی برکت سے جو آپ کو دیئے گئے تھے۔ آخرین کو بھی عطا ہورہا ہے۔انما نملی لھم لیزدادوا اثماہم انہیں مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہوں میں بڑھتے رہیں۔ولھم عذاب مھین اور ان کے لئے بہت ہی رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
اب اس کی لغوی بحث تو میں نے نہیں کی تھی کیونکہ وقت تھوڑا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اب ہمارے پاس باقاعدہ درس کے دو د ن صرف رہ گئے ہیں یعنی کل اورپرسوں۔ اور اس میں میں نے بہت سے وعدے کئے ہوئے ہیں۔ جو ابھی پورے کرنے والے ہیں۔ مثلاً مستشرقین کا بھی پورا تعارف کروانا ہے بعض کا ، سب کا تو ممکن نہیں ہے اب لیکن بعض اہم مستشرقین جن کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ ان کا تعارف کروانا ہے۔ ان کے بعض اعتراضات جو تعارف کے دوران سامنے آئینگے ان کا جواب دینا ہے۔پھر اسی طرح بعض بزرگوں نے بعض سوال اٹھائے ہیں اور ایک پاکستان سے بھی ایک جماعت کے بزرگ نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ میں نے تفسیر میں ایک بات یوں کہی ہے جبکہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے برعکس بات بیان فرمائی ہے تو یہ تضاد دور ہونا چاہئے۔
اس پر بھی میں نے بات کرنی ہے۔ پھر کینڈا سے ہمارے نسیم مہدی صاحب نے انہوں نے ایک غیر احمدی دوست جو باقاعدہ درس سنتے رہے ہیں۔ ان کا ایک سوال بھیجا ہے۔ اس کا جواب بھی دینا ہے۔ تو دو دن کے اندر بمشکل یہ کارروائی ختم ہوسکے گی۔ اس لئے آج اسی آیت پر چونکہ اکتفا کرنا تھا۔ ان آیات کو پورا کرنا تھا۔ اس لئے میں نے بعض جو تفصیلات تھیں کہ لغات کیا کہتی ہیں؟ مفسرین کیا کہتے ہیں وہ چھوڑ دی ہیں؟ بنیادی طور پر جو ضروری باتیں تھیں وہ میں نے سامنے رکھ دی ہیں۔ اب آئندہ دو دن تو انہی باتوں میں کٹیں گے جو میں نے بیان کی ہیں۔ اگر کچھ وقت ملا تو پھرہوسکتا ہے اس سے اگلی آیت کو زیر بحث لے آئیں۔ اس عرصے میں جمعہ کے متعلق میں نے سنا ہا کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ حسب سابق پرانا پروگرام جاری ہو گا یہ درست ہے؟ ہاں یہ درست نہیں ہے رمضان والا ہی پروگرام ہے۔ اتوار والے دن آپ نے کیا کہا ہے؟ کیا ہو گا۔ مجھے تو کل کوئی کہہ رہا تھا کہ باقاعدہ اعلان ہو چکا ہے کہ اتوار والے دن حسب کارروائی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ تو عید اتوار کوبھی ہے بعض جگہوں پر ہاں یہ دیکھ لیں کیونکہ فوری طور پر یہ پروگرام بنانا ہے اور کل پھر درس سے پہلے مجھے بتا دیں تاکہ میں اس کا اعلان کر دوں
حضور انور نے عید کے متعلق دریافت فرمایا کہ’’عید غالباً پاکستان میں اتوار کو ہورہی ہے؟
جواب دیا گیا کہ یہ چاند پر منحصر ہے تو حضور نے فرمایا ’’چاند کے ساتھ تو ہے لیکن ہمارے جو ماہرین ہیں یہاں وہ اللہ کے فضل کے ساتھ بہت اچھے حساب دان ہیں اور یہاں تما م ذرائع مہیا ہیں۔ وہ آج ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ چاند وہاں نکلنے کا امکان ہے کہ نہیں۔ عید کے متعلق میں آپ کو بتادوں یا رمضان کے متعلق بھی چاند دیکھنے کے متعلق دو امکانات ہیں۔ ایک تو ہے کہ ظاہری نظر سے نظر آجائے۔ دوسرا ہے حسابی نظر سے دکھائی دے سکتا ہو۔ خواہ نظر آئے یا نہ آئے۔ اس پہلو سے آج کل کے زمانے میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ سہولتیں مہیا فرمادی ہیں اسلام کو۔ اس لئے ہر الگ الگ افق پر فیصلے کرنا ایک بے ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا منطوق بہرحال پورا ہوسکتا ہے کہ جب چاند ظاہر ہوجائے یا تم اس کو جان لو یقینی طور پر شھد سے مراد ہے کہ یقینی طور پر جان لو کہ چاند ظاہر ہوگیا ہے پھر رمضان یا عید شروع ہونگے تو اس پہلو سے اب ایسے ذرائع میسر آچکے ہیں کہ ہم حساب سے قطعی طور پر طے کرسکتے ہیں کہ فلاں چاند دکھائی دے سکتا ہے۔ دکھائی دے یا نہ دے یہ الگ بات ہے۔ تو اس کے مطابق لگائیں اپنے دوستوں کو جو جلدی سے حساب کرسکتے ہوں۔ان کی مدد کر دی جائے بہرحال جو بھی ان کا فیصلہ ہو(پاکستان کے متعلق ایک دوست نے کہا کہ وہاں حکومت چاند نکالتی ہے تو حضور نے فرمایا ........)
ہاں وہاںاہل حکومت چاند نکالتی ہے۔ وہ چاند چڑھاتی ہے۔ تو جو بھی وہاں چاند چڑھیں۔ ہمارے چاند تو چڑھتے ہی رہیں گے۔ اللہ کے فضل سے خدا نے جو چڑھائے ہیں۔
تو انشاء اللہ اب میں السلام علیکم کہہ کر اجازت چاہتا ہوں۔ انشاء اللہ باقی کل اور پرسوں اور جمعے کے دن حسب سابق ناغہ اور جمعے کے پروگرام اور ہفتے کو دعا کا پروگرام ہو گا۔ اور پھر اتوار کو اگر وہاں عید ہوئی تو ہم عید کیلئے بہت چھوٹے چھوٹے دلچسپ پروگرام ہیں‘ مختلف احمدی بچے مختلف دنیائوں میں اپنی اپنی زبانوـ ں میں گانے گائیں گے اور درود و سلام بھیجیں گے۔ اور بعض جگہ تلاوتیں بھی کرینگے۔ یہ ہم پروگرام بنا رہے ہیں عید کیلئے۔اگر آپ کی اتوارکو عید ہوئی تو آپ کو اتوار والے دن بھی دکھا دیئے جائینگے اور یورپ کیلئے پیر والے دن بھی ایسے ہی پروگرام دکھائے جائینگے۔’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ ‘‘
٭٭٭٭٭٭٭

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 26 رمضان المبارک
9 مارچ 1994ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔
اب رمضان کے پانچ دن باقی ہیں‘ یا چار اور دن؟ چار اور دن اور درس کا آج کا دن ہے اور کل کا۔ اور پھر جمعہ کو ناغہ اور ہفتہ کو آخری سورتوں پر کچھ بات ہوگی۔ اس کے بعدپھر انشاء اللہ دعا وغیرہ کا پروگرام ہوگا۔
تو ہمارے پاس ابھی کچھ قرضے چکانے والے باقی ہیں‘ اس لئے اب جن آیات کا درس ہوچکا ہے‘ وہاں پر آج‘ اس رمضان میں اس بات کو سردست چھوڑ دیا جاتا ہے‘ کیونکہ اب وقت نہیں ہے کہ ان آیات سے آگے پھر مزید آیات پر گفتگو ہو‘ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جو میں نے پہلے باتیں کی تھیں‘ کہ یہ باتیں بعد میں پیش کروں گا انہیں وہ قرضے ہی چکا دیئے جائیں۔
سب سے بڑا قرضہ ہمارے سر پر ایک میر احمد علی صاحب کا ہے‘ اور ایک ویری صاحب کا۔
آج میر احمد علی صاحب سے بات شروع ہوتی ہے اور پھر مستشرقین میں سے بعض اور کا ذکر اگر وقت ملا تو وہ کریں گے۔ اور بعد میں پھر کل اگر ویری صاحب کے لئے وقت مل گیا تو بات کل ختم ہوجائے گی ورنہ کچھ حصہ ان کا شاید باقی رہ جائے۔سب سے پہلے تو میر احمد علی صاحب کے حوالے سے میں نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ جو بات انہوں نے شروع کی ہے۔ اس سے تو اشارہ لگتا تھا کہ باقی بیویوں کو الگ کر کے خصوصیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا پر حملہ ہے اور یہ اشارہ واقعہ افک کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ مگر کچھ عرصے کے بعد میں نے خود اس بات کی وضاحت کردیں کہ یہ شاید اشارہ دوسری طرف ہو‘ وہ شہد والا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے یا دوسرا طلاق والا واقعہ اس کی طرف اشارہ ہو۔اس شبہے کو جو مجھے پہلے پڑا تھا‘ تقویت اس لئے ملی تھی کہ سب بیویوں کی بجائے ان میں سے بعض کے خصوصی Conduct کا ذکر کیا تھا اور انہوں نے تکلیف پہنچائی تھی ۔ پھر جس صورت کا حوالہ دیا تھا وہ صورت تھی ہی نہیں جس میں طلاق وغیرہ والے واقعہ کا ذکر ہے یعنی 66 بلکہ سورۃ16 کا حوالہ دے دیا تھا۔ اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس لئے یقین نہیں تھا کہ کہنا کیا چاہتے ہیں‘ چنانچہ اب وقت مل گیا ان کی پوری کتاب یعنی مطلب ہے ساری تفسیر کا از سر نو مطالعہ تو نہیں ہوسکا لیکن ان حصوں سے متعلق اول سے لے کے آخر تک جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس کا مطالعہ کرلیا ہے اور اس سے جو بات ابھری ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پہلے میرا خیال تھاکہ واقعہ افک کی طرف چونکہ انہوں نے اشارہ نہیں کیا یعنی ممکن ہے نہ کیا ہو‘ اس لئے مجھے معذرت پیش کرنی ہوگی کہ اس سلسلے میں ان کا تعلق جوڑ کر میں نے غلطی کی‘ ان سے معافی مانگنی چاہئے۔ مگر جو نکلا ہے وہ اس سے بدتر ہے اور نہایت ہی خوفناک ‘ ایسے غلیظ الزامات لگائے گئے ہیں اور ایسے ہولناک کہ ان کو پڑھتے ہوئے انسان کا خون ابلنے لگتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ اول سے آخر تک اس مضمون کو آپ کے سامنے پوری طرح کھول دوں۔
سب سے پہلے تو میر صاحب نے جو بعض حوالے دیئے تھے کہ دیکھو وہ جو اہل بیت کا اشارہ ہر گز ازواج کی طرف نہیں دوسروں کی طرف ہے‘ اس کی تائید میں بے شک مسلم کو دیکھ لو ۔بیضاوی کو دیکھو لو ۔ فلاں کو دیکھ لو۔ فلا ںکو دیکھ لو۔ کچھ حوالے ایسے تھے جن پہ میں پہلے بات کرچکا ہوں کہ وہ بالکل جھوٹے نکلے ہیں۔ جو بات یہ منسوب کررہے ہیں وہ وہاں نہیں نکلی بلکہ بعض صورتوں میں برعکس بات نکلی ہے۔ اب میں تین اور حوالوں کا ذکر کرتا ہوں۔
دیباچہ انگریزی کے صفحہ 98A پر میر صاحب نے بیضاوی کا ‘ صحیح مسلم کا اور تاریخ طبری کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخ بیضاوی مؤلفہ عبداللہ بن عمر شیرازی بیضاوی المتوفی 685ھ یا 1236ئ۔ اس میں زیر آیت
’’لیذھب عنکم الرجس اھل البیت‘‘
احزاب 34 میں حضرت عائشہ ؓکی سرے سے کوئی روایت ہی درج نہیں بالکل جھوٹ باندھا ہے کہ بیضاوی دیکھ لو اس آیت کے نیچے یہ سار ی بحث مل جائے گی‘ کوئی ذکربھی نہیں۔ البتہ چادر والی روایت کا ذکر ہے لیکن اس میں اس آیت کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ محض رسول اللہﷺکی دعا کا ذکر ملتا ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ وہاں جو مؤقف یہ پیش کررہے ہیں اس کو جھٹلایا ہے بیصاوی نے‘ اور کہا ہے یہ سراسر غلط مؤقف ہے۔ جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ نہیں نکلتا بلکہ یہ نکلتا ہے یعنی وہ بیضاوی جو ان کے ادعا کے بالکل برعکس نتیجہ ثابت کر رہا ہے‘ دلائل پیش کررہا ہے اس کا حوالہ دے کر دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں کسی کو کیا پتہ ہے کہ بیضاوی میں کیا لکھا ہے‘ اتنے بڑے مفسر نے حوالہ دے دیا بس وہی کافی ہوگا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں۔ کہتا ہے‘ لمبی گفتگو ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں صرف یہ بات کہتا ہوں۔ ’’واذکرن فی بیوتکن‘‘ کی تفسیر میں بیضاوی صاحب لکھتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ انہوں نے جو اس سے استنباط کیا ہے یعنی شیعوں نے جو استنباط کیا ہے وہ کہتے ہیں غلط ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ پھر کہتے ہیں۔
’’وھو تذکیربما انعم علیھن من حیث جعلھن اھل بیت النبوۃ و مھبط الوحی‘‘
یہ لکھا ہوا ہے بیضاوی نے۔کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے میں بتاتا ہوںکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا ذکر ہے ’’تذکیر‘‘ کا ایک معنیٰ ہے خداتعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنا‘ اس کے بے شمار فضلوں کا ذکر کرنا‘ تو کہتے ہیں یہ تذکیر اس لئے ہے ان آیات میں۔
’’بما انعم علیھن من حیث جعلھن اھل بیت‘‘
کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اتنا عظیم احسان فرمایا کہ ان خواتین مبارکہ کو اہل بیت کے لقب سے مخاطب فرمایا۔ وہ بیت جہاں نبوت رہتی تھی اور وہ بیت جو مھبط الوحی تھا اس کا اہل بیت خدا تعالیٰ نے ان کو قرار دیا ہے۔یہ ہے بیضاوی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے جتنے حوالے ہیں کسی کا بھی اعتبار نہیں رہا اب۔ پہلے میرا خیال تھا غلطی سے سورتوں کے نمبر ادھرادھر ہوگئے ہوں گے مگر یہ تو معلوم ہوتا ہے بالارادہ دھوکہ دیا جارہا ہے‘ ایک بات کی طرف اشارہ کرکے کوئی دوسری بات چلا دیتے ہیں اور جہاں حوالے آتے ہیں وہ حوالے جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو وہ بات نکلتی ہی نہیں۔
مسلم کتاب الفضائل میں حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت ہے ۔ اس کا حوالہ دے کر جو اس سے نتیجہ نکالا وہ بالکل غلط ہے‘ اور جو بات منسوب کی وہ تو وہاں ہے ہی نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کے متعلق مسلم میں یہ روایت درج ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ پر ایک منقش چادر تھی ’’اسود‘‘ جوسیاہ رنگ کی تھی۔ اس وقت حضرت حسنؓ ایک بچے تھے ان کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ تشریف لائے جو علی ؓ کے بیٹے ہیں۔ ’’فادخلہ‘‘ پھر انہوں نے اپنے ساتھ ہی ان کو بٹھا لیا ۔ اسی چادر میں ’’ثم جاء الحسینؓ‘‘ پھر حسین آئے پھر ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ ’’فدخل معہ ثم جأت فاطمۃ فاد خلھا‘‘ پھر فاطمہ آئیں تو ان کو بھی داخل کرلیا‘ ثم جاء علیٌ پھر علی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ آئے ان کو بھی داخل کر لیا۔
پھر قال انما یرید اللّہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا‘‘
کہ پھر کہا !اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے گند دور فرمادے ‘ ہر قسم کی جو ایسی باتیںہیں جن میں کسی قسم میں تم ملوث ہو‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرما کے تمہیں بہت پاک و مطھر بنادے۔
جو حوالہ میر صاحب دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت پر پھر ان کو بلایا گیا اور حضرت عائشہ ؓکو شامل نہیں کیا۔ اہل بیت میں بلکہ صرف ان کو اہل بیت میں شامل کیا‘ یہ سب جھوٹ ہے‘ مسلم دیکھ لیں اٹھا کر‘ اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا۔
تیسرا وہ تاریخ طبری کا حوالہ دیتے ہیں کہ تاریخ طبری میں بالکل صاف لکھا ہوا ہے کہ اہل بیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور رسول اللہﷺنے منع فرمایا ۔کہا نہیں خبردار تم نے نہیں آنا۔ تاریخ طبری میں جس جلد کا حوالہ دیا ہے میں نے ربوہ بھجوایا تھا علماء کو۔ خصوصاً مولوی دوست محمد صاحب کو کہ وہ ساتھ علماء کو بٹھائیں اور پورا اس کا مطالعہ کہ کہاں یہ لکھا ہوا ہے‘ تو ان کا جواب ہے کہ تاریخ طبری مؤلفہ ابوجعفر محمد بن جریر متوفی 922,310 کے چار ایڈیشن اس وقت میرے سامنے ہیں۔
ام سلمہ کی چادر والی روایت کا جو حوالہ طبری جلد ۲ ‘کا دیا گیا ہے۔ یہ حوالہ ان صفحات میں موجود نہیں۔ مطبع حسینیہ مصریہ میں تلاش کیا گیا۔ اس کے صفحہ 17 پر بابل کے بادشاہ اور حضرت یحییٰؑ کے قتل کا واقعہ درج ہے۔ روایت راسل عربی بیروت کے ایڈیشن کے صفحہ 17 پر بھی بادشاہ ہی کا ذکر ہے اور ایک اور ایڈیشن میں جلد دیکھی گئی‘ جلد دوم دیکھی تو معلوم ہوا اُس کا آغاز ہی 661 صفحہ سے ہوتا ہے۔ وہاں ۱۷ صفحے پہ کیا ذکر ملنا تھا۔طبری جلد کا یک اور قدیم ایڈیشن نکالا گیا جو لائیڈن یونیورسٹی کے پریس سے جو ہالینڈ میں وہاں سے شائع ہوا تھا۔ 1885 میں۔ کہتے ہیں وہ 553 صفحہ سے شروع ہوتا ہے اور اس میں 65 ھ کے واقعات درج ہیں اور رسول اللہﷺکے زمانے کا کوئی واقعہ درج ہی نہیں۔ اس احتمال کے پیش نظر کہ شاید کہیں صفحہ 17 پہ کہیں اور ذکر ہو‘ یا صفحہ 17 نہ ہو کوئی اور ہو‘ ہم نے تمام جلد کا مطالعہ کرلیا ہے کہیں کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ یہ ہے ان کی سچائی کا عالم۔
اب جو بقیہ گفتگو ہے وہ کہہ کیا رہے ہیں میں آپ کو سمجھا دوں۔
ذکر شروع کرتے ہیں شہد کے قصے سے اور نتیجہ یہ نکال رہے ہیں دراصل یہ ساری گفتگو یہ ہے جس کا عنوان ہے۔
’’ازواج النبی ﷺ اھل بیت میں سے نہیں تھیں‘‘
اگر نہیں تھیں تو کیا تھیں؟ ان کا مقام کیا ہے؟ اس پر اب یہ گفتگو شروع ہوتی ہے۔ سورۃ تحریم کے حوالے سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘
اے نبی ﷺ ! تونے اپنے اوپر کیوں حرام کررکھا ہے وہ جو خدا نے حرام نہیں فرمایا!
’’تبتغی مرضات ازواجک‘‘
تو اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہوئے اپنے پر سختی کر رہا ہے۔ ’’واللہ غفور رحیم‘‘ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ یہاں بیویوں کے لئے بھی بخشش اور رحمت کا وعدہ ہوگیا۔محمد رسول اللہ ﷺکا جو اپنے کو روکنا تھا اس پر بھی بخشش اور رحمت کا وعدہ ہوگیا۔
’’قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم‘‘
ایسے بھی مواقع ہیں جن پر اپنی قسموں کو نظر انداز کردینا ضروری ہے۔ یعنی وہ قسمیں جو خدا تعالیٰ کے منشاء سے متصادم نہیں تو اس منشاء کے عین مطابق نہ ہوں ۔ مراد یہ ہے۔ ان کا چھوڑ دینا‘ حلال کردینا فرض ہے۔
’’واللہ مولکم و ھوالعلیم الحکیم ‘‘
اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ خوب جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے۔ اس آیت پر وہ بحث اٹھاتے ہیں کہ یہ ساراقصہ وہ honeyسے شروع ہوا۔ محمد رسول اللہ ﷺکی تکلیف دہی کا اور یذا رسانی کا۔ کہتے ہیں۔
Aeshaؓ and Hafasؓ a who thought themselves superior to others had combined into a secret alaiance discuss matters insulting the other wives and disclose secrets to each other.
اس بحث میں کہتے ہیں کہ دیکھ لو کتنا سخت ذکر ہے۔ حالانکہ وہ سیکرٹ والا قصہ بعد میں آئے گا۔ Honey سے آغاز شروع ہوا ہے‘ کہتے ہیں دیکھو کتنی بڑی تکلیف پہنچائی ہے رسول اللہ ﷺ کو۔ نعوذ باللہ ایسی ظالم عورتیں۔ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھااور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھادونوں‘ ایک ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ایک عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کہ شہد کے متعلق کہہ دیا کہ بو آرہی ہے شاید اور اتنا دکھ نبی کو پہنچایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کر بھی دے گا تو ہم نے نہیں کرنا۔ یہ ہے سارا استنباط۔ اس کے نتیجے میں وہ کیا کہتے ہیں کیا ہوا۔
The Holy Prophet was so much troubled by Aaesha and Hafsa that he said that even he discared all his wives for one complete month.
کہ اس واقعہ سے رسول اللہ ﷺ کو اتنی تکلیف پہنچی کہ اس غصے میں باقی بیویوں کو بھی تقریباً طلاق دے بیٹھے۔ اب کوئی تُک ہے اس کی۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تونے بیویوں کو رضامند کرنے کی خاطر ان کے لئے اپنے اوپر ایک جائز چیز حرام کردی کہ ان کو تکلیف نہ پہنچے۔ یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے اوپر کیسا خوبصورت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحسین کا اظہار ہے۔ کتنا تو خیال رکھتا ہے اپنی ازواج کا‘ اتنا پیار کا سلوک فرماتا ہے کہ ان کی خاطر جو جائز چیز ہے وہ بھی حرام کر رکھی ہے‘ ان کو تکلیف نہ پہنچے۔ کہتے ہیں یہ ایسا خوفناک واقعہ تھا کہ اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ نے ردعمل میں باقی بیویوں کو بھی طلاق دے دی‘ عملاً طلاق دے دی‘ ایک مہینے کے لئے الگ کردیا۔ اب کوئی تُک ہے اس بات میں‘ کوئی سوچنے والی بات ‘ دیکھنے والی بات ہے کہ غصہ اگر ان دو پر تھا جن کے متعلق خدا فرماتا ہے ’’غفور رحیم‘ ہوں میں‘ اور بات اتنی سی ہے‘ اور بات بھی رسول اللہ ﷺ کے حسن خلق کی ہے۔ اس پر یہ ردعمل کہ سب بیویوں کو چھٹی کرادی‘ بالکل ہی جاھلانہ بات ہے۔ خلاصہ یہ نکالتے ہیں۔
The experience of the Holy Prophet even in his demostic life.
محمد رسول اللہ ﷺ کا جو اپنے صحابہ کے ساتھ experience تھا جو آپﷺ نے اپے صحابہ رضوان اللہ علیھم سے دیکھا یا اپنی بیگمات رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے دیکھا‘ کہتا ہے
‏ even in his domostic life
یہاں تک کہ اپنے گھر کے ازدواجی تعلقات میں بھی
resembled those of his predicessor apostles Noah and Lot with their wives.
کہتا ہے یہ ملتا تھا ان واقعات سے جو حضرت نوح ؑ کو حضرت لوط ؑ کو اپنی بیویوں کے تعلق میں پیش آئے اور جو دکھ انہوں نے اٹھائے۔ ان بیویوں سے‘ یہ اسی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
پھر دوسری بات راز والی ہے۔
واذ سرالنبی الیٰ بعض ازواجہ حدیثا ج فلما نبات بہ واظھرہ اللہ علیہ عرف بعضہ و اعرض عن بعض ج فلما نباھا بہ قالت من انباک ھذا ط قال نبانی العلیم الخبیر O ان تتو با الی اللہ فقد صغت قلوبکما ج و ان نظھرا علیہ فا ن اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح المومنین ج والملائکۃ بعد ذلک ظھیر O
پھر طلاق والے واقعہ کو یہ اس راز کی بات کے واقعہ سے باندھتے ہیں۔ اور کہتے ہی کہ دراصل حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی راز کی بات بتائی تھی اور انہوں نے وہ آگے ذکر کردیا حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے۔ اس کا سارا یہ جھگڑا شروع ہوا۔ اور خدا تعالیٰ کو یہ بات اتنی ناپسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس کو میں پڑھ چکا ہوں۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’جب نبی نے اپنی بیویوں میں سے‘ بعض، خدا تعالیٰ ذکر نہیں کرتا کون تھا‘ نہ ذکر کرنا پسند فرماتاہے‘ کو ایک بات بتائی راز کی۔ پس جب اس نے ’’فلما نبات بہ و اظھرہ اللہ علیہ‘‘ جب اس نے وہ بات آگے بیان کردی‘ کس کو یہ بھی ذکر نہیں ہے‘ تو اللہ نے اس کی اطلاع فرما دی محمد رسول اللہ ﷺ کو۔ ’’عرف بعضہ و اعرض عن بعض‘‘ آپ ﷺ نے اس ‘ جو خدا تعالیٰ نے تفصیل بیان فرمائی‘ اس میں سے کچھ رکھ لی ساری بات نہیں بتائی۔لیکن اس کا ایک حصہ ان کو بتادیا جن سے بات فرمائی تھی۔ ’’فلما نباھا بہ‘‘ جب اس کی اطلاع دی اپنی اس بیوی کو جس سے گفتگو ہوئی تھی ’’قالت من انباک ھذا‘‘ تو انہوں نے پوچھا کس نے بتایا آپ کو۔’’قال نبانی العلیم الخبیر‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایامجھے تو ’’خبیر اور علیم‘‘ نے بتایا ہے۔ یہ قابل ذکر بات ہے‘ یہ صاف ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی اور زندہ شخص نے یہ بات نہیں بتائی تھی‘ کیونکہ تمام مستشرقین جو معمولی عقل بھی رکھتے ہیں‘ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن جو بیان کیا کرتا ہے اس زمانے کی بات وہ لازماً سچی ہے‘ ورنہ محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگ چھوڑ دیتے اور کہتے کہ یہ دیکھو ہماری آنکھوں کے سامنے جھوٹ بنا رہا ہے۔ اس لئے ہم مجبور ہیں یہ ماننے پر کہ اپنے وقت کی جو تاریخ قرآن بیان کرتا ہے۔ وہ ضرور سچی ہوگی۔ پس اگر دوسری بیوی نے بتایا ہوتا‘ یا آگے بات چل نکلی ہوتی اور کسی اور نے بتایا ہوتا تو قرآن کریم میں یہ آیت کیسے نازل ہوسکتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی انسان نے نہیں بنایا‘ مجھے اللہ نے بتایا ہے۔ ’’ان تتو با الی اللہ فقد صغت قلوبکما‘‘ اگر تم دونوں توبہ کرو تو پھر سمجھ لو کہ تمہارے دلوں میں ایک غلطی پیدا ہوگئی تھی‘ ایک غلط میلان پیدا ہوچکا تھا۔ ’’وان تظھر ا علیہ‘‘ اوراگر تم دونوں اکٹھ کرلو گے میرے خلاف‘ یعنی رسول اللہ ﷺ کے خلاف‘ یہ Third person کا ذکر ہے۔ ’’فان اللہ ھو مولہ‘‘ پس اللہ اس کا ولی ہے اور جبریل اور مومنوں میں سے ہر وہ شخص جو نیک اور پاکباز ہے۔ ’’والملائکہ بعد ذلک ظھیر‘‘ اور فرشتے بھی اس کے مددگار ہیں اس کے علاوہ۔
یہ طرز کلام ہے تنبیہی لیکن اسی قسم کی طر ز کلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمائی گئی ہے کہ اگر تو ایک ذرہ بھی اس مسلک سے ہٹا تو تجھے ہم کہیںکا نہیں چھوڑیں گے۔ اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا۔ ایک جگہ نہیں ایک جگہ سے زائد۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان ازواج ؓ کو نعوذ باللہ من ذلک غضب کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ایک مشروط بات ہے۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس کے یہ بھیانک نتیجے نکلیں گے۔ اور بعینہ اسی طرز پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک سے زائد جگہ اس سے زیادہ سخت الفاظ میں تنبیہہ دی گئی ہے۔ اور مفسرین پڑھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیںکہ اوہو! یہ کیا ہوگیا۔ پھر اس کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ واضح بات ہے کہ مراد یہ ہے اس صورت میں کہ اے رسول ﷺ اگر تونے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے سرمو بھی انحراف کیا تو ‘ تُو جو سب سے پیارا ہے تجھے بھی خدا معاف نہیں کرے گا۔ تو وہ جو ادنیٰ لوگ ہیں ان کا کیا حال ہوگا۔ تو ایک کے ذریعے دوسرے کی تنبیہہ کی جاتی ہے۔ دوسرے کو تنبیہہ کی جاتی ازواج مطھرات ؓ کے ذریعے دوسری بیویوں او ردوسری تمام عورتوں کو تنبیہہ ہے کہ اپنے خاوندوں کی بعض امانتیں رکھنی ہوتی ہیں اور خصوصیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت کا تو ایک بہت بڑا مرتبہ ہے۔ امانت کون سی ایک چھوٹی سی راز کی بات‘ اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ بظاہر معمولی سی ایک چھوٹی سی بات ہے مگر احتیاط کیا کرو اور رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ ایسا نہیں ہے کہ ان کے ساتھ روزمرہ کی زندگی کی طرح جس طرح بیویاں خاوندوں سے کرتی ہیں ویسا سلوک کرو۔ یہ بات ہوئی بات ختم ہوگئی ‘ نصیحت فرمادی اللہ تعالیٰ نے‘ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ طرز کلام ہے۔ اس سے وہ میر صاحب کیا ریفرنس نکالتے ہیں۔ کہتے ہیں !
This is a direct reference to the conduct of Aisha and Hafsa the consort of the Holy Prophet who teased him the most, by uncontrolable envy against other meak and modest ones of his wives.
کہتا ہے کہ ان دونوں کے متعلق اب اس طرف سے ساری بات بنی، اتنا غصہ اتنا زہر اگلتا ہے یہ شخص کہ دیکھ لو کہ ان دونوں عورتوں عائشہ ؓ اورہیں وہ عائشہ ؓ جن کے متعلق ابھی ابھی ام المؤمنین فرما چکے ہیں جناب‘ ان کا یہ حال تھا‘ اتنی تکلیفیں خد ا کے رسولﷺ کوپہنچائی ہیں انہوں نے کہ جوناقابل برداشت ہیں۔ کہتے ہیں یہاں تک کہ
The Holy Prophet was disp leased with Hafsa to the extend that the details of which are given by the Historians, Traditioners and other commentators. However all these incidents necessitated the revelation of this Surah.
کہتا ہے یہ ساری سورۃ جو نازل ہوئی ہے وہ اس وجہ سے ہوئی ہے ۔ کہتا ہے کہ باقی مضمون تو تمہیں سمجھ آگیا ہوگا کہ دھمکی کس کی دی جارہی ہے ان کو‘ خدا‘ جبریل‘ فرشتے اور سب لوگ‘ کہتا ہے بیچ میں صالحین المؤمنین کا کیا ذکر آگیا۔ تو کہتا ہے ظاہر ہے حضرت علی ؓ مراد ہیں کہ اگر صرف اللہ ہی نہیں میں علی ؓ کو تمہارے پیچھے ڈالتا ہوں۔ اب سوچنے کی بات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ مگر ان کویہ کس طرح استعمال کررہے ہیں سوچیں۔ وہ علی ؓ جن کو خدا تعالیٰ کہتا ہے ان دو بیٹیوں کے پیچھے ڈال دوں گا۔ عمر ؓ کی بیٹی اور ابوبکرؓ کی بیٹی اور نتیجہ کیا نکالا ۔ ابوبکر ؓ اور عمرؓ کو ان کے بیان کے مطابق علیؓ کے پیچھے ڈال دیا۔ یہ کیا منطق ہے کیا تُک ہے اس بات میں۔ جن کی بیٹیوں کو سزا دینے کے لئے خدا نے علی ؓ کو چنا تھا۔ ان کے قول کے مطابق ان کے والدین کے ہاتھوں علیؓ نے بہت سزا اٹھائی‘بہت سزا پائی بہت دکھ اٹھائے۔ ان کی اندرونی روایات ایک دوسرے کو اس طرح کاٹتی ہیں کہ بیک وقت دونوں کو درست تسلیم کیا ہی نہیں جاسکتا۔
آگے اب میں عرض کرتا ہوںیہ جو کہا ہے کہ ان کو چھٹی کر ا دی جائے سب حوالے الٹ پلٹ غلط جگہ چلے گئے ہیں سارے… استنباط ان کا کیا ہے؟ ساری بحث کے بعد میںبہت باتیں چھوڑ رہا ہوں وقت کی کمی کی وجہ سے ، ساری بحث کے بعد استنباط یہ ہے کہ یہ جو ازواجؓ ہیں جن کی باتیں کی جارہی ہیں‘ verse ‘ 4 اور 5 سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بہترین عورتیں تھیں ہی نہیں بلکہ تمام ازواج نبیﷺ سے بہتر‘ سوسائٹی میں موجود تھیں عورتیں۔آگے جاکر اس مضمون کو Develop کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگرچہ طلاق تک تو نوبت نہ پہنچی مگر اس کے باوجود کیا ہوا۔ وہ میں ابھی آپ کو پڑھ کے سنائوں گا۔ کہتا ہے۔
This clearly indicates that the wives who were there at the revealation of this verse.
جس وقت یہ وحی نازل ہوئی ہے اس وقت جتنی بیویاں رسول اللہ ﷺ کی تھیں۔
and those involve in the charge in verse 4 and warned in verse 5.
جب کہتے ہیں جتنی تھیںاس سے مرادیہ نہیں ہے کہ جن کے متعلق وہ گفتگو ہوئی ہے پہلے پہلے بات ہو چکی ہے۔ وہ اس کے علاوہ ہیں‘ …کہتا ہے تمام بیویاں جو اس آیت کے نزول کے وقت تھیں رسول اللہ ﷺ کی‘ اور خصوصیت سے وہ دو یعنی حفصہ ؓ اور عائشہ ؓ جن کا اس سورۃ تحریم کی 4 اور 5 آیات میں ذکر ہے۔
Both these verses are applied to Hazrat Aisha
اب یہاں حضرت کا لفظ دیکھیںذرا۔
and Hazrat Hafsa were not the best women. Women better than them were there in the place. However though the divorce did not take place because that the threat made them concious yet the passage proves beyond doubt that they were not the best women then available. Thus they were not of the standard even of the ladies mentioned in 33,36.
اب بات اور آگے بڑھا دی۔ کہا ہے کہ ایک بات تو قطعاً ثابت ہو گئی کہ وہ بہترین نہیں تھیں تو کونسا معیار ہے ان کا۔ ہو سکتا ہے عام جو صالح مومنات کا آکر ملتا ہے نیک پاک باز بیبیاں جو اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے والیں، دعائیں کرنے والیں، عبادت کرنے والیں، کہتا ہے ہو سکتا ہے تمھارا دماغ اس طرف چلا جائے کہ شاید ان میں مل جائیںیہ۔ کہتا ہے نہ
They were not of the standard even of the ladies mentioned in 33, 36
وہ ہے…کہاںگیا جی وہ حوالہ؟ ہاں
ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات والقنتین والقنتت والصدقین والصدقات والصبرین و الصبرات والخشعین الخشعت والمتصدقین والمتصدقات والصائمین والصائمات و الحفظین فروجھم والحفظات والذکرین اللہ کثیرا والذکرات ‘ عداللہ لھم مغفرۃ و اجرًا عظیماO
یہ سورۃ احزاب کی طرف اب لے گیاہے۔ کہتا ہے تحریم سے تمہیں یہ تو پتہ چلا کہ یہ بہترین نہیں تھیں لیکن ان کا مقام مرتبہ تھا ‘ کن خواتین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ کہیں تم غلط فہمی سے سورۃ احزاب کی یہ آیات پڑھ کر جو عام مسلمان مردوں اور عورتو ںکے متعلق ہیں ان میں ان کو شمار کر بیٹھنا۔ وہ آیات کیا ہیں۔
یقینا کامل مسلمان مرد اور کامل مسلمان عورتیں اور کامل مومن مرد اور کامل مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راست گو مرد اور راست گو عورتیں‘ کہتا ہے ان میں سے کوئی صفت ان میں نہیں پائی جاتی۔ نہ یہ مسلمات تھیں نہ یہ مومنات تھیں نہ یہ قٰنِتٰت تھیں یعنی فرمانبردار‘ نہ یہ سچی تھیں والصدقات‘ نہ ہی یہ صابرٰت تھیں یعنی صبر کرنے والیاں بھی نہیں تھیں‘ نہ ہی یہ خشعت تھیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں رکھتی تھیں‘ نہ ہی ان کو صدقہ دینے کا کچھ پتہ تھا متصدقات بھی نہیں تھیں‘ اور نہ روزہ رکھا کرتی تھیں والصائمات کہتا ہے وہ بھی نہیں تھیں‘ والحفظین فرو جھم والحفظت۔
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں‘ کہتا ہے تمہیں بیوقوفو ! نعوذ باللہ من ذلک۔ اھل سنت مسلمانوں کو گویا یہ کہہ رہا ہے اس آیت میں بھی وہ داخل نہیں ہیں یاد رکھنا۔
والذکر ین اللہ … و الذکرت‘ ان میں سے بھی نہیں تھیںجو اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی ان کو نہیں نصیب ہوسکتا۔
اعداللہ لھم مغفرۃ واجراً عظیما‘ کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
‎ یہ ہے وہ آیت جس کے متعلق میر صاحب فرما رہے ہیں۔ Thus the question of such ones
ان جیسیوں کا‘ اس آیت میں شامل ہونے کا سوال اٹھتا ہی نہیں ہے یعنی کوئی دور کا بھی شبہ اس بات کا نہیں پڑ سکتا یعنی کوئی شائبہ نہیں کہ اس میں شامل ہوں۔ verse 33, 34‘ جو میں نے آپ کے سامنے احزاب کی پڑھ کے سنائیں ہیں۔
آگے چلیئے۔ اب ان میں تو نہیں ہیں۔ اُن میں بھی نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکباز‘ مطھرات اھل بیت تھیں‘ ان میں بھی نہیں ہیں جو مسلمانوں میں سے شریف النفس پاکباز عورتیں تھیں ۔ صدقہ دینے والیاں‘ عبادت کرنے والیاں‘ پھر ہیں کن میں؟
اب میر صاحب اس راز سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔
The reference here is to the wives of Noahؑ and Lotؑ. It is to compare the position of the consorts of the Holy Prophetﷺ to say that the mere companion ship of the two women with Noahؑ and Lotؑ of their being the wives of apostles ofGod did not change their individual positions as the rebellious ones against God. Right? similarly the position of the two consorts of the Holy Prophetﷺ who annoyed him was not to be different nearly for their being the wives of the Holy Prophet.
کہتا ہے یہ جو سورۃ تحریم ہی میںیہ ذکر ملتا ہے۔ دو انبیاء کو ان کی بیویوں کا۔
کہتا ہے اس ذکر میں یہ ثابت کیا جارہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ جس نوح ؑ کی بیوی اور لوط ؑ کی بیوی کو ان پاکبازوں کے گھر رہنا اور ان کی طرح رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا نہیں بچا سکا۔وہ ھلاک کردی گئیں ۔ اسی طرح ان دو عورتوں‘ نعوذ باللہ من ذلک‘ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کو بھی محمد رسول اللہ کی صحبت کوئی نجات نہیں بخشے گی۔
The wife of Noahؑ used to tell her people that
Noahؑ was a mean fellow.
گویا کہ یہ الزام لگا رہا ہے یہ بدبخت انسان کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بیگمات یہ کہا کرتی تھیں مسلمانوں سے کہ محمدﷺ رسول اللہ یہ ہیں‘ کھول رہا ہے بات کو اپنی طرف سے۔
and the wife of Lotؑ used to secretly inform the people, of the guests the presited Lotؑ.
وہ اند رکی خبریں دشمنوں کو دیا کرتی تھیں کہ کون کون آیا ہے آج اور کیا ہورہا ہے؟
Both of them were caught in the wrath of God a and similarly the consorts of the Holy Prophetﷺ who annoyed him would not be spared from the chastisement merely for their having been his wives.
اس سے زیادہ کوئی بدبختی آپ تصور کرسکتے ہیں۔ میں نے تو جب سے پڑھا ہے میرا خون کھول رہا ہے‘ دل خون ہورہا ہے۔ یہ بدبخت اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ وہ حضرت عائشہ ؓ جن کے ہاتھوں میں محمد رسول اللہ نے‘ ان کی بانہوں میںجان دی ہے۔ آخر وقت تک اس بدبخت کو معلوم ہوگیا وہ کون تھیں؟ محمد رسول اللہ کو نہیں معلوم ہوسکا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پتہ لگا کہ یہ بیویاں کیسی ہیں اور کہاں ان کا انجام ہونا چاہئے۔ اور ان پر کیوں خدا کا عذاب اس طرح نازل نہیں ہوا۔ جس طرح لوط ؑ اور نوح ؑ کی بیویوں پر عذاب نازل ہوا؟ یہ ہے اندرو نہ ان کا۔ ا ب میں یہ تعجب کرتا ہوں کہ ان سب باتوں کے باوجود یہ مسلمان ہیں۔ بھائی ہیں ‘ گلے سے لگے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک بات بھی پاکستان کی نہ عدلیہ کو تکلیف پہنچاتی ہے نہ علماء کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ نہ عوام الناس کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ کہتے ہیں سو بسم اللہ اپنوں کا حق ہوتا ہے۔ آپس میں ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں‘ تم جو چاہو کرو‘ جتنے چاہتے ہو تیر برسائو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے پر‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطھرات کے سینے پر‘ ہمیں کیا اس سے۔ گھرکی باتیں ہیں‘ آپس میں اختلاف ہوتے ہیں تم بے شک کرتے رہو۔ کوئی تکلیف نہیں۔ لیکن اگر کسی بدبخت احمدی نے محمد رسول اللہ کی سچائی کی گواہی دی تو ہم اسے گردن زدنی قرار دیں گے‘ س کو اڑا کر رکھ دیں گے‘ اس کے اموال لوٹ لیں گے‘ اس کو گلیوں میں گھسیٹیں گے‘ یہ ہے سلمان رشدی جسے پاکستان کی گلیوں میں آزاد پھرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ سلمان رشدی کا تصور دیکھیں کہاں سے کہاں پہنچا کیا بن بیٹھاہے۔ یعنی یہ باتیں کرنے والے ہمارے بھائی اور پیارے‘ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے خلاف تم movement چلائو میں تو منع کرتا ہوں۔مگر خدا کا خوف کرو‘ جب ان سے ملتے ہو تو جانو کہ یہ اس قسم کے بغض اپنے سینے میں محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے مقدس پیاروں کے خلاف پالے ہوئے ہیں۔ کہیں دھوکے میں نہ رہو کہ یہ کون لوگ ہیں۔ لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں۔ جو تمام دنیا میں توحید کے کلمات بلند کررہے ہیں۔ ان کے خلاف تو اپنی زبانیں دراز نہ کرو۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں میر صاحب کا پس منظر‘ لیکن اس سے پہلے آپ کو دلچسپ بات سنائوں کہ یہ پرانی ان کی باتیں ہیں۔ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ ابن بطوطہ مشہور تاریخ دان ہیں۔ جنہوں نے مشرق کے سفر اختیار کئے اور افریقہ بھی گئے۔ ایشیاء کے مختلف ممالک گئے اور ا ن کی مشہور‘ جو ان کے Travles کی کہانیاں ہیں ساری دنیا میں مشہور ہیں۔
مجھے وہاں سے ربوہ سے کس نے بھیجی تھی‘ میر صاحب کی لائبریری میں ہے‘ ہاں سید طاہر ہمارے ،میرے ہم نام ہیں۔ میرے دوست اور ساتھی کلاس فیلو ہوتے تھے‘ میر ناصر‘ سید ناصر احمد‘ میر ناصر‘ کیا نام تھا؟ ناصر ہی تھا نا نام‘ سید احمد ناصر ہاں سید احمد ناصر ہاں۔ ایک دفعہ سید کہہ دیا تھا‘ یاد نہیں رہا کہ نام بھی سید ہی تھا۔ سید سید احمد ناصر۔ حضرت میر اسماعیل صاحب کے صاحبزادے‘ ہمارے ساتھ پڑھے ہوئے اکٹھے کھیلتے رہے۔ بہت ہی نیک سیرت انسان‘ بہت ہی پیار ا وجود‘ افریقہ میں رہے۔ بہت نیک اثر چھوڑ کے آئے۔ ان کی اولاد بھی ماشاء اللہ اپنے آبائو اجداد کے رنگ میں ہی ہے‘ تو انہوں نے یہ حوالہ بھیجا ہے یہ ابن بطوطہ کی کتاب‘ پہلے ملک عمر علی صاحب مرحوم کی ملکیت تھی ان کو بہت شوق تھا علمی کتابیں پڑھنے کا۔ انہوں نے پھر یہ جامعہ کی لائبریری کو تحفتہً دے دی تھی۔ تو یہ حوالہ بھی سن لیں۔
کہتا ہے۔
The ten were the most prominent members of Mohammad's entourage.
کہتا ہے جو عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں وہ بہت ہی نمایاں محمد رسول اللہ کے صحابہ رضی اللہ عنہ اور ساتھ رہنے والوں میں سے تھے۔
and are greatly revered by the Orthodox
اور آرتھوڈوکس مسلمان جو ہیں ان میں ان کی بہت عزت پائی جاتی ہے۔
the Shiites on the other hand, regard them much as Judas Iscariot is regarded in the Chirstian tradition.
لیکن شیعہ ان لوگوں کو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسے Judas Iscriot کو عیسائی سمجھتے ہیں۔ یعنی جس نے *** ڈال دی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر۔
Their especial hatred is reserved for Omerؓ, who was responsible for the election of the first Caliphؓ and was himselfؓ the second, and whom they blame accordingly for the exclusion of Aliؓ from the succession to which he was designated (as they…, in defiance of all historical argument: by the Prophet۔
کہتا ہے یہ خصوصیت سے یہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ سے اس لئے خصوصیت سے کہ ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنانے میں ان کا دخل تھا‘ انہوں نے تجویز پیش کی تھی۔ اور دوسرے نمبر پر خود بن گئے اور حضرت علی ؓ کو ورثے سے محروم کردیا۔ کہتا ہے جیسا کہ یہ خیال کہ Claim کرتے ہیں۔ حقیقت نہیں ہے۔ مگر Claim یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جو سارے فساد کی جڑ بنے۔
یہ واقعہ بیان کررہا ہے‘ اپنے Travels کا‘ Syria میں دمشق۔
میں جہاں ابھی بھی شیعوں کا کافی نفوذ ہے‘ کافی زور ہے۔
These people too are revilers.
یہ جو بسنے والے ہیں دمشق وغیرہ کے علاقے میں لوگ یہ بھی بہت سخت تبرا کرنے والے ہیں۔
who hate the ten, and an extra ordinary thing never mention the word ten.
کہتا ہے وہاں مجھے یہ پتہ لگا کہ یہ عشرہ مبشرہ سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ دس کا عدد ہی بیان نہیں کرتے۔ وہ اپنی زبانوں پر دس کا عدد آنا ہی نحوست سمجھتے ہیں۔ کہتا ہے۔
When their brokers are selling by auction in the market and come to ten, they say (nine and one).
کہتا ہے یہ مارکیٹ میں یہ صدا لگا رہے تھے نیلامی میں تو جب 10 کی باری آتی ہے کہ کہتے ہیں 9 اور 1 دس نہیں کہتے۔
One day a Turk happened to be there.
ترکی تو بڑے ‘ سنی بڑے پکے اور بڑے بہادر لوگ ہیں اس معاملے میں‘ کہتا ہے ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک تُرک بھی وہاں کھڑا تھا۔
and hearing a broken call (nine and one), he laid his club about his head saying (Say, ten)
اس نے اپنے سونٹا اٹھایا اور اس کے سر پر بلند کرکے کہا کہو دس۔ کہتا ہے!
Where upon quoth he (Ten with the club,)
کہتا ہے Club کے ساتھ دس‘ اس کے بغیر نہیں۔ سر میں ڈنڈاہوگا تو دس کہیں گے ،ورنہ نہیں کہیں گے۔
We journeyed thence to Halab, which is the seat of the Malik al-Umara.
اب یہ جو دس نہیں کہتے‘ ان کا ذکر میں کروں۔ میر احمد علی صاحب کون تھے‘ کہاں پیدا ہوئے؟ کیا ان کا biodataہے؟
From the … the Holy Quran.
یہ میں وہاں سے لے رہا ہوں۔
Mir Ahmad Ali claims his paternal ancestors decent from the forth Holy Imam Ali Ibno Husain Azzainul-Aabedin. Syyade Sajjad and who called themselves the Sajjadees.
کہتا ہے وہاں سے ہمارا تعلق بنتا ہے باپ کی طرف سے یعنی چوتھے امام حضرت زین العابدین سے
‏He also claims that maternal ancestors belong to line of 10th full imam Ali Naqi and they are called Naqvis
کہتا ہے میری والدہ کی طرف سے میرا رشتہ حضرت علی النقی دسویں امام سے جا ملتا ہے۔
کہتا ہے ہمارے آبائو اجداد وہاں سے حجاز آگئے پھر ایران آگئے‘ پھر ہندوستان میں اور آخر کار ہم مدراس میں Settle ہوگئے‘ مدراس میں رہائش پذیر ہوگئے۔
Mir Ahmad Ali studied at the Haris High School Madras which was run by the Christian Mission of the church of England where the study of the Bible was compulsory.
انہوں نے مدراس میں مشنری سکول میں تعلیم پائی جو ’’کرسچن مشن آف دی چرچ آف انگلینڈ‘‘ کے انتظام میں چل رہا تھا اور بائبل کی Study وہاں Compulsory تھی۔
He save of his time here
میں اب quote کرتا ہوں۔
I monopolised the Bible prize and the Bible Scholership every year.
کہتا ہے جہاں تک بائبل کا پڑھنے کا انعام تھا اور بائبل سکالر شپس کا تعلق تھا‘ میں ہر سال لے جاتا تھا اور کبھی کسی اور کو موقعہ نہیں دیا کہ وہ لے جائے۔ monopolise کا مطلب ہے میرے سوا کسی کو توفیق نہیں ملی کہ یہ انعام لے سکے۔
اچھا ‘ کہتا ہے !
I had a special aptitude for the study of religion and very often in discussions with the reverend Kind Goldsmith, the manager of the Principle of the Instituion and Mr. Hanoman Singh, the Bible teacher.
کہتا ہے ان دو سے جو انتظامیہ کے افسر تھے اور بائبل ٹیچر تھے‘ ان سے میری بہت گفت و شنید رہتی تھی۔
اس کے بعد یہ quote ختم ہے۔ میر احمد علی صاحب منشی فاضل ہوئے تھے اور Bacholer Oriental Learning کی ڈگری بھی حاصل کی۔ M.A عربک بھی کیا اور Persian میں بھی۔
He was awarded assistant Lecturership in the same college.
اس کالج میں Assistant Lecturership بھی ان کو ملی۔
After following various other courses obtained the diplomas of hugher profency Arabic and Persion.
پھر انہوں نے زیادہ اعلیٰ مہارت کا ڈپلومہ بھی عربی اور فارسی زبانوں میں حاصل کیا۔ یہ کہتے ہیں ایک انہوں نے رسالہ بھی نکالا جس کا نام تھا "Peace Maker" اس رسالے کے متعلق لکھتے ہیں۔
This was the journal which answered Dr. Zwamer's mischivous articles published in his journal the Muslim world under the title (The Word of God and the word of man) in which he had presented the Bible as (The Word of God and the Quran as (The word of man)
کہتا ہے اس رسالے میں‘ میں نے ڈاکٹر ذویمر کے نہایت شرارت والے مضمون کا جواب بھی لکھا‘ جس کا عنوان تھا
Word of God, Word of Man
یہ کس نوعیت کا جواب تھا‘ اس کے متعلق خود فرماتے ہیں کہ وہ کیسا نکلا ؟
‏ The silencing answer
جو میں نے مسکت جواب دیا
through this magazine earned a special popularity and attraction from the Christian World.
ایسا مسکت جواب تھا کہ تمام عیسائی دنیا میں اس کی واہ واہ ہوگئی۔ مسلمان دنیا میں نہیں ہوئی۔ یہ عجیب بات ہے۔ کیسا آرٹیکل تھا وہ‘ ایسا مسکت‘ منہ توڑنے والا کہ عیسائی دنیا نے واہ واہ شروع کردی اور مسلمان دنیا بالکل خاموش ہوگئی۔ انہوں نے کہا پتہ نہیں کیسا بڑا محسن پیدا ہوگیا ہے ہم کیا کہیں اس کو بیچارے کو۔
Since the sensational of publication of the peace maker I have not a few but an enormous amount of anti Islamic publications which vomit venom against Islam and his Holy Founder.
کہتا ہے اس کے بند ہونے کے بعد مجھے بہت مطالعہ کا موقعہ ملا ہے۔ جس میں مستشرقین نے زہر اگلا ہوا ہے اسلام کے خلاف اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف۔ پھر کہتے ہیں۔
and spread all sorts of lies and slander to poison the mind of mankind against the faith and his Holy Leader.
ہر قسم کے جھوٹ افتراء پھیلاتے ہیں تاکہ رسول اللہ ﷺ کے یعنی اسلام اور اسلام کے بانی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی بد زنیاں پھیلا سکیں۔
لیکن جو اب کیوں نہیں دیا‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ ہے اصل حصہ‘ ان کے تعارف کا۔
but for want our publication or any other means at my own disposal and my inability to give out the truth and remove the doubts created by the misrepresentation. The misinterpetations and the distraction of the facts. I had to remain quiet bearing the mental torture against the miserable situation.
کہتے ہیں کوئی پوچھے کہ میں پھر بولا کیوں نہیں تو کہتے ہیں میرا رسالہ بند ہوگیا تھا اس کے بعد میں نے پڑھی ہیں کتابیں ۔ اور پھر مجھ میں یہ توفیق نہیں تھی کہ میںسچی بات کرسکوں۔
my inability to give out the truth.
میں ‘ مجھ میں طاقت ہی نہیں تھی کہ میں سچی بات کرسکتا۔
and remove the doubts created
اور جتنے شک پیدا کئے جارہے تھے میں ان کو دور کردیتا اور Misrepresentation جو ہورہی تھی اور جو حقائق کوبدلا جارہا تھا اس کو تبدیل کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں تھی۔
I had to remain quiet
مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی اور Mental Torture سے گزرتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہ کرسکا۔ کہتا ہے۔
Can not enumarate here the number of the most damaging publications against Islam I came across against which I could do nothing.
لیکن کچھ کی فہرست یہ دیتے ہیں ۔ اب وہ فہرست جو ہے وہ کن کن کووہ کیا ہے یہ لکھتے ہیں
Tr anslations of the Holy Quran into English
language by a Christian Brethern kept in
view
کہتا ہے میں نے اس قرآن کر یم کے ترجمے کے وقت اپنے عیسائی بھائیوںکی جو Translations پیش نظر رکھی ہیں ان میں SALE بھی ہے ان میں ڈیون پورٹ بھی ہیں ان میں savory version of the Quran بھی ہے
E.N.Wherry بھی ہے ۔Most E.N.Wherry اور پھر Translation of the Holy Quran by Doc.Somebody نام Miss کرگئے ہیں with short commentary notes 1905 edition
Rodwell کی palmer کی Lanpole کی اور Murdock کی اور Quran by El walesten کیTisbailes sources of the Quran بھی Teachers of Quran by H.U.W stanten
‏Ningana on the style of the Quran اور کہتاہے یہ سب کچھ میں نے پڑھ لیا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں مجھ میں سچی بات کہنے کی طاقت نہیں تھی‘ میں خاموش رہا۔ ان بھائیوں سے میں نے استفادہ کیا ہے دراصل۔
اور پھر ہوا کیا ۔ کیا کیا؟ کہتے ہے پھر میں نے یہ سوچا کہ ایک ہی علاج ہے کہ قرآن کریم کا صحیح ترجمہ کردوں اور Commentary کردوںجس میں ساری باتیں کھُل جائیں اور سب غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ اس کے نتیجے میں یہ Commentary میں کررہا ہوں۔
اب جہاں جہاں مستشرقین نے حملے کئے ہیں وہاں وہاں ہر آیت کو میں نے جاکے دیکھا ہے۔ مطالعہ کیا ہے اس کا دیکھا ہے۔ جو گروپ لگا ہوا ہے۔ ان کو لگایا تھا‘ وہ نکال نکال کے… کے مجھے دکھاتے رہے۔ اشارۃً بھی وہاں اسلام کے خلاف پھیلائی ہوئی کسی بدظنی‘ کسی غلط فہمی کسی جھوٹ کا کوئی جواب نہیں۔ ذکر بھی نہیں کیا کہ اس آیت پر یہ کہہ رہے ہیں۔ اُس آیت پر وہ کہہ رہے ہیں اور ہر جگہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ پر وہ زہر اگل رہے ہیں۔ جن کے متعلق کہتا ہے ہمارے کرسچن بھائیوں نے محمد رسول اللہ ﷺپر اگلا تھا۔
تو یہ ہے مقصد اس قرآن کریم کی تفسیر کا کہ کرسچن بھائیوں سے جو کمی رہ گئی تھی اور ان کی شرافت مانع رہی‘ ان میں اتنی حیا ضرور تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کردیا تھوڑا سا ایک آدھ‘ باہر نکل گئے لیکن ازواج ؓ مطہرات کو انہوں نے عموماً ایک طرف رکھا۔ کہتا ہے میرے جیسے Stalwort پیدا ہوئے اور میں نے کہا ان بھائیوں کے کام کو کیوں نہ مکمل کرلیا جائے۔ تو میں نے یہ تفسیر لکھی اور اس کے نتیجے میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم سوائے اس غرض کے اور نازل نہیں ہوا کہ صحابہؓ ‘ قرآن اور ازواج ؓ مطہرات پر ایسے گند تھوپے‘ ایسا ان کی کردار کُشی کرے کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہو۔ حضرت لوط ؑ کی بیوی کے متعلق آپ کو ذکر مل جائے گا۔حضرت نوح ؑکی بیوی کے متعلق آپ کو مل جائے گا۔ لیکن جو انہوں نے گند اچھالا ہے ۔ انہوں نے تو کسی کو نہیں چھوڑا۔ کسی کو نہیں چھوڑا‘ ہر ایک کو زخمی کیا ہے۔ صرف ایک علی اور حضرت کی وہ اولاد جس کو کہ یہ مانتے ہیں کہ بعد میں پھر جاری رہا یہ سلسلہ۔ لیکن صحابہؓ کے زمانے میں تو حضرت علیؓ ‘ حضرت فاطمہ ؓ اور دو بچے تھے‘ بس یہی تھے جو پاک تھے‘جن کو خدا نے خود ا نکے کہنے کے مطابق پاک کیا‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پاک ہونے والے نہیں تھے اور جن کو پاک کرنے کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کی گئی‘ وہ ایسی بری طرح ناکام رہے کہ وہ ناپاک ترین وجود بن کر دنیا میں اُبھرے۔ خائن تھے‘ ظالم تھے ‘ فاسق و فاجر تھے‘ عورتیں وہ چنیں اپنے لئے جن سے ہر دوسری سوسائٹی کی عورت بہتر تھی۔ ان کو قرآن کریم نے جو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کہتا ہے ان پر وہ صادق نہیں آتا۔ یہ ہیں میر صاحب اور میر صاحب کا قصہ۔
ہمارے پاس کتنا وقت ہے ابھی اور۔ ہے نہ ابھی۔ تو وہ جو دوسرے ہیں ان کے حوالے کہاں ہیں؟ یہ ہیں۔
جن خواتین مبارکہ کے متعلق یہ کہتا ہے کہ عام عورتوں سے بھی بدتر تھیں ان کے متعلق اللہ کیا کہتا ہے۔ فرماتا ہے۔
ینساء النبی لستن کاحد من النساء (نساء المومنین)
مومنین نہیں لیکن لفظ مراد یہی ہے۔
اے نبی کی بیویوں ! تم عام عورتوں کی طرح تو نہیں ہو‘ جن کی تعریف نہ کی جائے‘ ان سے بہت بالا مقام ہے۔
ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول
تقویٰ اگر تم اختیار کرو اور پرانی باتیں چھوڑ دو اور ہر قسم کے مریض دل سے احتیاط کرو‘ اس طرز سے بات نہ کرو کہ وہ لوگ جن کے دل میں مرض ہے وہ کسی قسم کا برا خیال دل میں لے آئیں۔ اور پھر پاکبا ز صاف ستھری باتیں کرو‘ تو پھر تمہارا کیا مقام ہوگا؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(وہ آیتیں کہاں ہیں جو‘ میں وہ پڑھ کے سنادوں تاکہ یہ مضمون اس پہ ختم ہونا‘ مثبت ‘ وہ پوری آیت اکٹھی درج تھی نا کہیں۔ مل گئی ہے؟ مل جائے گی آپ کو؟ ہاں یہ ہے‘ جن امھات المومنین کی یہ نہایت ہی ناقابل برداشت تذلیل کررہے ہیں۔ میر صاحب‘ انکو ظاہر کررہے ہیں کہ اُس آیت کے مصداق بھی نہیں ہیں۔ جو عام مومنات کی پاکبازی کی تصویر کھینچتی ہے۔ ان کے متعلق اللہ کیا فرما رہا ہے؟ وہ دوبارہ یاد کرادوں‘ تاکہ اس مثبت امر پر بات ختم ہو اور وہ جو ہمارے دلوں کو زخم پہنچا ہے تکلیف ہے کچھ اس کا مداوا ہوسکے۔
ومن یقنت منکن للہ ورسولہ وتعمل صالحاً نؤتھا اجرھا مرتین
یہ 29 تا 31 میں نے آیتیں پڑھ دی تھیں اس سے آگے چل رہا ہے مضمون کہ تم میں سے جو کوئی بھی فرمانبرداری اختیار کرے۔ للہ و رسولہ ۔ اللہ اور اس رسول کے لئے‘ و تعمل صالحاً اور نیک اعمال کرے۔
نؤتھا اجرھا مرتین‘ تم عام عورتوں کی طرح تو نہیں ہو‘ تمہاری نیکیوں کی دوہری جزا ملے گی۔
واعتدنا لھا رزقا کریما
اور تمہارے لئے تو ہم نے بہت ہی معزز رزق بنا رکھا ہے۔
ینساء النبی لستن کاحد من النساء
اے نبی کی بیویو ! تم عام لوگوں کی طرح نہیں ہو۔
ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول
(یہ بعد کی آیت تھی یہ بیچ میں آتی ہے)
فیطمع الذی فی قلبہ مرض و قلن قولا معروفاً و قرن فی بیوتکن
اپنے گھروں میں رہا کرو
ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ
اور جاھلیت کے سنگھار نہ کیا کرو‘ جو پہلے گزر چکی ہے
واقمن الصلوۃ
اور نماز کو قائم کرو
و اتین الزکوۃ
اور زکوۃ دیا کرو
و اطعن اللہ و رسولہ
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت
اے اھل بیت ! اے نبی کی بیویو ! خدا نے فیصلہ کرلیا ہے‘ ارادہ کر رکھا ہے اس بات کا کہ تم سے ہر قسم کے گند کو دور کردے۔
و یطھر کم تطھیرا
اور تمہیں ایسا پاک و صاف بنائے کہ گویا ساری دنیا کے لئے نمونے بن جائو۔
و اذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن
اور جو کچھ تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے اسے پڑھا کرو‘ اس سے نصیحت حاصل کیاکرو۔
من ایت اللہ و الحکمۃ
اللہ کی آیات اور حکمت سے۔ اس ’’واذکرن‘‘ کے مضمون کو میں پہلے جو بیان کرچکا ہوں۔ وہ مفسر لکھتے ہیں کہ یہاں تذکیر کے معنوں میں ہے۔ شکر خدا کے معنوں میں ہے۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرو کہ اس نے تمہیں یہاں پیدا کردیا اس گھر میں پیدا کردیا۔
ان اللہ کان لطیفاً خبیراً
اللہ تعالیٰ بہت ہی باریک نظر رکھنے والا‘ لطیف ذات کے متعلق ہے۔ بہت ہی rare وجود جس کو کہتے ہیں‘ اردو میں غالباً لطیف کے سوا اور کوئی ترجمہ ملتا نہیں۔ ہیں؟ نہیں‘ منزہ نہیں۔ لطیف ایسے وجود کو کہتے ہیں جو جس سے بعض اوپر یا جس سے ہٹ کر ہر وجود کثیف ہوگا مقابلتہً۔ اس میں کثافت پائی جائے گی ۔ اگر اس کی نظر سے دیکھو گے گویا کہ اور کہیں لطافت نہیں ہے۔ تو لطافت کا آخری نقطہ عروج‘ وہ لطیف ہے۔ فرماتا ہے یعنی ایسا وجود جو پاکیزگی میںجتنا زیادہ لطیف ہو‘ وہاں ان معنوں میں منزہ آجائے گا کہ وہ ہر قسم کی کثافت سے منزہ ہے۔ اور ’’خبیرا‘‘ بہت خبر رکھنے والا۔ یہ ایک دوسرے سے متعلق ہیں باتیں۔ جو ہر جگہ موجود ہوگا۔ اپنی لطافت کے باعث‘ اس کو ہر بات کی خبر ہوگی۔ وہ ہر جگہ کا‘ ہر موقعہ کا گواہ ہے۔ تو یہ وہ آیات کریمہ ہیں جن سے وہ کہتے ہیں‘ اچانک اللہ تعالیٰ کو بات بھول گئی کہ میں بات کس سے کررہا ہوں۔ بجائے اس کے کہ اگر اھل بیت کوئی اور تھے ان کا ذکر غائب میں کرتا‘ اسی طرح ان کو بھی مخاطب کرتا رہا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی تھی اور اتنا سلیقہ نہیں تھا گفتگو کا کہ انبیاء کی بیویوں کی باتیں ‘ نبی کی بیویوں کی باتیں ہورہی ہیں‘ اچانک اس ذکر میں دوسرا ذکر ڈال دیا اور مضمون وہی ہے‘ طہارت اور پاکیزگی کا۔ اور ڈالا بھی ایسے رنگ میں کہ مخاطب وہی رہیں‘ یعنی طرز تخاطب نہیں بدلا‘ یہ نہیں کہا کہ تمہارے علاوہ اور ہیں۔ چنانچہ آپ غور سے دیکھ لیں۔
و قرن فی بیوتکن
اپنے گھروں میں ٹھہرے رہو۔اور کوئی دوسری آیت بھی نہیں ہے یہی آیت ہے۔ یہی آیت آگے بڑھ رہی ہے۔
ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ و اقمن الصلوٰۃ و اتین الزکوۃ و اطعن اللہ‘ و رسولہ۔
اب دیکھیں ! حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک بیویاں‘ عبادت میں‘ زکوٰۃ میں‘ بنی نوع انسان کی خدمت میں ایک ایسا پاک نمونہ تھیں کہ ساری تاریخ اسلام اس پر گواہ ہے۔ بعض دفعہ رات کو اتنا کھڑا ہوتی تھیں عبادت میں ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو پتہ لگا کہ رسی ٹنگی ہوئی ہے۔ فرمایا یہ رسی کیسی ہے؟ بتایا گیا کہ آپ کی فلاں جو زوجہ ہیں وہ ساری رات عبادت کرتی ہیں۔ اس پر یہ سہارا ہے جب تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں گرنہ پڑوں‘ تو فرمایا ہٹا دو اس رسی کو۔ اتنی عبادت نہ کرو جس کی توفیق نہیں ہے۔ صدقہ و خیرات میں بے حد‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں۔ اور روزے رکھنے ‘ اعتکاف بیٹھنے‘ پاکیزہ باتیں‘ جن آیات کا ذکر ہے‘ جن باتوں کی نصیحت کی جارہی ہے وہ ساری تو آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اس کا ذکر کرنے کے بعد اسی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس
ہم جوکہہ رہے ہیں نصیحت کررہے ہیں۔ یہ کیا کرو‘یہ کیا کرو‘ یہ کیا کرو‘اس کا صرف یہ مقصد ہے کوئی ڈانٹ نہیں ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ تم نہیں کرتیں۔ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارا مرتبہ ایسا ہے کہ تمہیں اس سے بھی زیادہ بلند تر مقامات خدا پہنچاتا ہے۔
یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت
اے اھل بیت !
تو بات کسی کی ہورہی ہے‘مضمون کہیں اور اٹھا کے لے گئے۔ شیعہ صاحبان اور طرز تخاطب بھی نہیں بدلی۔ وہی مخاطب کا صیغہ چل رہا ہے۔ کہتے ہیں یہاں تبھی ایک شیعہ صاحب نے مولوی صاحب نے فرمان علی صاحب نے لکھا تھا کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت یہاں کی ہے ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر یہاں کی ہے تو مخاطب ازواج مطہرات ؓ ہیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
پس یہ ہے ان شیعہ حضرات کا قصہ۔ لیکن ہمیں کیا اس شکوے کا حق ہے۔ ان کے بھائی ہیں وہ شکوہ کریں یا عیسائی بھائی شکوہ کریںان سے۔ یا وہ مسلمان بھائی جن کی تعریف کی رو سے یہ پوری طرح اسلام میں داخل ہیں۔ ہم تو بیچارے باہر کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم تو درود بھی پڑھیں تو سزا کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں۔
اب اسی ضمن میں ان کے دوسرے بھائیوں کا بھی ذکر خیر چل پڑے۔
Richard Bell Sahib
Full name Reverned Richard Bell (Bone)
یہ نام سکاٹش ہے۔
I don't know how do you pronounce It, but could somebody help
me?
DUMFISHIRE
is it dumpishire, right?
‏ …………………………You know that? اچھا
‏ Dumfishire Scotland 1876‘ میں یہ پیدا ہوئے۔
1952 میں‘ At the age of 76 یہ وفات ہوئی ہے ان کی۔
کیرئیر یہ ہے!
1904 to 1907 Minister in church of Scotland
from the age of 28 to 31.
اکثر جو مستشرقین ہیں وہیں سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ چرچ کی پیداوار ہی ہیں۔
1906 to 1921 taught at Edinburgh university assistant to the professor of
Hebrew and oriental langua ges
from the age of 30 to 45.
یہ وہیں پروفیسر کے طور پر رہے ہیں۔
‏ 1947, 1938 Reader at the above University ترقی ہوگئی اور پھر 1971ء تک یہ اسی میں Reader کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اور
Died when he was 76.
ان کے قابل شاگردوں میں جنہوں نے بہت نام حاصل کیا‘ ان میں منٹگمری واٹ ہیں۔ جو ان کے تربیت یافتہ ہیں۔
The origion of Islam in his christain environment.
ایک کتاب جو ا ن میں شہرت پا گئی ہے۔ مغربی دنیا میں‘ وہ ان کی یہ ہے۔
اسلام کا آغاز اپنے‘ عیسائی ماحول میں۔ عیسائی ماحول میں کیسے آغاز ہوا جب کہ مکے میں آغاز ہوا اور مشرکین کے ماحول میں ہوا تھا۔ یہ سوال اٹھتا ہے نا؟ اس کا ایک جواب انہوں نے بڑے آرام سے دے دیا ہے۔ کہتا ہے مکے میں قرآن نازل ہی نہیں ہوا۔ چھٹی کرو۔ کہتا ہے شروع ہی مدینے میں آکر ہوا ہے۔ تو مکے سے نکالے کیوں گئے تھے۔ مدینہ آنے کی ضرورت کیا تھی؟ پیچھے کیا دشمنیاں لے کر اھل مکہ حملے کررہے تھے؟ کیا باتیں بتاتے تھے آپ ؟ کس خدا کی توحید کے گیت گا رہے تھے۔ جس پر سزائیں دی جارہی تھیں؟ کہتا ہے نہ نہ یہ سب دھوکہ اور کہانیاں ہی ہیں۔ آغاز ہی وحی کا مدینے میں شروع ہوا ہے۔ اور مدینے میں بھی دو سال کے بعد ہوتا ہے۔ یہ جس کے علم کا حال ہو‘ جس کی عقل کا یہ حال ہو‘ وہ ان کے گرو ہیں‘ اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا نظریہ یہ ہے۔ ہاں ایک اور کتاب ہے ان کی۔
The Quran translated with the critical rearrangement of the suras. (t.Clark
Edinburgh 1937,39 in 2 vol.
The above work was completely updated by one of his students W.Montgumery Wat in 1970.
یہ نسبتاً Recent بات ہے۔ اسی لئے میں بتا رہا ہوں کہ جو‘ جن نوجوانوں کو میں بلا رہا ہوں تحقیقات کی طرف‘ ان کو ان چیزوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ وہ ساری فہرست جو میر صاحب نے دی تھی‘ ان میں بھی یہ دو مذکور ہیں۔ان کو بعضوں کو بعض‘ بعضوں کو بعض دوسری طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ ان سب کتابوں پر مختلف احمدی نوجوان کام شروع کردیں۔
کہتا ہے
His method
یہ نوٹس ہیں
His method followed example of German Scholer like Felder Noldecke and Frikdist Schwale: by believing that the Quran Should be arranged in chronological order.
‏ Comments ہیں ان کے اوپر لکھنے والے کے‘ جس ۔۔۔۔۔۔ اتفاق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Schwale ۔۔۔۔۔ اور Noldecke یہ نہیں کہتے جو یہ کہتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیںکہ قرآ ن کریم کا مطالعہ کرکے اس کی صحیح حقیقت کو معلوم کرتا ہو۔ تاریخی نقطہ نگاہ سے ‘ تو بہترین طریق یہ ہوگا کہ جن جن سالوں میں جن جن وقتوں میں جو آیات نازل ہوئی ہیں‘ ان کو اسی طرح ترتیب دے دو۔ تو آغاز سے لے کر آخر تک قرآن کریم کی نزول کی ترتیب کے پہلو سے بھی مطالعہ کیا جائے۔ یہ ایسی چیز ہے جو دوسرے مسلمان محققین بھی کرچلے ہیں‘ یعنی اس پہلو سے بھی دیکھ چکے ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کوئی حرج کی بات نہیں کہ تنزیل کے لحاظ سے کس طرح ہوا اور اللہ کی طرف سے نئی ترتیب کیسے قائم ہوئی۔ اس میں ایک بہت بڑا اعجاز ہے جو ہمیں دکھائی دے گا۔ ایک دفعہ میں نے بھی کچھ عرصہ اس کی کوشش کی تھی کہ آیات کو اور سورتوں کو ا ن کے نزول کے لحاظ سے ترتیب دوں۔ لیکن بہت بڑا کام تھا۔ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ اب بھی جو کام ہوچکے ہیں ان کو احمدی سکالرز کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نزول کی ترتیب کو تبدیل کیا گیا ہے۔ وحی کے مطابق اور قرآن آج جو ہمارے سامنے ہے اس طرح ہمارے سامنے ہے اور حیرت انگیز اعجاز ہے۔ قرآن کا کہ نئی ترتیب سے لگتا ہے کہ نازل ہی اس طرح شروع ہوا ہے اور اسی طرح ہونا چاہیئے تھا۔سورۃ فاتحہ پھر سورۃ بقرہ‘ اس میں جو مضمون چل رہے ہیں پھر اگلی سورتیں‘ ایسی عظیم الشان ترتیب ہے کہ عقل ورطئہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔
پس یہ بات قرآن کی صداقت کے حق میں گواہ ہوگی نہ کہ اس کے مخالف۔ جس زاویے سے چاہو قرآن کریم کا مطالعہ کرلو‘ جس آنکھو سے چاہو دیکھو‘ حقیقت میں تمہیں وہاں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگرکچھ بات ملے گی تو قرآن کے نئے حسن‘ نئے زاویوں سے تم پر کھلیں گے۔ اس لئے یہ بات میں بتادوں کہ یہ لکھنے والے نے جو Bell کا تعارف کرایا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔
یہ کیا کہتا تھا‘ وہ سُن لیجئے۔
He believes the Quran underwent revision rearrangments, expensions, replacements and had depended on to some extent on origion documents.
کہتا ہے کچھ کچھ Origin Documents سے بھی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ لیکن وہ سارا جو تھانا مواد قرآن کریم کا جو لکھا جارہا تھا چمڑوں کے اوپر اور ہڈیوں پر دوسری چیزوں کے اوپر‘ وہ سارا کہتا ہے یونہی بات ہے۔ کچھ کچھ origion documents میں بھی تھا۔لیکن باقی باتیں وہ لوگ بیٹھ کر سوچتے رہے ہیں‘ نئی باتیں داخل کرتے رہے۔ نئی آیات داخل کرتے رہے۔ یہ سارا قصہ چلتا رہا۔ یہ قرآن ہے اس کے نزدیک۔ تو پھر جو reorganise کر بیٹھا ہے تاریخوں کے لحاظ سے‘ وہ کیسے کیا ہے اس نے؟ اب بتائیں۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ایک پائوں جو گرایا ہے دوسرا پائوں اکھڑ جائے گا۔ اور جس پائوں پر گرایا تھا وہ زمین بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے‘ پائوں کے نیچے سے نکل جاتی ہے۔ اب کونسی زمین ہے اس کے نیچے مجھے بتائیے؟ کہتا ہے قرآن کریم تو نازل ہی نہیں ہوا۔ اصل میں مکہ تک مدینے میں ہوا اور پھر جو references ہیں سارے‘ مکے کے وہ کہاں نکالے گئے پھر۔ اور سارے قرآن کو ترتیب نئی دے بھی بیٹھا ہے اور شروع کرگیا ہے مدینے کی تاریخ سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں وہ ترتیب ختم بھی کرچکا ہے اور دعویٰ یہ کر رہا ہے کہ یہ بنا ہی بعد میں ہے زیادہ تر۔ اتنے جھوٹے لوگ عقل سے عاری یعنی‘ کوئی بات کرو کم از کم کوئی سلیقے سے تو کرو۔ مارنے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے اور جن کو مارنے کا سلیقہ ہے اس کو ٹیڑھی مار‘ ان کو سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ تو اب میں‘ زیادہ اس سے کیا کہوں بات‘ خود اپنی حماقت پر یہ صاحب خود گواہ بن چکے ہیں۔
(نہیں نہیں زیادہ تکلیف نہیں ہے‘ میں مزے کررہا ہوں آرام سے۔ جب تکلیف تھی اس کے بعد پھر پتہ نہیں چلا۔ جب سیدھا بیٹھا ہو اور ھوش نہ ہو‘ اس وقت ٹیک لگانے کا بھی نہیں وقت ملتا۔ تو اب چونکہ متفرق باتیں ‘ relax ہوکر ہورہی ہیں اور ذہن پر قرآن کی تفسیر کا وہ پریشر نہیں ہے جو تفسیر کے دوران میں خود بخود built ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک سے دوسرا خیال نکلتا ہے دوسرے سے تیسرا‘ اس کو ترتیب دینا‘ اس کے مطابق دوسری آیات کو یاد کرنا‘ ان کے حوالے دینا‘ یہ وہ کام ہے جو دبائو والا تھا‘ اب تو میںمزے کررہا ہوں‘ بیٹھا ہوں آرام سے۔ نہیںوہی‘ میں بتا رہا ہوں وہ جسمانی اتنی نہیں ہے‘ ٹانگ کے سونے کی بات تھی صرف او رکوئی تکلیف نہیں۔ یہ ٹانگ ذرا سی سونے لگتی ہے تو مجھے یاد آجاتی ہے نا بات کہ ٹیک لگالیں تو ٹھیک ہوجائیں گے۔ میں نے کہا وہ جو اصلاحیں‘ ایک دو غلطیاں جو ہوگئی ہیں پڑھنے میں وہ کہاں گئی ہیں‘ نمونے۔
ایک تو ان معی ربی سیھدین تھا‘ دوسرا ہاں ایک میں ذکر کردوں کہ بعض دفعہ دوست‘ بعض توجہ دلاتے ہیں کہ وہ تلاوت میں یہ زیر کی بجائے زبرپڑھی گئی یا فلا ں کی بجائے‘ وہ لفظ چھوٹ گیا یا آگے پیچھے ہوگیا ہے۔ اور اتنی لمبی تمہید استغفار کی کرتے ہیں‘ ادب کی کہ وہ جگہہ پر پہنچتے پہنچتے کافی بوجھ پڑ جاتا ہے کہ ہوا کیا ہے آخر۔ اتنی تمہید باندھی جارہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے حفاظ جو ساری زندگیاں قرآن کی تلاوت کرتے اور یاد رکھتے ہیں‘ ان کے پیچھے بھی دو تین لقمے دینے والے کھڑے ہوتے ہیں۔ تراویحوں کے وقت۔ حالانکہ تراویحوں کے د ن وہ خاص طور پر صبح سے شام تک پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ تو مجھے تو مضمون کے بیان کے وقت وہ آیتیں یاد آتی ہیں جو میں نے حفظ نہیں کی ہوئیں مگر کثرت مطالعہ کی وجہ سے خود بخود ذہن اس طرف جاتا ہے‘ وہ آ کھڑی ہوتی ہیں سامنے‘ تو اس پر اگر کہیں یاداشت میں کچھ سہو ہوجائے تو یہ تو کوئی ایسی بات ہی نہیں ہے۔ جس پر معذرتیں کی جائیں‘ یعنی لوگوں کی طرف سے کہ ہم یہ غلطی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں استغفار‘ اللہ معاف فرمائے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ سبحان اللہ پڑھ کر جو مرضی کہا کریں۔
انّ پڑھا تھا ؟ ہیں؟ اچھا۔ لیس للانسان الا ماسعی۔
یہ آیت ہے۔ کہتے ہیں آپ نے پڑھ دیا تھا ۔ انَّ پڑھ دیا تھا کہ ان لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ ہوسکتا ہے پڑھ دیا ہو۔ اصل ہے۔
و ا ن لیس للانسان۔
اور یہ کہ انسان کیلئے اس کی کوشش کے پھل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ جو آیت ہے اس کو بھی درست کرلیں۔ اور دوسرا تھا میں نے جو پڑھا تھا۔
ان ربی معی سیھدین
ان معی ربی ہے شاید۔ یہی ہے نا۔ معی ہے وہاں یہ پڑھیں ذرا؟ اصل نکال لیں۔ دوبارہ نہ کہیں خط آجائے معذرت کا۔
ان معی ربی سیھدین
ہے۔ تو ان ربی معی پڑھا گیا تھا۔تو یہ باتیں ہیں‘ میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے‘ یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں‘ جن پر مجھے توجہ دلانے کیلئے آپ کو اتنی معذرتیں کرنی پڑیں۔ مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حوالے دینے کیلئے حضرت حافظ روشن علی صاحب ہوا کرتے تھے۔مگر اتنا مجھے یاد ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ذکر فرمایا۔ کہتے تھے ان کے زمانے میں مجھے بڑے مزے تھے۔ کوئی مضمون میرے ذہن میں ابھرتا کسی آیت کا‘ کوئی یاد نہیں آرہی ہوتی تھی تو بعینہ اسی آیت کا حوالہ یہ فوراً دے کر وہ پڑھ دیا کرتے تھے۔ اور کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی مجھے پھر ذہن پر بوجھ نہیں پڑا‘ تلاش نہیں کرنی پڑی۔ لیکن ان کے بعد اس شان کا حافظ کوئی نہیں رہا تو یہ تو سلسلہ شروع سے لے کر اب تک چلتا چلا آرہا ہے۔ کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں قرآن کے حوالے دیتے وقت کبھی مسلمانوں کی زبان سے کوئی لغزش نہ ہوئی ہو۔ اس کی تصحیح کا نظام جاری ہے۔ قرآن کریم کی نماز میں تلاوت ہورہی ہو تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ وہاں سبحان اللہ نہیں کہنا‘ اگر کوئی غلطی ہوجائے تو لقمہ دیا کرو‘ لقمہ دیتے ہیں سارے۔ اس لئے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
قال کلا ان معی ربی سیھدین
یہ ہے اصل آیت۔ میں نے وہ‘ چونکہ زبانی حوالہ دیا تھا یہ پڑھ دیا تھا
ان ربی معی سیھدین
اچھا جی !اب سیل صاحب سے باہر آجائیں۔ یا ابھی کچھ اور اس کی گفتگو ہوجائے۔ ہاں ان کے متعلق I,m sorry سیل تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا ابھی تک۔ ابھی تو ہم Bell کی بات کررہے تھے۔ اب سیل کاتذکرہ ۔ ہمارے پاس وقت ہے ابھی انشاء اللہ۔
سیل کا تذکرہ یہ ہے‘ اور وہ جو دوسرے اعتراض ہیں‘ سوال اٹھے ہیں‘ وہ لے آئیں‘ تاکہ اگر سیل کے بعد وقت ہوا‘ تو وہ بھی بعد میں وقت نہیں ملے گا پھر۔
سیل کے متعلق… Denis لکھتے ہیں‘ ان کی زندگی کے حالات لکھے ہیں۔ Denis Roffs نے کہ‘ اول تو یہ ان کا زمانہ ہے۔
‏ 1697, Born 1697 میں وہ پیدا ہوئے۔ 1736ء میں کم عمری میں یعنی 39 سال ہی کی عمر میں وفات پاگئے۔
He was well versed in Hebrew as well as Arabic.
وہ ہیبرو اور عربک میں اچھے ماھر اور مشاق تھے۔
He had knowledge of Biblical and post Biblical writings.
ان کو بائبل کی تحریروں اور بائبل کے بعد میں جو‘ بائبل سے متعلق باتیں لکھی گئی ہیں‘ ان کے اوپر کافی عبور تھا۔
As his numerous …… to Rabbinacal writings testify.
وہ ربی‘ ربانی جو لوگ ہیں یعنی جو یہودی علماء ان کی تحریرات کے حوالے‘ جو ان کی کتابوں میں ملتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود اس کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔
In 1720 he had been admitted as a student of Inner Temple.
‏ Inner Temple کے طالب علم کے طور پر یہ 1920ء میں اس میں داخل ہوئے۔
Son of Samual Sale
یہ Samual Sale کے بیٹے تھے۔
Citizen in Merchant of London
ان کی زبان ایسی ہے۔ اسی طرح یہ لکھتے ہیں Roffs صاحب۔
‏ London کے Citizen اور London ہی کے ایک سوداگر تھے۔
And the same year the had sent Solomen Negre Suleman Al-Sadi to London from Damascus to Arab society for promoting Christian knowlege. Then establishing the middle Temple to Essur an Arabic New Testament for the Syrian Christians.
کہتا ہے اسی زمانے میں یہ جو نیگری انہوں نے لکھا ہے‘ اس کا اصل نام کہتے ہیں۔ Solomen Negre۔ اس کا اصل عرب نام تھا۔ سلیمان السعدی۔ اس کو Syria کے عیسائیوں نے اپنا نمائندہ بنا کر بھجوایا کیوں کہ ان کو یہ معلوم ہوا تھا کہ Inner Temple میں عیسائیت کی ایک سیٹ بنائی گئی ہے اور اس درخواست کے ساتھ بھجوایا کہ ہمیں عربی زبان میں بائبل کا ترجمہ دیا جائے۔ اور اس یونیورسٹی میں اس کو تیار کروایا جائے۔ کہتے ہیں کہ
It is summorised that Negre was Sale's first instructer in Arabic.
خلاصتہً آخری بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ سیل کو عربی زبان اسی نیگری نے پڑھائی۔
So the Dishi the King's interpretter a learned Greek Aleppo guided him.
اسی طرح کہتا ہے Greek Aleppo جو King کا Interpretter تھا‘ اس نے ان کی رہنمائی کی۔
We are told through the labyrinth of oriental dialects.
اس نے اس کی رہنمائی کی Through‘ یہ کہتا ہے
‏ Inverted Comma میں کہہ رہا ہے۔
‏ through the labyrinth of oriental dialect
کہتا ہے oriental dialect جو ملتی ہے‘ Language اور dialect میں فرق یہ ہے کہ Languageزبان کو کہتے ہیں اور dialect اس زبان کی مختلف قسمیں‘ جو مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح عربوں میں مختلف dialect تھیں۔ تو اسی طرح ہمارے ہندوستان میں اردو کی dialects ہیں‘ پنجاب کی پنجابی کی dialects ہیں۔ انگلستان میں Scottish Dialectہے‘ Cocknly dialect ہے۔ تو یہ مراد ہے کہ orientalزبانوں کیلئے‘ (نہ لہجہ نہیں‘ صرف بولنے کی طرز نہیں کچھ الفاظ بھی بدل جاتے ہیں) اور dialect میں صرف ‘ وہ نہیں آتا accent نہیں ہوتا۔……… نہیں صرف وہ بھی شامل ہے۔ لیکن کچھ خاص محاورے بھی اس میں جگہہ پاجاتے ہیں۔ اس لئے ہر جگہ کی زبان اب مثلاً پنجابی کو آپ وہاں دیکھیں‘ Travel کریں مشرقی پنجاب سے مغرب کی طرف‘ تو صرف لہجہ نہیں بدلتا بلکہ محاورے بدلتے چلے جاتے ہیں‘ بعض نئے لفظ داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان سب کو dialect کہا جاتا ہے۔
وہ تو ‘ Denison Rass نے کہا کہ ان کا عربی دانی کا حال تھا بہت اچھی زبان سیکھی‘ لیکن آگے جاکر وہ اس بات کو بدل جاتے ہیں‘ تبدیل کردیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ
I have been forced to the conslusion that with the exception of Al-Bazavi. Sale's Sources were all consulted at Second hand.
کہتا ہے بظاہر یہ لگتا ہے کہ عربی دان ہے اور بڑے حوالے دے رہا ہے کتابوں کے‘ میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ سوائے بیضاوی کے جو شاید پڑھ چکا تھا‘ باقی تمام حوالے Second Hand تھے‘ اصل کسی کتاب سے نہیں لئے گئے۔ کہتا ہے کہاں سے آئے پھر۔
کہتا ہے !
Examination of Marache's great work makes the whole matter perfectly clear.
مراچی ایک اٹالین سکالر تھا جس کو پوپ نے قرآن کریم کے ترجمے اور اسلام کے اوپر کتابیں لکھنے کیلئے خاص تربیت دلوائی تھی۔ اس کے متعلق ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ اس نے کہاں کہاں سے وہ تربیت حاصل کی‘ لیکن یہ معلوم ہے کہ عربی میں اس کو کافی دسترس‘ عربی پر کافی دسترس ہوگئی تھی اور وہی ہے جس نے یورپ میں پہلے قرآن کا حقیقت میں تعارف کرایا اور بہت ہی زیادہ قرآن کے خلاف اور اسلام کے خلاف باتیں کی ہیں۔
‏ Sale صاحب ان کی پیداوار ہیں۔ یہ کہتا ہے۔
Great work makes the whole matter perfectly clear. Sale says of Marache's translations, that It is generally speaking very exect. but adheres to be Arabic Ideams to literly to be easily understood.
کہتا ہے سیل اپنے استاد مراچی کے متعلق یہ لکھتا ہے کہ عموماً‘ عام طور پر تو یہ بات درست ہے کہ یہ جو مراچی کا ترجمہ ہے یہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ عربی محاورے کو بہت چمٹا رہتا ہے۔ اور اتنا قریب رہتا ہے اس کے کہ دوسروں کے لئے اس کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
By those who are not rost in the Mohammden in learning.
ان کے لئے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے جن کو اسلام کی تعلیمات سے واقفیت نہیں ہے۔
The notes he had added are indeed a great use but his refutations which sword the world to a large volume are a little or non at all being often unsatisfactory and sometimes inpertinent.
کہتا ہے اس کا جو‘ اس کے works ہیں are great use بہت فائدہ مند ہیں۔ مگر اس نے جو refutations کی ہوئی ہیں‘ یعنی قرآنی تعلیم کی‘ یہی مراد ہوگی‘ وہ کہتا ہے ضرورت سے زیادہ ہی تیز ہیں اور کھوکھلی سی ہیں۔ تو انکو unsatisfactory ‘ ا ن پر اطمینان انسان کو نہیں ہوتا۔ and sometimes inpertient
اور کبھی کبھی بد تمیزی کی حد تک ہوجاتی ہیں۔
The work however with all his false is very valuable and should be guilty of ingratitude. Did I not acknowledge myself much obliged there too.
کہتا ہے بہرحال work بہت اچھا ہے اور میں بہت ناشکری کا مجرم قرار دیا جائوں گا‘ اگر میں نے یہ اعتراف نہ کیا کہ میں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
But still bringing Latin, It can be of no use to those to understand
not that time.
یہ اصل Latin کا ماہر تھا۔ کہتا ہے چونکہ یہ Latin زبان ہے‘ اس لئے افسوس ہے کہ تم لوگ اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکتے۔
یہ quote کیا ہے Denis Ross نے اس کے بعد Denis Ross صاحب لکھتے ہیں۔
Such is Sale's all confession of his obligation to Marachi.
یہ ا ن کا اعتراف ہے مراچی سے جو کچھ انہوں نے سیکھا‘ اس کے احسان کا اعتراف ان لفظوں میں کرتے ہیں۔
But he does not go for enough.
لیکن بات پوری نہیں کرتا۔ جتنا حق تھا وہ ادا نہیں کیا۔
A comperison of the true versions shows that so much had been achieve by Marachi that Sale's work might always had been performed with a knowledge of … alone.
کہتا ہے اتنا زیادہ اس نے مراچی سے اٹھایا ہے فائدہ کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسے عربی کا ایک لفظ بھی نہ آتا‘ صرف یہ Latin ہی آتی تو اس سے جو کچھ اس نے سیکھ لیا ہے وہی کافی تھا۔ وہی اس کے ہاں بیان ہوا ہے۔ یعنی مراچی نے جو کچھ بیان کیا ہے‘ اس کے علاوہ براہ راست دوسروں سے سیکھنے کی اس کو ضرورت ہی نہیں‘ کیونکہ سب کچھ اس میں بیان تھا‘ اور Latin زبان ہی اس کے لئے کافی تھی گویا کہ‘ مطلب یہ ہے کہ تمام تراس کا علم‘ علم قرآن (لیچی سے) اس سے مراچی سے لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ براہ راست سوائے اس کے بیضاوی پڑھ لی ہے اور اس کا مبلغ علم کوئی نہیں ہے۔
آگے کہتا ہے۔
As far as regards the (questions) quotations from Arabic authors.
کہتا ہے جہاں تک کوٹیشنز کا تعلق ہے Arabic Authors کا‘ ایک بھی quotation نہیں ہے‘ بیضاوی کے سوا جو مراچی میں نہ ہو اور اس نے ذکر کیا ہو‘ یعنی مراچی میں نہ ہو اس نے ذکر کیا ہو‘ یعنی مراچی میں جو Quotations ہیں۔ من و عن وہاں سے اٹھائی ہیں ۔ صرف فرق یہ ہے کہ مراچی عربی اصل حوالہ بھی دیتا ہے اور Sale صرف ترجمہ پیش کرتا ہے۔
I do not wish to apply that Sale did not know Arabic but I do maintain that his work as It stands gives a misleading estimate of it original researches and that his tribute to Mirachi falls shot of his actual …….
تو ان کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ سب کچھ لیا مراچی سے اور کچھ بیضاوی کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ لیکن بغیر بتائے کہ مراچی سے میں لے رہا ہوں اور اسی نے سب کچھ بیان کیا ہے صرف شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ ہم نے اس سے بھی لیا ہے اس لئے شکریہ ضروری ہے۔ یہ ان کی اصل حقیقت ہے۔ Sale صاحب کی۔
It must be mentioned that Mirachi not only reproduced the whole of the Arabic text of the Qurn but further they gives the real text and the translation of all quotations from Arabic writers.
کہتا ہے یہ چیز نوٹ کرلینی چاہئے کہ مراچی تو ہر حوالہ دیتا ہے۔ اصل زبان میں‘ تمام writers کے اصل حوالے پیش کرتا ہے اور پھر بیان کرتا ہے اور سیل صاحب اس سے نقل ماری جاتے ہیں۔ اور آکے اپنی طرف سے خود عالم بن گئے ہیں۔ یہ غلط فہمی کیا ہے بظاہر ہے یہ لفظ۔ کہتا ہے !
How Mirachi learnt Arabic, we do not know. Walter says that he was not in the East. He was …… to quote innocent II and his work which appeared in Poabaa in 1698 is dedicated to the holy Roman emperor Leo Pole I. By way of introduction to his Quran Marachi published a companion felleo called Programous.
یہ Latin لفظ ہے
Which contains practically everything which was known in his day about Mohammad and the religion called Islam.
یہاں میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے جو Research گروپ تیار کرنا شروع کیا ہے‘ انکو میں نے نصیحت کی تھی کہ آپ اصل زبانیں اب پڑھیں‘ کیونکہ ہم تک جو پرانے صحائف کے تراجم پہنچے ہیں‘ وہ ایسے لوگوں کے ذریعے پہنچے ہیں‘ جن میں شدید متعصب لوگ بھی داخل ہیں اور یہ بات کو بدلنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں Turin Shroud پر جو ریسرچ ہوئی ناسا جو امریکہ کی سپیس کی سب سے بڑی Instituion ہے‘ اس میں کچھ روم کے نمائندہ پادر ی یا ویسے کوئی اورہوں گے‘ غالباً روم کے نمائندہ ہی تھے وہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے جو اس کے اوپر تبصرہ لکھا‘ اس کے متعلق دوسرے سائنس دانوں نے جب مطالعہ کیا تو گواہی دی کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ محض عیسائیت کو بچانے کی خاطر وہ جو تحقیق اصلی ہے اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ اس سے غلط نتائج نکال کے دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں‘ یہ آج کل کا حال ہے۔ پھر اسی طرح جو قمران وغیرہ سے جو دستیاب ہورہے ہیں‘صحیفے ان کے متعلق بھی اس وقت امریکہ میں اس بات پر بعض لوگ شور ڈال رہے ہیں کہ یہ چھپا رہے ہیں یہ بددیانتی کررہے ہیں‘ اپنی مرضی کی چیزیں سامنے لائیں گے‘ دوسری چھپائیں گے‘ اس لئے اس کو عام کردیا جائے۔ اور جوینئر سکالرز تک کو بھی یہ بات پہنچنے دی جائے۔ اس لئے میں احمدی سکالرز کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی سے جہاں جن ملکوں میںیہ زبانیں سکھانے کا بہت اعلیٰ اہتمام ہے‘ اپنے بچوں اور بچیوں کو‘ خصوصاً وقف نو بچوں کو Latin اور Greek اور Hebrew ‘ یہ تین اور اس کے ساتھ Hebrew کی دوسری dialect جو ہے …… یہ بھی پڑھائیں اور‘ تاکہ یہ جو ہماری موجودہ نسل ہے یہ تو جہاں تک ممکن ہے‘ ترجموں سے استفادہ کرکے تحقیق کریں گی‘ لیکن اس کے بعد دوسری نسل آنی چاہئے جو براہ راست ان کے sources میں جاکر پوری تحقیق کرکے معلوم کریں کہ اصل کیا تھا اور انہوں نے کیا پیش کیا ہوا ہے۔ خاص طور پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیاں ملتی ہیں‘ یا اسلام کی تائید میں پیشگوئیاں ملتی ہیں وہاں تو یہ بہت کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس کی شکل بدل دی جائے۔
پس یہ Latin کا جو ذکر کیا ہے‘ اس وجہ سے میں نے پڑھ کے سنایا ہے‘ یہاں بھی بہت بڑا مواد ہے۔ ہمارے پاس اٹلی میں اس وقت Unfortunately کوئی Italian احمدی موجود نہیں ہے لیکن اٹلی سے باہر موجود ہیں۔ Italian میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اور اصل Sources سے یا Latin سے Italian میں ترجمے موجود ہوں‘ موجود ہوں گے لازمی۔ تو میں یہ چاہتا ہوں جو اٹلی کی جماعت ہے س کو چاہئے کہ تحقیق کرکے خاص طور پر Vetican کی لائبریری سے اسلام پر جو جوکتابیں لکھی گئی ہیں‘ وہ آج کل سب Computerised ہوچکی ہیں۔ ان کے لئے کچھ مشکل نہیں ہو گا‘ ان سے وہ فہرستیں حاصل کرنا اور جو Italian زبان میں ہیں ان پر‘ ان کی مکمل فہرست مجھے چاہئے اور ان کتابوں کے تراجم اگر دوسری زبانوں میں ہیں‘ کس کس کے ہیں؟ اور جن جن کے نہیں ہیں ا ن کو پھر اٹلی بولنے والے احمدیوں کو جو باہر بستے ہیں‘ ان کو کہا جائے کہ وہ ان کا مطالعہ کریں اور اس کے متعلق بتائیں۔
اس ضمن میں ایک اور اعلان اب چونکہ اس کا‘ اعتراض کا وقت تو نہیں ہے ‘ شاید ہے نہیں؟ بتائیں پھردکھائیں؟ ایک عمومی اعلان بھی ٹیلی ویژن کے متعلق کرنے والا تھا۔ مختصر وہ کردیتا ہوں۔
ہم جو یہاں پروگرام تیار کررہے ہیں اب اگلے پندرہ دن کا خدا کے فضل سے پروگرام تیار ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی محنت کا کام ہے۔ یہاں جو بچے اور بچیاں دن رات لگے ہوئے ہیں بعض ٹیمیں ہیں جو ساری ساری رات کام کرتی ہیں‘ کیونکہ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس لئے مجھے ساری دنیا کے احمدیوں کی طرف سے نمایاں مدد چاہئے۔ اپنے اپنے ملکوں کے پروگرام بنائیں۔ اسکے متعلق تفصیل سے میں ان کو پیغام بھجوا رہا ہوں۔ زبانی آپ سب کو سنا رہا ہوں‘ جس کو جو توفیق ہے اس کے مطابق کام کرے۔
اپنے ملک کی خوبصورت جگہوں کا تعارف۔ اپنے ملک کے کلچر کا تعارف‘ اس کی تاریخ کا تعارف‘اردو‘ انگریزی اور مقامی زبانوں میں۔ اسی طرح احمدیت کی تاریخ کا تعارف‘ مساجدکا تعارف‘ وقارِ عمل اور کس طرح جماعت نے خدمتیں کی ہیں اور کیا کیا کام کیا ہے نوجوانوں نے۔ پھر وہاں مختلف قومیں کون کون سی بستی ہیں‘ کیا ماحول ہے۔ اسلام کے خلاف لکھنے والے کون کون پیدا ہوئے۔ انکے لٹریچر کا عمومی تعارف‘ ایک تو تحقیقی سیل ہے جو تحقیق کرے گا۔ سرِدست عمومی تعارف پر مشتمل وہ ذکر چاہئے کہ جرمنی میں کون کون پیدا ہوا۔ اس میں دو قسم کے گروہ ہیں۔ ایک ہیں Research Scholer ‘ جنہوں نے مذہب کو خصوصیت سے اپنا مضمون بنایا اور اس پر تحقیق کی۔ ان کو جب یہ اسلام میں دلچسپی لیتے ہیں Orientalist کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے ہیںجو مختلف علمی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ اسلام کے متعلق (ان کی) انہوں نے بہت زیادہ زہریلا مواد بچپن سے ہی سن رکھا ہے‘ اس میں وہ پلے ہیں۔ اس لئے بے وجہ ‘ جاتے جاتے نہایت ہی ظالمانہ حملہ‘ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر‘ اور اس تصور پر کرتے ہیں جو مغرب میں پیش کیا جاتا رہا ہے‘ صدیوں سے یہ ظلم ہورہا ہے۔ اور………کو پڑھیں‘ اس کا جو Inferno ہے‘ ایک جہنم‘ (اچھا) ایک جہنم کی۔ (تین منٹ تو ہیں مگر الٹے پکڑے ہوئے تھے آپ نے تین منٹ) ٹھیک ہے۔ وہ خوفناک نقشہ کھینچا ہے۔ اس میں‘ میں بیان نہیں کرسکتا کہ کیا کیا ،اس نے کس کس کو داخل کیا ہے۔ پھر یہ روسو ہے جو فرانس کا مشہور فلاسفر‘ رائٹر نہایت ہی گندا چھالا ہے اسلام پر اس نے‘ حالانکہ یہ مستشرق بھی نہیں کہلا سکتا۔ یہاںایک مشہور آتھر author ہے جس کو ہندوستان میں خصوصاً ‘ ہندوستان پاکستان میں سائنس فکشن دلچسپی رکھنے والے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔
‏ Adge. U. Rels وہ ایک عام دنیا دار‘ نیم سائنس دان‘ نیم سیاستدان انسان تھا‘ لیکن اسلام کے متعلق بہت ہی گند اس نے بکا ہے۔ جب سے مجھے‘ میں نے وہ دیکھا ہے‘ اس کے بعد سے میں نے اس کی کوئی کتاب دیکھی نہیں۔ تعصب کی وجہ سے نہیں‘ دل نہیں چاہتا‘ اب تو خیر خدا کا فضل ہے وقت بھی نہیں رہا۔ لیکن جب وقت تھا بھی اس وقت میں نے چھوڑ دیا تھا۔ Lord Wiren کا مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ جب Child Haron دیکھی تو ایسا دل سے اترا ہے‘ کہ پھر میں نے اس کتاب کو‘ اس کی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ Child Heron وہ Greek جو مضمون ہے‘ اس کی لڑائیوں وغیر ہ کا‘ اس میں وہ اسلام کے خلاف بہت ہی گندی زبان استعمال کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق‘ اور اس قسم کے بہت سے authors ہیں جن کا اپنا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان معنوں میں قصور ہے کہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے کردی اور بے وجہ چلتے چلتے کسی شریف انسان پر گند اچھال دیا جس کا تمہارے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مگر قصور ہے اس چرچ کی تعلیمات کا‘ جو صدیوں سے ان کے پیچھے کارفرما ہیں‘ اور آج بھی اسی طرح جاری ہیں۔ اس سوسائٹی سے یہ ثابت نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنی طرف بلائیں تو کوئی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہتا۔ مگر دشمنی پیدا کرنا چاہیں تو اس کی طاقت ہے۔ بالکل یہی حال دوسرے مذاہب کا ہوچکا ہے۔ مسلمانوں میں یہ بات کم ہے؟ پاکستان میں دیکھیں مولوی کو کہو نیکی کی طرف بلائو۔ مجال ہے کہ کوئی ان کی طرف آجائے۔ لیکن احمدیوں کے خلاف مجمع لگائیں تولوگ اکٹھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں لوگ ۔ اور احمدیوں پر ظلم کی تعلیم دیں تو کہتے ہیں سبحان اللہ۔
سمعنا و اطعنا ۔ ہم نے سنا‘ اطاعت کی۔ ان کے گھر لوٹو‘ مال کھائو‘ اس سے کون پیچھے رہ سکتا ہے جو ویسے ہی دوسروں کا مال کھانے کا عادی بن چکا ہو تو یہ حال سب دنیا میں ہے صرف مغربی سوسائٹی کی تنقید نہیں کررہا۔ خدا کے فضل سے مجھ میں قومیت اور عصبیت کا ایک ذرہ بھی شائبہ نہیںہے۔ میں اللہ کے فضل سے اس معاملے سے پوری طرح پاک کیا گیاہوں اور تمام دنیا کی قومیں جن سے میرا رابطہ ہے وہ جانتی ہیں کہ ان سے میں ویسی ہی محبت کرتا ہوں‘ جیسی کسی اور مخلص سے‘ میرا تو سوائے اس کے اور کوئی معیار نہیں کہ
ان اکرمکم عنداللہ اتقکم
پس یہ اس لئے وضاحت کررہا ہوں کہ جہاں کسی قوم کے حوالے سے جس نے اسلام کی دشمنی میں بہت غلو کیا ہے‘ میری تنقید کو سنیں تو اس کا قومیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ظلم سے صرف تعلق ہے ۔ تو یہ ساری تحقیق آپ لوگ جاری رکھیں اور جو مجھے لکھتے ہیں‘ ان کو میں مزید رہنمائی بھی کرتا ہوں۔ انشاء اللہ ہماری اگلی نسل اس سلسلے میں بہت زبردست عالمگیر سطح پر جوابی حملے کرے گی اور اسلام کا بول بالا کرے گی۔
باقی باتیں انشاء اللہ کل ہوں گی۔ Wherry کا مضمون ختم ہوگا تو پھر یہ متفرق سوالات آئیں گے۔ ٹھیک ہے۔
اچھا جی ! السلام علیکم !
تین منٹ ہوئے ہیں؟ کتنے منٹ ہوئے ہیں ۔ اچھا
السلام علیکم ! خدا حافظ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 27 رمضان المبارک
10 مارچ 1994ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وما کان ھذا القرآن …… فانظر کیف کان عاقبۃ الظالمینO(یونس 38تا40)
’’وما کان ھذا القرآن ان یفتری من دو ن اللہ‘‘
یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور سے ایسی کتاب بنائی جاسکتی ہو۔ ’’ان یفتریٰ من دون‘‘ خدا کے بغیر یہ کتاب گھڑی جاہی نہیں سکتی ۔اس کا لفظ لفظ خود اپنی صداقت پر گواہ ہے۔
’’ولکن تصدیق الذین بین یدیہ ‘‘ لیکن یہ تصدیق اس کی کرتی ہے جو اسکے سامنے ہے۔ ’’بین یدیہ‘‘ کا جو محاورہ ہے‘ اسی کو غلط استعمال کرتے ہوئے ناسمجھی سے وہیری نے وہ حملہ کیا ہے جس کا ابھی آگے ذکر آئے گا۔ وہیں پھر اس پر مزید گفتگو ہوگی کہ ’’بین یدیہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟
’’و تفصیل الکتاب لاریب فیہ من رب العالمین‘‘ اور یہ کتاب کی تفصیل بیان کرتی ہے‘ اس کو کھول کھول کر الگ الگ بتاتی ہے کہ کو نسی کتاب ہے اور کتاب کے علاوہ اور کیا باتیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔
’’من رب العالمین‘‘ اپنے رب العالمین کی طرف سے۔
’’ام یقولون افترہ‘‘ کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے اس نے افتراء کرلیا ہے۔
’’قل فاتوا بسورۃ مثلہٖ‘‘ ان سے کہہ دے کہ کوئی سورۃ اس کی مثال لا کے تو دکھائو۔
’’وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین‘‘ اور خدا کے سوا جس کو چاہو اپنی مدد کیلئے بلاتے رہو‘ اگر تم سچے ہو ۔ یہاں خدا کے سوا جس کو چاہو بلائو۔ یہ وہی پہلا جو دعویٰ ہے اس کی تکرار فرمائی گئی ہے کہ کسی غیر اللہ سے تو یہ بن سکتی ہی نہیں اس لئے ہم تمہیں دعوت دیتے ہی کہ جتنے غیر اللہ ہیں تمہارے ذہن میں ان سب کو اپنی مدد پر بلا لائو لیکن ایسی کتاب نہیں بن سکے گی اس کی ایک سورۃ بھی نہیں بن سکے گی۔
’’بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ‘‘ مگر انہوں نے جھٹلا دیا ہے ایسی بات کو جس پر ان کاعلم احاطہ نہیں کرسکا یا کرسکتا۔’’ولما یاتھم تاویلہ‘‘ اور اس کی حقیقی سچی تشریح ابھی تک ان کو معلوم نہیں ہوسکی تھی۔
’’کذلک کذب الذین من قبلھم‘‘ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی سچوں کی تکذیب کی تھی یا الٰہی کتب کی تکذیب کی تھی۔’’فانظر کیف کان عاقبۃ الظالمین‘‘ پس دیکھو کہ ظالموں کی عاقبت کیسی تھی‘ کیسی رہی؟ کیا انکا انجام ہوا؟ وہیری صاحب کے متعلق اب میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ ان آیات کا میں نے انتخاب مضمون کی رعایت سے کیا ہے کیونکہ آگے اسی مضمون پر گفتگو ہوگی۔ وہیری صاحب وہ ہیں جنہوں نے‘ جو امریکہ کے باشندے تھے۔
‏ Presbyterian Church سے ان کا تعلق تھا۔ 58 سالہ ان کی خدما ت جو ہیں ان میں سے 46 برس ہندوستان میں رہے۔ یہ اپنی امریکن بیوی سمیت اور دو دیگر امریکن مبلغین کو لے کر بحری سفر اختیار کرتے ہوئے 5 ما ہ کے عرصہ میں 1868 میں کلکتے پہنچے اور آپ کی اور آپ کی اھلیہ کی پہلی تقرری راولپنڈی کے ہائی سکول میں ہوئی۔ بعض ازاں لدھیانہ میں پریس کا چارج لیا۔ 1884ء میں وہیری کو سہارن پور میں Seminary کے اجراء کیلئے متعین کیا گیا۔ ہمارے جس کو جامعہ احمدیہ جس طرح کہتے ہیں‘ اس طرح عیسائیت کی تعلیم دینے کیلئے جو مدرسہ ہو اسے Seminary کہتے ہیں۔ جہاں انہوں نے تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔ یعنی خدمت عیسائیت کے سلسلے میں قاری بھی تیار ہوتے ہیں اور تحقیقی تصنیفی کام ہوتے ہیں۔ان کا اس زمانے کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دھلوی کے قرآن کریم پر انہوں نے ایک دو طرح کے کام کئے ہیں۔ اول یہ کہ اسے رومن زبان میں شائع کیا ہے‘اس ترجمے کو من و عن اور اس کا مقصد یہ تھا کہ باہر کے آنے والے پادری جن کو اردو سمجھنا تو آگیا تھا‘ سمجھنی آگئی تھی لیکن اردو کو روانی سے پڑھ نہیں سکتے تھے۔ رومن الفاظ میں حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دھلوی کا ترجمہ پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ‘ اس لئے ان کی خاطر یہ کام کیا گیا تھا‘ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اس کے اوپر حواشی پر نوٹس لکھیں اور اس طرح ان کو قرآن کریم پر اور اسلام پر حملہ کرنے کے لئے تیار کریں۔ یہ کام بھی انہوں نے کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک تمہید بھی لکھی اور یہ جو واقعہ ہوا ہے‘ 1876ء میں ٹی۔ٹی۔ھیو کے دیباچہ اور پادری کے ایڈیشن کے ساتھ یہ قرآن کریم شائع ہوا اس طرح انہوں نے گہری تیاریاں اس زمانے سے کی ہوئی ہیں۔ اگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف نہ لاتے یعنی اللہ تعالیٰ ان کو نہ مبعوث فرماتا تو اس سے ہندوستان کی جو حالت ہوتی اس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کس طرح عیسائیت کیلئے ایک کھلا میدان تھا۔ پورا ملک کلیتہً عیسائیت کے قبضے میں جاسکتا تھا۔بہت گہری بہت بڑی تیاریاں کی تھیں‘ تمام مغربی ممالک کے نمائندگان نے حصہ ڈالا ہے باوجود اس کے کہ وہ صرف سلطنت برطانیہ کی Colony تھا‘ ہندوستان ۔ مگر جس میں تمام ملکوں کے مشترقین وہاں اکٹھے ہوگئے۔ انبوہ در انبوہ۔ انہوں نے عیسائیت کیلئے اپنے علاوہ اور بھی پادری تیار کئے اور بہت بڑی یلغار تھی ہندوستا ن پر‘ جس کے جواب میں آخر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اللہ نے مبعوث فرمایا تو آپ نے جوابی کارروائی کی اور بعض مسلمان علماء جو احمدیت کے مخالف بھی ہیں جیسا کہ مولٰنا اشرف علی صاحب تھانوی‘ وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی اپنی اس ترکیب کے ساتھ عیسائیت کے خلاف جوابی کارروائی نہ کرتا تو ہندوستان پر ان لوگوں نے چھا جانا تھا۔ پادری Laffroy لیفرائے کے حوالے سے یہ لکھتا ہے کہ وہ جب آیا تو دندناتا پھرتا تھا یوں لگتا تھا کہ سارے ہندوستان کو مغلوب کرلے گا۔مگر پھر مرزا غلام احمد آف قادیان کھڑا ہوا اور اس نے اس ترکیب سے ان کی ساری جارحانہ کوششوں کو مدافعانہ کوششوں میں ہی نہیں بدلا بلکہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یہ وہ پس منظر ہے ویری صاحب کی آمد کا۔ اور ان دنوں ہندوستان میں کیا ہورہا تھا۔ جو آپ کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اب یہ خود ۔۔۔ ان کا حوالہ میں ابھی دیتا ہوں کہتے ہیں۔ انہو ںنے جو کام کئے ہیں اس میں
As well as writing of English commentry of the Holy Quran which was published in 1896. He was also editor for an Urdu translation of Shah Abdul Qadir. This lattered was in Roman Urdu for the use of Christian missionaries in India. On the Quran Wherry said he wish to bring to light.
کہتا ہے قرآن کے متعلق اپنے ایک دیباچے میں لکھتا ہے‘ کہ یہ باتیں آپ کے سامنے نمایاں طور پر رکھنا چاہتا ہوں۔
Its testimony to the genuiness and the credibility of the Chirstian scriprures current in the days of Muhammadؐ.
ایک بات پیش نظر رکھیںکہ قرآن کریم نے مکمل طور پر بلا شبہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جتنے Christian Scriptures اس وقت جاری تھے جو کسی جگہ بھی موجود ہوں وہ تمام کے تمام کلیتہً خدا کا کلام ہیں۔ یہ قرآن کریم کی طرف بات منسوب کرکے کہتا ہے اب اس کو ذہن نشین رکھ لو‘ ذہن نشین کرلو۔
The evidence it affords to its own character as a fabrication.
کہتا ہے یہ اس دعوے سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ خود اپنی تکذیب کیلئے اس نے بنیاد قائم کردی اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ تمام عیسائی صحیفے جو آج دنیا میں موجود ہیں۔ وہ تمام تر سچے اور کلیتہً سچے اور تمام تر خدا کا کلام ہیں‘ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن خود اقرار کررہا ہے کہ میں جھوٹا اور انسان کا افتراء ہوں اور میرے ساتھ خدا کا کچھ؟ ایک نتیجہ نکالتے ہیں۔
Its testimony to the imosture of the Arabian Prophet.
صرف قرآن اقرار نہیں کررہا گویا کہ اپنے جھوٹا ہونے کا بلکہ عرب کے نبیؐکی بھی پوری طرح تکذیب کرکے اس پر مہر تصدیق ثبت کررہا ہے کہ عربی نبی ؐ بھی نعوذ باللہ من ذالک مفتری اور خدا کی طرف جھوٹے دعاوی منسوب کرنے والا تھا۔
Testimony to the imposture of the Arabian Prophet in his professing to attest to the former scriptures while denying every cardinal doctrine at the same.
کہ ایک طرف تو ‘ یہ ثبوت اس طرح بنتا ہے کہ ایک طرف تو Scripture کی پوری طرح تصدیق اور دوسری طرف اس کے تمام بنیادی دعاوی کی تکذیب‘ جو عیسائیت کی بنیاد ہیں جو Scriptures میں۔ وہ ستونوں کی طرح ہیں۔ جس پر تمام عیسائیت کی عمارت قائم ہے‘ ان ستونوں کو ڈھا دیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں یہ سب جھوٹے اور دوسری طرف تمام صحفیوں کی تصدیق کرتا ہے جو موجود تھے۔تو اس سے زیادہ قطعی ثبوت کیا مل سکتا ہے یعنی اس کی زبان میں نعوذ باللہ کہ یہ قرآن خود رسول عربی ؐ کو جھٹلا رہا ہے۔ پھر اس کے آگے کہتا ہے‘ دوسرا جو جرم قرآن سے ثابت ہے کہ نبی ؐ عربی نے کیا وہ یہ ہے:۔
In his putting into the mouth of God garbled statement as to scripture history.
کہتا ہے کہ قرآن کریم جو Scripture کی History جو عہد نامہ قدیم اور جدید کی تاریخ ہے اس کی طرف garbled staements منسوب کرتا ہے۔ Garbled کے دو معنی ہیں۔ ایک تو ہے ہذیانی گفتگو۔ بے معنی لغو باتیں‘ بیہودہ سرائی۔ اس کو Garbleکہتے ہیں۔
دوسرا Garble کا مطلب ہوتا ہے عمداً یا بلا ارادہ کسی جھوٹی بات کا کسی کی طرف منسوب کرنا اور اس کے معانی کو بگاڑ دینا۔ جو اس کا مفہوم ہے۔ اس کے سوا کچھ اور اس کی طرف منسوب کردینا ان دونوں معنوں میں یہ لفظ Garble یہاں استعمال کرتا ہے۔
As to scripture history, prophecy and doctrine.
یہ تین چیزیں ہیں۔
To suit the purpose of his prophetic pretensions.
یہ اس نے اس لئے کیا کہ اپنے جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہوا تھا‘ ان جھوٹے دعاوی کی تائید کی خاطر وہ ایسا کام کرتا ہے۔
And in his appealing to Divinity to sanction his crime against morality and decency.
اور قرآن سے گویا یہ ثابت ہوتا ہے ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بار بار appeal کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے تصور کو تاکہ اپنے جرائم اور اخلاق اور شرافت کے خلاف جو جرائم کئے ہیں‘ جرائم نہیں‘ تاکہ اپنے ان جرائم کو ڈھانکے جو نعوذ باللہ من ذلک حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے انسانیت‘ شرافت decency کے خلاف کئے ہیں۔
I wish especially to thanks of William Mur in permitting me to make use of his venerable work on Mohammadؐ. My thanks are also due to Reverend R.M. Zenker, missionary of Agra without further ……and honestly desiring blessing on him who is the only sinless prophet of Islam. (Jesus Christ) and the only saviour of the fellow men. I commend this volume to the reader.
یہ ہے ویری صاحب کے الفاظ جو آج زیر بحث آئیں گے یہاں ضمناً میں بتادوں کہ
The only sinless Prophet of Islam.
کا تعلق میر احمد علی صاحب کے ساتھ بھی ایک بہت گہرا تعلق ہے۔ عیسائی عقیدہ جس طرح یہ ہے کہ تمام انبیاء گندے‘ جھوٹے نعوذ باللہ من ذلک کئی قسم کے گناہوں میں ملوث تھے‘ سوائے Jesus Christ کے۔ اسی طرح شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ کے سوا باقی سارے داغدار تھے تو ایک آدمی کی پاکی‘ بیان کرنے کی خاطر دوسروں کو گندہ کرنے کا جو رجحان ہے بعینہٖ عیسائیت اور شیعت میں مشترک رجحان ہے ۔ اب میں باری باری ان کے دعاوی کو لیتا ہوں اور آ پ کو بتاتا ہوں کہ کس حد تک یہ صاحب‘ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے‘ انہوں نے کچھ اور بھی کام کئے تھے۔ وہ میں آخر پر بیان کروں گا۔ یہ ایک دفعہ یعنی Egypt میں ایک اسلام پر کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تھے اور اس کانفرنس کے موقعے پر انہوں نے جو لیکچر ہندوستان میں تیار کیا تھا وہ پڑھ کے سنایا‘ اس لیکچر میں احمدیت کا بھی ذکر کرتے ہیں کیونکہ اسے میں نے آخر پر رکھا ہوا ہے جب یہ گفتگو ختم ہوجائے گی تو مجھے یاد کرادینا‘ پھر اس آخری حصے کو لیں گے۔
پہلی بات ‘ ان کا جو یہ تصور ہے کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اس وقت جو صحیفے موجود ہیں Old Testament, New Testament جو بھی ہیں‘ سارے سو فیصد سچے ہیں‘ بالکل جھوٹ ہے۔ واضح کھلا کھلا جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘ قرآن کریم نے کہیں ایسا بیان نہیں دیا بلکہ قرآن کریم ایک محاورہ استعمال فرماتا ہے۔
’’مصدقا لما بین یدی من التوراۃ و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘
یہ Jesus کی طرف منسوب کرکے وہی الفاظ کہتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوکر آپ سے پہلے ………… صحیفوں کے متعلق کہے گئے ہیں اور جو بات مسٹر ویری کو معلوم ہے۔ وہ قرآن کو باقاعدہ رومن زبان میں لکھوا رہا ہیں‘ بڑا گہرا مطالعہ کرکے اس پہ تفصیلی نوٹس بھیج رہے ہیں ان کو پتہ ہے کہ جو محاورہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے بعینہٖ وہی محاورہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی استعمال کیا ہے۔ اس لئے اس سے جو بھی عربی تم سمجھتے ہو وہ دونوں پر برابر چسپاں ہوگی۔ اگر یہ مانتے ہو کہ مراد یہ تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں جتنے صحیفے موجود تھے وہ سارے کے سارے سو فیصدی سچے ہیں‘ ان میں کوئی شک کی کہیں گنجائش نہیں تو پھر عیسیٰ ؑ علیہ السلام کے متعلق اس Statement کے وہی معنے ماننے پڑیں گے‘ عیسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی کام کیا کہ اعلان کیا کہ میرے وقت میں جتنے بھی صحیفے Old Testament کے کہیں کسی شکل میں موجود ہیں‘ میں تصدیق کرتا ہوں کہ وہ سارے سچے ہیں۔ یہ اگر اعلان کرتے ہیں تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ یہ میں بعد میں بتائوں گا۔ پہلے میں آپ کو بتائوں کہ اس کا معنیٰ کیا ہے؟
مصدقاً لما بین یدی کا معنیٰ ہے وہ حصہ اس کتاب کا یا اس ذکر کا جس کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے‘ جو میرے سامنے ہے‘ بین یدی‘‘ کا ترجمہ عموماً قرآن کریم میں مترجمین ’’مجھ سے پہلے کا کرتے ہیں‘‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس کی جتنی مثالیں آپ دیکھیں گے ’’بین یدی‘‘ سے مراد ’’سامنے کے ہیں‘‘ میرے ہاتھوں کے سامنے۔ اور اس کی تصدیق ہے جو اس وقت زیر نظر ہے یہ ترجمہ بنتا ہے اس کا۔ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں جس کی بحث اس وقت چل رہی ہے‘ جو زیر نظر معاملہ ہے اور جو خدا نے میرے سامنے رکھا ہے۔ اس کے سوا کوئی ترجمہ درست ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی کبھی تمام ا ن صحیفوں کی تصدیق نہیں کی جو اس وقت رائج تھے‘ لیکن جو زیر نظر معاملہ تھا جب پوچھا جاتا تھا کہ یہ درست ہے کہ غلط ہے تو فرماتے تھے۔ ہاں یہ درست ہے۔ بعضوں نے یہ لکھا ہے کہ نہیں‘ تو اپنے خداداد علم کے مطابق اس کی تصدیق فرمایا کرتے تھے تو ’’بین یدی‘‘ سے مراد وہ تمام بائبل کے حوالے مسیح کے ذکر میں یوں بات بنے گی‘ وہ بائبل کے تمام حوالے جو میرے زیر نظر ہیں‘ میرے پیش نظر ہیں‘ جو میرے سامنے رکھے جاتے ہیں‘ ان کی جن کی میں تصدیق کررہا ہوں وہ ہیں اس کے سوا میں اور چیزوں کی تصدیق نہیں کررہا۔ یہ تو ہے استنباط مسیح کے متعلق ‘ مسیح کو بھی ہم بائبل میں درج لغویات کی تصدیق سے مبرا سمجھتے ہیں۔ یہ جاہلانہ حرکت ہے کہ جوابی حملے کی خاطر پاکوں کو بھی بیچ میں ملوث کیا جائے۔ حضرت مسیح کا کوئی قصور نہیں تھا‘ آپ نے کوئی جھوٹی تصدیق نہیں کی۔ جس طرح میں نے بیان کیا ہے اس طرح تصدیق فرمائی۔ دوسرا لفظ ’’مصدقاً‘‘ کا معنیٰ وہ بھول جاتے ہیں کہ تصدیق نہیں بلکہ اس کے مطابق اس کو پورا کرنے والا ’’مصدق‘‘ کا معنیٰ ہے۔ مطلب یہ ہے جیسا کہ میں نے آیت پڑھی ہے۔
و اذا قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ۔
میں وہی رسول ہوں جو تورات کی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہوں‘ ان کے عین مطابق آیا ہوں جو اس وقت میرے زیر نظر ہیں اور وہ معین پیشگوئیاں تھیں‘ وہ ساری تورات میں ہی تھیںاور وہ یہود کو بھی علم تھیں تو فرمایا کہ جو اس وقت زیر نظر بائبل کی پیشگوئیاں ہیں‘ جن میں میرے آنے کا ذکر ملتا ہے‘ میں ان کا مصدق ہوں‘ اول معنے میں بھی کہ وہ درست تھیں اور دوئم معنے میں بھی کہ میں ان کو پورا کرنے والا آگیا‘ اور جب میں ظاہر ہوگیا تو پھر ان کے جھوٹاہونے کے متعلق کیا گفتگو کا موقعہ رہ جاتا ہے‘ اس کا سوال ہی نہیں باقی رہتا اور صرف یہی نہیں بلکہ
ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد
جس طرح پہلی پیشگوئیوں کا مصداق بن کر مصداق لفظ اور مصدق کو اکٹھا پڑھیں تو پھر سمجھ آجاتی ہے بات کی۔ پہلی پیشگوئیوں کا مصداق بن کر میں آیا ہوں‘ اسی طرح آنے والے کے لئے بھی پیشگوئی چھوڑ کے جارہا ہوں۔
یاتی من بعدی اسمہ احمد
جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمدؐ ہوگا۔ یہ جو حوالہ ہے اس کی تائید میں جو میں حوالہ پیش کروں گا۔ اسی کی تلاش میں کچھ دیر ہوگئی تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ فلاں جگہ موجود ہے لیکن جو تحقیقی گروپ تھا ان کو کہیں مل نہیں رہا تھا پھر میں نے کہاں فلاں کتاب سے ڈھونڈو تو خدا کے فضل سے وہاں مل گیا اور وہ یہی ہے نا حوالہ وہ؟ اور وہ کہتا ہے۔ Garble Statement قرآن منسوب کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے مسیح نے پیشگوئی کی تھی کہ احمد میرے بعد ایک آنے والا ہوگا۔جس کا نام احمد ہوگا۔ اس سلسلے میں یاد رکھیں کہ بائبل نے جو لفظ استعمال کئے ہیں وہ ایک جو لفظ استعمال کیا ہے احمد کے لئے وہ Greekکا لفظ ہے جو دو طرح سے pronounce ہوتا ہے‘ اس کو ادا کیا جاتا ہے۔ یعنی دو لفظ ہیں اصل میں ایک نہیں‘ ملتے جلتے۔ ایک لفظ ہے۔ پیری کیوٹاس اور ایک لفظ ہے پیر اکلے ٹاس۔ پیری کلے ٹاس اور پیر اکلے ٹاس۔ ا ن دو لفظوں میں ایک کا معنیٰ بعینہٖ احمد ہے۔ یہ بحث ہے کہ اصل لفظ کیا استعمال ہوا تھا۔ اول تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس اختلاف کی کوئی سند موجود نہیں تھی کوئی حوالہ موجود نہیں تھا کہ لفظ اصل کیا ہے اور اس سے ملتے جلتے کون سے لفظ ہیں اور حقیقت میں کون سا استعمال ہوا ہے۔ یہ بحث اس وقت کوئی عالمانہ بحث کے طور پر موجود ہی نہیں تھی۔ اور عرب میں تو اس کا اشارہ بھی موجود نہیں تھا کہ ایسا لفظ کوئی موجود ہے جس کے متعلق اس زمانے کی جو دنیا ہے‘ اس کو کوئی علم نہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں وہ صحیفہ بائیبل کا جو ایک monastery میں دب کے غائب ہوچکا تھا۔ وہ صحیفہ اس زمانے کے علماء کے پیش نظر نہیں تھا آج کل کے زمانے میں دریافت ہوا ہے۔ اور اس صحیفے کو پڑھنے سے پتہ چلا ہے کہ قرآن کریم کا بیان بعینہٖ سچا ہے اور جو مسٹر ویری ٹائپ کے لوگ ہیں محض ایک جھوٹی بات منسوب کررہے ہیں۔ وہ الفاظ یہ ہیں۔
The Greek language has another word parikutose with a similar meaning as Ahmad in Arabic.
پیری کیوٹس اور احمد ایک ہی چیز کے دو نام ہے۔
Jack Finigan the renowned Chirstian theologian in his book THE ARCHAEOLOGY OF THE WORLD RELIGIONS says: were in Greek the word Parakletos confirmed is very similar to parikutosie renowned.
یہاں وہ ترجمہ کردیتا ہے۔ renowned‘ حالانکہ اس کا ترجمہ احمد ہی ہے۔ دوسرے سکالر تسلیم کرتے ہیں۔
The letter word being the meaing of the name's of Ahmad.
خود مانتا ہے۔ کہتا ہے صرف احمدؐ ہی نہیں محمد ؐ نام بھی اس سے ثابت ہوتا ہے۔ جو پیری کیوتاس ہے یہ عیسائی محقق کہتا ہے اس کا جو ترجمہ میں نے کیا ہے یہ چسپاں ہوتا ہے لفظ احمد ؐ پر بھی اور محمد ؐ پر بھی۔
‎ ـMoreover the Damascus Document
اب میں بتا رہا ہوں آپ کو مزید کہ Damascus Document
جواب دریافت ہوا ہے اس نے کیا کہانی بتائی ہے۔
A scripture discover towards the end of the 19th century in Azra Synagougue
‏ Azra کےSynagouge میں یہ انیسویں صدی کے اواخر پر دریافت ہوا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دعوے اور قرآن کریم کے اس دعویٰ کے‘ دیکھیں کتنی دیر بعد‘ اور اس میں کیا لکھا ہوا ہے میں بتاتا ہوں۔
The Damascus Document in Azra Synagouge Old Cairo, Page 2 described Jesus as having for told the advent of a Holy Spirit, named Ameth.
یہاں وہ پیرا کیوتس کی بحث ہی ختم ہوگئی ۔ احمد نام احمد‘ کہتا ہے یہ لکھا ہوا ہے اس میں۔ تو صاف پتہ چلا کہ وہ جو لفظ اور اس کے معانی کی تشبیہہ ڈھونڈ رہے ہیں اصل میں Proper noun تھا۔ Jesus نے named Ahmed کہا تھا‘ اس کا نام احمد ہوگا۔ اب احمت اور احمدتو اتنی قریبی آوازیں ہیں اور یہ متبادل sounds کہلاتی ہیں۔ جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاکر کچھ تبدیل ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کا بنیادی تصور اس طرح دکھائی دینے لگتا ہے کہ کیا تھا۔ اور وہ ہے احمت‘ احمد۔
named Ahmet and by his Messiah he has made them know his Holy Spirit. For It is he who is Ahmed that is the truthful one and in accordance with his name are also there.......
آگے کچھ حوالہ چھُٹ گیا ہے۔
Ahmet is Hebrew means the truth or the truthful
اس لئے چونکہ احمد کا معنیٰ truth اور truthful ہے‘ اس لئے اور حالانکہ Jesusنے کہا تھا اس کا نام احمد ہوگا۔ بعد کے عیسائیوں نے اس کا ترجمہ سچائی کا شہزادہ اور سچائی والا اس قسم کا کرد یا تاکہ عیسائیوں کی توجہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ ہوسکے اور جو پیشگوئی قرآن کریم نے بیان کی ہے اس سے توجہ ہٹ جائے۔ اب اس کو کہتے ہیں Garbling ۔ قرآن garbling نہیں کررہا تم لوگ garbling کررہے ہو۔ جان بوجھ کر شرارت سے یہاں (اس کا) بھولپن کا کوئی موقعہ باقی نہیں رہا۔ تم جانتے ہو دیکھا ہے کہ احمد نام Scriptures میں لکھا ہوا ہے۔ ایسے Scriptures میں لکھا ہوا ہے جو ہزار سال سے زائد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے پہلے سے مدفون ہیں۔ آپ کے زمانے میں ان کا کوئی ذکر اور وجود نہیں تھا‘ وہاں احمد لکھا ہوا دیکھتے ہو‘ جانتے ہو کہ Jesus نے کہا تھا اس کا نام ہوگا۔ اب بہانے ڈھونڈ رہے ہو اس کے ترجموں میں اور ترجمہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ ہوتی ہے garblingجس کو یہ ظالم قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن خود پکڑے گئے کہ garbling کے مجرم یہ خود ہیں۔
ایک اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہی author جو بہت بڑی اتھارٹی ہے اس مضمون پہ‘ کہتا ہے۔
This word was interpretted by the Jews as God, seal
خاتم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صرف نام ہی درج نہیں‘ آپ کی اعلیٰ اور ارفع شان بھی درج ہے کہ وہ احمد ہوگا یعنی ان معنوں میں بھی کہ وہ ’’خاتَم‘‘ ہوگا تو اللہ کی طرف سے وہ خاتم بن کر دنیا میں ظاہر ہوگا۔
Naturally though Jesus must have used the name Ahmad. The Phonetic resemblance between the two words Ahmad and Ahmod lead later writers to substitute Ahmet for Ahmad in Hebrew synonym.
دوسرا لفظ قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے محمد‘ یہ جو کہتا ہے grable کیا ہے۔ انہوں نے‘ وہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
’’الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل یا مرھم بالمعروف و ینھھم عن المنکر و یحل لھم الطیبت و یحرم علیھم الخبائث و یضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم۔‘‘وغیرہ
کہتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے۔
الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی وہ پاک اھل کتاب نیک لوگ جو اس نبی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لئے پیروی کتے ہیں کہ وہ النبی الامی الذی جس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کو کتاب تورات میں اپنے ہاں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ اس کا نام اپنے ہاں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ چونکہ شریف النفس اور سچے لوگ ہیں وہ اس کی وجہ سے و ہ تصدیق کرتے ہیں اور انجیل میں بھی یہ لفظ پاتے ہیں ۔ قرآن کریم نے دونوں پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا ہے کہ موسیٰ نے بھی ایک پیشگوئی کی اور عیسیٰ ؑ نے بھی ایک پیشگوئی کی۔ موسیٰ کی پیشگوئی ظاہر ہے کہ محمد ؐ نام کے مطابق ہوگی کیونکہ محمد ؐ شان‘ شانِ موسوی سے مشابہہ ہے اور عیسیٰ کی پیشگوئی احمدؐ نام سے تھی جیسا کہ ثابت ہوگیا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احمدؐ نام سے مشابہہ ہے۔ وہاں لفظ احمدؐ کو درج فرما دیا جو ثابت ہوگیا۔ جہاں تک محمدؐ کا تعلق ہے ان کے متعلق
Mohammadؐ in the Bible Old estament Soloman song 5:16 Chapter 5 Ayat 16.
In some Versios in the Bible this chapter is called song of Soloman or song of songs.
یہاں لکھا ہوا ہے۔
He is altogether lovely.
محـمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر ہے اس لئے یہ بھی اچھا لگ رہا ہے۔
(He is altogether lovely, no doubt.)
لیکن لفظ جو تھا وہ ’’محمدیم‘‘ تھا۔ جس کا ترجمہ کیا گیا ہے ’’محمدیم‘‘ تھا۔ اور پہلے بائیبلوں میں محمدیم ہی لکھا جاتا رہا ہے۔ اب اس لفظ سے بھاگ کر جان نکلتی ہے‘ ترجمہ کردیا۔ ترجمہ بھی تو ادھر ہی راہنمائی کررہا ہے‘ وہ کہاں کسی اور طرف انگلی اٹھا رہا ہے۔ کہتے ہیں altogether lovely وہ ٹھیک ہے۔ لیکن لفظ ’’محمدیم‘‘ سے کیوں بھاگتے ہو؟ عذر یہ تراشتے ہیں کہ محمدیم ایک شخص کا نام نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ جمع کا صیغہ ہے اور ہمارے پرانوں نے غلطی کی جو اسے نام کے طور پر استعمال کیا حالانکہ محمدیم سرمراد محمدیم کا لفظی معنیٰ یہ بنے گا۔ کئی محمد یعنی بہت سے لوگ محمد ہیں تو چونکہ ایک نام کے لئے جمع کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا اس لئے ہم نے پرانوں کی غلطی درست کرکے اور یہ ترجمہ کردیا ہے کہ بہت ہی خوبصورت جو تمام تر حسن ہو۔ لیکن یہ بات بھولتے ہیں کہ محمد یم جس زبان سے ترجمہ کرتے ہیں۔ وہاں اسماء کو بھی عزت کی خاطر جمع میں استعمال کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ اس کی طرف ضمیر جمع کی پھیر دیتے ہیں عزت افزائی کی خاطر‘ کسی ایک کو آپ کہہ دیتے ہیں‘ آپ تو جمع کا صیغہ ہے اصل میں انہوں نے یہ فرمایا‘ اُن جمع کا صیغہ ہے‘ اس نے نہیں کہتے ایسے موقع پر۔ تو عزت اور تکریم کی خاطر رواج یہ تھا کہ اس میں Hebrew اور پرانی زبانوں میں بھی‘ اس وقت معین حوالے ان زبانوں کے میرے پاس نہیں ہیں‘ اس لئے میں نے نہیں بتایا لیکن Hebrew میں قطعاً یہ رواج تھا‘ جس سے یہ ترجمہ لیا گیا ہے‘ یہ لفظ لیا گیا ہے کہ ناموں کو بھی عزت اور تکریم کی خاطر جمع کہتے تھے‘ تو ـمحمدیم سے مراد بہت سے قابل تعریف محمد ہیں یعنی معنے بھی وہ اس میں داخل ہوگئے عزت افزائی والے اور اسم ذات بھی شامل ہوگیا۔یہ ہے وہ کہتے ہیں جو garble کرتا ہے قرآن کریم نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ خود garble کررہے ہیں کہ بائبل کی سیدھی واضح صداقتو ںکو چھوڑ کر‘ اس کی طرف جھوٹی‘ بل فریب والی باتیں منسوب کرنا‘ اس کو garbling کہتے ہیں۔ یہ قرآن نہیں کررہا یہ آپ لوگ کررہے ہیں۔
پھر دیکھئے۔
’’فبمانقضھم میثاقھم لعنھم و جعلنا قلوبھم قاسیۃً ۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ لا ونسوا حظامما ذکروا بہ ۔ ولا تزال تطلع علیٰ خائنۃ منھم الا قلیلا منھم۔فاعف عنھم واصفح۔ ان اللہ یحب المحسنین O
قرآن کریم نے جہاں تصدیق فرمائی‘ میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا اس کا یہی معنیٰ معقول ہے اس کے سوا معنیٰ نہیں ہے۔ اس بات کو قرآن کھول کر بیان فرما رہا ہے اور بار بار بیان فرما رہا ہے۔ کہتا ہے ہم تمہاری محرف مبدل کتابوں کی تصدیق نہیں کررہے۔ ان کا جھوٹ ظاہر کریں گے۔ بتائیں گے کہ تم نے کیا کیا بائبل سے ظلم کیا ہوا ہے۔ New Testament اور Old Testament سے۔ تصدیق اس کی کررہے ہیں جو اللہ نے فرمایا تھا۔ پس وہ پیشِ نظر جو ہے اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ مراد وہی ہے جہاں جہاں قرآن کریم نے Old Testament یعنی عہد نامہ قدیم یا عہد نامہ جدید کے حوالے سے کوئی بات تصدیق فرمائی ہے وہی تصدیق ہے بس۔ اور جس جگہ انکار فرمایا ہے وہاں کھول کر انکار فرمایا ہے۔ اس لئے اس کو garbleکہنا سب سے بڑی حماقت ہے یا سمجھ ہی نہیں آرہی بات کی آپ کو‘ اور قرآن کریم تو ایسی عظیم کتاب ہے‘ یہ یہ بھی موقعہ دے دیتا ہے کہتا ہے بعض باتیں ایسی تھیں‘ شاید تمہیں سمجھ نہیں آئیں‘ تمہاری پہنچ سے باہر تھیں‘ ان کی تاویل ابھی روشن نہیں ہوئی تھی‘ اس لئے ہوسکتا ہے تم نے معصومانہ انداز میں وہ باتیں کردی ہوں‘ ضروری نہیں کہ ایسی garble کرنے والے سارے مفتری اور جھوٹے ہی ہوں لیکن ویری صاحب کے متعلق افسوس ہے کہ یہ آیت اطلاق نہیں پاتی۔ اچھا بھلا جانتا ہے کہ قرآن کریم کیا کہہ رہا ہے‘ تحریف کے حوالے کثرت سے قرآن کریم میں ملتے ہیں اور وہ جو تحریف کے الزام لگاتا ہے اس کو تمہارے اپنے محققین سچا ثابت کرچکے ہیں۔ کوئی بحث کی گنجائش ہی باقی نہیں چھوڑی۔ پس اب دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’یحزفون الکلم عن مواضعہ و نسوا حظامما ذکروا بہ‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں اور خدا کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ اس کی قرآن کیسے تصدیق کرسکتا ہے ۔ جس کے متعلق واضح طور پر فرما رہا ہے کہ جھوٹی باتیں تم نے خدا کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ ہم ان کے پول کھولیں گے۔ جو سچی باتیں ہیں وہ ہم کھول کر بتاتے ہیں۔ کون کون سی ہیں۔ اس سلسلے میں میں آپ کو بتاتا ہوں اب سب سے پہلے تو آپ کو بتائوں کہ ایک مشہور عیسائی discovery ہے‘ Scriptures سے متعلق۔ اب تک جو عیسائی بائبل کی بنیادیں ہیں ان کو آخر تک یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے تک نہیں لے جاسکے۔ بیچ میں ایک بہت بڑاصدیوں کا خلا ہے۔ جسے اب تک پُر نہیں کرسکے۔ قرآن پر تو حملے کرتے ہیں بعد میں بن گیا حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے مسلسل لکھا بھی جارہا ہے اور گواہ موجود ہیں‘ جب نسخہ بنایا گیا‘ اس وقت سب لوگ بار بار بلائے جاتے تھے۔ گواہیاں لی جاتی تھیں۔ نسخے کی تائید میں اور بائیبل کی authenticity کا جو اس وقت حال ہے۔ یہ ہے کہ قدیم ترین نسخہ جو واقعتہً مصدقہ کہلا سکتا ہے۔اب تک موجود ہے‘ وہ ایک ترجمہ ہے یا چند تراجم ہیں۔ و ہ کہاں ملے کب ملے وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔
On 26th May 1875 the monks of Saint Catherine made a remarkable discovery.
‏ Saint Catherine کے پادریوں نے ایک حیرت انگیز دریافت کی۔
Due to a fire in the chapel of Saint George built into the north side of monastery.
وہ جہاں Monks رہا کرتے تھے۔ راہب ان کے‘ وہاں اس کے شمالی حصے میں آگ لگ گئی۔
The monks decided to clear out wood under the chapel.
انہوں نے فیصلہ کیا کہ chapelکے نیچے جتنی بھی لکڑی پڑی ہوئی ہے۔ اس سب کو دور کردیا جائے تاکہ آگ پیچھے جاکر سارے chapal کو نہ تباہ کردے۔
On doing so they uncovered a long disused cell whose calling had caved in due to an earthquake which shook the monastery in the 18th centurey.
اٹھارویں صدی میں زلزلہ آیا جس کی وجہ سے وہ بیٹھ گئی۔monastry کئی جگہوں سے اور بہت سے ان کے ریکارڈز تھے جن کو اس ملبے نے دبا دیا۔
Among the discoveries were well over one thousand previously unkown documents.
کہتا ہے حیرت انگیز discoveryیہ تھی کہ تقریباً ایک ہزار documents جو بالکل ہمارے علم میں نہیں تھے۔ اب تک نامعلوم تھے اور ان monks کے علم میں بھی نہیں تھے۔ وہ نیچے سے نکل آئے۔
Written in Greek, Arabic, Syrian, Armenian, Ethiopian, Georgeian and Latin buried for nearly two hundred years unknown to the outside world for two thousand years.
‏ Two Thousand Years یاد رکھیں۔
کہتا ہے اگرچہ وہ دفن تو دو سو سال پہلے ہوئے ہیں لیکن باہر کی دنیا کو دو ہزار سال سے وہ معلوم نہیں تھے کہ وہ کیا ہیں؟
But the masterpiece of the discovery
اب دو ہزار سال کو 1975ء سے پہلے لیجائیں تو رسول اللہ صلعم کے زمانے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ یعنی بہت پہلے کا زمانہ ہے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان کے قریب کا زمانہ ہے۔
But the masterpiece of the discovery was codex Sinaiticus
یہ ہے Codex Sinaiticus جو اس وقت پیش نظر ہے۔ میںآپ کو تعارف کروا رہا ہوں کہ جب یہ کہتے ہیں۔
‏ Codex Sinaiticus تو اس سے کیا مراد ہے؟
اب سنیئے۔ ایک جرمن Tischaudorf جنہوں نے خود جاکر وہاں تحقیق کی‘ ان کے معائنے کئے‘ موجود حوالوں سے‘ پرانی کتب جو منسوب ہوتی تھیں۔ عیسائیت کی طرف‘ ان سے لفظاً لفظاً مقابلے کئے۔ بہت ہی گہرے عالم تھے بڑی محنت کی‘ وہ کہتے ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ :-
Tischandorf discovered among various versions of Bible the world oldest Bible in the Monastery of mount Sinai.
‏ Sinaiticus اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ Mount Sinai میں بائیبل تھی‘ یہ وہیں کی Monastory ہے۔ That is the Codex Sinaiticus.
Through his assertions that the codex sinaiticus were supreme among Biblical manuscrpts containing the complete New testament and unparalleled witness to the Old Testament he came to conclusion as to Its authenticity.
اس نے کہا اب تک جتنی کتابیں ہیں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد سب سے بلند پایہ یہ چیز ہے جس کا کوئی اور مقابلہ نہیں۔ اس کے حوالے سے ہم دوسری کتب کی تصدیق کریں گے۔
Among the discoveries at Saint Catherine monastery were codex sinaiticus, Codex Ceriax Codex Vaticenus and Codex Berbenex.
یہ کہتے ہیں وہاں جو monastry تھی وہاں سے یہ Codex Sinaiticus بھی نکلی ہے۔ یعنی یہ Codex Sinaiticus جو Sinai کی لکھی گئی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں اس کی طرف منسوب ہوتی ہے وہ بھی وہاں دریافت ہوئی۔ Codex بھی دریافت ہوئی جو Syrian Codex ہے۔ Codex Vaticenusبھی دریافت ہوئی اور Codex berenex بھی دریافت ہوئی۔
None of these text contain the last twelve verses of the Gospel of Mark.
یہ ہے Tischandrof کی تحقیق۔ کہتا ہے یہ چاروں کی چاروں گواہ ہیں کہ Mark کے آخر پر جو بارہ Mark کے فلاں Chapter ‘ last chapter کی آخری بارہ آیات جھوٹی ہیں‘ مصنوعی ہیں‘ ان کا ان میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔
’’یحرفون الکلم عن مواضعہٖ‘‘
اور اپنے ہاتھوں سے لکھ کر خدا کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔
Which are the verses which contain the discription of Jesus's resurrection and appearence.
یہ وہی آیات ہیں جن پر موجودہ عیسائیت بنا کرتی ہے کہ دیکھو حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان پر چلے جانے کا قطعی ثبوت ملتا ہے۔ یہ Tischandorf کہتا ہے کہ وہ ساری آیات ہی مصنوعی ہیں اور صاف پتہ لگ رہا ہے کہ وہاں کسی Scribe نے عیسائی عقیدے کو تقویت دینے کی خاطر یہ سراسر وہ جھوٹی کہانی گھڑ کر اپنی طرف سے یہاں لکھ دی ہے۔ اور بھی بہت سے حوالے ہیں چونکہ وقت تھوڑا ہے اس لئے میں باقیوں کو ترک کررہا ہوں لیکن اب دیکھ لیجئے کہ garble کون کرتا ہے‘ قرآن کریم یا تم لوگ یا تمہارے Scribes۔ یہ garbling ہوتی ہے۔ جہاںتک قرآن کریم کی باتوں کا تعلق ہے‘ میں ابھی اس پر آتا ہوں۔ اسی لئے میں جلدی کررہا ہوں کہ ان باتوں پر زیادہ وقت نہ لگ جائے۔
جو garbling اصل garblingہے بائیبل میں‘ اس کو قرآن کریم چھوڑ رہا ہے‘ اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا‘ یہ قرآن کریم کا احسان ہے‘ بائیبل پرکہ بتا رہا ہے کہ۔
’’مابین یدی‘‘
جو ہمارے سامنے ہے وہ سچا ہے جو ہم تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں پس وہ سچا ہے۔ جو ہم نے ترک کردیا ہے۔اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس میں سے ایک تو وہ حصہ ہے جسے تم نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور خدا کی طرف منسوب کردیا اس کی مثال میں نے دے دی۔ اور ایک ایسا حصہ ہے جو نہایت لغو باتوں پر ہذیانی باتوں پر مشتمل ہے جس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔
Solomon loved many foreign women.
یہ اس میں سے ایک ہے جس کو قرآن کریم رد کرتا ہے۔
Besides the daughter of the King of Egypt he married Heiti, Woman, a woman from Moaab, Anon, Edom and Sidon. He married them even though the Lord had commanded the Isralits not the intermarry with these people because they would call the Isralits to give their loyalty to other gods. Solomon married 700 princess and also had 300 concubine.
ایک ہزار پورے کرلئے۔
They made him turn away from God,یہ حضرت سلیمان کا تصور ہے جو کہ Solomon Temple
مشہور ہے جس کی وجہ سے بیچارے مسلمانوں کووہاں بار بار مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ ٹیمپل تم نے کیوں قبضہ کر لیا ہے
and by the time he was old. they have led him into the worship of foreign gods.
ان ہزار بیویوں نے‘ جب وہ پوڑھے ہوئے تو دیکھا کہ اب تو ان کا یہی مصرف رہ گیا ہے کہ ان سے شرک کروایا جائے۔ اس وتق ان کو پھر معبودان باطلہ کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کردیا۔
He was not faithful to the Lord, his God as his father David hare been.
کہتے ہیں یہ وفادار نہیں تھا۔ David کی طرح۔ اب جب David کو کہو تو وہاں بھی اتنے گند ڈالے ہوئے ہیں انہوں نے کہ اس کی بات آئے گی تو آپ حیران رہ جائیں گے۔یہ ہے وہ بائیبل کی garble جو خدا نے نہیں کہی۔ جو سراسر ٭کے اس garbleکو قرآن کے بیان پر مقابل کرکے دیکھیں تو تب آپ کو پتہ چلے گا کہ Word of God کیا ہوتا ہے اور Word of man کیا ہوتا ہے؟ زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک پاکیزہ کلام‘ انبیاء کی شان کے مطابق ان کے نقشے کھینچنے والا‘ یہ محسن ِ اعظم کتاب جس نے تمہاری تمام غلطیوں کی پردہ پوشی فرمائی اور احسان کے ساتھ اس گند کا ذکر بھی نہیں کرتا کہ ان لغو باتوں کو کیوں چھیڑا جائے۔ اسکو garble کہتے ہو اور اس garble کو خدا کا کلام کہہ رہے ہو۔ کہتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا تو برباد کردیتا اس شخص سلیمان کو لیکن مجبوری تھی کیوں؟ کہتا ہے۔
So the Lord was angry with Solomon and said to him because you had deliberately broken your covenant with me and disobeyed my commands I promise that I will take the Kingdom away from you and give It to one of your officials. However for the sake of your father David I`ll not do this in your life time.
یہ حضرت دائود کی خاطر کہتے ہیں چلو تم کرلو جو کرنا ہے۔
But during the reign of your son.
میں اس وقت اس Kingdom کو ختم کرونگا۔ قرآن کریم جو یہ بیان ‘ کیسی لغو بات ہے‘ جرم کوئی کررہا ہے اور سزا کی اور کو دی جارہی ہے ۔ قرآن دیکھیں کتنا خوبصورت کلام ہے اور کتنا سچا کلام ہے۔ فرماتا ہے سلیمان کا کوئی قصور نہیں تھا‘ اس نے جو دعا کی تھی اللہ نے قبول فرمائی۔ بے مثل حکومت اس کو عطا کی‘ اسکا بیٹا تھا جو ایک کیڑے کی طرح تھا۔ جو اپنے باپ کے عصا کو کھاتا چلا جارہا تھا۔ اس کی بدکرداریاں تھیں جو بالآخر اس سلطنت کے تباہ ہونے پر منتج ہوئیں اور اسی کے زمانے میں جاکر یہ ہوا ہے۔ تو بائبل یہ کہہ رہی ہے جس کو میں garbling کہہ رہا ہوں کہ یہ سارا قصور سلیمان کا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے دائود کی خاطر سلیمان کو سزا سے بچالیا اور یہی دلیل آگے چلی اور سلیمان کے گناہوں کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو تباہ کردیا۔ یہ ہے بائیبل کی وہ garble جو خدا کا کلام نہیں ہے۔جس کو قرآن واضح طور پر رد فرما رہا ہے۔
آگے جو حضرت لوط سے بائبل نے کیا ہے وہ تو ناقابل برداشت ہے۔ بیٹیاں تھیں دو‘ ان سے جو اولاد چلائی ہے وہ باپ کی اولاد چلائی ہے۔ انبیاء کا یہ تصور بائبل میں ہے‘ اس کو قرآن قبول کرتا تو تم کہتے بڑا سچا کلام ہے۔ یہ garble اور بکواس ہے‘ جس کو قرآن کلیتہً رد فرماتا ہے اور ان کے بیان کے مطابق جو اُن کی بیٹیوں کے بچے تھے وہ ان کے نانا کے بچے تھے۔ یعنی نانا ابا ان کے ابا تھے۔ ایسی خبیثانہ بات‘ آج کل کے زمانے میں جہاں بے حیائی عام ہوئی ہے۔ آج کل بھی ایسا واقعہ ہو تو منہ کالا کرکے لوگ جوتیاں مارتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ This is not garble a word of God.
ویری صاحب کہتے ہیں دیکھو
‏ Word of God کا موازنہ کرنا ہو تو قرآن کے کلام سے کرکے دیکھو‘ یہ بندے کا کلام ہے اور وہ Word of God ہے۔ جس کو قرآن نے مسخ کردیا اور بگاڑ کر پیش کیا ہے۔
پھر Word of Godجو بائیبل کا ہے۔ وہ کیاکہتا ہے‘ جس کو قرآن نے رد کیا ہے۔ مائیکل گرانٹ اس کی مثال دیتا ہے۔ مائیکل گرانٹ نے بہت اچھی Critical Study کی ہے۔ اور کہتا ہے کہ تم لوگوں نے بیہودہ باتیں بائیبل کی طرف خود منسوب کر رکھی ہیں اور کوئی اس میں سچائی نہیں ہے اور جو مسیح کی اصل پیشگوئیاں نہیں وہ روحانی معنے رکھتیں ہیں ان کو چھوڑ کر تم نے مسیح کی پیشگوئیوں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ یہ خود مائیکل گرانٹ عیسائی محقق اور بہت قابل انسان ہیں۔ ان کے متعلق biodata میں آپ کو بتائونگا اگر وقت ملا تو پھر آپ کو پتہ چلے گا۔ وہ کہتے ہیں ‘ مثال دیتے ہیں۔
For Jesus possess the sole of a realming compelling person which although determined enemies are sceptics resisted his power, made other people who believed they were suffering from demonic occupation come to believe insted that the spirits had been expelled. Healed as a …… activity possessing ancient and reverned association reflected in Issah's supposed asserts that the Lord had sent him to proclaim the recovery of sight for the blinds. And a further saying from the same book was quoted as well. He took away our illness and lifted our disease from us. There also many of other old testament precedent of wonderous cures notably that Prophet Elisha الیشعاہ healing a no man the leper. sbsequently such miracle was spoken all at Qumran Rabbi, Haneena bin dosa too.
‎ 1٭ sage of the first centurey AD was credited with similar healing miracles and so were many later Jewish Rabbies. Indeed miracles cure enjoyed far higher repute than healing by medical means. For although the Talmud reports the presence of doctor in all
‎2٭ Jewish communities, they wre ignored or slighted in the old testament and numerous popular stories too deprectated the profession.This edition is in a passage of Mark where physicians have said to make a sick woman work and according to one version of the text asserted that she has spent all she had on doctors.
یہ جو قصہ ہے‘ خلاصہ اس کا یہ ہے‘ اب میں سارے کا ترجمہ پڑھنے کا تو وقت نہیں ہے خلاصہ کہتے ہیں کہ دراصل مسیح کی طرف جو انہوں نے معجزے بنا کے منسوب کئے ہوئے ہیںیہ تو طالمود میں بھی مذکور ہیں‘ اس زمانے میں اور انبیاء کی طرف بھی منسو ب ہوتے ہیں اور یہ ایک پاپولر کہانیا ں تھیں‘ کہانی تھی کہ ڈاکٹرو ں کو تو معتوب کیا جائے‘ ان میں کیڑے ڈالے جائیں کہ ان سے تو کچھ نہیں ہوتا اور جن جو ہے وہ صرف خدا والوں کے قابو میں آتے ہیں۔ یہ وہی جہالت ہے جو آج کل ہمارے ملک میں بھی پائی جاتی ہے۔ انگلستا ن میں بھی ایک بیچاری بچی کو چند سال پہلے ایک جن نکالنے والے مولوی نے مار مار کے جان سے ہی مار دیا اور وہ مقدمہ یونہی چلتا رہا ہے۔ بڑی دیر تک ٗ وہ قید ہے غالبا, آج کل۔ کوئی پیر صاحب تھے جو غالبامباھلے کے زمانے میں بھی بڑا بولے تھے۔…… میں نے سارے درج کروائے ہوئے ہیں کہیںٗ بہرحال یہ وہ ہیں جن نکالنے والے مولوی جو قدیم سے چلے آرہے ہیں تو گرانٹ صاحب کہتے ہیں کہ یہی معجزے تم نے منسوب کردیئے حضرت مسیح کی طرف۔ پھر حوالہ دیتے ہیں کہ وہ واقعہ دیکھو ذراٗ وہ کوئی واقعہ ہے قابل قبول۔ کہتا ہے مسیح نے ایک شخص کا جن نکالا آخر۔ اور اس کے کہنے پر اصرار پر اس نے کہا جی میرا جن نکال دو اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس نے کہا اچھا میں نکالتا ہوںٗ لیکن یہ جن کہاں ڈالوں گا اورٗ تو پھر دو ہزارٗ ایک روایت میں لکھا ہوا ہے دو ہزار سور چررہے تھے وہاں۔ جب وہ جن نکالا تو وہ جن دو ہزار سوروں میں داخل ہوگیا۔ اور سوروں کو ایسا پاگل کیا جن نے کہ انہوں نے سب نے دوڑتے ہوئے چٹان سے چھلانگیں مار کر ایک جھیل میں غرق ہوکر خود کشی کرلی ۔ اس جن سے اب نجات کا ایک ہی رستہ ہے کہ ہم ہی مرجائیں۔ یہ کہانیاں گرانٹ کہتا ہے بائبل میںراہ پاگئی ہیںٗ یہ garble وہاں سے نکالو یا کم سے کم ان کے معنے سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ ہے جو قرآن نے کیا ہے کہ ایسی ساری garble کو نظر انداز کردیا ہے۔ معجزوں کو بیان فرمایا لیکن اس شان کے ساتھ کہ وہ معجزے قابل فہم ہوگئے ۔ اسی محاورے کو دوسری جگہ استعمال کرکے ان پر روشنی ڈالی بتا یا کہ مسیح یہ کیا کرتے تھے اور وہ خلافِ عقل نہیں ہیٗ تمام باتیں عقل کے مطابق ہیںجو قرآن پیش کررہا ہے۔ اس کو ویری صاحب garblig کہتے ہیں اور garbling ہوئی کیا ہے وہ مثال دے دی ہے میں نے۔
کیوں جی اگلا مواد کہاں ہے وہ اردو والے کہاں ہیں حوالے سارے۔
کیوں جی !کیوں جناب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب ٗ کچھ بتائیں۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں وقت بچانے کیلئے حوالے۔ چونکہ میں نے کچھ نظر انداز کردیئے ہیں اس لئیٗ مثلاً مائیکل گرانٹ یہ بحث کرتا ہے کہ بہت سی باتیں بائیبل میں داخل کردی گئیں ہیں۔ جن کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ اس میں وہ بحث کے بعد آخر پر conclude کرتا ہے۔
One must conclude therefore that the positive answer, I am, was a later amendment to meet the requirement and expectation of the church after Jesus death.
ارادے کے ساتھ خود انہوں نے تحریف کی ہے۔ جب وہ Pilate کے سامنے مسیح پیش ہوئے ہیں اور بعض سوالات کے جواب میں کہا۔ It is what you say. جیسا کہ تم کہہ رہے ہوٗ اور جہاں یہ آیا ہے کہ کیا تم سمجھدار ہو وہاں کہا ہاں۔ کہتا ہے یہ قطعی طور یہ ثابت ہوتا ہے اسی کو Versay (ورسے) جو ایک بہت بڑے سکالر ہیںٗ زندہ ہیں آجکلٗ وہ بھی اس کی تائید میں کہتے ہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مسیح نے کہیں نہیں کہا تھا کہ میں ہوں Son of God۔ اس نے کہا تھا کہ تم کہہ رہے ہو بسٗ یہی باتیں دہراتا تھا ہر بات میں۔ یہ وہ مثال ہے جو وہاں سے لی گئی ہے۔
’’ویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عنداللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا فویل لھم مما کتبت ایدیھم و ویل لھم مما یکسبون‘‘
اس کی مثال اب میں دے چکا ہوں۔ترجمہ یہ ہے کہ ہلاکت ہو ان لوگوں کیلئے جو اپنے ہاتھ سے کتاب کو لکھتے ہیں۔ پھر وہ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ’’لیشتروا بہ ثمناً قلیلا‘‘ اس سے تھوڑا سا دنیا کا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔’’فویل لھم مماکتبت ایدیھم‘‘ ہلاکت ہو ان کے لئے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا و ویل لھم مما یکسبون اور ہلاکت ہو اس مال کی اس فائدے کی جو انہوں نے کمایا۔
قرآن کریم نے جو باتیں بائیبل کے متعلق کہی ہیں اگر وہ garble ہیں تو اس کی مثالیں سُن لیجئے کہ وہ garble کیا ہے۔
’’قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء ٍ بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئاً‘‘
کہ کہہ دے اے اہل کتاب ‘ اس کلمۃ کی طرف آجائو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ’’الا نعبد الا اللہ و لا نشرک بہ شیئا‘‘ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور اس کا کوئی شریک نہیں ٹھہرائیں گے اس کے حوالے کہاں رکھے ہیں
کس کو درست کہیں۔Christ instructs his followers to worship.
یہ بائیبل میں ہے۔
Jesus said the time approachs indeed It is already here when who are really worshipers will workship the father in spirit and intruth. Such are the workshipers whom the father wants.
صرف خدا کی عبادت کی تلقین فرمائی ہے۔ اور قرآن یہی کہہ رہا ہے کہ مسیح نے خدا کی عبادت کی تلقین کی تھی رب کی‘ جس کو تم فادر (father) کہہ رہے ہو۔ اور کسی کی عبادت کی تلقین نہیں کی۔ اس لئے خدا کی طرف garble منسوب نہ کرو اور ویری صاحب کہتے ہیں یہ garble ہے۔ اب بائیبل سے حوالہ پڑھ دیا اب بتائیں garble کیا ہے؟ یہ تم اس آیت کی طرف باتیں منسوب کررہے ہو۔ اس قسم کی آیات کے خلاف وہ garble ہے جو قرآن کہہ رہا ہے وہ سچا ہے۔
God is Spirit and those who worship Him must worship in Spirit and truth.
یہ دوسرا حوالہ ہے: John 4:23, 24
پھر فرماتے ہیں مسیح Luke 24:39
Behold my hands and my feet that it is myself. Handle me and see for a Spirit has not flesh bones as you see me here.
فرماتے ہیں خدا Spirit ہے۔ Spirit میں اس کی عبادت کرو۔ اور میں‘ آئو میرے ہاتھ لگا کر دیکھو‘ یہ felsh ہے یہ bones ہیں یہ Spirit نہیں۔ تو اپنی عبادت کا نہ صرف‘ عبادت کی طرف دعوت نہیں دیتے بلکہ اس تصور کو جھٹلا رہے ہیں کہ ہو ہی نہیں سکتا۔ میری عبادت کیسے کرو گے۔
God is Spirit and those who worship Him must worship in Spirit and in truth. Behold my hands and my feet that it is myself. Handle me and see for a Sprit has not flesh and bones as you see me here..
آگے سنئیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ Trinity کا بائبل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
یہ وہ حوالے ہیں جن کے متعلق میں بتا رہا ہوں‘ میں ان حوالوں کا اب ذکر کررہا ہوں‘ جن کے متعلق یہ کہتے ہیں۔ Cardinal Claims جو تھے عیسائیت کے‘ ان سب کی تکذیب کردی اور پھر کہتے ہیں ہم تصدیق کررہے ہیں۔ قرآن کریم کی تصدیق کے معنے ہمیں سمجھا دئیے ۔ اس کے متعلق یہ بتا دیا کہ جو باتیں بائیبل نے نہیں کہیں‘ وہ ہم نشان لگائیں گے ان پر کہ یہ نہیں کہیں اور جو تم نے اپنی طرف سے بنالی ہیں وہ بے شمار ہیں جن کا ہم ذکر بھی نہیں کرتے جو Cardinal دعاوی ہیں Christainity کے ان کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن کریم یہ فرماتا ہے‘ وہ میں سنتا ہوں۔
’’ یا ھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم‘‘
اے اھل کتاب ! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو
’’ولا تقولوا علی اللہ الا الحق‘‘
خدا کی طرف garbleمنسوب نہ کرو۔ الٹا یہ قصہ چل رہا ہے۔ قرآن کہتا ہے خدا کے لئے garble منسوب نہ کرو خدا کی طرف‘ حق کے سوا جو تم مصنوعی باتیں بناتے ہو اسی کو garble کہتے ہیں۔
انما المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ و کلمتہ
مسیح ابن مریم اللہ کے رسول ‘ اس کا کلمہ ہیں۔ کیا یہ garble ہے۔
’’القھا الی مریم و روح منہ ‘‘
اسے مریم کی طرف اللہ نے اتارا‘ اور خدا کی طرف سے زندگی پانے والا روحانی وجود بننے والا مسیح روح ہے‘ جو اس کی طرف سے آیا تھا۔’’فامنوا باللہ و رسلہ‘‘
اللہ پر اس کے رسولوں پر ایمان لے آئو۔
’’ولا تقولوا ثلاثہاور تین نہ کہو۔
’’انتھوا خیرا لکم‘‘باز آجائو تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔
’’انما اللہ الہ واحد‘‘اللہ واحد ہی ہے ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ سبحانہ ان یکون لہ ولد لہ مافی السموت وما فی الارض‘‘یہ کہتا ہے Cordinal جو ہمارا دعویٰ تھا بائیبل کا‘ اس کی تصدیق کرنے کے بعد Cordinal دعوئوں کی تکذیب کردی اب اس کی‘ بائیبل کا دعویٰ ہے بھی کہ نہیں‘ اس پر بات سُن لیجئے۔
"(THE NEW BIBLE DICTIONARY OF THE TRINITY)"
یہ ان کی آج کل کی نیو بائیبل ڈکشنری ہے‘ وہ "Trinity" پر کیا کہتی ہے۔
The word "TRINITY" is not found in the Bible.
ایک Cardinal دعویٰ تھا جس کو خدا نے جھوٹا‘ جھوٹا کیا کیا۔ تھا ہی نہیں وہاں ذکر کیسے کردیتا؟ اگر garble کرتا تو سچا سمجھتے تم اس کو۔ garble نہیں کیا تو جھوٹا کہہ رہے ہو۔ کیسی زبردستی ہے۔ "Trinity" کی تعریف میں لکھتا ہے۔
The word "TRINITY" is not found in the Bible. Though, it is not a Biblical doctrine in the sense that any formulation of it can be found in the Bible. It can be seen to underlying the revelation of God.
کہتا ہے اگرچہ یہ اس قسم کا Biblical Doctrine نہیں ہے کہ اس کی معین شکل وہاں پائی جانی ضروری ہو۔ اب بہانہ دیکھا ہے کس طرح نکل رہے ہیں۔ اس میں سے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ underlying اس کے اندر اگر اتر کے دیکھیں‘ ڈوب کے دیکھیں تو اس کا مضمون سمجھ آجائیگا۔
By this we mean that though we cannot speak confidently of the revelation of the Trinity in the Old Testament we can read back many implications of It in the Old Testament.
کہتا ہے Old Testament میں تو تثلیث کا کوئی ذکربھی نہیں کہیں ملتا۔ یہ تسلیم ہے۔ لیکن اگر ہم اپنی مرضی سے اس میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کریں اور گھومیں پھریں ادھر ادھر تو کچھ نہ کچھ ہمارے ہاتھ آجائے گا۔یہ ہے garbling اور جب قرآن کہتا ہے کہ trinity کا کوئی ذکر نہیں تو بالکل درست کہتا ہے۔ لیکن قرآن ایک اور بات بھی کہتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ یہ جو انہوں نے trinity بنا رکھی ہے۔ اور خدا کی طرف باتیں منسوب کرتے ہیں۔ یہ اس سے پہلے پرانے لوگوں نے بنائی ہوئی تھیں‘ یہ تو نقالی کررہے ہیں۔ یہ بد خیالات بائیبل میں مسیح نے پیش نہیں کئے تھے۔ پرانے معبود ان باطلہ کے تصورات جو رومن امپائر میں اس پہلے ملتے تھے،پرانے زمانے کے legend اور Myth‘ ان سے لیا گیا ہے۔ اس کے متعلق۔
History of the Old Testament by Dr. Paul Hynish.
The religious background of the Bible by Jane Sconfield.
اس نے جو لکھا ہے وہ یہ ہے۔
یہ خلاصہ دیا ہوا ہے یہاں ان کی کتاب کا۔ میں نے کہا اصل حوالہ لے لینا جب یہ مضمون چھپے گا تو اس میں داخل کردیں گے۔ ان دو کتابوں کے حوالے سے میں آپ کو بتا رہا ہوں‘ و ہ کہتے ہیں کہ
They confirm that the view that in the prechristian Roman deity seem to be ideal of the Trinity existed. So Chirstains followed superstition and Roman and Egyption mythology.
ان کی کتابوں میں تفصیل سے ذکر ہے۔ ہمارا جو ریسرچ گروپ ہے۔ اس کے پاس سارے حوالے میں نے اکٹھے کروائے تھے۔ یہ ان کے پاس موجود ہیں فائل میں۔ اس وقت تفصیلی طورپر موجود نہیں۔ خلاصتہً اتنا کافی ہے کہ یہ دو Author ہیں۔ History of the Old Testament کے Author‘ Doctor Pole Hymish اور The religious background of ‘ The Bible by Jane Sconfield ان کا مطالعہ آپ کو بتادے گا رومن ہی نہیں بلکہ Egyption Mythology میں یعنی و ہ فرضی خدائوں کی دیو مالائی کہانیاں جن کو کہتے ہیں‘ ان میں Trinityکا تصور پایا جاتا تھا۔ اس لئے قرآن درست کہتا ہے کہ یہ نہیں کہہ رہا‘ اب میں بتا رہا ہوں۔ ان کے‘ عیسائیوں کے حوالے سے بتا رہا ہوں کہ قرآن نے بالکل درست فرمایا تھا کہ Trinity کی تم نے‘ نقل اتاری ہے۔ بائیبل میں اس کا وجود نہیں‘ دونوں ثبوت میں نے پیش کردیئے ہیں۔ اب بتائیے کہ قرآن کریم جو یہ کہتا ہے۔
’’قل یاھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سوائ‘‘
کیا یہ garbleہے؟ قرآن کریم جو یہ فرماتا ہے۰
’’وقفینا علیٰ اثارھم بعیسیٰ ابن مریم مصدقاً لما بین یدیہ من التوراۃ و اتینہ الانجیل فیہ ھدیً ونوراً ومصدقا لما بین یدیہ من التوراۃ وھدی و موعظۃ للمتقین‘‘
کہ ہم نے اس کے بعد ان کے آثار پر عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو تصدیق کررہا تھا اس تورات کی جو اس کے پیش نظر تھی۔
و آتینہ الانجیل
اس کو ہم نے انجیل دی‘ اس میں ہدایت تھی اور نور تھا اور وہ تصدیق کرنے والا تھا‘ اس کی جو اس کے پیش نظر تھا‘ یا خود اس کا مصداق بن کر آیا‘ ’’من التوراۃ‘‘ جو تورات میں اس کی پیشگوئیاں درج تھیں‘ ان کا وہ مصداق بن کر آیا تو دونوں معنوں میں یہ بیان ہوا ہے‘ ایک جگہ ’’مصدقا‘‘ کو ایک معنے میں استعمال فرمایا ہے دوسری جگہ دوسرے معنوں میں۔
’’وھدی و موعظۃ للمتقین‘‘
اور وہ ہدایت تورات میں‘ نصیحت بھی تھی تقویٰ والوں کے لئے اور ہدایت بھی تھی یہ garble ہے یعنی عیسائیوں میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ garble ہے۔
یسئلک اھل الکتاب ان تنزل علیھم کتابا من السماء فقد سا لوا موسیٰ اکبر من ذلک فقالوا ارنا اللہ جھرۃ‘‘
قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم آسمان سے کتاب لا کے دکھائو‘ حالانکہ تمہی لوگ ہو‘ تمہارے جیسے لوگ تھے ‘ تمہارے قماش کے لوگ تھے‘ جنہوں نے موسیٰ سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا‘ کہا تا کہ خود خدا کو ہمیں دکھا دو۔آمنے سامنے۔ یہ garbleہے۔ کیا یہ نہیں درج‘ بائیبل میں یہ لکھا ہوا نہیں ہے۔
’’و رفعنا فوقھم الطور بمیثاقھم‘‘
یہ واقعہ جو ذکر ہے کہ ہم نے طور کو ان پر بلند کردیا‘ یہ کیا garble ہے؟ سو فیصدی یہی بات ہے جو بائبل میں لکھی ہے۔ جو garble قرآن کریم نہیں لکھ رہا‘ اس کا تم ملزم قرار دے رہے ہو اور اس کی چند مثالیں میں نے انگریزی میں پڑھی تھیں اب میں اردو میں چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
’’ جب نوح اپنی مئے کے نشے سے ہوش میں آیا تو جو اس کے چھوٹے بیٹے نے اس کے ساتھ کیا تھا اسے معلوم ہوا‘‘
یہ انبیاء کا تصور ہے بائبل کا۔ یہ ان کو suit کرتا ہے کیونکہ اس طرح پھر اکیلا مسیح باقی رہ جاتا ہے میدان میں‘ اور مسیح کیسے باقی رہا جب اس کی زندگی کا اکثر حصہ ہمارے علم میں نہیں ہے‘ ہم سے مخفی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی‘ آپ کی ازواجؓ کی زندگی‘ آپ کے صحابہؓ کی زندگی‘ جس طرح کھلی ہوئی کتاب کے طو رپر سب دنیا کے سامنے اور محفوظ ہے اور روایتاً آخر تک پہنچتی ہے‘ سلسلہ بہ سلسلہ اورمحض فرضی قصے پہ اس کی بنیاد نہیں ۔ اس کے مقابل پر حضرت مسیح ؑ کی زندگی پر یہ باتیں لکھ رہے ہیں آج کل‘ اندازے لکھ رہے ہیں کتابیں لکھ رہے ہیں کہ Unknown life of Chirst بہت زیادہ ہے۔ known life سے۔ جس مسیح زندگی کے متعلق ہم جانتے ہیں وہ تو چند سال ہیں آخر کے۔ باقی تو ہمیں کچھ پتہ نہیں‘ تو ہمیں کیا پتہ کیا کرتے تھے۔ معصومیت کی گواہی تب ہوتی ہے جب ساری زندگی سامنے ہو اور ہم کہہ سکیں کہ دیکھو تمام زندگی میں بے داغ رہا۔ قرآن کریم نے اس اصول کو اس طرح پیش فرمایا ہے۔
’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون‘‘
تمہارے سامنے میں ایک پوری عمر رہا ہوں‘ میرا بچپن کا زمانہ تمہارے سامنے ہے‘ میرا آغازِ جوانی تمہارے سامنے ہے۔ میرا بڑھاپے کی طرف مائل ہونا تمہارے سامنے ہے۔ جب میں چالیس سال کو پہنچ گیا تو یہ سارا کردار میری پُشت پناہی پر کھڑا تھا کہ یہ سچا انسان ہے‘ یہ امین ہے‘ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ تو یہ چیزیں بھُلا کر تم مجھ پر یہ گندے الزام لگا رہے ہو۔ ایسی کوئی گواہی مسیح کے متعلق تو ہمیں نہیں ملتی۔ ہم کہتے ہیں مسیح سچا ہے‘ ہم کہتے ہیں مسیح پاک تھا‘ اس لئے کہ قرآن کہتا ہے۔ قرآن نے پاک قرار دیا ہے۔ اگر یہ بنیاد بنا رہے ہو کہ ایک ہی رسول ۔یہ میں اس بات پہ آرہا ہوں اب صرف ا یک ہی رسول ہے جو پاکباز ہے تو قرآن نے تو ہر رسول کو پاکباز قرار دیا ہے‘ اس نے کہاں (نعوذ باللہ) فرضی طور پر انبیاء میں گند گھولے ہیں اور ان کی ذات اور کردار کو مجروح کیا ہے‘ کہیں بھی نہیں کیا۔ پس قرآن کریم کی بات کرتے ہو تو پھر پوری بات کرو‘ قرآن صرف مسیح کو پاکباز قرار نہیں دیتا‘ مسیح کو پاکباز قرار دیتا ہے‘ اس کی ماں کو بھی پاکباز قرار دیتا ہے۔ جس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں تھا نہ ہوسکتا تھا۔ تم آج کل گندی باتیں لکھ رہے ہو‘ عیسائی ہونے کے باوجود‘ لیکن قرآن نے چونکہ ہمیں بتادیا ہے کہ دونوں پاک تھے‘ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس کی گواہی دیتے ہیں کہ پاک تھے۔ دوسری جو garbles ہیں وہ میں بیان اگر کروں تو ہمارا رمضان گندہ ہوجائے گا‘ اللہ معاف کرے‘ میں فی الحال چھوڑ دیتا ہوں۔
اب میں آخری بات کی طرف آتا ہوں۔ وہ کہاں گیا‘ اوھو اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے ابھی یاد آئی آخری بات۔ میں یہ پہلے سے کہہ رہا تھا کہ حوالے زیادہ ہیں ختم ہونے نہیں ہیں۔ میں نے اسی لئے چھوڑ دیئے ہیں بہت سے جو ضروری بات ہے آخری وہ یہ ہے کہ ویری صاحب جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ سننے کیلئے بیتاب ہوں گے کہ کیا ہے۔
عالم اسلام کی نمائندگی میں مسلم کانفرنس 4 سے 9 اپریل 1906ء قاہرہ میں انہوں نے جوتقریر فرمائی‘ اس تقریر میں یہ کہتے ہیں۔’’گذشتہ چند سالوں میں شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں دو تحریکات خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کے اندر دو جماعتیں ابھری ہیں جن کو عرب فرقہ تصور کیا جاتا ہے‘ ان میںسے ایک جماعت کی بنیاد تو مرحوم سرسید احمد خان نے رکھی۔ اس کو جدید اسلام کہا جاتا ہے۔’’دوسرا فرقہ جس کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے اس کی بنیاد مرزا غلام احمد آف قادیان نے پنجاب میں رکھی۔ یہ فرقہ اپنے آپ کو احمدیہ کہتا ہے۔ اس کے بانی کا دعویٰ ہے کہ وہ بیسویں صدی کے مہدی مسیح ہیں۔ وہ نبی ہونے کا اور آخری زمانے کے مسیح ہونے کا دعویدار ہے۔ یہ فرقہ ایران کے بابیوں سے بہت تعلق رکھتا ہے‘‘۔
اب اس کو Garbling کہتے ہیں۔ کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں ہے‘ نظریات میں کسی پہلو سے عمل میں زندگی کے کسی شعبے میں بھی‘ احمدیت کو نہ بابیوں سے کوئی مشابہت نہ بہائیوں سے کوئی مشابہت۔ ہم کلیتہً قرآن کے تابع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام‘ اسلام کے ذرے ذرے ہر شعشے پرعمل کرنے والے‘ اور وہ ان سے کلیتہً آزاد۔ اب یہ سوال ہے کہ کیا ان صاحب کو بابیوں کا اور بہائیوں کا علم نہیں تھا‘ یہ وہی رجحان ہے جو ان لوگوں نے ڈالاہے۔ مسلمانوں کو احمدیت سے بدظن کرنے کیلئے‘ یہ ان سے ڈرتے ہیں‘ یہ ان کو بہائیوں سے ملا کر لوگوں کو متنفر کرتے ہیں۔
’’جدید اسلام کی تعریف کرتا ہے یہ فرقہ بھی سب مسلمانوں کے نزدیک خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ ایک بدعتی تحریک ہے۔ اس تحریک نے تعلیم یافتہ لوگوں کی خاصی تعداد کو متاثر کرلیا ہے۔‘‘
یہ مانتا ہے۔
’’لیکن اس کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ فرقہ احمدیہ اپنے اندر ان کو پناہ دے دیتا ہے جو راسخ العقیدہ مسلمانوں کے روایتی خیالات کا مزید ساتھ نہیں دے سکتے‘‘۔
پنجاب میں مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کی رہنمائی میں اٹھنے والی اس خارج المرکز تحریک کو ان چند لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے اپنے آبائو اجداد کے مذہ کو عملاً ترک کردیا ہے۔اچھا لیکن اس تحریک میں پائیداری کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے‘‘۔ 1906ء میںتھا۔1896 ء میں یہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہ تحریک ہے اس میں کوئی پائیداری کے آثار نہیں پائے جاتے۔ اس میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنے روایتی خیالات اور Orthodox اسلام کے تصور سے بدظن ہوچکے ہیں‘ پھر لکھتا ہے کہ ان کو اسلام میں کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا‘ وہ اس سے خوش نہیں ہیں جو اسلام ان کو عطا کرسکتا ہے۔ اس لئے پناہ گاہ ڈھونڈ رہے ہیں احمدیت میں۔ ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اس کے نزدیک احمدیت کا تصور اسلام ایک پناہ گاہ ہے‘ جہاں وہ لوگ جو پرانے تصور سے بدظن ہیں‘ وہ پناہ ڈھونڈتے ہیں شوق سے۔ لیکن یہ بھی کہتا ہے کہ اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے آگے اس کے چلنے کی۔یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اس نے 1896ء میں ہندوستان میں یہ مضمون لکھا اور کہا کہ احمدیت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میں آج تمہیں بتاتا ہوں۔ جس ملک کا ‘ ویری اس ملک کا باشندہ نہیں مگر مغرب کا ہے‘ مغرب کے مرکز سے لندن سے آج میں بیٹھ کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ ویری جھوٹا تھا۔ Garble کررہا تھا۔ اس نے جو پیشگوئی کی وہ سراسر جھوٹی نکلی اور یہ کہنا کہ صرف چند مسلمان روشن خیال احمدیت میں داخل ہورہے ہیں‘ یہ ملک گواہ ہے۔ آج یہاں ایک عیسائی اعتکاف بیٹھے ہوئے ہیں۔ خدا کے فضل کے ساتھ‘ اسی مسجد میں۔ یہ صداقت کا اعلان کررہے ہیں کہ احمدیت تمام عالم کو بالآخر اسلام میں لے کے آئے گی۔ افریقہ میں جو لاکھوں لاکھ عیسائی توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوئے ہیں‘ افریقہ میں جو احمدیت نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے‘ یہ تمام باتیں گواہ ہیں کہ ویری اور اس جیسے لوگوں کی تمام پیشگوئیاں‘ دل کی باتیں‘ دل کی فاسد تمنائیں تھیں جن کو تاریخ نے جھوٹا ثابت کردیا ہے۔ پس جو اعلان اس نے ہندوستان میں کیا تھا‘ آج میں مرکز تثلیث میں بیٹھ کر اس کی ترید کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے احمدیت زندہ ہے اور پہلے سے بڑھ کر زندہ ہے۔ دنیا کے 134 ممالک میں پھیل چکی ہے اور ہندوستان اور افریقہ میں جو تم نے عیسائیت کو پھیلانے کے لئے تمام تر کوششیں کی تھیں‘ سلطنتوں کی پشت پناہی تمہیں حاصل تھی‘ اربوں روپے تمہیں میسر تھے‘ ان ساری کوششوں کے باوجود تاریخ کے دھارے کا رخ احمدیت نے موڑ دیا ہے۔ افریقہ کے متعلق تمہاری چرچوں کی کونسل تسلیم کرتی ہے کہ ہم نے اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک سلسلہ جاری کردیا اور خیال تھا کہ اگلے پچاس سال کے اندر ہم افریقہ پہ قبضہ کرلیں گے‘ مگر ایک جمات اٹھی‘ جس کا نام احمدیہ جماعت ہے‘ جس نے ہماری ساری کوششوں کو نامراد کردیا اور اب اگر ایک عیسائی ہوتا ہے تو اس کے مقابل پر احمدی عیسائیوں میں سے 10 مسلمان کررہے ہیں‘ مشرکین میں سے۔ پس یہ ہے تمہاری garble کا حال‘ یہ ہے تمہارے علوم کی حقیقت‘ مبلغ علم تمہاری یہ ہے۔ احمدیت اللہ کے فضل سے اسلام کی خدمت کرتی رہے گی اور بالآخر اسلام ہی ہے جو دنیا پر غالب آئے گا۔ کیونکہ سچے اور واحد خدا کا نمائندہ عالمگیر مذہب اگر کوئی دنیا میں ہے تو اسلام ہی ہے اب میں اجازت چاہتا ہوں ۔ ’’کیوں جی اب وقت ختم ہوگیا ہے یا آدھا منٹ ہے؟ ہیں؟ اچھا ٹھیک ہے۔ جزاک اللہ‘‘ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ درس جو ہے یہ اس رمضا کے سلسلہ درس کا آخری درس نہیں ہے ایک درس ابھی باقی ہے‘ کل ناغہ ہوگا اور اس کے بعد ہفتہ کو ایک روایتی درس ہوتا ہے جو آخری تین سورتوں کے تعلق میں دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دعائوں کے اعلانات ہوتے ہیں۔ تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم ہفتہ کو پھر صبح گیارہ بجے اکٹھے ہوں گے۔ اور وہ جو دو اعتراض رہ گئے تھے۔ اعتراض یا سوالات وہ بھی اگر اسی ضمن میں بیان ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں۔ یعنی تین سورتوں پر مختصر گفتگو بعد میں ہوجائیگی۔ پہلے وہ دو باتیں جو زیر نظر ہیں۔ درس کے تعلق ہی میں دو سوال ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے کے اختتام سے پہلے ان کا جواب دے دیا جائے۔ باقی پھر انشاء اللہ ہفتے کو اور پھر عید پر انشاء اللہ ملاقاتیں ہوں گی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن و اختتامی دعا29 رمضان المبارک
11 مارچ 1994ء
شروع میں حضور انور نے پاکستان میں عید کے بارے میں استفسار فرمایا……
اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کے درس کے آغاز سے پہلے میں نے چند سوالات کے جوابات کی بات کی تھی مگر آج صبح جب میں نے ان سوالات کو دیکھا ہے تو اگر ان سب پر گفتگو ہوجائے تو سارا درس اسی میں نکل جائے گا۔ اس لئے آج میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہہ دیا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد جو بات چیت کا پروگرام ہوتا ہے۔ اس میں ہم ان سوالات کو لے لیں گے اور اس درس کے مزاج کے ساتھ ویسے بھی ان کا تعلق نہیں۔ صرف ایک سال ہے جس کا مختصر جواب میں دے دیتا ہوں۔ وہ کینیڈا سے امیر صاحب نے بھجوایا ہے۔ ایک غیر احمدی دوست نے درس کے دوران جب ماخلکقم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ…ان اللہ سمیع بصیر پر تفسیر ۔۔ہیں۔(ان کا اپنا سوال ہے) اچھا I'm sorry غیر احمدی کا نہیں اچھا۔ انہیں غیر احمدیوں کی طرح سوال کرنے بھی آتے ہیں۔میں تو یہی سمجھ رہا تھا۔میں نے کہا بہرحال …اچھا ماشاء اللہ… تمہید میں انہوں نے غیر احمدی کا ذکر کیا تھا اوربعد میں اپنا سوال کیا ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہتے ہیں۔ یہاں آپ نے فرمایا ہے کہ ماخلقکم ولا بعثکم الاکنفس واحدۃ۔اس میں بچے کی پیدائش کا ذکر کیا ہے کہ جس طرح آغاز کے وقت اس کی جو حالت ہوتی ہے وہ اتنی معمولی اور بے حقیقت نظر آتی ہے کہ اس کا موازنہ اگر اس بچے سے کیا جائے جو نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے تو زمین‘ آسمان کی نسبت ہے۔ اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد کی روح کی کیفیت اور اٹھائے جانے کے وقت کی روح کی کیفیت میں فرق ہوگا۔ وہ کہتے ہیں یہ اگر تسلیم کیا جائے تو یہ تو نو مہینے کے اندر ہوجاتا ہے تو پھر کیا ہمیں نو مہینے کے اندر دوبارہ جی اُٹھنا ہے اور پھر اور بہت سے سوال اس کے ساتھ اٹھائے ہیں کہ آدم کے وقت سے لیکر اب تک مختلف وقتوں میں لوگ مرتے رہے ہیں کیونکہ نو ۔ نو مہینے پورے ہوئے تو مدتیں گزر گئیں۔ تو دراصل اس کے اوپر تفصیل سے میں دوسری جگہ روشنی ڈال چکا ہوں۔ نفس واحدۃ کا ذکر صر ف بچے کی پیدائش میں نہیں آتا بلکہ زندگی کی پیدائش کے ساتھ بھی نفس واحدۃ کا ایک تعلق ہے اور قرآن کریم اسی حوالہ سے فرماتا ہے۔ یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا۔ ابھی انسانوں کی پیدائش کا کوئی ذکر نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی کے آغاز کی بات ہورہی ہے۔جبکہ زندگی نفس واحدۃ سے چلتی تھی اور دو قسم کے نفوس۔ یعنی مذکر اور مئونث یا میل ’’Male‘‘ اور فی میل Female وجود میں نہیں آئے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا۔ پھر اس میں سے اس کا جوڑا ہم نے نکالا۔ وبث منھما رجالا کثیراً اور انسان تو بہت بعد میں پیدا ہوا ہے۔ جب وہ دو ہوچکے اور دو نے مل کر زندگی پیدا کرنی شروع کی پھر انسانوں کی باری آئی ہے۔ وبث منھما رجالا کثیراً و نسائً اس کے اوپر میں پہلے بہت بارہا روشنی ڈال چکا ہوں کہ یہاں بہت ہی پرانے قدیم ترین زمانے کی بات ہورہی ہے۔ جو ہوسکتا ہے ایک ارب سال پہلے کی بات ہو۔ تو اس پہلو سے نفس واحدۃ کی پیدائش کا ایک اور مضمون بھی تو ہے۔ ایک پہلو سے ۔۔۔۔۔ ہم بچے کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔ ایک پہلو سے جب اگر زمانہ دیکھتا ہو اور پہلے اور آخری واقعہ کا آپس میں فاصلہ دیکھنا ہو تو یہ آیت مدد کرتی ہے اور یہ جو آیت ہے اس کا تعلق ایک اور مضمون سے بھی ہے جو نفس واحدۃ کی اس مثال پر صادق آتا ہے‘ جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں جن منازل سے تم گزرتے ہو۔ ان پر بھی غور کرو۔ ھوالذی یصورکم فی الارحام کیف یشائ۔ وہی ذات ہے جو تمہیں مائوں کے پیٹ میں ارحام میں جس طرح چاہتا ہے ارحام میں جس طرح چاہتا ہے شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ لاالہ الا ھوالعزیز الحکیم۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اللہ کے سوا۔ وہی ہے جو بزرگی والا ۔ غالب اور حکمت والا ہے۔ سائنسدان جنہوں نے غور کیا ہے۔ Evolution پر یعنی ارتقاء پر‘ انہوں نے ارتقاء کے حق میں ایک یہ دلیل پیش کی ہے کہ زندگی کی پہلی شکل جو حمل قرار ہونے پر ہمیں دکھائی دیتی ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی ارب ہا ارب سال یا بہت لمبا عرصہ پہلے زندگی کا آغاز ہوا ہو تو ایسی ہی شکل سے ہوا تھا۔ پھر ماں کے پیٹ میں نو مہینے کے اندر بہت تیزی کے ساتھ سارے ارتقاء کی فلم دوھرائی جاتی ہے اور وہ ساری تصویریں یکے بعد دیگرے آتی چلی جاتی ہیں جو ایک ارب سال پر پھیلی پڑی تھیں۔ مگر ان کی Quick Motion میں ایک فلم دوہرا دی جاتی ہے‘ بہت تیز رفتاری کے ساتھ۔ اس نو مہینے کے اندر سے انسان اندران چیزوں سے گذر جاتا ہے۔ تو اس آیت کا یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ کا پھر اسی مضمون سے تعلق قائم ہوگیا کہ پیٹ کے اندر تم پر جو حالتیں گذرتی ہیں۔ ویسا ہی حالتوں سے گذر کے تم بالآخر اٹھائے جائو گے۔ یعنی روح کے اندر ایک لمبے عرصہ تک تبدیلیاں واقع ہوتی چلی جائیں گی۔ جو ارتقائی تبدیلیاں ہوں گی۔ یہاں تک کہ انسان اس حالت میں اٹھایا جائے گا جبکہ اس کے حواس میں اضافہ کردیا جائے گا اور موجود حواس میں غیر معمولی مزید صلاحیتیں پیدا کردی جائیں گی۔ پس یہ مختصر جواب ہے۔ امید ہے اس سے ان کی تسلی ہوجائے گی۔دوسرے میں نے فاصلے کا تو ذکر کل درس میں ہی کردیا تھا۔ میں نے کہا تھا۔ ایک چیر کو جب آپ بہت پرانی چیز ہو مڑ کر دیکھتے ہیں تو جتنا فاصلہ زیادہ اتنا چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ پس قرآن کریم نے روح کے آغاز وہ سفر جہاں مرنے کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بتانے کیلئے کہ یہ بہت پہلے کی بات ہے کہ روح اس سفر پر روانہ ہوئی تھی فرماتا ہے کہ جب وہ اٹھائے جائیں گے اور آپس میں باتیں کریں گے کہ ہم دنیا میں کتنی دیر رہے ہیں کوئی کہے گا۔ ایک دو دن۔ کوئی کہے گا دن کا ایک حصہ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُن کو نہیں پتا۔شاید اس سے بھی کم ہو۔ تو اتنا چھوٹا جو زندگی کو دیکھ رہے ہیں وہ اس لئے کہ فاصلہ بہت زیادہ ہے اور فاصلے کا معاملہ تو وہیں طے ہوگیا تھا میرے نزدیک۔ مگر بہرحال ان کے اس سوال سے بعض اور لوگوں کے سوال بھی حل ہوجائیں گے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھواللہ احد ۔ اللہ الصمد ۔ لم یلد۔ ولم یولد۔ ولم یکن لہ کفواً احد۔ (سورۃ اخلاص)
اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم فرمانے والا۔ بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کہہ دے یعنی اے رسول ! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کہہ دے ھو اللہ احد وہی اللہ ہے جو ایک ہے۔اللہ الصمد وہ صمد ہے۔ اس نے کسی چیز کو جنم نہیں دیا نہ وہ خود پیدا کیا گیا اور اس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ یہ سورت۔ سورۃ اخلاص کہلاتی ہے۔جس میں توحید کا اس شان اور شوکت کے ساتھ بیان ہے کہ ساری دنیا میں کہیں الٰہی کتب میں آپ کو اتنے تھوڑے الفا ظ میں توحید کا ایسا پُرشوکت بیان دکھائی نہیں دے گا۔ بیشتر اس کے کہ میں مفسرین کی کوئی بات کروں۔ میں عمومی روشنی اس بات پر ڈالنا چاہتا ہوں ۔ جہاں تک درسوں کے نوٹس کا تعلق ہے۔ آج میں نے جب دوبارہ نظر ڈای تو پتہ چلا کہ اس سورت پر ابھی بہت سی باتیں کرنے والی رہ گئی ہیں۔ کیونکہ ہر سال وقت کی کمی کی وجہ سے ہمیں دوسری سورت کی طر ف منتقل ہوجانا پڑتا رہا اور ان کا بھی یہی حال ہے‘ تو اب میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہہ دیا ہے کہ درس کے معاً بعد مجھ سے اکٹھے بیٹھ کر جبکہ آج کے درس کی یاد تازہ ہوگی۔ آئندہ کے درسوں کیلئے نوٹس کو ترتیب دے دیں‘ تاکہ پھر ہم ہر سال ایک حصہ کو Cover کریں۔ پھر اگلی دفعہ اس سے اگلے کو۔
احد کا لفظ خصوصیت سے مفسرین کے اور ا ہل لغت کے زیر نظر رہا ہے۔احد کا کیا معنی ہے اور واحد کے ساتھ اس کا کیا فرق ہے؟ احد کہتے ہیں اس ایک کو جس کے بعد دوسرے کا کوئی تصور نہ ہو۔ یعنی جب ہم کہتے ہیں احد‘ تو ذہن فوری طور پر ایک ایسی صورت حال کی طرف منتقل ہوتا ہے جہاں وہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اورہے نہیں اور واحد جو ہے وہ دراصل اپنی ذات میں تقسیم نہ ہونے والا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی ہے یعنی اپنی اپنی طرف سے اچھے اچھے خیالات بھی پیش فرمائے ہیں‘ لیکن جو مضمون میں بیان کررہا ہوں۔ میرے نزدیک امام رازی اسی طرف اشارہ کررہے ہیں‘ اگرچہ بہت تھوڑے لفظوں میں بات کی ہے۔ پوری طرح واضح نہیں ہوسکی۔ امام رازی فرماتے ہیں۔ احد اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے‘ جس میں کوئی چیز شریک نہیں ہوسکتی۔ ویسی کوئی اور ذات ہے نہیں‘ جو اس کے ساتھ شریک ہوسکے۔ وہ اکیلا ہے اپنی ہر۔ اپنے وجود میں‘ اپنی صفات میں۔ جو مفسرین بانٹتے ہیں احد اور واحد میں وجود اور صفات کی تقسیم کو۔ ان کے ساتھ امام رازی متفق نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں ۔ احد ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی اس کے سوا کوئی ذات نہیں ہے اور واحد صفات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کی صفات میں کوئی شریک نہیںہے ۔ اس کی بجائے امام رازی یہ بہت ہی گہری بات فرما رہے ہیں‘ واحد اور احد کے فرق میں یہ بات ہے کہ واحد احد میں داخل ہوسکتا ہے لیکن احد واحد میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ مضمون ہے جس پر میں نے گذشتہ درس میں بھی روشنی ڈالی تھی اس وقت یہ حوالہ میرے سامنے نہیں تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ واحد احد میں داخل ہوسکتا ہے لیکن احد واحد میں داخل نہیں ہوسکتا۔ بات یہ ہے کہ واحد اس کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر اندرونی تقسیم کوئی نہ ہو۔ اس کی۔ اس کے اندر داخل ہونے کی گنجائش ہی کوئی نہ ہو۔ یعنی وہ آخری اکائی ہے اور جب اس کو آخری اکائی کے طور پر سمجھیں تو اس سے نیچے کسی اور اکائی کا تصور نہیں ہے۔ اس لئے تثلیث کا یہ خیال کہ ایک کے اندر بھی تین ٹکڑے ہوسکتے ہیں‘ ان کی یہ بات نفی اُن کا لفظ واحد نفی کرتا ہے اور احد واحد میں داخل نہیں ہوسکتا یعنی کوئی ایک وجود بھی جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔ وہ اپنی ذات میں اس کی بات کریں گے لیکن اس کو واحد کے اندر داخل نہیں کیا جاسکتا ۔ تو ہر ایک ان میں سے ایک بھی ہو اور ہر ایک ایک کا جزو بھی ہو یہ ناممکن ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ واحد احد میں داخل ہوسکتا ہے تو مراد یہ ہے کہ واحد کو احد کے ساتھ اس طرح ہم اکٹھا تصور کرسکتے ہیں کہ واحد کی صفات بھی احد میں پائی جائیں‘ جو یہ ہیں کہ منقسم بھی نہیں ہوگا‘ تو ان معنوں میں واحد احد میں داخل ہوسکتا ہے‘ یعنی احد کی صفات میں اگرچہ باہر کی ذات کی شراکت کی نفی ہے۔ اس میں اندرونی شراکت کی بھی نفی موجود ہے ان معنوں میں ہم لفظ واحد کو احد میں داخل کرسکتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ احد اور واحد کے فرق کو سمجھنے کا۔ اس لئے میں نے اسے امام رازی کے حوالے سے بیان کیا کیونکہ گذشتہ درس میں میں نے بیان تو کیا تھا مگر امام رازی کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ میرے علم میں نہیں تھا۔ لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام راز ی نے اتنی اچھی بات کی اور ان کا نام بھی نہیں بتایا گیا۔ اس لئے میں کھول کر اب بتاتا ہوں۔ فرماتے ہیں: ’’دوسرا فرق یہ ہے کہ تم کہو کہ فُلاں کا واحد مقابلہ نہیں کرسکتا تو یہ کہنا جائز ہوگا کہ اس کا مقابلہ اثنان کرسکتے ہیں‘ یعنی واحد کے لفظ کے علاوہ دو ‘ تین‘ چار کا تصور ہوتا ہے۔ واحد ‘ اثنان وغیرہ۔ اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کا واحد شخص مقابلہ نہیں کرسکتا ۔۔۔۔تو ذہن میں اٹھ سکتا ہے۔ سوال کہ دو کرسکتے ہیں‘ ایک نہیں کرسکتا تو کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن اگر کہو احد ہے وہ اور مقابلہ نہیںکر سکتا‘ تو اس کا مطلب ہے کہ پھر کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا‘ اگر احد بھی نہیں کرسکتا تو دوسرا ہے ہی کوئی نہیں پھر مقابلہ کس نے کرنا ہے۔‘‘
تیسرا فرق یہ بیان فرماتے ہیں کہ واحد‘ دو یا زیادہ کے سیاق میں استعمال ہوتا ہے اور احد نفی میں (ثبات ہوگا لفظ یا سیاق بھی لکھا ہوا ہے اور احد نفی میں یعنی مراد ان کی یہ ہے کہ واحد دو یا زیادہ کے تعلق میں بیان ہوتا ہے) اور احد دو یا زیادہ کی نفی میں بیان ہوتا ہے‘ مثلاً دو یا زیادہ سے تم کہتے ہو کہ میں نے واحد آدمی دیکھا یا تم کہتے ہو میں نے واحد دیکھا تو یہ بات اس بات کی نفی نہیں کرتی کہ اور آدمی نہ ہوں۔ تم نے ایک دیکھا ہے۔ ہوسکتا ہے ہزار کے مجمع میں سے تم نے ایک کو مگر جب تم کہتے ہو میں نے احد دیکھا تو مراد یہ ہے کوئی اور تھا ہی نہیں۔ ناممکن ہے کہ کوئی اور بھی موجود ہو۔ تو واحد۔ واحداً منھم کو دیکھ لینا۔باقی کی نفی نہیں کرتا لیکن احد ہر دوسرے وجود کی نفی کردیتا ہے۔ پس ان معنوں میں اب ہم اس سورۃ کے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں۔ قل ھو اللہ احد کہہ دے اللہ ایسا ایک ہے کہ جس میں امام رازی کے مسلک کو قبول کرتے ہوئے یہ بھی داخل کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اندرونی تقسیم بھی ممکن نہیں اور اس کی بیرونی۔ اس میںبیرونی طور پر ایزادی ممکن نہیں۔ اپنی ذات میں وہ منقسم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ واحد کا مضمون بھی رکھتا ہے اور اس کی ذات کے علاوہ اور کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کے سوا پس وہ ایک ہے۔ اللہ الصمد۔ اللہ صمد ہے۔ صمد کے مختلف معانی میں نے گذشتہ درس میں بھی بیان کئے تھے۔ مختصراً ا ن کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی ہے ۔ ورنہ پھر بات آگے نہیں بڑھے گی۔
لم یا لد ولم یولد۔ یہ جو وجود ہے یہ احد تو ہے۔ لیکن ایسا تو نہیں ممکن کہ اس سے پہلے کوئی اور ہو جو اس کو پیداکرکے آپ مرچکا ہو۔ یہ خیال بھی تو ہوسکتا ہے کہ احد اس زمانے میں ہے یا ہمیشہ سے اورہے۔ صمد اس زمانے میں ہے یا ہمیشہ سے صمد ہے تو لم یلد کا مطلب یہ ہے ۔ نہیں میں بتاتا ہوں۔ خود مرچکا ہو۔ کسی کو پیدا کرکے آپ غائب ہوگیا ہو۔ یہ تو نہیں کہیں کہ احد تو تھا جب تک تھا۔ لیکن ہمیشہ کیلئے نہیں تھا۔ اس خیال کی نفی لم یلد کرتی ہے کہ وہ کسی کو پیدا کرکے خود غائب نہیں ہوا۔ خود غائب ہونے کا مفہوم اس سے اس لئے نکلتا ہے کہ احد نے تو کسی دوسرے وجود کا تصور ہی نہیں چھوڑا باقی ۔ صمد نے بھی اس مضمون کو مزید تقویت دیدی‘ اگر ایک وجود ایسا پیدا کررہا ہو اور بچوں کو تو پھر احد نہیں رہے گا اور صمد نہیں رہے گا۔ اس لئے اس کے فنا کا مضمون داخل ہے اس بات میں کہ وہ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو پیدا کرکے خود مرجائے جیسے ماں بچہ پیدا کرتی ہے اور ولادت کے دوران ہی مرجاتی ہے اور اس کی صفات اگر وہ احدیت کی صفات بھی ہوں تو آئندہ بچے کی صورت میں زندہ رہیں گی۔ ماں کی صورت میں نہیں رہیں گی۔ تو یہ تصور جو عیسائیت کا ہے کہ اللہ نے پیدا بھی کیا اور پھر بھی احد ہے اس کو یہ آیت باطل قرار دے رہی ہے۔ یہ ناممکن ہے‘ عقل کے خلاف ہے اور پیدا کرکے اگر مرگیا تو پھر وہ خدا کی خدائی کو باطل کرنے والا تصور ہے۔ لازوال خدا نہیں ہے اور عملاً عیسائیت میں باپ مر ہی جاتا ہے۔ کیونکہ تمام تر توجہ نجات کیلئے بیٹے کی طرف ہے۔ انسان کے لئے تو سب سے زیادہ قابل فکر بات اس کی نجات کا مسئلہ ہے‘ اگر نجات کا مسئلہ بیٹے سے ہی وابستہ ہوچکا اور بیٹا ہی ہے جس نے قربانی کرکے ہمیں نجات عطا کی تو باپ کا ضمناً ذکر آجاتا ہے کہ وہ تھا اس نے پیدا کردیا چھٹی کرلی۔ اب سب کچھ بیٹے سے ملے گا۔ تو یہ آیت بتاتی ہے کہ عملاً وہ بھی جو کہتے ہیں خدا نے بیٹا پیدا کردیا اگر توحید کی بات کرتے ہیں تو خدا کو کالعدم سمجھتے ہیں اور کالعدم ہوئے بغیر توحید قائم نہیں ہوسکتی۔ یعنی بیٹے کی توحید قائم کردیتے ہیں اور باپ کی توحید کو فنا کردیتے ہیں۔ ولم یولد۔ اور ایسا بھی نہیںہے کہ ماضی میں کسی وقت کسی اور نے اس کو جنم دیا ہو اور آپ رخصت ہوگیا ہو۔ یعنی اس کا باپ کوئی نہیں ہے۔ ان دو آیات نے اللہ تعالیٰ کی صفات وحدانیت اور احدیت کو اور اسکی صفات صمدیت کو ہمیشگی کا تصور دے دیا ہے۔ یعنی آئندہ بھی ہمیشہ ہمیش کیلئے وہ احد ہی رہے گا اور صمد ہی رہے گا۔ ماضی میں بھی ہمیشہ ہمیش سے وہ احد ہی تھا اور صمد ہی تھا اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ نہ کوئی بیٹا نہ کوئی باپ۔ تو تثلیث کے سارے پہلو کلیتہً باطل قرا ر دیدیئے ہیں۔ ولم یکن لہ کفواً احد۔ اب ولادت کی بات ہورہی تھی تو کفو کی بات بھی اس سے ضرور نکلے گی۔ اگر خدا کیلئے کچھ پیدا کرنا ممکن ہے تو اپنی ذات میں سے اپنا ٹکڑا کاٹ کے تو باہر ہیں پھینکا۔ پھر اسے کوئی کفو بھی چاہئے۔ انیّٰ یکون لہ ولد ولم تکن لہ صاحبۃ اس آیت کی طرف یہ لفظ کفو اشارہ کر رہا ہے کہ اس کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے ولم تکن لہ صاحبۃاس کا کوئی ساتھی نہیں ہے اس کی زوجہ کوئی نہیں اور زوجہ کفو میں سے ملتی ہے۔ تو لفظ احد نے کفو کا امکان باقی ہی نہیںچھوڑا۔ اگر کوئی احد ہے تو اس کا کفو کہاں سے ہوگا۔ ہے ہی کوئی نہیں۔ تو کفو کہاں سے بن جائے گا اور اگر کوئی ہے تو صمد نے اس کا کچھ باقی نہیں چھوڑا۔ وہ ایسا ہے کہ اس میں کوئی بھی احد کی ذات تنہر یہی موجود نہیں‘ صفات تنہزیہہ موجود نہیں۔ وہ ایک مختلف نوع کی چیز ہے اور اس مختلف نوع سے اس ذات کی شادی ہو ہی نہیں سکتی جو اپنی صفات میں بے مثل ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ تو فرمایا کہ اس کا تو کفو ہی کوئی نہیں ہے۔ دوسرا معنی کفو کا یہ ہے کہ اگرچہ وہ صمد چونکہ وہ صمد ہے اور بعض اور وجود بھی ہیں جن کاذکر صمد کے اندر ملتا ہے وہ ایسا اکیلا نہیں ہے کہ کسی اور کو پناہ نہیں دیتا۔ کچھ پناہ مانگنے والے ضرور موجود ہیں۔ ان کو یہ پناہ دیتا ہے۔ پس ان میں کوئی ایسا تو نہیں جو صفات میں اللہ تعالیٰ کے مشابہ ہو کسی حد تک۔ تو کفو کے لفظ نے اس شک کا بھی بطلان فرمادیا کہ اسکا کوئی کفو نہیں ہے۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ نہ ہمیشہ سے نہ موجود وقت میں نہ آئندہ اور جو بھی ہے وہ وہی ہے جو اپنی بقاء کیلئے اس کا محتاج ہے اور محتاج رہے گا۔ اس لئے اس کے ہمسر ہونے‘ ہمسر لفظ ہے کفو یا اس جیسا کوئی اور وجود ہونے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ یہی آیت تثلیث کے تعلق میں اس مضمون کو یہاں کامل کرتی ہے اور جو شرک کا مضمون ہے تثلیث کے علاوہ اس کے خلاف بھی یہ تمام آیات گواہ ہیں اور وہ سارے دیو مالائی قصے جو خدا کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان سب کو یہ غلط ثابت کرتی ہیں۔ یہ تین آیات‘ چار ‘ پانچ آیات بنتی ہیں۔ بسم اللہ سمیت۔ کفو وہ کہتے ہیں خدا نے شادیاں کیں‘ اس کی بیویاں تھیں۔ اس سے آگے بچے پیدا ہوئے اور دیوتا پیدا ہوئے یہ سارے کے سارے قصے من گھڑت‘ بے حقیقت‘ بے معنی‘ کیونکہ عجیب بات ہے کہ ان دیو مالائی کہانیوں میں بھی ایک بالا خُدا کا تصور موجود ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ جسے ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو خدا کے شریک ٹھہراتے ہیں وہ خدا کے شریک ٹھہراتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے خدا کو مانتے ضرور ہیں اور تمام مشرک مذاہب میں اس بالا ہستی کا تصور موجود ہے۔ پس اگر وہ بالا ہستی موجود ہے تو کن معنوں میں بالا ہے۔ یہ بحث اٹھتی ہے۔ یہ آیات اس تصور پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتی ہیں کہ اگر وہ ہستی بالا ہے۔ صفات میں بالا ہوسکتی ہے اور اگر وہ صفات میں بالا ہے تو اس کا کفو کوئی نہیں۔ جب کفو کوئی نہیں تو تمہاری یہ ساری من گھڑت باتیں کہ اس نے شادیاں کیں اور اس سے پھر ویسے ہی بچے پیدا ہوئے جو اس کی صفات رکھتے تھے۔ یہ بالکل جھوٹی اور بے معنی باتیں ہیں۔ سورۃ اخلاص کے متعلق مستشرقین جو مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے۔ میں اس کو سردست چھوڑتا ہوں۔ ورنہ ہمارے پاس پھر دوسری باتوں کیلئے وقت نہیں رہے گا۔ جیساکہ بیان کیا ہے۔ آئندہ انشاء اللہ اس رنگ میں ترتیب دے لیں گے کہ سال بہ سال یہ مضمون اس طرح آگے بڑھے کہ گذشتہ کی تکرار جہاں تک ممکن ہو نہ ہو۔
Mr. Wherry a comprehensive commentary on the Quran Surah Al-Ikhlas (Declaration of God's Unity) میں لکھتے ہیں۔
This chapter, says Sale, is held in particular veneration by the Muhammadans, and declared by a tradition of their Prophet to be equal i nvalue to third part of the whole Quran. It is said to have been revealed in answer to the Quraish, who asked Muhammad concering the distinguishing attributes of God he invited them to worship.
کہتا ہے کہ دراصل یہ سورت Wherry کہتا ہے عیسائیت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہ سے اس کا تعلق ہے۔ جہاں جہاں بھی میں نے مستشرقین کے حوالے پڑھے ہیںوہاں وہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ عیسائیت سے بھی تعلق ہے۔ وہ اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ اس کا مشرکین مکہ سے تعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت کی شوکت ایسی ہے کہ اس سے گھبراتے ہیں۔ اس پر زبان کھولنے کی گنجائش کوئی نہیںہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیں گے کہ ہمارے ہاں بھی ایسی باتیں ہیں۔ جیسا کہ آگے جاکے میں آپ کو دکھائوں گا۔ لیکن اس کا رعب بہت رعب ہے ان پر۔ پس اگر وہ عیسائیت کے مقابل پر اس کو کھڑا کرین تو عیسائیت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس لئے وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ دراصل تو اس کا مشرکین سے تعلق تھا اور اسی پس منظر میں اس کو سمجھنا چاہئے اور عجیب بات ہے کہ بعض ہمارے مفسرین کو چونکہ شان نزول کے تلاش کی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ بھی عجیب وغریب بعض راویات اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں کہ ایک مشرک آیا۔ اس نے یہ پوچھا تو اس کا یہ جواب دیا۔ پھر آیا۔ اس نے یہ پوچھا یہ جواب دیا اسی طرح اور بعض ایسے قصے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس سورت کی جو شان اور شوکت اوراس کا جو تنزیہی مرتبہ ہے وہ ان روایات کے نتیجے میں مجروح ہوسکتا ہے۔ اس کو کوئی شوکت مزید نہیں ملتی۔ کوئی اچھا پَر تَو اس پر نہیں پڑتا۔ اس لئے یہاں یہ بحث اٹھانے کے لائق ہے گویا اس میں داخل ہونا ہی ممنوع اور حرام سمجھا جانا چاہئے کہ کیوں ہوئی تھی۔ خدائے واحد کا مضمون اگر کوئی قرآن کوئی کلام بیان نہیں کرتا تو کچھ بھی نہیں بیان کرتا۔ اگر توحید پر کامل روشنی نہیں ڈالتا اور انتظار کرتا ہے کہ کوئی پوچھے تو جواب دیا جائے ورنہ بات کرنے کی ضرورت نہیں تو پھر توحید کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ توحید تو تمام مذاہب میں مرکزی نقطہ رکھتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا مشرکین بھی دراصل ایک موحد خدا کے آخری شکل میں بات کیے بغیر نہیں رہ سکتے تو یہ تو ایسی چیز تھی جس کے بغیر قرآن قرآن نہیں بنتا اور احادیث میں اس کی اہمیت کا جو ذکر ہے جہاں اس کے مختلف نام ملتے ہیں۔ اس کی برکتیں ملتی ہیں۔ اس کی روشنی میں ان سب بحثوں کو میں بے حقیقت اور بے معنی سمجھتا ہوں کہ کیوں نازل ہوئیں۔ یہ نازل نہ ہوتیں تو قرآن نازل نہ ہوتا۔ کچھ بھی نہ رہتا۔ کسی مذہب کا کچھ نہ رہتا اور توحید پر ایسا شاندار بیان‘ انسان کی توحید پر ایمان کی بقاء کیلئے ضروری ہے کیونکہ ایسا بیان آپ کو کہیں اور دکھائی نہیں دے گا۔ پس اس کے بعد میں اب دوسرے بعض مصنفین کا ذکر کرتا ہوں۔ مستشرقین کا ذکر کرتا ہوں۔
‏Richard Bell
The Quran translation with the critical rearrangement of the suras this little sura has been much discussed. Most modrens regarded as directed against Christian doctrines of the divine sonship.
کہتا ہے جو ماڈرنز ہیں وہ اب اس بات پر آگئے ہیں کہ اسے عیسائیت کے مقابلہ کے تناظر میں سمجھیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ واقعتہً اصل میں عیسائیت کو قلع قمع کرنے کیلئے یہ سورۃ نازل ہوئی ہے خصوصیت سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے Literallyخدا کا بیٹا ہونے کے تعلق میں۔
It has been sugested that it might combet the began doctrine that when the Godeses were the daughters of Allah and the use of ولداً not اولاداً in verse (3) might be held to support that but the reading varies.
ان پھر وہاں سے ہٹ کے واپس اسی طرف چلا گیا ہے کہ مشرکین چونکہ مانتے تھے کہ خدا کے بچے ہوں گے اس لئے وہاں ذکر ہوسکتا ہے اس کی طرف ہو اور ولداً اور اولاداً کی بحث میں پڑا ہے جو بالکل بے تعلق اور بے معنی ہے۔
However Verse (4) must be directed against Christians doctrine.
کہتا ہے یہ بات تو ماننی پڑتی کہ چوتھی verse لم یلد کرسچین ڈاکٹرن کے خلاف ہے۔
The date will therefore depend upon the time at which Muhammad definetly broke with Christainity.
کہتا ہے اس سے ہمیں پتا لگ گیا کہ یہ کب نازل ہوئی ہوگی اور ہم پر ثابت ہوگیا کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہے مدینہ میں جبکہ کافی کوششوں کے باوجود عیسائیوں کو اپنے قریب نہیں کرسکے اور آخر ہار کر جب ان سے چھٹی کرلی۔ انقطاع کرلیا کہ اچھا پھر ہمارا مقابلہ سہی۔ اس وقت یہ نازل ہوئی ہوگی ورنہ اس سے پہلے آپ کو کیسے طاقت تھی۔ عیسائیت کے Cardinal Doctrine کے خلاف جس میں ساری عیسائیت کی بقاء ہے۔ اتنا کھلم کلا اعلان جنگ کردیتے۔ تو اس طرح اس نے قرآن rearrange کیا ہے۔ بیوقوف نے۔ حیرت ہوتی ہے۔ ان کو ضرور اس کو ہسپتال میں داخل کرنا چاہئے تھا۔ پتا نہیں کیوںکسی کو خیال نہیں آیا۔ ایسی بے تکی‘ ایسی جاھلانہ باتیں ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ آگے میں بتائوں گا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی ہے۔
This is probably placed in the Madinian period some what later than the quarrle with the Jews.
یعنی پہلے عیسائیوں سے اختلاف اپنے کمال تک پہنچا ہے وہ ذکر کرتا ہے پھر کہتا ہے۔ غالباً وہ بھی کافی نہیں Jews سے بھی جھگڑا ہوگیا تو اس کے بعد کہیں جا کے ۔۔۔ یہ ہوئی ہے ۔ مگر ایک بات مانتا ہے۔
It is a emphatic statement of the uniq ueness and unity of Allah.
مجبور ہیں۔ اسی سے ڈرتے ہیں یہ۔ نزول کی بات دیکھیں کہ مستشرقین میں سے میور ولیم میور اسے Earliest Maccan Chapterقرار دیتا ہے۔اور تمام بڑے بڑے جو کبار صحابہؓ جو روایت کرتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ مکہ میں نبوت کے آغاز کے ساتھ ہی یہ سورۃ نازل ہوچکی تھی اور اس ضمن میں صرف میور ہی متشرقین میں سے ایسا نہیں ہے بلکہ نولڈیکے جو جرمن مستشرق ہے اس کو End of the first period قرار دیتا ہے۔ جس کی تشریح یہ کرتا ہے About the 4th year of the Call یعنی نبوت میں اس نے آگے تقسیم کردیئے ہیں مختلف حصے۔ کہ نبوت کے جو 13 سال تھے ان میں کہتا ہے ایک early periodہے۔ پھر سیکنڈ پھر تھرڈپھر فورتھ وغیرہ وغیرہ۔ وہ کہتا ہے کہ میرے نزدیک End of the first period نہ ہو نبوت کے پہلے دور کے آخر پر ہے یعنی چوتھے سال میں وہ اس کو تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے اس آیت کے متعلق یہ تصور Bellصاحب کا ۔ کہ چونکہ یہ عیسائیت کی بات کررہی ہے اس لئے ضرور وہاں نازل ہوئی ہوگی۔ یہ دراصل اعتراف شکست ہے۔ یعنی دماغی حالت کا جو میں ذکر کرتا ہوں۔ ان معنوں میں ان کو پتہ نہیں کہ وہ جو یہ دلیل دے رہے ہیں وہ خود ان کے خلاف جاتی ہے۔ان کو تسلیم ہے کہ دور نبوت یعنی پہلے ۱۳ سالہ دور میں کوئی شخص جس کا عیسائیوں سے تعلق نہ قائم ہوا ہو جن کا عیسائیت سے جس کا مقابلہ نہ شروع ہوا ہو۔ اس سورت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور چونکہ ثابت ہے کہ پہلے دور میں ہے۔ اس لئے یہ خدا کا کلام ہے یہ ماننا پڑتا ہے اس وجہ سے یہ بھاگتا ہے‘ گھبراتا ہے۔ اس لئے ان معنوں میں تو بے وقوف نہیںکہ اپنے مطلب میں ہوشیار نہیں لیکن اپنے مطلب میں اتنا ہوشیار نہیں کہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکے۔ بکار خویش ہوشیار ہوشیار۔ لیکن اتنا ہوشیار نہیں کہ بالآکر اس مقصد کوحاصل کرسکے کیونکہ اس کا جو چھپا ہوا خوف ہے وہ درحقیقت اس کی دلیل کو توڑنے والا ہے۔ یعنی ثابت ہوا بھاگ کیوں رہا ہے۔ یہ میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس لئے بھاگ رہا ہے۔ آنکھیں بند کررہا ہے۔ تمام مشترقین کی رائے سے بھی اگر مان جائیں گے تو اسلام سچا اور عیسائیت جھوٹی ثابت ہوجائے گی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ محمد کا کلام نہیں۔ اس لئے ہوشیاری تو اپنی طرف سے بہت کی ہے مگر ہوشیاری اس کے کام نہیں آئی۔
‏ This chapter says sale is held in particular. ویری صاحب لکھتے ہیں -اچھا یہ میں پہلے یہ پڑھ چکا ہوں۔ Richard Bell بھی ہوگیا۔
ابBellکہتاہے:-
The Title,the word in the title (the word ہے) The word in the title does not occur in the Sura but seems but sums up the effect of the aecuration. It is probably conected with the phase directinig religion exculively to Allah which occurs seven times in the Sura.
یہ ٹھیک کہتا ہے۔ اس معاملہ میں تو اخلاص کا لفظ جو اس کا ٹائٹل بنایا گیا ہے سورۃ اخلاص اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کو خالص کرنا ایک خدا کے لئے ۔ یہ مضمون اخلاص سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دیگر آیات اسی کو تقویت دیتی ہیں۔
اچھا۔ منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ Maccan ہے یہ۔ یہ مانتا ہوں میں
according to the most Muslims commentators this is Meccan. It is unlikly that the original refrerence was to Jews and Christains.
وہی Bell والا خوف اس پر بھی طاری ہے۔ Bell منٹگمری واٹ کا استاد بھی تھا۔ اس لئے یاد ہوں گی باتیں جو کہا کرتا تھا۔ کہتا ہے یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہم یہ "Maccan" ہوگی لیکن عجیب بات ہے کہ اگر Maccan ہے تو بالکل Unlikelyہے کہ اس کا Original ریفرنس Jews اور Christian کی طرف ہو۔ پس جب ثابت ہوگیا کہ Maccan ہے تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اور یہ بھی جیسا کہ مضمون بتا رہا ہے۔ کوئی معمولی عقل کے ساتھ بھی ان آیات کی تلاوت کرے تووہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ اول تعلق اس کا عیسائیت سے نہیں ہے۔ اور جب یہ بات ثابت ہوجائے اور یہ ثابت ہوجائے کہ اول مکے کی تاریخ میں یہ سورۃ نازل ہوئی تھی تو یہ ثابت ہونا اس کا طبعی نتیجہ ہے کہ یہ خدا کا کلام تھا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام نہیں تھا۔اس وجہ سے بڑے بے چین ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس سورۃ پر بہت کم تبصرے کئے گئے ہیں۔ جس طرح باقی باتوں یہ موقعوں پہ زبانیں کھولیں گئی تھیں اس کی شوکت بڑی ہے۔ گھبراتے ہیں۔ اور کسی نے بھی اس تنقید کا جو عیسائیت پہ کی گئی جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔
The constructions of the clause even certain (Richard Bell)
the prnoun is uaually taken seperately.......... to It is Allah is one.
تو کہتا ہے یہ بات عجیب سی بنتی ہے کہ
It is Allah is one hence we suggested that the verse was influenced by the Jewish Sheema which might explained the unusually it's of Ahad.
وہ کہتے ہیں Jewish Prayer میں جو طرز بیان ہے یہ وہی طرز بیان ہے اس لئے ہوسکتا ہے اس سے متاثر ہوکر پھر بھی وہی Jewishعیسائی تعلق کا سوال اٹھ جائے گا۔ کہ جن سے ابھی رابطے ہی نہیں ہوئے تھے۔ آغاز ہی میں ان کی باتیں کیوں شروع ہوگئیں اور آغاز میں جو باتیں شروع ہوئی ہیں۔ ان کا آخر پر ذکر رکھا گیا ہے اس میں آخری دور میں جو اسلام کا عیسائیت اور یہودیت سے فیصلہ کن تصادم ہوناہے۔ اس کی طرف اشارہ ہے Richard Bell پھر لکھتا ہے۔
So most morderns but no satisfactory derivation of the word in this sence has been suggested.
So most morderns.
آگے فقرہ ختم ہے۔
ہونا چاہئے ہاں ! But most satisfactory (derivation
derivation of the word in this sence have been suggested.
Arab commentators take the word of Uni by one to Him recource is....had.
یہ یہاں سورۃ الصمد کی بات شروع کرچکا ہے۔ صمد کے لفظ کے نیچے لکھتا ہے اب دوبارہ میں سناتا ہوں۔
So most morderns.
آگے فقرہ رہ گیا ہے لکھنے والے سے یا وہ بعض دفعہ خود ہی بعض باتیں غائب کر جاتا ہے۔ نوٹس کی شکل میں معلوم ہوتا ہے لکھتا ہے چیزیں۔
but most satisfactory derivation of the word in this sencehave ben suggested.
کہتا ہے کوئی بھی تسلی بخش dervatine suggest نہیں ہوا۔ جو اس پر روشنی ڈال سکے کہ یہ ہے کیا چیز؟
Arab commentators take the word as meaning the One to whom recourse is had the Chief.
عرب کمنٹریٹرز بہرحال یہ مانتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ذات ہے جس کی طرف ہر چیز پناہ کے لئے جھکتی ہے اور جو Chief ہو۔
The sametic root صمد seems to be to bind together.
کہتا ہے اگر اس کو ہم Hebrew root کی طرف لے کر جائیں تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ وہ چیز جو باندھ دیتی ہے۔
The undivided might give the sence.
کہ تو وہ بات جو امام رازی نے کہی تھی کہ احد کے اندر undivided ہونے کا معنے بھی پایا جاتا ہے۔ اس کو یہ بات تقویت دیتی ہے اور اس کا جو حوالہ ہے یہودی استعمال کا۔ وہ حضرت امام رازی کے اس قول کو مزید تقویت دے رہا ہے۔
منٹگمری واٹ لکھتا ہے۔
The ever lasting refuge verse no:3
یہاں بسم اللہ کو اس نے بھی پہلے شمار کیا ہے۔ اس لئے جس کو Bell نمبر 2 کہہ رہا تھا اس کو یہ نمبر 3 لکھ رہا ہے۔ مراد صمد والی آیت ہی ہے۔
The ever lasting refuge.
The usual interpetation of صمد but
it is also rendend internal the only one.
صمد کا مطلب یہ بھی لیا گیا ہے کہ جو ہمیشہ ہمیش سے ہے اور ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی نہیں۔
ویری صاحب لکھتے ہیں۔ اب سورۃ Verse-3 جس کویہ لے رہا ہے اس سے مراد دراصل چوتھی Verse لم یلد ہے۔
He begetteth not. This is directed against the Makkan idolaters.
اب دیکھ لیں کتنا گھبراتے ہیں۔ اس سورۃ سے تصادم لینے میں۔ کہتے ہیں ہم کیوں لڑیں خواہ مخواہ۔ کیونکہ Makkan کے خلاف تھی ہماری بات ہی نہیں ہوئی۔ ظاہر بات ہے کہ عیسائیت کے متعلق اس کا تجزیہ کررہی ہے۔ اس کے ہر پہلو کو کھول کر بیان کرتی ہے اور اسکے جواب میں ایسی قومی عقلی دلیل دیتی ہے کہ اس کے بعد تثلیث کا عقیدہ ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ وہ کہتا ہے۔
This is directed against the Makkan idolaters, who worshipped angles, whom they called (daughters of God.) Neither is the begotten. The primary allusion here is to the idolatry of the Quraish, noticed in the preceding note, but afterwards was made to apply to the Jews.
کہتا ہے آغاز میں تو یہ لم یو لد جو ہے لم یلد و لم یولد یہ یہود کے خلاف تھی۔ نہ قریش کے خلاف تھی۔ لیکن بعد میں جب یہود سے واسطہ پڑا ہے تو اس پر بھی چسپاں کردی گئی۔ یہ ان کی پریشانی اور جو بے اختیاری ہے اس کا منظر پیش کررہی ہے بات یہ۔ ساروں سارے گھبرا رہے ہیں اس سے۔
‏ Verse-4‘ منٹگمری واٹ کے نزدیک
has not begoten to usually directing against the Arabian pagan belifes in daughter of God.
یہ بھی ادھر لے جارہا ہے۔ کھلم کھلا جو دکھائی دینے والا تصادم ہے۔ اس کو چھوڑ رہے ہیں کیونکہ وہاں داخل ہوں گے تو اس میں جواب دینا پڑے گا۔ جواب ہے کوئی نہیں۔
This verse, with those which precede.
یہ کون ہیں۔ ویری صاحب دوبارہ آگئے ہیں۔
This verse, with those which precede, expresses a Bible truth, The whole chapter is made up of Scriptural phrases.
آخر شوکت سے مرعوب ہوکر اپنا ہی لیا۔کہتا ہے یہ بائبل کی Truth ہے۔ جو سورۃ اخلاص میں بیان ہورہی ہے۔ اگر بائبل کی Truth ہے تو پھر تمہاری تثلیث کہاں رہی اس کا تو کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا اس نے۔
منٹگمری واٹ کفواً احد کا ترجمہ کرتا ہے۔
equal to him is not anyone.
He has no pairs.
چونکہ وقت دعا کیلئے بھی چاہئے وقت۔ اعلانات بھی کرنے ہیں اس لئے میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا تفصیلی مزید تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہے مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قل ھو اللہ احد میں جب ایک فرمایا گیا۔ اس کے بعد صمد کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں پناہ کا مضمون ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صمد لفظ آئندہ آنے والی دونوں سورتوں کے لئے دروازہ کھولے گا۔ اور ا ن دونوں کا تعلق پناہ سے ہوگا۔ پس فرمایا کہ اگر خدا کے سوااور کوئی وجود ہی نہیں تو پھر پناہیں کس کی کیوں ڈھونڈتے ہو اور کون ہیں جو پناہیں مانگتے ہیں۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ صمد اس واحد ذات کو اس واحد اور احد ذات کو کہتے ہیں جو بالذات قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں اور اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے۔ جب تک وہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اس وقت اس کو تلاش کرتے ہیں جب خود اپنے اوپر موت کا ابتلاء ‘ وارد ہوجائے۔ یا خطرات گھیر لیں اور وہ آخری وقت جب وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہماری بقاء اپنی ذات میں ممکن ہی نہیں پھر انکو یہ ابھری ہوئی چٹان دکھائی دیتی ہے اور جانتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی بھی نجات نہیں ہے اور اس کی پناہ ہمیں لازماً لینی پڑے گی۔ تو اعود میں جو مضمون بیان ہوا ہے۔ اس کی طرف صمد دروازہ کھول رہا ہے۔ تم مانو یا نہ مانو۔ اس کی پناہ کے بغیر تمہاری نجات ممکن نہیں۔ تمہاری بقاء ممکن نہیں ۔ تمہیں لازماً اس سے پناہ لینی ہوگی۔ اس کی پناہ لینی ہوگی دوسروں سے۔ اب سوال یہ ہے قُل اعوذ برب الفلقO میں اب اس سورت میں داخل ہونے والا ہوں۔ اس کے بعد بتاتا ہوں کہ فلق اور ناس میں کیا فرق ہے۔ کس قسم کی پناہیں ہیں جو الگ الگ ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم O قل اعوذ برب الفلق O من شر ما خلق O و من شر غاسق اذا وقب O ومن شر النفثت فی العقد O و من شر حاسد اذا حسد O
ضمناً میں بتادوں کہ یہاں لا۔لا۔ لکھا ہوا ہے۔ہر جگہ جس کا مطلب ہے کہ نہیں ٹھہرنا۔ ایک ہی سانس میں پڑھی جائو حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے اور جیسا کہ سعودی چھپے ہوئے قرآن سے ثابت ہے اس میں کہیں لانظر نہیں آئے گا آپ کو۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قطعی روایت ہے کہ آپؐ یہ آیتیںایک ایک کرکے ٹھہر ٹھہر کے پڑھا کرتے تھے تو اس لئے مضمون کے ساتھ تعلق ہے۔ جتنا مضمون آپ ذہن میں سوچتے ہیں دو تین آیات کے تعلق کا وہاں پہنچ کر ٹھہرنے کا آپ کو حق ہے اور اگر ایک ایک لفظ پر غور کرکے ڈوب کر پڑھنا ہو تو ہر لفظ پر ٹھہرنے کا حق ہے اور ایسی صورت میں لا کالعدم ہوجائے گا اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تو ہم پڑھ سکتے ہیں قُل اعوذ برب الفلق O کہہ دے میں پناہ مانگتا ہوں رب فلق کی۔رب فلق کی پناہ۔ سورہ فلق میں بھی پناہ بتائی گئی ہے‘ پناہ مانگنے کا ذکر ہے او ر سورہ ناس میں بھی ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اور سورہ اخلاص سے ان کا کیا تعلق ہے بہت سے مضامین پر میں پہلے روشنی ڈال چکا ہوں۔ ایک نئی بات جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سورہ توحید ایک سورج کی طرح ہے جو چمکتا ہے اور اس کی روشنی سے اور اس کی توانائی سے ہر دوسری چیز طاقت حاصل کرتی ہے۔ اور ہر قسم کے خطرے کا حل اس سورج میں ہے۔ ہر قسم کی پناہ سورج مہیا کرتا ہے اور ہر قسم کے اندھیروں کو زائل کردیتا ہے اور ٹال دیتا ہے۔ تو سورہ اخلاص تو یوں لگتا ہے جیسے توحید کا سورج چڑھ گیا۔ اور جب سورج چڑھ جائے تو پھر اندھیروں کا کیا ذکر ہے۔ پھر پناہ کا کیا ذکر ہے۔ یہاں دو قسم کے امکانات ہیںایک یہ کہ سورج کسی کو نظر نہ آئے۔ جیسے سورج ڈوب جاتا ہے بعض دفعہ یعنی زمین کی اُس طرف چلا جاتا ہے جہاں سے آپ اُسے دیکھ نہیں سکتے۔ پس وہ لوگ سورج سے دور ہوتے ہیں جن کے لئے سورج غروب ہوتا ہے۔ سورج وہی ہے اور اس حقیقت کو زمین کی گردش کو جاننے والے خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہم سورج کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ہم ہی پھر سورج سے الگ ہوکر اندھیروں میں غائب ہوجاتے ہیں۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ سورج ڈوب گیا‘ سورج کے اوپر پردہ آگیا۔ تو بعض اندھیرے ایسے ہیں جو سورج سے بے تعلقی کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کہ سورج کے فیض سے آپ کلیتہً محروم رہ جائیں اور ایسی حالت میں بھی جب کہ آپ اپنی آنکھیں بند کرلیں اور یا اپنے گھر کے دروازے بند کرلیں تب بھی اندھیرے پیدا ہوجائیں گے۔ اور ایسی حالت میں بھی جبکہ آپ صم بکم عمی فھم لا یرجعون کے مصداق ہوں یعنی آپ کے اندر روحانی باتیں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ پائی جائے یا اپنے نفس کی بیماریوں کی وجہ سے آپ کو آنکھوں کی بیماری لاحق ہوجائے۔ یہ جو آنکھوں کی بیماری ہے اس ضمن میں آپ کو یہ بتادوں کہ اس کا Origin جسم کی دوسری بیماریوں میںہے۔ براہ راست آنکھوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں مثلاً شوگر ہے۔ اگر وہ کسی دیر تک رہے تو موتیا کا اس سے ظاہر ہونا۔ اس کے پیدا ہوجانا یعنی Catoract ایک طبیعت بات ہے۔ اعصابی بیماریاں بعض جسم کے اوپر جسم میں زہروں بعضوں کے نتیجہ میں پیدا ہوجاتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں کوما (Coma) پیدا ہوجاتا ہے تو قرآن کریم روحانی طور پر جو مثال دیتا ہے۔ اندھوںکی ایسی مثال دیتا ہے کہ فی قلوبہم مرض۔ ان کے دلوں میں مرض ہے۔ یہ مرض جب بڑھتا ہے تو ان کے اعصاب پر چھا جاتا ہے اور جو اعصابی اندھے ہوں اور جو اعصابی بہرے ہوں ان کا کوئی علاج نہیں ہوتا پھر۔ تو ان معنوں میں ایسی حالتیں بھی ہوسکتی ہیں کہ انسان اپنی بیماری کی وجہ سے سورج کو دیکھنے سے محروم رہ گیا ہو۔ یا سورج کا مقابلہ کرنے کے نتیجہ میں اندھا ہوجائے۔ اور یہ بھی ہوتا ہے اس کا بھی کوئی علاج نہیں۔ جو سورج کو گھورتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں اس کو دیکھ کر اس کے مقابل پر یعنی آسکتا ہوں سامنے وہ اندھا ہوجاتا ہے۔ تو یہ کئی قسم کے اندھیرے ہیں ایک سے زائد قسم کے۔ ان سے پناہ کا مضمون ہے جو ہمیں سکھایا گیا ہے۔ اور پھر کچھ اور اندھیرے ہیں جو روشنی میں نکل آنے کے باوجود پھر بھی لاحق رہتے ہیں۔ کئی قسم کے ایسے اندھیرے ہیں جو دن کی حالت میں بھی انسان کے اوپر وارد کئے جاسکتے ہیں۔ وہ اندھیرے ہیں جن کا سورہ ناس میں ذکر ہے۔ پس دو قسم کے اندھیرے ہیں ایک رات کے اندھیرے جب کسی وجہ سے جیسا کہ یہ وجوہات میںنے بیان کی ہیں ۔ انسان سورج کی روشنی سے محروم رہ جائے۔ وہ اندھیرے ہیں جن کے لئے سورۃ فلق میں جواب ہے۔ کیا کرو۔ کیا پناہ مانگو۔ دوسرے اندھیرے وہ ہیں جو دن چڑھے کے باوجود قائم رہتے ہیں اور فتنہ پرداز لوگ دن کی روشنی سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اندھیرے ہیں جن کا تعلق درحقیقت ایک رنگ میں عیسائیت کی بگڑنے والی حالت کے ساتھ ہے۔ کیونکہ مغضوب اور ضالین میں جو فرق ہے وہی ان اندھیروں میں فرق ہے۔ جو سورہ فلق میں اور سورہ ناس میں بیان ہورہے ہیں۔ سورہ فلق کے اندھیرے مغضوب سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ سورۃ اس کے اندھیرے ضالین سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور آخری فتنہ جس نے دنیا کو ہلاکت کی طرف لے جانا تھا یا دنیا کو ہلاک کرنے کے لئے آخری کوشش ہونی تھی وہ اسی طاقت کے ذریعے ہونی تھی جس کا عیسائیت سے تعلق ہے لیکن سچی عیسائیت سے نہیں بلکہ بگڑی ہوئی عیسائیت سے۔ پس ان معنوں میں فلق کا تعلق مغضوب سے ہے اور ناس کا زیادہ تر تعلق ضالین سے ہے۔ یہ عمومی تبصرہ ہے۔ اس کے بعد میں اب سورہ فلق کی آیات کا مزید تعارف کرواتا ہوں۔ نسبتاً تفصیل سے۔ قل اعوذ برب الفلق O کہہ دے میں رب فلق کی پناہ میں آتا ہوں کیونکہ یہی صمد ہے اور کوئی پناہ نہیں ہے۔ فلق کہتے ہیں بعض کہتے ہیں صبح کو۔ صبح کے معنے ہیں لیکن حقیقت میں ہر پھاڑنے والی چیز ہر قسم کی چیز کو پھاڑنے کا معنے فلق میں پایا جاتا ہے۔ رب الفلق کا مطلب ہے جو ایک چیز کو پھاڑ کر اس سے کوئی اور چیز پیدا کرتا ہے تو اگر سورج آجائے تو اندھیرے پھٹ گئے ختم ہوگئے۔ اندھیری رات میں سے ایک سورج طلوع ہوگیا۔ میں اس رب فلق کی پناہ مانگتا ہوں۔ جس نے سورہ توحید کے ذریعہ ہم پر روحانی روشنی کا آخری سورج چڑھا دیا۔ من شر ما خلق O اس شر سے جو ہر تخلیق سے وابستہ ہے۔ جب نور پیدا ہوگا تو اندھیرے کا بھی سوال اُٹھ کھڑا ہوگا۔ جب زندگی پیدا ہوگی تو موت کا سوال بھی ساتھ اٹھ کھڑا ہوگا۔ جب صحت آئے گی تو بیماری کا خطرہ بھی ساتھ لاحق ہوجائے گا۔ جب دولت آئے گی تو ڈاکے‘ چوری‘ اچکے مزید نقصانات ہر قسم کے یہ سوالات بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تو ہر تخلیق خواہ وہ اعلیٰ مقصد کیلئے ہو اور اپنی ذات میں کیسی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اس کا ایک برعکس سایہ پڑ جاتا ہے اور اسے اندھیرے کہا گیا ہے۔ من شر ما خلق O کہ جہاں خدا نے یہ تمام چیزیں تمہارے فائدہ کیلئے پیدا کی ہیں لیکن یاد رکھو کہ ہر فائدہ مند چیز کو نقصان میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پس ہم اس رب سے پناہ مانگتے ہیں کہہ دو کہ اپنے رب سے پناہ مانگو کہ تونے پیدا تو کیا تھا اچھی چیزوں کیلئے‘ روشنی کیلئے‘ اس کے فوائد کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے مگر ہم اپنے لئے اندھیرے چن لیتے ہیں یا مجبور ہوجاتے ہیں بعض دفعہ اندھیروں سے۔ ہمیں ان سے پناہ دے۔ من شر غاسق اذا وقبO جب غاسق پر اندھیرا چھا جائے گا۔ جب غاسق پر پردہ آجائیگا۔ غاسق اس کو کہتے ہیں ایک تو ہے اندھیرا‘ چاند کیلئے لفظ غاسق استعمال ہوتا ہے اور چاند جب ڈوب جائے تو اس کیلئے یہی لفظ یہی محاورہ استعمال ہوگا۔ غاسق اذا وقب O ان معنوں میں حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ چاندنی رات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھاما اور فرمایا عائشہ ! تم یہ دعا کیا کر و من شر غاسق اذا وقبO اے اللہ ! مجھے اپنی پناہ میں رکھنا جب چاند ڈوب جائیگا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ پیغام تفصیل سے ملا یا نہیں مگر حضرت عائشہ ؓ کے چاند تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ یہ پیشگوئی تھی کہ جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں میں تمہاری پناہ ہوں کسی دشمن کو تم پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر میرے بعد کئی قسم کے خطرے پیدا ہوسکتے ہیں‘ کئی قسم کے اندھیرے آنے والے ہیں تو تم یہ دعا کیا کرو کہ جب میرا چاند غروب ہوجائے اے خدا مجھے اپنی پناہ میں رکھنا کیونکہ تیری ہی پناہ ہے جو ہمیں بچا سکتی ہے۔ پس غاسق کا مطلب چاند بھی ہے اور روشنی والا بھی ہے۔ اندھیر ا کرنے والے کی شرارت سے بچا جب وہ اندھیرا کردیتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ ترجمہ کیا ہوا ہے اور لغت سے یہ بھی ثابت ہے کہ غاسق اذا وقبO کا مطلب ہے وہ چیز جو اندھیرا کردے۔ وہ سایہ فگن ‘ سایہ فگن تو نہیں سایہ ڈالنے والی چیز جو روشنی کے بیچ اور تمہارے درمیان حائل ہوجائے اس کو بھی غاسق کہتے ہیں۔ پس رات کو بھی غاسق کہا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ جب رات آجائے اور ہمارے اوپر رات چڑھ جائے ہم کسی وجہ سے توحید کے نور سے محروم ہوجائیں خواہ جان کر یا اپنے گناہوں کی پاداش میں یا زمانے کی مجبوریوں سے تو اے اللہ ! ہمیں پناہ دینا اور اندھیرے سے بچا کے رکھنا۔ و من شر النفثت فی العقد اور ان نفسوس کی شرارت سے جو تعلقات میں پھونکیں مارتے ہیں۔ یہاں نفثت مئونث استعمال ہوا ہے اور اس سے مرا د یہ ہے ،اشارہ اس طرف ہے جیسے دم درود کرنے والے گانٹھیں باندھ کر ان میں پھونک مارتے تھے جس کا اصل مقصد ہے تعلقات کو منقطع کردینا اور فتنے ڈالنا اور ہر وہ چیز جس کو خدا تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا۔ اس کو وجود سے الگ کردینا تو Divide and Rule کا جو مضمون ہے وہ نفثت فی العقد میں پایا جاتا ہے۔ یعنی ایسے وقت سے بھی پناہ جہاں تمہیں تقسیم کیا جائیگا اور اس وجہ سے تم پر حکومتیں کی جائیں گی اور جہاں مذھب کے لحاظ سے بھی تمہیں تفریق کردیا جائے گا‘ اقتصادی لحاظ سے بھی تمہیں تفریق کردیا جائیگا۔ تمہارے آپس کے تعلقات کے بیچ میں یہ زہر پھونکاجائیگا یہ مراد ہے جو تعلقات کو باطل کر دے گااور افتراق پیداکریگا۔ ومن شر حاسد اذا حسد O اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔اب دیکھیں یہ سارے وہ خطرات ہیں جن کا اندھیروں سے تعلق ہے اور اندھیروں سے تعلق ہے ان لوگوں کیلئے یعنی خطرے اندھیروں میں ہیں۔ جو روشنی میں ہیں اب ان کو کیا پتہ کہ اندھیروں میں ان کے لئے کیا کچھ پالا جارہا ہے کیا کیا سازشیں تیار ہورہی ہیں۔ تو اس سورت کا تعلق عالم الغیب سے زیادہ ہے یعنی ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو عالم الغیب کے ساتھ اس سورت کا تعلق بنتا ہے۔ کہ تم عالم الشھادۃ کو تو قبول کر بیٹھے ہو‘ توحید کا سورج جب سورۃ اخلاص میں چڑھا ہے تو تم مان گئے اور اس کے حضور حاضر ہوگئے لیکن کچھ بہت سی ایسی دنیائیں ہیں جوخدا ہی کی تخلیق کردہ ہیں لیکن وہاں کسی وجہ سے اندھیرے طاری ہیں۔ وہ توحید سے سے جتنا دور ہوں گے۔ اتنے ہی اندھیرے بڑھیں گے یہ مرا د ہے۔ اندھیروں کا مضمون توحید کا برعکس مضمون ہے۔ تو ہر قسم کا شرک‘ ہر قسم کی جہالت توحید سے دوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور جب وہ پیدا ہوتی ہے تو پھروہ خطرات کی صورت ختیار کرجاتی ہے۔ بہت سے اندیشے بہت سے خطرات جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں زندگی کے ہر شکل میں لاحق ہوتے ہیں۔ ان کا رات سے زیادہ تعلق ہے۔ بنسبت دن کے‘ بیماریاں بھی رات کو خوب بڑھتی ہیں ۔بے چینیاں ‘ فکریں‘ اندیشے‘ خطرا ت ہر قسم کے ‘ چور ‘ اچکے عام ہوجاتے ہیں‘ درندوں کو زیادہ موقع ملتا ہے چیرنے پھاڑنے کا۔ پس رات کے بچے رات کے وقت روشنی کے بچوں کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں اور ان سے پناہ مانگو۔ وہ تاک میں بیٹھے ہوئے یہیں تمہاری ‘ تم ان کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اندھیرے میں ہیں تم روشنی میں ہو اور وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کرسکتے ہو۔صمد کی طرف آئو ایک ہی پناہ ہے۔ جب تم توحید پر قائم ہوگے تو معا تمہارے سامنے صمدکا تصور ابھرے گا اور ہر خطرے سے اپنی بقاء کیلئے تمہیںصمد کی پناہ ڈھونڈنی ہوگی۔ پھر فرماتا ہے ومن شر حاسد اذا حسد O اور حاسد کے شر سے پناہ مانگو۔ یہاں حاسد ‘ کس بات کا حاسد؟ پہلے تو سارے خطرات ہی ہیں ان میں کوئی حسد والی بات نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ توحید والے لازماً خدا سے پناہ مانگنے کے نتیجہ میں ترقی کرنے چلے جاتے ہیں اور کوئی طاقت ان کی راہ روک نہیں سکتی۔ انہوں نے بہرحال بڑھنا ہے۔ چاہے نفاثات گانٹھوں میں پھونکیں ماریں ۔ چاہے اندھیروں میں پلنے والے ہزار قسم کے منصوبے ان کے خلاف بنائیں لیکن ایک قطعی حقیقت ہے جس کووہ تبدیل نہیں کرسکتے کہ توحید کے بندے ضرور ترقی کریں گے اور حسد پیدا ہوگا تو اندھیروں میں اور بے حسی پیدا ہوجائیگی اب دیکھیں اللہ کے فضل سے جماعت جو ترقی کررہی ہے تو بے چینی ہورہی ہے نا کہیں پیدا!‘ وہ اندھیروں کی بے چینی ہے اور ہمیں پتہ نہیں کہ کیا منصوبے بنا رہے ہیں۔ ہمیں کیا پتہ بے چاروں کو؟ ہم روشنی میں پھر رہے ہیں وہ اندھیرے والے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور تاک رہے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس طرح ان کو مارو‘ اس طرح ان کے خلاف منصوبے بنائو تو اللہ فرماتا ہے ایک ہی حل ہے صمد کی طرف لوٹو۔ ایک ہی خدا جو پناہ بن جاتا ہے خطروں کے وقت۔ پس اعوذ کا تعلق ان سب فتنوں سے ہے جو اندھیروں سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم الغیب خدا ہی ہے۔ جوان سے نجات بخش سکتا ہے۔ پھر عالم الشہادہ کی طرف دوبارہ پھر واپس آتے ہیں۔ سورہ ناس میں اور وہ اندھیرے جو دن کے وقت بھی عاید کردئے جاتے ہیں بظاہر تو گنجائش نہیں لیکن پھر بھی پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ ان کا مضمون سورہ ناس سے شروع ہوگا۔ اب چونکہ وقت ھوڑا ہورہا ہے میں مشترقین وغیرہ کی بحث میں خواہ مخواہ آپ کو الجھانا نہیں چاہتا۔ ان سورتوں میں آکے تو ان کی بولتی بند ہوجاتی ہے عملاً کچھ بھی نہیں رہتا ۔ اتنی طاقتور سورتیں ہیں۔ ایسا زبردست ہیں باطل کے خلاف کہ ان کے آگے پھر چوں‘ چوں چاں چاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ضرورت پڑی تو میں حوالہ بعد میں دے دوں گا۔ سردست اس مضمون کے تسلسل میں بہتر ہے کہ آگے بات چلائی جائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم O قل اعوذ برب الناس O ملک الناسO پہلا طریق تو یہ تھا کہ تلاوت کے بعد پھر ترجمہ کیا جاتاتھا، زیادہ اچھا لگتا ہے۔ وہی شروع کرتے ہیں۔قل اعوذ برب الفلق O کی تلاوت نہیں کی تھی میں نے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم O
قل اعوذ برب الفلق O من شر ما خلق O و من شر غاسق اذا وقبO و من شر النفثت فی العقد O و من شر حاسد اذا حسد O
بسم اللہ الرحمن الرحیم O
قل اعوذ برب الناس O ملک الناس O الہ الناس O من شر الوسواسO الخناسO الذی یوسوس فی صدور الناسO من الجنۃ والناسO اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم فرمانے والا اور بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے کہہ دے کہ میں رب الناس کی پناہ میں آتا ہوں۔ اس ر ب کی پناہ میں آتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا رب ہے۔ ملک الناس اور ان کا بادشاہ بھی وہی ہے۔ اسی کا قانون ہے جو چلے گا۔ الہ الناس اور انکا معبود بھی وہی ہے۔ من شرالوسواس الخناس اس وسواس کے شر میں پناہ مانگ رہا ہوں جو خناس ہے۔ وسواس کہتے ہیں۔ وسوسہ پیدا کرنے والے کو اور خناس کہتے ہیں وسوسہ پیدا کیا اور بھاگ کر چھپ گیا۔ تو مستقل ان طاقتوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ روشنی کا سامنا کرسکیں اور روشنی میں کھلم کھلے حملے کریں ۔ آتے ہیں وسوسہ پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنی کمین گاہوں کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں تو وہ خطرات جو دن سے وابستہ ہیں اب ان کی بحث شروع ہوگئی ۔ من الجنۃ والناس یہ جنوں میں سے بھی ہیں اور ناس میں سے بھی ہیں۔ یہاں مستشرقین کا اتنا ذکرضروری ہے کہ وہ کہتے ہیں دیکھو نا ! محمد رسول اللہ جنوں میں believe کیا کرتے تھے اور گویا کہ کہانیوں وغیرہ میں ایسی باتیں کرتے تھے حالانکہ اس سورت کا آغاز ہی بتا رہا ہے کہ جن ناس کے اندر داخل ہیں۔ اگر جن ناس سے علاوہ کوئی مخلوق ہو جو یہاں زیر بحث آئی ہو تو رب الناس و الجن ۔ ملک الناس و الجن۔ الہ الناس و الجن ہونا چاہئے وہ تو ہے ہی کہیں نہیں تو جن کہاں سے بیچ میں آدھمکے۔ اس کا یہ نتیجہ میں نکال رہا کہ جن کی کوئی اور قسم یہاں نہیں ۔ مراد ہو ہی نہیں سکتی‘ یہاں نہیں ہوسکتی‘ کسی اور جگہ بھی نہیں ہوسکتی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کسی اور جگہ بے شک جن کے جو مرضی معنی کرلیں۔ اس سورت میں جن کو ناس کے رستے سے داخل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ وہ ناس میں سے ہے تو آئے گا اس سورت میں ورنہ نہیں آئے گا۔ تو جن سے مراد وہ معنی ہے کہ جوبہت بڑے بڑے لوگ اور بڑی بڑی طاقتیں اور دوسری جگہ میں نے اس آیت کے مضمون کے تعلق سے ایک دفعہ یہ بھی ترجمہ پیش کیا تھا۔کہ جن کا لفظی ترجمہ یہاں بورژوا بنے گا اور ناس کا ترجمہ ایک تو وہ ہے جو بورژواپر بھی یعنی Capitalist طاقتوں پر بھی اطلاق پاتا ہے اور ایک وہ جس کا Proletariat سے تعلق ہے یعنی عوام اور یہ دونوں انسان ہی ہوتے ہیں خواہ وہ Capitalist طاقتیں بن جائیں یا عوامی طاقتیں بن جائیں۔اشتراکی طاقتیں بن جائیں۔ ہیں دونوں ہی انسان مگر ایک ذرا بڑے بڑے لوگ۔ طاقتور لوگ اور عام انسانوں سے بلند اپنے آپ کو سمجھنے والے لوگ ان سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے والے لوگ جو expoliteکرتے ہیں‘ دوسروںکو اس حوالے سے ناس کاایک پہلا ترجمہ جوہے وہ عمومی ہے۔ یعنی تمام بنی نوع انسان ان بنی نوع انسان میں جن بھی داخل ہیں اور عوام الناس بھی داخل ہیں۔ بڑے لوگ بھی داخل ہیں اور عامۃ الناس اور کمزور لوگ بھی داخل ہیں۔ تو فرماتا ہے قل اعوذ برب الناس O تو کہہ دے کہ میں رب الناس کی پناہ میں آتا ہوں۔ اگر رب الناس کی پناہ کے علاوہ کسی اور کی پناہ بھی مقصود تھی تو پھر اور جن اس میں شامل نہیں تھے تو پھر اللہ کی پناہ پوری نہیں ملے گی۔یہاں رب الناس کی تو پناہ میں
آجائیں گے۔ رب الجن کی پناہ میں تو نہ نہ آئے۔ آپ!مارے گئے وہاں سے۔ ایک حصہ خالی رہ گیا مگر یہ سورت کسی حصہ کو خالی نہیں چھوڑ رہی یہ میں بتا رہا ہوں آپ کو تو مراد ہے کہ ہر قسم کے شر جو انسانوں کی طرف سے پہنچ سکتے ہیں جن کا تعلق کا ربوبیت سے ہے یعنی رزق سے تعلق ہے اور انسان کی بقاء جس کا تعلق رزق سے ہے اس مضمون کے تعلق میں خدا کی پناہ میں آتا ہوں اس رب کی پناہ میں جو دراصل رزق دینے والا ہے اور سب انسانوں کو دینے والا ہے اور میں رزق کے معاملے میں کوئی ایسا دھوکا نہیں چاہتا جس سے میں اپنے رب سے کاٹا جائوں۔ اب رزق کا مضمون تو روشنیوں کا مضمون ہے۔ دن کا مضمون ہے۔ لیکن اس روشنی کے مضمون یہ بھی بعض اندھیرے وارد کئے جاسکتے ہیں جن کا بعد میں وسواس کے لفظ سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ رب الناس ہے لیکن ہم واقعتا اسی کو رب سمجھتے ہیں کہ نہیں یہ بحث اٹھتی ہے۔ کتنے ہیں جو خدا کو رزاق سمجھتے ہیں۔ کتنے ہیں جو بات بات پر جھوٹ اور فساد اور نافرمانی کے سہارے رزق کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتنے ہیں جو رزق کی خاطر اپنا دین ایمان سب بیچ بیٹھتے ہیں اور رب الناس کے تعلق میں رزق کے مضمون ہی کی وجہ سے رب الناس کا انکار بھی کیا جاچکا ہے۔ یعنی اشتراکی دنیا میں جو اقتصادی بناء پر خدا کا انکار کیا گیا ہے۔ اس کا اس مضمون سے تعلق ہے رب الناس سے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! تو اعلان کر کہ جس روشنی میں تم داخل ہوئے ہو۔ جس خدا سے تم نے تعلق باندھا ہے غائب کا بھی وہی خدا ہے غیب کا بھی وہی خدا ہے اور حاضر کا بھی وہی ہے غیب کے فتنوں سے بھی وہی نجات بخشے گا جو کھلم کھلا اندھیروں کے فتنوں ہیں اور ان فتنوں سے بھی نجات بخشے گا جو روشنی کے نام پر آئیں گے۔ نئی تعلیمات کے نام پر آئیں گے۔ نئے فلسفوں کے نام پر آئیں گے اور روشنی کے بھیس میں لئے ہوئے اندھیرے ہوں گے۔ تو مسلمانوں کو تعلیم دے کہ وہ رب کی پناہ مانگیں ۔ ان سب قسم کے فتنوں سے اور ایک فتنہ رزق کا فتنہ ہے جس کے نتیجہ میں پھر یہ تفریق ہونی تھی جن اور انس کے درمیان۔ دوسرے معنیٰ میں ملک الناس بادشاہت کا فتنہ۔ مالک اللہ ہے۔ لوگ کہیں گے جمہور کی حکومت ہو گی لوگ کہیں گے ڈیموکریسی ہونی چاہئے ۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ خود اپنے قوانین بنائے اور انسان کو اختیار ہے کہ خود جیسے چاہے خدا کے دوسرے بندوں پر حکومت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس فتنے سے پناہ مانگنا۔ اگر بندے مالک بن بیٹھے اور بندے بادشاہ بن گئے تو پھر ہر قسم کے فتنے پیدا ہوں گے۔ پھر کسی کو کوئی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ کوئی انصاف باقی نہیں رہے گا۔ بڑے بڑے ظلم کئے جائیں گے۔ ڈیموکریسی کے نام پر اور سب جھوٹ ہوگا۔ فساد ہوگا۔ دھوکہ بازی ہوگی۔ جتنی ڈیموکریسی آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ Politicکی طرف نہیں جارہی‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال تھا یعنی آئیڈیل ڈیموکریسی کی طرف نہیں بڑھ رہی بلکہ degenerate ہورہی ہے اور جتنے بڑے ڈیموکریٹک ملک ہیں وہاں سب سے بڑا ڈیموکریسی میں فساد پیدا ہوا ہے‘ تو بڑے بڑے ایسے ادارے ہیں طاقتور جیسے مافیا یااورقسم کے یا Modren System جو ہیں Cummunications وغیرہ کے ان کے تابع ڈیموکریسی جاچکی ہے۔ عوام الناس بیچاروں کو تو پتا ہی نہیں۔کہ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ بڑا بڑا پیسہ چلتا ہے۔ لوگوں کے خیالات پر اثر انداز ہونے کیلئے بڑی بڑی طاقتیں ان کے خیالات کا رخ موڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک امریکن پریذیڈنٹ نے اپنی کتاب میں لکھا۔ غالباً Diksonتھا کہ میں جانتا ہوں تجربہ سے کہ امریکن پریذیڈنٹ اب اپنے میڈیا کے ہاتھ میں غلام بن چکا ہے۔ اگر وہ جانتا بھی ہو کہ یہ بات ہمارے عوام کے خلاف ہے۔ مفاد کے خلاف ہے اور جانتا بھی ہو کہ یہ بات اختیار کرنے سے امریکہ کے مفاد کو نقصان پہنچے گا توبعض دفعہ میڈیا کے پریشر میں آکر مجبور ہوجاتا ہے وہاں غلط اقدام کرنے پر اور جہاں تک غلامیوں کا تعلق ہے۔ ایک موقع پر ایک امریکن پریذیڈنٹ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ ہمارا فارن آفس اسرائیل میں ہے یعنی وہاں سے وہ ہماری فارن پالیسی ڈکٹیٹ کروانا چاہتا ہے۔ اس نے کہا ایسا نہیں ہوگا۔ مگر وہ بات اس کی جھوٹی نکلی اور ایسا ہی ہوا۔ تو ڈیموکریسی جب بڑے بڑے طاقتور مافیا کے ہاتھ میں جاچکی ہے۔ قوتوںگروہوں کے ہاتھ میں جاچکی ہو تو ڈیموکریسی کا رہتا کیا ہے۔ فرمایا ! بندوں کی حکومت سے تمہیں کوئی فیض نہیں ملے گا کوئی امن نصیب نہیں ہوگا۔ خداکی حکومت میں آئو گے تو امن ملے گا تو پھر اس لئے اس روشنی کے زمانہ میں جبکہ ڈیموکریسی زیادہ روشن ہو ہی نہیں سکتی۔ اندھیروں کے نام پر ہی نہیں اندھیرا نازل ہورہا۔ کہتے ہیں کہ جاہل ہیں وہ لوگ جو ڈیموکریسی کو رد ترک کررہے ہیں۔ ہم ان کو ڈیموکریسی کی روشنی کی طرف لے جارہے ہیں‘ مگر ڈیموکریسی ہے کیا؟ وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ پس فرمایا ! ملک الناس کی پناہ میں آنا۔ بادشاہ خدا ہی ہے اس کا حکم چلے گا۔ وہی مالک ہے ۔ الہ الناس پہلی دو چیزوں کا دنیا سے تعلق ہے مگر یہ تفریق کردیتے ہیں خدا کے درمیان اور یہ مضمون میں پہلے بارہا بیان کرچکا ہوں زیادہ نہیں۔ اس پر روشنی ڈالتا۔ اشارۃً بتا رہا ہوں کہ نئے زمانوں میں خدا کو بانٹا جائے گا۔ جس طرح عیسائیت نے تثلیث کے ذریعے خدا کی ہستی میں تفریق پیدا کی تھی۔ اسی طرح عیسائی دور میں جبکہ عیسائیت کا دنیا میں بول بالا ہوگا اور عیسائی حکومتیں ساری دنیا پر عملاً حکومتیںکررہی ہوں گی۔ انسان کو خدا تعالیٰ کے تصور کو اپنی طاقتوں کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم کردیا جائے گا۔ ایک وہ جس کا ربوبیت سے تعلق ہے اور خدا کی ربوبیت کو الگ بطوررب کے الگ Treat کیا جائے گا اور اس پہلو سے اس سے ربوبیت چھین لی جائے گی۔ ملکیت کے مالک ہونے کے لحاظ سے بادشاہ ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک الگ حیثیت قرار دی جائے گی اور اس سے مالکیت چھین لی جائے گی اور کہا جائے گا کہ اب بندے رب ہیں۔ اور بندے مالک ہیں ہماری ربوبیت کو مانو گے تو روٹی ملے گی ورنہ نہیں ملے گی۔ ہماری بادشاہت کو تسلیم کرو گے تو تمہاری حکومتیں قائم رہیں گی۔ ورنہ کمزور ملکوں پاکستان‘ ہندوستان وغیرہ وغیرہ تمہیں وہم ہے کہ تم آزاد ہو۔ امریکہ کی مرضی پر ہے کہ تمہاری حکومتیں قائم رہیں یا نہ ہیں۔ اگر تمہیں آزادی کا سر اٹھایا تو ہم اسے کچلنا بھی جانتے ہیں۔ اس لئے ہم مالک ہیں۔ اورکوئی مالک نہیں۔ پس جو خدا کی پناہ میں نہیں جائے گا وہ تو غلام ہی رہے گا اور بندوں کا غلام رہے گا اور وہ بندے جن کی غلامی سراسر ظلم اور اندھیرا ہے تو اس طرح روشنیوں کو اندھیروں میں تبدیل کرنے کا زمانہ آنے والا تھا۔ اس کی پیشگوئی فرمائی ہے اور عیسائیت کے تعلق میں اس کی تثلیث کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ یہ روحانی تثلیث جو بنائی گئی ہے یہ عمداًایک تثلیث پر جاکر منتج ہوجائے گا جب کہا جائے گا رب اور ہے۔ ملک اور ہے۔ الہ اور ہے۔ پیچھے جو خدا کا رہ جائے عبادت کرے رہو۔ بے شک اس کی۔ پھرکیا رہ جاتا ہے۔ باقی اس کا۔ الہ کی طرف جانے کے لئے۔ ذہنوں کی توجہ پھیرنے کے لئے لازم ہے کہ وہ الہ رب بھی ہو اور ملک بھی ہو۔ اگر یہ دو باتیں نہ ہوں تو کسی کی بلاء سے جو کچھ بھی ہو۔ پھر کوئی پرواہ نہیں کسی کی طرف جھکنے کی ۔ جتنے بھی ہمارے آج Motive ہیں۔ ہماری جو محرکات ہیں جو ہمیں کچھ فیصلے کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے پر ہماری مدد کرتے ہیں۔ وہ دو بنیادی محرکات ہیں ایک رزق کا اور ایک بادشاہت کا۔ اس کے سوا انسان کو دوسری چیزوں میںجو دلچسپی ہے وہ سب ضمنی ہیں اور اسی میںکے تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کی عیش و عشرت رزق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس کی حکومت اور انا کے تصور اور وہ لطف جو انسان اپنی بڑائی سے لیتا ہے وہ ملک ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دو مضمون نکالیں تو انسان کو تو زندگی میںہی دلچسپی ختم ہوجائے۔ اب باقی الہ کا کیا بچا۔ کہتے ہیں اب جو ہے باقی خدا کی عبادت کرو۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اور خدا کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس خدا کی عبادت جس کو رب نہیں مان رہے۔ جس کو ملک نہیں مان رہے۔ اس کی بلاء سے۔ تبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو شرک کرتے ہو جو تقسیم کرتے ہو۔ گوشت شریکوں کے لئے وہ ان کو پہنچ جاتا ہے۔ جو اللہ کے لئے کرتے ہو اس کے بعد خدا کو نہیں پہنچتا۔ وہ بھی انہی ہی کو پہنچتا ہے۔ تو مطلب ہے کہ یہ الہ تم سے تعلق توڑے گا۔ تمہارا کوئی معبود باقی نہیں رہے گا۔ اس لئے معبود کی پناہ میں معبود کے حوالے سے آئو۔ اے ہمارے خدا ہمیں پناہ دے ان بختیوں سے ورنہ تو بھی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ ہم نہیں چاہتے کہ تجھے اپنے ہاتھ سے چھوڑے اس لئے اپنی توحید کی عظمت کے خیال سے ہم پر رحم فرما۔ اور ان جھوٹے خدائوں سے ہمیں نجات بخش ۔ جو آج دنیا کے ر ب بنے بیٹھے ہیں اور دنیا کے مالک بنے بیٹھے ہیں یہ ہے وہ مضمون من شرالوسواس االخناس اب یہاں وسواس الخناس کا تعلق بہت واضح طور پر کھل گیا کہ وہ ساری طاقتیں جو ان تین باتوں میں فتنے پھیلانے والی ہیں وہ عجیب و غریب مضمون دماغوں میں پھونکتی ہیں اس پہ لٹریچر لکھا جا تاہے بے شمار کتب تصنیف ہوتی ہیں اور اس طرح بھی ان کے میڈیا میں جوہر طرح سے آخری نتیجہ ہے وہ یہ ہے کہ ربوبیت طاقتور مالدار قوموں کا کام ہے اور ملکیت بھی طاقتور مالدار قوموں کے قبضہ میں ہے۔ باقی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمیں سجدہ کرو گے تو تمہیں سب کچھ ملے گا۔ لیکن جہاں تک ظاہری سجدوں کا ماتھا ٹیکنا جس کو کہتے ہیں۔ اس کا تعلق ہے بے شک کسی خدا کی عبادت کرتے پھرو ہمیں کوئی پرواہ نہیں تو اللہ کہتا ہے کہ مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں۔ چھٹی کرجائو۔ الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس پر فتنے دو قسم کے ہیں۔ایک ہے وہ استعماری فتنہ اورجنوں کا فتنہ۔ یعنی بڑی بڑی طاقتور قوموں کا فتنہ اور ایک ہے ناس کا فتنہ ۔ یعنی بڑی بڑی طاقتور قوموں کا فتنہ اور ایک ہے ناس کا فتنہ جو اشتراکیت سے پھیلا ہے۔ وہاں سے وہ فتنہ پیدا ہوا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ دونوں قسم کے سکالرز دونوں قسم کے بڑے بڑے لوگ اور ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے تمہارے اندر پھونکیں ماریں گے اور تمہیں خدا سے توڑنے کی کوشش کریں گے اور وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ جو مضمون ہے۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم دعا کی طرف متوجہ ہوں گے۔ کہاں ہے جی۔ وقت ہوگیا ہے نا دعا کی طرف جانے کا۔ ہاں ہاں وہی۔ کچھ باتیں اور بھی تو کرنی ہیں بیچ میں یہ جو درس ہے اس کے بعد رمضان المبارک کی آخری اجتماعی دعا ہوتی ہے۔ اگرچہ رمضان المبارک کا ایک دن بھی کل باقی ہوگا لیکن مختلف مشوروں کے بعد یہی طے پایا تھا مجھے سمجھ نہیں آئی کس وجہ سے۔ ہوسکتا ہے۔ بعض علاقوں میں پہلے رمضان ختم ہورہا ہو۔ غالباً عرب علاقوں میں بعد میں ہورہا ہے۔ پہلے ہورہا ہے اس لئے شاید ان کے خیالات سے کیونکہ وہ بھی سن رہے ہیں ہمیںآج ہم نے وقت رکھ لیا ہے دعا کا۔ اور یہ دعا کا وقت ان عرب علاقوں میں بھی اور پاکستان میں بھی روزہ کھلنے کے وقت کے قریب ہے۔ اور وہ خاص دعائوں کا وقت ہے اس میں ہم اکٹھے مل کر دعائیں کریں گے ۔ آپ کو میں یاد دلاتا ہوں پہلا تو ہے۔
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم الھم صلی علی محمد و علی آل محمد
سب سے زیادہ پیارا ۔سب سے پیاری بات جو خدا کو بہت ہی زیادہ اچھی لگتی ہے وہ ہے۔سبحان اللہ و بحمدہیہ دو کلمے ہیں پاک ہے وہ اللہ ہر قسم کی کمزوریوں سے۔ لیکن اپنی حمد کے ساتھ۔ یعنی صرف کمزوریوں سے پاک نہیں۔ ہر کمزوری کے مقابل پر اس میں ایک حمد موجود ہے سبحان اللہ العظیم۔ واہ کیا شان ہے۔ ہمارے رب کی۔ عظیم کا لفظ یہاں اسی طرح کا ہے جسے ہم کسی بندے کے متعلق بہت ہی متاثر ہوکر کہیں کہ یہ عظیم آدمی ہے تو اللہ تعالیٰ عظیم ہے جو ہر خرابی سے پاک اور ہر خوبی سے مرصع اور ہر خوبی اس کی ذات میں کامل طورپر موجود ایسے وجود کی تعریف ہونی چاہئے۔ اسی سے تعلق جوڑنا چاہئے۔ اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ درود اسکے ساتھ شامل کرو۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد۔ اے اللہ ! محمدؐ پر سلام بھیج اور ہر قسم کی برکتیں انہیں عطا فرما اور آل محمد ؐ پر بھی تو یہ سب دعائوں کا نچوڑ ہے۔ یہ دعا ہوجائے تو ساری دعائیں اس کے اندر داخل ہوجاتی ہیں اور آل محمد ؐ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تو داخل ہے ہی۔ مگر خصوصیت سے و ہ امت جو حقیقتہً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے والی ہے۔ اور آپ کی آل میں سے وہ خونی تعلق والے بھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خونی رشتہ بھی رکھتے ہیں اور روحانی رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ پھر ایک وسیع ترمعنے ہیں آل کا لفظ سارے بنی نوع انسان پر بھی صادق آتا ہے۔ کیونکہ جس کی جو قوم ہو اس کو اس کی آل کہا جاتا ہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم سارے بنی نوع ہیں تمام انسان ہیں۔ پس ان معنوں میں یہ دعا جو ہے۔ بہت ہی وسعت اختیار کرجاتی ہے۔ گذشتہ صلحائے امت انبیاء علیہم السلام پر بھی درود بھیجتے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسرے بزرگوں پر بھی سلام اور درود بھیجنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیںیہ سبق سکھایا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ گذشتہ امتوں کیلئے بھی اور ان کے بزرگوں کے لئے بھی ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے ان کے لئے دعا کرنے سے ایک اور فائدہ ہوگا کہ ان کی امتوں کے لئے بھی دعا ہوجائے گی اور انہیں بھی اسلام قبول کرنے کی توفیق ملے گی۔ عالم اسلام کے لئے عمومی دعائیں۔خدا تعالیٰ انہیں باہمی اتحاد فرمائے اخوت عطا کرے۔ ایک محبت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور دشمنوں کے تفرقہ پیدا کرنے والے فتنوں سے نفاثات میں پھونکتے ہیں۔ اس کے شر سے اللہ ان کو بچائے رکھے۔دجال کے فتنے سے ہر قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں نجات بخشے۔ اور پناہ میں رکھے۔ اور اسکی چالوں اور خطرناک سازشوں سے جن کا ہمیں کوئی علم نہیں ان اندھیروں سے بھی ہمیں بچائے۔ امن عالم کے لئے۔ اور جو خطرات اس وقت امن عالم کو درپیش ہیں ان سے بچنے کے لئے دعا۔ اشاعت اسلام اور احمدیت کے لئے جو نئے نئے رستے خدا تعالیٰ کھول رہا ہے ہمارے لئے ترقی کے۔ بعد دنیا کو ہدایت کی طرف بلانے کے۔ ان کے لئے دعا اور اس … کے رستے کے ساتھ جو حاسد کا شر وابستہ ہے اس کے شر سے بچنے کی دعا ۔ پھر واقفین کے لئے اور وقف نو کے مجاہدین کے لئے۔
واقفین سے مراد یہاں صرف وہ واقفین نہیں ہیں جو زندگی وقف کرکے خدمت دین میں باقاعدہ ہمہ وقت حاضر ہوگئے بلکہ میں واقفین میں ان کو بھی شمار کرتا ہوں جنہوں نے ہمہ وقت اپنے آپ کو پیش نہیں کیا مگر سارا وقت دین ہی کے لئے ہے۔ اور دفتروں سے فارغ ہوتے۔ دین کے کاموں کی طرف لوٹتے اور بالکل اپنی دنیا کو بھلا بیٹھے ہیں عملاً۔ ایسے لوگ دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں ہر ملک میں۔ کام بڑھنے کے ساتھ اللہ کے فضل سے ایسے فدائین بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں جو بعید نہیںکہ لاکھ کے قریب پہنچ چکے ہوں یا اس سے بھی بڑھ گئے ہوں۔ پھر شہداء احمدیت کیلئے۔ اسیران راہ مولیٰ کیلئے۔ ان کی رستگاری کے لئے۔ احباب جماعت احمدیہ عالمگیر کے لئے۔ انفرادی اور نوعی لحاظ سے مختلف قسم کے مسائل سے دو چار لوگوں کیلئے ۔ کثرت سے ایسے خط ملتے ہیں جن میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ بے شمار ہیں دعا کے وقت ہر شخص کو۔ ہر مسئلہ کے تعلق میں یاد رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ اب یہ دعا کا مضمون بہت پھیل گیا ہے۔ یہ نہیں کہ اتفاق سے کوئی آکر کہے کہ میرے لئے دعا کرو۔اب تو روزانہ کے خطوں میں جتنے دعا کے مطالبے آتے ہیں۔ ان کو اگر سوچ سوچ کر ایک ایک کے لئے دعا کرے کوئی تو سارا دن صرف دعا کے لئے چاہیے۔ اس لئے میں وہی طریقہ اختیار کرتا ہوں جو عموماً حضرت مولوی شیر علی صاحب کہا کرتے تھے کہ دعا کی درخواست ہوتے ہی فوراً دعا کردیتے تھے۔ تو گزرتے ہوئے ساتھ ساتھ دعا کرتا جاتا ہوں اور بعد کی جو اجتماعی دعا ہے اس میں ان قسموں کے لحاظ سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ ! اس قسم کے جتنے بھی خط آئے تھے۔ تو جانتا ہے اور جس نے زبانی بھی کہا تھا تو جانتا ہے اس نوع کے لوگوں کو ان کی مشکلات سے نجات بخش۔ اور اس طرح پھر طبقہ بہ طبقہ دعا کو پھیلاتا ہوں۔ پھر ملک بہ ملک بھی نظر ڈالتا ہوں کیونکہ جب ملکوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کے الگ الگ مسائل اور انکی دعا کی ضرورتیں نمایاں طور پر الگ ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ تو اس طرح میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ بھی اس دعا میں جتنا بھی وقت رہ گیا ہے سرسری نظر ڈال کردعا کرلیں گے تو ہوگی ورنہ نا ممکن ہے اسیران ۔بیماریوں کے لئے دعا کے لئے دعا ہے ۔ اور ان کے لئے جن کے لئے مختلف قسم کی چٹیاں پڑگئی ہیں یہ بھی ایک گروہ ہے ۔ اور قرض کے بوجھوں تلے بعض لوگ دبے ہوئے ہیں ان کے لئے یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ وہ قرض میں جودبنے کا ان کا خاص ملکہ ہے اللہ ان کو اس سے نجات بخشے ۔ کیونکہ بعض لوگ ہیں ۔ ان کا جتنا بھی قرض اتارتے چلے جائیں وہ اٹھاتے چلے جائیںگے۔ اس لئے ان سے آپ کس طرح مقابلہ کرسکئے دعا کریں ۔ اور اس بیماری کو دور فرمائے جوقرض پر منتج ہوتی ہے ۔ اور پھر ایسے معصوم بھی ہے جو مجبور ہیں قرض اٹھانے پر ۔ بچے مررہے ہیں بھوک سے ۔ اور کئی مصیبتں ہیں بیماریاں ہیں ۔ اس وقت ہو ش نہیں رہتی کہ میں قرض واپس کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہوں کہ نہیں ۔وہ قرض اٹھا لیتے ہیں وہ ان کی بیماری نہیں۔ ان کی مجبوری ہے۔ پر وہ جائیدادوں کی تمنا میں قرضے اٹھا لیتے ہی بے وجہ۔ بے سوچے ا نکی عقل کیلئے بھی دعا کریں۔ ایسے قرض اٹھانے ہی نہیں چاہیں جو انسان واپس نہ کرسکے۔ اور جس کے نتیجہ میں انسان عجیب قسم کی مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے۔ سود کے چکر میںپڑ جائے۔ خدمت پر کمر بستہ، میں نے بیا ن کردیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو بھی دعائوں میں یاد رکھیں کہ جیسے روحانی خونی رشتے کی سعادت بخشی گئی ہے۔ روحانی رشتہ کی بھی ان کو سعادت عطا ہو۔ اھل بوسنیا اور کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کے لئے بھی دعا کریں۔ اپنے لئے غیر معمولی دعا کریں۔ یہ جو نئے دور ہیں جن کے تقاضوں میں ہم داخل ہورہے ہیں۔ اللہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے۔ اور جو ابتلاء ہمارے لئے مقدر ہیں اگر ان کا ٹالا جانامناسب نہ ہو اللہ کے نزدیک۔ بعض ایسی حکمتیں ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں اس تکلیف میں انسان کو گزرنا ہی ہوتا ہے۔ ان منکم الا واردھا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ کچھ تو ہیں کہ آخری صورت میں جہنم میں ڈالے جائیں گے کچھ کو اس دنیا میں اس کے نمونے چکھنے پڑیں گے طوعی طور پر۔ اللہ کی خاطر وہ بھی اس جہنم سے دور کئے جائیں گے تو اگر یہی جزاء ہے اس تکلیف کی جو ہمیں یہاں پہنچتی ہے تو پھر تیری مرضی تو مالک ہے جو چاہے کر لیکن ہمیں حوصلہ بخش۔ ہمیں توفیق عطا فرما۔ ہمیں ثبات قدم بخش۔ ہم ان مصیبتوں کے نتیجہ میں تیری راہ سے بھٹک نہ جائیں۔راستے پر آگے قدم بڑھانا نہ چھوڑ دیں۔ ٹھٹھک کر کہیں کھڑے نہ رہ جائیں۔ ہماری رفتار ہمیشہ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے۔ یہ سب دعائیں کریں۔ پھر جو تیری رضا ہے ہم اس پر راضی ہیں اس پر ہمیں راضی رکھنے کی توفیق عطا فرما۔ راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔ کیونکہ منہ سے یہ بات کہہ دیتے ہیں لوگ جب مشکل کا وقت آتا ہے۔ تو نہیں پورا کرسکتے۔ اس لئے یہ دعا مانگیں کہ خدا ہمیںاس خوبصورت بات پر فی الحقیقت قائم رہنے کی توفیق بخشے کہ ہم تیری رضا پر راضی ہیں۔ آئیے ! اب دعا کرلیتے ہیں ۔میں سارے، ساری دنیا میں جو اس وقت لوگ شامل ہونے والے ہیں ان سب کو میں سلام علیکم ! آپ سب کی طرف سے پہنچاتا ہوں۔ رمضان بڑی تیزی سے گزرا۔ اچھا گزرا جاپان والے بھی بیٹھے اس وقت دیکھ رہے ہیں اور دوسرے ممالک قریب تر آئیںتو بنگلہ دیش ہے۔ سب کی آنکھیں اس وقت ٹکی ہوئی ہیں ٹیلی ویژن کے اوپر اور کان سُن رہے ۔ کیا ہورہا ہے۔ اس مجلس کا حصہ بنے ہوئے ہیں پھر ہندوستان کی دور دور کی جماعتیں جہاں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جائوں گا۔ وہ سارے اس مجلس میںشامل ہیں۔ پھر پاکستان کے دیہات میں مختلف قصبات میں۔ شہروں میں جگہ جگہ ایسی بھرپور مجلس اس وقت قائم ہے۔ درس کی… جس کی کوئی مثال پہلے کبھی دکھائی نہیں دیتی۔
ماریشس بھی شامل ہوگیا ہے۔ آج۔ انہوں نے۔ انکی خواہش تھی کہ آخری تین دنوں میں وہ بہت غیر معمولی خرچ کرکے فائدہ اٹھالیں۔ کیونکہ وہاں اجات نہیں ہے اینٹینا کی۔ تو ایک ہی رستہ انہوں نے سوچا کہ اپنے ٹیلی ویژن والوں سے درخواست کی کہ باقی نہ سہی صرف ہمارے لئے ہی یہ پروگرام ٹیلی وائز کرنے کا انتظام کردو۔ باقی جگہ نہیں ہوگا۔ اپنا انٹینا لگائو۔ہمیں اسے میں سے دکھا دو۔ وہ مان گئے۔ لیکن خرچ اتنا زیادہ تھا کہ میں نے کہا کہ یہ تکلف کی حد تک ہوگیا ہے۔ تو انہوں نے پھر اصرار کیا کہ اچھا پھر ہمیں درس میں شامل ہونے دیں۔ آخری دعا میں۔ وہ بھی بیٹھے اس وقت دیکھ رہے ہوں گے وہاں اور جن کو میں کہتا ہوں وہ مسکرا بھی رہے ہوں گے کچھ۔ آنکھیں اٹھا کے ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ ہاتھ بھی شاید ہلاتے ہوں۔ تو پاکستان کے دیہات ہیں سندھ‘ صوبہ سرحد‘ پنجاب اور بلوچستان پھر افریقہ کی طرف آجائیں وہاں بھی اس وقت اجتماع ہے بڑا زبردست اور آج کے اجتماع میں امریکہ بھی شامل ہے اورکینیڈا بھی شامل ہے اور جنوبی امریکہ بھی شامل ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ نہیں ہے جو س عالمی دعا میں شامل نہیں ہے۔ اور کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس کو جماعت کی اس عالمی دعا کا فیض نہیں پہنچے گا۔ پس ان سب کو پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میںرکھے۔ اس رمضان میں جو کوتاہیاں آپ سے یا ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔ ان سے عفو فرمائے۔ اور جو برکتیں ہم پانے کے حقدار نہیں بن سکے۔ اپنے فضل سے ہمیں عطا کردے۔ جماعت کی اجتماعی حیثیت پر رحم کرتے ہوئے ہر نیک کا فیض ہر دوسرے کو بھی پہنچا دے۔ اس گروہ میں ہمیں داخل فرما۔ جسکے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ لوگ جو خداکی یاد کیلئے بیٹھتے ہیں۔ خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں ان کاجلیس کبھی محروم نہیں رہتا۔ فرشتوں نے ایک ایسی مجلس کا ذکر کیا اور اللہ سے عرض کیا کہ اے خدا ! وہ بندے صرف تیرے ذکر کیلئے اکٹھے ہوئے تھے۔ اللہ نے فرمایا ! میں نے سب کچھ بخش دیا۔ ہر دعا قبول کرلی فرشتوں نے عرض کیا۔ اے اللہ ! ایک ایسا بھی تھا جو رستہ چلتے بیٹھ گیا تھا فرمایا !وہ بھی شامل ہے ان برکتوں میں کیونکہ ایسے لوگ جو خدا کی یاد کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی برکت سے کوئی محروم نہیںکیا جاتا۔ پس وہ سارے دوسرے چلنے پھرنے والے لوگ احمدیوں کے دوست بھی ان میںہر مذہب کے لوگ ہیں جو ان مجلسوں میں آج اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس دعا کے انتظار میں۔ میں کہتا ہوں ہماری برکتیں ان تک بھی پہنچیں۔ اور ساری دنیا میں یہ برکتیں عام ہوجائیں۔ آئیے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں۔ آمین
ابھی دو تین منٹ باقی ہیں (جی) ہیں جی (جی چار بجے تک ہے) کیا؟ (چار بجے تک ہے اچھا آپ تو کہہ رہے تھے ایک بجے تک ہے...........ہاں ہاں وہ دوسرے پروگرام پھر جاری ہوجائیں گے۔کون سے وہ جو ........ ہاں لیکن اچھے‘ ایسا رکھیں جو رمضان کی مناسبت سے ہوں دوسرے پروگرام نہ ہوں۔حمد وثناء قرآن کریم کی تلاوت اور یہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نشانات ظاہر ہوئے ہیں۔کسوف خسوف کے ایسے رکھیں کیونکہ رمضان کے تقدس کے خلاف ہے کہ اس میں چاہے نیک پروگرام ہی ہوں۔ مگر نوعیت ایسی ہو کہ خیالات کو دوسری طرف منتشر کرنے والے ہوں۔ سمجھے ہیں؟ تو پھرکیا کریں گے۔ آپ امام صاحب سنبھال لیں گے۔ یہ سب کام مجھے نہیں پتہ تھا کہ چار بجے تک ہے مجھے تو ایک بجے تک کا ہی خیال رہا ہے.......... نہیں وہ ٹھیک ہے اب پھر اس کو میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے۔ احتیاط سے خالصتہً رمضان کے مقاصد سے تعلق رکھنے والے پروگرام پیش کریں۔ ویسے تو ہمارے سارے پروگرام ہی ہیں لیکن کچھ دور ہٹ کر کچھ نزدیک آکر کھلی کھلی واضح تعلق والی باتیں ہوں ، ٹھیک ہے اور باقی اب جو درسوں والا پروگرام تھا یہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ تو خاص تعلق ہے اس دور سے مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلا جو سورج گرھن کو سورج گرھن لگا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں رمضان میں وہ بھی جمعہ ہی کا د ن تھا اور یہ پھر عجیب اتفاق‘ اتفاق نہیں ہے بلکہ حیرت انگیز ہے کہ اس جمعہ نے ہمیں مسیح موعود کے ساتھ اکٹھا کردیا ہے ایک طرح۔ اور مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پہلوں سے جوڑ دیا۔ قرآن کریم میں اور یہ سورج کے تعلق سے سورج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق سے یہ آسمانی نشان ہے جو ہمیں جمع کرنے والا ہے اکٹھا کرنے والا ہے۔تو اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ہم پر سارے عالمین جماعتوں پر۔ اور رخصت سے پہلے اب نماز ہوگی نا؟ ایک بجے تو ابھی ہوسکتی ہے۔ یہیں سنتیں پڑھ لیتے ہیں۔یہیں نماز پڑھ کے فارغ ہوجائیں گے مگر اس سے پہلے میں باقی سب سے اجازت لے لوں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب کو عید مبارک ہو۔ ہم سب کی طرف سے جو یہاں ہیں بلکہ ہم سب کی طرف سے جو جہاں بھی ہیں یہاں اس مجلس میں شامل ہیں ہر دوسرے کو عید مبارک ہو اور اس عید پر اپنے غریب بھائیوں کا خیال رکھنا ان کو بھلا نہ دینا۔ میں نے بار بار وصیت کی ہوئی ہے کہ وہ عید کسی کام کی عید نہیں ہے جو روزے کی روح کے منافی ہو۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ باہر سے دوست تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہ روزے کے متعلق سمجھنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ روزے کی روح ایک عجیب روح ہے۔ جس سے ہمیں اور باتوں کے علاوہ اپنے غریب بھائیوں سے قلبی تعلق جوڑنے کی توفیق ملتی ہے۔ تم لوگ اگر اطمینان کی زندگی بسر کررہے ہواور عیش و عشرت کی۔ تمہیں بھوک اور تکلیف کا پتہ نہیں ہے پیاس کیا ہوتی ہے۔ اس کا کوئی علم نہیں تو غریب کی ہمدردی ایک سرسری سی ہوگی لیکن گہرا دکھ محسوس کرکے اس کے تکلیف میں شریک نہیں بن سکتے۔ اسے اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی کوشش کرسکتے ہو۔ لیکن اس کے دکھوں میں شریک نہیں ہوسکتے اور اصل خدمت خلق دکھوں میں شریک ہونے سے ہوتی ہے۔ اس لئے میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ رمضان کا یہ سبق نہ بھولیں عید کے دن کہ آپ غریبوںسے چھٹی کرکے اپنے گھر عید منا رہے ہوں اور غریبوں کی دنیا کا پتہ ہی نہ ہو آپ کو کہ وہ کیا ہے اس لئے غریبوں کی دنیا میں اتریں اس دن اپنے بچوں کو بھی لے جاکر غریب گھروں کے پاس جائیں کوئی چھوٹے چھوٹے تحائف ان کو پیش کریں۔ دیکھیں کہ وہ کس حالت میں عید منا رہے ہیں۔ ان کی غربت جو ہے وہ آپ کے لئے ایک نعمت بن جائے گی۔ اور آپ کا ان کے ہاں جانا آپ کو قومی مسائل سے زیادہ گہرائی سے روشناس کرائے گا۔ آئندہ آپ زیادہ بہتر خدمت خلق کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے اور ان کو سہارا ملے گا اور غربت جیسا کہ قرآن کریم کی آخری سورتوں میں مذکور ہے پھاڑنے کیلئے نہیں استعمال ہوگی بلکہ اسلام کے سورج کی روشنی میں جوڑنے کیلئے استعمال ہوگی۔ وہ غریب طبقہ جس سے امیر طبقہ خود نیچے اتر کے بات کرتا ہے وہ تو ان پر اور بھی زیادہ فدا ہونے لگتا ہے۔ اس لئے کوئی تفریق کرنے والا کوئی پھونکنے والا ان تعلقات کو کاٹ نہیں سکتا۔ پس جماعت نے دنیا میں جس توحید کو قائم کرنا ہے وہ توحید محض اللہ کی آسمان پر رہنے والی کوئی توحید نہیں ہے۔ اس کی وہ توحید ہے جو اس کی خلق کو ایک خدا کی خلق کے طور پر پیش کرتی ہے اور ان کے تعلقات جوڑتی ہے اور اس طرح جیسا کہ مسیح نے کہا تھا کہ جو آسمان پر خدا ہے۔ جس کی بادشاہت زمین پر بھی قائم ہو۔ عملاً اس طرح خدا کی توحید جو آسمان پر ہے وہ زمین پر بھی قائم ہوتی ہے پس اس پہلو سے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ عید پراپنی خوشیوں میں دوسروں کو دور سے شریک نہ کریں بلکہ قریب ہوکر ان کے دکھوں میں خود بھی شریک ہوں۔ ان کی کیفیات کا اندازہ کریں تو پھر آپ کو عید کی حقیقت معلوم ہوگی جو رمضان کی عید ہے۔ وہ حقیقی عید ہے۔ جو آپ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ پہلے بھی جماعت اس پر عمل کرتی رہی ہے اب بھی میں توقع رکھتا ہوں یہ مطلب نہیں کہ اپ اپنے گھر والوں میں بیٹھ کر کوئی خوشی نہ کریں۔ ضرور کریں مگر ومما رزقنہم و ینفقون۔ جو خدا نے آپ کو طاقتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان سب طاقتو ںکو خرچ کریں کچھ اس میں سے دوسروں کے لئے بھی رکھیں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے ہم سب کو ایک ایسی عالمی عید منانے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجے میں عالمی وحدت پہلے سے زیادہ قوت اور شان کے ساتھ بڑھنی شروع ہو۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اس امت واحدہ کا جزو بن جائیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نام سے وابستہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو توفیق نہیں ملے گی۔ کسی دنیا کے نبی کو توفیق نہیں مل سکتی کہ انسانوں کو امت واحدہ میں اکٹھا کردے۔ پس اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے۔ سلام درود بھیجتے ہوئے اپنی خوشیوں میں آگے بڑھیں۔ آپ سب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور عید مبارک ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 14 فروری 1994ء
3 رمضان المبارک
السلام علیکم ورحمتہ اللّہ وبرکاتہ
یہ درس شروع کرنے سے پہلے مجھے توجہ دلائی گئی ہے کہ کل بولنے میں بعض لفظ غلط بولے گئے ہیں۔ ایک تو ہے مغلوبہ کہتا رہا ہوں کہتے ہیں ملغوبہ کو مغلوبہ کہتا رہا ہوں ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کہتا رہا ہوں مگر ہوسکتا ہے۔ کیونکہ جب بعض دفعہ مضمون تیزی سے آرہے ہوں زبان پہ۔ تو زبان تو گھوڑے کی طرح ہے جب زیادہ تیز دوڑائو تو ٹھوکر بھی کھانے لگتی ہے کئی جگہ۔ جس طرح ہمارا ایک گھوڑا ہوا کرتا تھا ناخن لیتا تھا جب بہت تیز چلادیتے تھے تو کئی دفعہ وہ پھر ناخن لیتا تھا۔ تو میری زبان میں یہ ہے کمزوری ہے کہ جب مضمون بہت تیزی سے جاری ہوں تو کئی دفعہ یہ ناخن لینے لگتی ہے اور احباب پھر توجہ دلا دیتے ہیں پھر ہم درستگی کردیتے ہیں۔ ایک تو پتہ لگا ہے کہ میں ملغوبہ کو جس کو میں جانتا ہوں کہ ملغوبہ ہی ہے مغلوبہ پڑھتا رہا ہوں۔ دو دفعہ ایسا ہوا ہے غالباً کہتے ہیں اور ایک یاد نہیںکہ یہ کیا ہو لیکن مان لیتا ہوںکہ لف و نشر کی بجائے لف و شرح پڑھتا رہا ہوں۔ ایک ہی دفعہ پڑھا ہے مگر لف و نشر کو لف و شرح پڑھ لیا تھا۔ تو جوبھی ہے یہ غلطیاں اسے درست فرمالیں۔
اعوذ باللّہ من الشیطان الرجیم O بسم اللّہ الرحمان الرحیم O
فاتھم اللّہ ثواب الدنیا و حسن ثواب الاٰخرۃ................ واللّہ ذوفضل علی المومنین O
(سورۃ ال عمران 149تا153)
یہ وہ آیات ہیں جن میں سے بعض کی تفسیر ہوچکی ہے۔ بعض کی ہونے والی ہے لیکن مضمون کے تسلسل کی یاددہانی کیلئے میں نے ان کی دوبارہ تلاوت کردی ہے۔ جن کی پہلے تفسیر ہوچکی ہے ۔ فاتھم اللّہ ثواب الدنیا و حسن ثواب الاٰخرۃ ط میں‘ میں نے خصوصیت سے یہ بیان کیا تھا کہ اس کا محض یہ معنی نہیں کہ آخرت میں مرنے کے بعد ثواب ہوگا۔ بلکہ قریب کے اجر کیساتھ ساتھ مسلسل بعد کا اجر مترتب ہوتا رہے گا۔ یہ معنی بھی شامل ہیں اور اس معنی کا تعلق احسان کے ساتھ ہے۔ جوں جوں ایک مومن اپنی ذات میں نیا حسن پیدا کرتا چلا جائے گا۔ اسی طرح حسن ثواب الاٰخرۃ بھی اس کے لئے مقدر ہوتا چلا جائے گا۔ اور عمومی طور پر مجموعی طور پر اس کا آخرت یعنی مرنے کے بعد کی زندگی سے بھی ایک تعلق ہے اور وہ ثواب تو بہرحال ہر مومن کیلئے دنیا کے ثواب سے بہتر ہی ہے اور اس مضمون میں تو کسی قسم کا شک ہے ہی نہیں کہ بعد کا جو ثواب ہے وہ اس دنیاتو میں متصورہی نہیں ہوسکتا۔ اور قرآن کریم نے اس بات کو بھی خوب کھولا ہے۔ جب انکو جزا ملے گی تو بعض باتوں کو پہچانیں گے کہ ایسی چیزیں ہمیں دنیا میں بھی دی گئی تھیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بالکل مختلف ہے ہاںملتا جلتا سا مضمون ہے تمہیں شبہ ہے کہ ویسی چیز تم نے دیکھی تھی۔ مگر یہ اس سے بہت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ پس یہ وہ آیت ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یایھا الذین اٰمنوا ان تطیعوا الذین کفروا کیساتھ اس کا موازنہ فرمایا ہے ایک طرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے یہ فضل‘ دوسری طرف کفار کی اطاعت یعنی ان کی باتوں میں آکر وہ باتیں کرنے لگ جانا جو وہ تم سے چاہتے ہیں۔ اُن کا حشر کیا ہوگا۔اس کے نتیجہ میں کیا تم کس مصیبت میں مبتلا ہوگے وہ ہے نقصان کا سودا۔ تو پہلا مضمون ہے آگے بڑھتے چلے جانے کا۔ دوسرا مضمون ہے گھٹتے چلے جانے کا تو بہت ہی خوبصورت موازنہ فرمایا گیا ہے پہلی آیت کا دوسری سے یہ تعلق ہے۔ پہلی آیت میں اللہ اور رسول کی بات مانو گے بیان ہوئی تو اس کے نتیجہ میں تم بڑھتے چلے جائو گے اور ہر قدم ترقی کی طرف ہوگا۔ دوسری آیت میں دشمنوں کے جھانسے میں آجائو گے تو گرتے چلے جائو گے اور اس کا انجام اسفل السافلین ہے جو زیادہ باتیں مانے گا اورزیادہ گرتا چلا جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا ہے۔ سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب بما اشرکوا باللّہ مالم ینزل بہ سلطناO
ہم ضرور ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دینگے جنہوں نے انکار کیا ہے۔ بما اشرکوا اس وجہ سے کہ جو انہوں نے شرک کیا۔ مالم ینزل بہ سلطنا اس شرک کی کوئی دلیل ان پرنہیں اتاری۔ یہ ایک صرف سرسری ترجمہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس کی تفصیل اس کی گہرائی میں بعد میں جائیں گے۔ بما اشرکوا باللّہ مالم ینزل بہ سلطنا میں ینزل کی ضمیر اللہ کی طرف پھر رہی ہے جس کا ذکر گزرا ہے تو مراد یہ ہوگی کہ اللہ نے اُس شرک کے حق میں کوئی سلطان تمہیں عطا نہیں کی۔ تمہیں نہیں ان لوگوں کو عطا نہیں کی۔ وماوٰھم النار ط اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ و بئس مثوی الظلمین O اور ظالموںکا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ اس آیت کی تشریح سے پہلے اس کے حل لغات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ نلقی کس کو کہتے ہیں اور پھر رعب کیا ہوتا ہے؟ اور سلطان کسے کہتے ہیں؟
اقرب الموارد میں القی القاہ الی الارض کے معنے ہیں طرحہ : اس کو زمین کی طرف پھینک دینا القیٰ الیہ القولا : ابلغہ ایاہ ۔ کسی کو بات پہنچا دینا۔ القی المتاع علی الدابۃ : جانور کی پیٹھ پر سامان لاد دینا ۔ القی فیہ الشی ء : وضعہ ۔ کسی چیز کو کسی جگہ رکھ دیا القیٰ الیہ السمع : اس کی بات سننے کیلئے پوری توجہ کی۔ اپنے کان اس کی طرف دھر دیئے۔ کان دھرنا اردو میں ’’القیٰ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے۔
رعب کے معنے یہ لکھے ہیں۔
خوفہ رعبہ ای خوفہ : کہ کسی کو خوفزدہ کردیا ارتاب اگر کہا جائے تو مراد ہے کہ کوئی شخص ڈر گیا اور رعب کا معنیٰ جادو ٹونہ ٹوٹکا وغیرہ ہوتا ہے۔
رعب، الفزع کو بھی کہتے ہیں یعنی گھبراہٹ اور بے چینی اس کا مفرد رعیبۃ ہے یعنی رعیبۃ ایسی گھبراہٹ اور بے چینی جس میں دراصل خوف شامل ہوتا ہے لیکن خوف سے زیادہ ایک خوف کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گھبراہٹ اور بے چینی پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ السلطن، الحجۃ دلیل‘ محکم دلیل ایسی دلیل جس کے اوپر کوئی دوسری دلیل غالب نہ آسکے۔ التسلط یعنی غلبے اور اقتدار کو بھی سلطان کہا جاتا ہے۔
قدرۃ الملک ’’حکومت‘‘ ‘ والی کو بھی سلطان کہا جاتا ہے اور بادشاہ بھی سلطان کہلاتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو میں تو عام طو رپر سلطان کا لفظ بادشاہ کیلئے رائج ہے۔ پرانے زمانے کی کہانیوں میں اکثر سلطان ہی کا لفظ ملتا ہے۔ قرآن کریم کے حوالے سے لفظ سلطان کے اوپر مختلف جگہ مختلف استعمالات ملتے ہیں اور مختلف روشنی پڑتی ہے۔ ان عبادی لیس لک علیھم سلطن (سورہ بنی اسرائیل آیت ۶۶)
میرے بندوں پر اے شیطان تجھے کبھی سلطان نصیب نہیں ہوگی۔ یہاں سلطان سے دونوں معنی مراد ہیں ایک غلبہ اور دوسرے تو دلائل سے میرے بندوں پر غالب نہیں آسکے گا جو چاہے زور لگا لے پھر کافر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ام لکم سلطن مبین کیا تمہارے پاس کوئی کھلی کھلی غالب دلیل ہے۔
فاتوا بکتبکم ان کنتم صادقین پس اپنی کتاب لا کے دکھائو تو سہی کہ یہ دلیل کہاں درج ہے اگر تم سچے ہو۔ سلط علی کا معنی ہوتا ہے کسی کو کسی پر مسلط کردینا جیسا کہ سورۃ النساء میں آیت ۹۱ میں درج ہے۔
’’ولوشاء اللّہ لسلطھم علیکم ‘‘ اور اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تو اُنکو تم پر مسلط فرما دیتا۔
سلاطۃ فتسلط کے معنے ہیں میں نے اسے مسلط کیا تو وہ مسلط ہوگیا۔ پھر باقی ان باتوں کو دہرایا گیا ہے کہ بادشاہ کو سلطان کہا جاتا ہے حجت اور دلیل کو سلطان کہا جاتا ہے۔
’’یجادلون فی آیات اللّہ بغیر سلطان اتٰھم ‘‘
یہاںبھی ویسا ہی مضمون بیان ہوا ہے جو آیت زیر نظر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دلیل نہیں دی۔ اور یہ بحث ہے۔ جومفسرین نے اٹھائی ہے اسکا میں آگے جاکر جائزہ لونگا۔
’’الذین یجادلون فی ایت اللّہ بغیر سلطان اتھم ‘‘؟
وہ اللہ تعالیٰ کی آیات میںبحث کرتے ہیں اورخدا کی طرف سے عطا کردہ کوئی دلیل ان کے پاس نہیں۔ یعنی اپنی طرف سے وہ قرآن کریم کے مضمون بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی طرف سے کوئی روشنی انکو عطا نہیں ہوئی ہوئی۔ اس لئے اللہ کی طرف سے عطا کردہ روشنی کے بغیر قرآنی آیات یا دیگر مذاہب کی آیات پر اگر گفتگو کی جائے اور واضح طور پر اللہ کی طرف سے نازل کردہ کسی دلیل یا آیت کا حوالہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص گمراہ ہوتا ہے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور پھر بے وجہ یہ جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے پاس حقیقت میں اللہ کی طرف سے نازل فرمودہ کوئی واضح‘ کھلی غلبے والی دلیل نہیں ہوتی۔
’’الذین یجادلون فی آیت اللّہ بغیر سلطان اتھم ‘‘
اسی طرح سلطان استدلال کو بھی کہتے ہیں یعنی اہل لغت نے صرف دلیل کو نہیں بلکہ استدلال کو بھی سلطان قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی رو سے ہم سورۃ رحمان کی اس آیت پر نظر ڈالیں جہاں سلطان کا ذکر ہے تو بات خوب کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کیا مفہوم ہے۔
یمعشرالجن والانس ان استطعتم ان تنفذو من اقطار السموات والارض فانفذواط لاتنفذون الا بسلطن O فبای الاء ربکما تکذبن O
کہ اے جن و انس میں سے بڑے بڑے لوگو چیدہ چیدہ ان کے رہنمائو ! اگر تم یہ ارادہ رکھتے ہو یہ خواہش رکھتے ہو کہ زمین و آسمان کے کناروںسے باہر نکل جائو تو یہ ممکن نہیں ہے! ناممکن ہے کہ تم ایسا کرسکو !! الا بسلطن سوائے اس کے کہ استدلال کے ذریعے ایسا کرسکو‘ اس سے علاوہ دوسری بعض آیات میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ انسان اپنے اس دنیا سے یہ جو ہمارا نظام شمسی ہے مثلاً اس میں سے باہر نکل سکے یا اس کے کناروں کو چھولے اپنی زمین کے کناروں سے نکلنے کا استنباط ہوسکتا ہے قرآن کریم سے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں میں کوئی تضاد ہے؟کوئی تضاد نہیں! یہاں سمٰوٰت والارض کے کناروں کی جو بات ہورہی ہے تو مراد یہ ہے کہ تم اس Galaxy کے کنارے سے باہر نہیں نکل سکتے یا دوسری صورت میں کائنات کے کناروں سے باہر نہیں جاسکتے اور وہ ویسے ناممکن ہے۔ سائنس دانو ںنے جو حساب لگایا ہے۔ زمین و آسمان کا اگر کوئی ایک مرکز مقرر کیا جائے تو اس کا جو آخری کنارہ ہے وہ اربوں سال دور ہے۔ اربوں سال کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے اگر کوئی شخص روشنی کے کندھے پر بیٹھ کر سفر شروع کرے تو ارب ہا ارب سال تک وہ سفر کرتا رہے تو تب بھی وہ اس کنارے تک نہیں پہنچ سکے گا اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ زمین و آسمان وسعت پذیر ہیں اور و ہ کم و بیش روشنی ہی کی رفتار سے وہ کنارہ دور بھی ہٹتا چلا جارہا ہے تو یہ ناممکن بات ہے ۔ لامتناہی سفر ہوگا اور انسان روشنی پر بیٹھ کر روشنی کی رفتار سے سفر ویسے بھی نہیں کرسکتا یعنی 1,86,000 میل فی سیکنڈ‘ پس ایک ناممکن بات ہے۔ الا بسلطن کا پھر کیا مطلب ہوا؟ بعض لوگ کہتے ہیں سوائے اس کے کہ جب تمہیں غلبہ مل جائے تو غلبہ ملے کسی قسم کا بھی غلبہ ملے یہ تو ممکن ہی نہیں۔ خدا کی کائنات اس بات پر گواہ ہے کہ ایسا کسی انسان کیلئے ممکن نہیں لیکن سلطان کا معنی اگر استدلال کیا جائے تو پھر یہ ممکن ہے۔ استدلال کے ذریعے انسان ان کناروں تک پہلے ہی پہنچ چکا ہے اور ان کناروں سے پرے کی بھی خبریں لارہا ہے۔ Higher Mat hematics کے ذریے یہ تصور باندھ رہا ہے کہ کائنات کے آخری کناروں سے جو پھیل رہے ہیں۔ پرے کیا ہوسکتا ہے۔ پس سلطان کا معنے ’’استدلال‘‘ قرآن کریم سے ثابت ہے۔
ماوٰی : ماویٰ کہتے ہیں پناہ گاہ کو یا مستقل ٹھہرنے کی جگہ کو کیوں دونوں لفظوں میں قرآن کریم نے دونوں معنوں میں یہ قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔
اذ اوی الفتیتہ الی لکھف (سورۃ کہف) جب وہ نوجوانوں کا گروہ چھوٹا سا‘ وہ جب کہف کی طرف مائل ہو یعنی غار میں جانے لگا۔ ’’عندہ جنۃ الماویٰ‘‘ یہاں مستقل معنوں میں ہے کہ جنت ان کیلئے ہمیشہ ٹھہرنے کی جگہ بن جائے گی پھر ہے ثم ماواھم جھنم پھر ان کا ماویٰ جہنم ہوگی یعنی بہت لمبا عرصہ ٹھہرنے کیلئے ان کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔
پھر حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق یہ آیت ملتی ہے کہ
فاٰوینٰھما الی ربوۃ ذات قرار و معین (المومنون آیت نمبر 51)
اور ہم نے حضرت مریم ؑ کو آوینھما اور ا نکے بیٹے دونوں کو آوینھما اس طرح یہاس سے پہلے ہے وجعلنا ابن مریم و امہ یہی ہے نادیکھ لیں چیک کرلیں۔ اٰیۃ آیت (المومنون O ) اور ہم نے ابن مریم کو اور مریم کو ایک نشان بنایا تھا فاٰوینٰھما ہم ان کو پناہ دینے کی غرض سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گئے۔ الیٰ ربوۃ ذات قرار و معین ایک ایسے مقام پر جو ٹیلوں والا یا پہاڑی مقام تھا اونچی جگہ تھی ذات قرار و معین وہاں ان کے لئے تسکین تھی۔ طمانیت تھی سکون کا انتظام تھا اور وہ جگہ ایسی تھی جہاں چشمے بہتے تھے تو ہم اس سے مراد کشمیر لیتے ہیں۔بعض دفعہ لوگ یہ کہہ دیتے ہیں جس طرح مجھ سے بھی گفتگو ہوئی۔ ایک دفعہ ایک یونیورسٹی آف کیمرج میں جب میں اس موضوع پر خطاب کررہا تھا تو وہاں ایک عرب نے اٹھ کر یہ کہا کہ اس سے تو مراد وہ واقعہ ہے۔ جبکہ حضرت مریم ایک اونچی جگہ پر بچے کی پیدائش سے پہلے گئیں تھی اور وہاں ان کو پناہ مل گئی تھی اور ان کو وقتی طور پر سکون بھی ملا چشمہ بھی تھا۔ یہ تو واضح اس طرف اشارہ ہے۔ میں نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ مریم کو ہم نے اس وقت پناہ دی جب وہ اپنے بچے کو پیٹ میںاٹھائے ہوئے تھی کیونکہ ماںکو جب پناہ دی جاتی ہے تو اس کی طرف واحد کا صیغہ ہی بولا جاتا ہے۔جب تک بچہ پیدا نہ ہوجائے جب تک بچہ باہر نہ آئے۔ ما ںکی حرکت کو ایک حرکت کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم فرما رہا ہے۔ فاٰوینٰھما الی ربوۃ ذات قرار و معین ہم نے ان دونوں کو‘ یعنی بیٹے کو جو بیٹا ہوچکا تھا بن چکا تھا اور ماں کو دونوں کو ہم نے پناہ دی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں ہی کشمیر گئے ہیں۔جو نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے اور اس ضمن میںبعض دفعہ عیسائی گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مریم کے کسی مدفن کا فلسطین اور اس کے اردگرد علاقے میں کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا وہاں ایک جگہ ہے جو حضرت مریمؑ کی طرف منسوب ہے اور ایک دفعہ ایک امریکن پادری نے مجھے دھوکہ دینے کیلئے کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں وہ حضرت مریمؑ کے مدفن کے طور پر موجود ہے۔ مجھے علم تھا اس لئے میں نے دوبارہ اس سے سوال کیا ۔ کیا اس جگہ حضرت مریمؑ کی قبر بھی ہے۔ اس کو کہنا پڑا نہیں۔ میں نے کہا بحث تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت مریم ؑ غائب کہاں ہوگئیں ۔ حضرت مسیح تو آسمان پر چلے گئے۔ آپ کے کہنے کے مطابق۔ مریم کہاں گئیں۔ پس قرآن کریم نے یہ بڑی مضبوط دلیل قائم فرمائی ہے کہ تم مریم کے حوالہ سے ان سے بات کیا کرو کہ ہم نے صرف مسیح کو پناہ نہیں دی تھی مریم کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اور جب اس سے پوچھو گے تو تمہیں وہ مریم کا کوئی وجود مسیح کے چلے جانے کے بعد نہیں دکھا سکیں گے۔ پس وہ جانتے ہیں کہ مریم مسیح کے ساتھ نہیں اٹھائی گئی تھی۔ یہ مانتے ہیں۔ خیر یہ ضمنی بات تھی۔ اٰوٰی کی بحث میں میں نے کہا سو چلتے ہوئے یہ بات بھی بتاتا چلوں۔ حضرت یوسف کے متعلق بھی قران کریم یہی لفظ استعمال فرماتا ہے۔ فلما دخلوا علی یوسف اوی الیہ ابویہ (سورۃ یوسف آیت نمبر 100) اس کے دونوں اس کے والدین نے وہا ںپناہ لی ان کے پاس یا ابویہ ان کے والدین کو وہاں اللہ تعالیٰ نے پناہ دی۔
اب تفسیری پہلو کے لحاظ سے مختصراً میںبعض حوالوں سے ذکر کروں گا۔ لیکن دیکھوں کہ کوئی اور لفظ تو نہیں رہ گیا قابل ذکر۔ اس میں تنازع ہے لفظ تنازع کا وہی مفہوم ہے جو عام طور پر اردو میں بھی رائج ہے۔ جھگڑا کرنا‘ اختلاف کرنا‘ بات کو طول دے دینا لفظ فشلتم بھی توجہ کا محتاج ہے۔اس کے متعلق بھی میرا خیال ہے کچھ مزید حوالے آپ کے سامنے رکھ دوں!
فشل اصل میں اس پردے کو کہتے ہیں جو ہودج پر عورتوں کو چھپانے کے لئے ان کے پردے کے لئے لٹکایا جاتا ہے۔ تو بعض لوگوں نے اس سے مراد عورتوں والا طریق یعنی کمزوری کا طریق اور بعض نے عورتوں کی طرف بزدلی منسوب کرکے یہ معنی اس سے نکالے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورتیں بھی بڑی بڑی یہادر ہوتی ہیں۔ اس لئے ایسے معنی کر دینا مردوں کی طرف سے یہ جائز طریق نہیں ہے۔ اس سے خواہ مخواہ ‘ بے وجہ عورتیںاب سبکی محسوس کریں گی اور ان کا غصہ چونکہ انسان کی طرف نہیں جائے گا وہ سمجھیں گے یہ عالم خدا کے ہوالے سے بات کررہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کا تاثر ان پر جو بھی پڑے گا اگر وہ منفی اثر پڑا تو اس کے ذمہ دار وہ علماء ہوں گے جو ایسی بحثیں بے وجہ اٹھاتے ہیں۔ فلشتم کا سیدھا معنی ہے کمزوری دکھا دینا اور اس کمزوری میں بزدلی بھی شامل ہے۔ (کیوں جی آپ کیوں ہل رہے ہیں کہیں غائب ہونا چاہتے ہیں) ہاں وجعلنا ابن اصل آیت یہ ہے وجعلنا ابن مریم و امہ ایۃ ہم نے ابن مریم کو اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا تھا و اوینھما الی ربوۃ ذات قرار و معین اوراس دونوں کو ہم نے پناہ دی تھی۔ایک پہاڑی مقام پر ‘ ایک بلند مقام پر ذات قرار و معین جو ان کے لئے وہاں ٹھہرنے کی ایک پرسکون جگہ تھی اور چشمے بہتے تھے۔ اچھا فلشتم کی بحث ہے جو میں نے بیان کردی اور اس کے بعد کون سا لفظ ہے۔
میرا خیال ہے اب تفسیر میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ان لفظوں کی تفاصیل میں مزید جانے سے کوئی ایسا فائدہ نہیں پہنچے گا۔
سب سے زیادہ اہم بحث جو اس آیت کے متعلق میں اٹھائی گئی ہے وہ ہے رعب کی بحث کہ رعب کب ڈالا گیا۔ کیسے ڈالا گیا اور پھر اس آیت کے درمیانی حصے پر گفتگو ہوئی ہے۔ علماء کی طرف سے کہ اس میں یہ ترتیب کیا معنی رکھتی ہے اور کس طرف اشارہ ہے۔ شیعہ مفسرین نے جو رعب کے معنی لئے ہیں وہ میں سب سے آخر پر بیان کروں گا۔ کیونکہ وہ ایک ایسی تفسیر ہے جس پر بہت گہری تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ورنہ اسلام کا خصوصاً حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے صحابہ کا ایک ایسا بھیانک منظر اس سے ظاہر ہوگا اور دشمن اسلام کے لئے خصوصیت سے ایک بڑا بھیانک ہتھیار اسلام کے خلاف مہیا ہوجائے گا۔ پس وہ بحث میںبعد میں کروں گا۔ پہلے میں عام جو گفتگو جو مفسرین نے فرمائی ہے۔ اس کا ذکر کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں یایھا الذین امنوا اذا لقیتم فئتہ فا ثبتوا (ہیں یہ آیت کہاں سے آئی اسی پر بحث ہورہی تھی اس وقت۔ اس سے پہلی آیت بتادیں میں نے آپ کو کہا تھا نا اس سے پہلی آیت سے میں شروع کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سو یہ آیت سمجھ گیا ہوںاس کو چھوڑ دیں یہ اوپر لکھی گئی ہے وہ حوالے کی خاطر لکھوائی تھی۔ میں نے میں حیران تھا اس بحث میںکہاں سے ہم چلے گئے۔ اصل جو آیت ہے زیر بحث یہ فشلتم وغیرہ الفاظ اس میں تفشلوا اس کے اندر شامل نہیں ہیں۔ یہ اس لئے میں نے گفتگو شروع کردی تھی کہ اس آیت پر جو آج زیر نظر ہے‘ زیر بحث ہے۔ اس پر ایک اور آیت حوالے کی خاطر میں نے لکھوائی تھی جس کی طرف مجھے لوٹنا ہوگا تو وہ چونکہ پہلے لکھی ہوئی تھی اور اشارہ نہیں دیا گیا تھاکہ یہ کس غرض سے ہے اس لئے میں نے اس کے مضمون کا ایک حصہ بیان کردیا ۔ اس کی ضرورت تو پڑنی ہے بعد میں لیکن سردست جو آیت زیر نظر ہے وہ ہے)
سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب بما اشرکوا باللّہ مالم ینزل بہ سلطانا تو بات اس سے بھی شروع ہوئی تھی رعب کیا ہوتا ہے سلطان کس کو کہتے ہیں لیکن پھر مضمون غلطی سے دوسر ی آیت کا بیان ہونا شروع ہوگیا ۔ اب میں اس کی طرف واپس آتا ہوں)
رعب کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ مختلف بحثیں ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی مفسرین نے اس بارہ میں غور فرمایا ہے کہ مالم ینزل بہ سلطنا ً سے کیا مراد ہے اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں مشرکوں کی سلطان کو منسوب فرمادیا تو اس پہلو سے بہت دلچسپ بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ان پر رعب ڈال دیا۔ اس لئے کہ مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے کوئی سلطان عطا نہیں کی تو بعض مفسرین نے کہا ہے اس سے تویہ لگتا ہے کہ سلطان تھی کوئی ان کے پاس مشرکین کے پاس بھی دلائل تو تھے ہی لیکن اللہ نے ان پر نازل نہ کی اگر اللہ نازل فرمادیتا تو پھر بات کچھ اور بن جاتی۔ اور یہ عجیب و غریب بحث ہے۔ جس میںبہت لمبا عرصے تک ہمارے مفسرین الجھے رہے ہیں۔ حالانکہ سیدھی سادھی بات ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے خدا کی طرف سے نازل ہونے کا اور اس کا معنی کیا ہیںمیں ابھی گفتگو اس میںآپ پر واضح کروں گا۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین امام رازیؒ بھی اس میں داخل ہیں بڑی شدت سے ان معنوں کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں ! سلطان کوئی نہیں ہے ان کے پاس‘ سلطان اللہ کی طرف سے اتارنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ تو مشرک لوگ تھے ا ن لوگوں کی عبادت کیا کرتے تھے ان چیزوں کی جو موجود ہی نہیں۔ ان خدائوں کی جن کا کوئی وجود نہیں جو کوئی تعلق قائم نہیںکرسکتے اور وہ جو ہیں ہی نہیں وہ انہوں نے کیا دلیل اتارنی تھی تو ایک اللہ ہی رہ جاتا ہے اور چونکہ جھوٹے ہیں اس حد تک جھوٹے ہیں کہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ ہیں ہی نہیں تو اللہ نے کیا ان کو خاک کوئی دلیل عطا کرنی تھی؟ جن کی بنیادیں ہی کوئی نہیں ہیں۔ تو مراد یہ ہے کہ ایک طرف مومنوں کی جماعت ہے جن کی طرف اللہ اپنی قادر حیثیت کے طور پر اپنے قادر مطلق حیثیت کے طور پر غلبے والی دلیل عطا فرما رہا ہے۔ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ایمان ہے اور اوپر سے غلبے والی اور طاقت والی دلیلیں اتر رہی ہیں اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اوپر منہ کرتے ہیں تو کچھ بھی ان کے لئے مددگار اور معین اور راہنما نظر نہیں آتا تو فرمایا کہ یہ انتظام اللہ نے ایسا کر رکھا ہے۔کہ چونکہ وہ بے حقیقت بے بنیاد لوگ ہیں اور لازم ہے کہ اللہ انکے لئے کوئی دلیل مہیا نہیں فرمائے گا کیونکہ دلیل موجود نہیں ہے۔ یہ مراد ہے۔ ماوھم النار و بئس مثوی الظالمین اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے اور آگ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ظالموں کیلئے ۔
بعض لوگوںنے اس آیت کو غزوہ احزاب پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ و ہ گفتگو ہے جو بالعموم چلتی رہتی ہے۔ مفسرین شان نزول پربہت زیادہ زور دیتے ہیں اور زور دیتے ہوئے ایک واقعہ کی طرف ایک آیت کو جس کا مضمون دائمی حیثیت کا ہے اور ترتیب قرآن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس طرح منسوب کردیتے ہیں کہ اس کے بعد تمام تر توجہات شان نزول کی طرف پھر جاتی ہیں اور انہی میں مسلسل مفسرین نسلاً بعد نسلاً اٹکے رہتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اب جنگ احزاب سے اس کو جوڑنا۔ ویسے ہی بے محل بات ہے۔ سارا مضمون جنگ احد کا بیان ہورہا ہے اور تسلسل کیساتھ ایک استدلال جاری ہے۔ اچانک جنگ احزاب کی بات کردینا یہ خلاف توقع ہے یہ ہو نہیں سکتا۔ سُدی کے نزدیک یہاں رعب سے مراد وہ رعب ہے جو کافروںپر جنگ احد سے جدا ہونے کے بعد رخصت ہونے کے بعد اس وقت پڑا جب انہوں نے پڑائو ڈالا آگے جاکر اور دوبارہ حملے کی باتیںکرنے لگے اس لئے اس موقعہ کی بات نہیں ہے اور میرا رجحان اسی طرف ہے او رمیں ثابت کروں گا بعد میں کہ کیوں یہی مراد ہے ۔ اس موقعہ پرکسی رعب کا ذکرنہیںہے۔ میں مفسرین کی آراء پلٹ رہا ہوں۔ ایک کے بعد دوسری اگر کوئی قابل ذکر بات ہوئی تو آپ کو بتائوں گا۔ جارج سیل نے ایک بات لکھی ہے اور ویری نے اسی کو دہرایا ہے اور بہت حد تک ویری پر جان سیل کا اثر ہے۔ پس جارج سیل نے جو لکھا ہے وہی میں پڑھتا ہوں۔ ویری نے بعینہٖ یہی بات اپنی تفسیر میں لکھی ہے۔
"To this Muhammadؐ attributed the sudden retreat of Abu Sufian and his troops, without making any further advantage of their success, only giving Muhammadؐ a challange to meet them next year at Badr, which he accepted. Other say that as they were on their march home, they repented that they had not utterly extirpated the Muhammdansؐ and began to think of going back to madina, for that Purpose but were prevented by a sudden consternation or panic fear, which fell on them from God."
چنانچہ یہ اس معاملے میں یہ اس نے دونوں رائیں بیان کیں ہیں اور دوسری جو رائے ہے۔ وہ زیادہ قوی ہے یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ اُحد کی طلب میں اس آیت میں مذکورہ رعب کو اشارہ کرتاہوابتایا ہے یہ درست نہیںہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رعب والا واقعہ مستقبل کے وعدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور جنگ احد کی جو باتیں یہاں ہورہی ہیں۔ وہ ماضی کے صیغے میں ہورہی ہیں۔ سنلقی کا مطلب ہے ہم ضرور رعب ڈالیں گے۔ پس وہ واقعہ بعد میں آئے گا۔ میں اس کی تفسیر آپ کے سامنے میں رکھوں گا۔ اب میں اصل بحث کی طرف آتا ہوں۔ جو آج اس درس کا مرکزی نقطہ ہے۔ تمام مفسرین سنی ہوں یا شیعہ سنی ہوں غیر مسلم،مسلم ہوں یا غیر مسلم کہنا چاہئے لیکن سنی مسلم ہوں یا غیر مسلم وہ اس رعب کی بحث میں ایک عمومی بحث کررہے ہیں اور رعب کی کوئی ایسی معین صورت پیش نہیں کررہے۔ جس سے پتہ چلے کہ یہ رعب فلاں کی وجہ سے ہوا تھا۔ لیکن شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں اور یہ حوالہ جو میں نے ان کی تفسیر کا لیا ہے۔ یہ میر احمد علی شیعہ کمنٹریٹر آف دا ہولی قرآن
Version of the "Ahlul bait,, and Special Comments from Aayat ullah Agha, Haji, Mirza Mahdi Poyya Yazdi, 1988.(پبلشرز۔تحریک ترسیل قرآن)
یہ ہے حوالہ جومیں آپ کے سامنے پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔ (تفسیر 152 آیت 152 کی)
We will cast a grudge in the heart of the disbelievers. The time of dread fellt by the disbelievers was during the battel of Uhad. The Muslims plunged in to the most miserable and disadvantageous state owing to their own blunder.
ایک تو یہ جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ایسا نقشہ کبھی کسی دشمن اسلام نے بھی نہیں کھینچا۔ جب وہ جنگ احد کا نقشہ کھینچتے ہیں تو بتاتے ہی کہ پہلے لازماً فتح مل گئی تھی اور دشمن بھاگ گیا تھا ڈر کے پھر اختلاف کی وجہ سے حالات نے پلٹا کھایا لیکن جیسا کہ ہونا چاہیے تھا ویسا رونما نہیں ہوا اور وہ کچھ نیم سی فتح کی حالت تھی اب یہ شیعہ کیوں اس فتح کو یعنی دشمن کی فتح اور اسلام کی ظاہری شکست کو اتنا بھیانک بنا کر دکھا رہے ہیں یہ آخر پر ظاہر ہوجائے گا۔ ترجمہ اس کا یہ ہے۔
The time of dread felt by the disbeliever was duirng the battel of Uhad.
وہ وقت جس میں اس انتہائی خوفناک رعب کی اس Terror کی بات ہورہی ہے۔ یہ جنگ احد کا وقت تھا۔ Muslims ایک انتہائی ناقابل برداشت اور ذلیل حالت میں جوہر پہلو سے ان کے خلاف جارہی تھی۔ ہر disadvantage ان کو حاصل تھی اس میں وہ غرق ہوگئے۔ اس کیفیت میں اور a miserable chaos اس کا نتیجہ ہواکہ ایسی افراتفری پڑی ہے کہ جو miserable حالت زار کو miserable حالت کہتے ہیںتو ایک حالت زار میں وہ مبتلا ہوگئے جس میں بے انتہا افراتفری کا عالم تھا۔
and the hopless disorder liable to be very easily crushed and wiped out for ever.
اورایسی بدانتظامی تھی کہ عین ممکن تھاکہ وہ صفحہ ہستی سے نابود کردیئے جاتے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے مٹا دئیے جاتے۔
The enemy chose to fly away from the field terror- stricken and made their way back to Mecca dreading the Muslims who were themselves labouring hard under the infliction of a state of defeat.
کہتا ہے پھر کیا ہوا کہ اچانک دشمن انتہائی خوفزدہ حالت میں وہ میدان چھوڑ کے بھاگ گیا۔ کوئی واقعہ ہوا ہے کہ اس کی جان نکل گئی جبکہ مسلمان خود اپنی جان بچاتے پھرتے تھے اور افراتفری میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ تو کیا واقعہ ہوتا ہے۔
Enemy chose to fly away from the field terror-stricken and made their way back to Mecca dreading the Muslims who were themselves labouring hard under the infliction of a state of defeat.
اس کو پھر آگے وہ بیان کرتا ہے۔
The enemy could have easily invaded Madina rendered it into a ruin and slain every man, women and child leaving no trace of any life in the city.
کہتا ہے ایسی خوفناک اور ذلیل شکست تھی کہ اس کے نتیجہ میں اگر دشمن چاہتا تو ہر شخص ہر مسلمان کو ملیامیٹ کردیتا صفئحہ ہستی سے مٹا دیتا مرد کیا‘ عورت کیا‘ بچے کیا اس میں رسول اکرمؐ شامل ہیں نعوذ باللّہ من ذلک آپ کے تمام صحابہ اور بچے شامل ہیں۔ تاریخ اس کو کس طرح جھٹلا رہی ہے۔ یہ میں بعد میں بیان کروں گا۔ آگے نتیجہ دیکھیں پھرہوا کیا تھا۔ دشمن پہ کیا آفت ٹوٹی کہ اچانک اس صورت حال میں انتہائی خوفزدہ ہوکر بھاگا ہے اور بھاگنے کا نقشہ یہ کھینچا ہے کہ مکے جاکے دم لیا ہے اور بیچ میں جو پڑائو ڈال کر وہ بیٹھے رہے ہیں اس کا ذکر ہی کوئی نہیں۔
but never was terror so obviously inflicted by God upon a people who had not the least reason to hearbour any such feeling.
کہتا ہے کہ کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ایسے لوگ جن کے پاس ادنیٰ وجہ بھی خوف کی نہ ہو ان کے اوپر اتنا خوفناک رعب ڈال دیا گیا ہو اور اتنا خطرناک رعب ہو کہ گویا ان کو جان کے لالے پڑ جائیں حالانکہ اس کی وجہ کوئی نہ ہو ایسا واقعہ کہتے ہیںکبھی پہلے نہیںہوا۔
It will be reasonable and just
یہ بڑی معقول بات ہوگی اور اس کے پیچھے ایک دلائل کی طاقت حاصل ہے۔
to say that the heavenly terror upon the enemy was diffected on that day through none but Ali.
کہتے ہیں کہ کتنی معقول اور مدلل بات ہے اور اس کے سوا اور کوئی مدلل بات دکھائی نہیں دیتی کہ اس دن یہ جو خوف دشمنوں کے دلوںپر ڈالا گیا ہے۔یہ حضرت علیؓ کے سوا جو شیر خدا تھے۔ Lion of God ان کے سوا کسی اور کی وجہ سے ڈالا جا ہی نہیں سکتا۔ ایک ہی رستہ ہے اس آیت کو سمجھنے کا کہ اس Terror کو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کیا جائے کہ ان کی وجہ سے یہ Terror دشمن پر ڈالا گیا تھا whose matchless faith جس کا ایمان بے مثل invaluable services اور بیش قیمت اور قیمت سے بالاخدمات through his dauntless courage اس کی ایسی بہادری جس کے اوپر کوئی دوسرا غالب نہیں آسکتا اور اس پر اس کی شجاعت valour was so loudly acknowleged by God. اس موقعہ اتنی زور کے ساتھ اللہ کی طرف سے تسلیم کی گئیں through the messenger Angel Gabriel
جبرل فرشتہ کے ذریعہ announcing loud بڑی بلند آواز سے جس نے اعلان کیا۔ لافتی الاعلیؓ لا سیف الاذوالفقار کہ علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے اور ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیںہے اور ذوالفقار سے مراد یہ حضرت علیؓ کی تلوار لیتے ہیں جبکہ دیگر مفسرین نے جبکہ ذوالفقار کے حوالے میں حضرت محمد رسول اللہ صلعم کی تلوار کا نام ذوالفقار لکھا ہے۔
There is no victorious of Ali, ان کا ترجمہ یہ ہےthere is no effective weapon save Zulfiqar(the sword of Ali)
اس ضمن میں جو حوالے انہوں نے دیئے ہیں so-called تاریخی حوالے یہ جن کتب سے لئے گئے ہیں وہ سیر کی کتب ہیں یعنی سیرت کی کتب اور تاریخ کی کتب ابن ہشام کی سیرت جن کی وفات ۲۱۳ہجری میں ہوئی تھی تاریخ طبری سے جن کا زمانہ ۲۲۴ سے ۳۱۰ ہجری تک کا ہے۔ الکامل فی التاریخ لابن اثیر وفات ۶۳۰ ہجری اور یہ منسوب کیا گیا ہے انکی طرف کہ گویا انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے۔ ان تمام سیرت لکھنے والوں نے یا مورخین نے کہ اسی طرح ہوا تھا۔ اور آسمان سے حضرت جبریلؑ نے بہت شان و شوکت کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اسکے نتیجہ میں یہ دشمن گھبرا گیا اور ایسا بھاگا ہے کہ پھر مکے تک پہنچے بغیر ان کو بن نہ پڑی اور رستے میں کہیں سانس بھی گویا نہ لیا۔ اس حوالہ کے متعلق جب ہم دیکھتے ہیں اصل کتابوں کی طر ف رخ کرکے کہ کیا کیا لکھاتھا۔ تو حدیقۃ الشیعۃصفحہ 197 پر پہلے تالیف احمد بن محمد دائود بمقدس کتاب بفروش جعفری مشہد بازار سرائے محمدیہ مطبوعہ1394ھ
اس کا ترجمہ یہ ہے یہ فارسی کی کتاب ہے۔ جنگ احد میں سب مسلمانوں نے راہ فرار اختیار کی تمام مسلمانوں نے۔ ادھر مدینہ میں کفار نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید کردیئے گئے ہیں۔ افواہ میدان احد میں نہیں پھیلائی گئی وہاں پھیلائی گئی۔ یہ عجیب بات ہے جن کو ڈرانا اور دھمکانا مقصود تھا ان کو اطلاع دیئے بغیر پیچھے پیچھے کئی دوسرے راستے سے مدینہ پہنچ کر یہ افواہ پھیلائی گئی ہے۔ کیونکہ اگر یہ افواہ وہاں تک پھیلانا مان جائیں تو مسلمانوں کی افراتفری اور بے ترتیبی کے عالم کا ‘ کی ایک وجہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ وہ اپنی ذات کی بزدلی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم ہے۔ جس نے ان کے حواس کو مختل کردیا ہے پھر کہتے ہیں آپ کے ساتھ میدان جنگ میں حضرت علیؓ شیر خدا کے سوا کوئی نہ رہا تھا۔ جو قطعی طور پر جھوٹ ہے۔ حضرت علیؓ غیر معمولی طور پر شجاع اور بہادر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ایسا عظیم مجاہد اور ایسی قوت والا اور ایسا فن حرب کا ماہرمجاہد شاذ ہی دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت سب نے چھوڑ دیا تھا اور ایک بھی آپ کے ساتھ نہیں رہا تھا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ جیسا کہ آگے تاریخ کے حوالہ سے میں ثابت کروں گا ۔ کہتے ہیں کہ اس وقت حالت یہ تھی کہ علیؓ شیرِخدا کے سوا نہ رہا تھا کفار کی فوج آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کیلئے پے درپے حملے کررہی تھی ۔ فوج چاروں طرف سے حملہ کررہی ہے اور حضرت علی ؓاکیلے ہیں اور کوئی نہیں ہے مقابلہ کرنے والا۔ اور اس مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار انکو دور بھی بھیجتے ہیں یہ نقشہ ذرا ذہن میں جما ئیے بالآخر آنحضور یعنی حضرت علیؓ نے ان کو شکست دے دی ۔ اس وقت ایک فرشتہ نے آسمان سے آواز دی لافتٰی الاعلی‘ لا سیف الاذوالفقار لوگوں نے اس آواز کو سنا جبریل ؑ نے اس وقت آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ فرشتے بھی اس ہمدردی پر تعجب کرتے ہیں جو علیؓ نے تیرے ساتھ کی۔ تعجب کیوں وہ توعاشق جان نثار تھا۔فرشتے تعجب کررہے ہیں کہ ان سے توقع نہیں تھی گویا کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کیوں نہ ہو ھو منی وانا منہ وہ میرا ہے میں اس کا ہوں۔ تم لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ ابھی تک لگا۔ عجیب تعجب کررہے ہو اس پر جبریل نے کہا اچھا پھر میں تم دونوںمیں سے ہوں۔ یہ ہے وہ کہانی جو شیعہ کتب میں درج ہے۔اور جہاں سنی کتب کا حوالہ ہے ۔ وہاںکس طرح اول تو وہ کتب ناقابل اعتبار اور سیرت کی ایسی کتابیں ہیں جو بہت بعد میں لکھی گئیں جن میں حدیث کا کوئی مسلسل حوالہ درج نہیںہے۔ لیکن جو ہے وہ یہ ہے تاریخ الرسل و البلوغ تالیف لابی جعفر محمد بن جریر الطبری اس کا
یہ روایت بیان کرتے ہیں ابو رافع کی۔ کہتے ہیں ابو رافعؓ سے مروی ہے ابو رافع کے متعلق میں تحقیق کروا رہا ہوں۔ ایک اس نام کے صحابی تو ہیں مگر جنگ اُحد میں یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد جنگ میں حصہ لینے والوں میں ان کا نام مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ لیکن یہ میں نے سنا ہے کہ جنگ اُحد میں شامل تھے۔ لیکن اگر شامل تھے اور وہی صحابی تھے تو ایک بچے کے طور پر شامل تھے۔ کیونکہ جنگ اُحد میں ابو رافع کی عمر چھوٹی تھی۔ تو یہ عجیب بات ہے اگر یہ وہی صحابی ہیں تو ا ن کی روایت تعجب انگیز ہے۔ تمام کبار صحابہ میں سے کوئی اس روایت کا ذکر نہیں کرتا۔ اگر کسی کی روایت ملی ہے تو ابو رافع کی ملی ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب نے مشرکین کے علمبرداروں کو تہہ تیغ کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر مشرکوں کی ایک اور جماعت پر پڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے کہا کہ اس پر حملہ کرو۔ انہوں نے حملہ کرکے اس جماعت کو منتشر کردیا اور بنی عامربن لوي کے شیبہ بن مالک کو قتل کردیا۔ حضرت جبرئیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا کہ یہ ہمدردی یہ ہمدردی حیرت انگیز آپ نے فرمایا بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں۔ جبرئیل نے کہا پھرمیں آپ دونوں سے ہوں نیز صحابہ نے یہ آواز بھی سنی۔
لا سیف الا ذوالفقار و لا فتیٰ الا علی
روایت میں یہ نہیں ہے کہ جبرئیل نے یہ اعلان کیا تھا آسمان سے۔ صحابہ نے یہ آواز سنی ہے کہتے ہیں کہیں سے آواز سنی اور جن صحابہ نے سنی ان میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا۔ حضرت علیؓ سب سے پہلے اس واقعہ کے مرکزی کردار ہیں اور ان کے متعلق کوئی روایت نہیں کہیں ملتی نہ شیعہ کتب میں نہ سنی کتب میں کہ حضرت علیؓ نے اس واقعہ کو منسوب کرکے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ میں ہوں وہ جس کے رعب اور جس کے جلال سے دشمن کے چھکے چھوٹ گئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ذکر نہیں فرمایا ۔ جبرئیل اتر رہا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاطر میں نہیں لارہے اس کا کہیں ذکر نہیں فرماتے اس دن یہ واقعہ ہوا تھا۔ جو تم لوگ بچے ہو۔ تاریخ طبری کا حوالہ تھا یہ ۔ ابو رافع ہی سے الکامل فی التاریخ لابن اثیر جنکا زمانہ میں نے بتایا ہے کہ ۶۳۰ہجری کا ہے یعنی ۶۳۰ سال ہجرت کے بعد کے یہ بزرگ ہیں اور بیان یہ کررہے ہیں واقعہ احد میں درہ خالی پاکر یہ اس کے بعد بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کو ارشاد فرمایا!
احمل علیھم و فرقہم و قتل فیہم ثم ابصر جماعۃ اُخرٰی فقال لہ احمل علیھم فحمل علیھم وفرقہم و قتل فیہم فقال جبریل یا رسول اللّہ ھذہ المواخاۃ فقال رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم انہ منی و انا منہ فقال جبرائیل و انا منکما۔
کہتے ہیں کہ الکامل کی روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس گروہ پر حملہ کرو۔ پس آپؓ نے حملہ کیا اور ان کو منتشر کردیا اور ان میں بہتوں کو قتل کیا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جماعت کو دیکھا تو فرمایا احمل علیھم اب ان پرحملہ کرو ۔تو آپ نے اکیلے نے ان پر حملہ کیا اور ان کو منتشر کردیا اور بہت سے ان میں سے ایسے تھے جنہیں قتل کیا وقال جبرئیل تب جبرائیل نے کہا یا رسول اللہ ھذہ المواخاۃ۔
اے رسول اللہ ہمدردی اور تعلق اس کو کہتے ہیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کیوں نہ ہو انہ منی و انا منہ میں اس کا ہوں وہ میرا ہے تب جبرائیل نے کہا کہ تو پھر میں آپ دونوں کا ہوں۔ فسمعواصوت لا سیف الاذوالفقار جو آپس میںباتیں کررہے ہیں۔ ان سب نے آواز سنی ہے کہ لا سیف الاذوالفقار ‘ یہاںحضرت جبرئیل کی طرف منسوب ہی نہیں کیا گیا اس آواز کو۔ پھر ایک اور روایت جو ہے جس کو یہ خاص طور پر ان کے وہ پیش کرتے ہیں ابن ہشام کی ہے۔ وحدثنی بعض اھل العلم
ابن ہشام کا زمانہ انہوں نے لکھا ہوا ہے یہ کتنا ہے ۲۱۳ھ کی بات ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تقریباً ۲۰۳ سال بعد ابن ہشام یہ لکھ رہے ہیں کیا لکھ رہے ہیں؟ حدثنی بعض اھل العلم مجھے بعض صاحب علم لوگوں نے یہ بتایا ہے ۔ کون ہیں؟ وہ اس میں ان کاکوئی ذکر نہیں ہے۔ عن ابن ابی نجیح کہ ابن ابی نجیح نے یہ کہا ہے وہ کون تھا؟ ابھی تک تو میں تلاش نہیں کرسکا۔ ویسے تحقیق کرلیں گے۔ نادی منادی یوم احد کسی پکارنے والے نے یہ آواز دی اُحد کے دن لاسیف الاذوالفقار ولا فتیٰ الاعلی کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علیؓ کے سوا کوئی جوان نہیں ہے۔
اب میں اس کے مقابل پر جو دوسرے محققین کی آراء ہیں ان میں سے دو آراء آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔محدِث محدَّث جلیل علامہ سید جمال حسینی حدیث کے ماہر تھے۔ محدَّث ہی کہلائیں گے حسینی کی شہرہ آفاق و نادر الوجود کتا ب یہ لکھنے والے نے ان کے متعلق تاریخی کلمات لکھے ہیں۔ جو بہت بڑا مرتبہ رکھتے ہیں۔ روضۃ الاحباب میں اسی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے لاسیف الاذوالفقار یہ لکھتے ہیں سیرت کی متعدد کتابوں میں حضرت علیؓ سے متعلق واقعہ مندرجہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا یعنی بہت سی سیرت کی اہم کتابیں ہیں جن میں اس واقعہ کا اشارۃً بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔غالباً اس باب میں علامہ ذھبی کی تنقید کو قبول کیا گیا ہے یعنی اس لئے واقعہ نہیں ملتا کہ ہوسکتا ہے پہنچا ہو مگر علامہ ذھبی جو راویوں اور روایت کے مضمون میں حرف آخر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے بہت گہری تحقیق کی ہے کہ کوئی راوی کیسا ہے اور کوئی روایت قابل قبول ہونی چاہئے یانہیں کہتے ہیں ہوسکتا ہے علامہ ذھبی کے فیصلے کا ا ن پر اثر ہو۔ اور ان کا فیصلہ کیا ہے؟ ملا علی قاری موضوعات کبیر میں اس بحث کو اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ علامہ ذھبی جو فن رجال میں کسوٹی ہیں انہوں نے میزان الاعتدال میں اس ذکر کو اس قسم کی حدیثوں کو ضعیف کہا ہے اور راوی کی تکذیب کی ہے۔ یہ بہت سخت لفظ ہے وہ کہتے ہیں صرف ضعیف نہیں ہیں بلکہ قطعی طور پریہ راوی جو بیان کیا گیا ہے جھوٹا ہے۔ پس جسے اہل علم اور اہل فن بے بنیاد بات قرار دیں اور اس کے راوی کو جانتے ہوئے معین طور پر اس کے جھوٹا ہونے کا فتویٰ دیں اس پر اتنی عظیم الشان بات کی بنیاد کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ جبکہ جو سچے ہیں وہ سب خاموش ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہیں۔ حضرت علیؓ خاموش ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ خاموش ہیں۔ تمام سننے والے وہ اہل بیت جو جنگ میں شامل تھے۔ وہ سب خاموش ہیں۔ ایک جھوٹا ہی ملا ہے ان کو ایک سچی روایت بیان کرنے کیلئے جو حضرت جبرئیل سے تعلق رکھتی ہے اور وحی کا مرتبہ رکھتی ہے۔ پھر خود علامہ ملا علی قاری اس بارہ میں لکھتے ہیں حدیث لافتی الاعلی لا سیف الاذوالفقار لا افلح لہ مما یعتمد الیہ کوئی بھی ایک بھی بنیاد اس کی ایسی نہیں جس پر کچھ اعتماد کیا جاسکے۔ ومما یدل علی بطلانہ ۔ اور وہ باتیں جو اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔
لو نودی بھذا من السماء اگر آسمان سے یہ آوز دی جاتی
لسمعہ الصحابۃ الکرام بڑے بڑے کرام صحابہ موجود تھے وہ بھی تو سنتے
ولنقل عنھم الآئمۃ الفخام اور بڑے بڑے آئمہ بڑی شان والے آئمہ ضرور ان کی نقل کرتے۔
و ھذا الشبیہ ماینقل من ضرب النقارۃ حوالی بدر
اس روایت کا وہی حال ہے۔ ویسی ہی ہے جیسے بدر کے متعلق مشہور کردیا گیا تھا کہ فرشتوں نے نقارے بجائے تھے۔ اس وقت حالانکہ کہتے ہیں بالکل غلط جھوٹ قصہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جس طرح ان نقاروں کی کوئی حقیقت نہیں اس طرح اس آواز کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اب اس ضمن میں تھوڑی سی عقلی بحث کے بعد پھر میں قرانی بیان کی طرف واپس لوٹوں گا۔ بات یہ ہے کہ جیساکہ ابھی تک یہ بات کھل چکی ہے۔ حضرت علیؓ کا Terror اپنے اندر بہت سے مضمرات رکھتا ہے اول یہ کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا مقام کیا تھا ۔ اس رعب کا تعلق اور اس کا سہرا تمام تر حضرت علیؓ کے سر تھا ان سے تعلق تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس میں کیا مقام تھا کیا مرتبہ تھا ان کی طرف خدا کی کیوں نظر نہ گئی کہ خاتم النبین ہے یہاں موجود۔ اس کی برکت سے اس کی شجاعت سے میں ان پر رعب طاری کروں۔ حضرت علیؓ کے مقابل پر باقی صحابہ کی شجاعت کے تو شیعہ قائل نہیںہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت کا تودشمن سے دشمن بھی منکر نہیںہوسکتا۔ صحابہ بیان کرتے ہیںکہ وہ مقامات جنگ میں جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا تھا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ہوا کرتے تھے۔ اگر ہم نے پتہ کرنا ہو کہ محمد رسول اللہؐ کہاں ہیں تو جہاںخوب جنگ کی چکی گھوم رہی ہوتی تھی۔ شدت کے ساتھ جہاں ایک جنگ کا بھنور قائم ہوجاتا تھا وہاں پہنچا کرتے تھے اور محمد رسول اللہؐ وہاں ملا کرتے تھے۔ جنگ حنین میں سب سے آگے سب سے زیادہ خطرناک مقام پر ہونے کے باوجود آپ یہ اعلان فرماتے ہیں۔
انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب اس وقت ابوسفیان نے باگ تھامی ہوئی ہے اور صحابہؓ بھی ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تنہا ایسے مقام پر رہ گئے ہیں جہاں صحابہ مجبور ہوگئے تھے سوائے چند ایک کے باقی سب کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ مگر وہ خوف سے بھاگے نہیں تھے۔ کیونکہ قرآن کریم نے ان معنوں میں اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے ایک ریلا پڑا ہے۔
اور وہ نوجوان نسل جنہوں نے تکبر سے یہ کہا تھا کہ ہماری تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ ان کو سمجھانے کیلئے سبق تھا کہ نصرت صرف اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے۔ورنہ تمہارا اپنی ذات پر اترانا اپنی تعداد پراترانا تمہیں کوئی کام نہیںدے گا۔ پس یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھول جاتے ہیں اور ذکر ہی کوئی نہیں اور جب حضرت علی ؓمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہیں جان لڑا رہے ہیں تو توجہ اس طرف نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لائق ہیں کہ کائنات کا ہر وجود آپ کی زندگی کیلئے فنا کردیا جاتا ۔ نثار کردیا جائے۔ حضرت علیؓ بھی ان میں سے ایک ہیں بلکہ فرشتے تعجب کرتے ہیں کہ اچھا تم ان سے بڑا حسن سلوک فرما رہے ہو آج۔ کیا بات ہے؟ اور جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمہیں نہیں پتہ فرشتو ہم ایک ہی ہیں۔ اصل میں اس ایک کی خاطر ہی ان کا نام بھی ساتھ لے لیا ہوتا۔ یہ کہہ دیتے کہ حضرت علیؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رعب تھا مگر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی رعب نہیں ۔ پھر ہمیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کوئی صحابی کوئی قابل اعتماد بزرگ ہستی اس واقعہ کا ذکر کرتی ہوئی نہیں ملتی۔ اب دشمنوں کی طرف چلیے۔ جن کے دلوں میں Terror کہتے ہیں داخل کردیا تھا۔ حضرت علیؓنے اول تو یہ نقشہ عجیب و غریب ہے کہ اکیلے حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھیرے میں لیا ہوا حضرت علیؓ ان کے پیش نظر نہیں ہیں۔ دشمن جس کو شیعہ مانتے ہیں حملہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوا ہے اور اس قدر اطمینان اور سکون سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں فلاں طرف جائو وہاں ایک پارٹی ہے اور حضرت علیؓ کو وہاں بھیج دیتے ہیں پیچھے کیا ہورہا تھا اس وقت کون بچا رہا تھا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دشمنوں کے نرغے سے ان کے بار بار کے حملے سے ایسا عجیب و غریب تصور ہے کہ عقل ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو اس پر غور کرنے اس کو قبول کرنے تو درکنار اسے قابل غور سمجھنے کے بھی اہل نہیں سمجھتی پھر آپ دیکھیں ان کے Terror کا کیا حال تھا؟ جنگ کے بعد جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت کو لے کر ایک درے میں پناہ گزیں ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کا واقعہ یہ ہے ۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ حضرت علیؓ کا Terror اتنا سخت جب پھیلایا گیا اور جبرائیل نے اعلان کیا تو اس کے نتیجہ میںمسلمان تو بھاگے مگر دشمن نہ بھاگا۔ ادھر ہی رہا۔ یہ عجیب Terror ہے۔ اس کے اپنے ڈر گئے سارے۔ اعلان ہوتا ہے لافتی الاعلی لاسیف الاذوالفقار اور مسلمانوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور دشمن وہیں قائم ہے۔ یہاں تک کہ طعنی امیزی کرتا ہے بعد میں یہ خوف سے ہراساں لوگوں کا عالم ہوا کرتا ہے۔
سنیئے! بخاری کی حدیث ہے المغازی کوئی معمولی کتاب نہیں ہے۔ اس میں سارے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہ کس طرح آنحضرتؐ ایک گھاٹی میں پناہ گزیں ہوئے۔ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ستر (70) آدمی شہید ہوئے تھے اور اس وقت حضرت علیؓ کا کوئی Terror نہیں تھا جب رسول اللہ صلعم زخمی ہوکر ایک گڑھے میں جا پڑتے ہیں۔ اس وقت حضرت علیؓ کا Terror کوئی کام نہیں آیا۔ لیکن دشمنوں پر اس کا آخری اثر کیا ہے۔ وہ بھی سنئے ! ابوسفیان نے اونچی جگہ پر چڑھ کر یہ آواز دی کہ اس جماعت میں محمدؐ موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا اسے جواب نہ دو۔ اس نے پھر کہا کیا اس جماعت میں ابن قحافہ یعنی ابوبکر ؓموجود ہے۔ آپؐ نے فرمایااسے جواب نہ دو۔ اس نے پھر کہاکہ کیا اس جماعت میں ابن خطاب موجود ہے حضرت عمرؓ جلدی سے بول اٹھے یہ سارے ہاں نہیں‘ ابھی نہیں اور خود ہی اس کے جواب میں کہا یہ سارے مارے جاچکے ہیں۔ ایک کی بھی آواز نہیں آرہی۔ اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے اس پر حضرت عمرؓ نے طیش میں آکر کہا اے خدا ! کے دشمن تجھے ذلیل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ابوسفیان نے کہا ھبل اونچا ہے۔ اعل ھبل اعل ھبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ اب جواب دو۔ جب خدا کی توحید کی غیرت کا مقام ہے وہ جواب دینے کا وقت ہے تم اپنی غیرت کھا کر جواب دے رہے تھے اب جواب دو۔ اس پر صحابہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ہم کیا جواب دیں۔ اس پہ ابوسفیان نے ایک اور نعرہ بھی لگایا۔ مگر اس نعرے سے پہلے رسول اللہ صلعم نے ان کو جو جواب سیکھایا وہ یہ تھا۔ابوسفیان کا اعلان تھا اعل ھبل اعل ھبل‘ ھبل بت کی جے ہو وہ بلند ہو۔ آپ نے فرمایا یہ جواب دو اللہ اعلیٰ واجل‘ اللہ اعلیٰ واجل اللہ سب سے بلند تر ہے اور سب سے زیادہ روشن ذات ہے۔ ابوسفیان کہنے لگا۔ عزیٰ ہماراہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے جواب دو لوگ عرض گزار ہوئے کیا جواب دیں فرمایا تم یہ کہو اللہ مولٰنا و لا مولیٰ لکم ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ اس دوران حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہیںموجود تھے۔ یہ کیوں نہ فرمادیا ابھی وحی نازل ہوچکی تھی العلی و مولٰنا و لا مولیٰ لکم ہمارا مولیٰ علی ہے۔ جس طرح شیعہ حضرت علیؓ کو ہی مولیٰ کہتے ہیں۔ عجیب بات ہے اور حضرت علیؓ کا وہاں ذکر بھی نہیں آرہا۔ابو سفیان وہ نام ہی بلند نہیں کررہا۔ اگر Terror ہو تو حضرت علیؓ کے نام کا Terror ہوتا تو وہ کھڑا ہوکے ایسی باتیں کرتا۔ اس نے اتنا کہا کہ آج کے دن ایک ایسا دن ہے جیسے لڑائی ڈول رہی ہوتی ہے کبھی اس کے حق میں ہوجاتی ہے کبھی اس کے حق میں ہوجاتی ہے۔ ہم نے جنگ بدر کا بدلہ لے لیا ہے۔ یعنی آج ہماری فتح کا دن تھا۔ اپنے مُردوں کو جاکر دیکھو ان کے کان اور ناک کٹے ہوئے پائو گے اور جو کان اور ناک کٹے ہونے کا مضمون ہے یہ ساتھ یہ بھی مزید ثابت کرتا ہے کہ کوئی ایسا اعلان نہیں ہوا تھا اوران کو قطعاً کوئی بھی خوف نہیںتھا۔اس وقت تک اس کی وجہ یہ ہے کہ کان اور ناک لڑائی کے دوران نہیں کاٹے جاتے بلکہ جب میدان سے مدمقابل میدان کو خالی کردیتا ہے تو اطمینان سے پھر کر مردوں کو دیکھا جاتا ہے اور تسلی سے ایسے وقت میں جبکہ لڑائی نہیں ہورہی ان کے ناک اور کان کاٹنے کا عربوں میں رواج تھا۔ تذلیل کی خاطر یہ بتانے کیلئے کہ تمہیں شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ انتہائی ذلت آمیز شکست ہوئی ہے تو اس نے یہ بھی اعلان کیا اس وقت وہ Terror کہاں تھا پھر اس نے ساتھ معذرت بھی کردی کہ اگرچہ میں نے تو یہ حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے اس حرکت پر افسوس بھی کوئی نہیں۔ کہتا ہے میں نے کٹوائے نہیں تھے لیکن سب نے ہمارے ساتھیوں نے خود ہی کاٹے ہیں اور مجھے اس پر افسوس کوئی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ رعب کا قصہ جو ہمیں ان تفاسیر کی بحثوں میں بھی ملتا ہے۔ اور جنگ احد کے واقعات اس کی حقیقت کھول رہے ہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصل توقرآن ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان بحثوں میں روایتوں کو لے لیا گیا اور قرآن کی طرف لوٹتے نہیںہیں حالانکہ قران اس مضمون میں اتنا واضح ہے کہ قرآن کی طرف اگر لوٹتے تو کسی بحث کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی۔کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت میں رعب کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ علیؓ کی وجہ سے میں نے رعب ڈال دیا۔ رعب کی وجہ یہ بیان فرماتا ہے۔ بما اشرکوا باللّہ ما لم ینزل بہ سلطاناً اس لئے ان پر رعب پڑا کہ وہ مشرک تھے۔ پس رعب کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
عقلاً ایک مدمقابل اتنا مضبوط اور اتنا طاقتور ہو کہ اس سے لڑنے کے نتیجہ میں دل میں یہ خوف جاگزیں ہوجائے کہ ہم اس پر فتح نہیں پاسکتے۔ یہ مثبت پہلو ہے رعب کا۔ اس پہلو کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ملتا ہے۔
یایھا الذین ا منوا اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو فاثبتوا ثابت قدم رہو واذکرو اللّہ کثیراً لعلکم تفلحون اورکثرت سے اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ و اطیعو اللّہ و رسولہ اور اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ولا تنازعتم فتفشلوا و تذھب ریحکم آپس میں جھگڑنا نہیں تنازع نہ کر بیٹھنا اگر کروگے تو پھر تمہارے اندر بزدلی پیدا ہوگی اور کمزوری پیدا ہوگی اور ریح سے مراد رعب ہے۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ جو تمہارا رعب قائم ہے وہ جاتا رہے گا تو رعب کی اصل وجہ جو قرآن کریم نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ تم جب لڑائی پہ جائو ثابت قدمی دکھائو اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت میں رہو تو لازماً دشمنوں پر رعب پڑے گا اگر نہ کروگے تو تمہارا رعب جاتا رہے گا ۔ دوسرا مضمون بیان فرمایا ہے کہ دشمن جو مشرک ہو اس کی ذات کے اندر اس کے خوف مضمر ہوتے ہیں۔ ایک پہلا مثبت رعب تو ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔کیونکہ جو درے پر مقرر فرمائے گئے تھے وہ ثابت قدم نہ رہے وہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ان میں سے کچھ یا اکثر باہر نکل گئے اور اس کے نتیجہ میں وہ مثبت رعب جو مومنوںکی تقدیر میں لکھا گیا ہے وہ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ لیکن ایک اور رعب کی وجہ ہے وہ موجود تھی اور وہ شرک ہے شرک کی ذات کے اندر وہ محرکات موجود ہیں جن کے نتیجہ میں مواحد سے جب بھی مشرک ٹکرائے گا اس کے دل میں خوف پیدا ہوگا اور وہ اس کے توہمات ہیں وہ خدا کی طرف سے کوئی قطعی دلیل کا اس کو نہ ملنا۔ یہاں فرقان کے معنی یہ ہیں کہ ایسا احتمال ایسا یقین اپنے عقیدے پر جو غیر متزلزل ہو اور وہ ٹھوس دلیل کے بغیر ممکن نہیں ہے تو اللہ نے ان کو اس سے تو محروم رکھا ہوا تھاوہ کس بنا پر لڑتے کس بناء پر اکٹھے رہتے جبکہ مومن کو توحید کے برتے سے رعب عطا ہوتا ہے تو فرمایا کہ دشمن کوجو اس وقت کوجو خدا نے رعب کا ذریعہ اختیار فرمایا وہ ان کی منفی حالت سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی مثال جنگ احزاب میں بھی ہمیں ملتی ہے۔ جنگ احزاب میں مشرکوں کو جو آخری شکست ہوئی ہے جو وہ بھگدڑ دوڑے ہیں اور ان کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ملتی تھی۔ بے انتہا افراتفری پڑی ہوئی تھی اس کی وجہ یہ بنی تھی۔ کہ رات کو آندھی چلی اور ابوسفیان کے خیمے میں وہ آگ بجھ گئی جو انکی شرک کی علامت تھی اوراس سے وہ شگون لیتے تھے اور ایسی حالت میں اگر آگ بجھ جائے تو وہ سمجھتے تھے کہ بدشگون ہے یعنی ہم پر کوئی وبال پڑنے والا ہے تو وہ اتنا خوف زدہ ہوگیا کہ بجائے عام اعلان کرنے کے کہ کیا واقعہ ہوا ہے وہ اٹھا ہے اور اپنی سواری کو بغیر اس کو کھولے ہوئے گھبراہٹ میں اس پر سوار ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں جب عام افراتفری پڑی ہے کہ ہمارا سردار بھاگ رہا ہے تو کسی کوپوچھنے کی ہوش نہیںرہی۔ انہوں نے کہاکہ بہت بڑی آفت آ پڑی ہے اور وہ سب دوڑ گئے۔ یہ رعب ہے جو دشمنوں کے اندرسے پیدا ہوا تھا۔ اور وہ شرک کا رعب ہے یعنی منفی حیثیت میں۔ پس اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ تو مشرک تھے۔ تم سے کوتاہی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے رعب عائد کرنے والے دوسرے محرکات سے استفادہ فرمایا اور مشرکوں کا شرک ان پر ڈالا گیا ہے اور یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ کسی قیمت میں مشرک مواحد پر فتح یاب نہیں ہوسکتا۔ پس یہ جو واقعہ ہوا ہے۔ یہ بعد میں ہوا ہے اور یہ واقعہ اس موقع پر ہوا ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوسرے روز ہی واپس جانے کے بعد دوسرے روز ہی اس اطلاع پر اس اطلاع کے ملنے پرکہ دشمن واپس نہیں لوٹا بلکہ کھڑا ہوگیا ہے جب تَفَصُّح فرمایا تو معلوم ہوا کہ دشمن کے بد ارادے ہیں اور پہلے تو وہ چلا گیا تھا لیکن اب اس نے سوچا ہے کہ واپس مدینہ پر پھر حملہ آور ہوں ورنہ ہم اپنے گھروں میں جاکے کیا دکھائیں گے؟… تم کہتے ہو فتح ہوگئی اوروہ اسی طرح کے اسی طرح قائم ہیں تو اس خیال سے انہوں نے رستے میں پڑائو کرلیا تھا۔ اس خبر پر حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے جنگ احد میں حصہ لیا تھا وہ تمام کے تمام بلا استثتیٰ دوبارہ اس غزوہ پر روانہ ہوں اور انکے دشمن کے سامنے جاکر ہم پڑائو کریں گے۔ اوراگر اس کی بدنیت ہوئی تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ محمد رسول اللہ ؐ کا رعب ہے جو دراصل ان پر پڑا ہے۔ عجیب بات ہے شیعہ مفسرین اس واقعہ سے کلیتہً آنکھیں بند کرلیتے ہیں اتنا عظیم الشان فیصلہ ہے کہ دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں اس کی ایک بھی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی۔ ایک طرف دشمن یہ نقشے کھینچ رہا ہے کہ ایسا برباد کردیا‘ ایسا مٹا ڈالا‘ ایسا تہس نہس کردیا کہ اگر وہ چاہتا اس کے رحم و کرم پر تھے گویا وہ رسول اللہ اور آپ کے غلام چاہتا تو واپس دوبارہ مدینہ میں داخل ہوجاتا اور ایک بھی ان میں سے زندہ نہ چھوڑتا۔ اور اہل مدینہ کی باقی طاقت بھی ان کو شامل حال ہونی تھی کیونکہ یہ معاہدہ تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوچاہے وہ کوئی بھی ہو سارے مدینہ کی طاقت مل کر اس وقت مسلمانوں کی مدد کرے گی۔ اس کے باوجود شیعوں کو بھی اور دشمنان اسلام دوسروں کو بھی یہی بات دکھائی دے رہی ہے کہ ابوسفیان کے رحم و کرم پر تھا جب چاہتا داخل ہوتا جس طرح چاہے ان کا قتل عام کرتا۔ اس واقعہ نے اس کو جھٹلایا ہے اور کس شان سے جھٹلایا ہے اس جگہ کا نام ہے حمراء الاسد۔ یہ واقعہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت اور جرات کو دیکھیں کہ اس انتہائی زخمی حالت میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ سارے دوبارہ ہتھیار بند ہوجائیں جنہوں نے احد میں شرکت فرمائی اس کے کچھ اور پہلو ہیں جو میں آئندہ غالباً 160 آیت کی گفتگو کی بحث میں بیاں کروں گا۔ ان سے زیادہ تعلق ہے لیکن یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ اگر یہ بات سچی ہوتی کہ دشمن کو طاقت تھی۔ جب چاہے پلٹتا اور ان کو سب کو تہس نہس کردیتا اور قتل عام کردیتا۔ اگر یہ بات درست تھی جو محمد رسول اللہ ؐ تو ان سب جگر گوشوں کو لے کر خود اس کے پاس پہنچ گئے اور حکم یہ تھا کہ اس کے علاوہ کوئی شرکت نہ کرے۔ جرات ہو تو ایسی ہو پس میںنے جب کہا کہ کبھی کوئی تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں یہ واقعہ ہے کبھی ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی۔ کہ زخموں سے چور جن پر یہ داغ لگا ہوا تھا بظاہر کہ یہ بھاگ چکے ہیں اور نفسیاتی لحاظ سے کمزور ہیں۔ جن سے یہ احتمال تھا کہ دوبارہ بھاگیں گے اگر یہ بات سچی تھی دشمن کی یعنی دشمنان اسلام کی یہ بات سچی تھی تو یہ الزام سچا تھا تو پھر یہ صورت تھی ان سب کو لے کر چل پڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک صرف تھا استثناء ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ میری اتنی بہنیں ہیں میرے باپ نے مجھے مجبور کردیا تھا۔ ان بہنوں کی حفاظت کی خاطر میں یہاں ٹھہرا ہوں۔ پس مجھے ضرور شامل فرمالیں۔ رسول اللہ ﷺنے اس کا استشناء فرمایا۔ ایسے زخمی بھی تھے جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی۔ دو بھائی وہ کہتے ہیں ہمارے لئے چلنا دوبر تھا لیکن ہم اس قافلے میں شامل تھے اور میرا بھائی مجھ سے زیادہ زخمی تھا۔ بیان کرنے والا کہتا ہے۔ اس لئے کچھ دیر کے بعدمیں اسے زخمی ہونے کے باوجود اپنی پیٹھ پر اٹھالیتا تھا اور اس طرح یہ قافلہ اس مقتل کی طرف روانہ ہوا ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاعت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ اور ایک لاثانی باب کا اضافہ فرمایا ہے۔
ان کا جوب کیمپ لگا ہے جب انکی آگیں جلی ہیں اس سے رعب پیدا ہوا ہے۔ دشمن حیران رہ گئے کہ یہ کیا بات ہے ہم تو انہیں مغلوب اور بالکل بے طاقت سمجھتے تھے۔ وہ جرات کرکے آپ بھی مدینہ سے باہر آئے ہیں اورہماری پیروی کی، ہمارا تعاقب کیا ہے یہ وہ محمد رسول اللہﷺ کا رعب تھا اور آپﷺکے ساتھیوں کا رعب تھا۔ تمام مومنین کا رعب تھا۔ جس نے جنگ کی کایا پلٹ دی ہے اور اس نتیجہ سے دشمن کو محروم کردیا ہے۔ جس کے بعض حاسد ان سے توقع رکھتے تھے اور آج تک اس کی حسرت کرتے ہیں۔
الھم صل علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید ۔
باقی انشاء اللہ تعالیٰ کل اب وقت ہوگیا ہے

٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن مورخہ 15 فروری 1994ء
4 رمضان المبارک
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج یہاں تو بہت سردی ہے اور بہت برف پڑی ہے کل رات بھی پڑی تھی۔ مگر آج کافی زیادہ ہوگئی ہے۔ سنا ہے آج رات پھر برف کا ایک طوفان آئے گا۔ وہاں پتا نہیں کیا حال ہے؟ پاکستان میں سردی بھی ہوگی ابھی اکثر۔ کراچی میں تو اچھا موسم ہے فروری کا غالباً وہاں سے خط آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کل کہ بہت اچھا موسم ہے اور لاہور بھی بہترین ہوتا ہے۔ فروری میں انڈیا میں اکثر جگہ بنگلہ دیش تک میرا خیال ہے اچھا ہی موسم ہے۔ یہاں بھی اچھا ہے۔ برف کا بھی ایک اپنا لطف ہوتا ہے۔
ہاں میں اس سے پہلے اعلان کردوں جو وڈیوز تیار ہوکر باہر سے آئی ہیں اس میں ابھی تک پوری تسلی نہیں ہوئی۔ کیونکہ بہت سستی کررہے ہیں بعض لوگ تیاری میں۔ وہ غالباً اس خیال سے بیٹھے ہوئے ہیںکہ بہت اچھی قسم کی equipments مہیا ہوں اور پھر ہم تیاری کرکے بھیجیں۔۔۔ حالانکہ جن کے پاس عام کیمرے بھی تھے انہوں نے اس خیال سے کہ ہمیں ہدایت آئی ہے فوراً عمل کریں وڈیو تیار کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ا ن کے عام کیمروں میں بھی بڑی برکت دی ہے اور یہاں کے اچھے اعلیٰ قسم کے کیمرے بھی اپنے بعض پروگراموں میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ قادیان والوں نے گو اس زمانے کا ویڈیو استعمال کیا جب دو الگ الگ ہوتے تھے۔ ایک بھاری یہاں لٹکا ہوتا تھا اور ایک کیمرہ تھا کھینچنے والا اور یہاں کے بہت سے پروگراموں سے بہت بہتر ہے۔ اس لئے جو کچھ میسر ہے اس کے مطابق کچھ کریں ۔ہم انشاء اللہ یہاںایڈٹ خود کرلیں گے اور دوسرے تلاوت کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ اپنی زبان میں الگ بھریں اس کو ان کو پھر ہم خود اکٹھا کرکے بعض آیات کے ساتھ بعض تراجم کو اکٹھا کردیں گے۔ لیکن بعضوں کی طرف سے ابھی تک تیاری ہی ہورہی ہے۔ بعضوں نے تلاوت کی کیسٹیں بھیجی ہیں ۔ بہت اچھی اچھی آئی ہیں۔ ماشاء اللہ لیکن اس کی نہیں بھیجی‘ کوئی ٹرانسلیشنز کی۔ تو اس میں بڑی تاخیر ہورہی ہے۔ یہ مستقل پروگرام ہے ایک انشاء اللہ۔ اس کا صرف رمضان سے تعلق نہیں تھا بلکہ آئندہ ہمیشہ ہر زبان میں اس زبان کے تراجم اس زبان بولنے والوں کو بھی اور باقیوں کو بھی سنانے ہیں۔ باقیوں کو اس لئے کہ ان کو یہ معلوم کرکے لطف آئے کہ قران کریم ہر زبان میں دنیاکو سنایا جارہا ہے اور ان کی زبان میں اس لئے ضروری ہے کہ اکثر زبانیں ایسی ہیں جنکے بولنے والوں تک یہ تحریری شکل میں چھپا ہو قرآن مجید پہنچانا بہت لمبا اور مشکل کام ہے بعض تو ایسی زبانیں ہیں جن کے بولنے والے بولتے ہیں اور پڑھتے نہیں ہیں مثلاً افریقہ میں بہت سی زبانیں ہیں پڑھ سکتے تو ہیں بعض جگہ یعنی بہت معمولی حصہ ایسا ہے جن کو اپنی کسی زبان میں چھپی ہوئی کتابیں مہیا ہوں۔ ورنہ یہ رجحان ہی نہیں ہے۔ تو اُن تک کسی طرح قرآن کی تعلیم پہنچنے لگی صرف ترجمہ اس لئے تو نہیں کیا گیا تھا کہ ہم فخرکریں کہ الحمد اللہ ہمیں توفیق ملی۔ ترجمہ بامقصد تھا مراد یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں ترجمہ ہے وہ قرآن کریم کے مضامین کو سمجھیں اور فائدہ اٹھائیں تو اس پہلو سے اس ہدایت کو محض رمضان تک محدود نہ سمجھیں کہ چلورمضان گذر جائے گا تو پھر بات آئی گئی ہوگی۔ یہ مستقل کام ہے۔ خاص طور پر افریقہ کے ممالک کے احمدیوں کو میں نصیحت کرتا ہوں‘ امراء کو بالخصوص کہ فوری طورپر اپنی زبانوں کے ترجمے ٹھہر ٹھہر کر پڑھائیں مگر ٹھہر ٹھہر سے یہ مراد نہیںہے کہ ایک لفظ کے درمیان فاصلہ ڈالیں۔ دو ایک بڑی آیت کا اکٹھا اور دو تین چھوٹی آیتوں کا اکٹھا ہو پھر کچھ ہلکا سا وقفہ تاکہ ہم اس ترجمے کو اٹھا کر جب دوسری جگہ رکھیں تو آئندہ آنے والا ترجمہ اس سے متاثر نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک ٹکڑا اس کا بھی نکل جائے ادھر یا اس کا ایک ٹکڑا پیچھے رہ جائے۔
تو بیچ میں کاٹنے کیلئے کھلی جگہ ہو۔ وہاں سے ہم اٹھا کر خود ہی اچھی تلاوت کے ساتھ ان تراجم کو منسلک کردیں گے۔ یہ وہ جلد سے جلد بھجوائیں۔ اگر اچھی تلاوت والا میسر نہیں بھی آیاتو محض یہ ترجمہ بھجوادیں۔ لیکن آواز پُرشوکت ہو۔ ایسی آواز ہو جو دل پر گہرا اثر کرنے والی ہو۔ قوت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کوئی کمزوری نہ ہو پڑھنے میں۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ اس ہدایت کے بعدانشاء اللہ آئندہ دس پندرہ دن کے اندر ہمیں کثرت سے یہ تراجم پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ چینی صاحب کا کیا پروگرام ہے۔ وہ کب آرہے ہیں وہ تو اپنے ساتھ ساری equipment وغیرہ آڈیو ویڈیو کی چیزیں سب لے گئے تھے نا ساتھ‘ تو وہاں بھی میں نے ان سے کہا تھا کوئی اچھا پڑھنے والا چینی ڈھونڈیں کوئی رپورٹ نہیں آئی ابھی انکی وہاں تو ڈش انٹینا کی اجازت ہے نا چین میں۔ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا۔ اگر چینی صاحب سن رہے ہوں یہ تو ان کو میں نے کہا تھا کہ ڈش انٹینا اگر کسی جگہ لگوانا پڑے جتنا بھی خرچ ہو خود لگوائیں۔ اگر وہ سن رہے ہوں تو ہمیں ان کی چینی کی Translation یعنی چینی کا ترجمہ پڑھا ہوا جلد سے جلد چاہئے۔ اس لئے مہربانی فرما کر اگر کوئی اور اچھی بارعب آواز میں ترجمہ پڑھنے والا میسر نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے جیسی بھی آواز آپ کو دی ہے اور اچھی ہے۔ اس میں خود بھریں اور ہمیں جلد اس کی ویڈیوز‘ آڈیوز بھجوانا شروع کردیں۔
اعوذ باللّہ من الشیطن الرجیم بسم اللّہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین امنو ا ان تطیعو الذین کفروا یردواکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین O بل اللّہ مولکم ج وھو خیر النصرین O سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب بما اشرکوا باللّہ ما لم ینزل بہ سلطنا ج وما وھم النار ط و بئس مثوی الظالمین O ولقد صدقکم اللّہ وعدہ اذ تحسو نھم باذنہ ج حتیٰ اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم منم بعد ماارکم ما تحبو ن ط منکم من یرید الدنیا و منکم من یرید الآخرۃ ج ثم صرف عنھم لیبتلیکم ج ولقد عفا عنکم ط واللّہ ذوافضل علی المومنین O اذ تصدون ولا تلون علی احد والرسول یدعوکم فی اخرکم فا ثابکم غماً بغم لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولا ما اصابکم ط واللّہ خبیر’‘م بما تعملون O
آج کا درس ان آیات میں سے جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے 153 آیت سے شروع ہوگا۔ لیکن اس میں بعض دفعہ بار بار گذشتہ پڑھی ہوئی ایت کے بھی حوالے دینے ہوں گے اور اس مضمون کی طرف واپس جانا ہو گا۔
ولقد صدقکم اللّہ وعدہ اذ تحسو نھم باذنہ
اور اللہ اپنا وہ وعدہ جو تم سے فتح کا وعدہ کیا تھا وہ تو پورا فرما چکا ہے اس وقت جب خدا کے حکم کے ساتھ ان دشمنوں کو تہ تیغ کررہے تھے۔
حتیٰ اذا فشلتم
یہاں تک کہ تم نے کمزوری دکھائی یا بزدلی دکھائی
وتنازعتم فی الامر
اور جھگڑا کیا ایک فیصلے کے متعلق اللہ کے رسولؐ کے ایک حکم کے متعلق الامر سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا تھا‘ ہدایت دی تھی اس کے متعلق اس کے معنی کے متعلق تم نے اختلاف کیا اور اس بارہ میں جھگڑا کیا۔ وعصیتم اور عملاً تم نے نافرمانی کی یا مطلب ہوگا یا یہ کہ اس اپنے سردار کی جن کو ان پر مقرر فرمایا گیا تھا ان کی نافرمانی کی۔ کیونکہ وہ اس جھگڑے میںایک معنی کے ساتھ وفا کررہے تھے اور مضبوطی سے اس سے چمٹے ہوئے تھے اور وہ تیر انداز جو ایک دوسرا معنی کررہے تھے۔ ان کے اور ان کے درمیان بحث کی طرف اشارہ ہے تنازعتم میں تم نے آپس میں اختلاف کیا اور اس اختلاف نے طول کھینچا ۔ یہاں تک کہ باوجود اس کے کہ تمہارا مقرر کردہ سردار اپنی بات پر قائم رہا۔ پھر بھی تم اپنے معنوں کو درست قرار دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ یہ عصیٰ کا لفظ ان معنوں میںیہاں اطلاق پائے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں‘ کیونکہ تم نے تو اپنی دانست میں محمد رسول اللہ کا ایک معنی سمجھا تھا اور اس معنی پر اصرار کرتے ہوئے تم نے وہ جگہ چھوڑی۔ لیکن درحقیقت یہ نافرمانی حضرت محمد رسول اللہ ہی کی نافرمانی بن گئی‘ کیونکہ اول یہ کہ جو سردار کا معنی تھا جو ان کے اوپر سردار مقرر تھے ان کی جو تشریح تھی وہی درست تھی اور تمہاری تشریح غلط تھی۔ دوسرے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’ومن عصی امیری فقد عصانی ومن عصانی فقدعصی اللہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی ‘ اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ تو یہاں اگرچہ براہ راست ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی مگر عملاً یہ بات وہیں جا پہنچی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی واضح طور پر خدا کی نافرمانی ہے۔ اب بھی بسا اوقات ہمیں یہ تجربہ ہوتا ہے کہ ایک امیر کی ایک مقرر کردہ نگران کی بات نہیں مانی جاتی کیونکہ وہ مرکزی ہدایت کو دوسرے معنے پہنا دیئے جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ تم غلط کررہے ہو‘ یہ شاذ کے طور پر ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہوتا رہتا ہے۔ اُن کیلئے اس میں بڑی نصیحت ہے معنے خواہ کسی حکم کے خواہ کچھ بھی ہوں‘ جو تم پر نگران مقرر ہوا ہے اور امیر مقرر ہوا ہے آخری حق اس کا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس کے کیا معنے ہیں اور اگر اختلاف ہو تو ان معانی کو پھر مرکز تک پہنچانا چاہئے۔ لیکن جب تک مرکز سے کسی فریق کے حق میں فیصلہ نہ ہوجائے اس وقت تک مقرر کردہ امیر کی اطاعت لازم ہے اور اسی کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس حکم کا‘ اس ہدایت کا کیا معنی ہے۔ پس یہ اس موقع پر عصیتم سے مراد اگرچہ بالآخر اللہ اور رسول کی نافرمانی بنتی ہے ‘ مگر یہاں آغاز اس نافرمانی کا نفس کے اس دھوکے سے ہوا کہ ہم تو رسول کی ہدایت کے تابع ہیں اپنے امیر سے اس لئے اختلاف کررہے ہیں کہ یہ رسول کی ہدایت کو نہیں سمجھا اور ہم بہتر سمجھ رہے ہیں من بعد ما ارکم ماتحبون یہ واقعہ اس وقت ہوا جب کہ جو تم چاہتے تھے وہ ہوچکا تھا جس کی محبت میں تم آئے تھے وہ مقصد تو حاصل ہوچکا تھا۔ تم نے دیکھ لیا تھا۔ بہت سے مستشرقین بڑی تیز زبانوں کے ساتھ یہاں ’’تحبون‘‘ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ تم Booty کی خاطر آئے تھے یعنی لوٹ مار کی خاطر آئے تھے اور جب تم نے وہ Booty حاصل کرلی‘ دیکھ لیا تو پھر بعد میں کیسا اختلاف رہا۔ اگر یہاں ترجمہ یہ لیا جائے جیسا کہ وہ ظالم زبردستی قرآن کی طرف یہ مفہوم باندھتے ہیں‘ قرآن کی طرف یہ مفہوم منسوب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ انہوں نے جب وہ دیکھ لیا جس کی تمنا تھی تو پھر جھگڑا کس بات کا رہا۔ پھر تو بعد میں اختلاف کا موقع ہی کوئی نہیںتھا۔ وہ فتح کی تمنالے کے آئے تھے اور یہ جو قضیہ ہوا ہے یہ فتح دیکھنے کے بعد ہوا یعنی انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقصد تو حاصل ہوگیا جس چیز کی ہمیں محبت تھی وہ خدا نے عطا فرمادی اب پیچھے رہنے کا کیا مطلب ہے اب بعد کی باتیں جو جنگ کے ساتھ فتح کے ساتھ جو فوائد منسلک ہوا کرتے ہیں۔ ان سے بھی فائدہ اٹھا لیا جائے تو کیا حرج ہے مگر مقصود ہر گز مال غنیمت نہیں تھا اور یہ اعتراض جیسا کہ آگے میں کئی جگہ آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اس قدر جاہلانہ ہے کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جب انسان تعصب کی پٹی آنکھوں پہ باندھ لے تو کیسے اس کی عقل ماری جاتی ہے اور کوئی صحیح نتیجہ نکال نہیں سکتا۔ یہ ان کا تصور ان ظالموں کا تصور یہ ہے کہ یہ سات سو افرادجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ احد میں نکلے۔ جن کے ساتھ ابتداء میں تین سو اور بھی شامل تھے لیکن انہوں نے بے وفائی کی اور ان کو اکیلا چھوڑ کر یہ کہہ کر کہ بہت خطرناک بات ہے اور واپس اپنے وطن کو چلے گئے مدینے کی طرف لوٹ گئے۔ ان کے مقابل پر تین ہزار ایسے مسلح افراد تھے جن کے متعلق بعض مستشرقین نے یہ بھی گواہی دی ہے کہ ان کے ساتھ بڑے ماہر فن ماہر جنگ ‘ احابیش بھی تھے یعنی حبشی ایسے تھے جن کے متعلق معلوم تھا کہ وہ فن حرب میں مکے والوں سے زیادہ بہتر ہیں اور اس فن کے ماہر شمار ہوتے تھے جس طرح آج کل Armies Mercenary آ بعض غریب ملک بھی لے لیا کرتے ہیں ۔ ان کو جنگ کا اتنا سلیقہ نہیں ہوتا۔ لیکن ترقی یافتہ ملکوں سے پیشہ ور سپاہی لے لیتے ہیںوہ یہ کہتے ہیں بعض مستشرقین کہ وہ لوگ بھی ان میں شامل تھے۔ تووہ سات سو اس ارادے پر نکلے تھے کہ ہم جاکر ان کی لوٹ مار کریں گے‘ جہالت کی حد ہے وہ جانوں کے تحفے لے کر نکلے تھے۔ خدا کے حضور پیش کرنے کیلئے اور’’ مما تحبون‘‘ میں سوائے اس سے اور کوئی مراد نہیں کہ فتح کی تمنا لئے ہوئے تھے انکو پتا تھا کہ اللہ یہ وعدہ پورا فرمائے گا۔ پس اس تعلق میں جب تحبون رکھا ہے تو واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے وعدے پر نظر رکھتے ہوئے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک فتح کی تمنا لیکر آئے تھے ورنہ اس تحبون کا اس آیت کے آخر پر لگانا بالکل بے معنی ہوجاتا ہے‘ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ Booty یعنی مال غنیمت اور لوٹ مار تو اللہ کا یہ وعدہ تھاکہ تمہیں میں لوٹ مار کیلئے لیکر جارہا ہوں ایسی جاہلانہ باتیں یہ کرتے ہیں کہ دل خون بھی ہوتا ہے اور ان کی عقل پر‘ ان کی حالت پر رونا بھی آتا ہے کہ کس قدر بے قوف لوگ ہیں۔ جب تعصب سے کوئی انسان نتائج نکالتا ہے تو بالکل اندھا ہوجاتا ہے اور ہمیں اس کا بڑا تجربہ ہے۔ ہمارے خلاف ہر روز یہی حربے استعمال ہوتے ہیں۔
منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الآخرۃ ثم صرفکم عنھم لیبتلیکم
تم میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے دنیا چاہی مگر تم میں وہ بھی تو ہیں جنہوں نے خالصتہً آخرت کی خاطر اپنی زندگی وقف رکھی یا آخرت کی خاطر اس غزوے میں شمولیت کی ثم صرفکم عنھم لیبتلیکم ان میں جو من یرید الآخرہ اور الدنیا ہے تحبون کے بعد اس نے Bell کو چکر میں ڈال دیا ہے۔ Bell ‘جتنے بھی مستشرقین ہیں ان میں سب سے زیادہ پاگل ہے اور پاگل پن کی انتہا یہ ہے کہ اپنے اندازے لگاتا ہے کہ یہ آیت یہاں نہیں ہونی چاہئے‘ اٹھا کر کسی اور جگہ رکھ دیتا ہے اور ایک نئی ترتیب دی ہے اس نے قرآن کریم کو اور یہ آیت جس کا نمبر 153 ہے Bell کے قرآنی ترجمے میں 145 ہے۔ اس کو نو حصے پیچھے لے گیا ہے۔ اور ایسا جاہل ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کوئی عالم بننے والا، کہلانے والا اتنا بڑا جاہل نہیں دیکھا اور تمام دنیا کے اس اتفاق کے باوجود کہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نازل ہوا۔ اس کی ترتیب حضرت جبرئیل کی بار بار کی رہنمائی کے ساتھ طے پائی اور جب وہ ترتیب ہورہی تھی تو وہ گواہ موجود تھے اور کسی گواہی کے بغیر کوئی آیت کہیں نہیں رکھی گئی۔ ان سب کے متعلق وہ کہتا ہے کہ یہ دراصل قرآن کریم میں جو تحریف ہوئی ہے۔ یہ وہ سلسلہ چلا تھا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے معاً بعد حضرت عثمانؓ نے جو قرآن کو اکٹھا کیا اور ایک ایک آیت پر بڑی لمبی بحثیں ہوئیں‘ گواہ طلب کئے گئے اور پھر جو لکھی ہوئی تحریریں موجود تھیں چمڑوں پر یا دوسری چیزوں پار چات پر ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے پھر اس کی ترتیب اس گواہی کے بعد کہ محمد رسول اللہ نے یہ جگہ فرمائی تھی، دی گئی۔ کہتے ہیں یہ دیکھ لو کیسی تحریرمعنی بدلے گئے‘ نئے لفظ داخل کئے گئے۔ بعض آیات کی ترمیم کی گئی اور ان ترمیم شدہ آیات میں سے ایک یہ مثال ہے کہتا ہے مما تحبون تک آیت ختم ہوجانی چاہئے تھی یعنی Bell صاحب کا حکم ہے کہ یہاں آیت ختم ہوجاتی۔ اس کے بعد جو آیت ہے اس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس لئے اس کو اٹھا کے اس نے کسی اور آیت میںڈال دیا ہوگا۔ بہرحال یہ اس کے اوپر میں جب اس کا حوالہ پورا پڑھوں گا تو پھر دوبارہ واپس آئوں گا۔
فرماتا ہے ’’منکم‘‘ من یرید الدنیا و منکم من یرید الاخرۃ تم میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے دنیا چاہی اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے آخرت کو اپنے لئے اپنا بنالیا۔ لیکن سوال یہ ہے باقی کہ ماتحبون کے بعد یرید الدنیا کی گفتگو کن کے متعلق ہے ان کے متعلق جنہوں نے فتح دیکھ لی تھی اور اس کے بعد دنیا کی خواہش رکھنا ان کو زیب نہیں دیتا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے فتح کا عذر رکھ کر پھر اپنے امیر کی نافرمانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف دوڑنے کی کوشش کی۔ تاکہ وہاں مال غنیمت میں سے وہ بھی کچھ حصہ پاجائیں۔ یہ وہ لوگ مراد ہیں اور معدودے چند ہیں۔ سات سو صحابہ تھے جو اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں اور ان میں سے پچاس وہ تھے جن کو درے پر فائز فرمایا گیا تھا۔ پچاس میں سے دس تھے جو اپنے سردار کے ساتھ آخر وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی روح کے مطابق وہیں ڈٹے رہے اور اسی مقابلے میں شہید ہوئے اور یہ چالیس تھے جن کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے فتح حاصل ہونے کے بعد پھر دنیا کی طرف توجہ کی۔ لیکن ان کی وجہ سے سب مسلمانوں سے ایسا سلوک نہیں ہوسکتا تھا کہ سارے گویا مجرم ہیں اور سب کو سزا دی جاتی۔ لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہیں جو سزا اور عذاب کے طور پر نہیں آیا کرتیں‘ ایک طبعی نتیجے کے طور پر آیا کرتی ہیںوہ طبعی نتیجہ بعض دفعہ ساری قوم کی ہلاکت پر منتج ہوسکتا ہے پس مضمون یہ بیان ہو رہا ہے کہ ان چالیس نے یا جتنے بھی تھے انہو ںنے ایک غلطی کی فتح دیکھی‘ اسے آخری فتح سمجھا اور پھر اپنے آپ کو احکام سے آزاد قرار دے دیا‘ جو فتح سے پہلے تک کے احکام تھے یعنی ان کے نزدیک ایک دور ختم ہوا اب ہم آزاد ہیں فتح کے بعد تو ہر وقت کا حکم تو نہیں تھا‘ کہ عمر بھر اسی درے پر بیٹھے رہو۔ پس وہاں سے وہ نکلے لیکن اس سے اتنا بڑا نقصان .......ان کو پہنچا کہ بعید نہیں تھا کہ بہت بڑی ہلاکت کا منہ دیکھتے‘ مگر پھرجو ہوا ہے وہ رعب کے نتیجہ میں نہیں وہ اللہ کے فضل کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ وہاں کسی رعب کا کوئی سوال نہیں ہے اس لئے وہ جو پہلی آیت ہے اس میں رعب کا ذکر ہے‘ لیکن مستقبل کے معنوںمیں ہے ماضی کے معنوں میں نہیں۔ ہم تمہیں رعب دیں گے ضرور تمہیں تمہیں نہیں، نہیں ہم دشمن پر رعب قائم کریں گے۔ لیکن یہ جو باتیں ہیں یہ اس سے پہلے ہوچکی ہیں تبھی Bell کہتا ہے کہ 152 آیت کو 153 آیت بنا دینا چاہئے یعنی اندرونی تبدیلیوں کے علاوہ اور 53 کو 52 بنادینا چاہئے۔ کہتا ہے اُن لوگوں نے جو ترتیب قائم کی تھی ان کو عقل نہیں آئی۔ مجھے اب سمجھ آگئی ہے کہ کیا ترتیب ہونی چاہئے تھی قرآن کریم خیر یہ تو محض جہالت ہے ان لوگوں قرآن کا علم ہی کوئی نہیں ہے قرآن کریم نے جو یہ فرمایا ہے لایمسہ الا المطہرون کہ پاک لوگوں کے سوا اس کو کوئی بھی چھو نہیں سکتا یعنی سرسری معنی بھی انھی کو پتہ لگیں گے جن کے دل پاک ہوں جو دل میں بغض لئے بیٹھے ہوں بد نیتوں کے ساتھ اور ظالمانہ خیالات کے ساتھ قران کا مطالعہ اس لئے کریں کہ اس کی کمزوریاں تلاش کریں ان کو کہاں یہ توفیق مل سکتی ہے کہ اس کا سرسری معنی بھی حاصل کر سکیں پس ……یہ وجہ لوگ پڑھتے ہیں ان کو سمجھ ہی نہیں آتی عقل ہی نہیں آتی کہ ہو کیارہا ہے وہ کہتے ہیں دراصل 53کو 52کر دینا چاہئے کیونکہ ان کی دلیل یہ ہے کہ 52میں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما رہا ہے کہ ہم رعب عطا کریں گے اور 53 یہ بتارہی ہے کہ گویا وہ رعب عطا ہوگیا اور اس وقت تک قائم رہا۔ ان کے نزدیک جب تک پہلا ہلہ تھا اورپھر وہ رعب جاتا رہا۔ یہ وہ معنے بتانا چاہتے ہیں اور یہ ان کو تکلیف ہوتی ہے کہ اس طرح اس ترتیب کے ساتھ وہ معنے نکل نہیں سکتے‘ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جس رعب کا وعدہ تھا وہ عارضی رعب تھا۔ چند گھڑی کی باتیں تھیں اس وقت تک تھا جب تک کہ ابتدائی ہلہ کامیاب ہوا پھر وہ رعب خدا نے چھین لیا اور اس کے بعد جو پھر افراتفری پڑی ہے جو بھگدڑ مچی ہے جو بہت ہی درد ناک واقعات عالم اسلام کو پیش آئے ہیں۔ یہ سب اس کے وعدہ پورا ہونے کے بعد کی باتیں ہیں۔ وعدہ بس تھوڑا ساتھا۔ یہ معنیٰ وہ ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ یہ ہے نہیں وہاں۔ اس لئے آیتوں کی ترتیب بدلنا چاہتا ہے۔ ثم صرفکم عنھم لیبتلیکم ‘ ثم صرفکم عنھم لیبیتلیکم آگے تفصیل میں آئے گا اس کے مختلف معنی پیش کئے گئے ہیںاور مطلب صرف اتنا ہے کہ تمہیں ان سے پھیر دیا صرفکم عنھم لیبتلیکم تاکہ تمہیں آزمائے۔یہ جو پھیر دیا ہے اس کا ترجمہ بعض لوگوں نے کیاہے کہ نعوذ باللہ ‘اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھگا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیٹھ پھیرنے پر مجبور کردیا اور کہاکہ دوڑو‘ یہاں سے تاکہ ہم تمہیں آزمائیں۔ ایک انتہائی جاہلانہ ترجمہ ہے۔ یہ مراد نہیں ہوسکتی۔ یہ جاہلانہ ترجمہ اگر سخت لفظ ہے تو غیر عارفانہ کہہ دیں اس کو بعض بزرگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ ترجمہ کیا ہے اس لئے لفظ ان کے لئے نرم استعمال ہونا چاہئے بات کی سمجھ نہیں آئی‘ مگر یہ ترجمہ بہرحال نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دوڑا دیا وہاں سے‘ کس غرض سے تاکہ تمہیں تمہاری آزمائش کرے۔
ولقد عفا عنکم جبکہ معاف پہلے ہی کرچکا تھا۔جرم ہوا نہیں معافی پہلے ہی مل گئی اور معافی کے بعد پھربھگا دیا۔ یہ کیا مطلب بنے گا۔ اس لئے اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ اور مضمون ہے جو آگے جاکے پھرکسی موقع پر انشاء اللہ کھلے گا۔
ولقد عفاعنکم واللّہ ذوفضل علی المومنین
اور اللہ تعالیٰ تو مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ یہ اچھا فضل ہے کہ معاف کرنے کے بعد پھر ایسا دوڑایا ہے میدان سے کہ اس کے بعد پھر کوئی معافی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ تو یہ غلط ہے‘ قرآن کریم اس کو رد کرتا ہے۔ لیکن اب میں جس طر ح پہلا طریق ہے لفظاًانشاء اللہ تعالیٰ ایک ایک لفظ کو لے کر آگے چلتا ہوں۔
تحسون کا مطلب ہے حس فلان‘ یحسہ حسا‘ قتلہ و استاصلہ اس نے دوسرے کو قتل کیا بلکہ جڑ سے اکھیڑ پھینکا یہ مراد ہے۔ تو جو پہلا وعدہ تھا وہ اس شان سے پورا ہوا ہے کہ قتل ہی تم نے نہیں کیا بلکہ جڑوں سے اکھیڑ پھینکا۔ اتنی بھاری تعداد میں اتنی غالب طاقت جس کے ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے آئندہ اسلام میں سپہ سالاری کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ جنگوں کی تاریخ میں اس کی مثال دکھائی نہیں دیتی یعنی خالد بن ولید‘ اس کے سمیت سب کے پائوں اکھڑ گئے اور یہ اس لئے یادرکھنے کی بات ہے کہ بعد میںیہ الزام دیتے ہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلط Strategy کے نتیجے میں ایسا ہوا تھا۔ یعنی یہ جو پائوں اکھڑے ہیں۔ یہ جو ظالم یہ باتیں کہتے ہیں یہ بھی بیچ میں شامل کرلیتے ہیں۔ وہ کیسی Strategy تھی کہ آناً فاناً ابھی 9 آدمی مارے گئے ہیں اور دشمن کے چھکے چھوٹ گئے ہیں۔ ان کو ایسی بلا سامنے دکھائی دی ہے کہ ہوش اڑ گئے اور یہ سمجھا کہ ان کے ساتھ مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سات سو اور تین ہزار‘ سوچیں تو سہی کتنا بڑا غلبہ ہے اور صرف 9 مرے ہیں ابھی اور پائوں اکھڑ گئے۔ اور پائوں اکھڑنے کی حالت یہ ہے کہ بہت سی اپنی چیزیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔ ورنہ وہ Booty کا جھگڑا کیسے شروع ہوجاتا۔ 9 آدمی مرے تھے ان کے اوپر سات سو آدمی نے حملہ کرکے کیا کیا چیزیں نکال لینی تھیں ان کے قبضے سے۔ یہ وہ Booty ہے جو سراسیمگی کی حالت میں ایک بڑے لشکر کے فرار کے نتیجے میں حاصل ہوسکتی ہے ورنہ ناممکن ہے۔ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ کوئی جنگی چال نہیں تھی کیونکہ جنگی چال میں جب پیچھے لوگ ہٹتے ہیں تو اپنا ساز و سامان کیوں نہیں چھوڑ کے جایا کرتے۔ پس یہ جو سراسیمگی تھی یہ بتاتی ہے کہ اسلامی‘ مسلمانوں کا حملہ اتنا قوی تھا اتنا شدید تھا اور اتنا ناقابل دفاع تھا کہ دشمن نے سمجھا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ ہمیں لازماً واپس لوٹنا ہوگا۔ پھر وہ واقعہ ہوا ہے‘ وہ جس نے پانسہ پلٹا ہے اور وہ چند کی غلطی ساری قوم کے لئے سزا بن گئی۔ لیکن عفا کا لفظ بتاتا ہے کہ بعد میں جو کچھ ہوا ہے یہ رعب وغیرہ کی وجہ سے نہیں عفو کی وجہ سے ہوا ہے۔ پس رعب کا مضمون پہلے بیان ہوگیا اور یہ مضمون بیان کیا ہے لیکن فرق‘ ایک فرق کے ساتھ‘ یہ ماضی میں بیان ہوا ہے او ررعب کا مضمون مستقبل میں بیان ہوا ہے۔
سنلقی ‘ یقینا ہم بعد میں تمہیں رعب عطا کریں گے اور اس رعب کا تعلق کچھ‘ ایک دائمی بھی ہے اور ایک عارضی بھی۔ دائمی ان معنوں میں کہ اس سے پہلے وہ استغفار کرچکے ہیں‘ دعائیں کرچکے ہیں‘ توبہ کرچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تم سے رحم کا سلوک فرمائیں گے ہم تمہیں بخشتے ہیں اور وہ دعا ایسی ہے جو لازماً نصرت پر منتج ہوا کرتی ہے اور کمزوروں کی نصرت ہمیشہ رعب کے بغیر نہیں ہوا کرتی۔ کیونکہ بہت بڑا کردار کمزوروں کی فتح میں ان کے رعب میں ملتا ہے جو دشمن کے دلوں کو مرعوب کردیتا ہے خوفزدہ کردیتا ہے۔ ورنہ حقیقت میں تو اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو وہ ٹکر ایک Unequal یعنی ایسی ٹکر ہے جس میں دونوں پلڑے برابر نہیں ہوسکتے۔ ایک نمایاں طور پر بھاری ہے۔
پس یہ پہلو ہے جس میں یحسہ حسا سے مراد استا صلہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ تم ان کی جڑیں کاٹ رہے تھے اور دشمن نے محسوس کیا ہے کہ ہماری جڑیں کاٹی جارہی ہیں اور اس وقت ان کو جنگ بدر یاد آگئی ہوگی۔ کیونکہ جنگ بدر میں بھی ایسا واقعہ ہوا تھا کہ 313 نکلے تھے اور اس کے مقابل پر ایک ہزار نامور اور چوٹی کے جوان تھے اور قرآن کریم نے وہاں ان کی جڑیں کاٹنے کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ ان کی ’’دابرالقوم‘‘ اس وقت کاٹی گئی تھیں تو تمہارا حملہ اتنا شدید تھا دفاعی حملہ کہ اس کے نتیجے میں دشمن نے یہی محسوس کیا ہے کہ اس کی جڑیں کاٹی گئی ہیں۔ اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب تم اسے بری طرح قتل کررہے تھے۔
اِنْحَسَّتْ أَسْنَانُہ اِنْقَلَعَتْ ۔ اس کے دانت اکھڑ کر نکل گئے‘ اس کے لئے بھی لفظ انحس استعمال ہوتا ہے تو مراد یہ ہے کہ تم ان کے دانت توڑ رہے تھے۔ یہ اردو میں بھی ہم دانت توڑنا دشمن کے دانت کھٹے کردینا استعمال کرتے ہیں اور دانت توڑنے کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔
حس البرد الزرع :اَحرَقَہ‘۔ سردی اگر فصل کو جلا دے تو اس کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حس
الحسوس ‘ الحسوس ایسے سال کو کہتے ہیں جس میں شدید قحط پڑ جائے۔ حس بالخیر حسا: ایقن بہ ۔ اس نے خبر کا یقین کرلیا ۔ اس کا یہاں تعلق نہیں۔ لیکن جو قحط والا حصہ ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ فصلیں تباہ ہوجائیں‘ جڑیں اکھیڑی جائیں اور آدمی بھی قتل ہوں اور جاتے رہیں ان کی رونق ختم ہوجائے تو ایک قحط کا سا منظر آتا ہے۔ جب ایک فوج دوسری فوجوں کے ہاتھوں ‘ دوسری فوج کے ہاتھوں ایسے شدید نقصان اٹھائے کہ اس کی رونق جاتی رہے اور اس میں بڑے بڑے سورما مارے جائیں اور قتل ہوکے گر پڑیں اور ان کی ‘ ان کا کوئی دبدبہ کوئی شوکت باقی نہ رہے۔ قحط زدہ علاقے جو فصلوں کا منہ دیکھ لیں تو ویسے ہی منہ اس ایسی شکست خوردہ فوج کے ہوتے ہیں جو ایک قوی اور طاقتور حملے کے نتیجے میں تہس نہس ہوچکی ہو۔
مفردات راغب میں الحاسَۃُسے مراد وہ قوت ہے جس سے عوارض حسیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ اسکی جمع حواس ہے جس کا اطلاق مشاعر خمسہ سے ہے یعنی سمع ‘ بصر ‘ شم ‘ ذوق اور لمس ‘ حس ‘ حسست و حَسِسْتُ ،اَحْسَسْتُ معلوم کرنا‘ واحسست کے دو معنے آتے ہیں محسوس کرنا ‘ کسی کے حاسہ پر مارنا اور حاسہ پر مارنے سے کبھی قتل بھی ہوجاتا ہے۔ اس لئے حسستہ بمعنے قتلتہ آجاتا ہے۔ بہت گہرا اس لفظ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں دراصل یہ جو لفظ استعمال ہوا ہے تحسونھم اس کا مادہ حس سے ہے اور یہ حواس خمسہ پر اطلاق پاتا ہے اور اس کے قتل اس لئے اس کا معنیٰ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حواس مختل کردو کوئی حس ان کے کسی کام کی نہ رہے۔ان کی روئیت ان کی دیکھنے کی طاقتیں بھی زائل ہوجائیں ا نکی شنوائی بیکار چلی جائے‘ ان کے حس کی جتنی بھی قسمیں ہیں‘ سب مختل ہوجائیں۔ تو ایسی مار کے نتیجے میں پھر قتل تو ہونا ہی ہوا۔ جس مدمقابل کے ہوش اڑ جائیں‘ یہ لفظاً اردو میں اس کو ہم یوں کہیں گے‘ ا نکے ہوش اڑا دئیے تم نے۔ اور امام راغب کہتے ہیں قتل اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ براہ راست اس لفظ سے مراد قتل کرنا نہیں ہے۔ کہتے ہیںاس لئے اس کا ‘ حسیس کا معنیٰ قتیل بھی آتا ہے یعنی ظاہراً تو اس کا مطلب ہے حسوں والا‘ لیکن وہ جس کی حسیں ماری گئی ہوں‘ یعنی قتل ہوچکا ہواس کے حواس خمسہ ہمیشہ کے لئے اس سے رخ بدل چکے ہوں ‘ جس کا معنیٰ قتل ہے۔
ایسی آواز کو بھی کہتے ہیں جو دور سے آرہی ہو۔ جیسے جہنم کی آواز کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے۔لا یسمعون حسیسھا
سورۃ الانبیاء آیت 103 ‘ وہ مومن ایسے ہیں جو اسکی آواز بھی نہیں سنیں گے اور وہاں اس آواز کو حسیس کہنا‘ غالباً یہ معنے اندر رکھتا ہے کہ اہل جہنم کی ہر حس عذاب میں مبتلا ہوگی۔ اور اس کی دردناک کراہیں جو سنیں گے لوگ‘ وہ ہر حس سے تعلق رکھنے والی ہوں گی۔ مگر مومنوں کو اللہ تعالیٰ اس عذاب سے اس طرح نجات دے گا‘ اتنا دور رکھے گا کہ وہ اس کی حسیس کو سن نہیں سکیں گے۔
حسیس ہلکی آواز اور آہٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یہ وہی جو حسوںکے ساتھ تعلق رکھنے والی تکلیف جو جہنم کی آواز ہے وہ ہلکی ہلکی آواز اٹھ رہی ہو یہ مراد ہے حسیس سے‘ تو اصل میں جب دور کے مقام سے وہ آوازیں سنی جائیں تو ہلکی ہوتی ہیں اور وہ خدا کے پاک بندے جنکو جہنم کی آواز سے دور رکھا جائے گا۔اگر ان تک کوئی بات پہنچ سکتی تھی ‘ آواز تو وہ ہلکی پہنچتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے دائرے سے بھی ان کو پرے رکھا جائے گا۔
فشل‘ کمزوری کے ساتھ بزدلی کے بھی ہیں۔ قرآن میں ہے۔
حتیٰ اذا فشلتم
یہاں تک کہ تم نے ہمت ہار دی۔
تفشل الماء ‘ پانی بہہ پڑا‘ تو کمزوری اور بہہ کر نیچے چلے جانا اصل میں فشل ہے۔ پس فشلتم کا معنی وہاں یہ ہوگا کہ تمہیں خدا نے ایک اعلیٰ مرتبہ عطا کردیا تھا‘ تمہیں فتح نصیب ہوگئی تھی‘ اس کے بعد ‘ تمہیں زیب نہیںدیتا تھا کہ ادنیٰ خیالات میں اپنے آپ کو ملوث کرلو‘ ادنیٰ باتوں کی طرف جھک جائو۔ تو پھسلنا‘ گر جانا ‘ کمزوری دکھانا یہ معنے ہیں جن میں وہاں اس مضمون کا اطلاق ہوتا ہے۔اس معنے میں اس لفظ فشل کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ورنہ اگر اس کے بزدلی دکھائی جائے تو موقع نہیں ہے۔ بالکل بے تعلق بات ہے۔ وہ یہ کہتے ہیںبزدلی معنیٰ ہے‘ فتح دیکھنے کے بعد کس بات کی بزدلی تھی۔ بزدلی کا موقع ہی کوئی نہیں۔پس یہ جو معنیٰ ہے کا نیچے اتر جانا اور کمزوری دکھا جانایہ عین بعینہٖ صادق آتا ہے‘ تم نے عظمت کردار کا نمونہ نہیںدکھایا۔ تم نے گری ہوئی بات کی۔ اور وہ یہ تھی کہ اپنے امیر سے جھگڑ پڑے اورکہنے لگ گئے کہ نہیں رسول اللہ صلعم کا یہ مطلب نہیں ہے ‘ یہ مطلب تھا۔
دوسری جگہ قرآن کریم نے اسی مضمون کو دوسری ترتیب سے بیان فرمایا ہے‘ امام راغب کہتے ہیں کہ وہاں یہ مضمون کھل جاتا ہے۔
ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم و اصبروا
کہ دیکھو آپس میں اختلافات کو طول نہ دیا کرو‘ جھگڑے نہ کیا کرو۔ فتفشلوا‘ اس کے نتیجے میں تم کمزوری دکھائو گے۔
یہاں تفشلوا بعد میں آیا ہے یعنی تنازعہ کے نتیجے میںکمزوری پیدا ہوگی۔ وہ آیت جو ہماری زیر نظر ہے اس میں فشل پہلے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ فشل کے نتیجے میں جھگڑا پیداہوتا ہے پہلے دل میںکمزوری پیدا ہوگئی ہے اور تنازعہ اس کا نتیجہ ہے اور بعض دفعہ تنازعہ کے نتیجے میں فشل پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ بعض موقع پر کبھی ایک پہلے ہوتا ہے کبھی دوسرا پہلے ہوجاتا ہے اور نتیجہ وہی ہے کہ
تذھب ریحکم تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ تمہاری ہوا بندھی نہیں رہے گی۔ (تاج العروس) تو فشل کا مطلب یہی کمزور اور بزدل ہوجانا بتاتے ہیں لیکن وہاں بزدلی کا کوئی موقع نہیںتھا۔ اور منجد ‘لسان العرب نے بھی یہی معنی دیئے ہیں۔ تنازع کا لفظ نزع الشئی من مکانہ قلعہ
پس اس نے کسی چیز کو اس کی جگہ سے اکھاڑ دیا۔ پس اس کی بنیاد تنازع کی بنیاد یہ کہ کسی چیز کو اکھاڑ دینا۔
نزع الدلو جذبھا جسکا مطلب ہے ڈول کو کنوئیں سے باہر کھینچنا نزع فی القوس جذب وترھا۔ اس نے کمان کے وتر کو کھینچا۔یوں کرکے کھینچتے ہیں جب وتر کو۔تو اس وتر کو کھینچنے کی طرف لفظِ نزع سے اشارہ ملتا ہے یعنی وہ مضمون بیان ہوتا ہے۔ تنازع القوم الشئی۔ لوگوں نے کسی چیز کو اپنی اپنی طرف کھینچا تو یہ وجہ ہے جس کو جھگڑا کہا جاتا ہے۔ مضمون کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہ ہماری تائیدکا مضمون ہے ۔ تمہاری تائیدکا نہیں۔ وہ کہتے ہیں نہیں ہماری تائید ہورہی ہے اس سے پس جتنے جھگڑے آج عالم اسلام میں مل رہے ہیں یہ آیتوں کو اپنی طرف کھینچنے سے پیدا ہورہے ہیں۔ وہی حدیثیں ہیں وہی آیات ہیں۔ ان میںکوئی فرق نہیںمگر ہر ایک اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہے کہ دیکھو اس سے میرا مطلب حل ہورہا ہے ۔ ایسی صورت میں اس قسم کی کھینچا تانی سے تو کبھی دوبارہ اتحاد نہیں ملا کرتا۔ اس وقت فیصلہ ہونا چاہئے اور کھینچا تانی سے تو قوم کو جو بکھر چکی ہو جو جدا جدا ہوجائے جو ہر وقت ایک دوسرے سے جھگڑا کررہی ہو ہم سچے ہیں تم جھوٹے ہو اس جھگڑے کو طول دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پھر کیا نتیجہ ہوتا ہے عدل کی کرسی قائم ہونی چاہئے اور بعینہٖ یہی خوشخبری حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت محمدیہ کو عطا فرمائی کہ جب تمہارے جھگڑے ہوجائیں گے۔ جب تم الگ الگ ہوجائو گے تو اللہ تعالیٰ مہدی کی صورت میں اور مسیح کی صورت میں عدالت قائم فرمائے گا۔ جو تمہارے درمیان جھگڑوں کو طے کریں گے حکماً عدلاً وہ فیصلہ کرنے کیلئے آئیں گے۔ لیکن عدل کیساتھ۔ پس وہاں ان سے پھر جھگڑا نہ شروع کردینا کیونکہ جب خداکی طرف سے فیصلہ ظاہر ہوجائے تو سب سے پہلے یہ دیکھنے والی بات ہے کہ اللہ کی طرف سے اترا ہے یا نہیں‘ وہ اپنی صداقت کی نشانیاں اپنے ساتھ لائے گا اور جب آجائے توپھر تمہارا فرض یہی ہے کہ ان کے فیصلے کو قبول کرلو۔ اس کا اس میں ایک یہ بھی اشارہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے پہچانا جائے گا اور بہت سے ایسے نو مسلم یا بعض غیر مسلم بھی‘ اسی طرح بعض غیر احمدی بھی جب مجھ سے گفتگو کیلئے آتے ہیں کہ ہم اتنے 72 میں سے کیسے پہچانیں کہ کون سچا ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ ان بہتر 72 میں اور اس میں ایک فرق ہے۔ ان بہتر 72میں کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں خدا کا وہ فیصہ کرنے والا نازل ہوچکا ہے جس نے فیصلے دے دیئے ہیںجماعت احمدیہ کا اعلان یہ ہے کہ ہم میں وہ فیصلہ کرنے والا آگیا ہے جس نے آسمان سے ہدایت لیکر فیصلے دینے تھے۔
تو جھگڑوں کا نزاع سے تو فیصلہ کبھی ہوا نہیں ۔ کھینچا تانی سے تو نہیں کبھی فیصلہ ہوا۔اورچودہ سو سال کی تاریخ بتا رہی ہے کہ یہ جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔ انشقاق زیادہ شدت اختیار کررہا ہے۔ افتراق اور زیادہ بڑھتا چلا جارہا ہے لیکن اکٹھے نہیں ہورہے۔ پس ایک ہی حل ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بتایا اور آپؐ نے امت کے سامنے رکھ دیا اور کھول کر رکھ دیا کہ ایسے موقعے پر نفسیاتی لحاظ سے ممکن ہی نہیںہے کہ جھگڑ جھگڑ کر فرقوں میں بٹ جانیوالے اچانک دلائل کے زور سے اکٹھے ہوجائیں کیونکہ وہ دلائل ایک طرف کھینچنے والے دلائل ہیں ۔ حجت نہیں ہیں۔ سلطان نہیں ہیں۔ تنازعہ ہے اور تنازعے کے نتیجہ میں تم بٹو گے اکٹھے نہیںہوسکتے۔ ہر ایک اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ پس ایسی صورت میںخداکی طرف سے جو آتی ہے آواز اوریہ کہتی ہے کہ میں وہ ہوںجو عدل کی کرسی پر بٹھایا گیا ہوں، میں وہ ہوں جس کو حکم بنایا گیا ہے۔جب تک اس کی طرف توجہ نہ کرو‘ اس وقت تک تمہارے مسائل حل نہیںہوسکتے۔ تو میں ان سے کہتا ہوں تم اگر امام مہدی کو سچا نہیں سمجھتے تو نہ سمجھو مگر اول حق تحقیق کا جماعت احمدیہ کا ہے۔کیونکہ باقی جگہ آواز ہی یہ نہیں پس جہاں اتفاق ممکن ہے وہ ایک ہی مقام ہے۔اگر جماعت احمدیہ سچی ہے تو پھر عدل کی کرسی قائم ہوگئی اور جھگڑے طے ہوگئے ۔اور حَکَم آگیا اگر نہیں تو قیامت تک اسی طرح چلتے چلے جائو گے جب تک امام مہدی نہیں آجائے گا تو کسی فرقے میںتمہاری نجات ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر ہے تو اس میں ہے جو خدا کی طرف سے آئے اور اس کے پیغام میںہے۔ پس یہ دیکھا کرو سب سے پہلے یہ غور کرو کہ جماعت احمدیہ سچی ہے کہ نہیں ۔ پوری تحقیق کرو۔ اگر نہیں تو پھر اور کوئی بھی سچا نہیں۔ کیونکہ جھگڑے ہیںایک دوسرے سے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ کہناکہ ان میں سے ایک لازماً پورا سچا ہے یہ تو درست ہوہی نہیںسکتا۔ ورنہ حکم عدل کے اترنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ کوئی پیشگوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اب ان تنازعوں کے باوجود شروع سے لیکر آخر تک کسی ایک جماعت نے سچے ہی رہنا تھا‘ اپنے تمام عقائد وغیرہ میں تو پھر حکم عدل کا مضمون اطلاق ہی نہیں پاتا۔ اور عقل کے بھی خلاف بات ہے کہ اتنے چودہ سو سال کے جھگڑوں میں مختلف فرقے بٹ جائیں اور ایک پوری طرح ہر بات میں سچا نکلے اور باقی سب بالکل جھوٹے ہوں۔پس حق بھی بکھر جاتا ہے اور جھوٹ بھی بکھر جاتا ہے کچھ یہاںچلا گیا کچھ وہاں چلا گیا اور آسمان سے عدل کی کرسی جب تک نہ اترے اس وقت تک ایک ہاتھ پر دوبارہ جمع نہیںہوسکتے۔
پس یہ وہ معنی ہیں جہاں تنازعہ کیساتھ تعلق رکھتے ہیں جب کھینچا تانی کیلئے تم اپنی طرف ایک آیت کا مضمون یاایک حُکم کا مضمون لے جانے کی کوشش کرو گے۔ تواختلاف بڑھیں گے اور وہ جو اتفاق ہے وہ تو صرف اس بات میں ہے سمعنا و اطعنا آسمان سے آواز آئی ہے۔ ہم نے سنا ہم نے قبول کرلیا۔پھر کوئی جھگڑا نہیںرہتا۔ پس اُن کے امیر نے اور ان نو مخلصین نے جنہوں نے اپنی جانیں وہاں اپنی صداقت کی شہادت دیتے ہوئے اور اللہ اور رسول کی صداقت کی شہادت دیتے ہوئے اس درے میںپیش کردیں ان کا مسلک یہ تھا۔ سمعنا و اطعنا ہمیں کسی کھینچا تانی کی ضرورت نہیں ہے۔ہم نے تو اللہ کے رسول کا یہ حکم سنا ہے کہ کسی صورت میں تم نے اس درے کو نہیں چھوڑنا۔ ہم نہیں چھوڑیں گے۔
پس تنازع کا مضمون وہی ہے جو میںابھی بیان کرچکا ہوں اور جماعت کیلئے بھی اس میں بہت نصیحتیں ہیں۔ اگراپنی صداقت کو اور اس امت واحدہ کو جواب دوبارہ انسانوں کو عطا ہورہی ہے قائم رکھنا ہے اس کی حفاظت کرنی ہے تو تنازعوں میں نہ پڑ جانا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حَکَم عدل آیا اور ایک حکم عدل نظام چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اس لئے تمہاری زندگی کی ضمانت اس حکم عدل کے قائم کردہ نظام سے وابستہ ہے۔ اگر اس کے ساتھ وہی طریق رکھو گے کہ’’ سمعنا و اطعنا‘‘ اور بے وجہ باتوں کو اپنی طرف پھیرنے اور کھینچنے کی کوشش نہیں کرو گے تو کوئی دنیا کی طاقت تمہیں متفرق نہیں کرسکے گی۔ اگر تنازعوں میں پڑ گئے اور حَکَم عدل کی آواز پر اپنے دل کی آواز کو ترجیح دے دی تو پھر تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے پھر کوئی دنیاکی طاقت تمہیں مجتمع نہیںرکھ سکے گی۔
لیبتلیکم ‘ ابتلاہ اختبرہ کسی کو ابتلاء میں ڈالا یعنی اس کی حقیقت حال معلوم کی‘ اختبرہ اس کے اندر کی خبر پائی کہ وہ کیا ہے بیچ میں سے‘ ابتلا الامر عرفہ کسی معاملے کو ابتلاء میں ڈالا یعنی معاملے کو ابتلاء کیا۔ مطلب ہے اس معاملے کو پہچانا۔ خوب پرکھا اچھی طرح اور اس کے بعد فیصلہ کیا کہ اس معاملے کی کیا حقیقت ہے۔ بلیٰ یبلیٰ سے ہے اور بلاہ یبلوہ بلوا بھی آتا ہے۔ بلوالثوب: خلق کپڑا پرانا ہوگیا‘ بلاہ یبلوہ بلوا‘ جربہ واختبرہ۔
یہ حضرت مصلح موعودؓنے اس کے ترجمے میں ایک نقشہ کھینچا ہے کہ عورتیں جب وہ کپڑا لیتی ہیں تو اس کو یوں کرکے دیکھتی ہیں مَل مَل کے یوں کھینچ کے دیکھتی ہیں‘ یوں کرکے دیکھتی ہیں بعض تھوک لگا کے رنگ بھی دیکھتی ہیں اترا کہ نہیں تو کہتے ہیں یہ ہوتا رہے جس کپڑے سے بیچارے سے اس نے باقی کیا رہنا ہے تو ’’ہنڈانا‘‘ جس کو پنجابی میں کہتے ہیں وہ کہتے ہیں بلیٰ کا یہی مطلب ہے کہ ایک کپڑے کو اس طرح بار بار دیکھا جائے یا استعمال بھی اتنا کیا جائے کہ اس بیچارے کا کچھ باقی نہ رہے۔ نہ طاقت رہے نہ رنگ باقی رہے۔ اس کو کہتے ہیں بلو۔
امام راغب کے نزدیک بلی یبلی سے مراد ہے بلاہ یبلوہ بلوًا پرانے ہونے کا مفہوم دونوں میں شامل ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس آیت پر کیا مفہوم صادق آتا ہے۔ پرانے ہونے کا یا کوئی اور یہ واپس جائیں گے تو دیکھیں گے عفاعنکم العفو کے معنی ہیں کسی چیز کو لینے کا قصد کرنا چنانچہ محاورہ ہے عفاہ و اعتفاہ کسی کے پاس جو کچھ ہے۔ وہ لینے کا قصد کیا اور پھر اس سے لے لیا۔
عفت الدار‘ جیسا عفت الدیار محلھا و مقامھا نشانات کے مٹ جانے کو کہتے ہیں۔ تویہاں وہ دوسرا معنیٰ ہے۔ اب ان دونوں معنوں میں دیکھیں کافی بعد پیدا ہوجاتا ہے۔ پرانا ہونا تو بتاتا ہے کہ ابھی لمبا عرصہ چلے گا اور مٹ جانا بتاتا ہے کہ نکل گیا یا ختم ہوگیا۔
ان دونوں میں جوڑ کیا ہے۔ اصل میں یہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ ان میں جوڑہے۔ عفا اس مٹنے کو کہتے ہیں جو امتداد زمانہ سے مرور زمانہ سے مٹ جائے اور زیادہ معنی اس کا وہی ہے لیکن جب ایک دفعہ مٹ جانے کا معنی داخل ہوگیا تو پھر اچانک مٹ جانے کیلئے بھی استعمال ہونے لگا۔ لیکن آغاز میں اسکے بنیادی معنوںمیں آپس میں ایک گہرا تعلق تھا اور ایک دوسرے کیساتھ تعلق کی بناء پر وہ بظاہر الگ الگ ہیں مگر تعلق بھی رکھتے ہیں۔ پس جو چیز پرانی ہوجائے وہ مٹ جایا کرتی ہے اور عرب شاعری میں ہمیں عفا کا لفظ ان آثار اور رسوم کے متعلق ملتا ہے جو امتداد زمانہ سے رفتہ رفتہ نشان مٹنے شروع ہوگئے ہیں۔ ان کیلئے عرب شعراء لفظ عفا استعمال کرتے تھے۔ مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یک لخت مٹا دینے کیلئے بھی عفو کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
تو انسانی تعلقات میں جب کسی دل پر کوئی بد اثر پیدا ہوجائے اور انسان اسے مٹا ڈالے تو اس کے لئے لفظ ’’عفا‘‘استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ ظاہراً یہ مطلب بنتا ہے کہ ایک زخم پہنچ گیا ہے‘ ایک دل میں شکوہ قائم ہوگیا ہے وہ مٹتے مٹتے مٹے گا۔ ’’عفا‘‘ ان معنوں میں ہے اصل میں۔ لیکن ایک با حوصلہ انسان ایک رحیم و کریم انسان جب اچانک ان کو صاف کرکے اپنے دل سے ان داغوں کو دھو دیتا ہے۔ تو اس کے لئے لفظ ’’عفا‘‘ استعمال ہوتا ہے۔
پس قرآن کریم میں جہاں اللہ کے حوالے سے لفظ ’’عفا‘‘ استعمال ہوا ہے۔ وہاں ان معنوں میں اس کے مٹنے کے معنی ہیں کہ خداتعالیٰ نے معاف کردیا ہے اس بات کو جیسے کوئی آدمی ہمیں کہتا ہے مجھے معاف کردو۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم معاف کرچکے ہیں۔ چھوڑ چکے ہیں‘ بس کرو اس بات کو‘ اور کئی ایسے دوست ہیں جو ابھی بھی مجھے خط لکھ رہے ہیں۔
کسی غلطی کوئی ان سے ہوئی جماعتی ان کو میں نے معاف بھی کردیالکھ دیاکہ معاف کردیا ہے مگر وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے کہتے ہیں‘ نہیں معاف کردو تو میں کس طرح معاف کروں۔ میں نے تو اس طرح معاف کیا ہے جیسے اللہ نے سکھایا ہے۔ کہ جب کہہ دیا کہ معاف کردیا تو مٹ گیا داغ دل سے کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہا۔
تو ’’عفا‘‘ کا معنیٰ ایسا دل کا داغ جو کسی کی وجہ سے لگ گیا ہو۔ اس کی غلطی سے اُسے ایسے صاف کردینا کہ اسکا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ پس عفوت عنہ مفردات راغب خود یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ مٹا دینے کا قصد کیا ہے یہ اس سے اگلا مقام ہے معنی کا بہت ہی اعلیٰ لطیف ترجمہ ہے۔ فرماتے ہیں جب اللہ عفو کرتا ہے تو اس کے دل پر تو کوئی داغ نہیںہے جو مٹے۔اس قسم کا تو دل نہیں جیسے انسانی دل ہو۔ وہ جب معاف کرتا ہے تو گناہ مٹادیا کرتا ہے۔ تمہارے دل سے ۔ بہت ہی پیارا معنی ہے۔ بہت عارفانہ بات ہے تو اللہ کے عفو کے معنی یہ ہوں گے کہ نہ صرف یہ کہ اپنی ناراضگی کو کالعدم کردیا بلکہ جس کو بخشا اس کے گناہ کو بھی ساتھ کالعدم کیا۔ اس کے داغ کو بھی دھویا ہے۔ اسے دوبارہ پاک و صاف کردیا ہے۔
عفوت کذا میں نے اسے بڑھنے دیا۔اس سے اعفو اللحی یعنی داڑھی کے بال بڑھنے دو یہ معنی بھی لئے گئے ہیں۔ عافیت کذا میں نے اسے معاف کردیا مراد نہیںہے میں نے اس سے صرف نظر کرلیا ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے ہوتا رہے تو بعض لوگ ہر وقت داڑھی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ اتنی ہوگئی ہے اتنی اس کو کاٹ دینا چاہئے یا مونڈ دینا چاہئے۔ نئے نئے چھوٹے چھوٹے بال ابھرنے لگ گئے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے لفظ اعفوا استعمال فرمایا ہے۔
اعفوا اللحی ‘ لحی اصل میں ہے۔ اعفو اللحی کہ اپنی داڑھی کے بالوں کا پیچھا چھوڑو۔ ان کو بڑھنے دو۔ بڑھتے ہیں تو‘ عفو سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ کرنے سے تکلیف نہ ہو۔ اعطی عفواً اس نے اسے بے مانگے دیا۔ یہاں عفواً مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود ہی اسے بڑھا دیا ہے۔ (مفردات راغب) یہاںعفو کا ایک اور معنی یہ ہے جیسا کہ انہوں نے کیا ہے کہ بن مانگے زیادہ دیا۔ یہ کس طرح انہوں نے نکالا ہے۔ کہتے ہیں دراصل عفو سے مراد وہ مال ہے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ یسئلونک قل العفو‘ وہ آیت پوری کیا ہے۔ تجھ سے پوچھتے ہیں ماذا ینفقون وہ کیا خرچ کریں۔تو ان سے کہہ دے عفو‘ یعنی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ ہے وہ خرچ کردو۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص کا عفو دوسرے شخص سے الگ ہوسکتا ہے۔ ہر شخص کی ضروریات مختلف ہیں۔ اور وہ لوگ جو خرچ کی محبت رکھتے ہیں۔ جب انکو یہ حکم ہے کہ عفو سے خرچ کرو تو وہ اپنی ضروریات کم کرتے ہیں پھر‘ تاکہ عفو کا پہلو بڑھتا چلا جائے چنانچہ تحریک جدید میں جوحضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اخراجات کم کرنے کی نصیحت فرمائی تھی‘ اس غرض سے تھی کہ اگر یہ وہ کہتے کہ اپنی ضروریات کاٹ دو تو بظاہر قرآنی حکم سے ایک ٹکرائوہوجاتا۔ لوگ کہتے کہ اللہ تو فرماتا ہے ضرورت سے زائد خرچ کرو۔آپ نے فرمایا اچھا پھر یوں کرو کہ ضرورتیں چھوٹی کرلو۔ دن بدن ضرورتوں سے منہ موڑو۔ تکلفات چھوڑو۔ زیوروں کی محبت دل سے نکال دو تو کتنا پیارا طریق ہے عفو بڑھانے کا‘ اور اس کے نتیجہ میں پھر پیش کرنے میں تکلیف نہیں ہوتی اور خوشی کا پہلو قائم رہتا ہے اور تکلیف کا پہلو مٹتا چلا جاتا ہے۔
امام راغب نے اس کا معنیٰ بغیر طلب کے دینا اس لئے کیا ہے کہ جس کو ضرورت ہو وہی مانگتا ہے۔ لیکن شاید ان کو اس زمانہ کا تجربہ نہیں ہم نے تو بڑے بے ضرورت مانگتے دیکھے ہیں۔ حرص ہی نہیں ہٹتی لوگوں کی‘ لیکن جو سوسائٹی شرفاء کی سوسائٹی ہو اس میں یہ مضمون ضرور صادق آتا ہے کہ ایسے لوگ جن کی ضرورتیں پوری ہوگئیں پھروہ ہاتھ نہیںبڑھاتے۔ کسی کی طرف ان سے بھی کوئی حسن سلوک کرے تو عفو کا معنیٰ ہے کہ بن مانگے ان کو دیا‘ اللہ کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں۔ ان معنوں میں اور یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرورت سے بڑھ کر بھی عطا کردیتا ہے۔ بن مانگے بھی دے دیتا ہے۔
یہ جو آیت ہے ولقد صدقکم اللہ وعدہ اس کے متعلق مختلف مفسرین مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں۔ فتح الکبیر امام شو کانی لکھتے ہیںکہ قولہ ولقد صدقکم اللہ وعدہ نزلت لما قال بعض المسلمین من این اصابنا ھذا وقد وعدنا اللّہ النصر۔
کہتے ہیں یہ اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں میں سے بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ شکست جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ کہاں سے آگئی ۔جبکہ اللہ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔ تو ان کو اللہ تعالیٰ جواب دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح عطا کرچکا ہے۔ اس وعدے کے پورا ہونے کے بعد جو تم نے غلطی کی ہے تم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہو۔ اس لئے اب کیا پوچھ رہے ہو کہ وہ وعدہ کہاں گیا۔ وعدہ تو میسر آگیا اور بڑی شان سے پورا ہوچکا ہے پس اب تمہاری غلطی ہے جو اس کا خمیازہ بھگتا ہے تم نے‘ اس کو اللہ کی طرف منسوب نہ کرو‘ ایک حس کا لفظ جو تحسون کی بحث گزری ہے اس کا ایک اور معنیٰ بھی ان مفسر نے علامہ شوکانی نے پیش کیا ہے‘ امام شوکانی وہ کہتے ہیں کہ جب ٹڈیاں سردی سے مرجائیں تو انہیں جراد محسوس کہا جاتا ہے تو تحسونھم میں ایک یہ نقشہ ہے کہ وہ ٹھنڈے پڑ گئے سارے‘ ان کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ اور ان میں کچھ بھی باقی نہیں رہا لیکن اصل تو حواس سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے۔ ظاہری قتل کا نہیں ہے اتنا کیونکہ کلھم نو تھے جو مارے گئے۔تین ہزار میں سے صرف نو کا مرجانا اور ان کا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا یہ عقل کے خلاف بات ہے۔ سوائے اس کے کہ ان کے اعصاب ٹوٹ گئے ہوں۔ اس شدت سے ان کی حس پر حملہ ہوا ہے کہ اُن کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا (کیاہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے) ہوش حواس گم ہوگئے۔ یہ نقشہ ہے اور یہ بڑی عظیم الشان فتح کا نقشہ ہے ورنہ مردوں میں گنو تو صرف نو مُردے دکھائی دیں گے۔
میں یہ پوچھنا چاہتا ہوںکہ آج کتنی زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہے ہمارے‘ غالباً سات زبانوں میں تو کل ہورہا تھا یا آٹھ؟ سات زبانوںمیں۔ کون کونسی ہیں، ایک ہے انگریزی تو ہے ہی اس کے علاوہ ماشاء اللہ انگریزی میں ہے عربی میں ہے اور جرمن میں ہے اور فرنچ میں ہے اور رشین میں بھی اور بوسنین میں بھی اور رشین میں تو آج چلے جانا تھا یا کل چلے جانا ہے۔ ان کا متبادل انتظام کرلیا؟۔ جمعرات کو جانا ہے۔ ان کا متبادل انتظام کردیا ہے ان کا‘ اچھا وہ جو رشین ترجمہ کررہی ہیں خاتون‘ وہی ہیں جو میرے لئے سوٹی اور ریت لائی تھیں تو آج کل میں نعیم شاہ صاحب کے عزیزوں سے ملنے پاکستان جانیوالی ہیں۔ آج کل میںجمعرات کو جائیں گی۔ اب تک وہ ترجمہ کررہی تھیں تو میں نے کہا اگر رابیل‘ مہیا ہوں تو ان سے کرلیا جائے۔ ورنہ طائی ہے‘ اس سے بات ہوگئی ہے؟ ایک زبان ابھی ہمارے پاس باقی ہے۔ سات زبانوںمیں مسلسل ‘ اس کے درس کے تراجم ہورہے ہیں لیکن ایک زبان ابھی خالی پڑی ہے۔ وہ کونسی ہے ترکش۔ ترکش ہاں ہاں میں نے کہا تھا ٹرکش کو دیں کیونکہ بہت بھاری تعداد ترکوں کی یورپین ممالک میں ہے اور ترکی میں براہ راست بھی یہ درس پہنچ رہا ہے۔ سٹیلائٹ کے ذریعے۔ تو اللہ کرے کہ ان میں سے بھاری تعداد کو اس طرف توجہ پیدا ہو اور یہ جو ہماری مریمہ ہیں ان کے ‘ انہوں نے واپس چلے جانا ہے ان کے بعد کیا انتظام ہوگا جو بوسنین ترجمہ کررہی ہیں وہ بچی ہے ‘ زیادہ بڑی عمر نہیں ہے مگر بڑی قابل ہے ماشاء اللہ۔ اس نے یہاں آکر بہت اچھی زبان سیکھ لی ہے۔ کل میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیسا ہورہا ہے انہوں نے کہا میرے لئے کوئی مشکل نہیں‘ میں آسانی سے ترجمہ کررہی ہوں تو ان کا متبادل چاہئے۔ اب کوئی سنا انہوں نے کچھ دن کے بعد یاشاید ان کے دن پورے بھی ہوچکے ہوں چلے جانا تھا۔
جو دوست انگلستان میں سن رہے ہیںدرس وہ یاد رکھیں اگر ان کی پہنچ کسی ایسے بوسنین کی طرف ہو ۔ خواہ وہ مرد ہوں یا خاتون ہوں جو انگریزی بھی اچھا سمجھتی ہوںیا سمجھتے ہوں اور اپنی زبان میں بھی ان کو دسترس ہو اور ذہین اتنے ہوں کہ ساتھ ساتھ رواں ترجمہ کرسکیں۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ فرمائیے ٹھیک ہے‘ اچھا۔ سات ہی ہیں نازبانیں۔ ٹھیک ہے۔
یہ سب لکھنے کے بعد علامہ شوکانی جو ترجمہ کرتے ہیں وہ زیادہ زور تلوار ہی پر ہے۔ وہ کہتے ہیں شعر ایک پیش کرتے ہیں۔ حَسَسْنَا ھم بالسیف تسافا فاصحبت (کیا ہے یہ) بقیتہم قدشزء و تبدروا۔ یہی ہے یہ دیکھیں یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ قد شزدوا۔ شزدوا اچھا تو یہ نقطہ کیوں ڈال دیا ۔یہی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی لگتا نہیں تھا اس کا معنی کوئی اب ٹھیک ہے۔ قد شردوا و تبدروا۔ تبدروا۔ قد شردوا و تبددوا۔ اس کا ترجمہ یہ بنے گا حَسَسْنَاھم بالسیف تسافاً فاصحبت ہم نے ان کو تلوار کے ذریعے تہہ تیغ کردیا ہے اوربرباد کردیا ہے۔
بقیتہم جو ان کے باقی بچے قد شردوا و تبدوا وہ بھاگ گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے پھر دوسرا شعر وہ کہتے ہیں۔
تَحُسّٰھم السیوف کما تسام
حریق النار فی الاجمل الحَصِیل
حصیل ہے ؟ حصید یہ لکھا بھی اس طرح جاتا ہے یہ ٹھیک پڑھا نہیں جاتا۔ حصید ہونا چاہئے۔ فصل ہوگی مراد (حصید) ہیں (حصید) حصید ہے تو لام کی طرح کیوں دے دیا اس کو۔ ان کو تلواروں نے تباہ کردیا۔ جس طرح کٹے ہوئے درختوں کے جھنڈ کو جب آگ لگائی جائے تو اس کے شعلے ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اس ایندھن کو ختم کردیتے ہیں یہ تو خیر عربی ادب کی باتیں ہیں۔
جو وہاں واقعہ گذرا ہے وہ حواس کے پراگندہ ہونے سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ بسبب قتل عام کے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ جو آیت ہے اس میں مختلف باتیں بیان ہورہی ہیں۔ اس کا تعلق زیادہ تر مدینہ واپس پہنچنے سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جب ان کو فتح دی اور پھروہ فتح انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک عارضی شکست میں تبدیل کردی۔ اس کے بعد مدینے میں پہنچ کے جو انہوں نے باتیں کی ہیں۔ ان کا اس آیت میں ذکر ملتا ہے لیکن یہاں بعضوں نے کہا ہے گذشتہ آیت میں مذکور وعدہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب یہ بالکل بے تعلق بات ہے۔ کیونکہ یہاں جو مضمون ہے اس کے معاً بعد ’’قد‘‘ کے لفظ سے شروع ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے ہم کرچکے ہیں یہ وعدے کو تم یہ نہ سمجھناکہ یہ وعدہ اب پورا ہوگیا ہے یہ بعدمیں آنیوالا ایک وعدہ ہے جس کو تم دیکھو گے اور اس سے پہلے یہ سب کچھ گزر چکا ہے ایک یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ ’’حتی‘‘ سے کیا مراد ہے اگر یہ جملہ شرطیہ ہے تو حتی اذا فشلتم و تنازعتم کے بعد کچھ مقدر ماننا پڑے گا کہ یہ اس میں یہ بات ہے۔ بصریوںکے نزدیک یہ جملہ شرطیہ ہے اور اس کا جواب وہ دیتے ہیں منعکم اللہ نصرہ جب تم پھر گئے جب تم نے کمزوری دکھائی اور جھگڑ پڑے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کو تم سے کھینچ لیا۔ مگر اکثر مفسرین اس کو شرلط قبول نہیں کرتے بلکہ جواب کے طور پر لیتے ہیںکہتے ہیں وعدہ جاری رہا یہاں تک تم نے یہ کردیا اور یہ معنیٰ زیادہ معقول اور برمحل ہیں۔ چنانچہ کوفی اس کا یہی معنی لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جواب شرط الفاظ آیت میں ہی موجود ہے اور وہ یہ ہے ۔ وہ کہتے ہیںہاں کوفیوں کے نزدیک یہ اور بات بنتی ہے وہ کہتے ہیں جواب شرط اس آیت میں موجود ہے۔اور ’’و‘‘ کا لفظ دراصل زائد ہے حتی اذا فشلتم وتنا زعتم کہتے ہیں یوںمعنی بنیں گے کہ یہاں تک کہ تم نے کمزوری دکھائی اور جھگڑ پڑے تو کمزوری دکھائی کا نتیجہ جھگڑنا ہے۔
ابو مسلم کہتے ہیں کہ اسکا جواب صرفکم عنھم ہے یعنی وہ معنی لیں گے تو اس کے نتیجہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ میدان جنگ سے دوڑا دیا۔ اس پر پہلے مختصر بات ہوچکی ہے پھر میں دوبارہ اس پر گفتگو کروں گا۔ اور یہ کرنے کے بعد پھر یہ سوال اٹھاتے ہیںکہ نافرمانی تو بعض کی تھی پھر ذکر عام کیوں شروع ہوگیا کہ سب کو اللہ تعالیٰ نے دوڑا دیا اور تم یہ ہو اور تم ایسے ہو۔ اس کا جواب وہ دیتے ہیں شروع میں تو ذکر عام ہے گویا لگتا ہے کہ سارے نافرمان تھے۔ مگر آگے الگ الگ ذکر کرکے امتیاز کردیا جہاں فرمایا منکم من یرید الدنیا و منکم من یرید الآخرۃ پس اس لئے اعتراض وارد نہیں ہوتا پھر ایک سوال اٹھاتے ہیں۔ من بعد ما اَرٰکُم ماتحبون کہ جملہ کاکیا فائدہ اور مقصد ہے ۔ جواب اس کا یہ دیتے ہیں کہ اس سے مقصد نافرمانی کے بہت بری بات ہونے پر تنبیہ کرنااور متوجہ کرنا ہے۔ یعنی یہ بتانا ہے کہ نافرمانی بہت بُری بات ہے ۔اس سے بچو کیونکہ جب انہوں نے مشاہدہ کرلیا تھا کہ خدا نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے انہیں اکرام اور اعزاز سے نوازا تو ان پر فرض تھاکہ نافرمانی نہ کرتے مگر جب انہوں نے نافرمانی کا ارتکاب کیا تو خدا نے بھی وہ اکرام اور اعزاز ان سے واپس لے لیا۔ امام رازی کہتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں ہمارے مسلک کے لوگوں اور معتزلہ میں اختلاف ہے کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں میں سے بعض کی غلطی اور نافرمانی کی بناء پر مسلمانوں سے غلبہ جو انہیں کفار پر حاصل ہوچکا تھا چھین لیا۔ یہ معنی لیتے ہیں وہ جب یہ مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے ہوا تو اسے پھر خدا نے اپنی طرف کیوں منسوب کرلیا کہ ہم نے چھین لیا وہ کہتے ہیں یہ اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہتے ہیں ہماری طرف سے تو سیدھا سادہ جواب ہے کہ خیر وشر سب اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اس کی مرضی ہے چھینے نہ چھینے۔ کوئی سوال ہی نہیں اٹھے گا۔ یہ مسلک معتزلہ کو قبول نہیں۔
ان کو کہا جاتا تھا کہ یہ دین کے بنیادی دھارے سے ہٹ کر الگ ہو گئے ہیں کیونکہ وہ عقل کے دخل کو اس میں تسلیم کرتے تھے یعنی استنباط وغیرہ میں عقل سے کام لیتے تھے تو امام رازی نے ان سے بھی انصاف کیا ہے اور ان کے مسلک کو بھی خوب کھول کے اس طرح پیش کیا ہے کہ شبہ یہ پڑنے لگتا ہے کہ امام رازی خود اس کے بھی قائل ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں معتزلہ کے نزدیک اس تاویل کے غلط ہونے پر قرآن اور عقل دونوں گواہ ہیں۔ کیسی دیانتداری سے وہ اختلاف رکھنے کے باوجود بتاتے ہیں کہ میں کسی اور مسلک کا ہوں۔ یہ ان کا مسلک ہے لیکن اب ان کا مسلک دیکھیں کیسا عمدہ بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔ ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا۔ کہتے ہیں قرآن کی آیت وہ پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے پیٹھ دکھا کے پھر گئے یوم التقی الجمعان جس دن دو لشکروں کی مٹھ بھیڑ ہوئی انما استزلھم الشیطان۔ شیطان نے ان کے پائوں پھسلائے۔ شیطان نے ان کو راہ حق سے ہٹایا ببعض ماکسبوا اس وجہ سے کہ انہوں نے بعض کام ایسے کئے تھے جسکا یہ نتیجہ نکلتا ہے۔شیطان کی طرف منسوب کردیا ہے معتزلہ کہتے ہیں۔ اس جگہ ایک جگہ ایک چیز شیطان کی طرف منسوب کرکے پھر دوسری جگہ وہی کام اپنی طرف کیسے منسوب ہوسکتا ہے اور عقلی دلیل یہ ہے یعنی علامہ رازی ان کے حوالے سے بات کررہے ہیں کہ یہاں خدا ان کی کمزوری دکھانے پر ڈانٹ رہا ہے اور ناراضگی کا اظہار فرما رہا ہے اگر یہ کمزوری خود خدا کا اپنا ہی فعل تھا تو گویا اپنے آپ کو ڈانٹ رہا تھا۔ ایک طرف کہتے ہیں ہم نے بھگادیا۔ دوسری طرف ڈانٹ رہا ہے۔خبردار بھاگے کیوں ہو تو یہ تو جائز بات نہیں۔ عقل کے خلاف بات ہے تو امام رازی نے جس انداز میں پیش کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اشاعرہ سے بھی وفا کرلی یعنی اشاعرہ وہ لوگ ہیں امام اشعری کو ماننے والے ان کے بعد میں آنے والے جو وحی کے معاملے میں عقل کا دخل پسند نہیں کرتے اوران کی بحثیں پڑھیں تو عجیب بات ہے کہ ان بحثوں میں سراسر عقل سے کام لے رہے ہیں یعنی جس حد تک عقل نصیب تھی اور ساتھ عقل کا انکار بھی کررہے ہیں تو امام رازی کہتے ہیں ہوں تومیں اشعری لیکن ان کی بات میں بتادیتا ہوں کہ وہ کیا کہنا چا ہتے ہیں اور ایسی عمدگی سے پیش کی ہے کہ اپنی بات پر ان کی بات غالب کردیتے ہیں۔ اب یہ دو دلائل ہیں جو ان کی طرف منسوب کرکے پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں جو بات سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے وہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ نہیںسمجھ سکے کہ عذاب میں سزا میں اور بعض اعمال کے طبعی نتائج میں ایک فرق ہے۔ جب طبعی نتائج نکلتے ہیں کسی چیز کے تو اللہ تعالیٰ کاایک جاری قانون ہے جو عمل دکھا رہا ہوتا ہے اس کا سزا سے تعلق نہیںہے۔ ورنہ ایک ڈرائیور غلطی کرتا ہے ساتھ دس معصوم بھی مارے جاتے ہیں ان کا کیا قصور تھا؟ ایک معصوم بچہ بھی گود میں ہے وہ بھی ساتھ مرجاتا ہے۔ اسکے متعلق تو ماننا پڑے گا نہ کہ وہ بہرحال معصوم ہے۔خدا اس کو معصوم قرار دے رہا ہے تو مراد یہ ہے کہ ایک طبعی قانون ہے۔ جو ایک الگ سلسلہ ہے نظام کا۔ یہ بہت وسیع فلسفہ ہے جس کے تابع یہ کائنات جاری و ساری ہے اور ترقی کررہی ہے اس موضوع پر میں نے اب جو نئی کتاب آنیوالی ہے عقل اور وحی وغیرہ کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کس طرح ہم یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اس میں ان بحثوں کو تفصیل سے اٹھایا ہے اس لئے یہاں اس لمبی بحث میںنہیںپڑنا چاہتا مگر میں اشارۃً بتا رہا ہوں کہ خدا نے اپنی طرف جو منسوب کیا ہے وہ سزا منسوب نہیں فرمائی۔
فرمایا ہے ہم نے اس کا یہی نتیجہ نکالنا تھا جو نکلتا ہے یعنی تم نے تو اپنی طرف سے اپنی ہلاکت کے سامان مکمل کرلئے ہیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلنا تھا جو ایک طبعی اور قطعی نتیجہ ہے۔ ہم نے یہ کیا ہے کہ اس نتیجے کو اپنے منتہا تک نہیںپہنچنے دیا۔ ہمارا دخل اسکے برعکس کارفرما ہوا ہے۔ پس یہ مضمون ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں مفسرین ان بحثوں میں اُلجھ گئے ہیں۔
ولقد عفا عنکم کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ گناہ تو ضرور ہوا تھا اور گناہ ہوا اور جنہوں نے گناہ کیا انہوں نے معافی بھی کوئی نہیں مانگی ۔ معاف کیوں کردیا یہ بھی ایک دلچسپ بات اٹھائی گئی ہے کیونکہ ان کے معافی مانگنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔یہ بھی بات نہیں سمجھ رہے ۔ دراصل گناہ کیا ہے۔ چند لوگوں نے۔ گناہ ایک سزا ہے جس کا اللہ سے تعلق ہے۔ اس کوہم عقوبت کہتے ہیں۔ خدا کی طرف سے پکڑ‘ اس دنیا میں یا آخرت میں اس کو سزا دینا ایک گناہ ہے۔ جو قانون قدرت کا گناہ ہے اس کے نتیجے میں طبعی نتائج ظاہر ہوا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس میں معافی کی بحث نہیں ہے ایک ٹکر مار دے آدمی تو معافی کا کیامطلب ہے۔ اس ٹکر کے بد نتائج تو ظاہر ہوں گے ہی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ان بدنتائج سے تمہیں بچالیا بعض دفعہ ٹکر لگتی ہے آدمی حیران ہوجاتاہے کہ اس میں سے زندہ سلامت آدمی کیسے نکل آیا ہے۔ میری بھی ایک دفعہ ٹکر لگی تھی ایک جگہ پاکستان میں سڑکوں کے بعض کنارے اتنے اونچے ہیں اور ساتھ اتنا نیچے گڑھا ہے مٹی والا اور بعض دفعہ وہ بھی ریتلا ہے یا پھسپھسی سی مٹی والا کہ ٹرک نہیں اترتے اوپر سے کہ اگر ایک دفعہ ہم اترے توپھر دوبارہ نہیں چڑھیں گے۔ چڑھنامشکل ہوجائے گا اور کاریں سمجھتیں ہیںکہ اگر ہم اترے تو ہوسکتا ہے نقصان پہنچ جائے کیونکہ تیز رفتاری سے اترنے سے خطرہ ہوتا ہے موٹر الٹ نہ جائے اوریہی احتیاط ٹرک ڈرائیور کی اور میری ایک accident پر منتج ہوگئی۔میں اس خیال سے کہ ٹرک ڈرائیور آئستہ تو کر ہی لے گا نا پھر میں آہستہ سے اتر جائوں گا۔ اگلی رفتار سے چلتا رہا اور ٹرک ڈرائیور نے ایک ذرہ بھی آہستہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جو مجھے خطرہ تھا وہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ یعنی تیزی سے اترنے میںجو اونچی جگہ سے نیچے کی طرف پہیہ کا اترنا ہے۔ اس میں خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ موٹر نے کئی قلابازیاں کھائیں اور پچھلا جو ٹرک تھا اس کا تالا اندازہ کریں وہ اکھڑ کے پورا وہ سامنے سے سکرین میں سے نکل کے باہر چلا گیا اور سکرین ٹوٹ گئی اور موٹر پچک گئی اور اندر سے میں صحیح سلامت باہر نکل آیا۔اللہ کے فضل کے ساتھ اور پھر اسی موٹر میںبیٹھا اور اسے وہاں نیلا گنبد میں امانتاً رکھوا کے اپنے بعض دوستوں کے پاس تو وہاں سے ٹیکسی لی اور جاکے اپنے سفر کیلئے گاڑی بھی پکڑ لی ۔ روانہ بھی ہوگیا تو یہ مراد ہے اللہ جب چاہتا ہے تو اس طرح عفو فرماتا ہے۔ توان لوگوں سے دوقسم کے عفو کے سلوک فرمائے تبھی بار بار اس مضمون کو آگے کھولے گا۔
ایک عفو یہ ہوئی کہ ان کا بد نتیجہ جو معصوموں پر پڑ رہا تھاپڑ چکا تھا۔ اس کے بہت خطرناک نتیجے نکل سکتے تھے۔ جس سے اللہ نے ان کو بچالیا اور گناہ کا داغ دھونے والا جو ترجمہ امام رازی نے کیا ہے یہاں صادق آرہا ہے پوری طرح صرف اللہ آپ ان کو معاف کرکے خاموش ہوجاتا تو وہ تو مارے جاتے جو ان کی غلطی سے غلطی کے نتیجہ میں لازماً مارے جانے چاہئیں تھے۔ وہ جو افراتفری اور بھگدڑ مچی ہے۔ اس میں تو ان کے زندہ رہنے کا کوئی سوال باقی نظر نہیں آتا۔ اہل مدینہ کے بھی ملیامیٹ ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ اصل جوان جو لڑنے والے تھے وہ تو اس میدان میں ظاہری طور پر ایک بڑی شرمناک شکست کھا چکے تھے۔تو عفو کا دوسرا معنی بھی یہاں بڑے زور سے اطلاق پاتا ہے تو جب اللہ نے عفو کیا تو گناہ کے داغ مٹا دئیے ہیں۔ان بداثرات کو مٹا دیا ہے جو اس کے نتیجہ میں لازماً ظاہر ہورہے تھے اور چلتے چلے جانے تھے۔ آگے بڑھنا تھا انہوں نے۔ وہاں جاکے عفو کا مضمون شروع ہوتا ہے اور یہ عفو ان معصوموں کی وجہ سے ہے یعنی وہ معصوم جو بیچارے خود قصور وار نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے تمام صحابہ نیک بھی حادثات میں نقصان اٹھا جاتے ہیں اور یہ حادثہ اتنا خطرناک تھا کہ سب نیکوںکے ملیامیٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ ان کی خاطر عفو ہوا ہے اور وہ تو ہر حالت میں بخششیں مانگا کرتے تھے اس لئے یہ کہنا درست ہی نہیں ہے کہ انہوںنے تو بخششیں بھی طلب نہیں کی اورمعاف کردیا گیا بعض بزرگ اپنے کمزوروں کیلئے بھی بخشش مانگ رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ؐاپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنی ساری قوم کیلئے بخشش مانگا کرتے تھے اس لئے وہاں ان کو کسی مفسر کو سنائی دے یا نہ دے ۔حضرت اقدس محمد رسول اللہ کی تو دن رات کی کیفیت ہی یہی تھی تو دونوںلحاظ سے یہ اعتراض بے معنی ہے۔ اول بخشش مانگی جارہی تھی اورمانگی جاتی تھی دوسرے یہ کہ ان کی بحث نہیں تھی جنہوں نے غلطی کی تھی بحث ان کی تھی جن پر بد نتائج اثر انداز ہورہے تھے۔ عفو کا زیادہ تر لفظ ان کیلئے استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ خود ظاہرکردیا واللہ ذوفضل علی المومنین کہ اللہ تعالیٰ۔ ٹائم ختم ۔ہیں!اتنی جلدی۔ نہیں نہیںابھی شروع بھی نہیں کیا۔ حد ہوگئی میں نے آج تک کبھی اتنا تیز وقت نہیں گزرتے دیکھا ابھی تو اصل توسارا دتّھا پڑا ہوا ہے۔ باقی اور اہم بحثیں آنی تھیں۔ خیر کل سہی۔کہتے ہیں وقت ختم ہوگیا ہے انشاء اللہ کل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 5رمضان المبارک
16 فروری 1994ء
ولقد صدقکم اللّہ وعدہ اذ تحسو نھم باذنہ ……………………واللّہ علیم’‘م بذات الصدور O
(آل عمران آیت 153تا 155)
کل ہم سورۃ اٰل عمران کی آیت 153 پہ گفتگو کررہے تھے۔ کچھ حصہ اسکا ابھی باقی تھاکہ درس کا وقت ختم ہوگیا۔
یہ بحث جو کل اٹھائی گئی تھی کہ رعب سے کیا مراد ہے اور وہ کسی وقتی مضمون سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ایک مستقل نتیجہ نکالا گیا ہے۔ مثلاً مشرکین کا ذکر کرکے کہ اُن کی تعمیر میں ہی ان کی ناکامی کا خمیر ہے اور شرک اپنی ذات میں انسان سے حقیقی بہادری چھین لیتا ہے۔ اور اس کے بعد اس کا نتیجہ یہ نہیں نکالا کہ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ ان پر فتح دے گا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے نار جہنم ہے۔ تو مضمون یہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے جس میں شرک کی بنیادی خرابیاں بیان فرمائی جارہی ہیں اور رعب کے بحال ہونے کا مضمون ان کی کمزوری سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ان کے وقتی طور پر سنبھل جانے سے۔ پس یہ بحث جو اٹھائی جارہی ہے میں پہلے اس کی تمہید بتا رہا ہوں کہ کیا مشکل پڑی ہے مفسرین کو کیوں بار بار وہ اس کاذکر اس آیت میںہی کرتے چلے جاتے ہیں۔ولقد صدقکم اللّہ وعدہ ‘ اللہ نے ان سے وعدہ کیا صبر اور تقویٰ کی شرط کے ساتھ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ علامہ زمخشری اپنی تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں کہ یہ جو وعدہ تھا یہ مشروط تھا اور اس لئے پورا نہیں ہوا رعب کے وعدہ کے باوجود یعنی وہ یہی مضمون سمجھ رہے ہیں کہ رعب کا پہلے وعدہ دیا جاچکا ہے۔ پھر آگے وہ شکست کھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو یہ وعدہ بظاہر پورا نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وعدے بظاہر پورا نہیں ہوا ۔ وہ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وعدے مشروط ہوا کرتے ہیں۔ تقویٰ کی شرط ایک لازم شرط ہے اور صبر کی شرط‘چنانچہ وہ دوسری آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان تبصروا و تتقوا و یا تو کم من فورھم ھذا یمددکم۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو‘ پھر اگروہ اچانک تم پر حملہ آور ہوجائیں تو پھر بھی اللہ مدد فرمائے گا یعنی غائبانہ طور پر تمہاری حفاظت فرمائے گا اور ممکن ہے اس کا یہ وعدہ ‘ اس کا وعدہ یہ قول ہو۔ سنلقی فی قلوب الذین کفروا الرعب
اور وہاں اشارہ اسی وعدے کی طرف ہو کہ یہ وعدہ مشروط ہے ان باتوںکے ساتھ کہ تم تقویٰ اختیار کرو صبر دکھائو۔اگر تم نے نہ دکھایا تو پھر یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا۔ تو اس طرح وہ آیت کی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس اعتراض سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیںکہ پھر وہ وعدہ کیوں پورا نہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ بعض کہتے ہیں۔
وقیل لمار جعوا المدینہ
کہ جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو بعض مومنوں نے کہا ہمیں یہ مصیبت کہاں سے آگئی حالانکہ اللہ نے تو ہم سے وعدہ کر رکھا تھا تو یہ آیت اتری اور یہ واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کو اپنی پُشت کی طرف رکھا اور مدینہ کی طرف منہ کیا اور پہاڑی پر تیراندازوں کو کھڑا کرکے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ پر رہیں اور جگہ نہ چھوڑیں ۔ یہ سارا واقعہ پھر وہی بیان ہوا ہے۔ تو پھر کہتے ہیں کہ پھر ان میں اختلاف پیدا ہوا فَشَلْ سے مراد کہتے ہیں دونوں ہوسکتے ہیں۔ بزدلی بھی اور رائے کی کمزوری بھی۔ یعنی جن لوگوں کی رائے میں کمزوری تھی وہ غلط سمجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان۔ انہوں نے اختلاف شروع کردیا اپنے لیڈر سے اور کہنے لگے کہ مشرکین تو بھاگ گئے ہیں اب ہمارا یہاں ٹھہرا رہنا کیا مطلب رکھتا ہے بعض کہنے لگے کہ ہم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی جو کچھ بھی ہوجائے ہم یہیں ٹھہرے رہیں گے اس میں ا ن کے لیڈر عبداللہ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ثابت قدم رہے آخر وقت تک اور ان سے اختلاف تھا۔ لکھتے ہیں۔ ان کے تیر اندازوں کے امیر عبداللہ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر دس سے کچھ کم تعداد میں تھے یہ یعنی دس تک بیان کیا جاتا ہے ‘ شاید نو تھے یا آٹھ تھے ہم معین نہیں کہہ سکتے۔ یہ لوگ قائم رہے اور وہیں شہید ہوئے۔ پھر کہتے ہیں۔ولقد عفاعنکم حکم کی نافرمانی ہوجانے پر تمہاری ندامت کو خدا تعالیٰ نے پہچان لیا اور تم سے عفو کا سلوک فرمایا۔ اس ساری بحث کے بعد پھر یہ بحث دوبارہ اٹھائی گئی ہے کہ ’’حتیٰ‘‘ جملہ شرطیہ ہے تو اس کا جواب کہاں ہے؟ حتی اذا فشلتم‘‘ تو ایک جو اب تو وہ دیتے ہیں کہ اس کا جواب مقدر ہے یعنی مفہوم میں داخل ہے لیکن بیان نہیں ہوا اور جواب یہ ہوگا کہ جب تم نے اندرونی کمزوری دکھائی‘ رائے کی کمزوری دکھائی‘ پھسل گئے اور اختلاف شروع کردیا اور پھر اپنے امیر کی نافرمانی کی تو پھرکیا ہوا؟ کہتے ہیں جواب مقدر ہے تو پھر خدا نے اپنی مدد کھینچ لی۔لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا میرے نزدیک یہ جملہ شرطیہ کا آغاز نہیں بلکہ پہلے کا جواب ہے۔ اللہ نے مدد فرمائی یہاں تک کہ تم نے ایسا کیا۔ تو یہ مضمون خود امام زمخشریؒ بھی کشاف میں بیان فرماتے ہیں کہ اس کے یہ معنے بھی ممکن ہیں کہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ تمہاری کمزوری دکھانے تک پورا کیا اور اس وقت تک پورا کرتا رہا جب تک تم نے یہ کام نہ شروع کردیا۔
’’منکم من یرید الآخرۃ‘‘
سے حضرت عبداللہ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مراد لئے گئے ہیںتفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ
وہ دنیا چاہتے تھے یعنی ان سے جھگڑا کرنے والے اور دستہ کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ یہ عقبیٰ چاہتے تھے۔ اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میںایک اچھا نکتہ ایک نیا نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ یہاں دنیا سے مراد جو لوگ یہ لیتے ہیں‘ لوٹ مار اور مال غنیمت یہ درست نہیں ہے۔ وہ وقتی فتح کی طرف نظر رکھ رہے تھے اور دنیا سے مراد ان کی یہاں یہ ہے کہ وہ جو معاملہ پہلے ظاہر ہوچکا ہے ان کی نظر اس پر تھی۔ اور عبداللہ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخرت پر نظر تھی کہ وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا میں سب سے بڑی کامیابی دیکھتے تھے۔ پس وہ یہ چاہتے تھے کہ بالآخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ راضی رہیں اور یہ جو وقتی طور پر جو چیزیں دکھائی دے رہی ہیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہیں۔ اصل ہماری نیکی ان کی رضا حاصل کرنا ہے۔ پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بحث ہی بے تعلق ہے کہ وہ دنیا چاہ رہے تھے اور وہ آخرت چاہ رہے تھے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا وہ تھی بھی کتنی سی۔ وہ عجیب و غریب سی بات نظر آتی ہے۔ وہ درے سے بھاگے ہوں گے اس وقت تک تو سب چیزیں بٹ بھی چکی ہونگی۔ اور یہ خیال کہ ان کو یہ جلدی تھی کہ ہم جلدی سے وہاں جاکر شامل ہوجائیں‘ یہ کیوں نہیں سوچتے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے۔ حسن ظن کرو اپنے لوگوں پر کہ وہ اس خیال سے گئے تھے کہ سارے فتح کے شادمانے بجا رہے ہیں‘ خوش ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب کھڑے ہیں‘ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہوں گے تو ہم کیوں اس منظر سے پیچھے رہیں ۔ تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے یہ فطرت کے عین مطابق ہے کہ جہاں جشن منایا جارہا ہو‘ خوشی منائی جارہی ہو‘ سب دوڑ دوڑ کر وہاں پہنچتے ہیں۔ اور ہم اپنے یہاں قیام کے دوران بارہا ایسا دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی کوئی اچھی خبر ہو تو یہاں کوئی مال غنیمت لوٹنے تو لوگ نہیں پہنچتے وہ اس خوشی میں حصہ لینے پہنچتے ہیں توان کے ہاں ان کے نزدیک یہ تھا کہ اتنا مزہ آرہا ہے نیچے دیکھو سارے لطف اٹھا رہے ہیں‘ خدا کا وعدہ پورا ہوا۔ ہم یہاں کھڑ ے ٹوٹرو اکیلے‘ ہم بھی وہاں جاتے ہیں لیکن حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخرت پر نظر تھی کہ اس وقتی خوشی سے یہ بہت زیادہ مزے کی بات ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر الگ ایک طرف بیٹھے رہیں اور جو اس کا لطف ہے وہ دراصل وہ لطف وہ نہیںہے۔یہ سب باتیں پھر وہی تیر اندازوں کی لمبی داستان اور
حتیٰ اذا فشلتمہ بھی کہتے ہیں جو اب حتیٰ محذوف ہے۔ اور فراء کے نزدیک یہ کہتے ہیں جواب ’’حتی تنازعتم‘‘ میں ہے۔ کہتے ہیں بعض دفعہ وائو زائدہ آجاتی ہے تو یہاں ‘تنازعتم کا مطلب ہے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی تو اس کمزوری کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ تم آپس میں جھگڑنے لگ گئے تو حتی کا جواب آگیا۔ بعض کے نزدیک یہ تقدیم و تاخیر کا مضمون ہے۔ حتی اذا تنازعتم و عصیتم ففشلتم یہ تھا‘ مراد یہ تھی اور یہ محاورے میں بعض دفعہ ہوتا ہے کہ جو آخری نتیجہ ہے وہ پہلے بیان کردیا جاتا ہے اور باقی باتیںبعد میں ہوجاتی ہیں مگر اصل بات وہی ہے کہ وہ جواب ہے وہ آغاز ہے ہی نہیں اس شرط کا۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔
ولقد صدقکم اللّہ وعدہ
اللہ اپنا وعدہ وپورا فرما چکا۔ کہاں تک وعدہ پورا فرمایا یہاں تک کہ تم پھسل گئے تو کسی مقدر کو بیچ میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ تفسیر قاسمی میں پھر یہی لمبی بحث ہے کہ کیا واقعہ ہوا تھا تیر اندازوں کے ساتھ ۔
حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہاں فشلتم کے بعد اس واقعہ کو کسی لوٹ مار کے ساتھ وابستہ نہیں فرمایا یعنی اس کی جو مال غنیمت کی حرص تھی اس کے ساتھ وابستہ نہیںفرمایا بلکہ یہی بات کی ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ا ن لوگوں نے یہ بحث کی تھی کہ جب فتح حاصل ہوچکی ہے اور حکم پورا ہوگیا تو اب ہمارے یہاں بیٹھ رہنے کا کیا مقصد؟ یعنی وہ وقت مکمل ہوگیا جس وقت کے اندر یہ حکم تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نوٹس تو شاید مختصر بات کرتے ہیں‘ تھوڑے فقروںمیں زیادہ سے زیادہ مضمون بیان فرماتے ہیں۔ تنازعتم افسر نے کہا ٹھہرو‘ دوسروں نے کہا کیا ضرورت ہے۔ بس یہ جھگڑا تھا اس سارے جھگڑے کی نوعیت یہی ہے دو حرفوں میں۔
ولقدعفاعنکم قریب تھا کہ خمیازہ اٹھاتے مگر ہم نے درگزر کی۔ اس پہ میں پہلے ہی تفصیلی بات کرچکا ہوں۔ یہاںایک بات اور قابل ذکر ہے پیشتر اس کے کہ میں بعض مستشرقین کے حوالے دوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غماًّ بغم والا جو مضمون ہے اسے اور طرح پیش فرمایا ہے اور یہ بات قبول نہیں کی کہ اس سے مراد رسول اللہ صلعم کے وصال کی خبر کا غم تھا اور وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ کی طرف ضمیر پھر رہی ہے اور یہ معنیٰ لینا پڑے گا کہ خداتعالیٰ نے بالارادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نقصان پہنچایا تاکہ مسلمانوں کا غم مٹ جائے۔ جب کہ میں گزشتہ درس میں بھی یہ مضمون دوسرے رنگ میں پیش کرچکا ہوں اور ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں کہ اس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے تھا۔مگر جو تصور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ہے اس آیت اس مضمون کے ساتھ وہ یقینا اگر وہ باندھا جائے تو پھر یہ قابل اعتراض بات ٹھہرتی ہے۔ میں یہ مضمون پہلے بیان کرچکا ہوںکہ یہ سزا نہیں تھی بلکہ ایک فعل کا طبعی نتیجہ تھا۔ جیسے ایکسیڈینٹس میںایک شخص کی غلطی سے بہت سے معصوم نقصان اٹھا جاتے ہیں۔ ایک پائیلٹ کی غلطی سے سینکڑوں آدمی برباد ہوجاتے ہیں اور سینکڑوں اور ہزارہا افراد دنیا میںپھیلے ہوئے ان کے رشتہ دار اور تعلق والے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک گاڑی کے ایکسیدنٹ میں‘ ایک سمندر کے جہاز کے ایکسیڈنٹ میں ہزارہا بیچارے معصوم مارے جاتے ہیں تو ہو سزا نہیں ہے وہ قانون قدرت کا عمل دخل ہے اور قانون قدرت نیک اور بد میں تمیز نہیں کرتا وہ ایک جاری و ساری ایک الگ مضمون ہے۔cause and effect کا مضمون اورایک ہے جزا سزا کا مضمون۔ پس اس واقعہ کو میں cause and effect کے مضمون سے باندھتا ہوں نہ کہ جزا سزاکے مضمون سے۔ پس اسی لئے بار بار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے عفو فرمایا یعنی نتیجہ تو یہ نکل سکتا تھا کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا۔ غلطی اتنی بڑی تھی لیکن ہم نے روک لیا اس بات کو۔ وہ ہے قدرت کا دخل جو عام قانون پر غالب آیا ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچا کر اپنا ایک وعدہ پورا فرمایا ہے کہ تجھے دشمن کے ہاتھوں سے گزند نہیں پہنچے گا اور ایک تقدیر خاص جاری فرمائی ہے۔لیکن جو پہلا نتیجہ تھا اس کا طبعی نتیجہ‘ اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے اس سے ایک اور بہتر مضمون حاصل کرلیا یعنی وہ تو ہوجانا تھا اگر ہم غیر معمولی طورپر دخل نہ دیتے لیکن جتنا غم پہنچا تمہیں اس غم کا بھی یہ فائدہ پہنچا دیا کہ پچھلی ساری باتیں تم بھول گئے وہ اتنا شدید صدمہ تھا کہ سب کچھ پچھلا جاتا رہا ‘ ہم بھاگے‘ کیا ہوا ہم سے‘ کس نے نافرمانی کی۔ کتنے مسلمانوں کو نقصان پہنچا‘ کتنے شہید ہوئے‘ ہر غم اس بڑے غم کے نیچے مٹ گیا۔ اب یہ جو مضمون ہے۔ اس کی تاریخ گواہ ہے واقعتہً یہی ہے۔ یہ ہمیں کہیںنہیں دکھائی دیتاکہ مسلمانوںنے بعد میں سوچا ہو کہ چونکہ ہمیںبھاگنا پڑا ہے۔ اسلئے وہ جو ان چالیس نے غلطی کی تھی‘ اس لئے ان کا غم اب مٹ گیا‘ ہمیں سزا مل گئی‘ کافی ہوگیا۔ یہ تو بالکل ایسی بات ہے جس کا مجھے کم سے کم تاریخ میں کوئی ثبوت نظر نہیں آیا کہ صحابہ نے بعد میں یہ سوچا ہو کہ چونکہ وہ چالیس کی غلطی کا خمیازہ ہم نے بھگت لیا ہے اس لئے اب اس کا کوئی غم نہیں حالانکہ اس سے بڑی غلطی ان سے یہ سرزد ہوگئی تھی کہ پائوں اکھڑ گئے تھے‘ اگرچہ وہ ان کی غلطی کا نتیجہ تھے لیکن سب سے بڑا صدمہ تو یہ ہے جسکی ساری تاریخ میں باتیں ملتی ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اس کا ذکر کرتے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا‘ کیسے ہوگیا اور بڑا سخت فکر محسوس کرتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطی سرزد ہوگئی‘ وہاں وہ اس کا طبعی نتیجہ نہیں نکالتے۔ یہ نہیں کہتے کہ الزام ان پر تھا یہ بحث نہیں ملے گی۔ یہ ہے کہ اپنے نفس کے متعلق کہ ہو کیسے گیا؟ گیاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بچھڑ گئے۔ یہ صدمہ ہے جس کی باتیں کرتے ہیں اور اسکی تشریح اسکے سوا اور کوئی نظر نہیں آتی کہ اس معاملے میںوہ بے اختیار تھے۔ چنانچہ قرآن کریم نے جو یہ فرمایا۔
اذ تصعدعون ولا تلون علی احد
یہ 154 آیت میں آگے یہ مضمون آئے گا۔ تو وہاںمیں آپکو بتائوں گا کہ یہ مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ اس وقت ایک بے اختیاری کی حالت میں تھے۔ Stampede ہوا تھا۔ اچانک اتنی زبردست ایک سوار فوج حملہ آور ہوئی ہے کہ اس کے بعد ایک عام آدمی پیدل پیادہ لڑنے والا اپنے مقام پہ ٹھہر ہی نہیںسکتا۔ ایک اور بڑا اہم نکتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اٹھایا ہے جو میں آگے پھر آیت 154 کی بحث میں پیش کروں گا۔ بیل (Bell) جو ہے وہ جیسا کہ میںنے بیان کیا ہے اتنا پاگل ہے اس کو تو زیربحث لاناہی نہیں چاہئے۔ اور وہ آیتوں میں کہہ رہا ہے کہ نہیں یہ ٹکڑا یہاں سے اٹھا کر وہاں رکھ دیا جائے۔ ایک نیا قرآن بنا رہا ہے اپنی طرف سے اور ایسا جاھلانہ کہ مستشرقین نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی پھر۔ قرآن کی بحث میں بیل (Bell) کی تجاویز زیر بحث ہی نہیں آتیں‘ کیونکہ اب وہ یہ کہتا ہے کہ
Bell's verses 153 stops he had shown you that which you loved of the rest, of the verse, he says , it is completely out of place here, them he re-arranges it.
ابBell کی یہ Re-arrangments سُن لیں۔
The begining of a verse 153, Allah made good his promise to you, when you were sweeping them away by his permission until when you slinched and wide with drawing from the affair, and disobeyed after he had showed you what you loved.
‏ 145 Bell's ہے یہ‘ ہماری 153 ہے۔ اور ہماری جو 152 تھی وہ Bell کی 144 بن جاتی ہے اور پھر ٹکڑے بھی اٹھا کر بدلتا رہتا ہے۔ و ہ کہتا ہے۔
152 is infact 144 which should done. We shall cast terror in to the hearts of those who have disbelieved for their having assoasited with Allah what he never sent down on any authority for the resort is the fire, that is the lodging of the wrong doers.
پھر وہ صاحب کہتے ہیں
The third part of 153
یہ جو ہماری 153 جو اصل قرآن کی ہے اس کو Bell 146B نمبر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ
The third part of this then he turned you from them that he might try you.
یہ اس کا حصہ بن جانا چاہئے۔ ایک آیت سے اٹھا کر حصہ وہاں چلا جائے۔
Our first part of verse 154, is Bell's 147A.
بڑا Confusing ہے لیکن اس سے زیادہ آپ کو پیغام اور کوئی دینے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ ہے ہی جاھلانہ بات لیکن وہ Number ہی نہیں لگا رہا بلکہ آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر یہاں سے ادھر‘ پیوند کرتا چلا جارہا ہے۔
Recall when you are making for the sky line with out turning a side for anyone though the Massenger is Calling to you from behind you. So he recompensed you with distress upon distress.
‎ کہتا ہے This should be added on to 147A. Our second part of verse 153, which is Bell's 146 A.
جو اوپر پہلے ذکر آچکا ہے
Some of you wish this world and some of you wish the hereafter.
کہتا ہے اس کو وہاں سے اٹھا کر جو 146A اس نے Bell نے بنائی ہوئی ہے کہتا ہے اس میں داخل کردیا جائے۔ پھر کہتا ہے کہ 153 کا forth part جو چوتھا حصہ ہے آیت کا ‘ وہ Bell کہتا ہے میری 147B میں add کردیاجائے اور وہ یہ بنے گا۔
That he had forgiven you. Allh is bounteous to the belivers.
پھر وہ 154 میں پھر تبدیلی تجویز کرتا ہے ۔ آیت 154 کا جو آخری حصہ ہے وہ Bell کے نزدیک اس کی نمبرشمار آیت 147B میں داخل ہوجانا چاہئے۔
In order that you may not grieve for what you have missed or for what has befallen you. Our final words of verse-----
‏ 154‘ Bell کی 147 آیت C بن جاتی ہے اور وہ کہتا ہے۔
Allah is aware of what you do.
یہ 147C میں چلی جائے گی۔ جو دراصل قرآن کریم کی آیت 154 کا حصہ ہے۔
اب آئیے (Watt) کی طرف۔ وہ کہتا ہے۔
God did indeed fulfil his promise in that for a time they have had the upper hand and destroied many of the Meacan infantry.
یہ تسلیم کرتا ہے کہ پہلے حصے میں یہ وعدہ پورا ہوگیا تھا۔
Watt comits to mention the order but translates disagreed among youselves as quarreled about the matter, he goes on to explain and...... it could mean that they disputed weather to continue the pursuit or to halt for plunder.
یہاں یہ وہی غلطی کرتا ہے جو شیعہ مفسرین تمام صحابہ کو مطعون کرنے کیلئے بالارادہ کرتے ہیں یعنی اس واقعہ کو بجائے اس کے کہ صرف درے والوں تک محدود رکھے وہ ان سب صحابہ کے اوپر اطلاق کردیتا ہے جو میدان جنگ میں موجود تھے کیونکہ درے والوں میں یہ بحث تو ہو ہی نہیں رہی تھی کہ مال غنیمت میں حصہ لیا جائے یا دوڑنے والوں کا پیچھا کیا جائے‘ یہ بحث تو اس سے بالکل لا تعلق تھی پس یہ لوگ اس طرح ایک مضمون کو دوسرے میں مدغم کرکے تو وساوس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ واٹ (WATT) کو پتہ نہ ہو کہ یہ معاملہ صرف درے تک محدود تھا‘ تنازعہ والا‘ لیکن ترجمہ یہ کرتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا اور Plunder کا بہت شوق ہے نا ان کو‘ کسی طرح Plunder میں داخل ہوجائیں کیونکہ ان کی تمام جنگیں Plunderکی خاطر ہوتی ہیں کوئی جنگ بھی اقتصادی لوٹ مار کے تصور کے بغیر ممکن نہیںہے۔اس لئے یہاں جو آپس میں بحثیں چلتی ہیں کہ بوسنیا کے معاملے میں تم نے کیا کیا تو وہاںکئی سچے آدمی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں خلاصہ اتنی لمبی بحثیں کیا کررہے ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ بوسنیا میں تیل نہیں تھا‘ اور کویت میں تیل تھا۔ دو لفظوں میں بحث یہی ہے کہ تم تومکھیوں کی طرح مال و دولت پر گرنے والے لوگ ہو اور اس رستے میں جو بھی حائل ہوگا اسکا قتل عام کرنا تمہارے نزدیک ہر اصول کے مطابق جائز ہے۔ وہاں کوئی اخلاقی موانع‘ روکنے والی چیزیں تمہارے رستے میں حائل نہیں ہوتیںتو چونکہ سوچیں یہ ہیں اس لئے ہم جو کہتے ہیں متعصب ‘ میرا خیال ہے یہ لفظ شاہد ہم بھی کچھ کچھ زیادتی کرتے ہوں۔ ورنہ تعصب اور غیر تعصب کی بحث ہی نہیں۔نیک و بد سب برابر ہیں۔ ان کی ہر لڑائی کے وقت سوچ یہ ہوتی ہے کہ اقتصادی فائدہ کیا تھا لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بے محل باتیں ہیں۔ وہاں چسپاں ہو ہی نہیں سکتیں۔ ایک چھوٹی سی طاقت‘ بغداد کو کچلنے کے لئے اپنے اقتصادی فائدے کی خاطر تم نے اتنی احتیاطیں کیں کہ 10 اسلامی ملکوں کو ساتھ ملایا‘ سارے یورپ کو ساتھ ملایا جب کہ تم ایک سپر پاور تھے خود‘ یعنی امریکہ اور اس کے علاوہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ساری دنیا میں اربوں روپیہ خرچ کیا ہے۔ پروپیگنڈہ کے لئے اور پھر اس کو کچلنے کی ہمت کی ہے اور یہ تھا تمہارا اقتصادی فائدہ تمہاری اقتصادی لوٹ مار جس کے لئے تم نے یہ اقدام کیا اور ان مسلمانوں کی طرف یہی نیت منسوب کررہے ہو کہ سات سو تھے اور تین ہزار جوانمردوں کے مقابل پر نکلے جو لمبا سفر کرکے اس نیت اوریقین کے ساتھ آئے تھے کہ ہم تمام ضروری ہتھیاروں سے لیس ہیں اب ہمیں قوت حاصل ہے کہ ا ن کو پائوں تلے روند ڈالیں۔ ان کو لوٹنے کے لئے …نکلے تھے اس بڑا جاہلانہ تصور دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا۔دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی دکھائو تو سہی تم نے کبھی ایسا کیا ہو جو لا مذہب قومیں ہیں۔ انہوں نے اس طرح ایک باقاعدہ فوج جو اتنی بڑی قوت کے ساتھ آئی ہو اس کو لوٹنے کی خاطر سفر اختیار کیا ہو اور پھر وہ آئے ہیں سارا رستہ ان کے اوپر حملہ کرنے کے لئے۔ یہ لوٹ مار کا طریقہ ہے۔ سیدھی سادھی معقول بات ہے تقویٰ نہ بھی ہو تو کم سے کم عقل سے عاری تو نہ بنو کہ دفاع کے لئے نکلے تھے اور پہلی غرض جس کو تحبون کے تابع کہہ سکتے ہیںوہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں بچائے‘ ہمیں ا ن پر غلبہ عطا فرمائے‘ ہم ان کے شر سے بچ جائیں۔ اس کے سوا اور کوئی تصور ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس افراتفری میں وہ میدان جنگ سے بھاگیں گے کہ نو مردے اور سینکڑوں کی چیزیں مال‘ دولت ہی نہیں بلکہ مال دولت تو کیا لیکر آنا تھا انہوں نے ۔ مگر ا نکی زر ہیں یا دوسرے ہتھیار وہ بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ تو اس لئے یہ بد نیت منسوب کرنا سراسر ظلم اور سفاکی ہے۔ اس کا کوئی بھی معقول جواز نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ جو جواز آپ دے سکتے ہیں وہ یہی ہے جو میں نے دیا ہے‘ پیش کیا ہے کہ ان کی سوچیں طبعاً ایسی ہی ہیں۔ اس لئے اسلام کے دشمن ہوتے یا نہ ہوتے‘ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ بغیر کسی مالی حرص کے کوئی بھی جماعت کسی بڑی جماعت سے ٹکرا سکتی ہے۔ پس یہ جو Plunder ہے‘ کان پک جاتے ہیں اور آنکھیں دکھنے لگ جاتی ہیں یہ لفظ سن کے اور دیکھ کر‘ ان کی ساری بحثوں میں بار بار Plunder` Plunder لاتے ہیں تاکہ وہ جو عظمت ہے اس جنگ کی وہ نظر سے ہٹ جائے اور عامتہ الناس جو ان کی کتابیں پڑھتے ہیں وہ اسلام کا یہ تصورباندھیں کہ چند لٹیرے ہی تو تھے نہ ‘ ہر وقت مال لوٹنے کی تمنا میں رہتے تھے اور یہی تمنا لے کر وہ ان تین ہزار سے بھڑنے کے لئے نکلے تھے تو یہ جان کے یہ Add کرتے ہیں‘ مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں‘ Rub in کرتے جاتے ہیں تاکہ ہر پڑھنے والا بالآخر یقین کرلے کہ یہی ہوا ہوگا اور اس میں Unwritten Conspiracy چلتی ہے‘ کہ تمام مستشرقین ایک دوسرے کی اس بارے میں مدد کررہے ہوتے ہیں اور وہ بے وقوف طلباء جو ہزاروں میل کا سفرطے کرکے اپنے اپنے ممالک سے ان سے اسلام سیکھنے آتے ہیں وہ یہی خیال لے کے واپس لوٹتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کی تفسیریں انہوں نے اپنی لائبریریوں میں رکھی ہوئی ہیں اور نصابوں میں داخل کی ہوئی ہیں ان میں کسی کو جرات نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکے۔ مودودی دیکھ لیں یا یہ شیعہ تفسیریں جن کا آگے جاکے ذکر آئے گا‘ ان کو اسلام کی کوئی غیرت نہیں ہے۔ صرف یہ ہے کہ ان لوگو ںکی نظر میں ہم اہمیت اختیار کئے رہیں۔ یہ ہمارا ذکر کریں بڑے علماء کے طور پر اور ہمیں داد تحسین دیں‘ یہ فیصلہ کرکے کہ ہماری کتب ان کی لائبریریوں میں رہنے کے لائق ہیںاوران میں کوئی بات آپ ان کے خلاف جواب کے طور پر نہیں دیکھیں گے خواہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوں ۔ خواہ عامتہ المسلمین پر حملہ آور ہوں‘ اسلام کی تعلیمات پر ہوں‘ وہاں یہ گونگے ہوجاتے ہیں۔ جہاں موقعہ ملتا ہے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گند اچھال لیں گے۔ لیکن ان ظالموں کے خلاف کوئی نہیں بولتا۔
پھر rebellious لفظ جب استعمال کرتا ہے ویری وعصیتمتم rebellious ہوگئے۔ عصیتم کا معنی اس context میں نافرمانی ہے اور نافرمانی بھی حضرت عبداللہ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ وہ بالواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی بنے گی۔ مگر یہ rebellious جو بار بار کہتے ہیں اس کی وجہ میں آپ کو بتاؤں یہ یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں جیسا کہ بعد میں کئی جگہ لکھ بیٹھے ہیںکہ اس وقت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے اور رہنمائی کی صلاحیتوں سے تمام صحابہ عملاً یا اکثریت ان کی بد ظن ہوکر اس مقام تک پہنچ گئے تھے کہ وہ اسلام اور رسول کے خلاف بغاوت کردیں۔ اس لئے یہاں اس کی بنیاد رکھی ہے۔ rebellious کہہ کہہ کر۔ آگے جب وہ آیت آئے گی تو پھر وہاں میں اس بحث کو چھیڑوں گا دوبارہ‘ آئندہ آیت کے لئے یہ تیاری ہورہی ہے ساری۔ یہاں rebellious کہہ دو گے‘ بار بار کہو گے ‘ دلوں میں یقین بٹھا دوگے کہ و ہ لوگ کلیتہً بغاوت پر آمادہ کھڑے تھے حالانکہ جس بات سے انکار کیا تھا انہوں نے ‘ اس کی ان کو سزا بھی ملی‘ سب کو ملی اور اللہ تعالیٰ معاف بھی فرما چکا۔ اور بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ کوئی بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سر اٹھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا‘ زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ سر کاٹا جائے اور خاک و خون میں لوٹتا پھرے بجائے اس کے نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں اٹھے۔ پس وہ نافرمانی بھی جس کو خدا نے معاف فرمایا ہے دراصل اس غلط فہمی کی وجہ سے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا معنیٰ کیا ہے ورنہ ایک بھی ان میں سے ایسا نہیں جس کو تاریخ نے ظاہر کیا ہو کہ انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تو ہم سن نے لیا ہے‘ ہم انکار کرتے ہیں‘ نفس نے بہانے بنائے یا غلط فہمیاں واقعتا پیدا ہوئیں مگر rebellion کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور یہ منٹگمری واٹ بھی اور یہ ویری بھی اور ا نکے سب اس قماش کے لوگ بار بار اس مضمون کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سارا سفر‘ ساری لڑائی رزق کی خاطر‘ چند چیزیں چند ہتھیار لوٹنے کی خاطر تھا اور rebellioinتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کے خلاف۔ اب اس کا ذکر میرا خیال ہے کم ہی کردیا جائے۔ اب اس کی زبان ذرا دیکھیں نا ان لوگوں کی‘ کس طرح شرارت کرتے اور پھر بیج بو کر پھر آگے اس مضمون کو خود ہی بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ویری لکھتا ہے verse 153
‏ What he desired
تحبون کا ترجمہ کہتا ہے What he desired
‏ victory and spoils کا لازماً ذکر کریں گے۔ یہ میں نے بتایا نہیں سوچ ہی نہیں سکتے بغیر spoil کے کسی چیزمیں حصہ لینا‘ کسی جنگ میں۔
This is a very characteristic confession pointing to the motive that really inspired that courage of the muslims.
یعنی کہتا ہے جو ان کو قوت ملی تھی وہ لوٹ کی وجہ سے قوت ملی تھی۔ اس قدر جاھلانہ بات ہے اور وہ جو آیت ہے جس میں شرک والا ذکر ہے کہ شرک کی وجہ سے ان کے اوپر دوبارہ رعب قائم کیا جائے گا وہ بتا رہی ہے کہ ان کے پاس سلطان کوئی نہیں ہے‘ اس لئے بہادری پیدا ہو ہی نہیں سکتی اور ان کے ‘ مسلمانوںکے پاس ایک سلطان ہے ایک اعلیٰ مقصد ہے اور اعلیٰ مقصد اگر ہو تو پھر غیر معمولی قوت عطا ہوجاتی ہے تو یہاں یہ بدبخت جان کے اپنے گندے ارادوں اپنی گندی عادتوں کو اسلا م کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو طاقت لوٹ مار کے تصور سے ملی تھی۔ جس طرح امریکہ کو اور یورپ کو اور ان کے سب ساتھیوں کو بغداد پہ حملہ کرنے کے لئے طاقت تیل کی لوٹ مار کی وجہ سے ملی تھی اس لئے یہ سمجھتے ہیں وہاں بھی یہی حال تھا مگربار بار تاریخ جھٹلاتی ہے اس الزام کو ا نکے منہ پر مارتی ہے کہ کوئی حیا کرو کوئی شرم کرو سات سو کمزور آدمی‘ جن میں فتنے پھیلائے جارہے تھے جن کے متعلق کہا جارہا تھا کہ تم مارے جائو گے اورتین سو اس سے پہلے ان کو چھوڑ کر واپس جا چکے تھے وہ بیچارے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیںکہ لوٹ مار کے تصور سے قوت ملی ہوئی تھی ان کو کہ ہم مرجائیں بے شک کوئی سامان تو مال غنیمت کا رہ جائے یہاں ۔ اتنا جاھلانہ تصور ہے‘ لیکن جس طرح یہ لکھتے ہیں وہ سارے بیچارے سادہ لوح وہاں مسلمان جو پڑھنے آئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں دیکھو بڑے عالمانہ لوگ ہیں ‘ ضرور اس میں کوئی بات ہوگی۔
And yet throughout this discourse the prophet offers the rewards of piety to all who tought in the way of God.
کہتا ہے Yet سوچو ذرا‘ کہتا ہے لوٹ مار کے لئے آئے تھے اسی سے طاقت لی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھو کہ کہتے ہیں بڑے نیک لوگ ہیں اور کہتے ہیں ان کو جزا ملے گی‘ جزا تو وہی تھی جو مل گئی وہاں۔ ایسے مکروہ دماغ ہیں کہ کراہت آتی ہے ان میں جھانکتے ہوئے بھی لیکن وہ خود اگلتے ہیں تو دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ بعض کی الٹیاں ہیں‘ قے ہے جو یہ باہر نکالتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً‘ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسلام کے خلاف کیسے بغض میں پلے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے اہم؟کہ جنگ احد میں اگر ایسی ذلت ناک شکست تھی جو یہ دیکھ رہے ہیں اورایسے ذلیل ارادے تھے جن کے ساتھ مسلمان شامل ہو ئے ہیں تو ان کو کھولنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں میں نے بڑے غور سے گہری نظر سے ان کے ردعمل کا مطالعہ کیا ہے ان قومو ںکا‘ یہ جو عیسائی قومیں ہیں خاص طور پر مغرب میں‘ جب کوئی دشمن مار کھا جائے تو اس کے لئے پھر ہمیشہ نرم لفظ استعمال کرتے ہیں اور پوچا پاچی جس طرح کہتے ہیں نہ نرم ہاتھ سے کہ نہیں کوئی بات نہیں یہ ہوتا ہے جب ان کو فتح نصیب ہوئی ہو تو پاکستان کی ٹیم چاہے کرکٹ میں ہاری ہو یا کسی عام کھیل میں تو اس پہ نرمی کی کہ وہ بہت اچھا کھیلا تھا یہ تھا وہ تھا اور اگر وہ ہار جائیں پھر ان کا غصہ دیکھو پھر یہ بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں کیڑے ڈالتے ہیں‘ انہوں نے بال میں یہ کیا تھا انہوں نے چالاکی سے کام لیا ہے۔ دھوکے سے کام لیا ہے وقتی طور پر مان جاتے ہیں لیکن چہروں پہ سیاہی نظر آتی ہے اور پھر بعد میں وہ کسی نہ کسی بہانے اس فتح کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ احد میں اگر یہ ایسی واضح فتح دیکھتے دشمن کی ‘ جیساکہ یہ دیکھ رہے ہیں اپنے طور پر تو کبھی اتنا بغض پیدا نہ ہوتا۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی ایک حوالہ دیا تھا اور بھی کثرت سے ہیں ایسے حوالے موجود جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دل گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی تماشا نہ ہوا۔
تھی خبر گرم کہ غالب ؔکے اڑیں گے پرزے؟
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا؟
کہ وہ پاگل کے بچے اتنی دور سے آئے تھے کیا کرنے آئے‘ کیا کرگئے اور کچھ بھی نہ کیا۔ یہ آگ ہے جو لگی ہوئی ہے اور اس کا آخری منطقی نتیجہ اس کے سوا نکلتا ہی نہیں کہ اللہ ان کے ساتھ تھا ورنہ کسی دنیا کی جنگ کی تاریخ میں یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا جو جنگ احد کا نکلا ہے۔ پس اس آگ کو دبانے کے لئے یہ بہانے ڈھونڈتے ہیں اور وہ پھر شعلے گند اور بغض کی صورت میںجگہ جگہ اگلتے ہیں اور یہ وہی نظارے ہیں جو آپ دیکھ رہے ہیں‘ کبھی نیتوں پہ حملہ کرتے ہیں کبھی کسی اور طریقے سے ان کی شکست کو بھیانک بنا کے دکھاتے ہیں اور آخری نتیجے کے لئے ترستے ہیں اور وہ نہیں نکلتا۔ جسکو بعد میں قرآن کریم فرماتا ہے یہ اس لئے ہے تاکہ ان کے دلوں میں یہ حسرت رہے اس آگ میں جلتے رہیں جلتے رہیں لیکن اپنے مقصدکو نہیں پاسکیں گے۔ پھر کہتا ہے۔
And declares that those who lost their lives received the crown of martyrdom. The purpose of to plunder and destroy their enemies is sanctified the executing it in the way of Lord.
کہتا ہے لوٹ مار کے لئے نکلے تھے اب اس کے اوپر یہ چادر کپڑے ڈال رہے ہیں یہ بہانہ بنا کر کہ و ہ اللہ کی خاطر نکلے تھے۔ تم نکل کے دکھائو۔ اس طرح ان حالات میں۔ تم بھی تونکل کے کبھی دکھائو کبھی تمہاری تاریخ نے ایسا دکھایا ہے کہ لوٹ مار کی نیت سے۔ ہاں اگر دشمن حملہ آور ہوا ہو تم پر خواہ ہو غالب بھی ہو تو تمہاری تاریخ ایسی جوانمردی اور بہادری کے قصوں سے یقینا پُر ہے کہ پھر تم بے جگری سے لڑے ہو۔ چرچل نے بھی جو نمونہ دکھایا ہے اس نمونے کے خلاف میں کچھ نہیں کہتا۔ مگر اس نمونے کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم Natzi لوٹ مارکی خاطر حصہ لے رہے تھے۔ جنگ میں۔ جو ہم نے قربانیاں دی ہیں اس وقت‘ یہ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے نہیں تھیں یہ دفاع کے لئے نہیں تھیں یہ تو محض اس لئے تھی کہ جب جرمنی ہارے گا تو پھر مزے اڑائیں گے پھر ان کے حصے بخرے ؟کرکے ان کو لوٹیں گے۔ اس تصور کی کوئی دور کی کوئی گنجائش اس دور میں نظر نہیں آتی۔ ہم انصاف سے کہتے ہیں جن پر تم حملہ آور ہو۔ جن پہ یہ کمینے حملے کررہے ہو ہم اب بھی تقویٰ پر قائم ہوکر بتاتے ہیں کہ ہر گز نہیں۔ اگر کوئی مؤرخ یہ لکھے کہ انگلستان کی قوم نے وہ قربانیاں حرص وہوا میں اور کمینے خیالات کی وجہ سے دی تھیں اور کوئی nobility اس کے پیچھے نہیں تھی تو میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے۔
ایک جھوٹا بے بنیاد الزام ہے۔ تم ایک ایسی بات کو جو اس سے کئی گنا زیادہ ناممکن ہے اس کو قبو ل کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوتے ہو جن کی نیتوں کی پا کی تمہارے لوگوں کی نیتوں سے ہزار گنا زیادہ قابل قبول اور قابل اعتماد ہے۔ یہ نا انصافی کی باتیں ہیں ۔ بے حیائی کی باتیں ہیں تقویٰ سے خالی سچائی سے خالی صرف وہی بات ہے کہ کھول رہے ہو غصے میں‘ اسلام کیوں نہیں مٹا دیا گیا۔ ایک ہی وقت تھا تمہاری نظر میں جب کہ اسلام کو کلیتہً نابود کیا جاسکتا تھا اور نہیں ہوسکا۔ نتیجہ کچھ اور نکل آیا۔ پھر آگے لکھتا ہے۔
The faithful
اب طعن آمیز ترجمہ سنیں
The faithful Muslims their conduct had been very unfaithful and yet they have been called faithful.
And their faithful condect I,ll speak of that later on. (انشاء اللہ)
اب میراحمد علی صاحب لے لیں۔ یہ شیعہ مفسر جو ہیں یہ میں نے پہلی دفعہ پڑھے ہیں اس طرح تفصیل سے‘ لیکن بڑے اعصاب شکن لوگ ہیں اللہ رحم کرے وہ دشمن حملہ کررہا ہے اسلام پر اور ایسے خوفناک حملے کررہا ہے ایسے گہرے حملے کررہا ہے کہ آج کل کے مسلمان ‘ پڑھنے والی نسل کے ایمان کو کھوکھلا کردیتے ہیں اور بالکل غلط ایک تصور ان کی نظر میںپیش کرتے ہیں اسلام کا‘ اور ان کو صحابہ پر مزید حملے کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ ’’مرے کو مارے شاہ مدار ‘‘یہ کہتے ہیں اب اچھا ہے جب یورپین بھی انکے پیچھے پڑ گئے ہیں آئو ہم بھی دائو لگا لیں اور اپنا لُچ بھی ساتھ تل لیں اور ان سے زیادہ گندے حملے کرتے ہیں‘ وہ پھر کچھ نہ کچھ حقیقت کے بعض پہلوئوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہورہے ہیں لیکن یہ نہیں ہیں۔ اب یہ سنئے وہ میر احمد علی صاحب کا تبصرہ 153 کے اوپر‘ کہتے ہیں۔
This refers to the promise of help saying that it was fulfiled but when they were disobedience to the commands of the Holy Prophet the Muslims themselves deserted their given position and fell easy victims to their own lust for the worldly benifits and engaged themselves in the plunder, what else would they expect but the miserable discomfiture which they themselve earned by their own doings.
بڑا اس پہ gult کررہا ہے لیکن ابھی یہ آخری نہیں ہے بات‘ آگے جاکے یہ مضمون کھلے گا اور تو باقی بحث میں پھر اس وقت کروں گا۔
اچھا یہ کہتے ہیں کہ
Because there was a delay in the begining of Dars by 45 minutes, so it have been agreed that they work extend us time up to 3:50. So, If you feel like continue the Dars up to 3:50, It's entirely up to you (This is a message from Jaswal side) and as for as the arrangements o nthe other end are concerened. That is 103 satellite of cource that time is entire ours. We can continue, So I,ll not extend it to that long but Inshallah (انشاء اللہ) I,ll feel at home and feel easy about it. Now there is no hurry anyone?.... But this also implus that we,ll have to say the Zuhar, Asar Prayer Jama (جمع). Some are very happy and there are some have not shown any........
’’اذا تصعدون ولا تلون علی احد والرسول یدعوکم فی اخرکم فاثابکم غما بغم لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولا ما اصابکم ط واللّہ خبیر بما تعملون O
اذ تصعدون ولا تلون علیٰ احد والرسول یدعوکم فی اخراکم ۔
میں نے پچھلے درس میں ایک یہ ذکر کیا تھا کہ صحابہ جو دراصل بکھرے ہیں وہ اس اعلان کو سننے کے بعد کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال پاچکے ہیں اور یہ جو تصعدون والا مضمون ہے یہ اس کا تعلق اس اچانک ابتدائی ریلے سے ہے جو یلغار دشمن نے کی ہے وہ اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو سنبھالے نہیں ہوئے تھے‘ ہتھیارسنبھالنا اور ذہنی طور پر تیار ہوکر دشمن کا جواب دینا ایک نفسیاتی کیفیت چاہتا ہے‘ جس کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ اس میں بہادری یا عدم بہادری کی بحث نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ یہاں جو کراٹے کی display کرتے ہیں‘ نمائش کرتے ہیں‘ ان کو وہ جب یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ کام کریںکریں گے اور اتنی موٹی اینٹوںکو ایک ہاتھ سے توڑیں گے تو یونہی تو نہیں ماردیتے وہ بعض دفعہ تین تین چار چار منٹ دم روک روک کر اپنی اندرونی قوتوں کو ابھارتے ہیں اور باہر لاکر اس آخر ی نمائش کے لئے اپنی ساری طاقتوں کو مجتمع کرلیتے ہیں‘ جب وہ مجتمع ہوجائیں پھر ان کے جسم کی کیفیت بدل جاتی ہے پھر وہ اس بظاہر بہت مشکل کام کو بھی کرلینے کی صلاحیت پالیتے ہیں۔ تو جنگ میں اچانک کوئی حملہ ہونا‘ یہ کوئی ویسی بات نہیں جو باہر بیٹھے آپ تماشا دیکھ رہے ہوں کہ اوہو ہو انہوں نے جواب کیوں نہیں دیا۔ اچانک ایک کھیل میں بھی جب unexpectedly کوئی drop shot آجاتا ہے‘ مجھے پتہ ہے میں سکوائش کھیلتا رہا ہوں‘ عام حالات میں آپ لے سکتے ہیں اس کو‘ یعنی سکوائش کھیلتے ہوئے بعض دفعہ میرے سامنے والی دیوار کے اوپر ہلکا سا بال اس طرح پھینکا جاتا ہے کہ وہیں ذرا سا لگا اور نیچے گر گیا۔ اگر ذہنی طور پر انسان تیار ہو کہ ایسا ہونا والا ہے تو مشکل سے مشکل Shot بھی لینا اتنا مشکل نہیں رہتا لیکن اگر اچانک آجائے تو پاس کھڑے ہوئے بھی بلا نہیں ہلتا‘ تو یہ تو جنگ تھی‘ جہاں زندگیوں کی کھیل کھیلی جارہی تھی‘ زندگی اور موت کی کھیل کھیلی جارہی تھی وہاں اس ریلے پر پائوں اکھڑنا ہر گز اس لائق نہیں ہے کہ اس پر دشمن یا کمینے لوگ فخر سے باتیں کریں اور یہ طعن آمیزی کریں کہ دیکھو سارے صحابہ چھوڑ کر چلے گئے۔ قرآن کریم خود یہ نقشہ اس طرح بیان کررہا ہے کہ بے اختیاری کا عالم تھا۔
اذ تصعدون ولا تلون علی احد
تمہارا یہ حال تھا کہ تم دوڑے چلے جارہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہ جو کیفیت ہے یہ اچانک ہے کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہے۔
والرسول یدعوکم فی اخرکم
اب یہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میںایک بہت ہی اہم نکتہ اٹھایا ہے جو پیش کرنے کے لائق ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ جو ترجمے کرتے ہیں لوگ کہ ’’تمہارے پیچھے سے‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ ’’اُخرٰکم‘‘ سے مراد ایک پارٹی ہے۔ یہ تمہارے علاوہ دوسری پارٹی تھی۔ ایک تم تھے جو دوڑے چلے جارہے تھے۔ ایک تمہی میں سے اُخریٰ لوگ تھے‘ وہ لوگ تھے جو محمد رسول اللہ کے پاس اس کے باوجود کھڑے رہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ سب چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یہ ہے ہی جھوٹ‘ اور قرآن کی طرز بیان اس کو جھٹلا رہی ہے۔ولا تلون علی احد والرسول یدعوکم فی اخرٰکم تمہارے پیچھے میں تو کہا ہی نہیں جاتا‘ قرآن کریم کے محاورے دیکھ لیں پیچھے کے لئے دوسرے الفاظ استعمال ہورہے ہیں‘ بڑے واضح کھلے کھلے لفظ ہیں جو پیچھے رہنے والوں کے متعلق اور پیچھے کے تصور کو پیش کرنے والے ہیں لیکن جہاں ’’فی اخراکم‘‘ کا مطلب یہ ہے‘ ان لوگوں کے درمیان کھڑا جو تمہارے علاوہ ایک گروہ تھے۔ پھر کیا ہوا۔
فاثا بکم غما بغم لکیلا تحزنوا علیٰ مافا تکم ولا مااصابکم
جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے اس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزعومہ وصال سے ہے۔ یعنی شہادت کے متعلق جو خبر مشہور ہوئی ہے کیونکہ اس آیت کا تسلسل بتا رہا ہے کہ پھر کیا نقصان پہنچا۔ وہ تھوڑے لوگ جو پیچھے رہ گئے وہ پوری طرح حفاظت نہیںکرسکے اور ایسا وقت آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی یہ مشہور ہوگیاکہ آپ وصال پاگئے ہیں۔ پھرایک دوسری افراتفری پھیلی ہے اور وہ ان لوگوں میں پھیلی ہے جواس ہلے کے بعد واپس آئے ہیں۔ اس لئے شیعہ ہوں یا غیر مسلم طعن آمیز جب وہ یہ کہتے ہیں کہ جنگ سے جان بچا کر بھاگ نکلے تو ان کی اپنی روایتیں بھی اس بات کو جھٹلا رہی ہیں کیونکہ دوبارہ اسی میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔ بھاگے ہوئے ایسے سر پھرے تو نہیں تھے کہ جس موت سے بھاگے تھے دوبارہ اس میں آکھڑے ہوں۔ بعض ایسے تھے جو پہاڑوں پر چڑھ کر‘ جن کو اس موقعہ پر یہ سمجھ نہیں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں؟ وہ لوٹے ہیں اورپھر اونچائی پر چڑھ کر دیکھتے پھرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں؟ اُن کے متعلق یہ بعض شیعہ لکھتے ہیں کہ یہ اعتراف ہے ان کا کہ ہم بھاگ گئے تھے۔ حالانکہ اُس بھاگنے سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ یہ بیان کررہے ہیں کہ اس افراتفری میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری نظر سے اوجھل ہوگئے پھر وہ پلٹے ہیںخودہی اور بعض مفسرین کہتے ہیںکہ وہ آخری چند لوگ جو پھر میدان میں واپس نہیں آئے وہ ہیں بھاگنے والے وہ صرف پانچ تھے تو پہلے ہلیّ میں اکثر کے پائوں اکھڑے ہیں اس میں کوئی شک نہیںلیکن بزدلی کی وجہ سے نہیں ایک مجبوری کے پیش نظر‘ کیونکہ جب جنگ میں اچانک حملے ہوتے ہیں تو بڑے بڑے جوان بھی وہاں ٹھہر نہیں سکتے۔ ایک دھکا پڑتا ہے ریلا‘ جس طرح ایک دفعہ Crowd جب کسی کھیل کو دیکھنے کے شوق میں جارہا ہے تو اس وقت وہ جو لوگ آگے دھکیلے چلے جاتے ہیں وہ بے اختیار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہاں انگلستان میںایک دفعہ ایک فٹ بال کے میچ کے موقع پر بڑا دردناک واقعہ ہواکہ مجھے تعداد یاد نہیں مگر بڑی تعداد تھی ایسی جن کو پیچھے سے لوگوں نے ریلے نے دھکیلنا شروع کیا ہے اور آگے لوہے کی مضبوط جالی تھی۔ وہ آگے بڑھ نہیںسکتے تھے اور پیچھے دھکا ایسا تھا بے اختیاری کا یہ عالم تھاکہ اس کے ساتھ پچک کے ان میں سے 30 یا اس سے زائد اس طرح مارے گئے ہیںبیچارے۔ اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی‘ تو جو جنگ کے ریلے ہوتے ہیں یہ کوئی بچوںکا کھیل نہیں ہے ۔ اس میں بڑے بڑے جوانوں کے پائوںاکھڑتے ہیں اور وہ پھر دھکیل دیئے جاتے ہیں۔بزدل اور غیر بزدل کا فرق بعد میں ہوتا ہے۔لیبتلیکم کا دور ہے۔
اگر بھاگنے والے وہیں جا کے بیٹھ رہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ جان بچانے کے لئے گئے تھے اگر پھر لوٹیں اور وہاں دیکھیںکہ کیا واقعہ گزرا ہے تو وہ تقدیر نہیں ہے جو تم کھینچتے ہو کہ صحابہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر جان کر بغاوت کرتے ہوئے نکل گئے اور یہ اگر ہوتا تو یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ اسے اس طرح آسانی سے معاف کیا ہی نہیں جاسکتا۔ قرآن کریم کی دوسری آیات ایسے جرم کے خلاف بڑے واضح انذار پیش کر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ پھر جہنم ہے۔ یہاں اتنی جلدی خدا معاف کیوں کر دیتاہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی نیتوں پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب غما بغم لکیلا تحزنوا علی ما فاتکم واللہ خبیر بما تعملون میں جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں میرے نزدیک یہ وہ دوسرا غم ہے جو اس ریلے کے بعد پیش آیا۔ اور اس کے بعد بہت سے آئے ہوئے بھی جنگ سے عدم دلچسپی کے نتیجہ میں بکھر گئے۔ ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں کہ صحابہ نے جو واپس لوٹے ہیں اس ریلے کے بعد پہلے پتہ کیا کہ کیا ہورہا ہے بلکہ بعض ایسے بھی تھے جو مدینہ میں یہ خبر سن کر آئے کہ نعوذ باللہ اس حادثے کے بعد پھر پاؤں اُکھڑ گئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید کر دئے گئے ہیں ان کی تلاش میں وہ میدان جنگ کی طرف دوڑے ہیں۔ یہ جو واقعات ہیں واپس آنے کے اور تلاش کے اور ایک عجیب سی مبہوت سی کیفیت میں مبتلا ہونے کے یہ اس وقت نہیں ہوئے جب دشمن میدان جنگ چھوڑ کرجا چکا تھا بلکہ اس وقت جب وہ وہاں ڈٹا ہوا تھا۔ پس جن کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں اُکھڑے اگر بات مان بھی لی جائے مثلاً ً حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تو غار میں اس وقت یہ کیسے موجود ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جب کہ دشمن یہ تعلِی کررہا تھاکہ وہ بھی مارا گیاوہ بھی مارا گیا یہ تو بھاگ گئے جان بچانے کے لئے دشمن تو وہاں موجود تھا‘ یہ واپس کیوںآگئے‘ تو بھاگے نہیں تھے وقتی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بچھڑے ہیںاس کے سوا اور کوئی قابل قبول حقیقت نہیں ہے۔ چونکہ غم والے حصے پر میںپہلے بحث تفصیلی کرچکا ہوں اس لئے دوبارہ یہاںچھیڑنے کی ضرورت نہیں۔
لوٰی یلوی لویا یہ بحث ’’تلون‘‘ والی ہے۔’’ولا تلون‘‘ تم مڑ کے نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس کی لغوی بحث مختصر میں پیش کردیتا ہوں۔
لوٰیکہتے ہیں دراصل بل دینے کو۔ چنانچہ رسی کو بل دینے کے لئے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے لوی۔ التوی الماء ‘ یہ جو بل کھاتا ہوا پانی گرتا ہے یا ندی بہتی ہے اس کے لئے بھی لفظ التوی ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ وہ بل کھا رہا تھا مڑتاجارہا تھا۔ اپنی بات چھپانے کے لئے بھی ’’لوٰی امرہ عنی‘‘ مگر پیچ دے گیا جس کو ہم اردو میں کہتے ہیں نہ اس نے بات ظاہر نہ کی۔ لوی سرہ اپنا راز چھپا لیا۔لوٰی علی فلانٍ عطف اوا نتظر یا وہ کسی کی طرف مڑا یا دوسرے کا انتظار کیا۔ یہ تو بے تعلق بحث ہے وہاں واضح طور پر اس کے سوا مطلب نہیں بنتاکہ تم ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی ہوش نہیں تھی تمہیں اس وقت فات الامر فوتاً وفواتاً‘ مضی۔ فات الامر کا مطلب ہے کوئی کام گزر گیا ہوگیا۔فات الامر ذھب۔ تم سے کیا کھویا گیا یہ بحث مفسرین اب اٹھائیں گے کہ کس طرف اشارہ ہے؟
صعود کہتے ہیں مشکل راہ پر زور لگاتے ہوئے‘ اصل میں اوپر کی طرف چڑھنے کو صعود کہتے ہیں اور صعود کے لئے جو جدوجہد ہے وہ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جس میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے پہاڑیاں تو اس سے ہٹ کر تھیں اور کافی پیچھے تھیں اور اچانک سب کا پہاڑیوں پر چڑھنا اس وقت پیش نظر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ آواز کی حد میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے تھے اور تصعدون ہے۔ تصعدون میںایک مشکل کام کی طرف زور لگانا ہے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے صحابہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوڑ رہے تھے۔ ان کا دوڑنا ایسا تھا جیسا وہ زور لگا کے رکنا چاہتے ہیںتو رک نہیں سکتے۔ یا کوشش کرکے جانے کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں۔ دونوں معنے بنیں گے۔ جس طرح پہاڑ پر کوئی شخص جب تک خود کوشش نہ کرے چڑھ نہیں سکتا یا چڑھنے میں اس کو دقت محسوس ہوتی ہے تو یہ دونوںکی کیفیتیں ہوسکتی ہیں۔ صحابہ پر حُسن ظن کرتے ہوئے میں اس کا یہ ترجمہ کرتا ہوں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے تھے جس میں ان کا بس نہیں تھا لیکن طبیعت پہ بوجھ تھا اور اس بات کو پسند نہیں کررہے تھے اور بعض لغات کہتی ہیں دور ہٹ جانے کوہی صرف کہا جاتا ہے‘ جب تم دور نکلے جارہے تھے۔ اس کے سوا اس میں معنے نہیں ہیں۔ کیونکہ الصعید چٹیل زمین کو بھی کہتے ہیں اس لئے صعود کا یہ واضح معنیٰ نہیں ہے کہ پہاڑ پر ہی چڑھ جائے بلکہ عام میدان میں دور ہوتے چلے جانے کا نقشہ بھی انہی الفاظ سے کھینچا جاسکتا ہے۔ مٹی اور غبار کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس میں بھی چونکہ سانس پھول جاتی ہے اور ایک تکلیف کا سامنا ہے اس لئے ہوسکتا ہے یہ لفظ اس بیان کے اظہار کے لئے ہو۔علاوہ ازیں ’’تصعدون ولاتلون‘‘ بقول بعض اس کے معنے زمین میں دور تک چلے جانے کے ہیں۔ عام اس کے لئے جانا بلندیکی طرف ہو یاپستی کی طرف ہو ’’عام اس‘‘ سے مراد یہ ہے‘ قطع نظر اس کے کہ وہ بلندی کی طرف دوڑناہو یا عام سطحی زمین پر بلکہ پستی کی طرف دوڑنے کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوسکتا ہے ان کے نزدیک۔
وہ معنیٰ بھی جو میں نے ابھی بیان کیا تھا وہ بھی بعض کی طرف مفردات راغب نے منسوب کیا ہے۔ راغب کہتے ہیں کہ اس کا بعض مفسرین کے نزدیک اس میں ان لوگوں کی جدوجہد اور بالارادہ بھاگ نکلنے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ بہت زور لگا کر جارہے تھے‘ گویا کہ چڑھائی درپیش ہو۔ ان لوگوں نے حد ہی کردی یہ مراد ہے کہ وہ ایسا بھاگے ہیں کہ بہت ہی شرمناک حالت تھی‘ یہ بعض مفسرین نے معنیٰ نکالا ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دونوں معنے نکل سکتے ہیں اور چونکہ قرآن نے خصوصاًصحابہ پر حسن ظن کا ارشاد فرمایا ہے اس لئے میرا ضمیر تو حسن ظن کی طرف ہی مائل ہے اور یہ معنیٰ لوں گا کہ اپنے ارادے کے خلاف کراہت محسوس کرتے ہوئے بھی وہ دوڑ رہے تھے (یعنی) ورنہ ان سے دوڑا جاتا نہیں تھا۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ بھاگیں مگر مجبور ہوگئے تھے بے اختیار تھے۔
امام راغب کہتے ہیںصعد کا معنیٰ شاق بھی ہیں وہی جو میں مضمون بیان کررہا ہوںکہ ان پر شاق گزر رہا تھا اور سخت تھی بات لیکن پھر بھی ان کے پائوں اکھڑے ہوئے تھے۔وہ مثال قرآن کریم کی دیتے ہیں اس مضمون میں۔
کانما یصعد فی السماء
یہ امام راغب نہیں بلکہ ’’غریب القران فی لغات الفرقان‘‘ میں ہے کہ ایسا شخص جو پسند نہ کرتا ہواکراہ کو اور پھر بھی اس طرف جارہا ہو جس پر وہ کام کرنا دوبھر ہو اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے۔
کانما یصعد فی السماء
گویا کہ وہ اوپر چڑھ رہا ہے اس کا سینہ تنگ ہے تو یہ وہ حسن ظن والا معنیٰ ہے جو میں نے اپنایا ہے اور اس کو قران سے تقویت ملتی ہے‘ قرآنی استعمال سے۔
تلون کی بحث پہلے گزر چکی ہے اس میں مزید کوئی قابل ذکر بات نہیںہے۔
غم کے متعلق کہتے ہیںکہ اس کا لغوی معنیٰ ہے کسی چیز کوڈھانپ لینا۔کیونکہ غم انسان کے اوپر چھا جاتا ہے اور غم کی حالت میں اس کا سایہ اس کی ہر توجہ پر غالب آجاتا ہے اورہربات میں غم ہی کا تصور بر آجاتا ہے۔ اس لئے جو غم کی کیفیات ہے اسے غم کہا جاتا ہے اور ’’غُمہ‘‘ جنگ کی شدت کو بھی کہتے ہیں۔ جو قوم پر چھا جائے۔ بادل کو بھی غمام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ غم الھلال چاند ابر کے نیچے آگیا یعنی ابر کے پیچھے چھپ گیا مراد ہے۔ ولیلۃ غمۃ ‘ تاریک اور سخت گرم رات کے لئے بھی غمۃلفظ استعمال ہوتا ہے۔ لیلۃ’‘ غمۃ طمس طلالھا۔ تاریک رات جس کا چاند بے نور ہوگیاتھا۔ غمۃ الامرکے معنے ہیں کسی معاملہ کا پیچیدہ اور مشتبہ ہوجانا۔ قرآن میں ہے
ثم لایکون امر کم علیکم غمۃ
پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق اور اضطراب کا موجب نہ ہو اورغم اور غمۃ کے ایک ہی معنے ہیں یعنی حزن اورکرب۔ یہ تمام باتیں مفردات راغب نے لکھی ہیں۔
جہاں تک مختلف روایتوںکا تعلق ہے کہ وہ جماعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہی اور وہاں سے ہی نہیں اس کی تعداد مختلف مفسرین یا مورخین نے یا حدیث بیان کرنے والوں نے الگ الگ لکھی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میںہے کہ وہ ایک وقت ایسا تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے ۔ بعض دوسروں نے زیادہ تعداد بتائی ہے وہ میں انشاء اللہ آئندہ مختلف جو تعداد کا ذکر ملتا ہے وہ بتائوں گا‘ یہ بتانے کے لئے کہ جب افراتفری کا عالم ہو تو یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے کہ اس وقت کتنے آدمی پیچھے تھے اور بعض دفعہ جو پیچھے رہے ہوئے ہیں ان کا شمار اس لئے ممکن نہیںکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اردگرد ٹولیوں پر بار بار حملہ آور ہورہے تھے اور عین ممکن ہے کہ ایک وقت میں دس بارہ صرف اردگرد دکھائی دے رہے ہوں اور وہ ایسے تیس چالیس دوسرے ہوں جو حملہ آور ہوکر دشمنوں سے ذرا ہٹ کر لڑ رہے ہیں جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ملتا ہے اور بعض صحابہ کا ذکر ملتا ہے‘ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا ہم آپ پر جان نچھاور کرنا چاہتے ہیں‘ ہمارے لئے شہادت کی دعا کریں اور یہی کہتے ہوئے وہ پھر دشمنوں پر حملہ آور ہوگئے اور پھر واپس نہیں آئے‘ انہوں نے شہادت کی دعا منگوائی وہ سارے کے سارے شہید ہوگئے تو ان کو بھگوڑوں میں شمار کرلینا بڑی بے حیائی ہے۔ یہ لوگ اس وقت وہاں کیسے نظر آسکتے تھے اردگرد‘ جو اپنی جانیں پیش کرنے میں مصروف تھے۔
پس یہ مضمون بڑا الجھا ہوا ہے اس کو تحمل سے حقائق کے پیش نظر دیکھنا پڑے گا۔ چنانچہ میں نے جو روایتیں اکٹھی کی ہیں میرے نزدیک ان میں تضاد نہیں ہے جو زیادہ سے زیادہ تعداد بیان کی جاتی ہے کم از کم اتنے ضرور ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں جو تیس کہتے ہیں انہوں نے تیس کے قریب ضرور دیکھے ہیں اور باقی جو اردگرد اس وقت مصروف تھے ان کا شمار کرنا اس وقت ممکن نہیں تھا۔
لکیلا تحزنوا علی مافا تکم
یعنی تم شدائد پر صبر کی مشق کرو اور ان میں ثبات دکھائو اور تا تمہیں بار بار غلبہ ‘ کامیابی اور غنیمت دیکھنا ملے۔ یہ کس نے کیا ہے غنیمت دیکھنا ؟ ہمارے بعض مفسرین بیچارے مسلمان بھی سادگی میں یہ لفظ غنیمت استعمال کرجاتے ہیں۔ مافاتکم نے اس طرف ان کا ذہن پھیر دیا ہے کہ وہ تم سے کھویا گیا ہے۔ مافاتکم سے تو مراد یہ ہے کہ تمہاری جو عظمت تمہاری شان‘ تمہاری اعلیٰ روایات جو وقتی طور پر تم سے کھوئی گئی تھیں‘ ان کو واپس ‘ ان کا جو غم تمہیں کھا رہا تھا اس غم کو ڈھانپنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے غم سے استفادہ فرمایا اور یہ جو خبر ہے اسکے پھیلنے میں ایک یہ بھی حکمت ہوسکتی ہے وقتی طور پر کہ دھکا لگے وہ اٹھ کھڑے ہوں‘ جاگ جائیں کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ پس اس غم نے تمہیں مخبوط کر دیا مخبوط الحواس بنا دیا اور پھر جوکے نتیجے میں ردعمل ہوا ہے وہ ابتلا کا عجیب و غریب مضمون تھا جو جاری ہوا۔ بعض لوگ جانیںدینے کے لئے دوڑے ہیں کہ اب ہمارا زندہ رہنے کا کیافائدہ۔ بعض لوگ مخبوط الحواس ہوکر وہاں بیٹھ رہے ۔ پتھروں پر اور سوچتے تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔بعض لوگ یونہی پھرتے رہے ہیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمودار ہوئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس وقت یہ صحابہ جن کے متعلق کہا جاتا ہے۔ پیٹھ پھیر کے بھاگ گئے وہ اردگرد تھے اور دوڑے ہیں اور اکٹھے ہوگئے ہیں اور پھر ان غلاموں کی جماعت کو ساتھ لے کر آپ نے اس درے میں پناہ لی جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
بہت سے مفسرین ہیں جنہوں نے یہی بات بیان کی ہے کہ غم کسی مادی چیز کو کھونے کا نہیں تھا بلکہ کامیابی کے بعد جو نقصان پہنچا ہے اس کا غم تھا۔ بعض کہتے ہیں ’’غما بغم‘‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ صرف ایک غم اور پھر دوسرا غم۔ ’’غما بغم‘‘ تو ایک جاری مضمون کو ظاہر کررہا ہے یعنی غم پر غم آتا چلا گیا‘ یہاں تک کہ تمہارے اندر غم کے احساس کی طاقت مٹ گئی۔ ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا‘ وہ یہ نقشہ کھینچ رہے ہیںجیسا کہ شکست کا غم آیا‘ پھر ان کو پہنچنے والے زخموں کا غم تھا پھر قتل ہونے والوں کا غم‘ پھر یہ سننے کا غم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قتل ہوگئے۔ پھر ان کے دشمنوںکا اوپر والے پہاڑ پر غالب آجانے کا غم‘ اب یہ ترتیب انہوں نے بالکل بدل دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تو بات ختم ہوجانی چاہئے تھی‘ اس کے بعد پھر کونسا غم باقی رہتا ہے (اس لئے) مگر انہوں نے وہ نقشہ آگے تک کھینچا ہے کہ یہ پھر اس کے بعد اوپر پہاڑ پر موجود دشمن کا غم۔
اچھا ابھی لمبی بحثوں کو ختم کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی وہی مضمون باندھا ہے جو غالباً حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیش نظر تھاکہ یہ سب کچھ یہیںبھگت گیا اتنے میں یہ خیر گزری تاکہ تم غم نہ کرو یعنی ان کو جو شکست ملی اس پر وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ جو ہم سے غلطی ہوئی تھی اس کی سزا یہاں مل گئی اور اس کے نتیجے میں تمہیں تسلی ہوگئی کہ اب ٹھیک ہے ۔لیکن وہ واقعات تاریخ میںہمارے پاس محفوظ ہیں جو احادیث ہیں وہاں یہ مضمون نہیں نظر آتا بلکہ وہی نظر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غم نے دراصل پچھلے سارے غم بھلائے ہیں اور ایسے واقعات ایک حیرت انگیز عظیم الشان واقعات فدائیت کے ملتے ہیں کہ ایک عورت دوڑی چلی آرہی ہے۔ میدان احد کی طرف اور پوچھ رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اتنی واضح شہادت کے بعد وہ دراصل یہ جو نظر اس طرف سے پھری ہے وہ وہی وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور قرآن کی محبت ہی ہے جس نے حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسری سوچ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ گویا ان کو یہی فکر لاحق ہوئی کہ ضمیر خدا کی طرف جارہی ہے تو نعوذ باللہ یہ ترجمہ کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادۃً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زخمی کروایا تاکہ صحابہ کا غم دور ہو‘ اگر یہ ہے تو یقینا غلط ہے اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر جیسا کہ میں نے اپنا مضمون دوسرے رنگ میں پیش کیا ہے اس کے بعد پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہی مضمون ہے جیسے کہ احد کا واقعہ بیان کررہا تھا کہ وہ بڑھ رہی تھی اور پوچھ رہی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ بعض صحابہ جو جانتے تھے کہ اس کا بیٹا شہید ہوگیا ہے اس کا بھائی شہید ہوگیا ہے اس کا خاوند شہید ہوگیا ہے‘ وہ باری باری ایک کے بعد دوسرے کا ذکر اس سے کرتے رہے کہ بی بی تمہارا تو خاوند شہید ہوگیا ہے‘ اس نے کہا میں خاوند کا کب پوچھتی ہوں؟مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتائو وہ ٹھیک ہیں کہ نہیں؟ اس نے پھر کہنے والے نے کسی نے کہاکہ بی بی تمہارا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے۔ بھائی کی کون بات کررہا ہے چھوڑو اس کو ‘ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتائو۔ اس نے کہا‘ بی بی تمہیں پتہ نہیں تمہارا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے‘ اس نے کہا شاید بیٹے سے بڑھ کر ماں اور کیا غم کرسکتی ہے؟ اس نے کہا تم نہیں سمجھ رہے ۔ میں کیا کہہ رہی ہوں مجھے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتائو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ۔ ہمارے آقا کو تو نہیں گزند پہنچی۔ یہ کہہ رہی تھی ابھی وہ کہ سامنے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غلاموںکے جھرمٹ میں چلے آرہے تھے زخموں سے چور۔ دیکھا ہے اور دیکھتی رہ گئی۔ اس نے کہا
کل مصیبۃ بعد ک جلل
اے میرے آقا تجھے دیکھ لیا تو ہر دوسری مصیبت بے معنی ہوگئی کوئی حقیقت نہیں رہی۔ یعنی ساری مصیبتیںحل ہوگئیں۔ سب کا جواب مل گیا۔ یہ جذبے چھوڑ کر یہ دشمن کیسے اعتراض کرسکتے ہیں۔ بدبخت کہ باغی ہورہے تھے۔ یہ سارے نظارے ہیں ایک کے بعد دوسرا نظارہ دکھائی دیتا ہے‘ ایک صحابی کھجور کھا رہے ہیں‘ بکھری ہوئی حالت میں اور ان کو کہا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے ہیں۔ تو کہتا ہے اچھا‘ کھجورکو دیکھتے ہیں‘ تُو میرے اور جنت کے درمیان حائل ہے‘ پرے پھینکتے ہیں اور اکیلے دشمن پر حملہ کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میرا زندہ رہنے کا کیا موقعہ ہے۔ یہ صحابہ ہیں جن پر یہ بدبخت لوگ اپنے گند اچھالتے ہیں‘ اپنی بدنیتوںکو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں بغاوت پر تیار بیٹھے تھے۔ ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘۔ کوئی شرم کوئی حیا چھو بھی نہیں گئی تمہاری عقلوں کو اور تمہاری سوچوں کو ورنہ صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ان واقعات پر نظر رکھتے ہوئے ان کی ان کیفیات کو جانتے ہوئے دیکھتے ہوئے‘ تم تاریخوں سے واقف ہو تم پڑھ چکے ہو ان کتابوں کوپھر یہ ترجمہ کرنا تمہیںہر گز زیب دینے کو تو کیابحث ہے یہ سوائے اس کے کہ تمہاری انتہا سے زیادہ مکروہ صورتیں جو تمہارے دلوں میں ہیں ان کو تم اچھال رہے ہو اس کے سوا ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔
سیل ان میں سے یہ مانتا ہے۔ کہتا ہے 30 تو بہرحال ہم مانتے ہیں کہ تھے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آوازیں دیں تو باقی یہ ویری وغیرہ اور یہ منٹگمری واٹ وغیرہ یہ تینوں نقشہ کھینچتے ہیں کہ وہ واسطے دے رہے تھے کہ آجائو‘ آجائو‘ کوئی نہیں آرہا تھا۔ حالانکہ اس بھگدڑ میں جیسا کہ نقشہ قرآن نے کھینچا ہے آوازکہاں تک پہنچی ہوگی‘ جس کو دائیں بائیںدیکھنے کی ہوش نہ ہو‘ اس کو کیا پتہ لگ رہا ہے کہ کون کہہ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے لیکن تیس کو یہ تسلیم کرتا ہے ۔’’سیل‘‘ بھی کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود رہے ہیں پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ زیادہ سے زیادہ نہیںیہ کم سے کم تعداد ہے جو دیگر جگہ مصروف تھے وہ اس تیس میں شمار نہیں ہوئے۔
آگے پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور جگہ وہ معنیٰ بھی قبول کیا ہے جو میں اختیار کئے ہوئے ہوں۔ فرماتے ہیں بڑا غم دوم یہ کہ ایک غم کے بدلے جو تمہاری نافرمانی نے رسول کو پہنچایا۔ تو ضمیر اس طرف پھیر دی۔ اس لئے اس کو قبول کرلیا۔ اصل جھجک یہی تھی کہ اللہ کی طرف ضمیر نہ جائے کہ خدا نے یہ کیا۔ فرماتے ہیں وہ غم بڑا مراد یہ ہے کہ جو نافرمانی نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچا دیا یہ ایک طبعی نتیجہ عام قانون کا ہے جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جزا سزا کا قانون عمل درآمد نہیں دکھا رہا۔
اب دیکھیں منٹگمری واٹ جسکو یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ منصف مزاج اور اس دور میں ایک اسلام کے حق میں اچھی بات کرنے والا ایک مستشرق ہے۔ اس کا ’’علیٰ مافاتکم‘‘ کا ترجمہ سُن لیجئے۔
‏What escaped you booty no taken
قرآن کریم اس وقت یہ اس غم کاذکر کررہا ہے کہ وہ بیچارے جو بھاگ رہے تھے اور پھر واپس آئے اور پھر شرمندہ ہوئے اور پھر بعد میں عظیم قربانیوں کے ذریعے اس وقتی داغ کو دھونے کی کوشش کی ۔ کہتا ہے وہ ’’booty not taken‘‘ ہاتھ سے کھوئے ہوئے کا غم نہیں ہے۔ یہ غم کھا گیا ہے کہ ہم booty نہیں لے سکے‘ ہم کوئی لوٹ مار نہیں کرسکے۔ کمینگی کی حد ہے۔ اس کے سوا اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ کوئی دنیا کا شریف النفس انسان احد کے واقعات کو تصور کرنے کے بعد یہ بدبختی نہیں کرسکتا کہ’’مافاتکم‘‘ کا یہ ترجمہ کرے کہ یہ تم booty نہیں لے سکے‘ یہ اس کا نقصان ہے۔ یہ اس کا ذکر ہے۔ اور پھر یہ بڑا اس پر فخر کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح بلا رہے تھے۔ قرآن کریم نے جو اتنا فرمایا ہے کہ
یدعوکم فی اخرٰکم
اس جماعت میں جوپیچھے رہ گئی تھی اس میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمہیں بلا رہے تھے۔ یہ کس طرح دیکھیں glat کرتے ہیں اس پر۔
Crying aloud come here to me. O servents of god I'm the apostle of god. He who return it back shall enter paradise but not to standing all his endeavours to rally his men, he could not get above 30 of them about him.
ویری نے اسی کو قبول کیا ہے۔ پھر یہ کہتا ہے ۔
God punished your avarice and disobedience by suffering you to be beaten by your enemies, and to be discouraged by the report of your Prophet's death, that ye might be inured to patience under advers fortune, and not repine at any loss or disappointment for the future.
یہ کہتا ہے‘ یہ جو ہے ترجمہ
Therefore god rewarded you afliction on afliction that you may not be grieved hereafter for the spoils which you fail of nor for that which befallen you.
یہ سیل کا ترجمہ ہے دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں غم پر غم پہنچایا تاکہ اس بات کا غم بھول جائے کہ تم وہ مال غنیمت نہیں لے سکے جس کی خاطر سارا سفر اختیار کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے کہا اور بھی تمہیں مار پڑے اور پھر ان کا خدا کا تصور یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی زخمی کروادیا تاکہ مسلمانوںکامال غنیمت کا غم دور ہو۔ اتنی بے حیائی ہے کہ اس کے لئے زبان گُنگ ہوجاتی ہے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میں تو یہ جب پڑھتا ہوں تو مجھے وہ پیپیاں یاد آجاتی ہیں‘ وہ ہم آموں کی گٹھلیوں کی پیپیاں بنایا کرتے تھے‘ وہ ذرازور سے پھونک مارو تو آواز بند ہوجاتی تھی۔ اس ظالمانہ حرکت کے خلاف اس طرح دل میں ابال اٹھتا ہے کہ گنگ ہوجاتا ہے آدمی‘ کچھ نہیں کہہ سکتا‘ لفظ نہیں ملتے‘ اتنی کھلی کھلی بے حیائی ہے۔
پھر کہتا ہے ۔
God that is to say. God punished your avarice and disobedience by saffering you to be beaten by your enemies and to be discouraged by the report of your Prophet's death. That you inert to passions under a worse fortune and not repent at any lose and disappointment.
وہ یہ کہتا ہے چونکہ تمہیں disappointment ہوگئی تھی اس کا علاج اللہ نے یہ کیا۔ مارو ان کو خوب۔ اچھی طرح ہوش اڑا دو‘ اور پھر کہا نہیں ابھی کافی نہیں ہوا۔ یہ مجھے سب سے پیارا ہے جس کی خاطر میں نے کائنات بنائی ہے‘ اس کو بھی زخمی کروا دیاتاکہ ان کا یہ جو لوٹ مار سے محرومی کا دکھ ہے یہ مٹ جائے۔ اتنا جاھلانہ تصور ہے اور یہ بڑے بڑے مستشرق بنے ہوئے بکواس لکھتے چلے جاتے ہیں اور مسلمان ممالک کے لوگ بڑے احترام سے ٹوپیاں اتار کے ان کے سامنے بیٹھتے ہیں‘ اپنے بچوں کو بھجواتے ہیں‘ شہزادے بھیجتے ہیں یہاں‘ کہ ان سے تعلیم حاصل کرو یہ تمہیں دین سکھائیں گے‘ دین کیا ہے؟اور احمدی جو ہر میدان میںلڑ رہے ہیں اسلام کے لیئے‘ ان کے لئے پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرنا حرام قرار دے دیا ہے ۔کہتے ہیں تمہارا کیا تعلق ہے ۔ ہم جن کے سپرد ہیں ان کے پاس رہنے دو ۔ احمدی اساتذہ احمدی استانیاں جو دینی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ ان کو اس احتجاج میں نکال دیا کہ یہ ہمارا اسلام بگاڑیں گے اور اسلام سیدھا کرنے کے لئے۔
School of Oriental and African Studies
پہنچتے ہیں‘ جہاں یہ زہر پھیلایا جارہا ہے ۔ Rodwell ان میں سے نسبتاً اب تک جو میں نے دیکھے ہیں حوالے ان میں سے نسبتاًمنصف مزاج ہے اس میں بہرحال کوئی کھولتا ہوا بغض دکھائی نہیں دے رہا ۔ یہ ویری شیری یہ سارے کے سارے یہ تو حد سے زیادہ اپنی بد بختی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور اس پر اب سن لیں جو کسر رہ گئی تھی وہ ایک شیعہ مفسر صاحب میر احمد علی صاحب پوری کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
In the battle of uhad when all the companion of the Holy Prophet fled away
انہوں نے جو تیس بچالئے تھے‘کہتے ہیں سارے گئے۔
Only Ali and a few others stood with him.
‏Ali کہنے کے بعد‘''Only Ali'' کہہ کر یعنی Ali کے مرید رہ گئے یہ بتانا مقصود ہے ۔محمد کے مرید تو سارے بھاگ گئے تھے مگر علی کے ساتھی رہ گئے تھے اس لئے جہاں محمد رسول اللہ کے Compainions کا ذکر ہے وہاںکوئی استثناء نہیں کرتے۔ کہتے ہیں۔
In the bottle of Uhad when all the companions of the Holy Prophet fled away. Only Ali and a few others stood with him and fought turning with a defeat into victory for Islam.
‏ What Victory? ۔ کوئی نظر آئی ہے آپ کو اس کے بعد وہاں۔ وہ defeat جس کے متعلق خود دوسری جگہ کہہ گئے ہیں کہ It was complete defeat.
یہاں چونکہ حضرت علی کا ذکر آگیا ہے ان کے ساتھیوں کا تو کہتے ہیں انہوں نے اس defeat کو victory میں تبدیل کردیا۔ یہ عجیب انداز ہے جو شیعوں کا جو ہر جگہ اسی طرح چلتا ہے لیکن یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت اقدس) اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات کے خلاف جاتا ہے۔ ان کی عظمت کے خلاف جاتا ہے۔ یہ بیوقوف یہ نہیں سوچتے۔ اگر ان کو سچی محبت ہو تو کبھی یہ انداز اختیار نہ کریں۔ کربلا کے قصے پڑھیں۔ یوں لگتا ہے کہ جدھر رخ کیا جدھر نگاہ ڈالی ہے۔ وہاں موتا موتی لگ گئی ہے اور کفار کے چھکے چھوٹ گئے ہیں اور بھاگتے چلے جارہے ہیں۔ جب سارا میدان مارا گیا تو پھر وہ دردناک کیفیت سامنے آتی ہے کہ وہ فتح پتہ نہیں کیسی فتح تھی‘ جس کے نتیجے میں یہ مظلوم شہزادے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اور آپ کے جگر گوشے اس طرح ظالمانہ طور پر شہیدکئے جارہے اور پھر کوئی بھی بس نہیں‘ سب بے اختیاری کا عالم ہے۔ بیوقوفی ہے صرف انہیں جہاں رلانا چاہتے ہو وہاں یہ باتیں کردیتے ہو جہاں جن کو تم عظمت دینا چاہتے ہو جو تمہاری عظمت کے محتاج نہیں ہیں وہ خدا سے عظمت پاچکے ہیں‘ ان کے متعلق غلط تصور باندھنے کے لئے کہ اس طرح وہ لڑ رہے تھے۔ اُس طرح دشمن کے چھکے چھوٹ رہے تھے‘ فرضی کہانیاں بناتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ ذہن ہے جس کی یہ پیداوار ہے یہ الزام۔ کہتے ہیں وہ سب محمد رسول اللہ کے ساتھی جو چھُٹ گئے تو حضرت علی اور ان کے ساتھی کچھ باقی رہ گئے تھے۔ جنہوں نے اس شکست کو ایک فتح میں تبدیل کردیا۔ کونسی فتح تھی بتائیے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس غار میں بیٹھے ہوئے تھے جس میں یہ ہدایت تھی کہ اس وقت کمزوری کی ایسی حالت ہے کہ ’’خدعتہ‘‘ کے خلاف ہے۔ خدعتہکے تقاضوں کے خلاف ہے کہ تم اپنی پوزیشن ظاہر کرو اور وہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی گرج رہے تھے اور پہاڑ سے طعنوں کی بوچھاڑ کررہے تھے۔ یہ فتح تھی جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی قربانیوں نے اس شکست کو بدلا ہے۔ یعنی حضرت علی ؓکا جو مرتبہ اور مقام ہے وہ بہت ہی بلند ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے ہر اس میدان جنگ میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے ہیں‘ مگر ان کو عادت ہے دوسروں کا پائوں کھینچ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوپر کرنے کی کوشش‘ یہ جو ہے یہ منحوس رجحان ہے جس نے امت کو بڑا شدید نقصان پہنچایا ہے اور پھاڑتی چلی جارہی ہے یعنی جو تفرقے کا پہلو ہے اس کو مزید بڑھاتی چلی جارہی ہے۔ اب سپاہ صحابہ دیکھ لیں آپ۔ پاکستان میں کیسی جاھلانہ حرکتیں کررہے ہیں۔ شیعوں کا خون لینا ان کے نزدیک ان الزامات کو دھونے کے مترادف ہے۔ جو صحابہ پر لگائے جاتے ہیں۔ شیعوں کے خون سے کہتے ہیں یہ الزام دھوئیں گے۔ کیسی جاھلانہ بات ہے کبھی کسی خون سے بھی کوئی الزام دھلا ہے۔ الزام اپنے خون سے دھلا کرتا ہے۔ تم اگر شہادت کا خون پیش کرو تو پھر الزام مٹا کرتا ہے۔ ورنہ دوسرے لوگوں کو بیچاروں کا جن کا قصور ہی کوئی نہیں‘ یہ باتیں اپنے علماء سے سنتے ہیں اور لا علم ہیں لاعلمی میں مان جاتے ہیں‘ ان کا خون لے کر تم داغوں کو کیسے دھوئوگے۔ اپنے اوپر اور داغ لگوائو گے ۔ اسلام کے اوپر اور داغ لگوائو گے‘ پس یہ جو باتیں میں شیعہ مفسرین کی بیان کررہا ہوں‘ ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک سپاہ صحابہ یا اس قسم کی قماش کے لوگوں کو اس طرح تقویت دوں کہ تم جو کررہے ہو ٹھیک کررہے ہو۔ نہ یہ ٹھیک کررہے ہیں نہ تم ٹھیک کررہے ہو۔ نہ یہ کربلا کا پیغام سمجھے ہیں نہ تم جانتے ہوکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ ان کو نصیحت کرو ان کے پاس پہنچو‘ ایران میں مبلغ بھیجو۔ دوسرے ممالک میں جہاں شیعہ اس قسم کی باتیں پھیلاتے ہیں‘ اور طاقت کے بل بوتے پر دندناتے ہیں اور کوئی جواب دینے والا نہیں وہاں قربانیاں پیش کرو‘ وہاں بھیجو آدمی کثرت کے ساتھ اور یہاں ایسے مبلغ اور واعظ پیدا کرو جو ان کے حوالوں کو رد کریں جیسا کہ میں انشاء اللہ ابھی آپ کو دکھائوں گا۔ یہ طریق ہے جہاد کا۔ لیکن اختلاف کے نتیجے میں یا گالی دینے کے نتیجے میں بھی قتل و غارت کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے‘ قرآن نہیں دیتا تمہیں اجازت‘ یہ اتنا دور پھینک دیا ہے ان کو یہ تمہاری سابقہ غلطیوں نے پھینکا ہے۔ پہلے بھگت چکے ہو۔ ہلاکو خان کوانہی باتوں نے دعوت دی تھی۔ اگر دوسرے سنی مسلمان اس زمانے کے شیعوں سے علمی مقابلہ کرنے کی بجائے ان پر ظلم نہ کرتے اور بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ان کو گھروں میں زندہ جلا دیا گیا‘ ایسی ظالمانہ حرکت نہ کرتے تو بغداد کی ا ینٹ سے اینٹ نہ بجائی جاتی۔ وہ سارا علم جو مسلمانوں نے صدیوں میںسیکھا تھا وہ دجلہ و فرات میں بہا نہ دیا جاتا۔ ان کے پانی کالے ہوگئے ان کتابوں کے جلنے کی وجہ سے‘ ان کتابوں کی راکھ کی وجہ سے جو اس میں بہائی گئی۔ صرف اس لئے کہ جاھلانہ ردعمل دکھاتے ہو ایک دوسرے سے اختلاف میں قرآن موجود ہے حدیث موجود ہے تاریخ موجود ہے عقل اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ یہ ہتھیار ہیں ان کو لے کر نکلو اور اپنے جھگڑے طے کرو لیکن تلوار بیچ میں لاتے ہو اور وہاں لاتے ہو جہاں کمزور ہے اگلا۔ اگر تلوارمارنی ہے تو ایران پر کیوں نہیں حملہ آور ہوتے۔ پتہ ہے آگے سے جوتیاں پڑیں گی اور مار پڑے گی۔ اس لئے کمزوروں پر غصے نکالنا یہ جہاد بنایا ہوا ہے‘ جہاد کی تذلیل ہے۔ اس سے زیادہ گندہ اور بھیانک تصور جہاد کا کھینچا ہی نہیں جاسکتا کہ جہاں دائو لگے وہاں مار جائو اور جہاںطاقتور ہے مدمقابل وہاں نہ اٹھو۔ جہاد کے اندر تو کمزوری کا مفہوم شرط کے طور پر داخل ہے۔
اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللّہ علی نصرھم لقدیر الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق۔ ان لوگوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے جو پہلے ہی ظلموں کا نشانہ بنائے جاچکے ہیں۔ جو خود تلوار نہیں اٹھا رہے ۔ جن کے خلاف تلوار اٹھائی جاچکی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے وہ تلوار کے ذریعے کاٹے جارہے ہیں‘ ان کو اجازت دی جارہی ہے جو اتنے کمزور ہیں کہ گھروں سے نکال دیئے گئے۔ کس کے خلاف کسی کمزور کے خلاف نہیں ایک طاقتور غالب دشمن کے خلاف جو اتنا بے حیا ہے اپنے ظلموں میں کہ وہ کہتا ہے کہ گھروں سے بھی نکال دو ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ ممولوں کو شہباز سے لڑانے والی بات۔ یہ اجازت ہے۔ پھر کیا حکمت ہے اس اجازت میں۔ حکمت یہ بیان ہوئی۔‘‘
و ان اللّہ علیٰ نصرھم لقدیر
خدا کمزوروں کو اجازت دے رہا ہے مگر خود کمزور نہیں ہے۔ وہ ان کی ’’نصر‘‘ پر قادر ہے۔ پس یہ جہاد نہیں ہے جو تم کررہے ہو‘ مظلوم شیعوں کو جن کا کوئی قصور نہیں ان کو تہ تیغ کرتے ہو‘ ان کو مسجدوں میں گولیاں مار کے ان کو نمازوں کی حالت میں شہید کردیتے ہو‘ وہ تو شہید ہی ہیں جو نماز پڑھتے ہوئے مارے گئے‘ تمہارے ہاتھ سے مار گئے یا کسی اور دشمن کے ہاتھ سے مار گئے۔ نہ اسلام کی خدمت ہے نہ یہ صحابہ کی خدمت ہے نہ یہ صحابہ کی شان تھی کہ ایسی حرکتیں کرتے۔ غم بہت پہنچتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ان کی جب تحریریں پڑھتے ہو تو دل خون ہوجاتا ہے۔ وہ تمہارا دل کا خون ہونا ہی ان داغوں کو دھونے والا ہے۔ پھر تمہارے دل سے دعائیں نکلیں پھر تم علمی جہاد کرو‘ مقابلے کرو‘ان کی آراء درست کرو‘ پیار سے ان کے دل جیتنے کی کوشش کرو۔ عالم اسلام سے جدا سے جدا تر ہونے کی بجائے اکٹھا ہوتا چلا جائے گا۔ اب دیکھئے میر احمد علی صاحب اس نقشے کے بعد پھر نتیجہ کیا نکالتے ہیں۔ کہتے ہیں۔
Did not care for anyone of them behind even for the Holy Prophet.
یعنی وہ ایسے بھاگ رہے تھے ۔ تمام کے تمام صحابہ اور کہتے ہیں۔
The Same deserters after the Holy Prophet posed themselves as the greatest devotees of God the chiefes of the people and the leaders of the faithful.
کہتا ہے جن بھگوڑوں کی ہم بات کررہے ہیں وہ یہ بھگوڑے ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس خطرے کی حالت میں اکیلے چھوڑ دیا اور ان سے بے وفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بند کرلینے کے بعد یہ لوگ مومنین کے امیروں کے طور پر ابھرے اور مسلمانوں کے لیڈر بن بیٹھے اور pose یہ کیا کہ گویا ہم ہی ہیں جو خدا کی طرف مسلمانوں کی قوم کی رہنمائی کے لئے مقرر فرمائے گئے ہیں۔ کون لوگ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اس مضمون کو میں آگے پھر دوبارہ لوں گا اور تفصیل سے اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالوں گا مگر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ
‏The cat is out of the bag.
ان کو محمد ؐ رسول اللہ کی desertion کا غم نہیں ہے ۔ غم یہ ہے کہ خلیفہ کیوں نہیں بن گئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں پہلے خلیفہ نہ بنے۔ یہ دکھ ہے اس کے سوا کوئی دکھ نہیں۔ غیظ و غضب جو ہے وہ اس محرومی کے احساس سے پیدا ہوا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ نے ان کی بھاری اکثریت نے جوبعد میں اجماع اختیار کر گئی‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پہ کیوں بیعت کرلی‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیوں خلیفہ قبول نہ کیا ۔ یہ مضمون آگے جاکر مزید ‘ جب یہ گفتگو چلے گی پھر میں انشاء اللہ پیش کروں گا۔
جن خلفاء کو یہ بھگوڑہ قرار دے رہے ہیں‘ جن کے خلاف یہ زبانیں دراز کررہے ہیں اور جو اھلسنت مسلمان ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے دل پر چرکے لگا رہے ہیں۔ ان کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تو پوچھو کہ کیا تھا؟ میں سر دست یہ پیش کرتا ہوں باقی دلائل بعد میں آئیں گے۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر غزوہ احد کے وقت 28 سال تھی‘ اور ساڑھے سات مہینے۔ پس ان کا بڑھ بڑھ کر جنگ میں حصہ لینا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل پر ایک قابل فہم بات ہے ویسے بھی ان کی عمر 50 کے لگ بھگ تھی‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس وقت‘ اور یا اس سے کچھ زائد‘ کم نہیں تھی کیونکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں زیادہ بھی بتائے جاتے ہیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ بڑے ہیںیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟۔ انہوں نے کہا بڑے تو وہ ہیں لیکن عمر میری زیادہ ہے۔تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ 52 سے اوپر ہوں گے اُس وقت۔ اب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا‘ دوسروں کا ذکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سنیئے۔ (بحوالہ سوانح عمری علی ابن ابی طالب صہ477‘ مولفہ مولانا عبید اللہ صاحب بسمل)۔ حضرت علامہ عبید اللہ صاحب بسمل ایک چوٹی کے شیعہ عالم تھے اتنے بزرگ اور اتنے علم میں گہرے اور متبحر کہ جب یہ احمدی ہوگئے تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہی نہیں‘ بعدمیں پارٹیشن تک‘ پارٹیشن کے بعد بھی ان کی بعض کتب ا بھی تک تدریس کے طور پر شیعہ مدرسوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔ کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک شیعہ دوست گفتگو کے لئے جب میں وقف جدید میںہوتا تھا تشریف لائے تو گفتگو کے بعد انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اللہ کے فضل سے احمدی ہوگئے۔ اس فیصلے کے بعد انہوں نے بتایا کہ اب میںپہلے آپکو بتایا نہیں کرتا تھا کہ پہلے وہ ایک شیعہ عالم تھے انکا مجھے عہدہ یاد نہیں مگر وہ شیخوپورہ کے کسی گائوں یا فیصل اباد کے کسی گائوں‘ ان کے بازو کے علاقے کے تھے کہیں کے‘ انہوں نے بتایا کہ میں شیعوںمیں یہ مرتبہ رکھتا ہوں‘ عالم ہوں‘ آج میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ابھی تک عبید اللہ صاحب بسمل کی کتب ہمارے مدرسوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔ اتنا انکا رعب ہے ان کے علم کا اور ہمیں یہ لوگ بتاتے نہیں ویسے مجھے تو کہتے ہیں پتہ لگ گیا ہے لیکن بتاتے نہیں کہ وہ کون تھا اور بعد میں کیا ہوا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا اور ان ساری عزتوں کو ان کے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا جو ا نکو اس زمانے میں شیعہ مسلک میں حاصل تھیں۔ یہ ان کی کتاب کا حوالہ ہے۔ یعنی کسی معمولی آدمی کا حوالہ نہیں ہے۔فرماتے ہیں۔
’’البزار‘‘ نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا۔ بتائو کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ جواب دیا کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ پھر میں سب سے زیادہ بہادر کیسے ہوا؟ تم یہ بتائو کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جناب ہم کو نہیں معلوم‘ آپ ہی فرمائیں اب۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد کیاکہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘ یہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بریکٹ میں ہے‘ اس وقت یا وہ وفات کے بعد کا واقعہ ہے‘ وہ مجھے پتہ نہیں۔ اسلئے اگر تو آپ کی زندگی میں سوال تھا تو پھر رضی اللہ نہیں کہا ہوگا‘ یا ممکن ہے صحابہ قرآن کے اس فیصلے کے پیش نظر کہ ’’رضوان اللہ علیھم‘‘ ہیں وہ لوگ‘ زندگی میں بھی کہہ دیتے ہوں۔اب تو رواج یہ ہے کہ وفات کے بعد رضی اللہ کا محاورہ بولا جاتا ہے۔ خیر اس کی تفصیل بے تعلق ہے۔میں آگے چلتا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد کیا کہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ سنو ! جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائباں کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کردے۔ بخدا ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہ ہوسکی۔ اگر کسی نے ایسی جرات کی بھی تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نرغے میں لے لیا‘ اور وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم ہی وہ ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے۔ خدا کی قسم کسی کو مشرکین سے مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے‘ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخص کو ایذا پہنچا رہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے۔ یہ فرما کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی چادر اٹھائی‘ چادر منہ پر رکھ کر اتنا روئے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی بھیگ گئی اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے‘ اے لوگو بتائو ! کہ مومن آل فرعون اچھے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اچھے ہیں۔ آل فرعون سے جو لوگ ایمان لائے انہوں نے اپنے پیغمبر پر اس قدر جانثاری نہیں کی جتنی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے۔ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ لوگو ! جو اب کیوں نہیں دیتے۔ خدا کی قسم ! ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک ساعت آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر ہے اور بڑھ کر ہے ۔ اس لئے کہ وہ لوگ اپنا ایمان چھپاتے پھرتے تھے اور ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۹۹‘ ۱۰۰ مترجم ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی‘ کراچی‘ اشاعت اپریل ۱۹۸۷ئ)
اب یہ دیکھ لیجئے۔ اس کے بعد کیا گنجائش رہ جاتی ہے‘ ان لوگوںکی بد زبانیوں کی۔
جن کے متعلق کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حق دار تھے اور انہوں نے غصب کرلیا ان کا حق‘ ان کے متعلق سُن لیجئے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے بیعت کرنے میں کچھ توقف اور تردد ہوا‘ یہ درست ہے‘ مگر کچھ دنوں کے بعد خود چل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئے اور بیعت کرلی اور پھر نہایت اخلاص اور پختگی اور مومنانہ شان سے اپنے عہد بیعت پر قائم رہے۔ یہ شیعہ کتاب منار الھدیٰ مولفہ شیخ علی البحرانی صہ ۲۷۳ پر درج ہے۔ تو اسی طرح شرح نہج البلاغہ جو مشہور مستند کتاب ہے شیعہ کتب میں یہ ابن ابی حدید‘ اس کے جلد ۲‘ صہ ۷۷‘ ۵۸۶ پر درج ہے‘ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے مجوزہ اصحاب شوریٰ میں بھی آپ شامل تھے۔ یعنی جن لوگوں سے مشورہ لیا جاتا تھا حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں‘ ان میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پورا تعاون کرتے ہوئے شامل رہے۔ سفر بیت المقدس میں حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو اپنا قائم مقام منتخب فرمایا۔ نیز فرمایا کرتے کہ ہم میں سے مقدمات کا بہتر فیصلہ کرنے والے علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ یہ بھی ان کے آپس کے رشتے تھے۔ شیعوں کی مستند کتاب ناسخ التواریخ جلد ۲‘ کتاب دوم صہ ۴۴۹ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرنے کا ذکر ہے اور یہ ناسخ التواریخ مستند شیعہ کتاب ہے۔ یہ سنیوںکی کتاب نہیں ہے۔ لکھا ہے۔
ثم مد یدہ فبایع
کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر اپنا ہاتھ خود آگے بڑھایا اور بیعت کرلی۔ شرح نہج البلاغہ مولفہ ابن ابی حدید جز ۲ ‘ صہ ۷۵ پر لکھا ہے۔
قال علی ؓ و زبیرؒ ماقضینا الا فی مشورۃٍ و انا لنری ابا بکر احق الناس بھا انہ لصاحب الغار و انا لنعرف لہ سننہ ولقدامرہ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم بالصلوۃ بالناس وھو حیی۔
کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا‘ دونوں نے ‘ یہ روایت بیان کی ہے ہم نے سوائے مشورہ کے اور کوئی فیصلہ نہیں کیا یعنی مشورہ کے بعد اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ہم یقینا ً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو لوگوں میں سب سے زیادہ اس امر یعنی خلافت کا مستحق سمجھتے تھے۔ کیونکہ آپ صاحب غار ہیں یعنی غار میںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور ہم آپ کے اچھے طریقوں یا نیک سنت سے واقف ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں انہیں ہی لوگوں کو نمازپڑھانے کا ارشاد فرمایا تھا۔
اب نور بخشی طریقہ ہے جو زیادہ تر گلگت وغیرہ کی طرف پایاجاتا ہے یعنی شیعہ فرقہ ہے۔ ان کے امام نور بخش اپنی کتاب ’’شجرالاولیائ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں کئی دن رات مبتلا رہے جب نماز کے لئے اذان ہوتی تو فرماتے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائیں‘ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ نماز اسلام کا ستون اور دین کی بنیاد ہے۔ تو ہم نے اپنی دنیا کیلئے بھی اس کو پسند کرلیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے دین کے لئے پسند کیا تھا۔ پھر ہم نے ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ہی کی بیعت کرلی ۔
یہاں ایک فقرہ قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ
ہم نے اپنی دنیا کے لئے بھی اسی کو پسند کرلیا۔ جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کیلئے پسند کیا تھا۔
اس لئے یہ جو شیعہ بعض الزام لگاتے ہیں کہ ایک دینوی مجبوری تھی۔ اس کا جواب اس روایت میں موجود ہے۔ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دین کے لئے تو بہرحال وہی موزوں تھے‘ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال سے پہلے کھول دیا ہم پر کہ تمہارے دین کے لئے یہی رہنما ہے۔ تو خلافت میں چونکہ دین اور دنیا دونوں موضوع اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اس زمانے میں خصوصیت سے جب کہ اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی اس وقت دینی رہنما اور سیاسی رہنما دو الگ الگ وجود نہیں تھے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ روایت منسوب ہوئی ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ دین کے معاملے میں تو ہمیں تردد تھا ہی نہیں کیونکہ یہ بات کھل چکی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے وصال سے پہلے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کو ترجیح دے دی تھی۔ ایک تردد جو تھا وہ ‘ دینی تردد نہیںتھا‘ جیسا کہ پہلی روایت سے بھی ملتا ہے۔ وہ یہ تھا کہ یہ کمزور انسان‘ نرم دل‘ یہ اس لائق ہوگا کہ ان نئے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ کئی قسم کے فتنے پیدا ہورہے تھے کئی قسم کی باتیں ہوا میںگھوم رہی تھیں‘ غیر طاقتوں کے دشمنوں کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا توایسے موقع پر یہ دنیاوی اورسیاسی ذمہ داریاں جو خلافت کے ساتھ لگ چکی ہیں‘ ان کا اہل ہوگا کہ نہیں‘ مگر سب سوچنے کے بعد ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ جس کو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کا سردار بنا دیا ہے۔ ہماری دنیا کا بھی وہی سردار ہوگا اور ہم ان دونوں کے درمیان تفریق نہیں کریں گے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت خلفائے ثلاثہ‘ باقی خلفاء کی بھی بیعت کی ہے‘ سب کی۔
فمشیت عند ذلک الی ابی بکرو بایعتہ و مھدت فی تلک الاھداف حتی ظھر الباطل و زھق و کانت کلمتہ اللّہ ھی العلیا ولو کرہ الکافرون فتول ابوبکر ؓ تلک الامور فصدروقار ب و اقتصدا و صحبتہ مناصحالہ و اطعتہ فی ما اطاع اللّہ فیہ جاھدا فما طمعت ان لو حدث بہ حدث وھو حی و یرد الی الامر الذی بایعتہ فیہ۔
منار الھدی پھر وہی شیعہ کتاب ہے جس کا حوالہ ہے۔پس اس وقت میں خود چل کر ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اور ان کی بیعت کرلی اور ان تمام حوادث کا مقابلہ کیا یعنی فتنہ ارتداد کا۔ یہاں تک کہ باطل راہ سے ہٹ گیا اور بھاگ گیا اور خدا تعالیٰ کا کلمۂ تمجید بلند ہوا‘ خواہ کافر اسے ناپسند ہی کریں۔ ابوبکر ان امور کے والی رہے اور ان سے دوستی‘ اعتدال اور میانہ روی کا طریق اختیار کیا۔ کہتے ہیں جب تک ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ان امور کے والی رہے میں نے ان سے دوستی اور اعتدال اور میانہ روی کا طریق اختیار کیا اور میں نے خیر خواہی سے ان کا ساتھ دیا اور ان امور میں جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی کوشش کی‘ ان کا فرمانبردار رہا‘ یہ معروف میں اطاعت کروں گا ، یہ وہ والا مضمون بیان ہو رہا ہے اور مجھے کبھی طمع پیدا نہیں ہوئی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو کوئی حادثہ پہنچے اور امر خلافت جس کی میں نے بیعت کی ہے میری طرف لوٹ آئے۔ یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا تقدس کا مقام‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ کچھ دیر توقف کیا تھا بیعت میں‘ آپ کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ کچھ دیر توقف کیا تھا بیعت میں‘ آپ کی عظمت اس بات میں ہے کہ بیعت کی اور کامل اخلاص کے ساتھ بیعت کی اور کامل اخلاص کے ساتھ بیعت کی اور ادنیٰ بھی اس بات کی حرص نہ کی کہ کل کو معمر بزرگ فوت ہوجائے تو امر خلافت میری طرف لوٹے۔ اور یہ لوگ ظالم یہ لکھ رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حقدار تھے اور وہ لوگ جو بھگوڑے تھے جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قطعاً پرواہ ‘ نہیں کی‘ ان کو پیچھے چھوڑ کر خطرات میں‘ اپنی جان کی فکر میں مبتلا رہے‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بند ہوئیں تو یہ غاصب لوگ خلافت پر قبضہ کر بیٹھے اور مومنوں کے امیر بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ جن مومنوںکے امیر بنے‘ ان میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تو تھے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ اورمقام وہی ہے جو تم سمجھتے ہو‘ ایسے بہادر‘ ایسے نڈر کہ اپنی جان کی کبھی بھی پرواہ نہیں کی تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کیوں کی؟ مجھے ایک دفعہ ایک شیعہ عالم نے اس سوال کے جواب میں یہ کہا کہ تم نے وہ روایتیں نہیں پڑھی ہوئیں کہ جب اول خلفاء کے زمانے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر دبائو ڈالنے کے لئے پیغام بھیجے گئے‘ ان کے گھر کا گھیرا کیا گیا‘ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے گھر کو آگ لگادی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے دبائو اور یہ مسلسل ایک زندگی اجیرن کر دینا۔ اس کے بعد تم کیا سوچتے ہو کہ کیا کرتے؟ مجبوری تھی‘ بے اختیاری تھی۔ میں نے کہا تمہیں کوئی حق نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام اس حد تک گرائو۔ میں ایسے علی رضی اللہ تعالی عنہ کا تصور کر ہی نہیں سکتا‘ ایک لمحہ کے لئے نہیں کرسکتا جو اتنا بہادر ہو کہ اس نے ساری زندگی موت کی قطعاً پرواہ کئے بغیر اصولوںکی خاطر ہر خطرے میں چھلانگ لگائی ہے۔ جس کا بہادری کا کردار بے داغ رہا ہو۔ وہ اپنی جان کی حفاظت کے تصور سے وہ آسمانی حق چھوڑ دے جو خدا نے اس کے سپرد کیا ہو‘ وہ وصی ہو۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی ہوکہ یہ تم ہو جو خلافت کے حقدار ہو گے اور وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جاگیر جو آپ نے خود عطا کی ہے وہ مسند جو خدا نے آسمان سے اتارا ہے ان کے لئے‘ اس سے تو بے پرواہ ہوں اور جان کے خطرے سے وہ اپنے ہاتھ اس سے کھینچ لیں‘ اور باغ فدک کے معاملے میں جو اس دنیا کا معاملہ ہے‘ اس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے ایلچی بن بن کر اس غاصب کے پاس پہنچیں جس کو تم غاصب کہتے ہو‘ اور کہیں چلو تم نے میرے روحانی منصب تو غصب کرلیا‘ کوئی بات نہیں لیکن یہ باغ تو دے دو۔ کیا مرتبہ رہ جاتا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ‘ کیا یہ تصور ہے تمہارے نزدیک عظمتوں کا۔ سب سے بڑا ظلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تم لوگ کررہے ہو۔ ایک لمحہ کے لئے بھی میں سوچ نہیں سکتا کہ روحانی منصب کے غاصب کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہوں‘ ہاتھ بڑھا کر کہیں میں ہر بات میں تمہارا مطیع رہوں گا۔ اے منافقوںکے سردار نعوذ باللہ من ذلک‘ اے وہ جس نے خدا سے بغاوت کی اور رسول سے بغاوت کی اور آسمانی حق پر قابض ہو بیٹھے ہو‘ لو میرا ہاتھ‘ تمہاری بیعت اطاعت میں داخل ہورہا ہوں اور جہاں دنیا کے باغ کا سوال ہوا وہاں اسی غاصب کی عدالت میں کہ چلو یہ تو دلوا دو‘ اتنا تو انصا ف کرو‘ اتنا بھیانک تصور ہے میں حیران ہوں کہ شیعہ سوچتے کیوں نہیں‘ جو تصور بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات کے خلاف ہے‘ آپ کی عظمت کے خلاف ہے‘ احمدیت اس تصور کو دھکے دیتی ہے‘ یہاں سنی یا غیر سنی کی بحث نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو محبت اور عشق ‘ احمدیت کو عرفان کے نتیجے میں حاصل ہے‘ اس کے نتیجے میں ہم کامل یقین سے اعلان کرتے ہیں کہ ہر کردار کی کمزوری سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کردار پاک تھا اور آپ کی ذات بے داغ تھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ایک کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت کی ہے‘ انصاف اور تقوٰی کے ساتھ بیعت کی ہے اس میں کوئی تقیہ کی بحث نہیں ہے۔ سچے اور کامل مومن تھے اور وفا کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتے رہے ہیں اور جس سے بیعت کی ہے اس کو اپنے سے بالا تسلیم کرلیا ہے۔ دین میںبھی اور دنیا میںبھی۔ خدا کے نزدیک کیا مقام ہے۔ یہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر دنیا میں تین بار ان آزمائشوں میں سے گزرے اور ثابت قدم رہے۔ اس کے خلاف تم جو بات کرتے ہو‘ جھوٹی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
باقی جو دوسری باتیں ہیں وہ انشاء اللہ بعد میں لوں گا کیونکہ اب میرا خیال ہے 2 بجے اگر ہم نماز پڑھ لیں تو ظہر کی نماز اور عصر کی نماز میں فرق ڈال سکتے ہیں۔ کیوں جی ٹھیک ہے ؟ یعنی عصر کی نماز اپنے وقت پر 3 بجے ہوجائے گی۔
صرف میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری کیفیت تو اس وقت یہ ہے کہ ایک طرف دشمنان اسلام ‘ جب اسلام پر حملہ کرتے ہیں تو اسلام کے دفاغ کیلئے بھی کوئی ان کا مفسر آگے نہیں آتا۔ احمدی ہی ہیں جو سینہ سپر ہو کر ان ظلم کے برچھوں کو اپنے سینوں پر لیتے ہیں۔پھر جب مسلمان کہلانے والے عمومی طور پر اسلام کے پاکبازوں اور عظیم وجودوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پاکباز صحابہ رضوان اللہ علیھم کو جو بہت ہی عظمت کا مقام رکھتے تھے‘ خدا کے حضور ایک عظیم قرب کا مقام رکھتے تھے‘ ان پر اپنی زبانوں سے برچھے چلاتے ہیں۔ اس وقت بھی احمدی ہی ہیں جو اپنے سینے تان کر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور اجازت نہیں دیتے تمہیں اس قسم کی ظالمانہ کارروائی کی۔ ہماری کیفیت تو وہی ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس شعر میں بیان
غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں
اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں
…………………………………………
…………………………………………
وہ والی بات تو یہ طرز کلام ہے۔ کوچے میں شورکے بغیر بات بنتی کوئی نہیں۔یہ ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ کہ اپنے درد کو جب یہ باتیں سنتے ہیں اور سینے میں محسوس کرتے ہیں۔ اس درد کو دعاؤں میں بدلیں۔ اور یہ نہ سمجھیں ہم نے جواب دے دیا ہے۔ یہ بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں جو اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں۔ اور ان کے آپس میں سمجھوتے ہیں اور اسی طرح اسلام کے اندر سے بھی اسلام پر حملہ آور طاقتیں ہیں۔ ان کا جواب دینے کی ہم میںطاقت نہیں ہے جب تک خداکی مدد شامل نہ ہو۔ وہ رعب عطا نہ ہو جس رعب کی بحثیں ہم کر رہے ہیں۔ اور وہ س وقت حاصل ہو گا جب اس کے کوچے میں شور مچائیں گے۔ پس اس رمضان میں خصوصیت سے ویسے تو ہر رمضان میں یہی مضمون جاری رہے گامگر چونکہ اس وقت اسلام کے خلاف حملوں کا تذکرہ ہو رہا ہے اور ہم ایک دفاعی کارروائی میں مصروف ہیں۔ اس لئے دعاؤں میں اللہ کے حضور، اللہ کے کوچے میں شور مچائیںاللہ تعالیٰ ہم کو توفیق عطا فرمائے استطاعت بخشے کہ ہم ان طاقت ور قوموں سے ٹکرا لیںاور اسلام کو غلبہ نصیب ہو اور اسلام کا یوں بول بالا ہوں اور سچائی غالب آجائے اس بات کو حضرت مصلح موعود ؓ ؔر پر یوں بیان کرتے ہیں
کہ پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو
جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں
ہم نے اس کام سے باز نہیں آنا جو مرضی ہم پر گذر جائے ناممکن ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر حملوں کو ہم سنیں اور دیکھیں اور خاموش رہیں۔ اس لئے وہ سر زمین جو اس وقت عیسائیت کا گڑھ ہے اس سرزمین سے میں اعلان کرتا ہوں مجھے کوئی پراہ نہیں ہے عواقب کی۔ ہم صداقت کے خلاف لڑیں گے اور سب سے زیادہ اس وقت ہماری طبیعت کا ہیجان پیدا ہتا ہے جب محمد رسول اللہﷺ پر اور آپ کے مقدس صحابہ پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ہم ضرور ان کا جواب دیں گے اور دیتے چلے جائیں گے جب تک ہمارے دم میں دم ہے جب تک خون کا آخری قطرہ ہمارے جسم میں موجود ہے۔ ہم اس مقدس فریضہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے انشاء اللہ اس جہاد میں دعاؤں کے ذریعے میری مدد کریں اور میں دعاؤں کے ذریعے آپ کی مدد کروں گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 6رمضان المبارک
17 فروری 1994ء
درس سے پہلے اہل ربوہ سے ایک معذرت کرنی ہے ۔ کل مجھے رات کو ان کی مولوی خورشید صاحب کی فیکس ملی ہے کہ اذانوں کے معاملہ میں کچھ کنفیوژن پیدا ہوگیا ہے وہ کہتے ہیں یہاں ایک اذان دیتے ہیں آدھا گھنٹہ پہلے اذان کے وقت سے۔ہمارے ہاں یہاں سے بھی آواز سنائی دیتی ہے۔ایک شاید 5 منٹ پہلے اور پھر ایک ربوہ کے وقت پر۔ اور شاید اور بھی دیتے ہوں۔ کہتے ہیں کچھ بڑا کنفیوژن پیدا ہورہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہورہا ہے تو میں معذرت کرتا ہوں۔ جو بھی ہوا ہے۔ اصل میں واقعہ یوں ہوا کہ اس سے پہلے ایک یہ سوچ تھی کہ پاکستان کے وقت کے لحاظ سے کراچی والوں کے لئے بھی اذان دی جائے اور لاہوروالوں کے لئے بھی اور پشاور والوں کے لئے بھی اور کوئٹہ والوں کے لئے بھی۔ اس طرح سب صوبے اپنے اپنے وقت کی اذان سنیں گے یعنی ان کے مرکزی شہروں میں اس خیال کے بعد پھر یہ خیال بدل گیا اور ان کو میں نے واضح طور پر سمجھا دیا کہ صرف ربوہ کی اذان دینی ہے ربوہ کے وقت کے لحاظ سے یہ بتا کر کہ کیوں ربوہ کو خاص طورپر چنا جارہا ہے۔ تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ پاکستان کے ملاں کو کس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے جو اتنی دردناک سزائیں دی جارہی ہیں کہ اس کی سزا موت ہونی چاہئے۔ 295 سی لگنی چاہئے۔ اس کے اوپر اور موت کے سوا کوئی سزا ہونی ہی نہیں چاہئے۔ وہ جرم ہے کیا؟ وہ یہ ہے کہ اللّہ اکبر اللّہ اکبر اللّہ اکبر اللّہ اکبر اشہد ان لا ا لہ الا اللّہ اشہد ان لا ا لہ اشہد ان محمد ارسول اللّہ حی علی الصلوۃ حی علی الفلاح وغیرہ وغیرہ تو یہ مختلف زبانوں میں بتائیں کیونکہ 24 گھنٹے ایک بڑی بھاری تعداد لوگوں کی ہے جو اپنے اپنے ملکوں میں اپنے وقت کے لحاظ سے ا ن پروگراموں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ بعضوں کامشغلہ یہی ہے کہ بیٹھے ہوئے ایسے پروگرام دیکھتے رہتے ہیں۔ جہاں ان کی طرف چنانچہ ان کی طرف سے ہمیں خط ملتے رہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا اور بڑا لطف آیا۔ یاہمیں مزید لٹریچر چاہئے تو دنیا بھر میں اس اعلان کی خاطر یہ تراجم کرواکر یہ اس اذان سے پہلے اور کچھ بعد میں پیش کئے جاتے رہے۔ اس سے بھی کچھ کہتے ہیں تھک گئے ہیں لوگ کیونکہ وہ وقت ایسا ہوتا ہے خاص طور پر دعا اور استغفار کا۔ اور اس وقت یہ جو اعلان شروع ہوجاتے ہیں اتنے زیادہ ہمیں پسند نہیں آئے تو اب جوہمارے جسوال صاحب اس وقت ارتھ اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے اس پروگرام ، بات کو سن رہے ہوں گے۔ ان کو ہدایت ہے کہ اس پہلی ہدایت کو جو کنفیوژن کے نتیجہ میں زیر عمل آگئی حالانکہ تبدیل ہوچکی تھی اس کو بند کرائیں۔ صرف ایک اذان ہوا کرے جو ربوہ کے وقت کے مطابق ہو۔ اور تہجد کے وقت اور افطاری کے وقت یہ اعلان نہ ہوا کریں اور دوسرے اوقات میں بے شک یہ اعلانات کا سلسلہ جاری رکھیں سوائے اس کے کہ اس کے متعلق بھی یہی مشورہ آئے کہ اسکو بھی بند کردیا جائے۔ ٹھیک ہے۔ آپ بھی سن رہے ہیں نا۔ اچھا آپ کو پہنچا دی تھی ناں وہ ہدایت پہلے۔ اپ پہلے ہی بھجوا چکے ہیں ان کو اچھا جزاک اللّہ ۔ یہ کہاں سے آیت سے آج شروع ہونا ہے۔ 155 ۔ پہلی ۔ 154 اس سے اگلی ہے نا۔ اعوذ پڑھ کر شروع کرتا ہوں۔ (آل عمران154,155)
آج کی تلاوت میں جو پہلی آیت تھی وہ صرف مضمون کے تسلسل کے لئے پڑھی گئی ہے۔ ورنہ اس پر تقریباً گفتگو ختم ہوچکی ہے سوائے اس کے کہ بعض دفعہ دوبارہ کسی تعلق میں پھر وہی مضمون بیان کرنا پڑتاہے ۔ جو آیت آج زیر بحث آئے گی وہ ثم انزل علیکم من بعد الغم سے شروع ہوتی ہے۔ ترجمہ اسکا یہ ہے کہ پھر اللہ تعالی نے تمہارے غم کے بعدتم پرامن اتارا یعنی نیند یا اونگھ ۔
امنۃ نعاسا کی مختلف ترکیبیں پیش کی گئی ہیں ۔ایک دوسرے کا بدل قرار دیا گیا ہے ۔ بیان بھی بتایا گیا ہے غرضیکہ مختلف پہلووں سے اس کے جو تراجم ہیں ان کا خلاصتہً معنی یہ بنے گا کہ غم کے بعد تم پر ایسا سکون نازل فرمایا جسے نیند کہہ سکتے ہیں ۔یا ایسی اونگھ عطا کی جو امن کی حامل تھی یا وہ امن دیا جو نیند کا سا اثر رکھتا تھا یا نیند میں شامل تھا ۔
یغشی طائفۃ یہاں نعاسا سے مراد گہری نیند نہیں بلکہ اونگھ سے (ملتی )مشابہ نیند ہے یغشی طائفۃ منکم جو تم میں سے ایک فریق کو ڈ ھانپ رہی تھی اس پر سایہ فگن تھی وطائفۃ قد اھمت انفسہم لیکن ایک ایسا گروہ بھی تھا جو اپنے نفوس کے غم میںمبتلا تھا ۔غموں میں اور فکروں میں مبتلا تھا ۔ان کے نفوس نے ان کو اپنی ہی فکروں میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ یظنون باللہ غیر الحق وہ اللہ پر ناحق گمان کر رہے تھے ظن الجا ھلیتہ جہالت کا ظن ۔ یہ قبل از اسلام زمانہ کی جیسی باتیں وہ کیا کرتے تھے وہی سوچیںپھر ان کے تصورات میں آدھمکیں ۔ اور ویسے ہی ظن انہوں نے اللہ پر شروع کردئے۔ یقولون ھل لنامن الامر من شی وہ یہ کہتے ہیں یا کہنے لگے کہ کیا امور سلطنت یا امور سیاست یا امور حکومت یا اہم فیصلہ طلب امور میں یہ سارے ترجمے اس کے ممکن ہیں۔ ہمارا کوئی بھی دخل نہیں۔ یا ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ قل ان الامر کلہ للہ۔ تو کہہ دے کہ ہر فیصلہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور تمام حکومت اس کو زیبا ہے کسی اور کا کام حکومت کرنا نہیں۔ تمام فیصلہ طلب امور وہی طے فرمائے گا۔ اور بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ یخفون فی انفسہم ما لا یبدون لک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ کیاہمارا ان معاملات میں کوئی دخل نہیں تو اس کے پیچھے کچھ اور باتیں چھپائے ہوئے ہیں اور وہ کیا ہیں؟ وہ یہ ہیں تجھ پر ظاہر نہیں کرتے۔ یقولون لو کان لنامن الامرشی ماقتلنا ھھنا آج جو ہم اس میدان میں قتل ہوئے ہیں۔اگر ہماری بات چلتی اگر فیصلہ طلب امور میں ہمارا عمل دخل ہوتا تو یہ نتیجہ ظاہر نہ ہوتا۔ یہاں ’’ہم جویہاں قتل ہوئے ہیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے ساتھی۔ یعنی بحیثیت قوم ’’ہم‘‘ کی ضمیر سب کی طرف جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ سب قتل ہوگئے مطلب ہے ہمارا جو یہ نقصان پہنچا اور ہمیں جو نقصان پہنچا اورایک حصہ ہمارا قتل ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مشوروں کے خلاف کہ ہم سے مشورہ لئے بغیر کچھ فیصلے ہوئے ہیں۔ اوراس کے نتیجہ میں ایسا ہوا ہے قل لو کنتم فی بیوتکم لبرزالذین کتب علیھم القتل الی مضاجعہم تو کہہ دے کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی بیٹھے رہتے تو ضرور تم میں سے وہ جن پر قتل مقدر ہوچکا تھا اپنے بستروں سے الگ ہوکر اپنی قتل گاہوں کی طرف چلے آتے۔ ولیبتلی اللّہ ما فی صدور کم اور یقینا اللہ تعالیٰ ان باتوں کو یبتلی اللہ ما ترجمہ میں ابھی ٹھہر کے کرتا ہوں ابتلا پیدا کرتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے۔ یبتلیسے مراد کسی چیز کو کھنگال کر اور اچھال کر اورچھان پھٹک کر اس کی اصل حقیقت کو ظاہر کرتا ہے تو فرمایاکہ اس طریق پر جو تمہاری سوچیں ہیں ان سے تمہاری اندرونی حقیقت ظاہر ہوگئی ہے۔ اور خداتعالیٰ اس طریق پر مشکلات میں ڈال کر اور خطرات میں مبتلا کرکے تمہاری سوچوں پر بھی ایک زلزلہ پیدا کردیتا ہے اور وہ جب جوش میں آتی ہیں تو اندر کے دبے ہوئے خیالات اچھل کر باہر آجاتے ہیں۔
فی صدورکم ولیمحص ما فی قلوبکم اور یہ محض اس لئے نہیں ہے کہ تم میں سے جو گندے ہیں اندر سے ان کا گند نکالا جائے اور ظاہر کیا جائے بلکہ اس طریق پر اصلاح بھی ہوتی ہے اور صفائی اور پاکیزگی بھی ہوتی ہے چنانچہ اس طرح ہم تمہیں صاف بھی کردیتے ہیں یہ بہت وسیع نفسیاتی مضمون ہے۔ ایک انسان جب ابتلاء میں پڑتا ہے اور کئی قسم کے خیالات اس کے دل میں جنم لینے لگتے ہیں اس وقت وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے اندر یہ شبہات موجود تھے جیسے موسم آئے تو بعض دبے ہوئے بیج بھی پھوٹ پڑتے ہیں اس طرح بیج کے طور پر بعض خیالات لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں اور وہ خود ان سے بے خبر ہوتے ہیں لیکن جب موسم آتا ہے تو ہر طرح کے بیج دبے ہوئے پھوٹ پڑتے ہیں اور اس وقت موقع ہوتا ہے زمیندار کے لئے کہ گندے بیج کو وہیں کچل دے اور نشوونما سے پہلے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اس کی تلفی کرے اور جو نہیں کرتا اس کی فصلوںپروہ چھا جاتے ہیں تو یہ دونوں مضامین ہیں جو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ابتلاء کے وقت میں کچھ بیج جو مخفی تھے وہ پھوٹ پڑتے ہیں اور وہ ہوش مند زمیندار جو جانتے ہیں کہ اگر یہ اسی طرح پنپتے رہے تو ہماری تمام کھیتی کو کھا جائیں گے اور ہم اپنی محنت کے پھل سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ پھر اس وقت ان کو تلف کرتے ہیں اور نیا بیج نہیں بننے دیتے ان کا۔ جو لوگ سستی کرتے ہیںیا بے حس ہوتے ہیں یا سست یا ویسے بے اختیار ہوتے ہیں بعض دفعہ کھیتی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اختیار ہی نہیں ہوتا اس کی تلفی کا۔ ان کے وہ پودے پھر مزید بیج بناتے ہیں پھر وہ بیج گرتے اور پھیلتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ ایک زمیندار کا جرم سارے علاقے کے لئے وبال بن جاتا ہے۔ اس کی کھیتی سے وہ بیج پھیلتے اور سارے علاقے کو اسی طرح کی جڑی بوٹیوں اور خاردار جھاڑیوں میں تبدیل کردیتے ہیں تو یہ مضمون ہے لیمحصکم تمہیں اللہ تعالیٰ اس طر ح موقع عطا فرماتا ہے کہ تمہاری صفائی کرے اوراس صفائی سے ظاہر ہے کہ نیک اور متقی لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔واللّہ علیم بذات الصدور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو سینوں میں ہے بعض دفعہ ایسی آیات ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے یعلم تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے یہ آیت بتا رہی ہے کہ لیعلم کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اللہ جان لے مراد یہ ہے کہ جو اللہ جانتا ہے وہ تمہارے لئے بھی ظاہر ہوجائے۔ اور تم بھی پتہ کرلو کہ وہ کیا ہے۔ تو لیعلم کا مضمون کا معنے ان جگہوں پر اللہ کا علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اللہ کے علم کا منظر عام پر ابھرناہے۔ وہ جو اللہ کو مخفی علم تھا غائب کا۔وہ شاہد میں نکل آئے اور شاہد کی دنیا میں ظاہر ہوجائے۔ یہ مراد ہوتی ہے اس سے۔ تو فرماتا ہے کہ ویسے اللہ تمہارے سینوں کی ہر بات کو جانتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں تھی معلوم کرنے کی کہ اندر کیا چھپا ہوا ہے تمہاری خاطر نکالا گیا ہے تاکہ کھرے کھوٹے میں تمیز ہوجائے تاکہ شرفاء کو صاف دل لوگوں کو موقع مل جائے کہ کس بیج کی تلفی ضروری ہے اور کس کی نہیں۔ اب لغت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ امن یامن امن و امتا و امانا و امانۃ ۔ ان سب کا مطلب ہے اطمئن۔ ان سب کا بنیادی مفہوم اس بات میں ہے کہ کوئی اطمینان پکڑ گیا۔ امن یا من اسی سے فعل بنتے ہیں جس کا مطلب ہے اطمینان پکڑ گیا۔ یا اطمینان پکڑے گا۔ یا پکڑ رہا ہے۔ یا امن میں آگیا۔ امن الاسد شیر سے بچ گیا الامان الطمانیۃ العہد و الحمایۃ الامان طمانیت اور کسی کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ اس نے تجھے امن دے دیا ۔ مطلب ہے کہ میری حفاطت کی ذمہ داری قبول کرلی۔ والامنۃ الاطمینان و سکون القلب یہ لسان اور المنجد سے معانی لئے گئے ہیں جہاں تک نعاس کا تعلق ہے اس کے متعلق لغت کی کتابیں کہتی ہیں۔نعس ینعس نعسااخذتہ فترۃ فی حواسہ یعنی فترۃ،فترۃہو گا غالبااخذتہ فقارب النوم یعنی نعس ینعس کا مطلب ہے کسی شخص کے حواس میں کمزوری آجائے۔ یہاں تک کہ وہ نیند کی قریب کی حالت کو پہنچ جائے۔ پس اونگھ وقتی طور پر یوں سر جھکا کر غوطہ کھا جانے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں نعاس کا معنے اس قسم کی اونگھ نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے ایک بیچ کی ایسی منزل آتی ہے جہاں تمام اعصاب کو ایک سکون مل جاتا ہے اور وہی گہرا سکون ہے اگر وہ اسی طرح جاری رہے تو پھر نیند میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان اگر چل رہا ہے تو گرے گا نہیں۔ گرنے سے پہلے اسے جھٹکا لگ جاتا ہے اور وہ جان لیتاہے کہ میں کس کیفیت میں تھا۔ لیکن اگرنیند آجائے تو پھر اپنے اعصاب پر اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہتا اور انسان گر جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے سکون کی حالت عطا کی جو نیند سے مشابہ تھی مگر نیند کی طرح اتنی گہری نہیں تھی کہ تمہیں اپنے اوپر اپنے اعضاء پر کوئی اختیارنہیں رہے ۔وہ سکینت تو بخش رہی تھی مگر تمہیں بے کار نہیں کررہی تھی۔ نعست السوق کسدت جب بازار کے متعلق کہا جائے کہ وہ نعس ہوگیا ہے یعنی اس پر نعس کی کیفیت آگئی ہے تو مراد ہے کہ بازار ٹھنڈا پڑ گیا۔ ماند پڑ گیا۔ ھَمَّ کا لفظ استعمال ہواہے۔ اھمتہم اقلقہ و احزنہ ھم یھم الامر کا مطلب ہے کسی بات نے اسے غمگین کردیا یا کسی فکر میں مبتلا کردیا۔ اھم الامر فلانا اقلقہ و احزنہ کسی بات نے اسے پریشان کردیا۔ یعنی فکر میں مبتلا کیا اور غمگین کردیا۔ہم و غم جو اردو میں اور شاعری میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔وہ یہی ھم ہے جس کا قرآن کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے۔ اھمہ الامرحتی ھمہ ای احزنہ حتی اذابہ یعنی کسی بات نے اسے اتنا پریشان کردیا کہ اسے پگھلا ڈالا۔پس ھمٌ ایسے غم کو بھی کہتے ہیں جو دل کو پگھلا دے۔ ھمت الشمس الثلج اسی لئے جب سورج برف کو پگھلاتا ہے تو اس کے لئے بھی لفظ ھماستعمال کیا جاتا ہے کہ سورج کی شعاعوں نے برف کو پگھلا دیا۔ نعاس کے متعلق مزید تشریح یہ کی گئی ہے کہ نیند کی گرانی سے حو اس میں جو سکون اور خاموشی سی پیدا ہونے لگتی ہے اسے نعاس کہتے ہیں یعنی غلبہ تو نیند کا ہے لیکن نیند آئے نہ۔ اس کے جو سکینت بخش آثار ہیں وہ ظاہر ہوجائیں۔ صاحب المحیط نے لکھا ہے کہ نوم تو وہ نیند ہے جس میں انسان کے حواس قطعاً معطل ہوجاتے ہیں اور نعاساً اس کی ابتدائی حالت کو کہتے ہیں یہ میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔ راغب نے نعاس کو نومٌ قلیلٌکہا ہے۔ ھلکی سی نیند۔ اور لکھا ہے کہ قرآن کریم کی آیت میں اس سے مراد سکون اور اطمینان ہیں۔ ھمٌکی بحث گزر چکی ہے۔ کوئی اور مزید اس کی ایسی بات نہیںہے جو پیش کی جائے۔ غریب القرآن فی لغات القرآن میں وہ معنیٰ بھی ہے جس کا میںنے پہلے ذکر کیا ہے کہ ھمٌ سے مراد صرف غم نہیں بلکہ فکر مند کرنا بھی ہے۔اگر فکر مند ہوجائے کوئی شخص تو وہ ھمٌ کی حالت میں ہوگا۔
امرٌ۔ امر ویسے تو حکم دینے کو کہتے ہیں جب اَمَرَ تو مراد ہے حکم دیا تامرونیتم مجھے مشورہ دیتے ہو۔ مشورہ کے معنے میں بھی امر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا۔ اس کاترجمہ فراء نے یہ کیا ہے کہ ہم حکم دیتے ہیں اس بستی کے سرکش لوگوں کو اور وہ ہمارے حکم کی تعمیل میں گویا نافرمانی کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہاں امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا سے مراد یہ ہے کہ ہم وہ ان کی بدکرداری کے نتیجہ میں جو طبعاً امور ظاہر ہونے چاہئیں ہم وہ تقدیر جاری ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ امرنا مترفیہاسے مراد یہ ہے کہ ہم گویا انہیں اجازت دیتے ہیں کہ اب اگلا قدم بھی اٹھائو جو تمہاری بدکرداریوں کا طبعی اور قطعی نتیجہ ہے اور اس کے نتیجہ میں اس دور میں داخل ہوجائو جو تمہیں ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دے گا۔تو یہ مراد ہر گز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کا حکم دیتا ہے۔ تو امرناسے مراد تقدیر کے جاری کرنے کا مضمون بھی ہے اور یہی یہاں اطلاق پاتا ہے۔ امرّنا کا مطلب ہے مسلط کردیا امرٌ اسم ہے اور جمع امورہیں۔ حکم، معاملہ اور مشیت اور فیصلہ اور عذاب کام اور عمل اور حادثہ یہ تمام وہ معنے ہیں جو قرآن کریم کی مختلف آیات میں امر کے ذریعے بیان کئے گئے ہیں۔ لا تدری لعل اللّہ یحدث بعد ذلک امرا کہ نہیںجانتا کوئی کہ اللہ خدا جانے کیا امر کیا بات بعد میں ظاہر فرمائے۔ یہاں حادثہ کے معنوں میں لفظ امر استعمال ہوا ہے۔اذا جاء امر من الامن اوالخوف تو اس سے مراد کوئی بھی اچانک یا تدریجاً رونما ہونے والا بعد کا واقعہ ہے۔ اس کو بھی بعض علماء نے حادثے کے تحت شمار کیا ہے۔ حادثے کی ذیل میں شمار کیا ہے۔ امر سے مراد دین بھی ہے۔ جو لوگ افتراء کر بیٹھتے ہیں آپس میں جھگڑتنے لگتے ہیںان کے متعلق قرآن کریم یوں فرماتا ہے وتقطعوا امرھم بینھم زبراً انہوں نے اپنے دین کو آپس ٹکڑے ٹکڑے کرلیا۔بانٹ بیٹھے آپس میں توامر اصل میں یہاں دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پھر قرآن کریم میں خواہش اور رائے کے اظہار کے لئے لفظ امر استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا وما فعلتہ عن امری میںنے یہ اپنی رائے یا خواہش سے نہیں کیا لیکن اس سے یہ ہوگیا ہے ۔ اولی الامر سے مراد صاحب حکومت ہے اطیعو اللّہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم میں یہی مضمون ہے۔اھل الفقہ والدین بھی مرادہیں۔ ابن عباسؓ نے یہی ترجمہ کیا ہے کہ وہ جو دین کے مفہوم کی حقیقت سمجھتے ہیں۔ یعنی حقیقت کو تو نہیں مگر دینی امور میں غور کرتے ہیں اور ان کو کسی حد تک سمجھتے ہیں وہ مراد ہیں۔ امرہ الی اللّہ جب کہا جاتا ہے تو مراد ہے آخری فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔امر کا ایک استعمال عام استعمال سے ہٹ کر ہے بظاہر اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کی تعداد بڑھ جائے تو اس کے لئے بھی امر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اَمِرَ القوم مردم شماری بڑھ جانے کے ہیں یعنی مردم شماری بڑھ جائے۔ اس لئے کہتے ہیں یعنی لغت کا فلسفہ بیان کرنے والے یہ تشریح کرتے ہیں کہ جب قوم کی تعداد بڑھے تو امیر کا ہونا لازم ہے۔ ورنہ وہ قوم پراگندہ ہوجائے گی اور کوئی قوم ایسی چل ہی نہیں سکتی جو تعداد میں زیادہ ہو اور کسی مرکز کے گرد اکٹھی نہ ہو تو کہتے ہیں ان معنوں میں امِر کا معنٰے استعمال ہوتا ہے یعنی امر کا لفظ استعمال ہوتا ہے کہ یہ قوم اس تعداد کو پہنچ گئی ہے کہ اب اس کا امارت کا نظام قائم کرنا لازم ہوگیا ہے۔ امر لفظ کا معنیٰ ہے منکر۔ اور امر الامر کے محاورہ سے مشق ہے جس کا معنے ہے کہ کسی معاملہ میں حد سے بڑھ جانا۔قتل کا لفظ بھی یہاں زیر بحث آیا ہے۔ لیکن اس میں میرے خیال میں مزید وقت لگانے کی ضرورت نہیں صرف یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قتل کا لفظ قرآن کریم میں صرف جسمانی قتل کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ روحانی قتل کے لئے بھی بکثرت اور یقینی طور پراستعمال ہوا ہے۔ فاقتلوا انفسکم ۔ یہاں اپنے نفس امارہ کو مارنے کا مضمون بیان ہوا ہے اپنے آپ کو قتل کرنے کا نہیں اور یہ غلطی کی ہے بعض مفسرین نے کہ جہاں یہود کو یہ حکم تھا حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو حکم دو کہ اپنے نفسوں کو قتل کرو تو وہاں یہ معنے کر بیٹھے ہیں کہ یہ حکم تھا کہ تم آپس میں لڑ پڑو اور بعض تم میں سے دوسروں کا قتل عام کردیں یہ بالکل لغو بات ہے۔ بے حقیقت بات ہے۔ قرآن کریم کا استعمال ثابت کرتا ہے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مومنوں کے لئے بھی اسی قسم کی ہدایت ہے کہ تم اپنے نفوس کی قربانی کرو۔ا ور نفس امارہ کو مارو یہی اپنے آپ کا قتل ہے۔ قتل جب کہا جاتا ہے تو اس سے مراد *** پڑے ہوتا ہے قتل الخراصون *** پڑے ان لوگوں پر جو اٹکل پچو کرتے ہیں اور قتل داد دینے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں ناغضب کردیا۔ کمال کردیا۔ فکّر و قدّر فقُتِل کیف قدر وہاں ایک جگہ بظاہر داد کے معنے ہیں دوسری جگہ ہلاکت کے معنے ہیں ۔ ثم قتل کیف قدر یعنی اپنی طرف سے تو خوب تدبیر کی اس نے فرعون نے کمال ہی کردیا۔ لیکن پھر دیکھو اسی تنبیہ سے خود ہلاک ہوگیا پس کیسی تنبیہہ کی کہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو ہلاک کر بیٹھا۔ بہت ہی خوبصورت بیان ہے یہاں اس تکرار میں اس میںبلاغت کی ایک عجیب شان پیدا ہوتی ہے مگر یہاں دونوں معنے ہیں قُتِلَ کے۔ داد دینے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور ہلاک ہوجانے کے معنوں میں بھی۔ اقتتل آپس میں لڑ پڑنا ولو شاء اللہ مااقتتلوا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔ برز کا مطلب ہے خرج نکل پڑنا۔ اب میرا خیال ہے لغوی بحث کافی ہوگئی اب ہم تفاسیر کی طرف آتے ہیں کہ مختلف تفسیروں نے کیا کیا اس موضوع پہ بیان فرمایاہے۔
محص نکھار دینا۔ صاف کردینا آزمانا۔ یہ باتیں تو ہوچکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃالسلام جنگ مقدس میں اپنے پرچہ یکم جون صفحہ نمبر 8 ‘ ۱۸۹۳ئ؁ کو جو جنگ مقدس ہوئی تھی یعنی پادری عبداللہ آتھم سے امرتسر میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مناظرہ ہوا اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پرچہ جو یکم جون کو لکھا گیا تھا اس کے صفحہ نمبر ۸ پر درج ہے۔
’’اس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے۔ یقولون ھل لنا من الامر من شئی اور اس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے‘‘
میںآگے لیکن اس بحث کو بعد میں اٹھائوں گا کیونکہ گزشتہ سال میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ تقدیر کے حصہ پر جو ابھی گفتگو میں تشنگی رہ گئی ہے بعض دوستوں کاخیال تھا کہ یہ مضمون زیادہ وضاحت سے بیان ہونا چاہئے تومیں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ سال انشا ء للہ جب یہ آیت آئے گی امر والی تو وہاں میں اس کے بقیہ حصہ کو بیان کروں گا۔ تو چونکہ یہ مضمون اسی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس وہاں موقع پر پیش کیا جائے گا۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںیہ بخاری کی حدیث ہے کہ احدکے دن عین جنگ میں ہم کو اونگھ نے آدبایا یہ وہ اونگھ ہے جس کاذکر پہلے گزر چکا ہے۔ تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی میں تھام لیتا پس جو میں نے نقشہ کھینچا ہے بعینہٖ اس کے مطابق یہ حدیث بتا رہی ہے کہ ایسی نیند کی کیفیت نہیں تھی کہ ہاتھوںسے چیزیں جا پڑیں۔ یا ہم چلتے چلتے گر جائیں۔ تسکین تھی۔ سکینت تھی۔ مگر پھر بھی ایک حد تک ہمیں اپنے اعضاء پر اختیارحاصل تھا۔ پھر گرنے کو ہوتی پھر تھام لیتا۔ یعنی یہ کوئی اچانک ایک حصہ یوں نہیں آیا اونگھ کا بلکہ ایک کیفیت کچھ عرصہ چلتی رہی ہے۔
ترمذی ابواب التفسیر میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن میں سر اٹھا کر دیکھنے لگا تو ہر آدمی اونگھتے اونگھتے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا۔ یعنی ایسا ہی نظارہ ہوا ہے کہ جو عام تھا کوئی اتفاقاً ایک تھکے ہوئے مجاہد کے اوپر اطلاق پانے والی کیفیت نہیں تھی۔ بلکہ تمام مجاہدین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برسرپیکار تھے ان سب پر اچانک گویا آسمان سے ایک چیز اتری ہے اور اس حالت نے ان کو ڈھانپ لیاکیونکہ اس وقت ان کو شدید ضرورت تھی اپنے اعصاب کو ریفریش کرنے کی ان کو تازہ دم کرنے کی اور سونے کا وقت کوئی نہیں تھا۔ اور یہ ہوجاتا ہے بعض دفعہ۔ مجھے یاد ہے جہاں جب شروع میں میں سیر پہ جایا کرتا تھا بعض دنوں میں رات کی نیند اتنی تھوڑی ہوتی تھی کہ کئی دفعہ چلتے چلتے چند قدم چلتے چلتے میں سو بھی جایاکرتا تھا یعنی ایسی نیند کی کیفیت کی۔ اور گرتا نہیں تھا۔ گرنے سے پہلے ایک ہلکا سا جھٹکا بدن کو ایسا لگتا تھا کہ پتہ لگ جاتا تھا کہ میں سوتے ہوئے چل رہا ہوں۔ اور ڈرائیونگ کے وقت بھی 1958ء میں جب میں نے امریکہ میں زیادہ ڈرائیونگ کی ہے سات سات سومیل ایک دن میں پھر اگلے دن پھر رات کی مجلسیں۔ جماعت کے جلسے اور اتنا ذہن پر دبائو تھا کہ کئی دفعہ گاڑی چلاتے چلاتے موٹر چلاتے چلاتے کئی جگہ اونگھ آجاتی تھی۔ مگر اتنی خطرناک نہیں یا اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی کہ موٹر ہاتھ سے نکل جائے اور عین اس وقت جب وہ اپنا رستہ چھوڑنے والی ہوتی تھی تو ایک جھٹکا سا لگ کر واپس اسی دنیا میں آجاتا تھا۔ جہاں سے نیند میں داخل ہوتا تھا تو یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے لیکن یہ تو اتفاقی بات ہوتی ہے۔ ہر انسان کو ایسے تجربے ہوتے ہیں یہ کہ ساری قوم بیک وقت ایک ایسی نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہورہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ بھی درپیش ہو یہ اعجاز ہے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں۔ لیکن جو اعجاز ہے نفسیاتی حقیقت پر مبنی ۔ یعنی ایسا اعجاز نہیں کہ جسے آپ فطرت کے لحاظ سے ناممکن قرار دیں۔ روزمرہ ہونے والا ایک واقعہ ہے لیکن ایک آدمی سے تو ہوجاتا ہے دو سے ہوجاتا ہے یہ کہ لڑائی کی حالت میں سب پر بیک وقت ایسی کیفیت طاری ہوجائے یہ اعجازی کیفیت ہے۔یبتلی کے متعلق تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ تا ظاہر کرے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے یوم تُبلی السرائر۔ اور یُمحص کا معنے لکھا ہے خالص کرکے دکھا دے۔یہ تفسیر روح المعانی میں نہیں یہ تو ۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاول کے ان نوٹس میں سے ہے جو اخبار البدر میں شائع ہوئے تھے۔ وہ حوالہ غلطی سے میں نے پڑھ لیا ۔
15جولائی ۱۹۰۹ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے غالباً کوئی درس دیا ہے اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ لیتبلی سے مرادتا ظاہر کرے۔ جیسا کہ یوم تبلی السرائر والی آیت میں تبلی کا لفظ ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اور یمحص سے مراد خالص کرکے دکھادے۔ وہی مضمون ہے کہ اس کو پاک صاف کرتا۔ کھنگال کر ایک چیز کو۔ نتھار دینا۔ صاف ستھرا کردینا۔
ان الامر کلہ للہ جو کہ اب زیر بحث آنے والا ہے۔ لفظ امر سے کیا مراد ہے اس کے متعلق تفسیر روح المعانی میں لکھاہے یعنی شان و شوکت اور غلبہ صرف حزب اللہ کے لئے مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ان کے اصحاب کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ امنۃ نعاسا کی مختلف ترکیبیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا وہ پیش کی گئی ہیں کشاف میں۔ اس میں اس کے چار امکانی حل پیش کئے ہیں کہ گرائمر کے لحاظ سے امنۃ مفعول ہے اور نعاسا اس کا بدل ہے۔ دوسرا حل ہے امنۃ کا عطف بیان ہے۔ معنے ہوں گے تم پر اطمینان کی حالت یعنی ہلکی سی نیند طاری کردی۔ پہلی صورت میں امنۃ کی حالت جو نیند ہے اور یہاں یعنی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں بدل کی صورت میں اور یہاں یعنی کا لفظ گویا بیچ میں شامل ہے۔ امنۃ حال یمن المخاطبین ہے اور اس کے معنے ذوی امنا کے ہیں۔ اللہ نے تم پر جوکہ امن میں آچکے ہو غم کے بعدہلکی سی نیند طاری کردی۔ نعاسا مفعول ہے اور امنۃ اس کا حال ہے۔ جو اس سے پہلے لایا گیا ہے ۔ کہتے ہیں یہاں تقدیم تاخیر ہوئی ہے یہ بھی امکان ہے کہ اس کو اس طرح سمجھا جائے کہ نعاساً مفعول بہ ہے تم پر نیند طاری کردی جو امن کا موجب تھی۔ جو امن دینے والی تھی۔کہتے ہیں عربی میں ایسا محاورہ چلتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں رأیت راکبًا رجلاً میں نے سوار آدمی کو دیکھا حالانکہ مفعول بہ آدمی ہونا چاہئے اور عام استعمال میں یہ کہنا چاہئے کہ میں نے آدمی کو دیکھا جو سوار تھا۔ لیکن عربی میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں راکبا ًرجلاًاس میں زیادہ تر جو اس کا محرک ہے۔ تبدیلی کا وہ زور دینا ہے اگر آدمی پر زوردینا نہ ہو بلکہ اس کے سوار پرزوردینا ہو تو پھر راکباً کو پہلے لے آتے ہیں کہ عام آدمی نہیں دیکھا ایک سوار آدمی کو دیکھا ہے۔ تو اس لئے جب ان معنوں میں اس کو لیں گے تو امن پر زور ہے گویا کہ اور یہ معنیٰ بہت برمحل ہے۔ اوراچھی طرح بیٹھتا ہے اس مضمون پر کہ نیند لانا مقصود نہیں تھا۔ مقصود امن دینا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لفظ امن کو پہلے بیان فرمادیا اور نعاساً کو بعد میں۔ یہاں ویری لکھتا ہے اس کا میں ترجمہ پیش کررہا ہوں بعد میں اس کا اصل حوالہ بھی دیدوں گا کہ محمدؐ اور اسلام قضا و قدر کی تعلیم دیتے ہیں یعنی ہر چیز خدا کی مرضی کے تابع ہے انسان کی کیفیت شطرنج کے مہروں کی سی ہے۔ ویری نے یہ لفظ قضا و قدر استعمال نہیں کیا۔ اس نے کہا Mohammad belives in Fatality یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ تھا کہ ہر چیز جبری طور پر آسمان پر طے پاتی ہے۔ اور اس سے کوئی مفر نہیں۔ ہم کسی بات میں بھی بالارادہ نہیں ہیں۔ یہ جھوٹ ہے اور اس کے متعلق میں آپ کو ضمناً یہ بتادوں کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کا عبداللہ آتھم سے مناظرہ ہورہا تھا تو ویری صاحب جو آج کل ایک محقق اور مولوی کے بھیس میں ابھرے ہوئے ہیں یہ پادری کے طور پرہندوستان میں تعینات تھے اور اس زمانہ میں یہ اپنی سوچیں دیسی پادریوں میں منتقل کرتے رہتے تھے یعنی ان کو مہرے بنا کر سامنے رکھتے تھے اور یہ ان کی Fatality تھی بے چاروں کی۔ جس طرح یہ کہتا ہے کہ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک توسب دنیا ساری کائنات مہروں کی طرح ہے کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں تو پادریوں کے بھی مہرے وہاںچلاکرتے تھے کسی کا نام عبداللہ آتھم تھا کسی کا کچھ اور مولوی تھا لیکن یہ سارے ان کے پڑھائے سکھائے یہ پیچھے رہ کر ان کے کانوںمیں پھونکا کرتے تھے۔ عبداللہ آتھم کو توبے چارے کو تو سمجھ ہی کوئی نہیں تھی کہ یہ کیا کررہے ہیں لیکن یہ وہی آیت اس مضمون میں جو ویری پیش کررہا ہے یہ عبداللہ آتھم مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کررہا تھا۔ یہ جب اس کا موقع آئے گا تواس وقت پھرمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا جواب آپ کے سامنے رکھوں گا۔
قرطبی کہتے ہیں کہ یہاں جو اھمتہم انفسہم فرمایا گیا ہے اس سے مراد وہ مومن نہیں ہیں جو شریک جنگ ہیں بلکہ مراد وہ منافقین ہیں جنہوں نے پہلے ہی جنگ سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا یا وہ تھوڑی سی جماعت جو اپنے …کے ساتھ احد کے میدان میں شامل رہی۔ جسے واپس جانے کی جرأت نہیں ہوئی تھی اپنے آپ کو چھپانا چاہتے تھے توایسے وہ لوگ تھے اس موقع پر آکر ایسے پھنس گئے کہ نہ ادھرکے رہے اور نہ ادھر کے رہے ان کو نیند نہیں آئی ان کو سکون نہیں ملا کیونکہ ان کو تو یہی فکر کھائی جارہی تھی کہ ہم کہاں پھنس گئے ہم کس مصیبت میں پڑ گئے ہم نے کیوں اپنی جانیں ہلاک کیں۔ بہتر تھا ہم پہلے چلے جاتے۔ اور وہ یہ سوچتے تھے کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا تو ہم یہاں آنے کا مشورہ نہ دیتے امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جو مشورہ ہے جنگ احد کے میدان کا اور باہر نکل کر جنگ کرنے کا یہ مشورہ بہت سے صحابہ جن میں زیادہ تر نوجوان صحابہ تھے ان کا مشورہ تھا۔خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپہلا رجحان یہی تھا اپنا ذاتی کہ ہم مدینہ میں رہ کر مقابلہ کریں گے اور وہ جتنی دیر ٹھہرنا چاہیں لڑائی کرنا چاہتے گھیرا ڈالنا چاہیں وہ کرتے رہیں جس طرح احزاب کے وقت ایک کیفیت پیدا ہوئی تھی ویسا ہی تصور تھا کہ مدینہ میں قلعہ بند ہو کر لڑائی کی جائے اور عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافق تو تھا لیکن شاطر بھی بہت تھا اس کا بھی اتفاقًا یہی مشورہ تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیھم کی طرف سے باہر نکل کر جنگ لڑنے جنگ کرنے کا مشورہ بشدت پیش ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے فیصلے کی خاطر اپنے فیصلے کو بدل لیا ۔اور عبداللہ بن ابی بن سلول اس بات پر ناراض ہو گیا کہ اتفاقًا اس کا بھی یہی تھا یہی فیصلہ تھا اور یہی مشورہ تھا ۔تواس نے کہا کہ میرے مشورہ پر ترجیح دی گئی ہے اور انتقامًا اور شرارت کے طور پر وہ شروع میں تو ساتھ چلا لیکن اپنے ۳۰۰ ساتھیوںکو اس منصوبے کے تحت ساتھ لیکر روانہ ہوا کہ عین راستہ میںمیں یہ کہتے ہوئے واپس آجائوں گا کہ یہ تو بڑی ہلاکت کی بات ہے نہایت نامناسب بات ہے اس لئے ہم واپس چلتے ہیں ۔ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں اور اس سے باقیوں میں بددلی پھیل جائے گی ۔یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان کو نیند نے نہیں ستایا مگر یہ تو وہاں تھے ہی نہیں اس لئے اگر منافق کی بات کرنی ہے تو لازمًا یہ ماننا پڑے گا کہ کچھ ان کے ہم خیال لوگ میدان جنگ میںموجود رہے اور لشکر اسلام کاساتھ نہیں چھوڑا ۔پس ان سات سو میں سے ایک گروہ وہ بھی تھا ۔اللہ تعالی جانتا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور نفسیاتی کیفیت انکی یہ ایسی پیدا فرمادی کہ ان کے دل میں ہیجان پیدا ہوگیا اور جب دل میں ہیجان ہو تو اونگھ کی کیفیت آہی نہیں سکتی ۔یعنی ایک ایسا طبعی علاج ہے جس نے خود بخود تفریق فرمادی آپکا دماغ جب زیادہ ہیجان پکڑ جائے تو نیند نہیں آتی بعض دفعہ ساری رات انسان یوںسوچوں میں گھومتا رہتا ہے لیکن یہ نیند نہیں آ تی تو یہ اللہ تعالی کی شان ہے کہ ایک نفسیاتی کیفیت کو جو سچی اور اخلاص کی تھی اس کو امن کی صورت میں بدل دیا اور پرسکون نیند عطا کردی لیکن یہ نیند ایسی نہیں تھی کہ جس سے وہ بے ہوش ہو کر گرتے بلکہ چلتے پھرتے سکون پارہے تھے ۔اور جو ظالم لوگ تھے ان کے نفس کی بیماری خود ان کے لئے وبال بن گئی اور ان کو کوئی سکون میسر نہیں آیا ۔
تفسیر قاسمی میں لکھا ہے کہقد اھمتہم انفسہم اس میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو اونگھ نہیں آئی تھی ان کو اپنی جانوں نے فکرمند کر رکھا تھا نہ کے ان کے دین یاان کے نبی یاان کے اصحاب نے۔یعنی ان کو صرف اپنے نفسوں کی پرواہ تھی اور وہ صرف اپنے نفسوں کو بچانا چاہتے تھے اس سے بے چینی گھبراہٹ اور ڈر سے ان کو اونگھ نہیں آرہی تھی۔ اس سے دو باتیں قطعی طور پر نکلتی ہیں یعنی اچھا ایک تبصرہ ہے یابعض باتوںکی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اول یہ کہ اگر ان کو دوسرں نے اس وقت بہکا یا ہوتا۔تو اللہ تعالی یہ نہ فرماتا کہ ان کواپنے نفسوں نے فکروں میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جو دوسروں کو بہکا نے میں آئے تھے وہ تو میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے تو یہ ایک دوسرا گروہ ہے جو کلیتہً منافق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اتنی نیکی تو انہوں نے کی کہ بہکا نے والوں کے بہکاوے میں نہیں آئے مگر اپنی جان کے لالے ضرور پڑے ہوئے تھے اور اپنے نفسوں کے غم میں ضرور مبتلا تھے یعنی ایمان میں اعلی درجہ پر نہیں تھے یہ پہلے مضمون کی نسبت مجھے میرے دل کو زیادہ پسند آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو رہے ان کے متعلق یہ کہنا شائید مناسب نہ ہو کہ ان میں کچھ منافقین موجود رہ گئے تھے بلکہ ایسے لوگ جن کا ایمان نسبتًاادنی درجہ کا تھا اور اپنی جان کی فکر میں زیادہ غلطاں رہتے تھے پس دوسری بات اس سے بہت اہم یہ نکلتی ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا ہے اس وقت خطرہ نہیں ٹلا تھا کیونکہ جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو اعصاب کو سکون از خود آ ہی جاتا ہے اور اس وقت اونگھ ہی نہیں بلکہ نیندیں بھی آ جاتی ہیں بعض گہری نیند میں ڈ وب جاتے ہیںتو یہ واقعہ اس وقت کا نہیںہے اگر ویسی کیفیت ہوتی تو کمزور ایمان والے ہوں یا دوسرے ایمان والے ہوں بلکہ کمزور ایمان والوں کو جن کو جان کا خطرہ ہو زیا دہ گہری نیند آنی چاہیے تھی کہ شکر ہے یہ مصیبت ٹلی اور ایسی گہری نیند میں وہ ڈوب جاتے کہ جس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ۔تو جس وقت خدا نے یہ فضل صادر فرمایا ہے وہ خطرے کا وقت تھا اور اس کے باوجود یہ واقعہ ہوگیا ہے۔ یہ اعجاز ہے۔جب تک آسمان سے یہ سکینت نازل نہ ہو اس وقت تک ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان ایسے شدید خطرہ کے وقت جو جنگ احدمیں درپیش تھا ایسی اونگھ کی حالت میں چلا جائے جس سے اس کو سکون مل جائے لیکن اپنے اعصاب پر ایک درجہ اس کو اختیار بھی حاصل رہے۔ یہ تفسیر قاسمی میں نے دیکھا ہے اکثر اچھے اچھے نکات لیکر آتی ہے۔ امام ابن قیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں اور اس ظن کی جو اللہ کے متعلق کرنا مناسب نہیں یہ وضاحت کی گئی ہے۔ ظننتم وہ جو ذکر ہے۔ ظن الجاھلیتہکہ تم ظن الجاھلیہ میں مبتلا ہوگئے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا اور اس کامعاملہ ختم ہوجائے گا۔ اوراس کو قتل ہونے کے لئے دشمنوں کے سپرد کردے گا۔ کہتے ہیں یہ ظن تھا۔ جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں تھا۔ لیکن یہ بات اس کے منافی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں یہ بات تو حد درجہ کے کمینے منافقین کو زیب دیتی ہے کہ اس قسم کا ان کا بغض تھا دل میں وہ یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی واپس نہیں جائے گا۔ رسول بھی قتل ہوجائیں گے۔ اس حد تک بغض تھا تو وہ شامل وہاں کیوں ہوئے تھے۔ اس لئے پہلا جو موقف ہے تفسیر قاسمی کا وہ بہت درجہ قابل قبول ہے اور اگر یہ ہے معنیٰ تو اس معنیٰ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوسکتا ہے جو مدینہ میں پیچھے رہ گئے تھے۔ان پر نہیں ہوسکتا جو جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ ظن الجاھلیۃ کی مختلف صورتیں ہیں ظن الجاھلیۃ سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعصب کے خلاف تعصب ۔ کیونکہ ظن الجاھلیۃ میں جب اسلام ظاہر ہوا تو تعصب کا بھی مظاہرہ ہوا۔ لیکن ظن الجاھلیۃ اپنی ذات میں ایک آزاد ظن کی کیفیت ہے۔ یعنی مشرکین مکہ جس قسم کی سوچوں میں مبتلا ہوا کرتے تھے جس قسم کی باتیں سوچا کرتے تھے کیونکہ وہ مشرک لوگ تھے۔ اس لئے حسن ظن نہیں رکھتے تھے۔ اور اپنے نیک انجام پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔
تو ظن الجاھلیۃا سے مراد یہاں یہ ہے کہ چونکہ ان کا ایمان زیادہ مستحکم نہیں تھا اس لئے زلزلے کے وقت وہ بنیادوں سے ہل گیا اور وہ پہلے جیسی سوچوں میں مبتلا ہوگئے کہ اتفاقاً مارے جائیں تو کیا بنے گا۔ کیا پتہ کوئی حادثہ ہی ہو۔کیا پتہ وہ جنگ نہ ہو جیسا کہ بیان کی جارہی ہے اورہم اپنی غلطیوں سے اپنے بدانجا م کو پہنچیں۔ کیا پتہ ہماری حفاظت کوکوئی آسمانی تدبیر اور تقدیر ظاہر نہ ہو یہظن الجاھلیۃ ہے جو ایسے لوگ سوچ سکتے ہیں جو ایمان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ مگر نسبتاً کمزور ایمان کے ساتھ مگر جو سوچیں ان کی طرف یہاں منسوب کی جارہی ہیں یہ ناقابل قبول ہیں۔ کیونکہ اگر اتنی گندی سوچ تھی ان کی …لیکن جیسا کہ آیت آگے بڑھتی ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے مضمون کو بعض مفسرین نے بعض دوسری آیتوں سے جوڑ کر یہ سنگین معنے نکالے ہیں۔ کیونکہ سورۃ الفتح میں مثلاً ایک آیت ہے جو اس مضمون کو کھولتی ہے اس کی بڑی بھیانک ایک شکل ظاہر کرتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ برے وقتوں کی مار پڑنے کی انتظار کررہے تھے۔ دوائر جس کو کہتے ہیں زمانے کی مار اور اس کی *** جو پڑا کرتی ہے لوگوں پر وہ اس کا انتظار کررہے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر پڑے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ فتح میں علیہم دائرۃ السوء و غضب اللّہ علیہم و لعنہم و اعدلہم جہنم وساء ت مصیراً۔ انہیں پر زمانے کی مار پڑے گی۔ انہیں پر زمانے کی *** پڑے گی۔ اور اس کے علاوہ زمانے کا جو سمجھ رہے ہیں کہ خود بخودجاری ہونے والا ایک مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمانے کی مار کی بحث نہیں۔غضب اللّہ علیہم و لعنہم اللّہ اللہ ان پر غضب ناک ہوا ہے اور ان پر *** کی ہے واعدلہم جہنم اور ان کے لئے جہنم تیار کی ہے وساء ت مصیراً اور یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ لوٹنے کی جگہ ہے۔ پس یہ وہ آیات ہیں جن کے پیش نظر ان کو اس صورت حال پر چسپاں کرکے بعض مفسرین نے بہت سخت معنے نکالے ہیں جو میرے نزدیک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک جہاد لوگوں پر اس شدت کے ساتھ اطلاق نہیں پاسکتے۔ وہ جو بدبختوں کا گروہ تھا وہ پہلے ہی چھوڑ کر جا چکا تھا۔ یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ان کی طرف اشارہ ہو گیا ہے اورلڑنے والے شامل نہیں ہیں۔ باقی جو تفاسیر ہیں ان میں کوئی ایسی نئی بات نظر آئے گی تو بتائوں گا جو قابل بحث ہو۔ ہاں ! یہ جو مضمون ہے کہ ان لوگوں پر اطلاق پائے گی جو پیچھے رہ گئے تھے اور جنگ میں شامل لوگوں پر یہ آیت اطلاق نہیںپائے گی۔ اسی مضمون کی تائید بعض مفسرین نے کی ہے۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر تھی پر انوں کی نہیں۔ کیوں جی یہ وہی حوالہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ والا؟ ہیں؟ لکھا نہیں ہوا نیچے نام۔ قلمی نوٹ لکھا ہوا ہے۔ صرف۔ اچھا پھر وہی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ثم انزل علیکم من بعد انعم امنۃ نعاسا ....... علیہم بذات الصدور تک جب فرشتوں کے نازل ہونے کاوعدہ ہوا تو مسلمانوں کو اس قدر اطمینان اور تسلی ہوگئی کہ انہیں اونگھ آنے لگی طائفۃ قد اھمتھم انفسھم۔ اس طائفہ سے مراد منافقین ہیں ۔یعنی جب مدینے میں احد میں مسلمانوں کی…شکست کی خبر پہنچی۔تو وہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی کفار سے اتنے خائف تھے کہ انہیں وہاں اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے یہ بہت ہی عمدہ تفسیر ہے اور صورت حال پرپوری طرح اطلاق پاتی ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو طبعاً یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اتنی بڑی شکست ہوئی ہے جیسا کہ بیان کی جا رہی ہے تو یہ دشمنوں کی فوج لازماً مدینے پر حملہ آور ہوجائے گی اور جو دفاع میں جان لڑانے والے تھے وہ تو بے چارے نڈھال ہوگئے یا شہید ہوگئے تو ہمارا دفاع کس طرح ہوگا۔ وہ تو پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے نکلتے ہی نہیں تھے ڈر کے مارے باہر تو ان کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے اور ان کے متعلق قرآن کریم یہ مضمون بیان فرما رہا ہے۔ یقولون ھل لنا من الامر من شئی۔ کافروں کی وقتی فتح اور مسلمانوں کی شکست اور نقصان کا علم جب مدینے میں منافقین کو ہوا تو وہ کہنے لگے کہ اگر مسلمان ہماری بات مان لیتے تو انہیں یہ نقصان نہ اٹھانا پڑتا بھلا وہ ہماری بات مانتے کب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کا رنج ہونے لگا کہ اب حکومت تو بوجہ فاتح ہونے کے کافروں کے ہاتھ میں چلی جائے گی اور ہم بالکل محروم رہ جائیں گے ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ یہ دوسرا مضمون حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے نوٹس میں یہ باندھا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کہ ھل لنا من الامر من شئی تو یہ ان کی آخری ناکامی اور حسرت کا بیان ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوجاتی تو وہ چونکہ پیچھے بیٹھ رہے تھے تو ان کو حکومت میںکوئی حصہ نہیں ملنا تھا۔ اب جب کہ ان کو شکست ہوگئی ہے ان کے خیال میں تو دشمن غالب آئے گا اور اس نے ہمیں کہاں حصہ دینا ہے۔ کیونکہ ہم عملاً تو مفتوح قوم کے ساتھ ہوں گے۔ تو یہ فکریں تھیں جو ان کی جان کو لاحق ہوگئی تھیں انہوں نے کہا ہم کیا؟ ہمارے لئے کچھ بھی مقدر نہیں ہمیں کچھ بھی کبھی نصیب نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الامر کلہ للہ۔ یہ جواب حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اس بات کا بھی ہے کہ تمہارے تصورات اور تمہارے ظن جھوٹے ہیں۔ کافروں کو کچھ نہیں ملنا۔ نہ تمہیں کچھ ملنا ہے۔ بالآخر اللہ ہی کا حکم چلے گا اور جسے وہ چاہے گا اسی کو حکومت دے گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو۔ اورایک معنیٰ یہ بھی آپ نے نوٹ میں لکھے ہیںکہ منافقین یہ کہہ کر گویاآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو جھٹلاتے تھے کہ اگر ہمیں حکومت ملنی ہوتی تو آج ہمیں یہ شکست نہ ہوتی۔ اس لئے یہ جو دعوے تھے کہ ہمیں فتح ہوگی یہ بعض منافقین جھوٹے نکلے ہیں۔ ولیمحص مافی قلوبکممیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مومن بھی مخاطب ہیں اور منافق بھی دونوںہوسکتے ہیں۔ مومن مراد لئے جائیں تو وہ واضح مطلب ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ صاف شفاف نتھر کر اور خالص ہوکر ابھریں گے اورلیمحص کا مضمون جب منافقوں پر اطلاق رہ پائے گا تو مراد یہ ہے کہ وہ چھن کر الگ ہوجائیں گے یعنی مومن نتھر کر ایک طرف اور منافق جس کو کہتے ہیں گند داخل ہوجاتا ہے کسی چیز میں وہ گند جب اس کو اچھالتے ہیں کیا کہتے ہیں اس کو …پھٹکتے ہیں تو وہ الگ ہوجاتا ہے اس لئے لیمحص کا یہاں یہ معنیٰ ہوگا کہ منافق اس چھان پھٹک میں الگ ہوجائیں گے۔ حضرت مصلح موعود نے کتب علیہم القتل کا ایک مضمون اور بھی نکالا ہے۔ حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تم بیٹھے باتیں کرتے رہو کہ اگر ہم وہاں ہوتے تو ہمیں کچھ نہ ہوتا اور اس خوف کے مارے تم نے اپنے لئے پیچھے بیٹھ رہنا پسند کرلیا مگر مومن ایسے ہیں کہ اگر ان پر قتال فرض کیا جائے تو وہ ذوق شوق سے دوڑتے ہوئے اپنے مقتل کی طرف لوٹنے والے لوگ ہیں۔ تمہاری طرح کے بزدل لوگ نہیںہیں۔ یہ بھی ایک تفسیری معنیٰ ہے جس سے کلام میں لطف پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر اصل معنے جو بنیادی ہے اس کے برعکس نہیں ہے۔ اس کو منفی نہیں کرتا اور وہ معنے یہی ہے کہ اگر خدا کے ہاں ! یہ مراد نہیں ہے کہ ہر ایک کے لئے اس کا ایک مقتل مقرر فرما دیا گیا ہے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی پر کوئی خاص جگہ مرنا مقدر فرما یا ہو اور لکھ چھوڑا ہو تو وہ لوگ ایسے ہیں جو ضرور اس مقتل تک جا پہنچیں گے۔ اور کوئی چیز ان کے مانع نہیں ہوسکتی۔ اس میں تقدیر کا یہ مفہوم بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض افراد کے متعلق بعض خاص جگہیں مقرر فرما دیتا ہے کہ ان کا وہاں مرنا مقدر ہو۔ اس میں بعض حکمتیں ہوتی ہیں لیکن یہ معنی نہیں ہے کہ ہر شخص کے لئے خدا تعالیٰ نے کوئی مقدرجگہ لکھ چھوڑی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں چونکہ ہر شخص کا کسی جگہ مرنا مقدر ہے۔ اس لئے ایک اور معنی سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گویا خدا نے وہ لکھ چھوڑی ہے۔آپ کو جس طرح ماضی کا علم یقینی طورپر ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو مستقبل کا علم یقینی طورپر ہوتا ہے۔ ماضی کا آپ کا علم اس واقعہ کا محرک نہیں ہوسکتا۔ ضروری نہیں کہ اس علم کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا مستقبل کا علم ہونے کے باوجود لازم نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ایسا کروایا مثلاً آپ کسی کو حادثے کے مقام میں کسی سڑک کے اوپر زخمی حالت میں گرا ہوا دیکھیں یا مرچکا ہو۔ اور ایک جگہ پڑا ہو تو یہ آپ کا علم ہے مگر آپ اس کا موجب تو نہیں ہیں۔ آپ اس کے ذمہ دار تو نہیں ہیں آپ نے تو کوئی کردار بھی اس کے اس حادثے میں ادا نہیں کیا لیکن آپ کو علم ہوگیا ہے۔ اب اس علم سے جوں جوں آپ مستقبل میں بڑھتے ہیں آپ واپس آکر مڑ کر دیکھتے ہیں تو اس واقعہ میں ایک ذرہ کی بھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ علم سچا ہے۔ پس علم کے سچے ہونے کے نتیجے میں اگر آپ کا ماضی تبدیل نہیںہوسکتا تو یہ علم اگر آپ کو مستقبل کے متعلق عطا ہوجائے تو بھی تبدیل نہیں ہوسکتا اور چونکہ اللہ کو مستقبل کا علم ہے اس لئے محاورۃً یہ کہا جاسکتا ہے کہ گویا اللہ کے علم میں جو باتیں ہیں وہ کبھی بدلیں گی نہیں اس لئے کہ وہ ہیں ہی اس لئے کہ ہوجانی تھیں۔ اسی لئے نہیں ہوئیں کہ خدا کے علم میں ہے بلکہ علم واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔ پس یہاں پہنچ کر لوگوں کے ذہن میں ایک قسم کا ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ نہیں سمجھ نہیں سکتے کہ علم والی بات کونسی ہے اور مقدر کونسی ہے۔ اس کے باوجود جیسا کہ میں نے گزشتہ درس میں تفصیل سے روشنی ڈالی تھی بعض باتیں مقدر ہونے کی وجہ سے لازم ہوجاتی ہیں۔ اس میں پھر کوئی تبدیلی نہیںہوتی۔ کتب اللّہ لاغلبن انا ورسلی اس قسم کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے۔ جو مستقبل کے متعلق یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ میں نے لکھ چھوڑا ہے یہ ہوکر رہنے والی بات ہے۔ تمام دنیا کی طاقتیں اس کو ٹالنے کی کوشش کریں وہ ٹل نہیں سکیں گی۔ جس کو میں نے بھیجا ہواسے میں ضرور غالب کرتا ہوں۔ پس اسے تقدیر مبرم کہتے ہیں۔ یہ قومی تقدیر ہے جو تقدیر مبرم بنتی ہے۔ کبھی انفرادی تقدیر بھی تقدیر مبرم بن جاتی ہے کسی بدبخت کے متعلق خدا جب یہ فیصلہ کرے کہ میں نے اسے یہ ضرور کرنا ہے تو وہ اس میں خدا کا ارادہ شامل ہوجاتا ہے اور وہ خدا کا فیصلہ اس کا محرک بنتا ہے اس کا ذمہ دار ہوجاتا ہے اس واقعہ کا۔ جیساکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام آپ کے سامنے رکھا تھا کہ انی مھین من اراداھانتک۔ میںضرور اس شخص کو رسوا کروں گا جو تجھے رسوا کرنے کا ارادہ کرتا ہے ۔ پس ایسی صورت میں مختلف وقتوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ بعض بدبخت ابھرتے رہے ہیں وہ سمجھتے رہے کہ ہم کامیاب ہوئے لیکن نامرادی کی حالت میں مرے۔ اور ان پر کئی قسم کی ذلتیں ا ن کے اندر سے پلنی شروع ہوئیں۔ کئی قسم کی رسوائیاں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیں۔ اسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ ایسے لوگ جو جماعت کی مخالفت میں ٹیڑھے دکھائی دیں بعض معصوم تو بے چارے لا علمی میں مخالفت کرتے ہیں وہ میرے پیش نظر نہیں تھے ایسے جو ان لوگوں کے سردار ہیں جو سرغنے ہیں جن کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ بدکردار لوگ ہیں اور بدنیت سے حق کی دشمنی کرنا انہوں نے پیشہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اوپر نظر رکھیں۔ ان کے واقعات کو محفوظ رکھیںاور۔ان کے آنے والے واقعات کا تبتع کریں مستقبل میں۔ اور یہ امانت ہے آئندہ نسلوں کے لئے کہ پھر خدا وہ دیکھیں گی کہ بعد ازاں خدا تعالیٰ نے ان کی مخالفتوں کے بعد ان کو کس انجام تک پہنچایا اور کس طرح اپنا یہ وعید ان کے متعلق پورا فرمادیا۔
باقی سب باتیں وہی ہیں جو عام فہم ہیں کسی تفسیری نوٹ کی ضرورت نہیں اب میں آتا ہوں مستشرقین کی طرف۔ منٹگمری واٹ لکھتے ہیں۔
Litrally thoughts of poor Thoughtsظن الجاھلیتہ. The جاھلیہ or Pre Islamic Period that is doubts of Gods Control of events.
یہ اپنی طرف سے زبردستی بات بنائی گئی ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی قطعی روایت نہیں ملتی کہ جاہلیت کے زمانے میں عربوں میںخدا کے متعلق یہ ظن تھا کہ پتہ نہیں اس کو کنٹرول ہے کہ نہیں۔ وہ تو خداکے حوالے سے سوچا ہی نہیں کرتے تھے۔ وہ تو اپنے بتوں کے حوالے سے سوچا کرتے تھے اور بڑی تحدی سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے بتوں کا وبال تم پر پڑے گا اور تم اس سے بچ نہیں سکتے۔تو وہ تو اس یقین اور تحدی سے بتوں کے ہاتھوں میں انسانی تقدیر دیکھتے تھے۔ تو خدا کے حوالے سے کہاں وہ سوچتے ہونگے؟ میں نے جو مطالعہ کیا ہے میرے نزدیک تو کوئی ان کی ایسی سوچیںانسان کی مذکور نہیں ہیں نہ بت پرست کی نفسیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ خدا کے حوالے سے سوچے ان کو تو فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ بتوں کے تعلقات سے۔ اس لئے اللہ کا مضمون تو ان کی سوچوں کے دائرے سے باہر کہیں پڑا ہوا تھا۔ یہ تو جب موحد کامل دنیا میں ظاہر ہوا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پھر اللہ کے حوالہ سے باتیں شروع ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے تو اللہ کا حوالہ صرف ان موحدین میں ملتا ہے جو استثنائی طور پر عرب سوسائٹی میں مکہ والوں میں بھی اور باہر بھی موجود تھے۔ ورنہ وہ خدا کی بات ایسے کیا ہی نہیں کرتے تھے۔ تو یہ یونہی بات ہے۔ وہ ان کو جاہلیت کی باتیں ہر قسم کی آگئی تھیں واپس۔ جب وسوسے پیدا ہوں۔ توہمات جاگ اٹھیں تو مشرک و ہم پرست ہوتا ہے اور ہر قسم کی باتوں سے وہموں میں مبتلا ہوتا ہے۔ شگون لینے لگتا ہے یہ جو واقعہ ہوا شاید اس کا یہ مطلب ہو۔ تو ان کے متفرق اور منتشر خیالات اور توھمات کا ذکر ہے جہاں ظن الجاھلیۃ فرمایا گیا ہے اور ظن الجاھلیہ کا یہاں موقع خدا کے ساتھ ایک تعلق کا پیدا ہوگیا ہے۔ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا کہ اللہ فتح دے گا اور اللہ ہمارے ساتھ ہے تو یہ جو عمومی سوچیں ہیں یہ خدا کے تعلق میں پیدا ہونی شروع ہوگئیں۔ یہ مراد ہے۔ یہ عموماًان کوہمیشہ گھیرے رہتی تھیں وہ اس موقع پر آکر اللہ کے تعلق میں ویسی ہی سوچیں جو آپس میں ایک دوسرے کے متعلق کیا کرتے تھے یا اپنے خداؤں کے متعلق کیا کرتے تھے کہ شاید اس نے یہ کیا ہو۔ اس نے یہ کیا ہو۔ اس طرح کے توہمات یہ اللہ کے تعلق میں یہ ان کے ذہنوں میں جانشین ہوگئے ۔
‏ Mohammad in Mecca, Mohamad History of the Quran.
اس میں لکھا ہے۔ ایک منٹ۔ منٹگمری واٹ کے حوالے میں یہ یاد رکھیں۔ مجھے جو یاد ہے Mohammad in Mecca تھا۔ یہاں یہ لکھاہے Mohammad's Mecca۔ مگر غالباًلکھنے والے نے غلط لکھ دیا ہے۔ بہرحال وہ لکھتا ہے دوسری بات اس نے یہ لکھی ہے کہ واٹ نے۔
if you had a part in the affairs probably means if I advise has been followed and we have not gone out to battle. A number of Muslim here advise this and Mohammad had first........ this course his first course
یہاں جان کے مسلمانوں کی طرف منسوب کررہا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ایڈوائس دی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااپنا بھی آغاز میں یہی رجحان تھا۔ لیکن پھر بدل دیا۔ تبلیس اس کو کہتے ہیں۔ واٹ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ذاتی خیال یہ تھا اور اتفاق سے عبداللہ بن ابی بن سلول کابھی یہی خیال تھا اور جو بدلا ہے یہ لوگوں کے مشورے پر ارادہ بدلا ہے۔ اب یہ تلبیس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی یہی خیال تھا۔ مسلمانوں نے تو یہی مشورہ دیا تھاکہ نہ نکلو۔ لیکن اپنا یہ خیال خود ہی پھر بدل دیا اور ایک غلط فیصلہ کردیا۔ یہ اس طرح شرارت کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر وہ لکھتا ہے۔
To none who thought that Mohammads faulty plans before the (Uhd) Arabs let to the loss of life he was told to sayکہ یہ خدا کی تقدیر ہے if you have remained in your home etc.
اب دیکھیں کیسی شرارت اور کتنا زہر اگلنے والے لوگ ہیں کہتا ہے کہ Mohammad's faulty Plans before to Uhd let to this. فالٹی پلین کیا؟ آج بھی جب مڑ کر آپ دیکھتے ہیں اس سے زیادہ خوبصورت جنگی چال ممکن ہی نہیں ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی احد پر تقریر میں بھی احد پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بیان کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنے لشکر کو دشمن سے پرے پہاڑی کی اوٹ میں کھڑے کردینا جب کہ دشمن کے لئے موقع تھا کہ ان کے اور مدینہ کے درمیان حائل ہوجائے ایک عظیم الشان جنگی تدبیر تھی جس کی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی۔جرنیل تو یہ سوچتے ہیں کہ پیٹھ محفوظ اس طرح ہو کہ اگر ہمیںپیٹھ کرنی پڑے اور ہمیں واپس آنا پڑے تو ہمارے اور ہمارے امن کی جگہ میں بیچ میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔ اور پھر ایک اور بظاہر بڑا زبردست خطرہ مول لیا ہے کہ دشمن اگر ان کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف مائل ہوجاتا تو جیسا چاہتا کرتا لیکن دشمن کی نفسیات پر آپ کوگہرا عبور تھا۔ آپ جانتے تھے۔نمبر ایک یہ کہ اگر ہمارے اندر کوئی کمزور بھی ہوئے جنگ کی سختی کے وقت انہوں نے پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو مدینے نہیں جاسکیں گے۔ کشتیاں جلانے والا مضمون پیدا فرما دیا۔ ایک جبرالٹرپہ جو واقعہ پیش آیا تھا۔ ویسا ہی مضمون ہے کہ طارق نے جس طرح کشتیاں جلائی تھیں اس طرح آپ نے فرمایا کہ ہمارے پیچھے اب پہاڑ ہے اور اگر تم چاہو بھی تو تم واپس نہیں جاسکو گے۔ اسی لئے اس کامل یقین کے ساتھ اس میں شامل ہوکہ جان کی آخری قربانی بھی پیش کرنے کے لئے ہم حاضر ہیں۔ اس سے ان کے کردار میں ایک عظمت پیدا ہوگئی پھر دشمن کو بتادیا کہ ہم بزدل نہیں ہیں۔ پیچھے مدینہ خالی پڑا ہے۔ تمہیں جرأت نہیں ہوسکتی کہ ہمیں چھوڑ کر مدینہ پر حملہ آور ہو اور اگر وہ ایسا کرتا تو یہ کہ آگے سے مدینہ نے اپنا دفاع خود ہی کرنا تھا تو یہ سینڈوچ ہوجاتا ان دونوں طاقتوں کے درمیان۔ ہاں اس کا اصل حوالہ آگیا ہے۔ اس کتاب کا نام Mohammad in Meccaنہیں ہے بلکہ Mohammad's Mecca History in the Quran یہ عنوان ہے منٹگمری واٹ کی کتاب کا۔ اچھا اب دیکھیں۔ Faulty Plan جو یہ کہہ رہا ہے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ Plan کرکے دشمن پر ایک رعب ڈالاہے اور وہ بڑا بھاری رعب تھا اور دشمن کو یہ خطرہ تھا کہ پیچھے سے نہ کچھ فوج آ پڑے۔ اس خطرے نے لازمی ان کے بھاگنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ 700 تو نکلے ہوئے ہیں لیکن کس بِرتے پر نکلے ہوئے ہیں۔ واپسی کا راستہ بند کرکے نکلے ہیں تو ضرورکوئی ہماری پیٹھ کے پیچھے سے خوف ہے اور چونکہ وہ اور جاہلانہ تصورات میں مبتلا رہتے تھے جاھلانہ تصور سوچا ہی کرتا ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اس سے بہتر Plan ممکن نہیں تھی ان کی نفسیات پر گہری نظر رکھی ہے اور فنون حرب پرلکھنے والے جو فلسفہ بیان کرتے ہیںوہ کہتے ہیںکہ جو سب سے عالی شان جرنیل تاریخ عالم میں ابھرے ہیںوہ دشمن کی نفسیات کو سمجھنے کے نتیجے میں اس بڑے بلند مرتبے تک پہنچے ہیں ۔چنانچہ نپولین کے متعلق بھی لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اسکی جنگی کامیابیوں کا راز اس کی دشمن کی نفسیات سمجھنے میں تھا اور اسی طرح جنگ عظیم میں چرچل کوآپ پڑھ کے دیکھ لیں جگہ جگہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ دشمن کی نفسیات کیا ہوگی ؟ اورجو بہتر سمجھتا ہے وہی غالب آتا ہے آخر۔نپولین کی شکست کے اسباب میں بھی اس کی نفسیاتی غلطی کو سب سے اہم نمایاں ایک کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔آخر پر جب اس کو شکست ہوئی ہے تو وہ جو جنگی داو پیچ پر گہرا عبور رکھنے والے مؤرخین ہیں جن کو پتا ہے نفسیات کا وہ یہ کہتے ہیں کہ دراصل نپولین کی شکست کا راز اس کا سپینش کریکڑ نہ سمجھنے میں ہے ۔ وہ یورپ کا دوسرا کردارتو سمجھتا تھا ۔ان کے مزاج کو سمجھتا تھا لیکن سپینش کردار کو نہیں سمجھتا تھا اور اس سلسلے میں جو اس سے غلط فیصلے ہوئے وہی دراصل اس کی تباہی کا موجب بنے نیں ۔تو یہ تفصیلی بحث کا تو موقع نہیں ہے میں اشارتہً آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ جنگ احد میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دشمن کی نفسیات پر اتنا گہرا عبور ثابت ہوتا ہے کہ اس کے بغیر یہ فیصلہ ممکن ہی نہیں تھا جو آپ نے کیا ۔ جانتے تھے کہ کبھی نہیں پلٹے گا اس طرف۔ ورنہ پیچھے سے ہم ہونگے اور سامنے سے مدینہ ان کا مقابلہ کرے گا جانتے تھے کہ وہ خطرہ محسوس کرے گا پھر بھی اس وہم میں مبتلا رہے گا کہ اہل مدینہ کہیں عقب سے نہ حملہ کردیں کچھ تو سپاہی پیچھے چھوڑ آئے ہوں گے ۔ورنہ اتنا جرأت مندانہ فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے تو یہ تو حربی تاریخ میں ایک عظیم الشان جنگی حکمت کا ایک کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک ایک نمایاں حیثیت سے تاریخ حرب میں ایک جیسے کہتے ہیں ستاروں کی طرح روشن اور چمکتا رہے گا ویسی کیفیت ہے اس کی اسے یہ لکھنا
‏Faulty plans before the Uhad let to the loss of life
اتنی Stupidبات ہے کہ حد ہی کوئی نہیں ۔اور اس کا جھوٹ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خود دوسری جگہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اگر درے والے یہ نافرمانی نہ کرتے تو یہ فتح شکست میں تبدیل ہو ہی نہیں سکتی تھی اس کو Faulty plan کہتے ہیں کتنی بے وقوفی ہے اور کتنا نفس کا دھوکا یا دوسروں کو دھوکے میں ڈالنے والنے کے لئے ایک بالارادہ کوشش ہے ۔خود جانتا ہے ۔ مانتا ہے ۔تسلیم کر چکا ہے کہ اتنی مکمل اور خوبصورتplan تھی کہ اگر وہ لوگ جو درے پر مامور تھے وہ غلطی نہ کرتے تو ناممکن تھا کہ یہ فتح شکست میں تبدیل ہو سکتی ۔اور اب کہہ رہا ہے دیکھو Faulty plansایسے ہی باتیں لوگ کر رہے تھے اب سنئے !پہلے ہم تقدیر کا مسئلہ لیں یا پہلے ان مفسروں کی بحث کو ختم کریں ۔ ہیں ! نہ وہ ختم ہونی ہے اور نہ یہ ختم ہونی ہے ۔ میں نے وقت دیکھ لیا ہے ۔ کتنا وقت رہتا ہے۔جی ابھی ۵ منٹ ؟اب پانچ منٹ میں کچھ بھی نہیں ہونا۔ اس لئے تقدیر کو آخر میں لے لیں گے۔ ابھی میں شیعہ مفسر صاحب کی ایک عبارت پیش کردیتا ہوں۔ اس پر گفتگو انشاء اللہ باقی کل ہوگی پھر
It is Reported that the sowerd was automatically following on the enemy from the hands of the greatest hero of the faith.
کہتے ہیں جب یہ اونگھ کی کیفیت ہوئی تھی تو اس وقت یہ بیا کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار از خود ،خودکار مشین کی طرح چل رہی تھی۔ ان کا ارادہ داخل نہیںتھا۔ اس طرح یہ بے چارے عوام شیعہ کو دھوکے دیتے ہیں اورظلم پھیلاتے ہیں ان میں۔ خدا کا کوئی خوف نہیں کرتے کہ مرنے کے بعد اپنا بوجھ تو اٹھائیں گے ان معصوم شیعوں کا بھی اٹھائیں گے جن کو علم نہیں ہے۔ وہ یہ باتیں سن کے مان جاتے ہیں اور بچپن سے کان میںایسی باتیں ڈالی جاتیں ہیں۔ پھر حضرت علیؓ کا ذاتی کردار کہاں چلا گیا ! اگر اس طرح ہی اللہ کرواتا تھا تو پھر ان کی ذات کا تو کوئی بھی دخل نہ ہوا‘ ان کا ماہرِ فن حرب ہونا یا نہ ہونا بے تعلق بات بن جاتی ہے۔ ایک بچہ کا ہاتھ آپ نے تھاما ہو اور اس سے حرکتیں کروائیں کچھ۔ ماہرانہ حرکتیں کروائیں تو بچہ کا بیچ میں کیا فخر ہے۔ اس کا اختیار ہی کوئی نہیں تو نیند نے ثابت کردیا ان کے قول کے مطابق اونگھ کی کیفیت سے اصل راز سے پردہ اٹھ گیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی کمال نہیں تھا۔ یہ اوپر سے از خود حرکتیں ہورہی تھیں تو اس سے تو یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ میں ایسے برگزیدہ تھے۔ یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کو پوری طرح خدا اپنے ہاتھ میں لے کر ان سے یہ کروا رہا تھا۔ مگر کوئی ذاتی خوبی ان کی باقی نہ رہی اور یہ کہنا کہ وہ ایک ماہر‘ ایک بڑے مشاق لڑنے والے تھے۔ یہ بات تو ہاتھ سے جاتی رہی۔
While the turly faithful once had been experiencing the divincly caused miraculous slumber the hypocrates in the muslim rank sat idol murmouring what would be the ultimate result of the conflict against the tremendous strength of such strongly numbered enemy.
کہتا ہے سوائے چند مومنین کے۔ ان کے مومنین سے مراد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعض ساتھی۔ ان پر تو آگئی تھی نیند۔ ان کے سوا تو سارے انہیں سوچوں میںمبتلا تھے کہ ہمارا بنے گا کیا؟
But most of the sahaba's Remember this companion of the Holy Prophet did that day in flying away from the battle field when the enemy surprised the muslims from the rate through the passage which ws fully rocated by the band of the muslims. The comentators had quitly avoided without the least refrence to it.
اچھا جی ! خیر باقی پھردیکھ لیں گے اب کہتے ہیں اب ایک منٹ رہ گیا ہے۔ اس وقت جو درس جارہا ہے۔ مختلف زبانوں میں۔ اردو کے علاوہ انگریزی‘ عربی‘ فرنچ‘ جرمن‘ رشین‘ بوسنین اور ٹرکش ۔ ٹرکش کے ہمارے ماہر وہاں سے جرمنی سے تشریف لے آئے ہیں۔ ان کو کل میں نے نماز میں دیکھا تھا۔ انہوں نے باقاعدہ شروع کردیا ہے۔ یہ جو کیسٹیں ہیں ان کو اب محفوظ رکھیں تاکہ آئندہ پھر دوستوں میں کام آئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ باقی انشاء اللہ کل پرسوں۔ کل نہیں کل جمعہ ہے۔ پرسوں اکٹھے ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 8رمضان المبارک
19 فروری 1994ء
پرسوں اسی آیت پر گفتگو ہورہی تھی کہ وقت ختم ہوگیا۔ میں نے ایک حوالہ شیعہ مفسرمیر احمد علی صاحب کا پڑھا تھا اور اس کے متعلق یہ اظہار کیا تھا کہ ان شاء اللہ اس کے اوپر تفصیلی گفتگو بعد میں ہوگی۔ آج جبکہ میں نے شیعہ اعتراضات کو یکجائی صورت میں دیکھا ہے تو میرے خیال میں اس آیت کے نیچے اس بحث کو لانا بنیادی بحث کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں محض سرسری طور پر آپ کو یہ بتادیا جائے کہ شیعہ رحجان جنگ احد سے بھاگنے والوں کے متعلق کیا ہے اور غصہ کس بات کا ہے؟ اور بعد میں آیت 156 میں اس بحث کو تفصیلاً ہر پہلو سے اٹھایا جائے گا اور پھر بھی اس کا ایک حصہ ایسا باقی رہے گا جو 160 آیت کے نیچے زیر بحث لایاجائیگا۔ یہ عمومی جو ذہنی نقشہ ہے اس سے میں آپ کوآگاہ کررہا ہوں۔ بہرحال جو میں حوالہ پڑھ رہا تھا اس کاایک حصہ یہ ہے۔
On the other hand the disgraceful conduct in the part of the hypocritical Muslims that day had been cammouflaged by colourful descriptions of the events and piculiar arguments against the behavour of such cowards in the Muslim ranks who deserted the Holy Prophet and ran away like wild goats jumping from rock to rock on the mountain.
یہ کہتے ہیں ان کو تکلیف یہ ہے کہ تمام وہ صحابہ جن کے پائوں اکھڑے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں معاف فرمادیا تھا ان کے معافی والے حصے کو کیوں بیان کرتے ہو۔ ان کے جرم کے اوپر کیوں نہیں تفصیل سے روشنی ڈالتے؟ اور کیوں حقارت اور ذلت کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کرتے؟ کیوں یہ نہیں کہتے کہ پہاڑی بکریاں چٹانوں سے اچھلتی کودتی ایک پتھر سے دوسرے پتھر پر چھلانگیں مارتی ہیں۔ اس طرح یہ سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم آپ کو Reject کرکے چلے گئے۔ یہ ہے ان کے دل کا عذاب جو ان کی تحریروں سے ابل رہا ہے۔ اچھل رہا ہے ۔ اوراصل حقیقت کیا ہے؟ کیا ان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنے کا غم ہے یا کوئی اور دکھ ہے جو جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔ یہ بحث ان شاء اللہ 156 میں آئے گی لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے جس طرح جانثاریاں دکھائی ہیں جنگ کے موقع پر‘ اس طرف ان کی نظر نہیں جارہی۔ کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو ایک کے بعد دوسرے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نچھاور کیا ہے اور کس ولوے اور جوش کے ساتھ انہوں نے اس موقع پر قربانیوں کے مظاہرے کئے۔کہتے ہیںاس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے سب کو بھول جائو یہ (colourful descriptions) ہیں۔ محض توجہ ہٹانے والی باتیں ہیں۔ توجہ اس طرف مرکوز رہنی چاہئے کہ خدا کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ توجہ اس طرف مرکوز رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے بدنصیب لوگوں کو معاف کرنے کا گویاحق ہی کوئی نہیں تھا۔ پس اللہ تعالیٰ معاف کرتا پھرے اس کو ایک طرف چھوڑ دو اور ان کے کردار کو اس بھیانک طریق پر پیش کرو کہ جیسے بکریاں اچھلتی کودتی پہاڑوں پر بدک کے بھاگ رہی ہیں۔ وہ نقشہ دنیا کے سامنے جماؤ تب حقیقت حال سے پردہ اٹھے گا۔ یہ ہے دعویٰ میر احمد علی کا اور ان کے ہمنوا دیگر تمام شیعہ راہنمائوں کا الاما شاء اللہ۔ ان میںکچھ نیک بھی ہوتے ہیں‘ متقی بھی ہونگے ضرور‘ کیونکہ کوئی اسلامی فرقہ کلیتہً تقویٰ سے عاری نہیں ہے اس لئے ا نکے ‘ ہوسکتا ہے ان کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچی ہو اس قسم کے اظہار سے جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول اوراسکے محبان سے محبت کرنے والے ہر دوسرے مسلمان کو پہنچتی ہے مگر ان کی محبتیں خاص ہوکر ایک جگہ محدود ہوگئی ہیں اور اس محبت کے حوالے سے ان کی خوشیاں اور ان کی تکلیفیں ہیں۔ اور اس دائرے میںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیںہیں۔ یہ دھوکہ ہے‘ وہ کچھ اور بات ہے چنانچہ اس مضمون پر ان شاء اللہ تعالیٰ کل یا آج ہی اگر اس آیت میں داخل ہوگئے تو اس پر گفتگو کرونگا۔
یہاں وہیری کہتا ہے۔
After the battle of Ohad the Muslims fell asleep. Some slept soundly and were refreshed, others were excited indulging in wild imaginations, supporing themselves to be the merge of destructin sound asleep.
یہاں اب اس کا ترجمہ جو sound asleep کیا گیا ہے یہ ایسا جاہلانہ ترجمہ ہے‘ یا تو ان لوگوں کو عربی کی الف ب کی بھی واقفیت نہیں‘ یونہی علماء بنے پھرتے ہیں اور یہ میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ عربی زبان کے بڑے بڑے ماہر ان میں پیدا ہوئے ہیں۔ لمبی عمریں گنوائی ہیں۔ انہوں نے اور اس کے باوجود یہ کہنا کہ عربی کا بالکل سرسری علم تھا یہ درست نہیں ہے۔ قرآن کا سرسری علم ہے‘ عربی کا کسی حد تک علم ضرور ہے۔ اب یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ پس ان کا یہ کہناکہ sound asleep تھے یہ محض دھوکہ دینے کی ایک کوشش ہے بالارادہ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت حالت یہ تھی کہ ان کو کوئی پرواہ نہیں رہی تھی کہ لمبی تان کے سورہے تھے سارے‘ اورپھر خوب اس سے مزا اٹھایا انہوں نے‘ اور کچھ لوگ تھے جو پریشان تھے جو حقیقت حال کو سمجھتے تھے۔ وہ جو منافق ہیں وہ جو ایمان سے عاری تھے‘ جن کے دلوں میں کئی قسم کے توہمات کھول رہے تھے اور ان کو نیند نہیں آنے دیتے تھے وہ ان کے نزدیک گروہ متقیان ہے‘ سمجھدار لوگوں کا گروہ ہے‘ جو ہوشمند تھے اور جانتے تھے کہ کیا ہورہا ہے اور وہ جو متقی تھے جن کی خاطر اللہ نے اونگھ اتاری وہ گویا کہ سب بے حس اور بے پرواہ اور ناسمجھ لوگ تھے‘ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کیا ہورہا ہے اس لئے وہ پڑے جہاں جہاں ان کو موقع ملا وہاں لیٹ کے سورہے تھے حالانکہ ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ اس میدان میں ایک بھی صحابی ایسا ہو جس نے ہتھیار ڈالے ہوں اور لیٹ کے سو گیا ہو‘ ایک روایت بھی نہیں ملتی نہ ہی یہ کسی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح یہ جھوٹ بناتے ہیں اور اس طرح اپنے طلبہ پر جھوٹے تاثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان کے طلبہ کی وہ ہے جو intelligence سے تعلق رکھتی ہے اور اکثر یہ چیزیں The school of oriential and African Studdies میں یا دوسری یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہاں اسلام اور عربی اور ایشیائی کلچرز میں دلچسپی لینے والے اکثر وہ لوگ ہیں یا جو فوج وغیرہ سے ان کی دفاعی سروسز سے عاریتہ عارضی طور پر کچھ عرصے کے لئے یہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹیز میں بھیجے جاتے ہیںیا پھر وہ لوگ ہیں جو اس نیت سے داخل ہوتے ہیں کہ ہم ڈپلومیٹک (Diplomatic) سروس کریں گے اور ان قوموں کے خلاف جو بھی ہماری سکیمیں ہونگی ان کو عملی جامہ پہنانے میں ہمارے سپرد کوئی کام کیا جائے گا۔ اس لئے ہمیں بہتر طور پر ان کے خلاف ہر قسم کے ہتھیاروں سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس نیت سے یہ لوگ داخلے لیتے ہیں۔ پس ان کے ذہنوں پر جو اسلام کے تاثرات چھوڑے جاتے ہیں‘ کیا تھا اور کس غرض سے تھا؟ یہ سارے قصے وہی ہیں جو ان کی تحریروں میں جگائے جارہے ہیں۔ پھر آگے یہ کہتا ہے ؟
We had not been slain. The meaning is that they considered God to be against them because they have not secured any gain in the battle.
یہ بدبخت gainچھوڑ ہی نہیں رہا۔ ان کے دماغ کا پیچھا۔ اندازہ کریں‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر منافقین کی طرف یہ منسوب کرکے یہ بات کہی جارہی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں یا کمزور ایمان والے : اگر یہ ہمارے ساتھ ہوتے لوگ تو یہ میدان جنگ میں شہید نہ ہوتے‘ قتل نہ کئے جاتے۔ یہ مضمون ہورہا ہے۔ وہ ایسا حرص کا جن ان کے دماغ پر سوار ہے کہ یہاں بھی صرف booty ہی کا مضمون نکال لیا ہے۔ کہتے ہیں۔
The meaning is that they considered God to be against them.
اللہ ان کے خلاف ہوگیا ہے۔
Because they have not secured any gain in the battle.
کہ انہوں نے کافی booty نہیں حاصل کی۔ مال غنیمت سے پورا حصہ نہیں لیا۔ اس لئے اللہ ان کے خلاف ہوگیا ہے اور اس لئے وہ قتل ہورہے ہیںکہ بیوقوفو! تمہیں بھیجا تھا لوٹ مار کیلئے‘ پاگلو ! کس طرف چلے گئے۔ لوٹ مار چھوڑ کے اور کچھ باتیں نیکی کی سوچنے لگ گئے ہو۔ میں تو یہ قبول نہیںکرونگا۔میں تو سزا دونگا۔ اور تم قتل اس لئے ہورہے ہو کہ تم نے booty چھوڑی اور دوسرے کاموں میں لگ گئے۔ یہ دماغی ساخت‘ یہ ا نکا مبلغ علم‘ یہ ان کی پچ‘ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ لوگ آج دنیائے علم میںایک مستند حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور عالم اسلام میںبھی ا نکا نام بڑی عزت اور وقار سے لیا جاتا ہے کہ وھیری نے یہ فرمایا اور مسٹر بیل نے یہ کہا اور سیل کا یہ نظریہ ہے اور جو کوئی ان کی باتیں اپنی کتابوں میں اس طرح زیر بحث لائے ان کے حوالے دے ۔ وہ سمجھتے ہیںکہ سب سے بڑا عالم وہی ہے۔ وہی مسلمانوں میں ٹھوس علم رکھنے والا ہے جو ان کی نہج پر سوچتا اور ان کے حوالے دیتا اور ان کے ہم پلہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور جس کے ہم پلہ بنتے ہیں وہ آپ دیکھ چکے ہیں کس قسم کے لوگ ہیں۔
They therefore said to themselves or to one another, "If God had asisted us according to his promise or, as others interpret the words. "If we had taken the advice of Abdullah Ibn Ubai Suloul, and had kept within the town of Madina, our companions had not lost their lives."
وہ یہ سوچ رہے تھے اس وقت‘ دوسری سوچ یہ ہے۔ ایک تو یہ تھی نا کہ اللہ ناراض ہوگیا ہے کہ ہم نے لوٹ مار کیوںنہیں کی۔ دوسرا یہ کہ وہ سب اس وقت یہ سوچ رہے تھے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ ہوتے تو کیا بات ہوتی۔حالانکہ ماقتلنا ھھنا کا وہ مطلب ہی نہیں سمجھا یعنی جہالت عربی کی بھی ہوگی کچھ اور کچھ نیت کی خرابی‘ ان دونوں نے مل کر یہ آفت ڈھائی ہے یہاںوہ کہنے والے جو ماقتلنا ھہنا یہ جوکہنے والے ہیںیہ مدینے میںبیٹھے ہوئے ہیں آرام سے۔ وہ کہتا ہے اگر ہمارے ساتھ ہوتے ہماری بات مانتے تو یہاں قتل نہ ہوتے۔ تو جنہوںنے بات مانی تھی وہ تو ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور جنہوں نے نہیں مانی تھی ان کی بات نہیں ہورہی۔ ان کے متعلق وہ ذکر کررہے ہیں جو مدینے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ لوگ جو محمد رسول اللہ کے ساتھ نکلے ہیں اگر یہ ہماری بات مانتے تو نہ قتل ہوتے۔ قتلنا کا جو لفظ ہے (اس نے طرز بیان) اس نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ مقتول توخود بول ہی نہیںسکتا۔ جو قتل ہوگئے تھے انہوں نے کہاں کہنا تھا۔ قتلنا کا ایک عمومی اظہار ہے جس کا پوری قوم کے طرز عمل سے تعلق ہے۔ یعنی ہم میں سے کچھ لوگ نہ مارے جاتے‘ یہ مراد ہے پس قتلنا کا صیغہ چونکہ متکلم جمع کا صیغہ ہے۔ اسلئے ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ لوگ جو شامل ہوئے تھے اور وہاں قتل ہوئے تھے وہ یہ کہہ رہے تھے۔ حالانکہ ان کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی تعلق تو ہے مگر اور رنگ کا تعلق ہے۔ آگے دیکھئے‘ پھر کہتے ہیں : جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے اس کے متعلق وھیری صاحب لکھتے ہیں:
‏But they are many passages asserting the freedom of will
کہتا ہے اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی محمد یہ کہتے ہیں‘ ان کا عقیدہ تقدیر جبری کا عقیدہ تھا جیسا کہ کہتا ہے :
This verse is decidedly fatalistic and taking it by itself, the only conclusion one could logicaly drew would be that Muhammad was a fatalist.
یعنی یہ جو ہے نا الامر کلہ للہ یہ بیان کہتا ہے ثابت کرتا ہے قطعی طور پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم fatalist تھے یعنی ان کے نزدیک بندے کو قطعاًکسی قسم کاکوئی اختیار نہیں ہے۔ کہتا ہے:
But there are many passages arresting the freedom of will.
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ بعض قرآن کریم کے حوالوں میں‘ آیات میں یہ مضمون ملتا ہے کہ انسان کو یہ اختیار ہے کہ اپنے ارادے سے بھی کوئی کام کرے۔ پھر نتیجہ یہ نکالتا ہے۔
We regard Muhammad as having been strongly inclined to fatalism owing to the emphasis which he had upon the doctrine of Gods absolute sovereignty.
کہتا ہے‘ آخری نتیجہ ہم یہ نکالتے ہیں کہ کم از کم محمدﷺ کا رجحان ضرور تھا اس طرف۔اور بڑا واضح اور قطعی رجحان تھا کہ انسان کلیتہً بے اختیار ہے کیونکہ اس کا تعلق خداتعالیٰ کی absolute sovereignty سے ہے کہ خداتعالیٰ ہر چیز پر قادرہے۔ اب یہ جو دلیل ہے یہ بھی ایک جاہلانہ سوچ کا نتیجہ ہے‘ اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ سورۃ فاتحہ ہی میں اللہ تعالیٰ مالک صرف نہیں کہتا۔ مالک یوم الدین کہتا ہے یعنی absoluteملکیت‘ اپنے درجہ تمام تک اس وقت ظاہر ہوگی جبکہ اس دنیا کی صف لپیٹی جاچکی ہوگی اور ہم آخرت میں اس مالک کے حضور پیش ہونگے جس کے پاس تمام اختیار لوٹ چکا ہوگا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں وہ مالک تو ہے مگر مالک یوم الدین ان معنوں میں نہیںہے کہ اس نے اپنے اختیار کو از خود بعض دوسروں کو منتقل کردیا ہے اور اس دنیا میں جو مالک بنے پھرتے ہیں یہ عارضی مالک ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی absolute soverignty کا جو تصور قرآن کریم میں ملتا ہے اور سورہ فاتحہ سے بالکل ظاہرو باہر ہے وہ یہ ہے کہ ہے تو وہی با اختیار لیکن اپنے اختیار سے اس نے اس دنیا میں جو ہمارے لئے ایک آزمائش کا گھر ہے ہمیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان اختیارات کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ابتلا کا دور ہے اور یہ ہمارا عمل ہی ثابت کرے گا کہ ہمارے اختیارات کو استعمال کرنا اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا اس کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے۔ اب یہ سارے فیصلے اس دن ہونگے کہ جب خدا کی طرف امر اٹھایا جائے گا۔ واالامرکلہ اللہ‘ یہ الفاظ آتے ہیں قرآن کریم میں۔ قیامت کا دن وہ ہوگا جب والامرکلہ للہ تمام امور کا فیصلہ آخری صورت میں اللہ کیطرف لوٹ جائے گا اور کسی کے پاس کوئی ملکیت نہیں رہے گی۔ یہ ہے اسلامی تصور۔ اور یہ جو اسلام کے ایکسپرٹس (experts) بنے ہوئے ہیں ا نکو دیکھیں ‘ کیسی جاہلانہ سوچوں میںالجھے بیٹھے ہیں؟ کہتا ہے absolute soverignty کا جو تصور ہے اس کی وجہ سے اس دنیا میں ہی fatality کا عقیدہ از خود ابھرتا ہے۔
But being a man, his own consciousness of freedom asserted itself, and so he was saved from that belief in an absolute predestination.
کہتا ہے لیکن آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اپنا ضمیر تھا اور وہ اس ضمیر کے حوالے سے جانتے تھے کہ بندے کا کچھ نہ کچھ تو اختیار ہے پس ایک طرف عقیدہ وہ پیش کررہے تھے جو انسانی ضمیر کے مخالف ہے۔ دوسری طرف اپناضمیر تھا جو اپنے بنائے ہوئے عقیدے کو رد کررہا تھا۔ اس کشاکش میں کہیں وہ خدا کا وہ تصور جو اپنا بنایا ہوا تھا وہ منظر عام پر ابھرتا ہے۔ وہ قرآن کی طرف منسوب ہونے لگتا ہے اور کہیں وہ بالآخر اپنی ضمیر کی آواز اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ان دونوں امور کا جو مسلسل ذکر قرآن کریم میں یکے بعد دیگر ملتا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ خود ساختہ عقیدے کا جھگڑا جو انسانی ضمیر سے چل پڑا ہے اسکے نتیجے میں کہیں absolute destiny اور کہیںبا اختیار انسان۔ یہ دونوں تصور بار بار ابھر رہے ہیں۔ پھر کہتا ہے :
Belief in an absolute predestination which turns men into mere puppets and all human life into a grim game of chess wherein men are the pieces and no more.
کہتا ہے یہ جو تصور ہے دراصل predestination کا۔ ایسا ہی ہے جیسے وہ مہرے ہوں جن کا کوئی اختیارنہ ہو اور وہ چلائے جارہے ہیں از خود۔ اور جو salvation کا عقیدہ ہے عیسائیت میں ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ وہpredestination for evil ہے۔ اسلام کی predestination اگر ہے تو forgiveness ہے۔ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہر بندہ بے اختیار ہوچکا ہے چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ گناہ کی dispensationکے بغیر کوئی انسان پیدا ہو اور ہر آدمی گناہ کے رحجانات لے کر ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے۔ سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے وہ کیوں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ ماں کے پیٹ سے تو وہ بھی نکلے ہیں‘ لیکن کہتے ہیں وہ گناہ کا رجحان لے کے نہیں نکلے باقی ہر انسان۔ تو predestination اور کس کو کہتے ہیں۔ انسانیت doomed ہوچکی ہے عیسائیت کے عقیدے کے نزدیک۔ اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ خدا خود خودکشی کرگیا کہ میں یہ کیا کر بیٹھا ہوں۔ یعنی حضرت مسیح کی جو قربانی ہے اس کا خود کشی کے سوا نام ہے کیا مجھے یہ بتائیے۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ خود کشی نہیں بلکہ زبردستی ہوئی ہے جب ان کی ہم یہ آواز سنتے ہیں ایلی ایلی لما شبقتانی تو اس وقت پھریہ خیال ابھرتا ہے دل میں کہ اوہو! ہم تو خواہ مخواہ سمجھ رہے تھے کہ از خود شوق سے اپنے آپ کو پیش کیا ہے‘ جب اس رات کی طرف توجہ جاتی ہے جب یہ دعائیں کررہے تھے اور اپنے مریدوں کو کوس رہے تھے کہ یہ سونے کا وقت ہے؟ تمہیں کوئی حیائ‘ شرم‘ خیال نہیں ہے؟ یعنی الفاظ تو یہ میرے ہیں لیکن مضمون یہی ہے جو بائبل میں بیان ہوا ہے کہ کون سی رات ہے اور تم آرام سے سو رہے ہو؟ یہ کوئی سونے کا وقت ہے؟ یہ تو وقت وہ ہے کہ اٹھو اور گریہ و زاری کرو اور ساری رات گریہ و زاری۔ اور گریہ و زاری یہ تھی کہ اے خدا اے آسمانی باپ یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے۔ تو پھر وہ خودکشی والا مضمون بھی صادق نہیں آتا پھر یہاں۔ عیسائی عقیدہ یہی ہے کہ خود کشی تھی ۔ لیکن بائبل کا بیان اس کو جھٹلاتا ہے اورباپ کا بیٹے کے قتل والا معاملہ ہے۔ باپ نے مجبور کرکے بیٹے کو سولی چڑھوا دیا تاکہ اس مصیبت سے بنی نوع انسان کو نجات ملے۔ جو پیدائشی گناہ میں ملوث ہوچکے ہیں۔ ان کی تقدیر بن گئی ہے کہ لازماً گھاٹا کھائیں گے‘ کوئی ان میں سے بچ سکتا ہی نہیں۔ اس سے زیادہ ہولناک predestination کا تصور دنیا کے کسی مذھب میں نہیں ملتا۔ تلاش کرکے دیکھ لو۔ کوئی مثال نہ مشرق و مغرب کے مزاج میں سے‘ جس میں اتنی ہولناک predestination کا بیان ہو کہ تمام انسانیت بلا استثناء doomed ہوگئی ہے۔ مردود اور ملعون ہوچکی ہے اور کوئی نیکی ‘ کوئی توبہ‘ کوئی استغفار کوئی ندامت کے آنسو اس بات کو اب دھو نہیں سکتے۔ سوائے اس کے کہ ان کے عقیدے کے مطابق خدا کا بیٹا نعوذ باللہ من ذالک خود کشی کرے۔ اور بائبل کے بیان کے مطابق سوائے اس کے کہ باپ اپنے بیٹے کی مرضی کے خلاف اسے تختہ دار پر چڑھوا دے اور وہ آخری وقت تک پکارتا رہے یہ کیا ہوگیا؟ یہ کیا ہوگیا؟ تو کیوں مجھے چھوڑ بیٹھا ہے؟ یہ ان کا predestination کا تصور ہے اور اسلام کی predestination کا تصور یہ ہے کل مولود یولد علی الفطرۃ ہر انسان پاک فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔ کل مولود یولد علی السلام ہر انسان اس حالت میں پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی فطرت پر امن ہے وہ دوسروںکو امن دینے والا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تابع ہے اور ایک ذرہ بھی ان سے انحراف نہیں کرنے والا۔ یہ فطرت لے کر انسان پیدا ہوا ہے۔ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر یہ کیوں مذاہب کا اختلاف دیکھتے ہو ابواہ یھودانہ و ینصرانہ۔ یہاں بھی اختیار ہے‘ جبر نہیں ہے۔ جن کے ماں باپ چاہیں ان کو یہودی بنادیں جن کے ماں باپ چاہیں ان کو نصرانی بنادیں۔ اسلامی جبر و اختیار کا تو یہ فلسفہ ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے۔
آخری نتیجہ یہ نکالتا ہے غرضیکہ
Muhammad was not a consistent fatalist.
کہتا ہے ایسے fatalist نہیں تھے جو اس بات پر قائم رہیں کبھی ادھر ہوجاتے تھے کبھی ادھر ہوجاتے تھے۔
وھیری لکھتا ہے۔
Yet, not restraining his having ``made prayer one of the four parctical duties enjoined upon the faithful,, and his constant use of language freely asserting the freedom of the will, there is such a multitude of passages in the Quran which dearly make God the author of sin.
جو اپنا اصول ہے وہ اسلام پر تھوپ رہے ہیں۔ انا للہ۔ کہتے ہیں باوجود اس کے کہ فریڈم (Freedom) کا مضمون ملتا ہے لیکن اس سے بہت زیادہ قطعی شواہد قرآن سے اس بات کے ملتے ہیں کہ خدا ہی گناہ کا خالق ہے اور بندہ بے اختیار ہے اور وہ عیسائیت والا جو گناہ تھا وہ ہم پر تھوپ دیا ہے‘ الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے۔ بعض دفعہ چور چلاتا ہے پکڑو پکڑو چور چور۔ چور آیا چور آیا۔ یہ ان کے دل کا چور نکل آیا ہے باہر۔ وہ اللہ تمہارا خدا ہے جس نے بندے کو بدبخت بنا کر مجبور کر رکھا ہے کہ لازماً گناہ گار پیدا ہوگا۔ اسلام کے خدا کا تصور تو یہ نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے so many یہ آیتیں بعض دیتا ہے۔ اپنی طرف سے۔ ان میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اتنا لغو اور بے ہودہ استنباط ہے کہ اس ذکر کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ آگے کہتا ہے۔
So many which asserted the doctrine of absolute predestination, and all this so constantly confirmed by tradition, that the conclusion is irressistibly fourceed upon us that Muhammad is responsible for the fatalism of Islam.
کہتا ہے یہ سب باتیں جو ہم دیکھتے ہیں‘ ان آیات پر غور کرتے ہیں اور ان حدیثوں کو دیکھتے ہیں جو اس مضمون کو تقویت دے رہی ہیں تو اس کے سوا ہم نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ محمد ہی تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اسلام میں جبری تقدیر کا عقیدہ جاری ہوا ہے اصل میں یہ جب ازمنہ وسطی میں جبکہ اسلام مختلف فرقوں میں بٹا ہے۔ اس وقت یہ بحثیں اٹھائی گئیں کہ انسان کو کچھ اختیار ہے کہ نہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جو شعراء نے بھی اٹھایا اور عبیداللہ صاحب علیم جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی ایک نظم میں اس مضمون کو اٹھایا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں شروع وہاں سے کریں گے جہاں انسان کی پیدائش کا آغاز ہوا ہے۔ وہاں جبر تھا کہ نہیں تھا؟ اس کا جواب تو الگ کسی موقع پرشاید کچھ دیا بھی تھا میں نے اور آئندہ بھی دے سکتا ہوں۔ اس وقت میں یہ بات چھیڑنا چاہتا ہوں کہ ان بحثوں کے دوران دونوںگروہ یا دو سے زائد گروہ ہیں‘ انہوں نے اپنے اپنے عقیدے کو قرآن اور حدیث سے ثابت کیا ہے۔ تو یہ صاحب اس بحث میں جانا نہیں چاہتے کہ کس کے دلائل مضبوط تھے کس کے نہیں‘ کون بعینہٖ قرآن کے مطابق تھا یا کون نہیں۔اپنے ہم خیال لوگوں کو اور یورپیئنز کو جو آزادی ضمیر اور آزادی خیال کے قائل ہیں‘ اسلام سے بدظن کرنے کیلئے یہ آڈیٹری‘ آخری آمرانہ فیصلہ دے کر اس مضمون کو ختم کردیتا ہے کہ میں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ سب کچھ قرآن اور حدیث کے مطابق ہے ۔ اس لئے ہم اس بارے میں کوئی شک نہیں کرسکتے کہ یہ تصور یہ عقیدہ اسلام میں محمد رسول اللہ نے خود داخل کیا تھا اور چونکہ انکے نزدیک قرآن کے خالق وہی ہیں اس لئے قرآن کے حوالے سے جب بات کریں گے تو یہی کہیں گے کہ محمد رسول اللہﷺ نے یہ بات بیان فرمائی ۔
سیل کہتا ہے۔
‏ After the action those who had stood firm in the bottle were refreshed and they lay in the field by falling into an agreeable sleep. Lay in the field اب یہ بھی دیکھ لیں وہی چالاکیاں ہیں حالانکہ کوئی روایت lay in the field کی ملتی ہی نہیں ہے۔ ساری روایتیں ہیں وہ جو لڑتے ہوئے اور چلتے پھرتے ایک اونگھ کی کیفیت تھی جس میں ہتھیار جب گرنے لگتے تھے وہ سنبھال لیتے تھے اور بقول شیعہ عقیدہ اس حالت میںبھی حضرت علی کی تلوار خود کار آلے کی طرح خود بخود چلتی چلی جارہی تھی اور دشمنوںکو کاٹ رہی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی توجہ دوسرے اونگھنے والوں کی طرف نہیں گئی ان کے تصور کے مطابق۔ لیکن یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ لیٹے ہوئے لمبی تان کے سو رہے تھے۔ سیل انکا بابا آدم ہے نا‘ یہ سترھویں صدی کے آخر پہ ہوا ہے اور اٹھارھویں صدی کا بڑا حصہ اس نے پایا ہے اس لئے یہ جو موجودہ نسل ہے مستشرقین کی‘ ان کا بابا آدم سیل ہے۔ لیکن سیل کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ پھر بیان کرونگا۔ ان سب بڑے بڑے مستشرقین کے متعلق میں انشاء اللہ آپ کو ان کا بائیو ڈیٹا دکھا کر بتائونگا کہ کون لوگ تھے ؟کہاں پیدا ہوئے ‘ کیا سوچیں تھیں کس طرح انہوں نے کیا سیکھا ‘اور کس سے سیکھا ان کے دائرہ علم کی حقیقت کیا ہے ۔یہی سیل صاحب ہیں جنکے متعلق ایک اور مستشرق لکھتا ہے ‘میں ضمنًایہ بھی بتادوں۔ کہتا ہے اس کو عربی شربی کوئی نہیں آتی تھی صرف لیٹن (Latin) کا سپیشلسٹ تھا اور چونکہ ایک پوپ کے کہنیپر ایک اٹیلین صاحب علم انسان نے عربی سیکھی تھی اور پہلی دفعہ قرآن کریم کا لیٹن زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اسلئے اس نے اُس ترجمے کو پکڑ کر اس کو انگریزی میںتبدیل کیا ہے اور ایک لفظ نہیں پتہ عربی کا خود۔ اور وہ پھر ثابت کرتا ہے حوالے دیکر کہ مسلسل حوالے دیتا ہے اورچوری کرتا ہے۔ بظاہر یہ بات کہتا ہے کہ اس کو زیادہ علم نہیں تھا اس عالم کو اور اس سے اختلافات بھی کرتا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس نے passage کے passage کوٹ (Quote) کئے ہیں۔ جس طرح مولوی دوست محمد صاحب بعض غیر احمدیوں مولویوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے صفحے در صفحے دیتے چلے جارہے ہیں اور ذکر بھی نہیں کرتے۔ اس کو plagiarism کہتے ہیں۔
‏ plagiarism یعنی وہ چوری جو کتابوں کی اور تحریروں کی چوری ہوتی ہے۔ تو وہ خود اُن کے اپنے علماء سیل صاحب کو اس اٹیلین عالم کاچورقرار دیتے ہیں۔ پس جو کچھ بھی آیا ہے انکے پاس وہاں سے آیا ہے اور ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے یہ معلوم کرنے کا کہ اس نے کیا غلطیاں کی تھیں اور جو غلطیاں کی تھیں ان کو اس طرح اپنے علم کے دھارے میں داخل کردیا اور پھر بیچ میںخود بہت گند کرتے رہے۔ ایک مچھلی دل کو گندا کرتی ہے‘یہ تو ساری مچھلیاں گندا کرنے والی تھیں۔ پس پہلے ہی کچھ غلط رحجانات اسلام کے تحقیق کے دریا میں داخل کئے گئے پھر اس کو خوب جی بھر کے گنداکیا ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان کی اسلام شناسائی یا اسلام دشمنی کی تاریخ کا۔ سیل صاحب کہتے ہیں۔
They lay falling into an agreeable into a real asleep so that the swords fell out of their hands. But those who had behaved themselves, til the trouble in their minds imagining they were now given over to destruction.
کہتا ہے وہ جن کا ضمیر جاگ رہا تھا اور ان کو غلطیاں یاد آرہی تھیں ان کو نیند نہیں آئی۔ مگر باقی جو تھے وہ سارے گرے پڑتے تھے چاروں طرف لیٹ گئے اور جس طرح وہ سیلز (Seals) دھوپ میں لیٹی ہوتی ہیں اس طرح سیل صاحب کا خیال ہے کہ سارے‘ جنگ ہورہی ہے‘تمام صحابہ لیٹے سوئے پڑے ہیں۔ اب امر کے متعلق یعنی تقدیرکے متعلق سیل صاحب لکھتے ہیں۔
Instead of writing if we had any part in the governmental affairs he translates the comments and comment as follows:
یہ نوٹس میں سے میں آپ کو پڑھ کے سنا رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ سیل صاحب بجائے یہ لکھیں کہ ان کی طرف یہ بات جو قرآن نے منسوب کی تھی اس کو بیان کریں کہ
If you had any part in the government of affairs.
اس کی بجائے یہ کہتے ہیں۔
If any thing of the matter had happened unto us, if God had assisted us according to his promise or others interpret the verse, if we had taken the advice of Abdullah bin Ubai bin Sulul and had kept within the town of Madina our companions had not lost their lives.
یہ وہی گفتگو ہے جو پہلے گذر چکی ہے۔ سیل ہی سے بعض لوگوں نے بعض باتیں لی ہیں۔ پھر آگے ان کو اچھالتے رہے ہیں اور bڑھاتے رہے ہیں۔
وھاٹ (Whatt) صاحب جو اس زمانے کے مستشرقین کے پیر فرتوت کہلاتے ہیں‘ ان کا یہ خیال ہے :
Instead of applying the meaning of regret, he says, in English acceptance of the fixity of the day of death removes anxiety and gives the certain sovereignty even to the pagan Arabs. The rest of this verse and the following show the muslim that he has a greater cause.
یہ خیر بے معنی سی‘ بے تعلق سی بات ہے۔
اب میں آپ کو اس بحث کی طرف لے جاتا ہوں جو جبر و قدرکی بحث اس آیت میں اٹھائی گئی ہے۔ مستشرقین نے بھی بہت کچھ کہا ہے اور خود مسلم علماء نے بھی اسپر بہت سی بحثیں کی ہیں کہ اس سے مراد کیا ہے؟ من الامر۔ میں نے پہلے ترجمے میں بات واضح کردی تھی۔ اب دوبارہ میں آپ کو اس آیت کی طرف لے جاکر یہ بات سمجھا دوں کہ بحث ہو کیا رہی ہے اور اس کو کھینچ تان کر کس طرف لے جایا گیا ہے۔ بات یہ ہے یہاں لکھا ہے قرآن کریم میں ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا یغشی طائفۃ منکم پھر اس عرصے میں اللہ تعالیٰ نے غم کے بعد جو تمہیں شدید غم کے بعد غم پہنچا تھا اور وہ غم بھی پہنچ چکا تھا جس نے پہلے غموں کا ازالہ کر دیا‘ ان کو صاف کردیا کیونکہ وہ بھاری ہوگیا تھا اس کے ہوتے ہوئے پھر اور غموں کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوا ہے اور علم ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ موجود ہیں یا اس عرصے میں‘ یہ قطعی طور پر ہم نہیں کہہ سکتے‘ یا اس عرصے میں وہ لوگ جو کچھ واپس آگئے تھے اور لڑائی جارہی رہی‘ عین اس حالت میںایک واقعہ گذرا ہے کہ امن یا مجسم امن‘ نیند نیم نیند کی حالت جسے ہم غنودگی بھی کہتے ہیں لیکن وہ غنوگی سے کچھ بڑھ کر تھی صحابہ پرسایہ فگن ہوگئی۔ لفظ قرآن کے ہیں‘ خدا نے ان پر اس نیند کا‘ اس اونگھ کا سایہ ڈال دیا اور وہ ایک امن کی کیفیت کا دوسرا نام تھا۔
کہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کچھ ایک گروہ وہ بھی تھا قد اھمتہم انفسہم کہ انہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اپنی غرضوں سے کام تھا اور وہ خوش نہیں تھے وہ کون لوگ تھے یظنون باللّہ غیر الحق ظن الجاھلیہ۔ وہ اس وقت اللہ تعالیٰ پر مختلف قسم کی بدظنیوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یقولون ھل لنا من الامر من شی ئٍ وہ یہ کہتے تھے کہ کیا اہم معاملات میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کیا اہم فیصلوں میں ہماری بات نہیں سنی جائیگی۔ یعنی ہم سے بھی تومشورے ہونے چاہئیں تھے۔ قل ان الامر کلہ اللہ۔ تو کہہ دے کہ فیصلے تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور وہی آخری فیصلہ کرنے والا ہے۔ اب اس مضمون کا جیساکہ ظاہر ہورہی ہے بات‘ اس عمومی تقدیر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام اہم امور جن کا تعلق مسلمانوں کی بقا سے ہے اور زندگی اور موت کی جدوجہد میں اہم فیصلے جب درپیش آتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم یہ دیا گیا ہے کہ یہ فیصلے جو میری جماعت اور میرے ماننے والوں کے متعلق ہیں یہ تمہارے مشورے سے طے نہیںپانے والے۔ یہ اللہ والے لوگ ہیں‘ اللہ کا کام ہے اس نے فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام کو کس نہج پر چلائے اور اہم ایسے مواقع پر جہاں زندگی اور موت کے فیصلے ہورہے ہوتے ہیں وہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ہدایت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں‘ تجھ سے پوچھتے تو ضرور ہیں لیکن آخری فیصلہ اللہ کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔یہ مضمون ہے جو زیر بحث ہے۔ اس کو کھینچ کر پھر آگے تقدیر کی بحثوں میں غیر بھی لے گئے ہیںاور مسلمان مفسرین بھی لے گئے ہیں مگر آپ کو پوری طرح مضمون سمجھ جانا چاہئے کہ یہ بحث ہو کیا رہی ہے۔
یخفون فی انفسہم مالا یبدون لک یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کررہے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ ہمیں بھی تو کچھ اختیار ہونا چاہئے تھا ہم سے بھی تو مشورے ہوتے۔ لیکن اصل بات یہ ہے یقولون لوکان لنا من الامر شی ماقتلنا ھہنا یہ کہتے ہیں کہ اگرہمارے اختیار میں کوئی بات ہوتی تو ہم یہاں نہ قتل ہوتے۔ میں نے پہلے کہا تھا کہ مدینے میںبیٹھے ہوئے لوگ یہ باتیں کرتے تھے۔ ایک گروہ وہ بھی تھا جو اصل سردار تھا اور سرغنہ تھا ان باتوں کا۔ لیکن گذشتہ درس میں میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ کچھ ایسے کمزور ایمان والے اس جنگ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے جو اپنے سرداروں کی نفی کرتے ہوئے ان کے ساتھ واپس نہیں لوٹے اور رحجان ان کا زیادہ ایمان کی طرف تھا اور کم منافقت کی طرف۔ پس ایسے لوگ وہ ہیں جو اس میدان میں شامل ضرور تھے اور وہاں بھی یہ باتیں ہوئی ہیں اس کا انکار نہیںکیا جاسکتا۔
قل لوکنتم فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیہم القتل ۔ یہ جو مضمون ہے اس نے پھر آگے مفسرین کو زیادہ مائل کردیا ہے تقدیر کی بحث پر۔ کیونکہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل لو کنتم فی بیوتکم اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے اور خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہوتا کہ تم کسی جگہ مارے جائو گے تو تم اپنے بستروں کو چھوڑ دیتے اور کشاں کشاں ان جگہوں کی طرف چل پڑتے جہاں تمہاری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں خدا کے جبر کا مضمون بیان نہیں ہو رہا بلکہ یہ بیان ہورہا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرلے اس نے فلاں جگہ مارے جانا ہے تو پھر بندے کی پیش ہی نہیں جاتی۔ پس تمہارا یہ کہناکہ بندے کا فیصلہ چلے گا اور بندہ اگر چاہے تو موت سے بھاگ سکتا ہے یہ درست نہیں ہے۔ جب موت سے بھاگنے کی بندہ کوشش کرتا ہے تو یہ کوشش لازماً ناکام ہوتی ہے کیونکہ موت اگر مقدر ہے تو وہ پھر ضرور آئے گی۔ یہ ایک امکانی گفتگو ہے عقلی بحث ہے جو یہاں چھیڑی گئی ہے اور ان کے اعتراض کو آخری صورت میں رد کیا گیا ہے کہ جو لوگ قتل ہوئے ہیں یہاں میدان میں ان کے متعلق تمہارا یہ کہنا کہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے‘ یہ درست نہیں ہے کیونکہ نمبر ایک جیساکہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی بات ماننی ہے۔ وہ تو جب انہوں نے سنا کہ خدا اور اس کا رسول جہادکی طرف بلا رہے ہیں تو وہ خود اپنی مرضی سے دوڑے ہوئے ان لوگو ںکی طرف چلے گئے تو خدا کایہ فرمانا بعینہٖ واقعات سے قطعی سچا ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے کہ کسی نے کسی جگہ قتل ہونا ہے تو اپنے بستروں کو چھوڑتے اور دوڑتے ہوئے اپنے مقاتل کی طرف چلے آتے‘ اپنے بچھاڑ کھا کر گرنے کی جگہ کی طرف بھاگتے اور صحابہ تو اسی مضمون کو ثابت کررہے ہیں۔ جن کے متعلق شہادت کے فیصلے ہوئے تھے انہوں نے بعینہٖ یہی بات کی تھی۔ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم بدبخت ہو۔ تمہارے متعلق شہادت کے فیصلے نہیں ہوئے تھے اس لئے بچے ہو۔ جو وہ خوش نصیب لوگ جن کو خدا نے یہ سعادت بخشنی تھی وہ تو خوددوڑے ہوئے آئے ہیں یہاں۔ ان کو کھینچ کر تو نہیں لایا گیا۔ اس سے ایک اور مضمون پر روشنی پڑتی ہے جو بہت اہم ہے کہ اس موقع پر منافقین نہیں مارے گئے ۔ اس موقعے پر صاف طینت پاک لوگ ہی مارے گئے ہیں۔ ورنہ منافقین بھی شہداء میں شامل ہوجاتے۔ اس لئے اس آیت سے نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ جو خدا کے اذن کے پوری طرح تابع تھے اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر بیٹھے تھے وہ تو جبراً نہیں آئے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف شکوہ کرتے ہوئے یہاں نہیں پہنچے بلکہ ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ خود میدان جنگ میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنی شہادت کے لئے دعا کی التجا کیا کرتے تھے اور یہ تاریخ سے طور پر ثابت ہے اور پھر جن کے لئے دعا کی پھر وہ ضرور شہید ہوئے اور جن کے لئے دعا نہیں کی ان کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ پس اس آیت سے جو نتیجہ میں نکالتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس آیت کا ثبوت تاریخ احد میں شامل ہے۔ احد کے واقعات اس آیت کے ثبوت میںزندہ گواہ کھڑے ہیں کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ کے فرمان کی اہمیت تھی جن کے دلوں میں اس کی وقعت تھی اور قدر تھی وہ از خود شوق سے اپنے مقاتل کی طرف دوڑے ہیں۔ اور ان بدبختوں کا ان پر کوئی امر نہیں چلا۔ ان الامر کلہ للہ کس طرح یہ ثابت ہواکہ دیکھو اللہ نے جن کو سعادت بخشنی تھی وہ تو از خود دوڑے چلے آئے ہیں ان کو کون گھسیٹ کے میدان میں لایا تھا۔ اور تم منافقین تمہارے لئے تو مقدر ہی نہیں تھا کہ یہاں مارے جائو اگر تمہارے متعلق یہ مقدر ہوجاتا تو تم اپنے بستروں سے اٹھ کر خود دوڑتے اس طرح لیکن تمہیں یہ نصیب نہیںہوا ۔ پس یہ آیت طور قطعی پر شہدائے احد کی پاکیزگی اور ان کے خلوص نیت اور ان کے ایمان پر گواہ ہوگئی ہے اور صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہاں منافق نہیں مارے گئے اور کوئی مرنے والا ایسا نظر نہیں آیا جس نے مرتے وقت افسوس کیا ہو بلکہ اس کے برعکس نظارے دیکھے گئے۔ ایک صحابی جب جان دے رہے تھے جنگ احد میں تو ایک ساتھی جوان کو ڈھونڈتے ہوئے نکلے۔انہوں نے یہ کہا کہ میں نے ان سے آخری وقت یہ بات سنی کہ اے خدا میں ان لوگوں کی طرف سے تیرے حضور معذرت پیش کرتا ہوں جو میدان جنگ میں قائم نہیں رہ سکے اور دوڑ گئے تو اس شہادت کے وقت میری معذرت قبول فرما اور ان بدبختوں سے میں برأت کا اظہار کرتا ہوں جن مشرکین نے یہ ظلم ہم پر توڑے ہیں یہ کہہ کر جان دی اور بھی جان دینے والوں کے واقعات ملتے ہیں ایک جان دینے والا جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شھادت کی دعا دے کے بھیجا تھا۔ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آوازیں دے رہے تھے کہ پتہ کرو وہ کہاں ہیں۔ ایک صحابی جو ان کی تلاش میں نکلے انہوں نے لاشوں کے ڈھیر میں سے ہلکی سی آواز سنی اور وہ اس طرف متوجہ ہوئے انہوں نے جو اپنے عشق کا اظہار کیا ہے وہ ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ ایک ایسا روشن نشان ہے شہیدوں کے ایمان کے حق میں کہ وہ ایک گواہی ہزار ویریزاور اسلام کے دشمنوں کی گواہیوں کو یوں قطعاً کاٹ کرایک طرف پھینک دیتی ہے انکا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ ان ظالموں سے کوئی پوچھے ایک گواہی لائو ‘ ایک نکالو۔ یہ شہید ہونے والے یہ مضمون بیان کررہے تھے وہ تم بدبخت ! صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کررہے ہو کوئی شہید ایسا نہیں تھا جس نے ایسا اظہار کیا ہو۔ ہاں یہ پتہ لگتا ہے کہ ان کی خواہش یہ تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دم توڑیں چنانچہ ان کے کہنے پران کو سہارا دے کر یا اٹھا کر آنحضرتؐ کی خدمت میں لے جایا گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموںپر سر رکھ کر اس نے جان دی۔ اور اطمینان کا اظہار کیا ۔ الحمد اللہ میری تمنا پوری ہوئی یہ ہیں شہید ہونے والے لوگ۔ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرنا کہ وہ نعوذ باللہ من ذلک یہ کہا کرتے تھے۔ ہم مارے گئے ہم ان کے ساتھ ہوتے جو پیچھے رہ گئے ہیں تو ہم بچ جاتے بڑا ظلم ہے بڑی بے حیائی ہے۔ اس کے سوا انسان اور کیا کہہ سکتا ہے ۔ ان سارے پاکیزہ لوگوں کے ذکر سے ان لوگوں کی زبانیں آج خالی ہیں۔ ان کے قلم ان کا کوئی ذکر نہیں کرتے یہ چند منافقین جو جان بچا کے بھاگ گئے اور پھر بھی میدان کی کایا نہیں پلٹ سکے۔ وہ نتیجہ پیدا نہیں کرسکے جو وہ چاہتے تھے جو آج تک چاہتے ہیں۔ یعنی جنگ احد اسلام کو مٹانے کی بجائے اسلام کے ہمیشہ کے لئے بقا کی ضمانت دے گئی ہے اور اس میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جنگ کی تاریخ میں جنگ احد سے بلند تر اور روشن تر اورکوئی جنگ ایسی آپ نہیں پیش کرسکتے جس میں بظاہر شکست کے ہوتے ہوئے ایسی عظیم الشان فتح نصیب ہوئی ہو۔ دو دنیا میں ایسے واقعات ہیں جن کا تعلق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہے۔ جہاں ایک ظاہری شکل بڑی بھیانک دکھائی دے رہی ہے اور جب اس پر غور کرتے ہیں تو اس کی حقیقت حیرت انگیز طور پر نمایاں اور روشن نظر آتی ہے ۔ ایک صلح حدیبیہ والا واقعہ ہے جس میں بظاہر دشمن کامیاب ہوجاتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر عمرہ‘ اوربغیر حج کئے واپس لوٹ آتے ہیں اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس سے زیادہ شاندار حج کبھی نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پہلے بھی بخشے گئے اور بعد کے بھی بخشے گئے۔صرف شیعوں کو اس بات کا پتہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ جن کو وہ اپنی طرف سے بھاگنے والا کہتے ہیں‘ اور جن کا ذکر میں بعد میں کروں گا کہتے ہیں کہ یہ لوگ تو ایسے گندے اور منافق تھے اور مسلمان مفسرین اور مورخین جان کے ان کی بد کرداریوں سے آنکھیں پھیر کر ان کے ذکر سے آگے گزر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کے معاً بعد جو آیات نازل ہوئی ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے حضور بخشے گئے ان کی موت سے پہلے ہی رضوان اللہ علیہم کاقطعی فتویٰ دیا جاچکا ہے ان کے متعلق۔ یہ ذکر پھر بعد میں آئے گا میںاس وقت اس کو چھوڑتا ہوں۔ دوسرا موقع جنگ احد کا موقع ہے وہاںبھی بظاہر ایک شکست ہے جو حیرت انگیز کامیابی پر منتج ہوتی ہے اور کوئی عقل اس کو مان ہی نہیں سکتی کہ شکست ہو اور تمام نتائج سے محروم ہوجائے ۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ دشمن کو اتنی عظیم الشان فتح حاصل ہو اور فتح کے تمام نتائج سے محروم ہوجائے یہ بحث جب دوبارہ آگے آئے گی تو پھر میں آپ کو دکھائونگا کہ یہ وہ ایک مزعومہ فتح ہے دشمن کی جس کو فتح کا کوئی پھل نہیں لگا اور ہر مراد سے محروم رہی ہے اور اسکے مقابل پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو اس کے بعد عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئی ہیںاور ایمانوں میں ایک نئی جلا پیدا ہوئی ہے۔ منافقین چھٹ کر الگ ہوگئے ہیں اور وہ جو بوجھ بنے ہوئے تھے اس قافلے میں ان کا بوجھ اتار کے پھینک دیا گیا اور مسلمان نکھر کر پھر کھل کر اس اسلام کی ترقی کی راہ پر پھر آگے بڑھتے رہے ہیں لیکن اس وقت میں آپ کو اب دوبارہ اس بحث کی طرف لے کے جاتا ہوںکہ تقدیر کی بحث ہے کیا چیز۔ میں نے جیسا کہ بتایا تھا کہ وھیری صاحب ہندوستان میں اس وقت اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے یعنی اسلام کے خلاف جو ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی مہم تھی اس میںوھیری صاحب نے ایک بڑا کردار ادا کیا ہے اور تمام وہ جو اسلام سے مرتد ہوگئے تھے وہ ان کے زیر تربیت لوگ تھے۔اس میں عبداللہ آتھم صاحب بھی تھے۔ عبداللہ آتھم نے جنگ مقدس میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مباحثے میں جو مسلک اختیار کیا وہ وہی ہے جو وھیری صاحب نے اپنی کتاب میں کھل کر بیان کردیا ہے۔ پس بعید نہیں کہ انہی سے لیا گیا ہو۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے ڈپٹی عبداللہ آتھم مراد ہے ۔ یقولون ھل لنا من الامر من شئی اور اس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے دراصل بات یہ ہے کہ امر کے معنے حکم اور حکومت کے ہیں اور یہ بعض ان لوگوں کا خیال تھا جنہوں نے کہا کہ کاش اگر حکومت میں ہمارا دخل ہوتا تو ہم ایسی تدابیر کرتے جس سے یہ تکلیف جو جنگ احد میں ہوئی ہے پیش نہ آتی۔ یعنی حکومت کے معاملات طے کرنے میں ہماری بات بھی سنی جاتی۔ یہ مراد ہے یا عمل دخل ہوتا تو یہ بات نہ ہوتی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل ان الامر کلہ للہ کہ کہہ دے کہ حکومت کے معاملات یا اہم امور میں فیصلے کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے تمام امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ تمہیں اپنے رسول کریم کا تابع رہنا چاہئے کیونکہ اللہ کے حکم سے فیصلے کرتے ہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اس آیت کو قدر سے کیا تعلق ہے۔ سوال تو صرف بعض آدمیوں کا اتنا تھا کہ اگر ہماری صلاح اور مشورہ سے کام لیا جاوے تو ہم اس کے مخالف صلاح دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو منع فرمایا کہ اس امر کی اجتہاد پر بنا نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں آپ نے جبر قدر کا اعتراض پیش کیا ہے اور فرماتے ہیںکہ قرآن سے جبر ثابت ہوتا ہے اس کے جواب میں واضح ہو کہ شاید آپ کی نظر سے یہ آیات نہیں گذریں جو انسان کے کسب و اختیار پر صریح دلالت کرتی ہیں۔ پس گزشتہ سال جو مضمون میں نے چھیڑا تھا اس کی تکمیل اب اس حوالے سے ہوگی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمو ن پر قرآن کے حوالے سے اس مضمون پر قرآن کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
وان لیس للانسان الا ماسعیسورۃ 27 اور رکوع نمبر 7 اچھا یہاں آیت کی بجائے رکوع کے حوالے ہیں۔۔ ساتویں رکوع میں ستائیسویں سورت میں یہ آیت ہے و ان لیس للانسان الا ماسعی اور سن لو کہ یقینا انسان کے لئے اس کے سوا کچھ نہیں جو وہ خود کوشش کرے کہ جبرکا مضمون کہاں باقی رہا پھر۔ اور انسان کے لئے اس کے سوا کچھ نہیں جو وہ خود کوشش کرے تو پھر اس کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے جبراً اس سے کوئی کوشش کروائی یا نہیں کروائی یعنی عمل کرنا اجر پانے کے لئے ضروری ہے تو فرماتا ہے ولویواخذ اللّہ الناس ببعض ماکسبوا ماترک علی ظہرھا من دابتہ سورۃ ۲۲ رکوع ۱۷۔ کہ اگر اللّہ تعالیٰ چاہتا یواخذ اللّہ الناس اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو ان گناہوں کے سبب پکڑ لیتا جو انہوں نے بے علمی میں کئے ماترک علی ظہرھا من دابۃ تو وہ سطح زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا اس آیت پر میں تفصیل سے دو دفعہ کم از کم خطبے میں روشنی ڈال چکا ہوں کہ مراد یہ ہے کہ انسان دراصل کائنات کا وہ آخری معراج ہے۔ جس معراج مین سے پھر آگے محمد رسول اللہ کا معراج بلند ہوتا ہے یعنی انسان کی پیدائش مقصود تھی اور انسانوں مین سے انسان کامل کی پیدائش مقصود تھی۔ پس جاندار اور باقی تمام چیزیں اگر آپ ان پر غور کرکے دیکھیں تو یہ سب اس مقصد کے حصول کے لئے خادم کے طور پر پیداکئے گئے ہیں۔ پس اگر مقصد کو مٹا دینے کا فیصلہ خدا کرلیتا تو پھر بچے ہوئے درخت کو کاٹ کر آگ جلانے کے کام میں تو لایا جاسکتا تھا باغ میں رکھ کر اس کی حفاطت کرنا بے معنی ہوجاتا تو مراد یہ ہے کہ تمام نطام جو تم زندگی کا دیکھ رہے ہو یہ انسانی زندگی کی سپورٹ کے لئے ہے اور اس کو اپنے درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے یہ ساری زندگی کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لے رہی ہے پس اگر اللہ انسان کو گناہوں کے سبب پکڑتا اور انسان کی صف لپیٹنے کا ارادہ کرلیتا تو کیسا عجیب جواب ہے اس کے بعد کہ پھر کسی زندگی کو رکھنے کا معنیٰ ہی کوئی نہ رہتا۔ بے مقصد ہوجاتی۔ تو خدا سب کی صف لپیٹتا از سر نو ایک نیا پروگرام شروع کرتا۔ یہ آیت خود اپنی ذات میں قرآن کریم کی صداقت کی عظیم دلیل ہے اور اس بات پر گواہی دیتی ہے کہ یہ کلام محمد رسول اللہ کا کلام نہیںہے۔ بہت گہرا کلام ہے جو اس زمانے کے انسان کی عقل کی پہنچ سے باہر تھا اور یہ وہ مضمون ہے جس کی تفاصیل چودہ سو سال کے عرصے میں رفتہ رفتہ انسان نے تحقیق اور جستجو کے بعد کسی حد تک سمجھی ہیں اور یہ بہت کچھ مضمون ایسا ہے جو نامعلوم پڑا ہوا ے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ حوالہ دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہہ رہا ہے تم نے خواہ مخواہ جبر کا عقیدہ کہاں سے نکال لیا ہے۔ پھر فرماتا ہے لھاماکسبت و علیہاما اکتسبت ہر جان کے لئے ہے جو اس نے کمایا وعلیہا ما اکتسبت اور اس کے بداثرات بھی اس پر پڑیں گے جو اس نے کوشش کرکے جمع کئے ہیں۔ بالارادہ جمع گئے ہیں۔ یہاں کسبت اور اکتسبت میں ایک فرق ہے۔ جسے آپ کو ملحوظ رکھنا چاہئے ضروری ہے ۔ قرآن کریم ایک عظیم فصیح و بلیغ کلام ہے اس لئے جہاں فرق کرتا ہے وہاںضرور کوئی حکمت ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ لہاما کسبت و علیہا ماکسبت جو بھی اس نے کمایا ہے اس کا اجر بھی اس کو ملے گا اور جو کچھ اس نے کمایا ہے اس کا وبال بھی اس کو ملے گا۔ اکتساب کہتے ہیں۔ بالارادہ کوشش کے ساتھ کوئی کام کرنا پس گناہ عمد اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور اور بلا ارادہ یا کم فہمی کی وجہ سے یا خطا کی وجہ سے یا کم فہمی کی وجہ سے یا خطاکی وجہ سے کوئی کوتاہیاں سرزد ہوجائیں ان کو اس سزا کے مضمون میں داخل نہیں فرمایا۔ فرمایا سزا اسی کی ملے گی جو تم سوچ سمجھ کر کوشش کرکے بالارادہ بدی کرو گے۔ اب جہاں تک جزا کا تعلق ہے اتفاقاً بھی کرو گے کچھ تو ہم اس کی جزا دے دیں گے یہ رحمت کا غلبہ ہے جس کا اظہار ہورہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم سے رحمت کا یہ سلوک فرمائے گا تم سے جو بھی کوئی اچھی بات ہوگئی۔ اتفاقاً تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ کہتے ہیں اندھے کے ہاتھ بٹیرا آجاتا ہے بعض دفعہ ہاتھ مارتا ہے تو اڑتا ہوا بٹیرا پکڑ لیتا ہے تو وہ بٹیرا اندھے کا ہی ہو جائے گا۔ وہ بھی نہیں ہم واپس لیں گے لیکن اگر کسی کو نقصان پہنچائو گے تو بالارادہ میںکوتاہی کی تو سزا ملے گی ویسے نہیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں من عمل صالحاً فلنفسہٖ جو قرآن کریم فرماتا ہے سورہ 24 رکوع 2 میں کہ جو بھی نیک اعمال بجا لاتا ہے وہ اپنے ہی نفس کے لئے بجا لاتا ہے سو اس کے لئے اور جو برا کرے وہ اس کے لئے ہوگا پھر فرماتا ہے وکیف اذا اصابتہم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم یعنی کس طرح جس وقت پہنچے ان کو مصیبت بوجہ ان اعمال کے جو ان کے ہاتھ کرچکے ہیں یعنی جو انہوں نے خود کیا ہے اوراس کے نتیجے میں ان کو کوئی مصیبت پہنچی ہے۔ اس پر اعتراض کیا ہے پھر۔ تو بحث کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے۔ یقولون ھل لنا من الامر شئی ’‘ اس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ یہاں آگے وہی مضمو ن ہے۔ اس کے بعد میں پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور آیت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وخلق کل شئیئٍ فقدرہ تقدیراً یعنی ہر ایک چیز کو اس نے پیدا کیا پھراس کے لئے ایک مقرر اندازہ ٹھہرایا دیا۔ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے یہ بھی ان آیات میں سے ہے جو وھیری نے quote کی ہیں اپنے مضمون میں ‘ دیگر مستشرقین نے۔ جو قطعاً ثابت کرتی ہیں کہ ایک تقدیر مبرم جاری ہے۔ ہر چیز میں قدرہ تقدیراً کا مطلب ہے نہایت ہی مناسب اندازے کے مطابق‘ ایک توازن کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور پھر اگرکسی تقدیر کی طرف اشارہ ہے تو یہ جو General Plain of things کہلاتی ہے یعنی ایک ایسا فلسفہ اور ایسی حکمت جس پر کسی تخلیق کی بنیاد ڈالی گئی ہو جو اور کسی تخلیق کے پروگرام پر حاوی ہو اور اس کی روشنی میں تخلیق ہورہی ہو اسے تقدیر کہا جاتا ہے۔ یہ قوانین قدرت جو ہم دیکھتے ہیں یہ وہی تقدیر ہے یہ تخلیقی تقدیر ہے اور اس میں بندے کا دخل نہیں ہے یہ بالکل درست ہے۔ اگر بندے کا دخل اس میں ہوتا تو سارا نظام کائنات درھم برھم ہوجاتا۔ جہاں دخل دیا وہاں اس نے کتنے گناہ کئے ہیں۔ کتنے بے ہودہ دخل دیئے ہیں۔ پس اس کو جبر کہنا درست نہیں ہے۔ یہ توایک ایسی تقدیر ہے جس کے بغیر تخلیق کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ تو یہ وہ قوانین ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہے اور یہ ہمارے فائدے میں ہیں لیکن اس کے باوجود ان قوانین سے فائدہ اٹھانا یا نقصان اٹھانا یہ ہمارے اختیار میں ہے۔ ایک طرف ایک تقدیر ہے جس میں ہم تبدیلی نہیں پیدا کرسکتے۔ دوسری طرف یہ اختیارہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اٹھائو اور نقصان اٹھانا چاہو تو بے شک اٹھالیں کھلی چھٹی ہے۔ آگ ہے اس میں ایک طاقت ہے اس سے توانائی حاصل کرکے تم خود کار مشینیں چلاتے ہو۔ بے شمار نئی ایجادات تم نے کی ہیں اور فائدے اٹھا رہے ہو۔ یہ تقدیر تو وہی ہے جو تمہارے بس کی بات نہیں۔ مگر اس سے فائدہ اٹھانا تمہارے بس کا رکھ دیا گیا اگر کوئی ظالم اس آگ کو گھر جلانے کے لئے استعمال کرے یا عراق میں بمباری کے لئے انکے ہزاروں لاکھوں معصوموں کو زندہ آگ میں جلانے کے لئے استعمال کرے تو یہ اس کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پھر سزا بھی ملے گی۔ پھر تم پربھی یہ وبال ٹوٹیں گے قدرت کی طرف سے اور تمہیں کوئی اختیار نہیں ہوگا ان کے دفاع کا۔ اور پھر مرنے کے بعد الگ جزا سزا کا مضمون ہے تو اختیار بے اختیاری کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ قوانین قدرت میں بے اختیاری ہے مگر ا نکے استعمال میں بے اختیاری نہیں ہے۔ اس مضمون کو نہ سمجھ کر ان جاہلوں نے بڑی بڑی زبانیں دراز کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے بلکہ وہ اختیارات بھی اسی اندازے میں آگئے جس اندازے کا اس تقدیر میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت اور انسانی خوُ کا اندازہ کیا تو اس کا نام تقدیر رکھا اور اسی میں یہ مقرر کیا کہ فلاں وقت تک انسان اپنے اختیارات برت سکتا ہے یعنی تقدیر کے اندر ہی اختیار کا قانون شامل ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تقدیر کے لفظ کو ایسے طور پر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خداداد قویٰ سے محروم رہنے کے لئے مجبورکیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: جو تقدیر کا تصور تمہارے ذہن میں ہے وہ یہ غلط تصور ہے جس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے کہ انسان کو خدا نے جو قویٰ اچھے استعمال کے لئے دیئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی مجبوری سے برے استعمال میں لائے۔ یہ تقدیر قرآن کی تقدیر نہیں ہے۔ یہ تم لوگوں کے جاہلانہ تصور کی تقدیر ہے اور یہ وہی تقدیر ہے جس کا پیدائشی گناہ کے تصور سے تعلق ہے یعنی تم کہتے ہو کہ اعمال صالحہ کی تمام صلاحیتیں انسان کو بخش کر اپنی پیدائش میں اس کو مجبور کردیا گیا ہے کہ ان صلاحیتوں کاغلط استعمال کرے اور اسی کا نام گناہ ہے۔ تو فرماتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حوالہ دیئے بغیر کہ یہ اسلامی کی تقدیر نہیں ہے۔ میں بتا رہا ہوں کہ یہ اسلامی نہیں عیسائی تقدیر ہے اور تم اس سے آنکھیں بند کرکے ناجائز اپنے ظلم کو اسلام کے سرپر تھوپ رہے ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ اس جگہ تو گھڑی کی مثال ٹھیک آتی ہے کہ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل نہیں سکتی اور اس پر میں نے کئی دفعہ اپنے خطابات میں روشنی ڈالی ہے اس مضمون کے تعلق میں کہ وہ جو inbuilt صلاحیتیں ہیں ان سے آگے کوئی چیز نہیں نکل سکتی۔ کائنات کے اندر ہر چیز کی ایک builtin صلاحیت ہے جو اس کی تخلیق میں شامل کردی گئی ہے۔اس صلاحیت کی آخری حد سے وہ آگے نہیں نکل سکتا ۔ اس حد کے ورے رہتے ہوئے اسے جو کھل کھیلنے کی آزادی ہے وہ اس آخری حد کے ختم ہونے کی وجہ سے متاثرنہیں ہوتی۔ اس حد سے باہر نہیں جاسکتا۔ اس حدکے اندر جس حد تک اس کو اختیار دیا گیا ہے وہ بے شک کرتا رہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ گھڑی کی مثال فٹ آتی ہے۔ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل ہی نہیں سکتی۔ یہی انسان کی مثال ہے۔ کہ قویٰ اس کو دیئے گئے ہیں ان سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا یکلف اللّہ نفسا الا وسعہا کہ ہم نے جو کچھ انسان کو قویٰ عطا فرمائے ہیں ان سے بڑھ کر اسے تکلیف نہیں دی جاتی۔ اس توسیع کے اندر اس وسعت کے اندر رہتے ہوئے وہ جو کچھ کرے گا اس کے متعلق وہ پوچھا جائے گا اس سے زائدکی نہ اس سے توقع کی گئی ہے نہ اس کا اختیار ہے۔ اور جو عمر دی گئی ہے اس سے زیادہ وہ جی نہیں سکتا یعنی عمر سے پہلے مرنے کے انتظام وہ خود کرتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ اس وبال سے بھی بچا لیتا ہے لیکن ایک اسکی عمر وہ ہے جو اس کے خلیوں میں لکھی گئی ہے کہ اگر وہ صحت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اور نیکی اور بدی کی تمیز کرتے ہوئے زندگی گزارے تو وہ مثلاً سو سال زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر وہ اس سے پہلے مرناچاہے تو یہ ثابت ہے کہ وہ بیماریوں میں مبتلا ہوکر خود اپنے آپ کو مارسکتا ہے۔ آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس وقت کو جب وہ آجائے پھر نہ وہ آگے کیا جاسکتا ہے نہ پیچھے کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے انسانی عمل دخل اور اس کی بیوقوفیوں اور خطائوں کے نتیجہ میں جو وبال اس پر ٹوٹتا ہے اور وہ حد اور عمر کے اندر اندر ٹوٹتا ہے اس سے باہر نہیں جاسکتا اور اس پر وہاں دعا کام آتی ہے وہاں صدقات کام آتے ہیں اگر اسلام میں تقدیر سے یہ مراد ہوتی کہ جو عمر ہے چاہے جو مرضی کرلو تم نے وہاں تک ضرور پہنچنا ہے تو پھر نہ دعا کا سوال باقی رہتا ہے نہ صدقے کا سوال باقی رہتا ہے کیونکہ willy nilly جس کو کہا جاتا ہے چاہو نہ چاہو توگھسیٹے ہوئے وہاں لے جائے جائو گے اور اس سے پہلے مر نہیں سکتے۔ پھربیماریاں سب بے معنی ہوجاتی ہیں۔ پھرعلاج سارے بے معنی ہوجاتے ہیں۔ کیو ں لوگ دوڑے پھرتے ہیں۔ ہسپتالوں کی طرف؟ یہ سارے مولوی جو جبرکے قائل ہیں جب بیماری آتی ہے تو دوڑتے ہیں ہسپتالوں کی طرف اور مدد بھی مانگتے ہیں لوگوں سے۔ آئو ہماری مدد کرو۔ اطباء کی طرف جاتے ہیں‘ ہر ٹوٹکا ٹونااستعمال کرتے ہیں کہ کسی طرح جان بچ جائے اگر مقدر وہی ہے جو تم سمجھ رہے ہو تو کس چیز سے جان بچاتے ہو۔ مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مغفرت کام آتی ہے تم نے حد تک پہنچنے کی سعی نہیں کی۔ تم نے ایسے اعمال کئے کہ خدا کی عطا سے پہلے مرے جاتے ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایسے موقع پر تمہاری دعائوں اور صدقات کو قبول فرما لیتا ہے اور تمہاری عمر کو اس حد تک ٹال دیتا ہے جو آخری حد ہے یاجس حد تک تم اس بات کی توفیق رکھتے ہو یا صلاحیت رکھتے ہو اس حد تک تمہیں کھینچ کر آگے لے جاتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : قران شریف میں جبر کے طور پر بعضوںکو جہنمی ٹھہرا دیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں یہ ظلم ہے ۔فرماتے ہیں اور خواہ مخواہ شیطان کا تصور ان پر لازمی طور پر رکھا گیا ہے یہ ایک شرمناک غلطی ہے۔ اللہ جلشانہ ‘ قرآن شریف میں فرماتا ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطان اے شیطان میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نصیب نہیں ہوگا۔ مگر عیسائیت میں خدا کے بندوں پر تو پیدائشی غلبہ اورمستقل تقدیری غلبہ عطا ہوچکا ہے۔ جوبے شرمی اور بے حیائی کی بات تویہ ہے کہ اپنے عقیدے کو اسلام پر ٹھونس رہے ہیں۔ اسلام کا اس سے تعلق ہی کوئی نہیں اور ا ن کا تمام تر تعلق اس عقیدے سے ہے کہ انسان خدا کے بندے شیطان کے نوکر بنا کر پیدا کئے جاتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ کے لئے مغلوب رہنے کے لئے پیداکئے جاتے ہیں اور جب تک کوئی یہ نہ مانے کہ خدا نے اپنے بیٹے کو قربان کردیا ہے یا بیٹا خود قربان ہوگیا۔ اس وقت تک اس غلبے سے انسان نکل نہیں سکتا۔ اور یہ جو غلبے سے نکلنے کا راستہ بتایا ہے یہ تاریخ عالم گواہ ہے کہ جھوٹا نکلا ہے جھوٹا ثابت ہوا ہے یہاں کیا ہورہا ہے عیسائی ملکوں میں‘ کتنے گناہ پرورش پا رہے ہیں۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے کہ یہ گناہ کی شرکت ان کے ضمیر سے دھل کیوں نہیںگئی۔ ان کی فطرت سے صاف کیوں نہیں ہوگئی۔ بات یہ ہے کہ یہ محض فرضی قصہ ہے۔ بات وہی ہے جو اسلام نے بیان فرمائی ہے ۔ ہر انسان پاک فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں معاشرہ ‘ اس کے ماں باپ ‘ اس کے دوسرے محرکات اسے نیک بھی بنا سکتے ہیں بد بھی بنا سکتے ہیں۔ اسے یہودی بھی بنا سکتے ہیں عیسائی بھی بناسکتے ہیں۔ اب وہ صاحب اختیار ہے اس معاملے میں اور اس اختیار میں اس کا ماحول‘ اس کے والدین بھی اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ان عبادی لیس لک علیہم سلطان کہ اے شیطان میرے بندوں پر تیرا کچھ بھی تصرف نہیں۔ دیکھئے کس طرح اللہ تعالیٰ انسان کی آزادی ظاہر کرتا ہے۔ منصف کے لئے اگر کچھ دل میں انصاف رکھتا ہو تو یہی آیت کافی ہے لیکن انجیل متی سے تو اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے کیونکہ انجیل متی سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح کوآزمائش کے لئے لے گیا۔ یہ ایک قسم کی حکومت شیطان کی ٹھہری کہ ایک مقدس نبی پر اس نے اس قدر جبر کیا کہ وہ کئی جگہ اس کو لئے پھرا یہاں تک کہ بے ادبی کی ہے کے لحاظ سے اسے یہ بھی کہا تو مجھے سجدہ کر اور ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشا ہیں اور انکی شان و شوکت اسے دکھلائیں دیکھو متی 18:4 اور پھر غور کرکے دیکھو کہ اس جگہ یہ شیطان کیا بلکہ خدائی جلوہ دکھلایا گیا ہے کہ اگر وہ بھی اپنی مرضی سے مسیح کے خلاف ‘ خلاف مرضی ایک پہاڑ پر اس کو لے گیا اور دنیا کی بہت سی بادشاہتیں دکھا دینا ۔ خدا تعالیٰ کی طرح اس کی قوت میں ٹھہرا اور بعد اس کے واضح ہوکہ یہ بات جو آپ کے خیال میں جم گئی ہے کہ گویا قرآن کریم میں خواہ مخواہ بعض لوگوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے یا خواہ مخواہ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپ لوگ کبھی انصاف کی پاک نظر کے ساتھ قرآن کریم کو نہیںدیکھتے۔ اصل بات یہی ہے۔ ان کے آغاز ہی میں یہ بد نیتیں شامل ہوتی ہیں۔ جب یہ تعلیم کا آغاز کرتے ہیں یا اپنے کیریئر بنا رہے ہوتے ہیں کہ ہم کیا کیا پیشہ اختیار کریں گے۔ آغاز ہی سے یہ بدنیتی شامل ہوتی ہیں کہ ہم نے اسلام پر حملے کرنے ہیں اور اسلام کی دشمنی کو اپنے درجہ اتمام تک پہنچانا ہے جہاں تک ہم کرسکتے ہیں کر گذریں گے۔ فرماتے ہیں جب پاک نظر انصاف کی لے کے ہی نہیں نکلے تو تمہیں نظر کہاں سے آئے گا۔ دیکھو اللہ جلشانہ کیا فرماتاہے لاملئن جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین۔ کہ اے شیطان ! میں جہنم کو لوگو ںسے بھرونگا۔ تجھ سے اور ان لوگوں سے بھروں گا جو تیری پیروی کا فیصلہ کرتے ہیں خود۔ اس میں جبر کہاں سے آگیا یعنی شیطان کو مصاطب کر کے کہنا ہے تم۔ میں جہنم کو تجھ سے اور ان لوگوں سے جو تیری پیروی کریں بھرونگا۔ دیکھئے اس آیت سے صاف طور پر کھل گیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو جبر کے طورپر جہنم میں ڈالے بلکہ جو لوگ جو اپنی بد اعمالیوں سے جہنم کے لائق ٹھہریں ان کوجہنم میں گرایا جائے گا اور پھر فرماتا ہے یضل بہ کثیراً و یہدی بہٖ کثیراً و ما یضل بہ الاالفاسقین یعنی بہتوں کو اس کلام سے گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے مگر گمراہ ان کو کرتا ہے جو گمراہ ہونے کے کام کرتے ہیں یہاں کرنے سے مراد ٹھہرانا ہے۔ اور یہ بات کھل گئی۔ فاسقین تو کہتے ہی گمراہوں کو ہیں جو بے راہ رو ہو جائیں اور بد اعمال اوربدبخت بن چکے ہوں۔ فرماتا ہے ان کے خلاف ان کے سوا کسی پر گمراہی کا فتویٰ صادر نہیں فرماتا۔ یہاں گمراہ کرنے کا مضمون اس کے سوا کوئی بنتا ہی نہیں ہے کہ انہی کو گمراہ ٹھراتا ہے جو گمراہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ جو پاک اور نیک لوگ ہوں ان کو گمراہ نہیں ٹھہرایا کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جیسا کہ ایک شخص آفتاب کے سامنے کی کھڑکی کو کھول دیتا ہے تو قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کے سامنے کی کھڑکی جب کھول دیتا ہے تو قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کی روشنی اور اس کی کرنیں اس کے منہ پر پڑتی ہیں لیکن جب وہ اس کھڑکی کو بند کردیتا ہے تو اپنے ہی فعل سے اپنے لئے اندھیرا پیدا کرلیتا ہے۔ لیکن چونکہ آخری خالق روشنی کا اور اول خالق روشنی کا خدا ہی ہے۔ اس لئے بعض دفعہ محاورۃً کہہ دیا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کو اندھیروں میں کردیا اور اس کو روشنی میں کردیا۔ مگر عمل کرنے والے کا اپنا عمل دراصل آخری وقت میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام یہی بات آگے لکھتے ہیں‘ فرماتے ہیں : چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے۔ بوجہ اپنے علت العلل ہونے کے ان دونوں فعلوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے لیکن اپنے پاک کلا م میں اس نے بارہا تصریح سے فرمادیا ہے کہ جو ضلالت کے اثر کسی کے دل پر پڑتے ہیں وہ اسی کی بد اعمالی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا جیسا کہ فرماتا ہے : فلما زاغوا ازاغ اللّہ قلوبہم پس جبکہ وہ قوم کج ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو کج کردیا۔ یعنی کجی کا فیصلہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور بعد میں ظاہر ہونے والے اعمال نے اس فیصلے پر عملدرآمد دکھا دیا۔ جب وہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کج کردیا ۔ مراد یہ ہے کہ قانون قدرت تو سب خدا ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ انہوں نے غلط معنوں‘ اپنے مفادکے خلاف قانون کو اپنے اوپر خود چسپاںکردیا تو اللہ تعالیٰ نے چسپاں ہونے دیا۔ یہ مفہوم ہے۔ اسی لئے احمدیہ تراجم میں بعض دفعہ آپ یہ دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ ترجمہ کیا کہ خدا نے گمراہ کردیا۔ وہاں پہ یہ ترجمہ دیکھتے ہیں‘ خدا نے گمراہ ٹھہرایا۔تو یہ جو ترجمہ ہے قرآن کی متعدد آیات سے بین طور پر ثابت ہے اور اس کے سواترجمہ جائز نہیںہے۔ مراد ٹھہرایا ہی ہے جیسا کہ اس آیت سے خوب کھل گیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں دوسرے مقام پر فرماتا ہے: فی قلوبہم مرض فزادھم اللّہ مرضاً۔ان کے دلوں میں مرض تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس مرض کو زیادہ کیا یعنی امتحان میں ڈال کر اس کی حقیقت ظاہر کردی ۔ یعنی کسی مرض کو اگر زبردستی دورنہ کیا جائے تو وہ بڑھے گی ظاہر بات ہے ۔ تو مراد یہ ہو گی کہ ان کے مرض کو بڑھنے دیا۔ دل میں مرض تھا اور چونکہ خدا نے انسان کو آزادی عطا کی ہے پس بجائے اسکے کہ یہ حوالہ جبر یہ عقیدے والوں کے کام آئے یہ تو برعکس نتیجہ ظاہر کررہا ہے۔ مرض ان کے دلوں میں پیداہوئے اور انہوں نے پیدا کئے اور چونکہ خدا جبر نہیں کرتا اور زبردستی ان لوگوں کی اصلاح نہیںکرتا اس لئے مرض کو بڑھنے دیا۔ یہاں تک کہ وہ کھل کر ظاہرہوگئی۔ فزادھم اللہ کا مضمون یہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے طبعی نتیجے تک پہنچنے دیا۔ اس بیماری کو جو ان کے دل میں خود پیدا ہوئی تھی۔ پھر فرماتا ہے : بل طبع اللّہ علیہا بکفرھم مہریں تو لگائی لیکن ان کے کفر کے سبب سے لگائی ہیں۔ یہ جو آیتیں پیش کرتے ہیں نا ختم اللّہ علی قلوبہم وغیرہ اس کاجواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دے رہے ہیں۔دوسری جگہ قرآن نے خوب کھول دیا ہے کہ مہریں لگائی تو گئیں لیکن کیوں لگائی گئیں اس لئے کہ انہوں نے کفر کیاپھر مہر لگائی گئی ہے۔ یہ نتیجہ ہے نہ کہ کفر پیدا کرنے کی وجہ۔ لیکن یہ جبر کا اعتراض اگر ہوسکتا ہے تو آپ کی کتب مقدسہ پر ہوگا۔ مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں۔ دیکھو خروج 21:4 خدا نے موسیٰ کو کہا کہ میں فرعون کا دل سخت کرونگا اور جب سخت ہوا تو اس کا نتیجہ جہنم ہے یا کچھ اور کہتے ہیں خروج میں جو لکھا ہے کہ خدا نے کہا کہ میں فرعون کا دل سخت کرونگا‘ خودکرونگا اور جہاں تک قرآن کا تعلق ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ قول لین کرنا کہیں وہ ٹھوکر نہ کھا جائے۔ جب جائو تو دونوں نرم بات کرنا تاکہ اس کے گناہ تمہارے سر پہ نہ آجائے۔ تمہاری سختی کی وجہ سے کہیں مزید ٹھوکر کھا کر سخت دل نہ ہوجائے۔ توکتنی برعکس تعلیم ہے ایک طرف خروج کہتا ہے کہ اللہ نے فیصلہ کیا اور وہاں بھی ہم اعتراض نہیں کرتے۔
ہم بتاتے ہیں کہ ان آیتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اسی طریق سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرو اپنے حوالے سے۔ وہاں دل کو سخت کردیا، سے صرف یہی مراد ہے خروج میں بھی کہ اس بدبخت نے وہ رستہ اختیار کیا۔ جس پر خدا نے اس کو چلنے دیا اور اس کا آخری نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اس کا دل سخت ہوگیا دیکھو خروج 3:7 امثال باب 4:16 خروج 3:10 استثناء 4:29 ۔ خدا نے تم کو وہ دل جو سمجھے اور آنکھیں جو دیکھیں اور وہ کان جو سنیں آج تک نہ دئیے۔ اب دیکھئے کیسے جبر کی صاف مثال ہے یعنی یہ ہوا ہے ان جگہوں میں کہ خدا نے آج تک تمہیں نہ وہ دل دیئے ہیں جو بات کو سمجھ سکتے ہیں نہ وہ آنکھیں عطا کی ہیں جو دیکھ سکتی ہیں نہ وہ کان دیئے جو سن سکتے ہیں کہ اگر جبر ہی کہنا ہے تو پھر یہاں بتائو کہ یہ جبر ہے پھر دیکھو زبور 148/7 اس نے ایک تقدیر مقدر کی جو ٹل نہیں سکتی اور ابھی جبر کے الزام اسلام پر ہیں اورعیسائی ہوتے ہوئے وہ بڑھ بڑھ کر ایسے حملے کرتے ہیں۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.....اچھا جی خدا حافظ ‘ السلام علیکم باقی پھر انشاء اللہ کل۔
٭٭٭٭٭٭

بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 9رمضان المبارک
20 فروری 1994ء
السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ
آج بھی 45 منٹ تاخیر سے پروگرام شروع ہوا ہے اور بدھ کو بھی اسی طرح ہوا کرے گا۔ یہ ایک مستقل تبدیلی ہے جو احباب کو ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ عام دنوں میں جمعہ کو تو ویسے رخصت ہے‘ باقی چھ دنوں میں سے ہفتہ بدھ اور اتوار کو درس پونے بارہ بجے شروع ہو گاہوا کرے گا اور اس حساب سے ہمارا ڈیڑھ گھنٹہ‘ سوا ایک بجے پورا ہوگا؟ ڈیڑھ بجے ڈیڑھ بجے تک چلتا ہے پھر۔ یہ پونے دو گھنٹے کا پروگرام بن جاتا ہے درست ہے اچھا:
اعوذ بااللّہ من الشیطان الرجیم بسم اللّہ الرحمن الرحیم
ثم انزل علیکم من بعد الغم ............ ان اللّہ غفور حلیم O
(سورۃ ال عمران آیات 156,155)
ان دو آیات میں سے پہلی آیت تو وہی ہے جس پر کل گفتگو جاری تھی کہ وقت ختم ہوگیا اس میں‘ اس آیت کا آخری حصہ جو زیر بحث تھا وہ تقدیر کے موضوع پر تھا۔ پس اس سے پہلے کہ میں دوسری آیت کی طرف متوجہ ہوں‘ میں اس باقی حصہ سے متعلق کچھ گفتگو کروں گا۔
’’لولا اخرتنی الی اجل قریب ‘‘ کا مضمون ہے‘ کہ کیاوہ تقدیر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوچکی ہو اور وقت آجائے تو پھر اسے ٹالا جاسکتا ہے کہ نہیں اور اگر نہیں توپھر لازما ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام fatalism کا قائل ہے یعنی یہ بات تسلیم کرتا ہے اوریہی بات اسی کی تلقین کرتا ہے ۔ کہ انسان کا کچھ بھی اختیار نہیں اور زندگی اور موت کے ایسے مقدر اوقات ہیں کہ جنہیں نہ آگے کیاجاسکتا ہے نہ پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میںبہت سے دلائل پہلے گزر چکے ہیں‘ چند اور آیات کے حوالے سے میں اس مضمون کو پھر تھوڑی سی اور روشنی ڈالوں گا۔
مثلاً قرآن کریم نے سورۃ نساء میں آیت79,78 میںہے۔
وقالو ا ربنا لم کتبت علینا القتال ۔فمال ھؤلاء ِ القوم لا یکادون یفقھون حدیثا o
کہ جب بھی قتال یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں جہادکا ذکر ہو۔ ’’قالو ا ربنا لم کتبت علینا القتال‘‘ تو کہتے ہیں اے اللہ تم نے ہم پر قتال فرض کیوں کردیا‘ کس مصیبت میں ڈال دیا ہے اور اگر فرض کرنا ہی تھا تو ’’لولا اخرتنا الی اجل قریب ‘‘ کیا تو کچھ مدت کے لئے اسے ٹال نہیں سکتا‘ کچھ اور دن ہم امن سے یہاں جی لیں۔
’’قل متاع الدنیا قلیل ‘ ‘ تو جواب یہ دے کہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہی ہے‘ تھوڑی سی ہے‘ ’’متاع‘‘ سے مراد استفادہ کرنا فائدہ اٹھانا تویہ دنیا کے چند دن کا فائدہ ہی تو ہے لیکن ’’قتال ‘‘ میں اگر تم مارے جاتے ہو تو ایک دائمی فائدے کی طرف تمہیں بلایا جاتا ہے۔ اس لئے تم کیوں ایک دائمی فائدے کے مقابل پر عارضی چند دن کے فائدے کو ترجیح دے رہے ہو‘ یہ کوئی ظلم اور مصیبت نہیں ہے‘ یہ تمہارے فائدے کے لئے ہے۔
’’والآخرۃ خیر لمن اتقی ‘‘ اور جو آخرت ہے وہ ان لوگوں کیلئے اچھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی ہر صورت میں اچھی نہیںہے‘ اگر بے تقویٰ کے مر گئے تو مارے گئے‘ پھر تو ایک بہت لمبا عرصہ تمہیں آخری زندگی میںیعنی اخروی زندگی میں تکلیف کا زمانہ دیکھنا ہوگا۔ پس فرمایاکہ یہاں تم تقویٰ کو چھوڑ کر باتیں کررہے ہو۔ یہ اعتراضات جو اللہ پر ہیں یہ تو تقویٰ سے عاری ہیں‘ تو کیوں اپنی قبر کھود رہے ہو خود‘ ایسی باتوں سے تمہیں فائدہ تو کچھ نہیں پہنچے گا‘ نقصان بہت ہوگا‘ کیونکہ مرنا سب نے ہے‘ آج نہیں تو کل‘ اگر قتال میں نہ مارے گئے تو ویسے مرجائو گے لیکن انہیں منحوس خیالات کے ساتھ مرے تو دُنیا کے چند روز تو تمہیں مل جائیں گے آخرت کا لمبا عرصہ تمہیں تکلیف میں گزارنا ہوگا۔
’’قل متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی و لا تظلمون فتیلا‘‘ O
لیکن یہ یاد رکھو کہ پھر بھی تم پر ایک ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی خداتعالیٰ کوئی انتقام نہیں لے گا تمہاری باتوں کا‘ تمہارے گناہوں کا ایک طبعی نتیجہ ایسا نکلے گا جس سے تم تکلیف میں مبتلا ہوگے ۔ لیکن ظلم کی راہ اللہ تعالیٰ ہر گز اختیار نہیںکرے گا۔ ’’فتیل‘‘ کہتے ہیں کھجور کی گٹھلی کے اندر جو لکیر ہوتی ہے تو اس لکیر کے برابر بھی تم سے کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
’’این ماتکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ‘‘
جہاں کہیں بھی تم ہوگے موت نے تو تمہیں آ ہی لینا ہے خواہ تم مضبوطی سے چنے ہوئے گنبدوں کے اندر محفوظ ہویا قلعوں میں محفوظ ہو۔
’’و ان تصبھم حسنۃ یقولوا ھذہ ا من عنداللّہ‘‘ ان کا یہ حال ہے کہ جب انہیں کوئی اچھی بات پہنچتی ہے۔’’یقولوا ھذہ من عنداللّہ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اب اس میں جو اچھی بات پہنچنے پریہ کہنا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یہ کسی نیکی کا اظہار نہیں ‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اس لائق ہیں کہ اللہ ہمارے لئے بھلائیاں اتارے اور ہماری خدمت کرے اور ہمیں اچھی اچھی چیزیں اللہ کی طرف سے پہنچیں۔ یہ مراد ہے یعنی ہم سے کوئی سخت سلوک ہونا درست نہیں ہے‘ ہمیں لازماً اچھی چیزیں پہنچنی چاہئیں‘ پس دیکھو ! اللہ نے ہمارے لئے یہ اچھی چیزین اتاریں اور دوسرا اس میں معنیٰ یہ ہے کہ ہماری نیکیوں کی وجہ سے ہماری خوبیوں کی وجہ سے یہ بھلائیاں آسمان سے اتر رہی ہیں۔ لیکن جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہوتے ہیں تو اس وقت جب کوئی برائی دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ برائی تیری طرف سے ہے‘ یعنی خوبیوں کا credit اور اس کا سہرا تو اپنے سر باندھتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ نے ہماری خاطر یہ اچھی باتیں ہمارے لئے بھیجی ہیں‘ جب کسی مشکل میںمبتلا ہوں تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس مشکل کی نحوست منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔
’’ان تصبھم سیئۃ یقولوا ھذہ من عندک‘‘
اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یہ تیری طرف سے پہنچا ہے۔
’’قل کل من عنداللّہ‘‘ ا ن سے کہہ دو کہ آخری شکل میں تو ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے۔
’فمال ھولاء القوم لایکادون یفقھون حدیثا‘‘
ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات سمجھنے ہی میں نہیں آتے‘ کسی صورت میں بات‘ حقیقت کو یا زندگی کے فلسفے کو سمجھ نہیں سکتے‘ سمجھ نہیں پا رہے۔
دوسری آیت اس مضمون پہ
و انذر الناس یوم یاتیھم العذاب فیقول الذین ظلموا ربنااخرنا الی اجل قریب‘‘
ایک اور بھی ہے موقعہ جب کہ ایک عذاب پہنچ جائے اور پکڑ لینے کو ہو‘ اس وقت بعض لوگ کہتے ہیں۔
’’ربنا اخرنا الی اجل قریب ‘‘ اے ہمارے اللہ ہمیں تھوڑی دیر کیلئے تو مہلت دے دے۔
’’نجب دعوتک ونتبع الرسل اولم تکونوا اقسمتم من قبل مالکم من زوال‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اگر تو مہلت دے گا تو ہم تیری دعوت کو قبول کریں گے‘ ’’ونتبع الرسل‘‘ اور رسولوں کی پیروی کریں گے‘ لیکن اس کا جواب اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔
’’اولم تکونوا اقسمتم من قبل مالکم من زوال‘‘
یہاں یہ جواب نہیں دیا کہ عذاب نہیں ٹالا جائے گا‘ یہ بھی تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ اجل مسمی ہے‘ وقت آگیا ہے اب یہ عذاب نہیں ٹالا جائے گا۔ اس لئے نہیں کہا کہ بعض دفعہ عذاب ٹالے جاتے ہیںاور بعض مشروط فیصلے تبدیل کردیئے جاتے ہیں‘ بلکہ یہ فرمایا کہ تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہاری خاطر یہ عذاب ٹالا جائے‘ کیونکہ تمہارا جھوٹا ہوناثابت ہے‘ اور تم اپنے متعلق جو دعوے کیا کرتے تھے وہ پہلے ہی غلط ثابت ہوچکے ہیں‘ اس لئے تم جھوٹو ںکی بات مان کر خدا کیوں اس عذاب کو ٹالے‘ جیسا کہ فرمایا۔
’’اولم تکونوا اقسمتم من قبل‘‘
کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے۔
’’مالکم من زوال‘‘ کہ تم پر کبھی زوال کے دن نہیں آئیں گے۔ تمہارے لئے مقدر ہی نہیں ہیں‘ اب زوال کے دن آگئے۔ تمہارا جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا۔ اس لئے زوال کے دنوں میں تمہارے اصلاح کے وعدے بے معنی اور بے حقیقت ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ابراہیم آیت 45,43
پھر اللہ تعالیٰ سورۃ انعام میں فرماتا ہے۔
’’ ھوالذی یتوفکم باللیل و یعلم ماجرحتم بالنھار ثم یبعثکم فیہ الی اجل مسمی ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعملون‘‘
کہ وہی ہے جو تمہیں روزانہ رات کو وفات دیتا ہے یعنی عارضی طور پر تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے ایک قسم کی موت کی کیفیت ہر روز رات کو جب تم سوتے ہو ‘ تم پر طاری ہوتی ہے۔ ’’ثم یبعثکم‘‘ پھر روزانہ تمہیں اٹھاتا ہے۔ اب یہ بہت ہی اہم آیت ہے‘ اس میں اس مضمون کی بحث کے علاوہ جو خاص بات میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ مضمون ہے کہ ہمارا روز حشر نشر ہورہا ہے‘ روزانہ اٹھتے ہیں اور روزانہ بعض نیک ارادوں کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیتے ہیں اور دوبارہ پھر ان کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے پکڑ کے بغیر ہمیں دوبارہ اس دنیا میں بھیج دیا یعنی عارضی موت میں اگر واپس بلالیتا‘ اس کی مرضی تھی ‘سوتے سوتے بھی لوگ موت کا شکار ہوجایا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو سلسلہ ہے تمہارے وعدے کرنے کا اور ہم پھر ایسے ہوجائیں گے یہ تو ہر روز جھوٹا ثابت ہورہا ہے۔ تمہیں روزانہ موت آتی ہے‘ پھر تمہارا حشر نشر ہوتا ہے تم اس دنیا میںپھر اٹھا ئے جاتے ہو اور تمہاری آزمائش کے دور روزانہ چلتے ہیں تو آج یہاں ایسے ہو تو کل وہاں کیسے بدل جائو گے۔ اس لئے تم روزانہ اپنے فیصلے خودکررہے ہو کہ ہم جھوٹے ہیں ہم نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ورنہ ہر رات ایک تبدیلی کا موقعہ لے کر آتی ہے اور ہر صبح تمہاری آزمائش بن جاتی ہے اور پھر تم نیک ارادوں سے واپس لوٹ جاتے ہو۔ فرماتا ہے‘
’’ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعلمون‘‘
پس دیکھو آخر پھر تم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے‘ پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا اعمال کیا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے‘ نجات تو ہم دے دیا کرتے ہیں یہ نہ سمجھو کہ ہر مصیبت جو ہے وہ اجل مسمی ہے‘ بہت سی ایسی مصیبتیں ہیں جن سے تمہیں نجات ملتی ہے اور بعض دفعہ ایسی صورت میں بھی نجات دے دیتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت ہے اس کی رحمت کی شان ہے کہ اس کے باوجود بھی کبھی جب وہ چاہتا ہے نجات بھی تمہیںبخش دیتا ہے تاکہ تم یہ یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اگر وہ بغیر استحقاق کے بھی کبھی اپنی رحمت کا جلوہ دکھا سکتا ہے تو اگر تم اس رحمت کو کمائو گے اور اس کے مستحق ٹھہرو گے تو وہ کیوں تم سے غیر معمولی رحمت و شفقت کا سلوک نہیں فرمائے گا۔فرماتا ہے:
’’قل من منجیکم من ظلمات البر و البحر‘‘
ان سے پوچھ کہ وہ ہے کون جو تمہیں نجات بخشتا ہے
’’فی ظلمات البر والبحر‘‘خشکی اور تری کے اندھیروں میںرات کا وقت ویسے ہی ڈرائونا ہوتا ہے لیکن یہاں اندھیروں سے مراد مصیبتیں اورکئی قسم کے خوفناک ابتلا ء ہیں‘ ایسے وقت میں جب کہ یہ ابتلاء تمہیں گھیر لیں اور خوف دامن گیر ہوجائے فرماتا ہے کون ہے جو تمہیں ان ظلمات سے نجات بخشتا ہے۔
’’تد عونہ تضرعا و خفیہ‘‘
ایسے وقتوں میں تم اسی کو پکارتے ہو ’’تضرعا وخفیہ‘‘ زاری کرتے ہوئے اونچی آواز سے اور بعض دفعہ دل ہی دل میں۔
’’لئن انجنا من ھذہ لنکونن من الشکرین‘‘
کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں نجات بخش دی تو ہم ضرور شکر گزار بندے بنیں گے۔
’’قل اللّہ ینجیکم منھا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون‘‘
تواللہ تمہیں ان مصیبتوں سے نجات بخش دیتا ہے اور ہر کرب اور ہر بلا سے وہی ہے جو نجات بخشنے والا ہے لیکن یہ جانتے ہوئے ’’ثم انتم تشرکون‘‘ کہ تم پھر بھی شرک ہی کرو گے اور یہ جو آیت ہے یہ ایک روزمرہ کی انسانی نفسیاتی کیفیت پر دلالت کررہی ہے۔ جب ہم مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو گریہ و زاری سے کام لیتے ہیں اللہ سے دعا ئیں مانگتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمیں بچالے‘ جب بچ جاتے ہیں تو اپنی چالاکیاں سامنے آجاتی ہیں۔ انسان کہتا ہے پھر دوسروں سے جب ذکر کرتا ہے نا کہتا ہے دیکھو ایسے وقت میں مجھے یہ خیال آیا‘ میں نے کہا یہ بادبان جو ہے کام نہیں آئے اس وقت اس کو کاٹ دو یہ تو اور ڈبوئے گا۔ اس لئے یہ چالاکی کرو اور یہ ہوشیاری کرو اور اکثر انسان وقت گزرنے کے بعد ہمیشہ خود Credit لیتے ہیں خواہ ان کی چالاکی ہو بھی نہ اس میں کچھ‘ خواہ اتفاقی حادثات کا نتیجہ ہو خواہ کسی اور کی ہوشیاری ہو وہ اس کو بھی اپنے سر تھونپتے ہیں‘ بہت کم ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو یہ ہے شرک یعنی شرک سے مراد ضروری نہیں ہے کہ بت پرستی میں تم واپس لوٹ جاتے ہو۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے احسانات کو تم بھول جاتے ہو اور مصنوعی خدائوں کی طرف اپنی نجات منسوب کرنے لگ جاتے ہو۔ کبھی تم خدا بن جاتے ہو کبھی تمہارے دوست خدا بن جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے تم بچ گئے اس وجہ سے بچ گئے اور بھول جاتے ہو کہ تم نے خدا سے گریہ و زاری کی تھی اور اللہ ہی تھا جس نے تمہاری گریہ و زاری کو قبول فرمایا اور تمہیں اندھیروں سے نجات بخشی۔
پھر قومی طور پر عذابوں کے ٹلنے اور نہ ٹلنے کا مضمون بھی ہمارے سامنے ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘ یہ تو انفرادی باتیں ہورہی تھیں۔
فلولا کانت قریۃ’‘ امنت فنفعھا ایمانھا الا قوم یونس لما آمنوا کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا و متعنھم الی حینO سورۃ یونس آیت ۹۹۔
کہ کیوں نہ ایسی بستیاں اور بھی ہوئیں کہ جنہوں نے اپنے ایمان سے فائدہ اٹھایا سوائے یونس کی قوم کے کہ جس نے ضرور فائدہ اٹھایا یعنی حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے علاوہ اور بھی تواھل بستی ایسے ہوسکتے تھے جو عین اس وقت جب کہ عذاب آنے والا ہو‘ اس وقت عذاب ٹالنے کے لئے خدا کی طرف جھک جاتے اور ان بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا نہ جاتا۔
لما امنوا کشفنا عنھم عذاب الخزی‘‘
جب حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے آخری وقت میں جب کہ عذاب آنے ہی کو تھا‘ ایمان لاکر ہم سے نجات طلب کی ہم نے ان کے دکھ ان کی مصیبتیں دور فرما دیں اور عذاب ان سے ٹال دیا اور وہ عذاب ایسا تھا جو بہت ہی رسوا کن اور ذلیل عذاب تھا۔
’’ومتعنھم الی حین ‘‘ ’’عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا‘‘ وہ ایسا عذاب تھا جو انہیں دنیا میں ذلیل و رسوا کرکے چھوڑ دیتا وہ ایک مثال بن جاتے کہ ایسی ایک ذلیل قوم تھی جو اپنے نبی کے انکار کے نتیجے میں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالی گئی اور کہانیاں بنا دی گئی۔ فرمایا اس سے بھی ان کوخدا تعالیٰ نے نجات بخش دی۔
’’ومتعنٰھم الیٰ حین‘‘
اور ہم نے انہیں ایک لمبے عرصے تک اس کے بعد دنیا میں فوائد کی زندگی بسر کرنے کی توفیق بخش دی یعنی آرام سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخش دی لیکن اس کے مقابل پر ایک ایسی قوم بھی ہے جس کو اسی طرح وقت کا نبی ڈراتا ہے لیکن وہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اگر تقدیر کے یہ معنے لئے جائیں کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ کسی شخص یا کسی قوم کے متعلق آخری صورت میں نہ آیا ہو تو اس سے پہلے ان کواٹھایا نہیں جاسکتا یا ان کو بربادنہیں کیا جاسکتا تو یہ معنے قرآن سے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے اس فرق کو پیش نظر رکھیں۔ ایک ہے وہ تقدیر جو آخری صورت میں حد آخر کے طور پر لکھی جاچکی ہے‘ اس میں قوموں کی تاریخ بھی شامل ہے جو بنتی اور بگڑتی ہے مگر ایک دائرے کے اندر رہتے ہوئے۔ اس دائرے سے قومیں تجاوز نہیں کرسکتیں۔ اس میں species یعنی زندگی کی مختلف قسموں کی تاریخ بھی ہے۔ وہ بھی ایک دائرہ کار سے آگے نہیں بڑھ سکتیں‘ جب ڈائنا سارس کے مٹنے کا وقت آیا تو وہ مٹا دئیے گئے لیکن وہ ایک بڑی وسیع تقدیرکے تابع تھا‘ جس میں ا ن جانوروں کے ذاتی قصور یا ذاتی خوبیوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ وہ ایک وسیع سکیم تھی‘ اس کے تابع ان کا آخری وقت آیا اور صفحئہ ہستی سے مٹا دیئے گئے ۔ اسی طرح کائنات کا ہر ذرہ اپنی ایک عمر لے کے پیدا ہوتا ہے اور اس آخری عمر کا یہ مطلب ہے کہ اس آخری عمر کی حد سے آگے نہیں جاسکے گا۔ لیکن اس سے پہلے کئی بلائیں وار دہو سکتی ہیں اور کسی وقت بھی وہ فناہوسکتا ہے۔ خواہ وہ بے جان مادہ ہو یا جاندار ہو‘ دونوں صورتوں میں یہ مضمون برابر صادق آتا ہے۔ حقیقت میں ہمارا آخری حد تک پہنچنا بھی اللہ کے فضل سے ہے ورنہ موت کے حملے ہم پر ہر طرف سے اس طرح ہیں کہ اگر خدا کی طرف سے ہم پر نگران اور محافظ مقرر نہ ہوں جو ہمارے آگے بھی ہوں اور پیچھے بھی ہوں تو ہم اپنی آخری حد تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ پس آخری حد تک پہنچانا بھی اللہ کے فضل ہی کا محتاج ہے۔ حضرت نوحؑ کی قوم کے متعلق دیکھیں‘ ان کو بار بارسمجھایا گیا کہ دیکھو آخری وقت تک تم پہنچائے جاسکتے ہو۔ تم جو مٹائے جارہے ہو اپنی بد کرداریوں کی وجہ سے مٹائے جانے والے ہو‘ ابھی وقت نہیں آیا تمہارا۔ چنانچہ سورۃ نوح آیت 2 تا 5 میںیہ مضمون یوں درج ہوا ہے۔
انا ارسلنا نوحا الیٰ قومہ ان انذر قومک من قبل ان یا تیھم عذاب الیمO
کہ ہم نے نوح علیہ السلام کو بھیجا اس کی قوم کی طرف کہ تو اپنی قوم کو ڈرا اس وقت سے پہلے کہ نہایت دردناک عذاب ان کو آپکڑے ۔
قال یقوم انی لکم نذیر مبین
اس نے کہا کہ اے میری قوم میں یقینا تمہارے لئے بہت کھلا کھلا ڈرانے والا بن کر آیا ہوں۔
’’ان اعبدوااللّہ واتقوہ واطیعون‘‘
کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ کیا ہوگا اس کے نتیجے میں۔
’’یغفرلکم من ذنوبکم ‘‘
تمہارے گناہ وہ یعنی اللہ بخش دے گا۔
’’ویوخرکم الی اجل مسمی ‘‘
اور تمہیں آج تباہ کرنے کی بجائے تمہارے وقت کو ٹال کر آگے بڑھا دے گا۔ یہاں تک کہ تم اجل مسمی پر جا پہنچو تو صاف ثابت ہوا کہ اجل مسمی سے پہلے وہ مرنے کی تیاری کر بیٹھے تھے۔اور اگر اللہ کا خاص فضل شامل حال نہ ہوتا تو انہوں نے مر جانا تھااور یہی بتایا جارہا ہے اور اس تنبیہہ کے باوجود انہوںنے تباہی کو قبول کرلیا اور اجل مسمی تک نہیں پہنچے۔ پس اجل مسمی تک پہنچنا یہ بھی اللہ کے فضل سے ہے اور انسان کے اعمال کا کسی حد تک اس میں دخل ہے۔ پس وہ لوگ جو اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اپنے جسموں کے ساتھ اور اپنی عمریں چھوٹی کرلیتے ہیں‘ کئی قسم کے زہروں میں مبتلا‘ کئی قسم کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ان کی صحتیں برباد ہورہی ہوتی ہیں۔ ان کو اگر کہا جائے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری تقدیر ہے جب ہم نے مرنا ہے مرنا ہی ہے ‘ ان کو یہ مثا ل دینی چاہئے کہ دیکھو اجل مسمی تک تاخیر بھی ہوسکتی ہے تمہاری موت میں اور اجل مسمی سے اکثر تو پہلے ہی مرجاتے ہیں۔ بہت شاذ ہیں جو اجل مسمی تک پہنچتے ہیں اور اس میں انسان کی اپنی کمزوریوں کا دخل ہے اور یہاں دعا کا مضمون کارفرما ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ جو غفلتیں ہوگئیں‘ جو کوتاہیاں ہوگئیں‘ ان کے بداثرات سے ہمارے جسموں اور ہماری روحوں کو نجات بخش۔ فرماتا ہے۔
یغفرلکم من ذنوبکم و یوخرکم الی اجل مسمی ان اجل اللّہ اذا جاء لا یوخرلو کنتم تعلمون‘‘
ہاں یہ یاد رکھنا کہ جب اجل مسمی آجائے گی پھر اسے کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔ جو چاہو کرلو‘ ایک ذرہ بھی تم اس سے آگے نہیںبڑھ سکتے اور پیچھے نہیں ہٹ سکتے سے مراد بھی دراصل آگے بڑھنا ہی ہے۔ وہاں جو پیچھے ہٹنے کا مضمون ہے مراد ہے‘ تم اس سے بھاگ کر نہ پیچھے جاسکتے ہو نہ آگے جاسکتے ہو کہ اچھا چلو مڑ جاتے ہیں یہاں سے‘ وہاں جاکے مڑنا ہے ہی نہیں۔ پھر تو آگے ہی آگے بڑھنا ہے۔ یعنی اس ہلاکت کے گڑھے میں گرنا ہی گرنا ہے۔ اس سے نہ پیچھے ہٹ سکو گے نہ آگے بڑھ سکو گے۔
’’ولکل امۃ اجل فاذاجاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون‘‘
یہی وہ مضمون ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اور ہر قوم کے لئے خاتمہ کا ایک وقت مقرر ہے جب ان کا وقت آجائے تو ان سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اورنہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں ۔یعنی خوف سے ڈر کر واپس جانے کا کوئی سوال نہیں ہے ان کے لئے اور نہ ان سے پھلانگ کہ آگے نکلنے کا ۔ اس کے باوجود تقدیر مبرم کے شواہد بھی ملتے ہیں اور وہ تقدیر مبرم اجل مسمی بنتی ہے مگر اس میں ایک اور تقدیر بھی شامل ہو جاتی ہے بعض دفعہ۔ بعض انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہوتا ہے یہ فلاں وقت کے لئے بچا کر رکھے جائیں گے۔ اس لئے اس سے پہلے جب موت ان کو ہر طرف سے آکے گھیرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس لئے بچاتا ہے کہ تقدیر مبرم میں ان کی لمبی زندگی پانا شامل ہوجاتا ہے۔ اگر خدا کی تقدیر مبرم ا ن کے حق میں بچا کر ان کی زندگی کوآگے بڑھانے کا فیصلہ نہ کرچکی ہوتی تو ایسے لوگ کئی دفعہ مرچکے ہوتے ۔ لیکن اس کے برعکس بعض لوگوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تم نے اس سے آگے نہیں بڑھنا کیونکہ اس میں بعض دوسرے فوائد وابستہ ہوتے ہیں اور ان فوائد کے پیش نظر وہ تقدیر‘ مبرم بن جاتی ہے‘اگرچہ اسے اجل مسمی نہیں کہا جاتا۔ مثلاً حضرت موسیٰ کے ذکر میں جوقرآن کریم ایک تمثیل پیش فرماتا ہے کہ موسیٰ نے ایک دور کا سفر کیا اور انہوں نے کسی لڑکے کو قتل کر دیا۔ اگر وہ قتل نہ کرتے‘ قتل تو اجل مسمی نہیں تھی‘ قتل نہ کرتے تو وہ آگے بڑھتا اس عمر میں‘ لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ اس نے بدکردار ہوجانا تھا اور اس کو فیض پہنچا ہے اس کے بزرگ ماں باپ کا اور ان کی دعائوں کا۔ پس بغیر جرم کے مارنا تو گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ بھی بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کسی کو ناحق نہیں بلاتا‘ اس خوف سے کہ کہیں وہ نیک نہ بن جائے۔ لیکن بد نہ بننے کے احتمال کے پیش نظر اگر کسی کی عمر چھوٹی کردی جائے تو یہ احسان ہے اور یہ عقل کے خلاف بات نہیں یہ خدا کے تصور کے عین مطابق ہے۔ اور وہاں اس کی اپنی نیکیاں کام نہیں آئیں بلکہ ماں باپ کی نیکیاں اور دعائیں کام آگئیں۔ پس اس لئے جو اولاد کے حق میں دعائوں کے متعلق بار بار تلقین کی جاتی ہے‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بچوں کی تربیت میں دعا پر سب سے زیادہ زور دیا ہے‘ وہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایک انسان مر سکتا ہے‘ اپنی آنکھیں بند کرکے دوسرے جہان میں جاسکتا ہے لیکن اس کے پیچھے اس کی اولاد کی ، اس کی دعائیں نگران بنی رہتی ہیں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ روایت بیان کی کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو حضرت اماں جان نے ہمیں بلایا‘ سب بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا دیکھو ! اس گھر میں ظاہری طور پر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک خالی گھر چھوڑ کے گئے ہیں لیکن یہ وھم نہ کرنا کہ گھر خالی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے لئے دعائوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے ہیں کہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہ ایسی پاک نصیحت تھی ایسی سچی تھی جسے آج تک ہم دیکھ رہے ہیں اور آج بھی اگر کوئی غلط فہمی سے یہ سمجھے کہ اس کی چالاکیوں سے اس کو کچھ نصیب ہورہا ہے تو یہ اس کی بے وقوفی ہوگی۔ یہ وہی خزانہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی اولاد کے حق میں پیچھے چھوڑ گئے اور بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کی تصدیق فرمائی ہے کہ بعض دفعہ اولیاء کی اولاد سات پشتوں تک وہ نعمتیں کھاتی ہے جو ان کے بزرگ اپنی نیکیوں کی صورت میں ذخیرہ چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اگر اپنی جہالت میں اپنے اوپر اترانے لگیں اور یہ سمجھیں کہ یہ ’’حسنتہ‘‘ جس آیت پر ہم گفتگو کررہے ہیں یہ ہمارے لئے اتری ہیں۔ تو بڑی بیوقوفی ہوگی‘ جب احمدیت کی وجہ سے ابتلا آجاتا ہے بعض دفعہ ا ن لوگوں پر تو کہتے ہیں اوھو احمدی نہ ہوتے تب نہ مارے جاتے‘ یہ ہماری ترقی رک گئی‘ ہمارا فلاں یہ نقصان پہنچ گیا‘ صرف احمدیت کی وجہ سے ہوا ہے۔ بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں۔ ان کو نہیں پتہ کہ یہ خفیف خفیف سی باتیں ہیں ۔ ہلکی ہلکی باتیں ہیں۔ حقیقت میںبعض دفعہ دلوں پر زنگ لگادیا کرتی ہیں اور اسی آیت کے تابع ہیں جس پر ہم نے گفتگو شروع کی ہے یعنی اس پر میں دوبارہ واپس جائوں گا ‘ تو جب بھی ان کو حسنہ پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہماری وجہ سے ‘ دیکھوہم نے ایسی ہوشیاری سے کام کیے ‘ ا یسی اچھی تجارت کی ‘ ایسی حکمت سے اپنے پیسے کو لگایا کہ اب ہم خوب دولت میں کھیلتے ہیں ریل پیل ہے ہر طرف اور جب نقصان پہنچ جائے تو کہتے ہیں دیکھا نہ فلاں نے احمدیت کے تعصب میں ہمیں نقصان پہنچا دیا۔ ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوگیا اس وقت احمدیت پر `blame اور یہ وہی مضمون ہے ’’ من عندک ‘‘اے رسول تیری وجہ سے یہ ہورہا ہے ‘خوبیاںاپنی طرف اور برائیاں دوسرے کی طرف ۔حالانکہ یہ نہیں جانتے کہ جونیکیاں مل رہی ہیں وہ اس دین کی برکت سے مل رہی ہیں اور جو کمزوریاں ہیں وہ تمہاری ذاتی کمزوریاں ہیں جو کبھی کبھی سر اٹھاتی ہیں۔ اور تمہیں تکلیف پہنچا جاتی ہیں۔ پس یہ ہے تقدیرکا مضمون جس کے بعد اب میں پھر دوسری طرف منتقل ہونگا‘ لیکن ایک تھوڑا سا حصہ ابھی میں مختصراً بیان کردوں کہ تقدیر مبرم میں بیان کر رہا تھا کہ بعض دفعہ کسی خاص بندے کے حق میں بھی لکھی جاتی ہے بعض حکمتوں کے پیش نظر ‘ جیسا کہ ان کا قتل ہونا جو قتل ہوگئے‘ اس بچے کا قتل ہونا‘ اجل مسمی نہیں تھی تقدیر مبرم ضرور تھی اور اس کے فائدے میں تھی ۔ اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لئے کسی زمین پر موت مقدر کردیتا ہے‘ کسی زمین پر موت کا مقدر ہونا‘ یہ اجل مسمی سے تعلق نہیں رکھتا‘ اجل مسمی سے مراد اس کی inbuiltصلاحتیں اور وہ خواص ہیں جو ہر انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی بلکہ اس سے پہلے ہی‘ پیدائش کے‘ پیٹ میں اس کے تخلیق پانے کے دوران ہی عطا ہوجاتے ہیں اور ان کے پیش نظر اگر تمام حالات درست رہیں تو اس کی زیادہ سے زیادہ ایک عمر ہوسکتی ہے‘ وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘ یہ ہے اجل مسمی‘ اور ایک ہے تقدیر مبرم۔ اس سے پہلے بھی وہ مر سکتا ہے اور اس سے پہلے باوجود اس کے کہ وہ بظاہر مرنے کا اقدام کر بیٹھے اپنی غلطی سے‘ بچایا جاسکتا ہے‘ یہ تقدیر مبرم ہے‘ کسی زمین پر کسی کا مارنا یہ اجل مسمی نہیں‘ یہ تقدیر مبرم ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لئے کسی زمین پر موت مقدر کردیتا ہے‘ تو اس علاقے کی طرف اس کے لئے کوئی کام یا ضرورت مقرر فرما دیتا ہے‘ اس نے وہاں جانا ہی جانا ہوتا ہے۔اس کو نہیں پتہ لگتا کہ میں کیوں جارہا ہوں ۔ اب ہمارے ‘ میری بیوی کے بھائی تھے مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم ان کامعلوم ہوتا ہے ان کے لئے ارض جاپان میں مرنا ان کی تقدیر مبرم تھا۔ اور کراچی میں بار بار بڑے سخت ہارٹ اٹیک ہوئے اور ڈاکٹر سمجھتے تھے کہ اب یہ بچ نہیں سکیں گے۔پھر بھی بچتے رہے اور بعض دفعہ تو بالکل ناامیدی کی کیفیت ہوتی تھی اور پھر بھی بچ جاتے تھے۔ پھر جب جاپان اچھے بھلے ہستے کھیلتے جاپان کا سفر اختیار کیا‘وہاں چھوٹا سا ہارٹ اٹیک ہوا اسی میں ان کی وفات ہوگئی۔ تو یہ مراد ہے کہ بعض حکمتوں کے پیش نظر اللہ بہتر جانتا ہے کیوں‘ بعضوں کے لئے بعض علاقوں بعض زمینوں پہ مرنا بھی مقدر ہوتا ہے۔
جہاں تک امت محمدیہ میں مختلف تقدیر کا نظریہ رکھنے والے فرقوں کا تعلق ہے‘ میں مختصراً ان کا تعارف بھی یہاں کروادوں۔ کیونکہ یہ مضمون جب چھڑ چکا ہے تو پھر وہ بھی معلومات مہیا ہوجائیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن اس ضمن میں بعض حدیثیں ایسی ہیں جن پر اعتماد اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ غالب امکان ہے کہ وہ کسی دوسرے فرقے نے اپنے مدمقابل فرقے کو مطعون کرنے کے لئے بنائی ہوں اور ان کے الفاظ بھی tel tal وہ کہتے ہیں نا! یعنی خود اپنا حال کھول کر بیان کرنے والے ہیں‘ ایسی ہی ایک حدیث جامع ترمذی میں ابواب القدر کے تابع درج ہے۔ اور اکثر آپ دیکھیں گے ایسی حدیثیں پتہ نہیں کیوں بیچارے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں۔ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام آتا ہے تو یا تو بہت ہی عظیم الشان تفسیری نکات آپ کو میسر آئیں گے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے‘ روح و جد میں آجاتی ہے اور بعض اس وجہ سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دعا دی تھی فہم قرآن کی۔ اس لئے اپنی بات کو معتبر کرنے کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ روایتیں منسوب کردیا کرتے ہیں‘ یہ روایت بھی انہی کی طرف منسوب ہے۔
میری امت کے دو فرقے ایسے ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ المرجئہ اور القدریہ
اب یہ انداز ہی بتا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح نہیں بات فرمایا کرتے تھے‘ اس زمانے میں تو المرجئہ اور القدریہ کا وجود ہی کوئی نہیں تھا۔ صحابہ کو کیا پیغام ملا اس سے۔ یہ جب بن گئے ہیں ‘ جب جھگڑے آپس میں شروع ہوئے ہیں‘ اس وقت کی یہ حدیث گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ تو اب میں آپ کو بتائوں‘ آپ کو بھی نہیں پتہ ابھی تک کہ مرجئہ اور قدریہ کیا ہوتے ہیں؟ جب کہ یہ بن بھی چکے ہیں۔ صحابہ کو کیا پتہ تھا کہ یہ کیا چیز ہیں؟ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس طرح خطاب کرنا آپ کی سنت سے متصادم ہے۔ آپ بات سمجھا کر بیان فرمایا کرتے تھے۔
یعلمھم الکتاب و الحکمۃ
صرف تعلیم کتاب نہیں دیتے تھے حکمتیں بھی بیان فرمایا کرتے تھے۔ مگر بہرحال اس حدیث سے اس طرف توجہ ہوئی کہ آپ کو بتادیا جائے کہ کون کونسے فرقے اسلام میں جبر و قدر وغیرہ کے مضمون پر کیا خیالات رکھتے تھے اور جماعت احمدیہ کا مسلک نسبتاً ان میں سے کس کے قریب ہے۔
یہ تینوں فرقے قدر یہ ‘ جبریہ اور مرجئہ‘ معتزلہ کے گروہ ہیں‘ معتزلہ وہ لوگ ہیں جو عقل کے قائل تھے اور عقل کے عمل دخل کو ہر مضمون میں جاری دیکھتے تھے۔ لیکن ان میں بعض ایسے بھی بیوقوف پیدا ہوئے جو عقل کے نام پر نہایت بے عقلی کی باتیں بھی کیا کرتے تھے اور بعض مسلمان مفسرین کو اور بزرگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ اس طرح اگر عقل کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو یہ تو نظام دین تباہ و برباد کردیں گے‘ عقلیں ہیں نہیں اور عقل استعمال کریں اور عقل کے نام پر دین میں دخل اندازی کا حق استعمال کررہے ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ عقل کو خادم بنائیں‘ عقل کو دین پر حاکم بنا رہے ہیں اور دین کو عقل کا خادم بنا رہے ہیں۔ پس ان میں سے بعض فرقو ںکے جو نظریات ہیں وہ آپ کو خود بتادیں گے کہ عقل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
قدر یہ‘ ا ن کے آگے 17 ضمنی فرقے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں خود مختار اور آزاد ہے اور جس طرح چاہے کوئی سا طرز عمل اختیار کرے اسے اختیار ہے اور یہ اختیار ہی ثواب وعقاب کی بنیاد ہے۔ ان کے نزدیک انسانی اعمال کے خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں۔ انسان مختار کل ہے یعنی کسی اور قسم کی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عمل دخل کو یہ تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اس کی گنجائش ہی نہیں دیکھتے۔ پھر کہتے ہیں وہ مسلمان جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ نہ مومن ہیں نہ کافر‘ ان کا مقام بین بین ہے۔ نیز مرتکب گناہ کبیرہ‘ دائمی جہنمی ہے‘ اگر وہ پہلے توبہ نہ کرلے۔
پھر کہتے ہیں۔
انسان کی یہ قدرت کہ وہ مئوثر فی الاشیاء ہے‘ ایک مستقل اور داخلی قدرت ہے‘ خدا کی ودیعت کردہ نہیں یعنی خدا اس کو اس قدرت کے استعمال سے روک نہیں سکتا یعنی اگر انسان ہے تو اس کا مئوثر فی الاشیاء ہونا‘ اس کی خلقت میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو غیر مئوثر نہیں کرسکتا۔ حالانکہ جب مذہب کا دوسرے مذاہب سے مقابلہ‘ مذہب حقہ کا جھوٹے مذاہب سے مقابلہ ہوتا ہے۔تو بڑے بڑے بااثر لوگوں کے اثر کو اللہ تعالیٰ بالکل زائل کردیتا ہے۔ ان کا کوئی بھی اثر‘ دوسری اثر قبول کرنے والی چیزیں بھی قبول نہیں کرتیں۔ یہ الگ مضمون ہے مگر بہرحال یہ عقل کے نام پرانہوں نے پھر خوب کھل کھیلا ہے۔ دین کے معاملات سے اور اسی لئے پھر بعض ‘ مقابل پر ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسری طرف انتہا کردی۔
ایک بات انہوں نے عقل کی بہرحال کی ہے معتزلہ نے‘ اور معتزلہ میں سے جو ابتداء میں عقل کا نام لے کر ‘ عقل کے نام پر دین کو سمجھنے کی کوشش کا جہاد کرنے والے تھے‘ وہ مخلص تھے نیک نیت تھے اور صاحب فہم بھی تھے۔ ان کی تفسیروں میں سے ایک تفسیر کشاف ایک بہت عظیم مقام رکھتی ہے اور بہت سے مضامین میں بہت عمدہ روشنی ‘ قرآنی مضامین پر ڈالی گئی ہے‘ یا روشنی تو نہیں انہوں نے ڈالنی تھی قرآنی مضمون کو سمجھنے میں انہوں نے ہماری عقلوں کے لئے روشنی مہیا کی ہے۔ یہ عقیدہ مثلاً ان کا معقول اور روشن دکھائی دیتا ہے کہ خدا حکیم و علیم ہے۔ اس لئے اس کا کوئی کام حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں۔ یہ تاج اس کے لئے واجب اور ضروری ہے ۔ ان معنوں میں کہ جب وہ صاحب عقل اور صاحب فہم ہے اور حلیم ہے تو یہ بات ہی بے معنی ہے کہ وہ ان کے خلاف نہیں کرسکتا۔ یعنی یہ لغو بحث ہے کہ عقل والے کے متعلق یہ بحث کی جائے کہ وہ عقل کے خلاف بھی بات کرسکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ پس یہ معقول ان کا نظریہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کی اچھی صفات پر گفتگو ہو تو یہ بحث لغو اور بے معنی ہے کہ ان صفات کے خلاف بھی وہ کچھ کام کرسکتا ہے کہ نہیں کرسکتا۔مگر بیان اس طرح کرتے ہیں کہ خدا پر لازم ہے۔ لازم سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ کسی اور نے لازم کر رکھا ہے مگر یہ لازمہ ایک اندرونی لازمہ ہے اور عقل کا تقاضا ہے کہ ایک شریف آدمی شریف ہی رہے۔ایک طرف شریف کہو دوسری طرف یہ کہو کہ شرافت کے خلاف حرکت کر سکتا ہے کہ نہیں ‘نہایت ہی بیوقوفوں والی بحث ہے ۔ پس اس پہلو سے ان کا یہ نکتہ عمدہ ہے ۔
معتزلہ کا ایک مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالی ثواب دینے اور بد کو سزا دینے پر مجبور ہے ۔ لیکن اس نظریے کے خلاف معتزلہ کا دوسرا نظریہ بھی یہ موجود ہے ۔اس لئے جس نے بھی یہ اکٹھے‘ جس کتاب سے یہ لئے گئے ہیں ‘اس نے پوری طرح معتزلہ سے انصاف نہیں کیا ۔ معتزلہ دوسری جگہ تسلیم کرتے ہیں کہ اندرونی حکمتوں کے پیش نظر جن پر خداتعالی کی نظر ہوتی ہے وہ جب چاہے فیصلہ کرے ‘کسی کو سزا دینے کا یا نہ دینے کا تو حکمت پر مبنی فیصلہ ہوتا ہے لیکن اگر حکمت کا تقاضا ہو کہ یہ کیا جائے تو پھر وہ مجبور ہے ۔یہ مجبوری ان معنوں میں ہے ۔جیسا کہ پہلے بحث میں مجبوری کا ذکر گزرا ہے ۔
جبریہ فرقہ اسکا بانی جہد بن صفوان جبری تھا ۔اسے جہمیہ بھی کہتے ہیں ۔جبریہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک انسان اپنے تمام افعال میں مجبور محض ہے وہ خدا کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے ۔جس طرح چاہے اور جس طرف چاہے وہ اسے لے جائے ۔
ًًفالا نسان عندھم لیس بقادر علی افعالہ بل فی اختیار اللّہ یقلبہ کیف یشائ‘‘
یہ کہتے ہیں کہ جو صفت انسان کی ہوسکتی ہے خداکی نہیںہوسکتی۔ پس اللہ حیّ ہے‘ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ اللہ قادر کہہ سکتے ہیں۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم تو اللہ کو حیّ کہتا ہے اور یہ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں جہالت میں کہ کہتے ہیںکہ کیونکہ ‘ انہوں نے نظریہ ایک بنالیا ہے کہ اللہ اور انسان میں کوئی صفت ایک دوسرے کے برابر یعنی مشترک نہیںہوسکتی۔ یہ عقیدہ بنانے کے بعد کہتے ہیں‘ ہم اللہ کو حیی نہیں کہہ سکتے۔ اس کو قادر کہہ سکتے ہیں اور انسان کو قادر نہیں کہہ سکتے اس کو حییّ کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ایک فرقہ ’’النجار یہ‘‘ بھی ہے‘ نجاریہ کہلاتا ہے جو ’’حسین بن محمد النجار‘‘ کا پیروتھا۔ نجار یہ جو بڑھئی‘ لکڑی کا کام کرنے والے لوگ ہیں‘ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ
افعال العباد کا خالق اللہ ہے اور اکتساب بجائے خود ایک فعل ہے ۔ کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جسکا اللہ تعالیٰ ارادہ کرے اور جو وہ چاہے وہی کرے۔ پس انسان اپنے اعمال نیک و بد میں خود ذمہ دار نہیں بلکہ اللہ ہی ہے جو ان کا ذمہ دار ہے۔
کہتے ہیں !
انسان کسی بات میں خود مختار نہیں۔ خدا جس طرح چاہتا ہے اس سے کام کرواتا ہے۔ انسان کا اپنا نہ کوئی ارادہ ہے نہ اختیار۔
’’اللّہ خالق کل شییئٍ‘‘۔
’’ابن تیمیہ‘‘ کہتے ہیں۔
اشاعرہ اپنے نظریہ میں جبریہ سے مشابہہ اور ما ترید یہ قدریہ کے قریب ہیں۔یہ جو تین فرقے گزرے ہیں معتزلہ کے۔ ان میں سے ابن تیمیہ کی رائے یہ ہے کہ اشاعرہ اپنے نظریہ میں جبر یہ سے مشابہہ ہیں‘ یعنی وہ اس بات کے قریب تر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر‘ وہی ہر چیز کا خالق‘ اس لئے ہم سوال نہیں اٹھا سکتے کہ کیوں ایسا ہوا۔ جس کوچاہے گناہ گار ارادۃً بنائے اور پھر جس کو چاہے عذاب دے دے‘ مالک ہے۔ ہم اعتراض نہیں کرسکتے۔ یہ اشاعرہ کا جو اکثر شافعی ہی ہے اور اکثر عرب ممالک میں شافعی مذہب کا زور ہے۔ یہ لوگ اشاعرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ما تریدیہ وہ لوگ ہیں جن کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔ جن کے متعلق میں نے شاید بتایا تھا کہ جماعت احمدیہ‘ ماتریدیہ کے قریب تر ہے اپنے نظریے میں۔
مرجئہ وہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ اعمال انسانی ایمان کا جزو نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایمان الگ چیز ہے‘ اعمال الگ چیز ہیں اور ایمان لازم ہے بخشش کے لئے اور اعمال لازم نہیں ہیں۔ اس لئے اعمال میں جھول آجائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر ایمان میں جھول آگیا تو پھر تم بخشے نہیں جائو گے۔
آج کل کے مولوی یہی بہانہ رکھ کر پاکستان کی بد اعمالیوں سے صرف نظر کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے ایمان کو ناقص بیان کرکے سمجھتے ہیں کہ اصل جہاد یہ ہے کہ ایمان میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوتو اسے اہمیت دو‘ اس کے خلاف ہوجائو۔ کیونکہ یہ بہت بنیادی بات ہے۔ اور اپنی تقریروں میں یہاں تک کہتے ہیں ایک مسلمان شراب پیئے‘ بدکاری کرے‘ کسی کا مال کھائے‘ جھوٹی قسمیں کھائے‘ ظلم و ستم کرے۔ یہ ساری چیزیں بخشی جائیں گی ۔ مگر مرزا غلام احمد ؑقادیانی پر ایمان نہیں بخشا جاسکتا۔ کہتے ہیں یہ تو ناممکن ہے نا ۔ کیونکہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہے۔ تو وہ مرجئہ فرقے سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مرجئہ تصور کو اپنے موقف سے ہٹا کر ایک غلط جگہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرجئہ سے صرف یہ مراد ہے کہ مومنوں میں ایمان لانے والے ہیں‘ ان میں اگر کوئی کمزوریاں پیدا ہوجائیں تو عملی کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ صرف نظر فرما لیتا ہے مگر ایمانی کمزوریوں سے صرف نظر کا کوئی مضمون نہیں ملتا۔ لیکن قرآن کریم سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ ایمان سے مراد صرف اسلام پر ایمان نہیں ہے۔ بلکہ ایمان کا بنیادی تقاضا اللہ پر ایمان لانا اوریوم آخرت پر ایمان لانا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن تک اسلام کا پیغام نہ پہنچا ہو‘ ان کی بحث ہورہی ہے۔ جن کو پتہ ہی نہیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوچکے ہیں۔ انکے متعلق کیا خیال ہوگا یہ مرجئہ لوگوں کا۔ ان کے حساب سے تو ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ اسلئے خواہ کیسے ہی نیک ہوں وہ لازماً جہنم میں جائیں گے۔ مگر قران کریم اس کی نفی فرماتا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جو ایمان میں سچے ہوں‘ اللہ پر سچا ایمان لاتے ہوں۔ اس سچے ایمان کی دو علامتیںلازماً ظاہر ہوں گی اور یہ مرجئہ کے عقیدے کی تصحیح کرنے والا مضمون ہے۔ اگر ایمان سچا ہو تو اعمال بد ہو ہی نہیں سکتے۔ اس لئے ان دونوں کو کاٹ کر الگ الگ کرنا‘ ایک زبردستی ہے جو فطرت کے خلاف ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے جو ایمان لائے اورنیک عمل کرے اور جزا سزا کے دن پر ایما ن رکھتا ہو‘ جانتا ہو کہ میرا حساب لیا جائے گا اور حساب کے پیش نظر ہمیشہ نگران رہ کر اپنی زندگی بسر کرے‘ ایسے لوگوںکے لئے کوئی خوف نہیں ہے ‘ اور کوئی غم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا کا وعدہ دیتا ہے۔
پس یہ جو مرجئہ عقیدہ ہے اس کو قرآن کی دوسری آیات رد کررہی ہیں اور جن معنوں میں اس کو پاکستان میں نافذ کیا جارہا ہے‘ اس کی تو کوئی اصل ہی نہیں ہے ۔ اس شکل میں تو مرجئہ نے بھی کبھی بات نہیں سوچی۔
نظامیہ بھی فرقہ‘ اور بھی کئی فرقے ہیں۔ چھوڑتا جارہا ہوں ان کو‘ لمبی بات ہوجائے گی۔
نظامیہ ‘ کہنے کے بھی انداز ہوتے ہیں۔ نظامیہ فرقہ ہے ابو اسحاق بن سیار النظام یہ معتزلہ خیال کے تھے اور یہ کہتے ہیں کہ دراصل انسانی بہبود اور مصلحت سے تعلق رکھنے والی باتیں ایسی ہیں جن کے خلاف اللہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتا‘ اور کہنے کا انداز یہ ہے کہ کر ہی نہیں سکتا۔ اس پر لوگوں کو غصے آگئے‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں کرسکتا‘ جو مرضی کرے۔انسانی بہبود کے خلاف بھی چاہے تو فیصلے کرلے۔ یہ ساری باتیں بے معنی اور جاھلانہ ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کر نہیں سکتا تو مراد ان کی یہ ہوگی اور اگر نہیں تو غلط ہیں وہ‘ مراد صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ اس کے اندر کوئی تضاد نہیںہے اور جس ذات میں تضاد نہ ہو اور وہ خیر ہی خیر ہو‘ وہ بھلائی کے خلاف کوئی بات نہیں کرے گی ناممکن ہے‘ کر نہ سکنا اور بات ہے مگر کر نہ سکنے کا مضمون بھی داخل ہوجاتا ہے اگر آپ یہ سوچیں کہ جسکی سرشت میں بدی ہے ہی نہیں وہ بدی کیسے کرے گا۔ پس اتنی سی بات کو اٹھا کر بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ بڑی بڑی سخت آپس میں بحثیں چلی ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی دیئے گئے ہیں۔ پس انہوں نے آخری نتیجہ پھر ان بحثوں کے بعد یہ نکالا کہ
’’لانہ لیس ھو قادر علی الظلم و الکذب‘‘
یہ ٹھیک ہے۔اللہ کبھی ظلم نہیں کرسکتا قرآن کریم میں بار بار کہتا ہے نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کی صفت کے خلاف ہے اور کذب نہیں کہہ سکتا‘ لیکن افسوس ہے کہ ان دعووں کو سن کر بڑی لمبی بحثیں ہیں مسلمانوںکے درمیان اور ہندوستان میں بھی چلی ہیں‘جن میں بریلوی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے اور یہ وہابی بعض کہتے تھے کہ نہیں بول سکتا۔ اب مل جل گئے ہیں۔ پھر ان بحثوں میں میں نے جب دیکھا ہے‘ اس کے بعد معین فرقوںکی تفریق بھی نہیں رہتی کئی علماء اس بات پر زور دیتے ہیں اور بہت سے جو مذہبی علماء اسمیں شامل ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ یہ گند بھی کرسکتا ہے وہ گند بھی کرسکتا ہے‘ نام لیتے ہیں ان گناہوں کے جو بڑے بھیانک ہیں‘ صرف انسان پراطلاق پانے والے ہیں‘ اللہ کے تصور پہ اطلاق ہی نہیں پاتے‘ کہ نہیں اللہ وہ بھی کرسکتا ہے قادر جو ہوا۔ اور مقابل پر وہ کہتے ہیں نہیں جی تم جھوٹ بول رہے ہو‘ ایسا نہیںہوسکتا۔ یہ سب لغو بحثیں ہیں جن کا حقیقی مومنوں اور متقیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’’فعال لما یرید‘‘
کو اٹھالیا گیا ہے اس پہ بحثیں شروع ہوگئیں‘ اشاعرہ کا مسلک یہی ہے کہ ’’فعال لما یرید‘‘ جووہ چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے۔
’’یفعل ما یشائ‘‘
اشاعرہ کہتے ہیں خدا کسی بات پر مجبور نہیں چاہے تو نیک کو جہنم میں ڈال دے اور چاہے تو بد کو جنت میں لے آئے۔ حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ’’فعال لما یرید‘‘ میں لفظ ’’یرید‘‘ میں اس کلام کی چابی ہے۔ وہ غیر منصفانہ بات چاہ ہی نہیں سکتا۔ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ اللہ کی ایک فطرت ہے۔
’’فطرۃ اللّہ التی فطر الناس علیھا‘‘
انسان کو اللہ نے اسی فطرت پر پیدافرمایا ہے کہ اس کی فطرت میں جو باتیں داخل ہیں ان کے خلاف وہ نہیں کرسکتا‘ اس میں تضاد نہیں۔ انسان کو فطرت پہ پیدا فرمایا لیکن اختیار دے دیا کہ چاہے تو فطرت سے ہٹ جائے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ میری فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ پس اس بیان کے بعد کہ خدا کی فطرت تبدیل نہیںہوسکتی‘ یہ بحث ہی بے ہودہ اور لغو اور گناہگار کرنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو باوجود اس کے کہ سمجھے کہ یہ جہنمی نہیں ہے پھر جہنم میں ڈال دے۔
’’ماتریدیہ‘‘ جن کے متعلق میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جماعت کے مسلک کے قریب تر ہے۔ یہ فرقہ ’’امام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی‘‘ کے پیروان پر مشتمل تھا۔ ا نکے نزدیک انسان چونکہ ہر فعل خدا کی دی ہوئی قدرت اور طاقت سے کرتا ہے۔
’’فالھمھا فجورھا و تقوٰھا‘‘
اس لئے وہ ثواب و عقاب کا مستحق ٹھہرتا ہے اور چونکہ یہ قدرت خدا کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اس لئے یہ کہا گیا ہے کہ خدا خالق افعال عباد ہے اور اللہ نے انسان میں ایسی قدرت رکھی ہے کہ وہ موثر فی الاشیاء ہے اور اس کی بناء پر اس سے افعال خیر و بد صادر ہوتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ عقل اچھے اور برے افعال کا ادراک تو کرسکتی ہے لیکن اس کا یہ ادراک نہ شریعت کی حیثیت رکھتا ہے اور نہ ثواب و عقاب کا مدار ہے۔ ثواب و عقاب کا مدار وحی الٰہی ہے اور شریعت کی بنیاد اسی پر ہے۔ یہ ہے بنیادی سب سے زیادہ معقول بات کہ عقل اچھے اور برے کی تمیز کرسکتی ہے۔ لیکن وہ تمیز قانون نہیں بن سکتی اور شریعت نہیں بنتی کیونکہ اللہ جب فرماتا ہے کسی چیز کو نیک تو وہ نیک ہوتی ہے ان معنوں میںکہ وہ کرنے سے ثواب ملے گا اور اللہ جب کسی چیز کو فرماتا ہے بد ہے تو بد ہوجاتی ہے ان معنوں میں کہ صلاحیت اور خاصیت کے لحاظ سے بد تو پہلے ہی تھی‘ مگر جب تک خدا نے بد قرار نہیں دیا۔ اس پر گناہ مترتب نہیں ہوتا۔ اس کی سزا نہیں ملتی ۔ تو کہتے ہیں عقل اور الہام میں یہ فرق پیش نظر رکھو کہ عقل سے بہت سی دنیا میںلوگ بعض نیکیاں سمجھ کر کرتے ہیں اور بعض بدیاں جان کر کرتے ہیں‘ مگر ان کوکسی شریعت کا علم نہیں اور کسی شریعت کے تابع نہیں ہیں۔ اس لئے وہ سزا اور جزا کے مکلف نہیں ہوں گے۔ مگر جب اللہ فرمادے کہ یہ کرنا ہے تو وہ کرنا اپنی ذات میں نیکی بن جاتا ہے۔ جب فرمایا نہیں کرنا اور پھر کوئی اسے کرے تو وہ بدی بن جاتا ہے۔
علامہ ماتریدی کہتے ہیں کہ نظر فکر اور عقل و تدبر سے انکار کیسے ممکن ہے جب کہ خدا نظر فکر اور عبرت اور موعظت کی خود تلقین فرماتا ہے‘ اور اس سے کام لینے والوں کو اولوالالباب قرار دیتا ہے۔ الغرض جن جوہری مسائل میں کوئی واضح نص نہیں ملتی ان میں ماترید یہ کے ہاں عقل و نقل کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ماتریدی مانتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت و حکمت ہوتی ہے لیکن کہتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے پرمجبور نہیں کیونکہ وہ قادر مطلق بھی ہے ۔ اب یہاں لاکر پھر وہی ایک نہ ایک بات انہوں نے پھر ایسی کر دینی ہے‘ جس سے پھر وہ اختلاف پیدا ہوجاتے ہیں۔
جب یہ کہتے ہیں قادر مطلق تو اس میں بدی کو بھی داخل کرلیتے ہیں‘ اور جب بدی کو داخل کرلیتے ہیں تو پھر اچھی بھلی عقل کی باتیں کرتے کرتے بہک جاتے ہیں اور ان کی ایسی ہی باتوں سے خاص طور پر عیسائی مستشرقین کو اور آریوں کو اسلام پر حملے کرنے کے موقعے ملے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو آریوں سے بحثیں چلی ہیں ان میں یہ بحث بھی ایک نمایاں اور مرکزی حیثیت کی بحث تھی اور یہ پنڈت لیکھرام وغیرہ نے جو بکواس کی ہے اسلام کے خلاف اس میں وہ یہ مثالیں دے کر کہتا ہے تمہارا خدا تو ہر بدی کرسکتا ہے‘ جھوٹ بول سکتا ہے یہ کرسکتا ہے وہ کرسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواباً اسے عقل دینے کی کوشش کی ہے سمجھایا ہے کہ قرآن سے یہ مراد نہیں۔ ’’مایشاء ‘‘ کا مطلب ہے جو وہ چاہتا ہے کرسکتا ہے اور بدی چاہ نہیں سکتا‘ کیونکہ یہ اس کی فطرت میں تضاد پیدا کرنے والی بات ہے۔ اور اپنی فطرت میں تصاد کا خدا انکار کرچکا ہے۔ پس خدا کے کلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں اختیار اور عدم اختیار کی بحث کرنی ہوگی۔ اس سے باہر نکل کے جب کریں گے تو پھر بہک جائیں گے۔ ایک بات انہوں نے عمدہ بیان کی ہے ماتریدیہ نے‘ وہ کہتے ہیںدیکھو ثواب کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور سزا کی خبر دی ہے۔ اس لئے وعدہ تو نہیں ٹل سکتا۔جزا تو وہ ضروردے گا اور جہاں خبر ہے وہاں وہ اس کو ٹال دے اس کی مرضی ہے اس کی طرف سے وہ وعدہ نہیں ہے۔ ایک انتباء ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو یہ ممکن ہے یہ ہوجائے۔ لیکن بعض جگہ وعید بھی تو ہے۔ اس بات کو یہ بھول گئے ہیں۔ اس لئے ساری بات درست نہیں ہے ان کی۔ یہی میں نے کہا تھا احمدیت قریب تر ہے۔ مگر بعینہٖ وہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض جگہہ اللہ تعالیٰ وعید فرماتا ہے‘ وعید وعدے کی اس قسم کو کہتے ہیں جس میں خوشخبری کی بجائے انذار ہو‘ خوف دلایا جائے کسی بات کا۔ تو جہاں خدا وعید کرتا ہے وہاں وہ ضرور اس کو پورا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کی قوم کے صاحب فہم انسان کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے جس نے اپنے ایمان کو چھپایا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ان قوم کے سرداروں کو نصیحت کی جو حضرت موسیٰ کے قتل کا فیصلہ کررہے تھے اور کہا
’’ان یک کا ذبا فعلیہ کذبہ ‘‘
اگر یہ جھوٹا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟ اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا۔تم پر تو نہیں پڑ جائے گا۔ پاکستان کے مولویوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ بھی آیت قران کریم میں موجود ہے کیسے عمدہ عقل کی بات ہے‘ کیسی دائمی رہنے والی عقل کی بات ہے۔ یہ تمہیں کیا مصیبت پڑی ہے گالیاں دیتے ‘ دن رات منہ سے جھاگیں نکالتے‘ قتل کے منصوبے بناتے ہو۔
’’ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ‘‘
اللہ نعوذ باللہ من ذلک سر پھرا تو نہیں ہے کہ جھوٹ کوئی اوربولے سزا کسی اور کودے دے۔ تمہیں سزا ملنی ہی نہیں ہے اس کے جھوٹ کی تو تمہیں تکلیف کیا ہورہی ہے اتنی زیادہ‘ بچ کے ایک طرف بیٹھے رہو۔ چپ کرکے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا۔
’’وان یک صادقا‘‘
اگر یہ سچا نکلا
یصبکم بعض الذی یعدکم‘‘
تمہیں ضرور وہ بلا پہنچے گی جس کا یہ تمہیں وعید کررہا ہے۔
پس ماتریدیہ کی نظر اس آیت کی طرف نہیں گئی۔ محض خبر نہیں دیتا‘ بعض صورتوں میں اللہ تعالیٰ وعید فرماتا ہے۔ وعید کا مطلب ہے جب اس کے بھیجے ہوئوں کے ساتھ ظلم اور سفاکی سے دنیا پیش آئے تو پھر ان کو وہ اس طرح بغیر سزا کے نہیں چھوڑا کرتا۔ اوروہ اپنے انکار سے نہیں صرف انکار اتنا بڑا جرم نہیں ہے‘ جتنا انکار کا فیصلہ کرنے کے بعد ظالمانہ طریق پر ایک پیغامبر کی یا دعویدار کی مخالفت شروع کردینا ہے۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے میں خداکی طرف سے ہوں‘ ہوسکتا ہے ہو، ہو سکتا ہے نہ ہو‘ تمہیں کیا اس سے۔نہیں دل مانتا تو ایک طرف ہٹ جائو مگر اس سے ظالمانہ سلوک کرنے کی تمہیں قرآن اجازت نہیں دیتا اور اس امکان کو تمہارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ ان یک صادقا۔
جھوٹا سمجھ رہے ہو ٹھیک ہو لیکن اگر وہ سچا نکلا۔
’’یصبکم بعض الذی یعدکم‘‘
ضرور وہ وبال تمہارے پیچھے پڑ جائے گا جس کی یہ تمہیں خبر دے رہا ہے جس سے تمہیں یہ ڈرا رہا ہے تو اسے وعید کہتے ہیں
’’ابوا لمنصور ماتریدی‘ امام ابو حنیفہ کے مرید تھے‘ اور ان کے نظریات کے شارح اور مفسر مانے جاتے ہیں اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہم بھی زیادہ تر اپنی فقہ میں امام ابو حنیفہ کے مسلک کے قائل ہیں۔ ان دونوں باتوں میں ہمارا یہاں اکٹھ ہوجاتا ہے۔
(اب اس کے بعد دوسری آیت شروع ہورہی ہے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کا ہے وقت‘ انشاء اللہ پورا کریں گے)
’’ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعٰن ........ ان اللّہ غفور حلیم O‘‘
(آل عمران آیت 156)
یقینا تم میں سے وہ لوگ جو پیٹھ پھیر کر الگ ہوگئے‘ اس دن جس دن دو گروہوں کی مڈھ بھیڑ ہوئی اور دو گروہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائے۔ التقیٰ کا مطلب لغت میں جو آتا ہے وہ بعد میں بیان کروں گا۔ اس وقت یہی مضمون کافی ہے کہ جب دو گروہ آپس میںایک دوسرے سے ٹکرائے۔
’’ انما استزلھم الشیطن‘‘
وہ لوگ جو تم میں سے پھر گئے تھے یقینا اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ شیطان نے ان کو کوشش کرکے پھسلا دیا۔
’’ببعض ماکسبوا‘‘
اور یہ پھسلنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ نعوذ باللہ کلیتہً کافر یا بے ایمان لوگ تھے‘ بلکہ ان سے کچھ غلطیاں ایسی ضرور سرزد ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں شیطان کو موقعہ مل گیا کہ انہیں پھسلا دے۔
’’ولقد عفا اللّہ عنھم‘‘
لیکن تمہیں ان کے متعلق زبانیں کھولنے کی اجازت نہیں کیونکہ ہم ساتھ ہی یہ بتا رہے ہیں۔
’’ولقد عفا اللّہ عنھم‘‘
خدا ان کو معاف فرما چکا ہے اور جب خدا کسی کو معاف فرما دے تو بندے کی مجال نہیںہے کہ وہاں دخل دے اور ان پر پھر زبانیں کھولے اور خدا کی عدالت کے بعد اپنی عدالت قائم کردے۔
’’ان اللّہ غفور حلیم‘‘
اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بھی ہے اور حلیم بھی ہے۔ حلیم کا مطلب یہ ہے کہ بعض فیصلوں میں اس لئے جلدی نہیں کرتا کہ وہ معاملات ابھی آخری شکل کونہیں پہنچے ہوتے اور آخری صورت ان کی موجودہ صورت سے مختلف ہوسکتی ہے۔ یہ حلم کامضمون ہے۔ جسے آپ کو ضرور پیش نظر رکھنا پڑے گا اور اس آیت کی چابی اس لفظ حلیم میں ہے۔
ایک شخص جو غصے سے مغلوب ہوجاتا ہو‘ جو کوئی بری حرکت دیکھے تو فوراً طیش میں آجائے اور پھر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عادی ہو‘ ایسا شخص فساد کے سوا اور کچھ نہیں کرتا اور کئی دفعہ جلد بازی میں اک قدم اٹھا لیتا ہے اور بعد میں پچھتاتا رہتا ہے اوھو میرے ہاتھوں سے تو ایک معصوم قتل ہوگیا ایک معصوم آدمی کے ساتھ میں نے ظلم کیا زیادتی کی‘ یا کسی ایسے کو سزا دے دی جس نے بعد میں اصلاح پکڑ لینی تھی‘ یہ بھی مضمون داخل ہے اور پھر وہ سوچتا ہے اگر وہ واقعتاً اس کو ختم کردیتا‘ سزا تو دی ہے مگرختم نہیں کیا تواب جو یہ بزرگ بن کر ابھرا ہے تو میرے سر اس کا گناہ ہوجاتا۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن کی زندگیاں اگر گناہ کی حالت میں منقطع کردی جائین تو بعد میں ان کی پاک تبدیلیوں کا ان کو موقعہ ہی نہیں ملتا۔ پھراور ان کے مزاج میں وہ تبدیلیاں شامل ہوتی ہیں۔ توحلیم سے مراد وہ ذات ہے جو جلد بازی میں فیصلے نہیں کرتی بلکہ کچھ چیزیں ایسی دیکھتی ہے جو ناپسندیدہ ہوں مگر وہ ذات جانتی ہے کہ یہ دائمی چیزیں نہیں ہیں ان کے بعد دوسری بھی ظاہر ہونے والی ہیں۔ پس ایسی ذات کو حلیم کہا جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دو باتیں ہیں مغفرت تو ہم نے کردی ہے مگر یہ نہ سمجھنا کہ بے وجہ مغفرت کی ہے‘ اس بیوقوفی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ اللہ نے ناحق بخش دیا ہے۔ فرماتا ہے میں حلیم ہوں اور میری بخشش میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ محض عارضی گناہ میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ ان کی دائمی سرشت نہیںہے۔ دائمی سرشت نیکی کی ہے۔ پس ایک ٹھوکر کھائی اس موقعہ پر میں ان کو پکڑوں تو پھر تو دنیا میں کسی شخص کو میں بخشوں گا نہیں۔ جیسا کہ دوسری آیت میں بیان ہے‘ تمام زندگی کو صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔ پس میں حلیم ہوں ‘ مان لو میری بات کہ بخشش بھی کی ہے اس کے علاوہ کچھ خوبیاں ان میں دیکھی ہیں اور وہ خوبیاں وقت پر ظاہر ہوں گی۔ اور پھر تاریخ یہ فیصلہ دے گی کہ یہ لوگ واقعتا اس لائق تھے کہ ان کو بخش دیا جاتا اور تاریخ نے بہت جلد یہ فیصلہ دے دیا‘ پہلے بھی دے چکی تھی ایک فیصلہ‘ میں اس کا ذکر کروں گا‘ لیکن اس واقعہ احد کے بہت جلد بعد تاریخ نے بڑی وضاحت کے ساتھ وہ روشن فیصلہ دے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن سے حلم کا سلوک فرمایا وہ مستحق تھے‘ اس بات کے کہ ان سے حلم کا سلوک کیا جاتا۔
التقیٰ‘ لقیہ یلقیٰ لقائ’‘ و لقیانا۔ استقبلہ سامنے سے کسی کو آکر ملنا‘ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیچھے سے آکر ملنے والے کو بھی لقی کہہ سکتے ہیں۔ لقاہ طرحہ الیہ‘ کسی چیز کو کسی کی طرف اچھال کر پھینک دینا۔ اسکو انگریزی میں Tossing کہتے ہیں۔ Toss کرنا کسی چیز کو ۔ لاقاہ مقابلے پر آکر ایک دوسرے سے ملنا۔تلقی الشیی ء لقیہ اس سے ملاقات کی اور التقی الشییء لقیہ اس سے ملا۔ استلقی علی قفاہ یعنی سو گیا۔ استلقی علی قفاہ وہ اپنی کنپٹی کے اوپر ہاتھ رکھ کے سو گیا‘ یا پیچھے شاید قفاہ مراد ہے ‘ اپنی گدی کے بل سو گیا۔ زَلَّ کا لفظ‘ یہاں استزل کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ زل سے مراد ہے کسی کو پھسلا دینا۔ کسی کے پائوں اکھیڑ دینا یا خود کسی کا پھسل جانا اور کسی کے پائوں رپٹ جانا۔ یہ لازم بھی ہے متعدی بھی ہے ۔ دونوں معنوں میں لفظ زل استعمال ہوتا ہے۔
’’قولہ فان زللتم‘‘
اگر تم لغزش کھائو۔ حضرت امام راغب مثال دے رہے ہیں دیکھو لازم کی مثال ہے‘ تم لغزش کھائو اور دوسرا تمہیں پھسلا دے‘ اسکی مثال دیتے ہیں۔
’’فازلھما الشیطن‘‘
ان دونوں کو شیطان نے پھسلا دیا۔ لیکن یہاں باب مختلف ہے۔ زل‘ زلھم الشیطن نہیں ہے۔ ازلھم الشیطن ہے اور اس باب میں جو لازم ہے وہ متعدی بن جایا کرتا ہے۔ استزل غلطی کروائی‘ یہاں استزل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ استزلھم الشیطان‘ شیطان نے ان کو گھسیٹا اور وہ گمراہ ہوگئے۔ یہ جو ترجمہ کیا گیا ہے گھسیٹا ‘ اس میں دراصل اس باب کی ایک صفت داخل ہوئی ہے‘ باب استفعال میں زور لگا کر کوشش کرکے کسی سے کچھ کام کروانا یا خود کرنا‘ یہ داخل ہوجاتا ہے‘ یہ مضمون اس میں داخل ہوجاتا ہے۔پس استزلھم الشیطن کا مطلب اس سے فرق ہے جو ازلھم ‘ ازلھما میں جو مضمون بیان ہوا تھا یعنی یہ لوگ یونہی آسانی سے ٹھوکر کھانے والے نہیں تھے۔ شیطان کو بڑی چالبازیوں سے کام لینا پڑا ہے۔ کافی زور لگانا پڑا ہے تب جاکر یہ پھسلے ہیں۔ پس لفظ استزل کا استعمال ہی بتا رہا ہے کہ وہ نعوذ باللہ کوئی عادی مجرم نہیں تھے جو از خود پھسلنے پر تیار بیٹھے تھے بلکہ ان کو کوشش کرکے پھسلایا گیا ہے۔
’’ان الذین تولو ا منکم یوم التقی الجمعن‘‘
اس کے متعلق قرطبی میں لکھا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جنگ احد میں مشرکین کو پیٹھ دکھائی۔
’’و انما استنزلھم الشیطن‘‘
انہیں کسی خطا پر شیطان نے اکسایا اور اس کے نتیجے میںپھر ان سے وہ دوسری غلطی سرزد ہوگئی۔
بہرحال اس جنگ کے موقع پر ‘ اس غزوے کے موقع پر شیعوں نے بڑی شدت کے ساتھ تمام صحابہؓ کے ایمان پر حملے کئے ہیں اور اتنے خوفناک حملے ہیں کہ انکو پڑھ کر طبیعت میں ایک قسم کا اشتعال پیدا ہوجاتا ہے مگر انسان کو لازماً حلیم بننا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے جذبات پر قابوپانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لیکن وہ حملے بڑے شدید اور خطرناک ہیں اور ان حملوں میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی داخل کیا گیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھیں کس اطمینان سے بیان فرما رہے ہیں کہ وہ دوسرے لوگ ہیں‘ اگر خود شامل ہوتے تو اس قسم کا تبصرہ نہ فرماتے۔
ایک موقعہ پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ بہرحال‘ جہاںتک میں نے جائزہ لیا ہے مختلف تواریخ کا اور احادیث کا‘ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ ثابت ہے کہ آپ کے پائوں اکھڑ گئے تھے اور وہ جن کے متعلق سب متفق ہیں ان میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس پر اس زمانے سے ہی خارجی اور شیعہ مسلک والوں کی طرف سے طعن و تشنیع سے کام لیا جاتا رہا ہے اور وہ اس بات کو بھول چکے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ایک تو ’’استزل‘‘ شیطان نے کوشش کرکے اور جدوجہد کرکے ان کو پھسلایا تھا‘ دوسرے اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’ولقد عفااللّہ عنھم‘‘ اللہ ان سے عفو کا سلوک فرما چکاہے۔
یہ روایت ہے عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حج کے لئے آیا‘ اس نے دیکھا کہ قریش کی مجلس ہے اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں تشریف فرما ہیں‘ وہ مجلس میں چلا گیا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا‘ حرمت کعبہ کی قسم ! آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد کے دن فرار ہوگئے تھے۔ اس طرح یہ دور دور سے فتنہ پرداز ایسے موقعوں پر اکٹھے کیا کرتے تھے اور جماعت کو متنبہ رہنا چاہئے بڑے اجتماعات کے وقت ہمیشہ بعض ایجنٹ ایسے بھیجے جاتے ہیں جو بعض وساوس دلوں میں پھونکتے ہیں تاکہ اس طرح وہ بات دلوں سے نکل کر دوسرے دلوں تک پہنچے اور اس اجتماع سے اپنے حق میںایک فائدہ اٹھایا جائے تو یہ بھی کوئی شریر تھا جو خارجی مسلک سے یا جیسا کہ شیعہ مسلک بھی یہی تھا‘ اس مسلک سے تعلق رکھنے والا ہوگا‘ جب اس نے دیکھا کہ ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور حج کا وقت ہے‘ بہت لوگ اکٹھے ہیں تو کہا حرمت کعبہ کی قسم ! اب دیکھیں قسم کتنی عظیم کھائی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد کے دن فرار ہوگئے تھے۔ آپ نے کہا ہاں ! میں جانتا ہوں۔ اس نے کہا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر میں شامل نہیں تھے‘ درست‘ انہوںنے کہا ہاں درست۔ اس نے کہا آپ کو یہ بھی علم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شامل نہیں تھے۔ اب بتائو کیسے بچائو گے ان کو ؟ یعنی بدر کے متعلق رضوان کی بشارت ہے۔ بیعت رضوان نام ہے اس کا جو درخت کے نیچے لی گئی تو صلح حدیبیہ کے وقت اس میں رضوان کی بشارت ہے اور جنگ احد سے بھاگنے کے متعلق وہ کہتے ہیں وہ بھی شامل تھے اب بتائو کیا مسلک ہے تمہارا۔ اس کے جواب میں ‘ یہ لازماً کوئی خارجی ہے جو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد ان کے متعلق بدی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ آپ نے کہا ہاں ! اس پہ اس شخص نے کہا اللہ اکبر ‘ میں جیت گیا اللہ بہت بڑا ہے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آئو میں تمہارے سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احد کے دن فرارکے متعلق تم گواہ ہو کہ اللہ نے معاف فرمادیا‘ اب میری گواہی مانگتے ہو اپنی گواہی دو۔ تم گواہ ہو کہ نہیں کہ اللہ نے معاف فرمادیا۔ بدر میں ان کے حاضر نہ ہونے کی یہ وجہ تھی کہ ان کے عقد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں اور وہ بیمار تھیں‘ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا کہ اے عثمان تمہیں ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا کہ اس شخص کو ملے گا جو جنگ بدر میں شامل ہوا ہے۔ تم اس اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے اس تکلیف کے وقت میں اسکے ساتھ رہو اور قربانی کرو۔ یعنی ان کا جنگ میں نہ شامل ہونا کسی بزدلی یا نفس کی خواہش کے مطابق نہیں تھا بلکہ نفس کی قربانی تھی۔ باقی رہا انکا بیعت رضوان میں شامل نہ ہونا تو جان لو! کہ اگر مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر کوئی شخص معزز ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا نمائندہ بنا کر اپنا ایلچی بنا کر اسکو بھیجتے مگر مکے میں سب سے زیادہ معزز انسان عثمان بن عفان تھا جس کی کفار‘ ان کے ایمان لانے کے باوجود بھی عزت کرتے تھے‘ اور بہت بڑے احسانات تھے ان کے ان پر ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کو اپنا ایلچی بنا کر بھجوایا اور بیعت رضوان میں ان کا نہ شامل ہونے کا قصہ سن لو کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چلے جانے کے بعد ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ اپنے باہنے ہاتھ پہ رکھ کے فرمایا ! یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور وہ اس بیعت میں شامل ہیں۔ یہ ہے جواب ان منافقوں اور شریروں کو کہ کس طرح یہ خدا کے پاک بندوں پر زبانیں کھولتے ہیں‘ چھوٹے چھوٹے بعض واقعات ان کے ہاتھ میں آجاتے ہیں‘ یہ بڑا واقعہ ہی سہی جنگ سے فرار ہونا مگر اللہ کا معاف فرما دینا اس سے زیادہ بڑا واقعہ ہے اور یہ سارے امور جو اس کے علاوہ ہیں ان سب کو بھلا کر صرف چسکے لیتے ہیں بکواس کرنے کے اس سے زیادہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔
یہ جو خیال ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باقی تھے‘ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہ بالکل جھوٹ ہے اور تاریخ سے قطعاً اس کا غلط ہونا ثابت ہے۔ حضرت امام رازی ؒ بعض چودہ آدمیوں کے متعلق قطعی شہادت پیش کرتے ہیں کہ نام بنام وہ لوگ موجود تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ کسی حالت میں نہیں چھوڑا۔ان کے ناموں میں جو نام درج ہیں ان میں مہاجرین میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ انصار میں سے خباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے شاید حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسی طرح اسید بن حضیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تھے۔ یہ بھی ذکر آتا ہے کہ آٹھ وہ تھے جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی۔ تین مہاجرین میں سے تھے اورپانچ انصار میں سے تھے۔ اور یہ عجیب ہے کہ اس وقت چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے خدام کی ضرورت تھی اس لئے یہ آٹھ کے اٹھ جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی ان میں سے ایک بھی شہید نہیں ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی غیر معمولی طور پر حفاظت فرمائی ہے۔
من ببعض ماکسبوا
کے متعلق بہت سی خیال آرائیاں کی گئی ہیں کہ کون کون سے وہ گناہ ہوسکتے ہیں۔اس بات میں یہ نصیحت جماعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جب بعض بزرگوں اور اہل اللہ کے متعلق اللہ تعالیٰ خود پردہ ڈال دے اور وضاحت نہ فرمائے کہ کیا باتیں ہوسکتی ہیںتو ایسے موقعہ پر ان کے متعلق خیالات سے اندازے لگا لگا کر بعض باتیں کرنا انسان کو بہت بڑے گھاٹے میں بھی ڈال سکتا ہے۔ایسی بیہودہ بات بھی انسان کی سوچ میں داخل ہوسکتی ہے۔ جس کا نہ حقیقت سے تعلق ہو نہ ان لوگوں کے منصب کے شایان شان ہو اور اس کے نتیجے میں انسان ان خیال آرائیوں سے بہت بڑا گناہ کما سکتا ہے ۔ اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمایا وہاں معاملے کو چھوڑ دینا چاہئے۔مثلاً قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ ایک راز تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک بیگم کو بتایا اور اسے نصیحت فرمائی تھی کہ آگے نہیں بتانا۔ اس نے وہ راز آگے بتادیا یہ غلطی کی۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الہاماً مطلع فرمادیا کہ اس نے راز نہیں رکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا آپ کو کس طرح پتہ لگ گیا۔ عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہہ دیتی ہیں‘وہ یہ سمجھی ہوں گی کہ اس دوسری بیوی نے یا جس کو یہ بتایا تھا اس نے بتادیا ہے‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! مجھے خبیر خدا نے بتایا ہے۔ کسی انسان کا قصور اس میں نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہ راز تم نے کھول دیا۔ اب وہ راز خدا نے راز ہی رکھا اور مفسرین راز سے پردے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ راز کیا تھا۔ وہ تو ایسا تھا کہ ایک بیوی کو دوسری بیوی کو بتانے کی اجازت نہیں تھی اور مفسرین آجکل چہ مگوئیاں کرتے ہیں آج تک کہ وہ یہ راز ہوگا یہ راز ہوگا اور فلاں راز ہوگا تو یہ ساری سادگی کی باتیں ہیں یا بیوقوفی کی ہیں اس لئے ان باتوں میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ جس کو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے علم میں ہے کیا بات ہے مگر میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا‘ اس کو اسی طرح چھوڑ دینا چاہئے۔ پس ’’ماکسبوا‘‘ میں ہمیں کسی مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ ایسی کمزوریاں ان سے سرزد ہوئی ہیںکسی وقت جس کے نتیجے میں انہوں نے پھر ایک اور ٹھوکر کھا لی۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما چکا ہے‘وہ کمزوریاں بھی معاف فرما چکا ہے‘ اس کا بد نتیجہ بھی معاف فرما چکا ہے‘ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خیال آرائیاں کریں کہ وہ کیا ہونگی۔ لیکن یہ جو مستشرقین ہیں ان کو پتہ لگ گیا ہے ان کمزوریوں کا‘ کہتے ہیں۔
``For their covetousness in quitting their post to seize the plunder.,,
وہ جو انہوں نے کی تھی ناں‘ حد سے زیادہ حرص سے کام لیا تھا‘ یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔
وہ لوگ جو مستشرق ہیں اپنے ہر قسم کی زہر فشانیوں کے باوجود بعض جگہہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخش دیتے ہیں یعنی ان پر ظالمانہ حملے کرنے سے باز رہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ جو شیعہ مفسر صاحب میر صاحب جن کا تذکرہ چلتا رہا ہے وہ نہیں بخشنے کے قائل۔ اب آپ دیکھ لیں کہ منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ یہاں پیچھے پھرنے والوں سے مراد سارے صحابہ رضی اللہ عنھم نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ہیں جن کو درے پر مقرر کیا گیا تھا اور وہی ہیں جو پیٹھ دکھا کر بھاگے تھے اور اس کے نتیجے میں پھر یہ بھگدڑ مچی ہے۔ لیکن اس کے مقابل پر اب ذرا میر صاحب کا بیان سننے کے لئے اپنی ہمتوں کو کس لیں‘ مضبوط کرلیں دلوں کو۔ فرماتے ہیں۔
The delinquency on the part of the deserters at Ohud was due to the hearts having been conditioned for ages together in idolatery.
کہتے ہیں یہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم جن کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ انہوں نے معیار سے گری ہوئی بات کی ہے delinquency سخت گناہ کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے مگر عام طور پر معمولی کمزوریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو بچے عمرکو نہ پہنچیں ان کے لئے delinquency کا محاورہ عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تو شروع تو اس سے کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ بات کیا تھی کیوں یہ لوگ پیٹھ دکھا کر بھاگے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ
Due to the hearts having been conditioned for ages together in idolatery
زمانے گزر گئے تھے ان کے دل مشرکانہ طریق پر،مشرکانہ رسم و رواج پر مضبوطی سے مستقلاً ڈھالے جاچکے تھے۔ یعنی شرک ان کے دلوں میں سرایت کرکے اس طرح ڈھل چکا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نے اس کے بعد ان کو کوئی بھی فائدہ نہ دیا۔ اب دیکھیں ان میںوہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آغاز ہی میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قبول فرمایا اور وہ لوگ ہیں جن کا اس سے پہلے بھی شرک ثابت نہیں۔ بتوں کی عبادت کرنے والے سارے نہیں تھے۔ ا ن بزرگوں میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ بھی تھے اور بھی بہت سے تھے۔ اس وقت کی عمر تک کہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں شرک ایسا گھر کرچکا تھا کہ ان کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر ہورہا ہے۔ اور آگے جاکے کہتے ہیں۔
And Satan stil having easy access to their hearts he shall still, an opening in them for distress to enter into them and disturb their faith in God and the Holy Prophet.
کہتا ہے وجہ یہ ہے کہ شیطان کے لئے انہوں نے مستقل کھڑکیاں کھول رکھی تھیں جو کبھی بھی بند نہیں ہوئیں اور شیطان کا روزمرہ کا دستور تھا ان کھڑکیوں سے آتا رہتا تھا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’استزلھم الشیطن‘ ‘شیطان کو بڑا زور لگانا پڑا ان لوگوں کو بہکانے میں‘ یہ آسانی سے بہکنے والے لوگ نہیں تھے۔ بہت اس کو کوشش کرنی پڑی ہے۔ مفسرین یہ کہنے لگے گھسیٹنا پڑا ہے ان کو ‘ تب جاکے ان سے غلطی سرزد ہوئی۔ مگر میر صاحب کو اللہ سے زیادہ پتہ ہے۔ یہ کہتے ہیں نہیں‘ اصل بات یہ تھی کہ شرک ان کے اندر رچ چکا تھا‘ ان کے دلوں میں مستقلاً شیطان کے لئے کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں‘ وہ آتا جاتا تھا‘ ان سے گفتگو کرتا تھا‘ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم تھے‘ یہ ان کے ایمان کا حال ہے‘ پھر کہتا ہے۔
Opening in them for distress had entered into them and disturbed their faith in God and the Holy Prophet, which they had not acquired by conviction but under some unavoidable circumstances for convenience or for policy sake.
کہتا ہے اصل وجہ یہ تھی کہ شیطان جو آتا جاتا تھا‘ اس لئے کہ ایمان تو وہ کبھی لائے ہی نہیں تھے سچے دل سے۔ conviction کی وجہ سے تو یہ لوگ مومن نہیں بنے تھے کہ یقین کرلیا ہو‘ اس لئے تھے کہ مجبوری تھی حالات کی circumstances کی‘ جس کی وجہ سے ان کو منافقانہ طور پر ا یمان قبول کرنا پڑا۔ اسمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنھم بھی شا مل ہیں ان کے نزدیک‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی شامل ہیں اور عمررضی اللہ عنھم بھی شامل ہیں۔ کوئی جاہل سے جاہل آدمی بھی‘ جس کا دل خبث سے نہ بھرا ہوا ہو‘ ایسا الزام ان پر نہیں لگا سکتا۔وہ کون سی مجبوری تھی جس سے حضرت عمررضی اللہ عنھم اسلام قبول کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں خود چل کر حاضر ہوئے ہیں۔ وہ کون سی مجبوری تھی جس نے ابوبکررضی اللہ عنھم کو مجبورکیا تھا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دیکھتے ہی اور سنتے ہی ایمان لے آئے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کی کون سی مجبوری تھی کہ اپنی عزتوں کو خاک میں ملا کر ‘ وہ سب سے معزز انسان سب سے زیادہ ذلت کی زندگی کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا‘ کیا فائدے وابستہ تھے‘ کیا بے اختیاریاں تھیں‘ کوئی شریف انسان جس میں حیا کا ایک ذرہ بھی ہو‘ ایسی بکواس نہیں کرسکتا‘ جیسی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم پر ان خبیثوں نے کی ہے۔ لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی۔ آگے چلئے کیا کہتا ہے۔
There is no doubt the mention of God's Pardon for the deserters
کہتا ہے مجھے پتہ ہے شک ہی کوئی نہیں اللہ معاف فرما چکا ہے‘ مگر ہم شیعہ کیسے معاف کرسکتے ہیں۔ اللہ کی مرضی معاف فرماتا پھرے مگر ہم اس سے زیادہ غیرت رکھنے والے لوگ ہیں‘ ہم ہر گز معاف نہیں کریں گے ‘ کیوں؟ کہتا ہے۔
There could not have been any justification or any rule for reviling such persons if they had not repeated the same trait over and over.
کہتا ہے ہمارے لئے ان پر تبرا کرنے کی کوئی وجہ جائز نہیں تھی‘ اگر یہ لوگ باز آجاتے اور بار بار غلطیاں نہ کرتے‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنھم اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھمجن پر تبرا فرض ہوگیا ہے۔ کیوں ؟ کہتا ہے
If they had not set themselves up at the leaders of the faith the title to wish they do so miserably liked.
کہتا ہے ہم معاف کردیتے‘ اگر بعدمیں خلیفہ نہ بن جاتے‘ اب یہ قصور تو نہیں ہم معاف کر سکتے۔ اللہ معاف کرتا ہے تو کرتا پھرے‘ مگر وہ title لے لیا جس کے مستحق نہیں تھے خلیفے بن بیٹھے مسلمانوں کے لیڈر کہلانے لگ گئے۔ کہتا ہے یہ ناقابل برداشت ہے ۔ ہم ضرور ان پر تبرا کریں گے ضرور ان پر لعنتیں ڈالیں گے۔ یہ ہے اصل بدبختی ‘ اور دشمنی جو کھل کر باہر اچھل آئی ہے اب۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی غم نہیں ہے۔ ان کو چھوڑنے کا محض بہانہ تھا قصہ تھا اور جنہوں نے چھوڑا تھا‘ ان کے پیچھے کیوں نہیںپڑے لٹھ لے کر۔ ان پر کیوں نہیں لعنتیں ڈالیں۔ وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم کررہے تھے ان پر کیوں نہیں تبرا پھینکتے۔ کیوں ابوجہل کو مستثنیٰ کر رکھا ہے تبرا سے کیوں عتبہ اور شیبہ پر تبرا نہیں کرتے۔ وہ سارے کفار مکہ جنہو ں نے ان پہلے ایمان لانے والے مخلصین پر ظلم کئے ہیں جنہوں نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلیوں میں گھسیٹا ہے‘ ان پر کوئی تبرا نہیں۔ تبرا ہے تو ان تین پر ہے جو ابتدائے اسلام میں محمد رسول اللہ کے وفادار ٹھہرے اور بے انتہا قربانیاں اسلام کے لئے دیں۔ جن کے لئے کوئی مجبوری نہیں تھی اسلام کو قبول کرنے کی۔ محض اپنے دل کے ایمان سے مجبور ہوکر جو ایمان لائے‘ ان پر کہتے ہیں کہ اب ہم فرض ہوچکا ہے۔ کیوں‘ وہ بعد میںخلیفہ بن بیٹھے۔ اتنا بڑا جرم۔ اور منافقین کے سردار بن گئے۔ کوئی سچا مومن ان کی اطاعت میں نہیں آیا‘ منافقین کے سردار بن کر اس منصب کو قبضے میں کرلیا جو حضرت علیؓ کا حق تھا۔ اب سنیے‘ ان کی بیعت میں کون داخل ہوا‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمام اہل بیت جن کو یہ اہل بیت کہتے ہیں وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں داخل ہوئے‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت میں داخل ہوئے۔ اگر وہ سارے منافقین تھے‘ جن کے سردار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدا کی طرف سے ٹھہرائے گئے تھے‘ تو پھر ا نکا کیا حال ہوا؟ جنہوں نے اپنے حق کو غصب ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود ‘ جاننے کے باوجود‘ علم کے ساتھ ان بیعتوں کے لئے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ یہ اتنا بڑا بھیانک الزام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اور اہل بیت پر کہ حد سے زیادہ سفاکی ہے ان کے متعلق یہ بات کہنا۔ دیکھیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ سب سے زیادہ شاندار بات جو کہتے ہیں جو خراج تحسین آپ کی عظمت کو دیتے ہیں وہ یہ ہے۔
’’سرداد دست نداد‘‘
کتنا عظیم انسان ہے۔ سر دے دیا ہاتھ نہ بڑھایا بیعت کے لئے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا کہتے ہیں
’’دست داد سرنداد‘‘
کہ ہاتھ بڑھادیا سر نہیں دیا۔ اس نے سر نہیں دیا جو سب سے زیادہ بہادر تھا۔ اس سے بڑا شجاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں میدان جنگ میں اور دکھائی نہیں دیتا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ انتہائی خطرات کیوقت‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‘ چھلانگیں لگا کر ان کے منہ موڑ دیئے ہیں اور کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ جان کی پرواہ کب یاد آئی جب سارے نیک اعمال گزر چکے تھے آخری وقت میں ان کو نعوذ باللہ من ذلک خراب کرنے کے لئے سوچا کہ شاید میں غلطی کرتا رہا ہوں‘ سر نہیں دینا چاہئے ہاتھ دے دینا چاہئے ظالم کے ہاتھ میں ہاتھ دے بیٹھے۔ پوچھا جائے کہ جناب یہ کیا ہوا۔ توکہتے ہیں ’’تقیہ‘‘ تمہیں نہیں پتہ ایک یہ بھی مسلک ہے۔ تقیہ کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض صورتوں میں بڑا ثواب مقرر ہے کہ تم وقتی مصلحت کی خاطر جھوٹ بول جائو۔ اس لئے تقیہ ہوا ہے تم بیوقوفوں کو پتہ نہیں۔ دل میں مسلسل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نعوذ باللہ یہی سمجھتے تھے کہ حقدار میں ہوں اور یہ غاصب ہے اور یہ سارے منافقین ہیں لیکن تقیہ کی خاطر کر بیٹھے تو تم تو منافقین کا الزام دوسروں پر دے رہے تھے‘ تقیہ اور کیا ہوتا ہے۔ صحرا کا نام چمن رکھنے سے وہ چمن تو نہیں بن جایا کرتا۔ تقیہ منافقت ہی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی منہ سے کچھ کہنا اور دل میں کچھ اور رکھنا۔ منافقت سے بدتر ہے۔کیونکہ سب کچھ جان لینے کے باوجود منافق تو شک میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ لیکن جہاں سب کچھ جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہونے کا علم آنے کے باوجود کہ میں حقدار ہوں اور کوئی حقدار نہیں ہے۔ یہ غاصب لوگ ہیں یہ منافق لوگ ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دینا‘ اس کو آپ کیا کہیں گے۔ اس وقت شیعہ عقیدے کو مانا جائے تو تاریخ ایک دم پلٹا کھا جاتی ہے۔ وہ سارے جو پہلے منافق کہلا رہے تھے‘ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اس میں تو وہ منافق نہیں تھے۔ وہ تو سچے دل سے کی تھی۔ تو تاریخ نے کیسا پلٹا کھایا کہ وہ جن کو منافق کہتے تھے وہ اچانک مخلص ہوگئے‘ جس کے ہاتھ پر بیعت کی اس کو سچا سمجھا اور سچا سمجھ کر ہاتھ دیا اور وہ جو اب تک مخلص تھے وہ اچانک منافق بن گئے۔ ایسی ظالمانہ جہالت کی ہم تمہیں اسلام کے متعلق نہیں اجازت دے سکتے۔ یعنی ہم اس کے خلاف ضرور احتجاج کریں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ اس میں کیسا کھوکھلا خیال ہے اور کیسا بے ہودہ خیال ہے‘ کیسا ظالمانہ حملہ ہے۔ حضرت اقدس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت پر۔ جو بیٹے کو عظمت نصیب ہوئی وہ باپ کو نہ ہوئی‘ اصل میں تم نے کربلا سے کوئی بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ کربلا میںدو ہی پیغام ہمیں ملے ہیں اول یہ کہ
سرداد دست نہ داد
کہ سر دے دیا ہاتھ نہیں دیا‘ یہ کربلا کا مضمون ہے۔ اور تم نے اس مضمون کو بھلا کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس کے بالکل برعکس صورت میں پیش کیا اور تمام اہل بیت کو اس کے برعکس صورت میں پیش کیا۔
دوسرا یہ پیغام تھا کہ
خدا کے پاک بندوں پر برچھے نہ چلایا کرو تیر نہ چلایا کرو۔ تم نے اپنی زبانوں کے تیر سے تمام مومنین کو مجروح کردیا۔اور آج تک مجروح کرتے چلے جاتے ہو۔ تو کربلا سے تمہارا کیاتعلق ہے۔ کربلا سے ان سینوں کا تعلق ہے جو تمہارے ظالمانہ کلام کو سن کر ہر روز چھیدے جاتے ہیں اور خدا کے پاک بندوکے اوپر تمہاری الزام تراشیوں کے نتیجے میں زخمی ہوتے ہیں۔ پس کاش تمہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
Top